Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

جب سیاست، تجارت میں بدل گئی ؛ ریاستی اثاثوں اور و سائل کی لُوٹ سیل

$
0
0

یہ بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے دَور حکومت کا ذکر ہے، میں کسی کام کے سلسلہ میں اسلام آباد میں تھا کہ میرے ایک واقف کار ایک صاحب کو لے کر آئے۔

رسمی سلام دُعا کے بعد انھوں نے ان صاحب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ ’’ ویسے تو یہ ایک سرکاری محکمے میں بطور کلرک اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں مگر یہ بڑی ’’ پہنچی ‘‘ ہوئی چیز ہیں یہ ’’ ایم این اے ہوسٹلز‘‘ میں ہوتے ہیں یہ کافی ایم این ایز کیلئے بطور ٹاؤٹ کام کرتے ہیں اگر کوئی بھی کام ہو تو آپ انھیں بتائیں یہ ہر کام کروا دیں گے، کام اور پیسوں کی گارنٹی ہوگی‘‘ ، مجھے یہ بات خاصی دلچسپ لگی ، پوچھا!’’ آپ کیا کام کرواسکتے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ ہر کام جو بھی آپ چاہیں گے ‘‘ پھر خود ہی تفصیل گنوانا شروع کی، اسٹیل مِل کا سکریپ ، تارکول، ٹمبر، اسلحہ لائسنس ،کاروں کی ترجیحی بنیادوں پر ڈلیوری، سیمنٹ، نمک، گھی اور دوسری مصنوعات کی ایجنسیاں، چینی کا کوٹہ ، کیمیکلز کا کوٹہ ، سرکاری نوکریاں، کنکشن، وغیرہ بھی۔۔۔

مجھے حیرت میں دیکھ کر کہنے لگے’’ دراصل ہر ایم این اے کو حکومت نے مخصوص کوٹہ دے رکھا ہے کہ وہ اپنے حامیوں ، ووٹرز اور سپوٹرز کے کام کروا سکتے ہیں۔‘‘ بعد میں جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے متعلق آج بھی سوچتا ہوں تو ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، ملک کے تمام وسائل کی لوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ مرکز میں بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی پنجاب میں میاں نواز شریف کی، دونوں خاندانوں کے خلاف نیب اور عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں۔

آج کل میاں نواز شریف کے خلاف ایک کیس محکمہ انٹی کرپشن میں بھی چل رہا ہے کہ انھوں نے پاکپتن شریف میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے 8 ہزار کنال زمین بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے گدی نشین کو الاٹ کردی۔مرکز میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی، وزرات ِ پیداوار ایم کیوایم کے وزیر کے پاس تھی، سرکاری اداروں کی مصنوعات نجی اداروں کی مصنوعات سے سَستی تھیں مگر ہر فرد کی سر کاری اداروں میں تیار ہونے والی مصنوعات تک رسائی نہ تھی۔ اس مقصد کیلئے پرمٹوں، کوٹے اورا یجنسیاں الاٹ کروانے کی ضرورت تھی۔

جس ایم این اے کی متعلقہ وزیر کے ساتھ ’’ پکی دوستی ‘‘ تھی اس کا کام ایم این ایز کیلئے مقررہ کردہ کوٹے سے ھٹ کر بھی ہو جاتا تھا، ایم این ایز کیلئے مقررہ کردہ کوٹہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ کُھلم کُھلا ایم این ایز کو نوازا گیا تھا، اور یہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کا ’’ کُھلا کاروبار ‘‘ اور ذریعہ آمدن تھا ۔ وہ تنخواہ کے علاوہ اس ’’ کام ‘‘ سے بھی رقم کماتے تھے، جب سیاست ، ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہوئی تو سیاست کا وطیرہ ہی بدل گیا ، یہ نیا’’کاروبار‘‘ بے پناہ منافع بخش ثابت ہوا ۔

اس زمانے میں پاک سوزوکی مہران(اے سی) کی قیمت  135000) ( ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے تھی ، پینتیس ہزار (35000)  ہزار روپے سے بُکنگ ہوتی تھی۔ ڈلیوری تقریباً ایک سال سے دوسال کے عرصہ کے درمیان ہوتی تھی، لیکن اگر ایم این اے کی ’’ سفارش ‘‘ ہوتی تو متعلقہ وزیر ’’ ترجیحی بنیادوں ‘‘ پر گاڑی فوراً ’’ڈلیور‘‘ کرنے کاحکم جاری کرتا تھا۔

ایم این ایز کے چھوڑے ہوئے ٹاؤٹ’’ ترجیحاً ‘‘ ایک گاڑی کے سات ہزار روپے لیتے تھے۔ ہر حکومتی ایم این اے کو پندرہ گاڑیاں ماہانہ کاکوٹہ مِلا ہوا تھا ۔ ایم این اے کو ایک گاڑی کے پانچ ہزار روپے ملتے تھے، اور دو ہزار ٹاؤٹ کی جیب میں جاتے تھے۔ یہ گاڑی بُک کروانے والے کو پندرہ بیس دن میں گاڑی مِل جاتی تھی ، گاڑی کے کاغذات پر ’’ نان ٹراسفر ایبل ‘‘ کی مہر لگی ہوتی تھی ۔

مگر یہ پابندی صرف ایک سال کیلئے ہوتی تھی ، ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بُک ہو سکتی تھی۔ جو لوگ یہ ’’ کاروبار ‘‘ کر رہے تھے وہ اپنے تمام رشتہ داروں اور واقفوں کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں اکٹھی کرتے اور گاڑیوں کی ترجیحی بنیادوں پر بُکنگ کروادیتے، جب انھیں گاڑی کی وصولی کا لیٹر مِلتا تو زیادہ تر افراد یہ لیٹر ہی فروخت کردیتے انھیں اس کام میں آٹھ دس ہزار کا نفع ہو جاتا۔ باقی ماندہ رقم یہ ترجیحی لیٹر خریدنے والا ادا کرتا ۔ اُسے بھی ’’ نان ٹراسفر ایبل ‘‘ ہونے کی وجہ سے گاڑی حاصل کرتے ہوئے پانچ دس ہزار کا فائدہ ہو جاتا، اُس زمانے میں پاک سوزوکی کی گاڑیاں’’ بلیک ‘‘ میں فروخت ہوتی تھیںکہ سرمایہ کار اپنی رقم لگا کر گاڑی کی دستیابی تک لمبا انتظار کرتے تھے، ترجیحی بنیادوں پر گاڑی حاصل کرنے کے کاروبار کو بہت عروج حاصل ہوا ، ایم این ایز نے بھی خاص فائدہ اٹھایا اورٹاؤٹوں نے رقم کمائی ۔ مگر عام شہر یوں کو اپنی گاڑی حاصل کرنے کیلئے طویل عرصہ تک  انتظار کرنا پڑتا تھا۔

اُس زمانے میں سرکاری گھی کی قیمت عام گھی سے کافی کم تھی، مگر ہول سیل میں سرکاری گھی اُسے ملتا تھا کہ جس کے پاس سرکاری گھی کی ’’ ایجنسی‘‘ ہوتی، گھی کی یہ ایجنسی حاصل کرنے کی ’’ قیمت ‘‘ ٹاؤٹ پچیس ہزار روپے وصول کرتے تھے۔ بقول ٹاؤٹوں کے بیس ہزار روپے ایم این اے لیتا ہے، سیمنٹ کی ایجنسی کا ریٹ پندرہ ہزار روپے مقرر تھا۔ نمک کی ایجنسی کا ریٹ بھی پندرہ ہزار روپے مقرر تھا۔ بے شمار افراد نے ٹاؤٹوں کو مطلوبہ رقم دیکر سیمنٹ اور نمک وغیرہ کی ایجنسیاں اپنے نام پر الاٹ کروائی تھیں مگر انھیں اس کام میں زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

چینی کی قیمت  16 روپے کلو تھی، مگر جس سر مایہ کار کو چینی کا کوٹہ مِِل جاتا اُسے پچاس پیسے کم قیمت پر چینی دستیاب ہو جاتی تھی مگر یہ کوٹہ پانچ یا دس ہزار ٹن سے کم نہیں ملتا تھا جو لوگ یہ کوٹہ حاصل کرتے انھیں لاکھوں کا فائدہ ہوتا۔ اس دور میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بے شمار ٹاؤٹ پاکستان اسٹیل مِل کے سکریپ کے گا ہک ڈھونڈتے پھر تے تھے، وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ اسٹیل مِل کا سکریپ کھلی مارکیٹ کی نسبت بہت سستا مِلے گا۔

اس ضمن میں وہ علی الاعلان وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے انتہا ئی قریبی رشتوں کا نام لیتے تھے کہ یہ کام ان کے ایماء پر ہوگا اور رقم بھی ان کے اکاؤنٹ میں ہی جائے گی، یہ ٹاؤٹ سرمایہ کاروں کو ’’ چوہدری ‘‘ نامی شخص کے ساتھ ملاتے اور بتاتے کہ یہ آصف علی زرداری کا فرنٹ مین ہے۔ سینکڑوں افراد نے پاکستان اسیٹل مِل کا یہ سکریپ انتہائی ارزاں قیمتوں پر خریدا اور مہنگے داموں فروخت کیا اور پاکستان اسیٹل مِل کو اس حال میں پہنچادیا جو آج نظر آتا ہے، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر پیداوار کے دستخط سے یہ کوٹہ مِلتا تھا ۔ تارکول بھی مارکیٹ ریٹ سے ارزاں قیمتوں پر دستیاب تھا۔ ٹاؤٹ تارکول کے تاجروں کو ڈھونڈتے انھیں سرکاری آئل ریفائینری کے تارکول کا پرمٹ لیکر دیتے جو تاجروں کو خا صا سستا پڑتا، مگر حکومتی خزانے کو نقصان بھی خاصا ہوتا۔

سرکاری ملازمتوں کے ریٹ بھی مقرر تھے۔ تبادلوں کے ریٹ بھی طے شدہ تھے، تمام ملکی وسائل اور اثاثے برائے فروخت تھے، عوامی نمائندگی کے دعویداروں نے جیسے پورا ملک خرید لیا تھا۔ کوئی قانون تھا ہی نہیں، سارا دھندا حکومتی ایم این ایز کو نوازنے کیلئے تھا، تاکہ وہ حکومت کے ساتھ جڑے  رہیں۔

اچنبھے کی بات یہ ہے کہ یہ سب بینظیر بھٹو جیسی با اُصول اور عالمی سطح کی سیاستدان کے دور حکومت میں ہو رہا تھا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور وہ اپنے حامی ایم پی ایز کے ساتھ حامی ایم این ایز کو بھی مختلف طریقوں سے نواز رہے تھے، اُس دور کے میاں نوازشریف کے ایک قریبی ساتھی آج بھی اس بات کا اعتراف  کرتے ہیں کہ جب لاہور ’’ جاتی امراء‘‘ کی جانب وُسعت اختیار کر رہا تھا تو نجی میٹنگوں میں ہمیں بتا دیا جاتا تھا کہ کونسے علاقوں میں آئندہ ’’ترقیاتی کام ‘‘ ہونے ہیں چنانچہ ہم ان علاقوں میں پہلے ہی زمینیں خرید لیتے تھے، ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد یہ پلاٹ مہنگےداموں فروخت ہوتے۔

اُسی دور میں’’ لینڈ مافیا ‘‘ پیدا ہوا چنانچہ جب میاں نواز شریف کو مرکزی حکومت مِلی تو یہ ’’ پراپرٹی ڈیلروں‘‘کی حکومت بھی کہلاتی۔ ایک بڑے میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی بھی اپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ اب کونسے غیرآباد علاقوں میں ترقیاتی کام ہونے والے ہیں جہاں میاں نواز شریف نے اپنا ووٹ بنک اور حکومت بنانے کیلئے لاتعداد افرادکو ذاتی فائدے پہنچائے وہاں انھوں نے لاتعدا صحافیوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کیلئے کئی طریقوں سے نوازا۔

ایک دفعہ پارٹی میٹنگ میں کسی ’’وفادار‘‘ نے میاں نوازشریف کی توجہ اس جانب دلوائی کہ ملتان کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ والی سیریز ’’ ایم ا ین ایس ‘‘(MNS) شروع ہونے والی ہے جو کہ میاں نواز شریف کے نام کا مخف ہے چنانچہ میاںنواز شریف نے (MNS) کی سیریز والی کئی گاڑیاں خریدیں اور اپنے صحافی دوستوں کو ’’عطیہ ‘‘ کیںِ۔ ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا کہ میرا نام نواز شریف ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے ’’ نوازنے‘‘ کیلئے ہی پیدا کیا ہے چنانچہ انھوں نے اپنے کئی وفاداروں کو ریاستی اور حکومتی وسائل سے بھی نوازا  اور نجی وسائل سے بھی۔

جب سیاست تجارت میں تبدیل ہوگی تو شہروں کی روایتی سیاست بھی تبدیل ہوگئی پیسہ لگانے والے اور کمانے والے اس میدان میں آگئے۔ مفادات، ترجیحات اور الزامات کی سیاست شروع ہوگئی دونوں بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن) کو اپنے حمایتوں کی مالی منفعت کا پروگرام شرو ع کرنا پڑا، ایم این ایز اور ایم پی ایز تو اب ارب پتی اور کھرب پتی ہو گئے مگر عوام پِس کر رہ گئی ۔ جب ملک میں قومی وسائل اور اثاثوں کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی تو اسلام آباد میں رہائش پذیر کئی درد مند اور محب وطن شہریوں نے مجھے ذاتی طور پر ان حالات سے آگاہ بھی کیا، متعلقہ افراد اور ٹاؤٹوں کی نشاندہی بھی کی کہ کم از کم میڈیا میں ہی اس سنگین صورتحال کو پیش کیا جا سکے آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ اُس زمانے میں کسی بھی عوامی نمائندے یا سرکاری ملازم کو کسی احتساب کا خوف ہی نہیں تھا۔

صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آزاد کشمیر کے ایک بڑے سیاسی خاندان کے ایک بیٹے نے اسلام آباد میں ایک نجی تجارتی کمپنی قائم کی ہوئی تھی جہاں آزادکشمیر کے درختوں کے سودے ہوتے تھے۔ درجہ اول کی لکڑی، درجہ دوم کی قیمت میں فروخت کی جاتی۔ درجہ اول اور درجہ دوم کی لکڑی کی قیمت میں جو فرق نِکلتا وہ خریدار اور ان سیاسی افراد میں آدھا آدھا تقسیم ہوتا، ٹمبر مافیا نے اس طریقہ سے اربوں روپے کمائے، جنگ ِ کشمیر کے حوالے سے اس خاندان کے سر براہ کی اچھی خاصی ساکھ تھی جو بہر حال اس قسم کے ’’ کاروبار ‘‘ کی وجہ سے متاثرہوئی۔ ان کے بزنس منیجر کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں ہر کام کروا سکتے ہیں۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ضیاء الحق کے بعد مفاداتی اور تجارتی سیاسی کا کلچر پیدا ہوا ،’’ عوامی نمائندوں ‘‘ کو جہاں سے زیادہ مفاد حاصل ہوتا وہ فوراً اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہو جاتے، ہارس ٹریڈنگ کا جو کلچر پیدا ہوا وہ کسی نہ کسی طریقے سے قائم و دائم ہے، موجودہ دور میں بھی چھا نگا مانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسز کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر بہت کم افراد کے علِم میں ہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپر مال لاہور میں قائم ’’ انٹر نیشنل ہوٹل ‘‘ ( جواب بند ہوچکا ہے) میں بھی خاص مہمانوں کے طور پر ٹھہرایا جاتا تھا۔اس ہوٹل کے جنرل منیجر محمد اسلم ڈوگر مرحوم کا مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ذاتی تعلق تھا وہ یار باش قسم کے مرنجان مرنج انسان تھے۔

چنانچہ وہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز کو اپنی خاص ’’حفاظتی تحویل ‘‘ میں رکھتے، انھیں دل لگانے کا ہر سامان مہیا کرتے ۔ اس ہوٹل کا سارا عملہ مہمان ایم این ایز کی ’’ دل جوئی ‘‘ میں لگا رہتا، جب یہ ہوٹل بند ہوا تو محمد اسلم ڈوگر نے لبرٹی مارکیٹ لاہور کے نزدیک ’’ بیسٹ ویسٹرن‘‘ ہوٹل میں بطور جنرل منیجر ملازمت اختیار کر لی ، ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کو اپنے ایم این ایز کیلئے ’’ وقتی رہائش گاہ ‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسلم ڈوگر مرحوم نے ان خدمات کو بخوشی سر انجام دیا اگر چہ اسلم ڈوگر کافی عرصہ قبل وفات پا گئے تھے مگر ان ہوٹلوں سے تعلق رکھنے والا عملہ بقید حیات ہے اور ان واقعات کا عینی شاید بھی ہے ۔

ملک کے باقی حصوں اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ٹاؤٹ بھی بقید حیات ہیں ، سر کاری وسائل اور اثاثوں سے مستفید ہونے والے ہزاروں افراد بھی اسی ملک میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک مرتبہ سارا سرکاری ریکارڈ نکالا اور کھنگالا جائے تو سب کچھ سامنے آجائے گا،  کم از کم  1988 ء سے تمام اہم وزارتوں کا ریکارڈ نکالا جائے اور اس کی چھان بین کی جائے۔ سیاستدان تو ’’ محض سہولت کار ‘‘ تھے، اس سہولت کاری کے عوض انھوں نے اتنا معاوضہ وصول نہیں کیا، جتنا دوسرے افراد نے فائدہ اٹھایا۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُس دور میں سیاسی افراد کے کوٹہ سسِٹم کے تحت نااہل افراد کو سرکاری نوکریاں دی گئیں، سفارشی افراد عموماً مال بنانے والی نوکریاں ڈھونڈ تے تھے چنانچہ 1988 ء سے لیکر  1999 ء تک ہزاروں نالائق اور نااہل افراد کو پُر کشش سیٹوں پر تعینات کردیا گیا۔ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایڈ یشنل سیکرٹری نصرت علی مرحوم اس صورتحال اور معاملات پر نہایت دُکھ کا اظہار کرتے تھے، وہ ایک حساس قلمکار اور ادیب بھی تھے۔ جی ۔او ۔آر  شادمان کالونی میں ان کی رہائش گاہ پر ہر ہفتہ ادبی محفل بھی ہوتی تھی جہاں نامور ادیب اور شاعر باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔

ان کی کتا ب ’’ خواب اور پتنگ ‘‘ ان کے خیالات کی عکاسی تھی، وہ کہتے تھے کہ ’’ہر ملازمت کیلئے مخصوص قابلیت اور مزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ہزاروں سفارشی افراد کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے، نائب تحصیلدار، پٹواری ، موٹر وہیکل ایگزامزِ، انکم ٹیکس انسپکٹر ، کسٹم انسپکٹر ، ایکسائزانسپکٹر اور تمام محکموں کی پُر کشش سیٹوں پر نااہل اور لالچی افراد کو بھرتی کیا جا رہاہے اور کیا گیا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور ایل ڈی اے سمیت تما م شہروں کے ترقیاتی اداروں میں بھی نااہل افراد کو ملازمتوں پر کھپایا گیا ہے۔

پاکستان اسیٹل مِل میں سینکڑوں اضافی افراد کو بھرتی کیا گیا ، انھوں نے کہاکہ صرف پنجاب میں کم از کم ابھی تک ایک لاکھ سے زائد اضافی افراد کو بھرتی کیا جا چکا ہے اس کا  ملکی خزانے پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے اور ان نااہل سفارشی اور سازشی افراد کا ریاست پر بھی غلط اثر پڑ رہا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قابل افراد کے راستے محدود ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ وقت دُور نہیں جب سرکاری ملازمتوں پر بھرتی کیلئے پابندی لگانی پڑے گی پھر کم از کم دس بیس سال تک نئی ملازمتیں نہیں نِکل سکیں گی۔

ہو سکتا ہے کہ ہر محکمے میں ڈاؤن سائز نگ کرنی پڑے۔‘‘  بعد میں ان کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی آج تک کسی بھی حکومت اور کسی بھی سیاستدان کو اس غیر ذمہ دارانہ فعل کیلئے نہ سزا دی گئی اور نہ ہی سفارشیوں کو نکالا گیا۔ ہر محکمے کا بیڑا غرق ہوگیا، اہل، ایماندار اور قابل افراد میں مایوسی اور بددلی کی لہر پیدا ہوگئی۔ بہترین ٹیلنٹ بیرونِ ملک چلا گیا، مگر آج تک کسی نے اس بات کی سنگینی کو محسوس ہی نہیں کیا۔ اعلیٰ عدالتوں اور نیب کے نزدیک بھی یہ کوئی خاص گناہ نہیں ٹھہرا، مگر قوم کس مقام پر پہنچ چکی ہے سب کے سامنے ہے۔

پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں پرمٹوں، پلاٹوں اور تر غیبات کی سیاست شروع ہوئی، جب پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ہر علاقہ میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا گیا، اسکا ہیڈ’’ چیئر مین ‘‘ کہلاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا یہ چیئر مین بڑا مضبوط ہوتا تھا اور اس کی بڑی اہمیت ہوتی تھی ان چیئرمینوں کو بھی ہر طریقے سے نواز گیا اور ان کی سفارشات پر دوسرے کارکنوں پر بھی نواز شات کی گئیں پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو اسلام آباد میں پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ راشن ڈپوؤں کے پرمٹ دئیے گئے۔ اُس زمانے میں سستا راشن مِلتا تھا۔ راشن ڈپو کے مالک کو اس کام میں بڑا فائدہ حاصل ہوتا تھا ، چنانچہ جوشیلوں اور جیالوں کو راشن ڈپو کا پرمٹ دیکر بھی نواز جاتا تھا۔ تھانوں میں پیپلزپارٹی کے چیئر مینوں کی بڑی سُنی جاتی تھی۔

میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے محلوں میں پر ائمری مسلم لیگ کے دفاتر قائم کئے، پرائمری مسلم لیگ کا دفتر قائم کرنے والوں کو بھی بے شمار فوائد سے نوازا گیا۔ ایم کیو ایم نے ہر علاقہ میں سیکٹر قائم کئے، سیکٹر انچارج کی اہمیت ایم پی اے سے بھی زیادہ ہوتی تھی پورے شہر میں ان سیکٹر انچارجوں کا غلبہ قائم تھا۔ ان کی حکم عدولی کرنے والے کو بِلاتردد موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا، میرے ایک واقف کار اسحاق آباد کراچی میں رہتے تھے اُن کا نام محمد نواب تھا، انھوں نے کراچی میں پیپلزپارٹی کا دفتر کھول لیا ۔ ایم کیوایم  کے دہشت گردوں نے انھیں اغواء کرکے انھیں اس طرح قتل کیا کہ ڈرل مشین سے انکے پورے جسم میں سوراخ کئے گئے، نا معلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ اس قسم کے ہزاروں قتل ہوئے اور پیپلز پارٹی کے اپنے دور حکومت میں ہوئے۔

آج تک کسی کو اس قتل کا سُراغ نہیں مِل سکا۔ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزراء نے بھی کروڑوں روپے کمائے۔ بہت سارے اس وقت ملک سے باہر ہیں مگر ابھی تک ان ’’ لٹیروں ‘ ‘ کی باری نہیں آئی نہ ہی یہ نیب کے ریڈار پر آئے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان کا شمار بھی ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہر دورِ حکومت میں مالی منفعت حاصل کی اور بھی بے شمار سیاسی افراد ابھی تک اپنی کمائی ہوئی دولت سے ’’ انجوائے‘‘ کر رہے ہیں، مگر عوام کا کیا حال ہے،عوام کو اس حال میں پہنچانے والے جیلوں میں بھی فائیوسٹار ہوٹلوں کی سہولت مانگ رہے ہیں۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ جیلوں میں ڈالنا مسئلے کا حل ہی نہیں ہے عوام کو اس کا فائدہ نہیں ہے، عوام لُوٹی ہوئی دولت کی واپسی چاہتی ہے، انھیں سیاسی لیڈروں کے جیل میں ’’آرام‘‘ کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ سارے لیڈر تازہ دم ہوکر دوبارہ ملکی خزانے اور وسائل پر حملہ آور ہوجائیں گے جیلیں سستا نے کیلئے نہیں ہوتیں ، جرم کی سزا  کیلئے ہوتی ہیں ۔

سرکاری وسائل کی لُوٹ سیل کیلئے گاہک ڈھونڈنے والے تمام ٹاؤٹوں کو بھی گرفتار کیا جائے اور انھیں گرفتار کرنا مشکل نہیں ہے ہزاروں افراد ان سے واقف ہیں۔ ان ٹاؤٹوں کی بہت بڑی تعداد ایم این  ہوسٹلزاور فیڈرل لاجز میں مقیم  رہی ہے، سیاستدانوں کیلئے زمینوں پر قبضے کرنے اور غیر قانونی کام کرنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا جائے۔

سیاسی پارٹیاں عوام کے مفادات ملکی وسائل اور قومی خزانے کی تحفظ کیلئے قائم کی جاتی ہیں ، ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹر عوام کے نمائندے کہلاتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے قائم جاتے ہیں۔ سیاسی تسلسل کی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ عوام کو بہتر سے بہتر زندگی فراہم کی جائے۔ دانشور اور تعلیم یافتہ افراد عوام کے مفادات کی دیکھ بھال کریں ۔ مگر یہاں جو کچھ ہوا سب کے سامنے  ہے ، کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار جمہوری نظام کی کامیابی پر ہی استوار ہوتا ہے ، عوام کے نمائندے امانت دار ہوتے ہیں وہ غریب اور شریف لوگوں کے جان ومال کو تحفظ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، عوام کے حقوق کی پاسبانی کرتے ہیں لیکن مقصد صرف الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا ہو تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو پچھلے ادوار میں ہوا۔

جب سرکاری وسائل کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی تو راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں لاکھوں افراد اپنی جمع پونجی بھی گنوا بیٹھے۔ ’’سرکار‘‘  سے کام کروانے کا جھانسہ دے کر ہزاروں فراڈئیے لوگوں کی رقم لیکر رفو چکر ہوگئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاوہ بھی کئی شہروں میں ٹاؤٹوں کے گروہ پھیلے ہوئے تھے، سرکاری نوکریوں کے خواہشمند ہزاروں نوجوان لٹ گئے، بیرونِ ممالک جانے کے خواہشمند لا تعداد افراد سب کچھ گنوا بیٹھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے کام نہیں ہوئے انھیں رقم واپس نہیں مِلی۔ ٹاؤٹ کہتے تھے کہ منسٹر صاحب ، ایم این ایز یا ایم پی اے کو ہم نے پیسے دیدئیے ہیں اب وہی واپس نہیں کرتے۔ ان سب باتوں کی انکوائری تو ہونی چاہیے ۔

ماضی میں کلاشنکوف کلچر بھی پیدا ہوا، سیاسی افراد اپنے ساتھ گن برداروں کی فوج رکھتے ، لوگوں کی جائیدادیں اونے پونے خریدتے، ان لوگوں کو حکومت کی مکمل سر پر ستی حاصل ہوتی ،اب شائد وقت بدل رہا ہے مگر اُن تمام معاملات کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے والوں سے رقم واپس لینی چاہیے۔ غریب عوام کو کچھ تو ریلیف اور سکون مِلے !!!

ٹاؤٹ بادشاہ

بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے پہلے ادَوار میں اسلام آباد کے ایک معمولی گریڈ 9 کے سرکاری ملازم کی شان و شوکت اور رُعب دبد بے کی مثال اس بات سے دی جا سکتی ہے کہ اس کے اپنے محکمے کے 18 ویں اور 19 ویں گریڈ کے آفیسر اُس سے انتہائی مودب طریقے سے بات کرتے تھے۔

کسی بات پر اُس سے باز پُرس نہیں کرتے تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص بیک وقت 4 اہم ایم این ایز کا ٹاؤٹ تھا۔ اس نے قیمتی گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ ہر محفل میں ’’ وی آئی پی ‘‘ ہوتا تھا۔ لاہور آتا تو شاندار ہوٹلوں میں ٹھہرتا۔ صوبائی وزراء کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات تھے، پولیس افسر ان اس کے پاس حاضری دینے آتے تھے، اسک ا لباس فاخرہ اور شاندار انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اسکے مخصوص جُملے ’’ میں نے پورا ملک ٹھیکے پر لے لیا ہے‘ ‘ ۔’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ ‘‘ بڑے مشہور تھے۔ اُس زمانے میں اس طرح کے ہزاروں کردار موجود تھے ، اب بھی کچھ’’ سابقہ راہنما‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ مجھے کیوں نکالا؟‘‘  ۔’’مجھے جیل میں کیوں ڈالا؟‘‘۔ ’’ میرا ماضی کیوں کھنگالا؟‘‘  اگر ماضی کھنگالنے کی بات آئی تو شائد سینکڑ وں افراد کسی کو شکل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

 وزیر کے نام پر لُوٹ مار

کافی عرصہ گذرا بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کے ایک سابق وفاقی وزیر سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ نے تو اپنی وزارت کے دور میں بہت مال بنایاتھا۔ چونک کرکہنے لگے ’’ میں نے؟‘‘ میرے پاس تو اللہ کا دیاہوا بہت کچھ ہے میری شوز انڈسٹری ہی کافی ہے دوسرے کاروبار بھی ہیں ، جائیداد ہے ، میں دوسرے طریقوں سے کیوں مال بناؤں گا؟‘‘ انھیں بتایا کہ ’’ آپکی پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز آپ کا نام لیکر لوگوں سے مال بناتے رہے ہیں کہ آپ نے ہر چیز کا ’’ریٹ ‘‘ مقرر کررکھا ہے ،’’ تاسف سے کہنے لگے۔‘‘

دوران اسمبلی اجلاس ا یم این ایز اپنے واقف کاروں اور سپورٹرز کے کاموں کی سفارشات کروانے کیلئے آتے تھے اور پارٹی پالیسی کے مطابق ہم لوگ اپنے ایم این ایز کی سفارش پر ڈ ائرکٹ آرڈر بھی جاری کردیتے تھے، ہمارا سٹاف اس کام کی تکمیل کی رپورٹ بھی لیتا تھا مگر مجھے عِلم نہیں تھا کہ ہماری پارٹی کے سیاسی افراد کام کروانے کے عوض رقم بھی لیتے تھے ، اگر یہ سچ ہے تو مجھے خاصا دُکھ پہنچا ہے۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے پارٹی راہنماؤں کے ساتھ پارٹی کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ وزراء اپنا حصہ وصول کرتے ہوں مگر میں نے کبھی کسی کام کا کوئی پیسہ نہیں لیا۔

 موجودہ حکومت کا بڑا امتحان

موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو مفتوح ریاست سمجھ کر سب کچھ لُوٹ کر آپس میں بانٹ لیا ۔ ماضی کی تمام سیاسی حکومتوں کا کلچر یہی رہا ہے کہ ابن الوقت ہوشیار قسم کے بندوں کو ترغیبات اور مفادات کا لالچ دیکر ساتھ ملا لیا جائے ، انکا یہ حربہ کامیاب بھی ثابت ہوا ، سیاسی پارٹیوں کے نام پر سیاسی جتھے اور گروہ قائم ہوئے ، تحریک انصاف میں بھی بے شمار ایسے افراد سیاستدان موجود ہیں کہ جن کا ’’پیشہ‘‘ ہی  سیاست ہے ، وہ اسی میدان سے کماتے ہیں اگر انھیں عمران خان کے ساتھ شامل ہونے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہواتو وہ دوبارہ اپنی ’’روزی ‘‘  کا وہ ٹھکانہ تلاش کریں گے کہ جہاں سے انھیں ’’ روزی، رزق‘‘ مِل سکے اگر ایسا ہوا تو دوبارہ کیا نئی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

اس سوال کا جواب ابھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان کو نظریاتی سیاست کی طرف تیزی سے چلنا ہوگا تاکہ چرب زبان ،مفاد پرست سیاستدان عوام کو ورغلانے اورلبھانے میں کامیاب نہ ہوپائیں ۔ ملک کے مسائل اور انکا حل عوام کے سامنے رکھنے کی اشد ضرورت ہے ، ریاست اور عوام کی ترقی کیلئے قابل عمل روڈمیپ دیا جائے ۔   مخلص اور قابل سیاستدانوں کو ملکی مسائل حل کرنے کا پورا موقع مِلنا چاہیے  ، اصل امتحان یہ ہے کہ ذاتی مفادات کی سیاست کو ایک دم ریاستی اور عوامی مفادات کی سیاست میں بدل دیا جائے ، کوئی بھی فرد بہترفیصلے تنہا نہیں کرسکتا ۔ مخلص ٹیم کی مشاورت بے حد ضروری ہے ، عمران خان کا ایک امتحان یہ بھی کہ وہ ہر فیلڈکا بہترین ٹیلنٹ تلاش کریں ، بہترین ٹیلنٹ کو ریاستی، عوامی اورحکومتی رہنمائی کا بھر پور موقع فراہم کریں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ سازشی افراد ہی میدان میں چھائے ہوئے ہیں ، انھیں فوراً نکالا جائے اور خالی ہونے والی جگہ کو قابل، محنتی اور ایماندار افراد سے پُر کیا جائے۔ لیڈر شپ کا اصل امتحان ٹیم کی سلیکشن ہی ہوتا ہے۔

The post جب سیاست، تجارت میں بدل گئی ؛ ریاستی اثاثوں اور و سائل کی لُوٹ سیل appeared first on ایکسپریس اردو.


کوئٹہ، تفتان ہائی وے

$
0
0

بلوچستان میں قومی شاہراہوںکی تعداد10 ہے لیکن اِن میں سے تین شاہراہیں ملک کی اہم ترین شاہراہیںہیں۔ نیشنل ہائی وے 10 جس کو کوسٹل ہائی وے بھی کہا جاتا ہے، یہ ساحل کے ساتھ ساتھ گوادرسے براستہ پسنی، اورماڑا اوتھل زیرو پوائنٹ پر نیشنل ہائی وے 25 تک کل لمبائی 653 کلو میٹر ہے جب کہ نیشنل ہائی وے 25 کوئٹہ اور 25 خصدارکی مجموعی لمبائی 706 کلومیٹر سے ساڑھے سات سو کلومیٹر تک ہے جو پاک افغان سرحد پر پاکستانی شہر چمن سے کراچی تک جاتی ہے۔

یہ صوبے کی مصروف ترین شاہراہ ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ابھی تک دورویہ نہیں ہے اور اسی سبب اس شاہراہ پر روزانہ حادثے ہوتے ہیں اور روزانہ ہی انسانی جانیںجاتی ہیں،کو ئٹہ سے مستونگ کے قریب ہی دوراہے پر قومی شاہراہ کوئٹہ تاتفتان ہے۔

پاکستان کو دنیا میں یہ شرف حاصل ہے کہ یہ خطہ ہزاروں برسوں سے انسانی تہذیب و تمدن کا امین رہا ہے، بلوچستان میں سبی اور ڈھاڈر کے نزدیک مہر گڑھ میں تقریباً نو ہزار سال قبل کے آثارِقدیمہ پورے شہر کے کھنڈرات کی صورت موجود ہیں، پھر ساہیوال کے قریب ہڑپا اور لاڑکانہ کے قریب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پانچ ہزار سال قدیم ہیں، اور ٹیکسلا کے کھنڈرات ڈھائی ہزار سال پرانے ہیں، ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل، ہمارے ان شہروں کے تجارتی اقتصادی روابط عراق اور مصر کی قدیم تہذیبوں اور اُن کے شہروں سے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے روابط عراق ، شام ، مصر، سنٹرل ایشیا اور ایران سے شاہراہوں کے ذریعے تھے، یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے اِن قدیم شہروں سے شاہراہیں ہمارے بحیرہ عرب کے ساحل تک بھی جاتی ہونگی، اور پھر یہاں سے تجارتی سامان بحری جہازوں کے ذریعے مصر ، شام ، عراق اور ترکی وغیرہ جاتا ہو گا، جہاں تک تعلق افغانستان اور سنٹرل ایشیاکا ہے، تو چونکہ ان ملکوں کے پاس سمندر نہیں اس لیے اِن سے تو روابط صرف اور صرف شاہراہوں کے ذریعے ہی تھے۔

یہ اندازے قبل از تاریخ کے ہیں ، جبکہ تاریخی اعتبار سے یہ ریکارڈ پر ہے کہ گذشتہ تین ساڑھے تین ہزار سال سے ہمارے علاقے میں سنٹرل ایشیا،ایران، افغانستان سے تاجروں کے علاوہ مختلف قوموں اور حملہ آوروں کی آمد کا سلسلہ رہا ہے ، برصغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان میں وسیع رقبے پر مضبوط مرکز کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی، تو تجارت و صنعت کو فروغ حاصل ہوا ،کیونکہ اس سے قبل ہندوستان کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہو کر صدیوں خانہ جنگی کا شکار رہا، پھر ہندو دھرم میں بیرون ِ ملک سفر کرنے دریا  یا سمندر پار کرنے سے دھرم نشٹ ہو جاتا تھا۔

اس لیے اِن کی توجہ بیرونی تجارت پر نہیں تھی، یوں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے روابط دنیا کے دوسرے ملکوں سے مستحکم ہو ئے، اور صنعت و تجارت کو فروغ حاصل ہوا تو پھر شاہراہوں کی تعمیر وترقی پر توجہ دی گئی، بڑی شاہراہوں پر دونوں جانب سایہ دار پھلدار درخت لگائے گئے۔

قافلوں کی رفتار اور مسافت کے مطابق سرائیں تعمیر ہوئیں، جہاں قافلے،کاروان رک کر سستا سکیں، اِن کے اور ان کے گھوڑوں،اونٹوں کے لیے پانی اور خوراک کے انتظامات بھی اِن سرائے کے ساتھ ہی ہو تے تھے، اس سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ ہندوستان کے نامور بادشاہ شیر شاہ سوری نے سر انجام دیا ، جس نے اُس زمانے میں پشاور سے ڈھاکہ تک نہایت معیاری شاہراہ تعمیر کروائی، جس کو جنریلی سڑک کا نام دیا گیا ،آج ہمارے ہاں اس سڑک کے ایک حصے کو جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آ غاز تک یورپ میں سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ریلوے اور موٹر گاڑیاں عام ہو نے لگیں، تو قافلوں اور سرائے کے انداز بھی تبدیل ہوئے، اور سڑکوں کی تعمیر کے معیار میں بھی انقلا بی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اگرچہ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوںسے ہوائی جہاز  کے ذریعے بھی سفرعام ہوا مگر اب بھی سب سے زیادہ سفر اور تجارت سڑکوں اور شاہراہوں سے ہوتی ہے۔ اور پوری دنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترقی میں شاہراہوں کی تعمیر و ترقی پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد اِس جانب بھی بھر پور توجہ دی گئی۔

1977 ء تک بڑی اور بین الاصوبائی شاہراہوں کی دیکھ بھال صوبائی سطح پر ہی کی جاتی تھی، مگر اُس وقت تک ہماری شاہراہوں پر بھی بڑے ٹرکوں اور ٹرالروں اور بڑی بڑی کوچوں سے آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا، تو 1978 ء میں حکومت پاکستان نے شاہراہوں کے معیار کی بہتری کے لیے پانچ اہم بین الاصوبائی شاہراہوں کو وفاقی ملکیت میں لے کر نیشنل ہائی وے بورڈ تشکیل دیا، اس کے بعد 1991 ء میں (  این ایچ اے  ) نیشنل ہائی وے اتھارٹی قائم کردی گئی، اس وقت یہ ادارہ39 قومی شاہراہوں کا مالک ہے۔

جن کی مجموعی لمبائی 12131 کلو میٹر ہے، یہ نیشنل ہائی ویز، موٹروے،ایکسپریس ویز اور اسٹرٹیجک روڈز پر مشتمل ہیں، اِن پر ٹول ٹیکس کی وصولی کے ساتھ اِن شاہراہوں کی تعمیر و مرمت، دیکھ بھال اور نگرانی کے فرائض این ایچ اے کا یہی ادارہ کرتا ہے، پاکستان کے کل 881913 مربع کلومیٹر رقبے میں سے صوبہ بلوچستان کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے، یوں بلوچستان میںقومی شاہراہوں کی مجموعی لمبائی کا 38 فیصد واقع ہے۔ یعنی بلوچستان میں نیشنل ہائی ویز کی کل لمبائی4629 کلومیٹر ہے، جو دس اہم قومی شاہراہوں پر مشتمل ہے۔

بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس صوبے سے پاکستان کی سرحدیں ایران سے 909 کلومیٹر ہیں، جبکہ پاک افغان سرحد 2611 کلومیٹر کا بڑا حصہ بھی بلوچستان سے ملتا ہے، اسی طرح بحیرہ عرب پر ہمارے ساحل کی کل لمبائی 1000کلو میٹر ہے، جس میں سے 777 کلومیٹر ساحل بلوچستان کے پاس ہے، بلوچستان میں واقع ان قومی شاہراہوں میں سے، ایک اہم ترین شاہراہ این ایچ 40 کوئٹہ سے تفتان قومی شاہراہ ہے۔

جس سے مستونگ کے علاقے لکپاس سے پاک ایران سرحد پر واقع پاکستانی شہر تفتان تک فاصلہ 605 کلومیٹر ہے، واضح ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے لکپاس تک کا فاصلہ تقریباً 40 کلومیٹر ہے، لکپاس کے قریب ہی کو ئٹہ کراچی کو ملانے والی اہم ترین اور مصروف شاہراہ یہاں دوراہا بناتی ہے، یوں نیشنل ہائی وے 40، یہاں سے بلوچستان کے تین اہم اضلاع سے گزر کر ایران کی سرحد  تک جاتی ہے۔ لکپاس کو ئٹہ کے جنوب میں واقع ہے جب کہ مستونگ کے کنارے سے یہ شاہراہ مغرب کی جانب مڑ تی ہے۔

ان تین اضلاع میں مستونگ ایک سرسبز ضلع ہے، جس کا رقبہ 5896 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، اس ضلع کی تین تحصیلیں اور 13 یونین کو نسلیں ہیں یہ قومی شاہراہ مستونگ سے تقریباً پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ڈسٹرکٹ نوشکی میں داخل ہو تی ہے، واضح رہے کہ نوشکی، چاغی 1992 ء تک ایک ہی ڈسٹرکٹ تھے اس سال سے نوشکی کو چاغی سے الگ کر کے نیا ضلع بنادیا گیا، ڈسٹرکٹ کا رقبہ 5797 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے، اس ضلع کی ایک تحصیل اور 10 یونین کونسلیں ہیں، جن میںانام بوستان،احمد وال، جمالدینی اور کشنگی، ڈاک اور مینگل ا س شاہراہ کے اعتبار سے اہم ہیں۔

اس کے بعد ڈسٹرکٹ چاغی کی حدود شروع ہوتی ہیں، ضلع چاغی رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کا مجموعی رقبہ تقریباً 45000 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی تقریباً چار لاکھ ہے، نیشنل ہائی وے کی اسی فیصد لمبائی اسی ڈسٹرکٹ میں ہے، ضلع چاغی کی دو تحصیلیں دالبندین اور نوکنڈی ہیں جب کہ 10 یونین کونسلیں ہیں، جن میںامری، چاغی، چل گاری ، پدک، زیارت، بلانوش، نوکنڈی اور تفتان اس شاہراہ کے اعتبار سے اہم ہیں، یہ ڈسٹرکٹ نہ صرف رقبے کے اعتبار سے بڑا ہے بلکہ نہایت اہم ضلع ہے۔

یہی وہ ضلع ہے جہاں راس کوہ نامی پہاڑ کے ہزاروں فٹ نیچے پاکستان نے 28 مئی 1998 ء کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ کوئٹہ، مستونگ اور نوشکی کے مقابلے میں ضلع چاغی کا بیشتر رقبہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے، جہاں سنگلاخ پہاڑ، دشت اور صحرا ہیں۔ موسم گرما میں یہاں نہ صرف درجہ حرارت 48 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے، بلکہ یہاں گرمیوں کے مہینوں میں تیز گرم آندھیاں اور بگو لے چلتے ہیں،اس ضلع کی کئی لحاظ سے خاص اہمیت و افادیت ہے، جہاں اس کی سرحد پر ایک

جانب تفتان پر پاک ایران سرحد کا بڑا گیٹ ہے ، جہاں دونوں اطراف سے آنے جانے وا لوں کے پاسپورٹ ویزے اور دیگر دستاویزات چیک کئے جا تے ہیں، اور یہاں سے تجارتی مال کے بڑے بڑے  ٹرالراور ٹرک آتے جاتے ہیں، وہا ں تفتان سے ڈھائی سو کلومیٹر پہلے شمال کی جانب افغانستان کی سرحد اس مقام پر یوں اہم ہے کہ  یہاں سے افغانستان میں صرف سو کلومیٹر سفر کے بعد ترکمانستان کی سرحد ہے، یوں یہ ڈسڑکٹ تجارتی،اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ ماحولیاتی اعتبار سے چاغی ضلع یوں اہم ہے کہ یہاں سالانہ بارشیں بہت ہی کم ہیں۔

مگر اس کا اپنا ایکالو جیکل زون ہے جس میں دنیا کا ایک منفرد ایکو سسٹم ہے ، چاغی کا نقشہ دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی بڑا عقاب آسمان میں پر پھیلائے محو ِ پرواز ہو، اتفاق دیکھیں کہ یہاں کے باز،شہباز، سنہری عقاب بہت قیمتی ہیں، یہاں ماضی قریب میں غیر قانونی طور پر بعض لو گوں نے ان عقابوں کا شکار کیا، اور لاکھوں روپے فی عقاب عرب شیوخ کو فروخت کئے، جبکہ نوشکی ، خاران اور چاغی کے علاقوں ہی میں اِن ہی عقابوں اور بازوں سے تلور کا شکار بھی کھیلا جاتا ہے، چاغی کے منفرد ایکالوجیکل زون میںپوری دنیا سے مختلف نسل کے دو نایاب سانپ اور ایک چھپکلی پائی جاتی ہے ، اور بد قسمتی سے اس کو پکڑ کر بھی غیر قانونی طور پر بعض عناصر لاکھوں روپے فی سانپ یا چھپکلی مغربی ممالک میں اسمگل کرتے رہے ہیں، جہاں اِن پر ماہرین تجربات کر رہے ہیں۔

45000 ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے اس وسیع ضلع چاغی کو دنیا میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اسے معدنیات کا عجائب گھر کہا جاتا ہے، اور وہ اس لیے کہا جا تا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں معدنیات پائی جاتی ہیں وہا ں دو چار اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں یا کثیر مقدار میں ملتی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چاغی ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی اقسام کی معدینات پائی جاتی اور مزید کے ملنے کے امکانات ہیں، یہی وہ خطہ ہے جہاں پہلے تفتان کے نزدیک سیندک کے مقام پر سونے ، چاندی اور تانبے کے ذخائر ملے اور اُن کو نکالنے کا کام ستر کی دہائی سے چینی کمپنی کر رہی ہے۔

اور اس کے بعد اس سے کہیں زیادہ مقدار میں سونے اور تانبے کے ذخائر، اسی چاغی ڈسٹرکٹ میں ریکوڈیک کے مقام پر ملے ہیں، جن پر تنازعہ کے سبب پاکستان پر گذشتہ دنوں چھ ارب ڈالرز کا ہرجانہ عائد کر دیا گیا، جب کہ اسی ضلع میں کرومائٹ ، بیر ائٹ، گرینائٹ اور اعلیٰ درجے کے ماربل کے علاوہ لوھے اور دیگر معدنیات کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ۔ لفظ چاغی کے معنی یوں بیان کئے جاتے ہیں کہ یہ لفظ چا گئی تھا، جو بگڑ کر چاغی ہوا چا ،کنویں کو کہتے ہیں اور گئی کے معنی جگہ کے ہیں یوں ایک زمانے میں یہاں بڑی تعداد میں کنویں تھے، یعنی پورے ضلع میں چاغی کے مقا م پر میٹھے پانی کے کنویں تھے،اس لیئے اِس جگہ کو کنووں کی جگہ کہتے تھے۔

