Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

سوچ کی اونچی ’’اُڑان‘‘

$
0
0

چوں کہ وہ ذرہ ہیں اس لیے ذرہ پرور بھی ہیں، ذرے کوآفتاب بنانے میں اُنہیں بے مثل مہارت ہے۔ اُن کی سوچ کی اُڑان اُن کے پیدائشی نام کی مناسبت سے خاصی بلند ہے۔

نام تو اُن کا ارفع ہے، پرجانے اس نام سے کیا بیر ہے کہ وہ خود کو ذرہ کہلوانا پسندکرتی ہیں۔ یہ اُن کے خیال کی پروازہی توہے کہ مختلف طبقوں اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد ذرہ کے حلقۂ احباب میںشامل ہو کر اُن کی معاشی حالت کے سدھارکا باعث بن رہے ہیں۔

یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ذرہ کے منصوبہ بند ذہن کا کرشمہ ہے، وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حلقۂ احباب کا انتخاب کرتی ہیں، گوکہ اب بھی کئی ایسے شعبے ہیں، جن سے متعلق افراد ذرہ کی دسترس سے دور ہیں، مگر ذرہ کی حریص نظریں اُن کا تعاقب ایسے کرتی ہیں، جیسے کسی فاقہ زدہ کی نگاہوں کی زد میں روٹی کا ٹکڑا۔  اور ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ذرہ جلے پاؤں کی بلی کی طرح پھرتی ہیں۔

اس متنوع اور وسیع حلقۂ احباب کی بدولت ذرہ اور اُن کے اہل خانہ نے جی بھر کر فائدہ اُٹھایا ہے، مادی لحاظ سے بھی اور علمی سطح پر بھی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ذرہ کی انسانی نفسیات پر گرفت بھی اسی ہُنر کی وجہ سے مضبوط ہُوئی ہے، مختلف طبقہ ہائے زندگی سے گہرے روابط کے سبب ذرہ اُن کی زبان، لہجے اور مزاج کے موسموں سے بھی واقف ہو گئی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج جتنا زور لوگ بلند معیار زندگی پر دیتے ہیں۔

اتنا اخلاقی اقدار کی پاس داری پر نہیں دیتے، اب ذرہ ہی کو دیکھ لیجیے کہ بلند معیار زندگی کے شوق میں اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ خود غرضی، مفاد پرستی جیسی غیر اخلا قی حرکات کا مظاہرہ وہ اس کمال سے کرتی ہیں کہ اُن کا شکار بھی اُن کی اصلیت سے بے خبر رہتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ذرہ شناسی کا دعویٰ کرنے کے باوجود ذرہ کا یہ فلسفہ اُن کے میاں نہ سمجھ سکے اور جو ایک دن اُنہوں نے اس کی وضاحت چاہی، تو ذرہ نے اپنے میاں کی نا سمجھی پر اُن کے بہت لتے لیتے ہوئے خاصا ڈپٹ کر کہا ’’کیوں جی؟ تم اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے، جب کہ گزشتہ کئی برسوں سے میرے میاں بھی کہلاتے ہو ۔

میاں جی جو بیگم کی شعلہ بیانی ہی سے نہیں سنبھل پائے، اب اُن کی ڈانٹ سُن کر بالکل ہی نڈھال ہو گئے، وہ اپنی بیگم کو ملتجی اور معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کب وہ اُن پر رحم کھائیں گی اور اُن کی گلو خلاصی ہوگی، اچانک ذرہ نے پینترا بدلا اُن کی آنکھوں میں مہرو محبت کے رنگ چھلکنے لگے۔ وہ اپنے میاں سے کہ رہی تھیں ’’آپ  تو جانتے ہی ہیں، جب سے میں نے اپناحلقۂ احباب وسیع کیا ہے، ہمارے گھریلو حالات بدل گئے ہیں، ورنہ اس سے پہلے ہمارے بچے احساسِ کم تری کا شکار تھے۔ آپ کی تنخواہ میں تو روز مرہ کے اخراجات ہی ہمیں معمولی سی عیاشی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

جب ہمارے بچے اعلیٰ گھرانوں کے بچوں کے ٹھاٹ با ٹ حسرت و یاس بھری نظروں سے دیکھتے، تو میرا دل کٹ کر رہ جاتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اپنے بچوں کی جھولیاں خوشیوں سے بھردوں۔ ایک دن میں اسی ادھر بن میں بیٹھی تھی کہ یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھی اور ہفتہ بھر میں نے اس پرعمل کیا، اور پھر مہینے بھرکی کاوشوںسے مثبت نتیجہ سامنے آیا بچوںکی صحت میں بھی بہتری آئی، گویا تجربہ کام یاب رہا، تب میں نے اس عارضی کام کو مستقل شکل دے دی۔

یقیناً آپ اصل بات جاننے کے لیے بے تاب ہوں گے، مگر خیال رہے آپ کو اس راز میں شریک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ میرا کاروبار ٹھپ کرنے کے بہ جائے بڑھائیں گے۔ وعدہ کریں ناں‘‘ وہ جو اُن کی ایک نگاہ التفات کو ترستے تھے، حیران رہ گئے۔ ذرہ نے اٹھلاتے ہُوئے میاں جی کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے آج سے 20 سال پہلے تھام کر وہ آج تک پچھتا رہے تھے۔

انہوں نے ایک سرد آہ بھر کر ذرہ کا ہاتھ تھام لیا۔ ذرہ نے بصد افتخار بتایا ’’ اشرف باورچی کی بیگم سے تعلقات استوار کیے تو آئے دن ایسے کھانے نصیب ہُوئے، جنہیں ہم ٹی وی پر دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے گوشت کے مختلف پکوان وضع وضع کی میٹھی ڈشز کون سی نعمت ہے، جو اب ہمیں میسر نہیں، ورنہ اس سے پہلے دال چٹنی پر گزارا تھا۔ کلو حلوائی کی بیوی سے راہ ورسم بڑھائے، ہفتے میں دو دن حلوہ پوری کا ناشتا اور کبھی سموسے تو کبھی نمک پارے کبھی جلیبی روز کا معمول ہیں مہمان آجائیں تو وہ نیک بخت مفت ناشتا بھیج دیتی ہے۔ تہوار کے موقع پر سال بھر سے کیسی بچت ہو رہی ہے۔

نصیباں بیکری والے کی بیوی سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ بیکری کا نام آپ کے نام پر رکھ کے تو آپ کے میاں نے اپنے بھاگ جگا لیے، اب اکثر ناشتا مفت آتا ہے اور بچوں کے دل میں اُٹھتی سال گرہ منانے کی ’ہڑک‘ کو بھی قرار آ گیا۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹے نے اپنی نانی کی سال گرہ تک منا ڈالی، ویسے بھی چھوٹا مجھ پر گیا ہے بہت سمجھ دار اور زمانہ شناس ہے۔

’’ہاں! فتنہ پرور، چاپلوس اور حریص بھی بہت ہے بالکل تمہاری طرح (ذرہ کے میاں دل ہی دل میں کچکچائے) چھوٹی تو محض کیک کی وجہ سے سال میں تین مرتبہ سال گرہ مناتی ہے، حالاں کہ لڑکی ہے۔‘‘

’’حالاں کہ لڑکی ہے، کیا مطلب؟ ذرہ کے میاں نے اُن کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو وہ کھکھلا کر ہنس دیں۔

’’کمال ہے، بھئی آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے، صنف نازک کا بس چلے تو پانچ سال بعد اپنی ایک سال منائے۔ گویا 10 سال میں عمر میں صرف دو سال کا اضافہ۔ خیر آگے چلو۔ احمد سنارکی بیگم تارہ سے بہناپا جوڑا تو سنار کی فطرت کے برعکس اُس کے میاں سے سستے داموں بالیاں خریدنے میں کام یاب ہو گئی اور اپنے بھائی کی شادی کی خوشی میں تارہ نے مجھے سونے کی چین بھی نیگ میں دلوائی کہ جب تم میری بہن ہو تو میرے چندا بھیا کی بھی ہو، تارہ کا چندا بھیا مجھے سخت زہر لگتا ہے، جب میں اُس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتی ہُوں، تو تارہ خوب میرے صدقے واری جاتی ہے۔

اظفر بزاز کی لاڈلی اماں کی بیٹی کیا بنی وہ میری ہر بات پر یوں امنا صدقنا کہتی ہیں، گویا مستند ہے میرا فرمایا ہُوا۔ گرمی سردی اور تہوار کے دو دوجوڑے آپ کے میرے اور بچوں کے تحفے میں مل جاتے ہیں، سال بھر میں کپڑوں کا اتنا ذخیرہ ہو گیا جو ہمارے لیے تین سال میں بھی ممکن نہ تھا اورمیرا کم خواب کی ساڑھی کا خواب بھی اُنہوں نے پورا کر دکھایا آخر بیٹی بنی ہوں معمولی بات تھوڑی ہے اور وہ جو کل میں نے تمہیں سفاری سوٹ کا کپڑا دیا تھا، مارے محبت کے نہیں دیا تھا، وہ تو میری جائز کمائی تھی ورنہ آپ کی آمدنی میں یہ کہاں ممکن ہے۔

ذرہ نے میاں پر اپنی اہمیت اور اُن کی اوقات واضح کرتے ہُوئے مزید گوہر افشانی کی اس طرح ہمارے کئی مسائل حل ہو گئے، یہ تو میں نے چیدہ چیدہ ’’کام یابیاں‘‘ بتائی ہیں۔ میری کامرانی کا دائرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہاں تو بتا رہی تھی کہ ان تمام لوگوں سے مراسم کا فائدہ یہ ہُوا کہ اب ہر ماہ با آسانی پانچ ہزار تو بچا ہی لیتی ہوں اور بچت بھی کیا یہ پیسہ اپنے بچوں کی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل پرصرف کرتی ہوں کہ انہی کے توسط سے یہ ہنر میرے ہاتھ آیا ہے۔ ہم بڑے گھرانوں میں اپنے بچوں کی شادیاںکر کے معیار زندگی کوبلند کر سکیںگے کہ نہیں؟

تحمل سے بات کرتے ہُوئے ذرہ نے اختتامی استفہامیہ جملہ حسبِ عادت ذرا ڈپٹ کر ادا کیا، تو متحیر سے بیگم کو دیکھتے ہوئے ذرہ کے میاں بری طرح چونک کر جی بیگم جی کی گردان کرنے لگے۔ یہ کیا حرکت ہے؟ ذرہ کی گرج دار آواز سے میاں کا تسلسل کیا گردان بھی ٹوٹ سکتی تھی، سو ایسا ہی ہُوا۔ اب وہ اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے گئے دنوںکو یاد کرنے لگے کیا واقعی یہ وہی نادان خاتون ہیں، جن کی سادگی پرلٹو ہو کر یہ شعر پڑھتے ہوئے

دیکھ کر اُن کوکہا میں نے نکل آیا ہے چاند

اور وہ نادان سوئے آسماں دیکھا کیے

میں نے اُن کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کل کی بھولی بھالی خاتون آج کیسی شاطر نظر آرہی ہیں۔ سچ ہے بلند معیار زندگی کی خواہش انسان کو پستیوں میں دھکیل دیتی ہے، ساتھ ہی خود غرضی اور بے حمیتی کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ جب کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی خوایش انسانوں کو قانع بنا دیتی ہے اور بے نیازی و قلبی و ذہنی آسودگی بخشتی ہے، اگر ذرہ بلند معیار زندگی کی تمنامیں یوں سرگرم عمل رہنے کے بہ جائے اخلاقی اقدار کی طرف بڑھتیں، تو کتنی مطمئن اور آسودہ دکھائی دیتیں۔ اب تو ان پر بے چین بھٹکی ہوئی روح کا گمان ہوتا ہے۔‘‘

’’ارے آپ کیا سوچنے لگے؟‘‘

ذرہ نے میاں کو سوچ میں گم دیکھ کر اُن کا ہلایا ۔ کچھ بھی نہیں کہ کر انہوں نے ایک سہمی ہوئی نظر ذرہ پرڈالی کہ کہیں انہوں نے میری سوچ تو نہیں پڑھ لی کہ اسے پڑھتے ہی ذرہ ان کو کسی ایسے ادارے کا راستہ نہ دکھادیں، جہاں صراط مستقیم پر چلنے والوں کو گمرہی کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

ایک وہ وقت تھا کہ جب ذرہ کی حماقت سے خائف ہو کر اُن کے میاں کہتے تھے کہ ’’ خاتون سے کچھ بھی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اب ذرہ کی خباثت سے تائب ہو کر کہتے ہیں اﷲ ہماری بیگم کی شاطرانہ چالوں سے سب کو محفوظ رکھے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے حلقۂ احباب کا انتخاب ہی نہیں کرتیں، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر پل کی پل میں ہماری سوچ نگر کی رانی بنا بنایا کھیل اور بنے بنائے انسانوں کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں اور خود پر فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنی ذہنی ناداری کے بل بوتے پر اپنی معاشی مفلسی پر قابو پالیا۔

The post سوچ کی اونچی ’’اُڑان‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


اپنے بچوں سے موبائل رکھوائیں ۔۔۔

$
0
0

صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے جسم کا چاق و چوبند رہنا بہت ضروری ہے۔ وہ لوگ جو صحت مند اور چست دکھائی دیتے ہیں ان کی اچھی صحت کا راز متحرک رہنا یا باقاعدگی سے ورزش کرنا ہوتا ہے۔

جسمانی کم زوری اور سستی اسی وقت غالب آتی ہے، جب اسے اچھی غذا کے ساتھ ساتھ مسلسل حرکت نہ ملے اور وہ ایک لگے بندھے معمول کے ساتھ مشینی انداز سے کام کرتا رہے۔ آج کل ہم اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ متوازن غذا اور ورزش کے حوالے سے غفلت ہونے لگی ہے۔

پہلے لوگ مختلف بیماریوں سے اسی جسمانی مشقت کے سبب ہی محفوظ تھے، وہ صبح سویر ے جاگتے اور ان کے روزمرہ محنت طلب کام ہی ان کی اصل ورزش ہوا کرتے تھے، آج کل کسی دفتر کو لیں یا کسی بھی شعبے کو تو ہمیں بہت ہی کم لوگ ایسے دکھائی دیں گے، جن کے کاموں میں بھاگ دوڑ شامل ہو گی، مگر زیادہ تر افراد کی ملازمت کی نوعیت ہی ایک جگہ پر بیٹھ کر کام انجام دینے کی ہے اور مسلسل بیٹھنے سے بہت سے جسمانی مسائل سامنے آرہے ہیں۔

ورزش ہر عمر کے افراد کے لیے بہت اہم ہے اور بچوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے، جتنی بڑوں کے لیے ہے۔ بچوں نے والدین کی دیکھا دیکھی اپنے آپ کو ’سوشل میڈیا‘ میں اتنا گم کر لیا ہے کہ ان کے پاس بھی ورزش کے لیے چند منٹ نکالنا مشکل ہو گئے ہیں۔ گھر میں سے کوئی ورزش کے لیے نکلے، تو بچے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتے ہیں، کیوں کہ رات کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے انہیں صبح کو بیدار ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور شام کو بھی ان کے بہت سے بہانے ہوتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو چھوٹی عمر سے ورزش کے اصولوں سے آگا ہ کرنا شروع کر دیں اور انہیں ورزش کی عادت ڈالیں۔

اس سے نہ صرف بچوں کے پٹھے اور ہڈیاں مضبوط ہو تے ہیں، بلکہ مُٹاپے کے امکانات بھی کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر اور کولیسڑول لیول بھی کنڑول میں رہتا ہے۔کچھ مائیں گلہ کرتی ہیں کہ ان کے بچو ں کو نیند نہیں آتی وہ بار بار جاگتے ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ جسم کا تھکا ہونا اور ورزش نہ کرنا ہے۔ بچوں میں موجود کسی بھی ذہنی دباؤ یا پریشانی کوختم کرنے کے لیے ورزش ایک بہترین سرگرمی ہے۔ اس سے ہمارے جسم کے خلیات کو آکسیجن بہترین انداز سے میسر ہوتی ہے اور جسم کی صلاحیتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

گھر یا کھیل کے میدان میں باسکٹ بال کی سہولت ہو تو بچوں سے کھیل کھیل میں ورزش کرائیں، تاکہ ان کا شوق بڑھے اور وہ خوش ہو کر باقاعدگی سے باسکٹ بال کھیلیں۔ سائیکلنگ اور تیراکی بھی بچوں میں ورزش کا شوق پیدا کر تی ہے، انہیں اپنی نگرانی میں ان کھیلوں سے استفادہ کرائیں۔

یوں تو بچے بہت جوش و خروش سے چھلانگیں لگانا پسند کرتے ہیں اور ادھر سے ادھر کودتے رہتے ہیں، اپنے بچوں کو چھلانگ لگانے کے مختلف محفوظ اور آسان انداز سکھائیں۔ یہ بچوں کے پٹھے مضبوط کرنے بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ گھٹنوں کی طاقت بھی قائم رہتی ہے۔ اسی طرح ٹی وی پر پُش اَپس (ڈنڈ پیلنا) دیکھ دیکھ کر بچے اس کے شوقین ہوگئے ہیں، یہ جسمانی مضبوطی کے لیے خاصا کارگر طریقہ ہے۔

رسی کودنا ایک ایسی ورزش ہے جو ہماری جسم کو ایک منظم حرکت میں لاتی ہے، بچے اسے سیکھنے میں خاصی دل چسپی رکھتے ہیں، پھر انہیں اس پر عبور حاصل کر کے اچھا لگتا ہے اور وہ دیگر ہم عمروں سے مسابقت کرتے ہیں۔

اسی طرح مختلف جھولے اگرچہ ہمیں فقط بچوں کا بہلاوا معلوم ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی غیر محسوس طریقے سے ہماری جسم کو فعال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ بچے اپنا وقت موبائل کی نذر کرنے کے بہ جائے کچھ نہ کچھ وقت ان جھولوں پر بھی گزاریں۔۔۔ اسی طرح کسی مضبوط چیز کے سہارے لٹکنے سے بھی اچھی ورزش ہو سکتی ہے۔

علی الصبح کی تازہ ہوا میں گہرے گہرے سانس لینا بھی ایک اچھی ورزش میں شمار کی جا سکتی ہیہے۔ بچوں کو صبح سویر ے جاگنے کی عادت ڈالیں کیوں کہ سحر خیزی بچوں کو چاق و چوبند بنانے کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریوں سے بھی بچائے گی اور سارا دن سستی کو غالب نہیں آنے دے گی، اس لیے کوشش کریں کہ اگر کسی سبزہ زار یا باغ وغیرہ میں لے جانے کا وقت نہ بھی ہو تو گھر میں ہی ورزش کا کچھ نہ کچھ محفوظ بندوبست کرلیں، پھر آپ نہ صرف ان کی اچھی صحت دیکھیں گی، بلکہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں بھی فعالیت کا مشاہدہ کریں گی۔

The post اپنے بچوں سے موبائل رکھوائیں ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

پشپا کماری

$
0
0

ہمارے ملک میں جب اعلیٰ سرکاری عہدوں کی بات کی جاتی ہے، تو بہت کم تو دیگر مذاہب کے افراد کے نام شاذ ونادر ہی سننے میں آتے ہیں، کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر عوامی عہدوں کو اقلیتوں کی پہنچ سے دور دور رکھا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کی تقرریوں کی خبریں آئیں، جس میں ’سندھ پولیس‘ میں پہلی بار ایک خاتون پشپا کماری کی پہلی ہندو خاتون اسسٹنٹ سب ا نسپکٹر بننے کی خبر خاصی نمایاں رہی۔

29سا لہ پشپا کماری ہندو مت کی ’کوہلی‘ برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے2014 ء میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسسز (DOW UNIVERSITY OF HEALTH AND SCIENCES) سے ’’نازک نگہداشت‘‘ (CRITICAL CARE)میں کریجویشن کیا، جس کے بعد گزشتہ سال تک وہ کراچی میں ’بے نظیر بھٹو ایمر جینسی ٹراما سینٹر‘ میں انتہائی نگہداشت یونٹ (ICU) میں تیکنیکی ماہر کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔

تاہم بعد میں انہوں نے ایک مختلف راستہ اختیار کرنے کا خواب دیکھا اور ’پبلک سروس کمیشن‘ کے امتحان میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پشپا کماری نے 2018ء میں صرف اے ایس آئی (ASI) کے عہدے کے لیے درخواست دی۔ وہ رواں سال جنوری میں ’پبلک سروس کمیشن‘ کے امتحان میں بیٹھیں۔ امتحان کے بعد ایک حتمی انٹرویو بھی ہوا۔

جب انہوں نے اہلِ امیدواروں کی حتمی فہرست میں اپنا نام دیکھا، تو پشپا کو ایسا لگا کہ جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہیں، لیکن یہ حقیقت تھی۔ ہندو برادری کی بہت سی خواتین پولیس کانسٹیبل کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں، لیکن پشپا  ’اے ایس آئی‘ (ASI) کے لیے ’پبلک سروس کمیشن‘ کا امتحان پاس کرنے والی پہلی ہندو خاتون ہیں۔ پشپا کے خواب یہیں ختم نہیں ہوتے۔ پشپا کا ارادہ ہے کہ وہ دوسرے امتحانات میں بھی حصہ لے، خاص طور پر اگر سندھ حکومت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے لیے کسی پوسٹ کا اعلان کرتی ہے، تو وہ اس میں بھی امیدوار بنیں۔

پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی پشپا کماری، سندھ کے ضلعے میر پور خاص کے قصبے سامارو میں ایک متوسط طبقے میں پیدا ہوئی۔ ان کی والدہ محکمہ بہبود آبادی میں ایک افسر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ پشپا کے والد کا ذریعہ معاش ایک پرچون کی دکان ہے۔ پشپا نے خود بھی میڈیکل کے شعبے میں آنے سے پہلے اپنے آبائی شہر میںایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

وہ اب اپنے شوہر نارائن داس کے ساتھ کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کے شوہر ایک تعمیراتی ادارے میں میں بطور سپر وائزر کام کرتے ہیں۔ دو دیگر ہندو خواتین ڈینا کمار اور سمن پون بودانی نے بھی کچھ عرصے قبل ہی ’پبلک سروس کمیشن‘ کا امتحان پاس کیا تھا، یہ دونوں خواتین اب سوِل جج کی حیثیت سے اپنی اپنی خد مات انجام دے رہی ہیں، جب کہ پشپا پولیس کے شعبے میں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ دوران تعلیم کبھی انہوں نے اس شعبے میں آنے کا نہیں سوچا، 2018 میں پہلی بار پولیس میں شمولیت کا خیال آیا جس کے نتیجے میں وہ جنوری میں مقابلے کے امتحان بیٹھیں اور امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا، جس کے بعد انٹرویو کا مرحلہ بھی کام یابی سے طے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے پولیس میں کچھ نچلے عہدوں پر دوسری ہندو خواتین بھی موجود ہوں، لیکن وہ پہلی ہندو خاتون ہیں، جس نے مقابلے کا امتحان پاس کر کے پولیس میں شمولیت کی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ انہیں دیکھ کر دیگر لڑکیاں اور خواتین بھی پولیس فورس، آرمی، نیوی اور پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرنے پر راغب ہوں گی۔

پشپا کماری نے انکشاف کیا کہ ان کے ایک بھائی بھارت کمار نے وظیفہ ملنے کے بعد نئی دہلی میں قائم ’ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی سے ’عمرانیات‘ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، جب کہ پشپا جرمیات (criminology) میں  ایم اے کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ  اگر سندھ حکومت ڈپٹی سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کی پوسٹوں کا اعلان کرتی ہے، تو وہ ضرور اس میں شرکت کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین کی  طرف سے حوصلہ افزائی کی بدولت آج ان کے سارے بھائی اور بہنیں پڑھ لکھ گئے ہیں اور وہ تمام اب مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔

The post پشپا کماری appeared first on ایکسپریس اردو.

انوکھا بازار، جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے

$
0
0

بھارت کی شمال مشرقی صوبے ’مانی  پور‘ کے دارالحکومت امپھال کے قلب میں واقع ’اما کیتھل‘ ایک انوکھا بازار ہے، جہاں مردوں کا آنا ممنوع ہے۔

مقامی زبان میں ’اما‘ کا مطلب ماں اور ’کیتھل‘ کا مطلب بازار یعنی ماؤں کا بازار ہے، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ صرف خواتین کا بازار ہے، جو وہاں خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک بڑی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس بازار کو ’’اما ’کیتھل‘ ‘‘ یا ’’ماں کی منڈی‘‘ کہا جاتا ہے، یہ پورے  ایشیا میں تاجر خواتین کی سب سے بڑی  منڈی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

ہندوستان کا چار ہزار  دکانوں اور خوانچہ فروشوں پر مشتمل یہ بازار لگ بھگ 500 سال  پرانا ہے، یہ صرف تجارت ہی کی وجہ سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ اس کی اپنی ایک پوری تاریخ خواتین کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق، مارکیٹ کی شروعات 16 ویں صدی میں ہوئی۔ اس وقت مانی  پور میں ایک قدیم جبری ’لیبر سسٹم‘ عام تھا۔

خطے کے مردوں کو جنگ لڑنے یا کھیتوں میں کام کرنے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں بحکم سرکار روانہ کیا جاتا، کیوں کہ اس دور میں بادشاہت تھی اور ان کا فرمان ماننا خطے کے مردوں پر واجب تھا، تاہم خواتین کو بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوتی۔ اس دوران اپنی بقا کی خاطر خواتین نے اپنی زمینوں پر  فصلیں اگانا شروع کر دیں، جسے تیاری کے بعد وہ منڈیوں میں بھی خود جا کر بیچتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر خواتین کی زیر انتظام منڈی ’اما کیتھل‘ وجود میں آگئی۔

اس بازار کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک تسلسل کے ساتھ ’حقوق نسواں‘ کی انوکھی تاریخی مثال ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، جہاں صرف خواتین ہی ایک دوسرے کی مدد گار ہیں اور خواتین ہی ایک دوسرے کا سہارا بھی! اما ’کیتھل‘ ، مانی  پور کی راج دھانی کا سب سے رنگ برنگا مقام کہا جاتا ہے اس بازار میں 6 سے 7 ہزار عورتیں اپنا مختلف  سامان بیچنے آتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایشیا میں عورتوں کا سب سے بڑا بازار بن چکا ہے۔ یہاں خشک کی گئی مچھلی سے لے کر مختلف قسم کے مسالا جات، سبزیاں، کوسمیٹک، زیورات غرض ہر چھوٹی بڑی چیز دست یاب ہے، گویا یہاں آوازوں، نظاروں اور خوش بوؤں کی ایک پوری دنیا آباد رہتی ہے۔

برصغیر میں اپنے پنجے گاڑتے ہوئے جب ’سلطنتِ برطانیہ‘ نے مانی پور پر قبضہ کیا، تو یہاں کی خواتین نے برطانوی پالیسی اور تجارتی اصلاحات کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، اُن کا کہنا تھا کہ برطانوی پالیسیاں مانی پور کے لوگوں کو مزید کم زور کرنے کا باعث بنیں گی، انہوں نے اس کے خلاف 1939ء میں ایک لڑائی بھی لڑی جو تاریخ میں ’خواتین کی جنگ‘ کہلائی۔ برطانیہ نے اس مزاحمت کو روکنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، حتی کہ اس مارکیٹ کو غیر ملکیوں کے ہاتھ بیچنے کی بھی کوشش کی، لیکن ’اما ’کیتھل‘ ‘ کی خواتین بہادری کے ساتھ جان کی پرواہ کیے بغیر ڈٹی رہیں اور بالآخر فتح مند ہوئیں۔

اس بازار کی ہر صبح خوب صورت رنگوں کے ساتھ طلوع ہوتی ہے، یہاں کی دکان دار خواتین کو مخصوص روایتی ملبوسات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں خواتین تاجروں کی ہنسی اور گپ شپ سے لے کر خریداروں اور فروخت کنندگان کے مابین بھاؤ تاؤ، بحث مباحثے تک بہت سی صدائیں سنائی دیتی ہیں، جو بھاری بھرکم ’اما ’کیتھل‘ ‘ کا ایک الگ ہی ماحول بنا دیتی ہیں۔

دن ڈھلتے کے ساتھ ہی یہ آوازیں کم ہونے لگتی ہیں، حتیٰ کہ شام قریب آتے ہی، یہ ساری رسیلی آوازیں مدھم ہونے لگتی ہیں اور خواتین اکثر کئی میل دور دراز کے دیہاتوں میں اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے تیاری شروع کر دیتی ہیں۔ یہاں کی خواتین نے اپنی ایک یونین بھی تشکیل دی ہے، جو بازار کے امور کی نگرانی کرتی ہے۔ اس میں ایک ’ادھار نظام‘ بھی ہے، جس کی مدد سے خواتین سامان خریدنے کے لیے رقم لے سکتی ہیں۔

’اما ’کیتھل‘ ‘ دراصل مضبوط، بااختیار خواتین کے ایک بڑے سے خاندان کی مانند ہے، جو نہ صرف اپنی تجارت کا مالک ہے، بلکہ معاشرتی اور سیاسی طور پر بھی اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔ خواتین کی کام یابی اس حقیقت کا بھی زندہ ثبوت ہے کہ یہاں ’’مرد کی دنیا‘‘ یا ’’عورت کی دنیا‘‘ کہلانے والی کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کی دنیا ہے جو کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔

The post انوکھا بازار، جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

لیاری لٹریری فیسٹول

$
0
0

گذشتہ ایک دہائی میں منعقد ہونے والے ادبی میلوں اور کانفرنسوں نے جہاں زبان و ادب کے فروغ میں کردار ادا کیا، قلم کاروں اور قاری میں مضبوط رشتہ استوار کیا، وہیں کئی بھولے بسرے شہروں کو بھی نئی شناخت عطا کی۔ تربت لٹریچر فیسٹول بھی ایسا ہی ایک سلسلہ تھا، اور اب اس کی تازہ اور توانا شکل لیاری لٹریری فیسٹول ہے، جو 21اور 22 ستمبرکو بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں منعقد ہوا۔

لیاری لٹریری فیسٹیول (ایل ایل ایف) کی ٹیم میں شامل لمحہ کوثر نے کچھ دن پہلے ہی ہمیں ’’خبردار‘‘ کردیا تھا کہ 21 اور 22 ستمبر کو بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں آکر دیکھیں کہ خواتین کی قیادت میں رضاکاروں ٹیمیں کس طرح اپنی اہلیت کا ثبوت دینے جارہی ہیں۔

ان دو دنوں میں ہم نے، اور ہزاروں کی تعداد میں آنے والے حاضرین نے، وہاں جو کچھ دیکھا، واقعی ہم تو ششدر رہ گئے۔ مثالی نظم و ضبط، پیشہ ورانہ انتظامی صلاحیتوں اور ضبط و تحمل سے سعدیہ بلوچ اور پروین ناز کی قیادت میں کس مہارت کے ساتھ ان کی ٹیمیں لیاری کی “سرزمین” پر علم و ادب اور فنون لطیفہ کی محفلیں سجانے میں کام یاب ہوئیں، جو ایک یادگار تقریب کے طور پر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

مہر در آرٹ پروڈکشن اور بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے اشتراک سے ہونے والی اس ادبی تقریب میں دو دن تک گہماگہمی اور ذوق و شوق کے ماحول میں 23 نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں تقریباً 90 مقررین اور 11 نامور آرٹسٹوں نے حصہ لیا۔

جو مذاکرے ہوئے، ان میں لیاری کی تعلیمی صورت حال، سیاست: ماضی حال اور مستقبل، سوشل میڈیا کے جدید رجحانات، کراچی اور لیاری کی تاریخ، ذہن سازی میں یونیورسٹیوں کا کردار، ثقافت ادب اور آرٹ میں خواتین کی شرکت، مادری زبانوں میں ادب کا فروغ، اقلیتوں کے مسائل، جھوٹی خبر کا معاشرہ پر اثر، آرٹ آرٹسٹ اور ادارے، تشدد و انتہا پسندی کی روک تھام میں ادب۔ فن اور اداروں کا کردار، بلوچی ادب کی اہمیت، شاعری میں جدید رجحانات، کراچی میں تجاوزات کے مسائل، لیاری اور اسپورٹس، پُرامن معاشرہ کے قیام میں خواتین کا حصہ، بلوچی ادب کے جدید رجحانات جیسے موضوعات شامل تھے۔ پینل ڈسکشن میں لیاری سمیت کراچی، کوئٹہ، گوادر، تربت کے دانشور، محقق، ادبی شخصیات اور یونیورسٹی کے اساتذہ شریک ہوئے۔

علاوہ ازیں تھیٹر، میوزک، فلم اسکریننگ، داستان گوئی، قوالی، اردو اور بین الصوبائی زبانوں کے مشاعرے، ڈانس، مصوری، کتابوں کی تقریب رونمائی، مدرہڈ انسٹیٹیوٹ، طلبا کی صلایتیں بڑھانے کی ورکشاپس بھی منعقد ہوئیں، جن میں بچوں اور طلبا نے بھرپور حصہ لیا۔

یونیورسٹی کے کاریڈور میں بُک اسٹالز، فوڈ اسٹالز، مختلف این جی اوز اور دستکاری کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جہاں ہروقت لوگوں کا ہجوم رہا۔ بچوں کی تفریح کھیل کود اور ان کی علمی قابلیت بڑھانے کی سرگرمیوں کے لیے یونیورسٹی کا ایک پورا بلاک وقف کردیاگیا تھا۔

بینظیر یونیورسٹی، حبیب یونیورسٹی، کیچ (تربت) یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے طلبا کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ دو دنوں میں آنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بی ایس او کے علاوہ لیاری میں سرگرم نوجوانوں کی تنظیموں لیاری عوامی محاذ، لیاری پروگریسیو فورم، وائس آف لیاری اور لیاری سوشل کارنر نے بھرپور شرکت کی۔ یہاں کے عوامی نمائندوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، سماجی اور سیاسی ورکرز، طلبا و طالبات اور فیملیز نے دو دن تک اس ادبی میلہ کو رونق بخشی۔

لیاری لٹریری فیسٹیول میں شامل ایک اہم مذاکرے کا عنوان “باہمی رشتے جوڑنے میں آرٹ، آرٹسٹ اور اداروں کا کردار” بھی تھا، جس کے ماڈریٹر ہمارے اپنے دلپذیر شاعر وحید نور تھے اور شرکاء میں سندھ دھرتی کی قابل فخر بیٹی ادی نورالہدی’ شاہ اور کراچی آرٹس کونسل کے ہردالعزیز سربراہ احمد شاہ صاحب شامل تھے۔ مختلف پہلوؤں سے رشتے جوڑنے اور مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی پُرمغز باتیں ہوئیں۔

دو دنوں میں ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر رخمان گل پالاری، ڈاکٹر منظور بلوچ، اقبال خورشید، عابد میر سے مدتوں بعد ملاقاتیں ہوئیں۔ وسعت اللہ خان صاحب کے ساتھ پہلی بار چند ساعتیں گزارنے کا موقع ملا اور بہت اچھا لگا۔ تاج حیدر اور ڈاکٹر آصف فرخی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹرآصف فرخی حبیب یونیورسٹی میں اپنے کلاس کے اسٹوڈنٹس کو بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے نوجوان پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جواد شریف کی فلم “انڈس بلیو” دکھانے تشریف لائے تھے۔ یہ رشتے ناتے اسی وقت پروان چھڑتے ہیں جب معاشرہ پر امن ہو اور اور علم و ادب کی محفلیں سجتی رہیں۔

ان دو دنوں میں مہر در آرٹ پروڈکشن اور بینظیر شہید یونیورسٹی لیاری نے سندھ، بلوچستان، کراچی اور لیاری کے باسیوں کے دل جوڑے اور انہیں مزید قریب تر لانے کی کاوشیں کیں، جو قابل تعریف ہیں، اس ادبی میلہ میں ذاتی طور پر ہمیں بھی کچھ رشتے مضبوط تر اور کچھ نئے رشتے جوڑنے میں کامیابی ہوئی۔

لیاری ادبی میلہ کے انعقاد کا ایک مقصد ادب و فنون کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی شامل تھا۔ اسی جذبے کے تحت پورے شہر کراچی کے مختلف حصوں میں ایل ایل ایف کی انتظامیہ کی جانب سے شٹل سروس کی سہولتیں فراہم کی گئیں، جس کی وجہ سے گلشن اقبال، بلدیہ ٹاؤن، ابراہیم حیدری، صدر اور ٹاور سے بسوں کے ذریعے وہاں کے ادب دوست حلقوں اور نوجوانوں کے لئے بینظیر یونیورسٹی تک رسائی کو ممکن بنایا گیا۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، لیکن ہر ہوش مند ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا، اگر بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ اور ان کی ٹیم کا دست تعاون شامل نہ ہوتا؟ ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم نے قدم قدم پر ایل ایل ایف کا ساتھ دیا اور ان کے مشترکہ تعاون سے دنیا میں لیاری کی علمی ادبی شناخت ابھری اور اس کا اجلا روشن چہرہ ابھر کر سامنے آیا۔ امید ہے یہ شرکت جاری اور مستقل بنیادوں پر قائم رہے گی۔

لیاری میں ہمیشہ سے علم و ادب کی محفلیں سجتی رہی ہیں، لیکن پہلی مرتبہ اتنے بڑے اہتمام اور منظم طریقے سے دو دن تک علمی اور ادبی ماحول کو برقرار رکھا گیا۔ ایسی ہی نشستوں اور رونقوں سے امن پسندی، ادب و علم دوستی اور معاشرتی ہم آہنگی کے رجحانات اور پیغامات سے صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے۔

ایل ایل ایف کی خواتین راہ نماؤں سعدیہ بلوچ اور پروین ناز اور ان کی ٹیم کے تمام ارکان کو اس کام یابی پر مبارک باد دے کر ہم تو رخصت ہوتے ہیں۔ البتہ جاتے لمحہ کوثر سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہWomen Empowerment کے ہم قائل تو ہوگئے۔

The post لیاری لٹریری فیسٹول appeared first on ایکسپریس اردو.

