Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں ڈالر 3 روپے پانچ آنے سے164 روپے تک کیسے پہنچا ؟

$
0
0

پاکستان کو شدید نوعیت کے بہت سے مسائل برصغیر کی تقسیم ، پاکستان کے قیام اور آزادی کے ساتھ ملے تھے جن میں اثاثوں کی تقسیم، پانی کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر، مہاجرین کی آبادکاری، فوجی سازوسامان کی تقسیم جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مرکزی بنک میں موجود 4 ارب روپوں میں سے ایک ارب روپے کا حصہ تھا۔ میں نے یہاں پاکستان کی آزادی کے ساتھ برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا ایک بہت ہی منفرد ملک ہے کہ برصغیر یعنی چھوٹا براعظم بنیادی طور پر دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم اور ہندو آبادی کے اکثریتی علاقوں کے اعتبار سے تقسیم ہو کر 14 اگست اور15 اگست 1947 ء کودو الگ الگ ملکوں کی حیثیت سے آزاد ہوا اور قیام پاکستان اس لیے استعمال کیا کہ اس سے قبل اس حدود اربعے اور محلِ وقوع اور رقبے کا کو ئی ملک دنیا کے نقشے اور تاریخ میں نہیں تھا، یوں اس کے بانی قائد اعظم بھی دنیا کی تاریخ کے منفرد لیڈر ہیں۔

لیاقت علی خان نے مشترکہ ہندوستان کا آخری وفاقی بجٹ مالی سال 1947-48 ء میں پیش کیا تھا، اور اس بجٹ کو غریب دوست بجٹ کہا گیا تھا، جس میں سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور تاجروں پر ٹیکس لگائے گئے تھے۔ پاکستان کے پہلے مالی سال 1948-49 کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ روپے تھا جس میں آمدن 79 کروڑ 57 لاکھ تھی اور خسارہ 10 کروڑ تھا مگر اس مالی سال کے خاتمے تک پاکستان مالیاتی بحران سے نکل آیا تھا اور مالی سال 1949-50 کا دوسرا قوی بجٹ پاکستان کے مستحکم ہونے کا اعلان تھا، ملک کے اس دوسرے وفاقی بجٹ کا حجم 1 ارب 11 کروڑ تھا یہ بغیر خسارے کا بجٹ تھا۔

جس میں 6 لاکھ روپے بچت تھی، اور اس کے بعد 1969 ء تک سوائے ایک آدھ قومی بجٹ کے تما م قومی بجٹ خسارے سے پاک اور بچت کے بجٹ تھے، سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد آج کے پاکستان میں پہلا قومی بجٹ عوامی حکومت نے مالی سال 1972–73 کا پیش کیا جو خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا، اس کا کل حجم 8 ارب 77 کروڑ تھا اور 18 کروڑ روپے بچت تھی، واضح رہے کہ اُس وقت مالیاتی طور پر ہماری فوری مدد سعودی عرب اور لیبیا نے کی تھی۔ 1970 کے پہلے عام انتخابات کے موقع پر صدر، جنرل یحیٰ خان کے ایل ایف او کے تحت بلو چستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا۔

1972 ء کا عبوری آئین بنا کر بھٹو نے ملک میں مارشل لاء ختم کیا اور خود صدر سے وزیر اعظم بنے اور چاروں صوبوں میں صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں تو بلوچستان میں پہلی صوبائی حکومت سردار عطا اللہ مینگل کی وزارت اعلیٰ کے تحت قائم ہوئی، اُس وقت صوبے کی کل آبادی 23 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی اور صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد بھی 23 تھی ۔ بلوچستان کی پہلی عوامی منتخب حکومت کا پہلا صوبائی بجٹ مالی سال 1972-73 ء بلوچستان کے پہلے صوبائی وزیر ِخزانہ احمد نواز بگٹی نے پیش کیا تھا جس کا کل حجم15 کروڑ روپے تھا اور بجٹ خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ تھا۔

اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 ء میں اقتدار میں آتے ہی ملک کو فوری اور شدید نوعیت کے سیاسی اور اقتصادی گرداب سے نکال لیا تھا اور خصوصاًخارجی سطح پر صرف دو مہینوں ہی میں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بحال کر کے بھارت سے مذاکرات کی راہ بھی ہموار کردی تھی،اور ساتھ ہی ملک کی تاریخ میں پہلی مر تبہ آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی تھی اور ملک میں اپنی پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام پر بھی عملدر آمد شروع کر دیا تھا۔ بھٹو کی شخصیت میں ذہانت، فطانت کے ساتھ قدرے عدم توازن انداز کی تیز رفتاری اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔

پاکستان میں اُن کی حکومت وفاق کے علاوہ پنجاب اور سندھ جیسے بڑی آبادی والے صوبوں میں بھاری اکثریت سے تھی جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںنیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں تھیں، بلوچستان کی 23 اراکین کی صوبائی اسمبلی میں 1970 ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں بھی کافی اراکین صوبائی اسمبلی کامیاب ہو ئے تھے، اس لیے بھٹو نے یہاں پہلے دن ہی سے جوڑ تو ڑ کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ سردارعطا اللہ خان مینگل کی حکومت کو ہٹانے سے قبل انہوں نے بڑی شاطرانہ چالوں سے اس پہلی صوبائی حکومت کو عوام میں غیر مقبول کرنے کی کو شش بھی کی، جس سے بلو چستان کے نئے صوبے کو مستحکم ہونے کا مناسب وقت بھی نہ مل سکا ۔

اسی طرح بھٹو نے مالی سال 1972-73 کا قومی بجٹ جو سعودی عرب اور لیبیا کی بھاری مالی امداد سے بغیر خسارے کا پیش کیا تھا جس میں 18 کروڑ کی بچت تھی اگر اس بچت میں سے 8 کروڑ روپے کی گرانٹ بلو چستان کے صوبائی بجٹ کے خسارے کو ختم کر نے کے لیے دی جاتی تو اس سے ایک جانب نئے صوبے بلوچستان کے عوام کی دلی ہمدردیاں وفاقی حکومت کے ساتھ ہوتیں اور ساتھ ہی یہ نیا صوبہ فوراً ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر مستحکم ہو جاتا، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے بھارت نے اقتصاد ی طور پر پاکستان کو کمزور اور ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے اور اس کے بعد، یہی صورت بھٹو نے بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے استعما ل کی۔

یوں بلوچستان کے صوبہ بنتے ہی بلو چستان کو شدید نوعیت کے سیاسی، اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، صدر ایوب خان کی اقتصادی مالیاتی پالیسیوں پر یہ تنقید تو کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی تیز رفتار ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو حد درجہ مراعا ت دیں جس کے نتیجے میں ارتکازِ کی وجہ سے ملک کی مجموعی دولت مشہور 22 خاندانوں میں جمع ہوئی مگر اُن کے زمانے تک ہی ملک میں فنانشل ڈسپلن قائم رہا، قومی سالانہ آمدن زیادہ اور اخراجات کم رہے، رشوت ستانی اور اوُنچی سطحوں پر کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی، پی آئی اے، ریلوے اور ڈاکخانہ سمیت دیگر قومی ادارے خسارے کی بجائے فائدے میں تھے، اگرچہ اکثریت کی قوتِ خرید کم تھی مگر سادہ طرز زندگی اور حکومت کی جانب سے مفت تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کی وجہ سے غربت نہیں تھی یعنی ہر بیمار کو سرکاری ہسپتال میں مفت علاج کی اور ہر بچے کو سر کاری اسکول میں معیاری تعلیم کی سہو لت میسر تھی، راشن کارڈ سسٹم کے تحت 18 روپے 75 پیسے فی چالیس کلو آٹا، 1 روپے 12 پیسے فی کلو چینی اور ڈھائی روپے فی کلو بناسپتی گھی ملتا تھا۔

بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی بڑے صنعتی یونٹوں کو اپنی شوشلسٹ ’’مساوات‘‘ کی پالیسیوں کے تحت قومی ملکیت میں لیا، بعد میں فلور ملز اور رائس ملوں تک کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا مگر اس کے ساتھ فنانشل ڈسپلن برقرار نہ رکھ سکے۔ اِن قومیائے گئے اداروں کے لیے اُن کے پاس نظریات کے حامل افسران کی انتظامیہ اور مزدور یونینوں کے لحاظ سے قو میائے گئے اداروں سے حب الوطنی کی بنیاد پر محنت کا جذبہ ناپید تھا، پھر قومیائے گئے اِن اداروں میں ضرورت سے زیادہ بلکہ دگنی تگنی تعداد میں ملازم رکھے گئے، یوں یہ نفع بخش ادارے نقصان میں جانے لگے۔ بھٹو دور کی خو ش قسمتی کہ اس زمانے میں عرب امارات کو برطانوی نو آبادیاتی نظام سے آزادی ملی، پھر اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد تقریباً 30 لاکھ افراد محنت مزدوری کے لیے عرب اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں گئے اور یوں پاکستان کو بڑے اور مستقل نوعیت کا زر مبادلہ کا ذریعہ ہاتھ آگیا، تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے مالی گرانٹ اور امداد بھی ملتی رہی جس نے بھٹو کو ملک کی غیرجانبدارانہ اور آزاد خارجہ پالیسی کو اختیار کرنے میں مدد دی، مگر صدر ایوب کے زمانے کی طرح ہماری اقتصادی صنعتی ترقی مستحکم نہ رہ سکی۔

1977 ء میں بھٹو کے رخصت ہونے پر ملک میں فوراً دوبارہ وہی اقتصادی مالیاتی نظام نافذ العمل کیا گیا جس میں اُس وقت کے سینئر بیوروکریٹ اور مالیاتی امور کے ماہر غلام اسحاق خان نے جو بعد میں صدر مملکت بھی بنے اہم کردار اداکیا۔ یہ اقتصادی نظام سیاسی مفادات اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اپنایا گیا تھا جس سے فوری طور پر عوام کی قوتِ خر ید کم ہوئی، دو بارہ انحصار مغربی قوتوں پر کرنا پڑا۔ اگر چہ 1989-80 ء میں سابق سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں فوجی مداخلت سے پاکستان کو امداد اور قرضے ملے، مگر اس کے خاطر خواہ اثرات ملکی معیشت پر مرتب نہ ہوئے۔

مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوتا رہا، ڈالر کی قیمت بھی بڑھی، البتہ 1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے بعد جب جونیجو حکومت میں دنیا کے معروف ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے مالیاتی سال 1986-87 کا قومی بجٹ پیش کیا تو یہ بجٹ حیرت انگیز طور پر خسارے سے پاک اور عوام دوست بجٹ تھا مگر یہ ایک ہی قومی بجٹ تھا ۔ اگر چہ وزرا کی سطح پر پرمٹوں الاٹ منٹ، ٹھیکوں کی بنیاد پر 1972 ء کے بعد سے کچھ صوبائی اور وفاقی وزرا کی کرپشن کھل کر سامنے آنے لگی تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ایسی تھی کہ جس پر اُن کے بد ترین دشمن کرپشن کا نہ تو الزام لگا سکے اور نہ ہی انہوں نے کو ئی کرپشن کی ، مگر بعض کا کہنا یہ ہے کہ جب 1988 ء میں بینظیر اقتدار میں آئیں اور اٹھارہ ماہ بعد رخصت ہو گئیں تو اُن کو یہ احساس ہو گیا کہ یہاں اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت بھی ہے الیکشن میں بھی پیسہ چلتا ہے اور اُن کو اس کا یقین دلایا گیا کہ اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر ’’ جیسا دیس ویسا بھیس ‘‘ ہی کے مطابق چلنا ہو گا۔

1990 ء میں دنیا سے اشتراکیت رخصت ہو گئی اور سابق سوویت یونین کے رہنما گورباچوف نے گلاسنس اور پر سٹریکا متعارف کر وا کر ایک جانب روسی مشرقی ریاستوں اور وسطیٰ ایشیا کی مسلم ریاستوںکو آزاد اور خود مختار کر دیا تو دوسری جانب اشتراکی نظام کو چھوڑ کر امریکہ مغربی یورپ ،آسٹریلیا ،کینیڈا کی طر ح آزاد معیشت اور تجارت کا نظام اپنا لیا، امریکہ نے ڈبلیو ٹی او، اور نیو ورلڈ آرڈر کے ساتھ اس وسیع دنیا کو گلوبل ولیج قراردے دیا، ہمارے ہاں ڈیڑھ صدی پرانا چونگی کا نظام ختم ہوا اور دیگر مقامی ٹیکسوں کو ختم کر کے 15% سے 18% جنرل سیلز ٹیکس نافذ ہوا، یہ اقتصادی اور معاشی اعتبار سے پوری دنیا میں ہونے والی تیز رفتار اور اہم تبدیلیوں کا دور تھا، روس کا کڑا امتحان اور آزمائش تھی، واضح رہے کہ 1990 ء سے قبل روس کی کرنسی روبل امریکی ڈالر کے تقریباً برابر تھی اس کی قدر میں عا لمی سطح پر خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی اور ایک ڈالر 450 روسی روبل سے زیادہ کا ہوگیا، اگرچہ آج امریکی ڈالر تقریباً71 روبل کا ہے مگر روس معاشی، اقتصادی، عسکری اور صنعتی اعتبار سے دوبارہ عالمی سطح پراپنی کھوئی ہوئی پوزیشن تقریباً بحال کر چکا ہے۔

مگر پاکستان جس نے اقوام متحد ہ کی قرارداد پر افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف یورپ اور امریکہ سے تعاون کیا تھا، نہ صرف امریکہ اور یورپ کی جانب سے نظر انداز کر دیا گیا بلکہ خود ہمارے ہاں اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے ملک کے لیے کوئی مفید اور بہتر منصوبہ بندی نہیں کی، صوابدیدی فنڈز جو1980 ء کی دہائی میں 35 لاکھ روپے فی رکن پارلیمنٹ شروع ہوئے تھے جلد کروڑوں روپے سالانہ تک پہنچنے لگے، اور چونکہ یہ انفرادی طور پر ہیں اس لیے اربوں روپے سالانہ کی ان رقوم سے گذشتہ 34 برسوں کی مجموعی اربوں ڈالر اور کھربوں روپے کی رقم سے کو ئی بڑا اور پیداواری نوعیت کا منصوبہ مکمل نہ ہو سکا،کو ئی بڑا ڈیم نہ بنا جب کہ جو منصوبے اربوں کی لاگت اور زرمبالہ سے شروع ہوئے وہ اورنج ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے ہیں جس سے روزانہ صرف ایک شہر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد سفر کر تے ہیں اور یومیہ اِن کو کروڑوں روپے کی سبسڈی پر سستا ٹکٹ دیا جاتا ہے، یہ بالکل سستی روٹی جیسا منصوبہ ہے، یوں اگر گذشتہ دس برسوں میں کے منصوبوں اور قومی بجٹوں کودیکھیں تو افتخار عارف کے یہ اشعار حقیقت حال کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

منکر بھی نہیں حامیِ غالب بھی نہیں تھے

ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

اور پھر سونے پر سوہاگا کہ 2008 ء تا 2018 ء تک پانچ پانچ سال اقتدار میں رہنے والی جماعتوں نے ایک دوسرے پر نہ صرف قومی دولت کو نقصان پہنچانے اور کرپشن کے الزامات عائد کئے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی قائم کئے اور پھر عالمی سطح پر پانامہ لیک جیسے اسکینڈل میں بعض بڑ ے لیڈروں کے نام بھی آگئے،اس تناظر میں پی ٹی آئی کی دس ماہ کی وفاقی حکومت کی جانب سے 11 جون 2019 ء کو وفاقی وزیر ِمملکت برائے ریوینو محمد حماد اظہر نے مالی سال2019-20 ء کا قومی بجٹ پیش کیا جس کا کل حجم 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ تھا اور بجٹ خسارہ 3151 ارب روپے ہے اس بجٹ کو ٹیکنکل بنیاد پر عوام دوست بجٹ نہیں کہا جا سکتا جو بھٹو دور میں ہوا کرتا تھا، جب کہ گذشتہ دس برسوں میں پیش کئے جانے والے 11 قومی بجٹ بھی عوام دوست نہیں تھے، البتہ ووٹ دوست سیاسی مفادات پسندانہ، قومی بجٹ ضرور تھے، بجٹ مالی سال 2019-20 ء سے قبل ہی آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج ( اقتصادی ضمانتی امدادی قرضہ) کے لیے مذاکرات شروع ہوگئے اور30 جون بجٹ کی منظوری تک امریکی ڈالر کی قیمت 164 روپے تک جا پہنچی۔

پا کستان میں ڈالر کی قیمت اور معیشت و اقتصادیات کا تاریخی جا ئز ہ کچھ یوں ہے۔ 1948 ء سے لیکر 1954 تک ا مریکی ڈالر کی قیمت 3.3085 روپے رہی، ایک ڈالر تقریباً تین روپے31 پیسے رہا، یوں آزادی کے بعد ڈالر کی قیمت لگاتار سات سال تک پاکستان میں مستحکم رہی، 1955ء میں سیاسی بحران زیادہ بڑھنے لگا تو ڈالر کی قیمت میں قدرے اضافہ ہوا اور ڈالر کی قیمت 3.9141 روپے یعنی تقریباً تین روپے 92 پیسے ہو گئی، اگر چہ 1956 ء میں ملک میں پہلا پارلیمانی آئین نافذالعمل ہوا، مگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا اور ڈالر 4.7619 روپے کا ہوگیا یعنی ایک امریکی ڈالر چار روپے 77 پیسے کا ہو گیا ۔

یہا ں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1952 ء سے امریکی امداد اور قرضے شروع ہو گئے تھے لیکن یہ بہت ہمدردانہ اور دوستانہ نوعیت کے تھے، شرح سود بہت کم اور ادائیگی آسان اور طویل المدت تھی جب کہ گرانٹ میںغذائی امداد مفت بھی تھی، لیکن ہم سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علاقائی اور اشتراکی ممالک کے خلاف ہو گئے تھے۔ ڈالر کی یہ قیمت بھی طویل عرصے تک مستحکم رہی اور 1970-71تک پاکستان میں ڈالر کی قیمت پانچ روپے سے معمولی زیادہ رہی، 16 دسمبر1971 ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد 20 دسمبر1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا،1972 ء میں ڈالر کی قیمت میںتقریباً 73.6 فیصد اضافہ ہوا اور ایک ڈالر 8.6814 روپے کا ہو گیا، 1973 ء میں ڈالر کی قیمت 9.9942 یعنی تقریباً دس روپے ہوگئی مگر1974ء میں ڈالر 9.9 روپے کا ہوگیا اور اس کے بعد ڈالر کی یہ قیمت بھی تقریباً نو سال یعنی1981 ء تک مستحکم رہی۔

اس دور میں علاقائی سطح پر اور دنیا کی تاریخ میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ بھارت، پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان میں مقبول ترین لیڈر قتل ہوئے یا پھانسی پر چڑھا دئیے گئے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور ہمسایہ ملک ایران اور افغانستان میں باد شاہتوں کے تختے الٹ دئیے گئے، حالانکہ پاکستان نے

امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اب نہ صرف ہمارے مجموعی قرضوں کا حجم بڑھنے لگا بلکہ اب شرح سود میںاضافے کے ساتھ بعض شرائط ایسی بھی عائد ہونے لگیں جن سے ہماری آزاد خارجہ پالیسی متاثر ہونے لگی، اس دور میں یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ماحولیاتی مسائل سے بچنے کے لیے درمیانے درجے کی صنعتیں، سستے خام مال، سستی توانائی و افرادی قوت اور ٹیکسوں میں پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے بالکل چھوٹ یا بہت زیادہ رعایت پر، اِن غریب ملکوں میں سرمایہ کاری شروع کی جو اب بھی جاری ہے، اس کے مجموعی منفی اثرات کسی نہ کسی سطح پر ہر ترقی پذیر ملک کو ہوئے۔ 1982 ء میں ڈالر کے نرخ میں تقریباً19.95% اضافہ ہوا اور ایک ڈالر 11.8475 روپے یعنی تقریباً گیارہ روپے85پیسے کا ہو گیا۔

1982 ء کے بعد سے سالانہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1983 ء میں ڈالر 13.117 روپے، 1984 ء میں 14.0463 روپے، 1985 ء میں15.9284 یعنی تقریباً پندرہ روپے 93 پیسے اور 1986 ء میں16.6475 روپے1987 ء میں ایک ڈالر17.3988 روپے اور1988 ء میں جب صدر جنرل ضیا الحق اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ڈالر کی قیمت 18.0033 روپے یعنی اٹھارہ روپے سے معمولی زیادہ تھی لیکن 1983 سے 1988 ء تک ڈالر کی قیمت میں تقریباً52% اضافہ ہوا اور اگر ضیاالحق کے مجموعی دور حکومت گیارہ سال کے دوران اضافہ دیکھیں تو یہ مجموعی اضافہ 81.81% تک رہا ، 1988 ء سے 1999 ء تک بینظیر اور میاں محمد نواز شریف کی دو دو مرتبہ حکومتیں رہیں۔ اس دوران بھی سالانہ بنیادوں پر ڈالر میں اضافہ کا رجحان برقرار رہا۔ 1989 ء میں ڈالر کی قیمت 20.5415 روپے یعنی ساڑھے بیس روپے سے کچھ زیادہ تھی جو بڑھ کر 1990 ء میں اگست میں بینظیر حکومت کی رخصتی تک 21.7074 روپے ہو گیا یعنی 18 ماہ کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں 20.55% کاا ضافہ ہوا۔

ان کے بعد تین مہینے عبوری حکومت کے بعد میاں نوازشریف کی حکومت آئی، 1991 ء میں ڈالر کی قیمت 23.8008 روپے ہوگئی 1992 ء میں ڈالر 25.0828 روپے کا ہو گیا، 1993 ء میں جب نواز شریف کو ہٹایا گیا اور تین ماہ بعد بینظر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو ڈالر 28.1072 روپے کا ہو گیا یعنی ڈالر کی قیمت میں تقریبا ً 29.49 فیصد اضافہ ہوا، 1994 ء میں ڈالر کی قیمت 30.5666 روپے ہو گئی، 1995 ء میں ڈالر 31.6427 روپے کا ہوگیا اور نومبر 1996 ء میں اپنی دوسری مرتبہ کی حکومت کے بعد رخصت ہوئیں تو ڈالر36.0787 روپے کا ہو گیا تھا یعنی اس دوران ڈالر کی قیمت میں 28.36 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 90 دنوں کی عبوری حکومت کے بعد عام انتخابات کے بعد میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو1997 ء میں ڈالر کی قیمت 41.115 روپے ہو گئی یعنی ڈالر کی قیمت میں صرف ایک سال میں13.97 فیصد کا اضافہ ہوا، 1998 ء میں ڈالرکی قیمت 45.04 روپے ہو گئی اور 1999 ء میں جب میاں نواز شریف رخصت ہوئے تو ڈالر 51.4 روپے کا ہو گیا، یوںاس دوران 42 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا،اس دوران اربوں ڈالر ملک سے باہر گئے۔ یوں 1988 ء سے1999 ء تک بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دس سالہ دور حکومت میں ڈالر 18 روپے سے بڑھ کر 51.4 روپے کا ہو گیا، یوں اس دس برسوں میں ڈالر کی قیمت 185 فیصد بڑھی۔

اکتوبر 1999 ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا،2001 ء میں ڈالر کی قیمت 63.5 روپے ہو گئی یعنی 23.46% اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے عالمی سطح کے معروف ماہر معاشیات شوکت عزیز کو بلوا کر وزیر خزانہ بنایا اور پھر میر ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت کے بعد اُن کو وزیر اعظم بھی بنایا، انہوں نے پہلے دو سال سخت معاشی اقتصادی فیصلے کئے۔ 2002 ء میں ڈالر کی قیمت کم ہو کر 60.5 روپے ہو گئی، 2005 ء میں ڈالر 59.7 روپے کا ہوا، 2006 ء سے ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے لگا اور اس سال ڈالر 60.4 روپے، 2007 ء میں ڈالر60.83 روپے کا ہو گیا۔ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، دسمبر 2008 ء میں ڈالر 78 روپے کا ہوگیا، 22.19 فیصد اضافہ صرف پہلے سال میں ہوا، 2009 ء میں ڈالر کی قیمت 84 روپے ہو گئی یعنی 7.69% اضافہ ہوا، 2010 ء میں ڈالر 85.75 روپے کا ہو گیا۔

2011 ء میں ڈالر 88.6 روپے کا ہوا، 2012 ء میں ڈالر نے بڑی چھلانگ لگائی اور 98 روپے کا ہو گیا۔ دسمبر 1913 ء میں ڈالر 108 روپے کا ہو گیا۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا پانچ سالہ دور تھا جس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے جن کو عدا لت کی جانب سے سوئز حکومت کو بروقت خط نہ لکھنے کی وجہ سے برطرف کیا گیا اور بعد میں راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنایا گیا جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری صدر بنے تھے۔ 2007 ء تک ڈالر 60.43 روپے کا تھا جو 2013 ء میں 78.71 فیصد اضافے کے ساتھ 108 روپے کا ہو گیا تھا، واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری کے پورے دور حکومت میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف باآواز بلند آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر شدید نوعیت کی کرپشن کے الزامات عائد کرتے رہے۔

2013 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت تو تشکیل دے دی مگر اِن پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے اور ووٹوں کی بنیاد پر دوسرے نمبر کی جماعت تحریک انصاف نے جو ایک نئی پُر اثر پُر جوش جماعت کی صورت میں سامنے آئی تھی تحریک شروع کرد ی ، جسے عوامی پذیرائی بھی ملی اور اس جماعت نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو چیلنج کر دیا۔ وزیراعظم نوازشریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کمال فنکاری دکھائی اور 2014 ء میں ڈالر کو 108 روپے کی بلند سطح سے 103 روپے فی ڈالر کی سطح پر لے آئے یعنی ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے کی حیرت انگیز کمی کردی۔

نومبر 2015 ء میں ڈالر کچھ دنوں کے لیے 105 روپے کا ہوا مگر دسمبر 2016 ء میں ڈالر 104 روپے کا ہو گیا، اس دوران حکومت مسلسل بڑے ملکی اور غیر ملکی قرضے لیتی رہی۔ اسحاق ڈار نے بھاری شرح کے منافع پر سکوک باؤنڈز جاری کر کے بھی زرمبادلہ جمع کیا جس کی ادائیگی کی مدت طویل رکھی پھر نوازشریف کی سزا کے بعد اور خصوصاً پانامہ لیکس اور کرپشن کے دیگر الزمات کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس وقت کے مسلم لیگ کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے طیارے میں لندن چلے گئے اور اب تک وہیں ہیں، ان کے جانے کے بعد اگر چہ یہ کہا گیا کہ یہ حکومت الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے صرف تین ماہ سپلیمنٹر ی بجٹ دے مگر مسلم لیگ ن کے نئے مقرر کردہ وزیر مملکت برائے خزانہ اسماعیل مفتاح نے بجٹ مالی سال 2018-19 ء دیا جس میں پوسٹ مارٹم کرکے حکومتی آمدنی کے ذرائع کو بہت کم اور اخراجات کو بہت زیادہ کر دیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دن کے آخری گھنٹوں میں بھی کروڑوں روپے مالیت کے سرکاری چیکوں پر دستخط کئے۔ یوں یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا آخری بجٹ مالی سال 2018-19 ء عوام دوست اور ملک دوست نہیں تھا بلکہ اپوزیشن اور بہت سے ماہرین کے مطابق غالباً اُن کو یہ احساس تھا کہ آئندہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی آئے گی اس لیے اُن کی نئی اور ناتجربہ کار حکومت کے ساتھ اس طرح کی اقتصادی اور معاشی، بارودی سرنگیں اور ٹائم بم لگا دئیے گئے۔

حالانکہ 2008 ء سے 2013 ء تک جب ڈالر کی قیمت 60.4 روپے سے بڑھ کر 108 روپے تک پہنچ گئی تھی تو اس کی وجہ تجارت میں خسارہ، اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے اورکھربوں روپے کے اندرونی قرضے، مالی بے ضابطگیاں وغیرہ تھیں اور اس کے بعد اِن وجوہات کی شدت میں زیادہ اضافہ ہوا، مگر اسحاق ڈرا نے منفی انداز سے مسلم لیگ کے ووٹ بنک کو مستحکم رکھنے اور پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے کے بعد ناکام بنانے کی خاطر ملک و قوم کے مفادات کو نظر انداز کر دیا۔ اگر اسحاق ڈار زرداری کی پیپلز پارٹی کی طرح عالمی سطح کے تقاضوں کے عین مطابق قومی مالیاتی مسائل طے کرتے تو 2018 ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت رخصت ہو رہی تھی تو ڈالر کی حقیقی قیمت 145 روپے سے کسی طرح کم نہ ہوتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت صدر پرویز مشرف کی حکومت کے دوران قدرے کم ہوئی تو اس کی ایک بڑی وجہ نائن الیون کے بعد کی فوری امریکی امداد تھی جب کہ مسلم لیگ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں تو حکومت پر کرپشن کے ایسے الزمات عائد ہوئے کہ نوازشریف کی وزارت ِ عظمیٰ بھی گئی اور انہیں جیل بھی جانا پڑا اور خود اسحاق ڈار سابق اور مفرور وفاقی وزیر خزانہ کہلاتے ہیں اور حالیہ حکومت اُن کی واپسی کے لیے قانونی کوششوں میں مصروف ہے۔

اب جہاں تک تعلق عمران خان کی پی ٹی آئی کی دس ماہ کی حکومت کا ہے تو مالی سال 2018-19 ء جو 30 جون 2019 ء کو ختم ہوا، اِس مالی سال کا بجٹ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بنایا تھا جس کو دس مہینے حالیہ حکومت نے بھگت لیا ہے ، اور 11 جون 2019 ء کو نئے مالی سال 2019-20 ء کا قومی بجٹ دیا جو 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ رو پے کا ہے اور بجٹ خسارہ 3151 ارب روپے ہے۔ یہ بجٹ اور اس کا خسارہ بھی بڑا ہے مگر یہ اعداد و شمار مالیاتی حقائق اور سچائی کے عکاس ہیں، تلخ حقائق سامنے ہیں، حکومت نے قومی اسمبلی سے بجٹ منظور بھی کر وا لیا ہے اور حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے 6 ارب ڈالر قرضے کی منظوری بھی ملی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی ہو گی مگر اس وقت یہ تلخ حقیقت ہے ، مارچ 2018 ء میں ڈالر کی قیمت 115.20 تک پہنچی تھی جو اب 157 روپے ہے یعنی دس ماہ کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں 36.52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یوں یہ تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان حکومت کا پہلا بجٹ چیلنج بجٹ ہے جس کو ملک دوست کہا جا رہا ہے، اُن کی حکومت نے قوم کو دھوکے میں نہیں رکھا ہے، جو کچھ سامنے ہے وہ دکھا دیا ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ عمران ہی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران قرضے نہ لینے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوٰے کئے تھے مگر حکومت میںآنے کے بعد اُن کا کہنا یہ ہے کہ اُنہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ملک کی معاشی و اقتصادی اور مالیاتی صورتحال اس قدر ابتر ہوگی۔ یوں حالیہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ اقدامات اٹھانے پڑے اور مستقبل قریب میں بہتر اقتصادی، معاشی اور مالیاتی ڈسپلن کو اپناتے ہوئے اِس معاشی اقتصا دی بحران سے باہر نکل آئیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو اس مشکل دور سے نکالنے کی مدت تک اُن کو صبر کے ساتھ وقت گزار نے پر آمادہ کر پائے گی؟ کیونکہ ڈالر کی قیمت کے بہت کم مدت میں 36.52 فیصد کے اضافے سے پاکستانی روپے کی امپورٹڈ چیزوں کی قوت خرید میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے ، اور ملکی اشیا کی مہنگائی دس سے بیس فیصد ،اور ساتھ ہی اپوزیشن ہے جس کے بعض اراکین معاشی بحران کے ذمہ دار رہے ہیں، وہ منظم ہو کر دفاعی انداز کی بجائے جارحانہ انداز اختیار کئے ہو ئے ہیں۔

پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت نہیں ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جن کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں اور اِن میں سے بیشتر جیلوں میں بھی ہیں وہ متحدہ اپوزیشن کی صورت میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اور اب اپوزیشن مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کرنے لگی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن ، پی ٹی آئی کی عددی بنیاد پر کمزور حکومت کے خلاف اب تک عدم اعتماد کی کوئی تحریک لانے کی کوئی بات بھی نہیں کر سکی ہے، اور وزیر اعظم عمران خان، جو پہلے بھی قدرے دفاعی انداز پر یقین نہیں رکھتے تھے اب بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری اور آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کے بعد کچھ زیادہ دلیرانہ انداز میں آگے آگئے ہیں، 2 جولائی کو اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اُنہیں 19 ارب ڈالر سے زائد کے حسابات جاری کا خسارہ ورثے میں ملا۔ اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومتوں نے زیادہ شرح سود پر تجارتی قرضے حاصل کئے اور ممکن تھا کہ ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور قطر جیسے دوست ممالک مدد نہ کرتے، انہوںنے یہ بھی بتایا کہ سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ وہ گذشتہ دس برسوں میں لئے گئے اور خرچ کئے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن کا اعلان بھی کر چکے ہیں، اور اب ایمنسٹی اسکیم کی مدت گزر جانے پر انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ بے نامی اثاثوں اورجائیدادوں کی اطلاع دینے والوں کو اس کا 10% حصہ دیا جائے گا، اور اب وہ 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ کا سرکاری دورہ بھی کریں گے، یوں جولائی کا مہینہ پاکستان میں سیاسی، اقتصادی، مالیاتی اور معاشی لحاظ سے واضح انداز میں سمت کا تعین کرنے والا مہینہ ہو گا اور دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیسے سمت نما ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں تک تعلق مالیاتی اقتصادی امور کا ہے تو اِن کے دور حکومت میں بلوچستان پر توجہ دینے کی کہیں زیادہ ضرورت ہو گی۔

انہیں جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بھی بنانا ہے اور فاٹا کے خیبر پختونخوا میں شامل کئے گئے علاقوں پر مشتمل اضلاع میں تیز رفتار ترقی بھی کر کے دکھانی ہو گی، اور اپنے اعلانات کے مطابق کرپشن کے قومی مجرموں سے اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس لانی ہو گی۔اس تناظر میں جو بات امید افزا اور حوصلہ مند ہے وہ یہ کہ پاکستا ن جیسے ملک میں مستحکم ترقی،خوشحالی اور مضبوط دفاع کے لیے ضروی ہوتا ہے کہ وزارتِ خزانہ، خارجہ، دفاع اور داخلہ کے درمیان بہترین روابط ہوں اور ماہرین اپنے اپنے شعبوں کے علاوہ مجموعی طور پر پوری صورتحال کا علم رکھتے ہوئے فوری اور بروقت اہم فیصلے جرات مندانہ انداز میںکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ابھی چند دنوں ہی میں ایف بی آر اور دیگر متعلقہ محکموں میں جو شفلنگ ہوئی ہے یہ واضح کرے گی کہ نئی حکومت درست فوری اور بروقت فیصلے کر رہی ہے۔

 

The post پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں ڈالر 3 روپے پانچ آنے سے164 روپے تک کیسے پہنچا ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


وزیر اعظم کا دورئہ امریکا اہم…. دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلے گی !!

$
0
0

وزیراعظم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی دعوت کے بعد اس وقت امریکا کے دورے پر ہیں ۔

ان کے اس دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں وزیر خارجہ کے علاوہ ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ اس دورے کے پاک امریکا تعلقات اور خطے پر اثرات سمیت مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

وزیراعظم کا دورہ، امریکا کے اصرار پر کیا جا رہا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود انہیں اس کی دعوت دی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پاک امریکا تعلقات اس نہج پر چلے گئے ہیں جہاں بہتری کی گنجائش کم ہے اور اس وقت یہ توقع کرنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ خود دعوت دیں گے ناممکن تھا۔ یہ تبدیلی اچانک آئی ہے جس کے بعد پاکستان کی سول و ملٹری قیادت وہاں جاکر مذاکرات کر رہی ہے۔ امریکا کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے نکلنا اور بعدازاں وہاں اپنے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔

اس وقت سوال یہ ہے کہ افغانستان میں 18 سال کی طویل جنگ نے امریکا کو کیا دیا۔ اس کی قوم کی پوچھ رہی ہے کہ ہم نے کیا فائدہ حاصل کیا اور وہاں ہمارا کتنا جانی و مالی نقصان ہوا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں آج بھی طالبان ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود ہیں۔ امریکا کو یہ سمجھنے میںکافی دیر لگی جو پاکستان بہت پہلے سے کہتا آرہا ہے کہ القاعدہ اور طالبان میں فرق ہے۔ آپ انہیں ایک ساتھ ’بریکٹ‘ نہ کریں ۔ طالبان مٹی کے بیٹے ہیں، انہیں طاقت سے نہیں ہرایا جا سکتا لہٰذا ان کے خلاف جنگ بیکار ہے۔ امریکا یہ نہیں مانا اور وہ طالبان کو بھی دہشت گرد ہی سمجھتا رہا۔

بہت عرصے بعد امریکا کو اس کا احساس ہوا یہی وجہ ہے کہ آج طالبان کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ طالبان نے بھی یہ کہا ہے کہ ہمارا 1994ء سے 2001ء تک جو اقتدار تھا اب اس سے مختلف ہوگا، اگر ہماری حکومت بنتی ہے تو وہ فرق ہوگی اور انہوں نے کسی حد تک لبرل افغانستان کے حوالے سے اپنے خدشات کو دور کرنے کی کوشش بھی کی۔طالبان سمجھتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد وہاں ان کی ہی حکومت ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی امریکی افواج کی موجودگی میں ڈیل کیلئے تیار ہیں۔

اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلی آرہی ہے۔ امریکا کے ساتھ ساتھ روس بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہاں طالبان کو بلا شرکت غیر اقتدار دینا خطے کی باقی ریاستوں کے حق میں نہیں ہے۔ روس گارنٹی چاہتا ہے کہ طالبان اقتدار میں شریک ضرور ہوں لیکن بلا شرکت غیر ان کا اقتدار نہیں ہونا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہماری قیادت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم طالبان کو راضی کرلیں ۔ وہ یکم ستمبر تک ڈیل چاہتے ہیں کہ طالبان سیز فائر کردیں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں، اس میں پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

طالبان نے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ ان کا دباؤ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور ان کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ معاہدے سے پہلے جنگ بندی ان کے حق میں نہیں، اگر انہوں نے جنگ بندی کر لی اور مذاکرات ناکام ہوگئے تو پھر دوبارہ لوگوں کو اس سطح پر اکٹھا کرنا ان کے لیے ناممکن ہوگا اور نہ ہی جنگ کا یہ زور دوبارہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان طالبان کے تمام دھڑوں کو جنگ بندی اور افغان حکومت سے مذاکرات پر منا لے گا؟ امریکا چاہتا ہے کہ آئندہ حکومت میں طالبان کے ساتھ افغانستان کے تمام طبقات شامل ہوں اور پرو امریکا لوگ بھی ہوں تاکہ وہ بعدازاں امریکا کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے رہیں۔ ہمارے لیے افغانستان میں بھارت کا کردار اہم مسئلہ ہے، وہ افغانستان سے یہاں تخریب کاری کر رہا ہے اور اسے روکنے کیلئے امریکا نے کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

اس دورے میں امریکا سے یقین دہانی لی جائے کہ وہ بھارت کو اس سے روکے گا۔اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو پاکستان افغان طالبان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ پاک امریکا تعلقات کو دیکھا جائے تو امریکا کے لیے اس کا دائرہ محدود ہے کیونکہ امریکا کو صرف افغانستان میں اپنے مفادات کی خاطر ہماری ضرورت ہے جبکہ ہمارا دائرہ کار وسیع ہے کیونکہ ہم معاشی تعاون چاہتے ہیں، FATF کا معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں، گرے لسٹ سے نکلنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ امریکا بھارت پر دباؤ ڈالے اور کشمیر کے مسئلے کے حل میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔

ہماری خارجہ پالیسی میں بھارت اہم فیکٹرہے اور ہم ہر چیز کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ بھارت کے مسئلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ہمارے مفادات کو تحفظ دے۔ ایسا بظاہر نظر نہیں آتا کیونکہ بھارت اس کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ ہمیں امریکا سے ’ایڈ‘ نہیں ’ٹریڈ‘ چاہیے۔ دنیا کے 2 یا 3 ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ ہماری تجارت سرپلس ہے جبکہ باقی سب کے ساتھ خسارہ ہے۔

2017ء تک ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا تھا جس نے پاکستان کو رعایتی مارکیٹ دے رکھی تھی۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد پابندیاں لگ گئیں جن سے برآمدات میں کمی آئی۔ اگر اس دورے کے دوران امریکا سے تجارت کا راستہ کھل گیا تو پاکستان کو معاشی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ میرے نزدیک پاکستان کو اس وقت اپنی اہمیت سمجھتے ہوئے امریکا کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے پاکستان کے موقف کی جیت ہوئی کہ بھارت ہمارے ملک میں مداخلت کرتا ہے اور دہشتگردی کرواتا ہے جو خطے کیلئے بھی نقصاندہ ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو طاقتورممالک خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔ اسرائیل نے ویسٹ بنک پر مقیم یہودی آبادی کو تحفظ دینے کے لیے ایک دیوار تعمیر کی جس کے نتیجے میں وہاں موجود فلسطینی آبادی کیلئے شدید مشکلات پیدا ہو گئیں۔ انہیں اپنے معاشی ذریعے دریا سے محروم ہونا پڑااور ایک طرف سے دوسری طرف جانے والوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ قدم کسی بھی لحاظ سے درست نہیں تھا۔ یہ کیس عالمی عدالت انصاف میں گیا جہاں 14-1 سے اسرائیل کے خلاف فیصلہ ہوا اور صرف امریکی جج نے کہا کہ یہ دیوار درست ہے کیونکہ اسرائیلی آبادی کو فلسطینیوں سے خطرہ ہے۔ 14ججوں نے فیصلہ دیا کہ یہ دیوار غیر قانونی ہے لہٰذا اسے فوری طور پر گرایا جائے۔ اسرائیل نے اس فیصلے کو نظر انداز کر دیا اور وہ دیوار آج بھی وہاں موجود ہے۔

اس طرح کے بے شمار فیصلے موجود ہیں جن پر امریکا سمیت بڑی طاقتوں نے کوئی عمل نہیں کیا۔ عالمی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلے میں یہ ثابت ہوگیا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے۔اس کے جاسوس موجود ہیں، وہ ہمیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ عالمی طاقتیں بھارت کے معاملے پر آنکھیں بند کرلیتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلے کے بعد امریکا، روس، یورپی یونین و دیگر طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈالیں گی کہ وہ پاکستان میں تخریب کاری نہ کرے؟ میرے نزدیک ایسا نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کو جیت تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ہم اس سے عالمی سیاست میں کیا حاصل کریں گے، یہ بڑا سوال ہے۔

 بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

وزیراعظم عمران خان کا دورئہ امریکا پاکستان کی خواہش یا مفاد کیلئے نہیں بلکہ امریکا کے مفاد کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ٹرمپ نے خود اس دورے کی دعوت دی حالانکہ پہلے وہ پاکستان مخالف سخت موقف رکھتے تھے۔ افغانستان اور امریکا میں الیکشن آرہے ہیں جن کی وجہ سے صورتحال ٹرمپ کیلئے اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

اس وقت پینٹا گون اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے درمیان بحث چل رہی ہے۔ پینٹا گون افغانستان سے فوجی انخلاء نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی جو بیس موجود ہیں انہیں وہ اکھاڑ کر لے جا نہیں سکتا اور نہ ہی انہیں وہاں چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ اس میں سی آئی اے کی ان پٹ بھی آتی ہے کہ ان کا کیا ہوگا اور مستقبل میں انہیں کس طرح استعمال کیا جائے گا۔ طالبان نے ابتداء میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہم امریکی افواج کا مکمل انخلاء چاہتے ہیں جس کے بعد سے مذاکرات کی باتیں آگے بڑھی۔ گزشتہ میٹنگ میں طالبان اور افغان حکومت کے وفد نے شرکت کی۔

