Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پاکستانی…. افراد سے ملک تک ڈاکازنی کا شکار

$
0
0

تخلیق ایک ایسا لفظ جس نے اپنے اندر پوری کائنات کو سمو رکھا ہے، ہر فرد کے لیے اس کے معنی الگ الگ ہیں، شاعر کے لیے ایک شعر کی تخلیق کا سفر اسے دنیا و مافیہا سے بے خبر کردیتا ہے، ایک مجذوب تخلیق کی حقیقت جاننے کے لیے ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

مصور ایک تصویر کی تخلیق کے لیے دشت و صحرا، جنگل و بیاباں کی خاک چھانتا ہے۔ سنگیت کار ایک سنگیت کی تخلیق میں اپنی زندگی کے کتنے ہی قیمتی لمحات کھو دیتا ہے۔ اتنی کٹھنائیوں کے بعد جب ایک شعر تخلیق پاتا ہے، جب ایک تصویر حقیقت کے روبرو ہوتی ہے، جب ایک نغمہ کانوں میں رس گھولنے کے قابل ہوتا ہے، بس یہی ایک شعر، ایک تصویر، ایک نغمہ اس کے خالق کے رگ و پے کو مسرت و شادمانی سے بھر دیتا ہے۔

اس کی روح کو خوشی سے لبریز کردیتا ہے، لیکن جب!! اتنی مشقتوں، صحرانوردی اور دشت کی سیاحی سے تخلیق پانے والے ’شاہ کار‘ کو کوئی اور چُرا لے جائے تو اس درد، اس اذیت، اس تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو اس کیفیت سے گزر چکا ہو۔ تخلیق کی چوری کا یہ مذموم سلسلہ نیا نہیں، حقوق املاکِ دانش کی خلاف ورزی کے نقش تو سولہویں صدی میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن دورِحاضر میں انٹرنیٹ کی بدولت اس چوری نے ایک وسیع کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی اس ’چوری‘ کو ’چوری‘ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ اس بابت شعور کا فقدان اس قدر ہے کہ چور کو خود نہیں پتا ہوتا کہ وہ چوری جیسے جرم کا مرتکب ہورہا ہے اور لٹنے والے کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ اپنی زندگی کے اس قیمتی متاع حیات سے محروم ہوچکا ہے جس کی تخلیق میں اس نے اپنی جوانی تیاگ دی۔

پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے سرکاری طور پر ایک ادارہ تو قائم ہے لیکن عوام کو اس بارے میں کچھ آگاہی نہیں۔ اس عدم آگاہی کا سب سے بڑا فائدہ دوسروں کی تصاویر، تحاریر اور دیگر ادبی اور تخلیقی کام پر دن دیہاڑے ڈاکا مارنے والے ’لٹیرے‘ اٹھا رہے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کسی کی بھی محنت اور سرمایہ خرچ کرکے لی گئیں تصاویر کو اپنے کاروبار کی پروموشن میں استعمال کرتے ہیں تو کچھ ’لٹیرے‘ دوسروں کے ادبی اور تخلیقی کاموں کو اپنے نام سے شائع اور نشر کروا کر لوگوں سے داد وصول کرتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں دنیا بھر بشمول پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے حوالے سے موجود قوانین کے حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف بکھنگم سے ’کمرشل لا‘ میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے والی ممتاز وکیل ثمرینا شاہ سے گفت گو کی گئی ثمرینا شاہ وائیو آربیٹریشن اینڈ میڈ ایشن سینٹر سے بہ حیثیت لائیرر سپورٹنگ میڈی ایشن وابستہ ہیں جس کا احوال نذر قارئین ہے۔ واضح رہے کہ ’حقوق املاکِ دانش‘ پر شائع ہونے والے اس مضمون کی دوسری قسط اگلے اتوار شایع کی جائے گی۔

٭  ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ثمرینا شاہ

وکیل برائے انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس (حقوق املاکِ دانش)

دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں حقوق املاکِ دانش کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ہوگا، کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر اپنے ہی تخلیقی کام کو قانونی شکل دینے کی نوبت پیش آئی۔

’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن کے قیام کی ضرورت اس وقت شدت سے محسوس کی گئی جب ایگزبیٹرز (نمائش کنندگان) نے 1873میں ویانا میں ہونے والی ایجادات کی بین الاقوامی نمائش میں شرکت سے انکار کردیا، کیوں کہ انہیں اپنے آئیڈیاز اور یا ایجادات کے چوری یا دوسرے ممالک کی جانب سے اس کا استحصال کیے جانے کا خدشہ تھا۔ اس کے نتیجے میں1883میں انڈسٹریل پراپرٹی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’پیرس کنوینشن‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا۔ ممتاز فرانسیسی شاعر اور ناول نگار وکٹر ہیوگو کی جانب سے ’حقوق املاکِ دانش‘ کے تحفظ کی مہم اور ادبی و تخلیقی کام کو تحفظ دینے کے ’برن کنوینشن‘ معاہدے نے 1886میں اہم سنگ میل عبور کیے۔

1891میں ہسپانوی شہر میڈریڈ نے اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلے بین الاقوامی آئی پی (انٹیلکچوئل پراپرٹی) فائنلنگ سسٹم کو لانچ کیا۔1893میں برن کنونشن کا نظم و نسق چلانے کے لیے پیرس میں BIRPI (یونائیٹڈ انٹرنیشنل بیوریکس فار دی پروٹیکشن آف انٹیلکچوئل پراپرٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1970میں ایک بین الاقوامی تنظیم نے رکن ممالک کے ساتھ بہ طور بین الحکومتی تنظیم کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں BIRPI وائپو) ورلڈ انٹرنیشنل انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن ) بن گئی۔ 1974 میں وائپو اقوام متحدہ کا حصہ بن گئی اور دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کی تمام اشکال کو تحفظ اور معاونت فراہم کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کا آغاز کردیا۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو وائپو کا رکن بننے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن اس کا رکن بننا یا نہ بننا رکن ملک کی مرضی پر منحصر ہے۔

پاکستان1977میں ’وائپو‘ کا رکن بنا۔ اس وقت دنیا کے 192ممالک وائپو کے رکن ہیں۔ دنیا کے 195ممالک میں سے177 ممالک برن کنونشن معاہدے کے سِگنیٹری (کسی معاہدے پر دستخظ کرنا) ہیں۔ پاکستان 5 جولائی1948کو اس کا رکن بنا۔ دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے ’برن کنونشن‘ کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ادارے بھی ہیں جن میں 1952میں بننے والا سوئٹزر لینڈ، جینوا کا ’یونیورسل کاپی رائٹس کنوشن‘ (یو سی سی) ہے، پاکستان 16 ستمبر1955کو اس کا رکن بنا۔ اسی طرح ’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘ کے رکن ممالک کے درمیان ایک بین الاقوامی قانونی معاہدہ ہے جسے ’ ایگریمنٹ ان ٹریڈ ریلیٹڈاسیپیکٹس آف انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ TRIPS کہا جاتا ہے۔ پاکستان یکم جنوری1995 سے اس کا رُکن ہے۔

لیکن ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے کام کرنے والے اتنے سارے بین الاقوامی اداروں کا رکن ہونے کے باوجود پاکستان میں انفرادی سطح پر اس بابت شعور کا فقدان پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کی نو مختلف سروسز دی جاتی ہیں، جن میں پیٹینٹ، کاپی رائٹ، انڈسٹریل ڈیزائن، کاپی رائٹ، انٹیگریٹڈ سرکٹس، جیو گرافیکل انڈیکیشن، پلانٹ بریڈرز رائٹس، جینٹکس ریسورسز (جی آر ٹی کے ایف) اور نیشنل انٹیلکچوئل رائٹس شامل ہیں۔

پاکستان میں اس ضمن میں درج بالا چار سروسز مہیا کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان وائپو کے ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون‘ کی عدم موجودگی سے ہورہا ہے۔ یہ قانون کسی بھی ملک کو اس کی سرزمین پر پیدا اور تیار ہونے والی مصنوعات کی ملکیت کا بین الاقوامی حق دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی میں پنیر کے ایک برانڈ Parmigiano-Reggiano کو ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اب پوری دنیا میں کوئی بھی ملک یا ادارہ پنیر کو اس نام سے فروخت نہیں کر سکتا، تاہم اس پنیر کے جینیرک نام Parmesanکو بہت سی کمپنیاں Parmigiano-Reggianoکی طرح کا پنیر تیار کرکے فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ہمارے یہاں بہت سی معدنیات، پھل اور سبزیاں ایسی بھی ہیں جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائی جاتیں، لیکن ہم صرف اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کو اچھی قیمت پر فروخت نہیں کرپاتے جس کا بالواسطہ اثر ہماری برآمدات پر پڑتا ہے۔ پاکستان میں ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون‘ نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور چین کو پہنچتا ہے۔

اس وقت چین اس قانون سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہا ہے ، ہم چین کے ساتھ ایک بڑے منصوبے سی پیک کو لے کر چل رہے ہیں لیکن ’جیو گرافیکل انڈیکیشن لا‘ کے حوالے سے قانون سازی پر سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے۔ ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون ایگری فوڈ انڈسٹری کو سپورٹ اور پاکستان کے برآمدی اہداف کو پورا کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ زرعی پالیسی اور جیو گرافیکل انڈیکشن کا قانون بناکر ہم اپنی افرادی قوت کی محنت کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر سکتے ہیں۔ معاشی فوائد کو کھو دینے کی سب سے بڑی مثال ڈیزائنر سر پال اسمتھ کی ہے، جو ہمارے ملک میں بننے والی پشاوری چپل کے ڈیزائن کو آئی پی رجسٹرڈ کروا کر 300 پاؤنڈ میں فروخت کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت باصلاحیت لوگ ہیں لیکن قانون سازوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی اقوام جیو گرافیکل انڈیکشن قانون کی مدد سے وائنز، پھل، اور دیگر اشیاء کی برآمدات کو فروغ دے رہی ہیں اور پاکستان اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے ان معاشی فوائد سے بھی محروم ہو رہا ہے جسے وہ حاصل کر سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ ’پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے تاہم گذشتہ چند سال میں چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور انفرادی سطح پر اس بابت شعور بیدار کرنے کا آغاز کیا گیا ہے لیکن اب بھی ہمارے یہاں لوگوں میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے تحت کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، ڈیزائن یا پیٹنٹ رجسٹرڈ کروانے کی شرح اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کم ہے ۔ دسمبر 2014 میں محکمہ قانون اور انصاف نے ’انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ کے ایکٹ 2012  کے سیکشن 16(1)کے تحت تین شہروں کراچی لاہور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انٹیلکچوئل پراپرٹی ٹریبیونل قائم کیے، لیکن اس معاملے میں بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا جب کہ بلوچستان میں بھی تخلیقی کام ہورہا ہے، وہاں بھی بہت سارے ادارے ایسے ہیں ۔

جنہیں کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، پیٹنٹ اور انڈسٹریل ڈیزائن کی خلاف ورزی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ ’حقوق املاکِ دانش‘ کی رجسٹریشن کی بابت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے یہاں لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے کام کو ’آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ نہیں کرواتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قانونی طور پر اپنا دفاع کرنے کے اہل نہیں رہتے، کیوں کہ جب آپ نے اپنے کام کو قانون کے مطابق رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا تو پھر آپ اس کی خلاف ورزی پر قانونی جنگ کیسے لڑ سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ ’حقوق املاکِ دانش‘ کی وسعت صرف تحریر اور تصویر تک ہی محدود نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے کھانے پینے کے بہت سے مشہور برانڈ ایسے ہیں جو ابھی تک اپنے ٹریڈ مارک، سلوگن کاپی رائٹ کو رجسٹر کروائے بنا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سے اداروں نے اپنے کاروباری راز (ٹریڈ سیکریٹ) کو بھی قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا ہے، مثال کے طور پر ایک مشہور فوڈچین کی بریانی بہت مشہور ہے ، لیکن وہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے مصالحوں اور اجزا کو کسی کو بتانا نہیں چاہتی۔ اسی طرح کوئی کمپنی خاص قسم کی خوشبو یا شیمپو بناتی ہے لیکن اس کے اجزائے ترکیبی اس کے کاروباری راز ہیں۔ پاکستان میں ’ ٹریڈ سیکریٹ‘ کا قانون موجود نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ٹریڈرز کو تحفظ حاصل نہیں ہے، ٹریڈرز اور کاروباری ادارے اپنے راز ظاہر نہ کرنے کے معاہدے بھی کر سکتے ہیں۔

جس کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں قانونی مدد ملے گی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ’ وائپو کے قوانین کے مطابق ’ کوئی بھی ادارہ اپنے کاروباری راز کو متعلقہ ملک کی ’ آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ کروانے کا پابند نہیں ہے لیکن اگر کل کو ئی بھی آپ کے فارمولے یا ریسپی کی بنیاد پر اپنی پراڈکٹ فروخت کرنا شروع کردے تو پھر قانوناً آپ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سلوگن، جنگلز، بھی کاپی رائٹس میں شامل ہیں، یوں سمجھ لیں کہ ہر وہ چیز جو آپ نے لکھی، بنائی، وہ آپ کی ’انٹلیکچوئل پراپرٹی‘ ہے، بہ حیثیت موجدیا مصنف آپ کے پاس اس کے مالکانہ حقوق موجود ہیں لیکن اپنے اس حق کو عدالت میں ثابت کرنے کے لیے اپنی ایجاد، اپنی تخلیق، اپنی تحریر یا اپنے ڈیزائن کو ’ آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ کروانا لازمی ہے۔ ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کے کام کو چُرا کو اپنے نام سے رجسٹر یا اسے شایع کردیتا ہے تو اس سے آپ کے حقوق کی خلاف ورزی تو ہوتی ہے لیکن اسے عدالت میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔

یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں ایک کافی شاپ کھول لیتی ہوں، لیکن اس کا ٹریڈ مارک اور نام رجسٹر نہیں کرواتی اور کچھ عرصے کوئی فرد میرے ہی نام اور ٹریڈ مارک کو آئی پی او میں رجسٹرڈ کروا کر، کافی شاپ کھول کر میری ’اچھی ساکھ‘ کا فائدہ اٹھاتا ہے تو پھر قانونی طور پر میرے پاس اپنے نام، ٹریڈ مارک، اور اچھی ساکھ کو کھونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ کاپی رائٹ کی طرح ٹریڈ مارک، پیٹینٹ، انڈسٹریل ڈیزائن کو بھی ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ رجسٹرڈ کروانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آپ گاڑی بنانے والے پہلے انسان ہیں، آپ اس کے موجد ہیں، آپ نے اسے ڈیزائن کیا، آپ اپنی اس ایجاد کو انسانیت کے بہتر مفاد میں پیٹینٹ کروا کے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنا چاہتے تو یہ آپ کی شرافت ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ کوئی اور آپ کی اس ایجاد کا سہرا اپنے سر باندھ لے۔ کسی بھی ایجاد یا دریافت کو پیٹینٹ کروانے سے کے بعد اس پر اگلے بیس برسوں تک آپ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے، اگلی دو دہائیوں تک کوئی فرد یا ادارہ آپ کی اجازت کے بغیر اس پیٹینٹ کو استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی ادویہ ساز کمپنی کینسر کی دوا بنا کر اسے پیٹنٹ کروا لیتی ہے، تو اگلے بیس سال کوئی اور کمپنی اس دوا کو تیار نہیں کر سکتی۔ اب یہ اس فارما سیوٹیکل کمپنی کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس سے ایک روپیا منافع کمائے یا ایک لاکھ روپے!

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور رجسٹریشن کی میعاد

ٹریڈ مارک، پیٹینٹ، انڈسٹریل ڈیزائن اور کاپی رائٹ کی رجسٹریشن کے دورانیے کی بابت ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ’پیٹینٹ کی رجسٹریشن بیس سال تک موثر ہوتی ہے، اس کے بعد یہ ایجاد یا تحقیق پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے۔ یعنی کوئی بھی اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اپنی تحقیق یا ایجاد کو پیٹینٹ کروانے کے بجائے اپنے طریقہ کار یا فارمولے کو ’ٹریڈ سیکریٹ ‘ کے طور پر رجسٹرڈ کرواتی ہیں، مثال کے طور پر سوفٹ ڈرنک بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے مشروب کے فارمولے کو ٹریڈسیکریٹ کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کروایا ہے لیکن یہ اب تک دنیا کے بہترین ٹریڈ سیکریٹ کے طور پر جانا جاتا ہے یہ کمپنی اپنے سافٹ ڈرنک کے ذائقے کا راز عوام پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اگر وہ اسے پیٹینٹ کے طور پر رجسٹرڈ کرواتے تو پھر کئی دہائی پہلے ہی یہ اس کمپنی کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہوتی۔ کاپی رائٹ کی مدت اس کے تخلیق کار کی موت تک ہے، لیکن کاپی رائٹ کے قانون میں موروثیت کا عنصر بھی شامل ہیں، مثال کے طور پر ایک گلوکار کا انتقال ہوجاتا ہے اور اس نے وصیت میں اپنے گائے گئے گانوں کے کاپی رائٹس حقوق بچوں کو منتقل کردیے تھے تو پھر وہ ان گانوں کے کاپی رائٹ حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے فرد یا ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن کی مدت دس سال تک موثر ہوتی ہے لیکن یہ کمپنیوں کے ساتھ بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔‘

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر ’حقوق املاکِ دانش‘ کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ ’ورلڈ انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ (وائپو) میں پوری دنیا کا ڈیٹا شیئر ہو رہا ہوتا ہے ۔ گوگل سرچ انجن کی طرح وائپو کے پاس ٹریڈ مارک، کاپی رائٹ، ڈیزائن وغیرہ کو تلاش کرنے کا ایک سرچ جرنل ہے جہاں جا کر آپ کسی بھی رجسٹرڈ آئی پی او کو تلاش کرسکتے ہیں، لیکن اس تک رسائی صرف مجاز اتھارٹیز کو ہی دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے ابھی تک پی سی ٹی (پیٹینٹ کو آپریشن ٹریٹی) معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں، اگر پاکستان اس معاہدے کا حصہ بن جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہونے والا پیٹینٹ پی سی ٹی کے 152رکن ممالک میں بھی رجسٹرڈ ہوجائے گا۔

پی سی ٹی پر موجود تمام معلومات ہر کسی کے لیے دست یاب ہیں اور کوئی بھی موجد ہے تو وہاں جا کر رجسٹرڈ پیٹنٹ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر سکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ برن کنوینشن کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادبی، تخلیقی اور تحقیقی کام کو دنیا کے 177ممالک میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کا حق مل جاتا ہے، یعنی پاکستان میں پیش کیے گئے میرے کام کو ’برن کنوینشن‘ کے رکن ممالک میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے نام سے شایع یا رجسٹر نہیں کروا سکتا، لیکن کہ اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ آپ نے اپنے کام کو ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ میں رجسڑڈ کروایا ہو۔‘

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور ڈیجیٹل میڈیا

پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا پر کاپی رائٹ کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی جارہی ہے، اس بابت ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی بہت ساری اصناف ہیں لیکن اس میں انٹیلکچوئل رائٹس کی سب سے زیادہ خلاف ورزی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم انٹرنیٹ پر شمالی علاقہ جات کی تصاویر تلاش کرتے ہیں تو ایک لمحے میں ہزاروں تصاویر ہماری اسکرین پر آجاتی ہیں، ہم انہیں سوچے سمجھے بنا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے اپنے دوستوں کی ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب اس تصویر یا تحریر کے خالق نے ہی اپنی ملکیت ظاہر نہیں کی تو یہ پبلک پراپرٹی بن گئی، اور سب ہی نامعلوم فوٹو گرافر یا مصنف کے کام سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے کام کو تحفظ فراہم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ ’واٹر مارک ‘ کا ہے۔

آپ اپنے کام کو واٹر مارک کے بنا ہرگز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ نہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کی تصاویر سے کوئی مالی فوائد حاصل نہیں کر رہا تو اس حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی ادارہ یا فرد آپ کے تخلیقی کام سے مالیاتی یا دیگر فوائد حاصل کر رہا ہے تو پھر یہ اس کا قانونی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا فائدہ اُس تصویر یا تحریر کے خالق کو بھی پہنچائے یا کم از کم ایک جملہ اس تخلیق کے مالک کی حوصلہ افزائی میں ہی لکھ دے، لیکن ہمارے یہاں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں میں آپ کو ایک بات سے اور آگاہ کرنا چاہوں گی کہ انٹرنیٹ پر کسی کے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی سائبر کرائم کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ اگر آپ کسی کے گانے، تحریر یا تصویر کو بلااجازت غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو مذکورہ فرد کو آپ کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ یا ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی کے تحت قانونی کارروائی کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور قانونی حق

’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کے حوالے سے ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ انٹیلکچوئل رائٹس ایک مکس ڈومین ہے، اب یہ آپ کے کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آپ اپنے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی کرنے والے فرد یا ادارے پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں، ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں، حکم امتناع یا انجری بھی کلیم کر سکتے ہیں۔

ویسے پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے کیسز کے لیے تین صوبوں میں الگ الگ ٹریبونل قائم کیے گئے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی جنگ اداروں کے درمیان چل رہی ہے، انفرادی طور پر اپنے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی پر کیس دائر کرنے کی شرح بہت کم ہے۔ تاہم اب پاکستان میں جامعات اور کالجز کی سطح پر اس بات کا شعور اجاگر کیا جا رہا ہے، طلبا کو بتایا جارہا ہے کہ ’جی آپ جو کام کر رہے ہیں اسے پاکستان کے انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کی شکل میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پہلے تو طالب علموں کو پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کے تحقیقی اور تخلیقی کام کی بنیاد پر کتنے ادارے پیسے لاکھوں روپے کما چکے ہیں۔ انجینئرنگ اور بایو میڈیکل کے طلبا کو کو تو خاص طور پر اپنے ریسرچ پراجیکٹ کو پیٹنٹ کی شکل میں قانونی تحفظ دینا چاہیے۔

 ٭ہمالین سالٹ اور ’حقوق املاکِ دانش‘

ایڈوو کیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ ’حال ہی میں سوشل میڈیا پر کھیوڑہ سے بھارت برآمد ہونے والے ’پنک سالٹ‘ کے حوالے سے کافی شور رہا۔ ہر پاکستانی کی ذہن میں یہ سوال چبھتا رہا کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی سرزمین سے نکلنے والے اس نمک سے پاکستان کے بجائے بھارت کو زیادہ فائدہ مل رہا ہے؟ اصولاً تو اس نمک کی برآمدات کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ نکل پاکستانی زمین سے رہا ہے تو اس کا فائدہ بھی پاکستان کو ملنا چاہیے وغیرہ وغیرہ؟ عوام کے دل و دماغ میں گردش کرنے والے اس سوال کا جواب بھی ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون نہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔

وائپو کے مطابق پاکستان اس نمک پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیوں کہ جب آپ مقامی طور پر کسی چیز پر اپنا قانونی حق دائر نہیں کرتے تو پھر بین الاقوامی سطح پر بھی آپ اس پر ملکیت دعویٰ نہیں کرسکتے! ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک پنک سالٹ تک ہی محدود نہیں ہے، بھارت سوات سے نکلنے والے قیمتی پتھر ’زمرد‘ کو کوڑیوں کے مول خرید کر بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کے مول فروخت کرتا ہے۔ بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی گرتی ہوئی قدر میں دیگر بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان میں اس قانون کو عملی شکل دینے کے لیے گذشتہ 18سال سے کام ہورہا ہے لیکن یہ ابھی تک ڈرافٹ کی شکل میں ہے۔

ہم صرف اس ایک قانون کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ اس کی ایک اور مثال لے لیں ’بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں کھیس ایک مشہور پراڈکٹ ہے، لیکن بھارتی کھیس ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت ایک رجسٹرڈ آئی پی او ہے، اسی طرح تھر اور راجستھان میں ’پھلکاری‘ کے نام سے ایک مخصوص چادر تیار ہوتی ہے، لیکن کھیس کی طرح یہ بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں بھارتی پراڈکٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ پاکستان ’کھیس‘ یا ’پھلکاری‘ کے پاکستانی پراڈکٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ تو بھارت ہم سے پہلے ہی اپنی پراڈکٹ کے طور پر آئی پی او رجسٹرڈ کرواچکا ہے۔ اسی طرح بھارت ’کشمیری پشمینہ‘ اور ’بنارسی ساڑھی‘ کو بھی ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون ‘ کے تحت رجسٹرڈ کرواچکا ہے۔

اسی طرح مغربی بنگال کی ایک مشہور مٹھائی ’رس گلہ‘ ہے، 2015 میں بھارت نے ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت اس مٹھائی ’بنگالی رس گلہ‘ کو جی آئی ٹیگ عطا کردیا۔ اب وائپو کے رکن ممالک میں کوئی بھی اس مٹھائی کو ’بنگالی رس گلہ‘ کے نام سے فروخت نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں برآمدات کی مد میں جو نقصان ہو رہا ہے اس بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ دیکھیں تمام تر انٹیلکچول رائٹس کاروباری طبقے کو ایک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اگر آپ کا لیگل فریم ورک مضبوط نہیں ہے تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سی کثیرالقومی کمپنیاں ان پراڈکٹ کو بھی اپنے نام سے پاکستان میں رجسٹرڈ کروالیتی ہیں جن ہر ملکیت کا حق ہمارا بنتا ہے۔

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے مشہور ملکی اور غیرملکی برانڈز کے نام پر بننے والی جعلی اشیاء ’ فرسٹ اور سیکنڈ کاپی ‘ کے طور پر کھلے عام فروخت ہورہی ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز میں آپ ان کے خلاف قانونی کارروائی اس لیے نہیں کر پاتے کیوں کہ جو اوریجنل پراڈکٹ ہے وہ خود آئی پی او میں رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ اسی لیے یہاں کپڑوں سے لے کر موبائل تک ’فرسٹ کاپی‘ کی شکل میں فروخت ہورہے ہیں جو کہ انٹیلکچوئل رائٹس کے ساتھ ساتھ صارفین کے حقوق کی بھی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ پاکستان میں اسٹارٹ اپ، انٹر پرینیورشپ کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، ہمارے نوجوان بہت اچھا تخلیقی کام کر رہے ہیں لیکن آئی پی او نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ تک سائی حاصل نہیں کر پارہے ، یا پھر دوسرے ملک ہمارے کام کا کریڈٹ خود لے کر انہیں آٹے میں نمک برابر ادائیگی کر رہے ہیں۔

The post پاکستانی…. افراد سے ملک تک ڈاکازنی کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


کیا کریں اپنی جستجو نہ گئی
دل کی آواز کو بہ کو نہ گئی
خاک ہم ہو گئے مگر دل سے
تم سے ملنے کی آرزو نہ گئی
چھو کے دیکھا تھا پیراہن ان کا
ہاتھ سے اب بھی مشک و بو نہ گئی
حال ابتر ہے فاقہ مستی میں
عادتِ جام اور سبو نہ گئی
خاک میں مل چکے ہیں ہم لیکن
رنج کی ان کی گفتگو نہ گئی
آدمی آدمی کا دشمن ہے
رغبتِ تیغ اور گلو نہ گئی
اس نے رسوا تو کر دیا ہے عظیم
تم سمجھتے ہو آبرو نہ گئی
(ابنِ عظیم فاطمی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


نئی نسلوں میں کوئی تازہ کہانی ہو گی
یہ محبت ہے، محبت نہ پرانی ہو گی
یہ گلابوں بھرے تختے ہیں تمہارے رستے
تم جہاں ہو گی وہاں رات کی رانی ہو گی
آج کے دن تو مناسب ہی نہیں سرخ لباس
تو جو آیا تو تجھے صلح جتانی ہوگی
جنّتی لوگوں کے ساماں کی تلاشی کیسی
کیا محبت بھی یہیں چھوڑ کے جانی ہوگی
جو منافق ہیں وہ دہلیز سے باہر ٹھہریں
دوست آئیں گے تبھی شام سہانی ہو گی
(احمد عطاء اللہ۔ مظفر آباد)

