Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پاکستانی سربراہان مملکت کے امریکی دورے

$
0
0

امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان کے صدور اور وزراء اعظم میں عمران خان 42 ویں سربراہ ہیں جو تین روزہ سرکاری دورے پر وائٹ ہاوئس پہنچے تو امریکی صدر ٹرمپ نے اُن کا استقبال کیا، استقبال کے حوالے سے بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہائوس کی جانب سے اُس وقت جاری کیا گیا تھا جب امریکی اسٹیٹ آفس وزارت خارجہ کی طرف سے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ کے سرکاری دورے سے متعلق ایک بھارتی صحافی کے سوال پر لا تعلقی کا اظہار کیا گیا تھا، یوں پاکستان اور دنیا کے مختلف سیاسی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ جب بھی سربراہان حکومت کی سطح پر خصوصاً امریکہ کے سرکاری دورے اور امریکی صدر سے ملاقات کی خبریں سامنے آتی ہیں تو اس سے قبل دونوں ملکوں کے دفتر خارجہ بہت پہلے سے اس کا شیڈول طے کر لیتے ہیں پھر ایسا کیوں کیا گیا ؟ یہ ایک سوال ضرور ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ، ایک بھارتی صحافی کے سوال پر ایسا ہوا۔

واضح رہے کہ اگست 2018 ء میں عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھائے ابھی تقریباً مہینہ ہوا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اہم اجلاس 18 ستمبر سے 25 ستمبر 2018 تک جاری رہا اور حسب روایت دنیا میں سال بھر کے اہم مسائل پر سربراہان نے اظہار خیال کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اہم سالانہ اجلاس میں چونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا میں اقوام متحدہ کے 193رکن ملکوں کے سربراہان کو دعوت دی جاتی ہے اور اِن میں سے بہت سے اس اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور بہت سے اپنے وزراء خارجہ یا نمائندوں کو بھیجتے ہیں لیکن امریکہ کے ورلڈ سپر پاور ہونے، عالمی سیاست اور اقتصادیات پر امریکہ کے گہرے اثر ات ہونے کی وجہ سے پاکستان اور پاکستان جیسے بہت سے ملکوں کے سربراہان اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے کوشش کرتے ہیں کہ اس موقع پر نیویارک میں امریکی صدر اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہو جائیں، یوں 18 ستمبر 2018 کو توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جائیں گے اور چونکہ پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت اور نئے سیاسی قومی لیڈر بر سرِ اقتدار آئے ہیں اس لیے امریکی صدر پاکستان جیسے اہم ملک کے سربراہ سے ضرور ملاقات کریں گے، مگر عمران خان نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جانے اور اس موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ملاقات کے اعتبار سے یہ ردعمل دیا کہ اگر صدر ٹرمپ نے کو ئی ایسی بات کی تو اُن کا جواب بھی ویسا ہوگا۔

اس لیے بہتر ہے کہ وہ ابھی امریکہ نہ جائیں، یہ بات عمران خان نے امریکی صدر کے دنیا میں مختلف نوعیت کے اور عجیب و غریب بیانات کے تناظر میں کہی تھی، اور پھر اُن کی جگہ پا کستان کی نمائندگی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کی تھی اور اب جب حالیہ دورے کی د عوت خود امریکہ کی جانب سے تھی تو پہلے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وزارتِ خارجہ نے لاعلمی کا اظہارکیا اور اس کے دوسرے روز وائٹ ہائوس کا انداز مہذب تھا۔ یہاں یہ با ت بھی بہت اہم ہے کہ اس امریکی دورے سے تقریباً 40 روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جمہوریہ کرغرستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 19 ویں اجلاس میں شرکت کی تھی تو روس کے صدر پوٹن اور چینی صدر کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مقابلے میں عمران خان سے ملاقات میں بہت زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، جس کو پاکستان اور بھارت کے علاوہ امریکہ، فرانس ، برطانیہ ، جاپان،کینیڈا ،آسٹریلیا، اور دیگر ملکوں میں بھی محسوس کیا گیا تھا، اس کے بعد یہ خبریں عام ہوئیں کہ روسی صدر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو روس کے دورے اور 4 تا6 ستمبر2019 ء کو اسٹرین اکنامک فورم میں شریک کی دعوت دی گئی ہے، اور پھر 9 جولائی ہی کو The Economic TIMES نے روسی سرکاری ذرائع سے اس کی تردید کر دی کہ پاکستانی میڈیا کی جانب سے عمران خان کے حوالے سے یہ خبر بے بنیاد ہے کہ اُن کو روس کے صدر کی جانب سے 4 تا 6 ستمبر اسٹرین اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

اس کے دوسرے روز 10 جولائی کو پاکستانی دفتر ِخارجہ کے ترجمان محمد فیصل کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ عمران خان کے روس کے دورے کے اعتبار سے سامنے آنے والی خبردرست نہیں، اُنہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے اگر کوئی اعلان ہوا تو مناسب وقت پر بتا دیا جائے گا۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان وہ پہلے قومی رہنما اور سربراہ تھے جنہوں نے 3۔5 مئی 1950 ء کو امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہ سرکاری سطح پر تین روزہ دورہ تھا لیکن امریکہ کی جانب سے 30 مئی تک وہ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور اُن کے ہمراہ جانے والے اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ امریکہ میں رہے، اُن کا پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا تھا، اس دورے کی اطلاع کے ساتھ ہی خبر آئی کہ سابق سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن کی جانب سے بھی لیا قت علی خان کو روس کے سرکاری دورے کی دعوت دی گئی ہے اور جب لیاقت علی خان امریکہ کے دورے سے واپس آگئے تو روس کی جانب سے متواتر خاموشی رہی اور پھر خصوصاً 16 اکتوبر 1951 ء کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ لیاقت علی خان نے روس کے دورے کو ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا جو لیاقت علی خان کی غلطی تھی، یہ پروپیگنڈا اُس وقت ہوا جب بیوروکریٹ اور وزیر خزانہ ملک غلام محمد خواجہ ناظم الدین کے بعد خود گورنر جنرل بن گئے تھے اور خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر اُن کو بھی فارغ کر رہے تھے،اس حوالے سے کی جانے والی بعض تحقیقا ت یہ بتاتی ہیں کہ جب بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے لیاقت علی خان کے دورے سے سات ماہ قبل امریکہ کے دورے کی State Visite کی سطح پر دعوت دی گئی تھی، واضح رہے کہ پاکستان کے صرف دو سربراہان صدر ایوب خان اور صدر ضیاء الحق کو State Visite کی سطح پر امریکہ بلوایا گیا۔

اور11 تا15 اکتوبر1949 ء میں بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اپنی بہن وجیالکشمی پنڈت جو امریکہ میں بھارت کی سفیر تھیں کے ہمراہ دورہ کیا تو یہ دورہ بھارت اور امریکہ دونوں کے لیے بہت اہم تھا اور بھارتی وزیر اعظم امریکہ کی اہمیت سے اس قدر واقف تھے کہ انہوں نے اپنی بہن کو ا مریکہ میں سفیر تعینات کیا تھا، اگر چہ امریکی صدر نے بھارت کو بھاری امداد نہیں دی مگر بھارت کو اہمیت دی ، روس یہ چاہتا تھا کی نہرو برطانیہ اور امریکہ کے اتنے قریب نہ ہوں اور سوویت یونین سے بھی بھارت کے تعلقات ہم پلہ حیثیت کے ہوں۔ اسی دور میں بھارت نے برطانیہ کے دولت مشترکہ میں جانے کا فیصلہ کیا تو سوویت یونین نے لیاقت علی خان کو سرکاری دورے کی دعوت دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر نہرو خارجی امور کے شاطر کھلاڑی تھے، انہوں نے سرد جنگ کے آغاز ہی پر بھانپ لیا تھا کہ بھارت عالمی سطح پر کس طرح محفوظ اور متوازن انداز میں امریکہ اور سوویت یونین سے تعلقات بھارت کے حق میں کر سکتا ہے، جمہوریہ بھارت کو نہرو نے آئینی طور پر سیکولر رکھا تھا، جب کہ پاکستان اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور آزاد ہوا تھا۔

سوویت یونین کا 1917 کا اشتراکی ا نقلاب 1947 ء میںدوسری جنگ عظیم کے زخم کھانے کے وقت 30 برس کا ہوا تھا، امریکہ جو پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی آخر میں شامل ہوا تھا اور اِن جنگوں کی وجہ سے دنیا کا سرمایہ، سرمائے دار، سائنسدان، ماہر ین اور اعلیٰ صلاحیتو ں کے حامل افراد امریکہ کو محفوظ جانتے ہو ئے وہاں منتقل ہو گئے تھے اور پھر اشتراکی سوویت یونین اور اس کے حلقہ بردار ملکوںکے خلاف سرد جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔ نہرو کے دورے سے چھ ماہ قبلNATO نیٹو 4 اپریل 1949 ء میں وجود میںآچکی تھی، اور امریکہ ، برطانیہ کے علاوہ اپنے دیگر اتحادیوں سمیت روس کے گرد گھیرا تنگ کر رہا تھا۔ اس تناظر میں سوویت یونین یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وسطی ایشیا کی مسلم اکثریت کی ریاستیں جن کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں پاکستان سے اِن کے تاریخی، مذہبی، ثقافتی رشتے جغرافیائی قربت کے ساتھ صدیوں پر انے ہیں اس لیے پاکستان کے نظریاتی اثرات یہاں منتقل ہو سکتے ہیں۔ یوں نظریاتی لحاظ سے سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان شروع ہی سے تضاد ات کی صورت تھی اور یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خان کے دورے کی دعوت زبانی کلامی رہی اور سوویت یونین نے نہ ہی کو ئی شیڈول دیا اور نہ ہی بات بڑھائی ۔

دوسری جانب اگرچہ پاکستان اُس وقت بھارت کے مقابلے میںکافی حد تک علاقائی خارجی محاذ کی بنیاد پر کمزور پوزیشن میں تھا، سوویت یونین، بھارت اور چین کے تعلقات آپس میں مضبوط تھے افغانستان بھی بھارت اور روس کے زیادہ قریب تھا، مگر جب لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکہ نے پاکستان میں سوویت یونین کے خلاف فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے کہا تو لیاقت علی خان نے یہ کہا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کروایا ہے۔ وہ قائد اعظم کے اصولوں کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزاد اور متوازن رکھنا چاہتے تھے، اُن کے بعد گورنر جنرل غلام محمد علاج کی غرض سے 8 نومبر تا 13 نومبر1953 ء بوسٹن میں رہے، اور اس دوران انہوں نے امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات بھی کی اور بہت سے معاملات ابتدائی طور پر طے پائے، واضح رہے کہ 1951 ء سے 1953 ء تک لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے اوراسی دوران ایران میں روس نواز اور اشتراکی نظریات کی حامل شخصیت ڈاکٹر مصدق حسین 21 جولائی 1952 ء تا 19 اگست 1953 ء ایران کے وزیر اعظم رہے اور ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

امریکی سی آئی اے نے منصوبہ بندی کرکے ڈاکٹر مصدق حسین کی حکومت کا خاتمہ کروایا،اور شہنشاہ ایران دوبارہ مضبوط ہوئے، اسی دوران چین جو یکم اکتوبر 1949 ء کو آزاد ہوا تھا کوریا کی جنگ 25 جون 1950 ء تا 27 جولائی 1953 ء سوویت یونین کے ساتھ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف لڑا، اب پاکستان کی غیر جانبداری بڑا سوال تھا۔ ایک جانب سرد جنگ کا زور تھا، پاکستان اسلامی نظریاتی ملک ہونے کے ناطے اُس وقت سوویت یونین ، چین اور بھارت کو قبول نہیں تھا، بھارت سے تعلقات دوستانہ نہیں تھے بلکہ جنگ کے بعد دشمنی کی صورت تھی اور یوں پاکستان کو اُس وقت اِن کے مقابلے میں امریکہ کی ضر ورت تھی، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ بھارت نے متوازن انداز کی خارجہ پالیسی میں کو اپناتے ہوئے امریکہ سے بھی فائدے حاصل کئے اور سوویت یونین سے بھی اور پاکستان کو فائدے کی بجائے اِن دونوں ملکوں سے نقصان پہنچا، محمد علی بو گرا جو17 اپریل 1953 ء سے12 اگست1955 تک وزیر اعظم رہے اور بعد میں صدر ایوب خان کی کابینہ میں 1962-63 ء وزیر خارجہ رہے۔

اِن کے زمانے میں پاکستان، امریکہ، فرانس، برطانیہ، نیوزی لینڈ،آسٹریلیا، فلپائن، تھائی لینڈ کے ساتھ 8 ستمبر 1954 ء میں’’SEATO ‘‘ South East Asia Treaty Organization معاہدے میں شامل ہو گیا اور پھر 1955 ء میں بغداد پیکٹ یا CENTO معاہدے میں پاکستان، برطانیہ ، عراق، ایران اور ترکی کے ساتھ شامل ہو گیا یہ دونوں معاہدے سوویت یونین اور چین کے خلاف تو تھے ہی مگر بغداد پیکٹ مشرق وسطیٰ کے مصر سمیت اُن ملکوں کے خلا ف تھا جو امریکہ برطانیہ اور اُس کے اتحاد یوں کے خلاف تھے۔ محمد علی بوگرا نے 14 تا21 اکتوبر 1954 امریکہ کا دورہ کیا یہ Official Visite تھا، اب پاکستان کو امریکی فوجی اور مالی امداد شروع ہوگئی تھی، اس دوران بھارتی وزیراعظم پنڈٹ جواہر لال نہر و نے 19 تا31 اکتوبر 1954 ء چین کا طویل دورہ کیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت اور چین میں ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ گونجا، اس کے بعد نہرو کا سب سے اہم دورہ سوویت یونین کا تھا جو7 تا 23 جون1955 ء رہا، واضح رہے کہ 1927 ء میں اُنہوں نے سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کی دسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے والد پنڈت موتی لال نہرو کے ہمراہ اُس جشن میں شرکت کی تھی۔

اس دورے کے موقع پر روسی سربراہ خروشیف نے پہلے کہا گیا کہ بل کلنٹن پاکستان نہیں آئیں گے لیکن بل کلنٹن آخر 25 مارچ کو پاکستان آئے اور صدرپرویز مشرف سے ملا قات کی۔ اس دوران امریکی صدر نے دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر تحمل اختیار کرنے پر زور دیا، اور اس کے فوراً بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا عمل شروع ہوا اور پرویز مشروف بھارت گئے جہاں آگرہ میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ طے پا جانے والا مشترکہ اعلامیہ اچانک منسوخ کر کے بھارت نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو الجھا دیا۔ پاکستان پر امریکہ سمیت علاقائی اور عالمی دبائو میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہوا جب 11 ستمبر2001 ء کو امریکہ میں پنٹاگون، ٹریڈ سینٹر پر اغواشدہ طیاروں سے حملہ کیا گیا اور امریکہ نے اِس کا الزام افغانستان میں اسامہ بن لادن پر عائد پر کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے قرار دادیں منظور کروا کر نیٹو کے ساتھ افغانستان پر بھرپور حملہ کردیا، اور پاکستان کے سامنے دوآپشن رکھ دئیے کہ پاکستان جنگ میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یا تو امریکی موقف کا ساتھ دے یا پھر جنگ کا سامنا کرے، پاکستان کو یہاں کڑے امتحان سے گزرنا پڑااور یہاں سے ہی پاکستان کی شدید مشکلات کاآغاز ہوا جو اب تک کسی نہ کسی انداز سے جاری ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا پہلا دورہ نائن الیون کے29 دن بعد 10 نومبر2001 ء کو کیا جب وہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک گئے اور پھر صدرجارج ڈبلیو بش سے ملے۔

پرویز مشرف کا دوسرا دورہ 12 تا 14 فروری 2002 ء آفیشل ورکنگ ویزٹ تھا،صدر بش سے ملاقات کی۔ امریکہ کا تیسرا دورہ 12 ستمبر 2002 تھا جب وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوئے اور پھر صدر بش سے ملاقات کی، صدر پرویز مشرف کا چوتھا دورہ ِامریکہ ورکنگ وزٹ 23 تا 27 جون 2003 ء، پانچواں دورہ 24 ستمبر2003 ء تھا، جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے گئے اور صدر بش سے ملاقات بھی کی۔اس دوران وزیر اعظم ظفرا للہ جمالی نے 30 ستمبر تا 4 اکتوبر 2003 امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، صدر مشرف کا چھٹا دورہ 21 اور22 ستمبر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا تھا اور انہوں نے صدر بش سے ملاقات کی ۔ وزیراعظم شوکت عزیز ورکنگ وزٹ پر19 تا 24 جو لائی امریکہ میں رہے۔ صدر بش سے ملاقات رہی۔

صدر پرویز مشرف کا ساتواں دورہ ِ امریکہ ورکنگ وزٹ تھا جو 3 ۔4 دسمبر2004 ء رہا، صدر پرویز مشرف نے اپنا آخری اور آٹھواں دورہ بطور صدرِ پاکستان 20 سے22 ستمبر2006 ء میں کیا۔ اس دوران اُنہوں نے امریکی صدر سے بھی ملاقا ت کی اور پھر افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملے۔ واضح رہے کہ 2000 ء پھر2001 ء اور 2002 ء تک بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے امریکہ کے تین دورے کئے اور صدر مشرف کی طرح امریکی صدر سے ملاقاتیں کیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2003 ء سے 2013 ء تک امریکہ کے 8 دورے کئے جب کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یکم مارچ 2006 سے افغانستان بھارت اور پاکستان کاچار روزہ اہم ترین دورہ کیا۔ و ہ یکم مارچ کو افغانستان گئے جہاں کابل میں انہوں نے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی، نئے امریکی سفارتخانے گئے، بڈگرام میں امریکی فوجیوں سے خطاب کیا، اسی دن وہ افغانستان سے بھارت پہنچے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملا قات کی، اور یو ایس ۔ انڈیا سول نیوکلئیر ایگریمنٹ پر دستخط کئے، اس کے بعد 3 مارچ کو صدر جارج ڈبلیو بش پاکستان اسلام آباد آئے اور پرویز مشرف سے ملا قات کی اور 4 مارچ 2006 ء کو واپس چلے گئے۔

اب امریکہ کا واضح جھکائو بھارت کی جانب تھا اور افغانستان میں بھی وہ بھارت کو متحرک دیکھنا چاہتا تھا، 2000 ء سے پاکستان چین تعلقات گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے تھے۔یوں شروع میں تو امریکہ کسی حد تک مصلحت کرتا نظر آیا اور ملکی و علاقائی سطح پر شروع میں صدر پرویز مشرف پر امریکہ کا ساتھ دینے پر شدید تنقید ہوئی اور پھر مشرف پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، مگر بعد میں امریکہ کی جانب سے بھی تنقید ہوئی کہ صدر پرویز نے پوری طرح وہ نہیں کیا جو امریکہ چاہتا تھا، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک بار پھر پاکستان شدید دہشت گردی کا شکار ہوا، 27 دسمبر2007 ء کو راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صورتحال مزید خراب ہوتی گئی، 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد پہلے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور بعد میں آصف علی ز رداری صدر ِ مملکت ہوئے۔27 سے30 جولائی2008 ء ورکنگ وزٹ کیا

اور23 ستمبر 2008 ء کو صدر زرداری نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی پھر 6 مئی2009 ء کوصدر آصف زرداری نے امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، اسی سال24 ۔25 ستمبر کو نیو یارک میںفرینڈز آف ڈیموکریٹ پاکستان کے اجلاس میںشرکت کی۔11 سے13 اپریل 2010 ء نیوکلیئر سکیورٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔14 جنوری 2011 ء میں امریکہ کا دورہ کیا، اسی سال 21 مئی کو صدر زرداری نے نیٹو اجلاس میں شرکت کی، صدر اوبامہ سے ملاقات کی۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ حکومت 2008 ء کے انتخابات کے بعد اُس وقت برسر اقتدار آئی تھی جب اس سے قبل نواز شریف اور مرحومہ بینظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا تھا اور پھر متحر مہ بینظیر بھٹو شہید کردی گئیں تھیں۔

اس دور میں حسین حقانی 26 مئی 2008 ء سے 22 نومبر2011 ء تک امریکہ میں پاکستان میں سفیر رہے، ان کے حوالے سے یہ باتیں عام ہوئیں کہ انہوں نے پاکستان کے اداروں کو جمہوریت کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکہ کو یہ باور کر وانے کی کوشش کی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں، 9 مارچ 2011 ء کو قدافی اسٹیڈیم لاہور کے قریب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا، 2 مئی 2011 ء کو ایبٹ آباد کے واقعہ میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کے بعد اُن کی موت کا اعلان کیا گیا، ڈالر کی قیمت اوُپن مارکیٹ میں 108 روپے تک گئی۔ اس کے بعد 11 مئی 2013 ء عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔ تحریک انصاف نے اِن انتخابات میں مسلم لیگ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے اور پھر کچھ عرصے بعد اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا۔ نواز شریف پر نجی حیثیت میں بھارتی وزیراعظم سے تعلق کے اعتبار سے بھی الزامات عائدکئے گئے۔

مریم نوازکے حوالے سے ایک اخبار کے ذریعے افواج پاکستان کے خلاف بڑی قوتوں کو عالمی سطح پر ملوث کرنے کے الزامات بھی منظر ِعام پر آئے۔ 3 اپریل 2016 ءInternational consortium Investigative Journalists ICIJ کی جانب سے11.5 ملین صفحات پر مشتمل خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئیں جو پانامہ لیک کہلائیں، اور اِن میں نواز شریف اور اِن کے خاندان کے حوالے سے اربوں روپے کی کرپشن کی باتیں بھی عام ہوئیں جس پر وزیر اعطم نوازشریف نے اسمبلی کے فلور، ٹی وی اور ریڈیو پر قوم سے خطاب میں اور انٹرویو میں اپنی صفائی میں متضاد بیانات دئیے اور پھر عدالت میں ایک قطری خط بھی پیش کیا گیا، 20 اپریل 2017 ء کو عدالت نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قراردے دیا، نواز شریف نے تیسری مرتبہ بطور وزیر اعظم پاکستان پہلی مرتبہ 20 سے 23 ستمبر2013 ء امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، اور صدر اوبامہ سے ملاقات کی، 22 اکتوبر 2013 ء ہی کو پھر امریکہ گئے۔

اس کے بعد 2014 ء میں نیویارک گئے اور اقوام متحدہ کی قومی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی، 19 ستمبر 2015 ء میں بھی امریکہ گئے، 16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ پیش آیا جس کے بعد دہشت گردی کے خلاف فوج کی جانب سے پہلے آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد شروع ہوا اور پارلیمنٹ نے نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد پر قوانین وضع کئے اورخصوصی اختیارات کے ساتھ دہشت گردوںکے خلاف کاروائیاں شروع ہوئیں۔ نواز شریف کے اس تیسرے دور حکومت میں باراک اوبامہ امریکہ کے صدر رہے، اور بھارت میں نریندر مودی وزیر اعظم ہوئے، جنہوں نے 2017 ء تک امریکہ تین دور ے کئے، ایک دورے میں جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو دونوں رہنماجنرل اسمبلی کے ہال میں ملے، نواز شریف کے اس دور حکومت میں نریندر مودی میاں نواز شریف کی سالگرہ پر لاہور بھی تشریف لائے۔

واضح رہے کہ 2008 ء تا 2013 ء پیپلز پارٹی اور اس کے رہنما صدر آصف علی زرداری پر بھی یہ تنقید ہوتی رہی کہ وہ امور خارجہ،داخلہ اور وزارتِ خزانہ کے بعض معاملات کو عالمی سطح پر بالا بالا طے کرتے رہے اور متعلقہ شعبوں سے بھی بعض معاملا ت کو پو شیدہ رکھا جس سے ملک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور بعض تجز یہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بلا جھجھک سی ہو گئی اور وزیر اعظم کے سمدی خزانہ کے وزیر اسحاق ڈار نے سکوک بانڈز کے اجرا سمیت زیادہ شرح سود اور طویل المدت ادائیگی کے شیڈول پر اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے لیے اور ہزاروں ارب روپے کے اندرونی قرضے لئے اور ملکی خزانے کو بھاری بوجھ تلے دباتے ہوئے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو 100 روپے سے 104 روپے تک رکھا۔

اسی طرح وزارت خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم نواز شریف نے خود اپنے پاس رکھا۔ آئی ایس آئی نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا اور باوجود ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹیرین کے بارہا اصرار کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ بھی کلبھو شن کا نام نہیں لیا۔ مبصر ین کے مطابق مسلم لیگ کے دور حکومت میں صرف وزارت داخلہ تھی، جو بہت حد تک معاملات کو قومی مفاد میں رکھنے میں کامیاب رہی، یوں 2013 سے 2017 ء اور پھر جب نواز شریف کے بعد شاہد خاقان عباسی وزریر اعظم بنے تب بھی ملک کے اندر یہ تبصرے ہوتے رہے کہ حکومت بہت سے ایسے قومی معاملات جن میں اعلیٰ فوجی قیادت سے مشاورت اور معلو مات کا تبادلہ ضروری تھا مسلم لیگی قیادت نے اس کو نظر انداز کیا، جبکہ 2008 ء سے2016 ملک میں دہشت گردی کی شدت رہی اور افواجِ پاکستان اِس کے خلاف مستقل مزاجی سے مصروفِ عمل رہی اور2017 تک تقریباً فتح حاصل کر لی، ساتھ ہی پانامہ لیک کے بعد تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں کرپشن کے خلاف اپنی تحریک تیز تر کر دی، لیکن دوسری جانب میاں نواز شریف نے اپنی بالادستی قائم کرنے کی جوکوشش کی تھی اُس سے ملک اور جمہوری نظام کے ساتھ خارجی سطح پر پاکستان امریکہ تعلقات کو اس لیے نقصان پہنچا کہ وزیر اعظم نواز شریف جو خود ہی وزیر خارجہ بھی تھے وہ حقائق کو پوری طرح سامنے نہیں لائے۔ اس دوران عالمی اور علاقائی سطحوں سیاسی و خارجی بساط پر بڑی اور درمیانی قوتوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے پرا کسی وار کے انداز سے بڑی شاطرانہ اور تیز چالیں چلی جا رہی تھیں، جس میں عالمی سطح کا میڈیا اور پاکستانی میڈیا جس کو پاکستان میں وسیع تر آزادی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ملی تھی وہ بھی ہر دو اعتبار سے اہم کردار ادا کرنے لگا ۔

25 مئی 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد 18 اگست کو عمران خان وزیر اعظم بنے تو بھاری قرضوں پر واجب الادا اربوں ڈالر کی واپسی کی اقساط اور سود ایسا تھا کہ مہنگائی کا طوفان برپا ہوا۔ سعوی عرب، عرب امارات، قطر اور چین سے فوری قرضوں کے بعد آئی ایم ایف سے ایک سخت شرائط کا معاہدہ ہوا، یوں عمران خان اور تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف چند مہینوں ہی میں کچھ نیچے آیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ فاٹا کے علاقے جو باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع بنے، اور پھر جن دنوں وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر تھے اَن اضلاع میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی اِن نئی اور اضافی16 نشستوں پر انتخابات ہوئے جن میں آزاد امیدواروں کے بعد پی ٹی آئی کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی، یہ بھی اتفاق تھا کہ اس دورے کے وقت ہی عالمی عدالت نے پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھو شن یادیو کا فیصلہ سنایا جس میں اس جاسوس کو پاکستان میں قید رکھنے کو جائز قرار دیا، مگر ساتھ ہی وزیر اعظم کے امریکہ کے دورے پر روانگی سے قبل ہی پارلیمنٹ کے اندر مضبو ط اپوزیشن نے بہت سی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ سڑکوں پر حکومت کے خلاف اور نئے انتخابات کے مطالبے پر احتجاج شروع کر دیا، یوںجب وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں کو اس دورے سے زیادہ توقعات نہیں تھیں پھر پاکستان اور امریکہ سمیت پوری دنیا اس سے بھی قدرے فکرمند تھی کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ دونوں ہی مزاجاً کسی مروت کے قائل نہیں لہٰذا باہمی گفتگو میں بدمزگی کے اندیشے بھی تھے۔

عمران خان کا یہ تین روزہ سرکاری دورہ اُن کے امریکہ پہنچنے پر 22 جولائی سے شروع ہوا، اس میں سب سے اہم وہاں عمران خان کا تقریباً تیس ہزار پاکستانیوں سے خطاب تھا، یہ وہ پاکستانی ہیں جو وطن سے دور ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں جمہوریت،آزادی، دیانتداری اور انسانیت کی حرمت کے اعتبار سے شعور عام اور بہت بلند ہے۔ اِن کا اتنی بڑی تعداد میںعمران خان کے امریکہ کے جلسے میں شرکت کرنا پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ قرار دیا گیا ہے، انگریزی کے ایک معتبر اخبار نے وزیر اعظم عمران خان کے کامیاب دورہ ِ امریکہ کے بارے میں یوں لکھا،He came, he saw ,he conquered ۔ وہ آیا ،اُس نے دیکھا،اُس نے فتح کر لیا، واقعی عمران خان کے انداز، طرزِ گفتگو اور نظر وں میں عزم اور اعتماد تھا جسے کیمروں کی مدد سے دنیا کے اربوں ناظرین نے براہ ارست دیکھا۔ اس امریکی دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ،آئی ایس آئی کے سر براہ بھی عمران خان کے ہمراہ تھے جنہوں نے پینٹاگان میں سینئر امریکی عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اگر چہ اس سے قبل بھی وزراء اعظم کے ہمراہ فوجی قیادت بھی جاتی رہی مگر اس بار صورتحال یوںمختلف تھی کہ افواجِ پاکستان نے کم از کم دس برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ حقیقی معنوں میں صرف اور صرف پاکستان کے لیے لڑی اور دنیا پر یہ واضح کردیا اوّلیت ملکی قومی دفاع کی ہے جس کے لیے پا کستان اپنی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی خود طے کرے گا۔ اس میں دنیا پر یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستان کسی کے خلاف کسی کا آلہ کار نہیں بنے گا۔

اور عمران خان شروع ہی سے اس موقف کے حامی تھے اور اب بھی وہ برملا یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے، یوں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک سے دوستی باہمی احترام کے ساتھ چاہتی ہے اور علاقائی سطح پر ایران، قطر، ترکی، عرب امارات، ملائشیا، سعودی عرب سب سے پاکستان کے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اِن ملکوں کے اکثر سربراہان عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستا ن کا دورہ کر چکے ہیں۔ دوسری جانب چین سے پاکستان کے تعلقات ہر اعتبار سے مضبوط ہیں مگر پاکستان اپنے امور میں خود آزادانہ فیصلے کرتا ہے، روس سے ماضی کے مقابلے میں تعلقات آج بہت بہتر سطح پر ہیں، اور پاکستان امریکہ پر گزشتہ دس برسوں میں یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ امریکہ سے ہمیشہ سے بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے مگر پاکستان نے علاقے میں خصوصاً بھارت کے مقابلے میں دفاعی لحاظ سے توازن کا خیال رکھنا ہے یعنی پاکستان بھارت سے اچھے ہمسایوں کی طرح باہمی احترم کی بنیاد پر تعلقات کو ترجیح تو ضرور دیتا ہے مگر علاقے میں بھارت کی بالا دستی قبول نہیں اور اس کے لیے وہ کم سے کم سطح پر سہی اتنی عسکری اور دفاعی قوت ضرور برقرار رکھے گا کہ کسی بھی نازک موقع پر اپنا دفاع بہتر انداز سے کر سکے، عمران خان نے اپنے دورے میں امریکی صدر ٹرمپ سے روبرو بات چیت کی،کیپیٹل ہال میںامریکی کانگریس کے سینئر لیڈورں سے خطاب کیا، تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کیں۔

اعلیٰ سطح کے امریکی تھنک ٹینک سے بھی واشنگٹن میں خطاب کیا، امریکی میڈیا کو انٹرویوز دئیے، صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی سینیٹر لینڈسی گراہام سے ملاقات کی، امریکہ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی صدر ننسی لینڈورگ سے بات چیت کی،کیپیٹل ہل ہی میں وہ ننسی پیلوسی سے ملے اور پھر ایک اہم ملاقات سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پیمپیو سے ہوئی، اوّل تو یہ بات بہت اہم ہے کہ وائٹ ہائوس آنے پر خود امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیا، اسی طرح کا استقبال باقی اعلیٰ امریکی شخصیات نے بھی کیا اور عمران نے ہر جگہ اور ہر موقع پر فی البدیع تقاریرکیں، کو ئی پرچی نہیں دیکھی اور باتیں جچی تلی معقول اور متاثر کن تھیں، نائن الیون کے حوالے سے سوال کا جواب دیا کہ ’’ہم نے70000 جانی نقصان کے ساتھ اربوں ڈالر کا مالی نقصان برداشت کیا جبکہ القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی جنگجو نہ تھا، امریکی جنگ کی وجہ سے نقصان ہوا، ایران سے جنگ کو غلطی قرار دیا، افغانستان امن کو ضروری قرار دیا، انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں آج سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے، انہوں نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے حوالے سے کہا کہ کسی کو اِن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، انہوں نے امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کی پیش کش کی، پوری دنیا کے لیے صدر ٹرمپ کا عمران خان سے یہ کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم ندرا مودی نے اُن سے کہا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرے، اس پر بھارت کی پارلیمنٹ سمیت مختلف فورمز پر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی مگر امریکی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کی بات کی دوبارہ تصدیق کی، یوں یہ پاکستانی موقف کی بڑی فتح ہوئی ہے، دوسری جانب افغا نستان کے امن معاملات پر بھی پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے۔

یوں وزیر اعظم عمران خان کے اگر اس امریکی دورے کو درج بالا پورے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر اعتبار سے کامیاب نظر آتا ہے اور اگر صدر ٹرمپ کی باتوں پر عملدر آمد ہو جائے تو واقعی خطے میں امن ہو جائے گا، کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور ایک بڑے ملک اور سپر طاقت امریکہ کے صدر کی جانب سے یہ باتیں بہت ہی حوصلہ افزا ہیں ، مگر ایک یہ کہ امریکہ نے پاکستان سے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے جو گذارش کی ہے اس کے ساتھ عمران خان کا جواب یہ تھا کہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن پوری کوشش کریں گے کہ افغانستان میں مستحکم امن کے لیے مذاکرات ہوں، جب کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ کوئی اچھی علامت نہیں اورجب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں اُس وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید دس ہزار فوجیں بھیج دی ہیں، پھر ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ کیا واقعی صدر اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اِن دو اہم نکات پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد پر مستقبل میں بھی متفق رہیں گے؟ پھر یہ بھی اہم ہے کہ ملک کے اندر بھی سیاست دان سیاسی جماعتیں اور قائدین بھی اِن دو اہداف کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔

اس وقت وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی جلد پا کستان کا دورہ کریں گے، اگر یہ دورہ ہوتا ہے تو یہ ملک کی تاریخ کسی امریکی صدر کا کسی منتخب جمہوری حکومت اور منتخب وزیراعظم کے دورِاقتدار میں پہلا دورہ ہوگا، واضح رہے کہ اب تک جو امریکی صدور پاکستان آئے وہ صدر جنرل ایوب خان، صدر جنرل یحیٰی خان، صدر جنرل ضیا الحق اور صدر جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں آئے، یوں اگر صدر ٹرمپ مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو وہ توقعات جو اس وقت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھی ہیں، اِن پر یقین بڑھ جائے گا، اور اس صورتحال میں یہ امید ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کا حل آئندہ چار برسوں میں ممکن ہو جائے ۔

The post پاکستانی سربراہان مملکت کے امریکی دورے appeared first on ایکسپریس اردو.


مذہب کی جبری تبدیلی کا پروپیگنڈا بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ، رانا ہمیر سنگھ

$
0
0

تعارف :
گذشتہ انتخابات میں تھر سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے والے رانا ہمیر سنگھ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان کے والد کا شمار پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے، ان کا تعلق اس تاریخی راجپوت خاندان سے ہے جو ایک زمانے تک تھر میں راج کرتا رہا۔ ان کے نام میں ’’رانا‘‘ کا سابقہ اسی راج کی دین ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت ان کے دادا رانا ارجن سنگھ نے اپنے ہندو اکثریتی علاقے کو پاکستان میں شامل کرکے تاریخ رقم کی۔

ان کے پُرکھ سودھا جی نے 1125قبل مسیح میں امر کوٹ کو فتح کیا اور جب شیرشاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو ہندوستان کے تخت سے محروم کردیا تو اس وقت ان کے اجداد میں سے ایک رانا پرساد نے ہمایوں کو پناہ دی۔ 1542 میں مغل بادشاہ اکبر نے بھی امر کوٹ میں واقع ان کے تاریخی قلعے میں جنم لیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رانا ہمیر سنگھ کی گئی گفت گو میں ان کے خاندان کی تھر سے جُڑی تاریخ، تھر کی سیاست، اور اس خوب صورت علاقے کے رسم و رواج کا احاطہ کیا گیا ہے جسے قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

 

ایکسپریس: تھر پاکستان کا ایک منفرد اور خوب صورت علاقہ ہے، یہاں سیاحت کو فروغ دیا جائے تو تھر کے باسیوں کے بنیادی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہے ؟

رانا ہمیر سنگھ: ہماری حکومت چاہے وہ صوبائی ہو یا وفاقی، جب تک سیاحت کے فروغ کے لیے عملی طور پر اقدامات نہیں کرے گی، اس وقت تک پورے پاکستان خصوصاً تھر میں سیاحوں کی دل چسپی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہاں ایک بات یہ بھی واضح کردوں یہ کام صرف اکیلی حکومت کے کرنے کا نہیں ہے، حکومت کو صرف ابتدائی کام کرکے نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی دعوت دینی ہے۔ تھر مختلف روایتوں، متنوع ثقافت اور خوب صورت محل وقوع رکھنے والا علاقہ ہے، جس کی خوب صورتی کو محض چند جملوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اپنی جماعت کی پالیسی میٹنگ میں بھی یہ بات کہی ہے کہ آپ صرف ابتدائی قدم اٹھائیں، سرمایہ کار خود چل کر آپ کے پاس آئیں گے۔ میں نے تھر میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک پالیسی بنائی ہے، جس سے آپ وہاں کے مقامی باشندوں سے اشتراک کر کے نہ صرف ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے سیاحت کا ایک ایسا تصور بھی پیدا ہوگا جس کے لیے دنیا بھر کے سیاح لاکھوں روپے خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ تھر کے تعلقے کو منتخب کریں، پھر اس میں ایسے دیہات شناخت کریں، جہاں تک پہنچنے کے راستے بنے ہوں، ضروری نہیں کہ پکی سڑک ہی ہو۔

پہلے مرحلے میں آپ پکی سڑک والے گاؤں منتخب کرسکتے ہیں جہاں تک رسائی بہت آسان ہے۔ ان دیہات کی فہرست مرتب کرنے کے بعد نجی شعبے کو مدعو کریں۔ ایک سیاح کو رہنے کے لیے روشن ہوادار صاف کمرہ، حوائج ضروریہ کے لیے صاف ستھرا بیت الخلا، اور کھانا پکانے اور کھانے کے لیے باورچی خانہ اور صاف برتن چاہیے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو کچھ نہیں کرنا، آپ ان منتخب کیے گئے دیہات میں قائم گھروں میں دو کمرے سیاحوں کے لیے مختص کردیں، جس میں اٹیچ باتھ روم، صاف ستھرا کچن، برتن اور سونے کے لیے صاف ستھرا بستر موجود ہوں۔ اس گھر کے مالک کو تھوڑی بہت تربیت دے دیں۔

کھانے کی ریسیپی وہی رکھی جائے جو تھر کی روایات ہے، اور اس کے لیے آپ اپنے مہمان سے فی پلیٹ کے حساب سے پیسے چارج کرسکتے ہیں۔ اسی گاؤں میں سیاحوں کی تفریح کے لیے فوک میوزک، فوک ڈانسرز، اونٹ اور گھوڑے کی سہولیات بھی فراہم کردیں جس پر آپ کو کچھ بھی سرمایہ کاری نہیں کرنی کیوں کہ یہ سب پہلے سے ہی ان کے پاس موجود ہے۔ گھر کا مالک آپ کو کھانے میں خالص آرگینک سبزیاں، مرغیاں ، دودھ فراہم کرے گا۔ جس ڈھانی (جھونپڑی ) میں میں آپ رہیں گے، اس کے مالک کی بھیڑبکریاں، گائے بھینسیں بھی آرگینک چارہ کھاتی ہیں، کیوں کہ ان پر زہریلی جڑی بوٹی مار ادویات کا اسپرے نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ اپنے مہمان خانے کو مزید پُرتعیش بنانا چاہتے ہیں تو ایک سولر پینل لگا کر اس میں ایک ڈش، پنکھا، فرج رکھ دیں، بہت زیادہ وی آئی پی کرنا ہے تو ایک اے سی لگادیں۔

جب کوئی بھی سیاح اس گاؤں میں پہنچے گا تو وہاں کے مقامی باشندے اور اس کا میزبان گیت گا کر اس کا استقبال کرے گا۔ گیت گا کر مہمانوں کا استقبال کرنا ہماری قدیم روایت ہے۔ ہمارے یہاں ہر موسم اور موقع کے لیے گیت مختص ہیں، مہمانوں کے لیے گاؤں کی عورتیں سامنے آئے بنا پیچھے بیٹھ کر گیت گاتی ہیں،  اسی طرح رشتے داروں کے استقبال کے لیے گیت الگ ہیں، ان گیتوں سے گاؤں والے سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں گھر میں مہمان آیا ہے یا رشتے دار۔ اسی لحاظ سے آپ کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ میزبان اپنی بیل گاڑی میں اونٹ جوت کر، گدے لگا کر آپ کو ایک ایک جگہ گھمائے گا، آپ کو اپنی ثقافت سے روشناس کرائے گا۔

اور یہ سب کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ آپ کے پاس پہلے سے انفرااسٹرکچر موجود ہے بس حکومت کو نجی شعبے کو مدعو کرے اور متعلقہ دیہات کے لوگوں کو مہمان خانے کی تعمیر، برتن اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے آسان اقساط پر قرضے دیے جائیں۔ سیاحوں کی آمدورفت سے ایک طرف تھر میں معاشی خوش حالی ہوگی تو دوسری طرف حکومت کو ریونیو کی مد میں خطیر رقم بھی ملے گی۔ ہمارے یہاں ہر موسم کے اپنے اپنے میلے ہوتے ہیں، آپ ان فیسٹولز کی تاریخوں پر مشتمل ایک چارٹ بناکر اسے فروغ دیں، ٹور آپریٹرز کو ان میلوں میں شرکت کی ترغیب دیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا کوئی راکٹ سائنس ہے اور نہ ہی اس کے لیے اربوں، کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، آپ ابھی دیہات شناخت کرکے نجی شعبے کو دعوت دیں، سیکڑوں این جی اوز آجائیں گی، لیکن ابتدا تو حکومت کو ہی کرنی ہوگی۔

ایکسپریس: تھر اور یہاں کے باسیوں کی ایک خوب صورت تاریخ ہے، جس میں آپ کے خاندان کا حوالہ اور نام منفرد اور ممتاز ہے، اس پر کوئی کتاب تو سامنے آنی چاہیے۔

رانا ہمیر سنگھ : تھر اور ہمارے پُرکھوں کی تاریخ پر ایک کتاب موجود ہے جسے ہم سوڈھائن کہتے ہیں۔ اس پر جودھ پور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ستی دان چارن نے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔ انہوں نے ہماری تاریخ پر لکھے کو مقالے ’فرسٹ آف سودا‘ کے نام سے کتابی شکل میں ڈھالا تھا۔ پروفیسر ستی دان کے بعد اس کتاب میں میرے پتا نے کچھ اضافہ کیا تھا اور کچھ اضافہ میں نے بھی کیا ہے، ہماری برادری کے کچھ لڑکے اس پر مزید ریسرچ کر رہے ہیں۔ میں حال ہی میں اس کتاب کو لے کر آیا ہوں، یہ ہندی زبان میں ہے میں نے اسے یہاں اردو اور انگریزی میں ترجمہ کروانے کے لیے دیا ہے۔

ایکسپریس: وہ کیا وجوہات ہیں کہ قدرتی خوب صورتی سے مالامال یہ علاقہ ابھی تک سیاحوں کی توجہ سے محروم ہے جب کہ بھارت نے راجستھان کو ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کردیا ہے۔

رانا ہمیر سنگھ: اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کے اوراق میں جھانکنا ہوگا۔ پاکستان 1947میں بنا، پاکستان بننے کے بعد سے1997تک یہ علاقہ نوگو ایریا تھا، کیوں کہ اس سرحد پر دو جنگیں ہوچکی تھیں۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اپنے دور میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی سے نوکوٹ تک ایک کچا پکا روڈ بنا دیا تھا۔ اس ایک روڈ کے علاوہ 1997تک یہاں نہ کوئی سڑک تھی، نہ بجلی، وزیراعظم کو بھی اس علاقے میں کوئی کام کرنے سے پہلے وزارت دفاع سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ سابق صدرپرویز مشرف کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس نوگو ایریا کو ختم کیا۔1997 کے بعد صدرمشرف نے تھر میں انفرااسٹرکچر قائم کیا، بجلی فراہم کی، پکی سڑکیں بنائیں اور اب بہت سی غیرسرکاری تنظیمیں تھر میں کام کر رہی ہیں اور نگرپارکر ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ اب وہاں موٹیل بن رہے ہیں۔ اس سے پہلے تھر میں جو بھی کام ہوا وہ ذوالفقار علی بھٹو نے کروایا، انہوں نے شملہ معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں ہمارے بہت سے ایسے تعلقے جن پر بھارتی فوج قابض ہوگئی تھیں۔ ان سے قبضے واگزار کروائے۔ امر کوٹ، چھاچھرو، اور نگرپارکر میں لوگوں کی ازسرنو بحالی کے پروگرام کا آغاز کیا اور بے گھر تھریوں کو واپس آباد کیا۔

