Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

موروثی سیاست

$
0
0

بڑے سیاستدانوں کے بچے ہی کیوں حکومت کریں، کیا عام پاکستانی کا کوئی حق نہیں؟

آصف علی زرداری نے بارہا اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’’مستقبل میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری حکومت کریں گے۔‘‘ مگر اس کی کوئی بھی وجہ وہ آج تک نہیں بتا سکے کہ ان دونوں خاندانوں کے ان بچوں یا باقی بچوں میں کونسی ایسی خوبی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ان دونوں کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام پر حکومت کرنا ضروری سمجھتے ہیں، انھوں نے وہ کونسی ایسی صلاحیت دیکھی ہے، جس کی بِنا پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے ریاست کے استحکام ، ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ضامن بن سکتے ہیں۔

حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں، شریف خاندان اور زرداری خاندان کو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نوجوان نسل شعور کے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے، وہ ریاست اور عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ریاست کی مضبوطی، ترقی اور عوام کی خوشحالی کِس طرح ممکن ہے۔اب نوجوان نسل کو محض باتوں اور لچھے دار تقریروں سے گمراہ کرنا بہت مشکل ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی قومی جماعتیں ہیں، پورے ملک میں ان جماعتوں کا کچھ نہ کچھ اثرو نفوذ اب تک پایا جاتا ہے مگر وہ اس بات کا فائدہ ہی نہیں اٹھا پائیں، لوگ شخصیات کی سیاست سے بیزار ہو رہے ہیں، آنے والا وقت نظریات کی سیا ست کا ہے، جب عوام کوبتانا پڑے گا کہ خوشحالی اور ملکی ترقی کا کیا قابل عمل پروگرام ہے۔ اب اس بات کو خوبی نہیں سمجھا جاتا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یا نواز شریف کی اولاد ہونا ہی ریاستی معاملات چلانے کیلئے کافی ہے، دنیا سُکڑتی جا رہی ہے، ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے، آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام کا معیا ر زندگی دن بدن بلند ہو رہا ہے، لوگ پُرتعیش زندگی کے عادی ہو رہے ہیں۔ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی بے پناہ تشہیر کرکے انھیں فروخت کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں، عوام کی کمائی کا بڑا حصہ ان مصنوعات سے استفادہ کرنے میں صرف ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ذرا ئع آمدن بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، پوری دنیا میں شروع ہونے والی معاشی اور اقتصادی جنگ پھیل رہی ہے اس جنگ میں نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ عالمی قوتیں اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے مختلف ممالک میں کشیدگی بڑھا کر فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ مختلف نظاموں میں ٹکراؤ بڑھ رہا ہے، سوشلزم  اور سرمایہ دارانہ نظام کے مابین سرد جنگ میں مزید شِدت آچکی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جراثیم طاقتور ہو رہے ہیں۔

ہزاروں ایسے معاملات ہیں کہ جن پر قابو پانے کیلئے خاص وژن رکھنے والی لیڈر شپ کی ضرورت ہے، کسی بھی سابق حکمران کی اولاد ہونا کوئی خوبی ہے نہ ہی حکومت سنبھالنے کی کوئی وجہ، آصف علی زرداری اور نوازشریف اگر واقعی ملک کے خیر خواہ ہیں تو انھیں خود ہی  مسائل کا ادرک رکھنے والے، عالمی سیاست کو سمجھنے والے اور مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھنے والے  افراد کیلئے کُھلا راستہ چھوڑنا چاہیے تھا، اور ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی، ایک ایسی ٹیم کی تشکیل میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھاکہ جو ملک کو ترقی کی انتہا پر لے جاتی۔

بلاول بھٹو زرداری اور مریم صفدر اعوان کی حکومت کا بیان درحقیقت پاکستان کی بیورو کریسی اور دوسرے اداروں کو ایک پیام ہے کہ وہ ان خاندانوں سے اپنی وفاداری کمزور نہ کریں، آنے والا وقت بھی انہی خاندانوں کی ’’بادشاہت‘‘کا ہے اب انھیں ملکی وسائل لوٹنے، عوام پر مظالم ڈھانے اور من مانی کرنے کی پہلے سے بھی زیادہ کُھلی چھٹی ہوگی ۔ یہ پیام اپنے اپنے سیاسی گروہوں میں شامل تمام افراد کی حوصلہ افزائی کیلئے ہے۔ جمہوریت میں اس قسم کا پیام بذات خود ایک انتہائی نامناسب اور جمہوری رّویوں کی نفی ہے۔

حیران کن بات ہے کہ کرپشن اور ملکی معاملات میں من مانی کرنے پر باز پُرس یا پوچھ گُچھ کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے مگر ایسے دو افراد کی جا نشینی کا اعلان کرتے ہوئے جمہوری نظام کیلئے خطرہ قرار نہیں دیا جاتا کہ جنہیں نہ تو انٹر نیشنل سیاست کا تجربہ ہے اور نہ ہی گھاگ قسم کے عالمی سیاستدانوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ محلوں میں پیدا ہونے والے ان افراد کو عوامی اور ریاستی مسائل کا ادرک بھی نہیں ہے۔ ان کی کُل سیاست کا محور اپنے خاندان کی حکومت کیلئے راہ ہموار کرنا ہے ۔

عالمی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، کمزور مُلکوں کی تمام تر دولت ہتھیانے کی منصوبہ بندی بڑی آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ رہی ہے، چونکہ پاکستان اپنے عسکری و خفیہ اداروں کی وجہ سے ایک مضبوط ملک سمجھا جاتا ہے، اس لئے اِسے غیر مستحکم بنانے کیلئے ایسی سازشیں کی گئیں ہیں کہ عام لوگ بھوک، ننگ، ظلم واستحصال، ناانصافی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوں، وہ تمام ریاستی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں، طبقاتی تفریق نے عوام کو جوالا مُکھی بنادیا ہے۔

ایک استحصالی اور بدمست طبقہ جس طرح عوام کی لوٹی ہوئی کمائی پر عیش کر رہاہے اور عوام جس طرح بھوک ننگ، بیماریوں اور جہالت کا شکار ہے اُس نے عوام کے اند ر انتقام بے حِسی اور خود غرضی کے جذبات پیدا کردیئے ہیں۔ اِن مسائل سے نبٹنے کیلئے خاص صلاحیت کی ضرورت ہے، اب خود غرضی سیاستدانوں، سیاسی گروہوں، انڈرورلڈ، مافیاز اور بلیک میلروں کی ضرورت نہیں’’راہنماؤں ‘‘ کی ضرورت ہے۔ ایسے راہنما جو اس مظلوم ہجوم کو ایک قوم بنا سکیں جو ملک کی افرادی قوت کوموثر قوت بنا سکیں۔ ہر فرد کی ان خاص صلاحیتوں سے ریاست کیلئے فائدہ اٹھا سکیں، جو قدرت نے ہر انسان کو خصوصی طور پر الگ الگ ودیعت کی ہوئی ہیں، ہر فرد کو خاص صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔

مریم نواز کی فی الحال سیاست کا کل محور اپنے خاندان پر بننے و الے کیس ختم کروانا ہیں اور اپنے خاندان کی لوٹی ہوئی دولت کا تحفظ ہے، مریم نواز کے سیاست میں آنے کی اصل وجہ ان کے بھائیوں کا سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہونا ہے، اگر ’’ولی عہد اوّل ودوم‘‘  میں اُمور سلطنت چلانے کی معمولی سی صلاحیت بھی ہوتی تو شائد مریم نواز بھی نواز شریف کی دوسری صاحبزادی اور اپنی چھوٹی بہن اسماء کی طرح گمنام زندگی گزار رہی ہوتیں، اللہ تعالیٰ نے مریم نواز کو نانی بننے کا شرف بخشا ہے۔

شائد اس وقت انھیں اپنی نواسی کو کھلانا اور سُلانا زیادہ فرحت انگیر لگتا۔ مریم نواز حادثاتی طور پر سیاست میں آئیں، اب اُن کی سیاست اور جد وجہد کا مقصد اداروں اور عوام کے مابین فاصلے قائم کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کا نام کیش کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کے حواری اور درباری وہ افراد ہیں کہ جن کا ’’روزی رزق‘‘ ہی ان کے وسیلے سے چل رہا ہے، ان کے ترجمان اپنے آقاؤں کی حمایت میں وہ دلیلیں دیتے ہیں کہ جنہیں سُن کر ان کی ’’عقل کی داد‘‘ دینے پر دل چاہتا ہے۔

 عوام، ریاستی استحکام ، ملکی ترقی اور خوشحالی کی خواہشمند ہے

اب عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون جیل میں ہے ؟ کِس کے خلاف کرپشن ، منشیات یا منی لانڈرنگ کے کونسے کیس ہیں۔ شوشل میڈیا نے عوام کو با شعور کردیا ہے۔نوجوان نسل اپنے فرسودہ تعلیمی نظام کے ساتھ جدید نظریات اور تصورات سے ہم آہنگ ہو رہی ہے، اب گمراہ کرنا اِتنا بھی آسان نہیں رہا۔ لوگوں کو اپنے حقیقی مسائل کا ادراک ہو رہا ہے، انھیں مسائل کے حل کا بھی علِم ہے۔ مسائل پر قابو پانے کے راستوں کا بھی علِم ہے، پھر بھی اپنی چرب زبانی سے ایک اَن پڑھ طبقے کو گمراہ یا اکٹھا کرکے اپنی لیڈرشپ کا کمال سمجھا جا رہا ہے۔

اس وقت عمران خان کی حکومت کی اصل وجہ یہی نوجوان اور باشعور طبقہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ  ’’گروہوں کے سیاسی نظام ‘‘ کی بجائے جمہوری روّیوں کو اپنانے سے ہی ملکی ترقی عوام کی خوشحالی ممکن ہوگی، اس وقت قوم کو’’ حقیقی راہنمائی‘‘ کی ضرورت ہے ، تحریک انصاف کی حکومت نے اگرچہ سیاسی گروہوں کو خاصی زد پہنچائی ہے مگر ابھی نظریاتی سیاست کے فروغ اور کامیابی کیلئے بہت سارے اقدامات کی ضرورت ہے۔

 سیاسی پارٹیوں میں فکر و سوچ کا سفر جاری رہنا چاہیے

اب خاندانوں کی حکومت اور تسلط کی بجائے عوامی حکومت یعنی حقیقی جمہوریت کا سفر تیزی سے ہونا چاہیے، یہ تصور پختہ ہونا چاہیے کہ ’’ راہنمائی ‘‘ کا سفر جاری رہے،  اور عمران خان اس معاملے میں اپناخصوصی کردار سر انجام دیں کہ ان سے بہتر’’ راہنما‘‘  آگے آئیں اور وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام د ے سکیں، ترقی کا یہ سفر اب جاری رہنا چاہیے، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سے بھی قابل اور مخلص افراد کو آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے ، ان افراد کے تجربے اور صلاحیتوں سے بھی ملک کا فائدہ پہنچے گا۔

مَیں ذاتی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو ملکی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں، انٹر نیشنل سیاست کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں، اپنی عوام کی نفسیات سے بھی واقف ہیں، ملکی اور افرادی پسماندگی کے اسباب بھی جانتے ہیں، وہ اس امّر سے بھی واقف ہیں کہ ان کا ووٹ بنک ان پڑھ، جاہل اور سیدھے سادے افراد تک محدود ہوگیا ہے، وہ جدید نظریات اپنا کر آگے بڑ ھنے کے حامی ہیں وہ اس بات کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں خاص طور پر سیاسی جماعتوں میں فکروسوچ کی ترقی کیلئے راہیں ہموار ہونی چاہئیں، ان کی لیڈر شپ ان کے خیالات، نظریات اور روشن خیالی سے خوف زدہ ہے، اسی خوف کی وجہ سے وہ بے ضمیر قسم کے وفاداروں اور موقع پرستوں کو اپنے آس پاس رکھتے ہیں۔

یہ رجحان اب ختم ہونا چاہیے ان پارٹی سربراہوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ خوشامدی قسم کے درباری ان کی اپنی ساکھ ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں میں ان افراد کو آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے کہ جو واقعتاً ’’ راہنمائی ‘‘  کا وصف رکھتے ہیں۔ نجی نشستوں میں پاکستان کی تمام قومی جماعتوں کے مخلص اور اہل سیاستدانوں کے خیالات سُننے کا موقع مِلتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ان جماعتوں میں کس قدر قابل اور مخلص افراد موجود ہیں مگر لالچی اور مفاد پرست درباریوں کی وجہ سے اُنھیں کونے سے لگا دیا جاتا ہے، لالچی درباری پارٹی سر براہوں کو تنگ اور بند گلی کی جانب دھکیل دیتے ہیں، صرف اپنے ذاتی مفادات اور وزارتوں کی وجہ سے۔

بلاول بھٹو زرداری اگر اپنے گرد اکٹھے ہونے والے مفاد پرستوں کے ’’غبار‘‘ سے باہر نِکل کر مخلص افرادکو اہمیت دیں تو شائد وہ اپنی سیاست کی ’’ خاص سمت ‘‘ کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں، وہ آصف علی زرداری، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن اور ایسے تمام سیاسی افراد کا راستہ چھوڑ کر یا ان کی وکالت کرنے کی بجائے محض ذوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی اور انداز سیاست کو اپنا لیں تو شائد وہ ایک قومی جماعت اور اس کی ساکھ قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، پیپلزپارٹی میں ایسے سیاسی افراد اور مخلص کارکنوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے کہ جو ملک وقوم کا دَرد اپنے سینے میں رکھتے ہیں جو واقعی ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی تمنا رکھتے ہیں۔

ایم کیو ایم میں بھی بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو عوامی احساسات کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اُس وقت بھی اپنی تنظیم کے ’’انڈر ورلڈ‘‘ کا حصہ نہیں بنے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایم کیو ایم کی شہرت ’’ انڈر ورلڈ‘‘  ہونے کی وجہ سے تھی۔ دینی جماعتوں میں بھی کئی ایسے افراد موجود ہیں کہ جو ’’ جدید نظریاتی سیاست اور جدید ریاستی استحکام ‘‘ کا ادراک رکھتے ہیں، انھیں آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے۔

اس وقت عمران خان پر یہ سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکر وسوچ کے بند دریچوں کو ہمیشہ کیلئے کھولنے کیلئے اپنا خصوصی کردار سر انجام دیں جس وقت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تھی تو شوکت خانم ہسپتال کے دفتر میں انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ’’ میں نوجوان نسل کی مخلص اور ایماندارقیادت آگے بڑھنے کی راہ ہموار کروں گا‘‘۔ اس میٹنگ میں راقم الحروف کے چھوٹے بھائی مظہر سجاد شیخ ایڈووکیٹ اور شوکت خانم کے میڈیا ایڈوائزر عنصر جاوید سمیت4  افراد موجود تھے۔ انھوں نے یہ بات بھی کی تھی کہ پُرانے لوگوں کو نوجوان نسل کیلئے جگہ خالی کرتے رہنا چاہیے۔ مگر یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ ہمارے تمام حکمران اور سیاستدان ملک کو ذاتی ملکیت کیوں سمجھتے ہیں؟ ذاتی جاگیر کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ حکمرانی کا حق صرف اپنے لئے ہی کیوں سمجھتے ہیں؟ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں؟۔

 ملک ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا

کسی کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا کہ میاں نواز شریف ملک کو ’’اتفاق فاؤنڈری ‘‘ یا اپنی خریدی ہوئی جائیداد کیوں سمجھ رہے ہیں، ان کی تقر یروں،اندازِ گفتگواور اندازِبیان سے بالکل ایسا رہا ہے کہ جیسے کوئی اپنی ذاتی ملکیت پرکسی کے ناجائز قبضے یا قبضے کی سازش کی وجہ سے پریشان ہو، ان کا چیخنا چلانا پورے ملک کی سمجھ سے بالاتر ہے، میاں نواز شریف تو ’’ خلائی مخلوق‘‘ کی پسندیدہ ’’چوائس‘‘ رہے ہیں،اس خلائی مخلوق کو اپنا تابع بنانے کیلئے انھوں نے اور ان کے بزرگوں نے بڑے چِلے کاٹے تھے، ہرقسم کی بّلی اور بھینٹ چڑھائی تھی۔

میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے سیاست میں آنے کی مجبوری کی اصل وجہ یہ بنی کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایسے تمام صنعتی اداروں اور تعلیمی اداروں کو قومیا لیا کہ جن کے متعلق مشہور تھا کہ یہ اپنے مزدوروں اور طلباء کا استحصال کر رہے ہیں، اتفاق فونڈری بھی اسی زَد میں آگئی اس وقت ان کے بزرگوں کو احساس ہوا کہ اتفاق فاونڈری قومیائے جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین پر تو گرفت موجود ہے مگر حکومتی سطح پر گرفت نہیں ہے، چنانچہ وہ اس تاک میں رہے کہ کب بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو، جب 1977 ء کی تحریک چلی تو کہا جاتا ہے کہ اُن بہت سارے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں میں اتفاق فانڈری کا نام سرفہرست تھا، آج بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کیلئے متعلقہ جماعتوں کو سرمایہ مہیا کر رہے تھے۔

بھٹو کے خلاف تحریک کامیاب ہوئی کیونکہ الیکشن دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک ’’ نظام مصطفیٰ ‘‘ کی تحریک میں بدل چکی تھی ۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دَور شروع ہوگیا، سیاسی ایجنڈے اور ضرورت کے تحت میاں نواز شریف نے تحریک استقلال کا رکُنیت فارم بھرا، پھر جب بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو انھوں نے جماعت اسلامی سے گوالمنڈی کے حلقے سے کونسلر کی ٹکٹ مانگی مگر جماعت اسلامی نے اپنے پُرانے ساتھی ایوب میر کو کونسلر کی ٹکٹ دیدی ۔

ضیاء الحق دَور کے یہ وہ بلدیاتی الیکشن تھے کہ جس کے متعلق اُنھوں نے نجی محفلوں میں کہا تھا کہ ’’ وہ مارشل لاء کی چھتری تلے جمہوریت کی پنیری لگا رہے ہیں‘‘۔آنے والے وقتوں نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا، اس وقت کے تقریباً تمام سیاستدان اُسی بلدیاتی انتخابات کی پیداوار ہیں ۔ ضیاء الحق نے ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے گراس روٹ سے سیاستدانوں کیلئے راہ ہموار کی، بلدیاتی انتخابات کے بعد مارشل لاء حکومت نے اپنی نگرانی میں صوبوں اور مرکز میں سیاسی حکومتیں بھی قائم کیں۔

یہاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بزرگوں کی دعائیں رنگ لائیں اور انھیں وزیر خزانہ پنجاب مقرر کردیا گیا ، یوں اس خاندان کا سیاسی سفر شروع ہوگیا۔ میاں شہباز شریف بھی میدان میں اُتر ے اور اپنا حلقہ انتخاب بنانے کیلئے لوگوں کے کام شروع کردئیے۔ تنخواہیں سرکاری خزانے سے، ووٹ بنک ان کا ذاتی، ہزاروں نالائقوں کو سرکاری نوکریوں سے نواز دیا گیا، بغیر کسی ٹیسٹ یا انٹرویو کے، جس کا خمیازہ قوم آج تک بھُگت رہی ہے مگر آج تک انصاف کرنے والے کسی ادارے نے اُن سے اس بات کا جواب یا جواز طلب نہیں کیا۔ انھوں نے ہر طریقے سے ووٹروں اور سپورٹروں کو نوازا، یہی ووٹر ز اور سپورٹرز آج بھی ان کے لشکر میں موجود ہیں۔ اپنی صنعتی ایمپائرکو بچانا اور آُسے ترقی دینا ہی ان کا سیاسی ’’ نظریہ‘‘ تھا، آج بھی یہی ہے، انکے سپورٹرز کا سیاسی نظریہ اپنے مفادات کی تکمیل ہے، ووٹر کو ورغلانے میں یہ سب کامیاب رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو انھوں نے تمام اہم ریاستی و حکومتی عہدوں پر اپنے وفاداروں کو تعینات کرکے اپنا مستقبل مزید سو سال کیلئے محفوظ کر لیا تھا۔ مگر ایک تدبیر اللہ تعالیٰ کی بھی ہوتی ہے جو کہ حتمی ہوتی ہے، پانامہ لیکس بھی اللہ کا عذاب تھیں، ہرچیز کھُل کر سامنے آگئی، مگر اُن کا احتجاجی بیانیہ جس کا لب لباب یہ ہے اس ملک پر حکومت کرنے کا حق صرف ان کا اور ان کے خاندان کا ہے، ناقابل ِفہم ہے۔ اگر اُن پر الزامات لگائے جا رہے تھے تو انھیں ان الزامات کا جواب بھی دینا چاہیے تھا، اپنے خاندان کا دفاع بھی کرناچاہیے تھا مگر ان کی پوری کوشش تھی کہ ادارے ان کی مرضی کے مطابق چلیں یا پھر وہ عوام کو اپنے ہی قومی اداروں سے متنفر کردیں۔ اگر وہ اس ملک  اور ریاست کو اپنا وطن سمجھتے تو کبھی اپنے ووٹرز اور قومی اداروں کے مابین غلط فہمی نہ پیدا ہونے دیتے، قومی و مِلی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کوشش نہ کرتے، عوام کو کبھی یہ احساس نہ دلواتے کہ اگر ان کی حکومت ہمیشہ نہیں رہتی تو وہ سارا نظام اُلٹ پلٹ کردیں گے، کیا وہ جمہوریت صرف اپنی اور اپنے خاندان کی حکومت کو ہی سمجھتے  ہیں؟ کیا ایسے روّیے ہی جمہوری ہوتے ہیں؟ جمہوریت کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ عوام کو خود فیصلہ کر نے دیا جائے۔

ماضی کی سیاست کا دَور دفن ہو چکا ہے، شخصیات اور مفادات کی سیاست کا دَور بھی ختم ہوچکا ہے کہ ملک کے مسائل اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ ’’بھٹو زندہ ہے‘‘ اور’’ میاں ہمارا شیر ہے‘‘  کے نعروں سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت سے شروع ہونے والے معاملات نے ملک کو مسائل کی دلدل میں دھنسادیا ہے، اب اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ باشعور سیاست دان، پڑھے لِکھے اور مخلص نوجوان،قابل اور دیانتدار بیوروکریسی مل کر معاملات کا حل نِکالے، مگر قوم کو خود بھی با شعور ہونا پڑے گا۔

اب قوم کو حقیقی راہنماؤں کی ضرورت ہے

قائد اعظم کی وفات کے بعد ابھی تک قوم کو ایسا حقیقی راہنما نہیں مِل سکا جو قوم کی  راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، ’’راہنما‘‘ کا مطلب اپنی مخصوص سمِت کا تعین، منزل کے حصول کیلئے ایک قابل، مخلص اور دیانتدار ٹیم کی تشکیل، قوم کی تربیت اور مقاصد کے حصول کیلئے ہر خوف، ہر لالچ اور ہر مفاد سے بالا تر ہو کر جدوجہد کرنا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قوم کی تربیت کا نہ ہونا ہے، چنانچہ اجتماعی قومی زندگی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ انفرادی روّیے ہر چیز پر غالب آچکے ہیں۔ افراد کو اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں، ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، اخلاقی اقدار دم توڑ چکی ہیں، نوجوان نسل کا بہت بڑا حصہ دینی اعتقاد کو ’’ فرسودہ روایات ‘‘ سمجھتا ہے جبکہ دین پر عمل کرنا ہی ایک مسلمان کی زندگی کا حاصل اور مقصد ہوتا ہے۔ مال و زر کو عزت کی وجہ سمجھاجا تا ہے، آج ہمارے ملک میں قابل پڑھے لِکھے اور باصلاحیت افراد کی قدر نہیں ہے۔

اُس اَن پڑھ بندے کی قدر ہے کہ جو منشیات فروشی ، زمینوں پو قبضے اور غنڈہ گردی کی وجہ سے ’’ لینڈ کروزر‘‘ خرید لیتا ہے۔ دو چار گن بردار رکھ لیتا ہے، اچنبے کی بات یہ ہے کہ ایسے افراد کو اسمبلیوں کے ٹکٹ بھی مِل جاتے ہیں ۔ آج تمام ضمیر فروش ’’ با عزت‘‘ بنے ہوئے ہیں اور با ضمیر افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، آج ایسے راہنماؤں کی ضرورت ہے کہ جو اخلاقی اقدار کی اہمیت سے واقف ہوں، جو پاکستانی قوم میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا کر سکیں۔

 سیاسی ٹیم میں بھی نئے خون کی ضرورت ہے

سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں جن افراد کو اہم سیٹوں پر براجمان ہونے کا موقع مِل جاتا ہے وہ سازشوں کے ذریعے کسی بھی اہل اور ایماندار بندے کو اوپر آنے کا موقع نہیں دیتے، اب روائتی سیاستدانوں کو آہستہ آہستہ ’’ ریٹائرڈ ‘‘ کرنا چاہیے اور نئے ’’ ٹیلنٹ ‘‘ کو ’’سیاسی ٹیم‘‘ میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع مِلنا چاہیے۔ الیکشن کے اگلے ’’ نیشنل کپ‘‘ یعنی انتخابات کیلئے ابھی سے نئے خون کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

 جاگیردار، گدی نشین اور سرداریم این ایز اور ایم پی ایز

پاکستان کے سیاسی نظام کی ناہمواری کی ایک بہت بڑی وجہ یہاں کا جاگیردارانہ نظام بھی ہے۔ اگر چہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی حصول پاکستان کیلئے جاگیرداروں ،گدی نشینوں، سرداروں اور زمینداروں کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی اور اس حمایت کے عوض وقتی طور پر ’’لینڈ ریفارمز ‘‘ نہیں کی گئی تھیں مگر یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اگر قدرت قائد اعظم ؒ کو کچھ عرصہ مزید مہلت دیتی تو قائد اعظم ؒ جا گیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیتے۔

اب بھی زرعی اصلاحات ( لنیڈریفارمز) کا ہونا بہت ضروری ہے، قبائلی نظام کے خاتمے کے بعد جاگیردارانہ نظام ختم ہوگا تو اُن علاقوں کے لوگوں کی قسمت بدلے گی۔ اور وہاں کی عوام کے مسائل کا حقیقی ادراک رکھنے والے نمائندے منتخب ہوں گے، ماضی کی حکومتوں کو اس نظام کا بطور خاص فائدہ پہنچتا رہا ہے کہ اگر وہ شہری علاقوں سے خاطر خواہ نشستیں حاصل نہیں بھی کر پاتے تھے تو وہ ان منتخب جاگیرداروں، سرداروں، زمینداروں اور گدی نشینوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کی لاتعداد خامیاں سامنے آچکی ہیں، خاص طور پر اُن علاقوںکی عوام پسماندگی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے، اب اس نظام کا خاتمہ بھی نا گزیر ہو چکا ہے۔ روائتی سیاست اور روائتی سیاستدانوں سے چھٹکارا وقت کی اہم آواز ہے۔ ان علاقوں کے نوجوان بھی ’’باصلاحیت اور محنتی ‘‘ہیں اب انھیں موقع ملنا چاہیے ۔

 جہنم کا میڈیا سیل
ایک نہایت ہی شریف، دیانتد دار اور بے باک سیاستدان سے ایک نجی نشست میں میَں نے یہ سوال کیا کہ’’ کسی قسم کے مفادات کا لالچ نہ ہونے کے باوجود اتنی زیادہ جماعتیں بدلنے کی وجہ کیا ہے؟ ’’ کہنے لگے کہ ’’ میرا شمار بھی اس ملک کے اُن سیاسی کار کنوں میں ہوتا ہے کہ اس ملک کی خوشحالی، عوام کی آسودگی اور ریاستی استحکام کے خواہشمند ہیں، اب ہر پارٹی کا میڈیا سیل اپنی پارٹی کی اتنی خوشنما تصویر پیش کرتا ہے کہ اچھا بھلا انسان دھوکا کھا جاتا ہے پھر خود ہی ’’ لطیفہ سنانے لگے’’ ایک شخص اپنے اعلیٰ اعمال کی وجہ سے جنت کے اعلیٰ درجے میں پہنچ گیا، ایک دن وہ جنت سے باہر کی دنیا کا نظارہ کر رہا تھا کہ اُس نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ ڈھول باجے بجائے جا رہے ہیں، خوبصورت خواتین پُرکشش لباس میں گھوم پھر رہی ہیں۔

ہر طرف لوگ خوش اور ناچتے گاتے نظرآرہے ہیں، عمدہ قسم کے طرح طرح کے کھانوں کے سٹال لگے ہوئے ہیں۔ جنت کے داروغہ سے پوچھا ’’ یہ کونسی جگہ ہے؟ فرشتے نے بتایا ’’ یہ جہنم ہے‘‘ کہا ’’ مجھے بھی اُدھر ہی بھیج دو، فرشتہ تعجب سے پوچھنے لگے ’’جنت سے جہنم میں جاؤگے؟ ‘‘ کہا ’’ ہاں ‘‘ فرشتے نے کافی منع کیا مگر وہ جنتی اپنی بات پر اصرار کرتا رہا، آخرکار فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لیکر اُس جنتی کو جہنم میں بھیج دیا۔ جب اُسے جہنم کی آگ اور عذاب میں ڈالا گیا تو وہ جہنم کے فرشتے سے پوچھنے لگا کہ ’’ وہ جگہ کہاں ہے جو جنت سے نظر آتی ہے؟ ’’ جہنم کے فرشتے نے لاپروائی سے جواب دیا ’’ وہ جہنم کا میڈیا سیل ہے ‘‘ ۔کہنے لگے، پارٹیوں کے اس میڈیا سیل کی وجہ سے مختلف پارٹیوں میں پہنچ جاتا ہوں ۔ پارٹی کے اندر جاکر پتہ چلتا ہے کہ اصل صورتحال کیا ہے، اب تو ہر جگہ صرف دھوکا اور فریب ہی ہے۔

جائیدادوں، نمبروں، میچوں اور الیکشنوں میں سرمایہ کاری
کافی عرصہ قبل ایک ایسے سرمایہ کار سے ملاقات ہوئی کہ جن کی ’’ امارت‘‘ اُن کے انداز گفتگو سے جھلکتی تھی۔ اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ؟ ’’ فخر سے کہنے لگے۔ جائیدادوں، نمبروں، میچوںاور الیکشنوں میں سرمایہ کاری کرتا ہوں۔‘‘

جب انھوں نے دیکھا کہ میرے پلے کچھ نہیں پڑا تو خود ہی کہنے لگے ۔ انعامی بانڈ کے نمبر خرید تا ہوں ، بعض اوقات کوئی نمبر’’لگ ‘‘ بھی جاتا ہے۔ میچوں پر جّوا لگاتا ہوں اور الیکشنوں میں مضبوط انتخابی اُمیدواروں پر رقم لگاتا ہوں، اگر ہمارا اُمیدوار جیت جائے تو بعد میں اُس سے کام نکلواتا رہتا ہوں، ایک کے دس کماتا ہوں۔ لوگوں سے رقم لیکر اُن کے بھی کام کرواتا ہوں۔سیمنٹ ، نمک اور دوسری اشیاء کی ایجنسیاں اور مختلف پرمٹ لوگوں کو دلواتا ہوں اس کے عوض ان سے رقم وصول کرتا ہوں، تبادلے کرواتا ہوں، ضرورتمندوں کو سرکاری نوکری دلواتا ہوں، ہر چیز کے دام لیتا ہوں ، یہی میرا کاروبار ہے، یہی میری سرمایہ کاری ہے۔ بتانے لگے کہ کئی پلاٹ بھی الاٹ کروا چکا ہوں، اب سیاست ہی سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ ان کی یہ باتیں سُن کر یہی سوچتا رہا کہ کیا الیکشن میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے ملک کے بلا شرکت غیرے مالک بن جاتے ہیں، خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں آپ کے حواری بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ پہلے یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے مگر شائد اب وقت اور انتخابی کلچر تبدیل ہو چکا ہے، شائد اب سیاست پہلے جیسا نفع بخش کاروبار نہ رہے۔

بیٹے کی محبت
جیل میں مختلف قیدی اپنی قید کی وجہ اور جرائم کی تفصیل بتا رہے تھے ، ایک ’’ مہذب ‘‘ سا شخص خاموش بیٹھا تھا۔ ایک قیدی نے اس کا جّرم پوچھا تو کہنے لگا کہ’’ بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ جیل پہنچا ہے۔‘‘ دوسرے قیدیوں کو تعجب میں دیکھ کر کہنے لگا کہ اصل میں وہ جعلی نوٹ چھاپنے کا دھندا کرتا تھا۔ اس کے جعلی نوٹ بھی بالکل اصل کی مانند ہوتے تھے، ایک دفعہ بیٹے کی محبت میں مجبور ہوکر اُس نے قائد اعظم ؒ کی تصویر کی بجائے اپنے بیٹے کی تصویر چھاپ دی، بس اُسی وجہ سے پکڑا گیا۔

ہمارے کافی سارے سیاستدانوں نے اپنی اولاد کی محبت میں پورا ملک لوٹ کر پیسہ اپنے بچوں کے حوالے کردیا، بچے تو بیرون اور اندرون ِ ملک کھربوں کی جائیدادوں کے بل بوتے عیش کر رہے ہیں مگر وہ جیلوں میں قید ہیں یا جیلوں میں پہنچنے والے ہیں، واقعی والاد کی محبت بہت بُری چیز ہے ۔ اولاد کو بھی اپنے والدین سے محبت کا ثبوت دینا چاہیے اور جس دولت کا وہ کوئی ثبوت نہیں د ے پا رہے ہوں، ریاست کو واپس کردیں اور والدین کو جیلوں سے نکلوائیں۔ اولاد کی عجیب بے حِسی اور خود غرضی ہے، ان اولادوں کے مطلبی درباری انھیں کبھی بھی والدین کا احساس نہیں کرنے دیں گے بلکہ مزید اُکسا تے رہیں گے۔

The post موروثی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.