برصغیر کی تاریخ میں سنٹرل ایشیا ، افغانستان، ایران بلکہ یونان سے جب سکندر اعظم بھی آیا تو پاکستان کے انہی علاقوں سے آیا، اور واپسی تو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہوئی تھی، جہاں تک تعلق ضلع چاغی کا ہے تو اس علاقے میں جب تیمور نے بڑی قوت حاصل نہیں کی تھی، اُس وقت تیمور یہاں بھی آیا،اور اسی نسل کی پانچویں پشت میں جب بابر نے قوت حاصل نہیں کی تھی، تو وہ بھی ا یک مر تبہ اس علاقے میں آیا تھا، پھر 1526 ء میںشہنشاہ ظہیر الدین بابر نے پانی پت کی دوسری جنگ میں ہندوستان کو فتح کر لیا، اس کے بعد اُس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا، تو1540 ء میں وہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر اسی راستے ایران فرار ہوا، اور ایران میں پناہ حاصل کی تھی، پھر شہنشاہ ہمایوں کی اسی راستے ہندوستان واپسی ہوئی تھی۔

اس کے بعد جب 1761 ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان میں مرہٹوں کے ظلم کے خلاف پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکستِ فاش دی، تو اس جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی فوج میں اُس زمانے کے بلوچستان کے مضبوط خان آف قلات، نصیر خان نوری نے اپنے قبائلی لشکر کے ساتھ ابدالی کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا، اور اس جنگ میں فتح کے بعد نصیر خان نوری زیادہ مضبوط اور خود مختار ہو گئے تھے۔ہمایوں کے بیٹے اور شہنشاہ ہند اکبر اعظم کے زمانے سے اس شاہراہ سے برصغیر میں زیادہ آمد ورفت بھی ہونے لگی اور تجارت کو بھی فروغ ملا، اور دوسری مرتبہ جب نصیر خان نوری،احمد شاہ ابدالی کے ساتھ فاتح ٹھہر ے تو ایک بار پھر ایران اور افغانستان کے سرحدی یہ علاقے یعنی ضلع چاغی کی یہ شاہراہ بھی اہم ہوگئی۔

پھر یہ بھی اہم ہے کہ زمانہ قدیم میں جب حجاج کرام خشکی کے راستے حج کرنے جایا کرتے تھے، تو اسی راستے سے حجاز ِ مقدس جایا کرتے تھے، یوں یہاں کے لوگوں کے بارے میں یہ روزِ اوّل سے مشہور ہے، کہ یہ چوری اور ڈاکے کو ندامت کا سبب سمجھتے ہیں اور یہاں آج بھی چوری چکاری کے واقعات نہیں ہوتے، ماضی میں یہ لوگ اس راستے پر حجاج کرام کی بہت مہمان نوازی اور خدمت کرتے تھے، اور مہمان نوازی اور مسافروں کی خدمت اب بھی اس علاقے کی ثقافت میں شامل ہے،  واضح رہے کہ 1974 ء کے بعد، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں سے ایک بار پھر بڑی اور ایر کنڈیشن بسوں کے ذریعے سستے نرخوں پر حاجیوں کے قافلے دو تین سال حج کے لیے گئے، برصغیر میں انگریز سمندر کے راستے کالی کٹ کی بندر گاہ سے آئے تھے۔

پھر ممبئی کی بندر گاہ اہم ہوئی لیکن انگریزوں کو یہ معلوم تھا کہ برصغیر کے اکثر فاتحین سنٹرل ایشیا ، افغانستان اور ایران سے آئے تھے، اور جب انگریز 1756 ء میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قابض ہوا تھا، توچار سال بعد احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر حملہ کرنے والا آخری بادشاہ تھا، یہ اور انگریزوں کی خوش قستمی ،کہ احمد شاہ نے یہاں مستقل حکومت قائم نہیں کی اور رخصت ہو گیا۔

اس لیے انگریزوں کی حکومت جب ہندوستان میں مضبوط ہوئی، تو انہوں نے یہ اسٹرٹیجی اختیار کی کہ وہ ہندوستان کے اندر پانی پت کے میدان میں دفاعی جنگ لڑنے کی بجائے، اسلحے کی برتری کی بنیاد پر اور ہندوستانیوں پر مشتمل بڑی فوج کے ساتھ کیوں نہ خود افغانستان پر حملہ کریں، یوں انہوں نے 1839 ء کی پہلی برٹش افغان وار میں، بلوچستان کے راستے درہ ِبولان اور خوجک سے گزر کر چمن سے ہوتے ہوئے قندھار اور پھر کابل پر حملہ کیا، چونکہ بلوچستان میں کچھ مقامات پر بلوچ قبائل نے انگریزی فوج پر گوریلا طرز کے حملے کئے تھے، اور پھر انگریز دفاعی اعتبار سے بلوچستان کی اہمیت جان چکا تھا، اس لیے اُس نے واپسی پر بلوچستان کے خان آف قلات میر محراب خان سے جنگ کی، اور اُن کی شہادت کے بعد یہاں قبضے کی کوشش کی، مگر اُسے طویل عرصے تک مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور آخرکار اندرونی طور پرخود مختاری دیکر انگریز نے معاملات طے کئے۔

اور جہاں کہیں انگریزوں کو کسی علاقے کی زمین کی ضرورت ہوئی، تو اُنہوں نے خان آف قلات سے زمین لیز پر حاصل کی۔ یوں1896 ء میں انگریز سرکار، نے ضلع نوشکی اور چاغی کا علاقہ نوہزارروپے سالانہ کرائے پر حاصل کیا، اور اُس وقت یہ ایک ڈسٹرکٹ چاغی بنایا گیا تھا، اُس وقت انگریزوں نے ایران کے ساتھ سرحدیں بھی طے کیں، انگریزوں نے نہ صرف یہاں اس سڑک کی حالت بہترکی، بلکہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے زمانوں میں ڈسٹرکٹ چاغی کی اہمیت کو سمجھتے ہو ئے، یہاں ریلوئے لائن بھی بچھائی، یہاں پر ہفتہ وار پیسنجر ٹرینیں چلتی رہیں، مگر یہاں سڑک کی اہمت کم نہیں ہوئی، اور جب تیز رفتار موٹر گاڑیاں، ٹرک اور ٹرالر چلنے لگے تو یہ شاہراہ اور اہمیت اختیار کر گئی ۔

آزادی کے بعد بلوچستان میںاس شاہراہ کو اس لیے بھی اہمیت دی گئی،کہ ایران ہمارا وہ ہمسایہ اور پہلا ملک ہے، جس نے 14 اگست 1947 ء کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کو تسلیم کیا تھا، یوں آزادی کے فوراً  بعد جس ملک سے ہمارے تجارتی اقتصادی تعلقات قائم ہوئے وہ ملک ایران ہی تھا ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں پاکستان،ایران اور ترکی کے تعلقات بہت مضبوط ہوگئے تھے، یوں ان تینوں ملکوں کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جسے RCD,-Reginal Coopration Organization کہا گیا، آر سی ڈی کے قیام کے بعد اور اُس کے بعد ایک طویل عرصے تک، نیشنل ہائی وے 40 لکپاس تفتان آر سی ڈی شاہراہ کہلائی اور بعض پرانے لوگ اس شاہراہ کو آج بھی آر سی ڈی شاہراہ ہی کہتے ہیں، 1964 ء سے1977 ء تک اس شاہراہ پر جو اُس وقت آر سی ڈی شاہراہ کہلاتی تھی تجارتی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں۔

اس زمانے میں پاکستانی پھل، چاول، کپڑا، دریاں اور چادریںبڑی مقدر میں ایران جاتی تھیں، اورپھر 1981 ء میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستا ن میں اپنی فوجیں داخل کر دیں تو ایک بار پھر اس شاہراہ کی اسٹرٹیجک اہمیت بڑھ گئی کہ اُ س وقت ترکمانستان سابق سوویت یونین کا حصہ تھا، اور افغانستان جہاں روسی فوجیں موجود تھیں، یہاں سے افغانستان کے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے کے بعد سوویت یونین کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا، یوں اُس زمانے میں پاکستان نے یہاں اپنی دفاعی لائن کو مضبوط کیا تھا، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس شاہراہ کی اہمیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا، واضح رہے کہ یہی راستہ مختصر انداز میں پورے جنوبی ایشیا کو مغربی یورپ کو ملاتا ہے۔

یہی شاہراہ یعنی ’’پرانی ،، آر سی ڈی سڑک ایران سے ہوتی ترکی میں داخل ہوتی ہے اور ترکی کا ایک حصہ یورپ میں واقع ہے جہاں آسٹریا،جرمنی، فرانس اور پھر برطانیہ تک اسی شاہراہ سے ہوتے ہوئے جاتے ہیں، اور اب جب سے پاکستان میں قومی شاہراہوںکی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس آئی ہے تو اس شاہراہ کا معیار بھی ماضی کے مقا بلے میں بہت بہتر ہو گیا ہے، واضح رہے کہ آر سی ڈی تنظیم 1979 ء میں ٹوٹ گئی اور اس کی جگہ آنے والے دنوںمیں ECO-Economic Coopration Organization ایکو یعنی اقتصادی تعاون کی تنظیم نے لے لی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے پر پہلے افغانستان نے شمولیت اختیار کی، پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے پر، سنٹرل ایشیا کے مسلم ملکوں کے آزاد ہو نے کے ساتھ ہی، آذربائئجان، قازقستان،کرغزستان ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان  بھی شامل ہو گئے۔

یوں انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ اب اس تنظیم کے اعتبار سے مستقبل قریب میں نیشنل ہائی وے 40’’ کوئٹہ لکپاس تا تفتان ‘‘  مزید کتنی اہمیت اختیار کر جائے گی، اس وقت بھی یہ ایک ایسی مصرف شاہراہ ہے ، جس پر پاکستان سے روزانہ ہزاروں افراد سفر کرتے ہیں کچھ وہ ہیں، جو ملک کے دوسرے علاقوں سے تجارت کی غرض سے پاک ایران سرحد تک آتے جاتے ہیں، یعنی تفتان تک مال پہنچایا اور دوسری جانب سے ایرانی تاجر اندرون ایران سے سرحد کے دوسری جانب مال وصولی کر لیتے ہیں۔ مقامی بلوچوں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو سرحد کے دونوں طرف آباد ہے۔

اِن کو یہاں عام حالات میں پاکستان اور ایران سے عموماً عام اجازت نامے پر سرحد کے دونوں جانب محدود تعداد یا مقدار میں بغیر ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی کے سامان لانے لے جانے اور سرحد کے دونوں طرف اپنے رشتہ دارو ں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اگر ہنگامی صورتحال ہو یا سکیورٹی کے معاملات ہوں تو یہ سہولت ملتوی ہو جاتی ہے، نیشنل ہائی وے 40 اس اعتبا ر سے بھی بہت اہم ہے کہ یہاں سے سالانہ بہت بڑی  تعداد میں زائرین ایران اور عراق زیارتوں کے لیے جاتے ہیں، جن کے لیے وفاقی حکو مت کے علاوہ بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی خصوصی انتظامات کرتی ہے، اور اِ ن کی بسیں اور کوچز کاروان کی صورت میں تفتان تک پہنچاتی ہے، اسی طرح مغربی ملکو ں کے سیاح اور پاکستانی اور ایرانی بھی عام طور پر اس شاہراہ پر سفر کرتے ہیں۔

اگر چہ موسم گرما میں یہاں خصوصاً ضلع چاغی میں موسم دن میں بہت گرم ہوتا ہے ، مگر اب چونکہ اس قومی شاہراہ پر چلنے والی بسیں اور کو چز ائیر کنڈیشنڈ اور تیز رفتار ہیں اس لیے یہ 605 کلومیٹر کا سفر دس سے بارہ گھنٹوں میں کٹ جاتا ہے، اور یہ کوچز اور بسیں عموماً راستے میں نوشکی، دالبندین ، نوکنڈی اور پھر تفتان پر رکتی ہیں۔

راستے میں اِن مقامات پر ہوٹل اور ریستوران ہیں جہاں کھانے پینے کا انتظام مناسب نرخوں پر ہیں ۔ بلوچستان بھر میں اگرچہ قومی شاہراہیں دورویہ نہیں ہیں جن کی وجہ سے حادثات زیادہ ہوتے ہیں ، مگر یہاں ڈرائیوروں کی کچھ روایات بہت اچھی ہیں، یہاں خواتین کا بہت احترام کیا  جاتا ہے، یہاں ڈرائیوروں کی اکثریت بھی چونکہ نمازی ہے اس لیے ہر نماز کے وقت ڈرائیور بس روک دیتا ہے اور عموماً باجماعت نماز ہو جاتی ہے۔

The post کوئٹہ، تفتان ہائی وے appeared first on ایکسپریس اردو.

زراعت کے فروغ کی نئی ٹیکنالوجیز

$
0
0

بھوک اور افلاس انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ بدقسمتی سے آج کی دنیا میں یہ بلائیں تیزی سے اپنا دائرہ بڑھا رہی ہیں۔

اس صورت حال کی ایک اہم وجہ دنیا کی آبادی کا بڑھنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے سائنس دانوں کو فارمنگ کے ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جائے، بل کہ زراعت کے لیے مختص زمین کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ستر کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، اور یہ سالانہ ایک اعشاریہ بارہ فی صد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے جولائی 2019کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر روز 3لاکھ83 ہزار656 بچے جنم لے رہے ہیں اور شرح اموات شرح پیدائش کی نصف سے بھی کم ہے، دنیا بھر میں روزانہ ہونے والی اموات کی تعداد 1لاکھ59ہزار160 ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کی آبادی میں شامل ہونے والے انسانوں کی تعداد2لاکھ 24ہزار496 ہے ، یعنی ہر 38سیکنڈ میں ایک فرد کا اضافہ ہورہا ہے۔

ا س شرح سے 2030 تک دنیا کی آبادی 8ارب، 2040تک 9ارب اور2050 تک دس ارب سے تجاوز کرجائے گی اور زرعی پیدوار 18فی صد تک کم ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک اور زراعت (ایف اے او) کی جانب سے رواں سال ’دی اسٹیٹ آف فوڈ سیکیوریٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ‘ کے عنوان سے جاری ہونے رپورٹ کے مطابق دنیا کے 8کروڑ بیس لاکھ افراد پیٹ بھر کر کھانے سے محروم ہیں، ایک طرف لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں تو دوسری جانب دنیا کا ایک خطہ بھی ایسا نہیں جو موٹاپے اور زائد وزن کی وبا سے متاثر نہ ہو۔ ایف اے او کے مطابق مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے خوراک کی پیداوار کو بڑھا کر 70 سے 80 فی صد تک لے جانا ہوگا۔

لیکن مویشیوں کی افزائش اور فصلوں کے لیے زمین درکار ہے اور ہم (انسان) پہاڑوں کی چوٹیوں، برفانی علاقوں اور صحراؤں کو چھوڑ کر زمین کا ممکنہ حد تک رقبہ استعمال کرچکے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے سطح زمین کا چالیس فی صد سے زائد باغات، کھیت کھلیان اور مویشیوں کی گلہ بانی کے لیے مختص کرچکا ہے، غذائی ضروریات پوری کرنے کے چکر میں انسانوں نے کرہ ارض کا پورا ماحولیاتی توازن متاثر کرکے آبی اور جنگلی حیات کو معدومی کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔

اگر ہم اجناس کے حصول کے لیے اسی طرح ماحول کو تباہ کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انسانوں کے لیے قابل رہائش جگہ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ زراعت بھی ماحولیاتی مسائل سے جُڑا اہم مسئلہ ہے۔ ان انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی شکل میں بھی سامنے آرہا ہے۔ موسموں میں ہونے والی شدت پیداوار میں کمی کا موجب بن رہی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق زراعت سے پیدا ہونے والی نان کاربن ڈائی آکسائیڈ گرین ہائوس گیسز کی شرح اس وقت 19سے 29 فی صد تک ہے۔ اور اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان، بنگلادیش، بھارت اور جنوب ایشیائی خطے کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں آج بھی کسان کھیتی باڑی کے لیے قبل مسیح کے زمانے کے طریقے اپنائے ہوئے ہیں، وہ آج بھی ہل چلانے کے لیے بیلوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم دنیا بھر میں صرف کھیتی باڑی کے جدید طریقے اپناکر بھی زیادہ اجناس حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کراپ روٹیشن (ایک زمین پر مختلف فصلیں اُگانا، تاکہ اسے بنجر ہونے سے بچایا جاسکے) سے زراعت کے میدان میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے۔

بنا کسی تعطل کے ایک ہی زمین پر مسلسل ایک ہی فصل اگانے سے پودے مٹی میں موجود تمام نائٹروجن کھاکر زمین کو بنجر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے کہ یا تو زمین کو کھاد کی شکل میں زیادہ سے زیادہ نائٹروجن فراہم کی جائے یا پھر زمین پر اَگلی فصل اُس وقت تک کاشت نہ کی جائے جب تک مٹی دوبارہ جان نہ پکڑ لے۔ ان دونوں طریقوں سے زیادہ اچھی فصل پیدا ہوگی، تاہم فرٹیلائزر استعمال کرنے کا طریقۂ کار دیہی علاقوں میں کاشت کاری والے چھوٹے کسانوں کے لیے تھوڑا منہگا ہے۔

ماہرزراعت جوئیل بورنے کے مطابق گندم، چاول اور بھٹے کی فی ایکٹر پیداوار سے ہمیں بالترتیب 30 لاکھ،74لاکھ اور 75لاکھ کیلوریز حاصل ہوتی ہیں، دوسری جانب اگر ہم شکرقندی اور آلو کی فصل کاشت کرتے ہیں تو ان سے حاصل ہونے والی فی ایکٹر پیداوار مذکورہ اجناس سے کہیں زیادہ ہے۔ شکرقندی ایک کروڑ تین لاکھ اور آلو92 لاکھ کیلوریز فی ایکٹر فراہم کرتے ہیں اور ان کی فصل بے جان مٹی اور موسمی حالات برداشت کرنے کی بھی اہل ہوتی ہے۔

یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد بڑھتی آبادی کی غذائیت پوری کرنے کے لیے ایک طویل عرصے تک شکرقندی کو بنیادی اناج کے طور پر فراہم کیا گیا۔ شکر قندی اور آلو کی انہی خصوصیات کی بنا پر چینی حکومت نے آلو کو قومی غذا کا حصہ بنانے اور 2008میں اسے مستقبل کی غذا قرار دیا گیا تھا اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ایف اے او بھی مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں آلو کی کاشت کرنے والے کسانوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ لہٰذا ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے زراعت کے طریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں غذائی سائنس دان زراعت کو بہتر بنانے کے بہت سے طریقوں پر کام کرتے رہے ہیں، لیکن اگر ہم زراعتی انقلاب کی بات کریں تو غالباً نارمین بورلاگ (نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہرحیاتیات) ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اس مسئلے کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ یہ 1940کے وسط کی بات ہے جنوب وسطی میکسیکو میں آبادی کے بڑھنے سے اناج کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ نارمین نے زیادہ پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیج کسانوں میں تقسیم کیے۔

کسان اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے بورلاگ کے بیج کو نائٹروجن کھاد کے ساتھ استعمال کیا اور فصل پہلے سے کہیں زیادہ آئی۔ نارمین کے اس طریقہ کار کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور 1963تک میکسیکو میں پیدا ہونے والی گندم کی فصل میں 95فی صد بیج نارمین کے لگے۔ 1944 سے 1963کے عرصے میں میکسیکو میں گندم کی پیداوار چھے گُنا بڑھ چکی تھی۔ 1960کے وسط میں نارمین نے جنوب ایشیائی خطے کا رُخ کیا، جو بڑھتی ہوئی آبادی اور پیداوار میں عدم توازن کے سبب غذائی قلت کا سامنا کر رہا تھا۔ نارمین نے اپنے ری انجنیئر کیے گئے بیج یہاں (جنوبی ایشیا) میں متعارف کروائے۔ ان بیجوں سے پیدا ہونے والی فصل کے نتائج بہت ہی حیرت انگیز تھے۔ محض پانچ سال بعد ہی انڈیا اور پاکستان میں گندم کی پیداوار دگنی ہوچکی تھی۔

1974تک یہ دونوں ممالک اناج کی پیداوار میں خودکفیل ہوچکے تھے۔ بورلاگ کا طریقہ کار جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی تیزی سے پھیل گیا۔ نارمین نے مونوکروپنگ (ایک ہی زمین پر سال ہا سال ایک ہی فصل اُگانا) اور نائٹروجن کھاد کے زیادہ استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔ ان دونوں سے مختصر مدت کے لیے زیادہ فصل تو حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن طویل عرصے ان کا استعمال زمین کی زرخیزی کو کم کر دیتا ہے۔ قحط سے تحفظ کے لیے بورلاگ کی توجہ چاول اور بھٹے پر رہی۔ اسی وجہ سے نارمین نے اُن اجناس کو نظرانداز کردیا جن کے بارے میں اب ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ پُرغذائیت (زیادہ کیلوریزوالی) ہیں اور ان اجناس (آلو اور شکر قندی) سے کم رقبے پر زیادہ کیلوریز حاصل کی جاسکتی ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب فارمنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی ناگزیر ہے، اب ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے اسی قطعہ زمین پر 70فی صد زیادہ کیلوریز پیدا کر سکتے ہیں۔ کم جگہ اور کم پانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجناس کے حصول نے ایک نئی اپروچ ’کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر‘ کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک اور زراعت (ایف اے او) کے مطابق اس اپروچ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور زراعتی نظام، قدرتی مناظر، زرعی زمین، لائیو اسٹاک، جنگلات اور ماہی پروری کو زیادہ بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

٭ کم خرچ بالانشین
انٹرنیٹ آف تھنگس (آئی او ٹی)، (باہمی طور پر جُڑا ایک نظام جو کمپیوٹر ڈیوائسز، میکانیکی اور ڈیجیٹل مشینوں، آبجیکٹس اور انسانوں کو ایک جداگانہ شناخت مہیا کرتے ہوئے نیٹ ورک پر ڈیٹا منتقل کرنے کا اہل بناتا ہے اور اس میں انسانوں سے انسان یا انسانوں سے کمپیوٹر کے کسی باہمی عمل کی ضرورت نہیں ہوتی) سے جڑے کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر (سی ایس اے) سے کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔ عالمی بینک کے مطابق سی ایس اے کا ہدف بیک وقت تین کام یابیاں حاصل کرنا ہے۔
1۔پیداوار میں اضافہ
اس ہدف میں غذا اور غذائیت کے تحفظ میں بہتری کے لیے زیادہ فصل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں خصوصا گزربسر کے لیے زراعت پر انحصار کرنے والے دنیا کے 75فی صد غریبوں کی آمدن میں اضافہ کرنا ہے۔
2۔ریسیلینس (resilience)میں اضافہ
کسانوں میں قحط، طاعون، بیماریوں اور دیگر صدمات کی زدپذیری میں کمی کرنے، اور مختصر سیزن، خراب موسم جیسے طویل المدتی ذہنی دبائو کا سامنا کرتے ہوئے پیداواری گنجائش میں اضافہ کرتے ہوئے فصلیں اگانے میں بہتری لانا۔
3۔درجۂ حرارت میں کمی
پیدا ہونے والی فی کلو یا فی حرارہ پیداوار پر حرارت میں کمی کی کوشش کرنا، جنگلات کے کٹائو کی روک تھام اور ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسوں میں تخفیف کے لیے نئے طریقوں کی شناخت۔
زراعت میں بہتری لانے کے لیے ماضی میں کئی اصول اور ٹیکنالوجیز اپنائی گئیں لیکن سی ایس اے اپروچ ان سے جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اول، اس میں نمایاں فوکس ماحولیاتی تبدیلی پر کیا گیا ہے۔ دوم، سی ایس اے ایک نظم و ترتیب کے ساتھ پیداواری صلاحیت، موافقت اور تخفیف کے درمیان ٹریڈ آف اور باہمی تعامل پر غوروفکر اور سرمایہ کاری میں خسارے کی صورت میں نئے فنڈ ز فراہم کرنا شامل ہے۔

عالمی بینک اس وقت کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے اور اپنے ’کلائمیٹ چینج ایکشن پلان‘ کے تحت ان ممالک کے ساتھ کام کر رہا ہے جو کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر کے درج بالا تین اہداف کے ساتھ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چین میں 2014ء سے شروع ہونے والے عالمی بینک کے ایک پراجیکٹ ’انٹیگریٹڈ ماڈرن ایگری کلچر ڈیولپمنٹ پراجیکٹ‘ سے سی ایس اے کے پھیلائو میں مدد ملی ہے۔

44 ہزار ہیکٹر زرعی زمین میں پانی کے بہتر استعمال اور نئی ٹیکنالوجی سے مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہونے سے چاول کی پیداوار میں 12 فی صد اور مکئی کی پیداوار میں 9 فی صد اضافہ ہوا ہے، جس سے ماحول میں بہتری کے ساتھ29 ہزار کسانوں کی آمدنی بھی بڑھی ۔ یورا گوئے میں عالمی بینک کی معاونت سے شروع ہونے والے پراجیکٹ ’سسٹین ایبل مینجمنٹ آف نیچرل ریسورسز اینڈ کلائمیٹ چینج ‘ کی بدولت 29 لاکھ46 ہزار ہیکٹر زرعی زمین سی ایس اے کو اپنا چکی ہے، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ممکنہ طور پر نو ملین ٹن کمی ہوئی ہے۔

اسی طرح 2016 میں میکسیکو میں زراعت کے پیشے سے وابستہ1165چھوٹے اور بڑے ادارے ماحولیاتی طور پر مستحکم توانائی کی ٹیکنالوجیز کو اپنا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 33 لاکھ 88 ہزار670 ٹن کمی کرچکے ہیں۔ حال ہی میں عالمی بینک نے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں ’کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر‘ پراجیکٹ کی نئی جنریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ ’مہاراشٹر پراجیکٹ فار کلائمیٹ چینج ریسیلیئنٹ ایگری کلچر‘ کے نام سے شروع ہونے والا یہ پراجیکٹ عالمی بینک کا سب سے زیادہ سرمایہ کاری والا سی ایس اے پراجیکٹ ہے، جس میں 420 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

٭ پیداوار میں اضافے کے لیے کیے گئے کچھ دیگراقدامات گرین ہاؤسز:
غذائی ٹیکنالوجی کام کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق اسپین کے جنوبی صحرا تیبرناس کا شمار یورپ کی خشک ترین جگہ میں ہوتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ جگہ ویران، بیاباں مناظر کی عکس بندی کرنے والے فلم سازوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن پھر اس زمین پر شگوفے کِھلنے شروع ہوئے اور آج یہ بنجر صحرا نصف سے زاید یورپ کے لیے تازہ سبزیاں اور پھل پیدا کر رہا ہے۔ اس کا سہرا گرین ہاؤسز (شیشے سے بنی ہوئی عمارت جس میں پودوں کو موسمی تغیرات سے بچاتے ہوئے اگایا جاتا ہے) کے سر ہے۔ اس کی ابتدا 1963میں اسپین کے ایک ادارے Instituto Nacional de Colonización نے کی اور زمین کی تقسیم کے ایک منصوبے کے تحت کچھ گرین ہاؤسز تیار کیے۔

ان گرین ہاؤسز میں اُگنے والے صاف ستھرے پھل اور سبزیوں نے اسپین کے صوبے المیریا کے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور لوگوں نے تیبرناس میں گرین ہاؤسز کی تعمیر میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ آج گرین ہاؤسز تیبرناس صحرا کے 50 ہزار ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور المیرا اسپین کی معیشت میں ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ اضافہ کررہا ہے۔ تیبرناس میں پھیلے گرین ہاؤسز صرف ایک معاشی معجزہ نہیں بل کہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ وہ ایک خیال کو حقیقت میں ڈھالنے کا عملی ثبوت ہیں۔

ماحول اور زمین کو کنٹرولڈ ماحولیاتی فارمنگ کے لیے استعمال کرنا ایک بے حد اچھا خیال ہے۔ گرین ہاؤسز میں میں پھل اور سبزیوں کی فی ایکٹر پیداوار باہر اُگنے والی فصل کی نسبت بہت زیادہ اور صحت بخش ہے۔ صرف اپنی فصل کے گرد چھت اور دیواریں بنائیں اور موسم کی سختی، فصل کے لیے مضر کیڑوں کی وجہ سے ہونے والی مشکلات سے نجات حاصل کریں۔

٭ہائیڈروپونک اور ایرو پونک
گرین ہاؤسز کے ساتھ ساتھ زرعی سائنس داں ہائیڈرو پونک (ایک طریقہ کار جس میں مٹی کو ہٹا کر ریت، بجری اور نیوٹریشنز کے مرکب میں پودے اُگائے جاتے ہیں) طریقہ کار بھی استعمال کر رہے ہیں جس میں زیادہ فصل حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ پیداوار کو مزید بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ’ہائیڈروپونک رِگ‘ استعمال کریں۔ اس میں آپ ایک ہی رقبے پر کئی منزلوں پر اپنی فصل کاشت کر سکتے ہیں۔ ہائیڈروپونک طریقہ کار کو کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈکسن ڈیسپومیئر نے آٹھ سال قبل اپنے ’ورٹیکل فارم‘ کے تصور میں بیان کیا تھا۔ ڈکسن کے مطابق ’’کثیر المنزلہ ہائی ٹیک گرین ہاؤسز پر مشتمل ورٹیکل (عمودی) فارم بہت سیدھا اور بہترین طریقہ کار ہے، تاہم ابھی اس میں کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں۔

مثال کے طور پر فصل کو بیماریوں اور حشرات الارض سے بچانے کے تمام پودوں پر یکساں اور مناسب روشنی فراہم کرنا تاکہ وہ اچھی طرح نشوونما پاسکیں۔ اس طرح کے دیگر مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمیں انجینئرنگ اور تیکنیکی امور میں نہایت مہارت کی ضرورت ہے۔2011میں جاپان میں آنے والے سونامی سے پیدا ہونے والی طوفانی لہروں نے نہ صرف فوکو شیما تباہی (سونامی نے دنیا کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹس میں سے ایک فوکو شیما کے چار جوہری ری ایکٹر کو نقصان پہنچایا، جس میں سے تین کو بند کردیا گیا، جب کہ ایک پلانٹ میں ہائیڈروجن گیس سے ہونے والے دھماکے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔

اس حادثے سے جاپان کو ڈیڑھ سو ارب یورو کا نقصان ہوا) ہوئی بلکہ سیلابی پانی اور فوکوشیما سے خارج ہونے والی تاب کاری نے جاپان کے سب سے بڑے شمالی جزیرے ہونشو کی ساحلی پٹی کے ساتھ موجود زرعی زمینوں کو بنجر کردیا تھا۔ اس حادثے کے بعد جاپانی حکومت نے ورٹیکل فارم بنانے کا فیصلہ کیا۔ چار سال کے بعد جاپان میں سیکڑوں کثیرالمنزلہ ورٹیکل فارمز، گرین ہاؤسز قائم ہوچکے ہیں، جہاں پودوں کو سورج کی روشنی پہنچانے کے لیے روزانہ اُنہیں مختلف سمتوں میں گھُمایا جاتا ہے۔ ان عمارتوں میں پودوں کی نمو پانی اور غذائی اجزا میں ڈوبی ہوئی کُھلی جڑوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ جاپان میں ہائیڈرو پونک ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایرو پونک طریقہ کار بھی کم وقت میں زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ہائیڈروپونک طریقۂ کار میں پودوں کی جڑوں کو غذائی محلول میں ڈبویا جاتا ہے، جب کہ ایروپونک طریقہ کار میں پودوں کی جڑوں کو ہوا میں دانستہ کُھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایروپونک نظام پودوں کی نشوونما کے لیے درکار ضروری محلول دُھند کی شکل میں فراہم کرتا ہے۔

ڈیسپو میئر کے مطابق ’’اس طریقہ کار میں جڑوں کا نظام بہت لمبا ہوجاتا ہے، کیوں کہ انہیں غذا جذب کرنے کے لیے سطحی رقبے میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ جاپان کو دیکھتے ہوئے اب سنگاپور، سوئیڈن، جنوبی کوریا، کینیڈا، چین اور ہالینڈ بھی کثیرالمنزلہ فارمز تعمیر کر رہے ہیں، جب کہ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں کنٹرولڈ انوائرمنٹ فارمز تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن اس وقت زیادہ تر لوگوں کو ورٹیکل فارمز کے قیام میں روشنی کے مسئلے کا سامنا ہے۔

ٹاورز کو اتنا تنگ ہونا چاہیے جن سے آنے والی سورج کی روشنی تمام پودوں پر یکساں پڑے یا بلڈرز کو نموپذیر پودوں کو روٹیٹ (گھمانے) کا ایسا طریقہ دیکھنا ہوگا جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ تمام پودے صحت مند بڑھوتری کے لیے مناسب مقدار میں سورج کی روشنی حاصل کرسکیں یا غالباً اس کا سیدھا سا طریقہ یہ بھی ہے کہ سورج کی روشنی کو مصنوعی متبادل توانائی سے تبدیل کردیا جائے۔ اس کے لیے ایل ای ڈیز (لائٹ ایمیٹنگ ڈائیوڈز) بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

٭پنک ہاؤسز
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈکسن ڈیسپومیئر کا کہنا ہے کہ برطانیہ، ہالینڈ اور ٹیکساس میں گرین ہاؤسز کو ’پنک ہاؤسز‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پنک ہاؤسز میں ہلکی نیلی اور گلابی روشنیوں کے امتزاج کو پودوں کی نمو کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

روایتی طریقہ کار میں پودے جذب کی گئی روشنی کا زیادہ سے زیادہ آٹھ فی صد استعمال کرتے ہیں، جب کہ پنک ہاؤسز میں موجود پودے 15فی صد روشنی کو بڑھوتری کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس طریقہ کار میں روشنی، درجہ حرارت اور ہوا میں موجود نمی کو جتنی اچھی طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے وہ سورج کی روشنی پر انحصار کرنے والے جدید ورٹیکل فارمز اور گرین ہاؤسز میں ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنک ہاؤسز میں پودوں کی نشوونما کُھلے رقبے میں کاشت ہونے والے پودوں کی نسبت بیس فی صد زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔ یہ پودے روایتی طریقہ کار کے برعکس 91فی صد کم پانی استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں جڑی بوٹی مار، کیڑے مار ادویہ کے اسپرے کی ضرورت پڑتی ہے۔

پنک ہائوسز طریقہ کار کے بارے میں یونیورسٹی آف ایری زونا کے اسکول برائے حیاتیاتی سائنس کی پروفیسر چیری کیوبوٹا کا کہنا ہے کہ خوب صورتی انسان کی کم زوری ہے اور ہر خوب صورت شے چاہے وہ جان دار ہو یا بے جان انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، لیکن بنی نوع انسان کی یہی جبلت ہر سال سیکڑوں ٹن پھلوں اور سبزیوں کے زیاں کا سبب بھی ہے۔

صرف امریکا میں ہی ہر سال چالیس فی صد پھلوں، سبزیوں کو بدصورتی کی بنا پر خریدنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکان دار بدشکل یا ٹیڑھے میڑھے پھل اور سبزیوں کو خریدنے سے انکار کردیتے ہیں، کیوں کہ خوب صورت شکل وصورت پھل یا سبزیاں فروخت کرنے پر انہیں نہ صرف بھاری منافع ملتا ہے بل کہ وہ اپنا مال بھی جلد ہی فروخت کردیتے ہیں۔ انسان کی حُسن پرستی نے ہی بوسٹن کے پنک ہاؤسز سے المیرا کے گرین ہاؤسز تک کو خوب صورت پیداوار پر مجبور کردیا ہے۔

پروفیسر چیری کا کہنا ہے،’’اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کہ گرین ہاؤسز کی وجہ سے صارفین کو تازہ پھل اور سبزیاں مل رہی ہیں اور صرف امریکا کی دکانوں میں فروخت ہونے والے چالیس فی صد تازہ ٹماٹر ان گرین ہاؤسز ہی سے آتے ہیں، لیکن کنٹرولڈ انوائرمنٹ فارمنگ نے کم منافع بخش اجناس، چاول، گندم یا بھٹے کو نظر انداز کردیا ہے اور یہی اجناس دنیا بھر میں مطلوبہ کیلوریز کا 50 فی صد فراہم کرتی ہیں۔ سرمایہ کار صرف وہ پھل اور سبزیاںگرین یا پنک ہاؤسز میں اُگا رہے ہیں۔

جن پر اُن کے منافع کی شرح زیادہ ہے۔‘‘ تاہم سابق امریکی سیکریٹری زراعت ڈین گلک مین کا اس بارے میں کچھ مختلف نظریہ ہے نو ارب ساٹھ کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر نے کے لیے اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لیے ہمیں ایسے شان دار گرین ہاؤسز کی ضرورت نہیں ہے جو خلا سے بھی ہمیں دکھائی دیں۔ زراعت کے طریقہ کار کو بہت ہی سادہ طریقے سے مکمل طور پر جدید بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود جدید زراعت کی جدید ٹیکنالوجیز کو اپنانے والے ممالک میں کئی درجے کم ہے۔ پاکستان کا 21اعشاریہ2ملین ہیکٹر رقبہ قابل کاشت ہے اور اس میں سے اسی فی صد رقبہ پانی کی نعمت سے مالامال ہے لیکن اس کے باجود ہم زرعی پیداوار میں وہ مقام حاصل نہیں کر پارہے جو کہ بہ آسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر وہ دن دور نہیں جب لوگ ایک وقت کی خوراک کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم کردیں گے۔

The post زراعت کے فروغ کی نئی ٹیکنالوجیز appeared first on ایکسپریس اردو.

لائن آف کنٹرول کے آس پاس لوگ کیسے جیتے ہیں؟

$
0
0

مسئلہ کشمیر کے کئی پہلو ہیں ۔جہاں کرب اور درد کی وادی کشمیر میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی موت کا رقص جاری ہے وہیں آزادکشمیر میں رہنے والے بھی اس تقسیم سے کئی حوالوں سے متاثر ہوتے ہیں۔

تاہم آزاد کشمیر میں اس تقسیم کے براہ راست متاثرین سیز فائر لائن (جسے لائن آف کنٹرول یا خونی لکیر بھی کہا جاتا ہے) کے مکین ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کو جبری تقسیم کرنے والی 742 کلومیٹر لمبی خونی لکیر پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان چھوٹے ہتھیاروں سے جنگ جاری رہتی ہے۔ خونی لکیر کی اس 742 کلومیٹر لمبی پٹی پر آزاد کشمیر کی تقریباً چھ لاکھ آبادی خوف کے سائے میں اپنی زندگی گزار رہی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق1990ء سے اب تک لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں صرف آزادکشمیر کے تقریباً 900 مقامی باشندے زندگی کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ مقامی ذرائع یہ تعداد کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں، زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سول آبادی کے مسائل بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران کنٹرول لائن کا ہر سیکٹر فائرنگ سے متاثر رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 2019 ء کے  پہلے آٹھ ماہ میں 35 شہری (پچیس مرداور دس خواتین) لقمہ اجل بنے، 165 شہری زخمی (96 مرد 69 خواتین) ، 300 املاک (گھر، سکول اور مساجد) مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے، 70 مویشی مارے گئے اور کئی گاڑیاں اس فائرنگ کی زد میں آ کر تباہ ہوئیں۔

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے ایک طرف انسانی مسائل جنم لیتے ہیں تو دوسری طرف یہ آزاد کشمیر کی سیاحت کیلئے زہر قاتل اور ماحولیات پر سخت اثر انداز ہوتی ہے۔یہاں کے مکین مستقل خوف و ہراس اور غیر یقینی صورت حال میں زندگی گزارتے ہیں ۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ کب کہاں سے گولی یا گولا آئے اور ان کی جان چلی جائے یا ان کا مکان ، جائیداد اور فصلیں تباہ کر دے۔

دوران فائرنگ متاثر ہونے والوں اور اپاہج ہو جانے والوں کی زندگی کیسے گزرتی ہے، یہ نارمل حالات میں رہنے والوں کیلئے تصور کرنا بھی مشکل ہے اور حال میں ہی کلسٹر بم (کھلونوں کی صورت میں بم ) ہندوستانی افواج کی نئی چال ہے جو بچوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں کی زندگی کو سمجھنے کیلئے حالیہ پیش آنے والا ایک واقعہ قارئین کیلئے پیش ہے جس سے وہاں کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آ جاتے ہیں:

گزشتہ دنوں لائن آف کنٹرول کے قریب ایک خاندان کے لیے جشن کا دن اُس وقت ماتم میں تبدیل ہوگیا جب ان کے گھر کے دو بزرگ بھارتی گولہ باری میں ہلاک ہوگئے۔ مکین محمد صدیق کے مطابق ان کے گھر میں شادی کی تقریب تھی جس میں وہ مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہوئی اور ایک زور دار دھماکے سے مکان لرز اٹھا اور بھگدڑ مچ گئی۔

قریب کے مہمان اپنے گھروں کو بھاگ رہے تھے جبکہ دور کے مہمان خوفزدہ ہوگئے اور ان کے رشتہ دار فائرنگ کی زد میں آئے جن میں حسن دین چاچا اور لال محمد شامل تھے۔ دونوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔ لال محمد تو تھوڑی دیر میں فوت ہو گئے مگر حسن چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے اور پھر جان دیدی۔

یہ محمد صدیق کے تایازاد بھائی کی شادی کی تقریب تھی اور جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک ان کے حقیقی چچا اور دوسرے ان کے پڑوسی ہیں۔ محمد صدیق کے مطابق گولہ باری اس قدر شدید تھی کہ تین گھنٹے تک کوئی بھی گھر سے باہر نکل سکا نہ ہی کوئی ہماری مدد کوآ سکا۔ قریب ترین ہسپتال تتہ پانی میں ہے اور وہاں پہنچنے میں بھی کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ خوف و ہراس کی وجہ سے کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ حسن دین چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے اور پھر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی جان نکل گئی۔ گولہ باری میں اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ ہم انہیں ہسپتال لے جا سکتے۔‘

جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا وہ لائن آف کنٹرول کے بالکل سامنے ہے اور راستہ بھارتی فوج کی چوکیوں کے بالکل سامنے سے گزرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’رات کی تاریکی میں دونوں لاشیں وہاں سے نکالیں اور روڈ تک پہنچنے میں ہمیں کم از کم تین گھنٹے لگے۔‘تدفین کے لیے بھی لاش کو آبائی گاؤں کے بجائے لگ بھگ تین کلو میٹر دور دوسرے گاؤں لے جانا پڑا۔‘ محمد صدیق کہتے ہیں جس دن بارات اٹھنا تھی، اس دن جنازے اٹھانے پڑگئے۔ آپ خود سوچیں گھر میں جنازہ ہو جائے تو پھر بارات کی کیا اہمیت؟ ابھی تو دولہا بھی چاچا کی میت لے کر ڈڈیال گیا ہوا ہے، حالات ٹھیک ہوں گے تو شادی بھی ہو جائے گی۔‘

مستقل خوف کے ساتھ یہاں کے بسنے والوں کے کئی نفسیاتی مسائل بھی ہیں۔ یہاں کے بچوں کے نزدیک پُر امن اور بغیر گولہ باری کے زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے اور وہ بچپن سے ہی خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ان کیلئے پُرامن زندگی صرف ایک واہمہ ہے۔ اس کے ساتھ صحت اور تعلیم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ صحت کی سہولیات مقامی سطح پر میسر نہیں ہوتیں۔

پونچھ ڈویژن میں کہیں بھی فائرنگ ہو تو زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد علاج کیلئے کوٹلی یا راولاکوٹ لانا پڑتا ہے اور اگر کوئی زیادہ زخمی ہو تو یہ مسافت (تقریباً دو گھنٹے سے زائد سفر ہے) طے کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح مظفرآباد ڈویژن میں زخمیوں کو مظفرآباد سی ایم ایچ میں شفٹ کرنا پڑتا ہے۔لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں فائرنگ کے دوران مہینوں تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر تعلیمی سرگرمیاں معطل رہتی ہیں۔

نیلم کی رہائشی حفصہ مسعودی بتاتی ہیں کہ فائرنگ کے دوران وادی نیلم میں زندگی ایسی ہے جیسے ایک طویل بند غار ہواور اس کا واحد خارجی رستہ دشمن کے اختیار میں ہو اور غار کے اندر بھی جب چاہے دشمن آپ پر بغیر بتائے حملہ کر سکتا ہے۔ اگر چھپ چھپا کر باہر نکلنے کی کوشش کریں گے تو بھی کئی خطرات کا سامنا ہوگا۔

نیلم وادی کے لوگوں نے 41 سال اس حالت میں گزارے ہیں ۔ غیر محفوظ ہونے کا احساس کیا ہے، یہ وادی نیلم کے عوام سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ جب روزمرہ استعمال کی اشیائے خور و نوش کے بھاؤ بھی دس گنا زیادہ ہو جائیں  تو متوسط طبقے کے ایک عام انسان کی زندگی بھی ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے اور یہ بوجھ اس وادی کے لوگوں نے41 سال سے برداشت کر رہے ہیں ۔غیر محفوظ ہونے کا وہ احساس آج بھی اسی طرح ہے کہ سرحدوں پر فائرنگ ہوتی رہتی ہے اور اس کا رخ کسی بھی وقت مقامی آبادی کی طرف مڑ سکتا ہے۔

لیپہ سیکٹر کے قریب رہنے والے اقبال اعوان بتاتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر زندگی کیلئے انتہائی غیریقینی صورتحال ہے، یہاں دونوں فوجوں کے درمیان بھی آبادی ہے اور جب کشیدگی بڑھتی ہے اور فائرنگ ہوتی ہے تو معجزے ہی مقامی آبادی کو بچاتے ہیں۔ اقبال اعوان بتاتے ہیں کہ اگر شیلنگ کے دوران کوئی شدید زخمی ہو جائے تو اسے مظفر آباد لے جانا پڑتا ہے۔ سڑک کی ناپختگی اور بُری حالت کے باعث مظفرآباد پہنچنے کیلئے کئی گھنٹے لگتے ہیں۔اگر بارش ہو جائے تو آدھا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ بارش کی وجہ سڑک خراب ہو جاتی ہے اور علاقے میں گاڑیاں نہیں چل سکتی۔

تیتری نوٹ کے ایک مقامی محمد اشرف نے بتایا کہ 2003ء سے پہلے یہاں شدت سے شیلنگ اور گولہ باری ہوتی تھی لیکن جب سے راولاکوٹ اور پونچھ بس سروس شروع ہوئی ہے اس وقت سے اس سیکٹر پر گولہ باری میں خاصی کمی آئی تھی لیکن گزشتہ چار پانچ برسوں سے شدید گولہ باری ہوتی ہے۔ عباس پور سے تعلق رکھنے والے صحافی حسیب شبیر نے بتایا کہ پونچھ ڈویژن کے علاقوں میں جب لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی ہے تو وہاں کے عوام گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں۔

اس علاقے میں ہندوستانی آرمی کی چیک پوسٹس بلندی پر ہیں اور پاکستانی فوج کی چیک پوسٹس آبادی کے درمیان ہیں۔جب کشیدگی بڑھتی ہے تو سامنے انڈین آرمی سب سے پہلے سکول کو نشانہ بناتی ہے اور پاکستانی چیک پوسٹ پر فائرنگ کے بہانے سول آبادی کو نشانہ بناتی ہے۔ جب فائرنگ ہوتی ہے تو سکول مہینوں بند رہتے ہیں، انسان اور مویشی گھروں میں قید رہتے ہیں۔

پینے کا پانی تک بھی نہیں ملتا کیونکہ کشیدگی کے دوران بازار بند رہتے ہیں اور سڑک پر گاڑی نہیں چلائی جا سکتی۔ اگر کوئی زخمی ہو تو اسے رات کے اندھیرے میں گاڑی کی لائٹس بند کر کے راولاکوٹ لے جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں صحت کے مرکز میں ابتدائی طبی امداد کے علاوہ کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔اس قدر سنگین ہونے کے باوجود کے باوجود یہ مسئلہ بہت کم پاکستانی میڈیا کی زینت بنتا ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے سینئیر تجزیہ نگار ارشاد محمود کا کہنا ہے کہ 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جب لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو اس علاقے میں زندگی نے ایک نئی کروٹ لی۔ نیلم اور راولاکوٹ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے۔خاص طور پر نیلم ویلی میں کنٹرول لائن سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گئی جہاں جا کر وہ جموں و کشمیر کے نقشے پر مصنوعی طور پر کھڑی کی گئی دیوار برلن کو چشم نم سے دیکھتے ہیں۔ مقامی لوگ انہیں اشارے سے بتاتے ہیں کہ دریا کی دوسری جانب ان کے بھائی بند آباد ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔

اس علاقے میں ہر روز منقسم خاندانوں کے دکھوں اور مصائب کی ایسی ایسی کہانیاں رقم ہوتی ہیں کہ ان پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں۔ سرما میں نیلم میں پانی کم ہو جاتا ہے تو دریا کے دونوں جانب لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر باتیں کرتے ہیں۔

پتھر سے باندھ کر سندیسے دریا کے پار بھیجتے ہیں ۔جب سیاح یہ منظر دیکھتے ہیں تو دل تھام لیتے ہیں۔ حکومت پاکستان بھارتی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات سے دنیا کو کم ہی آگاہ کر پائی ہے۔ملکی اور غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ خود صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان مقامات پر لے جائے تاکہ وہ یہاں کی اسٹوریز سامنے لاسکیں۔ہر روز ٹی وی چینلز پر درجنوں پروگرام ہوتے ہیں لیکن مجال ہے لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی کی کوریج کریں۔

سیز فائرلائن پر موجود آبادی کے لئے حفاطتی بنکرز تعمیر کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے2016 ء میں پانچ ارب روپے مختص کئے تھے جنھیں فائرنگ کے دوران مقامی آبادیوں کیلئے متبادل کے طور پر استعمال ہونا ہوتا ہے تاہم چار سال گزرنے کے باوجود بھی وہ بنکرز تعمیر نہ ہوسکے جن سے مقامی آبادیوں کو کسی حد تک راحت پہنچنے کی امید تھی۔

سیز فائر لائن کے دونوں اطراف سویلین آبادی ہی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو چاہئیے کہ وہ سیز فائر لائن کو حقیقی سیز فائر لائن بنائیں اور ایسا معاہدہ طے پایا جائے کہ سیز فائر لائن پر فائرنگ نہیں کی جائے تاکہ دونوں اطراف کے مقامی آبادی سکون کا سانس لے سکے۔

کنٹرول لائن کیا ہے؟

تقسیم برصغیر کے بعد جب کشمیر میں جنگ ہوئی اور تقسیم ہوا تو اقوام متحدہ کی وجہ سے جنگ بندی ہوئی اور جنگ بندی لائن (سیز فائر لائن) وجود میں آئی جس نے کشمیر کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ 1972 میں شملہ معاہدے کے دوران جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول بنا دیا گیا۔

1989 میں جب کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہوئی تو لائن آف کنٹرول بھڑک اٹھی اور کنٹرول لائن عبور کرتے ہوئے ہزاروں کشمیر لقمہ اجل بنے۔ 2003 میں کنٹرول لائن پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا اور پاکستان اور بھارت نے مشترکہ طور پر باڑ لگائی۔ اس سے قبل لائن آف کنٹرول کی حدود متعین نہیں تھی۔2003 میں ہونے والی فائر بندی2012 ء تک کسی طور قائم رہی اس کے بعد پھر سے یہ خونی لکیر بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں انسانوں کا خون بہا اور بہہ رہا ہے۔

منقسم خاندان

لائن آف کنٹرول پر زیادہ تر منقسم خاندان آباد ہیں ان خاندانوں کا کچھ حصہ مقبوضہ کشمیر اور کچھ آزاد کشمیر میں پایا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے، دریائے نیلم کے اطراف بسنے والے خاندانوں کی زندگی اس کی بڑی مثال ہیں جب ایک طرف کسی کی ڈولی اٹھتی ہے تو ان کے رشتہ دار جو دریا کے اس پار رہتے ہیں دریا کے کنارے پر جمع ہو کر ان کی خوشیوں کا حصہ بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

اسی طرح غمی کے مواقع پر بھی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پونچھ ڈویژن میں بھی کئی منقسم خاندان ہیں جو ایک دوسرے سے ملنے کی آرزو میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تیتری نوٹ کے ایک شہری نے بتایا کہ ان کے کئی رشتہ دار دریائے پونچھ کے دوسری طرف آباد ہیں لیکن عشروں گزر گئے ان سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کے سفری آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ ہم اپنے رشتہ داروں سے مل سکیں۔

جنگلی حیات کی تباہی

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا بڑا نقصان ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کا پیدا ہونااور جنگلی حیات کے خاتمے کا سبب بھی ہے۔ جب فائرنگ ہوتی ہے تو قریب کے جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے جس سے جنگلات اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔اسی طرح فضا میں بارود دھوئیں اور بدبو سے فضا آلودہ ہوتی ہے.