اس کے بعد جونیجو صاحب نے جس طرح گھر گھر جاکر لوگوں کی مدد کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہیں ’سندھ ایرڈ زون اتھارٹی (سازدا) کے قیام کا کریڈٹ بھی جاتا ہے جس کے تحت پورے تھر میں صحت کے بنیادی مراکز کا نیٹ ورک قائم کیا گیا، پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کام کیا گیا۔ 1994ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کا آغاز کیا، جس کے تحت ہر تین خواتین کے لیے ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو تعینات کیا گیا۔ اب بات کرتے ہیں تھر اور راجستھان میں سیاحت کے فروغ کی۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ تھر میں سیاحت کا فروغ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نہیں ہوگی۔ میں آپ کو سرحد کی دوسری جانب موجود صحرا راجستھان کی ایک مثال دیتاہوں۔ میں نے 1963ء سے1975ء تک راجستھان میں تعلیم حاصل کی ہے، اس وقت تک راجستھان بھی صرف ایک صحرا ہی تھا۔ دنیا بھر کے سیاح بھارت آتے تھے لیکن راجستھان نہیں، کیوں کہ وہاں انفرااسٹرکچر ہی نہیں تھا۔

بھارتی حکومت نے وہاں سیاحت کے فروغ کے لیے سب سے پہلے انفرااسٹرکچر بنایا، انفرااسٹرکچر بنانے کے بعد انہوں نے سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے ’ ہیریٹیج ‘ پر کام کیا۔ اس وقت راجستھان کے وزیراعلٰی بھیرو سنگھ شیخاوت تھے جن کا تعلق حکم راں جماعت بھارتی جنتا پارٹی سے تھا۔ وزیراعلٰی بھیرو سنگھ شیخاوت نے ثقافتی ورثے کی بحالی کے لیے ایک اسکیم کا آغاز کیا، جس کے تحت کم سے کم سو سال پرانے قلعوں، محلات، حویلیوں اور تاریخی عمارات کو ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ انہوں نے ان عمارات کے مالکان کے لیے ان عمارتوں کو ان کی اصلی شکل میں واپس لانے کے لیے ایک فارمولا طے کیا جس کے تحت سو سال تک پرانی عمارت کی بحالی کے لیے بیس فی صد سرمایہ اس عمارت کا مالک اور اسی فی صد سرکار نے دیا۔ اسی طرح ڈھائی سو سال پرانی عمارت کے لیے مالک کو بیس فی صد سے بھی کم اور حکومت کو اسی فی صد سے زائد سرمایہ دینا تھا۔ پانچ سو سال پرانی عمارت کے لیے تقریباً نوے فی صد رقم سرکار اور دس فی صد مالک کو دینا تھی۔ اس انوکھی اسکیم کی بدولت وہی راجستھان جو ریت اور مخدوش عمارتوں پر مشتمل صحرا تھا، آج اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑا ہے، اور اس کی آمدنی کا ستر سے اسی فی صد اس کے ثقافتی ورثے اور سیاحت سے حاصل ہونے والی رقم پر مشتمل ہے۔

ایکسپریس: اندرون سندھ خصوصاً تھر میں مذہب کی جبری تبدیلی کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ معاملہ دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں کشیدگی کا سبب بنتا ہے، ہندو اور مسلم دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، یہ مسئلہ کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔

رانا ہمیر سنگھ :1947ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ایک ملک وجود میں آیا جس میں 95 فی صد مسلمان اور پانچ فی صد اقلیتیں (جن میں ہندو، مسلم، عیسائی ، قادیانی اور دیگر اقلیتیں شامل ہیں) رہتی ہی۔ کچھ عرصے سے مذہب کی جبری تبدیلی کا جو پروپیگنڈا چل رہا ہے، یہ محض بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں رہنے والے 95 فیصد مسلمان آج یہ سوچ لیں کہ اس ملک میں اقلیتوں کو نہیں رہنے دینا تو پھر ایک منٹ تو دور کی بات پلک جھپکتے ہی اقلیتوں کو صفایا ہوجائے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ پورا تھر کا صحرا 77ہزار اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں سے 24 ہزار اسکوائر کلومیٹر پاکستان میں ہے۔ اس طرف والے کو ’راجپوتانہ‘ اور ہماری طرف والے کو ’ڈھاٹ‘ کہتے ہیں، میں اسی ڈھاٹ کا ہی رانا ہوں۔ 24 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر محیط میرے ڈھاٹ میں آج بھی کوئی مسلمان گائے کا گوشت نہیں کھاتا، میرے تھر میں ’گاؤ ہتھیا‘ ہے ہی نہیں، وہاں کے مسلمان صرف ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے گائے کاٹتے ہی نہیں ہیں۔ وہاں جتنی بھی مسلمان قومیں رہتی ہیں، وہ بنا کسی قانون، کسی زورزبردستی کے رضاکارانہ طور پر گائے نہیں کھاتیں۔ ہماری اپنی روایات ہیں جس کے تحت ڈھاٹ میں جتنی بھی مسلمان قومیں رہتی ہیں۔

ان میں سے ہر قوم میں سے ایک آدمی رانا آف امر کوٹ کا پردھان ہے، یعنی میری پگ باندھتا ہے۔ اسی طرح اربابوں کے علاقے میں رہنے والی ہر ہندو قوم میں سے ایک آدمی ارباب کی پگ باندھتا ہے۔ تھر کا مرکزی ذریعہ معاش مویشی ہیں اور جس جس علاقے میں جس جس قوم کا پردھان ہماری پگ باندھتا ہے، اس کے نیچے جتنے بھی مویشی ہیں ان پر میرے نشان ’رانا امر کوٹ کا داغ ‘ ( مہر) لگتا ہے۔ اسی طرح اربابوں کی پگ باندھنے والی قوموں کے مویشیوں پر اربابوں کا داغ لگتا ہے۔ اگر کسی کی بکری بھی چوری ہوجاتی ہے تو اسے واپس لانا اس پردھان کی ذمے داری ہے، کیوں کہ اس غریب کی بکری چوری نہیں ہوئی ہے بلکہ رانا کے نشان کا داغ، اس کی پگ کی چوری ہوئی ہے۔ اب جہاں روایات کی پاس داری کا ایسا نظام موجود ہو جہاں مسلمان خود سے گائے کا گوشت نہیں کھاتا ہو تو پھر وہی مسلمان کیسے ایک ہندو کو زبردستی مسلمان کرسکتا ہے؟

ایکسپریس: آپ کے خیال میں پاکستان میں ہندو اقلیت کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟

رانا ہمیر سنگھ: اس کے لیے میں ایک آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت ہے پاکستان میں نہیں، آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمان صدر بھی بن سکتا ہے، وزیراعظم بھی بن سکتا ہے، لیکن پاکستان میں اقلیت کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان میں ایک مسلمان گورنر نے صرف توہین مذہب کے قانون کو ختم کرنے کا کہا اور اسے اس کے محافظ نے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ یعنی اس نے ایک اقلیت کے لیے گولی کھائی؟ لیکن آپ بھارت میں ایک بھی ہندو سیاست داں ایسا دکھا دیں جس نے مسلمانوں کے لیے گولی کھائی ہو؟ میں آپ کو ایک اور زندہ مثال دیتا ہوں، جام شورو تحصیل میں تھانہ بولا خان کے نام سے ایک قصبہ ہے جس کا سردار ملک اسدسکندر ہے۔ تھانہ بولا خان میں کوہستانی بنیے کاروبار کرتے ہیں، یہ بزنس کمیونٹی پر مشتمل بڑا ٹاؤن ہے، پورے پاکستان میں ان کا کاروبار ہے، اور سندھ میں تو ان کا کاروبار گاؤں گاؤں پھیلا ہوا ہے۔

ملک اسد سکندر یہاں رہنے والی 32قوموں کا سردار ہے، لیکن انتخابات میں وہ اپنی صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست ایک ہندو کو دے دیتا ہے اور 32 قوموں کے مسلمان اپنے ووٹ سے اس ہندو کو جتوا بھی دیتے ہیں۔ کیا اس کے پاس32  قوموں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا جسے وہ اپنی سیٹ دیتا؟ وہاں تو ہندو بنیوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے، لیکن ملک اسد سکندر نے ایک ہندو کو اپنی سیٹ صرف اس اقلیت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دی۔ آپ بھارت میں ایک بھی ایسی مثال بتادیں کہ کسی ہندو نے اپنی ذاتی سیٹ کسی مسلمان کو دی ہو؟ ایک بھی مثال بتادیں کہ اس بھارت میں ایک بھی راجا مہاراجا یا رانا کے نیچے اس کے راج میں مسلمان بھی اس کا پگ دار ہے؟ میں اس کی سب سے بڑی مثال ہوں۔ وہاں ’گاؤ ہتھیا‘ کو روکنے کے لیے قانون بنایا جا رہا ہے، اور یہاں پر پچانوے فی صد اکثریت رکھنے والا مسلمان کسی قانون کے بنا میری عزت اور مان کو رکھتے ہوئے گاؤ ہتھیا نہیں کرتا۔ اس کی وجہ ہے سوچ! سوچ ذات پات یا مادیت پرستی سے نہیں آتی، یہ سوچ روحانیت سے آتی ہے۔ یہاں مسلمان ہی ہندوؤں کا محافظ ہے۔ بھارت میں جتنا شور شرابا مودی کر رہا ہے اگر پاکستان میں کوئی اس طرح شروع ہوجائے تو پھر انہیں کوئی روک سکتا ہے؟ اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے دستور چاہیے سوچ کے لیے دستور چاہیے۔ ہمارے دستور کیا تھے۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں، جب شادی کے بعد میری والدہ گھر آئیں تو ہمارے یہاں گود بھرائی کا دستور ہوتا ہے۔ میری ماں جب گھر آئیں تو میر علی بخش تالپور نے میری والدہ کو اپنی بیٹی بنایا، میر منور میرا ماما لگتا ہے، فریال تالپور لوگوں کی ادی ہوگی میری مامی لگتی ہے۔ یہ عام رواج تھا اس میں ذات پات، مذہب کہاں سے آگیا؟

ایکسپریس: کیا ذات پات کا فرق پاکستانی ہندو برادری کے مسائل میں اضافے کا سبب نہیں؟

رانا ہمیر سنگھ: اس دھرتی پر جب صوفی ازم آیا تو یہاں پر دو طریقوں سے مذہب میں تبدیلیاں ہوئیں۔ سب سے پہلی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اس دھرتی پر صوفی سَنت صوفی ازم لے کر آئے، اس وقت ہندو دھرم چار حصوں میں بٹ گیا تھا، شودر، ویش، کھتری اور برہمن۔ اب شودر یعنی مزدور جتنا بھی قابل ہو مزدور ہی رہے گا، دکان دار نہیں بن سکتا، راج نہیں چلاسکتا، دھارمک (مذہبی) کتاب نہیں پڑھ سکتا، بنیے کا بیٹا بنیا ہی رہے گا، ایڈمنسٹریشن نہیں چلا سکتا، راجپوت کا بیٹا نالائق ہو پھر بھی راج کرے گا، اسی طرح براہما کا بیٹا مہا نالائق ہو پر اس کے پیر پڑنا ہی پڑنا ہے۔ تو جو ہندو دھرم کی فلاسفی سناتن دھرم کی تھی وہ ٹوٹ گئی۔

سناتم دھرم میں ذاتیں نہیں چار ورگ تھے، شودر، ویش، کھتری اور براہمن، یعنی وزارت محنت، وزارت دفاع اور وزارت تعلیم، آدمی کس گھر میں پیدا ہوا ، وہ اس کی پہچان نہیں اس کی پہچان اس کے پیشے سے ہے۔ وہ اپنے کاموں کی بنا پر پہچانا جائے گا، اگر راجپوت کا بیٹا مزدوری کرتا ہے تو شودر کہلائے گا، اگر بزنس میں ہے تو بنیا کہلائے گا، فوج میں ایڈمنسٹریشن میں ہے تو راجپوت اور اگر تعلیم، انجینئرنگ، میڈیکل کے پیشے سے وابستہ ہے تو پھر برہمن کہلائے گا، اس کو توڑ کر انہوں نے ذاتیں بنادیں۔ میرے گاؤں میں راجیہ نام کا ایک جمع دار (خاکروب) تھا۔ ہمارے دو باورچی خانے ہوتے ہیں، ایک باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے اور دوسرا گھر کے افراد کے لیے، تو راجیہ واحد آدمی تھا جو گھر کے افراد کے لیے بنے کچن سے کھانا کھاتا تھا، اسی طرح میری دائی میگواڑن (میگواڑی ہندو کمیونٹی کی ایک پس ماندہ ذات) تھی، تو اب ہندو دھرم میں سے ذات پات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔

ایکسپریس: تھر کی کوہلی، میگواڑ، رباری اور بھیل برادری ابھی تک طبقاتی نظام کی چکی میں پس رہی ہے، ان کا سب سے بڑا مسئلہ ابھی بھی جبری مشقت ہے۔ آپ نے ان کی داد رسی کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟

رانا ہمیر سنگھ: نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے علاقے میں تو جبری مشقت کا تو کوئی تصور پہلے بھی نہیں تھا، البتہ سندھ کے دوسرے علاقوں کے کچھ ظالم زمیں دار اس قسم کی حرکتوں میں ملوث تھے، لیکن اب وہاں بھی جبری مشقت کا سلسلہ تقریبا ختم ہو چکا ہے۔

ایکسپریس: تھر میں بچوں کی اموات ایک سانحہ ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے، اس صورت حال کی کیا وجہ ہے؟

رانا ہمیر سنگھ: اب آپ کے پاس راستے ہیں، گاڑیاں ہیں، ایمبولینسز ہیں، اسپتال ہیں، اس کے باوجود تھر میں بچے مر رہے ہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ اب اس کی وجہ کیا ہے؟ جب ہمارا راج تھا، آٹھ سو نو سو سال ہم نے یہاں راج کیا ہے، اس وقت نہ ہمارے پاس پکے راستے تھے، نہ ڈاکٹر تھے، لیکن اس وقت ہمارے بچے نہیں مرتے تھے۔ آج آپ کے پاس سو فی صد ٹیکنالوجی ہے ہمارے وقت میں تو اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ کسی بچے کے مرنے کی وجہ یہی ہے کہ اس کی ماں صحت مند نہیں ہے۔ تھر میں بچے اس لیے مر رہے ہیں کہ ماں کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی، صحت مند بچے کے لیے ماں کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔

اور ماں کی دیکھ بھال ایک ماں ہی کر سکتی ہے، اسی لیے ہمارے یہاں ایک دائی ہوتی تھی یعنی عقل مند عورت اور ایک دھائی ہوتی تھی جسے ہم دایہ کہتے ہیں، خواتین سے متعلق ہر مسئلے میں تمام تر فیصلے دائی کیا کرتی تھی، اس میں کسی مرد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ عورت عورت سے جو بات کرسکتی ہے وہ مرد سے نہیں کرسکتی۔ چائلڈ میرج اس وقت بھی ہوتی تھی، اب یہ بچوں کے مرنے کا الزام چائلڈ میرج کو دیتے ہیں۔ اس وقت لڑکی کے حاملہ ہوتے ہی اس کی غذا کا خیال رکھا جاتا تھا، بچہ پیدا ہونے کے بعد اسے الگ غذا دی جاتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1994ء میں لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام شروع کیا اور ہر تین ہزار پر خواتین ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو تعینات کیا، لیکن اب آپ انہیں تنخواہ تک نہیں دیتے اور آج بھی تھر کے جن علاقوں میں لیڈی ہیلتھ ورکر کام کر رہی ہیں وہاں بچوں کی شرح اموات صفر ہے۔

ایکسپریس: آپ کے دادا رانا ارجُن سنگھ نے 1946میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کانگریس کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا، انہوں پاکستان مسلم لیگ کا ساتھ دینے اور اسلام کے نام پر بننے والی نوزائیدہ مملکت پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا تھا؟

رانا ہمیر سنگھ: اس بات کو سمجھنے کے لیے پرانی تھرپارکر تحصیل کو سمجھنا ضروری ہے، پرانے تھرپارکر میں آج کا سانگھڑ ڈسٹرکٹ، میرپورخاص، امر کوٹ اور تھر شامل تھے، آج کا میرپورخاص ڈویژن پہلے تھرپارکر ڈسٹرکٹ کا حصہ تھا، جس کی پچاسی فی صد آبادی ہندو تھی۔ کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے انتخابات کی بنیادی فلاسفی یہ تھی کہ جہاں جہاں مسلم لیگ کی اکثریت جیتے گی وہ پاکستان کا حصہ ہوگا اور جہاں جہاں آل انڈیاکانگریس جیتے گی وہ ہندوستان کا حصہ بنے گا۔ کانگریس کا سیدھا دعویٰ یہ تھا کہ یہ ڈسٹرکٹ ہمیں ملنا چاہیے، یہ میرے پڑ دادا تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی۔

جب یہ بات جودھ پور، بالا میڑ، باٹھ، بیر بیکانیر کی ان ریاستوں کو پتا چلی جن سے ہمارے شادی بیاہ کے معلاملات تھے تو انہوں نے میرے دادا ارجُن سنگھ سے کہا کہ اگر آپ کو سیٹ کا شوق ہے تو وہ ہم آپ کو دے دیتے ہیں، یہ تو کل کو مسلمانوں کا ملک بننے والا ہے۔ جس پر میرے داد ا نے انہیں جواب دیا کہ آپ دو چیزیں بھول رہے ہیں اول، یہ کہ ہم ایک دوسرے کو بیٹیاں دیتے ہیں، رشتے داری نہیں ہے، رشتے داری میری ان سے ہے جو مجھے کندھوں پر اٹھا کر عزت دیتے ہیں، آپ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ امر کوٹ کو ’گیٹ وے آف تھر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دریائے سندھ ختم ہوتا ہے اور تھر شروع، میں نے سندھ کا پانی پیا ہے، سندھ کا کھایا ہے، میری واسطے داری سندھ سے ہے اور میں ’فرزندِ زمین‘ ہوں، جہاں سندھ وہاں میں اور مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ کہ وہ مسلمان ریاست ہے یا ہندو ریاست۔

ایکسپریس: آپ کے والد رانا چَندرا سنگھ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی رکن بھی تھے تو پھر کن وجوہات کی بنا پر انہوں نے 1990میں پی پی پی کو چھوڑ کر پاکستان ہندو پارٹٰی کے قیام کا فیصلہ کیا؟ پاکستان ہندو پارٹی کے قیام کے اغراض و مقاصد کیا تھے ؟

رانا ہمیر سنگھ: اس وقت میرے پِتا کی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ ایک غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی۔ رانا چندرا سنگھ صاحب محترمہ کو اسی طرح مشورے دیتے تھے جس طرح وہ ذوالفقار علی بھٹو کو دیا کرتے تھے۔ میرے والد کا ان سے تعلق وزیراعظم اور رکن کا نہیں تھا وہ صرف عوام کے سامنے ہوتا تھا، وہ بھٹو کا ہاتھ پکڑ کر کہتے تھے کہ تم یہ کر کیا رہے ہو، یہ غلط ہے یہ صحیح ہے۔ جب ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں ڈالا تو سب سے پہلے میرے پِتا ان سے ملنے گئے اور بھٹو نے انہیں ایک خط دیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پہلے دورحکومت میں ہی کچھ معاملات میں بدانتظامی شروع ہوگئی تھی، اس وقت قائم علی شاہ کو ہٹاکر آفتاب شعبان میرانی کو وزیراعلٰی بنایا گیا، میرانی صاحب نے ایک میٹنگ بلائی۔ رانا صاحب کے مطابق اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی میں دراڑ پڑ رہی تھی، وہ اس وقت کی حکومتی پالیسیوں پر بہت تنقید کرتے تھے۔

ان کی تنقید اس حد تک ہوگئی تھی کہ آفتاب شعبان میرانی نے میرے والد صاحب کو سبق سکھانے کی ہدایات جاری کردیں، جس کے بعد مجھے اپنی زمینوں سے اٹھاکر گڑھی یاسین تھانے میں بند کردیا گیا، مجھے تیرہ دن پابند سلاسل رکھا گیا اور مجھ پر گڑھی یاسین سے 7گائین چرانے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد معاملات اور بگڑ گئے۔ بے نظیر بھٹو کو یہ فیڈبیک دیا گیا کہ رانا صاحب کو پارٹی پالیسیوں پر سخت اختلافات ہیں، اس کے بعد رانا صاحب مسلم لیگ نواز میں چلے گئے۔ جہاں تک پاکستان ہندو پارٹی کے قیام کی بات ہے تو یہ پارٹی بنی ہی مذہب کی بنیاد پر تھی کیوں کہ اقلیتوں کے ووٹ ہی الگ کردیے گئے تھے جو فارم ہم بھرتے تھے اس پر صاف لکھا ہوا تھا کہ ’نام زدگی کا فارم صرف ہندو اور شیڈولڈ کاسٹ کے لوگوں کے لیے ہے‘ لہٰذا جب انہوں نے ہی ہمیں مرکزی دھارے سے توڑ کر ذات کی بنیاد پر تقسیم کردیا تھا تو پھر ہم نے بھی مذہب کے نام پر ایک نئی جماعت قائم کرلی۔

ایکسپریس: آپ اور آپ کے پِتا متعدد بار بار اقتدار میں رہے، لیکن آپ کے آبائی حلقے میں لوگ پیاس اور بھوک سے مرتے رہے، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

رانا ہمیر سنگھ: میں نے آپ کو پہلے ہی بتایا ہے کہ تھرپارکر 1997ء تک نو گو ایریا تھا اور وزیراعظم بھی فوج کی منظوری کے بنا ایک پتھر بھی ادھر سے ادھر نہیں کر سکتا تھا تو پھر پھر میرے والد رانا چَندرا سنگھ یا میں کس گنتی میں تھے۔

ایکسپریس: گریجویٹ نہ ہونے کی وجہ سے آپ 2002کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے، اور 2013میں آپ نے اپنی جماعت پاکستان ہندو پارٹی کے بجائے پی پی پی کے چھے میں سے پانچ امیدواروں کو سپورٹ کیا، اس کی وجہ؟

رانا ہمیر سنگھ: 2013ء میں آج کے پیر پگارا نے مجھے بھارت سے بلوایا اور عام انتخابات میں فنکشنل لیگ کے پلیٹ فارم سے چناؤ لڑنے کا کہا۔ واضح رہے کہ تھر سے فنکشنل لیگ کا کوئی بھی امیدوار کبھی نہیں جیتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ مجھے ٹکٹ دے رہے ہیں پھر میں جانوں اور میرا ڈسٹرکٹ جانے، کیوں کہ اس کے تمام تر فیصلے میں خود کروں گا اور اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ ایسا نہ ہو کہ کل کو آپ ارباب غلام رحیم سے اتحاد کرکے کہیں کہ یہ حلقہ نہیں دیں گے یا وہ حلقہ نہیں دیں گے، پھر ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اور پھر وہی ہوا جو میں سوچ رہا تھا۔ راجا سائیں نے یونس سائیں کے ذریعے میرے پاس پیغام بھیجا کہ رانا صاحب آپ ہاتھ اٹھا لیں، ہماری ارباب غلام رحیم کے ساتھ سیٹلمنٹ ہوگئی ہے، اب آپ نمبر دو پوزیشن پر رہتے ہوئے ارباب غلام رحیم کو سپورٹ کریں۔ میں نے یونس سائیں سے کہا کہ میں نے پہلے ہی آپ لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ اگر میں ایک بار انتخابات میں کھڑا ہوگیا تو پھر پیچھے نہیں ہٹوں گا، اور اب ارباب غلام رحیم بیچ میں آگیا ہے تو پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ باتیں سُن کر یونس سائیں نے مجھ سے پوچھا کہ تم الیکشن لڑو گے؟ ٹرائی اینگل الیکشن لڑو گے؟ میں نے کہا ہاں بالکل لڑوں گا، جس پر یونس سائیں نے کہا کہ تم کیا سمجھتے ہوں کہ تم جیت جاؤں گے؟ میں نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں ارباب غلام رحیم کو پانچ سیٹوں پر شکست دوں گا، وہ صرف ڈیپلو کی ایک سیٹ ہی جیت سکے گا، باقی کی پانچ سیٹوں پر آپ جس کو کھڑا کردیں سب کو ہراؤں گا، اور پیر پگارا سے کہہ دیں کہ ’اگر میں نے ارباب غلام رحیم کو پانچ نشستوں پر نہیں ہرایا تو میں صرف سیاست نہیں بلکہ پاکستان ہی چھوڑ کر چلا جاؤں گا، یہ ایک راجپوت کا وعدہ ہے۔‘ ہم اپنے داد کے وقت سے انتخابات دیکھتے آئے ہیں، میرے داد ا نے اس وقت الیکشن لڑا جب پورا تھرپارکر ایک سیٹ تھا۔ ہمیں پتا ہے کہ بیلنس آف پاور کہاں کہاں ہے۔ پھر میں نے پیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا، اور ان پانچوں نشستوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کام یاب ہوئی۔

ایکسپریس: آپ رانا آف ڈھاٹ کے چھبیسویں رانا ہیں، ایک رانا ہونے کی حیثیت سے آپ پر کیا ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں۔ کیا آپ کے اس ٹائٹل کو کوئی آئینی و قانونی حیثیت حاصل ہے؟

رانا ہمیر سنگھ: جب میں خود کو رانا آف ڈھاٹ کہتا ہوں تو اس میں کوئی رنگ و نسل، ذات پات نہیں ہے، ڈھاٹ کے علاقے میں رہنے والے راجپوت تو میرا اپنا ہی خون ہیں، لیکن ان کے علاوہ کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے جس کا پگ دان میری پگ میں نہیں ہیں، رانا کا مطلب ہے ’عوام کے لیے۔‘ ہماری روایات میں ایک کوٹری سٹم ہے، کوٹری صرف ایک رانا کی ہوتی ہے، ہر تعلقے میں میری ایک کوٹری ہے۔ کوئی اور دوسرا اس نام کو استعمال نہیں کرسکتا۔ ہندو ٹھاکر مہمان خانے کے لیے ’ اوتارا‘ اور مسلمان اس کے کے لیے ’اوطاق: کا لفظ استعمال کرے گا۔ کوٹری ایک طرح کا مہمان خانہ ہوتا ہے جس میں میرا خاندان تو رہائش اختیار نہیں کرسکتا لیکن اس کے علاوہ دوسروں کے لیے چوبیس گھنٹے کھانا پینا رہائش سب مفت ہوگی۔ اپنے لوگوں کے کورٹ کچہری اور زمینوں کے مسائل بلامعاضہ حل کروانے کے لیے میں نے اپنی کوٹری میں ایک وکیل، ایک پولیس والا اور ایک ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کا بندہ رکھا ہوا ہے، جو 24گھنٹے کوٹری میں رہتے ہیں، کورٹ کچہری، پولیس اور زمینوں کے مسائل میں مفت میں حل کرواتا ہوں۔ ہر کوٹری میں رانا کا چولہا بلاامتیاز سب کے لیے چوبیس گھنٹے جلتا رہتا ہے، یہ کبھی بجھتا نہیں ہے۔

میں خود اپنی کوٹری میں جاکر وہی کھاتا ہوں جو دوسروں کے لیے بنتا ہے۔ ہر راجپوت الگ الگ رانا ہوتا ہے، میں پاکستان میں اپنے خاندان کا رانا آف ڈھاٹ ہوں، میں راجپوتوں کی نسل پرمان ونش کا ہوں، جس کی جاتی کا آغاز راجا وکرم ادیتی سے ہوتا ہے۔ رانا کو جو لقب میں لگاتا ہوں وہ لقب مجھے سندھ دھرتی میں آنے کے بعد ملا ہے۔ اس سے پہلے باڑمیر میں راؤ کا لقب تھا، وہاں کے راؤ چچل تھے جن کے سات بھائی تھے جن میں سے ایک بھائی ’سودھا‘ بہت جری اور بہادر تھا، جس کی جرأت کو دیکھتے ہوئے بڑے بھائی راؤ چچل نے انہیں ایک الگ راج دے دیا، جس کے بعد انہوں نے کھپرو کے پاس رتہ کوٹ میں اپنی رہائش اختیار کرکے رتہ کوٹ اور امرکوٹ حاصل کیا، جب کہ راؤ چچل نے دوسرے بھائی کو نگر بھیجا جہاں وہ بھی رانا کہلائے۔

ایکسپریس: آپ کے ایک اور پُرکھ رانا رتن سنگھ نے چار سال تک برطانوی فوج کو امر کوٹ اور تھرپارکر میں داخل نہیں ہونے دیا اور مستقل لڑائی کی، جس جرم میں انہیں میخ پر چڑھادیا گیا۔ اس بارے میں کچھ بتائیے؟

رانا ہمیر سنگھ: انگریزوں نے اس دور مین ویلتھ ٹیکس نافذ کیا، اس وقت ہماری دولت عورتوں کے زیورات کی شکل میں بھی ہوتی تھی۔ جب یہ ٹیکس نافذ ہوا تو رانا تن سنگھ نے انگریزوں سے کہا کہ ’ہم اپنی عورتوں کے زیور کا ٹیکس آپ کو نہیں دیں گے دیگر ٹیکس ہم خود وصول کرکے آپ کے حوالے کریں گے، اس کام کے لیے کوئی انگریز ہمارے پاس نہیں آئے گا، برطانوی حکومت نے رانا رتن سنگھ کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ایک ٹیکس کلیکٹر کو امر کوٹ روانہ کردیا۔ رانا رتن سنگھ نے اس ٹیکس کلیکٹر کو قتل کردیا، جس کے بعد انگریزوں اور ہمارے پُرکھوں کے درمیان ایک طویل لڑائی ہوئی۔ انگریزوں نے امرکوٹ ریاست پر قابض ہوکر اسے حکومتی تحویل میں لے لیا، سارے راجپوت سرداروں کو پونا جیل میں قید کردیا اور رانا رتن سنگھ کو پھانسی دے دی۔

ایکسپریس : جب شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کوتخت سے محروم کردیا تو آپ کے آباؤ اجداد رانا پرساد نے ہمایوں کو پناہ دی۔

رانا ہمیر سنگھ: ہمایوں نے دلی سے فرار ہونے کے بعد راجپوتوں کے سارے رجواڑے پار کیے لیکن شیر شاہ سوری کے ڈر سے کسی نے اس کو پناہ نہیں دی، لیکن جب وہ امر کوٹ آیا تو امر کوٹ کے رانا پرساد نے اسے پناہ دی، کیوں کہ ہماری روایت ہے کہ اگر دشمن بھی ہماری پناہ میں آجائے تو ہم اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان دے دیتے ہیں، لیکن اس پر ایک آنچ نہیں آنے دیتے ۔ میرے پُرکھ رانا پرساد نے ہمایوں کو اس کے خاندان کے ڈھائی سو افراد کے ساتھ چھے ماہ تک اپنے پاس رکھا۔ اسی عرصے میں اکبر کی پیدائش بھی ہمارے قلعے میں ہی ہوئی۔ اور چھے ماہ بعد ہماری فوجوں نے ہمایوں کو اپنے حصار میں لے کر دریائے سندھ پار کروایا۔

The post مذہب کی جبری تبدیلی کا پروپیگنڈا بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ، رانا ہمیر سنگھ appeared first on ایکسپریس اردو.

عیدالاضحی کا درسِ عظیم

$
0
0

تقابل ادیان کے تجزیہ نگار اور محقق اس حقیقت کا واضح ادراک رکھتے ہیں کہ دین خدائے لم یزل ہر اعتبار سے دیگر ادیان پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے۔ اس بات کی اہمیت سے انکار کرنا گویا طلوعِ آفتاب سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو دل و جان سے قبول کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں پر اس کارگہۂ حیات میں فانی زندگی کے ایام گزارنے کے لیے مذہبی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے شب و روز کے معمولات میں آسانیاں پیدا فرماتا ہے وہاں بعض غیرمعمولی حالات میں اپنے فداکاروں سے ایسی صبرآزما قربانیاں طلب کرتا ہے جن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے اثرات بڑے دُور رس ہوتے ہیں۔ ایسی جاں گداز آزمائشوں سے آتشِ نمرود کے بپھرے ہوئے شعلوں میں بے خطر کود جانے والے امام انسانیت کے ارفع منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ایسے خوش بخت لوگوں کا فردوسِ بریں کی جاں بخش بہاریں استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔

معرکہ ہائے تسلیم و رضا میں صدقِ خلیلؑ اور تسلیم و رضائے اسمٰعیلؑ ہر سال ایک نیا روپ لے کر دین خدا و مصطفی ﷺ کے علم برداروں کو زندگی بخش حقیقت کی نوید دینے کے لیے جلوہ گر ہوتا ہے۔ تذکرہِ قربانی اسمٰعیل ؑ سے پہلے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اگرچہ اسلام مالی قربانیاں پیش کرنے والوں کو بھی نہ صرف نجاتِ اُخروی کی نویدِ جاں فزا سے مالا مال کرتا ہے بل کہ جنّت کی کیف آفرین فضاؤں میں اُن کے مقامات کا تعین بھی کرتا ہے۔ اگرچہ راہِ حق میں خود کو اور اپنے جگر پاروں کو قربان کرنا بہت بڑی شان و عظمت کا حامل ہے اور یہ سعادت اُنہی عظیم بندگانِ حق کے حصے میں آتی ہے جنہیں دیکھ کر موت بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔ یہ حکم و اطاعت خداوندی کی انتہا ہوتی ہے۔

مگر اپنے لختِ جگر کے گلے پر خود اپنے ہاتھوں سے چُھری چلا دینا اور پھر یہ بھی خیال رکھنا کہ کہیں اس لامثال اور عظیم الشان اور ارفع و اعلیٰ کام کو انجام دیتے وقت شفقتِ پِدری کروٹیں نہ لینے لگے اور اس نرالے اور جداگانہ حکمِ الٰہی کی انجام دہی میں یک سرِمو انحراف نہ ہوجائے۔ یہ نُدرت آفریں کارنامہ انجام دینا حضرت ابراہیم خلیل اﷲ اور حضرت اسمٰعیل ذبیح اﷲ کا ہی کام ہے۔ صدقِ خلیل اﷲ وہ جاودانہ ترکیب و اضافت ہے جو اہل ایمان کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور تازگی عطا کرتی ہے۔

شہیدانِ وفا کے حوصلے تھے داد کے قابل

وہاں پر شُکر کرتے تھے جہاں پر صبر مُشکل تھا

ہم سنتِ ابراہیمی کو یوں تو ہر برس اپنے روایتی انداز میں تازہ رکھنے کے لیے قربانی کرتے ہیں لیکن اس کا ایمان افروز پس منظر یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ نام لینا بہت آسان ہوتا ہے مگر شیطانی قوتوں کی بھرپُور اور گُم راہ کُن ترغیبات کو پائے استحقار سے ٹھکراتے ہوئے اپنے جگر گوشے کو بے نیازانہ مقتل کی طرف لے چلنا اور بے مثال استقامت و عزیمت اور بے نظیر استقلال کے ساتھ اس انداز سے زمین پر لٹا دینا کہ چھُری کا چلنا یقینی امر بن جائے۔

اور پھر ذرا اُس رفعت ِ تخیل کو ذہن میں لائیے جب سعادت مند بیٹا اپنے عظیم باپ سے خود عرض کر رہا ہے کہ ابا جان آنکھوں پر پٹی ضرور باندھ لیں کہ کہیں وہ فطری محبت کی غایت میرے گلے اور آپ کے ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور حکم ِ خداوندی میں کوئی ناقابلِ معافی تساہل نہ واقع ہو جائے۔ چشم ِ فلک نے بہ ظاہر دل ربا مگر دل کو درد سے سرشار کر دینے والا ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ دستِ خلیل اﷲ نہ کپکپاتا ہے، نہ لرزتا ہے، نہ ڈگمگاتا ہے اور بیٹا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چھری کو دیکھ کر مُسکراتا ہے۔ اس ظرفِ ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کو دیکھ کر آسمان سے نِدا آتی ہے: اے خلیل! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا، اب ہم اسے ذبحِ عظیم کے نام سے قیامت تک کے لیے باقی رکھیں گے۔

اے ابراہیمؑ خلیل اﷲ! آپ کی شانِ فیاضی پر لاکھوں دُرہائے تاب دار نثار ہوتے رہیں گے کہ آپؑ نے اپنی متاعِ گراں بہا کو راہِ خداوندی میں نثار کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیا۔ اے سیدنا ابراہیمؑ! زمین کے اُتنے حصے پر جبین تقدیسِ محبت خم ہوتی رہے گی جہاں اسمٰعیلؑ کو لٹا کر آپؑ نے تسلیم و رضا کا اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔ اے اسمٰعیلؑ ذبیح اﷲ! تیرے آدابِ فرزندی کو نسیمِ بہار، رحمتِ پروردگار کی صورت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی رہے گی۔ ستاروں کی رعنائی خورشیدِ جہاں تاب کی زرفشانی آپؑ کے جذبہ ِ اطاعت پر تاقیامت نثار ہوتی رہے گی۔ اہلِ فراست کے فکر و نظر کی چاندنی تا ابد آپؑ پر نچھاور ہوتی رہے گی۔ ہر آنے والی صبحِ بہاراں اپنے حریم ِ گُلستاں کو اسمٰعیلؑ کی معصوم ادائے نیازمندی کی خوش بُو سے سجاتی رہے گی۔

سلام ہو ابراہیمؑ کے جذبۂ ایثار کو جو ہر سال فدایانِ اسلام کے دلوں میں نقشِ جمالِ عید کو مرتسم کرتا چلا جاتا ہے۔ سلام ہو اُس ذبحِ عظیم کی اوج و رفعت کو جو اہل دل کی نگاہوں میں دلیل ِ عشقِ حقیقی بن کر راسخ تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ عندلیبانِ گلستانِ جہاں اسمٰعیلؑ کی اُس معصومانہ مُسکراہٹ پر ہزار زمزمے نثار کرتے رہیں گے جو قربان گاہ کی جانب جاتے وقت ذوقِ شہادت سے معمور اُن لب ہائے نزاکت پر طاری تھے۔ اے فرزندِ ابراہیمؑ! آپ نے اہل دنیا کو بتا دیا کہ وہ زندگی ستاروں سے بھی زیادہ جھلملاتی اور پھولوں سے بھی زیادہ مُسکراتی ہے جو رضائے خالقِ کائنات پر نثار ہوتی ہے ۔ قربانیِ اسمٰعیلؑ نے دنیا والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ اُس ارتقاء کو کبھی زوال کا شائبہ تک بھی نہیں ہوسکتا جس میں خلوص کی بُوئے حلاوت آتی ہو۔ اور یہ وہ اوج و کمال ہوتا ہے جو تا ابد عروسِ صبح کے رُخ سے نقاب اُلٹ کر دینِ ابراہیمی کے پیروکاروں کو اپنے دور کے براہیم کی تلاش کا درس دیتا ہے اور دنیا کے صنم کدوں میں لات و عزیٰ کو فنا کر دینے کی ترغیب دیتا رہے گا۔

مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں

وہ نقش چھوڑے ہیں تم نے وفا کے رستے میں

The post عیدالاضحی کا درسِ عظیم appeared first on ایکسپریس اردو.