جب شوٹنگ کے دوران زندگی کا ڈراپ سین ہوگیا

$
0
0

بڑے بجٹ کی فلموں کے سیٹس پر حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں، مگر ان میں کبھی کاسٹ یا عملے کی زندگیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، کیوں کہ فلم ساز اور پروڈکشن کے دوسرے عہدے دار ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ تمام کام محفوظ ماحول میں انجام دیے جائیں اور کہیں بھی کسی کے لیے کوئی پریشانی یا مشکل پیدا نہ ہو۔

اس کے لیے عام طور سے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ فلم پروڈکشنز والے متعدد اہم قوانین پر عمل کرتے ہیں تاکہ ان کی فلموں میں کام کرنے والے فن کار اور عملے کے ارکان محفوظ رہ سکیں۔ لیکن پھر مختلف مناظر شوٹ کرتے وقت ایسی گڑبڑ یا ہنگامے ہوجاتے ہیں کہ فن کار خود کو ایسی صورت حال میں پاتے ہیں جہاں ان کی معمولی سی مس کیلکولیشن بھی ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوسکتی ہے۔ بعض سیٹس پر کام کرتے ہوئے فن کاروں کو قے اور الٹی آنے لگتی ہے اور بعض دوسرے فن کاروں کو دوسرے سیٹس پر ایسی ہی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگ تو مووی کے سیٹس پر موت کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ 1928 کی دہائی میں Noah’s Ark نامی مشہور فلم آئی تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران متعدد افراد کی جانیں گئیں۔

لیکن یہاں کچھ ایسے فلموں کے شوٹنگ کے واقعات پیش کیے جارہے ہیں جن میں اداکار اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اور دنیا اچھے فن کاروں سے بھی محروم ہوگئی۔

٭  The Crow: الیکس پرویاز نے جیمس او بار کی ’’دی کرو‘‘ نامی ویڈیو کی فلم بندی کی منظوری دیتے ہوئے اس کے لیے کام شروع کیا۔ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی تھی جو اپنا بدلہ یا انتقال لینے کے لیے اپنی موت کے ایک سال بعد اپنی قبر سے واپس آیا تھا۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ راک میوزیشیئن ایرک ڈریون کو ایک پراسرار کوے نے نئی زندگی بھی دی تھی اور اسے بہت سی پراسرار قوتیں بھی عطا کی تھیں۔ ایرک نے خود بھی اپنی غیر معمولی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے اس آدمی کو تلاش کرکے مار ڈالا جس نے اسے اور اس کی منگیتر کو ہلاک کیا تھا اور اس طرح اپنا بدلہ یا انتقال لے لیا۔

یہ کردار پر مزاح بھی تھا اور اس میں شادی شدہ بہادری و شجاعت بھی دکھائی گئی تھی جس سے ناظرین خوب لطف اندوز ہوئے تھے۔ یہ وہ کردار تھا جو برینڈن لی کو سپراسٹار بناکر آسمان کی بلندیوں پر پہنچاسکتا تھا، مگر کچھ حادثات اور گن میں ایک غلط انداز سے رکھے ہوئے سلگ نے اس اسٹار کی جان ہی لے لی۔ ہوا یوں کہ ایک سین میں یہ کردار اپنی گن کو لوڈ کرتا ہے ۔ ایسی فلموں میں عام طور سے نقلی یا جعلی گولیاں لوڈ کی جاتی ہیں، مگر اس موقع پر عملے نے یہ سوچا کہ اس نے اس گن سے اصلی گولیاں نکال لی ہیں، مگر وہ غلطی پر تھے، گن میں اصل گولیاں پہلے سے موجود تھیں جنہیں نکالا نہیں جاسکا تھا، پھر مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ انہوں نے پرائمر بھی اٹیچڈ ہی رہنے دیا، چناں چہ جب ٹرائیگر دبایا گیا تو اس گن کی فائرنگ پن نے اس گولی کو گن کی بیرل میں پہنچادیا۔

ایرک کی موت کے اس کردار کا سین پروڈکشن کے اختتام کے لیے سیف کرلیا گیا تاکہ لی اپنی پروڈکشن کے آخری چند روز اپنے نازک میک اپ سے باہر گزار سکے۔ چناں چہ جب ویلن کے لیے لی پر فائرنگ کا وقت آیا تو یہ سلگ پہلے ہی بیرل میں پھنسی ہوئی تھی، گولی چلی اور لی کے معدے میں جالگی جس نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچایا۔ لی کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا لیکن جب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور وہ اپنی جان سے چلا گیا، مگر یہ ضرور ہوا کہ اس فلم کے مذکورہ سیٹ نے اسے لازوال شہرت عطا کردی۔

٭Twilight Zone  : راڈ سرلنگ کی Twilight Zone کو اپنے وقت کی بہترین سائنس فکشن انتھالوجی سمجھا جاتا ہے۔ یہ فلم  1983کے عشرے میں آئی تھی، یہ فلم جان لینڈس کو اسٹیون اسپیل برگ کے لکھے گئے ایک محبت بھرے خط پر مبنی تھی۔ معاون ڈائریکٹرز جارج ملر اور جو دانتے کے ساتھ اسپیل برگ اور لینڈس نے اس سیریز کی تین قسطیں بنائیں جو بہت پسند کی گئیں۔

ان میں ایک سیمی اوریجنل اسٹوری تھی۔ لینڈس کا سیگمنٹ اس قسط کی لوز اپ ڈیٹ تھی جس کا عنوان تھا:’’اے کوالٹی آف مرسی‘‘ اس میں کام کرنے والوں میں وک مارو نے ایک کٹر مذہبی انسان کا کردار کیا تھا جسے ایک رات اس کے پسندیدہ چابک بردار لڑکوں کے جوتوں میں بسر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ایک سین کے دوران جس میں مارو پر ویت نام میں امریکی فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو ایک نامعلوم وجہ کے باعث ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا۔

اس ہیلی کاپٹر کے مین روٹر نے مارو کا سر قلم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی چائلڈ اسٹار My-ca Dinh Le اور Renee Shin-Yi Chen بھی مارے گئے۔ بعد میں جان لینڈس اور چار دوسرے لوگوں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے مذکورہ بچوں کو غیرقانونی طور پر ہائر کیا تھا اور جس کی وجہ سے وہ اپنی جانوں سے گئے تھے۔ پھر ایک پبلک ٹرائل کے بعد جس میں کورٹ کو اس حادثے کی فوٹیج دکھائی گئی تھی، جیوری نے یہ فیصلہ کیا کہ لینڈس کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سین اتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد تمام مدعا علیہان کو بے قصور قرار دے دیا گیا۔

٭  ٹاپ گن:  ٹاپ گن ایک رومانی ایکشن فلم ہے جس کا فوکس macho پر ہے جو ایک نیول ایئراسکوارڈرن ہے وہ بہترین پائلٹ ہے ۔ یہ فلم 1980 کی دہائی کی سب سے بڑی اور ہٹ فلم تھی جس نے ٹام کروز کو اس وقت کا دنیا کا سب سے مشہور اداکار بنادیا تھا۔ظاہری طور پر اس فلم کی فائٹر جیٹس کے درمیان آسمانوں میں بے مثال ڈاگ فائٹس حقیقی نہیں تھیں، مگر امریکی فائٹر جیٹس کی نقلی یا جعلی شوٹنگ کے لیے اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔

نہ ان کے پرواز کرنے یا اترنے کا کوئی راستہ تھا اور نہ ہی ساتھ ساتھ مصنوعی طور سے پرواز کرنے کی کوئی صورت تھی، چناں چہ اس کام کے لیے باصلاحیت اور اسکلڈ پائلٹس کی خدمات حاصل کی گئیں جنھوں نے یہ سارا کام بڑی خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ انجام دیا اور فلم میں حقیقی رنگ بھردیے۔

حالاں کہ اس کام کے لیے پروفیشنلز کو تربیت دی گئی تھی اور ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں تاکہ پورا کا پورا عملہ اور اسٹاف محفوظ رہے اور کہیں کسی بھی جان کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو، پھر بھی فلائنگ اپنے دامن میں بہت سے خطرات بھی لاتی ہے اور پرفارمرز کے سروں پر ہر وقت ہی تلوار لٹکتی رہتی ہے، پائلٹ Art Scholl جب ایک فلیٹ اسپن کررہے تھے تو وہ اپنے طیارے کے زوردار دھکے سے خود کو سنبھال نہ سکے، جس کے باعث ان کا جیٹ تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد یہ فلم اسکال کی یادگار کے طور پر انہی کو ڈیڈیکیٹ کردی گئی۔

٭  جمپر: یہ فلم 2008 کی سائنس فکشن تھرلر ہے اور ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس میں ٹیلی پورٹ کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی اور وہ اپنے ایڈونچرز کو بھی بیان کرسکتا تھا۔ پھر اس کا واسطہ کچھ مذہبی جنونیوں سے پڑگیا جو اسے خیر کے بجائے شر کی طاقت کے طور پر دیکھتے تھے۔

اس فلم کی ڈائریکشن Doug Liman (Mr. and Mrs. Smith)نے دی تھی، اس فلم کے متعدد ایکشن سیکوینسز اور اسٹنٹس بھی سب انہی کے تھے، مگر پروڈکشن کے دوران تمام سرگرمیوں کے لیے اس بات کا بہ طور خاص خیال رکھا گیا کہ وہ بالکل محفوظ ہوں، یعنی سیٹ پر تمام سرگرمیاں محفوظ ہوں اور فن کاروں کے لیے ان میں کسی بھی طرح کے کوئی خطرات نہ ہوں۔سیٹ ڈریسر ڈیوڈ رچی ریت اور چٹانوں کی ایک مصنوعی دیوار کو منہدم کرنے میں مدد کررہا تھا تو دیوار کا ایک بڑا سا ٹکڑا ٹوٹ کر اس کے اوپر گرگیا اور رچی بے چارہ فوراً ہی مرگیا۔ اس حادثے میں عملے کا ایک اور رکن بھی زخمی ہوا تھا۔

The post جب شوٹنگ کے دوران زندگی کا ڈراپ سین ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

بولی وڈ کی تاریخ کے چند حادثے

$
0
0

فلموں میں سبھی کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم دیکھتے یا سمجھتے ہیں، لائٹس اور کیمرے کے ساتھ ایکشن بھی کام کرتا ہے، مگر صرف انہی پر پوری فلم کا انحصار نہیں ہوتا، بلکہ اور بہت سی چیزیں بھی اس کا حصہ ہوتی ہیں، یہاں تک کہ فن کار اور فن کارائیں بھی اس میں اچھا خاصا متحرک اور پرجوش کردار ادا کرتے ہیں۔

ہر فن کار کی زندگی میں حادثے اور انجریز بھی شامل ہوتی ہیں جو ان کی اس فلم کے لیے یادگار بن جاتی ہیں۔ یہاں ہم کچھ اداکاروں کی بات کرتے ہیں جو اپنی فلموں کی شوٹنگ کے دوران کچھ مسائل اور مشکلات کا شکار ہوئے، مگر انہوں نے اسے اپنی پرفارمنس کا حصہ سمجھتے ہوئے بڑی ہمت اور بہادری سے برداشت کیے اور فلمی تاریخ میں خوب شہرت بھی حاصل کی۔

٭ جب امیتابھ بچن فلم ’’قلی‘‘ میں کام کرتے ہوئے زخمی ہوگئے :  یہ بولی وڈ کی فلمی تاریخ کا سب سے یادگار اور ناقابل فراموش واقعہ ہے جب امیتابھ بچن فلم ’’قلی‘‘ کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئے تھے۔ دنیا بھر کے اخبارات نے اس ایکسیڈنٹ کی سرخیاں لگائی تھیں۔ امیتابھ کے پرستاروں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اس آرٹسٹ کی جلد صحت یابی کی دعائیں بھی کی تھیں۔ اس کی وجہ سے فلم کو بھی پرو ریلیز اچھی خاصی پروموشن ملی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ 1982میں فلم ’’قلی‘‘ کی شوٹنگ کے دوران جب امیتابھ بچن اور ان کے کو اسٹار پنیت ایثار کے درمیان ایک لڑائی کا سین چل رہا تھا تو بگ بی کے پیٹ میں میز کا کونہ گھس گیا جس سے ان کی آنتیں زخمی ہوگئیں۔ انہیں کئی ماہ تک شوٹنگ چھوڑ کر بستر پر آرام کرنا پڑا۔ جب وہ ٹھیک ہوگئے تو فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی گئی۔

٭ جان ابراہام ’’شوٹ آؤٹ ایٹ واڈالا‘‘ میں: جس وقت جان ابراہام ’’شوٹ آؤٹ ایٹ واڈالا‘‘ میںکام کررہے تھے تو اس کے کلائمکس سین کی شوٹ کے دوران انیل کپور نے 1.5 کے فاصلے سے اتفاقی طور پر ایک بلینک گولی جان ابراہام پر چلادی جب کہ یہ فاصلہ پندرہ فیٹ کا ہونا چاہیے تھا، چناں چہ وہ گولی جان ابراہام کی گردن کے دائیں حصے کو چھوتی ہوئی گزر گئی جس نے گردن کا وہ حصہ جل گیا اور اس جگہ آج بھی ان کی کالر بون پر نمایاں ہے۔

٭ ایشوریہ رائے فلم ’’خاکی ‘‘ میں: جی ہاں، یہ حادثات صرف مرد اداکاروں کے ساتھ نہیں ہوئے، بلکہ ان میں خواتین فن کار بھی شامل ہیں اور وہ ہیں ایشوریہ رائے۔ وہ ناسک میں ایک ایکشن ڈراما ’’خاکی‘‘ شوٹ کررہی تھیں تو وہ ایک ایسی جیپ سے ٹکراگئیں۔ اس وقت وہ اور تشار کپور ایک فلم کی ریہرسل میں مصروف تھے جہاں جیپ کو آنا تھا اور ان سے بیس فیٹ دور رک جانا تھا، تاہم جیپ ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہوگئی اور وہ اسے بریک نہ لگاسکا، ایشوریہ کے بائیں پاؤں میں فریکچر آیا اور کچھ چھوٹی موٹی چوٹیں بھی لگیں۔

٭  رنویر سنگھ ’’غنڈے‘‘ میں: ’’غنڈے‘‘ رنویر سنگھ، ارجن کپور اور پریانکا چوپڑا کی ایک رومانی فلم ہے جس کی شوٹنگ کے دوران دسمبر 2012میں رنویر سنگھ زخمی ہوگئے تھے۔یہ دوسروں کی طرح کوئی ایکشن سین نہیں تھا، بلکہ ایک ڈانس سیکیونس تھا جہاں رنویر سنگھ ایک لاٹھی لیے بلند پلیٹ فارم پر کھڑا تھا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور منہ کے بل نیچے گرگیا جس سے اس کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ اس کے چہرے پر چند ٹانکے بھی آئے لیکن اس نے اپنی شوٹنگ شیڈول کے مطابق مکمل کی اور اس میں کوئی گیپ نہیں دیا۔

٭  نتن مکیش فلم ’’پلیئرز‘‘ میں: 2011ء میں جب نتن مکیش فلم ’’پلیئرز‘‘ میں کام کررہے تھے تو اتفاقی طور پر اس فلم کی شوٹنگ کے دوران انہیں ایک دو نہیں بلکہ پورے چار فریکچرز آئے، مگر نتن نے کوئی شور نہیں مچایا۔ یہ ان کی فلم ’’دی اٹیلین جاب‘‘ کا ری میک تھا کی دوران شوٹنگ ان کی انگلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مگر انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ اپنا کام مکمل کیا اور اپنی ٹوٹی ہوئی انگلی کی زیادہ باتیں نہیں کیں، بلکہ چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہے۔

٭  ا کشے کمار فلم راؤڈی راٹھور میں:بولی وڈ کی فلم ’’کھلاڑی‘‘ میں اکشے کمار کو متعدد چوٹیں آئی تھیں، کیوں کہ اس نے اس فلم میں خود ہی بڑے دلیرانہ اسٹنٹس کیے تھے۔ مگر بعد میں راؤڈی راٹھور کی شوٹنگ کرتے ہوئے بھی اسے پری کلائمکس سین میں کندھے پر خاصی چوٹیں آئی تھیں۔ لیکن پھر بھی اس نے فلم کے درمیان کسی بھی طرح کا وقفہ نہیں لیا بلکہ اپنا کام جاری رکھا۔ مگر درد تھا کہ بڑھتا جارہا تھا، اس کے باوجود اس فن کار نے اپنا کام جاری رکھا اور فلم کے تمام مشکل سین مکمل کرالیے۔

٭ ابھیشیک بچن فلم ’’بول بچن‘‘ میں:جونیر بچن کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جب وہ فلم ’’گول مال‘‘ کی ری میک کے دوران ایک رکشا سے گر کر زخمی ہوگیا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ اور ہاتھ بھی زخمی ہوئے تھے۔ یہ حادثہ جے پور میں پیش آیا تھا اور ابھیشیک بچن کی ایک آنکھ کے قریب چھے ٹانکے بھی آئے تھے۔ جب کہ ایک اور فلم ’’دم مارو دم‘‘ کی شوٹنگ کرتے ہوئے بھی اس کی پشت پر کافی چوٹیں آئی تھیں۔

٭سلمان خان فلم ’’وانٹڈ‘‘ میں: دبنگ اسٹار بھی فلموں کی شوٹنگ کے دوران متعدد بار حادثات کا شکار ہوا۔ سب سے پہلے فلم ’’وانٹڈ‘‘ کی شوٹنگ کے دوران سلمان خان کے سیدھے ہاتھ کی نسیج  پھٹ گئی تھی۔ فلم اس وقت زوروں پر تھی، شوٹنگ کا کام بہت تیز چل رہا تھا، اس وقت کام روک کر کسی بھی قسم کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا، چناں چہ دبنگ خان نے اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

٭ شاہ رخ خان فلم ’’دلہا مل گیا‘‘ میں:  شاہ رخ خان 2009 ء فلم ’’دلہا مل گیا‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ اس کے کندھے پر چوٹ آگئی جس کے باعث اسے کئی ماہ تک کام روکنا پڑسکتا تھا، کیوں کہ اس کی تین پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں ، ٹخنہ مڑگیا تھا اور سیدھے پیر کا انگوٹھا بھی ٹوٹ گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی اور بایاں گھٹنا بھی زخمی ہوا تھا۔ مگر باہمت خان نے ان زخموں کی پروا نہ کی اور اپنی فلم کو پورا وقت دیا اور اسے کام یابی سے ہمکنار بھی کیا۔

The post بولی وڈ کی تاریخ کے چند حادثے appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیمنشیا؛ یاداشت کی کمی کی بیماری

$
0
0

Dementia ایک ایسی بیماری میں جس میں یادداشت نہایت کم زور ہوجاتی ہے۔ یہ بیماری Acetylcholineجو کہ ایک دماغی کیمیکل ہے، جو یادداشت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کیمیکل میں کمی کے باعث رویہ میں تبدیلی اور یادداشت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ Dementia کسی بھی طبقے کے کسی بھی فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5-7 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ Dementia کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاًVitamin B12  کی کمی۔ وہ لوگ جو سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں ان میں یہ مرض بہت عام ہے۔

اس کے علاوہ گلے کے غدود کا مسئلہ Hypothyroidism اور دماغ کی رسولیMeningioma یہ وہ وجوہات ہیں جن کو اگر ہم Treatکر دیں تو مریض کا Dementiaکا مرض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، نیند کی گولیوں کا زیاد ہ سے زیادہ استعمال Dementia کا سبب بنتی ہے۔ کسی بھی وجہ سر میں چوٹ لگ جانا Dementia کا سبب ہے۔

Dementia کی سب سے بڑی وجہAlzheimer Diseaseہے جو مغربی ممالک میں بہت عام ہے، جب کہ ہمارے یہاں Vascular Dementiaیعنی کے دماغ کی Vesselsخون کی شریانوں کا کم زور ہو جانا، کیوںکہ ہمارے یہاں شوگر اور بلڈ پریشر کا مرض بہت عام ہے۔ اس لیے Vascular Dementiaہمارے معاشرے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ( Hydrocephalus Normal Pressure)NPH  یعنی دماغ کی نالیوں میں پانی عام مقدار سے زیادہ بھر جانا اور دماغ کا پریشر بڑھ جانا۔ NPHمیں مریض کا بھولنے کے ساتھ ساتھ چلنے میں دشواری اور پیشاب پر قابو ختم ہو جاتا ہے۔ NPH بھی ایک Treatable Cause ہے Dementia کا۔

Dementia میں یادداشت میں کمی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ مریض چھوٹی چھوٹی باتیں بھول جاتا ہے۔ مثلاً گھر والوں کے نام، کوئی بھی چیز کہیں پر رکھ کر بھول جانا، گھر کا راستہ، مسجد کا راستہ، نماز بھول جانا، یہاں تک کہ اس کو پرانی ساری چیزیں یاد ہوں گی، مثلاً 65کی جنگ، 92کے ورلڈ کپ کی باتیں، لیکن وہ نئی باتیں بھول جائے گا۔یہ بیماری دماغ کے بات چیت کرنے والے حصے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مثلاً اپنی بات کو سمجھانے میں، اور دوسروں کی بات سمجھنے میں دشواری ہونا ، ایک ہی بات کو بار بار دہرانا۔

یہ بیماری دماغ کے اس حصے کو بھی متاثر کرتی ہے جس سے انسان روزمرہ کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔ مثلاً چابی کو دیکھ کر چابی نہیں بولے گا، موبائل فون کو دیکھ کر موبائل فون نہیں بولے گا۔

اس بیماری میں مریض کے روزمرہ کے وہ کام جو وہ خود کرتا ہے متاثر ہوں گے مثلاً کپڑے تبدیل کرنا، کھانا کھانا، بال بنانا اور شیو کرنا۔ یہ سب متاثر ہوں گے۔جیسے جیسے یہ مرض بڑھتا ہے مریض کے اندر کچھ نفسیاتی مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً Halucination یعنی کچھ ایسی چیزیں اس کو نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں جو کہ کمرے میں موجود اور لوگوں کو نظر نہیں آتیں Visual Halucination اور Auditory Halucination کا مطلب ہے کانوں میں آوازیں آنا۔ اس کے ساتھ ساتھ Delusion یعنی مریض دوسروں پر شک کرے گا۔ٓٓ اس قسم کی علامات سے مریض پریشان ہو کر Depression کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے جانے سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے آپ کو اکیلا تنہا کر لیتا ہے۔

اس قسم کے مریضوں کی دیکھ بھال بہت ہی محتاط طریقے سے کرنی چاہیے۔ خاص کر ایسے مریضوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر گھر سے باہر چلے بھی جائیں تو ان کے گلے میں یا ہاتھ میں ایک کارڈ یا بینڈ باندھ دینا چاہیے۔ اس پر گھر کا پتا اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔ مریض سے بات چیت کرنا، صبح سویرے دھوپ میں بٹھانا، شوگر اور بلڈ پریشر کی گولیاں باقاعدگی سے دینا اور ان سب کے ساتھ روزانہ صبح ناشتے سے پہلے کلونجی اور شہد کا استعمال مریض کے لیے خاصا مفید ثابت ہوتا ہے۔ کچھ میڈیسنز وغیرہ کے استعمال سے اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے ساتھ ساتھ روزانہ 30 منٹ کی چہل قدمی، گھر والوں کا اس مریض کے ساتھ روزانہ بات چیت کا عمل جاری رکھنا، مریض کی صاف ستھرائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

The post ڈیمنشیا؛ یاداشت کی کمی کی بیماری appeared first on ایکسپریس اردو.


ہمارے زرعی سائنس داں اپنے محاذ پر سرگرم

$
0
0

پلانٹ بریڈنگ کا عمل زراعت کی دنیا میں مکمل طور پر انسان کی سوچ پر مبنی ہے۔وہ جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے اور جس انداز میں چاہتا ہے فصلوں کی نت نئی اقسام تیار کر لیتا ہے۔

یاد کریں قیام پاکستان سے قبل گندم کی قسم C-571 ہوتی تھی، مگر دراز قامت (یعنی 115 سینٹی میٹر) تھی، پلانٹ بریڈرز نے سوچا کہ اگر اس کا قد کم ہوجائے تو اس کی فصل آندھی وغیرہ کی وجہ سے گرنے سے بچ سکتی ہے۔ چناںچہ پلانٹ بریڈرز کی کوششوں سے گندم کی فصل کا قد کم ہو گیا۔ پھر اس نے سوچا کہ گندم کی فصل کی پیداوار ڈبل ہو جائے، ادھر پلانٹ بریڈرز نے سوچا تو ادھر اس کی سوچ کا ردعمل بھی سامنے آگیا اور پیداوار جو 1947 میں 7 من فی ایکڑ تھی وہ چند ہی سالوں میں 15 من فی ایکڑ ہو گئی ، پھر اس نے سوچا کہ گندم کے دانوں کے اوپر جو چھلکا نما کسار (awn) ہے۔ اس کو ختم ہونا چاہیے تاکہ گند م کی تھریشنگ اور پھر آٹا بننے کے عمل کے دوران کوئی رکاوٹ نہ بنے چنانچہ گندم کی قسم کوہ نور83- بنا ڈالی جس کو گنجی یا کونی قسم بھی کہتے ہیں، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ گندم کی فصل کے پکنے کے دوران چڑیاں آتیں اور کھیت میں کھڑی گندم کی فصل پر لگے خوشوں سے چپکے سے دانہ نکال کر لے جاتیں، جس سے پیداوار خاصی کم ہوجاتی۔ چناںچہ دوبارہ گنجی قسم بنانے کا عمل روک دیا گیا۔ اس ساری تمہید کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی ہر تخلیق کے پیچھے انسانی سوچ ہی کارفرما ہے۔ دنیا کے آئے دن تغیراتی موسم کے پیچھے تو قدرت کی سوچ کا عمل د خل ہے مگر اس تبدیل شدہ موسم میں فصلوں کی نت نئی اقسام کی تیاری کے پیچھے انسانی سوچ کارفرما ہے۔

لہٰذا زیادہ بارشیں ، زیادہ گرمی، یک دم ٹھنڈ، خشک سالی ۔۔۔ یہ ہیں وہ عوامل جس میں رہ کر ایک زرعی سائنس داں فصلات کی نئی اقسام تیار کرتا ہے اور کسی بھی ایک قسم کی تیاری میں 10 سے 12 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، فیصل آباد میں واقع ایوب ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AARI) ، پاکستان کا واحد اور سب سے بڑا زرعی ادارہ ہے۔

جہاں غذائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر سائنس داں ہمہ وقت نت نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر نہ صرف چوکس ہے بلکہ غذائی خود کفالت کے لیے اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے میں بھی پیش پیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان گندم، چاول، چینی، گنا، کپاس اور دیگر فصلوں میں خودکفیل بھی ہے اور پیداوار کے لحاظ سے متذکرہ فصلیں ہمارا ملک دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں بھی موجود ہے۔

محکمہ زراعت حکومت پنجاب نے پنجاب سیڈ کونسل کے اجلاس میں ایوب ریسرچ کی طرف سے فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی زیادہ پیداوار کی حامل33 نئی اقسام کی عام کاشت کے لیے کی منظوری دے دی ہے۔ اس موقع پر ایوب ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ منظور کی جانے والی یہ 33 اقسام جب عام زمینداروں اور کاشتکاروں تک جائیں گی اور ہمارے وضع کردہ طریقہ کا ر سے کاشت کی گئیں تو ان کی پیداوار میں اضافہ کی توقع نہ صرف یقینی ہے بلکہ ان کی معاشی صورت حال بھی مستحکم ہو گی۔

قارئین! ان 33 اقسام میں سے چند ایک کی وضاحت درج کی جارہی ہے تاکہ عام شہری اس امر سے آگاہ ہو سکے کہ غذائی خود کفالت کے لیے فصلوں میں نئی قسم کیسے تیار کی جاتی ہے:

٭مہک: ہلدی کی پیداوار والے بڑے بڑے ممالک میں ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، انڈیا اور چین کا شمار ہوتا ہے۔ پاکستان ہلدی پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہلدی پاکستان 212 ٹن برآمد تو کر رہا ہے مگر اعلیٰ کوالٹی کی 142ٹن کی ہلدی درآمد بھی کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر ہلدی کی کوئی نئی قسم کی تیار کی جائے۔ ادارہ تحقیقات سبزیات، فیصل آباد میں اگرچہ ہلدی پر تحقیق کم ہو رہی ہے اور یہاں پر سرے سے کوئی قسم موجود بھی نہیں تھی۔

لہٰذا اعلیٰ قسم کی ہلدی کی تیاری کا کام شروع ہوا تو مہک  نے کسانوں کے ہاں بھی بہترین نتائج دیے، جس کے مطابق 25تا30 گنڈیاں (Rhizomes) فی پودا بنے اور فروخت کے قابل20تا25 گنڈیاں تھیں جن کا وزن تقریباً نصف کلو گرام کے لگ بھگ تھا اور یوں ان گنڈیوں کی اوسط پیداوار 20تا22 ٹن فی ہیکٹر رہی۔ یہ قسم زمین سے خوشبو پھیلاتے ہوئے سیدھی اوپر کو نشوونما پاتی ہے۔ ہلدی کی اس نئی اور پہلی قسم مہک کی تیاری میں غضنفر حماد، ڈاکٹر قیصر لطیف چیمہ، ڈاکٹر تصدیق حسین، ڈاکٹر اختر سعید اور محمد نجیب اللہ شامل ہیں۔

٭گولڈن جیوٹ 18- :جیوٹ یعنی پٹ سن ایک قدرتی ریشہ ہے جسے گولڈن فائبر سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس کی کاشت میں انڈیا، بنگلادیش، چین اور تھائی لینڈ دنیا کے نمایاں ترین ملک ہیں۔ اس وقت پنجاب میں جیوٹ کا زیرکاشت رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ کہ کہ مقامی پٹ سن کی بجائے قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے جیوٹ انڈسٹری کے لیے بیرون ممالک سے جیوٹ منگوایا جا رہا ہے، مگر اب جیوٹ میں مستقبل کا انحصار ایگرونومک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فیصل آباد کی تیارکردہ نئی اور پہلی قسم JFC-17 پر کیا جا سکتا ہے، کیوںکہ بقیہ اقسام کی نسبت 25تا40 من اس کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے ، جب کہ پچھلے سال اسی لائن نے 50 من فی ایکڑ کے ہندسے کو بھی عبور کیا۔

پاکستان بھر میں پہلی کوئی قسم موجود نہ تھی اور یہ پہلی قسم ہے جو ایوب ریسرچ کے سائنس دانوں نے تیار کی ہے۔ خریف کی بقیہ فصلوں کی نسبت، دریائی علاقوں میں کاشت منافع بخش ہونے  سے بھی اس قسم کا کسان کی معاشی ترقی میں بہتری لانے میں اہم کردار ہے۔ گولڈن جیوٹ 18- کی تیاری میں حافظ محمد اکرم، ڈاکٹر نعیم خاں، ثوبیہ اعجاز اور ڈاکٹر سعید اشرف جیسے نمایاں سائنسدان شامل ہیں۔