جس کے باعث سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جنگلی حیات پانی کی تلاش اور رہنے کی جگہ کی تلاش کیلئے بھاگتے ہیں اور کئی مرتبہ شہری آبادیوں کا رخ بھی کر لیتے ہیں۔جب کئی دنوں بعد انھیںیک دم پانی ملتا ہے تو زیادہ پانی پینے کے باعث بھی جانوروں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

The post لائن آف کنٹرول کے آس پاس لوگ کیسے جیتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں ہندو اکثریت کا فریب

$
0
0

5 اگست 2019ء کی دوپہر بھارتی وزیر داخلہ نے لوک سبھا میں بڑے طمطراق اور مغرورانہ انداز سے ریاست جموںو کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا۔

انہوں نے بڑے غرور سے بتایا کہ پچھلے ستر برس سے جو کام دوسرے حکمران نہیں کرسکتے تھے، وہ بی جے پی نے محض چند دن میں کر دکھایا۔ ہمارے پڑوس میں حکمران جماعت کو یہ غیر آئینی، غیر قانونی اور ناجائز اقدام کرنے کی ہمت اسی لیے ہوئی کہ وہ بھارت میں ہندومت کے نام پر کروڑوں شہریوں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرچکی۔

اس کامیابی کے بل بوتے پر وہ بھارت کو ہندو ریاست (ہندو راشٹریہ)بنانا چاہتی ہے۔آرٹیکل 370 کا خاتمہ محض آغاز ہے، وہ بھارت کے آئین میں مزید تبدیلیاں انجام دے کر اس کی سیکولر ہئیت ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کرے گی۔اس موقع پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی بھارت میں ہندو اکثریت رکھتے ہیں؟ اکثر اہل وطن کہیں گے کہ یہ کیسا بچکانہ سوال ہے؟ ظاہر ہے، بھارت میں ہندومت کے پیروکار ہی سب سے زیادہ ہیں۔سچ مگر یہ ہے کہ بھارت میں ہندو اکثریت ’’نہیں‘‘ رکھتے۔ دراصل پچھلے ڈیڑھ سو برس کے دوران یہ جھوٹ نہایت عیاری و مکاری سے برہمن طبقے نے تخلیق کیا تاکہ وہ بھارت میں حکمرانی کرنے کے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنا سکے۔

برہمن مت کا قیام

سچ کی تلاش میں ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا جہاں حقائق بکھرے ہیں۔ ماہرین اثریات کی رو سے برصغیر پاک و ہند کے اصل باسی براعظم افریقا سے آئے۔ دس پندرہ ہزار سال پہلے وادی دجلہ و فرات (عراق و شام) سے بھی کچھ گروہ یہاں آن بسے۔ افریقی مہاجرین کی اولاد نے وادی سندھ کی تہذیب کی بنا رکھی۔

جبکہ عرب مہاجرین نے بلوچستان میں اپنی بستیاں بسائیں جن میں ’’مہر گڑھ‘‘ مشہور ہے۔تین ہزار سال قبل وسطی ایشیا سے جنگجو قبائل ہندوستان آن پہنچے۔ تب تک طویل قحط نے وادی سندھ کی تہذیب کے شہراجاڑ کر رکھ دئیے تھے۔جنگجو قبائل نے انھیں مزید تخت و تاراج کیا اور وہاں کے باشندوں کو غلام بنالیا۔ ان شہروں کے بہت سے باسی جنوبی ہند ہجرت کرگئے۔

ان باسیوں کی اولاد آج ’’دراوڑ‘‘ کہلاتی ہے۔ بھارتی ریاستوں، تامل ناڈو، کیرالہ،کرناٹک ،آندھرا پردیش،اڑیسہ اور تلگانہ میں آباد بہت سے لوگ یہی دراوڑ ہیں۔وسطی ایشیا اور بعدازاں ایران سے آنے والے جنگجو قبائل نے شمالی ہندوستان میں نئے شہر بسائے اور وہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب کو رواج دیا۔ دور جدید کے مورخین انہیں ’’آریا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آہستہ آہستہ آریاؤں کی سلطنت میں طبقاتی تقسیم وجود میں آگئی۔ حکمران خاندان کے افراد ’’برہمن‘‘ بن بیٹھے۔ فوج کے اعلیٰ افسر ’’کھشتری‘‘ کہلائے۔ تجار کو ’’ویش‘‘ کہا گیا۔ معمولی پیشوں سے وابستہ افراد ’’شودر‘‘ جبکہ مقامی لوگ (دراوڑ) ’’اچھوت‘‘ بن گئے۔

برہمنوں نے قصّے کہانیاں لکھیں اور مذہبی روایات پر مبنی تحریریں بھی۔ ان تحریروں سے وجود میں آنے والی کتب میں وید، اپنشد، سمرتی، (رامائن اور مہا بھارت وغیرہ) پران (بھگوت گیتا وغیرہ) شامل ہیں۔ ان تمام کتب کے لکھاری برہمن تھے۔ اسی لیے ان کتابوں میں جس مذہبی و سماجی نظام کے خدوخال ملتے ہیں، اس میں برہمنوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیوی دیوتا، منتر، جاپ، بجھن، الاپ وغیرہ سبھی برہمنوں کے ایجاد کردہ ہیں۔ شمالی ہندوستان میں مردوزن کو مجبور کیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے تخلیق کردہ اس نئے مذہبی و سماجی نظام کو اختیار کرلیں جسے ’’برہمن مت‘‘ کا نام دیا گیا۔

برہمن شودر اور اچھوت افراد کو نیچ سمجھتے تھے، اسی لیے انہیں الگ تھلگ کرنے کی خاطر قوانین بنائے گئے۔ حتیٰ کہ ان سے جانوروں جیسا سلوک ہونے لگا۔ ایک اچھوت کسی برہمن کا جسم بھی چھولیتا، تو اکثر اس جرم کی سزا موت کی صورت اسے ملتی۔ کتب تاریخ میں اچھوتوں پر برہمنوں کے ظلم و ستم کی داستانیں تفصیل سے لکھی ہیں۔

جب برہمن شمالی ہند میں قدم جماچکے تو اپنے مت کو مشرقی و جنوبی ہندوستان میں پھیلانے کی کوششیں کرنے لگے۔ اس زمانے میں ہندوستان کے یہ دونوں حصے چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھے۔ تاہم وہاں کا سماجی و مذہبی نظام برہمنوں کی طرح متعصب اور ذات پات کی لعنت سے آلودہ نہ تھا۔ بادشاہ غریب و نادار لوگوں کو اچھوت یا جانور سمجھنے کے بجائے ان کی مالی مدد کرتے اور انہیں انسان سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے، مشرقی و مغربی ہندوستان کے باسیوں کو معتصب برہمن مت ایک آنکھ نہ بھایا۔جلد ہی وہاںکے دو شہزادوں، مہاویر اور گوتم بدھ نے برہمن مت کے خلاف سماجی و مذہبی تحریکیں برپا کردیں۔

انہوں نے جس مذہبی و سماجی نظام کی بنیاد رکھی، وہ بہرحال برہمن مت کی طرح متعصب اور نفرت انگیز نظریات پر مبنی نہ تھا۔ مہاویر کے نظریات سے ’’جین مت‘‘ وجود میں آیا۔ گوتم بدھ نے ’’بدھ مت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں بدھ مت کو مقبولیت ملی۔228 قبل مسیح میں اشوک اعظم نے اسے مشرقی و مغربی ہی نہیں شمالی ہندوستان تک بھی پہنچا دیا۔

یوں اسی نئے مذہب نے برہمن مت کو چاروں شانے چت کر ڈالا۔شمالی ہندوستان میں بہرحال برہمن اپنے مذہبی و سماجی نظام کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے۔ البتہ بدھ مت کے زیر اثر وہ سبزی خور بن بیٹھے اور انہوں نے گوشت کھانا ترک کردیا۔ اب گائے ان میں مقدس و پوتر ہستی بلکہ دیوی سمجھی جانے لگی۔ برہمنوں کے اجداد مگر گوشت خور تھے۔ وہ مویشیوں کے علاوہ گھوڑوں کا گوشت بھی کھاتے تھے۔

اسلام کا فروغ

319ء میں گپتا خاندان شمالی ہندوستان میں برسراقتدار آیا۔ گپتا بادشاہ برہمنوں کی سرپرستی کرتے رہے چناں انہوں نے معاشرے میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔ وہ پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے مذہبی و سماجی نظام کی تبلیغ کرنے لگے۔ بعض افراد نے ان کا نظام قبول کرلیا۔ بہت سے ہندوستانیوں نے ان کی دیکھا دیکھی مقامی دیوی دیوتا تخلیق کرلیے۔ حتیٰ کہ گوتم بدھ کے مجسمے بنائے جانے لگے۔

یوں پورے ہندوستان میں بت پرستی کا رواج پڑگیا۔ہندوستان میں سینکڑوں اقوام آباد تھیں جو اپنے مخصوص مذہبی و سماجی نظام اور تہذیب و ثقافت رکھتیں۔ تاہم آہستہ آہستہ بت پرستی ان میں قدر مشترک بن گئی۔ لیکن سیاسی طور پر یہ اقوام انتشار اور عدم اتفاق کا شکار رہیں۔ یہی وجہ ہے، گپتا خاندان کی سلطنت ختم ہونے کے بعد ہندوستان مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔

اسی دوران مسلمان یہاں آپہنچے اور مذہبی و سماجی لحاظ سے ہندوستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔عرب مسلمانوں نے سندھ کو اپنا مسکن بنایا، تو بعدازاں افغان مسلمان شمالی ہند فتح کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے جلد مشرقی اور مغربی ہندوستان پر بھی اپنا تسلط جمالیا اور ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مسلم صوفیا اور بزرگوں کی تبلیغ سے لاکھوں بت پرست مسلمان ہوگئے جن میں برہمن بھی شامل تھے۔

اسلامی تعلیمات نے ذات پات اور تعصب پر مبنی برہمن مت کو کاری ضرب لگائی اور اسے ماند کر ڈالا۔ لیکن برہمن مت ہندوستان سے مٹ نہ سکا۔ شمالی ہند میں خصوصاً شنکر اچاریہ اور اس کے دیگر مذہبی رہنماؤں نے اسے زندہ رکھا۔بیشتر مسلمان حکمران روادار اور غیر معتصب تھے۔ انہوں نے کسی بت پرست کو زبردستی مسلمان نہ بنایا۔

مقامی لوگوں کے مذہبی نظریات سے بھی کوئی تعرض نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے ،ہندوستان میں ہمیشہ غیر مسلم آبادی کی ا کثریت رہی۔ مسلم حکمران چاہتے تو وہ غیر مسلموں کو بہ آسانی مسلمان بنا لیتے۔ زمانہ قدیم میں رواج تھا کہ حکمران خاندان جو مذہب اختیار کرتا‘ رعایا بھی اسی کو بخوشی اپنا لیتی ۔ لیکن یہ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کی انصاف پسندی اور رواداری ہے کہ انہوں نے کبھی غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی مہم نہیں چلائی۔ سچ یہ ہے کہ انہوںنے برہمنوں سمیت تمام بت ترستوں کو اپنی حکومتوں میں اعلیٰ عہدے دیئے ۔خصوصاً مغل حکمرانوں کے حکومتی انتظامی ڈھانچے میں برہمن کئی اہم عہدوں پر فائز تھے۔

انگریز نجات دہندہ بن گئے

اٹھارویں صدی میں انگریز تجارت کرنے ہند وستان پہنچے۔ تب مغل سلطنت زوال پذیر تھی۔ جلد ہی ماضی کی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی بڑی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔وہ ہر وقت ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتیں۔ یہ دیکھ کر یورپی طاقتوں کا بھی جی للچانے لگا کہ وہ ہندوستان میں اپنی نو آبادیاں قائم کر لیں۔

چونکہ انگریز جدید اسلحہ ایجاد کر چکے تھے لہٰذا وہ ہندوستانی ریاستوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔1857ء تک ہندوستان کا بڑا رقبہ ان کے زیر نگیں آ گیا۔انگریزوں نے مسلم حکمرانوں سے ریاستیں چھینی تھیں‘ اسی لیے قدرتاً وہ مسلمانوں کو اپنا مشیر اور وزیر بنانے سے کتراتے ۔ انہوںنے جو حکومتی انتظامی ڈھانچا تشکیل دیا‘ اس میں غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اسی نئے حکومتی نظام میں خصوصاً برہمنوں نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی۔ وجہ یہ کہ وہ فارسی‘ عربی اور سنسکرت زبانوں کے ماہر تھے۔ پھر انہیں انتظامی امور کا بھی تجربہ تھا کہ مغل حکومت کے اہم ریاستی عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے برعکس انگریزوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اسی لیے کاروبار مملکت چلانے میں وہ غیر مسلموں خصوصاً برہمنوں کے محتاج بن گئے۔ یہی وجہ ہے،برہمنوں نے بہت جلد نئی حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔ کئی صدیوں بعد انہیں حکومتی نظام میں دوبارہ طاقت ملی اور وہ ہندوستانی معاشرے میں پھر نمایاں ہونے لگے۔

برہمن طبقے کی اب سب سے بڑی تمنا یہ بن گئی کہ اس قوت اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھا جائے تاکہ وہ معاشرے میں طاقتور ترین گروہ کی حیثیت اختیار کر لیں۔غور و فکر کے بعد برہمن رہنماؤں پر القا ہوا کہ اگر وہ تمام بت پرستوں کو اپنے زیر قیادت ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیں تو نہ صرف وہ خود طاقتور ہوں گے بلکہ برہمن مت بھی ہندوستان کا سب سے بڑا مذہبی و سماجی گروہ بن جائے گا۔

اس طرح وہ بلا شرکت غیرے ہندوستان کے مالک و مختار بن بیٹھتے۔ اب یہ اہم سوال سامنے آیا کہ مختلف دیوی دیوتاؤں کو پوجنے‘ ایک دوسرے سے متضاد مذہبی رسم و رواج اور روایات رکھنے والی بت پرست اقوام کو برہمن مت کے جھنڈے تلے کس طرح جمع کیا جائے؟ بظاہر یہ ناممکن کام تھا  کیونکہ تمام اقوام میں مذہبی ‘ معاشرتی‘ تہذیبی‘ معاشرتی اور جغرافیائی اختلافات موجود تھے۔ درحقیقت کئی گروہ ایک دوسرے سے اینٹ کتے کا بیر رکھتے ۔

مثال کے طور پر اٹھارہویں صدی کے اواخر تک شمالی ہندوستان میں وشنو اور شیو دیوتاؤں کے پیروکار بت پرستوں میں سب سے بڑے گروہ بن چکے تھے۔یہ پیروکار ہر وقت ایک دوسرے سے برسرپکار رہتے۔ بھارتی مورخین لکھتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں کی باہمی لڑائیوں میں اتنے زیادہ غیر مسلم مارے گئے کہ حملہ آوروں (یونانیوں ‘ ایرانیوں‘ عربوں وغیرہ ) کے حملوں میں بھی اتنے نہیں مرے تھے۔سوچ بچار کے بعد برہمن رہنماؤں نے اپنا منصوبہ کامیاب بنانے کی خاطر ایک حکمت عملی اپنا لی۔یہ حکمت دو بنیادی جزو رکھتی تھی۔

اول یہ کہ برہمن مت کی کتابیں ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کر کے پورے ہندوستان میں پھیلا دی جائیں۔ مقصد یہ تھا کہ بت پرستوں میں برہمن مت کے دیوی دیوتا (شیو‘ وشنو‘ رام‘ کرشن‘ برہما‘ ہنومان‘ سیتا وغیرہ ) مشہور ہو جائیں۔دوسری چال یہ چلی گئی کہ بت پرستوں کے مسائل ا ور مشکلات کا ذمے دار ’’ملیچھوں ‘‘ (مسلمانوں) کو قرار دیاجائے۔ بھرپور انداز میں یہ پروپیگنڈا کیا جائے کہ آٹھ سو سالہ دور حکومت میں مسلمانوں نے ہندوستان اور غیر مسلموں کو تباہ و برباد کر دیا۔ غیر مسلموں پر بے انتہا ظلم کیے‘ ان کی عبادت گاہیں مسمار کر دیں اور مقامی لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا۔ چونکہ مسلمانوں نے غیر مسلموں پر بے انتہا مظالم کیے لہٰذا اب اکٹھے ہو کر ان سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔برہمن طبقے کی درج بالا منفی حکمت عملی کو انگریز آقاؤں نے بھی پسند کیا۔

پہلی وجہ یہ کہ اسی حکمت عملی میں انگریز کو ’’نجات دہندہ‘‘ دکھایا گیا کیونکہ اس نے معصوم غیر مسلموں کو ظالم مسلم حکمرانوں سے نجات دلوا دی۔ دوسری اوربڑی وجہ یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لڑائی سے انگریزوں کو اپنی ’’پھوٹ ڈالواور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کامیاب ہوتی نظر آئی۔ ظاہر ہے‘ اگر مسلمان اور غیر مسلم آپس میں لڑ پڑتے تو ان سے کوئی تعرض نہ کرتا اور وہ آرام سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے۔برہمن طبقے اور انگریزوں کی ملی بھگت سب سے پہلی بنگال میں دیکھنے کو ملی ۔

تب 1757ء میں برہمن بنیوں کی مدد سے انگریز نواب سراج الدولہ کی حکومت ہتھیانے میں کامیاب رہے۔یہ شراکت داری پھر بڑھتی چلی گئی۔ درج بالا حکمت عملی کامیاب بنانے کے لیے انگریزوں نے 1784ء میں کلکتہ میں ’’ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال ‘‘ نامی تنظیم قائم کر دی۔ اس تنظیم کے تحت برہمنوں کی مذہبی و ادبی کتب(وید‘ اپنشد‘ مہا بھارت‘ رامائن وغیرہ) جمع کر کے مختلف مقامی اور غیر ملکی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ یہ ترجمے پھر اندرون اور بیرون ہندوستان پھیلا دیئے گئے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کے قدیم مذاہب کا مطالعہ کرنے کی خاطر ایک نیا شعبہ‘ انڈولوجی وجود میں آ گیا۔رفتہ رفتہ انگریزوں کے ساتھ ساتھ جرمن اور فرانسیسی دانشور بھی ہندوستانی قدیم مذاہب پر تحقیق کرنے لگے۔ اسی تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ ہندوستان کے بت پرست متنوع مذہبی و معاشرتی نظریات کے باوجود برہمنوں کی کتب کو سب سے زیادہ مقدس مانتے ہیں۔ اسی لئے انہیں ایک مذہب کا پیروکار کہا جا سکتا ہے۔

نئے مذہب کی تخلیق

انڈولوجی کے یورپی ماہرین نے یوں زبردستی ہندوستان میں ایک نیا مذہب تخلیق کر ڈالا۔ یہ اقدام کرنے کی وجوہ بیان کی جا چکیں ۔ اس نئے مذہب کو انہوں نے ’’ہندومت‘‘ کا نام دیا۔ اس کے پیروکار ’’ہندو‘‘ کہلانے لگے۔ دلچسپ بات یہ کہ ہندو مذہبی نہیں جغرافیائی اصطلاح ہے۔

ہزاروں سال پہلے بیرونی اقوام نے دریائے سندھ کے پار بسنے والے ہندوستانیوں کو ’’سندھو‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لفظ ’’ہندو‘‘ بن گیا۔ اب انگریز و دیگر یورپی دانشوروں نے اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہندوستان میں بستے سبھی بت پرستوں کو ’’ہندو‘‘ کہہ ڈالا۔1817ء میں برطانوی مورخ‘ جیمز مل نے ہندوستان کی تاریخ مرتب کی۔ اس تاریخ میں حکمت عملی کے تحت مسلم حکمرانوں کو ’’لٹیرا‘ اور ’’ظالم‘‘ قرار دیا گیا۔ ہندو مظلوم اور پسماندہ دکھائے گے۔ لیکن اب برہمن انہیں دوبارہ خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکتے تھے۔ انگریز حکومت کے دیگر تنخواہ دار مورخین مثلاً چارلس ولکنز‘ کولسن میکنز ے‘ ہنری تھامس کول‘ میکس میولر وغیرہ اس نظریے کی شدو مد سے تبلیغ کرنے لگے۔

1828ء میں بنگال کے ایک برہمن رہنما، راجا رام موہن رائے نے ’’برہمو سماج‘‘ نامی تنظیم قائم کی ۔ بظاہرتنظیم کا مقصد بت پرستوں یعنی ہندووں میں پھیلی توہمات اور فرسودہ روایات کا خاتمہ کرنا تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ برہمن مت کی مذہبی کتب اور نظریات بنگالی غیر مسلم عوام میں پھیلادیئے جائیں۔

اسے دوران دیگر برہمن رہنما مختلف علاقوں میں بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے۔ وہ اس حکمت عملی سے انھیں ہندو بنا کر اپنے پلیٹ فارم پر لانا چاہتے تھے۔ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آباد بت پرست بھی دیکھ رہے تھے کہ مسلمان اب حکمران نہیں رہے اور ان کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ اس دوران مسلمانوں کے خلاف برہمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے نے ان میں اشتعال پیدا کر دیا۔ بت پرستوں کے ناسمجھ دماغ یہی سمجھنے لگے کہ ان کی مشکلات کے ذمے دار سابق مسلمان حکمران ہیں۔ لہٰذا اب مسلمانوں سے انتقام لینے کا وقت آ پہنچا ۔برہمنوں کی منفی اور نفرت انگیز پالیسی نے آخر 1853ء میں ایودھیا قصبے میں عملی روپ دھار لیا۔ ا یودھیا میں دیوتا رام کی پوجا کرنے والی ایک تنظیم، نرموہی اکھاڑے کو نواب اودھ نے مندر بنانے کے لیے زمین دی تھی۔ یہ مندر اب ہنومان گڑھی کہلاتا ہے۔

1853ء میں نرموہی اکھاڑے کے یوگیوں نے قریب ہی واقع عید گاہ (قناتی مسجد) پر قبضہ کر لیا۔ یوں وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ایودھیا کے قریب فیض آباد شہر میں مسلمان کثیر تعداد میں آباد تھے۔ جب انہیں علم ہواکہ یوگیوں نے عید گاہ پر قبضہ کر لیا ہے تو قدرتاً ان میں اشتعال پھیل گیا۔

تبھی شہر کے ایک مذہبی رہنما‘ شاہ غلام حسین نے یوگیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ ایودھیا میں پھر مسلمانوں اور دیوتا رام کے پیروکاروں کے مابین کئی لڑائیاں ہوئیں۔ دور جدید کی اصطلاح میں یہ ہندوستان میں پہلا باقاعدہ ’’ہندو مسلم فساد‘‘ تھا ۔ آخری معرکے میں شاہ غلام حسین کے ایک ساتھی‘ مولوی امیر علی انگریز و اودھی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے کئی سو ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔اس فساد کی خصوصیت یہ ہے کہ جلد ہی نرموہی اکھاڑے کے یوگیوں نے دعویٰ کہ دیا کہ قریب ہی واقع بابری مسجد ایک مندر ڈھا کر تعمیر کی گئی۔ اور یہ کہ و ہ مندر رام دیوتا کی جائے پیدائش پر بنایا گیا ۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر یوگیوں نے بابری مسجد کے سامنے ایک چبوترہ بنایا اور وہاں رام کی عبادت کرنے لگے۔ یوں ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ سوا سو سال بعد اسی تنازع نے قوم پرست ہندوجماعتوں آر ایس ایس ار بی جے پی کو بھارت میں مقبول بنانے کے لیے اہم ترین کردار ادا کیا۔

مفادات کی جنگ

جیسا کہ بتایا گیا، بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنا اور ان سے لڑوانا برہمنوں اور انگریزوں کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ اس طرح وہ اپنے مفادات پانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انگریز انتظامیہ بظاہر فسادات کی روک تھام کرتی مگر اندرون خانہ ایسی چالیں چلی جاتیں کہ بت پرستوں اور مسلمانوں کے مابین تصادم بڑھتا چلا جائے۔ اسی تصادم نے بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر لانے اور برہمنوں کو اقتدار دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انگریزوں کے تعاون سے برہمن غیر مسلم طبقے میں آقا اور رہنما کی حثیت اختیار کرگئے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ دور جدید کے برہمن دعویٰ کرتے ہیں، ان کی مذہبی کتب ہزاروں سال پرانی ہیں۔ اسی لیے وہ ’’ہندومت‘‘ کو قدیم ترین مذہب قرار دیتے ہیں۔ لیکن شاطر برہمن یہ سچائی سامنے نہیں لاتے کہ ان کی مذہبی کتب کا قدیم ترین مخطوطہ تیرہویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا وہ صرف سات آٹھ سو سال پہلے لکھا گیا۔ وہ پھر کس بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندومت یعنی برہمن مت ہزاروں سال پرانا ہے؟ اس کے برعکس قرآن پاک حتیٰ کہ بائبل کے قدیم ترین مخطوطے کئی سو سال پہلے لکھے گئے اور آج تک محفوظ ہیں۔ مثلاً ’’مخطوطات صنعا ‘‘578ء تا 669ء کے دوران لکھے گئے جو خلفائے راشدین کا دور ہے۔اسی طرح توریت کے قدیم مخطوطے دو ہزار سال پرانے ہیں۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ سات آٹھ سو برس قبل ہی برہمن مت المعروف بہ ہندومت کو معین شکل دینے کا آغاز ہوا۔

1865ء میں آگرہ کے ایک برہمن لیڈر،شیو پرشاد نے یہ تحریک چلا دی کہ اردو نہیں ہندی کو سرکاری زبان بنایا جائے۔ 1875ء میں ایک انتہا پسند برہمن، دیانند سرسوتی نے ’’آریہ سماج‘‘ تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم نے سب سے پہلے ہندومت کی ترویج کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر نشانہ بنایا۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم (گھرواپسی) شروع کی ۔ گائے کاذبیح روکنے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ سوامی سرسوتی نے اپنی کتب میں نبی کریم ﷺ اور حضرت عیسیٰؑ پررکیک الزامات لگائے۔ 1887ء میں برہمن ادیب، بنکم چٹرجی نے ناول ’’آنند متھ‘‘ تحریر کیا۔ اس میں بت پرستوں کو ’’ہندو‘‘ کا نام دے کر مسلمانوں کے خلاف لڑتا دکھایا گیا۔ بھارت کا قومی ترانہ، وندے ماترم اسی ناول کی ایک نظم سے ماخوذ ہے۔1885ء میں اعتدال پسند برہمنوں اور انگریزوں نے ’’کانگریس‘‘ جماعت کی بنیاد رکھی۔

اس طرح برہمنوں میں دو تحریکیں ایک ساتھ چل پڑیں، اگرچہ دونوں کا مقصد بت پرستوں کو ہندو بنانا تھا۔ آریہ سماج کے زیر اثر انتہا پسند اور قوم پرست برہمن رہنماؤں نے جنم لیا۔ وہ پورے ہندوستان کو ہندوریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان رہنماؤں میں سوامی ویویکانند، بال گنگا دھرتلک، پنڈت مدن موہن مالویہ، دمودر ساورکر اور کیشو بلرام ہیڈگوار (آر ایس ایس کا بانی) نمایاں ہیں۔ کانگریس میں اعتدال پسند برہمن و کھشتری چھائے رہے جن میں گاندھی اور پنڈت نہرو مشہور ہوئے۔ ان دونوں تحریکوں کی وجہ سے بہرحال انیسویں صدی کے اواخر ہندوستان میں ’’ہندومت‘‘ اور ’’ہندو‘‘ کی اصطلاحوں نے جڑ پکڑلی۔

عالم فاضل مسلمان جانتے تھے کہ ہندوستان میں آباد بت پرستوں کی مختلف اقوام اپنی مخصوص مذہبی، معاشرتی و تہذیبی روایات رکھتی ہیں۔ انہیں ’’ہندو‘‘ کہہ کر پکارنا درست نہیں مگر برہمنوں کے پروپیگنڈے خصوصاً بت پرستوں اور مسلمانوں کے بڑھتے تصادم نے یہ اصطلاح مقبول بنادی۔ یوں برہمنوں و انگریزوں کا تخلیق کردہ نیا مذہب، ہندومت نشوونما پانے لگا۔ 1932ء میں اس کے خلاف ایک بڑی بغاوت ہوئی۔ اچھوتوں(دلتوں) کے رہنما، ڈاکٹر امبیدکر پارلیمنٹ میں اپنی قوم کے لیے علیحدہ نشستیں چاہتے تھے۔

اس پر گاندھی اور دیگر برہمن لیڈروں نے شور مچا دیا۔ اگر اچھوتوں کو الگ نشستیں ملتیں تو کروڑوں ہندوستانی ہندومت کی صف سے نکل جاتے۔ چناں چہ ڈاکٹر امبید کر پہ شدید دباؤ ڈال کر انہیں مطالبے سے دستبرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔1939 تا 1945ء جاری رہنے والی جنگ عظیم دوم نے برطانیہ کو دیوالیہ کردیا۔ چناں چہ انگریز کو 1947ء میں ہندوستان بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنا پڑا۔ بھارت میں جلد ہی بت پرستوں کے ان معاشی، مذہبی اور معاشرتی اختلافات نے سر اٹھالیا جنہیں برہمن طبقے نے مسلمانوں کے خلاف فسادات کروا کر بڑی عیاری سے پس پشت ڈال دیا تھا۔ یہ اختلافات پھیلتے تو بھارت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا اور ماضی کی طرح وہ مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوسکتا تھا۔

چشم کشا اعداد وشمار

1941ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 39 کروڑ افراد آباد تھے۔ ان میں 64 فیصد ہندو، 24 فیصد مسلمان اور 6 فیصد سکھ و عیسائی بتائے گئے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان 64 فیصد ہندوؤں میں 70 فیصد آبادی شودر (نچلی ذاتوں)، اچھوت اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتی تھی۔ گویا ہندوستان کی آبادی میں 27 کروڑ 30 لاکھ ہندو تھے تو ان میں 19 کروڑ 10 لاکھ شودر، اچھوت اور قبائلی نکلے۔ 25.5 فیصد یعنی 6 کروڑ 96 لاکھ ہندو کھشتری یا ویش تھے جبکہ ہندوستان کے غیر مسلموں میں برہمنوں کی تعداد صرف 4.5 فیصد یعنی ایک کروڑ 28 لاکھ تھی۔

گویا یہ 4.5 فیصد بقیہ 95.5 فیصد غیر مسلموں پر غلبہ پانے کی کوششوں میں لگے تھے۔ یہ برہمن دولت، مذہبی اثرورسوخ اور اپنی مکارانہ چالوں کے ذریعے بت پرستوں (ہندوؤں) کے سردار بن بیٹھے۔ ہندوستانی آبادی کی مذہبی تقسیم کم و بیش آج بھی یہی ہے۔ بھارت بننے کے بعد مگر جب شودروں، دلتوں اور قبائل کے رہنما اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر سرگرم ہوئے تو برہمن حکمران طبقے نے انہیں مطمئن کرنے اور شانت رکھنے کی خاطر سرکاری ملازمتوں کا نصف کوٹہ (49.50 فیصد) دے ڈالا۔ مگر بڑی چالاکی سے بقیہ ملازمتیں برہمنوں، کھشتریوں اور ویشوں کے لیے مخصوص کردیں جو بھارتی آبادی کا محض 30 فیصد حصہ ہیں۔ برہمن حکمرانوں نے ایک کام یہ کیا کہ شودر ذاتوں کو ’’ادر بیک ورڈ کاسٹ‘‘کا نیا نام دیا۔ اچھوتوں کی ذاتیں ’’شیڈولڈ کاسٹس‘‘ کہلانے لگیں جبکہ مختلف قبائل کو ’’شیڈولڈ ٹرائبس‘‘ کہا گیا۔ برہمن، کھشتری اور ویش ’’جنرل کیٹگری‘‘ میں آگئے جسے اپر یا فارورڈ کلاس بھی کہا جاتا ہے۔

برہمن طبقے نے نصف ملازمتیں دے کر اپنی رعایا کو رجھا لیا تاکہ اپنے مذہب (ہندومت) کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں مختلف چالیں چلی گئیں۔ مثلاً سردار پٹیل نے بھارتی آئین تشکیل دیتے ہوئے سکھوں اور جینوں کو بھی ہندوؤں کی صف میں شامل کردیا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندو اکثریت جنم لے سکے۔ کم پاکستانی جانتے ہیں کہ آج تک سکھ رہنماؤں نے بھارتی آئین کی دستاویز پر دستخط نہیں کیے کیونکہ ان کا مطالبہ ہے کہ سکھ مت کو علیحدہ مذہب قرار دیا جائے۔ برہمن طبقہ 1947ء سے یہ بات ٹال رہا ہے۔بھارت میں ہندوؤں کی جعلی اکثریت بنانے کے لیے برہمن طبقے نے معاشی ہتھیار استعمال کیا۔ تمام سیکرٹریوں اور وزرا کو حکم دیا گیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو ہی سرکاری ملازمتیں دیں۔

لہٰذا رفتہ رفتہ لاکھوں بت پرست سرکاری ملازمت پانے کی خاطر ہندو بن گئے۔ اسی طرح نجی شعبہ بھی ہندوؤں ہی کو بیشتر ملازمتیں دیتا ہے۔ آج بھی بھارتی مسلمانوںکو اچھی سرکاری و نجی ملازمتیں بہت کم ملتی ہیں۔ وہ معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے بھارتی مسلمانوں کی اکثریت پس ماندہ اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وکی پیڈیا میں ’’ادر بیک ورڈ کاسٹ‘‘ کے نام سے پیج بنا ہے۔ اس کی رو سے ادر بیک ورڈ کاسٹ اور جنرل کیٹگری میں مسلمان، سکھ اور عیسائی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔

دونوں کیٹگریوں میں چند مسلم ذاتیں شامل ہیں۔بھارت میں ہندو اکثریت پیدا کرنے کی خاطر حکمران برہمن طبقے نے ایک اور چال چلی۔ جب مردم شماری ہونے لگے تو متعلقہ اہل کار ادر بیک ورڈ کاسٹ اور شیڈولڈ کاسٹس سے تعلق رکھنے والوں کا مذہب فارم میں پنسل سے لکھتے ہیں۔ بعدازاں اسے مٹا کر وہاں ’’ہندومت‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس طرح پچھلے برس سے کروڑوں بت پرست سرکاری طور پر ہندو بنائے جاچکے۔ یہ بت پرست عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں، اس لیے برہمن طبقے کی عیاری کو نہیں جان سکے۔برہمن طبقے نے جنوبی ہند کے لنگایت فرقے کو بھی زبردستی ہندومت کی صف میں شامل کرلیا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ فرقہ برہمن مت کی اجارہ داری کے خلاف ہی تیرہویں صدی میں سامنے آیا۔ اس فرقے کے پیروکار ویدوں کو افسانہ کہتے اور کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی عبادت نہیں کرتے۔ مگر مودی حکومت مسلسل لنگایت فرقے کو ہندو کہتی ہے۔ وجہ یہ کہ ان کے غیر ہندو ہونے سے ہندوؤں کی آبادی چھ کروڑ کم ہوجائے گی۔

آج بھارت کی آبادی ایک ارب چونتیس کروڑ ہے۔ اس میں کم از کم بیس کروڑ مسلمان ہیں۔ تین کروڑ عیسائی اور ڈھائی کروڑ سکھ ہیں۔ ایک کروڑ بدھ مت اور پچاس لاکھ جین مت کے پیروکار ہیں۔ ان اقلیتوں کی کل تعداد 27 کروڑ بنتی ہے۔ گویا بھارتی برہمن حکومت کے لحاظ سے بقیہ ایک ارب سات کروڑ افراد ہندو ہیں۔ لیکن بتایا جاچکا کہ اس ہندو آبادی میں برہمن، کھشتری اور ویش صرف 30 فیصد ہیں۔ بقیہ 70 فیصد آبادی شودر، اچھوت اور قبائلی بت پرستوں سے تعلق رکھتی ہے۔چلیے مان لیا کہ پچھلی ایک صدی میں شودر، اچھوت اور قبائلی آبادی میں سے نصف ہندو بن چکی۔

انہوں نے اپنے دیوی دیوتا اور مذہبی و سماجی روایات ترک کرکے برہمن مت المعروف بہ ہندومت اختیار کرلیا۔تب بھی برہمن حکمران بھارت میں ہندو اکثریت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ درج بالا اعدادو شمار کی رو سے بھارت میں شودر، اچھوت اور قبائل کی آبادی 93 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ ہم فرض کرچکے کہ ان میں سے نصف یعنی 46 کروڑ 90 لاکھ بت پرستوں نے اب بھی برہمن مت کو قبول نہیں کیا۔ جب ان کی تعداد اقلیتی آبادی میں ملائی جائے، تو اس کے مطابق بھارت میں 71 کروڑ 90 لاکھ غیر ہندو آباد ہیں۔ ہندوؤں کی آبادی 60 کروڑ 90 لاکھ بنتی ہے۔ پھر مودی حکومت کس منہ سے دعویٰ کرتی ہے کہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے؟ سچ یہ ہے کہ باقاعدگی سے پوجا پاٹ کرنے والے ہندو چند کروڑ ہی ہوں گے۔ ان میں بھی سادھو، یوگی، پنڈت وغیرہ بکثرت ہیں۔

برہمن طبقے نے دراصل بھارت میں میڈیا پر قبضہ کررکھا ہے۔ بھارتی ٹی وی نیٹ ورکس، اخبارات اور رسائل پر برہمن، کھشتری یا ویش چھائے ہوئے ہیں۔ چناں چہ یہ میڈیا مسلسل پروپیگنڈا کرتا ہے کہ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ مودی حکومت میں تو یہ پروپیگنڈا زور شور سے ہونے لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے قدرتی وسائل پر پانچ چھ فیصد برہمن و کھشتری قابض ہیں۔ جبکہ کروڑوں شودر، اچھوت اور قبائلی غربت و لاچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں بھارتی غربت کے مارے خودکشیاں کرلیتے ہیں۔

لیکن بے بس اور ناخواندہ ہونے کے سبب وہ احتجاج نہیں کرپاتے۔ماضی میں بھارت کئی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اسی تقسیم کے باعث برہمن طبقہ ہندوستان کے وسائل پر قبضہ نہیں کرسکا تھا۔ اگر شودر، اچھوت اور قبائلی بھی ملکی وسائل سے برابر کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو انہیںاپنی ریاستیں تشکیل دینا ہوں گی۔ اس کے بعد ہی وہ ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں گے۔ اگر ایسا نہ ہواتو ان کے آنے والی نسلیں بھی برہمن و کھشتریوں کی غلام بنی رہیں گی۔برہمن طبقے اور آر ایس ایس کا ایجنٹ،نریندر مودی اسی ڈراؤنے خواب کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔2014ء سے وہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے پر شد ومد سے عمل پیرا ہے تاکہ برہمنوں کے اقتدار کو دوام مل جائے۔

The post بھارت میں ہندو اکثریت کا فریب appeared first on ایکسپریس اردو.