’’پاگا‘‘ کے انسان دوست مگرمچھ

$
0
0

مگرمچھوں کے بارے میں عام طور سے یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ غصے کے بہت تیز ہوتے ہیں اور کسی بھی جان دار کو اپنے قریب آتا دیکھ کر اس پر جھپٹ پڑتے ہیں اور لمحوں میں اس کی جان لے لیتے ہیں، لیکن ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہماری اسی دنیا میں ایک ایسی جگہ یا شہر بھی ہے جہاں کے مگرمچھ بہت اچھے ہوتے ہیں، وہ جان داروں کے دوست ہوتے ہیں اور ان پر نہ کوئی حملہ کرتے ہیں اور نہ انہیں اپنی وحشت کا نشانہ بناتے ہیں۔ دنیا کے اس انوکھے اور حیرت انگیز چھوٹے سے شہر کا نام ہے: پاگا۔ پاگا شمالی گھانا کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جو برکانو فاسو کی سرحد کے ساتھ ہی واقع ہے، مگر سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر خوف ناک اور خطرناک ترین مگرمچھوں کی ایک نسل کا گھر بھی ہے۔

پاگا کے یہ خوف ناک مگرمچھ کہاں رہتے ہیں؟ پاگا کے یہ مگر مچھ Paga Crocodile Pondمیں رہتے ہیں اور مگرمچھوں کا یہ مخصوص تالاب مقامی دارالحکومت  Bolgatanga سے کم و بیش 44کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہ دنیا کا وہ انوکھا انسان دوست تالاب ہے جہاں بچے اپنے ان آبی دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور بے فکری سے تیرتے رہتے ہیں اور ان کی مائیں اس تالاب کے کناروں پر بیٹھ کر اپنے اور اپنے گھر والوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔ لیکن نہ تو وہ پانی کے ان خوف ناک مکینوں سے ڈرتی ہیں اور نہ کبھی آج تک ان مگرمچھوں نے کسی بھی انسان کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاگا کے ان دوست مگرمچھوں کی اس علاقے کے سبھی گاؤں اور دیہات کے لوگ بہت عزت اور احترام کرتے ہیں، گاؤں کے مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں ہمارے آبا و اجداد کی وہ روحیں ہیں جو دنیا سے جاچکے ہیں اور ان خوف ناک جانوروں کے ذریعے وہ روحیں واپس اس دنیا میں آتی ہیں اور یہاں ایک بار پھر اپنی زندگیاں گذارتی ہیں۔ ان دیہاتی لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب کبھی گاؤں کی کوئی اہم شخصیت مرنے کے بعد دنیا سے جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی یہاں پائے جانے والے مقدس اور محترم مگرمچھوں میں سے کوئی ایک مگرمچھ بھی دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاتا ہے۔

مقامی لوک روایات اور قدیم قصے کہانیوں کے مطابق بہت طویل عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک شکاری جو اپنے تعاقب میں آنے والے ایک ببر شیر کے خوف سے بھاگ رہا تھا تو درمیان میں ایک مرحلہ ایسا آیا جب وہ شکاری ایک تالاب اور اپنے تعاقب میں آنے والے شیر کے درمیان پھنس گیا۔ جب اسے نکلنے کا اور اپنی جان بچانے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو اس نے اس تالاب میں رہنے والے ایک مگر مچھ سے ایک سودا کیا، اس نے مگرمچھ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر اس مشکل وقت میں تم میری مدد کردو تو میں تم سے ایک وعدہ کرتا ہوں، وہ یہ کہ خود میں اور میرے دیگر مرنے والے (متوفین) کبھی مگرمچھ کا گوشت نہیں کھائیں گے، بس تم اس وقت مجھے پیچھے آنے والے اس خوف ناک ببر شیر سے بچاکر محفوظ مقام تک پہنچادو، اس کے عوض میں، میں اور میری نسل کے لوگ تمہیں کبھی نہیں کھائیں گے اور تمہاری نسلیں انسان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گی۔

شکاری کی اس بات پر مگرمچھ نے تھوڑی دیر تک غور کیا اور پھر اس کی مدد کرنے کو تیار ہوگیا۔ چناں چہ اس نے شکاری کی جان ببر شیر سے بچائی اور اسے تالاب کے پار محفوظ انداز سے پہنچادیا۔ اس کے بعد شکاری نے کام کیا کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، عین اسی مقام پر ایک گھر تعمیر کردیا اور اس طرح وہاں ایک گاؤں کی بنیاد رکھ دی گئی۔

اس حوالے سے ایک اور متبادل کہانی بھی ہمارے سامنے آتی ہے اور اس کہانی کا مرکزی کردار ’’لیو‘‘ نامی ایک فرد تھا۔ لیو نامی اس شخص نے برکانو فاسو کے علاقے ’’لیو‘‘ سے اپنا گھر چھوڑا اور گھومتا پھرتا اس علاقے میں پہنچا جہاں ان مگرمچھوں کا تالاب واقع تھا۔ مگر اس کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ پانی کی تلاش میں وہ اپنے راستے سے بھٹک گیا اور بھٹکتے بھٹکتے ایک مگرمچھ سے ملا جو اسے اپنے ساتھ پانی کے ایک تالاب تک لے گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جب انہوں نے اس مقام کو دریافت کیا جہاں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اسی مقام پر قیام کریں گے۔ اسی جگہ پر انہوں نے ’’پاگا‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اسی جگہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اس کا باقاعدہ حکم بھی جاری کیا کہ آج کے بعد وہ یا اس کی نسل کے دوسرے لوگ کبھی مگرمچھ نہیں کھائیں گے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بات سے آج تک کوئی بھی آگاہ نہیں ہے کہ کیا واقعی مگرمچھ ’’پاگا‘‘ میں آکر ختم ہوگئے تھے۔ یہ تالاب مکمل طور پر ہر طرف سے مکمل طور پر خشکی سے گھرا ہوا ہے یعنی landlocked ہے اور اس میں رہنے والے بعض آبی جان دار 80 سال بھی زیادہ عمر کے ہیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاگا میں مگرمچھوں کے دو تالاب ہیں، پہلا تالاب Navrango سے کوئی بارہ کلومیٹر دور ایک ہائی وے پر واقع ہے اور وہ چیف پونڈ یا بڑا تالاب کہلاتا ہے اور دوسرا تالاب Zenga Crocodile Pond ہے جو پاگا کی سرحد سے بہ مشکل پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ ان دونوں تالابوں پر متعین گائیڈز ان تالابوں میں رہنے والے مگرمچھوں کی تواضع ان زندہ چکن سے کرتے ہیں جن کی ادائیگی خود سیاح اپنی جیب سے کرتے ہیں اور سیاح ان کے ذریعے مگرمچھوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں اور پانی سے باہر نکلنے کا لالچ دیتے ہیں۔ مگر مچھ سیاحوں کے اس انداز سے باہر بلانے پر پانی سے باہر نکل کر خشکی پر آجاتے ہیں اور پھر سیاح جی بھر کر ان مگرمچھوں کے ساتھ بیٹھتے، ان کے جسم تھپ تھپاتے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں۔ بعض اوقات بچے ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں اور بعض اوقات بڑے اور بالغ بھی یہ شوق پورا کرتے ہیں اور مگرمچھوں کے اوپر بیٹھ کر ساری دنیا کو یہ دکھاتے ہیں کہ وہ اس آبی درندے سے نہیں ڈرتے۔

The post ’’پاگا‘‘ کے انسان دوست مگرمچھ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت : وہ اُن میں سب سے زیادہ خُوب رُو تھا، بالکل ہیرو

$
0
0

قسط نمبر56
ایک نوجوان تو فقیر کو اسلام آباد والے بابا جی کے پاس ملا تھا، جس کی کہانی آپ سُن ہی چکے کہ اس نے اپنا راستہ خود چُنا تھا، اب حنیف کی کہانی آپ نے سن ہی لی۔ فقیر کو جیون میں سیکڑوں نوجوان ملے ہیں اور ملتے ہی رہتے ہیں۔ اب نوجوانوں کا تذکرہ چل ہی نکلا ہے تو ایک اور نوجوان یاد آیا۔ وہ نوجوان مجھے جیل میں ملا تھا۔ آپ تو پریشان ہوگئے، جی فقیر اس وقت جیل میں اسیر تھا، کیوں ۔۔۔۔ ؟ جیل کہانی پھر سہی، وہ سب فقیر کو بھائی کہتے تھے، اور سچ یہ ہے سمجھتے بھی تھے، اب وہ سب جہاں بھی ہوں، خدا کرے راہ راست پر ہوں تو اس نوجوان کی کتھا بھی لائق سماعت ہے۔

بہت اداس تھا، نہ جانے کیوں! مجھے دیگر قیدیوں نے بتایا تھا کہ اسے معصوم مت سمجھیں، چار قتل کیے ہیں اس نے۔ ہاں تصدیق کی تھی اُس نے، اس بات کی۔ بہت زیادہ خیال رکھتا تھا میرا۔ لطیفے سناتا اور ہنستا ہی چلا جاتا۔ دن میں سونے کی اداکاری کرتا اور کہتا: بھائی! میں گھومنے پھرنے جارہا ہوں۔

تھوڑی دیر تک وہ آنکھیں موندے رہتا اور پھر جاگ جاتا اور خیالی واقعات سنانے لگتا: بہت مزا آیا بھائی، بہت ہی زیادہ۔ میں یہاں سے نکلا تو فوراً ہی بس مل گئی تھی اور رش بھی نہیں تھا۔ میں نے کھڑکی والی سیٹ پکڑی اور پھر تو مزا آگیا۔ بہت سہانا موسم تھا، بس میں گانا لگا ہوا تھا، آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تُو چھٹی لے کے آجا بالما! لیکن کیسے چھٹی لے کر آؤں، اب تو دس برس بعد ہی آسکوں گا۔ بہت خوب صورت ہے وہ۔ بچپن سے ہی ہم ساتھ رہتے ہیں، میرے پڑوس ہی میں تو وہ رہتی ہے، گول مٹول سی گُگلُو۔ ہم ساتھ ہی اسکول میں داخل ہوئے تھے۔

میں اکثر اس کا لنچ کھا جاتا تھا۔ وہ بہت لڑتی تھی مجھ سے کہ میرا لنچ کھا گئے، لیکن بھائی! ایک بات اور تھی، اور وہ پتا ہے کیا؟ میں جس دن اس کا لنچ نہیں کھاتا، وہ اداس ہوجاتی اور کہتی، آج مزا نہیں آیا۔ میں کہتا آج تو میں نے تمہارا لنچ نہیں کھایا تو کہتی اس لیے تو مزا نہیں آیا۔ اسے مجھ سے لڑکر، چھینا جھپٹی کرکے ہی مزا آتا تھا۔ ساری ٹیچرز ہمیں کہتی تھیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پھر وہ خاموش ہوجاتا۔ اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں، لیکن وہ انہیں برسنے سے روک لیتا۔ پھر وہ ہنسنے لگتا، بھائی! سب جھوٹ بولتے تھے۔ کتنے سال ہوگئے مجھے یہاں، نہ میں مَرا نہ وہ مَری۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔

شروع میں تو، میں نے اپنی ماں سے جو یہاں مجھ سے ملنے آتی ہے، اس کا پوچھا تو وہ ڈانٹ دیتی اور کہتی کسی کا خیال نہیں آیا تھا تو کم از کم اس معصوم کا ہی خیال کرلیتا۔ اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ میں پیدائشی غنڈا تو نہیں ہوں ناں، بس حالات نے بنادیا۔ چلو غنڈا ہی رہتا، میں تو ڈکیت اور قاتل بھی بن گیا۔ بھائی! آپ بھی میری کہانی کتنے غور سے سنتے ہیں۔ میری کیا آپ تو سب کی سنتے ہیں۔ بور نہیں ہوتے آپ؟ ہمیں تو منہ بھی نہیں لگانا چاہیے۔

وہ سب مجھے بھائی کہتے تھے اور بہت پیار سے۔ آپس میں لڑتے جھگڑتے تو میں کہتا خاموش ہوجاؤ اور پھر میں دیکھتا سب خاموش ہوجاتے، نہ جانے کیوں؟ مجھے حیرت ہوتی کہ یہ کیسے قاتل ہیں، کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ قاتل ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک، کسی نے چار قتل کیے اور کسی نے سات، بس ایک ہی تھا ان میں جس نے بس دو قتل کیے تھے۔ وہ اُن میں سب سے زیادہ خُوب رُو تھا، بالکل ہیرو ۔ عمر بھی بس یہی کوئی چوبیس سال تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا تھا: تم نے کیوں قتل کیے اتنے لوگ؟ تو وہ پھٹ پڑا، بھائی! میں نے قتل نہیں کیے، وہ سب تھے ہی ایسے کہ انہیں زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔

میں پوچھتا کیوں؟ تب وہ بتاتا: بھائی! ہمارے محلے میں ایک مخبر رہتا تھا، لوگوں کو مارنا پیٹنا تو اس کا شوق تھا۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک تھا، پھر اس نے نیا دھندا شروع کردیا۔ وہ آدھی رات کو پولیس والوں کے ساتھ آتا اور ایک کپڑے میں لپٹا ہوا پستول کسی کے بھی گھر پھینک دیتا، کسی کی چھت پر۔ پھر اس گھر پر دستک دی جاتی، گھر والے جاگ جاتے، تو پولیس والے کہتے تمہارے گھر میں اسلحہ ہے۔ گھر والے کہتے آؤ دیکھ لو۔ پستول تو وہ پھینک چکا ہوتا، پولیس تلاشی لیتی اور پستول برآمد کرلیتی۔ پھر سب کو تھانے لایا جاتا، وہ سب مجبوراً پولیس والوں کو منہ مانگی رشوت دیتے اور جان بخشی ہوتی۔

اس نے تو یہ دھندا بنا لیا تھا۔ میں روز یہ دیکھتا، محلے والے بھی اکثر یہ باتیں کرتے رہتے، سال بھر سے زیادہ ہوگیا تھا۔ لوگ بس باتیں ہی کرتے رہتے تھے، میں انڈین فلمیں بہت دیکھتا تھا۔ بس ایک دن میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا کہ اس بہت زیادہ بُرے آدمی سے تو محلے والوں کی جان بخشی کرادوں۔ بس میں نے ایک فیصلہ کرلیا۔ اب اسے مارنے کا کام کیسے کرنا ہے، میرے پاس تو پستول تھا نہیں، میں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ وہ ڈبو کے کلب پر ہوتا تھا، میں جوان ہوں، ہاتھوں میں دم بھی ہے، ایک رات کو وہ ڈبو کھیل کر اکیلا جارہا تھا۔ اس کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا ایک سنسان جگہ پر وہ جیسے ہی پہنچا میں نے اسے دبوچ لیا اور پھر اس کا پستول میرے ہاتھ آگیا۔ میں نے کچھ نہیں سوچا، ساری گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں، فائرنگ کی آواز سے محلے کے لوگ جاگ گئے تھے۔

کوئی سامنے نہیں آیا۔ میں نے اس کا پستول قریب ہی ایک گٹر میں پھینکا اور گھر آگیا۔ میں اپنی حالت بیان نہیں کرسکتا، تھوڑی دیر تک تو میں جاگتا رہا، پھر سوگیا۔ صبح سویرے پورے محلے میں خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ وہ تھا ہی ایسا کہ اسے مرجانا چاہیے تھا۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہو۔ پولیس نے تفتیش شروع کی، پھر پتا نہیں کیا ہوا، بات آئی گئی ہوگئی۔ کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہ میرا کام ہوسکتا ہے، لیکن میں قتل تو کر ہی چکا تھا، قاتل زیادہ دیر تک خود کو چھپا نہیں سکتا۔ آخر اپنے ایک دوست کو بتادیا کہ اسے میں نے مارا تھا۔ وہ بھی ڈبو کھیلتا تھا۔ اس نے ماننے سے انکار کردیا، پھر ہماری دوستی گہری ہوگئی۔ ایک دن اس نے کہا یار! کام دھندا تو ہے نہیں، چل کوئی ڈکیتی ہی کرلیں، میں نے کہا میرے پاس تو پستول نہیں ہے۔

اس نے کہا اس کا انتظام میں کرلوں گا۔ ایک دن ہم دونوں موٹرسائیکل پر نکلے۔ ایک سنسان جگہ پر ہمیں ایک کار نظر آگئی۔ میں نے پستول تان لیا تو انہوں نے سب کچھ ہمارے حوالے کردیا۔ چار ہزار روپے سے زیادہ تھے۔ موبائل بھی تھا، ہم دونوں نے بانٹے، میرے دوست نے ہنستے ہوئے کہا یہ پستول تو چیک کرلے۔ میں نے دیکھا تو وہ کھلونا پستول تھا۔ کہانی بہت لمبی ہوجائے گی۔ ہم نے چھوٹی موٹی ڈکیتیاں کرنا شروع کردی تھیں۔ روز ہمیں ہزاروں روپے مل جاتے تھے۔ ایک دن ہمیں ایک کار نے آکر روک لیا۔ اس میں سے چار لوگ نکلے۔ ان کے پاس کلاشنکوفیں تھیں، ہم نے سوچا کہ مارے گئے۔

ہوسکتا ہے سادہ لباس میں پولیس والے ہوں، لیکن انہوں نے ہمیں کچھ نہیں کہا۔ ہماری موٹرسائیکل لی اور ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر چل دیے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ لیکن پھر ایک بنگلے کے اندر گاڑی رک گئی۔ ہم نیچے اترے تو دیکھا کہ وہ ایک بڑا سجا سجایا بنگلہ تھا۔ ہم نے چائے پی، پھر ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: گھبراؤ نہیں، ہم بھی تمہارے جیسے ہیں۔ بہت دن سے تمہارا پیچھا کر رہے تھے، چلو اب ہمارے ساتھ کام کرو، عیش کروگے۔ ہم نے تو فوراً ہی حامی بھرلی۔ بس بھائی! پھر تو عیاشی ہی عیاشی۔ وہ سب ڈکیت تھے، مگر بہ ظاہر کاروباری اور محلے میں شریف بنے ہوتے۔ بنگلہ بھی کرائے پر لیا ہوا تھا، لیکن یہ سب بس دکھاوا تھا۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے لگا۔ کون سا بُرا کام تھا جو ہم نہیں کرتے تھے۔ بہت عرصے تک میں ان کے ساتھ ڈکیتیاں کرتا رہا۔ اس دوران میں گھر بھی جاتا تھا، بہت شریف بن کر، لیکن آخر کب تک انسان چھپ سکتا ہے؟ گھر والوں کو یہ تو معلوم نہیں تھا کہ میں ڈکیت بن گیا ہوں۔ بس اتنا پتا تھا کہ آوارہ لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں۔

آہستہ آہستہ وہ بھی بے زار ہوگئے اور میرا گھر جانا تقریباً بند ہوگیا۔ پھر تو بس ڈکیتیاں تھیں اور عیاشی تھی۔ ایک دن مجھے اپنا گروہ بنانے کا خیال آیا اور وہ اس لیے کہ یہاں بہت سے گروہ کام کر رہے تھے اور ان کی آدھی سے زاید کمائی جنہوں نے ہمیں رکھا ہوا تھا، وہ کھا رہے تھے۔ اگر ہم میں سے کوئی کہیں پھنس جاتا تو مدد بھی کرتے تھے، لیکن بس میرے من میں آئی کہ اپنا گروہ بناؤں۔ گروہ کو ہماری زبان میں ’’چین‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست سے بات کی تو وہ بھی مان گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہاں جن لوگوں میں ہم پھنس گئے ہیں، ان کے چُنگل سے کیسے نکلا جائے۔ ہم نے طے کرلیا کہ بس عیاشی کریں گے۔ کام پر اگر گئے بھی تو خالی ہاتھ واپس آئیں گے، کچھ عرصے تک یہ چلتا رہا۔ ہم چھوٹی موٹی لوٹ مار تو کرتے تھے، بتاتے نہیں تھے۔ ایک دن آخر انہوں نے کہا کہ تم کام وام نہیں کر رہے، بس بیٹھے بیٹھے حرام کی کھا رہے ہو، کب تک ایسا کروگے؟ بات بگڑ گئی اور ہم تو چاہتے بھی یہی تھے۔ آخر وہاں سے ہماری جان خلاصی ہوئی، اتنی آسانی سے نہیں۔ یہ ایک دوسری کہانی ہے۔

بہرحال ہم دونوں نے اپنے ساتھ پانچ لڑکے اور ملا لیے اور سپر ہائی وے پر ویران پڑے ہوئے فلیٹوں کو اپنا اڈا بنالیا۔ میں چین کا رکھوالا تھا۔ ہم نے اصول بنائے کہ بس ڈکیتی کریں گے، کوئی کسی عورت یا لڑکی، بچے یا بوڑھے کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا، خاص کر لڑکی کو۔ سب نے اسے مان بھی لیا۔ دن میں نے اپنی چین کے ساتھ پہلی ڈکیتی کی۔ جب ہم مال سمیٹ کر نکل رہے تھے کہ پیچھے سے ایک لڑکی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے جوڑی دار نے ایک لڑکی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا چھوڑ دو اسے۔ تو وہ بولا مجھے پسند آگئی ہے، اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے اسے کہا کہ کسی اور وقت اس لڑکی کو اٹھالیں گے، اب چلو یہاں سے۔ وہ راستے بھر مجھے کوستا رہا اور میں غصے سے کھولتا رہا۔ آخر ہم اپنے اڈے پر پہنچے اور مال رکھا۔ راستے میں، میں اپنے جوڑی دار کو سزا دینے کا پلان بنا چکا تھا۔ بہن، بیٹیاں، مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اس لڑکی کا چہرہ میری نظروں میں آتا تو مجھے اپنی بہن یاد آجاتی۔ اس نے اصول توڑ دیا تھا، جس کی سزا اسے ملنا چاہیے تھی، اور یہ سزا اس لیے بھی ضروری تھی کہ پھر پوری چین اپنی مرضی کرنے لگتی اور بکھر جاتی۔ مال رکھنے کے بعد میں نے اس سے کہا، چلو کھانا لے کر آتے ہیں، اس وقت ہمارے پاس ایک شاراڈ کار ہوتی تھی۔

میں سپرہائی وے سے نکلا تو وہ کہنے لگا بہت تھکن ہورہی ہے، یہیں قریب ہی سے کھانا لے لیں۔ میں نے کہا، نہیں یار! کورنگی میں ایک ہوٹل ہے، وہاں سے زبردست کھانا لیں گے تو وہ خاموش ہوگیا۔ پتا نہیں اسے کیوں تھکن ہورہی تھی، میں نے دیکھا وہ سوگیا ہے اور میں کورنگی کے ایک سنسان علاقے میں پہنچا۔ وہ علاقہ میرا دیکھا بھالا اور بہت سنسان تھا۔ میں نے گاڑی روکی، وہ سویا ہوا تھا، میں نے اسے گھسیٹ کر نیچے اتارا، تب اس کی آنکھ کھلی۔ وہ چیخا کہ یہ کہاں لے آئے مجھے؟ بس میں نے ایک جملہ کہا، تم نے اس لڑکی کو کیوں ہاتھ لگایا؟ اور یہ کہتے ہی پورا میگزین اس میں اتار دیا۔ قریب ہی ایک اندھا کنواں تھا، میں نے اسے وہاں پھینکا اور خود کھانا لے کر اپنے اڈے پر پہنچا۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر باقی لڑکوں نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ میں نے انہیں سچ بتا دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہ اگر کبھی کسی نے ایسی حرکت کی اس کی سزا بھی یہی ہوگی۔ وہ سب بالکل خاموش ہوگئے۔ میں کھانا کھائے بغیر سوگیا، آپ مجھے بتائیے بھائی! میں نے غلط کیا؟ میری خاموشی دیکھ کر وہ پھر اپنی کہانی سنانے لگا۔

ہماری کارروائیاں بڑھتی جارہی تھیں اور ہماری چین مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ ایک رات ہم ڈکیتی کرنے نکلے اور ایک گھر میں کود گئے۔ گارڈ کو میرے ساتھیوں نے بے دست و پا کردیا۔ ہم نے اندر داخل ہوکر سب کو ایک کمرے میں بند کیا اور تلاشی لینے لگے۔ اتنے میں کسی دوسرے گینگ نے ہمیں گھیر لیا، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ دو گینگ ایک ہی گھر میں آمنے سامنے کھڑے ہوں۔ میں نے ان سے بات کی کہ ہمارا حق پہلے ہے، ہم پہلے آئے ہیں، وہ میرا مذاق اڑانے لگے، مجھے شک ہوگیا کہ آخر یہ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے اڈے پر پہنچا اور سوچنے لگا، اتنے میں ہماری چین کے ایک لڑکے کو میں نے موبائل فون پر بات کرتے دیکھ لیا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ میں نے اس سے موبائل فون چھین لیا، دوسری طرف سے ہنس کر ایک آدمی کہہ رہا تھا، تم اگر ہمیں نہیں بتاتے تو آج اتنا مال ہاتھ نہ آتا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ہماری چین کے اس لڑکے نے وہاں پہنچتے ہی دوسرے گروہ کو اطلاع کردی تھی۔ یہ تو سراسر غدّاری ہے۔ بس میرا تیسرا شکار وہ لڑکا تھا۔

آخر مجھے اپنی چین کے لوگوں کو اپنے رعب میں رکھنا تھا کہ کوئی اور یہ حرکت نہ کرے اور دوسرے اس گینگ کو بھی بتانا تھا کہ آئندہ کسی نے یہ بے اصولی کی تو اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔ دن گزرتے گئے، ہم لوٹ مار کرتے اور لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں جاکر عیاشی کرتے رہے۔ کوئی ایک بھی ایسا بُرا کام نہیں ہے جو ہم نے نہیں کیا، لیکن لوٹ مار میں اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ چوتھا مقتول پولیس کا ایک مخبر تھا۔ وہ بٹیر تھا پولیس کا۔ بٹیر اسے کہتے ہیں جو پولیس کے لیے بھتا جمع کرتا ہے۔ وہ بہت ذلیل آدمی تھا۔ غریب ٹھیلے والوں سے شام کو پیسے جمع کرکے پولیس کو پہنچاتا تھا۔ جو پیسے نہ دے اس ٹھیلے والے کو کھڑا ہونے نہیں دیتا تھا۔ میں نے ایک دن اس سے بات کی کہ یار! یہ غریب لوگ ہیں، انہیں معاف کردو۔ وہ اکڑ گیا اور اس نے مجھے بازار میں تھپڑ مار دیا، بس رات کو ہم نے اسے اٹھایا اور پھر وہ بھی گیا زندگی سے۔

تو یہ ہے تمہاری رام کہانی۔ ہاں بھائی! یہ تم جیل میں کیسے پہنچ گئے؟ میں نے پوچھا۔ وہ بہت دیر تک ہنستا رہا، لیکن اس کی آنکھیں نم تھیں، پھر وہ بہت دیر تک خاموش رہا۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا وہ۔ میں نے اسے شانے سے پکڑ کر ہلایا۔ کہاں کھو گئے تم؟ جیل کیسے پہنچ گئے؟

ہاں بھائی! بُرے کام کا بُرا انجام ہوتا ہے۔ زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے ناں، ایک بنگلے پر ڈکیتی کر رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر لیا ہمیں۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور گھر کا ایک فرد زخمی ہوگیا۔ لیکن ہم سب پکڑے گئے، پوری چین کو پکڑ لیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ بنگلہ کسی بڑے آدمی کا تھا، بس کیس چل رہا ہے، مجھے لگتا ہے اگلی پیشی پر فیصلہ آجائے گا، پانچ سال تو ہوگئے ہیں جیل میں، اب میں زندگی کے عجیب موڑ پر کھڑا ہوں اور مجھے کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوا تو میں نے پوچھا: کیا فیصلہ؟ اب سزا بھگتو!۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے، جرائم کی دنیا بہت عجیب ہے، ہم بہت ذہین ہوتے ہیں، یہ جو باہر بڑے لکھے پڑھے لوگ ہیں ناں سب خود کو ذہین سمجھتے ہیں، یہ سب بے وقوف ہیں۔ انہی کی بے وقوفی سے ہماری دنیا آباد ہے۔

وہ کیسے؟ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

ہماری پوری چین جیل میں ہے، لیکن ہمارے رابطے باہر ہیں، اب فیصلہ یہ کرنا ہے، اور میں کرچکا ہوں، وکیل سے بات بھی ہوگئی ہے، جیل میں ہم سب چین والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جج کے سامنے جاکر کوئی ایک آدمی قبول کرلے گا کہ قتل اس نے کیے ہیں۔ اس طرح باقی سب بچ جائیں گے۔

یعنی تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ تم قربانی کا بکرا بنو گے؟ وہ ہنسنے لگا۔ لیکن مفت میں قربانی کا بکرا نہیں بنوں گا۔ معاہدہ ہوگیا ہے کہ وہ مجھے اس کام کے اسّی لاکھ روپے دیں گے۔ ضمانت باہر کے ایک اور گروہ نے دی ہے۔ جب میں عدالت میں یہ سب قبول کرلوں گا، کہ یہ سب میرے ساتھ نہیں تھے، میرے ساتھی تو بھاگ گئے ہیں، تو باقی بچ جائیں گے اور رِہا ہوجائیں گے۔ باہر نکل کر وہ میرے ایک دوست کو 80 لاکھ روپے ادا کریں گے۔

اور تم اندر سڑتے رہو گے؟ یہ ہے تمہاری ذہانت؟ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرو، تم نے تو مشترکہ گناہ کیے ہیں، سب اپنی سزا بھگتو۔ یہ تمہاری چین باہر جاکر پھر سے لوٹ مار کرے گی اور وہ تمہاری وجہ سے باہر جائے گی، ان کی ساری لوٹ مار میں تمہارا حصہ ہوگا۔ چھوڑ دو بُرے کام، بدلو خود کو۔ میری تلخ باتوں کو اس نے تحمل سے سنا اور پھر کہنے لگا: بھائی! آپ صحیح کہتے ہیں، اب ہم چھوڑنا بھی چاہیں تو دوسرے نہیں چھوڑنے دیتے۔ آپ نہیں سمجھیں گے بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے۔ انسان ہوں، بہت شرمندہ ہوں، لیکن اب یہ دنیا نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ سب باہر ہوں گے تو ایک دن میں بھی باہر ہوں گا۔ وہ کیسے؟ میں نے پوچھا۔ یہ آپ نہیں سمجھیں گے، یہاں ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ دنیا ہے۔ نہیں بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے۔ میں اسے حیرت و دُکھ سے دیکھ رہا تھا تو فقیر کے سامنے جون ایلیا آئے:

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

جیل تو اصلاحی مدرسے ہونے چاہییں لیکن یہ تو جرائم کی جامعات بن گئیں ہیں، کاش! کوئی اس جانب بھی توجّہ دے۔

The post جہاں گشت : وہ اُن میں سب سے زیادہ خُوب رُو تھا، بالکل ہیرو appeared first on ایکسپریس اردو.

کچھ نئے ذائقے آزمائیں

$
0
0

روزنامہ ایکسپریس کے قارئین کو عیدالاضحیٰ مبارک ہو! عیدالاضحیٰ کے موقع پر عید کے پہلے دن سے ہی ہر گھر میں گوشت کے لذیذ پکوان پکائے جاتے ہیں۔ قربانی کے بعد کہیں کلیجی بھونی جارہی ہوتی ہے تو کہیں باربی کیو کے لیے گوشت کو مسالا لگایا جارہا ہوتا ہے۔

کہیں گوشت کو تقسیم کرنے کے لیے پیکٹ بنائے جاتے ہیں تو کچھ گوشت فریزر میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہی تمام سرگرمیاں عیدالاضحیٰ کا خاصہ ہیں۔ البتہ اس دوران چند باتوں کا خصوصی طور پر خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ یہ کہ قربانی کے بعد اس جگہ کو اچھی طرح دھلواکر جراثیم کش دوا یا محلول چھڑک دیں۔ گوشت بھی محفوظ کرنے سے قبل صاف کرکے دھوکر چھلنی میں رکھ دیں۔ پانی نکل جائے تو پیکٹ بناکر فریز کردیں۔ گوشت کو پکاتے وقت اچھی طرح سے گلالیں۔ ادھ گلا گوشت جراثیم کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

گوشت کے پکوان کے ساتھ کچی سبزیوں کا سلاد اور مشروبات یا کولا ڈرنکس کے بجائے روایتی لیموں کی سکنجبین بہترین اور زود ہضم بھی ہے۔ باربی کیو کے لیے بھی گوشت کو مسالے ادرک لہسن اور پسا کچا پپیتا لگاکر رات بھر رکھ دیں تاکہ مسالا گوشت میں اچھی طرح جذب ہوجائے اور کچے پپیتے، ادرک اور لہسن کی وجہ سے وہ اچھی طرح گل بھی جائے۔ باربی کیو کے ساتھ بھی املی اور پودینے کی چٹنی ضرور پیش کریں۔ عید کے موقع پر ہر گھر میں نت نئی ڈشز پکتی ہیں۔ لذت بھرے کھانوں کی خوشبو گھر بھر میں پھیل جاتی ہے اور تمام مکینوں کو کھانے کی میز کی جانب کھینچ لاتی ہے۔

ان کھانوں کی خوشبو گھریلو ملازمین ، پڑوسی، چوکی دار، مالی تک بھی جاتی ہوگی۔ بہت سے افراد یہ لذت بھرے پکوان کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تو جب آپ کچھ بھی پکائیں تو تھوڑا زیادہ پکائیں اور ایسے افراد کو ضرور دیں۔ پڑوس میں بھی ضرور بھیجیں کیوں کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ اس نیک عمل سے آپ کے کھانے میں بھی برکت ہوگی اور ذائقے کی لذت بھی بڑھ جائے گی۔ عید کے موقع پر چوں کہ آپ لذت بھرے نئے پکوان کی تراکیب کی تلاش میں رہتے ہیں لہٰذا ہم آپ کے لیے چند ایسی ہی لذیذ تراکیب لے کر آئے ہیں۔ ذیل میں درج تراکیب کو پکائیے، خود بھی کھائیے اور مہمانوں کو بھی کھلائیے۔ یقیناً اپ کے مہمان آپ کی تیار کردہ ڈشز کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

بیف روش
یہ کوئٹہ کی روایتی ڈش ہے جسے نمکین گوشت بھی کہا جاتا ہے

اجزاء:
گوشت ایک کلو: (ثابت بڑا ٹکڑا یا بڑی بوٹیاں)،ہڈیاں: دو چار عدد،پسا ہوا ادرک اور لہسن: دو کھانے کے چمچے، نمک: ایک کھانے کا چمچہ، کالی مرچ پسی ہوئی: دو کھانے کے چمچے ، یا حسب ذائقہ ،ہری مرچ : پسی ہوئی حسب ذائقہ، آلو : چار سے چھے عدد، ٹماٹر چھوٹے: چھے سے آٹھ عدد، ہری مرچیں: دس سے بارہ عدد، تیل: حسب ضرورت

ترکیب:
گوشت کو صاف کرکے دھوکر اس میں ادرک لہسن پسا، نمک، کالی مرچ پسی ہوئی، ہری مرچ پسی ہوئی سب چیزیں ڈال کر اس میں ہڈیاں بھی دھوکر ڈال دیں۔ حسب ضرورت پانی شامل کردیں تاکہ اچھی طرح گل جائے۔ جب ایک ابال آجائے تو دھیمی آنچ پر پکائیں۔ چند گھنٹوں میں گوشت گل جائے گا تو گوشت کو نکال کر تیل میں تلیں۔ رنگت تبدیل ہو لیکن زیادہ خستہ نہ ہو۔ اس کو پلیٹ میں نکال لیں ۔ اسی تیل میں آلو کے چپس کاٹ کر تل لیں، جب وہ بھی تیار ہوجائیں تو نکال کر ٹماٹر اور ہری مرچ شامل کردیں اور ڈھکن ڈھک کر فرائی کریں پھر ڈش میں نکال لیں۔ گوشت کا جو مسالا دیگچی میں بچا ہو، اب اس کو پکائیں، جب گاڑھا ہوجائے تو اتارلیں۔ ڈش میں گوشت رکھیں پھر آلو کے چپس، فرائی ٹماٹر اور فرائی ہری مرچوں سے سجاکر بچے ہوئے مسالے کا سوس اس کے اوپر ڈال کر پیش کریں۔ تندروی نان اور کلچوں کے ساتھ دہی کا رائتہ بھی ہو تو ذائقہ دوبالا ہوجائے گا۔

فرائیڈ بیف شاشلک اسٹک

اجزاء:
گائے کا گوشت: آدھا کلو،آلو: دو عدد،شملہ مرچ: دو عدد،ٹماٹر: دو عدد، لیموں کا رس : دو کھانے کے چمچے، میدہ: چار کھانے کے چمچے، بیکنگ پاؤڈر: آدھا چائے کا چمچہ، کالی مرچ پسی ہوئی: ایک چائے کا چمچہ یا حسب ذائقہ، لال مرچ پسی ہوئی: ایک چائے کا چمچہ یا حسب ذائقہ، نمک: حسب ذائقہ، کارن فلور: دو کھانے کے چمچے، انڈے: ایک سے دو عدد، ڈبل روٹی یا توس کا چورا حسب ضرورت،  ادرک لہسن پسا ہوا: ایک چائے کا چمچہ

ترکیب:
گوشت کی چھوٹی بوٹیاں بنوالیں۔ دھوکر ادرک لہسن ڈال کر اتنا پانی ڈال کر پکائیں کہ گوشت گل جائے۔ آلو چھیل کر گوشت کی بوٹیوں کے برابر سائز کے ٹکڑے کاٹ کر ابال لیں۔ شملہ مرچ کے بھی اسی سائز کے ٹکڑے کاٹ لیں۔ ٹماٹر کے درمیان سے بیج نکال کر اسی سائز کے ٹکڑے کاٹ لیں۔ گوشت اور آلو گل جائیں تو دونوں کو نکال کر رکھ لیں۔ ایک پیالے میں لیموں کارس، میدہ، بیکنگ پاؤڈر، کالی مرچ، لال مرچ، نمک، کارن فلور سب کو اچھی طرح ملاکر اس میں گوشت، آلو احتیاط سے ملائیں اور آدھا گھنٹہ رکھ دیں۔ پھر شاشلک اسٹک میں ایک گوشت کی بوٹی پھر شملہ مرچ کا ٹکڑا پھر آلو پھر ٹماٹر کا ٹکڑا پروئیں، پھر دوبارہ گوشت کی بوٹی پھر شملہ مرچ، آلو اور ٹماٹر کا ٹکڑا آخر میں گوشت کی بوٹی لگائیں، پھر اس کو پھینٹتے ہوئے انڈا لگاکر توس کا چورا لگادیں اور درمیانی آنچ پر گرم تیل میں فرائی کریں۔ دونوں طرف سے گولڈن براؤن ہونے پر پیپر پر نکال کر سلاد کے پتوں کے درمیان سجاکر پیش کریں۔ ساتھ ٹماٹو کیچپ اور چٹنی بھی پیش کریں عید کی ٹرالی کے لیے بہترین آئٹم ہے۔

بوٹی مسالا

اجزاء:
گوشت: آدھا کلو چھوٹی بوٹیاں بنوالیں،  ادرک لہسن پسا ہوا: ایک کھانے کا چمچہ، کچا پپیتا پسا ہوا: ڈیڑھ کھانے کا چمچہ، بیسن کا آٹا: دو کھانے کے چمچے، (انہیں بھون لیں)، پیاز درمیانہ سائز کی: ایک عدد انڈے کی طرح کاٹ لیں، ہرا دھنیا: آدھی گڈی باریک کاٹ لیں، ہری مرچ: پانچ سے چھ عدد یا حسب ذائقہ باریک کاٹ لیں، کوٹی ہوئی لال مرچ : ایک چائے کا چمچہ، نمک: ایک چائے کا چمچہ، گرم مسالا پسا ہوا: ایک چائے کا چمچہ، جائفل جاوتری پسا ہوا: آدھاچائے کا چمچہ، ثابت دھنیا: آدھاچائے کا چمچہ بھون کر کوٹ لیں، ثابت سفید زیرہ: آدھاچائے کا چمچہ بھون کر کوٹ لیں، بھونی ہوئی پیاز: دو سے تین کھانے کے چمچے، دہی :دو تین کھانے کے چمچے، تیل: تین سے چار کھانے کے چمچے

ترکیب:

گوشت کی بوٹیوں کو صاف کرکے دھوکر تمام مسالے سوائے تیل کے اچھی طرح مل کر رات بھر یا چند گھنٹوں کے لیے فریج میں رکھ دیں۔ پھر دیگچی میں تیل گرم کرکے یہ گوشت کی بوٹیاں ڈال کر دھیمی آنچ پر ڈھک کر پکائیں۔ ضرورت ہو تو پانی شامل کردیں۔ جب گوشت گل جائے تو ہلکا سا بھون کر اتار لیں۔ پانی نہ ہو۔ اس پر کوئلے کا دم دے کر ہرا دھنیا، ادرک اور لیموں سب باریک کاٹ کر سجادیں۔ چپاتی اور املی کی چٹنی کے ساتھ پیش کریں۔

’’کھاؤسے‘‘ (ایک روایتی میمنی ڈش)

اجزاء:
گوشت: چھوٹی بوٹیاں کرالیں،کڑی پتے: بیس سے پچیس عدد، ٹماٹر: چار سے چھ عدد، لال مرچ پسی ہوئی: حسب ذائقہ، نمک: حسب ذائقہ، ہلدی: ایک چائے کا چمچہ، تیل : حسب ضرورت

دہی : ایک پاؤ، بیسن: ایک پیالی، پانی : حسب ضرورت ، نوڈلز: آدھا پیکٹ، چپس: حسب ضرورت سجانے کے لیے، ہرا دھنیا: ایک گڈی باریک کٹا ہوا، چاٹ کا مسالا: حسب ذائقہ

ترکیب:

تیل گرم کرکے اس میں کڑی پتے ڈال دیں۔ تین چار ٹماٹرپیس کر ڈال دیں۔ لال مرچ، نمک اور آدھا چائے کا چمچہ ہلدی ڈال کر بھون کر تھوڑے سے پانی کا چھینٹا دیں۔ دہی میں بیسن کا آٹا اور چار سے چھ گلاس پانی ڈال کر بلینڈ کرلیں، پھر یہ آمیزہ مسالے میں ڈال کر پکنے دیں۔ جب کڑی تیار ہوجائے تو اتار لیں۔

دوسری دیگچی میں تیل گرم کرکے دو تین ٹماٹر باریک کاٹ کر اس میں ڈالیں اور پھر اس کے ساتھ لال مرچ، نمک اور آدھا چائے کا چمچہ ہلدی بھی ڈال دیں اور اچھی طرح بھون لیں۔ گوشت کو پہلے سے ابال لیں۔ گل جائے تو اتارلیں۔ گوشت کی بوٹیوں کو بھونے ہوئے مسالے میں شامل کرکے تھوڑی یخنی بھی شامل کریں۔ نوڈلز کو علیحدہ کرکے تھوڑا نمک اور تیل ڈال کر ابال لیں۔ اب پیالے میں پہلے کڑی پھر نوڈلز ڈالیں پھر اس کے اوپر گوشت ڈالیں اور چپس ہرا دھنیا اور چاٹ کے مسالے سے سجادیں، لذیذ ڈش تیار ہے۔

تکہ بریانی

اجزاء:
گوشت: ایک کلو بڑی بوٹیاں بنوالیں، دہی: آدھا کلو، نمک: حسب ذائقہ، لال مرچ پسی ہوئی: حسب ذائقہ، لیموں: دو عدد

دھنیا پیسا ہوا: ایک کھانے کا چمچہ، زیرہ پسا ہوا: ایک کھانے کا چمچہ، زردے کا رنگ: حسب ضرورت، چاول: ایک کلو، پیاز درمیانی: پانچ عدد، ادرک لہسن پیسا ہوا: ایک چائے کا چمچہ، تیل: ڈیڑھ پیالی، ہلدی: آدھا چائے کا چمچہ، آلو: چار عدد، ٹماٹر: چار عدد، سوکھے آلو بخارے: چھ سے آٹھ عدد، بریانی کا ایسنس: چند قطرے، ثابت گرم مسالا: حسب ضرورت، پانی: حسب ضرورت

ترکیب:
 گوشت کو صاف کرکے دھوکر رکھیں۔ ایک پیالے میں آدھا دہی لیں اس میں تھوڑا نمک، لال مرچ پسی ہوئی، لیموں کا رس، زردے کا رنگ، دھنیا پسا ہوا آدھا کھانے کا چمچہ، زیرہ پسا ہوا آدھا کھانے کا چمچہ سب ملاکر گوشت میں ڈال کر اچھی طرح ملائیں کہ مسالا گوشت پر لگ جائے۔ آدھا سے ایک گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔

ایک دیگچے میں تیل گرم کریں۔ پیاز باریک کٹی ہوئی ڈال کر سنہری ہونے تک تل لیں۔ آلو بھی چھلے اور ٹکڑے کٹے ہوئے ڈال دیں۔ بھونیں پھر ٹماٹر کٹے ہوئے، ادرک لہسن پیسا ہوا، نمک، لال مرچ پسی ہوئی، ہلدی سب ڈال کر بھونیں، بچا ہوا دہی، دھنیا پسا ہوا اور زیرہ پسا ہوا بھی ڈال دیں بھونیں پھر تھوڑا پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر ڈھک کر پکنے دیں۔ آلو گل جائیں تو آلو بخارے ڈال دیں۔ تھوڑی گریوی ہونی چاہیے۔ گوشت کو الگ دیگچے میں پکنے رکھ دیں۔ ضرورت ہو تو پانی شامل کریں۔ گوشت گل جائے تو اتار لیں اورکوئلے کا دم دے دیں۔ چاول کے لیے گرم مسالا اور نمک ڈال کر پانی ابال لیں۔ چاول تین کنی ابل جائیں تو چھان کر ایک دیگچے میں آدھے چاول کی تہہ لگائیں۔ اس پر آلو کا مسالا ڈال کر بقیہ چاول کی تہہ لگاکر تھوڑے سے پانی میں زردے کا رنگ گھول کر ڈالیں۔ بریانی کا ایسنس ڈالیں اور دم پر رکھ دیں۔ ڈش میں پہلے بریانی ڈالیں پھر تکے اس کے اوپر سجادیں۔ رائتے اور سلاد کے ساتھ پیش کریں۔

اسپیشل کڑاہی گوشت

اجزاء:
دنبے کا گوشت یا چربی والا گوشت: آدھا کلو، تیل: تین سے چار کھانے کے چمچہ، ادرک لہسن پسا ہوا: ایک چائے کا چمچہ، قصوری میتھی: ایک کھانے کا چمچہ صاف کرکے پانی میں بھگودیں، نمک: ایک چائے کا چمچہ یا حسب ذائقہ، لال مرچ پسی ہوئی: دو چائے کا چمچہ یا حسب ذائقہ، دھنیا پسا ہوا: ایک چائے کا چمچہ، ہلدی: پاؤ چائے کا چمچہ، ٹماٹر: چار عدد، بڑی ہری مرچیں: چھ سے آٹھ عدد، ہرا دھنیا: آدھی گڈی، ادرک باریک کٹا ہوا: ایک کھانے کا چمچہ

ترکیب:

گوشت کو دھوکر تیل گرم کرکے اس میں گوشت اور ادرک لہسن پیسا ہوا ڈال کر بھونیں پھر قصوری میتھی ڈال کر پھر تھوڑا کا پانی ڈال کر ڈھک دیں۔ دھیمی آنچ پر پکائیں۔ جب گوشت آدھا گل جائے تو نمک، لال مرچ پسی ہوئی، ہلدی، دھنیا پیسا ہوا ڈال کر بھونیں۔ ٹماٹر کاٹ کر تھوڑا پانی ڈال کر بلینڈر میں پیس لیں۔ پھر گوشت میں بڑی ہری مرچیں آدھا ہرا دھنیا کٹا ہوا اور پیسے ہوئے ٹماٹر ڈال کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ جب گوشت گل جائے تیل اوپر آجائے تو ہرا دھنیا اور ادرک چھڑک دیں تیار ہے۔ گرم قندھاری نان یا کلچوں کے ساتھ تناول فرمائیں۔

The post کچھ نئے ذائقے آزمائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کھانا۔۔۔ نہ۔۔۔ پکانے کی ترکیبیں

$
0
0

بقرعید آرہی ہے گوشت ہی گوشت لارہی ہے۔ ہم نے سوچا اس بار کسی اور موضوع پر لکھنے کے بجائے خواتین کے لیے گوشت کے کچھ پکوانوں کی ترکیبیں پیش کردیں۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ ہمیں پکانا بالکل نہیں آتا، اسی لیے ہم کچھ بھی کریں بیگم فوراً قرار دے دیتی ہیں کہ دال میں کالا ہے، البتہ ہمیں کھانے کی ترکیبیں پتا ہیں، جیسے عین کھانے کے وقت کسی رشتے دار کے گھر پہنچ جانا۔

غذائی امور سے مکمل عدم واقفیت کے باوجود اس کا کیا کریں کہ ہم بہت رحم دل ہیں، خاص طور پر خواتین کے معاملے میں، تو سوچا اس خوراکوں والے تہوار پر بی بیاں کہاں ترکیبیں ڈھونڈتی پھریں گی کیوں نہ ہم ان کا یہ مسئلہ حل کردیں، تو ترکیبیں حاضر ہیں۔

بریانی

یہ ہمارا قومی پکوان ہے۔ بارات ہو یا ولیمہ، سوئم ہو یا چالیسواں ہر جگہ تو آپ بریانی کھاتی ہیں، کھا کھا کر دل نہیں بھرا؟ ہمارے ہاں ہر تقریب بہرملاقات نہیں برائے بریانی ہوتی ہے، سو تقریبات میں جاتی رہیے اور بریانی کھاتی رہیے، خود پکانے کا جھمیلا پالنے کی کیا ضرورت ہے۔

پائے

پائے بڑی صبرآزما ڈش ہے۔ خوش ذائقہ پائے بنانے کے لیے بنانے والے کو صبر کرنا پڑتا ہے اور بدذائقہ بنے ہوں تو کھانے والے کو۔ یہ بڑا محنت طلب پکوان بھی ہے۔ اگر خیر سے آپ ساس ہیں تو بہو سے پائے بنوائیے۔ آخر آپ نے گائے سے زیادہ بہو لانے پر خرچہ کیا ہے، تو کس دن کے لیے اتنا پیسہ خرچ کیا تھا؟ پھر ترکیب سمجھنے کا ٹینشن آپ کیوں لیں، موئی کسی سے پوچھ کر خود بنا لے گی۔ بہو نئی نئی ہے تو اسی بقرعید پر کام میں لے آئیں، ورنہ اگلی عیدالاضحیٰ تک وہ خود کٹ کھنا بیل بن چکی ہوگی۔

مغزفرائی

گیس ضایع نہ کریں، نہ ہی زیادہ مغزماری کی ضرورت ہے، بس پتیلی میں مغز ڈال کر بیٹھ جائیں اور مغز کو شوہر سمجھ کر کھری کھری سنانی شروع کردیں، کچھ ہی دیر میں فرائی ہوجائے گا۔ مغز کو 15 منٹ سے زیادہ شوہر مت سمجھیے گا ورنہ جل جائے گا یا گھومتا ہوا اچھل کر پتیلی سے نکل کر باہر چلا جائے گا۔

نرگسی کوفتے

اگر آپ اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے یہ ڈش بنارہی ہیں تو رہنے دیجیے، اس سے اچھا ہوگا انہیں اداکارہ نرگس کا ڈانس بالمشافہ نہیں تو یوٹیوب پر دکھادیں، وہ زیادہ خوش ہوں گے۔ جب تک وہ ڈانس دیکھیں آپ ان کی طرف بالکل نہ دیکھیں ورنہ خود جل کر کوفتہ ہوجائیں گی۔ ویسے بھی نرگسی کوفتے انڈے کے بغیر نہیں بنتے، انڈے بہت منہگے ہیں اور قربانی کے جانور انڈے نہیں دیتے۔ اس لیے سادہ کوفتے ہی بنالیجے۔

حلیم

اس کی ترکیب بہت آسان ہے۔ اپنے شوہر سے کہیں، ’سُنیں! میری سہیلی راشدہ کہہ رہی تھی تمہارے شوہر بہت مزے دار حلیم بناتے ہیں، اب کی بقرعید پر ان کے ہاتھ کا حلیم کھانے آؤں گی‘۔ اتنا کہنا کافی ہوگا، رات بھر کی گُھٹائی کے بعد خوش ذائقہ حلیم تیار ہوگا۔ حلیم آپ کے خاوند بنائیں گے تو آپ کو ترکیب معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

کڑھائی گوشت

جتنے وقت میں آپ کڑھائی گوشت پکائیں گی، اتنے وقت میں 4 سے 5 کڑھائی والی قمیصیں دکان دار کو اچھی طرح پکانے کے بعد خرید سکتی ہیں۔ سو اپنا ٹائم ضایع نہ کریں۔ یہ ڈش پکانا جتنا مشکل ہے کھانا اتنا ہی آسان، بس شوہر کو فون کرکے کہہ دیجیے، ’آج سر میں درد تھا کچھ پکا نہیں سکی، آج باہر کڑھائی گوشت کھانے چلیں؟‘ ہر سمجھ دار شوہر جانتا ہے کہ سوالیہ شکل میں اُسے حکم ملا ہے، بس اب شوہر کا انتظار کیجیے پھر کڑھائی گوشت سے پورا پورا انصاف کیجیے۔ لیجیے آپ کڑھائی دھونے سے بھی بچ گئیں۔

بالٹی گوشت

بھئی اگر بالٹی میں گوشت چڑھا دیا تو نہانے کے لیے کیا پتیلی اور کیتلی استعمال ہوگی؟ یوں کیجیے کہ جوں ہی مہمان آئیں کہہ دیں، ’بس ابھی ان کے ابو نے نہاکر بالٹی فارغ کی تو میں نے بالٹی گوشت چڑھا دیا، آدھے گھنٹے میں پک جائے گا‘۔ یہ سُنتے ہی مہمان 15 منٹ میں کھانے سے معذرت کرتے ہوئے روانہ نہ ہوئے تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔ دیکھا کیسی ترکیب بتائی، آپ بھی زحمت سے بچ گئیں آپ کی بالٹی بھی۔

پُلاؤ

پُلاؤ ہمیشہ خیالی ہی اچھا ہوتا ہے، مگر خیالی پُلاؤ سب ہی پکالیتے ہیں، اور آپ چاہیں گی کہ کوئی ایسا پکوان بنایا جائے جو منفرد ہو اور سب ڈش کو چکھتے ہی اس کا نام پوچھیں۔ لیکن پُلاؤ کی شکل دیکھتے ہی سب سمجھ جائیں گے کہ یہ پُلاؤ ہے، پھر ایسی ڈش کا فائدہ! اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے دفع کریں پُلاؤ نہ بنائیں۔

قیمہ

آپ کو قیمہ بنانا بھی نہیں آتا؟ آپ کیسی خاتونِ خانہ ہیں بھئی۔

٭٭٭

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کچھ بالکل نئے پکوان جن کے بارے میں آپ نے کبھی سُنا بھی نہیں ہوگا:

کھچڑی گوشت

ارے نام سے پریشان نہ ہوں اس میں کچھ نیا نہیں۔ کھچڑی الگ بنالیں اور تھوڑا سا گوشت الگ پکالیں۔ گوشت اتنا جلادیں کہ دیکھتے ہی مہمان پوچھے ’کھانے میں کچھ اور بھی ہے‘ سُنتے ہی فوراً کھچڑی پیش کردیں۔ یہ ڈش وقت بھی بچاتی ہے گوشت بھی۔

گُھلی مِلی بوٹی

2 یا 3 بوٹیاں ڈال کر شوربہ بنائیں، جیسے ہی سالن میں دَم آئے چولہے کے پاس کھڑے کھڑے سالن سے بوٹیاں نکال کر کھا جائیں۔ مہمانوں کے سامنے سالن رکھ کر کہہ دیں، ’’بوٹیاں گُھل گُھل کر شوربہ بن گئی ہیں۔‘

بُھنا دل

بہت آسان ترکیب ہے، کسی کو دعوت پر بُلائیے اور دال پکا کر سامنے رکھ دیجیے۔ مہمان کا دل جل کر راکھ ہوجائے گا۔ اس پکوان کو کہتے ہیں بُھنا دل۔

جلا گوشت

گوشت چولہے پر چڑھائیں اور آنچ پر اندھا اعتبار کرکے چولہا چھوڑیں اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں۔ کھانے کے چکر میں پڑیں گی تو آپ کے کئی اہم ڈرامے نکل جائیں گے اور آپ یہ جاننے سے محروم رہ جائیں گی کہ جَمالو نے کس سے کی شادی؟ انور نے کسے چھوڑا پارو یا چرس؟، شکیلہ کس کے ساتھ بھاگے گی؟

تیسرے یا چوتھے ڈرامے کی 60ویں یا 70ویں قسط دیکھتے ہوئے جلنے کی بو اور جلی بُھنی ساس کی ڈانٹ ایک ساتھ آپ کے نتھنوں اور کانوں سے ٹکرائیں گی، تو جاکر ہانڈی دیکھیں جو جل چکی ہوگی، اب باہر سے اپنے پسند کی کوئی بھی ڈش منگوائیں اور مزے لے لے کر کھائیں۔ کھاتے ہوئے کھانے سے زیادہ مزہ آپ کو یہ سوچ کر آئے گا کہ آپ نے گوشت سے زیادہ ساس کو جلادیا ہے۔

The post کھانا۔۔۔ نہ۔۔۔ پکانے کی ترکیبیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

خانہ پُری
بے وقت کے ’پراٹھے‘ پرائے کر جائیں گے۔۔۔!