عدم برداشت ، معاشرتی ہم آہنگی کی دشمن

$
0
0

رویے انسانی زندگی کا خاصا ہیں۔ ہمارا لہجہ، انداز بیان، آداب ملاقات اور تعلقات کو نبھانے کا اسلوب رویوں کی ہی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔

مشہور مقولہ ہے کہ غصہ کے وقت صبر کا ایک گھونٹ انسان کو ہزاروں پچھتاووں سے بچا لیتا ہے۔ انسان کی زندگی جذبات و احساسات سے عبارت ہے۔ انسانی رویے جذبات و احساسات کی غمازی کرتے ہیں، کبھی انسان پہ خوشی کے جذبات کا غلبہ ہو تو وہ ہنس کر ان کا اظہار کرتا ہے۔

دل غم و یاس میں گرفتہ ہو تو آہیں اور سسکیاں دم بھرتی دکھائی دیتی ہیں، کبھی دل شوخی و شرارت پر اکسانے لگے تو طفلانہ فعل سے تسکین حاصل ہوتی ہے مگر ایک عجیب گھمبیر احساس غصے اور عدم برداشت کی صورت پیدا ہوتا ہے اور اس کی تباہ کاریاں انسان کی زندگی کا چین و قرار لوٹ لیتی ہیں۔ یہ احساس اپنے ساتھ طوفانی بگولے لے کر آتا ہے اور برسوں سے قائم رشتوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔

رشتوں اور تعلق داریوں کی جن فصلوں کی آبیاری محبت و اخلاص سے کی جاتی ہے، عدم برداشت کے سیلاب سے پل بھر میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ یہ رویہ اتنا بدصورت اور بھیانک ہے کہ ہر رشتے اور تعلق کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ایک وقتی کیفیت ہوتی ہے اور جب انسان اس کے چنگل سے نکلتا ہے تو وہ تہی داماں رہ جاتا ہے۔ پھر خود کو کوسنے اور پچھتانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ پاتا۔ انسان کو اپنی اس نادانی کاادراک اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے ہی ہاتھوں سب ملیامیٹ کرچکا ہوتا ہے۔

عدم برداشت انسانیت کے خوشنما چہرے پہ بدنما دھبہ ہے۔ ایسا دھبہ جس کو مٹانے کا خیال مشکل سے ہی دل میں اترتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ شدت پسندانہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھر ہو یا بازار، سکول ہو یا پارک، آفس ہو یا پکنک سپارٹ عدم برداشت کے عملی مظاہرے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مرض معاشرے کی رگ و پے میں اترچکا ہے۔ ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی رویوں تک ہر چیز اس کی لپیٹ میں ہے۔ یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ وباء ہر سو پھوٹ پڑی ہے اور علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو اکثریت اس سے نابلد ہے۔ عدم برداشت کے مظاہرے کئی صورتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔

سماج کو نگلتی ہوئی عدم برداشت دھیرے دھیرے ہمارے سماج کو کھوکھلا کررہی ہے۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر رویے خطرناک حد تک بدصورتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر سو بھیانک و کریہہ صورتوں والے رویوں کے دیس میں آنکلے ہیں۔ اس کی مثال معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان سے ہی مل جاتی ہے جہاں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی برداشت مل کر پورا خاندان آزماتا ہے اور انہیں اس قدر زچ کردیا جاتا ہے کہ بات عدم برداشت کی دہلیز پار کرجاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ سب آناً فاناً ہوجاتا ہے بلکہ یہ مسلسل عمل ہے جس سے رفتہ رفتہ انسان قابو کھو دیتا ہے۔ یوں ہی کسی کے اندر ہر وقت کیڑے نکالے جائیں، اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے، بات بات پہ طنز و طعنے دیئے جائیں تو ایک روز برداشت جواب دے جاتی ہے اور انسان عدم برداشت کا اسیر بن جاتا ہے۔ سڑکوں پہ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو راستہ دینے کو تیار نہیں اور جو زرہ دیر کے لیے اشارہ بند ہو تو نان سٹاپ ہارن دے کر سب کا جینا حرام کردینا ایک معمول کی بات ہوگئی ہے۔

مہذب قوموں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ سڑک کراس کرنے والوں کے لیے راستہ دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں تو زرد اور نارنجی بتی پہ بھی کوئی رک کر پیدل کو رستہ دینے پر تیار نہیں۔ یہی حال ہر اس جگہ کا ہے جہاں پر برداشت کا مظاہرہ مقصود ہے۔ بینکوں میں بل جمع کرانے کی بات کریں تو قطار بناکر انتظار کرنا تو گویا خلاف شان سمجھا جاتا ہے اور اگر غلطی سے قطار میں کھڑے ہوہی گئے تو کوسنے اوردھکے دے کراگلے کو عاجز کردینا اپنی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد یوٹیلیٹی سٹورز پر دھکم پیل، سیل پہ دھینگا مشتی اور شادیوں پہ طعام میںبدمزگی تو عام روش ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت کس نہج پر پہنچ چکی ہے۔

نجی زندگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو حالات ابتر ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں لیکن یہی لباس اپنے بدن سے بیزار دکھائی دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے جہاں سارے موڈ کا بیڑا غرق کردیتے ہیں وہیں یہ معصوم بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ سلسلہ کہیں رکتا نہیں بلکہ چلتا ہی رہتا ہے۔ صبح ہی صبح شوہر بیوی سے لڑ کر آفس جاتا ہے اور وہاں اپنے کسی ماتحت پر بلاوجہ برہم ہوجاتا ہے۔ وہ گھر جاکر اپنے کسی بچے کو جھڑک دیتا ہے اور وہ بچہ کسی دوست کو مار کر اپنا  غصہ نکالتا ہے۔ یوں یہ وباء کی مانند ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد میں منتقل ہوجاتا چلا جاتا ہے جس کے سبب معاشرے میں ڈپریشن بڑھتا چلا جاتا ہے۔

دفاتر کی بات کی جائے تو وہاں یہ عالم ہے کہ افسر اپنے ماتحتوں اور ماتحت اپنے افسران سے نالاں ہیں اور اگر نہیں تو چند خیر خواہ اپنے حسد کی بنا پر انہیں دوسروں کی نگاہوں میں گرانے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اپنے ساتھی ورکرز کی لیگ پلنگ کرنا دراصل اس عدم برداشت کا نتیجہ ہے جو اپنی فطرت پہ قابو نہ پانے کا شاخسانہ ہے۔

مذہبی عدم برداشت

مذہبی معاملات میں عدم برداشت بعض اوقات مذہبی انتہا پسندی کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنارہی ہے۔ ایک فرقے کا بندہ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز پڑھنے کو تیار نہیں۔ یہ تو ابھی نہایت معمولی سی بات ہے دو الگ الگ اہل فکر کے لوگ ایک دوسرے سے رشتہ داری تو درکنار کلام کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ کئی قیمتی جانیں فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ کبھی تو مذہب کے نام پر عدم برداشت کے واقعات کا محرک اپنے ذاتی و اجتماعی اغراض و مقاصد ہوتے ہیں جن کو مذہب کی آڑ میں چھپا کر پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی اقلیتوں کے حقوق کو غضب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی اکثریت پہ جارحیت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

مذہبی لحاظ سے ایک دوسرے کو طنز کا نشانہ بنانے والے اپنے لیے بھی بے سکونی کا سامان پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بعض وقات اس قدر طوالت اختیار کرجاتا ہے کہ وہ شخص خود تو دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اپنے رویے سے نفرت کے ایسے بیج بوجاتا ہے جن سے اُگنے والے پودے سدا ہرے رہتے ہیں اور یوں تن آور درخت بن جاتے ہیں۔ دین کو عمیق نگاہوں سے جانچا جائے تو بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ دین میں برداشت کا جو سبق دیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ مگر انسان صرف اپنے اندر اُبھرنے والے جذبات کو قابو نہ کرسکنے کی وجہ سے صبرو برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور زندگی بھر کے پچھتاوے اپنے نام کرلیتا ہے۔

عدم برداشت کی وجوہات

عدم برداشت کی بے شمار وجوہات ہیں جن کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس سے قبل یہ جاننا بھی ناگزیر ہے کہ عدم برداشت بنیادی طور پر ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہاگر یہ ایک ذہنی کیفیت ہے تو اس کے اثرات اتنے خطرناک کیونکر ہیں تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انسانی ذہن ہر لمحہ مختلف کیفیات وارد ہوتی ہیں۔ ان کیفیات کا موجب وہ جذبات و احساسات ہیں جو انسان کے دل میں اٹھتے ہیں۔ جن کا محرک وہ اعمال و افعال ہوتے ہیں جن سے اس انسان کا واسطہ پڑرہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی جبلت پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ عدم برداشت کے باعث جنم لینے والے بھیانک رویے کی صورت واضح ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت نے انسان کی جبلت میں کچھ چیزیں رکھ دی ہیں جن میں ان کو کنٹرول کرنے کا مکینزم خود انسان کے ہاتھ میں دے کر اسے بااختیار ہونے کا احساس دلایا ہے اور یہی برداشت انسانیت کی معراج تک لے جانے کا ذریعہ ہے۔

انسان صبرو برداشت سے زندگی کی کٹھن راہوں پر چلنے لگے تو کبھی لڑگھڑا کر نہ گرے۔ مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات سے ہم اس قدر شاکی رہتے ہیں کہ انہیں امتحان سمجھ کر صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انہیں وبال جان کر برداشت کا دامن کھو بیٹھتے ہیںجس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ رویہ انسان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑے میاں بیوی میں ایک معمول کی بات ہیں مگر اگر یہ طوالت اختیار کرجائیں تو عدم برداشت کی مداخلت پر یہ رشتہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پاتا۔رشتوں میں برداشت کے بنا زندگی ادھوری ہے۔ جہاں برداشت کی ڈوری ٹوٹتی ہے، وہیں انسان وحشتوں اور ویرانیوں کی گہری کھائیوں میں گرجاتا ہے۔ جہاں وسوسوں کے اژدھا دن رات ڈستے ہیں اور نیل و نیل جسم پر مرہم لگانے کی ہمت کھوجاتی ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا مشکلات پیدا کرتا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اگرملاقات کا وقت طے کیا ہے اور کوئی بروقت پہنچنے سے قاصر رہا تو یہ جانے بغیر کے ہوسکتا ہے اسے راستے میں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑگیا ہو اس سے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے۔ برداشت کرنا کتنا آسان ہوتا ہے، اس کا علم و ادراک انسان کو اس لمحے ہوتا ہے جب وہ خود اس کیفیت سے گزرتا ہے۔ بالکل اسی طرح عدم برداشت کے سبب بدصورت رویوں کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خود ان رویوں کا شکار ہوتا ہے۔

برداشت کرنا سیکھئے، خوش رہئے

جی ہاں مذکورہ بالا تمام باتوں کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ عدم برداشت کا کوئی توڑ نہیں۔ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کی جائے تو اس کا حل خود اسی میں موجود ہے۔ ’’عدم برداشت‘‘ میں سے ’عدم‘ کو حذف کردیں تو آپ ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔

ہم آپ کو چند ایسے رہنما اصول بتائیں گے جن پر عملدرآمد کرکے آپ اپنی زندگی میں صبر و برداشت کو لازمی عنصر بنالیں گے اور کامیابیوں کی منزل طے کرتے چلے جائیں گے۔

٭ جہاں تک ممکن ہو اپنے غصے پہ کنٹرول کریں، غصہ آنے کی صورت میں لمبی لمبی سانسیں لیں اور ایک گلاس پانی پئیں۔

٭ جب لگے کے کوئی چیز آپ کی برداشت سے باہر ہورہی ہے اور اب آپ مزید اس کا بوجھ نہیں اٹھاپارہے تو اس سے کنارہ کرلیجئے۔

٭ دوسروں کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں جو آپ کے نزدیک درست ہے ویہی صحیح ہو، دریا کے ایک کنارے پر کھڑے ہوکر آپ دوسرے کنارے کا فاصلہ نہیں جان سکتے۔ دنیا میں مختلف سوچوں کے لوگ بستے ہیں اور کائنات کا حسن اسی اختلاف رائے میں ہے۔

٭ یاد رکھیے بدلاؤ اس کائنات کی بقاء کے لیے لازم ہے۔ کوئی بھی شخص، رویہ یا حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ صبر سے مناسب وقت کا انتظار کیجئے۔ ہر چیز اپنے طے کردہ وقت میں آپ تک پہنچ جائے گی۔

٭ اپنے رب سے اپنا تعلق مضبوط کیجئے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ تھوڑا وقت کسی پرسکون گوشے میں بیٹھ کر اپنے رب سے ہم کلامی کریں۔ یہ آپ کو سکون قلب دینے کا باعث بنے گا۔

٭ اپنی خود ساختہ انا کے خول سے نکلنے کی کوشش کریں۔ ہر ایک سے اخلاص نیت سے پیش آئیں جو بھی ملے اس پر قناعت پسندی کا مظاہرہ کیجئے۔

٭ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کے بجائے صبر سے کام لیں۔ وقت آنے پر سب واضح ہوجائے گا۔

The post عدم برداشت ، معاشرتی ہم آہنگی کی دشمن appeared first on ایکسپریس اردو.

مقبوضہ کشمیر: بھارت کی چال الٹی پڑگئی

$
0
0

ہندوستان کے پارلیمنٹ میں آرٹیکل370  میں ترمیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو اب ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔

ترمیم میں جہاں کشمیر کے خصوصی قانون (پشتنی باشندگی قانون یا اسٹیٹ سبجیکٹ رول) کو ختم کیا گیا وہیں ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے کو تقسیم کر کے مرکز (دہلی) کے زیرِ انتظام دو علاقے بنائے گئے ہیں جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہے اور ان اب دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔

جموں وکشمیر کا اپنا آئین اب ختم ہوجائے گا۔آرٹیکل 370کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ ہند تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلی کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔لداخ کو بھی مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔

اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کے بجائے پانچ برس ہو جائے گی۔ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔ ہندوستان کے دونوں ایوانوں سے قانون پاس ہونے کے بعد ریاست میں انتظامی سطح پر فوری طور پر جو عملی اقدام دیکھنے کو ملا، وہ یہ تھاکہ سول سیکریٹریٹ ، صوبائی کمشنر، ضلع ترقیاتی کمشنر اور دیگر سرکاری دفاتر جہاں جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا پرچم موجود  تھاوہاں سے جموں وکشمیر کا پرچم اتار دیاگیاہے۔خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل جموں کشمیر کی ہند نواز سیاسی قیادت سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انہیں سرکاری گیسٹ ہاؤس ہری نواس میں رکھا گیا ہے۔

دفعہ 370 میں ترمیم کے مسئلہ کشمیر پر اثرات

پاکستانی میڈیا میں یہ مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم اور خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم یہ موقف درست نہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ اس وقت کشمیر  پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 27 سے زائد قراردادیں موجود ہیں ۔

آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ فیصلے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ عالمی فورم پر ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر کا نظام چلانے کیلئے کوئی بھی نظام رائج کرسکتے ہیں۔ یک طرفہ قانون سازی سے ریاست کی جغرافیائی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے کوئی انہونا کام نہیں کیا، ان کی فورسز پہلے بھی موجود تھی اب بھی موجود رہیں گی۔ تحریک پہلے بھی جاری تھی اب زیادہ شدت سے ہو گی تاہم منظور گیلانی کو سٹیٹ سبجیکٹ کے خاتمے پر تشویش ہے۔ جس سے ریاست کا آبادیاتی تناسب تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے اور کبھی رائے شماری (جو ہوتی نظر نہیں آ رہی) ہوئی تو اس میں ہندوستان کشمیر میں اپنے لوگوں کو کشمیر بتا کر دھاندلی کر سکتا ہے۔

اسی طرح جسٹس (ر) مجید ملک کا کہنا ہے کہ جو آزادی پسند قوتیں ہیں انہوں نے اس آرٹیکل کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا کیونکہ یہ ہندوستان کے قبضے کا جواز تھا اور اب اس کے خاتمے سے ہندوستان کے قبضے کو جو آئینی شیلڈ حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی اب یہ مکمل غیرقانونی قبضہ ہے۔ اب مسئلہ کشمیر 15 اگست 1947 والی پوزیشن پر آ چکا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق جموں وکشمیر پاکستان کا حصہ ہے نہ ہی ہندوستان کا۔ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس کا فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔ جب تک عوام اس کا فیصلہ نہیں کرتے اس کی حیثیت متنازعہ رہے گی۔

دفعہ 370 میں ترمیم  سے مقبوضہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوںگے

دفعہ 370 کی ذیلی دفعہ 35 اے کو مکمل ختم کردیا گیا ہے جس سے ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں داخلی طور پر اثرانداز ہوگا اور کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ 35 اے جو مہاراجہ کے قانون کی توثیق تھی اس کے ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ 45لاکھ سے زائد باشندگان کی خصوصی شہری حیثیت (اسٹیٹ سبجیکٹ)ختم ہو کر رہ گئی جو قابل تشویش بات ہے۔ اس قانون کے خاتمے سے بھارت کا ہر شہری اب کشمیر کا شہری ہوگا اور وہاں جائیداد بھی خرید سکے گا۔ 35 اے کے خاتمے کا سب سے پہلا اثر جموں پر ہوگا جہاں مغربی پاکستان کے مہاجرین (جنہیں شرنارتھی کہا جاتا ہے )جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور میانمار کے مہاجرین کو وہاں کے شہری حقوق ملیں گے جوا س سے قبل وہاں عارضی طور پر آباد تھے۔ اس سے قبل جموں میں 67 فیصد مسلمان تھے اور ان مہاجرین کی آبادکاری سے یہ تناسب 62 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے انڈین حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ابھی تک کشمیر  کے تعلیمی اداروں میں صرف کشمیر کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد وہاں باہر سے پڑھنے والے بچے آجائیں گے جو اپنی ثقافت ساتھ لائیں گے اور مقامی ثقافت پر اثرانداز ہوں گے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے لوگ آکر کشمیر میں شہریت حاصل کرسکیں گے اور یہ باہر سے آنے والے کشمیر میں رہ کر اپنی آبادی بڑھائیں گے اور پھر وسائل پر قابض ہوںگے۔

دفعہ 35A کیا تھی؟

ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔

اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔ مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں ، غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں ، نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔

دفعہ 35A در اصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے1927ء میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔

بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ میں عوامی ردعمل

بھارت کی جانب سے خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پوری ریاست جموں و کشمیر اور لداخ میں کرفیو کے باوجود بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ وادی میں کمیونیکشن بلیک آؤٹ ہے وہاں ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ تاحال بند ہیں جس کی وجہ سے اصل صورتحال سامنے نہیں آ رہی ہے تاہم کچھ نشریاتی اداروں کے مطابق بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام کرفیو کے باوجود سراپا احتجاج ہیں جبکہ جموںکے 12میں سے چھ اضلاع میں مکمل کرفیو ہے اور باقی چھ میں کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ اسی طرح لداخ کے کرگل خطے میں لداخ کو مرکز کے انتظام میں دیے جانے کے خلاف ہڑتال ہے اور نقل وحمل کے سارے ذرائع معطل ہیںاور کرگل اس وقت مکمل بند ہے۔ ( یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے ہندوستان کو ردعمل آنے کی توقع نہیں تھی اور گزشتہ تیس سالوں میں وادی میں جاری عسکری تحریک سے مکمل لاتعلق تھے۔) میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کرگل میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں نے دفعہ370کی منسوخی کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔  کل جماعتی ایکشن کمیٹی کرگل کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر تشکیل نوقانون 2019ء لانے سے حکومت ہندوستان کو سال1940جیسے پرآشوب ماحول میں دھکیل دیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے مطالبہ  سامنے آیا ہے کہ دفعہ370اور35Aکی بحالی کی جائے اور جموں وکشمیر تشکیل نوقانون2019کو جلد سے جلد ختم کیاجائے ۔

بی بی سی ہندی کے نامہ نگار کے مطابق کشمیر میں ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور پولیس موجود ہے ایک گھنٹے کے سفر میںانہیں10سے 12 مرتبہ روکا گیااور پوچھ تاچھ کی گئی جبکہ شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے حوالے سے بالکل کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔بی بی سی کے مطابق ابھی تک وادی میں تمام لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

امیت شاہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اس کے خاتمے سے آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیریوں کو فائدہ ہوگا۔اس بات کی حقیقت اس سے واضح ہو جاتی ہے کہ انڈیا نے اس ترمیم کے اطلاق کے لیے کیسے اقدامات کیے ہیں، کتنے فوجی کشمیر میں لے آیا ہے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند ہیں۔ان سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔جب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آئے گاجو پرتشدد ہو سکتا ہے۔

ہند نواز قیادت کا کہنا ہے کہ کشمیریوں سے دھوکہ ہوا ہے

بھارتی آئین میں ترمیم کے فوری بعد ردعمل کے طور پر ٹویٹ آیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’یہ بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے، کشمیری قیادت کا 1947میں دوقومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ بیک فائر کر گیا۔ آرٹیکل 370 کا خاتمہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، یہ فیصلہ برصغیر کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔ بھارت کشمیریوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے‘‘ جبکہ محبوبہ مفتی کی بیٹی ثنا کا خیال ہے کہ آرٹیکل 370کے تحت جموں کشمیر کو حاصل خاص ریاست کا درجہ چھن جانے سے کشمیری نوجوان بہت ناراض ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

ایک کشمیری نوجوان کا کہنا ہے کہ کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔ کشمیری اسے نہیں مانتے۔اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔انڈیا کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں پر ہوا تھا اور اس میں ہمارا خاص درجہ ایک بہت بڑی اور اہم چیز تھی۔اب اگر وہ خاص درجہ ختم کر دیا جاتا ہے تو انڈیا کے ساتھ الحاق میں ہمارا جو آرٹیکل آف فیتھ تھا، اس پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور اس پر جو ردِعمل مظاہروں کی صورت میں ہوگا وہ سبھی سٹیک ہولڈرز کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا ردعمل

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں لیے گئے فیصلے کے بعد پاکستان نے باضابطہ طور پر انڈین حکومت سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیں اور ساتھ ساتھ اسے اطلاع دی ہے کہ پاکستان اپنا نامزد ہائی کمشنر اب انڈیا نہیں بھیجے گا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق پاکستان نے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر انڈیا سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔قومی سلامتی کمیٹی کے پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔اعلامیے کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو انڈیا کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلے بھی کیا گیا ہے۔

چین کا ردعمل

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد لداخ کے لوگ اپنے علاقے کے لیے قانون ساز اسمبلی کی طاقت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انڈین حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر چین نے بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ چین نے کہا کہ انڈیا کو یکطرفہ طور پر متنازعہ سرحدی خطے کی موجودہ صورتحال میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے جو کشیدگی کو ہوا دے۔آرٹیکل 370 ختم کیے جانے پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے چین کا موقف بہت واضح ہے۔ ’انڈیا اور پاکستان کو خطے کو کشیدگی سے بچانے کے لیے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے چاہئیں ۔‘

 موجودہ ترمیم پر قانونی ماہرین کی رائے

ہندوستان کے وکیل اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ یہ فراڈ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کا معاملہ بہت واضح ہے اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔اسے صرف قانون ساز اسمبلی ہی ختم کر سکتی ہے اور قانون ساز اسمبلی کو سنہ 1956میں ہی تحلیل کر دیا گیا تھا۔ اور اب مودی سرکار آرٹیکل 370 کو توڑ مروڑ کے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اے جی نورانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جموں اور کشمیر کو ایک ساتھ رکھنے کا مقصد چند لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ دراصل ان کی نیت شروع ہی سے آرٹیکل 370کو ختم کرنا تھی۔آرٹیکل 35اے کے خاتمے پر اے جی نورانی کا کہنا ہے کہ اس کے کشمیر پر برے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ کشمیر کی خاص شناحت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدام سے کشمیر پر اقوام متحدہ کے مجوزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ اس کو اعلی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں علم کہ سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ دے گی۔

ہندوستان کے دانشور طبقے کی رائے

موجودہ ترمیم پر ہندوستان کے دانشوروں اور صحافیوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صحافی رویش کمار نے اپنے پروگرام میں کہا کہ میں نہیں مانتا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی معیشت میں کوئی بہتری آئے گی۔معیشت تبھی چلتی ہے جب امن ہو گا۔ آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیر میں امن نہیں آئے گا کیونکہ وہاں عسکریت کی بنیاد یہ آرٹیکل نہیں بلکہ ان سے کیا گیا وعدہ ہے جو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا جس ریاست میں ترقی لانی ہو گی اسے پہلے تقسیم کیا جائے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اقدام سے امن تو نہیں آئے گا حالات میں مزید بگاڑ ضرور پیدا ہو گا۔

ایک دانشور نے سوال اٹھایا کہ معیشت کی بہتری کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے سیاسی استحکام اور جب آپ کی ریاست سیاسی طور پر ہی غیر مستحکم ہو جائے تو باقی جتنے شعبے ہیں ان میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ بھارت کے اس اقدام سے سیاحت پر اثر پڑنے والا ہے، کشمیریوں کی تعلیم اور کاروبار پر کافی اثر پڑنے والا ہے، یہ کہنا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے سے آپ کی معیشت بہتر ہو جائے گی ایک دھوکا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ جو چیز ہو رہی ہے اس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں چاہے وہ معاشی حالات ہوں یا سیاسی۔

سری نگر سے تعلق رکھنے والی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شہلا رشید کے مطابق اس اقدام سے کشمیری سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جس طرح سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کشمیریوں کے سیاسی احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔اس کا خاتمہ شناخت کے مسائل تو پیدا کرے گا ہی، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں و کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ہم اس کلچر کے ساتھ پلے بڑھے ہیں اور اب یہ جو قدم اٹھایا گیا ہے ریاست کو تقسیم کرنے والا، یہ نہ صرف دو قومی نظریے کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑا ثقافتی دھچکا ہے۔اس طرح کے اقدامات سے کشمیر کے مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کیا ہو رہا ہے، کشمیریوں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔

دفعہ 370 کی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج

ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے ہندوستان کے آئین میں موجودہ ترمیم کو چیلنج کر دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سری نگر سے تعلق رکھنے والی شہلا رشید (جو دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں) نے بھی چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے فیصلہ لیا گیا ہے وہ کافی غلط ہے۔ میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہوں اور مجھے امید ہے سپریم کورٹ اس آرٹیکل کے خاتمے کے فیصلے کو غلط قرار دے گی اور ہمیں انصاف ملے گا۔

ہندوستان کا سیکولر چہرہ بے نقاب

1947 میں کشمیر کی مسلم شناخت برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دوقومی نظریے اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کو غلط ثابت کر سکیں اور سیکولر بھارت کا پرچار کرسکیں تاہم مودی حکومت نے کشمیر کی شناخت پر حملہ کر کے ثابت کیا کہ ہندوستان سیکولر نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کی بنیاد رکھنے والی ریاست ہے۔

اب کیا ہو گا؟

ہندوستان کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر میں پائی جانے والی تفریق اور تقسیم کو ختم کر کے تمام خطوں کی عوام کو متحد کر دیا ہے۔ جس طرح جموں اور لداخ میں ردعمل سامنے آیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اب تحریک آزدی کو نئی جہت ملے گی۔ قانون دان منظور گیلانی کہتے ہیں کہ اب ہند نواز سیاست دان بھی آزادی کی بات کریں گے کیونکہ ہندوستان نے ان کے اعتماد کو توڑا ہے اور جس بنیاد پر وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے ہندوستان نے اس شناخت کو ختم کر دیا ہے اس لیے اب ردعمل کے طور پر عوام کے ساتھ ساتھ تمام سیاست دان بھی ہند مخالف کیمپ میں ہوں گے جو اس تحریک پر مثبت اثر ہو گا۔

یورپ اور بیرون ملک کشمیریوں کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟

اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چھ ممبران موجود ہیں اسی طرح یورپی یونین میں درجنوںکشمیری اورپاکستانی قانون ساز موجود ہیں جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مقیم کشمیری نژاد ایسے ہیں جنھیں مسئلہ کشمیر کی بنیادوں ہی کا علم نہیں اگر ان کی ذہن سازی کی جائے تو وہ انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ایک بنگالی لڑکے حمزہ کی مثال سامنے ہے جس نے گوانتاموبے میں قید اپنے بھائی کو چھڑانے کیلئے تحریک شروع کی اور اس میں کامیاب ہوا اس طرح کشمیریوں کو عوامی سطح پر کام کر کے آزادی کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔

کشمیری کیا کریں؟

اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں آرٹیکل 370 ہٹانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس دفعہ کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔یہ ایسا مطالبہ ہے جو ہند نواز لوگوں کا مطالبہ ہونا چاہیے۔مسئلہ کشمیر کی بنیاد دفعہ370نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ مسئلہ کشمیر دفعہ 370یعنی ہندوستان کا آئین بننے سے پہلے بھی موجود تھا اور اب 370کے ختم ہونے کے بعد بھی موجود ہے۔یہ اس وقت ختم ہو گا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان قراردادوں کو ختم نہیں کرتی۔ ایسے میں کشمیریوں کو خصوصی حیثیت کی بحالی کے بجائے حق خود ارادیت اور آزادی کی بات کرنی چاہئے۔

The post مقبوضہ کشمیر: بھارت کی چال الٹی پڑگئی appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


ہماری کب بھلائی ہو رہی ہے
خفا یونہی خدائی ہو رہی ہے
سلامت کچھ نہیں نکلا ابھی تک
کئی دن سے کھدائی ہو رہی ہے
پرندوں کو ستایا جا رہا ہے
درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے
وہ لڑکی بھی پرائی ہو گئی تھی
یہ لڑکی بھی پرائی ہو رہی ہے
مکینوں کے پلٹنے کی خوشی میں
حویلی کی صفائی ہو رہی ہے
اُسے تو آ گیا جینا بچھڑ کر
ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے
(ناصر چوہدری۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


پھر جدائی کی اذیت سے گزارا گیا ہوں
وہ ہے اُس پار، میں اِس پار اتارا گیا ہوں
ترا منصوبہ جہاں بھی تھا، جہاں داری بھی
سرکشوں میں تو یہاں میں ہی شمارا گیا ہوں
باغِ فردوس مرا اصل وطن تو ہے نا
یاد رکھنا کہ میں دنیا میں ادھارا گیا ہوں
اس کی چاہت نے تو مومن بھی نہیں رہنے دیا
ڈنک کھا کھا کے اسی بل پہ دوبارہ گیا ہوں
میں نے ممنوعہ شجر سے تھا بھلا کیا لینا
اپنی مرضی سے نہیں میں تو خدارا گیا ہوں
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکّھا دکھ ہے
تُو مِری آنکھ سے بہتا ہوا پہلا دکھ ہے
کیا کروں بیچ بھی سکتا نہیں گنجینۂ زخم
کیا کروں بانٹ بھی سکتا نہیں، ایسا دکھ ہے
یہ تب و تاب زمانے کی جو ہے نا یارو!!
غور سے دیکھو تو لگتا ہے کہ سارا دکھ ہے
تم مِرے دکھ کے تناسب کو سمجھتے کب ہو
جتنی خوشیاں ہیں تمھاری، مِرا اُتنا دکھ ہے
مجھ سے آنکھیں نہ ملانا کہ مری آنکھوں میں
شہر کی زرد گھٹن، دشت سا پیاسا دکھ ہے
یہ مری خاک ہی سہتی ہے ازل سے ورنہ
پسِ افلاک کہاں میرے خدایا دکھ ہے
ہم کسی شخص کے دکھ سے نہیں ملتے حیدر
جو زمانے سے الگ ہے وہ ہمارا دکھ ہے
(فقیہہ حیدر۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


کوئی روگ دل کو لگا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
کوئی درد مجھ کو جدا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
رہے نیند آنکھ سے بھی خفا، کہے دل کہ جینا تو ہے سزا
کوئی تیر ایسا چلا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
مجھے عشق ہو تری چاہ کا، میں سدا رہوں یوں ہی دربدر
مجھے کوئی ایسی دعا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
تجھے دل دیا تھا کبھی سنو، بڑا دکھ سہا تھا ترا سنو
مجھے تُو وفا کا صلہ تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
یہ بے چین رہنا بھی کب بھلا تھا گوارا میرے مزاج کو
تو طبیب ایسی دوا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
کیا عشق ساجدِ بے نوا نے تمام رسموں کو توڑ کے
مجھے کوئی ایسی سزا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
(ساجد منظور اعوان۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


آپ خود تو سو گئے ہیں چین سے
گفتگو ہم کر رہے ہیں رین سے
شب لیے بیٹھی ہے بانہوں میں ہمیں
اٹھ رہے ہیں پردے کچھ مابین سے
ایک دوجے کا سہارا ہم بنے
ہو رہی دل جوئی ہے طرفین سے
روز ہی وہ پیچھا کرتا ہے میرا
بیٹھتا وہ بھی نہیں ہے چین سے
چاند میرا اس قدر پاکیزہ ہے
مجھ کو لگتا ہے اٹھا حرمین سے
اے غزالِ غم رسیدہ صبر کر
میں ہوں واقف تیرے ہر ایک بین سے
(غزالہ تبسم غزال۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل

اسی لیے تو کشش رکھتی ہے زمیں مرے دوست
وہ ایک شخص ہوا ہے یہاں مکیں مرے دوست
ہم ایسے لوگوں پہ اول تو فلمیں بنتی نہیں
بنیں تو ہوتے نہیں اُن کے ناظریں مرے دوست
میں تیری آنکھیں نہیں پلکیں ہی بنا پایا
جو دیکھتا ہے وہ کہتا ہے آفریں مرے دوست
میں اور کیسے کروں قافیہ یہ استعمال
کہ عورتوں سے زیادہ ہے کیا حسیں مرے دوست
وہ دن بھی لائے خدا جب میں اس سے رخصت لوں
وہ میرے پاؤں پکڑ کر کہے نہیں مرے دوست
مرے حوالے سے کرتے ہیں سازشیں عارض
کہیں کہیں مرے دشمن، کہیں کہیں مرے دوست
(آفتاب عارض۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


جیسا اس نے بھیجا ویسا بھیجوں گا
میں بھی اس کو پھول کا تحفہ بھیجوں گا
بھیجا ہے اس نے بھی مجھ کو پیار محبت
میں بھی اس کو پیار کا دریا بھیجوں گا
جانے میں بھی کیا کیا سوچتا رہتا ہوں
یہ بھی، وہ بھی جانے کیا کیا بھیجوں گا
لکھ کر تیرے ہونٹوں پر اک کومل سا
میں بھی کوئی میر سا مصرع بھیجوں گا
بھیجوں گا میں سب کچھ اس کو تحفے میں
جھیل، سمندر، چاند، ستارا بھیجوں گا
بھیجی ہے اس نے اپنی تصویر اسد
میں بھی اس کو خواب میں چہرہ بھیجوں گا
(اسد وحید۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


کھو دیا ہے وجود؟ کھونے دو
جو بھی ہوتا ہے یار، ہونے دو
لاش اپنی لیے میں پھرتا ہوں
لاش اپنی ہی مجھ کو ڈھونے دو
جی یہ الجھے ہے، سانس اٹکے ہے
جی کو بہلاؤ، کچھ کھلونے دو
اشک ٹوٹے تڑخ کے آنکھوں سے
ہار اشکوں کے اب پرونے دو
یہ سبو، یہ دھواں ہے میرا علاج
دل میں یہ زہر اب سمونے دو
حالتِ دل خراب ہے حامی
حالتِ دل خراب ہونے دو
(محمد حمزہ حامی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


نئے دن کی مسافت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
چلو ہم بھی تجارت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
خدا سے التجائیں اور دعائیں لب پہ ہوتی ہیں
تری ہم جب عیادت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
ترا چہرہ ہے ٹکڑا چاند کا کوئی ستاروں میں
تری شب بھر زیارت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
کسی دن ان کو پوچھے گا خدا اپنی عدالت میں
جو مجرم کی وکالت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔
ہمیں دنیا میں کب فن کار کوئی مانتا ہے وہ
مگر فن کی ریاضت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


کیا تجھ کو دوستی کا مطلب نہیں پتا ہے
مطلب کہ زندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
آنسو چمکتے دیکھے ہیں کیا کبھی ہمارے؟
یعنی تجھے خوشی کا مطلب نہیں پتا ہے
کب تک پڑا رہوں گا در پر ترے میں یارا
مجھ کو تو بندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
اک شور میں رہا ہوں تنہا میں زندگی بھر
سو مجھ کو خامشی کا مطلب نہیں پتا ہے
(علی اسد۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


روٹھ جاؤں میں اگر مجھ کو مناتے کیوں ہو
زہر لگتے ہو مجھے، ربط بڑھاتے کیوں ہو؟
جو بھی دل میں ہے بتا دیتا ہے لہجہ تیرا
تم سے بنتی نہیں گر بات، بناتے کیوں ہو
ہوں طرف دار تمھارا، تمھیں معلوم تو ہے!
بن کے انجان مرا دل یہ جلاتے کیوں ہو
سچ بتا دو مجھے، میں جان سکوں حالتِ دل
تم حقیقت کو بھلا مجھ سے چھپاتے کیوں ہو
خَتم الجھن ہو، کرو فیصلہ کوئی اعجاز
کشمکش کیسی، یہ ہیجان بڑھاتے کیوں ہو
(اعجاز کشمیری۔ بھمبر، آزاد کشمیر۔ مقیم: چین)

۔۔۔
غزل


مختصر سی مختصر ہے زندگی
آدھے رستے کا سفر ہے زندگی
بے خبر ہے موت کی یلغار سے
حد سے بھی زیادہ نڈر ہے زندگی
اپنی قسمت سے نہیں شکوہ اگر
خوب صورت، خوب تَر ہے زندگی
میں نے پوچھا تو کہا احباب نے
کچھ نہیں بس دردِ سَر ہے زندگی
سختیوں اور تلخیوں کے باوجود
مہرباں نایاب پر ہے زندگی
(سید اعجاز حسین نایاب۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل


مجھے منزل کو رونا پڑ گیا ہے
مرے پاؤں میں رستہ اڑ گیا ہے
مری مقتل میں گردن کٹ چکی ہے
خبر دینے کو میرا دھڑ گیا ہے
ترے حصے کی چھاں تجھ کو مبارک
مرے حصے کا پتہ جھڑ گیا ہے
جدا ہونے میں اب میری خوشی ہے
وہ ایسی بات پر جو اڑ گیا ہے
فرشتہ صفت تھا وہ شخص جو کہ
مچا کر شہر میں گڑبڑ گیا ہے
بہاریں چاہ کر نہ آ سکیں گی
اثر یوں چھوڑ کر پت جھڑ گیا ہے
یہ تیری یاد ہے، آتش ہے، کیا ہے؟
علی دل ایک ہی تھا، سڑ گیا ہے
(علی پیر۔ ساہیوال)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

گنج سے داغ لگنے کے رنج تک مسائل کا حل بتاتے ہمارے ٹوٹکے

$
0
0

ارے صاحب! کہاں سیاست اور ریاست کے معاملات میں الجھے ہیں، حزبِ اختلاف اور حکم رانوں کی تکرار پر بے قرار ہیں، ملک کے حالات پر بے چین ہیں، پہلے اپنے مسائل تو حل کرلیجیے، خود حل نہیں کرسکتے تو ہمیں بتائیے، چلیے مت بتائیے، ہم ہی آپ کے مسائل کا حل ٹوٹکوں کی صورت میں پیش کیے دیتے ہیں، امکان ہے ان ٹوٹکوں میں سے کوئی نہ کوئی آپ کے کام آئے گا:

رنگ گورا کرنا ہے؟

ہم مغرب کو ترقی سے ہم کنار کرتے ہر ڈھنگ کے مقابلے میں اُس کے رنگ سے متاثر ہیں۔ لڑکوں کی مائیں بہو ڈھونڈتی ہیں تو پہلی شرط ہوتی ہے ’گوری ہو‘۔ بعض ایسوں کے لیے بھی گوری دلہن ڈھونڈی جاتی ہے جن کی رنگت گورے پن سے مکمل کوری ہوتی ہے۔ کسی کو ان کے چہرے پر اپنا اعمال نامہ نظر آتا ہے تو کوئی اپنے دل کا ایکسرے دیکھ لیتا ہے۔ ایسے بیٹوں کی ماؤں کی خواہش پوری ہوجائے تو جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کے راج کا منظر سامنے ہوتا ہے، اور گوری بہو لانے والی خاتون جو گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھیں اب اپنے سیاہ کی ملکیت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔

خیر یہ تو ہم نے یوں ہی برسبیل تذکرہ لکھا ہے، ہمیں تو رنگ گورا کرنے کا ٹوٹکا بتانا ہے۔ بڑا آسان ٹوٹکا ہے۔ بس کچھ دن تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ گزاریے، ڈھٹائی اور کھلی حقیقت سے انکار میں کمال حاصل ہوجائے گا۔ پھر دھڑلے سے جنید جمشید کا ایک گانا ذرا سی ترمیم کے ساتھ گا گاکر لوگوں کے ساتھ خود کو بھی سُنائیے، ’مجھے ڈر کس کا ہے، مرا تو رنگ گورا ہے۔‘ اس ٹوٹکے پر عمل کرنے کے بعد جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ٹام کروز اور بریڈپٹ کا عکس نظر آئے گا۔

گنج پَن کا علاج

گنج پَن کا شکار بہت سے افراد یہ سُن کر مایوس ہوجاتے ہیں کہ ’گنج پَن لاعلاج ہے‘ حالاںکہ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ’تو پیسے لا ہمارے کَنے گنج پن کا علاج ہے۔‘

ویسے تو بالوں کا فائدہ کیا ہے؟ انہیں بنانے اور کٹوانے میں وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ پھر لوگ بال کی کھال نکالتے ہیں، معاشی حالات خراب ہوں تو بال بال قرضے میں جکڑ جاتا ہے، اور بعض لوگوں کے بال آنکھ میں آجائے تو آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں۔ اب ان سب مسائل کے باوجود کوئی اپنے چاند سے سر پر کالے بالوں کا گرہن لانا چاہتا ہے تو اس کی مرضی، ہم ایسے حضرات کے لیے گنج پن کے مسئلے سے نجات کا ٹوٹکا بتائے دیتے ہیں۔

5 کلو لیمو لیں، ان کا رس نچوڑ لیں، پھر اس رس میں 10 کلو گاجر کا رس، تخم بالنگا ڈیڑھ پاؤ، 3 کلو چلغوزوں کے چھلکے باریک پیس کر، 12 لیٹر پیٹرول اور باکردار بھینس کا دودھ 15 کلو ملائیں اور ملاکر خوب ہلائیں۔ پھر اسے دھیمی آنچ پر چڑھا دیں۔ 10 منٹ بعد اُتارلیں۔ 15 منٹ بعد پھر چڑھا دیں۔ 10 منٹ بعد اتار کر 15 منٹ بعد دوبارہ چڑھا دیں۔ یہ اُتار چڑھاؤ مسلسل 10 گھنٹے تک جاری رکھیں۔ اگلے روز صبح اندھیرے منہ اُٹھ کر ایک جگ میں یہ محلول بھر کر اس سے سر دھوئیں۔ جو بچا ہو وہ پھینک دیں۔ یہ عمل 3 دن تک دہرائیں، چوتھے روز آپ کو بالوں سے نفرت ہوجائے گی اور آپ گنجے پن پر مطمئن ہوجائیں گے۔ ممکن ہے ٹوٹکا پڑھ کر ہی آپ کو افاقہ ہوگیا ہو۔

موٹاپے سے نجات

موٹاپا وہ مصیبت ہے جس سے نجات کے لیے جلاپا بھی کام نہیں آتا، بلکہ دبلوں پتلوں سے جل بُھن کر غصے میں بھوک اور بڑھ جاتی ہے، اور نتیجہ اضافہ شدہ توند کے ساتھ نکلتا ہے۔ موٹے ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ پانی کی طرح موٹاپا بھی اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ موٹاپے کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن وہ سب ڈاکٹروں، ادویہ سازوں اور جِم مالکان کو ہیں، اس لیے ہم ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔

موٹاپے سے نجات کا مفید ترین ٹوٹکا یہ ہے کہ دبلوں سے نجات حاصل کرلیجیے۔ جو دبلے آپ کی دسترس میں ہیں انہیں کھلا کھلا کر اتنا موٹا کردیجیے کہ ان کی چھوٹی ہوجانے والی پینٹیں اور قمیصیں آپ کے جسم پر فٹ آجائیں۔ دوسرا ٹوٹکا یہ ہے کہ چھانٹ چھانٹ کر فربہ خواتین و حضرات سے ملیے اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھیے زندگی کتنی خوب صورت ہے۔ ان کے ساتھ سیلفی بنواکر فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سجائیے، جسے دیکھ کر ہر ایک آپ سے وزن گھٹانے کا راز پوچھ رہا ہوگا۔

کپڑوں سے داغ صاف کریں

یوں تو ’داغ اچھے ہوتے ہیں‘ اور ’ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب داغ لگ جائے تو دل سے ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے ’لاگا چُنری میں داغ مٹاؤں کیسے۔‘ یعنی داغ چُنری پر لگے، شیروانی پر یا وردی پر، مٹانا ضروری ہے، البتہ ’مٹاؤں کیسے‘ کی پریشانی چنری اور شیروانی وغیرہ ہی پہننے والے کو لاحق ہوتی ہے۔

بعض رنگوں اور لباسوں پر لگنے والے داغ نظر نہیں آتے اور نظر آ بھی جائیں تو نظر چُرانا ضروری ہوتا ہے ورنہ دیکھنے والا خود نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے ان مخصوص رنگوں اور کپڑوں کی سہولت ہر ایک کو تو حاصل نہیں ہوتی، ہاں کوئی سہولت کار بن جائے تو اور بات ہے، تو جن کے کپڑوں پر لگے داغ دکھائی بھی دیتے ہیں اور ان کی نشان دہی بھی کی جاسکتی ہے، ایسے افراد کے لیے ان داغوں کا مسئلہ حل کرنے کو ہمارے پاس بڑا ہی کارآمد ٹوٹکا ہے۔

کریں بس اتنا کہ جس کپڑے پر ایک، دو داغ لگے ہوں اسے داغوں سے اتنا بھردیں کہ کپڑے کا اصل رنگ روپ ان داغوں میں چُھپ جائے۔ مثال کے طور پر اگر کپڑوں پر قورمے کا داغ لگ گیا ہے تو یہی کپڑے پہنے پہنے قورمے کی دیگ میں اُتر جائیں، باہر نکلیں گے تو وہ داغ غائب ہوچکا ہوگا جس کی خاطر یہ ڈبکی لگائی تھی۔

فی الحال ان چند ٹوٹکوں پر گزارا کریں، مزید کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ہم سے رجوع کریں ہم آپ کو مزید ایسے ایسے ٹوٹکے بتائیں گے کہ آپ کو ہم پر ٹوٹ کے پیار آئے گا، اتنا کہ عین ممکن ہے آپ ہم پر ٹوٹ پڑیں۔

The post گنج سے داغ لگنے کے رنج تک مسائل کا حل بتاتے ہمارے ٹوٹکے appeared first on ایکسپریس اردو.