رنگ کھولیں شخصیت کے راز

$
0
0

رنگ کائنات کے حسن کا نکھار ہیں۔ ان رنگوں کی بدولت اس کرہِ ارض پر بہار چھائی رہتی ہے۔ رنگوں سے متعلق مختلف قیاس موجود ہیں۔ انھیں کبھی خوشیوں سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی دکھوں سے۔کسی نے رنگوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ  ’’رنگ وہ طاقت ہے جو براہِ راست دل پر اثر کر تی ہے‘‘۔رنگوں کا استعمال مختلف جگہ کیا جاتا ہے ۔ چاہے کپڑے ہوں یا جوتے، پرس ہو یا جیولری، دیواروں کا پینٹ ہو یا بیڈ شیٹ ہر جگہ رنگوں کے انتخاب کو فوقیت دی جاتی ہے۔یہ انتخاب ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ رنگوں کے انتخاب کے پیچھے کیا راز کارفرما ہیں۔

نیلا رنگ:نیلا رنگ پہننے والے افراد کو کبھی ناکامی نہیں ہوتی، بھلا کیسے؟ اور کہاں؟ جی تو آپ کے ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ افرادجو جاب انٹرویو کے لیے نیلے رنگ کا انتخاب کرتے ہیں ان کی کامیابی یقینی ہے۔ 2013ء میں کیریئر بلڈرز کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی بڑی کمپنیوں میں منیجر کی پوسٹ حاصل کرنے والے افراد انٹرویو کے لیے نیلے رنگ کی شرٹس پہن کر آئے تھے۔ اس سروے کا مقصد دراصل کیریئر میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے جاننا تھا اور اس سلسلے میں کامیاب لوگوں سے معلومات حاصل کرنے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے نیلی شرٹ اور بلیک یا سکن ڈریس پینٹ سامنے والے پر بہت اچھا تاثر ڈالتی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیلے رنگ سے اس قدر مثبت جذبات کیسے منسلک ہوئے؟

دراصل یہ سب کلر سائیکالوجی کا کمال ہے۔ ڈیزائن ود سائنس اور امریکی سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر سالے آگسٹن نے بتایا کہ ’’نیلا رنگ دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور اسے ایمانداری، اعتماد اور قابلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ رنگ صرف جاب حاصل کرنے سے بڑھ کر معنی رکھتا ہے۔‘‘

نارنجی رنگ:آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ مرکز نگاہ بننے والے نارنجی رنگ کو پسند کرنے والے افراد کی شادی کامیاب نہیں ہوتی۔ جی ہاں یہ کوئی قیاس نہیں بلکہ یہ کہنا ہے رنگوں کے ماہر فبر بیرن کا جنہوں نے رنگوں پہ تحقیق کر رکھی ہے۔ انکے مطابق اس رنگ کو پسند کرنے والے لوگ شادی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے اور اگر شادی کر لیتے ہیں تو وہ زیادہ دیر چل نہیں پاتی۔اس کی ایک بڑی وجہ ان کی زندگی کے حوالے سے غیر سنجیدگی ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز رہنا چاہتے ہیں اور جود کو جاذب نظر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عمومی طور پہ دوستانہ مزاج کے حامل ہوتے ہین مگر بات بات پہ بھڑکنے اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرنے کے سبب دوستوں کو کھو دیتے ہیں۔

سرخ رنگ:عمومی طور پر قربانی، خطرات اور جرأت سے وابستہ کیے جانے والا سرخ رنگ دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ اگر رنگوں کو نفسیات کی نظر سے دیکھا جائے تو سرخ رنگ انتہائی دلچسپ ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ سرخ رنگ طاقت کی علامت ہے۔

آنکھوں کو بھلا لگنے والا یہ رنگ پہننے والے کی شخصیت کے حوالے سے بھی مختلف خیالات کا باعث بنتا ہے۔ اسی رومانویت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جیسے سرخ گلاب دنیا میں محبت کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ویسے ہی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں اگر کوئی لڑکی سرخ لباس، جوتے اور لپ سٹک لگا کر باہر نکلتی ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ وہ کسی کا ساتھ چاہتی ہے۔ اسی طرح عروسی ملبوسات میں ہمیشہ سرخ کا انتخاب کرنے کے پیچھے بھی رومانوی خیالات بیدار کرنے کا اہتمام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر جنوب مشرقی ایشیاء میں دلہن کے لیے سرخ لباس کو ہی چنا جاتا ہے اور اسے سہاگن ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

گو کہ ضروری نہیں کہ یہ رنگ اچھے نصیبوں کی ضمانت ہو۔ سرخ رنگ جہاں بہت سی خواتین کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے اور خاص موقعوں پر ان کی کشش بڑھا دیتا ہے ونہی یہ کچھ مواقع پہ پہننا موزوں نہیں جیسے کی جاب پہ پہننے کے لیے یہ رنگ آنکھوں کو بھلا لگنے کے بجائے برا لگتا ہے اور ایک نارمل لک دینے کا کام بالکل نہیں کرتا جوکہ کسی بھی جاب کرنے والے مرد یا خاتون کے لیے درست امر نہیں۔ رنگوں کی نفسیات میں سرخ رنگ شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا مقصد دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے۔ آپ کی نظر سے ایسے بہت سے برانڈ گزرے ہوں گے جن کا سرخ رنگ آپ کو اپنی جانب کھینچتا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرخ رنگ بھوک کو بڑھتا ہے اسی لیے آپ نے بہت سے  Fast Foot ریسٹورنٹس میں کلر تھیم Red ہی دیکھی ہوگی۔

سیاہ رنگ:سیاہ رنگ کا ملبوس شاہی لباس کا حصہ رہا۔ اس رنگ کو طاقت، پراسراریت، شجاعت، اقتدار، شائستگی اور نفاست کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سیاہ رنگ میں ایک عجب سی کشش ہے ایسے پہننے سے طمانیت کا احساس ملتا ہے۔ عموماً خواتین سیاہ رنگ کا لباس پہننا بے حد پسند کرتی ہیں۔ سیاہ وہ واحد رنگ ہے جو ہر رنگت پر جچتا ہے۔ وہ لوگ جو فطرتاً سنجیدہ مزاج، خاموش طبع اور کچھ حد تک گہرے ہوتے ہیں۔ سیاہ رنگ پہننا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سیاہ رنگ پہننے سے شخصیت میں اعتماد جھلکتا ہے۔ جہاں سیاہ رنگ سے کسی کی شخصیت کے بارے میں مثبت اندازے لگائے جاتے ہیں۔ وہیں سیاہ رنگ استعمال کرنے والوں کو اداس، دل گرفتہ، دکھی اور تنہا بھی سمجھا جاتا ہے۔ سیاہ رنگ کو مغربی ممالک میں موت اور دکھ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس رنگ سے منفی اور مثبت دونوں طرح کی رائے قائم کی جاسکتی ہے مگر اس کا انحصار سامنے والے کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے لگا کر ہی کرنا بہتر ہوگا۔

زرد رنگ:زرد رنگ کے بارے میں عموماً یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ رنگ انتظار کی علامت ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ زرد رنگ کو پسند کرنے والے لوگ پر امید، خوش مزاج مگر کافی حد تک جھگڑالو واقع ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو اس رنگ کو پسند کرنے والے افراد کی شخصیت میں تازگی، مثبت انداز فکر، اپنے مقصد سے آگاہی، ذہانت، وفاداری اور تقدس کا عنصر پایا جاتا ہے مگر دوسری طرف یہ بزدلی اور دغا بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

زرد رنگ کے بارے میں مختلف ممالک میں مختلف نظریات وابستہ ہیں۔ جیسے مصر میں اسے موت کی علامت، جاپان میں طاقت و شجاعت اور انڈیا میں بیوپار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

سبز رنگ:عموماً لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ سبز رنگ کو پسند کرنے والے قدرت کے قدردان ،سبزے کو پسند کرنے والے ہوں گے مگر حیرت انگیز طور پہ یہ لوگ اپنے سے جڑے رشتوں خصوصاً منگیتر یا شریکِ حیات کے حوالے سے خدشات کا شکار رہتے ہیں۔ان کی سب سے بڑی خواہش دوسروں میں ممتاز ہونا ہے جبکہ دوسرے انہیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ انکے لئے بہت معنی رکھتا ہے۔کامیاب ہونا، دولت حاصل کرنا اور معاشرے میں اپنا نام بننا انکی اہم ترین خواہش ہوتی ہے۔ ان کو لوگوں میں رہنا بے حد پسند ہوتا ہے۔

سفید رنگ:سفید رنگ کو پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ سفید رنگ پہننا پسند کرتے ہیں وہ عموماً صفائی پسند ، معصوم، نیک نیت، ذہین، دوسروں کو سمجھنے والے، روحانیت کی جانب راغب، مخلص، نرم خو اور پرفکشن کے قائل ہوتے ہیں۔

بھورا رنگ:بھورے یا براون کلر کو پسند کرنے والے افراد نہایت کفایت شعارہوتے ہیں اور فضول خرچی کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ ایسے افراد زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کو جلد قبول کر لیتے ہیں۔ یہ قابلِ اعتماد ، کفایت شعار ، براہ  راست کلام کرنے والے مگر دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنے والے ہوتے ہیں۔

گلابی رنگ:گلابی رنگ ویسے تو خواتین میں بہت مقبول ہے ،مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس رنگ کو پسند کرنے والے افراد کی نفسیاتی طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کے وہ دنیا کی تلخیوں سے دور رہیں اور سنجیدگی کا لبادہ اوڑھنے سے گریز کریں۔ جی دراصل اس رنگ کو پسند کرنے والے افراد کو اپنے بچپن میں ہی رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔یہ فطرتاً سادہ لوح، حساس اور دوسروں کو پناہ دینے والے ہوتے ہیں۔

جامنی رنگ:جامنی رنگ کو صدیوں سے شرافت، عزت اور وقار سے منسلک کیا جاتا ہے۔اس رنگ کو پسند کرنے والے افراد تخلیقی صلاحیتوں اور منفرد خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر دوسروں کو عزت دیتے ہیں مگر بعض اوقات انکے مزاج میں غرور کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ایسے افراد دینا کو اپنے نظر یات سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں جس سے انھیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دنیا داری کے بجائے روحانیت کو ترجیح دیتے ہیں۔

گرے رنگ:سیاہ اور سفید کے درمیان گرے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اس رنگ کو پسند کرنے والے افراد کسی حد تک جذبات سے عا ری،مردم بیزار، رابطہ نہ رکھنے والے اور ناہموار شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ کسی سے بھی وابستگی اختیار کرنے سے خوافزدہ ہوتے ہیں۔ دنیا کو بے اعتباری کی نظر سے دیکھنا انکا شیوہ ہوتا ہے۔

The post رنگ کھولیں شخصیت کے راز appeared first on ایکسپریس اردو.

چین کو ڈیڑھ ارب نفوس کی شکم سیری کا چیلینج درپیش

$
0
0

 بیجنگ میں واقع چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (سی اے ایس) کی عمارت کے ایک وسیع و عریض ہال نما کمرے میں جسے ٹشو کلچر روم کہا جاتا ہے، شیشے کے چھوٹے چھوٹے مرتبانوں میں ننھے پودے سَر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ پودے غیرمعمولی طور پر نرم چاول کے بیجوں سے پُھوٹے ہیں جب کہ کچھ گندم کے موٹے دانوں کے خول کو شکست دے کر آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے ہیں۔

ان پودوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک عام پھپھوند (فنگس) کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔ چاول اور گندم کی عام اقسام میں پھپھوند کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ندارد ہوتی ہے۔ اسی کمرے میں کچھ ہی دور ایک گرین ہاؤس میں جنگلی ٹماٹر کے پودے موجود ہیں جن پر لگنے والے ٹماٹر عام اقسام کی نسبت زیادہ سخت ہوتے ہیں اور کئی گنا زیادہ عرصے تک تازہ رہتے ہیں۔ ٹماٹروں کے پڑوس ہی میں نباتات کش زہر کے خلاف مزاحم مکئی اور آلو کے پودے ہیں۔ یہ آلو چھیلے اور کاٹے جانے کے بعد بہت دیر تک تروتازہ رہتے ہیں اور ان پر سیاہی مائل دھبے جلد نمودار نہیں ہوتے۔ ایک اور کمرے میں سلاد، کیلے، گھاس اور رس بھری کی نئی اقسام اگائی گئی ہیں۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی اس جدید نرسری کی تخلیق کار نباتاتی سائنس داں گاؤ کیسیا ہیں۔ گاؤ بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحم، غذائیت سے بھرپور اور تادیر تازہ رہنے والی خوردنی فصلیں تیار کرنے کی سعی میں مشغول محققین کے ہراول دستے میں شامل ہیں۔ متعدد افراد اس مقصد کے لیے طویل مدت میں نتائج دینے والے روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں تاہم گاؤ جینیاتی تدوین کی حامل جدید ٹیکنالوجی کرسپر ( CRISPR ) کا استعمال کررہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ اپنے اہداف کی جانب تیزی سے پیش قدمی کررہی ہے۔

CRISPR، clustered regularly interspaced short palindromic repeats کا مخفف اور بیکٹیریا اور دیگر یک خلوی اجسام کے جینوم میں پائے جانے والے ڈی این اے کے سلسلے ( sequences ) ہیں۔ اسے قدرتی بیکٹیریائی مناعتی نظام ( immune system ) بھی کہا جاتا ہے جسے کچھ برس قبل امریکا اور یورپ کی تجربہ گاہوں میں ایک طاقتور جینوم ایڈیٹر کی شکل دی گئی، مگر اب اس ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ تحقیقی کام چین میں ہورہا ہے اور کرسپر کے زرعی پہلو پر امریکا کے مقابلے میں دگنی تعداد میں ریسرچ پیپر شایع ہورہے ہیں۔ اس میں اہم کردار گاؤ کیسیا اور ان کی ٹیم کا ہے۔

ہر لمحے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنے والی خوش اخلاق گاؤ کیسیا اور ان کے ساتھیوں نے اگست 2013ء میں پہلی بار ایک پودے کے ڈی این اے میں ترمیم کے ذریعے اپنے کامیاب سفر کا آغاز کیا تھا۔ 6 برسوں کے دوران 50 سالہ سائنس داں کی مختلف فصلوں پر جینوم ایڈیٹر کے استعمال سے متعلق تین درجن تحقیق شایع ہوچکی ہیں۔ منیسوٹا یونی ورسٹی سے منسلک نباتی جینیات کے ماہر ( plant geneticist ) ڈینیئل وائیٹس جنھوں نے پہلے ایک جینیاتی تدوین کا نظام ( genome-editing system ) وضع کیا تھا اور کرسپر کو بھی اپنایا تھا، گاؤ کو ایک غیرمعمولی سیل بایولوجسٹ (cell biologist) قرار دیتے ہیں جو کرسپر کے شہ زور اسپ پر آغاز ہی میں سوار ہوگئی اور اب اسے سرپٹ دوڑا رہی ہے۔ تاہم اس دوڑ میں وہ اکیلی نہیں ہے۔ گاؤ اور اس کے ساتھی چین کی ان 20 ٹیموں میں سے ایک ٹیم ہیں جو فصلوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کے لیے کرسپر کا استعمال کررہی ہیں۔

2017ء میں کرسپر ٹیکنالوجی کے تحقیقی میدان میں چینی کاوشیں اس وقت سرحد پار پہنچ گئیں جب سرکاری کمپنی ChemChina نے 43 ارب ڈالر کی لاگت سے سوئٹزرلینڈ کی کمپنی Syngenta خرید لی۔ مؤخرالذکر زراعتی کاروبار سے وابستہ دنیا کی چار صف اول کی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ماہرین کی ایک بڑی تحقیقی ٹیم کرسپر کا استعمال کررہی ہے۔ نیویارک میں واقع کولڈ اسپرنگ ہاربر لیبارٹری سے منسلک نباتی جینیات کے ماہر زیچری لپمین کے مطابق چین کی جانب سے کسی غیرملکی کمپنی کی خریداری کے لیے خرچ کی گئی یہ سب سے بڑی رقم تھی۔ لپمین کے خیال میں اس سودے سے حکومت، صنعت اور جہان علم کے مابین ایک مستحکم تعلق استوار ہوا جو یونی ورسٹی کی تجربہ گاہوں سے علم و دانش کی کمپنی کو منتقلی کا ذریعہ بنے گا۔

سنجینٹابیجنگ انوویشن سینٹر میں 50 سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ اور انگلستان کے شہر ڈرہم میں واقع ایک تجربہ گاہ کے اشتراک سے تحقیق منصوبوں پر کام کرنے والے ژینگ بی کہتے ہیں کہ چینی راہنما ایک حکمت عملی کے تحت جینوم ایڈیٹنگ میں سرمایہ کاری کرنا اور اس میدان میں عالمی لیڈر بننا چاہتے ہیں۔

چین بہ لحاظ آبادی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سرزمین پر ایک ارب 40کروڑ نفوس سانس لے رہے ہیں۔ بیجنگ میں واقع چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سابق صدر اور موجودہ نائب وزیر برائے زراعت لی جیانگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے محدود وسائل کے ساتھ ایک ارب 40کروڑ شہریوں کی غذائی ضروریات پوری کرنی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں کیمیائی کھادوں اور حشرات کش زہر کی کم ترین مقدار استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کرنی ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ خوردنی فصلوں کی ایسی اقسام تیار کرنی ہوں گی جو حشرات اور امراض کے خلاف بلند تر مزاحمت کی حامل ہوں نیز خشک سالی اور سیم و تھور کو بھی برداشت کرسکیں۔ یہ تمام اہداف فصلوں کی کلیدی جینز کی تلاش اور ان میں مطلوبہ ترامیم ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ لی جیانگ سائنس داں بھی ہیں اور گاؤ ہی کے کیمپس میں چاول پر تحقیق رکھے ہوئے ہیں۔

چینی حکومت کو قوی امید ہے کہ کرسپر جیسی انقلابی ٹیکنالوجی مستقبل میں قریباً ڈیڑھ ارب چینیوں کی شکم سیری کا ذریعہ بنے گی تاہم کرسپر اور جینیاتی ترامیم کے تحت تخلیق کردہ فصلوں کے تجربہ گاہوں سے نکل کر کھیتوں اور کھانے کی میز تک پہنچنے سے قبل اس سلسلے میں قوانین و ضوابط کا تعین دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی متنازع ہوسکتا ہے۔ 2018ء میں ایک یورپی عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ فصلیں جینیاتی تبدیلیوں سے گزرے جاندار ( genetically modified organisms ) یا GMOs ہیں جن کے لیے سخت ضوابط کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس امریکی محکمہ زراعت جینیاتی تبدیلیوں کے حامل پودوں کو اس وقت تک GMOs کی فہرست میں شامل کرنے سے انکاری ہے جب تک کہ ان کی پیدائش دوسری انواع سے ڈی این اے کی منتقلی کے بجائے انھی کے خلیوں کے جینز میں تبدیلی ( mutation ) کے ذریعے نہ ہو۔

چینی صارفین جینیاتی تغیر کے ذریعے تیارکردہ غذاؤں ( GM food ) کے استعمال سے گریزاں ہیں۔ چین میں ان غذاؤں کی درآمد پر پابندی ہے اور واحد جی ایم فوڈ جو ہمارے دوست ملک میں پائی جاتی ہے وہ مقامی استعمال کے لیے چینی سرزمین ہی پر اگایا جانے والا پپیتا ہے۔ لپمین سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہر نباتیات کا خیال ہے کہ اب کرسپر ٹیکنالوجی کے ضمن میں چین امریکا کے نقش قدم پر چلے گا۔

کرسپر سے متعلق قواعدوضوابط کے سلسلے میں چین کا فیصلہ جو بھی ہو وہ اس ٹیکنالوجی کی حدود کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ڈینیل وائیٹس کہتے ہیں کہ ابھی ہمیں اس نوع کے متعدد چیلینجز کا سامنا کرنا ہے۔ تاہم اسے توقع ہے کہ کرسپر میں صنعتی اور علمی و تحقیقی سطح پر چین کی بھاری سرمایہ کاری سے بہتر تیکنیکیں اور نئی فصلیں حاصل ہوسکیں گی۔ ڈینیئل کی رائے میں چین بھاری سرمایہ کاری کے بعد اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دریافتوں کے ایک نئے جہان میں داخلے کی تیاری کرچکا ہے۔

کرسپر سے جوجھتی صف اول کی سائنس داں گاؤ کیسیا کا خاندانی پس منظر دیہی نہیں ہے، نہ ہی اس کے آباء و اجداد کاشت کار تھے۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران بھی اس کے ذہن میں ماہرنباتیات بننے کا خیال دور دور تک نہیں تھا۔ چین میں ہائی اسکول کے طلبا سے ایک معیاری امتحان لیا جاتا ہے۔ اس امتحان میں کارکردگی کی بنیاد پر انھیں مخصوص یونی ورسٹیوں میں مخصوص مضامین داخلے دیے جاتے ہیں۔ گاؤ کے مطابق وہ ڈاکٹر بننے کی خواہاں تھی مگر اسے زرعی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کی پیش کش ہوئی۔ گاؤ نے سوچا پھر امتحان دینے کے لیے مزید ایک سال ہائی اسکول میں گزارنے سے بہتر ہے کہ یہ پیش کش قبول کرلی جائے۔ یوں چین کو ایک قابل سائنس داں میسر آگئی۔

ملکی ضروریات کو فرد کی خواہش پر فوقیت دینے کی خامی سے قطع نظر یہ نظام تعلیم چین میں زرعی تحقیق کی ایک مضبوط کمیونٹی کے قیام میں معاون ثابت ہوا ہے اور حکومت نے بھاری فنڈنگ سے اسے پائیدار کیا ہے۔ 2013ء میں زرعی تحقیق کے شعبے میں چین کی سرکاری فنڈنگ 10 ارب ڈالر کی سطح عبور کرچکی تھی۔ یہ رقم امریکا کے مقابلے میں دگنی تھی اور گیارہ سو زرعی تحقیقی اداروں کو فراہم کی جارہی تھی۔

گاؤ کیسیا کرسپر کی جانب 2012ء میں ایک یادگار تحقیق پڑھنے کے بعد متوجہ ہوئی جو یہ ظاہر کررہی تھی کہ بیکٹیریائی نظام کو جینوم تبدیل کرنے کے اوزار میں کیسے بدلا جائے۔ ان دنوں گاؤ کیسیا کی تجربہ گاہ میں جینوم ایڈیٹنگ کے لیے ایک قدرے پیچیدہ ایڈیٹر transcription activatorlike effector nuclease ( TALEN) ) سے کام لیا جارہا تھا۔ یہ نظام ڈینیئل وائیٹس کی ایجاد ہے۔ گاؤ کہتی ہے کہ TALENکی مدد سے ہم 100 جینز کے ساتھ کام یاب ’چھیڑ چھاڑ‘ کرچکے تھے اور اس وقت نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن پھر میں نے یہ مشکل فیصلہ کرلیا۔

اس انقلابی ٹیکنالوجی سے گاؤ کو پہلی کام یابی چاول کے ڈی این اے کی تدوین ( editing ) کی صورت میں حاصل ہوئی جس کا جینوم جسامت میں انسانی جینوم سے آٹھ گنا چھوٹا ہے۔ جلد ہی گاؤ نے گندم کے ڈی این اے کو بھی ’ شکست‘ دے ڈالی جس میں کروموسومز کے چھے سیٹ ہوتے ہیں اور یہ انسانی جینوم سے چھے گنا جسیم ہوتا ہے۔ جولائی 2014ء میں گاؤ اور ان کی تحقیق شایع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ TALEN اور اس سے زیادہ سادہ کرسپر کی مدد سے ان لحمیات کی پیدائش کیسے محدود کی جاسکتی ہے جو گندم میں سفوفی پھپھوند لگنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مرض گندم کی فصل کو تباہ کردیتا ہے۔ لپمین کے مطابق یہ بہت اہم کام یابی تھی کیوں کہ گندم کے ڈی این اے میں کلیدی جینز کی چھے نقول ( copies ) ہوتی ہیں اور بریڈنگ ( breeding) کے روایتی طریقوں سے ان سب کو شکست دینے میں دہائیاں صرف ہوجاتیں۔

کرسپر سے ایک ہی بار میں متعدد جینز میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی TALEN کے مقابلے میں سادہ اور تیز تر ہے، تاہم اس کی بھی حدود ہیں۔ ’’سائنس‘‘ نامی جریدے کے 19 اپریل 2019 کے شمارے میں گاؤ کی شایع شدہ رپورٹ ظاہر کرتی تھی کہ کرسپر کی ایک مقبول شکل ( variation ) جو base editors کہلاتی ہے وہ اپنے ہدف کے علاوہ بھی اضافی جینز سے چھیڑچھاڑ کردیتی ہے۔ علاوہ ازیں کرسپر اگرچہ موجود جینز میں کام یابی سے تبدیلیاں کرسکتی ہے تاہم متعدد پودوں کی خصوصیات کو جب اس کی دسترس میں لایا جائے تو پھر یہ ان سب میں یکساں مہارت سے نئے جینز کا اضافہ نہیں کرسکتی۔ گاؤ کا کہنا ہے کہ ہمیں کرسپر کے ان پہلووں پر مزید تحقیق کرنے اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

کرسپر پر تحقیق کرنے والے جینوم ایڈیٹر کے اجزا کو نباتاتی خلیوں کی مضبوط حفاظتی دیوار میں سے داخل کرنے کے لیے آسان طریقے کھوج رہے ہیں۔ فی الوقت سائنس داں کرسپر کے اجزا خلیے کے اندر پہنچانے کے لیے پیچیدہ انجیکشن ڈیوائسز پر انحصار کررہے ہیں جنھیں ’جین گن‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں یہ کام پودے میں انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا سے لیا جاتا ہے۔ تاہم چین کی تازہ ملکیت Syngenta غالباً ایک بہتر اپروچ اختیار کررہی ہے۔ شمالی کیرولائنا میں واقع کمپنی کے یونٹ میں مکئی کے زردانے کو کرسپر کی مشینری خلیوں میں منتقل کرنے کے ’قابل‘ بنایا گیا ہے۔ یہ مشینری خلیوں میں مطلوبہ ترمیم کرنے کے بعد تحلیل ہوجاتی ہے۔ سائنسی جریدے ’’نیچر بایوٹیکنالوجی‘‘ کے اپریل کے شمارے میں شایع شدہ رپورٹ کے مطابق ابتدائی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ گندم اور سبزیوں کی چند اقسام میں یہ تیکنیک کارگر رہی ہے۔

ماہرجینیات کیتھرین فوئیلٹ کا خیال ہے کہ سائنس دانوں کو اب بھی موزوں جینز کو پہچاننے کی ضرورت ہے جن میں وہ تبدیلی لانے کے خواہاں ہوں۔ کیتھرین پہلے معروف ادویہ ساز کمپنی بائر میں ’کراپ سائنسز‘ کے شعبے کی سربراہ تھیں۔ ان دنوں وہ میساچوسیٹس کی ایک کمپنی ’ایناری ایگریکلچر‘ میں چیف سائنٹیفک آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں (اس کمپنی نے لپمین کی ٹیکنالوجی کو اپنالیا ہے اور وہ کمپنی کے مشیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔) کیتھرین کہتی ہیں کہ حشرات اور فنجائی (پھپھوند) پر قابو پانے کے لیے ایک جین میں تبدیلی کے عمل سے بایوٹیکنالوجی انڈسٹری کا معاشی انحصار رہا ہے مگر ایک سے زائد جینز، جو اکثر نامعلوم ہوتے ہیں، وہ فصلوں کی پیداوار، خشک سالی برداشت کرنے یا کیمیائی کھادوں کے بغیر سرسبز اور صحت مند رہنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کیتھرین کہتی ہیں کہ اس کھیل میں فاتح وہ شخص ہے جو یہ پیش گوئی کرسکے کہ کس جین میں تبدیلی کرنے سے کیا ہوگا۔

اگرچہ گاؤ، بائی اور چین کے نباتاتی محققین کی بقیہ برادری جینیاتی طور پر تدوین شدہ فصلیں پیش کرنے کے لیے تیار ہے مگر اس سے قبل حکومت کو اپنی ریگولیٹری پالیسیاں واضح کرنی ہوں گی۔ انڈسٹری پر نگاہ رکھنے والے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت امریکا میں اس ٹیکنالوجی پر عوامی ردعمل کا انتظار کررہی ہے۔ فروری میں منیسوٹا کی ایک کمپنی نے، جس کا وائیٹس شریک بانی ہے، پہلی جینیاتی تغیرات کے ذریعے تیارکردہ غذائی مصنوعہ فروخت کے لیے پیش کی۔ یہ مصنوعہ TALEN کی مدد سے تیار کیا گیا سویا بین کا ’صحت بخش‘ خوردنی تیل ہے جو کمپنی صنعتوں کو فراہم کررہی ہے۔ ’کلائنو آئل‘ میں کمپنی کے دعوے کے مطابق غیرسیرشدہ روغنیات ( trans fats) کی مقدار صفر فیصد اور اولیک ایسڈ 80 فیصد ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی کی جانب سے تیل کی ’ فرائی لائف‘ تین گنا زائد اور عام خوردنی تیل سے کہیں زیادہ عرصے تک تازہ رہنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

ریاست ڈیلاویئر میں قائم کورٹیوا نامی کمپنی ممکنہ طور پر کرسپر سے تیارکردہ پہلی فصل متعارف کروانے کا اعزاز حاصل کرے گی۔ تاہم یہ ابھی وہ فصل پیش کرنے سے بہت دور ہے جو دنیا بھر کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہوسکے۔ کورٹیوا کی ذیلی زرعی تحقیقی کمپنی نے ہندوستانی مکئی ( waxy corn ) کو بہتر بنانے کے لیے اس کے ڈی این اے میں سے ایک جین کا خاتمہ کردیا۔ مکئی کی یہ قسم چمک دار کاغذ اور خوراک کو گاڑھا بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔ کورٹیوا کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر نیل گٹرسن کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ مکئی کی یہ نئی اور زیادہ نرم قسم کرسپر کے ذریعے تیار کردہ غذاؤں کے تصور کو عوام الناس کے لیے قابل قبول بنانے میں معاون ہوگی۔ نیل گٹرسن کے مطابق لوگ ٹیکنالوجی اور غذا کا میل ملاپ پسند نہیں کرتے۔

کورٹیوا، سنجینٹا اور دوسری دو بڑی ایگریکلچر کمپنیوں BASF اور بائر کا اصل ہدف کرسپر کی مدد سے مختلف فصلوں کی نفع بخش اقسام تیار کرنا ہے جن کی تجارتی مارکیٹ میں بے حد مانگ ہو۔ یہ کمپنیاں فی الوقت مکئی کی درجنوں اقسام کے بیج فروخت کرتی ہیں جو زیادہ پیداوار دیتے اور نباتات کش ادویہ کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ کسی فصل کی انتہائی اعلیٰ قسم کے حصول کی خاطر درکار جینیاتی عمل کی انتہائی خالص سطح، پودوں کی کئی نسلوں کی درجہ بہ درجہ روایتی بریڈنگ کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ان تمام مراحل کو انتہائی کم وقت میں مکمل کرنے کے لیے کرسپر بہت ہی خالص طریقہ ہے۔ پودوں کی جینیاتی انجنیئرنگ کے ابتدائی طریقے غیرمطلوبہ جینیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن جاتے تھے جن کا ازالہ مشکل ہوتا تھا۔

2016ء میں جاری کردہ 5 سالہ منصوبے میں چینی حکومت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ پودوں کی جدید جینوم ایڈیٹنگ کی حمایت کرے گی۔ کئی مشاہدہ کاروں کے نزدیک سنجینٹا کی خرید نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونی ورسٹی سے وابستہ غذائی سائنس داں، ماہرجینیات اور کرسپر ٹیکنالوجی کے اولین تحقیق کاروں میں شامل روڈولف بیرانگو کہتے ہیں کہ چین کا برسوں سے یہ منصوبہ تھا اور میرے خیال میں سنجینٹا کی ملکیت کا حصول اسی سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے۔

بیرانگو کے مطابق چینی حکومت اس ضمن میں چپ سادھے ہوئے ہے کہ کرسپر کے ذریعے جینیاتی ترمیم سے تخلیق کردہ پودوں کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے گا۔ ماہرجینیات کے مطابق اس چُپ کی اسٹریٹجک وجوہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ اس کھیل میں چین علی الاعلان کہہ دے کہ وہ کب اپنی مصنوعات پیش کرے گا۔ نارتھ کیرو لائنا میں واقع کمپنی کی شاخ میں بیجوں پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ وو گوسوئی کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ چین کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سنجینٹا کرسپر سے تیارکردہ کون سی فصل سب سے پہلے مارکیٹ میں لائے گی۔

یہ فصل ٹماٹر کی ہوسکتی ہے اور مکئی کی بھی۔ اس کا انحصار آئندہ دو تین برسوں میں ہونے والی پیش رفت پر ہے۔ گوسوئی کا کہنا ہے کہ سنجینٹا کرسپر سے تیار کی گئی مکئی کو چین کے لیے ایک اہم غذائی جنس کے طور پر دیکھ رہی ہے جہاں اس فصل کی کاشت دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے تاہم فی ہیکٹر پیداوار امریکا کی نسبت صرف 60 فیصد ہے۔ اس کا ایک سبب ایک قسم کی سنڈی (ear worms ) ہے جو فصل کو کمزور کردیتی ہے۔ مکئی کے کمزور پودوں میں پھپھوند لگ جاتی ہے جو ایک قسم کا زہر پیدا کرتی ہے۔ یہ زہر پودوں کو جانوروں کے چارے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ رقبے پر کاشت کرنے کے باوجود چین کو مکئی کی بڑی مقدار درآمد کرنی پڑتی ہے۔ (امریکی محکمہ زراعت کے مطابق امریکا میں پیدا ہونے والی 82 فیصد مکئی کی فصل میں جینیاتی انجنیئرنگ کے ذریعے ایک بیکٹیریائی جین پیدا کردیا گیا ہے جو ایئر ورمز کے خلاف فصل میں مزاحمت پیدا کرتا ہے)

کرسپر ٹیکنالوجی کی مدد سے سنجنٹا سے وابستہ سائنس داں اس قابل ہوسکتے ہیں کہ مکئی کے جینوم میں محدود وقت میں ترمیم کرتے ہوئے حشرات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کرسکیں۔ اس سے نہ صرف چین کی غذائی رسد بڑھے گی بلکہ زراعت سے وابستہ کاروباروں کو بھی فروغ ملے گا۔ چین میں بیجوں کی خریدوفروخت کی صنعت سے 3000 کمپنیاں منسلک ہیں مگر مکئی کے کاروبار میں کسی کمپنی کا حصہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ سنجینٹا چین کی سب سے بڑی بیج کمپنی بننے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ چین اگر اپنی مارکیٹ کو امریکا کے مانند جدید بنالیتا ہے تو پھر یہ مارکیٹ بھی امریکی مارکیٹ کے مساوی وسعت اختیار کرسکتی ہے۔

چین کی پہلی کرسپر فصل کے طور پر گاؤکیسیا کا انتخاب مختلف ہے۔ وہ خوشبودار چاول کی مختلف اقسام اور پھپھوند کے خلاف مزاحم گندم کو اپنے ملک میں متعارف کرائی جانے والی اولین فصل کے طور پر دیکھنے کی متمنی ہے۔ گاؤ کا کہنا ہے اس بات سے قطع نظر کہ کسان کس جینیاتی فصل کی سب سے پہلے کاشت کریں گے، یہ بات یقینی ہے کہ کرسپر سے اخذکردہ طبی علاج کے کلینک تک پہنچنے سے پہلے یا جانوروں کے لیے کسی مصنوعہ کی مارکیٹ میں فراہمی سے قبل کھیتوں میں جینیاتی ترامیم سے گزری فصلوں کی کاشت شروع ہوچکی ہوگی۔

گاؤ سے استفسار کیا جائے کہ اگر چینی حکومت جینیاتی تغیرات کی حامل غذاؤں کے لیے دروازے کھول دیتی ہے تو اس کے ٹشوکلچر روم یا گرین ہاؤسز میں اُگائے گئے پودوں کی عام کھیتوں میں کاشت کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوگا تو اس کا جواب ہوتا ہے،’’محض چھے ماہ، کیوں کہ ہم کرسپر سے کام لے رہے ہیں!‘‘

The post چین کو ڈیڑھ ارب نفوس کی شکم سیری کا چیلینج درپیش appeared first on ایکسپریس اردو.

قومی نظام تعلیم میں مدارس کا انضمام۔۔۔۔۔ ایک تشنہ ضرورت

$
0
0

آج دنیا بھر میں خواندگی کا بین الاقوامی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد جہاں تعلیم کے فروغ کے لئے ہر طرح کی کوششوں کے عزم کا اعادہ ہے وہیں ماضی میں خواندگی کے فروغ کے لئے کی جانے والی کاوشوں کی کامیابی اور ناکامیوں کا جائزہ لینا بھی ہے

۔ پاکستان جہاں روز اول سے تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے بڑے عہد تو بہت سے کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کی صد فیصد تکمیل نہیں ہو پائی۔ کیونکہ ایک تو ہم اکثر زمینی حقائق سے ماورا پالیسیاں بناتے ہیں دوسرا اپنی غلطیوں سے ہم سبق نہیں سیکھتے اور اُنھیں کسی نہ کسی صورت دوہراتے رہتے ہیں ۔

نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں، نوبالغوں (adolescents) اور نوجوانوںکی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یونیسکو انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیٹسٹکس کے ڈیٹا بیس سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 2017 میں پاکستان کے پرائمری تا سیکنڈری اسکول کی عمر کے گروپ کے 2 کروڑ4 لاکھ88 ہزار بچے ، نوبالغ اور نوجوان اسکولوں میں داخل نہیں تھے ۔

جبکہ پرائمری سیکشن کے ایج گروپ کے53 لاکھ 24 ہزار بچے اسکولوں سے باہر تھے جو دنیا بھر میںعمر کے اس گروپ کی اسکولوں سے باہر اطفال کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ عالمی ادارہ کے مطابق پاکستان کے40.8 فیصد پرائمری تا سیکنڈری اسکول کی عمر کے گروپ کی آبادی اسکول سے نا آشنا ہے جو دنیا بھر میں چوتھی سب سے ابتر شرح ہے۔ اسی طرح پرائمری تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح کے حوالے سے وطن عزیز دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے اور ملک کے 22.7 فیصد پرائمری اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔

یہ تو ایک بین الاقوامی ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار ہیں اگر ہم پاکستان کے سرکاری مرتب شدہ اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو اوپر بیان کردہ حقائق سے قریب تر صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کے نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی سالانہ رپورٹ’’ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس2016-17 ـ‘‘ (فی الوقت دستیاب تازہ اعدادوشمار) کے مطابق ملک کے5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں پہلی سے بارہویں جماعت کی عمر کے گروپ کے 44 فیصد بچے اسکولوں میں موجود نہیں۔ لڑکیوں کا49 فیصد اور لڑکوں کا 40 فیصد اسکولوں سے لاتعلق ہے۔

بلوچستان میں صورتحال اس حوالے سے بہت گھمبیر ہے جہاں مذکورہ ایج گروپ کے70 فیصد بچے اسکولوں میں داخل نہیں ۔ لڑکیوں کا 78 فیصد اور لڑکوں کا64 فیصد اسکولوں سے دور ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال ہے۔ یہاں ان اعدادوشمار کے بیان کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی طرح کی مایوسی پیدا کی جائے بلکہ اپنی تعلیمی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں موجود خامیوں کا جائزہ لینے کے لئے تحریک پیدا کرنا ہے تاکہ ہم جو 72 سال کے دوران اپنی شرح خواندگی کو62.3 فیصد کر پائے ہیں اسے سو فیصد کرنے کے لئے مزید72 سال نہ لے لیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اُن تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جائے جو ملک میں خواندگی کے فروغ اور اسکولوں سے باہر ان بچوں کوتعلیم یافتہ کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکیں۔

دینی مدارس کا شمار بھی اُن دستیاب وسائل میں ہوتا ہے جن سے بھر پور استفادہ کے لئے اُنھیں ملک کے قومی تعلیمی دھارے میں شامل کر کے خواندگی کی صورتحال کو ناصرف بہت بہتر کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اسکولوں سے باہر بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیونکہ ہمارے ہاں تعلیمی گہواروں سے بچوں کی  دوری کی اگر چہ بہت سی وجوہات ہیں لیکن غربت سب سے نمایاں محرک ہے جس کی وجہ سے والدین بچوں کو تعلیم دلوانے کی سکت نہیں رکھتے اور اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے بچوں کو اسکولوں سے دور رکھ کر کام کاج کی بھٹی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورتحال میں مدارس جو کہ اپنے طالب علموں کو رہائش، کھانا، کتابیںاور دیگر ضروری چیزیں مفت فراہم کرتے ہیں۔ اسکولوں سے باہر موجود بچوں کو تعلیمی نظام میں شامل کرنے کا عمدہ ذریعہ بن سکتے ہیں اگر وہ خود کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کر لیں تو۔کیونکہ ان کے بغیر ہمارا تعلیمی نظام نا مکمل ہے۔

پاکستان میں تعلیمی ترقی کے لئے مدارس کی صورت میں موجود غیر استعمال شدہ (Untapped) تعلیمی خزانے کی اہمیت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں2016-17 تک دینی مدارس کی تعداد پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس کے مطابق 34137 تھی جن میں 21 لاکھ77 ہزار سے زائد بچے، نابالغ اور نوجوان زیر تعلیم اور 74 ہزار 6 سو سے زائد اساتذہ تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔اگر ہم مدارس اور عصری تعلیم کے اداروں کی تعداد کا موازنہ کریں تو ملک میں پرائمری تا یونیورسٹی تمام طرح کے عصری تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 2016-17 میں237958 تھی۔ یوں اس تعداد کے 14.4 فیصد کے برابر تعداد دینی مدارس کی بنتی ہے۔

یعنی ملک میں 7 عصری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں ایک دینی مدرسہ موجود ہے۔ اسی طرح مذکورہ سال ملک میں تمام طرح اور تمام سطح کے عصری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں کی مجموعی تعداد 4 کروڑ 29 لاکھ91 ہزار سے زائد تھی جس کی 5.1 فیصد کے برابر تعداد مدرسہ طالب علموں کی بنتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملک میں عصری تعلیمی اداروں کے 19.7طالب علموں کے مقابلے میں مدرسہ کا ایک طالب علم موجود ہے۔ اساتذہ کے حوالے سے موازنہ یہ بتاتا ہے کہ ملک کے تمام عصری اداروں میں 2016-17 کے دوران کل وقتی اساتذہ کی تعداد 16 لاکھ 75 ہزار 7 سو سے زائد تھی ۔

اس تعداد کے4.5 فیصد کے برابر مدارس کے اساتذہ کی تعداد بنتی ہے۔ یوں ملک کے 22.4 عصری تعلیم کے اساتذہ کے مقابلہ میں مدرسہ کا ایک استاد موجود ہے۔1947-48 سے 2016-17 تک عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کی تعداد میں اضافے کے تقابلی جائزے سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ کچھ یوں ہیںکہ اس عرصہ کے دوران ملک کے تعلیمی اداروں (پرائمری تا یونیورسٹی )کی تعداد میں2044 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 11099 سے بڑھ کر 237958 ہو چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دینی مدارس کی تعداد میں مذکورہ عرصہ کے دوران 13834 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تعداد 245 سے بڑھ کر 34137 ہوگئی ہے۔

اس وقت ملک کے 39.3 فیصد مدارس مردوں کے لئے مخصوص ہیں جبکہ 14.3 فیصد برائے خواتین اور 46.4 فیصد دونوں جنسوں (مرد و خواتین )کے لئے ہیں۔ طلباء اور طالبات کے لئے مشترکہ مدارس کا سب سے زیادہ تناسب آزاد جموں وکشمیر میں ہے جہاں کے مدارس کا 74 فیصد مرد اور خواتین دونوں کے لئے ہے۔ خواتین کے مدارس کا سب سے زیادہ تناسب ملک بھر میں فاٹا میں ہے جو وہاں کے مدارس کا 22 فیصد ہے۔ جبکہ مردوں کے مدارس کا زیادہ تناسب خیبر پختونخوا میں ہے جو 81 فیصد ہے ۔ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس 2016-17 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس کا 40.4 فیصد پنجاب میں موجود ہے۔

سندھ میں 29.4 فیصد، خیبر پختونخوا میں 13.7 فیصد، بلوچستان میں8.7 فیصد، آزاد جموں و کشمیر میں 4.1 فیصد، 2.2 فیصد فاٹا، ایک فیصد اسلام آباد اور0.4  فیصد گلگت  بلتستان میں موجود ہیں ۔ ملک میں گزشتہ ایک عشرے 2006-07 تا2016-17 کے دوران سب سے زیادہ مدارس کی تعداد میں فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں یہ اضافہ471 فیصد رہا۔ دوسرا نمایاں اضافہ 439 فیصد سندھ میں ہوا ۔ 333 فیصد اضافہ کے ساتھ بلوچستان تیسرے اور154 فیصد اضافہ کے ساتھ پنجاب چوتھے نمبر پر رہا۔خیبر پختونخوا میں78 فیصد، گلگت  بلتستان میں 58 فیصد، فاٹا میں 53 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان کی سطح پر یہ اضافہ 174 فیصد رہا۔

ملک میں موجود دینی مدارس کا 3 فیصد سرکاری اور 97 فیصد پرائیویٹ سیکٹر کے زیر انتظام ہے۔ نجی شعبہ میں موجود مدارس پانچ وفاق/ بورڈز کے تحت کام کرتے ہیں جن کی ذمہ داری میں مدارس کی رجسٹریشن، امتحانات اور نصاب کی تیاری شامل ہے۔ یہ تمام وفاق / بورڈز چار مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ رابطہ المدارس اسلامیہ کا قیام 1983 میں لاہور میں جماعتِ اسلامی نے کیا ۔ یہ تمام مسالک کے مدارس کو تسلیم کرتا ہے۔ تنظیم المدارس کا قیام 1960 میں لاہور میں ہوا۔ یہ سنی بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔

وفاق المدارس شیعہ 1959 میں لاہور میں قائم ہوا۔ اسی طرح وفاق المدارس 1959 میں ملتان میں بنایا گیا جو دیو بند مکتبہ فکر کا نمائندہ ہے۔ جبکہ وفاق المدارس سلفیہ فیصل آباد میں 1955 میں اہلِ حدیث مکتبہ فکر کی نمائندگی کے لئے قائم کیا گیا۔ یہ پانچوں وفاق/ بورڈز اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ممبر ہیں جو ان تمام کا ایڈمنسٹریٹیو ادارہ ہے جس کا قیام 2003 میں ہوا ۔ اس وقت ملک کے30 فیصد مدارس وفاق المدارس کے تحت کام کر رہے ہیں۔ 21.4 فیصد تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے تحت مصروف ِ عمل ہیں ۔7.4 فیصد رابطہ المدارس اسلامیہ کے تحت فعال ہیں اور 7.3 فیصد دیگر باڈیز کے تحت کام کر رہے ہیں۔ جبکہ 28 فیصد ملکی دینی مدارس کسی وفاق / بورڈ سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

پاکستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم طلباء کا 63.8  فیصد مردوں اور 36.2  فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ اسلام آباد میں قائم مدارس میں زیر تعلیم طالب علموں کی زیادہ تعدادطالبات پر مشتمل ہے جو وفاقی دارالحکومت میں موجود دینی مدارس میں پڑھنے والے طالب علموں کا 58.3 فیصد ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں مرد طلباء کا تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ 83.7 فیصد ہے۔ ملکی مدارس میں پڑھنے والے شاگردوں کا 47.2 فیصد پنجاب،21.4 فیصد سندھ، 10.9 فیصد خیبر پختونخوا، 7.9 فیصد فاٹا، 6.3 فیصد آزاد جموں و کشمیر، 4.6 فیصد بلوچستان،0.9 فیصد گلگت  بلتستان اور 0.7 فیصد اسلام آباد کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔

اس کے علاوہ ملکی مدارس میں 2006-07 سے2016-17 کے دوران طالب علموں کی تعداد میں مجموعی طور پر 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ اضافہ فاٹا میں ہوا جہاں مدارس کے طلباء کی تعداد 269 فیصد بڑھی۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں اس دوران مدارس کے طلباء کی تعداد میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ملکی دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا 43.6 فیصد پنجاب کے مدارس سے وابستہ ہے۔ اس کے بعد20 فیصد اساتذہ سندھ کے دینی مدارس سے منسلک ہیں ۔ 19.4 فیصد خیبر پختونخوا ،5.7 فیصد آزاد جموں و کشمیر، 5.2 فیصد بلوچستان، 4.3 فیصد فاٹا اور 1.1 فیصد اسلام آباد جبکہ 0.8 فیصد گلگت بلتستان کے مدارس میں کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ملکی مدارس کے اساتذہ کا 76.4  فیصد مردوں اور23.6 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔

اسلام آباد میں خواتین اساتذہ کا تناسب مرد استادوں سے زیادہ ہے وہاں مدارس کے اساتذہ کی53.2 فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ جبکہ مرد اساتذہ کا تناسب گلگت  بلتستان میں ملک بھر سے زیادہ ہے جہاں 97 فیصد اساتذہ مر دوں پر مشتمل ہیں ۔ اسی طرح ملکی سطح پر مذکورہ بالا ایک عشرہ کے دوران دینی مدارس کے استادوں کی تعداد میں 34 فیصد مجموعی اضافہ ہوا ۔ سب سے زیادہ فیصد اضافہ فاٹا میں ہوا جو 61.5 فیصد ہے جبکہ سب سے کم اضافہ خیبر پختونخوا  میں ہوا جو 22 فیصد ہے۔

ان تما م اعدادوشمار کے تجزیہ سے کچھ اور حقائق بھی سامنے آتے ہیں جن کے مطابق ملک کے فی مدرسہ طالب علموں کی اوسط تعداد 63.8 بنتی ہے۔ جبکہ فی مدرسہ اساتذہ کی اوسط تعداد 2.19 اور ایک استاد کے مقابلے میں طالب علموں کی اوسط تعداد 29.2 بنتی ہے۔

خواتین کے مدارس میں فی مدرسہ طالبات کی تعداد مردوں کے مدرسہ کی اوسط تعداد سے زیادہ ہے جو161.3 بنتی ہے جبکہ مردوں کے مدرسہ میں یہ اوسط103.6 طالب علم ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے فی مدرسہ میں خواتین اساتذہ کی اوسط تعداد 3.6 بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مردوں کے مدارس میں اساتذہ کی اوسط تعداد 4.3 بنتی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین کے ایک مدرسہ میں ایک خاتون استاد کو اوسطً 44.7 طالبات کو پڑھانا ہوتا ہے جبکہ مردوں کے مدارس میں فی مرد استاد کو 24.4 طالب علموں کو پڑھانا ہوتا ہے۔

ملک میں روایتی مدارس دو طرح کے کورس کرواتے ہیں۔ اول: حفظِ قرآن کورس۔ دوم: عالم کورس۔ حفظِ قرآن کورس میں بچے کو مکمل قرآن زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔ جبکہ عالم کورس ایک قابل اسلامک اسکالر بنانے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے نصاب میں عموماً عربی زبان، تفسیر، شریعہ، حدیث، فقہ، منطق اور اسلامی تاریخ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کورس کے فارغ التحصیل گریجویٹ اکثر مذہبی اور سیکولر اسکولز میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ملک میں دینی مدارس چار سطحوں پر کام کرتے ہیں۔

ناظرہ، حفظ، درس نظامی اور تخصص۔ ناظرہ مدارس بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کی تربیت فراہم کرتے ہیں ۔ ایسے مدارس مساجد سے متصل ہوتے ہیں عموماً امام مسجد بچوں کو قرآن پاک پڑھنا سکھاتے ہیں۔ اس طرح کے مدارس کے اوقات کار صبح سویرے یا پھر شام کے ہوتے ہیں بچے ان میںایک گھنٹے تک پڑھتے ہیں۔ حفظ کے مدارس کا کام قرآن پاک پڑھنے کے بنیادی طریقوں کے ساتھ ساتھ قرآن کو زبانی یاد کرانا ہے۔ یہ مدارس عموماً مساجد یا پھرعلیحدہ صورت میں ہوتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں ایک اقامتی اور دوسری غیر اقامتی۔ اقامتی مدارس میں طلباء اُس وقت تک مدارس میں ہی رہائش رکھتے ہیں جب تک وہ قرآن پاک مکمل طور پر زبانی یاد نہ کر لیں ۔

اس طرح کے مدارس میں ہفتہ میں ایک چھٹی اور سال میں ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ رمضان اور عید پر چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ غیر اقامتی حفظ کے مدارس میں بچے روزانہ 8 سے10 گھنٹے وقت دیتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں ۔ یہ مدارس بھی مساجد میں یہ علیحدہ دونوں صورتوں میں ہوتے ہیں۔ درس نظامی عموماً آٹھ سالہ تعلیم پر مشتمل ہے جس میں قرآن، اس کا ترجمہ، تفسیر، احادیث، اسلامی فقہ، عربی وفارسی زبانیں اور دیگر معاونتی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ تخصص وہ سطح ہے جس میں اسپیشلائزیشن کورسز جیسا کہ مفتی اور قاضی کرائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر مدرسہ صرف ایک سطح پر کام کرتا ہو اکثر مدارس تمام یا ایک سے زائد سطحوں پر کام کرتے ہیں اور اقامتی اور غیر اقامتی دونوں صورتوں میں موجود ہیں۔

