یہ بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے دَور حکومت کا ذکر ہے، میں کسی کام کے سلسلہ میں اسلام آباد میں تھا کہ میرے ایک واقف کار ایک صاحب کو لے کر آئے۔
رسمی سلام دُعا کے بعد انھوں نے ان صاحب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ ’’ ویسے تو یہ ایک سرکاری محکمے میں بطور کلرک اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں مگر یہ بڑی ’’ پہنچی ‘‘ ہوئی چیز ہیں یہ ’’ ایم این اے ہوسٹلز‘‘ میں ہوتے ہیں یہ کافی ایم این ایز کیلئے بطور ٹاؤٹ کام کرتے ہیں اگر کوئی بھی کام ہو تو آپ انھیں بتائیں یہ ہر کام کروا دیں گے، کام اور پیسوں کی گارنٹی ہوگی‘‘ ، مجھے یہ بات خاصی دلچسپ لگی ، پوچھا!’’ آپ کیا کام کرواسکتے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ ہر کام جو بھی آپ چاہیں گے ‘‘ پھر خود ہی تفصیل گنوانا شروع کی، اسٹیل مِل کا سکریپ ، تارکول، ٹمبر، اسلحہ لائسنس ،کاروں کی ترجیحی بنیادوں پر ڈلیوری، سیمنٹ، نمک، گھی اور دوسری مصنوعات کی ایجنسیاں، چینی کا کوٹہ ، کیمیکلز کا کوٹہ ، سرکاری نوکریاں، کنکشن، وغیرہ بھی۔۔۔
مجھے حیرت میں دیکھ کر کہنے لگے’’ دراصل ہر ایم این اے کو حکومت نے مخصوص کوٹہ دے رکھا ہے کہ وہ اپنے حامیوں ، ووٹرز اور سپوٹرز کے کام کروا سکتے ہیں۔‘‘ بعد میں جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے متعلق آج بھی سوچتا ہوں تو ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، ملک کے تمام وسائل کی لوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ مرکز میں بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی پنجاب میں میاں نواز شریف کی، دونوں خاندانوں کے خلاف نیب اور عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں۔
آج کل میاں نواز شریف کے خلاف ایک کیس محکمہ انٹی کرپشن میں بھی چل رہا ہے کہ انھوں نے پاکپتن شریف میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے 8 ہزار کنال زمین بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے گدی نشین کو الاٹ کردی۔مرکز میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی، وزرات ِ پیداوار ایم کیوایم کے وزیر کے پاس تھی، سرکاری اداروں کی مصنوعات نجی اداروں کی مصنوعات سے سَستی تھیں مگر ہر فرد کی سر کاری اداروں میں تیار ہونے والی مصنوعات تک رسائی نہ تھی۔ اس مقصد کیلئے پرمٹوں، کوٹے اورا یجنسیاں الاٹ کروانے کی ضرورت تھی۔
جس ایم این اے کی متعلقہ وزیر کے ساتھ ’’ پکی دوستی ‘‘ تھی اس کا کام ایم این ایز کیلئے مقررہ کردہ کوٹے سے ھٹ کر بھی ہو جاتا تھا، ایم این ایز کیلئے مقررہ کردہ کوٹہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ کُھلم کُھلا ایم این ایز کو نوازا گیا تھا، اور یہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کا ’’ کُھلا کاروبار ‘‘ اور ذریعہ آمدن تھا ۔ وہ تنخواہ کے علاوہ اس ’’ کام ‘‘ سے بھی رقم کماتے تھے، جب سیاست ، ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہوئی تو سیاست کا وطیرہ ہی بدل گیا ، یہ نیا’’کاروبار‘‘ بے پناہ منافع بخش ثابت ہوا ۔
اس زمانے میں پاک سوزوکی مہران(اے سی) کی قیمت 135000) ( ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے تھی ، پینتیس ہزار (35000) ہزار روپے سے بُکنگ ہوتی تھی۔ ڈلیوری تقریباً ایک سال سے دوسال کے عرصہ کے درمیان ہوتی تھی، لیکن اگر ایم این اے کی ’’ سفارش ‘‘ ہوتی تو متعلقہ وزیر ’’ ترجیحی بنیادوں ‘‘ پر گاڑی فوراً ’’ڈلیور‘‘ کرنے کاحکم جاری کرتا تھا۔
