Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

عجیب خاندان ہیں

$
0
0

 اس وسیع و عریض دنیا میں جہاں ہر طرف انسانوں کے جنگل اگے ہوئے ہیں، بھلا کون یقین کرے گا کہ وہ اس دنیا میں رہنے والے ہر انسان سے واقف ہے۔

یہاں تو ہر انسان اپنی دنیا میں گم ہے اور اسے دوسرے کسی انسان کا نہ علم ہے اور نہ ہوش! ایسے میں کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان پر توجہ کیسے دے سکتا ہے اور کہاں اس کے گھر یا اس کی خصوصیت کے بارے میں جاننا اور سمجھنا، اس کا تو کسی کے پاس بھی وقت نہیں ہے۔ وہ تو آج کے جدید دور میں ٹی وی اور گوگل کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے وجود نے ہمیں وہ مواقع فراہم کردیے ہیں کہ ہم اس حوالے سے بہت کچھ جان سکتے ہیں۔

کوئی بھی شخص ایک بار تلاش شروع کردے اور کھوجنے لگے تو وہ ایسی ایسی حیرت انگیز چیزیں اور ایسے دل چسپ حقائق تلاش کرلے گا کہ وہ ان کے بارے میں جان کر خود بھی حیران رہ جائے گا۔ یہاں ہم آپ کے مطالعے کے لیے کچھ خاندانوں کی ایسی حیرت انگیز کہانیاں اور حقائق پیش کررہے ہیں جو آپ سب کے لیے نہایت دل چسپی کا باعث ہوں گے اور ان کے بارے میں پڑھ کر آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ کیا ہماری اس دنیا میں واقعی ایسے خاندان موجود ہیں۔

1 ۔  ایک سرکس فیملی:

سرکس سبھی کو پسند ہوتے ہیں اور خاص طور سے بچوں کو تو سرکس بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں سرکس اس طرح تو مقبول نہیں ہیں جس طرح کئی دہائی پہلے مقبول ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں تو بڑے اور چھوٹے سبھی بڑے شوق سے سرکس دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے جایا کرتے تھے، اس زمانے میں سرکس دیکھنے جانے والے ان کی ہر چیز کو پوری تفصیل سے نہیں دیکھا کرتے تھے، لیکن آج کل تو ہم سرکس کے بارے میں بہت کچھ پوری تفصیل کے ساتھ جانتے اور دیکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم ’’ویس فیملی‘‘ کی مثال لیتے ہیں جسے جدید دور کی سرکس فیملیز کی آخری نشانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ فیملی پانچ افراد پر مشتمل ہے اور پورے سال سفر میں رہتی ہے۔ یہ فیملی ایک سال میں 3,000 میل کا سفر طے کرتی ہے اور عام طور سے ایک دن میں اپنے دو شو کرتی ہے، ان کے ممی ڈیڈی جان اور لارا اپنے پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی سرکس کا حصہ تھے۔ وہ اس زندگی کو چھوڑنا چاہتے تھے، مگر اپنے پلان کے باوجود وہ اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اسے نہ چھوڑ سکے۔ ان کے تینوں بچے جانی، نکول اور میکس سب نوعمر ہیں اور سرکس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جانی تو “Water for Elephants” نامی فلم میں ایک جوکر کا کردار ادا کرچکا ہے۔

2 ۔  مشنریز کا خاندان:

مشنریز وہ لوگ ہیں جو پوری دنیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر آپ کبھی چرچ گئے ہوں گے تو آپ نے وہاں کبھی نہ کبھی مشنری کا لفظ سنا ہوگا یا ان سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملے ہوں گے۔ مشنریز کی کوششیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں سے جاری ہیں۔ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ اس پریکٹس کا زمانہ قبل مسیح سے جاملتا ہے۔ اس حوالے سے نقل و حرکت کا ایک وسیع بہاؤ 1930کے عشرے میں اس وقت آیا جب بائبل مختلف غیرملکی زبانوں میں ترجمے کے لیے پیش کی گئی تھی۔

آج بھی متعدد متحرک مشنریز دنیا بھر میں مختلف مقامات پر قائم ہیں اور نہ صرف غیرشادی شدہ افراد یا نئے شادی شدہ جوڑے، بلکہ غیرملکوں میں آباد بڑھتی ہوئی فیملیاں بھی شب و روز بائبل کی تعلیمات کے فروغ میں مصروف ہیں۔

برائن اور رابیکا رائٹ نیو لائف بیپٹسٹ چرچ کے ارکان ہیں اور ویلس میں مشنریز کے طور پر کام کررہے ہیں۔ وہ اپنے نوجوان بچوں بروک لین اور بوسٹن کے ساتھ بیرون ملک رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ Welsh اندھیرے کے دور میں رہ رہے ہیں۔ اس خاندان کے بہ مشکل تین فی صد افراد آج کسی سروس میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کی خاص توجہ علاقے کے نوعمر بچوں پر ہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس خطے کے ان نوجوانوں میں بائبل کے پیغام کو عام کرسکتے ہیں جن کی نشوونما چرچ سے دور کی گئی ہے۔

3 ۔  دور جدید کی امش فیملی:

آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ آج بھی ایسے بہت سے بڑے گروپس ہیں جو قدیم طرززندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اولڈ فیشن کے ملبوسات زیب تن کرتے ہوں گے، گھوڑا گاڑی یا بگھی چلاتے ہوں گے اور گھرں میں تیار کردہ اشیا اور تازہ بیک کی ہوئی مصنوعات فروخت کرتے ہوں گے۔ ایسی ہی ایک فیملی کا تعلق اوہایو سے ہے اور وہ دس سال پہلے اپرا شو میں نمودار ہوئی تھی۔

ڈیوڈ اور ایملی اور ان کے بچے نہایت سختی کے ساتھ بائبل کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور ان کی زندگی میں نہ تو بجلی کا عمل دخل ہے، نہ کمپوٹرز، نہ پرائیویٹ ٹیلی فونز کا اور نہ ہی کاریں استعمال کرتے ہیں۔ بائبل کے مطابق وہ اپنے پیروکاروں کو دنیا سے دور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ انوکھا جوڑا اپنی کمیونٹی سے دور رہ رہا ہے اور ٹی وی تک پر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فی صد مطمئن ہیں۔

4 ۔  دنیا کی سب سے موٹی فیملی:

globesity ہماری لغت میں ایک نئی اصطلاح ہے، آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ یہ اصطلاح ان دو ارب فربہ افراد کے لیے ہے جو اس وقت ہمارے اس کرۂ ارض پر رہ رہے ہیں۔ متعدد اعدادوشمار کے مطابق اگر آپ کے والدین امریکا میں رہائش پذیر ہیں تو آپ کے موٹا ہونے کے مواقع تین گنا زیادہ ہیں۔ یہ ایک ایسی تشویش ناک صورت حال ہے کہ جس کے مطابق پوری دنیا کے موٹے ترین ملکوں میں ٹونگا وہ ملک ہے جہاں کی92 فی صد آبادی اوور ویٹ ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ موٹا ہونا بھی ایک ثقافتی مسئلہ ہے، کیوں کہ اکثر لوگ اپنے وزن کے حوالے سے فکر مند دکھائی نہیں دیتے، بلکہ وہ تو یہ بھی پروا نہیں کرتے کہ اس مٹاپے کے باعث انہیں صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

یہاں مٹاپے کی تبدیلی کا عمل لگ بھگ تیس سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب اس جزیرے پر دوسرے ملکوں سے کھانے پینے کی سستی اشیا کی درآمد شروع ہوئی اور مختلف ملکوں سے یہ کھانے پراسیس بھی ہونے شروع ہوئے۔

دنیا بھر کی موٹی ترین فیملی ٹونگا میں رہتی ہے۔باپ ٹووا کا وزن 500 پاؤنڈ ہے اور ماں اور بیٹی کا وزن لگ بھگ 270  پاؤنڈ فی عدد ہے اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی Sia کا وزن بھی 300 پاؤنڈ کے قریب ہے۔

5 ۔  دنیا کی سب سے بڑی فیملی:

یہ سچ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کا تعلق بڑی فیملیوں سے ہوتا ہے جن میں آنٹیاں، انکلز اور کزنز کے گروپ ملک بھر میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں، بلکہ بعض تو دنیا بھر میں موجود ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی بھی فیملی اتنی بڑی نہیں ہوسکتی کہ جیسی انڈیا میں میزورام کے  Ziona Chana کی ہے۔ اس خاندان میں39 بیویاں ،14 بہوئیں، 94 بچے اور 33 پوتے اور نواسے شامل ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں جو ایک چار منزلہ 100 کمروں پر مشتمل مینشن ہے۔

Ziona اور اس کا خاندان ایک ایسے مذہبی گروہ کا حصہ ہے جو انہیں زیادہ سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے ارکان کی تعداد 400 تک نہیں پہنچ جاتی، وہ مزید بیویاں بنانے سے نہیں رکے گا۔ فی الوقت اس فیملی کے ارکان کی تعداد  181 افراد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ فیملی ملٹری اسٹائل ڈسپلن کے مطابق چل رہی ہے اور اس میں سب سے بڑی بیوی تمام پارٹنرز کو اپنے اپنے کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہے جن میں صفائی ستھرائی سے لے کر کھانے کی تیاری، اور کپڑوں کی دھلائی تک کے دیگر گھریلو کام شامل ہیں۔ ہر کھانے کی تیاری میں لگ بھگ 30 پورے مرغ لگتے ہیں، اس کے ساتھ 130 پاؤنڈ آلو اور 220 پاؤنڈ چاول بھی پوری فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

6 ۔   دنیا کی سب سے زیادہ حسین فیملی:

دنیا میں اس وقت مستقل طور پر نسلی اختلاف کی وجہ سے بہت سے دیگر اختلاف بھی پیدا ہوگئے ہیں اور لوگ اپنے رنگ، نسل اور خاندان پر فخر کرنے لگے ہیں۔ کچھ خاندان پُرکشش اور خوب صورت شمار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فیملیاں دنیا کی سب سے زیادہ حسین فیملیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

مغرب کی پرنٹ اور ٹی وی ایڈورٹائزنگ مہمات میں The Rowleys دنیا کی سب سے خوب صورت فیملی سمجھی جاتی ہے۔

اس خاندان کے تمام پانچ ارکان ماڈل ہیں اور بلاشبہہ ان کی پورے برطانیہ میں بہت زیادہ ڈیمانڈ بھی ہے۔ ان کے والدین انتھونی اور کمبرلے کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ اس خطے کی پاپولر چوائس ہیں کیوں کہ وہ نسلی طور پر ایک مخلوط فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس خاندان کے تمام پانچ ماڈلز جس ماڈلنگ ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں، اس کا کہنا ہے کہ اس فیملی یہ تمام ارکان شاہی خاندان کے ارکان لگتے ہیں اور انہیں کہیں سے بھی کوئی اسکرین والی فیملی نہیں سمجھا جاتا۔

7 ۔  ڈاکٹروں کی فیملی:

دنیا کے کسی بھی ملک میں میڈیکل اسکول میں داخلہ لینا اور پھر اس اسکول سے فارغ التحصیل ہونا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے، لیکن بعض فیملیز کے تو خون میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہی اس کام کے کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔

عام طور سے اکثر ڈاکٹر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے کوئی نہ کوئی رشتہ یا تعلق ہے۔ بعض ڈاکٹرز کے بچے تو اس پروفیشن سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود بھی ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں، ہم آپ کو ایسی ہی ڈاکٹروں کی ایک فیملی کے بارے میں بتاتے ہیں۔چند سال پہلے Vinamrita Patni نام کی ایک انڈین خاتون اپنے خاندان کی وہ 32ویں رکن بن گئیں جو میڈیسن کی دنیا پر بڑی شان سے چھاگئیں۔

وہ ڈاکٹرز کی اس دوسری نسل کی سب سے کم عمر ڈاکٹر ہیں اور ان کی اس نسل میں ان کے ماں اور باپ دونوں شامل ہیں اور اس کے ساتھ ان کے دیگر رشتے دار جیسے آنٹیاں، انکلز اور کزنز بھی اس میں شامل ہیں۔

اس فیملی میں فی الوقت 7 فزیشنز، پانچ گائناکولوجسٹس، تین opthamologists، تین ای این ٹی اسپیشلسٹس، نیورولوجسٹس، یورولوجسٹس، سرجنز،سائیکاٹرکس۔ پیتھالوجسٹس اور آرتھوپیڈک ڈاکٹرز شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔  Vinamrita کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی اس شعبے میں نہیں دھکیلی گئی تھیں، بلکہ یہ ان کا اپنا انتخاب تھا، وہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، خاص طور سے اپنے والدین کو دیکھ کر انہیں ڈاکٹر بننے کی خواہش ہوئی تھی اور وہ غریبوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش مند تھیں۔

8 ۔  ایک فیملی جو ایک اجاڑ اور سنسان جزیرے پر رہتی ہے:

ہوسکتا ہے کہ یہ بات عجیب سی لگے، مگر یہ سچ ہے کہ ایک فیملی ایک اجاڑ اور سنسان جزیرے پر رہتی ہے۔ ممکن ہے یہ ہالی وڈ کی کوئی فلم کا منظر لگے، مگر یہ سچ ہے کہ ایسا ہے۔The Von Engelbrechtensایک ایسے اجاڑ اور سنسان دور دراز جزیرے پر رہتا ہے کہ وہاں تک بوٹ کے ذریعے پہنچنے میں تین دن لگ جاتے ہیں۔ اس جزیرے کا نام Fofoa ہے اور یہ ننھا منا جزیرہ Vava جزائر سے آٹھ سال پہلے وجود میں آیا تھا اور ہمارا یہ جوڑا وہاں رہنے پہنچ گیا تھا۔ اس جوڑی کا نام بورس اور کیرن ہے اور ان کے تین بیٹے ہیں: جیک، لوکا اور فیلکس۔

یہ جوڑا اصل میں نیوزی لینڈ میں رہتا تھا لیکن اس نے اس جزیرے پر آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ ایک خوب صورت سے گھر میں رہتے ہیں جو تمام دیسی مٹیریل سے بنایا گیا ہے۔ اس گھر کی تعمیر پر 70,000 پاؤنڈ یا $85,000 ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ چھوٹے لڑکے ہوم اسکولنگ کر رہے ہیں اور فیملی کا کہنا ہے کہ وہ ساٹھ فی صد خود کفیل ہیں اور ضرورت کی تمام چیزیں بوٹ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جو ان کی ضروریات کے لیے ہر تیسرے ہفتے ڈبا بند اشیا لاتی ہے۔ ان بچوں کی ممی کیرن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اس صاف ستھرے اور آلودگی سے پاک ماحول میں کی ہے۔ سب سے بڑا بیٹا جیک اب نیوزی لینڈ میں بورڈنگ اسکول میں پڑھتا ہے اور اسے دوستوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ فیملی کہتی ہے کہ اس جزیرے پر رہنا ایک زبردست پر تجسس تجربہ ہے لیکن بعض اوقات ماحولیاتی مسائل جیسے زلزلے، ہری کینز اور سونامی بہت مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔

9 ۔  دنیا کی سب سے زیادہ دل چسپ فیملی:

سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کے مطابق دنیا میں ایک فیملی ایسی بھی ہے جو آن لائن اور دوسرے معاملات میں کچھ اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس جال سے نکل نہیں پارہی۔ اس فیملی کوCoffey family کہا جاتا ہے اور اسے دنیا کی سب سے دل چسپ فیملی قرار دیا گیا ہے۔ اس فیملی کے ارکان کی تعداد پانچ ہے جن کی پرورش سڑک پر ہوئی، ان کے ماں باپ نے ان کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور انہیں پورے آسٹریلیا میں گھمایا پھرایا۔

یہ گھرانا جنوب میں Coolangatta میں آباد ہوا، یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ سارا سار دن سمندر کی لہروں اور ریت میں کھیلتے تھے۔ سرخ اور تانبے کی رنگت والے یہ سب بہن بھائی بہت ہی پسند کیے جاتے ہیں۔

آسٹریلیا کے ریالٹی ٹی وی شو پر اپنی پرفارمنس کے لیے یہ سب بہت مشہور ہیں اور ان کی خوف ناک سرفنگ اسکلز بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بہن ایلی جین اس سال 23 کی ہوجائے گی اور وہ ورلڈ ٹور کا پروگرام بھی رکھتی ہے اور ریکارڈ قائم کرنا چاہتی ہے۔اس فیملی کا واحد بیٹا جیکسن بھی سرفنگ کی دنیا میں نام بنانا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ Holly-Daze ایک کم عمر لڑکی ہے وہ بھی سرفنگ کے شعبے میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے سرگرم ہے اور اس میں نام پیدا کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ماڈلنگ بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ Ruby-Lee اس سال 16کی ہوجائے گی۔ لیکن ابھی تک اس نے باقاعدہ طور پر کوئی کام شروع نہیں کیا ہے البتہ وہ ابھی تک ابتدائی جدوجہد میں مصروف ہے۔

10 ۔ تعلیم کے بجائے تربیت پر یقین رکھنے والا خاندان:

اکثر امریکی فیملیز اپنے چھوٹے بچوں کا اسکول کے بجائے یا تو انہیں ابتدائی برسوں میں ڈے کیئر میں بھیجتی ہیں یا خود ہی پڑھاتی ہیں۔ اور پھر پانچ یا چھے سال کی عمر میں انہیں اسکول بھجواتی ہیں۔

کچھ فیملیز ایسی بھی ہیں جو اسکولنگ کے آئیڈیا کو پسند نہیں کرتیں یعنی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا نہیں چاہتیں، ایسی ہی ایک فیملی Hewitts  کی ہے۔ ان کے لڑکے اس وقت گیارہ سے چودہ سال کی عمر کے ہیں، مگر وہ کبھی اسکول نہیں گئے۔ وہ اپنا زیادہ وقت یا تو گھر سے باہر گزارتے ہیں یا پھر اپنے والدین بین اور پینی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کے والدین کی خواہش ہے کہ ان کے بچے کبھی اسکول نہ جائیں، ان کے اس انوکھے تصور کو  “unschooling” کا نام دیا گیا ہے۔

اس طریقۂ تعلیم میں ان کے بچے وہ کچھ سیکھتے ہیں جو وہ سیکھنا چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں سیکھ لیتے ہیں اور جتنی دیر چاہتے ہیں سیکھ لیتے ہیں۔ نہ تو وہ کسی نصاب کے مطابق چلتے ہیں نہ وہ ٹیسٹ دیتے ہیں اور نہ ہی گریڈ حاصل کرتے ہیں۔ They spend approximately 2 hours a month onوہ لگ بھگ ایک ماہ کے دوران دو گھنٹے تعلیم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ عام طور سے بچوں پر بھروسا کیا جاتا ہے کہ انہیں جو کچھ سیکھنا چاہیے، وہ پوری ایمان داری سے وہ سیکھ رہے ہیں اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رہے۔

یہ بچے خوب محنت سے پڑھتے ہیں اور اسکول کے طے شدہ معیار کے مطابق پڑھتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو وہ اس معیار سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کے والدین کے مطابق وہ ہمیشہ اپنے اس طریقۂ تعلیم کے تحت بہت زیادہ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور زندگی میں خود کو خوش اور کام یاب بچے ثابت کرتے ہیں۔

The post عجیب خاندان ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.


’’کشمیر بھارتی فوج کے لیے ویت نام بن جائے گا‘‘

$
0
0

ممتاز چینی فلسفی، کنفیوشس نے دانش مندی، رحم دلی اور بہادری کو ایک عمدہ انسان کی تین بنیادی خصوصیات قرار دیا تھا۔

تاریخ انسانی سے عیاں ہے کہ صرف دلیر و بہادر رہنما ہی ظلم اور ظالم کے سامنے کھڑے ہوئے اور سچ و حق کا پرچم سربلند کیا۔ ہر دور میں ایسے ہی رہنما خیر و سچائی کی شمع روشن رکھتے ہیں۔

آج بھارت میں نفرت و تعصب کے پرچارک ہندو لیڈروں کا راج ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار (انتہا پسند ہندو جماعتوں) کے نظریات پر تنقید کرنے والے ’’غدار‘‘ اور ’’دشمن‘‘ کہلاتے ہیں۔ آزادی رائے کا گلا گھونٹا جاچکا۔ شدید گھٹن کے باوجود بعض رہنما ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہتے اور ہندو قوم پرستوں کی منفی سرگرمیوں پر گرفت کرتے ہیں۔بہتر سالہ جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو کا شمار بھی انہی گنے چنے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

جسٹس (ر) مرکنڈے کا تعلق کشمیری پنڈت خاندان سے ہے۔والد اور دادا بھی وکیل تھے۔ پانچ سال (2006ء تا 2011ء )بھارتی سپریم کورٹ کے جج اور تین سال پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین رہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بھارتی معاشرے میں قانون و انصاف کا بول بالا ہو جائے۔ ذاتی طور پر سیکولر ہیں۔ اسی باعث ایک زمانے میں انہیں دو قومی نظریہ ناپسند تھا۔ مگر جب 2014ء کے بعد بھارت کو ہندو قوم پسندی بلکہ انتہا پسندی نے اپنی لپیٹ میں لیا، تو دو قومی نظریے کی حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جسٹس (ر) مرکنڈے وقتاً فوقتاً میڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں۔ ان کے سینکڑوں انٹرویوز سے  چیدہ اور فکر انگیز سوالات و جوابات کا انتخاب نذر قارئین ہے۔

سوال:مودی حکومت نے آرٹیکل 370 تقریباً ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنادیا۔ آپ اس اقدام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ فیصلہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب کشمیر میں بھارتی حکوعمت کے خلاف مسلح جدوجہد بڑھے گی۔ ممکن ہے کہ وہاں ویت نام کی طرح بھارت کے خلاف گوریلا جنگ شروع ہوجائے۔ گوریلا جنگ اسی وقت کامیاب ثابت ہوتی ہے جب عوام چھاپہ مار گروہوں کے حامی بن جا ئیں۔ بھارتی حکمرانوں کی بیوقوفی کے باعث وادی کشمیر میں بستے کشمیریوں کی اکثریت بھارت مخالف بن چکی۔ اب وہ ہمیں پسند نہیں کرتے۔ مودی حکومت کے اقدامات سے اب وہ کشمیری بھی مسلح جدوجہد میں شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے اس پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہیں اسلحے کی عالمی منڈی سے ہر قسم کا اسلحہ مل سکتا ہے۔

گوریلا جنگ لڑنے والوں کا بنیادی ہتھیار اچانک اور غیر متوقع حملہ کرنا ہے۔ وہ یہ طے کرتے ہیں کہ کب ،کہاں اور کیسے حملہ کرنا ہے۔ ’’حملہ کرو‘ بھاگ جاؤ‘‘ اور ’’آسان نشانوں پر حملہ کرو‘ مشکل چھوڑ دو‘‘ ان کی روایتی حکمت عملی ہے۔اب یہ ہو گا کہ کشمیری گوریلے ان تمام کشمیریوں کو غدار قرار دے کر ختم کر سکتے ہیں جو بھارتی حکومت کے طرف دار ہوں۔

ویت نام میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ جموں و کشمیر پولیس میں شامل کشمیری ان کا پہلا ٹارگٹ بن جائیں۔ ان کے بعد بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز سے چھاپہ ماروں کا مقابلہ ہو گا۔کشمیری گوریلے پھر بھارتی فوجی قافلوں پر حملے کریں لگے۔ چھوٹی فوجی چوکیاں ان کا نشانہ بنیں گئیں۔ یہ صورت حال بھارتی افواج کو خاصا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شہد کی ایک مکھی کاٹنے سے زیادہ تکلیف نہیںہوتی‘ مگر جب پورے چھتے کی مکھیاں حملہ آور ہو جائیں تو وہ کسی کی جان بھی لے سکتی ہیں۔

گوریلا جنگ متحارب فوج پر منفی نفسیاتی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ ہمارے جوانوں کو کشمیری گوریلوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ہر وقت چوکنا رہنا ہو گا۔ایک جوان کو آرام اور نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر گوریلوں کی کارروائیاں انہیں اس آرام سے محروم کر سکتی ہیں۔ امریکاکی جنگ آزادی‘ نپولین بونا پارٹ کی روس سے واپسی‘ چین کی جنگ آزادی اور ویت نام جنگ میں بھی گوریلوں کا یہ خاص حربہ تھا کہ وہ رات کو یا غیر متوقع وقت دشمن پر حملے کرتے ۔

اس طرح پوری فوج حملوں کے نفسیاتی خوف میں مبتلا رہتی ہے اور جوان سکون سے نیند نہ لے پاتے۔آرام و سکون سے محروم ہو کر بیشتر فوجی متشدد اور غصیلے بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھارتی فوجی کشمیری عوام پر مزید ظلم و تشدد کریں گے۔ مگر اس کے ردعمل میں مزید کشمیری مسلح جدوجہد کا حصہ بن جائیں گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک فوج دوسری فوج کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن وہ عوامی مسلح دستوں سے کبھی جنگ نہیں لڑ پاتی۔ ایک شیر ہاتھی کو بھی گرا لے گا مگر وہ مچھروں کے غول کے سامنے نہیں ٹھہر پاتا۔

روایتی جنگ میںہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کہاں ہے۔ گوریلا جنگ میں گوریلے ہر جگہ ہوتے ہیں مگر انہیں ڈھونڈنا آٹے میں نمک تلاش کرنے کے متراف ہے۔ یہ گوریلے تب سائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روایتی جنگ میں دشمن وردی پہنے ہوتاہے۔ گوریلا جنگ میں چھاپا مار شہریوں میں گھل مل جاتے ہیں۔

جیسا کہ ویت نام میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ہوا کہ وہ شہریوں اور گوریلوں میں کوئی تمیز ہی نہ کر پاتے۔اسی صورت حال میں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کو جس کشمیری پر گوریلا ہونے کا شبہ ہوا‘ وہ اسے گولی مار دیں گے۔ مگر وہ عام شہری بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا قتل عام وادی میں بھارت کے خلاف جذبات شدید تر کر دے گا۔ چنانچہ گوریلوں کی تعداد بڑھے گی اور وادی میں بھارتی فوج کو بہت جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ عین ممکن ہے کہ جیسے امریکی افواج کو ویت نام سے ذلت اٹھا کر نکلنا پڑا تھا‘ اسی طرح بھارتی افواج بھی کشمیر میں خوار ہو کر رہ جائیں۔

سوال: لیکن مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے اقدام سے ریاست جموں و کشمیر  ترقی کرے گی اور وہاں خوشحالی آئے گی؟

جواب: جس علاقے میں گولیاں چل رہی ہوں، وہاں کون سرمایہ لگائے گا؟ میں حکومت کے اس دعویٰ سے اتفاق نہیں کرتا کہ اب ریاست ترقی کرے گی۔ مسلح تحریک جنم لینے سے تو وہاں حالات مزید خراب ہوں گے۔ ستر سال گزر جانے کے باوجود ہمارے حکمران کشمیریوں کا دل نہیں جیت سکے بلکہ ان کی سخت مزاجی سے کشمیری عوام بھارت کے مخالف بن چکے۔کشمیری ہونے کے ناتے میں نے کشمیریوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ اگر کشمیری عوام سمجھتے ہیں کہ آزاد ہونے کے بعد وہاں غربت و جہالت پر قابو پالیں گے اور ان کا معیار زندگی بلند ہوگا، تو بھارتی حکومت کو انہیں آزادی دے دینی چاہیے۔

سوال: مودی حکومت کے متنازع اقدامات سے وقتاً فوقتاً برصغیر پر جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟

جواب: ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ اگر بھارتی افواج نے اس پر حملہ کیا، تو بھارت کو بھی زبردست نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہمیں یہ سچائی تسلیم کرلینی چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت بھارت کے خلاف ہوچکی۔ اب مسلح تنظیموں کو  زیادہ کشمیری عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس طرز فکر کو بھارتی حکمرانوں نے خود جنم دیا ۔

سوال:کہا جا رہا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی بھارتی آئین کی سیکولر ہیئت ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بات درست ہے؟

جواب: ہندو قوم پرستوں کی تو منزل ہی یہ ہے کہ بھارت میں ہندو راشٹریہ قائم کر دی جائے۔ لہٰذا سیکولر آئین ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن انہوںنے بھارتی آئین سے چھیڑ چھاڑ کی تو بھارت میں مزید علیحدگی پسند تحریکیں جنم لیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی آئین ہی نے مختلف بھارتی ریاستوں کو متحد کر کے وفاق کی صورت ملا رکھا ہے۔

بھارت میں مختلف ذاتوں ‘ نسلوں ‘ مذاہب ‘ زبانوں اور تہذیب و ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ ان کے رسم و رواج اور روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مگر بھارتی آئین کی بدولت ان میں اتحاد پیدا کر دیا گیا تاکہ شہری خاص طور پر معاشی ترقی کر سکیں اور خوشحال ہو جائیں۔ اس کے باوجود ہر ریاست میں مخصوص ریاستی طرز حکومت بھی قائم ہے۔ ریاستی حکومتیں انہی پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی ریاست کا انتظام سنبھالتی ہیں۔ بھارتی آئین کے 245تا248 آرٹیکلز میں بتایا گیا کہ وفاق اور ریاستوں کادائرہ کار کیا ہے اور انہیں کس قسم کی ذمہ داریاں انجام دینی ہیں۔

گویا بھارتی آئین کے ذریعے سبھی ریاستوں کو ایک طرح کی خود مختاری بھی دی گئی۔ اگر آر ایس ایس اور بی جے پی نے یہ خود مختاری کم یا ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی تو کئی ریاستوں کے مقامی گروہوں میں غم و غصّہ جنم لے گا۔ انہیں بجا طور پر یہ احساس ہو گا کہ وفاق انہیں اپنا تابع و غلام بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ ایسی نازک صورت حال میں کئی ریاستوں مثلاً تامل ناڈو‘ پنجاب‘ ناگا لینڈ‘ گوا وغیرہ میں علیحدگی کی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔مختلف ذاتوں‘ نسلوں ‘ مذاہب ‘زبانوں وغیرہ باشندوں میں اتحاد پیدا کر دینا بھارتی آئین کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اسی لیے بھارتی آئین کا خمیر سیکولرازم سے بنا ہے۔ اگر اسی بنیاد پر ہی وار کیا گیا تو بھارت کی شکست و ریخت کا آغاز ہو سکتا ہے۔

سوال:آپ پارلیمانی جمہوریت پر اکثر تنقید کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: پارلیمانی جمہوریت انگریزوں کی ایجاد ہے۔ یہ خوبیاں رکھتی ہے اور خامیاں بھی مگر یہ بھارت میں کامیاب ثابت نہیں ہو سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں عوام کی اکثریت جس طرف ہو جائے‘ وہی طاقتور اور حکمران مانا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں عوام کی اکثریت جاہل اور جذباتی ہے۔ وہ عقل و دانش نہیں جذبات یا مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ اسی لیے غنڈے موالی حتیٰ کہ زانی تک روپے پیسے اور اثرو رسوخ کی بنا پر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔

ماضی کے یورپ اور امریکا میں بھی عوام کی اکثریت ناخواندہ اور توہمات کی اسیر تھی۔ مثلاً  فلکیات داں کو پرنیکس نے بتایا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پوپ سے لے کر عوام تک سبھی نے اس کا مذاق اڑایا۔ پادریوں نے تو گلیلو کوعدالت میں گھسیٹ لیا تھا۔ تب یہ نظریہ عام تھا کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے۔ گلیلو کی جان بڑی مشکل سے بچی ورنہ لوگ تو اسے آگ میں جلا کر مارنے کے در پے تھے۔ اسی طرح  امریکا کی ابتدائی تاریخ میں ایسے لوگ بھی اہم حکومتی عہدے حتیٰ کہ صدر بننے تک کامیاب رہے جو اخلاقی  یا مالی طور پر کرپٹ تھے۔

ماضی میں جو برا حال یورپی معاشروں کا تھا‘ بھارتی معاشرہ بھی اسی کا شکار ہے۔ عام لوگ متعصب ‘ تنگ دل‘ ہم اقسام کی توہمات میں مبتلا اور فرسودہ روایات اپنائے ہوئے ہیں۔ جب الیکشن آئیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا امیدوار ایماندار ‘ باصلاحیت اور با عمل ہے؟ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا امیدوار انہیں کسی قسم کے فائدے پہنچا سکتا ہے۔

اور وہ کس مذہب اور نسلی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے بیشتر سیاست داں بھی خود غرض اور اپنی خواہشات کے اسیر ہیں۔ وہ عوام کی خدمت کرنے اور ملک و قوم کو ترقی دینے نہیں پیسہ کمانے سیاست میں آتے ہیں۔ اس لیے بھارت میں پارلیمانی سیاست مذاق بن کر رہ گئی۔ اس نے یہاں ایک ایسا چالاک و عیار امیر طبقہ پیدا کر دیا  جو بیشتر قومی وسائل پر قابض ہے۔ عوام کو مونگ پھلی دے کر مطمئن رکھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں صدارتی طرز حکومت زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ایسا صدر برسراقتدار آئے جو عوام دوست‘ دیانت دار اور باصلایت ہو تبھی حکمرانی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں گے۔

سوال: بھارت میں معاشی بحران جنم لے چکا۔ اس کے سامنے آنے کی کیا وجوہ ہیں؟

جواب: 2014ء میں نریندر مودی بڑے دھوم دھڑکے سے یہ دعویٰ کرتے اقتدار میں آئے تھے کہ وہ ملکی معیشت اور حکومتی نظام ٹھیک کردیں گے۔ لیکن پچھلے پانچ برس کے دوران وہ کوئی کارنامہ نہیں دکھلا سکے۔ معاشی ترقی بھی بنیادی طور پر تیل کی قیمت کم ہونے سے انجام پائی لیکن اس ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ وہ آج بھی غربت، بھوک اور جہالت کا شکار ہیں۔ ایسی معاشی ترقی کا کیا فائدہ جو صرف پہلے سے مال و دولت رکھنے والے چند لاکھ بھارتیوں ہی کو فائدہ پہنچائے؟میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا حکومتی نظام کرپٹ ہوچکا۔ ہمارے سیاست داں دراصل غنڈے ہیں۔ انہیں پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ یہ ملک سے کوئی الفت یا لگاؤ نہیں رکھتے۔  سچ یہ ہے کہ ان کے مفادات تو ملک کے مفادات سے متصادم ہیں۔

آج ہمارے سیاست دانوں کا بنیادی مقصد زندگی یہ بن چکا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن جیت لیا جائے۔ الیکشن میں جیت کی خاطر ہی آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر متعصب جماعتوں نے مذہب اور ذات پات کے نظام کو اپنا ہتھیار بنالیا۔ انہوں نے بھارتی معاشرے کو مذہبی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کر ڈالا۔ماضی میں ذات پات کا نظام اور رجعت پسندانہ مذہبی روایات جاگیرداروں کے ہتھیار تھے۔

ان کے ذریعے وہ اپنی جاگیروں میں اپنا اثرورسوخ بحال رکھتے تھے۔ لیکن ملکی مفاد متقاضی ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے ہتھیار ملیامیٹ کردیئے جائیں تاکہ ملک و قوم ترقی کرسکیں۔ لیکن دور جدید کے بیشتر سیاست داں اسی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے جاگیردارانہ نظام کے طور طریق اپنا رکھے ہیں۔ اسی لیے وہ یہ نظام ہرگز ختم نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے یہ بتائیے کہ جب چار پانچ سو سیاست داں ایک مملکت کو یرغمال بنالیں، تو وہ کیونکر ترقی کرسکتی ہے؟ اس وقت ہمارے بیشتر ملکی وسائل مٹھی بھر طبقے کے ہاتھوں میں ہے۔ صرف انقلاب ہی بھارتی عوام کو ملکی وسائل میں حصے دار بناسکتا ہے۔

سوال: ہمارے ہاں یہ تاثر جنم لے چکا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت افسر شاہی، سکیورٹی فورسز اور عدلیہ میں اپنی آئیڈیولوجی سے متفق لوگ ہی اہم عہدوں پر تعینات کررہی ہے۔ یہ بات درست ہے؟

جواب: سچ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نیا حکمران آئے تو پورے حکومتی ڈھانچے میں اپنے من پسند افراد تعینات کرتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کے آنے سے کیا عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئی؟ بھارت، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملک میں غربت، بیروزگاری، بھوک، سہولیات صحت کی عدم دستیابی، جہالت، بڑھتی مہنگائی اور خودکشیاں عوام کے حقیقی مسائل ہیں۔ جو حکومت یہ مسائل دور نہیں کرپاتی، وہ ناکارہ اور فضول ہے۔ تب عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ فلاں منظور نظر گورنر بن گیا یا فلاں چہیتے کو سیکرٹری بنادیا گیا۔

سوال: ہندو قوم پرست رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندومت کے حقیقی شارح و ترجمان ہیں۔ کیا آپ اس دعوی سے متفق ہیں؟

جواب: میرا یہ ماننا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنما ہندومت کی تاریخ، نظریات اور فکر سے قطعاً واقف نہیں۔ انہوں نے تو ہندومت کو اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ بنالیا ۔ میں ان سے زیادہ ہندومت کے متعلق جانتا ہوں۔ اسی لیے گوشت کھاتا، اردو بولتا اور مسلمانوں سے ملنا پاپ نہیں سمجھتا۔یہ ضروری ہے کہ ان نام نہاد ہندو قوم پسندوں کے طریق واردات کو سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر زمانہ قدیم میں رام ایک بڑا بادشاہ گزرا ہے۔ وہ ایک اچھا حکمران تھا۔اس کے حقیقی یا فرضی کارناموں کو ایک رزمیہ داستان،رامائن میں بیان کیا گیا۔ دور جدید میں مگر اسے دیوتا بنا دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ہندو قوم پرست رام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اپنی چھتری تلے لانا چاہتے تھے تاکہ اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرسکیں۔ بی جے پی کی نظریاتی بنیاد اقلیتوں سے نفرت پر مبنی ہے اور یہ پارٹی اسی وقت نشوونما پاتی اور پنپتی ہے جب اقلیتوں کے خلاف فساد و تشدد جنم لے۔

سوال: بھارت آج بھی ذات پات کے نظام سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ اس کی کیا وجوہ ہیں؟

جواب: بنیادی وجہ یہ ہے کہ اونچی ذات والے بھارتی ملکی وسائل میں نچلی ذاتوں والے ہندوؤں کو شراکت دار نہیں بنانا چاہتے۔ یہ خرابی اوپر سے نیچے تک پائی جاتی ہے۔ درحقیقت اسی خرابی کے باعث اٹھائس سال پہلے میری ججی خطرے میں پڑگئی تھی۔ہوا یہ کہ میں نومبر 1991ء الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بہ حیثیت جج تعینات ہوا۔ انہی دنوں نریش چند نامی ایک استاد کو ریاستی محکمہ تعلیم نے ضلع غازی آباد کے ایک سکول میں تعینات کردیا لیکن ضلعی انسپکٹر آف سکولز نے یہ تعیناتی قبول نہیں کی۔ وجہ یہ تھی کہ نریش چند اچھوت (دلت) تھا جبکہ وہ ملازمت شیڈول کاسٹس یعنی اچھوت سے بلند ذات والے ہندوؤں  کے لیے مخصوص تھی۔

ہریش چند نے اپنی تعیناتی کینسل کرنے کے عمل کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور یہ کیس میرے سامنے آیا۔ میں نے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا کہ ہریش چند کی تعیناتی قانون کے مطابق ہے۔ لہٰذا اسے کینسل کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار پایا۔ ملک بھر کے طلبہ و طالبات نے میرے فیصلے کو سراہا مگر پارلیمنٹ میں شیڈول کاٹس سے تعلق رکھنے والے ارکان میرے خلاف ہو گئے۔جلد ہی مجھے دہمکی آمیز فون اور خط آنے لگے۔ مجھے اپنی حفاظت کے لیے پولیس بلوانا پڑی۔ انہی دنوں اخبار میں پڑھا کہ شیڈول کاسٹس کے ارکان اسمبلی میرے خلاف بل پیش کرنے والے ہیں تاکہ میرا مواخذہ کیا جا سکے۔ میں حیران رہ گیا۔ بہر حال یہ بل تو پیش نہیں ہوا مگر میں کئی ماہ تک اپنے گھر میں قید رہا۔ حتیٰ کہ صبح ورزش کرنا بھی مسئلہ بن گیا ۔ رفتہ رفتہ معاملہ ٹھنڈا پڑا تو میری جان میں جان آئی۔

سوال: آپ کے خیال میں کیا عام بھارتی شہری کو عدالتوں میں انصاف میسر ہے؟

جواب: پہلے تو لفظ ’’انصاف‘‘ کے معنی سمجھ لیجیے۔ انصاف محض عدالتوں ہی میں نہیں ملتا‘ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ ریاست کے ہر شہری کو عمدہ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ وہ اپنی اچھی خوراک کھائے‘ اچھے گھر میں رہے‘ اچھا پہنے‘ اسے مناسب ملازمت ملے اور تعلیم و صحت کی سہولیات بھی۔ اس کے بال بچے بھی خوشحال زندگی بسر کریں… اس کو انصاف کہتے ہیں۔

عدالتوں میں انصاف ملتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ مسئلہ بھی حل کر دیں۔ مثلاً عدالت میں ایک مالک مکان نے اپنے کرایہ دار پر مقدمہ کھڑا کر دیا۔ وہ مقدمہ جیت گیا اور کرایہ دار کو گھر خالی کرنے کا حکم ملا۔ لیکن بیچارا کرایہ دار اب کہاں جائے؟ گویا فیصلے سے ہاؤسنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ انصاف یہ ہے کہ مالک مکان اور کریہ دار‘ دونوں کا اپنا گھر ہو۔ چونکہ بھارت کا مروجہ نظام دونوں کو گھر فراہم نہیں کرتالہٰذا یہ انصاف پر منبی نہیں۔ یہ ایک کرپٹ نظام حکومت ہے۔

سوال: آپ بھارت میں عدلیہ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟

جواب: میرے بھائی اس ملک میں عدلیہ تباہ ہ چکی۔عام طور پر ایک مقدمے کا فیصلہ آتے بیس پچیس برس بیت جاتے ہیں۔ یہ کس قسم کا عدالتی نظام ہے؟ میں تو اسے شرمناک اور ذلت آمیز کہوں گا۔ بتایئے ‘ کوئی شہری اپنے مقدمے کا فیصلہ پانے کے لیے پچیس برس انتظار کرے گا؟ اس عدالتی نظام میں عام آدمی کو قطعاً انصاف نہیں مل سکتا۔ اس خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جج کرپٹ ہو چکے ۔آپ کسی بھی ہائی کورٹ میں چلے جایئے۔ اس کی عمارت بڑی شاندار ہو گی۔ لان میں رنگ برنگ پھول کھلے ہوں گے۔ کمروں میں قیمتی اشیاء نظر آئیں گی لیکن ان کمروں میں انصاف دینے والے رشوت کھاتے ہیں۔ غرض یہ محض ظاہری دکھاوا ہے‘ اصل میں ہمارا عدالتی نظام کھوکھلا ہو چکا۔ دراصل حکومتی نظام ہو یا عدالتی‘ ہر نظام کو انسان چلاتے ہیں۔ جب ایک نظام کو چلانے والے دیانت دار باصلاحیت اور اہل ہوں تو وہ خود بخود بہترین بن جاتا ہے۔لیکن چلانے والے ہی کرپٹ‘ نااہل اور ناکارہ ہوں‘ تو نظام نے خراب ہونا ہی ہے۔یہ دیکھے کہ ہمارے ہاں سینئر ترین جج سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں ترقی پاتا ہے۔ حالانکہ ترقی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ اس نے کیا انصاف پر مبنی فیصلے کیے ؟ کیا وہ ایک ایمان دار جج ہے؟ محض سینارٹی کو ترقی کا معیار ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

سوال: بھارت میں سیکولر ازم کا کیا مستقبل ہے؟

جواب: ہندو قوم پرستوں کی بڑھتی مقبولیت دیکھتے ہوئے تاریک دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت بے حس بلکہ معتصب ہے۔ جب انتہا پسند ہندو مسلمانوں پر ظلم و تشدد کریں‘ تو ان کے ہم مذہبوں کی اکثریت چپ چاپ  تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دل میں اس اقدام کو اچھا نہ سمجھیں مگر انتہا پسندوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بہت سے یہ سوچتے ہیں کہ اچھا ہے‘ مسلمانوں کو سبق سکھانا چاہیے۔ اقلیتوں پر خوفناک حملوں سے ہندوؤں کی معمولی تعداد ہی غم و غصّہ کا اظہار کرتی ہے۔سیکولرازم ایک جدید نظریہ ہے جس نے یورپی ممالک میں جنم لیا۔ یہ ایک ایسے معاشرے میں ہی پھل پھول سکتا ہے جہاں تعلیم اور علم کا راج ہو۔ بھارتی معاشرہ اب بھی پسماندہ ‘ تعصب پرست اور جاہلانہ ہے۔ لہٰذا سیکولرازم یہاں پنپ نہیں سکا۔ سنگھ پریوار کے اقتدار میں آ جانے سے تو یہ آخری سانسیں لے رہاہے۔

سوال: مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بھارتی حکومت کو کیا اقدامات کرنے چاہیں؟

جواب: دیکھیے اس مسئلے کے ضمن میں بھارتی حکومت کے سامنے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ وہ دو قومی نظریہ تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو بطور قانونی و جائز ریاست اپنالے۔ اس نظریے کے مطابق مسلمان اور ہندو دو مختلف اقوام ہیں۔ اس صورت میں بھارت کو کشمیر پاکستان کے حوالے کر دینا چاہیے کیونکہ وہاں آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ ایک فرد (مہاراجا) عوام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ دو قومی نظریا تسلیم نہ کرے اور یہ قرار دے کہ پاکستان کا قیام غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ ہم وہاں اپنا سفارت خانہ بند کر دیں ا ور ایسے ہر ممکن اقدامات کریں کہ پاکستان دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جائے۔ اب آپ مودی حکومت کے اقدامات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کون سے راستے پر چل رہی ہے۔

سوال: آپ کے نزدیک بھارتی مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ تقسیم ہند کے بعد بھارتی مسلمانوں کو اہل اور باصلاحیت قیادت میسر نہیں آ سکی جو انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیتی۔ شروع میں کئی برس مسلمان کانگریسی امیدواروں کو ووٹ دیتے رہے تاکہ  ہندو قوم پرست اقتدار میں نہ آ سکیں۔ جب کانگریس زوال پذیر ہوئی‘ تو وہ مقامی جماعتوں مثلاً  بہوجن سماج پارٹی وغیرہ سے منسلک ہو گئے ۔ لیکن مودی لہر کے سامنے وہ بھی ٹھہر نہ سکیں۔ آج بھارتی مسلمان بہت منتشر اور پریشان ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کس کا سہارا لیں۔انہیں بے یارو مددگار دیکھ کر ہی ہندو انتہا پسند انہیں نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مزید دبایا جا سکے۔

سوال: آر ایس ایس اور بی جے پی کو عموماً جرمنی کی نازی پارٹی سے تشبیہہ دی جاتی ہے ۔کیا یہ درست ہے؟

جواب: یہ امر کسی حد تک درست ہے۔ نظریاتی طور پر دونوں فاشسٹ نظریات رکھتی ہیں ۔مثلا یہ کہ ایک نسل کو دیگر نسلوں پر برتری حاصل ہے اور یہ کہ حزب اختلاف کو تہس نہس کر دینا چاہئے۔ مگر نازی پارٹی اور ہندو قوم پرست جماعتوں میںایک بنیادی فرق ہے۔ نازی پارٹی جب برسراقتدار آئی تو جرمنی صنعتی و اقتصادی طاقت بن چکا تھا۔ اس طاقت کے سہارے ہٹلر نے پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا اور وہاں کے وسائل کی مدد سے نئی جنگیں چھیڑ دیں۔ اس نے یہودی کو جرمن قوم کے سیاسی و معاشی مسائل کا ذمے دار قرار دیا اور ان کی نسل کشی کر دی۔

بھارت مگر ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں غربت و جہالت کا دور دورہ ہے۔ 2014ء میں نریندر مودی ’’وکاس‘‘ (ترقی) کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ سبھی بیروزگاروں کو ملازمتیں دیں گے۔ صحت و تعلیم کی سہولیات ہر شہری کو ملیں گی۔ لیکن مودی کے وعدے پورے نہ ہو سکے۔ بھارتی معیشت اس وقت زوال پذیر ہے۔

معاشی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی آر ایس ایس اور بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف مہمیں چلا رکھی ہیں۔ وہ نازی جرمنوں کی طرح اقلیتوں کو اپنے سیاسی و معاشی مسائل کا ذمے دار قرار دیتی ہیں۔ اسی لیے ہندوقوم پرستوں نے منظم طریقے سے مسلمانوں کو ٹارگٹ بنا رکھاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں ہندو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ مگر یہ ڈراما زیادہ عرصے نہیں چل سکتا۔وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کا اصل مسئلہ روٹی  ہے۔ وہ سارا دن یہی تگ و دو کرتا ہے کہ اسے اپنا اور  بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے روٹی مل جائے۔ ہندو اکثریت کو آخرکار  یہ احساس ہو گا کہ اصل مسائل گائے کی رکھشا یا رام مندر کی تعمیر نہیں بلکہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو روز گار ملے‘ غربت دور ہو‘ صحت و تعلیم کے مسئلے حل ہو جائیں‘ بھوک کا خاتمہ ہو۔

سوال : پاکستان اور بھارت کیا  مذاکرات سے اپنے اختلافات حل کر سکتے ہیں؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ پہلے برطانوی انگریز اور پھر امریکی گورے نے برصغیر پاک و ہند میں ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑے منظم طریقے اور چالاکی سے اختلافات پید ا کیے۔ حقیقت میں پہلے ان دونوں گروہوں کے مابین کوئی واضح دشمنی یا نفرت نہیں تھی۔ اختلافات اس لیے پیدا کیے گئے تاکہ ہندوستان عالمی طاقت نہ مل سکے۔ پھر پاک بھارت تصادم کے سبب عالمی قوتوں کو یہ سنہرا موقع مل گیا کہ دونوں ممالک کو اسلحہ فروخت کرنے سے سالانہ کھربوں روپے کما سکیں۔اگر آج بھارت اور پاکستان اتحاد کر لیں تو چند برس میں ان ممالک کے شہریوں کا معیار زندگی بلند ہو جائے۔ غربت و جہالت کا خاتمہ ہو اور سبھی سکھ چین سے رہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کی دوستی سے عالمی قوتوں کو زبردست معاشی نقصان پہنچے گا۔ اسی لیے سپر پاور دونوں ممالک کے مابین اختلافات کی آگ کو ہوا دیتی ہیں تاکہ وہ مزید بھڑک جائے۔ اسی میں ان کا فائدہ ہے۔

سوال: بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا رکن بننا چاہتا ہے مگر اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ وجہ کیا ہے؟

جواب: فرانس اور برطانیہ بھی سکیورٹی کونسل کے رکن ہیں۔ ان کی آبادی چھ سات کروڑ کے مابین ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ ہے مگر وہ سر توڑ کوشش کے باوجود سکیورٹی کونسل کا رکن نہیں بن سکا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت ایک پسماندہ ملک ہے۔ وہاں کروڑوں کی تعداد میں غریب بستے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی غریب بھکاری کی عزت نہیں کرتا۔جب چین میں بھی کروڑوں غریب بستے تھے‘تو دنیا والے چینی قوم کو حقارت سے دیکھتے اور انہیں ’’افیونچی‘‘ کہتے۔ مگر جب اسی قوم نے سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنایا اور صنعتی و معاشی طاقت بن گئی‘ تو دنیا بھر میں چین کو رشک و حسد سے دیکھا جانے لگا۔