ر۔ ط۔ م
شہرقائد میں ایک دن کی بارش سے ہی صورت حال نہایت گمبھیر ہو گئی۔۔۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ’ایم کیو ایم‘ بالترتیب مرکز، صوبے اور شہر پر حکم راں ہیں۔۔۔ مرکز اور صوبے نے دل بڑا نہ ہونے کے سبب اور ’بلدیہ عظمیٰ‘ نے فقط اختیار نہ ہونے کا رونا رو رو کر شہر کو ہلکان کیے رکھا۔۔۔ اور شہر واسی ’کسے وکیل کریں۔۔۔!‘ کی عملی تفسیر بنے رہے۔۔۔ کسی دل جلے نے ’’کراچی کو پانی دو۔۔۔!‘‘ کے نعرے میں ’پ‘ کو ’ب‘ کرنے کی شرارت بھی کر ڈالی۔۔۔! ایک طرف گندگی کے ڈھیر ہیں تو دوسری طرف ذرا سی بارش کی ٹِپ ٹِپ ہوئی اور اُدھر ’کے الیکٹرک‘ کے ’فیڈر‘ ’ٹِرپ، ٹِرپ‘ ہونے لگے۔۔۔

اب آپ چارجنگ ختم ہوتے موبائل سے 118 پر ’شکایت‘ کریں۔۔۔ نصیب اچھا ہوا اور لائن مل گئی، تو اب انتظار کے نام پر دیر تلک ’کے الیکٹرک‘ کی ’’کارکردگی‘‘ کے اشتہارات سنیے۔۔۔ وہ بھی اپنے خرچے پر۔۔۔ اور اس کے بعد بھی شکایت سنے جانے کی کوئی ضمانت نہیں۔ آپ اتنی دیر انتظار کرتے رہے، پتا چلا کسی تیکنیکی خرابی کے سبب لائن ہی منقطع ہوگئی اور اب آپ 100، پچاس روپے کا بیلنس اور موبائل کی بیٹری پھونکنے کے بعد صبر شکر کر کے ایک کونے میں پڑ جائیں۔۔۔ کیوں کہ آپ ’شہر نا پرساں‘ کے باسی ہیں!

گھروں میں اندھیرے، گلیوں میں گندگی اور کیچڑ، شاہ راہوں پر پانی، ندی نالوں میں طغیانی اور پھر کرنٹ لگنے کے حادثات میں شہریوں کی جانوں کا ضیاع۔۔۔ ایسے میں اہل اقتدار کی بے حسی ایسی ہو کہ وہ چائے سُڑکتے اور پراٹھے ٹھُستے دکھائی دیں۔۔۔ تو اس سے زیادہ شرم ناک بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ یہی منظر کراچی والوں کو غم وغصے میں مبتلا کر گیا، جب گورنر سندھ عمران اسمعٰیل اور کراچی کا ’اپنا میئر‘ وسیم اختر کو بے وقت چائے اور پراٹھے پر بانچھیں کھِلاتے دیکھا۔۔۔ شہر میں باران رحمت ’زحمت‘ بن چکا ہے اور آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس تو درکنار آپ تو موسم کا لطف لینے بیٹھ گئے۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ جَنتا کے دُکھڑے میں ہی باہر نکلے ہوں، مگر صاحب! یہ چائے پراٹھے پر کہیں فکر بھی تو دکھائی دے جاتی، لوگ مر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ انہیں ’پانی‘ میں چھوڑ کر ’چائے‘ پر کھلکھلائے چلے جا رہے ہیں۔۔۔

کیا ’تبدیلی سرکار‘ کا گورنر بھی بس زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ہے اور شہر کی ’مسلسل نمائندگی‘ کا دَم بھرنے والے ’اپنوں‘ کو برسات میں ایک پراٹھے پر پرائے کر گئے۔۔۔ یا اب کوئی ’جواب دہی‘ نہ ہونے کا احساس انہیں کچھ زیادہ ہی بے پروا کر گیا۔۔۔؟ سچی بات تو یہ ہے کہ 2001ء کے بلدیاتی نظام میں کراچی بہتر ہونے لگا تھا۔۔۔ پہلے جماعت اسلامی اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کے ناظمین نے اس نظام میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن پھر نہیں معلوم اس شہر کو کس کی نظر لگی کہ ایک ’آمر‘ کے بعد تین مختلف جماعتوں نے مرکزی اقتدار پایا، مگر ملک کی معاشی شہ رگ کے لیے یہ جمہوری جماعتیں ایک ’آمر‘ جیسا دل ذرا بھی نہ دکھا سکیں۔۔۔! نتیجتاً شہر بد سے بدترین کی طرف گام زن ہے۔۔۔ اور اب تو انتہا یہ ہے کہ اب یہاں کے حاکم خلق خدا کو مرتا چھوڑ کر ’بے وقت کی چائے‘ پر ہنستے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ !

۔۔۔

روشنی کا سراب۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزادکشمیر

برسات کی بھیگی، بے اعتبار راتوں میں جب ہوا نمی سے اتنی بوجھل ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں سے نکلا ہوا سانس بھی نیلگوں سفید غبار کی صورت فضا میں ٹھیرا ہوا نظر آتا ہے اور سیلن کی مہک سبزے کی خوشبو میں گھل مل کر گھنی سی اکتاہٹ بن جاتی ہے۔۔۔ جیسے جوہڑ کی سطح پر ہلکے ہلکے سانس لیتی کائی ہو، تو ایسی دم سادھ کیفیت میں جو شے طبعیت کی بیزاری کو قدرے راحت میں بدل دیتی ہے وہ سیاہ اندھیری رات میں پھلجھڑیوں کی مانند چمکتے اور جھلملاتے ہوئے جگنو ہیں۔ جیسے ستارے زمین پر آ کر شرارت سے اٹکھلیاں کرتے ہوں یا کسی ماہ رو کی سیاہ زلفوں میں کتری ہوئی افشاں کے ذرے جھلملاتے ہوں۔ ابھی جھاڑی پر ہیں تو ابھی پیڑوں کی شاخوں میں جا چمکے۔ کبھی کسی ڈال پر تو کبھی اس پات پر روشن ہو رہے ہیں۔

شہروں سے تو روشنی کے یہ ننھے استعارے ایک عرصہ ہوا معدوم ہو چکے ہیں کہ کیڑے مار ادویات نے شاید ان کی نسل ہی ختم کر دی، مگر پہاڑوں کے دامن میں اب بھی ان کے لیے پناہ گاہیں اور سازگار ماحول میسر ہے اس لیے برساتیں اب بھی ان کے وجود سے منور ہو جاتی ہیں۔ بچپن میں شدت سے جی چاہتا تھا کہ اس ٹھنڈی آگ کو مٹھی میں لے کر دیکھیں تو آخر یہ جلتی بجھتی کیسے ہے، مگر بدقسمتی سے کوئی جگنو قید کرنا نہ آیا۔۔۔ ہر بار مٹھی خالی ہی ملتی اور جگمگ کرتے ننھے ستارے دست رَس سے ہمیشہ پرے ہی رہے۔ اور ایک جگنو پر ہی کیا منحصر، تتلیاں، بھنورے اور گھاس کے ٹڈے بھی کسی جادو کے زیراثر میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر غائب ہو جاتے تھے۔ ایک بس لیڈی بگ بیٹل کا دم غنمیت تھا، جو میری انگلی کے پورے سے چلتی ہوئی ہتھیلی کا سفر کرتی اور پھر یک دم دو ننھے کالے پر سرخ خول کے نیچے سے برآمد ہوتے اور وہ اڑ جاتی۔ دیر تک اس کی تنکوں سی ٹانگوں کے لمس سے میرے ہاتھ پر گدگدی ہوتی رہتی تھی۔

کل رات ایک جگنو از خود میری برسوں پرانی خواہش کو پورا کرنے میرے ہاتھ پر آ بیٹھا اور میں سانس روکے اس کرمک شب کور کو دیکھنے لگی۔ چھوٹا سا بھورے پروں والا پتنگا جس کے پیٹ کے پچھلے حصے سے سبزی مائل روشنی پھوٹ رہی تھی۔ میں سِحر زدہ سی اسے دیکھا کی۔ جگنو کی لو کبھی مدھم پڑ جاتی اور کبھی تیز ہو جاتی۔

روشنی۔۔۔! جسے سمیٹنے کی چاہ میں مجھ سے اندھیرے بھی کھو گئے ہیں۔ کچھ پل ننھا جگنو میرے ہاتھ پر چمکتا رہا اور پھر اڑ گیا۔ میں نے اس جگہ کو انگلی سے چھوا۔ کچھ بھی تو نہ تھا، مگر جگنو کی روشنی سے جیسے ہتھیلی کا وہ حصہ دہک رہا تھا۔ میں نے بے ساختہ مٹھی بند کر لی اور ایک انگلی سے ذرا سی درز بنا کر اندر جھانکا۔ وہاں بالکل بھی روشنی نہ تھی۔ محض واہمہ تھا۔ اور ہم تو ساری زندگی واہموں میں، روشنی کے سراب میں بھٹکتے یوئے اندھیروں کو تن پر اوڑھ لیتے ییں۔۔۔ روشنی۔۔۔! روشنی۔۔۔!

۔۔۔

Miss Management یاMismanagement
امجدمحمودچشتی، میاں چنوں

کہتے ہیں کہ ہر خاندان کسی نہ کسی ’مِس مینجمنٹ‘ کے بَل بوتے پر چل رہا ہوتا ہے۔ یہ ’مِس مینجمنٹ‘ زیادہ تر ماں، بہن یا بیوی وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ ہمارے سماج میں عورت اپنی، اپنے گھر، اپنے گھر والے، اپنے بچوں اور باقی اہل خانہ کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔ ہر کام یاب اور ہر ناکام شخص کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کردار ضرور شامل ہوتا ہے۔ خاندان اور معاشرہ کے استحکام اور بگاڑ میں عورت کے روّیوں کو اوّلیت حاصل ہے۔ اس لیے کہیں پر یہ iss Management M ہے تو کہیں پر Mismangement بھی ہے۔ تاہم ایک بات مسلم ہے کہ زیادہ ’مِسوں‘ پر مشتمل مینجمنٹ، اکثر ’مس مینجمنٹ‘ کا شکار ہی رہتی ہے۔

متوسط طبقوں میں بیویاں زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے بڑھنے کا جنون رکھتی ہیں۔ جس کے سبب اُن کے شوہر اکثر مقروض رہتے ہیں۔ وہ اپنے میاں کے کپڑوں کی (مع جیب) دھلائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ہائی کلاس یا برگر کلاس بھی موجود ہے۔ جن میں شوہروں کو سماجی و معاشرتی ضرورت کے تحت ’رکھا‘ جاتا ہے۔ ان کی مصروفیات میں سیاسی و سماجی خدمات، تقریبات اور پارلر نمایاں ہوتے ہیں۔ اُن کے شوہر زن مریدی کی معراج پہ متمکن ہوتے ہیں۔ خواتین پہ ذوقِ جمالیات کے ساتھ ساتھ باتونیت کی تہمت بھی لگائی جاتی ہے۔ اس کے لیے دلیل دی جاتی ہے کہ اردو صرَف میں الف سے پہلے آنے والا وائو ساکن ٹھیرتا ہے، مگر خواتین میں آیا ہوا ’’و‘‘ بول اُٹھتا ہے۔ کچھ حضرات اس بات پہ نہال ہیں کہ عورتوں کی اکثریت جنت کے لیے کوالیفائیڈ نہ ہوگی۔ جہاں تک سسرال کا تعلق ہے، تو سسرال میں صرف دو روایتی آلات پائے جاتے ہیں۔ دلہن کی خوبیوں کو ٹیلی سکوپ اور خامیوں کو مائیکرو سکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔

سسرالی نظریں دلہن کے آداب اور سُگھڑ پن کی متلاشی رہتی ہیں، مگر اپنی ادائوں پہ غور کا رواج نہیں۔ چند برس بعد دلہن ساس بن کر تاریخ دُہراتی ہے۔ کچھ لوگ ہر روپ میں عورت کے کردار کو سراہتے ہیں کہ جب انسان بچہ ہوتا ہے تو علی الصبح ماں جگاتی ہے، اُٹھو بیٹا اسکول جانا ہے۔ ایسے ہی بہن بھائی کو جگاتی ہے۔ شادی ہوئی تو بیوی نے کہا، اُٹھیں جی! دفتر کا وقت ہونے والا ہے۔ جب باپ بنا تو ننھی بیٹی نے جگایا، اُٹھو بابا مجھے اسکول نہیں چھوڑنا کیا، اور جب بیٹا بیاہ دیا تو سویرے بہو کی آواز کانوں میں گونجتی ہے پاپا اُٹھیے، ناشتے کا وقت ہوا ہے اور دوا بھی لینا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ پیٹے جائیداد اور بیٹیاں دکھ بانٹتی ہیں۔

۔۔۔

مبارک ہو۔۔۔!
مرسلہ:سارہ شاداب،لانڈھی،کراچی
میرا دیا ہوا ’فرینڈز فور ایور‘ کا کارڈ دیکھتے ہوئے تم نے کہا تھا کہ کچھ بھی فور ایور نہیں ہوتا۔ ’فور ایور کی ساری خواہشیں فضول اور فارغ ہوتی ہیں۔۔۔

اور یہ تم نے اس دن کیا کہا تھا کہ ’ہم زیادہ دور اور دیر نہیں چل سکتے۔۔۔‘‘

یہ جوتشیوں کا جوگ۔۔۔ تم میں جوانی میں جگا تھا یا تم۔۔۔ پیدایشی ایسی تھیں، اتنا ’’سیانا پن‘‘ کہاں سے سیکھا تم نے۔

جب کچھ پیش گوئی ہی کرنا ہو تو لوگ اچھا کیوں نہیں کرتے؟ برے کا بھار کیوں اٹھاتے ہیں؟

سن لو پھر۔۔۔!
تمہاری ’پیش گوئی‘ ۔۔۔ سیان پن۔۔۔ مبارک ہو!
(ابنارمل کی ڈائری، از صابر چوہدری سے اقتباس)

۔۔۔

محبت میں ’’جلاوطنی‘‘
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
’’ٹھیرو! میں تمہیں اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گی۔۔۔!‘‘

سُمیتہ نے اُس کا ہاتھ زور سے کھینچ کر دوبارہ کرسی پر بٹھا دیا۔

وہ سُمیتہ کے اس رویے پر دم بخود رہ گیا، لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ اس کی بے وقوفانہ حرکت پر سٹپٹا گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور حماقت کرتی، وہ بولا ’’کیا حرکت ہے یہ۔۔۔؟‘‘
سُمیتہ حقارت آمیز لہجے میں بولنے لگی ’’تم میری بات کا جواب دو گے یا نہیں؟‘‘
اس وقت اس کی آنکھوں میں عجیب سی سراسیمگی تھی، شاید اس ذہنی کیفیت خراب ہو چکی تھی، اس کے حواس بھی قابو میں نہیں رہے۔ اُسے لگا اگر وہ چلا گیا، تو وہ بعد میں خود اپنے ساتھ کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے۔ اس نے دبی آواز میں کہا ’’پوچھو تم کیا پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘
وہ بولی ’’بتائو! تم نے میری نفرت کے باوجود مجھ سے محبت کیوں کی؟ جب کہ تمہیں اس بات کا علم تھا ہمارا ایک ہونا بالکل ناممکن ہے؟‘‘
وہ بولا ’’اگر تمہیں سچ جاننے کا اتنا اصرار ہے تو پھر سنو۔۔۔
تمہیں اپنی سال گرہ یاد ہے؟ 31 دسمبر، سرد ترین شام۔۔۔
یخ بستہ ہوائوں میں جب میں دو دریا کے ایک ریستوراں میں تمہاری ہی فرمائش پر بنائے ہوئے خصوصی کیک کے ساتھ تمہارا پورے دو گھنٹے تک انتظار کرتا رہا تھا۔۔۔ تم نے آنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور آئی نہیں تھیں۔

سُمیتہ بولی ’’ہاں! میں بھول گئی تھی اور۔۔۔‘‘
’’سُمیتہ! ہم روزانہ درجنوں لوگوں کو دیکھتے اور ملتے ہیں۔۔۔‘‘اُس نے سُمیتہ کی بات کاٹ دی، پھر بولا:
’’بہت سے لوگ ہمیں اچھے لگتے ہیں، ہمارے دل کو چھونے بھی لگتے ہیں، لیکن سُمیتہ ہم ان سے محبت تو نہیں کر سکتے۔۔۔ شاید دنیا میں ہر جذبے، ہر رشتے کا متبادل موجود ہے، لیکن محبت کا نہیں، کچھ لوگوں نے محبت کو وقتی غم بھی قرار دیا، لیکن وہ جو ہجر میں عالم بے خودی میں چلے جاتے ہیں اور کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔۔۔
رہا تمہاری نفرت کے جواب میں میری محبت کا سوال، تو اس کا جواب تم اپنے اندر تلاش کرو۔۔۔‘‘ وہ چُپ ہوگیا۔
’’اور وہ کیک جس پر تم نے اپنے ساتھ میرا نام لکھوایا تھا۔۔۔؟ ‘‘ سُمیتہ نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
اُس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا ’’وہ میں نے ریستوراں سے کچھ دور بیٹھے ہوئے جُھگی نشینوں میں بانٹ دیا تھا، تمہارے لیے یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور مجھ جیسا ناکام شخص تمہیں دوبارہ کبھی نہ ملے۔

سُمیتہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ملتجی لہجے میں بولی’’ایک بار مان جائو!‘‘
وہ بولا ’’محبت سے ٹھکرایا ہوا انسان جلاوطن شہری ہوتا ہے، جس کی اپنے وطن کی ’شہریت‘ منسوخ ہو چکی ہوتی ہے، اور پھر وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے… جس کی زندگی اپنی ہوتی ہیں نہ مرضی اور شاید محبت بھی نہیں۔ اب میں وہ نہیں رہا، جس سے تم نے نفرت کی تھی۔۔۔
بہت دیر ہو چکی، اب میں کسی اور کے رحم و کرم پر ہوں۔۔۔ اس لیے مجھے اب تم میرے حال پر چھوڑ دو!‘‘

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان کی کہانی۔۔۔

$
0
0

3 جون 1947 کو جب مشترکہ ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کا علان کیا تو،اس اعلان سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ 14 اگست 1947 ء کو رمضان المبارک کی 27 ویں تاریخ ہو گی،جس دن قرآن پاک کا نزول حضرت محمدﷺ پر ہوا اور اسی روز اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم کتاب مکمل ہوئی،جب لارڈ ماونٹ بیٹن نے تاریخ کا اعلان کردیا تو ہندو نجومیوں اور جوشتیوں نے فوراً اس تاریخ کے اعتبار سے زائچے بنائے تو پھر پورے ہندوستان میں ایک شور مچ گیاکہ اگر اس روز بھارت آزاد ہوا،تو اس کا مستقبل نہایت تاریک اور المناک ہو گا اس لیے اس کی آزادی کی تاریخ تبدیل کی جائے جب کہ مسلمانوں کے لیے 27 زمضان المبارک سے بہتر اور کونسی تاریخ ہو سکتی تھی یوں مسلمان اس بات پر ڈٹ گئے کہ جو تاریخ لارڈ ماونٹ بیٹن نے پہلے اعلان کر دی ہے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی آزادی اِسی روز ہو ، دوسری جانب پنڈت جواہر لال نہرو نے ہندوں کی طرف سے لارڈ ماونٹ بیٹن سے درخواست کی کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ ایک روز آگے کردی جائے یوں پاکستان کی آزادی کی تاریخ چودہ اگست اور بھارت کی آزادی کی تاریخ پندرہ اگست طے ہوئی، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان واقعی ایک نئے ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا ۔

انگریزوں کے دور تک مشترکہ ہندوستان میں 540 چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں ۔درجہ بندی کے اعتبار سے کچھ ریاستوں کی اپنی ،اپنی کرنسی بھی تھی،پھر 1935 ء کے قانون ہند کے مطابق اُس وقت ہندوستان کی مرکزی حکومت کے ساتھ گیا رہ صوبے اور بلو چستان سمیت کچھ علاقے تھے جہاں خصوصی قوانین کے تحت اِن علاقے پر ایجنٹ ٹو دی گورنرجنرل کے ذریعے مرکزی حکومت کی طرف سے وضح کردہ خاص قوانین کے ذریعے حکومت کی جاتی تھی ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انگریزوں نے ہند وستان میں سب سے زیاد ہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘کے اصول کو اپنایا۔

مقامی سطح پر ہندو انگریزوں کی آمد سے قبل صدیوں سے مسلمانوں کی سلطنت کے تحت زندگی گذار رہے تھے ،اس لیے اُنہیں انگریزوں کی آمد کے بعد یہ نظر آنے لگا کہ وہ اِن کی حمایت اور خوشنودی سے نہ صرف مسلمانوں کے اثاثوں ،جائیدادوں اور جاہ و منصب پر قابض ہو جائیں گے بلکہ انگریز کے ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد وہ پورے ہند وستان کے مالک بن جائینگے۔ اس پوری صورتحال کو دنیا کے بڑے دانشوروں کے ساتھ 1930 ء سے پہلے سے علامہ اقبال محسوس کرچکے تھے۔بعد میں آنے والی قیادتوں کے برعکس قائد اعظم غیر معمولی دور اندیشی اور قوت فیصلہ رکھتے تھے۔ جنہوں نے جنگ کے ذریعے آدھا کشمیر آزادہ کروالیا، اور اگر قائد اعظم بیمار نہ ہوتے تو وہ زیادہ سے زیادہ اقوام متحدہ کی رائے شماری سے معلق قرادادوں پر عملدر آمد کے لیے ایک سال کا انتظار کرتے ،اور پھر فیصلہ قوت ہی سے ہو تا ۔ بعد میں آنے والوں کی غلط پالیسیوں اور کوتاہ اندیشی کے باعث آج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھی ختم کردی گئی ہے۔

بھارت نے آزادی کے بعد اس نئی اسلامی مملکت کو ناکام کرنے کی تمام تر کوششیں کی ،آزادی کے دوران ریڈ کلفٹ ایوارڈ کے ذیعے  مشرقی پنجاب  میں ضلع گورداسپور، فیروزپور ،اور زیرہ کے مسلم اکثریتی علاقوں کو بددیانتی کے ذریعے بھار ت میں شامل کیا ، آزادی کے فوراً بعد پاکستان کا نہری پا نی روک کر پاکستانی علاقوں کو بنجر کرنے کی کوشش کی ۔

مشترکہ ہندوستان کے مرکزی بنک میں چارارب روپے تھے جن میں سے پاکستان حصہ ایک ارب روپے بنتا تھا جو روک لئے گئے اور پھر مشکل سے 20 کروڑ روپے دیئے ،فوجی ساز و سامان کی تقسیم میں بد دیانتی اور تاخیری حربے استعمال کئے ،پھر سب سے اہم یہ پاکستان ایک نیا ملک تھا یعنی بھارت جب تقسیم ہوا توا،س کا دارالحکومت دہلی تھا اور تمام مرکزی محکموں ،اور اداروں کے ہیڈ کورٹر ریکارڈ سب بھارتی علاقوں میں تھا ،یہاں آزادی کے وقت آج کے پاکستان سے 45 لاکھ ہندو سکھ بھارت ہجرت کر گئے تھے اور اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے تھے،لیکن اُس وقت چونکہ سرکاری ملازتوں اور اعلیٰ سطح پر یا ایڈمنسٹریشن میں زیادہ تعداد میں ہندو تھے اس لیے خصوصاً آج کے پاکستان سے اِن ہندو سرکاری افسران اور تجربہ کار ملازمین کے بھارت چلے جانے اور یہاں پاکستان میں اِن ادروں اور محکموں سے متعلق ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات تھیں۔

مثلاً اگر ریلوے کے محکمے ہی کو لے لیں تو 90 فیصد افسران کے علاوہ اسٹیشن ماسٹر ،گارڈ،ڈرائیور، اور دیگر ٹیکنکل ملازمین ہند و تھے جو بھارت جا چکے تھے۔ پاکستان میں ریلوے انجن بوگیاں ،ویگنیں تو موجود تھیں مگر اس کا ریکارڈ مرکزی بھارت میں تھا اور یہاں مقامی طور پر جن کو یہ معلومات تھیںاُن ہندو ں کے پاس تھیں جوبھارت ہجرت کرگئے تھے اس پر لیاقت علی خان سے قائد اعظم نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہر وکو کہلوایا کہ پاکستانی علاقے سے متعلق تمام محکمانہ ریکارڈ پاکستان کو بحفاظت اور فوراً بھیجنے کے انتظامات کئے جائیں اور قائد اعظم نے ہندوستان کے تجربہ کار مسلمان سرکاری   افسران اور ملازمین سے اپیل کی کہ وہ اس نازک وقت پر پاکستان آکر اس نئے اسلامی ملک کی فوری تعمیر میں حصہ لیں اس پر نہرو نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور ایک اسپیشل ٹرین کے ذریعے پاکستانی علاقوں سے متعلق محکموں اور اداروں کا ریکارڈ اور وہ مسلمان تعلیم یافتہ، تجربہ کار افسران اور ملازمین جنہوں نے قائد اعظم کی اپیل پر لبیک کہا تھا اِن کو اس ٹرین سورا کر کے دہلی سے لاہور کے لیے روانہ کیا اور پھر سازش کے تحت مشرقی پنجاب میں اس ٹرین پر ہندو اور سکھ بلوائیوں سے حملہ کروا کر تمام تجربہ کار تعلیم یافتہ مسلمان سرکاری فسران اورملازمین کو قتل کردیا گیا اور پوری ٹرین کو ریکارڈ سمیت آگ لگا کر جلا دیا گیا۔

لیکن یہ عظیم حقیقت ہے کہ اُس وقت اگرچہ ملک نیا تھا یہاں ہر محکمے کے نئے ہیڈکواٹر بنائے گئے ،تمام معلومات کو جمع کرکے ریکارڈ ترتیب دیا ،پاکستان کے پہلے قومی بجٹ مالی سال 1948-49 کا کل حجم89 کروڑ 57 لاکھ تھا جس کا خسارہ 10 کروڑ تھا ،لیکن پھر دوسرے مالی سال 1949-50 کا بجٹ خسارے کے بجائے بچت کا بجٹ تھا جس کا ہجم ایک ارب 17 کروڑ تھا اور 6 لاکھ روپے کی بچت تھی اور دوایک بجٹوں کو چھوڑ کر قومی بجٹ سازی کا یہ رحجان مالی سال 1972-73 تک جاری رہا ۔

1990 ء کی دہائی سے ہم بحیثیت قوم کمزور ہونے لگے البتہ 1998 ء میں 28 مئی وہ تاریخی دن تھا جب ہم نے بھارت کے مقابلے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کے بعد اگر ہماری سلامتی ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہی ایٹمی ہتھیار ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہم پر اندرونی اور بیرونی دشمن کچھ دوسرے اندز سے حملے آور ہوئے اور اِن حملوں میں ہم بحیثیت قوم وملک متواتر نقصان کا شکار ہوئے تو اس کی بڑی وجوہات یہ بھی رہیں کہ ہمارے اعلیٰ طبقے میں درد دل بھی نہیں رہا تھا اور فہم و دانش کی بھی کمی تھی اس لیے آج صورتحال یہاں تک پہنچی کہ قومی بجٹ مالی سال 2019-20 ء کا کل  ہجم 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ ہے اور بجٹ خسارہ3136 ارب روپے ہے آج ڈالر کی قیمت 160 روپے ہے،جو بیرونی قرض 1955 ء میں صرف 12 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھے وہ2018 ء تک95 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اور اس کے بعد تقربیا آٹھ ارب ڈالر اِن پرانے قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے دیئے گئے ہیں،ادائیگی کی یہ رقم بھی قرض ہی لی گئی ہے،اس کے ساتھ اندرونی قرضے جو 1972-73 ء کے مالی سال تک نہ ہونے کے برابر تھے 2018 ء تک اِن کا مجموعی حجم تیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا اوراس کے بعد اس سال اس میں بھی اضافہ ہی ہوا ہے۔

پاکستان کی پہلی مردم شماری1951 ء میں ہو ئی جب پاکستان سٹیزن ایکٹ نافذ کر کے بھارت سے آنے والے مہاجرین کا سلسلہ روک دیا گیا، اُس وقت پا کستان کی آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ اور آج یہ آبادی2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 22 کروڑ بتائی جاتی ہے 1951 ء میں شرح خواندگی 16 فیصد تھی یوں کل آبادی میں اَن پڑھ افراد کی تعداد تقربیاً54 لاکھ تھی آج ملک میں شرح خوندگی 58 فیصد بتائی جاتی ہے اس تنا سب سے ملک میں اَن پڑھ افراد کی مجموعی تعداد 9 کروڑ ہے ،آزادی کے وقت منشیات کے عادی افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی آج ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 95 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور اس تعداد میں 90% نوجوان ہیں۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قدرت کی مہر بانیوں اور وسائل کے ساتھ ہمار ا ملک مجموعی طور پر دنیا کے ٹاپ 20 ٹونٹی ممالک میں شامل ہے مگر اقوام متحد ہ کے 193 رکن ممالک میں تقریباً جتنے بھی مثبت اعشاریے ہیں ہم اِن کے لحاظ سے دنیا میں 100 نمبر سے نیچے ہیں۔

یہاں یہ تلخ حقیت بالکل واضح نظر آتی ہے کہ 1947 ء سے پہلے ہم دو قومی نظریے کے تحت ایک قوم بلکہ ایک مضبوط قوم تھے جس نے ایک نئے ملک کو صرف ایک سال میں معاشی ،اقتصادی، دفاعی اور عسکری طور پر مضبوط بنا دیا تھا ، لیکن آج ملک تو ہے مگر ہم بطور قوم بکھر نے لگے اور پھر 1990 ء میں سرد جنگ کے بعد جب دنیا بھر کے ممالک دنیا کے نئے منظر نامے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے ہم بد قسمتی سے بد ترین کرپشن ،تعصب،فرقہ ورایت کا شکار تھے، لیکن ایک اچھی صور ت یہ ہے کہ اب ایک بار پھر پاکستانی قوم میں جذبہ حب الوطنی بڑی قوت سے بیدار ہوا ہے اور یہ جذبہ نوجوانوں میں بڑی شدت سے اُبھارا ہے۔ یہ صورتحال بقول فیض احمد فیض یوں ہے۔

روشن کہیں بہار کے امکاں ہو ئے تو ہیں

گلشن میں چاک چند گریباں ہو ئے تو ہیں

اِن میں لہو  جلا  ہے ہمار ا  کہ جان و  دل

محفل میں کچھ  چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

یوں پاکستان کی تاریخ کا جائز لیں تو آج جب ہم قیام پاکستان اور آزادی کی72 سالگر منارہے ہیں تو اس 72 سالہ تاریخ کو ہم تین نسلوں یا پشتوں اور تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں پہلے وہ نسل جو انگریزی راج  کے ہند وستان میں پیدا ہوئی لیکن اپنے اسلاف سے جدوجہدِآزادی کی تحریک اور جذبہ لے کر آگئے بڑھی اور پاکستان کو حاصل کر کے دکھایا، اِن میں سب سے زیادہ نمایاں اور درخشاں نام قائد اعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال اور شہید ِ ملت لیاقت علی خان کے ہیں کے پھر ناموں کی ایک فہرست جو 1990 تک آتی ہے ان میں سے چند لیڈر مختلف اندازسے حکمران ہو ئے بعض جمہوری کہلائے اور بعض آمر مگر اِن میں سے بہت سوں سے بہت سی غلطیاں اور بعض سے فاش غلطیاں ہوئیں۔

کچھ پر کسی قدرے کرپشن کے الزامات بھی آئے مگر 1990 ء کے بعد سے جو قیادت برسراقتدار آئی وہ تقربیاً تمام کی تمام نا اہل ثابت ہوئی یوں صرف 29 برسوں میں پاکستان بحیثیت ملک اور بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں 72 سالہ تاریخ کے دوسرے یا درمیانے دور کی لیڈر شپ نے بلکہ ہر شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی اکثریت نے شدید نقصان پہنچا یا۔ یہ دوسری نسل جو قیام پاکستان کے بعد پچاس کی دہائی تک پیدا ہوئی اور اب اگر جو لوگ ان میں زندہ ہیں اُن کی عمر اب 60 سے 72 سال تک ہو چکی ہے اِن کی اکثریت نے ظلم یہ کیا ہے ،کہ ہماری تہذیبی اخلاقی اقدار کو پامال کردیا، لیکن اتنے برے حالات کے باجود اب نوجوان نسل نئے جوش و جذبے سے آگے آئی ہے ۔

4 اگست کو جب یہ سطور اختتام کو پہنچ رہی تھیں تو میں نوجوانوں کی جانب سے یوم آزادی پر منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد واپس آیا تھا اور اُن نوجوانوں کے جو احساسات وجذبات تھے ،مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہماری آزادی کی پہلی لیڈر شپ کی پاکیزہ روحیں ،اِن نوجوانوں کے جسم وجاں میں حلول کر گئی ہوں، اور واقعی یہ درست ہے۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا  نم  ہو  تو یہ مٹی بڑی  زر خیز  ہے  ساقی

 

The post پاکستان کی کہانی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء کی تقریر-میثاقِ مدینہ کا پَرتو

$
0
0

میثاقِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا ہی اہم معاہدہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ مصری مورخ محمد حسنین ہیکل اپنی تالیف ’’حیاتِ محمدؐ  ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رُو سے جنابِ محمد (صلوٰت اللہ تعالیٰ علیہ) نے آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل معاشرۂ انسانی میں ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے عقیدہ میں آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی…..‘‘ (اردو ترجمہ: ابویحییٰ امام خاں۔ بار سوم 1987ء۔ صفحہ:270 – پبلشر:ادارہ ثقافتِ اسلامیہ 2 کلب روڈ لاہور)۔

پاکستان میں ہر شخص کو اپنے اپنے عقیدہ میں حقِ آزادی، انسانی زندگی کی حرمت اور اموال وغیرہ کے تحفظ کی ضمانت قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واشگاف الفاظ میں دے دی تھی۔ اور ان کی یہ تقریر میثاقِ مدینہ پر ہی استوار ہے۔ مثلاً اس عالی شان میثاق کی مختلف شقوں میں درج ہے۔ شق نمبر 15:تمام مسلمان اس معاہدے پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کر سکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدے کا اقرار کرلیا، وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے۔

18۔ اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہو گا۔

19۔ قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے۔

32۔ اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہو گا۔

میثاق مدینہ کی ان شقوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظمؒ  کی11 اگست 1947ء کی اس تقریر کے اس حصے کی طرف آئیں تو ہر چیز واضح ہو جاتی ہے:’’…..تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو، چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اول بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا، دوئم بھی اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی…..حکومت پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں…..ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں(پُرجوش تالیاں)۔ ہمیں اس اصول کو اپنا مطمح نظر بنا لینا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے، کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے کہ وہ سب ایک قوم کے افراد ہو جائیں گے‘‘۔

یہی میثاقِ مدینہ کہتا ہے’’…..اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا، لیکن مشترکہ مقاصدمیں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے‘‘۔ اور یہ بھی کہ’’اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہوگا‘‘۔

میثاقِ مدینہ کے متعلق مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی اپنی تالیف ’’پیغمبر ِ انسانیتؐ  ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

’’یہ بڑا اہم واقعہ اس لئے ہے کہ:

1۔ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑنے کی نشان دہی اسی معاہدے سے ہوتی ہے۔

2۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی اساس ہے۔

3۔ اس معاہدے میں بڑی اعلیٰ اقدار ہیں…..دنیا کو پہلی بار درس ملا کہ احترامِ انسانیت کی بنیاد اور اعلیٰ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کس طرح تعاون کیا جاتا ہے اور دوسری قوموں کو مذہب و ضمیر کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی جاتی ہے۔

4۔ فراخ دلی اور رواداری کے ساتھ اس معاہدے میں یہ حقیقت بھی مستور ہے کہ دین جبر سے نہیں پھیلایا جاتا اور دوسرے انسانوں سے مذہب کی بنیاد پر اتنی نفرت و عصبیت نہ برتنی چاہئے کہ اعلیٰ اقدار میں تعاون نہ ہو سکے.

پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کئی مذاہب کے پیروکار تھے۔ انہیں مذہب و ضمیر کی فراخدلانہ آزادی، رواداری اور نفرت و عصبیت سے پاک ماحول چاہئے تھا۔ جس وقت میثاقِ مدینہ وجود میں آیا، اسی سے ملتے جلتے حالات تھے۔ تو قائداعظمؒ نے ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے میثاقِ مدینہ پر اپنی تقریر استوار کی۔ یہ پہلا موقع نہ تھا۔ جب بھی کوئی اہم مرحلہ اور فیصلہ کن صورت حال پیدا ہوئی، تحقیق بتاتی ہے، قائداعظمؒنے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا۔

مثلاً:- تقسیمِ ہند کا جو پلان دیا گیا اس میں وہ پاکستان نہیں تھا جس کے لئے برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں  سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ دینے والے کٹا پھٹا پاکستان دینے پر ہی مصر تھے۔ اس کے لئے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی منظوری ضروری تھی۔ بڑی لے دے ہوئی۔ جب قائداعظمؒ نے آخر میں اپنی تقریر میںصلح حدیبیہ کو نشانِ راہ قرار دیا تو کونسل نے اس کی منظوری دے دی۔ پاکستان وجود میں آگیا تو قائداعظمؒ نے بانی پاکستان، فادر آف دی نیشن اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو جو میگنا کارٹا دیا وہ تاریخی میثاقِ مدینہ کا پر تو ہے۔

یہ اسی سوچ، رویے اور پروگرام کا نتیجہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جب سرکاری ملازمین سے پاکستان یا بھارت میں خدمات انجام دینے کا آپشن مانگا گیا تو کئی مسیحی افسران نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دی۔ ان میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس اے آر کارنیلئس بھی   تھے:بہ قول ان کے:

’’میں ملازم تھا برٹش گورنمنٹ کا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کو آپٹ کریں گے یاانڈیا کو۔ میرا سارا خاندان رہنے والا تھا شملہ کا۔ مجھے سب نے کہا:آپ کے سارے رشتہ دار وہاں ہیں۔ آپ یہاں رہ کر کیا کریں گے۔ میں نے انہیں کہا:دیکھیں، جو ہسٹری ہے، صحیح ہسٹری اسلام کی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ مجھے بڑی امید ہے، اگر میں رہا پاکستان میں تومجھے کسی نے بھی ٹچ نہیں کرنا۔ میرا جو حق ہے وہ مجھے ملے گا۔ میں نے (فارم) بھر دیا کہ I opt for Pakistan۔ اور دیکھو، قدرت کا نظام، میں اسی ملک میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنا۔ میرا decision(فیصلہ)  جو تھا، صحیح تھا۔‘‘(حوالہ:دی گریٹ لیڈر۔ جلد سوم)۔

قائداعظمؒ نے اپنے ایک قریبی ساتھی، جن کا تفصیلی انٹرویو قائداعظمؒ پر اردو میں لکھی میری کتاب’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی تیسری جلد میں آرہا ہے، سے قیامِ پاکستان کے موقع پر کہا تھا:’’میں چاہتا ہوں کہ آپ احادیث،خاص طور پر میثاقِ مدینہ پڑھیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ رسولِ پاکؐ نے جب مملکت مدینہ قائم کی تو مسائل کو کس طرح حل کیا‘‘۔

The post قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ء کی تقریر-میثاقِ مدینہ کا پَرتو appeared first on ایکسپریس اردو.