دریچہ؛ نمائش پسندی کے دور میں ادب

$
0
0

ویسے تو خیر ابھی خدا جانے اور کیا کیا سامنے آنا ہے، لیکن اس اکیس ویں صدی کے بارے میں اتنی بات تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ یہ نمائش پسندی کا زمانہ ہے۔

یہ اس عہدِجدید کی انسانی زندگی کی وہ حقیقت ہے کہ جسے جھٹلانا تو رہا ایک طرف، چھپانا تک ممکن نہیں۔ خود کو نمایاں کرنے کی خواہش بھی یوں تو انسانی فطرت میں داخل ہے، لیکن آج ہم جس سطح پر اس کا اظہار دیکھ رہے ہیں، اس کی کوئی توجیہہ یا کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو اس دور کے انسانی مزاج اور اس کے رویوں کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اب کوئی اور مانے یا نہ مانے، ہم ادیب شاعر لوگوں کو تو بہرحال یہ سچائی تسلیم کیے ہی بنے گی۔

نمائش پسندی ایسی کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جو اس سے پہلے کبھی تھی ہی نہیں اور اچانک اس دور میں پیدا ہوگئی۔ نہیں، بہت پرانی ہے یہ، شاید قابیل کے زمانے سے چلی آتی ہے۔ تاہم پہلے کے زمانوں اور معاشروں میں اس کا تناسب وہ نہیں تھا جو آج ہے۔ اب سے پہلے معاشرے کے کچھ فی صد لوگ اس میں مبتلا ہوتے تھے، لیکن آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کچھ فی صد ہی بہ مشکل اس سے بچ پاتے ہوں۔

آج یہ کسی ایک خطے یا سماج کا مسئلہ بھی نہیں ہے، بلکہ چھوت چھات سے پھیلنے والے جراثیم کی طرح نمائش پسندی بھی ایک ایسی وبا ہے جو اس دور میں فرسٹ ورلڈ کی اقتداری اشرافیہ سے لے کر تھرڈ ورلڈ کے مفلس اور مجہول افراد تک پھیلتی چلی گئی ہے۔ اس پھیلاؤ میں بڑا اہم حصہ ہے الیکٹرونک میڈیا کا اور اس سے بھی کہیں بڑا اور مؤثر کردار ہے سوشل میڈیا کا۔ ثبوت کے لیے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک سیاسی، سماجی، علمی حتیٰ کہ مذہبی منظرنامے تک جہاں چاہے نظر ڈال لیجیے، پے در پے مثالیں دست یاب ہوں گی، اور وہ بھی کسی چھان پھٹک کے بغیر۔

انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق و اقدار کا یہ طول طویل سفر آخر کیوں اور کیسے ایک ایسی ڈگر پر آنکلا کہ اس کی منزل ہی بدل جائے، یہ ایک الگ اور تفصیل طلب سوال ہے۔ اس کے لیے آپ کو ماضیِ قریب میں گزرے بیانیے، مہا بیانیے اور حال میں جاری مابعد نوآبادیاتی تناظر تک بہت کچھ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ سب چیزیں یک جا اور اپنی کلیت میں ہی ان حقائق کو واضح کرسکتی ہیں جو اس عہد کے انسان اور اس کی روح کا احوال ہمیں سنائیں۔ تاہم اس امر کو مسلسل نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب بیانیوں، مہا بیانیوں اور اس مابعد نوآبادتی تناظر میں بھی سب کچھ سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس میں بھی بہت جھوٹ اور کھوٹ ہے، لیکن اس کو دیکھے پرکھے بنا اور مکمل چھان بین کے بغیر اُس سچ تک نہیں پہنچا جاسکتا جو اس عہد کے اصل انسان سے ہمیں ملا دے۔ نمائش پسندی کے اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ دراصل اس سچ کی تلاش ہی تو ہے۔ سچ جو آج مفقود ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو سات پردوں کے پیچھے اور بڑی مخدوش حالت اور معمولی حیثیت میں۔

یوں دیکھا جائے تو ادب و شعر، بلکہ جملہ فنونِ لطیفہ کا سارا کاروبار ہی اظہار کی خواہش سے تعلق رکھتا ہے۔ اب یہ اظہار کی خواہش کیا ہے؟ اس کے پیچھے بھی تو خود کو سامنے لانے یا نمایاں ہونے کی جستجو ہوتی ہے، یعنی وہی نمائش پسندی۔ نہیں، بالکل نہیں۔ نمایاں ہونے کی خواہش اور نمائش پسندی میں بہت فرق ہے۔ فن کار خود کو جب نمایاں کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کو نہیں، اپنے فن کو سامنے لاتا ہے۔ اپنے جذبے، احساس، خیال اور شعور کو ابھارتا ہے۔

ذاتی طور پر تو وہ کہیں پس منظر میں ہوتا ہے۔ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس کے جذبہ و شعور کی تشکیل و تعمیر میں ایک حصہ اس کے عہد کا، اس کی تہذیب اور سماج کا بھی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو فن کار اور اس کا معاشرہ دونوں جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح فن کار کے نمایاں ہونے میں ایک طرف عصری شعور نمایاں ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ازلی ابدی حقیقتیں بھی اس کے یہاں راہ پاتی ہیں جو نوعِ انسانی کی تجربی صداقتوں کو عہد بہ عہد آگے بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ اب اگر شیکسپیئر ایک مرحلے پر ہیملٹ سے کہلاتا ہے:

To be, or not to be, that is the question

تو بہ ظاہر یہ ایک کردار کی الجھن ہے جس کا ایک مفہوم وجودی سطح پر بھی ہے، لیکن اصل ابتلا تو انسان کے شعور و احساس پر گزرتی ہے جو اس سے یہ اظہار کراتی ہے۔ اس کا بیان آگے چل کر اٹھائیس تیس سطروں بعد آتا ہے، جب وہی کردار یہ کہتا ہے: Thus conscience does make cowards of us all,

ٹھیک ہے، یہ ایک فن کار کا اظہار ہے، اور بے شک وہ یہاں نمایاں بھی ہورہا ہے، لیکن ذرا رکیے اور دیکھیے کہ یہاں اُس کی ذات ابھر رہی ہے یا پھر حیاتِ انسانی کی وہ سچائی کہ جس کا تجربہ اپنے اپنے زمانوں میں نسل درنسل لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فن کار کی نمایاں ہونے والی خواہش کا یہ وہ اثباتی رخ ہے جو دراصل ایک انسانی صداقت کو ابھارتا ہے، فن کار کی ذات کی نمائش کا ذریعہ نہیں بنتا۔ اب دیکھیے، میر صاحب کہتے ہیں:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا

ذرا بتائیے تو سہی کہ آخر اس میں میر صاحب کی ذات کتنی نمائش پسند محسوس ہورہی ہے۔ اچھا چلیے، یہ تو شعر ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ جس میں بات ساری توجہ حاصل کرلیتی ہے اور فن کار کی ذات خود ہی نظروں سے محو ہوجاتی ہے۔ لیجیے، یہ شعر دیکھیے:

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

یہاں تو فن کار سر تا پا ہمارے سامنے ہے کہ ساری بات اس نے خود کو بنیاد بناکر کی ہے، کیا یہاں اس کی ذات کی نمائش ہورہی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہاں بھی آپ کی تمام تر توجہ زنداں پر، جنوں اور اس کی شورش پر مرکوز ہوجاتی ہے، فن کار کی ذات تو پھر کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ اس طرح اوجھل ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کو اس کا دھیان تک نہیں رہتا۔ بتائیے اب کہ اس میں بھلا کسی نمائش پسندی کا کوئی شائبہ بھی ہے؟ نظیر کا شعر سنیے:

یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثلِ انار و مہتاب

جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا

اب غور کیجیے، آگ ہمیں لگائی گئی ہے اور تماشا بھی ہمارے اندر سے نکلا ہے، لیکن دکھائی دے رہے ہیں، انار، مہتاب، آگ اور اس کے بعد کا پورا تماشا، یعنی سب کچھ نظر آرہا ہے، لیکن نظر نہیں آرہے تو بس ایک ہم۔ وجہ یہ ہے کہ اظہار، ابلاغ اور شناخت حاصل کرنے اور نمایاں ہونے کے سارے عوامل اپنی جگہ، لیکن ادب و فن میں نمائش پسندی کے لیے رتی برابر گنجائش نہیں ہوتی۔ یہ دراصل اْن کے مزاج، ان کی فطرت کے منافی ہے۔ یہاں تو صرف خیال، احساس اور شعور نمایاں ہوتا ہے۔

اب رہی بات ادیب کی خود مرکزیت، اظہار پسندی اور عینیت کی تو ہمیں صاف صاف لفظوں میں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تو ادیب کی شخصیت کے لازمی عناصر ہیں۔ ان کے بغیر تو وہ ادب تخلیق ہی نہیں کرسکتا۔ ہمارے یہاں غالب کے بارے میں تو بہت لکھا گیا ہے، لیکن ذرا دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ خود مرکزیت اور عینیت جیسی میر کے یہاں نظر آتی ہے، وہ تو غالب سے بھی سوا ہے، اور ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ساری دنیا میں ادب و شعر تخلیق کرنے والوں کا ایسا ہی معاملہ رہا ہے اور ہمیشہ سے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے کے جس حصے سے سطورِ گذشتہ میں لائن نقل کی گئی اسی میں وہ ایک جگہ کہتا ہے: There’s the respect

That makes calamity of so long life;

اسی طرح آپ رومانٹک پوئٹری کے پورے عہد کو انگریزی میں دیکھ لیجیے۔ بائرن، ٹینی سن، شیلے، کیٹس، ورڈزورتھ کون ان میں سے خود پسند اور شہرت کا خواہاں نہیں تھا۔ خودپسندی اور شہرت و جاہ کی خواہش کا عالم یہ کہ آپ کہہ اٹھیں کہ الاماں! ایک فلاں کی کھوپڑی میں شراب پینا چاہتا ہے، دوسرا شیکسپیئر کو پیچھے اپنی گرد میں دیکھنا چاہتا ہے، تیسرے کا دماغ یہ کہ وہ اس مقام پر ہو کہ کوئی اسے اپنا دوست کہنے کی جرأت نہ کرسکے۔ آپ کہیں گے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔

ٹھیک ہے، لیکن ادیب شاعر اعصابی سطح پر نارمل آدمی ہوتا بھی کب ہے۔ ایک حد تک یہ ابنارمیلٹی ہی تو اصل میں اس کے اندر وہ احساس پیدا کرتی ہے جو اسے اظہار کی اعلیٰ سے اعلیٰ تر سطح کی طرف لے جاتا ہے۔ سلیم احمد نے اقبال کی شاعری کو خوفِ مرگ سے لڑنے کا حاصل بتایا تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک اقبال ہی کیا، دنیا کے کس بڑے شاعر نے شہرتِ عام و بقائے دوام کی آرزو کا چراغ دل میں روشن نہیں رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ برائی اس خواہش میں نہیں ہے، بلکہ خواہش کا محور بدل جانے میں ہے۔ اگر یہ آرزو فن کار کے فن کو بلندی کی طرف لے جارہی ہے تو بڑی کارآمد شے ہے، لیکن اگر یہ اس کا دھیان فن سے ہٹاکر دنیا کی طرف لگادے تو پھر وہ فن کار نہیں، دنیا کا کتا بن کر رہ جاتا ہے۔

عہدِجدید میں نمائش پسندی کا رویہ کوئی اثباتی پہلو نہیں رکھتا۔ عام آدمی کو تو چھوڑیے، یہ فن کار کے اندر بھی کوئی کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اْس کے دل میں فنی برتری کی خواہش پیدا کررہا ہے اور نہ ہی تکمیلیت کے جذبے کو بیدار کررہا ہے۔ یہ اسے اپنے فن کے بارے میں تو کچھ سوچنے کی تحریک دیتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس اس کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز کرتا ہے، اور ذات کے بھی وجودی اور خارجی رخ تک۔ پہلے یہ کام اداکاروں کی زندگی میں ہوتا تھا۔ وہ فیس ویلیو کے لوگ سمجھے جاتے تھے اور اسی پر ان کی ساری ساکھ اور کیریئر کا انحصار ہوتا تھا۔

کمرشلائز ہونے والے کھیلوں کے کھلاڑی بھی بعد ازاں فیس ویلیو کے حامل ہوگئے۔ ان کی شخصیت بھی اسی پہلو سے نمایاں ہونے لگی۔ عہدِجدید کے اس مظہر نے جس کا نام سوشل میڈیا ہے، آج ادیب اور شاعر کو بھی اداکاروں اور کھلاڑیوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ مشاعرے کے عروج کے زمانے میں تو ہمارا شاعر پھر بھی کچھ نہ کچھ نمایاں اور پاپولر ہونے والی شخصیت کا مالک تھا، لیکن افسانہ نگار اور نقاد تو کبھی اس چکر میں ہی نہیں پڑے تھے۔ سوشل میڈیا کا ریلا آج ان کو بھی بہا لے جانے کے درپے ہے۔

بات ادیب، شاعر اور نقاد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ عہدِجدید کے اس چلن نے تو ایک سادہ لوح اور عام آدمی کے اندر بھی اداکار اور کھلاڑی کا التباس پیدا کرکے، اسے ذاتی اور وجودی نمائش میں اس طرح مبتلا کیا ہے کہ اسے یہی سماجی زندگی کا مقصود و منتہیٰ معلوم ہورہا ہے۔

خارجی اظہار کا یہی رویہ اب اصل زندگی سمجھا جارہا ہے۔ اس ریلے کا بہاؤ اس قدر شدید، بلکہ طوفانی قسم کا ہے کہ آپ ترقی یافتہ اور خوش حال معاشروں کے ساتھ پس ماندہ ملکوں کے عوام کو بھی اس میں اْسی طرح بہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، بلکہ مؤخر الذکر زیادہ شدومد سے اس میں مگن نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقی زندگی میں کمی اور محرومی کی تلافی اس کے ذریعے کرنے کے خواہاں ہیں۔

ظاہر ہے، وہ تو ہرگز ممکن نہیں ہے، لیکن آدمی کا دھیان وقتی طور پر یہ خارجی مشاغل ان سے ہٹا ضرور دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی جب کبھی پلٹ کر حقیقی زندگی اور اس کے مسائل کا سامنا کرتا ہے تو اس کی تلخی میں اضافہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نتیجہ فرسٹریشن میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِجدید کی ان اشیا اور مشاغل نے آدمی کی زندگی میں ایسا دھوکا پیدا کیا ہے کہ جب اس کی اصلیت کھلتی ہے تو زندگی کی لایعنیت، محرومی، تنہائی اور اداسی کا احساس ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جاتا ہے۔ چناںچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ذہنی امراض اور خودکشی کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ مستقل ایک بھری پری محفل میں خود کو پاتے ہیں۔ ہر وقت رونق کے مرکز میں اور آوازوں کے ہجوم کے درمیان، لیکن حقیقی زندگی میں ایک محلے، بلکہ ایک گھر میں رہنے والے لوگوں کے مابین بھی اتنے فاصلے پیدا ہوگئے ہیں کہ آدمی سے آدمی کی ملاقات ہی نہیں ہوپاتی، ایک کی آواز دوسرے تک پہنچتی ہی نہیں۔ جب بیماری، آزاری یا کسی اور وجہ سے حقیقتاً آدمی کو آدمی کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سارا مجمع تو اس کے موبائل، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھا، اصل میں تو وہ تنہائی اور سناٹے کی لپیٹ میں ہے۔

اس کے عملی مظاہرے آئے دن دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک شخص کی علالت کی خبر پر عیادت کرنے والوں کی تعداد تو بہت ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس آکر، اس کا ہاتھ تھام کر اپنے رشتے کی حرارت کا احساس دلانے والے پانچ فی صد بھی نہیں ہوتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رشتے اور تعلقات بھی اس عہد کے انسان کی خارجی زندگی کا دکھاوا ہوکر رہ گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس دور میں ادیب اور شاعر کیا کرسکتے ہیں؟ سچ پوچھیے تو ادیب شاعر ہی وہ لوگ ہیں جو نمائش پسندی کے اس امڈتے سیلاب کے آگے اپنے معاشرے کو بچانے کے لیے کوئی بند باندھ سکتے ہیں۔ سیاست داں، سول سرونٹس، مصلح، سماجی کارکن، ڈاکٹر، انجینئر سب مل کر بھی وہ نہیں کرسکتے جو کام ادیب شاعر کرسکتے ہیں۔

اس لیے کہ یہ صلاحیت قدرت نے سب سے بڑھ کر انھی کو بخشی ہوتی ہے کہ معاشرے کے تغیرات کے عقب میں کارفرما محرکات کو دیکھ سکیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کی نظر انسانی احساس کی بدلتی ہوئی ان صورتوں کو بھی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھ سکتی ہے جو اس کے لاشعور اور تحت الشعور میں تہ در تہ پیدا ہوتی ہیں۔ جن کا خود انسان اور اس کے سماج کو بھی کہیں بہت بعد میں جاکر اندازہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ کام اْس وقت ہوسکتا ہے جب ادیب شاعر کو اس عہد میں اپنے کردار کے تقاضے اور فن کے مطالبے کا شعور ہو۔ یہ شعور اس کے اندر اس نمائش پسندی سے اغماض پیدا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، فکری اور تخلیقی شخصیت کو متحرک کرے گا اور معاشرے میں اپنے اصل کردار کی طرف مائل۔

The post دریچہ؛ نمائش پسندی کے دور میں ادب appeared first on ایکسپریس اردو.

جنگلی حیات کی اسمگلنگ

$
0
0

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 19ارب یو ایس ڈالر کی جنگلی حیات کی غیرقانونی تجا رت ہوتی ہے جو کہ دنیا کی چو تھی بڑی تجارت ہے۔

یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم (UNODC ) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر بین الاقوامی قوانین، کنونشنز اور معاہدات کے باوجود دنیا کے مختلف ممالک میں جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ انتہائی منظم اور مربوط انداز سے جا ری ہے اور اس مکروہ دھند ے میں کئی ملکوں کے دہشت گرد نیٹ ورکس براہ راست ملوث ہیں۔

وائلڈلائف کرائم آج دنیا میں بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے جسے انتہائی خطرناک نیٹ ور کس کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ یو این او ڈی سی کے مطابق ڈرگ اور انسانی اسمگلنگ کے بعد جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت تیسرا بڑا بین الاقوامی کرائم ہے جو ملکوں کی اتھارٹی، سماجی و اقتصادی ترقی کو کم ز ور کررہا ہے۔ علاوہ ازیں جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کرۂ ارض کی بائیوڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔

یو این کے اعدادوشمار کے مطابق 2013 میں غیرقانونی پوچرز/شکاریوں نے 20ہزار ہاتھی، 2016 میں 1054گینڈے، 20 ہزار ڈولفن، 2006 تا 2016 ایک ہزار شیر اور 460 برفانی چیتے مار کر ان کے اعضاء غیرقانونی تجارت کی بھینٹ چڑھائے۔ علاوہ ازیں 2012 تا 2017 جنگلی جانوروں کی 10لا کھ بالوں والی کھالیں اسمگل کیں۔ غیرقانونی تجارت کی عالمی منڈی میں جنگلی حیات سے تیار کی جانے والی جن مصنوعات کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے ان میں جنگلی جانوروں کے اعضاء سے تیار کردہ خوراک، روایتی ادویات، ملبوسات، زیورات شامل ہیں۔

مزیدبرآں جنگلی جانوروں خصوصاً ہاتھی کے دانت، گینڈے کے سینگ اور شیر کی کھال اور ہڈیاں بھاری نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا، چین، کوریا، تائیوان اور یورپین ممالک جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی بہت بڑی منڈیاں ہیں۔ اگرچہ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں ودیگر عالمی تنظیمات جن میں آئی یو سی این، آسیان وائلڈلائف انفورسمنٹ نیٹ ورک، ساؤتھ ایشیاوائلڈلائف انفورسمنٹ نیٹ ورک، کلارک آربیون نیشنل فش اینڈ وائلڈ لائف فرانزک لیبارٹری، فری لینڈ فاؤنڈیشن، اسپیشز سروائیول نیٹ ورک، ٹریفک دی وائلڈلائف ٹریڈ مانیٹرنگ نیٹ ورک، وائلڈ لائف الائنس، انٹرنیشنل فنڈ فاراینیمل ویلفیئر، یو این انوائرمنٹ پروگرام اور ڈبلیو ڈبلیو ایف شامل ہیں، جنگلی حیات کی غیرقانونی عالمی تجارت کی بیخ کنی کے لیے سرتوڑ کوششیں بروئے کار لارہی ہیں۔ تاہم متاثرہ ممالک میں بدعنوانی کے عنصر بے ضرر رائج قوانین اور کم زور عدالتی نظام کی وجہ سے یہ کوششیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہیں۔

پاکستان حیاتیاتی تنوع سے خوب مالامال ملک ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے پودوں کی تین لاکھ انواع میں سے چھے ہزار پاکستان میں ہیں جب کہ پرندوں کی 8700انواع میں سے 668، ممالیہ کی 4327 میں سے 188اور خزندوں کی 5500انواع میں سے 69 پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان دنیا کی بعض نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ اس کثیر حیاتیاتی تنوع کی بدولت یہاں بھی غیرقانونی شکار اور جنگلی حیات کی ناجائز تجارت کا رجحان موجود ہے، جس سے یہاں کی بایوڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم خطر ے سے دوچار ہیں اور یہ عنصر یہاں بھی معدوم ہوتی ہوئی انواع پر اثرانداز ہورہا ہے۔

امسال نایاب پینگولن اور لیپرڈکیٹ کی انواع اسلام آبا د نیشنل پارک سے غیرقانونی شکار ہونے والی ایسی ہی دو مثالیں ہیں۔ پینگولن دنیا کا سب سے زیادہ اسمگل ہو نے والا ممالیہ ہے جو غیرقانونی عالمی تجارت کے حجم کا 20 فی صد ہے۔ انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق 2014 سے قبل کی دہائی میں پینگولن پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں شکار ہوئیں۔ پاکستان سے غیرقانونی تجارت کی جانے والی جنگلی حیات کی انواع میں لومڑی، گیڈر، بھیڑیے، لیپرڈ کیٹ، پینگولن، تازہ پانی کے اودبلاؤ، تازہ پانی کے کچھووں کی آٹھوں انواع، سمندری کچھوے، تلور، شکاری پرندے خصوصاً فالکنز، چرگ اور بہری، زہریلے جان دار کوبرا، وائپر، پتھریلے اور غیرزہریلے سانپ، ناگ اور چھپکلیاں وغیرہ شامل ہیں۔

درپیش صورت حال کے تناظر میں وزارت موسمیاتی تبدیلی حکومت پاکستان پہلی مرتبہ ایک نیشنل وائلڈ لائف پالیسی تشکیل دے چکی ہے جس کا مقصد جنگلی حیات کی اسمگلنگ کو روکنا اور انسانی اور جنگلی حیات کے تصادم کو کم سے کم کرنا اور جانوروں کو ظلم سے محفوظ رکھنا ہے۔ اگرچہ قبل ازیں 2015 کی نیشنل فاریسٹ پالیسی میں جنگلی حیات سے متعلقہ بعض حفاظتی تدابیر کو اختیار کیا گیا، تاہم جنگلی حیات کے جملہ تمام پہلوؤں کو ایڈریس کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت محسوس کی گئی۔

خطرے سے دو چار جنگلی جانوروں کی روزبروز بڑھتی ہوئی غیرقانونی تجارت کو تسلیم کرتے ہوئے اس پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ خصوصی سیل قائم کرکے ایسی سوشل میڈیا سائٹس کی مسلسل مانیٹرنگ کی جائے جو جنگلی حیات کی مصنوعات کی آن لائن فروخت کرتی ہیں۔ غیرقانونی تاجر فیس بک صفحات اور گروپس استعمال کرکے نایاب جانوروں کی خریدوفروخت کر تے ہیں۔

پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر طرح کی جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کو ختم کریں گی جن میں جنگلی جانوروں کا استعمال بحیثیت پالتو جانور، کالے جادو، ادویائی استعمال، گلی محلوں میں کھیل تماشا، حنوط کاری اور سرکس کی شکل میں کیا جائے۔

جانوروں پر ظلم پاکستان میں ابھی تک انتہائی مقبول ہے جو نہ محض جنگلی جانوروں، جیسے ریچھ اور شیر انتہائی ظالمانہ انداز سے اسیری میں رکھے جاتے ہیں بلکہ یہ ان جانوروں سے بھی روا رکھا جا تا ہے جو گدھوں کی طرح مال برداری وغیرہ کے کام آتے ہیں۔ ٰلہٰذا ظالمانہ ایکٹ کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں تمام جانوروں کو شامل کیا جائے جیسے جنگلی حیات کی انواع اور چڑیاگھروں کے جانور، نیز اس ایکٹ کی خلاف ورزی پر بڑھائے گئے جرمانوں کو متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے۔ مزید برآں ایک نیشنل اینمل ویلفئیر کمیٹی کی تشکیل تجویز کی گئی جو دیگر وزارتوں اور صوبائی محکمہ ہائے جنگلی حیات اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ اس کاز کے لیے مشاورت کرے۔

اس ضمن میں حال ہی میں ورلڈوائیڈ فنڈفار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان اور یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم نے ایک میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے مطابق دونوں ادارے باہم مل کر پاکستان میں جدید ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کریں گے۔

صوبہ پنجاب میں پائی جانے والی نایاب جنگلی حیات کی اہمیت کے پیش نظر محکمہ تخفظ جنگلی حیات و پارکس پنجاب جنگلی حیات کی غیرقانونی  تجارت کی موثر روک تھام اور بیخ کنی کے لیے بین الاقوامی برادری، حکومت پاکستان و دیگر عالمی و قومی تنظیمات ڈبلیو ڈبلیو ایف، آئی یو سی این، پاکستان کسٹم اور پاکستان رینجرز کے باہمی تعاون سے بھرپور انداز میں اپنا کر دار ادا کر رہا ہے۔

پنجاب میں متعلقہ محکمہ صوبے کے تمام بڑے ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹینڈز اور جانوروں و پرندوں کے خریدوفروخت کے پوائنٹس کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ اس ضمن میں محکمے نے صوبائی اور ڈویژنل سطح پر سریع الحرکت خصوصی وائلڈلائف اسکواڈز تشکیل دے رکھے ہیں، جنہوں نے غیرقانونی شکار اور جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت و اسمگلنگ کی اطلاع موصول ہونے پر بروقت کارروائی کرکے متعدد ایسی کوششوں کو ناکام بنایا اور درجنوں افراد گرفتار کرکے ان پر بھاری جرمانے عائد کیے۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اور حکومتیں جنگلی حیات کی اس غیرقانونی تجارت سے وا بستہ ایسے افراد جن کی روزی روٹی کا انحصار محض اس کاروبار پر ہے انہیں منا سب روزگار کے مواقع فراہم کر ے، عدالتوں میں وائلڈلائف کرائمز کی موثر پیروی کی جائے، سزائیں اور جرمانوں کی شرح بڑھائی جائے، پروٹیکشن فورسز کو جدید آلات سے لیس کرکے ان کی استعداد کار بڑھائی جائے اور کرپشن جیسی لعنت سے پاک کیا جائے تاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی جنگلی حیات کی اس غیرقانونی تجارت کی مکمل روک تھام ہوسکے۔

The post جنگلی حیات کی اسمگلنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بقا کی جنگ لڑتے بحرالکاہل کے جزائر

$
0
0

بحرالکاہل دنیا کا سب بڑا سمندر ہے جسے  Ocean Pacificبھی کہا جاتا ہے۔ اس کے نام کی وجہ اس کا پرسکون ہونا ہے۔

یہ دنیا کے چار بڑے براعظموں ایشیا، آسٹریلیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے بیچ واقع ہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔ تاحد نگاہ پھیلا یہ سمندر اپنے اندر ایک پراسرار خاموشی سموئے ہوئے ہے۔ دنیا کی 60 فی صد مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات بحرالکاہل سے ہی آتی ہیں۔

دنیا کے 75 فی صد آتش فشاں بحرالکاہل میں موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد زیرزمین آتش فشانوں کی بھی ہے۔ بحرالکاہل کے چاروں طر ف آتش فشانوں کا ایک طویل سلسلہ بھی واقع ہے، جسے ماہرین ارضیاتRing of Fire یعنی آگ کی انگوٹھی کا نام دیتے ہیں۔

دنیا کی بحری تاریخ کے بہت سے بڑے حادثے 11 ہزار میٹر تک گہرے اسی سمندر میں واقع ہوئے۔ ابھی حال ہی میں ایک کارگو شپ کا حادثہ ہوا جس میں کار بنا نے والی کمپنی کی3500 گاڑیاں جہاز سمیت سمندر برد ہوگئیں۔ بحرالکاہل نہ صرف کتنے ہی بحری جہازوں کی آخری آرام گاہ ہے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ خلائی جہازاورسیٹیلائٹ بھی اپنی عمر پوری کرنے کے بعد بحرالکاہل میں ہی غرق آب کیے جاتے ہیں۔

اس وسیع وعریض سمندر میں 25 ہزار سے زائد جزائر موجود ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے جزائر میں پھیلی تہذیبوں کا وجود بحری سفر اور ان کے مسافروں کے مرہون منت ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی بحرالکاہل کو پار کرنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں۔ تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بادبان کی بدولت یہ بحری جہاز سمندروں میں محو سفر ہوتے تھے تب بحرالکاہل کو پار کرنا کتنا کٹھن ہوگا۔ ایسے میں یہ جزائر کسی نعمت سے کم نہ تھے، جن میں سے بعض پر جہازوں کی مرمت، سامان ضروریات اور علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر تھیں۔ ان جزائر میں جہاں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، فلپائن، جاپان انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے نام ور ممالک آتے ہیں وہیں بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں جو کئی کئی سو جزائر پر مشتمل ہیں۔

یہ جزائر دنیا کی نظروں سے دور بھی ہیں اور غیرمعروف بھی۔ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ان جزائری ممالک کو تین گروپس میں تقسیم کی جاتا ہے۔ پولینیزیا، مائیکرونیزیا اور میلنیزیا۔ نو آبادیاتی دور میں جب طاقت ور ممالک دنیا پر اپنے تسلط کے لیے کوشاں تھے یہ جزائر بھی ان کے زیرقبضہ آتے چلے گئے۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جزائر پر برطانوی سام راج کی نشانی یونین جیک لہرانے لگی۔ امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کے زیرتسلط بھی بہت سے ممالک وسطی اور جنوبی بحرالکاہل میں موجود ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکا اور دیگر طاقتوں نے ان جزائر کا بھرپور استعمال کیا، یہاں فوجی اڈے اور ایئرپورٹ بنائے۔

طویل سفر کے دوران یہ جزائر فوجی دستوں کو تازہ دم کرنے اور جہازوں کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے بے مثال تھے۔ جاپان پر ایٹمی حملہ کرنے والے جہاز بحرالکاہل کے انہی جزائر میں سے ایک ماریانا آئی لینڈ سے روانہ ہوئے، جب کہ یہی جزائر بالترتیب اسپین اور جرمنی کے پاس اور پھر جاپان کے پاس بھی رہے، جہاں انہوں نے ملٹری ایئربیس بنایا جس پر بالآخر امریکا قابض ہوگیا، جب کہ امریکا کے پرل ہاربر پر جاپانی حملے میں بھی ایسے ہی جزائر کام آئے۔ غرض بحرالکاہل کے جزائر کی خوب بندر بانٹ ہوئی۔ آج بھی ان جزائر میں بہت سے ایسے ہیں جہاں انگریزی اور فرانسیسی سمیت ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا وہاں تصور ہی ممکن نہیں۔

فرینچ پولینیزیا118 جزائر پر مشتمل ایک ایسے ملک کا نام ہے جو فرانس سے باہر فرانسیسی جمہوریہ کی ملکیت ہے، یہاں کی سرکاری زبان بھی فرنچ ہے۔ اگر پوری دنیا کا نقشہ سامنے رکھا جائے تو اس میں ان جزائر کا کوئی وجود نظر نہیں آتا، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس ملک کا اپنا ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے، 48 لوکل ایئرپورٹس اور 2 کمرشل و تجارتی بندرگاہیں بھی ہیں۔ یہی نہیں French Polynesia کی اپنی تین کمرشل ایئرلائنز بھی ہیں، لیکن بحرالکاہل کے تمام تر چھوٹے جزائر کی معاشی صورت حال ایسی نہیں۔

بحرالکاہل کے وسط میں واقع جزائر میں سے ایک ملک کا نام مارشل آئی لینڈز ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر جاپان اور جرمنی نے ان جزائر پر قبضہ کیا۔ جو کہ 1944ء میں امریکا کے زیر تسلط آگیا۔ 1979ء تک باقاعدہ امریکا کی کالونی ہونے کے سبب یہاں امریکی ڈالر ہی میں لین دین کیا جاتا ہے۔

مارشل آئی لینڈ کی آمدن کا انحصار زراعت اور سی فوڈ پر ہے، لیکن پاناما کے بعد مارشل آئی لینڈ کو بحری جہازوں کی رجسٹری کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ یہ جہاز غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن انہیں یہاں رجسٹر کروانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سخت بحری و لیبر قوانین سے بچا جاسکے جس کے لیے مارشل آئی لینڈز اور پاناما موزوں ترین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل آئی لینڈ کا امریکی کروڈ آئل کے بڑے خریداروں میں شمار ہوتا ہے۔ باجود اس کے کہ مارشل آئی لینڈ میں کوئی ریفائنری بھی نہیں جو کروڈ آئی کو ریفائن کرسکے۔

1946ء سے 1962ء کے دوران امریکا نے یہاں 105 ایٹمی تجربات کیے جو انتہائی شدت کے تھے۔ ان ایٹمی تجربات کو Pacific Proving Grounds کا نام دیا گیا۔ یہ تجربات نہ صرف زمین پر کیے گئے بلکہ سمندر کی تہہ میں بھی کیے گئے، تاکہ سمندر اور بحری جہازوں پر بھی اس کی تباہ کاریوں کو آزمایا جا سکے۔

مارشل جزائر کے 11,56جزیرے کل 29 حصوں پر مشتمل ہیں۔ یہ حصے دائروں کی شکل میں واقع ہیں اور وسط میں پانی ہے۔ امریکا نے ایٹمی تجربوں کے لیے ’’بکنی‘‘جزائر کو منتخب کیا جو کہ دائرے کی شکل میں واقع ہیں۔ وہاں سے تمام انسانوں کو دوسرے جزائر پر منتقل کردیا گیا۔ تجربات کے لیے خاص طور پر تیار کردہ 95 بحری جنگی جہاز ان جزائر کے وسط میں کھڑے کیے گئے اور ان تجربات کی ہلاکت خیزی کو جانچنے کے لیے مختلف جانور بھی ان جہازوں پر باندھے گئے۔ تجربات تو ہوگئے لیکن ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ان جزائر پر زندگی معدوم ہوگئی اور تاب کاری کے اثرات آج تک سامنے آرہے ہیں۔ کئی ہلاکتیں ہوئیں اور ان گنت لوگ پیدائشی معذوری اور کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔

درجنوں جزائر کاشت کاری کے قابل بھی نہیں رہے، جب کہ متاثرین آج تک اعلان کردہ 2ارب ڈالر امریکی امداد کے منتظر ہیں۔ لیکن امریکی سرکار نے اپنی ریاست کا درجہ رکھنے والے ملک سے اس مد میں امداد کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جوہری تجربات سے متاثرہ 60 جزائر میں سے اب تک صرف 1 کو کلیئر کیا گیا ہے۔ مارشل آئی لینڈ کی حکومت 2015ء میں جوہری عدم پھیلاؤ کی درخواست لے کر عالمی عدالت انصاف گئی جہاں اس نے پاکستان اور بھارت سمیت عالمی جوہری طاقتوں کو فریق بنایا اور یہ مطالبہ کیا کہ عالمی جوہری طاقتوں کو 1970ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل درآمد پر مجبور کیا جائے۔ بڑی جوہری طاقتوں نے عالمی عدالت میں دائر اس درخواست کو ہوا میں اڑا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بے ہنگم صنعتی ترقی اور جوہری ہتھیاروں کے بے دریغ تجربات نے دنیا کے موسمی نظام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آلودگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سمندر کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔

سمندری حیات تباہ ہورہی ہے۔ سمندر کی مسلسل بڑھتی سطح کے نتیجے میں جزائر رفتہ رفتہ غرق آب ہورہے ہیں۔ بہت سے چھوٹے جزائر ڈوب چکے ہیں جو کبھی اپنا وجود رکھتے تھے۔ ماہرین ارضیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مارشل آئی لینڈ سمیت بہت سے جزائر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یوں یہ جزائر اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ متاثرین کی جانب سے اس تمام صورت حال کا ذمہ دار بڑھتی ہوئی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے تجربات کو قرار دیا جارہا ہے جنہیں خود امریکا نے انہی جزائر میں بے دریغ آزمایا۔

The post بقا کی جنگ لڑتے بحرالکاہل کے جزائر appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت؛  ’’اب آپ سب مجھے مسکرا کر رخصت کردیں۔‘‘

$
0
0

قسط نمبر58

اب جب نوجوانوں کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو ایک اور نوجوان کا ذکر خیر کیے لیتے ہیں، اسے فقیر کبھی بھی، جی اک پل بھی فراموش نہیں کرپایا کہ وہ تھا ہی ایسا کہوں یا وہ ہے ہی ایسا، چلیے یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

عجب تھا وہ، ہاں بہت عجیب، ہر ایک کی مدد پر تیار، پورا محلہ اس کی وجہ سے مطمئن تھا۔ نعیم ہمارا پانی نہیں آرہا، اچھا خالہ ابھی کرتا ہوں انتظام، نعیم ہمارا سودا ختم ہو رہا ہے، اچھا پریشان نہ ہوں میں لا دیتا ہوں، نعیم بچوں کی چُھٹی ہوگئی ہے، گھر پر کوئی نہیں ہے انہیں لے آؤ۔ اور نعیم پھرکی کی طرح ہر وقت گردش میں رہتا، ہر اک کی آنکھ کا تارا، سب کا سہارا، کتنے ہی ہاتھ اس کے لیے رب کے حضور بلند رہتے۔ اس سب کے باوجود پڑھنے لکھنے میں سب سے آگے، شاید ہی کبھی اس نے امتیازی پوزیشن چھوڑی ہو۔

اس کے والد بینکار تھے اور بیرون ملک مقیم، پھر انہوں نے اپنی فیملی کو بھی بلالیا تھا۔ وہ دن بھی کتنا عجیب تھا، جب نعیم اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، بچیاں سب ہی تو اداس تھے۔ ان کی آنکھیں برس رہی تھیں اور نعیم سب کو بس یہی کہے جارہا تھا: ارے آپ پریشان مت ہوں میں جلد ہی تو آجاؤں گا۔ پھر آنسوؤں کی برسات میں وہ رخصت ہوگیا اور سارا محلہ خزاں آلود۔

وہ سال بھر باہر رہتا، وہیں پڑھتا اور امتحان دینے کے لیے پاکستان آتا۔ اس کے آتے ہی پھر سے محلے میں بہار آجاتی اور ہر طرف نعیم، نعیم کے گیتوں کی جاں فزا پھوار برسنے لگتی۔ وہ جتنے دن بھی رہتا، وہ دن بہار ہوتے، اور جب چلا جاتا تو خزاں۔

اس کے آنے سے موسم بدلتا، ناراض شجر مسکرانے لگتے، ان پر نئے پتوں اور پھولوں سے بہار آجاتی اور معصوم پرندے چہچہانے لگتے اور اس کے جاتے ہی پھر پت چھڑ۔ نعیم اس وقت آٹھ برس کا تھا جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ حج کے لیے گیا تھا۔ چھوٹا سمجھتے ہوئے وہاں کے نگران اسے بیت اﷲ کے چاروں طرف بنے ہوئے دائرے میں اتار دیتے۔ اس دائرے میں تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا، اور نعیم اکیلا طواف کرتا۔ اس دائرے کے باہر تو خالق کی مخلوق اسے پکارتی رہتی، ہزاروں مرد و زن چکر لگاتے، اور ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، کی صداؤں سے فضاء معطر رہتی اور کم سِن نعیم! کتنے قریب سے پکارتا، میں بھی حاضر ہوں ناں جی۔ طواف سے فارغ ہوکر جب وہ سب اپنے کمرے میں آتے تو وہ کہتا: دیکھا میں دوست ہوں اﷲ کا۔ ہاں وہ ایسا ہی تھا۔ اومان کے شہر مسقط کے ساحل پر وہ ہر شام سائیکل چلاتا اور پھر جم خانہ جاکر کسرت کرتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے پھر پوزیشن لی تھی اور فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا تھا۔

حسب معمول وہ پاکستان آیا ہوا تھا اور پورا محلہ نعیم کی خوش بُو سے معطر تھا۔ ایک رات سوتے ہوئے اس نے اپنی ماں سے کہا: ’’امی میری ایک ٹانگ موٹی ہوگئی ہے۔‘‘ ماں کو پریشان دیکھ کر نعیم ہنس پڑا، امی آپ تو ایسے ہی پریشان ہوگئیں، میں جم جاتا ہوں ناں، تو میں نے اس ٹانگ کی بہت ایکسرسائز کی ہوگی، شاید اس لیے موٹی ہوگئی ہے، میں اب دوسری ٹانگ کی بھی کروں گا تو دونوں ایک جیسی ہوجائیں گی۔ لیکن ماں مطمئن نہیں ہوئی، ماں کی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ لیکن ہر شب کی سحر ہوتی ہے تو بس سحر ہوگئی۔ نعیم کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے ماں کی آواز سنائی دی۔

’’بیٹا تم آج کالج نہیں جاؤگے۔‘‘

’’ کیوں امی، مجھے تو آج بہت ضروری جانا ہے۔‘‘

لیکن ماں کا فیصلہ اٹل تھا: ’’نہیں تم آج میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاؤگے۔‘‘ سعادت مند بیٹے نے سر جھکا لیا۔ تین بجے ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت طے تھا۔ ماں کے لیے وہ لمحات بہت اذیت ناک تھے۔ خدشات سر اٹھا رہے تھے۔ یہ مائیں چاہے کہیں کی بھی ہوں، سب ایک جیسی ہوتی ہیں، اور نہ جانے کیوں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نے ٹانگ کا معائنہ کیا اور کچھ ٹیسٹ بتائے اور رپورٹس لے کر آنے کا کہا۔ ماں نے اسی وقت ٹیسٹ کرائے اور بوجھل دل سے گھر آگئی۔ تیسرے دن نعیم اپنی ماں کے ساتھ ٹیسٹ رپورٹس کے ساتھ ڈاکٹر کے رُو بہ رُو تھا۔

ماہر اور سن رسیدہ ڈاکٹر نے رپورٹس کو بہ غور دیکھا اور پھر نعیم کو باہر جانے کا کہا۔ نعیم باہر نکل گیا تو ڈاکٹر نے اس کی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھیے! ہر دکھ تکلیف اﷲ کی طرف سے آتی ہے، اور اﷲ نے ایسا کوئی مرض نہیں اتارا جس کی دوا نہ ہو، انسان کو صبر کرنا چاہیے اور علاج کرانا چاہیے کہ علاج کرانا حکم خداوندی ہے اور سنت رسولؐ بھی اور نتیجہ اس ذات پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

نعیم کی ماں کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو انہوں نے ڈاکٹر سے کہا: ’’آپ آخر کہنا کیا چاہتے ہیں، مجھ سے کچھ مت چھپائیے اور صاف صاف بتائیے۔ پھر ماں نے وہ خبر سنی جسے سننے کی ان میں تاب نہ تھی۔ نعیم کو خون کا سرطان ہوگیا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ نعیم کو کیا اور کیسے بتایا جائے۔ راستے بھر نعیم ماں کو پریشان دیکھ کر پوچھتا رہا کہ آخر مسئلہ کیا ہے، لیکن ماں اسے کیا اور کیسے بتاتی۔ نعیم کا بڑا بھائی فہیم میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھا۔ ماں نے گھر پہنچ کر فہیم کو بتایا اور پھر سارے گھر میں اداسی چھاگئی۔ لیکن نعیم کو بتانا تو تھا، تو یہ فریضہ فہیم نے ادا کیا۔ نعیم تم سے ایک بات کرنی ہے، فہیم نے کہا: ’’ہاں بھائی، ایک بات کیوں، بہت باتیں کریں۔‘‘ نعیم کی شوخی برقرار تھی۔

’’دیکھو نعیم! جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ لیکن اب ہمت سے کام لینا۔ انشاء اﷲ تم ٹھیک ہوجاؤ گے، تمہیں کینسر ہوگیا ہے نعیم۔‘‘ فہیم یہ بتاتے ہوئے رو پڑا۔ لیکن گھر والوں کو حیرت اس وقت ہوئی، جب نعیم کا جان دار قہقہہ گونجا: ’’تو مجھے کینسر ہوگیا ہے، اوہو اس لیے سب پریشان ہوگئے ہیں، آپ سب پریشان ہونا چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں، آپ دیکھیں گے کہ میرا کینسر، ڈاکٹر کے پاس جائے گا، اور رو رو کر کہے گا کہ مجھے نعیم ہوگیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ نعیم کے بڑے ماموں کے گیسُو دراز تھے۔

انہیں دیکھ کر نعیم نے بھی بال بڑھا لیے تھے۔ وہ اکثر اپنے ماموں سے کہتا: ’’ لطیف ماموں! میرا آپ سے بالوں کا مقابلہ ہے، میں آپ کو ہرا کے دم لوں گا۔‘‘ اور ماموں کہتے: ’’نہیں، نعیم! تم مجھے نہیں ہرا سکتے، اس لیے کہ میں نے سارا جیون آوارگی میں گزار دیا ہے، آزادی سے رہا ہوں، لیکن تم کالج میں پڑھتے ہو اور تمہارے ابا بھی نظم و نسق کے بہت پابند ہیں۔ تم ہار جاؤ گے، بیٹا!‘‘ نعیم اور اس کے ماموں کی یہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ نعیم اپنے خاندان کا ہی نہیں سارے محلے کا چہیتا تھا۔ خلق خدا کی پکار پر ہمیشہ لبّیک کہنے والا۔ پھر اس کا علاج شروع ہوا اور وہ ڈاکٹر کے پاس جانے لگا۔

دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ماہر ترین ڈاکٹرز کی زیرنگرانی ایک بڑے نجی اسپتال میں اس کی کیموتھراپی شروع ہوئی، کیموتھراپی کا درد بھرا سلسلہ اور اس کے مضر اثرات نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ لیکن مجال ہے کبھی نعیم کی پیشانی پر بل پڑے ہوں، وہی ہنسی، وہی زندہ دلی۔ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے نکلا تھا اور اس کی ساری مشکلات کو جانتا تھا۔ وہ دوران علاج کالج جاتا اور اپنے مشاغل میں مگن رہتا۔ ابتدا میں اس نے سب گھر والوں کو منع کردیا تھا کہ وہ محلے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس لیے کہ پھر محلے والے اسے اپنے کسی کام کا نہیں کہیں گے، جو اسے گوارا نہ تھا۔

لیکن حقیقت کب تک چھپ سکتی ہے۔ ہنستا کھیلتا نوجوان اپنی توانائی کھو رہا تھا اور اس کے چہرے پر درد رقم ہو رہا تھا۔ پھر یہ سچ کب تک چھپایا جاسکتا ہے، جب وہ ہفتے میں چار دن اسپتال میں رہتا ہو۔ آخر ایک دن سارے محلے میں یہ خبر کسی دھماکے کی طرح سنی گئی کہ نعیم کینسر میں مبتلا ہے۔ اس دن پورے محلے میں کہرام بپا تھا ہر آنکھ اشک بار، گھر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، ہر ایک پوری تفصیل جاننے کا خواہش مند تھا۔ نعیم اس وقت بھی مسکرا رہا تھا اور سب کو کہے جا رہا تھا: آپ پریشان مت ہوں، بس دعا کریں، میں کہیں نہیں جاؤں گا، ہاں! میں آپ کو ایسے کیسے چھوڑ کے جاسکتا ہوں۔

دن گزرنے کے لیے ہیں، سمے کو کون روک سکا ہے۔ نعیم کو علاج کراتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا اور اس دوران تین مرتبہ اس کی کیموتھراپی ہوچکی تھی۔ امتحانات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا تھا اور ایڈمٹ کارڈ مل چکے تھے۔ نعیم اس حالت میں بھی تیاری کر رہا تھا۔ امتحانات شروع ہوئے تو لوگوں نے عجیب منظر دیکھا۔ نعیم کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ ایمبولینس میں اپنے امتحانی سینٹر پہنچا، اس نے اپنے سارے پرچے اسی طرح دیے تھے۔

وہ اذیت جھیلتا رہا اور کینسر اسے گھن کی طرح چاٹتا رہا۔ وہ جسمانی طور پر ختم ہوتا جارہا تھا، لیکن اس کا حوصلہ دن بہ دن بلند ہورہا تھا، وہ مسکراتا تو محلے اور گھر والوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ جتنے دن بھی اس کے پاس رہ گئے ہیں وہ جیے گا۔ وہ سب کو کہتا: آپ پریشان نہ ہوں، میں ٹھیک ہو رہا ہوں، لیکن سب نابینا تو نہیں تھے، ساری حقیقت ان کے سامنے تھی۔ اس کے والد نے اسے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کی پوری تیاری بھی ہوچکی تھی۔

ایک دن ڈاکٹر سے نعیم نے کہا: ’’آپ بہت اچھے ہیں، آپ نے میری بہت خدمت کی، لیکن آج کے بعد میں آپ کو زحمت نہیں دوں گا، کیا آج آپ مجھے گھر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟‘‘ ہم درد ڈاکٹر نے توجہ سے اس کی بات سنی اور پوچھا: تم گھر کیوں جانا چاہتے ہو؟ نعیم کا جواب عجیب سا تھا: ’’ڈاکٹر! آپ جانتے نہیں ہیں کہ میں نے گھر میں بہت ساری بطخیں پالی ہوئی ہیں، گھر کے لان میں بہت سارے پھولوں کے پودے لگائے ہوئے ہیں، سب لوگ تو مجھ سے ملنے اسپتال آجاتے ہیں، لیکن وہ پودے اور بطخیں تو یہاں نہیں آسکتیں، مجھے معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہیں اور پودے بھی، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ میں کسی کو بھی خفا نہیں دیکھ سکتا اور آج تو میں نے ان سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، انہیں کچھ سمجھانا ہے، انہیں منانا ہے، پھر شاید مجھے موقع نہ ملے۔‘‘

گھر والے اور ڈاکٹر حیرت سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے پیار سے دیکھا اور بولے: دیکھو نعیم، تم صحت یاب ہوجاؤ گے میں تمہیں آج گھر جانے کی اجازت اس شرط پر دیتا ہوں کہ کل صبح تم واپس اسپتال آؤگے۔ نعیم مسکرایا اور کہنے لگا: ڈاکٹر! آپ نے میری بات توجہ سے نہیں سنی، میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں اب آپ کو زحمت نہیں دوں گا، بل کہ کسی کو بھی نہیں۔ اس نے اسپتال کے سارے عملے کا شکریہ ادا کیا، اور اسے ایمبولینس میں لٹا دیا گیا۔

سورج کہیں اور جا نکلا تھا۔ تاریکی نے روشنی کو پسپا کردیا تھا، انہی تضادات میں پوشیدہ ہے راز ہستی و کائنات۔ خانہ خدا سے بس اسی واحد ذات کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا جو ہمیشہ بلند ہوتا رہے گا۔ مغرب کی نماز اس نے گھر ادا کی۔ خاندان اور پورا محلہ اسے دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ آج تو ایسا لگ رہا تھا جیسے نعیم کبھی بیمار ہی نہیں ہوا، وہی جان دار قہقہے، وہی شرارت بھری باتیں، وہی تسلیاں، جو وہ ہر ایک کو دیا کرتا تھا۔ پھر اس نے اپنے لگائے ہوئے پھولوں کے پودوں اور اپنی ساری بطخوں سے مخاطب ہوکر کہا: ’’تم سب مجھ سے خفا نہیں ہوسکتے، میں تم سے ملنے آگیا ہوں، لیکن آج کے بعد تم امّی کا کہا مانو گے، اچھے بچے اپنی امّی کا کہنا مانتے ہیں اور اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں، تم سب امّی کا بہت خیال رکھنا، مجھے تو تم بہت تنگ کرتے رہے ہو، لیکن ہم تو دوست ہیں کوئی بات نہیں، لیکن امّی کو نہیں تنگ کرنا اور سنو! میں کہیں نہیں جا رہا، میں یہیں رہوں گا لیکن ہوسکتا ہے ناں کہ تم مجھے دیکھ نہ سکو۔‘‘

سب حیرت سے اسے سُن رہے تھے۔ نعیم کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر روتے ہوئے کہا: یہ کیا کہہ رہے ہو تم نعیم۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: ’’امی! آپ بھی بس پریشان ہوجاتی ہیں، چلیں مجھے نوڈلز بنا کر دیں۔‘‘ وہ سب سے گپ شپ کر رہا تھا، اور رات تاریک ہوتی جارہی تھی۔ بارہ بجے اس نے سب سے کہا: ’’اب آپ سب آرام کریں۔ سب رخصت ہوگئے۔‘‘ اس کی خالہ اور ماموں اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، نعیم نے مسکراتے ہوئے اپنے ماموں سے کہا: ’’لطیف ماموں! میں آپ سے ہار گیا، میرے بال ہی جھڑ گئے، چلیں کوئی بات نہیں، اب آپ بھی آرام کریں۔‘‘ اس کے اصرار پر وہ یہ کہتے ہوئے کہ جب ضرورت ہو تم آواز دے لینا اپنے کمرے میں چلے گئے۔ روشنی اور تاریکی کی جنگ میں نصف شب بیت گئی تھی۔

تین بج رہے تھے کہ نعیم نے آواز دی۔ سب کو جگائیں، سب گھر والے جاگ گئے۔ اور پھر سب نے سنا، نعیم کہہ رہا تھا: ’’میں نے آپ سب کو بہت تنگ کیا، میری وجہ سے آپ سب بے آرام ہوئے، راتوں کو جاگے، میری خدمت کی، میں بہت خوش ہوں، آپ سب نے یہ اس لیے کیا تھا ناں کہ میں صحت یاب ہوجاؤں اسی لیے کیا تھا تھا ناں ۔۔۔۔۔ ‘‘ سب نے کہا: ’’ہاں تم ہمیں بہت عزیز ہو، پیارے ہو، اسی لیے ہم نے یہ سب کچھ کیا، ہم تمہیں تن درست اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’ تو بس پھر آپ سب خوش ہوجائیں، آپ سب کی محنت اکارت نہیں گئی، میں تن درست ہوگیا ہوں، خوش ہوں، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ اب آپ کبھی اداس نہ ہوں گے، میری تکلیفیں راحت میں بدل گئی ہیں۔ امی! آپ ہی تو کہتی تھیں کہ ہر تکلیف کے بعد راحت ہے، تو آپ نے سچ کہا تھا۔ بھائی! آپ جلد ڈاکٹر بن جائیں گے۔ آپ کو مجھ سے بہت پیار ہے ناں تو بس آپ ہمیشہ ہر مریض کو اپنا نعیم سمجھیں گے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے بہت خوشی ہوگی اور آپ کو بھی۔ آپ سب بدر باجی اور احمد یار بھائی کا بہت خیال رکھیے گا۔ اس لیے کہ وہ بول سُن نہیں سکتے۔ امی! آپ تو ہیں ہی جنّتی، آپ نے ہم سب کا کتنا زیادہ خیال رکھا۔

وہ دیکھیے کتنی اچھی جگہ ہے، میں نے آج تک ایسی خوب صورت جگہ نہیں دیکھی، اتنے پیارے پھول، اتنے اچھے پھل دار درخت ہیں، بہت ہی زیادہ خوب صورت۔ وہ دیکھیے بہت خوب صورت لباس پہنے ہوئے لوگ مجھے لینے آئے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے جگایا تھا کہ اب تم تن درست ہوگئے ہو، ہم تمہیں لینے آئے ہیں، سب گھر والوں کو جگاؤ ان سے ملاقات کرلو، تو میں نے آپ کو جگایا، مجھے اب ان کے ساتھ جانا ہے، میں بہت خوش رہوں گا۔‘‘

نعیم بولے جارہا تھا اور سب مبہوت اسے سن رہے تھے۔ پھر اچانک اس نے آنکھیں موند لیں اور خاموش ہوگیا۔ اس کے ابّو نے بے چین ہوکر کہا: ’’نعیم بیٹا! کلمہ پڑھو۔‘‘ نعیم نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں، دوسری طرف دیکھا اور کہا: ’’ابّو آپ پریشان مت ہوں، ابھی میرے پاس وقت ہے، ان لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ہم خود تمہیں کلمہ پڑھائیں گے اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔‘‘

وہ لمحات بھی عجیب تھے، ایک عجیب سا سکون طاری تھا، کوئی بھی تو نہیں رو رہا تھا، بس خاموشی، مکمل سکوت، سکون اور طمانیت۔ نعیم کی امی سورہ یٰس کی تلاوت کر رہی تھیں۔

پھر اچانک اس نے آنکھیں وا کیں، سب کی طرف دیکھا، مسکرایا اور کہا: ’’اب آپ سب مجھے مسکرا کر رخصت کردیں۔‘‘

نعیم نے بہ آواز بلند کلمہ طیّب پڑھنا شروع کیا۔

روشنی نے تاریکی کو دھکیل دیا تھا، خانۂ خدا سے اذان فجر بلند ہو رہی تھی۔

The post جہاں گشت؛  ’’اب آپ سب مجھے مسکرا کر رخصت کردیں۔‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

منفرد چڑھاوے اور کرامات

$
0
0

کراچی سے کشمور تک پھیلے سندھ میں لاتعداد درگاہیں، خانقاہیں اور مزارات موجود ہیں اور ان سے منسوب کرامات، روایات اور داستانیں بھی کم نہیں۔

حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ معاشروں کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے اول حکم راں کہ بے علم ہوں دوم علما جو بے عمل ہوں اور سوم فقرا جو بے توکل ہوں۔ صوفیائے کرام کی ارض مہران میں خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انھوں نے یہاں ایک طرف اسلام کا پیغام پھیلایا دوسری طرف برداشت، صلح کُل، بین المذاہب ہم آہنگی اور احترام انسانیت کا پرچار کیا جس کے اثرات آج بھی صوبے کی معاشرت پر جا بجا نظر آتے ہیں۔

مزارات اور سجادہ نشین تاریخ کا دل چسپ موضوع ہیں ڈاکٹر سارہ انصاری نے تو سندھ کے پیروں کے سیاسی اثرات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ اس مقالے میں انگریزوں سے ملنے والی مراعات، کمشنر و گورنر کے دربار میں کرسی نشینی، آفریں ناموں، اسلحے کے لائسنسوں اور دیگر سہولتوں کے حصول کے لیے ان ’’بڑے لوگوں‘‘ میں جاری کشمکش کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔ بات ہے ان درگاہوں، خانقاہوں اور مزارات سے منسوب کرامات اور منتوں مرادوں کی تکمیل پر چڑھائے جانے والے نذرانوں کی۔

ضلع بدین میں پنگریو کے قریب سائیں سمن سرکار کی درگاہ ہے۔ ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان اضلاع کا شمار زیریں سندھ میں ہوتا ہے جسے اس نسبت سے لاڑ پکارا جاتا ہے جب کہ جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، کندھکوٹ اضلاع بالائی سندھ میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کو ’’اتر‘‘ کی نسبت سے ’’اترادی‘‘ کہا جاتا ہے۔ سائیں سمن سرکار کے عرس اور عام ایام میں عقیدت مند مرغ کا چڑھاوا دیتے ہیں۔ روایت ہے کہ مجذوب سید سمن شاہ کے گرد مرغ جمع رہتے تھے اور ان کی رغبت دیکھتے ہوئے زائرین بھی مرغ لانے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ کوئی سائیں سے دعا کے لیے التجا کرتا تو سائیں فرماتے ’’تیرا کام ہوجائے گا، ہمارا مرغ مت بھولنا‘‘ اور ایسا ہی ہوتا تھا۔

ٹنڈو باگو کے انور عباسی، بدین کے خالد محمود گھمن اور ماتلی کے اسلم قائم خانی نے ایسے کئی واقعات بھی بیان کیے جو مقامی لوگ کچہریوں (محفلوں) میں سائیں سمن سرکار کا ذکر آنے پر ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ تھر کی لوک فن کارہ مائی بھاگی کا ایک گیت ہے:

’’سمن سائیں میں تمہارے در کی کنیز ہوں عقیدت سے دربار کے پانی کے مٹکے اور مون (تین ساڑھے تین فٹ اونچے مٹی کے برتن) بھروں گی۔‘‘ (ترجمہ)

سائیں سمن سرکار کا عرس ہر سال اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے شروع میں دھان کی فصل اترنے کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں قرب و جوار ہی نہیں دوردراز سے بھی زائرین کی بڑی تعداد شرکت کے لیے پہنچتی ہے۔

انور عباسی نے درگاہ احمد راجو پر چڑھائے جانے والے بھینسوں کا یاد دلایا گولارچی جو سجاول بدین اضلاع کا سرحدی شہر ہے۔ اس کے نواح میں یہ مزار واقع ہے۔ یہاں منتوں مرادوں کی تکمیل پر بھینسوں یا پاڈوں کا چڑھاوا دیا جاتا ہے جو درگاہ کی ملکیت ہوتے ہیں اور انھیں فروخت نہیں کیا جاتا۔ چوںکہ بدین میں دھان کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور گولارچی میں تو اس کی منڈی بھی ہے۔

اس لیے درگاہ کے عقیدت مند یہ جنس بھی ہدیہ کرتے ہیں اور ہر قمری ماہ کے پہلے نوچندی اتوار کو زائرین کی تعداد دیکھتے ہوئے ایک دو یا زائد بھینسے ذبح کرکے ان کا گوشت اور چاول تیل یا گھی ڈالے بغیر لنگر تیار ہوتا ہے جس کا ذائقہ بھی مثالی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ چڑھائے گئے بھینسے یہاں آزادانہ گھومتے ہیں اور کھیتوں یا زرعی زمینوں میں چرمنے کا کوئی برا نہیں مانتا۔ ماضی میں تو کوئی واردات نہیں ہوتی تھی لیکن بقول انور عباسی اب کبھی کبھار مویشی چور ایسا کر گزرتے ہیں لیکن ان کی نشان دہی فوراً ہوجاتی ہے جس کا انھیں ازالہ مع ہرجانہ کرنا پڑتا ہے۔

ضلع بدین میں لواری شریف کی درگاہ بھی ہے جو سندھ کے متمول پیروں میں شمار ہوتے تھے۔ پیر سائیں گل حسن بادشاہ کی رحلت کے بعد چوںکہ ان کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لیے سجادہ نشینی کا تنازعہ اسے دو حصوں میں منقسم کر گیا۔ کچھ مریدین نے مرحوم کی صاحب زادی کے بیٹے یعنی نواسے پیر محفوظ کو گدی نشین تسلیم کیا تو دیگر نے ان کے خلیفہ فیض محمد،جو درگاہ قاضی احمد ضلع نواب شاہ کے سجادہ نشین تھے، کو مستحق مسند نشین جانا۔ آج کل مرحوم فیض محمد کے صاحب زادے پیر محمد صادق قریشی دونوں درگاہوں کے سجادہ نشین ہیں۔ ضلع بدین میں ماتلی کے قریب شاہ دیوانوں ہاشمی کی درگاہ بھی معروف ہے جس کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہے۔

خیرپور میں بیگماجی ریلوے اسٹیشن کے قریب حضرت پیر سید راجن قتال جہانیاں بخاری المعروف مست سرکار کا آستانہ ہے۔ ان بزرگ کا تعلق اوچ شریف سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں دعاؤں کے لیے آنے والے منت یا مقصد کی تکمیل پر ’’گدھے‘‘ کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔ کہتے ہیں راجن قتال درویش خدامست تھے۔ کسی نے کوئی خواہش ظاہر کی اور دعا کے لیے کہا تو مست سرکار نے جواب دیا ’’تیری خواہش پوری ہوجائے تو ہمیں سواری کے لیے گدھا لا دینا۔‘‘ ان کی زندگی اور وفات کے بعد بھی لوگ منت پوری ہونے پر گدھے کو سجا سنوار کر خوب صورت چادروں سے مزین کرکے وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔

مدتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ عرس اور عام ایام میں یہاں عقیدت مندوں کی خاصی تعداد ہمہ وقت دیکھی جاتی ہے۔ ہمارے خیرپور کے دوست محب اللہ شاہ کے ماموں عبدالغنی بلوچ اسی درگاہ کے معتقد ہیں۔ انھوں نے ایسے بہت سے واقعات لوگوں کی حاجت براری کے بتائے اور خیرپور کے دیگر دوستوں نے بھی تصدیق کی کہ واقعی ایسا کچھ ہوتا ہے۔

خیرپور کو ویسے بھی میروں، پیروں اور کھجوروں کا دیس پکارا جاتا ہے۔ اول یہاں کے تالپور حکم رانوں کا لقب ہے، وہ میر کہلاتے تھے، دوسرے یہاں پیران پگارا، رانی پور، کھوڑا، گمبٹ سمیت کئی دیگر شہروں کے پیر اثرورسوخ رکھتے ہیں، درازہ میں حضرت سچل سرمست کا مزار موجود ہے اور خیرپور میں حضرت ابراہیم ادھم کی درگاہ بھی ہے، اور کھجور یہاں کی مشہور فصل ہے۔ نایاب اقسام کی کھجوریں اور طویل رقبے پر پھیلے ان کے باغات خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ خیرپور کی خشک کھجوروں کے چھوارے بڑی تعداد میں بھارت برآمد کیے جاتے ہیں جنھیں وہاں مندروں میں ناریلوں کی طرح چڑھاوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

پنجاب میں ایک درگاہ کانواں والی سرکار کہلاتی ہے۔ صاحب درگاہ کوؤں کی خوراک و نگہداشت کے لیے وسائل استعمال کرتے تھے تو اسی نسبت سے ان کا نام ہی اسی نسبت سے مشہور ہوگیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر عروس البلاد کراچی میں نصف درجن کے قریب درگاہیں منفرد چڑھاووں کی وجہ سے مشہور ہیں جب کہ متعدد دیگر کی اپنی وجہ شہرت ہے۔ ڈیفنس کراچی میں واقع حضرت مصری شاہ کی درگاہ پر ان کے عقیدت مند مصری کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یہ تحفہ ہی ان کے نام کا سبب بن گیا یا پھر ان کے نام کی نسبت سے لوگ مصری لے جانے لگے۔

کئی روایات ہیں جو عقیدت مند بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح کیماڑی کراچی میں پیر غائب شاہ کا مزار، ڈاکخانے کے قریب واقع ہے۔ آپ سے بہت سے کشف و کرامات منسوب ہیں۔ آپ کے عقیدت مند یہاں گُڑ کا تحفہ لے کر جاتے ہیں۔ منوڑہ کے بابا یوسف شاہ مہدوی اور کیماڑی کے غمازی غائب شاہ کے عقیدت مندوں کا دعویٰ ہے کہ 65ء کی جنگ میں بہت سے لوگوں نے انھیں بھارتی طیاروں سے گرنے والے بموں کو فضا میں پکڑتے اور سمندربُرد کرتے دیکھا۔ ایم اے جناح روڈ پر ہرمزجی اسٹریٹ گاڑی کھاتہ میں حضرت سچل شاہ بخاری مستان بابا کے مزار پر عقیدت مند نمک لے کر جاتے ہیں جو وہاں موجود طشت میں چڑھا دیتے ہیں۔ اس نمک کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کئی امراض اور آسیب زدہ شخص کے چھٹکارے میں شفا ہے۔ یہاں ایک ضعیف خاتون آنے والوں کو پانی پلایا کرتی تھیں۔ وفات کے بعد بھی وہاں ان کی مسند کے پاس موجود پانی کی بوتلیں بطور تبرک استعمال کی جاتی ہیں۔

آسیب زدگان کے لیے تین ہٹی کے مزار بابا نور علی شاہ غازی کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ویسے ٹھٹھہ میں درگاہ شاہ عقیق پر پیچیدہ امراض کے شکار افراد کی شفا یابی اور روحانی علاج کے لیے مشہور ہے یہاں آنے والوں کو صحت یابی کی نوید خواب میں سنائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت جسم کے متعلقہ حصے پر سرجری کا نشان ہوتا ہے جسے وہ روحانی آپریشن قرار دیتے ہیں جبکہ جلالی بابا ٹھٹھہ جناتی بابا کے مزاروں پر آسیب زدہ افراد کا علاج ہونے کی روایات ہیں۔

عثمان دموہی نے اپنی تصنیف کراچی میں بھیم پورہ کی درگاہ ابراہیم شاہ بخاری کا تذکرہ کیا ہے جو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے عرس کا اہتمام آج بھی بچے کرتے ہیں جب کہ صدر کے علاقے میں ایک مزار کا انتظام اور عرس پارسی اور کرسچن کرتے تھے۔ مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال اس اکبر روڈ کے مندر میں تعزیہ داری ہے جو برسوں سے ہو رہی ہے اور بھیم پورہ اور نارائن پورہ میں اقلیتی آبادی عزاداری کا اہتمام کرتی ہے۔

مزارات اور ان سے منسوب کرامات کے حوالے سے کراچی میں حضرت بابا عبداللہ شاہ غازیؒ اور منوڑا میں یوسف شاہ مہدوی کے مزارات منفرد نوعیت کے حامل ہیں۔ ساحل منوڑا پر واقع مزار کی انتظامیہ نے بورنگ کرائی تو زمین سے نکلنے والا پانی میٹھا تھا، حالاںکہ سمندر چند فٹ کے فاصلے پر موجویں مار رہا ہے۔ اسی طرح سیکڑوں برس سے بابا عبداللہ شاہ غازی کے مزار والی پہاڑی کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ موجود ہے۔ پچاس برس قبل تک تو پہاڑی سے سمندری پانی ٹکرا کر واپس جاتا تھا لیکن چشمے کا پانی ہنوز میٹھا ہے۔

اس طرح بھارت میں امروہہ کے شاہ ولایت کی درگاہ پر زہریلے بچھو پھرتے ہیں اور کوئی نہیں کاٹتا یوں لگتا ہے کہ ان کا زہر ختم ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ مزار سے بچھو باہر لے جایا گیا تو اس کے کاٹے کے زہریلے اثرات مرتب ہوئے جب کہ باہر کے بچھو کو اندر لایا گیا تو وہ اپنی صفت کھو بیٹھا۔ اسی طرح حیدرآباد دکن میں چیونٹی شاہ کے مزار پر زہریلی چیونٹیاں گھومتی پھرتی ہیں لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ افغانستان میں قندھار کا معجزاتی قبرستان بھی مشہور ہے جہاں مدفون بعض بزرگوں سے کرامات کا اظہار آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مزارات ہیں جن سے ملحقہ درختوں پر آہنی کیل گاڑ دی جائے تو کیل گاڑنے والے شخص کے دانت کا درد ختم ہوجاتا ہے۔

سائنس کی اپنی توجیہات ہیں اور اہل علم کی اپنی تحقیقات لیکن کچھ چیزیں کچھ معاملات ایسے ضرور سامنے آتے ہیں جنھیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ان لوگوں کے لیے تو بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے جو ان کے ارادت مند بھی ہوں۔

بہرکیف سندھ ہو یا برصغیر کے دیگر علاقوں مزارات ان سے منسوب کرامات اور ان پر چڑھائے جانے والے چڑھاوے گفتگو کا دل چسپ موضوع ضرور ہیں۔

The post منفرد چڑھاوے اور کرامات appeared first on ایکسپریس اردو.

کبوتر جانے ریاضی، ڈولفن رکھے نام

$
0
0

ہماری اس دنیا کو ﷲ تعالیٰ نے ہر طرح کے جان داروں سے زینت بخشی ہے اور اسے مختلف رنگوں سے سجا اور سنوار کر لوگوں کے لیے ایک ایسی نعمت بنادیا ہے کہ وہ اسے دیکھ کر بار بار اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کرۂ ارض پر بسنے والی مخلوقات سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور سے جنگلوں میں بسنے والے جانور، چرند پرند اور حشرات الارض تو بے مثال ہیں۔

ذیل میں ہم کچھ ایسے جانوروں کا احوال بیان کررہے ہیں جو اپنی غیرمعمولی صفات کی بنا پر نہ صرف لوگوں کو حیران کرتے ہیں بلکہ انہوں نے پوری دنیا کے لیے ایک حیرت انگیز مثال بھی قائم کردی ہے۔ آئیے اس احوال پر نظر ڈالتے ہیں۔

 گائیں بہترین دوست ہوتی ہیں:

یونی ورسٹی آف نارتھمپٹن میں کیے جانے والے ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گائیں بہت مضبوط اور ٹھوس سماجی تعلقات کی حامل ہوتی ہیں اور جب وہ کسی بھی وجہ سے اپنے قریبی اور گہرے دوستوں سے دور ہوجاتی ہیں تو ان میں ایک عجیب و غریب تبدیلی یہ آتی ہے کہ وہ اپنی جسمانی تھکن اور ذہنی الجھن کا اظہار کرتی ہیں جسے ان کے ساتھی جانور بھی محسوس کرتے ہیں اور جب بھی گایوں کو ایک ذاتی اور عزیز ساتھی کی تلاش ہو تو فوراً نئے دوست بنالیتی ہیں۔ یہ گایوں کے حوالے سے ایک حیرت انگیز انکشاف ہے جس نے خود ماہرین کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔

 کبوتر ریاضی کے سوال حَل کرسکتے ہیں:

محققین نے اچھی خاصی محنت اور ریسرچ کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ کبوتروں میں ایک بہت خاص قسم کی وہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ میتھ یعنی ریاضی کے سوالوں کو سمجھتے ہیں اور انہیں آسانی سے حل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے جانوروں میں بندر وہ خاص جانور ہوتے ہیں جو  ریاضی کے سوالات کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے، بلکہ انہیں کسی بھی پریشانی یا الجھن کے بغیر حل بھی کرسکتا ہے۔ ہے ناں دل چسپ بات؟

 زیبرے کے جسم کی پٹیاں یا دھاریاں کیڑے مار دوا کا کام کرتی ہیں:

ایک تجرباتی بیالوجی میگزین کے مطابق زیبرے کے جسم پر دکھائی دینے والی سیاہ و سفید پٹیاں یا دھاریاں کیڑے مار دوا کا کام کرتی ہیں اور زیبرے اس کی مدد سے کھٹمل مچھر مکھیاں دور بھگادیتے ہیں۔ ہے تو یہ نہایت حیرت انگیز بات، مگر ماہرین نے اس پر طویل ریسرچ کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے بلکہ بالکل سچ ہے کہ زیبرے کی جسمانی سفید اور سیاہ پٹیاں یا دھاریاں کیڑے مکوڑوں اور دیگر حشرات الارض کو اپنے قریب نہ آنے دیں اور وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان دھاریوں کو دیکھ کر ہی دور بھاگ جائیں۔ یہ ہے انوکھی دنیا!