اسلامی تاریخ میں مدارس اسلامی اور سائنٹیفک علوم کے مراکز تھے۔ خاص کر ساتویں سے گیارہویں صدی تک ان مدارس نے البیرونی، ابن سینا، الخوازمی، جابر بن حیان اورابن خلدون جیسی کئی ایک نامور ہستیوں کو پیدا کیا۔ یہی مدارس یورپ میں جدید علوم کی بنیاد بنے۔ان مدارس میں موجود جدید علم سے آگاہی کے لئے عیسائی اسکالرز نے اسلامی دنیا کا سفر کیا۔ یورپ میں پہلے کالج کی بنیاد ایک عیسائی مبلغ Jocius de Londoniis  نے مشرقِ وسطی سے پیرس پہنچنے پر رکھی۔کئی سو صدیوں تک اسلامی تعلیم کے مراکز مدرسہ، مساجد اور جامعات نے قابلِ ذکر کارنامے انجام دیئے۔

اندلس سے لیکر برصغیر تک مدارس نے سائنس، ریاضی، فلسفہ اور ادویات کے حوالے سے کئی ایک اہم مفکروں کی تربیت کی اور ٹھوس مذہبی بنیادوں کو بھی استوار کیا۔ برصغیر میں دینی مدارس کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد کے بعد شروع ہوا۔ تیرہویں صدی کے آغاز میں سلطان قطب الدین ایبک نے مذہبی اور عصری تعلیم کے لئے کافی تعداد میں مساجد تعمیر کیں۔ اس نظام کو باقاعدہ مدرسہ کی شکل مغل دور میں دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن تغلق کے دور حکومت میں صرف دہلی میں ایک ہزار کے قریب مدارس تھے۔ مغل دورِ حکومت میں ان مدارس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا کیونکہ یہ مدارس ایک جانب سرکاری ملازمتوں کے لئے لوگوں کو تیار کرتے تو دوسری جانب مستقبل کے مذہبی علما بھی پیدا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئی طے شدہ نصاب مدارس میں نہیں پڑھایا جاتا تھا اور مختلف اساتذہ مختلف درسی کتابیں استعمال کرتے تھے۔

مدرسہ ایجوکیشن اِن سب کونٹینینٹ، میتھزاینڈ ریلیٹیز نامی ریسرچ پیپر کے مطابق’’ برصغیر میں ابتدائی طور پر مدارس کی تعلیم 10 مضامین پر مشتمل تھی جس کے لئے 17 کتابوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اٹھارویں صدی میں مدرسہ فرنگی محل لکھنو (Madrassa Firangi Mahal Lucknow )  کے ملا نظام الدین سہالوی نے ہم عصر(Contemporary) مدارس کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک نصاب کی تشکیل کی جسے درسِ نظامی کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ اس نصاب میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ اُ س وقت کے چند عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا۔

بعدازاں برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد مدارس نے برطانوی اقتدار کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے لئے بڑا خطرہ جانا کیونکہ برطانوی حکومت نے مغربی طرز کے اداروں کو متعارف کرا کے اور انگلش کو سرکاری زبان کی حیثیت دیتے ہوئے برصغیر میں دینی مدارس کے تعلیمی کردار کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا اور اسے ریاست اور معیشت کے لئے بالکل غیر متعلق کر دیا ۔ اس صورتحال میں مدارس نے اپنے نصاب میں جو چند سیکولر مضامین تھے انھیں بھی نکال دیا تاکہ صرف اسلامی تعلیم پر توجہ دی جائے ۔

خالص مذہبی بنیادوں پر بنائے گئے نصا ب کا مقصد ایسے مذہبی راہنما اور اسکالرز پیدا کرنا تھا جو عوام کو مذہب کی تعلیم دیں اور لوگوں کے اسلام سے تعلق کو مضبوط کریں۔ یوں بہت سے مدارس نے درسِ نظامی کے طرز کا نصاب اپنایا اور مفت تعلیم، رہائش، کھانا اور کتابیں فراہم کرنا شروع کیں اور اپنی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے برطانوی حکومت کی امداد اور سپر ویژن کو مسترد کردیا اور یہ طریقہ کار آج تک جاری ہے جس میں آج کے دور کی ضروریات کے تحت اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ مدارس کی صورت میں موجود تعلیمی خزانے سے بھر پور استفادہ کیا جا سکے۔

مدارس میں اصلاحات کوئی انہونی چیز نہیں گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے یہ مسلم معاشروں میں بار بار چلنے والا رجحان رہا ہے۔ محمد عبدو ح (Muhammad Abduh ) نے الازہر یونیورسٹی میں اصلاحات متعارف کرائیں ۔ انڈونیشیا کی آزادی کے کارکنوں نے ملک کے دینی تعلیمی اداروںمیں الازہر یونیورسٹی کی طرز کی اصلاحات کیں ۔ اسی طرح شیخ احمد الہادی اور شیخ طاہر جلال الدین نے ملائیشیا میں مدارس کی اصلاحات کا آغاز کیا۔ 1979 میں بنگلہ دیش میں مدرسہ اصلاحات کے منصوبوں کو عملی شکل دی گئی۔ پوری مسلم دنیا میں دینی تعلیم کے اداروں میں کئے جانے والے اصلاحی منصوبوں کی بنیادی کوشش نصاب میں ترامیم تھیںجس کا مقصد دینی تعلیم کو اتنی تقویت فراہم کرنا تھاکہ وہ عصر حاضر کی دنیا کے مطابق ہو جائے۔ عظیم مسلم اسکالر امام غزالی نے مسلم تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول: لازمی تعلیم ۔دوم: اختیاری تعلیم۔ ان کے مطابق لازمی کورسز میں قرآن مجید، احادیث، اسلامی فقہ اور اسلامی تاریخ کا شامل ہونا ضروری ہے۔

اختیاری تعلیم یا مضامین میں اُن کے مطابق ہر قسم کے معاشرتی اور فطرت و مظاہر فطرت کے علوم (Natural sciences) شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر اختیاری مضامین سے طلباء کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مسلمانوں کو باعزت بقاء مہیا کرتا ہے تو ایسے علوم کو اسلامی علوم کے ساتھ لازماً سیکھنا چاہیئے۔ اسی طرح علامہ شبلی نعمانی جیسے بلند پایہ مذہبی اسکالر نے بھی ایک صدی قبل پرانے نصاب میں جدید نصاب کے انضمام کی بات کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مدرسہ کی تعلیم میں شامل کورسز میں اصلاح اوران کے ازسرنو تعین کی ضرورت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اشرف شاہین قیصرانی بلوچستان کے علمی حلقوں کا ایک بہت معتبر نام ہیں ۔ آپ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ، مسند سیرت کے سربراہ (ڈائریکٹر) اور2012 میں بطور ڈین ( ریسرچ) فیکلٹی آف آرٹس کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔’’ مسلم کلچر آف بلوچستان‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ۔ اپنے تدریسی فرائض کے علاوہ کئی ایک اہم موضوعات پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے متعدد تحقیقی مقالات کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ سیرت طیبہ اُن کی دلچسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ جس پر وزارتِ مذہبی امور، حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں دس مرتبہ ان کے تحقیقی مقالات پر سند امتیاز اور نقد انعامات سے نوازا گیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل تحقیقی جرائد میں ان کے چھتیس سے زائد تحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد قومی اور بین الاقوامی سطح کے سیمینا رز اور کانفرنسوں میں بطور مقالہ نگار اور مندوب شرکت کر چکے ہیں۔ ملکی مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے اُن کے ساتھ ہونے والی خصوصی نشست کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جوابات اُنھوں نے یوں دیئے۔

س:۔ مدارس میں دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم سے طالب علموں کو کیا فوائد ہوتے ہیں؟

ج:۔ مدارس کا بنیادی مقصد دینی اسکالرز پیدا کرنا ہی ہے اور کوئی بھی فرد کسی بھی شعبے میں اگر مہارت تامہ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے تو وہ عصری علوم سے بے بہرہ نہیں ہو سکتا۔ عصری علوم کی تحصیل سے نہ صرف دینی طلبا کو اسلامی علوم میں مہارت حاصل ہوگی بلکہ اُن کی سوچ میں بھی اعتدال آئے گا۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ صرف مساجد اور مدارس تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ بلکہ ہر طبقہ فکر اُن کی رائے سے مستفید ہوگا اور وہ معاشرے سے جڑ جائیں گے۔ اسی طرح اُنہیں روزگار کے وسیع تر مواقع بھی حاصل ہوں گے۔

س:۔ مدارس کے نصاب میں کیا تبدیلیاں کی جائیں جو مدارس پر ہونے والی تنقید کے سامنے بند باندھ سکیں اور مدارس کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بنیں؟

ج۔ اس سوال کو دو پہلوئو ں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ( i ) مدارس میں رائج نصاب کا جائزہ  (ii ) اس نصاب کی تشکیل نو کا معاملہ۔ اول الذکر پہلو کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ عصرِ حاضر میں پاکستان کے مدارس میں جو نصاب رائج ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ازسر نو جائزہ بلکہ تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس پر بہت سے ادارے پہلے بھی کافی کام کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ میری نظر میں اس پر جامع تحقیق اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس مختصر انٹرویو میں میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دین اور شریعت کے بنیادی ماخذ صرف دو ہیں۔ قرآن اور حدیث۔ مدارس میں حدیث پر تو خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ حدیث کی تقریباً تمام معتبر کتابیں پڑھادی جاتی ہیں۔ لیکن اسماء الرجال، جرح و تعدیل، روایت و درایت اور دیگر فنون حدیث جن سے حدیث کی درجہ بندی ہوتی ہے اُس پر طالب علموں کی دسترس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

جہاں تک قرآن اور تفسیر کا معاملہ ہے ان کا نصاب بہت کمزور ہے۔ نہ تو اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر جیسے علوم شاملِ نصاب ہیں نہ ہی قدیم اور جدید تفاسیرکا باہمی موازنہ اور مطالعہ شامل نصاب ہے۔ بیضاوی اور جلالین کے کچھ حصے اور قرآن پاک کی چند سورتوں کی تفسیر پڑھا کر کام چلایا جاتا ہے۔

جبکہ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فہم قرآن اور اُس کی حقیقی روح کو سمجھا جائے۔ دورانِ تعلیم ہر سطح پر قرآن اور تمام تفاسیر کا مطالعہ بہر صورت لازم ہے ۔ اور اسی سے علوم القرآن پر دسترس حاصل ہو سکتی ہے۔ سب سے زیادہ توجہ فقہ پر دی جاتی ہے اور ذہین طلباء فقہ کے اکثر مسائل زبانی یاد کر لیتے ہیں۔ لیکن فقہ میں مسلکی عقائد کے علاوہ دیگر فقہاء کی آرا سے نابلد ہوتے ہیں ۔ فقہ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی بہت قدیم ہیں جن میں دورِ جدید کے مسائل پر گفتگو ہی نہیں ہوتی ۔ نتیجتاً اجتہاد کی صلاحیت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ جدید مسائل پر دارالافتاء سے جو لوگ رجوع کرتے ہیں اُن کے مسئلے کی حقیقی نوعیت کو سمجھے بغیر قدیم کتابوں سے مسئلے کا ایک ہی جواب دے دیا جاتا ہے جس سے سوال کنندہ کی تشفی نہیں ہوتی۔ نصاب کا چوتھا اہم جزو عربی زبان ہے جو رٹا لگوا کر پرانے طریقہ کے مطابق پڑھائی جاتی ہے۔اس سے عربی بولنے کا ملکہ تو بالکل حاصل نہیں ہوتا البتہ عربی کی صرف اور نحو کسی حد تک سمجھ آجاتی ہے۔

لیکن قرآن، حدیث اور فقہ کے عربی متنوں کا براہ راست ترجمہ کرنا واجبی سا رہتا ہے۔ ایک بات اور بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے علوم ایسے بھی پڑھائے جاتے ہیں جن کی ضرورت ہی اب نہیں۔ مثلاًفلسفہ، منطق، قدیم ریاضی، مناظر فلکیات وغیرہ۔ اس طرح نہ تو تاریخ سے واقفیت ہوتی ہے نہ جغرافیہ سے۔ نہ جدید زبانوں سے اور نہ ہی معاشرے کی جدید ضرورتوں اور مسائل سے۔ مذاہب عالم کو پڑھانا تو شاید شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور انگریزی تعلیم کو بھی۔ اب آئیے سوال کے دوسرے حصے کی جانب یعنی اِس نصاب کی تشکیل نو کیسے ہو ۔ آدھا جواب تو آپ کو میری پہلی گفتگو میں ہی مل گیا ہوگا۔ البتہ چند باتیں میں اس حوالے سے بھی عرض کروں گا۔ نہ صرف نصاب میں عصری علوم کو شامل کرنا ضروری ہے بلکہ جو  نصاب رائج ہے اس کو بھی ازسر نو ترتیب دینا ہوگا۔ طریقہ تدریس بھی جدید سانچوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔

معلمین اور مدرسین کی اہلیت اور صلاحیت کا تعین بھی کرنا ہوگا اور جدید عصری تعلیم کے اہم اور لازمی مضامین کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ عصری تعلیم سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ ہمیں مدارس کے طلباء کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا ہے بلکہ مدارس کے نصاب ِ تعلیم سے اعلیٰ پائے کے علماء، اسکالرز، مفسرین، مجتہدین، محدثین، فقہاء، قاضی ، مفتی، خطیب، واعظ اور مبلغ پیدا کرنے ہیں تاکہ معاشرے کو مذہب کی حقیقی روح  اور جدید تعبیر و تشریح کے ساتھ ایک اعتدال پسند (Moderate) معاشرہ بنایا جا سکے۔ میرے نزدیک اس سلسلے میں نصاب میں عصری علوم میں سیرت طیبہ، تاریخ، جغرافیہ، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، معاشیات، سائنس، جدیدریاضی، کمپیوٹر اور انگریزی و عربی زبان کی تدریس لازم ہے۔ نیز فرسودہ مضامین منطق، فلکیات، قدیم ریاضی، قدیم فلسفہ وغیرہ کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا۔ جن کا مطالعہ اب تضیعِ اوقات کے سوا کچھ نہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت قرآن اور تفاسیر اور علوم القرآن کے نصاب کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کی ہے۔ کیونکہ قرآن اور تفاسیر کے عمیق مطالعہ سے ہی دین کی حقیقی روح کو سمجھا جا سکتا ہے اور قرآن ہی تمام علوم کا بنیادی سرچشمہ ہے۔

آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کون کون سے عصری علوم کو کس کس سطح پر پڑھایا جائے۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا مدارس میں داخلہ کے لئے بنیادی تعلیم کا ہے۔ اگر مدارس خود پرائمری تعلیم کی ذمہ داری لیتے ہیں تو پھر پرائمری سیکشن میں اُنہیں صرف عربی، انگریزی، ریاضی اور حفظ قرآن یا قرآن ناظرہ کی تعلیم دینی چاہیے۔ مڈل سیکشن میں اِن مضامین کے ساتھ ساتھ حدیث، سیرت،سائنس، کمپیوٹر اور تاریخ جیسے مضامین بھی شامل کر لینے چاہیئں۔ اور میٹرک کی سطح پر چند مضامین کا اضافہ کر دینا چاہیے۔

یا پھر مدارس میں داخلے کی بنیادی اہلیت ہی کم ازکم میٹرک سیکنڈ ڈویژن ہونی چاہیے۔ اور بعد کے 6 سال میں صرف قرآن، حدیث، تفسیر،فقہ، تقابلِ ادیان، سیرت، عربی ، معاشیات اور کمپیوٹر وغیرہ جیسے مضامین پڑھائے جانے چاہئیں۔ اور اس کے بعد دو سال کا تخصص (Specialization) بھی کسی ایک اسلامی فیلڈ میں لازمی ہونا چاہیے۔ بہر حال یہ ایک مشاورتی بورڈ زیادہ بہتر طریقے سے رائے دے سکتا ہے کہ سمسٹرسسٹم ہو یا سالانہ امتحان ہو۔ کس کس سطح پر کون کون سے اسلامی اور عصری علوم پڑھائے جائیں اور طریقہ امتحان کیا ہو۔ کیا اِن مدارس کو سیکنڈری و اعلیٰ سیکنڈری بورڈز اور یو نیورسٹی سے الحاق کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا بورڑ اور یو نیورسٹیاں اپنے شعبہ امتحانات میں مدارس کے امتحانات کے لیے مخصوص شعبہ قائم کرسکتے ہیں یا نہیں۔ مدارس اور وفاق ہائے مدارس کی  مشاورت سے یہ باتیں طے کی جاسکتی ہیں۔بشرطیکہ حکومت بھرپور دلچسپی لے اور مدارس بھی قومی دھارے میں شامل ہونے پر رضامند ہوں۔

س۔ مدارس میں علمی تحقیق کی سرگرمیوں کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے معیار کو کیسے بین الاقوامی سطح پر رائج طریقہ کار کے مطابق لایا جا سکتا ہے؟

ج۔ مدارس میں علمی تحقیق سے متعلق آپ کا سوال بہت اہم ہے کیونکہ عام مدارس میں تو تحقیق (Research)کا کوئی تصور تک موجود نہیں البتہ چند بڑے مدارس کے علماء اور معلمین اس سلسلے میں ضرور قدرے دلچسپی رکھتے ہیں۔لیکن یہ تحقیق بھی کسی عربی کتاب کے ترجمہ، شرح یا افتاء تک محدود ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تخصص (Specialization) کے لیے ایک تحقیقی مقالہ شہادۃ العالمیہ یعنی Master کی سطح پر ہو اور طریقہ تحقیق (Research Methodology) بھی پڑھائی جائے۔ اور کسی بھی خالص علمی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھوایا جائے اور ایم فل کے مساوی ڈگری بھی دی جائے۔ معلمین اور اساتذہ کی کم ازکم علمی قابلیت ایم فل ہو اور وہ کسی ایک موضوع پر Specialized بھی ہوں۔ علمی تحقیق کو رائج کرنے کے لیے ایک اور تجویز بھی دی جا سکتی ہے کہ مدارس کے علماء اور طلباء ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی رواج دیں تاکہ تحقیق، تحریر اور تقریر کا ذوق پیدا ہو لکھنے کی مشق بھی ہو۔ اور طریقہ تحقیق (Research Methodology) کے اصول و مبادی ہر سطح پر اُن کے ذہن میں ازبر ہو جائیں۔ کتابیں شائع کی جائیں۔ کالجوں اور یو نیورسٹیوں کی طرح ان کے سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ میگزین اور ریسرچ جرنلز بھی جاری ہوں۔ یہ طریقہ ہے جس سے تحقیقی جمود کو توڑا جا سکتا ہے۔

س۔کیامدارس میں رائج اساتذہ کے طریقہ تدریس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے؟

ج۔اگر چہ طریقہ تدریس عصری تعلیم کے اداروں میں بھی تسلی بخش نہیں۔ لیکن مدارس کا طریقہ تدریس خاص طور پر تجدید اور اصلاح کا طلبگار ہے۔ بعض مدارس میں طلباء پر تشدد کرنے اور زبردستی مدارس میں مقید کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ۔’’رٹا سسٹم‘‘ سوال کرنے کی ممانعت، فرش پر بچوں کو بٹھانا اور خود معلمین کا بھی فرش پر بیٹھ کر پڑھانا، وائٹ بورڈ/ بلیک بورڈ کا استعمال نہ کرنا، جدید آلات ِ تعلیم سے محرومی اور سبق یاد نہ کرنے پر سخت جسمانی اذیتیں دینا ایسے معاملات ہیں جن سے نہ صرف بچوں کی شخصیت اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ تدریسی طریقہ کا ر کا صرف استاد سے طالب علموں کی جانب علم کی منتقلی پر بنیاد کرنا اور طلباء کو اِس میں شامل نہ کرنا۔طریقہ تدریس کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ طلباء کو ہر مضمون میں صرف ایک ہی مقررہ نصابی کتاب پڑھائی جاتی ہے اور اُس موضوع سے متعلق دیگر کتابوں سے نہ تو آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طالب علم میں نہ تو تحقیق اور مطالعے کا ذوق پیدا ہوتا ہے نہ ہی دیگر فقہاء اور علماء کی رائے سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس سے جامد مسلکی سوچ پیدا ہوتی ہے۔

س:۔ مدارس کے اساتذہ کا معیار زندگی کیا ہمارے دیگر اساتذہ کے معیار زندگی کے مساوی ہے؟

ج :۔ یہ ایک معمہ ہے کہ یہ حضرات بہت قناعت پسند ہوتے ہیں۔ معمولی مشاہرہ، انتہائی سادہ طرز زندگی اور صبرو شکر کی دولت ہی اِن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ لیکن یہی قناعت پسندی معاشرے کے عام افراد سے اُنہیں علیحدگی پسندی پر بھی آمادہ کرتی ہے۔ وہ دین کے خدمتگار ہیں لیکن معاشرہ اُنہیں زکوۃٰ، چندہ، عطیہ اور صدقات وغیرہ کا مستحق سمجھتا ہے۔ چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر تقریباً تمام مدارس اِنہی وسائل پر ہی گزر بسر کرتے ہیں۔ اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چند قابل اور خوشحال علماء ہوتے ہیں وہ معلم کا پیشہ ہی اختیار نہیں کرتے اور مجموعی طور پر اوسط درجہ قابلیت کے حامل علماء ہی یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجموعی تعلیمی معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں اصل ذمہ داری تو حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن معلمین اور مدرسین کو بھی وہی سہولیات فراہم کرے جو عصری تعلیم کے اساتذہ کو فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بلکہ زیادہ تر مدارس حکومت کی سر پرستی قبول کرنے میںبھی پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس امداد یا سر پرستی کی بجائے اپنی آزادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

س:۔ کیا مدارس کے طالب علموں کو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟

ج:۔ معاشرے کے مذہب پسند افراد مدارس کے طلباء کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مذہب بیزار افراد کی تو بات ہی الگ ہے لیکن معاشرے میں ایک عمومی تاثر یہ بھی بنتا جارہا ہے کہ مدارس کے طلباء کی وضع قطع دیکھ کر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ مغرب نے جس طرح مدارس کے طلباء کو پیش کیا ہے اس کا کافی اثر ہمارے معاشرے پر بھی ہو چکا ہے۔

جو کہ حقیقتاً لغو ہے۔ اس کی ایک علمی تحقیق سے اس وضاحت کرتا چلو ںجنوری2018 میں ڈنمارک کے رائل ڈیفنس کالج نے ایک رپورٹ ’’ دی رول آف مدارس ‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں پیٹر برجن اور سواتی پانڈے کی ایک تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق 2006 میںمغربی لوگوں کے خلاف ہونے والے کچھ اہم دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے موجود79 دہشت گردوں کے تعلیمی پس منظر کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں کی اکثریت کالج تعلیم یافتہ تھی۔ اور اِن میں سے صرف 09 مدارس میں زیر تعلیم رہے تھے۔ لہذا تمام مدارس اور اِن کے سب طلباء کو ایک جیسا خیال کرنا نا انصافی اور جہالت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات تشدد اور سزائیں، زکوٰۃ ، خیرات لینے کے طعنے کہیں بھی ہوں ان سے عزت نفس تو مجروح ہوتی ہی ہے اور مدارس کے طلباء بھی اِس سے محفوظ نہیں۔

س:۔ مدارس کو تعلیم کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے حکومتی، مدارس اور عوامی سطح پر کیا اقدامات کیے جائیں؟

ج:۔ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کوششیں تو بہت ہوئیں لیکن یہ خاصا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مدارس اپنی آزادی پر کمپرومائز (Compromise) کرنے کو تیار نہیں۔ حکومتی اقدامات بھی غیرتسلی بخش ہیں ۔ اور عوام میں بھی عمومی طور پر مذہبی طبقہ سے دوری پیدا ہو رہی ہے۔ تینوں سطحوں پر یعنی خود نظام مدارس، حکومت اور عوام کی مثلث میں باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ مدارس کو اپنے نصاب تعلیم، طریقہ امتحانات، اساتذہ کی تعلیمی قابلیت، ماحول اور فکری سوچ کو بدلنا ہوگا۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اِن مدارس اور اُن کے طلباء اور اساتذہ کو وہی سرپرستی فراہم کرے جو وہ عصری علوم کے اداروں کو فراہم کرتی ہے۔

جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ آج بھی شرعی مسائل اور فتاویٰ کے لیے اِن پر اعتماد کرتے ہیں ۔ مذہبی رسوم کی انجام دہی کے لیے بھی اِنہی مذہبی رہنمائوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ اس لیے عوامی حلقوں سے حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ مدارس کے مسائل حل کرے اور اُنھیں مالی وسائل فراہم کرے جبکہ مدارس پر یہ زور دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہوں۔ یعنی حکومت کی مکمل سرپرستی ہو اور مدارس اپنے تدریسی ماحول کو عصری علوم سے مزین کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کا اِن اعتماد قائم نہ ہو۔ اس طرح سے جو خلیج عصری تعلیم کے اداروں اور مدارس میں حائل ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘

پاکستان میں ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک تقریباً ہر حکومت نے مدرسہ اصلاحات کی کوششیں کیں ۔ ان اصلاحات میں سے ہر ایک کی حتمی روح مدرسہ کے نظام کو باضابطہ تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑنا تھا تاکہ مدرسے کے فارغ التحصیل گریجویٹس کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ لیکن باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے اکثر مدارس میں رائج تعلیمی نظام طلباء کو جدید دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کر رہا ہے؟ کیونکہ اِس وقت پاکستان کے اکثر مدارس کے نصاب میں عصری علوم جن میں انگریزی، ریاضی، سائنس، مطالعہ پاکستان اور کمپیوٹر کی تعلیم شامل نہیں اور صرف درسِ نظامی کا نصاب چند تبدیلیوں کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ مدارس کی رجسٹریشن، آمدن کا آڈٹ، اساتذہ کو تربیت فراہم کرنا اور مدرسہ کے معاملات کے حوالے سے ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام جیسے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔اس تمام تر صورتحال میں اب یہ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور مدرسہ تعلیم کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے مدارس کی مشاورت سے سنجیدہ اقدامات کریں۔ جبکہ مدارس بھی وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلامی دنیا کے اُن مدارس کاعملی روپ اختیار کریں جن کی ماضی میں مغرب نے تقلید کر کے آج کا عروج حاصل کیااور یہ سب کچھ باہمی مشاورت اور اعتماد سے ہی ممکن ہے تاکہ ہم بھی اقوام عالم میں خواندہ قوم کے طور پر اپنا مقام بنا سکیں ۔

The post قومی نظام تعلیم میں مدارس کا انضمام۔۔۔۔۔ ایک تشنہ ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.


کرفیو کے دن، کرفیو کی راتیں

$
0
0

5 اگست کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد مقبوضہ کشمیر ( وادی سمیت جموں اور لداخ )سے ابھی تک کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی سوائے اس کے کہ لداخ اور جموں میں بھی ہندوستان کے اس فیصلے کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ 26 دن سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ ہے۔

کرفیو کے نفاذ اور شدید ترین پابندیوں نے مقبوضہ کشمیر کو تین ہفتوں سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈان کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور 5اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اندرونی حالات سے متعلق معلومات بمشکل باہر آ رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی صورتحال کسی حد تک بی بی سی اور دوسرے بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہے تاہم اصل صورتحال اس قدر مخدوش ہے جس کا آج کے دور میں اندازہ کرنا مشکل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے بلیک آؤٹ اور اظہار رائے کی پابندیوں کو سمجھنے کیلئے ایک دوست سے ہونے والی بات چیت آپ کی نذر کرتا ہوں ۔

ایک دوست کے مطابق ان کی ایک رشتہ دار حج پر گئیں ۔ ان کی واپسی کی جب فلائیٹ تھی تو ان کا بیٹا اپنی والدہ کا استقبال کرنے سری نگر ائیرپورٹ گیا۔ جب حاجی ائیرپورٹ سے باہر آنا شروع ہوئے تو وہ پھولوں کا ہار ہاتھوں میں تھام کر والدہ کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔والدہ کے گروپ کے سارے حاجی ائیرپورٹ سے باہر آگئے لیکن اس کی والدہ دکھائی نہ دیں۔ مضطرب بیٹے نے والدہ کے بارے میں پوچھا تو  گروپ کے حاجیوں نے جھجکتے ہوئے بتایا کہ آپ کی والدہ 20روز قبل سرزمین حجاز میں انتقال کرگئی تھیں، ان کی وہیں تدفین کر دی گئی۔ذرائع مواصلات کی پابندیوں کی وجہ سے آپ کو اطلاع نہیں دی جا سکی۔ یہ واقعہ بتانے والے نے اس وقت بتایا جب وہ ہندوستان سے باہر گیا۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے وہ یہ واقعہ نہیں بتا پائے ۔

اسی طرح سری نگر سے دہلی پہنچنے والے ایک ڈاکٹر(ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے) نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ ریاست کے تمام ہسپتالوں کو سیکورٹی فورسز کے تشدد سے زخمی ہونے والوں کے علاج سے روک دیا ہے۔ ہسپتالوں کے سربراہان کو جاری کیے جانے والے زبانی حکم میں کہا گیا ہے کہ پیلٹ گن کے چھروں ، گولیوں، آنسو گیس یا فورسز کے کسی دیگر تشدد کے حربوں سے زخمی ہونے والوں کو  فوری طبی امداد مہیا کی جائے نہ ہی انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیا جائے۔ زخمی کی حالت جس قدر چاہے خراب ہو، اسے بغیر علاج اور طبی امداد دیے ہسپتال سے نکال دیا جائے۔

ڈاکٹر کے مطابق میں نے بذات خود شیر کشمیر میڈیکل انسٹیٹیوٹ سرینگر میں پیلٹ سے بری طرح زخمی سات سال تک کے چھوٹے بچے دیکھے ہیں۔ ان بچوں کو طبی امداد کی اشد ضرورت تھی اور امداد نہ ملنے کی صورت میں ان کی بینائی ختم ہونا یقینی تھا لیکن ہسپتال میں موجود بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ڈاکٹرز کو ان کا علاج کرنے سے زبردستی روک دیا گیا اور انہیں اسی زخمی حالت میں ہسپتال سے باہر نکال دیا گیا۔ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ ہسپتالوں کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے بھی تا حکم ثانی روک رکھا ہے تاکہ مرنے والوں کی مستند تعداد ظاہر نہ ہو سکے۔

بھارتی حکومت علاج کی عدم فراہمی کو کشمیر کے شہریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ ریاست میں ڈاکٹرز بار بار ادویات کی شدید قلت کی نشاندہی کرچکے ہیں لیکن دوائیوں کی سپلائی کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ وادی میں ڈسپوزیبل میڈیکل آلات نایاب ہوچکے ہیں۔دو تین دن کے بعد گردے کے مریضوں کے ڈائیلیسز نہیں ہوسکیں گے۔ نہ آپریشنز کرنا ممکن رہے گا۔انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں لوگ اپنی ہیلتھ انشورنس سے علاج نہیں کرا سکتے، سرکاری ملازمین اپنا ہیلتھ کارڈ استعمال نہیں کر سکتے۔ اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا بھی ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح وادی کشمیر میں ہونے والے تشدد کو رپورٹ کرتے ہوئے ’بی بی سی‘ نے لکھا کہ’’ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کشمیریوں نے سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔کئی دیہاتیوں نے بتایا کہ انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ خطے میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً3000  افراد کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر موجود جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

ایک گاؤں میں دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے کشمیر اور دہلی کے درمیان خصوصی انتظام کو ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی۔ دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگر مرد بھی جمع تھے۔ ہم جس سے بھی ملے، ان کی طرح یہ لوگ بھی اپنی شناخت ظاہر ہونے پر سنگین نتائج کے خوف کا شکار تھے۔ان میں سے ایک نے بتایا کہ انھوں نے ہمیں مارا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیں اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟ مگر وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، وہ بس ہمیں مارتے رہے۔

انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔ہم نے انھیں بتایا کہ ہم بے قصور ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے؟ مگر انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں،  بس ہمیں گولی مار دیں۔ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔‘‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز بن گیا ہے، کبھی یہ علاقہ نیشنل کانفرنس کا مرکز سمجھا جاتا تھا تاہم مبصرین کہتے ہیں کہ صورہ کی آبادی کے ایک حصے کا جھکاؤ ضرور نیشنل کانفرنس کی طرف ہو گا لیکن گزشتہ 30سال کے دوران اس علاقے کے لوگوں میں انڈیا مخالف جذبات پروان چڑھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جب پورے کشمیر پر ایک خوفناک خاموشی طاری ہے، صورہ کے جناب صاحب اور آنچار علاقوں کی آبادی حکومت کے ساتھ براہ راست ٹکرا میں مصروف ہے۔اسی سے ملتی جلتی صورتحال جموں میں بھی ہے تاہم جموں شہر کی حد تک انٹرنیٹ سروس میسر ہے۔جموں سے بی جے پی کے عہدیدار ڈاکٹر نرمل سنگھ کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر میں بیرون ریاست لوگوں کی زمین خریداری پر پابندی کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس کے بعد مرکز کی جانب سے ان پر خاصا دباؤ ہے کہ وہ بیان واپس لیں تاہم ابھی تک انہوں نے بیان واپس نہیں لیا۔

لداخ میں بھی شناخت کے لئے کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ لداخ سے ممبر لوک سبھا نے بھارتی پارلیمنٹ کو خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ لداخ میں زمین کے تحفظ اور جابز کے حصول کے معاملے کو لداخ تک محدود رکھا جائے اور ان کی شناخت کو 35 اے سے زیادہ بہتر انداز میں تحفظ فراہم کیاجائے۔ لداخ صوبے کے ضلع کرگل کے عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی شناخت کو بحال کر کے لداخ کو واپس وادی کے ساتھ جوڑا جائے۔ اگر لداخ کو وادی کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا تو ضلع کرگل کو لداخ سے الگ کر کے الگ یونین ٹیریٹری کا درجہ دے کر شناخت کو تحفظ دیا جائے۔

اب اس معاملے پر دہلی حکومت انتہائی بری طرح پھنس چکی ہے اور اس فیصلے کے بعد ہندوستان کی معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی حکومت نے ریزرو بنک آف انڈیا سے 24.5 ارب ڈالر لئے ہیں جو ان کی معیشت پر اثرات کا پتا بتا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا پہلے کیس کی سماعت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد دوبارہ سماعت کیلئے منظور کرنا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ حالات اگر زیادہ خراب ہوئے تو ہندوستان آرٹیکل 370 میں ترمیم کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے ذریعے ریورس کرے گا۔

بھارتی سپریم کورٹ میں کیسز
انڈیا کی سپریم کورٹ میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے معاملے کی سماعت اکتوبر میں پانچ رکنی آئینی بنچ کرے گا۔چیف جسٹس انڈیا رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ حکم انڈین آئین کے آرٹیکل370 کے خاتمے اورجموں و کشمیر میں جاری سکیورٹی لاک ڈائون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا ہے۔ایم ایل شرما کی درخواست پر سماعت کے دوران سولیسٹر جنرل اور اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومت اس سلسلے میں جواب داخل کرے گی۔ عدالت نے کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی جانب سے کشمیر میں عائد پابندیوں کے حوالے سے جمع کروائی گئی درخواست پر مرکزی اور جموں و کشمیر کی حکومت کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن میں جواب طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ پانچ رکنی بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ جن افراد کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے ان میں انورادھا بھسین کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)کے رہنما سیتا رام یچوری، کانگریس کے رہنما تحسین پوناوالا، کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور سابق سرکاری ملازم شاہ فیصل کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبعلم رہنما شہلا رشید بھی شامل ہیں۔ان دس کے قریب درخواستوں میں جہاں انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے وہیں خطے میں اس فیصلے کی وجہ سے جاری کرفیو اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کی بات بھی کی گئی ہے۔درخواستوں کی سماعت کے دوران انڈین چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔

تیتری کراسنگ پوائنٹ
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے بعد لائن آف کنٹرول پر منقسم خاندانوں کو تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے کراسنگ کروائی گئی ۔ کراسنگ پوائنٹ کھولنے کے بعد تقریباً46 افراد نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سفر کیا اور اپنی اپنی منزل پر پہنچے۔ ان میں 40افراد انڈیا کی طرف سے جبکہ چھ افراد پاکستان سے گئے۔کشمیر میں کشیدگی کے بعد یہ کراسنگ پوائنٹ تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت کے لیے مکمل طورپر بند کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان چاہے کسی قسم کے حالات بھی رہے ہوں لیکن اس پوائنٹ پر بیشتر اوقات نرمی ہوتی تھی اور یہاں سے تجارت بھی ہوتی تھی۔ فروری میں دونوں ممالک کے درمیان جو مسائل پیدا ہوئے اس کے بعد سے ایل او سی پر سوائے تیتری پوائنٹ کے تمام کراسنگ پوائنٹ بند کردیے گئے تھے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی یہاں سے آخری کراسنگ تھی کیونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والوں دنوں میں منقسم خاندانوں کے لیے سختیاں مزید بڑھیں گی۔

 

The post کرفیو کے دن، کرفیو کی راتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

زیادہ دن جھگڑا رہنے سے
محبت میں کمی آجاتی ہے!

سر سید احمد خان
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں، تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بُری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، تو پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے، پھر باچھیں چِر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور نحیف آواز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کے کان اس کے منہ میں، اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کم زور ہوا دُم دبا کر بھاگ نکلا۔

نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی اسی طرح پر تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کے آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر وہی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ! یوں نہیں یوں ہے، وہ کہتا ہے، واہ! تم کیا جانو۔۔۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔۔۔ تیوری چڑھ جاتی ہے۔۔۔ رخ بدل جاتا ہے۔۔۔ آنکھیں ڈرائونی ہو جاتی ہیں۔۔۔ باچھیں چِر جاتی ہیں۔۔۔ دانت نکل پڑتے ہیں۔۔۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔۔۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔۔۔ آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔۔۔ نحیف نحیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔۔۔ آستینیں چڑھا، ہاتھ پھیلا اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں لپّا ڈُپّی ہونے لگتی ہے۔

کسی نے بیچ بچائو کرا کر چُھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اُدھر چلا گیا اور ایک اِدھر۔ اور اگر کوئی بیچ بچائو کرنے والا نہ ہوا تو کم زور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے، سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو جاتی ہے۔

کہیں تو تکرار پر نوبت آجاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے پر ہی خیر گزر جاتی ہے، مگر ان میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے، آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہوتی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی محبت اور دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔

پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے خلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع ، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو اور بناوٹ بھی نہ پائی جائے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرو۔ مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا۔ گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔

جب بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے نہ دے تو زیادہ تکرار مت بڑھائو۔ یہ کہہ کر میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا۔ جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلائو کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا۔

کیوں کہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور اپنی عزیز شے ( جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے، جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملتے ہیں، تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے، تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو۔ کیوں کہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے، تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگتی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کرلو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔

۔۔۔

ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ

میں بہ مشکل ابھی ٹین ایج میں داخل ہو رہا تھا، جب پاکستان ٹائمز کے باہر ایک کڑی دوپہر کی دھوپ میں، میں نے فیض صاحب کے آگے اپنی آٹو گراف بک کھول کر کہا ’’آٹوگراف پلیز‘‘

فیض صاحب نے آٹو گراف بک پر ایک مصرع گھسیٹ دیا اور ان کی لکھائی ہمیشہ گھسیٹی ہوئی لگتی تھی۔ ہم پرورش ِلوح و قلم کرتے رہیں گے۔ میں کسی حد تک قلم کو جانتا تھا لیکن یہ لوح کیا بلا ہے نہیں جانتا تھا اور ان کی بچوں کی مانند پرورش کے بارے میں تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا چناں چہ میں نے گھگھیا کر درخواست کی کہ وہ رباعی لکھ دیں۔ رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔ تو فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک اور سوٹا لگا کر کہا۔ بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں۔ تو میں نے فوراً کہا۔ جی مجھے یاد ہے۔ میں آپ کو لکھا دیتا ہوں اور میں نے وہ رباعی فیض صاحب کو لکھوائی۔ یعنی آج سے تقریباً 65 برس پیش تر میں فیض صاحب کو شعر لکھوایا کرتا تھا۔

اس رباعی کے پہلو میں ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے بھی آج تک موجود ہے اور میں اس مصرع کے بارے میں ہمیشہ مخمصے میں ہی رہا۔ اور پھر میری حیات میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ کائنات کے آغاز کی مانند ہر سو تاریخی تھی۔ آمریت، جبر اور ظلم کی اتھاہ تاریکی اور اس میں ایک چراغ روشن ہوا۔ احتجاج کا۔ ’’الفتح‘‘ کا۔ میں نہیں مانتا اس صبح بے نور کو۔ ایک ایسا چراغ اور اسے روشن کرنے والا محمود شام تھا۔ اور تب پہلی بار مجھ پر آشکار ہوا کہ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مصرع محمود شام کی ذات کی مکمل تفسیر ہے۔

محمود شام اور مجھ میں ایک قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں اس دھرتی میں سے پھوٹنے والے بوٹے ہیں، جو سندھ اور چناب کے پانیوں میں سے اپنے تخلیقی جوہر کشید کرتے ہیں۔ ہم مٹی کے مادھو نہیں، بلکہ اس مٹی کے مادھو لال حسین ہیں اور ہم دونوں کا مرشد کون ہے۔ ہماری یہ مٹی۔۔۔!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
’’جنریٹر‘‘
رضوان طاہر مبین

وہ ’گھر‘ محلے بھر کا مرکزِ نگاہ تھا۔۔۔
سب کا وہاں آنا جانا تھا، لیکن گھر کا روغن خراب اور پلستر خستہ تھا۔
’گلی والے‘ کہتے کہ 30 سال پہلے جنریٹر لگوایا، ساری خرابی تب سے ہے۔۔۔
اس کا شور اور دھواں وبال ہے۔۔۔
اہلِ خانہ کہتے کہ جنریٹر سے انہیں سہولت بھی ہوئی، لیکن ایک دن جنریٹر نکلوا دیا گیا۔
تین سال بیت گئے۔۔۔
’گھر‘ کے مکین کہتے ہیں:
’’گھر کی مرمت تو کیا ہوتی۔۔۔ الٹا جنریٹر بھی ہاتھ سے گیا۔۔۔!‘‘
دوسری طرف ’گلی والے‘ آج بھی نکال دیے جانے والے ’جنریٹر‘ کو ہی کوس رہے ہیں۔۔۔

۔۔۔

’لڑکیاں تمہاری رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں!‘‘
(ابن انشا کا ممتاز ادیب اے حمید کو خط)

’’حمید، میری جان۔۔۔!

تمہارے ’’یادوں کے گلاب‘‘ سب کے سب میں نے پڑھے ہیں، بلکہ سونگھے ہیں اور پرانے دنوں کی یاد پر دل کو کچھ کچھ ہوتا ہی رہا ہے۔ تم ڈنڈی مار جاتے ہو، عشق و عاشقی اور لڑکیوں کے تذکرے میں بھی تم ڈنڈی، بلکہ ڈنڈا مار جاتے ہو۔ لڑکیاں تمہاری بھولی بھالی صورت اور رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں۔ خیر میاں ہم تو تمہارے عاشق ہیں۔۔۔ فی زمانہ اور کوئی ہمیں اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ اب کے لاہور آیا، تو ملوں گا اور جی کڑا کر کے تمہارا منہ چوموں گا اور شہر میں گھومیں گے۔۔۔ لاہور کی گلیوں میں۔ میری دو کتابیں آ رہی ہیں، ایک ’’اُردو کی آخری کتاب‘‘ اور دوسری سفرنامہ ’’آوارہ گردی کی ڈائری‘‘ اس کے بارے میں کچھ لکھنے کو تیار رہو۔ حرام خوری مت کرنا۔۔۔ خط لکھو فوراً۔

نوٹ: میری جو کتابیں تم پی گئے ہو، وہ میں نے تمہیں معاف کیں، بلکہ بھول گیا سمجھو، میرا بھی حافظہ خراب ہے۔
تمہارا ابن انشا‘‘

۔۔۔

’’لیکچر مقبول ہوا۔۔۔‘‘
مرسلہ:سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
پڑھائی زوروں سے ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں مس سید آئی تھیں جنہیں ولایت سے کئی ڈگریاں ملی ہیں۔ بڑی قابل عورت ہیں۔ انہوں نے ’’ مشرقی عورت اور پردہ‘‘ پر لیکچر دیا۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، مس سید نے شنیل کا ہلکا گلابی جوڑا پہن رکھا تھا۔ قمیص پر کلیوں کے سادہ نقش اچھے لگ رہے تھے۔ گلے میں گہرا سرخ پھول نہایت خوب صورتی سے ٹانکا گیا تھا۔ شیفون کے آبی دوپٹے کا کام مجھے بڑا پسند آیا۔ بیضوی بوٹے جوڑوں میں کاڑھے ہوئے تھے۔ ہر دوسری قطار کلیوں کی تھی۔ ہر چوتھی قطار میں دو پھول کے بعد ایک کلی کم ہو جاتی تھی۔ دوپٹے کا پلو سادہ تھا، لیکن بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ مس سید نے بھاری سینڈل کی جگہ لفٹی پہن رکھی تھی۔ کانوں میں ایک ایک نگ کے ہلکے پھلکے آویزے تھے۔ تراشیدہ بال بڑی استادی سے پرم کیے ہوئے تھے۔ جب آئیں تو کوٹی کی خوش بو سے سب کچھ معطر ہو گیا، لیکن مجھے ان کی شکل پسند نہیں آئی۔ ایک آنکھ دوسری سے کچھ چھوٹی ہے۔ مسکراتی ہیں تو دانت برے معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عمر رسیدہ ہیں۔ ہوں گی ہم لڑکیوں سے کم از کم پانچ سال بڑی۔ ان کا لیکچر نہایت مقبول ہوا۔

(شفیق الرحمٰن کے ایک چُٹکیاں لیتے ہوئے مضمون سے چُنا گیا)

۔۔۔

آبِ حیات
ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی، جھنگ
کہتے ہیں کہ زمین کے کسی نامعلوم مقام پر ایک ایسا چشمہ موجود ہے، جس کا پانی پینے والے کو کبھی موت نہیں آتی، اس پانی کو لوگ ’آبِ حیات‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جس کا پانی نوش کرنے والے کا جسم ہمیشہ سانس تو لیتا رہتا ہے، لیکن حواس خمسہ قائم نہیں رہتے۔ شکل و صورت بدل جاتی ہے، ہاتھ پائوں ختم ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوتھڑوں کی شکل میں ایک جگہ پڑا ہوا سسکتا رہتا ہے۔

تو کیا فائدہ ایسے ’آبِ حیات‘ کا جہاں آدمی جسمانی طور پر مفلوج اور اپنی صورت سے بھی محروم ہو جائے۔ طویل عمر پانے کے لالچ میں یہ لوگ عمر بھر کی مصیبت کو اپنے گلے کا ہار بنا لیتے ہیں۔ پھر یہ ہڈی ان سے نہ نگلی جاتی ہے نہ اُگلی جاتی ہے۔ ذلیل و خوار ہوتے ہیں نہ تن درست نہ بیمار، نہ موت، نہ کفن دفن۔ ذلت کی عمر اور سزا پانے والی زندگی ان کی قسمت اور نصیب و مقدر بن جاتی ہے۔ اس طویل العمری کو لوگ ’عمر خضر‘ کا نام دیتے ہیں، مگر ہمیں ایسی غیر طبعی عمر قبول نہیں، بلکہ بہتر یہی ہے کہ چلتے پھرتے راہیِ ملکِ عدم ہو جائیں!