٭جو17- / سلطان 17-   :نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ غذاؤں میں جو یعنی Barley کو بھی شامل ہونے کا شرف حاصل ہے، مگر مقام تفکر ہے کہ ملک بھر میں اس پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ادارہ تحقیقات گندم، فیصل آباد میں جو کی 3 اقسام یعنی جو83- ، جو 87- اور حیدر93- کوئی 20 سے 30 سال پہلے کی تیار کردہ ہیں مگر اب جو کی 2 نئی اقسام کی تیاری کا اعزاز بھی اس ادارے کو ملا ہے۔ ملک شام کے تحقیقی ادارے ICARDA سے جو کی کچھ لائنیں درآمد کی گئیں اور تجربات میں سے گزارا گیا۔ جہاں لائن نمبرB-09018 نے چیک ورائٹی کی نسبت23 فیصد زائد پیداوار دی۔

یاد رہے کہ حیدر 93-  کے سٹوں پر دانوں کی 6 قطاریں ہوتی ہیں جبکہ لائن نمبرB-09018 پر خوشوں پر دانوں کی 2 قطاریں تھیں اور یوں اس لیے بھی یہ لائن قابل توجہ رہی، کیوںکہ یہ بیماریوں سے پاک بھی تھی۔ جو کی ایک دوسری قسم بھی عام کاشت کے لیے منظور کی گئی۔ اس کے معاشی اشاریے بھی اپنے چیک ورائٹی سے زیادہ رہے اور اسے سلطان ستارہ یعنی سلطان2017- کے نام سے عام کاشت کے لئے سفارش کر دی گئی۔ جو کی دونوں اقسام کی تیاری میں ڈاکٹر جاوید احمد، ڈاکٹر غلام محبوب سبحانی مرحوم اور مسٹر عبداللہ شامل ہیں۔

٭پنجاب مسور2018- :ادارہ تحقیقات دالیں، فیصل آباد کی تیار کردہ پنجاب مسور2018- کی جڑیں100 سینٹی میٹر تک گہرائی میں جانے کی وجہ سے پانی کے کمی والے علاقوں میں بھی اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس نئی قسم میں پنجاب مسور 2009- کی نسبت پنجاب مسور2018-  میں زیادہ پروٹین (29.2%) ہے جبکہ پکنے کے بعد اس کے دانے کا پھیلاؤ2.5 گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے 2 بندوں کی ڈش میں4 بندے آرام سے کھانا کھا لیتے ہیں۔ پنجاب مسور2018- میں ایک پھلی میں 3 دانے اور گانٹھ میں 5 پھلیوں کی وجہ سے اکائی رقبہ پر اس کی پیداوار کا بڑھ جانا یقینی ہوتا ہے۔ پانی والے علاقوں اور خشک سالی میں زیادہ پیداوار کی حامل قرار دی جانے والی اس قسم کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں چوہدری محمد رفیق، ڈاکٹر فیض، ڈاکٹر اظہر اقبال اور ڈاکٹر عزیز الرحمٰان نمایاں ہیں۔

٭پنجاب برسیم(SB-11):چارے کی یہ قسم جو اپنے چارے اور بیج کی زیادہ پیداواری صلاحیت، چارے کی اعلیٰ کوالٹی اور بھوسے کی بہترین غذائی مقدار کے حصول کے لیے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے سائنس دانوں کی عظیم کاوش ہے۔ اس کا پودا 75 سینٹی میٹر لمبا ہے جس پر فی مربع میٹر پر400تا500 شاخیں لگ جاتی ہیں۔ اس پر سبز رنگ کے چوڑے پتے لگتے ہیں جو درجۂ حرارت اور گرمی کے خلاف نیم قوت مدافعت کا حامل ہے۔

SB-11 نے قومی سطح کے تجربات میں72.76 ٹن فی ہیکٹر کے ساتھ چیک قسم کی نسبت2.9 فیصد زائد پیداوار دی۔ اس قسم کو اگر 30ستمبر کو کاشت کیا جائے تو بقیہ اوقات کاشت کی نسبت زیادہ پیداوار آتی ہے، جبکہ 14 پانیوں کی بجائے10 آبپاشیوں سے زیادہ پیداوار دیکھی گئی ہے۔ ذائقے اور ہاضمے کے اعتبار سے SB-11 یعنی پنجاب برسیم زیادہ سودمند دکھائی دی ہے۔ اس کے بیجوں کے ہزار دانوں کا وزن3.00 تا3.5گرام ہے جبکہ اس کا سبز چارہ ایک ہیکٹر سے 12,000 کلو گرام تک آجاتا ہے۔ اس کی تیاری میں نمایاں سائنسدانوں میں محمد سلیم اختر، امیر عبداللہ، محمد ریاض گوندل، ڈاکٹر سلیم ، عبدالرزاق اور شکیل حنیف شامل ہیں۔

٭نور2018- : قومی سطح کے 2014-15 کے تجربات میںK-09012 یعنی نور 2018 نے ملک بھر کے 8 مقامات سے اوسط پیداوار827 کلو گرام فی ایکڑ دی جبکہ اسی ٹرائل میں سب سے کم پیداوار تحقیقاتی اسٹیشن برائے دالیں، ٹانڈو جام سندھ کی لائن بے نظیر کے پیداوار فقط 245 کلو گرام رہی، اور اگلے برس یعنی 2015-16 میں تجربے میں شامل 12 لائنوں میں سے K-09012 نے 1357 کلو گرام پیداوار کے ساتھ پاکستان بھر میں سرفہرست رہی، جس پر PCK-09012 کی، نور2018- کے نام سے پنجاب سیڈ کونسل نے عام کاشت کے لیے منظوری دے دی۔ اس قسم کی تیاری میں ادارہ تحقیقات دالیں فیصل آباد کے سائنس داں شامل ہیں۔

٭ساہیوال گولڈ: ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی تیار کی جانے والی مکئی کی زیادہ پیداوار کی حامل نئی قسم ہے، جسے عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبرپختونخواہ اور آزاد جموں و کشمیر کے منظور کیا گیا ہے۔ قومی و صوبائی سطح کے مقابلوں میں نئی قسم ساہیوال گولڈ نے 20تا25 فیصد زیادہ پیداوار دی، جب کہ شدید تغیراتی موسم میں درخت کی طرح کھڑی رہنے والی یہ قسم پکنے کے دوران دیر تک ہری بھری رہتی ہے۔ درازقد ہونے کی وجہ سے اس کے چارے سے بھی اس نئی قسم کو مال مویشیوں کے لیے استفادہ کروایا جاسکتا ہے۔ دونوں موسموں کے لیے بہترین قسم ساہیوال گولڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، میاں شفیق، عامر حسین اور اسرار محبوب شامل ہیں۔

٭  گوہر 19-: مکئی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے قدرتی ماحول میں تیار کی گئی مکمل دورانیے میں سفید رنگ کی یہ فصل پنجاب، KPK ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں کاشت کے لیے موزوں ترین قسم ہے۔ گوہر19- نے قومی سطح پر 30.8 فیصد زائد پیداوار دی۔ چنانچہ 6جون 2018 کو ایکسپرٹ سب کمیٹی نے فیلڈ میں خود جاکر اس نئی قسم کا معائنہ کیا اور پنجاب سیڈ کونسل کو سفارشات دیں کہ گوہر19- کی پرل قسم سے 14 فیصد زیادہ پیداوار ہے اور شدید موسمی حالات میں بھی اس قسم کے پودے زمین پر جم کر کھڑے رہتے ہیں، اسے بیک وقت دانوں، چارے اور چارے کی محفوظ ذخیرہ اندوزی کے لیے بھی کاشت کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

٭سمٹ پاک: یہ مختصر دورانیے کی سفید مکئی کی قسم ہے جسے پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تمام علاقوں کے لیے کاشت کرنے کی منظوری دی گئی ہے اس قسم کو بھی ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے سائنس دانوں نے اپنی طویل عرق ریزی کے بعد تیار کی ، اس قسم کو بین الاقوامی ادارہ تحقیقات گندم و مکئی، میکسیکو کے تعاون سے معاہدۂ تبادلہ اقسام کے تحت چند لائنیں درآمد کی گئیں جن میں بے شمار لائنوں میں سے سمٹ پاک لائن نے حیران کن نتائج دیے جس کے مطابق موسم بہار میں یہ قسم 90 تا100 میں پک جاتی ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت70 ٹن فی ہیکٹر ہے۔

٭پاپ ون: زیادہ پیداوار کی حامل یہ قسم ایک مکمل دورانیے کی قسم ہے جو عام کاشت کے لیے پنجاب، خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقوں کے لیے منظور کی گئی۔ پاپ ون قسم کا دانہ اپنے سائز یا حجم  (Popping)میں گرم کرنے میں اضافہ کرلیتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول اور کھائی جانے والی پاپ کی کوئی قسم پاکستان بھر میں دستیاب نہیں تھی، جس کی درآمد کے لیے خاصا زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا تھا، لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ مقامی طور پر  ’’ پاپ کارن‘‘ کی قسم ہنگامی بنیادوں پر تیار کی جائے۔ چناںچہ یوسف والا پولز20- میں سے 4 لائنوں کو ایک مجوزہ ترتیب اور تجربات میں سے گزار کر پاکستان میں پاپ کارن میں پہلی قسم  ’’پاپ ون‘‘تیا کرلی گئی۔ یہ قسم اپنے دانے کے پھیلاؤ کی وجہ سے صارفین اور انڈسٹری دونوں کی ضرورت رہے گی۔

٭سپر گرین: چارے کی زیادہ پیداوار کی یہ قسم پکنے کے آخر تک نہ صرف سبز رہتی ہے بلکہ اس کی غذائی اہمیت بھی دوسرے چاروں سے زیادہ پائی گئی ہے۔ اسے ادارہ تحقیقات چارہ جات، سرگودھا کے زرعی سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، جن کے مطابق چارے کی دوسری اقسام جن میں افگوئی، ایم ایس 2010- اور سرحد وائیٹ شامل ہیں سے سُپر گرین اخذ کی گئی ہے۔ چارے کی یہ قسم 10 فیصد زیادہ چارہ دیتی ہے جبکہ پودوں پر پتوں کا رقبہ اور ان کی تعداد دوسری اقسام کی نسبت زیادہ ہے۔ دیر تک سبز رہنے والی سپر گرین اپنے ذائقے کی وجہ سے جانووں میں یکساں مقبول ہے اور پنجاب کے وہ تمام علاقے جہاں پانی کی سہولیات وافر ہیں وہاں کسان اسے شوق سے کاشت کرتے ہیں۔ اس کی تیاری میں محمد سلیم اختر کے ساتھ ساتھ عبدالباسط، عبدالجبار اور غلام نبی شامل ہیں۔

٭ایف ایچ1036- : چھلی کی یہ قسم ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کے ذیلی ادارہ مکئی تحقیقاتی اسٹیشن واقع ایوب ریسرچ فیصل آباد کی تیار کردہ ہے۔ وفاقی سطح پر2017 میں اس کو 82 دوسری اقسام کے ساتھ 6 مختلف مقامات پر کاشت کیا گیا۔ FH-1036 نے اپنی چیک قسم کی نسبت16   فیصد زیادہ پیداوار دی۔ کیڑوں، بیماریوں اور گرنے کے خلاف قوت مدافعت کا حامل یہ ہائبرڈ پکنے کے بعد دیر تک کھیت میں ہرا بھرا رہتا ہے جس کی وجہ سے ضیائی تالیف کا یہ عمل بھی دیر تک جاری رہتا ہے، جو  بعدازاں دانوں کے وزنی بننے کا سبب رہتا ہے۔ اس ہائبرڈ کی تیاری میں ڈاکٹر ارشد، محمد رفیق، احسن رضا ملہی اور عامر حسین شامل ہیں۔

٭بارانی ماش: دال ماش کی یہ قسم بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ، چکوال کی تیار کردہ ہے جہاں 2012تا2016 کے دوران دال کی مقامی لائنوں سے بہتر کارکردگی دکھانے والی لائن11CM-707 کا چناؤ عمل میں لایا گیا، اپنے ابتدائی تجربات میں بہترین کارکردگی کی حامل اس لائن کو وفاقی سطح کے تجربات 2016 میں شامل کر لیا گیا۔

جہاں اپنی پیداواری صلاحیت کی بنا پر 6 مقامات پر سرفہرست رہی اور 1035 کلو گرام فی ہیکٹر پیداوار آئی ، اور مجموعی طور پر 11 پیداواری تجربات میں 11 CM-707 نے کنٹرول (چیک) ورائٹی چکوال ماش سے 16  فیصد پیداوار زیادہ دی اور ایک دوسرے چیک عروج قسم کی نسبت اس کی پیداوار 23 فیصد زیادہ رہی۔ پنجاب سیڈ کونسل نے بارانی ماش کو پنجاب کے تمام بارانی علاقوں میں کاشت کی منظوری کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے یکم جولائی سے 15 جولائی کے درمیان کاشت کیا جائے تو زیادہ پیداوار آتی ہے۔ بارانی ماش کی تیاری میں محمد عظیم طارق، ڈاکٹر غلام ربانی اور جاوید اقبال شامل ہیں۔

٭فخر پنجاب : یہ چری یعنی سارگم چارے کا نیا ہائبرڈ ہے جو جلد پکنے، درمیانے قدوقامت کے ساتھ زیادہ پیداوار کا حامل ہے، جسے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں کاشت کے لیے منظور کیا گیا۔ ادارہ تحقیقات مکئی و جوار ساہیوال کی اس قسم کے پنجاب بھر میں تجربات ہوئے اور 23 من فی ایکڑ کے ساتھ اس لائن نے بہتر کارکردگی دکھائی، فخر پنجاب، پاکستان کا پہلا مقامی طور پر بننے والا ہائبرڈ ہے، اسی طرح پھلو ں میں انار کی نئی اقسام میں پرل، گولڈن، کھجور میں شاکری، شامران، زاہدی، اصیل، خودروی، حلاوی، حلینی، کپرا، بیر میں پاک وائیٹ، اومران، انوکھی ، سوفان ، بہاول ایس ایل شامل ہیں، جن کی تیاری میں مسٹر فیاض، مطیع اللہ، محمد اخلاق اور اظہر بشیر کی دن رات کی محنت شامل ہے۔

The post ہمارے زرعی سائنس داں اپنے محاذ پر سرگرم appeared first on ایکسپریس اردو.

آر ایس ایس کی نظریاتی تاریخ

$
0
0

’’ہندوستان میں آباد تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج اور طور طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ وہ یہاں رہتے ہوئے کھلم کھلا اپنے مذہبی عقائد کی اشاعت نہیں کرسکتے۔ اگر انہوں نے اپنے رنگ ڈھنگ تبدیل نہ کیے تو ہندوستان میں بھی اندلس کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔‘‘

ساٹھ سال قبل پیش کیے گئے درج بالا اعلان کو زبانی دعوی مت سمجھئے،یہ آج بھارت میں عملی جامہ پہن چکا۔اندلس کی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دینے کے سوچے سمجھے ظالمانہ و خوفناک پلان پہ ہندو انتہا پسند عمل شروع کر چکے۔پلان بنانے والوں کا حقیقی ارادہ یہ ہے کہ سرزمین بھارت سے مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے۔

اگر ایسا نہ ہو سکے تو کشمیر سمیت تمام بھارتی ریاستوں میں آباد مسلمان اتنے زیادہ خوفزدہ اور دبا دئیے جائیں کہ وہ اندلس کی طرح بھارت میں بھی اپنا مذہب،تشخص اور تہذیب و ثقافت پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ اپنی جانیں ہندو انتہا پسندوں کی وحشت و بربریت سے بچا سکیں۔ یہ جملے کسی عام انتہا پسند ہندو نہیں مہادیو گوالکر کی کتاب’’Bunch of Thoughts‘‘ سے لیے گئے ہیں جو 1966ء میں شائع ہوئی تھی۔

گوالکر تیتیس سال (1940ء تا 1973ء) ہندو انتہا پسند اور متشدد تنظیم، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا سربراہ رہا۔ اسی نے بھارت میں آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں کو مقبول بنایا اور انھیں ’’سنگھ پریوار ‘‘کے جھنڈے تلے جمع کر دیا۔ نریندر مودی، امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور دیگر انتہا پسند ہندو لیڈر اسے ’’گروگوالکر‘‘ کہتے اور اس کے نظریات پر شدومد سے عمل پیرا ہیں۔ اسی گوالکر نے 1938ء میں ناگ پور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانانِ ہندوستان کو دھمکی دی تھی:

’’اگر انہوں نے ہندوستان میں اپنا علیحدہ مذہبی، معاشرتی اور معاشی تشخص برقرار رکھا تو جس طرح ہٹلر نے جرمنی میں یہود کا صفایا کیا ہے، ہم بھی یہاں سے مسلمانوں کا صفایا کردیں گے۔‘‘

آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر جماعتوں مثلاً شیوسینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، آریہ سماج، ہندو مہاسبھا وغیرہ انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کا بنیادی لائحہ عمل یہ ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست (ہندو راشٹریہ) بنادیا جائے۔ اس مذہبی ریاست میں اقلیتیں اچھوتوں جیسا درجہ رکھیں گی۔انھیں واجبی حقوق ہی مل سکیں گے۔ درحقیقت ان تنظیموں کی بھرپور کوشش ہے کہ ترغیب و تحریض یا زور زبردستی سے سبھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے پیروکاروں کو ہندو بنالیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی خفیہ و عیاں منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ سبھی ہندو تنظیمیں بظاہر سماجی بہبود کے کام انجام دیتی ہیں مگر ان کی اصل مذہبی بنیادوں پر استوار ہے۔

مذہب امن و محبت کا پیغام دیتے اور بنی نوع انسان کو خیر و فلاح کا راستہ دکھلاتے ہیں۔ مگر انتہا پسند اور ذاتی خواہشات کے اسیر انسان مذہب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے نفرت و تشدد کا ہتھیار بنالیتے ہیں۔ اس غیر معمولی مظہر کی نمایاں مثال آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہیں۔ یاد رہے، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) آر ایس ایس ہی کا سیاسی بہروپ ہے۔

 بڑھتی مقبولیت اور سوچ سے آگاہی

بھارت میں ہندو انتہا پسندوں اور قوم پرستوں کی بڑھتی مقبولیت برصغیر پاک و ہند میں نفرت و عدم برداشت کی آگ بھڑکا چکی۔ بھارت و پاکستان ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے۔ خطرے کی بات یہ کہ بھارت معاشی مسائل میں گرفتار ہو چکا مگر وزیراعظم مودی کی زیر قیادت ہندو انتہا پسند پھل پھول رہے ہیں۔اکثر بھارتی ریاستوں میں ان کی وجہ سے نفرت کا زہر اس حد تک پھیل چکا کہ خصوصاً مسلمان اسلامی لباس پہننے، ڈاڑھی رکھنے اور اردو بولنے سے گھبرانے لگے ہیں۔

ان پر ہر وقت یہ خوف سوار رہتا ہے کہ انتہا پسند ہندو کسی معمولی بات پر انہیں مار ڈالیں گے۔ خوف و ہراس کے عالم میں کئی بھارتی مسلمان اپنی جانیں اور مال و متاع بچانے کے لیے ہندوانہ رہن سہن اختیار کر چکے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں اقلیت پر اکثریت اتنے ظلم و ستم نہیں توڑ رہی جیسے بھارت میں لرزہ خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس خوفناک صورتحال سے عیاں ہے ،ہمارے بزرگوں کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کہ اگر ہندو اکثریت حاکم بنی تو وہ مسلم اقلیت کو چین و سکون سے جینے نہیں دے گی۔

بھارتی الیکشن 2014ء میں بی جے پی نے 17 کروڑ 16 لاکھ ووٹ لیے تھے۔ اس کی اتحادی جماعتیں تین کروڑ ووٹ لینے میں کامیاب رہیں۔ گویا حکمران اتحاد نے بیس کروڑ سولہ لاکھ ووٹ لیے تھے۔ الیکشن 2019ء میں بی جے پی نے 29 کروڑ 90 لاکھ ووٹ پائے۔یوںاس کے ووٹ بینک میں ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد ووٹوں کا اضافہ ہوگیا۔ حکمران اتحاد کل 33 کروڑ 90 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہااور اس کا مجموعی ووٹ بینک تقریباً چودہ کروڑ ووٹوں سے بڑھ گیا۔ ان اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ بھارت میں انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جو بھارتی اقلیتوں اور مسلمانان پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ان فرقہ ورانہ اور مسلم دشمن قوتوں کی حکمرانی بھارت میں مزید مستحکم ہوئی تو بھارتی و پاکستانی افواج کے مابین ٹکراؤ کا امکان بڑھ جائے گا۔وجہ یہ کہ جب سے ہندو انتہا پسند نریندر مودی کی زیرقیادت برسراقتدار آئے ہیں،بھارت میں مسلم اقلیت پر ظلم وستم کرنے کی اذیت ناک مہم جاری ہے۔جلد ہی مودی حکومت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف خفیہ و عیاں منصوبے شروع کر دئیے۔بھارتی حکمران طبقے کا مشن یہ ہے کہ پاکستان کو اتنا کمزر کر دیا جائے کہ وہ جنگ کی صورت زیادہ عرصے مقابلہ نہ کر سکے۔ریاست جموں وکشمیر پہ قبضہ بھی اسی منصوبے کی کڑی ہے کہ پاکستانی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھنے والے دریا وہاں سے گذرتے ہیں۔مودی حکومت کئی بار ان کے پانی پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے چکی۔

دشمن کی فکر وسوچ اور چالیں سمجھنے کے لیے اس کے نظریات، فکر اور تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔اس طرح دشمن کا مقابلہ کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ پاکستانی افواج اور قوم کا ہر فرد دشمن کی ذہنیت ،نظریوں اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو تاکہ نظریات کی جنگ میں بھی اسے شکست دی جا سکے۔یہ آگاہی پالینے کے بعد ہی پاکستانی قوم کو احساس ہوگا کہ پڑوس میں نہایت خطرناک آئیڈیالوجی پرورش پاچکی۔ نفرت اور دشمنی پر مبنی اس ذہنیت کا مقابلہ تبھی ممکن ہے جب سبھی پاکستانی اپنی ذاتی و گروہی مفادات تج کر اجتماعی و قومی فکر اپنالیں۔ اگر وہ اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے، تو دشمن ایک دن انہیں آن دبوچے گا۔ تب اہل پاکستان کی ساری شان و شوکت، آرام و سکون اور آسائشیں خاک میں مل سکتی ہیں۔ مگر تب ہوش میں آنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

یورپی دانشوروں کا کردار

تاریخ یہ حیرت انگیز انکشاف کرتی ہے کہ ہندو انتہا پسندی کے نظریات تشکیل دینے میں یورپی دانشوروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہندو انتہا پسندی کو مغربی دانشوروں ، انگریز حکومت اوربرہمن طبقے نے مشترکہ کوششوں سے تخلیق کیا۔ اس عجیب و غریب اشتراک کی داستان دلچسپ، ڈرامائی اور حیران کن ہے۔ڈھائی سو سال قبل ہندوستان میں صرف دو بڑے گروہ آباد تھے… مسلمان اور بت پرست۔ مسلمان تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔

بت پرست مذہبی، معاشرتی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریاتی گروہوں میں تقسیم تھے۔ البتہ وشنو اور شیو دیوتاؤں کے پیروکاروں کی تعدد سب سے زیادہ تھی۔ یہ دونوں بڑے فرقے عموماً ایک دوسرے سے نبرد آزمارہتے۔ ان کی باہمی لڑائیوں میں ہزارہا بت پرست مارے جاتے۔اسلامی حکمرانوں نے کبھی بت پرستوں پر یہ دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اسی طرح جب بھی کسی مسلمان حاکم نے بت پرستوں سے جنگ کی، تو اس کی وجوہ مذہبی نہیں سیاسی یا معاشی ہوتی تھیں۔

مغل بادشاہ، جہانگیر کے عہد سے یورپی باشندے ہندوستان آنے لگے۔ اس نے ساحلی مقامات پر انہیں تجارتی و رہائشی مراکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ پرتگیزیوں نے 1606ء میں مالابار (تامل ناڈو) کے ساحل پر اپنے تجارتی مراکز بنائے اورعلاقے میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرنے لگے۔ 1732ء میں فرانس سے ایک عیسائی (یسوعی) پادری، گیسٹن لورنٹ کورڈوکس(Gaston Laurent Cœurdoux ) تبلیغ کرنے پہنچا۔

وہ زبانوں کے تقابلی مطالعے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ پہلا یورپی ماہر ہے جس نے آشکارا کیا کہ ہندوستان کی قدیم زبان، سنسکرت لاطینی، یونانی، جرمن اور روسی زبانوں سے مماثلت رکھتی ہے۔اس کی تحقیق کو ایک اور فرانسیسی ماہر لسانیات، ابراہام دوپیرن(Anquetil Duperron ) نے آگے بڑھایا۔ دوپیرن نے ’’ہندیات‘‘ (Indology) یا ہندشناسی کے تعلیمی شعبے کی بنیاد رکھی۔ اس شعبے سے وابستہ طالب علم ہندوستان کی تاریخ، مذاہب، تہذیب و ثقافت، زبانوں اور علم و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مغل شہنشاہ،اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کمزور ہوئی تو مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس انتشار سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور وہ جدید اسلحے کے بل بوتے پر ایک ایک کرکے مقامی حکومتیں ہڑپ کرنے لگے۔ انہیں 1765ء میں بڑی کامیابی ملی جب بنگال، بہار اور اڑیسہ میں انگریز حکومت قائم ہوگئی۔وہ ان علاقوں کے قدرتی وسائل لوٹنے لگے۔

اس لوٹ مار میں برہمن ان کے مددگار بن گئے کیونکہ وہ سابقہ مسلم حکومتوں میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں انتظام و انصرام کا تجربہ تھا۔انگریز حکمرانوں کو جلد احساس ہوا کہ اگر مسلمانوں اور بت پرستوں کے مابین اختلاف پیدا کردیئے جائیں، تو مقامی آبادی آپس میں لڑمرے گی۔ اس طرح ہندوستانی نو آبادیوں میں حکومت کرنا آسان ہوجاتا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بت پرست کئی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم تھے۔ انگریزوں نے پھر برہمن طبقے کے اشتراک سے بت پرستوں کو ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ متحد ہوکر طاقتور بن جائیں۔ تبھی وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ اس نئے مذہب کو ’’ہندومت‘‘ کا نام ملا اور اسے ماننے والے ’’ہندو‘‘ کہلائے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ نفرت، جنگ اور مخالفت کے منفی خیالات و نظریات کے خمیر سے نئے مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ انگریزوں کی خواہش تھی کہ نئے مذہب کے پیروکار جنگجوؤں کا روپ دھار کر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجائیں تاکہ مقامی آبادی کی مشترکہ طاقت ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ برہمن طبقہ اس نئے مذہب کے ذریعے ہندوستان میں اپنا گم گشتہ اثرورسوخ اور قوت پانے کا خواہش مند تھا۔ اسی لیے وہ ہندومت کی تشکیل میں انگریز حکومت کا سرگرم مددگار بن گیا۔ولیم جونز(William Jones) نے اس مسلم مخالف حکمت عملی کا کامیابی سے آغاز کیا۔ لندن کا یہ رہائشی ماہر لسانیات تھا۔ عربی اور فارسی بھی بخوبی جانتا ۔

بنگال کی انگریزحکومت نے جونز کی خدمات حاصل کرلیں تاکہ وہ بت پرستوں کے نئے مذہب کی تشکیل میں ہاتھ بٹاسکے۔ وہ ستمبر 1783ء میں کلکتہ پہنچا اور جنوری 1784ء میں اس نے ایک تنظیم ’’ایشا ٹک سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے تحت پورے ہندوستان سے بت پرستوں کی قدیم مذہبی، علمی و ادبی کتب کے مخطوطات جمع کیے گئے۔ جونز نے سنسکرت زبان سیکھ لی۔ مقصد یہ تھا کہ کتب میں موجود مشترکہ نظریات و خیالات جمع کر کے ان کی مدد سے نیا مذہب تخلیق کیا جاسکے۔ولیم جونز پہلا یورپی دانشور ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کئی ہزار سال پہلے بیرونی قبائل نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور پھر وہ خصوصاً شمالی علاقوں کے بلا شرکت غیرے حکمران بن گئے۔ انہوں نے وہاں ایک نئے مذہبی و سماجی نظام کی بنیاد رکھی۔ان حملہ آور قبائل کو ’’آریا‘‘ کا نام دیا گیا۔

ایشیاٹک سوسائٹی سے کئی برہمن پنڈت، انگریز ماہرین ہند شناسی اور مستشرق وابستہ تھے۔ انھیں بھاری تنخواہیں ملتی تھیں۔ ان سے سنسکرت میں لکھی مذہبی و ادبی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ اسی دوران سوسائٹی کے دانشور اپنی کتب اور تقریروں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوؤں(بت پرستوں) پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ لاکھوں ہندو قتل ہوئے اور ان کے مذہبی مقامات (مندروں) پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد سابق حکمرانوں (مسلمانوں) کے خلاف بت پرستوں میں اشتعال اور نفرت انگیز جذبات پیدا کرنا تھا۔ یہی منفی جذبات پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف متحد و یکجا بھی کردیتے۔

اردو ہندی تنازع

جنگ آزادی 1857ء میں عام مسلمانوں اور بت پرستوں نے مل کر انگریز غاصبوں کا مقابلہ کیا لیکن کئی وجوہ کی بنا پر یہ تحریک حریت کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے بعد انگریز اور برہمن بھرپور کوششیں کرنے لگے کہ مسلم آبادی اور بت پرست ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔اس مہم میں ایک کھشتری سرکاری افسر، راجا شیو پرشاد نے اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان میں عام لوگ اردو بولتے تھے جسے اس زمانے میں ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوستانی‘‘ بھی کہا جاتا۔ بولنے میں یہ ایک ہی زبان تھی ،بس مسلمان اسے عربی و فارسی رسم الخط میں تحریر کرتے، بت پرستوں میں خصوصاً اعلیٰ ذات کے برہمن و کھشتری یہ زبان لکھتے ہوئے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیتے جو سنسکرت کی جدید صورت ہے۔ راجا شیو پرشاد موجودہ بھارتی ریاست اترپردیش میں انسپکٹر آف اسکولز، مورخ اور ماہر لسانیات تھا۔ جنگ آزادی کے بعد اس نے مسلمانوں کے خلاف لسانی تنازع کھڑا کردیا۔

راجا شیو پرشاد نے مسلمانوں اور بت پرستوں کو لڑوانے کی سرکاری پالیسی کے تحت مطالبہ کیا کہ حکومت کی سرکاری زبان اردو نہیں ہندی (دیوناگری رسم الخط کی شکل) کو قرار دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اردو ’’حملہ آور‘‘ مسلمانوں کی زبان ہے۔ لہٰذا غیر مسلم اسے اختیار نہیں کرسکتے۔ یوں ہندوستان میں ’’اردو ہندی تنازع‘‘ نے جنم لیا۔ اس تنازع نے بھی بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔ شیو پرشاد نے تین جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ ہندوستان‘‘ لکھی۔ اس تاریخ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام بت پرست طاقتورآریا قبائل کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں مسلم طاقت کے خلاف متحد ہوکر صف آرا ہوجانا چاہیے۔ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے خلاف بے سروپا اور جھوٹی باتوں کا طومار بھی باندھ دیا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کے جذبات بھڑکانا چاہتا تھا۔ مسلم رہنما، سرسید احمد خان نے کوشش کی تھی کہ راجا شیو پرشاد کی مسلم دشمنی کا مقابلہ کیا جائے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

ہندو انتہا پسندی کا باپ

بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی برہمنی و انگریز تحریک میں دوسرا اہم کردار ایک برہمن سنیاسی،  دیانند سرسوتی نے ادا کیا۔ آج اسے ’’ہندو انتہا پسندی کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوامی سرسوتی ہی ہے جس نے ہندومت کو بہ حیثیت مذہب بت پرستوں میں مقبول بنایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف صف آرا کردیا۔ اسی نے دور حاضر کے ہندو انتہا پسندوں کو وہ متشددانہ اور انتہا پسندانہ فکری و نظریاتی بنیادیں فراہم کیں جن کے سہارے انہوں نے اپنی جارحانہ حکمت عملی اور پالیسیاں بنائیں اور لائحہ عمل طے کیے۔سوامی دیانند سرسوتی کی نجی زندگی اسرار و تجّس کی تہوں میں پوشیدہ ہے۔

وہ 1824ء میں پیدا ہوا اور 1883ء میں چل بسا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی نجی معلومات خفیہ رکھتا تھا۔ جب بڑھاپا آیا تو قریبی ساتھیوں کو نجی زندگی کے بارے میں بتانے لگا۔ بعدازاں انہی ساتھیوں کی جھوٹی سچی باتوں کو بنیاد بناکر مصنفین نے سوامی سرسوتی کی سوانح عمریاں قلم بند کردیں۔ان  کے مطابق اس کا اصل نام دیارام مُل شنکر تھا۔کاٹھیاوار، گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوا۔ باپ برہمن  زمین دار، بنیا اور سرکاری ٹیکس کلکٹر تھا اور شیوامت کا پیروکار۔ علاقے میں اس کا بڑا اثرورسوخ تھا۔ گویا سوامی سرسوتی کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوا۔ باپ نے اپنے پہلے بیٹے کی مذہبی تعلیم پر خاص توجہ دی اور اسے برہمنوں کی مذہبی کتب ’’وید‘‘ پڑھائی گئیں۔

مشہور ہے کہ ایک رات پندرہ سالہ سرسوتی مندر میں پوجا کررہا تھا۔ سامنے شیو کی مورتی دھری تھی۔ اچانک چند چوہے آئے اور شیو کے سامنے سے پرشاد لے بھاگے۔ وہ مورتی پر چڑھ کر اٹکھیلیاں بھی کرتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر نوجوان سرسوتی حیران پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ جو خدا اپنے اوپر سے چوہے نہیں بھگاسکتا، وہ دنیا کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے؟ اس واقعے کے بعد سرسوتی کا دل بتوں کی پوجا پاٹ سے اچاٹ ہوگیا۔ وہ پھر ماں باپ سے مذہب کے بارے میں باغیانہ سوال کرنے لگا جس کی بنا پر مشہور ہوگیا کہ دیارام پاگل ہوچکا۔ والدین نے اس کی شادی کرنا چاہی تو وہ 1846ء میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔دیارام پھر آوارہ گردی کرتے نگر نگر گھومنے لگا۔ وہ سچائی کی تلاش میں تھا جو اس کے بے چین من کو شانتی دے سکے۔ 1860ء میں وہ متھرا پہنچا اور وہاں وید مت کے ایک بڑے گرو، ورجے نند دندیش کا چیلا بن بیٹھا۔ اپنے گرو کی کوششوں سے دیارام ویدمت کا عالم بن گیا۔