مذہباً ہندو، مگر ریت رواج مسلمانوں کے

$
0
0

 جپسی یا خانہ بدوش ہر ملک میں پائے جاتے ہیں ان کا اپنا کلچر ہے اور اپنی روایات، جن پر یہ صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے کاربند ہیں۔ کیلاش کی کافر آبادی کی طرح مخصوص رہن سہن اور انداز انہیں دیگر سے ممتاز، منفرد اور ممیز بھی بناتا ہے ۔

پاکستان کے دیگر خانہ بدوشوں کی طرح سندھ میں کوچڑے بھی، جوگی ، شکاری، کبوترے، واگھڑے ، راوڑے، گوارے، باگڑی، اوڈھ اور دیگر خانہ بدوش قافلوں کی صورت سپرہائی وے، انڈس ہائی وے، قومی شاہراہ اور رابطہ سڑکوں پر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ گدھوں پر ان کا سامانِ سفر لدا ہوتا ہے لیکن اب عہدِجدید کی بعض ایجادات سے بھی ان کی نئی نسل استفادہ کرنے لگی ہے۔ سال رواں کی ابتدا میں ٹنڈو آدم، شہداد پور روڈ کی ایک خانہ بدوش بستی کی جھونپڑی پر شمسی توانائی سے استفادے کے لیے لگی سولر پلیٹیں دیکھ کر تعجب ہوا تھا لیکن ہمارے صحافی دوست الیاس انجم کا کہنا تھا کہ اب ان جھونپڑیوں میں ٹی وی، ریڈیو، ٹچ موبائل اور کئی دیگر الیکٹرانک مصنوعات کا استعمال دیکھا جاسکتا ہے۔

یورپ اور افریقہ میں پائے جانے والے خانہ بدوش قبائل خود کو سنتی یا زنگلی کہلواتے ہیں۔ ایک مضمون میں امان اﷲ پنہور کا دعویٰ تھا کہ یہ ان سندھی خانہ بدوش قبائلیوں کی نسل ہیں جنہیں صدیوں قبل شمالی ہند کے راجا شنگل نے ایران کے شاہ بہرام کے جشن میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر وہاں بھیجا گیا تھا۔ جشن میں شرکت کے بعد انہیں وہاں آباد کاری کے لیے اراضی، مال و اسباب اور طعام و قیام کی پیش کش کی گئی لیکن خانہ بدوش ہونے کے ناتے انہوں نے یہ سب کچھ تج کرکے یورپ اور افریقہ کی سمت کوچ کیا۔

ایک نئی دنیا دریافت کرلی اسی مضمون میں درج تھا کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ خانہ بدوش سکندراعظم کے ساتھ آئے تھے اور آج بھی وہ بہت سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جو سندھی یا ہندی کا مفہوم رکھتے ہیں اور کئی ایک رسم و رواج بھی مقامی خانہ بدوشوں سے ملتے جلتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے جپسی خود کو زنگلی یا روسی و سنتی بتاتے ہیں جس پر مضمون نگار کا کہنا تھا کہ سنتی دراصل سندھی کی بگڑی ہوئی شکل ہے تو ہمارے ایک دوست کا استدلال تھا زنگلی بھی جانگلی یا جنگلی کو کہا جاتا ہوگا۔

سندھ کے خانہ بدوش قبائل میں سے ایک جوگی بھی ہے۔ یہ قبیلہ سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں لے کر نگر نگر گھومنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سانپ کے ڈسنے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی فروخت کرنے اور مرلی یا بین بجانے میں کمال رکھتے ہیں۔ حیدرآباد کے سنیئر صحافی اسحٰق مگریو کہتے ہیں کہ جوگی بڑے آرٹ کے مالک ہیں۔ بین بجانا آسان کام نہیں گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ سانپ اس پر مست ہوکر جھومتا ہے تو یہ روزی روٹی کماتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک یہ تماشا سہی مگر ان کے کمالات بھی خاص ہیں یہ جوگی اپنے مُردوں کو دیگر ہندوؤں کی طرح جلاتے نہیں ہیں بلکہ جہاں انتقال ہو وہیں سپرد خاک کردیتے ہیں۔ ویسے ان کا قبرستان عمر کوٹ میں ہے جہاں جوگی برادری کی میتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ فراعین مصر کی طرح تدفین کے وقت میت کے ساتھ کھانا، تمباکو کے پتوں سے بنی بیڑیاں بھی رکھتے ہیں۔ نیز تدفین سے قبل مُردے کو غسل بھی دیا جاتا ہے۔ فیض محمد شیدی کی مطبوعہ یادداشتوں کے مطابق دورانِ غسل میت کے منہ میں تانبے کا ٹکڑا بھی رکھا جاتا ہے۔

کھیموں جوگی کی تدفین میں شریک فیض محمد نے لکھا تھا کہ میت کو گیروے رنگ کا کفن بھی پہنایا گیا تھا اور رام رام گورکھ ناتھ کی صداؤں میں کھیموں کو وہاں موجود جوگیوں نے لحد میں اتارا تھا اور اسی طرح دیگر مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں جوگی اپنے جنتر منتر سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں دیگر لوگوں کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ یہ پراسراریت ہی انہیں دیگر سے علیحدہ زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔

خانہ بدوشوں میں ایک برادری شکاری کے طور پر معروف ہے۔ یہ بھی ہندو ہیں لیکن ان کی بعض ریتیں، رسمیں مسلمانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ بہت پہلے ایک کچہری میں ایسی کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ بعد میں ان کی تصدیق سنیئر قلم کار خالد کنبھار کے ایک مضمون سے بھی ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہندو ہونے کے باوجود شکاری نہ مندر جاتے ہیں نہ کسی دیوی دیوتا کا بت بناکر اس کی پرستش کرتے ہیں بلکہ ان کی شادی کا بندھن اسلامی طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ البتہ دل چسپ بات یہ ہے کہ اگر دولہا ضد پر آجائے تو لڑکی والوں کو اچھی نسل کا شکاری کتا جہیز میں دینا پڑجاتا ہے۔ مرجانے پر نماز جنازہ نہیں ہوتی لیکن تدفین ہوتی ہے اور دعا کا اہتمام بھی۔ خالد کنبھر کے بقول یہ خود کو بھیل قرار دیتے ہیں لیکن کتوں کی موجودگی اور شکار کے شغف کے باعث انہیں شکاری پکارا جاتا ہے اور اب یہ اسی نام سے معروف ہیں۔

سنا تو یہ بھی ہے کہ شکاری برادری کے افراد میں سے کچھ رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے جو باقاعدہ مسلمان ہوئے ہیں وہ شیخ کہلاتے ہیں۔ کہتے ہیں شکاریوں کا ٹھٹھہ میں شاہ عقیق کی درگاہ سے عقیدت کا رشتہ ہے۔ یہ اپنے نومولود بچوں کو کم عمری ہی میں وہاں لے جاتے ہیں۔ شکاری کی وجہ تسمیہ بڑے زمینداروں کی دوران شکار مدد کرنا ہے۔ بالخصوص خنزیر کے شکار میں ان کا تجربہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتوں کی مدد سے ہانکا لگاکر اسے پناہ گاہ سے نکالتے ہیں۔ کتے اور خنزیر کی لڑائی کے دوران شکاری کلہاڑی سے وار کرکے اپنے ہدف کو مار ڈالتا ہے۔ یہ جان جوکھوں کا معاملہ ہوتا ہے کہ ذرا سی لغزش پر وہ خود نشانہ بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں شکاری قبیلہ دادی نوراں سے محبت کرتے ہیں جس کی قبر تھرپارکر میں درگاہ راج سین کے پاس ہے اور یہاں شکاریوں کی آمدورفت دیکھی جاسکتی ہے۔

میلے ٹھیلے سندھ کی ثقافت کا اہم عنصر ہیں۔ زیریں سندھ میں جیسے مقامی باشندے لاڑ کہہ کر پکارتے ہیں سائیں سمن سرکار سمیت متعدد بزرگوں کے میلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ ماضی میں ذوالفقار مرزا اور علی بخش عرف پپو شاہ ضلع بدین کی سیاست میں ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ ان دنوں اوّل الذکر پی پی میں اور ثانی الذکر مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ دونوں کی بیویاں بھی سیاست کا بڑا نام ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی اہلیہ فہمیدہ مرزا اس وقت بھی ایم این اے اور وفاقی وزیر ہیں اور قومی اسمبلی کی اسپیکر رہی ہیں جب کہ پپو شاہ کی اہلیہ یاسمین شاہ نے سینیٹر کا انتخاب جیتا تھا۔ ان کے شوہر درگاہ سمن سرکار کے سجادہ نشین ہیں۔ سمن سرکار کے میلے سمیت گردونواح کے تمام میلوں میں گواری قبیلے کی خواتین اسٹال یا دکانیں لگاکر کاروبار کرتی ہیں۔

یہ بھی خانہ بدوش ہیں۔ گواری خود کو راجپوت النسل بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شمال سندھ میں ہمیں ٹھکر کہا جاتا ہے۔ یہ بھیک مانگنے کو عیب گردانتے ہیں۔ اس قبیلے کے متعلق ایک تحریر میں ذاکر لغاری نے بتایا تھا کہ نئی نسل اب اپنی خواتین کو کاروبار کرتے نہیں دیکھنا چاہتی، اس لیے اب یہ رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ گواری قبیلہ صرف زیریں سندھ ہی میں نہیں بالائی اور وسطی سندھ کے متعدد شہروں میں بکثرت آباد ہے اور اسی پیشے سے منسلک ہے۔

راوڑا قبیلہ بھی خانہ بدوش کمیونٹی کا حصہ ہے۔ یہ بھی ہندو ہیں لیکن ہندوانہ رسم و رواج سے کچھ مختلف بھی۔ ہندومت ایک وقت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں دیتا لیکن راوڑے مردوں کی کئی کئی بیویاں ہوتی ہیں جس کے سبب کثیرالعیال ہوتے ہیں۔ خود سڑکوں پر پتھر کوٹتے ہیں اور ان کے بچے عورتیں بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ہندو خواتین کے برعکس راوڑیاں صرف سہاگ رات کو منگل سوتر پہنتی ہیں اور اگلی صبح اتار دیتی ہیں۔ راوڑے بھی جوگیوں کی طرح اپنے مُردے دفناتے ہیں۔ راوڑے مرد شادی کے وقت اپنے خسر کو جو رقم دیتے ہیں وہ شادی کا بندھن ٹوٹ جانے پر داماد کو واپسی دے دی جاتی ہے۔

سندھ میں خانہ بدوش قبائل پر نواز کنبھر، خالد کنبھار، فیض محمد شیدی، اسحٰق مگریو، اشفاق لغاری اور مرحوم خورشیدقائم خانی نے خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کے اخباری کالم تحریریں اور کتب ان قبائل کی ریتوں، رسموں اور رواجوں پر تحقیق میں خاصی مدد دیتی ہیں۔ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام شخصیات اس موضوع پر لکھنے والوں سے فراخ دلانہ تعاون بھی کرتی ہیں۔ سندھ کی تاریخ، معاشرت اور رسوم و رواج پر لکھنے کے دوران جب بھی معاونت کی ضرورت پڑی تو ان شخصیات کو ہمہ وقت جذبۂ محبت سے سرشار اور آمادہ پایا۔

سندھ کے خانہ بدوشوں ہی میں ایک قبیلہ کبوترا بھی ہے۔ ان کی عورتیں گداگری کرتی ہیں۔ شہر کے اطراف میں جھونپڑیاں ڈال کر قیام کرنے والی اس برادری کے مرد ان جھگیوں میں آرام کرتے دیکھے جاتے ہیں جب کہ ان کی خواتین دیہات اور قصبے میں بھیک مانگتی ہیں۔ اسکول لائف میں ایک واقعے نے چونکا دیا تھا کہ علاقے کے ایک بڑے آدمی نے کبوتری سے شادی کی ہے۔ اس وقت چھوٹے شہروں اور قصبوں میں معمولی بات بھی مہینوں زیربحث رہتی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ وڈیرے نے جس عورت سے شادی کی تھی وہ کبوترا قبیلے کی تھی پھر بھائی شبیر سومرو کے ایک فیچر سے ان کے رسوم و رواج سے مزید آگاہی ہوئی کہ یہ اپنی خواتین کو ایک مخصوص مدت کے لیے ایک خاص رقم کے عوض دے دیتے ہیں جہاں وہ راج کرتی ہیں۔ طے شدہ عرصہ ختم ہونے پر وہ عورت واپس کردی جاتی ہے یا دورانیہ مزید رقم کے عوض بڑھالیا جاتا ہے۔ نہ جانے والی کو اعتراض نہ واپس کرنے والا ناراض۔

کبوترا برادری بھی مُردہ جانوروں بالخصوص پرندوں، مرغیوں کے گوشت کو خشک کرکے سارا سال استعمال کرتے ہیں۔ ان کے معدے کی جانے کیا خاصیت ہے کہ مرے ہوئے جانور کا گوشت انہیں بیمار بھی نہیں کرتا۔ اسی طرح بعض دیگر خانہ بدوش ہیں جن کی عورتیں اور مرد بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھلونے تیار کرکے فروخت کرتے ہیں۔ مٹی کے کھلونے یا لکڑی کے ٹکڑے جوڑ کر تیار شدہ اشیاء پر رنگ برنگے کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی سے نکالی گئی چمک دار پنیاں چپکاکر انہیں قابل دید بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی گڑوی والیاں اور راجستھان کے ردالی بھی خانہ بدوشوں کی شناخت ہیں۔ اول الذکر گا بجا کر خیرات مانگتی ہیں تو آخر الذکر بڑے لوگوں کی میتوں پر آنسو بہاکر اور چیخ و پکار کے ساتھ روکر پیسے کھرے کرتی ہیں۔ گویا رونا دھونا ان کا پیشہ ہے بااثر افراد اور بڑے گھرانوں میں اپنی عورتوں کا سینہ کوبی، آواز کے ساتھ آنسو بہانا معیوب تصور ہوتا ہے۔ اس لیے یہ فریضہ ردالی عورتیں انجام دیتی ہیں۔

ماضی کے خانہ بدوش اور آج کل شہروں میں تجارت وغیرہ کرنے والے کوچڑوں کی شناخت مویشی چور کے طور پر بھی ہوتی تھی۔ ویسے یہ نقب لگانے، راہ گیروں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر لوٹنے میں بھی کمال رکھتے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ چلتے چلتے یہ اس کی گردن پر ایسا ہاتھ ڈالتے کہ گردن کا منکا ٹوٹ جاتا اور یہ اپنی سواری گدھے کے دونوں سمت لٹکی بوری میں ڈال کر یہ جا وہ جا اور اس طرح کہ چرواہے کو بھی پتا نہ چلتا۔ زندہ بکری پکڑی ہوتی تو پہلے سے ہاتھ میں موجود کیکر کا کانٹا اس کی زبان میں لگادیتے اس طرح وہ ممیا بھی نہیں سکتی تھی۔

کہتے ہیں کہ یہ شادی کے وقت لڑکی کے پیسے لیتے ہیں جو ساٹھ ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ اس رقم سے اپنے مُردوں کی قبریں بھی پختہ کی جاتی ہیں۔ یہ انہیں خوش رکھنے اور ان سے آشیرباد لینے کا انداز ہے۔ کوچڑے بھی ہندو ہوتے ہوئے اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں۔ مرنے والا کم عمر ہو تو قبرستان میں دفن کے لیے جنازہ لے جاتے ہیں جب کہ بڑی عمر کا یا قبیلے کا اہم فرد ہو تو اسے اونٹ یا گھوڑے پر آلتی پالتی دلاکر دفناتے ہیں۔ اس طرح مردہ شوہر کو بیوی اور مردہ بیوی کو شوہر غسل دیتا ہے۔ میت کے ہاتھوں میں مہندی اور آنکھوں میں کاجل لگاتے ہیں، جب کہ دانتوں کی صفائی اور ناخن تراشنے کا عمل بھی انجام دیا جاتا ہے۔ کوئی کوچڑی فرار ہوکر کسی کے ساتھ چلی جائے اور شادی کرلے تو برا نہیں مناتے اور اگر وہ لوٹ آئے تو قبول کرلیتے ہیں۔ البتہ قبیلے میں بدچلن مرد اور بدچلن عورت کو سزا دی جاتی ہے۔ اسی طرح باہمی تنازعات میں برادری کے سرپنچ کا فیصلہ سب تسلیم کرتے ہیں۔

گیروے رنگ کے ملبوس میں کاندھوں پر لمبے بانسوں میں پٹاریاں لیے نگر نگر گھومنے والے سامی بھی خانہ بدوشوں کا ایک منفرد روپ ہیں۔ پانسے سے قسمت کا احوال بتانے والے اور ہاتھ کی لکیروں سے ماضی حال اور مستقبل کے راز افشاء کرنے تو چند ہی ہوں گے متعدد تو لوگوں کی سادہ لوحی یا ضعیف الاعتقادی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خالد کنبھر کی تحقیق کے مطابق ان میں جو زیریں سندھ کے ضلع بدین میں آباد ہیں۔ ہندو عقائد کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں، جب کہ خیرپور کے صحرائی علاقے نارا سے تعلق رکھنے والے سامی اپنے عقیدے میں مسلمانوں کے قریب ہیں۔ وہ زیارت کے لیے ایران بھی جاتے ہیں ۔ محرم میں عزاداری بالخصوص ماتم معمول ہے اور ان کے نام بھی مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں۔

خیر نام تو سندھ کی دیگر اقلیتوں نے بھی مسلمانوں سے ملتے جلتے رکھنا شروع کردیے ہیں ۔ سکھر بلدیہ کے ایک مسیحی کونسلر کا نام بوٹا حسین ہوا کرتا تھا جب کہ رانی، گڈی، بے بی، شہزادی، خمیسو، جمعو، سومر، آچر، بادشاہ، شہنشاہ، سنجر، پھوٹا جیسے نام اقلیت واکثریت میں مشترک ہیں۔ نارا کے سامی خود کو لاڑ کے سامیوں سے برتر تصور کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کے حوالے سے ایک بات زیریں سندھ کے سامیوں میں خالد کنبھر نے یہ بتائی کہ وہ پانچ کورے مٹکوں میں پانی بھرکر ان میں گُڑ یا شکر ڈالتے ہیں جس میں سے دلہن اپنے شوہر کو گلاس بھرکر پانی پلاتی ہے اور بچا ہوا پانی شوہر اسے پلاتا ہے اور ایک دوسرے پر اس پانی کے چھینٹے بھی مارتے ہیں۔

اسی طرح زیریں سندھ کے سامی بھی نارا کے سامیوں کی طرح مردے کو دفن کرتے ہیں۔ پیر جو گوٹھ کے صحافی اسلام الدین عباسی نے بھی نارا کے سامیوں اور جیکب آباد اور ملحقہ بلوچستانی اضلاع کے سامیوں کی کئی مماثلتوں کا تذکرہ کیا تھا۔ لاڑ کا سامی مرجائے تو اس کی بیوہ ایک برس تک زرد رنگ کی قیمض پہنتی ہے جسے وہ انگی کا نام دیتے ہیں جب کہ مرنے والے کا بیٹا پورا سال ایک ہی ملبوس میں گزارتا ہے۔ ان سب کے اپنے اپنے رسم و رواج ہیں جو تفصیلی تحریر کا تقاضا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مختصر سا فیچر اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس سے ان کے طرز معاشرت کی عکاسی ضرور ہوئی ہے۔

رچرڈ برٹن نے سندھ کو خوابیدہ روحوں کی وادی سے تعبیر کیا تھا۔ اس وادی کی ایک شناخت امن پسندی بھی ہے۔ سچل، لطیف اور سامی نے پیار، محبت اور رواداری کا درس دیا تھا۔ ہم آہنگی کی بڑی مثال ہمیں خانہ بدوشوں ہی میں ملتی ہے جو زمانے کے نشیب و فراز اور موسموں کے گرم و سرد سے بے نیاز اکٹھے رہتے ہیں۔ دکھ سکھ میں شریک۔ صدیوں کی تھکن اور گاؤں گاؤں گھومنے کی طویل مسافت ان کی حس مشاہدہ کو تیز کرتی ہے اور یہ عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ سورج چاند ستاروں کی گردش اور ہواؤں کا رخ بدلتے دیکھ کر موسموں کا اندازہ کرلینے والے یہ خانہ بدوش اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ان کے لوک رقص، رسم و رواج، خوشیوں کے گیت، افسوس و غم کے مرثیے اپنا منفرد انداز لیے ہوئے ہیں۔

سانگھڑ، نواب شاہ روڈ پر ایسی ہی جھونپڑیوں کے ڈیرے پر برسات میں جسے ’’گرگلے‘‘ سانونی پکارتے ہیں سدا واہ نہر کے قریب ان کا لوک ناچ 40 برس بعد بھی یاد آتا ہے تو دل موہ لیتا ہے۔ ایک وسیع دائرہ بنائے گرگلی عورتیں درمیان میں کچھ بچے اور چند مرد جھک کر زمین کو ہاتھ لگاکر اٹھتے ہوئے تالیوں کی آواز، جسے وہ تھپڑی کہتے ہیں، مجال ہے تالی کی گونج آگے پیچھے ہو اور تالی کے ساتھ ہی انگڑائی کے انداز میں آسمان کی سمت ہاتھ لے جانے کا مخصوص اسٹائل۔ کتنی ہی دیر وہ اٹھلاتی، بل کھاتی رہیں۔ پھر سب نے اپنے اپنے جھونپڑوں کا رخ کیا۔ شاید رچرڈ برٹن نے بھی ایسا ہی کوئی منظر دیکھ کر سندھ کو خوابیدہ روحوں کی وادی قرار دیا ہو۔

The post مذہباً ہندو، مگر ریت رواج مسلمانوں کے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


ملتا نہیں ہے کوئی بھی رستہ فرار کا
سارا حصار توڑ دیا میں نے پیار کا
شاید اسی لیے تو ہے پتھرا گئی نظر
انداز دل خراش تھا ہر ایک وار کا
اقرار کی امید لگی جب سے دل کو ہے
رستہ نیا بھی دیکھ لیا اس دیار کا
جو بھی کیا عطا وہی میرا نصیب تھا
ممنون ہوں ہر حال میں پرورد گار کا
چل چھوڑ دل کو جھوٹی تسلی ابھی نہ دے
اب منتظر نہیں یہ کسی غم گسار کا
سبطِ علی صبا نہیں فرخ علی ہوں میں
ملحوظ احترام ہے ان کے وقار کا
(سید فرخ علی جواد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


صبر کر پچھتا نہ اب اے جانِ من کوئی نہیں
زندگی میں ری پلے کا آپشن کوئی نہیں
خط بھی اوروں کے توسط سے پہنچتے ہیں مجھے
مجھ مسافر سے زیادہ بے وطن کوئی نہیں
مسئلہ فن کار کی عزت کا تھوڑی ہے یہاں
بے ہنر کے پاس بھی تو اور فن کوئی نہیں
اس کے اترن بھی مکمل جسم ہیں اپنی جگہ
ان بھری الماریوں میں پیرہن کوئی نہیں
خواب کی آسائشوں نے کردیا غافل ہمیں
پتھروں پر سو رہے ہیں اور چبھن کوئی نہیں
ہر کسی کے واسطے محبوب کا نعم البدل
سچ کہوں تو چاند جیسا بدچلن کوئی نہیں
(اظہر فراغ۔ بہاولپور)

۔۔۔
غزل


مادہ پرست دور ہے اور شہرِ دوستاں
میں کب ہوں، کوئی اور ہے اور شہرِ دوستاں
پارہ مزاج آسماں، آتش مزاج میں
شعلہ مزاج شور ہے اور شہرِ دوستاں
آواز کی طلب نہیں، تنہائی کے سبب
پھر خواہشوں کی گور ہے اور شہرِ دوستاں
اک عالمِ خراب کے ہم راہ چل پڑا
غوغائے چور چور ہے اور شہرِ دوستاں
پیہم ہوں اس کے ساتھ مگر چھو بھی نہ سکوں
وہ لمحۂ سمور ہے اور شہرِ دوستاں
چائے ہے میرے سامنے اور میں کہیں ہوں اور
ہر پل لگے کٹھور ہے اور شہرِ دوستاں
فتہ فساد، اشک گری چھوڑ دوں مگر
کب خود پہ چلتا زور ہے اور شہرِ دوستاں
(انیس احمد ، لاہور)

۔۔۔
غزل


اب پرندوں میں ڈر ہے خون نہیں
اے خدا! رحم، شب شگون نہیں
ہم پتنگوں کا اپنا رونا ہے
روشنی ہے مگر سکون نہیں
سانس کیا موت ہی نہیں جن کو
خون ہی کیا جسے جنون نہیں
آدمی کرب کے کھلونے ہیں
یہ ہنسی والے کارٹون نہیں
اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں
آسماں کے اگر ستون نہیں
(راشد امام۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


خواب دیدۂ مہتاب میں رکھا ہوا ہے
اک جہاں ہے جو گرداب میں رکھا ہوا ہے
اس کے جسم کی ہر قوس نشیلی سی ہے
اک سبھاؤ ہے، مے ناب میں رکھا ہوا ہے
چاندنی تو اتر آئی ہے ان کے رُخ پر
چاند کو میں نے آداب میں رکھا ہوا ہے
عزمِ سجدہ سے بولنے لگتا ہے وہ اب
کیا جنوں تو نے محراب میں رکھا ہوا ہے
شوقِ وصل میں مقبول لیے پھرتا ہوں
یہ فسوں بھی تو اسباب میں رکھا ہوا ہے
(سید مقبول حسین۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


آنکھ جب صفِ ماتم کو عبور کرتی ہے
تو عزا کی سب زنجیریں کافور کرتی ہے
آگہی معلم رہتی ہے مدتوں اپنی
پھر کہیں غزل کاغذ پر ظہور کرتی ہے
اک قلم لیے اپنی ہی بچار میں گم ہوں
ہمسری جسے چاہے مجھ سے دور کرتی ہے
سر کشی زمانے میں اب کہاں رہی تہمت
حل یہی تو میرے سارے امور کرتی ہے
آج اک کہانی اُس کو سنا دی کہ جس سے
ایک بات کی مہلت جسم طور کرتی ہے
دل تو اک مقدس سی بارگاہ ہے ساگر
بے چراغ شب یہ ہی نور نور کرتی ہے
(ساگر حضورپوری۔ حضور پور، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


گیسوئے یار کے خم پہ جاں گنوائی ہے
رسمِ الفت تھی یہی خوب نبھائی ہے
سرِ عام یوں محفل آرائی عناد کے بیچ
مرے چارہ گر تو ہی بتا یہ دل ربائی ہے؟
ان کو آنا تھا، نہ آنا ہے، نہ آئیں گے کبھی
یہ ہمیں کس نے آنے کی امید دلائی ہے؟
دردِ مفارقت تھا یا وجہ تھی آہِ نیم شب
یوں ہی تو نہیں آنکھ مری بھر آئی ہے
دو ہی قیدی ہیں اس زندانِ فراموشاں کے
اک میں ہوں اور دیگر مری تنہائی ہے
سن کے سرگزشت تمام عامر وہ کہتا ہے
یہ تمہاری ہے؟ جو داستاں سنائی ہے
(عامر ظہور سرگانہ۔ گوجرہ)

۔۔۔
غزل


لفظ تیری جو زباں سے نکلا ہے
تیر بن کے وہ کماں سے نکلا ہے
لوٹ کر واپس نہیں آیا کبھی
آدمی جو بھی جہاں سے نکلا ہے
یہ اداسی کا دھواں جو پھیلا ہے
یہ دھواں میرے مکاں سے نکلا ہے
میرے بارے سوچتا ہو گا کبھی
جو بھی میرے آشیاں سے نکلا ہے
ماں کے رونے کو سمجھ نہ عام تُو
آبِ زم زم یہ کہاں سے نکلا ہے؟
(راجا خرم زیب۔ بہاولپور)

۔۔۔
غزل

مکین چھوڑ کے خالی مکان کیا گئے ہیں
کہ اپنے نام کی تختی کو بھی ہٹا گئے ہیں
وگرنہ رنج تھا ایسا کہ دَم نکل جاتا
لرزتے ہونٹ مرا حوصلہ بڑھا گئے ہیں
میں غم زدہ تری تصویر کو بنا رہا ہوں
سو رنگ بھرتے ہوئے ہاتھ لڑکھڑا گئے ہیں
تمہارے وصل کے امید کی کرن بھی نہیں
شبِ فراق کے سائے بھی دل پہ چھا گئے ہیں
تجھے گنوا کے بھی گریہ نہ کرتے اتنا حسن
کہ جتنے اشک تجھے پا کے ہم بہا گئے ہیں
(عطا الحسن۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
عمر گزری ہے سہارے نہیں بدلے میں نے
جو پیارے ہیں وہ پیارے نہیں بدلے میں نے
نیلے پیلے سے یہ لمحات ہیں جاگیر مری
ہجر میں اپنے اشارے نہیں بدلے میں نے
مدتوں بعد تری یاد کے میلے کپڑے
کچھ بدل بھی دیے، سارے نہیں بدلے میں نے
میں ندی تھی، تو مرے ساتھ کنارا تو تھا
ساتھ بہتی رہی، دھارے نہیں بدلے میں نے
خواب کو صبح کی دہلیز پہ لے آئی ہوں
آنکھ کھولی ہے نظارے نہیں بدلے میں نے
تیرے خوابوں سے ہی روشن رہا یہ دل کا دِیا
ہجر میں خواب تمہارے نہیں بدلے میں نے
(دیا جیم۔ فجی آئس لینڈ)

۔۔۔
’’عورت‘‘
اسے تم کیا کہو گے جو نئے ساتھی بنانے کو
پرانے دوستوں سے دامنِ دل یوں چھڑاتا ہے
کہ جیسے داغ کوئی اپنے دامن کا چھپاتا ہے
کہ جیسے آنکھ ملتے ہی کوئی آنکھیں چراتا ہے
کہ جیسے بھولنا چاہے تو کوئی بھول جاتا ہے!
تم اُس کو کیا سمجھتے ہو کہ اچھا وقت آتے ہی
جو مشکل وقت کے ساتھی تھے اُن کو بھول جاتا ہے
کہ جن کے دل میں رہتا تھا اُنہی کا دل دکھاتا ہے
بنانے میں جو شامل تھے انہی کو اب مٹاتا ہے
وہ انساں ہی نہیں جو اپنا ماضی بھول جاتا ہے!
بڑے بے درد ہوتے ہیں
یہ ہم جو مرد ہوتے ہیں
ہمارے ہی سبب عورت کو کتنے درد ہوتے ہیں
کوئی جیتا ہے کیسے جب کہ اتنے درد ہوتے ہیں؟
وہ ہر اک چیز جو عورت سے وابستہ ہے، عورت ہے
وہ اُس کی ریشمی زلفوں میں جو کنگھا ہے، عورت ہے
جو اُس کے سامنے رکھا ہوا شیشہ ہے، عورت ہے
سمندر سی حسیں آنکھوں میں جو قطرہ ہے، عورت ہے
وہ ہر اک شعر عورت پر کوئی کہتا ہے، عورت ہے
جو ہے اب کوکھ میں عورت کے وہ لڑکا بھی ہو تو کیا
کہ اُس لڑکے کے دل میں اب جو آئینہ ہے عورت ہے!
عجب ہے مرد کی فطرت بہت ہی ظلم ڈھاتا ہے
کبھی عورت کی صورت تھا جو عورت کو ستاتا ہے
وہ انساں ہی نہیں جو اپنا ماضی بھول جاتا ہے!
(رئیس ممتاز۔ دوحہ)

۔۔۔
غزل

مسائل اپنے لیے میں بڑھا نہیں سکتا
ہر ایک خوشۂ گندم جلا نہیں سکتا
قریب دور کی عینک سے دیکھتا ہوں مگر
قریب، دور کی عینک سے لا نہیں سکتا
غزل کا شعر ہی کافی ہے یاد میں اس کی
تمھارے کہنے پہ آنسو بہا نہیں سکتا
چلے گئے ہیں جو بیٹا وہ اچھے افسر تھے
ملازمت پہ تجھے اب لگا نہیں سکتا
میں توڑ پھوڑ کا عادی نہیں بنا حارث
ستارے چاند کی خاطر بھی لا نہیں سکتا
(حارث انعام۔ حکیم آباد، نوشہرہ)

۔۔۔
غزل

تمہارے غم میں جینا پڑ رہا ہے
نہیں کہنا تھا کہنا پڑ رہا ہے
اسے آواز دے دی اُس کی ماں نے
مجھے بھی اٹھ کے جانا پڑ رہا ہے
تمہارے بعد سب کچھ رُک گیا ہے
مگر گھر تو چلانا پڑ رہا ہے
پلٹ کر تم کو جانا ہے یہاں سے
گلا میرا کیوں سوکھا پڑ رہا ہے
قیامت ایسی کیا گزری ہے حاشر
جو مژگاں کو برسنا پڑ رہا ہے
(عرفان حاشر۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


ہم پہ اک ظلم کر دیا گیا ہے
دِل محبت سے بھر دیا گیا ہے
اس کے آنگن میں اُڑ کے جانے کو
اِک پرندے کا پَر دیا گیا ہے
ہم نے اک پھول لینا چاہا تھا
باغ کانٹوں سے بھر دیا گیا ہے
اب تجھے سوچنا بھی مشکل ہے
اتنا مصروف کر دیا گیا ہے
کوئی تو یہ خبر سنا جائے
جینا آسان کر دیا گیا ہے
(سالم احسان۔ گوجرانوالہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

تمباکو نوشی انسان ہی نہیں نباتات کے لیے بھی خطرناک

$
0
0

یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے پھیپھڑوں اور دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ سگریٹ نوشی انسانوں کے ساتھ ساتھ پیڑ پودوں کے لیے بھی بے حد ضرر رساں ہے، تاہم نباتات کو تمباکو کے دھویں سے نہیں بلکہ سگریٹ کے ٹوٹوں (فلٹر) سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں زمین پر پھیلے ہوئے کوڑا کرکٹ میں دیگر اشیاء کے ساتھ سگریٹ کے ٹوٹے یعنی فلٹر بھی شامل ہوتے ہیں مگر اکثر انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ سگریٹ پی کر اس کا ٹوٹا بے پروائی سے ادھر ادھر پھینک دینے کی عادت دنیا بھر کے سگریٹ نوشوں میں پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ سیلولوز ایسیٹیٹ نامی مرکب سے بنے ہوئے سگریٹ کے فلٹر کو تحلیل ہونے میں 18 ماہ سے 10 سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

انگلستان کی انگلیا رسکن یونی ورسٹی سے وابستہ محققین نے سگریٹ کے فلٹرز کے ماحولیاتی اثرات پر تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ سیلولوز ایسیٹیٹ کی یہ شکل پیڑ پودوں کے لیے تباہ کُن ثابت ہورہی ہے۔ اینگلیا یونی ورسٹی میں شعبہ حیاتیات کے سنیئر لیکچرار ڈاکٹر ڈینیئل گرین کہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی دہائیوں سے کی جارہی ہے اور گلیوں، سڑکوں، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پر سگریٹ کے ٹوٹے اور فلٹرز عام پڑے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اب تک ان کے ماحولیاتی اثرات پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ ہماری تحقیق اس ضمن میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔ ہمارے تحقیق کے مطابق سیلولوز ایسیٹیٹ سے بنے یہ ٹکڑے گھاس اور چھوٹے پودوں اور جڑی بوٹیوں کے اگاؤ کے عمل اور ان کی نشوونما کو متأثر کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ننھے پودوں کی جڑیں اور تنے بھی اصل لمبائی سے نصف رہ جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے ان کے وزن میں بھی کمی آتی ہے۔ تحقیق کے مطابق مٹی میں موجود سگریٹ کے فلٹرز کے جلنے سے زہریلے مادّے بھی خارج ہوتے ہیں۔

محققین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اندازاً سالانہ 40 کھرب 50 ارب سگریٹ کے فلٹرز پھینک دیے جاتے ہیں جو آخرکار مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کرۂ ارض پر سگریٹ کے فلٹرز پلاسٹک کی آلودگی کی سب سے زیادہ نفوذ پذیر شکل ہے۔

ڈاکٹر گرین کے مطابق مختلف اقسام کی گھاس اور پودے بہ طور چارا مویشیوں کے لیے بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نباتات حیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیرگی کنندہ (pollinator) اور نائٹروجنی تحلیل (nitrogen fixation) کے عمل کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔ چناں چہ مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں سگریٹ نوشی انسان کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر گرین کے مطابق عوام الناس میں یہ شعور نہیں ہے کہ سگریٹ کے ٹوٹے اور فلٹرز ماحول کے لیے کس قدر ضرر رساں ہیں۔ بہت سے سگریٹ نوش یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے پھینکنے کے کچھ ہی روز بعد فلٹر تحلیل ہوجاتے اور گل سڑ جاتے ہیں حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ درحقیقت سیلولوز ایسیٹیٹ بایوپلاسٹک کی ایک صورت ہے جسے تحلیل ہو نے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔

دوران تحقیق ماہرین کو کچھ پارکوں اور ساحل سمندر پر نصب بینچوں پر اور کوڑے دانوں میں فی مربع میٹر 100 سے زائد فلٹرز ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے ٹوٹے ادھر ادھر پھینک دینے کو ہمارے معاشروں میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں اس بارے میں عالمی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ سگریٹ کے یہ ٹکڑے زمین پر پھینکے جانے کے بعد گل سڑ نہیں جاتے بلکہ اپنی اصل شکل میں موجود رہ کر نباتات کے لیے ’وبال جان‘ بن جاتے ہیں اور ماحول کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔ n

The post تمباکو نوشی انسان ہی نہیں نباتات کے لیے بھی خطرناک appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن واپس نہ آتے تو۔۔۔۔۔۔۔؟

$
0
0

20 جولائی 1969ء کو تاریخ انسانی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب انسانی قدموں نے پہلی بار چاند کو چُھوا۔ نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن چاند پر چہل قدمی کرنے والے اولین انسان تھے۔ دونوں خلانورد اپالو11 نامی خلائی جہاز کے ذریعے چاند پر پہنچے تھے۔ ان کے ہمراہ مائیکل کولن بھی تھے مگر وہ لونر ماڈیول ( lunar module )، جس میں دونوں خلانورد موجود تھے، کے چاند پر اترنے کے بعد کمانڈ ماڈیول کو اڑا کر واپس چاند کے مدار میں چلے گئے تھے۔ اب چاند سے واپسی کے لیے نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن کو لونر ماڈیول اڑا کر مدار میں موجود کمانڈ ماڈیول تک پہنچنا تھا۔

یہ رچرڈ نکسن کا دور صدارت تھا۔ امریکی صدر نے ٹیلی فون پر اپنے خلابازوں سے بات کی۔ یوں زمین سے خلا میں فون کرنے والے پہلے انسان کا اعزاز رچرڈ نکسن کے حصے میں آیا۔ خلانوردوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پوری دنیا کو ان پر فخر ہے۔ تاہم ان ہی لمحات میں امریکی صدر ایک اور ٹیلی فون کال کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔۔۔۔۔ وہ کال آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کی ممکنہ بیواؤں کوکی جانی تھی!

اس شب اگرچہ لونر ماڈیول اپنے مخصوص مقام پر جسے Sea of Tranquility کا نام دیا گیا تھا، کامیابی سے اترگیا تھا مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن سطح قمر پر چہل قدمی کے بعد چاند کے مدار میں چکر لگاتے کمانڈ ماڈیول تک بہ حفاظت واپس پہنچ پائیں گے، زمین پر واپسی تو دور کی بات تھی۔ واضح رہے کہ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کے اترنے کے بعد مائیکل کولن لونر ماڈیول کو اڑا کر واپس مدار میں موجود کمانڈ ماڈیول ’کولمبیا‘ میں چلے گئے تھے۔ چاند پر کسی متوقع جان لیوا حادثے کے امکان کے پیش نظر امریکی صدر تقریر نویس ولیم سیفائر کو اسی مناسبت سے تقریر لکھنے کی ہدایت کرچکے تھے۔

1999ء میں ایک انٹرویو کے دوران ولیم سیفائر نے بیان کیا تھا کہ لونر ماڈیول کو واپس کمانڈ ماڈیول تک لے کر جانا اپالو 11 مشن کا سب سے خطرناک مرحلہ تھا۔ قبل ازیں اپالو 10 مشن کا عملہ لونر ماڈیول کو سطح قمر سے 9 میل کے فاصلے تک لانے میں کام یاب ہوچکا تھا مگر اپالو11 کے عملے کو لونرماڈیول چاند کی سطح سے مدار میں لے جانے کا چیلینج درپیش تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرپاتے تو پھر چاند کے قیدی بن جاتے، پھر وہ یاتو بھوک سے مرجاتے یا پھر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کی کمانڈ ماڈیول تک پہنچنے میں ناکامی کی صورت میں ناسا ان خلانوردوں سے تمام رابطے منقطع کرلیتا اور امریکی صدر افسردہ لہجے میں دنیا کو بتاتے کہ کیا ہوا تھا۔

تقریر نویس ولیم سیفائر نے اس حادثے کی صورت میں امریکی صدر کو تقریر کے ساتھ ساتھ پوری ہدایات لکھ کر دی تھیں کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ یہ ’ ڈیزاسٹر پلان‘ 30 سال بعد ذرائع ابلاغ کی زینت بنا۔ اس میں رچرڈ نکسن کے لیے یہ ہدایات بھی شامل تھیں کہ پہلے وہ خلانوردوں کی بیواؤں کو ٹیلی فون کریں گے اور بعدازاں قوم سے خطاب میں واضح کریں گے ’’تقدیر کا یہی فیصلہ تھا کہ چاند پر جانے والے ہمیشہ کے لیے وہیں آرام کریں۔ یہ بہادر انسان نیل آرم اسٹرانگ اور ایڈون ایلڈرن جانتے ہیں کہ ان کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی قربانی سے انسانیت کے لیے امید کی کرن پُھوٹی ہے۔‘‘ سیفائر نے اپنی تقریر میں مزید لکھا تھا،’’اور بھی لوگ اپالو خلانوردوں کی پیروی کریں گے اور کام یابی سے گھر واپس بھی آئیں گے لیکن ایلڈرن اور آرم اسٹرانگ اولین تھے اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں ان کا یہی درجہ رہے گا۔‘‘

حادثے کی صورت میں زمین پر دونوں خلانوردوں کی علامتی تدفین بھی کی جانی تھی مگر یہ موقع نہیں آیا۔ کچھ مشکلات کے بعد ایلڈرن اور آرم اسٹرانگ بالآخر قمری مدار میں مائیکل کولن سے جاملے اور بہ حفاظت زمین پر واپس آگئے۔ یوں امریکی صدر سیفائر کی تحریرکردہ تقریر پڑھنے سے بچ گئے، مگر آپ انٹرنیٹ پر یہ تقریر پڑھ سکتے ہیں۔

The post اگر نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن واپس نہ آتے تو۔۔۔۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مایع مقناطیس کی تخلیق

$
0
0

مقناطیس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ ٹھوس ہوتا ہے، مگر اب سائنس دانوں نے مایع مقناطیس بھی تخلیق کرلیا ہے۔ مایع مقناطیس کے قطرے مختلف اشکال میں تقسیم ہوسکتے ہیں اور ان کی حرکت کو کنٹرول بھی کیا جاسکتا ہے۔ مایع مقناطیس کی تخلیق کا کارنامہ میساچوسیٹس یونی ورسٹی کے سائنس دانوں اور انجنیئروں نے انجام دیا ہے۔ اس ٹیم کی سربراہی میں پولیمر سائنس اور انجنیئرنگ کے مایہ ناز پروفیسر تھامس رسل کررہے تھے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ متعدد سائنسی ایجادات اور اختراعات کے مانند مایع مقناطیس کی تخلیق بھی حادثاتی طور پر عمل میں آئی۔ تھامس رسل اور ان کے ساتھی لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری میں تھری ڈی پرنٹنگ مایعات پر تجربات کررہے تھے۔ ان کا مقصد ایسے ٹھوس مادّے یا میٹیریل تخلیق کرنا تھا جن میں مایعات کی خصوصیات ہوں اور جنھیں مختلف برقی استعمالات میں لیا جاسکے۔

ایک روز ریسرچ ٹیم کے رکن اور پوسٹ ڈاکٹورل طالب علم ژوبو لوئی نے مشاہدہ کیا کہ مقنائے ہوئے ذرات ( آئرن آکسائیڈز) ایک مقناطیسی پلیٹ پر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ یہ مظہر محققین کے لیے غیرمتوقع تھا۔ انھوں نے تجربہ و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا تو پتا چلا کہ نہ صرف ذرات بلکہ پورے محلول میں مقناطیسی خواص پیدا ہوگئے تھے۔

یہ جان کر سائنس داں جہاں حیران ہوئے وہیں اس غیرمتوقع دریافت نے ان کو پُرجوش بنادیا۔ انھوں نے اسی سمت میں تحقیق کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔ مایعات کی تھری ڈی پرنٹنگ کی تیکنیک سے کام لیتے ہوئے انھوں نے پانی، تیل اور آئرن آکسائیڈز کے ملی میٹر جسامت کے قطرات تخلیق کیے۔ ان قطرات نے اپنی شکل و صورت برقرار رکھی کیوں کہ آئرن آکسائیڈ کے کچھ ذرات فعال سطحی عامل ( surfactants ) سے جُڑے ہوئے تھے۔ surfactants وہ عناصر ہوتے ہیں جو مایع کے سطحی تناؤ (surface tension ) میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ فعال سطحی عامل پانی کے گرد ایک غیرمرئی پرت بنادیتے ہیں جس میں آئرن آکسائیڈ کے ذرات بھی شامل ہوتے ہیں جب کہ باقی ذرات اس پرت کے اندر ہوتے ہیں۔

سائنس دانوں نے ملی میٹر جسامت کے حامل قطرات کو مقنانے کے لیے ایک مقناطیسی کوائل کے نزدیک رکھ دیا۔ اس وقت سائنس داں حیرن رہ گئے جب انھوں نے مشاہدہ کیا کہ مقناطیسی کوائل ہٹائے جانے کے باوجود قطرات کے مقناطیسی خواص برقرار رہے۔ واضح رہے کہ مایعات میں مقناطیسی خواص اس سے قبل بھی پیدا کیے جاچکے ہیں مگر مقناطیسی میدان سے دور جاتے ہی مقناطیسی خصوصیات زائل ہوجاتی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے جب مستقل مقناطیسی خصوصیات کے حامل مایعات کی تخلیق میں کام یابی حاصل کی گئی۔

محققین نے جب مایع کے قطرات کو مقناطیسی میدان میں رکھا تو آئرن آکسائیڈ کے ذرات نے بھی شمالاً جنوباً سمت اختیار کرلی۔ پھر جب مقناطیسی میدان سے انھیں دور ہٹایا گیا تو آئرن آکسائیڈ کے ذرات فعال سطحی عامل سے اتنی سختی کے ساتھ پیوست تھے کہ وہ حرکت نہیں کرسکتے تھے، چناں چہ شمالاً جنوباً سمت ہی میں ان کی ترتیب برقرار رہی۔ تاہم حیران کُن بات یہ تھی کہ قطرات کے اندر موجود آزاد ذرات بھی اسی ترتیب میں رہے۔

پروفیسر تھامس کے مطابق فی الوقت وہ یہ نہیں جان سکے کہ ان آزاد ذرات نے کس اثر کے تحت خود کو شمالاً جنوباً ترتیب دیا۔ اس راز سے پردہ اٹھتے ہی مقناطیسی مایع کے متعدد استعمالات سامنے آجائیں گے۔

The post مایع مقناطیس کی تخلیق appeared first on ایکسپریس اردو.