اب ہر جگہ چینی احترام پاتے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ کو بھی چھوٹے ملک ہونے کے باوجود ایسی اہمیت ملی کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کر گئے۔بھارتی اس لیے سائنس و ٹیکنالوجی پر دسترس نہیں پا سکے کہ بھارت میں تنگ دل اور تنگ ذہن والے معتصب باشندے بستے ہیں۔ وہ آج بھی ذات پات کے نظام‘ تعصب اور غیر سائنسی توہمات و نظریات میں گرفتار ہیں۔ جب تک بھارتی قوم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہیں کرتی وہ بدستور غربت‘ جہالت اور ذلت کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔

The post ’’کشمیر بھارتی فوج کے لیے ویت نام بن جائے گا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

پٹائی اور تربیت کا پیراہن۔۔۔

$
0
0

گزشتہ دنوں سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) کے ذریعہ ایک خبر کافی پھیلی کہ لاہور (گلشن راوی) میں ایک استاد نے نہم جماعت کے طالب علم کو سبق یاد نہ کرنے پر اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ بے چارہ جان کی بازی ہار گیا۔  یہ خبر سنتے ہی، میرے ذہن میں اپنے تعلیمی دور کے ایسے بے شمار  واقعات گھوم گئے۔

خود میرے بھائی کو لاہور کے ایک نجی اسکول میں، ایک ٹیچر نے شدید جسمانی سزا کا نشانہ بنایا۔ میری والدہ کو خبر ہوئی، تو انہوں نے ٹیچر اور اسکول انتظامیہ سے بات کرنا چاہی، لیکن اسکول ٹیچر سے لے کر انتظامیہ تک کوئی بھی ازالہ تو دور کی بات، اپنی یہ غلطی تک ماننے کو تیار نہیں ہوا۔۔۔

اس سے بھی زیادہ نازک اور شرم ناک صورت حال میری بہن کے اسکول میں اس وقت پیدا ہوئی کہ جب ایک ٹیچر نے یہ اصول بنا دیا کہ جو لڑکی سبق نہیں سنائے گی،  اسے کلاس کا لڑکا اور جس لڑکے کو سبق یاد نہیں ہوگا، اسے کلاس کی لڑکی چہرے پر تھپڑ مارے گی۔۔۔!! یہ اس کے لیے سزا بھی ہوگی اور شرم دلانے کا ایک طریقہ بھی۔۔۔!  یہ ڈھنگ اگر کسی بے شعور جگہ کا ہوتا  تو ہم ضرور احتجاج کرتے کہ بے علم لوگ ہیں، تعلیم نہیں ہے۔ شعور نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سلسلہ ایک اسکول میں روا رکھا گیا، اس لیے ہم ایسی کوئی بات نہیں کر سکتے۔۔۔

نوعمری میں مخالف صنف سے اس طرے تھپڑ لگوانا بچے کے لیے دُہری اذیت کا باعث بن سکتا ہے، اول جسمانی تکلیف اور دوم اس امر کے نفسیاتی طور پر نہایت گہرے اور کاری اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔۔۔ جو شرمیلے بچوں کی شخصیت کو مسخ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسکول کے اس اس نہایت احمقانہ اور غیر اخلاقی رویے کے خلاف بھی شکایت درج کرائی گئی، لیکن اسکول کی انتظامیہ نے والدین کی داد رسی سے گریز کیا، چناںچہ والدین کے پاس چپ ہوکے بیٹھنے یا اپنے بچے کا اسکول تبدیل کرانے کے سوا اور کوئی راستہ نہ بچا۔

خود راقم الحروف کو بھی چوتھی جماعت میں فقط اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کہ میں ’آرٹس اینڈ ڈراما سوسائٹی‘ کے لیے بننے والے ایک ڈرامے میں پنجابی نہیں بول پا رہی تھی۔ یہاں فقط چند واقعات کا ذکر ہے، وہ بھی وہ واقعات جہاں والدین اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے تھے یا انہوں نے محسوس کیا اور اپنے بچوں  کے حق میں آواز اٹھائی۔ ہمارے معاشرے میں تو ایسے والدین بھی ہیں، جو سرے سے بچوں کا کبھی ساتھ ہی نہیں دیتے، بلکہ کئی والدین تو اساتذہ کو خود کہتے ہیں کہ ایک دو لگا دیجیے گا، بس بچہ فرماں بردار ہو جائے گا۔

اب یہ فرماں بردار بچہ کتابی کیڑا بن جائے یا اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کی سکت بھی نہ رکھے تو کسی کا بھلا کیا جائے گا؟

دوسری طرف یہ صورت حال بھی ہے کہ ذرا سی سختی پر بھی والدین اسکول یا اساتذہ پر برہمی ظاہر کرنے لگتے ہیں، نتیجتاً بچے والدین کی شہ پا کر بگڑنے لگتے ہیں، کیوںکہ انہیں کسی بھی سختی کی صورت میں اپنے گھر سے غیر مشروط حمایت کا یقین ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک دوسری انتہائی صورت حال ہے۔ بچے کی عمر کا تقاضایہ ہوتا ہے کہ اسے کسی بھی طرح کی سرزنش کا پابند رکھا جائے۔ ایک چیز بڑوں اور اساتذہ کا رعب ہوتا ہے کہ اگر انہیں خبر ہوگی، تو وہ برا مانیں گے، ڈانٹیں گے یا پھر نظم وضبط کی خلاف ورزی شمار ہوگی، جس کی صورت میں ان کی سالانہ یا شش ماہی کارکردگی رپورٹ میں منفی نشانات ثبت ہوں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ مار پیٹ بچوں کی شخصیت پر انتہائی منفی اثر ڈالتی ہے۔ اس سے بچہ کبھی اپنی شخصیت کو اجاگر نہیں کر پاتا یا پھر وہ سرکش اور باغی ہوجاتا ہے۔ دونوں ہی حالات میں بچے کی شکست ہے، جو درحقیقت اس کے والدین کی اور اس سے بھی بڑھ کر اس پورے سماج کی ہار ہے۔

اس معاشرے کو باشعور اور مستعد لوگوں کی ضرورت ہے، لیکن ہماری نئی نسل عجیب کاہلی، شدت پسندی اور منفی خیالات کی حامل ہوتی جا رہی ہے۔ اس سارے معاملے پر والدین اور اساتذہ کے درمیان کھلی بات چیت ہونا ضروری ہے۔  یہ والدین اور اساتذہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے بچے کی تعلیم وتربیت کے لیے ایسی راہ کا چناؤ کریں، جس میں اعتدال کے ساتھ بچے کو زیور تعلیم اور تربیت کے پیرہن سے آراستہ کیا جا سکے۔

The post پٹائی اور تربیت کا پیراہن۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ماسی بنی دل کا چین۔۔۔‘‘

$
0
0

یہ بجا ہے کہ خاتونِ خانہ کی معمولی سی بیماری سے بھی گھر کا نظام در ہم برہم ہو جاتا ہے، لیکن جن گھرانوں میں خاتونِ خانہ کی زیادہ تر ذمہ داریاں ماسیاں نباہتی ہیں وہاں ماسیوں کی ایک دن کی بھی چھٹی بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے اور اگر اطلاع کیے بغیر یہ چھٹی ہو جائے تو ہمیشہ کی چھٹی کی دھمکی دیا جانا تو عام سی بات ہے، لیکن ریما چاہنے کے باوجود بھی ایسا نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے گھر کی ماسیوں کو عادت کی طرح استعمال کرتی ہے اور خالہ گل شبو کو ریما کی یہ حرکتیں سخت نا پسند ہیں۔

بے شک وہ ’خبری‘ بنی گھر گھر پھرتی ہیں، لیکن اپنا یہ شوق وہ گھر کے تمام کا م نمٹا کر پورا کرتی ہیں۔ صبح کاذب کے وقت ہی اُٹھ جاتی ہیں، تلاوتِ کلام پاک اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد گھر کے کاموں میں جت جاتی ہیں اور چاشت کی نماز کے وقت تک روزمرہ کے امور سے فراغت بھی پالیتی ہیں اور اس کے بعد خالہ گل شبو محلے بھر کے ’دورے‘ پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ کسی کی عیادت کرنی ہے، کسی کو مبارک باد دینا ہے، کوئی اُن کے مشوروں کا منتظر ہے تو کوئی اُن سے اوروں کے گھروں کی سُن گُن لینے کے لیے بے کل ہے۔۔۔

یوں خالہ گل شبو سب کے ’دلوں کا چین‘ بنی ہوئی ہیں۔ گو حُسنہ آپا کو کبھی کسی کے گھر کا حال جاننے کی خواہش نہیں ہوئی، لیکن خالہ گل شبو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ہمیشہ حُسنہ آپا ہی کا انتخاب کرتی ہیں۔

خالہ گل شبو کو سستی سخت نا پسند ہے۔ کاہل اور بدسلیقہ خواتین ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں، یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام تر حسن و نزاکت کے باوجود ریما اُن کے دل کو کبھی نہ بھائی، لیکن محلے داری نباہنے کے لیے اُس سے ملتی ہیں۔ ریما کی امی کی بیماری کا معلوم ہُوا تو اُن کی مزاج پرسی کے لیے چلی گئیں، لیکن ذراہی دیر میںاُن کا فشارِ خون بڑھنے لگا۔ خالہ گل شبو یہ تو جانتی تھیں کہ ریما کاہل ہے، لیکن اس درجہ سستی کا تو اُنہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ریما کے بے حد اصرار پر ایک ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر اُٹھیں تو ریما کے گھر سے نکل کر وہ سیدھی حُسنہ آپا کے گھر چلی گئیں۔

حُسنہ آپا: السلام  علیکم خالہ! !یہ لیجیے پہلے پانی پی لیجیے۔گرمی اور پسینوں سے بُرا حال ہو رہا ہے آپ کا۔ اب بتائیے خیر تو ہے نا؟ پریشان لگ رہی ہیں۔

خالہ گل شبو: آگ برس رہی تھی، تُونے ٹھنڈک ڈال دی دل میں۔ اﷲ تجھے خوش رکھے حُسنہ بچی! کیسا میرا خیال رہتا ہے تجھے اور ہاں۔ خیر کیسی بی بی؟ ذرا دیر کو ریما کے گھر کیا چلی گئی حواس ہی ٹھکانے پر نہیں رہے۔

حُسنہ: ریما کی امی کی طبیعت اب کیسی ہے؟

خالہ گل شبو: اﷲکے فضل سے پہلے سے بہتر ہیں، لیکن سچ پوچھو تو مجھے ریما کی ماں سے بڑھ کر اُس کی فکر لگ گئی ہے۔ کوئی روگ نہ لگا بیٹھے پوستی۔

حُسنہ: اﷲ نہ کرے خالہ! کیوں ہولائے دے رہی ہیں؟ میری تو دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ ہُوا کیا؟ کچھ تو بتائیے؟

خالہ گل شبو: ریما نے بھی حد کر دی، مجال ہے جو اپنے تختِ شاہی سے اُتر کر ہاتھ پاؤں بھی چلالے۔ ہاں تولہ بھر زبان جتنی جی چاہے چلوالو۔

حُسنہ: پر ہُوا کیا؟ ریما تو بڑی دل چسپ اور خوش اخلاق ہے۔

خالہ گل شبو: بے شک ہے۔ تم نے اُس کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں؟ مجال ہے کہ ماسیوں کے بنا سانس بھی لے لے؟

حُسنہ: ماسیاں؟ کیا مطلب؟ دو ماسیاں رکھی ہیں ریما نے؟

خالہ گل شبو: خدانخواستہ وہ دو کیوں رکھنے لگیں۔ گھر میں ہُن برس رہا ہو تو پانچ ماسیاں رکھنے کا حق تو بنتا ہے نا؟

حُسنہ: پانچ ماسیاں؟ میاں کی خون پسینے کی کمائی ا یسی بے دردی سے خرچ کرتی ہے۔ توبہ توبہ! لیکن ماسیاںکام ہی کیا کرتی ہیں؟

خالہ گل شبو: یہ پوچھو کیا نہیں کرتیں؟ جھاڑو، برتن، کپڑوں کی دھلائی، استری، آٹا گوندھنا، سالن پکانا اور مہمانوں کی خاطر تواضع کی ذمہ داری بھی۔

حُسنہ: سب ہی کچھ تو ماسیاں کر لیتی ہیں پھر ریما کیا کرتی رہتی ہے سارا دن؟

خالہ گل شبو: ماسیوں کو ہدایات دیتی ہے، ٹی وی دیکھتی ہے، ’سوشل میڈیا‘ سے با خبر رہتی ہے۔ بچے کو پڑھاتی ہے۔ اﷲ اﷲ خیر صلّا۔۔۔

حُسنہ: یہ تو کوئی اچھی بات نہیں۔ ماسی تو میرے گھر میں بھی آتی ہے، لیکن صرف جھاڑو پونچھے کے لیے۔۔۔ مگر میں ماسی کے ساتھ بھی لگی رہتی ہوں۔

خالہ گل شبو: اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی مجھے، کا راگ بھی الاپا جاتا ہے۔ مستقل بیٹھے رہنے کی وجہ سے وزن ہی نہیں کولیسٹرول بھی بڑھ گیا۔ بلڈ پریشر اکثر بڑھ جاتا ہے، شوگر بھی ہو گئی ہے۔ وہ بھی اکثر بے قابو رہتی ہے۔

حُسنہ: ریما سے کہیے سستی ختم کرے۔ چہل قدمی کیا کرے۔ آپ کو تو بہت مانتی ہے۔

خالہ گل شبو: کہا تھا پر! میرا تو دل بہت ہول رہا ہے، جو آج دیکھ کر آئی ہوں۔ اپنی سلطنت پر اوروں کو دندنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے باؤلی نے۔

حُسنہ: کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔

خالہ گل شبو: کام والی کی جوان بیٹی، اقبال میاں کے آتے ہی اُن کی خدمت گزاریوں میں لگ جاتی ہے اور بیگم صاحبہ پیار بھری ہدایات دیتی رہتی ہیں۔

حُسنہ: یہ تو بڑی نادانی کی بات ہے خالہ۔ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار رہی ہے ریما۔ آپ نے سمجھایا نہیں؟

خالہ گل شبو: کہا کیوں نہیں، تم تو جانتی ہو جو کہتی ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کہتی ہوں صاف صاف کہہ دیا۔ اچھی خاصی سگھڑ ہو۔ کاہلی چھوڑو، اپنا گھر خود دیکھو۔ جب گھر والی اپنے گھر اور گھر والے کو اوروں پر چھوڑ دیتی ہے، تو ایک دن وہ خود اُس کو بھی چھوڑ کر اُن ہی کو اپنا لیتا ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی عام سی اور گھر والی کیسی ہی حسین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں۔

حُسنہ: پھر کیا کہا سُن کر۔۔۔؟

خالہ گل شبو: میری ہنسی اُڑا رہی تھیں۔ جانتی تو ہیں خالہ جیت کر لائے ہیں اقبال مجھے۔ دل پر حکمرانی کرتی ہوں، اُن کے۔ پھول کہتے ہیں وہ مجھے۔ زینت ہوں میں اُن کے گھر کی۔

حُسنہ: اور اگر اقبال بھائی کے دل کی دنیا بدل گئی تو؟

خالہ گل شبو: یہی بات تو باؤلی نہیں سمجھ پا رہی۔ جو گزشتہ کل میں اُسے جیت کر لایا تھا آنے والے کل میں اپنی نا سمجھی سے ریما نے اُسے ہار دیا تویہی پھول اقبال کے قدموں کی دھول بن جائے گا۔

حُسنہ: اﷲ نہ کرے جو کبھی ایسا ہو۔۔۔

خالہ گل شبو: دعا تو میری بھی یہی ہے کہ ریما کا گھر خوشیوں کے ساتھ بسا رہے۔ ورنہ اپنے گھر اور مرد کو ماسیوںکے رحم و کرم پر چھوڑنے والی خواتین کے حصے میں خسارے ہی آتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اُن مردوں کے دل کا چین جو بن جاتی ہیں۔ اﷲ ریما اور اس جیسی تمام خواتین کو ہدایت دے ۔

حُسنہ: آمین!

The post ’’ماسی بنی دل کا چین۔۔۔‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ساری ’کسوٹیاں‘ صرف لڑکی کے لیے۔۔۔؟

$
0
0

رشتے کے لیے آنے والی خواتین لڑکیوں سے ایسے ایسے سوالات کرتی ہیں، جو نہایت دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ انہی سوالات کی وجہ سے بہت سے والدین مایوسی کی گہری دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین کسی جرم کے سزاوار ہوں اور رشتے کے لیے آنے والے دراصل ان سے جرم کی تفتیش کر رہے ہوں۔ یہ لڑکی دیکھنے کا سارا وقت زہر میں بُجھے لہجے، طنزیہ جملے اور استہزائیہ مسکراہٹوں کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔

پھر اس صورت حال کا نتیجہ کسی بھی انتہائی قدم کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے۔ کاش ایسے رویے رکھنے والی خواتین ایک بار بھی یہ سوچ لیتیں کہ اس وقت اس مسترد کی گئی لڑکی پر کیا بیت رہی ہے، یا ان کے طور طریقوں سے ان کے مخاطب والدین اور لڑکی پر کتنی اذیت گزر رہی ہے۔ یہ لڑکیاں بار بار صرف ماں کے کہنے پر ہی یہ اذیت سہنے لوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتی ہیں۔

کبھی والدین اور کبھی ان لوگوں کا چہرہ دیکھتی ہیں کہ دیکھیے کہ اب کی بار ان کے لیے کیا فیصلہ ’سنایا جاتا ہے اور لڑکے کی ماں اور بہن وغیرہ ڈھنگ سے جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھتیں۔۔۔ یوں ایک اور طرح کی اذیت پورے گھر والوں کا مقدر ہو جاتی ہے، کیوں کہ بعض اوقات نفی میں جواب   دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی، اور لڑکی والے ایک امید اپنے دل میں لیے دروازے کی جانب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔۔

تب اس بیٹی کے دل میں بھی یہ سوال اٹھتے ہیں کہ ’’ماں تم مجھے اپنے گھر میں کیوں نہیں رکھ سکتیں؟ ان ’رشتوں‘ کے نام پر مجھے بار بار کیوں ’’بیوپاریوں‘‘ کے سامنے تماشا بنواتی ہو؟ میں بھی تھک گئی ہوں ماں۔۔۔ مجھے خود اپنے ہاتھوں سے زہر دے دو، تاکہ  میں ابدی نیند ہی سو جاؤں۔‘‘ یہ بیٹیاں جب بوڑھے والدین کے سامنے بھرم رکھتے رکھتے تھک جاتی ہیں تو پھر چھپ چھپ کے اشک بہاتی ہیں، اس وقت یہ آنسو کم اور تیزاب زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔۔۔

بیٹوں کی ماؤں اور بہنوں نے کبھی سوچا ہے رد کیے جانے کی اذیت کیا ہوتی ہے؟ اس کی اذیت صرف وہ مائیں جانتی ہیں، جن کی اپنی بیٹی بھی اسی تکلیف سے گزری ہو۔ بہت سے سوالات غیر مناسب ہوتے ہیں، اور بہت سی باتیں پوچھے جانے کا ڈھب نہایت جاہلانہ ہوتا ہے۔

کیا آپ سوالات ان بیٹیوں کی بہ جائے ان کے والدین سے نہیں کر سکتیں؟

بیٹے کے لیے پسند کی جانے والی لڑکی کے عیب ڈھونڈتے وقت اپنے بیٹے کی خامیاں کیوں پوشیدہ ہو جاتی ہیں؟ کیا سارے معیار اور کسوٹیاں صرف لڑکیوں کا ہی مقدر ہیں؟ اگر کردار کی پرکھ کرنی ہے، تو پھر لڑکے اور لڑکی دونوں کے کردار کو جانچنا چاہیے۔۔۔ اور اگر بات شکل و صورت یا قد کاٹھ کی ہو تو پھر بھی لڑکے اور لڑکی دونوں کی شکل و صورت سامنے رکھنی چاہئیے آخر قصور وار صرف لڑکی ہی کیوں ہوتی ہے؟

بہت سی مجبور لڑکیوں کے اپنے گھرمیں ٹیوشن پڑھانے پر بھی اعتراض کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ صرف اپنے ماحول اور معاشرت کی بنا پر گھر کی چار دیواری میں رہ کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہوتی ہے۔ جب حالات اس نہج پہ پہنچ جائیں تو پھر لڑکیاں کہاں جائیں؟

یہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو آخر لڑکیاں دیکھنے جاتے ہوئے ہو کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کے خاندان میں بھی بیٹیاں ہیں، یہ سارے ماضی اور آنے والے مستقبل کو ایک لمحے کے لیے بھی دھیان میں نہیں لاتیں۔۔۔ان کے رویوں سے ایسا لگتا ہے کہ شاید انہیں اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرنی یا اب ان کے کنبے میں کبھی بیٹی ہی پیدا نہیں ہوگی۔۔۔

اگر ایک چیز غلط ہے تو سامنے والے سے  اچھے یا بہتری کی توقع رکھنے کے بہ جائے آپ خود کیوں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کرتیں، تاکہ ایک اچھی قابل تقلید مثال قائم ہو اور ہم اپنے گھر کی بچیوں کی خاطر ہی سہی، دوسروں کی بیٹیوں یا ان کے والدین کو تکلیف دینے سے باز آجائیں۔۔۔

The post ساری ’کسوٹیاں‘ صرف لڑکی کے لیے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مائیں اپنے بیٹوں کو عورت کا احترام سکھائیں۔۔۔!

$
0
0

 اسلام آباد: ہمارے ملک میں آج بھی عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی زندگی میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اس پر جیسا تیسا احتجاج بھی کرتی ہیں، لیکن کم ہی عورتوں کو انصاف ملتا ہے۔

مرد کا گناہ بھی وقت کے تالاب میں کنکر کی طرح ڈوب جاتا ہے، جب کہ عورت کی معمولی سی غلطی بھی ساری عمر کا روگ بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ عورتوں پر ظلم کے خلاف آواز تو اٹھائی جاتی ہے، مگر وہ آواز عورت کو انصاف دلانے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ہرگزرتے برس پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں 23 ہزار خواتین گھریلو تشدد  کانشانہ بنیں۔ واضح رہے کہ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہو سکے، لیکن جو رپورٹ نہیں ہوئے، ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

لفظ ’مرد‘ تین حروف سے مل کر بنتا ہے، جب کہ لفظ ’عورت‘ چار حروف کا مجموعہ ہے، لیکن تین حروف سے بنا مرد چار حروف سے بنی عورت کو بہت آسانی سے توڑ دیتا ہے۔ مرد یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی کسی کا بیٹا اور بھائی ہے، انتہائی سنگ دلی سے کسی دوسرے گھر کی عورت  پر اپنا حق جتاتا ہے اور پھر اسی لفظ ’مرد‘ کے آگے اگر ’ہ‘ لگا دیا جائے تو ’مردہ‘ بن جاتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے مرد کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے  معاشرے میں بھی عجب تضادات ہیں۔ اگر مرد  سینہ تان کر، بارعب  بن کرگھر سے نکلے تو اس کی مردانگی کے چرچے ہونے لگتے ہیں، عورت سر اٹھا کر اپنے حق کے لیے آوازبلند کرے تو مرد اپنی مردانگی کے زعم میں  اُس کا وہ سر  ہی کچل دیتا ہے، جو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ مرد اگر اپنی نگاہیں نہ جھکائے، تو اس پر شاذ ہی بات کی جاتی ہے، لیکن عورت اگر نظریں جھکا کر بھی حق مانگے، تو اسے بدکردار کہہ کر غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

یہ المیہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ عورت اگر ماں کے روپ میں ہو تو بعض اوقات اس پر ظلم ڈھانے والا مرد کوئی اور نہیں، بلکہ اس کے اپنے جگر کا ٹکڑا اور اپنا جانشین ہوتا ہے، جسے بعض اوقات نہ جانے کتنی منتوں اور دعائوں سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ عورت اگر بیوی کے روپ میں ہو تو اس کی آواز دبانے والا اس کا شوہر  اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے کبھی اسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے، تو کبھی طلاق کا حربہ استعمال کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی میں عورت کا مقام مرد کے پاؤں کی جوتی کے برابر ہے۔

سوال یہ ہے کہ عورت پر ہونے والے اس ظلم کا خاتمہ کیسے ہو؟

آج کل خواتین کے حقوق کے لیے انتہائی خوب صورت  الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ’یوم خواتین‘ پر بڑی زور دار تقاریر ہوتی ہیں، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی ان مظلوم عورتوں کی مدد کرتا ہے، نہ ہی ظلم کرنے والے نام نہاد مردوں کو کوئی روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً آج بھی ظالم اور ظلم اپنی جگہ پر موجود ہیں،کہیں ماں، بہن اور بیٹی کی عزت پر حرف آرہا ہے، تو کہیں صنف نازک بے بس شریک حیات کے روپ میں اپنے ’سرتاج‘ کی تیزاب گردی کا نشانہ بن رہی ہے۔ ماں جیسی خوب صورت ہستی اپنے ہی بیٹے کی نفرت کا شکار ہو کر ’اولڈ ہاؤس‘ میں زندگی کے ایام گزار رہی ہے، تو کہیں عورت بہن اور بیٹی کے روپ میں غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے۔

درد بھری داستانیں قانون کے کاغذ پر لکھی جاتی ہیں، لیکن قانون انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ کسی نے کہا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے، اس کا مطلب تھا کہ قانون اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہیں دیکھتا کہ اس کے فیصلہ کا شکار بننے والا کون ہے، کوئی اپنا ہے یا غیر۔ تاہم پاکستان میں قانون اس اعتبار سے اندھاہے کہ وہ یہی نہیں دیکھ پاتا کہ اسے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔

خواتین پر ظلم روکنے کے لیے ہمارے ہاں مغرب کی نقالی میں کچھ اقدام کیے جاتے ہیں، لیکن وہ رسمی سے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ظلم ان اقدام کی موجودگی میں بھی اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی بنیادوں پر عورت کے احترام اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔

سب سے پہلے تو عورت کو بطور ماں اپنے بیٹوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ دل سے عورت کا احترام کرنا سیکھے۔ پھر جب وہ جوان ہو تو اسے بتایا جائے کہ اسے اپنی بیوی کو کیسے اپنی شریک سفر سمجھنا ہے اور اسے  یہ بھی باور کرانا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹوں جتنی اہمیت دے، انہیں تمام تر حقوق فراہم کرے جو اس کی بنیادی ضرورت ہیں۔

The post مائیں اپنے بیٹوں کو عورت کا احترام سکھائیں۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اداس شب میں دیا آس کا جلا تو سہی
شریکِ درد نہ بن، تھوڑا مسکرا تو سہی
براہِ راست مخاطب نہیں اگر کرنا
اِدھر اُدھر کی کسی بات پر بُلا تو سہی
ترے لبوں پہ سجیں گے تو لفظ مہکیں گے
مری غزل کو کسی روز گنگنا تو سہی
یہ نارسائی کا دکھ کتنا جان لیوا ہے
گلے لگا نہ لگا، تُو نظر ملا تو سہی
مجھے خبر ہے کہ تنہا لڑوں گا دشمن سے
تو تھپکیوں سے مرا حوصلہ بڑھا تو سہی
(اکرم جاذب۔ کٹھیالہ خورد، منڈی بہاء الدین)


غزل


شدید رت تھی نہ ہی مسئلہ زمین میں تھا
بگاڑ سارے کا سارا ہمارے جین میں تھا
خدا بھی ہجر میں ثابت قدم نہ رہ پایا
یہ ناتواں تو نہ تیرہ میں تھا، نہ تین میں تھا
مکالموں سے لکھاری سنائی دیتا تھا
اگرچہ بولتا تو اور کوئی سین میں تھا
درست ایک بھی دل کا نہ تجزیہ نکلا
شمول یوں تو محبت کے ماہرین میں تھا
کیا نیابتِ آدم نے سخت گیر اسے
وگرنہ جبر نہ کوئی خدا کے دین میں تھا
تمام عمر لگائی نہ ایک پل بھی آنکھ
کوئی نہ دل سا بدن کے معاونین میں تھا
نظر کے جیسا کہاں کیمرے سے عکس بنا
لطیف ذوق نہ کوئی جو اس مشین میں تھا
(حبیب احمد۔ شورکوٹ، ضلع جھنگ)


غزل


تمہاری دید کے بیمار ہو رہے تھے ہم
یہیں کہیں پہ گرفتار ہو رہے تھے ہم
ہماری راہ میں حائل ہوئی تھی اپنی انا
خود اپنے واسطے دیوار ہورہے تھے ہم
بنائے بیٹھے تھے کچھ یار پُل صراط مگر
درود پڑھتے ہوئے پار ہورہے تھے ہم
تری نگاہ نے انمول کر دیا ورنہ
پڑے پڑے بھی تو بے کار ہو رہے تھے ہم
یہ کون شخص ہمیں دائرہ نما دانش
یہ کس کا حکم تھا، پرکار ہورہے تھے ہم
(دانش حیات۔ کراچی)


غزل


آپ کو آرزو تھی راحت کی
آپ نے کس لیے محبت کی
ہم تو ہجرت کو زندگی جانیں
بخدا! آپ نے حماقت کی
حوصلے دل کے آزمانے کو
بات چھیڑی گئی مسافت کی
قہقہوں سے شگاف پڑنے لگے
اے خدا! خیر ہو مسرت کی
ہر طرف بے حسی ہے، وحشت ہے
کیا علامت نہیں قیامت کی؟
عشق اور آپ کے گھرانے سے
زندگی بھر یہی عبادت کی
اس نے سونپے تھے چند خواب اعظم
اور تاکید کی حفاظت کی
(اعظم شاہد۔ منڈی بہاء الدین)


غزل


اپنے دل سے مجھے جدا کر کے
مجھ کو چھوڑا ہے لادوا کرکے
پھر ترے بعد زندگی روٹھی
میں جیا ہوں خدا خدا کر کے
تیرے دیدار کی، مرے ہمدم
میں ہوں مایوس التجا کر کے
اس کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں
تھک نہ جانا کہیں دعا کر کے
اس عبادت کا کیا کرے گا خدا
جو ادا کی گئی دغا کر کے
شکریہ نور حسنِ جاناں کا
قہر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(حضرت نور تنہا۔ کراچی)


غزل


یوں نہیں ہے کہ تُو آیا تو میں سَر سبز ہُوا
تُو نے جب ہاتھ ملایا تو مَیں سر سبز ہوا
میں تھا ویران سے اجڑے ہوے گلشن جیسا
تُو نے آنکھوں سے پلایا تو مَیں سَر سبز ہوا
میں تھا اک جسم جو بے جان پڑا تھا کب سے
تُو نے سینے سے لگایا تو میں سر سبز ہوا
میں تھا بے مول سے، انمول نگینے کی طرح
تُو نے ماتھے پہ سجایا تو میں سر سبز ہُوا
اس زمانے کی تگ و دو سے پریشاں ہو کر
تیری دھڑکن میں سمایا تو مَیں سَر سبز ہوا
(ریحان سعید۔ ڈیرہ غازی خان)


غزل


مٹا کر یوں تیری خاطر یہ سب پندار، ناچیں گے
ستارے ساتھ جھومیں گے، گل و گلزار ناچیں گے
محبت میں یہ رسوائی فقط میرا مقدر کیوں
تمھارا نام لے لے کر سرِ بازار ناچیں گے
تمھارے ظلم پر آواز ایسے بھی اٹھائیں گے
جو جاں کی آخری حد ہے وہاں کے پار ناچیں گے
کہاں تک یہ رخِ روشن چھپاؤ گے نقابوں میں
نہ ہوگا جب تلک دیدار ہم اے یار، ناچیں گے
ہم اُس کے عشق میں گم ہیں کب اپنا ہوش ہے یارو
پسِ دیوار ناچے تھے، سرِ دیوار ناچیں گے
(عامر معان۔ کوئٹہ)


غزل


ایذا دہی کی کیسی یہ رسمیں نکال دیں
کھالیں ہی کھینچ لیں، کبھی جانیں نکال دیں
کیا کچھ کیا ہے سب نے ڈرانے کے واسطے
آنکھیں نکال لیں، کبھی آنکھیں نکال دیں
انسانیت کے دوست نے مثلے بنا دیے
ہم نے بہشت کو نئی راہیں نکال لیں
دردِ فراق دیکھی اس تیغ باز نے
ساکت پہاڑیوں کی بھی چیخیں نکال دیں
یعنی ہمارے ضبط کا سامان تھا یہی
اشکوں پہ بند باندھ کے آہیں نکال دیں
(ابولویزا علی۔ کراچی)


غزل


یہ راز مجھ پر تو روزِ اول سے منکشف تھا
تو ہر جگہ پر مرے سراپے سے منحرف تھا
یہ قیس و لیلی تو ایک عرصہ کے بعد آئے
زمانہ مدت سے میری وحشت کا معترف تھا
میں جانتا ہوں کہ آپ سب بھی ہیں اپنے، لیکن
جو جا چکا ہے، وہ آپ لوگوں سے مختلف تھا
مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے تو اس گھڑی میں
جنابِ مجنوں کے آستانے میں معتکف تھا
خصوصیت تھی سبھی کے پاس اپنی اپنی لیکن
دھنک کا ہر رنگ باقی رنگوں سے مختلف تھا
حسین شہزادی دیکھنے کی غرض سے عاجز
چراغ طاقوں میں سات برسوں سے معتکف تھا
(عاجز کمال رانا۔ جوہرآباد، خوشاب)


غزل


وہ چمکتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
صبحِ اوّل کے نظاروں کی طرح لگتا ہے
تیری آنکھوں کے گلاب اپنی جگہ ہیں لیکن
تیرا لہجہ مجھے خاروں کی طرح لگتا ہے
جب سے جنت میں جگہ لے لی مرے بابا نے
اپنا ہی گھر مجھے غاروں کی طرح لگتا ہے
اچھے لوگوں کو وہ لگتا ہے بہاروں جیسا
برے لوگوں کو شراروں کی طرح لگتا ہے
وہ بھی مصروف ہے دنیا کی عمل داری میں
آج کل وہ مجھے ساروں کی طرح لگتا ہے
بات کرتا ہے مرے حق میں وہ ایسے احمد
ایسا دشمن ہے کہ یاروں کی طرح لگتا ہے
(احمد نیازی۔ لاہور)


غزل


پھر یوں ہوا کہ اس کو بچانا پڑا مجھے
وہ مر رہا تھا لوٹ کے جانا پڑا مجھے
مجھ کو یقیں تھا اس کی محبت پہ اس لیے
نالاں بھی وہ ہوا تو منانا پڑا مجھے
افسردگی نے بدلے خد و خال یوں میاں
خود تک بھی آتے آتے زمانہ پڑا مجھے
ورنہ ہوا نگلتی اسے سو اسی لیے
روشن چراغ ایک بجھانا پڑا مجھے
حمزہ میں چپ تھا، میرا عدو حد سے بڑھ گیا
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)


غزل


عشق میں معتبر نہیں لگتا
تو مرا چارہ گر نہیں لگتا
جانتا ہے مری کہانی وہ
اتنا بھی بے خبر نہیں لگتا
جب تلک میری ماں نہیں ہوتی
میرا گھر میرا گھر نہیں لگتا
مٹی کو نرم ہونا پڑتا ہے
مٹی میں یوں شجر نہیں لگتا
میرے مولا کرم نہ ہو تیرا
زیر پر پھر زبر نہیں لگتا
وہ مرے ساتھ رہتا ہے صابر
میرا اپنا مگر نہیں لگتا
(اسلم صابر۔کلور عیسی خیل)


غزل


بات کرتے ہوئے سوچتے کیوں نہیں
پھر گلہ ہے کہ ہم بولتے کیوں نہیں
دیکھ جانے لگا وہ شہر چھوڑ کر
آگے بڑھ کے اسے روکتے کیوں نہیں
ہم نکموں کو کوئی منائے گا کیا؟
تم نے پوچھا ہے ہم روٹھتے کیوں نہیں
سوچتے ہو اگر سارا دن کچھ نہ کچھ
میرے بارے میں کچھ سوچتے کیوں نہیں
جن کو انجم سمجھتا رہا زندگی
میرے آنے پہ دَر کھولتے کیوں نہیں
(امتیاز حسین انجم کھچی۔ اوکاڑہ)


غزل

خط اس کی محبت کے جلا کیوں نہیں دیتے
ان جاگتی یادوں کو سُلا کیوں نہیں دیتے
ہونٹوں پہ جو تالے ہیں تو ہیں سوچ پہ پہرے
اس حال میں اک حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ ابھی تک بھی ہیں تشنہ لبِ دریا
آنکھوں سے ہی پیاس ان کی بجھا کیوں نہیں دیتے
بے کار ہیں پلکوں پہ سبھی ضبط کے بندھن
جاتے ہوئے لوگوں کو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ شک نہیں یہ کام ہے قبضے میں تمہارے
بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملا کیوں نہیں دیتے
(انور ندیم علوی ایڈووکیٹ۔ نواب شاہ)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 61

مجھ سے حماقت ہوئی اور یہ میں خود کو رعایت دے رہا ہوں جو گناہ کو حماقت کہہ رہا ہوں، انسان ایسا ہی ہے ناں جی! اپنے بچاؤ کے لیے ہر حربہ اپنانا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بے سَر و پَا ہی ہو، ہاں گناہ ہُوا مجھ سے کہ میں نے بابا کی بات کو توجّہ سے نہیں سُنا، یا اسے یُوں کہہ لیں کہ سنا تو توجّہ سے تھا لیکن اس پر غور و عمل نہیں کیا اور پھر یہی ہونا تھا جو ہُوا کہ بابا مجھ سے خفا ہوئے اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے تھا کہ میں نے حنیف بھائی کو تنہا چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کی جسے میں اپنے تئیں حکمت سمجھ رہا تھا۔

اس واقعے کے بعد حنیف بھائی مجھ سے اور زیادہ قریب ہوگئے تھے میں نے بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے انہیں بڑے بھائی کا درجہ دیا اور چھوٹے بھائی کی طرح اپنے فرائض پر توّجہ دینا شروع کیا پہلے سے زیادہ۔ فقیر اعتراف کرتا ہے کہ وہ حنیف بھائی ہی تھے جن کی سفارش پر بابا نے مجھے معاف کردیا تھا، ورنہ تو میرا جرم قابل معافی تھا کہاں۔

زندگی پھر سے رَواں دَواں تھی، اور سَجّن بیلیو! یہ زندگی تو رہتی ہی رواں ہے، ہنستی، گاتی، اتراتی اور مسکراتی بہتی شفّاف ندی کی طرح، جس کا پانی حیات ہوتا ہے، ہاں ایسی ہی ہے زندگی، جسے ہم اپنی حماقتوں سے، اپنے گناہوں سے گدلا کر دیتے ہیں اور پھر یہی شفاف ندی کسی زہریلے جوہڑ میں بدل جاتی، اور دُور تک تعفن اور موت پھیلانے لگتی ہے۔ گناہ تو ہوجاتا ہے اور کسی سے بھی، لیکن ہمارے رویے کتنے متضاد ہیں ناں کہ اگر ہم سے کوئی گناہ ہوجائے تو ہم اس کے لیے لاکھ جواز تراش لاتے ہیں لیکن اگر کسی اور سے ہوجائے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور ایسا کہ مت پوچھیے، کسی کو بھی معاف کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے، ہوتے ہی نہیں، نہ جانے ہٹ دھرمی اور کسے کہتے ہیں اور شقی القلبی کس بَلا کا نام ہے، اور یہ جو بے حسی ہیِ، نہ جانے کیا ہے۔

چلیے ہم اس کی تفصیل میں جانے کی سعی کرتے ہیں، ہوسکتا ہے عقدہ حل ہوجائے، دل کا قُفل ٹوٹے، دَر کھلے، کوئی رستہ ملے۔ دیکھیے یہ بہت اچھی بات ہے … ہاں آپ دیکھ لیجیے … میں بھی دیکھتا ہوں ٹی وی چینلز پر … اخبارات میں … شاہ راہوں پر لگے اتنے بڑے بڑے بورڈ … اور پھر میں نے دیکھا ہے، آپ نے بھی دیکھا ہوگا … یہ کوئی نئی بات نہیں ہے … نماز جمعہ پڑھ کے نکلے تو آپ کو کسی نے ایک چھپا ہوا کاغذ تھما دیا … آپ اسے لے لیتے ہیں، کبھی وہیں پر اور کبھی گھر پہنچ کر فرصت سے دیکھتے ہیں … بہت اچھی بات لکھی ہوتی ہے … اور پھر ان اچھی باتوں کو سکھانے کے لیے اپنی خدمات کا تذکرہ اور اپنی مہارت و ہنر کا دعویٰ … جی ہاں ہم آپ کو سکھا سکتے ہیں۔

انسان ہر دم کچھ نہ کچھ سیکھنے کی سعی کرتا رہتا ہے … اس کی گُھٹّی میں ہے یہ … اس سے فرار ممکن نہیں … یہ سیکھوں … وہ بھی جانوں … مجھے تو سب کچھ آنا چاہیے۔ بالکل ٹھیک ہے … آپ کوشش کرتے ہیں … اس پر اپنا روپیا پیسا لگاتے ہیں …، اپنا وقت لگاتے ہیں، اپنی جان گُھلاتے ہیں۔ بہت محنت کرتے ہیں آپ … بہت نڈھال بھی ہوجاتے ہیں لیکن دُھن کے پکے وہ ہوتے ہیں جو سیکھ کر دم لیتے ہیں … بہت سے مجھ ایسے گاؤدی اور تھڑدلے بھی ہوتے ہیں کہ اپنی کم ہمتی، نالائقی اور جلدبازی کی وجہ سے بس رستے ہی میں دم توڑ دیا … چلیے جی قصہ ہوا تمام۔

جب آپ کچھ سیکھنے کی چاہ میں مبتلا ہوجائیں تب کیا کرتے ہیں؟ گھر پر نہیں بیٹھ جاتے … اس پر سوچتے ہیں آپ، بہت محنت کرتے ہیں … اِدھر اُدھر فون گھماتے ہیں … دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں … اپنے وقت کو فارغ کرتے ہیں … اس کے مصارف کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر آپ اﷲ کا نام لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں … اور چل پڑتے ہیں اس طرف۔

آپ کو جو سواری مہیّا ہے اس پر بیٹھتے اور وہاں پہنچتے ہیں … تو آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کی طرح کے اور بھی بہت سے سیکھنے کے مشتاق وہاں موجود ہیں … بس جی پھر قطار اور انتظار … درمیان میں ہمیں بے کلی ہونے لگتی ہے اور ہم کوئی آسان راہ نکالنے کی سعی کرتے ہیں … ’’ دوست! میرا بھی ایک فارم لے لو۔‘‘ کبھی آپ کی مراد بَر بھی آتی ہے … اور پھر وہ فارم لیتے ہی آپ سکون کا سانس لیتے ہیں … شُکر خدا کا فارم تو ملا۔ پھر آپ اسے بہ غور دیکھتے ہیں، توجہ سے پڑھتے ہیں … ارے یہ نارمل کورس ہے … اس کی فِیس اتنی ہے … یہ شارٹ کورس ہے اور یہ ایڈوانس … آپ یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں ؟

اس لیے ناں کہ بس سیکھنا ہے ہمیں۔ کچھ جاننا ہے ہمیں۔ انگریزی سیکھنی ہے … جرمن سیکھنی ہے … فرانسیسی اور نہ جانے کون کون سی زبانیں۔ چلیے پینٹنگ سیکھنی ہے … اور پھر اس میں بھی فیس پینٹنگ … گلاس پینٹنگ … اور فیبرک پینٹنگ … اور بہت سی شاخیں ہیں۔ اچھا تو کھانا بنانا سیکھنا ہے … بیکنگ سیکھنی ہے … محاسبی وغیرہ … فوٹو اور وڈیو گرافی۔ بس آپ چلتے چلے جائیے … یہ فہرست تو ختم ہونے کی نہیں … آپ اپنے جوہر نکھارنے کے لیے کتنے کٹھن اور محنت طلب مشکل مراحل سے گزرتے ہیں … اس دوران کبھی تو تنگ بھی پڑجاتے ہیں، اُکتا جاتے ہیں … غصہ آتا ہے آپ کو کہ یہ میں کہاں پھنس گیا … لیکن آپ ہتھیار نہیں ڈالتے، خود کو سمجھاتے ہیں، اپنی ہمت خود بندھاتے ہیں، حوصلے سے اور چلتے چلے جاتے ہیں … اور پھر ایک دن، سہانے دن وہ خواب کاغذ کے ایک ٹکڑے کی صورت میں آپ کو تعبیر کی صورت میں ملتا ہے۔ اور پھر آپ خوشی و سرشاری سے پکار اٹھتے ہیں۔ واہ واہ … میں نے پالیا وہ جس کا میں طالب تھا۔ کتنا خوش ہوتے ہیں آپ …!

آپ روز تو دیکھتے ہیں … ہمارے کچھ لوگ میدان میں اترتے ہیں … جان لڑا دیتے ہیں … پھر جیت جاتے ہیں … تب ہم کہتے ہیں واہ واہ بھئی! ہم جیت گئے …

کچھ وہ ہیں جو میدان میں ہار جاتے ہیں تو ہم افسردہ ہوتے ہیں … ہم ہار گئے … حالاں کہ دونوں جگہ ہم نہیں ہوتے … لیکن تعلق تو بندھا ہوا ہے ناں … میدان میں کھیل وہ رہے ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں … سمجھنا بھی چاہیے کہ ہم کھیل رہے ہیں … کتنی مشکل سے، مشقت سے وہ یہ سب کچھ سیکھتے ہیں۔

چلیے ذرا سا دم لیتے ہیں، یہ تو آپ جان گئے ہیں اور بالکل بجا اور ٹھیک جان پائے ہیں کہ فقیر لکھ وکھ نہیں سکتا … ہاں باتیں بنانا خُوب آتی ہیں فقیر کو تو بس باتیں کر رہے ہیں ہم اور ہاں دل کی باتیں … اور فقیر ہمیشہ کہتا ہے ضروری نہیں کہ میری ہر بات درست ہو … سو کیا کریں یہی کچھ آتا ہے … کہتے رہتے ہیں، سنتے رہتے ہیں۔

اب فقیر کو جو بات کہنی تھی وہ صرف اتنی ہی ہے کہ ہم سب کچھ سیکھتے ہیں لیکن ایک بات نہیں سیکھتے، کبھی سوچتے بھی نہیں ناں کہ اتنا کچھ سیکھ رہے ہیں تو چلو یہ بھی سیکھ لیں، اسے سیکھنے کے لیے تو کوئی پاپڑ بھی نہیں بیلنا پڑتا، کوئی فارم بھی نہیں بھرنا پڑتا، رجسٹریشن بھی نہیں کرانا پڑتی اور کہیں جانا بھی نہیں پڑتا، اور پھر کچھ خرچ بھی نہیں آتا، تو پھر ہم آخر کیوں نہیں سیکھتے یہ … اور وہ کیا ہے؟ جی! وہ ہے زندگی کا جوہر خالص … ہم معاف کرنا نہیں سیکھتے … کیسی بات ہے یہ، ہے ناں! … لگتی تو بہت چھوٹی سی بات ہے … لیکن ہے بہت بڑی۔

اب آپ کہیں گے یہ ہم کہاں سے سیکھیں؟ … کون سی درس گاہ ہے، کہاں ہے وہ انسٹی ٹیوٹ کہ جہاں جاکر ہم اسے سیکھیں … ! نہ اس کا اشتہار چھپتا ہے، نہ کوئی فارم، نہ لمبی لائن ، نہ ہی شارٹ، ایڈوانس کورس … اب ہم کریں تو کیا کریں … ؟

دیکھیے یہ زندگی ہے … یہ میری اور آپ کی خواہشات کے تابع ہے نہ ہوسکتی ہے … یہ اپنی ڈگر پر آپ چلتی ہے … کسی سے نہیں پوچھتی پھرتی کہ کیا کروں … ہمیں یہ ہر دم نئی تصویر دکھاتی ہے … نیا رنگ اور نیا پیرہن … یہ نہیں تھکتی … چلتی رہتی ہے اور چلتی رہے گی۔ آپ اسے روک نہیں سکتے … آپ اسے تھکا نہیں سکتے۔

ہم تنہا رہ سکتے ہیں؟ ہاں رہ سکتے ہیں … لیکن یہ بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے … بہت مشکل … اچھا تو ہم تنہا نہیں رہ سکتے … تو پھر ہمیں لوگوں کے درمیان رہنا ہوتا ہے … اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سب ایک طرح کے نہیں ہوتے … ایک طرح سے نہیں سوچتے … سب کے خواب الگ ہیں اور خواہشات سے الگ … لگن اور دل چسپی کے میدان الگ … ہمیں انہی تضادات کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ آپ چاہیں نہ چاہیں، جب ہم اپنے تئیں یہ طے کرلیتے ہیں کہ نہیں ان سب کو میرا کہا ماننا چاہیے، میری طرح دیکھنا چاہیے … سوچنا چاہیے اور یہ ممکن نہیں ہوتا، ہو ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے یہ، تب ٹکراؤ ہوتا ہے، تلخی بڑھتی ہے۔

گھٹن ہوتی ہے … سب کچھ ہوتا ہے اور بات بہت آگے چلی جاتی ہے تو جھگڑا ہونے لگتا ہے … ہاں مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ آپ تو ٹھیک سوچ رہے ہیں … بہت اچھی خواہشات ہیں … آپ کو صلہ برعکس ملتا ہے … معاف کیجیے گا اچھی تجارت کا انتخاب کیا آپ نے۔ لیکن آپ اس سے آگے کیوں نہیں بڑھتے … آپ خود کو بُھول کیوں نہیں جاتے … اب آپ اسے دوسری طرح سے مت سوچیے۔ آپ زندگی کو قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اور پھر بکھرنے لگتے ہیں۔ آپ تو بس اپنی خُوش بو کو پھیلنے دیجیے … کسی کی ناک بند ہے تو فکر مت کیجیے … ہاں یہ اس سے بھی آگے کا مرحلہ ہے کہ آپ اس کی بھی فکر کریں کہ یہ خُوش بو سے کیوں محروم ہے … بس آپ اپنا اچھا کام بالکل مت چھوڑیے … بادل بن جائیے۔ برسیے اور نسیم صبح کی مانند سب کے لیے اپنی بانہیں وا کر دیجیے … بالکل صلہ و ستائش ، واہ واہ کی پروا مت کیجیے … اگر آپ نے یہ خواہش کی تو آپ کچھ نہ کر پائیں گے۔

تلخیاں، جھگڑے، دل آزاریاں، گلے شکوے … سب زندگی کا جزو ہیں، کُل نہیں، ہوتے رہے ہیں … ہوتے رہیں گے۔ آپ نہیں بدل سکتے انہیں … بس آپ ایک کام کیجیے۔ کچھ بھی نہیں کرنا آپ کو … نہ کوئی رجسٹریشن … نہ فیس … نہ ہی در در کے دھکے … بس ابھی اور اسی وقت آپ یہ ٹھان لیجیے، میں معاف کرنا سیکھوں گا اور جب بھی کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو میں معاف کردوں گا … بس معاف کرتا چلا جاؤں گا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں … بہت جان جاتی ہے اس میں … معاف کرنا تو بس آپ خود ہی سیکھ سکتے ہیں … کوئی آپ کو نہیں سکھا سکتا۔ نہ کوئی درس گاہ … نہ انسٹی ٹیوٹ … نہ یونی ورسٹی … اکیڈمی … یہ تو آپ کو خود ہی سیکھنا ہوگا۔

ہاں مجھے احساس ہے … ابتداء میں آپ کو بہت محنت کرنا ہوگی … بہت زیادہ … بل کہ بہت ہی زیادہ … آپ خود سے لڑیں گے بھی ، میں کیوں معاف کردوں … نہیں کبھی نہیں کروں گا معاف … بہت لڑیں گے آپ خود سے۔ بہت ظرف چاہیے اس کے لیے … آپ کے اندر سے آواز بھی آئے گی: بس اتنا ہی دم تھا تجھ میں …؟ مرد بن مرد … اور خواتین کہیں گی کہ میں کسی سے کم ہوں جو معافی مانگوں یا معاف کردوں؟ معافی تو مانگے میری جُوتی … وغیرہ۔

ٹھہریے …! آپ کچھ دنوں کے لیے اپنے کان بند کر لیجیے … مت سنیے کسی کی … اپنی بھی نہیں … بس ہمت کیجیے … ایک مرتبہ مشکل ہوگی … اگر آپ نے یہ گھاٹی، جو بہت مشکل ہے سَر کرلی تو پھر آسانی ہی آسانی ہے۔ بس آج اور ابھی سے سب کے لیے خُوش بو بن جائیے … معاف کر دیجیے سب کو۔

ذرا سا اور آگے بڑھ سکتے ہیں آپ … شاباش یہ ہوئی ناں بات … اب پیچھے مت ہیٹے گا دُھن کے پکے ہیں آپ۔

آپ نے کسی کی دل آزاری کی ہے … کوئی جھگڑا … کوئی تلخی … کوئی حق تلفی … کوئی اور بات … آپ کو اندر سے آواز آتی ہے۔ ہاں میں نے غلطی کی ہے۔ تو بس پریشان مت ہوں … اٹھیے اور ابھی اور اسی وقت اس سے معذرت کیجیے … اپنے رویوں سے ثابت کر دکھائیے کہ آپ رنجیدہ ہیں … غلطی ہوگئی ہے آپ سے … ہاں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں … آپ معاف کردیے جائیں گے۔

بس آج سے آپ معاف کرنا سیکھ گئے ہیں … اب آپ مسکرائیے ضرور لیکن یہ بتائیے کہ آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہے ہیں ناں … آپ نے اپنے سر پہ پڑا بوجھ اتار دیا ہے ناں! ضرور مسکرائیے۔

فقیر کی بات پوری ہو چلی ہے …

مجھے اپنے ایک عزیز ترین درویش ہم سفر نے بہت آسان سی بات بتائی تھی … آپ کو بتا دیتا ہوں۔ کہنے لگا : ’’ کَملیا! لوگ جب دیکھو غلطیاں کرتے ہیں، گناہ در گناہ کرتے ہیں، اور جب اس کی نحوست میں پھنس جاتے ہیں، ان کا جینا دُوبھر ہوجاتا ہے، اِدھر اُدھر بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود بھی جب ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں تو تب پھر اﷲ جی سے معافی مانگتے رہتے ہیں …‘‘

تو میں بولا: ’’ یہ تو بہت اچھا کرتے ہیں وہ … اس سے تو انسان بندہ بنتا ہے۔‘‘

وہ کہنے لگا: ’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ غلط کرتے ہیں … میں تو آسان نسخہ بتا رہا ہوں۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’ کیا ہے وہ بتاؤ …‘‘

تب اس نے بہت خوب صورت بات کی تھی … غور سے سنیے گا، واقعی بہت آسان ہے۔ ’’ دیکھو اﷲ جی سے معافی طلب کرنے کا سب سے اچھا طریقہ اور آسان راستہ یہ ہے کہ اﷲ کے بندوں کو معاف کردیا جائے۔ دیکھ اور سُن او جَھلیا! جب کوئی کسی کو معاف کردے اور پھر اﷲ سے معافی کا طلب گار ہوجائے … تو اﷲ جی کہتا ہے: اوہ … یہ بندہ بن کر معاف کردیتا ہے … میں تو اﷲ ہوں، اسے کیوں نہ معاف کردوں۔‘‘

واہ بھئی واہ … کیا بات ہے۔ آپ نے میری حاضری کو شرف قبولیت بخشا، سو آپ کا ممنون ہوں … اور آپ کی محبّتوں کا مقروض اور اسیر بھی … زندگی رہی اور میرے سوہنے رب نے چاہا تو ملیں گے ہم۔

خود سے زیادہ دوسروں کی فکر کیجیے۔ خوش رہیے آپ سب … اﷲ آپ کو کوئی غم نہ دکھائے اور ہر لمحہ نوید بہار بن جائے۔

فضا میں پھیل چلی میری بات کی خُوش بو

ابھی تو میں نے ہواؤں سے کچھ کہا بھی نہیں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.