ایم این ایز کے چھوڑے ہوئے ٹاؤٹ’’ ترجیحاً ‘‘ ایک گاڑی کے سات ہزار روپے لیتے تھے۔ ہر حکومتی ایم این اے کو پندرہ گاڑیاں ماہانہ کاکوٹہ مِلا ہوا تھا ۔ ایم این اے کو ایک گاڑی کے پانچ ہزار روپے ملتے تھے، اور دو ہزار ٹاؤٹ کی جیب میں جاتے تھے۔ یہ گاڑی بُک کروانے والے کو پندرہ بیس دن میں گاڑی مِل جاتی تھی ، گاڑی کے کاغذات پر ’’ نان ٹراسفر ایبل ‘‘ کی مہر لگی ہوتی تھی ۔
مگر یہ پابندی صرف ایک سال کیلئے ہوتی تھی ، ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بُک ہو سکتی تھی۔ جو لوگ یہ ’’ کاروبار ‘‘ کر رہے تھے وہ اپنے تمام رشتہ داروں اور واقفوں کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں اکٹھی کرتے اور گاڑیوں کی ترجیحی بنیادوں پر بُکنگ کروادیتے، جب انھیں گاڑی کی وصولی کا لیٹر مِلتا تو زیادہ تر افراد یہ لیٹر ہی فروخت کردیتے انھیں اس کام میں آٹھ دس ہزار کا نفع ہو جاتا۔ باقی ماندہ رقم یہ ترجیحی لیٹر خریدنے والا ادا کرتا ۔ اُسے بھی ’’ نان ٹراسفر ایبل ‘‘ ہونے کی وجہ سے گاڑی حاصل کرتے ہوئے پانچ دس ہزار کا فائدہ ہو جاتا، اُس زمانے میں پاک سوزوکی کی گاڑیاں’’ بلیک ‘‘ میں فروخت ہوتی تھیںکہ سرمایہ کار اپنی رقم لگا کر گاڑی کی دستیابی تک لمبا انتظار کرتے تھے، ترجیحی بنیادوں پر گاڑی حاصل کرنے کے کاروبار کو بہت عروج حاصل ہوا ، ایم این ایز نے بھی خاص فائدہ اٹھایا اورٹاؤٹوں نے رقم کمائی ۔ مگر عام شہر یوں کو اپنی گاڑی حاصل کرنے کیلئے طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔
اُس زمانے میں سرکاری گھی کی قیمت عام گھی سے کافی کم تھی، مگر ہول سیل میں سرکاری گھی اُسے ملتا تھا کہ جس کے پاس سرکاری گھی کی ’’ ایجنسی‘‘ ہوتی، گھی کی یہ ایجنسی حاصل کرنے کی ’’ قیمت ‘‘ ٹاؤٹ پچیس ہزار روپے وصول کرتے تھے۔ بقول ٹاؤٹوں کے بیس ہزار روپے ایم این اے لیتا ہے، سیمنٹ کی ایجنسی کا ریٹ پندرہ ہزار روپے مقرر تھا۔ نمک کی ایجنسی کا ریٹ بھی پندرہ ہزار روپے مقرر تھا۔ بے شمار افراد نے ٹاؤٹوں کو مطلوبہ رقم دیکر سیمنٹ اور نمک وغیرہ کی ایجنسیاں اپنے نام پر الاٹ کروائی تھیں مگر انھیں اس کام میں زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
چینی کی قیمت 16 روپے کلو تھی، مگر جس سر مایہ کار کو چینی کا کوٹہ مِِل جاتا اُسے پچاس پیسے کم قیمت پر چینی دستیاب ہو جاتی تھی مگر یہ کوٹہ پانچ یا دس ہزار ٹن سے کم نہیں ملتا تھا جو لوگ یہ کوٹہ حاصل کرتے انھیں لاکھوں کا فائدہ ہوتا۔ اس دور میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بے شمار ٹاؤٹ پاکستان اسٹیل مِل کے سکریپ کے گا ہک ڈھونڈتے پھر تے تھے، وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ اسٹیل مِل کا سکریپ کھلی مارکیٹ کی نسبت بہت سستا مِلے گا۔
اس ضمن میں وہ علی الاعلان وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے انتہا ئی قریبی رشتوں کا نام لیتے تھے کہ یہ کام ان کے ایماء پر ہوگا اور رقم بھی ان کے اکاؤنٹ میں ہی جائے گی، یہ ٹاؤٹ سرمایہ کاروں کو ’’ چوہدری ‘‘ نامی شخص کے ساتھ ملاتے اور بتاتے کہ یہ آصف علی زرداری کا فرنٹ مین ہے۔ سینکڑوں افراد نے پاکستان اسیٹل مِل کا یہ سکریپ انتہائی ارزاں قیمتوں پر خریدا اور مہنگے داموں فروخت کیا اور پاکستان اسیٹل مِل کو اس حال میں پہنچادیا جو آج نظر آتا ہے، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر پیداوار کے دستخط سے یہ کوٹہ مِلتا تھا ۔ تارکول بھی مارکیٹ ریٹ سے ارزاں قیمتوں پر دستیاب تھا۔ ٹاؤٹ تارکول کے تاجروں کو ڈھونڈتے انھیں سرکاری آئل ریفائینری کے تارکول کا پرمٹ لیکر دیتے جو تاجروں کو خا صا سستا پڑتا، مگر حکومتی خزانے کو نقصان بھی خاصا ہوتا۔