اچھا تو ہم چلتے ہیں۔۔۔

$
0
0

شہرت اور دولت ایسا نشہ ہے جو ایک بار لگ جائے تو چھوٹے نہیں چھوٹتا۔ جب انسان کو شہرت کی عادت ہوجاتی ہے تو پھر اس کے لیے گم نامی کی زندگی میں واپس جانا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

دنیا میں بہت سے شعبے ہیں جو انسان کو دولت مند تو بنا دیتے ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کی بھیڑ میں وہ لوگ گم نام ہی رہتے ہیں۔ تاہم فلم انڈسٹری ایسا شعبہ ہے جو انسان کو دولت کے ساتھ شہرت بھی دیتا ہے اور جب انسان کام یابی کے زینے چڑھتے ہوئے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو اسے واپسی کے سارے راستے ناممکن سے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلم نگری میں کام کرنے والے لوگ برس ہابرس اس انڈسٹری سے وابستہ رہتے ہیں۔

فلم انڈسٹری کی ایک خوب صورت بات یہ بھی ہے کہ مشہور اداکار کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور نہ ہی گم نامی کی زندگی گزارتے ہیں بلکہ ان کی شہرت اور مقبولیت کی بدولت انہیں نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ جب ہی تو کہا جاتا ہے مشہور اداکار کی شہرت کو کبھی زوال نہیں۔ لیکن کبھی کبھی زیادہ شہرت بھی وبال جان بن جاتی ہے اور فن کار اتنی زیادہ شہرت کو سنبھال نہیں پاتے۔ لہٰذا شہرت کی اس نگری میں بہت سے فن کار ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی نجی وجوہات کی بنا پر اور کچھ نے تو مقبولیت سے تنگ آکر شہرت کی اس نگری کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا اور ایک عام انسان کی طرح زندگی جینے کو ترجیح دی۔ ان فن کاروں میں بولی وڈ، لولی وڈ اور ہالی وڈ کے اداکار شامل ہیں۔ اس مضمون میں ایسے ہی کچھ اداکاروں کا تذکرہ پیش ہے:

زائرہ وسیم :ایسی کئی اداکاروں مثالیں موجود ہیں جنہوں نے شوبز کو خیرباد کہہ کر پُرسکون زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا اور آج تک اس پر قائم ہیں، جس کی تازہ مثال حال ہی میں شوبز کو خیرباد کہنے والی خوبرو اور باصلاحیت اداکارہ زائرہ وسیم ہیں، جنہوں نے حال ہی میں فلم انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے مکمل طور پر بولی ووڈ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ خوب صورت جھرنوں اور حسین وادیوں کی سرزمین کشمیر سے تعلق رکھنے والی اداکارہ زائرہ وسیم جنت نظیر وادی کی طرح خوب صورت تو ہیں ہی لیکن ان میں اداکاری کی صلاحیت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جسے انہوں نے اپنی پہلی فلم ’’دنگل‘‘ میں کام کرکے ثابت بھی کر دکھایا۔

اپنی پہلی ہی فلم سے زائرہ وسیم نے نہ صرف لوگوں کی داد سمیٹی بلکہ شوبز میں منفرد پہچان بنانے میں بھی کام یاب ہوگئیں جب ہی تو بولی وڈ کے منجھے ہوئے اداکار عامر خان نے انہیں اپنی فلم ’’سیکریٹ سُپراسٹار‘‘ میں مرکزی کردار دیا اور اس بار بھی زائرہ اپنی اداکاری سے لوگوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

کیریئر کی ابتدا میں عامرخان جیسے سپراسٹار کے ساتھ کام کرنا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے اور یہ موقع لاکھوں لوگوں میں صرف زائرہ وسیم کو میسر آیا۔ کیریئر کی پہلی دو فلموں میں عامر خان کے ساتھ کام کرنے کے بعد زائرہ وسیم نے اداکارہ پریانکاچوپڑا کے ساتھ فلم سائن کی اور یہ ان کا بولی ووڈ میں کام یابی کی جانب ایک اور قدم تھا۔ کیریئر کی شروعات میں ہی صف اول کے اداکاروں اور بڑی بجٹ کی فلموں میں کام کرنے کے باعث زائرہ وسیم کو بھارتی فلم انڈسٹری کی اگلی سپراسٹار کہا جارہا تھا۔ لیکن کشمیر کی اس کَلی کے اچانک شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے اعلان نے پوری فلم انڈسٹری میں طوفان مچادیا۔ زائرہ وسیم نے سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے اپنے مذہب سے دور ہوتی جارہی ہیں اور ان کا ایمان خطرے میں پڑنے لگا ہے لہٰذا وہ اب مزید فلموں میں کام نہیں کریں گی اور اپنی زندگی اپنی شرطوں پر جییں گی۔ یوں زائرہ کا سفر فلم انڈسٹری میں اختتام پذیر ہوگیا۔

عائشہ خان : پاکستان شوبز انڈسٹری کی کام یاب اداکارہ عائشہ خان نے ٹی وی کے بعد فلموں میں بھی قسمت آزمائی اور ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ اور ’’وار‘‘ جیسی کام یاب فلموں میں کام کرکے خود کو منوایا۔ عائشہ خان ڈراما سیریل ’’مہندی‘‘، ’’من مائل‘‘، ’’خدا میرا بھی ہے‘‘،’’کچھ پیار کا پاگل پن‘‘،’’من و سلویٰ‘‘ اور ’’کافر‘‘ سمیت متعدد کام یاب ڈراموں میں کام کرچکی ہیں۔ تاہم انہوں نے گذشتہ برس اچانک شوبز سے لاتعلقی کا اعلان کرکے اپنے مداحوں کو حیران کردیا۔ عائشہ خان نے شوبز چھوڑنے کی و جہ شادی کو قراردیتے ہوئے کہا کہ شادی کے بعد ان کی پہلی ترجیح اداکاری نہیں بلکہ ان کا گھر اور شوہر ہوں گے لہٰذا وہ شوبز کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہی ہیں۔ عائشہ خان سختی سے اپنے فیصلے پر کاربند ہیں اور شادی کے بعد کسی فلم یا ڈرامے میں نظر نہیں آئیں۔

نور بخاری:پاکستانی اردو اور پنجابی فلموں کی خوب صورت اداکارہ نور بخاری ’’سنگم‘‘،’’مجھے چاند چاہیے‘‘،’’ظل شاہ‘‘،’’بھائی لوگ‘‘، ’’عشق پازیٹیو‘‘ اور ’’سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ جیسی کام یاب فلموں میں کام کرچکی ہیں۔ اداکارہ نور بخاری کا شمار نوے کی دہائی میں لولی وڈ پر راج کرنے والی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔

نور بخاری جہاں اداکاری کرنے کے لیے مشہور ہیں وہیں شادیاں کرنے اور طلاق لینے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ اداکارہ نور چار بار شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہیں اور چاروں بار ان کی شادی کا انجام طلاق پر ہوا۔ تاہم دو سال قبل نور نے شوبز چھوڑنے کا اعلان کرکے اپنے چاہنے والوں کو حیرت زدہ کردیا۔ نور بخاری نے شوبز چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اب دین کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے اسی لیے وہ اب مزید فلموں اور ڈراموں میں کام نہیں کریں گی۔ اداکارہ نور نے خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ دین کی راہ پر خود نہیں آتے بلکہ اللہ آپ کو اس راستے کے لیے چُنتا ہے اور وہ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے انہیں دین کے راستے کے لیے منتخب کیا۔ اداکارہ نور نے نہ صرف دین کے لیے شوبز کو چھوڑا بلکہ اب وہ حجاب بھی کرتی ہیں۔

سارہ چوہدری:من موہنی صورت اور دل فریب مسکراہٹ والی اداکارہ سارہ چوہدری نے پاکستان ٹی وی انڈسٹری کے متعدد ڈراموں میں کام کیا اور خوب شہرت سمیٹی۔ ڈراما سیریل ’’تیرے پہلو میں‘‘ نے انہیں راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا اور انہیں پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی سپراسٹار کہا جارہا تھا۔تاہم سارہ چوہدری نے بھی اپنے عروج کے زمانے میں شوبز کو خیرباد کہہ کر اپنے چاہنے والوں کو دنگ کردیا۔ سارہ چوہدری نے بھی دین کی راہ اختیار کرنے کی وجہ سے شوبز کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

میناکشی ششادری:بولی وڈ میں90 کی دہائی میں اداکارہ میناکشی ششادری کا طوطی بولتا تھا۔ مینا کشی خوب صورتی میں تو اپنی مثال آپ ہیں ہی، اداکارہ بھی بے حد کمال تھیں۔ فلم ’’شہنشاہ‘‘، ’’ہیرو‘‘،’’گھائل‘‘اور’’دامنی‘‘میں بہترین اداکاری کرنے والی میناکشی آخری بار اداکار سنی دیول کے ساتھ فلم ’’گھاتک‘‘ میں جلوہ افروز ہوئی تھیں۔ اپنی اداکاری اور خوب صورتی سے لاکھوں لوگوں کو دیوانہ بنانے والی اداکارہ میناکشی نے شادی کے بعد فلموں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اور رخصت ہوکر نہ صرف پیادیس سدھار گئیں بلکہ اپنے وطن سے دور امریکا جاکر بس گئیں۔ میناکشی کے مداح آج بھی اپنی دامنی کو فلموں میں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں لیکن میناکشی فلموں میں واپس نہ آنے کے اپنے فیصلے پر سختی سے کاربند ہیں۔

سلینا جیٹلی:خوب صورت آنکھوں اور دل فریب مسکراہٹ سے لوگوں کو گھائل کرنے والی اداکارہ سلینا جیٹلی فلموں میں اداکاری سے قبل مس انڈیا کا تاج بھی جیت چکی ہیں۔ اداکارہ سلینا جیٹلی نے 2003 میں اداکار فردین خان کے ساتھ فلم ’’جانشین‘‘ کے ساتھ فلموں میں قدم رکھا تھا اور اپنی خوب صورتی سے لوگوں کو دیوانہ بنانے میں کام یاب رہی تھیں۔ بعدازاں سلینا نے ’’سلسلے‘‘، ’’نوانٹری‘‘، ’’ٹام، ڈک اینڈ ہیری‘‘، ’’گول مال ریٹرن‘‘ اور’’اپنا سپنا مَنی مَنی‘‘ جیسی فلموں میں بھی کام کیا۔ سلینا جیٹلی کی فلمیں باکس آفس پر سُپرہٹ تو نہیں ہوئیں لیکن ناکام بھی نہیں ہوئیں۔ ان کا شمار بولی وڈ کی اوسط درجے کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے لیکن ان کی خوب صورتی کے دیوانے لاکھوں میں ہیں۔ اداکارہ سلینا جیٹلی نے دبئی کے بزنس مین پیٹر ہاگ کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد فلموں کے بجائے شوہر، گھر اور بچوں کی ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور آج وہ دو بچوں کے ساتھ خوب صورت شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔

جیک گلیسن:لولی وڈ اور بولی وڈ کی طرح ہالی وڈ میں بھی بہت سے فن کار ہیں جنہوں نے شوبز نگری کو خیر باد کہہ کر نارمل زندگی جینے کا فیصلہ کیا۔ ہالی وڈ کی مقبول ترین ڈراما سیریز ’’گیم آف تھرون‘‘ میں جوفری براتھیون کا کردار ادا کرنے والے اداکار جیک گلیسن نے ڈرامے میں اپنے کردار کی موت کے بعد ہالی ووڈ کو مکمل طور پر خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔ جیک نے اپنے فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اداکاری کرنا ان کا شوق تھا لیکن وہ اس شعبے کو مستقبل میں جاری رکھنا نہیں چاہتے۔

جین ہیک مین:ہالی وڈ کے اداکار جین ہیک مین کو 1998 میں ریلیز ہوئی فلم ’’اینیمی آف دی اسٹیٹ‘‘ اور 1992 میں ریلیز ہوئی فلم ’’ان فورگیون‘‘ میں ان کی اداکاری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اداکار جین ہیک مین نے 2004 میں ہالی وڈ کو خیرباد کہہ کر بطور مصنف کیریئر کو آگے بڑھایا۔ 2004 سے لے کر 2008 تک انہوں نے مصنف ڈینئل لینی ہان کے ساتھ مل کر کئی ناول لکھے جن میں ’’ویک آف دی پیڈیڈو اسٹار‘‘،’’جسٹس فور نن‘‘،’’ورملین‘‘ اور ’’اسکیپ فروم اینڈرسن ویلے‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’مارننگ پیک‘‘ اور ’’پرسوئٹ‘‘ کے عنوان سے کتابیں بھی لکھی ہیں۔

کیمرون ڈیاز:1994 کی سپر ہٹ فلم ’’دی ماسک‘‘ سے کیریئر کی شروعات کرنے والی اداکارہ کیمرون ڈیاز کا شمار ہالی وڈ کی ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جن کی فلمیں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں شامل ہیں۔ کیمرون بہترین اداکاری پر متعدد ایوارڈز بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔ تاہم 2014 کے بعد اداکارہ کیمرون کسی فلم میں نظر نہیں آئیں۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد کیمرون ڈیاز نے بھی بطور مصنفہ کیریئر آگے بڑھانے کو ترجیح دی۔ ان کی اب تک دو کتابیں ’’دی لونگیویٹی‘‘ اور ’’دی باڈی بک‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔

امانڈا بائنس:ہالی ووڈ کی اداکارہ امانڈا بائنٹس نے بطور چائلڈ اداکارہ کیریئر کا آغاز کیا اور 2000 میں فلم ’’وہاٹ اے گرل وانٹس ٹو ہیئر اسپرے‘‘ میں کام کرکے باقاعدہ ہالی ووڈ میں کام کرنا شروع کیا۔ امانڈا آخری بار 2010 میں فلم ’’ایزی اے‘‘ میں نظر آئی تھیں جس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

گریٹا گاربو: ہالی وڈ اسٹار گریٹا گاربو کا شمار 1930 کی سپراسٹارز میں ہوتا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر فلم نگری کو خیرباد کہہ دیا تھا کہ وہ اکیلی رہنا چاہتی ہیں۔ گریٹا گاربو فلمی دنیا اور پریس سے اس قدر اکتا چکی تھیں کہ وہ نہ تو انٹرویو دیتی تھیں، نہ آٹوگراف۔ گریٹا نے 36 برس کی عمر میں ہالی وڈ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا ان کا کہنا تھا کہ وہ اس چمکتی ہوئی فلم نگری سے دور ایک نارمل زندگی جینا چاہتی ہیں۔

شیرلی ٹیمپل:ہالی وڈ کی اداکارہ شیرلی ٹیمپل نے بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنی اداکاری کا لوہا منوالیا تھا۔ انہیں 1935 میں 7 سال کی عمر میں اسپیشل جووینائل آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ تاہم 1950 میں صرف 22 سال کی عمر میں شیرلی نے اداکاری کو خیرباد کہہ دیا اور شوبز چھوڑنے کے 10 سال بعد 1960 میں شیرلی ٹیمل ایک بار پھر سرخیوں کا حصہ بنیں لیکن اس بار اداکاری کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاست میں انٹری کی وجہ سے۔ 1989 میں شیرلی ٹیمل نے چیکو سلوواکیا میں امریکی سفارت کار کے طور پر فرائض انجام دیے۔

سر سین کونری:بیسویں صدی میں پُرکشش ترین مردکا خطاب حاصل والے جیمز بونڈ اسٹار سرسین کونری نے 2003 میں اداکاری کو خیرباد کہہ دیا۔ کونری کے ایک قریبی دوست کے مطابق وہ فلموں میں کسی بوڑھے کا چھوٹا سا کردار ادا کرنا نہیں چاہتے تھے اور انہیں کسی رومینٹک فلم میں ہیرو کے مرکزی کردار کی پیشکش نہیں ہورہی تھی لہٰذا انہوں نے شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

The post اچھا تو ہم چلتے ہیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

چاند۔۔۔۔جو سُنا محض افسانہ نہیں

$
0
0

اگر شاعری میں کسی ایسے لفظ کی بات کی جائے جسے سب سے زیادہ برتا گیا ہو تو یقیناً اس میں سرفہرست ’چاند‘ ہی ہوگا۔

لفظ ’چاند‘ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر محبوب کو صرف چاند سے تشبیہ دی جائے تو یہ اپنے اندر کُل کائنات کی خوب صورتی کو سمو لیتا ہے، اسی طرح لفظ ’چاند‘ ہجر سے جُڑ کر محبوب سے جدائی، ہجر کے موسم، اور غم فراق کی علامت بن جاتا ہے۔ اسی طرح چڑھتے چاند کی روشنی کو شدت جذبات سے منسوب کیا جاتا ہے۔

یہ چاند کی ہی خصوصیت ہے کہ وہ ہر موسم، ہر کرب، ہر خوشی، ہر تہوار، ہر رات کو اپنے دامن میں جگہ دے دیتا ہے۔ ایسا کون ہے بھلا جس نے چاند اور چکور کی کہانیاں نہ سنی ہوں!!! ایسا کون ہے بھلا جو پورے چاند اور سمندر کے مدوجزر کے باہمی تعلق سے لاعلم ہو!!! ایسا کون ہے بھلا جو تاریکی کا سینہ چیرتی چاندنی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ہوش وخرد سے بے گانہ نہ ہوا ہو!!! چاند کی وسعت ابن انشاء کی غزل کے ان چند اشعار سے بخوبی عیاں ہوتی ہے؛

شام سمے ایک اُونچی سیڑھوں والے گھر کے آنگن میں
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا؟ پورا چاند

ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا روپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند؟

درد کی ٹھیس بھی اٹھتی تھی، پر اتنی بھی، بھرپور کبھی؟
آج سے پہلے کب اترا تھا دل میں میرے گہرا چاند!

انشاء جی دنیا والوں میں بے ساتھی بے دوست رہے
جیسے تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند، اکیلا چاند

آنکھوں میں بھی، چتون میں بھی، چاندہی چاند جھلکتے ہیں
چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند

انشاء جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی رِیت یہی
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند

چنچل مسکاتی مسکاتی گوری کا مُکھڑا مہتاب
پت جھڑ کے پیڑوں میں اٹکا، پیلا سا اِک پَتّہ چاند

ابن انشاء کی غزل کے یہ چند اشعار زمانہ قدیم سے ہی چاند سے جُڑی ان اساطیر کی تصدیق کرتی ہے کہ چاند کی گردش انسانی مزاج اور رویوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دورجدید میں بنی نوع انسان قمری چکر سے جڑی اساطیر کو توہم پرستی قرار دے کر مسترد کرتارہا، لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق نے چاند کی روشنی اور اس کی گردش سے وابستہ ماضی کے قصے کہانیوں کو سچ ثابت کردیا ہے۔ یہ امریکا کے ایک مشہور ماہر نفسیات ڈیوڈ ایوری کے کلینک کا منظر ہے، ڈاکٹر کے سامنے ایک 35سالہ شخص سر جھکائے بیٹھا ہے۔

2005ء میں امریکی ریاست سیٹل کے اس نفسیاتی وارڈ میں داخل ہونے والے اس شخص کے مسائل بہت پیچیدہ تھے۔ یہ بہت متلون مزاج تھا، کبھی یہ بہت پرُسکون ہوتا تو کبھی اس کا طرزعمل بہت جارحانہ ہوجاتا، کبھی وہ خودکشی کی کوشش کرتا تو کبھی اسے ایسی چیزیں اور آوازیں دکھائی اور سنائی دیتی جن کا وہاں وجود ہی نہیں تھا، اس کی نیند کے معاملات بھی بہت متاثر تھے۔ لیکن اس سارے معاملے میں ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ پیشے کے لحاظ سے انجنیئر اس مریض نے اپنی تمام تر کیفیات کو ایک ریکارڈ کی شکل میں رکھا ہوا تھا۔ اس بابت ڈاکٹر ڈیوڈ ایوری کا کہنا ہے کہ اس مریض کے مرتب کردہ ریکارڈ نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا۔ اس کا مزاج اور سونے کا طریقہ کار چاند کی اپنے مدار میں گردش کی طرح تھا، اس کی دماغی کیفیت قمری گردش کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی تھی۔

ابتدا میں تو ایوری نے اس مریض کی دیوانگی کے چاند کی گردش سے جڑے ہونے کے خیال کو مسترد کردیا، کیوں کہ اگر اس شخص کا مزاج چاند کی گردش کے ساتھ مطابقت رکھتا تب بھی ایوری کے پاس اس بات کو واضح کرنے کے لیے کوئی میکانزم نہیں تھا اور نہ اس نے آج تک کسی ایسے مریض کا علاج کیا تھا جس کی ذہنی اور جسمانی کیفیت چاند کی گردش سے مشروط ہوں لہٰذا ڈیوڈ نے مذکورہ مریض کے مزاج اور نیند کو متوازن کرنے کے لیے ہلکی پھلکی تھراپی اور ادویات تجویز کردیں۔ کچھ عرصے بعد اسے اسپتال سے چھٹی دے کر گھر بھیج دیا گیا اور اس فرد کے لکھے گئے نوٹس کو ڈیوڈ نے اپنی دراز میں ڈال کر اسے بند کردیا۔ اور بات آئی گئی ہوگئی۔

اس واقعے کے بارہ سال بعد امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے تحقیقی سائنس داں اور ماہرنفسیات تھوماس الون وہر نے ’بائی پولر موڈ سائیکلز اینڈ لیونر ٹائیڈل سائیکلز‘ کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس میں ’ریپڈ سائیکلنگ بائی پولر ڈس آرڈر‘ (ایک ایسی بیماری جس میں مبتلا فرد میں یاسیت اور مالیخولیا کے درمیان تبدیلی دیگر مریضوں کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے ہوتی ہے اور درحقیقت ڈیوڈ کا مریض بھی اسی بیماری میں مبتلا تھا) کے 17مریضوں کی کیفیات کو بیان کیا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں تھوماس نے لکھا ’اس بیماری کی تشخیص نے مجھے الجھا کر رکھ دیا، کیوں کہ چاند کے گردشی چکر سے جُڑی باتیں توہم پرستی سمجھی جاتی ہیں اور لازماً کوئی بھی اسے ایک بایولوجیکل پراسیس (حیاتیاتی طریقۂ کار) تصور نہیں کرے گا، اور اس طرح چاند کی گردش کا انسانوں پر بیرونی طور پر اثرانداز ہونا میرے لیے بھی باعث حیرت تھا۔‘

زمانۂ قدیم سے ہی لوگوں کو اس بات پر یقین رہا ہے کہ چاند انسانی طرزعمل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لفظlunacy  (دیوانگی) کو لاطینی لفظ lunaticus سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ’مون اسٹرک‘ (دیوانہ، سودائی) کے ہیں، یونانی فلسفی ارسطو اور تاریخ طبیعی کے رومن ماہر پلینیوس کو بھی اس بات پر پختہ یقین تھا کہ پاگل پن اور مرگی کی بیماری چاند کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اس دور میں حاملہ خواتین کے لیے بچے کو جنم دینے کا بہترین وقت وہ سمجھا جاتا تھا جب چاند اپنے جوبن پر ہو۔ اسی طرح بیش تر ایشیائی ممالک میں آج بھی چاند گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو باہر نکلنے اور کسی کام خصوصاً آگ کے پاس چانے یا کسی تیز دھار اوزار (چھری، بغدے وغیرہ) کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔ چاند کے حاملہ خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے کے لیے رواں سال مئی میں ایک تحقیق کی گئی۔

طبی جریدے ’یورپیئن جرنل آف آبسٹرکس اینڈ گائنی کولوجی اینڈ ری پروڈکٹو بایولوجی‘ میں شایع ہونے والے اس تحقیقی مطالعے میں 1810ء سے1929ء تک ہونے والی 1484قمری گردشوں میں ہونے والی 23 ہزار689ڈیلیوریز کو شامل کیا گیا۔ یہ تمام ڈیلیوریز کسی طبی جانچ اور طبی امداد کے بنا گھروں میں ہوئی تھیں۔ ایک سو بیس سال میں ہونے والی ان ڈیلیوریز کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ قمری رویت اور پیدائش کی فریکوئنسی کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ اور کئی صدیوں سے پھیلی اس توہم پرستی کے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے کہ چاند کی گردش بچوں کی پیدائش پر اثرانداز ہوتی ہے۔

چاند کے حوالے سے ایک بات یہ بھی عام ہے کہ اس کی روشنی اور گردش نفسیاتی مریضوں اور قیدیوں میں تشدد آمیز جذبات میں اضافہ کرتی ہے۔ ’امریکن جرنل آف کرمنل جسٹس‘ میں ’اے ہنٹر مون؛ دی افکیٹ آف دی مون الیومینیشن آن آؤٹ ڈور کرائم‘ کے نام سے شایع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے نتائج اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں امریکا کے نیشنل انسیڈینٹ بیسڈ رپورٹنگ سسٹم (این آئی بی آر ایس ) اور آٹو ریگریسو انٹیگریٹو موونگ ایوریج (اے آر آئی ایم اے) کی جانب سے امریکا کی تیرہ ریاستوں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا میں رات دس بجے سے دو بجے تک رپورٹ ہونے والے جرائم کا جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ چاند کی روشنی کی شدت نہ صرف نفسیاتی مریضوں اور قیدیوں کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات باہر موجود لوگوں پر بھی اسی طرح مرتب ہوتے ہیں۔

چاند کی روشنی کم ہونے سے جرائم کے واقعات میں کمی اور زیادہ ہونے سے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ چاند کی گردش انسانی رویوں پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ نیند کے دورانیے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ 2013ء میں ’قمری چکر کے انسانوں کی نیند پر مرتب ہونے والے شواہد‘ کے نام سے شایع ہونے والی ایک تحقیق اس قدیم تصور کو ثابت کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب چاند اپنے جوبن پر ہو تو انسانی جسم میں گہری نیند کی نشان دہی کرنے والی ’نان ریپڈ آئی موومنٹ ‘ (NERM) کی سرگرمی کے دوران الیکٹروانسیفالو گرام (ای ای جی ) 30 فی صد کم ہوجاتی ہے جس سے نیند کا دورانیہ بیس فی صد کم ہوجاتا ہے۔ اس بابت آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق Vladyslav Vyazovskiy  کا کہنا ہے کہ چاند کی گردش کے انسانی رویوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مریضوں کو کم از کم پورے ایک قمری ماہ تک چاند کے مختلف مدارج میں مانیٹر کیا جانا چاہیے اس کے بعد ہی ہم کوئی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔

اور تھوماس نے بائی پولر مریضوں پر اپنی تحقیق میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ان کے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں کو کئی سالوں تک ٹریک کیا ہے۔ اپنے اس طریقے کے بارے میں تھوماس کا کہنا ہے کہ ’ہر فرد قمری گردش میں مختلف ردعمل دیتا ہے، یہاں تک کہ اگر آپ ان کا مجموعی ڈیٹا جو کہ میں جمع کرچکا ہوں، کا اوسط بھی لے لیں تب بھی میں نہیں سمجھتا کہ آپ نے کچھ تلاش کرلیا ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو انفرادی طور پر وقت دیا جائے تب ہی اس کا قریب ترین نتیجہ سامنے آئے گا۔ اس کام کے لیے تھوماس نے اپنے مریضوں کو دو درجوں میں تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں کے مزاج میں تبدیلی 14 اعشاریہ 8دن کی گردش میں ظاہر ہوئی، اور کچھ مریضوں میں13 اعشاریہ7دن کی گردش میں، جب کہ ان میں سے کچھ مریضوں کے مزاج میں ان دونوں گردشوں کے درمیان تبدیلی آتی رہی۔‘

چاند کے انسانی رویوں پر اثرانداز ہونے والی اس نئی تحقیق کے بارے میں ماہر نفسیات ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ’چاند زمین پر مختلف طریقوں سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، سب سے پہلا اور واضح طریقہ چاند کی روشنی ہے، جو کہ مکمل چاند کے ساتھ تقریباً ساڑھے29دن اور اس کے بعد نئے چاند کی روشنی 14اعشاریہ8دن بعد آتی ہے، پھر چاند کا تجاذبی (کشش ثقل کی وجہ سے پیدا ہونے والا کھنچاؤ) کھنچاؤ پیدا ہونے سے سمندر کی لہروں میں ہر 12 گھنٹے40 منٹ بعد مدوجزر پیدا ہوتے ہیں۔ ان لہروں کی اونچائی دو ہفتوں کی گردش (14اعشاریہ8دن) کی بھی تقلید کرتی ہے۔

اسے ’اسپرنگ نیپ سائیکل‘ بھی کہا جاتا ہے، جو کہ چاند اور سورج کے مشترکہ کھنچاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی طرح 13اعشاریہ7دن کی گردش کو ’تنزل پذیر گردش‘ کہا جاتا ہے، جو چاند کی پوزیشن کی زمین کے خط استوا سے تعلق کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایوری کا کہنا ہے کہ تھوماس کے مریضوں میں مالیخولیا کی علامات بھی ان دو ہفتوں میں ظاہر ہوتی ہے جب سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر 13اعشاریہ 7دن یا14اعشاریہ8 دنوں کی گردش میں یاسیت یا پاگل پن کا شکار ہوں۔ یہ قمری مدوجزر کے ایک مخصوص درجے میں بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔‘

تھوماس نے اپنی تحقیق میں شامل مریضوں پر چاند کے اثرات مرتب ہونے کے مزید شواہد بھی پیش کیے، اس ریسرچ میں تھوماس پر یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ ان مریضوں کے مزاج میں ہر 206 دن بعد تبدیلی ہوئی، اس کے علاوہ دیگر کسی قمری گردش میں ان کا مزاج متاثر نہیں ہوا۔ اس تحقیق کے بارے میں سوئٹرزلینڈ کی یونیورسٹی آف بازل کے سائیکاٹرسٹ اسپتال کی پروفیسر Anne Wirz-Justiceکا کہنا ہے کہ ’تھوماس کی چاند کی گردش اور پاگل پن کے درمیان ربط پر کی گئی تحقیق پر یقین تو کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی پیچیدہ تحقیق ہے، کیوں کہ اس میں کسی کو بھی یہ آئیڈیا نہیں ہے کہ اس کا میکانزم کیا ہے۔ تاہم یہ بات تو مصدقہ ہے کہ چودہویں کے چاند کی روشنی انسانوں کی نیند کو متاثر کرتی ہے جو ان کے مزاج پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ خصوصاً بائی پولر مریضوں کی حد تک یہ بات درست بھی ہے کیوںکہ ان کا مزاج اکثر و بیشتر نیند کے متاثر ہونے یا شب و روز کے معمولات میں تبدیلی اور چوبیس گھنٹے کے ارتعاش سے ہمارے حیاتیاتی نظام اور طرز عمل میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو عموماً رات کے اوقات میں کام کرنے والے یا طویل پرواز کرنے والے افراد میں انتشار کا سبب بنتی ہیں۔‘

چاند کی گردش کے انسانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرِافلاکیات رابرٹ وکیس کا کہنا ہے کہ ’دورجدید میں بصری آلودگی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ہم زیادہ تر وقت گھر اور دفاتر میں بیٹھ کر مصنوعی روشنیوں میں گزارتے ہیں، اور یہ اس بات کا سگنل بھی ہے کہ چاند کی روشنی کی سطح دھندلا رہی ہے۔ مریضوں کی نیند پر چاند کے اثرات سے بے چینی پیدا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ان کے مزاج کی برہمی کی صورت سامنے آتا ہے۔ ایک دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ زمین کے مقناطیسی میدان میں اچانک ہونے والے تغیرات سے حساس افراد متاثر ہوتے ہی۔

سمندر نمکین پانی کی وجہ سے برق موصل ہوتے ہیں اور اس سے مشروط مقناطیسی میدان کی وجہ سے لہروں میں مدوجزر پیدا ہوتے ہیں، تاہم یہ اثرات بہت معمولی ہوتے ہیں اور چاند کے زمین کے مقناطیسی میدان پر مرتب ہونے والے اثرات کے بہت زیادہ مضبوط ہونے اور اس سے حیاتیاتی تبدیلیوں کی طرف جھکاؤ غیرواضح ہے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ یقیناً کچھ ریسرچ پیپرز میں شمسی سرگرمیوں کا ربط ہارٹ اٹیک، فالج، مرگی کے دوروں، مالیخولیا اور خودکشی سے جوڑا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج گرہن کے وقت جب شمسی شعلے خارج ہوکر زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکراتے ہیں تو اس سے ایک غیرمرئی برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے جو کہ پاور گرڈز تک کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہوتا ہے او اسی سے دل اور دماغ کے حساس برقی خلیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس لیے سورج گرہن کودیکھنے اور اس دوران حاملہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جاتا ہے۔ مخصوص پرندوں، مچھلیوں اور حشرات الارض کے برعکس انسانوں میں مقناطیسی حس نہیں ہوتی، تاہم حال ہی میں شایع ہونے والی ایک ریسرچ نے اس مفروضے کو بھی چیلینج کردیا ہے۔ جب اس تحقیق میں شامل افراد کو مقناطیسی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرایا گیا تو ان کے دماغ کی الفا ویو سرگرمیوں میں تخفیف (کمی) بھی دیکھی گئی، الفا ویو اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم جاگ رہے ہوں، لیکن کوئی کام سرانجام نہ دیں۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت غیرواضح رہتی ہے، ایک طرح سے یہ ارتقاء کی غیرمتعلقہ بائی پراڈکٹ ہے یا یہ ہمارے ماحول میں ہونے والی وہ مقناطیسی تبدیلیاں ہیں جو چالاکی سے ہمارے دماغ کی کمیسٹری سے کھیل رہی ہیں لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔

مقناطیسی تھیوری کی بات کی جائے تو گذشتہ کئی دہائیوں میں اس پر متعدد تحقیق ہوچکی ہیں کچھ مخصوص اجسام جیسے کہ مکھیوں کی ایک نسل ’فروٹ فلائیز‘ میں ایک پروٹین ’کرپٹو کروم‘ ایک مقناطیسی سینسر کی طرح بھی اپنے افعال سرانجام دیتا ہے۔ کرپٹو کروم مالیکیولر گھڑی کا اہم حصہ ہے جو 24گھنٹے ہمارے دماغ، خلیات اور عضلات میں ایک توازن میں کام کرتے ہیں۔ جب یہ کرپٹو کروم روشنی جذب کرنے والے مالیکیولز (فلیون) کے ساتھ ملتے ہیں تو یہ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ’سرکیڈین کلاک‘ کو بتاتے ہیں کہ یہ دن کا وقت ہے، ان کا یہ ردعمل مالیکیولر کمپلیکس کو مقناطیسی طور پر حساس بنانے کا سبب بنتا ہے۔‘ اس بابت برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی کے ماہرجینیات بیمبوز Kyriacou کا کہنا ہے کہ ہماری ریسرچ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوفریکوئنسی مقناطیسی میدان کا ایکسپوژر فروٹ فلائیز کی ’سرکیڈین کلاک‘ کی ٹائمنگ کو تبدیل کردیتا ہے، جس سے ان کے سونے کے اوقات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔

فروٹ فلائیز کی طرح کرپٹو کروم انسان کی سرکیڈین کلاک کا بھی ایک لازمی جُز ہیں لیکن انسانوں میں اس کے کام کرنے کا طریقۂ کار فروٹ فلائیز سے تھوڑا مختلف ہے۔ انسانوں اور دیگر ممالیہ میں کرپٹو کروم فلیون سے مربوط نہیںہوتا اور اس کے بنا ہم نہیں جانتے کہ مقناطیسی حساسیت کی کیمسٹری کو کس طرح ٹرائیگر کیا جائے گا۔ لیکن اب ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ چاند کی گردش اور اس کی روشنی ہمارے رویوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں مزید تحقیق کرنا ضروری ہے۔

The post چاند۔۔۔۔جو سُنا محض افسانہ نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

میلکم ایکس کا تاریخی حج

$
0
0

یہ 13 اپریل 1964ء کی تاریخ تھی جب امریکی سیاہ فاموں کے ممتاز لیڈر، میلکم ایکس مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وہ 21 مئی کو واپس وطن پہنچے۔ اس دوران وہ سعودی عرب،مصر، لبنان، نائجیریا، گھانا، مراکش اور الجزائر میں گھومے پھرے اور وہاں کے لیڈروں و عوام سے ملاقاتیں کیں۔

اس دورے کی معراج میلکم ایکس کا مکہ معظمہ میں حج کرنا تھا۔حج مبارک نے امریکی سیاہ فام لیڈر کی کایا پلٹ ڈالی۔ حتیٰ کہ ان کی فکروعمل کا سانچہ ہی بدل گیا اور وہ ایک بالکل مختلف لیڈر بن کر کروڑوں امریکیوں کے سامنے آئے۔اس تبدیلی کی داستان سبق حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔

ظالموں کے گھیرے میں
میلکم ایکس کی زندگی ڈرامائی واقعات اور اونچ نیچ سے بھرپور ہے۔ اصل نام میلکم لٹل تھا۔ 19 مئی 1925ء کو ریاست نبراسکا کے شہر اوماہا میں پیدا ہوئے۔ والد، ارل لٹل سیاہ فاموں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنائی گئی ایک تنظیم، یونیورسل نیگرو امپرومنٹ ایسوسی ایشن کے مقامی عہدے دار تھے۔ اوماہا میں تنظیم کے صدر بھی رہے۔ مزید براں مقامی چرچ میں مذہبی لیکچر بھی دیتے۔ان کا شمار امریکا کی سول رائٹس موومنٹ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔اوماہا میں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے۔ وہ کارخانوں میں معمولی ملازمتیں انجام دیتے ۔ سفید فام مگر ان سے نفرت کرتے۔ سفید فام نوجوان سمجھتے تھے کہ سیاہ فام شہر میں بس کر ان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ اسی لیے ماضی میں سفید فام کئی سیاہ فاموں کو مارپیٹ کر سولی دے چکے تھے۔ یہ ظالمانہ فعل امریکی سفید فاموں کا بنیادی ہتھیار تھا۔سفید فاموں کو ارل لٹل ایک آنکھ نہ بھاتے جو شہر کے سیاہ فاموںکو حقوق دلوانے کی خاطر جدوجہد کررہے تھے۔ سفید فاموں کی مشہور تنظیم، کوکلس کلین کے دہشت گرد ارل لٹل کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ تبھی وہ 1926ء میں بیوی بچوں کو لیے پہلے ریاست ویسکونسن پھر ریاست مشی گن کے شہر، الانسنگ چلے گئے۔ اس نئے شہر میں بھی نسل پرستی عروج پر تھی۔ متعصب سفید فاموں نے سیاہ فاموں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں بدستور اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ ’’بلیک لیجن‘‘ تنظیم ان میں سب سے طاقتور اور بااثر تھی۔

1929ء میں بلیک لیجن کے دہشت گردوں نے ارل لٹل کا گھر جلادیا۔ اہل خانہ بروقت گھر سے نکلنے کے باعث محفوظ رہے۔ سفید فام دہشت گروہوں نے پے در پے حملے کیے مگر ارل لٹل کی ہمت پست نہیں کرسکے۔ وہ چرچوں میں سیاہ فاموں کو اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے ابھارتے رہے۔ ان کا سفید فام امریکی حکمرانوں سے مطالبہ تھا کہ سیاہ فام طبقے کو بھی سول و جمہوری حقوق عطا کیے جائیں۔ مگر نسل پرست اور انتہا پسند سفید فاموں کے نزدیک یہ مطالبہ بہت بڑا جرم بن گیا۔ چناں چہ 1931ء میں بلیک لیجن کے دہشت گردوں نے ارل لٹل پر کار چڑھا کر انہیں مار ڈالا۔ارل لٹل کو احساس ہوگیا تھا کہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ اگر وہ چل بسے، تو ان کے چھ بچے اور بیوی کیسے گزراوقات کریں گے؟ انہیں مالی سہارا دینے کی خاطر ہی ارل لٹل نے انشورنس پالیسی لے لی۔ مگر وہ بھول گئے کہ انشورنس کمپنی کے کرتا دھرتا بھی متعصب انگریز تھے۔ انہوں نے ارل لٹل کی موت کو خودکشی قرار دے کر انشورنس کی رقم بیوہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ یوں سیاہ فام رہنما کی موت کے بعد بھی ان کے اہل خانہ پر ظالم سفید فام ظلم و ستم ڈھاتے رہے۔

ماں پاگل ہو گئی
ارل لٹل کی بیوہ، لائوزے لٹل ایک بہادر خاتون تھی۔ وہ چاہتی تو حکومت یا کسی سماجی تنظیم سے خیرات لے سکتی تھی۔ یوں اہل خانہ کے اخراجات پورے ہوجاتے۔ مگر لائوزے کی خودداری نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ لہٰذا وہ کوئی ملازمت ڈھونڈنے لگی۔ مگر امریکہ ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کا شکار تھا۔ کاروباری و صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی تھیں۔ ایسے میں ایک انقلابی سیاہ فام رہنما کی بیوہ کو کون ملازمت دیتا؟جلد ہی لائوزے کی جمع پونجی ختم ہوگئی۔ اب مجبوراً اسے خیراتی اداروں سے بچوں کے لیے کھانا لانا پڑا۔ بچوں کے اخراجات، بیروزگاری و غربت کا خوف اور ہاتھ پھیلانے کی ذلت…ان تمام عوامل نے لائوزے لٹل کے اعصابی و ذہنی نظام پر شدید دبائو ڈال دیا۔ چند ہی برس بعد وہ مخبوط الحواس ہوگئی اور اسے پاگل خانے داخل کرانا پڑا۔

حقائق سے آشکارا ہے کہ میلکم ایکس کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا۔ انہیں شعور سنبھالتے ہی تشدد، قتل و غارت، ظلم و ستم، غربت و بیروزگاری جیسے غیر معمولی عوامل سے واسطہ پڑگیا۔ وہ ماں باپ کی شفقت و محبت بھی طویل عرصے نہ پاسکے۔ جب والدہ پاگل ہوئیں تو انہیں اور ان کے دیگر بہن بھائیوں کو سیاہ فام گھرانوں کے سپرد کردیا گیا تاکہ وہ بچوںکی پرورش کرسکیں۔میلکم ایکس کو جس سیاہ فام گھرانے کے سپرد کیا گیا‘ وہ بھی مالی مسائل سے دوچار تھا۔ حتیٰ کہ میلکم کو پیٹ بھر کر غذا بھی نہیںملتی۔ بھوک تو بڑ ے بڑوں کو گمراہ کر دیتی ہے، میلکم تو پھر نوخیز لڑکے تھے۔ وہ ہوٹلوں اور دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں چوری کرنے لگے تاکہ پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ ایک د ن پولیس نے انہیں پکڑ لیا۔ میلکم کو بچوں کی جیل بھجوا دیا گیا۔ وہاں سیدھی راہ سے بھٹکے بچوں کی اصلاح و تربیت کی جاتی تھی۔