ہے آپ کے پاس کوئی جواب۔۔۔؟

$
0
0

ہم نے ’خانہ پُری‘ کو ہمیشہ ’خانۂ دل‘ سمجھ کے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ہماری یہی خواہش رہتی ہے کہ ہر ہفتے اختصار کے ساتھ اپنے دل کی اچھی، سچی یا تلخ وترش باتیں سپرد قلم کیا کریں۔۔۔ اس بار ہم ’ثمر بھائی‘ کی کچھ باتیں یہاں رقم کر رہے ہیں۔۔۔

باتیں کیا ہیں، کچھ سوالات ہیں، جو انہوں نے ہم سے کیے، ہمیں تو کوئی جواب سُجھائی نہ دیا، تو اب ہم یہ انہی کی زبانی اپنے قارئین کو پیش کر رہے ہیں:

گزشتہ دنوں مجھے ایک نہایت ضروری کام سے جانا تھا، میں صبح روانگی کے وقت اپنے بس اسٹاپ پر کھڑا ہوا تھا، میری آنکھیں دور حد نگاہ تک سڑک پر جمی ہوئی تھیں، کہ دیکھ سکوں کہ میری بس آتی ہوئی دکھائی دے جائے۔۔۔ اچانک مجھے پیچھے سے ایک جیپ کی ٹکر سے زور کا دھکا لگا۔۔۔ یعنی ایک گاڑی عقب سے الٹی چلتی ہوئی آرہی تھی، میں گرا تو نہیں، لیکن ایک دم لڑکھڑا ضرور گیا۔

میں نے احتجاج کیا کہ بھئی دیکھ کر کیوں نہیں چلاتے، ایک تو غلط آرہے ہو اب کیا گاڑی بندے پر ہی چڑھا دو گے۔۔۔؟ اندر ایک اجُڈ ڈرائیور موجود تھا۔۔۔ جو غلطی تسلیم کرنے کے بہ جائے الٹا مجھے ہی برا بھلا کہنے لگا کہ تم پیچھے دیکھو، میں گاڑی لا رہا ہوں، میں نے کہا کہ یہ گاڑیاں آنے والی سڑک ہے، اس لیے میں آنے والے رخ پر دیکھوں گا یا پھر عقبی سمت دیکھوں گا؟ لیکن وہ اپنی ہٹ پر جما رہا، مجھے غصہ تھا، لیکن میں نے زبان سے کوئی سخت لفظ نہیں نکالا، صرف یہی کہہ رہا تھا کہ غلطی تمہاری ہے، تمہیں دیکھ کر آنا چاہیے۔۔۔!

اسی اثنا میں وہ ہٹّا کٹّا ڈرائیور نکل کر مجھے مارنے کے لیے آگیا۔۔۔ اس وقت میرے ہاتھ میں انتہائی ضروری کاغذات کا فائل موجود تھا، میں باوجود غصے کے اس وقت ایسی کسی بھی دھینگا مشتی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے خود کو گھونٹ کر رہ گیا، اُسے اسٹاپ پر موجود چند دیگر راہ گیروں نے روک لیا، ورنہ اس نے تو مغلظات بکتے ہوئے آدھا کلو کا ایک پتھر مجھے مارنے کے لیے اٹھالیا تھا۔۔۔ میرا جی بہت خراب ہوا۔

میں نے جیپ کا نمبر BD9273 لکھ لیا، لیکن میں اس نمبر کا کیا کرتا۔۔۔؟ تھانے میں جاتا؟ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے، غلطی نہ ہونے کے باوجود میں اپنے ہی گھر سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر غنڈہ گردی کے نشانے پر تھا۔۔۔ کہتے ہیں کہ بلی بھی اپنے گھر کے آگے شیر ہوتی ہے۔۔۔ مگر شاید اب ہماری حالت اس بلی سے بھی بدتر کر دی گئی ہے۔۔۔! اس کے کچھ ہی روز بعد بس میں آرہا تھا، دیکھا کہ ہمیں تو دفتر کی دیر ہو رہی ہے، لیکن ڈرائیور صاحب جان بوجھ کر بس سست روی سے چلا رہے ہیں۔

تاکہ سگنل بند ہو جائے، جس پر اُسے کہا کہ ’بھئی گاڑی نکال لو یار‘ یہ سن کر اُس نے عقبی شیشے میں دیکھ کر طعنہ دیا ’ابھی تمہارا حکومت نہیں ہے، جب تمہارا حکومت آئے گا، تو دیکھیں گے!‘ میں سوچتا ہی رہا کہ میں نے بات کیا کی اور اس کے جواب اور لب ولہجہ اور اس کا مطلب کیا تھا۔۔۔؟ رہی سہی کسر ایک اور واقعے نے پوری کر دی، میں نے اپنے محلے کی مسجد میں رہائشی مدرسے کے ایک بچے کو بار بار شرارتیں کرنے پر روکا، وہ نہیں مانا تو اُسے ایک چپت لگا دی، یہ دیکھ کر ایک بڑا طالب علم خودسر ہوا کہ’’ تم نے اِسے مارا کیسے؟‘‘ ارے اتنی دیر سے مسجد میں غل کر رہا ہے۔

تب بے خبر تھے اور اب آگئے سر پر۔۔۔ وہ مسجد کی صفوں میں بدزبانی پر اتر آیا، بات ہاتھا پائی تک آگئی۔۔۔ جس کی منتظم سے شکایت کی، لیکن اُسے کوئی سزا نہیں دی گئی، مجھے قلبی رنج ہوا کہ یہ ہماری دینی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تربیت اور رویے ایسے ہیں۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ یہ سب کچھ ایک ایسی مسجد میں ہوا، جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی عمریں گزار دیں۔۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ اور کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ کیا کوئی مجھے اس کا جواب دے گا؟

۔۔۔

جذبات کی قبر پہ گھاس اگ آئی تھی مگر۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر

میں نے ذہنی اذیتوں، مائیگرین کے طویل حملوں اور احساس کے سلگتے تنوروں میں متعدد بار جلنے، درد سہنے اور آنسو بہانے کے بعد ایک سبق سیکھا کہ جس معاشرے میں، میں رہتی ہوں وہاں ’’ذہنی سکون‘‘ کے لیے بے حسی شرط اول ہے۔

یہاں تو کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کھال کھینچ کر صحرا میں چلنے پہ مجبور نہ کیا جائے۔کوئی بھوک کے ہاتھوں اپنا اور اپنے بچوں کا گلا کاٹتا ہے، کوئی اپنی چند لمحات کی وحشت کو سکون دینے کے لیے معصوم بچوں سے ان کی سانسیں چھین لیتا ہے۔ کہیں کوئی چور ہجوم کی نفسیات کا شکار ہوتا ہے اور کبھی غیرت کے نام پر بے غیرتی کے مظاہرے پیش کیے جاتے ہیں۔کیا میں جل کڑھ کر، رو کر، خود کو اذیت دے کر انہیں بدل سکتی ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں!

کیا میرے پاس لفظوں کی وہ ترکیبیں وافر ہیں جن کی مدد سے میں ہر دن ایک نوحہ لکھوں؟ ہر صبح ایک چیخ کی تجسیم کروں اور ہر شام ایک ہچکی کو کفن دے کر زمیں برد کر سکوں؟

نہیں! ایسا نہیں ہے۔ اس زمین پر ظلم کے نصاب کی وہ فراوانی ہے کہ احساس کی چند تختیاں ان کے مقابلے میں یقیناً ہار جاتی ہیں۔ لہٰذا میں نے ہر قتل، ہر ظلم اور ہر المیے پر کچھ کہنا، لکھنا چھوڑ دیا۔

آخر مجھے کیا پڑی ہے کہ ہر تکلیف کے بھاری پہیے تلے خود کو کچلوں؟ تیزاب کے چھینٹے اپنے چہرے پہ محسوس کروں، شہہ رگ پر چھری کی لرزش کا ذائقہ چکھوں، زہر سے پھٹتی شریانوں کی آوازیں سنوں؟ سو میں نے بے حسی کا ایک ریشمی

پردہ بنا اور اپنی پناہ گاہ کے گرد اچھی طرح لپیٹ کر مصنوعی روشنیوں، بے شکل خوش بووں اور مستعار خوشی سے حجرہ سجا کر اس میں بیٹھ رہی۔

واہ! کیسا سکون تھا!! نہ کوئی آہ، نہ سسکی، نہ چیخ اور نہ ہچکی!

کوئی مرتا ہے تو خدا کی مرضی، آخر مخلوق اس کی ہے میری تو ذمہ داری نہیں! کوئی تڑپتا ہے تو خدا جانے! اس کی قدرت اگر خاموش رہ سکتی ہے، تو مجھے کیا مصیبت ہے کہ اپنا سکون برباد کروں!

یہ ترکیب کارگر رہی۔ شروع شروع میں آہیں، لاشیں، شعلے، ڈنڈوں سے ٹوٹتی ہڈیوں کی آوازیں، گلتے سڑتے جسموں کی بدبو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میری پناہ گاہ کے باہر جمع ہو کر مجھے آوازیں دیا کرتی تھیں، مگر آہستہ آہستہ وہ مایوس ہو گئیں۔

احساس پہ گرد جمنے لگی، مکڑیوں کے جال دبیز ہونے لگے، الفاظ نے آنکھیں موند لیں اور جذبات کی قبر پہ گھاس اگ آئی۔ ایک افیونی سکون اور خاموشی نے آنکھوں پر ٹھنڈک کی چادر چڑھا دی اور زبان پیپر منٹ کے استعمال کے بعد سن ہو جانے والی کیفیت میں مستقل رہنے لگی۔

لیکن ایک مخبوط الحواس دکھائی دیتے، اپنا ’اے ٹی ایم کارڈ‘ مشین سے توڑ کر نکالنے والے شخص نے میری پناہ گاہ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس نے جب سانس اور جان پر قادر پولیس والوں سے یہ پوچھا کہ ’’بندہ مارنا کہاں سے سیکھا؟‘‘ تو جواب پر الفاظ ضائع کرنے کے بہ جائے اسے عملی مظاہرہ کر کے دکھا دیا گیا۔۔۔! یہ الگ بات کہ وہ جواب جانے بغیر ہی پھٹی آنکھیں لے کر مر گیا۔

وہ مر گیا، دکھ اس بات کا نہیں، مجھے تو تکلیف بس یہ ہے کہ کل وہ تمام تر شدت کے ساتھ میرے حجرے میں گھس آیا، اس نے گھاس تلے چُھپی قبر کو اندھا دھند اپنے ناخنوں سے کھود ڈالا، الفاظ کو ٹھڈے مار مار کر جگاتا رہا، آنکھوں پر تیزاب کے چھینٹے مارتے ہوئے کانوں میں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی جھنکار سے چھید کرتا رہا۔ بدبو سے میرا سانس گھٹنے لگا اور کیڑے چاروں جانب رینگنے لگے۔ میں بے بس سی بیٹھی اسے یہ سب کرتے ہوئے دیکھتی رہی اور اس نے اسی پر بس نہیں کی۔

وہ ظالم سب آہوں، سسکیوں، زہر سے پھٹی زبانوں، ٹوٹی ہڈیوں کی جی متلا دینے والی آوازوں، جلتی کھال کی سڑاند اور شہ رگ پر تھرتھراتے چاقو کی سنسناہٹ کو بھی بلا لایا۔ تمام رات وہ گھیرا باندھے قدیم آدم خود قبائلیوں کی مانند میرے گرد چیختے رہے اور میری پناہ گاہ ، میری مہربان بے حسی ریت کے ذروں میں ڈھل کر مجھ سے الگ ہوتی رہی۔

صلاح الدین! مجھے تم سے ’نفرت‘ ہے۔۔۔ تمہیں انتقام لینے کو میں ہی ملی تھی۔۔۔!!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
عدالت
رضوان طاہر مبین

عدالت لگنے والی تھی۔۔۔
سائل دعا گو تھے۔۔۔
کوئی کسی ناگہانی میں پھنسا ہوا تھا، تو کسی کا مستقبل قانون کے کٹہرے میں تھا۔۔۔
کسی کو اَن ہونی کی امید تھی، تو کوئی مایوس تھا۔۔۔
پورے کمرے میں اضطراب طاری تھا۔
مگر کچھ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔
’’کیا انہیں اپنے حق میں فیصلہ ہونے کا یقین ہے، جو اتنے خوش ہیں؟‘‘
ثمر بڑبڑایا۔
’فیصلہ کچھ بھی ہو، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
برابر والا سائل بولا۔
’’کیا ان کے مقدمے بہت معمولی ہیں؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’نہیں، یہ عملے کے لوگ ہیں۔۔۔!‘‘
سائل نے جواب دیا۔

۔۔۔

’’میکے کو لکھےگئے سندیس!‘‘
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

بابا جی۔۔۔!
آپ کا خط ملا۔۔۔ یوں لگا میرے گھر سے کوئی آگیا۔۔۔ آپ کا خط میرے ہاتھ میں ہے۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے، آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں۔۔۔ چھوڑنا نہیں!
دو دن سے یہاں بارشیں ہو رہی ہیں۔۔۔ اور میں گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں۔۔۔ اپنے گھر میں بارش میں کتنا نہاتی تھی۔۔۔ امّاں ڈانٹتی تھیں، مجھے اور مزہ آتا تھا۔۔۔ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی تھی ’’اللہ صاحب، اور بارش بھیجو۔۔۔!‘‘
یاد ہے ابّا جی، ایک دن بہت بارش ہو رہی تھی۔۔۔ آپ کو مجھے اسکول چھوڑنا تھا۔۔۔ آپ کے سائیکل کے پہیے کی ہوا نکل گئی تھی۔۔۔ وہ میں نے نکالی تھی۔ اسکول نہیں گئی اور بارش میں نہاتی رہی۔۔۔ بھائی ہمیشہ مجھ سے لڑ کر۔۔۔ مجھے گھر میں لے جاتا تھا۔۔۔ اور میں روتی ہوئی آ کر آپ سے لپٹ جایا کرتی تھی۔
بابا جی۔۔۔!
یہاں کوئی مجھ سے لڑتا ہی نہیں۔۔۔ بہت خاموشی ہے۔۔۔ میں تو تمھاری لاڈلی تھی۔۔۔ پھر مجھے اتنی دور کیوں بھیج دیا؟
اماں کیسی ہیں، کس کو ڈانٹی ہیں، چڑیوں سے باتیں کون کرتا ہے؟ بکریوں کو چارہ کون ڈالتا ہے؟ تمہاری پگڑی میں کلف کون لگاتا ہے؟ بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔ بابا جی، لکھا نہیں جا رہا۔ تم سب بہت یاد آتے ہو!!
’’تمہاری لاڈلی‘‘
…………
بابا جی۔۔۔ ناراض ہو؟
اگر نہیں ہو تو پھر اپنی لاڈلی کو خط کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟
بہت ساری باتیں تمہیں بتانا ہیں۔۔۔ امّاں سے کہنا اپنی ہری چادر تلاش کرنا چھوڑ دے۔۔۔ وہ میں نے چُپکے سے اپنے بکسے میں رکھ لی تھی۔۔۔ جب امّاں کی یاد آتی ہے، میں وہ چادر سونگھ لیتی ہوں۔۔۔ اور یوں لگتا ہے، میں امّاں کی بانہوں میں ہوں۔۔۔!
تم نے جو قلم بھائی کے پاس ہونے پر اُس کو دیا تھا، وہ بھی میں لے آئی۔۔۔ اب بھائی قلم ڈھونڈے گا، تو مجھے یاد کرے گا!
تمہاری ٹوٹی ہوئی عینک بھی اپنے ساتھ لے آئی۔۔۔ سارا دن شیشے جوڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔۔۔ اور تم سامنے بیٹھے رہتے ہو۔۔۔!
بابا جی، انہی باتوں سے تو میرا دن کٹ جاتا ہے۔۔۔ بابا جی، میں نے کل رات ایک خواب دیکھا، تم، امّاں، بھائی صحن میں بیٹھے بہت خوش نظر آئے۔۔۔ باباجی، مگر میں اداس ہوگئی۔ آم کے پیڑ پہ جو میرا جھولا تھا نا، وہ نظر نہیں آیا۔۔۔ تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟
اُسے ڈلوا دو۔۔۔ میں اب بھی اسی جھولے پر بیٹھی ہوں۔۔۔ اور کچے آم توڑ کے کھانے لگتی ہوں۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا بابا جی۔۔۔!
’’تمہاری لاڈلی‘‘
(انور مقصود کے قلم سے دل میں اُتر جانے والی سطریں)

۔۔۔

بے چارہ شاعر اور’ٹھنڈی بریانی‘
خالد معین

کراچی جیسے شہر کے ایک کونے پر آباد ایک شاعر جب بڑے کروفر سے گھر سے نکلتا ہے اور کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے شہر کے دوسرے کونے تک پہنچتا ہے، تو ’بپلک ٹرانسپورٹ‘ میں اس کے دو ڈھائی تو گھنٹے صرف ہو ہی جاتے ہیں اور آدھے پونے سے زیادہ ذہن بھی خرچ ہو جاتا ہے۔ مشاعرے کا وقت آٹھ بجے ہوتا ہے، جو 10 بجے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 50 سے زائد شاعر اور شاعرات، وہ مشاعرہ پڑھتے ہیں۔ چار مہمانِ اعزازی اور پانچ مہمانِِ خصوصی بھگتانے والا شاعر اپنی باری آنے پر صرف پانچ شعر پڑھ پاتا ہے، کیوں کہ صدر اور مہمانانِ گرامی جو قریب قریب ’پیڈ آئٹم‘ ہوتے ہیں۔

اس لیے ان کی شاعری کے بغیر نہ مشاعرہ مکمل ہو سکتا ہے اور نہ منتظمین کی جیب بھر سکتی ہے۔ اب رات کے دو بج رہے ہیں۔ 50بھوکے شاعر بغیر رائتے والی ٹھنڈی بریانی پر ٹوٹ پڑے ہیں۔۔۔ تاہم گھر جانے کے لیے بے چارے شاعر کو ایک طویل خواری ابھی مزید جھیلنی ہے، گھر لوٹنے پر بیوی، بچوں اور ماں کی لعن طعن الگ سہنی ہے اور پھر کسی نئے مشاعرے کے دعوت نامے کا پیچھا کرنا ہے، اس سے آگے ہمارا بے چارہ شاعر نہ سوچ سکتا ہے اور نہ اس کی بساط ہے کہ اس احمقانہ معمول کو توڑ سکے یا اس کے خلاف آواز اٹھا سکے، ایسا کرنے کا مطلب ہے، وہ ’ادب کی سماجیات‘ کا مذاق اڑا رہا ہے اور ایسا مذاق ادب کے ٹھیکے داروں کو بالکل پسند نہیں۔۔۔ سمجھے میرے بھائی کہ نہیں۔۔۔۔

The post ہے آپ کے پاس کوئی جواب۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مفید گھریلو نسخے… جنہیں بھلانا انسان کو مہنگا پڑا

$
0
0

بلاشبہ عصر حاضر کی ترقی خصوصاً جدید میڈیکل سائنس نے انسان کے لئے بے شمار آسانیاں پیدا کی ہیں، لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ نہ صرف بیماریاں بڑھ رہی ہیں بلکہ نت نئے امراض سے انسان پریشان بھی دکھائی دیتا ہے۔

ایک بیماری کا علاج کرتے کرتے بعض اوقات ادویات کے سائیڈ افیکٹ کی وجہ سے دوسری بیماری جنم لے لیتی ہے، یوں ایک سے دوسری اور پھر تیسری بیماریوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ادویات تو زندگی کا حصہ ہی بن چکی ہیں، کھاتے رہیں تو ٹھیک بصورت دیگر بستر پر لگ جائیں گے۔ ماہرین طب کا تو یہ تک کہنا ہے کہ دور جدید کی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی کثرت کی وجہ سے انسانی جسم میں قوت مدافعت کم اور نتیجتاً بیماریاں زور پکڑ رہی ہیں۔

لہذا بیماریوں کے علاج کے لئے ہمیں اپنی اصل یعنی پرانے گھریلو ٹوٹکوں کی طرف لوٹنا چاہیے، کیوں کہ ان کے استعمال سے نہ صرف بہتر علاج ممکن ہو سکتا ہے بلکہ سائیڈ افیکٹ کا بھی خطرہ نہیں رہتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک نیچروپیتھی (قدرتی علاج) کی طرف لوٹ رہے ہیں، ہاں! البتہ کسی بھی گھریلو ٹوٹکے کے استعمال سے قبل اس کے بارے میں مکمل آگاہی ہونا ضروری ہے۔ لہذا یہاں ہم آپ کو چند ایسے پرانے گھریلو نسخوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں، جن سے آگاہی یقینی طور پر آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی، کیوں کہ ان نسخوں پر عالمی شہرت یافتہ ماہرین طب بھی متفق ہیں۔

خراب گلا
نمک صرف کھانے کو ہی مزیدار نہیں بناتا بلکہ گھر میں اس کے مختلف مفید استعمالات ہو سکتے ہیں، جن میں سے ایک خراب گلے کا علاج ہے۔ معروف امریکی ماہر طب ڈین میکگی کہتے ہیں کہ ’’ گلہ خراب ہونے کی صورت میں نمک ملے پانی کے ساتھ غرارے کرنے سے درد اور خراش میں فوری سکون ملتا ہے، تاہم پانی میں مناسب مقدار سے زیادہ نمک شامل مت کریں۔ 8 اونس نیم گرم پانی میں نمک کے لئے ایک چائے کا چمچ حل کریں اور اس کے ساتھ اس امر کو یقینی بنائیں کہ غرارے کرتے ہوئے یہ پانی گلے کے اندر نہیں اترنا چاہیے۔‘‘

آنکھوں کی سوجن
مختلف تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ چائے جسم کے مختلف اندرونی و بیرونی طبی مسائل کا حل ہے اور انہیں میں سے ایک مسئلہ آنکھوںکی سوجن ہے، جن کو گھر کی بڑی بوڑھی خواتین جلد جان جاتی ہیں۔ ڈیرماٹالوجسٹ پورویش پٹیل کے مطابق ’’ چائے میں شامل کیفین خون کی نالیوں کی بندش کو ختم کرنے میں نہایت معاون ہے اور یہی چیز سوجن یا دکھاوٹ کا شکار آنکھوں کے قدرتی علاج کا باعث بنتی ہے۔ ٹھنڈک آنکھوں کی سوجن میں کمی کا سبب ہے، لہذا ٹی بیگ کو پانی میں ڈبونے کے بعد نچوڑ کر فریج میں رکھ دیں اور بعدازاں اس تھیلی کو کچھ دیر کے لئے سوجی آنکھوں پر رکھ لیں، اس عمل سے آپ کو فوری آرام محسوس ہو گا‘‘ آنکھوں کی سوجن کے علاوہ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چائے میں پانی جانے والی کیفین سن سکرین کا کام بھی کرتی ہے، جو انسان کو جلد کے کینسر سے محفوظ رکھتی ہے۔

قبض
جب آپ کسی وجہ سے گھر سے باہر نہ نکل پا رہے ہوں تو قبض کی صورت میں اس کا خشک آلو بخارے سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ارن پالینسکی ویڈے کے مطابق ’’ایک آلو بخارے میں ایک سو کیلوریز اور تین گرام فائبر ہوتا ہے، سیال اور ریشوں سے بھرپور خشک آلوبخارا قبض کے خاتمے کے لئے نہایت مفید ثابت ہوا ہے۔‘‘

جلدی بیماریاں
اگر آپ خارش، خشک جلد سمیت کسی بھی طرح کی جلدی بیماری کا شکار ہیں تو اس مسئلہ میں گھریلو نسخے آپ کی باآسانی مدد کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ سننے اور کرنے میں کچھ عجب محسوس ہوتا ہے کہ جس چیز کو آپ کھاتے ہیں، اسی چیز سے نہایا جائے، لیکن جو کے اندر قدرت نے وہ صلاحیت رکھی ہے کہ اس کو پانی میں ملا کر نہانے سے جلدی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ صدیوں قبل جلدی بیماریوں کے علاج کے لئے گھروں میں پسے ہوئے جو کو پانی میں ملا کر نہانا معمول کی بات تھی اور آج کی میڈیکل سائنس نے بھی جلدی بیماریوں کے حوالے سے جو کی افادیت کو ثابت کر دیا ہے۔ ڈاکٹر پٹیل کہتی ہیں کہ ’’خشک اور خارش دار جلد کے لئے جو کا استعمال نہایت مفید ہے۔ لہذا جو کو پیس کر نیم گرم پانی میں ملا کر نہائیں، جس سے جلد پر ایک جھلی بن جاتی ہے، جو نہ صرف بیماریوں کو دفع کرتی ہے بلکہ جلد کو نرم و ملائم بھی بناتی ہے، تاہم نہاتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کے جسم کو زیادہ رگڑنا نہ جائے۔‘‘

کھانسی
اس سے بڑھ کر شائد کچھ برا نہیں ہو سکتا کہ جب رات کو سوتے وقت اچانک سے شدید کھانسی کی وجہ سے آپ کی آنکھ کھل جائے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ آزمودہ گھریلو نسخے سے اس پریشانی سے باآسانی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ امریکی ماہر طب ڈین میکگی کا کہنا ہے کہ ’’آج کی جدید میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اچانک اٹھنے والی کھانسی کی صورت میں شہد سے بڑھ کر کوئی دوا نہیں۔ کھانسی ہونے کی صورت میں ایک چمچ شہد چاٹ لیا جائے، جس کے بعد کچھ دیر کے لئے کچھ کھائیں نہ پئیں، لیکن ایک سال سے کم عمر بچوں کو کھانسی کی صورت میں شہد ہرگز استعمال مت کروائیں کیوں کہ یہ فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے‘‘ کھانسی کے علاوہ قدیم مصر میں شہد کو زخموں پر برہم کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا، کیوں کہ اس کے اندر پائے جانے والے قدرتی اجزاء اینٹی سیپٹک کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

جی متلانا
سینکڑوں برس سے ادرک کو اس کی بے پناہ افادیت کے باعث مختلف بیماریوں کے لئے استعمال کیا جاتا آ رہا ہے اور انہی میں سے ایک جی متلانا بھی ہے۔ اس ضمن میں ماہر غذائیات ارن پالینسکی ویڈے کہتی ہیں کہ ’’ مختلف تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جی متلانے کی صورت میں ادرک کا استعمال نہایت موثر ہے، خصوصاً حاملہ خواتین کے لئے یہ نہایت مفید علاج ہے۔ اگرچہ ابھی تک حتمی طور پر یہ طے نہیں ہو پایا کہ جسم کے اندر ادرک کیسے کام کرتا ہے، تاہم ہمارا یہ ماننا ہے کہ ادرک ایسے مادے کو بڑھنے سے روکتا ہے، جو جی متلانے کا باعث بنتا ہے۔‘‘

جلے کا علاج
آپ سوچتے ہوں گے کہ کَوار گَندل صرف دھوپ کی تپش سے جلنے والی جلد کے لئے مفید ہے، لیکن قدیم طریقہ علاج میں اسے جسم جلنے کے لئے دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا، جس کو آج کی جدید طبی تحقیق نے بھی ثابت کر دیا ہے۔ ڈاکٹر پٹیل کے مطابق ’’ جسم کا کوئی حصہ جلنے کی صورت میں کوار گندل نہایت سکون آور طریقہ علاج ہے۔ جدید ادویات یعنی کسی بھی قسم کی کریم یا جیل میں بھی کوار گندل کا عرق ہی استعمال کیا جا رہا ہے، کیوں کہ کوارگندل میں وہ قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو جلنے کی صورت میں نہ صرف سوزش بلکہ درد میں بھی افاقہ پہنچاتے ہیں، تاہم اس امر کو یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری ہے کہ ایک تو کوار گندل خالص ہو اور دوسرا آپ پہلے سے کسی بھی قسم کی الرجی کا شکار نہ ہوں۔‘‘

زکام
عصر حاضر میں بھی دادی اماں کے ہاتھ سے بنا چکن سوپ نزلہ و زکام کا بہترین علاج تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ یہ ایک پرانا گھریلو نسخہ ہے، لیکن آج کی میڈیکل سائنس نے اسے تصدیقی سند عطا کر دی ہے۔ ڈاکٹر ڈین میکگی کہتی ہیں کہ ’’چکن سوپ نزلہ و زکام کی صورت میں میرے لئے بہترین کام کرتا ہے۔ سوپ کی صورت میں بنے چکن میں شامل خاص قدرتی اجزاء کسی بھی انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ چکن سوپ کے استعمال سے نہ صرف نزلہ و زکام کے خلاف قوت مدافعت بڑھتی ہے بلکہ جسم کو آرام ملنے کی صورت میں آپ کو نیند بھی آتی ہے، جو کہ بیماری کی صورت میں نہایت مفید تصور کی جاتی ہے۔‘‘

اسہال
کسی بھی طویل سفر یا فیملی کے ساتھ کچھ دن کے لئے پکنک منانے کے لئے جانے سے قبل سامان میں یاد سے لیموں بھی رکھ لیں، کیوں کہ سفر کے دوران یہ آپ کے بہت کام آئیں گے۔ ماہر غذائیات ارن پالینسکی ویڈے کے مطابق ’’پیٹ کی خرابی کی صورت میں منہ میں ضرورت سے زیادہ لعاب پیدا ہوتا ہے، جس کے باعث معدے کا نظام بگڑ جاتا ہے اور نتیجتاً متلی بھی آ سکتی ہے۔ لہذا ایسی صورت میں لیموں کو چوسنا نہایت مفید ہے، کیوں کہ لیموں کی وجہ سے لعاب پیدا ہونے کی مقدار معتدل ہو جاتی ہے، جو معدے کے نظام کی بہتری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دوران سفر طبیعت کی خرابی کی صورت میں بھی لیموں کو چوسنا مفید ثابت ہوتا ہے‘‘ اس کے علاوہ ایک اور تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ لیموں میں پایا جانے والا وٹامن سی گرد سے پیدا ہونے والی الرجی سے بچائو کا بھی ذریعہ ہے۔

جسم پر بنے سخت دانے (Warts)
اگرچہ ڈکٹ ٹیپ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایجاد کی گئی، لیکن گھروں میں اسے مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ایسے استعمالات میں جسم پر بنے سخت دانے( Warts) کے علاج کے لئے بھی ڈکٹ ٹیپ کا استعمال کیا جاتا ہے، جسے امریکن اکیڈمی آف ڈیرماٹالوجی نے ایک محفوظ طریقہ علاج قرار دیا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق سخت دانوں کے علاج میں ڈکٹ ٹیپ کا استعمال انہیں ایک ہی جگہ پر ساکت کرنے کی نسبت نہ صرف 25 فیصد تک زیادہ موثر ہے بلکہ سستا بھی ہے۔

زخم
ویزلین کے اتنے زیادہ استعمالات ہیں کہ جن میں سے کچھ کے بارے میں تو شائد آپ کو علم بھی نہ ہو، تاہم یہ ممکن ہے کہ دادی اماں ان کے بارے میں جانتی ہوں، لیکن یاد رکھیں! جلد پر اس کا بہت زیادہ استعمال چہرے پر کیل مہاسے اور جسم پر دیگر جلدی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر پٹیل کا کہنا ہے کہ ’’ویزلین کا بے جا استعمال سن برن (دھوپ کی تپش سے جلد کا جلنا) میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے، لہذا میں جلد کے تمام مسائل کے لئے ویزلین کو استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتی، تاہم کسی زخم کی صورت میں اس پر ویزلین کا استعمال نہایت مفید ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف زخم جلدی بھر جاتا ہے بلکہ کسی بھی قسم کی انفیکشن سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی سرجری کے بعد بھی متعلقہ جگہ پر ویزلین کا استعمال فائدہ مند ہے۔‘‘

دانتوں کی صفائی
اگر آپ اپنے کام کی جگہ پر ہیں، جہاں ٹوتھ برش کرنے کی سہولت نہیں، لیکن کھانے پینے کی وجہ سے دانت صفائی کے متقاضی ہیں تو ایسے موقع پر آپ سیب کو استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ تو آپ نے سنا ہے کہ روزانہ ایک سیب کھانا ڈاکٹر کے پاس جانے سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سیب کھانے سے آپ کو ڈینٹیسٹ کے پاس بھی نہیں جانا پڑے گا۔ معروف ڈینٹسٹ نینسی روزن کے مطابق ’’ جب آپ سیب کھاتے ہیں تو یہ دانتوں کو رگڑتا ہے، یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیب کھانا دانتوں کی صفائی کا قدرتی طریقہ ہے، تاہم سیب کو چھلکے سمیت کھائیں کیوں کہ اس چھلکے میں بہت زیادہ فائبر ہوتا ہے، جو دانتوں پر کسی بھی قسم کے داغ دھبے نہیں چھوڑتا۔ اگرچہ سیب میں شامل ایسڈ اور شوگر شائد دانتوں کو کچھ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے، لیکن سیب کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے سامنے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘‘

سوزش
زمانہ قدیم سے مچھلی کے تیل کو جوڑوں کے درد کا مفید علاج تصور کیا جاتا آ رہا ہے، تاہم جوڑوں کے درد کے علاوہ بھی اس کے متعدد طبی فوائد ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ارن پالینسکی ویڈے کہتی ہیں کہ ’’ مچھلی کا تیل اومیگا فیٹی ایسڈ سے بھرپور ہوتا ہے، جو نہ صرف دل کو تقویت پہنچاتا ہے بلکہ مردانہ قوت، دماغ اور آنکھوں کی صحت کے لئے بھی بہترین چیز ہے۔ جوڑوں کے درد اور ان میں سوزش کی صورت میں مچھلی کے تیل کی مالش اور اس کو کھانے میں استعمال کرنا نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

بدبودار سانسیں
ملٹھی کے اندر بدبودار سانسوں کو خوشبودار بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے اس کا گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے، خصوصاً آپ نے اپنے بڑوں یعنی دادا وغیرہ کو یہ چباتے ہوئے ضرور دیکھا ہو گا۔ ڈینٹسٹ نینسی روزن کا کہنا ہے کہ ’’ ملٹھی کے اندر وہ اجزاء پائے جاتے ہیں، جو ایسے بیکٹریاز کا مقابلہ کرتے ہیں، جو دانتوں کی صحت کو نہایت نقصان پہچاتے ہیں اور نتیجتاً ہماری سانسیں بدبودار بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مارکیٹ میں ملنے والی بیشتر ٹوتھ پیسٹ کے اشتہارات میں آپ ملٹھی کو ضرور دیکھتے ہیں۔‘‘

سردرد
دی نیشنل ہیڈک فائونڈیشن کی ہدایات کے مطابق سردرد کے علاج میں کوئی بھی گولی کھانے سے قبل برف کا استعمال کیا جائے۔ یونیورسٹی آف ہوائی میں ہونے والی ایک تحقیق ہمیں بتاتی ہیں کہ گلے کے اگلے حصہ پر شہ رگ سے اوپر برف کے ٹکڑوں کی آہستہ آہستہ مالش سے سردرد میں فوری ریلیف ملتا ہے اور یہ پریکٹس ان لوگوں کے لئے تو بہت ہی مفید ہے، جو آدھے سردرد کے مرض کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ سردرد کی صورت میں پودینے کے عرق کی سر پر مالش کرنے سے بھی یہ رفع ہو جاتا ہے۔

سفید دانت
دانتوں کو سفید بنانے کے لئے مصنوعی ٹوتھ پیسٹ سے جان چھڑائیں، یہاں ہم آپ کو اس کا قدرتی اور گھریلو طریقہ بتائے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نینسی کے مطابق میٹھے سوڈے سے آپ اپنے دانتوں کو صاف اور سفید بنا سکتے ہیں۔ کسی پیالے میں تھوڑا سا میٹھا سوڈا ڈال کر اس میں پانی شامل کر لیں، پھر انہیں مکس کرنے سے یہ ایک پیسٹ تیار ہو جائیں گے، جس میں برش کو ڈبو کر دانتوں پر آہستہ آہستہ رگڑیں، یہ عمل کچھ ہی روز دہرانے سے آپ کو اپنے دانتوں کی صفائی اور سفیدی میں واضح فرق محسوس ہوگا، لیکن اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ اس پیسٹ کا بہت زیادہ استعمال نہ کیا جائے کیوں کہ میٹھے سوڈے کی کثرت کی وجہ سے یہ آپ کے مسوڑھوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔‘‘

دکھتے پائوں
ٹینس بال صرف کھیلنے کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے تھکے ماندے پائوں کو آرام بھی دے سکتی ہے۔ امریکن اکیڈمی آف فیملی فزیشنز کے مطابق ٹینس بال سے تلووں پر مساج کرنے سے پیروںکو سکون ملتا ہے، جس سے نہ صرف درد کم ہوتا ہے بلکہ تھکاوٹ سے چُور دوبارہ سے کام پر لگنے کے قابل بھی بن جاتے ہیں۔

ذہنی دباؤ
جاپان میں دو ہفتوں پر مشتمل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی برینڈ کی چیونگم چبانے والے افراد کی طبعیت میں اضطراب کم، موڈ خوشگوار اور تھکاوٹ کا احساس کم پایا گیا۔ اسی حوالے سے آسٹریلیا میں ہونے والی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ چیونگم ذہنی دبائو کا شکار کرنے والے ہارمونز پر کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔

بڑھتی عمر کے باعث چہرے پر پڑنے والے داغ
عمر رسیدگی سے چہرے پر پڑنے والے داغ دھبوں یا چھریوں سے نجات کے لئے آپ مہنگی کریموں کے استعمال کے بجائے لسی کو استعمال کریں، کیوں کہ یہ ان کریموں سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق لسی کے اندر وہ خاص اجزا ( lactic acid and ascorbic acid) ایک ساتھ پائے جاتے ہیں، جو چہرے پر پڑنے والے داغ مٹا دیتے ہیں۔ روئی کو لسی میں ڈبو پر چہرے پر متعلقہ مقامات پر لگائیں اور 20 منٹ بعد منہ دھو لیں، چند ہی روز میں آپ کو فرق محسوس ہونے لگے گا۔

آنکھوں پر دباؤ کا احساس
کھیرے میں قدرتی طور پر لذت کے ساتھ بے پناہ طبی فوائد پنہاں ہیں، جن میں سے ایک آنکھوں پر دبائو کے احساس کا خاتمہ ہے۔ آنکھوں پر بوجھ محسوس ہونے کی صورت میں کھیرے کا ایک ٹکڑا 15منٹ تک بند آنکھوں پر رکھیں، پھر جب آپ آنکھیں کھولیں گے تو آپ کو واضح فرق محسوس ہو گا۔ غذائی ماہرین کے مطابق کھیرے میں وہ اینٹی آکسایڈنٹ پایا جاتا ہے، جو آنکھوں کی سوزش کو کم اور درد میں آرام پہنچاتا ہے۔

ہچکی
کلیفورنیا کے معروف نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر کلیر مارٹن کہتے ہیں کہ ’’چینی صرف کڑوی ادویات کو حلق سے نیچے اتارنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ کسی نقصان کے بغیر ہچکی کا فوری علاج بھی ہے، تاہم شوگر کے مریض یہ نسخہ استعمال کرنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔‘‘

بدہضمی
بدہضمی کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ گھر کے کچن میں موجود سونف اس کا فوری اور بہترین علاج ہے۔ مذکورہ مسئلہ بننے پر فوری طور پر آدھا چائے کا چمچ سونف کا کھا لیں، آپ کو کھٹی ڈاکاروں سے نجات مل جائے گی۔

چنبل
سرخ مرچ میں شامل حدت آپ کو چنبل جیسی مصیبت سے نجات دلا سکتی ہے۔ بس کرنا آپ نے یہ ہے کہ سرخ مرچ کی بنائی گئی پیسٹ کو متاثرہ جگہ پر لگا لیں، تھوڑی جلن کا اگر احساس ہو تو اسے برداشت کریں کیوں کہ یہ جلن آپ کو ایک بڑے مسئلے سے نجات دلا دے گی۔

دانتوں اور مسوڑھوں کا درد
نیویارک سٹی کے معروف ڈینٹسٹ ڈاکٹر سائیل پریسنر کا کہنا ہے کہ ’’ لونگ کا تیل دانتوں اور مسوڑھوں کے درد کی صورت میں ریلیف کا بہترین ذریعہ ہے، لونگ کے اندر ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں، جو دشمن بیکٹریاز کا مقابلہ کرتے ہیں، تاہم استعمال کی صورت میں اس کی چبھن سے بچنے کے لئے لونگ اور زیتون کے تیل کو مکس کرکے دانتوں یا مسوڑھوں پر لگائیں۔‘‘

The post مفید گھریلو نسخے… جنہیں بھلانا انسان کو مہنگا پڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

مودی جی! ؛ وکرم کی جگہ اکرم بھیجیں

$
0
0

بھارت کے راگ کی طرح اس کے گانے بھی مشہور ہیں۔

ایسا ہی ایک گانا ہے۔۔۔چلو دل دار چلو، چاند کے پار چلو۔۔۔ہم ہیں تیار چلو ۔۔۔ٹیوں ٹیوں ٹیوں۔۔۔فلم ’’پاکیزہ‘‘ کا یہ گانا ہیروہیروئن نے اتنی پاکیزگی سے فلمایا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا انھیں چاند کے پار کا سَناٹا کیوں درکار ہے؟ اتنی مہذب اور پاک پوتر ملاقاتیں تو وہ دہلی کے چاندنی چوک پر بھی کرسکتے تھے۔

جو دوسری بات ہمارے لیے ناقابل فہم رہی وہ یہ کہ آخر وہ چاند کے پار کیوں جانا چاہتے ہیں، چاند پر کیوں نہیں۔ شاید انھوں نے سوچا ہوگا ’’کچھ نیا کر۔‘‘ غالباً اسی سوچ کے تحت اور اس گانے سے متاثر ہوکر بھارت نے چاند کے ’’اُلّی‘‘ طرف جانے کی ٹھانی۔ یعنی چاند کے اُس رُخ پر جو ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے اور جسے فلکیات کی اصطلاح میں چاند کا قطب جنوب کہتے ہیں اور اس کیفیت کو ’’ٹائیڈل لاک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

مگر ہائے افسوس کہ ابھی نندن جی کی پرواز کی طرح اس بھارتی مشن کی اُڑان بھی ناکام رہی اور اس کی چاند گاڑی ’’چندریان ٹو‘‘ جسے ’’وکرم‘‘ کا نام دیا گیا تھا، کا رابطہ چاند پر اُترنے سے پہلے ہی بنگلور میں قائم بھارت کے خلائی ادارے ’’آئی ایس آر او‘‘ (انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن) سے ٹوٹ گیا جس کے ساتھ ہی مودی جی کا دل اور سپنا بھی ٹوٹ گیا، ان کی امید کا دامن چھوٹ گیا، خیر رہی کہ اس ناکامی پر انھوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ پاکستانی ادارہ آئی ایس آئی ہمیں خلاء میں بھی لُوٹ گیا۔

بھارت اور مودی جی کے ساتھ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب بھارتی خلائی جہاز چاند سے محض 2.1 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اسے کہتے ہیں:

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند

دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

مودی جی اور بھارتی خلائی سائنس دانوں کا دل تو چاہ رہا ہوگا کہ سرپیٹ پیٹ کر یہ شعر پڑھتے ہوئے صرف دو کلومیٹر کی دوری پر رابطہ توڑ دینے والے اپنے ’’وکرم‘‘ کے دو چار ہاتھ لگائیں، مگر وہ ہاتھ کب آئے گا، رابطے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔

اب بھیا چاند کوئی کشمیر تو ہے نہیں جب چاہے جتنے چاہے سِینَک بھیج دیے۔ وہ تو چندا ماموں دور کے ہیں، جنھوں نے بھارتی بھانجے کو اتنے پاس بلاکر ماموں بنادیا۔

کیا کریں ہم سے مودی جی کا دُکھ دیکھا نہیں جارہا۔ بے چارے کیسے آس لگائے اس خلائی مشن کے کمانڈسینٹر میں بیٹھے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ابھی نندن کو پاکستان کی سمت روانہ کرکے انتظار کررہے تھے کہ وہ ابھی گیا ابھی آیا تباہی پھیلاکر۔ نندن تو گرِگرا کے واپس آگیا تھا، لیکن ’’وکرم‘‘ اتنا گرا ہے کہ واپسی کے قابل ہی نہیں رہا۔

خلاء میں چاند کے آس پاس بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید ابھی نندن کی طرح گرے پڑے وکرم کو عزت کے ساتھ شام تَلک واپس بھیج دیتا، اور بھارتی میں وکرم کو بھی تِلک لگائے اور ہار پہنائے جارہے ہوتے۔ ہم سوچ رہے ہیں مودی جی کی آس باربار کیوں ٹوٹتی ہے، جس طرح ان کی ماتاجی سوچتی ہوں گی ’’میرا بچہ ایسا کیوں ہے؟‘‘، ماتاجی کو پتا نہیں اپنے سوال کا جواب ملا یا نہیں، ہمیں تو بہت غور کرنے کے بعد مل گیا۔ دراصل غیرشادی شدہ ہونے کی وجہ سے مودی جی کی کوئی ساس نہیں، اس لیے آس ان سے ساس والا سلوک کرتی ہے۔

آس کا یہ ساسی سلوک اپنی جگہ لیکن خلائی مشن کی ناکامی کی ایک اور وجہ بھی ممکن ہے، حیرت ہے کہ اتنے سامنے کی بات مودی صاحب کی نظروں میں کیوں نہ آسکی، شاید اس لیے کہ وہ اب تک آس پاس دیکھنے کے بجائے خلاؤں میں جھانک رہے ہیں، آنکھیں نیچی کریں اور سیماپار نظر ڈالیں تو انھیں وہاں پاکستان کا پرچم لہراتا نظر آئے گا۔ اس پرچم پر بنا چاند صاف صاف بتارہا ہے کہ پاکستان اور چاند کے بیچ کوئی سمبندھ ہے۔ پس تو مودی سرکار کو جھٹ پٹ بلکہ ’’فَٹ دھنی سے‘‘ یہ الزام لگادینا چاہیے کہ ’’چاند اور پاکستان کے مابین بڑا یارانہ لگتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ چاند کٹر مسلمان ہے، جبھی تو پورا سال عیدیں منواکر اور مہینے شروع کرواکر مسلمانوں کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔

خاص طور پر چین کی طرح پاکستان کا یہ پکا آڑی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے کہنے پر چاند نے ہمارا خلائی مشن ناکام کردیا۔ جوں ہی ہماری چاندگاڑی چاند کے قریب پہنچی اور بس کَنّوں کا فاصلہ رہ گیا تھا کہ چاند ’اوئی اللہ، کوئی دیکھ لے گا‘ کہہ کر دوڑ گیا اور وکرم میاں اپنی جھونک میں آگے نکلتے چلے گئے اور کسی بلیک ہول میں جاگھسے۔‘‘ ساتھ ہی بھارت سرکار دھمکی دے کہ اگر چاند اپنی پاکستانی دوستی اور بھارت دشمنی سے باز نہ آیا تو اس پر سرجیکل اسٹرائک کی جائے گی۔

اگر چاند پھر بھی اپنی حرکتیں نہ چھوڑے تو بھارت راجستھان کے صحرا میں کہیں سرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنی جنتا کو تو خوش کرسکتا ہے لیکن چاند کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا، اس لیے بہتر ہوگا کہ بھارت اپنا ذاتی چاند بناکر خلاء میں بھیج دے، جو اتنے فاصلے پر ہو کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے کوئی بھارتی وکرم ہانپ نہ جائے۔

ایک کام اور ہوسکتا ہے۔ بھارت چاند کو دھوکا دے۔ وہ اس طرح کہ اپنے نئے خلائی مشن کا نام وکرم کے بجائے ’’اکرم‘‘ رکھ دے۔ یہ اکرم چاند کے پاس پہنچتے ہی ’’سلام علیکم جناب!‘‘ کہے، ’’جناب‘‘ اس لیے کہے کہ بھارتی فلموں میں مسلمان بالخصوص پاکستانیوں کا ایک دوسرے کو جناب کہہ کار مخاطب کرنا لازمی ہے، ورنہ وہ مسلمان نہیں رہیں گے۔ سلام کرتے ہی فوراً چاند پر اُتر جائے اور وہاں سے مودی جی کو اطلاع دے ’’پردھان منتری جی! ہم چاند کو اُلو بنا لیے ہیں، اور خود کو اس میں گُھسا لیے ہیں۔‘‘