افغان حکومت کے وفد نے پاکستان کے زور دینے پر شرکت کی جو سرکاری نہیں بلکہ عام شہری کے طور پر کی گئی۔ اس میں امریکا نے یہ لائن دی کہ اگر آپ ان سے میٹنگ کرتے ہیں تو ہم فوجی انخلاء کا ٹائم فریم دے دیں گے۔ زلمے خلیل زاد نے بھی یہی بات کی جس کے بعدافغانستان میں حملے ہوئے اور معاملہ خراب ہوگیا ۔وائٹ ہاؤس میں جو سگنل جا رہے ہیں وہ پینٹا گون کی ریڈنگ کے ساتھ نہیں مل رہے۔ افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے ایک سہ فریقی سمٹ بنا ہوا ہے، جس کا ایک اجلاس پاکستان اور ایک افغانستان میں ہوتا ہے جن میں امریکی فورسز، اتحادی افواج، افواج پاکستان اور افغانستان کے آرمی چیفس یا ان کے نمائندے شرکت کرتے ہیں اور افغانستان کی سکیورٹی حالات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ امریکا جب ویتنام سے نکلا تو ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی گئی جسے ’ڈیسنٹ انٹروَل‘ کہا گیا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ ویتنام سے فورسز کے نکلنے اور ویتنامیوں کے ملک سنبھالنے تک، کچھ وقت دیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے ردعمل کا اثر عوام پر نہ پڑے۔ افغانستان کے معاملے میں ’ڈیسنٹ انٹروَل‘ کا ابھی فیصلہ نہیں ہورہا۔ فروری میں آنے والی SIGAR کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں افغانستان کے اندر 7 لاکھ افراد دوسرے علاقوں سے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں نقل مکانی کر گئے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 67 فیصد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ہلمند میں جاتے ہیں تو ایران ، تاجکستان کی طرف جاتے ہیں تو وسط ایشیائی ممالک کا اثر نظر آتا ہے لہٰذا اگر ان حالات میں افغانستان سے فوری فوجی انخلاء ہوجائے تو بیرونی طاقتوں کی وجہ سے افغانستان میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کہ جو خود طالبان کے کنٹرول سے بھی باہر ہو اور اس بات کا ادراک طالبان کو بھی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے دورہ میں امریکا کا مفاد اس وقت افغانستان سے انخلاء ہے۔چین اور روس کے افغانستان میں معاشی مفادات ہیں، وہ وہاں مختلف منصوبے بھی کر رہے ہیں۔ اگر امریکا اپنی فورسز نکالتا ہے اور افغان فورسز کو دی جانے والی رقم بند ہوجاتی ہے تو ایسی صورتحال میں کیا ہوگا؟ اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑ سکتا ہے، اس حوالے سے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امریکا نے ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرلیا ہے جبکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں۔ ایران کی قیادت پاکستان آئی اور پاکستان کی قیادت ایران گئی۔

یہ چیزی میٹنگ کے حوالے سے اہم ہیں۔ آئی ایم ایف ڈیل امریکا کے بغیر نہیں مل سکتی تھی۔ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس اکتوبر میں ہے، پاکستان نے FATF کو ایک لمبی اور سیر حاصل پریزنٹیشن دی جبکہ انہوں نے چند اور مطالبات کیے ہیں، پاکستان نے حافظ سعید کو بھی گرفتار کیا۔FATF کا معاملہ بھی ہمارے لیے اہم ہے۔ پاکستان اور بھارت کے حوالے سے عالمی سطح پرسب سے اہم چیز یہ ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کو عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی افواج اپنے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں جس سے سب کو فائدہ ہوا۔ پاکستان افغان بارڈر پر باڑ لگا کر دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کے حوالے سے بھی سہ فریقی کولیشن فورسز کی رضا مندی شامل ہے ۔

یہ سارے معاملات بھی اس دورے کے محرکات ہیں جن پر بات چیت ہوسکتی ہے لہٰذا جو چیزیں فوج سے متعلق ہیںا س کے لیے ضروری تھا کہ آرمی چیف بھی وہاں جائیں۔ بھارت کی تخریب کاری اور افغانستان کی سرزمین کس طرح پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے، اس حوالے سے ڈیٹا آئی ایس آئی کے پاس موجود ہے لہٰذا خطے کی سکیورٹی کے حوالے سے مذاکرات میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان اپنا موقف بہترین طریقے سے پیش کرسکے گا۔ عمران خان سی پیک منصوبے کے حوالے سے بھی امریکی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک ان تمام بڑے مسائل پر بات چیت ہونا بڑی ڈویلپمنٹ ہے۔ اس دورے سے بہتر نتائج حاصل ہوں گے اور پاک امریکا بد اعتمادی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ویانا کنونشن کے گرد گھومتا ہے اور اس میں بنیاد قونصلر رسائی ہے۔ اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان نے اسے گرفتار کرکے تین ہفتے بعد بھارت کو اطلاع دی حالانکہ پاکستان کو اس بارے میں فوری اطلاع دینی چاہیے تھی۔ اگر ویانا کنونشن پڑھیں تو اس میں وقت کا تعین نہیں ہے، صرف یہ کہا گیا ہے کہ گرفتار شخص کے انسانی حقوق کے تحت اطلاع دی جائے لہٰذا پاکستان نے بھارت کو اطلاع دے کر اس کا بنیادی حق پورا کردیا تھا۔ اس سارے فیصلے میں پاکستان کے موقف کی تائید ہوئی۔ عالمی عدالت نے فیصلے میں مانا کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا افسر ہے جو ’’را‘‘ کیلئے کام کرتا تھا، اس سے ’’را‘‘ کے دہشت گردانہ کردار سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ قونصلر رسائی نہ دینا بڑی خلاف ورزی نہیں ہے۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کی سزا معطلی اور بریت کی بھارتی درخواست کو مسترد کردیا اور کہا کہ پاکستان اپنے قانون کے مطابق اس کیس پر نظر ثانی کرے۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(تجزیہ نگار )

وزیراعظم کا دورئہ امریکا ماضی کے دوروں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خاص کر اگر موجودہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2017ء اور اس کے بعد سے پاکستان کو مسائل کی جڑ قرار دیتے رہے، اب یہ کیسے ہوا کہ انہوں نے پاکستان کو آن بورڈ لینے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان کے مسئلے میں طالبان کو راضی کرنے کے حوالے سے ٹرمپ نے خود وزیراعظم پاکستان کو فون کرکے کلیدی کردار ادا کرنے کا کہا۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

امریکا عالمی سیاست کی وجہ سے پاکستان کو نظر انداز کر رہا تھا مگراب جب اسے عراق، افغانستان و دیگر ممالک میں شکست کا سامنا کرنا پڑاتو اسے افغانستان سے نکلنے کیلئے پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی افغانستان کے مسائل حل کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ کے فون سے پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری اور ڈومور جیسے مطالبات ختم ہوئے۔ ان تعلقات میں آہستہ آہستہ بہتری آئی اور اب حالیہ دورہ بھی اسی کا تسلسل ہے۔

وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکا جانا انتہائی اہم ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے اور امریکا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں کو اعتماد میں لے کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان خلا پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پرانے اتحادی ہونے اور مشکل حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات بداعتمادی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف ایک دورے سے مسائل حل نہیں ہوں گے تاہم اگر اس کے بعد دونوں ممالک کے ورکنگ ریلیشن مستقل طور پر بہتر ہوتے ہیں تو فائدہ ہوگا۔اس وقت پاکستان اور امریکا بہت زیادہ دوری پر کھڑے ہیں۔

پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک منصوبے کے حوالے سے امریکا کو تحفظات ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کافی تگ و دو کے بعد یہ معاہدہ طے پایا لہٰذا اس کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور بھارت کے تعلقات پر پاکستان کو تحفظات ہیں۔ امریکا اس خطے میں چین کے مقابلے میں اسے کھڑا کر رہا ہے لہٰذا ان تمام تحفظات کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کے مابین دوری ہے۔ یہ دورہ اس حوالے سے بھی اہم ہوگا کہ پاکستان کس طرح چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس طرح ہی مضبوط رکھتا ہے جس طرح تاریخی طور پر رہے ہیں کیونکہ امریکا اس حوالے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو ایک دیر پا امن معاہدے پر دستخط کرنے چاہئیں، یہ نہ ہو کہ 1988ء کے جنیوا معاہدے کی طرح افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

اگر اب بھی ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو اس کا نقصان براہ راست پاکستان کو ہوگا۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان پر بہت دباؤ ہے، امریکا بھی اس پرپاکستان کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے کافی اقدامات اٹھائے ہیں۔ حال ہی میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا جو اسی طرف ایک قدم ہے۔ اس کے علاوہ معیشت کودستاویزی کرنے کا کام بھی اسی وجہ سے ہے۔ اگر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ہوجاتے ہیں تو FATF میں پاکستان پر سختی کم ہوسکتی ہے۔ افغانستان سے امریکا کی افواج نکل رہی ہیں جس میں اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکا پاکستان کو معاشی طور پر کمزور نہیں دیکھنا چاہتا۔ خدانخواستہ اگر پاکستان کمزور ہوتا ہے تو اس کا نقصان امریکا کو بھی ہوگا۔ امریکا عسکری حوالے سے بھی مضبوط پاکستان چاہتا ہے تاکہ اسے طالبان اور افغانستان کے تناظر میں فائدہ ہوسکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح خود وزیراعظم اور آرمی چیف کو دعوت دی ، اس سے لگتا ہے کہ وہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے۔

ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کے ساتھ خود جاکر ملاقات کی۔ چین کے ساتھ تعلقات میں بھی اب وہ گرمی نہیں جبکہ ایران کے ساتھ بھی معاملات زیادہ سخت نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلے سال الیکشن ہیں لہٰذا اب ٹرمپ تمام چیزیں حل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آئی ایم ایف ڈیل کا ملنا، ایف اے ٹی ایف کی تاریخ کا آگے جانا اور ٹرمپ کا خود فون کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا سنجیدہ ہے لہٰذا مجھے امید ہے کہ معاملات بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان پر دہشت گردی جیسے الزامات لگاتا رہا ہے تاہم پہلی مرتبہ عالمی سطح پر ہمارے موقف کو تسلیم کیا گیا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے۔

پاکستان نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عالمی عدالت انصاف یہ کیس نہیں سن سکتی جسے رد کردیا گیا جبکہ بھارت نے کلبھوشن یادیو کی رہائی اور پھانسی کی سزا ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے نہیں مانا گیا۔ عالمی عدالت نے پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور کلبھوشن کو قونصلر رسائی بھی دی جائے۔ قونصلر رسائی کی وجہ سے زمینی حقائق میں تبدیلی آئے گی، ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی عدالت اس معاملے پر نظر ثانی کرے۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے، وزیر اعظم نے بھی اسے سراہا ہے اور اس سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت یہ معاملہ خود عالمی عدالت میں لے کر گیا مگر اس کے موقف کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا جو پاکستان کی اخلاقی فتح ہے ۔

 ڈاکٹر زمرد اعوان
(سیاسی تجزیہ نگار)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی پالیسی یکسر بدل لیتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھی پہلے وہ سخت بیانات دیتے رہے اور اب خود انہوں نے دعوت دی لہٰذا دونوں شخصیات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے نمائندوں کے امریکا دوروں کی 5 مختلف اقسام ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا دورہ تیسری کیٹگری کا ہے۔ اس میں پروٹوکول کم ہوتا ہے، میڈیا بریفنگ نہیں ہوتی وغیرہ۔ امریکا افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اسے وہاں سے نکلنا ہے۔ بھوربن میں افغان قیادت آئی ۔ اس کے بعد اشرف غنی پاکستان آتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے بھی یہاں دورے کیے اور کہا کہ پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔

یہ دورہ اسی تناظر میں ہورہا ہے۔ پاکستان طالبان کے معاملے میں کچھ حد تک ہی جا سکتا ہے کیونکہ ان کے سارے دھڑے پاکستان کے ساتھ نہیں ہیںلہٰذا پاکستان کو خودکو بھی دیکھنا ہے کہ کہاں تک جائیں تو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک وزیراعظم کے اس دورے میں معاشی لحاظ سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ یہ افغانستان اور طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے حوالے سے ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا جانا ظاہر کرتا ہے کہ سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے اور امریکا بھی سمجھتا ہے کہ وہ سول ملٹری قیادت سے علیحدہ علیحدہ ڈیل نہیں کر سکتا۔ اب جو بھی ہوگا دونوں کے ساتھ اکٹھے ہی طے ہوگا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکا سے بھارتی مداخلت اور امریکا کی بھارت کو سپورٹ کے نتیجے میں خطے کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے بات چیت کرے گا اور امریکا سے یقین دہانی لے گا کہ وہ بھارت کو ایسا کرنے سے روکے؟ بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو اپنی کامیابی گردان رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔

اس سارے معاملے میں پاکستان کو یہ کامیابی ہوئی کہ بھارت نے خود تسلیم کیا کہ کلبھوشن اس کا شہری ہے جو نہ صرف جاسوس ہے بلکہ اس کی نیوی کا افسر بھی ہے۔ قونصلر رسائی کوئی بڑا معاملہ نہیں، مجموعی طور پر اس کیس میں پاکستان کو فائدہ ہوا اور عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی کے پاکستانی موقف کی تائید ہوئی۔جسٹس تصدق جیلانی نے اختلافی نوٹ میں 3 اہم باتیں کیں۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی و سکیورٹی حوالے سے 2008ء کے معاہدے کا ذکر کیا اور اس کے آرٹیکل 76 پر بات کی۔

اس کے علاوہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کا ذکر کیا جس میں ممالک نے دہشت گردی کے حوالے سے کووآرڈینیشن کرنی ہے۔ پھر انہوں نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی بات کی کہ یہ جاسوس پر لاگو نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اس سارے معاملے میں پاکستان کو زیادہ فائدہ ہوا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے سربجیت سنگھ، کشمیر سنگھ، رویندرا کوشک وغیرہ بھی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ رویندرا کوشک کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر رہے تھے، انہوں نے یہاں شادی بھی کر رکھی تھی اور ان کا ایک بچہ بھی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک کس حد تک موجود ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے جس کیفے میں بیٹھ کر کلبھوشن یادیو منصوبہ بندی کر رہے تھے میں نے انہی دنوں وہ کیفے بھی دیکھا۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ تعلیمی ادارے میں داخلہ یا کسی بھی ادارے میں نوکری دیتے وقت مکمل جانچ پڑتال کی جائے۔ اس حوالے سے اداروں پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

The post وزیر اعظم کا دورئہ امریکا اہم…. دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلے گی !! appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا آپ ہمیشہ جوان رہنا چاہتے ہیں؟

$
0
0

دنیا کے عظیم شاعر، ڈرامہ نگار و مصنف ولیم شیکسپیئر کے مطابق انسانی زندگی اپنے آغاز سے لے کر اختتام تک 7 مراحل طے کرتی ہے، جن میں سب سے پہلی سٹیج شیر خوارگی ہے، اس مقام پر وہ صرف ایک بے بس روتا ہوا بچہ ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ سکول جانے کے قابل ہوتا ہے، تاہم یہاں جانا اس کے لئے کسی بڑے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

نوجوانی (تیسری) جوانی (چوتھی) ادھیڑ عمری (پانچویں) بڑھاپا (چھٹی) اور قریب المرگی کو ساتویں سٹیج بیان کیا گیا۔ ساتویں سٹیج کو بیان کرتے ہوئے شیکسپیئر کہتا ہے کہ یہاں پہنچ کر انسان ایک بار پھر بچہ بن جاتا ہے، یعنی اس مقام پر وہ طفلانہ طرز عمل اپنا لیتا ہے، جس کا مظاہرہ وہ کبھی ضد تو کبھی ناراض ہو کر کرتا ہے۔

انسانی زندگی کے متعلق شیکسپیئر کے بیان کردہ آخری مرحلہ انسان کی اس خواہش کا بھی اظہار ہے، جہاں وہ پھر سے لوٹنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے زندگی کی بہاریں دوبارہ دیکھنا، اپنی خواہشات کی ایک بار پھر سے تکمیل۔ جسمانی طاقت اور پھرتی کی یادیں اسے بے چین کرتی ہیں۔ ہڈیوں سے جدا ہوتی جلد اور جھر یوں سے بھرا چہرہ اس کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کرنے کے در پے ہوتا ہے، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ گیا وقت لوٹتا نہیں، لیکن ہم یہاں اس ضمن میں آپ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں۔

کوئی بھی گزرا وقت تو نہیں لوٹا سکتا لیکن لمحہ موجود کو حسین ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ انسانی زندگی کے دائرہ کو روکنا ہمارے بس میں نہیں لیکن کچھ قسمت کے ’’دھنی‘‘ ایسے ہوتے ہیں جو عمر سے پہلے ہی بڑھاپے کا شکار بن جاتے ہیں، یعنی جسمانی و ذہنی اعتبار سے بڑھاپا ان پر جلد ہی حاوی ہو جاتا ہے، تو ایسے میں ہم آپ کو یہاں یہ بتائیں گے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جن کے ذریعے آپ وقت سے پہلے آتے ذہنی و جسمانی بڑھاپے کو روک سکتے ہیں۔

عمر صرف ایک عدد

زندگی میں کوئی بیک گیئر نہیں ہوتا لیکن جسم و ذہن پر گزرتے وقت کے ساتھ رونما ہونے والے بداثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور ایسا ممکن ہے، جسے دورِ جدید کی متعدد تحقیقات نے ثابت کیا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان کی اصل عمر، ظاہری عمر سے مختلف ہو سکتی ہے یعنی عمر کے جس حصے میں انسان سمجھتا ہے کہ یہاں جسم ڈھل جاتا ہے یا ضعف کا شکار ہو جاتا ہے، وہ کیفیت یا بظاہر سب انسانوں کے لئے ایک جیسا نہیں ہوتا اور اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ایسی متعدد مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں کہ ایک شخص کے بچے ابھی چھوٹی عمر میں ہوتے ہیں اور وہ خود بظاہر بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو پوتوں، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں والے ہوتے ہیں لیکن ابھی بھی ظاہری طور پر وہ بہت قوی دکھائی دیتے ہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے دوران ایک ہزار ایسے افراد کو شامل کیا گیا، جن کی عمریں بالترتیب 26،32 اور 38 تھی۔ ان افراد کی صحت سے متعلق تمام تجزیات کئے تو نتائج سے معلوم ہوا کہ تمام افراد کے جسمانی اعضاء پر بڑھتی عمر کے اثرات ایک جیسے نہیں تھے۔ اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بعض عوامل، اسباب ان جینز کو زیر کر لیتے ہیں، جن کی وجہ سے بڑھتی عمر کے انسانی جسم پر بداثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہذا بڑھتی عمر صرف ایک عدد ہے، اس سے پریشان ہونے کے بجائے خود کو جوان محسوس کریں۔

ورزش

دنیا کے تمام عظیم کھلاڑیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بڑھتی عمر جسمانی سرگرمیاں جاری رکھنے والوں کا جلد کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرنے کا بہترین مظہر انسانی جسم کی بہترین ساخت ہے۔ جدید تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ پوری زندگی باقاعدگی سے ورزش کرنے والوں کے پٹھے مضبوط اور کولیسٹرول کی سطح زیرکنٹرول ہونے سے قوت مدافعت بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہی چیز انسانی جسم کو دیر تک نحیف نہیں ہونے دیتی۔

معروف امریکی طبی ماہر ڈاکٹر بینجامن ایپسٹن اس ضمن میں کہتے ہیں کہ ورزش کے نہ صرف جسم بلکہ ذہن پر بھی حیران کن مثبت نتائج مرتب ہیں، جیسے کہ اس کی وجہ سے وزن اور شوگر نہیں بڑھتی، سانس اور دل کے امراض جنم نہیں لیتے۔ متوازن ورزش ہڈیوں کو مضبوط بنائی رکھتی ہے، جس کی وجہ سے جوڑوں کے درد جیسی شکایات پیدا نہیں ہوتیں۔ جسمانی سرگرمی اضطرابی کیفیت اور ذہنی دباؤ کم کرتے ہوئے دماغی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی ماہر طب کا مزید کہنا ہے کہ مضبوط اور متوازن پاؤں لمبی اور اچھی زندگی گزارنے کے امکانات کو بڑھاتا ہے، لہذا ہفتے میں 5 دن 30 سے 40 منٹ تک ورزش کو معمول بنانا عمر رسیدگی کے عمل کو التواء میں مبتلا کر سکتا ہے۔

ملاوٹ سے پاک غذا

تمام طبی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قدرتی غذا عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرنے میں بہترین ہتھیار ہے۔ ڈاکٹر بینجامن ایپسٹن کہتے ہیں کہ مصنوعی شوگر، فیٹس اور نمک کے بغیر ایسی غذا جسے کم سے کم کسی مصنوعی عمل (ملاوٹ) سے گزرا گیا ہو، وہ صحت مند زندگی کی ضمانت ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ سوزش، ذیابطیس اور دل کے امراض سے محفوظ رہیں گے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر بینجامن ایپسٹن تجویز کرتے ہیں کہ عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرتے ہوئے صحت مند زندگی گزارنے کے لئے گندم، چاول، چربی کے بغیر گوشت، مچھلی، مٹر، پھلیاں اور انڈے وغیرہ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ جدید تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ قدرتی غذا جسم کی نشوونما کے عمل کو نئی تحریک دیتے ہوئے ان امراض کے خطرات کو کم کرتی ہے، جن کا تعلق عمررسیدگی سے ہوتا ہے۔

سبزیوں کا استعمال

ایک سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق انسانی خوراک میں سبزیوں کا زیادہ استعمال اس بات کی ضمانت ہے آپ 65 سال کی عمر میں بھی 34 سال کے دکھائی دے سکتے ہیں۔ ماہر غذائیت ڈاکٹر ابے ساؤر کا کہنا ہے کہ غذا میں پھل، سبزی اور گندم کا استعمال زیادہ انسانی جسم پر بڑھتی عمر کے بداثرات کو روکتاہے۔

پروٹین کا حصول

تاہم سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے یہ تصور کر لینا کہ اب کسی اور چیز کی انسانی جسم کو ضرورت نہیں، غلط ہے۔ جسم کے پٹھوں کی مضبوطی اور صلاحیت کو برقرار رکھنے میں پروٹین نہایت اہم ہے کیوں کہ کمزور پٹھے انسانی جسم کو تیزی سے بڑھاپے کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ابے ساؤر بتاتی ہیں کہ 40 سال کی عمر کے بعد ہر دس سال بعد انسانی پٹھے 8 فیصد تک کمزور ہوتے ہیں اور 70 سال کی عمر کے بعد یہ شرح دوگنا ہو سکتی ہے، لہذا بالغ حضرات اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اخروٹ، دہی اور پنیر کے استعمال کو خوراک کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے، کیوں کہ یہ اشیاء پروٹین سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ہر کھانے کے ساتھ 25 سے 30 گرام پروٹین حاصل کرنا ایک بالغ مرد و عورت کے لئے ضروری ہے۔

کھلی فضا میں قیام

دھوپ سے حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہڈیوں کو مضبوط رکھنے میں نہایت معاون ہے، اس کے علاوہ یہ بڑھتی عمر سے جڑی بیماریوں یعنی دل کے امراض سے بچاؤ کا بھی باعث ہے۔ 2 ہزار خواتین پر کی جانے والی ایک تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ جن خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوتی، ان کے جسم کا اندرونی نظام بہت مضبوط ہوتا ہے جبکہ دوسری صورت میں یعنی جن خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے وہ جلد بوڑھی ہو جاتی ہیں، ان کے لئے سیڑھیاں چڑھنا، کپڑے بدلنا اور حتی کہ پاؤں کے ناخن تک کاٹنا دشوار ہو جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی مطلوبہ ضرورت پوری کرنے کے لئے روزانہ 15 سے 30 منٹ سورج کی روشنی میں بیٹھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ انڈے کی زردی اور مچھلی جیسی خوراک سے بھی انسانی جسم کو مطلوب وٹامن ڈی کی مقدار حاصل کر سکتے ہیں۔

دھوپ کی تپش سے جلد کو بچانا

سورج کی روشنی انسان کے لئے دو دھاری تلوار ہے، کیوں کہ اس سے جہاں ایک طرف وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے وہاں دوسری طرف یہ جلد کو نقصان پہنچاتے ہوئے جھریوں اور بعض اوقات کینسر تک کا باعث بن سکتی ہے۔ وٹامن ڈی انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہے لیکن سورج کی روشنی سے اس کے حصول کے لئے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا باہر نکلتے وقت اپنے جسم کو کپڑوں سے ڈھانپں، سن سکرین لگائیں یا پھر سائے کی تلاش کریں۔ اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کم از کم دو بار اچھی طرح منہ دھو کر جلد نرم کرنے والی کریم کا استعمال کرنا ضروری ہے۔

ٹاکسن (زہریلا مادہ) سے بچاؤ

ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلہ پر ہے، لیکن یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی (فضا میں شامل کیمیکلز) عمر رسیدگی کے عمل کو تیز کرتی ہے۔ زیرزمین پانی میں شامل آرسینک، گاڑیوں اور صنعتوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور تمباکو نوشی فضا میں وہ کیمیکل شامل کر رہے ہیں، جن سے عمر رسیدگی کے عمل کو تحریک ملتی ہے۔ اس دھویں یا زہریلے مادے سے نہ صرف چہرے بلکہ مجموعی طور پر پورے جسم کو نقصان پہنچتا ہے۔

آبیدگی

بڑھتی عمر کے ساتھ گردوں کے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے اور اسی وجہ سے انسان کی پیاس بھی کم ہو جاتی ہے۔ پیاس نہ لگنے کی وجہ سے پانی کا کم استعمال انسانی جسم میں مختلف پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے اور انہی کی وجہ سے انسانی جسم لاغر ہو کر جلد ضعیف ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابے ساؤر کے مطابق انسانی جسم کا 60 فیصد حصہ پانی پر انحصار کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے جسم کو اندرونِ خانہ نہایت اہم امور کی انجام دہی جیسے متوازن جسمانی درجہ حرارت، صحت مند جلد، جوڑ، خوراک ہضم اور جسم سے زہریلے مادوں کے اخراج کے لئے پانی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔

دانتوں کی حفاظت

محققین کے مطابق دانت اور عمر رسیدگی کے عمل میں ایک خاص تعلق ہے۔ غیرصحت مند دانتوں کی وجہ سے انسان دل، سٹروک اور ذیابطیس جیسے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے، جس کی وجہ منہ کے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ منہ کے بیکٹیریا کی وجہ سے جسم کے دیگر حصوں میں سوزش، ذہنی عمل میں رکاوٹ اور الزائمر جیسے مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں اور یہ تمام امراض عمر رسیدگی کے عمل کو تیز کر دیتے ہیں۔

خوراک کی نالی

جدید تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ خوراک کی نالی کی حفاظت اور اس کا صیحح طور پر کام کرنا انسانی جسم کے لئے لازم ہے،کیوں کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس سے ذہنی عمل میں خلل جیسی بیماریاں جو عمر رسیدگی سے تعلق رکھتی ہیں جنم لیتی ہیں۔ لہذا خوراک کی نالی کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے دہی، سبزیاں، پھل اور فائبر سے بھرپور دیگر اشیائے خور و نوش کا استعمال یقینی بنایا جائے۔

نظام انہضام

خراب معدے کی وجہ سے جنم لینے والے زہریلے مادے مجموعی طور پر انسانی جسم کو ضعف میں مبتلا کرنے کا سبب ہیں۔ قدرتی غذا کا استعمال اور اس کو بہتر طریقے سے ہضم کرنے کا نظام اگر ٹھیک نہ ہو تو اس کی وجہ سے متعدد جسمانی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر بینجامن ایپسٹن کے مطابق معدے اگر درست نہ ہو تو جسم خصوصاً دماغ کے لئے ضروری وٹامن بی 12 ہضم نہیں ہوتا اور اس وٹامن کی کمی دماغی عمل کو سست کر دیتی ہے۔ لہذا بی 12 کے حصول اور اس کے ہضم کو آسان بنانے کے لئے مچھلی، انڈے، دودھ اور دودھ سے بنی چیزوں کا زیادہ استعمال کیا جائے۔

ذہنی دباؤ

دیرینہ ذہنی دباؤ کا مسئلہ متعدد امراض کو جنم دیتا ہے، جن کا ایک نتیجہ عمر رسیدگی کے عمل کو تیز بھی کرنا ہے، لہذا ذہنی دباؤ کی وجہ بننے والے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، جس کے لئے نیند پوری کرنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ نیند پوری نہ ہونے سے دماغی عمل متاثر ہوتا ہے۔ سونے کے دوران انسانی دماغ تباہ ہونے والی خلیوں کی بحالی کا کام کرتا ہے۔

The post کیا آپ ہمیشہ جوان رہنا چاہتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا بھر میں مخالفانہ مہم چل پڑی؛ پلاسٹک شاپنگ بیگ پابندی کی زد میں

$
0
0

آپ کو وطن عزیز کے کسی شہر یا قصبے کی سڑک پر چلنے کا اتفاق ہو تو کوئی اور شے نظر آئے نہ آئے، ایک چیز ضرور دکھائی دے گی… پلاسٹک بیگ کی تھیلی جسے عرف عام میں ’’شاپر‘‘ کہا جاتا ہے۔

اکثر گزرگاہوں پر پلاسٹک سے بنے یہ شاپنگ بیگ پودوں سے لپٹے، مین ہولوں میں پھنسے، فٹ پاتھوں پر بکھرے حتیٰ کہ بجلی کی تاروں سے لٹکے نظر آتے ہیں۔ گویا یہ رنگ برنگ اور چھوٹے بڑے شاپر اچھے خاصے ماحول کو بدنما بناڈالتے ہیں۔ مگر یہ ان کا صرف ایک منفی روپ ہے۔ ان کا زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ شاپر انسانی و حیوانی زندگی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

ماضی میں پلاسٹک کی اشیا قدرتی چیزوں مثلاً ربڑ، سیلولوز، کولاجن یا جیلٹن سے بنتی تھیں۔ انیسویں صدی میں سائنس داں کیمیائی مادوں اور رکازی ایندھن (کوئلہ، گیس، تیل) کے ذریعے مصنوعی پلاسٹک بنانے لگے۔ آج دنیا بھر میں 99 فیصد پلاسٹک مصنوعی ہی بنتا ہے۔ پلاسٹک کی کئی اقسام ہیں۔ بیشتر شاپنگ بیگ ’’پولیتھین پلاسٹک‘‘ سے بنتے ہیں۔ یہ پلاسٹک 1933ء میں برطانوی کمپنی، امپرئیل کیمیکل انڈسٹریز کے ماہرین نے تیار کیا۔ 1965ء میں سویڈن کی کمپنی، سیلوپلاسٹ نے پولیتھین سے شاپنگ بیگ ایجاد کرلیا۔

اس وقت دنیا بھر میں لوگ پٹ سن یا سوت سے بنے تھیلے خریداری کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ایک دو کلو وزنی اشیا گاہک کو دینے کے لیے کاغذ سے بنی تھیلیاں موجود تھیں۔ پاکستان میں دکان دار عموماً اخبار میں لپیٹ کر سودا بیچتے تھے مگر 1980ء کے عشرے میں پلاسٹک بیگ انسانی معاشروں میں برتے جانے لگے۔ یہ ہلکے ہونے کے باوجود مضبوط اور استعمال میں آسان تھے، اسی لیے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں مقبول ہوگئے۔ سپر مارکیٹوں سے لے کر ٹھیلوں والوں تک سبھی شاپر استعمال کرنے لگے۔

شاپر نے خریداری کے عمل کو سہل ضرور بنا دیا مگر یہ اس کی اکلوتی خوبی ہے۔ شاپر کی خامیاں رفتہ رفتہ سامنے آئیں۔ سب سے پہلے افشا ہوا کہ شاپنگ بیگ کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل عمل ہے۔ یہ پانی میں دس تا بیس سال کے عرصے میں حل ہوتا ہے جبکہ زمین میں گلنے گھلنے میں پانچ سو برس تک لگا سکتا ہے۔ جب دنیا بھر میں ہر سال کھربوں پلاسٹک بیگ بننے اور سڑکوں پر بکھرے نظر آنے لگے، تو ان کی ایک اور خامی اجاگر ہوئی۔ اب لوگوں کو احساس ہوا کہ شاپر ماحول کی صفائی ستھرائی اور خوبصورتی برباد کردیتے ہیں۔

شاپروں کی کثرت پھر ترقی پذیر ممالک میں سیوریج کی پائپ لائنیں بند کرنے لگیں۔ 2000ء میں بنگلہ دیش میں شدید بارشوں نے تباہی مچادی تھی۔ تب سیوریج میں شاپر پھنس جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی شہروں میں سیلاب آگیا اور بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ تب بنگلہ دیشی حکومت نے شاپنگ بیگوں کے استعمال پر پابندی لگادی۔ بنگلہ دیش پہلا ملک ہے جس نے شاپروں کا عام استعمال ممنوع قرار دیا۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ ننانوے فیصد پلاسٹک اشیا بشمول شاپر بیگ کیمیائی مادوں سے بنتے ہیں۔ ان میں شاپر بیگ اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ پانی اور مٹی کا حصہ بن رہے ہیں۔ جب یہ رفتہ رفتہ گل سڑ جائیں تو ان کے کیمیکل پانی اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انسان اور جانور یہ پانی نوش کریں اور مٹی میں اگائی غذا کھائیں تو مختلف بیماریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ دور جدید کی بہت سی ایجادات نے انسانی زندگی آرام دہ ضرور بنادی مگر وہ خفیہ طور پر انسان کو امراض کا شکار بھی بنارہی ہیں۔ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کیوں بیمار ہوگیا؟ اکثر اوقات یہ امراض جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

سمندروں اوردریاؤں میں شاپنگ بیگ آبی و ارضی جانوروں کے لیے مصیبت بنتے ہیں۔ کبھی وہ کسی پرندے کے حلق میں پھنس کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ وجہ یہ کہ پرندے شاپروں کو جیلی فش سمجھ کر چٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ پرندوں کے مردہ بچوں کے معدوں سے شاپروں کے اجزا نکل رہے ہیں۔ یاد رہے، دنیا میں کئی ممالک شاپروں سمیت اپنا بیشتر فضلہ سمندروں میں انڈیلتے ہیں۔ چناں چہ یہ سمندر دیوہیکل کوڑے دان کی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ کئی پرندے شاپروں کے جھنڈ میں پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

شاپنگ بیگ سے وابستہ خطرات کے باعث ہی اب دنیا بھر میں وفاقی، صوبائی (ریاستی) یا مقامی حکومتیں ان کے استعمال پر پابندی لگارہی ہیں۔ تاہم یہ اقدام ترقی پذیر ممالک میں معاشی بدحالی، بیروزگاری اور بے چینی بھی پیدا کررہا ہے۔ وجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں تو حکومتیں شاپنگ بیگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو متبادل روزگار اور رقم بھی فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں شاپنگ بیگ کے کاروبار سے متعلق لاکھوں افراد کو اس قسم کی سہولتیں میسر نہیں۔ لہٰذا وہ بیروزگار ہوکر معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے۔

پاکستان میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں شاپنگ بیگوں کے استعمال پر پابندی لگانا چاہتی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار قوانین بنائے جاچکے مگر ان پر سختی سے عملدرآمد نہیں ہوا۔ لیکن اب حکومتیں ماحول صاف ستھرا رکھنے کی خاطر شاپنگ بیگ کی خریدوفروخت سختی سے روک رہی ہیں اور اس ضمن میں نئے قوانین بھی بن رہے ہیں۔مثال کے طور پہ 14 اگست کے بعد اسلام آباد میں یہ بیگ استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ اسی طرح کراچی اور دیگر شہروں کے کنٹونمنٹ علاقوں میں شاپنگ بیگوں کی خریدوفروخت ممنوع قرار دی جاچکی۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ کیا وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں شاپنگ بیگوں کے کاروبار سے وابستہ پاکستانیوں کو مختلف سہولتیں فراہم کررہی ہیں تاکہ وہ معاشی مسائل میں گرفتار نہ ہوں؟

اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں شاپنگ بیگ بنانے والے آٹھ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثر غیر دستاویزی معیشت کا حصہ ہیں۔ کارخانوں میں پونے دو لاکھ افراد کام کرتے ہیں جبکہ بیگوں کی خریدو فروخت سے تقریباً چھ لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ظاہر ہے، پلاسٹک بیگوں پر پابندی ان ہم وطنوں کو بیروزگار بناکر معاشی مسائل میں مبتلا کردے گی۔ لہٰذا انہیں بھی مالی طور پر سہارا دینا ہوگا تاکہ وہ اپنے گھر کی معاشی گاڑی رواں دواں رکھ سکیں۔

ایک حل یہ ہے کہ رجسٹرڈ کارخانوں کو سوت سبسڈی پر فراہم کیا جائے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سوت اسی قدرتی نعمت سے بنتا ہے۔قدرتی شے ہونے کے باعث پلاسٹک کے مقابلے میں ماحول دوست ہے۔ انسانی صحت کے لیے بھی مضر نہیں۔ سوت سے بنے چھوٹے بڑے تھیلوں کی خاصیت یہ ہے کہ انہیں کئی بار استعمال کرنا ممکن ہے۔ ایک بار سوتی تھیلا خریدیے اور اس سے کئی ماہ کام لیجیے۔ یوں پاکستانی ماحول دوست قوم بن جائیں گے۔ نیز پاکستان میں کپاس اور سوت کے شعبوں کو فروغ حاصل ہوگا۔

اگر شاپنگ بیگ بنانے والی فیکٹریوں کو بتدریج متبادل مٹیریل کو استعمال کے ذریعے ماحول دوست بیگ بنانے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو بیروزگاری کا بحران بھی پیدا نہ ہوگا اور انڈسٹری بھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔ مزید براں شاپنگ بیگ بنانے والے کارخانے دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں گے اور لاکھوں پاکستانیوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ بھی جاتا رہے گا۔ یاد رہے اس وقت شاپنگ بیگوں کی تیاری کے لیے خام مال باہر سے آتا ہے۔ اگر پاکستانی کارخانے مقامی سوت سے بیگ بنانے لگے، تو یوں بہت سا زرمبادلہ بھی بچ جائے گا۔

سوتی تھیلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ناکارہ ہونے کے بعد وہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ اگر کوڑے میں پھینک دیئے جائیں تو چند ماہ بعد کھاد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جراثیم کے ذریعے جلد گل سڑ جانے والا مواد اصطلاح میں ’’بائیوڈیگر یڈایبل‘‘ (biodegradable) کہلاتا ہے۔ کاغذ، پٹ سن اور دیگر نامیاتی مادوں سے بنی اشیا کوڑے کا حصہ بن جانے کے بعد جلد گل سڑ جاتی ہیں اور ماحول کو طویل عرصے تک نقصان پہنچاتیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک کی حکومتیں انہی بائیو ڈیگر یڈایبل مادوں سے تیار کردہ شاپنگ بیگ کی منظوری دے رہی ہیں۔بائیو ڈیگریڈایبل مادوں سے بنے شاپنگ بیگ مگر مہنگے ہوتے ہیں جبکہ پلاسٹک شاپنگ بیگ کی تیاری پر کم خرچ آتا ہے۔ اسی لیے دکان دار، گاہکوں کو مفت دے دیتے ہیں لیکن بائیو ڈیگر یڈایبل شاپنگ بیگوں کا چلن شروع ہوا تو دکاندار گاہکوں سے ان کی بھی قیمت وصول کرسکتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹے سائز کے شاپروں پر بتدریج پابندی لگا کر بڑے اور مضبوط شاپروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو مہنگے ہونے کے باعث لوگ انہیں سڑکوں پر نہیں پھینکیں گے اور انہیں ری سائیکل کیا جا سکے گا۔ ایسے مختصر المدتی اور طویل المدتی اقدامات کیے جائیں کہ ان پاکستانیوں کو متبادل اور باعزت روزگار مل جائے اور پاکستانی معاشرے سے پلاسٹک شاپنگ بیگ کا چلن بھی ختم ہوجائے۔ اس طرح دونوں مقاصد حاصل ہو سکیں گے۔

ہنزہ میں ماحولیاتی انقلاب
ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں پلاسٹک شاپنک بیگ کی تیاری پر وقتاً فوقتاً پابندی لگاتی رہتی ہیں مگر اس سلسلے میں قانون کا نفاذ سختی سے نہیں کیا جاتا۔ وجہ یہی کہ ان شاپنگ بیگوں کے کاروبار سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوتا ہے۔ حکومتیں ان غریبوں کو بیروزگار کرنے سے کتراتی ہیں۔ اسی لیے بیگوں کی تیاری جاری رہی۔ مگر اب پاکستان میں سختی سے قانون کا نفاذ کررہی ہیں تاکہ پلاسٹک بیگوں کی روک تھام ہو سکے۔

مثال کے طور پر وادی ہنزہ میں انتظامیہ نے پلاسٹک شاپنگ بیگوں کی تیاری اور خریدو فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کردی ۔ اب وادی میں جو شخص شاپر استعمال کرتے پکڑا گیا اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ نیز اسے جیل بھی ہوسکتی ہے۔یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ وادی ہنزہ میں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں مگر ان کے ذریعے جنم لینے والا کوڑا کرکٹ خصوصاً پلاسٹک کی تھیلیاں قدرتی حسن ماند کرنے لگی تھیں۔ لہٰذا شاپروں پر پابندی لگانا ضروری ہوگیا۔وادی ہنزہ کی انتظامیہ نے سیاحوں کو سوت اور کاغذ سے بنے بیگ دینے کا اہتمام کیا ہے۔

یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ یہ بیگ انہی کاریگروں سے بنوائے جارہے ہیں جو پہلے پلاسٹک بیگ بناتے تھے۔ اس طرح انتظامیہ نے تدبر و حکمت سے نہ صرف شاپر کی لعنت ختم کر ڈالی بلکہ مقامی کاریگروں کو بھی بیروزگار نہیں ہونے دیا۔وطن عزیز کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن و دلکشی سے مالا مال ہیں۔ مگر جابجا پھیلے پلاسٹک شاپر بیگ ان کا حُسن دھندلا کررہے ہیں۔ لہٰذا ان علاقوں کا فطری دلکش روپ محفوظ رکھنے کی خاطر لازم ہے کہ وہاں شاپر لانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ سیاح ایسے تھیلوں میں اشیا لائیں جنہیں دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔اس چلن کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان خوبصورت علاقوں میں کوڑے کرکٹ کے انبار جنم نہیں لیں گے۔
گنے کا قیمتی پھوک

بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہریوں کو بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ کے یونٹ لگانے کی خاطر مالی امداد دے رہی ہے۔ ان یونٹوں میں گنے کے پھوک، کیساوا (آلو جیسی سبزی) کی جڑوں اور دیگر نامیاتی مواد سے شاپنگ بیگ بنتے ہیں۔ یہ بیگ کئی بار استعمال ہوسکتے ہیں۔ نیز جب ناکارہ ہوکر کوڑے میں پھینکے جائیں تو دو تین ماہ بعد تحلیل ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں گنا اور گندم اہم فصلیں ہیں۔ ان کی تلچھٹ بھی شاپنگ بیگ بنانے میں کام آسکتی ہے۔ یوں شاپنگ بیگ بنانے والوںکو خام مال اپنے ملک ہی سے میسر آئے گا۔ بنگلہ دیشی خام مال بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ اسی لیے بائیوڈ گریڈ ایبل شاپنگ بیگ بنانا انہیں مہنگا پڑتا ہے۔لیکن پاکستانی ہنرمندوں کو خام مال اپنے ملک ہی سے مل جائے گا۔ لہذا پاکستان میں بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ بنانے پر کم لاگت آئے گی اور وہ سستے ہوں گے۔

The post دنیا بھر میں مخالفانہ مہم چل پڑی؛ پلاسٹک شاپنگ بیگ پابندی کی زد میں appeared first on ایکسپریس اردو.