گرو ہی نے اسے نیا نام ’’دیانند سرسوتی‘‘ بھی عطا کیا۔وید مت بہ حیثیت مذہب برہمن مت کی قدیم شکل ہے۔ ویدمت کا نظریاتی ڈھانچا چار کتب (رگ وید، سام وید، یجر وید اور اتھروا وید) سے ماخوذ ہے۔ یہ وسطی ایشیاء یورپ، مشرق وسطی اور ایران سے ہندوستان آنے والے قبائل کے مذہبی نظریات کا ملغوبہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں وادی سندھ کے باشندوں کے مذہبی نظریے بھی شامل ہوں۔ چاروں وید دور جدید کے ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتب مانی جاتی ہیں۔ ان کا زمانہ تصنیف 1700ء قبل مسیح سے 500 قبل مسیح کے مابین بتایا جاتا ہے۔ بت پرستوں کی دیگر مذہبی کتب مثلاً اپنشدوں،پرانوں، شاستروں (منوسمرتی) اورکتب تاریخ یا اتہاس (مہا بھارت وبھگوت گیتا ، رامائن) میں کافی مواد ویدوں سے ماخوذ ہے۔

ویدوں میں ایک خدا کا تصّور ملتا ہے۔ مگر تناقص یہ ہے کہ ان میںدیوی دیوتاؤں مثلاً اندرا، اگنی، سوم، ایشور، اوشا، سوریا وغیرہ کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ سوامی سرسوتی نے  یہ دعوی کیا کہ دیوی دیوتا ایک ہی خدا کے مختلف روپ ہیں۔ وید بنیادی طور پر دیوتاؤں کے حضور مناجات اور منتروں کا مجموعہ ہیں۔ ان سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ انسان کو امن و محبت سے فطری طریقے اختیار کرکے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ویدوں کی لیکن ایک بڑی خامی یہ ہے کہ انہی سے  ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے جنم لیا اور برہمن طبقہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہندوستانی معاشرے میں آمر و طاقتور بن بیٹھا۔ وجہ یہ کہ وید اور ذات پات کا نظام، دونوں برہمنوں کی تخیلق ہیں جن کا تعلق حملہ آور آریا قبائل کے حکمران طبقے سے تھا۔اس نظام کے ذریعے برہمن اپنی حکمرانی کو دوام بخشنا چاہتے تھے۔

1865ء کے بعد سوامی سرسوتی نے پوری قوت سے تحریک برپا کردی کہ تمام بت پرستوں کو ویدمت اختیار کرلینا چاہیے۔اس نے ان پر زور دیا کہ وہ ایک خدا کی عبادت کریں، اپنے فرسودہ مذہبی رسوم و رواج ترک کردیں اور جدید تعلیم پائیں۔ ان نظریات سے عیاں ہے کہ سوامی سرسوتی بت پرستوں کی فکرو عمل میں مثبت تبدیلیاں لانا چاہتا تھا۔

وہ ایک بہترین مقرر اور طلسماتی شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے جلد پیروکاروں کی بڑی تعداد اپنے گرد جمع کرلی۔ وہ پھر شمالی ہندوستان کے قریہ قریہ جانے لگا۔ وہاں وہ بت پرستی کے خلاف تقریریں کرتا اور ان کے رسوم و رواج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔ سوامی سرسوتی کی تحریک نے مگر برہمن پنڈتوں کی صفوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔تمام مندروں کے ناظم دراصل برہمن پنڈت تھے۔ بت پرست ان مندروں میں نقدی، زیور اور اجناس چڑھاوے کے طور پر دیتے ۔ اسی مال و متاع کی بدولت ہی برہمن نہ صرف امیر ہوئے بلکہ معاشرے میں  اثرورسوخ پیدا کرلیا۔ اگر بت پرست سوامی سرسوتی کی تحریک سے متاثر ہوکر بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دیتے تو مندروں میں پھر کوئی نہ آتا۔ اس طرح برہمن پنڈت کمائی کا ذریعہ کھو بیٹھتے اور معاشرے میں بھی انہیں پہلے جیسا اثرورسوخ حاصل نہیں رہتا۔

یہی وجہ ہے، برہمن رہنماؤں نے سوامی سرسوتی پر دباؤ ڈالا کہ وہ بت پرستی کی مخالفت کرنا چھوڑ دے۔ انہوں نے اس باور کرایا کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا جائے تاکہ وہ طاقتور بن کر مسلمانوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کرسکیں۔ برہمن رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے ہی سوامی سرسوتی نے بت پرستی کی مخالفت بہت کم کردی۔ اب وہ برہمنی منصوبے کے مطابق اسلام اور عیسائیت پر شدید زبانی و قلمی حملے کرنے لگا تاکہ ان کے خلاف مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹے بت پرستوں کو ’’ہندو قوم‘‘ کی شکل میں متحد و یکجا کردیا جائے۔

اس نے قرار دیا کہ ہندو قوم ہندوستان کی اصل وارث ہے اور وہی مملکت میں حکمرانی کا حق بھی رکھتی ہے۔ سوامی سرسوتی پہلا بت پرست (یا ہندو) رہنما ہے جس نے کھلم کھلا اسلام، عیسائیت، جین مت اور ان مذاہب کے پیغمبروں کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا۔1875ء میں اسکی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ شائع ہوئی جسے دور جدید کے ہندو انتہا پسند اور قوم پرست مقدس قرار دیتے ہیں۔ اس میں سوامی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہندوؤں کو جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ مزید ہندو مسلمان یا عیسائی نہ بن سکیں۔ سوامی نے ویدمت (ہندومت) کو دنیا کا واحد الہامی اور بہترین مذہب قرار دیا۔ حضرت عیسیٰؑ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق نازیبا باتیں قلمبند کیں جن سے عیسائی اور مسلم اقوام میں قدرتاً اشتعال پھیل گیا۔ غرض جو سوامی بت پرستوں کی اصلاح احوال کے لیے اٹھا تھا، برہمن و انگریز گٹھ جوڑ نے اسے مسلم و عیسائی دشمن رہنما بنا دیا۔

1875ء میں سوامی سرسوتی نے ہندومت کے فروغ کی خاطر ایک تنظیم ’’آریہ سماج‘‘ قائم کردی۔ مقصد یہ تھا کہ سماجی سرگرمیوں کے پردے میں بت پرستوں کو نئے مذہب کے دائرے میں لایا جائے تاکہ وہ مسلم و عیسائی قوت کا مقابلہ کرسکیں۔ تب ہندوستان میں عیسائی بہت کم تھے۔ اس لیے آریہ سماجیوں کی ٹکر مسلمانوں سے ہی ہوئی۔

آریہ سماجی رہنما اور مسلم علما مناظرے کرنے لگے جن میں ہزارہا لوگ شرکت کرتے۔ ان مناظروں کی بدولت نفرت اور فرقہ وارانہ فساد پر مبنی خیالات عوام میں بھی پھیلنے لگے اور دونوں اقوام کے مابین دشمنی بڑھتی چلی گئی۔1870ء کے بعد سوامی سرسوتی نے ’’شدھی تحریک‘‘ اور ’’گؤ رکھشا مہم‘‘ کا آغاز کردیا تھا۔ شدھی کے ذریعے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا چاہتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا اب انہیں اپنا اصل مذہب اختیار کرلینا چاہیے۔ گؤ رکھشا مہم کے ذریعے سوامی ہندوستان میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگوانے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں تحریکوں کی وجہ سے بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا اور برہمن و انگریز حکمران طبقے کی تو پالیسی یہی تھی۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ برہمن و انگریز حکمران طبقہ سوامی سرسوتی کو اپنا ایجنٹ بنانے میں کامیاب رہا تھا ۔مگر جب سوامی کے گرد لاکھوں پیروکار اکٹھے ہوگئے تو وہ آزاد و خود مختار بن گیا۔ طاقت پاکر احساس ہوا کہ انگریز حکومت اب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہی وجہ ہے، وہ عیسائیت پر بھی علی الاعلان تنقید کرنے لگا۔ یہ خود مختاری انگریز آقاؤں کو پسند نہیں آئی۔انھیں احساس ہوا کہ سوامی کی سرگرمیوں سے مشنری پادریوں کو مقامی آبادی میں تبلیغ کرتے ہوئے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ چناں چہ انہوں نے گھریلو ملازمین خرید کر ان کے ذریعے سوامی سرسوتی کو زہر دے دیا۔ وہ چند ماہ بیمار رہ کر چل بسا۔

نازی جرمن آریا بن بیٹھے

سوامی سرسوتی کی موت کے بعد  برہمنی طبقہ ہندوستان میں شدومد سے ’’ہندوسپرمیسی‘‘ نظریے کی تبلیغ کرنے لگا۔ آریا سماجی رہنماؤں نے اس مہم میں اہم حصہ لیا جن میں سوامی شردھانند، پنڈت مالویہ، لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھرتلک نمایاں ہیں۔ انہی لیڈروں نے 1915ء میں دوسری انتہا پسند ہندو جماعت’’ہندو مہاسبھا‘‘کی بنیاد ڈالی۔ بال کرشنا مونجے، دمودر ساورکر اور بلرام ہیڈگوار اس نئی تنظیم کے نوجوان رہنما تھے۔ 1925ء میں ہیڈگوار نے تیسری انتہا پسند ہندو تنظیم’’ آر ایس ایس‘‘ قائم کردی۔ بھارت میں اسی تنظیم کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔آج بھارت کی اسٹیبلشمنٹ میں آر ایس ایس کے حمایتی سب سے زیادہ موجود ہیں۔

فوج، انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس میں آر ایس ایس کے حمایتی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا کہ آر ایس ایس کا سیاسی روپ، بی جے پی اقتدار سنبھال لے تاکہ ہندو راشٹریہ بنانے اور اکھنڈ بھارت کی تکمیل کے منصوبوں پر عمل شروع ہوسکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’ہندو سپرمیسی‘‘ کا منفی نظریہ یورپی ممالک میں بھی مقبول ہوا۔ البتہ وہاں اس نے ’’آریا سپرمیسی‘‘ کا روپ دھار لیا۔ یورپ میں یہ نظریہ پھیلنے کی کہانی بھی حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ ہوا یہ کہ برطانوی ولیم جونز کا یہ نظریہ کہ آریا قبائل نے تین ہزار سال پہلے ہندوستان فتح کیا تھا، دیگر انگریز و یورپی ماہرین ہند شناسی مثلاً چارلس ولکنز، کولن میکنزے، ہنری تھامس کولبروک، جین انطون دوبس، شیگل، جیمز مل وغیرہ کے ذریعے پورے یورپ میں پھیل گیا۔ اس نظریے سے فرانسیسی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک دانشور، آرتھر دو گوبینو (Arthur de Gobineau) بھی متاثر ہوا۔آرتھر دوگوبینو کا باپ فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔

یہی وجہ ہے، وہ باپ سے مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے قصّے سنتے جوان ہوا۔ ان قصّوں نے اس پر اتنا زیادہ سحر طاری کیا کہ وہ مسلمان ہونے کا سوچنے لگا تاہم والدین اور رشتے داروں کے خوف نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ 1848ء میں جب فرانسیسی عوام بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو گوبینو شاہی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر سرگرم ہوگیا۔ تبھی اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ فرانسیسی بادشاہ طاقتور آریا قبائل کی اولاد ہیں۔ وہ عوام سے زیادہ قابلیت، لیاقت و ذہانت رکھتے ہیں اور اسی لیے انہیں حکمرانی کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔

گوبینو اس طرح نظریہ نسل پرستی کی ترویج کرنے لگا… یہ کہ بعض انسانی نسلیں دیگر نسلوں سے ممتاز و منفرد ہیں۔سفید فام سپرمیسی کا نظریہ بھی اسی نظریے سے ماخوذ ہے۔ گوبینو کا نظریہ جرمنی میں بہت مقبول ہوا۔ حتیٰ کہ ایڈلف ہٹلر کی نازی پارٹی نے اسے اپنا منشور بنالیا۔ صرف آریا نسل کے جرمن ہی پارٹی کے رکن بن سکتے تھے۔ جب ہٹلر برسراقتدار آیا، تو وہ جرمنی میں مقیم غیر آریائی نسلوں مثلاً یہود، خانہ بدوشوں، سیاہ فاموں پر ظلم و ستم کرنے لگا۔ یہود اس لیے خاص نشانہ بنے کہ ہٹلر سمجھتا تھا، امریکا و برطانیہ میں مقیم یہودی بنیوں کی سازشوں ہی سے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی ۔ بہرحال آریا سپرمیسی کے بطن سے جرمن قوم پسندی کے جراثیم پیدا ہوئے۔

اسی قوم پسندی نے آخر کار ایڈلف ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم شروع کرنے پر اکسا دیا۔ہٹلر نے پہلے جرمنی اور پھر یورپی ممالک میں آباد یہود و غیر آریائی نسلوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے۔ اس کا یہ پلان تھا کہ جرمنی سے ان کا صفایا کردیا جائے۔ آج آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند جماعتیں بھی مذہبی و قومی سپرمیسی کے جنون میں مبتلا ہوکر بھارت سے خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہیں۔یہ نسل کشی روکنے کی خاطر  پاکستان ہی کو کچھ کرنا ہو گا ۔سپرپاورز کو تو چھوڑئیے، مسلم حکمران اپنے اپنے معاشی وسیاسی مفادات کے اسیر بن کر  کٹر آرایس ایس لیڈر،مودی کی چاپلوسی کرنے میں محو ہیں۔ بقول شاعر مشرقؒ

حرم پاک بھی،اللہ بھی، قران بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

The post آر ایس ایس کی نظریاتی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.

 ہمارے ملک میں دیکھنے کو کیا نہیں

$
0
0

موریطانیہ مغربی افریقہ کا ایک غریب مسلمان ملک ہے جس کے دو تہائی سے بھی زیادہ حِصے پر صحرا کا راج ہے۔ یہاں صرف گرم مرطوب آب و ہوا کا لق ودق صحرا ملتا ہے۔ اسی طرح گرین لینڈ جو شمالی یورپ کا ملک ہے، چند جنوبی حصوں کے علاوہ سارا کا سارا برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ ایسے ملکوں کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے کہ یہاں ایڈونچر یا سیروسیاحت کے کیا ذرائع ہوں گے؟ یہ ممالک وہ ہیں جہاں سیاحت برائے نام ہے۔

جب کہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ سب کچھ موجود ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے جس خِطے میں واقع ہے وہ خدا کی طرف سے تمام نعمتوں سے مالامال ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالٰی نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے جو ہماری سیاحت کی اساس ہے۔

پاکستان میں مختلف لوگ، مختلف زبانیں، ثقافتیں اور علاقے ہیں جو پاکستان کو بہت سے رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔ یہاں ریگستان، سرسبزوشاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرد اور گرم علاقے، خوب صورت جھیلیں، برف پوش چوٹیاں، تاریخی عمارتیں، جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں پاکستان نے اپنی طرف 1 ملین سیاحوں کو مائل کیا۔ امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ بیرونی ممالک سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے اور بہت خوب صورت یادیں لے کر واپس جاتے تھے۔ کراچی کی شاہراہیں لوگوں کو حیران کرنے کے لیے کافی تھیں اور کراچی کی گلیوں میں ہپیز کی بہتات نظر آتی تھی۔ انگریزوں کا درۂ خیبر تک جانا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر خوب صورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ بہت سے سیاح آئے اور انہوں نے اس ملک کے کونے کونے میں پھیلے حیرت ناک مناظر کو دنیا تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سیکڑوں سیاحتی مقامات دریافت کیے جا چکے ہیں بلکہ روزانہ کی بُنیاد پر ہو رہے ہیں۔

شمالی علاقہ جات کی سیاحت بھی اپنے عروج پر ہے۔ شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا کے علاقے اندرونی و بیرونی سیاحوں میں یکساں مقبول ہیں۔ پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں، جب کہ مختلف قدیم قلعے، تاریخی مقامات، نیشنل پارک، عجائب گھر، آثارقدیمہ، وادیاں، جھیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ آئیں ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں بڑے چھوٹے سیاحتی مقامات اور ہماری ثقافت پر۔

پاکستان کے تمام خطوں اور صوبوں میں سیاحت کے مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی ثقافت، کھانوں، لباس اور رنگ ڈھنگ کا مختلف ہونا ہی انہیں خاص بناتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی سیاحت پہاڑوں اور وادیوں کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہاں ایک طرف حسین و جمیل سوات اور کُمراٹ کی وادیاں ہیں جنہیں لوگ مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہتے ہیں تو دوسری جانب وادی کیلاش ہے جو اپنے تمام تر منفرد رسومات اور اسرار و رموز سمیت ایک معما بنی ہوئی ہیں۔ ایسی وادی دنیا کے کسی خطے کسی کونے میں نہیں ہے۔ شمال مغرب میں چترال کی خوب صورت وادی ہے جہاں ایک ہی علاقے میں تقریباً بارہ چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح صوبے میں مذہبی سیاحت کی بھی کافی جگہیں ہیں جن میں خوب صورت اور قدیم مساجد کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی خانقاہیں، قدیم یونیورسٹیاں اور اسٹوپوں کے کھنڈرات بھی شامل ہیں۔ یہ صوابی، مردان، تخت بھائی، پشاور اور سوات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کئی قدیم مخطوطات، نسخے، سِکے، پتھر کی مورتیاں اور برتن و زیورات وغیرہ نکالے جا چکے ہیں۔

اسی طرح یہاں پشاور جیسا زرخیز تاریخ رکھنے والا شہر واقع ہے جو بیک وقت کئی ادوار کا امین ہے۔ یہاں ایک طرف جمرود و بالا حصار جیسے قلعے سر اٹھائے کھڑے ہیں تو دوسری جانب برطانوی راج کے دور کی یاد تازہ کرتا کُننگھم ٹاور بھی ایستادہ ہے۔ مسجد مہابت خان، پشاور میوزیم، کپورحویلی، طورخم بارڈر، درہ خیبر، سیٹھی ہاؤس اور قصہ خوانی بازار بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔

بات کی جائے اگر خوب صورتی کی تو خیبر پی کے کی خوب صورتی رنگ برنگی جھیلوں کے بغیر ادھوری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی حسین ترین جھیلوں میں سے ایک ’’ماہوڈنڈ جھیل‘‘ کو اگر وادی سوات کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا جو ضلع سوات کی تحصیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’وادیٔ اوشو‘‘ میں واقع ہے۔

جھیل کے بیچوں بیچ ایک گھنا خوب صورت جنگل ہے اور ان میں بھاگتے دوڑتے اٹھکیلیاں کرتے پونیز (چھوٹی نسل کا ایک خوب صورت گھوڑا)، یہ نظارہ آپ پاکستان میں کہیں اور نہ کرسکیں گے۔ جھیل کے ارد گرد سرسبز گھاس پر لگے دودھیا خیمے کسی چھوٹے سے اُزبک قصبے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اردگرد کے پہاڑ، سانپ کی طرح رینگتی بل کھاتی ندیاں اور اُس پر صُبح کا دھندلکا، یہ جھیل فطرت کے حسن کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ ناران کی جھیل سیف الملوک، دیر بالا میں واقع کٹورا جھیل، لولوسر، آنسو، کنڈول، دودی پت سر، درل اور پیالہ جھیل بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ وادی سوات میں کئی مقامات پر بلند آبشاریں بھی ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں بہت زیادہ بلندوبالا چوٹیاں نہیں ہیں لیکن یہاں سوات اور چترال کے سرسبز پہاڑ بہت جاذب نظر ہیں۔ بڑی اور مشہور چوٹیوں میں ترچ میر، مکڑا پیک، ملکہ پربت، فلک سر، بونی زوم، سارہ غر، موسیٰ کا مصلیٰ، میرنجانی اور مُکشپوری شامل ہیں۔ نتھیا گلی، باڑہ گلی، مالم جبہ، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، بھوربن، اور گھوڑاگلی یہاں کے وہ ہِل اسٹیشن ہیں جہاں سارا سال سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مالم جبہ میں سکی ریزارٹ جب کہ ایوبیہ و پٹریاٹا میں چیئر لفٹ اور کیبل کار کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

کھانوں کی بات کی جائے تو خیبر پی کے اپنے قہوؤں، روش، ٹماٹر کڑاہی، خشک میوہ جات، دنبے اور چپلی کبابوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ یہ پکوان اس صوبے کا ٹریڈ مارک ہیں جو چترال سے ڈیرہ اسمٰعیل تک دست یاب ہیں۔ گوشت یہاں کے پکوانوں کا بنیادی جُز ہے جس کے بغیر پختون کھانے ادھورے ہیں۔ ٹرک آرٹ، پشاوری چپل اور خشک میوہ جات یہاں کی وہ سوغاتیں ہیں جو سیاح حضرات خوشی خوشی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

ہیر سیال اور صاحباں کے پنجاب کی بات کریں تو یہاں کی سیاحت تاریخ، روحانیت اور ثقافت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ صوبہ جہاں آپ کو حسین اور ٹھنڈے پہاڑی مقامات پیش کرتا ہے وہیں لق و دق صحرا اور زرخیز میدان بھی اس کی خاصیت ہیں۔ پنجاب کے لینڈ اسکیپ کا تنوع ہی خوب صورتی ہے۔ یہاں پہاڑ، دریا، میدان، سطح مرتفع، چشمے، صحرا، جھرنے سب موجود ہیں۔ اس کے چھتیس اضلاع میں کئی قدیم، تاریخی و خوبصورت جگہیں واقع ہیں جنہیں کھوجنا ایک شخص کی بات نہیں ہیں۔

یہاں مری، کوٹلی ستیاں اور فورٹ منرو جیسے سرد اور پُرفضا ہل اسٹیشن موجود ہیں جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ان ہل اسٹیشنز کے پہاڑوں پر کئی قیمتی جنگلات موجود ہیں جہاں متعدد جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں لال سوہانرہ، چِنجی اور کالا چٹا نیشنل پارک موجود ہیں جہاں جنگلی حیات کے شوقین حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لیے جاتے ہیں۔

پنجاب کی تاریخی عمارتوں (محلات و قلعے) اور درگاہوں کو اگر یہاں کی سیاحت کی بنیاد قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بڑے بڑے اور عظیم صوفیاء و شعرا جیسے حضرت علی ہجویریؒ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت مادھو لعل حسینؒ، حضرت خواجہ غلام فرید کوریجہؒ، حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت سلطان باہوِؒ، حضرت سخی سرورؒ، حضرت بابا بلھے شاہؒ اور ان جیسی کئی اور بزرگ ہستیاں پنجاب کی دھرتی میں آرام فرما رہی ہیں جن کے خوب صورت اور منفرد مقبروں کی نقاشی اور لکڑی کا کام لاکھوں لوگوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ عرس کے دنوں کے علاوہ بھی یہاں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔ بہت سے سیاح خصوصاً انہیں دیکھنے دور دور سے آتے ہیں۔ اور اب تو بین الاقوامی سیاح بھی یہاں پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا کلچر دیکھنے اور روحانیت کا تجربہ کرنے آتے ہیں۔

راولپنڈی سے 22 میل دور، شمال مغرب میں ٹیکسلا کا قدیم شہر واقع ہے جو بدھ مت کی ثقافت کا امین ہے۔ کہتے ہیں کہ باختر کے یونانی حکم راں دیمریس نے گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چین سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔

اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے (جن میں بعض یونانی دور کے ہیں)، فن تعمیر کے نایاب نمونے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے گئے ہیں۔ ٹیکسلا کے آس پاس کئی اسٹوپے، بُدھ مندر اور خانقاہوں کے کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں۔ اس شہر کے کئی مقامات کو 1980ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

پنجاب میں کئی معروف اور غیرمعروف قلعے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ قلعے سیکڑوں سالوں کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں کچھ قلعے صحرا کی وسعتوں میں گْم ہیں وہیں کچھ چٹانوں پہ دریا کنارے براجمان ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں میوزیم یا جیل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر قلعے عوام الناس کے لیے کھلے ہیں جبکہ کچھ نجی تحویل میں بھی ہیں۔ لاہور کا شاہی قلعہ، چولستان کا دیراوڑ فورٹ، اٹک کا قلعہ اٹک، جہلم میں روہتاس فورٹ، قلعہ مؤ مبارک رحیم یارخان، قلعہ روات راولپنڈی، چوآسیدن شاہ میں واقع نندنہ کا قلعہ، ملتان کا قلعہ کہنہ قاسم ار سیالکوٹ فورٹ وہ مشہور و معروف قلعے ہیں جہاں ایک دنیا سیروسیاحت اور تحقیقی مقاصد کے لیے جاتی ہے۔ ان سب کے علاوہ چولستان کی وسعتوں میں تقریباً 19 سے 21 چھوٹے بڑے قلعے گم ہیں جو مٹی اور پتھر کے مختلف ڈیزائنوں سے مزین تھے۔ اِن میں سے کچھ تو زمین کے اندر دفن ہو چکے ہیں جب کہ باقی بھی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ ان میں باڑہ، بجنوٹ، بھاگلہ، اسلام گڑھ، جام گڑھ، خیرگڑھ، خان گڑھ، لیارہ، مروٹ، میر گڑھ، موج گڑھ، ماچھکی، مریدکوٹ، نواں کوٹ اور پھولرہ کے قلعے شامل ہیں جو صحرائے چولستان کے اندر تقریباً ایک جتنے فاصلے پر واقع ہیں۔

محلات کا ذکر کیا جائے تو جنوبی پنجاب کا شہر بہاولپور اس میدان میں سب سے آگے ہے۔ اپنے آٹھ خوب صورت محلات کی وجہ سے یہ شہر ”نوابوں کا شہر” بھی کہلاتا ہے۔ یہاں واقع نورمحل، دربار محل، نشاط محل، فرُخ محل، گلزار محل اور صادق گڑھ پیلس فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اسی طرح شاہی قلعے کا شیش محل بھی اپنی مثال آپ ہے۔

پنجاب کی سیاحت میں پانچ دریاؤں کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو کسی جسم میں موجود شریانوں کی طرح بہتے ہیں۔ ان دریاؤں پر موجود بند، بیراج، ہیڈورکس، انکے قریب واقع مچھلی فارم اور تحفظِ آبی حیات کے منصوبے خاصی کشش رکھتے ہیں۔ مرالہ، چشمہ، پنجند، تریموں، سدھنائی، سلیمانکی، جناح، تونسہ کے مقامات پر بہت سے لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔

پنجاب کا دل کہلائے جانے والے لاہور شہر کی تو کیا ہی بات ہے۔ اس شہر کی ثقافت، تاریخ، خوب صورتی، پارک، چائے خانے، عجائب گھر، مساجد، کھیل کے میدان، باغ اور کھانے آپ کو اس کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ایک لاہور شہر میں دیکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ انسان یہاں آرام سے اپنا ہفتہ گزار سکتا ہے۔ بادشاہی مسجد سے لے کہ مسجد وزیر خان، شاہی حمام، قدیم لاہور کے دروازوں، سُنہری مسجد، پوسٹ آفس، مینار پاکستان، شالامار باغ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنٹن مارکیٹ، لاہورمیوزیم، ریلوے اسٹیشن، قائد اعظم لائبریری، انارکلی، قطب الدین ایبک، نورجہاں، جہانگیر، آصف و دائی انگہ کے مقبرے، تک ایک ایک عمارت سے تاریخ ٹپک رہی ہے، جب کہ اسی شہر میں دوسری طرف آرمی میوزیم، نیشنل ہسٹری میوزیم، ایفل ٹاور، قزافی اسٹیڈیم، لاہور فوڈ سٹریٹ اور عرفہ کریم ٹاور جیسی جدید تراش خراش کی حامل عمارتیں بھی موجود ہیں۔

لاہور کی فوڈ اسٹریٹ جو اپنی مثال آپ ہے آپ کو پنجاب کے تمام تر روایتی ذائقوں سے روشناس کرانے کے لیے کافی ہے۔ خالص دیسی پنجابی خوراک جس میں ساگ، مکھن، لسی، آلو کی سبزی، پالک پنیر، تندوری چکن، چرغہ، ہریسہ، بونگ پائے اور نہاری شامل ہے، آپ کو پنجاب میں ہر جگہ ملے گی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے شہروں کی خاص سوغاتیں ہیں جن میں گوجرانوالہ کے چِڑے، چنیوت کا کُنہ گوشت، ملتان کا سوہن حلوہ اور چانپیں، خوشاب کا ڈھوڈھا، قصوری فالودہ اور اندر سے، خانپور کے پیڑے، جنوبی پنجاب کے آم اور چِلڑے اور بھلوال و سرگودھا کے کِنو اپنی مثال آپ ہیں۔ پنجابی کھانے اپنی لذت کے باعث پاکستان سے باہر بھی مقبول ہیں۔خوب صورت پنکھے، کھیس، دریاں، لانچے، مٹی کے برتن، پراندے، چوڑیاں اور دیگر گھریلو دستکاریاں یہاں کی سوغاتیں ہیں۔

ذکر کریں گلگت بلتستان کا تو یہاں سیاحت پہاڑوں کی مرہونِ منت ہے۔ قراقرم اور ہمالیہ کے بلند پہاڑی سلسلے اس خطے کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر سال کئی کوہ پیما اور پہاڑوں کے جنون میں مْبتلا جوشیلے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

یہاں کی آبادی 11لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کُل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے۔ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت کئی بلند اور دشوار گزار پہاڑی درے بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ قطبین سے باہر دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئر بیافو، بالتورو اور باتورہ بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔

یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں قراقرم ہائی وے کی تعمیر سے سیاحت کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ”قراقرم ہائی وے” ، این-35 اور ”شاہراہِ ریشم” بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم کُندہ چٹانیں، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چوٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں یہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

خپلو، شِگر، التت اور بلتت کے قلعے بھی گلگت بلتستان کی سیاحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے ان کے اندر میوزیم اور ہوٹل بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھنے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور تاریخ کے ان شاہ کاروں سے اپنی تشنگی مٹاتے ہیں۔

یہاں پانچ چوٹیاں ایسی ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے بھی زیادہ بلند ہیں ان میں کے-ٹو، نانگا پربت، گیشربروم اول، براڈ پیک اور گیشر بروم دوم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ راکاپوشی، میشہ بروم اور سالتورو کانگڑی بھی مشہور چوٹیاں ہیں۔

گلگت بلتستان کو اگر جھیلوں کا گھر کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔ یہاں جگہ جگہ سبز و نیلے پانی کی خوب صورت جھیلیں واقع ہیں جو ہر سال پاکستان کے گرم علاقوں سے سیاحوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ کر لے آتی ہیں۔ مشہور جھیلوں میں عطا آباد، شیوسر، ست پارہ، شنگریلا، اپر کچورہ، بورِت، راما، رَش، کرومبر اور خالطی جھیل شامل ہیں۔

یہاں کے دسترخوان پر ممتو، دیرم فٹی، نمکین چائے، چیری، خوبانی، بادام، اخروٹ، یاک کا گوشت اور مولیدا اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس خطے میں بہت سے نایاب نسل کے جانور بھی پائے جاتے ہیں جن میں بھورا ریچھ، مارموٹ، مارکوپولو شیپ، مارخور اور آئیبیکس شامل ہیں۔ یہ علاقہ پورے ملک میں قیمتی پتھروں، رسیلے پھلوں اور لکڑی کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔

شاہ لطیف بھٹائی کا صوبہ سندھ، برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی سندھ دھرتی اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں (7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادی سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے، جنہوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادی سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔

سندھ میں سیاحت کے بہت سے مقامات موجود ہیں۔ خاص کر وادی سندھ کی تہذیب کا زیادہ تر حصہ موجودہ سندھ میں ہی واقع جن میں موہن جو دڑو قابل ذکر ہے۔ موہن جودڑو کے کھنڈرات آج بھی سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں سیاحوں اور تاریخ سے محبت کرنے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔

اسی طرح خیرپور کا خوب صورت ”فیض محل” اور ٹھٹھہ کہ ”شاہجہانی مسجد” بھی فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔

سندھ دھرتی کی سیاحت یہاں موجود آثارِقدیمہ کے کھنڈرات اور صوفی اِزم کی مرہونِ منت ہے۔ یہاں موجود حضرت لعل شہباز قلندر رح، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رح، حضرت عبداللہ شاہ غازی رح، حضرت سچل سرمستؒ، منگھو پیر اور بی بی جمال خاتون کے مزاروں پر ہر سال لاکھوں زائرین آتے ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والی قوالی اور دھمال تو اب پوری دنیا میں مشہور ہے۔

بہت سے لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ شدید ترین گرم صوبے سندھ میں ایک ہِل اسٹیشن بھی ہے جسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع دادو میں واقع ”گورکھ ہل اسٹیشن” ہے جو کوہِ کیرتھر میں 5700 فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔

سندھ میں واقع رانی کوٹ کے قلعے کو ”دیوار سندھ” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ اس کے علاوہ تالپور دور میں بنایا گیا کوٹ ڈیجی کا قلعہ بھی یہیں خیرپور کے قریب واقع ہے۔

سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر، سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔  یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن میں دریائے سندھ پر واقع مشہور سکھر بیراج، سادھو بیلو کا مندر، اروڑ، ایوب برج، لینس ڈاؤن برج، سکھر کا گھنٹہ گھر، سات سہیلیوں کے مزار اور معصوم شاہ کا مینار شامل ہیں۔

جنوبی سندھ میں جائیں تو ٹھٹھہ میں پاکستان کی دوسری بڑی تازہ پانی کی جھیل ”کینجھر” واقع ہے جس کے بیچوں بیچ سندھی لوک داستان کے کردار نوری جام تماچی دفن ہیں۔ ٹھٹھہ کی ہی ایک اور جھیل ”ہالیجی” ہے جو کراچی سے 82 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہاں پرندوں کی سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ہالیجی جھیل کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ منچھر، ہاڈیرو اور ہمل جھیل بھی سندھ کے مشہور سیاحتی مقامات میں گنی جا سکتی ہیں۔

مکلی اور چوکھنڈی کے قبرستان بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکلی قبرستان ٹھٹھہ کے قریب ہی واقع ہے جس میں لاکھوں قبور موجود ہیں اور تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علماء، فضلا، فقہا، محدِثین، شعرا، مغل نواب، فلسفی اور جرنیل سپرد خاک ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے۔