ہمیں امید ہے کہ مودی جی کو ہمارا مشورہ پسند آئے گا، جلد وکرم نہیں اکرم چاند کی سمت جائے گا۔

The post مودی جی! ؛ وکرم کی جگہ اکرم بھیجیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیریوں کو شدید معاشی بحران کا سامنا

$
0
0

بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میںکرفیو اور لاک ڈاؤن سے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور جمہوری آزادیاں سلب کی گئیں، وہاں کشمیریوں کو معاشی طور پرغیرمستحکم کئے جانے کی سازش بھی کی گئی ہے۔

موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث کشمیری معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ آرٹیکل370 میں ترمیم ایسے وقت میں کی گئی جب کشمیر میں معاشی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ ایسے وقت میں سیاحت کے عروج کے ساتھ ساتھ مختلف انواع کے پھلوں کے تیار ہونے کا موسم بھی ہوتا ہے جبکہ سردیوں سے قبل ہاتھ سے بنی گرم شالوں کی ایکسپورٹ کا کاروبار بھی انہی دنوں عروج پر ہوتا ہے۔

باغبانی اور دستکاری کی صنعتیں کشمیر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان صنعتوں سے کشمیر کے آٹھ لاکھ سے زائد خاندانوں کے تقریباً 43 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ تینتالیس لاکھ افراد اس موسم میں محنت کرتے ہیں تب سال بھر ان کا چولھا جلتا رہتا ہے۔ جب کشمیر میں لاک ڈاؤن ہو اور نقل و حرکت پر پابندی ہو تو بھلا یہ کام کیسے ہو سکتا ہے۔

ایسے میں باغبانی سے پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن تازہ پھل اور خشک میوہ جات تباہ ہو رہے ہیں۔ سیب، ناشپاتی اور تازہ پھلوں کے بیوپاریوں میں تشویش ہے کہ فصل پک گئی لیکن منڈی تک نہیں لے جا سکتے، اب ایک سال تک ان پر بدحالی رہے گی، ان کے گھر کا چولھا تک جلنا مشکل ہو جائے گا۔ بھارت کے حالیہ اقدامات دراصل کشمیریوں کو معاشی طور پر بد حال کر کے بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کی سازش معلوم ہوتے ہیں، بھارتی پالیسی سازوں کا شاید خیال ہے کہ کشمیری معاشی طور پر بد حال ہوں گے تو وہ روزگار کیلئے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق2018ء میںاس صنعت سے1,956,331میٹرک ٹن تازہ پھلوں کی پیداوار ہوئی اس کے علاوہ 205,405 ٹن خشک میوہ جات کی پیداوار الگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت سے تقریباً 6000کروڑ روپے کا زرمبادلہ ریاست جموں و کشمیر کو آتا ہے جس سے آٹھ لاکھ خاندانوں کے چولھے جلتے رہتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق 2018 ء میں سیب 1851723 میٹرک ٹن ، ناشپاتی61191 میٹرک ٹن، خوبانی 16156 میٹرک ٹن، آڑو2714 میٹرک ٹن،آلوچہ 7710میٹرک ٹن، چیری 11789 میٹرک ٹن، انگور 790 میٹرک ٹن، بہی 3710 میٹرک ٹن کے علاوہ کئی دوسرے پھل پیدا ہوئے۔ خشک میوہ جات میں اخروٹ 195066 میٹرک ٹن کے علاوہ بادام اور دیگر میوہ جات باغبانی کی بڑی پیداوار ہیں۔ سری نگر کے اخبار ’رائزنگ کشمیر‘ کے مطابق بھارت میں سیبوں کی کل پیداوار 27.5 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 18.5 میٹرک ٹن صرف کشمیر میں ہوئی۔ یعنی کل پیداوار کا ستر فیصد کشمیر میں ہوتا ہے۔کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکیٹ میں بھی پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں ۔

اس کے ساتھ دستکاری کی صنعت سے تقریباً تین لاکھ چالیس ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جموں و کشمیر کی دستکاری دنیا میں قالین بافی، ریشم ، شال، باسکری، مٹی کے برتن ، تانبے اور چاندی کے برتن ، پیپر مچھ اور اخروٹ کی لکڑی جیسے چھوٹے پیمانے پر اور کاٹیج صنعتوں کے لئے مشہور ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کے دوران ریاست میں 132میگا ٹن خام ریشم کی تیاری کی گئی تھی جس سے تقریباً 150,000میٹر ریشمی کپڑا تیار کیا گیا تھا اور ریاست سے کاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری کی کل برآمدات178.26ملین امریکی ڈالر رہیں تھیں۔

اس صورتحال میں یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جہاں ان صنعتوں کی بندش کے باعث جموں وکشمیر کی بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو گا وہیں کشمیر کے پھلوں اور میوہ جات منڈی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے بھارت میں پھلوں اور خشک میوہ جات کی کس قدر قلت پائی جائے گی۔

اسی طرح سیاحت سے لاکھوں کشمیریوں کا روزگار وابستہ ہے۔2017 میں صرف وادی کشمیر میں 11 لاکھ سیاح آئے جبکہ 2018ء میں حالات کی خرابی کے باعث 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا۔اسی طرح جموں میں لاکھوں سیاح جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ڈل جھیل کے شکاروں سمیت پورا جموں و کشمیر ویران ہو چکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل بند پڑے ہیں۔ یہ ریاست کی سیاحت اور ریاست کے باسیوںکیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ اہل جموں وکشمیر کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے، لوگوں کا کاروبار نہیں رہا۔

٭بھارت کا کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور رکھنے کا ہتھکنڈہ

ایک طرف مقبوضہ جموں وکشمیر کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو لالی پاپ دینے کیلئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان سامنے آیا ہے۔2018 ء کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کی کل تعداد تقریباً 4.5 لاکھ ہے۔

جس میں ایک لاکھ سے زائد ڈیلی ویجز والے ملازمین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پنشن حاصل کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ اگلے تین مہینوں میں ریاست میں 50 ہزار نوکریاں دستیاب ہوںگی جو جموں و کشمیر میں بحالی کی سب سے بڑی مہم ہوگی۔

معیشت کی تباہی کے بعد 50 ہزار نوکریوں کی کئی سکیموں کا اعلان ایک پیغام ہے کہ اب خود کفالت کے بجائے بھارت کے سہارے پر زندہ رہنا ہو گا کیونکہ اگر یہ نوکریاں مہیا بھی کی جاتی ہیں تو برسرروزگار افراد کی تعداد پانچ لاکھ ہو جائے گی ۔ تاہم اس موسم میں کشمیر سے پھل اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ سے جو سال کی جمع پونچی اکٹھی ہوتی تھی اب کے بار وہ نہیں ہو سکے گی اور باغبانی اورکاٹیج ہینڈکرافٹس انڈسٹری پر انحصار کرنے والے تقریباً 43 لاکھ لوگوں کے روزگار کا کوئی متبادل نہیں ہوگا جو تشویش ناک ہے ۔

بھارت کی اس سازش کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کشمیری اپنی محنت سے سال بھر کا سامان کرنے کے بعد اپنی توجہ تحریک آزادی پر مرکوز رکھتے تھے، اب کے بار انھیں اس تحریک سے دور رکھنے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ وہ پیٹ کے ہاتھوں مجبور رہیں اور بھارت سے روزگار کی بھیک لینے پر مجبور ہوں ۔

ایسے میں بھارت روزگار کے بہانے انھیں دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کی صلاح دے گا اور روزگار کیلئے مصروف کرنے اور تحریک آزادی سے دور رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرے گا۔ان سب اعلانات کے باوجود ہندوستان کی معیشت اس قابل نظر نہیں آتی جو کشمیریوں کو کوئی بڑا لالی پاپ دے سکے۔

بی بی سی کے مطابق سی ایم آئی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ملازمین کی تعداد 45کروڑ تھی جو کم ہو کر 41کروڑ رہ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں یا وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ریزرو بنک آف انڈیا (آر بی آئی ) سے24 بلین ڈالر لینے کے اقدام نے مودی حکومت کی اقتصادی حالت کا پول کھول دیا ہے۔ اس صورتحال میں کشمیریوں کیلئے 50 ہزار نوکریوں کا اعلان لولی پاپ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کشمیر میں اقتصادی اور معاشی بحران میں مزید شدت پیدا ہونے کو ہے۔

٭کیا آرٹیکل 370 اور این آر سی ایشوز سے مودی حکومت اقتصادی بحران چھپا پائے گی؟

ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مودی حکومت نے اس وقت یکے بعد دیگرے کئی نان ایشوز کو اس لئے ہوا دی تا کہ وہ بھارت کی گرتی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹا سکے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں’’اب کشمیر میں زمین خرید سکیں گے اور کشمیر سے شادی کریں گے‘‘ کے سلوگن کو پروان چڑھانا اور آسام میں 19 لاکھ لوگوں کی شہریت منسوخ کر کے وہاں معاشی استحکام کے دعوے کرنا دراصل ہندوستان کی گرتی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش بھی ہے۔

موجودہ صورتحال میں ہندوستان کی معیشت پر نظر ڈالی جائے تو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق’’ 15 ماہ قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو کہ گرتے گرتے اب پانچ فیصد کی سطح تک جا پہنچی ہے۔اصل میں یہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے کیونکہ سہ ماہی ترقی کی شرح کے اعداد و شمار منظم اور کارپوریٹ شعبے پر مبنی ہوتے ہیں۔ تین برسوں میں معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ سی ایم آئی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ملازمین کی تعداد 45 کروڑ تھی جو کم ہو کر 41 کروڑ رہ گئی ہے۔ چار کروڑ لوگوں کی ملازمتیں چھن گئی ہیں یا وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔

ہندوستانی معیشت میں سرمایہ کاری کی شرح 2012-13ّ ء میں سب سے زیادہ تھی۔ اس وقت سرمایہ کاری کی شرح 37 فیصد کی شرح سے ترقی پذیر تھی اور آج یہ 30 فیصد سے بھی کم ہو چکی ہے۔ جب تک سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا ترقی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومت کے ٹیکس کی وصولی میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال جی ایس ٹی میں 80 ہزار کروڑ کی کمی واقع ہوئی تھی اور براہ راست ٹیکس میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر سرکاری خزانے کو 1.6 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔‘‘

اسی طرح ایک دوسری رپورٹ کے مطابق’’ انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر یعنی تقریباً 1.76 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔ ریزرو بینک نے یہ رقم اپنے ’سرپلس اور ریزرو سرمائے‘ سے دی ہے۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اب اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

یہ اعداد و شمار اور رپورٹس ہندوستان کی معاشی صورتحال کو واضح کرتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں مودی حکومت کچھ عرصہ اپنے عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر اقتصادی صورتحال سے نظریں چرا سکتی ہے تاہم زیادہ دیر ایسا کھیل ممکن نہیں۔

ہندوستان کے کئی آئی اے ایسافسران کے احتجاجی استعفے
دی وائر اردو کے مطابق کرناٹک کے آئی اے ایس افسر ایس ششی کانت سینتھل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک خط میں کہا کہ ’’ ا یسے وقت میں جب غیر معمولی طریقے سے جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ایسے میں ان کا ایڈمنسٹریٹواہلکار کے طور پر حکومت میں رہنا غیراخلاقی ہوگا، ان کے مطابق’’ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک کے بنیادی ڈھانچے کے سامنے سخت چیلنج آنے والے ہیں اور سبھی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے میرا ایڈمنسٹریٹو سروس سے باہر رہنا بہتر ہوگا۔‘‘

اس سے قبل ای جی ایم یو ٹی کیڈر کے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نے جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیرل سے آنے والے گوپی ناتھن نے کہا کہ’’ آج سے بیس سال بعد اگر لوگ مجھ سے پوچھیںگے کہ جب ملک کے ایک حصے میں مجازی ایمرجنسی لگا دی گئی تھی تب آپ کیا کر رہے تھے تب کم سے کم میں یہ کہہ سکوںگا کہ میں نے آئی اے ایس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘‘

کشمیریوں کو کیا کرنا ہوگا؟
موجودہ صورتحال میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل قریب کیلئے مضبوط معاشی پلان سمیت پرامن تحریک کی طرف توجہ دینا ہو گی جس کا ذکر ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار نعیمہ احمد مہجور نے اپنے مضمون میں ان الفاظ میں کیا ’’میں نے بی بی سی کے ایک نامہ نگار سے پوچھا، جو میرے ہمراہ جلوس کی منظر کشی کر رہے تھے کہ کیا آپ کے خیال میں کشمیر پھرعالمی مسئلہ بن گیا ہے؟

’’کشمیریوں کو عالمی سطح پر اتنی حمایت کبھی نہیں حاصل ہوئی جتنی آج مل رہی ہے۔ وہ چاہے عالمی میڈیا ہو، عالمی ادارے ہوں، اراکین پارلیمان ہوں یا بارسوخ سیاست دان، کشمیریوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا ہوگا اور ہانگ کانگ کی طرز پر احتجاج درج کروانا ہوگا تاکہ حکومت بھارت پر اپنا فیصلہ واپس لینے اور جموں و کشمیر کے مستقبل کا دائمی حل تلاش کرنے پر دباؤ ڈالا جا سکے۔‘‘ انہوں نے میرے سوال کا جواب بے دھڑک دے دیا۔کشمیریوں کو پرامن تحریک چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا، اس کی تعلیم انہیں برطانیہ کے ان شہریوں سے حاصل کرنا ہوگی جو برگزٹ کے خلاف کئی ماہ سے پارلیمان کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس مظاہرے میں کبھی ایک شخص پرچم لیے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تو کبھی سینکڑوں افراد ۔ یا پھر ہانگ کانگ کے شہریوں سے سبق سیکھنا ہوگا جنہوں نے کئی ہفتے چینی حکام کی نیند حرام کر دی اور آخر کار چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔‘‘

The post کشمیریوں کو شدید معاشی بحران کا سامنا appeared first on ایکسپریس اردو.

حُر؛ اہل تصوف کی دیگر خانقاہوں سے مختلف ایک منفرد تحریک

$
0
0

پیران پاگارہ کے مرید حُر کہلاتے ہیں، اس سے تو سب آگاہ ہیں لیکن حُروں میں سالم اور فرق عقائد والی دو جماعتیں ہیں یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ نصاب میں شامل سندھ کے معروف ادیب محمد عثمان ڈیپلائی کے ناول ’’سانگھڑ‘‘ سے لفظ حُر کے اخراج کی نشان دہی کی گئی تو اخبارات کے صفحات پر اس بحث کا آغاز ہوا جو اس تحریر کا سبب بن گیا۔

میدان کربلا میں حضرت حُر نے آخری وقت پر لشکر یزید کو چھوڑ کر خیمہ گاہ سیدالشہداءؓ کا رخ کیا اور اپنی عاقبت سنوار لی۔ اس دن سے جرأت مندی کے لیے، بہادری کے لیے لفظ ’’حُر‘‘ مستعمل ہوا اور سینہ سپر حُر کہلائے۔ جب محمد بن قاسم نے عہد بنوامیہ میں سندھ کا رخ کیا اور راجا داہر کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس کے ساتھ آنے والوں میں حضرت سید علی مکی بھی تھے اور انہوں نے دادو کے کوہستانی علاقے میں سکونت اختیار کی۔

آپ کے اخلاف میں لک علی والے شاہ صدرالدین بھی شامل ہیں جو اس علاقے کی نسبت سے لکیاری سادات کہلائے۔ ان میں مٹیاری کے شہاب حسینی اور موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے اجداد بھی شامل ہیں۔ ویسے سندھ میں شیرازی، شکر الٰہی ، سبزواری ، جیلانی، مشہدی، بخاری، بغدادی سادات بھی رہائش پذیرہیں اور اپنی ان نسبتوں پر فخر کرتے ہیں۔ خود علی مکی کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم سے جا ملتا ہے جو حضرت امام جعفر صادق کے صاحبزادے اور امام زین العابدین کے پڑپوتے تھے۔

حضرت شاہ صدرالدین کی پندرہویں پشت میں سائیں محمد بقاشاہ تولد ہوئے جو پٹ دھنی کے طور پر معروف تھے اور ان کے بڑے صاحبزادے سید محمد راشد کو روزہ دھنی کہا جاتا ہے۔ ان کی وفات ہوئی تو خاندانی تبرکات تقسیم ہوئے بڑے صاحبزادے سید صبغت اﷲ شاہ اول المعروف تجر دھنی کو خاندانی دستار جس کی نسبت سرکار دو عالمﷺ سے تھی وراثت میں ملی جب کہ دوسرے بھائی کو جھنڈا، علم یا پرچم عنایت ہوا۔ آج بھی ضلع مٹیاری میں نیوسعید آباد سمیت متعدد مقامات پر جھنڈے والے راشدی پیر آباد ہیں جن کی علم پروری اور کتاب دوستی دور دور تک مشہور ہے۔

پیرصبغت اﷲ شاہ اول کی وفات پر ان کے فرزند سائیں علی گوہر شاہ اوّل عرف اصغر سائیں پیرپگارہ دوم بنے جو بنگلے دھنی کہلائے ان کے بیٹے سائیں حزب اﷲ شاہ مسکین نے تیسرے پیرپگارہ کا منصب سنبھالا، انہیں تخت دھنی پکارا جاتا تھا اور ان کی وفات ہوئی تو سلسلہ راشدیہ کے چوتھے پیر سائیں علی گوہر شاہ ثانی مقرر ہوئے جو محافے دھنی مشہور تھے۔

آپ کے وصال پر چھوٹے بھائی سائیں علی مردان شاہ اول جنہیں کوٹ دھنی کہا جاتا تھا پانچویں پیرپاگارہ کہلائے آپ کی وفات ہوئی تو پیر سید محمد صبغت اﷲ شاہ ثانی نے پگ دھنی کی عرفیت کے ساتھ منصب سنبھالا حُروں کو منظم کیا اور انگریزوں کو چیلنج ۔ جب آپ پیر پگارہ مقرر ہوئے تو آپ کی عمر محض 12برس تھی اور حیدرآباد جیل میں پھانسی کے پھندے کو چوما تو زندگی کی محض 33 بہاریں دیکھی تھیں اس جرأت مندی اور سرفروشی کے باعث آپ کو سورہیہ بادشاہ بھی پکارا جاتاہے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے پیر سید سکندر علی شاہ عرف شاہ مردان شاہ ثانی نے چھٹ دھنی کا لقب اختیار کیا اور ساتویں پیرپگارہ کہلائے موجودہ پیر پگارہ ہشتم پیر صبغت اﷲ شاہ سوم کو راجہ سائیں پکارا جاتا ہے۔

سندھ، ہند بلکہ دنیا بھر میں پیر بوقت وفات یا اپنی زندگی ہی میں جان نشین کا تقرر کرجاتا ہے اور درگاہ کی جائیداد املاک اس کی ملکیت تصور ہوتی ہے لیکن پیران پگارہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ پیر کا انتخاب خلفاء کی کونسل کرتی ہے اور درگاہ سے ملحقہ پراپرٹی پر بھی پیر کا تصرف نہیں ہوتا،وہ درگاہ کی ملکیت کہلاتی ہے۔

موجودہ پیر پگارہ کا انتخاب بھی پیر گوٹھ میں خلفاء نے کیا تھا اور پیر علی گوہر شہدی، پیرصدرالدین راشدی المعروف یونس سائیں اور کمسن پیر حزب اﷲ شاہ راشدی پر پیر صبغت اﷲ راشدی المعروف راجہ سائیں کو فوقیت دی تھی۔ خود مرحوم پیرپگارہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی نشان دہی کی تھی کہ حُر اپنے پیر کا انتخاب خود کرتے ہیں اور ان کا فیصلہ صائب ہوتا ہے۔ چناؤ کا اختیار خلفاء کے پاس ہے ہر چوکی کا نگراں خلیفہ ہوتا ہے جو مکھ کہلاتا ہے۔

یہ چوکیاں 12ہیں اور سندھ، بلوچستان اور پڑوسی صوبے پنجاب ہی نہیں ہندوستان کے جیسلمیر یعنی راجستھان میں بھی موجود ہیں اور درگاہ شریف کا انتظام بھی پورے سال ان ہی چوکیوں کے سپرد ہے جن کی تعداد اس وقت بارہ ہے اور ہر ماہ درگاہ شریف کی حفاظت و اخراجات ایک چوکی ذمہ داری ہے۔ حر جماعت میں اپنا ایک سسٹم ہے۔ ماضی میں تو جماعت کے چھوٹے بڑے فیصلے ’’دعوتی‘‘ کیا کرتے تھے۔ دعوتی سے مُراد وہ شخصیات ہیں جن کے یہاں پیرپاگارہ دوران روحانی سفر قیام کیا کرتے تھے۔ آج بھی مختلف شہروں میں وہ لانڈھیاں یا قیام گاہیں موجود ہیں جو پیران پاگارہ کی آمد پر ہی استعمال ہوتی ہیں۔

البتہ ان کی صفائی، مرمت اور تزئین و آرائش پورا سال ہوتی رہتی ہے۔ اب بھی پیر پگارہ کے خلفاء اور درگاہ کی فیصلہ کمیٹی حُروں کے معاملات نمٹاتے ہیں اور فیصلے پر عمل درآمد یقینی ہوتا ہے جماعت کی ایک اصطلاح ’’ہاتھ بند‘‘ بھی ہے یعنی تادیبی کارروائی کے طور پر یہ سزا سنائی جائے تو اس شخص سے کوئی ہاتھ نہیں ملاتا اور مصافحے کا تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس گدی کی ایک خصوصیت مربوط سسٹم بھی ہے جو اسے ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے ورنہ سندھ کے کلہوڑہ حکم راں اپنے سرائی مریدوں سے کمزور تعلق کے باعث حکومت کھو بیٹھے تھے جو تالپور فوجیوں نے ہتھیالی تھی۔

سندھ میں لاتعداد درگاہیں اور خانقاہیں ہیں لیکن اس درگاہ کا افتخار ہے کہ اس کے خلفاء سے جو سلسلے شروع ہوئے وہ بھی بڑی درگاہیں قائم کرگئے سید محمد راشد کے خلفاء میں سوئی شریف کے سید محمد حسن کا نام بھی ملتا ہے، جنہوں نے بھرچونڈی کے حضرت محمد صدیق کو خلافت سے نوازا اور ان سے امروٹ، بائی جی، ہالیجی و دیگر درگاہوں بشمول دین پور کا زنجیرہ پھیلا۔ اسی طرح لاڑکانہ کی درگاہ مشوری شریف کے پیر محمد قاسم مشوری کو سید امام الدین شدی نے خلافت دی تھی۔ خود پیران پاگارہ کے مرشد سراج گیلانی پنجاب میں گجرات کی درگاہ چناہ شریف کوٹ سدھانہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مرحوم پیرپگارہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور موجودہ پیر کی دستار بندی بھی کرائی تھی اور مرحوم پیرپگارہ کی 1952 میں مسند نشینی و گدی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

سورہیہ بادشاہ کی شہادت سے قبل حُر موومنٹ کے دوران سیکڑوں حُروں کو قیدوبند اور پھانسی کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا انہیں جنگلی کانٹوں کی باڑھ میں بنے کھلے قیدخانوں میں اس طرح بند رکھا گیا کہ اہل خانہ اندر پہرہ میں رہتے اور یہ دن بھر شہر دیہات میں مشقت کرکے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے اور رات کو ان کیمپوں میں واپس آتے کہیں فرار بھی نہ ہوسکتے تھے کہ بیوی بچے، ماں اور بہنیں اندر یرغمال تھیں۔ یہ یکم اپریل 1952ء کی رات تھی اور شہید ملت لیاقت علی خان کا عہدحکم رانی جب ان کیمپوں میں نصب گھنٹے بجاکر ان قیدخانوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مگر ایک نسل ان قید خانوں میں جوان ہوچکی تھی۔ ان کا گھر تھانہ در، وہ دن بھر مشقت کے بعد بعد پھر ان قیدخانوں میں لوٹ آتے۔ آج بھی سندھ کے مختلف شہروں حُر کیمپ کے نام سے متعدد علاقے موسوم ہیں۔

بھارتی حکومت کی 1947ء میں کوشش تھی کہ جیسلمیر و نواح کے حُر کیمپوں میں مقید حُروں کے توسط سے گدی کی بحالی اور پیر کی واپسی کے سلسلہ کا آغاز کیا جائے تاکہ حُروں کی عقیدت وارادت کیش کرائی جاسکے لیکن حُروں کی اکثریت نو آزاد مسلم مملکت پاکستان کی حامی تھی۔

اس فیصلے کے بعد بھارتی علاقے میں قائم آٹھ ایسے کیمپ ختم کرکے وہاں مقید حُروں کو اسپیشل ٹرین کے ذریعے کھوکھراپار کے راستے سندھ بھیجا گیا۔ آج بھی کھوکھراپار، کارونجھر اور صحرائی علاقے میں سرحد کے دونوں اطراف حُر مرید بکثرت آباد ہیں۔ یہ صحرائی پٹی ہندوستان میں راجستھان، سندھ کے سرحدی اضلاع میں تھر، خیرپور میں نارا اور پنجاب شروع ہوتے ہی چولستان کہلاتی ہے۔ ویسے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں اچھڑو تھر کے نام سے ایک دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ بھی موجود ہے جہاں بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کا فقدان ہے یہاں بھی حُر جماعت بکثرت آباد ہے۔

65ء اور71ء کی جنگوں میں حُر مُریدوں نے لافانی کارنامے انجام دیے تھے اور بھارتی سرحد میں داخل ہوکر متعدد مقامات پر جن میں کئی قلعے بھی تھے قبضہ کیا اور پاکستانی پرچم لہرایا تھا، جس کے بعد حُر فورس تشکیل پائی اور پاک افواج کے ٹریننگ کے بعد انہیں تھر، سانگھڑ، عمر کوٹ، خیرپور کی سرحدی حدود میں تعینات کیا گیا۔

اس نسبت سے مرحوم پیر پگارا اپنا تعلق جی ایچ کیو سے جوڑا کرتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کی کسی اور درگاہ نے اس طرح اپنا کردار ادا نہ کیا جیسا مرحوم پیر پگارہ نے جنگ ستمبر65ء میں عمر کوٹ قلعہ پر اپنے مُریدوں کو طلب کرکے انہیں فوج کے ساتھ دفاع وطن کا حکم دیا تھا۔ یہ خطاب رات کی تاریکی میں پاکستان پر مسلط کی گئی بھارتی جنگ کے تیسرے روز یعنی 8ستمبر65ء کو ہوا تھا۔

سنیئر صحافی بچل لغاری بطور حُر مجاہد اس اجتماع میں موجود تھے اور مرحوم پیر صاحب کے خطاب، حُروں کے جوش و جذبہ کے واقعات جذباتی انداز میں مفصل بیان کرتے ہیں۔ راقم کو بھی اپنے قصبے شاہ پور چاکر ضلع سانگھڑ کی وہ صبح یاد ہے جب اطراف کے دیہات سے آنے والے حُر جماعت کے افراد جو خود کو ’’فقیر‘‘ کہلواتے ہیں بکثرت جمع تھے۔ سروں پر سفید پگڑیاں اور ہاتھوں میں بندوقیں لیے وہ بصورت قافلہ عمر کوٹ جارہے تھے جہاں انہیں ان کے مرشد نے طلب کیا تھا۔ مرحوم پیرپگارہ نے حُر جماعت پر لازم کیا تھا کہ وہ سندھی ٹوپی جو حقیقتاً بلوچی ٹوپی ہے نہ پہنیں اور سفید پگڑی باندھیں یا سفید ٹوپی پہنیں البتہ موجودہ پیرپگارو نے یہ پابندی ہٹالی ہے۔ مرحوم پیر صاحب کمال شخصیت تھے۔

جرأت مندانہ فیصلوں کے حوالے سے معروف۔ درگاہ شریف پر مریدوں سے روایتی خطاب میں کم عمری میں طے شادیوں کے فیصلے منسوخ کرنے کا اعلان کیا، تعلیم نسواں پر ہمیشہ زور دیا اور بے روزگاری کا شکوہ کرنے والوں کو پاک فوج میں بھرتی کی تلقین کی۔ پڑوسیوں سے اچھے سلوک اور اولاد کی بہتر پرورش ہر خطاب میں شامل کرتے۔ سخت سردی یا حالات کشیدہ ہوتے تو درگاہ شریف واقع پیرگوٹھ خیرپور نہ جاتے اور کراچی ہی میں قیام کرتے کہ عید، بقرعید اور رجبی شریف (ماہ رجب کے اجتماع) پر سندھ کے طول و عرض سے لاکھوں مرید بغرض زیارت پیر گوٹھ پہنچتے ہیں۔

سنیئر صحافی سید صفدر علی بھی پیرصاحب مرحوم کے قریبی اخبار نویسوں میں شامل تھے بتاتے ہیں کہ کسی نے پیر صاحب سے کہا آپ فوج کے خلاف کیوں نہیں بولتے، پیر صاحب کہنے لگے فوج کی کتاب میں سندھیوں کو نان مارشل لکھا گیا ہے اور سچ بھی یہ ہے کہ ہم دور سے لاٹھی دیکھ کر بچاؤ کا راستہ دیکھتے ہیں۔ جسے اپنے لیول کا نہ سمجھتے اسے نظر انداز کردیتے۔ بہ روایت صفدر بھائی ایک بار فرمانے لگے ننگے سر والے سے لڑنے کا نقصان یہ ہے کہ آپ کی اپنی دستار گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

بات سورہیہ بادشاہ کی ہوجائے جنہوں نے اس درگاہ کو دیگر سے ممتاز و منفرد بنا دیا وہ 33 برس زندہ رہے اور دس برس جیل میں گزارے۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلا انتظامی مارشل لا سندھ کے علاقے سانگھڑ میں حُر موومنٹ کچلنے کے لیے لگایا گیا جس کی منظوری سندھ اسمبلی کے خفیہ اجلاس میں سندھ کے وڈیروں نے دی تھی اور حُر ایکٹ کے نفاذ کے بعد حُروں کو قیدوبند اور دارورسن کے عمل سے گزرنا پڑا تھا ایک بار کسی نے پیرپگارا مرحوم سے کہا تھا آپ سندھیوں کے لیڈر ہیں تو ان کا جواب تھا نہیں حُروں کا۔ سندھ اسمبلی نے تو ہمارے خلاف قرارداد منظور کرکے انگریز کو ظلم و ستم کی اجازت دی تھی۔

ہمارا ساتھ تو مُریدوں نے دیا تھا۔ اس طرح جب مشرف دور میں کھوکھراپار کے راستے تھر ایکسپریس شروع ہوئی تو اس کی مخالفت کرنے والوں کو ان کا جواب تھا کہ جئسلمیر، باڑھ میر سے حُروں کو سندھ آنے میں سہولت ملے گی۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور کراچی کی علیحدہ حیثیت پر بھی وہ سندھی قوم پرستوں سے یکسر مختلف نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ ایک اخباری انٹرویو میں انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ ون یونٹ کی تحلیل کے وقت کراچی کی سندھ میں شمولیت کا فیصلہ غلط تھا۔ وہ کراچی صوبے کے مخالف البتہ وفاق کے تحت چیف کمشنر کے زیر انتظام لانے کے حامی تھے۔

سندھ میں پیران پاگارہ نے برسوں فرنگی اقتدار کو چیلنج کیا سانگھڑ میں بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے خودمختار حکومت بھی قائم کی جسے سانگھڑ سرکار کا نام دیا گیا۔ یہ پہلی حُر چھاپہ مار جدوجہد تھی جو 1880ء کی دہائی میں شروع ہوئی بچو بادشاہ اور اس کے نائب عیسیٰ کو سانگھڑ میں پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی تدفین بھی سورہیہ بادشاہ کی طرف خفیہ طور پر نامعلوم مقدم پر کی گئی۔

سرائڈ منڈکاکس بارٹ کے جو ایس ایس پی حیدرآباد اور ڈی آئی جی سندھ بھی رہا اپنی کتاب پولیس لینڈ کرائم ان انڈیا میں قلم طراز ہے کہ ان کی علی الاعلان تدفین ہوتی تو یہ مقام حُروں کے لیے زیارت گاہ بن جاتا۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اور ڈاکٹر لائق زرداری نے انگریزوں کے خلاف سندھ میں حُروں کی پہلی جدوجہد کا سال 1896ء بیان کیا ہے جب سانگھڑ کے مکھی بیلے میں حُروں نے ’’سانگھڑ سرکار‘‘ قائم کی۔ اسی بغاوت کو کچلنے کے لیے انگریزوں نے علاقے میں بگٹی اور مری قبائل کو آباد کیا تھا۔

انہیں اراضی دی اور اختیارات بھی ویسے پنجاب سے بھی آبادکار یہاں لاکر بسائے گئے تھے لیکن انہوں نے حُروں سے بناکر رکھی تھی۔ سانگھڑ کے سنیئر صحافی عبدالقادر ڈاہری اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حُروں کو بگٹی اور مری قبائل نے انگریزوں کی شہ پر ہراساں کیا اور مخبریاں بھی کیں۔ قیام پاکستان کے بعد آنے والے اردو اسپیکنگ بھی، قیام پاکستان سے قبل کے آباد پنجابی بولنے والوں کی طرح پیرپگارا کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔

کھڈرو کے عبدالحمید پٹھان کی مثال دی جاتی ہے جنہوں نے مرحوم پیر صاحب سے عقیدت و ارادت کا رشتہ برقرار رکھا۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار رہے مالی نقصان اٹھائے اور دھمکیاں بھی سہیں۔ پیر شاہ مردان شاہ ثانی اور قرب و جوار کے حُر ان کا حددرجہ احترام کرتے تھے اور انہیں ’’جماعتی‘‘ تسلیم کیا جاتا تھا۔ ویسے اب ان علاقوں میں آباد اردو اور پنجابی و پشتو اسپیکنگ بھی مقامی سندھی اور بلوچی بولنے والوں کی طرح مخدومین ہالا، پیران نینگ شریف، درگاہ غوثیہ ملتان، خانقاہ لواری، پیر صاحبان رانی پور و کامارو شریف کے مرید ہیں کچھ کی تو عقیدت و ارادت کا سلسلہ سن کے سائیں جی ایم سید اور اب ان کے متعلقین سے بھی قائم ہے۔

حُر تحریک میں خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ وہ مردوں کی طرح انگریزوں کے سر کا درد بن چکی تھیں۔ سائیں عمر چنڈ کی انگریزی تصنیف اور اس کا سندھی ترجمہ جو استاد نظامانی نے کیا ہے پڑھیں تو بہت سے نئے پہلو آشکار ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون مائی رانی ٹھکر کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر گوریلا جنگ اڑنے والے حُروں کو ہتھیار پہنچایا کرتی تھی۔

اﷲ بچاؤ راہو کڑو کے مضمون اور عثمان راہو کڑو کی تصنیف ’’سونے جیسی خواتین‘‘ میں ایسی لاتعداد خواتین کا ذکر ہے۔ حُر موومنٹ کے اہم کردار رحیم ہنگورو کی بیوی بھاگھلی جس نے اسے حیدرآباد جیل سے آزاد کرانے کا کام یاب منصوبہ بندی کی تھی لیکن آخری وقت پر وہ ناکام رہا تھا۔ اسی طرح رانی ٹھکر کا تعلق باڑھ میر کے راجستھانی علاقے سے تھا۔ وہ ہندو تھی اور پیر شاہ مردان شاہ اول کی آمد پر جھڈو میں اسلام قبول کیا تھا۔ وہ بھکاری اور گائیکہ کے طور پر انگریزوں اور ان کے حواریوں کے یہاں جاتی اور ملنے والی اطلاعات سے سورہیہ بادشاہ کے ساتھیوں کو مطلع کرتی تھی۔

حُروں میں فرق اور سالم جماعتوں کی تقسیم کو مرحوم پیر پگارا سکندر علی شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی نے قیام پاکستان کے بعد گدی سنبھالنے اور دستار بندی کے بعد ختم کیا، ورنہ تو اس سے قبل حُر جماعت کے خلفاء کی کونسل بتایا جاتا تھا کہ 15ارکان پر مشتمل ہے جن میں 12سالم اور 3 فرق والے ہیں۔

چیف خلیفہ فقیر قادر بخش ولد عبداﷲفقیرمنگریو ہیں۔ ان کے والد بھی چیف خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ جب حُر جماعت انگریزوں سے صف آراء تھی تو سرکاری گماشتے گاؤں گوٹھوں میں آکر حُروں کو تلاش کرتے اور اہل علاقہ کو ہراساں کرتے اس زمانے میں سرکاری حکام نے حُر کا مطلب منفی معنی میں رکھا ہوا تھا تو بعض افراد جان چھڑانے کے لیے خود کو سالم یعنی سلامتی والے کہتے تھے ’’کہ بھئی ہمارا جھگڑے والوں سے واسطہ نہیں ہم تو امن والے ہیں۔‘‘

یہ روش کچھ افراد اور خلفاء کو پسند نہ آئی اور انہوں نے اپنے آپ کو دیگر جماعت سے علیحدہ رکھنے کے لیے ’’فرق‘‘ کی اصطلاح استعمال کی کہ ہم میں اور دیگر میں فرق ہے موجودہ فرقی خلفاء میں خلیفہ سومر فقیر، فقیر علی غلام نظامانی، فقیر وریام خاصخیلی کے نام آتے ہیں جب کہ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ پیر سید حزب اﷲ شاہ مسکین المعروف تخت دھنی مسند سجادگی پر بیٹھے تو کم عمری کے باعث ان کے بعض قریبی عزیز بھی درگاہ اور مریدین کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے جس پر خلیفہ فقیر غلام نبی لغاری نے ’’فرق‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ان کا کہنا تھا کہ اﷲ، رسول، کتاب اور دین کی طرح مرشد بھی ایک ہی ہوتا ہے جو صاحب دستار اور مسند نشین ہے ان کے حکم پر ہم جان دے دیں گے، لیکن باقی لوگ پیر کا رتبہ نہیں پاسکتے۔ ان کے مددگار سید سلیمان شاہ بھی تھے وہ اور ان کے ساتھی فرقی کہلاتے تھے۔ حُر مریدوں کی ایک اور شناخت بھیج پاگارہ کا وہ نعرہ بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ ’’پاگارہ ہماری مدد کرو۔‘‘

حُر تحریک پر عثمان ڈیپلائی کے ناول سانگھڑ میں مذکور ہے کہ جب سورہیہ بادشاہ نے غازی تحریک قائم کی اور انگریزوں کو چیلنج کیا تو کچھ لوگ سالم یا سلامتی والے کہلائے ان کا موقف تھا کہ ہم کسی ہنگامہ آرائی یا شرانگیزی میں شامل نہیں ہوں گے۔

اس کا سبب یہ بھی تھا کہ فرق عقائد والے حُر مرید تک کا جھوٹا پانی پینا یا کھانا کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ انگریز حکام سچے حُروں کی شناخت اسی طرح کرتے تھے کہ انہیں ایک مٹکے پر پانی کا گلاس رکھ کر سب کو اسی کا پانی پینے کا کہتے جو نہ پیتا اسے فرق عقیدہ والا شناخت کرکے گولی مار دیتے ایسے متعدد واقعات بوڑھے حُر بیان کرتے ہیں عبدالقادر ڈاہری کہتے ہیں کہ سالم اور فرق کا عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ ایک ’’فرق‘‘ اپنی ہمشیرہ کے گھر گیا اس نے پانی اور کھانا پیش کیا تو اس نے کہا ہمیں غیرفرقی کا کھانا پینا جائز نہیں جس پر بہن نے دہی لاکر دیا کہ یہ کھالو یہ نہ پانی ہے نہ اناج۔ سورہیہ بادشاہ کی محبت میں حُروں نے خود کو وار دیا غازی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ۔

پیر صاحب انٹرویو کے بعد غازی کا لقب دیتے، تمباکو نوشی اور ولایتی کپڑے پہننے کی ممانعت تھی۔ حلف کے بعد زندگی ہی میں نماز جنازہ پڑھائی جاتی کہ موت یا سرفروشی کی تمنا لازم تھی۔ غازی جماعت میں پہلا طبقہ فرق تھا۔ دوسرا ترک (تحریک کے لیے سب کچھ چھوڑنے کا عزم) اسی طرح غزا یعنی حق کے لیے مرنے مارنے کا جذبہ اور اطاعت امیر لازم تھی۔

زمانے کے سردوگرم اور بہار و خزاں نے فرق اور سالم کے عقیدے کو ختم کردیا ہے لیکن آج بھی حُر بستیوں کی اوطاقوں میں سورہیہ بادشاہ کی دی گئی نشانیاں سنبھالے عمر رسیدہ مرید ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہیں جب مکھی کے جنگلات سے خیرپور کے ریگزار نارا تک انگریزوں اور اس کے حواری کلہاڑیوں اور ہلکی بندوقوں والے غازیوں سے خوف زدہ رہتے لیکن بہت سی باتیں وہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ پیر صاحب شہید نے رازداری کا عہد لیا تھا۔ سورہیہ بادشاہ کی شہادت کے 76 برس بعد بھی وہ عہد کی پاس داری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔

The post حُر؛ اہل تصوف کی دیگر خانقاہوں سے مختلف ایک منفرد تحریک appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

بنجر علاقے میں درخت لگانا
عزت سلیم، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ھے۔اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کہ اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت ۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔دوست آپ کے معاون رہیں گے۔  آپ نماز کی پابندی ضرور رکھیں۔

درخت سے انار توڑ کر کھانا
معین وقار، شورکوٹ

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے انار توڑ کر کھا رہا ہوں اور  اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کہ دیتا ہوں وہ سب بھی انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری  آنکھ کھل  گئی۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

بازار سے تیل خریدنا
اسماء امین،لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے گھر گئی ہوئی ہوں وہاں پہ میرے دیور کی فیملی بھی آئی ہوئی ہے اور نند بھی ۔ میری ساس مجھے اور میری نند کو کچھ سامان لانے کو پیسے دیتی ہیں ۔ میں اور میری نند بازار جاتے ہیں اور سامان لے کر آتے ہیں ۔ اور وہ سارا کا سارا تیل پہ ہی مشتمل ہوتا ہے۔گھر آ کر جب میری ساس اس تیل کو دیکھتی ہیں تو بہت خوش  ہوتی ہیں ۔ برائے مہربانی  اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتی ھے۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

بیل گم ہونا
حرا پروین، لاہور

خواب : میرے ابو  نے خواب میں دیکھا کہ ہم  ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم  نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک  دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد  ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں  نہیں ہے۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا۔

تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو  دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔

تحفے میں قلم ملنا
امجد بٹ،گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے  ہیں ۔ یہاں میری خالہ بھی آئی ہوئی ہوتی ہیں اور سب بچوں کے لئے تحفے لے کر آئی ہوتی ہیں۔ مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات لکھتا ہوں ۔ سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا۔

تعبیر:۔ اچھا خواب  ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی  معاملات میں ترقی ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو  باقاعدگی  سے جاری رکھیں۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

دوستوں کے ساتھ دعوت اڑانا
فرقان علی،  لاہور

خواب :۔  میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی  جگہ  پہ موجود ہوں اور  ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری  آنکھ کھل  گئی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

لذیذ کھانے
احمد مرتضٰی،  لاہور

خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اکیلا کہیں کسی کمرے میں بیٹھا ہوں اور وہاں ایک میز پہ انواع  و اقسام کے کھانے پڑے ہوئے ہیں جن سے انتہائی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ بلکہ کئی کھانے تو ایسے تھے جو کبھی دیکھے نہ کھائے۔ میں ادھر انتھائی بے تکلّفانہ انداز میں بیٹھ جاتا ہوں اور مزے لے لے کر انتھائی لذیذ کھانے کھاتا ہوں۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ھم کو یہ نعمت دی۔ وہ خوشی سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبییر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

سسر گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں
ماریہ قبطیہ، وزیرآباد

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال کے ساتھ کسی گاوں میں کوئی  شادی اٹینڈ کرنے آتی ہوں۔ میرے سارے سسرال والے وہاں خوشی خوشی رہتے ہیں مگر مجھے گاوں میں بنیادی سہولیات کے بنا کافی مشکل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک دن میرے سسر باہر جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں گندگی میں سارے لتھڑ کر گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر :۔ یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں اور اللہ کے حبیبﷺ کی سیرت پر عمل کریں۔

گاؤں میں خالی گھر
عمران کبیر، بورے والا

خواب : ۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر  گاوں گیا ہوں۔ اس خالی گھر میں ہر طرف ابتری  پھیلی ھوئی ہوتی ہے اور جیسے پورے گھر میں اس کا غبار پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس گھر میں رہتے بھی نہیں اور نہ ہی ادھر کچھ خاص سامان موجود ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ مالی معاملات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے۔کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ وخیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں۔

اقراء بتول، لاہور

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں گھر پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہوں اور میری امی مجھ سے صفائی کرنے کا کہتی ہیں۔ میں جھاڑو  لے کر پورے گھر  میں جھاڑو شروع کر دیتی ہوں ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ضروری اخراجات کی بھرمار کی وجہ سے رقم بہت خرچ ہو گی اور مقروض ہونے کا بھی خدشہ ہے۔کاروبار میں رکاوٹ اور بندش بھی ہو سکتی ہے۔آپ  نماز پنجگانہ کی  پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کریں۔

قرآن پاک کی تلاوت کرنا
فیضان علی ، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی اونچی سی عمارت کی چھت پہ موجود ہوں اور لاوڈ سپیکر میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوں۔ عمارت کی مختلف منزلوں پہ مختلف لوگ نکل کے مجھے سراہتے ہیں جس سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی ۔ علم و حکمت ملے گی ۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

لیاقت علی خان نے ٹرومین سے کہا ’’ہم نے آدھا کشمیر آپ کی مدد کے بغیر آزاد کرایا‘‘

$
0
0

قسط نمبر (1)

پاکستان 14 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تو 15اگست1947 کو امریکا نے پا کستان کے پہلے دارالحکومت کراچی میںاپنا سفارت خانہ کھولا جب کہ پاکستان 30 ستمبر1947 ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا اور پھر امریکا نے باقاعدہ طور پر پاکستا ن کو برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ 20 اکتوبر 1947ء کو تسلیم کیا، یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد دنیا نئے انداز سے تشکیل پا رہی تھی، دوسری جنگ عظیم کا اختتام جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بموں کے استعمال کے بعد ہوا تھا۔

یہ تاریخ کا وہ دوراہا تھا جہاں پر ایک جانب 1917ء میں مارکسی اشتراکی نظریات پر سوویت یونین میں رونما ہونے والا انقلاب اب مشرقی یورپ کے ممالک تک پھیل چکا تھا اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک میں داخل ہو رہا تھا، دوسری جانب اب جابرانہ نوآبادیاتی نظام دنیا سے ختم ہو رہا تھا، پہلی جنگ عظیم میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بنیاد پر تلخ حقائق کو تسلیم کرتے ہو ئے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا، سکیورٹی کونسل میں دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کو دنیا کے ہر فیصلے کو رد کرنے کا اختیار’’ ویٹو‘‘ دیا گیا تھا، اور در پردہ سیاسی نو آبادیات اور ملکوں کوآزادی دیتے وقت اِن بڑی قوتوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا سیاسی اقتصادی نظا م تشکیل دیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات پیدا کئے گئے تھے اور قرضوں کے باعث یہ ترقی پذیر ممالک اِن بڑے ملکوں کے معاشی اقتصادی جال میں گرفتار ہو رہے تھے مگر دنیا کے 24فیصد رقبے اور دنیا کی 25فیصد آبادی پر مشتمل بشمول برصغیر برطانوی نوآبادیات کے لیے بھی جال تو یہی تھا لیکن فرانسیسی اطالوی ولندیز ی اور دیگر مغربی نوآبادتی قوتوں کے مقا بلے میں صورتحال مختلف تھی کہ پاکستان، بھارت سمیت ان میںسے بیشتر غلام ممالک مسلح جدوجہد کی بجائے سسٹیمیٹک طریقے یعنی ایک خاص انداز کے نظام کے تحت آزاد ہوئے تھے۔

جس میں انگریز دور ہی میں تشکیل پانے والی انتظا میہ ، پارلیمنٹ ’’ مقننہ‘‘، عدلیہ اور فوج شامل تھی خصوصاً پاکستان اور بھارت کی صورتحال تو بہت ہی دلچسپ تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے صرف ساڑھے تین مہینے بعد دسمبر 1945اور جنوری 1946ء میں 1935 کے قانونِ ہند کے تحت متحدہ ہند وستان کے آخری انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے تھے یعنی ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کی نشستیں مسلمان اور ہندو آبادی کے تناسب سے طے کی گئیں تھیں، البتہ یہ ضرور تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ ہندو اور مسلم نشستوں پر اپنے اپنے ہندو اور مسلمان امیدوارکھڑی کر سکتی تھیں۔

یوں ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی30 کی30 مسلم نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلیوں کی 90% مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اِن انتخابات کے بعد متحدہ ہندوستان میں عبوری حکومت قائم ہوئی جس کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جبکہ دیگر مرکزی وزرا کے علاوہ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے اور وزریر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے، نہرو کابینہ میں کوئی بھی وزیر خارجہ نہیں تھا، 3 جون 1947 ء کے اعلان آزادی کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ نے 18 جولائی 1947ء قانون آزادیِ ہند کے عنوان سے 1935 ء کے قانون ہند جو ایک آئین کی حیثیت رکھتا تھا اُس میں یہ ترمیم کی تھی، جس میں دیگر نکات کے علاوہ آزادی کے بعد ایک سال تک پاکستان اور بھارت پر کچھ شرائط عائدکی گئی تھیں۔

نمبر1۔14 اگست، 15 اگست1947 ء کے بعد سے ایک سال تک دونوں ملکوں کی حیثیت ڈومینین سٹیٹ کی ہوگی اور یہ دونوں ممالک 1935 ء کے قانونِ ہند کو فوری اور ضروری ترامیم کے ساتھ ایک سال تک نافذ العمل رکھیں گے، اور یہ ضروری یا فوری نوعیت کی ترامیم بھارت اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے بجائے دونوں ملکوںکے گورنر جنرل کریں گے۔

نمبر2 ۔دونوں ملک اگرچاہیں تو ایک سال بعد اپنا نیا آئین بنا لیں یا 1935 ء کے قانون کو ہی نافذالعمل رکھیں یا اس میں ضرورت کے مطابق ترامیم کرکے نافذالعمل رکھیں۔

بھارت نے آزادی کے بعد اپنا آئین بنا لیا۔ پاکستان کا پہلا پارلیمانی آئین 1956 ء میں بنا، یوں اُس وقت تک 1935 کے قانون کے مطابق برطانیہ کی بادشاہت علامتی طور پر ہماری سربراہ مملکت رہی، یعنی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ہماری بھی آئینی سربراہ تھی۔ لیکن چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتح ہونے کے با وجود برطانیہ بہت کمزور ہو چکا تھا اور بہت زیادہ اپنے اتحادی امریکا پر انحصار کر رہا تھا۔

اس لیے یہ موقع ایسا تھا کہ باوجود پہلے سال کی آئینی پابندی اور پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈیگلس گریسی کی مخالفت کے قائد اعظم نے جنگ آزادیِ کشمیر میں کشمیری مجاہدین کے ساتھ افواج پاکستان اور قبائلی مجاہدین کے ساتھ بھرپور کاروائی کی اور آدھا کشمیر آزاد کر وا لیا۔ دوسری جانب نہرو نے بھی مسلمان نوابیں کی ریاستوں حیدر آباد دکن، جوناگڑھ اور بھوپال وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت 1707 ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے بعد زوال پذیر ہوئی اور بہت سی ریاستیں آزاد اور خود مختار ہو نے لگیں۔