بندروں کا احتجاج

$
0
0

ڈارون صاحب نے تحقیق کی اور انسانوں کا ناتا بندروں سے جوڑ دیا۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ بندر ترقی کرکے انسان بن گئے اور جھوم جھوم کر ’’تبدیلی آئی رے۔۔۔تبدیلی آئی رے‘‘ گانے لگے۔

اگر یہ بات سچ ہے، بھلے بات ہو رسوائی کی، تو صاحب! کہنا پڑے گا کہ بندروں نے کمال کردیا، ورنہ یہاں تو آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر سب کے سب بندر ارتقاء کرکے انسان کیوں نہ بن پائے؟ ممکن ہے باضمیر بندروں نے اپنی نوع یا پارٹی بدلنے سے انکار کردیا ہو۔

ان بندروں نے جب انسانوں کا حال دیکھا ہوگا تو طنزاً کہا ہوگا،’’کہو میاں!۔۔۔۔کیا پایا انساں ہوکے۔‘‘ خیر یہ اُن بندروں کی مرضی جنھوں نے ارتقاء قبول نہ کیا، ہم کون ہوتے ہیں ان بندروں سے یہ کہنے والے کہ بندے بن جاؤ، مگر بندے بنو یا نہ بنو کم ازکم ہم انسانوں کو تنگ تو نہ کرو، اس کام کے لیے تم دور کے رشتے داروں کی ضرورت نہیں ہمارے قریب کے رشتے دار کافی ہیں۔ بندروں سے یہ درخواست ہمیں راولپنڈی میں ان کی حرکتوں کی وجہ سے کرنی پڑی۔

ایک خبر کے مطابق کچھ روز قبل چار جنگلی بندروں نے راولپنڈی کے نواحی علاقے رتا امرال میں تباہی مچادی اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلادیا۔ ان بندروں نے گایوں اور مُرغیوں پر حملہ کیا اور انھیں زخمی کردیا۔

مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ بندر علاقے میں نصب موبائل ٹاور پر چڑھ گئے اور وہاں سے گھروں کی چھتوں پر کود پڑے۔ ان کے خوف سے لوگوں نے بچوں کو گھر سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ گویا علاقے پر ان کی عمل داری قائم ہو گئی اور انھوں نے کُھلم کُھلا حکومت کی رِٹ کو چیلینج کردیا۔ ان کا ہلّہ راولپنڈی کی اس مضافاتی بستی ہی تک محدود نہیں رہا بل کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق ان باغی بندروں نے اسلام آباد کی اسٹریٹ لائٹس بھی توڑ دیں۔

خبر میں ان حملہ آوروں کو ’’جنگلی بندر‘‘ کہا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں شہری بندر بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ بندر مہذب اور متمدن ہیں، اس لیے بڑی تمیز سے چھلانگ لگاکر ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر جابیٹھتے ہیں، اور اپنی اس نقل مکانی یا ’’فلور کراسنگ‘‘ کا جواز بھی پیش کرے ہیں۔ یہ اسٹریٹ لائٹس نہیں توڑتے مال توڑتے ہیں، تاہم اس مہذبانہ رویے کے باوجود شہری بندروں کو انسان سمجھنا غلطی ہوگی، کیوں کہ ان کے دُم ہوتی ہے، جسے بہ وقت ضرورت یہ اظہاروفاداری کے لیے یہ خوب ہلاتے ہیں۔

رہی بات جنگلی بندروں کی یلغار کی، تو ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے کہ وہ اسلام آباد تک جاپہنچے، لیکن اس میں حیرت کیسی، ’’راولپنڈی‘‘ تک رسائی ہوجائے تو اسلام آباد پہنچنا کیا مشکل۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بندروں نے یہ اُدھم کیوں مچایا؟ انھیں کس بات پر غصہ تھا؟ کیا وہ احتجاج کر رہے تھے؟ مگر کیوں اور کس کے خلاف؟ حکومت کے مخالفین کہیں گے کہ یہ منہگائی اور بجٹ کے خلاف احتجاج تھا۔۔۔کوئی نئیں بھئی کوئی نئیں۔۔۔۔بھلا بندروں پر منہگائی اور بجٹ کا کیا اثر ہونا ہے! گویا ’’بندر کیا جانے بجٹ کا مزہ۔‘‘ منہگائی ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے، انھیں نہ کچھ خرید کر کھانا ہوتا ہے، نہ رہنے کے لیے مکان چاہیے، پیٹرول بجلی، گیس، موبائل فون اور انٹرنیٹ سے بھی ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔

سُنا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور منتظر تھے کہ کوئی اعلان کرے ’’مجھے بندر کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ مگر جب انھوں نے آکسفورڈ کے پڑھوں کو جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملاتے، ٹیگور کو خلیل جبران بناتے اور سال کے بارہ موسم لاتے دیکھا تو سوچ لیا کہ ایسی پڑھائی سے بہتر ہے کہ ہمارے بچے درختوں پر چڑھائی ہی کا سبق سیکھ لیں۔ سو انھیں پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں بھی نہیں بھرنا پڑتیں۔ رہ گئی بندربانٹ تو اس کے لیے درختوں پر لدے پھل مُفت کا مال ہیں، انھیں اُس سرکاری بندربانٹ سے کوئی سروکار نہیں جس میں وزیروں مشیروں کی تعداد بڑھانا، مخالف جماعت کے ارکان توڑ کر ملانا اور اتحادیوں کے ناز اُٹھانا لازمی ہوتا ہے۔ پس تو ثابت ہوا کہ ان بندروں کا احتجاج منہگائی کے خلاف بھی نہیں تھا۔

اوہو، کہیں یہ فیاض الحسن چوہان کو وزیرجنگلات بنانے پر اظہاربرہمی تو نہیں تھا؟ موصوف عریانیت کے سخت خلاف ہیں، اس باعث انھوں نے اپنی فراغت سے پہلے والی وزارت کے دوران ایک فلم کے پوسٹرز کو اور اداکارہ نرگس کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ ممکن ہے جنگلات کی وزارت سنبھالنے کے بعد جانوروں کے ننگے گھومنے پر یہ کہہ کر اعتراض کردیا ہو۔۔۔۔نکلو نہ ’’بے حجاب‘‘ زمانہ خراب ہے، جس پر بندروں کو غصہ آگیا۔

وجہ جو بھی ہو، مگر حیران کُن امر ہے کہ بندروں نے گایوں اور مرغیوں پر کیوں حملہ کیا اور اسٹریٹ لائٹس کیوں توڑیں؟ ہمارے خیال میں ان بندروں کو وزیراعظم کے ’’مُرغی، گائے، بکریاں پال پروگرام‘‘ پر اعتراض ہے۔ ان کا مطالبہ ہوگا کہ وزیراعظم نے اپنے اس ’’پال‘‘ پروگرام میں بندروں کو کیوں شامل نہیں کیا۔ اب بندروں کو کون سمجھائے کہ نہ تم انڈا دو نہ بچہ، نہ دودھ دیتے ہو نہ کھائے جاتے ہو، زیادہ سے زیادہ ڈُگڈگی پر نچائے جاتے ہو، اور ڈُگڈگی پر ناچنے والوں کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اور تمھاری طرح مالک پر حملہ نہیں کرتے بڑی شرافت سے پلتے ہیں۔ اور اگر تم نے یہ سوچ کر اسٹریٹ لائٹس توڑیں کہ ثابت کرنا چاہتے ہو بڑے کام کے ہو اور جب چاہو گے اندھیر مچادو گے، تو اے پیارے بندرو! تم کتنے بھولے ’’بھالو‘‘ ہو۔ تمھاری اس خدمت کی کسے ضرورت، یہاں تو پہلے ہی اندھیرنگری چوپٹ راج ہے۔

The post بندروں کا احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.

معاشی بدحالی میں ڈوبتے بھارتی عوام کی پکار؛ ’’اچھے دن گزر گئے‘‘

$
0
0

دوپہر کے بارہ بج چکے۔ سورج آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی کے علاقے ہرولا میں سڑک پر مزدوروں کا ہجوم جمع ہے۔ شدید گرمی نے انہیں پسینے میں شرابور کررکھا ہے مگر وہ متوقع آجیروں کا انتظار کررہے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ آج کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا تاکہ وہ کچھ روپے کما کر گھر لے جائیں اور بیوی بچوں کی بھوک مٹانے کا بندوبست کریں۔

یہ مزدور ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ مگر کام بہت کم رہ گیا ہے… آخری آجیر صبح نو بجے آیا تھا۔ وہ چند مزدوروں کو ساتھ لے گیا۔ اسے کارخانے میں سفیدی کرانی تھی۔ تب سے تین گھنٹے گزر چکے اور علاقے میں کسی آجیر نے قدم نہیں دھرے۔

چار پانچ سال قبل مزدوروں کو اچھا خاصا کام دستیاب تھا۔ ہر گھنٹے میں پانچ چھ آجیر وہاں آتے اور مزدوروں کو ساتھ لے جاتے۔ تب روزانہ ڈھائی تین ہزار مزدوروں کو کام مل جاتا اور انھیں اچھی خاصی آمدن بھی ہوجاتی۔ مگر اب روزانہ ایک ہزار مزدوروں کو بھی کام نہیں مل پاتا۔ دہلی ہی نہیں بھارت کے ہر شہر و قصبے میں بیروزگاری کا یہی عالم ہے۔ لاکھوں بھارتی مجبور ہیں کہ روزانہ عارضی اور جزوقتی ملازمتیں کرتے رہیں تاکہ زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھ سکیں۔

نوٹ بندی کی پالیسی

بھارت میں بیروزگاری کی لہر نے نومبر 2016ء کے بعد جنم لیا۔ اس مہینے مودی حکومت نے 500 اور 1000 والے نوٹوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنایا جاسکے۔ وجہ یہ کہ بھارت میں غیر دستاویزی معیشت ایک آفت کی شکل اختیار کرچکی تھی۔بھارت میں 50 کروڑ سے زائد باشندوں کی افرادی قوت موجود ہے۔ ان میں سے ’’90 فیصد‘‘ غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ گویا وہ بعض بالواسطہ (ان ڈائریکٹ) ٹیکس تو دیتے تھے مگر براہ راست ٹیکس سے پہلو بچا جاتے۔ اس طرح بھارتی حکومت ہر سال کھربوں روپے ٹیکس چوری کے باعث کھو دیتی تھی۔ مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑے نوٹ ختم کردیئے جائیں تاکہ چھپایا گیا سرمایہ سامنے آکر دستاویزی میعشت کا حصہ بن جائے۔

آٹھ مہینے بعد مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت کو کاری ضرب پہنچانے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس (بھارت میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس) متعارف کرا دیا۔ جنرل سیلز ٹیکس بالواسطہ ٹیکس ہے۔ مودی حکومت نے اس ٹیکس میں مختلف سلیب متعارف کرائے۔ آخری سلیب کی شرح 28 فیصد ہے۔ یہ پوری دنیا میں جی ٹی ایس کی بلند ترین شرح ہے۔ماہرین کے نزدیک مودی حکومت کا متعارف کرایا گیا جنرل سیلز ٹیکس بہت پیچیدہ ہے۔ نیز اس نے چھوٹے کاروباری افراد، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں اپوزیشن رہنما، راہول گاندھی نے اس ٹیکس کو ’’گبرسنگھ ٹیکس‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیکس نے چھوٹے کاروبار اور چھوٹی صنعتیں تباہ کر دی۔ اگر پچھلے دو برس کے دوران بھارت میں بیروزگاری کی شرح دیکھی جائے، تو راہول گاندھی کا دعویٰ درست لگتا ہے۔

منصوبہ بندی کے بغیر عمل

دراصل نوٹ بندی اور نئے جنرل سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہزارہا سرمایہ کاروں نے غیر دستاویزی معیشت سے اپنا پیسہ نکال لیا۔ وہ اپنی رقم کو حکومت اور ٹیکس اداروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ نتیجتاً سینکڑوں کاروبار بند ہوگئے، کمپنیاں ختم ہوئیں اور ان میں کام کرتے بھارتی اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں بیروزگاری کی شرح 8.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پچھلے پینتالیس سال میں بلند ترین شرح ہے۔ گویا بھارت میں چار کروڑ سے زائد بیروزگاروں کی فوج ظفر موج دندناتی پھرتی ہے۔

یہی نہیں، باروزگاروں میں سے بھی اکثریت چھوٹی موٹی ملازمتیں کرکے ہی گزار کررہی ہے کیونکہ اچھی ملازمت کا ملنا بہت کٹھن مرحلہ بن چکا۔صورتحال سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتیوں کا خیال کیے بغیر غیر دستاویزی معیشت پر اچانک دھاوا بول دیا۔ افراتفری میں سرمایہ کاروں نے اپنے کاروبار و کمپنیاں بند کردیں۔ ان کا مگر کچھ نہیں بگڑا کیونکہ وہ تو کروڑوں اربوں روپوں میں کھیلتے ہیں۔ وہ آرام و آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل آفت نچلے و متوسط طبقات کے افراد پر ٹوٹی جو کاروبار و صنعتیں بند ہونے سے بے روزگار ہوگئے۔ اب حالت یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی خیراتی ہوٹلوں سے کھانا کھاکر جسم و روح کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی جہنم بن چکی۔ جو مسائل برداشت نہ کرسکے، وہ اپنی جان لے لیتا ہے۔ اسی لیے بھارت میں خودکشیوں کی سالانہ شرح بھی بلند ہوچکی۔

حالات بہت خراب ہیں

صورتحال سے عیاں ہے کہ غیر دستاویزی معیشت کے خلاف مودی حکومت کی جنگ کامیاب نہیں ہوسکی، بلکہ اس نے بھارتی معیشت کو کمزور کر ڈالا۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت میں شامل بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس نظام میں شامل کرنے کے لیے انھیں کوئی آگاہی نہیں دی،انھیں دستاویزی معشیت کا حصہ بننے کی خاطر ذہنی طور پہ تیار نہیں کیا اور نہ انھیں کسی قسم کی ترغیبات دیں کہ وہ خود کو قانونی نظام میں ضم کر دیتے۔ چناں چہ سرمایہ کاروں نے خوفزدہ ہوکر غیر دستاویزی معیشت سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ اس عمل نے نہ صرف معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری کیا بلکہ بہت سے بھارتی اپنی ملازمتوں اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ماضی میں غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے ناخواندہ، نیم ہنرمند، ہنرمند اور تعلیم یافتہ بھارتی غیر دستاویزی معیشت میں شامل ہوکر ملازمتیں پالیتے تھے۔ یوں انہیں دال دلیہ ملنے لگتا۔ مگر مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت پر ڈرون حملے کرکے غریبوں اور متوسط طبقہ والوں کو ذریعہ روزگار سے محروم کردیا۔ ان میں سے لاکھوں نے نریندر مودی کو اقتدار میں لانے کی خاطر ووٹ دیئے تھے۔اب وہ بہت پچھتارہے ہیں۔ اکثر بیروزگار کہتے ہیں ’’کانگریس کی حکومت میں معاشی حالات اچھے تھے۔ افسوس ہے، اچھے دن گزرگئے۔ اب تو ہم ایک وقت کی روٹی بھی بہ مشکل حاصل کرپاتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔‘‘

عجیب و غریب عذاب

39 سالہ راجو پرجاپتی اپنے ماں باپ اور بیوی کے ساتھ ممبئی میں رہتا ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ معمولی ملازمتیں کرنے لگا۔ آخر اس نے راج گیری کا کام سیکھ لیا۔ اسے پھر کنسٹرکشن کمپنیوں میں کام ملنے لگا۔ وہ ہرماہ پندرہ ہزار روپے کمالیتا۔ یوں زندگی آرام سے گزرنے لگی۔راجو کا باپ، گنیش بھی ڈیلی ورکر ہے۔ اسے روزانہ جو کام ملتا ہے، وہ کر ڈالتا۔ اسے بھی ماہانہ بارہ تیرہ ہزار کی آمدن ہوجاتی۔ یوں باپ بیٹا اس قابل ہوگئے کہ ہر ماہ معقول رقم کی بچت کریں۔ لیکن نوٹ بندی نے اس گھرانے کی زندگی تلپٹ کرڈالی اور وہ بیروزگاری کے طوفان بلا کا نشانہ بن گیا۔نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نافذ ہونے کے بعد بیشتر کنسٹرکشن کمپنیوں نے کام روک دیا۔

اب باپ بیٹے کو ہفتے میں ایک دو دن ہی کام ملنے لگا۔ ماہانہ آمدن جو پہلے پچیس ہزار روپے کے قریب تھی، اب گھٹ کر دس بارہ ہزار رہ گئی۔ معاشی مسائل نے انہیں آن گھیرا۔ انہوں نے دو کمروں کا کرائے والا مکان چھوڑا اور سستے علاقے میں ایک کمرا کرایہ پر لے لیا۔ اس کا کرایہ گیارہ سو روپے ماہانہ ہے۔گنیش اور راجو، دونوں صبح سویرے کام ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ قسمت اچھی ہو تو کام مل جاتا ہے ورنہ بے نیل و مرام خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ بھارت میں لاکھوں افراد کی یہی اندوہناک کہانی ہے۔ مودی حکومت کے عجلت سے، بے سوچے سمجھے کیے گئے معاشی اقدامات نے انہیں عجیب عذاب میں مبتلا کردیا۔

چاندنی چوک میں کام ٹھپ

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چاندنی چوک کا علاقہ بہت بڑا کاروباری و تجارتی مرکز ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس جیسے اقدامات نے وہاں ’’70 فیصد‘‘ کاروباری و تجارتی سرگرمیاں ختم کردیں۔ علاقے میں بیشتر چھوٹے کارخانے، ادارے اور کمپنیاں غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ جب مودی حکومت نے ان پر کریک ڈاؤن کیا، تو ستر فیصد کاروباری و تجارتی ادارے بند ہوگئے۔ ان میں ہزارہا مردو زن کام کرتے تھے۔ اداروں کی بندش کے باعث وہ بھی کروڑوں بھارتی بیروزگاروں کی فوج میں جا شامل ہوئے۔

نئی دہلی، ممبئی اوردیگر شہروں میں بنے کارخانے اور فیکٹریاں ایک نئے مسئلے کا بھی شکار ہوچکے۔ ان کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے بھارتی شہروں کی فضا آلودہ کردی ہے۔ لہٰذا مودی حکومت چاہتی ہے کہ یہ کارخانے شہروں کے مضافات میں قائم کردیئے جائیں۔ کارخانوں کے جن مالکان نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا، وہ اب عدالتوں میں مودی حکومت سے جنگ لڑرہے ہیں۔ مگر اس عدالتی کارروائی نے بھی کئی فیکٹریوں میں تالے لگوا دیئے اور وہاں کام کرتے کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

نقد لین دین کی بندش

کاروبار دشمن صورتحال کی وجہ سے ہزارہا ایسے بھارتی کنگال ہوچکے جو پانچ برس قبل اچھی خاصی رقم کمالیتے تھے۔ مثلاً پچاس سالہ مہیش کو لیجیے۔ مہیش پندرہ سال قبل لکھنو سے دہلی آیا تھا۔ وہ پھر مزدوروں کا ٹھیکے دار بن گیا۔ وہ روزانہ مزدور اکٹھے کرتا اور کارخانوں کو سپلائی کردیتا۔ اس کام سے وہ ماہانہ پچاس ہزار کمالیتا۔ مگر کارخانے بند ہوئے تو مہیش کا کام بھی ٹھپ ہوگیا۔ اب وہ ٹیکسی چلا کر گزارہ کررہا ہے۔ اس کے بیوی بچے واپس لکھنو جاچکے تاکہ آبائی مکان میں رہ کر کرائے کی بھاری رقم بچائی جاسکے۔

غیر دستاویزی معیشت کی روح دراصل نقد لین دین میں پوشیدہ ہے۔ جب مودی حکومت نے نوٹ بندی کے ذریعے نقد لین دین بند کیا، تو غیر دستاویزی معیشت میں معاشی سرگرمیاں تھم گئیں۔ اس دوران حکومت سیلز ٹیکس لیے اس پر حملہ آور ہوگئی۔ اس حملے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔مغربی دہلی میں علاقہ مایا پوری واقع ہے۔ یہ بھارت میں لوہے کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ وہاں کئی چھوٹے کارخانے، کاروباری ادارے اور کمپنیاں لوہے کے کاروبار سے متعلق ہیں۔ ان میں ہزارہا افراد کام کرتے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نے اس علاقے میں بھی کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ سکریپ لوہے کا ایک تاجر، باون سالہ چیتین شرما کا کہنا ہے ’’جنرل سیلز ٹیکس میں فائلنگ سسٹم بہت پیچیدہ ہے۔ ہم چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں ہوتی کہ فائلنگ سسٹم سے سرکھپائیں اور نہ ہم اتنا سرمایہ رکھتے ہیں کہ کسی پیشہ ور کو بھاری فیس دے کر ٹیکس فائل کرسکیں۔‘‘

چھیالیس سالہ دھیان چند مایا پوری انڈسٹریل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’دہلی، لکھنو اور قریبی شہروں میں بستے سینکڑوں افراد نے عمر بھر کی جمع پونجی سے علاقے میں چھوٹے کارخانے لگائے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور جی ٹی ایس نے ان کے کارخانے ختم کر ڈالے۔ یوں وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے جبکہ کارخانوں میں کام کرتے کارکنوں سے بھی بیروزگاری کا جن چمٹ گیا۔‘‘

پاکستان کے لیے سبق

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی عمران خان حکومت اپنی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہے۔ بعض ماہرین نے حکومت کو 5 اور 1 ہزار کے نوٹ تبدیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس طرح نقد لین دین کو دستاویزی بنانے کے لیے شناختی کارڈ دینے کی شرط عائد کردی گئی۔ ان اقدامات سے پاکستان میں بھی معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوگیا۔ نتیجتاً غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزارہا پاکستانی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

غیر دستاویزی معیشت کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ یہ ملک و قوم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ مودی حکومت کے مانند اسے ختم کرنے کے لیے عجلت میں اور منصوبہ بندی کے بغیر پالیسیاں نہیں بنائے۔انھیں ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے مفادات کا خیال رکھیں کیونکہ غیر دستاویزی معیشت ہی انہیں روزگار مہیا کرتی ہے۔ آخر وزیراعظم انہی پاکستانیوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔مگر منصوبہ بندی کے بغیر عاجلانہ عمل انھیں نقصان پہنچائیں گے اور حکومت کو ضعف پہنچے گا۔

The post معاشی بدحالی میں ڈوبتے بھارتی عوام کی پکار؛ ’’اچھے دن گزر گئے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

نیا ٹیکس نظام کیسے کامیاب ہو گا؟

$
0
0

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی معیشت کودستاویزی شکل دی جا رہی ہے، ٹیکس کے نظام کو جدید ممالک کی طرز پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بہر حال اس نظام کی اشد ضرورت تھی کہ دورَ جدید میں ہر چیز کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے، اس سسٹمِ نے ریاستوں کے معا ملات بہت آسان بنا دیئے ہیں۔

جیسے ہی ٹیکس نظام کو جدید پیمانے پر استوار کرنے کا آغاز کیا گیا تو پورے ملک میں بے چینی اور اضطراب کی فضا پیدا ہوگئی، حالا نکہ اس سسٹمِ میں قطعاً کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ خوف و ہراس پیدا ہو، دراصل لوگ ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کی چیرہ دسیتوں اور بلیک میلنگ سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان افسران کے شکنجے میں جو بھی آیا وہ بّری طرح پھنس گیا، ایف بی آر کے یہ اہلکار ایسے حالات بنا دیتے ہیں کہ باہمی تعاون کے بغیر چارہ نہیں رہتا تھا ۔

بائیس کروڑ کی آ بادی میں صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس گزار تھے، صرف آٹھ لاکھ کاروباری افراد ٹیکس ادا کرتے تھے، اس کی اصل وجہ ایف بی آر کے اہلکار وں کی بد دیانتی تھی، ٹیکس ادا کرنے والوں کو بہت ہی تنگ کیا جاتا تھا۔ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ٹیکس کا ہدف ان آٹھ لاکھ کاروباری حضرات سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، اور یہ ایک انتہائی زیادتی کی بات تھی۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا شِدت سے احساس تھا اور ان کی اوّلین کوشش تھی کہ ٹیکس نیٹ ورک وسیع تر کیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے تمام وسائل بُروئے کار لائے گئے۔ ہر فرد کے تمام مالی معاملات کو آ پس میں مربوط کیا گیا پہلے تو کوئی بھی چیز مربوط نہیں تھی، اب ہر فرد کے کوائف مخصوص ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

جیسے ہی کوئی ایف بی آر میں رجسٹر ہونا چاہتا ہے، وہ فرد کا ریکارڈ دیکھ کر خود ہی قریبی عزیزوں کے نام بتاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان عزیزوں سے ان کی فون پر بات کروائی جائے، جب یہ دونوں عزیز موبائل کال پر اپنا تعارف کرواتے ہیں اور اپنا تعلق یا رشتہ بتاتے ہیں تو تصدیق کے بعد اُس شخص کے موبائل پر اس کی تفصیلات دیدی جاتی ہیں۔ ان تفصیلات میں اُس فرد کے کُنبے کی تفصیلموجود ہوتی ہے اس کی جائیداد، گاڑیوں، بینِ الاقوامی سفر اور ایسی تمام تفصیلات موجود ہوتی ہیں، یہ نظام دنیا کے بیشتر جدید ممالک میں موجود ہے۔

 غیر متوازن جدید معیشت

اب پاکستان میں بھی اس کی شروعات ہو چکی ہے، پاکستان کی کرپشن زدہ معیشت کو دستاویزی شکل دینا اشد ضروری تھا۔ دستاویزی شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے پوری معیشت غیر متوازن ہے۔

1 ) جائیدادوں کی سٹے بازی اپنے عروج پر تھی، جائیدادوں پر ہر سال کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی تھی۔ چند سالوں میں سٹے بازی کی وجہ سے جائیدادوںکی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، سرمایہ کاروں کے علاوہ عام افراد کو بھی اس کاروبارکا زیادہ مزا آیا،گھر بیٹھے ہی منافع حاصل ہونے لگا تو اکثریت نے اپنی فیکٹری، کارخانے اور دکانیں بیچ کر رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں پیسہ لگا دیا، کھربوں روپے غیر پیداواری یونٹ یعنی جائیداد میں کھپا دئیے گئے، اگر معیشت کو ضرورت سے زیادہ غیر پیداواری یونٹوں میں’’ ڈمپ‘‘ کر دیا جائے تو اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں عروج کے بے شمار نقصانات سامنے آئے۔

1 ) پہلا نقصان ، کراچی کے علاوہ پورے ملک فلیٹس سسٹِم کلچر پیدا نہ ہو سکا، شہروں کے پھیلاؤ میں بے پناہ اضافہ ہوا، زرعی زمینوں کا خاتمہ ہوتا گیا، شہروں کے آس پاس کی زرعی زمینوں کو ختم کر کے لاتعداد ہاؤسنگ اسکیمیں بنا دی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے غریب اور قرض دار ملک میں زرعی زمینیں ختم کرکے شہروں کا پھیلاؤ ایک انتہائی ناعاقبت اندیشی کا مظہر ہے، اِن ہاؤسنگ سکیموں کی آڑ میں ایک ایسا لینڈ مافیا پیدا ہوا کہ جس نے ہمارے سماجی و معاشرتی نظام کی جڑیں تک ہلادیں ۔ یہ لینڈ مافیا ڈائرکٹ اور اِن ڈائرکٹ سیاسی میدان میں بھی کُود پڑا، نظریاتی سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ۔

2 ) دوسرا نقصان یہ ہوا کہ نئی ہاؤسنگ اسکیمیں دور دراز واقع ہونے کی وجہ سے آمدورفت کی مَد میں ایندھن کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ، پٹرول اور دوسرے ایندھن کی امپورٹ بڑھ گئی ۔

3 ) تیسرا نقصان یہ ہوا کہ سبزیاں دور دراز کے علاقوں سے لانے کی وجہ سے بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں، طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا، رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے سے دُور ہوگئے کہ اب اِتنا لمبا سفر کرکے دوسروں کو مِلنا دشوار ہوگیا ہے۔ ہمارے روایتی سماجی ڈھابچے کو کافی زَد پہنچی، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو عروج مِلنے سے بے شمار مضمرات پیدا ہوئے مگر اس کا سب سے بڑا نقصان انڈسٹری اور کاروبار کی تباہی کی شکل میں نِکلا اور ریاست ٹیکس کے علاوہ محصولات کی بڑی رقم سے محروم ہوگئی، کسی زمانے میں رئیل اسٹیٹ میں ایک روز میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا مگر حکومت کو برائے نام ٹیکس مِلتا تھا۔

انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا کہ کوئی بھی سرمایہ کار جائیدادوںکے منافع بخش کاروبا ر چھوڑ کر کاروبار میں سر کھپانا نہیں چاہتا تھا، پھر اس کام میں سٹے بازی اپنے عروج پر پہنچ گئی، حتیٰ کہ گوادر کی زمین پر بھی کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی رہی ہے۔ وہاں جتنی تیزی سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے سٹے باز اربوں روپے نکال کر لے جاتے ہیں، آخر میں زمینیں خریدنے والوںکی تمام رقم ’’بلاک ‘‘(جامد) ہو جاتی ہے۔ جائیدادوں کے کاروبار میں عروج کی وجہ سے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچی ہے، حالیہ بجٹ میں اس کے مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک کنال یا اس سے بڑا گھر رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا،کہ ایک کنال کا گھر رکھنے والوں کے اخراجات اب لاکھوں روپے میں ہوتے ہیں، اب انھیں ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جا رہا ہے۔

بڑی گاڑیوں پر ٹیکس

بڑی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی بے تحاشا امپورٹ کے بھی بے پناہ نقصانات سامنے آئے ۔

1   ) زرمبادلہ خرچ ہوا۔

2 )بڑی گاڑیوں فیول بہت کھاتی ہیں۔

3    ) طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا کہ بڑی گاڑی رکھنا شان علامت سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ سے رشوت اور حرام کمائی میں بھی اضافہ ہو اور بہت بڑی رقم جھوٹی شان و شوکت میں دفن ہوجاتی ہے ۔

دو لاکھ روپے سالانہ تعلیمی فیسادا کرنے والوں پر ٹیکس

ہمارے موجودہ نظام تعلیم نے بھی ہمارے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچائی ہے، میں بہت سالوں سے نظام تعلیم کا عمیق نظروں سے جائزہ لے رہا ہوں، موجودہ نظام تعلیم کے مضمرات کی ایک لمبی تفصیل میرے سامنے ہے، مگر بچوں کو مہنگے سکولوں میں تعلیم دلوانے کا مقصد معاشرے میں اپنی ’’ ناک اونچا‘‘ رکھنا ہے۔ مہنگے سکولوں میںتعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ’’آئی کیو لیول‘‘بہت ہی کم ہے، ایک خاص ماحول میں پرورش پانے والے بچے جب مہنگے ترین سکولوں میں جاتے ہیں تو وہ کچھ ایسی اُلّجھنوں، ذہنی کشمکش اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جو اِن میں خود اعتمادی بھی ختم کرتی ہے اور صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا نہیں ہونے دیتی، اِن اسکولوں میں دولت کی بے پناہ نمائش ونمود کی جاتی ہے۔

والدین اپنے بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کیلئے جائز و ناجائز دولت کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سستے اور مہنگے سکولوں نے عوام میں خلیج مزید وسیع کی ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم نے طبقاتی تفریق میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طالبعلموں کی ذہنی صلاحیتیں فروغ پانے کی بجائے محدود ہوتی جا رہی ہیں فکروسوچ کی ترقی کے سُوتے خشک ہو جاتے ہیں، اِن سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا ۔

 سامان ِ تعیشات پر ٹیکس

ایک طرف پوری قوم کو اس بات کا علِم ہے کہ ہمارا تجارتی خسارہ موجودہ وقت میں تقریباً 30 کھرب روپے سالانہ ہے،  یعنی ہماری امپورٹ، ہماری ایکسپورٹ کے مقابلے میں خاصی کم ہے پھر بھی ایک خاص طبقے کیلئے اربوں ڈالر کا سامان ِ تعیشات امپورٹ کیا جا رہا ہے، ایسی امپورٹڈ آئٹمز پر پابندی لگائی جاتی تو بہتر تھا وگرنہ اس کا ٹیکس مزید بڑھا دیا جائے۔ موجودہ معاشی و اقتصادی بحران میں ایسے فیصلے کرنا بہت ضروری ہیں، سامان تعیشات میں پھیلاؤ کی وجہ سے بھی رشوت، حرام کمائی اور طبقاتی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ فضول خرچی کرنے والے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے انھیں عوام کے فلاحی منصوبوں اور ضروریات زندگی کیلئے خرچ کرنا اشد ضروری ہے۔

معیشت کو دستاویزی شکل میںلانا کیوں ضروری ہے؟

معیشت کو دستاویزی شکل میںبہت پہلے لانا چاہیے تھا، اس کام میں دیرکی وجہ سے منی لانڈرنگ، بیرونی فنڈنگ، اسمگلنگ، منشیات فروشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، بھتہ، غنڈہ گردی، جائیدادوں پر قبضے، رشوت، ناجائز فروشی اور دوسرے غلط کاموں میں بہت اضافہ ہوا، ہر ملک میں معیشت کو دستاویزات میں لانا اس لئے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ایک خاص طبقہ عوام کا استحصال تو نہیں کر رہا ؟ مختلف ہتھکنڈوں سے غریب عوا م کی دولت تو نہیں ہتھیائی جا رہی؟ کوئی فرد ملک دشمی میں تو ملوث نہیں ہے؟ جس ریاست میں معیشت کو بے مہار چھوڑ دیا جاتا ہے ، اس ریاست میں اکانومی کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔ اور اس کا سارا اثر صرف غریب اور مظلوم عوام پر پڑتا ہے۔ اس وقت عام افراد بھی اضطراب میں ضرور مبتلا ہیں کہ ناخواندہ لوگ کیسے اپنے گوشوار ے پُر کریں یا جائز ٹیکس ادا کریں مگر اس کا آخر کار فائدہ انہی کو پہنچے گا، ملک کی کرپشن زدہ غیر متوازن معیشت ہموار راستے پر گامزن ہو جائے گی۔

 کیا یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بنایا ہو ا ہے؟

تمام سیاسی پارٹیاں اور بعض تاجر وں نے واویلا مچایا ہوا ہے کہ یہ بجٹ ’’ آئی ایم ایف ‘‘ نے بنایا ہے اگر واقعی اس بات میں حقیقت ہے تو پھر انھوں نے یہ بجٹ بہت اچھا بنایا ہے کہ پاکستا ن کو مزید دلدل میں دھنسنے سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ یہ وزیراعظم عمران خان اور اہم اداروں کے سربراہان کا ویژن ہے، سیاسی پارٹیوں کا واویلا اس وجہ سے ہے کہ ان پارٹیوں میں شامل سیاستدانوں اور دوسرے افراد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت اور جائیدادوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، انھوں نے یہ دولت کیسے کمائی یا کہاں سے حاصل کی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کرپشن کے علاوہ بھی کئی ایسے ذرائع ہو سکتے ہیں کہ جس کا ریاست کو نقصان ہوا ہو، ملکی سیاست پر چھائے ہوئے افراد اور حکومت میں شامل افراد کے ایک ایک پیسے کا حساب ہونا چاہیے کہ ملک کی قسمت ان کے ہاتھ میں ہے، اب یہ لوگ ٹیکس نیٹ ورک میں آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ بعض تاجروں نے بھی مختلف ہتھکنڈوں سے بے پناہ دولت کمائی ہے یہ لوگ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جعلی مصنوعات اور اس قسم کے کاموں میں ملوث رہ کر بے پناہ مال بنا چکے ہیں، اب وہ بھی اپنی دولت کا حساب دینے سے گریزاں ہیں، اگر اس بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ معاشی بحران میں اِن سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے علاوہ دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آتا ۔

مگر ٹیکس کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالناچاہیے تھا

اس بجٹ میں جہاں معیشت کو متوازن اور ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں چینی، گھی، سیمنٹ اور یوریا پر بھاری ٹیکس عائد کرکے عوام پر بھی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی تلے دبی اور کچلی ہوئی ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ عام ضروریات زندگی پر بھی اثر پڑا ہے، کم از کم اِ ن اشیاء پر ٹیکسِز کو فی الفور ختم کیا جائے ۔ موجودہ بجٹ کا سب سے زیادہ گھریلو خواتین پر اثر پڑا ہے کیونکہ مہنگائی اور یوٹیلٹی بِلز بڑھنے سے ان کا گھریلو بجٹ بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تحریک انصاف کا واضح نعرہ تھا کہ ’’ لوٹی ہوئی دولت وصول کر کے کچلے ہو ئے طبقات میں تقسیم کی جائے گی‘‘ یہاں تو پتہ نہیں ہم سب پر مزید کس چیز کابوجھ ڈا ل دیا گیا ہے۔

 بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ

جہاں تک گیس کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو یہ اقدام ٹھیک لگتا ہے، گرمیوں میں اوسطاً دو تین سو ماہانہ بِل آتا ہے۔ سارا دن سارا مہینہ گیس استعمال کرنے سے صرف دوتین سو کا بِل بہت کم تھا، اس سے لوگ سردیوں میں بھی گیس ہیٹر کا استعمال کم کریں گے، یہ اضافہ ٹھیک ہی لگتا ہے مگر بجلی کے بِلوں میں پانچ سو یونٹ تک کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک گھر میں اے سی نہ بھی چلے اور صرف ایک ائیر کولر چلایا جائے اور تین پنکھے چلائے جائیں، استری، مائیکرووِیوواُون، واشنگ مشین، پانی والی موٹر اور انرجی سیور استعمال کئے جائیں تو تقریباً پانچ سو یونٹ تک استعمال ہو ہی جاتے ہیں ۔ یہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی بجلی کا استعمال ہے، زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے افراد کیلئے بجلی مہنگی کرنی چاہیے۔

ائر کنڈیشنڈ کے استعمال کے رجحان میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب تمام نئی عمارتیں ’’ ائیر ٹائٹ ‘‘ بنائی جا رہی ہیں یعنی ہَوادار بنانے کی بجائے مکمل بند عمارتیں بنائی جا رہی ہیں جہاں اے سی کا استعمال اشد ضروری ہوتا ہے وگرنہ پانچ منٹ بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، بروقت اے سی چلا کر کمروں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے، اگر بجلی چلی جائے تو کمرے خاصی دیر تک ٹھنڈے رہتے ہیں اور محض پنکھوں سے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔اس سال گرمیوں میں 23000 میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بہر حال اس بجلی کی پیدا وار کیلئے فرنس آئل اور دوسرا درآمدی فیول استعمال ہو رہا ہے جس سے زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اسی حساب سے رقم وصول کر رہی ہیں ۔ بجلی کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین سے بجلی کا ریٹ زیادہ ہی وصول کرنا چاہیے۔

 اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو؟

اس بجٹ میںایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو دوسرے پارٹنر سے اس کی طرف واجب الادا رقم وصول کی جائے گی چنانچہ اب اشد ضروری ہے کہ اِن معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کہ اس کے پارٹنرکی طرف کوئی رقم واجب الادا تو نہیں ہے۔

 یہاں ٹیکس ادا کرنے سے عوام کو کیا مِلے گا ؟

جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے، کہ باہر کے ممالک میں جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ عوام پرہی لگایا جاتا ہے، اس میںکوئی شک نہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں 49 فیصد ٹیکس ہی وصول کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 35 فیصد رکھی گئی ہے جبکہ لوگ صرف عموماًپانچ، چھ فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر قابل ذکر سوال یہ ہے کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ تجارتی خسارہ اور سوُد کی ادائیگی پر تقریباً پچاس کھرب روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے، تارکین وطن سے آنے والی رقومات کے علاوہ عوام سے وصول کردہ ٹیکسزِ سے یہ رقم پوری کی جائے گی، اب عوام کو ٹیکس دینے سے کیا حاصل ہوگا، وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ کہ ٹیکسِز کی رقم عوام پر خرچ کی جائے گی کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ موجودہ حکومت یہ بھی بتادے کہ حاصل ہونے والا ٹیکس قرضوں کی ادائیگی یا تجارتی خسار ے میں استعمال نہیں کیا جائے گا تو عوام بڑھ چڑھ کر ٹیکس نیٹ ورک میں خود آجائے گی۔

اس وقت عوام کی اپنی خواہش ہے کہ حکومت جائز ٹیکس لیکر ہمیں تعلیم، علاج معالجہ، ضروریات زندگی اور سہولیات زندگی فراہم کرے ۔ اگر ان کا پیسہ سابقہ حکومتوں کے غلط اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر ہی خرچ کرنا ہے تو عوام کو خون پیسنے کی کمائی ٹیکس کی شکل میں ادا کرنے سے کیا حاصل وصول ہوگا۔ باہرکے ممالک میں لوگ ٹیکس خوشی سے دیتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر بہتر اور منظم طریقے سے خرچ ہوگا وہاں ٹیکس کی رقم سے ترقیاتی کام کروائے جاتے ہیں، عوام کا معیار زندگی بلند کیا جاتا ہے۔

بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، باہر کے ممالک میں حکومت افراد کی مکمل ذمہ داری لیتی ہے اُن ممالک میں امیر لوگ غریب افراد کو پالتے ہیں یہاں غریب لوگ امیروں کو پال رہے ہیں، امیروں کے باہر علاج کیلئے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ان کی سیاحت کیلئے ٹیکس دیتے ہیں ، غریبوں کا ٹیکس امیروں کی لگژری زندگی کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکس اصلاحات کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ آپ کا پیسہ آپ پر اور بلکہ مستحق افراد پر بھی خرچ ہوگا ۔ بڑ ھ چڑھ کر خیرات دینے والی یہ قوم ٹیکس بھی بڑھ چڑھ کر دے گی۔

 ٹیکس کلیکٹر ہی نا تجربے کار ہیں

ٹیکس اُمور کے ماہر پروفیسر یحییٰ رشید کا کہنا ہے کہ کسی بھی ریاست کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلئے ٹیکس نظام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں میںاس کام کے ایکسپرٹ لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سی ایس ایس کرنے والے افرا کو 17 ویں گریڈ میں لگایا جاتا ہے یہ افسران ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ نچلے گریڈوں میں سفارشی افرادکو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ٹیکس نظام کی کامیابی کیلئے شرط ہے کہ متعلقہ فیلڈ کے ٹیکنوکریٹس کو ان اداروں میں بھرتی کیا جائے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کو اس نظام میں شامل کرنے کیلئے آگاہی اور راہنمائی دی جائے۔ لوگوں کو فضول قسم کے معاملات میں نہ اُلجھایا جائے اور نہ خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔ بالکل سید ھا سادہ طریقہ وضع کردیا جائے کہ آپ اس طریقے سے خود ہی ٹیکس جمع کروا دیں ۔

 بجٹ 2019-2020 کے متعلق رائے

منیجنگ ڈائریکٹر فیئر انٹر پرائزر رانا محمد یار خان نے کہا ہے کہ بجٹ 2019-2020 میں بہت اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کا نفاذ 1 جولائی2019 سے ہوگیا ہے۔ اس بجٹ کی سمجھ بوجھ کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کے لئے پروگرام تشکیل دینے بہت ضروری ہے، جن میں تعلیم یافتہ، تنخواہ دار، کاروباری، کم تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ مرد و عورتیں ہیں جو چھوٹے یا بڑے کاروبار سے آمدن حاصل کر رہے ہیں، اگرچہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا عکس ہے لیکن اس کا نفاذ پاکستان کی عوام پر اگر نرمی کے ساتھ نہ کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔میری نظر میں یہ بجٹ ملک کی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے اور پچھلی کرپٹ حکومتوں کے مظالم میں پسی ہوئی قوم کو آسانی دینے کے لئے نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ یُوں لگتا ہے جیسے کسی تجارتی ادارے کو نقصان سے نکال کر منافع کی طرف لے کر آنا ہو ۔