 جنگلی چمپانزی بادہ خوار بھی ہوتے ہیں:

یہ کیسا حیرت انگیز انکشاف ہے جو عام آدمیوں نے نہیں کیا، بلکہ پڑھے لکھے، تجربہ کار اور تعلیم یافتہ حضرات نے کیا ہے۔ رائل سوسائٹی اوپن سائنس میں شائع ہونے والی ایک حیرت انگیز تحقیق نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کینیا کے چمپانزی شراب نوشی کے شوقین بھی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے اطراف میں موجود ایسی جڑی بوٹیوں اور پیڑ پودوں سے استفادہ کرتے ہیں جن میں نشہ شامل ہوتا ہے اور جن کے استعمال سے وہ ایسا ہی لطف حاصل کرتے ہیں جیسے انہوں شراب کا پورا گلاس چڑھالیا ہو۔

سمندری اود بلاؤ اوزار استعمال کرسکتے ہیں:

ہمارے قارئین کے لیے یہ انکشاف نہایت حیرت کا باعث ہوگا کہ ہمارے اس کرۂ ارض پر بسنے والی مخلوق میں ایک ایسی مخلوق بھی ہے جسے اگر ہم کاریگر یا انجینئر مخلوق کہیں تو حیرت نہیں ہوگی۔ اس مخلوق کا نام ہے سمندری اود بلاؤ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ سمندری اودبلاؤ اوزار اور آلات استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنے اطراف میں پائی جانے والی چیزوں کو اوزاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سمندر کے پانی میں پائے جانے والے قدرتی آلات بھی شامل ہیں اور سمندر کے پانی میں ملنے والے آبی آلات بھی شامل ہیں۔

عام طور سے سائنس داں یہ سوچتے ہیں کہ ڈولفنز میں اوزاروں اور آلات کے استعمال کا ایک نیا اور انوکھا تصور عام ہورہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ سمندری اود بلاؤ لاکھوں سال سے یہ آلات اور اوزار استعمال کررہے ہیں، لیکن اس کا انکشاف حال ہی میں اس وقت ہوا جب ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کی اور اس ضمن میں ٹھوس شواہد بھی پیش کیے کہ سمندری اود بلاؤ واقعی کاریگر یا انجینئر ہوتے ہیں۔

مینڈک مَرے بغیر بھی منجمد ہوسکتے ہیں:

ہمارے ماہرین اور سائنس داں اپنی لیباریٹریوں میں عام طور سے مینڈک اور اس جیسے جانوروں کو مرنے کے بعد منجمد کرکے مستقبل میں تجرباتی کاموں کے لیے محفوظ کرلیتے ہیں، لیکن کسی مینڈک کو مرے بغیر منجمد اور فریز کرکے محفوظ کرنے کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے۔ کارلٹن یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق وہ موسم بہار میں بھی کسی منجمد چیز کو پگھلاکر بالکل نئی کی طرح بناسکتے ہیں اور اسی طرح مینڈک کو مرے بغیر بھی منجمد کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا روپ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرکے بھی دکھادیا جس پر ان کے ساتھی حیران رہ گئے۔

نر گھوڑوں کے اپنی ماداؤں کے مقابلے میں زیادہ دانت ہوتے ہیں:

حال ہی میں کی جانے والے ایک حیرت انگیز تحقیق یہ بتاتی ہے کہ نر گھوڑوں کے منہ میں 40  پکے یا مستقل دانت ہوتے ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی ماداؤں یعنی گھوڑیوں کے دانتوں کی تعداد کم ہوتی ہے، اگر نر گھوڑوں کے دانت صرف 40 ہوتے ہیں اور مادہ گھوڑیوں کے دانتوں کی تعداد صرف 36 ہوتی ہے۔ نر اور مادہ کے دانتوں میں اس فرق کی بنیادی وجہ یا وجوہ کیا ہیں، ان کے بارے میں تو ماہرین کچھ نہیں بتاتے، لیکن ان کا اندازہ یہ ہے کہ چوں کہ نر گھوڑا اپنے دانتوں کا زیادہ استعمال کرتا ہے، اس لیے اس کے دانتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس کے مقابلے میں مادہ گھوڑی چوں کہ دانتوں کا استعمال کم کرتی ہے تو اس کے دانت بھی اسی تناسب سے کم ہوتے ہیں۔

کوالا ریچھ یا کوالا بیئر ایک دن میں 22 گھنٹے تک سوتا ہے:

کوالا بیئر یا کوالا ریچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سست اور غیر فعال جانور ہے اور اپنے پورے دن کا زیادہ وقت ایک گھریلو بلی کے مقابلے میں اونگھتے ہوئے یا نیم غنودگی کی حالت میں گزارتا ہے، جب کہ گھریلو بلی اس کے مقابلے میں زیادہ فعال اور ایکٹیو ہوتی ہے اور اپنے اطراف سے زیادہ باخبر رہتی ہے۔

سفید نیولوں کی مصروفیت:

سفید نیولے زیادہ تر گروپس کی شکل میں رہتے ہیں، کیوں کہ وہ بہت زیادہ پروفیشنل قسم کے جان دار ہوتے ہیں۔ وہ جب بھی نظر آتے ہیں تو گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں اور اس طرح مل جل کر رہتے ہیں کہ ہر وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ حالاں کہ وہ زیادہ یا کم مصروف نہیں ہوتے، ان کی مصروفیت اپنی جگہ ہی ہوتی ہے، لیکن چوں کہ وہ ایک ہجوم یا گروپ کی شکل میں رہتے ہیں، اس لیے ہمیشہ ایسے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی برادری کے ساتھ بہت اہم ایونٹ میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں مصروف جانور کہا جاتا ہے۔

آکٹوپس کچھ چکھنے کے لیے اپنے بازو استعمال کرتے ہیں:

ہے ناں ایک حیرت انگیز بات! بھلا آپ نے پہلے کبھی یہ بات سنی ہے کہ کوئی جان دار یا جانور اپنی زبان کے بجائے اپنے بازوؤں کی مدد سے کسی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے یا چکھنے کا کام کرتا ہے، مگر سمندری آبی مخلوق آکٹوپس کو قدرت نے اس صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ اپنے بازو کی مدد سے پانی کے اندر موجود کسی چیز کا مزہ یا ذائقہ محسوس کرلیتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پانی میں موجود مزے دار مالیکولز یا سالموں کا پتا چلانے کے لیے اپنے suckers یا بازو استعمال کرتا ہے جو ان سالموں کو محسوس کرکے ان کے ذائقے کی پہچان کرلیتے ہیں۔

ڈولفنز ایک دوسرے کے نام بھی رکھتی ہیں:

ریاست ہائے متحدہ امریکا کی Proceedings of the National Academy of Sciencesمیں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق بوتل کی ناک والی ڈولفنز ایک دوسری کے لیے خاص نام بھی رکھتی ہیں اور انہی ناموں سے پہچانی بھی جاتی ہیں۔ یہ نام ان کی ہنسی کے حوالے سے دیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ڈولفنز کی ہنسی بڑی عجیب ہوتی ہے اور وہ اپنی اس ہنسی کے حوالے سے انسانوں میں بہت مقبول بھی ہیں اور انہی کے باعث ان کے مختلف اور دل چسپ نام بھی رکھے جاتے ہیں۔

رینڈئیر کی آنکھیں سردی میں نیلی ہوجاتی ہیں:

آپ سب جانتے ہیں ناں کہ رینڈیئر برفانی علاقوں کا وہ جانور یا گھوڑا ہے جو ان علاقوں میں باربرداری کا کام بھی کرتا ہے اور اس علاقے کے مکینوں کا سامان بھی ڈھوتا ہے، اور پھر اس علاقے کے رہنے والے ضرورت پڑنے پر رینڈیئر کا گوشت بھی کھا جاتے ہیں، گویا یہ ان مکینوں کے لیے ہر طرح سے لازم و ملزوم ہے۔ اس رینڈیئر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سردی کے موسم میں رینڈئیر کی آنکھیں اپنا رنگ بدل کر نیلی ہوجاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ماہرین اور سائنس داں اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ شدید سردی کے موسم میں قدرتی طور پر رینڈیئر کی آنکھیں اس لیے نیلی ہوجاتی ہیں، تاکہ وہ اس شدید موسم میں سورج کی زیادہ سے زیادہ روشنی استعمال کرسکیں۔

 زرافوں کی زبانیں کالی کیوں ہوجاتی ہیں:

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جب زرافے کچھ کھارہے ہوتے ہیں تو انہیں سورج کی روشنی سے ملنے والی تیز حدت پورے طور سے نہیں مل پاتی اور اسی لیے ان کی زبانیں کالی ہوجاتی ہیں۔ بہ ظاہر تو یہ زرافوں کی زبانیں کالی ہونے کی ایک عام وجہ ہے اور شاید اسی لیے ان کو دھوپ کی مطلوبہ مقدار اور اس کے خواص نہیں مل پاتے تو اس بے چارے لمبی گردن والے جانور کی زبان کالی ہوجاتی ہے۔

گھڑیال دریائی گائے کو اپنے آگے تیرنے دیتے ہیں:

یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ گھڑیال جس کا غصہ اور اشتعال مشہور ہے، وہ کبھی بھی Manatees یعنی دریائی گائے کو اپنے قریب برداشت نہیں کرسکتا اور یہ تو کبھی دیکھ ہی نہیں سکتا کہ یہ دریائی گائے اس کے پاس تیرتی ہوئی اس سے آگے نکل جائے، مگر ہمارے ماہرین اور سائنس دانوں نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ یہ بے چارے گھڑیال پُرہجوم پانیوں میں Manatees یعنی دریائی گائے کے پاس تیرتے رہتے ہیں اور وہ ان کے قریب تیرتے رہتے ہیں اور گھڑیاؒلوں کے جسموں میں اپنی ناکیں گھساتے رہتے ہیں جس کے بعد عام طور سے نہ تو گھڑیال اشتعال میں آتے ہیں اور نہ ہی دریائی گائے کی اس حرکت پر غصے کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ وہ چپ چاپ انہیں آگے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور اس طرح اپنے تحمل اور شرافت کا اظہار کرتے ہیں۔

سلوتھ کو اپنی خوراک ہضم کرنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے:

سلوتھ یا سلاٹ دنیا کے کاہل ترین اور سست ترین جانور ہیں جن کی زندگی میں سب کچھ ہر وقت سویا سویا سا رہتا ہے، یہ کسی بھی کام میں تیزی یا ہنگامہ خیزی نہیں دکھاتے اور ہمہ وقت سست پڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ جو کھانا یا خوراک استعمال کرتے ہیں، اسے ہضم کرنے میں بھی تیزی نہیں دکھاتے، بلکہ چپ چاپ پڑا رہتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس وجہ سے بھی اس کا جسم کچھ زیادہ ہی سست رہتا ہے۔ چناں چہ اپنی استعمال شدہ خوراک کو ہضم کرنے میں اسے ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔

مگرمچھ 30 سال سے بھی زیادہ عرصے تک نشوونما پاتے رہتے ہیں:

Copeia میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق مگرمچھ تیزی سے بڑھتے اور نشوونما پاتے ہیں مگر عام طور سے 33 سال کی عمر تک بھی وہ اپنی پوری لمبائی تک نہیں پہنچ پاتے اور کافی دیر تک بڑھتے اور نشو ونما پاتے رہتے ہیں۔

میاؤں میاؤں:

بلیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو صرف اپنی ماں کو دیکھ کر میاؤں کی آواز نکالتی ہیں یا پھر انسانوں کو دیکھ کر اس طرح بولتی ہیں، باقی دوسرے جان داروں کو دیکھنے یا قریب آنے پر وہ میاؤں میاؤں نہیں کرتیں۔

بالغ بلیاں ایک دوسری سے ملتے وقت میاؤں کی آواز نہیں نکالتیں، لیکن جب ان کے مالکان ان کے قریب آتے ہیں یا انہیں پیار کرتے ہیں یا پھر ان کے لیے خوراک وغیرہ لاتے ہیں تو وہ فوراً میاؤں میاؤں کرنے لگتی ہیں۔

ہاتھی کا سکون:

انسانوں کی طرح جانوروں کو بھی سکون کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ہاتھی کا بچہ خود کو سکون پہنچانے کے لیے اپنی ماں یا باپ کی سونڈ کو چوستا ہے۔

The post کبوتر جانے ریاضی، ڈولفن رکھے نام appeared first on ایکسپریس اردو.

اونچی ہیل۔۔۔ فیشن، ضرورت یا شوق

$
0
0

انسان فطری طور پر حسن پرست ہے۔ خوبصورت تخلیق کو پسند کرتا ہے۔ ہر اک کا حسن کو سراہنے کا انداز جدا ہے۔ صنفی اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین مرد حضرات کی نسبت  زیادہ حسن پرست واقع ہوئی ہیں۔

ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ’’عورت‘‘ اپنے حسن کی اسیر ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات کچھ غلط بھی معلوم نہیں ہوتی۔ صنف نازک اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے بڑے جتن کرتی دیکھائی دیتی ہے۔کبھی ابٹن تو کبھی فیشل‘ کلنیزنگ سکربینگ‘ ماسک اور ٹوٹکے یہ سب کر کے وہ اپنے حسن کو چار چاند لگانے کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہے۔ خوبصورتی اور بناؤ سنگھار کا سلسلہ صرف چہرے تک محدود نہیں۔ ہاتھ پاؤں ‘ بال‘ کپڑے جوتے، ہینڈبیگ ،کاسمیٹکس اور نجانے کون کون سی اشیاء اس فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔

آئے روز نت نئی پروڈکٹس مارکیٹ میں انٹرڈویوکروائی جاتی ہے جن کا مقصد خاص طور پر خواتین کی شخصیت کو پر کشش بنانا ہے۔ خواتین اکثر اوقات ا پنے پیروں اور ان میں پہننے والے جوتوں کے حوالے سے بے حد متفکر دیکھائی دیتی ہیں۔ اس ضمن میں جوتوں کی پسند ایک اہم مرحلہ ہے۔ خواتین میں اونچی ایڑھی والے جوتوں کو خصوصی طور پر پسند کیا جاتا ہے یہ خواتین کے نسوانی نازو ادا اور جنسی کشش کو نمایاں کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

ہیل والی جوتی کو پسند کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ عموماً چھوٹے قد کی خواتین اونچی ایڑھی والے جوتے پہن کر اس احساس کمتری سے نکلنے کی کوشش کرتی اور خود اعتمادی محسوس کرتی ہیں۔

ہیلز عموماً مختلف سائز اور سٹائل کی ہوتی ہیں‘ کوئی تو خمردار نوکیلی تو کوئی چوکور مگر ان اونچی اونچی ہیلز سے کمر اور ریڑھ کی ہڈی پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے اس سے قطع نظر خواتین انہیں خریدنا اور پہننا پسند کرتی ہیں۔ جہاں تک پسندیدگی کی بات ہے تووہ الگ معاملہ ہے جس میں ہیلز کو کب کہاں اور کتنی دیر پہننا ہے اس کا انحصار خود پہننے والی شخصیت پر ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ ممالک میں 6 سے 12سینٹی میٹر تک کی ہیل ڈیس کورڈ کا حصہ ہے جیسے پہننا اور اس کی پابندی کرنا ناگزیر ہے۔

اس سے قبل کے ہم اس اصولِ لازم پہ بات کریں یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ آخر خواتین کے دل میں کیا آن سمائی کہ وہ لمبی لمبی ہیلز پہ فرستہ ہو بیٹھیں تو جناب انڈسٹریل ریولوشن کے بعد سے مینیفکچرنگ انڈسٹری نے اپنی پروڈکٹس مارکیٹ میں رکھی تو خریداروں کا رجحان اپنے طے کردہ احداف کے مطابق نہ پایا۔ جس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ تشہر کی صورت تلاش کیا جیسے جیسے یہ سلسلہ شروع ہوا خریداروں میں نئی چیزوں کا رجحان ابھرا جس سے انہیں تو نہیں مگر پروڈیوسرز کو بے حد فائدہ ملا۔ یوں بات کمپئشن تک جا پہنچی ۔

مارکیٹ میں برانڈ کی ہوا چل پڑی جس میں ہر خاص و عام اس دوڑ میںکود پڑا اور اس کا سب سے اہم شکار خواتین ہوئیں جو کہ اپنے حسنِ و انداز کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگی رہتی ہیں اور اس ضمن میں بے دریغ پیسہ لٹانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس کا بنیادی محرک ایڈوٹائزرز کی جانب سے تیار کردہ وہ پیغام ہوتا ہے جو کہ ایڈز اور ریمپ شوز کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ گز بھر کی لمبی خمردار ہیلز پہن کر دلکش ماڈلز جب کیٹ واک کرتی  واہ واہ سمیٹتی ہیں تو خواتین کے دل میں بھی انہیں پہننے کی چاہت پیدا ہوتی ہے۔

دراصل ہیلز کو خوبصورت چال ڈھال کا ائکون (ICON) بنا کر پیش کرنے والوں نے بڑی محنت سے یہ گیم کھیلی ہے جس کا انہیں بے حد فائدہ ہوا ہے ۔ مگر یہ فیشن کی دلدادہ معصوم خواتین اس بات سے قطعاً نا آشنا ہیں کہ ان ہیلز پہ ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی وہ چند گھنٹوں کے لئے ہی انہیں استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ حالات صرف وہاں ہیں جہاںخواتین پہ ہیلز پہننے کے سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پہ ایک جاپانی خاتون کی جانب سے ہائی ہیلز ے خلاف KUTOO نامی ایک مہم چلائی گئی جس کو بے حد پذیرائی ملی۔ جاپان کے شہر ٹوکیو کی رہائشی یامی ایشکا وا لکھاری اور اداکارہ ہونے کے ساتھ جزوقتی طور پر ایک جنازہ گاہ میں آٹھ گھنٹوں کی ڈیوٹی کرتی ہیں۔ جہاں ان کو مخصوص ڈریس کورڈ کو فالو کرنا پڑتا ہے۔

جس میں مرد حضرات سیاہ رنگ کے بوٹ اور خواتین سیاہ ہیل والے جوتے پہننا ضروری ہے۔ ایشکا وا نے اس صنفی عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی وہ مسلسل کئی مہینوں سے ٹانگوں میں شدید درد‘ پیروں پہ چھالوں اور رستے خون سے پریشان تھی جس کا محرک مسلسل آٹھ گھنٹوں تک 6سے 7 سینٹی میٹر اونچی ہیل والے جوتے تھے۔ ایشکا وہ نے جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہائی ہیلز کو خواتین کیلئے لازمی قرار دینے پر آواز اٹھائی۔

ایک روز جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی مرد حضرات فلیٹ جوتے پہن کر آسانی سے چلتے پھرتے اور کام نمٹاتے ہیں تو ان کے ذہن میں سوال اٹھا کہ خواتین پر کیوں یہ بوجھ مسلط کیا گیا ہے جس سے ان کے لئے کام کرنا دوبھر ہوجاتاہے۔ اپنے ان خیالات کا اظہار ایشکاوہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پہ کیا جس پر د وسری خواتین نے بھی اظہارے رائے دیتے ہوئے ہمدردی ظاہر کی۔

ان کی ٹویٹ  پر 67,000 لائک ملی جبکہ 30,000 افراد نے ری ٹوئیٹ کیا۔ ایشکاوہ نے وزیر برائے صحت محنت و فلاحی بہبود کو اپنی درخواست جمع کروائی جس میں خواتین کو ورک پلیس پہ ہائی ہیلز پہننے کے مجبور کیا جانے پر شکایت کا اظہار کیا۔ جس پر ان کو ڈریس کورڈ کی خلاف ورزی کرنے پر ساتھ دینے کا عندیہ دیا گیا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’’معاشرتی طور پر خواتین کا ورک پلیس پہ ہائی ہیلز پہننا قابل قبول ہے‘ ‘۔ اس پر تحریک کے سپوٹرز کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اور یہ بحث پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔ جب ایشکاوہ سے اس بابت سوال کیا گیا توانہوںنے کہا کہ ان کی KUTOO #تحریک ہائی ہیلز کے خلاف نہیں بلکہ اس ضمن میں ہے کہ ہر ایک کو آزادی دی جائے کہ وہ کیا پہننا چاہتا ہے۔ جاپانی میڈیا کی نظر میں اسے صرف ایک جوتوں کا مسئلہ سمجھا گیا۔

جبکہ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ صرف جوتوں کا نہیں بلکہ صنفی عدم مساوات کا مسئلہ ہے اور وہاں ایشکا وا کو خواتین کے حقوق کا علمبردار تصور کیا گیا ۔ اونچی ہیل نے ایک مسئلے کو مقامی‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔ غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو ایشکاوا بھی غلط نہیں اور ڈریس کورڈ ورکرز کی سہولت و آسانی کے لئے بنایا جانا چاہئے نہ کہ انہیں تکلیف میں مبتلا کر کے صرف ایک شو پیس بنا کر پیش کرنے کے لئے آج ایک تحریک جاپان میں زور پکڑ رہی ہے کیونکہ وہاں کی عورت نے محسوس کیا ہے کہ ہائی ہلیز اس کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بننے نہ بنے اس کے کام میں روکاوٹ اور اس کی صحت کی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کی عورت ابھی تک اس ہائی ہیلز کے سحر سے آزاد ہی نہیں ہو پائی اور اپنے لئے مسائل کے انبار کھڑے کرنے میں مصروف ہے ۔ جوتوں کا مقصد آرام پہنچانا ہے نہ کہ پہننے والے کے لئے مشکلات کھڑی کرنا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اونچی ایڑھی والے جوتے پہننے والی خواتین کو ریڑھ کی ہڈی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں خطرناک بات یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے ٹیڑھے ہو جانے کا بھی خد شہ ہے۔

اس کے علاوہ اونچی ہیل پہننے سے خواتین کے کولہے باہر کی طرف نکل آتے ہیں اور گھٹنے ٹیڑھے ہو جانے سے ٹانگوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ خاص طور پر نو عمر لڑکیاں جب ہائی ہیلز پہن کر چلتی ہیں تو ان کی جسمانی ساخت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے مستقبل میں انہیں کمر درد اور بیک بون کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو اس معاملے میں سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوتے کے انتخاب میں ہائی ہیلز سے اجتناب برتنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو ہائی ہیلز سے گریز کریں اور آرام دہ جوتا خریدیں جسے پہن کر وہ آسانی سے چل پھر سکیں اور اپنے معمول کے کاموں کو انجام دے سکیں۔ وہ مشہور مقولہ تو سب نے سن رکھا ہو گا ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے لئے بہترین چیز کا انتخاب کریں۔ فیشن آپ کو وقتی خوشی تو دے سکتا ہے مگر وہ آپ کی کھوئی ہوئی صحت نہیں لوٹا سکتا۔

اونچی ہیل کا تاریخی پس منظر

تاریخ کے اوراق کا جا ئزہ لیا جا ئے تو ا ونچی ایڑھی والے جوتوں کو پندرھویں صدی میں ایرانی گھڑ سوار استعمال کیا کرتے تھے۔ جی ہاں شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ اونچی ایڑھی والے جوتے مرد استعمال کیا کرتے تھے۔ جس کا بنیادی مقصد ناہموار راستوں پر آسانی سے قدم جما پانا اور خصوصا شہہ سواروں کا اپنے پیر رکاب میں جمائے رکھنا تھا۔ ایرانی شہہ سواروں کی جانب سے متعارف کروائے جانے والا یہ رواج سترہویں صدی میں یورپ میں بے حد مقبول ہوا۔سولہویں صدی میں یورپی اشرافیہ اونچی ہیل والے جوتے پہننا اعلیٰ مرتبے کی علامت سمجھتے تھے۔

جن قارئین کا یہ خیال ہے کہ اونچی ہیل خواتین کے لئے تیار کی گئی تھی تو وہ اس کو درست کر سکتے ہیں۔ فرانس کے بادشاہ لوئس XIV نے سرخ ہیل والے جوتے متعارف کروائے اور اس کے دور میں اونچی ایڑھی کو طاقت و جرات کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ حکمران طبقے کے لئے اونچی سیاونچی ہیل کو باعث افتخار سمجھا جاتا تھا۔  سترہویں صدی میں طوائفوں نے اپنے بناؤ سنگھار اور جسمانی خدوخال کو نمایاں کرنے کے لئے اونچی ایڑھی والے جوتوں کا استعمال شروع کر دیا۔

حیرت انگیز طور پر خواتین نے وہ انداز واطوار اپنا لئے جو خالصتاً مردوں سے منسوب تھے جیسے کہ چھوٹے بال رکھنا‘ مردانہ ساخت کے ہٹ اور اونچی ایڑھی والے جوتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہیل والے جوتوں کو خواتین کے لئے مخصوص سمجھا جانے لگا اور مردوں نے بغیر ہیل کے جوتے پہننے شروع کر دیئے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ فیشن بدل جاتا ہے۔

The post اونچی ہیل۔۔۔ فیشن، ضرورت یا شوق appeared first on ایکسپریس اردو.

نیند کے مسائل سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

$
0
0

نیند…انسانی جسم کے اندرونی و بیرونی افعال کی انجام دہی کے دوران وہ لازمی وقفہ ہے کہ جس کے بغیر زندگی اور اس کا حسن برقرار نہیں رہ سکتا۔

عمومی طور پر ہمارے ہاں کم خوابی کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کیوںکہ فکرِ معاش کے باعث ہونے والی جسمانی و ذہنی مشقت انسان کو اتنا تھکا دیتی ہے کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند آ جاتی ہے، تاہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور پریشانیاں بعض افراد کی نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ نیند کی کمی یا خرابی صرف ایک بیماری نہیں بلکہ یہ امراض کا مجموعہ ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق نیند پوری نہ ہونے سے ایک انسان کینسر، قلب، بانچھ پن، بینائی کی کمزوری، ذیابطیس، بولنے میں دقت، موٹاپا، سردرد، چڑچڑاپن، کمزور یاداشت، دائمی نزلہ و زکام، قبل ازوقت بڑھاپا، الزائمر، کمزور پٹھے اور پیٹ کے مختلف امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔ لہذا بے خوابی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کو اہمیت دینا نہایت ضروری ہے۔ یہاں ہم آپ کو چند ایسی تدابیر بتانے جا رہے ہیں، جن پر عملدرآمد سے نہ صرف کم خوابی کے مسئلہ سے دوچار افراد کو فائدہ ہو گا بلکہ اچھی اور پُرسکون نیند جسمانی و ذہنی صحت کی بہتری میں بھی معاون ہو گی۔

شکم سیری (پیٹ بھر کرکھانا)

معروف امریکی ماہر طب و مینجنگ ڈائریکٹر بورڈ سرٹیفائید سلیپ میڈیسن فزیشن ڈاکٹر رابرٹ ایس روزن برگ کہتے ہیں کہ ’’اگرچہ عصر حاضر میں رات گئے کھانا ایک پسندیدہ عمل بن چکا ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ رات کے وقت جب انسان سوتا ہے تو اس کا معدہ بھی آرام کرنے لگتا ہے تاکہ صبح کو تازہ دم ہو کر وہ پھر سے اپنے کام پر لگ سکے، لیکن جب آپ رات کے وقت بھی اسے سخت کام (کھانے کو ہضم کرنا) پر لگائے رکھتے ہیں تو اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، جس کا خمیازہ پھر نیند کی خرابی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے‘‘ اسی طرح رات کو پیٹ بھر کر کھانے اور پینے سے بار بار باتھ روم جانے کی حاجت ہوتی ہے، جس سے نیند خراب ہوتی ہے، جو بالآخر ایک بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

تمباکو نوشی

عمومی طور پر تمباکو نوشی ترک کرنے کی لامحدود وجوہات بیان کی جاتی ہیں، لیکن یہاں ہم آپ کو ایک اور خاص وجہ کے بارے میں بتا رہے ہیں اور وہ ہے کم خوابی۔ تمباکو میں شامل نیکوٹین نیند لانے کے ہارمونز کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ ایس روزن برگ کے مطابق ’’ نیکوٹین جسم میں ایک ایسے نامیاتی مرکب کی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے، جس کے سبب جاگنے کا عمل تیز اور نیند کم ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر آپ رات کے وقت سموکنگ کے عادی ہیں تو فوری طور پر اسے ترک کر دیں کیوں کہ یہ آپ کی نیند کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

سنسنی خیز فلم

مشقت سے بھرپور ایک طویل دن گزارنے کے بعد سونے سے قبل فلم دیکھنا شائد آج کی نوجوان نسل کا معمول بن چکا ہے، لیکن اس تفریح میں انتخاب بہت اہم ہے، ڈراؤنی اور خوفناک فلمیں ہارمونز کے دباؤ کا سبب بنتی ہیں، جو سونے کے وقت آپ کے ذہن کو متحرک کر دیتی ہیں اور یوں نیند کوسوں دور چلی جاتی ہے۔

اس ضمن میں مینجنگ ڈائریکٹر میڈیکل ڈائریکٹرز آف دی کمپری ہینسو سلیپ سنٹر(لاس اینجلس) ڈاکٹر مارک بچفورر کا کہنا ہے کہ ’’کوشش کریں کہ رات کو سونے سے قبل آپ کوئی بھی ڈراؤنی، سنسنی خیز یا پُرتشدد فلم  دیکھیں نہ کوئی ایسی ویڈیو گیم کھیلیں، اس کے برعکس علم و تفریح سے بھرپور ڈاکومینٹریز دیکھنا یا کتب بینی کرنا بہتر نیند کا سبب ہے‘‘

برقی آلات کا استعمال

برقی آلات میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون سمیت وہ تمام آلات شامل ہیں، جن سے نیلے رنگ کی روشنی خارج ہوتی ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ ایس روزن برگ کا کہنا ہے کہ ’’ نیلی رنگ کی شعاعیں آنکھ کے پردے کو متاثر کرتی ہے اور نیند لانے والے ہارمونز کو متاثر کرتی ہے۔ رات کے وقت ان آلات کے زیادہ استعمال سے نہ صرف کم خوابی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ صبح کے وقت نیند کا غلبہ آنے سے طبعیت سست ہو جاتی ہے‘‘ اس کے علاوہ طبی ماہرین کے مطابق رات کو اچھی اور پُرسکون نیند لینے کے لئے ٹی وی دیکھنے کے بجائے کتب بینی یا عبادت کریں، اور اگر یہ عادت اپنا لی جائے تو صرف 3 ہفتوں میں کم خوابی کی شکایت دور ہو سکتی ہے۔

سنجیدہ گفتگو

اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ رات گئے آپ کو کسی دوست کا فون آ جائے یا ہمسائے کی کسی حرکت کی وجہ سے گرما گرمی ہو جائے، لیکن اگر ایسا ہو تو یہ آپ کی نیند کے لئے بالکل بھی اچھا نہیں۔ امریکی ماہر طب رابرٹ ایس روزن برگ بتاتے ہیں کہ ’’ لڑائی یا گرما گرم بحث ذہنی دباؤ اور نتیجتاً بے خوابی کا باعث ہے، کیوں کہ آپ کا جسم جب ایک بار ذہنی دباؤ کے ہارمونز پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے، تو پھر جلد اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا‘‘

ورزش

اگرچہ ورزش ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے، لیکن رات گئے ایسا کرنا درست عمل نہیں، کیوں کہ ورزش کرنے سے جسمانی توانائی  کا عمل اور حرکت قلب تیز ہو جاتی ہے، جو پھر آپ کو جلد سونے نہیں دیتی۔ ڈاکٹر رابرٹ ایس روزن برگ تجویز کرتے ہیں کہ ’’ ورزش ہمیشہ سونے سے تین سے چار گھنٹے  قبل کرنا چاہیے، کیوں کہ ورزش جسم کے کم درجہ حرارت کو بڑھا دیتی ہے، جس سے جسم کا معتدل درجہ حرارت بگڑ جاتا ہے، جو اچھی نیند کو آنے سے مانع ہوتا ہے۔ لہذا ورزش کے بجائے رات کو سونے سے قبل گرم پانی سے نہانا زیادہ بہتر عمل ہے، کیوں کہ اس سے جسم میں خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔‘‘

سونے کا مقررہ وقت

عمومی طور پر ہمارے ہاں بچوں کو مقررہ وقت پر سونے کا حکم دیا جاتا ہے اور انہیں سلا دیا جاتا ہے، حالاں کہ سونے کا مقررہ وقت صرف بچوں ہی کے لئے نہیں بلکہ بڑوں کے لئے بھی نہایت ضروری ہے۔ دی سلیپ ٹو لائیو انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ آکس مین بتاتے ہیں کہ ’’ بہت سے لوگ سونے اور جاگنے کا وقت بدلتے رہتے ہیں، انسانی جسم کو روزانہ کی بنیاد پر یہ تبدیلی قبول کرنا تھوڑا مشکل کام لگتا ہے، جس کے باعث ہم بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں، لہذا ہمیں اپنے سونے اور جاگنے کا وقت مقرر کرکے اس پر سختی سے عملدرآمد کرنا چاہیے، حتی کہ ویک اینڈ پر بھی اپنی روٹین کو تبدیل نہ ہونے دیا جائے‘‘

کیفین

آج لوگوں کی اکثریت خود کو متحرک رکھنے کے لئے دن بھر قہوے، کافی اور چائے جیسے مشروبات کا استعمال کرتے ہیں، جس کا نقصان انہیں رات کو محسوس ہوتا ہے، جب نہایت تھکاوٹ کے باوجود نیند نہیں آتی۔ منیجنگ ڈائریکٹر کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر مائیکل بروس کا کہنا ہے کہ ’’ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک بار کیفین کے استعمال کے بعد 6 سے 8 گھنٹے تک اس کے اثرات برقرار رہتے ہیں۔ لہذا جب ہم شام 4 بجے کے بعد قہوہ، چائے یا کافی کی صورت میں کیفین استعمال کرتے ہیں تو یہ رات کے وقت ہماری نیند پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘

بھوکے پیٹ سونا

ایک طرف ماہر طب رات کے وقت پیٹ بھر کر کھانے سے منع کرتے ہیں تو دوسری ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ کبھی بھی بھوکے پیٹ بیڈ پر مت جائیں، کیوں کہ پیٹ خالی ہونے سے جسم میں شوگر لیول گر جاتا ہے اور نیند خراب ہو جاتی ہے، تاہم ایسی حالت میں شہد کا ایک چمچ آپ کو بہت فائدہ دے سکتا ہے، لہذا رات کو سونے سے پہلے آپ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے کچھ نہیںکھا پا رہے تو ایک چمچ شہد ضرور کھائیں۔

پریشانیاں

اگرچہ ہم یہ سب جانتے ہیں کہ پریشان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ جو بھی مسئلہ ہو وہ زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم پریشان ہونا نہیں چھوڑتے۔ پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں، جن سے انسان کا دماغ ضرور متاثر ہوتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو کم یا بے خوابی جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے تو کوشش کریں کہ رات کے وقت آپ کے دماغ کا گھوڑا مت دوڑے، یعنی خود کو ذہنی طور پر پُرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں ماہر نیند ڈاکٹر مارک ایس الیوا کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ پریشان ہیں تو بیڈ پر جانے سے ایک گھنٹہ قبل کاغذ پر اپنی پریشانی لکھیں، اس کے حل اور اثرات کا جائزہ لیں، اس سرگرمی سے آپ کا پریشان ذہن بہت حد تک نارمل ہو جائے گا‘‘

روشنی میں سونا

روشنی ڈرامائی انداز میں نیند کے معیار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مارک ایس الیوا بتاتے ہیں کہ ’’ روشنی نیند لانے والے ایک قدرتی ہارمون میں کمی کا باعث بنتی ہے، لہذا رات کو بیڈ پر جانے کے بعد بہتر نیند لینے کے لئے لائٹ بند کر دیں۔ اس کے علاوہ اگر اسی کمرے میں کوئی ایسا فرد بھی آپ کے ساتھ ہے، جس کے لئے روشنی ضروری ہے تو پھر آپ اپنی آنکھوں کوکسی کپڑے یا ماسک سے ڈھانپ لیں‘‘

بہت زیادہ پانی پینا

اگر آپ سارا دن پانی کی مطلوبہ مقدار نہیں پیتے تو لازمی طور پر شام کے وقت آپ کے جسم کو پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر شام کے وقت پانی ضرور پئیں لیکن سونے سے قبل بہت زیادہ پانی پینا بالکل بھی درست نہیں، کیوں کہ ایسا کرنے کے نتیجے میں آپ کو ایک رات میں دو سے تین بار جاگنا پڑ سکتا ہے، جس سے آپ کی نیند متاثر ہو گی۔ لہذا ماہرین کے مطابق سونے سے قبل بہت زیادہ پانی استعمال مت کریں۔

میلی بیڈ شیٹ پر سونا

ہو سکتا ہے کسی مجبوری یا وقت کی کمی کے باعث آپ بروقت بیڈ شیٹ تبدیل نہ کر سکیں، لیکن اچھی نیند کے لئے یہ نہایت ضروری امر ہے، کیوں کہ میلی بیڈ شیٹس پر پلنے والے جراثیم یا بیکٹریاز جسمانی الرجی اور نتیجتاً نیند کی خرابی کا باعث بنتے ہیں، لہذا جب بھی آپ بیڈ پر لیٹنے کے بعد کسی بھی قسم کی الرجی محسوس کریں تو فوری طور پر بیڈ شیٹ کو تبدیل کر لیں۔

خبریں

اگرچہ رات کے وقت ٹی وی پر خبریں دیکھنا ہمارے ہاں محبوب مشغلہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن ماہرین ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نیند متاثر ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں خبروں کو بتانے کے لئے زیادہ تر ڈرامائی انداز اختیار کیا جاتا ہے، ظلم، ناانصافی اور قتل و غارت گری جیسی خبروں کی وجہ سے ذہن متاثر ہوتا ہے اور نتیجتاً نیند متاثر ہوتی ہے، لہٰذا سونے سے کچھ دیر قبل خبروں میں دلچسپی لینے کے بجائے کتب بینی زیادہ بہتر سرگرمی ہے۔

The post نیند کے مسائل سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

فرسودہ رسم و رواج معاشرے پر بوجھ

$
0
0

اِس وقت انتہائی حیرانی ہوتی ہے کہ جب کم قیمت کپڑوں میں ملبوس افراد مہنگے ریستورانوں میں مہنگے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں، جب کہ انھیں یہ بھی علِم نہیں ہوتا کہ حفظان صحت کے اُصولوں کا خیال رکھا گیا ہے کہ نہیں؟

جتنا ایک وقت کے کھانے کا بِل بنتا ہے اتنی رقم سے گھر کا پندرہ دن کا راشن آسکتا ہے یا ایک اچھا سوٹ بن سکتا ہے۔ قوم کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے ’’ غربت ‘‘ کی وجہ سے پھل اور متوازن خوراک استعمال نہیں کی جاتی، مگر مشروبات ، چاکلیٹ ، مصنوعی جُوسز اور اس نوع کی اشیاء کا کثرت سے استعمال ہو رہا ہے، پٹرول اور موبائل فون کے استعمال کی مَد میں سینکڑوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں مگر گھر میں خالص دودھ یا پھل نہیں لائے جاتے، بے شمار غیر ضروری اخراجات سے بچا جا سکتا ہے، رقم کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