البتہ یہ تمام ریاستیں علامتی طور پر ہی سہی مگر دہلی کے تخت پر بیٹھے مغل بادشاہ کو پورے ہندوستان کا بادشاہ تسلیم کرتی تھیں، اور یہ سلسلہ 1857 ء کی جنگ آزادی تک قائم رہا جس میں شکست کے بعد انگریزوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تخت وتاج سے محروم کر کے رنگون میں قید کر دیا، مگر انگریزوں نے شروع ہی سے پرانے جاگیردارانہ نظام کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت تبدیل کر کے نافذ رکھا ، یوں تاج برطانیہ کی ہندوستان میں آزادی تک انگریز سرکار کی ماتحتی میں چھوٹی بڑی تقریباً 540 ریاستیں تھیں اور18 جولائی 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 1935 کے قانون ہند کی ترامیم میں یہ بھی تھا کہ اِن ریاستوں کے راجے مہاراجے، خوانین اور نوابین برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد اپنے عوام کی مرضی، ریاست کی سرحدی قربت وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔

حیدر آباد دکن اُس وقت دنیا کی سب سے امیر ریاست تھی، جس کے آخری حکمران نظام میرعثمان علی خان تھے جو اُس وقت دنیا کے سب سے امیر آدمی تھے، ریاست حیدر آباد 1724 ء میں قائم ہوئی تھی اور 1798 ء میں ریاست حیدرآباد نے انگریز ی اقتدار کو قبول کیا، اس ریاست کا رقبہ 215339 مربع کلومیٹر اور آبادی 1941 کی مردم شماری کے مطابق 16340000 نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں مسلمانوں کا تناسب گیارہ فیصد سے زیادہ تھا، نظام حیدر آباد نے ریاست کو آزاد رکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بھارت نے آزادی کے فوراً بعد حیدرآباد پر میجر جنرل جے این چوہدری کی سربراہی میں ایک فوج بھیج کر قبضہ لیا۔

یہی جنرل جے این چوہدری اس کے بعد بھارتی فوج کے آرمی چیف ہوئے، ریاست بھوپال جس سے پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر قدیر خان کا تعلق ہے اس ریاست پر بھی 1948 میں بھارت نے بزور قوت قبضہ کیا، اس کے مسلمان نواب پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے اس کا رقبہ 17801 مربع کلومیٹر اور آبادی 1921کے مطابق 730000 تھی، البتہ آبادی کی اکثریت ہندو تھی، ایک اور بڑی ریاست جس کے نواب مسلمان تھے وہ جونا گڑھ کی تھی جس کا رقبہ 3337 مربع کلومیٹر اور آبادی1941 ء کے مطابق 465493 تھی لیکن اکثریت ہندو تھی اس کے نواب محمد مہتاب خان جی نے بھی پاکستان کے ساتھ الحا ق کا فیصلہ کیا تھا مگر 1948 ء ہی میں اس پر بھی بھارت نے بزور طاقت قبضہ کر لیا۔

14 اگست1947 ء تک انگریزی دورِ حکومت میں ریاست جموں وکشمیر کا مجموعی رقبہ 135942 مربع کلومیٹر تھا، جس میں صوبہ جموں کا رقبہ 19921 مربع کلومیٹر، صوبہ کشمیر کا رقبہ 13742 مربع کلومیٹر اور صوبہ لداخ کا رقبہ 102285 مربع کلومیٹر تھا اور1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی 4021616 تھی یہاں آبادی کی اکثریت نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ریاست جموں و کشمیر کو دنیا سے ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستانی حدود سے آگے جاتے ہیں اور عوام کی اکثریت آج تک بھی پاکستان ہی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر انگریز ہند و گٹھ جوڑ پہلے ہی سے تھا۔

یہی وجہ تھی کہ پہلے مرحلے میں ریڈ کلف ایوارڈ میں پنجاب کی تقسیم میں مشرقی پنجاب کے اضلاع گروداسپور، فیروز پور اور زیرہ ناانصافی کرتے ہو ئے بھارت کو دے دئیے گئے اور پھر ہندوستان میں آزادی سے قبل پنڈت جواہر لال نہرو کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ کے مسلح جتھوں نے اِن مسلم اکثریت کے علاقوں میں قتل عام کرکے لاکھوں مسلمانوں کو پاکستانی علاقوں میں دھکیل دیا، اس سے ایک طرف تو مادھوپور، فیروز پور ہیڈ ورکس پر پانی کی تقسیم کے اعتبار سے قبضہ کر لیا گیا تو ساتھ ہی پٹھان کوٹ سے ایک مصنوعی زمینی راستہ جموں وکشمیر کو فراہم کردیا گیا، اور پھر آزادی کے فوراً بعد نہرو نے ڈرا دھمکا کر اور دباؤ ڈال کر ریاست جموں وکشمیر کے مہاراجہ ہر ی سنگھ سے مسلم اکثریت کی ریاست کا الحاق بھارت سے کرا لیا اور اس پر پاکستان کی جانب سے کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کی گئی، اُس وقت بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن اور وزیر اعظم پنڈت نہرو تھے، جب کہ انگریز جنرل روب لاکہارت Rob Lockharat آرمی چیف جبکہ دیگر فوجی قیادت میں جنرل راے بوچرGen ray Bucher ،ائیر مارشل تھامس لیفٹیننٹ جنرل ڈولے رسل، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم کریپا، لیفٹیننٹ جنرل شری ناگیش اور بریگیڈیر محمد عثمان شامل تھے۔ اکتوبر 1947 ء میں بھارت نے کشمیر کی حکومت کی مدد کے پردے میں کشمیر پر تسلط قائم کرنے کے لیے اپنی فوج وہاں اُتار دی۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ اُس وقت بھارتی فوج کے سربراہ کی طرح انگریز جنرل فرینک میسوری تھے، دوسرے انگریز جنرل ڈیگلس گریسی تھے، باقی اعلیٰ فوجی افسران میں میجر جنرل خورشید انور ،کرنل اسلم خان، کرنل اکبر خان،کرنل شیر خان اور میجر ولیم براؤن شامل تھے۔ واضح رہے کہ انگریز جنرل پاکستان کی جانب سے جنگ کے خلا ف تھے، مگر قائد اعظم کی اسٹرٹیجی زبردست تھی کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ پاکستانی قبائلی لشکر تھے، جنگ میں ریاست جموں وکشمیر گلگت، بلتستان کے جو علاقے آزاد ہو رہے تھے ان کے جوان بھی شامل ہو رہے تھے، مسلم لیگ نیشنل گارڈکے مسلح دستے تھے۔

سوات آرمی تھی، فرقان فورس، گلگت اسکاؤٹس اور فرنٹیئر فورس کو شامل کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں مجاہدین، شہدا اور غازیوں نے شجاعت و بہادری کی داستانیں رقم کیں جو تا قیامت یاد رہیں گی ۔ انگریز نے کانگریس سے مل کر پہلے یہ کوشش کی تھی کہ بھارت کی طرح پاکستان کا گورنر جنرل بھی لارڈ ماونٹ بیٹن ہو مگر اِس کو قائد اعظم نے تسلیم نہیں کیا لیکن برطانوی حکومت نے دونوں ملکوں کی فوجوں کا ایک سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ آکن لیک کو بنایا تھا جس کا حکم ماننا دونوں ملکوں کے آرمی چیفس پر لازم تھا۔

قائداعظم نے بہت جرأت کے ساتھ پہلی بھارت پاکستان جنگ لڑی، مسلمان فوجی افسران نے اُن کا حکم مانا، مجاہدین اور قبائلی لشکر نے بہت بہادری سے جنگ کی اور آزادکشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے، جنگ کے آغاز پر مہاراجہ کی ریاستی فوج نے خصوصاً جموں کے علاقے میں ایک سازش کے تحت مسلمان کشمیریوںکا قتل عام کروایا کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب90% اور جموں میں 60% تھا۔ راجہ ہری سنگھ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو آزاد کشمیر کے علاقوں تک لے جائیں گے اس مقصد کے لیے بڑے فوجی ٹرک تیار کئے گئے جو جموں کے میدان میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو وہاں سے سینکڑ وں کی تعداد میں روزانہ اٹھاتے اور چند میل دور جنگل میں چشمے کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کر دیتے جب بریگیڈ ئیر عثمان وہاں اچانک پہنچے تو یہ قتل عام اُنہوں نے دیکھ لیا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اس جنگ میں وہ ہلاک ہوئے اور بھارتی حکومت نے اُنہیں وفات کے بعد دوسرا سب سے بڑا قومی فوجی ایوارڈ ’’مہا ویر چکرا‘‘ دیا۔

یہ پہلی پاک بھارت جنگ کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری 1949 تک تقریباٍ ایک سال دو ماہ پندرہ دن جاری رہی اور پھر بھارتی وزیر اعظم نہرو کے اقوام متحدہ جانے اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق رائے شماری کروانے کی قرارداد کی منظوری اور مقبوضہ بھارتی جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان سیز فائر لائن طے ہونے پر یہ جنگ بند ہوئی۔ اس جنگ میںہی انگریز سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کے حکم پر پاکستان میں انگریز جنرل فرینک میسوری کی جگہ انگر یزجنرل ڈگلس گریسی کو آرمی چیف بنا دیا گیا اور بھارت میں بھی آرمی چیف جنرل روب لاک ہارٹ کی جگہ دوسرے انگریز جنرل باؤچر کو آرمی چیف مقرر کیا۔

سیزفائر لائن کے لیے اقوام متحدہ کا ثالثی کمیشن ،یو این کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا جس میں پاکستان کی جانب سے میجر جنرل ڈبلیو جے، کاو تھورن بھارت کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل شری ناگیش تھے اور اقوام متحدہ کے دو ممبران میں ہیرنانڈوسامپر اور ایم ڈیلووئی شامل تھے۔ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا۔ اس معاہدے پر کراچی میں 27 جولائی 1949 کو دستخط ہوئے۔

جنگ بندی لائن کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی صورتحال یوں ہوئی کہ مقبوضہ جموں 19921 مربع کلو میٹر، بھارتی مقبوضہ کشمیر 11093 مربع کلومیٹر، بھارتی مقبوضہ لداخ15901 مربع کلو میٹر، پاکستان میں آزادکشمیر 6669 مربع کلو میٹر، گلگت بلتستان 47983 مربع کلو میٹر اور 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد چین کے پاس لداخ کا 14983 مربع کلو میٹر کا علاقہ آگیا جس میں بھارت چین جنگ کے فوراً بعد پاکستان کی جانب سے لداخ میں دیا گیا 3006 مربع کلو میٹر کا علاقہ بھی شامل ہے۔

اس علاقے پر چین کا دعویٰ بھی تھا اور پھر جب بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے چین سے تعلقات بہتر کرنے اور اس علاقے میں بھارت کے مقابل پاک چین تعاون کو زیادہ بہتر کرنے کے لیے اقدامات کئے اور یوں صدر ایوب خان نے لداخ میں یہ علاقہ چین کو دیا۔ افسوس ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ٹی بی کے مرض کے بہت بڑھ جانے کے سبب جولائی 1948 کے پہلے ہفتے میں شدید بیمار ہو کر زیارت آگئے جہاں گیارہ ستمبر 1948 ء کی صبح تک اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن گزارے، اس دوران وہ کشمیر کے لیے تڑپتے رہے، وہ چاہتے تھے کہ تیزرفتاری سے مسلح کاروائی کی جائے اور جلد سے جلد پورے کشمیر کو آزاد کر وا لیا جائے، اس میں اُن کی سیاسی بصیرت کا بڑا دخل تھا۔ 1948-49 تک اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی تعداد 59 تھی جن میں سے نوے فیصد اُس وقت تک بے اثر تھے۔

وہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے، دنیا کی نئی تشکیل میں وہ یہ جانتے تھے کہ فوری اور تیز رفتار جنگ سے پورا کشمیر آزاد ہو سکتا ہے، اگر وہ متحرک زندگی کے ساتھ صرف 5 جنوری 1949 ء تک زندہ رہ جاتے تو پورا کشمیر آزاد ہوتا، قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان عملی طور پر کابینہ میں مو جود دو اہم بیوروکریٹ ملک غلام محمد جو انگریز دورِ حکومت میں انڈین سول سروس میں ریلوے کے چارٹر اکاونٹ کے شعبے میں آئے تھے۔ 1946 ء کی نہرو کی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی جانب سے لیاقت علی وزیر خزانہ ہوئے تو غلام محمد سیکرٹری خزانہ ہوئے اور آزادی کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ ہوگئے۔

اور اسکندر مرزا جو سی آئی ای۔ او ایس ایس۔او بی ای تھے سینڈہرسٹ ملٹری کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد فوج کے جنرل بھی ہوئے، پھر انڈین پولیٹیکل سروس میں آئے اور زیادہ عرصے تک پولیٹیکل ایجنٹ رہے، پاکستان کے پہلے سیکرٹری دفاع ہوئے، اس حیثیت میں انہوں نے پہلی پاک بھارت جنگ میں کردار ادا کیا، پھر مشرقی پاکستان کے گورنر ہوئے اور پھر ملک غلام محمد کے بعد گورنر جنرل ہوئے اور 1956 ء کے پارلیمانی آئین کے نفاذکے بعد ملک کے پہلے صدر ہوئے۔ اسکندر مرزا کے بیٹے ڈاکٹر ہمایوں مرزا نے اپنی کتاب فرام پلاسی ٹو پاکستان میں اپنے خاندانی شجرہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بنگال کے میر جعفر اُن کے جد امجد تھے اور ساتھ ہی انہوں نے مورخین پر تنقید کی ہے کہ مورخین نے میر جعفر کے کردار کو درست انداز میں پیش نہیں کیا۔ بہرحال اِن دونوں نے ا پنے اپنے طور پر پاکستان کو اور خصوصاً کشمیر کے مقصد کو بہت نقصان پہنچایا۔

1949 میں جنگ بندی کے بعد 3 مئی 1950 ء کو لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کیا،کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرومین نے اُن سے ملا قات میں پاکستان میں روس کے خلا ف فوجی اڈا مانگا تو انہوں جواب دیا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کروایا ہے، اکتوبر 1951 ء میں لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔

اس کے بعدگورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر ملک غلام محمد خود گورنر جنرل ہو گئے اور پھر 1935 ء کے قانون کی شق کو استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برخاست کردیا، اس دوران ملک کا آئین نہ بن سکا اور جب 1956 ء میں آئین بنا تو اس کے بعد اسکندر مرزا نے اسے ناکام بنا نے کی سازش کی اور فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے 1958 ء میں مارشل لا نافذکر کے 1956 ء کے آئین کو منسوخ کردیا، اُس وقت تک ملک میں عام انتخابات نہ ہو نے کی وجہ سے ایک جانب تو ملک میں نمائندہ حکومت نہیں تھی تو دوسری جانب سیاسی بحران رہا۔

بوگرا فارمولہ کی بنیاد پر بعد میں جب 1956 ء کے آئین کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابری کے اصول کی بنیاد پر دو صوبے قرار دیا گیا تو یہ بحران مزید بڑھا۔1951 ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی4 کروڑ 20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ37 لاکھ تھی، اکسٹھ کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 9 کروڑ30 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی کی آبادی 5 کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی۔ برابری کا یہ بوگرا فارمولہ شاید نیک نیتی پر مبنی تھاکیونکہ محمد علی بوگرا کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا مگر چونکہ آزادی سے قبل عام انتخابات 1945-46 کے موسم سرما میں ہوئے تھے اور یوں ملک کے پہلے عام انتخابات 1951 ء میں ہو جانے چاہیے تھے جو نہ ہو سکے۔

اس لیے بیوروکریسی اور سرکاری اہلکاروں نے اس نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ مغربی پاکستان کو چار کے بجائے ایک صوبہ بنا دینے سے ملازمتوں اور صوبائی حقوق کے لحاظ سے پنجاب کے خلاف سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو شکایات رہیں تو مشرقی پاکستان کو یہ شکایت تھی کہ آبادی کی اکثریت کے باوجود جمہوری، سیاسی، مالیاتی اورمعاشی حقوق کے مقابلے میںاُنہیں کم دیا جا رہا ہے۔ پھر دوسری جانب ہمارے حکمران چونکہ عوامی سطح پر مقبولیت کھو بیٹھے تھے اس لیے خارجی سطح پر انہیں جن مسائل کا سامنا تھا اس کے لیے 1958 تک اُن کا تمام تر انحصار بیوروکریسی پر رہا اور پاکستان سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں کے تحت امریکا اور مغربی یورپ کے مفادات کا نگہبان بن گیا اور سابق سوویت یونین، چین، مشرقی یورپی ممالک یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے اس کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔

وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے دور میں پشاور کے نزدیک بڈ بیئر کے مقام پر سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے امریکا کو اڈہ بھی دے دیا گیا جہاں سے بہت زیادہ بلندی پراڑکر روس کی فضائی حدود میں جاسوسی کرنے والے U2 طیارے کو سوویت یونین نے مار گرا یا اور پاکستا ن کو ایوبی دور میں عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ امریکا نواز خارجہ پالیسی اُس وقت پاکستان کی مجبوری بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ پاکستان دوقومی نظریے پر قائم ہوا تھا اس لیے نظریاتی طور پر سوویت یونین پاکستان کے خلاف تھا۔ 1949 ء تک جب تک روس نے اپنا کامیاب ایٹمی تجربہ نہیں کیا تھا امریکا، برطانیہ کا رویہ روس کے خلاف بہت جارحانہ تھا مگر پھر بھی افغانستان کی حیثیت بفر زون کی رہی اور افغانستان کی سرحد سے سنٹرل ایشیا کی مسلم اکثریتی ریاستوں میں کو ئی در اندازی نہیں کی گئی لیکن سوویت یونین کے لیے نظریاتی طور پر پاکستان تاریخی اعتبار سے ایک خطرہ تھا۔

پھر 1962 ء تک انڈیا چین تعلقا ت بہت اچھے تھے اور بھارت اور چین میں ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ گونجتا تھا، اس لیے پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے خارجہ پالیسی کو امریکا اور برطانیہ نواز بنانا پڑا جب کہ نہرو نے بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم کی بنیاد پرآئین بنا کر کوشش کی تھی کہ دنیا پر ایک متوازن بھارتی معاشرے کے تصور کو اجاگر کرے ۔

خارجی سطح پر بھارت نے غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے تحت دنیا کے بیشتر ایسے ممالک جو کسی معاہدے کے تحت امریکا ، برطانیہ ، سوویت یونین یا ان کے کسی بلاک سے جڑے ہوئے نہیں تھے، اِن کو شامل کیا اور نہرو تقریباً اس کے عالمی سطح پر ہیرو قرار پائے جب کہ سوویت یونین سے اُن کے ذاتی تعلقات 1927 سے اس وقت سے تھے جب انہوں نے اپنے والد اور اُس وقت کے آل انڈیا کانگریس کے صدر موتی لال نہرو کے ساتھ سوویت یونین میں دس سالہ کیمونسٹ انقلاب کے جشن میں شرکت کی تھی۔

اسی طرح چین سے بھی تعلقات چینی رہنماؤں سے اشتراکی انقلاب اور 1949 میں چین کی آزادی سے پہلے کے تھے، اسی طرح برطانیہ کا جھکاؤ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم میں بھارت کی طرف تھا اور کشمیر کے مسئلے پر وہ باوجود 18 جولائی 1947 کے قانون ِآزادی تقسیمِ ہند کے بھارت کی طرفداری میں رہا، پھر جہاں تک تعلق امریکا کا ہے توبھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بہن کو امریکا میں سفیر تعینات کیا انہوں نے اپنی زندگی میں امریکا کے چار سرکاری دورے کئے ، پہلا دورہ سوویت یونین کے دورے سے پہلے 11 اکتوبر1949 ء کو کیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی جنگ پر سیز فائر معاہدہ ہو چکا تھا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں تھیں ، سویت یونین ایٹمی قوت بن چکا تھا اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ نہیں کیا تھا۔ نہرو نے امریکا کا دوسرا دورہ 16 دسمبر 1956 میںکیا، جب کچھ دن قبل وہ کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ سے ساز باز کر چکے تھے اور ریاست کی حکومت اور انتخابات کی بنیاد پر دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی کو 35A کے تحت بھی تحفظ کے حقوق حاصل ہیں اور یہ سب جمہوری انداز پر ہے۔ یہ دورہ عالمی سیاست کے اعتبار سے بھی اہم تھا کہ مصر میں نہر سوئز کے مسئلے پر برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سے مصر کی جنگ سے نئی صورتحال میں بھارت کا کردار مصری رہنما جمال ناصر سے خصوصی دوستی کے لحاظ سے کیسا ہو گا؟ اسی طرح سوویت یونین اور چین کی دوستی جو اسٹالن کے دور تک بہتر تھی وہ 1953 میں اسٹالن کی وفات کے بعد باہمی اختلافات کا شکار ہو رہی تھی اور اِن دو بڑی کیمونسٹ قوتوں کے تضادات بڑھ رہے تھے۔

نہرو نے تیسرا امریکی دورہ 26 ستمبر 1960 کو اور چوتھا اور آخری دورہ امریکا 6 نومبر1961 کو کیا، یہ وہ دور تھا جب کیوبا میزائل بحران اور پھر چین بھارت تعلقات کشیدگی کی جانب جا رہے تھے، بھارت تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ سے تعلقات استوار کر رہا تھا، 1962 ء میں لداخ پر بھارت چین کی جنگ ہوئی، یہ علاقے میں ایک تبدیلی تھی جو پاکستان کے حق میں اس لحاظ سے بہتر تھی کہ بھارت کا ہمسایہ اور دنیا کا ایک بڑا ملک بھارت سے دور ہو کر پاکستان کے نزدیک آرہا تھا، اس موقع پر چین کی جانب سے یہ پیغام بھی دیا گیا تھا کہ یہی وقت ہے کہ پاکستان بھارت سے جنگ کر کے کشمیر حاصل کر لے لیکن صدر ایوب خان نے ایسا نہیں کیا اس پر بعض حلقوں کی جانب سے بعد میں اُن پر شدید تنقید بھی ہوئی لیکن وہ نہ صرف ملک کے طاقتور صدر تھے بلکہ ملک کی تاریخ کے واحد فائیو اسٹار جنرل یعنی فیلڈ مارشل بھی تھے اور اُن کے پیش نظر اُس وقت کی تمام صورتحال تھی۔

امریکا نے انتباہ کر دیا تھا کہ چونکہ بھارت ایک غیر کیمونسٹ ملک ہے اور اُس کی جنگ کیمونسٹ چین کے ساتھ ہے اس لیے بھارت پر حملہ نہ کیا جائے، دوسری صورت میں بھارت سوویت یونین کا بھی قریبی دوست تھا اس لیے اس موقع پر روس، چین اور پاکستان کے خلاف بھارت کے حق میں آسکتا تھا اور امریکا کے لیے یہ بہت ہی بہتر پوزیشن ہوتی کہ چین اور سوویت یونین جیسے کیمو نسٹ ملک بھارت کے حوالے سے آپس میں جنگ میں الجھ جاتے، اس موقع پر پاکستان مکمل طور پر قربانی کا بکرا بن جاتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کشمیر پر جو جنگ اکتوبر1947ء تا 5 جنوری 1949 ء ہوئی وہی موقع پاکستان کے لیے بہترین تھا۔

اس کا موازنہ اگر اسرائیل عرب پہلی جنگ 1948 ء سے کیا جائے تو اس جنگ میں اسرائیل بہتر پوزیشن میں تھا، جب کہ پہلی پاک بھارت جنگ جس میں 18 جولائی 1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند کے مطابق دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی تھی اور دونوں ملکوں کا سپریم کمانڈر بھی ایک تھا مگر اس کے باوجود مجاہدین، قبائلیوں کے ساتھ کرنل اسلم خان، کرنل شیرخان ،کرنل اکبر خان اور میجر زمان کیانی نے پاکستانی فوج کے ہمراہ اہم ترین فتوحات حاصل کی تھیں اور بقول کرنل اکبرخان جو بعد میں میجر جنرل ہوئے، کہ وہ سری نگر اور پٹھان کوٹ کے قریب تھے اور ہوئی اڈاہ زد میں تھا مگر چونکہ قبا ئلی لشکر فوجی ڈسپلن سے ناآشنا تھا۔

اس لیے بھارتی فوج چوکنا ہو گئی ورنہ شائد اسی جنگ کے پہلے حملوں ہی میں مکمل جموں وکشمیر حاصل ہو جاتا۔ مگر یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اُس وقت جو رقبہ آزاد کروایا وہ اب تک آزاد ہے اور ہم اب بھی اس پو زیشن میں ہیں کہ اس رقبے سے بہت بہتر انداز کی جنگی اسٹر ٹیجی کے ساتھ بھارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ 1960-61 میں عالمی بنک کے تعاون اور معاونت سے بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر مذاکرات اختتام پر پہنچے تھے اور 1962 میں سندھ طاس معاہدہ حتمی صورت میں سامنے آیا اور دونوں ملکوں کے نمائندوں نے اس پر دستخط کردئیے۔

واضح رہے کہ آزادی اور قیام پاکستان کے فوراً بعد جب کشمیر کے مسئلہ پر پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی تو بھارت نے اُس وقت آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا اور پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان جیسے نئے ملک کو ایک بنجر خطہ بنانے کا اعلان بھی کر دیا تھا جس پر پاکستان نے اُس وقت اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا اور اُس وقت سے اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے ادارے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرانے کی کوششوں میں مصرف تھے۔

اگر چہ اس پر پاکستان کے ماہرین کی رائے یہ تھی کہ اصول کے مطابق بھارتی علاقے خصوصاً بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریا ئے سندھ، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں کو اس کے قدرتی بہاؤ کے مطابق پاکستانی علاقوں میں آنا چاہیے مگر ریلوے کے نظام کی طرح برصغیر میں انگریزوں نے اپنے عہد میں نہری نظام کو بہت معیاری بنایا تھا، ہیڈورکس بیراج اور ڈیمز تعمیر کئے تھے ویسے تو اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے مگر اس کی تقسیم کے ہیڈ ورکس بھارت کو دے دیئے گئے تھے۔

اس لیے بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا کو ئی پائیدار اور مستحکم نظام چاہیے تھا اور اس کے لیے سندھ طاس معاہدے پر بھی اسی سال دستخط ہوئے، اس معاہدے کی بنیاد پر تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر بھارت کے اختیار کو تسلیم کر لیا گیا اور تین مغربی دریا دریا سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دے دیئے گئے اور پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے لیے دو بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ضروری قرار دیا گیا، جس سال لداخ پر چین اور بھارت کی جنگ ہوئی اور چین نے بھارت سے ایک بڑاعلاقہ حاصل کر لیا، یوں پاکستان نے اُس وقت بھارت پر حملہ نہیں کیا۔

اس طرح نہ تو پاکستان نے امریکا جیسے حلیف کو ناراض کیا اور نہ ہی سوویت یونین جیسی مخالف کو فوراً مدمقابل آنے کا موقع فراہم کیا۔ پھر سندھ طاس معاہدے کے تحت خیبر پختونخوا کے علاقے میں تربیلا ڈیم اور جہلم کے نزدیک آزاد کشمیر کے شہر میر پور میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ ڈیم اُس وقت دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار ہوتے تھے۔ اس معاہدے سے پاکستان کو دو طرح کے فائدے ہوئے ایک یہ کہ آزاد کشمیر جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق کشمیریوں کی آبادی کے لحاظ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے، وہاں بھارت نے یہ تسلیم کیا کہ اس علاقے میں پاکستان کو پانی کی سپلائی کے لیے ڈیم بنایا جا سکتا ہے اور پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ کشمیریوںکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ رائے شماری کا حق دیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کی بنیاد پر فیصلہ ہو جائے گا اور یہ ثبوت ہے کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کو پانی کی سپلائی کا تربیلا ڈیم قائم ہے۔

جس کے لیے آزاد کشمیر میں کشمیریوں نے اپنے شہر میر پور کی قربانی دی کیونکہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے میر پور کا شہر زیرِآب آگیا یعنی تربیلا ڈیم میں میر پور کا شہر ڈوب گیا، اور اس مقام سے ہٹ کر دوبارہ شہر تعمیر کرنا پڑا، دوسرا فائدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوا کہ جس وقت اس ڈیم کی تعمیر جاری تھی اُس وقت دوسری جنگ ِعظیم کے بعد یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی تعمیر نو کا عمل مکمل ہوگیا تھا اور اب وہاں تیز رفتار صنعتی اقتصادی ترقی کے لیے بڑی افرادی قوت کی ضرورت تھی اور جو کمپنی یہاں میرپور میں ڈیم کی تعمیر کر رہی تھی۔

اُس نے یہاں بے گھر ہونے والے لوگوں کوایک یہ بھی سہولت فراہم کی کہ اگر یہ برطانیہ میں روزگار کے لیے جانا چاہیں تو اِن کو وہاں بھیجا جائے گا، یوں اُس وقت آزادکشمیر خصوصاً میر پورکے علاقے سے ہزاروں کشمیری برطانیہ گئے اور پھر وہاں مستقل آباد ہو گئے جن کی تعداد اب وہاں تیسر ی نسل کے اعتبار سے ڈھائی لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ میرے ایک دوست چوہدری خلیق الزمان ہیں جو میر پور میں ڈپٹی کسٹوڈیم ہیں، اُنکے والد چوہدری صوفی محمد یعقوب شہید وہاں کی معروف شخصیت تھے، اِن پرکتاب بھی تحریر کی ہے اور وہاں راقم کا جانا رہتا ہے اس لیے میں کشمیریوں کی کشمیر سے محبت اور وابستگی پر حیران رہتا ہوں کہ جو کشمیر ی تربیلا ڈیم کی تعمیر کے وقت برطانیہ گئے تھے۔

اب اُن کی تیسری نسل بھی برطانیہ کی شہر ی ہے جن کے والدین بھی برطانیہ ہی میں پیدا ہوئے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ نہ صرف کشمیری ہیں بلکہ اُن کو اپنے کشمیر ی ہونے پر فخر بھی ہے، وہ تمام ہی خود اور اپنے بچوں کو سالانہ تعطیلات میں آزاد کشمیر بھیجتے ہیں اور یہاں موجود اساتذہ ، دانشور اور محقق اِن برطانوی نژاد کشمیری بچوں اور نوجوانوں کو کشمیر کے متعلق بتاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اِس وقت اِن کشمیریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی برطانوی نژاد کشمیری برطانیہ کے ہاوس آف لارڈ اور ہاوس آف کامن میں موجود ہیں ، یوں برطانیہ سے یہ تمام لوگ کشمیر کے لیے بہت موثر انداز میں آواز بلند کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

The post لیاقت علی خان نے ٹرومین سے کہا ’’ہم نے آدھا کشمیر آپ کی مدد کے بغیر آزاد کرایا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


چاند پانے کا سپنا اور گرتی معیشت

$
0
0

نام نہاد سیکولر ریاست کا حکم راں مودی اکھنڈ بھارت اور ایشین ٹائیگر بننے کا خواب تو پورا نہ کرسکا، مگر اپنے جنونی اور انتہاپسند خیالات کے مالک ووٹروں اور حامیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس نے کشمیر میں درندگی اور سفاکی کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔

جذبۂ حریت سے سرشار کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے اور مودی سرکار کے باوردی قاتل وادی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ملکی و عالمی ذرایع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر کے نہتے اور معصوم کشمیریوں کے ساتھ بدترین اور انسانیت سوز مظالم کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسی دوران بھارت کا چاند کی سطح پر پانی کی تلاش کے لیے خلائی مشن بھیجنا (جو کہ ناکامی سے دوچار ہوا) بھی انسانیت کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کہا جاسکتا ہے کہ جو بھارتی حکومت زمین پر آباد کشمیریوں کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسا دے وہ کیسے انسانوں کی فلاح و بہبود اور سائنسی ترقی کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ ایک خطیر رقم ایسے خلائی مشن پر جھونک دی گئی جس کا مقصد صرف دنیا اور خطے پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا اور یہ کسی بھی طرح انسانی بھلائی کا عمل نہ تھا۔

موجودہ بھارتی حکومت کے ایسے فیصلوں اور اقدامات پر نہ صرف دنیا میں مودی کی بدنامی اور رسوائی ہورہی ہے بلکہ خود بھارتی دانش ور اور سنجیدہ و باشعور عوام اس کے خلاف میدان میں ہیں۔ ایک طرف بھارت میں موجودہ حکومت کو اس کی نااہلی، بدترین پالیسیوں اور بدانتظامی پر مطعون کیا جارہا ہے اور دوسری جانب دنیا بھر میں ہندوستان کی برباد ہوتی معیشت پر بحث ہو رہی ہے جسے حالیہ خلائی مشن کی بدترین ناکامی نے بھی ہوا دی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی سرکار اپنی جنتا کو بھوک کے عفریت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل چکی ہے اور جیتے جاگتے انسانوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھ کر چاند پر قدم جمانے کی بھارتی کوششیں انسانیت کی توہین اور بدترین ظلم کی ایک شکل ہیں۔

یہی نہیں بلکہ مودی نے مذہبی انتہا پسندی اور طاقت کے جنون میں کشمیریوں کے آزادی کے نعرے کو کچلنے کا جو راستہ اپنایا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کو چاہیے کہ اس کا فوری نوٹس لے اور کشمیر کو بھارتی درندگی سے نجات دلائے۔ معاشی طور پر خطرے سے دوچار ریاست کا جنونی سربراہ مودی اور اس کی حکومت کشمیر کی وادی میں خون کی ندیاں بہانے اور کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان کا مقدر لکھنے کی کوششیں کررہی ہے جس کی دنیا بھر میں مخالفت کی جارہی ہے۔ برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے آئینی شق 370 ختم کر کے کشمیر کی دیگر ریاستوں میں خودمختاری سلب کر لی ہے۔

اس وقت جہاں بھارت کو اپنے خلائی مشن کی بدترین ناکامی پر جگ ہنسائی کا سامنا ہے، وہیں اس کی معاشی بدحالی بھی زیرِبحث ہے۔ چند سال پہلے تک ایک تصور تھا کہ چین اور جاپان کے بعد بھارت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے، لیکن مودی کی نحوست اس تصور کو بھی نگل گئی۔

عالمی سطح پر بھی ماہرینِ نے بھارت کی انحطاط پزیر معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2014 میں نریندر مودی نے حکومت قائم کی تو بھارتی میڈیا میں اسے معیشت کی ترقی کے لیے نوید قرار دیا۔ مودی کے لاڈلوں نے ٹاک شوز کے ذریعے عوام کو یہ بتایا کہ مودی سرکار کی پالیسیوں کی بدولت اقتصادی و معاشی میدان میں ان کا ملک مضبوط ہو گا اور اس طرح وہ خواب پورا ہو گا۔

جس کا وعدہ انتخابی مہمات میں کیا گیا تھا، مگر یہ سب دھوکا ثابت ہوا۔ مختلف بھارتی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں ثقہ اقتصادی ماہرین کے تجزیوں اور مشاہدات پر مبنی رپورٹیں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ 2016 میں معیشت میں تقریباً سات فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا، لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا اور اب صورتِ حال تشویش ناک ہے۔ کرنسی نوٹوں کی بندش کے بدترین نتائج، گرتی ہوئی معیشت اور بھارت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت پر صرف حزبِ اختلاف ہی نہیں بلکہ حکم راں جماعت کی صفوں میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

بھارت کے سابق وزیز خزانہ یشونت سنہا نے حکومت کو ملک کی معیشت کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا تو ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے بھی جی ڈی پی میں گراوٹ کو سرکار کے غلط فیصلوں کا نتیجہ بتایا۔ اس سے قبل پارلیمان میں نوٹ بندی پر بحث میں من موہن سنگھ نے صاف کہا تھا کہ اس سے معیشت میں کم سے کم دو فی صد گراوٹ آئے گی جب کہ حکومت کا خیال تھا کہ اس سے جی ڈی پی کی شرح بلند ہو گی، مگر من موہن سنگھ کی بات درست ثابت ہوئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف نام ور ماہرینِ معیشت نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مودی کے دور میں بدترین اقتصادی اور معاشی حالات کا سامنا ہے۔

بھارتی معیشت میں مندی ہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ پچھلے دو برسوں میں حکومت اس سے نمٹنے میں ناکام نظر آئی ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی مودی سرکار کے فیصلوں پر کڑی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ مودی بڑے اصلاح کار بنتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بعض اخبارات کے مطابق مودی کے قول و فعل میں تضاد ہے جو مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ مشکل میں ہے اور انڈین مارکیٹ پر لوگوں کا بھروسا کم ہو رہا ہے جس کا سیدھا سا مطلب معیشت میں مزید گراوٹ ہو سکتا ہے۔

ایک طرف تو مودی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں ناکام نظر آتا ہے اور دوسری جانب انتخابات کے موقع پر کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ مودی سرکار نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرسکی بلکہ اس کی پالیسیوں نے الٹا لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔

ایک حکومتی رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016 سے 2017 کے درمیان بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 سال میں سب سے زیادہ تھی۔ سرکاری ملازمتوں کو چھوڑ کر نجی سیکٹر کی طرف چلیں تو وہ انحطاط کا شکار نظر آتا ہے جہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ملازمتیں پیدا ہوں۔ ملک میں بے روز گاری کی بلند شرح کا علم ایک سروے سے ہوا جسے حکومت نے منظرِ عام پر لانے سے انکار کر دیا تھا، لیکن سروے کے نتائج ’لیک‘ ہو کر میڈیا میں آگئے۔

نوجوانوں میں بے روز گاری کی شرح بہت زیادہ بتائی جارہی ہے جس میں ہر پانچ میں سے ایک نوکری کی تلاش میں ہے۔ اس سے قبل معیشت کے حوالے سے متحرک ایک نجی ادارے نے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ دسمبر 2018 تک یہ تعداد ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ملک میں کرنسی نوٹوں کی بندش سے بھی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور بے روزگاری بھی بڑھی۔ اس فیصلے سے کئی چھوٹے کاروبار بند اور بہت سی نوکریاں ختم ہو گئی تھیں۔ عالمی سطح پر معیشت اور روزگار کی بابت تشویش کا اظہار بھی مودی کو نہیں ہلا سکا اور اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے مودی نے اس سلسلے میں اعداد وشمار کو حکومت مخالف اور پروپیگنڈہ قرار دیا۔

بھارتی معیشت میں سست روی اور روزگار کے کئی ملین مواقع ختم ہو جانے پر ریاستی اداروں اور بہت سے ماہرین کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے سرگرم حکومتی ادارے نیتی آیوگ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ گذشتہ 70 برس کے دوران ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ اسی طرح بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر نے بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں فکر مند ہیں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔

مودی کے پچھلے دورِ حکومت میں اگرچہ معاشی صورتِ حال ملی جلی تھی، مگر ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر اس اقتصادی سست روی کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل (سیام) کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں دس لاکھ ملازمتوں کے ختم ہو جانے کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے، اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ مختلف عالمی نشریاتی اداروں کی رپورٹوں اور تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔

اس شعبے سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے، لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے ملک کے متعدد قومی اخبارات میں اشتہار شایع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ لدھیانہ میں سائیکلوں اور آگرہ میں جوتے کی صنعتیں خطرے میں ہیں اور ان سے منسلک کئی کاروباری ادارے بند ہو چکے ہیں جس نے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

ماہرین نے بھارت میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے لیے شروع کردہ میک ان انڈیا پروگرام کو بھی حوصلہ افزا نتائج سے محروم قرار دیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی معاشی ترقی گزشتہ 15 سال کے دوران گھریلو صارفین پر انحصار کر رہی ہے جب کہ صارفین میں خرچ کرنے کا رجحان کم ہورہا ہے جس کے باعث صورتِ حال مزید ابتر ہورہی ہے۔

کاروں کی فروخت گذشتہ سات سال میں سب سے کم سطح پر ہے جب کہ ٹریکٹر، موٹر سائیکل اور اسکوٹر کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارفین کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے جس کا براہِ راست اثر ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ مودی نے اپنے منشور میں انکم ٹیکس گھٹانے اور متوسط طبقے کی قوتِ خرید بڑھانے کی بات کی تھی لیکن موجودہ صورتِ حال میں حکومت اس پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

بھارت کو برآمدات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بھی حکومت کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ مختلف معاشی مبصرین کے تجزیوں کے مطابق صورتِ حال ابتری کی طرف جارہی ہے۔ اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ دیکھتے ہیں۔

جس کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں، لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ برآمدات میں 35 فی صد کی کمی ہوئی۔ دسمبر 2018 کی سہ ماہی میں معاشی ترقی کی شرح سست روی کے بعد 6.6 فی صد رہ گئی اور یہ اس سے قبل گزری چھے سہ ماہیوں میں سب سے کم ترقی کی شرح تھی۔

ماہرِمعاشیات پروفیسر ارون کمار نے ’’بی بی سی‘‘ سے حالیہ گفتگو میں ملکی معیشت اور ترقی کے حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں وہ بھارتی سرکار کے دعووں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ اس کے مطابق پانچ سہ ماہی قبل انڈیا کی معیشت آٹھ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی جو اب پانچ فی صد کی سطح پر ہے۔ ان کے مطابق تین برسوں میں معیشت کو تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جب کہ معیشت میں سرمایہ کاری کی شرح آج 30 فی صد سے بھی کم ہوچکی ہے۔

رواں برس بھارت کے سابق چیف معاشی مشیر نے بھی کہہ دیا کہ انڈیا اپنی معاشی ترقی کی رفتار بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے، ایک قومی اخبار میں شایع ہونے والی ان کی تحریر مودی سرکار کے منہ پر ایک اور تماچا ثابت ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان نے معاشی ترقی ناپنے کا طریقۂ کار تبدیل کر کے سب کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے تحت سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

تاہم بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اقتصادی مشیروں نے اسے مسترد کردیا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہندوستان کی معاشی ترقی سوالات اور مباحث کی زد میں ہے۔ اسی حوالے سے چوٹی کے ماہرین نے اپنی رائے دے کر مودی سرکار کے دعووں کو مزید مشکوک کر دیا ہے۔ 2018 میں انڈیا کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر ماہرینِ اقتصادیات نے نئے طریقۂ کار کو نادرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

واضح رہے کہ 2015 میں ہندوستان نے اپنی جی ڈی پی ناپنے کے طریقۂ کار کو تبدیل کر دیا تھا جس کے بعد معاشی ماہرین کے مودی سرکار کے معاشی نمو کے بلند تخمینوں پر مباحث جاری ہیں جب کہ حکومت اپنے طریقۂ کار کو درست کہتے ہوئے اس کا دفاع کررہی ہے۔ اس کے مخالفین کی جانب سے مطالبہ ہے کہ ہندوستانی اور غیر ملکی ماہرین پر مبنی ایک آزاد پینل جی ڈی پی ڈیٹا کا جائزہ لے اور حقائق سامنے لائے۔

حالیہ خبر کے مطابق انڈیا کے ریزرو بینک نے مودی حکومت کو 24.8 ارب ڈالر اپنے ’سرپلس اور ریزرو سرمائے‘ سے دیے ہیں جس کا فیصلہ ماہرین کی ایک کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ سست روی کا شکار معیشت اور پبلک سیکٹر میں نوکریوں کی کٹوتی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنا ہے۔ تاہم حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے آر بی آئی سے رقم لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور کانگریس کے راہ نما آنند شرما نے پریس کانفرنس میں تنقید کے دوران یہ بھی کہا کہ یہ فنڈ ایمرجینسی کے لیے تھا۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ حالیہ فیصلے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت میں آر بی آئی کی خود مختاری پر بھی بحث کی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ریزرو بینک اپنا اعتبار کھو رہا ہے اور سرمایہ کار یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ بینک سرکار کے کنٹرول میں ہے۔

معیشت کے ماہرین بھارت کو کساد بازاری کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں لیکن مودی سرکار اسے مسترد کرتے ہوئے معیشت کو سست روی کا شکار بتا رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیاں جلد اس کا حل نکال لیں گی۔

The post چاند پانے کا سپنا اور گرتی معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.

آصف زرداری نے مجھے پیغام بھجوایا پاکستان آئیں اور بتائیں کہاں سے انتخاب لڑنا ہے

$
0
0

یہ وہ زمانہ تھا، جب اکلوتا سرکاری ’ٹی وی‘ ہی دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اخبارات نجی تھے، لیکن قارئین انھیں آزاد نہیں سمجھتے تھے۔۔۔ ایسے میں ’ریڈیو‘ کو اِدھر اُدھر کی بازگشت سننے کے لیے ایک برتری سی حاصل تھی۔۔۔ اور پھر ہمارے گھر میں ’ٹی وی‘ کو پڑھنے والے بچوں کے لیے مُضر جانا جاتا، اس کی جگہ ہر جمعے کو ریڈیو پاکستان سے مُنّی باجی کا پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ سنوا کر ہماری سماعتوں کی تربیت ہوتی۔۔۔

امی کبھی کبھی ریڈیو کی سوئی گھماپِھرا کر ’آل انڈیا ریڈیو‘ کے ’حیدرآباد، دکن‘ اسٹیشن کی آواز سنوانے میں بھی کام یاب ہو جاتیں، جہاں سے بچوں کا پروگرام اتوار کو نشر ہوتا، یہ اتوار کی چھٹی ہم جمعے کی چھٹی والے بچوں کے لیے خاصی حیرانی کا باعث بنتی۔۔۔

تب اکثر گھروں میں اسکول اور مدرسے والے بچے جلدی سو جاتے تھے۔۔۔ ہمارے ہاں بھی 10 بجے رات ہو جاتی۔۔۔ لیکن شاید کچھ حالات وواقعات ایسے تھے کہ باخبر رہنا بھی ضروری خیال ہوتا۔۔۔ اور آزاد خبروں کے لیے ’بی بی سی‘ کسی سند کی طرح مانا جاتا تھا۔۔۔

اس لیے ہمارے ابو الماری کے اوپر رکھے ہوئے بڑے سے جاپانی ’کار ٹیپ‘ کے اینٹینے کا رخ اور اس کی ’سوئی‘ کا سمبندھ ایسا کر دیتے کہ جہاں ’بی بی سی‘ صاف سنائی دینے لگتا۔۔۔ پھر اردو نشریات کے لیے ساڑھے 10 بجنے کا انتظار ہوتا۔۔۔ اور غالباً اردو سے قبل بی بی سی کی ’ہندی‘ نشریات جاری ہوتیں۔۔۔

اور ہم سوچتے کہ ’ارے یہ ہندی ہے؟ یہ تو ہمیں بالکل صاف سمجھ میں آرہی ہے، سوائے ہر تیسرے، چوتھے اجنبی سے لفظ کے۔۔۔‘

ابھی ہم اردو اور ہندی کو سمجھنے کی یہ گتھی ہی سلجھا رہے ہوتے کہ یکا یک گھڑیال ساڑھے 10 بجا دیتا۔۔۔ اور ’بی بی سی‘ سے اردو نشریات شروع ہوتے ہی پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش کے مختلف وقت کے ساتھ جب گرینیچ کا وقت شام کے ساڑھے پانچ بتایا جاتا۔۔۔ تو ہمیں کھڑکی سے تاروں بھرا سیاہ آسمان دیکھ کر ایک اور حیرت ہوتی کہ اس وقت دنیا میں کہیں شام بھی ہے۔۔۔!

پھر ’بی بی سی‘ سننے کے اسی بیچوں بیچ گھر میں اکثر کہیں نہ کہیں ’شفیع نقی‘ کا ذکر تواتر سے ہوتا۔۔۔ اُس سمے انہیں سننا تو اتنا یاد نہیں، لیکن ذہن میں غائبانہ اُن کی شخصیت کسی خاکے کی صورت بننے لگی۔۔۔ آواز سنائی دے گئی، تو بتایا گیا کہ یہ ہیں ’شفیع نقی‘ اپنی ہی کالونی کے ہیں۔۔۔ اُن کے والد کی نسبت یہ۔۔۔ اور اُن کا گھر وہ فلاں ہے۔۔۔ اور یوں ہم ایک نئی حیرت میں مبتلا ہوتے۔۔۔ اور اُن سے ملنے کا تجسس ایسا تھا جو ہمارے ساتھ بڑا ہوا، لیکن تب یہ سوچا بھی نہ تھا کہ بی بی سی ’شفیع نقی‘ سے کبھی ہم ملاقات بھی کریں گے اور پھر ہم بھی انہی کی طرح دشت صحافت کی سیاحی کرتے ہوئے ایک دن انہی سے گفتگو کا احوال بھی لکھیں گے۔۔۔

ہماری شفیع نقی جامعی سے پہلی ملاقات انٹر کے زمانے میں ہوئی، اب کی بار وہ کراچی آئے، تو ہم مل نہیں پائے، آخر ہم نے ’وٹس ایپ‘ کے وسیلے اُن سے یہ ملاقات کی، یعنی ’ایکسپریس‘ کے توسط سے ہمارے مواصلاتی انٹرویو کا سلسلہ اب ہندوستان سے ہوتا ہوا ’لندن‘ پہنچ گیا۔۔۔

’بی بی سی‘ لندن والے شفیع نقی، زمانہ طالب علمی کے ’شفیع نقی جامعی‘ کا حلیہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ کاندھوں تک لمبے بال، پولیس کا سائرن لگی ہوئی ہنڈا 250 اسکوٹر پر سوار، جامعہ کی ’یوم حسین‘ کمیٹی کے رکن، محرم میں کالے کپڑے پہننے اور رشید ترابی کی مجالس میں جانے والے۔۔۔‘

ذرا ٹھیریے۔۔۔ ان کے یہ بھرپور اور توانا حالات زیست جاننے سے پہلے ذرا ان کا بچپن جان لیجیے۔۔۔

کہتے ہیں کہ والدہ کے بقول تاریخ پیدائش 27 نومبر 1953ء ہے، والد نے دو شادیاں کیں، 10 بہن بھائیوں میں وہ منجھلے ہیں۔ شفیع نام دادا نے رکھا، لیکن گھر میں والدہ کا دیا ہوا نام ’شاہد اختر‘ ہے۔۔۔ بچپن میں چھے، سات لڑکوں کی شرارتی ٹولی کے قائد تھے اور اپنے گھروں کے باہر ’دکان‘ سجائے بیٹھے بچوں سے ’چُنگی‘ نہ ملنے پر اُن کا سامان لوٹ لیا کرتے۔ اُن کا محلے کے اسکول میں داخلہ ہوا، لیکن وہ پڑھ کر نہ دیے، ایک دن جاتے، اور پورا ہفتہ غائب۔ بڑے بھائی جامعہ ملیہ، میں پڑھتے تھے، جو وہاں کی ہریالی کا ذکر کرتے، جسے سن کر وہ بھی وہاں جانے پر بضد تھے، بالآخر انہیں بھی وہیں بھیج دیا گیا۔ والد ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے آرٹس چُنی۔ کہتے ہیں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں ’جامعہ ملیہ‘ کی وجہ سے ہوں۔

’’اگر جامعہ ملیہ نہ جاتے تو۔۔۔؟‘‘

اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ پھر کراچی کے ’میریٹ روڈ‘ پر کاروبار کر رہا ہوتا۔
’جامعہ ملیہ‘ ملیر میں ایک یادگار زمانہ گزارنے کے بعد شفیع نقی جامعی ’شعبہ سیاسیات‘ جامعہ کراچی کے طالب علم ہو گئے۔ تب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی جامعہ کے طالب علم، جب کہ محفوظ یار خان ایڈووکیٹ وغیرہ ان کے ہم جماعت تھے۔
اپنی سیاسی فکر کا رُخ ’بائیں بازو‘ بتانے والے شفیع نقی کہتے ہیں کہ ’1971ء کے بعد وہ ذوالفقار بھٹو کے مخالف ہوگئے، کیوں کہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اکثریت ملنے کے باوجود اقتدار نہ دیا اور ملک توڑ دیا۔ شفیع کی ماموں زاد بہن درشہوار (جو بعد میں ریلوے کی اعلیٰ افسر بنیں) کا بے نظیر اور صنم بھٹو وغیرہ کے ساتھ ’آرٹس لابی‘ میں اکٹھ رہتا، جس سے وہ دور دور رہتے۔‘

جامعہ کراچی میں تشدد کے ذکر پر شفیع نقی بتاتے ہیں کہ ’چُھری چاقو دیکھے تو نہیں، لیکن ایسی باتیں سنائی دینے لگی تھیں، ڈنڈے ونڈے ہوتے تھے، کچھ لڑکے انگلیوں میں مخصوص ’کلپ‘ پہن کر گھوما کرتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ تشدد بعد میں حکمرانوں کی حرکتوں کے سبب آیا۔ ہم نے اس وقت ماحول کے بدلائو کا پوچھا، تو وہ بولے کہ طلبہ اساتذہ کی بے عزتی کرنے لگے تھے، اُن میں بھٹو والی زبان آگئی تھی ’اوئے‘ والی۔۔۔ جو آج عمران کی زبان ہے!