اس بجٹ کے تمام معاشی پہلو ؤںمیں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جن میں سرکاری اداروں کی فروخت سے ریونیو حاصل کرنا شامل ہے جو کہ پچھلے بجٹ میں صفر تھا ۔

میں اس بجٹ کے چند پہلوؤں پر اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔

(1        مینو فیکچر، ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کے بِل پر نام اور شناختی کا رڈ کا نمبر درج کرنا جس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کو ختم کیا جائے یا اس کا طریقہ کار محفوظ بنایا جائے۔

(2        لائسنس کے حصول کی فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، چھوٹے درجے کے سرمایہ کار جو نیا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی کرے گا ، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

(3        پارٹنر شپ کمپنی میں کسی ایک پارٹنر کی اس کمپنی یا کسی بھی اور بزنس میں ڈیفالٹر ہونے کی صورت میں دوسرے کسی بھی پارٹنر سے وصولی بالکل ناجائز ہے۔ اس سے کاروبار پر بہت بُرے اثرات ہونگے۔

(4        ایکسپوٹر ز کیلئے SRO115 کو بالکل ختم نہیں کرنا چاہیے جس سے عام ایکسپوٹرز خاص طور پر چھوٹے کاروبار ی حضرات کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔

(5        امپورٹس کے حجم کو کنٹرول کرنے کے لئے اس بجٹ کی شِق کو کموڈیٹیزکے لحاظ سے نا فذ ہونا چاہیے۔

(6        فریش گریجویٹ کو نوکریاں دینے پر 5 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دینے کیلئے یہ احتیاط کرنے ضرورت ہے کہ واقعی یہ نوکریاں دی گئی ہیں یا محض کاغذوں میں ہی اندراج ہے ۔

ہمارے ملک پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا اور ایک خود مختار ریاست بنانا بہت ضروری ہے لیکن اس کیلئے، ایسی پالیسیز نہیں ہونی چاہیے جس سے عوام متنفر ہو ۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ساتھ عوام کی سہولیات کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اچھی خوراک، تعلیم ، صحت اور رہائش بنیادی ضروریات زندگی ہیں جن پر ہر شہری کا حق ہے جس کو یقینی بنانا چاہیے۔

 آف شور کمپنیوں کا اصل فائدہ

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 600 سے زائد پاکستانیوں کی بیرونِ ممالک آف شور کمپنیاں ( سمندر پار کمپنی) ہیں ۔ بیرون ممالک میں قائم ان آف شور کمپنیوں سے منی لانڈرنگ سمیت اور بھی کئی قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ ایک ہی فرد یا ایک ہی پارٹی کی پاکستان میں بھی کمپنی ہو اور اس کی بیرونِ ملک بھی آف شور کمپنی ہو تو پاکستان میں موجود کمپنی دوسرے ملک میں موجود اپنی ہی آف شور کمپنی کو درآمدات کیلئے آڈر دیتی ہے اور مطلوبہ سامان کے عوض زرمبادلہ ( بین الاقوامی کرنسی) کی شکل میں رقم بجھوا دیتی ہے یہ زرمبادلہ پاکستانی شہری کے غیر ملکی اکاونٹ میں چلا جاتا ہے، وہاں سے وہ کنٹینر پر ردی کاغذ یا ایسی ہی اشیاء بجھوا دیتے ہیں۔

جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ زرمبادلہ مہنگی مشینری یا مہنگی مصنوعات کیلئے بجھوایا جاتا ہے، زرمبادلہ ان کے غیر ملکی اکاونٹ میں جمع ہوتا ہے اور امپورٹ کردہ سامان میں مہنگی مصنوعات کی بجائے خالی کنٹینر یا کباڑخانہ آتا ہے۔ ملکی کمپنی یہ سامان وصول کر کے ’’ اوکے‘‘ کردیتی ہے کہ ان کا مطلوبہ سامان آگیا ہے، اس طریقے سے پاکستان سے ہر سال اربوں ڈالر باہر کے ممالک میں بجھوائے جاتے رہے ہیں۔ ’’سمندر پار کمپنی ‘‘ سے اور بھی اس قسم کے کئی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ جن پاکستانیوں کی بیرون ممالک ’’آف شور کمپنیاں ‘‘ ہیں، ان تمام افراد کو شامل تفشیش کیا جائے اور اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ ان آف شور کمپنیوں سے کیا کیا فوائد حاصل کئے گئے ہیں۔ آف شور کمپنی کا معاملہ اتنا آسان اور سیدھا نہیں ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے۔

 بے نامی جائیدادیں اور اکاونٹس

بے نامی جائیدادوں اور اکاونٹس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ افراد کسی بھی وجہ سے اپنے نام پر یہ جائیدادیں خریدنے کی بجائے اپنے ایسے ملازموں، عزیزوں یا دوستوں کے نام خریدتے ہیں کہ جن کی سکت ہی نہیں ہوتی، یعنی ان کی آمدن یا کاروبار ہی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ 2 مرلے کا پلاٹ بھی خرید سکیں۔ اسی طرح بعض بنکوں میں بھاری رقوم بھی ایسے ہی افراد کے نام پر جمع کروا دی جاتی ہیں کہ جن کے کوئی بھی ذرائع آمدنی ہی نہیں ہوتے، ایسے شخص کو کہ یہ جائیدادیںخریدنے یا بنکوں میں اتنی بھاری رقوم جمع کروانے کا کوئی بھی ذریعہ آمدن نہ رکھتا ہو، اور صاف ظاہر ہو کہ کسی دوسرے فرد نے اس کا نام استعمال کیا ہے، ایسی جائیدادوں اور اکاونٹس کو ’’ بے نامی ‘‘ کہا جاتا ہے، عموماً اس فرد کو بھی علِم ہوتا ہے کہ اس کے نام پر یہ جائیداد خریدی گئی یا اس کے اکاونٹ میں بھاری رقم جمع کروائی گئی ہے مگر خاموشی کے سوا اس کے پاس کچھ اور چارہ نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تمام متعلقہ اداروں کے پاس ’’ بے نامی ‘‘ جائیدادیں اور اکاونٹس کے مکمل کوائف اور معلومات موجود ہیں، اِن جائیدادوں اور اکاونٹس کو فی الفور ضبط کرنا اشد ضروری ہے۔

 دستاویزی شکل نہ ہونے کی وجہ سے معاشی عدم توازن پیدا ہوا

مختلف اداروں اور کرپٹ عناصر کی مل بھگت کی وجہ سے ملکی سرمایہ چند ہاتھوں میں منتقل ہوتا گیا، اور انتہا سے زیادہ معاشی عدم توازن پیدا ہوا، بعض اہل بصیرت نے اس خطرے کو کافی عرصہ پہلے بھانپ لیا تھا اور انھوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کاسدباب کیا جائے کہ ریاست چند ہاتھوں میں مفلوج ہوتی جا رہی ہے، چند افراد کے ہاتھ میں معیشت چلی جائے تو وہ ہر شعبے پر قابض ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ عوام کی سوچ پر بھی قابض ہو جاتے ہیں ۔ جن ہاتھوں میں دولت کا بڑا حصہ منتقل ہوا انھوں نے اس دولت سے دوسرے ریاستی و قومی وسائل بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے ۔ اس وقت پاکستانی سرکاری معیشت کا پھیلاؤ 44 ٹریلین ہے جبکہ بلیک منی کے پھیلاؤ کا اندازہ 20 ٹریلین سے 50 ٹریلین کے درمیان لگایا گیا ہے۔ اگر بلیک منی کا حجم بھی 40 یا 45 ٹریلین ہو تو قومی، معاشی اور سماجی ناہمواری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اگر ملکی معیشت دستاویزات میں آجائے تو ٹیکسوں کا سارا بوجھ اس طبقے پر ڈالا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے چند سالوں میںملک کی ساری دولت کو ’’ چوسُ‘‘ لیا ہے۔

The post نیا ٹیکس نظام کیسے کامیاب ہو گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بلاک چین‘‘ اور چوتھا صنعتی انقلاب

$
0
0

اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس وقت دنیا کے پہلے صنعتی انقلاب کی دستک سنائی دی جب کپڑے کے کارخانوں میں ہاتھ سے کپڑا بننے والے مزدورں کی جگہ بھاپ سے چلنے والی مشینیں متعارف کروائی گئیں۔ چھوٹے چھوٹے کارخانوں کی جگہ فیکڑی کا لفظ وجود میں آیا۔

کپڑے کے کارخانوں میں اس مشینی نظام سے برطانیہ میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی تبدیلیاں واقع ہوئیں، اور ان تبدیلیوں کو پہلے صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا۔ مشین سازی میں ہونے والی ترقی سے کپڑے، لوہے  اور کوئلے کی صنعت نے بھی ترقی کی نئی منازل طے  کیں۔  برطانیہ سے اٹھنے والے اس پہلے صنعتی انقلاب نے جلد ہی یورپ اور امریکا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

مورخین نے صنعتی انقلاب کو دو حصوں میں  تقسیم کیا اٹھارہویں صدی کے وسط سے 1830 تک کے دور کو پہلے صنعتی انقلاب کا نام دیا گیاجوصرف برطانیہ تک محدود تک تھا۔  دوسرے صنعتی انقلاب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ہینری فورڈ نے  بڑے پیمانے پر پیداوار حاصل کرنے کے لیے متحرک اسمبلی  لائن کو متعارف کرویا۔

دوسرا صنعتی انقلاب  انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی  کے آغاز تک محیط ہے جس میں  برطانیہ کے ساتھ ساتھ یورپ، جنوبی امریکا اور جاپان نے  اہم کردار ادا کیا۔ بعدا زاں اس دوسرے صنعتی انقلاب نے دنیا کے دیگر خطوں کو بھی اپنے اندر سمو لیا۔   پہلا صنعتی انقلاب بھاپ سے چلنے والی فیکٹریوں  تک محدود تھا تو دوسرے صنعتی انقلاب میں  سائنس کو استعمال کرتے ہوئے مینو فیکچرنگ اور پیداوار میں  بڑے پیمانے پر اضافہ کیا گیا۔  ان دو صنعتی انقلابوں نے عوام کو زیادہ شہری اور دولت مند بنایا۔ تیسرے  صنعتی انقلاب کا آغاز ڈیجیٹلائزیشن سے ہوتا ہے، دھاتی مشینوں کی  کارکردگی اور صلاحیتوں کو ڈیجیٹل آلات کی مدد سے مزید درست اور بہتر بنایا گی، اب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب گام زن ہے ۔

جس میں  مصنوعی ذہانت ،  جینز میں تبدیلیوں،آگمینٹڈ ریئلٹی، ورچوئل ریئلٹی، روبوٹکس، تھری ڈی پرنٹنگ اور اس نوعیت کی دیگر جدید ٹیکنالوجیز دکھائی دیتی ہیں۔  لیکن چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے درکار ٹیکنالوجیز  میں سے ایک ٹیکنالوجی کو دنیا بھر خصوصا ترقی پذیر ممالک میں  بری طرح  نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔  اس ٹیکنالوجی کے بارے میں جاننے کے  لیے ہمیں سب سے پہلے کرنسی کے نظام کو جاننا ہوگا کیوں کہ دنیا کو اس ٹیکنالوجی کا علم ایک ڈیجیٹل کرنسی کے ارتقا کے بعد ہی ہوا۔

زمانہ قدیم سے ہی اناج، نمک، زعفران اور دیگر مسالوں کو لین دین کے لیے ایک طرح سے بطور کرنسی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔

مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنی کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اور اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن دس سال قبل تین جنوری 2009کو ایک ایسی غیر مرئی کرنسی منظر عام پر آتی جو چند سال تک گم نام رہی لیکن گذشتہ پانچ سال میں اس کرنسی نے دنیا بھر کے مالیاتی نظام میں ایک ہلچل پیداکی، کسی حکومتی پالیسی کے بنا چلنے والی یہ غیرمرئی کرنسی اپنی قدر کی انتہا پر پہنچ گئی۔

قدر کے لحاظ سے اس کرنسی نے سونے ، ہیرے اور دنیا کی مہنگی ترین کرنسیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کے ایک سکے کی مالیت چند سال قبل 21 ہزار ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اور آج بھی ایک بٹ کوائن کی قدر ’ساڑھے دس ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ چند سالوں میں ہی اس کرنسی کی قدر میں ہونے والے ریکارڈ اضافے نے د نیا بھر کے ماہرین معیشت کو سر جوڑ کر بیٹھے پر مجبور کردیا۔

آج کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کے نام سے تو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے بیش تر لوگ واقف ہیں، لیکن دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو چیلینج کرنے والی اس کرنسی کے پیچھے کارفرما اس پیچیدہ نظام ’بلاک چین ‘ سے زیادہ تر لوگ واقف نہیں، جس کے مرہون منت ہی بٹ کوائن اور دیگر کرپٹوکرنسی کو تحفظ، استحکام اور وسعت میں اضافہ بلاک چین کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔  عام لوگ تو درکنار ، کرپٹو کرنسی کے لین دین سے وابستہ افراد کی اکثریت بھی اس لامحدود ٹیکنالوجی ’بلاک چین‘ کو کرپٹو کرنسی کا ایک حصہ سمجھتی ہے، جب کہ کرپٹو کرنسی بلاک چین سسٹم کی محض ایک ایپلی کیشن ہے۔ بلاک چین سسٹم کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر اس ٹیکنالوجی کو اسسٹ مینجمنٹ، انشورنس، کراس بارڈر ادائیگیوں، اسمارٹ فونز، انٹر نیٹ آف تھنگ (آئی او ٹی)، اسمارٹ اپلائنسز، سپلائی چین سینسرز، ہیلتھ کیئر، میوزک، حکومتی اداروں، کمیونٹی بیسڈ ایکٹویٹیز، پیدائش، شادی، ڈیتھ سرٹی فکیٹ، پاسپورٹ جیسی شناختی دستاویزات کے غلط استعمال کو روکنے اور انہیں محفوظ تر بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

طاقت ور کمپیوٹرز، ریاضیاتی کلیوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے وجود میں آنے والی اس ٹیکنالوجی کو دنیا میں متعارف کروانے کا سہرا ساتوشی ناکاموتو کے سر جاتا ہے ۔ 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنیcypherpunks (ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography  (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقہ کار پر مشتمل ہو۔ تاہم کرپٹو کرنسی میں بلاک چین کا سب سے پہلا استعمال ساتوشی ناکاموٹو نے کیا۔ اگست 2008 میں ایک ڈومین (ویب سائٹ کا نام) “bitcoin.org”کے نام سے رجسٹرڈ کیا گیا۔ اسی سال 31 اکتوبر کو ساتوشی نے کرپٹوگرافی کی میلنگ لسٹ میں ایک وائٹ پیپر ’بٹ کوائن: اے پیر ٹو پیر الیکٹرانک کیش سسٹم‘ کے نام سے جاری کیا۔

جنوری 2009 میں ناکاموتو نے بٹ کوائن سافٹ ویئر کو ایک ’اوپن سورس کوڈ‘ کے طور پر لاگو کردیا۔ تین جنوری 2009کو پہلے ’ بلاک چین‘ کی مائئنگ کرتے ہوئے بٹ کوائن نیٹ ورک تخلیق کیا۔ 2010 کے اواخر میں ساتوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا۔ اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی۔ بلاک چین ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔ ساتوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز، ساتوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ساتوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔

ناکاموتو کے بلاک چین سسٹم کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس ای میل کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، جب کہ ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن وہ اس کے پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندہ کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاک چین سے بننے والی ایپلی کیشن اسی صورت میں صحیح کام کرتی ہے جب تمام استعمال کنندہ کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں ’بلاک چین ایڈوائزری بورڈ، IIBکونسل‘ سنگاپور کے بورڈ ممبر اور ’بلاک چین فورم آف پاکستان‘ کے شریک بانی اور ڈیویژن ڈائریکٹر محمداحسن خان سے کی گئی گفت گو کا احوال اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

 ٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کا کام کرنے کا طریقۂ کار

درحقیقت ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب پیش رفت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ویسے تو اس ٹیکنالوجی کا ارتقا بٹ کوائن کے ساتھ ہوا ہے، لیکن اس پیچیدہ نظام کو سمجھنے کے لیے آپ اسے دو حصوں ’بلاک‘ اور ’چین‘ میں تقسیم کردیں۔ جب ہم بڑھتے ہوئے ریکارڈ کو ’کرپٹو گرافی‘ کے ساتھ جوڑتے ہیںتو اس کو بلاک کا نام دیا جاتاہے، ہر بلاک میں ’کرپٹو گرافک ہیش‘ ہوتے ہیں۔ پھر پچھلے بلاک (جس میں ٹرانزیکشن ریکارڈ محفوظ کیا گیا ہے) کو ٹائم اسٹیمپ (مکمل تاریخ اور وقت کے ساتھ ٹرانزیکشن کی تاریخ) کے ساتھ ایک خصوصی ترتیب دیتے ہیں جسے ’لنکڈ لسٹ‘ کہا جاتا ہے کے ساتھ رکھا جائے تو اس کو ’چین‘ کہتے ہیں۔ بلاک چین ایک ایسا کھلا اور منقسم بہی کھاتا (لیجر) ہے جو کہ 2 پارٹیز کے درمیان ’پیر ٹو پیر‘ نیٹ ورک کے ساتھ بہت ہی مؤثر انداز میں کام کرتا ہے۔ جب بلاک چین کے لیجر میں ایک بلاک لکھ دیا جاتا ہے تو پھر اس میں کسی قسم کی ترمیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ تیکنیکی زبان میں ہم اس کو immutability (تغیر ناپذیری) کہتے ہیں۔

بلاک چین میں تمام بلاک ایک چین (زنجیر) کی طرح جُڑے ہوتے ہیں، ایک بلاک میں ترمیم کرنے کے لیے اس سے جُڑے بے شمار بلاک میں ترمیم کرنا پڑے گی اور اس کام کو سر انجام دینے کے لییہربلاک کوالٹر کرنا پڑے گے، جس کے لیے آپ کو بہت زیادہ طاقت ور کمپیوٹرز چاہیے ہوں گے، کیوں کہ کرپٹو گرافی (رمز نویسی) کے لیے بہت زیادہ hashes بنا نا پڑتے ہیں اور یہ عام کمپیوٹر کے بس کی بات نہیں اور یہی چیز بلاک چین ٹیکنالوجی کو تحفظ فراہم کرتی ہے اسی وجہ سے ہم اس ٹیکنالوجی کو امیوٹیبل (غیرمتغیر) کہتے ہیں، جس میں ترمیم کرنا نہایت مشکل اور اسے ہیک کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ سب ڈسٹری بیوٹنگ کمپیوٹنگ سسٹمز کی بیس پر کیا جاتا ہے۔ ڈی سینٹرالائزڈ کنسینسز الگورتھم بلاک چین کو محفوظ بناتے ہیں۔

اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ کی ایک بلاک چین چل رہی ہے جیسے کہ بِٹ کوائن، جس کے نیٹ ورک کو ریسورسز اور ’کمپیوٹیشنل‘ پاور پوری دنیا کے ایپلی کیشن اپیسیفک انٹیگریٹڈ سرکٹ (ASICs) جیسے بہت طاقت ور کمپیوٹر سے چلایا جاتا ہے، اب اس نظام کو ہیک کرنے کے لیے اس نیٹ ورک کے تمام ریسورسز کو ایک جگہ جمع کرکے51 فی صد طاقت کے ساتھ اس نظام پر حملہ کرنا ہوگا، تب ہی آپ بٹ کوائن کے بلاک چین کو ٹیمپرنگ کے لیے ہیک کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بٹ کوائن بلاک چین کو کمپیوٹیشنل ریسورسز فراہم کرنے والے ریسورسز ہی اس کی ٹرانزیکشن کرنے میں مدد کرتے ہیں اور پروف آف ورک (POW)  جو بٹ کوائن کا خصوصی consensus الگورتھم ہے اس کو نیٹ ورک پر قابل عمل (ایگزیکیوٹ) کرتے ہیں ان کو مائنرز کہا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی بلاک چین ایک اوپن اور پبلک بلاک چین ہے جس کو دنیا میں کوئی بھی کہیں سے بھی جوائن کرسکتا ہے، اسی وجہ سے ہم اس کو اوپن بلاک چین ، پبلک بلاک چین پرمیشنڈ لیس بلاک چین بھی کہتے ہیں۔ ب

لاک چین ٹیکنالوجی مختلف افراد (پارٹیز) لوگوں کے درمیان ہونے والی لین دین کا مکمل ریکارڈ یا حساب کتاب محفوظ طریقے سے مستقل کرپٹو گرافک بلاکوں میں محفوظ کرتا رہتاہے، پھریہ بلاک بتدریج ایک دوسرے سے جُڑ کر ایک چین کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور ان کی سب سے بڑی خوب صورتی اس کا ڈی سینٹرالائزڈ (اقتدارِ مرکزیت نہ ہونا) ہے۔ اور اسی خوبی کی بنا پر ہم جب چاہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں محفوظ طریقے سے پیسوں کی لین دین یا معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور اسی خوبی کی وجہ سے دنیا بھر کے مالیاتی ادارے اس ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ بلاک چین Peer to Peer نیٹ ورک کے ذریعے مین ٹین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم دفتر میں کمپنی کے سافٹ ویئر سے انٹرایکٹ ہوتے ہیں، یاجب فیس بک یا ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے سے براہ راست ابلاغ تو کرتے ہیں لیکن یہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ابلاغ ڈائریکٹ ہے، حقیقتاً ہم ایک مرکزی سرور کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔P2P نیٹ ورک اس کے متضاد کام کرتا ہے، P2P نیٹ ورک کے ذریعے 2 مختلف پارٹیز کسی مرکزی سرور سے منسلک ہوئے بنا آپس میں براہ راست اور دو طرفہ ابلاغ کر سکتی ہیں۔ ٹورینٹ P2P نیٹ ورک کی ایک بہترین مثال ہے۔

٭ کرپٹوگرافی کیا ہے؟

اس بارے میں محمد احسن خان کا کہنا ہے کہ ’بلاک چین کا ایک حصہ کرپٹو گرافی ہے۔ یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جس کا استعمال انٹرنیٹ ایپلی کیشن میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے، کرپٹو گرافی ایک ایسا طریقہ کار ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنی انفارمیشن ( ڈیٹا) کو کچھ کوڈز سے تبدیل کرکے اس پیغام کو آگے بھیج دیتے ہیں۔ کرپٹو گرافی کے ذریعے بھیجے گئے پیغام کو صرف وہی پڑھ سکتا ہے جس کے پاس اس پیغام کو پڑھنے کے لیے KEY موجود ہو، آسان الفاظ میں اسے پاس ورڈ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس طریقے سے انٹرنیٹ پر دوسرے کے ساتھ ہونے والا ابلاغ (کمیونیکیشن) محفوظ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا ہے۔ اور اگر کوئی اس پیغام کو ہیک کر بھی لے تو اسے صرف کوڈز ہی دکھائی دیں گے۔ کرپٹو گرافی کے بے شمار الگورتھم (حساب و شُمار کا عمل یا اِس کے قواعد خصوصاً کمپیوٹر کے ذریعے مسائل کا حل) ہیں، پیغام کو کوڈ سے تبدیل کرنے کے عمل کو’ انکرپشن‘ کہتے ہیں۔ اور میسج کے ساتھ KEY کا استعمال کرکے اوریجنل میسج کو واپس حاصل کرنے کے عمل کو’ڈیکرپشن‘کہتے ہیں۔

پیغامات کو محفوظ بنانے کے لیے کرپٹوگرافی صدیوں سے استعمال ہونے والا طریقۂ کار ہے، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور سے پہلے سے بھی اس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال سن121  میں سامنے آنے والاCaesar Cipher  کے نام سے مشہور الگوریتھم ہے جس میں پیغامات کے حروف تہجی کی ترتیب کو بدل کر استعمال کیا جاتا تھا۔ فرض کریں آپ کسی کو ایک پیغام ’بلاک چین‘ لکھ کر بھیجنا چاہ رہے ہیں تو اس میں انگریزی زبان کے 26حروف تہجی میں سے کسی بھی حرف کے نمبر کو KEY کی طرح استعمال کریں گے اور ریاضیاتی کلیے کے تحتKEY کے ذریعے سارے حروف کو تبدیل کر کے پیغام بھیج دیں گے۔ اگر پیغام وصول کرنے والے کو پہلے سےKEY کا پتا ہو تو وہ اس الگوریتھم کی مدد سے اوریجنل پیغام پڑھ سکے گا۔ یہ ایک بہت ہی قدیم، آسان اور سادا سا الگوریتھم ہے جو کرپٹوگرافی کی کتابوں میں آج تک موجود ہے۔‘

٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات

اس بابت احسن خان نے بتایاکہ ’زیادہ تر لوگ بلاک چین سسٹم کو کرپٹو کرنسی (بٹ کوائن، لیتھریم، لٹ کوائن وغیرہ) کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،  کرپٹو کرنسی صرف بلاک چین کی ایک ایپلی کیشن ہے اور اس کی ایجاد میں بلاک چین کا بہت اہم کردار ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ستوشی ناکاموتو نے 2008ء میں شایع ہونے والے اپنے وائٹ پیپر میں بلاک چین کو متعارف کروایا اور اس کے بعد 2009ء اس کی مدد سے بٹ کوائن تخلیق کیے۔ آج کے دور میںہم جس بلاک چین کو ہم جانتے ہیں وہ صرف کرپٹوکرنسی کی تخلیق تک محدود نہیں ہے۔

اب اسے زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں کام یابی سے استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے بینکس، مالیاتی ادارے بلاک چین کو فول پروف شفاف طریقے سےKYC (Know Your Customer) کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔  چوتھے صنعتی انقلاب کو ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی جدیدیت اور اہم پیش رفت سے مشروط کیا جاتا ہے اور بلاک چین  کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے درکار ڈیجیٹل، بایو لوجیکل اور فزیکل ایجادات میں اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اس انقلابی ٹیکنالوجی کو آپ سماج ، سیاست، ثقافت اور معیشت کے میدان میں بھرپور طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کو ہیوی میکینکل انڈسٹری میں بروئے کار صنعتی استبدادِ کار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسے آٹو میشن اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ مربوط کرکے ایسی صنعتوں میں بھی بخوبی استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں انسانوں کے صحت کے خطرناک مسائل میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔  ناقص غذا ترقی پذیر ممالک کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے آپ بلاک چین کی بدولت ’ ٹریک اینڈ ٹریس‘ سسٹم بنا کر کھانے کے تازہ یا باسی ہونے کا پتا کرسکتے ہیں، یہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کھانوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال سے تیار کھانے تک کے معیار کو چیک کرسکتا ہے۔ اگر ہمارے بینک کاری نظام میں اس کو مکمل طور پر لاگو کردیا جائے تو بے نامی اکاؤنٹس کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انتخابی دھاندلی کی روک تھام کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی ایک مؤثر ٹول کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے۔ آن لائن ووٹنگ کو اس نظام سے مربوط کرکے کسی بھی قسم کی دھاندلی سے بچا جا سکتا ہے۔

اس کی واضح مثال امریکی ریاست ورجینیا میں 2016-17 میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ اسی طریقے سے آپ ڈیجیٹل آئی ڈینٹٹی کے لیے بھی اس کو استعمال کرسکتے ہیں جیسے کہ ایسٹونیا کر رہا ہے۔ پبلک سروس میں بلاک چین کی بہت عمدہ مثالیں موجود ہیں، میں خود  یورپین یونین کے H2020 پراجیکٹ کے ماتحت ایک  ایک انٹرنیشنل فورم ’ یوروپی یونین بلاک چین آبزرویٹری اینڈ فورم‘ کے ساتھ  منسلک ہوں۔آپ دبئی کی مثال لے لیں، 2020 میں دبئی دنیا کی پہلی گورنمنٹ ہوگی جس کے 100 فی صد آپریشنز بلاک چین پر انحصار کریں گے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، کلینکس میں مریضوں کی تفصیلات، جائیداد کی خریدوفروخت، قانونی اور عدالتی نظام، اسٹاک ایکسچینج میں مصنوعی اتار چڑھاؤ اور جعلی شناختی دستاویزات کی روک تھام میں بھی بلاک چین ٹیکنالوجی کا  استعمال کام یابی سے کیا جاسکتا ہے۔

حصص بازار میں ہونے والی مصنوعی اتارچڑھاؤ کی روک تھام کے لیے بلاک چین کے ساتھ مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کو مربوط کرتے ہوئے خصوصی الگورتھم پر مبنی سافٹ ویئر تیار کیے جاسکتے ہیں جو کہ اسٹاک مارکیٹ میں تجارتی سرگرمیوں، تجارتی سرگرمیوں اور ٹریڈرز کے طرزعمل کی جانچ کرتے ہوئے ’خلاف معمول سرگرمیوں‘ کی جانچ کریں۔ اگر ہم صرف ان دو ٹیکنالوجیز کو ملا کر ہی ایک سسٹم تیار کرلیں تو اسٹاک مارکیٹ کی مصنوعی اتار چڑھاؤ کے علاوہ سرکاری اور نجی اداروں میں ہونے والے مختلف مسائل کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ اسلامی بینک کاری نظام میں اس کا استعمال گزشتہ تین سال سے کیا جا رہا ہے۔  آئی سی آئی سی اور امارات کا این بی ڈی بینک2016 ء سے  ٹرانزیکشن کاسٹ میں کمی کے لیے بلاک چین پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کر رہے ہیں۔

امارات اسلامک بینک دنیا کا پہلا اسلامی بینک ہے جو 2017 ء سے   مالیاتی دھوکے بازی کی شناخت اور اس سے تحفظ کے لیے  بلاک چین ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا اسلامک ڈویلپمنٹ بینک  بھی 2017 ء  سے کرپٹو (Crypto) فرمز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اپریل 2018 ء میں انڈونیشیا کی ایک مالیاتی فرم Blossom Finance نے  ایک تحقیق کی، اور اس تحقیق کا جائزہ لینے کے بعد وہاں کے اسلامک اسکالرز نے کرپٹو کرنسی کو  شرعی قانون کے تحت جائز قرار دیا۔  متحدہ عرب امارات کا ’ال ہلال بینک‘ دنیا کا واحد اسلامی بینک ہے جس نے  ابو ظہبی  کی گلوبل مارکیٹ فنانس  سینٹر کے حوالے سے ٹرانزیکشن  بلاک چین پر کرنا شروع کی۔ اسلامی ممالک میں  بلاک چین ٹیکنالوجی کو شفافیت کی بنا پر ’ اسلامی سرمایہ کاری تک آسان رسائی‘ کے حوالے سے شہرت حاصل ہورہی ہے۔

امریکاکی آڈٹ اور کنسلٹینسی فرم Deloittle کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں  شریعہ کمپلائنس کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، جوکہ گلوبل سرمایہ کاری کے  2 فیصد کے برابر ہے ، جس میں سالانہ 18فی صد کے حساب سے بڑھوتری ہورہی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق  دنیا بھر میں 600ملین ڈالر کے اسلامک فنڈز مینج ہورہے ہیں اور ’ اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس‘ کے نظام کے اثاثہ جات کا تخمینہ تین کھرب چالیس ارب ڈالر ہے۔ Deloitte کی رپورٹ  سے آپ  اسلامی بینک کاری نظام میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بلاک چین ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے استعمال سے پراڈکٹ اور سروسز بنائی جاسکتی ہیں، اسے مختلف طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ سپلائی چین، پبلک سروس، فائن ٹیک، ہیلتھ ٹیک اور بے شمار صنعتی مقاصد کے لیے۔ بلاک چین کی ایپلی کیشنز اور ٹیکنالوجی و کلاؤڈ پر سپورٹ کرنے کے لیے امیزون، آئی بی ایم، مائکروسافٹ جسی بڑی کمپنیاں اپنی اپنی سروسز اور پراڈکٹس لانچ کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی بھی ڈیویلپر یا کمپنی اپنی ایپلی کیشن یاخدمات کو  ان کے پلیٹ فارم کے ذریعے لانچ اور آپریٹ کر سکتا ہے۔

٭ بلاک چین ٹیکنالوجی کی افادیت اور کرپٹوکرنسی کی قانون سازی میں مشکلات!

کرپٹو کرنسی کوئی ملک نہیں جسے آپ ایک ایٹم بم مار کر ختم کردیں، یا اس کو روکنے کے لیے آپ کوئی سیاسی یا معاشی بحران پیدا کریں، جیسے کے ایک طاقت ور ملک دوسرے ملک کے ساتھ کرتا ہے، یہ کسی مرکزی بینک، مالیاتی ادارے یا کسی ٹیکنالوجی کمپنی کی ایجاد نہیں، نہ ہی انہوں نے اس کو ایجاد کیا اور نہ ہی وہ اس کو چلاتے ہیں۔ اس بات کو آپ اس طرح سمجھیں کہ ڈالر امریکی حکومت کی کرنسی ہے، پاؤنڈ برطانوی حکومت کی کرنسی ہے، لیکن بٹ کوائن یا دیگر کرپٹوکرنسی سرحدوں سے آزاد دنیا کے تمام لوگوں کی ایک یونیورسل کرنسی ہے۔ بٹ کوائن کو نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بند کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس کو چلانے والے نہ ہی کسی ملک یا سرکاری ادارے کے ہیں اور نہ ہی یہ کسی ٹیکنالوجی کی کمپنی پراڈکٹ ہے۔ اگر آپ بٹ کوائن کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 2009 میں اپنی لانچنگ کے وقت اس کی تعداد شاید 10نوڈز بھی نہیں تھی اور آج ان کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔

یہ اعدادوشمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ گذشتہ دس سال میں اسے غیرقانونی قرار دے کر روکا گیا، لیکن یہ پھر بھی تیزی سے پھیلی ہے اور اگر بٹ کوائن اور امریکی ڈالر کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو آج بٹ کوائن کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں کئی سو گنا زائد ہے۔ اگر کوئی ملک یا دنیا کا کوئی بھی قانون یہ بات کرتا ہے کہ دنیا کے انسانوں کو معاشی آزادی ملنی چاہیے یا اس کے معاشی اثاثے کسی بھی سیاسی، سماجی اور معاشی کی بحران کی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہییں تو پھر اس کے لیے آپ کو کرپٹوکرنسی کی جانب ہی آنا ہوگا۔

کرپٹو کرنسی جیسی ٹیکنالوجیز معاشرے میں اس وقت آتی ہیں جب پہلے سے موجود سسٹم میں کوئی خامی موجود ہو اور ایجاد کرنے والے اس کا ایک حل تجویز کریں۔ تین جنوری 2009ء سے پہلے دنیا میں نہ ہی کوئی ساتوشی ناکا موتو کے نام سے واقف تھا اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں تھا کہ بٹ کوائن کے نام سے بننے والی کرنسی دنیا کے مالیاتی نظام میں داخل ہوگی۔ آپ کو اس کو غیرقانونی قرار دینے میں محنت کرنے کے بجائے اسے قانونی شکل میں ڈھالنے پر محنت کریں، تاکہ عوام اور ملک دونوں کو فائدہ پہنچے۔  بلاک چین ٹیکنالوجی تین پلرز، ڈی سینٹرالائزڈ (اقتدارِ مرکزیت نہ ہونا)، ٹرانسپیرینسی (شفافیت) اور امیوٹیبلیٹی (تغیرناپذیری) پر قائم ہے، کسی بھی بینک کاری یا مالیاتی ادارے کے نظام میں ان تینوں پلرزکو نہایت اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بلاک چین کی ایک ایپلی کیشن ’کرپٹو کرنسی‘ کو اب تک قانونی شکل نہ دینے کی بہت سی وجوہات ہیں۔

دنیا میں لیکن اس ٹیکنالوجی کو براہ راست مالیاتی لین دین اور معیشت سے مربوط کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ دنیا بھر میں معاشی اور زری پالیسی بنانے والے مختلف مالیاتی ادارے اور مرکزی بینکس نہ ہی کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں اور نہ ہی اس ٹیکنالوجی کی افادیت سے انکار کرتے ہیں۔ احسن خان کا کہنا ہے کہ ’ تیکنیکی لحاظ سے بٹ کوائن یا دیگر کرپٹو کرنسیاں بہت ہی مؤثر ہیں، لیکن میرے خیال میں اس کرنسی کو قانونی شکل دینے میں جو ریگولیٹری مسائل ہیں وہ آنے والے وقت میں بھی رہیں گے۔ گذشتہ سال ارجنٹینیا میں ہونے والےG20 اجلاس میں کرپٹوکرنسی موضوع بحث رہی۔ جی ٹوئنٹی ممالک نے ایک طرف بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے پر زور دینے کے ساتھ بلاک چین جیسی منفرد ٹیکنالوجی اور کرپٹو کرنسی کو محفوظ اور فول پروف بنانے پر بھی بحث کی ، اس اجلاس میں کرپٹو کرنسی پر ’چیک اینڈ بیلنس‘ رکھنے، اسے ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، ٹیرر فنانسنگ میں اس کے استعمال کے روک تھام پر بھی بات کی گئی۔

جب جی ٹوئنٹی کے طاقت ور اور ترقی یافتہ ممالک کرپٹونسی کو منظم اور قانونی شکل میں ڈھالنا چاہ رہے ہیں تو یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ جلد ہی ان ممالک کی فاریکس مارکیٹ میں بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کی خرید و فروخت اسی طرح ہوگی جس طرح ڈالر، پاؤنڈ، اور یورو جیسی روایتی کرنسی کی ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کرپٹو کرنسی کو منظم اور قانونی شکل دینے لیے ٹھوس پالیسی مرتب کرے، تاکہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے گرتی معیشت کو سہارا دیا جاسکے، اس کی سب سے بڑی مثال جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی ہے۔ وینز ویلا نے فروری 2018ء میں  Petro کے نام سے  قانونی اور حکومتی حیثیت رکھنے والی کرپٹو کرنسی  متعارف کروائی، اس کرنسی کے متعارف ہوتے ہی 24 گھنٹوں میں735 ملین ڈالر اکٹھے کر لیے گئے۔ اسی ماہ کی 4 تاریخ کو وینزویلا کے صدرNicolas Maduro  نے ایک حکم نامے کے تحت شہریوں کو مرکزی بینک Banco de Venezuela کو بھی  Petroکے لین دین کی اجازت دے دی۔

اسی سال سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے بھی  Libra کے نام سے اپنی کرپٹوکرنسی متعارف کروانے کااعلان کیا ہے۔ کرپٹو کرنسی بہت تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے،  بیش تر ممالک میں اس کو سرکاری اور قانونی حیثیت بھی دی جا رہی ہے۔ آپ امریکا کے سیکیوریٹی ایکسچینج کمیشن کو دیکھ لیں، قبرص کی قانون سازی دیکھ لیں، یا یورپی یونین کی رکن پارلیمنٹ ’ایوا کیلی‘ کی جانب سے پیش کیے جانے والے بلز کا مطالعہ کرلیں، یا پھر’ مالٹیٰز ڈیجیٹل انوویشن اتھارٹی‘ اور اس سے جُڑے ہوئے’ مالٹیز ڈیجیٹل اثاثوں‘ کے لیے کی گئی قانون سازی کا مشاہدہ کرلیں، یہ سب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کرپٹوکرنسی کی قانون سازی پچھلے دس سالوں میں اتنی تیزی سے نہیں کی گئی، جس تیزی سے اب کی جا رہی ہے ۔‘

٭بلاک چین ڈیویلپر اور ملازمت کے مواقع

اس بابت احسن خان نے بتایا کہ ’ٹیکنالوجی کی ایک ویب سائٹ TECH CRUNCH  کے اعدادوشمار کے مطابق مارکیٹ میں بلاک چین ڈیویلپر کی طلب دن بہ دن بڑھ رہی ہے، گذشتہ سال اس عہدے کے لیے پوسٹ کی گئی 14 ملازمتوں کے لیے صرف ایک بلاک چین ڈیویلپر موجود تھا۔ اس شعبے میںماہر افراد  کی طلب بہت زیادہ اور رسد بہت کم ہے۔  پاکستان دنیا بھر میں فری لانس کام کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو بلاک چین ڈیویلپمنٹ کی تربیت دے کر اس طلب کو پورا کرسکتے ہیں۔ فری لانس کام کرنے کی بدولت ریمٹنس کی مد میں خطیر زرمبادلہ پاکستان آئے گا۔ بلاک چین ڈیویلپر بننے کے لیےC++  اور جاوا لینگویج پر عبور، اسکرپٹنگ یا پروگرامنگ لینگویجز جیسے کہ Ethereumبلاک چین کی Solidity  وغیرہ کو بہت آسانی سے سیکھا جا سکتا ہے۔  آج کے دور میں بلاک چین ڈیویلپر بننا یا کسی بھی قسم کی ڈیویلپمنٹ کی تربیت حاصل کرنا بہت ہی آسان ہے۔

انٹرنیٹ پر تربیتی مواد  پر مشتمل ویڈیوز، ٹولزتحریری مواد بامعاوضہ اور مفت میں موجود ہے۔ بہت سارے لوگ بلاک چین ڈیویلپمنٹ سیکھ کر فری لانس کام کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈیڑھ سو کے قریب بلاک چین ڈیویلپرز ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اس کام سے  فری لانس وابستہ ہیں، کچھ اس کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، کچھ اپنی مہارتوں کو مزید نکھار رہے ہیں، ہم نے دس ہزار بلاک چین ڈیویلپرز کو تربیت دینے کا ایک پروگرام شروع کیا تھا لیکن وسائل کی عدم دست یابی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔

حال ہی میں صدر پاکستان کی جانب سے ایک پروگرام ’ پریذیڈینشل انیشی ایٹو فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس اینڈ کمپوٹنگ ( پی آئی اے آئی سی ) کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ PIAIC کی کورس آؤٹ لائن بہت ہی عمدہ بنائی گئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بلاک چین ڈیویلپر بننے کے خواہش مند افراد کو PIAIC سے تربیت لینا چاہیے، کیوں کہ اس کی فیکلٹی بہت اچھی ہے۔ اگر تعلیمی اداروں کی سطح پر بات کی جائے تو اس وقت آئی بی اے غالباً واحد ادارہ ہے جہاں ’بلاک چین انووینش سینٹر‘ کے نام سے ایک علیحدہ بلاک بنایا گیا ہے جس کے بلاک چین سے متعلقہ بے شمار تربیتی پروگرام اور کنسلٹینسی پراجیکٹ بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔

آئی بی اے سکھر نے حکومت سندھ کے تعاون سے نے ’سینٹر آف روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بلاک چین(CRAIB)  متعارف کروایا ہے اور آئندہ مالی سال میں اس کے لیے بجٹ بھی مختص کیا گیا ہے۔ اور آئی بی اے کے اس پروگرام کی طرز پر پورے پاکستان میں کالج اور جامعات کی سطح پر اس طرح کے شعبے قائم کیے جانے چاہییں۔ حال ہی میں آئی بی اے کے ’بلاک چین انوویشن سینٹر‘ نے بلاک چین ٹیکنالوجی کی مدد سے لینڈ رجسٹری اور تعلیمی اسناد کی  تصدیق کا نظام بھی تیار کیا ہے۔ آئی بی ایم، سام سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کا بلاک چین کی جانب بڑھتا رجحان اسے اور بھی اہمیت کا حامل بنا رہا ہے۔ اگر آپ بلاک چین میں دل چسپی رکھتے ہیں تو اس پر عبور آپ کو ایک روشن مستقبل فراہم کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی پر بہت تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے،جس کا حصول ہمارے لیے بھی اہم ہے، اگر ہم نے اپنا سرمایہ اور وقت ان نت نئی ٹیکنالوجیز پر نہ لگایا تو ہمارے لیے مستقبل میں بہتری کے امکانات مزید کم ہوجائیں گے۔

٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کی کاسٹ

اس بابت احسن خان نے بتایا کہ ’بلاک چین ٹیکنالوجی میں بنیادی طور پر دو بڑے اخراجات ہوتے ہیں: ایک Deployment Expense اور ایک Operational Expnse۔ اگر بٹ کوائن (Bitcoin) کی مثال لیں تو اس کا ڈپلائمنٹ خرچ کچھ خاص نہیں، لیکن اس کی آپریشنل کاسٹ بہت زیادہ ہے، مثال کے طور پر کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کی قیمتیں ہزاروں ڈالر میں ہیں۔ مائنرز اپنی مشین کی انوسٹمنٹ کرتے ہیں اور Bitcoin کی ٹرانزیکشن اور مائننگ کرتے ہیں جس کی بدولت انہیں کوائنز کی شکل میں incentive ملتا ہے وہی ان کی ریٹرن آف انوسٹمنٹ ہوتی ہے۔