۔۔۔
غزل


ہرے طلسمی ہاتھ سے گھڑا ہوا مرا وجود
عدن سے خاک پر گرا جھڑا ہوا مرا وجود
ڈھلک رہا ہے روشنی کے بوجھ سے ہی لو بہ لو
کسی یقیں کے طاق پر پڑا ہوا مرا وجود
جما تو کائی پھیل کر سمندروں کو ڈھک گئی
چلا تو پھر پہاڑ سے بڑا ہوا مرا وجود
ہزار کرچیوں میں ہے بے چہرگی پڑی ہوئی
ہے یوں کسی خیال سے لڑا ہوا مرا وجود
سمے کے ساتھ بت بنا، تو یاد گار ہو گیا
ازل سے انتظار میں کھڑا ہوا مرا وجود
ابھی مرے جلال کے جمال میں ہے دشت بھی
ابھی ہے رزم گاہ میں پڑا ہوا مرا وجود
(راشد امام۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


گماں کو دور حقیقت کو پاس رکھتا ہوں
کچھ اس طرح سے میں خود کو اداس رکھتا ہوں
دلیل دے کے تری بات میں سمجھ پاؤں
اب اس طرح سے نہیں ہوں حواس رکھتا ہوں
شراب اور وہاں پر ملیں گی حوریں بھی؟؟
اگر یہ سچ ہے تو بوتل گلاس رکھتا ہوں
تعلقات بھلا کیوں کسی سے ٹوٹیں گے
توقعات کسی سے نہ آس رکھتا ہوں
یہ اور بات کے پھوٹی نہیں وفا مجھ سے
میں بے اساس نہیں ہوں، اساس رکھتا ہوں
کمال میرا نہیں ہے یہ ماں کی لوری ہے
یہ گفتگو میں جو اتنی مٹھاس رکھتا ہوں
میں اب نگاہوں کا مرکز نہیں رہا اختر
میں آج کل جو بدن پر لباس رکھتا ہوں
(اختر مجاز۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل


اس خیش قبیلے میں ونی ہو کے مروں گی
میں بخت جلی ہوں تو شنی ہو کے مروں گی
سنسان نہیں ہوگا مری قبر کا رقبہ
کتبے کی سجاوٹ سے غنی ہو کے مروں گی
ہے قرض مرے جسم پر اُس شیر طلب کا
معراجِ عزا سینہ زنی ہو کے مروں گی
یہ زلف سفیدی سے ثمر دار ہوئی ہے
جاگیرِ برادر میں گھنی ہو کہ مروں گی
لہراتے ہوئے پھن سے کوئی خوف تو نہ کھا
میں وقتِ دعا ناگ منی ہو کے مروں گی
پربت سے مرا ساتھ بھی اک چال تھی ساگر
کہ طور کی مٹی سے دھنی ہو کے مروں گی
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


زمانے بھر کی ہر اک چیز تو پرائی ہوئی
خدا کا شکر ترے دل تلک رسائی ہوئی
تو ایک روز مجھے چل کے ملنے آیا تھا
تری تھکن ہے مرے جسم میں سمائی ہوئی
یہ دشمنوں کا چلو ایسا کرنا بنتا تھا
مگر جو تہمتیں اپنوں نے ہیں لگائی ہوئی
ہمیشہ جذبے ہی تضحیک کا نشانہ بنے
ہمیشہ اہلِ محبت کی جگ ہنسائی ہوئی
ہیں بندشوں سے زمانے کی کب بھلا آزاد
ہمارے شعر ہوئے یا تری کلائی ہوئی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


یہ زرد موسم کے پھول سارے محبتوں کا حصول ٹھہرے
اداس آنکھوں کی چلمنوں پر وفا کے موتی فضول ٹھہرے
وصال لمحوں کے منتظر ہیں رکے ہوئے یہ تمام منظر
کبھی جو آؤ تو درد ٹھہرے یہ آنسؤں کا نزول ٹھہرے
سنا ہے اس نے رقیبِ دل کو مری وفا کی مثال دی ہے
اگر یہ سچ ہے یقین مانو مجھے یہ سب دکھ قبول ٹھہرے
گُلوں کے عادی ہیں لوگ سارے یہ سرخ قالیں پہ چلنے والے
عبث نہ آئیں ہماری جانب کہ راستوں میں ببول ٹھہرے
سکھا نہ مجھ کو اے میرے واعظ عقیدتوں کے سلیقے اپنے
میں جس کو چاہوں میں جیسے چاہوں یہ میرے اپنے اصول ٹھہرے
اچھالا جس نے بھی مجھ پہ کیچڑ کیا ہے جس نے بھی مجھ کو رسوا
مری دعا ہے مسرت اس پر، نہ دھوپ برسے نہ دھول ٹھہرے
(مسرت عباس ندرالوی۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


چاہوں تو میں دنیائے خرابات میں گھوموں
یعنی کہ مسلسل ہی سماوات میں گھوموں
دیکھو کہ ہتھیلی پہ مری جان پڑی ہے
مشکل نہیں دنیا ترے خدشات میں گھوموں
ملتے ہیں مجھے روز ترے شہر سے طعنے
ایسا ہے تجھے ڈھونڈنے اب رات میں گھوموں
اب تک تو سنی ہیں میں نے واعظ تری باتیں
اب دل ہے کہ میں شہرِ خرافات میں گھوموں
حالاں کہ میں صادق ہوں مرا نیک نسب ہے
کہتے ہیں مجھے لوگ میں اوقات میں گھوموں
ویسے تو میں خوابوں کا بھرم توڑ چکا ہے
آنکھیں مری کہتی ہیں میں صدمات میں گھوموں
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


تمہارے پاس بہت سی ادائیں باقی ہیں
ہمارے پاس اب تھوڑی دعائیں باقی ہیں
یہ ہم تھے جھیل گئے سب، ملا نہ ہم سا تو
کسے سناؤ گے جو سزائیں باقی ہیں
گیا نہیں ہے نظر سے وہ ہو گیا اوجھل
یہ تم بھی جانتے ہو آتمائیں باقی ہیں
جو اس کی یاد کے بادل تھے رات بھر برسے
دل و دماغ پہ اب بھی گھٹائیں باقی ہیں
ہم اس کی چیز ہیں وہ چاہے جب فنا کر دے
ہمارے پاس فقط التجائیں باقی ہیں
(غزالہ تبسم غزال۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


اتارا شیشے میں اک شیشہ باز نے ہم کو
بہاروں میں دیا غم جاں گداز نے ہم کو
خیال حسن ہی باغِ بہشت ہوتا ہے
بڑی تسلیاں دیں ہیں فراز نے ہم کو
حجابِ راہ ہے منزل نہیں رباب و چنگ
دیا ہے راز محبت کے ساز نے ہم کو
لبادہ اوڑھ کے مٹی کا چھپ گیا ہے خود
گناہ گار کیا امتیاز نے ہم کو
ہمارا ضبط ہمیں ہی فنا کرے گا سیف
کہیں کا چھوڑا نہ اس دل نواز نے ہم کو
(سیف علی عدیل۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


سفر میں کیوں نہ ہوں ممنون پانی کے بہاؤ کا
سلامت ہے کہاں کوئی بھی تختہ میری ناؤ کا
تمھارے اور میرے درمیاں یہ فاصلے کیوں ہیں
گزرتی عمر ہے بدلو ذرا لہجہ تناؤ کا
سنا ہے تم نے کافی کی ہے تبدیلی رویے میں
ابھی تک یاد ہے مجھ کو مزا لفظوں کے گھاؤ کا
میں چادر سَر پہ لیتا ہوں تو پیروں پر نہیں ٹکتی
زمانہ مشورہ دیتا ہے مجھ کو رکھ رکھاؤ کا
ہمیں جو راہ بروں کا خوف جینے ہی نہیں دیتا
تو کیوں ناں فیصلہ کچھ ہٹ کے کر جائیں چناؤ کا
(طاہر فردوس گوندل۔ تھابل سرگودھا)

۔۔۔
غزل


اداس پل میری سانسوں کے چھین لے کوئی
یہ خار بھی میری راہوں کے چھین لے کوئی
خراب کر کے جو عادت یہ چھوڑ دیتے ہیں
سکون بے وفا بانہوں کے چھین لے کوئی
یہ مجھ کو یاد دلاتے ہیں تیرے چہرے کی
یہ رنگ روپ گلابوں کے چھین لے کوئی
گھٹن گھٹن ہے تعفن زدہ یہ بستی ہے
سیاہ دور رواجوں کے چھین لے کوئی
اگر نصیب یہ محتاج ہے لکیروں کا
تو یہ نقوش بھی ہاتھوں کے چھین لے کوئی
زہر ہی زہر ہے خوش رنگ قبا کے پیچھے
یہ پیرہن تیرے لفظوں کے چھین لے کوئی
(عامرمعان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل


زمین ہجر میں گردن تلک گڑا ہوا ہوں
میں تجھ کو ہار کے اب سوچ میں پڑا ہوا ہوں
ہر ایک سمت ہے شورش، بلا کی وحشت ہے
میں دشت زاد ہوں اور شہر میں کھڑا ہوا ہوں
یہ عشق موت کے اسباب پیدا کرتا ہے
میں تیس سال سے اِس بات پر اڑا ہوا ہوں
کِیا تھا آپ نے ثروت کا ذکرِ خیر جہاں
میں احترام میں اب تک وہیں کھڑا ہوا ہوں
خدا کرے کہ تجھے بندگی پسند آئے
میں خاک ہو کے تری راہ میں پڑا ہوا ہوں
میں قہقہوں کے قبیلے کا آدمی تھا مگر
عجیب ہے کہ گلے دشت کے پڑا ہوا ہوں
بتا رہے تھے یہ فیصل امامِ عشق مجھے
میں انتظارِ مسلسل سے چڑچڑا ہوا ہوں
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
محوِ دیدارِ یار ہوتے ہیں
ہم سدا پُر بہار ہوتے ہیں
وہ بھی کیا غم گسار ہوتے ہیں
جو مصیبت میں یار ہوتے ہیں
اُن فقیروں کو کون پوچھے گا
جو سرِ رہ گزار ہوتے ہیں
کچھ شکاری کبھی کبھار یہاں
اپنے ہاتھوں شکار ہوتے ہیں
اُن کو منزل پکار اُٹھتی ہے
جن کے دشمن ہزار ہوتے ہیں
کچھ پتنگے چراغ پر صادق!
لڑکھڑا کر غبار ہوتے ہیں
(محمد ولی صادق۔ سناگئی کوہستان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈپریشن ؛ کیا،کیو ں، کیسے؟

$
0
0

ہمارے معاشرے کی ایک بہت اہم بیماری ڈپریشن (Depression) (مایوسی) ایک عام شکا یت ہے۔ اگر جسم میں کہیں بھی درد ہو تو ڈپریشن ہو سکتا ہے اور اگر ڈپریشن ہو تو جسم میں کہیں بھی درد ہو سکتا ہے۔

روزمرہ کی زندگی میں ہما رے جذبات میں اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے جیسے کہ کوئی ہماری تعریف کردے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں اور کوئی ہمیں ڈانٹ دے تو ہم اُداس ہوجاتے ہیں اور اس اداسی کو لو گ ڈپریشن کہتے ہیں لیکن یہ ڈپریشن کے زمرے میں نہیں آ تا۔

کسی بھی شخص کی کم از کم 2 ہفتے سے زیادہ کی اُداسی اور اس کے ساتھ روزمرہ کے کا م میں دل چسپی نہ لینا، جسمانی انرجی لیول کا کم ہوجانا، بھوک کا متاثر ہونا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونا ، یہ سب ڈپریشن کہلا تا ہے۔

پاکستان کی 1/3آبادی ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے یعنی کہ ہر تین میں سے ایک فرد کو ڈپریشن ہے۔ ریسرچ کے مطا بق 30% ڈپریشن کے مرض میں مبتلا مریض علا ج نہیں کروا تے۔ پاکستان میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد لو گ ڈپریشن کے علاج سے محروم ہے۔ ہمارے ہاں میں تقریباً 500 کے قریب ماہرین نفسیات ہیں، جن میں سے زیادہ تر شہری علاقوں ہیں۔ دیہات میں اس مرض کے علا ج کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔

مریض اپنے مرض کا اظہار درد کی شکل میں کرتا ہے مثلاً معدے کا درد، پیٹ کا درد گردن کا درد، ہڈیوں میں درد۔ یہی وجہ ہے کہ مریض مختلف اسپیشلسٹس کے پاس جا تے ہیں۔ ڈپریشن کے مریض زیادہ تر جسم کے مختلف حصوں پردرد کے سا تھ آ تے ہیں۔

درد اور ڈپریشن کا ایک خاص رشتہ ہے۔ اگر کسی کا درد بہتر نہیں ہو تا تو اس کا اثر اُس کے جذبات پر پڑتا ہے اور جذبات سے اُس کی سوچے اثرانداز ہوتی ہے ڈپریشن کے مریض کا پرسیپشن بڑھ جاتا ہے دماغی کیمیکل میں تبدیلی کی وجہ سے بھی درد اور ڈپریشن دونوں ایک سا تھ شروع ہوتے۔

ڈپریشن کے 40% مریض سردرد کے ساتھ، گردن کے درد کے ساتھ، ہاتھ پاؤں کا سُن ہونا، نیند کا نہ آنا، چھوٹی چھو ٹی باتو ں پر لڑنا، منفی سوچنا، پورے جسم میں درد ہونا، قبض کی شکایت، ان تمام مریضوں کے اندر ڈپریشن ہوتا ہے ان تمام چیزوں کی وجہ ڈپریشن ہوتا ہے، لیکن مریض اُس کو ڈپریشن نہیں سمجھتا ہے۔

درد کا اور ڈپریشن کا ایک ہی راستہ ہے کیوںکہ ہمارے دماغ کے اندر خاص جگہ  Limbic Systemسے Norepinerphineاور Serotoninکے سگنل ایک ساتھ گزر رہے ہو تے ہیں جو کہ درد کے ساتھ ڈپریشن کو بھی Stimulateکرتے ہیں۔

ڈپریشن کے مریضوں کا Holistic Approach  سے علاج کیا جاتا ہے اور خاص طریقے سے علاج کیا جا تا ہے۔ مثلاً اس علاج میں دوا، ورزش اور خو راک تینوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ورزش (Exercise) کرنے سے ہما رے جسم سے خا ص قسم کے کیمیکل Endorphinاور Enkephalin ریلیز ہوتے ہیں، جو خاص قسم کے Mood Stablizerاور pain releiver ہو تے ہیں اور ان کے جسم میں بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہے۔ اس وجہ سے یہ کیمیکل ڈپریشن کے مریضوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوتے ہے روزانہ 30سے 35 منٹ کی ایکسرسائز کرنے سے ڈپریشن ہونے کے خطرات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ خاص کر صبح (فجر کی نماز کے بعد) آکسیجن بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ ٹائم واک کرنے کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

بہت سی خواتین یہ کہتی ہیں کہ روزمرہ کے گھر کے کام کاج کی وجہ سے ہماری کافی واک ہوجاتی ہے۔ یہاں ایک بات بتانا بہت ضروری ہے کہ ایک گھر کی نما ز ہو تی ہے اور ایک مسجد کی نماز اسی طرح سے ایک گھر کی واک ہو تی ہے ایک باہر کی واک جو کہ پروپر(Proper) وا ک کہلاتی ہے۔ مریض کو کسی بھی اسپورٹس ایکٹیویٹی میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی مریض روانہ کم ازکم 20 سے 25 منٹ فٹبال کھیلے تو اُس کے ڈپریشن میں خاصی کمی آسکتی ہے۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کم از کم ہفتے میں 150منٹ ورزش کرے تو اُس کے اندر 58%شوگر کی شو گر کی روک تھام ہوسکتی ہے جب ہی تو کہتے ہیں کہ حر کت میں برکت ہے۔

ایک خاص قسم کی Therapy جس کو Physco Social Therapy کہتے ہیں اس میں 3 چیزیں ہوتی ہیں Analytical, Behavioural اور Cognitive۔Analytical میں مریض سے اپنی پریشانی کا اظہار کرایا جا تا ہے وہ کن حا لات اور مشکلات کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہوا۔ Behavioural Therapy کے ذریعے ہم مریض کے رویوں سے اس بیماری کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُس سے کوئی تقریر کروا نا یا کسی جانور کا شکار کروا نا یا کوئی مختلف قسم کا ٹاسک دینا۔ دوسری طرفCognitive میں مریض کی سمجھ کو ٹھیک کرنا ہوتا ہے، جیسے اُسے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ مثالیں دے کر سمجھانا ہوتا ہے مثلاً محمود غزنوی سومنات پر 16حملوں میں ناکام ہوا،Micheal Jordanپوری دنیا میں باسکٹ بال کا مشہور اور نام ور کھلاڑی یہ کہہ کر اسکول کی باسکٹ بال ٹیم سے نکال دیا گیا تھا کہ تم کبھی باسکٹ بال نہیں کھیل سکتے۔ اس طرح مریض کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ اپنی سوچوں کولLimitedاور مثبت رکھیں۔ مثبت بولیں، مثبت سنیں اور مثبت دیکھیں۔ جو کچھ ہے وہی سب کچھ ہے اور جو نہیں ہے وہ اللہ کی مرضی ۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ چیزیں کھانے سے ڈپریشن میں خاصی کمی آتی ہے مثلاً کیلا، لوبیا، مرغی کی کلیجی، پنیر وغیرہ۔

Physiotherapyکے ذریعہ بھی ڈپریشن کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، مثلاً زیادہ سوچنے کی وجہ سے ڈپریشن کے مریضوں کے پٹھوں میں اکڑاؤ آجاتا یا سختی بڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر گردن کے پھٹو ں میں، اس لیے ڈپریشن کے زیادہ تر مریض گردن میں سختی (Cervical spasm)، کمر میں درد(Lumber Spasm)  اور پورے جسم میں درد (Fibromyalgia)کے ساتھ آ تے ہیں۔ ایسے مریضوں کو خاص قسم کی سائیکوتھراپی جیسے کہ Release Cervical Trigger Pointsاور Gymایکسرسائز کروانے سے مریض کو خاصا ریلیف ملتا ہے۔

آخر میں خاص بات یہ کہ اللہ کے ذکر، تلاوت اور نماز پڑھنے سے ڈپریشن میں خاصی کمی آ تی ہے۔ ڈپریشن ایک مایوسی ہے اور مایوسی ہمارے مذہب (اسلام) میں منع ہے۔ اس لیے مایوسی سے بچا جائے اور یقین رکھا جائے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اللہ پا ک کے ہر کام میں ہمارے لیے بہتری ہوتی ہے۔

The post ڈپریشن ؛ کیا،کیو ں، کیسے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

صحت یاب کرنے کی سائنس، دیکھ بھال کا فن

$
0
0

یہ 2013 ء کی بات ہے ایک عجیب طرح کے درد نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ درد کی نوعیت اگرچہ اکثر معمولی رہتی تھی لیکن مسلسل ہوتی تھی۔ خصوصاً رات کے وقت یہ میٹھا میٹھا سا درد بے چین رکھتا تھا۔ جو پیٹھ کے بالائی حصے یعنی کندھوں سے ذرا نیچے دل کے آس پاس کی پشت سے شروع ہوکر گردن اور بازو ں تک جاتا۔ جس سے بازئوں اور کندھوں کی حرکت، گردن کی حرکت اور کچھ حد تک کمر کی حرکت میں دشواری روزبروز بڑھنے لگی۔اس صورتحال میں پہلی بات جس کی جانب خیال گیا کہ کہیں خدانخواستہ دل کا تو کوئی مسئلہ لاحق نہیں ہوگیا۔

اس خیال نے دل کے ڈاکٹر کے کلینک کی راہ دکھائی۔ ڈاکٹر صا حب نے ای سی جی اور ای ٹی ٹی کی تو الحمدو للہ کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کو کو ئی اعصابی مسئلہ لگ رہا ہے آپ کسی نیورو فزیشن کو چیک کرائیں۔ تو اگلا پڑائو ایک ماہر نیورو فزیشن کا کلینک ٹھہرا ۔ ان ڈاکٹر صاحب نے تفصیل جاننے کے بعد جسما نی ساخت،گردن اور بیٹھنے کے انداز و دیگر علامات کی بنیاد پر اعصاب پر دبائو کی نشاندہی کی اور ادویات کے ساتھ ساتھ گردن کی ایک دو ورزشیں تجویز کیں اور باڈی پوسچر کو درست رکھنے کی ہدایات دیں۔ ان کی دی گئی ادویات ، ورزش اور دیگر ہدایات پر عمل سے بہتری محسوس ہونے لگی۔ لیکن ادویات کا کورس ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد پھر درد کی کیفیت پہلے جیسے ہونے لگی تو یہ گمان ہوا کہ شاید کام کی زیادتی کی وجہ سے تھکاوٹ کے باعث ایسا ہو رہا ہے، کچھ دن آرام کر لیا جائے۔ سو دفتر سے چھٹیاں لیں اورگھر تک محدود ہوگئے۔

لیکن درد کی کیفیت اور اعضاء کو روانی سے حرکت دینے کے حوالے سے کوئی خاص بہتری نہ آئی ۔ اتفاقاً گھر پر آرام کے دوران ایک روز ایک انگریزی میگزین کے مطالعہ کے دوران ایک آرٹیکل نظر سے گزرا۔ ڈاکٹر محمود عالم درانی کے لکھے ہوئے اس آرٹیکل میں جو جو باتیں تحریر تھیں۔ ان میں سے اکثر مجھے اپنی حالت سے مطابقت رکھتی محسوس ہوئیں ۔ دل میں ایک امید پیدا ہوئی کہ یہ ڈاکٹر صاحب میرے مسئلے کا بہتر علاج کر سکتے ہیں۔ میگزین ایڈیٹر صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے ڈاکٹر محمود عالم درانی کا نمبر لیا ۔ رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب تو ایک فزیو تھراپسٹ ہیں

۔ طب کے اس شعبہ کا نام تو سن رکھا تھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ اکثر کرکٹ ، ہاکی یا فٹبال کے میچ میں جب کسی کھلاڑی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو ایک بندہ اپنے چھوٹے سے بیگ کے ساتھ دوڑتا ہوا گرائونڈ میں آتا۔ کھلاڑی کو مختلف ایکسرسائز کراتا، اسے کچھ پینے کو دیتا اور کوئی سپرے وغیرہ کھلاڑی کے جسم کے متاثرہ حصہ پر کرتا۔ کمنٹیٹرز اس بندے کو فزیو کے نام سے پکارتے۔ اور مجھے اُس کا علاج ایک جادوئی چیز لگتا کیونکہ اُس سے کھلاڑی فوراً ٹھیک ہو جاتے تھے۔ لیکن سائنٹیفکلی یہ طریقہ علاج کس طرح کا م کرتا ہے اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمود عالم درانی سے وقت لینے کے بعد جب ان سے چیک اپ کرایا اور اپنی جسمانی کیفیت کے بارے بتایا تو انھوں نے ایک لمبا چوڑا انٹرویو کر ڈالا کہ کیا کرتے ہیں؟ کمپیوٹر کا استعمال کتنا ہے؟ موبائل کتنا استعمال کرتے ہیں؟ واک یا ورزش کرتے ہیں؟ ٹی وی کتنا اور کیسے دیکھتے ہیں؟ جب بیٹھتے ہیں تو کس پوزیشن میں بیٹھتے ہیں؟ گردن کو کس پوزیشن میں رکھتے ہیں؟ قد کتنا ہے؟وزن کتنا ہے؟ جوڑوں میں سے اُٹھتے بیٹھتے آوازیں تو نہیں آتیں؟ سوتے وقت تکیہ کیسا لیتے ہیں؟ شوگر یا بلڈ پریشر تو نہیں؟ فیملی میں تو کسی کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ؟ لکھنے کا کام کتنا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ڈاکٹر صاحب نے سوالات کی ایک پٹاری کھول دی۔

جوابات کو وہ نوٹس کی صورت میں تحریر کرتے رہے۔ اور پھر چند ٹیسٹ اور ایکسرے تجویز کرنے کے بعد اگلے دن ان کے ہمراہ آنے کا کہا ۔ اگلے دن تمام مطلوبہ چیزوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے کلینک حاضر ہوئے تو اُنھوں نے رپورٹس اور ایکسرے دیکھ کر چند ممکنہ کیفیات کے بارے میں دریافت کیا ۔ تو وہ جن کیفیات کا پوچھ رہے تھے وہ کیفیات 99 فیصد مجھے اپنے آپ میں موجود محسوس ہوئیں۔ یوں میرے مرض کی کی جو تشخیص ہوئی اُسے طبی زبان میں سروائیکل اور عام زبان میں گردن کے مہروں کا مسئلہ کہتے ہیں۔ تشخیص تو ہو گئی اب علاج کے حوالے سے میں شش و پنچ میں مبتلا تھا کہ یہ فزیو تھراپی کس طرح کا علاج ہے اور کتنا کارگر ہے؟ کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں چند الیکٹرانک ڈیوائسز اور کچھ مشین نماآلات دیواروں پر لگے دیکھے ۔ مجھے اس سے پہلے ان چیزوں سے حقیقی طور پر آشنائی نہیں تھی۔ بس ٹی وی پر انگلش فلموں اور اردو ڈراموں میں ان الیکٹرانک ڈیوائسز سے ملتی جلتی مشینیں دیکھیں تھیں۔

جب ڈاکٹر صاحب نے الیکٹرانک ڈیوائسز اور شکنجہ نما آلات سے علاج شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ الیکٹرانک ڈیوائسز/ مشینیں پٹھوں ،ان کی نسوں اور ہڈیو ں کو جوڑنے والی رگوں کو الیکٹرک ویوز کے ذریعے مضبوط اور فعال کرتی ہیں ۔ جبکہ وہ آلات جو دیوار پر لگے تھے ان میں سے کچھ جسم کے کسی خاص حصے کو مخصوص پوزیشن میں گرفت میں لیکر ان میں کھینچائو کی سی کیفیت پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے علاج کا دورانیہ صرف تین دن رہا کیونکہ عید کے لئے کوئٹہ اپنے آبائی شہر آنا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے چند احتیاطوں اور کچھ ورزشی طریقوں کے بارے میں بتایا اور گردن کو صحیح پوزیشن میں رکھنے کے لئے کالر کے استعمال کی ہدایت کی۔ یوں میں اپنے مسئلہ کے ساتھ کوئٹہ آگیا ۔

ڈاکٹر محمود عالم درانی کے علاج سے کچھ بہتری تو آگئی تھی لیکن طبیعت مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی۔ عید کی تعطیلات کے بعد کوئٹہ میں فزیو تھراپی کے علاج کی سہولیات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کیں تو یہ جان کے حیرت ہوئی کہ کوئٹہ میں بہت ہی کم تعداد میں فزیوتھراپسٹ دستیاب تھے۔ اکثریت نے علمدار روڈ پر واقع ایک سینٹر کے بارے میں بتایا کہ آپ وہاں جائیں۔ سو اپنی تمام رپورٹس، ایکسرے اور ڈاکٹر محمود عالم درانی کی بنائی ہوئی کیس ہسٹری کے ساتھ میںسینٹر پہنچا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے حوالے سے عملہ سے بات کی۔ کچھ دیر بعد میری ملاقات سینٹر کے انچارج ڈاکٹر محمد رضا سے کرا دی گئی۔ تعارف کے بعد اپنی کیفیت، رپورٹس، ایکسرے اور کیس ہسٹری ڈاکٹر رضا کو دکھائی تو ڈاکٹر صاحب نے بھی کافی سوالات پوچھے اور اگلے دن سے مجھے تھراپی کے لئے ایک مخصوص وقت بتا دیا گیا ۔