مگر ہماری ترجیحات ہی بدل چکی ہیں۔ سینکڑوں معاملات ہی ایسے ہیں۔ اب ہماری تمام رسومات میں بھی فضول خرچی شوبازی اور ناعاقبت اندیشی کا عنصر پیدا ہو چکا ہے، ہماری زندگیوں میں ماضی میں سکون تھا اب مکمل بے سکونی اور بے چینی ہے اس کی اصل وجہ ہم خود ہیں، قرض کی رقم کو ہوا میں اڑا دینے کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔

پہلے وقتوں میں گھروں میں سادہ کھانا بنانے کا رواج تھا۔ اب تو فاسٹ فوڈ پر انتہائی فضول خرچی کی جاتی ہے، برگر، شوارما، پیزا اور بیکری کی مصنوعات پر بڑی رقم خرچ کر دی جاتی ہے، خواتین گھر میں کھا نا بنانے سے کنّی کتراتی ہیں، اور بچوں کو فاسٹ فوڈ کی عادت ڈال دیتی ہیں اس میں ایک کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ فاسٹ فوڈ صحت بخش خوراک نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف پیسہ کا ضیاع ہے۔

لاہور کا پُرانا شادی کلچر

آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک لاہور میں شادی بیاہ کی رسومات بڑی سادہ اور دلچسپ ہوتی تھیں، اُس زمانے میں پائپ بینڈ اتنا عام نہیں ہوتا تھا۔ براس بینڈ ہر شادی پر لازم ملزوم سمجھا جاتا تھا، براس ینڈ کے الگ الگ ریٹ تھے، اُس زمانے میں بابوبینڈ ، سوہنی بینڈ اور راجہ بینڈ وغیرہ کا بہت شہرہ تھا ۔

براس بینڈ والے دومتوازی لائنوں میں چلتے تھے، درمیان میں کلارنٹ نواز ہوتا تھا ، کلارنٹ بجانا اور اس سے مدھر تانیں نکالنا بڑی مہارت کا کام ہے، عموماً کلارنٹ نواز ہی بینڈ ماسٹر ہوتا ہے۔ سوہنی بینڈ کا ماسٹر جب ’’ جب جگ سوئے تاروں سے کریں باتیں، یہ چاندنی راتیں ‘‘ کی دُھن کلارنٹ پر بجاتا تو راہ چلتے لوگ بھی مبہوت رہ جاتے۔ دلہا کو لے کر بارات دُلہن کے گھر پہنچتی تو دُلہا کے عزیزواقارب بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے، اس موقع پر ایک روپے کی ’’ ویلیں ‘‘ بھی دی جاتی تھیں ۔ بارات کے پیچھے چلنے والے گلی محلے کے بچوں پر ایک اور دو پیسے کے سِکے نچھاور کئے جاتے تھے ۔

دُلہا کو عموماً سجے سجائے گھوڑے پر بٹھایا جاتا تھا، دُلہن کے گھر کے نزدیک گھوڑے کا ڈانس کروایا جاتا تھا، جس سے دُلہا اور شہ بالا کی جان پر بن جاتی، شہ بالا تو عموماً چیخنے چلانے لگتا جب بارات دُلہن کے گھر پہنچتی تو خواتین مہمانوں کو گھر کے اندر بٹھایا جاتا اور مرد مہمانوں کوکسی اور جگہ باراتیوں کو بٹھانے کیلئے محلے داروںکے گھروں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ نِکاح کے بعد چھوارے تقسیم کئے جاتے، موجودہ وقت کی طرح ’’بِد ‘‘ پیکٹوں کا تصور نہیں تھا، نکاح کے بعد باراتی زمین پر بچھی ہوئی دریوں اور چادروں پر آمنے سامنے بیٹھ جاتے، چھوٹی پیالیوں میں سالن دوبوٹیاں او ر دوآلو ڈال کراور ایک پلیٹ میں نان، چھوٹی پلیٹ میں زردہ ڈال کر در میان میں رکھ دیا جاتا تھا۔

آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باراتی اکٹھے ایک ہی پلیٹ میں اپنی اپنی بوٹی اور آلو کھاتے، اگر کھانے کی ’’ انتظامیہ ‘‘ میں سے کسی باراتی کا کوئی واقف کار ہوتا تو وہ آنکھ بچا کر اپنے واقف کار باراتی کی پیالی میں ایک بوٹی اضافی ڈال دیتا،کھانا پہلے مردوںاور پھر عورتوں کو دیا جاتا تھا ۔ کھانے کے بعد خواتین کے حصے میں شادی کی دوسر ی رسومات ہوتیں۔

ان رسومات کی ادائیگی میں شام ہو جاتی،کوشش ہوتی کہ مغرب سے پہلے پہلے دُلہن کی رخصتی ہو جائے، دلہن کو گھر کے بزرگ مرد اور بھائی لکڑی کی بنی ہوئی ڈولی میں بٹھاتے، اُداس ماحول میں گھر والوں اور عزیزواقارب کی دعاؤں میں لڑکی کو رخصت کیا جاتا، ڈولی کو چار کہار مِل کر اُٹھاتے، روشنی کیلئے گیس کے ھنڈے روشن کر دئیے جاتے، بارات کے پیچھے مزدورں نے جہیز میں دیا جانیوالا سامان سروں پر اٹھا یا ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں جہیز بہت مختصر اور سادہ ہوتا تھا جو کہ عموماً ایک پلنگ، ایک ڈریسنگ، برتنوں والی الماری اور عام استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ والدین اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کو جہیز دیتے تھے۔ جہیز اور بّری کے سوٹوں میں شینل اور ساٹن کے سوٹوں کو مہنگا سمجھا جاتا تھا۔

دُلہا کا گھر نزدیک آتے ہی باجے والے عموماً ’’ اسی رج کے بھنگاں پیتیاں ‘‘ والی دُھن چھیڑتے اور لڑکے بالے اس دُھن پر خوب بھنگڑا اور دھمال ڈالتے، بعض اوقات اِس خوشی کے موقع پر گھر کی خواتین بھی شامل ہو جاتیں، خوب ہلہ گُلہ ہوتا، ساتھ ہی ساتھ گھر کے بزرگ جلد سونے کی ہدایت کرتے جاتے’’ اب سو جاؤ، صبح جلدی اُٹھنا ہے ولیمے کی تیاریاں کرنی ہیں۔‘‘ ولیمہ بھی سادہ ہی ہوتا تھا۔ ولیمہ گھر ، گلی اور محلے میں ہی کیا جاتا تھا، اور دُلہن کو گھر کی خواتین ہی تیار کرتی تھیں ۔

اُس وقت پورے خاندان اور محلے داروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ دُور دراز کے رہنے والے رشتے داروں کو پہلے ہی دعوت دی جاتی تھی تاکہ وہ مقررہ وقت پر شادی کی خوشی میں شامل ہو سکیں، اور اگر خاندان میں کوئی کسی وجہ سے ناراض ہوتے تھے تو بزرگوں کے ساتھ مل کر اُن کی ناراضگی دُور کی جاتی تھی۔ لڑکے والے یا لڑکی والے مالی طور پر پریشان ہوتے تو خاندان اور محلے دار مل کر اُن کے مالی اور تمام معاملات میں بھرپور طریقے سے مدد کرتے، اُس وقت عموماً گھر، صحن، گلیاں اور بازار بڑے اور کھلے ہوتے۔

ہمسایوں کے گھر اور کھلے صحن شادی کے دنوں میں مہمانوں کو بٹھانے اور ٹھہرانے کیلئے استعمال کیے جاتے تھے، محلے دار اور دوست احباب خوشی سے تمام کام اپنے ذمہ لیتے تھے، اور اپنے گھروںسے استعمال کی ضروری اشیاء بھی لے آتے، محلے دار، لڑکے دوست، دلہن کی سہیلیاں اور بزرگ مل کر باہمی مشورے اور اپنے تجربے کے مطابق تمام کام سرانجام دیتے تھے۔ شادی سے کافی دن پہلے ہی شادی کے فنکشن بہت ہی سادگی کے ساتھ شروع ہو جاتے تھے۔

دن میں اپنے اپنے گھروںمیں روز مرہ کے کاموںسے جلدی جلدی فارغ ہوکرشادی والے گھر پہنچ جاتے اور جہیز ، بّری کی تیاری میں خوشی خوشی گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے، سب لوگ ایک خاندان کی طرح مل کر شادی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، محلے کی شادی کو اپنے گھر کی شادی سمجھتے، اتنی سادگی سے ہونے والی یہ شادیاں عزت و احترام کے ساتھ کامیاب ہوتی تھیں۔ اگر کوئی لڑائی جھگڑے یا مسائل پیدا ہوتے بھی تو خاندان کے دانا اور محترم بزرگ آپس میں مل بیٹھ کر حل کر لیتے تھے۔

اب شادیوں پر بہت فضول خرچی کی جاتی ہے مگر پھر بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہے۔ رشتوں میں وہ پہلے جیسی مضبوطی اور آپس میں پیار ومحبت اور احترام نظر نہیں آتا، جھوٹی شان و شوکت اور نمود ونمائش کئی قسم کے مسائل بھی کھڑے کر دیتی ہے، بے شمار ضروری اخراجات پس پشت پر چلے جاتے ہیں۔

موجودہ شادی کلچر
تقریباً ڈیرھ سال پہلے، دسمبر 2017 ء کی ایک اتوار کا ذکر ہے۔ شادیوں کا سیزن تھا، تمام شادی ہال بُک تھے، عروسی مبلوسات تیار کرنے والے کاریگروں کے پاس تقریباً دو ماہ تک کا وقت نہ تھا کہ وہ مزید بُکنگ کرتے، کئی شادی ہالز میں ایک ہزار سے بھی زائد مہمانوںکی بکنگ کروائی گئی تھی، ان شادی ہالز کا ریٹ مینو کے حساب سے کم از کم 550 روپے اور زیادہ سے زیادہ0 400 روپے فی کس تھا۔

امراء نے شادی ہالز کی بجائے فارم ہاؤس بُک کروائے ہوئے تھے، فارم ہاؤس کے اخراجات کا سُن کر ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں، عروسی لباس بھی لاکھوں روپے میں تیار ہو رہا تھا۔ ستر، اسی ہزار کا عروسی لباس صرف ایک رات کیلئے پہنا جاتا ہے، امراء کی بیٹیاں دس دس لاکھ روپے شادی اور ولیمے کا لباس زیب تن کرتی ہیں، میک اپ اور مہندی کے تین دن کے اخراجات بھی لاکھوں میں بن جاتے ہیں۔ آ ج سے کچھ عرصہ قبل شادی بیاہ کا کلچر بالکل مختلف تھا۔ اب ایک متوسط گھرانے کی بیٹی کی شادی کا خرچ دس لاکھ روپے سے تجاوز کرجاتا ہے، سونے کے زیورات یا جہیز کے سامان کے علاوہ ساری رقم ضائع ہوجاتی ہے۔

دسمبر کی اس اتوار کو لاہور میں سینکڑوں شادیاں تھیں ہر شادی پر دل کھول کر اسراف کیا جا رہا تھا، دُلھا یا دلہن کے گھر والوں کے اخراجات تو ایک طرف باراتیوں کے بھی کپڑوں، میک اپ اور آمدو رفت کے سلسلے میں ہزاروں کے اخراجات ہو جاتے ہیں، تحفے تحائف کے پیسے الگ خرچ ہوتے ہیں۔ شادیوں کے اس سیزن میں لاہور کی ایک غریب آبادی میں رہنے والی ایک غریب بچی کی شادی کچھ اس طرح ہوئی کہ بچی کے گھر والوں نے بڑی مشکل سے صرف بیس مہمانوں کی موجودگی میں بچی کو رخصت کیا۔ اس بچی کی عمر تقریباً بیس سال ہوگی۔

غربت کے باوجود اُس نے بی اے نمایاں نمبروں میں پاس کیا، بی اے پاس کرتے ہی اس کے غریب کمزور اور شریف والدین کو اس کی شادی کی فِکر لاحق ہوئی کہ کمزور آدمی کی جوان بچی کی عزت محفوظ نہیں رہتی، طاقتور اور بپھرے ہوئے افراد کمزور والدین کی بچی کو لُوٹ کا مال سمجھتے ہیں، لڑکی کا رشتہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں میں کیا تھا۔ مگرلڑکا ایک فیکٹری میں معمولی تنخواہ پر ملازم تھا۔

جب شادی کی تاریخ طے پا گئی تو لڑکے نے فیکٹری مالک سے تھوڑی سی رقم ایڈوانس میں دینے کی التجا کی مگر یہ بات سُن کر مالک کے ماتھے پر بَل پڑ گئے، غصے میں آ کر اُس نے آٹھ دن کی تنخواہ لڑ کے کے ہاتھ میں رکھی اور اُسے فیکٹری سے نکال دیا۔ اُدھر لڑکی کے گھر والوں کے پاس بھی پیسے نہ تھے۔ لڑکی کی ماں نے شادی سے پہلے بے شمار ’’مخیر حضرات ‘‘ سے رابطہ کیا سب نے وعدہ تو کر لیا مگر عین وقت پر بہانہ بنا کر معذرت کر لی، مجبوراً اس کے گھروالوں نے پُرانے کپڑوں، بغیر زیور اور میک اپ کے اُسے لڑکے کے ساتھ رخصت کردیا۔ لڑکے کے والدین وفات پا چکے تھے، وہ بھی بے سروسامانی کے عالم میں اپنے ایک بھائی اور اس کے بیوی بچوں کے ہمراہ نِکاح کیلئے پہنچا۔

دسمبر کی ایک اتوار جب لاہور میں سینکڑوں شادیاں ہو رہی تھیں اور مجموعی طور پر کروڑوں کے بے جا اخراجات کئے جا رہے تھے اُسی اتوار ایک پڑ ھی لکھی، خوبصورت اور سمجھ دار لڑکی جس بے سروسامانی کے عالم میں پیا گھر سدھاری، شائد آسمان بھی رو پڑا ہو، آج بھی وہ لڑکی اپنے بے روزگار شوہر کے ساتھ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے۔ ملکی حالات کی وجہ سے اُس کے شوہر کا دوبارہ کسی فیکٹری میں نوکری نہیں مِلی کہ پہلے ہی فیکٹری مالکان ملازمین کو نکال رہے ہیں۔

ایک بی اے پاس لڑکی کے دل میں کیا کیا خواب ہوں گے، وہ لاہور میں ہونے والی شادیوں پر ہونے والے اسراف اور فضول خرچی دیکھتی ہوگی تو اپنا آشیانہ بسانے کے کیا کیا خواب نہ بُنتی ہوگی؟ اپنی اولاد کی شادیوں پر لاکھوں روپے ضائع کرنے والے امراء نے کبھی یہ سوچا ہوگا کہ وہ تھوڑی سی فضول خرچی کم کر کے یہ رقم غریب بچیوں کی شادی پر خرچ کر دیں، اس بچی کے والدین نے اپنی بچی کی خوشیوں کیلئے جس طرح لوگوں سے بھیک مانگی، لوگو ں کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اور جس طرح اپنی بیٹی کو رخصت کیا، اس کا اندازہ صرف اہل دل ہی لگا سکتے ہیں۔

اسراف کی وجہ سے ہمارا ملک کہاں پہنچ چکا ہے؟

عوام کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کی فضول خرچیوں کے نتیجے میں ریاست کس دوراہے پر کھڑی ہے، ملک جس بحران کا شکار ہے اس کا اندازہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ہے اور عسکری اداروں کو بھی ہے، مگر آفرین ہے کہ حکومت اور اداروں نے قوم کو ہیجان اور اضطراب میں گرفتار ہونے سے بچایا ہے، ایک طرف ریاست اس نہج تک پہنچ چکی ہے، دوسری طرف عوام آج بھی اپنا طرز عمل بدلنے یا معا ملات کو سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں کر رہے۔ تمام فضول خرچیوں کواگر نظر اندازکر کے صرف شادی بیاہ اور سالگر ہ وغیرہ کی فضول رسومات کا جائزہ لیا جائے تو ان پر ہونے والے اسراف کا سُن کر ہوش ا ُڑ جاتے ہیں۔

عالم یہ شوق کا

اب ایک نارمل شادی کا خرچ تقریباً پندرہ ، سولہ لاکھ روپے آتا ہے۔ صرف تین تولے زیورات کا سیٹ ڈھائی لاکھ روپے کا آتا ہے۔ لباس عروسی اور ولیمے کا سوٹ کم از کم ایک لاکھ میں تیار ہوتا ہے، اور یہ لباس فقط ایک دفعہ پہنا جاتا ہے بعد میں کسی کام نہیں آتا۔ تین دن کے میک اپ کا خرچ اوسطً تیس ہزار روپے سے لیکر اسی ہزار تک آتا ہے، دوسو افراد کے کھانے کے اخراجات ایک دن کے ایک لاکھ ستر ہزار، یعنی شادی اور ولیمے کے صرف دوسو افراد کے کھانے کے اخراجات ہی ساڑ ھے تین لاکھ بن جاتے ہیں۔

تیل اور مہندی کی مختلف رسومات اور کھانے کے اخراجات بھی ساٹھ ہزار سے تجاوز کر جاتے ہیں، اب جہیز اور بّری میں رکھے جانے والے کامدار کپڑوں کی مالیت دیکھی جائے تو وہ لاکھوںسے تجاوز کر جاتی ہے، اب تو بیس، پچیس ہزار روپے کا ایک اچھا سوٹ تیار ہوتا ہے جوعام طور پر پہنا ہی نہیں جا سکتا ، اس کے بعد آمدورفت کے اخراجات بھی ہزاروں میں ہوتے ہیں۔

جوتا چھپائی، دودھ پلائی، باگ پکڑائی کے علاوہ درجنوں رسموں پر ہزاروں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، تیل مہندی کی پیڑھی دو ہزار روپے میں تیار ہوتی ہے۔ اب ساؤنڈ سسٹم ، اسٹیج کی تیاری ، پھولوں کی سجاوٹ اور کمرہ عروسی کی سجاوٹ کے اخراجات کو شمار کیا جائے تو یہ بھی لاکھوں میں بنتے ہیں۔ آتش بازی، بھانڈ، ڈھول بجانے والے، پائپ بینڈ یا براس بینڈ، بعض مقامات پر اسلحہ کی فائرنگ اس وقت ایک میگزین کی قیمت ہزاروں روپے میں ہوتی ہے، سینکڑوں راونڈز فائز کردئے جاتے ہیں، کئی ہزار روپے کی گولیاں چلائی جاتی ہیں۔

اگر ان اخراجات کو بھی جمع کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس قدر فضول خرچی کی جاتی ہے، اس کے علاوہ بھی درجنوں اخراجات ہوتے ہیں۔اب دُلہا کے تین دن کے میک اپ کے اخراجات بھی پچیس ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ میک اپ سے بہتر ہے کہ دُلہا کا چہرہ سہرے میں ہی چھپا دیا جائے جیسا کہ پہلے وقتوں میں ہوتا تھا، اور گلے میں ’’نوٹوں ‘‘ کے ہار ڈال دئیے جائیں۔

شادی بیاہ، سالگرہ اور دوسر ے فضول قسم کے فنگشن وغیرہ کی رسومات میں شریک ہونے والے مہمان بھی میک اپ اور دوسری چیزوں پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔

غضب خدا کا مالی، معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار قوم کو کیا ہوگیا ہے۔ ان تشویشناک حالات میں بھی یہ روّیہ ؟ یہ فضول خرچی؟ یہ اندازِ فکر واندازِ زندگی؟ ہم سب کو کیا ہو چکا ہے؟ ۔

دُلہا دُلہن شادی کے اخراجات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں
میرے سامنے شان و شوکت سے ہونے والی نا کام شادیوں کے اعدادوشمار پڑے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کر دینے کے باوجود طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایک سماجی تنظیم سوشل ایڈآرگنائزیشن (ساؤ) کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق انتہائی شان و شوکت سے ہونے والی ستر فیصد شادیاں پائیدار نہیں ہوتیں۔ جوڑے انتہائی مجبوری کے عالم میں نباہ کرتے ہیں۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ ذہنی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد فضول خرچی کا احساس ہوتا ہے اور اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔

ان خراجات کا ذمہ دار دوسرے فریق کو سمجھا جاتا ہے۔ دلہن کی آنکھوں سے شادی کا خمار اُترتا ہے تو اُسے احسا س ہوتا ہے کہ اس کا گھر بسانے کی اس کے والدین کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ جب وہ اپنے والدین کو قرض اُتارتے دیکھتی ہے اور اپنے سسرال میں اپنی ’’ قدر‘‘ دیکھتی ہے تو اس کے دل میں اپنے سسرال کے متعلق منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں، اگر شوہر اس کے بیجا ناز نخرے برداشت نہ کرے تو اُسے شوہر بھی بُرا لگتا ہے کہ اس شخص کیلئے میرے والدین اور رشتہ داروں نے کس قدر خرچ کیا ہے، یہی بات شوہر بھی سوچتا ہے کہ اس ’’ دلہن‘‘ کو لانے میں کس قدر اخراجات ہوتے ہیں، پھر شادی میں ہونے والی’’ فضول خرچیاں‘‘ بھی یاد آتی ہیں اور اس کا ذمہ دار ’’ دلہن‘‘ کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔ ایک دوسرے کو کوسنے اور طعنے دیئے جاتے ہیں۔ پھر زبردستی کے نباہ کی کوشش کی جاتی ہے۔

بعض اوقات نوبت طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اگر اولاد ہو جائے تو اولاد کی خاطرایک خاموش سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ مگر زندگی کا اصل حقیقی مزہ نہیں رہتا۔ اس تنظیم کی سروے رپورٹ کے مطابق جو شادیاں سادگی سے طے پاتی ہیں ان کا حقیقی زندگی میں کامیابی کا تناسب 95 فیصد ہے اور ان شادیوں میں باہمی احترام کی بنیاد پر رشتہ استوار کیا جاتا ہے اور نئے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، سادگی سے شادی کرنے والے جوڑے شادیوں پر ہونے والی فضول خرچی کے پچھتاوے کا شکار نہیں ہوتے، اس تنظیم کے سروے میں بڑے دلچسپ دوسرے حقائق بھی سامنے آئے ہیںکہ ضرورت سے زیادہ ’’ شان و شوکت ‘‘ کا مظاہرہ کرنے والے اپنے ہی عزیزوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے مذاق کا بھی نشانہ بنتے ہیں اور حسد کا بھی، شادی کے ’’ آفٹر شاکس‘‘ میں مدتوں اس گھرانے کی’’ شو بازی‘‘ کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔

علاوہ ازیں ایسے گھرانے کو تحائف اور سلامی دینے والے بھی ہر جگہ اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں اگر کسی سے قرض لیا ہو تو وہ پورے شہر کو اپنی ’’ سخاوت اور دریا دلی ‘‘ سے آگاہ کرتا ہے ۔ قرض لے کر شادی کرنے والوں کو دہری ذلِت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس’’ گناہ بے لذت ‘‘ کا خمیازہ مدتوں بُھگتنا پڑتا ہے۔

دوسروں کے احساس ِ محرومی میں اضافہ کرنے سے کبھی خوشی نہیں مِلتی

ایک ہی کالج اور کلاس میں پڑھنے والی دوسہیلیوںکی اتفاق سے ایک ہی دن شادی کی تاریخ طے ہوئی ۔ ایک لڑکی کا تعلق اَ پر مڈل کلاس سے تھا دوسری لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی ، اپَر کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکی اپنی تمام کلاس فیلوز کو اپنی شادی کی تیاریوں اور اُن پر ہونے والے لاکھوں کے اخراجات سے آگاہ کرتی رہتی، اور ساتھ ہی ساتھ دوسری کلاس فیلو کے چہرے پر اُبھرتا ہوا احساس محرومی دیکھ کر دِلی تسکین اور احساس تفاخر محسوس کرتی۔

ایک کی شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی، دوسری کی انتہائی سادگی کے ساتھ، کلاس فیلوز کی اکثریت خوشحال لڑکی کی شادی میں شریک ہوئی جبکہ دوسری لڑکی کی شادی میں صرف اکا دُکا کلاس فیلوز شریک ہوئیں۔ سب معاملات اپنی جگہ مگر کچھ عرصہ بعد خوشحال (اپَر کلاس) لڑکی کو طلاق ہوگئی اور دوسری (لوئر کلاس) لڑکی کو سسرال اور شوہر کا انتہائی سکھ اور پیار نصیب ہوا۔ اس کے شوہر کو اسپین میں نوکری مل گئی،اب یہ خاندان خاصا خوشحال ہو چکا ہے مگر اس کُنبے میں آج تک کسی قسم کا احساس تفاخر پیدا نہیں ہوا بلکہ ان کی عاجری میں اضافہ ہو چکا ہے۔

سادگی سے نِکاح کرنے کی برکت

اسی شہر لاہور میں رہنے والے ایک صاحب کا شاہ عالمی مارکیٹ میں بجلی کے سامان کا کاروبار ہے ۔ اپنی بیٹی کی شادی کیلئے پیسہ پیسہ جوڑ کر رقم اکٹھی کی۔ جب شادی کی تاریخ طے پاگئی اور کارڈوغیرہ چھپ گئے تو ان کے علِم میں آیا کہ اسی محلے میں رہنے والے ایک سفید پوش خاندان کی بچی کا رشتہ بھی طے ہو چکا ہے، لڑکا باہر سے آیا ہوا ہے اور اُس نے پند رہ دن بعد پردیس واپس جانا ہے، اگر اب شادی نہ ہوئی تو رشہ ٹوٹ جائے گا۔ انھوں نے تھوڑے سے پیسے رکھ کر تمام رقم اُس سفید پوش خاندان کو دیدی، اس بات کا ذکر انھو ں نے لڑکے والوں سے کیا، انھوں نے ان کے اس ایثار اور جذبہ قربانی کی بڑی تعریف کی۔ اس بچی کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا، مگر اب ان کی بیٹی اتنی خوش و خرم ہے کہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

پانچ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے تین انتہائی خوبصورت بیٹوں سے نوازا ہے ، اس کے شوہر کو غیر متوقع طور پر ترقی مِل گئی، اور اس کے باپ کو کاروبار میں غیر معمولی منافع ہوا، اس نے اپنی بیٹی کی ضرورت کی ہر چیز خرید کر اُسے جہیز کے طور پر دیدی، وہ سب کو کہتے ہیں کہ مجھے تو فوراً ہی دس گنا زیادہ دنیا میں ہی مل گیا ۔

رشوت کے فروغ کی بڑی وجہ بچوں کی شادیوں کے اخراجات

سماجی تنظیم (ساؤ) کے سروے اور تجزیئے کے مطابق ملک میں رشوت کے فروغ کی بڑی وجہ اپنے ذاتی مکان کے حصول کی خواہش اور بچوں کی شاہانہ شادیاں کرنے کی تمنا ہے۔ باقی ضروریات زندگی کیلئے تنخواہ اور تھوڑی بہت رشوت سے گزارہ ہوجاتا ہے، ذاتی گھر اور بچوں کی شادی کے اخراجات کیلئے رشوت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ بھی سوچتا ہے ،کہ حرام کمائی سے بنے ہوئے عالیشان گھر میں ان کی نمازیں اور دوسری عبادات قبول ہوتی ہونگی؟ یا اس گھر میں رہنا گناہ کا سبب تو نہیں ہوگا، اس طرح رشوت یا حرام کمائی سے بچوں کی شادیاں کرنے سے ان کے اپنے ازدواجی رشتوں میں بے برکتی تو شامل نہیں ہو جائے گی؟

جھوٹی شان و شوکت

نارووال کے نزدیکی گاؤں سے ایک خاندان ذریعہ معاش کی تلاش میں لاہور آیا ، دونوں بیٹوں نے گاڑیوںکو پنکچر لگانے کا کام سیکھ لیا، پھر قسمت نے یاوری کی اور انھیں ایک پٹرول پمپ میں پنکچر شاپ ٹھیکے پر مِل گئی، کام بڑھا اور گھر کے حالات بہتر ہوگئے، کچھ عرصہ بعد رشتہ داروں میں بڑے بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ شادی کیلئے لڑکے کے باپ نے سوچ کر قرضہ لے لیا کہ ’’ سلامیوں ‘‘ سے خاصی رقم اکٹھی ہو جائے گی اور ولیمے سے اگلے دن قرضہ واپس کر دیا جائے گا۔ شادی کے موقع پر دل کھول کر اخراجات کئے گئے، اہل خانہ نے مہنگے مبلوسات خریدے، باپ نے کلف والا سوٹ پہنا، سر پر پگڑی رکھی اور انتہائی ’’ باوقار ‘‘ انداز اپنایا، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بڑے ’’ رکھ رکھاؤ‘‘ کے ساتھ صرف ضروری باتیں کیں ۔

غریب رشتہ دار بھی خاصے مرغوب نظر آ رہے تھے، شادی ختم ہوگئی اور سلا میوں کی رقم گنی گئی تو یہ رقم بہت ہی معمولی نِکلی، قرض کی ادائیگی وقت پر نہ ہوسکی، نتیجہ یہ نکلا کہ قرض دینے والے نے ایک دن اُس کے باپ کو گریبان سے پکڑ لیا اور خوب گالم گلوچ کی، یہ تماشا دیکھنے والا ایک شخص دُکھ کے ساتھ کہنے لگا کہ ہماری پوری قوم ہی اس روّیے کی عادی ہو چکی ہے۔ ہم اپنی جھوٹی شان وشوکت کیلئے ’’ قرض‘‘ لے لیتے ہیں پھر پوری دنیا سے ذلیل ہوتے ہیں، قومی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی؟

دوسروں کی آرزؤں پر بنائے جانے والے ناپائیدار محلات

سیالکوٹ میں رہائش پذیر ایک خاندان کے بیٹوں نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر میچوں میں جُوا ء کروانے کا کام شروع کردیا، یہ کام انھیں بہت راس آیا اور وہ چند سالوں میں کروڑ پتی ہوگئے، وہ لاہور میں شفٹ ہوگئے اور ڈیفنس لاہور میں عالیشان کوٹھی خریدلی۔ چھوٹے بیٹے کا ولیمہ لاہور ائیر پورٹ کے نزدیک بنے ہوئے ایک فارم ہاؤس میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس فارم ہاؤس میں ون ڈیش کی پابندی نہیں تھی ۔ کم از کم بیس قسم کے کھانے مہمانوں کو پیش کئے گئے، کھانے کا بِل تقریباً پندرہ لاکھ روپے اداکیا گیا۔ شادی کے چھ ماہ بعد میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑ ے شروع ہوگئے معاملہ طلاق تک جا پہنچا، اس شادی پر کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ کئے گئے اور شادی چھ ماہ بھی نہ چلی، اگر یہ شادی سادگی سے کی جاتی اور یہ رقم غریب بچیوں کی شادی پر خرچ کی جاتی تو شائد شان و شوکت سے کی جانے وا لی شادی کا یہ انجام نہ ہوتا، سچ ہے کہ خواہشوں کے محلات غریبوں کی آرزؤں پر کھڑے کئے جاتے ہیں بہت ہی ناپائیدار ہوتے ہیں ۔

شادی کے انتظار میں بیٹھی لاکھوں لڑکیاں

وطن عزیز میں لاکھوں بچیوںکی شادی کی عمر ڈھلتی جا رہی ہے اس کی بڑی وجہ صرف غربت اور جہیز کا نہ ہونا ہے، کسی کا گھر بسانا بڑے ثواب کا کام ہے، مگر ہماری اجتماعی سوچ ہی ختم ہوتی جا رہی ہے ، صرف نفسا نفسی کا دُور ہے۔ بے شمار فضول اور فرسودہ رسومات میں جکڑا ہمارا معاشرہ قرض اور دیگر مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے، ان فرسودہ رسم ورواج کیلئے حرام کمائی کا سہارا لیکر عاقبت بھی برباد کی جا رہی ہے، ذہنی الجھنوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ قرضدار ریاست کے قر ضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر مہنگے ترین موبائل فون ، مہنگے ترین پرفیوم خریدے جا رہے ہیں۔ مختلف چینلز دیکھ کر پیکٹوںمیں پیک مہنگے مصالحے خرید کر کھانے بنائے جاتے ہیں، اس قسم کے درجنوں فضول کام کئے جا رہے ہیں کہ جن کے بغیر بخوبی گزارہ ہو سکتا ہے ۔ جب تک ہم احمقانہ قسم کی فضول خرچیاں ختم نہیں کریں گے، انہی مسائل کاشکار رہیں گے ۔ ذلت بھی مقدر بنی رہے گی اور مہنگائی کا سارا ملبہ ہر حکومت پر ڈالتے رہیں گے؟

The post فرسودہ رسم و رواج معاشرے پر بوجھ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے‘‘ ، اے جی نورانی

$
0
0

چھیاسی سالہ عبدالغفور نورانی پاک و ہند میں اے جی نورانی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا شمار آئینی امور کے ماہر اہم ترین بھارتی وکلا میں ہوتا ہے۔ بھارت کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کرچکے۔ وکیل ہونے کے علاوہ تاریخ داں، کالم نگار اور ماہر علم سیاسیات بھی ہیں۔

ہمارے ممدوح کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے مسئلہ کشمیر اور ہندو قوم پرستی پر نہایت مدلل اور پُر مغز کتب تحریرکی ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کا بٹوارا کر ڈالا۔ نورانی صاحب نے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ اس موضوع پر بھارتی میڈیا میں ان کے جوابات،نظریات و خیالات سامنے آتے رہے۔ قارئین کے لیے ان کا خلاصہ سوال جواب کی صورت پیش خدمت  ہے۔

سوال: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ مودی حکومت نے اس آرٹیکل کا خاتمہ کر ڈالا۔ جب آپ نے یہ اعلان سنا، تو آپ کے کیا جذبات تھے؟

جواب: یہ سراسر اور واضح طور پر غیر آئینی اقدام ہے۔ مودی حکومت نے فریب اور دغا بازی سے یہ غیر آئینی حرکت انجام دی۔ یہ اقدام کرنے سے قبل کشمیر کا گورنر اور دیگر وزرا یہ جھوٹ بول کر اپنی قوم کو گمراہ کرتے رہے کہ دہشت گرد کشمیر میں حملہ کرنے والے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بھارتی فوج کے چیف نے بھی افواہیں پھیلانے میں مودی حکومت کا ساتھ دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سے درانداز کشمیر میں گھس آئے ہیں۔ یہ سب باتیں جھوٹ تھیں۔مودی حکومت نے اس طرح فوج کو سیاسی بنا ڈالا۔ یہ بھی غیر آئینی بات ہے۔ میں تو گزشتہ کئی برس سے کہہ رہا ہوں کہ آر ایس ایس اپنے کیسری ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے پہلے بابری مسجد شہید کرائی، پھر ہندو مذہبی روایات بھارتی قوم پر ٹھونس دیں اور اب آرٹیکل 370 کا قتل کر ڈالا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ رام مندر کی کیونکر تعمیر کرتے ہیں۔

سوال: اس آرٹیکل کو کالعدم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا فیصلہ آئے گا؟

جواب: یہ اقدام سراسر غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ کو حکومتی اقدام  مسترد کردینا چاہیے ۔

سوال: حکومت کا کہنا ہے کہ صدر یہ دفعہ ختم کرنے کا مجاز ہے۔

جواب: اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوگا کہ حکومتی دلائل غلط ہیں یا صحیح۔

سوال: اگر بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کا فیصلہ برقرار رکھا تو آرٹیکل 370 بحال کرنے کے لیے کیا کوئی اور طریقہ بھی ہے؟

جواب: ریاست جموں و کشمیر میں ایک بار الیکشن ہوگئے تو نئی اسمبلی بنے گی۔ یہ اسمبلی آرٹیکل 370 بحال کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

سوال: آپ نے ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ پر کتب تحریر کی ہیں۔  تاریخ کشمیر  کے ایسے گوشے بتائیے جو اب تک  عام لوگوں کے سامنے نہیں آسکے۔

جواب: ریاست جموں و کشمیر میں صحیح طور پہ اسلام 1321ء کے بعد پھیلا جب وہاں کا بدھی راجا، رنجن مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد مسلم صوفیاء کی تبلیغ سے ریاست میں اسلام پھیلنے لگا۔ بہت سے بت پرست اور بدھ مت کے پیروکار مسلمان ہوئے۔ ریاست میں برہمن (ہندو)اس نئے مذہب کے سب سے بڑے مخالف تھے اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔مثال کے طور پر 1600ء کے لگ بھگ کسی کشمیری برہمن نے ’’بہارستان شاہی‘‘ نامی ایک کتاب لکھی۔ اس میں کشمیری مسلم حکمرانوں کے متعلق بے سروپا داستانیں لکھ دی گئیں۔ مثلاً سلطان سکندر (1389ء تا 1413ء) کو برہمنوں کا دشمن قراردیا گیا کیونکہ اس نے کئی مندر ڈھا دیئے۔ نیز برہمنوں کا قتل عام کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطان سکندر کے دور میں کئی ٹوٹے پھوٹے مندر تعمیر کیے گئے اور برہمنوں کو رعایتیں دیں۔

سچ  یہ ہے کہ کشمیری مسلم حکمران بہت روادار اور فراخ دل تھے۔ انہوں نے کبھی غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوششیں نہیں کیں۔ 1585ء میں مغل حکمرانوں نے ریاست فتح کرلی۔ انہوں نے تو کشمیری برہمنوں کو حکومت میں اعلیٰ مناصب عطا کیے۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ، محمد شاہ (1719ء تا 1747ء) نے کشمیری برہمنوں کو ’’پنڈت‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ ایسا کشمیری برہمنوں کی فرمائش پر کیا گیا تاکہ وہ دیگر ہندوستانی علاقوں کے برہمنوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرسکیں۔ یوں ریاست کے برہمن ’’کشمیری پنڈت‘‘ کہلانے لگے۔1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے ریاست جموں و کشمیر فتح کرلی۔ تب تک کشمیری پنڈت مقامی حکومت سے بہت دخل ہوچکے تھے۔ انہوں نے اپنی چرب زبانی اور عیاری کی بدولت افغانوں کو بھی اپنے دام میں پھنسالیا۔ حکومت میں رہنے کے باعث ریاست میں پنڈتوں کا اثرورسوخ بڑھتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ 1793ء میں ایک کشمیری پنڈت، نندرام افغان حکومت کا وزیراعظم بن بیٹھا۔

1800ء کے بعد ذاتی مفادات، انا اور عدم اتفاق کے باعث افغان حکومت زبردست انتشار کا شکار ہوگئی۔ اس انتشار سے کشمیری پنڈتوں نے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کرائے کے فوجی بھرتی کیے اور اپنی فوج کا سپہ سالار، بیربل دھر نامی کشمیری پنڈت کو بنایا۔ یہ فوج مگر افغانوں کو شکست نہیں دے سکی۔ تبھی 1819ء میں کشمیری پنڈتوں نے پنجاب کے سکھ حکمران، رنجیت سنگھ کو جموں و کشمیر پر حملے کی دعوت دے دی۔ رنجیت سنگھ افغانوں کا کٹر دشمن تھا۔ مگر وہ کشمیر پر حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کشمیری پنڈتوں نے اسے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا تو رنجیت سنگھ نے حملہ کیا اور ریاست پر قبضہ کرلیا۔ یوں ریاست سے مسلم دور حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔

ہندو راجپوت (ڈوگرا) گلاب سنگھ جموں کا راجا تھا۔ 1846ء میں انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی کے بعد ریاست کشمیر برطانوی راج میں شامل ہوگئی۔ اسی سال انگریزوں نے ریاست گلاب سنگھ کو فروخت کر ڈالی۔ یوں جموں و کشمیر کے پورے علاقے پر ہندوؤں کا قبضہ ہوگیا حالانکہ وہ اس ریاست میں اقلیت کا درجہ رکھتے تھے۔ اب حکومتی نظام میں کشمیری پنڈتوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا۔ انہوں نے دانستہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن کے ذریعے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاسکے۔

ڈوگرا حکومت نے خصوصاً مسلم عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کرتی یا شالیں بناتی تھی۔ ان پر متفرق قسم کے ٹیکس تھوپ دیئے گئے جنہوں نے مسلمانوں کو ادھ موا کرڈالا۔ 29 اپریل 1865ء کو سری نگر میں کئی سو مسلمان شال بافوں نے سرکاری ٹیکسوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ ڈوگرا حکومت نے فوج بلاکر شال بافوں پر گولیاں چلادیں۔ اٹھائیس مسلمان شہید ہوئے۔ یہ ڈوگرا حکومت کا پہلا عوامی قتل عام تھا۔ حکومت پھر کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم ڈھانے لگی تاکہ وہ خوفزدہ ہوکر احتجاج کے قابل نہ رہیں۔

انگریزوں نے 1901ء میں ریاست جموں و کشمیر میں بھی مردم شماری کرائی۔ اس کے مطابق ریاست میں 29 لاکھ 5 ہزار 578 نفوس آباد تھے۔اس آبادی کا 74.16 فیصد حصہ (21 لاکھ 54 ہزار 695) مسلمان تھا۔ 23.72 فیصد حصہ (6 لاکھ 89 ہزار 73) ہندووں پہ مشتمل نکلا ۔ 0.89 فیصد  باشندے (25 ہزار 882) سکھ اور 1.21 فیصد (35 ہزار 047) بدھ مت کے پیروکار تھے۔ ریاست میں ہندوؤں کی تقریباً 91 فیصد آبادی جموں کے علاقے میں آباد تھی۔ آج بھی وادی کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت 94 فیصد ہے۔ جموں کی 33 فیصد جبکہ لداخ کی 46 فیصد آبادی مسلمان ہے۔

سوال: آپ نے تاریخ کشمیر کی اہم معلومات سے آگاہ کیا۔ یہ فرمائیے کہ آرٹیکل 370 کن حالات میں ظہور پذیر ہوا۔

جواب: یہ سوال بھی تفصیل سے جواب کا متقاضی ہے۔ بیسویں صدی میں ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ڈوگرا راج کے خلاف تحریک آزادی برپا کردی۔ اس تحریک سے جو کشمیری رہنما نمایاں ہوئے ان میں شیخ عبداللہ بھی شامل تھے۔ جب ہندوستان تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا تو شیخ عبداللہ ریاست  آزاد و خود مختار بناکر اس کا حکمران بننے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر ڈوگرا مہاراجا ہری سنگھ کو یہ ہرگز منظور نہ تھا۔وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتا تھا۔ چناں چہ دونوں کے مابین ٹسل شروع ہوگئی۔ مہاراجا نے مئی 1946ء میں شیخ عبداللہ کو قید کردیا۔ مشہور بھارتی صحافی پریم شنکر  جہا نے اپنی کتاب ”Kashmir 1947: Rival Versions of History” میں انکشاف کیا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے اپریل 1947ء ہی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر وہ ریاست کو آزاد و خودمختار نہیں رکھ سکا تو اسے بھارت میں ضم کردے گا۔

جب  ہری سنگھ نے پاکستان میں شامل نہ ہونے کے لیے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کیے تو اگست 1947ء میں وادی کشمیر کے علاقے،پونچھ میں آباد عوام نے ڈوگرا حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستانی جرنیلوں کی خواہش تھی کہ اس تحریک آزادی  میں کشمیریوں کا ساتھ دیا جائے مگر پاکستانی فوج کی کمان ایک انگریز جنرل فرینک میسروی کے ہاتھوں میں تھی۔ اس نے ریاست کشمیر میں فوج بھجوانے سے انکار کردیا۔

تبھی فیصلہ ہوا کہ کشمیر میں قبائلی لشکر بھجوا دیا جائے۔ قبائلیوں نے 20 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر حملہ کردیا۔ تاہم وہ سری نگر پہنچنے میں ناکام رہے۔ اس کی بنیادی وجہ لشکر کی سست رفتار پیش قدمی تھی۔

قبائلی لشکر کی آمد کا سن کر مہاراجا ہری سنگھ جموں فرار ہوگیا اور بھارت سے فوجی مدد کا طلبگار ہوا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا۔ وہ شروع سے  ریاست کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر پنڈت نہرو، دیگر بھارتی لیڈر اور برطانوی رہنما خوب جانتے تھے کہ ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں میں آباد بیشتر مسلمان ریاست کا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں۔ ریاست میں کرنل ڈبلیو ایف ویب (WF WEBB) برٹش ریزیڈینٹ تھا۔ وہ متواتر رپورٹیں بھیج رہا تھا کہ ریاست کی مسلم آبادی پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔ اس کے باوجود جب مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کرنا چاہا، تو پنڈت نہرو نے اس کی درخواست قبول کرلی۔ ہری سنگھ نے 24 اکتوبر 1947ء کو الحاق کی درخواست دی تھی۔

26 اکتوبر 1947ء کو صبح گیارہ بجے بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں مہاراجا ہری سنگھ کی درخواست الحاق زیر غور آئی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ ریاست کے مسلمان بھارت سے الحاق کے متمنی نہیں تھے۔میٹنگ میں شامل کشمیری رہنما،گوپال سوامی آئنگر ریاست کا دیوان رہ چکاتھا۔ اس نے کابینہ کو بتایا کہ اگر مہاراجا کی درخواست الحاق منظور کرلی گئی تو ریاست میں مزید خون خرابا ہوگا کیونکہ مسلمان بھارت میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ مگر پنڈت نہرو نے بہت پہلے سے ریاست جموں و کشمیر کو ’’ہر قیمت پر‘‘ بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

17 جون 1947ء کو پنڈت نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام ایک طویل نوٹ میں لکھا ’’ریاست کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتی، کیونکہ (شیخ عبداللہ کی جماعت) مسلم کانفرنس اور مہاراجا، دونوں ایسا نہیں چاہتے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان ایسا ہونے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرے گا۔‘‘(Selected works of Jawaharlal Nehru, Volume 3,Page 229)گویا 5 جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان ہوتے ہی پنڈت نہرو نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر ہر حال میں بھارت کا حصہ بن کر رہے گی۔

شیخ عبداللہ 1938ء سے پنڈت نہرو کے دوست چلے آرہے تھے۔ انہوں نے پنڈت نہرو پر یہ تاثر قائم کررکھا تھا کہ وہ ریاست کے مشہور ترین لیڈر ہیں۔ مگر حقیقت میں (قائداعظم)محمد علی جناح اور (مسلم نیشنل کانفرنس کے لیڈر) غلام عباس بھی کشمیری مسلمانوں میں بہت مقبول تھے۔ کشمیری اپنی دکانوں میں ان تینوں لیڈروں کی تصاویر لگاتے تھے۔ اس بات کا اقرار دور جدید میں بھارت کے مشہور مورخ چترلیکھا زتشی نے اپنی کتاب ”Kashmir’s Contested Pasts, Narratives, Geographies and the Historical Imagination” میں کیا ہے۔ حقائق سے عیاں ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت بھارت سے الحاق کے حق میں نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے، بھارت کا گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن محمد علی جناح سے بغض و عناد رکھنے کے باوجود بھارتی ڈیفنس کمیٹی سے ایک مطالبہ منوانے پر مجبور ہوگیا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان کا بھی گورنر جنرل بننا چاہتا تھا مگر قائداعظم نے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اتنا شدید غصہ آیا کہ اس نے سر ریڈکلف پر دباؤ ڈال کر پنجاب میں سرحد کی حد بندی ہی تبدیل کرادی۔ اس کی ایما پر ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں (پٹھان کوٹ، گرداسپور اور بٹالہ) اور فیروز پور اور زیرا کی تحصیلیں بھی بھارت کو دے دی گئیں۔ پنجاب کی ان پانچوں تحصیلوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ پٹھان کوٹ تحصیل ملنے سے بھارت کو ریاست جموں و کشمیر جانے والا واحد ارضی راستہ ہاتھ آ  گیا۔ مشہور بھارتی قانون داں، ہرمز جی مانک جی نے اپنی تحقیقی کتاب ”Partition of India, Legend and Realty” میں ماؤنٹ بیٹن کے مکارانہ کھیل کا بڑی خوبی سے پول کھولا ہے۔

26 اکتوبر 1947ء کی صبح مگر بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونے والے تمام شواہد یہ سچائی عیاں کررہے تھے کہ ریاست جموں و کشمیر کے بیشتر مسلمان بھارت سے الحاق نہیں چاہتے۔ اسی لیے  جناح اور پاکستان سے دشمنی رکھنے کے باوجود ماؤنٹ بیٹن کے اصرار پہ ریاست جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاق اس ’’شرط‘‘پر کیا گیا کہ جب حالات معمول پر آئیں گے تو ریاست میں عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس ریفرنڈم میں کشمیری عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ یا ریاست کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔

گویا ریاست کا بھارت سے الحاق ’’عارضی‘‘ تھا۔ ادیب و صحافی،پریم شنکر جہا اپنی کتاب ”Kashmir 1947: Rival Versions of History” میں لکھتے ہیں: ’’26 اکتوبر 1947ء کو ڈیفنس کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ مہاراجا ہری سنگھ کے نام ایک خط تیار کیا جائے تاکہ انہیں اطلاع دی جاسکے کہ دستاویز الحاق ’’عارضی‘‘ طور پر منظور کرلی گئی ہے۔‘‘جنوری 1948ء میں برطانوی وزیر، آرتھر ہینڈرسن بھارت کے دورے پر آئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انہیں بتایا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق عارضی ہے۔ انگریز مورخ، ڈاکٹر لیونل کارٹر نے اس ملاقات کا احوال اپنی کتاب ’’Partition Observed: British Official Reports From South Asia, (14 August-15 October 1947), ( 16 October – 31 December 1947) (2 Vols. Set) ‘‘میں لکھا ہے۔

اس کے بعد پنڈت نہرو، شیخ عبداللہ اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے خفیہ طور پر یہ معاہدہ کرلیا کہ ریاست میں عوامی ریفرنڈم نہ کرایا جائے… کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دے گی۔ صرف ایک ماہ بعد 21 نومبر 1947ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کے نام ایک خط میں اپنا خفیہ منصوبہ طشت ازبام کردیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’آپ جانتے ہیں کہ عوامی ریفرنڈم نہ کرانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ ہم نے دنیا کے سامنے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ہم اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئے تو اقوام متحدہ میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ لیکن ریفرنڈم ہوا تو معاملات ہمارے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘ (Selected works ofJawaharlal Nehru)

پنڈت نہرو کے دباؤ پر مہاراجا ہری سنگھ نے شیخ عبداللہ کو ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم بنادیا۔ شیخ عبداللہ نے 30 اکتوبر 1947ء کو اپنا عہدہ سنبھالا۔ وزیراعظم بنتے ہی وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وفاق بھارت میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ مل جائے تاکہ وہ بلا شرکت غیرے ریاست میں حکومت کرسکیں۔ چناں چہ نومبر 1947ء ہی سے یہ خصوصی درجہ پانے کے لیے پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے مابین مذاکرات ہونے لگے۔ اسی گفت و شنید سے آرٹیکل 370 نے جنم لیا۔

دراصل 5 جون 1947ء سے قبل ہندوستان میں 565 ریاستیں واقع تھیں۔ رفتہ رفتہ یہ ریاستیں بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کرنے لگیں۔ شروع میں یہ طے پایا کہ بھارت (یا پاکستان) ان ریاستوں کے صرف تین امور… دفاع، خارجہ اور مواصلات (کمیونیکیشنز) سنبھالے گا۔ ریاستوں میں بقیہ امور مقامی آئین کے مطابق چلائے جائیں گے۔ لیکن مئی 1949ء تک بیشتر ریاستوں نے اس امر پر اتفاق کرلیا کہ علیحدہ سے آئین بنانے کی ضرورت نہیں، وہاں بھارت کے وفاقی آئین کے مطابق ہی تمام امور چلائے جائیں گے۔

مہاراجا جموں و کشمیر نے مگر ریاست کے درج بالا تین امور (دفاع، خارجہ اور مواصلات) ہی بھارتی حکومت کے سپرد کیے تھے۔ شیخ عبداللہ چاہتے تھے کہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت صرف انہی تین امور سے واسطہ رکھے۔کانگریس کے قوم پرست ہندو رہنما خصوصاً سردار پٹیل، شیام پرشاد مکرجی، راجندر پرشاد وغیرہ ریاست میں بھارتی حکومت کا مکمل عمل دخل چاہتے تھے۔ مگر پنڈت نہرو ریاست کو خصوصی درجہ دینے کو تیار تھے۔نہرو حکومت اور شیخ عبداللہ کے مابین مذاکرات طویل عرصہ جاری رہے۔

آخر اواخر 1949ء میں معاہدہ طے پاگیا۔ چناں چہ 26 جنوری 1950ء کو بھارت کا آئین نافذ ہوا تو اس میں آرٹیکل 370 شامل تھا۔ اس کے ذریعے طے پایا کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر میں صرف دفاع، خارجہ اور مواصلات کے امور سنبھالے گا۔ بقیہ حکومتی امور ریاستی آئین کے مطابق چلائے جائیں گے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل 370 ’’عارضی بندوست‘‘ تھا۔ جب ریاست کا آئین بن جاتا تو پھر اس کی ضرورت نہ رہتی۔ آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے اگست ستمبر 1951ء میں ریاست جموں و کشمیر میں الیکشن ہوئے۔ الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی تاکہ صرف شیخ عبداللہ کی جماعت کے نمائندے ہی جیت سکے۔ اس اسمبلی نے ریاستی آئین تیار کیا جو 26 جنوری 1957ء کو نافذ ہوا۔ اسی دن آئین ساز اسمبلی نے خود کو تحلیل کرلیا۔ اس اسمبلی میں مگر آرٹیکل 370 ختم یا ترمیم کرنے کی کوئی قرارداد پیش نہیں ہوئی۔ اسی لیے قانوناً آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا مستقل حصہ بن گیا۔

آرٹیکل 370 کی شق 3 میں درج ہے کہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تجویز پر بھارتی صدر آرٹیکل 370 ختم کرسکتا ہے۔ گویا ریاست میں دوبارہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہو اور اس میں آرٹیکل 370 کالعدم کرنے کی قرارداد آئے تو تبھی بھارتی صدر اسے ختم کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن بھارتی پارلیمنٹ نے یک طرفہ طور پر یہ آرٹیکل ختم کر ڈالا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ عدالت عالیہ کو قراردینا چاہیے کہ آرٹیکل 370 کی شق 3 بھارتی مملکت اور ریاست جموں و کشمیر کے مابین تعلق و رشتے کو واضح کرتی ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر آرٹیکل 370 کو بھارتی صدر یا  پارلیمنٹ یک طرفہ طور پر کالعدم نہیں کرسکتے۔

بھارت میں آرٹیکل 370 سے یہ ایک بڑی دیو مالا وابستہ ہے کہ اس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خود مختاری مل گئی۔ امور دفاع، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ وہ بقیہ حکومتی معاملات میں آزاد و خود مختار ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1950ء سے لے کر اب تک ’’پچاس صدارتی حکم ناموں‘‘ کے ذریعے بھارتی حکمرانوں نے آرٹیکل 370 کا تیاپانچہ کر ڈالا۔ جب 5 اگست کو مودی حکومت نے اسے ختم کیا، تو حقیقی آرٹیکل 370 کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔ یوں سمجھیے کہ وہ اب محض ایک نیم زندہ لاش تھا۔

درج بالا پچاس صدارتی حکم ناموں کے ذریعے مرکزی حکومت کو بذریعہ آئین دیئے گئے 97 امور میں سے 95 امور ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کردیئے گئے۔ اسی طرح بھارتی آئین کی 395 میں سے 260 شقیں ریاست میں نافذ کردی گئیں۔ یوں بھارتی حکمرانوں نے اصل منصوبے کے مطابق رفتہ رفتہ اپنے اصول و قوانین ریاست پر تھونپ دیئے اور مقامی آبادی کو بڑی چالاکی و عیاری سے اپنا مطیع و غلام بنالیا۔ آرٹیکل 370 کی اہمیت بس اتنی رہ گئی تھی کہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ تعجب خیز بات یہ کہ تمام صدارتی حکم نامے زبردستی، آمرانہ انداز میں نافذ کیے گئے۔ ریاست جموں و کشمیر کی آئینی اسمبلی یا ریاستی حکومت کی مرضی اس عمل میں شامل نہیں تھی۔

سوال: مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر میں ترقی و خوشحالی نہیں آسکی۔ یہ بات درست ہے؟

جواب: جین دریز (Jean Drèze) مشہور بھارتی ماہر معاشیات ہے۔ وہ نوبل انعام یافتہ ماہرین مثلاً امرتاسین اور آنگن ڈیسٹن کے ساتھ مل کر کتب تحریر کرچکا۔ اس نے حال ہی میں ریاست جموں و کشمیر اور ریاست گجرات کا معاشی طور پر تقابلی جائزہ لیا۔ اس جائزے سے انکشاف ہوا کہ ریاست جموں و کشمیر روزگار، تعلیم، صحت، معاشی ترقی اور دیگر شعبوں میں ریاست گجرات سے بہتر پائی گئی جہاں نریندر طویل طویل عرصہ وزیراعلیٰ رہے تھے۔ غرض یہ بھارتی حکومت کا صریح جھوٹ ہے کہ آرٹیکل 370 کے باعث ریاست جموںو کشمیر میں معاشی ترقی نہ ہوسکی۔

سوال: نئی پیش رفت سے ریاست میں کس قسم کے سیاسی حالات جنم لیں گے۔

جواب: آرٹیکل 370 کے خاتمے سے ریاست میں بھارت کی حامی سیاسی جماعتوں کو کاری ضرب لگی ہے۔ حتیٰ کہ ان جماعتوں کے قائدین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ بھارتی حکمرانوں کی حمایت کرنا ان کے اجداد کی غلطی تھی۔ اب خصوصاً وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک مزید زور پکڑے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی نئی تنظیمیں وجود میں آجائیں۔

کشمیری پنڈت، پریم ناتھ بزاز مشہور دانشور اور سیاست داں گزرا ہے۔ اس نے 1954ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’’The History of Struggle for Freedom in Kashmir: Cultural and Political, from the Earliest Times to the Present Day‘‘ میں لکھا تھا ’’اگر حکومت بھارت نے زبردستی کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی، تو ریاست میں کبھی امن و امان نہیں رہے گا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارتی حکمران فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔ انہی بھارتی حکمرانوں نے ماضی میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ مگر اب وہ کشمیریوں کو محکوم بنالینا چاہتے ہیں۔‘‘

اشوک مترا بھارت کے ممتازدانشور گزرے ہیں۔ بھارتی حکومت کے چیف اکنامک ایڈوائزر رہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ایک مضمون لکھا جو 27 اگست 2010ء کو دی ٹیلی گراف اخبار میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں ’’ریاست جموں و کشمیر آئینی طور پر بھارت کا حصہ ہے۔ مگر یہ محض دھوکے کی ٹٹی ہے… اس کے پیچھے یہ سچائی پوشیدہ ہے کہ بھارت نے وادی کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔ ذرا وہاں سے سکیورٹی فورسز کے لاکھوں جوان تو ہٹائیے، کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا لاوا پھٹ پڑے گا۔ پتھر پھینکنے والے کچھ نوجوان پاکستان کے حامی ہیں۔ بعض آزادی چاہتے ہیں لیکن وہ سب بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی کشمیری بھارت میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی قوم بھی کشمیریوں کو اپنا نہیں سکی۔ ‘‘

۔۔۔

عبدالغفور عبدالمجید نورانی المعروف بہ اے جی نورانی 16ستمبر 1930 ء کو بمبئی ،ہندوستان میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ لا کالج،بمبئی سے وکالت کی ڈگری لی۔پچھلے چونسٹھ سال سے بھارتی عدالتوں میں حق وانصاف کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔آپ کو دلیر،جری اور ہمیشہ سچ بولنے والا وکیل سمجھا جاتا ہے۔ظلم کا شکار غریب ولاچار بھارتیوں کی کسی غرض کے بغیر مدد کرتے ہیں۔آئینی امور میں ماہر وکیل ہونے کے علاوہ تاریخ داں،سوانح نگار، ماہر امور سیاسیات اور کالم نگار بھی ہیں۔اب تک آپ کی پندرہ کتب شائع ہو چکیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
٭ Article 370: A Constitutional History of Jammu and Kashmir
٭ The Kashmir Dispute 1947-2012, 2 Volume set
٭ The RSS and the BJP:A Division of Labour
٭ Constitutional Questions and Citizens’ Rights
٭ Savarkar and Hindutva
٭ The Muslims of India: A Documentary Record

The post ’’بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے‘‘ ، اے جی نورانی appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس
تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو چکا تیرا تماشا تو مَیں جاؤں واپس؟
دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی
تجھ کو ناراض کروں، روز مناؤں واپس
وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی
کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس
وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس
دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں
اب بتا کون سے لمحے کو بلاؤں واپس
یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت
تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس
(نذر حسین ناز۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


کیا یہ مقتول کی اولاد کی توہین نہیں؟
ایک بھی شخص بھرے شہر میں غمگین نہیں
اجنبی سوچ کے آنا مری مٹی کی طرف
کرۂ ارض کا ہر ملک فلسطین نہیں
دوستی وجہِ اذیت بھی ہوا کرتی ہے
جیسے میں تیرے لیے باعثِ تسکین نہیں
میں نے دن رات کو ہر رنگ میں ڈھلتے دیکھا
کوئی رُخ وقت کی تصویر کا رنگین نہیں
روز لگتے ہیں بھلے مجھ کو ہزاروں چہرے
دل کی تکلیف کا باعث کوئی دو تین نہیں
کچھ تغیر میں اگر ہے تو دکھا آنکھوں کو
زندگی میں ترے دن رات کا شوقین نہیں
(علی شیران، شورکوٹ، جھنگ)

۔۔۔
غزل


جو رات دن اپنا سَر کھپانے میں لگ گئے ہیں
یہ لوگ غزلوں کے کارخانے میں لگ گئے ہیں
عجیب ہے نا؟ ہیں سارے شیشے کے جسم والے
جو اپنے پتھر کے گھر بنانے میں لگ گئے ہیں
مجھے یقیں ہے کہ درد ان کا حساب لے گا
وہ چند لمحے جو مسکرانے میں لگ گئے ہیں
یہ دل کی باتوں پہ کان دھرنے کا وقت کب تھا
ہم اس کی باتوں پہ کس زمانے میں لگ گئے ہیں
وہ حوصلوں کی جو سَر پہ رکھ کے تھے لائے گٹھڑی
وہ سارے تیری گلی تک آنے میں لگ گئے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


درد کی بھٹی میں جھونکے عنوان گئے
نام گیا، تخلیق گئی، دیوان گئے
تم کس آگ میں جلنے پر آمادہ ہو
راز سلیقوں سے رکھنے پر مان گئے
شام سویرے چاک گریباں پھرتے ہو
پیوند لگنے کی ضد میں دامان گئے
کون اندھیروں سے لڑتا ہے، ہاں میں ہوں
شب کے مارے، نام لیا، پہچان گئے
کس کس کے ہاتھوں برباد ہوئے ہم تم
کس کس پر اپنے آنسو قربان گئے
تلخ سے اپنے لہجے پر شرمندہ ہوں
کیا کرتا، حد سے آگے ارمان گئے
شام ڈھلے باقیؔ اک حشر سا برپا ہے
لٹ گئی بستی، گھر اجڑے، سامان گئے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


جس طرح خواب میں بنی تصویر
تم ہو میرے لیے وہی تصویر
وقتِ آخر تلک تجھے دیکھا
مرنے والے کے پاس تھی تصویر
آنکھ اشکوں سے بھر گئی میری
اور ہنستے ہی لی گئی تصویر
زندگی کی مثال ایسی ہے
جیسے البم میں دکھ بھری تصویر
تم مرے خواب میں چلے آئے
بند آنکھوں سے دیکھ لی تصویر
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


تازہ آب و ہوا کرے کوئی
اس گھٹن سے جدا کرے کوئی
کوئی چُھو لے مرا یہ خاکی بدن
میرے دل کو ہرا کرے کوئی
آپ کے بن گزارنی ہو گی
زندگی کی دعا کرے کوئی
دل بھی لگتا نہیں لگانے سے
اس اداسی میں کیا کرے کوئی
اپنے اندر الجھ گیا ہوں میں
مجھ کو آ کر رہا کرے کوئی
آسماں کو جو چھونے والا تھا
اس کا جا کر پتہ کرے کوئی
(ساجد رضا۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


مکانِ دل میں کوئی بھی مکیں نہیں میرے دوست
ٹھہر کے دیکھ تجھے گر یقیں نہیں میرے دوست
میں اس لیے بھی تیری خیر مانگتا ہوں بہت
تمام شہر میں تجھ سا حسیں نہیں میرے دوست
یہ رفتگان کہیں اور ہی مقیم ہوئے
تلاش کر لے یہ زیرِ زمیں نہیں میرے دوست
وہ کس لیے میرے بارے میں رائے دیتا ہے
جب اس کا ذکر ادب میں کہیں نہیں میرے دوست
جو سچ کے نور سے روشن دکھائی دیتی ہے
مری جبیں ہے یہ تیری جبیں نہیں میرے دوست
(طارق جاوید۔ کبیر والا)

۔۔۔
غزل
اداسی کا فسانہ شام تک ہے
ہمیں گھر لوٹ جانا شام تک ہے
تمہیں بھی یاد آئے گا بہت یہ
مرا ملنا ملانا شام تک ہے
بڑی ویراں فضاء ہے بعد تیرے
جگر سے خوں بہانا شام تک ہے
مری یہ زندگی کچھ پل کی ہے اب
مرا پلکیں بچھانا شام تک ہے
لگانا تم مجھے اپنے گلے سے
ہمیں تیرا ستانا شام تک ہے
(مہوش مہر۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


دشتِ ہجراں میں ہوں اب کون نکالے مجھ کو
یہ بھی کہنے سے رہا دل کو بچا لے مجھ کو
میں نے کیا کیا نہ ترے واسطے چاہا لیکن
کر دیا تو نے زمانے کے حوالے مجھ کو
دھنستا جاتا ہے بدن ہجر کی دلدل میں مرا
چاہتا ہوں کہ کوئی آ کے نکالے مجھ کو
یہ ترے ہجر نے کی مجھ پہ عنایت کیسی!
کس نظر دیکھتے ہیں دیکھنے والے مجھ کو
جب تُو جاتا ہے تو بتلاؤں کہ کیا ہوتا ہے؟
چبھنے لگتے ہیں جہاں بھر کے اجالے مجھ کو
اک وہی تھا کہ جسے میری طلب تھی احسن
اب تو وہ بھی نہ رہا کون سنبھالے مجھ کو!
(احسن علی۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
’’ناکامی‘‘
دل ٹوٹ گیا!
چلو جوڑتے ہیں۔۔۔
ہم کوشش کرنے بیٹھ گئے
ہر بار مگر جب یہ کوشش
کچھ اچھا کرنے کی چاہت
ناکام ہوئی
اچھا نہ ہُوا کچھ بھی ہم سے
الٹا ہمیں سب نے دوش دیا
تب ہم نے بھی یہ سوچ لیا
دل ٹوٹے، بکھرے کچھ بھی ہو
چپ رہ کے تماشا دیکھیں گے
کچھ بھی نہ لبوں سے بولیں گے
بس اپنے بارے سوچیں گے!
(حرا یاسر۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


وہ ہم سفر ہے مگر ساتھ دے نہیں سکتا
وہ ساتھ دے تو کوئی مات دے نہیں سکتا
وہ میرے ساتھ کھڑا تھا بلندیوں پہ مگر
میں گِر رہا ہوں مجھے ہاتھ دے نہیں سکتا
میں دان کر دوں زمیں آسمان سب تم کو
مگر انا کی تو خیرات دے نہیں سکتا
وہ بادشاہ ہے اسے تخت سے لگاؤ ہے
وہ دشمنوں کو کوئی گھات دے نہیں سکتا
میں ایک شاعر میرے اشعار اِک اثاثہ ہیں
میں مر تو سکتا ہوں خیالات دے نہیں سکتا
(محمد عاصم نقوی۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


سکوتِ مرگ طاری کیوں!
یہ ہر سُو بے قراری کیوں
نہیں مجھ میں مجھے رہنا
تو پھر بے اختیاری کیوں
فقط تم ہی تو ہو اس میں
مگر یہ دل ہے بھاری کیوں
فنا ہونا ہے گر سب کو
تماشا ہے یہ جاری کیوں
خدا پر گر یقیں ہے تو
ہے ہمت تم نے ہاری کیوں
(ارباز ندیم بازی۔ کڈہالہ، آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


نہیں ہے کوئی گل، صحرا ہے مجھ میں
مجھے تُو نے کہاں دیکھا ہے مجھ میں
جو پہلے تھا وہی اب بھی ہوں پیارے
لباسِ دل کہاں بدلا ہے مجھ میں
کرو نہ بات اب مجھ سے وفا کی
کہ درد و غم کی اک دنیا ہے مجھ میں
بس اک جاں ہے، سو وہ بھی جاں کہاں ہے
تجھے کیا دوں، بچا ہی کیا ہے مجھ میں
جسے اعجاز کہتی تھی، نہیں وہ
مگر کوئی اسی جیسا ہے مجھ میں
(اعجاز کشمیری۔ چین)

۔۔۔
غزل


کیسی ژالہ باری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
حوروں میں جو ناری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
گر وہ لکھنے بیٹھے تو لفظوں سے خوش بو آئے
کیسی یہ فن کاری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
میرا حال سنا جس دَم، نامہ بر سے یوں بولے
عشق کی یہ بیماری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
یار کے پہلو سے اٹھنا کون گوارا کرتا ہے
یہ جو دنیا داری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
دنیا کے جنجال سبھی سچے ہیں ارباب مگر
عشق کی آج خماری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
(ارباب اقبال بریار۔ احاطہ دیوی دیال، گوجرانوالا)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ماروی کون تھی؟

$
0
0

مٹھی سے نگرپارکر جاتے ہوئے سڑک کی دائیں سمت ڈرائیور نے گاڑی موڑی تو کئی ایک نے استفسار کیا کہاں لے جا رہے ہو؟ ’’ایک یادگار مقام کی سمت‘‘ اس کا جواب تھا اور گاڑی ذرا سی مسافت کے بعد ایک سائیڈ پر کھڑی کردی ’’سائیں! یہ کنواں ماروی کا ہے۔

جہاں سے اسے عمر نے اغوا کیا تھا، آپ سارے راستے ماروی، بھالوا اور دیگر واقعات بیان کر رہے تھے میں نے سوچا آپ کو ماروی سے ملوا دوں، یہ کنواں، ٹیلے اور چرواہے ان کا تعلق اور رشتہ ماروی سے ہے۔‘‘ یہ کم و بیش سات آٹھ برس پرانی بات ہے جب دوستوں نے شہر کی سیاحت کا پروگرام بنایا تھا۔

ماروی کا دیس تو پورا تھر ہے جسے شاہ لطیف نے ملک ملیر کہہ کر پکارا تھا، ماروی کی وطن دوستی سندھ میں ضرب المثل ہے اور آج بھی حب الوطنی کا تذکرہ ہو تو ماروی کا کردار اور داستان بیان کرکے گفتگو تمام کی جاتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ پالنے اور ماڈوئی کی بیٹی ماروی خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی دور و نزدیک اس کے حسن کا ذکر کیا جاتا تھا ایک حاسد پھوگ نے امر کوٹ کے حاکم عمر سومرو کو ورغلایا کہ ماروی کی خوب صورتی کا تقاضا ہے کہ وہ امر کوٹ کی رانی بنے، بادشاہ یا حکم راں چھوٹا ہو یا بڑا طاقت و اقتدار کے نشے میں چور ہو تا ہے، اس نے پھوگ کو ہمراہ لیا، میلوں کا سفر طے کرکے اونٹنیوں پر سوار دونوں بھالوا پہنچے جو ماروی کا گوٹھ تھا تو کنوئیں پر سہیلیوں کے ساتھ پانی بھرتی ماروی کو اس کے حسن و جمال کے باعث پہچان لیا اور زبردستی اونٹ پر بٹھا کر امر کوٹ کی راہ لی۔

عمر ماروی کی داستان سندھ میں بچے بچے کو ازبر ہے لیکن بہت سوں کو یہ پتا نہیں کہ ماروی کا قبیلہ کیا تھا، عمر کے قلعے سے واپسی پر اسے کیا کچھ بھگتنا پڑا، اپنی پاک دامنی کی گواہی اس نے کیسے دی، مورخوں میں اختلاف ہے کچھ کا خیال ہے کہ ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے تھا، ممتاز مورخ رائے چند ہریجن نے تاریخ ریگستان میں ماروی کے معنی مارو زادی یا مارو کی بیٹی بیان کیے ہیں جب کہ جنت السند کے مصنف رحیم داد خان مولائی شیدائی نے ماروی کو مارو قبیلے کی حسین و جمیل دوشیزہ بتایا ہے البتہ میر علی شیر قانع حیدری نے ’’تحفۃ الکرام‘‘ جس کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کیا ہے ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے ظاہر کرتے ہوئے اس کا گوٹھ تلھا تحریر کیا ہے۔

بعض دیگر کا خیال ہے کہ سنسکرت میں ماروی کا مطلب ہے پہاڑ اور ماروڑا سے مراد پہاڑوں میں آباد افراد یا قبائل۔ ماضی قریب تک میرپورخاص، عمر کوٹ اور تھر اضلاع تھرپارکر کا حصہ تھے۔ تھر سے مراد ریگستانی علاقہ ہے اور پارکر کوہستانی پٹی کو کہتے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں کہ تھر میں صرف اور صرف ریتیلے ٹیلے ہیں جن پر سبزہ اگتا ہے نہ گھاس پھوس۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلکی برسات بھی تھر کے ریگزاروں کو سبزہ زار بنا دیتی ہے اور زندگی کا حقیقی حسن اپنے رنگ چار سو بکھیرتا ہے۔ بلاشبہ برسات کے بعد تھر قابل دید مقام بن جاتا ہے۔

کہتے ہیں ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے تھا ویسے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں شریک شخصیت کا دعویٰ تھا کہ مارو قبیلہ راجپوتانہ، راجستھان سمیت کئی صوبوں میں آباد ہے اور ان کی سیکڑوں ذیلی شاخیں یا گوتیں ہیں۔

خود شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں درجنوں مقامات پر مارو کا لفظ استعمال کیا ہے جن کی نسبت ماروی سے بیان کی ہے اور خود ماروی نے بھی شاہ سائیں کے الفاظ میں اپنے عزیز و اقارب کو مارو کہہ کر مخاطب کیا ہے جب کہ اس نقطہ نظر کے مخالف دلیل دیتے ہیں کہ تھر کے ادب میں مویشی چَرانے والوں کو مارو، بکریاں چَرانے والوں کو پنھوار اور دونوں اقسام کے جانوروں کی نگہداشت کرنے والوں کو ریباڑی پکارتے ہیں اور ماروی کی نسبت ان تینوں قبیلوں سے بیان کی جاتی ہے۔ قدیمی عہد کی یہ شناخت آج بھی برقرار ہے کیوںکہ یہ لوگ مویشی پروی کے دوران گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ خیر محمد برڑو سیوہانی اور ڈاکٹر عبدالعزیز کے مضامین پر ایک طویل سلسلہ گفتگو دو برس قبل کئی اخبارات میں موضوع بحث بنا تھا۔

ایک مراسلہ نگار کا تو موقف تھا کہ تھر میں گھاس کی ایک خاص قسم مارو گھاس کہلاتی ہے جو مویشیوں کی پسندیدہ غذا بھی ہے۔ کہتے ہیں راجستھان کے چارن قبیلے کی ایک گوت ’’ورسدا‘‘ کہلاتی ہے جن کے پاس مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ ہیں اور اس حوالے سے انھیں مارو کہا جاتا ہے۔ حالاںکہ ان کے ہاں مارو پہاڑ ہے نہ مارو گھاس نہ ہی ماروی سے قبائلی تعلق۔ خیر محمد برڑو کا اصرار ہے کہ ماروی ریباڑی تھی یعنی مویشی اور بکریاں چرانے والے قبیلے کی فرد۔

ماروی کے منگیتر ’’کھیت‘‘ کا تعلق بھی ریباڑی قبیلے سے بیان کیا جاتا ہے جو اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ ماروی نے عمر کی شاہی حویلی یا محل میں خوش و خرم زندگی گزارنے پر تھر کے ریتیلے علاقے کو ترجیح دی جہاں اس کے اپنے پیارے رہتے تھے۔ جب عمر سومرو نے محسوس کیا کہ تمام تر جبر کے باوجود ماروی اس کے ساتھ شادی پر تیار نہیں اور وہ عزیز و اقارب کو یاد کرتی ہے تو اسے بھالوا/ملیر پہنچا دیا۔ وہ ماروی کے عزم و حوصلے اور پیاروں سے لگاؤ کو شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ گاؤں پہنچنے پر کچھ لوگوں نے اس کی پاک دامنی کو چیلنج کیا اور الزامات عائد کیے۔ دو روایات ہیں ایک یہ کہ خود عمر نے وہاں پہنچ کر اس کی پاکیزگی کی گواہی دی، دوسرے یہ بھی کہ لوہے کی سلاخوں کو آگ میں سرخ کرکے ماروی کے ہاتھوں میں دیا گیا۔ اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑے نہ نشان جس پر اس کی بے گناہی تسلیم کی گئی۔ آج بھی بالائی سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں یہ رسم موجود ہے جس میں دہکتے انگاروں پر سے ملزم کو گزارا جاتا ہے۔ وہ خندق پار کرجائے تو بے گناہ ورنہ مجرم گردانا جاتا ہے۔ مرحوم سردار اکبر بگٹی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے قبیلے میں سچ اور جھوٹ کا تصفیہ اسی طرح کرتے تھے۔

ماروی نے خود کو عمر سومرو کی قید میں بھی اپنے منگیتر کھیت کی امانت سمجھا اور اسیری کی شدت برداشت کی شاہ لطیف کے الفاظ میں:

کیا ہے قید میرے جسم و جاں کو

عبث اے سومرا سردار تو نے

نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسائی

دیے کیوں روح کو آزار تو نے

بالآخر عمر کو اس کے مستحکم ارادوں کے سامنے اپنی بے بسی اور کم زوری کا ادراک ہوا اور اس نے شکست تسلیم کی جو ماروی کی رہائی کی صورت میں تھی۔ ماروی کے گوٹھ بھالوا سے متصل کنوئیں پر کھڑے سب لوگ سوچ رہے تھے کہ اپنوں کی محبت، دھرتی سے لگاؤ، مضبوط ارادوں نے ماروی کو تاریخ میں امر کردیا آج تھر کی ماروی دیس سے محبت کی علامت ہے اس کا قبیلہ ریباڑی تھا یا مارو پنہوار یا چارن وہ سب کی ہے اور سب اسے اپنا گردانتے ہیں۔

ہوشو، روپلو، دودو کی طرح، دولہا دریا خان کی طرح اور مخدوم بلاول یا شاہ عنایت کی طرح جو سندھ کی شناخت ہیں۔ غریبوں کے ہمدم، افتادگان خاک کے ہم نشیں۔ ماروی کے گاؤں سے نکلے تو ہماری اگلی منزل بھوڈے سر تھا۔ حنیف میمن، ارشد کھوکھر، شبیر بھائی سب کی خواہش تھی کہ تھر کے آثار دیکھیں بھوڈے سرکی مسجد، ننگرپار کر کا قصبہ اور اطراف میں سربلند کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ، یہاں موجود جابجا جین مت کے مندر اور دیگر عبادت گاہیں۔

گرینائٹ کا پہاڑ، اس میں بہتا جھرنا، دنیا کے نایاب حشرات الارض سب ایک طویل گفتگو کے مستحق ہیں۔ لیکن ماروی کا سحر سب پر غالب رہا۔ ننگرپارکر سے واپسی اور تھر کے گیٹ وے نوکوٹ سے گزرتے ہوئے جہاں بھی چرواہے دیکھے ماروی یاد آئی، اس کا قبیلہ یاد آیا اور اس کی جرأت و بہادری جو اسے تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

The post ماروی کون تھی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر دیس انوکھا ہے!