یہ مثال پبلک بلاک چین Bitcoin سے جڑی ہوئی ہے، اگر آپ انٹرپرائز لیول پر بات کریں تو جیسے اگر کوئی کمپنی اپنی سپلائی چین کو زیادہ شفاف یا مؤثر بنانا چاہتی ہے تو وہ کلاؤڈ سرورز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ استعمال کرے گی، Deployment اور آپریشنل Cost بھی کلاؤڈ کی ہی ہوگی۔ بلاک چین کو اگر خدمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایمازون، مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم جیسی کمپنیز پہلے اس مد میں خدمات فراہم کر رہی ہیں، نجی کمپنیاں اپنے بلاک چین کی ڈپلائمنٹ اور آپریشنز کو کلاؤڈ پر رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے ریسورسز کے حساب سے فیس دینی ہوگی۔ اب بات کرتے ہیں بلاک چین ٹیکنالوجی کی ٹرانزیکشن کاسٹ کی ۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ بلاک چین ٹرانزیکشن کاسٹ سے مبرا ہے ۔ بلاک چین کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے چاہے وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ بلاک چین Cost ہمیشہ ہوتی ہے، یہ کم زیادہ یا مختلف اشکال میں بھی ہوسکتی ہے ۔

٭ بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کا مستقبل

اس بارے میں احسن خان کا کہنا ہے کہ ’میرا موضوع کرپٹوکرنسی نہیں بلکہ اس کے پس پردہ کام کرنے والی بلاک چین جیسی طاقت ور ٹیکنالوجی ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگ انفرادی سطح پر بلاک چین پر کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے پراجیکٹ باہر کی کمپنیوں کے ہیں۔ وہ اپنے اوورسیز صارفین کو سروس دے رہے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے وزیربرائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تیمور تالپور صاحب سے بلاک چین اور اس متعلق آئی ٹی کے معاملات پر گفت گو ہوئی۔ ان کی وزارت کے تحت ’سندھ آئی ٹی بورڈ ‘ کے نام سے ایک ادارے کے قیام کا ڈرافٹ بھی تیار ہوگیا ہے، جسے جلد ہی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔

اس بورڈ کے قیام کا مقصد گورننس، ڈیجیٹیلائزیشن  کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک خصوصی جامعہ کے قیام اور نجی شعبے کو اس حوالے سے  سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ آئی ٹی بورڈ میں بلاک چین اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا بھی اہم کردار ہوگا۔ جہاں تک پاکستان میں کرپٹوکرنسی کے مستقبل کی بات ہے تو یہ ایک ایسا وائرس ہے جو دنیا بھر کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

اس کے بارے میں آگاہی تھرڈورلڈ ممالک، ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں بھی پہنچ گئی ہے، ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں، انسٹی ٹیوشنز اس کے فروغ اور اسے اپنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ضرورت کے تحت قانون سازی اور مختلف پالیسیاں بھی بنا رہے ہیں، جیسے امریکا، یورپی ممالک، گلف ممالک، ملائیشیا، کمبوڈیا، ویت نام وغیرہ اور ان ملکوں نے یہ اس لیے کیا ہے کہ یہ اس ایجاد سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، کیوںکہ اس کا مستقبل اور وسعت بہت شان دار ہے۔  پاکستان میں مرکزی بینک نے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس کی ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ کچھ عرصے قبل بلاک چین اور کرپٹو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک خو مختار  ویب سائٹ ہیکر نون نے ’’بلاک چین۔ گلوبل پراسپیکٹیو‘‘ کے نام سے ایک مضمون شایع کیا، جس میں بلاک چین کی ایپلی کیشنز استعمال کرنے والی ان مختلف کمپنیوں اور حکومتوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا کرپٹوکرنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اگر آپ بلاک چین کو کرپٹوکرنسی سے الگ کرکے دیکھیں تو اس کی وسعت بہت زیادہ ہے، لہٰذا آپ کی توجہ کا مرکز بلاک چین ہونا چاہیے۔ کرپٹوکرنسی کے بارے میں سوچنے کے لیے آپ کو قانونی معاملات، پالیسیز اور ریگولیشنز کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سرمایہ کاری (افرادی قوت، وقت اور پیسے کی شکل میں) کرنی پڑ ے گی۔ لیکن اگر آپ کرپٹوکرنسی سے ہٹ کر صرف بلاک چین کے استعمال پر کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی آسان ہے اور اس کی بڑھوتری بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی بہت سی نجی کمپنیاں بلاک چین ایکوسسٹم میں دو ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرچکی ہیں، ایک ہزار سے زیادہ فعال کمپنیز موجود ہیں، آئندہ کچھ ہی سالوں میں  اس کی گلوبل مارکیٹ 290 بلین ڈالر تک  پہچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

ٹیکس اور مالیاتی معاملات  میں مشاورت فراہم کرنے والی برطانوی کمپنی ’پرائس واٹر ہاؤس کوپرز‘ PWC کی جانب سے گزشتہ سال ایک سروے کیا گیا، جس میں 14ٹریٹوریز کے 600 ایگزیکٹیوز کو شامل کیا گی، اس میں سے 84 فی صد Respondents بلاک چین میں شامل ہیں، 30 فی صد کو یہ لگتا ہے کہ چین بلاک چین کو لیڈ کرے گا، اور 28 فی صد کا خیال ہے کہ Interperobaility اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ گلوبل ریسرچ  فرم  Gartnerکی پیش گوئی کے مطابق  2030 تک صرف امریکا میں بلاک چین  3 کھرب ڈالرسالانہ  تک کابزنس ویلیو پیدا  کرسکتی ہے، جب کہ دنیا کا 10 سے 20 فی صدانفرااسٹرکچر 2030 تک بلاک چین  ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بننے والے نظام پر منتقل ہوچکا ہوگا۔

PWC کے مطابق بلاک چین پر 20 فی صد تحقیق ہو رہی ہے، 32 فی صد ڈویلپمنٹ، 10 فی صد پائلٹ پروجیکٹ اور 15 فی صد پروجیکٹس فعال ہوچکے ہیں اور  7 فی صد کسی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ ورلڈاکنامک فورم کے مطابق بلاک چین  عالمگیر تجارت میں تقریباً1 کھرب ڈالر اضافہ کرسکتی ہے، جوکہ SMEs پر منحصر ہوگا۔ بٹ کوائن اور ڈیجیٹل کرنسیوں پر کام کرنے والی ویب سائٹ Coin Desk میں شایع ہونے والے ایک  آرٹیکل کے مطابق دنیا کے 40 سینٹرل بینک بلاک چین ایپلی کیشز کو ترجیح دے رہے ہیں، ان میں سے اکثریت کی دلچسپی کا محور’ ایبسینٹ  کرپٹوکرنسی‘ کی بنیاد پر بننے والی ایپلی کیشنز ہیں، لیکن انڈسٹری ٹریڈ، فنانس، بینکنگ، ٹیکنالوجی، پیمنٹس اور  ریمٹنیس  وغیرہ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔

Deloitte کے 2019 کے سروے کے مطابق بلاک چین اب میچوریٹی فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ فروری 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان کیے گئے اس سروے میں 12 ممالک  کو شامل کیا گیا تھا جن میں امریکا، کینیڈا، جنوبی  امریکا، یورپ اور  خلیجی ممالک   شاملتھے۔ اس سروے میں  امریکا کی وہ کمپنیاں  شامل کی گئیجن کی سالانہ آمدنی 500 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ تھی اور امریکا کے علاوہ دیگر ممالک کی ان کمپنیوں کو اس سروے کا حصہ بنایا گیا جن کی سالانہ آمدنی 100 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ تھی۔

اس سروے میں 50ملین ڈالر  سالانہ سے کم آمدن رکھنے والی ان  ابھرتی ہوئی کمپنیوں کو بھی شامل کیا گیا جن کا تعلق بلاک چین سے تھا۔  اس سروے رپورٹ  کے مطابق 40 فی صد  کمپنیاں اگلے 12 ماہ میں بلاک چین میں تقریباً 5 ملین ڈالر سرکی مایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، 53 فی صد کا خیال ہے کہ بلاک چین ایک ’ خطرناک ترجیح ‘ ہے، 83 فی صد کا ماننا ہے کہ بلاک چین کا استعمال قدرے بہتر اور اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بلاک چین  اکثر کمپنیوں کی سرفہرست 5 ترجیحات میں شامل ہے، 23 فی صد کمپنیاں اس پر  پہلے ہی کام شروع کرچکی ہیں۔ درج بالا تمام ریسرچ اور سروے کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلاک چین کس تیزی سے دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔

کرپٹوکرنسی کیا ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ کرپٹوکرنسی کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر تو بنا سکتے ہیں، لیکن وہ اس کرنسی کے پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندگان کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپٹوکرنسی اسی صورت میں صحیح کام کرتی ہے جب تمام استعمال کنندگان کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔

کرپٹوکرنسی کس طرح کام کرتی ہے؟
ایک استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر سے کرپٹوکرنسی ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی کرپٹوکوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے کوائن (ڈیجیٹل کرنسی) بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔ لیکن استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام کوائن بھی دیے جاتے ہیں، جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔

٭ کرپٹوکرنسی سے ادائیگی کا طریقۂ کار:
ڈیجیٹل کرنسی سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کرسکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے) اسکین کرلیں۔ اس طریقۂ کار کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔

یہ طریقۂ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور حکومتی پالیسیوں کی قید سے آزاد ہے۔ کرپٹوکرنسی استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔

کرپٹوکرنسی سے کی جانے والی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری مقاصد کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور تجارت پیشہ افراد کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے۔

٭ کرپٹوکرنسی کے نقصانات:
کرپٹوکرنسی مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کرسکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر ناممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم ڈیجیٹل کرنسی کے چین بلاک پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔ ڈیجیٹل کرنسی کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک اس بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ کرپٹو کرنسی کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر ڈیجیٹل کرنسی وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔

The post ’’بلاک چین‘‘ اور چوتھا صنعتی انقلاب appeared first on ایکسپریس اردو.


ٹنڈو الٰہ یار میں لگنے والا ؛ راما پیر کا میلہ

$
0
0

سچلؒ، قلندرؒ اور لطیفؒ نے محبت کا درس دیا ہے، یگانگت کی تلقین کی ہے یہ بزرگ ہوں یا دیگر عقائد کے پیشوا قدر مشترک ایک دوسرے کا احترام ہے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک راما پیر بھی ہیں جن کے ماننے والوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

پست ذات کہلانے والے ہندو انھیں ’’پیر‘‘ کا درجہ دیتے ہیں کہ ذات پات کی تقسیم والے نظام میں راما نے انھیں عزت و احترام سے نوازا تھا۔ حیدرآباد سے میرپورخاص کی سمت چلیں تو ٹنڈوجام اور راشدآباد کے بعد ٹنڈو الٰہ یار کا شہر آتا ہے اول الذکر زرعی یونیورسٹی اور ثانی الذکر اپنے صحت و تعلیم کے منصوبوں کی وجہ سے معروف ہے اور کموڈور (ر) شبیر قائم خانی کی محنتوں کا ثمر ہے جنھوں نے اپنے شہید بیٹے راشد کی یاد میں سرگودھین اسپرٹ ٹرسٹ کے اشتراک سے جنگل میں منگل سجا دیا۔ راشد آباد ریلوے اسٹیشن کے عقب میں سندھ کے بہلول دانا ’’وتایو فقیر‘‘ کی آخری آرام گاہ ہے۔ غالباً سترہ برس قبل راشد آباد کا مطالعاتی دورہ کیا تو اس مزار پر بھی حاضری دی تھی جس پر تحریر ہے:

’’جیسے آج تم ہو میں بھی کبھی ایسا ہی تھا اور جیسا میں آج ہوں کبھی تم بھی ایسے ہی ہوگے۔‘‘

وتایو کے قصے اور داستانیں ضرب المثل ہیں لیکن بات ہے ٹنڈو الٰہ یار کی۔ سندھی کی ضرب المثل ہے کہاں منہ مریم کا کہاں ٹنڈو الٰہ یار۔ اسی ٹنڈو الٰہ یار کے کھتری محلے میں راما پیر کا میلہ ہر سال بھادوں کے مہینے میں لگتا ہے۔ بکرمی سنہ کے چھٹے مہینے میں سندھ کے طول و عرض بلکہ پڑوسی صوبے پنجاب کے سرائیکی علاقوں رحیم یار خان و ملحقہ اضلاع سے بھی پیدل قافلے ٹنڈو الٰہ یار پہنچتے ہیں سندھ میں میلوں ٹھیلوں کی قدیم روایت ہے صوفیائے کرام کے عرس ہوں یا دیگر تقاریب ان پر ملھ کے مقابلے، محافل موسیقی اور ادبی کانفرنسوں کا انعقاد ضروری تصور کیا جاتا ہے عرس کو بالعموم میلے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں گھڑ دوڑ، بیلوں کی ریس کا اہتمام بھی ہوتا ہے، میلے کے پہلے روز کی تقریب پہلی، دوسرے دن کی تقریب دوسری اور تیسرے یوم کی آخری دھمال کہلاتی ہے۔

یہ میلے مسلم اکثریت کے ہوں یا ہندو اقلیت کے اپنا منفرد اور مخصوص مزاج رکھتے ہیں۔ اپنے دل چسپ رنگ بکھیرتے اور حاضرین کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں۔ سچل، بھٹائی اور قلندر ہی نہیں صوبے بھر میں لاتعداد درگاہوں اور خانقاہوں کے میلوں میں ہندو برادری بھی شریک ہوتی ہے جب کہ خود ہندو اقلیت کے بھی درجنوں میلے اور تقریبات دربار صاحب رہڑ کی، سادھ بیلہ، اڈیرو لعل اور تھر، جیکب آباد، کشمور، ٹنڈو الٰہ یار میں سارا سال ہی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ یوں تو لاتعداد مذہبی و غیر مذہبی میلے سندھ میں لگتے ہیں لیکن جو اہمیت راما پیر کے میلے کو حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور میلے کا مقدر بنے جو پست ہندو اقوام کی جانب سے لگایا جاتا ہے۔

برسوں قبل کی بات ہے جب پہلی بار راما پیر کے نام سے تعارف ہوا۔ ضلع سانگھڑ کے قصبے شاہ پور چاکر میں جسے ہمارے بزرگوں نے قیام پاکستان ہجرت کے بعد اپنا وطن بنایا تھا۔ روہتک گوڑ گانوں اضلاع سے نقل مکانی کرکے آنے والے ارض مہران کے کلچر، روایات اور رسومات سے ناواقف تھے ہمارے ایک عزیز دکاندار کے پاس خریداری کے لیے آنے والی خاتون کا اصرار تھا کہ اس نے خریدی گئی شے کی رقم ادا کردی ہے جب کہ دکاندار کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوا۔ بات بڑھی تو شور شرابہ سن کر وہاں سے گزرنے والے ایک مقامی باشندے نے اس ہندو خاتون سے کہا ’’کھاؤ قسم راما پیر کی کہ تم نے رقم دے دی ہے۔‘‘ اس جملے پر لڑتی جھگڑتی خاتون نے خاموشی سے پلو کھولا پیسے نکالے اور کہا ’’معمولی ریز گاری کے لیے راما کو بیچ میں مت لاؤ‘‘ بعد میں ہمارے ایک اور عزیز دادا اکرم نے بتایا کہ راما پیر کو یہ قبیلہ پوجتا ہے۔

ساون، بھادوں برسات کے مہینے ہیں۔ اس لیے ان مہینوں کو سانونی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ راما کون تھے کہاں سے آئے تفصیلی تذکرہ تو نہیں ملتا لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ برہمن، شودر سماج میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو احترام دیتے تھے برتری کی دعوے دار اقوام کو انھوں نے چیلنج کیا یہی وجہ ہے کہ بھیل، کولہی، باگڑی، اوڈ، میگھواڑ، سنیاسی ودیگر انھیں دیوتا کا رتبہ دیتے اور اوتار تصور کرتے ہیں شرکا قافلوں کی صورت پیدل راما کے استھان پر پہنچتے ہیں کئی برس قبل ایک سلسلے میں ٹنڈو الٰہ یار جانا ہوا تھا کراچی سے کوچ چلی تو برابر کی نشست پر ہری رام نامی شخص شریک سفر تھے سندھ اور بلوچستان کے باشندے ہم سفر ہوں یا راہ گزر پر ملیں ’’حال احوال‘‘ ضرور لیتے دیتے ہیں۔

ایسا ہی ہری رام نے کیا، سلام، دعا سے بات چیت شروع ہوئی اور یہ پتا چلا کہ میرپورخاص جانے والی بس میں ضرور سوار ہوں لیکن منزل ٹنڈوالٰہ یار ہے تو انھوں نے کہا ٹنڈو الٰہ یار میں وتایو فقیر کے مزار پر ضرور جانا اور قریب میں راشد آباد کے مرکز علم و عرفان کو بھی دیکھنا۔ یہ جاننے پر کہ دونوں مقامات میں دیکھ چکا ہوں اس نے راما پیر کا تذکرہ کیا، میری دل چسپی دیکھی تو بہت سی باتیں اس نے بتائیں۔ بعد کے برسوں میں جب بھی راما پیر کے میلے کی تقریبات کی خبر سنی تو ہری رام، ٹنڈو الٰہ یار کا سفر اور شاہ پور چاکر کا واقعہ ذہن کی اسکرین پر جگمگایا۔ یہ میلہ اور اس سے منسوب واقعات اور داستانیں کئی اعتبار سے ممیز اور منفرد ہیں۔

ہری رام کی یادداشتوں، کئی ہندو دوستوں سے ملاقاتوں اور ٹنڈو الٰہ یار کے صحافی دوستوں راجہ جاوید، اختر خانزادہ اور میر حسن اویسی کی فراہم کردہ معلومات سے پتا چلا کہ راما پیر کا اصل مندر بھارتی راجستھان میں ہے جہاں کم و بیش ڈیڑھ سو برس قبل ٹنڈو الٰہ یار کا ایک یاتری منت مانگنے گیا تو اسے اذن ملا کہ جاؤ اپنے شہر ہی میں ہمارا استھان قائم کرو، یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارتی گجرات میں حضرت جمّیل شاہ داتار کا مزار واقع ہے لیکن ضلع ٹھٹھہ سندھ میں بھی ان کی خانقاہ موجود ہے جہاں مقامی باشندے ہی نہیں جوناگڑھ، بانٹوا، ماناودر، سردار گڑھ، کتیانہ اور جیت پور سے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آنے والی میمن کمیونٹی کے افراد بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں اور نوچندی جمعرات کو تو بلامبالغہ ہزاروں کا اجتماع ہوتا ہے۔ انھیں شاہ ڈاتار بھی کہا جاتا ہے کہ ضلع نواب شاہ سندھ میں بھی جام ڈاتار کا مزار موجود ہے، جنھیں جام صاحب کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور انھی کے نام سے ریلوے اسٹیشن بھی موسوم ہے کہتے ہیں۔ وہ ہندو راجستھان سے ایک روشن چراغ لے کر چلا اور ٹنڈو الٰہ یار پہنچ کر ایک مندر کی بنیاد رکھ دی۔ ہری رام کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی وہ دیا مندر میں کرنیں بکھیر رہا ہے۔

اساطیری کردار اور داستانیں برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں انسانوں کا خصوصی موضوع رہے ہیں مافوق الفطرت شخصیات، واقعات پر یقین کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ یونانی دیومالا میں بھی بہت سی کہانیاں اور کردار ایسے ہیں جو اپنے کارناموں سے چونکا دیتے ہیں۔ ٹنڈو الٰہ یار میں مختصر قیام کے باعث کھتری محلے کے اس قدیمی مندر میں جانا تو نہ ہوسکا لیکن بعد کے برسوں میں جب بھی کبھی بھادوں کے مہینے میں حیدرآباد، مٹھی، سکرنڈ، سانگھڑ، نواب شاہ جانا ہوا تو سڑکوں پر ایسے متعدد قافلے ضرور دیکھے جو تکونے سفید پرچم اٹھائے اور لمبے بانس کندھوں پر لیے ’’جے راما پیر کی‘‘ کے نعرے لگاتے، اشلوک پڑھتے، بھجن گاتے ٹنڈو الٰہ یار کی سمت رواں تھے۔ ان قافلوں میں کمسن بچے، جوان عورتیں، ضعیف العمر مرد سب شامل ہوتے ہیں۔

ایسے ہی ایک قافلے کے شرکا سے تعارف ہوا تو پتا چلا کہ یہ لوگ بھارتی راجستھان کے ملحقہ کارونجھر کے کوہستانی شہر ننگرپارکر سے آرہے ہیں جو سیکڑوں کلومیٹر دور ہے۔ اس کے چہرے پر تھکن کی بجائے حوصلہ نمایاں تھا میلے کے موقع پر ایک طرف شیوامنڈلی کے سیکڑوں رضاکار ڈیوٹی دیتے ہیں تو دوسری سمت اتنے ہی پولیس اہلکار، بم ڈسپوزل اسکواڈ، رینجرز کے جوان تعینات ہوتے ہیں شہر اور نواح میں لگے استقبالیہ کیمپ اور شری راما مندر کے احاطے میں موجود انتظامی کمیٹی کا دفتر بھی یاتریوں کی راہ نمائی میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ہری رام کی روایت کے مطابق اندرونی احاطے میں راما پیر کی مورتی ایک سنگی گھوڑے پر دھری ہے جب کہ اندر دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں اور بت بھی موجود ہیں جب کہ مندر کی بالائی منزل پر درجنوں سفید تکونے جھنڈے لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ راما پیر کے عقیدت مند ان پرچموں کو ’’دھجا‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ دھجا منت پوری ہونے پر بڑے اہتمام سے تیار کراکے یہاں لایا اور لہرایا جاتا ہے۔

ان کے عقیدے کے مطابق جیسے جیسے دھجا لہرائے گا ان کی مشکل آسان اور پریشانی رفع ہوگی۔ نیز مراد کی تکمیل کے امکان قریب آتے جائیں گے۔ شری راما دیو المعروف راما پیر کے ایک اندازے کے مطابق 12 لاکھ ماننے والے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹنڈو الٰہ یار سے ملحق ضلع مٹیاری میں سروری جماعت کی درگاہ کے جدامجد مخدوم سرور نوح کی گدی کو نولکھی کہا جاتا ہے کہ ان کے 9 لاکھ مرید تھے یہ تعداد تو برسوں قبل تھی۔ متعدد پشتوں کے بعد تو یہ تعداد کئی گنا ہوچکی ہوگی لیکن مخدوم غلام حیدر، مخدوم طالب المولیٰ، مخدوم امین فہیم اور اب مخدوم جمیل الزماں سب ہی 9 لکھی گدی کے سجادگان کے طور پر شناخت کیے جاتے ہیں۔

سندھ میں کھیت مزدوری کرنے والے بھیل، کولہی، میگھواڑ و دیگر ارادت مند اپنی اجرت یعنی اجناس کا کچھ حصہ یہاں بطور نذر بھی پیش کرتے ہیں تاکہ اگلی فصل میں خوشیاں ان کے گھر آنگن میں بہار بن کر آسکیں۔ ایک یاتری کا دعویٰ تھا کہ سندھ میں سب سے بڑا میلہ تو قلندر کا ہوتا ہے جسے وہ جھولے لعل کہہ رہا تھا اور دوسرا شاہ سائیں کا جو بھٹ کے بادشاہ یعنی شاہ لطیف ہیں، البتہ اس کے خیال میں تیسرا بڑا میلہ راما پیر کا ہوتا ہے۔

میرے بتانے پر کہ درازہ میں سچل سرمست کا عرس اور پیر گوٹھ میں رجبی شریف پر پیران پگارہ کا زیارتی اجتماع بھی تو لاکھوں کی حاضری لیے ہوتا ہے جس میں ایک بار شرکت کی سعادت ملی تو دیکھا کہ بڑے بڑے رؤسا، ذی حیثیت ہاتھوں میں جوتے اٹھائے ننگے پیر درگاہ کا راستہ پکڑتے ہیں تو اس یاتری نے تسلیم کیا کہ واقعی وہاں بھی بڑی حاضری ہوتی ہے لیکن ہندو دلت باشندوں کا سب سے بڑا میلہ یہی ہے۔ حالاںکہ سکھر کے جزیرہ سادھ بیلہ پر بن کھنڈی بابا، رہڑکی میں دربار صاحب، رک میں کنور بھگت رام، اسلام کوٹ میں سنت نیتو رام، اڈیرو لعل میں شری اڈیرو لعل، لسبیلہ میں ہنگلاج ماتا اور کراچی کے کلفٹن و کیماڑی پر بھی بڑے بڑے میلے اور اجتماعات ہوتے ہیں۔

سندھ تو ویسے بھی میلوں، ملاکھڑوں کی دھرتی ہے جہاں لاتعداد درگاہیں، خانقاہیں، مندر، استھان اور تیرتھ واقع ہیں جہاں میلے سجتے اور تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن اس کے سوا بھی سیکڑوں تیج تہوار اور ایام ایسے ہیں جب خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ شام اودھ اور صبح بنارس یا شب مالوہ کی داستانیں سننے یا پڑھنے والوں نے رنگین پیراہن میں سجی سنوری گیت گاتی گھروں اور مندروں کے ماحول کو خوش گوار بناتی ان دوشیزاؤں کو ضرور دیکھا ہوگا جو اپنے میلوں اور تقاریب میں عقیدت کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ یہ اجتماعات دھرتی کا حسن ہیں جب رنگ بکھرتے ہیں تو کائنات مسکراتی ہے کہ یہی ازلی اور ابدی سچائی ہے جیو اور جینے دو کا فلسفہ سندھ کی دھرتی پر طاقت ور نظر آتا ہے۔

The post ٹنڈو الٰہ یار میں لگنے والا ؛ راما پیر کا میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

سولر پینلز کی کارکردگی بڑھانے میں ڈرامائی پیش رفت

$
0
0

برقی توانائی کے حصول کے لیے سولر پینلز کا استعمال دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ دھوپ سے بجلی کشید کرنے کا یہ آلہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ترین دیہات میں بھی نظر آتا ہے۔ یوں روایتی ذرائع برقی توانائی کا یہ بہترین متبادل ثابت ہورہا ہے۔

سولر سیلز اگرچہ وسیع پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں، اس کے باجود حصول توانائی کے لیے دنیا کا زیادہ انحصار اب بھی رکازی ایندھن (فوسل فیول) پر ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بھی ہر لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اس کے پیش نظر مستقبل میں موجودہ روایتی اور غیرروایتی ذرائع سے اسے پورا کرنا مشکل ہوجا ئے گا۔ چناں چہ نئے ذرائع توانائی کھوجنے کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ اس ضمن میں سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس کے ذریعے سولر سیلز کی کارکردگی ڈرامائی طور پر بڑھائی جاسکے گی۔

سلیکون سے بنے روایتی سولر سیلز کی مجموعی کارکردگی کی حد متعین ہے۔ اصولی طور پر ایک فوٹان کو سلیکون سے ٹکرانے کے بعد ایک ہی الیکٹران خارج کرنا چاہیے اگرچہ یہ فوٹان الیکٹران کے اخراج کے لیے درکار توانائی سے دگنی توانائی ہی کا حامل کیوں نہ ہو۔ تاہم اب سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس میں بہت زیادہ توانائی کے حامل فوٹان جب سلیکون سے ٹکراتے ہیں تو ایک کے بجائے دو الیکٹرانوں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس دریافت نے دگنی کارکردگی کی حامل، زیادہ طاقت ور سولر پاور ڈیوائسز کی راہ ہموار کردی ہے۔

نظری طور پر روایتی سلیکون پاور سیلز خود پر پڑنے والی شمسی توانائی کی زیادہ سے زیادہ 29.1 فی صد مقدار کو برقی توانائی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور دیگر اداروں کے محققین برسوں کی تحقیق کے بعد اس حد کو بڑھانے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔

اس تحقیق سے وابستہ الیکٹریکل انجنیئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر مارک بالڈو کے مطابق ایک فوٹان سے دو الیکٹرانوں کے اخراج کی کلید مادوں کی اس جماعت میں پوشیدہ ہے جن میں برانگیختہ حالت ( excited states ) پائی جاتی ہے۔ یہ مادّے ایکسائٹون (  excitons) کہلاتے ہیں۔ ایکسائٹون میں توانائی کے پیکٹ یعنی فوٹان اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے برقی سرکٹ میں الیکٹران۔ انھیں توانائی کی ایک قسم سے دوسری میں تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکتا اور توڑا اور یکجا بھی کیا جاسکتا ہے۔

دوران تحقیق سائنس دانوں نے singlet exciton fission نامی طریق عمل سے کام لیتے ہوئے شمسی شعاعوں کے فوٹانوں کو توانائی کے دو علیحدہ اور آزادانہ طور پر متحرک پیکٹوں میں تقسیم کردیا۔ پہلے مادّہ فوٹان جذب کرکے ایک ایکسائٹون تشکیل دیتا ہے جو فوراً ہی انشقاق کے ذریعے دو برانگیختہ حالتوں میں آ جاتا ہے، ہر حالت کی توانائی اصل حالت کا نصف ہوتی ہے۔

بعدازاں سائنس داں دونوں فوٹانوں کو سلیکون میں یکجا کرنے میں کام یاب ہوگئے جو ایکسائٹون مادّہ نہیں ہے۔ محققین نے یہ کام یابی  سلیکون کی بیرونی سطح پر ہافنیئم اوکسی نائٹرائڈ کی پرت چڑھاکر حاصل کی۔ پروفیسر بالڈو کے مطابق نئے پروسیس کے ذریعے نظری طور پر ایک سولر سیل کی کارکردگی 29.1 فی صد سے بڑھ کر 35  فیصد ہوجائے گی۔

The post سولر پینلز کی کارکردگی بڑھانے میں ڈرامائی پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.

دو نئی اینٹی بایوٹکس دریافت

$
0
0

اینٹی بایوٹک ادویہ کے خلاف جراثیم میں بڑھتی ہوئی مدافعت دنیائے صحت کا ایک ایم مسئلہ بن چکی ہے۔ پچھلے سو برسوں کے دوران اینٹی بایوٹکس نے ان گنت انسانی جانیں بچائیں۔ ان کی دریافت کو جہان طب میں انتہائی اہم سنگ میل خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے ان کا استعمال وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے جراثیم میں بھی ان کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے لگی جس کے نتیجے میں یہ ادویہ انفیکشنز پر بے اثر ہونے لگیں۔

حالیہ عرصے کے دوران متعدد تحقیقی رپورٹس شایع ہوچکی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے اور اب بیشتر اینٹی بایوٹک دوائیں جزوی یا کُلی طور پر انفیکشنز کے خلاف بے اثر ہوگئی ہیں۔

ماہرین صحت یہ ادراک رکھتے ہیں کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ آج جو امراض قابل علاج ہیں وہ مستقبل میں لاعلاج ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی اینٹی بایوٹکس کی دریافت پر شب و روز تحقیق جاری ہے۔

اس ضمن میں فرانسیسی سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے دو طاقتور اینٹی بایوٹکس دریافت کرلی ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس دریافت سے عالمی سطح پر بیکٹیریا کے اندر بڑھتی ہوئی مزاحمت کو شکست دینے اور انسانی جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔

پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کی ٹیم کا تعلق انسرم انسٹیٹیوٹ اور یونی ورسٹی آف رینیز 1 سے ہے۔ ان کی یہ تحقیق موقر سائنسی جریدے PLOS Biology میں شایع ہوئی ہے۔ محققین کی ٹیم کے مطابق اس نے ایک بیکٹیریائی ٹاکسن دریافت جسے بعدازاں طاقت ور اینٹی بایوٹکس میں کامیابی سے تبدیل کیا گیا۔

پروفیسر کے مطابق دوران تحقیق انھوں نے دیکھا کہ Staphylococcus aureus سے پیدا ہونے والا ٹاکسن جوعموماً انفیکشن کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے، یہی ٹاکسن جسم میں موجود دیگر بیکٹیریا کو ختم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

چناںچہ اس میں انفیکشن پیدا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ختم کرنے کی متضاد صلاحیتیں بیک وقت پائی جاتی تھیں۔ پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کے ساتھیوں نے سوچا کہ اگر وہ اس ٹاکسن کی دونوں صلاحیتوں کو جُدا کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو نئی اینٹی بایوٹکس وجود میں آسکتی ہیں۔ یہ ایک چیلنج تھا جسے سائنس دانوں نے قبول کرلیا۔ آٹھ سال کے مسلسل تجربات کے بعد بالآخر محققین اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے۔

تجربہ گاہ میں بیکٹیریا پر نئی اینٹی بایوٹکس کے تمام تجربات کام یاب رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں انھیں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ ماہرین کو پوری امید ہے کہ انسانوں پر بھی ان ادویہ کے تجربات کام یاب ثابت ہوں گے۔

The post دو نئی اینٹی بایوٹکس دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹرائپوفوبیا ( Trypophobia )

$
0
0

شہد کی مکھی کا چھتا، قدرتی اسفنج، کنول کے پھول کا ڈوڈا، ساحل سمندر پر اسفنجی ساخت کے پودے اور جانور، ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کی ساخت غیرہموار ہوتی ہے، یعنی ان کی بیرونی سطح پر گڑھے یا سوراخ ہوتے ہیں۔

کیا کبھی ان چیزوں کو دیکھ کر آپ کو اپنے روئیں کھڑے ہوتے اور بدن پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوتی ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو پھر آپ بھی ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنھیں ٹرائپوفوبیا ( Trypophobia ) کا منفرد مرض لاحق ہے۔

اس مرض یا کیفیت میں سوراخ یا جوف دار سطحوں کو دیکھ کر گھبراہٹ اور خوف طاری ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ ٹرائپوفوبیا کو امریکن سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن ( اے پی اے) نے ہنوز دماغی مرض تسلیم نہیں کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کیفیت کا تعلق انسان کی دماغی حالت ہی سے ہے۔

 ٹرائپوفوبیا کی علامات اور اسباب

متاثرہ فرد کی جب گھونگھے کی چٹانیں، باتھ ٹب میں بھرے ہوئے صابن کے جھاگ اور اسی نوع کی دیگر سوراخ و جوف دار ساختوں پر نظر پڑتی ہے تو فوری طور پر اس کے مزاج پر کراہت غالب آجاتی ہے، سر بھاری ہوجاتا ہے اور وہ کمزوری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے لگتی ہیں اور سر چکرانے لگتا ہے۔ بعض اوقات مندرجہ بالا اور اسی نوع کی چیزوں کے تذکرے ہی سے ٹرائپوفوبیا کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔

ٹرائپوفوبیا میں مبتلا افراد کی مرکزی تشخیصی علامت جوف دار اشیاء یا ان کی تصاویر دیکھ کر کراہت میں مبتلا ہونا ہے۔ یہ علامت دیگر تسلیم شدہ فوبیاز میں ظاہر نہیں ہوتی جن میں خوف کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ خواتین ٹرائپوفوبیا کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ کیفیت ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کو بھی ہمراہ لے کر آتی ہے۔

فوبیا کیا ہوتا ہے؟

امریکا کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق فوبیا ذہنی اضطراب ہی کی ایک قسم ہے جس کے نتیجے میں متلی، ابکائی، کراہت، سر چکرانا، دھڑکن کا بڑھ جان، خوف کے زیراثر جسم میں لرزش جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ کوئی فرد فوبیا کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب کسی خاص صورتحال، مقام، احساس یا شے وغیرہ کے بارے میں وہ غیرمعمولی طور پر حساس ہوجائے۔ اس ردعمل کی وجہ ان کے ذاتی ناخوش گوار تجربات یا مشاہدات بھی ہوسکتے ہیں۔ این ایچ ایس کے مطابق کسی فرد کے فوبیا میں مبتلا ہونے کا انحصار اس کی جینیاتی تاریخ پر ہوتا ہے۔

ٹرائپوفوبیا کے بارے میں نیویارک میں واقع کولمبیا یونی ورسٹی سے منسلک کلینیکل سائیکالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر انتھونی پولیافیکو کہتے ہیں کہ سوراخ دار اشیاء یا ان کی تصاویر سے کسی فرد کی کراہت کے پس پردہ اسباب کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ اگر کسی فرد کو ان اشیاء و تصاویر سے بس کراہت محسوس ہوتی ہے اور اس کے معمولات متأثر نہیں ہوتے تو پھر اسے فوبیا نہیں کہا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر فوبیا وہ کیفیت ہے جو ایک فرد کے معمولات زندگی پر اثرانداز ہورہی ہو۔ سائنس داں اب تک اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ ٹرائپوفوبیا، فوبیا کی مذکورہ بالا شرط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اس موضوع پر اگر مزید تحقیق کی جائے تو اس سوال کا جواب ممکن ہوسکتا ہے۔

ٹرائپوفوبیا کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی؟

یہ اصطلاح زیادہ پرانی نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز A Phobia of Holes نامی ایک آن لائن فورم سے ہوا جس کی بنیاد آئرلینڈ کے ایک یوزر نے رکھی تھی۔ 2009ء میں یہ اصطلاح اس وقت معروف ہوگئی جب البانے یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ٹرائپوفوبیا ڈاٹ کوم کے یوآرایل سے ویب سائٹ شروع کی اور فیس بُک پر سپورٹ گروپ بنایا۔ خاصی تگ و دو کے بعد ٹرائپوفوبیا میں مبتلا افراد کی کمیونٹی وکی پیڈیا پر صفحہ بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی۔

2009ء میں وکی پیڈیا کے ایڈیٹرز نے یہ کہہ کر ٹرائپوفوبیا کا صفحہ ڈیلیٹ کردیا تھا کہ یہ کوئی مرض یا کیفیت نہیں بلکہ ہوّا کھڑا کیا گیا ہے۔ بعدازاں کئی شہرت یافتہ شخصیات جب ٹرائپوفوبیا کی حمایت میں سامنے آئیں اور کہا کہ وہ اس کا شکار ہیں تو پھر اس فوبیا کو اعتبار حاصل ہوا۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

سائنسی ادب میں  ٹرائپوفوبیا کی آمد 2013ء میں اس وقت ہوئی جب چند محققین نے کہا کہ اس کیفیت کی جڑیں خطرناک جانوروں سے جبلی خوف اور گریز میں پیوست ہیں۔ پھر جب محققین ہی میں سے ایک نے یہ کہا کہ اسے نیلے دائروں والے زہریلے آکٹوپس سے خوف آتا ہے تو تحقیقی ٹیم کا اپنے موقف پر یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔ مزید تحقیق پر انھیں پتا چلا کہ متعدد زہریلے جانوروں جیسے باکس جیلی فش، سانپ، زہریلے مینڈک وغیرہ کی جلد پر دائرہ نما نقش بنے ہوتے ہیں جو جوف دار اشیاء کی ساخت سے بے حد مشابہت رکھتے ہیں۔

کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ٹرائپوفوبیا زہریلے جانوروں کا خوف نہیں بلکہ انسانی مرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی متعدی امراض اور طفیلی کیڑوں کی وجہ سے جلد پر چھالے اور سوراخ ہوجاتے ہیں جیسے اسمال پاکس، اسکارلٹ فیور یا بوٹ فلائی کے کاٹنے کے بعد جسم پر بننے والا پھوڑا سوراخ چھوڑ جاتا ہے۔ ان امراض کا شکار ہونے والے افراد جوف دار اشیاء کو دیکھ کر ٹرائپوفوبیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سائنس دانوں کو ایسے شواہد بھی ملے جن سے پتا چلتا ہے کہ ٹرائپوفوبیا کے محرکات محض بصری پریشانی پیدا کرتے ہیں، نیز یہ کہ کچھ لوگ خاص طور سے ان اثرات سے حساسیت رکھتے ہیں جیسے آنکھوں پر زور پڑنا وغیرہ۔ تاہم سائنس داں اب تک اس مرض یا کیفیت کے کسی ایک سبب پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں۔

ٹرائپوفوبیا کا علاج کیسے کیا جائے؟

اگرچہ امریکن سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن اسے مرض تسلیم نہیں کرتا تاہم ٹرائپوفوبیا لوگوں کی زندگی میں دخل انداز ضرور ہوتا ہے۔ پروفیسر انتھونی پولیافیکو کہتے ہیں کہ اگرکسی فرد میں فوبیا کی علامات برقرار رہیں تو اسے دماغی امراض کے ماہر سے ضرور رجوع کرنا چاہیے جسے ایکسپوژر ٹریٹمنٹ میں مہارت حاصل ہو۔ اس طریقۂ علاج میں معالج متأثرہ فرد کو بہ تدریج ان اشیاء کا سامنا کرنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے جن سے اسے خوف یا کراہت آتی ہو۔

The post ٹرائپوفوبیا ( Trypophobia ) appeared first on ایکسپریس اردو.