میں مقررہ وقت پر آپہنچا۔ سینٹر میں الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کے ساتھ ساتھ جسم کے متاثرہ حصے کا مساج بھی کیا جاتا تھا۔ تین دن کی فزیو تھراپی کے بعد میری ٹریٹمنٹ میں جم کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی فزیو تھراپی اور ورزش دونوں۔ ڈاکٹر محمد رضا نے مختلف مشینوں اور ورزشی سامان کے ساتھ چند ورزشیں اور ان کا تواتر بتایا جو مجھے روزانہ تھراپی ٹریٹمنٹ لینے کے بعد کرنا تھیں۔ ان ورزشوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور اضافہ بھی ہوتا گیا۔ اس طریقہ علاج نے اپنے اثرات جلد ہی دکھانا شروع کر دیئے اور جو کالر مجھے لگا تھا وہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے چند روز کے اندر اندر ہی اتر گیا ۔ درد کی کیفیت بھی کم ہونا شروع ہو گئی اور جسم کے اعضاء کو حرکت دینے میں بھی آسانی پیدا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند بھی محسوس کرنے لگا۔ اس طریقہ علاج کی ایک نمایاں بات یہ تھی کہ اس میں کسی بھی دوائی کا سہارا نہیں لیا گیا یعنی دونوں ڈاکٹر صاحبان کی جانب سے کوئی دوائی تجویز ہی نہیں کی گئی ہاں موسمی پھلوں اور خوراک کو سادہ اور متوازن رکھنے کے بارے میں کہا گیا۔ یوں میں ایک انجان طریقہ علاج سے روشناس ہوکر روبصحت ہوا اور آج تک اپنے جسمانی اعضاء کے مسائل کے علاج کے لئے اسی طریقہ علاج کا سہارا لے رہا ہوں ۔

یہ تمام آپ بیتی بتانے کا مقصد چند پہلوئوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ اول ہمارے ہاں اس طریقہ علاج کے بارے میں شعور اور آگاہی کی بہت کمی ہے۔ دوم میڈیا نے آج تک فزیو تھراپی کو ایک طریقہ علاج کے طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ سوم ہمارے اسپشلسٹ ڈاکٹرز کی اکثریت مریض کو اس طریقہ علاج کی جانب ریفر ہی نہیں کرتی۔ چہارم ملک میں فزیو تھراپسٹ کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پنجم آج تک حکومتی سطح پر فزیو تھراپی کے حوالے سے کسی قومی اور صوبائی پروگرام کے آغاز کا، کسی پالیسی کے بنانے کا، نہ تو سنا ، نہ دیکھا اور نہ ہی پڑھا۔ ششم فزیو تھراپسٹ کو اکثر لوگ اور چند تنظیمیں / پلیٹ فارم ڈاکٹر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ہفتم ماضی قریب تک ملک میں فزیو تھراپی کے تعلیمی مواقعوں کی کمی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دستیاب مواقع کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔

فزیکل تھراپی یا فزیو تھراپی میڈیکل سائنس کی ایک شاخ اور صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام کا لازمی حصہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اِسے صحت کے ایک علیحدہ و خودمختار شعبہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاہم یہ دوسری میڈیکل اسپیشلیٹیز کے ساتھ بہت مضبوطی کے ساتھ منسلک ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ یہ ـ ’’ صحت یاب کرنے کی ایک سائنس اور دیکھ بھال کرنے کی آرٹ ‘‘ ہے۔ یہ طبی معائنہ، جانچ، تعین، تشخیص اور علاج پر مشتمل ہے (clinical examination, evaluation, assessment, diagnosis and treatment) ۔ جو میڈیسن کی27 میں سے 24 اسپیشلیٹیز کا احاطہ کرتا ہے۔ امریکن بورڈ آف فزیکل تھراپی اسپیشلسٹ کے مطابق فزیکل تھراپی کے چند بنیادی شعبے ہیں جن میں عضلی استخوانی خرابیاں (آرتھوپیڈک)musculoskeletal (orthopedic)، عصبیات (neurology)، دل اور پھیپھڑے (Cardiopulmonary)، کھیلوں کی فزیکل تھراپی (Sports Physical Therapy)، بچوں کی فزیو تھراپی (Pediatric Physiotherapy)، برقی عضویات (Electrophysiology)، Integumentary Physical Therapy، پانی کی تھراپی (Hydrotherapy) اور خواتین کی صحت شامل ہیں ۔

عضلی استخوانی خرابیوں سے مراد پٹھوں، ہڈیوں اور جوڑوں کی پوزیشن، نسوںاور ہڈیوں کو جوڑنے والی رگوں کا متاثر ہونا ہے۔ گردن اور کمر کا درد، جوڑوں کے امراض، گنٹھیا اور ہڈیو ں کا ٹوٹنا نمایاں عضلی استخوانی خرابیاں ہیں۔ یہ خرابیاں درد اور جسمانی اعضاء کی حرکت اور ان کی قوت میں کمی کا باعث بنتی ہیں ۔ اس کے علاوہ دماغی صحت کی تنزلی کا سبب بھی بنتی ہیں اور صحت کے دیگر دائمی مسائل لاحق ہونے کے خطرات کے امکانات میں اضافہ کا محرک بھی بنتی ہیں۔ عضلی استخوانی صحت انسانی جسم کے افعال کے لئے بہت ضروری ہے۔ نقل وحرکت کو یقینی بنانا، ہنر مندی اور کام کرنے کی صلاحیت اور زندگی کے تمام سماجی اور معاشی پہلوئوں میں فعال طور پر حصہ لینے کے لئے اس کی قدرومنزلت کہیں زیادہ ہے۔ اس کے متاثر ہونے سے فرد کی پیداواری صلاحیت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اور طویل عرصے تکعضلی استخوانی خرابیوں کا شکار رہنے والے افراد کی کام سے چھٹیوںکا یہ نمایاں ترین محرک ہیں۔ یہ عموماً جلد ریٹائرمنٹ کا بھی باعث بنتی ہے اور فرد کی مالیاتی سکیورٹی کو کم کر دیتی ہیں ۔ جبکہ فرد کی سماجی اور معاشی امور میں شرکت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق مسلسل درد کی حالت کا سب سے زیادہ تناسب عضلی استخوانی خرابیوں کے باعث ہے جو دنیا بھر میں معذوری کی دوسری بڑی وجہ ہے اور پیٹھ کے نچلے حصے کادرد عالمی سطح پر معذوری کا سب سے اہم سبب ہے۔ دنیا میں تین میں سے ایک اور پانچ میں سے ایک فرد درد اور عضلی استخوانی خرابیوں کے ساتھ جی رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کے20 سے30 فیصد افراد درد کی حامل عضلی استخوانی خرابیوںکے ساتھ زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔امریکہ میں ہر دو میں سے ایک بالغ فرد عضلی استخوانی خرابیوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق کچھ حالتوں میں عضلی استخوانی خرابیوں کو اسپیشلٹ یا جراحی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بہت سی خرابیوں کو بنیادی دیکھ بھال یعنی غیر ادویاتی طریقہ کار ورزش اور تھراپی سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ان بیماریوں کی شدت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بھی لگا یا جا سکتا ہے جن کے مطابق 2011 ء میں عضلی استخوانی خرابیوں نے دنیا بھر میں 213 ارب ڈالر یعنی دنیا کی جی ڈی پی کے1.4 فیصد کا نقصان پہنچایا ۔

عضلی استخوانی خرابیوں کی عام علامات میں درد، کمزوری، اکڑائو، سوزش ،جوڑوں سے آوازوں کا آنا، جسمانی حرکت میں کمی اور بعض اوقات جلد کی اوپری تہہ کا سرخ ہو جانا شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان خرابیوں کی سب سے نمایاں وجہ سہل پسند طرز ِزندگی اور ورزش کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ موبائل، کمپیوٹر، ٹی وی کا استعمال، ایسا فرنیچر جوکہ خوبصورت تو ہوتا ہے لیکن انسانی جسم کی فٹنس کے لئے موزوں نہیں ہوتا اُس کا استعمال اور طویل اوقات کے لئے کرسی کی نشست، اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے کے انداز، کسی چیز کو اٹھانے کا غیر مناسب طریقہ اورJunk فوڈ، یہ وہ وجوہات ہیں جوایسے جسمانی عوارض کا باعث بنتی ہیں جن کا شافی علاج فزیوتھراپی سے ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی تکلیف، گردن کے مہرے، جامد کندھے، فالج، پولیو،لقوہ، شٹیکا، جسمانی معذوری وغیرہ اور سرجری کے بعد مریض کو نارمل زندگی میں لانے کے لئے فزیو تھراپی کے کردار کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان میں بھی ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنہیں فزیو تھراپی کے علاج کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آپ کے مشاہدے میں خود یہ بات ہوگی کہ اکثر ہمارے آس پاس بہت سے ایسے لوگوں سے ہماری ملاقات رہتی ہے جو مختلف طرح کے عضلاتی درد کا شکار ہوتے ہیں ۔ کوئی کمر میں درد کا بتاتا ہے تو کوئی گھٹنوںکے درد کا شکار ہے۔ کسی کو پٹھوں میں تکلیف ہے تو کسی کو ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں درد،کوئی حادثہ کے باعث چوٹوں کا شکار ہوکر جسم کو حرکت دینے میں دشواری کا شکار ہے تو کوئی فالج، پولیو اور لقوہ جیسی بیماریوں کی گرفت میں ہے، کسی کو چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے میںمشکل ہے تو کسی کواعصابی درد کی شکایت ہے ۔

شاید آپ کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو کہ آج فزیکل تھراپی میں استعمال ہونے والے چند طریقے جیسا کہ مساج (مالش)، ہائیڈرو تھراپی ( پانی کی تھراپی) اور دافع امراض کے لئے ورزشیں (therapeutic exercises) 3 ہزار سال قبل از مسیح چین میں اور 400 سال قبل از مسیح یونان اور روم میں استعمال ہوتے تھے۔ چین، جاپان، بھارت، یونان اور روم کی قدیم تہذیبوں کا تحریری اور تصویری ریکارڈ مساج اور دافع امراض کے لئے ورزشوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ محققین کو کئی ایک ایسے ثبوت ملے ہیں کہ قبل از تاریخ گرم، سرد پانی، ورزشوں، مالش اور سورج کی روشنی کا جسمانی افزودگیوں کو دور کرنے کے لئے اکثر استعمال کیا جاتا تھا ۔ ایک ہزار سال قبل از مسیح کے لگ بھگ چینی لوگ جسمانی پوزیشننگ کو درست کرنے اور سانس کو بہتر بنانے کے لئے کنگ فو (Cong Fu) نامی ورزش کرتے تھے ۔ ہندوستانی بھی گھنٹیا کے علاج کے لئے مخصوص ورزشیں اور مساج کرتے تھے۔

پانچ سو سال قبل از مسیح قدیم یونان میں ایک یونانی معالج ہیرودیکس (Herodicus) نے ایسی ورزشوں کے بارے میں بتایا جو کہ ارس جمناسٹیکا (Ars Gymnastica ) یا فنِ جمناسٹکس کے نام سے جانی جاتی ہیں جس میں کشتی، پیدل چلنا اور وزن اٹھانے کے ذریعے کمزور حالات میں بہتری لائی جاتی تھی۔ 400 سال قبل از مسیح یونانی ماہر طب بقراط(Hippocrates) جنہیں بابائے ادویات بھی کہا جاتا ہے نے جسمانی طاقت کو بہتر بنانے کے لئے ورزش پر زور دیا تھا ۔ اسی سال یونان میں ہیکٹر (Hector) نے ہائیڈر تھراپی کا استعمال کیا ۔ اس کے علاوہ ارسطو(Aristotle) نے بھی تجویز کیا ہے کہ تیل کے ساتھ مالش تھکاوٹ کو دور کرتی ہے۔ 180 سال قبل از مسیح رومیوں نے جسمانی طاقت کو بہتر بنانے کے لئے ایک طرح کی ورزش اختیار کی جو جمناسٹک (Gymnastics) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دوسری صدی میں ایک ماہر طب گلن(Galen) نے مجموعی طور پر جسمانی طاقت کو بہتر کرنے کے لئے جدید ورزشیں سکھائیں۔ 1894 میں برطانیہ میں ’’ چارٹرڈ سوسائٹی آف فزیو تھراپی‘‘ کے نام سے دنیا کی پہلی فزیو تھراپی کی تنظیم چار نرسوں نے قائم کی۔ 1920 میں اسے رائل چارٹر سے نوازا گیا۔ یہ برطانیہ میں اس پیشہ کی رکنیت کے حوالے سے اہم ترین تنظیم ہے۔

امریکہ میں فزیکل تھراپی کا آغاز 1914 سے1919 کے دوران ہوا ۔ اس عرصہ کو تعمیرنو کے دور سے یاد کیا جاتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم اور پولیو کی وبا نے امریکی معاشرے میں معذوری اور بیماری کو خوب پھیلا دیا جو اس سے پہلے نہ تھے۔ امریکہ میں فزیکل تھراپسٹ نے اپنی پہلی پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن 1921 میں بنائی جسے ’’امریکن وومن فزیکل تھراپیٹک ایسوسی ایشن‘‘ کہتے تھے۔ جس کی سربراہ مری میکلین ( Mary McMillan) تھیں ۔ 1922 میں ایسوسی ایشن نے اپنا نام تبدیل کر کے ’’ امریکن فزیو تھراپی ایسو سی ایشن‘‘ رکھ لیا ۔ 1940 کے عشرے کے آخر میں ایسوسی ایشن نے اپنا نام پھر تبدیل کر کے ’’ امریکن فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن‘‘کرلیا۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر ’’ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی‘‘1951 میں قائم کی گئی ۔ یہ بین الاقوامی سطح پر فزیکل تھراپی کی واحد آواز ہے۔ دنیا بھر سے 450000 فزیکل تھراپسٹ اس کے ممبر ہیں ۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے اور بر طانیہ میں ایک چیرٹی کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

دنیا بھر میں اس شعبے میں انسانی وسائل، طریقہ علاج میں ترقی اور جدت کا عمل جاری ہے۔ اور اب فزیوتھراپسٹ کو بین الاقوامی ہنگامی ٹیموں میں لازمی شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، پلاننگ اور عملدرآمد میں ایک کوالیفائیڈ

فزیوتھراپسٹ کی اِن پُٹ کو اکثر ممالک میں لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کے مطابق اس وقت دنیا میں پریکٹس کرنے والے فزیو تھراپسٹ کی تعداد 15 لاکھ87 ہزار 6 سو سے زائد ہے۔ جو یقیناً کم ہے لیکن بعض ممالک میں آبادی کے مقابلے میں فزیوتھراپسٹ کی تعداد کافی حوصلہ افزا اور بعض میں بہت تشویشناک ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق فن لینڈ میں یہ تناسب دنیا بھر میں سب سے بہتر ہے جہاں 354 افراد کے لئے ایک فزیکل تھراپسٹ موجود ہے۔ جبکہ سب سے کم ملاوی میں 5 لاکھ 30 ہزار3 سو افراد کے لئے ایک فزیو تھراپسٹ دستیاب ہے۔ نیدر لینڈ میں 742 ، انگلینڈ میں 1344 افراد کے لئے ایک فزیو ہے۔ امریکہ میں 2 لاکھ 9 ہزار سے زائد فزیکل تھراپسٹ کو پریکٹس کے لائسنز جاری کئے جا چکے ہیں۔ جہاں تمام فزیوتھراپسٹ کو کسی معتبر تعلیمی ادارے سے ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی (DPT) ڈگری لینے کے بعد پریکٹس کے لئے قومی لائسنس کا امتحان دینا پڑتا ہے۔

اس وقت امریکہ میں200 کالجز اور یونیورسٹیز ملک بھر میں فریکل تھراپی ایجوکیشن کے250 پروگرام پیش کر رہے ہیں اور امریکہ میں کوالیفائیڈ فزیوتھراپسٹ کو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کی اجازت ہے تاوقتیکہ وہ اس کے ساتھ (PT ) لکھنے کا پابند ہے۔ جبکہ امریکہ میں ایک فزیو تھراپسٹ کی اوسط سالانہ آمدن85 ہزار ڈالر ہے اور فوربس نے2014 میں امریکہ جن 10 ملازمتوں کی زیادہ ڈیمانڈ تھی اُن میں سے ایک فزیو تھراپسٹ بھی تھی۔ سی این این نے2015 میں امریکہ میں 100 بہترین ملازمتوں کی درجہ بندی میں فزیکل تھراپی کو23 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ جبکہ یو ایس اے میں 2014 سے2024 تک فزیکل تھراپسٹ کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

پاکستان میں فزیو تھراپی کا پہلا باقاعدہ ٹریننگ پروگرام 1955ء میں ملک کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کی بیماری کے دوران شروع ہوا۔ فالج کے اثرات سے بحالی کے لئے اُنھیں فزیو تھراپی کا علاج تجویز کیا گیا ۔ چونکہ پاکستان میں 1955 تک کوئی کوالیفائیڈ فزیو تھراپیسٹ موجود نہیں تھا لہذا بیرونِ ملک سے ایک مشہور کوالیفائیڈ فزیو تھراپیسٹ کی خدمات حاصل کی گئیں۔1956ء میں وفاقی وزارتِ صحت ، سماجی بہبود نے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے فزیکل تھراپی کی تعلیم کے لئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں پہلا اسکول قائم کیا۔ ابتدائی طور پر اسکول نے دو سالہ ڈپلومہ کورس کا آغاز کیا جس میں داخلے کی کم ازکم تعلیمی حد میٹرک سائنس گروپ تھی۔1961 میں دوسالہ پروگرام کو 03 سالہ ڈپلومہ میں تبدیل کردیا گیا۔ بعد میں 1963 میں اس پروگرام کو 03 سالہ بی ایس سی فزیو تھراپی کی ڈگری سے بدل دیا گیا اور داخلے کے لئے مطلوبہ تعلیمی اہلیت کی حد ایف ایس سی پری میڈیکل کر دی گئی۔

اس کا الحاق کراچی یو نیورسٹی سے کر دیا گیا اور نصاب میں ضروریات کے مطابق ترامیم اور اضافہ کیا گیا۔ پنجاب میں فزیو تھراپی کی تعلیم کے لئے اسکول آف فزیو تھراپی، میو ہسپتال لاہور میں 1985 میں قائم کیا گیا۔ 1999 میں بی ایس سی فزیو تھراپی کے کورس کو 4 سالہ بی ایس فزیو تھراپی ڈگری سے تبدیل کر دیا گیا۔ 2008 میں ’’ امریکن فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے وژن 2020 ‘‘ کے تحت چار سالہ بی ایس فزیکل تھراپی پروگرام کو 5 سالہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی میںبدل دیا گیا۔2011 میں ایچ ای سی نے اس پروگرام کی باقاعدہ منظوری دی۔ 2007 تک ملک میں 7 سے8 ادارے فزیو تھراپی کی تعلیم دے رہے تھے۔ اب ان کی تعداد 95 سے زائد ہے۔ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے نام سے ملک میں موجود فزیو تھراپسٹ کی نمائندہ ایسوسی ایشن جو 2008 میں بنائی گئی ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کی ممبر ہے۔

اگرچہ یہ ہرفرد کے صحت کے انسانی حق میں شامل ہے کہ جب بھی ضرورت ہو تو اُسے ہسپتال، کلینک، ادویات اور ڈاکٹر کی معاشی طور پر قابلِ دسترس اور قابلِ بھروسہ خدمات تک رسائی اور دستیابی برابری کی بنیاد پر حاصل ہو ۔ لیکن وطن عزیز میں صحت کا یہ حق فزیکل تھراپی کے حوالے سے تو شدید تشنگی کا شکار ہے کیونکہ ملک میں فزیکل تھراپی کا پیشہ جہد مسلسل میں مصروف ہے۔

ایک تو ملک میں فزیوتھراپسٹ کی تعداد نہایت کم ہے۔ ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کے پاکستان کے کنٹری پروفائل جو دسمبر 2017 میں جاری کیا گیا اُس کے مطابق’’ ملک میں پریکٹس کرنے والے فزیوتھراپسٹ کی تعداد صرف15 ہزار ہے اور 10 ہزار آبادی کے لئے فزیو تھراپسٹ کی تعداد ہمارے ہاں ایک سے بھی کم ہے‘‘۔ دوسرا ملک میں ابھی تک فزیوتھراپسٹ کی کوئی ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہیں کی گئی۔ تیسرا وطنِ عزیز میں اس شعبہ کی شناخت کو ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا ہے۔ چوتھا فریش گریجویٹ کے لئے ملازمت کے مواقع بہت ہی محدود ہیں اور سروس اسٹریکچر بھی موجود نہیں۔ پانچواں ملک میںDPT کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا معیار اور ان میںمطلوبہ سہولیات کی کمی اور چھٹا وطن عزیز میں اس طریقہ علاج کے بارے میں عوام الناس میں شعور کی کمی جیسے کئی ایک مسائل سے نبرد آزما ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اس شعبہ کو صحت کے ایک علیحدہ اور خود مختار شعبہ کے طور پر مانتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔

ڈاکٹر ثمن (پی ٹی)
ڈاکٹر ثمن بلوچستان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فزیکل تھراپی میں لیکچرار ہیں۔ اس شعبے میں خواتین کے لئے موجود مواقع کے حوالے سے کہتی ہیں ’’ ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین فزیو تھراپسٹ کو پریکٹس کرنے کی اتنی چھوٹ نہیں وہاں اُن کے لئے ایک مثبت نقطہ یہ بھی ہے کہ چونکہ ہماری معاشرتی اقدار کی وجہ سے خواتین اکثر کسی مرد سے علاج کروانے سے ہچکچاتی ہیں تو جو فی میل ڈاکٹر جاب کرتی ہیں اور پریکٹس کرتی ہیں اُن کا بہت سکوپ ہے ۔ فزیو تھراپی میں چونکہ مریض کے ساتھ Physical Contact بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے خواتین فزیو ڈاکٹرز کا خواتین مریضوں کے لئے کام کرنا کسی رحمت سے کم نہیں ۔ کیونکہ خواتین مردوں کی نسبت ہڈیوں اورجوڑوں کے امراض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر آپ اپنی صلاحیتوں اور مہارت کے حوالے سے با اعتماد ہیں تو آپ اپنا پرائیویٹ کلینک کر سکتی ہیں‘‘۔ خواتین فزیو تھراپسٹ کو درپیش مسائل کے حوالے سے ڈاکٹر ثمن کا کہنا تھا کہ خواتین فزیو تھراپسٹ کے لئے نوکریوں کے مواقع بہت محدود ہیں ۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ پریکٹس کا سکوپ تو خواتین فزیو ڈاکٹرز کے لئے بہت ہے لیکن ابھی اسے وقت لگے گا معاشرے میں اپنی جگہ بنانے میں۔

عمر اشرف (طالب علم)
آپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کے پانچویں سال کے طالب علم ہیں۔ فزیو تھراپی کے طلباء کو درپیش مسائل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’ طلباء کو درپیش سب سے پہلا مسئلہ کونسل کا عدم قیام ہے۔ کونسل کسی بھی شعبے کی گورننگ باڈی ہوتی ہے جو قومی سطح پر اس شعبے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اور اس کے بارے میں قانون سازی کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں فزیکل تھراپی کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ 2017 ء میں پاکستان فزیکل تھراپی کونسل کا ڈرافٹ وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا لیکن موجودہ حکومت میں اس پر مزید پیش رفت نہ ہو سکی جس کی وجہ سے کونسل بنانے کا کام سرد خانہ کی نذر ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ ـ’’ پیڈ ہائوس جاب‘‘ کا نہ ہونا ہے ۔ فزیکل تھراپی کی پانچ سالہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسی ادارے میں ایک سال کی ہائوس جاب ضروری ہوتی ہے۔

لیکن پنجاب میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں جس میں اپنے ادارے کے گریجویٹس کو پیڈ ہائوس جاب کرائی جاتی ہو ۔ اس کے برعکس سندھ کے تعلیمی اداروں میں کچھ حد تک یہ سہولت موجود ہے۔ مزید براں پاکستان میں فزیکل تھراپی کے لئے بہت سے پرائیویٹ ادارے کھل گئے ہیں جن میں پڑھائی کی مکمل سہولیات موجود نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی ہسپتال منسلک ہے۔ چونکہ فزیکل تھراپی کے اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کے لئے کونسل موجود نہیں ۔ اس لئے ان اداروں میں بہت زیادہ بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ یوں ہر سال پاس آئوٹ ہونے والے گریجویٹس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جبکہ اس حساب سے حکومتی سطح پر نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ڈاکٹر محمود عالم درانی (پی ٹی)


ڈاکٹر صاحب فزیو تھراپی میں پی ایچ ڈی ہیں اور بطور پرنسپل اختر سعید کالج آف ری ہیبلیٹیشن سائنسز، لاہور میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ ملک میں فزیو تھراپی کے تعلیمی مواقع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فزیو تھرپی کی تعلیم کے حصول میں طالب علموں کی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ تاہم جو طلبا ء عام طور پر MBBS یا BDS میں داخلہ نہیں لے پاتے وہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی میں داخلہ لینے کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ ایک کلینکل ڈگری ہے۔ جس میں آپ مریضوں کے علاج سے وابستہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔MBBS کی طرح DPT طلباء اُن تمام مراحل سے دورانِ تعلیم گزرتے ہیں جن کے بغیر مریض کا علاج کرنا ممکن نہیں ۔ وارڈز کے اندر ٹریننگ کے مراحل کے علاوہ فائنل ائیر کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان طلباء کو ہائوس جاب کے مرحلہ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ماہرفزیو تھراپسٹ کی حیثیت سے مریضوں کو بہتر تھراپی کی خدمات دی جا سکیں ۔اس کے علاوہ بہت سے ادارے (یونیورسٹیز) ایم فل، ایم ایس، پی ایچ ڈی کروا رہے ہیں ۔ اور تحقیق کے حوالے سے بھی حالات کافی امید افزا ہیں ۔

تاہم مجموعی طور پر ہمارے ہاں تحقیق کا وہ معیار نہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں نظر آتا ہے۔اگرچہ بیرونِ ملک پی ایچ ڈی پروگرام کے لئے اسکالر شپ کی سہولت ہمارے ہاں دی جا رہی ہیں لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے۔ تاہم یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ ایچ ای سی وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اہم اقدامات کی طرف مائل ہے۔ فزیو تھراپی اور ایم بی بی ایس کی تعلیم میں موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ MBBS کا شعبہ انتہائی منظم اور مستحکم شعبہ ہے جس کے پیچھےPMDC جیسا منجھا ہوا ادارہ ہے۔ اگرDPT کی کونسل قائم ہو جائے تو اس شعبہ میں مزید بہتری پیدا کرنا ممکن ہو سکے گی ۔ تاہم تمام تر تعلیمی مراحل میں طلباء کو اُسی طرح گزارا جاتا ہے جیسے MBBS کے طلباء کو ۔ پڑ ھانے والے اساتذہ ، بنیادی تعلیمی نصاب ( اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کمیسٹری، پیتھالوجی، فارماکا لوجی، کمیونٹی، میڈیسن، سرجری وغیرہ) اُسی Pattern پر ہے۔ پیپرز، پریکٹیکل اور viva کا وہی طریقہ ہے جو ایم بی بی ایس کا ہے۔ حتیٰ کے پنجاب میں امتحان لینے والا ادارہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بھی ایک ہی ہے۔ تاہم یونیورسٹیوں کا اپنا خود مختار نظام ہے جو HEC کے کنٹرول میں ہے۔ کونسل کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے اس شعبہ میں عطائیت کا خاتمہ، تعلیمی اور تحقیقی معیار کی بہتری، روزگار کی فراہمی اور دوسرے مسائل سے نمٹنا فزیو تھراپسٹ کے لئے آسان ہو جائے گا ۔ اس لئے اس کا قیام ضروری ہے۔

جب ڈاکٹرز، نرسز، فارمسٹس، ہومیو پیتھس اور حکما کی کونسلز موجود ہیں تو پھر فزیوتھراپسٹ کی کونسل کیوں موجود نہیں؟ ملک میں فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کرنے والے تعلیمی اداروں میں داخلوں کی صورتحال کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ مختلف اداروں میں داخلوں کی تعداد مختلف ہے ۔ گورنمنٹ کے ادارے اپنی محدود نشستوں پر داخلے کرتے ہیں ۔ تاہم نجی یونیورسٹیوں میں یہ تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے جس پر HEC کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ ان کا انفراسٹرکچر کیا اس کا متحمل ہے کہ وہ ایک سمسٹر میں 200 بچے داخل کر لیتے ہیں پھر یہ بھی دیکھنا HEC کا کام ہے کہ ان کی پریکٹیکل اور کلینیکل ٹریننگ کے لئے ہسپتال میں مطلوبہ سہولیات موجود ہیں یا نہیں۔ مارکیٹ میں ان بچوں کی کھپت کے حوالے سے ڈاکٹر محمود عالم درانی کا کہنا تھا۔کہ ابھی تو کھپت نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کافی آسامیاں نہیں دی جاتیں۔ حالانکہ مریضوں کا بے تحاشا رش دیکھا گیا ہے۔