تم وکیل کیسے بنو گے؟
خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران میلکم ایکس بھی نت نئے سکولوں میں زیر تعلیم رہے۔ اس لیے تمام تر مشکلات کے باوجود ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ حیران کن طور پر ان کی تعلیمی کارکردگی عمدہ تھی۔ وہ ہر جماعت میں اچھے نمبر لے کر کامیاب ہوتے ۔ مگر میلکم جب آٹھویں کلاس میں تھے‘ تو ایک واقعے نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔کلاس میں سبھی سفید فام استاد باتوں باتوں میں سیاہ فاموں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جماعت میں میلکم سمیت صرف تین بچے سیاہ فام تھے۔ میلکم نے خوب محنت کی اور بہترین نمبر لے کر کلاس مانیٹر بن گئے۔ اس شاندار کارکردگی پر صرف ایک سفید فام استاد ‘ مسٹر اوسٹراوسکی نے میلکم کو شاباش دی اور اس کا حوصلہ بڑھایا۔کچھ عرصے بعد کلاس میں کیریئرکے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔ جب میلکم کی باری آئی۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ وکیل بننا چاہتے ہیں۔ مسٹر اوسٹراوسکی بولے ’’ارے لڑکے ‘ تم نگر (Nigger) ہو۔حقیقت پسند بنو، ذرا سوچو ،کیا تم وکیل بن سکتے ہو؟‘‘ (یاد رہے‘ امریکی معاشرے میںسیاہ فام نگر کا لفظ بطور گالی لیتے ہیں)

اس بات سے قدرتاً میلکم کو سخت تکلیف پہنچی ۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ چاہے کتنی ہی شاندار تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ دکھا دیں‘ امریکی سفید فام معاشرے میں انہیں بلند مقام نہیں مل سکتا کیونکہ وہ کالے ہیں۔اس واقعے کے بعد میلکم ایکس کا تعلیم سے جی اچاٹ ہو گیا۔ یہی نہیں‘ وہ سفید فاموں سے مزید نفرت کرنے لگے۔ انہیں کئی بار تجربہ ہوا تھا کہ بظاہر شریف پڑھے لکھے نظر آنے والے سفید فام بھی نسل پرست ا ور متعصب ہوتے ہیں۔ ان تجربات نے میلکم کو جارحیت پسند اور معاشرے کا باغی بنا دیا۔وہ 1941ء میں بوسٹن شہر چلے گئے جہاں ان کی بہن رہتی تھی۔ کچھ عرصے بعد ایک منشیات فروش ان کا دوست بن گیا۔ اس نے ایک نائٹ کلب میں انہیں جوتے پالش کرنے کی ملازمت دلوا دی۔جوتے پالش کرتے ہوئے میلکم کو احساس ہوا کہ اکثر گاہک منشیات بھی طلب کرتے ہیں۔چنانچہ وہ منشیات بھی فروخت کرنے لگے۔ جلد ہی وہ خود بھی نشہ کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔

جرائم کی دنیا میں
1943ء میں میلکم نیویارک کے مشہور علاقے ہارلیم آ بسے جہاں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے۔ وہاں وہ منشیات فروشی‘ جوئے بازی‘ چوری چکاری‘ طوائف فروشی اور دیگر جرائم سے منسلک رہے۔1945ء میں میلکم پھر بوسٹن چلے گے اور وہاں سیاہ فام چوروں کا گروہ بنا کر امیر سفید فاموں کے گھر چوریاں کرنے لگے۔ تاہم اگلے سال پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ مقدمہ چلا اور ان کو دس برس قید سخت کی سزا ہو گئی۔جیل میں یہ خطرہ موجود تھا کہ وہاں قید عادی مجرم افراد نوجوان میلکم کو جرائم کی دنیا میں مزید دھکیل دیں گے مگر ان کی خوش قسمتی کہ انہیں اپنے بھائی‘ ریجلنڈ لٹل کی صورت ایک مدد گار مل گیا۔ریجلنڈ اکثر بڑے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ وہ معمولی ملازمتیں کر رہا تھا اور عموماً قلاش رہتا۔ میلکم نے کوشش کی کہ ریجلنڈ بھی دنیائے جرائم میں قدم دھر دے مگر اس نے انکار کر دیا۔ وہ اپنا ایمان و اخلاق خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جرائم میں لتھڑ جانے کے باوجود میلکم میں نیکی کی رمق باقی تھی۔ اسی لیے وہ اپنے اس شریف بھائی کی بہت عزت کرتے ۔

ریجلنڈ نے بھائی کو بتایا کہ وہ ایک تنظیم‘ نیشن آف اسلام کا رکن بن گیا ہے۔ اس نے میلکم پر زور دیا کہ وہ بھی تنظیم کا رکن بن جائے۔ یہ تنظیم 1930ء میں ریاست مشی گن کے شہر ڈیئرائٹ میں ایک پُراسرار شخص، والاس فرد محمد نے قائم کی تھی۔ ان کے نظریات کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکا میں آباد تمام سیاہ فام مسلمانوں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنا حقیقی مذہب،اسلام اختیار کر لینا چاہیے۔1934ء میں فرد محمد پُراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ ان کے نائب، عالیجاہ محمد نے تنظیم کی سربراہی سنبھال لی۔عالیجاہ نے نیشن آف اسلام کو نسل پرست تنظیم بنا ڈالا ۔ اس کے نظریات یہ تھے کہ سفید فام شیطان کی ا ولاد جبکہ سیاہ فام سب سے برتر واعلی نسل ہیں۔ یہ تنظیم سیاہ فاموں کو امریکا میں طاقتور گروہ بنانا چاہتی تھی۔ تاہم عالیجاہ محمد کے نظریات اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے‘ اسی لیے عام مسلمانوں کے نزدیک نیشن آف اسلام ایک گمراہ کن اسلامی تنظیم بن گئی۔ بہر حال تنظیم میںبعض اسلامی خصوصیات موجود رہیں۔ مثلا یہ کہ سور کا گوشت نہ کھاؤ‘ نشہ نہ کرو‘ راست بازی سے زندگی گزارو اور ایک خدا کی عبادت کرو۔

نیشن آف اسلام
جرائم پیشہ بن جانے کے بعد میلکم دہریے بن گئے تھے۔ وہ مذہب کو بیکار شے سمجھنے لگے۔ لیکن ریجلنڈ لٹل کی کوششوں سے میلکم سوچ بچار کرنے لگے کہ آخر وہ کیوں گھٹیا و بیکار زندگی گزار رہے ہیں؟دنیا میں ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اسی غور و فکر نے انہیں کتابوں کی سمت راغب کر دیا۔ جیل میں ایک بڑی لائبریری موجود تھی۔ اب میلکم کے شب و روز وہاں گذرنے لگے۔ انہوںنے مختصر عرصے میں سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کر ڈالا۔ اسی طرح میلکم دوبارہ علم و تعلیم کی دنیا سے جڑ گئے۔1948ء کے اواخر میں میلکم نیشن آف اسلام سے وابستہ ہو ئے۔ اب پیسہ کمانا نہیں امریکی سیاہ فاموں کو حقوق دلوانا زندگی کا مشن بن گیا۔ وہ پس ماندہ‘ کمزور اور بے بس سیاہ فاموں کو امریکی معاشرے میں تعلیم یافتہ‘ طاقتور اور بااثر بنانا چاہتے تھے۔ ان کے والد کی بھی یہی تمنا تھی ۔ اسی طرح میلکم بد راہ چھوڑ کر نسبتاً بہتر راستے پر گامزن ہو گئے۔اس زمانے میں پورے امریکا میں مختلف سیاہ فام رہنما لاکھوں سیاہ فاموں کوحقوق دلوانے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ تب ان میں بیک وقت دو لائحہ عمل کار فرما تھے۔ پہلا اختیار کرنے والے سیاہ فام فلسفہ عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پُرامن مظاہروں کے ذریعے سفید فام حکمرانوں سے مطالبات منظور کرائے جا سکتے ہیں۔ آگے چل کر مارٹن لوتھر کنگ اسی گروہ کے لیڈر بن کر سامنے آئے۔دوسرے لائحہ عمل پر کاربند سیاہ فام رہنما سمجھتے تھے کہ حقوق کی جنگ میں طاقت کا استعمال بھی ہونا چاہیے تاکہ سفید فام اکثریت اس خام خیالی سے باہر نکل آئے کہ سیاہ فام کمزور و بے بس قوم ہے۔ امریکا میں بعدازاں میلکم ایکس ہی اس لائحہ عمل کے مشہور ترین سیاہ فام لیڈر کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔ وہ اپنے نام کے آخری حرف (لٹل) سے چھٹکارا پاکر اس کی جگہ ایکس لکھنے لگے۔ میلکم کا کہنا تھا کہ سفید آقا نے ان کے پردادا کو ’’لٹل‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ انہوں نے غلامی کی اس یادگار کو کھرچ ڈالا۔

دراصل بچپن سے لے کر نوجوانی تک میلکم نے سفید فام اکثریت کے ہاتھوں ظلم سہے تھے۔ تلخ تجربات نے انہیں جارحیت پسند رہنما بنا دیا۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے حقوق پانے کی جدوجہد میں طاقت کے استعمال کی نظریاتی تشریح کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کے درج اقوال بہت مشہور ہوئے:

٭… ہماری کتاب، قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ پُر امن طور پر ظلم سہتے رہو۔ ہمارا مذہب ہمیں سمجھدار و عاقل بننے کی تلقین کرتا ہے۔
٭… جب دفاع کے طور پر جنگ کی جائے تو میں اسے تشدد نہیں ذہانت کا نام دیتا ہوں۔
٭… پُرامن رہیے، مہذب بنیے، قانون کا احترام کیجیے، ہر کسی کو عزت دیجیے۔ مگر کوئی آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈالے تو اسے قبرستان پہنچا دیجیے۔
٭… اگر آپ نے دوسرا گال سامنے کردیا، تو یاد رکھیے، ایک ہزار سال تک غلام بنالیے جائیں گے۔
٭… عدم تشدد کے اگر یہ معنی ہیں کہ امریکی سیاہ فاموں کی مشکلات و مسائل حل نہ کیے جائیں، تو میں تشدد کا حامی ہوں۔
٭… ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ سیاہ فاموں کو ریسٹورنٹ میں انہی سفید فاموں کے ساتھ بٹھانا چاہتے ہیں جو ہم پر پچھلے چار سو برس سے ظلم ڈھا رہے ہیں۔

میلکم ایکس اگست 1952ء میں جیل سے رہا ہوئے۔ وہ پھر امریکا بھر میں نیشن آف اسلام کے نظریات کی ترویج کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی سیاہ فاموں کو حقوق و فرائض کا شعور و آگاہی دے کر انہیں باعزت و آزاد شہری بنایا جاسکے۔ میلکم پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے۔ مقصد سے لگن نے انہیں پرجوش مقرر بنادیا۔ اہم ترین بات یہ کہ غریب و مسکین سیاہ فاموں کے سینوں میں ظالم سفید فاموں کے خلاف جو جذبات دبے تھے، میلکم نے انہیں زبان دے دی۔ اسی لیے وہ عام سیاہ فاموں میں مقبول رہنما بن گئے۔نوجوان لیڈر کی کرشماتی شخصیت کا اعجاز ہے کہ سیاہ فام بڑی تعداد میں نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ 1952ء میں تنظیم کے ارکان کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میلکم کی متحرک سرگرمیوں کے سبب وہ اگلے دس برس میں پچھتر ہزار تک پہنچ گئی۔ تنظیم نے کئی شہروں میں مساجد قائم کرلیں۔ مشہور باکسر، محمد علی بھی میلکم ایکس کی تقریروں اور شخصیت سے متاثر ہوکر نیشن آف اسلام کے رکن بن گئے۔

میلکم ایکس رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سفید فام سیاہ فاموں کو حقوق نہیں دیتے، تو انہیں بندوق اٹھالینی چاہیے۔ میلکم نے پھر امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے علیحدہ مملکت بنانے کا اعلان کردیا۔ امریکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے میلکم کے کئی انٹرویو پیش کیے اور یوں وہ امریکا میں جانے پہچانے سیاہ فام لیڈر بن گئے۔ ان کے نظریات و خیالات کو شمالی و مغربی امریکا میں مقیم سیاہ فاموں نے بہت پذیرائی بخشی جو صدیوں سے سفید فام اکثریت کے مظالم کا شکار تھے۔امریکہ میں سول رائٹس تحریک کے سیاہ فام لیڈر مگر میلکم ایکس پر شدید تنقید کرتے۔ ان کہنا تھا کہ میلکم تشدد آمیز طریقے اختیار کرکے کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتے۔ میلکم نے جواب میں انہیں سفید فام اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے قرار دیا جو حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کررہے تھے۔ حکومت وقت کی نظروں میں تو میلکم ایکس ایسے خطرناک سیاہ فام لیڈر بن گئے جو ضرورت پڑنے پر ریاست کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاسکتا تھا۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی، ایف بی آئی میلکم کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے لگی۔

حج کو روانگی
میلکم ایکس اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے بھر پور جدوجہد کررہے تھے کہ ان کی راہ میں انوکھی رکاوٹیں در آئیں۔ ہوا یہ کہ ان کا نیشن آف اسلام کے سربراہ، عالیجاہ محمد سے ٹکرائو ہوگیا۔ دراصل 1962ء تک میلکم ایکس تنظیم کے مقبول ترین رہنما بن چکے تھے۔ ان کی شہرت و عزت دیکھ کر عالیجا محمد میلکم سے حسد کرنے لگا۔ اسے یہ خطرہ بھی محسوس ہوا کہ میلکم تنظیم کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے وہ میلکم کی سرگرمیاں محدود کرنے لگا۔اسی دوران میلکم پر افشا ہوا کہ عالیجاہ ایک عیاش و بدکار آدمی ہے۔ اس نے اپنی سیکٹریوں سے ناجائز تعلقات استوار کررکھے تھے۔ تعلقات کے نتیجے میں اولاد نے بھی جنم لیا۔

جب میلکم کو یہ حقیقت معلوم ہوئی تو وہ بھونچکا رہ گئے۔ انہوں نے نیشن آف اسلام میں اس لیے شمولیت اختیار کی تھی کہ تنظیم ہر رکن پر زور دیتی تھی کہ وہ شرو بدی کی تمام سرگرمیاں تج کر خیرو نیکی کو اپنالے۔ گناہوں سے دور رہے اور اچھائی کے کام انجام دے۔ انہی نظریات کی وجہ سے میلکم نے نشے کی اپنی لت پر قابو پایا اور حتی الامکان نیکی و خیر کے کام انجام دینے لگے۔ تنظیم کے نظریات میں موجود اسلامی تعلیمات نے انہیں روحانی و جسمانی طور پر صفائی و پاکیزگی کا خوگر بنادیا۔اب عالیجاہ محمد ایک بے راہرو لیڈر کی صورت نمایاں ہوا، تو میلکم ایکس کو سخت دھچکا لگا۔ انہوں نے اپنے آئیڈیل کا جو پیکر تراش رکھا تھا، وہ پاش پاش ہوگیا۔ چناں چہ 8 مارچ 1964ء کو میلکم نے نیشن آف اسلام سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

پچھلے دو تین سال کے دوران مصر، لیبیا، سوڈان وغیرہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان سیاہ فام میلکم ایکس کے واقف کار بن چکے تھے۔ انہوں نے میلکم کو سنی اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جو انہیں بہت پسند آئیں۔ اب وہ مسلم ممالک جاکر اسلام سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اگلے ہی ماہ مشرق وسطیٰ جانے کا فیصلہ کرلیا۔میلکم ایکس سب سے پہلے قاہرہ پہنچے۔ وہاں سے انہیں جدہ جانے والی پرواز پکڑنی تھی۔ ہوائی اڈے پر ہی انہیں دین اسلام میں مساوات، بھائی چارے اور باہمی محبت کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ کئی یورپی ممالک اور افریقی ممالک سے ہزارہا حاجی قاہرہ ہوائی اڈے پہنچے ہوئے تھے تاکہ جدہ جاسکیں۔ ان میں کالے تھے اور گورے بھی، بدشکل تھے اور خوبصورت بھی، غریب تھے اور امیر بھی… مگر سب آپس میں گھل مل گئے اور عزت و احترام سے باتیں کرنے لگے۔ اس نظارے نے میلکم ایکس کو مبہوت کردیا۔ بیگم کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا:’’ہوائی اڈہ حاجیوں سے کچھا کھچ بھرا ہے۔ ان میں کالے، گورے، گندمی سبھی لوگ شامل ہیں مگر مجھے کہیں تنائو اور نفرت نظر نہیں آئی۔ ماحول میں گرم جوشی اور دوستی کے جذبے نمایاں ہیں۔ تبھی مجھے احساس ہوا کہ یہاں تو رنگ یا نسل کا کوئی جھگڑا ہی نہیں۔ یہ جان کو مجھے لگا جیسے میں کسی قید خانے سے نکل کر کھلی فضا میں آگیا ہوں۔‘‘

قاہرہ ہی میں دیگر حاجیوں کے مانند میلکم نے احرام باندھا۔ انہوں نے اپنا ٹریڈ مارک کوٹ پتلون اتارا اور دو کپڑوں پر مشتمل سفید احرام باندھ لیا۔ وہ خط میں لکھتے ہیں’’ ہوائی اڈے پر ہزاروں لوگ جمع تھے اور سب نے سفید لباس زیب تن کررکھا تھا۔ اب کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ دوسرا شخص بادشاہ ہے یا فقیر۔‘‘ ساتھی حاجیوں نے امریکی سیاہ فام لیڈر کو بتایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے سبھی مسلمان برابر ہوجاتے ہیں۔ تب صرف تقویٰ ان کے مابین تمیز پیدا کرتا ہے۔مکہ معظمہ میں میلکم ایکس کو حاجیوں کا کہیں بڑا مجمع دکھائی دیا۔ اس میں ہر رنگ، نسل، سائز اور ہئیت کے مردو عورتیں شامل تھے۔ حج سے قبل اور بعد کے مشاہدات اور تجربات نے امریکی سیاہ فام لیڈر کی ذہنیت ہی بدل ڈالی۔ سب سے بڑھ کر حقیقی اسلامی تعلیمات نے انہیں ایک انتہا پسند انسان کے بجائے اعتدال پسند اور متعدل مزاج مسلمان کا انمول روپ دے ڈالا۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:

’’امریکا کے لیے اسلام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ واحد مذہب ہے جو معاشرے سے کالے گورے اور امیر غریب کی تفریق مٹاڈالتا ہے۔ مجھے اب احساس ہوا ہے کہ سفید فام خلقی طور پر شیطان نہیں بلکہ امریکی معاشرے کے نسلی دبائو انہیں شیطانی حرکات کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔‘‘

دوران حج میلکم نے اس بات کا عملی مظاہرہ دیکھا کہ اسلام ہر رنگ و نسل، زبان اور طبقے کے مسلمانوں کو متحد کردیتا ہے۔ انہیں کالے، گورے ایک ہی برتن سے کھانا کھاتے نظر آئے۔ امریکا میں تو سفید فاموں نے سیاہ فاموں کے لیے ہر ہوٹل میں علیحدہ جگہیں بنارکھی تھیں۔ سیاہ فام صرف انہی مقامات پر کھانا کھاسکتے تھے۔ حتیٰ کہ ہوٹلوں میں سیاہ فام مختلف جگہ سے پانی پیتے ۔ میلکم کو یہ بھی دکھائی دیا کہ سبھی حاجی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کررہے ہیں اور کوئی اظہار ناراضی یا خفگی نہیں دکھاتا۔ باہمی عزت و احترام اور محبت اپنے عروج پر تھی۔غرض محبت، اپنائیت اور انسانیت کے اعلیٰ ترین جذبات سے معمور اسلامی تعلیمات نے میلکم ایکس کے دل و دماغ سے نفرت و دشمنی کا میل کچیل اتار ڈالا۔وہ اب ایک بالغ نظر شخص اور سچے پکے مسلمان بن گئے جو جھوٹ اور سچ کے مابین بخوبی تمیز کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے، میلکم ایکس مئی 1964ء میں امریکا پہنچے تو وہ بالکل مختلف انسان تھے۔ ایک ہی حج نے ان کی کایا پلٹ ڈالی تھی۔

شہادت کا درجہ پایا
اب میلکم سول رائٹس موومنٹ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر سیاہ فام لیڈروں پر تنقید کرنا بند کردی۔ باشعور سفید فاموں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ امریکی معاشرے سے نسلی تعصب اور نفرتوں کا خاتمہ کرسکیں۔اب صرف انتہا پسند سفید فاموں کا طبقہ ان کی تنقید کا نشانہ بن گیا۔ یہ طبقہ ہر حال میں امریکا میں سفید فام سپرمیسی برقرار رکھنے کا خواہش مند تھا۔سول رائٹس تحریک کے لیڈروں نے میلکم ایکس میں درآنے والی تبدیلی کا خیرمقدم کیا۔ دراصل میلکم عام سیاہ فاموں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ کھل کر، خوفزدہ ہوئے بغیر سفید فام اسٹیبلشمنٹ پر گرجتے، برستے تھے۔ لہٰذا رہنمائوں کو یقین تھا کہ میلکم کی شمولیت سے سول رائٹس تحریک مزید طاقتور اور مؤثر ہوجائے گی۔ عام سیاہ فام بھی بڑھ چڑھ کر اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔مشہور سیاہ فام ناول نگار، جیمز بالڈوین کا کہنا تھا ’’صرف میلکم ایکس سیاہ فاموں کے دکھ درد کو سمجھتا ہے۔ وہ بلا خوف و خطر سچائی بیان کرتا ہے۔‘‘

امریکی سیاہ فاموں کو یقین تھا کہ میلکم ایکس حقوق کی جدوجہد میں موثر کردار ادا کریں گے مگر حاسدوں نے جوانی میں انہیں قتل کردیا۔ 21 فروری 1965ء کو میلکم ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے کہ حملہ آوروں نے گولیاں مار کر انہیں شہید کرڈالا۔ انہیں اپنی شہادت کا پہلے ہی علم تھا۔ اسی لیے اکثر وہ گن سنبھال کر اپنے اہل خانہ کی چوکیداری کرتے نظر آتے۔ میلکم کو یقین تھا کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ بن چکے۔ آخرکار اس نے انہیں راہ سے ہٹا دیا ۔میلکم ایکس کا خون رائیگاں نہیں گیا اور امریکا میں سول رائٹس تحریک میں تیزی آگئی۔ 1968ء میں مارٹن لوتھر کنگ بھی قتل کردیئے گئے۔ اسی سال امریکی حکمرانوں کو مجبوراً سول رائٹس ایکٹ منظور کرنا پڑا۔ یوں چودہ سالہ تحریک کامیابی سے انجام کو پہنچی۔ اس کامیابی کی خاطر میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔اگرچہ امریکا میں صدر ٹرمپ جیسے سفید فام سپرمیسی پہ یقین رکھنے والے رہنما آج بھی سیاہ فاموں پر زبانی کلامی اور جسمانی حملے کرتے رہتے ہیں۔

حج مبارک نے شہید ملکم ایکس کو عالمی پائے کا مدبر اور دانشور بنادیا تھا۔ اگر وہ زندہ رہتے تو امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ مگر افسوس، ظالم استعمار نے ان کی جان لے لی۔ میلکم نے ’’دی روٹس‘‘ ناول لکھنے والے مشہور صحافی و لکھاری، آلکس ہیلی کی مدد سے اپنی آپ بیتی لکھی تھی۔ یہ سبق آموز، حیران کن اور دلچسپ واقعات سے بھرپور کتاب ہے۔ 1998ء میں رسالہ ٹائم نے میلکم ایکس کی آپ بیتی کو بیسویں صدی کی دس بااثر ترین کتب میں شامل کیا ۔ یہ کتاب عیاں کرتی ہے کہ کیونکر اسلامی تعلیمات اور خصوصاً حج مبارک نے ایک انتہا پسند اور متشدد سیاہ فام لیڈر کو معتدل مزاج اور افہام و تفہیم اپنالینے والا انسان بنا ڈالا۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو حج کی بدولت ہدایت پا لیں۔ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ آیات 200 ۔201 میں فرمایا ہے:’’جب ارکان حج ادا کر لو تو اللہ کو یاد کرو۔تب لوگوں میں سے بعض کہتے ہیں،اے رب،ہمیں دنیا ہی میں (اچھا)دے دے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔اور وہ (مسلمان )بھی ہے جو کہتا ہے،اے میرے رب،ہمیں دنیا میں اچھا دے،آخرت میں بھی اور ہمیں (دوزخ)کی آگ سے بچا۔‘‘

میلکم ایکس نے کہا
٭… مشکل اور رکاوٹ کو اپنا دشمن مت سمجھئے۔ ہر شکست، ہر صدمہ، ہر نقصان اپنا سبق رکھتا ہے جس کی مدد سے انسان خود کو بہتر بناسکتا ہے۔
٭… تعلیم مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔ مستقبل انہی لوگوں کا ہے جو آج تیاری کرلیں۔
٭… جو انسان کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں ہوتا اسے معمولی چیز بھی گرا دے گی۔
٭… اگر آپ کا کوئی ناقد نہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کوئی کامیابی بھی نہیں پاسکتے۔
٭… ایک دانش مند مسخرا بن سکتا ہے مگر ایک مسخرا کبھی دانشور نہیں بن پاتا۔


٭… تاریخ بنی نوع انسان کی یادداشت کے مانند ہے اور یادداشت کے بغیر انسان حیوان بن جاتا ہے۔
٭… اگر تمہارے پاس بندوق ہے تو میرے پاس بھی ہونی چاہیے۔ تم کتا پالتے ہو، تو مجھے بھی پالنے کا حق ملنا چاہیے۔ تم ڈنڈا رکھتے ہو، تو میرے پاس بھی ہونا چاہیے۔ اسی کو مساوات کہتے ہیں۔
٭… سفید فاموں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ بلٹ (گولی) چاہتے ہیں یا بیلٹ (ووٹ)۔
٭… میری مادر علمی کتابیں ہیں، ایک اچھی لائبریری… میں اپنے تجسس کی تسکین کے لیے ساری عمر مطالعہ کرتے بیتا سکتا ہوں۔
٭… مجرم ہونا ذلت کی بات نہیں، مجرم بنے رہنا توہین آمیز ہے۔
٭… عدم تشدد اس وقت تک بھلا ہے جب تک کام دیتا رہے۔
٭… طاقت کبھی پیچھے نہیں ہٹتی، وہ صرف مزید طاقت مانگتی ہے۔

The post میلکم ایکس کا تاریخی حج appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت؛ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا، مایوسی کفر ہے اور امید زندگی

$
0
0

قسط 57

عجیب ہوں ناں میں! ناروا تجسُس نے گھیرا ہُوا ہے مجھے اور سِر کو نہاں کرنے چلا ہوں میں۔ کتنا نادان و بے عقل و فہم ہوں میں، سامنے کی شے تو مجھے دکھائی نہیں دے رہی اور دُور کا بھید پانے کا آززو مند ہوں میں، عجیب ہوں میں ۔ فقیر اپنی بات کر رہا ہے، آپ تو دانا و بینا ہیں اور دُور اندیش بھی، افسوس خود پر! پَل کی فرصت ملے تو اپنے جیون پر ہی غور کروں۔ یہ اپنا دشمن جاں کس وقت یاد آیا، لوگ جسے اجمل سراج کے نام سے جانتے ہیں، لیکن جانتے ہی کب ہیں اسے۔

گرہ میں دام تو رکھتے ہیں زہر کھانے کو

یہ اور بات کہ فرصت نہیں ہے مرنے کی

ہم ایسے ہوگئے ہیں کہ ’’فرصت نہیں‘‘ کا راگ الاپتے چلے جاتے ہیں، تکرار اور مکرّر۔ دوسروں کی تو جانے دیں، خود پر بھی کبھی غور کرنے کا سمے نہیں ہے ہمارے پاس اور ایسے میں وہ تشریف لے آتے ہیں اور کہتے ہیں: چلیے! اپنی راحت بھری مسہری چھوڑیے، اپنا زرق برق پہناوا اتاریے، کفن اوڑھیے اور داخل ہوجائیے زمین کے پیٹ میں اور بتائیے کیا ہیں آپ؟ بہت مصروف تھے ناں آپ۔ افسوس! پھر کفِ افسوس مَلنے کا وقت بھی نہیں رہتا اور پھر لاد چلتا ہے بنجارا۔ ہم ناداں خود کو مقیم سمجھتے ہیں ناں، دھوکے اور فریب میں ہیں، سراسر خودفریبی میں گرفتار، بل کہ گرفتارِ بلا۔ مقیم یہاں کون رہا ہے، سبھی خانہ بہ دوش مسافر ہیں، اجل جسے ڈھونڈتی نہیں، ہر پل ساتھ چلتی ہے، جہاں سمے ہوا بس دبوچ لیتی ہے۔

فقیر پھر راہ کو گُم کرنے چلا ہے، خود کو روکنا ہوگا، واپس پلٹنا ہوگا، ورنہ مشکل ہوجائے گی سانس کی آمد و رفت، رہے نام اللہ کا۔ تو زندگی بھی کتنی پُراسرار ہے، بھید بھری زندگی۔ کتنے رنگ ہیں، ہزار نہیں، لاکھ رنگ ہیں اس کے اور اس سے بھی کہیں زیادہ، ہر سانس کا نیا رنگ و رُوپ۔ ہاں جیون بہت بھید بھرا ہے۔ ایک عجب کہانی ہے زندگی۔ دُکھ سُکھ، مایوسی اور امید کے درمیان پگڈنڈی۔ ڈوبتے، ابھرتے، بکھرتے اور پھر سنورتے، دل کش، حسین اور سہانے رنگ۔ جس طرح مصوّر کے بَرش کی ذرا سی بھی چُوک تصویر کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح انسان کے لمحے بھر کی غفلت بھی جیون کے حسین عکس کو بھدّا بنا دیتی ہے۔ لیکن پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ اپنی کسی بھی غلطی سے ہم نے اگر کچھ سیکھا ہے تو پھر تو وہ غلطی رحمت ہوئی ناں جی، بس ذرا غور کیجیے۔

جیون کا بھید مجھ جیسے کم نگاہ پر تو کبھی کُھلنے کا نہیں، شاید آپ جیسا زیرک، دانا و بینا اسے پالے۔ بس رنگ ہی رنگ، بے رنگی کہاں ہے یہاں ۔۔۔۔۔ ! زندگی کی گیلری میں آویزاں فریمز میں سجی ہوئی قسم ہا قسم کی تصویریں، مسکراتی ہوئی، رجائیت سے بھری ہوئی اور مایوسیوں، دُکھوں کی بپتا بیان کرتی ہوئی۔

زندگی بھی ایک گیلری ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ و رُوپ ہیں اس کے، نرالے ڈھنگ ہیں۔ کیسے کیسے روگ ہیں اس میں، سوگ ہیں اس میں۔ لیکن اسے بھی تو دیکھیے کہ ہر دکھ کے ساتھ ہی ایک سُکھ بندھا ہوا ہے اور اسے بھی یاد رکھیے کہ ہر سُکھ کے پلو میں اک دُکھ چھپا ہوا ہے۔ امید کے ساتھ ناامیدی اور ناامیدی کے ساتھ امید، اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کا کہا گیا ہے، اور کہا بھی اس نے ہے جو ماؤں سے زیادہ شفیق و مہربان ہے، جو سب کا پالنے والا بے نیاز ہے، اُس نے کہا ہے: بالکل نہیں، بالکل بھی نہیں، کبھی ایسا سوچنا بھی نہیں کہ میں تمہیں فراموش کرچکا ہوں، تم لاکھ نافرمان ہو، حکم عدولی کے مرتکب ہو، گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہو، تم احسان فراموش، سنگ دل و بے مہر ہو، تم خود کو بھی کیا جان پاؤ گے، ہاں میں نے تمہیں خَلق کیا ہے تو بس میں ہی تو تمہیں جانتا ہوں، یاد رکھو! بالکل بھی، قطعاً مایوس و ناامید مت ہونا، میں ہوں ناں تمہارے سنگ، بس ذرا سا تمہیں پرکھنا ہے کہ تم کتنا مجھ پر بھروسا کرتے ہو۔ عجیب رنگ ہیں سوہنے رب کے، تُو ویکھی جا مولا دے رنگ ۔۔۔۔۔۔ !

ہم نوجوانوں کی بات ہی کر رہے تھے ناں! اکثر نوجوانوں کے لیے والدین ہلکان ہیں کہ کیا بنے گا اس کا، جتنا بھی خراب ہو وہ ان کی آنکھ کا تارا اور سامان راحت تو ہوتا ہی ہے، کچھ لمحے روٹھ کر چلا جائے تو والدین کی سانس اکھڑنے لگتی ہے، ایسے مناظر تو اب عام ہیں۔ لیکن اس نوجوان سے جب فقیر ملا تو اسے اپنے والد کے لیے ہلکان پایا، ہلکان غلط کہہ گیا، جاں بہ لب۔ چلیے سنتے ہیں اسے۔ اس کے چہرے پر اس کا دُکھ لکھا ہوا ہے۔ پچاس برس سے اوپر کا لگتا ہے وہ، اور ہے بس تیس کا۔ اُس کی ویران آنکھیں اُس کا دُکھ بیان کرتی ہیں۔ بہت اصرار پر وہ آمادہ ہوا اور برسا اور ایسا کہ مت پوچھیں، بہت ہی بکھرا اور پھر بہت مشکل سے سنبھلا۔

بس یہی ہے زندگی، کیا ہے زندگی۔

اک طرف وحشتِ دل، ایک طرف غازۂ غم

کس کو ہے شہرِ رنگ و ناز میں اندازۂ غم

جی اس نے مجھے بتایا تھا: ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میرے والد صاحب کا نام عبدالحکیم ہے، وہ ٹیکسٹائل مل میں وارپنگ یعنی دھاگے کو کون پر لپیٹنے کا کام کرتے تھے۔ مزدور کی زندگی سدا سے اجیرن رہی ہے۔ بس ایسی ہی تھی ہماری زندگی، لیکن مطمئن اور سادہ۔ آسودگی راحت ہے لیکن اطمینان تو بڑی نعمت ہے ناں۔ تو بس ہماری زندگی ایسی ہی تھی۔ کھانے کو ملا تو خدا کا شُکر ادا کیا، نہیں ملا تو شکوہ نہیں کیا۔ یہی سکھایا ہمارے ماں باپ نے ہمیں۔ محنت کرو، حق حلال کی کھاؤ، لالچ نہ کرو، رشک نہ کرو، حسد کے قریب بھی نہ پھٹکو کہ زندگی میں خوشیوں کو پانے کا اصل راز یہی ہے۔

میں نے ہوش سنبھالا تو عسرت ہی دیکھی، لیکن مجھے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ جیسے تیسے میں نے آٹھویں پاس کی، پھر گھر کے حالات مزید خراب ہونے لگے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا، اور میں نے اچھا فیصلہ کیا تھا۔ میں گارمینٹس فیکٹری میں ہیلپر بھرتی ہوگیا۔ کچھ عرصے میں سلائی مشین چلانا سیکھ لی اور وہاں کام کرنے لگا۔ گارمنٹس فیکٹری میں چین سسٹم پر کام ہوتا ہے یعنی اگر کوئی کف بنا رہا ہے تو بس کف ہی بنا رہا ہے، کوئی کالر تو کوئی بٹن پٹی۔ تو بس اس طرح کا لگا بندھا کام ہوتا ہے۔ پھر معاوضہ بھی کوئی خاص نہیں ہوتا۔ تین سال میں نے وہاں کام کیا۔ پھر سوچا کہ ایسے کام نہیں چلے گا، کوئی ہنر سیکھنا چاہیے۔ میرے والد کی حالت بھی ابتر ہوتی جارہی تھی وہ بیمار رہنے لگے تھے۔

لیکن بہت جفاکش انسان تھے وہ اور بہت خوددار بھی۔ میں نے ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشن کا کام سیکھنے کا تہیہ کیا اور پھر ایک استاد سے بات کی اور اللہ کا نام لے کر کام سیکھنا شروع کیا۔ ظاہر ہے وہاں پیسے تو کم ملتے تھے کہ میں کام سیکھ رہا تھا۔ میں بہت محنت، توجہ اور دل جمعی سے کام سیکھ رہا تھا کہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے والد کو سکون پہنچاؤں اور انہیں گھر پر آرام سے رکھوں۔ اس لیے کہ انہوں نے ساری زندگی محنت کی تھی وہ راتوں میں بھی ہماری راحت کے لیے اپنی نیند قربان کرکے اوور ٹائم کرتے تھے کہ ان کی اولاد سُکھی رہے۔ اب ان کے کام کے دن تو نہیں تھے۔ میری خواہش تھی اور کوشش بھی کہ انہیں ساری خوشیاں فراہم کروں، اس لیے میں نے دن رات نہیں دیکھا، بس کام کرتا رہا۔ اس لیے بھی کہ میں بھائیوں سے بڑا تھا۔ پھر اچانک ابّا کے ہاتھ اور پاؤں پر کوئی جِلدی بیماری ہوگئی۔ زخم ہوگئے تھے ان کے ہاتھوں اور پیروں پر، کام نہیں کرسکتے تھے، وہ بہت رنجیدہ تھے۔ ہم نے ان کا علاج کرایا۔ خاصے دن تک وہ اسپتال میں داخل بھی رہے۔ اللہ نے شفا دی اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ میں نے انہیں کام سے منع کیا، لیکن وہ بہت سمجھ دار اور دُوراندیش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ابھی میں گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔

کاش! اس وقت تک کام سیکھ چکا ہوتا۔ کاش! میں ان کے لیے کچھ تو کرسکتا۔ کاش! میں انہیں اس دن کام پر جانے سے روک سکتا۔ اُس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے اسے دلاسا دیا، آخر ہُوا کیا ؟ تم کیوں ہو اتنے اداس ؟ پھر کیا ہوا بتاؤ؟

کیا ہونا تھا بھائی! جیون بھر کا روک لگ گیا ہے ہمیں۔ اس دن بھی وہ حسب معمول اپنے کام کے لیے نکلے۔ وہ باہر بالکل بھی نہیں رہتے تھے۔ جیسے ہی چُھٹی ہوتی وہ گھر آجاتے تھے، اس دن وہ وقت پر گھر نہیں پہنچے۔ ہم سمجھے بس میں آتے ہیں تو دیر ہوگئی ہوگی۔ پھر سوچا اوور ٹائم کے لیے رک گئے ہوں گے، لیکن جس دن وہ اوور ٹائم لگاتے اس دن تو خود بتاکر جاتے تھے کہ دیر سے آؤں گا۔ مجھے بہت بے چینی ہونے لگی اور پھر میں ان کی فیکٹری پہنچ گیا۔ فیکٹری والوں نے بتایا کہ وہ تو اپنے وقت پر چلے گئے تھے۔

میں نے ان کے دوستوں سے معلوم کیا، سب ہی کہہ رہے تھے وہ ہمارے سامنے بس میں بیٹھے تھے۔ جس راستے سے وہ گھر آتے تھے میں نے وہ پورا راستہ چھان مارا۔ کوئی حادثہ بھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی نتیجے پر پہنچتا۔ پھر بھی میں نے اسپتال چھان مارے، ساری رات میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ہر جگہ گیا وہ کہیں نہیں تھے۔ پورا گھر پریشان تھا۔ میری والدہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ ابّا کو درگاہوں پر جانے کا بھی بہت شوق تھا۔ لیکن وہ بتائے بنا کبھی بھی نہیں گئے تھے۔ لیکن میں نے پھر بھی کراچی کی ہر درگاہ، ہر مزار پر جاکر دیکھا۔ گھر میں بھی کوئی رنجش نہیں تھی۔ ان کا کسی جماعت سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کھانے کو بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں اغواء کرتا۔ ہمارے پاس کوئی جائے داد بھی نہیں تھی۔ آخر وہ گئے کہاں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ پھر میں نے پوسٹر چھپوائے، ہینڈ بلز تقسیم کیے۔ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کیا۔ پورے پاکستان کے مزار چھان مارے، مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔

مجھے کمانا بھی تھا، گھر والوں کو حوصلہ بھی دینا تھا اور اپنے والد کو تلاش بھی کرنا تھا۔ انسان مرجائے تو رو دھو کر صبر آجاتا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو قرار نہیں آتا۔ زندگی جہنّم بن جاتی ہے، میری حالت عجیب تھی۔ میں ہر وقت جیب میں ان کی تصویر رکھتا، بس میں بیٹھتا یا کہیں بھی جاتا لوگوں کو ان کی تصویر دکھا کر معلوم کرتا کہ انہیں کہیں دیکھا ہے؟ کچھ رشتے داروں نے تھوڑے دن تو ساتھ دیا۔ پھر کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بس نصیحت رہ گئی کہ ایسا کرلو، ویسا کرلو۔ میں نے عاملوں سے پوچھا، نذر نیاز کی، دعائیں مانگیں اب بھی کرتا ہوں، بل کہ ہم سب گھر والے ان کی راہ تکتے ہیں۔ زندگی تو جیسے بھی حالات ہوں جینا پڑتی ہے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی میں چند دن تھے کہ کسی نے بتایا کہ ہم نے انہیں میرپورخاص میں دیکھا ہے۔

میں اور میرا ہونے والا بہنوئی وہاں گئے، لیکن نہیں ملے وہ۔ آج تک یہ معما حل نہیں ہوا کہ وہ آخر کہاں گئے۔ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ بہنیں اپنے گھر کی ہوگئیں تو امی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا۔ چار سال پہلے میں نے شادی کی کہ امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے حیدرآباد میں ایک کمپنی میں کام مل گیا تھا۔ سب بہن بھائی کراچی میں اور میں حیدرآباد میں کام کر رہا تھا۔ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی پڑتا ہے۔ چند دن پہلے میرے دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے تو میں نے حیدرآباد سے کام چھوڑ کر کراچی میں اپنا کام شروع کیا ہے۔ ابھی ابتداء ہے اللہ نے پہلے بھی پالا ہے اب بھی پالے گا۔ ہم سب بھائی ساتھ رہتے ہیں۔ اتفاق میں برکت ہے۔ یہی ہمارے ابا نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں۔ ہمیں اب بھی ان کا انتظار ہے۔

ہم سب انہیں اب بھی تلاش کرتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے، لیکن بس یہ روگ ہے ہمارا۔ ہم اچھا کھانا پکائیں تو یاد آتے ہیں، میں بڑا ہوں مجھے زیادہ ہمت دکھانا پڑتی ہے۔ میرا کھانا پینا ختم ہوگیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری صحت تباہ ہو رہی ہے، لیکن میں کیا کروں؟ اپنے والد کو نہیں بھول سکتا۔ میں مرتے دم تک انہیں تلاش کروں گا۔ عید، شب برأت پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم روتے دھوتے ہیں، کبھی کسی بہن بھائی یا والدہ کے خواب میں آجاتے ہیں تو ہم اور بھی اداس ہوتے ہیں۔

ہماری خوشیاں ہمارے والد کے دم سے تھیں۔ میری یہ آرزو خاک میں مل گئی کہ میں انہیں سُکھ اور آرام پہنچاؤں گا۔ انہوں نے ہمارے لیے اتنی محنت کی۔ خود کو ختم کرلیا تھا، ان کی صحت برباد ہوگئی تھی اور جب اُن کی خوشیوں کے دن آئے تو وہ نہیں ہیں۔ بھائی صاحب! آٹھ برس ہوگئے ہیں، بولنے میں بہت آسان لگتا ہے ناں آٹھ سال۔ لیکن ہر پل ایک صدی بن گیا ہے۔ کوئی خوشی نہیں ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے ہر وقت بس ایک ہی دعا کرتا ہوں، مجھے میرا باپ لوٹا دے۔ میں تھک گیا ہوں۔ یہ روگ لگ گیا ہے مجھے۔ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاک پروردگار نے کہا ہے مایوسی کفر ہے اور امید پر زندگی قائم ہے۔ یہی مجھے والد نے سکھایا تھا۔ مجھے یقین ہے ایک دن وہ واپس آجائیں گے اور ہمیں سینے سے لگاکر کہیں گے: ’’بیٹا میں آگیا ہوں۔‘‘ بس ان کی آواز سن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا، ضرور ہوگا۔

ہاں انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ فقیر بس اتنا ہی کہہ سکا اور پورے یقین کے ساتھ۔

جو زخم جس جگہ تھا، اب تک وہیں ہَرا ہے

مرہم نہیں ہے دل پر، بوسہ نہیں جبیں پر

لیکن یہ بھی تو ہے:

ہم اپنی ساری شکایات بھول جائیں گے

ہمارے سامنے آکے ، وہ مسکرائے تو

فقیر نے اس کا دُکھ سُنا ہی نہیں دیکھا بھی اور بہ چشم نم، وہ تو خود مجسم دُکھ اور کَرب ہے، کوئی کیسے روک سکتا ہے اپنی آنکھوں کو برسنے سے، ہاں کوئی سنگ دل ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔

The post جہاں گشت؛ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا، مایوسی کفر ہے اور امید زندگی appeared first on ایکسپریس اردو.