چاند پر انسانی قدم کی گولڈن جوبلی

$
0
0

’’ایک انسان کا چھوٹا سا قدم، انسانیت کی عظیم جَست ہے‘‘ آنجہانی نیل آرم سٹرانگ کے یہ وہ الفاظ تھے، جو انہوں نے 20 جولائی 1969ء کو چاند پر قدم رکھتے ہوئے کہے۔ چاند پر پڑنے والا یہ وہ پہلا انسانی قدم تھا، جس نے چاند کو انسان کے لئے مسخر کر دیا۔ بلاشبہ چاند کی تسخیر انسانی دماغ کا وہ کارنامہ ہے، جس نے حقیقی معنوں میں انسانیت کا سر فخر سے بلند کر دیا، جس نے ثابت کر دیا کہ واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔

انسان کے چاند پر پہنچے کے منصوبے کو اپالو 11 مشن کا نام دیا گیا ہے، جسے آج 50 برس بیت چکے ہیں، ناسا کی طرف سے اس کامیاب مشن کی گولڈن جوبلی کو دنیا بھر میں بڑے دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے، کہیں ناسا کی دفاتر سے لائیو براڈکاسٹنگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے تو کہیں مشن میں استعمال ہونے والی چیزوں کی نمائش کی جا رہی ہے، جہاں اپالو 11 میں استعمال ہونے والی اشیاء کی کروڑوں ڈالر میں نیلامی کرکے اس مشن کی کامیابی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

سائنس دانوں اور انجینئرز سمیت تقریباً 4 لاکھ افراد کی انتھک محنت اور اربوں ڈالر کی لاگت سے جولائی 1969ء کو صبح نو بج کر بتیس منٹ پر اپالو 11 امریکی خلا نوردوں کو لے کر چاند پر قدم رکھنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس مشن میں تین خلاء باز شامل تھے ، نیل آرمسٹرانگ، بز الڈرن اور مائیکل کولن۔ راکٹ 2 حصوں پر مشتمل تھا، ایک حصے کا نام کولمبیا اور دوسرے کو ایگل پکارا گیا۔ کولمبیا دراصل وہ حصہ تھا جو کہ چاند کے گرد چکر لگاتا رہا، اس میں مائیکل کولن سوار تھے جبکہ ایگل نے چاند کی سطح پر لینڈ کیا، جس میں نیل آرمسٹرانگ اور بزالڈرن سوار تھے۔ ایگل کے لینڈنگ کے فوراً بعد بز الڈرن نے مذہبی کلمات پڑھے جس کے بعد ایگل کا دروازہ کھول کر نیل آرمسٹرانگ چاند پر اتر گئے۔

اس منظر کو اْس وقت دنیا بھر میں تقریباً 60 لاکھ انسانوں نے ٹی وی پر دیکھا۔ اگلے اڈھائی گھنٹے تک دونوں سائنس دانوں نے چاند پر چہل قدمی کی، تصاویر کھینچیں، امریکی جھنڈا لگایا، پتھر اور گرد جمع کی، جس کے بعد وہ واپس ایگل میں آگئے اور 7 گھنٹے تک نیند پوری کی۔ زمین پر واپسی سے قبل بزالڈرن اور نیل آرمسٹرانگ چاند پر امریکی پرچم اور ایک صفحے پر اپنا پیغام بمعہ آٹو گراف چھوڑ کر آئے، پیغام کچھ یوں تھا ’’ہم سیارہ زمین کے انسان ہیں اور پہلے انسان ہیں، جنہوں نے چاند پر قدم رکھا، جولائی 1969 عیسوی۔ ہم سب کے لئے امن کا پیغام لائے ہیں‘‘ پھر انجن نے اڑان بھری اور کولمبیا راکٹ کے ساتھ منسلک ہوگیا جہاں مائیکل کولن ان کے منتظر تھے۔ 8 دن، 3گھنٹے، 18منٹ اور 35 سیکنڈ کے سفر کے بعد 24 جولائی 1969ء کو یہ ہیروز زمین پر پہنچے تو ایک زمانے نے ان کا تاریخی استقبال کیا۔

بلاشبہ چاند کی تسخیر نیل آرمسٹرانگ اور ان کی ٹیم کا عظیم کارنامہ ہے، لیکن 50 سال بعد بھی ایک مکتبہ فکر اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں، جس کی وہ بہت ساری وجوہات بیان کرتا ہے، کبھی ہوا نہ ہونے کے باوجود لہراتا ہوا جھنڈا، قدموں کے نشانات تو کبھی خلابازوں کے سایہ کو جھوٹ قرار دیا جاتا ہے، لیکن ماہرین فلکیات، سائنس دانوں اور انجینئرز کی ایک بڑی تعداد اسے درست تسلیم کرتے ہوئے اپنے جوابی دلائل دیتی ہے کہ جھنڈا لہرا نہیں رہا بلکہ لگاتے ہوئے اس میں سلوٹ پڑی تھی، چاند پر ہوا نہ ہونے کی بات درست ہے اور اسی وجہ سے قدموں کے نشانات برقرار رہے۔

اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی بے یقینی کا اظہار ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سوال کرنے لگے کہ کیا واقعی ٹائی ٹینک نامی جہاز کا کوئی وجود تھا اور کیا واقعی وہ حادثے کا شکار ہو کر غرق ہو گیا تھا؟ یہ اعتراض بھی کیاجاتا ہے کہ واپسی کے لئے لانچنگ پیڈ نہیں تھا راکٹ کیسے اڑا؟ اتنا فیول کہا ں سے آیا؟ تو اس کا جواب سائنسدان یہ دیتے نظر آتے ہیں کہ چوں کہ چاند پر کشش ثقل انتہائی کم ہوتی ہے اسی خاطر وہاں پر اڑنے کے لئے زیادہ فیول بالکل درکار نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ چاند پر لینڈ کرنے والے کیپسول میں راکٹ ہوتا ہے جو اسے اترنے اور اڑنے میں مدد کرتا ہے بعد میں چاند کے مدار میں پہنچ کر یہی کیپسول بڑے راکٹ کے ساتھ جڑجاتا ہے، جو چاند کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اس کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

تمام ترمفروضات کے باوجود انسان کا چاند پر پہنچنا ایک حقیقت بن چکا ہے، جس کے لئے ایک طرف ماہرین کے اس کے حق میں دلائل ہیں تو دوسری طرف سب کی آنکھوں کے سامنے ہونے والی وہ کوششیں ہیں، جن میں نہ صرف دنیا کے عظیم دماغ استعمال ہوئے بلکہ اربوں ڈالر بھی خرچ ہوئے۔ چاند پر پہنچنے کا انسان نے جو خواب دیکھا، اس کی تعبیر آسان نہیں تھی، یہ حالات و واقعات نے ثابت کیا۔ 1958ء سے 1963ء تک ناسا نے انسان کو خلاء میں بھیجنے کے لئے ’’مرکری پراجیکٹ’’ لانچ کیا، جس کے لئے اْس وقت 28 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہوئے جبکہ 2 لاکھ امریکی ماہرین نے دن رات محنت کی۔

اس پراجیکٹ کے تحت 26 بار مختلف مشنز خلاء میں بھیجے گئے، جس کے بعد سائنسدانوں کا اگلا نشانہ زمین سے قریب ترین ٹھکانہ تھا۔ اور اس مقصد کے لئے ناسا نے 1961ء میں اپالو جبکہ 1966ء میں سروئیر(Surveyor) نامی پراجیکٹس لانچ کیے۔ اپالو تقریباً 12 مشنز پر مبنی تھا جبکہ سروئیر 7 مشنز پر مبنی پراجیکٹ تھا۔سروئیر پراجیکٹ کے تحت 1966ء سے 1968ء تک چاند کے مختلف علاقوں پر خلائی گاڑیاں اتار کر جائزہ لیا گیا کہ کون سی جگہ انسانوں کے اترنے کے موزوں ہے۔

27 جنوری 1967ء کو اپالو 1 کی ٹیسٹنگ کی گئی، اس کے عملے میں گیریسم، ایڈ وائٹ اور راجر شامل تھے۔ ابھی عملہ اندر داخل ہوکر مختلف آلات کی آزمائش میں مصروف تھا کہ راکٹ کے اس حصے میں آگ بھڑک اٹھی، ناسا کے عملے کی کوششوں کے باوجود ان خلاء بازوں کو باہر نہ نکالا جاسکا اور تینوں جل کر ہلاک ہوگئے۔ ان انتہائی تجربہ کار خلاء بازوں کی موت نے ناسا کے اپالو پراجیکٹ کو شدید دھچکا پہنچایا اورپراجیکٹ کو تقریباً د و سال کے لئے معطل کردیا گیا، لیکن ناسا کے ماہرین نے راکٹ کو بہتر بنانے کے لئے کام جاری رکھا۔ پراجیکٹ کی معطلی کے دوران اپالو 4،5،6 کو ٹیسٹ کرکے ان پر تحقیق کی گئی اور خامیوں کو ختم کیا گیا، جس کے بعد بالآخر جولائی 1969ء میں اپالو 11 مشن کامیابی سے ہم کنار ہوگیا اور اس حیران کن کامیابی کو آج دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔

اپالو پروگرام کے انسانیت پر چند احسانات

12 ستمبر 1962ء کو سابق امریکی صدر جان ایف کینڈی نے ٹیکساس میں رائس یونیورسٹی فٹبال سٹیڈیم میں 40 ہزار افراد کے مجمع کے سامنے چاند کو مسخر کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے چاند پر جانے کا انتخاب کیا ہے۔ ہم نئے سمندری سفر پر جا رہے ہیں، جس سے ہمیں نت سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق نئے علوم حاصل ہوں گے اور اس سے انسانیت کی مزید ترقی و بہتری ممکن ہو گی‘‘ پھر وقت نے ثابت کیا کہ اپالو پروگرام نے حقیقت میں انسان کے لئے مختلف شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں کھول دیں، جیسے کہ انسان کی روزمرہ کی ضرورت یعنی صفائی کا کام اس پروگرام کی وجہ سے آسان ہو گیا۔ اگرچہ بغیر تار والے آلات اپالو پروگرام سے پہلے بن گئے تھے لیکن اِس پروگرام کے ذریعے اِن آلات کی وہ شکل سامنے آئی جو آج ہم دیکھتے ہیں۔

مثلاً آلات بنانے والی کمپنی بلیک اینڈ ڈیکر نے 1961ء میں اپنی پہلی ایسی ڈرل مشین بنائی جس میں تار نہیں تھے۔ اسی کمپنی نے خلا میں سیاروں سے مٹی کے نمونے جمع کرنے کے لیے ایک خاص ڈرل مشین امریکی خلائی ادارے ناسا کو بنا کر دی تھی۔ اِس ڈرل مشین کی تیاری سے حاصل ہونے والی مہارت اور علم کو استعمال کرتے ہوئے بلیک اینڈ ڈیکر نے بہت سے نئے گھریلو آلات متعارف کرائے جن میں دنیا کا پہلا دستی ویکیوم کلینر، ڈسٹ بسٹر 1979ء میں سامنے آیا۔ 30 سال میں ڈسٹ بسٹر کے پندرہ کروڑ سے زیادہ یونٹ فروخت ہوئے تھے۔

وقت کی اہمیت سے کون واقف نہیں، لیکن اس اہمیت کی قدر وہی کرتے ہیں، جو اس کا درست استعمال کرتے ہیں۔ انتہائی درست وقت، چاند پر لینڈ کرنے کے لیے لازمی تھا کیوں کہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کا فرق خلا میں زندگی اور موت کا مسئلہ بنا سکتا تھا۔ اس لیے ایسی جدید کوارٹز گھڑیاں بنائی گئیں جن میں ایک برس میں ایک منٹ سے بھی کم فرق پیدا ہوتا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت کے بہتر استعمال کے لیے شہرت اْن روایتی میکینیکل کلائی کی گھڑیوں کو ملی جو نیل آرمسٹرانگ اور اْن کی ساتھی بز آلڈرن اپالو مشن پر پہنے ہوئے تھے۔

صاف پانی آج کی دستیابی آج دنیا بھر کا سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور اپالو پروگرام نے ہمیں اس مسئلہ سے نمٹنے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ اپالو مشن پر پانی صاف کرنے کی ٹیکنالوجی آج کئی طریقوں سے پانی کے ذخائر میں بیکٹیریا، وائرس اور کائی وغیرہ کے خاتمے میں استعمال ہوتی ہے۔ اپالو مشن نے کلورین کے بغیر، چاندی کے آئن استعمال کرنے کے پانی صاف کرنے کا طریقہ استعمال کیا تھا۔ اب یہ طریقہ دنیا بھر میں سوئمنگ پولز اور فواروں کی پانی کی صفائی کے لیے استعمال ہورہا ہے۔

جوتا سازی کی صنعت میں بھی اپالو پروگرام آج دنیا کے کام آ رہا ہے۔ خلاباز آج بھی 1965ء کے اپالو مشن کے خلائی لباس کے ڈیزائن پر بنے سوٹ استعمال کر رہے ہیں، جن کا بنیادی مقصد چاند پر چہل قدمی کے دوران خلابازوں کا تحفظ تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی جوتا سازی کی جدید صنعت کے لیے ایک بڑی پیشرفت بھی بنی۔ اسی کے نتیجے میں پچھلے چند عشروں میں زیادہ لچکدار اور جھٹکا برداشت کرنے والے ایتھلیٹک جوتوں کی بہت سی اقسام مارکیٹ میں آئیں۔

اپالو پروگرام کی وجہ سے ایسا کپڑا تیار ہونے لگا، جو انسان کو آگ سے محفوظ رکھتا ہے۔ 1967ء میں اپالو اول کے ایک تربیتی مشن کے دوران لگنے والی آگ سے تین خلاباز ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد پورا پروگرام بحران کی زد میں آگیا تھا۔ لیکن اسی کے نتیجے میں ناسا نے آگ نہ پکڑنے والا ایسا کپڑا تیار کیا جو اب زمین پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپالو مشن کے دوران خلابازوں کے لیے ٹھنڈک کی فراہمی کا نظام اب ملٹی پل سلروسس (ایم ایس) کا شکار افراد سمیت بہت سے مریضوں حتٰی کہ گھوڑوں کو بھی پرسکون رکھنے میں استعمال ہو رہا ہے۔

دنیا بھر میں آج دل کے امراض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، جس کا علاج نہ صرف مہنگا بلکہ مریض کیلئے تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔ پیس میکر وہ آلہ ہے، جو دل کے ایسے مریضوں کو لگایا جاتا ہے جن کے دل کی دھڑکن خطرناک حد تک بے قاعدہ ہوتی ہے، یہ آلہ بھی ناسا کی ننھے سرکٹ کی ٹیکنالوجی کی بدولت بنا تھا۔ اسی طرح خوراک کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کی جدید ٹیکنالوجی بھی انسان کو اپالو پروگرام سے اس وقت حاصل ہوئی، جب خلابازی میں اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔

The post چاند پر انسانی قدم کی گولڈن جوبلی appeared first on ایکسپریس اردو.

فالج سالانہ لاکھوں انسانی جانوں سے کھیلنے والامرض

$
0
0

اسٹروک یعنی فالج وہ خطرناک مرض ہے جس کی وجہ سے دماغ کو خون کی سپلائی بند یا کم ہونے سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے یا وہ کسی جسمانی معذوری کا شکار بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ڈیڑھ کروڑ افراد کو اسٹروک جیسے جان لیوا مرض کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سے 50 لاکھ موت کی آغوش جبکہ 50 لاکھ ہمیشہ کی جسمانی معذوری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق اسٹروک کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو Ischemic اور دوسری کو  Hemorrhagiکہتے ہیں۔ اسٹروک کی پہلی قسم میں دماغ کو خون کی سپلائی بند یا کم ہو جاتی ہے جبکہ دوسری قسم میں دماغ کی شریانوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ ان دونوں اقسام میں دماغ کی فعالیت نہایت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے اور نتیجہ کبھی موت تو کبھی جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہونے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اسٹروک کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہائی بلڈ پریشر کو اس کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، کیوںکہ اس کے باعث اسٹروک کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈیڑھ کروڑ میں سے ایک کروڑ 27 لاکھ افراد ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اسٹروک کا شکار بنتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ہم آپ کو چند ایسی غذاؤں کے بارے میں بتائیںگے، جن کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کے خطرات کو کم اور نتیجتاً اسٹروک جیسے جان لیوا مرض سے بچا جا سکتا ہے۔

سامن:۔

ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں تین سے زائد مرتبہ مچھلی کا استعمال اسٹروک کے خطرات کو 6 سے 12 فیصد کم کر دیتا ہے ۔ 4 لاکھ افراد پہ کی جانے والی اس سویڈیش سٹڈی میں ماہرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ مچھلی میں پائے جانے والے اومیگا 3- آئل کی بدولت شریانوں میں خون کی روانی متاثر نہیں ہوتی اور رکاوٹ کا باعث بننے والے لوتھڑے نہیں بنتے۔ مچھلی کا زیادہ استعمال خوراک میں سرخ گوشت کی مقدار کو کم کرتا ہے جو کہ خون کو گاڑھا کرنے اور شریانوں میں خون جمانے کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سامن، بام (tuna)، اورمیکریل مچھلی کا استعمال اس ضمن میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ ایک ہفتے میں 12  اونس تک مچھلی کی مقدار شریانوں میں خون کے بہاؤ کو متوازن انداز میں جاری رہنے میں معاونت دیتی ہے۔

دلیہ:۔

ہمارے جسم میں کو لیسٹرول کی مقدار کا بڑھ جانا بھی اسٹروک کا سبب بنتا ہے۔ ایلا- ڈی- ایل کولیسٹرول کو ’’مضر‘‘ کولیسٹرول کہا جاتا ہے جس کے بڑھ جانے سے دماغ تک خون پہنچانے والی شریانوں کی دیواروں کے گرد ایک سخت مادہ جم جاتا ہے جس سے شریانوں کی دیواریں موٹی ، سخت اور تنگ ہو جاتی ہیں اور نتیجتاً خون کا بہاؤ رک جاتا ہے جس سے ischemic اسٹروک کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ایل- ڈی – ایل کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں دلیہ کا استعمال اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزانہ 20 گرام دلیہ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتا ہے۔ ہر صبح اپنے ناشتے میں 3/4 کپ دلیہ شامل کر کے خود کو اسٹروک کے حملے سے بچایا جا سکتا ہے۔

 کالا لوبیا:۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کالا لوبیا ناصرف فائبر سے بھرپور ہے بلکہ یہ اعصابی نظام کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ کالے لوبیے میں کولیسٹرول کم کرنے والے ریشے موجود ہوتے ہیں جو اسٹروک سے بچاتے ہیں۔ روزانہ تین چوتھائی کپ لوبیے کا استعمال نہایت مفید ہے ۔

شکر قندی:۔

کھانے میں لذیذ اور غذائیت سے بھر پور شکرقندی سستی ہونے کے ساتھ اینٹی آکسڈنٹ بھی ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں پیدا ہونے والے خطرناک جراثیموں کا قلع قمع کرتی ہے ۔ اگر روزانہ کی بنیاد پر چھلکے کے بغیر شکرقندی کا آدھا کپ استعمال کیا جائے تووہ اسٹروک سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے ۔

کم چکنائی والا دودھ:۔

بعض افراد کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ دودھ سے بنی اشیاء صحت کو تباہ کر دیتی ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے۔ آسٹریلیا میں ہونے والی حالیہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کم چکنائی والا دودھ پینے والے افراد میں ہائپرٹنشن کا خدشہ دودھ کا استعمال نہ کرنے والے افراد کی نسبت قدرے کم ہوتا ہے ۔ جاپان میں 3,100 افراد پہ کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو لوگ 22 برس سے دو سے آٹھ اونس دودھ کا استعمال کرتے ہیں انھیں دودھ استعمال نہ کرنے والوں کی نسبت اسٹروک ہونے کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے ۔ دودھ سے بنی اشیاء میں کیلشیم، میگنیشیم اور پوٹاشیم کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو فشار خون کو جاری رہنے میں مدد دیتی ہے ۔ یاد رکھئے کم چکنائی یا بنا چکنا ئی والا دودھ دل کے امراض سے بھی بچاتا ہے ۔

کیلا:۔

پوٹاشیم سے بھرپور غذائیں بلند فشار سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچاتی ہیں ۔ ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ زیادہ پوٹاشیم والی غذائیں کھانے سے اسٹروک کا خدشہ 24 فیصد تک کم ہو جاتا ہے اور اس ضمن میں کیلا وہ بہترین غذا ہے ، جس سے انسانی جسم کو بڑی مقدار میں پوٹاشیم کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ ماہر امراض قلب مچل روتھتین کے مطابق کیلا خون کے بہاؤ کو معتدل رکھتا ہے ۔کیلے میں پایا جانے والا نشاستہ انسولین کی مقدار کو مناسب سطح پر رکھتا ہے، کیوں کہ جسم میں انسولین کی مقدار اگر بڑھ جائے تو گردش خون کا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے، جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر اسٹروک کا باعث بن جاتا ہے، لہذا اسٹروک سے بچاؤ کے لئے روزمرہ کی خوراک میں کیلے کا استعمال نہایت ضروری ہے۔

کدو کے بیج:۔

14 ہزار افراد پر کی جانے والی ایک جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ میگنیشیم کی جسم میں مناسب مقدار اسٹروک سمیت مختلف بیماریوں سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے، اور میگنیشیم سے بھرپور غذا کے استعمال سے 22 فیصد تک اسٹروک کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں کدو کے بیج کو خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ دو چمچ کدو کے بیجوں میں 5 سو ملی گرام تک میگنیشیم پائی جاتی ہے ۔ کدو کے بیج کے علاوہ میگنیشیم کے حصول کے لئے جوء ، میتھی، پالک اور لوبیا بھی بہترین غذائیں ہیں، کیوں کہ ان کے اندر بھی مناسب مقدار میں میگنیشیم پایا جاتا ہے ۔

پالک:۔

پالک میں میگنیشیم کے علاوہ وٹامن بی اور فولک ایسڈ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ اسٹروک جرنل میں شائع ہونے والی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق پالک میں موجود فولک ایسڈ بلڈ پریشر کو معتدل رکھنے میں نہایت معاون ہے۔ پالک ان افراد کے لئے خصوصی طور پر بہترین غذا ہے، جو ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں ، روزانہ 2 سو مائیکروگرام فولک ایسڈ کا حصول انسانی جسم میں خون کی گردش کو مناسب سطح پر رکھتا ہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر پالک کو روزہ مرہ کی خوراک کا حصہ بنا لیا جائے تو انسانی جسم بہت جلد فولک ایسڈ کی مطلوبہ مقدار کو حاصل کر لیتا ہے ، جس سے اسٹروک کے خطرات کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں ۔

بادام:۔

انسانی جسم میں کولیسٹرول کا بڑھنا جہاں کئی اور امراض کے جنم کا باعث ہے، وہاں یہ اسٹروک کے خدشات کو بھی بڑھا دیتا ہے، لہٰذا ماہرین طب کے مطابق بادام کا روزانہ استعمال جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو بڑھنے سے روکتا ہے، بادام کولیسٹرول کو مطلوبہ مقدار سے اوپر نہیں جانے دیتا ، کیوں کہ بادام وٹامن ای سے بھرپور ہوتا ہے۔ وٹامن ای شریانوں میں پیدا ہونے والی کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے خاتمے کا باعث ہے۔

اسپغول کا چھلکا:۔

حکمت کے ساتھ آج میڈیکل سائنس بھی اسپغول کے بے پناہ فوائد کی قائل ہو چکی ہے۔ اسپغول کا چھلکا فائبر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ماہرین کے مطابق فائبر جسم کا حصہ بن کر بڑھے ہوئے کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور انتڑیوں میں پیدا ہونے والے تیزابی مادوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ دوچمچ اسپغول کے چھلکے کا استعمال معدہ، خون کی اصلاح کے علاوہ اسٹروک یا فالج کے حملہ سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

لہسن:۔

ہمارے روزہ مرہ کے کھانوں میں لہسن کا استعمال معمول کی بات ہے، ذائقہ کے علاوہ لہسن کے متعدد طبی فوائد بھی ہیں۔ لہسن میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں، جو خون کو پتلا رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ اس کے استعمال سے خون کی نالیوں میں لوتھڑے نہیں جمتے۔ ڈاکٹر مچل روتھتین کے مطابق روزانہ لہسن کی دوجوئے کھانا اچھی صحت کی ضمانت ہے۔

ڈارک چاکلیٹ:۔

نوجوان نسل کی پسندیدہ ترین غذا چاکلیٹ صرف لذت ہی نہیں بلکہ چند بیماریوں کے حملے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ ڈارک چاکلیٹ اسٹروک سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ عام چاکلیٹ میں دودھ اور شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جبکہ ڈارک چاکلیٹ میں کوکو کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو اسٹروک کے حملہ کو پسپا کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوئی ہے۔ ڈارک چاکلیٹ اسٹروک کے خلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں دو سے تین بار ڈارک چاکلیٹ کھانے والے افراد میں اسٹروک کے خدشات نہ کھانے والوں کی نسبت بہت کم پائے گئے، لہذا ڈارک چاکلیٹ کو اسٹروک سے بچاؤ کیلئے موثر ہتھیار کا درجہ حاصل ہے۔

The post فالج سالانہ لاکھوں انسانی جانوں سے کھیلنے والامرض appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت ؛ دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ !

$
0
0

 قسط نمبر55

تین دن تک تو میں مہمان بنا رہا اور آس پاس گھومتا رہا، بابا میرا بہت خیال رکھتے اور میں اپنی ہر سرگرمی سے انہیں آگاہ رکھتا تھا۔ اس دوران کئی لوگوں سے میری ملاقات بھی ہوئی، کسی سے سرسری اور کسی سے تفصیلی، ان میں سے بھی اکثر میرے حلیے کی وجہ سے مجھ سے بات کرنے کے خواہاں تھے، لیکن پھر مجھے ان کی غلط فہمی دُور کرنا پڑی۔

انہی میں سے ایک نوجوان دُکان دار تھے، ہزارہ کے کسی دور افتادہ گاؤں کے مکین، پڑھے لکھے اور ہم درد انسان، موٹے عدسے کا عینک لگائے ہوئے، ان کی کہانی بھی انوکھی تھی، وہ بچپن سے ہی بہت پڑھاکُو اور ذہین تھے، سوچتے تھے کہ لکھ پڑھ کر سرکاری افسر بنیں گے اور پھر اپنے والدین اور گاؤں کا نام روشن کرنے کے ساتھ ان کی خدمت بھی کریں گے، لیکن پھر انہیں ٹائیفائیڈ ہوگیا اور ان کی بینائی شدید متاثر ہوئی، اس وقت طبّی دنیا میں اتنی جدت نہیں آئی تھی جیسی اب ہے، تو وہ کسی کام کاج کے نہیں رہے، اسی دوران کسی نے انہیں کرسچن اسپتال ٹیکسلا سے رابطے کا مشورہ دیا، تو وہ ٹیکسلا پہنچے، اس زمانے میں آنکھوں کے جملہ امراض کا علاج بہ شمول آپریشن اس اسپتال میں برائے نام اخراجات اور اکثر تو بلامعاوضہ ہوتا تھا، اور یہاں ایک سرجن جن کا نام ڈاکٹر نوروِِل کرسٹی تھا، خلق خدا کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے۔

اس نوجوان نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کی آنکھوں کے معائنے کے بعد یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی بینائی اس قدر ضرور بحال ہوسکتی ہے کہ وہ آسانی سے اپنی ذمے داریاں ادا کرسکیں۔ بس پھر کیا تھا، امید کا دیا روشن ہوا اور وہ آپریشن کے مراحل سے گزرے، آپریشن کے بعد ان کی بینائی کچھ بحال ہوچکی تھی، پھر ان کی شادی ہوگئی تو انہوں نے ڈاکٹر کرسٹی کی محبت میں ٹیکسلا ہی کو مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کیا اور اس لیے بھی کہ کبھی فوری ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر کرسٹی ان کی دست رس میں ہوں گے۔

اب وہ پرچون کی دکان کرتے تھے اور خوش تھے۔ خدا کے بعد وہ سب سے زیادہ ڈاکٹر کرسٹی کے مشکور تھے کہ ان کی انسان دوستی اور توجّہ سے انہیں مشکلات سے نجات ملی اور وہ جیون گزارنے کے قابل ہوئے۔ ان کی زبانی ڈاکٹر کرسٹی کی تعریف نے فقیر کو بھی ان سے ملنے پر اکسایا اور پھر فقیر ٹیکسلا کرسچن اسپتال پہنچا۔

اسپتال مفلس و نادار مریضوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن ان میں سے کچھ متمول لوگ بھی تھے، جو ڈاکٹر کرسٹی کی انسان دوستی اور مہارت کی وجہ سے انہی سے آپریشن کرانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ڈاکٹر کرسٹی کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ وہ کسی امیر غریب کا فرق روا نہیں رکھتے۔ میں نے ڈاکٹر کرسٹی کا معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ عصر کے وقت فارغ ہوتے ہیں تو ان سے ملا جاسکتا ہے، میں نے انتظار کیا اور پھر وہ میرے سامنے تھے۔

ڈھیلی ڈھالی پتلون، کھلی بش شرٹ میں ملبوس کشادہ اور روشن پیشانی، میانہ قد اور مسکراتے ہوئے، ان کی پوری کہانی ان کی جبیں پر رقم تھی، میرے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے کہا: بس آپ کو دیکھنے آیا ہوں۔ مسکرائے اور کہا: تو دیکھ لیا مجھے۔ میں نے کہا: جی شُکر خدا کا کہ آپ جیسے انسان کو دیکھنے کی سعادت ملی، آپ بہت مصروف ہیں ورنہ میں بہت تفصیل سے آپ کو دیکھتا بھی اور سنتا بھی۔ یہ سن کر انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور اپنی رہائش گاہ جو اسپتال میں ہی تھی، پہنچے۔

اور رہائش گاہ بھی کیا بس ایک کمرا جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا، ایک کونے میں بجلی سے جلنے والا ہیٹر اور چائے کا سامان رکھا ہوا تھا، انہوں نے خود ہی چائے بنانا شروع کی اور پھر میرے سامنے پیالی رکھتے ہوئے کہا: چلو چائے پیتے ہیں اور تفصیل سے بات بھی کرتے ہیں، وہ انسانیت کے لیے خود کو وقف کرچکے تھے، غالباً امریکا سے ان کا تعلق تھا، ایک خوش حال اور لکھے پڑھے گھر سے تعلق رکھتے تھے، طبی تعلیم کی تحصیل کے بعد انہوں نے امراض چشم میں تخصیص کیا اور عملی تجربہ حاصل کرنے کے بعد یہاں پاکستان چلے آئے تھے اور اب وہ اس اسپتال میں بلا کسی صلے و ستائش کے دکھی انسانوں کے کام آتے تھے۔

تو آپ نے جناب مسیح ابن مریمؑ کے نقش قدم پر چلنے کو شعار کیا، میری یہ بات سن کر وہ پہلے خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے اور کہا: میں نے تو تمہیں بس کوئی بچہ ہی سمجھا تھا لیکن تم تو بہت کچھ جانتے ہو۔ نہیں، بالکل بھی نہیں، میں نے برملا تردید کی اور کہا: میں کچھ نہیں جانتا اور بالکل درست کہا، میں جاننے کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں، میں نے تو جناب عیسیٰ ابن مریمؑ کے دکھوں بھرے جیون کی روداد اپنے ایک بابا سے سنی ہے کہ جناب مسیح ابن مریمؑ تو مادرزاد نابینا کو بینا کرتے تھے۔

وہ تو مُردوں کو خدا کے اذن سے دوبارہ زندگی دیتے تھے، وہ کوڑھیوں کی بستی میں جانکلتے اور انہیں شفایاب کرتے، وہ واقعی روح اﷲ تھے، وہ جب اپنے گدھے پر سوار یروشیلم میں داخل ہوئے تو مجبوروں، بے بسوں اور جبر و ستم میں پسے ہوئے لوگوں نے ان کے سامنے دیدہ و دل فرش راہ کیے، اس زمانے میں کوئی اگر گدھے پر سوار ہوکر آتا تھا تو یہ اس بات کی منادی تھی کہ وہ نہتّا ہے اور امن و سلامتی کا پیام بر بن کر آیا ہے، اس سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اور جب کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر آتا تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ مسلح ہے اور آمادۂ جنگ، لوگ کسی بھی گھڑ سوار کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے تھے۔

آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ ان کا ایک پیروکار ان کے مشن پر آج بھی کاربند ہے اور انہیں کی طرح بے ریا۔ میری بات سن کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: جب تمہارا جی چاہے اور فرصت ملے تو بلاتکلّف چلے آنا، انہوں نے میرے متعلق بھی پوچھا تھا تو میں نے انہیں مختصر بتایا تھا، لیکن وہ مطمعن نہیں ہوئے تھے۔ فقیر کے ٹیکسلا کے قیام کے دوران ان سے کئی مرتبہ ملاقاتیں رہیں اور طویل بھی، ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ فقیر گواہی دیتا ہے کہ وہ انتہائی مخلص، ایثارکیش، ہم درد، دانا اور خدمت انساں کے جذبے سے سرشار تھے۔

ایسے ایثار کیش و بے ریا لوگ نایاب نہ بھی ہوں تو انتہائی کم یاب ضرور ہیں، جیسے ہمارے ہاں ماں روتھ فاؤ تھیں۔ لوگ انہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کہتے تھے لیکن فقیر نے کبھی اس نام سے انہیں نہیں پکارا، ہمیشہ ماں کہا کہ وہ تھیں ہی ماں، وہ آج ایک اجلی صلیب کے نیچے آسودہ ہیں، سعادت ملی تو ماں روتھ فاؤ کی باتیں بھی کریں گے۔ لوگ ڈاکٹر کرسٹی سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کوئی ان کے لیے انڈے لا رہا ہے، کوئی مرغیاں اور کوئی دیسی گھی، وہ سب کو منع بھی کرتے رہتے لیکن سادہ لوح لوگوں کے خلوص کو کوئی کیسے ٹھکرا سکتا ہے۔ مجھے ایک سجن بیلی نے بتایا ہے کہ آج کل ڈاکٹر کرسٹی کیلیفورنیا امریکا میں مقیم ہیں۔

میں نے ان سے ملاقات کی تفصیل سے بابا کو آگاہ کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بس اتنا ہی کہا کہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا سعادت ہے کہ ساری انسانیت خدا کا کنبہ ہے، ہمیں تو بس خدمت کا حکم ہے تو اسے بجا لانا چاہیے اور وہ لوگ ہی قابل عزت و احترام ہیں جو دوسروں کے دُکھ کو سُکھ میں بدلنے کی کوشش کریں۔

وہ چوتھا دن تھا جب میری مہمانی ختم ہوچکی تھی، اب میں بابا کے ساتھ ایک مزدور کی حیثیت سے کام پر روانہ ہوا۔ میرا کام یہ تھا کہ شہتیر بنانے کے دوران جو لکڑی ٹکڑوں کی شکل میں بچ جاتی انہیں ایک جگہ جمع کروں اور بُرادے کو بوری میں بھروں۔ بابا نے ہدایت دی کہ میں انہیں کام کرتا بہ غور دیکھوں، اس لیے کہ یہ بہت احتیاط طلب کام ہے، اس میں ذرا سی چُوک سے بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے جس سے انسان اپنے کسی اعضاء سے بھی محروم ہوسکتا ہے، سو میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمارے ساتھ ایک اور نوجوان بھی کام کرتا تھا، حنیف نام تھا اس کا، توانا اور چوکس، وہ درخت کے تنے کو ایسا اٹھا لیتا تھا جیسے وہ کوئی تنکا ہو، کام کرتے ہوئے کوئی گیت گنگناتا رہتا اور مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی۔ ہر ایک سے ہنسی مذاق کرنا اس کا شغل تھا۔

مجھے وہ چھوٹا استاد کہنے لگا اور ساتھ ہی کہتا میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ میں نے کہا میں تو کچھ نہیں جانتا تو چھوٹا استاد کہاں سے ہوگیا۔ میری بات سنی تو مسکرا کر کہا: ہم تو تمہیں ہی اپنا استاد کہیں گے۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی باتیں۔ باقی لوگ تو شاید اس کی باتوں کے عادی ہوگئے تھے، میرا تو پہلا دن تھا تو میں نے چِِڑ کر کہا: مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں اتنا چھوٹا اور کم زوز ہوں۔ تو سب کو مخاطب کرکے کہنے لگا: بھائیو! چھوٹے استاد نے کہا ہے کہ وہ چھوٹا نہیں ہے اور نہ ہی کم زور تو آج سے سب اسے بس استاد ہی کہیں گے۔

سب اس کی بات پر ہنسنے لگے، بس ایسا تھا وہ۔ مغرب کے وقت جب ہم کام سے فارغ ہوکر واپس آرہے تھے تو میں نے بابا سے اس کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سب کی کہانی سننے کا شوق ہے تمہیں، تو تم خود کیوں نہیں اس سے معلوم کرلیتے۔ ٹھیک ہے جی! میں معلوم کروں گا، میں نے کہا۔ اپنے ٹھکانے پہنچ کر ہم اپنے معمولات سے فارغ ہوئے، بابا کھانا کھانے اور نماز ادا کرکے فوراً سوجاتے تھے، اس لیے انہیں نصف شب کو جاگنا ہوتا تھا۔ اس دوران میں باہر آکر بیٹھ جاتا اور آس پاس کے منظر میں کھو جاتا۔ سر جھکائے درخت اور آسمان پر گھومتی پھرتی آوارہ بدلیاں مجھے ویسے بھی اچھی لگتی ہیں۔

میں اس نوجوان کے بارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہے کون اور پھر بابا نے بھی اس کے متعلق مجھے کچھ نہیں بتایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ صبح پہلا کام یہی کروں گا کہ اس سے اس کی رُوداد سنوں۔ اس کے بعد میں سوگیا۔ نصف شب سے زیادہ بیت گیا تھا کہ بابا نے مجھے جگا دیا۔ اس وقت تو وہ مجھے نہیں جگاتے، فجر سے کچھ دیر پہلے ہی وہ جگاتے تھے، میں سوچ ہی رہا تھا کہ آج ایسا کیوں ہوا کہ بابا وضو کرکے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: بیٹا! مہمانی بس تین دن کی ہوتی ہے، اب تمہیں اپنے معمولات بدلنے چاہییں، اٹھو رب تعالی سے لو لگاؤ، بس وہی ہے جسے ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے اور اسے ہی اولیّت دینا چاہیے۔ بابا یہ کہہ کر کُھلے میدان میں اپنے رب کے حضور جا کھڑے ہوئے۔

فقیر آپ کو بتانا بُھول گیا تھا کہ بابا کسی مُصلّے پر نماز ادا نہیں کرتے تھے، بل کہ وہ زمین پر ہی سجدہ ریز ہوجاتے اور ان کے قیام، رکوع و سجود طویل ہوتے تھے، فقیر نے اپنے سب بابوں کو اسی طرح سے مصروف عبادت دیکھا ہے۔

میں کیا اور میری نماز کیا، بس اقتداء ضرور کی، آپ اسے نقل کہہ لیں۔ فجر کی نماز بابا کی اقتداء میں ادا کرکے ہم نے ناشتا کیا اور پھر اپنے کام پر۔ بابا نے جانے سے پہلے کہا: تو آج میرے بیٹے نے طے کرلیا ہے کہ حنیف سے اس کی رُوداد ضرور سنے گا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا: اگر میں تمہیں اس سے منع کروں تب بھی۔ نہیں، نہیں بابا! آپ کے حکم کی ہر حال میں تعمیل کی جائے گی، میرے جواب پر بابا نے مسکرا کر دیکھا اور ہم اپنے کام پر روانہ ہوئے۔ آج بابا بالکل ہی خاموش تھے، پھر جب ہم آرا مشین کے قریب تھے کہ انہوں نے سائیکل روکی اور ہم پیدل چلنے لگے تب بابا بولے: حنیف کی کہانی میں تمہیں خود سناؤں گا۔ بابا اگر آپ مناسب سمجھیں تو سنائیے گا ورنہ میرا اصرار نہیں ہے۔ میری بات پر بابا پھر مسکرائے اور ہم اپنے کارخانے جا پہنچے۔ حنیف پہلے سے وہاں موجود تھا، اس نے بابا کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور چائے لینے چلا گیا۔ ہم نے چائے پی اور پھر کام شروع۔

وہ دن بھی آخر ختم ہوگیا اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔ اپنے معمولات سے فارغ ہوکر بابا نے سونے کے بہ جائے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر آکر بیٹھ گئے پھر انہوں نے بتایا: دیکھو بیٹا! ہر انسان بہ ذات خود ایک کہانی ہے، بس اگر واقعی کوئی ہم درد مل جائے تو جیون آسان ہوجاتا ہے، لیکن ایسا ہم درد ملتا بس قسمت سے ہے۔

جس حنیف کو تم آج دیکھ رہے ہو، وہ ایسا تھا نہیں۔ وہ ایک بہت امیر گھرانے کا ہے، جہاں دنیا کی ہر آسائش اسے میسر تھی، نہ جانے ہم تباہی کے سامان کو آسائش کیوں شمار کرتے ہیں۔ جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ اپنے علاقے کی ایک دوشیزہ کو دل دے بیٹھا تھا، ابتداء میں تو اس کے گھر والے یہی سمجھے کہ تھوڑے دن کا بھوت ہے، اتر جائے گا لیکن بیٹا! کبھی کوئی بھوت واقعی آپ کو اپنے دام میں گرفتار کرلیتا ہے، لوگ عشق و محبت کو بھی ایک بھوت ہی سمجھتے ہیں ناداں، تو بہ جائے اس کے کہ اس کی بات سُنی جاتی اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا جانے لگا، گھر میں وہ تھا بھی سب سے چھوٹا تو کسی نے بھی اس کی نہیں سنی، کسی دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہونا کوئی گناہ تو نہیں ہے ناں، لیکن اسے گناہ سمجھا جاتا ہے، جب رب تعالی نے اس کی اجازت دی ہے کہ کوئی پسند آجائے تو اس سے نکاح کرلو تو پھر سماج کون ہوتا ہے اس کے راستے میں دیوار۔ دیکھو! رب تعالی نے تو زندگی آسان بنائی ہے، ہم نے ہی اسے اجیرن بنایا ہوا ہے۔

پھر ایک اور مسئلہ بھی ہم نے بنا لیا ہے کہ فلاں خاندان اور قبیلے کی لڑکی سے کسی دوسرے خاندان و قبیلے کا فرد شادی نہیں کرسکتا، جہالت نہیں تو اور کیا ہے یہ، خیر حنیف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس محبت کے مارے کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر اسے گھر میں قید کردیا گیا، یہ تو کوئی علاج نہیں ہے اس روگ کا، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا، سات سال کوئی کم مدت نہیں ہوتی، اسے یہ عذاب سہتے ہوئے، پھر وہ دن آیا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ کسی نے مجھے یہ سب کچھ بتایا تو میں اس کے گھر پہنچا۔ اس کے گھر والوں سے ملا تو انہوں نے تو صاف انکار کردیا کہ میں اس مسئلے میں نہ آؤں، میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ ظلم ہے، باز رہیں وہ اس سے، لیکن وہ تو اپنی دولت، جاگیر اور اپنی خاندانی وجاہت و اثر و رسوخ کے نشے میں تھے، مان کر ہی نہیں دیے، میں نے ان سے کہا کہ ان کے لیے تو حنیف ویسے بھی کسی کام کا نہیں تو اسے مجھے دے دیا جائے، لیکن میری ساری کوشش رائیگاں جارہی تھی، ایک ماہ تک مجھے وہاں رکنا پڑا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے، اور پھر مجھے کچھ اور کرنا پڑا، آخر کار وہ حنیف کو مجھے اس شرط پر دینے پر آمادہ ہوئے کہ اب وہ اس سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھیںگے۔

میں حنیف کو لے کر آگیا، اس کی نوزائیدہ بچے کی طرح نگہہ داشت کی، مجھے اب تجربہ ہے کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے، ایک ماں ہی کو زیبا ہے کہ اس کے پاؤں میں جنّت کو رکھا جائے۔ مجھے حنیف کی ماں بننا پڑا، پورے چھے سال لگے ہیں اس پر، جب کہیں جاکر وہ تمہیں اس حالت میں نظر آرہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں نے ہی اسے جنم دیا ہے۔ اس کے دل میں جو کانٹا چبھ گیا ہے، اس کانٹے نے اپنی جگہ تو تھوڑی سے ضرور چھوڑی ہے لیکن وہ اب بھی اس کے دل میں پیوست ہے، اسی لیے وہ مسکراتا رہتا اور گنگناتا رہتا ہے، وہ بھی یہیں رہتا ہے لیکن کچھ دن سے اس نے مجھ سے اجازت لی ہے کہ وہ وہیں کارخانے میں رہے گا تو اس کی خوشی میں بھی خوش ہوں، لیکن کچھ دن بعد وہ اسی جگہ ہمارے ساتھ ہوگا۔ میں نے اسی لیے تمہیں منع کیا تھا اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ تمہیں اپنی رُوداد سنا سکے۔ اس کے ساتھ ہی بابا نے مجھے حکم دیا کہ میں حنیف کے ساتھ ایک حقیقی چھوٹے بھائی کی طرح سے رہوں، تاکہ وہ مزید تیزی سے زندگی کی جانب لوٹ سکے۔

دیکھیے! آپ کو حنیف کی بپتا سناتے ہوئے کیا یاد آگیا۔ ہاں یہ بھی ایک صوفی باصفا کا شعر ہے، تھا تو وہ مستند ڈاکٹر، جی، ایم بی بی ایس، پھر دنیا سے جلد رخصت ہوا، اس کا لہو آج بھی فقیر کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ کیسے ۔۔۔۔۔ ؟ سانس کی آمد و رفت جاری رہی تو بتاؤں گا۔

دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئے ہیں

اس دوڑ میں بھی قیس سے پیچھے نہیں رہے

The post جہاں گشت ؛ دیوانگی کا آخری دَر چُھوکے آئیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ! appeared first on ایکسپریس اردو.