چاہیئے تو یہ تھا کہBHU لیول پر بھی آسامیاں پیدا کی جائیں ۔ نتیجتاً نوجوان ڈگریاں لیکر مارے مارے پھر رہے ہیں اور اس پر ہمارے اربابِ اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ فزیو تھراپی کو ایک علیحدہ اور خودمختار شعبہ کے طور پر مانے جانے کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا کہ یہ شعبہ تو ایک خود مختار شعبہ ہے تاہم دوسری میڈیکل اسپیشلیٹیز کے ساتھ بہت مضبوطی سے منسلک ہے۔ ایک فزیو تھراپسٹ ماہرین کی اُس ٹیم کا حصہ ہے جو مریضوں کے علاج میں اپنی ماہرانہ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان چونکہ خود ایک سپورٹس مین ہیں اُن سے بڑھ کر اس شعبے کی افادیت کو کون محسوس کر سکتا ہے ۔ امید ہے کہ تبدیلی کے اس موسم میں پاکستان میں فزیو تھراپسٹ کو اُن کا جائز مقام مل جائے۔ فزیو تھراپی کی کسی بھی یو نیورسٹی اور کالج میں داخلہ لینے سے پہلے والدین اور طالب علموں کو جن اُمور کا خیال رکھنا چاہیے۔

اس کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سب سے پہلے کالج کی Affiliation کو ضرور دیکھا جائے کہ یہ ادارہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز یا کسی اور اچھی شہرت کی حامل یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے یا نہیں۔ جہاں طلباء کی تعداد کم ہو، انفراسٹرکچر موجود ہو، ہسپتال کی سہولت موجود ہو، فیکلٹی کا ہونا وغیرہ جیسے امور کو مدنظر رکھنا چاہیے۔گورنمنٹ کے اداروں میں تو یہ تعلیم عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ تاہم نجی اداروں میں یہ عام آدمی کے لحاظ سے کافی مہنگی تعلیم ہے۔ سال میں 2 سے ساڑھے تین لاکھ تک مختلف ادارے فیس کی مد میں وصول کر رہے ہیں اور اس میں شاید ابھی تک حکومت کا کوئی کردار کہیں نظر نہیں آتا ۔ پرائیویٹ اداروں میں فزیو تھراپی کی تعلیم کے خواہش مند طالب علموں کو میرٹ اور Need Base اسکالر شپ کے مواقع کے بارے میں ڈاکٹرمحمود عالم درانی کاکہنا تھا کہ چندایک اداروں میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ جو طالب علم اچھا رزلٹ ادارے کو دیتے ہیں۔ اُنھیں فیسز کی مد میں کچھ رعایت دی جاتی ہے لیکن زیادہ تر اداروں میں اسکالر شپ / وظیفہ کا تصور موجود نہیں ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد (پی ٹی)


آپ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے چیئرمین اور ایک نجی یونیورسٹی کے فزیکل تھراپی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ اِن کے مطابق اِس وقت ملک میں فزیو تھراپسٹ کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہے جن میں سے 22 ہزار پریکٹس کر رہے ہیں۔ ملک میں فزیو تھراپی کی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت اور اس کے قیام کے حوالے سے پی پی ٹی اے کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ فزیو تھراپی کے شعبہ کی ریگولیشن، عطائیت کے خاتمے اور پریکٹس اسٹینڈرڈز کو بہتر بنانے کیلئے کونسل کی تشکیل ضروری ہے۔ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن گزشتہ10 سال سے کونسل کی تشکیل کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان فزیو تھراپی کونسل کی کیبنٹ ڈویژن سے Principle approval ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کونسل کے قیام میں تاخیرکی بڑی وجہ وہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور فزیوتھراپی پروفیشن کے بارے میں معلومات کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہیلتھ ٹاسک فورس جو کہ اس وقت فزیو تھراپی کونسل کو باقی الائیڈ ہیلتھ کونسلز میں ضم کرنا چاہتی ہے۔

اس میں فزیو تھراپسٹ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن نے کئی بار ہیلتھ ٹاسک فورس سے ملنے اور اپنا موقف اُن کے سامنے رکھنے کے لئے درخواست دی لیکن ہیلتھ ٹاسک فورس کی طرف سے میٹنگ کا ٹائم نہیں دیا گیا۔ ملک میں فزیو تھراپی کے شعبے میں عطائیت کی موجودگی کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں یہ تین طریقوں سے جاری ہے۔ اول ،کوالیفائیڈ فزیو تھراپسٹ کا اپنی Domain سے نکل کر جنرل پریکٹس کرنا ۔دوم، غیر کوالیفائیڈ ٹیکنیشنز کا فزیوتھراپسٹ کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرنا اور فزیو تھراپی کی پریکٹس کرنا ۔ سوم،آرتھوپیڈک سرجن کا اپنی Domain سے باہر نکل کے فزیوتھراپی کی پریکٹس کرنا۔ اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال فزیوتھراپی کونسل نہ ہونے کی وجہ سے عطائیت کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ملک میں فزیو تھراپسٹ کے لئے دستیاب نوکریوں کے مواقع کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے حالات کافی خراب ہیں۔ پنجاب میں پبلک سیکٹر میں صرف 400 کے قریب فزیوتھراپسٹ کام کر رہے ہیں جبکہ WHO کی گائیڈ لائن کے مطابق ہسپتال کے ہر20 بیڈز پر ایک فزیو تھراپسٹ کی تقرری ہونی چاہیئے۔ جبکہ پاکستان میں200 سے250 بستروں پر ایک فزیو تھراپسٹ موجود ہے۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ فزیوتھراپسٹ کے لئے بہتر نوکریوں کے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں۔ پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لئے بھی مواقع مہیا کئے جائیں ۔ فزیو تھراپی کے پیشہ کی شناخت کو تسلیم کیا جائے۔ علاوہ ازیں فزیو تھراپسٹ کو ہیلتھ کئیر ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔

ڈاکٹر حسن انجم شاہد (پی ٹی)


آپ ینگ فزیو تھراپسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر، ایچ ای سی کی نیشنل کریکلم ریویژن کمیٹی برائے فزیو تھراپی کے ممبر اور پاکستان فزیو تھراپی ایسوسی ایشن کی کیبنٹ ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایک نجی جامعہ میں فزیو تھراپی کے ھیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت سوشل سکیورٹی ہسپتال شاہدرہ لاہور میں بطور فزیو تھراپسٹ کام کر رہے ہیں ۔ نوجوانوں میں فزیو تھراپی کے پروفیشن کی مقبولیت کے تناظر میں مختلف پہلوئوں پر ان سے بات چیت ہوئی۔ ملک میں فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کرنے والے اداروں اور طلباء کی تعداد کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا ’’قیام پاکستان کے بعد 1985 تک ہمارے ملک میں صرف 02 ادارے فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کر رہے تھے جس میں ایک جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی تھا اور دوسرا سکول آف فزیو تھراپی میو ہسپتال تھا۔آہستہ آہستہ لوگوں کا رجحان فزیو تھراپی کی تعلیم کی طرف ہوا اور پرائیویٹ کالجوں اور جامعات میں اس کی تعلیم دی جانے لگی ۔

سب سے پہلے رفا یونیورسٹی نے2007 میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کی ڈگری کا آغاز کیا۔ پبلک سیکٹر میں 2010 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نےDPT شروع کی اور اب لگ بھگ 95 کے قریب چارٹرڈ جامعات، ان کے محلقہ ادارے اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس یہ ڈگری آفر کر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں اِن تمام کالجوں/ یونیورسٹیوں میں 9 سے10 ہزار کے قریب طالب علم فزیو تھراپی کے کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چھوڑ کر دوسرے دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم حاصل کرنے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کی تعداد6 سے7 ہزار تک ہوتی ہے ۔ ملک میں جتنے بچے فزیو تھراپی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔‘‘ کیا مارکیٹ میں ان کی کھپت ہو جائے گئی ؟ اس سوال کے جواب میں اُن کہنا تھا کہ جب سے یہ کورس پانچ سالہ پروگرامDPT میں تبدیل ہوا ہے۔ لوگوں کا رجحان اس کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔

دوسری وجہ تمام میڈیکل سائنس میں ترقی یعنی اسپیشلٹی کا پہلو بھی ہے۔ اب لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ اس وجہ سے بھی میڈیکل کے اس شعبے میں لوگ آرہے ہیں ۔ لیکن حکومتی سطح پر ہر سال 6 سے7 ہزار پاس آوٹ ہونے والے فزیو تھراپسٹ کی کھپت کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ حالانکہ ہر اُس مریض کو جو ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اُسے فزیو تھراپسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائینز کے مطابق ہر ایک مریض کو35 سے45 منٹ دورانیہ تک کی ٹریٹمنٹ درکار ہوتی ہے یوں اگر کوئی فزیو ڈاکٹر کسی ہسپتال میں 8 گھنٹے روزانہ ڈیوٹی کرتا ہے تو وہ یومیہ 10 مریضوں تک کی انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ٹریٹمنٹ کر سکتا ہے۔ اس لئے ہسپتال میں ہر10مریضوں کے لئے ایک فزیو تھراپیسٹ ہونا چاہیئے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں گورنمنٹ ہسپتالوں میں فزیوتھراپیسٹ بہت ہی کم تعداد میں موجود ہیں جو کہ مریضوں اور فارغ التحصیل ہونے والے پروفیشلز کے لئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ فزیو تھراپی کی تعلیم کے حوالے سے طالب علموں کودرپیش مسائل کے بارے میں اُنھوں نے بتایاکہ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سےAccreditation کا سب سے بڑا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے۔

اُس کے جاری کردہ نصاب اور سفارشات کے مطابق کوئی بھی ادارہ اُس وقت تک فزیو تھراپی کی تعلیم نہیں دے سکتا جب تک اُس کے پاس 200 بستروں کا ہسپتال موجود نہ ہو اور طالب علموں اور اساتذہ کا تناسب بھی1:20 ہونا چاہیے۔ جبکہ ہمارے ملک میں اکثر ادارے اس سہولیات سے قاصر ہیں۔ اور طلبہ / طالبات کے لئے عملی اور تکنیکی لیبارٹریز کی بھی بہت سخت کمی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے۔ اور بین الاقوامی اسکالر شپ کی بہت کمی ہے بلکہ ہیں ہی نہیں۔ فریش گریجویٹس کو پریکٹس کے حوالے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ہمارے فریش گریجویٹس کو فزیو تھراپی کی پریکٹس کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ Statuary Body کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی ہیلتھ پروفیشن میں کونسل بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جو کسی بھی پروفیشنل کی پریکٹس میں چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے ۔ اور کام کا طریقہ کار اور اصول و ضوابط کو متعین کرتی ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے کوالیفائیڈ، کونسل نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں جس میں سب سے اہم مسئلہ اُن کی آزادانہ پریکٹس ہے۔ پوری دنیا میں فزیو تھراپسٹ اب Independent Practitioner کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پرائمری ہیلتھ پریکٹیشنر کے طور پر اُبھر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسی ہی تبدیلی آئے گی ۔ ملک میں فزیو تھراپی کے شعبہ میں ملازمتوں کی اور سروس اسٹرکچر کی کیا صورتحال ہے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ریگولر فزیو تھراپسٹ کی تعداد 175 سے زیادہ نہیں ۔ اس کے علاوہ جو فزیو تھراپسٹ گورنمنٹ جابز میں ہیں ان کو بھی اپنے ہم عصر سکیل کے ڈاکٹرز سے آدھی تنخواہ ملتی ہے ۔ کئی الائونسز انھیں نہیں دیئے جاتے اور ڈاکٹرز ایک ایک سکیل میں 10 سے 15 سال گزار دیتے ہیں۔ ملک میں فزیو تھراپسٹ کے سروس اسٹرکچر اور Health professional Allowance سمیت Health Risk Allowance پر کام ہونے والا ہے۔ ہمارے ملک میں فزیو تھراپسٹ جتنا پڑھے لکھے ہیں۔ سرکاری سطح پر ویسی جابز نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر میڈیسن کے ڈاکٹرز اگر ایف سی پی ایس / ایم ایس کر لیں تو اُن کو اسپیشلسٹ کی جاب ملتی ہے۔ جبکہ ہمارے پروفیشن میں ایسا سروس اسٹرکچر نہیں کہ لوگ ایم فل، ایم ایس، پی ایچ ڈی کرکے بھی گریڈ 17 میں آتے ہیں ۔ وہ بھی اگر جاب آئے تو ۔ نوجوانوں کو فزیو تھراپی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے حوالے سے میسر سہولیات کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ فزیو تھراپی میں اسکالر شپس کی بہت کمی ہے۔ کوئی فارن اسکالر شپس نہیں ہیں ۔ لوگ اپنے پیسے لگا کر باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں۔اور جب وہ پاکستان آتے ہیں تو ان کو ان کے معیار کے مطابق جاب نہیں ملتی ۔ پھر وہ مایوس ہوکر باہر کے ممالک کا رخ کرتے ہیں ۔ اس طرح Brain Drain ہو رہا ہے۔ صحت کے شعبہ کے دیگر ڈاکٹرز کا فزیو تھراپی کے ڈاکٹرز کے ساتھ رویہ اور صحت کی پالسیوں کے بنانے میں مشاورت کی صورتحال کے تناظر میں ڈاکٹر حسن انجم شاہد کا کہنا تھا کہ بیسویں صدی کے آخر تک ہمارے ملک میں فزیو تھراپی میں صرف ڈپلومہ ہوا کرتا تھا اور میڈیکل کے دوسرے ڈاکٹرز فزیو تھراپی کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جبکہ اکیسویں صدی میں فزیو تھراپی کی اعلیٰ تعلیم میں بہت سی نئی جہتیں آئی ہیں ۔ اور تعلیمی معیار بھی بہت بہتر ہوا ہے۔

اب ڈاکٹرز بھی ان کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ملٹی ڈسپلنری ٹیم کا اہم رکن سمجھتے ہیں۔ جن میڈیکل ڈاکٹرز کا بین الاقوامی ایکسپوزر ہے اُن کو زیادہ بہتر اندازہ ہے کہ فزیو تھراپسٹ میڈیکل ٹیم کاکس قدر اہم رکن ہے۔ آگاہی اور شعور سے اب ہر پروفیشن کو عزت اور اُس کا اصل مقام مل رہا ہے ۔ لیکن اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہئیے کہ پالیسی بناتے وقت متعلقہ فیلڈ کے ایکسپرٹ کو اور اُن کی رائے کو مقدم جانے اور اُن سے ضرور مشاورت کرے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ابھی بھی صرفMBBS کرنے والے کو ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے۔

اور میڈیکل کے تمام فیصلے اور صحت کے متعلق تمام پالیسیز بناتے وقت دیگر شعبہ ہائے صحت کے ڈاکٹرز سے رائے نہیں لی جاتی جس سے صحت کا معیار ابھی اتنا بہتر نہیں ہوا۔ ایک بات اور امریکن بورڈ آف فزیو تھراپی اسپیشلسٹ کے مطابق فزیو تھراپی کی09 بڑی برانچیں ہیں۔ جن میں وہ لائسنس امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صرف دو سے تین اسپیشلیٹیز میں ماسٹر ہو رہا ہے۔ وہ بھی طالب علم اپنے پیسے لگا کر پرائیویٹ کالجوں سے کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسا کوئی رجحان نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فکلٹی ڈیولپمنٹ کے نام پر پروفیشنل کو باہر بھیجے اور ان کیSkills کی بڑھوتری کے لئے فنڈ دے۔ تاکہ وہ لوگ واپس آکر اپنے ملک کے طلبہ اور طالبات کو تربیت دیں جو آخر کار مریضوں کے فائدے کا باعث بنے گا۔

ہوپس فزیکل تھراپی اینڈ مرکزبحالی جسمانی معذوراں، کوئٹہ


یہ ایک غیر سرکاری، غیر منافع بخش، فلاحی سنٹر ہے جو حکومت پاکستان کے سوشل ویلفیئر ایکٹ 1961 کے تحت رجسٹرڈ اور کوئٹہ میں علمدار روڈ پر واقع ہے ۔ سنٹر کی عمارت دو حصوںپر مشتمل ہے۔ ایک حصہ مکمل طور پر خواتین کے لئے مختص ہے جہاں خواتین اسٹاف کام کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مردوں کے لئے ہے۔ مردوں کے حصے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصہ انتظار گاہ، دوسرے حصے میں جدید اور روایتی ورزشی سامان پر مشتمل جم جبکہ تیسرے حصے میں مریضوں کی تھراپی کی جاتی ہے ۔ (خواتین کے حصے میں بھی ایسی ہی تقسیم اور سہولیات موجودہیں) یہاں فزیو تھراپی میں استعمال ہونے والی الیکٹرک مشینوں کی وسیع اقسام کے استعمال کے ساتھ ساتھ مینول ٹریٹمنٹ بھی کی جاتی ہے۔ یعنی الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کے ساتھ ساتھ جسم کے متاثرہ حصے پر مساج بھی کیا جاتا ہے۔ فزیو تھراپی ٹریٹمنٹ کے ہمراہ سینٹر میں موجود جم میں مریضوں کو مختلف ورزشیں بھی کرائی جاتی ہیں۔ یعنی فزیو تھراپی اور ورزش دونوں کاا ستعمال کیا جاتا ہے۔ سنٹر میں 2006 سے2018 تک 2 لاکھ 13 ہزار8 سو10 مریضوں کی فزیو تھراپی کی جا چکی ہے۔

گزشتہ سال سینٹر نے 28 ہزار پانچ سو 84 مریضوں کو فزیو تھراپی / ایکسرسائز کی سہولیات فراہم کیں یعنی ہفتہ وار تعطیل نکال کر روزانہ پانچ گھنٹوں کے دورانِ کار میں اوسطً 95 مریضوں کو خدمات فراہم کی گئیں۔ اس سنٹر کے انچارج ڈاکٹر محمد رضا سے جب دریافت کیا کہ کیا دیگر ڈاکٹرز کی جانب سے مریض فزیو تھراپسٹ کو ریفر کئے جاتے ہیں تو انھوں نے بتا یا کہ کئے تو جاتے ہیں لیکن ان کا تناسب بہت کم ہوتا ہے تقریباً دس مریضوں میں سے دوکو فزیو تھراپسٹ کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ فزیوتھراپی میں ڈائریکٹ کنسلٹیشن کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس 80 فیصد مریض ڈائریکٹ آتے ہیں ۔ فزیو تھراپی کے علاج کی کامیابی کے تناسب کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اگر کوالیفائیڈ فزیو تھراپسٹ سے علاج کرایا جائے تو 80 سے85 فیصد تک کامیابی کا امکان ہوتا ہے۔ فزیو تھراپی میں کوالٹی کنٹرول کی صورتحال کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کا کہنا تھا کہ فزیو تھراپی میں کوالٹی کنٹرول کو بہتر کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ڈاکٹر (فزیوتھراپسٹ) صاحبان اخلاص کو مدِنظر رکھیں ۔

پاکستان میں فزیو تھراپی پریکٹس کے لئے لائسنس کے حصول کو ضروری قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں آپ کوفزیو تھراپی کی پریکٹس کے لئے علیحدہ سے امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ فزیو تھراپی پروفیشن کے حوالے سے اُن کا موقف تھا کہ یہ ایک ہنر ہے جس میں آپکو سرکاری جاب نہیں بھی ملتی تب بھی آپ اپنی پریکٹس کر سکتے ہے۔ ہمارے ہاں فزیو تھراپسٹ اپنے آپ کو اس شعبہ میں ہونے والی پیش رفت سے کتنا اپ ڈیٹ رکھتے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے صورتحال کو زیادہ حوصلہ افزا قرار نہیں دیا۔ ڈاکٹر محمد رضا نے یہ تجویز دی کہ ہر علاقے کے BHU میں ایک فزیوتھراپسٹ ہونا چاہیئے تاکہ لوگوںکا دوائیوں کی بجائے ورزشوں اور غذائوں کے ذریعے علاج کیا جا سکے اس کے علاوہ ڈاکٹرز اور فزیوتھراپسٹ کی ایک ٹیم ہونی چاہیئے جو بیماریوں کے بارے میں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کر سکیں۔

The post صحت یاب کرنے کی سائنس، دیکھ بھال کا فن appeared first on ایکسپریس اردو.

شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ

$
0
0

حیدر آباد: سندھ کو صوفیا کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں بے شمار معروف صوفیائے کرام پیدا ہوئے یا دوسرے خطوں سے آکر مقیم ہوئے۔ سندھ کے علما صدیوں سے علم و ادب کی آبیاری کرتے آئے ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم الرجال الغرض سندھ کے علما اور صوفیا نے اپنی تخلیقات سے دنیا میں نام روشن کیا اور اسلام پھیلانے میں سندھ میں اہم کردار ادا کیا۔

آج ان علمائے کرام کا علمی ورثہ عصر حاضر کے لیے مشعل راہ ہے جن سے تحقیق کی نئی راہیں ہموار ہوتی جارہی ہیں۔ باب الاسلام سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھ میں سوا لاکھ اولیا کرام مدفون ہیں۔ انھی اولیائے کرام میں ایک عظیم المرتبت ہستی، شیخ الاسلام، سندھ کے علم و ادب کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ عظیم محدث، یگانہ روزگا فقیہ محدث، مفسر، سیرت نگار اور قادر الکلام شاعر، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ ہیں۔ آپ کا اسم گرامی ’’محمد ہاشم‘‘ ہے، کنیت ابو عبدالرحمٰن، آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ محمد ہاشم بن الغفور بن، عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن خیر الدین حارثیؒ۔ آپ کے نام کے ساتھ چار نسبتوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کا پس منظر یہ ہے۔۔۔۔ ’’سندھی‘‘ چوںکہ آپ کا تعلق سندھ تھا اس وجہ سے ’’سندھی‘‘ کہلاتے ہیں۔

’’بھٹوروی‘‘ چوںکہ آپ کی پیدائش میرپوربٹھورو، ٹھٹھ، سندھ میں ہوئی اس وجہ سے ’’بٹھوروی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’بہرامپوری‘‘ چوںکہ محمد ہاشم نے تحصیل علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں ’’بہرام پور‘‘ میں سکونت اختیار کی اس وجہ سے آپ ’’بہرامپوری‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’ٹھٹھوی‘‘ چوںکہ مخدوم صاحب کا آخر دم تک ٹھٹھ سے تعلق رہا اور یہیں آباد رہے اس وجہ سے ’’ٹھٹھوی‘‘ کہلاتے ہیں۔ مخدوم محمد ہاشم صاحب کی ذات پنہور تھی، اور ان کا شجرہ نسب عرب قبیلے بنو حارث یعنی حارث بن عبدالمطلب سے جا ملتا ہے۔

اس قبیلے کے کچھ افراد جہاد کی غرض سے محمد بن قاسمؒ کے ساتھ پہلی صدی ہجری میں سندھ آئے تھے اور ان میں سے کچھ افراد نے اسلام کو فروغ دینے کے لیے یہیں سکونت اختیار کرلی تھی۔ انھی سے مخدوم محمد ہاشم کے آبائے کرام کا نسب جا ملتا ہے۔ مخدوم محمد ہاشم کے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی، جو خود بھی ایک عالم تھے، پہلے سیہون میں رہائش پذیر تھے۔ بعدازاں گردش زمانہ کی وجہ سے ٹھٹھ کے علاقے میرپور بٹھورو میں آباد ہوگئے۔ جہاں تک لفظ ’’مخدوم‘‘ کا تعلق ہے یہ کوئی ذات نہیں ہے بلکہ آپ کو علمی جدوجہد اور دینی خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے ’’مخدوم‘‘ کہا جانے لگا جب کہ ’’رچرڈ برٹن‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’مخدوم‘‘ اس وقت سندھ میں ایک عہدہ تھا جس کے لیے بڑے بڑے لوگ خواہش مند ہوتے تھے۔

مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کی پیدائش بروز جمعرات 10 ربیع الاول سن 1104ہجری بمطابق 19 نومبر 1692 کو میر پور بٹھورو ٹھٹھ سندھ میں مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی کے گھر میں ہوئی۔ آپ کے القاب شیخ الاسلام، شمس الملت ودین، مخدوم المخادیم، حضرت، سندالاقالیم، ملجا افقھا والمحدثین، مسلک حنفی، مکتب فکر قادری تھا۔ حضرت مخدوم صاحب کو علمی دنیا اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ آپ ذات فرشتہ صفات اور ایک رحمت کا خورشید تھے جو خلق خدا کو علمی روشنی پہنچاتے تھے۔ تقریباً نصف صدی تک ان کی خانقاہ علم و فضا کو گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی۔ ہزاروں گشتگان علم نے وہاں آکر علم کی روشنی حاصل کی۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کا تعلق علمی گھرانے سے تھا۔

اللہ تعالیٰ نے مخدوم ہاشم صاحب کو پیدائشی طور پر لیاقت و ذہانت سے نوازا تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی سے حاصل کی۔ یہیں حفظ قرآن مکمل کیا اور فارسی، صرف و نحو، فقہ کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹھٹھ شہر کا رخ کیا جو اس وقت علم و ادب کے حوالے سے تمام دنیا میں مشہور تھا اور تمام علوم و فنون کا گہوارہ اور بڑے بڑے علمائے کرام اور صوفیائے کرام کا مرکز تھا۔ انھوں نے مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر مخدوم ضیا الدین ٹھٹھوی سے علم حدیث کی تعلیم حاصل کی اور یوں صرف نو برس کی عمر میں فارسی اور عربی علوم کے مطالعوں کی تکمیل کی۔ آپ کی یہ ذہانت دیکھ کر بڑے بڑے علما کرام حیران ہوئے اور آپ کی عزت کرنے لگے، چناںچہ آپ سب کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اسی دوران میں 113ھ /1702ء میں مخدوم ہاشم کے والد بزرگوار مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی وفات پاگئے۔ ٹھٹھ سے فراغت کے بعد مخدوم ہاشم نے چند سال دینی خدمات انجام دیں۔

مخدوم ہاشمؒ کو علم حدیث و تفسیر و تصوف میں کمال حاصل کرنے کا شوق تھا۔ مخدوم ہاشم نے 1135ھ/1722ء میں حج کیا۔ حجاز مقدس کے سفر کے دوران تحصیل علم کا موقع ملا، اور انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ مکہ اور مدینہ منورہ کے مشہور علما اور محدثین سے علم حدیث، فقہ، عقائد اور تفسیر کا علم اور سندیں حاصل کیں۔ مخدوم ہاشم کے سندھ کے مشہور اساتذہ میں ان کے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی، مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی، مخدوم ضیا الدین ٹھٹھوی، مخدوم رحمت اللہ ٹھٹھوی اور مخدوم ہاشم شامل ہیں۔ سفرِحرمین کے دوران آپ نے جن اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا ان میں شیخ عبدالقادر حنفی صدیقی مکی (متوفی 1138/1726ء) شیخ عبد بن علی مصری (متوفی 1140ھ/1733ء) شیخ علی بن عبدالمالک دراوی (متوفی 1145ھ/1733ء) شامل تھے۔

مخدوم ہاشم سچے عاشق رسولؐ تھے۔ حضورؐ سے انتہا سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر وقت زبان مبارک پر درودشریف کا ورد جاری رہتا تھا۔