سندھ کے مشرقی کونے میں دنیا کا زرخیز صحرا، تھرپارکر واقع ہے۔ لق و دق صحرا پر مشتمل یہ علاقہ بارش کے موسم میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ یہاں واقع کرونجھر کا پہاڑ، نوکوٹ کا قلعہ، بھودیسر کی مسجد اور نگرپارکر کے مندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تھر جائیں تو بارش میں ناچتے ہوئے مور کو ضرور دیکھیں۔

مِنی پاکستان کراچی بھی لاہور ہی کی طرح جدید اور قدیم عمارتوں کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہاں کی بیشتر پرانی عمارتیں برطانوی دور کی ہیں جن میں فریئر ہال، کراچی پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، میری وید ٹاور، ایمپریس مارکیٹ، قائد اعظم ہاؤس، ڈی جے سائنس کالج اور سینٹ پیٹرک چرچ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حبیب بنک پلازہ، بن قاسم پارک، مہوٹہ پیلس، کراچی پورٹ، دو دریا، نیشنل میوزیم آف پاکستان، پورٹ گرینڈ، منوڑا ٹاور، بحریہ کو میری ٹائم میوزیم، پاکستان ایئرفورس میوزیم، ہاکس بے، کلگٹن اور یراڈائز پوائنٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

کراچی کے کھانوں میں کراچی بریانی، بن کباب، حلیم، کھیر اور مختلف اقسام کی مچھلی بہت مشہور ہیں۔ سندھ کے دیگر مشہور ذائقوں میں شکار پور کا اچار، حیدرآباد کی زعفرانی بریانی، لاڑکانہ کے امرود اور ڈہرکی و گھوٹکی کی ٹھڈائی شامل ہیں۔

سندھ کی سب سے مشہور سوغات سِندھی اجرک، کام والی قمیضیں، دری/کھیس، حیدر آباد کی چوڑیاں، شکارپوری اچار اور ہالہ کے برتن ہیں۔

بلوچستان، جو بلحاظ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہر قسم کی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم چوںکہ یہ خطہ زیادہ تر خشک اور ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے اور یہاں حکومتوں کی بھی کوئی خاص توجہ نہیں رہی ہے اس لیے اس خطے میں سیاحت کے نظام کو فروغ نہ مل سکا۔ بلوچستان کے متعلق آثارقدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی موجود تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو بلوچستان کے ضلع دھادر میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی۔ صرف مہر گڑھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے اور بھی کئی مقامات پر مختلف ادوار کے آثار قدیمہ ملے ہیں۔

بلوچستان کی سیاحت کی بات کریں تو یہاں دیکھنے سے تعلق رکھنے والی بیشتر جگہیں جنوب میں ساحل کے قریب واقع ہیں جہاں مکران کوسٹل ہائی وے سے بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ ان میں ہنگول نیشنل پارک، کُند ملیر، ہَنگلاج ماتا کا مندر، ابوالہلول کا مجسمہ، استولا کا جزیرہ، گوادر اور امید کی شہزادی شامل ہیں۔ یہاں کوئٹہ ، زیارت اور چمن کی وادیاں اپنی برفباری اور خوبصورت سیب اور انگور کے باغات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ زیارت میں واقع زیارت ریزیڈنسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بابائے قوم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہیں گزارے تھے۔ زیارت کے ہی قریب ایک جگہ کھوجک پاس ہے جہاں ریلوے کی مشہور سُرنگ ’’کھوجک ٹنل‘‘ واقع ہے۔

اب مشرقی بلوچستان میں بھی کئی خوب صورت جگہیں دریافت کر لی گئی ہیں جن میں مولا چھٹوک، پیر غائب، پیر چھتل نورانی گندھاوہ اور وادی بولان شامل ہیں۔ جہاں زیادہ تر قرب و جوار کے لوگ ہی آتے ہیں۔ دور دور سے بائیکر حضرات بھی اس جگہ کو دیکھنے آ رہے ہیں۔

بلوچی کھانوں کی بات کریں تو اس خطے کے لوگوں میں گوشت بہت مقبول ہے خصوصاً دُنبے اور بکرے کا گوشت یہ مزے سے کھاتے ہیں۔ بلوچی سجی، کاک، آب گوشت، کابُلی پلاؤ، چکن روسٹ، کھیر اور بلوچی کھڈا گوشت مشہور اور علاقائی کھانے ہیں۔ پھلوں میں سیب، انگور، آڑو اور ناشپاتی بکثرت دست یاب ہے۔

یہ تو تھے پاکستان کے مختلف علاقوں کے چیدہ چیدہ سیاحتی مقامات۔ اب ہم چلتے ہیں موجودہ دور میں سیاحت کی اہمیت اور اس کی ترقی کی طرف۔ گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے اور موجودہ حکومت کی خصوصی توجہ کی بدولت یہ اور آگے جا رہی ہے۔

سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی کی اقتصادی حالت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس سے مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سفر، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔

آج سے چند سال پہلے 2010 کی بات ہے جب مشہور زمانہ ٹریول گائیڈ بْک ’’لونلی پلینٹ‘‘ نے پاکستان کو آنے والے سالوں میں سیاحوں کی جنت قرار دیا تھا۔ تب کوئی شخص یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا یہ بات سچ بھی ہو گی یا نہیں؟ کیوںکہ ان دنوں پاکستان بہت مشکل حالات سے جوجھ رہا تھا۔

اسی طرح برطانیہ کی مشہور ’’برٹش بیک پیکر سوسائٹی‘‘ نے ’’زمین پر موجود تمام ممالک میں سے انتہائی دوستانہ ملک، جہاں پہاڑوں کے وہ حیرت ناک مناظر ہیں جو کسی کے بھی تصور سے ماورا ہیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ 2018 میں پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی سیاحتی منڈی قرار دیا تھا۔ اسی طرح امریکی جریدے ’’فوربس‘‘ نے بھی پاکستان کو2019 میں سیاحت کے لیے ایک بہترین ملک قرار دیا تھا۔

تو جناب یہ تو تھے وہ چند حوالے جو دنیا کی جانی مانی تنظیموں اور جریدوں نے دیے تھے۔ لیکن اس سے ہٹ کر پاکستان کے ہر علاقے میں سیاحت کا زبردست اسکوپ ہے اور گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے جس میں ہماری بائیکر کمیونٹی، میڈیا اور ٹریول ایجنسیوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاحوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

کینیڈا کی روزی گیبریل، پولینڈ کی ایوا زو بیک، امریکا سے ڈریو برنسکی اور پیرو سے والٹر مینریکے نے پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کہ بہت باریک بینی سے اس ملک کو دیکھا ہے۔ شاید اتنا باریک بینی سے ہم عام پاکستانیوں نے بھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان حضرات نے موٹرسائیکل اور لوکل ٹرانسپورٹ میں شمال سے لے کر جنوب تک پاکستان کا تاریخی و ثقافتی لحاظ سے ہر اہم مقام کھوج ڈالا ہے۔ ان کے وی لوگز اور ویڈیوز سے متاثر ہو کر بہت سے بین الاقوامی سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔

پاکستان کی سیاحت میں ایک اہم کردار بائیکر کمیونٹی کا بھی ہے جو اپنی موٹرسائیکلوں پر دور دراز کی سیاحت کرتے ہیں اور چھپے ہوئے مقامات کو منظرِ عام پر لے کر آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام ’’کراس روٹ کلب‘‘ ہے۔ کراس روٹ کلب کی بنیاد 2015 میں جناب مکرم ترین صاحب نے رکھی تھی جس کا واحد مقصد سیاحت کے ذریعے پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنا تھا۔ 11 لوگوں سے شروع ہونے والے اس کلب میں آج 700 ممبر شامل ہیں۔ اس کلب کے تحت بہت سے ایونٹس منعقد کیے جاتے ہیں اور ہر سال عالمی یومِ سیاحت مشہور مقامات پر منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں اُن کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔

اس کلب کے تحت سیاحت کا عالمی دن 2016 میں پشاور، 2017 میں خنجراب ٹاپ اور 2018 میں زیارت بلوچستان میں منایا گیا۔ رواں سال یہ دن مزار قائد کراچی میں منایا جائے گا۔ کراس روٹ کلب نے سیاحت میں ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی بائیکر حضرات پر بین الاقوامی سفر کے دروازے کھول دیے ہیں۔ رواں سال اگست میں یہ کلب 16 موٹر سائیکل سواروں کا قافلہ لے کر ’’یارِ من ایران‘‘ کے نام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے روڈ ٹرپ پر گیا اور یومِ آزادی پر تہران میں پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔

مکرم ترین کا کہنا ہے کہ آپ جس دھرتی پر رہتے ہیں اس کا کچھ قرض ہوتا ہے آپ پر۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق آپ کو وہ قرض اتارنا چاہیے۔ اس وقت میں یہی کر رہا ہوں۔ سیاحت کے میدان میں اپنی سرزمین کی خدمت میرا اولین شوق، کام اور جنون ہے اور میں یہ مرتے دم تک کرتا رہوں گا۔ان کے علاوہ روڈیز، مولویز ان بائیک اور ڈائیجیرینز جیسے بائیکر کلب بھی وطنِ عزیز کی سیاحت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

بات کی جائے جنوبی پنجاب کی تو 2016 سے ’’وسیب ایکسپلوررز‘‘ کے نام سے قائم سیاحوں کی تنظیم نے جنوبی پنجاب کے تاریخی مقامات خصوصاً کوہِ سلیمان اور ملتان و ڈیرہ غازی خان کی سیاحت پر بہت کام کیا ہے۔ فورٹ منرو کے علاوہ کوہِ سلیمان کے درجنوں سیاحتی مقامات دریافت کر کے وہاں چھوٹی بڑی سرگرمیاں منعقد کروانا بھی وسیب ایکسپلوررز کے کریڈٹ پر ہے۔ یہ چھوٹے بڑے مقبروں اور تاریخی جگہوں سے لے کر راڑھ شم، موسیٰ خیل کے چشموں اور کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک گئے اور انہیں منظرِ عام پر لے کر آئے۔

اسی طرح عبد الرحمن پالوہ، وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سیاحت کا ذریعہ سائیکل کو بناتے ہوئے ایک ہی راؤنڈ میں پورا پاکستان گھوم لیا۔ انہوں نے اکتوبر 2017 سے اپریل 2018 تک اس چھوٹی سی سواری پر پورے ملک کی سیر کی جہاں جگہ جگہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

پاکستانی میڈیا اور سینما بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ 2018 میں بننے والی فلم ”موٹر سائیکل گرل” اپنی طرز کی منفرد فلم تھی جس کی کہانی پاکستان کی پہلی خاتون موٹر سائیکلسٹ زینتھ عرفان کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے۔ اس فلم میں زینتھ کے شمالی علاقوں کے سفر اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کو بڑی خوب صورتی سے فلم بند کیا گیا ہے۔ پاکستانی نیوز چینلز نے بھی سیاحتی مقامات پر کئی پروگرامز کیے ہیں جن سے عوام کو آگاہی حاصل ہوئی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 328 ملین امریکی ڈالر تھا جو تقریباً 2۔8 فیصد بنتا ہے، جب کہ 2016 میں یہ 7۔6 بلین امریکی ڈالر تھا جو ٹوٹل جی ڈی پی کا 2۔7 فیصد بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں 1۔9 ملین غیرملکی سیاحوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک سیاحت پاکستانی جی ڈی پی میں اندازاً 1 ٹریلین ڈالر کی حصہ دار ہوگی۔

ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ملکی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں بڑھ چڑھ کر اپنا حِصہ ڈالیں گے۔ اس کے گلی گلی کونے کونے کو صاف ستھرا رکھیں گے۔ سیاحتی مقامات پر کوڑا کرکٹ نہیں پھینکیں گے۔ ملک کا مثبت چہرہ پوری دنیا کو دکھائیں گے۔ سیاحت کے حوالے سے ہر اچھی بات کو سراہیں گے اور غلط بات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ امید ہے کہ ان باتوں پر عمل پیرا ہوکر ہم ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینگے اور اسکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

The post  ہمارے ملک میں دیکھنے کو کیا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

 آؤ سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی

$
0
0

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’’ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن‘‘ کے تحت 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن منایا گیا، کیوں کہ ہم ہر عالمی دن مناتے ہیں اس لیے یہ دن بھی منایا، لیکن سیاحت کا دن منانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم دنیا بھر کے سیاحوں کو منا کر پاکستان لائیں۔

سیاحوں کو منانے، رجھانے اور لانے کے لیے ہمیں ان سے رابطہ کرکے انھیں پاکستان کے مختلف شہروں اور مقامات سے روشناس کرانا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ سیاحت کے شوقین افراد کے لیے پاکستان اور اس کے سیر کے قابل کچھ مقامات کا تعارف پیش کردیں۔  تو پہلے حاضر ہے خود پاکستان کا تعارف:

٭پاکستان

پیارے سیاحو! ہمارا ملک پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ہے۔ یہ لوکیشن اتنی اچھی ہے کہ ہم نے نیا پاکستان بھی یہیں بنایا ہے۔  پاکستان کے مشرق میں بھارت ہے، مغرب میں ایران اور افغانستان، شمال میں چین، جنوب میں سمندر ہے۔ چین اور سمندر سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان میں آپ ہوائی جہاز سے، سڑک سے اور افغانستان سے آسکتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو جیسے بعض ’’سیاح‘‘ ایران کے راستے بھی آجاتے ہیں۔

پاکستان میں سیاحوں کے لیے دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اسی لیے ہمارے قومی شاعر نے کہا ہے ۔۔۔’’کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ۔‘‘ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پیارے! یہ پاکستان ہے یہاں منہ اٹھا کر چلنا مت شروع کردے، آنکھیں کُھلی رکھ زمیں دیکھ۔۔۔ کہیں کوئی گٹر تو نہیں کُھلا، کوئی گڑھا تو نہیں، فلک دیکھ۔۔۔ کہ بجلی کا تار تو گرنے کو نہیں، فضا دیکھ ۔۔۔ مکھیاں تو نہیں بھنبھنا رہیں اور جراثیم لے کر تجھ پر حملہ کرنے تو نہیں آرہیں۔ بس اتنی سی احتیاط کے ساتھ پاکستان میں سیاحت کا بھرپور لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ تو سیاحو! ہم آپ کو پاکستان کے اہم سیاحتی مقامات سے روشناس کراتے ہیں۔

٭اسلام آباد

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہ راولپنڈی کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ ہی سے ساتھ ہے، مگر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ساتھ ہے۔ اسلام آباد کے لیے راولپنڈی کا ساتھ ضروری ہے، ورنہ دارالحکومت میں حکومت کو ’’ہارالحکومت‘‘ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہاں تاریخی عمارتیں تو نہیں مگر عمارتوں میں تاریخ ضرور بنتی ہے۔ چوں کہ سنہری حرفوں سے تاریخ لکھنے کے لیے سونے کا پانی چاہیے، جو بہت منہگا ہے، چناں چہ سیاہ تاریخ لکھ کر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ اس شہر میں اکثر لوگ حکومت کرنے، جیبیں بھرنے اور دھرنے کے لیے آتے ہیں۔  جو سیاح یہاں گھومنے پھرنے آنا چاہتے ہیں وہ انتظار فرمائیں،کیوں کہ مولانا فضل الرحمٰن آنے والے ہیں، اگر وہ راستے سے اُلٹے قدموں گھوم گئے تو سیاح آکر گھوم لیں۔

٭کراچی

کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی بڑائی میں لینڈمافیا اور بلڈرز کا سب سے بڑا کردار ہے، جن کی پستیوں اور مستیوں کے باعث شہر میں دور دور تک تازہ بستیوں کا جنم ہوا۔ لیکن سیاحوں کو ان بستیوں سے کیا لینا دینا، ہمیں تو بس انھیں کراچی کی وسعت کے بارے میں بتانا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ اتنا بڑا شہر ہے کہ خود کراچی کراچی میں کہیں کھوگیا ہے۔

کراچی میں سیاحوں کے دیکھنے کو سمندر ہے۔ خود کراچی والوں کو بھی ایک زمانے تک نہیں پتا تھا کہ یہاں سمندر ہے۔ پھر ہمارے ایک ادیب انتظارحُسین نے انھیں بتایا کہ ’’آگے سمندر ہے۔‘‘ کراچی والے تو اتنا جاننے ہی پر خوش ہوگئے کہ آگے سمندر ہے، لیکن ان کے راہ نماؤں نے کسی انتظارحُسین کا انتظار کیے بغیر سمندر سے آگے کی دنیا دریافت کرلی اور دبئی، امریکا اور برطانیہ جابسے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سیاح حضرات سمندر پر نہ جائیں، سمندر تو دنیا بھر میں ہے کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں، ہمارا کچرے سے اَٹا ساحل دیکھ کر ہمیں شرمندہ کرنا ضروری ہے۔

کراچی میں قائداعظم کا مزار بھی ہے۔ قائداعظم وہ ہیں جنھوں نے پاکستان بنایا تھا، اس احسان کے جواب میں قوم نے ان کا مزار بنادیا، ہم احسان کا بدلہ مزار سے دیا کرتے ہیں۔ اگر سیاح مزارقائد پر نہ جانا چاہیں تو کوئی بات نہیں، ہمارے وزیراعظم بھی نہیں جاتے۔

کراچی میں پانی کی قلت ہے، اتنی کہ عوام قطرے قطرے کو ترستے ہیں اور حکم رانوں کو چُلو بھر پانی بھی میسر نہیں۔ چناں چہ کراچی میں آکر سیاح منہہ دھوئے بغیر جس منہ سے آئے تھے وہی لے کر جائیں گے، اس لیے بہتر ہوگا کہ کراچی نہ آئیں۔

٭پشاور

پشاور خیبرپختون خوا کا دارالحکومت ہے، یہ وہی صوبہ ہے جس میں بسنے والوں کے بارے میں ہمارے ایک قومی نغمے میں بچوں کو پاکستان کی سیر کراتے ہوئے یہ کہہ کر ڈرایا گیا ہے کہ ’’ٹھوکر میں زلزلے یہاں ہیں، مُٹھی میں طوفان یہاں۔۔۔سر پہ کفن باندھے پھرتا ہے دیکھو ہر اک پٹھان یہاں‘‘ نغمے کے ان مصرعوں سے ڈر کر بچے اس صوبے کی سیر کرنے نہیں گئے تھے۔ تاہم سیاحوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اب یہاں لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مٹھی میں چار پیسے آجائیں، اس لیے مٹھی میں زلزلے اور طوفان رکھنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ رہی بات کفن کی تو جب سے سر پر منہگائی کا بوجھ پڑا ہے لوگوں نے کفن کھول کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے رومال بنالیے اور انھیں بیچ بیچ کر گھر چلارہے ہیں۔ پشاور میں ’’بی آر ٹی پروجیکٹ‘‘ سیاحوں کی دید کا منتظر ہے۔ دنیا گھومنے والوں کے بہت سے شاہ کار بنے  دیکھے ہوں گے، لیکن پشاور میں پہلی مرتبہ وہ کوئی زیرتکمیل اور بنتا بگڑتا شاہ کار دیکھ پائیں گے۔ اس طرح وہ منصوبے اور بے وقوف بنانے کا عمل بھی سیکھ سکتے ہیں۔

٭لاہور

لاہور ہمارا تاریخی شہر ہے۔ یہاں مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں، جن میں شاہی قلعہ خاصے کی چیز ہے۔ یہ عمارت اتنی تاریخی ہے کہ جو پاکستانی اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انھیں یہ قلعہ سرکاری طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا‘‘، یہی وجہ ہے کہ بعض حکم رانوں نے یہ سمجھ کر کہ لاہور کے باہر کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا، اپنی ساری توجہ لاہور پر مرکوز رکھی۔ لاہور میں مغلوں کے بعد سب سے زیادہ تعمیرات شریفوں کی ہیں۔ سیاح مغلوں کے بارے میں مورخوں کی پھیلائی ہوئی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مغل بہت شریف تھے، اور شریف تو پورے مغل تھے۔

ان عمارات کے علاوہ لاہور میں مینارپاکستان، عجائب گھر، چُڑیا گھر اور عثمان بزدار ہیں۔ اللہ شہر کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھے، مگر وقت کا کیا پتا، اس لیے سیاح ذکر کردہ عمارات پہلی فُرصت میں دیکھ لیں، عثمان بزدار کو اگلے تیس چالیس سال بعد بھی کسی دورے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

٭موہنجودڑو

حکومت سندھ نے سیاحوں کی سہولت کے لیے پورے سندھ کو موہنجو دڑو میں تبدیل کردیا ہے، تاکہ دوردراز کا سفر کرکے ان پانچ ہزار سال پُرانے آثار کو دیکھنے کے بہ جائے کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ جیسے شہروں ہی کو موہنجودڑو کے روپ میں دیکھیں اور دل شاد کریں۔ سیاح کچھ دن ٹھیر کر سندھ آئیں تو انھیں پتھر کا دور بھی یہیں دیکھنے کو مل جائے گا، اس کے لیے فلمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ہمیں یقین ہے کہ ہماری تحریر پڑھ کر دنیا بھر کے سیاح پاکستان کا رُخ کرلیں گے، اتنے سارے سیاحوں کے قیام کے لیے ہوٹل کم پڑجائیں تو انھیں حکومت کے تیار کردہ پچاس لاکھ گھروں میں ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس کے باوجود سیاحوں کی کھپت نہ ہوسکے تو سرکار کی جانب سے لگائے جانے والے لاکھوں درخت کس دن کام آئیں گے۔ ان درختوں پر مچان بنا کر سیاحوں کو فطری ماحول میں رہائش فراہم کی جاسکتی ہے، ورنہ وزیراعظم ہاؤس تو ہے ہی خالی، بس یہ ہوگا کہ ایوان وزیراعظم کی دیواروں پر سیاحوں کے دھوئے ہوئے کچھے سوکھ رہے ہوں گے، تو کیا ہوا، یہ مناظر ہمارے لیے کوئی نئے تو نہیں۔

The post  آؤ سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی appeared first on ایکسپریس اردو.

پہاڑ چاروں جانب یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہو

$
0
0

( قسط نمبر 2)

ائر پورٹ کی پرانی عمارت میں اب محکمہ موسمیات اور پاک فضائیہ کے دفاتر ہیں۔طیارہ گلگت ائرپورٹ پر اُترا۔رفتار کم ہوئی تو رن وے کے دوسرے سرے سے مڑ کر عمارت کی طرف لے جایا گیا۔ جہاز رُکا،اور مسافروں نے اُترنا شروع کیا۔ میں نے جب طیارے سے باہر سیڑھی پہ قدم رکھا تو سرد ہوا کا ایک تھپیڑے نے استقبال کیا۔

میں نے گرم کپڑے اور اوپر چترالی چغہ پہن رکھا تھا، اس لئے زیادہ ناگوار محسوس نہ ہوا۔ ائرپورٹ کے گرد  ایک دائرے کی صورت پہاڑ کچھ یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے انہوں نے گلگت کا محاصرہ کر رکھا ہو۔ فروری کے ابتدائی دن ہونے کے باعث زیادہ تر درختوں کے پتے گر چکے تھے۔خزاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ چھائی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں بہتا نیلگوں دریائے گلگت، جس کی ایک جھلک طیارے کے اُترتے وقت نظر آئی تھی اب آنکھوں سے اوجھل کہیں گہرائی میں بہہ رہا تھا۔

مجھے لینے کے لئے دفتر کی گاڑی کے علاوہ رحمت علی انجنیئر نگ منیجر، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور شاہ زمان اکاؤنٹنٹ اپنی گاڑیوں پر موجود تھے۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرنے والے اپنی گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔کیونکہ اس ’اشکِ بلبل‘ جتنی تنخواہ میں تو مہینہ گذارنا دوبھر ہوتا ہے،کجا یہ کہ نئے ماڈل کی جاپانی گاڑیاں زیر استعمال ہوں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسٹم ڈیوٹی ادا کئے بغیر بہترین جاپانی گاڑیاں سستے داموں    بٹ خیلہ، سوات، بشام اور دیر سے خرید سکتے ہیں۔چترال ، گلگت،غذر، چلاس،ہنزہ، نگر،استور ، سکردو ،گھانچے اور شگر میںچلنے والی اسی فیصد سے زیادہ کاریں، جیپیںاور دیگر گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔عام متوسط طبقے کے لوگ دو اڑھائی لاکھ روپے میں جبکہ زیادہ خوشحال لوگ مہنگی لینڈ کروزرگاڑیاں خرید لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے نکل کر ہم لوگ ریڈیو اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے جو گلگت چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں واقع ہے۔ریڈیو اسٹیشن  پہنچ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

عمارت نہایت مناسب محل و وقوع پر ایستادہ ہے اور اس کی تعمیر بھی اچھے انداز میں کی گئی ہے۔اس سے پہلے میں جن اسٹیشنوں پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے چکا تھا۔اُن میں سکردو، پشاور،راولپنڈی، تراڑکھل، ژوب، چترال، بنوں اور کوہاٹ شامل ہیں۔ ان میں سے کوہاٹ اور بنوں کے اسٹیشنوں کی عمارتوں کا ذکر کرنا تو لایعنی ہے کیونکہ ان دونوں اسٹیشنوں کا عملہ گذشتہ گیارہ برس سے اپنی عمارتوں سے محروم کرایے کے مکانوں میں دھکے کھا رہا ہے۔اس عرصہ میں دودو بار عمارتیں تبدیل کی جا چکی ہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ انجینئرنگ سیکشن والے کرائے کے ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہونے پر کم از کم دس لاکھ روپے خرچ کرواتے ہیں۔

یہ ضائع ہوجانے والی رقم ہر پانچ سات برس بعد ریڈیو انتظامیہ بخوشی مہیا کر دیتی ہے لیکن اپنی زمین خریدنے اور اُس پر عمارت تعمیر کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔کرائے کی عمارتوں میں چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کوہاٹ اور بنوں کے علاوہ سرگودھا، سیالکوٹ، مٹھی، بھٹ شاہ اور میانوالی میں بھی ہیں۔جن کے کرایے کی ادائیگی پر ہر سال لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

جن مقامات پر ریڈیو پاکستان نے اپنی زمین خرید کر سٹیشن تعمیر کئے ان میں سے چترال سٹیشن شہر کے سب سے نچلے مقام پر واقع ہے جہاں نصب ٹرانسمیٹر کی آواز دو تین کلو میٹر کے دائرے سے آگے نہیں جاتی تھی۔ ژوب اسٹیشن کی عمارت بہت اچھی بنی تھی تو دیکھ بھال کے لئے فنڈز مہیا نہ کئے جانے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہی صورت حال دیگر سٹیشنوں کی بھی ہے۔خیر اس جملہ معترضہ کی معذرت کئے بغیر میں دوبارہ گلگت کی طرف آتا ہوں جہاں سٹیشن تعمیر کرنے کی غرض سے 1980 ء کے عشرے میں بارہ کنال رقبہ خریدا گیا تھا۔ جوٹیال کے علاقے میں یہ سٹیشن گلگت شہر کے بلند ترین مقام پر بنایا گیا ہے۔

اس میں تین اسٹوڈیوز، لائبریری، عملے کے دفاتر، کنٹرول روم، جنریٹر روم ،سٹور، پولیس بارک اور دو وسیع چمن ہیں۔ ریڈیوپاکستان گلگت کا آغاز دنیور کے علاقے میں چونتیس کنال رقبہ خرید کر کیا گیا تھا۔اُس وقت250 واٹ طاقت کا ایک چھوٹا سا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا جس کی نشریات صرف پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع گلگت وادی میں سنی جا سکتی تھیں۔ 1950 ء کے عشرے میں یہ ٹرانسمیٹر آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ میں ویلج براڈکاسٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نصب کئے گئے تھے۔

اُن ممالک کی یہ ضرورت پوری ہوئی تو یہ ٹرانسمیٹر تھوک کے حساب سے ریڈیو پاکستان کے سر تھوپ دیئے گئے۔  ملتان،ایبٹ آباد، سکردو، گلگت، فیصل آباد اور کئی دیگرسٹیشنوں کے ابتدائی دنوں میں لگائے گئے یہ ننھے منے ٹرانسمیٹر اب تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ لیکن چترال کے لوگوںکی قسمت میں اب تک یہی ٹرانسمیٹر لکھا ہوا ہے۔

جس کے نہ تو پرزے ملتے اور بنتے ہیں اور نہ ہی اس وقت ریڈیوپاکستان میں اسے ٹھیک کرنے والا کوئی پیشہ ور انجینئر باقی رہا  ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی آواز براڈکاسٹنگ ہاؤس سے باہر نہیں جاتی۔ 2006 ء میں چترال میں نصب ہونے والا ایف ایم ٹرانسمیٹر اپنی زندگی کی آخری سانس لے چکا ہے اور بکر آباد چترال میں اس کی تنصیب کے لئے لی گئی کرائے کی عمارت  خالی کی جا چکی ہے۔

( 2015 ء میں طوفانی بارشوں اورسیلاب کے بعد ریڈیوپاکستان صدردفتر نے چترال شہر میں ایک عمارت کرایہ پر لے کر اُس میں ایف ایم کا ٹرانسمیٹر نصب کرکے ریڈیوپاکستان چترال کی نشریات بحال کر دی ہیں)گلگت دنیور کا یہ پرانا اسٹیشن،  جسے  Low Power Transmitter کہتے ہیں اورجہاں اب دس کلو واٹ طاقت کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب ہے، شاہراہ قراقرم کے کنارے واقع ہے۔یہاں 1979 ء میں خاردار تار کے ذریعے اس احاطے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

سنتیس برس گذرنے پر اب یہ خار دار تار جگہ جگہ سے منہدم ہوچکی ہے ۔ گلگت شہر اور دینور کے سینکڑوں کتے ایل پی ٹی کے احاطے میں براجمان ہیں۔ اکثر و بیشتر عملہ کے لوگ بھی ان کے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔شاہراہ قراقرم پر واقع ہونے کی وجہ سے دینور میں ہمارے اس اسٹیشن کے دائیں بائیں ہر طرف بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بن چکے ہیں۔

سی پیک کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ چین کی مختلف کمپنیاں اور اُن کا عملہ گلگت پہنچ چکا ہے اور دینور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ پاکستان بھر کی طرح گلگت میں بھی قبضہ مافیا موجود ہے اور اپنے وجودکا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ہمارے ایل پی ٹی کا محل و وقوع بہت اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبضہ مافیا اس قیمتی رقبے پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے میں نے صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد طریقہ کار کے مطابق محکمہ تعمیرات گلگت  بلتستان سے ایل پی ٹی کے اردگرد چہار دیواری کی تعمیر کا تخمینہ حاصل کیا۔ چاردیواری کی تعمیر پر محکمہ پی ڈبلیو ڈی گلگت بلتستان نے اُنچاس لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔

میں نے ایل پی ٹی میں شاہراہ قراقرم کے کنارے چوالیس دکانوں پر مشتمل سی پیک شاپنگ سنٹر کے نام سے ایک تعمیراتی منصوبہ تیار کرکے ارباب اختیار کو ارسال کر رکھا ہے جس کی تعمیر کے لئے ریڈیوپاکستان کو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہر دکان کے دو برس کے کرایے کی رقم بطور ایڈوانس کرایہ داروں سے وصول کرکے نہ صرف یہ شاپنگ پلازہ تعمیر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس رقم سے چار دیواری بھی تعمیر ہو جائے گی اور ریڈیو پاکستان کوکم از کم پانچ لاکھ روپے ماہانہ کرایہ کی مد میں وصول ہوں گے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا ہے کہ یہ منصوبہ ارباب اختیار کو پسند تو آیا ہے لیکن اسے سرد خانے میں ڈال دیا  گیا ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟۔

دینور میں چونکہ عید گاہ کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں اس لئے ضلعی انتظامیہ مقامی آبادی کے مطالبے پر پچھلے چند برس سے یہ وطیرہ اپنائے ہوئے ہے کہ عیدین کے مواقع پر ریڈیوپاکستان گلگت کے اس دفتر کی خاردار تار کو بلڈوز کرکے ٹرانسمیٹر کے انٹینا کے عین نیچے شامیانہ لگا کر نماز عید کے لئے جگہ بنا دیتی ہے اور اپنے اس اقدام کے بارے میں سٹیشن ڈائریکٹر کو محض ایک خط اطلاع دینے کے لئے لکھ دیتی ہے۔

دینور کی عید گاہ کے لئے مجوزہ جگہ علاقے کے عوام کے لئے بقول شخصے دور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ۔سوچنے کی با ت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی ،ایک اہم قومی ادارے کی حساس تنصیبات کو یوں داؤ پر لگانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

دینور میں بنا پہلا اسٹیشن گلگت شہر سے تیرہ کلو میٹر دور دریا پارواقع ہے۔ پروگراموں میں حصہ لینے والے فنکاروں اور دیگر افراد کو آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا اس لئے جب نیا براڈکاسٹنگ  ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیاگیا تو اس مقصد کے لئے گلگت  چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں زمین خریدی گئی۔ گلگت لاری اڈا جوٹیال میں منتقل ہونے کے بعد اس علاقے میں تعمیرات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان کا سٹیشن بننے کے بعد رفتہ رفتہ یہاں عدالت عالیہ،سکریٹریٹ، سرینا ہوٹل تعمیر ہوا اور کئی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے اپنے دفاتر تعمیر کئے۔اب یہ علاقہ گلگت کا سب سے مہنگا اورآباد علاقہ بن چکا ہے۔

جہاں زمین کی عمومی قیمت کم و بیش ایک سے دوکروڑ روپے فی کنال ہے۔ گلگت شہر سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود اسٹیشن کے اردگرد کا ماحول شہر جیسا ہے۔جدید شاپنگ سنٹر، کھانے پینے کی دکانیں گلگت لاری اڈے تک پھیل چکی ہیں جو ریڈیو پاکستان گلگت سے مزید ڈیڑھ دو کلو میٹر آگے شاہراہ قراقرم پر واقع ہے۔گلگت شہر کا ایک حصہ دریائے گلگت سے اُس پار واقع ہے۔ دینور کی یہ آبادی شہر سے دریا پر بنے ہوئے دو پلوں کے ذریعے منسلک ہے۔جبکہ ایک پل زیر تعمیر تھا ( یہ پُل 2016 ء کے اواخر میں مکمل ہو گیا تھا) جس کی اونچائی کچھ زیادہ نہیں اور گرمیوں میں دریا کی سطح عمومی طور پر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ پل مکمل ہونے  کے بعد زیادہ عرصہ چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بہرحال اگر اس زیر تعمیر پل کی بدولت کچھ لوگوں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہو چکا ہے تو یہ الگ بات ہے؟۔