میجر خورشید قائم خانی؛  خانہ بدوشوں کی محبوب شخصیت

$
0
0

60 اور 70 کے عشروں میں رضیہ بٹ، اے آر خاتون اور دیبا خانم کی تحریروں میں ناول کی مرکزی کردار کو فوجی جوان اچھے لگا کرتے تھے چوڑے شانوں، کلف والی وردی اور اس پر لگے بیج اور تمغے، پڑھنے والے اور پڑھنے والیاں بھی ان داستانوں کے اسیر تھے، لیکن اسی عشرے میں میجر کے رینک پر فائز خورشید قائم خانی کے جی میں جانے کیا سمائی کہ اس نے فوج کی شان دار ملازمت تج کر معاشرے کے پس ماندہ طبقات سے رشتے استوار کیے۔

خانہ بدوش، شیڈولڈ کاسٹ، کچلے ہوئے، پسے ہوئے نچلی ذاتوں کے اچھوت ہندو قبائل جنھیں ذات پات کی برتری والے سماج میں مسلمان ایک طرف خود ان کے ہم مذہب بھی کراہت سے دیکھتے تھے۔ بھیل، کولہی، شکاری، کبوترے، جوگی، باگڑی، اوڈھ اور جندراوڑے جن کے ہوٹلوں میں چائے کے کپ تک الگ رکھے جاتے تھے خود اٹھاتے اور استعمال کے بعد دھو کر وہیں رکھ جاتے کہ ان کی ذات قبیلے والا دوسرا فرد آئے تو اس کے کام آسکے۔ میجر خورشید قائم خانی ان اقوام کی محبوب شخصیت تھے۔

سندھ کے دیہی سماج میں عام آدمی اپنے سے بلند مرتبہ شخص کو وڈیرہ، بھوتار، میجری، رئیس اور سائیں وڈا کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ خورشید کو میجر کہلوانے کا شوق تھا نہ میجری منوانے کی عادت، وہ تو خورشید تھا۔ صحیح معنوں میں آفتاب جس کی کرنیں کھیتوں، کھلیانوں، میدانوں، کہساروں، سمندروں اور دریاؤں حتیٰ کہ ندی نالوں اور جوہڑوں پر یکساں روشنی بکھیرتی ہیں۔

1933 کے کسی مہینے میں بھارتی راجستھان کے گاؤں میں آنکھ کھولی اور 9 جنوری 2013 کو طویل علالت کے بعد کراچی کے اسپتال میں آنکھیں موند لیں۔ 80 برس کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا اور عمر بھر کی بے قراری کو قرار آیا۔

فوج کی ملازمت چھوڑی تو پنشن ملی نہ دیگر مراعات۔ شوریدہ سر مگر سراپا محبت خورشید قائم خانی نے ٹنڈوالٰہ یار آکر جدی پشتی زمین سنبھالی قناعت کی زندگی بسر کرنے والے نے ہندو بھیل کسان رکھے اور کبھی حساب کتاب نہ کیا جو بٹائی پر ملا قبول کیا اور اس میں بھی اپنے ان دوستوں کا حصہ رکھا جن سے لوگ بالعموم دور رہتے تھے۔

ٹنڈو الٰہ یار ماضی میں ضلع حیدرآباد کی تحصیل تھا جسے گذشتہ عشرے میں سندھ کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے ضلع کا درجہ دیا تھا۔ اسی شہر کو میجر خورشید کے والدین نے قیام پاکستان کے بعد نیا وطن بنایا تھا۔ اس کی کشادہ سڑکوں، پُرپیچ گلیوں اور طرح دار لوگوں کے بیچ لڑکپن اور جوانی گزارنے والے خورشید نے اپنی قائم خانی برادری کے دیگر افراد کی طرح پاک فوج جوائن کی مگر بے چین طبیعت اکتائی تو دیر نہ لگائی اور واپسی پر اسی شہر کی مٹی سے رشتہ استوار کیا۔

ٹنڈو الٰہ یار کے صحافی اور ادیب اشفاق لغاری کہتے ہیں کہ خورشید کے سوچنے کا انداز ہی منفرد اور یکتا تھا۔ سندھ میں جب کسی کو سپردخاک کریں تو کہتے ہیں’’مٹی ماں کے حوالے کیا‘‘ خورشید اس جملے پر فدا تھا کہتا تھا دفن کیا، تدفین کی، سپرد خاک کیا میں وہ اپنائیت نہیں جو مٹی کو ماں کہنے میں ہے۔ ٹنڈو الٰہ یار خوب صورت بستی ہے مردم خیز بھی۔ ضیاالحق دور میں شاہی جبر کے باعث کراچی کے کسی عقوبت خانے میں نظریات پر جان قربان کرنے والے نذیر عباسی شہید سے لے کر سندھ میں لوک دانش کے بڑے کردار وتایو فقیر تک کتنے ہی ہیرے، موتی اور لعل اس شہر کی شناخت ٹھہرے ہیں۔

فن کی دنیا کے بڑے نام قیصر نظامانی، راشد منہاس کی شہادت پر اپنے بیٹے کا نام راشد رکھنے والے ایئرکموڈور شبیر قائم خانی جنھوں نے ٹنڈو الٰہ یار کے قریب اسی بیٹے کی یاد میں راشد آباد بسایا ہے جہاں تعلیم، صحت اور تفریح کی سہولتیں اہل علاقہ کے لیے آسان کی ہیں راشد منہاس نے وطن پر جان واری تھی تو راشد قائم خانی نے جو پی اے ایف میں پائلٹ تھا اور پرواز کے دوران کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں انجن کی خرابی پر طیارہ قریبی لیاری ندی میں گرا کر علاقے کے باشندوں کی جان بچالی تھی اور خود شہادت کا مرتبہ قبول کیا تھا۔ ویسے علاقے کی ایک اور شناخت مگسی قبیلہ بھی ہے۔ رئیس اللہ بخش مگسی جو پی پی ، پی پی ش اور مسلم لیگ (ن) میں رہے۔

سیاسی ثبات ان کے صاحبزادے عرفان گل مگسی اور صاحبزادی راحیلہ مگسی میں بھی نہیں (ق) لیگ، پی پی فنکشنل لیگ، (ن) لیگ جہاں سہولت ملی شمولیت اختیار کرلی۔ اسی شہر کی گلیوں، چوباروں نے امام باڑے کے مکین خورشید قائم خانی کو بھی دیکھا جس سے معروف لکھاری خدیجہ گوہر نے پوچھا تھا کہاں پیدا ہوئے؟ تو جواب تھا راجستھان۔ اب کہاں رہتے ہو؟ تو مسکرایا اور کہنے لگا ’’سندھ میں لیکن درحقیقت کہیں بھی نہیں۔‘‘ خدیجہ نے اس کی سمت دیکھا اور کہاں کیوں؟ ’’بس خدیجہ! میں نے تقسیم کے عمل کو دیکھا ہے ماں کے ہمراہ ہجرت کی تھی اور درد کے وہ مناظر آنکھوں نے جذب کیے ہیں کہ میں نے بٹوارے کو قبول نہیں کیا۔‘‘ خورشید نے گفتگو تمام کرنا چاہی لیکن خدیجہ آخر خدیجہ تھی جس کے انگریزی ناول کا خورشید نے ’’امیدوں کی فصل‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔ سوال جڑ دیا ’’پھر بھی گھر تو کہیں ہوگا؟‘‘ خورشید نے مختصر جواب دے کر اگلے سوال کا راستہ ہی بند کردیا کہ ’’خانہ بدوشوں کے گھر نہیں ہوتے۔ میرے ذہن میں آج تک راجستھان کے اس شہر کا خاکہ ہے جہاں میں نے جنم لیا تھا۔‘‘ خدیجہ کی موت کے بعد وہ مزید تنہا ہوگیا تھا۔

اشفاق لغاری بتاتے ہیں کہ قیصر نظامانی کے والد نور محمد نظامانی، جوگی بستی کا رانجھا، فیض شیدی، اسحٰق منگریو، علی نواز گھانگرو سمیت کتنے ہی اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے لیکن اسے طمانیت خانہ بدوشوں کی بستی ہی میں ملتی تھی جوگی بستی کے رانجھا کی بیٹی کو اس نے تعلیم دلوائی، اخراجات برداشت کیے، لجپت راؤ کو پڑھایا لکھایا خود جوگی بستی میں اسکول قائم کیا اور خانہ بدوشوں سے اس کی محبت بھی دکھاوے کی نہ تھی وہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے تھے۔ رانجھا کی بیٹی اسے باپ کا درجہ دیتی تھی چائے، پانی اور کھانا لاتی تو جوگیوں کے ساتھ تناول کرتے یہ جوگی بھی خوب ہیں انھیں لوگ محض سپیرا سمجھتے ہیں حالاںکہ ان کی اپنی ایک دنیا ہے اسحٰق منگریو جو صحافت میں ایک بڑا نام ہیں بتانے لگے کہ جوگی بڑے آرٹسٹ ہیں بین یا مرلی بجانا آسان نہیں گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔

سانپ اس سُر پر مست ہوکر جھومتا ہے تو یہ روزی روٹی کماتے ہیں لوگ اسے تماشا جانتے ہیں مگر سانپ کو پکڑنا، بین بجانا اور سانپ کے کاٹے فرد کا علاج کرنا کوئی ان سے سیکھے اسی طرح سامی ہیں جو ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر قسمت کا احوال بتاتے ہیں۔ سندھ سے ہند بلکہ یورپ تک کے خانہ بدوش اس آرٹ کے ماہر ہیں وہ ماضی حال اور مستقبل کی گتھیاں کھول دیتے ہیں آپ کیا تھے، کیا ہیں اور کیا بنیں گے۔ یوں بتاتے ہیں جیسے سامنے لکھا ہوا پڑھ رہے ہیں۔ 45 برس پہلے کی بات ہے ایک سامی نے ہتھیلی دیکھ کر مجھے کہا تھا۔ تم یہ گاؤں اور دکان چھوڑ کر بڑے شہر میں ’’ریڈوے‘‘ پر کماؤ گے وہ ریڈیو کو ریڈوا بتا رہا تھا اور سامنے دھری پنسل کی سمت اشارہ کیا کہ ہر وقت اسے ساتھ رکھو گے۔

پنسل نہ سہی پین سہی لیکن لکھنا اور بولنا ہی اب پیشہ ٹھہرا ہے تو یہ تحریر لکھتے ہوئے اس سامی کی مشابہت ذہن میں تازہ کی تو کانوں میں بڑی بڑی بالیاں ، انگلیوں میں سبز، نیلے اور سرخ پتھروں والی انگشتریاں اور کندھے پر رکھے لمبے بانس کے دونوں سروں پر جھولیوں میں سانپوں کی پٹاریاں رکھنے والا وہ ارجن یاد آیا جو اکثر میری دکان پر آتا اور صرف پانی پیتا تھا میں اسے اپنے گلاس میں پانی دیتا تو وہ پہلے انکار کرتا کہ میں سامی ہوں لیکن میرے اصرار پر مان جاتا اور پھر باتیں کرتا تو مختصر جملوں میں معنی خیز اشارے دیتا ایک بار کہنے لگا ’’سجن (دوست) سانپ نہیں مارتا اس کا خوف مارتا ہے میں نے اس سانپ کا جو پٹاری میں ہے زہر نکال دیا ہے مجھے خوف نہیں آتا یہ مجھے کاٹ لے کچھ نہیں ہوگا لیکن شہری بابو کو کاٹ لے تو وہ ڈر سے مر جائے گا۔‘‘

پھر میں کراچی چلا آیا اخبار کی وابستگی اور ریڈیو، ٹی وی کے تعلق نے رزق روزگار دیا تو شہر کی مصروفیات نے گاؤں کو بھلا دیا لیکن خورشید قائم خانی کے تذکرے اور جوگیوں، سامیوں کے فن کا ذکر اسحق منگریو سے چھڑا تو ارجن نامی ’’سجن‘‘ (دوست) بہت یاد آیا۔ اسحٰق کہتے ہیں کہ شاہ لطیف نے اپنے کلام میں خانہ بدوشوں کو موضوع بنایا ہے۔ جوگی، سامی، خانہ بدوش قبیلے ان کے رسم و رواج شاہ کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ شاہ کے بعد خورشید قائم خانی جنھوں نے ان قبائل پر تحقیق کی اور دنیا کو ان کی عادات، خصائل اور خوبیوں سے متعارف کرایا اسحق منگریو نے کراچی کے لٹریچر فیسٹیول میں خانہ بدوشوں پر سیشن میں یہ بات اپنی گفتگو میں تفصیل کے ساتھ بیان کی تھی۔

سندھ کے جوگی اپنی میت کو جلانے کی بجائے دفناتے ہیں خورشید قائم خانی کے دوست اور جوگی کلچر سے رغبت رکھنے والے فیض شیدی نے ایسی ہی ایک تدفین کا احوال تفصیل سے بیان کیا تھا جس میں مذکور تھا کہ جوگیوں کا قدیمی قبرستان عمر کوٹ میں ہے لیکن یہ کسی اور علاقے میں ہوں تو خاموشی کے ساتھ ڈیرے ہی میں قبر کھود کر اسے دفنا کر مٹی برابر کرکے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ بہت کم میت کو عمر کوٹ لے جاکر کریا کرم کرتے ہیں۔ فیضو شیدی نے خورشید قائم خانی کا حوالہ دے کر اپنے دوست کھیموں جوگی کی تدفین کی داستان بتائی تھی جس میں وہ خود بھی شریک تھے ان کے مطابق میت کو باقاعدہ غسل دے کر گیروے رنگ کا کفن پہنایا جاتا ہے۔

منہ میں پانی کا چلو دے کر تانبے کا ٹکڑا دانتوں کے بیچ رکھا گیا اور تمام منکے، انگشتریاں اور دیگر جوگیانہ علامتیں جسم سے علیحدہ کرکے رام رام گورکھ ناتھ کی آوازوں کے ساتھ قبر میں اتار کر کچھ مٹی ڈالنے کے بعد اس پر کانٹے والی جھاڑیاں رکھی گئیں کہ کوئی جانور قبر کھود کر لاش نہ نکال لے اور پھر زمین برابر کرکے مٹی کا لیپا دیا گیا اور خشک مٹی بکھیری تاکہ اہل علاقہ کو پتا نہ چلے کہ یہاں کسی کو دفن کیا گیا ہے۔ میت کے ساتھ قبر میں ایک تھیلی بھی رکھی گئی جس میں کھانا اور بیڑیوں کا پیکٹ تھا سندھ میں جوگی ہی نہیں عام آدمی بھی تمباکو کے پتے والی بیڑیاں شوق کے ساتھ پیتے ہیں کہتے ہیں اگر میت عمر کوٹ لے جانے میں مالی دشواری ہو تو اس مقام پر جوگی دفن کرتے ہیں جہاں مرنے والے نے آخری سانسیں لی ہوں۔

خورشید قائم خانی مرحوم نے بڑی بھرپور زندگی گزاری وسیع حلقۂ احباب اور اس پر مان کرنے والے وفات کے چھے برس بعد بھی اسے یاد رکھے ہوئے ہیں۔ فیض محمد شیدی مرحوم جب بھی شکاریوں، راوڑیوں، بھیلوں، کولہیوں اور جوگیوں کا ذکر کرتے خورشید کا حوالہ ضرور دیتے۔ اشفاق لغاری، اسحق منگریو، علی نواز گھانگرو اور اسحٰق سومرو سے بھی دوستوں نے خورشید کی یادیں اور باتیں سنی ہیں۔ خورشید قائم خانی نے بھٹکتی نسلیں، سیپیاں اور پتھر، سپنوں کا دیس، رنی کوٹ کا قلعہ، ڈھون مارو، ماروی کی دنیا سمیت 22 کے لگ بھگ کتب تحریر کیں، امرتا پریتم کی 17 کہانیوں کا ترجمہ کیا جو ’’سترہ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ہی شایع ہوا۔ کامریڈ خدیجہ گوہر کے انگریزی ناول کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا جو ’’امیدوں کی فصل‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دست یاب ہے۔

انگریزی اخبار اسٹار اور سندھ اخبارات کاوش و ہلچل میں کالم لکھے، موضوع خانہ بدوش ہی تھے۔ ان کے مسائل، مشکلات، ریت رواج، رسوم اور خصوصیات کو دنیا کے سامنے لائے اور مخفی گوشے اجاگر کیے۔ ویسے تو فیض محمد شیدی، نواز کنبھر، خالدکنبھر، اسحق منگریو اور اشفاق لغاری بھی ان موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن مماثلت یہ ہے کہ ساری سنگت ایک ہے دکھ، درد، خوشیاں سانجھی ہیں۔ معروف لکھاری انجم نیاز نے ایک بار خورشید قائم خانی سے معلوم کیا تھا تم دلتوں پر لکھنا کب چھوڑو گے؟ تو میجر کا جواب تھا جب تم اشرافیہ کو موضوعِ تحریر بنانا ترک کردو گی۔

ہم نے ان پر کیا حرف حق سنگ زن

جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی

جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا

اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی

خانہ بدوشوں، باگڑیوں اور شکاریوں کی جھگیوں، جھونپڑیوں میں طمانیت محسوس کرنے والے خورشید قائم خانی نے جنرل ضیا الحق دور میں وزیردفاع میر علی احمد تالپور کو ملاقات کے لیے آنے سے روک دیا تھا۔ میر صاحبان سے رفاقت کا رشتہ تھا بزم آرائیاں معمول تھیں لیکن وزارت سنبھالی تو علی احمد تالپور نے سندیسہ بھیجا۔ پیغام لانے والے کو خورشید قائم خانی نے جواب دیا ’’میر صاحب سے کہنا میرے گھر کا دروازہ اور راستہ کشادہ نہیں رہا، آنے کا تکلف نہ کریں۔‘‘ وہ ضیا کابینہ میں شمولیت پر میر علی احمد تالپور سے ناخوش تھے۔ اس دور میں جمہوری آزادیاں سلب تھیں حتیٰ کہ صحافی تک سیاسی کارکنوں کی طرح کوڑے کھانے والوں میں شامل تھے۔ بقول منہاج برنا مرحوم:

اب تیرگی کو حکم ہے‘ تابندگی لکھو

سہ کالمی وقوعے کو‘ یک کالمی لکھو

معاشرے کے پس ماندہ اور اچھوت طبقات سے ناانصافیوں پر خورشید قائم خانی کڑھتے اور افسوس کرتے ان کے رفقا بیان کرتے ہیں کہ وہ تبدیلی کی بات کرتے انقلاب کے خواب دیکھتے اور انھیں شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ذہن سازی پر زور دیتے وہ درباری نہیں تھے کہ چاپلوسی کرتے اور آمروں سے منصب یا خلعت پاتے۔ کتنے ہی آدرشی اور انقلابی بالآخر ان جماعتوں اور شخصیات کو پیارے ہوئے جن کے خلاف صف آرا رہے تھے، جیساکہ ایک خوشامدی نے کہا تھا ’’مجھے تو اس سے کوئی فر ق نہیں پڑتا کہ بیربل بنوں یا ملا دوپیازہ۔ دربار میں موجودگی ضروری ہے۔‘‘ خورشید نے سندھ کو خانہ بدوشوں کے ساتھ دیکھا اور گھوما تھا۔ مراعات یافتہ طبقے کی ہر آسائش اور اچھوتوں کی تلخ زندگی کو قریب سے دیکھا تھا۔ سچل سرمست کے الفاظ میں:

کتوں کے گلے میں سونے کے گلوبند

وتایو فقیر کی آخری آرام گاہ کے نواحی شہر ٹنڈو الٰہ یار سے تعلق کے ناطے میجر خورشید قائم خانی نے سچائی کا راستہ اختیار کیا اور اسے عملی زندگی کا حصہ بنایا۔ رفاقت اور قرابت کے رشتے بھی معاشرے کے کچلے اور پسے ہوئے طبقات سے استوار کیے۔ اشفاق لغاری بتانے لگے کہ میجر خورشید انسان دوستی کے قائل تھے سادگی اور قناعت کا نمونہ بناوٹ اور تصنع سے کوسوں دور، نسلی تفاخر اور لسانی امتیاز سے پرے ان کی اپنی برادری اور اہل خانہ بھی انھیں نہ سمجھ پائے۔ اسی سبب اعتراض اٹھاتے تھے لیکن وہ وسیع المشرب اور کھلے ذہن کے انسان تھے اگر فوج سے مستعفی نہ ہوتے تو ترقی پاتے اور مراعات بھی ملتیں لیکن وہ دنیاوی مناصب، مراتب کے قائل نہ تھے خانہ بدوشوں اور اچھوتوں سے دوستی اور تعلقات اس نوعیت کے تھے کہ جوگیوں، شکاریوں، بھیلوں اور سامیوں کی بستیوں میں وہ دیوتا تصور ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے یورپ سے سندھ تک خانہ بدوشوں میں بہت سی باتیں، اقدار مشترک ہیں۔

طرززندگی، رسم و رواج، اپنے علوم پر دسترس اور سینہ در سینہ منتقل ہونے والی روایات۔ جنھیں ہم معمولی بات سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں وہ ان کے اوصاف ہیں۔ خانہ بدوشوں سے تعلق کے ناتے بعض سوال اٹھاتے کہ مرنے کے بعد دفن کیے جاؤ گے یا جلایا جائے گا؟ استفسار کرنے والوں کی کم علمی کہ سندھ میں بہت سے ہندو قبائل اپنے مُردوں کو دفن کرتی ہیں۔ بھارتی آئین کے خالق ڈاکٹر امبیدکر کو پسند کرتے۔ وجہ اس کی بھی دلت ہونا تھی، ٹنڈو الٰہ یار میں واقع پست ہندو اقوام کے روحانی پیشوا راماپیر پر تفصیلی تحقیقی مضمون انگریزی اخبار اسٹار میں شایع کرایا۔ البتہ قوم پرستوں سے میجر خورشید کی کبھی نہیں بنی، کچھ عرصہ رسول بخش پلیجو کی پارٹی میں بھی رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ محدود قوم پرستی کے فلسفے نے مظلوموں کو تقسیم در تقسیم کیا ہے۔

21ویں صدی کے رواں عشرے میں 9 جنوری 2013 کو وفات پائی تو ٹنڈو الٰہ یار میں سپردخاک ہوئے۔ پس ماندگان میں اہلیہ، بیٹی، دو بیٹوں جاوید کوثر قائم خانی اور عامر قائم خانی سمیت ایک وسیع حلقہ احباب چھوڑا۔ آج بھی ان کا تذکرہ ہو تو یادوں اور باتوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں جن سے انھوں نے سچی محبت کی تھی، کسی لالچ اور دنیاوی منفعت کو سامنے رکھے بغیر:

جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

The post میجر خورشید قائم خانی؛  خانہ بدوشوں کی محبوب شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.

زندگی محفوظ کرنے کیلئے دس کھرب درخت لگانے کا چیلنج

$
0
0

چالیس سال پیشتر میرا بچپن و لڑکپن لاہور اور پھر کراچی میں گزرا ۔ خوب یاد ہے، جب کبھی صبح سویرے سیر کرنے نکلتا ، تو فضا درختوں سے خارج ہوتی آکسیجن سے معمور ہوتی۔ پاک صاف ہوا میں سانس لے کر جسم و جاں تازہ دم اور طبعیت ہشاش بشاش ہوجاتی۔ لیکن اب کراچی و لاہور سمیت وطن عزیز کے تمام بڑے شہروں میں ایسے مقامات بہت کم ہیں جہاں شہریوں کو آکسیجن سے بھر پور صحت مند ہوا میسّر آسکے۔حتی کہ باغات میں بھی کوئی نہ کوئی اجنبی بو فضاکا حصہ محسوس ہوتی ہے۔

بیشتر شہری آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کررہی ہے۔ارض پاک کے شہری علاقوں میں آلودہ ہوا نے دو عوامل کے ملاپ سے جنم لیا۔ اول جوں جوں شہروں کا رقبہ بڑھا، تعمیراتی منصوبے انجام دینے کے لیے لاکھوں درختوں اور پودوں کو کاٹ دیا گیا جو نہ صرف آکسیجن خارج کرتے تھے بلکہ ہوا میں موجود خطرناک گیسیں اور ذرات بھی جذب کرلیتے۔ دوم شہروں میں رکازی ایندھن (پٹرول، گیس، کوئلے) سے چلنے والے کارخانے اور گاڑیاں حرکت میں آگئیں۔

یہ کارخانے اور گاڑیاں روزانہ بے حساب دھواں فضا میں خارج کرتی ہیں جس میں آلودگی جنم دینے والی گیسیں اور ذرات پائے جاتے ہیں۔غرض پہلے تو ہوا تروتازہ رکھنے والے درخت شہروں سے معدوم ہوئے اور پھر وہ گاڑیوں اور کارخانوں سے بھر گئے۔ یہی نہیں، شہروں کا فضلہ بھی جلایا جانے لگا جس نے فضائی آلودگی میں اضافہ کردیا۔ تازہ سائنسی رپورٹوں کے مطابق بھارت اور پاکستان کے شہروں میں فضائی آلودگی دیگر عالمی شہروں کی نسبت سب سے زیادہ ہوچکی۔ یہی وجہ ہے، آج آپ کراچی یا لاہور کے کسی باغ میں صبح سویرے بھی چلے جائیں تو وہاں آپ کو آکسیجن و پھولوں کے ملاپ سے جنم لینے والی وہ دلربا مہک بہ مشکل ملے گی جو چالیس پچاس سال قبل روح مہکا دیا کرتی تھی۔

جدید تحقیق نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ آلودہ ہوا میں شامل گیسوں، صنعتی فضلے،کوڑے کرکٹ اور گردو غبار کے ننھے منے زہریلے ذرات (Particulate matter)بذریعہ سانس ہمارے دماغ، دل، جگر اور پھیپھڑوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لاکھوں شہری امراض تنفس کے علاوہ کندذہن اور یادداشت میں کمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ وہ پہلے کی طرح چست و چالاک نہیں رہے۔ جب جسم میں آلودہ ہوا کے زہریلے ذرات کی کثرت ہوجائے، تو کوئی بھی اہم عضو کینسر کا نشانہ بن سکتا ہے۔ گویا شہروں میں آلودہ فضا کروڑوں انسانوں کی تندرستی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی۔

آبی ذرائع خطرے میں

ہوا کی آلودگی اور زمین کے بڑھتے درجہ حرارت (گلوبل وارمنگ) نے مل کر پانی اور خوراک کے ذخائر کو بھی ختم ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا۔کرہ ارض پہ زندگی پانی، ہوا اور خوراک…ان تینوں کے دم قدم ہی سے برقرار ہے۔ ذرا سوچیے، اگر ان میں سے ایک شے بھی ہمیں میسر نہ آئے، تو کرہ ارض سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ صد افسوس کہ انسان اپنی سرگرمیوں کے ذریعے ہی اسی خوفناک قیامت کو جنم دے رہا ہے۔سب سے پہلے پانی کی نعمت کو لیجیے کیونکہ انسانی جسم کا 60 فیصد حصہ اسی مائع پر مشتمل ہے۔

دماغ ‘ دل اور جگر سمیت ہمارے تمام اہم اعضا پانی کی مدد ہی سے اپنے افعال انجام دیتے ہیں۔ پانی نہ ملے تو وہ کام نہیں کر پاتے ا ور انسان بڑے اذیت ناک طریقے سے موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ گویا انسان جب پیاسا ہو‘ تو ا یک گلاس پانی اس کے لیے سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی بن جائے گا ۔ اسی لیے ایک بادشاہ نے پیاس کی حالت میں اپنی سلطنت کی قیمت ایک پیالہ پانی لگائی تھی۔دلچسپ بات یہ کہ ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین پر پانی بہت کم تھا۔ رفتہ رفتہ جب سیارچے (Asteroids) اور شہاب ثاقب (Comets) زمین سے ٹکرائے‘ تو ان میں محفوظ پانی بھی کرہ ارض میں منتقل ہو گیا۔ یوں زمین پر پانی کی کثرت ہو گئی۔اور پھر اسی کی بدولت کرہ ارض پر زندگی کی نمو ممکن ہو سکی۔

زمین کی ایک نادر و نایاب خصوصیت کے باعث پانی سمندروں‘ جھیلوں اور تالابوں وغیرہ کی صورت جمع ہوا۔ وہ یہ کہ زمین سورج سے اتنی دور ہے کہ اس کی حدت سارے ارضی پانی کو بخارات میں تبدیل نہیں کر پاتی۔ دھوپ سے جو پانی بخارات بن جائے اس کا بھی بیشتر حصہ زمین کی کشش ثقل کے باعث ارضی فضا میں چکر لگاتا رہتا ہے۔

زمین مگر سورج سے اتنی دور بھی نہیں کہ اس پر موجود پانی درجہ حرارت کم ہونے پر برف بن جائے۔ گویا جب ہمارا شمسی نظام وجود میں آیا تو قدرت الٰہی نے کرہ ارض کو ٹھیک ایسے مقام پر رکھ دیا جہاں بہ آسانی زندگی جنم لے سکے۔عام خیال یہ ہے کہ کرہ ارض پر محفوظ پانی ارضی فضا سے نکل نہیں پاتا ۔ یہ سوچ غلط ہے۔ دراصل جب پانی بخارات کی صورت فضا میں پہنچے‘ تو وہاں فوٹون ذرات پانی کے سالمات (مالیکیولز) توڑ ڈالتے ہیں۔

یہ کیمیائی عمل ’’نورکثافت‘‘ (Photodissociation) کہلاتا ہے۔ یہ عمل ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں کے ایٹم علیحدہ کر دیتا ہے جن سے کہ پانی بنتا ہے۔ تب کچھ ہائیڈروجن ایٹم ارضی کشش ثقل سے آزاد ہو کر خلا میں فرار ہو جاتے ہیں۔گویا ہماری زمین روزانہ کچھ پانی سے محروم ہو رہی ہے۔ مگر زمین پر روزانہ ہی شہاب ثاقب کے ٹکڑے بھی گرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں محفوظ پانی زمینی پانی کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اس قدرتی عمل کے باعث زمین پر پانی کی مقدار کم نہیں ہو پاتی اور لاکھوں برس سے تقریباً یکساں چلی آ رہی ہے۔ لیکن اب انسانی سرگرمیاں یہ قدرتی توازن تباہ کرنے سے کرہ ارض پر پانی کی کمی پیدا کر سکتی ہیں۔

مثبت و منفی خصوصیات کی حامل گیسیں

زمین کا درجہ حرارت معتدل رکھنے میں سبز مکانی گیسوں (Greenhouse Gases) کا بنیادی کردار ہے۔ یہ گیسیں آبی بخارات (ہائیڈروجن و آکسیجن)، کاربن ڈائی آکسائیڈ ،میتھین اور اوزون پر مشتمل ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی دھوپ زمین تک پہنچنے دیتی ہیں اور ان کا راستہ نہیں روکتیں۔ جب زمین دھوپ سے گرم ہو جائے تو تپش والی شعاعیں خارج کرتی ہے۔ سبز مکانی گیسیں ان گرم شعاعوں کا بہت سا حصّہ جذب کر کے انہیں واپس زمین کی طرف پھینکتی رہتی ہیں۔ یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ’’سبز مکانی اثر‘‘ (Greenhouse effect)کہلاتا ہے۔

گویا زمین پر زندگی کی پیدائش میں سبز مکانی گیسوں کا بھی اہم کردار ہے۔ وجہ یہ کہ اگر سبزمکانی گیسیں نہ ہوتیں‘ تو سورج کی دھوپ سطح زمین کو زیادہ گرم نہیں کر پاتی۔ چنانچہ سطح زمین کا درجہ حرارت منفی 18 درجے سینٹی گریڈ رہتا ۔ اتنی شدید سردی میں زندگی بمشکل ہی جنم لیتی۔ یعنی سبزمکانی گیسیں زندگی کی بقا کی ضامن ہیں۔ ان کے باعث ہی سطح زمین کا درجہ حرارت 15 درجے سینٹی گریڈ ہوا اور یوں یہ ممکن ہو گیا کہ زندگی معتدل ماحول میں نشوونما پا سکے۔

زمین کی فضا میں چکر کھاتی گیسوں میں سبز مکانی گیسوں کا حصہ بہت کم ہے۔ ارضی فضا 78 فیصد نائٹروجن‘ 21 فیصد آکسیجن اور 0.9 فیصد آرگون گیسوں سے بنی ہے۔ اس فضا کا صرف 0.1فیصد حصہ سبز مکانی گیسوں پر مشتمل ہے۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا،یہ اپنے کام کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر یہ زمین سے اٹھتی پُرتپش شعاعیں قابو میں نہ رکھیں تو زمین کی آب و ہوا شدید سرد ہو جائے ۔ان گیسوں کا 65فیصد حصہ آبی بخارات، 25 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ، 6فیصد میتھین اور 4فیصد اوزون گیس پر مشتمل ہے۔

دیگر سبز مکانی گیس بھی ہیں مگر ارضی فضا میں ان کی مقدار بہت کم ہے۔قدرت الٰہی نے کائنات کی ہر شے کی طرح سبز مکانی گیسوں کی مقدار میں بھی توازن رکھا ۔ ظاہر ہے، اگر زمین کی فضا میں ان گیسوں کی مقدار بڑھ جائے، تو یہ سطح زمین سے اٹھنے والی تپش بھی زیادہ مقدار میں جذب کرکے اسے واپس کرہ ارض کی جانب پھینکیں گی۔ اس طرح زمین کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ جدید انسان کی سرگرمیاں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھا کر ہی درجہ حرارت میں ’’غیر فطری‘‘ اضافہ کررہی ہیں۔

ماضی میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔ لیکن یہ کمی بیشی کرہ ارض کی آب و ہوا (Climate) اور موسموں (Weather) میں فطری تبدیلیوں کے باعث وجود میں آتی تھی، اسی لیے انہوں نے جانداروں کو زیادہ متاثر نہیں کیا اور زندگی پھلتی پھولتی رہی۔ لیکن حضرت انسان اپنی سرگرمیوں سے فضا میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بڑھا رہا ہے جو ایک غیر فطری عجوبہ بن چکا۔ اسی لیے انسانی سرگرمیاں کرہ ارض کے فطری آب و ہوائی نظام کو نقصان پہنچا کر اسے تلپٹ کرنے لگی ہیں۔

سبز مکانی گیسیں بڑھنے کا عمل تین سو سال قبل شروع ہوا جب انسان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ انسان زیادہ مویشی پالنے لگے۔ مویشی چارا کھا کر میتھین خارج کرتے ہیں۔ چاول کے کھیت اور سڑتا کوڑا کرکٹ بھی میتھین چھوڑتے ہیں۔ جنگل جلنے سے بھی میتھین فضا میں شامل ہوتی ہے۔ یوں فضا میں اس گیس کی مقدار بڑھنے لگی۔اس دوران انسان پٹرول، گیس اور کوئلہ بطور ایندھن استعمال کرنے لگا۔ یہ ایندھن جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں۔ چناں چہ فضا میں اس گیس کی مقدار میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

پچھلے تین سو برس میں انسان اپنی سرگرمیوں کے باعث فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین، دونوں سبزمکانی گیسوں کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ کرچکا۔ 1750ء میں فضائی گیسوں کے ہر ایک ارب حصوں میں میتھین کی مقدار ’’722 حصے‘‘ تھی۔ 2019ء میں یہ مقدار بڑھ کر ’’1866 حصّے‘‘ ہوچکی۔ اسی طرح 1750ء میں فضائی گیسوں کے ہر دس لاکھ حصوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ’’395 حصے‘‘ تھی جو 2019ء میں بڑھ کر ’’417 حصے‘‘ تک پہنچ چکی۔ فضا میں دونوں سبز مکانی گیسوں کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے۔سائنس داں خبردار کررہے ہیں کہ اگر یہ اضافہ مسلسل جاری رہا، تو خدانخواستہ ’’فراری سبزمکانی اثر‘‘ (Runaway greenhouse effect) کرہ ارض پر جنم لے سکتا ہے۔ اس عمل کو بس قیامت کی آمد سمجھیے۔ اگر یہ وجود میں آیا، تو زمین سے انسان سمیت تمام جاندار ناپید ہوجائیں گے اور کرہ ارض ایک دہکتے گولے کی صورت اختیار کرلے گا۔

’’فراری سبز مکانی اثر‘‘ اس وقت جنم لیتا ہے جب ایک سیارے کی فضا میں سبز مکانی گیسوں کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جائے۔ چناں چہ وہ سیارے کی سطح سے اٹھنے والی ساری پُرتپش شعاعیں جذب کرکے انہیں واپس نیچے دھکیل دیتی ہیں۔ وہ شعاعیں سطح کا درجہ حرارت اتنا زیادہ بڑھاتی ہیں کہ اس پر پانی ہرگز جمع نہیں ہوپاتا۔ یہ عجوبہ سیارہ زہرہ پر ظہور پذیر ہوچکا۔ اربوں سال قبل زہرہ پر ایک وسیع سمندر موجود تھا۔ سیارے کی فضا سبز مکانی گیسیں رکھتی تھی۔جب زہرہ میں درجہ حرارت بلند ہوا تو گیسوں نے ’’فراری سبز مکانی اثر‘‘ جنم دے ڈالا۔ چناں چہ کچھ ہی عرصے میں سیاہ زہرہ کا سارا پانی خلا میں تحلیل ہوگیا۔سائنس دانوں کے مطابق زمین کی فضا میں سبز مکانی گیسوں کا تناسب بہت کم ہے۔

اس لیے فی الحال وہ ’’فراری سبز مکانی اثر‘‘ پیدا نہیں کرسکتیں۔ لیکن انسانی سرگرمیوں کے باعث فضا میں سبز مکانی گیسوں کا تناسب بڑھتا رہا، تو ارضی سطح کا درجہ حرارت اگلے پچاس برس میں دو سے چار درجے سینٹی گریڈ کے مابین بڑھ جائے گا۔ایک خطرناک بات یہ کہ ممکن ہے، آنے والے برسوں میں زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگے۔ وجہ یہ کہ سبز مکانی گیسیں جذب کرنے زمین کے دو سب سے بڑے محافظ تھکن و بڑھاپے کا شکار ہوچکے۔

ہمارا پہلا بڑا محافظ

زمین کے پہلے طاقتور محافظ سمندر ہیں۔ کرہ ارض کے70 فیصد حصے پر سمندر پھیلے ہوئے ہیں ۔ عالمی سطح پہ آب و ہوا اور موسم پیدا کرنے میں انہی سمندروں کا بڑا کردار ہے۔ سمندر ارضی سطح پہ جنم لینے والی بہت سی پرُتپش شعاعیں جذب کرکے سطح زمین کا درجہ حرارت معتدل رکھتے ہیں۔ مزید براں فضا میں گھومتی بہت سی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھی جذب کرتے ہیں۔

مسئلہ مگر یہی ہے کہ انسانی سرگرمیاں قدرتی توازن بگاڑ کر سمندروں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران انسانی سرگرمیوں سے جتنی بھی کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا ہوئی ہے، اس کا 25 فیصد حصہ سمندروں میں جذب ہوچکا۔ مزید براں انسانی سرگرمیوں کے باعث زمین سے اٹھتی پُرتپش شعاعوں میں اضافہ ہوا تو ان کے بڑے حصے کو بھی سمندروں نے جذب کرلیا۔ اس طرح سمندروں نے زمین کا درجہ حرارت اعتدال پر رکھا اور اسے زیادہ بڑھنے نہیں دیا۔ مگر انسان کی سرگرمیوں کے منفی عوامل پر پردہ ڈالے ہوئے سمندروں نے اپنے آپ کونقصان پہنچا لیا۔

دراصل سمندر حد سے زیادہ پُر تپش شعاعیں جذب کرلیں تو قدرتاً ان کا پانی گرم ہوجاتا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ سمندروں میں الجی اور دیگر نباتات معتدل درجہ حرارت میں نشوونما پاتے ہیں۔ سمندری نباتات پھر چھوٹے آبی جانور کھا کر پلتے بڑھتے ہیں۔

جبکہ مچھلیاں، وہیل اور دیگر بڑے سمندری حیوان چھوٹے جانور کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ گویا سمندروں میں زندگی کا ایک باقاعدہ چکر چل رہا ہے جسے قدرت الٰہی نے جنم دیا۔سمندروں میں زندگی کا قدرتی چکر مگر اب شدید خطرے سے دوچار ہے۔ پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران انسان ساختہ پُر تپش شعاعیں اور کاربن ڈائی گیس مسلسل جذب کرنے کی وجہ سے سمندروں کا پانی کافی گرم ہوچکا۔ لہٰذا کئی سمندری مقامات سے الجی اور دیگر نباتات کے خاتمے کا افسوس ناک عمل جاری ہے ۔ نباتاتی غذا نہ ملنے سے وہاں چھوٹے جانور بھی ناپید ہوگئے۔ چھوٹے جانوروں کی عدم دستیابی سے مچھلیاں بھی بھوکی مرنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے، سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ اس کمی کی ایک بڑی وجہ سمندری پانی میں بڑھتی تیزا بیت بھی ہے۔

دنیا میں ہر مائع دو حالتیں رکھتا ہے: تیزابی اور القلی۔ مائع کتنا تیزابی یا القلی ہے، اس کی پیمائش پی ایچ پیمانے (pH scale) پر ہوتی ہے۔ اس پیمانے کے مطابق عام درجہ حرارت میں خالص پانی نیوٹرل حیثیت رکھتا ہے یعنی نہ تیزابی ہوتا ہے نہ القلی۔ پیمانے پر خالص پانی کا نمبر 7 ہے۔ ماضی میں سمندری پانی القلی تھا اور اسے نمبر 8 دیا گیا تھا۔ مگر پچھلے دو سو برس میں سمندری پانی کی تیزابیت 30 فیصد بڑھ چکی۔ وجہ پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ جذب ہونا ہے۔سمندری پانی کی بڑھتی تیزابیت خول والے آبی جانوروں اور مچھلیوں کے لیے خطرناک ہے۔

زیادہ تیزابیت ان کے خول گھلا دیتی ہے۔ گویا سمندری پانی کی تیزابیت میں مزید اضافہ ہوا، تو مستقبل میں سمندر خول والے جانوروں اور مچھلیوں سے محروم ہوسکتے ہیں جو ایک بڑا المیہ ہوگا۔ ایسی صورت میں عام سمندری مچھلیوں کی نشوونما پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ ایک سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت نہ رہے، تو وہ یہ گیس دوبارہ فضا میں خارج کرنے لگتا ہے۔ گویا سمندروں نے مستقبل میں جب بھی اپنے اندر جذب شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں خارج کرنا شروع کی، تو نیا مسئلہ جنم لے گا۔ سمندروں سے اس گیس کا اخراج فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ کرے گا۔ یوں زمین کا درجہ حرارت بھی زیادہ بلند ہونے لگے گا جس سے نئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔

ماں سے تشبیہ دی گئی ٹھنڈی چھاؤں

زمین کے دوسرے بڑے محافظ درخت ہیں۔ یاد رہے، ہائیڈروجن، ہیلیم اور آکسیجن کے بعد کاربن کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر ہے۔ یہ قدرتی طور پر ٹھوس یا گیسی حالت میں ملتا ہے۔ گیسی حالت میں کاربن کا ایک ایٹم آکسیجن کے دو ایٹموں سے مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بناتا ہے۔ ان دونوں عناصر کے ایک ایک ایٹم مل کر کاربن مونو آکسائیڈ بھی بناتے ہیں جو ایک زہریلی گیس ہے۔ارضی ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا ایک بڑا ذریعہ درخت و پودے بھی ہیں۔

درخت یہ گیس جذب کرکے کاربن کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں۔ یہ کاربن ان کی جڑوں، تنے، شاخوں اور پتوں میں جمع ہوجاتا ہے جبکہ آکسیجن فضا میں شامل ہوجاتی ہے جس میں کہ زمین پر آباد تمام جاندار سانس لیتے ہیں۔ گویا کرہ ارض پر درخت نہ ہوں تو آکسیجن کی کمی سے انسان سمیت تمام جاندار ہلاک ہوجائیں۔ایک بڑا سایہ دار درخت دو سے چار انسانوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔جبکہ ایک ہیکٹر رقبے پہ لگے تقریباً ایک ہزار درخت روزانہ آٹھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ چوسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق درخت کا ’’پچاس فیصد حصہ‘‘ کاربن سے بنا ہوتا ہے۔ گویا آکسیجن پیدا کرنے کے علاوہ درختوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چوس کر ارضی فضا میں اس گیس کی مقدار متوازن رکھتے ہیں۔ خدانخواستہ زمین سے درخت ناپید ہوجائیں، تو زندگی بھی تادیر باقی نہیں رہ سکتی۔ کرہ ارض پر حقیقتاً زندگی کا وجود درختوں کے دم قدم سے بھی قائم ہے۔بدقسمتی سے پچھلے دو ڈھائی سو برس کے دوران انسان گھر، کھیت، فیکٹریاں، سڑکیں وغیرہ بنانے کی خاطر سینکڑوں جنگلات کا صفایا کرچکا۔ اس عمل سے دو بڑے نقصانات رونما ہوئے۔ اول درختوں کی لکڑی جلنے سے کثیر تعداد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں جاشامل ہوئی۔ دوسرے انسان نے آکسیجن پیدا کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ چوسنے والے اربوں درخت تباہ کردیئے۔ اس کوتاہی سے بھی زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ گئی۔ یہ اضافہ اب بنی نوع انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا۔