آپؒ کا مقام اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کے جید عالم دین و محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی جیسا ہے تو غلط نہ ہوگا کیوںکہ آپؒ کا دیا گیا فتویٰ کبھی بھی رد نہ ہوا۔ مخدوم محمد ہاشم نے حصول علم کے بعد روحانی تعلیم و تربیت اور اکتساب فیض کے لیے مرشد کامل کی تلاش شروع کی۔ لہٰذا آپ اس وقت کے شیخ کامل، آفتاب مکلی، حضرت ابوالقاسم، نور الحق درس نقشبندی (المتوفی 1138ھ) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی، لیکن مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ٹھٹھوی نے مخدوم سے جواباً فرمایا ’’مجھ سے تلقین لینے والوں (مریدین) کی صورتیں مجھ پر پیش کی گئیں ان میں آپ کا نام نہیں۔‘‘ تو آپؒ نے عرض کیا کہ میرے شیخ مرشد کے متعلق راہ نمائی فرمائیں تو حضرت مخدوم ابوالقاسمؒ نے فرمایا کہ آپ کے مرشد قطب ربانی سید اللہ بن سید غلام محمد سورتی قادری (المتوفی 1138ھ) ہیں۔ آپ ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوں۔ حضرت سید سعد اللہ سلسلہ عالیہ قادری کے عظیم پیشوا تھے۔ ہندوستان میں الٰہ آباد قصبہ سوات کے رہنے والے تھے۔

لہٰذا حضرت مخدوم ہاشمؒ 1134ھ میں حرم شریف سے واپس ہوتے ہوئے ہندوستان کے شہر سورت کی بندرگاہ پر اترے۔ حضرت شیخ سعد اللہ قادری کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوئے اور وہاں 1123ھ سے 1124 تک قیام کیا، بعدازاں سید سعد اللہ سلونی نے مخدوم محمد ہاشم کو سلسلہ قادریہ کا خرقہ پہناتے ہوئے اجازت و خلافت سے نوازا۔ مرشد کی کام کی خدمت اور خرقہ اخلاق حاصل کرنے کے حوالے سے ایک واقعہ آج کے مریدین کے لیے انتہائی غور طلب ہے۔ مشہور ہے کہ مخدوم ہاشم صاحب اپنے مرشد کامل کے دربار میں عالمانہ انداز کی بجائے عام انسان کے انداز میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور پیرومرشد کے حکم کی تکمیل میں پورا ایک سال گھوڑوں کے اصطبل کی صفائی میں مشغول رہے۔ کبھی بھی نہ ہی یہ کہا اور نہ سوچا کہ میں ایک عالم دین ہوں بلکہ اپنی ذات کی نفی کرتے رہے یعنی یہ ظاہر کرتے کہ میں عام انسان ہوں۔

ایک سال گزر گیا، مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کے پیرومرشد کے پاس ایک دقیق فتویٰ آیا جس کے لیے ٹھٹھ کے مخدوم صاحب یعنی آپؒ مخدوم ہاشم کے جواب کی ضرورت پڑی۔ آپؒ عام انسان کی طرح پیرومرشد کی خدمت میں رہتے تھے۔ پیرومرشد نے بلایا، آپؒ فوراً حاضر ہوئے۔ حکم ہوا ٹھٹھ کے مخدوم ہاشم کو جانتے ہو؟ عرض کی جی! حکم فرمایا کہ ان (مخدوم ہاشم) سے فتویٰ کا جواب لے آؤ۔ آپؒ کی عاجزی، انکساری، ادب، سعادت مندی و فرماںبرداری کا کیا کہنا! پیرومرشد سے یہ ہرگز نہ کہا کہ جناب میں ہی تو مخدوم ہاشم ہوں بلکہ حکم کی تکمیل میں نکل کھڑے ہوئے۔ آپؒ کے پیر صاحب کی طرف سے یہ ایک طرح کا امتحان بھی تھا۔ چناںچہ آپؒ کسی بستی میں ٹھہر کر فتویٰ کا جواب لکھ کر کچھ عرصہ قیام کے بعد حاضر ہوئے کہ کہیں پیر و مرشد جلد آنے کی وجہ محسوس نہ کرلیں۔ جب فتویٰ کا جواب پیر و مرشد کے ہاتھ میں دیا تو کچھ لمحات کے لیے ایک نظر مخدوم ہاشم صاحب کے چہرے کو دیکھتے رہے اور دوسری نظر فتویٰ پر ڈالتے رہے آخر پیر صاحب نے مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کو اپنے سینے سے لگایا اور خرقہ خلافت و سند کی اجازت فرمائی۔

مخدوم ہاشمؒ جب سرزمین ٹھٹھ 1137ھ میں پہنچے تو رنگ ہی کچھ اور تھا۔ آپؒ کی نورانی پیشانی ضیابار تھی اور آنکھوں سے نور چمک رہا تھا۔ مخدوم ہاشم کی حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندیؒ سے بھی اتنی عقیدت تھی کہ ہر روز آپؒ مخدوم ابوالقاسمؒ کے آستانہ عالیہ میں چارپائی کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔

مخدوم ہاشمؒ کو نقشبندی سلسلے کا بھی فیض حاصل تھا۔ اس کے علاوہ مفتی مکہ شیخ عبدالقادرؒ جوکہ شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کے بھی شیخ وقت تھے، کہ ذریعے آپؒ کا سلسلہ حضرت محی الدین ابن عربیؒ سے جاملتا ہے۔ حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی طریقت کا رنگ حاصل کرنے کے باوجود بھی ہر وقت شریعت کی پاسبانی میں رہتے تھے۔ حضرت مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کی سیرت اور خوف خدا کا اندازہ آپ کے ان فرمودات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب ہوکر فرمایا کرتے تھے:

(1)۔ اے نفس! اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا۔

(2)۔ اے نفس! جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے باز آ، ورنہ اس کی سلطنت سے نکل جا۔

(3)۔ اے نفس! قسمت ازلی سے جو تمہیں مل رہا ہے اس پر قناعت کر، ورنہ اپنے لیے کوئی اور تلاش کر جو تیری قسمت زیادہ کرے۔

(4)۔ اے نفس! اگر گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں تجھے اللہ تعالیٰ نہ دیکھ سکے، ورنہ گناہ نہ کر۔

مخدوم ہاشم ٹھٹھوی نے تحصیل علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں بہرام پور میں سکونت اختیار کی اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام میں اشاعت، ترویج کے لیے وعظ اور تقریروں کا سلسلہ شروع کیا مگر وہاں کے لوگوں کو مخدوم ہاشم کے وعظ و تقریروں کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوا، اسی لیے مخدوم صاحب دل برداشتہ ہوکر بہرام پور سے ٹھٹھ شہر میں آگئے اور یہاں آکر محلہ میں جامع خسرو (دابگراں والی مسجد) کے قریب دارالعلوم ہاشمیہ کے نام سے مدرسے کی بنیاد رکھی، جہاں انھوں نے حسب خواہش دین اسلام کی اشاعت و ترویج، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہاشمی مسجد مخدوم محمد ہاشم کے محلے میں واقع تھی۔ اسی مسجد سے انھوں نے دین اسلام کے فروغ اور استقامت کے لیے سندھ کے حکم رانوں کے نام خطوط لکھے۔

اسی مسجد میں انھوں نے فقہی مسائل پر فتاویٰ جاری کیے۔ مخدوم صاحب کا دستور تھا کہ وہ دن کے تیسرے پہر درس حدیث دیتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبداللطیف ان کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور درس و تدریس کے ساتھ وعظ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ مسجد تالپوروں کے عہد تک قائم رہی۔ جامع خسرو کو دابگراں والی مسجد بھی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ مسجد دابگراں کے محلے میں واقع تھی۔ یہ دوسری مسجد ہے جس میں مخدوم ہاشم ہر جمعہ کی صبح وعظ کیا کرتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبداللطیف ٹھٹھوی نے اپنے والد بزرگوار کے طریقۂ کار کو جاری رکھا۔ اب نہ یہ محلہ موجود ہے اور نہ ہی مکین، اس لیے یہ مسجد زبوں حالی کا شکار ہوگئی ہے۔

حضرت مخدوم ہاشم مجدد وقت تھے۔ دین متین کے قوانین کی ترویج اسلام کی بنیادوں کے استحکام کی کوششوں میں بے حد مصروف رہتے تھے۔ ہر مہینے کئی ہندو آپؒ کی بہترین کوششوں کے طفیل کفر کی ذلت سے چھٹکارا پاکر زیور اسلام سے آراستہ ہوئے۔ آپؒ سندھ و ہند، عرب و عجم میں بہت مشہور تھے اور آپؒ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ عوام کے علاوہ حکام وقت سے بھی آپؒ کی خط و کتابت جاری رہتی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے بادشاہان وقت بھی احکام اسلامی کے نفاذ کے سلسلے میں مخدوم ہاشمؒ کی استدعا کے موافق چلتے تھے۔

کلہوڑا دور کے حاکم سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا نے مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کو ٹھٹھ کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کیا۔ اس وقت سندھ کا حدود اربع آج سے قدرے مختلف تھا۔ مخدوم ہاشم ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی جاگیر کے بھی مالک تھے۔ مخدوم محمد ہاشم نے ٹھٹھ میں رائج بدعات اور غیر اسلامی رسومات کو بند کرانے کے لیے حاکم سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا سے ایک حکم نامہ جاری کرایا تھا۔ اس حکم نامے کے اجرا کے بعد ٹھٹھ سے بری رسومات، بدعات، عورتوں کا قبروں پر جانا وغیرہ کا کسی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے میاں غلام شاہ کلہوڑا کو مخدوم ہاشم کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ ان سازشی لوگوں کے خلاف نکلا۔ مخدوم ہاشم نے بھٹ شاہ کے بہت سے سفر کیے اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سے ملاقاتیں کیں۔

مخدوم محمد ہاشم نے مٹیاری کا سفر بھی اختیار کیا اور سید رکن الدین متعلوی جو اپنے وقت کے کامل ولی اور نہایت سخی بزرگ تھے۔ شہر کھڑا، ریاست خیرپور میں واقع ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہ شہر قدیم عرصے سے علمی مرکز رہا ہے۔ یہاں مخدوموں کا خاندان آباد ہے۔ اس خاندان سے مخدوم اسد اللہ شاہ (متوفی 966ھ/1559ء) جلال الدین اکبر کے دور میں سندھ کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے تھے۔ کلہوڑا دور میں اس خاندان کے مخدوم عبدالرحمٰن شہید کھڑائی ایک مشہور بزرگ و عالم گزرے ہیں، مخدوم محمد ہاشم اس بزرگ کے ہم عصر اور گہرے دوست تھے۔ روایت ہے کہ مخدوم محمد ہاشم نے شہر کھڑا کا سفر بھی کیا اور مخدوم عبدالرحمٰن شہید سے ملاقات کی۔ مخدوم محمد ہاشم کا آبائی وطن سیہون تھا جس کی وجہ سے ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر بھی آئے، اس دور میں نماز کے وقت بھی دھمال جاری رہتا تھا۔ مخدوم محمد ہاشم کی کوششوں سے نماز کے اوقات میں دھمال پر پابندی لگی۔

یہ پابندی ابھی تک جاری ہے۔ مخدوم ہاشم کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں قابل ذکر نام سید شہمیر شاہ (مٹیاری والے) متوفی 1177ھ، مخدوم ابوالحسن صغیر ٹھٹھوی مدنی 1187ھ وفات، مخدوم عبدالرحمٰن ٹھٹھوی متوفی 1181ھ، (مخدوم ہاشم کے بڑے فرزند)، مخدوم عبداللطیف ٹھٹھوی متوفی 1189ھ، (مخدوم ہاشم کے چھوٹے فرزند)، مخدوم نور محمد نصر پوری، شاہ فقیر اللہ علوی شکارپوری متوفی 1195ھ، مخدوم عبدالخالق ٹھٹھوی، مخدوم عبداللہ مندھرو متوفی 1238ھ، سید صالح محمد شاہ جیلانی گھوٹکی والے متوفی 1182ھ، شیخ الاسلام مراد سیہوانی، عزت اللہ کیریو، حافظ آدم طالب ٹھٹھوی، نور محمد خستہ ٹکھڑائی، محمد ہاشم ٹھٹھوی عظیم عالم دین اور کثیر التصانیف مصنف تھے۔

تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ مخدوم ہاشم کے دور میں آپ کے سوا ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جس کی تین سو سے زیادہ کتب تصنیف شدہ ہوں اور جس کے مکتوبات کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی ہو۔ انھوں نے کتب فقہ، اسما الرجال، قواعد، تفسیر قرآن، سیرت النبی، علم عروض، ارکان اسلام، حدیث اور بہت سے اسلامی موضوعات پر عربی، فارسی، سندھی زبانوں میں تصنیف و تالیف کیں۔ آپ کی تصانیف کا دور 1130 سے شروع ہوتا ہے جب کہ آپ کی عمر اس وقت فقط 26 سال تھی۔ مخدوم محمد ہاشم کی تمام کتب کا احاطہ تو ممکن نہیں البتہ ان میں سے کچھ دست یاب کتب کی تفصیل یہ ہے۔

الباقیات الصالحات، قوت العاشقین سیرت النبیؐ، ذادالفقیر فقہ، راحت المومنین فقہ، سایہ نامہ فقہ، بناالاسلام عقائد، تفسیر ہاشمی تفسیر، تحفۃ التائبین فقہ، اصلاح مقدمہ الصلوٰۃ فقہ، مظہر الانوار فقہ، وسیلۃ القبول فی حضرت رسول، فاکھۃالبستان فقہ، دستور الفرائض، آپ کی بے شمار کتب ہیں۔ مخدوم ہاشم کو عربی، فارسی اور سندھی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ محققین علما اور مدققین حفاظ حدیث میں تھے۔ غرض اللہ کی نشانیوں میں سے ایک تھے، خصوصاً تفسیر و حدیث و فقہ سیرت و تاریخ و تجوید میں لاثانی تھے۔ مخدوم صاحب ایک بہت قدآور شاعر بھی تھے۔ آپ کا کلام عربی، فارسی اور سندھی میں موجود ہے۔ آپ کے عربی اشعار دیکھ کر تو زمانہ نبویؐ کے شاعر یاد آجاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں عشق رسولؐ کی عجیب جھلک نظر آتی ہے کچھ اشعار عربی کے یہ ہیں:آپ سرکار دو عالمؐ سے یوں استغاثہ کرتے ہیں:

اغثنی یا رسول حانت ندامتی

اغثنی یا حبیب اللہ قامت قیامتی

اغثنی یا شفیع المذنبین جمیعھم

تفرفت فی دمآء کثرۃ شامتی

اغثنی مستغیثا مذنبا متذللا

ضعیفا نحیفامن وفورو خامتی

ترجمہ:

اے اللہ کے رسولؐ فریاد رسی کیجیے میری ندامت کا وقت آیا۔

اے اللہ کے رسولؐ فریاد رسی کیجیے میرے لیے قیامت قائم ہوگی۔

اے تمام گناہوں کی سفارش کرکے بخشوانے والے فریاد ہے۔

میں کثرت گناہ کی شامت کے مصائب کے سمندر میں گر گیا ہوں۔

گناہ گار عاجز و ناتواں جوکہ وفور کاہلی کے باعث فریاد طلب کر رہا ہے، اس کی فریاد کو پہنچ جائیے۔

ان اشعار سے بخوبی اندازا کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر عشق مصطفی تھا۔ عشق رسالت مآبؐ آپ کو ورثے میں ملا تھا۔ جس کا اثر آپ کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ کا سب کچھ سنت رسولؒؐ کے مطابق ہتا تھا۔ آپؒ سنت مطہرہ کا بہترین نمونہ تھے۔ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کی مرکزی مسجد کے امام تھے۔ آپؒ نے اپنی ایک معروف تصنیف ’’مداح نامہ سندھ‘‘ میں سندھی معاشرے اور ثقافت میں اسلام کے بارے میں بحث کی ہے۔ آپؒ کی ایک اور معروف کتاب ’’الباقیات الصالحات‘‘ میں ازواج مطہراتؓ کی حیات کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کی گراں قدر تصانیف مصر کی جامع الازہر کے نصاب میں شامل ہیں۔ ان کے مخطوطات کی بڑی تعداد بھارت، سعودی عرب، ترکی، پاکستان، برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ممالک کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ جوں جوں سفر آخرت کا زمانہ قریب آتا رہا حضرت شیخ الاسلام پر علم و حکمت کی نئی نئی راہیں کھلتی جا رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیضان نبوی الصلوٰۃ والسلام کے نئے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ بالآخر علم و عرفان، معرفت و ایقان کا یہ آفتاب جہاں تاب، بروز جمعرات 6 رجب المرجب 1174ہجری بمطابق 11 فروری 1761ء کو بظاہر غروب ہوگیا۔

جب آپ کا وصال ہوا اس وقت آپ کی عمر 70 برس تھی۔ وصال والی جگہ پر 6 ماہ تک لگاتار مشک کی خوشبو آتی رہی اور غسل کے وقت آپ کا قلب مبارک ذکر اللہ سے جاری تھا (سبحان اللہ)۔ آپؒ کی تدفین مکلی کے قبرستان میں ہوئی اور لاکھوں لوگ آج بھی آپ سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ بزرگان دین کی تعلیمات انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اولیا کرام کی تعلیمات پر عمل ہماری نجات کا سبب بنے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اولیائے کرامؒ کی زندگی اور ان کے ’’پند و نصائح‘‘ ہماری زندگی کے لیے انمول تحفہ ہیں۔ اللہ کے ان مقرب بندوں کا عمل احکام الٰہی اور تعلیمات محمدیؐ کے مطابق ہوتا ہے۔

ان اولیائے حق کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات اسلامی تعلیمات کا سبق ہوتے ہیں۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اولیائے کرام کے اقوال و تعلیمات کو پڑھتے ہیں، مگر ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگان دین کے اقوال و تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی سے ظلمت و اندھیرا دور ہوتا ہے اسی طرح بزرگان دین کے تذکرے سے دلوں میں نور پیدا ہوتا ہے اور مردہ دلوں کو حیات اور ناآشنا دلوں کو معرفت کی لذت ملتی ہے۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور اپنے رب سے ملاقات کا سلیقہ ملتا ہے۔ اخلاق کی روشنی اور حسن کردار کی کرنیں ملتی ہیں۔ بزرگان دین کے افکار اور تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، خاص طور پر نوجوانوں کو بزرگان دین کی تعلیمات سے آگاہی دی جائے۔ آج کل کے نفسانفسی کے دور میں نوجوانوں کو بزرگان دین کی حیات سے روشناس کرنے کے لیے اساتذہ اور علما کرام اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

شیخ الاسلام مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کی زندگی کو خاص طور پر نوجوانوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے قربت ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کے مزار کی رونق زائرین کا ہجوم، نورانیت، روحانیت اور آپ کا فیضان تابندہ ہے۔

The post شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت ؛ تاریکی، روشنی کی نوید ہے … رات، سحر کی … یہی نظام کائنات ہے

$
0
0

قسط نمبر52

صاحبِ دعا کی بات ہوئی تو کرم فرمائوں نے نیا سوال سامنے لاکھڑا کیا اور پھر اپنے سوال کا جواب بھی خود دیا اور اس مسئلے کا حل بھی پیش کردیا، سوال جو اٹھایا گیا وہ یہ تھا کہ زمانہ بہت خراب ہے تو بچنے کی کیا صورت ہے۔ اور پھر خود ہی اس کا جواب اور اس مسئلے کا حل تجویز کردیا اور وہ بھی حتمی کہ بس ایک ہی صورت یہ رہ گئی ہے کہ سب سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور صرف اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ واہ جی یہ تو خُوب ہوا کہ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دیا اور اس مسئلے کا حل بھی خود ہی تجویز کردیا۔ تو پھر فقیر سے کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ کیا یہی کہ میں آپ سے متفق ہوں، اور اس مسئلے کے حل کے لیے آپ کی تجویز سے بھی ۔۔۔۔۔ ؟ تو بہ صد احترام عرض گزار ہوں کہ فقیر آپ سے قطعاً متفق نہیں ہے۔ تو اب کیا کریں؟ چلیے اس پر بھی بات کرتے ہیں۔ تو صاحبو! اگر ہر طرف نفسا نفسی اور مارا ماری ہے اور ہر طرف برائیوں نے یلغار کی ہوئی ہے تو کیا ہم سب ان کا مقابلہ کرنے کے بہ جائے کونے کھدروں میں دبک جائیں۔۔۔۔ ؟

سب سے کنارہ کش ہوجائیں اور اپنے خول میں بند ہوجائیں اور یا پھر اپنے جزیروں کے مکیں ہوجائیں، یہ تو کوئی حل نہیں ہے اس کا، اس کا تو سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنا سر ریت میں دے لیں اور سمجھیں کہ اب چوں کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تو حالات بھی صحیح ہوگئے ہیں تو صاحبو! نہیں یہ حل نہیں ہے اس کا۔ تو پھر کیا کریں ہم؟ چلیے سوچتے ہیں اس پر، کوئی نہ کوئی حل تو نکل ہی آئے گا ناں، گھبرانا کیسا، رب تعالٰی جب ساتھ ہے تو پھر کیسی تشویش، بس یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ رب تعالٰی نے فقیر کے ارد گرد ہر طرح کی مخلوق جمع کی ہوئی ہے، انسان بھی، رنگا رنگ مخلوق واہ جی! سبحان تیری قدرت۔ فقیر کے نیک اور اچھے کرم فرما کچھ ایسے دوستوں پر معترض ہیں، جن کی بُودو بَاش الگ ہے، جدید بستیوں کے مکیں، جہاں کی دنیا ہی الگ ہے، نیک کرم فرما اپنے مشورے سے فقیر کو نوازتے ہیں کہ ان سے قطع تعلق کرلیا جائے، یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن فقیر نے ان کی کبھی نہیں سنی، کبھی باز نہیں آیا، کیسے آجائے باز، تارک دنیا ہونے تو منع کیا گیا ہے ناں۔

تو چلیے ابتدا کرتے ہیں اس رب کریم کے نام سے کہ انسان تو کچھ جانتا ہی نہیں تھا تو اس نے انسان کو علم سے نواز دیا اور پھر انسان جان پایا کہ حقیقت کیا ہے۔

ہاں رات بہت بھیگ چلی ہے۔ اچّھا ہے سکون سے سوئی رہے۔ لگتا ہے سڑکیں بھی محو خواب ہیں۔ سارا دن اتنی بڑی چھوٹی گاڑیاں ان کے سینے کو روندتی رہتی ہیں کہ بس۔ سنسان سڑکیں مجھے اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ چلو کچھ تو آرام کرلیں یہ … صبح پھر سے کچلے جانے کے لیے۔ ہاں یہ پاگل پَن ہے … سو ہے … آپ کو اس سے کیا لینا ہے! ابھی سی ویو سے ہوتا ہوا شارع فیصل کے اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ جانے والی سڑک پر داخل ہوا ہوں … کچھ ہی دُور آگے تین لوگ گھاس پر چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔ نہ جانے کون ہیں وہ … کیوں سو رہے ہیں یہاں … گھر کیوں نہیں چلے جاتے! میں جانتا ہوں، ہوں گے کوئی مزدور … جو سارا دن اپنا لہو پیسنے کی صورت میں نچوڑ کر چند ٹکے اپنی گرہ میں باندھے اچھے دنوں کے خواب دیکھ رہوں گے … نہیں معلوم ان کے خواب کب تعبیر دیکھیں گے …!!

بہت دن سے اُس کا اصرار تھا گھر آنا تقریب ہے … تم ضرور آنا … اتنا وقت بھی تم نہیں نکال سکتے۔ اور میں اسے ہاں کہہ چکا تھا، سو آپ آزردہ ہوں … آپ کا جی چاہے نہ چاہے آپ کو ماننا پڑتا ہے … ہارنا پڑتا ہے … خود کو مارنا پڑتا ہے … بس یہی ہے زندگی!!

وہ دہائیوں سے میری واقف کار ہے، اس سے ملاقات بھی ایک باغیچے میں ہوئی تھی جہاں میں کچھ پودوں کے پاس بیٹھا اُن سے باتیں کر رہا تھا کہ وہ اچانک میرے سامنے آکھڑی ہوئی اور پھر سوال کیا: آپ کون ہیں؟ اس کا جواب کیا تھا میرے پاس تو میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں بھی اس تلاش میں ہوں کہ میں کون ہوں! بات طول پکڑ جائے گی تو بس اس سے دوستی ہوگئی، اس وقت وہ ایک کالج میں ابتدائی جماعت کی طالبہ تھی اور جب اس نے اپنی تعلیم مکمل کرلی تو اس کی شادی ہوگئی۔ بہت خوش حال ہے وہ ڈیفنس کے اس گھر کو اس نے اتنا سجایا ہوا تھا کہ مت پوچھیے۔ آج اس کی بیٹی کی منگنی تھی … سو مجھے جانا پڑا۔

’’آگئے تم‘‘
’’ہاں آگیا، تم سے وعدہ جو کیا تھا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا تم نے مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ تم آئو گے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ اب تو تم بالکل پاگل ہوگئے ہو۔ اس لیے۔‘‘
میری مسکراہٹ ہی اس کا جواب تھی۔ سو تقریب شروع ہوئی۔ تقریب کیا تھی … کیا نہیں تھا اس میں ! گانا بھی، کھانا بھی اور نہ جانے کیا کچھ … مخلوط رقص، ہلا گلا اور ڈانڈیا… مجھے خاموش دیکھ کر اس نے سرگوشی کی ’’ کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’ کچھ نہیں۔‘‘
’’ کیوں اچھا نہیں لگ رہا۔؟‘‘
’’ بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’تو پھر ؟‘‘
’’تم جائو اپنا کام کرو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
بالاخر مجھے ذرا سا تلخ ہونا پڑا۔
کیا لوگ ہیں یہ، بالکل نرالے … جوش میں ہوش کھو بیٹھنے والے … ہر دم زندگی سے خوشیاں نچوڑنے والے … ہی ہی ہاہا کرنے والے مست … جیسے چاہو جیو والے … دنیا کا مزہ لے لو دنیا تمہاری ہے … ہر دم تازہ دم … ہاں مجھے اچھے لگتے ہیں یہ۔ ہر بات منہ پر کہہ دینے والے … آپ کو بُرا لگے تو سوری کہہ دینے میں دیر نہیں کرتے … لڑنے پر آئیں تو مردوزن کی تمیز ختم ہوجائے … بس ایسے ہیں وہ، ایسے ہی ہیں۔
ہاں مجھے میرے بہت سے متقی دوست کہتے ہیں، کیوں نہیں چھوڑ دیتا تُو انہیں۔ میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں، انہیں بالکل نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں آپ مجھ سے لاکھ مرتبہ اختلاف کیجیے۔ وہ بھی کرتے ہیں۔ آپ کو تو اس لیے چھوڑا جاسکتا ہے کہ آپ انہیں گم راہ کہتے ہیں۔

جب آپ کسی کو گم راہ کہیں تو آپ خود کو صراط مستقیم پر سمجھتے ہیں … اور جو سیدھے راستے پر ہوں ان کی فکر کیا کرنا … جب آپ انہیں جہنمی کہتے ہیں تب آپ جنّتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں … تو پھر جنّتیوں کی کوئی کیا فکر کرے … اس لیے بس میں آپ کو چھوڑ سکتا ہوں، انہیں نہیں … بالکل بھی نہیں … کسی قیمت پر نہیں۔ میرے اندر سے آواز آتی ہے، انہیں نہیں چھوڑنا … اب بتائیے فقیر کیا کرے …! آپ بہت اچھے ہیں … ہونا بھی چاہیے … لیکن ایک بات بتائیے، بس آپ خود اچھے ہیں یہی کافی ہے؟ انہیں اپنے جیسا بنانے کا کبھی آپ نے سوچا ؟ ہاں مجھے معلوم ہے … اس میں جان جاتی ہے آپ کی۔ ان کے ساتھ مجھے باتیں کرتا دیکھ کر دنیا والے کیا کہیں گے! ڈر لگتا ہے آپ کو ان سے راہ رسم بڑھانے سے۔ آپ اپنی دنیا میں خوش رہیے پھر … مجھے کیوں منع کرتے ہیں آپ! مجھے لگتا ہے ہم سب نے اپنی زندگی کو خانوں میں بانٹ لیا ہے، چلیے یوں کہہ لیجیے ہم سب اپنے اپنے جزیروں میں جی رہے ہیں۔ میں اسے جینا نہیں سمجھتا … یہ جینا تو ہے، لیکن بس اپنے لیے جینا …! بڑا زعم ہے ہمیں کہ ہم بہت اچھے ہیں، نہ جانے کیسی سوچ ہے یہ … ہم بہت اچھے اور سب بُرے … واہ کیا بات ہے۔ ہاں ہم جب ارد گرد دیکھتے ہیں، ہم اپنے لیے اچھے دوست منتخب کرتے ہیں، کرنے بھی چاہییں … کسی نے کیا اچھی بات کی تھی: بھائی تو ہمارا ہوتا ہے ۔ انتخاب تو نہیں ہوتا۔ جیسا بھی ہو نبھانا پڑتا ہے … خون کا رشتہ جو ہے اس سے۔ دوست ہم خود بناتے ہیں اپنی پسند سے … دوست بنانا بہت آسان ہے اور دوستی نبھانا … جانتے ہیں آپ۔