غذائی تحفظ کے چیلنج سے نبردآزما ہمارے پھیلتے شہر

$
0
0

’’خبردار! ہمارے تیزی سے پھیلتے شہر زرعی زمینوں کو نگل رہے ہیں جس سے مستقبل میں شہری آبادی کو فوڈ اِن سکیورٹی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘‘۔

یہ بات کچھ عرصہ قبل رانا ریاض محمود اسسٹنٹ ہارٹیکلچر آفیسر لاہور نے مجھے بتا کر چونکا دیا۔ رانا صاحب کے اس انتباہ سے یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم سب نے کس قدر بے حسی سے اس اہم موضوع کو فراموش کر رکھا ہے۔ میڈیا ہو یا پالیسی ساز سب کے سب مستقبل قریب میں پیش آسکنے والے اس انسانی بحران کی سنگینی کا ادراک نہیں کر رہے۔ جس کی بنیاد شاید ہم نے غیر شعوری طور پر اُس روز ہی رکھ دی تھی جب تقسیم پاک و ہند کے بعد مہاجرین کی اکثریت نے ملک کے صرف چند شہروں کو ہی اپنا مسکن بنایا۔

مثلاً کراچی کی آبادی میں1941 سے1951 کے دوران 176 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی عرصہ کے دوران فیصل آبادکے رہائشیوں کی تعداد میں 156 فیصد اور حیدرآباد کے نفوس کی تعداد میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔آنے والے وقتوں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کا پاکستان کے شہروں میں سکونت پذیر ہونا بھی شہری آبادی میں اضافہ کا محرک بنا۔ جبکہ شہروں اور دیہات میں دستیاب سہولیات کے مابین وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی خلیج نے دیہی آبادی کو شہروں کی راہ دکھائی۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہم تیزی سے دیہی آبادی کے مالک ملک سے شہری آبادی کے حامل ملک میں تبدیل ہو تے جا رہے ہیں ۔

جس کا اندازہ ملک کی پانچویں اور چھٹی خانہ و مردم شماری کے ان نتائج سے ہوتا ہے کہ 1998 میں ملک کی 32.5 فیصد آبادی شہروں میں مقیم تھی جبکہ2017 میں یہ تناسب بڑھ کر 36.4 فیصد ہو چکا ہے۔اس عرصہ کے دوران ملک کی شہری آبادی میں مجموعی طور پر 75.6 فیصد اورکل ملکی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ یعنی ہماری شہری آبادی کے بڑھنے کی رفتار ملکی آبادی میں اضافہ کی رفتار سے زائد ہے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل آفیرز کے ورلڈ اربنائزیشن پراسپیکٹ دی2018 رویژن کے اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ 1998 میں پاکستان اپنی شہری آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 12 ویں نمبر پر تھا اب (2019) میں وہ 10 ویں نمبر پر آچکا ہے اور اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ شہری آبادی میں عددی اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 9 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان کی شہری آبادی میں یہ اضافہ اگر چہ تمام شہروں پر محیط ہے لیکن وطن عزیز کے 10 بڑے شہر اس کی زیادہ لپیٹ میں ہیں۔ کیونکہ1998 اور2017 کے دوران خانہ و مردم شماری رپورٹس کے مطابق ہماری شہری آبادی کی تعداد میں3 کروڑ 25 لاکھ48 ہزار سے زائد نفوس کا اضافہ ہوا۔ جس کا 53 فیصد ملک کے 10 بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ میں ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ لاہور شہر کی آبادی میں ہوا جو104 فیصد بڑھی ہے۔

اس کے بعد پشاور ہے جہاں یہ اضافہ100 فیصد ہوا ۔ اسلام آباد میں92 ، گوجرنوالہ میں 79 ، کوئٹہ میں 77 فیصد ہوا۔ جس کے بعد کراچی کا نمبر ہے جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران آبادی میں60 فیصداضافہ ہوا۔ 55.7 فیصد کے ساتھ فیصل آباد ساتویں نمبر پر ہے۔ اس کے بعد ملتان 56 فیصد، راولپنڈی49 فیصد اور حیدرآباد کی آبادی میں 48.5 فیصد اضافہ ہوا۔ 1998 میں پاکستان کی کل آبادی کا 7.1 فیصد کراچی میں مقیم تھا یہ تناسب2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 7.2 فیصد رہا ۔ جبکہ لاہور میں پچھلی مردم شماری کے لحاظ سے ملک کی 4.1 فیصد آبادی موجود تھی جو حالیہ مردم شماری تک بڑھ کے 5.4 فیصد ہو چکی ہے۔ فیصل آباد میں یہ تناسب دونوں مردم شماریوں کے مطابق برابر یعنی1.5 فیصد رہا ۔ اسی طرح2017 میں ملک کی مجموعی شہری آبادی کا 19.7 فیصد کراچی میں آباد ہے یہ تناسب 1998 میں 21.7 فیصد تھا ۔ لاہور میںیہ12.6 فیصد سے بڑھ کر 14.7 فیصد پر آچکا ہے جبکہ فیصل آباد میں اس تناسب میں معمولی کمی آئی ہے اور یہ 4.7 فیصد سے کم ہوکر4.2 فیصد پر آگیا ہے۔

ہمارے شہر جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اُس کا ایک اندازہ اقوام متحدہ کے ان اعدادوشمار سے بھی ہوتا ہے کہ 1998 میں کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 3 لاکھ اور اس سے زائد آبادی کے حامل شہروں کی درجہ بندی میں 20 ویں نمبر پر تھا۔ 2019 میں وہ 12 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اسی طرح لاہور42 ویں نمبر سے ترقی کر کے 25 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ فیصل آباد مذکورہ عرصہ کے دوران 156 ویں نمبر سے135 ویں پر آچکا ہے۔

ہمارے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ پیش خیمہ بن رہا ہے ان کے پھیلنے کا، جو  بے ہنگم انداز میں پھیلتے ہوئے اپنے اندر اور قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کرتے جا رہے ہیں۔ اس پھیلاؤ کی ذرا ایک جھلک ملاحظہ ہو ۔ دی اٹلس آف اربن ایکسٹینشن 2016 نامی بین الاقوامی دستاویز کے مطابق کراچی شہر جو فروری1991 میں 22335.21 ہیکٹر رقبہ پر آباد تھا اکتوبر2000 تک بڑھ کر34126.74 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا ۔ اور اکتوبر2013 تک اس میں مزید وسعت آ چکی تھی اور یہ 45326.52 ہیکٹر رقبہ پر پھیل چکا تھا۔ 10 سالوں میں کراچی کے رقبہ میں 52.8 فیصد اور اگلے13 سالوں میںاس میں مزید 32.8 فیصد اضافہ ہوا۔

جبکہ 1991 سے2013 تک کراچی کے رقبہ میں 103 فیصد اضافہ ہوا۔ لاہور شہر جو نومبر1991 تک 17750.52 ہیکٹر پر محیط تھا اکتوبر2000 تک وسیع ہوکر23155.56 ہیکٹر اور اکتوبر2013 تک 37142.01 ہیکٹر تک وسعت اختیار کر چکا تھا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے9 سال کے دوران لاہور شہر کے رقبہ میں 30.5 اور موجودہ صدی کے پہلے 13سال کے دوران 60.4 فیصد بڑھااور مجموعی طور اس کے رقبے میں 110 فیصد اضافہ ہوا ۔ اسی طرح سیالکوٹ جو نومبر92 تک 2038.05 ہیکٹر پر آباد تھا۔ اکتوبر 2000 تک بڑھ کر 8168.58 ہیکٹر تک آگیا اوراکتوبر2014 تک اس میں مزید توسیع ہوئی اور یہ  9620.28 ہیکٹر پر محیط ہو چکا تھا۔ 1991-2000 کے دوران سیالکوٹ شہر کے رقبہ میں 301 فیصد اور 2000-14 تک 18 فیصد اور مجموعی طور پر 372 فیصد اضافہ ہوا ۔

مندرجہ بالا اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان تینوں شہروں میں سے رواں صدی کے تقریباً پہلے ڈیڑھ عشرے کے دوران سب سے زیادہ رقبہ کی وسعت لاہور نے حاصل کی ۔ اسی امر کی تائید پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے دی اربن یونٹ کی پنجاب سٹیز گروتھ اٹلس 1995-2015 نامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ جس کے مطابق 1995 سے2015 تک پنجاب میںسب سے زیادہ لاہور شہر کے رقبہ میں اضافہ ہو ا جو445 مربع کلومیٹر ہے۔ اور2015 تک لاہور 665 مربع کلومیٹر تک پھیل چکا تھا۔

دوسرا نمایاں اضافہ350 مربع کلومیٹر رقبہ کا راولپنڈی اسلام آباد میں ہوا اور2015 تک یہ جڑواں شہر494 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو چکے تھے۔ تیسرا اضافہ گوجرانوالہ میں ہوا جہاں شہری حدود  123 مربع کلومیٹر مزید بڑھ کر2015 تک 150 کلومیٹر ہو چکی ہے۔ چوتھے نمبر پر ملتان رہا جس کے رقبہ میں مذکورہ عرصہ کے دوران 110 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ 2015 تک 187 مربع کلومیٹر تک وسعت اختیار کر چکا ہے۔ پانچواں اضافہ فیصل آباد کے رقبہ میں ہوا جو99 مربع کلومیٹر تھا، یوں 2015 تک فیصل آباد کا کل رقبہ 183 کلومیٹر تھا۔

جبکہ 2025  تک لاہور 1320 مربع کلومیٹر تک وسیع ہو جائے گا اور 2015 سے2040 ء تک سب سے زیادہ شہری رقبہ میں اضافہ کے حوالے سے لاہور ہی کے پنجاب بھرمیں سر فہرست رہنے کی پیش گوئی  بھی کی گئی ہے ۔ دوسرے نمبر پر اس عرصہ کے دوران راولپنڈی، اسلام آباد اور تیسرے نمبر پر گوجرنوالہ ہوگا۔اسی طرح اگر ہم فیصد اضافہ کے پیمانے سے پنجاب کے شہروں کی صورتحال دیکھیں تو تصویر کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے جس کے مطابق 1995 سے2015 تک محیط 20 سالوں کے دوران سب سے زیادہ شہری رقبہ کے حوالے سے فیصد اضافہ چکوال میں ہوا جو1300 فیصد ہے جس کا رقبہ ایک مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 14 مربع کلومیٹر ہوگیا۔دوسرا نمایاں اضافہ مریدکے میں ہوا جس کے رقبہ میں 650 فیصد اضافہ ہوا۔ 600 مربع کلومیٹر کے ساتھ اٹک اس کے بعد ہے۔

گوجرانوالہ کے رقبہ میں 456 فیصد اضافہ ہوا جبکہ حافظ آباد اور کامونکی کے رقبہ میں 400 فیصد فی کس اضافہ ہوا۔ اور اگر ہم موجودہ صدی کے 2005 سے2015 تک کی دہائی کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ فیصد اضافہ نارووال کے رقبہ میں ہوا جو 215 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر صادق آباد رہا جہاں 183 فیصد اضافہ ہوا ۔ تیسری پوزیشن پر مریدکے موجود ہے جس کے رقبہ میں 145 فیصد اضافہ ہوا۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر مظفر گڑھ اور جڑانوالہ رہے جہاں بالترتیب  131 اور126 فیصد اضافہ ہوا ۔

پنجاب کے50 شہر جوکہ1995 میں 893 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل تھے ۔ اس میں2005 تک 606 مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوا اور یہ رقبہ مجموعی طور پر 1499مربع کلومیٹر ہوگیا ۔ اس کے بعدآنے والے دس سالوں میں اس رقبہ میں1089 مربع کلومیٹر مزید اضافہ ہوا اور یہ2015 تک بڑھ کر 2588 مربع کلومیٹر ہوگیا جوکہ پنجاب کے 1.26 فیصد رقبہ کے برابر ہے۔ ان 20 سالوں میں پنجاب کے 50 شہروں کے مجموعی رقبہ میں 1695 مربع کلومیٹر یعنی 190 فیصد اضافہ ہوا ۔

پہلے دس سالوں میں 68 فیصد اور اگلے 10 برسوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ پنجاب کے50 شہروں کے رقبہ میں ہونے والے اضافے کا 76 فیصد یعنی 1284 مربع کلومیٹر صرف 10 شہروں میں ہوا جبکہ دیگر40 شہروں کا 411 مربع کلومیٹر رقبہ بڑھا ۔ اگر شہروں کے پھیلنے کی یہی صورتحال رہی تو 2025 تک پنجاب کے پچاس شہروں کا رقبہ مزید بڑھ کر4626 مربع کلومیٹر اور 2040 تک بڑھ کر 11736 مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ یعنی دس سالوں میں اس میں 79 فیصد اور اگلے15 سالوں میں 154 فیصد اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اور مجموعی طور پر25 برسوں کے دوران اس میں 9148  مربع کلومیٹر یعنی 354 فیصد اضافہ متوقع ہے۔

شہری حدود کا یہ تمام تر پھیلاؤ اس امر کا شاہد ہے کہ شہروں خصوصاً بڑے شہروں نے کچی آبادیوں اور شہر کے مضافات میں رسمی اور غیر رسمی آبادیوں کی صورت میں بے پناہ وسعت اختیار کی ہے۔ جس سے شہروں کے مضافات میں موجود زمین خصوصاً زرعی اراضی کے استعمال میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور زرعی زمینیں تیزی سے اربنائزیشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ لاہور ہی کی مثال کولے لیں پاکستان کی وزارت برائے کلائیمیٹ چینج کی نیشنل رپورٹ آف پاکستان فار ہیبیٹاٹIII کے مطابق گزشتہ40 سال کے دوران لاہور میں 114630 ہیکٹر قابلِ کاشت زمین کو شہری استعمال میں تبدیل کیا گیا۔

جس کے18 فیصد پر 252 مضافاتی ہاؤسنگ اسکیمیں (Sprawling Houing Schemes ) بنائی گئیں ۔اسی طرح پنجاب کے لینڈ یوز اسٹیٹسٹکس یہ بھی بتاتے ہیں کہ ضلع لاہور کا زیر کاشت رقبہ (Cropped Area) جس پر فصل اور پھل دونوں کاشت کئے  جاتے ہیں۔ 2008-09 میں ایک لاکھ83 ہزار ہیکٹر تھاجو 2015-16 تک کم ہوکر ایک لاکھ 63 ہزار ہیکٹر ہو چکا ہے ۔ یعنی7 سالوں کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ کے زیر کاشت رقبہ میں 10.9 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ جس کی بڑی وجہ ان زمینوں کے استعمال میں تبدیلی ہے جس کا سب سے بڑا محرک رہائشی مقاصد کے لئے زمینوں کا تصرف ہے۔ یوں ہمارے بڑے اور درمیانے شہر پھیلتے پھیلتے دیہی علاقوں اور زرخیز زمینوں کو جو شہر کے اندر آچکی ہیں یا ابھی شہر سے ملحقہ ہیں کوہضم کر رہے ہیں ۔

ان زمینوں کو نگلنے کی وجوہات میں سے شہروں کی آبادی میں اضافہ جو قدرتی اور انسانی ہجرت دونوں وجہ سے ہے نمایاں ہے۔ دیہات سے شہروں میں لوگوں کی منتقلی زیادہ دباؤ کا باعث بن رہی ہے جس کی بڑی وجہ کلائیمٹ چینج ہے جو ملک کے اکثر حصوں میں پانی کے وسائل میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے اوقات کار بھی بدل رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے منفی اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہو رہے ہیں ۔

جبکہ زراعت کے شعبے میں اخراجات اور آمدن کے درمیان فرق بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقہ اور شہری علاقوں کے درمیان سہولیات اور روزگار کے مواقع کی بڑھتی ہوئی تفریق، روزگار کے دیگر ذرائع کا محدود ہونا اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل دیہی لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اس امر کی تائید اکنامک سروے آف پاکستان کے یہ اعدادوشمار بخوبی کر رہے ہیں جن کے مطابق ملک کے دیہی علاقوںمیں سب سے زیادہ زرعی شعبے کو خداحافظ کہنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جہاں 1994-95 سے2014-15  تک باروزگار دیہی افراد کا زراعت کے شعبے سے وابستگی کا تناسب 57.46 فیصد سے کم ہوکر 41.15  فیصدپر آگیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب 1998 اور2017 کی مردم شماری کی رپورٹس اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہیں کہ ان دونوں مردم شماریوں کے دوران ملک بھر میں صوبائی سطح پر شہری آبادی میں دوسرا زیادہ اضافہ خیبر پختونخوا میں ہوا جو 92 فیصد ہے۔ اسی طرح دیہات میں زراعت کا پیشہ ترک کرنے کے حوالے سے دوسری نمایا ں کمی بلوچستان میں دیکھنے میں آئی ہے جہاںیہ تناسب 63.10 فیصد سے کم ہوکر 52.83  فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ گزشتہ اور حالیہ مردم شماری کے دوران ملک میں سب سے زیادہ شہری آبادی میں اضافہ بلوچستان میں ہوا جو 117 فیصد ہے۔

دیہی آبادی کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ہنر مندنہ ہونے کی وجہ سے شہروں میں نقل مکانی کرنے کے بعدایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سے وہ صرف اتنی ہی آمدن کما پاتے ہیں جو اُن کی روح اور جسم کے رشتے کو بمشکل قائم رکھ سکے۔یو ںوہ غربت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیںاور کم آمدن کی وجہ سے ایسے علاقوں میںرہائش اختیار کرتے ہیں جنہیں ہم سادہ الفاظ میں کچی آبادی کہتے ہیں یہ آبادیاں شہروں کے اندر یا اس سے ملحقہ زمینوں پر قائم کر لی جاتی ہیں۔ یوں اس کے ہماری فوڈ سیکورٹی خصوصاً شہری تناظر میں خوراک کے تحفظ پر دو طرح سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ زراعت کے پیشہ کو ترک کرنے کے باعث دیہی علاقوں میں زراعت کے لئے درکار افرادی قوت میں کمی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

جس کے اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہوتے ہیں۔ شہر چونکہ دیہات کی زرعی پیداور پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے اس میں کسی طرح کی کمی شہری خوراک کے تحفظ کو متاثر کرتی ہے۔ دوم دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کے پاس بہت کم وسائل ہوتے ہیں ۔چنانچہ وہ یا توایسی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں جو غیر محفوظ ہوں( جہاں آباد ہونے سے اُن کی زندگیاںخطرے کا شکار رہتی ہیں) یا پھروہ ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو شہر سے قریب ہوتے ہیں اوراُنھیں وہاں سستی زمین رہائش کے لئے مل جاتی ہے۔ یوں زرعی زمینیںرہائش کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لاہور میں راوی کے پار ایسی کئی ایک غیر منظم بستیاں موجود ہیں جن کی زمین پر پہلے کاشت کاری کی جاتی تھی۔ یوں شہر کے مضافات سے حاصل ہونے والی خوراک میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

جب پہلے سے ہی زیادہ آبادی کے دباؤ کے شکار شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں زمین کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ مانگ شہر کے اندر موجود زمینوں کے ساتھ ساتھ کے قرب وجوار میں موجود زمینوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا باعث بنتی ہے۔

اورشہروں کے ارد گرد کا کسان جو پہلے ہی ایک طرف کلائیمیٹ چینج کے اثرات سے نبردآزماہے تو دوسری جانب زرعی مداخل کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فصل پر آنے والے اخراجات اور اُس سے حاصل ہونے والی آمدن کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کا شکار ہے۔ بلا آخر زمین کے اچھے پیسے ملنے کی لالچ میں اسے فروخت کر دیتا ہے۔ جس سے زمین کے استعمال کے رجحان میں تبدیلی آتی ہے ۔ اور وہ نئے رہائشی علاقوں/ کالونیوں/ اسکیموں اور انڈسٹری کے استعمال میں آجاتی ہے۔ یوں شہر بڑھتے اور زرعی زمینیں سکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور رجحان بھی زمنیوں کے استعمال میں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے وہ شہر کے گنجان آباد علاقوں سے شہر کے مضافات میں موجود کم گنجان دیہی علاقوں میں لوگوں کی منتقلی ہے۔ جسے Urban Sprawl  کہتے ہیں۔ فارم ہاؤسزاور ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیزجو شہر کے اردگرد موجود چھوٹے گاؤں اور اُن کی زرعی زمینوں کو خرید کربنائی گئی ہوتی ہیں لوگ اپنی شہری املاک بیچ کر وہاں منتقل ہوجاتے ہیں اس کی واضح صورتیں ہیں۔یوں بھی شہر پھیل رہے ہیں۔

اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو ملکی حالات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات مدنظر رکھنا لازم ہے کہ شہر ی صارف90 فیصدتک خریدی ہوئی خوراک پر انحصار کرتا ہے۔ جو دیہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے یا پھر ملک میں درآمد کی جاتی ہے۔ اس لئے سال بھر تسلسل کے ساتھ خوراک کی شہروں میں دستیابی شہروں کی فوڈ سکیورٹی کا بنیادی نقطہ ہے۔ لیکن کوئی بھی واقعہ، حادثہ یا آفت اس دستیابی کو متاثر کر سکتی ہے۔ مثلاً 2010 کے سیلاب نے جہاں ہماری زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا وہیں خوراک کی نقل و حمل کو بھی جامد کر دیا۔

اِمسال ہونے والی بارشوں اور ژالہ باری نے بھی ہماری فصلوں خصوصاً گندم کی فصل کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا ایک وسیع رقبہ اکثرخشک سالی کی لپیٹ میں رہتا ہے جو ہماری زرعی پیداوار کے لئے مسلسل خطرہ ہے۔ اس لئے ہمیں گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈکس 2019 کے ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو1998 سے2017 کے دوران سب سے زیادہ قدرتی آفات سے متاثر ہوئے۔ قدرتی آفات اپنی جگہ لیکن انسان کی پیدا کردہ ڈیزاسٹر نما صورت حال بھی بعض اوقات فوڈ سکیورٹی کو متاثر کرتی ہے۔ مثلاً ٹرانسپورٹرزکی ہڑتال شہروں میں خوراک کی قلت کا باعث بن جاتی ہے۔ یوں قدرتی یا انسانی عمل دونوںشہروں میںغذائی اجناس کی کمی اور اُن کی قیمتوں میںاضافہ کا موجب بن جاتے ہیں ۔

اس لئے ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے ہاں مستقبل میں قدرتی آفات یا انسانی عمل خوراک کی پیداوار اور شہروں میں اُس کی دستیابی و ترسیل میں کمی یا اسے مفلوج کر کے کسی بڑے انسانی بحران کا باعث بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ عام حالات میں دیہی علاقوں سے آنے والی خوراک کی ترسیل، پیکجنگ، سٹوریج اور مڈل مین یہ سارے عوامل مل کر اُس کی قیمتوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ دیہی علاقوں سے صارفین تک روایتی طریقہ کار کے ذریعے تازہ پیداوار کو پہنچانے میںعموماً 3 سے6 دن لگ جاتے ہیں جس سے پیداوار کے وزن اور غذائیت میں 30 سے50 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔

اس سے کسان اور صارف دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ 30 فیصد تازہ پیداوار سپلائی کے نظام میں نقائص کی وجہ سے صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہروں اور اس کے نواح میں موجود اراضی کو اربنائز کرنے کی وجہ سے ان کی ماحولیاتی نظام کے حوالے سے خدمات جیسا کہ پانی کی کشید اور بارش کے پانی کا زیرزمین ری چارج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اور ہمارے کئی ایک شہروں میں آبادی کے بڑھنے سے زیر زمین پانی کے ذخائر کا استعمال بڑھ گیا ہے اور مناسب ری چارج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ اس کی واضح مثال کوئٹہ کی ہے۔

جہاں کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار میں برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا ۔ لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا تو شہر کے اردگرد موجود کاریزوں، باغات، کھیت اور کچی زمین کو کنکریٹ نے ڈھانپ لیا تو ہوا پھر کچھ یوں کہ آج کوئٹہ اور اس کے قرب وجوار میں ہونے والی کبھی کبھار کی بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اور یہ سارا برساتی پانی بیکار بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو ری چارج کیاکرتا تھا۔ پانی کی یہ کمی کوئٹہ شہر کے قریب باقی رہ جانے والی کافی زرعی اراضی کے لئے موت کا باعث بنی اور اکثر ہرے بھرے باغ اور لہلہاتے کھیت لق ودق چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو گئے جن کاآخر کار حل رہائشی بستیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی اور انسانی عوامل کی وجہ سے زمین کی فرسودگی(ڈیزرٹیفیکیشن) دنیا میں بھر میں خوراک کی پیداوار کے لئے سنگین خطرہ اور غربت کے بڑھنے کا پیش خیمہ اور اس کا نتیجہ بھی بن رہی ہے۔کیونکہ زیادہ آمدن کے لالچ میں اور کم قیمت ادا کرنے کی وجہ سے لوگ قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔

تاکہ معیار زندگی کو بہتر کیا جا سکے۔ ایسی صورتحال میں زمین کا استعمال اُس کی گنجائش سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر بنجر ہو جاتی ہے۔ یوں اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کی آمدن میں طویل المدتی اضافہ کے برعکس غربت انہیں اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے اور جب زمین اور حالاتِ کاشت کاری زرعی مقاصد کے لئے موزوں نہ رہیں تو اس پر منحصر آبادی کے روزگار کا وسیلہ ان سے چھن جاتا ہے اور وہ مستقل غربت کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔

اور اگر غربت آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے تو تنزلی کا شکار قدرتی وسائل کا استعمال اور زیادہ بڑھ جاتا ہے نتیجتاً جو کل ہونا ہوتا ہے وہ آج ہی ہو جاتا ہے۔ اس لئے زمین کی فر سودگی اور غربت کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور یہ ایک دوسرے کی کیفیت میں اضافہ کے بنیادی محرکات ہیں ۔ یوں دیہی علاقوں میں بڑھتی ڈیزرٹیفیکیشن انسانی اور معاشی بحران کو آواز دے رہی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں اس حوالے سے صورتحال بہت تشویشناک ہے کیونکہ وزارتِ ماحولیات حکومت پاکستان کے سیسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پروجیکٹ کی ایک دستاویز کے مطابق ملک کا51 فیصد علاقہ زمین کی فر سودگی (ڈیزرٹیفیکیشن) کا شکار ہے۔

یہ تمام صورت حال عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی تعریف کردہ فوڈ سکیورٹی کی تعریف سے مکمل مطابقت نہیں رکھتی جس  کے مطابق’’ فوڈ سکیورٹی ایک ایسی صورتحال ہے جس میں فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے واسطے کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تمام افراد کے لئے ہر وقت جسمانی اور معاشی طور پر پہنچ میں ہونی چاہیئے۔‘‘ یہ تعریف فوڈ سکیورٹی کے چار پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ دستیابی، استحکام، محفوظ استعمال اور رسائی۔ فوڈ سکیورٹی کے ان چار پہلوؤں کا فرداً فرداً شہری ماحول کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔کیونکہ اربنائزیشن خوراک کی دستیابی کے لئے ایک چیلنج ہے خاص کر خوراک کی پیداوار،  اُس کے استعمال کے حوالے سے فروغ پاتے رجحانات کے تناظر میں۔ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن اور شہروں کا پھیلاؤ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ خوراک تسلسل کے ساتھ دستیاب ہو اس کے لئے خوراک کی پیداوار میں اضافہ اور استحکام ناگزیر ہے۔ خوراک کی فراہمی اور ترسیل میں استحکام شہری آبادی کے لئے ایک سنجیدہ پہلو ہے۔ ترقی یافتہ ممالک زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ وہاں ڈیزاسٹر سے نمٹنے کی تیاری زیادہ کی جاتی ہے ۔

جبکہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب شہری شدید موسمی حالات، قدرتی آفات اور کئی ایک انسانی عوامل کی وجہ سے خوراک کی تواترکے ساتھ دستیابی اور استحکام کے حوالے سے اکثر غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر خوراک تک رسائی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر خوراک کا دسترس میں ہونا بھی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔ اس حوالے سے شہری مکین اور شہروں کے مضافاتی علاقوں کے باسی دیہی افراد کی نسبت زیادہ غیرسود مند صورتحال کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اکثر اپنی خوراک خریدنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے انھیں فوڈ مارکیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ قیمتوں میں اضافہ کے خطرے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں خوراک کی قیمتیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ خوراک کیسی اور کتنی حاصل اور استعمال کی جائے۔خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے یا تو صارف اپنی خوراک کی مقدارکم کر دیتے ہیں اور کم خوراکی سے اُن کی صحت کو خطرات لاحق رہتے ہیں یا پھر وہ غیر معیاری خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو اُن کی صحت کے لئے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ایسے میں پاکستان جس کے52 فیصد شہری گھرانے جو نیشنل نیوٹریشن سروے2011 کے مطابق خوراک کے حوالے سے پہلے ہی غیر محفوظ ہیں ۔

ان کے لئے ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اور خاص کر شہری علاقوں میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی32 فیصد آبادی ( ماخذ:سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی دستاویز پاورٹی اینڈ ویلنربیلٹی اسٹیمیٹس پاکستان2016 ) جو اپنی آمدن کا پہلے ہی 50 سے 80 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خوراک تک رسائی اور اس کا کافی مقدار میں محفوظ استعمال مزید بے معنی ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل ہنگر انڈکس2018 میں پاکستان دنیا کے 119 ممالک میں سے106 نمبر پر رہے اور اسے 32.6 اسکور کے ساتھ سیریس صورتحال کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

اس لئے بڑھتے ہوئے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے شہر اور اس کے مضافات میں ہونے والی زراعت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہری اور مضافاتی زراعت (Urban and peri-urban agriculture)جو آمدن کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک کی پیداوار، تازہ صحت مند، سستی خوراک کی دستیابی میں اضافہ کرتی ہے اور شہری صارفین کو تازہ سبزیاں، پھل،انڈے، گوشت (پولٹری، لائیوسٹاک اور مچھلی) اور ڈیری کی مصنوعات فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ کسان کی اپنی گھریلو اور شہر کی فوڈ سکیورٹی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

کیونکہ مقامی طور پر تیار کردہ خوراک کو نقل و حمل، پیکنگ اور ریفریجریشن کی کم ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی فروخت کے لئے کوئی مڈل مین بھی درکار نہیں ہوتا۔ یوں انھیں قریبی مارکیٹ میں سپلائی یا براہ راست تازگی اور غذائیت کے ساتھ مسابقتی قیمتوں پر فوڈ اسٹینڈز یا مارکیٹ اسٹالز کی مدد سے فروخت کیا جاتا ہے جس سے صارفین خاص طور پر کم آمدن والے افراد کو تازہ پیداوار تک آسان اور سستی رسائی ملتی ہے اور انھیں انتخاب کا  بہتر موقع ملتا ہے اور کاشت کار کو بھی اپنی پیداوار کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ یہ موسمیاتی اور دیگر عارضی رکاوٹوں کے خلاف غذا کی گھریلو/ شہری کھپت کے استحکام کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہروں میں پیدا ہونے والے ویسٹ واٹر کی کشید شدہ صورت کو خوراک کی پیداوار میں استعمال کر کے شہروں کے ویسٹ واٹر کے استعمال کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔

یوں یہ فوڈ سکیورٹی کے چاروں پہلوؤں کو کسی نہ کسی صورت پورا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے گول نمبر1 غربت کا خاتمہ، گول نمبر 2 بھوک کا خاتمہ، گول نمبر12 پیداوار اور استعمال کے پائیدار رجحانات اور گول نمبر 15 پائیدار ایکو سسٹم کی حفاظت، بحالی اور پھیلاؤ کے اہداف پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بیرونی دنیا میںاس کی اہمیت کا اندازہ ان حقائق سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا میں شہروں کے مضافات میں ہونے والی زراعت جو کہ ملک بھر میں زراعت کے لئے استعمال ہونے والی زمین کے  صر ف تین فیصد رقبہ پر مشتمل ہے ملک کی زرعی آوٹ پٹ کا ایک چوتھائی فراہم کرتی ہے۔

اسی طرح چین کا شہر شنگھائی اپنی سبزیوں کا 60 فیصد مقامی طور پر پیدا کرتا ہے۔ چین کے شہری مضافات میں ہونے والی زراعت نے خوب ترقی ہے۔ اس تمام تر پیش رفت سے قبل بیجنگ کی ضرورت کی 70 فیصد سے زائد سبزیاں باہر سے آتی تھیں ۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ امریکہ کے تمام شہر اگر اوسطً 10 فیصد رقبہ شہری کاشت کاری کے لئے وقف کردیں تو اس سے تمام امریکیوں کو اتنی سبزی حاصل ہو سکتی ہے جس کی بطور غذا ماہرین سفارش کرتے ہیں ۔ کیونکہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق شہروں کے باغیچہ نما پلاٹ دیہات کے اس جتنے قطعہ کی نسبت15 گنا زیادہ پیداوار دیتا ہے۔ شہروں میں ایک مربع میٹر کا ٹکڑا 20 کلو تک خوراک فراہم کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد انجم علی بٹر،ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت (توسیع ) پنجاب کویہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنھوں نے پنجاب میں کچن گارڈننگ کے تصور کو محکمانہ سطح پر متعارف کرایا اور محکمہ زراعت میں کچن گارڈننگ کے حوالے سے ایک خصوصی پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد صوبے میں سبزیوں کی کاشت کو دیہی اور خصوصاً شہری سطح پر فروغ دینا ہے تاکہ اربنائزیشن کے شہری فوڈ سکیورٹی پر مرتب والے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے اور گھریلو سطح پر تازہ اور نامیاتی سبزیوں کی کاشت کو فروغ مل سکے۔ یہ پراجیکٹ آج بھی جاری ہے جس کے تحت موسمِ گرما اور سرما کی مختلف سبزیوں کے بیج کے پیکٹس رعایتی نرخ پر کاشت کاروں اور گھریلو صارفین کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔

فروخت ہونے والے بیج کے پیکٹس کی تعداد 5 ہزار سے بڑھ کر 5 لاکھ سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے پراجیکٹ کے تحت ٹریننگ پروگرامزکا بھی باقاعدگی سے اہتمام ہوتا ہے ۔اُ ن کے مطابق دنیا میں اربن ایگریکلچر ایک مسلّمہ حقیقت ہے اورادارے اس پر کام کر رہے ہیں ۔ بیرونِ ممالک کے شہروں میں لوگ چھتوں پر،گملوں کیاریوں میں، پرانے ٹائروں میں، جالیوں میں، شاپر بیگوں میں، کھلے منہ کے برتنوں میں، بالکونی میں، باغیچوں میںاور زمین کے خالی قطعات/ پلاٹس وغیرہ میں کاشت کاری کر کے اپنی خوراک کے وسائل خود پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن گھریلو سطح پر اربن ایگریکلچر کی اہمیت اور اپنی تمام تر محکمانہ کوشش کے باوجود ڈی جی صاحب اس حقیقت کا بھی اعتراف کر تے ہیں کہ ہمارے شہری علاقوں میں گھریلو سطح پر خوراک پیدا کرنے کا ابھی اتنا شوق اور جستجو پیدا نہیں ہو سکی جتنی ہونی چاہیئے ۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اجتماعی ذمہ داری کے رویہ کے فقدان اور اس حوالے سے کوششوں کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کہ ہم گھروں کی آرائش اور زیبائش کے لئے پھولوں کی کاشت کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن سبزیوں کی پیداوار حاصل کرنے کی طرف کوئی قابلِ ذکر توجہ نہیں دیتے جو تازہ اورمعیاری خوراک کے حصول کے حوالے سے ہماری عملی سنجیدگی کی واضح مثال ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ اُن کے نزدیک ایک ٹیکنیکل کمی سبزیوں کی پنیریوں کا باآسانی دستیاب نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری کمرشل نرسریوں میں پھولوں اور دیگر دیدہ زیب پودوں کی پنیریوں کی طرح سبزیوں کی پنیریوں کا ملنا  بھی ممکن ہونا چاہیئے۔ جس کے لئے نجی شعبہ کو آگے آنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اُن کا کہنا ہے کہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی اور میونسپلٹیز کے پاس چونکہ فلوریکلچر کی مہارت ہے اس لئے ان ایکسپرٹیز کا استعمال اربن زراعت کے حوالے سے زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے کیونکہ ہماری خوراک میں سبزی کا استعمال بہت کم ہے جو 30 سے40 گرام روزانہ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت فعال اور صحت مند زندگی کے لئے یومیہ 200 سے250 گرام سبزیوں کا استعمال تجویز کرتا ہے۔ اس لئے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دیہی اور شہری علاقوں میں سبزیوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔اور شہری باسیوں میں خصوصاً اس کا شوق پروان چڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ میڈیا کے کردار کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا اپنے مندرجات میں پبلک براڈکاسٹنگ کے تناسب کو بڑھائے اور اس طرح کے موضوعات کو اپنی ایک سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پیش کرے ۔ شہروں کے قرب وجوار میں موجود  زرعی زمینوں کے تحفظ کے سلسلے میں اپنے محکمہ کے کردار کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لینڈ یو ٹیلائزیشن ایکٹ اور لینڈ یو ٹیلائزیشن پالیسیز کی بات ہے۔

اس حوالے سے وزیر اعظم نے شہروں کے قرب و جوار میں موجود زرعی زمینوں کے رہائشی مقاصد یعنی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر پر پابندی لگا دی ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔کیونکہ محکمہ زراعت اور اُس کے کارکن یہ چاہتے ہیں کہ وہ زرخیز قطعات جو شہروں سے ملحقہ ہیں اور 15 سے20 ٹن تک سالانہ خوراک دیتے ہیں۔ قوم اُن کی پیداوار سے محروم نہ ہو۔ لیکن اس حوالے سے جو بڑا چیلنج ہے وہ کاشت کار کے منافع میں کمی کا آنا ہے۔ ہمیں کاشت کار ی کے اخراجات میں کمی لا کر کسان کے منافع کو بڑھانا ہے تاکہ وہ رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے جب اربنائزیشن کی وجہ سے بہت زیادہ زرخیز زمین خاص طور پر سبزیوں والی زمین کا استعمال تبدیل ہونا شروع ہوا تو محکمہ زراعت پنجاب نے فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ڈیو یلپمنٹ کی اسکیمیں شروع کیں ۔ 200 سے زائد جگہوں پر فارم فیلڈ اسکول منعقد کئے اور کاشت کاروں کو سبزیوں کی کاشت کی ٹریننگ دی ۔ کیونکہ سبزی اُگانا ایک آرٹ ہے اورآرٹسٹ بڑی مشکل سے بنتا ہے۔

اس کے علاوہ محکمہ نے 526 ملین کی ٹنل فارمنگ پر سبسڈی دی ۔ بیج پر سبسڈی دی ۔ معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ مشینری کے شعبہ میں کسان کی مدد کی اور پانی کے بہتر استعمال کے مختلف پروگرامزکے ذریعے اُس کی اعانت کی ۔ پیداوار کی بہتر مارکیٹنگ میں معاونت کی اور یہ تمام سلسلہ تا حال جاری ہے۔ موجودہ حکومت بھی زراعت کی ترقی میں بھرپور دلچسپی رکھتی ہے اور اُس نے جو نیشنل پروگرام دیئے ہیں۔ ان میںصرف کاشت کار کی سہولت کے لئے پنجاب میں 26 ارب روپے مشینری، بیج اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر خرچ کئے جا رہے ہیں اور اس حکومت کی زرعی پالیسی کا بنیادی مقصد کاشت کار کی زندگی میں بہتری لانا ہے۔

پاکستان جو پہلے ہی اپنے خوراک کے پیداواری وسائل پر آبادی کے شدید دباؤ اور کلائیمیٹ چینج کے اثرات کا شکار ہے۔ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزید زرعی زمین ( وہ بھی زرخیز) جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہیں انھیں کھوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی تعمیر پر جو پابندی لگا ئی گئی ہے وہ ایک نہایت احسن اقدام ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے خوراک اور غذائیت کی سکیورٹی کی حکمت عملی کے طور پر شہری زراعت/کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے اردگرد موجود زراعت کے نظام کی حفاظت اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لئے  رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے اور کسی انسانی بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔

ایک کچن گارڈنر

ڈاکٹر محمد راشد خان جامعہ پنجاب کے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔گارڈننگ کا شوق اور عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ جامعہ میں واقع اپنے گھر میں سبزیوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے پھل دار درخت بھی لگا رکھے ہیںاور پولٹری بھی رکھی ہوئی ہے۔ اپنی فوڈ کا ایک نمایاں حصہ وہ خود پیدا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں’’ یونیورسٹی نے مجھے جو رہائش فراہم کی ہوئی ہے اُس میں کافی جگہ موجود تھی جہاں کچھ کیا جا سکتا تھا۔ میں یہ اکثر سوچتا تھا کہ اس کو کس طرح استعمال میں لایا جائے۔

ایک روز میں نے یونیورسٹی میں ایک بہت خوب صورت درخت دیکھا جس پر ایک پیلی سی چڑیا اپنا گھر بنا رہی تھی۔ اور اُس پر کوئی پھل بھی لگ رہا تھا ۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ چیکو کا درخت ہے۔ دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایاکہ ایسا کوئی درخت میرے گھر بھی ہو ۔ سو میں نے ایک دوست کے توسط سے شروع میں اپنے گھر میں چیکو، انار اور انجیر کے پودے لگائے۔ یہ پودے مختصر عرصے میں پھل دار درخت بن گئے۔ اور خوب ڈھیر سا شاندار پھل دینے لگے۔ اس سے مجھے مزید شوق ہوا اور میں نے گریپ فروٹ پپیتہ، امرود اور لیموں کے پودے بھی لگا لئے۔ سبزیوں کی کاشت کاری کا آغاز میں نے اس وجہ سے کیا کہ میں ریڈیو پر زرعی پروگرام کرتا تھا جہاں ماہرین کی گفتگو سے مجھے پتا چلا کہ ہمارے شہروں میں سبزیوں کی کاشت کے لئے کافی جگہوں پر سیوریج کا پانی استعمال ہوتا ہے۔

اورسیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کے ایک مائیکروبیالوجسٹ سے بھی اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سیوریج کے پانی سے تیار ہونے والی سبزیوں میں بیکٹیریا آجاتا ہے جو جسم میں مختلف طرح کی درد اور گیس کا باعث بنتا ہے۔ اُس کے بعد میں جب بھی سبزی خریدتا تو اپنی بیگم سے کہتا کہ پتا نہیں یہ صاف پانی کی ہے بھی کہ نہیں۔ میری بیگم کو بھی اس حوالے سے تشویش تھی۔ چونکہ اُنھیں پھولوں کا شوق ہے تو ایک روز اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس جگہ بھی ہے تو کیوں نا ہم گھر پر ہی سبزیاں کاشت کر یں ۔ یوں میں نے اس مفید مشورے پر فوراً عمل درآمد کر ڈالا۔ ان دنوں اخبار میں محکمہ زراعت کی جانب سے گھروں میں سبزیوں کی کاشت کے حوالے بیج کے پیکٹس کے اشتہارات آرہے تھے۔

جس کی قیمت فی پیکٹ 50 روپے تھی۔ ایک پیکٹ خریدا اور جامعہ کے ایک مالی بابا کے توسط سے چند فٹ زمین پر ٹماٹر، گوبھی، براکلی، بند گوبھی، شلجم ، دھنیا اور سلاد کے پتے کاشت کئے۔ مالی بابا نے زمین تیارکی، کھیلیاں بنائیں اور بیج بوئے۔ میں نے ان پودوں کی خوب دیکھ بھال کی جس کا شاندار رزلٹ آیا۔اب میں ہر موسم میں آرگینک سبزیاں اُگاتا ہوں جو یوریا، ڈی اے پی، کیڑے مار زہریلی ادویات کے اسپرے سے پاک ہوتی ہیں جسے صرف گھر میں تیار پتوں اور گوبر والی کھاد دی جاتی ہے۔

اس سے اتنی مقدار میں سبزیاں حاصل ہو جاتی ہیں جو ہماری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں۔ اور دوستوں اور احباب کو تحفتاً دینے کے بعد بھی بچ جاتی ہیں۔ میں شروع میں ساری سبزیاں ایک ہی روز کاشت کر لیتا تھا جس سے پیداوار ایک بار اکٹھی ملتی تھی ۔اب میں سبزیوں کو مختلف وقفوں کے بعد کاشت کر تا ہوں اس سے مجھے تواتر کے ساتھ سبزی ملتی رہتی ہے۔ سبزیوں کی اس فراوانی نے ہماری غذا میں اپنی کافی جگہ بنا لی ہے خصوصاً سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزیوں نے ۔ جن کا استعمال پہلے بھی تھا لیکن اکثر بازار سے لانے میں تساہل کی وجہ سے قدرے کم تھا ۔ اس کے علاوہ یہ سب سبزیاں مجھے 100 روپے سے بھی کم لاگت میں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اور جتنی ان کی پیداوار ہوتی ہے اُتنی سبزی بازار سے ہزاروں روپے میں آتی ہے۔

اس لئے ان کے کچن بجٹ پر بھی بڑے مثبت اثرا ت مرتب ہوئے ہیں۔‘‘  ڈاکٹر راشد نے ایک بات خصوصی طور پر کہی کہ ہمارے شہر چونکہ افقی طور پر پھیل رہے ہیں اس لئے کافی گھروں میں اتنی گنجائش نکالی جا سکتی ہے کہ وہاںکچن گارڈننگ کی جا سکے۔ لیکن اگر کسی کے پاس جگہ نہیں ہے تو بھی گملوں یاکسی ایسی چیز یا برتن جس میں مٹی اکٹھی کی جا سکے اور اُس کا منہ کھلا ہو اُس میں سبزی کاشت کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ہمارے شہر وں میں خصوصاً جنوبی لاہور میں بڑے بڑے گھر موجود ہیں۔ جہاں صحت کے حوالے سے بہت فکر مند کلاس رہتی ہے۔ لیکن ان بڑے بڑے گھروں میںجہاں بڑی آسانی سے کچن گارڈننگ کے لئے جگہ میسر ہوسکتی ہے اس جانب توجہ نہیں دی جاتی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

The post غذائی تحفظ کے چیلنج سے نبردآزما ہمارے پھیلتے شہر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>