ریڈیو اسٹیشن کے پیچھے بیچلر ہاسٹل تعمیر کیا گیا ہے جس میں چوبیس کمرے ہیں۔ اس ہاسٹل کا ر استہ براڈکاسٹنگ  ہاؤس کے ساتھ اوپر جوٹیال کی آبادی کی طرف جانے والی گلی میں ہے۔

چونکہ پی آئی اے کی پرواز پر بیس کلو گرام کے ایک اٹیچی کیس کے علاوہ ایک ہینڈ بیگ کی اجازت ہے۔ اس سے زائد سامان کے ہر  نگ پر تین ہزار روپے بطور کرایہ دینا پڑتا ہے اس لئے میں نے اپنا زیادہ تر سامان نیٹکو کی بس سروس کے ذریعے گلگت بھجوا دیا تھا ۔میرا سامان پہنچ چکا تھا اور میرے کمرے میں لگا دیا گیا تھا۔ گذشتہ تیس برس کے دوران یعنی 1985 ء سے دسمبر2014 ء تک یہاں تعینات ہونے والے تمام اسٹیشن ڈائریکٹر مقامی تھے اور اس بیچلر ہاسٹل میں ٹھہرنے پر مجبور نہ تھے۔ اس لئے مجھے صرف بھائیں بھائیں کرتاخالی کمرہ اور صرف ایک پلنگ ملا۔ وہ بھی سکردو سے تعلق رکھنے والے اسٹیشن ڈائریکٹر غلام حسین کی دُوراندیشی کا نتیجہ تھا کہ ایک کمرے کو مہمانوں کے لئے تیار کیا گیا تھا اور یہ پلنگ اس میں موجود تھا۔ سامان دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دفتر کا رخ کیا جہاں اسٹیشن کے تمام شعبوں کے سربراہ اور یونین کے عہدیدار میرے منتظر تھے۔

ان میں سے صرف شاہ زمان سے میری آشنائی تھی۔ وہ کچھ عرصہ صدر دفتر اسلام آباد میں تعینات رہا تھا۔ اور اب میرے پرسنل اسسٹنٹ اور اکاؤنٹس آفیسر کی دُہری ذمہ داریاں نبھا رہا  ہے۔ (ریڈیو پاکستان گلگت میں اکاؤنٹس کے شعبے میں تعینات جعفر علی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوچکے ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں سے اکاؤنٹس کا کوئی افسر یہاں آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے شعبہ اکاؤنٹس میں ایک عرصہ سے آسامیاں پُر نہیں کی گئیں اور پورے ملک میں اکاؤنٹس کے عملے کی شدید قلت ہے۔ ) باقی سب لوگوں سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے تعارف کے بعد مختصر سی گفتگو کی اور اُن سے کہاکہ مجھے کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں لانا صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور اس سلسلے میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے۔ تاکہ اس دور افتادہ سٹیشن کی کارکردگی کسی بھی بڑے اسٹیشن سے کم تر نہ ہو۔ چونکہ ریڈیو پاکستان گلگت کی سالگرہ دو اپریل کو منائی جاتی ہے اس لئے میں انہیں اس حوالے سے ایک شایان شان تقریب کا اہتمام کرنے کے لئے بھی کہا اور اس سلسلے میں سب کی ذمہ داریوں کا تعین کردیا۔

ریڈیو پاکستان گلگت پہنچنے کے بعد سب سے زیادہ تلخ تجربہ بجلی کی طویل بندش کی صورت میں جھیلنا پڑا۔ برف پوش پہاڑوں، گنگناتے ندی نالوں، رواں دواں چشموں، وسیع ترین گلیشیروں اوردرجنوں چھوٹے بڑے دریاؤں کی قدرتی دولت سے مالا مال گلگت سردیوں میں چوبیس گھنٹوں میں بیس سے بایئس گھنٹے بجلی سے محروم رہتا ہے۔معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ سردیوں میں ندی نالوں میں پانی کم ہو جانے کی وجہ سے بجلی کم بنتی ہے۔ آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے اور گذشتہ بیس برس سے کوئی نیا پن بجلی گھر نہیں لگایا گیا۔(2016-17 میں چین کی مدد سے نلتر کے علاقے میں سولہ اور اٹھارہ میگا واٹ کے دو بجلی گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔جن سے بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے اور گلگت میں صورت حال خاصی بدل چکی ہے لیکن سردیوں میں اور سیلاب کے دنوں میں مسئلہ بہرحال اپنی جگہ رہتا ہے)

دوسرا تلخ تجربہ یہ ہوا کہ گلگت میں درجن بھر مقامی روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ ان اخبارات نے کارٹل بنا کر پاکستان کے دیگر علاقوں میں چھپنے والے اخبارات کی گلگت آمد پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ اب کسی کو کوئی اخبار پڑھنا ہو یا میری طرح روزانہ چار پانچ اخبارات پڑھنے کی عادت ہو تو اُس کے لئے گلگت میں رہنا ایک بہت بڑی سزا سے کم نہیں کیو نکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انٹر نیٹ پر بھی مطلوبہ اخبار کھولنا اور پڑھنا ناممکن ہے، یہ اور بات ہے کہ بجلی آجانے پر آپ کے اعصاب کی ایک بہت بڑی آزمائش انٹر نیٹ کی سست رفتار کی صورت میں ہوتی ہے۔گلگت  بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولیات سپیشل کیمونیکیشن آرگنائزیشن مہیا کرتی ہے۔

اس کے لائن مین سول ملازمین ہوتے ہیں۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھرپی ٹی سی ایل کیا بری تھی؟ انٹرنیٹ کے ڈی ایس ایل کنکشن کے نرخ پاکستان کے دیگر علاقوں سے تین گنا زیادہ ہیں۔ چونکہ گلگت آنے والی فائبر آپٹک لائن مظفر آباد سے ہوکر آرہی ہے اس لئے اس میں روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے نقائص کا سدباب کرنا ایس سی او کے بس سے باہر ہے۔

ریڈیوپاکستان گلگت کی نشریات روزانہ دوپہر دو بجے سے شب دس بجے تک ہوتی ہیں۔ اردو کے علاوہ یہاں سے شینا، بروشسکی، کھوار اور واخی زبانوں میں پروگرام اور خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ مجھے خورشید احمد خان، ڈاکٹر شیر دل خان، محمد اسماعیل اور واجد علی، چار اسسٹنٹ پرڈیوسرز کی خدمات میسر تھیں۔    ( 2015 ء میں یہ چاروں پروگرام پروڈیوسر اور 2019 ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدوں پرترقی پا گئے)پروگراموں میں کوئی نیا پن نہیں تھا۔

گھسے پٹے موضوعات ، تھکی ہوئی آوازیں،مسودہ لکھنے اور نشر کرنے سے پہلے منظور کرانے کا سلسلہ متروک ہو چکا تھا۔ پروگراموں میں ڈرامہ، مشاعرہ، واکس پاپ،انٹرویوز شامل نہیں ہوتے تھے اس کے علاوہ بچوں اور طلبہ جیسے خصوصی سامعین کے لئے کوئی پروگرام نہ تھا۔حالاںکہ یہاں قراقرم یونیورسٹی گذشتہ چھ برس سے قائم تھی۔جس میں ہزاروں طلبہ وطالبات زیر تعلیم تھے۔ پروگرام چلتا پھرتا مائیکرو فون کے نام سے تو وہ واقف تھے لیکن کبھی کیا نہیں تھا ۔اسی طرح سے ’’ ریڈیومیلہ ‘‘کرنے کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔ مجھے یہ سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا۔

چونکہ گلگت میں بجلی کا بحران نہایت ہی شدید تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے گلگت کو بجلی سپلائی کرنے والے نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس کے بارے میں تحقیقاتی پروگرام تیار کیا جائے۔ گلگت شہر کو بجلی فراہم کرنے کا نظام کارگاہ نالہ پر بنے ہوئے سات پن بجلی گھروں سے منسلک ہے۔ کارگاہ نالہ اصل میں تین الگ الگ نالوں کی ایک ہی گذرگاہ کا نام ہے۔کارگہ نالہ گلگت شہرکے قریب ترین اور خوبصورت سیر گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کا یخ بستہ سفید جھاگ اُڑاتا پانی جس زور و شورسے بہتا ہے اُسے دیکھ کر کمزور دل والے ایک بار تو دہل جاتے ہیں۔ یہ نالہ دوپہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی درے میں بہتا ہے۔  ایک طرف ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈی نما سڑک ہے اور دوسری طرف پہاڑ،یہ اور بات ہے کہ سڑک بھی پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔اب چھدری ہوئی جھاڑیاںاور کہیں کہیں بلند و بالا درخت ہیں۔ایک وقت تھا کہ یہاں مارخور،آئی بیکس،اُڑیال اور مارکوپولوشیپ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ریوڑوں کی صورت گھومتے تھے۔اب یہاں ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔کارگاہ نالے کی روانی ایک خاصے کی چیز ہے۔کیونکہ چھ سات کلو میٹر اوپرسے دریائے گلگت میں شامل ہونے تک کا نالے کا راستہ بہت نشیبی ہے۔

اسی اترائی کے پیش نظر جہاں کہیں کھلی جگہ میسر ہے وہاں پن بجلی گھر بنائے گئے ہیں۔ یہ پن بجلی گھر کم و بیش تیس سے پینتیس برس پہلے تعمیر کئے گئے تھے۔نصف سے لے کر چار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ بجلی گھر صوبائی محکمہ پانی و بجلی کے زیر انتظام ہیں۔کارگہ کی طرف جاتے ہوئے گلگت شہر سے کچھ ہی فاصلے پر بسین گاؤں ہے جہاں پولیس کا ایک تھانہ موجود ہے اور رینجرز کی ایک چوکی بھی قائم ہے۔ میں نے رینجرز کے جوانوں سے بات کرنے کے لئے گاڑی رکوائی۔اُن کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر پر نظر رکھنے کے لئے گلگت شہر کے ہر قابل ذکر مقام کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رینجرز تعینات ہیں۔وہ باقاعدگی سے ریڈیوپاکستان گلگت کی میڈیم ویو نشریات اور ایک نجی ایف ایم چینل کی نشریات سنتے ہیں۔ کارگہ نالے کی طرف مڑنے والی ایک تنگ سی پگڈنڈی نما سڑک کے ساتھ ہی ایک چٹان پر گوتم بدھ کا ایک نقش کھدا ہوا ہے۔

شاہی قلعہ لاہور میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر محمد افضل خان کے مطابق پورے گلگت  بلتستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان میں بدھ مت دور کی اس طرح کی نشانیوں ، تصاویر، بتوں اور نقش و نگارکی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔بدھا کا یہ نقش تیس چالیس فٹ اونچی چٹان پر کس طرح سے کھودا گیا ہوگا۔یہ تو تاریخ دان ہی بتا سکیں گے بہرحال آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے اور انہیں سیاحتی دلچسپی کے لئے استعمال کرنے میں ہم پاکستانی دنیا بھر کے مقابلے میں پھسڈی ہیں۔

یہ سڑک کارگہ نالہ کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بڑھتی ہے۔اس نالے میں بلکہ پورے گلگت  بلتستان میں 2010 ء میں شدید سیلاب آیا تھا جس کے اثرات کا اندازہ پانچ برس گذر جانے کے باوجود سر بسجود بجلی کے کھمبوں اور سیلاب کی وجہ سے اُدھڑی ہوئی سڑک کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے نالے کی سیلابی کیفیت آشکار ہوتی گئی۔پختہ سڑک کئی مقامات سے گرمیوں کے موسم میں آنے والی طغیانی کی وجہ سے نالہ برد ہو چکی تھی۔

بجلی کے کھمبے سجدہ ریز تھے جبکہ گاڑی کو وہ جھٹکے لگ رہے تھے کہ اچھی بھلی پجیرو جیپ میں بیٹھے ہوئے بھی ہمارے انجر پنجر بُری طرح ہل رہے تھے۔ یاد رہے کہ حکومت نے اس طرح کی قدرتی آفات کے نقصانات کے ازالے کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کئے ہوتے ہیں۔ جانے وہ کہاں اور کن کن پیٹوں کی نذر ہوئے، بہر حال کچھ اوپر گئے تو کارگہ نالہ پر بنا ہوا پہلا پن بجلی گھر آگیا۔اس کے سامنے محکمہ ماہی پروری کا آزمائشی مچھلی فارم تھا۔ پہلے بجلی گھر  کے اندر گئے تو وہاں دو افراد توے جیسی آہنی چادر پر بجلی کے چھ راڈ جلائے خود کو گرم کر رہے تھے۔

ان میں سے ایک نے فوراً باہر نکل کر موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ وہ صاحب فورمین تھے۔چوکیدار کا کہنا تھا کہ بجلی گھر خراب ہے اس لئے بجلی بن ہی نہیں رہی۔ اندر جھانکا تو زنگ آلود مشینری اُدھڑی ہوئی حالت میں ہمارا منہ چڑا رہی تھی۔ 800کلو واٹ گنجائش رکھنے والا یہ بجلی گھر 1988 ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں آنے والے ضعف کا علاج نہ کیا گیا اور اب عملہ تنخواہ وصول کرنے اور رہی سہی بجلی پر خود کو گرم رکھنے کے لئے آتا ہے۔ اس میں نصب دو مشینوں میں سے ایک خراب تھی اور دوسری بھی اپنی آدھی طاقت سے کام کر رہی تھی کیونکہ اس میں پانی کے آنے اور بجلی بنانے کے بعد اس کی نکاسی کا سارا نظام بیٹھ چکا تھا۔ رستا ہوا پانی سارے فرش پر پھیلا تھا۔ اس میں کام پر متعین لائن مین یا الیکٹریشن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر یہ مشین چلا رہے ہیں۔ اور گیلے فرش کو دیکھتے ہوئے اُس کی یہ بات غلط بھی نہ تھی۔

یہ اور بات ہے کہ آٹھ سو کلو واٹ بجلی پیدا کرنے والے اس بجلی گھر میں ملازمین کے کمرے میں آہنی توے جیسا جو خودساختہ ہیٹر لگا ہوا تھا۔اُ س پر نصب راڈ ز کی تعداد دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہ تھا کہ یہاں پیدا ہونے والی بجلی کا چوتھائی حصہ تو  یہیں ان ملازمین کو گرم رکھنے اور ان کی چائے کھانا پکانے میں خرچ ہو رہا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشینیں عرصہ دراز سے اسی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔انہیں ٹھیک کرانے یا انہیں تبدیل کرنے کے لئے آنے والے فنڈز متعلقہ حکام کے اوپر کے اخراجات میں صرف ہو جاتے ہیں ۔ اس بجلی گھر کے سامنے ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کا ایک سرکاری فارم تھا۔ اس کے اندر گئے تو جلال خان نامی ایک بوڑھے چوکیدار سے ملاقات ہوئی۔ تالابوں میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف جسامت کی ٹراؤٹ مچھلیاں تیر رہی تھیں۔جلال خان نے بتایا کہ ٹراؤٹ مچھلیاں ناران سے یہاں لائی گئی ہیں جبکہ ایک اور تالاب میں کارگہ نالے سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کو افزائش کے لئے رکھا گیا تھا۔

مارچ میں یہ مچھلیاں فروخت کے لئے تیار ہوجا تی ہیں۔ اور ان کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو گرام ہے۔چونکہ میں ست پارہ جھیل سے خود ٹراؤٹ شکار کر کے لطف اندوز ہو چکا تھا اس لئے جلال بابا کو بتایا کہ مجھے ایک ہزار روپے کلو مچھلی کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس ٹراؤٹ فارم اور اس سے منسلک ہیچری کے بارے میں پروگرام ریکارڈ کرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل کر اگلے بجلی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جس کی پیداواری گنجائش 1250کلو واٹ یا سوا میگا واٹ تھی۔دو کلو میٹر کے فاصلے پر بنے ہوئے اس بجلی گھر کی حالت زار پہلے والے سے چنداں مختلف نہ تھی۔ ان پن بجلی گھروں کو مہیا کرنے کے لئے پانی کی جو گذرگاہیں تعمیر کی گئی تھیں۔

اُن میں سے جگہ جگہ پانی رس رہا تھا۔ اگر اس پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے تو بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سڑک کی حالت بہت ہی خراب تھی اس قدر خراب کہ مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ریڈیو پاکستان گلگت کی  فور وھیل جیپ بھی جواب نہ دے جائے کیونکہ وہ کافی معمر ہوچکی ہے۔1985 ء ماڈل کی پجارو گاڑی کا رواں دواں رہنا ہی بہت بڑی بات تھی۔ خیر کچھ آگے بڑھے تو کارگاہ نالہ کا سب سے بڑا پن بجلی گھر نمبر چھ آگیا۔ جس کی پیداواری صلاحیت چار میگا واٹ تھی۔ 2010 ء میں آنے والا سیلاب اس بجلی گھر کی دیواروں کو توڑ کر اندر آگیا تھا اور ایک ایک میگا واٹ کی جرمنی ساخت کی چار مشینوں میں سے تین سیلاب کے پانچ برس گذر جانے کے باوجود مرمت طلب حالت میں پڑی تھیں۔یہاں کام کرنے والے ملازمین چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کے بعد تین دن چھٹی پر رہتے ہیں، اور پھر رات دن ڈیوٹی کے لئے آجاتے ہیں۔ ہر شفٹ میں کام کرنے والوں کے برتن، بستر اور دیگر سامان دوسری شفٹ والوں سے الگ ہیں۔

پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والے ان ملازمین کی سخت کوشی کی داد دینا پڑتی ہے کہ شدید سرد موسم میں برف باری ہو یا تیز ہوا چل رہی ہو۔ یہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں۔یہاں ریکارڈنگ کرنے کے بعد میں نے سڑک بلکہ اس پگڈنڈی کی حالت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مزید آگے جا کر کارگہ نالہ کے دیگر پن بجلی گھروں کو دیکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ چار بجلی گھروں کی حالت یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ گلگت شہر ہر سال ستمبر سے اپریل تک روزانہ بائیس گھنٹے بجلی سے محروم کیوں رہتا ہے؟

(جاری ہے)

The post پہاڑ چاروں جانب یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہو appeared first on ایکسپریس اردو.

جیمزبانڈ پھر آرہا ہے

$
0
0

جیمز بانڈ کی فلموں کے شائقین کے لیے وہ منظر کسی بڑے شاک سے کم نہیں ہوتا اور کئی کے ہاتھوں سے پاپ کورن چھلک جاتے ہیں۔

اس منظر میں بانڈ کے باس بانڈ کو آنے کی اجازت دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’کم اِن بانڈ!‘‘ اس کے ساتھ ہی چلتے ہوئے بانڈ اندر داخل ہوتا ہے تو کچھ غیرمعمولی انداز دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک بانڈ 007 ایجنٹ ہی ہے جسے عمدگی سے ایک خوب صورت خاتون سے بنایا گیا اور یہ سیاہ فام بھی ہے تو پھر بانڈ کے فین کے لیے یہ بڑ ا جھٹکا ہی ہوا ناں!!! یہ ڈیلی میل اخبار کی ایک خبر یا اطلاع ہی تھی جو کہ آخرکار درست نہ ثابت ہوسکی فائنلی طور پر پروڈکشنز کی رکاوٹوں اور پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیمیل بانڈ کو متعارف کروانے کے اس رسک سے بھر پور پروجیکٹ کو ملتوی کرنا پڑا۔

سیاہ فام خاتون اداکارہ لاشانا لنچ (LashanaLynch ) اگرچہ پہلی فیمیل خاتون بانڈ تو نہ بن سکیں مگر وہ نئی بانڈ فلم کی کاسٹ میں ایک اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ دو سال پہلے تک ڈنیئل کریگ کے بانڈ کردار سے کنارہ کشی کی خبریں زوروں پر تھیں اور ان کے اس کردار کو چھوڑ نے کی صورت میں متعدد اداکارواداکارائیں بانڈ کے آئی کونک رول کی دوڑ میں شامل رہے اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

ان میں نمایاں طور پر آٹھ ہینڈسم اور حسین اداکار اور آٹھ اداکارائیں پیش پیش تھے جن میں ٹام ہڈلسِٹن، ہیرل کیول (سپرمین فین) اور معروف سیاہ فام اداکار ادریس ایلبا کو سب سے زیادہ بانڈ کے رول کے لیے فٹ سمجھا جارہا تھا، اسی طرح خواتین میں ایمیلی بلنٹ، گیلین اینڈرسین اور سیاہ فام اداکارہ34 سالہ خاتون گوگو ایم بارتھارا کا نام واضح طور پر سامنے آیاتھا۔ تاہم آخری لمحات اور فلم کی شروعات کے وقت ایک بالکل نئے نام کی بازگشت گاہ سنائی دے رہی تھی وہ سیاہ فام برطانوی خاتون کا ہے۔

جس نے سب پر سبقت حاصل کرلی تھی، جس کے متعلق بہت زیادہ پیش گوئیاں ہوتی رہی کہ وہ ہی بانڈ کا رول ادا کرنے والی ہیں۔ بانڈ 25 کے ڈائریکٹر ڈینی بوائل کو ابتدا میں فلمی کاسٹ سے علیحدہ کردیا گیا تھا کہا جارہا ہے کہ وہ جیمز بانڈ کی موت کو فلم میں دکھانا چاہتے تھے۔

اس طرح بانڈ کا کردار ختم ہوجاتا۔ اس موقع پر بانڈ کے پروڈیوسروں نے اسٹینڈ لیا بانڈ کو مرنے سے بچایا ہے کیوںکہ بانڈ کے کردار کو ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بانڈ کی موت کے بعد زیروزیرو سیون کے کردار کو فیمیل بانڈ سے کروایا جانا مقصود ہو جب کہ بانڈ کے فلم ساز اس طرح بانڈ کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آخری قرعہ پھر ڈنیئل کریگ کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اب بانڈ کے کردار کو پانچویں بار ادا کررہے ہیں اور قوی خیال ہے کہ یہ ان کی آخر ی بانڈ فلم ہو۔ ڈنیئل بانڈ فلموں میں تیسری بار مشترکہ پروڈیوسر بھی بنے ہیں۔

20 اگست کو بالآخر بانڈ سیریز کی 25 ویں فلم کے ٹائیٹل کا اعلان کردیا گیا ہے جس کا نام “No Time To Die” ہے جو کہ البرٹ بروکولی اِی۔ اَن پروڈکشنز، میٹروگولڈن میئر، کولمبیا اور یونیورسل پکچرز انٹرنیشنل کے بینر تلے ساری دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ 1962 ء میں بانڈ سیریز کی پہلی فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ کی دنیا بھر میں زبردست پذیرائی اور کام یابی نے بانڈ کے ادبی وافسانوی کردار کو فلمی دنیا کا ایک پسندیدہ اور لازمی جز بنادیا ہے جو اپنے مخصوص فیچروں سے پہنچانی جاتی ہیں۔

جن میں اجنبی اور غیرمعمولی مقامات، بین الاقوامی کاسٹ، بانڈ گرلز، بانڈ کے انوکھے ولینز اور بانڈ کی توجہ حاصل کرنے والی کاریں اور جاسوسی کے آلات (گیجسٹس) رکھنے کے سبب شائقین کے لیے دل چسپی اور توجہ کا باعث بنتی رہی ہیں جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اب تک54 سالوں میں 1962-2019)) سیریز کی 24 فلمیں پیش ہوچکی ہیں جب کہ اگلی فلم 2020 ء میں نمائش کے لیے پیش ہوگی۔ بانڈ سیریز فلموں نے دنیا بھر میں کام یابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں، پچاس سالوں کے اندر (1962-2011)  بانڈ کی فلموں کا مجموعی بجٹ 1,230 ملین ڈالر رہا تھا جب کہ آمدنی 4.739 ملین ڈالرز رہی ہے۔

جس سے اس فرنچائز سیریز کی کام یابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اب تک فلمی دنیا کی تاریخ کی سب سے کام یاب اور طویل ترین فرنچائز بنی ہوئی ہے۔ فلم ’’اسکائی فال‘‘جو کہ سیریز کی پچاسویں سال گرہ پر پیش ہوئی تھی۔ اس نے کام یابیوں کے سارے ریکارڈز برابر کردئیے ہیں اور ایک بلین ڈالرز سے زائد کمائے ہیں۔ اس کا بجٹ 20 کروڑ ڈالر رکھا گیا تھا۔ بانڈ سیریز کی اب تک آخری فلم ’’اسپیکٹر‘‘ (2015) نے 880 ملین ڈالروں سے زائد کا بزنس کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

بانڈ 25 کی شوٹنگ کا آغاز سال کے شروع میں ہوا تھا اس کی شوٹنگ بے نام ٹائٹل سے جاری رہی تھی۔ اس کے ممکنہ ٹائیٹلز “A Reason to Die” “A Day to Die” ، “A Time to Die” زیرغور رہے تھے جب کہ سب سے قریبی ممکنہ “A Day to Die” کے طور پر سمجھا جارہا تھا جب کہ آخری مرحلے میں اب اسے “No Time to Die” کردیا گیا ہے۔ نیا فلمی ٹائیٹل بانڈ کا کلاسک نام ہے جس پر بانڈ کے مداحوں نے اپنے بھر پور جوش و مسرت کا اظہار کیا ہے۔

سیریز کی یہ پہلی فلم ہے جو کہ “N” شروع ہورہی ہے، ماضی میں بانڈ کی کمپنی Warwick کی ایک فلم کو “No Time to Die” کے نام سے بنایا گیا تھا، جس کے مشترکہ پروڈیوسروں میں البرٹ بروکولی بھی تھے جب کہ ڈائریکٹر ٹیرنس ینگ تھے جوکہ آنے والے وقتوں میں بانڈ سیریز فلم کے بھی ڈائریکٹر بنے۔ 1958 ء کی اس فلم کو برطانیہ سے باہر دوسرے ٹائٹل “Tank Force” سے ریلیز کیا گیا تھا۔

ینگ کے علاوہ فلم میں کام کرنے والے متعدد فن کاروں اور تیکنیکی عملے کا تعلق مستقبل میں بانڈ سیریز فلموں سے جڑا رہا اور وہ اس سیریز کا حصہ بنے رہے۔ ان میں ’’تھنڈربال‘‘ کی Luciana Pulazzi ’’گولڈ فنگر‘‘ کے گیت لکھاری Anthony Newly ، رابرٹ ریئٹی(Robert Rietty ) جنہوں نے بانڈ سیریز فلموں میںسب سے زیادہ کردار ادا کرکے ریکارڈ بنایا ہے، اسٹنٹ مین اور سر سین کونری کے ڈبل کردار ادا کرنے والے بوب سائمنز(Bob Simmons) ، سنیما فوٹو گرافی اور آرٹ ڈائریکٹر Sydcain نمایاں طور پر بانڈ فلموں میں اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نام Ted Moore کا بھی ہے جوکہ ڈائریکٹر آف فوٹو گرافی تھے اور بانڈ سیریز کی سات فلموں (1962-1974) میں فوٹوگرافی چکے ہیں۔

نئی فلم کے ٹائٹل کو “Futura Black” فونٹ سے لکھا گیا ہے جسے 1929 ء میں تخلیق کیا گیا تھا اور اسے متعدد فلموں کے ٹائٹلز کے علاوہ ٹیلی ویژن و کتابوں کے سرورق کے لیے بھی آزمایا جاچکا ہے اور 70 کے عشرے میں بہت زیادہ مقبول رہا ہے جس میں جدید انداز جھلکتا ہے۔

بانڈگرل ہانر بلیک مین کی کتاب elf Deffence” ـ”Book of S میں بھی اسی فونٹ کو استعمال کیا گیا ہے۔ بانڈ کے اس ٹائٹل پوسٹر کے ڈیزائنر ’’ایمپائر ڈیزائن‘‘ کے آرٹسٹ میٹ واٹسن ہیں جو کہ فلم ’’کسینو رائل ‘ ‘ سے فلمی پوسٹرز تخلیق کررہے ہیں ۔ چوتھی بار بانڈ فلموں میں لفظ “Die” کا استعمال ہورہا ہے جو کہ فلم ـ”Live and Let Die” سے قریب تر ہے۔ اس میں بھی چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں جب کہ ٹائیٹل کا اصلی آئن فلمینگ کی کہانیوں سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ دوسرے ٹائیٹلز “Tomrrow Never Dies” اور ـ”Die Another Day” شامل ہیں جن میں ’’ڈائی‘‘ کا ذکر ہوچکا ہے۔ فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ 18 منٹ اور 20 سیکنڈ ہے۔

برطانیہ میں نئی فلم کی نمائش 2 اپریل کو یونیورسل پکچرز کی جانب سے جب کہ امریکا میں 8 اپریل کو یونائیٹڈآرٹسٹ(UA) اور ایم جی ایم کے بینر تلے ہوگی جو کہ بانڈ کے روایتی تقسیم کار فلمی ادارے رہے ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر کیری جوجی فکونیجا ہیں جن کے کریڈٹ پر ” Beasts of No Nation” اور “True Detective” جیسی فلمیں ہیں۔ فلم کے رائٹر Phoebe Waller Bridage ہیں۔ انہوں نے موسمِ بہار کی طرح اپنے اسکرپٹ کا جادو دکھایا ہے جب کہ فلم کے روایتی اسکرپٹ رائٹرز نیل پوروِس اور رابرٹ وِیڈ نے تحریر کیا ہے جو کہ سیریز فلمیں ’’اسکائی فال ‘‘ اور ’’اسپیکٹر‘‘ کے لیے کام کرچکے ہیں۔ سیریز کی نئی فلم پانچ سال کے وقفے کے بعد سنیما کے پردے کی زینت بنے گی۔

کہانی، کردار وپس منظر

بانڈ اپنی سروس چھوڑ چکا ہے اور جزیرہ جمیکا میں پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے آرام میں اس وقت خلل واقع ہوتا ہے۔ جب بانڈ کا دوست امریکی سی آئی اے ایجنٹ فیلکس لیٹر اس سے ملنے آتا ہے۔ اسے بانڈ کی مدد درکار ہوتی ہے۔ فیلکس بانڈ کو دوبارہ سروس میں واپسی کے لیے قائل کرلیتا ہے۔ تب ایک نیا ایڈونچر تخلیق پاتا ہے، جس میں ایک طاقت ور مجرم کے چنگل سے سائنس داں کو بازیاب کرنا ہوتا ہے، جس نے انہیں اغوا کرلیا ہے۔

وہ ایک مخفی ولین ہے جو کہ نئی اور مہلک ٹیکنالوجی سے مسّلح ہے۔ بانڈ فلموں میں ’’ابتدائی کریڈٹ سین‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو کہ فلم کی جان سمجھا جاتا ہے، جس میں بانڈ کو ئی پچھلا مشن پورا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے یا اس کا تعلق فلم کی موجودہ کہانی سے جُڑا ہوتا ہے۔

خیال ہے کہ نئی کریڈٹ سین کے لیے جنوبی اٹلی میں فلم بندی اکتوبر کے آخر میں کی جائے گی جو کہ پُراثر اسٹنٹ موومنٹ ہوگی۔ اسی طرح فلم میں روایتی ’’گن بیرل سیکوئنس‘‘ کی بھی بھرپور انٹری ہورہی ہے جس میں بانڈ دو حرکت کرتے دائروں میں فوکس ہوکر فائر کرتا ہے۔ اصل میں یہ دائرہ یا ہول گن کی نالی کا سوراخ ہے۔ اسے فلم کے عین آغاز پر دکھایا جاتا ہے۔

فلمی کاسٹ: بانڈ فلموں کے خاص کردار چیف آف اسٹاف بل ٹینر کی بھی واپسی ہورہی ہے اور اس روپ میں پھر سے Rory Kinnear پرفارم کرتے نظر آئیں گے۔ روایتی بانڈ کے بزرگ گیجٹس ماسڑQ کے کردار کو اب نئی جنریشن کے نوجوان بطور ’’کیو‘‘ ادا کررہے ہیں اور اس روپ میں Ben Whishaw پانچویں بار فلم کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ سی آئی اے ایجنٹ کے روپ میں امریکی سیاہ فام اداکار جیفری رائیٹ واپس آئے ہیں جنہیں کسینورائل میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اسی فلم سے روشنا س کرایا جانے والا کردار مسٹر وائٹ کا ہے جو کہ ’’کوانٹم آف سولس‘‘ میں بھی آیا تھا اسے اداکار جیسپر کرسٹیسن نے بخوبی نبھایا ہے۔

ان کی بھی نئی فلم میں آمد ہورہی ہے جب کہ بانڈ کے باس ’’ایم‘‘ کے روپ میں اداکار ریلف فیئننس ( Ralph Fiennesٌ) تیسری بار بانڈ فلم میں دیکھے جائیں گے۔ اداکار کرسٹوف والز کی دوسری بار واپسی ہورہی ہے۔ بطور بانڈ کے سب سے بڑے شیطانی صفت والے ابدی دشمن اِرنسٹ اِستاورو بلو فیلڈ جسے عرفیت میں ’’اسپیکٹر کا سرغنہ‘‘ کہا جاتا ہے کا کردار آسٹریا کے منجھے ہوئے اداکار کرسٹوف ادا کرتے نظر آئیں گے۔

جو دو آسکر ایوارڈ یافتہ ہیں۔ فلم میں مستقل کردار باس ایم کی سیکریٹری مس منی پینی کا بدستور شامل ہے۔ البتہ اب فلیمنگ کی کہانیوں سے یکسر مختلف ہے اور بدل چکا ہے۔ اسے پہلے ایک بڑی عمر کی خاتون ادا کرتی تھیں جن سے بانڈ فلرٹ کرتا رہتا تھا جو بانڈ کی رنگین مزاجی سے بخوبی واقف ہوتی ہیں۔ اب اسے نوجوان اداکارہ نیومی ہیرس ادا کررہی ہیں جو کہ آفس سیکریٹری سے زیادہ ایک سیکیوریٹی کی گارڈ دکھائی دیتی ہیں۔ پانچویں بار نیومی کی بھی واپسی ہوگی۔ اس کے علاوہ بانڈ کی دیگر کاسٹ میں Benssalah  Dali، David Dencik اور Billy Magnusen قابل ذکر ہیں۔

ولین: بانڈ فلم میں اس بار امریکی اداکار اور پروڈیوسر ریمی سیڈِ مالیک (Rami Said Malek) بنے ہیں۔ ان کا بریک تھرو رول “Elliot Aandeson” کا رہا ہے جو کہ ایک کمپیوٹر ہیکر تھا۔ یہ امریکی نیٹ ورک ٹیلی ویژن کی سیریز ہے جس کا نام ـ”Mr Robot” ہے۔38 سالہ ریمی کا تعلق لاس اینجلز سے جب کہ والدین مصر سے ہجرت کرکے امریکہ آئے تھے اور ان کے والد ایک سیّاحتی گائیڈ تھے۔ ان کی ماں ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔ ریمی کے کریڈٹ پر “Gilmore Girls” ،”The Pacific” ،”ـ”The War at Home اور” “24 ہیں جب کہ ان کی آنے والی فلم “The Voyage of Doctor Dolittle” ہے۔