ایک پاگل سے بہت دوستی ہے میری، ایک دن کہنے لگا: ایک بات بتائوں؟ میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں ضرور۔ تو بولا: ایک آدمی تھا، اس نے اپنے بیٹے سے کہا: دوست بنائو تو نبھانا بھی۔
بیٹے نے پوچھا: ابّا وہ کیسے؟
ابا نے کہا : دیکھو دوست کی پہچان آزمائش میں ہوتی ہے۔
بیٹے نے کہا: آپ تو کہتے ہیں دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
ابّا بولے: ہاں بالکل دوستوں کو کبھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ پر وہ دوست ہی کیا جسے اپنے دوست کی فکر نہ ہو۔ دوست تو رازدار ہوتا ہے۔
بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ دن کے بعد بیٹے کو اداس دیکھ کر ابّا بولے: کیا بات ہے بیٹا؟
کچھ نہیں ابّاجی! بس آج میں ایک دوست کے پاس گیا تھا مجھے کچھ پیسے چاہیے تھے۔
تو پھر کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا، وہ گھر میں موجود تھا، میرے سامنے ہی تو وہ گھر میں داخل ہوا تھا لیکن اس کے بھائی نے آکر کہا کہ وہ گھر پر نہیں ہے، بس یہی سوچ رہا ہوں، چلو اس کے پاس بھی پیسے نہیں ہوں گے، پر وہ تو ملنے سے بھی رہ گیا۔
ابّاجی مسکرائے اور بولے: ہاں اب تو کچھ کچھ سمجھ دار ہوگیا ہے، اب چل میں تجھے اپنے دوست سے ملاتا ہوں۔ ابّاجی اپنے بیٹے کو لے کر اپنے دوست گھر پہنچے اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی: ’’ کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔‘‘ اباجی نے کہا۔
بہت دیر تک دروازہ نہیں کھلا تو بیٹے نے ابّاجی سے کہا: ’’ابّاجی چلیے، یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔‘‘ باپ بیٹا واپسی کے لیے مڑے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز آئی:’’کہاں جارہے ہو یار تم!‘‘ دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ابّاجی کا دوست دروازے پر کھڑا تھا۔ ابّاجی نے اتنی دیر سے دروازہ کھولنے کا سبب پوچھا تو دوست بولا: ’’میرے عزیز دوست! جب تم آئے تو میں سورہا تھا، تمہاری آواز سے میں جاگ گیا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم کیوں آئے ہو۔ دیکھو یہ سارے پیسے گھر میں تھے اس تھیلی میں رکھے ہیں، یہ درکار ہیں تو لے لو۔ میری بیٹی کے رشتے کے لیے آئے ہو تو اسے کپڑے پہنا کر تیار کردیا ہے۔ بسم اﷲ کرو اور اگر کہیں جھگڑا ہوگیا ہے تو تلوار میرے ہاتھ میں ہے چلو۔ اب بتائو کیسے آئے تھے۔‘‘
ابّاجی مسکرائے اور بیٹے سے بولے: ’’دیکھا تم نے یہ ہوتا ہے دوست۔‘‘

نہیں معلوم میں جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں وہ آسان ہورہا ہے یا مزید مشکل … چھوٹی سی عمر میں ہی میرے اندر سوالات کا سمندر طوفان بپا رہتا تھا، رہتا ہے۔ مجھے کہا جاتا: ’’فلاں بُرا لڑکا ہے اس سے دوستی نہیں کرنا۔‘‘ میرا سول ہوتا: ’’کیوں نہیں کرنا، پھر اسے اچھا کیسے بنائیں گے؟‘‘ بہت پِٹا بھی لیکن باز نہیں آیا۔ اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آتا کیسی دانش ہے یہ، کیسی دین داری ہے، کیسا فلسفہ ہے۔ اگر کہیں گندگی ہے وہاں سے ہم بہت بچ بچا کر نکلنے لگتے ہیں۔ اسے صاف کرنے کی فکر نہیں کرتے، اس لیے کہ کچھ چھینٹے آپ پر بھی پڑیں گے … آپ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم سب نامعلوم خوف کا شکار ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے خود ساختہ جزیرے میں قید ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی کہے: ’’ ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، گندگی میں لتھڑے ہوئوں کو باہر نکالنا ہے۔‘‘ تب ہمیں یہ خوف آن گھیرتا ہے کہ ہمارے ہاتھ خراب ہوجائیں گے۔ اگر کوئی ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو ہم سب پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہیں سے کوئی پتھر آئے تو ہم اپنا سر بچانے کے لیے گھر میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں ہم تو بچ گئے۔ قلعہ بند ہوکر سمجھتے ہیں سب جائیں بھاڑ میں چلو ہم تو محفوظ ہیں، کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں آپ! جب چاروں جانب آگ لگ جائے تو ہمارا گھر کیسے بچ سکتا ہے! ہم زندگی کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتے، اپنے خول میں بند ہوجاتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ بس یہی عقل مندی ہے، بصیرت ہے، نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ہم کب تک ایسا کرسکتے ہیں! ہمیں سب کو گلے لگانا ہے … ہم جرم کے بہ جائے مجرم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جرم کے اسباب معلوم ہی نہیں کرتے … کیا مسئلہ تھا کیا حالات تھے … یک طرفہ فیصلہ سنانے میں دیر ہی نہیں کرتے۔ آپ مجھے کوئی ایک بھی طبیب دکھائیں جو مرض کے بہ جائے مریض سے نفرت کرنے لگے۔ مریض سے تو وہ محبت کرتا ہے۔ فیصلہ سنانے سے نت نئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم نئی مصیبتوں میں گھر جاتے ہیں۔ فیصلہ سنانے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور نہ کرنے کی قسم کھالی ہے ہم نے … ہم نے خود کو عقل کُل سمجھ لیا ہے۔ جب دیکھو یہی سنتے ہیں بہت بُرا زمانہ ہے … بہت خراب ہوگیا معاشرہ … سب خراب ہوگیا … سب کچھ تباہ ہوگیا … برباد ہوگیا …

’’لاتسبو الدھر فانی انا الدھر‘‘ (زمانے کو گالی مت دو کیوںکہ میں خود زمانہ ہوں‘‘ (میں زمانے کو پھیرنے والا ہوں)

زندگی سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دیجیے … اس کا سامنا کیجیے … مت پروا کیجیے کسی کی … سب کو اپنے سینے سے لگائیے … سب ایک جیسے نہیں ہوسکتے، کبھی بھی نہیں۔ تہمت سے ڈرتے ہیں ناں آپ … مت ڈریے۔ جب آپ اپنے رب کو جواب دہ ہیں، پھر آپ کو کون سا خوف ستاتا ہے …!! قلعہ بند ہوکر کبھی حالات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا … بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کسی کو بھی قید نہیں کرسکتے۔ کیا آپ خیالات کو، جذبات کو، احساسات کو قید کرسکتے ہیں، خوش بُو کو کون قید کرسکا ہے! کنول سے ہی کچھ سیکھیے جو ہمیشہ کیچڑ میں کِھلتا ہے۔ کیچڑ نہ ہو تو کنول بھی نہیں ہوگا۔ برائی نہ ہو تو نیکی کی پہچان کیسے ہوگی! تاریکی، روشنی کی نوید ہے … رات، سحر کی … یہی نظام کائنات ہے۔ برسات سے ہی سیکھیے جو پھولوں پر ہی نہیں کانٹوں پر بھی برستی ہے۔ زرخیز زمین کو ہی نہیں، ریگستان کو بھی سیراب کرتی ہے۔ اگر کوئی اپنی بُری عادت سے باز نہیں آتا تو آپ اپنی اچھی عادت کو ترک کردیں گے؟ آئیے اس پر بات کریں۔ کیا ہم اپنے اپنے جزیروں میں قید ہوجائیں یا زندگی کا سامنا کریں۔ سماج میں پھیلی ہوئی بے اطمینانی کو اطمینان میں کیسے بدلیں۔ جنہیں آپ بُرا کہتے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں؟ یا انہیں بھی اپنے جیسا بنانے کی سعی کریں، کیا کریں ہم؟

مجھے آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔ ہمیں اس کا سامنا کرنا ہے۔ کیسے کریں ہم اس کا مقابلہ بتائیے؟ میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، کس کی تھی مجھے یاد نہیں ہے، سنائوں آپ کو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی قلم کار اپنا مضمون لکھنے کے لیے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا … اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل پر چہل قدمی کیا کرتا۔ ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا، اسے کچھ دُور کنارے پر ایک شخص رقص کرتا نظر آیا … وہ بہت حیران ہوا کہ صبح سویرے یہ کون ہے۔ جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے! یہ جاننے کے لیے وہ تیز تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا۔ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان تھا … نوجوان رقص نہیں کررہا تھا، وہ ساحل پر جُھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پُھرتی سے اسے دُور سمندر میں پھینک دیتا۔ قلم کار نے نوجوان سے پوچھا: یہ تم کیا کررہے ہو؟ ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں۔ نوجوان بولا۔ میں سمجھا نہیں، تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟

نوجوان بولا: سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں، میں نے انہیں پانی میں نہ پھینکا تو یہ مرجائیں گی۔ قلم کار نے کہا : یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور سارے ساحل پر مچھلیاں بکھری پڑی ہیں، ممکن ہی نہیں کہ تمہاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔ نوجوان نے شائستگی سے قلم کار بات سنی ، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ہوئے بولا لیکن اس کے لیے تو فرق پڑگیا ناں!
کیسی لگی آپ کو۔ خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھیے۔ چلتے چلتے سنتے جائیے: میں سب سے ملتا ہوں، ان سے بھی آپ جنہیں بہت بُرا کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ان کے دل کے تار کو ذرا سا چھیڑیے ، موم کی طرح پگھل جاتے ہیں اور ہم !
تم دل کو ذرا سنبھال رکھنا
اک خواب تمہیں سنائیں گے ہم

The post جہاں گشت ؛ تاریکی، روشنی کی نوید ہے … رات، سحر کی … یہی نظام کائنات ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

 مڈغاسکر۔۔۔اچھوتی جنگلی حیات اور روشن ساحلوں کی حیرت انگیز دنیا

$
0
0

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کا پیشہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اور ایک ایسا سیاہ دور بھی گزرا ہے جب اس دنیا میں غلاموں کی تجارت کی منڈیاں بھی موجود تھیں۔ انہیں بد نام زمانہ منڈیوں میں سے ایک بحر ہند میں واقع مشرقی افریقہ کے ساحل سے 400کلو میٹردور لمبائی کے اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ مڈغاسکر نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کی سب سے بڑی منڈی لگتی تھی۔

ہندوستان اور عرب سے آنے والے تاجر یہاں سے غلام خرید کر اپنے علاقوں میں لے جاتے تھے۔ اسی لئے اس جزیرے پر بڑی تعداد میں متحدہ ہندوستان کے دور سے بھارت اور پاکستان کے موجودہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہندو، مسلمان اور عرب قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی بندرگاہوں سے توجہ کا مرکز بننے والا یہ جزیرہ غلاموں کی تجارت کے علاوہ بھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا۔ روس اور جاپان کے درمیان ہونے والی بحری جنگ کے دوران روس سے آنے والے کچھ جنگی دستوں نے مڈغاسکر میں قیام کیا۔ اس کا اہم ترین ثبوت وہ قبرستان ہے جہاں روسی ملاح اور دیگر عملے کے لوگ دفن ہیں اور ان قبروں کے کتبوں پر تحریریں روسی زبان میں ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مڈغاسکر میں 10ہزار سال قبل انسانی زندگی کے اثرات ملتے ہیں۔

اگر وہاں کی قدیم معاشرت کی بات کی جائے تو آسٹریلیا کے لوگ 350 قبل مسیح سے 550سن عیسوی کے درمیان وہاں آ کرآباد ہوئے جن کی زندگی میں سمندر بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ انہوںنے مختلف اشکال اور اقسام کی کشتیاں متعارف کروائیں۔ اٹھارویں صدی سے قبل تک مڈغاسکر میں سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کا فقدان رہا۔ انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں بیشتر جزائر پر سلطنت مڈغاسکر کا راج رہا جس کی باگ دوڑ ’میرنہ‘ قبیلے کے معززین کے ہاتھ میں تھی۔ اس قبیلے کا تعلق مرکزی جرائز سے تھا۔

آب و ہوا اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خطہ انفرادیت کا حامل رہا۔ یہاں سال میں دو موسم بدلتے ہیں مئی سے اکتوبر کے درمیان موسم سرد رہتا ہے جبکہ نومبر سے اپریل کے درمیان موسم گرم اور مرطوب رہتا ہے۔ یہاں کی ایک منفرد چیز یہاں کے گھنے جنگلات ہیں جہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ جنگلات قدرتی حسن کا شہکار ہیں اور اپنے اندر ایک پراسراریت اور کشش سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں میدان‘ سطح مرتفع اور پہاڑی علاقہ، تینوں کاامتزاج جزئرے کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

مڈغاسکر کی کل آبادی دو کروڑ بارہ لاکھ نوئے ہزار (21290000) ہے۔ اس کا دارالحکومت انتنسناروو ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مڈغاسکر انتہائی پسماندہ ملک ہے۔90 فیصد سے زائد آباد ی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور غذائیت کی کمی جیسے سنگین مسائل سے دو چار ملک محض سیاحت اور زراعت کے بل بوتے پر ریاستی اخراجات پورے کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔

رویلو منینا کے دور حکومت میں ملک نے خاطر خواہ معاشی ترقی کی مگر تمام افراد اس کی ثمرات سے فیض یاب نہ ہو سکے۔ کھیتی باڑی ‘ ماہی گیری اور محدود پیمانے پہ نجی کاروبار ہی مڈغاسر کے شہریوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ بڑھتی ہوئی ضروریات زندگی اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے مڈغاسرکے عوام کے لئے مسائل کا انبار لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے معاشرتی تفریق بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پست معیار زندگی سے نالاں ہیں۔ ناپختہ سڑکوں نے آمد و رفت میں دقت پیدا کررکھی ہے جس کے باعث ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا دو بھر ہو جاتا ہے۔ بجلی کے مسائل نے بھی مڈغاسکر کے باسیوں کی مشکلات میں اضافہ کر رکھا ہے۔ مڈغاسکر میں ترقی نہ ہونے اور وہاں کے عوام کی مشکلات کا سلسلہ طویل ہونے کی ایک اہم وجہ وہاں پر سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔

مڈغاسکر میں دو سرکاری زبانیں رائج ہیں مڈغاسی اور فرانسیسی۔بہت سے قارئین اس بات پر حیران ہوں گے کہ مڈغاسکر کی سرکاری زبان فرانسسی کیسے ہو سکتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مڈغاسکر طویل عرصہ فرانس کی نو آبادی رہا ہے اور آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی یہاں کے فیصلہ سازوں نے فرانسیسی کو ہی اپنائے رکھا جیسے کہ بہت سے دیگر افریقی ممالک نے بھی کیا۔

مڈغاسکر کی ( 90) نوے فیصد آبادی اٹھارہ زیلی گروہوں میں تقسیم ہے۔ اس میں سب سے نمایاں اور معزز ’’میرنہ‘‘ تصورکیا جاتا ہے۔حال ہی میں ڈی این اے سے متعلق شائع کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ حقائق سامنے آئے ہیںکہ مڈغاسی نسل جنوب مشرقی ایشیائی اور مشرقی افریقائی نسلوں کے ’جین‘ کا مرکب گروہ ہے۔ اس نسل میں زیادہ تر اثرات مشرقی ایشیاء اور مشرقی افریقہ کے ہیں جن میں عرب اور یورپی آباواجداد شامل ہیں۔

اس میں بڑے گروہ بیٹسمسار کا تسمھتی اور سکالرو ہیں یہاں صرف مڈغاسرکے عوام ہی نہیں بستے بلکہ یہاں اقلیتیں بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اقلیتوں میں چینی‘ انڈین اور کومرن کے ساتھ قلیل تعداد میں یورپی بھی آباد ہیں۔ مختلف لسانی ونسلی‘ علاقائی و ثقافتی اور مذہبی گرہوں کا یہ امتزاج مڈغاسکرکے جغرافیہ کو مزید حسین بناتا ہے۔مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو 52فیصد آبادی اپنے آباؤاجداد کے مذاہب اور عقائد کے پیرو کار ہیں۔ 41 فیصد کا تعلق عیسائیت سے ہے جبکہ 7 فیصد کا تعلق اسلام سے ہے۔

مڈغاسکر اپنی جن چھوٹی چھوٹی بندرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے ان میں نمایاں نوسی بے‘ نوسی بوریا‘ انتنگیابے‘ انتسرنینا بے‘ نوسی سکاتیا (Nosy sakatia) ‘ نوسی تنکیلے‘ (NOSY tANIKELY)،نوسی انکو (Nosy Ankco)اور نوسی فنھے (Nosy Fanily) ہیں۔ ہر ایک اپنے منفرد اور سحر خیز حسن سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہاں سیاحوں کا رش اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی حسن کو تلاش کرنے والے کسی بھی مشکل سے گھبراتے نہیں۔ مڈغاسکر دریاوں‘ جھرنوں، نہری نظام‘ اور منفرد جنگلات کی وجہ سے اپنی مخصوص خصوصیت رکھتا ہے۔

جزیرے کا متنوع حیاتیاتی نظام اور منفرد جنگلی حیات بڑھتی ہوئی آباد کاری کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ اندیشہ ہے کہ اگر وہاں آبادی اسی تسلسل سے بڑھتی رہی تو ایک روز جنگلی حیات معدوم ہو جائے گی۔ یہاں اپنی نوعیت کی منفرد کھائیاں اور غاریں ہیں جن میں جھانکنا دل گردے کی بات ہے۔

یہاں بے شمار ایسے مقامات ملتے ہیں جن کی سیر کرنا کسی بھی سیاح کی دلی خواہش ہو گی۔ چند قابل ذکر نام یہ ہیں۔

Andasibe- Mantadia ,Lsalo, National Park, Avenue of the Baobabs, Ranomafara, National Park, Tsingy de Bemasha ,National Park یہ وہ مقامات ہیں جہاں منفرد چٹانی گذرگاہوں کے درمیان ہائیکنگ کی جا سکتی ہے۔

(Ankara Resrue) عجیب و غریب بندر نما جانور لیمر، لاکھوں چمگادڑوں سے بھرے غاروں اور گھنے جنگلات کے لئے مشور ہے

(Ambohimanga) قدیم کھنڈرات اور نوادرات کے لئے ممتاز ہے۔

(Tsarabongira) ساحل کنارے نئے جوڑوں کا ہنی مون منانے کا پسندیدہ مقام ہے ۔

Nary sakatia کچھوؤں‘ غوطہ خوری ‘ Snorkdin ( ایسا طریقہ جس سے آب روز کافی عرصہ تک زیر آب رہ سکتی ہے) اور ساحل کے لئے مشہور علاقہ۔

Andagiavaratra Palace تاریخی نمائش گاہ کے ساتھ محل کے اندر واقع میوزیم۔

Nosy Lranga بین الاقومی سیاہوں کی پسندیدہ منزل ہے۔

قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو یہاں متنوع زرعی اور معدنی ذخائر موجود ہیں مڈغاسکر دنیا بھر میں وئینیلا کی درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ کھانوں کی خوشبو اور لذت میں اضافہ کرنیوالا لونگ بھی مڈغاسکر میں وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ کافی ‘ لیچی اور جھینگر بھی اس کی پہچان ہیں۔ Cananga نام کا درخت یہاں عام ہے جو اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس درخت کے پھول نہایت خوشبودار ہوتے ہیں جو ’یلانگ یلانگ‘ کہلاتے ہیں۔ دنیا میں تیار ہونے والا کو بھی پرفیوم اس کے بغیر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس میں خوشبو کو دیر تک برقرار رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اسے خوشبو سے علاج کرنے کی طب میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس درخت کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کے پھولوں کی ساخت بھی پتوں جیسی ہوتی ہے مگر ان کی اچھوتی خوشبو انہیں پتوںسے ممتاز کرتی ہے۔ خواتین اپنی کمر پر تھیلا باندھ کر ان پھولوں کوشاخوں سے جدا کرکے چُن لیتی ہیں۔ بعدازاں انہیں عرق نکالنے کے لئے فیکٹری میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ایک طویل عمل سے گزرنے کے بعد اس میں سے عرق نکال کر برآمد کرنے کی غرض سے شیشے کی بوتلوں میں بھردیا جاتا ہے۔

یہ جزیرہ معدنی وسائل کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر قیمتی پتھر نکالنے کا کام ہوتا ہے، نکل(Nickel) کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو سٹین لیس سٹیل کے برتن اور اشیاء بنانے میں کام آتا ہے۔ نکل کو سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کے پلانٹوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، کوبالٹ(Cobalt) بھی یہاں کی معدنیات میں شامل ہے جس کو بیٹریاں اور بجلی کی دیگر آلات بنانے میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ پٹرولیم وسائل بھی کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں، یہ تمام وسائل کسی بھی ملک کی معاشی و معاشرتی زندگی کی ترقی و خوشحالی کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن مڈغاسکر ان سے مکمل استفادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔

مڈغاسکر کی 90 فیصد جنگلی حیات اور کہیں نہیں ملتی
مڈغاسکر کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں موجود جنگلی حیات اور نباتات میں سے 90 فیصد صرف انہی جزائر سے مخصوص ہے اور دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔ لیمر(Lemur) لمبی پونچھ والا بندر نما ایک جانور ہے، جس کو8 خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کی 100 سے زائد انواع ہیں۔ لیمر صرف مڈغاسکر میں ہی پائے جاتے ہیں۔ لمبی تھوتھنی، بڑی آنکھیں اور لمبی پوچھ انھیں منفرد بناتی ہیں۔ لیمر شاہانہ انداز میں پیڑوں پردندناتے پھرتے ہیں خصوصاً رات کے وقت۔دو سو سال قبل جب تک انسان نے مڈغاسکر کی زمین پر قدم نہیں رکھا تھا تو یہاں بڑے گوریلے کا قد کاٹھ رکھنے والے لیمر پائے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حجم کم ہوتا گیا جو اب ڈیڑھ سے دو فٹ کے درمیان تک رہ گیا ہے۔ یہ معاشرت پسند لیمر گروہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کے گروہ مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، کچھ میں نر لیمر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور کچھ میں مادہ کی۔ لیمرز کے درمیان سماجی ربط کی زبان آوازوں، روشنی اور اشاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی چند اقسام میں سے نمایاں یہ ہیں۔Aye aye لمبی انگلیوں، تیز کترنے والے دانتوں اور اپنی مخصوص پتلی درمیانی انگلی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔

رنگ ٹیلڈ لیمر، فوسا )بلی نما جانور(، اندی، میڈمی برتھی ماوس لیمر،Verreaux’s sifaka ، بلیک اینڈ وائٹ ریفرڈ لیمر، کومن برائون لیمر، Diamond syalca، Red ruffed lemur،Black lemur،Grey Mouse lemurاور Northern Sportive lemurہیں۔

دنیا میں پائے جانے والی گرگٹ کی اقسام میں سے دو تہائی صرف مڈغاسکر میں موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے چھوٹا گرگٹ بھی مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے۔Panther Chamele نامی ست رنگی گرگٹ جو کہ مشرقی اور مغربی علاقوں میں پایا جاتا ہے انوکھے رنگوںکی وجہ سے بے حد مشہور ہے۔ Brookesia ،Furcifer اورCalummaبھی گرگٹ کی نمایاں اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کاRadiated Tortoiseدنیا کے طویل العمرکچھووں می سے ایک ہے جو کہ اوسطً 188 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔

۔۔۔

بچوں کی پسندیدہ فلم
کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی پسندیدہ مڈغاسکر فلم بھی دراصل مڈغاسکرکے جنگلوںاور جانوروں سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔ 2005ء میں بننے والی اینی میٹڈ فلم مڈغاسکر طنزومزاح سے بھرپور ہونے کے ساتھ بچوں میں اتنی مقبولیت پا گئی کہ اس کے بعد اس فلم کے مزید دو سیکوئل بنائے گئے جن کی نمائش 2008ء اور 2012ء میں ہوئی۔ Dream Works Animation کی جانب سے تیار کردہ اس فلم کی ہدایات Eric DarnallاورTom McGrath دیں۔ فلم کی کہانی 4 جانوروں کے گرد گھومتی ہے جو کہ Central Park Zoo سے غائب ہو کر اچانک اپنے آپ کو مڈغاسکر جزیرے میں پاتے ہیں اور وہاں دلچسپ شرارتیں کرتے ہیں۔ فلم میں مڈغاسکر کے مقامی جانوروں کو جہاں بطور کردار پیش کرکے انہیں متعارف کروایا گیا وہیں دلچسپ مناظر شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ فلم نے باکس آفس پہ$532.7 million کا بزنس کیا۔تنقید کے باوجود بھی فلم شائقین کی توجہ کا مرکز رہی اوردس بہترین فلموں میں شامل کی گئی۔

The post  مڈغاسکر۔۔۔اچھوتی جنگلی حیات اور روشن ساحلوں کی حیرت انگیز دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

عظیم کرکٹر…جو کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے

$
0
0

کرکٹ کی معروف کہاوت ’’Cricket By Chance‘‘ کی صداقت صرف کھیل ہی نہیں بلکہ کھلاڑیوں سے بھی عیاں ہے۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے پَنّوں پر ایسے ایسے نام ثبت ہیں جو کروڑوں دلوں کی دھڑکن سمجھے جاتے ہیں۔

یہ عظیم کھلاڑی نہ ہوتے تو شائد کرکٹ کو وہ عروج نہ ملتا، جو آج اسے حاصل ہے۔ لیکن ان کھلاڑیوں میں سے چند ایسے بھی ہیں، جو تمام تر کامیابیوں اور صلاحیتوں کے باوجود آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی نہ اٹھا سکے۔ یہاں ہم آپ کو 10ایسے ہی عظیم کھلاڑیوں سے ملوا رہے ہیں، جو اپنے اپنے وقت میں کرکٹ پر چھائے رہے، لیکن وہ کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے۔

گراہم گوچ

آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی سے محروم عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام ماضی کے معروف برطانوی کرکٹر گراہم گوچ کا ہے، جو نہ صرف 3 بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیل چکے ہیں بلکہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن قسمت کی دیوی شاہینوں پر مہربان ہوئی اور پاکستان پہلی اور آج تک آخری بار ورلڈ کپ چیمپئن بن گیا۔

1987ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں تو گراہم گوچ نے وہ اننگ کھیلی جو آج تک بھلائی نہ جا سکی، ممبئی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ان کی زبردست سنیچری کی وجہ سے انگلینڈ  نے بھارت کو شکست دی۔ دائیں بازو سے کھیلنے والے عظیم بلے باز نے انٹرنیشنل ون ڈے کرکٹ کا آغاز 26 اگست 1976ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے میچ سے کیا اور ان کا یہ سفر 10 جنوری 1995ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ کے بعد اختتام پذیر ہوا، تاہم ون ڈے سے ایک سال قبل یعنی 10 جولائی 1975ء کو انہیں ٹیسٹ کیپ مل چکی تھی۔ بحیثیت بلے باز لسٹ اے میچز میں 22 ہزار 211 رنز بنا کر گراہم گوچ نے وہ ریکارڈ بنایا، جو آج تک قائم ہے۔