سرکاری ملازمتوں کے ریٹ بھی مقرر تھے۔ تبادلوں کے ریٹ بھی طے شدہ تھے، تمام ملکی وسائل اور اثاثے برائے فروخت تھے، عوامی نمائندگی کے دعویداروں نے جیسے پورا ملک خرید لیا تھا۔ کوئی قانون تھا ہی نہیں، سارا دھندا حکومتی ایم این ایز کو نوازنے کیلئے تھا، تاکہ وہ حکومت کے ساتھ جڑے رہیں۔
اچنبھے کی بات یہ ہے کہ یہ سب بینظیر بھٹو جیسی با اُصول اور عالمی سطح کی سیاستدان کے دور حکومت میں ہو رہا تھا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور وہ اپنے حامی ایم پی ایز کے ساتھ حامی ایم این ایز کو بھی مختلف طریقوں سے نواز رہے تھے، اُس دور کے میاں نوازشریف کے ایک قریبی ساتھی آج بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب لاہور ’’ جاتی امراء‘‘ کی جانب وُسعت اختیار کر رہا تھا تو نجی میٹنگوں میں ہمیں بتا دیا جاتا تھا کہ کونسے علاقوں میں آئندہ ’’ترقیاتی کام ‘‘ ہونے ہیں چنانچہ ہم ان علاقوں میں پہلے ہی زمینیں خرید لیتے تھے، ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد یہ پلاٹ مہنگےداموں فروخت ہوتے۔
اُسی دور میں’’ لینڈ مافیا ‘‘ پیدا ہوا چنانچہ جب میاں نواز شریف کو مرکزی حکومت مِلی تو یہ ’’ پراپرٹی ڈیلروں‘‘کی حکومت بھی کہلاتی۔ ایک بڑے میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی بھی اپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ اب کونسے غیرآباد علاقوں میں ترقیاتی کام ہونے والے ہیں جہاں میاں نواز شریف نے اپنا ووٹ بنک اور حکومت بنانے کیلئے لاتعداد افرادکو ذاتی فائدے پہنچائے وہاں انھوں نے لاتعدا صحافیوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کیلئے کئی طریقوں سے نوازا۔
ایک دفعہ پارٹی میٹنگ میں کسی ’’وفادار‘‘ نے میاں نوازشریف کی توجہ اس جانب دلوائی کہ ملتان کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ والی سیریز ’’ ایم ا ین ایس ‘‘(MNS) شروع ہونے والی ہے جو کہ میاں نواز شریف کے نام کا مخف ہے چنانچہ میاںنواز شریف نے (MNS) کی سیریز والی کئی گاڑیاں خریدیں اور اپنے صحافی دوستوں کو ’’عطیہ ‘‘ کیںِ۔ ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا کہ میرا نام نواز شریف ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے ’’ نوازنے‘‘ کیلئے ہی پیدا کیا ہے چنانچہ انھوں نے اپنے کئی وفاداروں کو ریاستی اور حکومتی وسائل سے بھی نوازا اور نجی وسائل سے بھی۔
جب سیاست تجارت میں تبدیل ہوگی تو شہروں کی روایتی سیاست بھی تبدیل ہوگئی پیسہ لگانے والے اور کمانے والے اس میدان میں آگئے۔ مفادات، ترجیحات اور الزامات کی سیاست شروع ہوگئی دونوں بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن) کو اپنے حمایتوں کی مالی منفعت کا پروگرام شرو ع کرنا پڑا، ایم این ایز اور ایم پی ایز تو اب ارب پتی اور کھرب پتی ہو گئے مگر عوام پِس کر رہ گئی ۔ جب ملک میں قومی وسائل اور اثاثوں کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی تو اسلام آباد میں رہائش پذیر کئی درد مند اور محب وطن شہریوں نے مجھے ذاتی طور پر ان حالات سے آگاہ بھی کیا، متعلقہ افراد اور ٹاؤٹوں کی نشاندہی بھی کی کہ کم از کم میڈیا میں ہی اس سنگین صورتحال کو پیش کیا جا سکے آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ اُس زمانے میں کسی بھی عوامی نمائندے یا سرکاری ملازم کو کسی احتساب کا خوف ہی نہیں تھا۔
صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آزاد کشمیر کے ایک بڑے سیاسی خاندان کے ایک بیٹے نے اسلام آباد میں ایک نجی تجارتی کمپنی قائم کی ہوئی تھی جہاں آزادکشمیر کے درختوں کے سودے ہوتے تھے۔ درجہ اول کی لکڑی، درجہ دوم کی قیمت میں فروخت کی جاتی۔ درجہ اول اور درجہ دوم کی لکڑی کی قیمت میں جو فرق نِکلتا وہ خریدار اور ان سیاسی افراد میں آدھا آدھا تقسیم ہوتا، ٹمبر مافیا نے اس طریقہ سے اربوں روپے کمائے، جنگ ِ کشمیر کے حوالے سے اس خاندان کے سر براہ کی اچھی خاصی ساکھ تھی جو بہر حال اس قسم کے ’’ کاروبار ‘‘ کی وجہ سے متاثرہوئی۔ ان کے بزنس منیجر کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں ہر کام کروا سکتے ہیں۔
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ضیاء الحق کے بعد مفاداتی اور تجارتی سیاسی کا کلچر پیدا ہوا ،’’ عوامی نمائندوں ‘‘ کو جہاں سے زیادہ مفاد حاصل ہوتا وہ فوراً اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہو جاتے، ہارس ٹریڈنگ کا جو کلچر پیدا ہوا وہ کسی نہ کسی طریقے سے قائم و دائم ہے، موجودہ دور میں بھی چھا نگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسز کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر بہت کم افراد کے علِم میں ہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپر مال لاہور میں قائم ’’ انٹر نیشنل ہوٹل ‘‘ ( جواب بند ہوچکا ہے) میں بھی خاص مہمانوں کے طور پر ٹھہرایا جاتا تھا۔اس ہوٹل کے جنرل منیجر محمد اسلم ڈوگر مرحوم کا مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ذاتی تعلق تھا وہ یار باش قسم کے مرنجان مرنج انسان تھے۔
چنانچہ وہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز کو اپنی خاص ’’حفاظتی تحویل ‘‘ میں رکھتے، انھیں دل لگانے کا ہر سامان مہیا کرتے ۔ اس ہوٹل کا سارا عملہ مہمان ایم این ایز کی ’’ دل جوئی ‘‘ میں لگا رہتا، جب یہ ہوٹل بند ہوا تو محمد اسلم ڈوگر نے لبرٹی مارکیٹ لاہور کے نزدیک ’’ بیسٹ ویسٹرن‘‘ ہوٹل میں بطور جنرل منیجر ملازمت اختیار کر لی ، ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کو اپنے ایم این ایز کیلئے ’’ وقتی رہائش گاہ ‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسلم ڈوگر مرحوم نے ان خدمات کو بخوشی سر انجام دیا اگر چہ اسلم ڈوگر کافی عرصہ قبل وفات پا گئے تھے مگر ان ہوٹلوں سے تعلق رکھنے والا عملہ بقید حیات ہے اور ان واقعات کا عینی شاید بھی ہے ۔
ملک کے باقی حصوں اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ٹاؤٹ بھی بقید حیات ہیں ، سر کاری وسائل اور اثاثوں سے مستفید ہونے والے ہزاروں افراد بھی اسی ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک مرتبہ سارا سرکاری ریکارڈ نکالا اور کھنگالا جائے تو سب کچھ سامنے آجائے گا، کم از کم 1988 ء سے تمام اہم وزارتوں کا ریکارڈ نکالا جائے اور اس کی چھان بین کی جائے۔ سیاستدان تو ’’ محض سہولت کار ‘‘ تھے، اس سہولت کاری کے عوض انھوں نے اتنا معاوضہ وصول نہیں کیا، جتنا دوسرے افراد نے فائدہ اٹھایا۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُس دور میں سیاسی افراد کے کوٹہ سسِٹم کے تحت نااہل افراد کو سرکاری نوکریاں دی گئیں، سفارشی افراد عموماً مال بنانے والی نوکریاں ڈھونڈ تے تھے چنانچہ 1988 ء سے لیکر 1999 ء تک ہزاروں نالائق اور نااہل افراد کو پُر کشش سیٹوں پر تعینات کردیا گیا۔ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایڈ یشنل سیکرٹری نصرت علی مرحوم اس صورتحال اور معاملات پر نہایت دُکھ کا اظہار کرتے تھے، وہ ایک حساس قلمکار اور ادیب بھی تھے۔ جی ۔او ۔آر شادمان کالونی میں ان کی رہائش گاہ پر ہر ہفتہ ادبی محفل بھی ہوتی تھی جہاں نامور ادیب اور شاعر باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔
ان کی کتا ب ’’ خواب اور پتنگ ‘‘ ان کے خیالات کی عکاسی تھی، وہ کہتے تھے کہ ’’ہر ملازمت کیلئے مخصوص قابلیت اور مزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ہزاروں سفارشی افراد کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے، نائب تحصیلدار، پٹواری ، موٹر وہیکل ایگزامزِ، انکم ٹیکس انسپکٹر ، کسٹم انسپکٹر ، ایکسائزانسپکٹر اور تمام محکموں کی پُر کشش سیٹوں پر نااہل اور لالچی افراد کو بھرتی کیا جا رہاہے اور کیا گیا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور ایل ڈی اے سمیت تما م شہروں کے ترقیاتی اداروں میں بھی نااہل افراد کو ملازمتوں پر کھپایا گیا ہے۔
پاکستان اسیٹل مِل میں سینکڑوں اضافی افراد کو بھرتی کیا گیا ، انھوں نے کہاکہ صرف پنجاب میں کم از کم ابھی تک ایک لاکھ سے زائد اضافی افراد کو بھرتی کیا جا چکا ہے اس کا ملکی خزانے پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے اور ان نااہل سفارشی اور سازشی افراد کا ریاست پر بھی غلط اثر پڑ رہا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قابل افراد کے راستے محدود ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ وقت دُور نہیں جب سرکاری ملازمتوں پر بھرتی کیلئے پابندی لگانی پڑے گی پھر کم از کم دس بیس سال تک نئی ملازمتیں نہیں نِکل سکیں گی۔
ہو سکتا ہے کہ ہر محکمے میں ڈاؤن سائز نگ کرنی پڑے۔‘‘ بعد میں ان کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی آج تک کسی بھی حکومت اور کسی بھی سیاستدان کو اس غیر ذمہ دارانہ فعل کیلئے نہ سزا دی گئی اور نہ ہی سفارشیوں کو نکالا گیا۔ ہر محکمے کا بیڑا غرق ہوگیا، اہل، ایماندار اور قابل افراد میں مایوسی اور بددلی کی لہر پیدا ہوگئی۔ بہترین ٹیلنٹ بیرونِ ملک چلا گیا، مگر آج تک کسی نے اس بات کی سنگینی کو محسوس ہی نہیں کیا۔ اعلیٰ عدالتوں اور نیب کے نزدیک بھی یہ کوئی خاص گناہ نہیں ٹھہرا، مگر قوم کس مقام پر پہنچ چکی ہے سب کے سامنے ہے۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں پرمٹوں، پلاٹوں اور تر غیبات کی سیاست شروع ہوئی، جب پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہر علاقہ میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا گیا، اسکا ہیڈ’’ چیئر مین ‘‘ کہلاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا یہ چیئر مین بڑا مضبوط ہوتا تھا اور اس کی بڑی اہمیت ہوتی تھی ان چیئرمینوں کو بھی ہر طریقے سے نواز گیا اور ان کی سفارشات پر دوسرے کارکنوں پر بھی نواز شات کی گئیں پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو اسلام آباد میں پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ راشن ڈپوؤں کے پرمٹ دئیے گئے۔ اُس زمانے میں سستا راشن مِلتا تھا۔ راشن ڈپو کے مالک کو اس کام میں بڑا فائدہ حاصل ہوتا تھا ، چنانچہ جوشیلوں اور جیالوں کو راشن ڈپو کا پرمٹ دیکر بھی نواز جاتا تھا۔ تھانوں میں پیپلزپارٹی کے چیئر مینوں کی بڑی سُنی جاتی تھی۔
میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے محلوں میں پر ائمری مسلم لیگ کے دفاتر قائم کئے، پرائمری مسلم لیگ کا دفتر قائم کرنے والوں کو بھی بے شمار فوائد سے نوازا گیا۔ ایم کیو ایم نے ہر علاقہ میں سیکٹر قائم کئے، سیکٹر انچارج کی اہمیت ایم پی اے سے بھی زیادہ ہوتی تھی پورے شہر میں ان سیکٹر انچارجوں کا غلبہ قائم تھا۔ ان کی حکم عدولی کرنے والے کو بِلاتردد موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا، میرے ایک واقف کار اسحاق آباد کراچی میں رہتے تھے اُن کا نام محمد نواب تھا، انھوں نے کراچی میں پیپلزپارٹی کا دفتر کھول لیا ۔ ایم کیوایم کے دہشت گردوں نے انھیں اغواء کرکے انھیں اس طرح قتل کیا کہ ڈرل مشین سے انکے پورے جسم میں سوراخ کئے گئے، نا معلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ اس قسم کے ہزاروں قتل ہوئے اور پیپلز پارٹی کے اپنے دور حکومت میں ہوئے۔
آج تک کسی کو اس قتل کا سُراغ نہیں مِل سکا۔ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزراء نے بھی کروڑوں روپے کمائے۔ بہت سارے اس وقت ملک سے باہر ہیں مگر ابھی تک ان ’’ لٹیروں ‘ ‘ کی باری نہیں آئی نہ ہی یہ نیب کے ریڈار پر آئے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان کا شمار بھی ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہر دورِ حکومت میں مالی منفعت حاصل کی اور بھی بے شمار سیاسی افراد ابھی تک اپنی کمائی ہوئی دولت سے ’’ انجوائے‘‘ کر رہے ہیں، مگر عوام کا کیا حال ہے،عوام کو اس حال میں پہنچانے والے جیلوں میں بھی فائیوسٹار ہوٹلوں کی سہولت مانگ رہے ہیں۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ جیلوں میں ڈالنا مسئلے کا حل ہی نہیں ہے عوام کو اس کا فائدہ نہیں ہے، عوام لُوٹی ہوئی دولت کی واپسی چاہتی ہے، انھیں سیاسی لیڈروں کے جیل میں ’’آرام‘‘ کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ سارے لیڈر تازہ دم ہوکر دوبارہ ملکی خزانے اور وسائل پر حملہ آور ہوجائیں گے جیلیں سستا نے کیلئے نہیں ہوتیں ، جرم کی سزا کیلئے ہوتی ہیں ۔
سرکاری وسائل کی لُوٹ سیل کیلئے گاہک ڈھونڈنے والے تمام ٹاؤٹوں کو بھی گرفتار کیا جائے اور انھیں گرفتار کرنا مشکل نہیں ہے ہزاروں افراد ان سے واقف ہیں۔ ان ٹاؤٹوں کی بہت بڑی تعداد ایم این ہوسٹلزاور فیڈرل لاجز میں مقیم رہی ہے، سیاستدانوں کیلئے زمینوں پر قبضے کرنے اور غیر قانونی کام کرنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا جائے۔
سیاسی پارٹیاں عوام کے مفادات ملکی وسائل اور قومی خزانے کی تحفظ کیلئے قائم کی جاتی ہیں ، ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹر عوام کے نمائندے کہلاتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے قائم جاتے ہیں۔ سیاسی تسلسل کی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ عوام کو بہتر سے بہتر زندگی فراہم کی جائے۔ دانشور اور تعلیم یافتہ افراد عوام کے مفادات کی دیکھ بھال کریں ۔ مگر یہاں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے ، کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار جمہوری نظام کی کامیابی پر ہی استوار ہوتا ہے ، عوام کے نمائندے امانت دار ہوتے ہیں وہ غریب اور شریف لوگوں کے جان ومال کو تحفظ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، عوام کے حقوق کی پاسبانی کرتے ہیں لیکن مقصد صرف الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا ہو تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو پچھلے ادوار میں ہوا۔
جب سرکاری وسائل کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی تو راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں لاکھوں افراد اپنی جمع پونجی بھی گنوا بیٹھے۔ ’’سرکار‘‘ سے کام کروانے کا جھانسہ دے کر ہزاروں فراڈئیے لوگوں کی رقم لیکر رفو چکر ہوگئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاوہ بھی کئی شہروں میں ٹاؤٹوں کے گروہ پھیلے ہوئے تھے، سرکاری نوکریوں کے خواہشمند ہزاروں نوجوان لٹ گئے، بیرونِ ممالک جانے کے خواہشمند لا تعداد افراد سب کچھ گنوا بیٹھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے کام نہیں ہوئے انھیں رقم واپس نہیں مِلی۔ ٹاؤٹ کہتے تھے کہ منسٹر صاحب ، ایم این ایز یا ایم پی اے کو ہم نے پیسے دیدئیے ہیں اب وہی واپس نہیں کرتے۔ ان سب باتوں کی انکوائری تو ہونی چاہیے ۔
ماضی میں کلاشنکوف کلچر بھی پیدا ہوا، سیاسی افراد اپنے ساتھ گن برداروں کی فوج رکھتے ، لوگوں کی جائیدادیں اونے پونے خریدتے، ان لوگوں کو حکومت کی مکمل سر پر ستی حاصل ہوتی ،اب شائد وقت بدل رہا ہے مگر اُن تمام معاملات کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے والوں سے رقم واپس لینی چاہیے۔ غریب عوام کو کچھ تو ریلیف اور سکون مِلے !!!
ٹاؤٹ بادشاہ
بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے پہلے ادَوار میں اسلام آباد کے ایک معمولی گریڈ 9 کے سرکاری ملازم کی شان و شوکت اور رُعب دبد بے کی مثال اس بات سے دی جا سکتی ہے کہ اس کے اپنے محکمے کے 18 ویں اور 19 ویں گریڈ کے آفیسر اُس سے انتہائی مودب طریقے سے بات کرتے تھے۔
کسی بات پر اُس سے باز پُرس نہیں کرتے تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص بیک وقت 4 اہم ایم این ایز کا ٹاؤٹ تھا۔ اس نے قیمتی گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ ہر محفل میں ’’ وی آئی پی ‘‘ ہوتا تھا۔ لاہور آتا تو شاندار ہوٹلوں میں ٹھہرتا۔ صوبائی وزراء کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات تھے، پولیس افسر ان اس کے پاس حاضری دینے آتے تھے، اسک ا لباس فاخرہ اور شاندار انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اسکے مخصوص جُملے ’’ میں نے پورا ملک ٹھیکے پر لے لیا ہے‘ ‘ ۔’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ ‘‘ بڑے مشہور تھے۔ اُس زمانے میں اس طرح کے ہزاروں کردار موجود تھے ، اب بھی کچھ’’ سابقہ راہنما‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ مجھے کیوں نکالا؟‘‘ ۔’’مجھے جیل میں کیوں ڈالا؟‘‘۔ ’’ میرا ماضی کیوں کھنگالا؟‘‘ اگر ماضی کھنگالنے کی بات آئی تو شائد سینکڑ وں افراد کسی کو شکل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔
وزیر کے نام پر لُوٹ مار