ہم نے کریدا کہ ’یہ بدزبان طلبہ تھے کس تنظیم کے؟‘ تو ان کا جواب تھا کہ کچھ تو کسی بھی تنظیم کے نہ تھے اور اچھے برے ہر جگہ تھے، میں کسی کا نام نہیں لوں گا۔

شفیع نقی کہتے ہیں کہ وہ کالجوں میں کسی ’گڑ بڑ‘ پر جامعہ کراچی سے ’کمک‘ بھیجا کرتے تھے، نیشنل کالج یونین کے صدر حسین حقانی کو تنگ کیا جاتا، جب ہم اپنی ’فورس‘ بھیجتے تو مخالفین بھاگ جاتے۔ ’اسلامیہ کالج‘ کے قد آور، گھنگریالے بال، صاف رنگت کے حامل ’شہنشاہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شہنشاہ وہاں ’دادا گیری‘ کرتے تھے۔ ہم نے پوچھا وہ کس تنظیم کے تھے؟ تو بولے کہ وہ خود اپنی ذات میں تنظیم تھے، انہوں نے ایک مرتبہ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کے لڑکوں کو مارا، تو ہم نے جا کر انہی کے کالج میں سبق سکھایا، پھر اُن کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ شاہ فیصل کالونی میں قصاب برادری کی مدد سے غنڈا گردی ہوتی، تو ہم نے اُن پر دھوبی اور گوالے چھوڑ دیے۔

شفیع نقی کے مطابق یہ ساری ’سرگرمیاں‘ جامعہ کراچی سے باہر تھیِں۔ اگرچہ وہ اسے ’قابل فخر‘ نہیں کہتے، لیکن انہیں افسوس یا پچھتا وا بھی نہیں، کیوں کہ وہ برائی کو طاقت سے روکنے پر کاربند رہے، وہ کہتے ہیں کہ کوئی ڈنڈا لاتے، تو ہم بانس لے آتے اور پھر آخری گھونسا ہماری طرف سے ہوتا۔ میرے سخت جواب پر ’جمعیت‘ والے برا بھی مناتے۔ میں جواب دینا ضروری سمجھتا تھا، لیکن پہل کبھی نہیں کی۔

1972ء کی لسانی کشیدگی کے حوالے سے شفیع نقی بیان کرتے ہیں کہ وہ ’جامعہ ملیہ‘ طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری تھے، جب وہاں دیگر کالجوں کے طلبہ احتجاجاً کالج بند کرانے آئے، تو انہیں سمجھایا اور پھر انہیں ملیر چھوڑنے گئے۔ واپسی پر ’کالا بورڈ‘ پر پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا، کہتے ہیں کہ وہاں کے ’ایس ایچ او‘ سردار عزیز نے مجھے زوردار طمانچہ مارا تو میں نے اُن کے منہ پر تھوک دیا، جس کے بعد میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے اور پھر سردار عزیز نے دو اور چانٹے رسید کیے، میں نے دوبارہ تُھوکا، اور پھر پیچھے والے اہلکار کو دھکیل کر سردار عزیز کو ایک ’فلائنگ کک‘ ماری۔ اُدھر طالبات کو خبر ہوگئی، تو جامعہ ملیہ سے شہناز احد اور دیگر نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔ نتیجتاً پولیس تھانے میں اسلحہ چھوڑ کر بھاگی تھی۔ اس کے بعد پہلی بار میرے نام کے ساتھ تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ مار پیٹ بھی جُڑ گئی اور سردار عزیز اور میری عداوت بھی شروع ہوگئی۔۔۔

ہم نے شفیع نقی سے پوچھا کہ وہ کراچی کے اسی تشدد کا حصہ رہے، جس نے آگے چل کر پھر ایک ایسی آگ کی شکل اختیار کرلی، جس سے پورا شہر جل گیا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہیں اور سے ہو رہا تھا، شہر میں بھڑکانے والی باتیں ہو رہی تھیں، یہ تشدد پنجہ آزمائی کا نتیجہ تھا۔ ’کوٹا سسٹم‘ کے نتیجے میں یہاں ملازمتیں نہیں مل رہی تھیں، اساتذہ کی بھرتیوں سے، پی آئی اے اور اسٹیل مل تک کی اسامیوں میں نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ اردو اور سندھی کا تنازعہ بھی بگڑ رہا تھا، میں اس صورت حال کا ادراک نہ کر سکا، میں صرف زیادتی میں ساتھ کھڑا ہوا، پہل نہیں کی کبھی۔‘

’آپ اُن کے ہم آواز تھے، جنہوں نے پھر بعد میں مارا، یعنی پہلے جو ردعمل میں پُرتشدد ہوتے تھے، پھر وہ پہلے خود تشدد پر اتر آئے؟‘
یہ سوال، ہماری گفتگو کا وہ مرحلہ تھا کہ دبنگ شفیع نقی جامعی نے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ’’مجھے اندازہ نہ تھا کہ یہ تشدد اتنا پڑھتا چلا جائے گا، لیکن جو حالات رہے، اس میں مان لیں کہ ہم بھی اُسی کا حصہ بن گئے۔۔۔!‘‘

شفیع نقی جامعی نے انکشاف کیا کہ 1974-75ء میں جامعہ کراچی میں بطور صدر طلبہ یونین، انہوں نے بانی جماعت اسلامی سید ابولاعلیٰ مودودی کے سامنے تحفظ پاکستان کا حلف اٹھایا۔ کہتے ہیں کہ میں ’ایشوز‘ میں ’جمعیت‘ کے ساتھ تھا، ’درس قرآن‘ بھی کراتا تھا۔ ’قادیانی تحریک کے دوران اکرم کلہوڑو کے ساتھ ریگل سے گرفتاری بھی ہوا، پھر تھانے میں کھٹملوں اور مچھروں کی اذیت سہی، وہاں کی دال روٹی سے رفع حاجت تک کے مسائل بھی یاد ہیں۔ اسی تحریک کے دوران ایک بار فیصل مسجد، اسلام آباد سے بھی پکڑا گیا۔ قادیانی معاملے پر تب ’جمعیت‘ سے متفق تھا، لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ معاملہ افہام تفہم سے حل ہونا چاہیے تھا۔ مجھے اُن کی حقیقت نہیں پتا، انہیں غیرمسلم کہہ دیا، لیکن وہ انسان بھی تو ہیں ناں۔

شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ ’ایم اے‘ کے بعد کچھ وقت جامعہ کراچی میں تدریس کی، پھر روزنامہ ’جسارت‘ میں چند ہفتے نیوز ڈیسک پر گزارے، جہاں آشکار ہوا کہ خبریں بنانا میرا کام نہیں، پھر ’جنگ‘ میں ’چٹکیاں‘ کے عنوان سے کالم لکھنے لگے، ’پری سنسر شپ‘ میں اُن کے کالم بھی رکے، پھر اخبار میں حسب روایت اس کی جگہ خالی ہی چھوڑی جاتی۔ پروفیسر شمیم اختر نے انہیں لکھنے میں مدد فراہم کی، ضیا الاسلام زبیری، دوست محمد فیضی اور خوش بخت شجاعت وغیرہ کا بھی ساتھ رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ کالموں کے اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ ’پیٹرول‘ اور کھانے کا خرچ نکل آتا تھا۔ تب بھی یہ سوچ تھی کہ پیسے کیسے؟ ہم تو آپ کو مشہور کر رہے ہیں، لیکن میں نے معاوضے کے بنا کوئی کام نہیں کیا۔ پاکستان کے ٹی وی مذاکروں میں بھی اسی لیے شرکت نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ جہاں ’بی بی سی‘ یا کسی دوست کا معاملہ ہو۔

ریڈیو پاکستان سے نتھی ہونے کے حوالے سے شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ ’جامعہ ملیہ‘ کے زمانے میں ہی وہ ریڈیو پر سنائی دینے لگے، پھر ڈرامے وغیرہ لکھ کر اور صداکاری کے ذریعے کچھ پیسے جوڑ لیتے، کبھی ہفتے کے ڈیڑھ، 200 روپے ہو جاتے، جو بڑی رقم ہوتی، لیکن مہینے کے آخر میں ہاتھ پھیل ہی جاتا تھا، شکل ایسی بن جاتی، جس کے بعد والدہ پیسے دے دیا کرتیں، جب کہ والد سے مانگتے ہوئے شرم آتی۔

انہوں نے یہ انکشاف کر کے ہمیں حیران کردیا کہ پیٹرول وغیرہ کے خرچ کے لیے انہوں نے اپنے جیتے گئے کپ اور ٹرافیاں بوری بھر کے بیچ دیے۔۔۔ اُن کے سرٹیفکیٹ اور اہم اخباری تراشے بھی اہل خانہ اور دوستوں نے سنبھالے رکھے۔

شفیع نقی بتاتے ہیں کہ ولی خان، مفتی محمود اور عطا اللہ مینگل سمیت پوری حزب اختلاف کو جامعہ کراچی مدعو کرنے پر بھٹو برہم بہت ہوئے کہ یہ کوئی معیار نہیں کہ آپ جامعہ کراچی میں تقریر کر دیں۔ بھٹو کا بیان چھاپنے پر ’جنگ‘ کے دفتر پہنچے، اپنا جوابی موقف لکھا اور ساڑھے تین بجے تک طباعت کے تمام مراحل دیکھتے رہے، لیکن اگلی صبح جو اخبار نکلا، تو وہاں کچھ اور چھپا ہوا تھا، جس پر ’جنگ‘ کا گھیرائو کرلیا اور پھر معافی تلافی ہوتی رہی، اس کے بعد ’جنگ‘ کے دفتر میں جال کا آہنی دروازہ لگ گیا۔

جامعہ کراچی کے بعد جب وہ لندن کا پھیرا لگانے کے بعد جب کراچی آئے، بتاتے ہیں کہ پھر کچھ اسیروں کی رہائی درپیش تھی، جس کے لیے وہ گارڈن پولیس اسٹیشن گئے، وہاں موجود میجر ارشد بہت زیادہ بدتمیزی سے پیش آئے۔ اُن دنوں بلوچستان کے گورنر جنرل رحیم الدین خان تھے، جو ’جامعہ ملیہ‘ کے ڈاکٹر محمود حسین کے داماد تھے، اس کے بعد یہ ہوا کہ میجر ارشد کو ملٹری چھوڑنا پڑ گئی۔۔۔

لندن روانگی کا ذکر چھِڑا، تو شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ مجھے سیاست میں آنے کا شوق تھا، لیکن اس کے لیے میں نے محسوس کیا، کہ یہ ضروری تھا کہ آپ ’سَن آف دی سوائل‘ (Son of the soil) ہوں یا وزیر، سفیر کی اولاد۔۔۔ میں ان دونوں میں سے کچھ نہ تھا، چناں چہ پھر اس خواب کی تکمیل کے لیے تعلیم ہی آخری راہ تھی، اس لیے پڑھنے لندن گیا۔

اس حوالے سے ذکر کچھ یوں کیا کہ ’کرسچن لیگ ایڈ انٹرنیشنل‘ کے اسکالر شپ کمپٹیشن میں وہ دنیا بھر میں سوم اور ایشیا میں اول آئے، وہ یہ ’تعلیمی وظیفہ‘ پانے والے تیسرے پاکستانی تھے، یوں 1976ء میں وہ پہلی بار لندن گئے، جہاں ’لندن اسکول آف اکنامکس‘ میں داخلہ لیا، ’ایف ایس سی اور ’ایم ایس سی‘ کیا، اور جامعہ ملیہ میں پہلی جماعت سے شروع ہونے والا ’تعلیمی وظیفے‘ کا سلسلہ 1978ء میں، ’لنکنزان ان‘ (Lincoln’s inn) میں ’بارایٹ لا‘ اور پھر 1980ء میں ’یونیورسٹی آف کیمبرج‘ میں ’میری ٹائم لا‘ پڑھنے تک جاری رہا، کہتے ہیں کہ ’میری ٹائم لا‘ میں سمندری امور قوانین کا احاطہ کیا جاتا ہے اور وہ اس شعبے میں معدودے چند پاکستانیوں میں شامل ہیں۔

شفیع نقی نے بتایا کہ 1985ء میں وہ اقوام متحدہ میں جج بھرتی ہوگئے، لیکن بوجوہ وہاں سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا، البتہ وہ ’ریٹنرشپ‘ (Retainership) دے رہے تھے، یعنی آپ تنخواہ لیتے رہیں، مگر مستقل نہیں کر رہے۔ 1979ء سے ’بی بی سی‘ کے لیے ’فری لانس‘ کام کر رہا تھا۔

ہمارا موضوع سخن شفیع نقی جامعی کی ’بی بی سی‘ سے وابستگی کی سمت نکل آیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ سے قربت کے باعث ’بی بی سی‘ کی ’اردو سروس‘ والوں نے رکاوٹیں ڈالیں، چناں چہ پھر ’بی بی سی‘ کے لیے سائنس اور ثقافت وغیرہ کے موضوعات پر انگریزی میں مختصر مواد لکھنے لگے۔ جس کے بعد ’اردو سروس‘ کے ایک صاحب نے گالی دے کر کہا تھا ’لو میاں، جن کو ایک چیز ترجمہ کرنے کو نہ دیا، اب ان کی ٹاکس کا ترجمہ کرو!‘

’بی بی سی‘ کی ’ہندی نشریات‘ تک رسائی کا ماجرا وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ 800 برس برانے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہندوستانی کارڈ پر لکھی ہوئی تحریر ’ہندی سروس‘ کی رماں پانڈے کو بہت پسند آئی، انہوں نے پوچھا کہ آپ اس کا ہندی میں ’انو واد‘ (ترجمہ) کردیں گے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو ہندی نہیں آتی، تو میں نے اردو میں ہی لکھ کر دے دیا۔ اس طرح وہ ہندی سیکھنے کی طرف راغب ہوئے، اور ’بی بی سی‘ پر اردو رسم الخط میں لکھ کر ہندی پڑھنے لگے، اب ہندی رسم الخط سمجھ لیتے ہیں، لیکن بولنے میں رواں نہیں۔ اچلا شرما، رماں پانڈے، اور للت موہن جوشی وغیرہ نے انہیں ہندی سکھانے میں بہت محنت کی۔ یوں 1981-82ء تک انہیں ہندی پر عبور حاصل ہوگیا۔ اسی زمانے میں بھارتی راہ نما لال کرشن ایڈوانی ان سے ملے، جب انہیں یہ پتا چلا کہ روانی سے ہندی بولنے والا شفیع کبھی ہندوستان گیا تک نہیں، تو وہ بڑے حیران ہوئے۔

ہم نے پوچھا کہ ’جب ہندی میں آگئے، تو ’اردو سروس‘ میں راستہ روکنے والوں کا رویہ کیسا رہا؟‘ کہتے ہیں کہ وہ حسد کرتے۔۔۔ ایسا لگتا کہ میں نے اُن کی مرغی چرائی ہے یا ان کے محلے کی کسی لڑکی کو چھیڑا ہے۔ ’اردو سروس‘ کی طرف آمد 1987-88ء میں پروگرام ’کھیل کے میدان سے، میں شرکت کے بعد شروع ہوئی، یوں دونوں زبانوں میں یہ سلسلہ چلنے لگا۔

’’اقوام متحدہ میں ’ریٹنر شپ‘، کیمبرج یونیورسٹی میں قانون کی تدریس اور ’بی بی سی‘ میں فری لانس کام بہ یک وقت جاری تھے۔‘‘ شفیع نقی جامعی کی گفتگو اب 1990ء کے زمانے میں پہنچ چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’اب میں نے اپنے کام کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچا، یونیورسٹی میں مجھے ایک سال، جب کہ ’بی بی سی‘ میں تین سال کے ’معاہدے‘ کی پیش کش ہوئی، یوں 1991ء میں، میں ’بی بی سی‘ اردو میں ’کو پروڈیوسر‘ ہوگیا، جس کے بعد ’ہندی سروس‘ سے ناتا ٹوٹنا شروع ہوا۔ پہلے ہندی یا اردو سروس کا انتخاب سامنے آیا تو ہندی شناخت اور منجھ جانے کے باعث ہندی چُنی، لیکن مجھے پھر بھی ’اردو سروس‘ میں بھیج دیا گیا۔

شفیع نقی بتاتے ہیں کہ وہ ’بی بی سی‘ اردو کے پروگراموں میں تو آنے لگے تھے، لیکن 1992ء میں جس روز پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈکپ جیتا، اسی روز پہلی بار وقار احمد کی جگہ پروگرام ’سیربین‘ کیا، اور اُن کے الفاظ میں جب یہ پتا چلا کہ یہ پروگرام انہیں کرنا ہے، تو ہاتھوں کے توتے اڑگئے۔۔۔

’بی بی سی‘ پر ماحولیات کے سلسلے وار پروگرام کے لیے شفیع نقی نے آصف زرداری کا انٹرویو کیا، جو اس وقت وزیرماحولیات تھے، زرداری نے اُن سے کہا کہ ’تمہارے تو الیکشن میں آکر میں نے نعرے لگائے ہیں۔۔۔!‘ شفیع کے بقول وہ پہلے بھی پیغام بھجوا چکے تھے کہ ’یہ لندن میں کیا کر رہا ہے، اِسے یہاں بلائو، پوچھو کسی نشست سے انتخاب لڑنا ہے۔‘ ظفر عباس اس کے گواہ ہیں۔

سیاست دان بننے کے خواہش مند شفیع نقی نے یہ پیش کش قبول کیوں نہ کی؟ وہ کہتے ہیں کہ میں اس بکھیڑے میں پھنسنا نہیں چاہ رہا تھا، دل بڑا دُکھا ہوا تھا اور وہ ماحول میرے لیے مناسب نہ تھا۔

’آپ کے لندن میں مستقل ٹھیر جانے کا ذہن کب بنا؟‘
پڑھنے ولایت جانے والے شفیع نقی سے اس کا جواب پوچھا جانا لازم تھا، سو ہم نے پوچھ لیا، وہ بولے کہ بطور جج اقوام متحدہ جانا نصیب میں نہ تھا، پھر وہاں اسکاٹ لینڈ یارڈ میں ایک خاتون ہوتی تھیںِ، اُن سے دوستی ہوگئی، پھر وہ بنوری ٹائون، کراچی میں مسلمان ہو کر راحیلہ ایمان مریم کہلائیں اور 1985-86ء میں ان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ اب شفیع نقی جامعی دو بیٹے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ ملک میں واپس نہ آنے کی دیگر وجوہات میں وہ پاکستان میں فوجی حکومت اور ذوالفقار بھٹو کی پھانسی وغیرہ گنواتے ہیں، پھر تین سال کے بعد وہ مستقلاً ’بی بی سی‘ کا حصہ بن گئے اور 15 مارچ 2019ء کو ریٹائر ہوئے۔

ان دنوں وہ ’یونیورسٹی آف لندن‘ میں ایک بار پھر ’میری ٹائم لا‘ کی تدریس پر مامور ہیں۔ انہوں نے وکالت کا باقاعدہ ’لائسنس نہیں لیا، لیکن مختلف کمپنیوں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اب لندن کے کچھ مقامی اخبارات کے ساتھ ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کے لیے لکھ رہے ہیں، کچھ دنوں میں ذرایع اِبلاغ کے دیگر اداروں کے ساتھ کام کرنے کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔

’اگر آپ لندن نہ جاتے تو؟‘

شفیع نقی سے ہمارے سوال نامے کا یہ استفسار بھی اہم تھا، وہ کہتے ہیں ’’تو سیاست میں ہوتا اور 39، 40 سال کی عمر میں مارا جاتا۔۔۔!‘‘
ہم اُن کے اس خیال کو کراچی میں 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی خوں ریزی کی بنیاد پر ایک تجزیہ سمجھے، لیکن انہوں نے ہمیں کچھ یوں بتایا:
’جامعہ ملیہ میں امام صاحب قاری فخر الحسن ماہرعملیات تھے، ان سے ہر مشکل کی گھڑی میں تعویز لیتا تھے۔ انہوں نے احتیاط بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ایسا ہو سکتا ہے۔‘

’واپسی کا ارادہ ہے کوئی؟‘
اُن کی وطن واپسی کا سوال اُن کے ہر سامع کی طرح ہمارے ذہن میں بھی کلبلایا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، جنگل کے مور کے مصداق ناچ کر خود ہی خوش ہو لیتے ہیں، لیکن یہ سوچ آتی ہے کہ اپنے کام سے کسی کو کیا فیض دیا؟ میں نہیں سمجھتا کہ میں کسی کو کوئی فائدہ پہنچا پایا۔ اپنے ملک کو تو بہت دور کی بات ہے، میں اپنے شہر کے لیے خود کو کام میں نہ لا سکا۔‘

شفیع نقی جامعی کے نزدیک بولے گئے لفظ کے مقابلے میں چھَپے ہوئے لفظ کی اہمیت زیادہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا‘ ایسا طوفان ہے، جو سب بہا کر لے جائے گا، مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کو جھٹکا لگ سکتا ہے، لیکن یہ بھی ایسے ہی قائم رہیں گے، جیسے ریڈیو ختم نہیں ہوا۔ اخبار اپنی شکل ضرور بدل سکتا ہے، لیکن کم سے کم آئندہ 50 برس تک کاغذ والا اخبار کہیں نہیں جائے گا۔
پاکستانی ذرایع اِبلاغ کو نصیحت کرنے کا کہا تو بولے کہ اس مقام پر نہیں کہ نصیحت کر سکوں، بس یہ مشورہ ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ وہی کرے۔ نئے آنے والے صحافی پہلے پڑھ لیا کریں، ورنہ بقول جون ایلیا جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے رہیں!
ایک اور زندگی ملے تو کیا یہی زندگی جینا چاہیں گے؟ کہتے ہیں کہ اسے اور بہتر کرنا چاہوں گا۔
۔۔۔
٭طالب علم راہ نما:’سنسر بورڈ‘ سے لے کر ’فارمیسی‘ میں داخلے کرانے تک۔۔۔!
شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے طلبہ یونین کے صدر کے طور پر منہگی کتب بیچنے والے ناشرین کو تنبیہ کی، وہ نہ مانے تو 10 پیسے فی صفحے کے حساب سے کاپی کرالی، ڈیڑھ ہزار کی کتاب 60، 70 روپے میں آگئی! جس پر بہت واویلا ہوا، میں نے کہا کہ آپ مقدمہ کر دیں، میں خود جا کر عدالت میں لڑ لوں گا۔ اسی طرح میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو داخلے نہیں مل رہے تھے، وہ وزیرصحت عبدالوحید کٹپر کے پاس گئے، اور کہا کہ ’کوٹا سسٹم‘ ان بے چاروں کو مار رہا ہے، فارمیسی میں داخلے کے لیے ’ڈومیسائل‘ مانگے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ’ڈومیسائل‘ لینے بہار جائیں؟ وزیرصحت نہ مانے، تو پھر انہیں ایک فائل دی، اس میں ’کوٹے‘ کی بنیاد پر آرٹس کے طلبہ کے ہونے والے داخلوں کی تفصیلات تھیں، اور کہا اچھا پھر ٹھیک ہے مطالبات نہ مانے تو یہ والے داخلے تو نہیں ہو پائیں گے اور میں شام کو ایک پریس کانفرنس کرنے والا ہوں! کچھ ہی دیر میں انہوں نے ملنے کے لیے بلوا لیا۔ یہ وہی موقع تھا جب ’اے پی ایم ایس او‘ کے قیام سے قبل الطاف حسین اور دیگر طلبہ ’فارمیسی‘ کی داخلہ پالیسی پر احتجاج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شفیع کہتے ہیں کہ انہیں وزرا گھر تک بھی چھوڑنے آتے تھے، لیکن ہم حکومت سے ملے بھی تو طلبہ کے کام کے لیے، کبھی نئی بسیں منگا لیں، تو کبھی سڑکیں بنوائیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جامعہ کراچی کے صدر طلبہ یونین کے طور پر سنسر بورڈ میں بھی نمائندگی کی۔ ’سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘ میں غرارہ کا رخ غیرمناسب پا کر وہ منظر کٹوایا، اس طرح دیگر فلموں کے ایک دو مکالمے اور گانے کے مناظر بھی حذف کرائے۔n

٭میر تقی میرؔ کراچی کی حالت دیکھتے تو خودکُشی کرلیتے!
اپنی جنم بھومی کراچی سے لگائو شفیع نقی جامعی کی شخصیت کا ایک نمایاں جزو ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ’اہل کراچی‘ کو شکایت ہے کہ کہ ان کی شناخت اور حقوق کی بات کو دائیں بازو والے ’غیرمذہبی‘ کہہ کر پرے کرتے ہیں، تو دوسری طرف ’لبرل‘ یا ’روشن خیال‘ حلقے چھوٹے سے چھوٹے طبقے کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں، لیکن کراچی والوں کے تحفظات پر اِدھر اُدھر کی تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے شفیع نقی بولے کہ ’میں انہیں ’لبرل‘ تو نہیں البتہ کشادہ ذہن شمار کرتا ہوں، مجھے نہیں پتا کہ اِن کی گوٹ کہاں دبتی ہے، میری پوزیشن نہیں ہے کہ میں کچھ کہوں، لیکن مجھے نہیں پتا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مساوی حقوق کی بات کرتے ہوئے، سب کو برابر سمجھنا چاہیے۔‘

شفیع نقی کا خیال ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ کو کراچی کو سنوارنے کا بہت اچھا موقع ملا تھا، یہ کچھ کر پائے اور کچھ نہیں کر پائے، مجھے اِن کا شیرازہ بکھرنے پر افسوس ہے۔ میں اردو اسپیکنگ، لیکن پاکستانی ہوں، پنجاب کے دوستوں کو سمجھاتا ہوں کہ ہر اردو بولنے والے کو ’ایم کیو ایم‘ کا سمجھنا ٹھیک نہیں۔ کراچی پاکستان کی ماں ہے، جس نے ٹیکس دے دے کر پاکستان بنایا، لیکن اس کا جو حشر ہوا ہے، بہت تکلیف دہ ہے۔ دلی اجڑنے کا نوحہ کہنے والے میر تقی میر ہوتے اگر کراچی کی حالت دیکھتے خود کُشی کر لیتے۔

ہم نے لندن میں جلاوطن رہنے والے سیاست دانوں کا ذکر کیا تو بولے یہاں آنے والے تمام ہی بڑے سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا، یہاں سب کی گردن کے سریے نکل جاتے ہیں!

وہ لندن میں ’ایم کیوایم کی جانب سے منعقدہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی یاد میں تعزیتی تقریب میں بھی شریک ہوئے۔ ہم نے اس قربت کا سبب ٹٹولا، تو وہ بولے کہ ڈاکٹر حسن ظفر کے نظریات سے قطع نظر، جامعہ کراچی میں میرا ان سے ایک الگ ہی تعلق رہا ہے، وہاں الطاف سے کہا تھا کہ آپ کے ہاں سخی دل لوگوں کی کمی نہیں، انہیں زندہ رکھنے کے لیے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے نام پر ’اسکالر شپ‘ جاری کریں، دوسرا ’جامعہ ملیہ‘ کو ’ڈی نیشنلائز‘ کرا کے اسے ایک جامعہ کا درجہ دلوائیں۔

ہم نے پوچھا ’ایم کیو ایم‘ کی پیدائش آپ کی سیاست کے سامنے کا واقعہ ہے، ان کی حوالے سے کیا کہیں گے؟‘

یہ موضوع گفتگو کے اُن دو ایک مقامات میں سے تھا، جس پر وہ بولنا نہیں چاہتے تھے، لیکن ہمارے سوال کی لاج رکھی لی، بولے کہ اقتدار خراب کرتا ہے اور کُلی اقتدار تباہ کر دیتا ہے، پارٹی کے اندر جب تک کشادگی نہ ہو اور نئی قیادت تیار نہ کی جائے، تو وہ پارٹی چل نہیں پاتی۔ جیسے قائداعظم کا انتقال ہوا، تو ایک دم گورنر جنرل، مسلم لیگ کے صدر، سربراہ فوج، اور قائد وغیرہ سمیت کئی عہدوں کا خلا پیدا ہوگیا، اور کوئی اور یہ خلا پُر کرنے والا تھا ہی نہیں!

ہم نے کہا ’ایم کیو ایم‘ پر یہ الزام ہے کہ اس میں قائدانہ صلاحیت رکھنے والے راہ نما ہی ہٹا دیے جاتے ہیں؟‘ تو وہ بولے کہ مجھے اس کا علم نہیں، جب گھر کم زور ہو تو پڑوسی مزے بھی لے گا اور مذاق بھی اڑائے گا۔ ’ایم کیو ایم‘ کے مستقبل کے سوال پر بولے ’جب تک اتحاد نہ ہو کئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘

٭بے نظیر نے پوچھا ’’بتائیں آپ نے کس کو مارا۔۔۔؟‘‘
سوال پوچھنے کے فن میں شفیع نقی جامعی خاصے طاق مانے جاتے ہیں۔۔۔ ہم نے تیکھے سوالات پر جوابی غصے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کی شیری رحمٰن انٹرویو چھوڑ کے چلی گئیں، پھر واجد شمس الحسن انہیں منا کر لائے، ایک بار وزیرمالیات اسحٰق ڈار نے بھی بہت برا مانا۔ کہتے ہیں کہ صحافی خبر دیتا ہے، خبر کا حصہ نہیں بتنا، ہم بس خبر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شفیع نقی کے بقول انہیں کئی بار دھمکیاں بھی ملتی ہیں کہ ’آپ پاکستان تو آئیں گے ناں کبھی۔۔۔‘ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ تیاری کر کے انٹرویو لیتا ہوں، طریقہ یہ ہے کہ مہمان کی عزت کرو، اگر جواب نہ دے رہا ہو تو دوسرے یا تیسرے طریقے سے پوچھ لو۔ ایک مرتبہ ’سیربین‘ میں ہندوستان کے ایک بیوروکریٹ Gopalaswami Parthasarathy سے کشمیر کے موضوع پر سوال کیا تو وہ برہم ہو کر کہنے لگے کہ ’جانتا ہوں تم کو۔۔۔! تم ’آئی ایس آئی‘ کے ایجنٹ ہو۔۔۔!‘ جس پر انہیں جواب دیا، جو نشر بھی ہوا، جب ایسا ہو تو پھر بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اسی طرح پرویز مشرف کے زمانے میں ’پی ٹی وی‘ کے ایک پروگرام میں لیفٹننٹ جنرل (ر) تنویر نقوی کے سامنے مزا کرکرا ہوا، جب انہوں نے میرے ہر سوال کے جواب میں الٹا پوچھنا شروع کردیا کہ ’آپ بتائیں؟‘ تو انہیں کہا کہ سوال میں کر رہا ہوں یا آپ؟ ایک مرتبہ ناظم کراچی بھی ’بی بی سی‘ کے پروگرام میں چِِلانے لگے، تو ان سے کہا کہ دیکھیں، آپ مجھ سے زیادہ چلّا کر نہیں بول سکتے، بہتر ہوگا کہ حقائق پر بات کرلیں، تو وہ پروگرام ہی چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے۔۔۔

بے نظیربھٹو کے حوالے سے شفیع نقی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں بہت زیرک اور بردبار پایا۔ دوران گفتگو جب بے نظیر یہ بولیں کہ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے، جس پر میں نے کہا کہ ’جب دادا مریں گے تو بیل بٹیں گے‘ میرے اس بامحاورہ انداز پر وہ بار بار یہ پوچھتی رہیں، کہ ’آپ بتائیں آپ نے کس کو مارا؟‘

شفیع کہتے ہیں کہ پہلے مصطفیٰ جتوئی، پیار علی الانہ وغیرہ جیسے مہذب لوگ ہوتے تھے، جن سے گفتگو کر کے اچھا لگتا، پیر پگارا سے گفتگو کریں، تو معلومات کا ایک خزانہ ملتا، فاروق لغاری کے پیچھے تو میں نے نماز پڑھی، اسی طرح جنرل (ر) حمید گل کی باتوں سے چاہے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک طریقے کے آدمی تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ جہلا کی ایک فوج ہے، ایک پتھر اٹھائو تین نکل رہے ہوتے ہیں۔

نوازشریف کے قریبی آدمی ہونے کے تاثر پر وہ بولے کہ میری ہر شریف اور اچھے انسان سے بات ہے، میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے بھی قریب کہا جاتا ہوں۔ یہ اتفا ق ہے کہ نوازشریف سے ایسے موقع پر دھائیں دھوں والے انٹرویو ہوئے، جس سے ایسا محسوس ہوا۔ وہ اکبر بگٹی، ولی خان، خیر بخش مری اور عطا اللہ مینگل وغیرہ کے انٹرویو بھی یاد کرتے ہیں، پرویزمشرف سے محو کلام ہونے کے لیے فون کیا تو ان کے والد سے بات ہوگئی، یوں ان کا بھی ’انٹرویو‘ کرلیا۔n

٭بی بی سی: دور کے ڈھول سہانے ہیں۔۔۔!
شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ وہ ’بی بی سی‘ میں بالکل نچلے درجے سے شامل ہوئے، پروڈیوسر، پرزینٹر، رائٹر کے ساتھ ’بی بی سی‘ کے انٹرنیشنل کور میں ٹرینر بھی رہے۔ ’اردو سروس‘ کے قائم مقام سربراہ بھی رہے، وہاں ڈراموں میں آواز کے جوہر دکھائے، ’اردو سروس‘ کی ٹی وی نشریات پر شروع سے میزبانی کی۔ کہتے ہیں کہ میں بڑا بول نہیں بولتا، ’اردو سروس‘ کے تقریباً تمام ہی پروگرام بڑھانے اور سنوارنے میں سرگرم رہا، اتنا کہ پھر دوسری جگہ ’بی بی سی‘ کی نقل ہوتی تھی۔ وہ 2003ء- 2004ء میں پاکستان میں ’ایف ایم‘ کے ذریعے ’بی بی سی‘ کی نشریات کے لیے یہاں آئے اور رکاوٹوں سے بھی نبردآزما رہے۔ کہتے ہیں وہ فوج کا دور تھا، ’بی بی سی‘ کی ’ایف ایم‘ سے نشریات میں رکاوٹیں ڈالی جاتیں۔ ایک مرتبہ گورنر پنجاب خالد مقبول نے ہمارا سامان بھی اٹھوا لیا تھا۔ پھر ’غیرملکی‘ کے اعتراض کا جواب ’بی بی سی‘ لندن کے بہ جائے، ’’بی بی سی، پاکستان‘‘ کرکے دیا گیا، جو آج بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔

ہم نے ’بی بی سی‘ کی خرابیاں پوچھیں تو وہ بولے کہ ’’دور کے ڈھول سہانے ہیں، ورنہ گھپلے یہاں بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنی یادداشتوں میں یہ سب مثالوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ ’بی بی سی‘ میں بھی مبینہ زیادتیوں کی ایک تاریخ ہے، لیکن یہ 80 فی صد شفاف ادارہ ہے۔‘‘

٭انتقاماً دوست کا پاسپورٹ ضایع کر دیا۔۔۔!
بچپن کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہوئے شفیع نقی نے بتایا کہ اُن کی کئی بار ہڈیاں ٹوٹیں، لحیم شحیم ہونے کے باعث ایک مرتبہ ’مارم پیٹی‘ کھیلتے ہوئے دونوں ٹیموں کے بچوں نے یہ طے کر لیا کہ کسی طرح گیند ان کے پاس نہ آئے، اور یہاں ’گیند‘ کا کام ایک رکشے کے ٹائر کی بھری ہوئی ٹیوب سے لیا جا رہا تھا، کچھ دیر بعد جوں ہی انہیں موقع ملا، تو انہوں نے پھر یہ کسی کو پھینک کر مارنے کے بہ جائے ہاتھ میں ٹیوب لے کر سب کا حساب ’بے باق‘ کرنا شروع کیا۔

اس دوران کسی نے کہا کہ پیچھے دیکھو ’کلّو قسائی‘ آرہا ہے، انہوں نے سوچا کہ شاید میرا دھیان بانٹنے کے لیے کہہ رہا ہے اور حقیقت تب پتا چلی جب وہ ’کلّو قسائی‘ کی گدھا گاڑی کے پہیے تلے آگئے، جس کے بعد حالت غیر ہوگئی، اور پھر جناح اسپتال سے ٹانکے لگوائے گئے۔ ’جامعہ ملیہ‘ میں ’سی سا‘ (SeeSaw) میں جھولتے ہوئے توازن بگاڑ کر میں دوسروں کو گرا دیتا تھا، ایک بار خود بھی اس کا شکار ہوگیا۔

شفیع نقی کے بقول میں بچپن میں اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام برداشت نہیں کر سکتا تھا، ایک مرتبہ ’پیر کالونی‘ میں چچا کے گھر پر چھوڑا گیا، تو پہلی منزل سے پائپ کی مدد سے نیچے کود کر دوست کے ہاں چلا گیا۔ گھر میں ڈھونڈ پڑ گئی، والد الگ چچا پر برہم کہ تمہارے گھر میں تمہاری ذمہ داری تھا، ڈیڑھ دن بعد گھر پہنچے تو پتا چلا کہ پیچھے کیا کہرام برپا تھا۔

’جامعہ ملیہ‘ سے گھر کے لیے پہلا خط اپنے دوست سلطان لوہیا سے لکھوایا، جنہوں نے خط کے آخر میں لکھ دیا ’میں سلطان احمد لوہیا، خط لکھنے والا‘ اس پر گھر میں میرا بہت مذاق اڑا۔ اسے میں نے معاف نہ کیا، بعد میں جب ان کا پاسپورٹ بنا، تو اس پر اپنے دست خط کر کے وہ پاسپورٹ ضایع کر دیا۔ وہ بگڑے، تو یاد دلایا کہ یہ اُس مذاق کا انتقام ہے، جس پر پھر سلطان احمد خود بھی ہنسے۔n

٭ماڈلنگ کی تو ’جمعیت‘ نے ’’خارج‘‘ کردیا۔۔۔
شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ وہ اِن دنوں وہ ’زمانہ بہ زمانہ‘ اپنی یادداشتیں سپرد قلم کر رہے ہیں، امید ہے کہ پانچ حصوں میں یہ مکمل ہوجائیں گی۔ جس کے بعد وہ اسے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شایع کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ صرف لندن سے ہی شایع ہو۔ یہ ’آن لائن‘ بھی دست یاب ہوگی، جس میں صوتی جھلک کی اضافی سہولت بھی میسر ہوگی۔ ان دنوں اردو کی ایک ویب سائٹ نے اس کے کچھ اقتباس چھاپنے شروع کیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کوئی اخبار ڈھنگ کے پیسے دے، تو وہاں بھی اشاعت ممکن ہے۔

ماضی کے در وا کرتے ہوئے شفیع نقی نے بتایا کہ اُن کے بہت قریبی دوست عبدالمالک شرٹوں وغیرہ کا کام کرتے تھے، جن کے ’ٹی وی‘ کے ایک اشتہار میں انہوں نے بھی کام کیا، جس میں اُن کے ساتھ سفید ساڑھی میں ملبوس تارا گھنشام بھی جھولے میں بیٹھی تھیں۔ اس اشتہار میں کام کرنے کے لیے انہوں نے ’جامعہ کراچی‘ سے رخصتی کا انتظار کیا۔

جوں ہی یہ اشتہار نشر ہوا، توں ہی ایک ہنگامہ مچ گیا، ایک طرف والد ناراض، تو دوسری طرف ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ نے انہیں اپنی رکنیت سے ’خارج‘ کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں کبھی رکن ہی نہیں بنا، تو خارج کرنے کا کیا سوالَ؟ کہتے ہیں کہ سید منور حسن اور اکرم کلہوڑی نے مجھے روک لیا، ورنہ پھر میرے جواب سے انہیں شکایت پیدا ہوجاتی۔ عارف الحق عارف اور عارف اسحٰق وغیرہ اس کے گواہ ہیں، لیکن صورت حال قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا جیسی ہوگئی۔ بہرحال والد کی ناراضی کے سبب جیسے تیسے وہ اشتہار رکوایا، اس کی ساری تفصیلات بھی میری کتاب میں ہیں۔

٭پرویزمشرف کی صحافتی آزادی اس لیے تھی کہ ڈالر آرہے تھے!
شفیع نقی کہتے ہیں کہ 1999ء میں ’بی بی سی‘ نے ایک سلسلہ وار پروگرام ’’فوج خود آتی ہے یا بلائی جاتی ہے‘‘ کیا، جس میں بری، بحری اور فضائی تینوں حاضر سروس جرنیلوں کے انٹرویو لیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنرل پرویز کو میں نے بہت تیز اور شاطر پایا۔ ان کا تنقید برداشت کرنے کا تاثر غلط ہے۔ ان کے زمانے میں ’آزادیٔ اظہار‘ اس لیے تھا کہ یہ دکھا کر امریکا سے ڈالر آرہے تھے، ورنہ ان کا صحافتی آزادی سے کیا لینا دینا۔۔۔! اقتدار سنبھالنے کے بعد پرویزمشرف کا بالمشافہ انٹرویو کیا، اور اس موقع پر شفیع نقی نے جنرل پرویز سے ہاتھ نہیں ملایا اور یہ کہا کہ میں آپ سے کیسے ہاتھ ملائوں، آپ نے تو آئین توڑا ہوا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کا یہ رویہ صحافتی اخلاقیات کے مطابق ہے؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادب کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہاتھ ملایا جائے، بڑھے ہوئے ہاتھ کو چھوڑ دیا، یہ میرا حق ہے۔

٭میں باقاعدہ سند یافتہ ’’جامعی‘‘ ہوں۔۔۔!
شفیع نقی جامعی کے بقول وہ سات سال کی عمر میں جامعہ ملیہ بھیج دیے گئے، بڑے بھائی سے جن باغات کا سن کر یہاں آنے کے لیے بضد ہوئے تھے، وہ یہاں تھے تو، لیکن وہاں جانے کی اجازت نہ تھی، کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ میں فوجی نظم وضبط کے ساتھ پلا بڑھا۔ مضمون نگاری اور جوش خطابت سے بھاگنے دوڑنے اور تیرنے تک سب سکھایا گیا۔ یہاں صبح فجر کے لیے اٹھاتے، کنویں کے پانی سے نہلاتے، ورزش اور صفائی ستھرائی ہوتی، پھر مانیٹر کی جانب سے ناخن اور کپڑوں وغیرہ کی چیکنگ۔ ایک دن مدرسہ بھی ہوتا۔ درختوں پر مچان بنا کر ٹھیرنے سے جنگل میں رہنا تک سب سکھاتے، پتھر سے آگ نکالنے سے خرگوش اور مرغی پکڑ کر کھانے تک سب چیزوں کی تربیت ہوتی۔

جامعہ ملیہ میں 10برس گزار لینے کے بعد نام کے ساتھ ’جامعی‘ کا لاحقہ اعزازی طور پر لگایا جاتا۔ میرے پاس باقاعدہ اس کی سند ہے، اب تو بہت سے ’جامعی‘ ہوگئے، پتا نہیں کتنوں نے وہاں 10 سال پورے کیے ہیں۔ شفیع نقی بتاتے ہیں کہ وہ چوتھی میں پہلی بار طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری اور پانچویں میں صدر منتخب ہوئے، پھر آٹھویں میں سیکریٹری، نویں میں نائب صدر اور میٹرک میں صدر چُنے گئے۔ کالج میں سیکریٹری اور پھر صدر بنائے گئے۔ 1972-73ء میں جامعہ ملیہ سے رخصت ہوئے اور پھر جامعہ کراچی میں بھی طلبہ یونین کی صدارت پر برا جمان ہوئے۔

The post آصف زرداری نے مجھے پیغام بھجوایا پاکستان آئیں اور بتائیں کہاں سے انتخاب لڑنا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط 62

حنیف بھائی بھی ایک مُعمّا تھے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا اور اب تک ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی روپ تھے اُن کے اور ہیں۔ اسرار میں لپٹے ہوئے، تہہ در تہہ، جمال بھی جلال بھی، آگ بھی پانی بھی، حَبس بھی ہَوا بھی، صحرا بھی نخلستان بھی، کھیت اور کھلیان بھی، اجاڑ قبرستان بھی، شیریں اتنے کہ بس اور تلخ اتنے کہ پناہ، عجیب تھے اور ہیں ہمارے درویش حنیف بھائی، فقیر تو نہیں جان پایا انہیں۔ بے خوف اتنے کہ جرأت بھی دم بَہ خُود اور اگر خوف زدہ ہوجائیں تو ایسے کہ اپنے سائے سے بھی ڈر جائیں، کبھی ہنسی کا طوفان اور کبھی اشکوں کا طغیان، جب علم و دانش کے موتی بکھیرنے پر اُتر آئیں تو بس سمیٹتے چلے جائیے۔

ہر اک فقرہ پوری ایک ضخیم کتاب پر بھاری، بس سُنتے چلیے جائیے، زندگی کے سربستہ رازوں کو جانیے، واہ واہ کیجیے اور سر دُھنیے اور اگر کبھی خرافات پر اُتر آئیں تو سب کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر توبہ توبہ پر مجبور۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن انتہائی ایثار کیش، اور اتنے کہ ایثار بھی ناز کرنے لگے، کوئی مُشکل میں گرفتار ہوجائے تو اس کی مصیبت اپنے سر لینے پر تیار اور تیار ہی نہیں، لے کر سرشار بھی۔ کسی کی مدد پر اُتر آئیں تو اس کے لیے ادھار لینے پر بھی آمادہ، کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے لیے ہلکان، عجب انسان، ہاں واقعی شرف انسانیت۔ فقیر سے آج بھی ایسا تعلق ہے کہ بیان کرنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ نہ جانے کیسا تعلق ہے یہ کہ فقیر ان کے سر ہوجاتا ہے۔

گستاخی کرتا ہے، ان کی بات کو ہَوا میں اڑا دیتا ہے، لیکن مجال ہے کبھی خفا ہوئے ہوں، نہیں کبھی نہیں۔ جی فقیر کو کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حنیف بھائی کا جو تعلق بابا سے تھا، وہی فقیر کا حنیف بھائی سے ہے۔ بڑے بھائی کی طرح ہر مسئلے کو حل کرنے پر ہر پل تیّار، فقیر کی ہر حرکت پر گرفت، سوال در سوال در سوال، کیوں کیا تھا، کیوں کہا تھا، کیسے لکھا تم نے یہ، کیا ضرورت تھی اس کی، بتاؤ! ایسے حنیف بھائی، اور فقیر اپنی عادت بَد سے مجبور اکثر گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔

چیختا ہے، چلّاتا ہے، ان کے سر ہوجاتا ہے، لیکن مجال ہے جی کبھی انہوں نے اپنی پیشانی شکن آلود کی ہو، نہیں کبھی نہیں، بَل کہ ہنستے ہیں، مُسکراتے ہیں، معاف کرتے چلے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : ’’بے وقوف ہے تُو، سدا رہے گا، پاگل تھا تُو، جَھلّا ہی رہے گا، آوارہ گرد و من موجی کملیا۔‘‘ واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد۔ سلامتی ہو اُن پر، کرم رہے، وہ ابَر رہیں۔

فقیر کو وہ دن اور سمے آج بھی ایسے یاد ہے جیسے ابھی وقوع پذیر ہُوا ہو، جی ابھی اسی وقت۔ ہم اپنی کٹیا پہنچنے کے لیے رواں دواں تھے، وہی ہَوا میں اڑتی ہوئی جارہی تھی ان کی سائیکل جیسے کسی حال مست دیوانی، پگلی، کملی کا دوپٹہ ہَوا میں اُڑتا چلا جاتا ہے۔ ٹیکسلا میوزیم سے گزرتے ہوئے حنیف بھائی نے اچانک ایسی بریک لگائی کہ فقیر سڑک پر آرہا۔ اسلام آباد سے کچھ طالبات ٹیکسلا میوزیم دیکھنے آئی ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ سڑک پر مٹر گشت کر رہی تھیں۔

وہ بھی اُن میں سے ایک تھی، اب اس کے بارے میں کیا کہوں، وہ کوہ قاف سے راہ گم کرکے اس طرف نکل آئی تھی، حُسن و سادگی کو اوڑھے ہوئے اک ماہ وش پَری۔ اسی کو بچانے کے لیے انہوں نے ایسا کیا تھا کہ مجھے سڑک کی دُھول چاٹنا پڑی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ ہوجاتا ہے ایسا تو، اس میں کیا نئی بات ہے۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ حنیف بھائی اس میں کھو گئے، اور ایسا کھوئے کہ واہ جی واہ! کھونا کہتے ہیں اسے۔ مجھے ہی کیا وہ تو خود کو بُھول بیٹھے تھے، اور بس اسے ہی تکے جارہے تھے، جی! جیسے کسی عامل نے معمول کو اپنا اسیر کر لیا ہو کہ عامل پکارتا ہے۔

ادھر آؤ تو معمول جپتا ہے آگیا، عامل کہتا ہے جو کہوں گا وہ کرے گا تب معمول سرشار ہوکر پکارتا ہے، کرے گا جی کرے گا، بس ایسا ہی کچھ، اسیری اسے ہی تو کہتے ہیں۔ ہاں ایک اسیری جبری ہوتی ہے اور دوسری خود اختیار کردہ اور کبھی بے اختیاری۔ رکیے! واپس پلٹتے ہیں، ورنہ پھر کہیں اور نکل جائیں گے، جی کبھی اس اسیری اور رہائی پر بھی زبان دراز کریں گے۔ حنیف بھائی نے مجھ سمیت سائیکل بھی سڑک پر چھوڑی اور اس کے پیچھے چلے، اُس نے ہنس کر معافی طلب کی تو جناب بولے: نہیں سرکار نہیں، عاصی کو اور زیادہ گناہ گار مت کیجیے، لاکھ مرتبہ ایسا کیجیے، آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ناں جی! کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کے وہیں بیٹھ گئے۔

اس کی ہم جولیاں یہ منظر دیکھ رہی تھیں، ہنسی کے ساتھ کچھ نے مجنوں کے نعرے بھی بلند کیے، لیکن ذرا سا ٹھہریے ناں جی! حنیف بھائی کو بھی رب تعالٰی نے ایسا نایاب بنایا ہے، وجیہہ، دراز قد، کشادہ پیشانی، روشن اور چمکتے ہوئے نین، جی نیلے بلّور کنچے کی طرح اور نقش تو بس قلم توڑ ہی دیجیے، دودھ میں گُندھے ہوئے ایسے حنیف بھائی۔ فقیر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا تو اندر سے آواز آئی: تم غلط سمجھے، رکو! دیکھو! تم جسے معمول سمجھ بیٹھے ہو، وہ ہے عامل، اور پھر ایسا ہی ہوا وہ شوخ ان میں ایسا کھوئی ایسا کھوئی کہ اپنا ہاتھ چُھڑانا ہی بُھول گئی، ایسی مُجسّم ہوئی کی اس کا ہر انگ پکارنے لگا، اب مجھے مت چھوڑنا، کبھی نہیں۔ اس کی ہم جولیوں نے اسے جھنجھوڑا، لیکن صاحبو!