این بوتھم

سر این بوتھم کرکٹ کے وہ عظیم آل راؤنڈر ہیں، جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی نصیب ہوئی، لیکن تمام تر کامیابیوں کے باوجود ورلڈ کپ نہ جیتنے والی محرومی ان کا زندگی بھر پیچھا کرتی رہے گی۔ سر این بوتھم کو اپنے کیرئیر میں دنیائے کرکٹ پر بادشاہت کا دو بار موقع ملا، لیکن بدقسمتی سے وہ خالی ہاتھ لوٹ آئے، یعنی انہوں نے انگلینڈ کی جانب سے دو بار آئی سی سی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا، لیکن آل راؤنڈ پرفارمنس کے باوجود انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

1992ء کے ورلڈ کپ میں تو ان کا کیرئیر عروج پر تھا، جہاں اس ایڈیشن میں انہوں نے ایک طرف بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 16 وکٹیں حاصل کیں وہاں دوسری طرف انہوں نے اپنی ٹیم کے لئے رنز کے انبار لگا دیئے، لیکن ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ 16سال پر محیط ون ڈے کیرئیر میں سر این بوتھم نے 116 میچز کھیلے، جن میں انہوں نے 28.54 کی اوسط سے 145 وکٹیں اور 2ہزار 113 رنز بنائے۔

وقار یونس

وقار یونس دنیائے کرکٹ کے وہ عظیم فاسٹ بولر کہلائے  ہیں، جن کے بغیر شائد فاسٹ بولنگ کا شعبہ ہی ادھورا تصور کیا جائے۔ بوریوالا ایکسپریس ریورس سوئنگ کے ماہر تھے، جسے کسی بھی بلے باز کی جانب سے کھیلنا ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ بہترین فاسٹ بولر کی بدقسمتی دیکھیں کہ 1992ء کے ورلڈ کپ سے قبل ہر سُو ان کے چرچے تھے، اور پاکستان نے وہ ورلڈ کپ جیت بھی لیا، لیکن وقار یونس زخمی ہونے کے باعث ورلڈ سکواڈ میں شمولیت کے بعد باہر ہو گئے۔

تاہم 1996ء، 1999ء اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے شرکت کی، بلکہ 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو انہوں نے اپنی ٹیم کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دیا لیکن  پاکستان پھر آج تک ورلڈ چیمپئن نہ بن سکا۔ عظیم فاسٹ بولر نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کے دوران 13 بار ایک میچ میں 5 سے زائد وکٹیں لیں، یوں انہیں کرکٹ کے اس شعبہ کا بے تاج بادشاہ کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کے ہاتھ تک نہ پہنچ سکی۔

سورو گنگولی

سابق معروف بھارتی کرکٹر سورو گنگولی نے 1999ء سے 2007ء تک مسلسل تین ورلڈ کپ کھیلے اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو بھارت فائنل میں بھی جا پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کی پہنچ سے دور ہی رہی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں جارحانہ مزاج کے حامل بلے باز کی پرفارمنس اپنے عروج کو چھو رہی تھی، اس ٹورنامنٹ کے دوران انہوں نے 3 بار سنیچری سکور کی۔

جس سے بھارت کی جیت کو یقینی تصور کیا جانے لگا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ گنگولی کے بارے میں بھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بحیثیت کپتان انہوں نے ٹیم انڈیا کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ معروف بلے باز نے ورلڈ کپ کی 22 اننگز میں 55.88کی اوسط سے 1006 سکور کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ عظیم کھلاڑی نے مجموعی طور پر 311 ون ڈے انٹرنیشنل میں 41.02کی اوسط سے 11ہزار 363 رنز بنا کر دنیائے کرکٹ میں نئے ریکارڈ قائم کئے۔

برائن لارا

ویسٹ انڈین عظیم بلے باز برائن لارا نے مقبولیت کی ان چوٹیوں کو چھوا، جہاں شائد آج تک کوئی ملکی کھلاڑی نہ پہنچ سکا۔ پورٹ آف سپین کے اس شہزادے نے ٹیسٹ کرکٹ میں جہاں 400کی اننگ سمیت متعدد ریکارڈ قائم کئے وہاں ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی اس دور میں ان کا کوئی ثانی تصور نہیں کیا جاتا تھا، اُس دور میں لارا نے 10ہزار رنز کا ہندسہ عبور کیا، جب ایسا خال خال ہی ممکن ہوتا تھا۔

سٹائلش بلے باز نے اپنی ٹیم کے لئے 299 ون ڈے انٹرنیشنل میں 40.48 کی اوسط سے 10ہزار 405 رنز کا انبار لگایا، لیکن ان کی تمام تر کامیابیوں اور مقبولیت کے باوجود وہ ورلڈ کپ ٹرافی کو نہ چھو سکے، وہ 5 بار ویسٹ انڈیز کی جانب سے ورلڈ الیون کا حصہ بنے، مگر اس دوران ویسٹ انڈیز عالمی چیمپئن نہ بن سکا۔

لانس کلوزنر

جنوبی افریقہ کے بہترین آل راؤنڈر لانس کلوزنر نے جب تک کرکٹ کھیلی، وہ باؤلرز کے لئے ایک دہشت کی علامت تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کا سفر 1996ء میں شروع اور 2004ء میں اختتام پذیر ہوا، لیکن اس دوران انہوں نے 171 ون ڈے میچز میں 41.10 کی اوسط سے 3ہزار 576 رنز بنائے جبکہ 29 کی اوسط سے 192 وکٹیں حاصل کیں۔ جنگی سپاہی کہلانے والے اس عظیم کھلاڑی نے 1999ء میں اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیلا، جس میں ان کی شاندار پرفارمنس کے باعث جنوبی افریقہ سیمی فائنل تک پہنچ گیا، تاہم اس سے آگے وہ نہ جا سکے، اس ورلڈ کپ میں کلوزنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 2003ء  میں کلوزنر نے اپنا دوسرا اور آخری ورلڈ کپ کھیلا، لیکن اس میں بھی محرومی ان کا مقدر بنی۔

جیک کیلس

جیک کیلس صرف جنوبی افریقہ نہیں بلکہ پوری دنیائے کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار دیئے جاتے ہیں۔ 1996ء میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عظیم کھلاڑی نے 328 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے، جن میں انہوں نے 44.36 کی اوسط سے 11ہزار579 رنز بنائے جبکہ 31 کی اوسط سے 273 وکٹیں لے کر خود کو اپنے دور کا بہترین آل راؤنڈر ثابت کیا۔ 17سنیچریوں اور 86 ففٹیز کے ساتھ 10ہزار رنز اور 250 سے زائد وکٹیں بہترین آل راؤنڈر کو وہ اعزاز ہے۔

جو معروف لنکن کھلاڑی جے سوریا کے علاوہ ابھی تک کسی اور کے حصے میں نہ آ سکا، تاہم جیک کیلس کرکٹ کے میدان میں اس اعتبار سے جے سوریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کہ  انہوں نے جے سوریا سے 117 میچز کم کھیلے ہیں۔ان تمام ترکامیابیوں اور 18 سالہ طویل کیرئیر کے باوجود جیک کیلس ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو متعدد بار ورلڈ الیون کا حصہ بننے کے باوجود اپنی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنتا نہ دیکھ سکے۔

کمار سنگاکارا

عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے عظیم سری لنکن بلے باز کمار سنگاکارا نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کی شروعات جولائی 2000ء میں کی اور مارچ 2015ء یعنی 15 سال تک وہ بلے بازی کے شعبہ پر چھائے رہے۔ ایک روزہ میچز میں رنز بنانے کی مشین تصور کئے جانے والے عظیم بلے باز کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کیرئیر کے اختتام پر کمار سے زیادہ رنز صرف ایک بلے باز لٹل ماسٹر ٹنڈولکر کے تھے، باقی پوری دنیائے کرکٹ ان سے پیچھے تھی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ سے 2015ء تک وکٹ کیپر بلے باز سری لنکن ٹیم کا حصہ رہے۔

جس دوران ان کی بہترین پرفارمنس کے باعث دو بار سری لنکا فائنل تک بھی پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانا شائد کمارا سنگاکارا کی قسمت میں نہیں لکھا تھا۔ ان ورلڈ کپ کے دوران کمارسنگاکارا نے 50سے زائد کی اوسط سے سکور کئے، لیکن ان کی تمام تر محنتیں رائیگاں گئیں۔ مجموعی طور پر 404 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے بہترین بلے باز نے تقریباً 42کی اوسط سے 14ہزار 234 رنز بنائے۔

اے بی ڈی ویلیئرز

پروٹیز بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز کرکٹ کی دنیا کا وہ چمکتا ستارہ ہیں، جن کے بلے نے وہ کارنامے سرانجام دیئے، جن کا کوئی بھی بلے باز خواب دیکھتا ہے۔ شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کرنے والے اے بی نے اپنے پورے کیرئیر میں 53.50کی اوسط اور 100کے سٹرائیک ریٹ سے صرف 228 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 9 ہزار 577 رنز بنائے۔ اے بی نے ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ میں وہ ریکارڈ قائم کیا، جسے آج تک کوئی نہ توڑ سکا، جارح مزاج بلے باز نے 2015ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے ایک میچ میں صرف 31 گیندوں پر سنیچری سکور کر دی۔

اے بی نے متعدد بار ون مین شو اننگز کھیلیں، جن کی بدولت جنوبی افریقہ کو کامیابیاں حاصل ہوئیں، لیکن ان تمام تر صلاحیتوں اور کامیابیوں کے باوجود اے بی ڈی ویلیئرز بھی ان بدقسمت عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو ورلڈ چیمپئن نہ بن سکے۔ عظیم بلے باز نے 2005 میں ون ڈے کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے 2018ء میں بھارت کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلا، جس دوران انہوں نے تین ورلڈ کپ (2007،2011 ء اور 2015ء) کھیلے، جن میں 2015ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔

شاہد آفریدی

بوم بوم آفریدی پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے وہ سٹار ہیں، جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ وہ خوش قسمت کھلاڑی ہیں، جن کے طویل المدت کیرئیر میں کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا، جب ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہو۔ آفریدی نے پاکستانی ٹیم میں بلے بازی کے شعبہ کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ 1996ء میں 37گیندوں پر ان کی تیز رفتار سنیچری کا ریکارڈ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک قائم رہا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آفریدی کی وجہ سے عالمی سطح پر بلے بازی کا رجحان ہی بدل گیا۔ آج بھی سب سے طویل چھکے (158میٹر) کا ریکارڈ آفریدی کے پاس ہے۔

بلے بازی کیساتھ آفریدی ایک بہترین لیگ اسپنر تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر پر نظر دوڑائی جائے تو آفریدی نے 398 میچز میں 114.53 کے سٹرائیک ریٹ کیساتھ 8 ہزار سے زائد رنز بنائے جبکہ 395وکٹیں حاصل کیں، یوں عظیم کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار پاتے ہیں، تاہم مسلسل 5 ورلڈ کپ کھیلنے کے  باوجود وہ عالمی ٹرافی کو نہ پا سکے۔

The post عظیم کرکٹر…جو کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے appeared first on ایکسپریس اردو.


شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات

$
0
0

(آخری قسط)

٭ گُلمِت؛
عطاآباد سے ذرا آگے جائیں تو گُلمِت کا بورڈ نظر آتا ہے۔ گلمت، جسے ’’گُلِ گلمت‘‘ بھی کہتے ہیں گوجال سب ڈویژن کا مرکزی شہر ہے۔ گلیشیئرز اور بلندوبالا پہاڑوں کے بیچ واقع یہ شہر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں کئی ہوٹل، ریستوراں اور ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنا ہوا ہے۔ گلمت میں ایک پولوگراؤنڈ اور اس کے شمال میں میر آف ہُنزہ کا محل واقع ہے جہاں وہ گرمیاں گزارنے آتے تھے۔ یہاں کے قدیم عبادت خانوں کو اب لائبریری بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چھے سات جماعت خانے بھی ہیں۔

٭ حُسینی برِج:
گُلمت کے بعد ہی حُسینی کا علاقہ آتا ہے جہاں دنیا کے خطرناک ترین پُلوں میں سے ایک، بین الاقوامی شہرت کا حامل حُسینی برِج واقع ہے۔ کسی بھی سیاح کا ٹور حسینی برج اور پسو کونز کے ساتھ تصویر بنائے بغیر مکمل نہیں مانا جاتا۔ سو اگر آپ یہاں آ ہی گئے ہیں تو دل کڑا کر کے حُسینی تک ضرور جائیں۔ حسینی پُل تک جانے کے لیے آپ کو پیدل پانچ منٹ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پل پر چڑھنے کے لیے 60 روپے کا ٹکٹ خریدیں اور اپنی باری پر چڑھ جائیں اگر آپ اتنے جگرے والے ہیں تو۔ باری پر اس لیے کیوںکہ یہ پُل آٹھ نو سے زیادہ افراد کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔

دریائے سِندھ پر ہَوا کے جھونکوں پر جھولتا یہ پُل بڑے بڑے رسوں اور لکڑی کے تختوں سے بنایا گیا ہے جن کا درمیانی فاصلہ اکثر جگہوں پر اتنا زیادہ ہے کہ دیکھنے والا گھبرا کر وہیں جم جاتا ہے۔ اکثر سیاح یہاں اپنی ہمت آزمانے آتے ہیں جب کہ بہت کم ہی اسے پار کرپاتے ہیں۔یوں تو قراقرم ہائی وے بننے کے بعد یہاں تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے، لیکن گلگت بلتستان کے اندر اب بھی مختلف اندرونی علاقوں تک پہنچنے کے لیے ایسے پل استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِس سے آپ وہاں کے باسیوں کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

٭ پاسو کونز اور گلیشیئر:
یوں تو حسینی سے ہی آپ کو پاسو کونز نظر آنے لگ جاتی ہیں لیکن جیسے جیسے آپ قریب جاتے ہیں یہ برف پوش، خوب صورت تکونی چوٹیاں اور زیادہ غضب ڈھانے لگتی ہیں۔ پُرانے زمانے کے اسپین میں پسو ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ہمارا پسو وادی گوجال کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں پاکستان کا دوسرا طویل ترین گلیشیئر، ’’بٹورا گلیشیئر‘‘ واقع ہے۔ اس گلیشیئر کی لمبائی 56 کلومیٹر ہے اور سیاچن کے بعد اسے پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیئر مانا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ’’پاسو پیک‘‘ بھی سر اْٹھائے کھڑی ہے۔ 6000 میٹر سے بھی زیادہ بُلند ’’پاسو کونز‘‘ جنہیں پاسو کیتھیڈرل بھی کہا جاتا ہے، اس علاقے کا سب سے زیادہ دل فریب اور فریفتہ کردینے والا مقام ہے۔ کسی اہرام کی طرز پر بنی یہ قدرتی چوٹیاں شام ڈھلنے کے وقت ایک سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں۔ پسو اپنے باغات، تکونی چوٹیوں جنہیں کونز کہا جاتا ہے، پھلوں اور قدرتی خوب صورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایسا عجیب و غریب لینڈاسکیپ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔

پاکستان، چین، افغانستان کا وا خان کوریڈور اور چائنیز ترکستان
یہاں میں پسو کی ایک سوغات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ یہ ہے ’’خوبانی کا کیک‘‘ جو پاسو میں موجود گلیشیئر بریز نامی کیفے کے مشہور شیف احمد علی کی سوغات ہے۔ یہ کیفے مرکزی شاہ راہ سے کافی اوپر بنا ہوا ہے، اسی لیے اکثر سیاحوں کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ تقریباً 110 سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت کے بعد جب میں یہاں پہنچا تو آرڈر پر تیار تازہ کیک میرے حوالے کیا گیا۔ اس کی بھی ایک منفرد تاریخ ہے۔

یہاں کے شیف اور مالک احمد علی خان صاحب کے مطابق وہ یہ ریستوراں 2003 سے چلا رہے ہیں اور یہاں کا مشہور خوبانی کیک اصل میں ان کی دادی کی ریسیپی ہے جو خاندان میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر ان تک پہنچی ہے۔ یہ ترکیب خفیہ رکھی گئی ہے اور کسی کو بھی ان کے کچن میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیفے کے اندر ان کی مرحومہ دادی کی ایک تصویر بھی رکھی ہے۔ ساتھ ساتھ ملک کے مشہور سیاست دانوں (جن میں بلاول بھٹو بھی شامل ہیں) کی تصاویر بھی ہیں جو یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اگر آپ پسو جائیں تو یہاں کا کیک کھانا مت بھولیے گا۔

٭ سوست:
یہاں سے خیبر اور دوسرے چھوٹے قصبوں سے ہوکر آپ سوست پہنچتے ہیں جو شمال کی طرف پاکستان کا آخری آباد شہر ہے، جس کے بعد پاکستان اور چین کا بارڈر ہے۔ اس شہر کو لوگ مذاقاً سُست بھی کہتے ہیں لیکن یہ جفاکش اور محنتی لوگوں کا شہر ہے جو میلوں دور سے سیاحوں کے لیے کھانا پینا اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا سامان لاتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ محنتی لوگ ہیں جن کی وجہ سے شمالی علاقوں کی سیاحت زندہ ہے۔ شاہ راہ قراقرم کی تعمیر کے بعد سوست نے گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔

سوست میں پاکستان کسٹمز کی دفتروں کے علاوہ ایک ڈرائی پورٹ بھی ہے جہاں پر چین سے آنے اور چین کو جانے والے سامان تجارت کو محفوظ رکھا جاتا ہے، اور بین الاقوامی تجارت کے اصولوں کے مطابق انتظامی کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں۔ سوست میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بھی رہتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ سوست میں مختلف ہوٹلز اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا ایک موٹیل بھی ہے جس کے اندر جاکر آپ کو کسی مغربی ملک کی رہائش گاہ کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں نہ صرف آپ کو چین کے جھنڈے اور تصاویر نظر آئیں گی بلکہ کوریا، جاپان، اٹلی اور دیگر ملکوں کے سیاحوں کے لگائے گئے اسٹیکرز اور بیگ بھی ملیں گے۔ سوست شہر بالکل ویسا ہی ہے جیسا آج سے دس سال پہلے تھا۔ یہاں ترقی کی رفتار ذرا سُست ہے۔ سوست کے بازار میں آپ کو ہُنزہ کے قیمتی پتھر ملیں گے لیکن یہاں کی خاصیت کوک نامی پتھر سے بنے ماربل سے ملتے جلتے منفرد نوادرات اور برتن ہیں جو میں نے اپنے سفر میں اور کہیں نہیں دیکھے۔

٭ خُنجراب ٹاپ و پاک چین بارڈر:
سوست سے آگے قراقرم خُنجراب نیشنل پارک کے پہاڑی اور خشک لینڈاسکیپ سے گزرتی ہے۔ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع خُنجراب نیشنل پارک پاکستان کا 3 بڑا اور دنیا کے چند بلندترین پارکس میں سے ایک ہے۔ یہ نیشنل پارک گلگت سے 269 کلومیٹر شمال مشرق میں دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو تیرہ 226913 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے جس میں وادی خنجراب اور شِمشال شامل ہیں۔ اس علاقے کو اپریل 1979ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ’’مارکوپولو شیپ‘‘ کی حفاظت کے لیے نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ یہ پورا نیشنل پارک چوںکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند (3200 میٹر سے لے کر 600 میٹر تک) ہے، اس لیے سال کے بیشتر مہینوں میں پورا پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پورا علاقہ وسیع وعریض گلیشیئرز اور برفانی جھیلیوں سے اٹا پڑا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک کے علاقے میں سبزہ بہت کم ہے۔

اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانوروں، بالخصوص بھیڑوں کی ایک نایاب نسل ’’مارکو پولو شیپ‘‘ کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے، کیوںکہ یہ جانور پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ مارکو پولو شیپ کے علاوہ یہاں برفانی تیندوے، لومڑی، سُنہری عقاب، چکور، بھورا بگلا، اُلو، بھیڑیے، برفانی ریچھ، ہمالیائی بکرے، بھورے ریچھ اور سنہرے چوہوں کی بھی متعدد اقسام موجود ہیں۔ شاہ راہِ قراقرم کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاحوں کی یہاں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ شکار پر

پابندی کی وجہ سے آپ کو بہت سے جانور قراقرم ہائی وے پر چلتے پھرتے بھی نظر آئیں گے۔ خنجراب نیشنل پارک سے ہوتی ہوئی یہ شاہ راہ وہاں جا پہنچتی ہے جہاں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا، خُنجراب ٹاپ۔

درۂ خُنجراب (بلندی 4693 میٹر یا 15397 فٹ) سلسلۂ کوہ قراقرم میں ایک بلند پہاڑی درہ ہے جو پاکستان کے گلگت بلتستان، جموں و کشمیر اور چین کے سنکیانگ کے علاقوں کے لیے ایک فوجی مصلحتی مقام ہے۔ اس کا نام وخی زبان سے ہے جس کا مطلب ’’پانی کا چشمہ یا گرتا پانی‘‘ ہے۔ درّہ خنجراب کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان اور چین نے جب یہ منصوبہ بنایا تھا تو دنیا ان پر ہنستی تھی کہ جہاں انسان نہیں پہنچ سکتا وہاں ایک پُختہ سڑک کیوںکر جائے گی؟ لیکنوہی ہوتا ہے جو منظورِخُدا ہوتا ہے۔

یہ شاہ راہ بنی اور دنیا نے دیکھا کہ کیسے دو ممالک کے انجنیئرز اور مزدوروں نے جان پر کھیل کر اپنی دوستی کی نشانی کو دنیا کے اونچے بارڈر تک پہنچایا۔ تبھی اکثر لوگ اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

اس جگہ کے پاس کئی ریکارڈز ہیں جیسے یہ دنیا کی سب سے اونچی اور خوب صورت سرحدی کراسنگ ہے۔ یہاں واقع اے-ٹی-ایم مشین دنیا کی سب سے اونچی اے ٹی ایم ہے۔ یہ جگہ قراقرم ہائی وے کا سب سے اونچا پوائنٹ ہے اور یہاں سے گزرنے والی روڈ دنیا کی سب سے اونچی پکی سڑک ہے۔ دو طرفہ اچھے تعلقات کی بدولت یہاں فوجی پہرہ بھی کم ہے۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور کے تحت یہاں سے ریلوے لائن گزارنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر فی الحال کوئی پروگریس نظر نہیں آتی۔

اب چلتے ہیں ہُنزہ و نگر میں بسنے والے لوگوں کی طرف اور ان کے زرخیز ذہنوں کو کھنگالتے ہیں۔

57 سالہ دیدارعلی کا تعلق وادیٔ ہُنزہ کے شہر علی آباد سے ہے اور وہ ایک ریٹائرڈ پرنسپل ہیں۔ بیگ گیسٹ ہاؤس نامی سرائے چلانے والے دیدار علی نے آج سے کئی سال پہلے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جب گلگت بلتستان میں تعلیم عام نہ تھی۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی بدلتی ہوئی معاشی اور معاشرتی زندگی کو غور سے دیکھا ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے بدلنے کے چشم دید گواہ ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک بھرپور نشست میں کچھ اہم سوالات کا خُلاصہ کیا گیا، جس کا حال پیشِ خدمت ہے۔

٭ گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال کیا ہے؟
دیدار علی کہتے ہیں کہ 1964 سے پہلے گلگت بلتستان میں تعلیم تقریباً صفر تھی۔ اسکول و کالج ناپید تھے۔ جو لوگ تعلیم کے متوالے تھے وہ پشاور یا پنجاب جاتے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے یہاں آکر پڑھاتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں تعلیم کی بنیاد رکھی۔ پھر ہمارے اِمام سلطان کی ڈائمنڈ جوبلی آئی اور اس خوشی میں انہوں نے یہاں کے مرکزی شہر کریم آباد میں ایک اسکول بنوایا اور تب سے یہاں تعلیم عام ہونا شروع ہوئی۔ غیرملکی سیاحوں نے بھی یہاں تعلیم کا شعور اجاگر کرنے میں بھرپور ساتھ دیا اور اسکول بنوائے۔ پھر پرنس کریم آغا خان نے کافی اسکول اور کالج بنوائے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں گلگت بلتستان میں ’’قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی‘‘ کے نام سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی جو ہُنزہ، دیامیر اور غزر میں بھی اپنے سب کیمپس کے ذریعے فروغِ تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔ پھر صدر ممنون حسین کے دور میں 2017 میں اسکردو میں یونیورسٹی آف بلتستان کی بنیاد رکھی گئی اور آج گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

٭آج کے گلگت بلتستان اور بیس پچیس سال پہلے کے جی-بی کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟ کیا بنیادی فرق ہے ان میں؟
پہلے ان علاقوں کا رہن سہن بہت عام سا تھا۔ کچے گھر تھے، لوگوں کا آپس میں ملنا ملانا زیادہ ہوتا تھا، محبت زیادہ تھی۔ ایک دوسرے کی عزت بھی زیادہ کرتے تھے۔ لوگوں میں محنت و جفاکشی کی عادت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ پتھر توڑ کر لانا اور دوردراز علاقوں سے پانی بھرنا عام سی بات تھی۔ تب سیاحت اتنی زیادہ نہیں تھی۔ لوگ کھیتی باڑی کرکے اور قیمتی پتھر نکال کر روزی کماتے تھے۔ بڑے ٹرک اور گاڑیاں اِکّادُکا ہی نظر آتی تھیں۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی تھی اور شہر بہت چھوٹے تھے۔ اس زمانے میں یہاں انگریز/گورے بہت آتے تھے جب کہ پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ آج اس کا اُلٹ حساب ہے۔

آج کا گلگت بلتستان جِدت کی طرف گام زن ہے۔ سیاحوں کا خوب رش ہوتا ہے جس کی بدولت روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نت نئے ہوٹلز اور ریستوراں کْھل گئے ہیں۔ شہر، بازار اور سڑکیں پھیل گئی ہیں۔ لوگوں کا رجحان کاروبار اور نوکریوں کی طرف ہو گیا ہے۔ نوجوانوں میں شعور بیدار ہوچکا ہے۔ آج کا نوجوان اپنے بنیادی حقوق سے مکمل آشنا ہے۔ البتہ لوگوں میں محبت اور ایک دوسرے کا احساس کچھ کم ہوا ہے۔

٭ ہِز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان کا گلگت، ہُنزہ اور نگر کی ترقی میں کتنا ہاتھ ہے؟ ان کے بغیر آپ گلگت بلتستان کو کیسا دیکھتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقے اور ان کی ترقی ہِزہائی نیس کی مرہونِ منت ہے۔ آغا خان ٹرسٹ نے یہاں نہ صرف 150 سے اوپر اسکول کھولے ہیں بلکہ اسپتال، ڈسپنسریاں، ووکیشنل ادارے، کھیل کے میدان بھی انہی کی بدولت ہیں۔ اسی وجہ سے ہُنزہ میں شرح تعلیم بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اب ہماری بچیاں بھی موسیقی سیکھ رہی ہیں۔ یہاں کا جو ثقافتی ورثہ ہے اسے بھی انہوں نے بحال کروایا ہے ورنہ تو یہاں کے قلعے کھنڈر بن چکے ہوتے۔ آغا خان نے یہاں کے نوجوانوں کو نوکریاں دی ہیں اور انہیں مختلف شعبوں کھپایا ہے۔ ان کے بغیر یہاں کی ترقی تقریباً ناممکن تھی۔

٭ یہاں کے لوگ سیاسی طور پر کس کے زیادہ قریب ہیں؟
یہاں کے لوگ اسی جماعت کو پسند کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں جو مرکز میں اقتدار میں ہو کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ اس خِطے کو وہی حکومت کچھ دے سکتی ہے جو اقتدار میں ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں اندرونی طور پر یہاں کے لوگ بھٹو کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے کے لیے بہت کچھ کیا خصوصاً ہمیں گندم پر سبسڈی دی اور گلگت بلتستان کی اسمبلی بھی پیپلزپارٹی کے دور میں بنی اس لیے ہمیں بھٹو سے محبت ہے۔