وجہ یہ ہے کہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ دیگر سبز مکانی گیسوں کا اضافہ عالمی آب و ہوا کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لارہا ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے موسم تبدیل ہورہے ہیں۔ خصوصاً کئی ممالک میں موسم سرما کا دورانیہ کم ہوچکا اور گرمی بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں یورپ گرمی کی شدید لہر میں گرفتار رہا اور بلند درجہ حرارت کے کئی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں حالیہ مون سون کا موسم تاخیر سے شروع ہوا اور بیشتر علاقوں میں اس کی شدت بھی زیادہ نہیں۔ بعض علاقوں مثلاً ممبئی میں تو زبردست بارشیں ہوئیں مگر دیگر علاقوں میں معمول سے کم بارشں دیکھنے کو ملی۔ اس قسم کے موسمیاتی عجوبے سبز مکانی گیسوں کی وجہ سے درجہ حرارت غیر قدرتی انداز میں بڑھنے کا نتیجہ ہیں۔عالمی آب و ہوا اور موسموں میں تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بارشوں کے انداز بدل رہے ہیں۔ کبھی یک دم بہت تیز بارشیں ہونے لگتی ہیں۔ کبھی مہینوں گزر جاتے ہیں، بارش نہیں ہوتی۔ اس باعث مختلف علاقوں میں قحط جنم لے چکے اور وہاں کھیت و باغات تباہ ہوگئے۔ یہ تباہی عالمی سطح پر خوراک کی قلت کو جنم دے رہی ہے۔اسی باعث خوراک کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔

غرض پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران انسان نے محیر العقول ترقی تو ضرور کرلی مگر اب اس بڑھوتری کے خطرناک ضمنی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان اثرات نے کرہ ارض میں جاری و ساری ہوا، پانی اور خوراک کا فطری نظام درہم برہم کردیا اور یہ نعمتیں انسان سے چھنتی چلی جارہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان کھربوں درخت لگالے تو ہوائی آلودگی اور بڑھتے درجہ حرارت کے منفی اثرات خاصی حد تک کم کرسکتا ہے۔ گویا کرہ ارض پر درخت ہی بنی نوع انسان کے سب سے طاقتور محافظ بن چکے جو نہ صرف ہوا میں موجود کاربن گیسیں اور ذرات جذب کرتے ہیں بلکہ آکسیجن خارج کرکے فضائی آلودگی کے اثرات کم کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پوری دنیا میں سائنس داں حکومتوں سے لے کر عوام تک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہر خالی جگہ پر درخت و پودے لگائیں تاکہ آنے والی انسانی و حیوانی نسلوں کا مستقبل محفوظ و صحت مندانہ بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز پچھلے دنوں سوئٹزر لینڈ میں سامنے آئی۔

بنی نوع انسان کو چیلنج

سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورچ میں ایک تحقیقی ادارہ،فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی واقع ہے۔اس ادارے سے منسلک سائنس داں پچھلے دو برس سے گوگل میپ اور دیگر آلات کی مدد سے یہ تحقیق کر رہے تھے کہ کرہ ارض کا کتنا رقبہ جنگلات،باغات اور درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔اس تحقیق کا نتیجہ پچھلے ماہ سامنے آیا۔انکشاف ہواکہ زمین کا ایک ارب ہیکٹر رقبہ خالی ہے جس پہ دس کھرب(ایک ٹرلین)درخت لگائے جا سکتے ہیں۔یہ ایک بڑی خوش خبری ہے۔یاد رہے،صنعتی انقلاب شروع ہونے سے قبل دنیا ساٹھ کھرب درختوں کی چھتری سے ڈھکی ہوئی تھی۔مگر اب صرف تیس کھرب درخت رہ گئے ہیں۔زمین ہر سال دس ارب درخت کھو رہی ہے جو ہولناک المیہ ہے۔

کرہ ارض کے خالی پڑے ایک ارب ہیکٹر رقبے میں سے آدھا چھ ممالک…روس،کینیڈا،آسٹریلیا،برازیل اور چین میں واقع ہے۔بقیہ دیگر ملکوں میں پھیلاہوا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقبے پر درخت لگ جائیں تو وہ اگلے پانچ چھ برس میں فضا سے 225 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ گیس چوس لیں گے۔(واضح رہے،پچھلے تین سو برس سے 750ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ فضا میں شامل ہو چکی)۔اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ فضا میں یہ خطرناک گیس کم ہونے سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔یوں بدلتی آب وہوا اور موسموں کے منفی عوامل سے نمٹنا آسان ہو گا۔

دس کھرب درخت لگانا مگر آسان کام نہیں، اس منصوبے پر کھربوں روپے اور بہت سا وقت و توانائی خرچ ہو گی۔امریکا کی مشہور مخیر ہستی،وارن بفٹ نے یہ چیلنج قبول کر لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ درخت لگاؤ مہم کے سلسلے میں کثیر رقم دینے کو تیار ہیں۔نیز دیگر کھرب پتیوں کو بھی اس مہم کا حصہ بنائیں گے۔وارن بفٹ کا مشہور قول ہے:’’آج آپ سایہ دار درخت کے نیچے آرام سے اس لیے بیٹھے ہیں کہ برسوں قبل ایک ہمدرد انسان نے اسے لگایا تھا۔‘‘یہ ضروری ہے کہ دنیا میں آباد تمام لوگ خالی جہگوں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ اپنے بچوں کا مستقبل خوشگوار اور بہتر بنا سکیں۔بقول شخصے جان ہے تو جہاں ہے۔

پاکستان کے لیے درخت اُگاؤ

1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو اس کے وسیع رقبے پر جنگلات اور باغات موجود تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ لکڑی اور زمین حاصل کرنے کی خاطر کروڑوں درخت کاٹ ڈالے گئے۔ چنانچہ 2015ء میں سرزمین پاکستان پر جنگلات کا رقبہ سکڑ کر صرف 1.91 فیصد رہ گیا۔ درختوں کی کمی نے پاکستان کے ماحول میں بڑھتی آلودگی کا عمل تیز تر کردیا۔2014ء میں حکومت خیبرپختونخواہ نے ’’بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت اگست 2017ء تک صوبے کے مختلف اضلاع میں ایک ارب درخت لگائے گئے۔

ستمبر 2018ء میں وزیراعظم پاکستان، عمران خان نے دس ارب درخت لگانے کے منصوبے ’’پاکستان کے لیے درخت اگاؤ‘‘ (پلانٹ فار پاکستان) کا افتتاح کیا۔ وطن عزیز کو ہرا بھرا کرنے کی خاطر وزیراعظم کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ یہ عیاں کرتی ہیں کہ وہ آنے والی پاکستانی نسلوں کے مستقبل کا بھی تحفظ چاہتے ہیں۔دس ارب درخت اگلے پانچ برس کے دوران لگائے جائیں گے۔ منصوبہ اگر کامیاب رہا تو پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 1.91 فیصد سے بڑھ کر چار پانچ فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اربوں درخت لگانے سے پاکستان ماحول صاف ستھرا کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی درخت لگانے کے جامع منصوبوں کا آغاز کریں تاکہ مملکت خداداد کا ماحول انسان دوست بنایا جاسکے۔ درخت لگانے کے فوائد طویل عرصے بعد ملتے ہیں مگر وہ بیش بہا ہیں اور انسان کے لیے نہایت مفید بھی۔

کیلشیم کاربائیڈ کا استعمال

پاکستان، بھارت اور دیگر کئی ممالک میں آب و ہوا اور موسموں میں تبدیلیوں کے سبب بہت سے پھل اور سبزیاں پکنے میں زیادہ عرصہ لگانے لگی ہیں۔ مگر پھل و سبزی اگانے والا اور آڑھتی بھی مال جلد از جلد مارکیٹ بھیجنے کے خواہش مند ہوتے ہیں تاکہ رقم کمائی جاسکے۔ اس خواہش کا نتیجہ یہ نکلا کہ لالچی لوگ کیلشیم کاربائیڈ سفوف پھلوں اور سبزیوں پر لگانے لگے تاکہ انہیں جلد پکایا جاسکے۔ ان غذاؤں میں آم، کیلا، ناشپاتی، پپیتا، ٹماٹر اور چیکو نمایاں ہیں۔کیلشیم  معدن اور کاربن کے ملاپ سے کیلشیم کاربائیڈ بنتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ ایسیٹلین گیس بنانے اور کھاد و اسٹیل تیار کرنے میں کام آتا ہے۔ یہ مگر زہریلا مادہ ہے کیونکہ اس میں فاسفین (Phosphine) اور آرسین کے اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔

یہ زہریلے کیمیائی مرکبات انسانی جسم میں داخل ہوکر اعصابی نظام متاثر کرتے ہیں۔ انسان باتیں بھولنے لگتا ہے۔ بیماریاں آن دبوچتی ہیں اور انسان مسلسل کیلشیم کاربائیڈ استعمال کرے تو ذیابیطس اور کینسر کا بھی نشانہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے پھل اور سبزیاں بالکل استعمال نہ کیجیے جنہیں کیلشیم کاربائیڈ یا کسی اور کیمیائی مادے سے پکایا گیا ہو۔زہریلے مادوں سے پاک آم کی جانچ کا طریقہ سادہ ہے۔ ایک آم پانی سے بھری بالٹی میں ڈبوئیے۔ اگر وہ ڈوب جائے تو مطلب یہ کہ اسے قدرتی انداز میں پکایا گیا ہے۔ اگر تیرنے لگے، تو اس کی پکائی میں کیلشیم کاربائیڈ استعمال ہوا ہے۔ واضح رہے، غیر فطری طریقے سے پکایا گیا آم بہت کم رس رکھتا ہے۔ اسے کھاتے ہوئے منہ میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔ نیز کیمیائی مادوں سے پکائے گئے پھل اور سبزیاں دیکھنے میں صاف ستھری اور چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔

The post زندگی محفوظ کرنے کیلئے دس کھرب درخت لگانے کا چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادکشمیر؛ قیمتی نباتات کی معدومی کا خدشہ

$
0
0

آزاد کشمیر کا تقریباً 42 فیصد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ریاستی سطح پر لاپروائی، قیمتی لکڑی کا کٹاؤ اور غیر قانونی تجارت سمیت عوام میں آگاہی کا فقدان بھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آزاد کشمیر کے جنگلات میں 1500 سے زائد اقسام کے پودے (درخت، جڑی بوٹیاں اور سبزیاں وغیرہ) پائے جاتے ہیں جن میں سے تقریباً 500 اقسام کے پودے کسی نہ کسی صورت استعمال کیے جاتے ہیں۔ استعمال ہونے والے پودوں میں 300 سے زائد پودوں کا استعمال مختلف امراض کی تشخیص کے لئے ہوتا ہے یا انھیںادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ 52 پھل دار درخت،70 کے لگ بھگ سبزیاں(گھریلو اور جنگلی سبزیاں) اور 70 کے لگ بھگ دیگر پودے (تعمیر اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے درخت ) زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں ۔

آزاد کشمیر کے پودوں  پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ارشد کے مطابق آزاد کشمیر میں 36 پودے (جڑی بوٹیاں ) ایسے ہیں جن کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے لیکن افزائش نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے انھیں معدومی کے خطرات لاحق ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں میں ’’چورا (معدے کی بیماریوں کے علاج کیلئے )، بن ککڑی (جگر اور پیٹ کی بیماریوں کیلئے)، کوڑی بوٹی (دمہ اور کھانسی کے علاج کیلئے )، گاؤزبان (جوڑوں کے درد کے علاج کیلئے)، سوہاب بوٹی (جنسی امراض کے علاج کیلئے)، مشک بالا (مرگی اور بلڈ پریشر کے علاج کیلئے)، سورن تلاخ  (جوڑوں کے درد کے علاج کیلئے )، نتھور بوٹی (جلدی امراض کیلئے)، لدرن (چھاتی کے درد کیلئے) پوشگار (دمہ اور پیشاب کے امراض کے علاج کیلئے)، گگل دھوپ (جنسی امراض کیلئے) ، کٹھ (اسے ہر بیماری کی شفا جانا جاتا ہے)، نیل کنٹھ یا نیلی جڑی (نمونیہ اور پیٹ درد کیلئے)، چرائتہ (بخار اور معدے کے امراض کے علاج کیلئے)، تن پترا (کینسر اور جنسی امراض کے علاج کیلئے)، ممیخ(نیند کے امراض کیلئے)، مسلونڑ (جوڑوں اور پیٹ درد کیلئے)، چوٹیال یا رباب (عمل تنفس اور جوڑوں کے درد کیلئے)، نظر یا چت پترہ (جانوروں کے امراض کیلئے)، مہری یا میٹھا (اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک ’’پتریس ‘‘ ہے جسے ہر بیماری کی شفا کہا جاتا ہے)، کنڈل ( یہ حرارت کیلئے استعمال ہوتی ہے)، فیری یا چلاممیو (آنکھوں کی بیماری کیلئے)، کلری (اچار بنانے کیلئے )، نیرہ ( یہ چیچک کی بیماری پر استعمال کی جاتی ہے تاہم کئی علاقوں میں توہم پرستی کے باعث اس کے پتے جلائے جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس سے بدروحیں بھاگ جاتی ہیں)، اجوائن خراسانی (کھانسی کے علاج کیلئے) اور بنفشہ (بخار اور بلڈ پریشر کیلئے)‘‘ سرفہرست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ فرنگی اور دیار کی لکڑی کا استعمال بھی بہت زیادہ ہو رہا جس کی وجہ سے ان کے کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

آزاد کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی سے وابستہ ڈاکٹر عنصر بتاتے ہیں کہ آزاد کشمیر کا موسم ایسا ہے جہاں ہر قسم کے پھل داردرخت اگائے جا سکتے ہیں تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیب، اخروٹ، ناشپاتی ، خوبانی ، آڑو ، املوک، انار، توت، انجیر، لوکاٹ، لیموں اور مالٹا سمیت آزاد کشمیر میں پچاسیوں پھلدار درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن آگہی کم ہونے کے باعث ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت آگاہی مہم کا انعقاد کرے تو یہ پھل اس خطے کے عوام کیلئے خوشحالی لاسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر عنصر نے بتایا کہ دو سال قبل نیلم اور چکار میں پائی جانے والی جڑی بوٹی’’تن پترا‘‘ کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ کی خبریں سامنے آئیں، ان کا کہنا تھا کہ اسے یہاں کچھ ٹھیکیدار تین ہزار روپے فی کلو کے حساب سے اٹھاتے اور مارکیٹ میں لاکھوں روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں ۔آزاد کشمیر میں جنگلات اور زراعت ایک بڑا ذریعہ آمدن ہو سکتے ہیں تاہم حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ۔ اس کا اعتراف آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری جنگلات فرحت علی میر نے کچھ عرصہ قبل ایک انگریزی روزنامہ کو انٹرویو کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر میں مجرمانہ سرگرمیوں کے باعث ہر سال پانچ ہزار ایکڑ جنگلات تباہ ہوتے ہیں اور غیر قانونی طور پر جنگلات کے کٹاؤ سے پہلے ہی پچاس ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زمین ندی نالوں میں بہہ چکی ہے ۔ ایسے میں انہوں نے حکومتی کارکردگی کا ذکر نہیں کیا کہ وہ اس معاملے میں کیا کر رہی ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری کیلئے راقم نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر جنگلات سے رابطہ کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ جنگلات کی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ میں مقامی سیاسی قیادت اور محکمہ جنگلات کے ملازمین ملوث ہوتے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر لکڑی سمگل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ میں ٹمبر مافیا اور غیرقانونی تجارت کو ممبران اسمبلی اور محکمہ جنگلات کے افسران کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ نیلم اور دوسرے علاقوں سے قیمتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ کی لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں میں خفیہ خانے بنائے جاتے ہیں جنھیں استعمال کرکے جڑی بوٹیاں اسمگل کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسمگلر مظفرآباد سے خیبرپختونخوا  کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس راستے میں چیک پوسٹ بھی آتی ہیں تاہم وہاں کئی پیدل راستے بھی ہیں جنھیں اسمگلر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مقامی لوگوں سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا ہے کہ آزاد کشمیر سے جڑی بوٹیوں کی اسمگلنگ کیلئے بکروال (خانہ بدوش) عملی کام کرتے ہیں اور ہر سال ہزاروں ایکڑ علاقے سے جڑی بوٹیاں جمع کر کے اسمگلروں کے سپرد کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق جب بکروال ایک علاقے میں پڑاؤ ڈالتے ہیں تو وہاں موجود جڑی بوٹیوں کا صفایا کرنے کے بعد ہی وہاں سے جاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بکروالوں کی چیکنگ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ بلا روک ٹوک جڑی بوٹیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں، اس معاملے میں محکمہ جنگلات ان کی معاونت کرتا ہے۔ جڑی بوٹیوں کے ناپید ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بکروال اور عام لوگ کوئی بھی جڑی بوٹی جڑ سے اکھاڑتے ہیں جس کے باعث اس کی پیداوار ختم ہو جاتی ہے۔

جنگلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک موقع پر آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری جنگلات ظہور الحسن گیلانی نے بتایا تھا کہ جنگلات کو انکم سورس(ذریعہ آمدن) کے بجائے ریاستی اثاثہ (State asset) قرار دینے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے تاکہ پودوں کو بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جنگلات کوذریعہ آمدن کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ان کے مطابق نیلم اور لیپہ سمیت دیگر علاقوں کے لوگوں کو گھر بنانے کیلئے جستی چادریں استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے جبکہ حکومت ٹھنڈے علاقوں میں ایل پی جی گیس اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ ایندھن کے متبادل ذریعے سے درختوں کا بچاؤ ممکن ہو۔حکومتی ترجمان راجا وسیم کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنگلات بچانے کیلئے سخت پالیسی اپنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ڈپٹی کمشنر نیلم پر لکڑی سمگلنگ کا الزام عائد ہوا، اس پر محکمہ جنگلات نے کہا کہ ان کا لکڑی لے جانے کا عمل قانونی طریقے سے ہوا، اس کے باوجود حکومت نے لکڑی کاٹنے کے معاملے پر انکوائری کمیٹی بنائی ہے جو جلد ہی اس معاملے کی رپورٹ دے گی۔ راجا وسیم کے مطابق حکومت جنگلات سے لکڑی اور جڑی بوٹیاں سمگلنگ کے معاملے پر کسی قسم کی نرمی نہیں دے گی۔ جڑی بوٹیوں کی نکاسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب ایک ٹھیکیدار کو ایک مخصوص علاقہ مخصوص وقت کیلئے دیا جاتا ہے اور پھر سال بھر وہاں سے جڑی بوٹیوں کی نکاسی پر پابندی ہوتی ہے تاکہ ان کی افزائش ہو سکے۔ بکروالوں (خانہ بدوش) کی منظم سمگلنگ سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ یہ ایک تہذیب ہے جس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی تاہم حکومت نے بکروالوں کی جانب سے ہونے والی سمگلنگ روکنے کیلئے خفیہ فورس سے مدد لی جائے گی جو اپنے طریقے سے ان کی چیکنگ کرے گی۔ان کا کہنا ہے کہ انفرادی سطح پر ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تاہم اب پہلے کی طرح منظم طور پر سمگلنگ ممکن نہیں ہو سکے گی۔

ڈاکٹر ارشد کا کہنا ہے کہ اکنامک ویلیو انڈیکس کے مطابق جن پودوں کی معدومی کے امکانات سب سے زیادہ ہیں ان کے بارے میں مردوں کو سب سے زیادہ معلومات ہیں تاہم ادویات سے متعلق پودوں کا خواتین کو زیادہ علم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر نباتیاتی کام نہ ہوا تو یہ پودے ختم ہو جائیں گے اور ریاست کا ایک بڑا اثاثہ (جو ان پودوں کی صورت میں موجود ہے ) ختم ہو جائے گا۔ماہرین نے آزاد کشمیر میں پودوں کے بچاؤ کیلئے تجاویز دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سب سے پہلے حکومت کو پودوں اورجنگلات کے بچاؤ کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے اور زرعی زمینوں کو دوبارہ آباد کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر حکومت نادر اور نایاب پودے بچانے میں دلچسپی رکھتے ہے تو مقامی لوگوں کو آگہی مہم کے ذریعے اس بات پر ابھارے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فارم بنائیں جہاں فصلوں کے ساتھ ساتھ نایاب اور نادر جڑی بوٹیوں کو بھی اگایا جائے تاکہ پودوں کی افزائش  کے ساتھ مقامی لوگوں کا روزگار کا ذریعہ بھی بن سکیں اور جب روزگار کے مواقع ملیں گے تو عوام دلچسپی کے ساتھ کام کریں گے۔n

The post آزادکشمیر؛ قیمتی نباتات کی معدومی کا خدشہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان کے چوکنڈی مقبرے اور ایک جنگ کی کہانی

$
0
0

بلوچستان کی سر زمین جہاں سنگلاخ پہاڑوں، ریگستانوں اور ثقافتی تنوع کے باعث پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے وہیں یہاں کے صدیوں پرانے چوکنڈی قبرستان بھی پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ان سیکڑوں سال پرانے چوکنڈی قبرستانوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور سے آبادی تھی۔

آج کل سیکڑوں سال پرانے چوکنڈی مقبرے اور عظیم شان مزار منہدم ہورہے ہیں۔ ان مزاروں اور چوکنڈی مقبروں کو اونٹنی کے دودھ سے بنائے جانے کے انکشافات سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ نایاب مزار، چوکنڈی مقبرے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ چوکنڈی مقبروں میں بلوچستان کی بہت سی عظیم ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے زندگی میں کوئی نہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی وجہ سے عظیم الشان مزار اور چوکنڈی قبرستان بنائے گئے تھے۔

چوکنڈی مقبرے کا مطلب ہے چار کونے والا قبرستان قبر کہا جاتا ہے۔ یہ قبرستان بلوچی لباس کی طرح ہوتے ہیں، ان پر بھی ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ تالپور (بلوچ) قبائل کسی زمانے میں سندھ میں حکم راں ہوا کرتے تھے، جو بلوچوں کی عظیم شخصیات کے مزار اور چوکنڈی قبرستان بناتے تھے جو آج تک بلوچستان کی سر زمیں پر موجود ہیں۔ بلوچستان کے مزارات اور چوکنڈی مقبرے مکلی کے قبرستان سے بہت مشاہبت رکھتے ہیں۔ ان  قبرستانوں میں پندرھویں سے اٹھارویں صدی عیسوی تک کی قبریں موجود ہیں۔ ان مزاروں، چوکنڈی قبروں کی تعمیر میں روف اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان اینٹوں سے خوب صورت مزار اور چوکنڈی مقبرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ مزار کثیر منزلہ انداز میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان مزاروں کو انتہائی خوب صورت نقش نگاری کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔

بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔ آثارقدیمہ کی دریافت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقے میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات بھی ملے ہیں۔ سکندراعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کی سرزمین پر ایران کی سلطنت کی حکم رانی ہوتی تھی۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے۔ اگر کوئی سردار گھوڑی پر سوار ہوتا تھا تو اس گھوڑی کو اس سردار کی بیوی جتنا درجہ دیا جاتا تھا۔ وہی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیا جاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پر کوئی اور سواری نہ کرسکے۔ حتٰی کہ کچھ سرداروں کی وفات پر ان کے کھانے پینے کی اشیاء برتن، سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔

بلوچستان میں چوکور قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کی عمر کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ نہ ہم نہ آثارقدیمہ کے لوگ۔ آج تک محکمۂ آثارِقدیمہ نے ان قبرستانوں پر تحقیق تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکور قبرستانوں کے باہر بنی عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی زیادہ ہے جب کہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکور قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو پانی شدید کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ان قبروں میں پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ استعمال کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب نہ تھا۔ اُس وقت سرداروں کے پاس ہزاروں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے جب کہ اس وقت سرداروں کی سب سے زیادہ قیمتی مال متاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا۔ اونٹوں پر بلوچوں کی آپس میں کئی لڑائیاں بھی ہوئیں، جو کئی کئی سال تک چلی تھیں، جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ ان نشانیوں کو تلاش کرتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پر دو بلوچ قبائل بگٹی اور جمالی میں خونی جنگ ہوئی تھی۔ یہ جنگ بھی انہی جانوروں پر شروع ہوئی تھی، جس کا انجام دونوں سرداروں کی موت پر ہوا تھا۔

اس رات گھپ اندھیرا تھا چاند کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان گہری نیند میں اوطاق میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ایک شخص جبل خان بگٹی آتا ہے اور ان کا گھوڑا، اوطاق سے چراکر لے جاتا ہے۔ صبح جب سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان جمالی نیند سے جاگتے ہیں تو گھوڑا نہ پاکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں،’’ہمارے علاقے میں چوری۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔‘‘ یہ قہقہہ بدلے کی آگ تھی۔ لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوب ہنستے ہیں۔ پھر گھوڑے کے پیروں کے نشان دیکھتے ہوئے چور کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کے لیے چور کو پکڑنا ناممکن بات نہ تھی، اگلی صبح صادق سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے چور کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اپنا گھوڑا دیکھ کر خاموشی سے آگے نکل جاتے ہیں۔

گھوڑا ان دونوں کی طرف دیکھ کے خوشی سے ٹانگیں زمین پر مارنے لگتا ہے۔ اس چور کے پاس مقامی سرداروں کے ایک سو کے قریب اونٹ اور پچاس کے قریب گھوڑے تھے۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان ان کے سارے اونٹ اور سارے گھوڑے کے بدلے میں مار (بدلہ) کر آتے ہیں اور اس شخص کو چوری کے جرم میں قتل کرکے واپس اپنے گوٹھ آجاتے ہیں اور اس بدلے کی خوشی میں ایک اونٹ کی سجی بنا کے پورے گاؤں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے بلوچ کے بدلے کی آگ، جو کبھی نہیں بجھتی ہے اور اس آگ کو کوئی بجھا بھی نہیں سکتا ہے۔ بلوچوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کھانا بنانے کے بعد آگ نہیں بجھاتے اور نہ جلتی آگ پر پانی ڈالتے ہیں، کیوںکہ آگ پر پانی ڈالنا رزق میں کمی کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جب تک انگارے خود نہ بجھ جائیں تب تک پانی جلتی آگ پر نہیں ڈالا جاتا۔ اکثریتی بلوچ قبائل رات کو جلائی آگ پر صبح کا ناشتہ بھی بناتے ہیں اور اس عمل کو گھر میں برکت سمجھتے ہیں۔

اس روز کے بعد سخی صوبدار خان اور جبل خان کے قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور جنگ کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ جنگ کے لیے ایک بڑے میدان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اونٹ، گھوڑے تیار اور تلواریں تیز کرلیں۔ سخی صوبدار دو ایسی تلواریں لاتے ہیں جن کے کنداق بھی سونے کے بنے ہیں۔ ان دو تلواروں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ ایک کا نام سسی اور دوسرے کا نام ماروی (سخی صوبدار کی تلوار کا نام سسی تھا جب کہ لھڑاں خان کی تلوار کا نام ماروی تھا)۔ سخی صوبدار خان بندوق بھی خریدتے ہیں جو ایک نالی بندوق ہے ( یہ پہلی بار بلوچستان میں استعمال ہونے جارہی ہے) اس کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب بگٹی قبائل کے لوگ بھی ہر قسم کے ہتھیار جمع کرتے ہیں اور میدان کا بھی انتخاب کرتے ہیں، جہاں مارو یا مر

The post بلوچستان کے چوکنڈی مقبرے اور ایک جنگ کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

حج ؛ اتحاد امّت کا فقیدُالمثال مَظہر

$
0
0

حضرت ابراہیمؑ، سیّدہ بی بی ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی اطاعت الہٰی، ایثار و قربانی اور بے لوث وفاداری کی ادائیں اﷲ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئیں کہ اُن کو قیامت تک اہل ایمان کے لیے دہرانا اور نبھائے چلے جانا لازم قرار پایا۔ وفا کی انہی اداؤں کی پیروی کا نام ’’حج ‘‘ رکھا گیا۔ حج، لاکھوں مسلمانانِ عالم کا عظیم اجتماع دنیا کے کسی بھی ایک مقام پر، ایک خاص وقت میں، انسانوں کا سب سے بڑا، سب سے شان دار اور منفرد اجتماع ہے۔

یہ ایک بے ہنگم ہجوم نہیں جو بلامقصد، بلاوجہ، بے سمت، کہیں بھی، منہ اٹھائے چلا جا رہا ہو، بل کہ یہ ایک ایسا منظم اور بامقصد لشکر ہوتا ہے جو فقط رضائے الٰہی کی خاطر، اپنے گھر بار، اپنے دیس، اپنے پیاروں کو چھوڑ کر، سفر کی مشقتیں اٹھا کر، پردیس اور اجنبیت کی سرحدیں عبور کرکے، رنگ و نسل اور زبان کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر، دیوانہ وار نذرانۂ جان و تن اور قلب و روح کو خالق اکبر کے حضور پیش کرنے کے لیے ایک مرکز اور ایک مقام پر جمع ہوجاتا ہے۔ ایک گھر کا طواف کیا جاتا ہے اور اُس کے والہانہ پھیرے لیے جاتے ہیں۔ ایک عالم ذوق و شوق، جوشِ و سرشاری کی کیفیت طار ی ہوتی ہے۔ آنکھوں سے بہتے اشکوں میں درد دل کی تڑپ مچلتی ہے، سوزِ قلب احساس و اضطراب کی موجوں میں ڈھل جاتا ہے۔ جبینیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ سر و دل جُھکتے ہیں، عجز و نیاز کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔

اس جوش عقیدت، اس والہانہ پن کا راز قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، مفہوم: ’’اور اس پاک گھر (بیت اﷲ) کا حج کرنا، لوگوں پر (اﷲ کی محبت، عقیدت اور فداکاری میں) فرض کیا گیا ہے۔ اُن پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘

اسلام دین فطرت ہے۔ یہ انسانیت کے لیے خداوندِ کریم کا آخری پیغام اور سب سے بڑا انعام ہے جس کی وضاحت حجۃ الوداع پر نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے، مفہوم: ’’ آج ہم نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے انعامات کی انتہا کر دی اور تمہارے لیے طریقِ حیات کے طور پر اسلام ہی کو پسند فرمایا۔‘‘

حج اس دین کامل کا مظہرِ اتم ہے۔ اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید و رسالتؐ ہے جس کا عملی اظہار حج میں یوں ہوتا ہے کہ سب حجاج جہاں بیت اﷲ، منیٰ مزدلفہ اور عرفات میں توحید الہٰی کا پرچم بلند کرتے ہیں، وہیں بارگاہِ محبوب داور، سید و ختم رسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہوکر اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ آپؐ کی نبوت و رسالت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو بارگاہِ نبوت کی یہ حاضری اہل اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت کا برملا اظہار بھی ہے کہ اﷲ کے گھر کی حاضری کے علاوہ صرف مدینہ پاک کی حاضری ہی امت پر واجب کی گئی ہے اور حدیث پاک میں یہاں تک ارشاد ہوا، مفہوم: ’’ جس نے حج و عمر ہ کیا اور میری زیارت کو نہ آیا اُس نے مجھ سے جفا کی۔‘‘ اگرچہ متعدد انبیائے کرامؑ کے مدفن دنیا میں موجود ہیں مگر اُن کی زیارت کی تاکید نہیں گئی جب کہ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس کی حاضری کو نہ صرف واجب قرار دیا گیا، بل کہ اُس سے برکاتِ کثیرہ کے حصول کی خوش خبری بھی سنائی گئی۔ منجملہ دیگر گراں قدر انعامات کے سرکار رسالت مآب ﷺ کا یہ وعدہ ’’جس کسی نے ارادہ کرکے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ تو اس شخص سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہوگا جس کی شفاعت لازماً آقائے دو جہاں شافع روزِ محشرؐ فرمائیں۔

حج میں عقیدۂ توحید و رسالت کا اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہی نہیں بل کہ جسم و جاں کی تمام تر قوتوں، استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ آدابِ بندگی کی ادائی بھی ہے، رکوع و سجود اور قیام و قعود بھی، وضو اور غسل بھی، انفاق فی سبیل اﷲ بھی، ہجرت کے سفر کی پیروی بھی اور جہاد بالنفس، جہاد بالمال اور جہاد باللسان بھی ہے۔

’’حاضر ہوں، حاضر ہوں، اے میرے اﷲ میں حاضر ہوں۔ اے وہ ذات جس کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں، تمام نعمتیں تیری ہیں، تمام بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔‘‘

جب حجاج اور زائرین کوہ و صحرا، دشت و جبل، دریا، سمندر اور ہواؤں میں لبیک لبیک کہتے ہوئے کعبۃ اﷲ کی جانب بڑ ھ رہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اﷲ کے حضور حاضری کے لیے بے تاب ہے۔ حاضری اور حضوری کا جو ذوق و شوق اور کیفیات سفرِ حج کے دوران طاری ہوتی ہیں دنیا بھر میں کہیں کسی بھی موقعے پر کسی بھی عبادت کے دوران دیکھنے اور سننے میں نہیں آتیں۔

یہ اسلام اور شارعِ اسلام حضرت رسول الثقلین ﷺ کا فیض اور اعجاز ہے کہ دنیا بھر کے ہر خطے اور ہر ملک، ہر رنگ و نسل کے اور ہر زبان بولنے والے لوگ، ایک ہی لباس، ایک سی وضع قطع میں اور ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں، ایک ہی مقصد لیے اور ایک ہی پکار اپنے ہونٹوں پر سجائے ہوئے۔ لبیک اللھم لبیک۔ یہ یک رنگی، یکسانیت، اتحاد اور یہی یگانگت اسلام کا اصل مقصد اور تعلیمات قرآن و سنت کا اصل مفہوم ہے۔

دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور مادہ پرستی کا دور ہے جس میں نفرت، تعصب، انتشار، خون ریزی، جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہے، رنگ، نسل، زبان اور اقتصادی و گروہی مفادات نے بنی نوع انسان کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اس عہدِ ابتلا و آزمائش میں افراد اور قوموں کی نجات ایک ہی مرکز پر جمع ہونے اور اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانے سے ہی ممکن ہے جس کے لیے حج کا عظیم اجتماع ایک سنہری موقع پیش کرتا ہے۔ کاش بنی نوعِ انسان اﷲ کے اس آخری پیغام اور اُس کے انعامات کی حکمتیں سمجھ پائے۔ نہ جانے صدائے ابراہیمؑ میں کیا طاقت اور کتنا اخلاص تھا کہ ہر سال اتنے لوگ یہاں حاضر ہوتے ہیں کہ کسی سلطان وقت کے بلاوے پر بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوئی ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے۔

اونٹوں کے دور سے لے کر جہازوں کے زمانے تک زائرین و حجاج کی تعداد ہے کہ برابر بڑھتی چلی جا رہی ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ پر انسانوں کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور یہ محض اجتماع ہی نہیں ہوتا بل کہ بے شمار روحانی اور معاشرتی خوبیوں اور پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے علماء، محققین، سائنس دان، سیاست دان، تاجر، قانون دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ حج کی ادائی کے ساتھ اپنے ملکی اور عالمی پیچیدہ مسائل پر افہام و تفہیم کرکے ملتِ اسلامیہ کے لیے بہترین لائحہ عمل بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ حج ایک عالمی اسلامی کانفرنس بھی ہے۔ اتنا بڑا اجتماع کسی قومی فخر کے اظہار اور کسی نسلی عصبیت کے حوالے سے نہیں ہوتا اور نہ ہی وقتی سیاسی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بل کہ اس عالم گیر اجتماع میں جو شریک ہوتا ہے وہ یہاں زرق برق لباس پہن کر نہیں بل کہ ایک طرح کا کفن اوڑھ کر حاضر ہوتا ہے۔

اس اجتماع میں اپنی شخصی وجاہت کا نہیں ہر لمحہ خطاؤں پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے، تخت نشین خاک نشین بن کر رہتے ہیں۔ حج کے اجتماع میں جو کچھ نظر آتا ہے اگر یہی کچھ امت کا اجتماعی رویہ بن جائے تو فکری و روحانی اور سیاسی و معاشرتی انقلاب دو قدم کے فاصلے پر رہ جاتا ہے۔ امت اگر ہر قدم پر اسی جذبہ عبودیت سے سرشار ہو جس کا مظاہرہ مطاف کعبہ، کوہ صفا، میدان عرفات اور منیٰ و مزدلفہ میں کیا جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت امت کو اپنے دام غلامی میں نہیں پھانس سکتی۔ اسی زرق برق لباس کی بے محابا اور منہ زور خواہش نے عالم اسلام کو تن آسانی کا مریض بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنا من بہت ارزاں گروی رکھنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کفن پر قناعت کرلی جائے تو ذلت سے آدمی کو نجات مل سکتی ہے۔ آج امت کا ایک بڑا روگ شخصی وجاہت کا اظہار ہے جس نے وجود امت کو ریزہ ریزہ اور اسلامی جمعیت و حمیت کو پارہ پارہ کیا ہوا ہے، کسی زمانے میں اسلامی برادریوں کا رنگ الگ لیکن آہنگ ایک تھا۔ جغرافیائی خطے تو تھے مگر دینی رشتے پر استوار، لفظ مختلف تھے مگر معنی مشترک تھے، بول چال اور لہجے میں ضرور اختلاف تھا لیکن چال ڈھال اور رویے میں زبردست اشتراک تھا، حج کے اجتماع میں مختلف رنگوں، زبانوں اور علاقوں کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن سبھی ایک ہی رشتۂ بندگی میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

حج کے موقع پر آج تک کسی بھی زمانے میں یہ حادثہ نہیں ہوا کہ کوئی عربی طواف کے دوران کسی عجمی سے کندھا جوڑ کر چلنے میں عار محسوس کرے، کوئی گورا کسی کالے کو اپنے ساتھ نہ لگنے دے، کوئی امیر کسی غریب کے ساتھ ایک صف میں نماز پڑھنے کو آمادہ نہ ہو، کوئی عالم عام مسلمانوں کے عرفات میں قیام نہ کرے اور کوئی شب زندہ دار اور زاہد کسی عاصی و خاطی کی موجودی میں مناسک حج ادا کرنے سے گریز کرے۔ لیکن یہ کیا ہے؟ کہ وہاں سے واپس ہوتے ہی کسی کی عربیت جاگ پڑتی ہے، کوئی اپنے گورے رنگ پر فخر کرتا ہے، کسی کی امارت میں فرعونیت آجاتی ہے، کوئی اپنی علمی برتری کو باقاعدہ صنعت آذری بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ لوگ آئیں اور پُوجا کریں اور کوئی اپنی شب بیداری کو باضابطہ مردم آزاری میں بدل دیتا ہے۔ اگر صفا و مروہ کی دوڑ میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں تو زندگی کی دوڑ میں ہم سب کو شریک کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔۔۔۔ ؟ اگر نمرہ و مزدلفہ میں قیام و سجود ایک ساتھ ہوسکتا ہے تو عام مسجدوں میں ایک دوسرے کا وجود کیوں ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔۔۔۔ ؟

خالق کائنات نے جان انسانی کو تکریم عطا فرمائی ہے۔ اسی نے اس کو احسن تقویم پر پیدا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں کہ انسان کا خون بہایا جائے۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے سار ی زمین کو مسجد بنایا گیا۔ لہٰذا ساری زمین پر امن و سلامتی سے انسانی معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں، مل کر سعی کرتے ہیں اور سب کی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے۔ جب سب کی توجہ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو عزتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جانیں امان میں ہوتی ہیں اور اموال کے نقصان کا ذرا بھی ڈر نہیں ہوتا۔ یہاں سے مومن کامل یہ قانون اخذ کرتا ہے کہ دنیا کے لیے امان توجہ الی اﷲ میں ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا میں ظلم اور بے اعتدالی توجہ ہی کے بھٹک جانے کا نتیجہ ہے اور جونہی توجہ یک سو ہو جائے تو امن و سکون اور اطمینان کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔

مومن کی نگاہ بصیرت لباس احرام سے بھی دانائیاں کسب کرتی ہے۔ وہ لباس کی یکسانیت پر غور کرتا ہے کہ ایک جیسے لباس میں امیر و غریب، حاکم و محکوم اور آقا و غلام کی تمیز مٹا دی۔ سب ہی ایک اﷲ کے بندے بن گئے ہیں۔ وہی اﷲ جس کی بندگی میں افتخار ہے۔ اس کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لیے کسرِ شان ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کی ازلی و ابدی بادشاہت کے سامنے ہر بادشاہت سرنگوں ہے۔ لباس کی سادگی نے شاہوں میں انکساری اور فقیروں میں اعتماد کی روح پھونک دی ہے۔ اس لباس نے قوم و ملت کا امتیاز ہی ختم نہیں کر دیا بل کہ رسم و رواج کے فرق کو بھی مٹا دیا ہے اور سارے انسانوں کو ایک جیسا بنا دیا ہے۔ یہاں انسان نے اپنے ہاتھوں سے کفن پہن لیا ہے وہ سوچتا ہے کہ ایک روز اسی بدن پر ایسا ہی ان سلا لباس دوسروں نے اپنے ہاتھوں سے پہنانا ہے۔ اس دن دوسرے میرا بدن اٹھائے توحید الٰہی کی شہادت دے رہے ہوں گے۔ آج میں خود اس مالک و خالق کے حضور حاضر ہوں اور اسے پکار کر کہہ رہا ہوں، اللھم لبیک۔ یہ تو غم ہجراں سے گزرنے والے عاشق کی فریاد ہے یہاں لفظ تو علامت کی حیثیت رکھتے ہیں وہ علامت جو جذبۂ اطاعت کی ترجمان ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر لکھا جاتا ہے ہم اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں ؟ اپنے رب کے گھر میں اس سے جو عہد کرکے لوٹتے ہیں اس کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتا ؟ حاجی وہاں آب زم زم کی بوتلوں اور کھجوروں کے ساتھ روحانی نور، وقت کی پابندی، مساوات اسلامی، احترام انسانیت، محبت، انس اور بندگی کو واپس آکر تقسیم کیوں نہیں کرتے؟ لوگ ایک سا لباس پہن کر سخت گرمی میں طواف کعبہ کرتے ہیں بل کہ اسی طرح جیسے حضرت بی بی ہاجرہ دوڑی تھیں کیوں کہ ان کا بچہ حضرت اسمٰعیلؑ پیاسا تھا لیکن حاجیوں کے پاس تو پانی کی فراوانی ہوتی ہے اور ان کا بچہ بھی پیاسا نہیں ہوتا تو پھر وہ اس دوڑنے کی منطق کو کیوں نہیں سمجھتے ؟ امیر بھی دوڑ رہا ہے، غریب بھی، بوڑھا بھی دوڑ رہا ہے اور جوان بھی، غلام بھی دوڑ رہا ہے اور آقا بھی، ولی، غوث، قطب، ابدال بھی دوڑ رہے ہیں بل کہ ان راہوں پر خود امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی دوڑے یہاں پر سب کے ہونٹوں پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے اور سب رحمت الہٰی کے طلب گار ہوتے ہیں۔

حج کے موقع پر ہم فلسفہ حج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید ہمارے اعمال میں وہ تبدیلی آسکے جس کا ذکر ہم کتابوں میں کئی بار پڑ ھ چکے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی سوچ و فکر کی تبدیلی ہوتی ہے اگر فکر میں انسان سب کو برابر سمجھنا شروع کر دے تو مساوات اسلامی کا سبق ہماری زندگی میں شامل ہو جائے گا اور ہم حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوجائیں گے۔ مساوات کا سبق ہمیں قانون کے احترام کی طرف لے جاتا ہے وہ قانون جس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جو سب کے حقوق کا محافظ ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم فلسفۂ حج سمجھ کر اپنی عملی زندگی کو نظام مصطفیٰ ﷺ میں ڈھالنے پر آمادہ ہوجائیں تو پھر ہمیں کسی نئے انقلاب کی ضرورت نہیں بل کہ چودہ صدیاں پہلے آنے والے آفاقی انقلاب کی یادیں پھر سے تازہ ہوجائیں گی۔

The post حج ؛ اتحاد امّت کا فقیدُالمثال مَظہر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>