ایک روایت ہے کہ دنیا کے عظیم فاتح سکندر اعظم نے بھی ’آبِ حیات‘ چکھنے کی خواہش کی تھی، لیکن جب وہ وہاں گیا تو اسے چشمے کے گرد تاحدِ نگاہ جسمانی لوتھڑے حرکت کرتے ہوئے نظر آئے۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آبِ حیات پی لیا تھا، تب ہی موت سے ہم کنار نہیں ہو رہے، جس پر سکندر نے آبِ حیات کا بھرا ہوا پیالا وہیں پھینک دیا اور طویل عذاب سے بچ گیا۔ اسے ہندوستان میں لڑی جانے والی ایک لڑائی میں ایک زہر میں بجھا ہوا تیر لگا تھا، جو مہلک ثابت ہوا اور پھر جلد ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہم نے بھی اپنی لیبارٹری میں پانی پر تحقیق کی، جس میں یہ پایا کہ بارش کا پانی زیر زمین پانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مفید ہے۔ بارش کے ابتدائی پانی میں کچھ ماحول کا گردو غبار ضرور شامل ہو جاتا ہے، لیکن اس کے بعد کا پانی بہترین اور شفایاب تاثیر کا حامل ہوتا ہے۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

LEDلائیٹس آپ کی بصارت تباہ کر سکتی ہیں

$
0
0

اﷲ تعالیٰ کی قدرت نے نہ صرف انسان کو آنکھ جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے بلکہ اس کی بہترین حفاظت کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔

انسانی آنکھ کی پتلی ایسا پہرے دار ہے جو کہ روشنی کی مقدار کو نہایت حساس طریقے سے کنٹرول کرتا ہے اور کسی بھی وقت روشنی کی زائد مقدار کو آنکھ میں جانے سے روک لیتا ہے جس سے ہماری آنکھ اندرونی طور پر محفوظ رہتی ہے۔ یہ پتلی زیادہ روشنی میں سکڑتی ہے اور اندھیرے میں پھیلتی ہے لیکن یہاں معاملہ روشنی کی اس قسم سے ہے جو کہ ہماری آنکھوں کو نظر آتی ہے جبکہ روشنی کی دوسری قسم غیرمرئی شعاعیں ہیں جو کہ انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ پتلی روشنی کی چمک دمک کو تو روک سکتی ہے لیکن یہ ریڈیائی شعاعیں جن میں ایکسریز، بالائے بنفشی (الٹرا وائیلٹ) اور زیریں سرخ (انفرا ریڈ) ہیں جو کہ انسانی صحت کے لے نہایت مضر سمجھی جاتی ہیں جن کا یہ پتلی کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور یہ آنکھوں میں داخل ہوکر انسانی نظر کو خراب کردیتی ہیں۔

حضرت انسان کی سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی کے نتیجے میں ہمیں جہاں علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میسر آرہی ہیں وہیں صحت کے سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے اور حالیہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے مامور صحت کی ایجنسی نے انسانی صحت کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ ہمارے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ طویل اور مفصل رپورٹ عام استعمال ہونے والے بجلی کے بلبوںLED لائیٹس سے متعلق ہے جس کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بنتا جارہا ہے، جنہوں نے پچھلے گیس ٹیوب والے سیور بلبوں کی جگہ لے لی ہے۔ اس رپورٹ میں ان ایل ای ڈیز کی روشنی کو انسانی آنکھ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ٹھہرایا گیا ہے جو کہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے پہلے موبائل فونز کا استعمال بھی خطرے کا باعث سمجھا جاتا رہا ہے، کیوںکہ یہ ریڈیائی لہروں کو موصول اور نشر کرتا ہے جو کہ قریبی لگے انٹینا ٹاور سے نشر ہوتے ہیں جو کہ شہری آبادیوں میں عام لگائے گئے ہیں اور تاب کاری کی بڑی مقدار خارج کرتے ہیں۔ رپورٹ پیش کرنے سے پہلے کچھ LED کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ یہ ایل ای ڈی لائیٹس کیا ہیں اور یہ کیسے روبہ عمل ہوتی ہیں۔

الیکٹرانکس سے واقفیت رکھنے والے ایل ای ڈی کو خوب جانتے ہیں یہ <Light Emitting Diode>ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ روشنی خارج کرنے والی ڈائیوڈ ہے۔ ڈائیوڈ الیکٹرانکس کا ایک اہم پرزہ ہے جو کرنٹ کو ایک سمت میں بہنے کی اجازت دیتا ہے جب کہ دوسری جانب سے روکتا ہے۔

اس طرح ایل ای ڈی بنیادی طور پر ایک ڈائیوڈ ہے جو کرنٹ گزرنے سے روشن ہوجاتی ہے۔ ایک عام ڈائیوڈ کا بنیادی کام ریکٹی فیکیشن ہے یعنی یہ آلٹرنیٹ کرنٹ (A.C) کو ڈائرکٹ کرنٹ (D.C) میں تبدیل کردیتا ہے جب کہ دو ڈائیوڈز کے ملاپ سے ٹرانزسٹر بنتا ہے، کیوں کہ آلٹرنیٹ بجلی برقی مقناطیسی لہروں کی شکل میں کام کرتی ہے جو کہ نشیب و فراز کی صورت میں ایک سائیکل 360ڈگری مکمل کرتی ہیں۔ لہروں کے سائیکل مکمل ہونے کا عمل ’’طول موج یا ویولینتھ‘‘ کہا جاتا ہے جو دو قریبی لہروں کے نشیب و فرازوِں کا درمیانہ فاصلہ ہے اور لہروں کے ایک سیکنڈ میں پورا ہونے والے عمل کو ’’تعدد یا فریکونسی‘‘ کہتے ہیں۔

اسے ہزز (Hertz) میں ناپا جاتا ہے۔ اسی فریکونسی کی رفتار کم یا تیز ہونے سے روشنی یا ریڈیائی لہروں کی ماہیت کا تعین ہوتا ہے۔ سفید روشنی کی پیدائش میں ایک بنیادی ٹیکنالوجی ’’شارٹ ویو لینتھ‘‘ کی مختصر طول موج کی ایل ای ڈی ہے جو کہ نیلی یا الٹراوائیلٹ (بالائے بنفشی) لہروں پر مشتمل ہے جن پر پیلے رنگ کی فاسفورس کوٹنگ چڑھی ہوتی ہے۔ اسپیکٹرم کی طیف میں یہ سفید یا ’’سرد‘‘ روشنی عظیم فریکوئنسی اور کمیت کی حامل ہے۔

اسپیکٹرم سے مراد روشنی کا انتشار ہے، جب سفید روشنی اپنے اندر موجود سات رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یک رنگی روشنی میں صرف ایک طول موج کی روشنی ہوتی ہے اسی روشنی میں تابکاری اثرات والی شعاعیں بھی وجود رکھتی ہیں۔ اسپیکٹرم کی رنگ دار پٹی طیف کہلاتی ہے جس سے ماہرین مختلف لہروں کی شناخت کرپاتے ہیں۔ نہ نظر آنے والی روشنی ’’مرئی طیف‘‘ کہلاتی ہے۔ طیف کا ایک سرا سرخ اور دوسرا بنفشی ہوتا ہے جب کہ درمیان میں نیلا، آسمانی، سبز ، پیلا اور نارنجی رنگ ہوتے ہیں ان ہی رنگوں کی ترتیب سے تابکار یا ریڈیو ایکٹیو شعاعوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔

LEDلائیٹس کے بارے میں بالعموم اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ سابقہ عام روشن ہونے والے انکینڈیسنٹ (Incandecent) بلبوں کے مقابلے کی روشنی استعمال کرنے میں بجلی کا پانچوں حصہ صرف کرتا ہے جو کہ بہت زیادہ انرجی افیشنٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایل ای ڈی کے بلبس روشنی کے اخراج میں بہت زیادہ گرمی بھی پیدا کرتے ہیں اور عام بلبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرم ہوجاتے ہیں جن کی گرمی کا توانائی کی شکل میں اخراج ہوتا ہے جسے ’’واٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بجلی کی اکائی ہے جب کہ اضافی والٹیج کی ایل ای ڈبوں کی ہیئت میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہیٹ سے بچنے کے لیے ایل ای ڈیز کو براہ راست نہیں جلایا جاسکتا کیوںکہ اس طرح گرم ہونے پر یہ جل سکتے ہیں یا آگ لگنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اسی لیے انہیں دھاتی پلیٹوں پر فٹ کیا جاتا ہے جو ’’ہیٹ سنک‘‘ کا کام دیتی ہیں اور گرمی کو جذب کرکے ایل ای ڈیز اور ان کے استعمال کو محفوظ بناتی ہیں۔

اب ان ایل ای ڈیز ٹیکنالوجی نے تمام الیکٹرانکس ڈیوائسز میں اپنی جگہ بنالی ہے اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں سے لے کر پرسنل کمپیوٹروں، لیب ٹاپ اور ٹیبلٹس کی اسکرین کا اہم جز بن چکے ہیں۔ گھروں اور آفسوں کے علاوہ اب یہ لائٹس سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس، انڈسٹریز اور گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس کا حصہ بن چکی ہیں۔ بلبوں کے علاوہ اب ایل ای ڈیز قمقموں اور سجاوٹ کی ہر طرح کی لائٹینگ میں استعمال کی جارہی ہیں جو کہ بہت ہی جاذب نظر اور خوب صورتی کی حامل ہیں۔

اس معاملے پر حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ صحت کے امور کے لیے قائم فرانس کے سرکاری واچ ڈوگ نے جاری کی ہے جو ایجنسی ہے اور یہ غذائی، ماحولیاتی اور پیشہ ورانہ صحت حفاظتی بچاؤ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ <Agency for food,Enviromental and Occupational Health and Safety> (ANSES)۔ ایجنسی نے واضح طور پر عوام کو مطلع کردیا ہے کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی طاقتور ایل ای ڈیز لائٹس آپ کی بصارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔400 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں LEDلائیٹس کے بہت زیادہ ایکسپوزر (روشنی جس منبع یا واسطے سے تیزی سے نکلتی ہے اور پھیلتی ہے) اس طرح کی ایل ای ڈیز کی روشنیاں ہمارے لیے فوٹو ٹاکسز (زہریلی روشنی) ہیں تاہم جو روشنیاں ایل ای ڈیز والے فونز، لپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کی اسکرین خارج کرتی ہیں۔

وہ آنکھ کے لیے نقصان دہ نہیں لیکن اس کے استعمال میں بھی احتیاط لازمی ہے جب کہ کاروں کے سامنے کی ہیڈ لائٹس میں استعمال ہونے والی ایل ای ڈیز کی روشنی کی زبردست چمک دمک اور شدت کو خطرہ کہا گیا ہے جس کے لیے اس کی حد بندی ناگریز ہے کیوںکہ یہ بھی آنکھوں پر براہ راست اثر انگیز ہوتی ہیں۔ ایجنسی ANSES نے سنجیدگی سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاقت ور ایل ای ڈیز لائیٹس زہر آلود روشنیاں ہیں جو کہ انسانی آنکھ کے پردے چشم ’’ریٹینا‘‘ کو مکمل تباہی سے دوچار کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ہماری طبعی نیند کی روانی میں بھی خلل ڈالتی ہیں چناںچہ طویل رپورٹ میں انسانی جسم کو سنگین خطرات سے ہوشیار کیاگیا ہے کہ ایسی زہر آلودہ روشنیاں آنکھ کے پردے کے سیلوں (جسیموں) میں بگاڑ پیدا کرسکتی ہیں جس کے نتیجے میں عام نابینا پن ظہور میں آتا ہے۔ ANSES کے آفیشلز نے مزید آگے بتایا ہے کہ ایل ای ڈیز روشنیوں کے ایکسپوزر کے اخراج میں ’’نیلی روشنی‘‘ کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ ان کی کمیت کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

ان کے مطابق انتہائی خطرہ، کاروں کی ہیڈ لائٹس بلبوں کو سمجھا گیا ہے جس کے لیے کاروں کی صنعت کو انتباہ کیاگیا ہے۔ نیلی روشنی اگرچہ ہمارے پرسنل کمپیوٹروں، لیب ٹاپس اور ٹیبلٹس کی اسکرینیں بھی خفیف مقدار میں خارج کرتی ہیں لیکن ان سے زیادہ خطرات ہماری آنکھوں کو نہیں ہیں لیکن یہاں ان آئی ٹی ڈیوائسز کو استعمال کرتے وقت لازمی ہے کہ احتیاط برتی جائے اور کم سے کم اور زیادہ روشنی میں حفاظتی گلاسوں یا چشموں کو سیفٹی کے طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔ یہ رپورٹ جو کہ ہائی انٹینسٹی (شدید) کے تیزترین ایکسپوزر والی LED کی روشنی اور کرونک (پرانے) کم طاقت کے ایکسپوزر LED کے ذرائع کے مابین نمایاں ترین حقائق پیش کرتی ہے۔ کم خطرہ کا ایسا ہی کرونک ایکسپوزر کو بڑھا جائے تیزی سے حرکت کے نتیجے میں آنکھ کے پردے کے ٹیشوز کو سخت بنادیتا ہے جس کی محتاجی سے بینائی کم زور ہوجاتی ہے۔

نیلی روشنی کیا ہے اور اس کے خطرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

جیسے کہ رپورٹ میں واضح ہے کہ نیلی روشنی (Blue Right) ہی اصل میں صحت کی دشمن ہے جو کہ ایل ای ڈیز کی طاقت ور روشنی میں چھپی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ان بلبوں میں روشنی کا اخراج بے پناہ ہوتا ہے جو کہ ایک معیاری انکینڈیسنٹ بلبوں کے ہم پلہ چمک دمک والی روشنی فراہم ہوتی ہے۔ نیلی روشنی مختصر ویولینتھ یا طول موج رکھتی ہے اور روشنی کے بلبوں کے علاوہ فلیٹ ٹی وی اسکرین، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس سے بھی خارج ہوتی ہے جس کی مقدار کم ترین ہے۔ ایل ای ڈیز لائیٹس کے اثرات کو لمبے عرصے تک رات کی شفٹ میں کام کرنے والے ورکروں پر نوٹ کیا گیا جو اس غیرمحفوظ روشنی کی اثرانگیزی کے باعث ان کے جسم پر کینسر کا باعث بن رہی تھیں یہ انسانی ہارمونز کو متاثر کرتی ہے۔ گذشتہ سال یونیورسٹی آف ٹولیڈو (TOLEDO) ہی تھی جس نے پہلی بار اس نیلی روشنی کے بارے میں خبردار کیا تھا جو کہ آپ کی نظر کو تیزی سے اندھا کرسکتی ہے۔ ٹولیڈ یونیورسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس ’’روشنی کا بڑھتا ہوا روشنی کا زبردست ایکسپوزر آنکھوں کے سیلوں کی زندگی کے لیے موت ہے جو بندوق کی لبلبی کی مانند الرٹ ہے۔‘‘

ماہرین صحت کی آرا: یونیورسٹی آف ایکسیٹر (Exeter) کے ڈاکٹر Alejandro Sanchez de miguelتجویز کرتے ہیں کہ اپنے فون، پرسنل کمپیوٹروں اور ٹیبلیٹس پر کام کرتے وقت نیلی روشنی سے بچنے والا فلٹر ضرور لگایا جائے جو رات کے اوقات میں آپ کی آنکھوں کو محفوظ بناتا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے ماحول اور قابل تائیدی انسٹی ٹیوٹ میں پوسٹ گریجویٹ تحقیق کار ہیں۔

اسی طرح APPS کے استعمال کرتے وقت نیلے فلٹر کو آپ کے کمپیوٹر فون یا دوسری ڈیوائس کے شام کے وقت دھندلی روشنی میں “Twilight”یا “نائٹ موڈ” پر سیٹ ہونا چاہیے جو کہ نیلی روشنی کے اخراج کی قوت کو ہر وقت کم کرتا رہتا ہے۔

ہر ایک کو فائیو اسٹار بورڈ اسپیکٹرم کا حفاظتی فیکٹر 50سن اسکریم پہننا چاہیے، اسپیکٹرم کی طیف سے نیلی روشنی پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہ الٹراوائیلٹ اے اور الٹراوائیلٹ بی شعاعوں کو روکتا ہے اور آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ نیلی روشنی کے بارے میں جِلدی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جلد کی اندرونی تہہ میں سوراخ ڈال دیتی ہیں جو جلد کو پتلا اور نہایت حساس بناسکتی ہیں۔ اسی طرح آئرن آکسائیڈز نیلی روشنی کے خلاف عمل کرکے تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کا اظہار ڈاکٹر Andrew Birnieنے کیا جو کہ جلدی امراض اور اسکن کینسر کے ماہر ہیں اور William Harvey اور Canterbury اسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جلد کی ایک اور ماہر Emma Wedgeworth کہتی ہیں کہ وٹامن سیریم آپ کو اینٹی آوکسیڈینٹ (Antioxidant) فراہم کرتے ہیں جو کہ نیلی روشنی کے برخلاف لڑتا ہے اور آپ کو بچاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹولیڈو کے ڈاکٹر Ajith Karunarathne اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اپنے پرسنل کمپیوٹر اور فون کو استعمال کرتے وقت ضروری ہے کہ اندھیروں سے اجتناب برتا جائے کیوںکہ اندھیرے میں آنکھ کی پتلی زیادہ پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی کے کیمسٹری اور بائیو کیمسٹری ڈپارٹمنٹس میں معاون پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ماہرامراض چشم Francine Behar بھی ایل ای لائٹیس کی نیلی روشنی سے فکرمند ہیں اور کہتے ہیں اگرچہ گھریلو دوسری اشیا میں نیلی روشنی کا خطرہ بہرحال بہت کم ہے لیکن اس میں استعمال کرتے وقت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ رات یا اندھیرے میں ڈیوائس کی سیٹنگ مناسب رکھی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ روشنی کی یہ قسم انسانی جسم کی ترتیب (ردھم) کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے جب آنکھوں صحیح طور پر پرفارم نہیں کرپاتیں۔ خصوصی طور پر بچے اس انتشار کو قبول کرنے والے ہیں۔ ANSES ایجنسی کے ماہرین نے مزید نوٹ کیا ہے کہ جسمانی فٹنس میں یہ روشنیاں ان کی ترتیب میں دخل اندازی کا موجب ہوتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا باعث ہوسکتی ہیں جن میں ذیابیطس، دل کی بیماریاں اور کینسر کی طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اس بات کا اظہار ایجنسی کی تحقیق کار اور پروجیکٹ مینیجر Dina Attia نے کیا، جب کہ اس کے علاوہ روشنی کی گردش نمائی کے اثرات میں ’’دردسر‘‘ بصری تھکان اور ایکسیڈنٹ کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔

رپورٹ میں گھریلو صارفین سے کہا گیا ہے کہ وہ گرم ترین ایل ای ڈی لائٹنگ کے بجائے قدرے محدود ایکسپوزر والی ایل ای ڈیز یعنی کم واٹیچ والے بلبز خریدیں جب کہ رات کے سونے کے اوقات میں ایل ای ڈیز اسکرینوں سے پرہیز کریں۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی نے گاڑیاں بنانے والوں کو بھی صلح دی ہے کہ وہ اپنی ہیڈلائٹس کے لیے کم مقدار کی ایکسپوزر والی ایل ای ڈیز کے استعمال کو فروغ دیں۔ رپورٹ کے آخری حصے میں ای نٹی بلیو لائیٹ کے فلٹروں اور سن گلاسوں کی افادیت و اثر انگیزی پر شبہات ظاہر کیے گئے ہیں جب کہ برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر Dame Sally پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ ’’نیلی روشنی‘‘ ایک اہم ترین تفتیش کا میدان ہے۔

طویل پائے داری، کم توانائی، کم قیمت، کم خرچ اور بالانشین کامل ترین ایل ای ڈیز کی ٹیکنالوجی نے ایک عشرے میں ہی عالمی سطح پر نصف دنیا کی جرنل لائیٹنگ مارکیٹس پر قبضہ جمالیا ہے اور اس کی برق رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے صنعتی ماہرین اندازہ لگارہے ہیں کہ یہ معاملہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا اور اگلے سال (2020ء) کے آخر تک ان ایل ای ڈیز لائیٹس کی مارکیٹ 60 فی صد تک جا پہنچے گی اور یقینی طور پر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان مضر صحت روشنیوں کے استعمال سے ہمیں اپنے آپ کو محفوظ بھی بنانا ہوگا۔n

The post LEDلائیٹس آپ کی بصارت تباہ کر سکتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ پرچم کیا کہتے ہیں؟

$
0
0

  مختلف ممالک کی پہچان مختلف چیزوں سے ہے جیسے فرانس ایفل ٹاور کے حوالے سے جانا جاتا ہے وہیں مصر کو قدیم اہراموں نے شہرت بخشی ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ان میں یکساں بھی ہیں جیسے بڑے بڑے عالمی فورمز پر ہر ملک کی شناخت صرف اس کا پرچم ہوتا ہے۔ اسی طرح بڑے بین الاقوامی کھیلوں (جیسے اولمپکس) میں جیتنے والے کھلاڑی یا ٹیم کا قومی ترانہ بجایا جاتا ہے۔

دنیا کے تقریباً 196 ممالک کے اپنے اپنے الگ پرچم اور قومی ترانے ہیں۔ یہ پرچم اپنے ملک کی شان اور وقار بھی ہے اور غرور بھی۔ یہ پرچم اگر خوشی کے موقعوں پر بڑی بڑی عمارتوں پر لہرایا جاتا ہے تو دوسری طرف اس کا سَر نِگوں ہونا مصیبت و غم کی گھڑی کی نشان دہی کرتا ہے۔

آپ میں سے بہت سوں کو معلوم ہوگا کہ سعودی عرب کے جھنڈے پر کلمہ طیبہ لکھا ہے اور ساتھ تلوار بنی ہے جب کہ سری لنکا کے جھنڈے پر ایک شیر تلوار تھامے کھڑا ہے۔ لیکن یہاں ہم ان چند ممالک کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جن کے جھنڈے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ ان کے رنگ اور ان پر بنے نشانات متعلقہ ملک کے بارے میں بہت سے حقائق سامنے لاتے اور داستانیں سُناتے ہیں۔

1۔ میکسیکو:

براعظم شمالی امریکا کے ملک میکسیکو کا پرچم سرخ، سفید اور سبز رنگ کی تین پٹیوں پر مشتمل ہے اور یہ رنگ اسپین سیم میکسیکو کی اس کی آزادی کو ظاہر کرتے ہیں۔ درمیانی پٹی پر ایک شِکرے کو دکھایا گیا ہے جو کیکٹس کے پودے پر بیٹھا ہے اور اس نے ایک سانپ کو دبوچ رکھا ہے۔ یہ نشان میکسیکو کا قومی نشان بھی ہے۔ یہ پرچم ستمبر 1968 سے ملک میں رائج ہے۔

2۔ قازقستان:

اسلامی دنیا کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک قازقستان کے پرچم میں نیلے رنگ (جو سمندر، ثقافت اور ترک نسل کو ظاہر کرتا ہے) کے بیچوں بیچ ایک سنہرے شِکرے (باز کی ایک قسم) کے اوپر سورج جگمگا رہا ہے جس میں سے 32 کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ جھنڈے کے بائیں جانب سنہرے رنگ کا ایک ثقافتی نشان بنا ہے جسے (کوشکار موئز) کہا جاتا ہے۔ سورج زندگی اور طاقت جب کہ شکرا آزادی کی علامت ہے اور صدیوں سے یہ تمام قازق قبائل کے جھنڈوں پر موجود ہے۔ قازقستان کا موجودہ جھنڈا جون 1994 سے چلا آ رہا ہے۔

3۔ موزمبیق:

جنوب مشرقی افریقا کے اس ملک کا نام بہت کم لوگوں نے سن رکھا ہو گا۔ اس کے جھنڈے میں ہرے، کالے اور پیلے رنگ کی 3 پٹیاں ہیں۔ بائیں جانب سرخ تکون میں ایک پیلا ستارہ جگمگا رہا ہے جو مارکسزم کو ظاہر کرتا ہے۔ ستارے کے اندر ایک سفید کھلی کتاب بنی ہے جو ملک میں تعلیم کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ کتاب کے اوپر ایک کلاشنکوف اور سنگین/درانتی بنی ہے۔ کلاشنکوف اپنے ملک کے دفاع جب کہ سنگین زراعت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ اب تک دنیا کا واحد جھنڈا ہے کہ جس پر ایک جدید جنگی ہتھیار بنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پرچم کو بدلنے کی منظوری دی جا چکی ہے لیکن اس پر عمل ہونا باقی ہے۔

4۔ برازیل:

برازیل کے پرچم کو دنیا کا مشکل ترین پرچم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کیسے ؟؟ وہ آگے معلوم ہو گا۔ سبز رنگ (جوگھنے جنگلات کو ظاہر کرتا ہے) کے اندر زردی مائل، ہیرے کی شکل کا ایک قطعہ ہے (جو سونے اور دوسری معدنیات کو ظاہر کرتا ہے) جس کے اندر ایک نیلی گیند بنی ہے۔ اس گیند کے اندر ہرے رنگ سے پُرتگیزی زبان میں ’’ Ordem e Progresso‘‘  لکھا ہے، جس کا مطلب ہے ’’نظم وضبط اور ترقی‘‘۔ نیلی گیند میں موجود 27 ستارے برازیل کی ستائیس ریاستوں کے نمائندہ ہیں اور انہی بکھرے ہوئے ستائیس ستاروں کی مخصوص جگہ موجودگی اس کو ایک پیچیدہ جھنڈا بناتی ہے۔ یہ جھنڈا 1889 سے رائج ہے۔

5۔ کمبوڈیا:

افغانستان کے علاوہ کمبوڈیا وہ واحد ملک ہے جس کے پرچم پر کوئی عمارت بنی ہے۔ نیلی پٹیوں کے بیچ میں سفید رنگ سے بنا یہ محل مشہورِ زمانہ و قدیم ’’انگور واٹ‘‘ کا مندر ہے۔ یہ مندر ملک کے ثقافتی ورثے، انصاف اور سالمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پرچم 1993 میں اپنایا گیا تھا۔

6۔ البانیہ:

بلقانی ریاست البانیہ کے جھنڈے میں گہرے سرخ رنگ کے اندر ایک کالے رنگ کا باز بنا ہے جس کے دو منہ ہیں۔ ایک مشرق اور دوسرا مغرب کی جانب۔ یہ دو مُوہا باز بلقانی ریاستوں میں البانیہ کی سالمیت کا نشان ہے اور یہاں بکثرت پایا جاتا ہے۔ پہلی بار اسے 1912 اور پھر 1992 میں اپنایا گیا۔

7۔ نیپال:

دنیا کا واحد جھنڈا جو تکون کی شکل میں ہے، وہ نیپال کا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ دنیا کے قدیم ترین سرکاری جھنڈوں میں سے ایک ہے۔ اس کا تکونی حصہ ملک میں موجود کوہِ ہمالیہ کی بلند اور عظیم چوٹیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا سرخ رنگ جنگ میں فتح جب کہ نیلا رنگ امن کی علامت ہے۔ یہاں ایک دل چسپ بات بتاتا چلوں کہ نیپالی جھنڈے کی پیمائش اور مختلف زاویوں سے اس کی بناوٹ باقاعدہ طور پہ نیپالی آئین کا حِصہ ہے۔ اسی وجہ سے اسے میتھمیٹیکل فلیگ بھی کہا جاتا ہے۔

8۔ انگولا:

مغربی افریقا کے ملک انگولا کے پرچم میں سرخ اور کالی پٹیوں کے بیچوں بیچ پیلے رنگ کا ایک چُھرا اور دانتے دار چکر بنا ہے، جس کے اندر ایک ستارہ ہے۔ یہ چُھرا کسانوں کو اور دانتے دار چکر کارخانوں کے ملازمین کو ظاہر کرتا ہے۔ کالا رنگ برِاعظم افریقا جب کہ سُرخ ، انقلاب اور خون کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جھنڈا نومبر 1975 سے ملک میں رائج ہے۔

9۔ قِبرص:

اگر کوئی آپ سے یہ سوال کرے کہ کس ملک کے جھنڈے پر اس کا نقشہ بنا ہے؟؟ تو بلاجھجک قبرص کا نام لے لیں۔ قبرص کے قومی پرچم پر زیتون کی دو شاخوں کے اوپر سُنہرے رنگ سے ملک کا نقشہ بنا ہے۔ زیتون کی دو شاخیں ملک کا قومی نشان ہیں۔ یہ جھنڈا 1960 سے چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے ساتھ ملک میں رائج ہے۔

10۔ سوازی لینڈ:

جنوبی افریقی ریاست سوازی لینڈ (جو چاروں طرف سے مملکت جنوبی افریقا سے گھرا ہوا ہے) کا جھنڈا وہاں کے بادشاہ کنگ سوبوزا-2 ، کا بنایا ہوا ہے جس کے وسط میں کالے اور سفید رنگ کی ایک شیلڈ ہے جسے ’’نگونی شیلڈ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ شیلڈ دشمنوں سے حفاظت کی علامت ہے، جب کہ اس میں موجود کالا اور سفید رنگ، ملک میں بسنے والے کالے اور گورے لوگوں کی یکجہتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس شیلڈ پر’’ ویڈو برڈ‘‘ نامی پرندے کے تین ’’پر‘‘ بنے ہیں جو کہ بادشاہ کے استعمال میں رہنے والے پروں سے مشابہہ ہیں۔

11۔ بھوٹان:

مخصوص رنگوں کی آمیزش اور ان کو بیچ سے کاٹتا ایک مسکراتا ہوا اسٹائلش ڈریگن، پیشِ خدمت ہے دنیا کے دل چسپ جھنڈوں میں سے ایک، بھوٹان کا پرچم۔ یہ دنیا کی قدیم بدھ سلطنت ہے جہاں ہر سو میں سے ایک شخص ’’مونک‘‘ ہے۔ پرچم میں موجود نارنجی رنگ بدھ مذہب کی روحانی ثقافت کو جب کہ پیلا رنگ عوامی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے۔ بیچ میں سفید رنگ کے ’’ تھنڈر ڈریگن‘‘ نے جواہر پکڑ رکھے ہیں۔ یہ جواہر بھوٹان کی ترقی کی علامت ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈریگن کا مسکراتا چہرہ بھوٹان کے دفاع کی علامت ہے۔ تھنڈر ڈریگن کی سرزمین کا یہ جھنڈا 1969 سے چلا آ رہا ہے۔

۔۔۔

کیا آپ کو معلوم ہے

٭ بیلیز کی ٹمبر انڈسٹری کی اہمیت کا اندازہ اس کے جھنڈے پر بنے دو محنت کشوں، اوزار اور درخت سے لگایا جا سکتا ہے۔

٭ لائبیریا کا جھنڈا امریکی جھنڈے سے بہت مشابہت رکھتا ہے اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیوںکہ لائبیریا کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کو مفت غلاموں کی فراہمی کے لیے ایک کالونی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔

٭ بہت عرصے تک (کرنل قزافی کے دور میں) لیبیا کا جھنڈا صرف ایک رنگ پر مشتمل تھا۔

٭ جرمنی اور بیلجیم کی طرح کالے، پیلے اور سرخ رنگوں پر مشتمل یوگنڈا کے پرچم کے بیچوں بیچ ایک مرغ بنا ہے۔

٭ ویٹٰیکن اسٹیٹ اور سوئٹزرلینڈ وہ دو ممالک ہیں جن کے پرچم چوکور (مربع شکل) ہیں، جب کہ باقی جھنڈے مستطیل شکل میں ہیں۔

٭ دنیا کا واحد جھنڈا جو کسی بھی حالت میں سرنگوں نہیں ہوتا وہ سعودی عرب کا جھنڈا ہے۔

٭ عراق کے جھنڈے پر ’’اللہ اکبر‘‘ اور ایران کے جھنڈے پر ’’اللہ‘‘ لِکھا ہے۔

٭ بھارت کے جھنڈے پر ’’اشوک چکر‘‘، اسرائیل کے پرچم پر ’’ڈیوڈ اسٹار‘‘ اور لبنان کے جھنڈے پر دیودار کا درخت بنا ہے۔

٭ بہت سے ممالک کے جھنڈے آپس میں کافی حد تک مشابہت رکھتے ہیں جن میں آئرلینڈ اور آئیوری کوسٹ، پولینڈ، انڈونیشیا اور مناکو، لگسمبرگ اور ہالینڈ، ترکی اور تیونس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ، تھائی لینڈ اور کوسٹاریکا شامل ہیں۔

The post یہ پرچم کیا کہتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

سرزمین کشمیر! بہتے جھرنوں، دریائوں، سحر انگیز جھیلوں، جھومتے گاتے درختوں، سبزہ و گُل سے آراستہ، فلک بوس کہساروں کی وادی، جس کے باسی دہائیوں سے بھارت کے ظلم و ستم اور جبر کا سامنا کررہے ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیری وہاں بھارت کی درندگی، سفاکی اور وحشیانہ کارروائیوں کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو ان کا حق دینے کے بہ جائے اقوام عالم کی ساری قراردادیں کوڑے دان میں پھینک دی ہیں اور اس کی متنازع حیثیت تبدیل کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ماہ سے زاید ہوچکا ہے، کشمیر قید خانہ بنا ہوا ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس بار ’’کوچۂ سخن‘‘ پر اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے خصوصی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔

*

’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘


اس بات پہ اپنا ہے ایمان
کشمیر بنے گا پاکستان
تصویر ہماری ہے کشمیر
جاگیر ہماری ہے کشمیر
تدبیر ہماری ہے کشمیر
تقدیر ہماری ہے کشمیر
یہ وقت سے پختہ ہے پیمان
کشمیر بنے گا پاکستان
ان نور صف نظاروں پر
ہم ڈالیں کمندیں تاروں پر
ہم رقص کریں تلواروں پر
ہم جشن منائیں داروں پر
ہنس ہنس کے سہیں گے سب نقصان
کشمیر بنے گا پاکستان
کشمیر کے شیرو! زندہ باد
بے مثل دلیرو! زندہ باد
رُخ وقت کا پھیرو! زندہ باد
جرأت کے سویرو! زندہ باد
لینا ہے اندھیروں سے تاوان
کشمیر بنے گا پاکستان
ہر سمت ستم کا ہے قُلزم
سب اہلِ خرد حیرت میں گُم
اقوامِ جہاں گم سُم، گم سُم
خاموش رہیں کب تک ہم تم
یہ پیر و جواں کا ہے اعلان
کشمیر بنے گا پاکستان
اب چل نہ سکے گی استادی
بھارت کا مقدر بربادی
کہتی ہے چناروں کی وادی
منزل ہے ہماری آزادی
ہے عہدِ مسلسل کا عنوان
کشمیر بنے گا پاکستان
ایک ایسا سویرا چمکے گا
جب ابرِ تمنا برسے گا
یہ سارا زمانہ دیکھے گا
بھارت کا پھریرا اُترے گا
الحاق کا ہوگا پھر اعلان
کشمیر بنے گا پاکستان
(جان کاشمیری۔ گوجرانوالہ)


’’سرفروش‘‘


یہ جو ہر صحن سے آتی ہے صدا ماتم کی
یہ جو ہر سمت سے بارُود کی بُو آتی ہے
یہ جو ہر راہ میں بے گور و کفن لاشے
یہ جو رہ رہ کے ہر اک آنکھ چھلک جاتی ہے
آدمیت کی یہ توہین ہے رُسوائی ہے
طوق گردن میں پڑے پاؤں میں زنجیریں بھی
کتنے سامان ہیں اس دیس کی آرائش کے
قید خانے بھی، بہت قتل کی تدبیریں بھی
میرے کشمیر کے سہمے ہوئے بازاروں میں
ہر طرف خون کے اُڑتے ہوئے چھینٹوں کا ہجوم
جب نکلتا ہے شہیدوں کے جنازے لے کر
کربِ ہستی سے بِلکتے ہوئے لوگوں کا ہجوم
ہاں مگر تیغِ ستم کتنی لہو نوش بھی ہو
سرفروشی کا یہ طوفان نہیں رُک سکتا
صبحِ اُمید کے امکان نہیں مِٹ سکتے
لشکرِ جذبۂ ایمان نہیں رُک سکتا
(سرور ارمان۔ نارووال)


’’چمن جلتا ہے‘‘


پار سرحد کے، ذرا دیکھ چمن جلتا ہے
دیکھ کر جس کو مری روح، یہ من جلتا ہے
آتشِ جبر سے کب روح فنا ہوتی ہے
یوں تو شعلوں میں فقط خستہ بدن جلتا ہے
جیسے شعلے نہ کبھی ماند پڑیں گے شاید
ایسے ہر برگ، ہر اک سر و سمن جلتا ہے
ہمنوا اب تو ستارے بھی ہوئے اشکوں کے
ظلم کی حد ہے، دلِ کوہ و دمن جلتا ہے
میرے کشمیر کے مظلوم برادر، یہ سمجھ
یہ فقط تیرا نہیں، میرا وطن جلتا ہے
آنچ اُٹھتی ہے خیالوں کے الاؤ سے بُلند
شاہدہ اب مرا ہر حرفِ سخن جلتا ہے
(شاہدہ لطیف۔ اسلام آباد)


’’غازی‘‘
مودی یہ تیری موت کا سامان ہے غازی
کشمیر کا ہر مرد مسلمان ہے غازی
توڑے گا تکبر وہ ترا ایک ہی پل میں
ملت کے ہر اک فرد کی اب جان ہے غازی
بچ سکتا نہیں اس سے ہدف کوئی بھی اب تو
اللہ کی برہان کی پہچان ہے غازی
کشمیر پر قبضہ تیرا اب رہ نہیں سکتا
اب تیرے لیے موت کا سامان ہے غازی
کشمیر پہ ڈھائے ہیں تم نے جو مظالم
ان ہی کے ازالے کا تو سامان ہے غازی
اب اپنی تباہی کا تماشا تُو کرے گا
دشمن کے لیے موت کا اعلان ہے غازی
(پروفیسر حکیم شفیق کھوکھر۔ لاہور)


’’ہم نوا کوئی نہیں‘‘


سارے انساں نوحہ خواں ہیں بے صدا کوئی نہیں
اے مرے کشمیر تیرا ہم نوا کوئی نہیں
روز و شب یہ قتل و غارت میں مگن ہیں الاماں
ظالموں کو باخدا، خوفِ خدا کوئی نہیں
کر دیا بیدار ہم کو ظلم کی تصویر نے
ماؤں کے سر بے ردا ہیں اور ردا کوئی نہیں
وحشتیں ہی وحشتیں پھیلی ہوئی ہیں ہر طرف
پتھروں کے دیوتا ہیں سب خدا کوئی نہیں
داستانِ غم سناؤں تو سناؤں کس طرح
ظالموں کا شہر ہے یہ دوسرا کوئی نہیں
خواب آنکھوں سے ہماری چھین سکتے تم نہیں
ہے دُھواں بارود کا ساگرؔ ضیا کوئی نہیں
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)


’’خونِ جگر درکار ہے‘‘


درد کی ہیں سسکیاں، غم کی فغاں کشمیر میں
بے اماں ہیں بستیاں اہلِ جہاں کشمیر میں
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو نوچتے ہیں بھیڑیے
سر دیے گھٹنوں میں چیخی ایک ماں کشمیر میں
بیل بوٹے، پھول پتے، سنگ ریزے خون رنگ
منجمد اور سرخ سے دریا وہاں کشمیر میں
روز لٹتی عصمتوں پر بیٹیوں کی خودکشی
روز چھلنی ہو رہے ہیں نوجواں کشمیر میں
آج آئے گا کوئی قاسم، ضرار و غزنوی
گونجتی ہے اک صدائے خوش گماں کشمیر میں
بھارتی ظلم و ستم پر سب زبانیں گنگ ہیں
ابنِ قاسم کو پکاریں بیٹیاں کشمیر میں
دے رہی ہے ہاتھ کی زنجیرِ یک جہتی پیام
لوٹ آئیں گی بہاریں، اے خزاں کشمیر میں
اے فہد! آنسو نہیں خونِ جگر درکار ہے
منتظر اہلِ وفا کے خاک داں کشمیر میں
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)


’’لہو رنگ کشمیر‘‘
طالب تری رحمت کا خدایا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
قدرت کی نگاہوں سے سنواری ہوئی وادی
یہ قریۂ جنت سے اتاری ہوئی وادی
ہاتھوں سے فرشتوں کے نکھاری ہوئی وادی
آنکھوں سے دل و جاں میں اترتا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
مدت سے ستم زادوں کے پہرے ہیں یہاں پر
بادل غم و آلام کے گہرے ہیں یہاں پر
قانون سبھی اندھے و بہرے ہیں یہاں پر
ہوتے ہوئے سبزے کے ہے صحرا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
آزادی کی آواز کو زنجیر کیا ہے
ہر ظلم کو انصاف سے تعبیر کیا ہے
حیرت نے ہر اک چہرے کو تصویر کیا ہے
دشمن کے شکنجے میں ہے جکڑا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
چڑیوں کو چہکنے کی اجازت نہیں ملتی
کلیوں کو چٹکنے کی اجازت نہیں ملتی
پھولوں کو مہکنے کی اجازت نہیں ملتی
بچے کی طرح خوف سے سہما مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
بدلے مرے کشمیر کی قسمت مرے آقا
اس کو ملے آزادی کی نعمت مرے آقا
رکھیے اسے خوش حال و سلامت مرے آقا
دیکھا نہیں جاتا ہے یہ جلتا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
سرور کی تمنا ہے کہ اک چشمِ کرم ہو
آزادی کا ہاتھوں میں جوانوں کے علم ہو
اس خطے سے اب دور ہر اک رنج و الم ہو
اے رحمتِ عالم، شہِ بطحا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
(سرور حسین نقشبندی۔ لاہور)


’’کشمیر ہمارا ہے‘‘


کشمیر کی دھرتی کو دشمن سے چھڑانا ہے
کشمیر کے بھائیوں کو ظالم سے بچانا ہے
افلاک سے ظلمت کے بادل کو ہٹانا ہے
اک جسم ہیں اور اک جاں، دشمن کو بتانا ہے
آؤ سبھی مل کر یہ پیغام سناتے ہیں
کشمیر ہمارا ہے دنیا کو بتاتے ہیں
ہم گریہ سناتے ہیں مظلوم کی آہوں کا
ان درد کے ماروں کا، ایسے بے سہاروں کا
نوحہ ہے سہاگن کی سُونی ہوئی بانہوں کا
بوٹوں تلے کچلے گئے، ارمانوں کا خوابوں کا
ہم سب کو بتائیں گے یہ دعویٰ ہمارا ہے
ظلمت کو مٹائیں گے یہ وعدہ ہمارا ہے
منزل ہے چمن جس کا، وہ رستہ ہمارا ہے
دشمن کو مٹائیں گے یہ جذبہ ہمارا ہے
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)


’’موت کا رقص‘‘


موت کا ہے رقص جاری وادیِ کشمیر میں
بڑھ رہی ہے بے قراری وادیِ کشمیر میں
خون آلودہ فضا میں زندگی دشوار ہے
ظلم پر خاموش ہے جو ظالموں کا یار ہے
بچے بوڑھے اور جواں بھی ہوگئے تصویرِ غم
اے خدائے عزوجل ان پر کرم، ان پر کرم
زندگی کے راستوں میں بھوک ہے افلاس ہے
اس نگر کا بچہ بچہ آج محوِ یاس ہے
لوگ ہیں ترسے ہوئے دو گھونٹ پانی کے لیے
یہ سہولت بھی نہیں ہے زندگانی کے لیے
اے خدا کشمیر ہو گہوارۂ امن و اماں
الفتوں کے سائباں میں زندگی گزرے جہاں
خطۂ کشمیر اک حصہ ہے پاکستان کا
خواب پورا ہو نہیں سکتا ہے ہندوستان کا
(علی کوثر۔ کراچی)


’’نکالیں گے تمھیں جاگیر سے‘‘


سسکیوں میں آرہی ہے یہ صدا کشمیر سے
پاؤں نکلیں گے کبھی تو جبر کی زنجیر سے
لا اِلہ کا ورد ہونٹوں پر سجایا دیکھ لو
کیا ڈراؤ گے ستم گر تم ہمیں شمشیر سے
تین سو ستر اٹھا لی ہے تو یہ بھی سوچ لو
زورِ بازو پر نکالیں گے تمھیں جاگیر سے
جنتِ ارضی پہ قابض وقت کا شیطان ہے
سب نظارے اس لیے دکھنے لگے دل گیر سے
خون میں لت پت ہے ارشد میرے پرکھوں کی زمیں
اس لیے آنسو ٹپکتے ہیں مری تحریر سے
(ارشد محمود ارشد۔ سرگودھا)


’’پھول مرجھائے ہوئے ہیں!‘‘


بَن چکا ہے خون صورت سلسلہ کشمیر کا
کب تلک لٹتا رہے گا قافلہ کشمیر کا
مر چکی ہے آج ہندوستان میں انسانیت
کب سے روکے بیٹھے ہیں پانی، ہَوا کشمیر کا
کب تلک کاٹیں گے ان کو تیر ہِندوستان کے
خون سے لت پت پڑا ہے راستہ کشمیر کا
اِک ہَوا ہے، موت لے کر گھومتی کشمیر میں
چھوڑتی پیچھا نہیں ہے وہ ہَوا کشمیر کا
بیٹیوں کے سَر سے چادَر چِھیننے والوں! سنو
ہر شَجر دیتا ہے تم کو بددعا کشمیر کا
پھول مرجھائے ہوئے ہیں اَمن کی خواہش لیے
رخ نہیں کرتی ہے کیونکر فاختہ کشمیر کا
یا خدایا! توڑ دے تو غیر کی شَمشیر کو
اور حَل کر مَسئلہ، آزاد کر کشمیر کو
(آصف خان۔ بنّوں)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

خرچہ کم، منافع اُدھم

$
0
0

فلمی تاریخ کتنی پرانی ہے یہ بتانا تو ذرا مشکل ہے لیکن اگر تاریخ کھنگالیں تو چند فلموں کا نام سامنے آتا ہے جنہیں سنیما کی تاریخ کی ابتدائی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ان میں 1878میں ریلیز ہوئی فلم ’’دی ہورس ان موشن‘‘ شامل ہے جس میں ایک گُھڑسوار کو گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ تاہم یہ باقاعدہ فلم نہیں تھی بلکہ چند تصاویر کو جوڑ کر ایک حرکت کرتی ہوئی تصویر بنایا گیا تھا۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق 1888 میں ریلیز ہونے والی مختصر خاموش فلم ’’راؤندھے گارڈن سین‘‘ کا شمار بھی ابتدائی فلموں میں ہوتا ہے۔

جسے فرانسیسی شخص لوئس لی پرنس نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اسی طرح 1895 میں پیرس میں بنائی جانے والی بلیک اینڈ وہائٹ خاموش فلم ’’ارائیول آف اے ٹرین‘‘ کو بھی ابتدائی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے جسے بنانے کا سہرا لوئس لیومیئر اور آگسٹے کے سر جاتا ہے اس فلم کا دورانیہ 50 سیکنڈ تھا۔کہا جاتا ہے کہ یہ فلم جب ریلیز ہوئی تھی تو لوگ ڈر کے مارے چیختے ہوئے بھاگ گئے تھے۔ فلمی تاریخ اور دنیا کی پہلی فلم کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ذرا مشکل ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ دور میں فلم لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

موجودہ دور میں ہالی ووڈ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری مانی جاتی ہے جہاں کی فلموں کا بجٹ کروڑوں ڈالرز میں ہوتا ہے۔ ہالی ووڈ فلم انڈسٹری نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی بہت تیزی سے قدم جمائے ہیں اور آج جتنے مہنگے ویژول ایفیکٹس اور اینی میشن کا استعمال ہالی وڈ فلموں میں ہوتا ہے وہ کہیں اور نہیں ہوتا۔ جدید ٹیکنالوجی، گرین اسکرین، سی جی آئی اور اسپیشل ایفیکٹس کی بدولت ہالی وڈ فلموں کا بجٹ لاکھوں ڈالر کا ہوجاتا ہے۔

تاہم ہالی وڈ سمیت دیگر فلم انڈسٹریوں میں ایسی فلمیں بھی پروڈیوس ہوئی ہیں جنہوں نے کم بجٹ کے باوجود باکس آفس پر کھڑکی توڑ بزنس کیا۔ یہاں کچھ ایسی ہی فلموں کا ذکر کیا جارہا ہے جن کا بجٹ تو کم تھا لیکن نئے اور اچھوتے موضوع اور جان دار کہانی کے سبب باکس آفس پر شان دار بزنس کرنے میں کام یاب رہیں۔