بانڈ گرلز: فرانسیسی اداکارہ لیِاسیڈوکس کی دوسری بار بانڈ سیریز میں واپسی ہورہی ہے سوان(Swan) کے طور پر، جب کہ دوسری بانڈ گرل اینا ڈی آرمسِ(Ana De Armes) ہیں جن کا تعلق اسپین سے ہے۔ اینا کا فلم میں کردار ابھی مخفی ہے، جسے بتایا نہیں گیا ہے۔ 31 سالہ سنہرے بالوں او ر براؤں آنکھوں والی اسپینی اداکارہ ماضی کی حسین وجمیل مالن منرو سے قدرتی طور پر بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں، سوائے منرو کے بالوں کے۔ بہت زیادہ فین والی اینا اپنے بہترین رول “Joi” کے نام سے شناخت رکھتی ہیں، جوکہ ” Blade Runner 2049″ میں تھا یہ 2017 ء میں ریلیز ہوئی ہے۔ اینا کی اصل پہچان 2006 ء کی ہسپانوی فلم “Unarosa De Francia” ہے۔

اس کے علاوہ وہ اسپین ٹی وی شو کی اسٹار رہی ہیں جس کا نام “E l Internado” تھا۔ ان کی پہلی امریکی فلم “Knock Knock” تھی۔ اس کے بعد وہ “Hand of Stone” اور “War” میں سامنے آچکی ہیں۔ اداکارہ لاشانا لنچ مضبوط جسمانی ساخت کی حامل خاتون ہیں جو کہ سیریز کی نئی فلم میں بانڈ کے ہم پلہ کردار ادا کررہی ہیں۔ وہ اپنے بہترین رول Rosaline Capulet سے شہرت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا معروف کریکٹر مارول کامک کردار “Maria Rambeau” ہے جو کہ انہوں نے ’’کیپٹن مارول‘‘ میں پرفارم کیا ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر: 42 سالہ کیری جوجی فکوناجا (Cary Joji Fukunaga  ہیں جو کہ ایک امریکی فلم ساز اور ٹی وی ڈائریکٹر ہیں۔ سب سے پہلے کیری کو پذیرائی ان کی رائیٹنگ اور ڈائریکش فلم ”  “Sin Nombreپر ملی تھی۔ یہ 2009 ء کی فلم ہے۔ جوجی کا تعلق اوکالینڈ، کیلی فورینا سے ہے۔ ان کے ایوارڈ میں پرائم ٹائم ایمی ایوارڈ شامل ہے جو کہ ان کی ڈراما سیریز کی غیرمعمولی کارکردگی پر دیا گیا تھا۔

فلمبندی کے مقامات اور شوٹنگ: فلم کی عکس بندی کے مقامات میں انگلینڈ، ناروے، اٹلی اور جمیکا شامل ہیں۔ جمیکا بانڈ کے خالق آئن فلیمنگ کا پسندیدہ اور محبوب مقام رہا ہے جہاں انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بانڈ سیریز کے ناول لکھنے کا آغاز 1953 ء میں ’’کسینو رائل ‘‘ سے کیا تھا۔ جمیکا اسی لیے سیریز فلموں کے اہم مقامات کا جز رہا ہے۔ رواں سال مئی میں بانڈ 25 کی شوٹنگ کے آغاز پر ایک کنٹرول بم کا غلط استعمال ہوگیا تھا جس سے پائن وڈ اسٹوڈیو کے بانڈ کے بیرونی اسٹیج کو نقصان پہنچا تھا۔ 30 جون کو لندن کے وائٹ ہال کے اطراف منسٹری آف ڈیفنس کی سڑکوں پر بانڈ 25 کی شوٹنگ شروع ہوئی تھی۔

اس مقام پر ڈائریکٹر جوجی نے ڈرون کیمروں کی مدد سے بھی عکس بندی کی ہے۔ پائن وڈ اسٹوڈیو میں شوٹنگ کے وقت بانڈ نے اپنا مخصوص سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ شوٹنگ کی شروعات کے وقت ڈینئل کریگ کے گٹھنے میں چوٹ آئی تھی جس کے بعد ان کی معمولی سرجری کی گئی اور دو ہفتے شوٹنگ رکی رہی۔ کریگ نے ’’گراوِینا‘‘ اٹلی میں ایک پل سے چھلانگ لگائی تھی۔ ڈینئل اپنے ڈبلی کیٹ کے ساتھ میتیرا (Metera) اٹلی میں ایکشن میں دیکھے گئے، یہاں بانڈ پر 32 شارٹس فلمائے گئے یہاں مختلف اسٹنٹس موٹر سائیکل ڈرائیوروں نے پرفارم کیا ہے۔ پوجلیا (Puglia)اٹلی میں ایک شوٹنگ میں 150 فٹ کی لمبی جمپ کی فلم بندی کی گئی۔ اٹلی میں ہی بانڈ کی نو آسٹن مارٹن کاروں کو بھی دوڑتے ہوئے دکھایا جائے گا۔ ڈینئل کریگ اور ادکارہ لیا سینڈوس کو ایک رومانوی منظر میں فلمایا گیا ہے۔ یہاں ایک سالانہ فیسٹول “Festa Della Bruna” جوکہ جولائی میں ہوتا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں فلم بندی بھی کئی گئی ہے۔

نئی فلم کے اسکرپٹ میں کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے جس کا اندازہ فلمی ٹائٹل سے ہوتا ہے جو کہ پہلے ممکنہ طور پر ’’اے ڈے ٹو ڈائی‘‘ رکھا جانا تھا۔ جب فلم میکروں نے کسی مصلحت سے کام لیتے ہوئے طے کرلیا کہ ابھی بانڈ کو نہیں مرنا چاہیے ’’مرنے کا وقت نہیں ‘‘(NTTD) جو کہ ٹائٹل سے بھی آشکار ہوتا ہے اور نئی کاسٹ میں شامل خاتون ادکارہ لاشانا لنچِ کی موجودگی بھی اس کا پتا دے رہی ہے، جن کے بارے میں افواہیں گرم رہیں کہ وہ پہلی فیمیل بانڈ بنیں گیں۔

تو کچھ خاص ہونے کو جارہا تھا جسے فی الوقت روک دیا گیا ہے کہ بانڈ میکر بانڈ کو اس طرح الوداع نہیں چاہتے۔ زیادہ امکان ہے کہ ڈنیئل کریگ بانڈ کے کردار سے اب ریٹائرمنٹ لے لیں گے اور ایک بار پھر سے بانڈ کے کردار کو ادا کرنے والے مرد و خواتین اداکاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی، کیوںکہ یہ کردار ادا کرنا دولت و امارت کی علامت بن چکا ہے۔ پھر یہی سوال گردش کرنے لگے گا کہ اب بانڈ کی مارٹینی رائفل کس کے ہاتھ آئے گی؟ نئے مرد یا نئی فیمیل بانڈ؟ ہوسکتا ہے لاشانا لنچ بانڈ 26 میں بانڈ کے روپ میں اپنا تعارف کرواتی نظر آئیں۔ اپنے نام کی طرح سَدابہار سابق بانڈ گرل اِیوگرین نے حال ہی میں اپنی خواہش کا اظہار دوسری بار کیا ہے کہ ’’بانڈ کا کردار، مرد اداکار ہی کو کرنا چاہییے!‘‘

The post جیمزبانڈ پھر آرہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

صد لفظی کتھا
نانی
رضوان طاہر مبین

’’صبر سے کام لو۔۔۔!‘‘
نانی کے انتقال پر میں نے ثمر کو حوصلہ دیا۔
’’میرا ان اَشکوں پر اختیار نہیں۔۔۔
یہ تو نانی اور آنکھوں کا تعلق ہے۔۔۔!‘‘
ثمر کچھ دیر ٹھیرا، پھر بولا:
’’برسوں پہلے ایک عورت پائی، پائی جوڑتی ہے۔۔۔
مہینوں بعدگلّا بھرنے لگتا ہے۔۔۔
یعنی کوئی دیرینہ ضرورت پوری ہونے کو ہوتی ہے کہ
نواسا جنم لیتا ہے۔۔۔
لیکن وہ آنکھیں کھولتا ہے تو پیپ نکلتی ہے۔۔۔!
وہ سجدے میں گر جاتی ہے۔۔۔
مشقت سے جمع کی ہوئی سب پونجی وار دیتی ہے۔۔۔
یہ آنکھیں مانگ لیتی ہے۔۔۔!‘‘
یہ کہہ کر ثمر اپنے آنسو پونچھنے لگا۔۔۔۔

۔۔۔

تمہاری خوش بو میری آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
کُھلی ہوئی کھڑکیوں کی جالیوں سے اندر آنے والی بارش کی بوندیں، جو میرے چہرے کو بھگو رہی ہیں، ان میں بہت انوکھی خوش بوئیں ہیں۔
چیڑھ، پودینہ، سونف اور ٹماٹر کے پتوں کی مہک۔۔۔

بجلی کا کوندا لپکتا ہے تو ٹین کی چھت سے روپہلی بارش کی تاریں زمین سے بندھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ میں کمبل اوڑھ کر کُھلی کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوں۔ میرے ہاتھوں میں چائے کا بھاپ اور خوش بو اڑاتا ہوا پیالا ہے اور انگلیوں کی پوروں پر سفر کے نت نئے ذائقے ننھے شگوفوں کی مانند گول مول ہو کر سو رہے ہیں۔

میرے حافظے میں خوش بو کے الگ الگ دفتر محفوظ ہیں اور ہر خوش بو کی راحت یا اذیت کے سب لمحات تازہ اور زندہ ہیں بشمول اپنی چبھن یا عافیت کے۔

مارگلہ کے دامن میں پھیلی ہوئی ایک سرسبز اندھی گلی میں قدم قدم پر جکڑنے والی کچنار کی ادھ کھلی کلیوں کی خوش بو، جو کچھ دیر بعد تمہارے سانس، لب اور بالوں کی جڑوں سے پھوٹنے لگی تھی اور میں نے چاہا تھا اس سے اپنا عطر دان بھر لوں اور میں نے خالی بوتل کو تمہارے لبوں پر اوندھا بھی دیا، مگر بخور عنبریں محض خواب کی خوش بو تھے۔۔۔!
بوجھل روح میں کینر کی زہریلی تلخ خوش بو کچنار کا دم گھوٹتی رہتی ہے اور میں چپ چاپ خالی عطر دان میں سانس بھرتی رہتی ہوں۔ احساس کی دبیز پتیوں پر غم کا سلگتا انگارہ رکھا جاتا ہے، تو ایک بوند خوش بو کا جنم ہوتا ہے۔ میرا عطر دان کب بھرے گا؟
میرے قلب ناصبور پر مزید سیاہ داغ بنانے کو اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔
چائے ختم ہو رہی ہے اور کھڑکی کی نم جالی پر ایک جگنو ٹمٹما رہا ہے۔ تمہاری خوش بو میری آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔۔۔

۔۔۔

نہر میں بہتا ہوا ایک سیب۔۔۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے دوران سفر ایک نہر میں سیب بہتا ہوا دیکھا اور یہ سمجھ کر کہ اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے، سیب اٹھایا اور کھالیا، بعد میں خیال آیا کہ نہ جانے کس کا سیب تھا اور میرے لیے کھانا جائز بھی تھا یا نہیں۔ اگر روز قیامت باز پرس ہوئی یا سیب کے مالک نے دعویٰ کر دیا تو میں کیا جواب دوںگا۔

یہ نہر ایک باغ سے گزرتی تھی۔ چناں چہ آپؒ اس باغ کے مالک کے گھر پہنچے، دروازہ کھٹکھٹا تو ایک خادمہ نے بتایاکہ اس باغ کی مالکہ ایک خاتون ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے مالکہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ خادمہ واپس چلی گئی اور باغ کی مالکہ خاتون دروازے پر آئی۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے اسے سارا واقعہ بتایا اور اپنی تشویش سے آگاہ کیا تو باغ کی مالکہ نے کہا: ’’میں اس باغ کی واحد مالکہ نہیں ہوں۔

اس باغ کا نصف حصہ میرا ہے اور باقی حصہ والی بلخ کی ملکیت ہے، جو اس علاقے کا مالک اور بادشاہ ہے۔ آپ نے جو سیب کھایا ہے میں اس کے نصف حصہ کی مالک ہوں اور میں آپ کو اپنا حق معاف کر سکتی ہوں، لیکن میں بادشاہ کے حصے کی ذمے داری کیسے لے سکتی ہوں؟ چناں چہ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ وہاں سے روانہ ہوئے، بلخ پہنچے اور امیر بلخ سے سیب کا باقی انصاف حصہ بھی بخشواکر ہی دم لیا۔
(حکیم محمد سعید کے مضمون سے ایک سبق آموز واقعہ)

۔۔۔

مبارک باد دیے بغیر آگیا
ظہیر انجم تبسم، خوشاب
میں اپنے دوست کو نئی کوٹھی بنانے پر مبارک باد دینے گائوں گیا تو دیکھا۔ میرا دوست گلی میں کوٹھی کی پانی کا وال بند کر رہا ہے، جس سے گلی کے لوگ میٹھا پانی بھر لیتے تھے۔ کہنے لگا میں نے بڑی مشکل سے پانی کا یہ کنکشن لگوایا ہے۔ میں نے کہا پانی گناہوں کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ لوگوں کو پانی بھرنے دیا کرو، مگر اس نے برا منایا۔

میں نے پوچھا والدین خیریت سے تو ہیں، تو کہنے لگا والدین بیمار ہیں، ساتھ والے گائوں میں رہتے ہیں۔ میں ہر جمعے ان سے ملنے جاتا ہوں، رکشے میں 20 روپے جانے اور 20 روپے آنے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ اتنی منہگائی میں، میں روز روز تو پوچھنے سے رہا۔ پھر میں نے اس سے کہا یہ برابر والا کچا مکان ہے، یہاں ایک بیوہ چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے مکان کی چھت گرنے والی ہے اس کی چھت تعمیر کرادو، وہ کہنے لگا اگر ان بچوں کی موت چھت گرنے سے لکھی ہوئی ہے، تو کیا تم بچا لوگے؟

اب ایسے میں، میں اُسے مبارک باد کیا دیتا۔۔۔ یوں ہی لوٹ آیا۔

۔۔۔

’’پِکاسو کے کیا کہنے ہیں!‘‘
مرسلہ: سید اظہر علی، کراچی

اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کچھ کہیں گے، تو کسی کی زبان تھوڑا پکڑی جا سکتی ہے۔ لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مضامین میں ہم کورے ہیں۔ فنونِ لطیفہ سے ہمارے نابلد ہونے کی بات جو اتنی مشہور ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔ ڈراما ہو یا موسیقی یا مصوری، کسی میں ہم کسی اور سے ہیٹے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معیار بہت اونچے ہیں۔

لندن میں ہم نے سرلارنس الیور کا ایک کھیل دیکھا اور بہت خوش ہو کر اخباری نمائندوں سے ان کی ہونہاری کی تعریف اور ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی اور یہ واقعی سچ ہے کہ وہ برابر اسٹیج پر آتے رہے، تو ایک دن نام پیدا کریں گے۔ شیکسپیئر کو بھی ہم بہت پسند کرتے ہیں اور اردو کے نقادوں سے متفق ہیں کہ اپنے زمانے کا آغا حشر تھا۔ موسیقی میں لوگوں نے ہمیں اس روز روشن آرا کی گائیکی پر سرہلاتے پکڑا۔ ایک روشن آرا ہیں اور ایک اور ہیں جن کا بھلا سا نام ہے اور نورجہاں ہے۔

ان سب کے فن سے ہم محظوظ ہونے پر قادر ہیں بشرطے کہ ہمیں پہلے سے کوئی بتادے کہ یہ روشن آرا گارہی ہیں یا نور جہاں ہی ہیں۔ مصوری میں ہم اپنی ژرف نگاہی کے قائل ہیں اس روز کسی نے ہمیں اپنی تصویر دکھائی ہم نے پوچھا کس کی ہے۔ معلوم ہوا پکاسو کی ہے ہم نے کہا یہ بات ہے تو بہت اچھی ہے۔ پِکاسو کے کیا کہنے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ان کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ اور رنگ کتنے اعلیٰ کوالٹی کے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کئی مقامی مصوروں کی نمائشیں دیکھی ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ پکاسو کا کوئی جواب نہیں۔

(ابن انشاء کی کتاب ’’خمار گندم‘‘ سے انتخاب)

۔۔۔

شاعرہ بریانی کی دیگ سمیت فرار۔۔۔!
خالد معین
ایک ایسی گوشہ نشیں شاعرہ بھی ہیں، جو پہلے سال میں دو چار مرتبہ اور اب ایک دو مرتبہ اپنے لیے ’ڈونیشن مشاعرے‘ کراتی ہیں اور کُھل کر اس کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔ اس سچائی کے سبب کبھی کبھی اُن کے مشاعروں میں جانا کارِِ ثواب سا لگتا ہے۔ وہ بلاتی بھی بہت اصرار کے ساتھ ہیں اور ایسا ظاہر کرتی ہیں کہ جسے وہ فون کر رہی ہیں، اگر وہ اُن کے مشاعرے میں نہ پہنچا، تو گویا مشاعرہ ہی نہیں ہوگا۔ ایک ایک فرد کو کئی کئی بار فون کیا جاتا ہے۔

پرانے مراسم یاد دلائے جاتے ہیں اور پھر وہی جذباتی بلیک میلنگ کہ بس آنا ہی آنا ہے۔ ہم ایسے خوش گمان یہ محسوس کرتے ہوئے، اْن کے مشاعروں میں پہنچ جاتے ہیں کہ نہ گئے تو جانے کتنی شکایتیں کی جائیں گی۔ پھر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور آیندہ ایسے کسی مشاعرے میں نہ جانے کا عہد کرتے ہوئے گھر لوٹتے ہیں۔

مذکورہ مشاعرہ ’کشمیر روڈ‘ پر واقع سٹی کلب میں تھا، 60، 70 کے قریب لوگ جمع تھے، جن میں اکثریت شعرا اور شاعرات کی تھی۔ دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والا بے رنگ وبے رَس طویل مشاعرہ ایک آدھ جگہ اٹھنے کے بعد خدا خدا کر کے ختم ہوا۔ اب رات کے دس، ساڑھے دس بجے کا وقت تھا، یعنی اصل ذلت کا یہاں سے آغاز ہونا تھا۔ لوگوں کا بھوک سے برا حال تھا۔ ایسے میں دور سے دیکھا، تو ایک میز پر بریانی کی ’فراہمی‘ نظر آئی اور بھوکوں کا ہجوم بھی، سوچا بھیٹر کچھ چَھٹ جائے، تو مرغی کی ایک آدھ بوٹی ہم بھی کھا لیں، تاکہ کچھ آسرا ہو جائے اور پھر گھر جا کر کھانا کھا لیا جائے۔

ادھر ’سیلفی‘ اور گروپ فوٹوز کا دور چل نکلا۔ اس سے فرصت ہوئی، تو دیکھا پون لوگ خالی پلیٹ ہاتھ میں لیے بریانی کا انتظار کر رہے ہیں۔ سب کے چہروں سے بھوک اور ندامت آشکار ہے اور بریانی کی دیگ غائب ہو چکی ہے۔ خواتین میں خاصے مقبول ہمارے ساتھ بریانی کھانے کے خواہش مند ایک جوان شاعر یہ دیکھ کر خاصے جذباتی ہوگئے اور انہوں نے بتایا کہ شاعرہ صاحبہ، مشاعرے میں لگے ہوئے کمرشل بینرز اور بریانی کی دیگ سمیت چُپکے سے فرار ہو چکی ہیں۔ پھر مت پوچھیں! اس توہین پر ہنستے ہنستے آنکھوں میں جو آنسو آئے، اْنہوں نے کتنا شرمندہ کیا۔

۔۔۔

’کوئی راز تو چھپا ہے، میری مے کشی کے پیچھے!‘
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

معاشرے میں نشے کی لت کوئی نئی نہیں، کسی کو اقتدار تو کسی کو عشق کا نشہ لا حق ہے، کوئی دولت تو کوئی حسن و جوانی کے نشے میں مبتلا ہے، لیکن ہماری مراد وہ حقیقی کردار ہیں، جو ہر شہر اور گائوں میں دکھائی دیتے ہیں ؎

مجھے کہہ کے تم شرابی نہ کرو جہاں میں رسوا
کوئی راز تو چھپا ہے میری مے کشی کے پیچھے

کہیں ’محوِ پرواز‘ تو کہیں ’نیم پرواز‘ یہ لوگ اپنی نشہ آور اشیا سے اتنی گہری ’’عقیدت‘‘ رکھتے ہیں کہ کسی نے کہا جس شخص کا پائوں بھی افیون کو چھو گیا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ نشئی فوراً بولا ’’کیسے جاوے، افیون جیسی ’’متبرک‘‘ چیز پر جو پائوں رکھ دیا۔‘‘ ابراہیم ذوقؔ تو ایمان کو اس قدر کم زور سمجھتے ہی نہ تھے کہ ڈیڑھ چلّو ’’پانی‘‘ میں بہہ جائے۔ حتٰی کہ ایک صاحب جنت کی فضا راس نہ آنے کے باعث ساقی سے ’مے خانے‘ کا دروازہ بند نہ کرنے کی استدعا کرتے گئے۔ ایک اور شاعر چل کر پینے جاتے مگر پھر اٹھا کر لائے جاتے۔ غالبؔ تو ہاتھوں میں جنبش نہ ہونے کے باوجود ساغر و مینا کو سامنے رکھنے کے خواہاں تھے۔ ساغرؔ صدیقی عالمِ مدہوشی میں بھی خدا کو سجدہ کرنے کے قائل تھے۔

اب تو یہاں ’’معجزاتی‘‘ طور پر شراب شہد میں بدل جاتی ہے۔ گویا کباب بوتل میں اور شراب سیخ پہ ڈالنے کا معما حل ہوا چاہتا ہے۔ نشئی حضرات سب کچھ لٹا کر مانگے تانگے اور پھر چوری چکاری سے ’’باغِ بہشت‘‘ کی سیر کرتے ہیں۔ عام ’جہازوں‘ کی کیا مجال ہے کہ ان کے مقابل آئیں۔ کچھ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ ان کی قسمت میں لکھنے والے نے چوں کہ ’پینا‘ لکھ دیا ہے، تو ہم اس کے لکھے کو غلط کیسے کر دیں۔ یہاں ’’پینے‘‘ کی اصطلاح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ گویا اس ضمن میں مائع ، ٹھوس اور گیس ہر چیز کے لیے ’’پینے‘‘ کا فعل ہی مستعمل ہے۔

ہمارے ایک معروف قوال نہ صرف خود کو ’شرابی‘ کہا کرتے تھے، بلکہ نہ پینے والوں کو ’’ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں‘‘ کا طعنہ بھی مارا کرتے، وہ بضد تھے کہ نشہ شراب کا نہیں، بلکہ انسان کا خاصہ ہے ورنہ بوتل بھی تو ناچتی۔۔۔! یہ سب اپنی جگہ، مگر ایک ’صاحبِ پرواز‘ شخص نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ یہاں تو لوگ دوسروں کا خون پیے جا رہے ہیں، ہم جو کچھ بھی ’پیتے‘ ہیں، مگر لہو تو نہیں پیتے!

۔۔۔

 

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 63

یہ سمے بھی کیسا عجب ہے ناں! رکنے کا نام ہی نہیں جانتا، تھکتا بھی نہیں کہ کہیں سستالے دو گھڑی، بس چلے جارہا ہے، چلے جارہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی آسیب اس کا پیچھا کر رہا ہو، یا شاید یہ خود ہی کوئی آسیب ہے۔ ذرا دم لیجیے! ہم ناداں کتنے غافل ہیں کہ اتنا سا بھی نہیں جانتے کہ یہ اپنے ساتھ ہمیں بھی ہم سفر بنائے ہوئے ہے، اتنا ناتا تو اس سے بنا ہی لینا تھا ناں کہ سفر میں تم ہو بدن چُور چُور میرا ہے!

چلیے! اب کیا کہیں، زخم دیتا ہے یہ وقت تو اس کا مرہم بھی تو خود ہی بنتا ہے ناں جی! تو سمے بہے چلا جا رہا تھا اور حنیف بھائی کو بھی ساتھ بیلی بنائے ہوئے تھا، کئی دن گزر چکے تھے اور وقت انہیں اسیر کیا ہوا تھا۔ اب یہ بھی ایک معمّا ہے ناں کہ کون کسے اسیر بنا لیتا ہے، لیکن پھر یہ بھی کہ اگر اسیری سے رہائی مل جائے تو کیا وہ واقعی آزادی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ ؟ تو الٹ پھیر ہے لفظوں کا، کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے، معلوم نہیں۔

جو جاگتا نظر آتا ہے وہ بھی نیند میں ہے

جو سو رہا ہے، ابھی اور جاگ سکتا تھا

حنیف بھائی سوتے میں جاگتے یا جاگتے میں سوتے، نہ جانے سوتے جاگتے بھی کہ نہیں۔ آنکھیں آبشار بنائے ہوئے ہنستے چلے جاتے اور اور مُسکراتے ہوئے برستے رہتے۔ محو رقص ہوتے تو سارا منظر ان کے ساتھ ناچتا اور ساکت ہوتے تو لگتا کہ سکتہ بھی سانس لینا بھول گیا۔ گم صُم اور کبھی اونچی تان کا سرگم۔ در بہ در تو تھے ہی کہ ہم جیسے در بہ دری کا اعزاز جنم لیتے ہی اپنے ساتھ لاتے ہیں، کسی کی مجال کہ ہمیں کوئی در بہ در کردے، لیکن خاک بہ سر کا مجسّم۔ آپ جیسا زیرک و دانا، بینا ابھی نہیں کہہ رہا، بھی گم راہ ہوا ناں! یہ در بہ دری وہ نہیں صاحب! نہیں، نہیں یہ تو ایک ہی در ہے جو بار بار سامنے ہوتا ہے اور خانہ بہ دوش فقیر پکارتا ہے

گلشن میں، بہاروں میں تُوہے

ان شوخ نظاروں میں تُوہے

پھولوں میں، چاند میں، تاروں میں

جدھر دیکھتا ہوں میں اُدھر تُو ہی تُوہے

چلیے! کچھ اور سہل کیے دیتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ میں رہنا بہت دشوار ہوجائے گا، چلیے! رب ہی سنبھالتا رہا ہے، وہی سنبھالے گا تو کہے دیتے ہیں۔

اُس ایک ذات سے اپنا عجیب ناتا ہے

میں جب بھٹکتا ہوں، وہ راستہ دکھاتا ہے

میں کھو بھی جاؤں اگر زندگی کے میلے میں

وہ مہربان مجھے پھر سے ڈھونڈ لاتا ہے

اس ساتھ لائی ہوئی در بہ دری نے اتنا تو فقیر کو سکھایا ہی ہے صاحب!

فقر، بدنام نہ ہوتا جو فقیر

ایک ہی باب طلب تک رہتا

حنیف بھائی کو یاد کرتے ہوئے اب یہ کیا یاد آگیا۔ وہ حنیف بھائی کی طرح تو خیر نہیں تھا، لیکن وہ بھی ایک نوجوان ہی تھا جو فقیر سے آٹکرایا تھا، عجیب تھا وہ بھی، ہنستے ہوئے روتا اور روتے ہوئے قہقہہ اچھالتا، گفت گو کرتے ہوئے لفظ گم کردیتا اور بولنے پر آتا تو رکنا بھول جاتا، اس وقت نے اسے کھلونا بنایا ہوا تھا، جس سے بچے تو خیر ہوتے ہی معصوم ہیں، مجھ ایسے عیّار و مکّار بھی لطف اُٹھاتے ہیں۔ کیا کہے فقیر! کچھ نہیں کہنے کو بس اس کے لیے اشک ہیں اب بھی ان انکھیوں کے جھروکوں میں۔ چلیے فقیر آپ کو بتائے دیتا ہے کہ کیسا تھا وہ!

دکھوں سے بھری ہوئی، افلاس و غربت سے اَٹی ہوئی، مایوسی و ناامیدی کی دلدل میں دھنسی ہوئی بے یار و مددگار خلق خدا۔ جی، جی! اس میں آسودہ و خوش حال، ہنستے، مسکراتے، قہقہے برساتے ہوئے لوگ بھی ہیں، لیکن کتنے ہیں ایسے۔ کم، بہت ہی کم، نہ جانے کیسے کیسے سینہ خراشی کے کاموں پر مامور ہیں معصوم، مقہور، بے بس و لاچار، استحصال زدہ اور غیر منصفانہ تقیسم وسائل کا شکار لوگ، جنہیں چند مٹھی بھر بے حیا، ظالم و جابر و مَردُود اور بہ زور قبضہ گیر خاندانوں نے، جن کی پشت پر چند مذہب اور مشائخ کا روپ بنائے بہروپیے بھی ہیں، اس جہنم میں دھکیلا ہوا ہے۔

یہ مقہور و مظلومین اپنے پیٹ کا دوزخ بہ مُشکل بھرنے کے لیے کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں، وہ خود دکھوں میں گھرے اور اپنے ہی آنسوؤں میں نہائے ہوئے ہیں۔ لیکن کام کرتے ہیں دوسروں کو ہنسانے کا۔ مُشکل، کٹھن اور محنت طلب کام تو یہ ہے ہی، لیکن خود کو مار کر، فنا کرکے، اپنی عزت نفس کو قربان کرکے اور خود کو فراموش کرکے دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا کتنا بھلا کام ہے یہ۔ ہاں دوسروں کو کچھ لمحے ہی سہی ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کر دینا، نیکی اور کِسے کہتے ہیں بھلا ۔۔۔۔ ؟ ہاں! جوکر جسے ہم اور آپ مسخرہ کہتے ہیں۔ وہ یہی کام کرتا ہے۔ میں اس سے ملا تو میرے سامنے ایک شعر رقص کر رہا تھا۔

سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ جو ہنسی کی کرن

نہ جانے رُوح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں

وہ بھی ان مظلوم لوگوں میں سے ایک تھا۔ ریستوراں میں آنے والے۔ لذت کام و دہن کے رسیا اپنی گاڑی سے اترتے تو اُن کے بچے اُس سے ہاتھ ملاتے اور وہ انہیں اپنی حرکتوں سے ہنساتا تھا۔ کچھ بچے اس کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اسے ذرا فرصت ملی تو میں نے اپنا تعارف کرایا۔ وہ خوش دلی سے ملا اور کہنے لگا: ’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘

ہاں مجھے بھی۔ میں تم سے تمہاری بپتا سننا چاہتا ہوں۔ وہ ہنسنے لگا: ’’مجھ پر جو بیت رہی ہے، وہ آپ سن کر کیا کریں گے؟‘‘ ہاں سوال تو اس کا بالکل بجا تھا۔ بہت مشکل سے وہ آمادۂ گفت گُو ہوا تھا۔ پھر میں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر موجود تھا۔ وہ حیرت سے بولا: ’’سر! آپ تو واقعی پہنچ گئے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہاں وعدہ جو کیا تھا تم سے ملنے کا تو چلا آیا فقیر۔۔۔۔۔ !

پھر وہی ہُوا کہ غم وہ کہ لہو کردیں اندر سے ہمارا دل ۔۔۔۔۔ چلیے سُنیے اور بُھول جائیے!

ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ سب مجھ سے چھوٹے، والد صاحب ایک ٹیکسٹائل مل میں سینئر سپروائزر تھے۔ اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ میں میٹرک کا امتحان دے چکا تھا کہ ابّو بیمار ہوگئے۔ پہلے تو انہیں بخار ہوا ہم سمجھے کہ کوئی مرض نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا دوائیں لیں معلوم ہوا کہ انھیں نمونیا ہوگیا ہے اور پھر ایک دن وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ جمع پونجی تو ہمارے پاس کچھ تھی نہیں، سفید پوشی کا بھرم تھا بس اور سچ تو یہ ہے یہ سفید پوشی خود بھی ایک بڑا آزار ہے ناں، بس ایک ڈھونگ۔ لیکن اب تو اچانک ہی اتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ پریشان تو میں بہت ہوا کہ گھر میں بڑا تھا، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں خود کام کروں گا اور ان حالات کو بدل دوں گا، لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی اتنی مُشکل بھی ہوسکتی ہے۔

حالات اتنی آسانی سے نہیں بدل سکتے صاحب۔ میں نے ابّو کے چہلم کے بعد کام کی تلاش شروع کی اور پھر یہ بھی خُوب ہے کہ اپنے کھانے کو ہے نہیں لیکن چہلم بھی کرنا ہے کہ اگر نہیں کیا تو انہیں اپنے باپ کے مرنے کا ذرا سا دکھ نہیں، سننا پڑتا ہے۔ سنا تو میں نے یہ تھا کہ کرنے والا ہو کوئی، تو کام کی کمی نہیں ہے، لیکن صاحب! ایسا ہے نہیں، میرا تجربہ تو یہی ہے۔

کس، کس جگہ نہیں گیا میں کام کے لیے، فیکٹریوں میں، دکانوں میں اور تو اور میں بلڈنگز بنانے والوں کے پاس بھی گیا۔ بس وہی رونا کام نہیں ہے۔ صبح سے رات گئے تک میں مختلف جگہوں پر دھکے کھاتا اور گھر آکر بہنوں بھائی اور ماں کا سوچتا اور کُڑھتا رہتا۔ رشتے دار تو بس رشتے کے ہوتے ہیں، اور ان سے کیا گلہ کروں، ہر ایک پریشان ہے یہاں تو۔ ایک دن میں سُپراسٹور پر کام کی تلاش میں گیا، کام نہیں ملا۔ باہر نکل رہا تھا کہ مجھے پریشان دیکھ کر ایک صاحب نے پوچھا: کام کی تلاش میں ہو، کام کروگے ۔۔۔۔ ؟ میں نے کہا ضرور کروں گا۔ مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔

میں نے ان سے کہا کام کروں گا اور پوری محنت اور لگن سے کروں گا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: ’’ہاں کام تو بہت محنت کا ہے اور خود کو مارنے کا بھی۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیا کام ہے کہ جس میں خود کو مارا جائے۔ آخر کام کیا ہے بتائیے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے: ’’جوکر‘‘ بنو گے؟ میں ان سے زیادہ ہنسا اور کہا کہ جوکر تو میں ویسے بھی بنا ہوا ہوں۔

میں تو سمجھا تھا کہ وہ مذاق میں مجھے جوکر بننے کا کہہ رہے ہیں، لیکن جب وہ سنجیدہ ہو کر بولے کہ تمہیں جوکر بننا ہوگا، تب مجھے جھٹکا لگا کہ واقعی ۔۔۔۔۔۔! کہانی بہت طویل ہے، دو دن میں سوچتا رہا اور بالآخر ان سے مل کر ہامی بھرلی۔ وہ پروگرام آرگنائزر تھے، شادی بیاہ میں، اسکولوں کی تقاریب اور مختلف ہوٹلوں میں مجھ جیسے ضرورت مند نوجوانوں کو جوکر بنا کر کھڑا کر دیتے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور دیگر لڑکوں سے ملایا کہ اب یہ بھی کام کرے گا۔ اسے کام سکھاؤ۔

’’چل بھائی! ہم جیسا ایک اور پنچھی شکار ہوگیا۔‘‘ یہ پہلا جملہ تھا جو میں نے وہاں سُنا۔ میں اپنا پہلا دن کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ جب انہوں نے میرا میک اپ شروع کیا۔ گرمی کے دن اور ایک اسکول کی تقریب اور پھر جو کر کا کاسٹیوم۔ پہلے تو میں بہت رنجیدہ ہو ا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا، لیکن میک اپ کے بعد جب میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو خود کو ہی نہیں پہچان سکا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بھائی، ماں اور بہنوں کو میرے اس کام کا پتا چلے۔ وہ صاحب مجھے لے کر ایک بڑے پرائیویٹ اسکول پہنچے اور صدر دروازے پر کھڑا کر دیا۔ یونی فارم پہنے ہوئے بچے آرہے تھے اور میں ان سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ سب میری ناک پر چپکی ہوئی ٹیبل ٹینس کی گیند کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔

مت پوچھیے بہت مُشکل ہے، زندگی، اتنی آسان نہیں ہے صاحب۔ پہلے تو اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور پھر وہ رو پڑا۔ بہت مشکل ہوئی مجھے اسے دلاسا دیتے ہوئے: تم تو فن کار بن گئے، لوگوں کو ہنسانا بھی تو نیکی ہے، تم کوئی بھیک نہیں مانگ رہے، محنت سے کما رہے ہو، اس میں اتنا رنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے۔ ’’ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ میں نے کہا ضرور پوچھو: ’’کیا آپ یہ کام کر سکتے ہیں؟‘‘ مجھے خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بولا: ’’دلاسے، اچھے الفاظ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتے صاحب!‘‘

ہاں! تو پہلے دن پانچ گھنٹے کام کے مجھے سو روپے ملے۔ یہ میری پہلی کمائی تھی۔ میں نے ان سے کہا یہ تو بہت کم ہیں، تو انہوں نے کہا تمہیں ابھی کام نہیں آیا، جب سیکھ جاؤ گے تو پیسے بھی بڑھ جائیں گے۔ شروع تو میں اتنے ہی ملتے ہیں، خیر جیون کی گاڑی رینگنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ میں بھی اس رنگ میں رنگ ہی گیا۔ ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لیکن مجھ پر دُہری مشکل آن پڑی تھی خود کو چھپانا بھی تھا، کام کے وقت تو بے تکی باتیں اور عجیب حرکتیں کرنا پڑتی تھیں کہ اگر نہ کرتے تو بڑے لوگ کیسے ہنستے، مسکراتے اور چہچہاتے اور گھر میں گفت گُو کرنا تھی بہت مہذب لہجے میں اور رہنا تھا رکھ رکھاؤ کے ساتھ۔ لیکن میں نے یہ انتہائی مُشکل کام آخر کر دکھایا۔ پانچ سال تک تو میں نے ان صاحب کے ہاں کام کیا اور پھر اپنا گروپ بنا لیا۔ اب ہم پانچ لوگ ہیں۔ اب ہم سب مسخرے ہیں، کہتے ہوئے اس کا زور دار قہقہہ گونجا اور پھر بتانے لگا: اپنا پروگرام خود کرتے ہیں۔ میرا بھائی اب ’’بی کام‘‘ میں ہے۔

دو بہنوں کی جیسے تیسے شادی بھی کر دی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ بھائی آپ اب شادی کریں، لیکن میں ٹال دیتا ہوں۔ وہ اب بھی یہ نہیں جانتے کہ میں کام کیا کرتا ہوں، بس اتنا بتایا ہے کہ ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ جب رات کو دیر سے آتا ہوں اور اکثر آتا ہوں تو یہ کہہ دیتا ہوں صاحب لوگوں کی پارٹی تھی تو مجھے رکنا پڑتا ہے۔ اب تو سب گھر والے عادی ہوگئے ہیں اور مجھ سے کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ بس خوشی یہ ہے کہ میں نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی حد تک اس میں کام یاب بھی ہوگیا ہوں۔ لیکن میں خود تباہ ہوگیا ہوں۔

میں نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا: خود کیوں تباہ ہوئے تم، محنت کی تم نے، کوئی بھیک نہیں مانگی، کسی کی جیب نہیں کاٹی، کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ تم تو بہت عظیم ہو یار! اس کی آنکھیں پھر برس پڑیں: چھوڑیں صاحب کیسا عظیم! میں نے اسی ماحول میں رہ کر چرس پینا شروع کر دی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی چھوڑی ہے۔ اکثر پیتے ہیں یہ لوگ، ورنہ تو کام ہی نہیں کرسکتے۔ ہاں اس کام میں خود کو مارنا پڑتا ہے۔ لیکن میں خوش بھی ہوں کہ اپنا فرض پورا کیا۔ وہ پھر سے شوخ ہوا اور بتانے لگا: ایک شاپنگ سینٹر کا افتتاح تھا تو وہاں ایک بچہ ضد کرکے بیٹھ گیا کہ ممّی! مجھے یہ چاہیے مجھے خرید کر دیں۔ وہ مجھے کھلونا سمجھ رہا تھا اور سچ ہے وہ صحیح سمجھ رہا تھا۔ ہم کھلونے ہی تو ہیں، بہت مُشکل سے وہ مانا اس کی ماں کہہ رہی تھی یہ پیسوں کا نہیں ملتا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ اس کی ماں سے کہوں میں کھلونا ہی تو ہوں، میں برائے فروخت ہی ہوں، خریدا جاسکتا ہے، مجھے خرید لیں۔

میں نے اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا: تم نے راج کپور جی کی فلم ’’جوکر‘‘ تو دیکھی ہوگی کیا شان دار اور جاں دار فلم ہے ناں، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے دوست! ہاں دیکھی ہے، کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ کسی ڈرامے یا فلم میں کام کرنے کا نہیں سوچا تم نے۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا: آپ بھی کسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں مجھے۔ ’’یہ سماج کام کو نہیں پرچی کو دیکھتا ہے۔ آپ کے پاس اگر پیسہ ہے تو بن جائے گا کام اور اگر پیسہ نہیں تو پرچی ہونی چاہیے اور پرچی بھی تگڑی، جس کی بات کوئی نہیں ٹال سکے۔ ‘‘

مستقبل میں کیا کرو گے، بس یہی یا کچھ اور سوچا ہے؟ اس نے میرا سوال سنا اور کہنے لگا: خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہتر زندگی سب کا خواب ہوتا ہے، میرا بھی ہے۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ بھائی کسی لائق ہوجائے، چھوٹی بہن کی شادی ہوجائے تو کچھ سوچوں گا۔ انسان تو ہر وقت اپنے لیے سہولتوں اور آسائشوں کے خواب دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے، میں بھی دیکھتا ہوں اب میں خواب دیکھنا تو نہیں چھوڑ سکتا ناں، لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے محنت کی ہے کوئی بھیک نہیں مانگی، کسی کے مال کو نہیں لُوٹا، کسی کی جیب نہیں کاٹی، میں نے تو لوگوں کو ہنسایا ہے لیکن اگر میری ماں میرے رشتے کے لیے کہیں گئی اور انہوں نے میرے کام کا کہیں سے معلوم کرلیا اور وہ جان گئے کہ میں تو جوکر ہوں تو کیا میری ماں یہ نہیں سنے گی کہ چل بھاگ یہاں سے جوکر کی ماں! فقیر کے پاس اس کا کیا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔ ؟

وہ بہت پیار سے مجھ سے ملا اور بہت خلوص سے رخصت کرتے ہوئے بولا: ’’بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، جی کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اس دور میں یہ بھی نعمت ہے کہ کوئی کسی کی بات سن لے اور دھیان سے سُن لے یہاں تو کوئی کسی بات ہی نہیں سنتا۔‘‘

یہ دیکھیے! اگر بینا ہیں تو، دلِ زندہ رکھتے ہیں تو، اور اگر آپ ان سے محروم ہیں تو آپ تو خود قابل رحم ہیں، جائیے بات ہی ختم ہوئی، فقیر رخصت ہوا۔

پاگل تو ہُوں کہ خود ہوں تماشا بنا ہُوا

اور خود پہ ہنس رہا ہوں تماشائیوں کے ساتھ

اور یہ بھی لیجیے دوآتشہ!

درد تو خیر کس نے دیکھا ہے

زخم بھی کیا نظر نہیں آتا

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کی ہڑتالیں روکنے کیلئے قانون سازی کا فیصلہ

$
0
0

کوئٹہ:  بلوچستان حکومت نے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کی ہڑتالوں کی روک تھا م کیلئے بلوچستان ایسنشل ہیلتھ سروسز بل2019ء کو لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ صوبائی حکومت اس بل کو منظوری کیلئے صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی جس کا رواں اجلاس جاری ہے بل کی شکل میں منظوری کے بعد یہ لاگو ہو جائے گا۔

جس کے بعد ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور نرسز تنظیموں میں سے جو بھی غیر قانونی ہڑتال کرے گا قانون حرکت میں آجائے گا اور اس حوالے سے اُن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سال قید اور5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزائیں ہوں گی ،اس سے قبل بلوچستان میں اساتذہ کی ہڑتالوں پر بھی پابندی کیلئے ایک بل منظور کیا جا چکا ہے اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے جو وعدے کئے تھے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اُن کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔

جس کے تحت بلوچستان میں موسم سرما اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران اساتذہ اور دیگر اکیڈمک اسٹاف کے کنوینس الاؤنس کی بحالی،100 ہائی اسکولوں اور200 مڈل اسکولز کے انفراسٹرکچر اور معیار کو بہتر بنانے کیلئے فنڈز کی منظوری، گلوبل پارٹنر شپ کے تحت کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے1400 اساتذہ کے کنٹریکٹ میں ایک سال کا اضافہ کرنے کے فیصلے شامل ہیں جبکہ ٹائم اسکیل کے تحت تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو کہ اس حوالے سے جلد ہی اپنی رپورٹ مرتب کرے گی اور اس رپورٹ کی روشنی میں صوبائی کابینہ فیصلہ کرے گی۔

سیاسی اور عوامی حلقوں نے محکمہ صحت اور تعلیم میں اصلاحات کیلئے صوبائی حکومت کے ان اقدامات کو انقلابی قرار دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ عام لوگوں کو ان محکموں کے حوالے سے جو تکالیف و پریشانیاں اُٹھانی پڑرہی ہیں اس میں اب ریلیف ملنے کا قوی امکان ہے اور ساتھ ہی ساتھ آئے روز کی ہڑتالوں سے جس ذہنی کوفت کاعام لوگ شکار ہو رہے تھے۔

اس سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اساتذہ اور ڈاکٹرز و پیرامیڈیکس کی تنظیمیں صوبائی حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور دونوں شعبوں کے حوالے سے اُن کا یہ موقف ہے کہ آگے چل کر حکومت ان کی نجکاری کرنا چاہتی ہے اس لئے یہ اُن کی آواز کو دبا رہی ہے اُنہوں نے صوبائی حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے27 اکتوبر کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کے تحت دھرنے کے اعلان کے بعد جہاں ملکی سیاست میں تیزی کا رجحان پیدا ہوا ہے وہاں بلوچستان کی سیاست بھی ہچکولے کھا رہی ہے اور مختلف سیاسی محفلوں اور بیٹھک میں آزادی مارچ کا چرچا اور ذکر خیر ہے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان نے بھی آزادی مارچ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ اپنی عوامی مہم تیز کردی ہے اور صوبے کے مختلف علاقوں، اضلاع اور تحصیلوں میں عوامی اجتماعات کا انعقاد جاری ہے اور عوام الناس کو اس آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے جمعیت علماء اسلام (ف)کی صوبائی قیادت کا یہ دعویٰ ہے کہ بلوچستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اپنی کامیابی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیئے جانے کے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلے کوعبوری طور پر معطل کردیا اور سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی صادر کیا ہے کہ درخواست پر فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن حلقے میں ضمنی انتخابات نہ کرائے اور درخواست کا فیصلہ ہونے تک قاسم سوری بدستور رکن قومی اسمبلی رہیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی کی اس نشست پر الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد صوبے کی سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے کوئٹہ شہر کی قومی اسمبلی کی اس نشست پر دوبارہ الیکشن کیلئے ابھی سے تیاریاں شروع کرتے ہوئے مضبوط اُمیدواروں کے ناموں پر غور شروع کردیا تھا بعض اُمیدوار تو اپنی انتخابی مہم بھی چلا رہے تھے اور حلقے کے عوام سے ملاقاتیں کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مصروف تھے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے عبوری حکم امتناعی دیئے جانے کے بعد ان سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں میں ایک دفعہ پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اس تمام صورتحال میں تحریک انصاف کے حامی ابھی تک مطمئن گھوم رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا عدالت عظمیٰ انہیں ضرور انصاف فراہم کرے گی۔

وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019ء جاری کردیا ہے یہ آرڈیننس وزارت قانون نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد جاری کیا جبکہ اس حوالے سے چین کی حکومت نے سی پیک پر موثر اور تیز عملدرآمد کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی قائم کی جائے گی۔

جس میں چیئرمین سمیت2 ایگزیکٹو اور چھ ممبران شامل ہونگے جنہیں وزیراعظم چار سال کیلئے تعینات کریں گے آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی پاکستان اور چین کے درمیان فریم اور ایم او یوز کے مطابق کام کرے گی جبکہ اتھارٹی دو طرفہ تعاون کے نئے منصوبوں کی بھی نشاندہی کرے گی۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں خصوصاً نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس اتھارٹی کے قیام کی پہلے ہی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا آرڈیننس جاری ہونے کے بعد صوبے کی قوم پرست جماعتوں نے اس اتھارٹی کے قیام کو آئین کے خلاف قرار دیا اور اسے صوبائی خود مختاری میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے اس عمل پر سخت احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

The post ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کی ہڑتالیں روکنے کیلئے قانون سازی کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

جے یو آئی کے مارچ اور دھرنے میں اپوزیشن جماعتیں شرکت کریں گی؟

$
0
0

پشاور:  اس بات کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کب کرتے ہیں۔

پارٹی کی سطح پر طویل مشاورت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد بالآخر مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخ کا اعلان کر ہی دیا ہے اور تاریخ منتخب کی گئی وہ کہ جس دن بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھیں یعنی27 اکتوبر، مارچ اور دھرنے کی تاریخ تو منظر عام پر آگئی ہے۔

تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس میں دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی شریک ہونگی یا نہیں کیونکہ ان پارٹیوں کے اندر مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مارچ اور دھرنے میں شرکت کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے تو بار، بار یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مارچ اور دھرنے میں سب شریک ہوں گے تاہم صورت حال اس وقت تک واضح نہیں ہوگی کہ جب تک ان پارٹیوں کی قیادت واضح انداز میں شرکت کا اعلان نہ کردے۔

چونکہ ابھی دو ہفتوں سے زائد وقت پڑا ہوا ہے اس لیے مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی اپنے تمام ’’معاملات‘‘دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں گی اور ان دونوں بڑی پارٹیوں کا فیصلہ منظرعام پر آنے کے بعد ہی دیگر پارٹیاں بھی فیصلہ کر پائیں گی،اس معاملے میں دلچسپ صورت حال جماعت اسلامی کے حوالے سے بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں سوال پر مسکراہٹوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنما ان کی شرکت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

تاہم سامنے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی شاید ہی اس مارچ اور دھرنے میں شریک ہو پائے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق اپنی شوریٰ سے مشاورت کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی نہ کوئی اعلان کر چکے ہوتے تاہم وہ حکومت مخالف ہونے کے باوجود اپنے طور پر احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں اس لیے وہ اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اپنی تحریک کو بریک نہیں لگائیں گے، تاہم جے یوآئی کی پوری کوشش ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی کلی نہ سہی تاہم جزوی طور پر اس مارچ اور دھرنے میں شرکت ضرور یقینی بنائی جائے ۔

مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان سامنے آنے کے بعد سیاسی فضاء میں بھی ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوگیا ہے، ایک جانب تو مرکزی حکومت یہ معاملہ سنجیدگی سے لیے ہوئے ہے جہاں سے مخالفانہ بیانات کے ساتھ مختلف حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو اس مارچ اور دھرنے سے روکنے کے لیے ڈرانے دھمکانے اور وعظ ونصحیت کا سلسلہ بھی جاری ہے تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے اپنی پارٹی تحریک انصاف اور پارٹی سربراہ عمران خان سے وفاداری دکھاتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ مذکورہ مارچ میں شرکت کے لیے خیبرپختونخوا سے کسی کو بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔

ان کے بیان نے جے یوآئی کی صفوں میں اشتعال پیدا کردیا ہے جس کا اظہار پارٹی کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے بڑے ہی جذباتی انداز میں اسمبلی میں کیا، خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر عاطف خان نے بھی اکرم درانی کی بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اوراپنی پارٹی کے ارادے اور پالیسی واضح کردی ہے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھی طویل المدت منصوبہ بندی کرتے ہوئے مارچ کرنے اور دھرنا دینے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پشاور میں منعقد ہونے والے جے یوآئی کے علماء کنونشن کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی گئی کیونکہ مذکورہ کنونشن میں دھرنے اور مارچ کے حوالے سے منصوبہ بندی زیر غور لائی گئی اور شاید یہی صورت حال اگلے ہفتے رضاکاروں کے اجتماع کے حوالے سے بھی ہو۔

اس صورت حال میں یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور مرکزی حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہے گی بلکہ اس کی کوشش ہوگی کہ یا تو یہ مارچ اور دھرنا ملتوی کردیا جائے یا پھر ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ کم سے کم افراد اسلام آباد پہنچ سکیں، شاید اسی سوچ کے تحت خیبرپختونخو اکے وزیراعلیٰ نے جے یوآئی کے کارکنوں کو صوبہ ہی میں روکنے کا اعلان کیا، قارئین کو وہ وقت یاد ہوگا جب مسلم لیگ(ن)کے دورحکومت میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیاگیا اور خیبرپختونخوا سے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے خود قافلے کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب کا رخ کیا جنھیں پنجاب کی سرحد پر ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

جس طرح مولانا فضل الرحمن مارچ اور دھرنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی چھپائے بیٹھے ہیں ٹھیک اسی طرح حکومتی تھیلے میں بھی بلی ابھی بند ہے جو وقت آنے پر ہی تھیلے سے باہر لائی جائے گی ۔ اس صورت حال میں یقینی طور پر ریاستی اداروں کو کردار اہم ہوگا جن پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں جو ایسے مواقع پر اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیںکیونکہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس کی وجہ سے ملک وقوم کو نقصان پہنچانے کا احتمال ہو اس پر اداروںکو نظر رکھنی ہی پڑتی ہے اس لیے وہ بھی اس تمام تر صورت حال کا نظر عمیق سے جائزہ لے رہے ہوںگے اور ان کی پالیسی بھی جلد ہی واضح ہوجائے گی۔

اور ان حالات میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی سامنے آگیا ہے، اگرچہ اپوزیشن جماعتیں گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کے بعد ہی سے یہ مطالبہ کرتی آرہی ہیں تاہم بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسمبلیوں سے باہر رہنے کی بجائے ایوانوں میں جانے اور حلف اٹھانے کے فیصلہ کی وجہ سے ان کا یہ مطالبہ کمزور پڑگیا تھا۔

جس میں اب دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم یہ بات بھی مد نظررکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے جس مشکل گھڑی سے گزر رہاہے ایسے میں عام انتخابات کا انعقاد آساں نہ ہوگا اور اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہرکیف سب کو ہی فوکس کرنا ہوگا تاکہ معاملات ہاتھ سے نکلنے نہ پائیں ۔

The post جے یو آئی کے مارچ اور دھرنے میں اپوزیشن جماعتیں شرکت کریں گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

نئے صوبوں کے قیام کی آئینی ترمیم کیخلاف مذمتی قرار داد منظور

$
0
0

کراچی:  سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کی جانب سے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق مذمتی قرارداد قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی۔

آئینی ترمیم کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی ہے۔ اس موقع پر اسپیکر آغا سراج درانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں کٹ جاؤں گا، مر جاؤں گا مگر سندھ کی بقا پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی ایم کیو ایم کی مجوزہ آئینی ترمیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں ہونے دیں گے، جو سندھ کی تقسیم کی نیت سے شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایم کیو ایم ہمیشہ سازش کرتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ قرارداد جی ڈی اے کی خاتون نصرت سحر عباسی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جس سے یہ بات عیاں ہے کہ سندھ کی تقسیم صوبے کی تمام جماعتوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ نصرت سحرعباسی کا کہنا تھا کہ سندھ دھرتی پر وار کرنے والا کوئی زندہ نہیں بچے گا، سندھ کارڈ استعمال کرکے نئی مہم جوئی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک جی ڈی اے کاایک بھی ممبرموجود ہے سندھ کو کوئی تقسیم نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے بھی واضح موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو کسی بھی فیصلے سے قبل اس کے مضمرات کا خیال رکھنا چاہیے۔

سندھ کی تقسیم صوبے کے باسیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اس حوالے سے کوئی بات تک سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس طرح کے متنازع بل قومی اسمبلی میں جمع کرانے سے اگر وہ اپنے ناراض ووٹرز کو منانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے اس وقت اصل مسئلہ صفائی کا فقدان، پانی کی عدم فراہمی اور ٹرانسپورٹ کی ابتر صورت حال ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کارکردگی نے شہر کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے غیر سنجیدہ اقدامات کرنے کی بجائے کارکردگی سے شہریوں کو اپنی جانب راغب کرے۔ ادھر سندھ اسمبلی میں صوبے میں گٹکے، مین پوری کی تیاری، اس کے ذخیرہ کرنے، فروخت اور کھانے پر پابندی کا بل متعارف کروا دیا گیا ہے، اسپیکر آغا سراج درانی نے بل سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں اسے مزید بہتر بنا کر ایوان میں پیش کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق صوبے میں گٹکے اور مین پوری کے استعمال سے عوام مہلک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

سندھ کے مختلف اسپتالوں میں اس وقت ایسے مریض بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو ان مضر اشیا کے استعمال سے منہ کے کینسر میںمبتلا ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ان اشیا کی خریدو فروخت اور تیاری کے حوالے سے مختلف احکامات جاری کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ان پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس بل میں ان اشیاء کی تیاری اور خرید و فروخت کے ساتھ اس کا استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

مختلف حلقے حکومت کے اس اقدام کو ستائش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کو اس لت سے بچانے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کی ضرور ت تھی۔جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان نے 27  اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ جے یو آئی کے مارچ کے حوالے سے سندھ میں بھی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔

لاڑکانہ، سکھر، شکارپور اور جیکب آباد سندھ کے وہ اضلاع ہیں، جہاں جمعیت کا اچھا اثر و رسوخ ہے۔ اس لیے صوبے سے بھی بڑی تعداد میں کارکن اس مارچ میں شرکت کر سکتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ راشد خالد محمود سومرو کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ دنیا دیکھے گی کس طرح سندھ کے ایک ایک ضلع سے لاکھوں کی تعداد میں عوام جوق در جوق آزادی مارچ کا حصہ بنیں گے۔

مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے اپنی پالیسی واضح کردی ہے۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی اخلاقی حمایت کریں گے لیکن پیپلزپارٹی دھرنے میں شریک نہیں ہوگی۔ اس سے قبل پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بھی یہ کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے جمہوریت کو نقصان ہو، ہم ظلم برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اس حوالے سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمن کے مارچ سے علیحدہ کر لیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر ایک ہی اسٹیج کے نیچے دونوں جماعتوں کے کارکنان اکٹھے ہو جاتے تو اس سے پیپلزپارٹی کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے تما م عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے سینئر قیادت کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے ان کی بالغ نظری کا مظہر ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے ’’کلین کراچی‘‘ مہم جاری ہے اور تاحال اس مہم کے دوران 2لاکھ 12ہزارٹن سے زائد کچرا اٹھایا جا چکا ہے ۔ وفاقی وزیر برائے بحری علی زیدی کی جانب سے چلائی گئی مہم کی نسبت اس مہم کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ترکش کمپنی کی جانب سے کراچی میں صفائی کے کام پر دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔

ترجمان وزیراعلی سندھ کا کہنا ہے کہ ترکش کمپنی لاہور میں صفائی کا کام کرتی ہے اور اب یہ کراچی میں بھی صفائی کے کام میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ترکش کمپنی اپنا پرپوزل سندھ حکومت کو بھیجے گی تاکہ مزید فیصلہ ہو سکے۔ وزیر بلدیات سندھ سید ناصر شاہ نے کا کہنا ہے کہ ہم ترکی کی کمپنی کو ہر قسم کی سہولیات دیں گے۔ اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ترکش کمپنی کے ساتھ حکومت سندھ کا کراچی میں صفائی کے حوالے سے کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوںگے اور پھر یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کراچی ایک مرتبہ پھر کچرے سے پاک شہر بن جائے گا۔

The post نئے صوبوں کے قیام کی آئینی ترمیم کیخلاف مذمتی قرار داد منظور appeared first on ایکسپریس اردو.

سفارتی محاذ پر کامیابیوں کے ساتھ معاشی استحکام بھی ضروری

$
0
0

 اسلام آباد:  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی پر داخلی و خارجی سطح پر بھرپور پذیرائی ملی ہے۔

جس سے تحریک انصاف کی حکومت کا مورال بہتر اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کو امت مسلمہ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اور عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس انداز سے کشمیر کا مقدمہ لڑا اور امت مسلمہ کی ترجمانی کی اس سے پاکستان کے وقار مزید بلند ہوا ہے لیکن اس پذیرائی کو دوام بخشنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی اقتصادی صورتحال بھی بہتر کرے کیونکہ عالمی سطح پر تعلقات جذبات سے زیادہ مفادات کے مرہون منت ہوتے ہیں اور شائد حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے اور ملک کی سیاسی و عسکری قیادت معاشی بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ایک صفحہ پر دکھائی دے رہی ہے۔

یہ ملکی سیاسی و عسکری قیادت کی بہترین پارٹنر شپ ہی کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ ہو یا فیٹف میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا بھارتی پراپیگنڈا ہو پاکستان نے اس کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ کامیاب سفارتکاری سے بھارت کو مذموم عزائم میں ناکام بھی بنایا اور چین، ترکی اور ملائشیاء کی بھرپورحمایت کے باعث بھارت کو پاکستان کا نام فیٹف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے مذموم عزائم میں بھی ناکامی ہونے جا رہی ہے اور اگلے چند روز میں پیرس میں شروع ہونے والے فیٹف اجلاس میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم شریک ہونے جا رہی ہے لیکن پاکستان کی بھرپور لابنگ کے نتیجے میں پاکستان کے ان دوست ممالک نے پاکستان کی حمایت کی یقین دہانی کروادی ہے۔

دوسری جانب ملک کی سیاسی و عسکری قیادت چین کے دو روزہ انتہائی اہم دورے پر ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس دورے کی تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی لیکن اب تک کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس میں پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے چائنیز حکام سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔

جس میں کشمیر سمیت خطے کی صورتحال اور دوطرفہ دفاعی و تجارتی تعاون پر کھل کر بات چیت ہوئی ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے اس دورہ چین کے دوران بیجنگ میں چینی فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں اور جنرل باجوہ نے پیپلزلبریشن آرمی کے ہیڈ کوارٹرکا دورہ کیا اورکمانڈر پی ایل اے جنرل ہان ویگو اور سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ڑو کلیانگ سے بھی ملاقات کی۔

جس کے دوران مقبوضہ کشمیرکی صورتحال، علاقائی سلامتی اور دوطرفہ دفاعی تعاون پرتبادلہ خیال کیا گیا۔آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال ٹھیک نہ ہونے کے مضمرات سے چینی فوجی قیادت کو آگاہ کیا جبکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے اور پاکستان امن کا منتظر ہے لیکن اصولوں یا قومی وقار پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

جس کے جواب میںچینی فوجی قیادت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی اور امن کے مفاد میں پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کی تعریف بھی کی ہے، ساتھ ہی دونوں ممالک کے عسکری رہنماوں نے اتفاق کیا کہ پاک بھارت کشیدگی کے خطے میں امن اور استحکام کے لئے سنگین مضمرات ہوں گے۔ دونوں اطراف نے خلیج کی ترقی پذیر صورتحال اور افغانستان میں امن کے لئے کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جب کہ دفاعی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا، اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان بھی چین کے دورے پر اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں اور چائنیز تاجروں و صنعتکاروں سے اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اپنے اس دورہ چین کے دوران بھی کرپشن پر بات کئے بغیر نہ رہ سکے، اگرچہ اس وقت ملک کی تمام اہم سیاسی شخصیات پابند سلاسل ہیں اور ابھی تک کسی سے لوٹی گئی کوئی دولت واپس نہیں لی جا سکی ہے اور عمران خان کی جانب سے جسے یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

وہ شہزاد اکبر بھی کچھ عرصے سے مسلسل خاموشی کی چادر اوڑھے کہیں گوشہ نشینی اختیار کئے بیٹھے ہیں، شروع میں تو بہت زور و شور سے پریس کانفرنسز کرتے تھے اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو تو واپس لانے کیلئے ایم او یو پر دستخط کرنے کے بھی دعوے کئے گئے تھے لیکن اب مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں یہ تو وقت بتائے گا کہ کیا یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی یا کوئی اور معاملہ تھا لیکن وزیراعظم عمران خان ابھی بھی اس آب و تاب کے ساتھ چوروں و لٹیروں کو نشان عبرت بنانے کا عزم لئے دھاڑ رہے ہیں اور وہ اندرون ملک ہوں یا کسی بھی عالمی فورم پر ہوں وہ کوئی موقع نہیں گنواتے اور اپنے سیاسی مخالفین کو کرپش و لوٹ پر خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

اگرچہ اس حوالے سے عمران خان پر تنقید بھی ہوتی ہے اور معاشی جمود کی ایک وجہ وزیراعظم کے اس بیانیہ کو بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔ بعض حلقوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ آرمی چیف سے ہونیوالی بزنس ٹائیکونز کی حالیہ ملاقات میں بھی اس کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

جس پر کاروباری طبقے کو حوصلہ بھی دیا گیا ہے اور بعض حلقوں کا تو کہنا ہے کہ اس معاملہ پر سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کی لکیر بھی کھنچ گئی ہے اورشائد جو تحریک انصاف کی سیاسی مشکلات بڑھ رہی ہیں وہ اسی لکیر کے گہرے ہونے کی طرف اشارہ ہے مگر وہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب نیب کو عملی طور پر ختم ہی سمجھا جائے اور پھر اس کے بعد چیئرمین نیب کی طرف سے جس طرح ردعمل دیا گیا اس سے بھی بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے وزیراعظم عمران اپنے کرپشن کے بیانیہ سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور خواہ انہیں اس کی کوئی بھی قیمت چکانا پڑے ۔

دوسری طرف کپتان کی ٹیم کے دوسرے اہم کھلاڑی شاہ محمود قریشی کے بارے میں بھی افواہوں کا بازار گرم ہے اور بعض سیاسی حلقوں میں شاہ محمود قریشی کے وزیراعظم بننے کیلئے ملکی بین الاقوامی سطح پر لابنگ کے چرچے ہو رہے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض مقتدر حلقوں نے شاہ محمود قریشی کی طرف سے وزارت عظمی کے منصب کیلئے بین الاقوامی سطح پر کی جانیوالی لابنگ کا پتہ بھی چلا لیا ہے اب اگر اس میں صداقت ہے تو یہ پی ٹی آئی کیلئے یقینی طور پر ایک اور بڑا دھچکا ہوگا۔

ایسے حالات میں جبکہ پی ٹی آئی حکومت پہلے سے ہی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو اس اہم کھلاڑی کا کردار کھیل کو مزید خراب کر دے گا، جبکہ دوسری طرف بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مقتدر قوتیں کپتان کی معاشی میدان میں ناکامیوں سے بھی پریشان دکھائی دے رہی ہیں اور اس میدان میں بھی اب وہ کھل کر کردار ادا کرنا شروع ہوگئے اور حال ہی میں ملک کے بزنس ٹائیکون کی آرمی چیف سے ہونیوالی اہم ترین ملاقات ہے اگرچہ اس ملاقات کے بارے میں بہت سی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں اور اپوزیشن اس پر بھرپور سیاست کر رہی ہے لیکن اس ملاقات میں ایک چیز متفقہ طورپر سامنے آئی ہے کہ ملک کی عسکری قیادت اقتصادی بحران سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت کے پیچھے کھڑی ہے جس سے یقینی طور پر کاروباری حلقوں میں ایک اعتماد کا پیغام جاتا ہے۔

اگرچہ معاشی حالات اگلے ڈیڑھ سے دوسال تک بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں لیکن ملک کے پسے ہوئے طبقے کو کچھ ریلیف دے کر دلاسہ ضرور دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا کر لیا جاتا تو آج مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے اعلان سے اتنا خوفزدہ نہ ہونا پڑتا کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ ایک زرداری سب پر بھاری لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے اعلان سے جس طرح حکومتی ایوانوں پر لرزہ طاری ہے۔

اس سے اب یہ نعرہ بھی بدلتا دکھائی دے رہا ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ نے پوری حکومت و حکومتی مشینری اور وزراء کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں اور جو ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے وہ کسی طور پر بھی حکومت کیلئے موافق نہیں ہے کیونکہ ابھی مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ شروع نہیں ہوا ہے اس سے پہلے ہی دیگر حلقوں اور طبقوں کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج و مظاہروں کی موسیقی شروع ہوگئی ہے۔

The post سفارتی محاذ پر کامیابیوں کے ساتھ معاشی استحکام بھی ضروری appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>