تُونے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا

اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا

حنیف بھائی نے اسے بس اتنا ہی کہا تھا: فکر نہ کریں جی، آسودہ ہوجائیں جی، ہم ایک تھے جی، ہم ایک ہیں جی، ہم ایک رہیں گے جی۔ اور اُس نے اپنی ڈائری کا ایک صفحہ پھاڑ کر اس پر اپنا نام پتا لکھ کر فقیر ہی کو دیا تھا۔ جدائی! جدائی وقتی ہی کیوں نہ ہو آزار تو دیتی ہے ناں، میں نے سائیکل اٹھائی اور پیدل اپنی کٹیا کی جانب چلے، حنیف بھائی اسے دُور تک مُڑ مُڑ کر دیکھتے رہے، اور پھر برسے، اور ایسا برسے کہ جل کا تھل ہوگیا، یہ میری ہے ناں! سُن رہا ہے ناں، یہ میری ہے بس میری۔ آہ و زاری ایسی کہ کوئل کی درد بھری کُوک۔ وہ خُلد مکیں ریشماں جی جیسی ملنگنی کو سُنا نہیں ناں آپ نے جب وہ پکارتی ہیں: کوئل کی کُوک نے ہُوک اٹھائی، ہائے! سُنا تو ہوگا لیکن جی! کیا سنا آپ نے؟ نہیں سنا ناں، تُو نے سُنا ہی نہیں دوبارہ سُن، تُو نے دیکھا ہی نہیں دوبارہ دیکھ۔

بہ مشکل ہم کٹیا پہنچے تو بابا منتظر تھے، انہوں نے دیر سے آنے کا معلوم ہی نہیں کیا، بس حنیف بھائی کی جانب دیکھا جن کا چہرہ شدّت جذبات سے سُلگتا خورشید بنا ہوا تھا، پھر میری جانب دیکھا، مسکرائے اور کہا: تو تمہارے بھائی کو اس نے اپنا اسیر بنا ہی لیا۔ اس نے بھائی کو اسیر بنایا یا بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کرلیا ؟ میرا جواب سن کر بابا نے مجھے گُھور کر دیکھا اور کہا: ضروری ہے کیا بولنا، خاموش رہو تم! میں نے وہ کاغذ جس پر پتا لکھا ہوا تھا بابا کے حوالے کیا اور باہر آکر رب تعالٰی کی صناعی کو دیکھنے لگا۔ واہ جی سبحان اﷲ!

فقیر نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ کسی جنگل میں، صحرا یا ویرانے میں، ساحل پر یا ندی، دریا اور جھیل کنارے، کہساروں یا میدانوں میں اجاڑ قبرستانوں میں مکمل اندھیرا ہو تو اتنا پراسرار نہیں ہوتا، لیکن اگر چاندنی ہو تو پھر مت پوچھیے اس کے اسرار کو، اچھے اچھوں کے پسینے چُھوٹ جاتے ہیں اور فقیر نے تو جرأت و بہادری کے شاہ کاروں کو اس منظر میں خوف زدہ ہوکر چیختے چلاتے سرپٹ دوڑتے دیکھا ہے، جب کہ وہاں تھا بھی کچھ نہیں، بس ہَِوا سے درخت کی کوئی ٹہنی سرسرائی اور اس کا زمین پر عکس بنا ذرا سا ڈولا اور پھر خوف کے مارے کا دل دھڑکنا بھول گیا، رہے نام مالک کا۔

وہ بھی ایک ایسی ہی شب تھی، میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ حنیف بھائی میرے پاس آکر بیٹھ گئے لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اور خود کلامی کر رہے تھے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور محو رقص ہوئے، ’’ وہ میری ہے ناں‘‘ کی تان پر جُھوم رہے تھے۔ شب بھی آخر گزر ہی گئی اور ہوئی پھر صبح، ہم نے نماز فجر ادا کی۔ بابا نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔

سائیکل لی اور مجھے تم اپنے بھائی کا خیال رکھنا، کہہ کر روانہ ہوگئے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیسے حنیف بھائی کا خیال رکھوں، رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا، نہ ہی کوئی بات کی تھی، وہ تو بس گُم تھے۔ آخر میں نے ان سے کہا ناشتہ کرلیں، لیکن بھائی نے تو سُنی ان سُنی کردی، میں نے کئی مرتبہ اصرار کیا لیکن وہ تو بُت بن گئے تھے۔ ہاں میں نے انہیں پانی پلانے کی کوشش کی تو انہوں نے میرے بے حد اصرار بل کہ ضد پر دو گھونٹ پانی ضرور پیا تھا۔ ظاہر ہے میں اکیلا کیسے کچھ کھاتا پیتا، سو مجھے بھی پانی پر قناعت کرنا پڑی۔ کہیں دُور سے اذان ظہر سنائی دی۔ مجھے بابا پر حیرت ہورہی تھی کہ عجیب بات ہے بابا انہیں ایسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، لیکن میں کیا کرسکتا تھا سو ان کے آنے کا انتظار۔ بابا اپنے وقت پر کٹیا پہنچے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اپنا تھیلا مجھے تھماتے ہوئے کہا: اُس نے کچھ نہیں کھایا پیا تو تم بھی اس کے ساتھ فاقہ کرنے لگے۔

تو اور کیا کرتا میں بابا؟ میرا جواب سن کر مسکرائے: ہاں جی! اور کیا کرتے، بھائی جو ہے وہ تمہارا، وہ بھوکا رہے گا تو تم بھی بھوکے رہو گے، تعلق ہو تو ایسا ہو، کہہ کر وہ مغرب کی نماز کی تیاری کرنے لگے۔ ہم نے نماز مغرب ادا کی۔ بابا، حنیف سے کوئی بات کر رہے تھے اور نہ حنیف بابا سے، آخر مجھ بے صبرے جلدباز کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بابا! کب تک ایسا ہوگا ؟ آپ تو حنیف بھائی سے کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔ میرے سوال پر بابا مسکرائے اور کہا : تو تمہارا حنیف بھائی بھی تو مجھ سے کوئی بات نہیں کر رہا ناں۔ وہ تو اپنے حال میں نہیں ہیں، وہ تو بے دست و پا ہیں، آپ تو ٹھیک ہیں ناں بابا، میرے سوال پر پھر مسکرائے اور کہا: دیکھو بیٹا! جلدی مت کرو، بہت صبر چاہیے۔

ابھی تو ابتدا ہے اور تم ابھی سے گھبرا گئے پگلے، میں اگر اس وقت اس سے بات کروں گا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آئے گا، ہاں کچھ بھی نہیں، اس لیے کہ وہ کچھ بھی نہیں سننا چاہتا، وہ تو بس ایک رو میں بہہ رہا ہے، خود کہہ رہا ہے، خود سے سوال کرتا ہے، خود ہی اس کا جواب دیتا ہے، وہ اس وقت اپنی ہی تخلیق کی ہوئی خیالی دنیا میں کھویا ہوا ہے، اس وقت اس سے بات کرنا عبث ہے، جب وہ واپس آجائے گا تو پھر میں اس سے بات کروں گا، سمجھاؤں گا، اور جو کچھ بھی بن پڑا کر گزروں گا، انسان تو اپنی سعی کرتا ہے، اور کرنا بھی چاہیے لیکن یہ جو لوگ اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں ناں، بس یہیں خرابی پیدا ہوتی ہے۔

انسان کو کوشش کرنا چاہیے اور نتائج رب تعالٰی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ یہی تو توکّل ہے، یہی اعتماد و بھروسا ہے کہ وہ ذات باری جو کچھ بھی کرے گا، میرے بھلے کے لیے ہی کرے گا، مجھے سمجھ آئے، نہ آئے، میں تو اس پر کامل یقین رکھوں گا بس اور اس کے ساتھ یہ بھی کڑی شرط ہے کہ وہ خواہش روا بھی ہو، کچھ سمجھے تم کہ نہیں۔ بابا یہ کہہ کر میری جانب دیکھنے لگے۔ سچ بتاؤں بابا! تھوڑا سا تو سمجھ میں آگیا ہے کہ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے، انسان کو سمجھانے سے پہلے سمے دیکھنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کیفیت بھی اور یہ بھی کہ وہ سننا اور سمجھنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں، اگر وہ بات کرنے اور سننے پر آمادہ ہو، سمجھنا چاہتا ہو، اس کے بعد ہی اس سے گفت گُو کرنا چاہیے، لیکن بابا یہاں تک تو ٹھیک ہو لیکن یہ آپ نے فرمایا کہ وہ خواہش روا بھی ہو، یہ بات نہیں آئی سمجھ میں۔ بابا مسکرائے اور بتایا: پگلے! سیدھی سی بات ہے کہ رب تعالٰی نے جس خواہش کی اجازت دی ہے۔

بس وہ روا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا بابا! میں نے بے بسی سے کہا۔ بابا نے پھر اپنی بات کی وضاحت فرمائی: دیکھو بیٹا! انسان تو خواہشات میں گھرا ہوا ہے، لالچی ہے، خودغرض ہے، جلدباز ہے اور نہ جانے کیا کیا، اب کسی کی خواہش ہے کہ وہ مال دار بن جائے تو یہ خواہش کرنا تو جائز ہے، اس کے لیے تو سعی کرنا چاہیے، اور جائز ذرائع اختیار کرنا چاہیں، لیکن کوئی مال دار بننے کے لیے لُوٹ مار شروع کردے، کسی کے مال و اسباب پر بہ زور قبضہ کرلے تو یہ تو روا نہیں ہے، اسی طرح کسی لڑکی سے شادی کی خواہش کرنا تو روا ہے۔

اگر وہ بھی آمادہ ہو تب لیکن ا گر کوئی کسی معصوم کو اغواء کرلے، یا کسی کی منکوحہ پر نظر رکھے تو یہ تو بالکل بھی روا نہیں ہے ناں، تو جو خواہش ہو تو جائز اور روا ہو، پھر انسان اس کے لیے محنت کرے جائز خواہش کے لیے جائز محنت کرے تو رب تعالٰی اس انسان کی مدد فرماتا ہے لیکن اس کے لیے بھی شرط ہے کہ بے صبرا نہ بنے اور کسی بھی جائز خواہش کے لیے اپنی محنت جاری رکھے تو بس وہ بامراد ہوجائے گا۔ جی بابا! تھوڑا سا سمجھ میں آگیا مجھے، لیکن بابا ہمارے حنیف بھائی تو اچانک ہی اس بھنور میں پھنس گئے ناں، انہوں نے تو کوئی خواہش نہیں کی تھی، وہ تو بس ایک حادثہ ہوا اور وہ اسیر ہوگئے۔

میری بات کو بابا نے توجہ سے سنا اور کہا: لیکن بیٹا جی! تم تو کل کہہ رہے تھے کہ تمہارے بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کیا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ بھائی اس کے سحر میں پھنس گیا، پہلے یہ طے تو کرلو کہ کس نے کسے اسیر بنایا۔ میں بُری طرح سے الجھ گیا تو میں نے بابا سے کہا: مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، کچھ بھی۔ بابا مسکرائے: اچھا تو اس میں جلدی کیا ہے، سمجھ جاؤ گے سب کچھ، ذرا صبر، انتظار کرو، سمے آئے گا تو سب کچھ عیاں ہوجائے گا بیٹا۔ لیکن بابا یہ حنیف بھائی کا کیا کریں اب ؟ کچھ نہیں کریں، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ لیکن بابا ایسے کب تک چھوڑ دیں انہیں۔ ارے بیٹا! تم تو ہلکان ہوتے جارہے ہو۔

اسے دیکھو اسے ہماری کوئی پروا ہی نہیں ہے، اپنی حسِین دنیا میں کھویا ہوا ہے، اپنے خواب کی تعبیر میں گم ہے، وہ ہماری کچھ سُن ہی نہیں رہا اور تم ہلکان ہوئے جارہے ہو، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ مزے میں ہے مست رہنے دو اسے، بس اس کا خیال رکھنا، وہ اپنی رو میں بہہ رہا ہے، پھر جیسے ہی وہ باہر آئے گا تو اس وقت اسے سنبھالنا ہوگا، بہت مشکل سے سنبھلے گا وہ ، ایسے جیسے کسی مُردے میں پھر سے روح داخل ہوگئی ہو تو وہ بہت مشکل سے سنبھلتا ہے، وہ بہت دُور چلا گیا ہے، بس اس کی واپسی کا انتظار کرو۔

اچھا جی کہہ کر میں خاموش ہوگیا تو بابا نے اچانک ہی کہا: انسان بھی کتنا خودغرض ہے ناں بیٹا! تم اپنے بھائی کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہو، تم بھی عجیب ہو، انسان کتنا مفاد پرست ہے ناں بیٹا، تم نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ بابا وہ سادہ دل معصوم لڑکی کس حال میں ہوگی، نہیں معلوم کیا ناں تم نے، عجیب ہے انسان بھی۔ میں نے شرمندگی کے ساتھ بابا کی طرف دیکھا جن کی آنکھیں نم تھیں۔ پھر فقیر پکارا، جی بابا جی! سچ فرمایا آپ نے میں بھی خودغرض ہوں، آپ تو پوچھنے کا فرما رہے ہیں میں نے تو اس معصوم کا ایک لمحے سوچا بھی نہیں، تُف ہے مجھ پر۔ اچھا اچھا تم اقرار کرتے ہو اور بچ جاتے ہو، اب ہلکان ہونا چھوڑو، تم اپنے حنیف بھائی کا خیال رکھو، اس بچی کو میں رب تعالٰی کے حکم سے خود دیکھ رہا ہوں، وہیں ہوں میں، سنبھال لیں گے رب تعالٰی کے کرم سے۔

مجھے حیرت کے سمندر میں غرق کرنے کے بعد بابا سونے چلے گئے تھے، ابھی تو پریشاں رات ساری بکھری پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔ حنیف بھائی اس میں محو رقص تھے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت، چین جنگ 1962ء اور پاک بھارت جنگ 1965 ء

$
0
0

(قسط نمبر2)

1492 ء میں یورپی اقوام کی جانب سے امریکہ کی دریافت اور ہندوستان کا نیا بحری راستہ ڈھونڈنے کے بعد تاریخِ انسانی نے قوموں، ملکوں کی جنگوں کے لحاظ سے ایک نئے انداز کا دور دیکھا جسے نوآبادیاتی نظام کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ کے ہزاروں سال پرانے دیگر ادوار سے یوں مختلف تھا کہ 1492 کے بعد پوری دنیا اپنے مجموعی رقبے کے ساتھ انسان کے سامنے تھی پھر جو یورپی اقوام جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس تھیں وہ صنعت و تجارت کو مدنظر رکھتے ہو ئے دنیا کے اُن ممالک پر قبضہ کر رہی تھیں جہاں اُن کو تجارتی طور پر فائدہ تھا۔ وہ اِن ملکوں کے خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کرکے اِنہی ملکوں کو منڈیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔

یہ نوآباد یاتی نظام اپنی انتہا کو پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے پہنچ گیا، پھر1914-18میں پہلی عالمی جنگ لڑی گئی جس کے اختتام پر خلافت عثمانیہ ترکی سلطنت ختم ہوگئی، اس سے ایک برس قبل روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد زار بادشاہت کی جگہ کیمونسٹ آمریت قائم ہوئی، برطانیہ جو فرانس کی ہم پلہ عالمی قوت تھا اگرچہ فاتح قرار پا کر دنیا کے 25 فیصد رقبے اور24 فیصد آبادی پر حکومت کرنے والا بڑا ملک بن گیا مگر امریکہ کے مقابلے اپنی سپر پاور کی حیثیت کھونے لگا اور امریکہ جسے عظیم فرانسیسی جنرل نپولین نے لاوسیانا Louisana کی ریاست کو 1803 میں فروخت کیا تھا دنیا کی سب سے مضبوط عسکری اور اقتصادی قوت بن گیا۔

اس عالمی منظر نامے میں مفکرین نئے اور ایک دوسرے سے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی نظریات کے ساتھ پوری دنیا پر اثرانداز ہو چکے تھے اور یہ بھی تلخ حقیقت تھی کہ دنیا پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ چکی تھی، تو نوآبادیاتی نظام کی حامل اور سرمایہ دارانہ طرزکے معاشی نظام پر یقین رکھنے والی قوتیں اور ممالک اقتصادی، تجارتی، عسکری اور سیاسی بنیادوں پر نئے انداز کے عالمی نظام کا جال تیار کر چکی تھیں، 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر دنیا کی نئی تشکیل تھی تو فرانس اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک جو جنگ کی وجہ سے ملبے کے ڈھیروں پر فوری طور پر اور اپنے اتحادی امریکہ کی مدد سے تعمیر ِنو کے عمل میں مصروف ہو گئے۔

سوویت یونین بھی تعمیر نوکے ساتھ ایک خود مختار قوت کی حیثیت سے اِن قوتوںکے سامنے آیا، اور چین جو برطانیہ، فرانس، جاپان کی اقتصادی تجارتی عسکری جاریت سہہ کر جدوجہد آزادی کرتا موزے تنگ کی سربراہی ہی میں کیمونسٹ انقلاب کے ساتھ 1949 ء میں آزاد ہوا تو یہ بھی اُس وقت ایک خوددار اور خود مختار ملک تھا، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک اور رقبے کے لحاظ سے روس اور کینیڈا کے بعد اپنے 9596961 مربع کلومیٹر بڑے رقبے کی بنیاد پر دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس بڑے رقبے اور آبادی کے معاشرے کو عظیم لیڈر شپ ماوزے تنگ اور چواین لائی نے دنیا کا سب سے منظم معاشرہ بنا دیا۔

جس پر اگرچہ کیمونسٹ پارٹی لیڈر شپ کے اعتبار سے آمرانہ حکومت رہی لیکن اس کے تحت یکساں اور برابری کی بنیاد پر پورے چین میں زبردست حب الوطنی واضح انداز میں پوری دنیا کے سامنے ہے، 1949 ء میں چین میں کیمونسٹ انقلاب اور ملک کی آزادی کے وقت بھارت اور چین کے درمیان بہت مضبوط اور گہرے دوستانہ تعلقات تھے، بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بہت ذہین اور شاطر سیاستدان تھے اور وہ پاکستان کے اعتبار سے یہ جانتے تھے کہ قائد اعظم ہی وہ شخصیت تھے جو نہ صرف اُن کا مقابلہ کرتے بلکہ انہیں شکست بھی دیتے رہے، قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے پاکستان کو اُس وقت علاقائی سطح پر چین، روس اور افغانستان سے بہتر تعلقات قائم کرکے تنہا کر نے کی قدرے کا میاب کو شش کی تھی۔

جب 1953میں روس کے اسٹالن کی وفات کے بعد روس چین تعلقات کشیدگی اور کھچاؤ کا شکار ہوئے تو دوسری جانب 1946 ء سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کے علاوہ اِن میں پانچواں ملک عوامی جمہوریہ چین کی بجائے تائیوان کی بنیاد پر جمہوریہ چین تھا، اگرچہ آج بھی امریکہ کو اپنے اتحادی فرانس اور برطانیہ کی سپورٹ کی وجہ سے سکیورٹی کونسل کے ویٹوپاور کے لحاظ سے تین ووٹوںکی صورت میں 60% حمایت اکثر حاصل ہوتی رہتی ہے مگر اُس وقت یعنی 1946 سے 1971 تک یہ تناسب 80 فیصد تھا کیونکہ چین کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا، نوآبادیاتی دور میں ہندوستان کے ساتھ چین بھی متاثر رہا، جاپان نے بھی یہاں جارحیت کی تو فرانس اور برطانیہ نے بھی، برطانیہ نے انپی مشہور تجارتی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت یہاں افیون کی تجارت کو فروغ دیا تھا،اور چین میںافیون کی تجارت کی بنیادپر دو مشہور جنگیں بھی ہوئیں جن کو افیون وار کہتے ہیں۔

چین کے جنوب اور برصغیر بھارت، نیپال بھوٹان، سکھم ، مینیمارکشمیر، لداخ ، پاکستان میں آزاد کشمیر اور خصوصاً گلگت بلتستان کے شمال میں ہمالیائی علاقے میںتبت واقع ہے جو تاریخی، نسلی اور جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے، اس کا رقبہ 1220800 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 3180000  ہے، اِن 31 لاکھ 80 ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام تبت میں رہتے ہیں جس کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے، یہاں3700 میٹر کی بلندی تک بدھ مت کے ماننے والوں کی عبادت گاہ ہے ، اس کی ایک سرحد نیپال دوسری بھوٹان تیسری اکسائی چین سے بھارت سے اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی پاکستان سے ملتی ہے، واضح رہے کہ پہلے سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلندی کو سنولائن کہا جاتا تھا کہ یہاں سال کے با رہ مہینوں میں برف جمی رہتی ہے مگر اب پوری دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سنو لائن 4500 میٹر یا 15000 فٹ بلندی کے معیار پر مقرر کر دی گئی ہے۔

اس بلندی پر جنگلات نہیں ہو تے، چینی تبت اور برصغیر کے درمیان برطانوی سیکر ٹری Mc Mahon میک موہن نے ایک سرحدی لائن بنا دی اور معاہدے پر میک موہن اور اس وقت کی تبت کی حکومت کے سربراہ Lonchen Satra لانچین ستارا نے دستخط کئے اور پھرکچھ عرصے بعد 24 مارچ 1914 کو ایک نقشہ جاری کیا جس میں یہ لائن نقشے پر 8 میل فی انچ کے حساب سے 550 میل یعنی 890 کلومیٹر تھی اس کو اگرچہ شروع ہی میں ہندوستان کی جانب سے بھی درج کیا گیا مگر بعد میں 1935 تک دنیا جیسے اِس میک موہن لائن کو بھول گئی اور جب 1935 میں انڈیا میں تعینات ایک انگریز بیوروکریٹ Olaf Caroe الاف کارو نے شملہ میک موہن، لانچین مذاکرات کے مطابق نقشہ جاری کیا تو چین، ہندوستان کو اس پر اعتراضات تھے اور چین کا دعویٰ لداخ پر بھی آگے 65000 مربع کلو میٹر رقبے پر ہے۔

چین کا موقف یہ ہے کہ جب معاہدے کے مطابق یہ میک موہن لائن طے کی گئی اُس وقت تبت کوئی آزاد خود مختار ریاست نہیں تھی، چین کا لداخ کے علاقے پر دعوٰی تھا مگر 1949ء میں اشتراکی انقلاب اور آزادی کے فوراً بعد بھارت کے نہرو اور چینی قیادت موزے تنگ اور چو این لائی کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط اور دوستانہ تھے اس لیے تبت اور لداخ کے مسائل پس پردہ رہے، پنڈت جواہر لال نہرو عالمی صور تحال پر ہمیشہ سے بڑی گہری نظر رکھتے تھے، اُن کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ اس لحاظ سے بہت وسیع تھا۔ بھارت اورچین تعلقات کے تناظر میں اُن کی پالیسی وقت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی، نہرو نے 19 اکتوبر تا31 اکتوبر 1954ء چین کا دورہ کیا تھا جہاں اُن کا پُرتپا ک استقبال ہوا تھا، نہرو نے اسٹالن کی زندگی میں روس کا دورہ بطور بھارتی وزیر اعظم نہیں کیا بلکہ اسٹا لن کی وفات کے دوسال بعد 7 جون تا 23 جون 1955 میں روس کا دورہ کیا جب چین اور روس میں خلیج بڑھ رہی تھی۔

وزیر اعظم نہرو نے اس کے بعد امریکہ کا دوسرا دورہ 16 تا 20 دسمبر1956 میں کیا تھا اور پھر امریکی صدر 9 دسمبر1959 میں افغانستان گئے اور کابل میں بادشاہ ظاہرشاہ سے ملاقات کے بعد امریکی صدر آئزئن ہاور نے 9 تا 14 دسمبر1959 بھارت کا دورہ کیا، یہی وہ زمانہ ہے جب سوویت یونین کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعا ت بھی سامنے آئے تو پنڈت جواہر لال نہرو امریکہ اور روس جیسی بڑی سپر پاور کو خوش کرتے ہو ئے، اس لیے بھارت کو چین کے مقابل لے آئے کہ وہ اِس پورے علاقے میں بھارتی بالا دستی چاہتے تھے۔

اُس وقت عالمی سطح پر چین روس تنازعہ کی وجہ سے چین جو پہلے ہی اقوام متحدہ میں اپنی حیثیت کے مطابق پوزیشن نہ ملنے پر رکنیت سے محروم تھا سوویت یونین کی وجہ سے دنیا کے کیمونسٹ بلاک کے ممالک سے بھی قدرے دور ہو گیا تھا، اور پھر چین میں آبادی کے اضا فے پر کو ئی کنٹرول نہیں تھا اس لیے اندازہ یہ تھا کہ چین مستقبل قریب میں اتنی ترقی نہ کر سکے گا جتنی اُس نے 1980 کی دہائی سے آبادی پر مکمل کنٹرول کر کے حاصل کر لی۔

جب بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی سے تبت میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوا تو بھارتی حکومت نے بغاوت کے بعد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں پناہ دیدی اور ساتھ ہی دونوںملکوں کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا اور یوں تبت کے نزدیک مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ پر پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کے قریب بلند ترین علاقہ بھارت اور چین کے درمیان محاذ جنگ بنا، یہ جنگ 1962 میں 20 اکتوبر سے21 نومبر تک جاری رہی، بھارتی فوج کی جنگ میں تعداد 120000 کے قریب تھی اور اس کے مقابلے میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی تعداد 280000 تھی۔

چینی فوج کے چیف جنرل Luo Ruiqing لُو رُیکینگ اور کمانڈر Zhang Guohua زہانگ گُوہا تھے جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل موہن کاؤل اورجنرل پران ناتھ تھاپار تھے، اِس جنگ میں چین کے 722 فوجی مارے گئے اور 1697 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں 1383 بھارتی فوجی ہلاک 1047 زخمی ہوئے اور 1696 فوجی لاپتہ ہوئے اور 3968 بھارتی فوجیوں کو چینی فوج نے جنگی قیدی بنا لیا، لداخ کے علاقے میں چین نے 11754 مربع کلومیٹر علاقہ بھارت سے چھین لیا۔ یوں بھارت کو اس جنگ میں عبرت ناک شکست ہوئی۔ پاکستان نے اس موقع پر بھارت سے جنگ نہیں کی، لیکن یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت جموں وکشمیر اور لداخ کے علاقے پر پہلی جنگ 1947-48 میں پاکستان سے ہارا اور پھر دوسری مرتبہ لداخ میں اُسے چین سے شکست ہوئی، یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نہرو ایک زیرک سیاستدان اور خصوصاً امور خارجہ کے ماہر تو ضرور تھے مگر وہ عسکری شعبے میں مقابل کی صلاحیتوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے تھے یا یو ں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فوج بہادری یا فنِ سپاہ گری کے اعتبار سے کمزور واقع ہوئی۔

بھارت چین جنگ کے ٹھیک تین سال بعد 6 ستمبر1965 کو دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جو 17 روز جاری رہی، اس جنگ سے کچھ عرصہ قبل کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلا ف گوریلا طرز کی جنگ شروع کر دی تھی اور سرد جنگ کے اس دور میں دنیا کے کئی علاقوں میں اس طرح کی حریت پسند تحریکیں جاری تھیں، یہاں بعض حلقو ں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد پر اس تحریک کو پاکستان کی جانب سے امداد جاری تھی اور صدر جنرل ایوب خان کو یہ یقین تھا یا یقین دلایا گیا تھا کہ اس صورتحال میں بھارت متواتر اور دھیر ے دھیرے کمزور ہو گا، پھر یہ بھی تھا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1964 میں انتقال کر گئے تھے۔

اس کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیر اعظم بنے جو کمزورشخصیت کے مالک تھے اور عالمی سطح پر جو مقام نہر و کا تھا وہ بہرحال شاستری کا ہرگز نہیں تھا، پھر یہ بھی ہے کہ انڈیا نے 1947 سے 1964 تک سترا برسوں میں جہاں زبردست استحکام حاصل کیا تھا وہاں واقعی اتنی بڑی شخصیت کے چلے جانے کے بعد اُس خلا کو پُر کرنا آسان نہیں تھا مگر اس موقع پر بھارتی فوجی قیادت اور اُن کے دفتر خارجہ نے یہ فیصلہ کیا کہ کشمیر میں سیز فائر لائن کے ساتھ مغربی پاکستان پر ورکنگ باونڈری اور سندھ اور پنجاب کی سرحدوں پر پوری زمینی اور فضائی قوت کے ساتھ حملہ کر دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ بحری قوت کو متحرک کرتے ہوئے کراچی کو نشانہ بنایا جائے۔

اُس وقت صدر مملکت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے، تو بھارت نے بھی خصوصی طور پر بھارت کے واحد فائیو اسٹار جنرل فیلڈ مارشل جے این چوہدری کو جو فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے سپریم کمانڈر بنایا، دوسرے کمانڈ ورں میں لفٹیننٹ جنرل ہر بنش سنگھ لفٹیننٹ جنرل جوگند ڈلفلان لفٹیننٹ جنرل کشمیر کاٹوج ائیرمارشل ارجن سنگھ الاکھا، ایڈمرل بھاسکارسومان تھے، بھارتی فوجی کی تعداد 700000 تھی اُن کے پاس 700 لڑا کا طیارے 720 ٹینک اور 680 بڑی توپیں تھیں، پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ خان تھے باقی اہم کمانڈروں میں لیفٹننٹ جنرل بختیار رانا، لفٹینٹ جنرل عتیق الرحمن، لیفٹینٹ جنرل اے ایچ مالک، میجر جنرل یحییٰ خان، ائیر مارشل نور خان، وائس ایڈ مرل اے آر خان اور ایس ایم احسان شامل تھے، پاکستانی فوج کی تعداد 260000 تھی، پاکستان کے پاس 280 لڑاکا طیارے، 756 ٹینک اور552 توپیں تھیں۔

اس جنگ میں دونوں جانب سے لڑنے والے فوجی جنرل اور سینئر افسران مقامی تھے یعنی کو ئی انگریز کمانڈر نہیں تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ یہ تمام سینئر فوجی افسران وہ تھے جو اگست 1947 سے پہلے برٹش آرمی میں جونیئر افسران کے طور پر ایک ساتھ کام کر چکے تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ بیشتر بھارتی فوجی ایسے بھی تھے جو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا دوران فوجی ملازمت پاکستانی علاقوں میں تعینا ت بھی رہے تھے، یہی صورت بہت سے پاکستانی سینئر فوجی افسران کی تھی یوں بعض بھارتی فوجیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ حملہ کرتے ہی لاہور کو فتح کر لیں گے اور پھر اس کا جشن لاہور کے جم خانہ میں منائیںگے، یہ فوجی افسران ایک دوسرے سے واقف بھی تھے اور اب ایک دوسرے کے مقابل اپنے اپنے ملکوں کی فوج میں شامل اپنی قومی شناخت کے ساتھ کھڑے تھے۔

یہ جنگ 1947-48 کی پہلی پاک بھارت جنگ سے مختلف تھی، اس میں فتح اور شکست کی ذمہ داری بھی خودہی اٹھانی تھی، اب دونوں ملک مکمل طور پر آزاد ا ورخود مختار تھے، اگرچہ یہ جنگ صرف سترا روز جا ری رہی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فوج عدد ی اعتبار سے اور اسلحہ اور سامانِ جنگ کے لحا ظ سے کم ازکم تین گنا زیادہ تھی، مگر اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی افواج نے سندھ، پنجاب سرحد، ورکنگ باونڈری یعنی سیالکوٹ اور کشمیر میں اُس وقت کی سیز فائر لائن اورآج کی کنٹرول لائن پر مجموعی طور پر بھارت سے دو گنی سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔

سیالکوٹ چونڈا کے محاذ پر انڈیا نے اپنے 600 ٹینکوںکے ساتھ حملہ کیا جس کو پاکستانی افواج نے کامیابی سے پسپا کردیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کی نارمنڈی کی ٹینکوں کی لڑائی کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی، اسی طرح پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو بالکل ناکام کر دیا اور اور 116 سے زیادہ بھارتی طیارے تباہ کئے، اس کو پوری دنیا نے تسلیم کیا، اس جنگ میں پاکستانی پائیلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں سات طیارے گرانے کا ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک دنیا کا کو ئی اور پائلٹ نہیں تو ڑ سکا۔ اس جنگ میں میجر عزیر بھٹی شہید نے محاذ پر دفاعِ وطن کا ایسا دلیرانہ ریکارڈ قائم کیا جو جنگی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ اس عظیم قربانی اور جذبہ شجاعت پر انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔

یوں 1965 تک بھارت نے تین جنگیں لڑیں اور شکستیں کھائیں، بدقسمتی سے ہمیں 17 روز بعد جنگ روکنی پڑی کہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکمنامہ جاری کر دیا، اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد اور فوجی سازوسامان کی سپلائی روکنے کا اعلان کردیا تھا،اب جہاں تک تعلق بھارت کا تھا تو وہ سوویت اور فرانس سے بھی اسلحہ اور فوجی ساز وسامان لیتا تھا اور اِن ملکوں کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا، یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت تھا، ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ اُس وقت پاکستان کی آبادی دس کروڑ اور بھارت کی آبادی تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ کروڑ کے درمیان ہو گئی تھی اور اُس زمانے میں اِن دونوں ملکوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت ہی کم تھی اور خطرہ تھا کہ برصغیر میں قحط نہ پڑ جا ئے اور اسی سال امریکہ کے سائنسدانوں نے میکسی پاک کے نام سے گندم کا ایک ایسا بیج ایجاد کیا تھا جس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار تین گنا ہو گئی تھی۔

یہ گندم کے بیج بحری جہاز امریکہ سے لے کر بھارت اور پاکستا ن آرہے تھے کہ جنگ کی وجہ سے سمندر میں روک دئیے گئے تھے، یہاں تک بھی اندازے تھے اگر یہ صورتحال ایک دو برس مزید رہتی تو قحط کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے اندیشے تھے، یہ جنگ مغربی پاکستان اور کشمیر میں لڑی گئی اور مشرقی پاکستان کے محاذ نہیں کھولے گئے یعنی بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر نہیں لڑا، یوں بھارت نے ایک تاثر یہ دیا کہ اُس کی یہ جنگ صرف مغربی پاکستا ن سے تھی، اگر چہ پاکستان اس جنگ میں مشرقی محاذ سے بھی بالکل بے خبر نہیں تھا مگر جنگ کا مثالی جوش وجذبہ مغربی پاکستان میں کہیں زیادہ تھا۔ اس جنگ میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے بائیں بازو کے ادیب و شاعر بھی بطور پاکستانی پورے جو ش وجذبے سے شامل تھے۔

بچہ بچہ روزانہ اپنے جیب خرچ میں سے ایک پیسہ ضرور دیتا تھا کہ یہ بتایا گیا تھا ایک ٹینک کی قیمت دس لاکھ روپے ہے اور اگر دس کروڑ پاکستانی ایک پیسہ فی کس دیں تو ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے، جوش وجذبے کا یہ عالم تھا کہ پوری قوم محاذ ِجنگ پر لڑنے کے لیے تیار تھی، وہ بچیاں جن کی شادیاں ہونے والی تھیں اور جہیز کے لیے والدین نے زیورات خریدے تھے اُنہوں نے وہ زیور تک قومی دفاعی فنڈ میں دے دئیے۔ پاکستان کے میڈیا نے بھی مثالی کردار ادا کیا، ریڈیو پاکستا ن اور ملک کے واحد پی ٹی وی اسٹیشن لاہور نے ایسا جوش ولولہ پیدا کیا کہ دیدنی تھا، ملکہ ترنم نور جہاں، شہنشاہ غزل مہدی حسن سمیت کئی گلوکاروں نے وہ لازوال قومی نغمات گائے کہ آج بھی وہ کانوںمیں رس گھولتے ہیں۔

1965 کا سال پاکستان اور خصوصاً صدر ایوب خان کے لیے عجیب ثابت ہوا،جنرل ایوب خان نے 28 اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لا نافذ کر کے اقتدار حاصل کیا تھا جب ملک کے سیاستدان اور اقتدار پر مسلط ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ خود ناکام ہوکر قوم کو مایوس کر چکے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل آخری انتخابات دسمبر1945 اور جنوری1946 میں جداگا نہ طرز انتخاب پر ہوئے تھے، اس کے بعد قومی سطح پر عام انتخابات 1970 میں ہوئے، البتہ ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1962 کا صدارتی آئین متعارف کروایا اور بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات کرائے۔

جس میں پاکستان کی قومی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان میں کونسلر وں کی سطح پر چالیس چالیس ہزارانتخابی حلقے بنائے گئے تھے، ان پر جو امیدوار انتخاب جیتے تھے وہ بی ڈی ممبر یعنی بنیاد جمہوریت کے منتخب ممبر کہلاتے تھے، یوں پہلے مرحلے میں چالیس چالیس ہزار ممبران مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرتے تھے، پھر یہی اسی ہزار بی ڈی ممبر قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے اور آخری مرحلے میں اسی ہزار بی ڈی ممبران صدراتی نظام کی سب سے مضبوط شخصیت یعنی صدر کا انتخاب کرتے اور پھر آئندہ الیکشن تک یہ بی ڈی ممبران آج کے بلدیاتی کونسلروں کی طرح اپنے اپنے وارڈوں میں نالیاں، گلیاں پختہ کرواتے، محلے میں خانگی نوعیت کے جھگڑوں کے فیصلے پنچائیت کے انداز میں طے کرواتے تھے۔ اُس وقت ملک کی آبادی کا تقربیاً چھہتر فیصد حصہ دیہاتوں میں رہتا تھا مگر ایوب خان کی تیز رفتار صنعتی، اقتصادی ترقی کی وجہ سے کراچی ایک بڑے شہر کے طور پر دنیا کے بڑے شہروں میں شمارہونے لگا تھا جبکہ مشرقی پاکستان ڈھاکہ، چٹاگانگ،کھلنا اور مغربی پاکستان میں لاہور، فیصل آباد اور حیدر آباد بھی بڑے شہر ہو گئے تھے۔

یوں 2 جنوری 1965 کو ایوب خان نے ملک میں صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اور خود اپنی سیاسی جماعت کنونشنل مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار ہوئے تو مشترکہ حزب اختلاف جن میں پانچ بڑی جماعتیں زیادہ نمایاں تھیں نے اپنا مشترکہ امیدوار قائد اعظم کی چھوٹی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بنایا، جنرل ایوب خان کی حکومت میں بیوروکریسی قابل بھی تھی اور اس کے پاس آئینی طور پر طاقت اور بہت زیادہ اختیارات بھی تھے، یوں یہ درست ہے کہ اِن انتخابات میں بیوروکریسی اور صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل وزراء نے ایو ب خان کے حق میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا، ایوب خان نے 62.43% ووٹ حاصل کئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو 35.86% ووٹ ملے، یوں اسی ہزار بی ڈی ممبران میں سے ایوب خان کے 449951 بی ڈی ممبراور محترمہ فاطمہ جناح کے 28691 ممبر کامیاب ہوئے لیکن اپوزیشن کی جانب سے صدرایوب خان پر خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور احتجاج بھی کیا گیا مگر یہ احتجاج اتنا کارگر ثابت نہ ہوا اورایوب خان کو ملکی اور عالمی سطح پر مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا، اور پھر1965 کی جنگ کے شروع ہوتے ہی جب انہوں نے قوم سے خطاب کیا توپوری قوم اُن کے ساتھ کھڑی تھی۔

جنگ کے خاتمے پر پاکستان کے عوام اس جنگ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہے تھے کہ جنوری1966 میں اقوام متحدہ امریکہ اور سوویت یونین کے مشترکہ اور شدید دباؤ کے تحت پاکستان کو اُس وقت کی سوویت یونین کے ازبکستان کی ریاست کے شہر تاشقند  میں 4 جنوری تا10 جنوری1966 مذاکرات کرنا پڑے۔ پاکستا ن کی جانب سے صدر ایوب خا ن اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ نے شرکت کی۔ جب کہ سہو لت کار یا ثالث کے طور پر روسی وزیراعظم Alexei Kosygin الیسی کوسجن تھے۔

اس تاشقند اعلانیے میں یہ کہا گیا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں اگست 1965 کے امن کے مقامات پر واپس جائیں ۔کشمیر میں بھی فوجیں 1949 ء میں اقوام متحد ہ کی طے کردہ سیز فائر لائن یعنی جنگ بندی لائن پر واپس ہو جائیں اور یہ عمل 25 فروری 1966 تک ہر صورت میں مکمل کر لیا جائے،اس تاشقند معاہدہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملا ت میں مداخلت نہیں کریں گے، فوری طور پر آپس کے اقتصادی اور سفارتی تعلقات بحال کریں گے، مگر اس معاہدہ میں کشمیر میں گوریلا جنگ نہ کرنے یا آپس میں یعنی پاکستان اور بھات میں جنگ نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت پُراسرا رانداز میں ہوئی، ویسے تو سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اُن کی موت ہارٹ ایٹک کی وجہ سے ہو ئی مگر ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ اُن کو زہر دیا گیا تھا۔ بھارتی سرکار نے اِن رپورٹوں پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ جب کہ میڈیا میں یہ تبصرے ہوئے کہ بھارت نے اس لیے خاموشی اختیار کی کہ اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور روس سے تعلقات خراب ہونے کے اندیشے تھے۔

پاکستان کے بعض اخبارات نے اپنے تبصروں میں یہ لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم کی موت انتہائی اور یکدم خوشی کے سبب واقع ہوئی، ان تبصروں کی ایک وجہ یہ تھی کہ واقعی بھارت پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ فوجی طاقت رکھتا تھا اور اُسے شکست ہوئی تھی پھر معاہدہ تاشقند پر وزیرِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان سے اختلاف کیا تھا، اُن کا موقف جو انہوں نے بعد میں بیان بھی کیا وہ یہ تھا کہ جہاں تک تعلق دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام اور فوجوں کی زمانہ امن کی پوزیشن پر واپسی کا تھا تو وہ اس بات پر اتفاق کرتے تھے کہ سندھ اور پنجاب اور سیالکوٹ ورکنگ باونڈری انٹرنیشنل بارڈر ہیں، اِن مقامات سے دونوں ملک اپنی انپی فوجیں زمانہ امن پر لے آتے ہیں مگر جہاں تک تعلق کشمیر میں سیزفائر لائن کا ہے تو کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت دونوں ملکوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہے اور پاکستان برسوں سے اس کا تقاضا کرتا رہا ہے، اور پھر 1947-48 کی جنگ میں اقوام متحدہ کی جانب سے جب جنگ بند کراوئی گئی تھی تو جہاں جس مقام پر جنگ بند ہوئی تھی اسے اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن تسلیم کیا تھا۔

اس لیے اب کشمیر میں جہاں جنگ بند ہوئی ہے وہاں نئی جنگ بندی لائن کا اعلان کیا جائے، بھٹو اور صدر ایوب خان کے اختلافات بڑھے اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا، یا صدر ایوب خان نے اُن سے ستعفیٰ لے لیا، پھر بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر تحریک شروع کردی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بعد نہ صرف پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی بلکہ پاکستان کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سازشیں شروع ہو گئیں، اس جنگ میں ہماری کمزوری یہ رہی کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسری کوئی ایسی قوت یا طاقتور ملک نہیں تھا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور اپنی اسٹرٹیجک پو زشن کے حوالے سے کو ئی بارگین کر سکتے۔

1962 میں چین نے لداخ میں بھارت سے جو علاقے چھینے تھے وہ آج بھی اس کے پاس ہیں جب کہ وہاں چین عوامی سطح پر کسی رائے شماری کا پابند بھی نہیں اورچین 2006 میں تبت اور اس علاقے میں سطح سمندر سے 17000 فٹ سے زیادہ بلندی پر 4 ارب ڈالر کی مالیت سے دس سال کے اندر یعنی 2016 تک دنیا کی بلند ترین ریلوے لائن بچھا چکا ہے۔ ایوب خان نے بھی آخر ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹر،، کتاب لکھی کیونکہ اُس وقت عجیب سی صورتحال تھی توپوں ٹینکوں کے گولوں، طیاروں کے بموں اور پرزہ جات تمام کا سو فیصد انحصا ر امریکہ پر تھا جس نے فوجی سازوسان کی سپلائی روک دی تھی، پھر جہاں بات معاہدہ تاشقند کے بعد رات کو ہی بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے انتقا ل کی ہے اور جو یہ کہا گیا تھا کہ اُن کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے تو اس سے فائد بھارت کو ہی ہوا تھا۔

یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لال بہادر شاستری جنگ ہارے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت اور اور کانگریس کے بڑے لیڈر کے طور پر معاہد ہ تاشقند کرکے واپس بھارت آتے تو اُن کی شخصیت کو سامنے رکھتے اور سوچئے کہ جب سوال وجواب ہوتے تو کانگریس اور بھارت کو کتنا نقصان ہوتا اور اگر خصوصاً کشمیر کے اعتبار سے نئی سیز فائر لائن قرار دی جاتی تو حالات اور بھی خراب ہوتے، یوں ایسا معاہدہ جو صدر ایوب خان سے کر وایا گیا اس میں سوویت یونین اور امریکہ کی چین سے دشمنی واضح تھی کیونکہ اُس وقت امریکہ اور روس دونوں ہی کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور جنگ 1965ء سے ایک سال قبل ہی چین نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا تھا اور امریکہ ، برطانیہ، روس اور فرانس کے بعد دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا تھا، اس لیے اس مفروضے کو راقم الحروف دنیا کے سامنے رکھتا ہے کہ جنگ 1965 کے بعد پاکستان، امریکہ اور سوویت یونین دونوں ہی کی نظروںمیں اپنی فوجی صلاحیت اور چین سے تعلقات کے اعتبار سے کھٹکتا تھا۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سولہ سال کی عمر میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھارت کی جد وجہد آزادی میں گاندھی اور نہر و کے پیرو کار تھے۔

1920 سے وہ جدوجہد میں مصروف تھے ، نہرو نے اپنے باپ موتی لال نہرو کی وراثت پائی تھی اور اسی طرح انہوں نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کی سیاسی تربیت بھی شروع سے کی تھی۔ کانگریس کی سربراہی کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے بھی اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو کانگریس میں نمایاں رکھا، البتہ وہ اپنے بعد فوراً ہی اندرا گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے، خصوصاً جب وہ بیمارہوئے اور جون 1964 میں اُنہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اب موت قریب ہے تو اسٹریچر پر اُن سے ایک غیر ملکی صحافی نے یہ سوال کیا کہ آپ کے بعد کون آپ کا جانشین ہو گا؟ تو نہرو نے جواب دیا کہ جمہوریت، پھر یہی سوال کیا تو، انہوں نے سے جواب دیا کہ آپ نے یہ سوال چرچل یا کسی اور برطانوی وزیر اعظم سے کیا تھا۔ یوں شاتری کی موت کے بعد اندراگاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں تو یہ ایک ایسی شخصیت تھی جو موازنے کے اعتبار سے شاستری کے مقابلے میں نہرو خاندان کے لحاظ سے اور اپنی قابلیت اور ظاہری شخصیت کی بنیاد پر بھارتی عوام میں مقبول تھیں۔

اُس وقت کے تناظر میں دیکھیں تو بھارتی اژدھامی نفسیات کے اعتبار سے ایک جانب کمزور شخصیت کے حامل بھارتی وزیراعظم شاستری کے مرنے کا بھارتی عوام کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اندرا گاندھی کے بطور نئے بھارتی وزیر اعظم بننے کی خوشی تھی، اندراگاندھی بھی اپنے والد نہرو کی طرح نہ صرف طویل عرصے تک بھارت کی وزیر اعظم رہیں بلکہ صر ف چھ سال بعد انہوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے تھا، اب جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اُس کی قیادت اور امریکہ اور سوویت یونین نے بھی ادراک کر لیا تھا کہ اگر پاکستان میں قومی یکجہتی اسی جنگ 1965 کے جوش وجذبے سے قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں کم از کم بھارت کا پاکستان کو شکست دینا ممکن نہیں، یوں خصوصاً بھارت اور سوویت یونین نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔

The post بھارت، چین جنگ 1962ء اور پاک بھارت جنگ 1965 ء appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان سیاحوں کی توجہ سے محروم کیوں؟

$
0
0

وطن عزیز پاکستان کا گوشہ گوشہ خصوصی اہمیت کا حا مل ہے۔

اس کی سیاحتی، جغرافیائی اور تاریخی اہمیت مسّلمہ ہے اس خطے سے ہزاروں تاریخی داستانیں جڑی ہوئی ہیں ہر جگہ کی اپنی اہمیت ہے مگر کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہماری کسی حکومت اور قوم نے اس کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاحتی اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا، حتیٰ کہ نامور ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں نے بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، ہمارے بعض نامور ادیبوں نے اپنی غیر ملکی سیاحت کے متعلق تو بہت کچھ لکھا مگر انھوں نے پاکستان کے سیاحتی، تاریخی اور تفریحی مقامات کے متعلق بہت کم لکھا۔ غیرممالک سیاحت (ٹورازم) کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں اور عوام اپنے ملک کی ہر معمولی چیز کو بھی پرموٹ کرتی ہیں، وہ حکومتیں غیر ملکیوں کی توجہ مبذول کروانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھاتی ہیں، تشہیر کے وہ انداز اپنائے جاتے ہیں کہ خواہ مخواہ وہاں کی سیاحت کرنے کا دل چاہتا ہے، مگر ہمارے وطن میں ہر جگہ کی اپنی تاریخی اہمیت ہے، ان مقا مات سے لاتعداد داستانیں جڑی ہوئی ہیں مگر ہم یہ سب کچھ نظرانداز کر رہے ہیں۔

ایک ایسا نیا کلچر پیدا ہو چکا ہے کہ محبت کرنے والے لوگوں کی اس سرزمین کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت سے منسوب کردیا گیا ہے، معصوم پاکستانیوں پر جارحیت پسندی تک کا الزام لگا دیا جاتا ہے، جب دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت اور جارحیت کے الزامات لگائے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کے ثبوت میں ماضی کا ایک ایسا واقعہ بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ جس سے ثابت ہو کہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں اس خطیِ یعنی موجودہ پاکستان سے کوئی لشکر یا جتھا اٹھا ہو اور اُس نے کسی بھی پڑوسی ملک یا ریاست پر حملہ کیا ہو۔

اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ اس خطے کے باسی ڈرپوک، بُزدل یا غیر منظم تھے بلکہ اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ امن پسند اور محبت کرنے والے تھے۔ آج بھی اس خطِے کے لوگ جنگ و جدل سے دور رہنا چاہتے ہیں، مگر ان کی صفوں میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں گُھس کر ان کی پُر امن زندگی کا تاثر ختم کرنا چاہتی ہیں۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہی نہیں رہے، ایسے لٹر یچرکی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی کہ جس سے اقوام عالم کو اس خطے کے عوام کی انسانیت دوستی اور مہمان نوازی کا اندازہ ہوتا۔

جو قومیں فروغ سیاحت کی اہمیت سے واقف ہوتی ہیں اور اس جانب اپنی تما متر توجہ مبذول رکھتی ہیں وہ بے شمار فوائد سے بہرہ مند ہوتی ہیں، جن ممالک میں سیاحوں کی آمد بہت زیادہ ہوتی ہے
(۱) وہ عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے ۔
(۲) مالی دشواریوں سے دوچار نہیں ہوتے۔
(۳) ان ممالک میں تجارت وصنعت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
(۴) عوام کے ذہنوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(۵) مختلف ممالک کی عوام کو آپس میں گھُلنے مِلنے اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے میں مدد مِلتی ہے۔
(۶) تعلیمی ترقی ہوتی ہے۔
(۷) اقوام عالم میں اہم مقام حاصل ہوتا ہے ۔
(۸) لوگوں میں ترقی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی فوائد کی ایک لمبی تفصیل موجود ہے اگر ان فوائد کا عمیق نظر سے جائزہ لیا جائے تواحساس ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی اور عوام کے شعور کو جِلا بخشنے کیلئے فروغ سیاحت ایک اہم اور بنیادی جُزو ہے، باقی تمام معاملات بعد کے ہیں تمام ممالک فروغ سیاحت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور اس مقصد کی کامیابی کیلئے وہ اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ فروغ سیاحت کی اہمیت کا احساس و شعور ہماری حکومتوں کو رہا ہے نہ ہی عوام کو۔