کافی عرصہ گذرا بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کے ایک سابق وفاقی وزیر سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ نے تو اپنی وزارت کے دور میں بہت مال بنایاتھا۔ چونک کرکہنے لگے ’’ میں نے؟‘‘ میرے پاس تو اللہ کا دیاہوا بہت کچھ ہے میری شوز انڈسٹری ہی کافی ہے دوسرے کاروبار بھی ہیں ، جائیداد ہے ، میں دوسرے طریقوں سے کیوں مال بناؤں گا؟‘‘ انھیں بتایا کہ ’’ آپکی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز آپ کا نام لیکر لوگوں سے مال بناتے رہے ہیں کہ آپ نے ہر چیز کا ’’ریٹ ‘‘ مقرر کررکھا ہے ،’’ تاسف سے کہنے لگے۔‘‘
دوران اسمبلی اجلاس ا یم این ایز اپنے واقف کاروں اور سپورٹرز کے کاموں کی سفارشات کروانے کیلئے آتے تھے اور پارٹی پالیسی کے مطابق ہم لوگ اپنے ایم این ایز کی سفارش پر ڈ ائرکٹ آرڈر بھی جاری کردیتے تھے، ہمارا سٹاف اس کام کی تکمیل کی رپورٹ بھی لیتا تھا مگر مجھے عِلم نہیں تھا کہ ہماری پارٹی کے سیاسی افراد کام کروانے کے عوض رقم بھی لیتے تھے ، اگر یہ سچ ہے تو مجھے خاصا دُکھ پہنچا ہے۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے پارٹی راہنماؤں کے ساتھ پارٹی کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ وزراء اپنا حصہ وصول کرتے ہوں مگر میں نے کبھی کسی کام کا کوئی پیسہ نہیں لیا۔
موجودہ حکومت کا بڑا امتحان
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو مفتوح ریاست سمجھ کر سب کچھ لُوٹ کر آپس میں بانٹ لیا ۔ ماضی کی تمام سیاسی حکومتوں کا کلچر یہی رہا ہے کہ ابن الوقت ہوشیار قسم کے بندوں کو ترغیبات اور مفادات کا لالچ دیکر ساتھ ملا لیا جائے ، انکا یہ حربہ کامیاب بھی ثابت ہوا ، سیاسی پارٹیوں کے نام پر سیاسی جتھے اور گروہ قائم ہوئے ، تحریک انصاف میں بھی بے شمار ایسے افراد سیاستدان موجود ہیں کہ جن کا ’’پیشہ‘‘ ہی سیاست ہے ، وہ اسی میدان سے کماتے ہیں اگر انھیں عمران خان کے ساتھ شامل ہونے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہواتو وہ دوبارہ اپنی ’’روزی ‘‘ کا وہ ٹھکانہ تلاش کریں گے کہ جہاں سے انھیں ’’ روزی، رزق‘‘ مِل سکے اگر ایسا ہوا تو دوبارہ کیا نئی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
اس سوال کا جواب ابھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان کو نظریاتی سیاست کی طرف تیزی سے چلنا ہوگا تاکہ چرب زبان ،مفاد پرست سیاستدان عوام کو ورغلانے اورلبھانے میں کامیاب نہ ہوپائیں ۔ ملک کے مسائل اور انکا حل عوام کے سامنے رکھنے کی اشد ضرورت ہے ، ریاست اور عوام کی ترقی کیلئے قابل عمل روڈمیپ دیا جائے ۔ مخلص اور قابل سیاستدانوں کو ملکی مسائل حل کرنے کا پورا موقع مِلنا چاہیے ، اصل امتحان یہ ہے کہ ذاتی مفادات کی سیاست کو ایک دم ریاستی اور عوامی مفادات کی سیاست میں بدل دیا جائے ، کوئی بھی فرد بہترفیصلے تنہا نہیں کرسکتا ۔ مخلص ٹیم کی مشاورت بے حد ضروری ہے ، عمران خان کا ایک امتحان یہ بھی کہ وہ ہر فیلڈکا بہترین ٹیلنٹ تلاش کریں ، بہترین ٹیلنٹ کو ریاستی، عوامی اورحکومتی رہنمائی کا بھر پور موقع فراہم کریں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ سازشی افراد ہی میدان میں چھائے ہوئے ہیں ، انھیں فوراً نکالا جائے اور خالی ہونے والی جگہ کو قابل، محنتی اور ایماندار افراد سے پُر کیا جائے۔ لیڈر شپ کا اصل امتحان ٹیم کی سلیکشن ہی ہوتا ہے۔
The post جب سیاست، تجارت میں بدل گئی ؛ ریاستی اثاثوں اور و سائل کی لُوٹ سیل appeared first on ایکسپریس اردو.