٭  راکی:  1976 میں ریلیز ہوئی فلم ’’راکی‘‘ سے کون واقف نہیں۔ یہ فلم نہ صرف اپنے زمانے کی سپرہٹ فلم تھی بلکہ اس فلم کے ذریعے ہالی وڈ کو سلویسٹر اسٹالون جیسا سپراسٹار ملا۔ سلویسٹر اسٹالون نے اس فلم میں اداکاری کرنے کے ساتھ فلم کی کہانی بھی خود لکھی تھی۔ محض 10 لاکھ ڈالر سے بنائی گئی فلم ’’راکی‘‘ نے تقریباً ساڑھے 22 کروڑ ڈالر کا کھڑکی توڑ بزنس کیا تھا۔ 50 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سلویسٹر اسٹالون کو آج بھی بہت سے لوگ ’’راکی‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ فلم 3 آسکر ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب رہی تھی۔

٭  دی ایول ڈیڈ:  1981 میں ریلیز ہونے والی خوف سے بھرپور فلم ’’ایول ڈیڈ‘‘ نے سنیما میں بیٹھے شائقین کو چیخنے پر مجبور کردیا تھا۔ 3 لاکھ 50 ہزار ڈالرز کے بجٹ سے بنائی فلم ’’ایول ڈیڈ‘‘ کی کہانی کالج کے چند دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو ایک ایک کرکے مرتے جاتے ہیں۔ ’’ایول ڈیڈ‘‘میں بے تحاشہ خون اس فلم کی کام یابی کی وجہ بنا اور فلم نے 2 کروڑ 94 لاکھ ڈالرز کا کامیاب بزنس کیا۔

٭  کلرکس:  1996 میں ریلیز ہوئی فلم ’’کلرکس‘‘ نے ثابت کردیا کہ صرف خوف، ایکشن اور خون کی بہتات ہی کسی فلم کو کام یاب بنانے کا فارمولا نہیں بلکہ دل چسپ کردار اور خوب صورتی سے لکھے گئے مکالمے بھی شائقین کو بڑی تعداد میں سنیما تک کھینچ لانے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ 27 ہزار 575 ڈالرز کے مختصر بجٹ سے بنائی گئی اس فلم نے تقریباً 32 لاکھ ڈالرز کی کمائی کی تھی۔

٭  جنو:  2007 میں ریلیز ہوئی کامیڈی ڈراما فلم’’جنو‘‘ میں ہالی وڈ اداکارہ ایلن پیج نے ایک حاملہ لڑکی کا مرکزی کردار نبھایا تھا۔ اس فلم کو جیسن ریٹ مین نے ڈائریکٹ کیا تھا جب کہ ڈیابلو کوڈی نے اس کی کہانی تحریر کی تھی۔ اداکارہ ایلن پیج نے فلم میں 16 سالہ لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جو حاملہ ہوجاتی ہے۔ تقریباً 70 لاکھ سے زائد ڈالر کے بجٹ سے بنائی گئی اس فلم نے باکس آفس پر 23 کروڑ 14 لاکھ ڈالرز کی کمائی کرکے دھماکا کردیا تھا۔ اسے بہترین فلم کے علاوہ آسکر ایوارڈز میں کئی نام زدگیاں حاصل ہوئی تھیں۔

٭  اوپن واٹر:  دو غوطہ خوروں کی سچی کہانی پر مشتمل فلم ’’اوپن واٹر‘‘ 2003 میں ریلیز ہوئی تھی جس میں غوطہ خوروں کا جوڑا حادثاتی طور پر ایسے پانی میں پھنس جاتاہے جہاں شارک مچھلیوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ یہ فلم محض 5 لاکھ ڈالر میں بنائی گئی تھی جب کہ اس نے 5 کروڑ20 لاکھ ڈالر کی کمائی کی تھی۔ فلم کافی منفرد تھی اور بہترین کیمرا اسٹائل کی بدولت اس کم بجٹ کی فلم نے باکس آفس پر زبردست منافع کمایا۔

٭  ہالووین:  1978 میں ریلیز ہوئی کلاسک ہارر فلم ’’ہالووین‘‘کا بجٹ صرف 3 لاکھ ڈالر تھا لیکن اس فلم کی دہشت نے لوگوں کو اس قدر مسحور کیا کہ لوگوں نے خوف سے بھرپور اس فلم کو بار بار دیکھا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فلم کی مرکزی اداکارہ جیمی لی کرٹس کے فلم میں پہنے جانے والے لباسوں کی قیمت محض 100 ڈالرز تھی ۔ بہرحال صرف 3 لاکھ ڈالرز سے بنائی گئی فلم نے 70 کروڑ ڈالرز کا بزنس کرکے ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں اربوں کھربوں روپے بنتی ہے۔

٭  لوسٹ ان ٹرانسلیشن :  اوینجرز اسٹار اسکارلٹ جانسن اور ہالی وڈ اداکار بل مری کی 2003 میں ریلیز ہوئی رومانوی، مزاحیہ ڈراما فلم ’’لوسٹ ان ٹرانسلیشن‘‘ محض 40 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بنائی گئی تھی۔ فلم کو سوفیا کوپولا نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم میں ایک ادھیڑ عمر امریکن فلم اداکاربوب ہیرس(بل مری) کو دکھایا گیا ہے جس کی ملاقات ٹوکیو کے ہوٹل میں ایک نوجوان لڑکی شارلٹ (اسکارلٹ جانسن) سے ہوتی ہے۔ صرف 4 ملین ڈالر کی بجٹ نے 11کروڑ 97 لاکھ ڈالر کماکر فلم سازوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

٭  پیرانارمل ایکٹیویٹی:  ہالی وڈ میں کم بجٹ کی فلم تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن انتہائی کم بجٹ میں بنائی گئی فلم ’’پیرانارمل ایکٹیویٹی‘‘ کی غیرمعمولی کام یابی نے شائقین کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ محض 15000 ڈالرز میں بنائی گئی فلم سات دنوں میں ہاتھ میں پکڑے گئے کیمرے سے شوٹ کی گئی تھی اور 19 کروڑ 34 لاکھ ڈالر کمانے میں کام یاب ہوئی تھی۔

٭  انابیلے:  خوف ناک گڑیا انابیلے کی دہشت سے بھرپور فلم ’’دی کونجیورنگ؛ انابیلے‘‘2014 میں ریلیز ہوئی تھی جسے جان ارلیونیٹی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس فلم کا بجٹ 65 لاکھ ڈالر تھا تاہم خوف زدہ ہونے کے باوجود اس فلم کو لوگوں نے خوب دیکھا اور یہ 25 کروڑ 71 لاکھ کی کمائی کرنے میں کام یاب ہوگئی۔

٭  دی پرج:  2013 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’دی پرج‘‘ کی کہانی ہالی وڈ میں بننے والی دیگر فلموں کی نسبت کافی مختلف تھی اور شاید اسی لیے لوگوں کو بھاگئی۔ محض 30 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بنائی گئی فلم ’’دی پرج‘‘ باکس آفس پر 89 ملین ڈالر کمانے میں کام یاب رہی تھی۔

٭  اسٹار وارز:  فلم’’اسٹار وارز‘‘ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ فلم آئی اور آتے ہی چھاگئی۔ 11 ملین (ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر) بجٹ سے بنائی گئی یہ فلم 77 کروڑ 54 لاکھ ڈالرز کمانے میں کام یاب رہی تھی۔

٭  نیپولین ڈائنامائٹ:  2004 میں ریلیز ہوئی فلم ’’نیپولین ڈائنامائٹ‘‘ کو کام یاب ترین کامیڈی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ فلم ایک نوجوان نیپولین ڈائنامائٹ کے گرد گھومتی ہے جو اپنے دوست کی کلاس کا صدر بننے میں مدد کرتا ہے۔ 4 لاکھ ڈالرز سے بنی اس فلم نے 4 کروڑ 61 لاکھ کماکر کام یابی کے کئی ریکارڈ توڑے۔

٭   بیوریڈ: 2010 میں ریلیز ہونے والی سائیکولوجیکل تھرلر فلم ’’بریڈ‘‘ نے لوگوں کو چکرا رکھ دیا تھا۔ فلم میں ایک زندہ شخص کو تابوت میں دکھایا گیا ہے۔فلم کے مرکزی اداکار ریان رینالڈ کی بھی بہت زیادہ تعریف کی گئی۔ صرف 20 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بنائی گئی اس فلم نے 2 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کا بزنس کیا تھا۔

٭  سلم ڈاگ ملینیئر:  ہدایت کار ڈینی بوئلے نے فلم ’’سلم ڈاگ ملینیئر‘‘ کے ذریعے بھارت میں کچی بستی میں رہنے والے بچوں کی کہانی کچھ اس انداز سے بیان کی کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ فلم میں دیو پٹیل، فریدہ پنٹو، انیل کپور اور عرفان خان اہم کرداروں میں نظر آئے تھے۔ اس فلم کو نہ صرف بھارت میں بلکہ دنیا بھر میں بے حد پسند کیا گیا اور محض15 ملین ڈالر (ڈیڑھ کروڑ ڈالر) سے بنائی گئی یہ فلم باکس آفس پر کھڑکی توڑ بزنس کرتے ہوئے 377.89 ملین ڈالرز (37 کروڑ 78 لاکھ ڈالرز) کماکر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

٭  شعلے:  ہندی سنیما کی 1975 میں ریلیز ہونے والی مقبول ترین فلم ’’شعلے‘‘ کو نہ صرف سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم کا درجہ حاصل ہے بلکہ یہ اپنے وقت کی ریکارڈ بزنس کرنے والی فلم بھی تھی۔ امیتابھ بچن، دھرمیندر، سنجیوکمار، ہیمامالنی، جیا بچن اور امجد خان جیسے نام ور اداکاروں پر مشتمل فلم ’’شعلے‘‘ کا بجٹ صرف 3 کروڑ روپے تھا جب کہ اس فلم نے 30 کروڑ50 لاکھ کا کھڑکی تور بزنس کیا تھا۔

٭   غدر:  اداکار سنی دیول اور امیشا پٹیل کی 2001 میں ریلیز ہوئی فلم ’’غدر‘‘کا شمار بھی کم بجٹ کی فلموں میں ہوتا ہے، جسے شائقین نے بے حد پسند کیا اور تقریباً 19 کروڑ کے بجٹ سے بنائی گئی فلم 132 کروڑ کا بزنس کرنے میں کام یاب رہی۔

٭  استری:  2018 میں ریلیز ہونے والی چھوٹے بجٹ کی ہارر کامیڈی بولی ووڈ فلم ’’استری‘‘ کو فلمی شائقین نے بے حد پسند کیا۔ 20 کروڑ روپے کے بجٹ سے بنائی گئی اس فلم نے ریلیز کے صرف 18 دنوں میں 100 کروڑ کماکر سب کو حیران کردیا۔ فلم میں اداکار راج کمار راؤ اور شردھاکپور نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

٭  بَدھائی ہو:  2018 میں ریلیز ہوئی ایک اور چھوٹے بجٹ کی فلم ’’بدھائی ہو‘‘ کو بھی شائقین نے بے حد سراہا۔ اس فلم کو بنانے میں صرف 30 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے، اور فلم اپنے بجٹ سے تین گنا زیادہ 132 کروڑ 65 لاکھ کا بزنس کرنے میں کام یاب ہوئی۔ فلم میں اداکار آیوشمان کھرانانے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

٭  اندھا دھن:  بولی ووڈ اداکار آیوشمان کھرانا کو چھوٹے بجٹ کی فلموں کا کنگ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ 2018 میں ان کی ایک اور فلم ’’اندھادھن‘‘ ریلیز ہوئی تھی جس کا بجٹ صرف 25 کروڑ روپے تھا اور فلم 72 کروڑ 37 لاکھ روپے کمانے میں کام یاب ہوگئی۔ فلم میں آیوشمان کھرانا کے علاوہ اداکارہ تبو اور رادھیکا آپٹے نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

٭  ہندی میڈیم: کم بجٹ کی سپر ہٹ فلموں کا ذکر ہو اور پاکستانی اداکارہ صبا قمر کی بولی وڈ فلم ’’ہندی میڈیم‘‘ کا ذکر نہ ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ ’’ہندی میڈیم‘‘ صبا قمر کی پہلی بولی وڈ فلم تھی۔فلم میں صبا قمر اور عرفان خان نے بخوبی اپنے کردار نبھائے۔ 23 کروڑ کے بجٹ سے بننے والی یہ فلم دنیا بھر سے 322 کروڑ کا بزنس کرنے میں کام یاب رہی۔

The post خرچہ کم، منافع اُدھم appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


ظلمتِ شب کے بہت دور حوالے جاتے
ہم کہاں ڈھونڈنے بے سود اُجالے جاتے
بے بصر لوگ اکٹھے تھے درِ جاناں پر
دیکھنے جاتے مگر دیکھنے والے جاتے
اچھا ہوتا جو زمانے کی طرح سوچتے ہم
روگ سینے میں محبت کے نہ پالے جاتے
خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھی غالب کی طرح کوچۂ جاناں سے اسد
نہ نکلتے توکسی روز نکالے جاتے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


سن مری داستان حیرت میں
اے زمین آسمان، حیرت میں
اک تحیر ہے چار سو میرے
روک دی ہے اڑان، حیرت میں
عین منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
اب تلک ہوں میں جان، حیرت میں
یعنی محفوظ ہوں، خدا شاہد
تیر ششدر، کمان حیرت میں
اب وفا کی کھپت نہیں کوئی
بند کردی دکان حیرت میں
شور کرتی ہے آنکھ پاگل سی
دیکھتی ہے زبان حیرت میں
(زوہیب نازک۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


شہ کہہ رہا ہے تیر و کماں بیچ دیجیے
تاب و تواں یقین و گماں بیچ دیجیے
کل تک جو بوڑھی سوچ سے رکھتا تھا اختلاف
وہ کہہ رہا ہے فکرِ جواں بیچ دیجیے
میری انا نے کل مجھے چپکے سے کہہ دیا
غربت سے تنگ ہیں تو مکاں بیچ دیجیے
لازم نہیں کہ بیچیے بازار میں مجھے
بہتر جہاں سمجھیے وہاں بیچ دیجیے
شاید اسے پسند ہے دھرتی کا بانجھ پن
جو کہہ رہا ہے آبِ رواں بیچ دیجیے
(قیصر عباس قیصر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


ازل سے لکھی ہوئی کہانی میں آ گئے ہیں
ہم ایک کُن سے ابد کے معنی میں آگئے ہیں
یہ رائیگانی ہمارے پرکھوں کا مسئلہ تھا
اسی لیے ہم بھی رائیگانی میں آ گئے ہیں
پسند اسے ہے ہماری تجسیم اس لیے ہم
ہوا، زمین اور آگ پانی میں آ گئے ہیں
جو اپنے دشمن کی بد گمانی سے ڈر رہے تھے
وہ اپنے یاروں کی بد گمانی میں آگئے ہیں
(توصیف یوسف اشعر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


سنیے حضور مجھ کو نہیں سادگی پسند
کچھ کچھ فسوں کے ساتھ ہے کچھ خامشی پسند
رہتے ہیں سانپ بن کے مری آستیں میں جو
ان دوستوں کی مجھ کو نہیں دوستی پسند
ورثے میں یہ ملی تھی مجھے مہرباں مرے
اِس واسطے مجھے ہے بہت تیرگی پسند
مجھ سے ملا تھا خواب کے عالم میں اور کہا
میں بے سکوں تھا اس لیے کی خودکشی پسند
بے سمت کر رہا ہوں سفر جان بوجھ کر
کس نے کہا مجھے ہے میاں روشنی پسند
لڑکی تو کہہ رہی ہے مجھے ناپسند ہے
اب تُو بتا، ہے تجھ کو وہی واقعی پسند
دیکھو مماثلت کی بھی حد ہو گئی سحر
اس کو ہے چاند مجھ کو بہت چاندنی پسند
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال، جھنگ)

۔۔۔
غزل


ہم سب خاک کا بستر ہونے والے ہیں
خستہ حال سے ابتر ہونے والے ہیں
پتہ نہیں انجام ہمارا کیا ہو گا
اپنی عمر سے اوپر ہونے والے ہیں
اک بنجارن عشق کمانے والی ہے
جادو ٹونے منتر ہونے والے ہیں
ہم سینہ بہ سینہ چلنے والے لوگ
اب تو مست قلندر ہونے والے ہیں
شاید سب کی جان نکلنے والی ہے
لگتا ہے سب پتھر ہونے والے ہیں
ساجد اپنی نسلیں بڑھتی جاتی ہیں
کھیت ہمارے بنجر ہونے والے ہیں
(ساجد رضا خان۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


نیلے گگن سے تیر کے اتری ہے ہر کرن
تیرا سنہری روپ ہے سازینۂ سخن
شبنم کے قطرے قطرے سے اڑنے لگے اگن
خوش بو بدن چھوئے تو بنے پگلی سی پوَن
اس حسنِ نازنیں کا اچھوتا ہے بانکپن
اور عشق اپنے حال پہ رہتا ہے خندہ زن
گلشن میں جھولا جھولتی رہتی ہیں تتلیاں
پھولوں کے آس پاس پھریں جیسے نو رتن
بجتے ہیں دل کے تار مدھر لے کی تان پر
جھنکارِ جلترنگ، سریلی چھنن چھنن
تصویرِ یار اتار کے چپکے سے چل دیے
دیوار گر پڑی مرے کمرے کی دفعتاً
اے عشقِ نارسا ترے ہر امتحان میں
کورا ورق ہی جھاڑتا رہتا ہے ممتحن
(علیم اطہر۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


دل سے کسی کی یاد کا سایا نہیں گیا
اک شخص ہے جو مجھ سے بھلایا نہیں گیا
یہ رعبِ حُسن ہے کہ محبت کا خوف ہے
تم کو کبھی گلے سے لگایا نہیں گیا
گھیرا ہوا ہے مجھ کو ندامت کی آگ نے
برسوں سے جل رہا ہوں بجھایا نہیں گیا
پھر سے بناؤ توڑ کے اے کوزہ گر مجھے
ایسا بنا کہ جیسے بنایا نہیں گیا
برسوں سے سو رہے ہیں جو غفلت میں سیف جی
سویا ضمیر ان کا جگایا نہیں گیا
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


چاند اُترا ہے آج آنگن میں
آ گیا ہے وہ میرے جیون میں
جگمگایا ہے سارا گھر میرا
کس قدر چاندنی ہے چندن میں
کس نے دیکھا ہے تیرا حسن و جمال
مور ناچا ہے جانے کس بَن میں
کیوں بناتے ہو محل، مال و متاع
کچھ نہ جائے گا ساتھ مدفن میں
رو کے ہلکان ہو گیا ہوں میں
یاد آئی ہے اُس کی ساون میں
میرا ساتھی، وہ ہم سفر میرا
کھو دیا میں نے اُس کو اَن بَن میں
کون کمتر کا یار ہے بزمی
سارے برتر کے یار ہیں دھن میں
(شبیر بزمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


اس محبت کا مرحلہ سارا
طے نہیں مجھ سے ہو سکا سارا
اس کو دن رات اتنا رویا ہوں
آنسوئوں میں وہ بہہ گیا سارا
کوئی منزل ہے کیا تمھاری بھی
پوچھتا ہے یہ راستہ سارا
مسئلے سب ادھورے ہیں میرے
اصل میں یہ ہے مسئلہ سارا
کاش آدھا بدل گیا ہوتا
ہو گیا ہے وہ بے وفا سارا
وصل میں زہر بچ گیا باقی
ہجر کا سانپ ڈس گیا سارا
(اسد علی باقی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


مشقِ سخن تمام ہوئی ہے ابھی ابھی
اک نظم اختتام ہوئی ہے ابھی ابھی
تا دیر گُل بدن سے رہا محوِ گفتگو
بلبل بھی ہم کلام ہوئی ہے ابھی ابھی
اک سانحے میں ہم سے جدا ہو گئے تھے جو
ان سے دعا سلام ہوئی ہے ابھی ابھی
کچھ دیر قبل زیست یہاں تھی رواں دواں
ہڑتال پہیہ جام ہوئی ہے ابھی ابھی
لو شوق آج تم بھی ذمیں دار ہو گئے
اک قبر تیرے نام ہوئی ہے ابھی ابھی
(شاہد شوق۔ ترہالہ ، مظفر آباد آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


شدید چاہت کا رنگ ہم پر چڑھا ہوا ہے
تمہارا دکھ جو ہمارے پلے پڑا ہوا ہے
کبھی خزاں کی اداس شامیں، کبھی بہاریں
نہیں خبر کہ یہ دل کہاں پر اَڑا ہوا ہے
بدل نہ لینا ارادہ آنے کا جانِ جاناں
تمہاری راہوں میں اک دوانہ کھڑا ہوا ہے
ہمارے ذہنوں پہ عشق طاری ہوا ہے جب سے
ہے عقل عاری جنون سَر پر چڑھا ہوا ہے
ابھی تلک ہم مفارقت سے نہیں ہیں الجھے
ہمارا رشتہ حسن کسی سے جڑا ہوا ہے
(محمد حسن رضا حسانی۔ کلاسوالہ، سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


لپٹا پڑا ہوں دیکھو، اِک سنگِ آستاں سے
شاید وہ ترس کھائیں، تھک کر میری فغاں سے
رَبّ کی خلافتوں کا، وارِث ہوں میں اکیلا
کہتے ہیں مجھ کو آدم، اترا ہوں آسماں سے
اے نامہ بَر یہ کہنا، یہی آخری ہے حسرت
اک بار میرا قصہ، سُن لیں میری زباں سے
جتنی شکایتیں تھیں، سب بھول بھال کر مَیں
تکنے لگا وہ چِہرہ، گزرا وہ جب یہاں سے
یہ روڈ شہر والا، جب سے بنا مزمل
بچے بچھڑ گئے ہیں گائوں کے اپنی ماں سے
(مزمل سجاد جعفری۔ ودھیوالی، لیہ)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر60

جب وہ دیہاتی قریب پہنچا تو فقیر نے اسے سلام کے بعد راستے کا معلوم کیا، وہ مجھے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا، مُسکرایا اور پھر اشاروں سے مجھے بتایا کہ وہ بول سُن نہیں سکتا۔ میں نے اسے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، تھوڑی دیر تو ہم دونوں خاموش کھڑے رہے پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور دوسری سمت چلنے لگا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک مال بردار گاڑی نظر آئی، اس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا، گاڑی ہمارے قریب آکر رک گئی۔

اس میں دو لوگ سوار تھے، ڈرائیور اسے دیکھتے ہی باہر نکلا اور بہت احترام سے اس سے اشاروں سے بات کرنے لگا، اس نے میری جانب اشارہ کیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوا: بیٹا کیا ہوا، کہاں جاؤ گے تم! میں نے اسے بتایا کہ مجھے ٹیکسلا جانا ہے تو اس نے مجھے تسلی دی کہ ہم بھی وہیں جارہے ہیں، اس دیہاتی نے اسے اشاروں میں کچھ سمجھایا تو ڈرائیور نے بھی اسے مطمئن کیا اور ہم روانہ ہوگئے۔

راستے میں ڈرائیور نے پوچھا: ٹیکسلا ہی جانا ہے تمہیں یا وہاں سے کہیں اور جاؤگے۔ نہیں جی مجھے ٹیکسلا جانا ہے، اس نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ صبح کا وقت تھا اور گاڑیاں بھی کم تھیں، وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے میں مگن تھے اور میں آس پاس کے منظر میں کھوئے رہنے کے ساتھ آگے پیش آنے والے واقعات کا سوچنے لگا اور پھر ٹیکسلا آگیا۔ ڈرائیور نے مجھے اسٹاپ پر اتارتے ہوئے پوچھا تھا: کچھ پیسے چاہییں تو بتاؤ، میں نے انکار کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کارخانے کی سمت روانہ ہوا۔

دُور سے ہی مجھے بابا کی سائیکل نظر آگئی تھی، اور پھر میں بابا کے رُو بہ رُو تھا۔ میں نے بابا کو سلام کیا، میں احمق تو یہ سمجھا تھا کہ بابا مجھے دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئیں گے اور میری خیریت پوچھنے کے بعد مجھے داد بھی دیں گے لیکن حیرت ہوئی کہ انہوں نے مجھے گُھورتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔

میں نے ان سے پوچھا: حنیف بھائی کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بہت تلخ لہجے میں کہا: یہ تو تم مجھے بتاؤ کہ حنیف کہاں ہے؟ میں نے ابھی زبان کھولی ہی تھی کہ ان کی غضب ناک آواز سنائی دی: اب مجھے رات کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تمہاری آنکھیں کان اب تک نہیں کُھلے، کل جب تم روانہ ہورہے تھے تو کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ سائیکل آہستہ چلانا اور درست راستے کا انتخاب کرنا۔ میں نے وضاحت کرنا چاہی کہ وہ تو آپ نے حنیف کو کہا تھا تو وہ اور بھی غضب ناک ہوئے: خاموش رہو، اپنی صفائی مت پیش کرو، جب وہ تیز رفتاری سے غلط راستے پر نکل رہا تھا تو تم نے اسے کیوں نہیں روکا، اور اگر وہ رک نہیں رہا تھا تو تم اس کی سائیکل سے اتر کیوں نہیں گئے تھے۔

تم اگر اتر جاتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر ہرگز نہیں جاتا اور اگر پھر غلط جگہ پہنچ ہی گئے تھے تو اس نے تمہیں یہی کہا تھا ناں کہ اب جیسا تم کہو گے میں ویسا ہی کروں گا، تو تم نے اس وقت وہ طریقہ اختیار کیوں نہیں کیا جو بتایا گیا ہے اور صبح تم نے اسی طریقے پر عمل کیا اور اب تم یہاں ہو، تو رات کو اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ عمل تو چھوڑو تم حنیف کو تنہا چھوڑ کر اس اجنبی کے پیچھے دوڑتے رہے، پھر اگر تم سے یہ حماقت ہو ہی گئی تھی تو تم نے رجوع کیوں نہیں کیا، حنیف کو اس کے حال پر چھوڑ کر تم وہیں قیام کرگئے، جب کہ میں تمہیں بتا چکا تھا کہ وہ ابھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں آیا، کسی وقت بھی وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔

اسے سنبھالنا پڑتا ہے بالکل معصوم بچوں کی طرح۔ اس کا خیال رکھنا تمہاری ذمے داری ہے اور تم نے میری نصیحت پر یہ عمل کیا، حماقت درحماقت کی تم نے، اب جاؤ تلاش کرو اسے۔ میں واپس جانے کے لیے مڑا تو ان کی ڈانٹ نے میرے قدم وہیں جما دیے: اب بیٹھ جاؤ یہیں، خود کو تو تلاش کر نہیں سکے اور اسے تلاش کرنے جارہے ہو۔

میں مجسم ندامت سر جھکائے کھڑا خود کو کوس رہا تھا، مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا جیسے بابا فرما رہے تھے اور بہ جائے پریشان ہونے کے اس کا حل نکالنا چاہیے تھا، لیکن ۔۔۔۔۔۔ اب تو میں یہ غلطی کر ہی بیٹھا تھا، درست کہہ رہے تھے بابا، انہوں نے تو مجھے دُور بیٹھنے کا کہا تھا لیکن میں دھوپ میں آکر بیٹھ گیا۔

میری آنکھیں اشکوں سے بھری ہوئی تھیں لیکن میں نے انہیں برسنے سے روکے رکھا اور بس سوچتا چلا گیا، مجھے خود پر افسوس نہیں شدید غصہ آرہا تھا کہ میں وقت پر کیوں نہیں درست فیصلہ کرتا، اور سنیے وہ تو میں اب بھی نہیں کرتا غبی جو ٹھہرا۔ دانش مندوں نے کیا کمال کی بات کی ہے ناں کہ دانا کرنے اور بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور ہزار بار سوچتا ہے اور مجھ جیسا غبی، احمق اور نادان کرنے اور بولنے کے بعد سوچتا اور پھر اس پر پچھتاتا ہے، لیکن پھر تو وقت بدل جاتا ہے اور سمے کا کیا ہے وہ تو کسی کے روکے نہیں رک سکتا، کبھی نہیں، سمے کو تو بس اس کا خالق ہی روک سکتا ہے ناں جی جیسے اس نے معراج میں روک لیا تھا۔

ہمارے ایک بابا جی اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’گَل ویلے دی تے پھل موسم دا‘‘ بات بروقت اور پھل موسم کے ہی اچھے ہوتے ہیں۔ بابا نے مجھے بالکل ہی نظر انداز کردیا تھا، انہوں نے تو مجھ سے ناشتے کا بھی نہیں پوچھا تھا، ناشتے کا کیا ذکر پانی کا بھی نہیں۔ مجھ جیسے نادان سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ ہی سزا ہوتی ہے۔

اب مار پیٹ سے دیکھیے کیا یاد آگیا۔ فقیر اس وقت جماعت چہارم میں تھا اور ہمارے استاد گرامی قدر تھے ذوالفقار احمد، کیا شان دار نام نامی ہے ناں یہ، انتہائی دانا، بینا، زیرک، مخلص و بااخلاق و باکردار ذوالفقار احمد۔ دکھائی تو انتہائی فولاد دکھائی دیتے تھے لیکن اندر سے بالکل ریشم کی طرح نرم، ہمیشہ کہا کرتے تھے کچھ سمجھ میں نہ آئے تو کوئی بات نہیں، لاکھ مرتبہ پوچھو میں لاکھ مرتبہ تمہیں سمجھاؤں گا، اور وہ کرتے بھی تھے ایسا۔ ایک دن انہوں نے ہمیں گھڑی میں وقت جاننے کا طریقہ سمجھانا شروع کیا، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے وہ دن، لکڑی سے بنی ہوئی ایک گھڑی لے کر وہ کھڑے تھے۔

پھر انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو یہ چھوٹی سوئی گھنٹوں کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بڑی والی منٹوں کو، ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ایک گھنٹے میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں، اور یہ جو درمیان میں نشانات ہیں یہ پانچ منٹ کو ظاہر کرتے ہیں تو اگر گھنٹے کی سوئی کسی ہندسے پر ہو تو اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اور منٹ والی سوئی کسی نشان پر ہو تو ان نشانات کو گن کر اسے پانچ سے ضرب دیں تو صحیح وقت سمجھ اور بتا سکیں گے۔

انہوں نے کئی مرتبہ ہمیں سمجھایا، میرے ہم جماعت سب تو ذہین تھے، سمجھ گئے اور میں الجھ گیا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، پھر انہوں نے صرف مجھ پر توجہ مرکوز کی اور ایسی کی کہ واہ، ان کا پریڈ ختم ہوگیا تھا اور احسان صاحب تاریخ کا سبق پڑھانے آپہنچے تھے لیکن ذوالفقار صاحب نے ان سے وہ پریڈ بھی خود لے لیا تھا اور مجھے سمجھانے میں جتے ہوئے تھے، لیکن اس دن میں نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، اور پھر ایسا ہوا کہ آدھی چھٹی کا وقت ہونے والا تھا اور وہ صرف مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

میں نے سوچا ایسے کام نہیں چلے گا، کچھ تو کرنا ہی پڑے گا تو میں نے اپنے تئیں ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانی، میں نے سوچا تھوڑی دیر دیر آدھی چھٹی ہوجائے گی اور ذوالفقار صاحب چلے جائیں گے تو میں اس پر خود غور کروں گا تو میں نے ان سے کہہ دیا جی سر مجھے سمجھ میں آگیا ہے۔

انہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا: سچ بتاؤ کیا تم واقعی سمجھ گئے ہو ؟ تو میں نے پورے اعتماد سے کہا: جی سر! لیکن جناب وہ استاد ہی کیا جو اپنے شاگرد کو اندر تک نہ جانے، نہیں وہ استاد ہی نہیں ہوتا، انہوں نے گھڑی کی سوئیاں مختلف سمت میں گھمائیں اور پھر مجھ سے پوچھا: بتاؤ کیا وقت ہوا ہے؟ ظاہر ہے مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا، میں تو ان سے جان چُھڑانے کے لیے جھوٹ بول رہا تھا، میں نے غلط بتایا، انہوں نے تین مرتبہ ایسا کیا اور میں ہر مرتبہ غلط تھا۔ پھر کیا تھا، ان کہ غضب ناک آواز گونجی: اچھا تو تم مجھے گم راہ کر رہے تھے، تم جُھوٹ بول رہے تھے کہ تم سمجھ گئے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا اور پھر ان کا زوردار تھپڑ میرے گال پر نازل ہوا، اور ایسا نازل ہوا کہ فقیر کے واقعی چودہ طبق ایک دم روشن ہوگئے اور پھر ایسا ہوا کہ مجھے سب کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھ سے سوئیاں گھما کر پوچھا اور میں نے درست بتایا، اور پھر وہ ہاں اب تم سمجھ گئے ہو، کہتے ہوئے کلاس سے باہر چلے گئے تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں سیلاب آگیا اور ایسا کہ مت پوچھیے، میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں، میرے ہم جماعت آزردہ تھے،وہ میری دل جوئی میں لگے ہوئے تھے اور پھر کسی نے ہمارے پرنسپل وحیدالرحمٰن صاحب کو اس واقعے سے آگاہ کردیا، وہ ہماری کلاس میں آئے اور مجھے دلاسا دیا لیکن میں سنبھل ہی نہیں رہا تھا، اسکول میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی فوری طبی امداد کے لیے موجود ہوتے تھے، مجھے ان کے کلینک لے جایا گیا، میں بخار میں تپ رہا تھا، گھر والوں کو اطلاع دی گئی تو ابّا جی تشریف لے آئے اور پورا واقعہ سننے کے بعد ذوالفقار صاحب کو انہوں نے کہا: آپ نے بالکل صحیح کیا، میں آپ کا مشکور ہوں۔ اس واقعے کے بعد ایک ہفتے تک مجھے اسپتال میں رہنا پڑا تب کہیں جاکر میں سنبھلا تھا۔ مجھے وہ دن بھی بہت اچھی طرح یاد ہے جب صبح اسمبلی میں ذوالفقار صاحب نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سب کو مخاطب کیا: ’’ سب غور سے میری بات سنیے، میرا یہ شاگرد ایسا شاگرد ہے جس سے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔

یہ میرا شاگرد ہی نہیں اس اسکول کا فخر ہے، سب اساتذہ اس کے گواہ ہیں کہ جو سوال کبھی اُن کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوا اس نے وہ سوال اُن کے سامنے لاکھڑا کیا، انسان غلطی کرتا ہے لیکن اس سے سیکھنا چاہیے، اس دن مجھ سے بھی غلطی ہوئی مجھے اسے وقت دینا چاہیے تھا۔‘‘ اس طرح کی کئی باتیں، ظاہر ہے وہ جیسا کہہ رہے تھے میں ایسا ہوں ہی نہیں لیکن انہوں نے میری دل جوئی کی خاطر ایسا کہا۔ فقیر اعتراف کرتا ہے اور برملا کہ مجھ میں سوال کرنے اور جب تک پوری طرح سے سمجھ میں نہ آجائے، انکار کردینے کی جرأت ذوالفقار احمد صاحب کی دین ہے، رب تعالی بہشت میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے۔

ہاں تو ہم مار پیٹ پر بات کر رہے تھے لیکن سُنو سجنو! یہ مار پیٹ تو بس ویسے ہی ہے، یہ کیا سزا ہوئی بھلا، ہاں اسے سزا کہہ سکتے ہیں بس لیکن اصل سزا تو نظر انداز کر دینا ہے، انتہائی کرب ناک، بَلا کی تکلیف دہ سزا ہوتی ہے نظر انداز کردینا، آپ ککھ بھی نہیں رہتے، بالکل کُوڑا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں رہتا آپ کے پاس، آپ کا وجود ہی اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے، اور جب آپ کا وجود ہی نہ رہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے، ہاں یہ بالکل یک سر الگ بات ہے کہ رب کرم کردے اور آپ اس منزل پر پہنچ جائیں کہ جہاں آپ کا ظاہری وجود ہی فنا ہوجائے اور رہ جائے بس اﷲ ہی اﷲ۔

بابا نے بھی مجھے بس نظر انداز کردیا تھا اور میں دھوپ میں بیٹھا خود کو کوس رہا تھا، اس کے ساتھ ہی میں اندر سے سلگ رہا تھا گیلی لکڑی کی طرح جو جلتی نہیں صرف سلگتی اور دُھواں دیتی رہتی ہے، یا اس گیلے کاغذ کی طرح جس پر لکھا جاسکے اور نہ جلایا جاسکے، بس ایسا ہی۔ میں سوچ رہا تھا کہ بابا مجھے مار پیٹ لیتے لیکن نظر انداز تو نہ کرتے۔ لیکن ہر جرم کی ایک سزا ہوتی ہے ناں تو پھر وہ آخر اور کیا کرتے۔ دوپہر ہوچکی تھی میں خود کو کوسنے کے ساتھ حنیف بھائی کو سوچ رہا تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔ پھر دُور سے حنیف بھائی اپنی سائیکل پر آتے نظر آئے، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنی سائیکل وہیں پھینکی اور میری جانب دوڑتے ہوئے آئے: تُم کہاں چلے گئے تھے میرے بھائی! تُو کہاں تھا، کب آیا ہے تُو اور یہ دھوپ میں کیوں بیٹھا ہوا ہے، بتا مجھے، وہ مجھے خود سے لپٹائے ہوئے بہت غصے میں تھے۔

مجھے خاموش اور روتا دیکھ کر وہ اچانک بابا کی جانب مڑے اور پھر تو قیامت ہی آگئی، کیا ہوا ہے اسے، بابا بولو کیا ہوا ہے، یہ کیوں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا، آپ نے اسے سزا دی ہے، کیوں دی ہے، کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو۔ اور اس وقت تو میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی جب اس نے بابا سے کہا: اتنے بڑے ہوگئے ہیں، بوڑھے ہوگئے ہیں، ذرا سی بھی عقل نہیں ہے آپ میں۔ اور میں مجسم حیرت بنا ہوا دیکھ رہا تھا کہ بابا اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے معاف کردو، معاف کردو کی گردان کر رہے تھے، پھر اس کی آواز گونجی: کب سدھریں گے آپ، حد سے باہر نکل گئے ہیں آپ تو، مجھے آپ کا اب کوئی علاج کرنا ہی ہوگا۔ بابا اسی طرح کھڑے تھے اور پھر اس نے جگ سے پانی لے کر میرا منہ دھلانا شروع کیا، میں ان سے کہے جارہا تھا کہ حنیف بھائی آپ بابا کو کچھ مت کہیں غلطی تو میں نے کی ہے لیکن وہ کوئی اور بات سننے کو تیار ہی نہ تھے اور بابا کو کوس رہے تھے۔

پھر میں سمجھ پایا کہ وہ واقعی اپنے حواس میں نہیں ہیں ورنہ بابا حضور کو کبھی بھی اس طرح کہنے کی جسارت نہ کرتے۔ ہماری دنیا میں تو ادب ہی بہشت ہے اور گستاخی جہنّم۔ بابا نے بس مجھ سے اتنا کہا تھا: دیکھا وہ اپنے حواس میں بھی نہیں لیکن تم سے بے خبر بھی نہیں ہے، اسے کہتے ہیں تعلق۔ ہاں بابا بالکل درست کہہ رہے تھے۔

پھر حنیف بھائی نے مجھے ناشتہ کرایا، میں نے ان سے رات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ میرے اوجھل ہونے کے بعد بابا اسے لینے آگئے تھے، اور انہوں نے میرے متعلق کہا تو بابا نے کہا تم فکر نہ کرو وہ بھی آجائے گا۔ عجب دنیا ہے یہ ناں۔ بابا نے حنیف بھائی کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے میں نے ہی اسے جنم دیا ہے اور میں ہی اس کی ماں ہوں، اور بعد کے حالات و واقعات نے فقیر پر یہ منکشف کیا کہ بابا واقعی صادق تھے، وہ حنیف سے بے حد پیار کرتے تھے، بالکل ایک ماں کی طرح، حنیف ضد کرتا تو وہ موم کی طرح پگھل جاتے تھے، وہ غصہ کرتا تو اسے مناتے تھے، کبھی تو وہ انتہائی گستاخ ہوجاتے اور بابا ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے، عجیب تعلق تھا بابا اور حنیف میں، بابا اس کے سامنے بچھے رہتے اور کبھی آزردہ نہ ہوتے،

اسی کو کہتے ہیں شاید تعلقِ خاطر

سفر میں تم ہو، بدن چُور چُور میرا ہے

کیا بات کریں اس تعلق پر لیکن کریں گے، رب تعالٰی کی توفیقات شامل حال رہیں تو چلیے اب رخصت! آپ یہ دیکھیے ذرا!

یہ درد تُونے دیا ہے تو کوئی بات نہیں

یہی وفا کا صلہ ہے تو کوئی بات نہیں

کسے مجال کہ کوئی کہے دیوانہ مجھے

یہ اگر تُونے کہا ہے تو کوئی بات نہیں

یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہو ساحل سے

سفینہ ڈوب رہا ہے تو کوئی بات نہیں

یہی تو فکر ہے تم ساتھ نہ چھوڑ چلو

جہاں نے چھوڑ دیا ہے تو کوئی بات نہیں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

خانہ پُری
چھین لے مجھ سے
 ’شوہر‘ میرا۔۔۔!

ر۔ط۔م

پچھلے مہینے شارجہ سے خبر آئی کہ خاتون نے حد سے زیادہ محبت اور کبھی جھگڑا نہ کرنے پر عدالت میں جا کر طلاق کا مطالبہ کر دیا۔۔۔!

یعنی وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’نہ ملے تب ہی تو محبت کہلاتی ہے۔۔۔ ورنہ تو شادی ہوجاتی ہے۔۔۔!‘ اگر ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں، سوہی ماہیوال اور شیریں فرہاد وغیرہ جیسے ہجر کے ماروں کے گھر بس گئے ہوتے، تو ضرور لڑ جھگڑ کر اِس عشق وشق سے باز آچکتے، اور آج کے عاشق خود کو اِن سے تشبیہہ نہ دے رہے ہوتے، اور اگر رانجھے، مجنوں، پنوں، ماہیوال اور فرہاد شادی کے بعد بھی محبت سے باز نہ آتے، تو انہیں بھی شارجہ کی خاتون کی طرح کے ’مطالبۂ طلاق‘ سہنا پڑ جاتا۔۔۔

شارجہ کی یہ خاتون فرماتی ہیں کہ شوہر بغیر ہدایت کے گھر کی صفائی کرتے ہیں اور کھانا بھی بناتے ہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ شوہر ان سے کم سے کم ایک دن کے لیے جھگڑا کریں۔ وہ شادی کے بعد سے کسی بات پر جھگڑے یا بحث کے لیے ترس گئی ہیں۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ بیوی سے کہتے کہ اس پر کام کا بوجھ تھوڑا سا کم کریں، تاکہ وہ کسی جھگڑے کے بارے میں بھی سوچ سکے۔۔۔ خاتون نے اتنی اطاعت گزاری اور محبت کے سبب اپنی زندگی کو ’عذاب‘ قرار دیتے ہوئے علاحدگی کا مطالبہ کیا، عبیداللہ علیم کے الفاظ میں ؎

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے

کوچۂ محبت کے لیے تو یہ ’’عبرت ناک‘‘ اور ’اُڑ کر بِکنے والی خبر ہے‘ مگر وہ عشق ہی کیا، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ممکنات اور ناممکنات پر غور کرنے کی چُھوٹ دے ڈالے۔۔۔ ’اہل محبت‘ کی تو بصارت سے بصیرت تک پر پردے ہی پڑے رہیں گے، البتہ لڑجھگڑنے والے جوڑے ضرور مطمئن ہوں گے اور سچی مچُی میں جان چھڑانے والے ضرور ’شدید محبت‘ کی طرف ’متوجہ‘ ہو سکتے ہیں، کہ شاید پھر اُن کی خاتون بھی۔۔۔

شارجہ کی عدالت نے خاتون کی درخواست مسترد کرکے دونوں کو باہمی رضا مندی سے کوئی فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ بہ الفاظ دیگر عدالت کہہ رہی تھی کہ مل جل کر کسی دن ’پھڈا‘ طے کر لیا کریں۔۔۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت حکم کر دیتی کہ ہر ہفتے بعد نماز جمعہ 24 گھنٹے کے لیے عدالت کے سامنے ایک شان دار اور پروقار جھگڑا ’منعقد‘ کر لیا جاوے۔۔۔!

اِس خبر کا راوی ساس اور نند وغیرہ جیسے ’بنیادی‘ لوازمات کے بارے میں خاموش ہے، یقیناً ان کی عدم موجودگی کے سبب ہی یہ سکون اتنا بڑھا ہے کہ گھر ٹوٹنے کی نوبت آگئی۔ اس ’مہلک سکون‘ پر تو کوئی شاعر ہی بہتر روشنی ڈال سکتا ہے، ہم ٹھیرے ٹوٹی پھوٹی سی نثر میں اپنا قلم گھسیٹنے والے۔۔۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ شوہر ہی کوئی بہت ’ڈھیٹ‘ قسم کا عاشق ہے، کہ کچھ بھی ہو جاتا، یہ نہ لڑ کر دیتا۔۔۔ تبھی اس کی محبت سے ’تنگ‘ بیوی عدالت جا پہنچی ؎ اتنی محبت‘ عذاب ہے یارب۔۔۔

چھین لے مجھ سے ’شوہر‘ میرا۔

عدالت کا در کھٹکھٹانے سے پہلے اس نے گھر میں کُہرام اٹھانے کے کیا کیا جتن نہ کیے ہوں گے، یہ بات شادی شدہ حضرات بہت زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، اور ہم جیسے ابھی صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔۔۔ تاہم اس خبر کے بعد ہوسکتا ہے کہ اب کوئی شوہر محبت جتائے تو بیوی کو تشویش ہونے لگے، جون ایلیا کی روح سے معذرت کے ساتھ؎

بہت نزدیک ’آتے جا رہے‘ ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا۔۔۔

۔۔۔

’’کشمیر وہ بیوہ ہے۔۔۔‘‘
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر

پانچ اگست 2019ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی شق اپنے آئین سے ختم کر کے وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ ہر قسم کے مواصلاتی رابطے منقطع کر کے حریت راہ نماوں،کٹھ پتلی کشمیری قیادت کو بھی جیلوں یا گھروں میں بند کردیا۔ پاکستانی قیادت، عوام اور دفاعی سربراہان نے خوب جوش و جذبے کا اظہار کیا، معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں بھی پہنچ گیا، جو بلاشبہ ایک کام یابی ہے۔ دنیا کو بھی تشویش ہوئی اور ’’ثالثی‘‘ کی کوششیں بھی ہوئیں۔ کشمیر کے لیے آپ کی آوازوں کا شکریہ۔۔!

لیکن کیا اتنا کافی ہے؟؟

پاکستانی قیادت، اپوزیشن اور عوام کو تو چھوڑئیے، آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کی زبوں حالی کا ہی یہ عالم ہے کہ یوم سیاہ مناتے ہوئے لیڈران اپنے اپنے سیاسی قبلوں کی تصاویر اٹھائے پھر رہے تھے۔ ’لائن آف کنٹرول‘ روند کر اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے لیے ریلیف آپریشن کی جوشیلی باتیں کرنے کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر امریکا پدھار گئے۔ دراصل ہماری حکومتوں کا مطمع نظر اسلام آباد اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت کا خواب نئی دہلی ہے۔

ہمارے وزیرخارجہ کا سہما، اترا چہرہ اور خود کو تسلیاں دیتا ہوا بیان ہے، جب کہ دوسری طرف نریندر مودی کی انتہائی پرسکون گفتگو اور پراعتماد انداز یہ ظاہر کر رہا تھا کہ کشمیر اور لداخ کی حیثیت بدلنے کا بھارتی حکومت کا اقدام نہیں بدلے گا۔۔۔!