$
0
0

دنیا میں ایک سو چھیانوے ممالک ہیں اور ہر ملک کے کچھ دل چسپ و حیرت انگیز حقائق ہیں۔ ان ہی میں سے کچھ ممالک کے دل چسپ حقائق اس مضمون میں پیش کیے جارہے ہیں:
1 ۔چین
دیوارِ چین کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ اس کا شمار دنیا کے سات حیرت انگیز عجائبات میں کیا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر کے دوران دیوار میں اینٹوں کو جوڑنے کے لیے جس آمیزے کا استعمال کیا گیا وہ چپکنے والے چاولوں سے تیار کیا گیا تھا۔

2 ۔اینڈورا (Andora)
اینڈورا فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے۔ اینڈورا دنیا کی واحد مشترکہ ریاست کا درجہ رکھتی ہے۔ کوئی بھی ریاست ایک ایسا ملک ہوتا ہے جہاں کسی ایک فرد کی حکم رانی ہو مگر اینڈورا پر دو افراد بیک وقت حکم رانی کا حق رکھتے ہیں اور دونوں میں سے کسی کا بھی تعلق اس ملک سے نہیں ہے۔ ان میں سے ایک فرانس کے صدر ہیں اور دوسرے کیٹالونیا اسپین کے پادری ہیں۔

3 ۔ آسٹریلیا
آسٹریلوی شتر مرغ اور کینگروز کے بازوؤں کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ پیچھے کی طرف نہیں چل سکتے بلکہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ دونوں جانور ملکی شناخت کے ساتھ ملکی پیداوار کا خاص حصہ سمجھے جاتے ہیں جن کو آسٹریلوی عوام شوق سے کھاتے ہیں۔

4 ۔ بھوٹان
بھوٹان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی قوم ملکی مجموعی پیداوار کے بجائے مجموعی ملکی خوشی کو ترقی کی علامت سمجھتی ہے۔ شہریوں کے معیارِزندگی اور مجموعی ترقی سے اعدادوشمار کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ بھوٹان نے اقوامِ متحدہ میں بھی یہ قرارداد پیش کی ہے کہ دیگر ممالک بھی اپنی خوشیوں کو ملکی مجموعی ترقی کی پیمائش کا پیمانہ بنائیں۔

5 ۔ برونائی
برونائی جنوبی مشرقی ایشیا میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کے دارالحکومت میں واقع شاہی محل ایستان نورالایمان دنیا کا سب سے بڑا رہائشی محل مانا جاتا ہے۔ یہ برونائی کے سلطان کی رہائش گاہ ہے۔ اس میں 1,788 کمرے، 257 غسل خانے، ایک گیراج جس میں 110 کاریں رکھی جا سکیں اور ایک ایئرکنڈیشنڈ اصطبل جس میں دو سو ایسے خاص گھوڑوں کو رکھا جاتا ہے جن کو پولو کے کھیل کے لیے خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

6 ۔کینیڈا
کینیڈا میں دنیا کی سب سے طویل ساحلی پٹی ہے، جس کی لمبائی 125,567 میل (202,080کلومیٹر ) ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے طویل گلی بھی کینیڈا میں ہے۔ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں واقع اس گلی کا نام یونگ اسٹریٹ ہے۔ اس کی لمبائی 1,178 میل ( 1896 کلومیٹر ) ہے۔

7 ۔کنیری جزائر islands canary
جب رومن ملاحوں نے افریقہ کے شمال مغربی ساحل کے پار کنیری جزائر کو دریافت کیا تو انہوں نے یہاں جنگلی کتوں کی کثیر تعداد دیکھی۔ لاطینی زبان میں کتے کو کینس ” canis ” کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اس کا نام کنیری رکھ دیا گیا۔

8 ۔سائپرس
سائپرس دنیا کا واحد ملک ہے جس کا اپنا قومی ترانہ نہیں ہے۔ یہ دو قومی سماج پر مشتمل ہے۔ یہاں یونانی اور ترک اقوام آباد ہیں اور وہ ایک قومی ترانہ کا انتخاب نہیں کر پارہی تھیں، لہٰذا 16 نومبر 1966 میں وزراء کے ایوان نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے یونان کے قومی ترانے کا انتخاب کیا اور یوں یہ سائپرس کا بھی قومی ترانہ قرار پایا۔

9 ۔ایتھوپیا
ایتھوپیا کے باشندے آج بھی اپنے قدیم کیلنڈر کے مطابق تاریخوں کا تعین کرتے ہیں جو کہ دنیا بھر میں رائج کیلنڈر سے سات آٹھ برس پیچھے ہے۔ اس ملک کے عوام اپنا نیا سال کا جشن 11ستمبر کو مناتے ہیں۔

10۔جاپان
جاپان کے شاہی خاندان کی ابتدا 660 سن عیسوی سے ہوتی ہے۔ یہ دنیا کا قدیم ترین مسلسل وراثتی بادشاہت کا سلسلہ ہے۔ اب تک سو سے زائد بادشاہ حکومت کرچکے ہیں۔

11 ۔گرین لینڈ
گرین لینڈ میں ملک بھر میں کوئی ایسا حصہ نہیں جو سرسبزوشاداب ہو یا جس پر گھاس اُگی ہو۔ اسی لیے وہاں کی فٹبال ایسوسی ایشن فیفا میں شمولیت اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ سال کا بیشتر وقت وہاں برف پڑی رہتی ہے۔ سال بھر میں صرف تین ماہ وہاں کوئی کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ یہ بھی اہم وجہ ہے۔

12۔گوام Guam
یہ مغربی بحرالکاہل میں واقع ایسی امریکی ریاست ہے جہاں قدرتی ریت نہیں پائی جاتی۔ اگرچہ یہ ایک جزیرہ ہے۔ اس کے تمام ساحل پسے ہوئے مرجان کے پتھروں سے بنے ہیں۔ وہاں کے عوام نے بیرونِ ملک سے ریت درآمد کرنے کے بجائے اسی میں تیل ملا کر ڈامر اور سڑکیں تعمیر کرلیں۔

13 ۔آئرلینڈ
آئرلینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک موسیقی کے آلے کی تصویر کو قومی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

14 ۔کوسووو kosovo
2008 میں سربیا سے آزاد ہونے کے اعلان کے بعد کوسووو یورپ کا ایک ایسا ملک بن چکا ہے جس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی نصف آبادی پچیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ یہ جنوب مشرقی یورپی ملک براعظم کا واحد ملک ہے جہاں کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

15 ۔لائوس Laos
ویت نام کی جنگ کے دوران اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک پر بیس لاکھ ٹن سے زائد بم گرائے گئے۔ لہٰذا یہ دنیا کے ایسے ممالک جن میں بہت زیادہ بم باری کی گئی میں سے ایک ہے۔ وہاں کے دیہات میں آج بھی بم ملتے ہیں بموں کے خول کو وہاں تعمیراتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

16۔ لیبیا
لیبیا صحرائے صحارا desert sahara کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس ملک کی نوے فی صد اراضی صحرائی حصے پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے سب سے زیادہ خشک حصوں میں سے ایک ہے۔ یہاں موسم کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سب سے زیادہ ٹمپریچر یعنی 136.4 ڈگری فارن ہائیٹ ریکارڈ کیا گیا جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

17۔مالدیپ
بحرِہند میں واقع اس ملک کے عوام سمندری سطح سے محض 2.1 میٹر اوپر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے نچلی سطح پر واقع ملک ہے۔ سمندر کی بڑھتی سطح کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے 2009 میں دنیا میں پہلی دفعہ کابینہ کا اجلاس زیرِآب منعقد کیا گیا۔

18 ۔موناکو Monaco
موناکو دنیا کا دوسرا چھوٹا ترین ملک ہے۔ صرف تین چوتھائی مربع میل پر واقع یہ ملک نیویارک کے سینٹرل پارک سے بھی چھوٹا ہے اور بے حد گنجان آباد ہے۔

19 ۔ نورو Nauru
آسٹریلیا کے شمال مشرق میں واقع دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں موٹاپے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں BMI جو کہ وزن ناپنے کا کلیہ ہے، اس کی شرح 34 سے 35 کے درمیان ہے۔ کسی بھی شخص کا BMI اگر 30 سے زیادہ ہو تو وہ موٹاپے کا شکار سمجھا جائے گا۔

20 ۔ نیوزی لینڈ
2006 سے ہائی اسکول کے طلباء دوران تدریس یا امتحانوں میں ایسی زبان تحریر کرسکتے ہیں جو عموماً چیٹ وغیرہ کے دوران ٹائپ کی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کوالیفیکیشن اتھارٹی نے طلباء کو اجازت دی ہے کہ وہ امتحانات میں ایسے الفاظ لکھ سکتے ہیں مثلاً gr8 یعنی ( great) ۔ البتہ تحریر مکمل انگریزی میں ہونی چاہیے۔ جواب واضح ہونے کی صورت میں نمبر دیے جائیں گے۔

21۔ناروے
ناروے کے شہر Longyearbyen میں موت کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ ستر برس قبل قصبے میں واقع چھوٹے سے قبرستان کی انتظامیہ نے قبرستان میں مزید لاشوں کی تدفین سے انکار کردیا ہے، کیوںکہ سرد موسم کے سبب وہاں لاشیں گلتی بھی نہیں ہیں۔

22 ۔پیرو
جنوبی پیرو میں واقع جھیل Lake Titicaca جنوبی امریکا کی ہی نہیں بلکہ پانی کے حجم اور بلندی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہاں پانی کی سطح 12,507 فٹ بلند ہے جو کہ جہازرانی کے لیے بھی موزوں ہے۔

23 ۔پٹ کیرن Pitcairn
یہ جنوبی بحرالکاہل میں واقع چار جزائر کے مجموعے کا نام ہے، جس کی آبادی محض 49 افراد پر مشتمل تھی۔ سترہ برسوں میں پہلی دفعہ یہاں جزیرے پر ستمبر 2003 میں پہلے بچے کی ولادت ہوئی پھر 2007 میں دوسرے بچے کی ولادت ہوئی۔

24 ۔ روس
روس میں دنیا کے سب سے بڑے جنگلات واقع ہیں۔ دنیا کے دیگر جنگلات کے مقابلے میں یہ زیادہ آکسیجن خارج کرتے ہیں اور اسی طرح زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو جنگلات واقع ہیں ان کا پچیس فی صد حصہ روس میں واقع جنگلات پر محیط ہے۔

25 ۔ سنگاپور
سنگاپور دنیا کا ایسا بڑا ملک ہے جہاں کوئی کھیت نہیں، لہٰذا معیشت کا دارومدار بھی زراعت پر نہیں۔ ترقی کی دوڑ میں جدیدیت کا رنگ دینے اور صنعت کاری کے فروغ کی وجہ سے وہاں ایسی سرگرمیاں مفقود ہوچکی ہیں۔ البتہ صرف تین فی صد اراضی زراعت کے لیے وقف کی گئی ہے۔

26 ۔تاجکستان
2011 میں اس ایشیائی ملک نے بنا سہارے کے دنیا کا بلند ترین پرچم لہرا کر عالمی ریکارڈ بنالیا، جس کا گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج ہوگیا۔ یہ اعزاز 2011 میں ملک کے جشن آزادی کی بیسویں سال گرہ کے موقع پر 541 فٹ بلند پرچم لہرا کر حاصؒ کیا گیا تھا۔ البتہ 2014 میں سعودی عرب میں 560 فٹ اونچا پرچم لہرا کر یہ ریکارڈ توڑ دیا گیا۔

27 ۔سعودی عرب
سعودی عرب ایک صحرائی ملک ہے جہاں کوئی دریا نہیں ہے۔ البتہ ایسی آبی گزرگاہیں ہیں جو بارش ہونے پر پانی سے بھر جاتی ہیں۔ ملک کی آبی ضروریات کے لیے زیرِ زمین پانی کے ذخائر اور ایسے پلانٹ جو سمندری پانی سے نمک کشید کرکے اس کو استعمال کے قابل بناتے ہیں۔

28 ۔وینیزویلا Venezuela
یہاں کے ایک آئسکریم پارلر کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ آئسکریم کے ذائقے رکھنے کا عالمی اعزاز حاصل ہے۔ 860 مختلف ذائقوں کی آئسکریم یہاں دست یاب ہوتی ہے۔ یہ سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہے۔ یہاں آپ کو مرچ، ٹماٹر، کھمبی، لہسن، پیاز اور دیگر اجزاء کے ذائقے کی آئسکریم بھی ملے گی۔ وقتاً فوقتاً یہ پارلر ذائقوں میں تبدیلی بھی کرتا رہتا ہے۔

The post ہر دیس انوکھا ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

ایران میں امریکی مصنوعات کی فروخت

$
0
0

 امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ’’ملک ایسے سخت دباؤ میں ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔

حالات 1980-88ء میں ایران عراق جنگ سے زیادہ ابتر ہیں۔‘‘ صدر روحانی کے لیے اس وقت سیاسی صورت حال سازگار نہیں ہیں۔ انہوں نے ملک میں سیاسی قوتوں اور عوام سے امریکا پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے ۔

ان انتہائی کشیدہ حالات اور پابندیوں کے باوجود ایران میں امریکی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ تہران کے ریستوران اور ہوٹل ایسے مناظر سے بھرے نظر آتے ہیں کہ لوگ امریکی اشیاء خورونوش کھاتے پیتے ہیں۔ ایک امریکی برانڈ کولڈ ڈرنک، امریکی کیچپ، ہائنز اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات آج کے ایران میں باآسانی دستیاب ہیں۔ بازار امریکی مصنوعات کپڑے اور جوتوں سے بھری ہیں۔ ’’ٹباسکو‘‘ ’’ٹائمز شوز‘‘ اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات عام فروخت ہورہی ہیں۔ لیکن کمپنیاں اس بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی ہیں۔ سوائے مشروبات کی کمپنیوں کے جو تفصیلات اعدادوشمار کے مطابق بتاتی ہیں۔

2016ء میں تیار کی گئی ایک رپورٹ ’’پورومانیٹر‘‘ کے مطابق ایرانی مشروبات کی مارکیٹ میں مشہور امریکی کولڈڈرنک کا حصہ اٹھائیس فی صد (28 فی صد) جب کہ ایک دوسرے مشہور امریکی کولا کا حصہ بیس فی صد (20 فی صد) کے قریب ہے۔مرغن کھانوں اور کباب کے بعد امریکی کولا کا پینا ایرانی عوام کی روزمرہ زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کمپنیوں کے لیے یہ مشروب مقامی ایرانی کمپنیاں تیار کرتیں ہیں۔ یہ کمپنیاں امام رضا فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں جو کہ ایک طرح سے حکومت کا ہی حصہ ہیں۔ امریکی کولڈڈرنک کمپنی کا کہنا ہے کہ ایران میں ان کے مشروبات کی فروخت امریکا پابندیوں کے خلاف نہیں۔ ہمیں اس کام کے لیے محدود نوعیت کی اجازت ہے۔ کمپنی کی ایران میں کوئی ملکیت نہیں اور نہ ہی ٹھوس اثاثے ہیں۔ ایران میں امریکی مصنوعات مقامی ڈسٹری بیوٹرز کے توسط سے فروخت کی جارہی ہیں۔

2015ء میں ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ گذشتہ برس بے یقینی کا شکار ہوگیا تھا جب صدر ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہوتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ان امریکی پابندیوں کا سب سے بڑا نشانہ ایرانی تیل کی برآمدات کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔

عالمی تجارت میں امریکا ایک اہم ترین ملک ہے۔ وہ اپنی اس اہمیت اور پوزیشن کو سیاسی طور پر استعمال کرنا جانتا ہے۔ چناںچہ اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران کے بازاروں اور ہوٹلوں میں پھر بھی امریکی مصنوعات نظر آتی ہیں۔ اور کثیر تعداد میں ایرانی انہیں استعمال کررہے ہیں یعنی جہاں امریکی کمپنیوں کے مفادات کی بات ہو وہاں پابندیاں ڈھیلی ہی رہتی ہیں۔

یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ  2015ء میں جوہری معاہدے کے وقت ایران میں ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا اور اب ایرانی ریال کی قیمت حد سے زیادہ کم ہوکر ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے جب کہ افراطِ زر کی شرح 27 فی صد اور بے روزگاری کی سطح 12فی صد تک جا پہنچی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکی معاہدے ہمیشہ امریکی مفادات کو ہی تحفظ دیتے ہیں۔

ٹرمپ ایران پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ ایران نے اس دباؤ سے نکلنے کے لیے جوابی کارروائیاں شروع کی ہیں۔ امریکا کے یک طرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد اب ایران کا کہنا ہے کہ اگر فریقین معاہدے میں طے کی گئی شرائط کو نافذ نہیں کریں گے تو وہ بھی جوہری معاہدے کی پاس داری ختم کرتے ہوئے یورینیم افزودہ کرنا شروع کردے گا اور آزادانہ طور پر اپنے جوہری پروگرام پر عمل کرے گا۔

ایران کے اس اعلان کے فوراً بعد چند گھنٹوں کے اندر امریکی وزیرخارجہ نے برطانیہ کا دورہ کیا کیونکہ یورپی ممالک معاہدے کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔ روس اور چین بھی اس معاہدے پر عمل درآمد روکنے کا ذمہ دار امریکا کو قرار دیتے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کے مکمل خاتمے سے دل چسپی رکھتی ہے۔

ایران نے پچھلے مہینے امریکا کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک متبادل منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق ایران جوہری معاہدے میں امریکی واپسی کے اسرار کے بغیر پابندیوں کی نرمی کے شرط پر کشیدگی ختم کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ تیل اور بین الاقوامی بینکنگ کی خدمات پر عائد پابندیاں ختم کردی جائیں۔ جس کے بعد ایران اپنے جوہری اقدامات میں کمی کرنے کا سوچ سکتا ہے۔

آبنائے ہرمز جوہری معاہدہ کے بعد ایک دوسرا اہم معاملہ ہے تیل کی با حفاظت ترسیل کے لیے آبنائے ہرمز پر جنگ مسلط نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت اگرچہ وہاں کشیدگی ہے لیکن کوئی ملک بھی وہاں سنجیدگی کے ساتھ حالات خراب کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا کیوںکہ یہاں سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ لے جایا جاتا ہے۔ امریکا عموماً چھری اور گاجر والا کھیل ہی کھیلتا ہے۔

لہٰذا ایران کو سبق سکھانے کے اعلان کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ ایران میں اقتدا رکی تبدیلی نہیں چاہتے اور ایران موجودہ قیادت کے ساتھ ہی ایک عظیم ملک بن سکتا ہے۔ بسں وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کا ارادہ ترک کردے ۔

امریکا اور ایران کی ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیاں بعض دفعہ کچھ ایسی تصویر بھی پیش کرتی ہیں کہ جیسے یہ کوئی نورا کشتی ہورہی ہے۔ یہ نورا کشتی ہے یا کچھ اور جو بھی ہے اس نے ایک عام ایرانی شہری کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیاں کمر توڑ ہیں۔ امریکی صدر ایران کے خلاف اقتصادی جنگ کررہا ہے۔ اس جنگ نے ایرانی عوام کو ہڈیاں توڑنے والی مہنگائی میں مبتلا کردیا ہے۔

آج ایران کے انقلاب کو چالیس سال گزرگئے ۔1971ء میں شاہ ایران اور ان کی اہلیہ فرح دیبا نے تخت جمشید میں شاہی محل کے کھنڈرات میں ایران کی قدیم بادشاہ کی ڈھائی ہزار سالہ سال گرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور اپنی بادشاہت کو اسی کا تسلسل قرار دیتا تھا۔

امریکا شاہ ایران کا حلیف تھا لیکن اس نے انقلاب کے بعد ایران کی ناراضگی کے خیال سے شاہ کو اپنے مالک میں پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایک عرصہ ایران اور امریکا دو الگ الگ سمتوں میں سفر کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ان کا وزن ایک ساتھ ایک پلڑے میں محسوس ہوتا تھا۔

اس وقت ایران اور امریکا کی تمام تر ناراضگی اور دوری کے باوجود ان کے درمیان صورت حال جنگ کی جانب جانا ممکن نہیں ہے۔ امریکا سختی در سختی کرتا رہے گا اور دھمکیوں پر دھمکیاں سنائی دیتی رہیں گیں لیکن معاملات پھر اسی نکتے پر آکر ٹھہر جائیں گے جسے توازن کہا جاتا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو ایک ایسا معاہدہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے جس میں جوہری پروگرام کے علاوہ بیلسٹک میزائل کا پروگرام بھی شامل ہو کیوںکہ بقول امریکا کے اس بیلسٹک میزائل پروگرام سے مشرق وسطیٰ (اسرائیل) کو خطرہ ہے۔

The post ایران میں امریکی مصنوعات کی فروخت appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت : میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے

$
0
0

 قسط نمبر 59

بابا نے حنیف کی کتھا سُنا کر مجھے اُس سے اور زیادہ قریب کردیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کچھ دن بعد ہمارے ساتھ ہی رہے گا اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ وہ دن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب ہم نے شام کو کام ختم کیا اور واپسی کی راہ لی تو حنیف نے بابا سے اصرار کرکے مجھے اپنی سائیکل کے پیچھے بٹھا لیا تھا اور ہم روانہ ہوئے۔

بابا نے اسے تنبیہ کی تھی کہ وہ بہت آرام سے سائیکل چلائے، سیدھے راستے کو اختیار کرے اور اس نے مُسکراتے ہوئے سر جُھکایا تھا۔ اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ بابا اسے یہ کیوں کہہ رہے ہیں لیکن جب حنیف روانہ ہوا تو کچی سڑک پر تو وہ بہت آہستہ سے سائیکل چلاتا رہا لیکن جیسے ہی پکی سڑک آئی وہ ہَوا سے باتیں کرنے لگا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی تیز رفتاری سے کیسے اور کیوں سائیکل چلا رہا ہے۔

حنیف بھائی! آرام سے چلیں ناں، میں نے اسے آواز دی لیکن اس نے تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا، کہتے ہوئے اپنی رفتار اور بڑھا لی تھی۔ میں نے خاموشی اختیار کی، خاصی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں اور بابا جس راستے سے جاتے تھے یہ وہ راستہ نہیں ہے، تب میں نے اسے کہا: حنیف بھائی یہ وہ رستہ نہیں ہے، ہم شاید بھٹک گئے ہیں۔

اچھا! تو اب تم مجھے راستے بھی بتاؤ گے، کہہ کر وہ اپنی دُھن میں چلا جارہا تھا۔ پسینے سے اُس کی قمیض تَر تھی، اُس پر ایک جُنون سوار تھا اور وہ بس چلے جارہا تھا۔ مغرب کی اذان بلند ہوئی تو اس نے سائیکل قریب ہی ایک مسجد کے باہر کھڑی کی اور کچھ کہے بنا ہی مسجد میں داخل ہوگیا، میں اس کے پیچھے تھا۔

ہم نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے، نیم پختہ مسجد میں چند ہی نمازی تھے، جب ہم باہر نکل رہے تھے تب نمازیوں نے ہمیں ایک نظر دیکھا تھا بس۔ حنیف نے سائیکل کے پاس آکر کہا: تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، لگتا ہے ہم کہیں دُور نکل آئے ہیں۔ جب میں نے آپ کو منع کیا تھا تو آپ نے میری کوئی بات سنی ہی نہیں حنیف بھائی! میں ذرا سا تلخ ہوا۔ پھر تو عجیب منظر تھا، وہ سائیکل کے پاس بیٹھ کر رونے لگا، اب تم بھی مجھے غصہ کروگے، کرو، کرو، میں ہوں ہی ایسا۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا۔ حنیف بھائی! میں غصہ نہیں کر رہا بس ویسے ہی کہہ رہا ہوں، اب آپ پریشان نہ ہوں۔

اﷲ دکھائے گا ناں راستہ، میری اس تسلی سے وہ کچھ سنبھلا اور کہنے لگا: اب جیسے تم کہو گے میں ویسا کروں گا۔ فقیر تو ویسے بھی راستوں سے ناآشنا تھا اور اب بھی ہے، میں نے دُور تک دیکھا ہم تو ایک ویرانے میں تھے، میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہم ایک سمت میں پیدل چلنے لگے، اندھیرا چھا گیا تھا اور آوارہ کتّوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھے اور ہم ایک کچّے راستے پر آگے بڑھ رہے تھے، نامعلوم کہاں۔ اچانک مجھے دُور چادر میں لپٹا ہوا ایک شخص جاتا دکھائی دیا تو امید کی کرن روشن ہوئی کہ میں اس سے راستے کا معلوم کرلوں گا، بس یہ خیال آتے ہی میں نے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی، حنیف مجھے آوازیں دیتا ہی رہ گیا۔

پہلے تو میں نے اس شخص کو آوازیں دیں لیکن شاید اسے میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، میں اس کے پیچھے بھاگے چلا رہا تھا لیکن فاصلہ تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ خاصی دیر تک تو میں بھاگتا رہا پھر مجھے اندازہ ہوا کہ جس تیزی سے میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں وہ اس قدر مجھ سے دُور ہوتا جارہا ہے، میں نے اپنا ارادہ ترک کیا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، میں نے دیکھا دُور کھڑا ہوا شخص مجھے گھُور رہا تھا،  اس کی آنکھیں چشمِ گُربہ بنی ہوئی تھیں، تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں بے عقل ایسا کرچکا تھا اور آنے والے وقت کا منتظر تھا۔ وہ مجھ سے بہت فاصلے پر تھا اور جیسے ہی میں رکا وہ بھی اپنی جگہ ساکت ہوگیا، اب وہ مجھے اور میں اسے مسلسل گھورے جارہے تھے۔

بنا کسی جنبش کے۔ خاصی دیر گزر گئی تھی پھر میں نے دیکھا کہ وہ آگے کی سمت میں بھاگتا چلا گیا اور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی کہ ہوسکتا ہے حنیف بھی آپہنچا ہو لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں تھا، میں نے اسے آوازیں دینا شروع کیں لیکن بے سُود، یعنی کہ ہم ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے۔

اب کیا کِیا جاسکتا تھا، بھاگ بھاگ کر میں تھک چکا تھا، دُور تلک ویرانہ اور وہ بھی تاریک اور جھاڑیوں سے اٹا ہوا، جس میں اکّا دُکّا درخت کسی آسیب کی طرح کھڑے تھے، میں نے اسی درخت کے نیچے رات بسر کا سوچا، لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ مجھے دن میں تو درخت کے نیچے سونے سے نہیں روکا گیا تھا، لیکن رات کو انتہائی سختی سے منع کیا گیا تھا، میں درخت سے دور ایک جگہ بیٹھ گیا، بھوک پیاس آج بھی فقیر کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی کہ مجھے یہ سکھایا گیا کہ جب کچھ دست یاب نہ ہو تو پھر کیسے جیا جائے، جی انسان خاصے دن تک بغیر کچھ کھائے پیے جی سکتا ہے، کیسے؟ اب یہ فقیر آپ کو کیسے بتائے لیکن یہ کوئی اتنا کارِ مشکل نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں، فقط ضبطِ نفس کے ساتھ مسلسل مشق سے آپ اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔

میں زمین پر لیٹ گیا اور پھر سے ماضی کی اک یاد میرے سامنے تھی۔ میں جب بہت چھوٹا تھا، بڑا تو خیر میں اب تک نہیں ہُوا اور لگتا ہے اس نعمت سے میں محروم ہی رہوں گا تو آوارگی گھٹی میں ہے، کہیں ٹک کر بیٹھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

میری امّاں جی کہتی تھیں اس کے پاؤں میں چکر ہے، کہیں قیام نہیں کرسکتا یہ، خاص کر دوپہر میں جب سب آرام کرنے لیٹ جاتے تو گھر والوں کو چکمہ دینے کے لیے میں ایک چادر کے نیچے تکیے رکھ کر باہر کی راہ لیتا، ابّا جی ویسے بھی اکثر اپنی زمینوں پر ہوتے تھے اور اگر گھر ہوتے بھی تو میں اس کی راہ بھی نکال لیتا تھا، جی بہت مار کھائی، لیکن وہ بُھوت ہی کیا جو مار سے اُتر جائے، خیر ایک دوپہر کو میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور ایک سڑک پر جا نکلا، اس سڑک کے دونوں جانب آم کے باغات تھے اور قریب ہی نہر بھی تھی، میں نہر پر جا پہنچا اور اس میں نہانے لگا، نہر کے کنارے پر کوئی جھاڑی تھی جس میں بادام کی طرح لیکن بہت چھوٹے سے پھل لگے ہوئے تھے، میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے کھانا شروع کردیا، مجھے یاد نہیں کہ کتنی گِریاں کھائی تھیں، پھر مجھے چکر آنے لگا، اندھیرا چھانے لگا اور میں نہ جانے کب بے ہوش ہوگیا۔ میں جب ہوش آیا تو خود کو ایک گاؤں میں پایا، میرے اردگرد کچھ مرد و زن موجود تھے۔

ان میں سے ایک بوڑھے نے مجھ سے پوچھا: بیٹا تم کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ جواب تو میں کوئی نہیں دیا الٹا ان سے پوچھ بیٹھا کہ میں کیسے اس جگہ پہنچ گیا، کون لایا ہے مجھے اور کیوں؟ بوڑھے بزرگ نے کسی سے گرم دودھ لانے کا کہا اور پھر مجھے پلاتے ہوئے بتایا: بیٹا میں لایا ہوں تمہیں یہاں، میں گاؤں آرہا تھا تو میری نظر تم پر پڑی تم نہر کے کنارے بے ہوش پڑے ہوئے تھے اور تمہارے آس پاس جنگلی جھاڑی کے بیج پڑے ہوئے تھے، میں سمجھ گیا کہ تم نے یہ کھائے ہیں اور اس لیے بے ہوش ہوگئے ہو، خدا نے رحم کیا تم پر بیٹا! وہ بیج انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔

انہیں کھانے سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، پھر میں کچھ لوگوں کی مدد سے تمہیں یہاں لے آیا، میں جانتا ہوں اس کا علاج تو بس میں نے تمہیں کچھ جڑی بُوٹیاں کھلائیں جس سے تم نے قے کردی اور خُدا کا شُکر ہے کہ تم بچ گئے، اب تم بتاؤ کون ہو، کہاں رہتے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں۔

ابّاجی کا نام سن کر وہ پریشان ہوئے اور بولے وہ بھی تمہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور تم ان کے غضب کو تو اچھی طرح سے جانتے ہی ہوگے، لیکن چلو اب میں تمہیں پہنچانے جاتا ہوں، ان سے گزارش کروں گا کہ تمہیں معاف کردیں لیکن بیٹا! آئندہ ایسا مت کرنا، کسی بھی چیز کو بلا سوچے سمجھے مت کھانا، دیکھو کچھ چیزیں بہت خوب صورت دِکھتی ہیں لیکن ہوتی انتہائی زہریلی ہیں۔ فقیر کو بہت عرصے بعد بھٹ شاہ کے سائیں شاہ لطیف کی بات سنائی گئی، انہوں نے فرمایا: ’’سانپ دیکھنے میں بہت خُوب صورت نظر آتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے ٹریکٹر پر مجھے بٹھایا اور ہم اپنے گھر پہنچے، راستے میں ہی ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ ابّا جی نے نہ جانے کتنے ہی لوگ میری تلاش میں روانہ کیے تھے، چلیے قصہ مختصر! جی ان بزرگ بوڑھے کی سفارش پر ابّا جی نے مجھے معاف کردیا تھا۔

حنیف کہاں اور کس حال میں ہوگا اور بابا؟ کچھ دیر میں نے سوچا اور پھر سب کچھ اپنے رب کے حوالے کردیا، سارا دن کام اور پھر اس کے بعد کے حالات نے مجھے تھکا دیا تھا میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بہ آواز بلند کہا: ’’ دیکھو اور سنو! میں اﷲ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں مسافر ہوں، راستہ بھٹک گیا ہوں، میں یہاں کسی کو بھی کوئی گزند پہنچانے نہیں آیا، آپ سب مجھ سے خود کو محفوظ و مامون سمجھیے، آپ سب بھی اسی رب کی مخلوق ہیں جس نے مجھے خَلق کیا ہے تو میں آپ سے بھی یہی توقع کرتا اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ سب بھی مجھے کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے اور مجھے مامون رکھیں گے۔‘‘

جی فقیر کو یہی سکھایا گیا ہے اور اگر آپ بھی کبھی ایسے حالات کا شکار ہوں جائیں اور کوئی راستہ نظر نہ آئے اور آپ کو کہیں رہنا پڑ جائے تو آپ بھی ایسا ہی کیجیے، فقیر آپ کو یقین سے بتاتا ہے کہ آپ بالکل محفوظ رہیں گے۔ اس کے بعد میں نے اپنے گرد دائرہ کھینچا اور اپنے رب کا نام لے کر دراز ہوگیا۔

جلد ہی میں نیند کی وادی میں سیّاحی کر رہا تھا۔ کتّوں کے بھونکنے سے میری آنکھ کھل گئی تھی، میں اٹھ بیٹھا، میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے، میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر خاموش بیٹھ گیا، تھوڑی دیر تک وہ بھونکتے رہے، پھر وقفے وقفے سے غرّاتے رہے اور بلآخر خاموش ہوکر چلے گئے۔

ہوتا یہ ہے کہ دیگر مخلوقات آپ سے خوف زدہ ہوکر اپنے بچاؤ کے لیے آپ سے مزاحم ہوتی ہیں اور آپ اگر انہیں یہ یقین دلانے میں کام یاب ہوجائیں کہ آپ انہیں زک نہیں پہنچائیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے مزاحمت نہیں کرتے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ وہ آپ سے اٹکھیلیاں  شروع کردیں لیکن کوئی ضرر نہیں پہنچاتے، الاّ یہ کہ انہیں اس کارِبَد پر کسی نے مجبور نہ کیا ہو۔ سیدھی سی بات ہے ناں کہ کوئی اجنبی آپ کی حدود میں داخل ہوجائے تو آپ کیا کرتے ہیں۔

مزاحمت ناں جی اور کیا، اور اگر وہ آپ کو یقین دلا دے کہ وہ بے ضرر ہے اور اس کے کوئی عزائم نہیں ہیں تو آپ کا دل بھی تو پسیج جاتا ہے ناں، خیر! اور یہ جو آپ نے رب تعالی کی بہت ساری مخلوقات کو اپنے گھروں میں قید کر رکھا یا چلیے پال رکھا ہے، ان کے ساتھ کیا آپ اٹکھیلیاں نہیں کرتے؟ آپ تو ان مظلوموں کے لیے باعث آزار بھی بن جاتے ہیں، چلیے کیا اس بحث میں الجھیں، پھر کہیں بہت دُور ہم نکل جائیں گے، آپ تو دانا ہیں جی، سب جانتے ہیں۔ فقیر جیسا کند ذہن اور غبی آپ کو کیا سمجھا سکتا ہے جی۔

شب اپنے نصف کو عبور کرچکی تھی، میں نے تیمّم کیا اور اپنے رب کو پکارا کہ بس وہی ہے، صرف وہی جو آپ کو مشکلات سے نکال کر آسانی میں لاتا ہے، بس وہی ہے جو آپ کو تاریکی سے نکال باہر کرسکتا اور روشنی کا ہم دوش بنا سکتا ہے، جی صرف وہی ہے جو اپنی مخلوقات کے دل میں آپ کی الفت کو بو سکتا ہے، جی! وہی ہے جو آپ کو گم راہی سے بچا کر راستی پر رکھتا ہے، صرف وہی ہے جو آپ کا کارساز و مالک و مختار و رب اعلٰی ہے، بس وہی۔ اور یہ بھی گرہ سے باندھ لیجیے کہ جو رب کا بن جاتا ہے تو رب اس کا ہوجاتا ہے، لیجیے بابے اقبال چلے آئے:

ہاتھ ہے اﷲ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کارِکُشا و کارساز

خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات

ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز

نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں

اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ

حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ

فقیر تو بندۂ بے کار و بے مصرف ہے اور ہے، لیکن رب تعالی نے اپنے اس حقیر و فقیر و کمّی و کمین کو اپنے ایسے ہی بندوں کے سنگ رکھا جن کا ابھی تذکرہ بابے اقبال کر رہے تھے۔ حمد بس رب کی ہے، توصیف کا حق دار ہے وہ، بندگی صرف اسی کے لیے ہے اور سب کا مددگار ہے وہ، الحمدﷲ رب العالمین۔

رات کے طاغوت کو سحر نے پسپا کردیا تھا، ویرانہ اور بندۂ کم زور و ناتواں۔ تھوڑی دیر میں سوچتا رہا اور پھر جیسے فقیر کو بتایا گیا ہے میں نے رب تعالی کا نام لے کر اپنے دائیں ہاتھ کی سمت میں قدم بڑھا لیے۔ یہ بھی آپ کے کبھی کام آئے گا، اگر آپ کبھی رستہ گم کر بیٹھیں تو رب کا نام لے کر دائیں سمت کو اختیار کیجیے آپ انشاء اﷲ درست راہ پر آجائیں گے۔ مجھے چلتے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی کہ دُور سے ایک دیہاتی کو اپنی جانب آتا دیکھا۔

The post جہاں گشت : میرے چاروں طرف وحشت زدہ جنگلی کتّے بھونک رہے تھے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>