بے شمار ممالک ایسے ہیں کہ جہاں ایسی کوئی قابل ذکر جگہ یا مقام نہیں ہے کہ جس کو دیکھنے کیلئے دور دراز کا سفر کیاجائے مگر ان ممالک نے کچھ عمارات اور مقامات کی اس قدر تشہیر کی ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد یہ مقامات دیکھنے کیلئے ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں، اس ضمن میں مشہور برطانوی سیاح ہنری ولیم کا یہ جملہ قابل غور ہے’’اگر ایفل ٹاور کو بغور دیکھا جائے تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ جسے دیکھنے کیلئے اتنی دور کا سفر کیا جائے، یہ ایک تحفہ ہے جسے بہت سال پہلے برطانیہ نے دوستی کے جذبات کا مظاہرہ کرنے کیلئے مختلف ٹکڑوں میں فرانس بھیجا اور اِسے پیرس میں ایستادہ کروایا، مگر اِسے دیکھ کر کسی تحیر کا احساس ہوتا ہے نہ ہی کسی تازگی کا، اور نہ مظاہر قدرت دیکھ کر ششدر رہ جانے کا احساس اُبھرتا ہے مگر ایفل ٹاور کی تشہیر اس قدر کی گئی ہے کہ اس کا عجائبات عالم میں شمار کیا گیا ہے۔‘‘

ہر ایک کا اپنا نقطہ ِنظر ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ ہنری ولیم کے سوچنے، دیکھنے اور پرکھنے کا انداز دوسرا ہو، مگر اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فرانس کی حکومتوں نے ایفل ٹاور کو فرانس کی پہچان بنادیا ہے۔ جب کہ وطن عزیز پاکستان میں ہزاروں مقامات اور عجائبات ایسے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر فوراً یہ ا حساس اُبھرتا ہے کہ قدرت نے یہ خِطہ پیدا ہی سیاحت کیلئے کیا ہے۔ ہر شہر، ہر قصبے، ہر جگہ کی اپنی کوئی نہ کوئی انفرادیت ضرور ہے، مگر ابھی تک اقوام عالم ان سے ناواقف ہیں، اس کی اصل وجہ ہماری حکومتیں ہیں کہ ان کی توجہ اس جانب مبذول ہی نہیں ہوئی۔

سیاحت میں مذہبی مقامات کی اہمیت
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں ہر بڑے مذہب سے تعلق رکھنے والے بیشمار مقامات ہیں، سِکھوں کے تمام تقریباً مقدس مقامات اس خطے میں موجود ہیں، ہر سِکھ کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک دفعہ ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور کی زیارت ضرور کرے۔ وہ مہاراجہ رنجیت سِنگھ کی مڑھی بھی ضرور دیکھنا چاہتے ہیں مگر بھارت کے کشیدہ تعلقات اور سکیورٹی وجوہات کی بِنا پر سکھوں کو مخصوص تعداد سے زیادہ ویزے جاری نہیں کئے جاتے، ریاستی مصلحتیںاپنی جگہ مگر اس جانب بھی توجہ دینا ضروری ہے۔

ہری پور اور ایبٹ آباد کے بعد والے علاقے میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بے شمار نوادرات اور عجائبات موجود ہیں ان کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مگر بُدھ مت کے پیروکار وں کیلئے اس کی مذہبی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہاں جین مت کے آثار بھی مِلتے ہیں ، مگر توجہ نہ دینے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ آثار معدوم ہو رہے ہیں ۔ مگر سیاحوں کیلئے ایسی جگہوں کیلئے زیادہ کشش ہوتی ہے وہ اپنی تحریروں اور ڈائریوں میں ان مقامات کا ذکر کرنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ جن کے متعلق عام لوگ زیادہ نہیں جانتے، لکھاری سیاحوں کی تحریروں کا مرکز وہ مقامات اور افراد بنتے ہیں،جو دنیا کی توجہ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

اس خطے میں لاتعداد مقامات ایسے ہیں کہ جو قدیم مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ متروک ہوتے ہوئے مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی مقامات یا نوادرات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ کسی بھی مذہب، دین اور ’’ازم‘‘ کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان میں ایسے کئی مقامات موجود ہیں مگر حکومت، متعلقہ اداروں اور لکھاریوں کی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک اور بات بطور خاص محسوس کی جاتی ہے کہ یہاں کے اولیاء کرام اور صوفیاء کو صرف مذہبی پیشواؤں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کے مزارات کو بھی مذہبی اور دینی حیثیت دی جاتی ہے، جبکہ یہ تمام اولیاء کرام اور صوفیاء کرام انسانیت کے علمبردار تھے۔

وہ تمام انسانوں کیلئے سراپا محبت اور پیکر ایثار تھے، ان کے مزارات کو عبادت گاہیں بنادیا گیا ہے، ان مزارات کے ساتھ ملحقہ مساجد کی اہمیت مسُلمہ ہے، حضرت داتا گنج بخشؒؒ ، حضرت بابافرید الدین گنج شکرؒ ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ، سخی شہباز قلندر ؒ سمیت ہزاروں اولیاء کرام نے تاریخ کا دھارا بدلا، ملک کے چپے چپے پر ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے مزارات موجود ہیں، ان بزرگوں کی مذہبی اہمیت کے علاوہ تاریخی اہمیت بھی ہے ان کے مزارات سینکڑوں سالوں سے موجود ہیں، ان مزارات کو بھی سیاحتی مراکز کا درجہ دیا جائے۔

ایک دفعہ ایک غیر ملکی مہمان نے مجھے خود کہا تھا ’’ ان مزارات کے ساتھ کوئی ایسی جگہ ضرور مخصوص ہونی چاہیے کہ جو غیرمسلم اور غیر ملکی مہمانوں کیلئے مخصوص ہو، دیواروں پر ان اولیاء کرام کے حالات زندگی اور اس وقت کی ہسٹری لکھی جانی چاہیے۔‘‘ کہنے لگا کہ یہ ہستیاں تاریخ کا زبردست حصہ رہی ہیں۔ انھوں نے ایک کلچر تبدیل کیا، ہر صاحب ِ مزار ایک صاحب انقلاب تھا۔

جہاں ان روحانی شخصیات نے سکونت اختیار کی وہاں سے ایک انقلاب نے جنم لیا، اس انقلاب نے لوگوں کے دل ودماغ کو متاثر کیا۔ ان مزارات کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے ‘‘۔ آج بھی اِس غیر مسلم غیر ملکی کی بات یاد آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کی تعلیمات اور مزارات کو اپنی مخصوص فکرو سوچ کے خاص دائرے میں مقید کردیا ہے، انکی زندگیاں انسانیت کی فلاح وبہبو دکیلئے تھیں انھوں نے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ محبت کرنا سکھایا، امن کا درس دیا، کچلے ہوئے طبقات کو گلے سے لگایا ۔

محکمہ اوقاف، محکمہ مذہبی اُمور، محکمہ سیاحت اور دوسرے متعلقہ اداروں کو مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے مربوط اور منظم سوچ پیدا کرنی ہوگی۔ تمام مذہبی مقامات کا ازسر نو سروے کرنے کی ضرورت ہے، قدیم مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور سیاحوں کی ان مقامات تک رسائی اشد ضروری ہے۔ اولیاء کرام کے مزارات کے ساتھ ایک ایسی جگہ یا گوشہ مخصوص کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ جہاں غیر مسلم اور غیر ملکی سیاحوں کی خاص دلچسپی اور توجہ کا سامان ہو، یہ بات بھی عجیب نظر آتی ہے کہ مغلوں کے دور میں قائم ہونے والی شاہی عمارات کو تاریخی اور عالمی ورثہ قرار دیا جاتا ہے مگر اسی دور میں قائم ہونے والے مزارات کی عمارتوں کو تاریخی ورثہ نہیں سمجھا جاتا، جبکہ بعض مزارات پر نقش کاری اور تعمیرات کے وہ نمونے نظر آتے ہیں، جنکی دوسری مثال نہیں مِلتی، مغلوں کے دور سے بھی سینکڑں سال پہلے تعمیر ہونے والے مزارات کو بھی قدیم ورثہ نہیں سمجھا گیا اور انھیں صرف مذہبی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جبکہ فن تعمیر اور عمارات کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا۔ آثار قدیمہ، اوقاف، سیاحت کے علاوہ تاریخ اور جغرافیہ کے ماہر ین کو مل کر ٹورازم کے فروغ کیلئے مربوط کوشش کرنی پڑے گی۔

فروغ سیاحت میں تحریر وتخلیق کی اہمیت
ایک ادبی محفل میں ایک ’’غیر ادبی‘‘ صاحب نے تقریب کے آخر میں نہایت اُکتاہٹ کے عالم میں کہا ’’آج کی اس ادبی محفل میں ایک صاحب نے اپنی غیر ملکی سیاحت کے متعلق جو مضمون پڑھا ہے اُسے سُن کریہ احساس ہو رہاہے کہ یہ مضمون اُس ملک کے شعبہ سیاحت نے اپنے ملک کی ٹورازم بڑھانے کیلئے لکھوایا ہے‘‘ کہنے لگے کہ اس سے پہلے میں انشاء جی، مستنصر حسین تارڑ اور کئی نامور ادیبوں کے غیر ملکی سفرنامے پڑھ چکا ہوں، یہ سفر نامے پڑھ کر بے اختیار اُن ممالک کی سیر کرنے کیلئے دل مچل اٹھتا ہے۔‘‘

عمارات، حسیناؤں،دریاؤں اور دوسرے مقامات کے تذکرے اس انداز میں بیان کئے جاتے ہیں کہ اپنا ملک انتہائی ’’ حقیر وفقیر‘‘ قسم کا لگتا ہے، جبکہ ہمارے ملک جیسا دنیا میں کوئی دوسرا ملک ہے ہی نہیں ۔ پاکستان حسن و خوبصورتی میں کسی ملک سے پیچھے نہیں، چمکتے دمکتے خوبصورت چہرے دیکھتے ہیں روح خوش ہو جاتی ہے، پاکستان میں ہزاروں تاریخی عمارات ہیں خوبصورت دریا ، دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ، دلفریب نظارے جھرنے،آبشاریں، ہرقسم کے پھول، ہرقسم کے پھل، ایک ہی وقت میں ہر قسم کے موسم، ہرقسم کے لوگ، لا تعداد زبانیں، مختلف ثقافتیں، مختلف تہذیبیں اور مختلف انداز فکر و سوچ ، یہاں ہر چیز ہے کسی ایک پہلو پر ہی لکھنے بیٹھیں تو کئی ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر پتہ نہیں ہمیں احساس کمتری ہے یا ہم لوگ دوسری ’’ تہذیبوں کے پروموٹر ‘‘ ہیں ۔

ان کی یہ بات آج بھی یاد آتی ہے شائد ہم میں ’’پاکستانیت‘‘ اُس درجے کی نہیں ہے کہ جس کا ہمارا وطن ہم سے تقاضا کرتا ہے، ٹورازم کے فروغ میں تحریر وتخلیق کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ شنہشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہان کا مقبرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس مقبرے کی صرف تاریخی اہمیت ہی نہیں ہے ایک رومانوی حیثیت بھی ہے ملکہ نور جہاں صرف ایک شنہشاہ کی بیوی نہیں تھی ایک رومانوی داستان کا مرکزی کردار بھی تھی کہ جس نے جہانگیر جیسے لا اُبالی انسان کو اپنی زلفوں کا اس حد تک اسیر بنایا کہ جب جہانگیر اُمور سلطنت نبٹا رہا ہوتا تھا تو نور جہان تحت کے پیچھے لگے پردے کی اوٹ سے اپنا ہاتھ شنہشاہ کے کندھے پر رکھتی تھی اگر وہ ہاتھ پیچھے کرتی تو شنہشاہ بے چین ہوجاتا۔ دونوں میاں بیوی کے مقبرے پاس پاس ہیں، نور جہاں کے بھائی آصف الدولہ کا مقبر ہ بھی اسی جگہ موجود ہے، یہ مقبرے دریائے راوی کے پاس ہیں۔

اگر نورجہان کو پاکستانی ادیب اور قلمکار اپنی تحریروں میں اہمیت دیتے تو شائد آج لاکھوں سیاح نورجہاں اور جہانگیر کے مقبرے کی سیا حت کر چکے ہوتے۔ یورپی سیاحوں نے یورپی ممالک کے متعلق اس طرح لکھا ہے کہ اُن مقامات کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ دراصل ہمارے زیادہ ترادیبوں کے ذہن کا کینوس بہت محدود ہے، زیادہ تر ادیب شخصیات اور انسانی روّیوں تک محدود رہے ہیں، بہت سارے ادیبوں نے انسانوں کے نفسیاتی اور عمومی روّیوں کو اپنی تحریروں کا محور بنایا ہے، کچھ نامور ادیبوں نے دیہی اور شہری ماحول پر اس طرح اپنا قلم اٹھایا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اُس ماحول میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے مگر ادیبوں نے تاریخی عمارات اور تاریخی مقامات کے ساتھ وابستہ داستانوں اور شخصیات کو اپنی تحریر کا مرکز نہیں بنایا۔

پاکستان کے ہر شہر، ہر علاقے کا اپنا کلچر ہے، ہر علاقے کے ساتھ بے شمار داستانیں جڑی ہوئی ہیں مگر نامور ادیبوں اور لکھاریوں نے کبھی اس حوالے سے قلم کشائی نہیں کی کہ بیرون ممالک رہنے والوں کو ان مقامات یا جگہ کو دیکھنے کا شوق یا تجسس پیدا ہو۔ خاص طور پر انگلش میں لکھنے والے پاکستانی ادیبوں نے کبھی شعوری کوشش ہی نہیں کی کہ وہ ایسا ادب تخلیق کریں کہ پڑھنے والے غیر ملکیوں کا کوئی خاص مقام، رسم و رواج یا روایات دیکھنے کیلئے دل مچل اُٹھے۔ لاہور کے میلے، لاہور کے تکیئے، لاہور کے رسم و رواج، لاہور کی پُرانی روایات، لاہور کا کلچر ، لاہور کے پہلوان، لاہور کی رومانوی داستانیں اور وہ مقامات جو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ شادمان لاہور کا وہ علاقہ جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی یا موجودہ لنڈے بازار کا وہ مقام جہاں دُ لا بھٹی کو دار پر لٹکایا گیا، لاہور کے بدمعاش، لاہورکے نئے اور پُرانے باغات، تاریخی عمارتیں اور سینکڑوں ایسے تاریخی و سیاحتی مقامات، جن کے متعلق بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر انگریزی اور دوسری ملکی زبانوں میں صرف لاہور کی مخصوص ثقافت کے متعلق لکھا جائے۔

سیاحت میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی اہمیت
یہ پہلو بھی سامنے آ یا ہے کہ فروغ سیاحت کیلئے پاکستانی قوم سوشل میڈیا سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کرسکی۔ یہ خِطہ ہمیشہ سے امنّ، سکون، محبت، ایثار اور مہمان نوازی کا گہوارہ رہا ہے، شائد دنیا بھر میں اس خِطے میں رہنے والوں سے پُر امن قوم کوئی نہیں، یہ قوم کبھی بھی جنگجو ، جھگڑالو یا جارحیت پسند نہیں رہی اپنے حال اور معاملات میں مَست رہنے والی قوم کا امیج پوری دنیا میں سامنے لایا جانا چاہیے تھا، مگر شائد ہم لوگ خود ابھی تک اپنی انسانی خوبیوں سے واقف نہیں ہیں۔

اس دور میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے صحیح استعمال سے پوری دنیا کو اصل تصویر دکھائی جا سکتی ہے، یہ بات بھی عجیب نظر آتی ہے کہ ہمارے تمام چینلز اور سوشل میڈیا میں معاشرے میں رونما ہونے والے چند واقعات کو اس طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے ہمارا پورا معاشرہ تشدد پسند اور منفی خیالات کا حامل ہو چکا ہے ہر وقت ایسے واقعات کی تشہیر سے ہمارا امیج بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اگر منفی واقعات کی شرح دیکھی جائے تو وہ اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ محبت و ایثار ، مہمان نوازی اور ایک دوسرے کے احساس کی شرح 70 فیصد سے بھی زیادہ ہے ، یہاں کے لوگ غیر ملکیوں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں اور اپنے ان جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

آج بھی ہماری ثقافت، رسم و رواج اور روایات صرف محبت کے اُصولوں پر قائم ہیں، ہماری فلموں میں بھی تشدد، ناانصافی اور ظلم دکھایا جاتا ہے۔ فلمی ادیبوں، فلمسازوں اور ڈائریکٹروں کے غیر ذمہ دارانہ روّیے کی وجہ سے ہمارا اصل امیج بُری طرح متاثر ہوا ہے۔

میں ایک دفعہ ایک غیر ملکی دوست کو لاہور اور آس پاس کے کچھ دیہات کی سیر کروانے لے گیا، اُسے لاہور کی قدیم روایات، رسم ورواج اور ثقافت کی متعلق بتایا تو وہ ششدر رہ گیا، اُس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ، میں نے اُسے بتایا کہ ماضی قریب میں محلے کے لوگ کیسے آپس میں گُھلے ملے ار ایک خاندان کی طرح رہتے تھے جب اُسے ’’ تکیوں کے کلچر‘‘ کے متعلق بتایا تو تحیر سے اُسکا منّہ کھلے کا کھلا رہ گیا، پھر وہ خود ہی کہنے لگا کہ ’’ آپ لوگ اپنے اصل کلچر، روایات اور رسم و رواج کو بنیاد بنا کر انگریزی میں ایسی فلمیں بنائیں کہ دنیا کے سامنے پاکستانی افراد کی اصل تصویرآئے، ان مقامات سے جڑی رومانوی داستانوں پر مبنی فلمیں بنائیں۔

اگر آپ کی اپنی زبان میں ایسی عام فلمیں اور ڈاکو مینٹری فلمیں موجود ہیں تو انھیں دوسری زبانوں میں ڈب کرکے بیرون ممالک میں اسکی نمائش کا اہتمام کریں ‘‘ وہ دیہی زندگی کا امن وسکون دیکھ کر بھی بہت متاثر ہوا، کہنے لگا کہ یہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دور ہے، مگر لگتا ہے کہ ٹورازم سے متعلقہ اداروں کو اس بات کی اہمیت کاا حساس نہیں ہے۔ ٹورازم کے معاملے میں آج کی سرمایہ کاری مستقبل میں بہت اچھے نتائج دیتی ہے۔

اس خطے کی تاریخ اور تہذیب بہت پُرانی ہے، ہزاروں سال پُرانی، یہ قوم اپنے آپ میں مگن رہنے والی قوم ہے، دوسروںکے معاملات یا مال و دولت پر نظر رکھنے والی قوم نہیں ہے، مگر بیرونی دنیا میں اس کا عجیب سا امیج پیش کیا گیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ خود اس خطے کی اصل ثقافت سے روشناس ہو، پھر اس ثقافت کے تمام مثبت پہلو بیرونی دنیا کے سامنے لائے۔ اس خطے کی ہزاروں سال پہلے سے لے کر اب تک کی تہذیب سامنے لائی جائے۔

ان تما م مقامات کو اُجاگر کیا جائے، جنکی تاریخی ، جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت مسلمہ ہے ، شہری اور دیہاتی زندگی کے خاص اور مثبت پہلو سامنے لائیں، خوشی غمی کی رسومات ، میلوں اور تہواروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائیں اور اس پہلو سے بھی لوگوں کوآگاہ کریں کہ پوری دنیا کے برعکس اس قوم کے متعلق ہزاروں سال سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مِلتا کہ جس سے یہ بات ثابت ہوکہ انھوں نے کبھی کسی بھی دوسری ریاست یا ملک کے خلاف جارحیت کی ہو، یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ابھی 80 فیصد پاکستانیوں کو ہی اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کا علِم نہیں ہے، شمالی علاقہ جات بشمول گلگت، بلستان کی خوبصورتی کا اس وقت علِم ہوا کہ جب بعض فلمسازوں نے ان علاقوں میں فلمبندی کی۔ پاکستانی شہریوں کے دل میں یہ علاقے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا مگر ابھی تک بہت کچھ تاریکی میں ہے، نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی قوم کا اصل سافٹ امیج اور ملک کے تاریخی اور جغرافیائی ورثے کو کس طرح بیرونی دنیا کے سامنے لاتی ہے۔

پاکستان دنیا کا سب سے سستا سیاحتی مُلک
دنیا میں بلکہ خود پاکستان میں بہت کم افراد کو علِم ہے کہ غیر ملکیوں کیلئے پاکستان دنیا کا سب سے سستا سیاحتی ملک ہے، صرف چند سو ڈالروں میں پورے ملک کی سیاحت بشمول قیام و طعام کی سہولت کے ساتھ ممکن ہے، مگر اس بات کی بیرونی ممالک میں موثر تشہیر نہیں کی گئی۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ غیر ملکیوں کو تمام اخراجات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ وہ قلیل رقم میں پاکستان کے گوشے گوشے کی سیاحت کر سکتے ہیں، اندرون اور بیرون ملک رہائش پذیر سیاحت کے شوقین پاکستانیوں کی بھی پاکستان کی سیاحت کی جانب توجہ دلوائی جائے۔

حکومتوں کی عدم توجہ
اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرنے کیلئے سیاحت ایک بنیادی جّزو ہے، مختلف ممالک کی عوام میں محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں مگر وطن عزیز میں میں کسی بھی حکومت کو سیاحت کی اصل اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے، غیر ملکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر چہ موجودہ حکومت اور عسکری اداروں نے اس بات کی اہمیت کو محسوس کیا ہے اور وہ فروغ سیاحت کا عزم بھی رکھتے ہیں، مگر ابھی تک ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ جس سے اندازہ ہو کہ ادارے اور حکومت فروغ سیاحت کیلئے واقعتاً سنجیدہ ہیں، پاکستان کو تنہا کرنے کیلئے بیرون ممالک میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا بہت پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔

بیرونی ممالک بھی اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے منع کردیتے ہیں، مگر دہشت گردی کی کسی بھی واردات میں کسی غیرملکی کو نشانہ نہیں بنایا گیا، اکا دکا واقعات میں چینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ، مگر چین سمیت سب کو علِم تھا کہ اسکے پیچھے بھارت کے علاوہ اور کونسے ممالک ہو سکتے ہیں، یہ سب سی پیک کو غیر مخفوظ ثابت کرنے کیلئے کیا گیا۔ اب دہشت گردی تھم چکی ہے، اگر کبھی اکا دکا واقعہ ہوتا ہے تو سب کو علِم ہے کہ بھارت یا افغانستان ہی اس دہشت گردی کے پیچھے ہوتے ہیں مگر وہ اس ایک واقعہ کو بھی بیرونی دنیا میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے خدا نخواستہ پاکستان میں ہر وقت بم دھماکے ہوتے ہیں اور پورا ملک غیر مخفوظ ہے۔

اس پراپیگنڈہ کا موثر جواب دیا جانا ضروری ہے، اسکے ساتھ سیاحتی مقامات کے علاوہ پورے ملک میں سیاحتی سہولتوںکو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے، میں خود ملک کے کونے کونے کی سیاحت خود کر چکا ہوں ان مقامات پر بھی گیا کہ جہاں کوئی فرد سوچ بھی نہیں سکتا۔گوادر میں بھی رہائش پذیر رہا ہوں۔ اندرون سندھ کا سفر کرنے کا اتفاق بھی ہوتا رہتا ہے، شمالی علاقہ جات کے ہر مقام کی سیر کر چکا ہوں، مجھے تو کبھی کسی ڈکیتی یا کسی ایسے واقعہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ د وبارہ سفر کرنے سے توبہ کی ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ سفری سہولتیں ناپید ہیں، راستے میں ٹوائلٹ ،ڈسپنسری، مکینک اور سستے قیام وطعام کی سہولتیں بہت کم ہیں۔ اس طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے۔

دوران سیا حت، تجارت کارجحان بھی پیدا کیا جائے
تقریباً ہر ملک کی کو شش ہوتی ہے کہ آنے والا ہر سیا ح ان کے ملک سے خریداری ضرور کرے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں دستکاری اور پھل سمیت کوئی نہ کوئی خاص سوغات ضرور ہوتی ہے۔ دُور دراز کے علاقو ں میں رہنے والوں کو بھی روز مرہ کی اشیاء کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ دوسرے مقامات سے آنے والے سیاح اپنے ہمراہ مقامی ضروریات زندگی کی اشیاء لیکر آئیں اور اس علاقہ میں بننے والی مصنوعات، دستکاری اور پیدا ہونے والے پھل، خشک میوہ جات اور دوسری اشیاء خرید یں، تجارتی کلچر پیدا ہونے سے سیاحت کے شوقین افراد کو جو مالی فائدہ پہنچتا ہے وہ سیاحت کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پاکستانیوں کو اپنے ملک کی دوسری زبانیں بھی سیکھنی چاہئیں، ایک دوسرے کی زبان سیکھنے سے بھی آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان جیسا خوبصورت ملک دنیا میں دوسرا کوئی نہیں
سیاحت پر کئی کتابیں تحریر کرنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف اور سیاح مقصود احمد چغتائی 40 سے زائد بیرون ممالک کا سفر کر چکے ہیں، ان کے سفر ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عمیق نگاہ سے مختلف ممالک کے قابل ذکر مقامات، کلچر، رسم و رواج اور وہاں کے لوگوں کی سوچ و فکر کا مشاہدہ کیا، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسا خوبصورت اور محفوظ ملک دنیا میں اور کوئی نہیں ہے، ہماری تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ یہ ملک سیاحت کیلئے ہی بنا ہے۔ دنیا کی تینوں بلند ترین چوٹیوں کا راستہ پاکستان سے جا تا ہے، یہاں کے ریگستانوں اور صحراؤں کا حُسن بھی مبہوت کردیتا ہے۔

شمالی علاقہ جات کا کونہ کونہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، آبشاریں، جھیلیں، پھل پھول، پرندوں کی قطاریں، دل فریب نظارے، تروتازگی پیدا کرنے والے موسم۔ مقامی افراد کے رسم ورواج، جانور، نباتات، انسان ان علاقوں کی خوبصورتی اور خصوصیات کو الفاظ میں بیان کرہی نہیں سکتا۔ مگر بیرونی دنیا کی توجہ اس جانب کامیابی سے مبذول کروائی ہی نہیں جا سکی، ہماری تاریخی عمارات، باغات، تفر یخی مقامات اور لاتعداد ایسی جگہیں ہیں کہ جہاں بار بار جانے کو دل چاہتا ہے۔

بھارت اور کئی دشمن ممالک ہمارے ملک کے امن و امّان پر انگلیاں اٹھاتے رہتے ہیں جبکہ یورپ میں سیاح محفوظ نہیں رہتے کئی ممالک میں تو سیا حوں کو انتباہ کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ رقم اپنے پاس نہ رکھیں ایک دفعہ بلغاریہ سے رومانیہ جاتے ہوئے میں خود ڈکیتی کا شکار ہوا میں نے دوافراد سے رومانیہ کا راستہ پوچھنے کی غلطی کی تھی وہ کہنے لگے کہ’’ ہم بھی رومانیہ جا رہے ہیں‘‘ راستے میں انھوں نے مجھے شدید زخمی کرکے تمام رقم لُوٹ لی اور پھینک کر چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی دی کسی طرح کئی دن کے بعد رومانیہ پہنچا، لمبی داستان ہے مگر اسکے بعد میں نے بیرون ممالک دوران سفر اپنے آپ کو بالکل غیر محفوظ سمجھا اور زیادہ تر بارونق علاقوں میں ہی سفر کیا، جبکہ شمالی علاقہ جات بلند و بالا پہاڑوں کے درمیاں سفر کرتے ہوئے بھی اس خوف کا شکار نہیں ہوا ‘‘ انکا کہنا ہے دوسری قوموں کو سمجھنے کیلئے، تعلقات کی وسعّت اور فروغ تجارت کیلئے دوسرے مما لک کا سفر بھی کرنا چاہیے کہ مختلف مما لک کی عوام کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع ملتا ہے، تجارت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

اگر ہم ایک خاص سوچ و فکر کے ساتھ ان لوگوں کو ملیں تو ان کے دلِوں میں بھی ہمارا ملک دیکھنے کا شوق پیدا ہوگا، غیر ملکی افراد کو اگر یہ سہو لت مِلے کہ پاکستان میں ان کا کوئی دوست اور واقف کار موجود ہے تو وہ بھی ہمارے ملک کا رخ کریں گے مگر پاکستانی عوام کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ اپنے غیر ملکی دوستوں کے بھروسے اور اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، بعض غیر ذمہ دار افراد کے لالچ کی وجہ سے پوری قوم بدنام ہوتی ہے اور تمام پاکستانیوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مقصود احمد چغتائی کا کہنا ہے میرا ذاتی مشاہدہ یہی ہے کہ سوئیزر لینڈ سے خوبصورت ملک تُرکی ہے جس کا قدرتی حُسن اور موسم انتہائی دلفریب ہے مگر ترکی سے بھی زیادہ خوبصورت شمالی علاقہ جات ہیں، وادی ِ سوات میں تو موسم خزاں میں بھی درخت پھلوں سے لدے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر کئی مقامات پر سیاحتی سہولتیں تقریباً نا پید ہیں، چین جاتے ہوئے شاہراہ قراقرم پر بھی قیام وطعام ، میڈ یکل ، واش رومز اور ہنگامی حالات میں فوری امداد کی سہولتیں کافی کم ہیں، موجودہ حکومت ہر بیس کلو میٹر کے فاصلے پر سفری سہولتوں کا اہتمام کرے اگر سیا حوں کے دل سے یہ خوف نِکل جائے کہ کسی بھی ناگہانی صورتحال کے سد باب یا انسانی ضرویات کیلئے انھیں کسی بھی قسم کے نا مساعد حالات کا سامنا نہیں ہوگا تو وہ بلا خوف و خطران علاقوں کی سیا حت کیلئے نِکل کھڑے ہوں گے۔

بائیکنِگ ، سستا اور دلچسپ تریں ذریعہ سفر
پاکستان میں ہا ئیکنِگ، بائیکنگ اور فروغ سیاحت کیلئے ہر لمحہ کوشاں عمران افضل اعوان کا شمار بھی سیاحت اور ایڈونچر کے اُن جنونیوں میں ہوتا ہے کہ جو اپنے شوق کی تکمیل کیلئے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کیلئے وہ بیرون ملک سے تین لاکھ ماہوار والی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اس وقت وہ پاکستان میں سرکاری نوکری کر رہے ہیں، انھوں نے جرنلزم میں ایم اے کیا تھا مگر سیاحت کو اپنا جنون بنایا، انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان میں موٹر سائیکل کے ذریعے سیاحت کے رجحان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیا حتی مقامات کی سیر کا اصل مزا ہی ہائیکنگ اور بائیکنگ میں ہے۔ پہلے لوگ موٹر سائیکلوں پر دور دراز کے پہاڑی سلسلوں کا سفر کرتے ہوئے ڈرتے تھے، مگر اب عوام میں شعور پیدا ہو رہا ہے کہ موٹر سائیکل پر سیاحت کا اپنا مزا ہے کیونکہ آپ موٹرسائیکل پر ان مقا مات کی سیر بھی کر سکتے ہیں کہ جہاں گاڑی یا جیپ وغیرہ نہیں جا سکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ خرچ بہت ہی کم آتا ہے۔ حادثات کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ پہاڑی علاقوں میں زیادہ تر تنگ سڑکیں ہیں۔ اندازے کی معمولی سی غلطی سے گاڑی کھائی میں گرِ جاتی ہے جبکہ موٹر سائیکل پگڈ نڈیوں سے بھی گزرجاتی ہے اگر موٹر سائیکل پر ایک دن میں تین سو کلو میٹر کا سفر کیا جائے تو کھانے سمیت کل 1200 روپے روز کا خرچ آتا ہے، پانچ دن کے سفر پر کل 6000 ( چھ ہزار) روپے خرچ ہوتے ہیں، ہم نے بائیکرز کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جب بھی وقت مِلتا ہے ہم کسی نہ کسی علاقے کی طرف سیا حت کیلئے نِکل جاتے ہیں، اب فیملیز اور خواتین بھی بہت شوق سے موٹر سائیکل کا سفر کرتی ہیں۔اس وقت بائیکرز کی تعداد 17000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ مقامی سیاح اشیائے خورونوش اپنے ہمراہ لے کر جائے، کیونکہ ان علاقوںمیں کھانا نسبتاً مہنگا ہے۔ مقامی سیاحوں کو خاص سہولت دینے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیاحت کیلئے پاکستان سے اچھا ملک نہیں ہے مگر ایک ’’ سیاحت دوست‘‘ مہم فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہم کے ذریعے پوری پاکستانی قوم بالخصوص سیا حتی علاقہ جات کی عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ مہمان کے سامنے انتہائی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ انکے ساتھ دوستانہ روّیہ رکھیں اگر راستے میں کسی بھی سیاح کو کوئی مسئلہ درپیش آجائے تو دل و جان کے ساتھ اس کی مدد کریں، سیاحوں کو اللہ کا مہمان سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، ایمانداری اور دیانتداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، علاوہ ازیں اب تک حکومت کی طرف سے فروغ سیاحت کیلئے وہ اقدامات نہیں کئے گئے کہ جن کے فوری طور پر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

٭سیا حتی راہنمائی کیلئے مراکز قائم کئے جائیں ۔
٭ گائید ز اور ٹورازم کمپنیوں کو خصوصی تربیت دی جائے اور حکومت بُری ساکھ والی ٹورازم کمپنیوں کو فوری بند کرے۔
٭تمام ہائی ویز، پہاڑی راستوں اور تفریخی مقامات پر سفری سہولتوں کے مراکز قریبی فاصلوں پر قائم کیں جائیں ۔
٭سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔
٭ ہوٹلوں کے عملے اور دوسرے افراد کو اعلیٰ اخلاق کا پابند بنایا جائے ۔
٭ جگہ جگہ خاص طور پر پہاڑی مقامات پر کوڑے دان لگائے جائیں ۔
٭ ہر بڑے سٹاپ پر مسجد، ٹوائلٹ اور صاف پانی کا انتظام ہونا بہت ضروی ہے۔
٭ تفریخی مقامات پر اگر کسی ٹورسٹ کو کسی ایمرجنسی کی ضرورت محسوس ہو تو کم وقت میں اسکی مدد کی جا سکے۔
٭ درختوں کی کٹائی فوری طور پر روکی جائے کہ ملک سے سبزہ ختم ہو رہا ہے، وزارت سیاحت کے تمام بڑے افسران کو سیاحتی مراکز میں تعینات کیا جائے۔

اور میری تمام بائیکرز سے التماس ہے کہ جب وہ سیاحت کیلئے جائیں تو موٹر سائیکل کو مکمل فِٹ کروائیں، ٹائرز اچھی کوالٹی کے استعمال کریں، دوران سفر اچھا ہیلمٹ، اچھے شوز، گھٹنوں اور کہنیوں کیلئے حفاظتی جیکٹ ضرور استعمال کریں کہ زندگی اللہ کی امانت ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیے، برف باری کے دوران موٹر سائیکل کے مخصوص ٹائرز استعمال کئے جائیں۔ تمام حفاظتی تدابیر کو برّوئے کار لایا جائے تو سفر اور ایڈونچر کا حسین امتزاج پیدا ہوتا ہے۔

ہماری قوم ٹورازم کی اہمیت سے واقف ہی نہیں
ایکسپلوررز ڈین ٹورازم سروسز کے چیف ایگزیکٹو محمد جمیل رضا کو بطور ٹور آپر یٹر خدمات سر انجام دیتے ہوئے 26 سال سے زیادہ کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ انھوں نے اسی (80) ممالک کی سیا حت کی ہے، سیا حوں کو بھی 50 سے زائد ممالک سیاحت کی سیر کروا چکے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کے تمام سیاحتی مراکز کی سیا حت کر چکے ہیں۔

انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے اسّی ممالک کی سیر کرنے کے بعد میں ا س نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیا حت کیلئے پاکستان سے بہتر ملک کوئی اور نہیں ہوسکتا، سیا حت کے حوالے سے پاکستان میں اس قدر مقامات ہیں کہ جنکی تفصیل شائد ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں ہے، مگر پاکستان کی جانب غیر ملکی سیا حوں کا رجحان بہت کم ہے اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ’’ ٹورازم‘‘کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں۔

میں جب بیرون ملک جاتا ہوں اور وہاں کے باشندوں کو پاکستان کے اہم سیا حتی مقامات کی تصویر یں اور ویڈیو دکھاتا ہوں تو وہ ششدر رہ جاتے ہیں۔ پھر اُن میں سے کچھ لوگ پاکستان ضرور آتے ہیں، پاکستان میں ہزاروں سال پُرانی تہذبیوں کے آثار بھی موجود ہیں جن میں موئن جودڑو، ہڑپہ ، ٹیکسلا اور گندھارا شامل ہیں۔ ماضی سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کی تما م تر دلچسپی کا سامان ان کھنڈرات میں موجود ہے مگر ہم ابھی تک سیا حوں کی اصل توجہ اس جانب مبذول نہیں کروا سکے، مکلی کا قبر ستان ( حیدر آباد سندھ کے نزدیک ) چوکنڈی کا قبرستان اور بھمبھور جیسی جگہیں دنیا میں نہیں ہیں، مکلی کا قبرستان شائد دنیا کا سب سے قدیم اور بڑا قبرستان ہے، اس شہر خموشاں میں ہزار سال سے پُرانی قبریں بھی موجود ہیں۔

ہمارے ملک میں قدیم اور تاریخی عمارات کی بہتات بھی ہے، مغلیہ دور کی بنی ہوئی عمارتیں، قلعے اور مساجد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ہر عمارت سے ایک داستان جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے قدیم شہروں میں آج سینکڑوں سال پُرانا کلچر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، لوگوں کی بودو باش اور رہن سہن ابھی تک پُرانے دور کی یاد دلاتا ہے، پاکستان میں فلک بوس پہاڑی سلسلے موجود ہیں جہاں پورا سال برف جمی رہتی ہے۔ کاغان، ناران لولوسر جھیل، بابوسر ٹاپ، جھیل سیف الملوک، شنکیاری، کالام، بدین اور شگورہ کے علاوہ وادی سوات کا چپہ چپہ دیکھنے کے قابل ہے، گلگت، بلتستان جیسے خوبصورت علاقے کہیں بھی نہیں ہیں، وادی نیلم کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے، سکردوکی سیر کا اپنا ہی مزا ہے، جو لوگ وادی کیلاش اور چترال جاتے ہیں وہ سالوں تک ان علاقوں کے سحر میں کھوئے رہتے ہیں، آزاد کشمیر کے علاقے کِرن وغیرہ کی خوبصورتی انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ پاکستان کی تقریباً سات سو کلومیٹر سا حلی پٹی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

کوسٹل ہائی وے پر ڈرائیونگ کا اپنا ہی مزا ہے، کراچی سے شروع ہونیوالی یہ سڑک گوادر تک جاتی ہے، ایک طرف ریگستان کی اداسی دوسری طر ف سمندر کا سکوت اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر قیام کے دوران جسم میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایسا چھوٹا بڑا شہر نہیں کہ جہاں کی کوئی نہ کوئی خصوصیت موجود نہ ہو۔ ہر جگہ کی اپنی انفرادی اہمیت ہے مگر اس کے باوجود یہاں غیر ملکی سیاحوں کا رش نظر نہیں آتا جبکہ اس سیاحتی ملک میں تو غیر ملکی سیاحتی جمگٹھے نظرآنے چاہئیں، شائدہم لوگ سیا حت کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں، ٹورازم کے فروغ کیلئے حکومت کے علاوہ فنوں لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو اس جانب توجہ دینی پڑے گی۔ ایسا ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے کہ جِسے پڑھ کر خاص مقامات دیکھنے کا شوق پیدا ہو، ایسی کتابوں کا انگلش اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔ تمام چینلز کو بھی اس جانب بطور خاص توجہ دینی چاہیے۔

گنڈاسے اور قتل و غارت کی بجائے تاریخی اور سیاحتی مقامات سے جڑی کہانیوں پر مبنی فلمیں بنائی جائیں، یہاں یہ بات نہا یت اہم ہے کہ اگر صرف ملکی ٹورازم کو اہمیت دی جائے تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی دکان کا سودا اپنے اہل خانہ کے ہاتھ ہی فروخت کردیا جائے، امن و امان پر توجہ دینے کے ساتھ سفری سہولتوں کو عام کرنا بھی اشد ضروری ہے، خاص طور پر لمبے پہاڑی راستوں پر ٹوائلٹ کی سہولت، پٹرول پمپ جہاں مکینک بھی ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹورازم پولیس کا قیام بھی عمل میںلایا جانا ضروری ہے۔ اسکے علاوہ غیر ذمہ دار ’’ ٹورآ پر یٹرز‘‘ جو محض اپنے لالچ اورمفاد کی وجہ سے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں کے خلاف سخت قسم کی کاروائی ہونی چاہیے، ملکی سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ بننے والوںکیلئے’’ زیر ٹاکر نس‘‘ ہونی چاہیے۔

مقامی لوگوں کو فراخدلانہ روّیہ اپنانا پڑے گا
ندیم شیخ پاکستان کے کونے کونے اور ہر اہم و غیر اہم گوشے کی سیاحت کر چکے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ ملک کا ہر حصہ تاریخی، جغرافیائی، سیاحتی اور معلو ماتی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے لاہور سے ہی اپنی سیاحت کا آغاز کیا، مگر مجھے اس وقت خاصا دکھ پہنچا ، جب میں نے دیکھا کی یہاں کے لوگوں کو تاریخی عمارات یا قدیم ورثہ کی اہمیت کا احساس ہے اور نہ ہی کسی قسم کا لگاؤ، انار کلی بازار کے پاس ہی قطب الدین ایبک کا مزار ہے، ایک بھی آدمی مقبرے کے احاطے میں موجود نہ تھا۔ مقبرے کے باہر بُھنی ہو کلیجی بیچنے والے بیٹھے ہوئے تھے۔ رنگ محل کے نزدیک سلطان ایاز ( محمود غزنوی کا غلام جو محمود غزنوی کے بعد سلطان بنا) کا چھوٹا سا مقبرہ ہے ہر وقت یہاں خریداروں کی آمدو رفت رہتی ہے مگر میں نے مقبر ے کی جانب کسی کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

جب میں اندرون شہر گیا تو بہت ساری تاریخی عمارات موجود تھیں مگر سیاحوں کی توجہ سے بیگانہ، آ ہستہ آہستہ تاریخی ورثہ معدوم ہو رہا ہے۔ لاہور میں مَیں نے 8 سو نادر تصاویر اتاریں پھر یہاں سے چلتا ہوا ملتان پہنچا، راستے میں بے شمار تاریخی اور سیاحتی مقامات آئے، مَیں نے ان کی بھی تصاویر بنائیں مگر یہاں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملا کہ مقامی لوگ بھی تاریخی مقامات کی اہمیت سے نابلد تھے۔ ملتان سے نِکلا تو آس پاس کے تمام مقامات دیکھتا ہوا ٹھٹھہ پہنچ گیا، یہاں شاہ جہاں کی تعمیرکروائی تاریخی مسجد موجود ہے مگر یہاں بھی سیاحوں کا رش نہیں تھا، وہاںسے مکلی کے قبرستان گیا، اس تاریخی قبرستان میں لاکھوں قبریں موجود ہیں، کچھ قبروں کے متعلق بتایا گیا کہ ہزار سال سے بھی پُرانی ہیں، وہاں سے نِکلا توکینجھر جھیل گیا وہاں سے کراچی اور کراچی سے بذریعہ روڈ بلوچستان کے مختلف مقامات کی سیاحت کی، کوئٹہ، گوادر، پشین، خضدار کے علاوہ تمام علاقے دیکھے۔ وہاں سے آگے شمالی علاقہ جات پہنچ گیا۔ جب میں شمالی علاقہ جات کی سیاحت کرتا ہوا مری پہنچا تو میرے پاس دس ہزار سے زائد نادر تصاویر کا ذخیرہ موجود تھا۔ ہر تصویر کی کوئی نہ کوئی انفرادیت ضرور تھی، مری اور آس پاس کی گلیات میں مقامی سیاحوں کا رش تھا ، جبکہ باقی تمام علاقے مقامی سیاحوں سے بھی محروم تھے، اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ جس طرح مری اور نتھیا گلی وغیرہ کو ترقی دی گئی، دوسرے مقامات پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ مری جیسے ہل اسٹیشنز اور بھی بنائے جائیں اور انھیں مری جیسی ترقی بھی دی جائے۔ تاکہ مری اور نتھیا گلی کا رش کم ہو، ایوبیہ اور خانس پور کو ترقی دی جا سکتی ہے۔

ملک کے پہاڑی سلسلوں میں کم از کم 28 مقامات ایسے ہیں کہ جنہیں مری کی طرح ترقی دی جا سکتی ہے ۔ ندیم شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے پہاڑی سلِسلے اور شمالی علاقہ جات میں رہنے والے مقامی اب سیاح دوست نہیں رہے ان علاقوں میں اس قدر مہنگائی ہو چکی ہے کہ اب یہاں کی سیر عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اب مری اور گلیات بھی راہزنوں سے محفوظ نہیں ہیں، کاغان اور ناران سے بابو سر ٹاپ تک کا علاقہ کا فی حد تک محفوظ ہے، مگر بابو سر ٹاپ سے بذر یعہ چلاس، گلگت بلتستان کا سفر مکمل طور پر غیر محفوظ ہو چکا ہے، خصوصاً اب رات کا سفر ممکن نہیں ہے، ہنزہ وادی اور چترال کاسفر بھی پہلے جیسا محفوظ نہیں رہا، حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ندیم شیخ نے اپنے تجربات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیاحت بہت سستی ہے، یہاں پیدا ہونے والا پھل مثلاً کیلے، کھجوریں، آم اور امردو بھی سستے ہوتے ہیں، مقامی دستکاری اور اچار وغیرہ بھی سستا ہے مگر لاہور سے آگے مہنگائی زور پکڑتی جاتی ہے۔ کلر کہار، کھیوڑہ مائینز، قلعہ روہتاس جہلم ، پوٹھوہار کا علاقہ اور اس کے بعد شمالی علاقہ جات میںاب سیاحت بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ سوات میں وافر مقدار میں پیدا ہونے والا پھل وہاں بھی مہنگا ہے، لگتا ہے کہ ان علاقوں کے مقامی اپنے علاقوں کی سیاحت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔

فروغ سیاحت میں عوام کی شمولیت بنیادی شرط ہے
کسی بھی ملک میں فروغ سیاحت کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ عوام کو ’’ٹورازم‘‘ کی اہمیت کا حساس بھی ہو اور ہر فرد اس میں کسی طریقے سے شامل بھی ہو۔ عوام کا رویہ بھی غیر ملکیوں کیلئے بہت اچھا ہونا چاہیے بلکہ دوستانہ اور ہمدرد انہ ہونا چاہیے، اُن سے اشیاء کے دام زیادہ نہیں ’’ ہتھیانے ‘‘ چاہئیں، اخلاق اچھا ہونا چاہیے، ہرفرد غیر ملکیوں کو تحفظ اور اپنائیت کا احساس دے۔ اسکے علاوہ اب میڈیا بھی شخصیات کی بجائے نظریات کی صحافت شروع کرے، ہر چینل کم از کم ایک گھنٹے کا فروغ سیاحت پر دلچسپ پروگرام شروع کرے۔ یہ پروگرام ’’لیکچر‘‘ نہ ہوں بلکہ اس انداز میں پیش کئے جائیں کہ سیاحوں میں خاص دلچسپی پید اہو، ہر عمارت اور مقام سے لاتعداد کہانیاں جڑی ہوئی ہیں، انھیں پیش کیا جائے۔ ہمارے تمام ادیب اور قلمکار بھی اپنے افسانوں، کہانیوں، ناولوں اور دوسری تحریروں میں دلچسپ انداز میں سیا حتی، پہاڑی اور قدیم عمارات اور اہم مقامات کا ذکر ضرور کریں اور عوام میں سیاحت دوستی کے جذبات پیدا کریں۔

غیر ملکی زبانیں سیکھنے سے سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا
فیئر انٹرپر ائزر کے چیف ایگز یکٹو رانا محمدیار خان نے اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستا ن کی جانب غیر ملکی سیاحوں کا رجحان خاصا کم ہے اسکی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کا رجحان انگریزی کے سوا دوسری غیرملکی زبانیں سیکھنے کی جانب نہیں ہے، تجارت اور سیاحت کے فروغ کیلئے غیرملکی زبانیںسیکھنا بہت ضروری ہے اس سے اجنبیت کا احساس ختم ہوتا ہے بلکہ اپنے پن کا احساس پیدا ہوتا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتے ہیں۔ زبانیں سیکھنے کے علاوہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے جو پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اسکا توڑ کرنا بھی ضروری ہے، سیاحتی علاقوں میں نئی سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ پُرانی سڑکوں کی مرمت بھی ہونی چاہیے۔ ان سڑکوں پر میڈیکل اور ضروریات زندگی کی سہولت بھی ہونی چاہیے اور پولیس چوکیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سیا حت کو فروغ دینے کیلئے ایک دفعہ کی سرمایہ کاری اور عوام کے دوستانہ جذبات ہمیشہ کیلئے منافع دیتے ہیں۔

فروغ سیاحت میں ملک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے
وزیراعظم عمران خان سیاحت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، انھوں نے سیاحت کے فروغ کیلئے اقدامات بھی کئے ہیں، اگرچہ موجودہ حکومت نے 75 ممالک کیلئے ویزا اور سفری سہولتوں کوآسان بنانے کا اعلان کیا ہے، فروغ سیاحت کی ذمہ داری کسی بھی ایک محکمے کو نہیں سونپی جا سکتی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے تمام محکموں، تمام اداروں اور ساری عوام کی شمولیت انتہائی ضروری ہوتی ہے، ہر فرد میں اچھا ’’میزبان ‘‘ بننے کی خوبی پیدا ہونی چاہیے، پاکستان کو ایسا ملک بنانا پڑے گا کہ دنیا کے 6 ارب انسانوں کی آ بادی کو اس ملک میں دلچسپی محسوس ہو ، یہاں انھیں اپنی دلچسپی کا ہر قسم کا سامان نظر آئے۔ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ بیرونی دنیا کے شہریوں میں پاکستان کے متعلق تجسس پیدا ہو، یہاں گھٹن اور عدم تحفظ کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ محکمہ خارجہ، داخلہ، دفاع ، ثقافت ، تعلیم ، سیاحت ، اطلاعات ، جنگلات، آثار ِقدیمہ، صنعت وتجارت ، ہوَا بازی، ریلوے، اور باقی تمام ریاستی اداروںکو فروغ سیاحت کیلئے مربوط اور مفید کوششیں کرنی ہونگی۔ بھارت اور پا کستان دشمنوں نے پا کستان کا جو امیج بنادیا ہے اس کا اثر زائل کرنے کیلئے، ہر پاکستانی کو ’’ سیاحتی مجاہد‘‘ بننا پڑے گا۔ عوام میں سیاحت کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے تو سی پیک اور گوادر سمیت ایسے تمام منصوبے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کریں گے۔ مگر یہ بات بھی اہم ہے، غلط شہرت رکھنے والے غیر ذمہ دار’’ ٹورآپریٹرز اور گائیڈز‘‘ پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ گائیڈز کو بھی جدید تربیت دینے کی ضرورت ہے، بہت سے اہم مقامات، عمارات اور آثارِقدیمہ کا کتابوںمیں ذکر نہیں ملتا، اس جانب بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان سیاحتی خزانوں سے بھی مالامال ہے!!!

The post پاکستان سیاحوں کی توجہ سے محروم کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>