یاد آیا۔۔۔! 1990ء کی دہائی میں ایک مرتبہ کشمیری عوام لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے چکوٹھی میں جمع ہوئے تھے اور پنجاب کانسٹیبلری نے انہیں جی بھر کر جام شہادت پلائے تھے۔۔۔! کون چاہے گا کہ ان کے کاروبار بند ہوجائیں۔ ثالث کی اسلحے کی مارکیٹ ہی تو اس خطے کی بدامنی پر قائم ہے۔ وہ خطہ جس کے حالات کبھی ’’کشیدگی‘‘ سے باہر نہیں آئے اور خطہ، جو ہمیشہ اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔

اس شور میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مرتے کشمیریوں کی آہیں اور سسکیاں شاید آپ کے کانوں تک کبھی نہ پہنچ پائیں گی۔ چار سالہ کشمیری نونہال صدام کو تو اس آرٹیکل کے خاتمے اور اس پر اٹھنے والے ہنگامے کا علم بھی نہ تھا، مگر اسے موت کی نیند سونا پڑا۔۔۔! مرنے والوں کو اب کشمیر کی آزادی سے فرق نہیں پڑے گا۔ کشمیر تو وہ بیوہ ہے، جسے نہ سسرال والے رکھنا چاہتے ہیں اور نہ میکے والوں کو اس کی ضرورت ہے، مگر مفاد پرستی کو تسکین پہنچانے کے لیے اسے آئے دن سولہ سنگھار کروا کے چوراہے میں پیش کیا جاتا ہے۔ خدا جانے کس طرف کی بولی اٹھ جائے اور اسے بھی ٹھکانا نصیب ہو ورنہ یہ منڈی ہمیشہ یوں ہی سجتی رہے گی۔

۔۔۔

’’میں بھی چاہتا تو پسندیدہ باتیں کر سکتا تھا۔۔۔!‘‘

مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
ایتھنز کے لوگو۔۔۔! اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ تمہاری کردار سازی اور زندگیاں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو اس شہر کی بدنامی کا سبب ہیں، کیوںکہ انہوں نے مجھے صرف اس لیے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا کہ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔

تھوڑے عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ یہی قدرت کا فیصلہ ہے اور تاریخ کا بھی، لیکن میرا خطاب بنیادی طور پر انہی لوگوں سے ہے جنہوں نے مجھے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔

ایتھنز کے لوگو۔۔۔! مجھے اپنے دلائل دینے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، کیوں کہ اس سے میری فکر عام ہوتی اور عوام الناس میرے نظریات سے متاثر ہوتے۔ یہ سزا قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے ان کو درست مان لیا ہے یا میں غلطی پر تھا۔ میں اپنے نظریات پر اب بھی قائم ہوں۔ میں موت سے بچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لوں گا، کیوں کہ میں ایک آزاد انسان کی موت مرنے کو ترجیح دوں گا۔

میں اگر چاہتا تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ سب باتیں کہتا جو تم لوگوں کو پسند ہیں، جو تم لوگ ہر ایک سے سننے کی خواہش رکھتے ہو اور جو باتیں تم لوگ سننے کے عادی ہو۔ میں سچ سے توبہ نہیں کروں، بلکہ مرتے دم تک سچ بولتا رہوں گا۔ چاہے یہ بات تم کو ناگوار گزرے۔ اپنی جان بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ میں تمہارے آگے ہتھیار ڈال دیتا اور خود کو تمہارے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا تو شاید میری جان بخشی ہوجاتی، لیکن میں نے سچ کی خاطر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تم لوگ ناانصافی اور ظلم کے ذمہ دار ہو اور تم کو اپنے ان برے اعمال کی سزا ضرور ملے گی۔ تم پر تاریخ کے ہر دور میں نفرین اور لعنت بھیجی جائے گی۔

(سزائے موت سننے کے بعد سقراط کے خیالات)

۔۔۔

صدلفظی کتھا
’’حالت‘‘

رضوان طاہر مبین

’’پوری قوم کو دوپہر 12 بجے آدھے گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکل کر احتجاج کرنا چاہیے۔‘‘
ثمر نے امر سے کہا۔
’’بالکل، کشمیر کے لیے ہمیں متحد ہونا چاہیے۔۔۔!‘‘
امر نے تائید کی۔
دونوں کچھ دن بعد ملے۔
امر نے ثمر کو دیکھتے ہی آواز لگائی:
’’اَماں۔۔۔ باتیں تو بڑی کر رہے تھے۔۔۔ خود ہی نہیں نکلے۔۔۔؟‘‘
’’ارے، بارش کا پانی اتنا تھا، کہاں نکلتا؟ لیکن تمہاری طرف تو کیچڑ نہ تھی، تم کیوں پانچ منٹ بھی نہ رکے۔۔۔؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’کیا کرتا۔۔۔ مکھیوں کی بہتات سے باہر رہنا دوبھر تھا۔۔۔!‘‘
امر نے جواب دیا۔

۔۔۔

علامہ سے دعا بھی لے لی۔۔۔
مرسلہ: محمد شکیل مکی، لودھراں

مولانا تاج وَر نجیب آبادی، علامہ اقبال کے مداحوں میں سے تھے، کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب کی سرزمین نے یہ بہت تناور انسان پیدا کیا ہے، لیکن یہاں کے عوام کے دماغ ابھی اونگھ رہے ہیں۔۔۔‘‘
ایک دن میں نے عرض کیا ’’مولانا زندگی میں جس قدر اقبال کی شہرت ہے یہاں اور کس کو یہ رتبہ ملا ہے؟‘‘

مولانا تنک مزاج تو تھے ہی، بگڑ گئے جیسے ان کی خاموشی کے پھوڑے کو چھیڑ دیا ہو، بولے ’’ابے الو! تجھے کیا خبر کہ علامہ اقبال کس مقام کے انسان ہیں، یہاں ایسی شخصیتوں کے جوہر تو مرنے کے بعد کھلا کرتے ہیں، کیوں کہ مردہ قومیں مردوں کو پوجتی ہیں اور زندہ قومیں زندہ لوگوں کے جوہر کو سراہتی ہیں۔‘‘

میں نے مولانا سے کئی بار کہا ’’مولانا! مجھے علامہ اقبال کو دکھا دیں، آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔‘‘ مولانا نے کہا ’’ہرگز نہیں، میں تجھے اپنے ساتھ ہرگز نہیں لے جا سکتا کسی اور کے ساتھ بھیج دوں گا، دیکھ آنا۔‘‘

میں نے کہا ’’مولانا میں تو آپ ہی کے ساتھ جاؤں گا آپ سے زیادہ یہاں میرا ہم درد کون ہو سکتا ہے؟‘‘

مولانا بولے ’’تُو بڑا بے ادب اور منہ پھٹ آدمی ہے، تجھے ساتھ لے جا کر میں کیا اپنی توہین کراؤں؟‘‘
میں نے نہایت لجاجت سے کہا ’’مولانا! میں وعدہ کرتا ہوں، جب تک وہاں سے واپس آئیں گے اس وقت تک میں ہونٹ سیے رکھوں گا، ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالوں گا۔‘‘ مولانا سن کر خاموش ہوگئے۔

ایک دن مولانا نے مجھے گھر سے بلوایا اور کہا ’’ذرا کپڑے ڈھنگ کے پہن آ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا گورنر صاحب کے یہاں جانا ہے؟‘‘
مولانا: ’’ابے جاہل! علامہ اقبال کے یہاں جانا ہے، جس کے لیے تو روز میرے سر رہتا ہے۔‘‘
میں: ’’مولانا انہیں میرے کپڑوں سے کیا غرض، وہ تو آپ کو دیکھیں گے، آپ اپنے مقام کا لباس پہن لیں، میں تو آپ کے خادم کی حیثیت سے آپ کے ساتھ جاؤں گا اور میرے پاس کپڑے ہیں بھی کہاں۔ دو جوڑے ابھی دھوکے سوکھنے کے لیے ڈال کے آیا ہوں، وہ بھی کئی جگہ سے گونتھ رکھے ہیں۔‘‘

مولانا: ’’اچھا چل یوں ہی چل، لیکن جب تک وہاں رہے زبان سی لینا۔‘‘
میں: ’’جیسا حکم ہو، میری کیا مجال ہے کہ سرتابی کروں۔‘‘ اس کے باوجود مولانا تمام راستے مجھے تلقین کرتے گئے کہ ’’وہاں زبان کھولنا گستاخی ہے، گستاخی۔‘‘
جب مولانا، علامہ کی کوٹھی کے دروازے پر پہنچے تو مولانا نے پھر مجھے خاموش رہنے کی تاکید کی اور میں تیوری پر بل ڈال کر خاموش ہوگیا۔

مولانا نے جھلا کے کہا ’’کچھ منہ سے تو پھوٹ، سن رہا ہے کہ نہیں؟‘‘
میں: ’’آپ ہی نے تو کہا ہے کہ خاموش رہنا۔ میں تو بڑی دیر سے خاموشی پر عمل پیرا ہوں۔‘‘

مولانا مسکراتے ہوئے علامہ کے یہاں ایک نیم روشن کمرے میں پہنچ گئے۔ مولانا تاج وَر اور علامہ تو باتیں کرتے رہے اور میں ان دونوں بزرگوں کو ایک پجاری کی طرح دیکھتا رہا۔
جب چلنے لگے تو علامہ نے مولانا سے میرے متعلق دریافت کیا۔ مولانا نے فرمایا ’’غریب مزدور آدمی ہے، نہ جانے شعر و شاعری کا روگ کہاں سے لگا لیا اور میرے یہاں آنے جانے لگا، عرصے سے آپ کو دیکھنے کا متمنی تھا۔‘‘ علامہ نے میرا نام دریافت کیا میں نے شرماتے ہوئے لہجے میں کہا ’’احسان۔۔۔‘‘
علامہ نے فرمایا ’’نام تو مزدوروں والا نہیں، اچھا! خدا اسم بامسمیٰ کرے۔۔۔‘‘

مولانا جب سڑک پر آئے تو کہنے لگے ’’احسان، تو نے بڑے آدمی کو دیکھا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’حضور! میں بلاشبہ آپ کا ممنون ہوں۔‘‘

مولانا: ’’میں نے تجھے اسی لیے خاموش رہنے کو کہا تھا کہ تو بات نہ کرنا جانتا ہے نہ سنتا، بھلا مجھے تیری ممنونیت سے کیا فائدہ؟‘‘
میں نے کہا ’’مولانا شکریہ کوئی جرم تو نہیں۔‘‘ مولانا نے کہا ’’چپکا چپکا چل بات نہ بڑھا، میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ تو خوش نصیب ہے کہ علامہ سے مل بھی لیا اور دعا بھی لے لی۔‘‘n
(احسان دانش کی خود نوشت ’جہان دانش‘ سے لیا گیا)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہماری صحت اور طبِ نبوی

$
0
0

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ترجمہ: (پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(سورۃ آل عمران آیت نمبر31)

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے منسوب ہر عمل کی پیروی نہ صرف ہمیں اللہ رب العزت کا محبوب بناتی ہے بلکہ ہماری مغفرت کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔

اسی تناظر میں ہمیں چاہیے کہ بیماری کے حالات کو صحت کے حالات سے تبدیل کرنے یعنی شفایابی کے یقینی حصول کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی علاج معالجہ اور صحت مند رہنے کے اصول والی زندگی جو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے عطا فرمائی ہے جسے آج کی دنیا طب نبوی کے نام سے جانتی ہے اس طرف فوری رجوع کریں۔

طب نبوی کیا ہے؟

طب نبوی درحقیقت چار اہم چیزوں کا مجموعہ ہے جس میں دعائیں نبوی، نبوی دوائیں ، نبوی غذائیں اور نبوی علاج (حجامہ) شامل ہیں۔

طب نبوی سے مکمل فائدہ اٹھانے سے قبل یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ دنیاوی علم ظَنِّی یعنی گمان اور تجربہ پر ہوتا ہے جب کہ طب نبوی کا تعلق براہ راست علم وحی الٰہی کے ساتھ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ گمان، تجربات اور وحی الٰہی برابر ہوجائیں؟ یہ دونوں چیزیں ہرگز برابر نہیں ہوسکتی ہیں۔

اس لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ مومن ہونے کے ناتے وحی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے کسی بھی دور میں کی جانے والی تحقیقات کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا بلکہ یقین کامل کو بنیاد بنا کر عمل کیا جانا چاہیے۔ یعنی سنت زندگی گزارنے کا راستہ دیکھ کر چلنے کا نہیں ہوتا ہے بلکہ چل کر دیکھنے کا ہوتا ہے۔

جو یقین کی راہ پہ چل پڑے

انہیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا

وہ قدم قدم پہ بہک گئے

طب نبوی کو زندگی میں لانا کیوں ضروری ہے؟

طب نبوی دراصل علاج معالجہ کی زندگی (Medical Life) اور صحت کی حفاظت کی زندگی (Health Care Life) کے دو بنیادی حقوق پر مشتمل ہے۔

علاج معالجہ اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان فطرت (Natural Life) کے مطابق طرززندگی اختیار کرے۔ طب نبوی سے علاج کرنے میں انسان کو تین فائدے یقینی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ علاج بے ضرر ہے یعنی No side effects دوسرا اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے اگر مریض کی موت کا وقت نہ آگیا ہو اور ادویات، خالص غذائیں وقت پر میسر آگئی ہوں تو شفایابی 100% فی صد یقینی ہوجاتی ہے اور تیسرا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سے دنیا میں محبوبیت خداوندی اور آخرت میں شفاعت نبوی نصیب ہوجاتی ہے۔

جیسا کہ مضمون کے شروع میں عرض کیا ہے طب نبوی چار اہم بنیادی چیزوں کا مجموعہ ہے جن میں سب سے پہلے بیماری کے حالات کو بدلنے کا یقینی عمل نبوی دعاؤں کا سہارا ہے۔ یعنی جو دعائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شفایابی کی تلقین فرمائی ہیں مریض خود بھی پڑھے اور اس کے گھر والے بھی پڑھ کر اس پر دم کریں۔ اسی کے ذیل میں رقعیۃ الشریعۃ کا بار بار سننا بھی شامل ہے صبح و شام صدقہ دینا بھی شفاء کا موثر ترین ذریعہ ہے۔

دوسرا حصہ نبوی دواؤں کا بلاشک و شبہ استعمال ہے۔ یعنی وہ جڑی بوٹیاں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ میں تجویز فرمایا ہے۔

تیسرا حصہ جسے نبوی غذائیں کہا جاتا ہے روزمرہ کی زندگی میں ایسی غذاؤں کا استعمال جن کا انتخاب وحی الٰہی ذریعہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے بتادیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ طاقت ور مومن کم زور مومن کے مقابلے میں اللہ رب العزت کو زیادہ محبوب ہے۔

چوتھا اور آخری حصہ جسے دنیائے طب الحجامہ (Cupping Therapy) کے نام سے جانتی ہے جسم میں پلنے والے فاسد مادے (Toxin) کو نکلوا کر خون صاف کرنے (Detoxify) کی تیکنیک پر مشتمل علاج ہے، تاکہ انسان کی صحت برقرار رہ سکے۔

طب نبوی کا دوسرا اہم حصہ جسے (Health Care Life) صحت کی حفاظت کہتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے کی برکت سے انسان صحت مند زندگی گزارتا ہے اور اپنے رب کو راضی کرتا ہے۔ مفہوم حدیث کا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ایک طبیب نے مطب قائم کیا مگر چند دن بعد اسے بند کرنا پڑا کیوں کہ مطب کو کوئی مریض میسر نہ آیا۔ اس معاشرہ کے صحت مند ہونے کی وجہ یہ سامنے آئی کہ یہ لوگ شدید بھوک لگنے پر کھاتے ہیں اور جب بھوک باقی ہوتی ہے تو کھانا ترک کردیتے ہیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ بیماری کیا ہے؟ فرمایا فطرت سے دوری پھر پوچھا اس کا علاج کیا ہے فرمایا فطرت پر واپس لے آؤ۔

صحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مفہوم حدیث ہے کہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی ناقدری کرنے کی وجہ سے اکثر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ (1) صحت و تن درستی (2) فرصت و فراغت۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم چوںکہ قیامت تک آنے والے ہر اُمتی کے نبی ہیں اُن کی لائی ہوئی زندگی دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے لہٰذا یہ زندگی قیامت تک زندہ رہے گی بھلے مسلمان اس پر عمل پیرا ہوں یا نہ ہوں اس کی سب سے بڑی مثال طب نبوی یعنی فطری زندگی جسے آج کی غیرمسلم اقوام Natural Life / Organic Life کے نام سے اپنا چکی ہے۔

آپ امریکا، آسٹریلیا، یورپ کینیڈا، جرمنی کہیں بھی نظر دوڑائیں آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی۔ دین فطرت غیرمسلموں میں بغیر ایمان کے زندہ ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ اپنی ترقی کے عروج کو چھونے کے بعد فطرت کی طرف واپس آگئے ہیں جس کی واضح مثال Natural/Organic Foods, Fruits & Vegetables کی باقاعدہ طور پر ان ممالک میں کثرت ہے۔ نہ صرف فطری طرززندگی اپنانے پر زور دیا جارہا ہے بلکہ ان سب چیزوں کی کاشت بھی عرصہ دراز سے شروع کردی گئی ہے۔ وجہ بنیادی غیرمسلموں کی بقاء (Survival) ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت مند رہنے اور علاج معالجہ کی زندگی کو بغیر ایمان لائے اپنا چکے ہیں اور ایمان والے اکثریت میں اس فطری زندگی گزارنا تو دور کی بات ہے انہیں اس کی معلومات ہی نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیب اعظم بھی ہیں۔ مسلمانوں کے قلوب شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ اس زندگی کو اختیار کریں یا نہ کریں جس پر عمل کرنے کی صورت میں سنت کی اتباع کی برکت سے ہر بوٹی اور غذا استعمال کرنے پر سو شہیدوں کے ثواب کی بشارت کا یقینی حق دار بننا سعادت عظمیٰ سے کم نہیں ہے اور صحت و شفایابی کا حصول تو دنیاوی فائدہ یقینی ہے۔

اگر ہم بحیثیت مسلمان اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طب نبوی کا احیاء (Revival) کریں تو اس زمانے میں بھی غیرمسلموں سے اس میں کسی قسم کا کوئی ٹکراؤ (Conflict) نہیں ہے بلکہ بہت سے غیرمسلموں نے یہ زندگی صرف اپنی جانوں کی بقا (Survival) کے لیے اختیار کرلی ہے۔ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھلائی ہوئی زندگی (Forgotten Life) کے احیاء (Revival) کے لیے انتھک محنت صبح و شام کرنی ہے۔

اس محنت کے نتیجے میں اجروثواب کے ساتھ صحت کی بقاء (Survival) خودبخود نصیب ہوجائے گی۔ مسلمان Organic/Natural Life میں بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے Pioneer ہیں۔ اگر وہ اس بات کا گہرائی سے مطالعہ کریں یعنی جو زندگی غیرمسلم قومیں اپنی صحت کی بقاء (Survival) کے لیے اپنا رہی ہیں جسے دین فطرت کہا جاتا ہے یہی تو اسلام ہے جس کی تعلیمات ہمیں وحی کے ذریعے 1440 سال قبل مل چکی ہیں جنہیں ہم نے چھوڑ دیا اور غیرمسلموں نے اپنالیا ہے۔

اس سلسلے میں مسلمان تاجروں سے درخواست کروں گا کہ خدارا اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طب نبوی جسے Natural/Organic Life کہا جاتا ہے اسے بطور تجارت زندہ کریں۔ جتنے زیادہ تاجر اس زندگی میں آئیں گے اتنی زیادہ طب نبوی کی چیزیں سستی ہوجائیں گی اور ہر انسان کی پہنچ میں بھی آجائیں گی۔ آپ باہر کے ممالک کا جائزہ لیں کتنی تیزی سے Natural/Organic Foods کا کاروبار بڑھ رہا ہے کتنے زیادہ اس کے اسٹورز کھل رہے ہیں۔ کتنی تیزی سے اس کی کاشت شروع ہوچکی ہے Organic Farms کتنی ترقی کرچکے ہیں جن میں وہ خالص دودھ بغیر انجکشن والا قدرتی غذا کھلا کر گھر گھر (Online) پہنچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان میں الحمدللہ زیتون کا پھل لگ گیا ہے مگر عام طور پر اس کے پودے سے پھل آنے تک 5 سال بڑے صبر و تحمل سے انتظار کرنا پڑتا ہے جس کے لیے عام طور پر جلدی نفع کا طالب تاجر تیار نہیں ہوتا ہے۔ کاشت کاروں کو چاہیے کہ زیتون کی کاشت کے لیے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5 سال برداشت کرلیں تو پھر ہر سال بہت عمدہ پھل آپ کو ملتا رہے گا۔ ایک دن وہ آئے گا کہ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک کی فہرست میں ہوگا جو بہت زیادہ مقدار میں زیتون کا تیل برآمد کرتے ہیں۔ بات صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی ہے ورنہ یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے۔

مسلمان اطباء حضرات و خواتین سے میری التجا ہے کہ خدارا بیمار اُمت کو طب نبوی سے روشناس کروائیں اور آپ خود بھی اپنائیں۔ جس دن آپ نے طب نبوی کی مکمل زندگی اختیار کرلی اس دن آپ اپنی زندگی کی برکات، بہاریں دیکھ کر جھوم اُٹھیں گے اور پکار اٹھیں گے کہ واقعی یہ علاج زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے۔

The post ہماری صحت اور طبِ نبوی appeared first on ایکسپریس اردو.

نوزائیدہ کی دیکھ بھال، قدم قدم پر احتیاط کی ضرورت

$
0
0

ماں بننا ہر عورت کی اولین خواہش ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ ہر عورت کے اندر ایک ماں چھپی ہوتی ہے۔

ممتا کا احساس ہی اتنا دلکش ہے کہ اسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ شادی کے بعد کسی بھی لڑکی کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد ممتا کے رتبے پر فائز ہوسکے اور جس روز وہ اپنے قدموں تلے جنت کی نوید سنتی ہے اس روز وہ خود کو ہوائوں میں اڑتا، پرسکون، پر امید اور زندگی سے بھر پور محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ اب وہ اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ننھی جان بھی جڑی ہے۔

عموماً حمل کے دوران خواتین بہت سے مسائل کا شکار رہتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بعد میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر پہلے بچے کی پیدائش اور پرورش کے حوالے سے ان کے خدشات بے جا نہیں۔ بچے کے دنیا میں آنے کی خوشی تو ایک حقیقت ہے مگر اس کے ساتھ بچے کو سنبھالنے، اس کی ضروریات سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کی فکر بعض اوقات وبال جان بن جاتی ہے۔

خصوصاً اس وقت جب گھر میں کوئی بزرگ خاتون یا بچے کی نانی دادی موجود نہ ہوں۔ نوزائیدہ بچے کی زبان سمجھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ اسے رونے کے سواء کچھ کہنا نہیں آتا۔ وہ بھوکا ہو یا بیمار وہ اپنی ہر کیفیت کا اظہار رو کر ہی کرتا ہے۔ ایسے میں ماں امتحان میں پڑجاتی ہے۔

آج ہم ان تمام مائوں کے لئے معاون ہونے والے چند سنہری اقدامات پہ نظر ڈالیں گے جن سے ان کی زندگی سہل ہوسکتی ہے۔ وہ خواتین جو پہلی بار ماں بننے کے بعد نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کے حوالے سے متفکر ہیں۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد خود کو بہت پر سکون محسوس کریں گی اور اپنے بچے کی دیکھ بھال بہتر انداز میں کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔

-1دودھ
نومولود بچے کو پیدائش کے چار سے چھ گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ پلانا چاہیے۔ ماں کا دودھ جہاں ننھے بچے کے لیے غذائیت اور طاقت کا ذریعہ ہے ونہی یہ اس کے اندر بیماریوں سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت پیدا کرنے کے ساتھ اینٹی بائیوٹک اور اینٹی اکسیڈنٹ کا بھی کام دیتا ہے کیونکہ اس میں اللہ نے وہ تمام لوازمات رکھے ہیں جو ایک نوزائیدہ بچے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

ماں کا دودھ جہاں بچے کے لیے فائدہ مند ہے ونہی یہ خود ماں کے لیے بھی نہایت افادیت رکھتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں وہ بریسٹ کینسر اور بہت سے ہارمونل پرابلمز کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ 6 سے 8 ماہ تک بچے کو کسی دوسری غذا کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ماں کا دودھ ہی اس کی مکمل غذا ہوتا ہے۔ ہر دو سے تین گھنٹے بعد بچے کو دودھ پلانا ضروری ہے جس سے اسکا پیٹ بھرجائے اور اسے توانائی ملتی رہے۔

ٹپس:۔
(i دودھ پلانے سے پہلے اپنے ہاتھ اچھی طرح سے دھولیں اور خشک کرلیں۔
(ii بچے کو احتیاط سے گود میں لٹائیں کوشش کریں کے بچے کے دودھ پینے میں آسانی ہو۔
(iii فیڈر سے دودھ پلانے والی مائوں کو چاہیے کے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فیڈر کو چند سیکنڈ کے لیے بچے کے منہ سے الگ کریں کیونکہ مسلسل نپل کے منہ میں رہنے سے بچے کو سانس لینے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(iv ہر بار دودھ پلانے کے بعد بچے کو کندھے سے لگا کر ہلکے ہاتھوں سے اس کی کمر کو تھپکیں اس سے دودھ کو ہضم ہونے میں مدد ملے گی۔ بچے کو دودھ پلانے کے بعد سیدھا لٹا دینے کی وجہ سے عموماً بچے دودھ پھینک دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ دودھ ہضم نہ ہونا ہوتی ہے۔
(V فیڈر کو نیم گرم پانی میں ڈال کر ابالیں۔
(Vi پلاسٹک کے بجائے اچھی کوالٹی کے شیشے والے فیڈر استعمال کریں۔
(Vii فیڈر کی نپل ہر دو ہفتے بعد تبدیل کریں۔

-2 ناف کی دیکھ بھال
حمل کے دوران ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما کا واحدذریعہ امبریکل کوڈ (Ambilical Cord)بچے کی ناف سے جڑی ایک نالی ہوتی ہے جس کی بدولت بچہ ماں سے اپنی ضروریات کے مطابق خون حاصل کرتا ہے۔اسی کی بدولت شکم مادہ میں اسکی نشوونما ہوتی ہے پیدائش کے بعد اس نالی کو ناف سے کچھ انچوں کے فاصلے پر کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے اور دو سے اڑھائی ہفتے کے درمیان یہ خشک ہوکر خود ہی ناف سے الگ ہوجاتا ہے۔

لیکن اگر اس کا خیال نہ کیا جائے تو یہ دردِ سری کاسبب بن سکتاہے اور بچے کی جان کو اس سے شدید خطرناک قسم کے خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لیے چند ٹپس پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔

ٹپس:۔
(i ہر بار ڈائپر چینج کرنے کے بعد بچے کے پیٹ کو نیم گرم پانی میں ڈوبی روئی سے صاف کریں اور ناف کے اردگرد کسی بھی قسم کی گندگی کو فوراًصاف کریں۔
(ii ناف کی نالی کو ڈائپر کے اندر ڈالنے سے گریز کریں۔ ایسا کرنے سے وہ خشک ہونے کے بجائے انفکشن کا شکار ہوگی۔
(iii کسی بھی قسم کی بدبو، سرخی، سوجن یا پس کا خدشہ ہو یا ایسی علامات محسوس ہوں تو فوراً سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
(iv نہلانے کے دوران یہ گیلی ہوجائے تو کوئی خطرے کی بات نہیں مگر اس کو احتیاط سے فوراً اچھی طرح صاف کریں اور خشک کریں۔
(v خبردار ناف سے کسی بھی ٹکرانے والی چیز کو دور رکھیں۔

-3 مالش
آجکل بچوں کی مالش کرنے کو اولڈ فیشن اور دقیانوسی خیال سمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ بچے کے لیے اور اس کی ہڈیوں کی نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔مالش سے بچے کا جسم کھلتا ہے اور پٹھوں کو مضبوطی ملتی ہے۔

ٹپس:۔
(i بچے کو مساج کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
(ii بچے کو مساج ہلکے ہاتھوں سے کریں۔ کیونکہ بچے بڑوں کی طرح جسمانی ٔلحاظ سے مضبوط نہیں ہوتے۔
(iii مساج کے دوران اگر بچے روئیں تو انہیں لوری سنائیں۔ بچے کیونکہ آوازوں کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں اور سروں کو پسند کرتے ہیں اس سے ان کا دھیان بٹ جاتا ہے۔

-4 نہلانا
اپنے بچے کو پہلی مرتبہ نہلانا ایک مشکل مگر خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ نوزائیدہ بچے کے جسم پر ایک زردی مائل سفید تہہ جمی ہوتی ہے جو کہ دراصل ماں کے پیٹ میں بچے کو آنے والے پسینے سے بنی ہوتی ہے جوکہ بچے کو نقصان سے بچاتی ہے۔ یہ تہہ بچے کے جسم کو بیکٹریا سے بچاتی ہے اور اس کی حساس جلد کی حفاظت کرتی ہے۔ 5 سے 10 روز کے درمیان یہ خود بخود جسم سے اتر جاتی ہے، بچے کی جسمانی صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے اس ضمن میں اسے نہلانا ایک اہم کام ہے۔

ٹپس:۔
(i صاف کپڑا لے کر اسے نیم گرم پانی میں بھگو کر بچے کے جسم کو اچھی طرح صاف کرنا سب سے بہترین ہے۔ ایسا کرنا ہفتے میں تین بار ضروری ہے۔
(ii دوسرے ماہ میں بچے کو پانی سے اور صابن سے نہلانا بھی مفید ہے مگر خیال رہے کہ جن اشیاء کو ہم استعمال کرتے ہیں وہ ہماری عمر اور جلد کے حساب سے تیار کی جاتی ہیں۔
بچوں کی جلد پر دہی استعمال کرنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔
(iii بچے کی جلد کے حساب سے اس کے لیے شیمپو اور صابن کا انتخاب کریں۔
(iv بچے کی جلد پر صابن اور شیمپو کا کم سے کم استعمال کریں۔
(v نرم اور صاف تولیے سے خشک کرکے لوشن اور پائوڈر لگائیں۔ کپڑے پہنائیں۔
(vi بچے کو ہمیشہ الٹا کر کے نہلانا چاہئے اس سے پانی اسکے ناک میں یا کان میںجانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ہاتھوں پہ اٹھا کر سنک میں نہلانا زیادہ آسان ہے۔

-5 جلد
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بچوں کی جلد قدرتی طور پر انتہائی نرم و نازک ہوتی ہے۔ پنکھڑیوں جیسی ملائم جلد کی حساسیت کے پیش نظر ایسے پروڈکٹس کا استعمال کریں جو بے بی کی سکن کی حفاظت کرے۔ بچوں کی جلد پہ عموماً خشکی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ابھر آتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان سے بچائو کے لیے نوزائیدہ بچوں کی سکن پر لوشن کا استعمال کرنا چاہیے۔

ٹپس:۔
(i ہمیشہ مستند بے بی کیئر پروڈکٹس کا استعمال کریں۔
(ii بے بی سکن کیئر کے اچھے پروڈکس عموماً مہنگے ہوتے ہیں۔ مگر آپ ایک مرتبہ انہیں استعمال کے لیے خرید کر زیادہ عرصہ چلاسکتے ہیں۔
(iii دو سے چار ہفتے کے بچوں کے چہرے پر عموماً چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے ہیں جس کی وجہ ابھی تک ماں کے جسم سے منتقل ہوئے ہارمونز ہوتے ہیں۔ ان باریک دانوں نے حوالے سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ جلد ہی خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔
(iv بچے کی جلد کو نیم گرم پانی سے صاف کریں یہ اس ضمن میں موزوں ترین ہے۔

-6 سر
بچے کا سر پیدائش کے بعد انتہائی نازک حصہ ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت سر کی ہڈیاں نرم ہونے کی وجہ سے اپنی ہیت اور ساخت بدل لیتی ہیں۔ سر کے اوپر والے حصے کو سب سے زیادہ حساس قرار دیا گیا ہے کیونکہ بچے کے سر کا اوپر والا حصہ نہایت نرم ہوتا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا دبائو پہنچے تو دماغ پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ عموماً بچے کے دماغ کے عین اوپر کچھ حصہ نہایت نرم ہوتا ہے جسے تالو کہتے ہیں۔ اس کی حفاظت نہایت اہم ہے ورنہ بچہ زندگی بھر کے لیے ذہنی معذوری کا شکار ہوسکتا ہے۔

ٹپس:۔
(i بچے کے سر پر کچھ نشانات ابھر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر عموماً زخم یا میل کا گمان ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ زخم یا میل نہیں ہوتے انہیں کھرچنے کی کوشش ہرگز نہ کیجئے۔
(ii ایسے نشان کی وجہ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ یہ ماں کے ہارمونز یا کسی فنگل انفکشن کی وجہ سے بنتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرکے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں ختم ہونے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ سو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
(iii اگر آپ ان نشانات سے زیادہ پریشان ہیں تو ہلکے ہاتھوں سے ان پر لوشن لگاسکتے ہیں۔
(iv جب یہ نشانات جلد سے الگ ہوکر سوکھنے لگیں تو انہیں ہلکے ہاتھوں کھنگھی کی مدد سے اتار لیں۔

-7 ناخن
ننھے منے ہاتھوں کی دبلی پتلی انگلیوں پر مہین مہین ناخن ویسے تو بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر یہ بچے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ بچے کے ہاتھ کھلے ہونے کی صورت میں یہ اس کی آنکھوں، ناک، منہ یا کسی بھی حساس جگہ کو نقصان پہنچا سکتے ہے۔

ٹپس:۔
(i بچے کے ناخن کسی چھوٹی قینچی یا نیل کٹر سے کاٹ دیجئے۔ ناخنوں کے کنارے احتیاط سے برابر کیجئے۔
(ii ناخنوں میں میل نہ جمنے دیں۔
(iii بچے کے ہاتھ روزانہ وائپ یا نیم گرم پانی سے صاف کریں۔

-8 کان
بچے کے معصوم سے کانوں کو صفائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قدرتی طور پر ان میں جمع ہونے والا موم خود ہی صاف ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ایئربڈ (Ear Bud) استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی نوکیلی چیز کو کان کے قریب لانے سے گریز کریں اور زیادہ سے زیادہ بچے کے کان والے بیرونی حصے میں جمع شیدہ (ویکس) مادے کو نکالنے کے لیے ہلکے گرم پانی میں ڈوبی روئی یا کاٹن کے کپڑے کی مدد سے نکال لیں۔

-9 آنکھیں
نوزائیدہ بچوں کی آنکھیں اپنے اندر ایک عجب سی دلکشی سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سی آنکھوں کو دیکھنے پر یوں گمان ہوتا ہے جیسے کوئی معصوم فرشتہ ہو مگر ان کی حفاظت کرنا بے حد ضروری ہے۔

ٹپس:۔
(i بچے کو ہاتھ لگانے اور پیار کرنے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں۔
(iii صاف کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تازہ پانی میں روئی ڈبو کر اس طرح صاف کرلیا کے ناک کے پاس آنکھ کے کنارے سے باہر کی طرف صاف کریں۔
(iii آنکھوں میں سرخی یا فاصد مادہ نکلنے کا مطلب آنکھوں میں انفکشن ہے۔ اس کے حوالے سے ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کریں۔

-10 منہ
گلابی پنکھڑیوں والے منہ کے حوالے سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس میں بیکٹریا اپنی جگہ بناسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خطرناک قسم کے بیکٹریا اس تاک میں رہتے ہیں کے وہ حملہ کر سکیں، اسی لیے نوزائیدہ بچے کے منہ کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے کسی اور حصہ کی۔

ٹپس:۔
(i بچے کے مسوڑوں کو روزانہ صاف پانی میں ڈوبے کپڑے کی مدد سے دھوئیں۔
(ii دانت آنے کی صورت میں نرم برش سے انہیں صاف کریں۔
(iii ایک برس کی عمر سے پہلے بے بی Toothpaste بھی استعمال نہ کروائیں۔

-11 دھوپ
بچے کو وٹامن ڈی کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ سورج وٹامن ڈی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو دھوپ لگوانے سے یہ ضرورت بنا کوئی پیسہ خرچ کئے پوری کی جاسکتی ہے۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات دوران حمل ماں کے پیٹ میں بچہ یرقان کا شکار ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے۔ ایک صحت مند بچے کے لیے وٹامن ڈی کا حصول بے حد ضروری ہے۔

ٹپس:۔
(i روزانہ 10 سے 15 منٹ کے لیے بچے کو دھوپ لگوائیں۔
(ii دھوپ میں بچے کے جسم کی مالش کرنا بھی موزوں ہے۔
(iii زیادہ دیر بچے کو سورج کے عین سامنے رکھنا اس کی جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

-12 ڈائپر
پہلے بچے کی پیدائش کے بعد والدین حیران و پریشان رہ جاتے ہیں کہ آخر دن میں کتنی مرتبہ بچے کے ڈائپر تبدیل کرنا پڑیں گے۔ اس پریشانی سے بچنے اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے آپ ڈھیر سارے ڈائپر خرید کے رکھ سکتے ہیں۔ جہاں ڈائپر سے بہت سے معاملات میں بچت ہوتی ہے ونہی یہ بچے کے لیے نیپی ریشیز کا باعث بھی بن سکتے ہیں جس سے بچہ شدید تکلیف کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔

ٹپس:۔
(i اگر ریشیز پڑجائیں تو ان پر بے بی رئیش کریم لگائیں۔
(ii کوشش کریں کے بچے کی کو تازہ ہوا لگے اور کچھ ٹائم کے لیے ڈائپر کا استعمال بند کردیں۔
(iii لان یا کاٹن یا سوتی کپڑے کے لنگوٹ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

-13 ویکسینیشن
نوزائیدہ کو موسمی بیماریوں اور وائرس سے بچانے کے لیے ویکسینیشن ناگزیر ہے۔ اس دوران بچہ بخار میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ویکسین جسم میں جاکر مدافعت کے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے تاکہ اسے مضبوط بناکر بیماری سے بچاجاسکے۔ کیونکہ ویکسین بذات خود اسی بیماری کے جراثیم سے بنی ہوتی ہے تو وہ بعض اوقات بچے کو بخار میں مبتلا کردیتی ہے مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ کے بچے کو خناق، تپ دق، خسرہ، پولیو، ملیریا اور ایسے ہی کئی موذی امراض سے بچاتی ہے۔

ٹپس:۔
(i اگر بچے کو پہلے سے ذکام یا بخار ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے ویکسینیشن کے لئے آگے کی ڈیٹ لے لیں۔
(ii بچے کو الرجی ہو تو اسی صورتحال میں ویکسینیشن کروانا رسک کا باعث ہے۔
(iii ویکسینیشن کے بعد بخار، بھوک نالگنا اور سستی چھائی رہنا عام علامات ہیں۔
(iv اگر بخار 102 سے بڑھ جائے تو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

مندرجہ بالا تمام ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے بچے کی بہترین دیکھ بھال کرسکتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھیے کیونکہ آپ کے بچے کو آپ کی ضرورت ہے۔ چند باتوں کو ذہن نشین کرلیجئے۔ ہمیشہ بچے کے قریب جانے سے پہلے یہ تسلی کرلیں کہ آپ کے ہاتھ صاف ہیں یا نہیں خصوصاً بچے کو فیڈ کروانے سے پہلے ۔بچے کو زور زور سے کبھی مت ہلائیں۔

اپنے ناخن باقاعدگی سے کاٹیں آپ کے ننھے منے بچے کو اگر یہ بڑھے ہوئے ناخن لگ گئے تو اس کی کومل سی جلد زخمی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہیں تو ایسی غذائیں کھانے سے گریز کریں جو بادی ہوں جیسے چنے کی دال، اروی، کچی پیاز وغیرہ۔ کیونکہ آپ جو بھی کھائیں گی وہ دودھ کے ذریعے بچے کے پیٹ میں جائے گا اور نتیجتاً آپ کا بچہ پیٹ درد سے چلّائے گا۔ وٹامن سے بھرپور غذائیں استعمال کریں یہ بچے اور آپ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔ موسم کی مناسبت سے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کریں اور اپنے بچے کے ساتھ بہترین وقت گزاریں۔

The post نوزائیدہ کی دیکھ بھال، قدم قدم پر احتیاط کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی کا کُوڑا

$
0
0

صوبائی وزیراطلاعات ومحنت سعید غنی نے اطلاع دی ہے کہ کراچی میں پھیلے کچرے سے حکومت سندھ کا تعلق نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کی حکومت نے کبھی عذیربلوچ سے اس قدر واشگاف الفاظ میں اعلان لاتعلقی نہیں کیا جتنے واضح طور پر کراچی کے کچرے سے کیا ہے۔ نہ جانے یہ سُن کر بے چارے کچرے کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ شاید وہ رُندھی ہوئی آواز میں کہہ رہا ہو

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

دور تک پھیل گئی بات شناسائی کی

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے سندھ کی صوبائی حکومت نے کراچی کے کوڑے سے خود اس وقت تعلق جوڑا تھا جب شہری میں صفائی ستھرائی کی ذمے داری بلدیاتی اداروں سے لے کر حکومت سندھ کے ماتحت ادارے ’’ویسٹ منیجمنٹ بورڈ‘‘ کے سُپرد کردی گئی تھی۔ شہری اب تک حیران ہیں کہ صوبائی حکومت کو کیا پڑی تھی کہ اُس نے۔۔۔’’گندگی‘‘ ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے‘‘ کہتے ہوئے کچرے کی ذمے داری اپنے سر لے لی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت شاید سمجھ نہ پائی کہ ہاتھوں کی صفائی دکھانے اور کسی شہر کو صاف رکھنے میں بڑا فرق ہے۔ اب اس سلوک پر اگر کراچی کا کچرا یہ شکوہ کرے ’’تم نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔

کوئی لاتعلقی کا اظہار کرے یا تعلق نبھائے، ہم کراچی والوں کا تو گلیوں، چوراہوں، سڑک کنارے اور خالی پلاٹوں پر پڑے کچرے، گٹر کے بہتے پانی اور غلاظت سے بھرے اُبلتے نالوں سے ایسا ناتا جُڑ گیا ہے کہ ہم نے بعض شہریوں کے کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہوکر گاتے دیکھا:

پیار کا وعدہ ایسے نبھائیں

تو ’’اُٹّھے‘‘ تو میں مرجاؤں

میں ’’اُٹّھوں‘‘ تو تُو مرجائے

شہریوں کی کچرے سے اُلفت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت آتے جاتے اُسے دیکھتے ہیں، یوں پہلے کوڑے سے اپنائیت ہوئی پھر اس سے محبت ہوگئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کوڑے کے ڈھیر محلوں، علاقوں، عمارتوں اور مکانوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنے گھر کا پتا یوں سمجھاتے ہیں ’’بھیے! کچرے کا ڈھیر جہاں ختم ہوریا ہے ناں، بس وہیں تیرے بھائی کا گھر ہے۔‘‘ موبائل فون پر بھیجے گئے محبت ناموں میں ملاقات کے لیے لکھا ہوتا ہے،’’اچھا اب بات سُن، کل سات بجے کوڑے کی پہاڑی کی اُلی سائٹ پر آجائیو، جدھر گٹر کی گند پڑی ہے، اُدھر کوئی نہیں ہوتا۔ دیکھ تو گند مت کیجیو، آجائیو، فرشٹ ٹیم بلاریا ہوں تیرے کو، چراند کری تو کسی اُور کو پَٹا لوں گا۔‘‘

کوڑے کی یہ محبت، افادیت اور ضرورت ہی ہے جس کے باعث محض شہریوں کے خیال سے حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی دونوں متفق ہیں کہ جب شہریوں اور کچرے میں اتنی اپنائیت ہے تو ۔۔۔۔۔غیر ’’اسے‘‘ اٹھائے کیوں۔

شاید پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال صاحب شہریوں اور کچرے کے باہمی تعلق سے باخبر نہیں اسی لیے انھوں نے دعویٰ کردیا ’’نوے دن میں شہر صاف کرسکتا ہوں۔‘‘ ہمیں تو ان کے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ وہ نہ صرف شہر کا کچرا اُٹھا سکتے ہیں بل کہ اُس کی ’’ری سائکلنگ‘‘ کرکے کارآمد بھی بنا سکتے ہیں! حیرت ہے کہ میئرکراچی وسیم اختر نے بھی ان کے دعوے پر یقین کرکے انھیں شہر کی صفائی کے پروجیکٹ کا ڈائریکٹر مقرر کردیا۔ مصطفیٰ کمال نے صفائی کا ’’یہ پروجیکٹ بھی‘‘ قبول کرلیا۔

اس سے قبل وہ ایم کیوایم کے کارکنوں کی صفائی اور دُھلائی کا منصوبہ قبول کر اور کام یابی سے چلا چکے ہیں۔ بس فرق یہ تھا کہ اُس منصوبے کے لیے کچرا اُٹھا کر دوسرے لاتے تھے، اِس منصوبے کے لیے کچرا اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا سارا کمال مصطفیٰ کمال ہی کو دکھانا تھا۔ مگر وہ ’’آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے۔‘‘ہوا یوں کہ میئر پر اچانک یہ عقدہ کُھلا کہ مصطفیٰ کمال بدتمیز ہیں، سو انھیں گاربیج پروجیکٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ بات ٹھیک ہے، وسیم اختر جیسے باادب، باتمیز اور شائستہ انسان کے لیے کسی بدتمیز کے ساتھ کام کرنا کیسے ممکن ہے۔

وسیم اختر صاحب خود ہمیشہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ دائرہ پھیل کر بدتمیزی کی حدود پار کرجائے اور ’’گھر گھر مُجروں‘‘ کی خبر لائے۔ میئرکراچی کے اس فیصلے سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ انھیں مذکورہ عہدے کے لیے کسی نہایت تمیزدار شخص کی ضرورت ہے، جو لکھنوی تہذیب کا مُرقع ہو اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس کھڑا ہوکر کہے،’’اَجی انبارِ اشیائے متروکہ وتلف شدہ صاحب! آپ ایک ہی جگہ پڑے پڑے اُکتا گئے ہوں گے، اگر مزاج گرامی پر گِراں نہ گزرے اور اجازت ہو تو ہم پوری عزت وتعظیم کے ساتھ آپ کو یہاں سے اُٹھا کر کہیں اور منتقل کردیں؟‘‘

ہمیں یقین ہے کہ ایم کیوایم جیسی ’’نفیس‘‘ حضرات کی جماعت میں ایسا شخص آسانی سے دست یاب ہوجائے گا۔

رہے مصطفیٰ کمال، تو ان کا مسئلہ سیاست سے زیادہ فراغت ہے۔ انھوں نے پاک سرزمین پارٹی تو بنالی، لیکن ’’شادباد‘‘ نہ ہوسکے، کیوں کہ ’’قوت اخوت عوام‘‘ میسر نہ ہونے کے باعث منتخب ایوانوں سے باہر ہی رہے، چناں چہ خود کو ’’رہبر ترقی وکمال‘‘ ثابت کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا، حالاں کہ ’’مرکزِیقین‘‘ پر انھیں پورا یقین تھا مگر ’’پاک سرزمین کا نظام‘‘ ان کے لیے جگہ نہ بنا سکا۔ اب وہ کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں۔ وسیم اختر کی پیشکش کی صورت میں ایک اچھا موقع ہاتھ آیا تھا مگر میئرکراچی نے ہاتھ بڑھا کر پیچھے ہٹا لیا۔

مصطفیٰ کمال صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کچرے کو چھوڑیں، مکھیوں پر توجہ دیں جنھوں نے کراچی پر یلغار کردی ہے۔ کیا دور تھا جب کراچی میں ان لوگوں کو اقتدار حاصل تھا جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، پھر انھوں نے اپنے قائد کو ہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا، اور اب یہ زمانہ ہے کہ ہر ناک پہ مکھی بیٹھی ہے۔

اس صورت حال میں اگر مصطفیٰ کمال مکھی مار مہم چلائیں تو انھیں مصروفیت اور شہریوں کو مکھیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ یہاں ہم واضح کردیں کہ مکھی مارنا بہت آسان ہے، اس کے لیے نہ گولی کی ضرورت پڑتی ہے نہ بوری کی، اس کے قتل کے لیے ہاتھ، کتاب، اخبار سمیت کچھ بھی ہتھیار کا کام کرسکتا ہے۔ آخری بات یہ کہ مکھی مار مہم چلاتے ہوئے انھیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کراچی کے فارغ ہیں اگر ’’لندن کے فارغ‘‘ ہوتے تو ڈینگیں ہی مار سکتے تھے کہ وہاں مکھیاں میسر نہ آتیں۔

The post کراچی کا کُوڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live