اس کے بعد ان کے بیٹے اسلم پرویز نے گفتگو میں حِصہ لیا اور ہُنزہ نگر کے مشہور کھابوں کے بارے میں بتایا۔ اسلم پرویز نہ صرف اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں بلکہ گلگت بلتستان پولیس میں نوکری بھی کر رہے ہیں۔ چلیے جانتے ہیں گلگت و ہنزہ کے مشہور کھابوں کے بارے میں۔
1-نمکین چائے : اْن کے مطابق ہم ہُنزہ والے میٹھی چائے نہیں پیتے۔ جی ہاں! یہاں کی چائے نمکین ہوتی ہے اور وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ رواج پورے گلگت بلتستان میں ہے۔
2- گُو-لی/ بارُوئے گیالِن: گینانی کے تہوار پر بنائی جانے والی یہ مشہور ڈش جو سے بنائی جاتی ہے۔ جو کو بھون کر اس میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ پھر آٹے کی طرح ہوجانے پر گوندھ لیتے ہیں اور اس کی روٹی بنائی جاتی ہے جس پر گیری کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اسے عموماً ناشتے میں نمکین چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن آپ اسے چائے کے بغیر بھی کھا سکتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک تہوار کی ڈش ہے۔
3- ممتُو: ممتو، پاکستان کے انتہائی شمال میں اسکردو اور ہنزہ -نگر کی ایک مزے دار ڈش ہے اسے آپ گلگت بلتستان کا سموسہ بھی کہہ سکتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گھی یا تیل میں نہیں تلا جاتا بلکہ اسٹیم یعنی بھاپ پر پکایا جاتا ہے۔ ’’شمال کا ڈمپلنگ‘‘ کہلائی جانے والی یہ ڈش چین سے تعلق رکھتی ہے جسے بعد میں یہاں کے لوگوں نے اپنایا اور آج یہ گلگت بلتستان کا مشہور ’’کھابہ‘‘ ہے۔
بھاپ پر پکائی جانے والی اس ڈش میں گائے یا بھیڑ کا قیمہ، پیاز، لہسن اور ہری مرچ سے بنایا گیا مسالا، آٹے اور میدے کے ورق میں بھرا جاتا ہے اور تیار ہوجانے کے بعد اسے مختلف چٹنیوں اور سِرکے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ انتہائی زیادہ ڈیمانڈ ہونے کے بعد ممتو ، لاہور اور پنڈی میں بھی ملتا ہے۔
4- چاپشورو:چاپشورو یا شارپشورو کو ہُنزہ کا پیزا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پیزا نما یہ ڈش روٹی سے ملتی جلتی ہے جس کے اندر لذیز مسالا بھرا جاتا ہے۔
سب سے پہلے گندم کے آٹے سے روٹی بنائی جاتی ہے جس پر مسالا رکھا جاتا ہے۔ یہ فِلنگ گائے یا یاک کے گوشت میں مختلف اجزاء جیسے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ اور مسالے شامل کر کہ بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر ایک اور روٹی رکھ کر اس کے کناروں کو خوب صورت طریقے سے موڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے توے پر رکھ کر دس سے پندرہ منٹ تک پکایا جاتا ہے اور سُنہرا ہونے پر اتار لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پیزا کی طرح ٹکڑے کر کے کھاتے ہیں جب کہ کچھ بیچ میں سے روٹی کی پرت اُٹھا کر مزے سے کھاتے ہیں۔
5- دیرم فِٹی: یہ گندم سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے گندم کو پہلے کچھ عرصہ نمی والی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے جس سے اس میں مِٹھاس آجاتی ہے۔ بعد میں اس کے آٹے سے روٹی بناکر پراٹھے کی طرح خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بادام کا روغن بھی لگاتے ہیں۔ پھر اسی پراٹھے کو ٹکڑے کرکے یا پیس کر دیسی گھی میں پکاکر پیش کیا جاتا ہے۔ نشاستے سے بھرپور یہ غذا ہنزہ میں طاقت ور تصور کی جاتی ہے جسے زیادہ تر کسان کھیتوں میں کام کرنے کے دوران ساتھ لے جاتے ہیں۔
6- مُولیدا: یہ دہی سے بنایا جاتا ہے۔ دہی میں گندم کی روٹی کے باریک ٹکڑے ڈال کر پیاز، نمک، دھنیا ڈالا جاتا ہے۔ مِکس کرنے کے بعد اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور پھر گیری کا تیل ڈال کر بنایا جاتا ہے۔
7- یاک کا گوشت: پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برخلاف یہاں بھینسیں وغیرہ بہت کم ہیں۔ یاک یہاں کا عام اور مشہور جانور ہے۔ یہاں یاک کا دودھ اور گوشت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یاک کا دودھ بہت گاڑھا ہوتا ہے جس سے چائے نہیں بنائی جاسکتی، جب کہ اس کا گوشت مارخور کی طرح تاثیر میں گرم اور گہری لال رنگت کا ہوتا ہے۔
8- بٹرنگ داؤدو: ہنزہ کا روایتی سوپ جو سردیوں میں خوبانی سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سردی کے موسمی امراض اور قبض میں بھی مفید تصور کیا جاتا ہے۔ یہ خشک خوبانیوں میں چینی، پانی اور لیموں کا رس ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سوپ ہنزہ کے ہر گھر میں بنایا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں گلگت بلتستان کی کچھ خاص سوغاتوں کی طرف جو پاکستان کے اس حِصے کا خاصہ ہیں۔

٭ ہُنزہ و نگر کے مشہور پھل
ہُنزہ اور نگر کے پھلوں میں سب سے مشہور چیری ہے جو یہاں وافر مقدار میں اگائی جاتی ہے۔ ہُنزہ کی کالے رنگ کی رس بھری چیری ملک اور بیرونِ ملک تک بھیجی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی خوبانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی میٹھی اور خوش ذائقہ۔ یہاں سیب، اخروٹ، ملبیری اور شہتوت بھی وافر مِلتے ہیں۔
اشکین: پیلے رنگ کی لکڑی نُما یہ جڑی بوٹی بہت اوپر پہاڑوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ مقامیوں کے مطابق یہ جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں انتہائی مفید ہے۔ گرم تاثیر کی وجہ سے اسے تھوڑی مقدار میں دودھ میں مِلا کر پیا جاتا ہے۔ اشکین کا ایک ٹکڑاسو روپے میں بہ آسانی مل جاتا ہے۔
جنگلی حیات: پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات باقی پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ پہاڑی بکرے، یاک، مارکوپولو شیپ، مارخور یہاں کے مشہور جانور ہیں۔ ان کے علاوہ اُڑیال، جنگلی خرگوش، پہاڑی نیولا، مھورا ریچھ، ترکستانی سیاہ گوش، لومڑی، تبتی بھیڑیا اور برفانی چیتا بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں قیام کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں صرف پہاڑی بکرے، بھینسیں، یاک اور خرگوش نظر آتے ہیں۔

٭ موسیقی:
یہاں کی تاریخ کی طرح یہاں کی ثقافت بھی انتہائی زرخیز ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔ اس علاقے کے مسحور کُن مناظر اور بدلتی رُتوں نے یہاں کے لوگوں کے ’’ذوقِ جمال‘‘ کو جِلا بخشی ہے اور فطرت سے ان کی محبت یہاں کی شاعری، موسیقی، رسم ورواج، ادب اور رقص میں بھی جھلکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی موسیقی اور روایتی دھنیں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی موسیقی اور دھنوں سے بالکل مختلف ہیں۔

گلگت، ہُنزہ و نگر کے مشہور سازوں میں رُباب، دُمبق، ڈامل، ڈڈنگ، سُرنائی اور دُف شامل ہیں۔

رُباب یہاں کا سب سے مشہورساز ہے جو مذہبی موسیقی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان میں بھی بجایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کی اِس ساز کا آبائی وطن ’’وسط ایشیا ‘‘ ہے۔ رُباب کو شہتوت کی جڑ اور تنے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر چمڑا لگایا جاتا ہے اور اس میں 6 سے 12 تاریں لگائی جاتی ہیں۔ اِس کا اُوپری حصہ لمبا اور نیچے کا حصہ طنبورے کی طرح ہوتا ہے جس پر بہت سے تار ہوتے ہیں، اس کی دھن کانوں میں رس گھول کر سننے والوں کو مدہوش کردیتی ہے۔ ہُنزہ کے رباب چھوٹے جب کہ دیگر شمالی علاقوں کے بڑے ہوتے ہیں۔ رباب کے ساتھ مقامی طور پر بنی ہوئی دف کا استعمال ہوتا ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے ذریعے اب سنکیانگ اور کاشغر سے بھی دف منگوائے جاتے ہیں۔

سُرنائی بھی اس علاقے کا ایک اہم ساز ہے جو شہنائی کی ہی ایک قسم ہے۔ خوبانی کی لکڑی سے بنے اس ساز میں آٹھ سوراخ ہوتے ہیں جن میں سات سوراخ اوپر اور ایک نیچے کی طرف ہوتا ہے۔
اسے گلگت اور نگر سمیت بلتستان اور چِترال میں بھی بجایا جاتا ہے۔

٭ لِباس:
مرد حضرات کا مخصوص لباس شلوار قمیص اور ہنزہ کیپ ہے جسے اکثر لوگ چترالی ٹوپی بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوورکوٹ جیسا سفید اونی چوغہ بھی بہت مقبول ہے جس پر مختلف رنگوں سے خوب صورت بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔
خواتین کا لباس نہایت دل چسپ ہے۔ یہاں مقامی خواتین کُھلے گھیردار اور کام والے فراک اور اوپر خوب صورت کام والی رنگ برنگی ٹوپیاں پہنتی ہیں۔ بوڑھی خواتین ان ٹوپیوں پر صاف ستھرا سفید دوپٹہ لپیٹتی ہیں جو ان خواتین کو نہایت خوب صورت اور نفیس لُک دیتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اوپر رنگ برنگے دوپٹے پہنتی ہیں۔ زیورات میں زیادہ تر چاندی کے زیور استعمال کیے جاتے ہیں جن میں بڑے چھوٹے مختلف جڑاؤ پتھر اور جواہر لگائے جاتے ہیں۔ یاقوت، لاجورد اور پکھراج کے زیورات زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ تو تھی شاہ راہِ قراقرم کی کہانی۔ وہ سڑک جو پنجاب کے میدانوں سے شروع ہو کر پختونخواہ کے کوہستانوں اور گلگت بلتستان کے بلند وبالا پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی درۂ خنجراب سے ہوکر عوامی جمہوریہ چین تک جاتی ہے۔ یہ صرف ایک روڈ نہیں ہے، یہ گلگت بلتستان کی شہہ رگ ہے، شمال میں پاکستان کی لائف لائن ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شاہ راہِ قراقرم بننے کے بعد سیاحت، ترقی، معاشی بڑھوتری، جِدت، ثقافت کے نئے رنگ، امن اور تمدن نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے۔

The post شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات appeared first on ایکسپریس اردو.

 دستاویزی معیشت کی سمت بڑھتے قدم

$
0
0

یہ 29 مئی 1988ء کی بات ہے، صدر مملکت جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی پارلیمنٹ اچانک تحلیل کردی۔ بجٹ کی آمد آمد تھی۔ سابق وزیر خزانہ میاں یاسین وٹو رخصت ہوئے، تو صدر مملکت نے نیا بجٹ تشکیل دینے کی ذمے داری مشہور ماہر معاشیات اور ’’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس‘‘ کے خالق، محبوب الحق کو سونپ دی۔تب حکومت معاشی مسائل کا شکار تھی۔ حکومتی اخراجات بڑھ رہے تھے جبکہ آمدن میں برائے نام اضافہ ہورہا تھا۔

محبوب الحق سمجھتے تھے کہ آمدن نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکس چوری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس دینے کے لحاظ سے پاکستان میں تین بڑے طبقے ہیں: اول تنخواہ دار طبقہ، دوم متوسط و غریب طبقہ اور سوم ایلیٹ طبقہ جس میں امیر کبیر پاکستانی شامل تھے۔ اول و دوم طبقے تو ہر قسم کے ٹیکس دیتے مگر محبوب الحق کا خیال تھا کہ ایلیٹ طبقے میں شامل کئی پاکستانی اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ لاکھوں پاکستانی اپنا لین دین نقد کرتے تھے اور بہت سے ٹیکس نہ دیتے ۔اس قسم کی معاشی سرگرمی اصطلاح میں ’’غیر دستاویزی معیشت‘‘ (Informal economy) کہلاتی ہے۔

نئے وزیر خزانہ، محبوب الحق نے فیصلہ کیا کہ غیر دستاویزی معیشت میں شامل پاکستانیوں کو ٹیکس نظام میں لایا جائے۔ چناں چہ انہوں نے جون 1988ء میں قومی بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب ملک بھر میں جو لین دین پچاس ہزار روپے سے بڑی رقم کا ہوا، وہ بذریعہ چیک ہوگا۔ یہ شرط عائد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پچاس ہزار روپے سے بڑی ہر رقم کا لین دین بینکوں کے ذریعے دستاویزی شکل میں آجائے۔ اس ڈیٹا کے ذریعے پھر ٹیکس لینے والے قومی ادارے کسی بھی وقت جان سکتے تھے کہ فلاں کمپنی یا فرد ماہانہ یا سالانہ کتنی رقم کا لین دین کرتا ہے۔ اور یہ ڈیٹا پھر افشا کردیتا کہ کمپنی یا فرد اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس دے رہا ہے یا نہیں؟ اس طریق کار سے واقعتاً ٹیکس چوری ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ مگر اس شرط کے خلاف تجار،کاروباری افراد وغیرہ نے طوفان کھڑا کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شرط سے ملک بھر میں کاروباری و معاشی سرگرمیاں سست پڑجائیں گی۔

چھوٹے تاجر اور دکاندار چیک قبول نہیں کریں گے۔ چیکوں کی کلیرئنگ کا عمل بہت وقت ضائع کرے گا۔ ایکسپورٹ کے آرڈر منجمند ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے زبردست احتجاج پر ضیاء الحق حکومت نے پچاس ہزار روپے سے زیادہ رقم کا لین دین بذریعہ چیک کرنے کی شرط اگلے بجٹ تک ملتوی کردی… مگر وہ کبھی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ گیارہ سال بعد ایک اور جرنیل، پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو دستاویزی معیشت میں لانے کی کوششیں کیں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ان دو مثالوں سے عیاںہے کہ پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت میں شامل افراد اتنے طاقتور ہوگئے کہ فوجی حکومتیں بھی انہیں شکست دے کر دستاویزی اکانومی میں نہیں لاسکیں۔ اب پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی معیشت سے نبرد آزما ہے اور اس کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔تاجروں اور کاروباریوں کی کئی تنظیموں نے ہڑتالیں کر ڈالیں۔

غیر دستاویزی معیشت کا پھیلاؤ

ماہرین معاشیات کی رو سے پچھلے پچاس برس میں غیر دستاویزی معیشت پاکستان کے جی ڈی پی(خام قومی آمدن) کا ’’40 سے 70 فیصد ‘‘تک حصہ بن چکی۔ دستاویزی اور غیر دستاویزی معیشت کے مابین دو فرق نمایاں ہیں۔ اول یہ کہ حکومت کے پاس غیر دستاویزی معیشت میں جاری معاشی سرگرمیوں اور لین دین کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ غیر دستاویزی معیشت میں کاروبار کرتے لوگ زیادہ سے زیادہ چند ’’بالواسطہ‘‘ ٹیکس (Indirect Tax) دیتے ہیں۔ یہ افراد کسی قسم کے’’براہ راست‘‘ ٹیکس (Direct tax) ادا نہیں کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر غیر دستاویزی معیشت کا لین دین دستاویزی ہو جائے اور سبھی پاکستانی ایمان داری سے ٹیکس دیں تو حکومت پاکستان کو ہر سال ٹیکسوں کی مد میں چار ہزار ارب روپے کے بجائے آٹھ نو ہزار ارب روپے تک آمدن ہوسکتی ہے۔

غیر دستاویزی معیشت ناجائز معاشی سرگرمی ہے۔ اس معیشت میں موجود کوئی پاکستانی حلال طریقے سے بھی کمارہا ہے مگر ٹیکس نہیں دیتا، تو شرع اور قانون کی نظر سے مجرم قرار پائے گا۔ بہ حیثیت شہری وہ ٹیکس ادا نہ کرکے ریاست سے بدعہدی کرتا ہے۔ غیر دستاویزی معیشت حکومت کو سالانہ کھربوں روپے کی آمدن سے محروم کردیتی ہے جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والے کئی پاکستانی مال و دولت میں کھیلتے ہیں۔ گویا معاشرے کے ایک طبقے میں ارتکاز دولت جنم لیتا ہے جوشرعی و قانونی لحاظ سے جائز نہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت کا یہ غیرقانونی روپ کس طرح پھل پھول گیا؟اس ملک دشمن سرگرمی کو حکمران طبقے(خصوصاً سیاست دانوں اور بیوروکریسی)کی کرپشن، حکومت پر عوام کی بداعتمادی اور انسانی لالچ وہوس کے سبب جڑیں پھیلانے میں کامیابی ملی۔گویا اسے جنم دینے میں حکومت اور عوام،دونوں نے حصہ لیا۔ظاہر ہے،تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

سرکاری دفاتر میں رشوت کے لعنتی چلن نے غیر دستاویزی معیشت کو رواج دیا۔ پاکستانیوں نے جب دیکھا کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا ایک حصہ انتظامیہ کے لوگ کھا جاتے ہیں تو وہ ٹیکس دینے سے کترانے لگے۔اس صورت حال سے بے ایمان پاکستانی تو خوش ہوئے کہ پیسہ بچ رہا ہے۔ جو ایماندار تھے وہ اپنے ٹیکسوں کی رقم بطور چندہ فلاحی تنظیموں کو دینے لگے تاکہ پیسہ کسی نیک مقصد میں کام آ سکے۔ رفتہ رفتہ دیگر پاکستانی بھی،جن میں کرپٹ سرکاری افسر،سیاسی رہنما،جرائم پیشہ اور دہشت گرد شامل تھے، اس سرگرمی میں شریک ہوگئے اور یوں وطن عزیز میں غیر دستاویزی معیشت رواج پا گئی۔

آج ساڑھے چار کروڑ پاکستانی اس معیشت سے وابستہ ہیں۔یہ مگر متنازع معاشی سرگرمی ہے۔ اس میں شامل پاکستانیوں کی اکثریت کئی اقسام کے ٹیکس نہیں دیتی جو بہر حال شریعت ‘ قانون اور اخلاقیات کے لحاظ سے ناجائز عمل ہے۔ اگر حکومت کرپٹ ہے بھی تو ا یک مسلمان کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آمدن کے لحاظ سے سبھی ٹیکس ادا کرے یعنی وہ اپنا فرض تو انجام دے ۔ آخر یوم حشر ہر مسلمان کو اپنے اپنے اعمال اور نیکی و بدی کا حساب دینا ہے ۔ کیا وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائے گا کہ اُس نے اِس لیے ٹیکس نہ دیئے کہ حکمران طبقہ کرپٹ تھا؟

پی ٹی آئی حکومت پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقے کی تجوریوں میں نہیں جائے گی بلکہ وہ ملک و قوم کو ترقی دینے ‘ قرضے اتارنے ‘ دفاع مضبوط بنانے اور عوامی فلاحی منصوبے شروع کرنے پر خرچ ہو گی۔ ٹیکس اکھٹے کرنے والے سرکاری ادارے،ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا بھی اعلان کیا گیا۔موجودہ حکومت پر کرپشن کے الزامات نہیں‘ اسی لیے دیگر سیاسی پارٹیوں کی نسبت عوام اس پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔

آنے والوں برسوں ہی میں حکومت کی کارکردگی واضح کرے گی کہ وہ ایمان دار ہے یا نہیں۔حکومت وقت نے بہرحال غیر دستاویزی معیشت کا حصّہ بنے اہل وطن کو دستاویزی معیشت میں لانے کی خاطر کئی اقدامات کیے۔ مثلاً ایمنسٹی سکیم شروع کی گئی تاکہ پاکستانی اپنی غیر قانونی جائیدادیں و دولت ظاہر کر دیں۔ ساتھ ساتھ حکومت نے ایسے قانونی اقدامات بھی کیے کہ وہ غیر دستاویزی معیشت میں شامل کرپٹ افراد کا جینا کٹھن بنا دیں۔ مثلاً بینک اکاؤنٹس کی پڑتال کی گئی۔ آڑھتیوں کا لین دین چیک کیا گیا۔ مدعا یہ ہے کہ ان امیر پاکستانیوں کو ٹیکس نظام میں لایا جائے جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ان لوگوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارنے کی باتیں بھی ہوئیں جس سے ملک میں خوف کی فضا نے جنم لیا۔

معاشی سرگرمی کا پہیہ جام

مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس میں نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں مرد و زن غیر دستاویزی معیشت کا حصہ بن چکے۔ درحقیقت یہی پاکستان میں روز گار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ جب پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی معیشت میں شامل امرا اور بڑے مگرمچھوں کے خلاف سرگرم ہوئی تو انہوںنے اپنا پیسہ نکال لیا یا منجمند کر دیا۔ یعنی لین دین بند کر دیا گیا کیونکہ حکومت اسی پیسے اور لین دین کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔ سرمایہ منجمد ہونے سے غیر دستاویزی معیشت میں جاری بیشتر معاشی و کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو گئیں۔

نتیجہً بہت سے افراد بیروز گار ہو گئے یا پھر جزوقتی ملازمتیں کر کے پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوست کرنے لگے۔ اسی دوران آمدن بڑھانے کے لیے حکومت نے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح بڑھائی بلکہ اہم اشیا مثلاً پٹرول‘ بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ اس عمل سے مہنگائی بڑھ گئی۔یوں غیر دستاویزی معیشت کا حصہ بنے لاکھوں غریب مردوزن سرمائے کے منجمند ہونے اور مہنگائی بڑھنے کے درمیان سینڈوچ بن گئے اور شدید طور پر متاثر ہوئے ۔بہت سے پاکستانیوں کے لیے ایک وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی کٹھن مرحلہ بن گیا۔ گویا وہ کرپٹ امرا اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں پس کر رہ گئے۔

بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حکومت وقت کو غیر دستاویزی معیشت نابود کرنے کے اقدامات بتدریج ‘ رفتہ رفتہ کرنے چاہئیں تھے۔ حکومت نے اچانک غیر قانونی معاشی سرگرمیوں پر ہلّہ بول دیا جس سے ملک بھر میں بے چینی پھیل گئی۔ اس سے عوام میں حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات و احساسات نے جنم لیا… حالانکہ حکومتی اقدامات اصولی و قانونی طور پر درست ہیں۔ بہتر تھا کہ حکومت سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتی ۔ نبی کریم ﷺ پر جب وحی اتری تو آپﷺ تین سال تک قریش مکہ کے مابین خفیہ انداز میں تبلیغ فرماتے رہے۔ آپ ﷺ عظیم ترین نبی تھے۔ آپﷺ کے دائرہ اختیار میں سب کچھ تھا مگر آپ ﷺ کفار پر کفر و شرک کی خامیاں اجاگر کرتے رہے تاکہ وہ راہ راست پر آ جائیں۔

تین سال بعد آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو تب بھی عجلت اور جلد بازی سے پرہیز فرمایا۔ حتیٰ کہ آپﷺ کی مساعی جمیلہ سے نور اسلام صحرائے عرب میں پھیلنے لگا۔ غرض آپﷺ نے یک لخت کفار کا غیر قانونی و غیر اخلاقی مذہبی و معاشی نظام تلپٹ نہیں کیا بلکہ تدبر و حکمت سے کام لے کر بتدریج اسے ملیا میٹ کر دیا۔اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کو بھی رفتہ رفتہ غیر دستاویزی معیشت ختم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیں تاکہ خصوصاً نچلے و متوسط طبقوں کے افراد اس عظیم الشان تبدیلی سے کم سے کم متاثر ہوں۔پچاس برس سے چلے آ رہے مالی و معاشی نظام کو یک لخت ختم کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔

پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت اس لحاظ سے منفرد و انوکھی ہے کہ یہ قومی معیشت کے ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت اختیار کر چکی ۔ وطن عزیز کی ’’70تا 75 فیصد‘‘ افرادی قوت اسی سے وابستہ ہے۔ حتیٰ کہ دستاویزی معیشت میں شامل بہت سے کاروبار بھی اسی کے سہارے چلتے ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی اکانومی کے خلاف سرگرم ہوئی‘ تو قومی معیشت جام سی ہو گئی۔

حیرت انگیز طور پر بہت سے ایماندار اور اصول و قانون کے پکے پاکستانی بھی غیر دستاویزی معیشت کو ناجائز نہیں سمجھتے ۔ یہ نظریہ جنم لینے کی بنیادی وجہ افسوسناک حکومتی کارکردگی ہے۔مثال کے طور پر ہر شہری کو صحت و تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سرکاری ہسپتالوں اور اسکولوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی ختم نہیں ہو سکی۔ سڑک کسی جگہ سے ٹوٹ جائے تو کئی ماہ اس کی مرمت نہیں ہوتی ۔کوئی شہری کسی مقدمے میں پھنس جائے تو پھر پولیس اور عدالتوں کا تعلق اسے تلخ تجربات سے دو چار کرتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں۔ غرض حکومت کے جو فرائض اور ذمے داریاں ہیں‘ وہ انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی ۔ یہی مایوس کن کارکردگی دیکھتے ہوئے کئی پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹیکس کیوں ادا کریں ؟ جبکہ اس طرز فکر سے لالچی و کرپٹ پاکستانی فائدہ ا ٹھاتے ہیں کہ انہیں ناجائز طور پہ دولت جمع کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

صرف ساڑھے سات لاکھ پاکستانی

اعداد و شمار کے مطابق بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ساڑھے سات لاکھ پاکستانی صحیح معنوں میں ٹیکس دہندہ ہیں۔ ان میں سے بھی ’’صرف تین فیصد‘‘ ٹیکسوں کی کل رقم کا ساٹھ فیصد ادا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ نہایت کم تعداد ہے ۔اسی طرح ایک لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے صرف نصف ٹیکس ریٹرن فائل کرتی ہیں۔جبکہ بیشتر ٹیکس صرف ساڑھے تین سو کمپنیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مزید براں جو پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں‘ ان میں سے کئی لوگ ایمان داری نہیں دکھاتے اور کسی نہ کسی طرح رقم بچا لیتے ہیں۔ اسی ٹیکس چوری کا نتیجہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنی کل آمدن میں سے صرف’’ 9 فیصد‘‘ رقم ٹیکسوں کے ذریعے ملتی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں یہ شرح 30 تا 55 فیصد کے مابین ہے۔

مثلاً ناروے کی حکومت اپنی آمدنی کا 55فیصد ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہے۔ فن لینڈ (55فیصد) ‘ ڈنمارک (51فیصد) ‘ سویڈن (50فیصد) ‘ فرانس (48 فیصد)‘ جرمنی (45 فیصد) وغیرہ میں بھی یہ شرح بہت بلند ہے۔ جو عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال یاخانہ جنگی کا شکار ہیں‘ صرف وہیںٹیکسوں کی شرح آمدن بہت کم ہے۔ مثلاً متحدہ عرب امارات میں یہ صفر ‘ سعودی عرب میں 5.3 فیصد اور خانہ جنگی میں مبتلا لیبیا میں 2.7 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ شرح 19فیصد ہو چکی ۔ ترقی یافتہ ممالک میںآبادی کا بہت بڑا طبقہ ٹیکس دیتا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک مثلاً بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش میں بھی بہ لحاظ آبادی زیادہ شہری پاکستانی شہریوں کی نسبت ٹیکس دیتے ہیں۔

ٹیکسوں کی رقم کم ملنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک وقوم مقروض ہو جاتے ہیں۔ حکمران آمدن کم ہونے کی بنا پر عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں تاکہ حکومتی اخراجات پورے کر سکیں۔ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو اس پر چند ارب روپے کا کُل قرضہ تھا۔ حکمران طبقے نے قرضے لینے شروع کیے‘ تو جلد ادھار کی لعنت نشہ بن کر ان سے چمٹ گئی۔بعد ازاں ذاتی مفادات پورے کرنے کی خاطر بھی قرضے لیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ آج پاکستان پر قرضوں کی مجموعی رقم بتیس ہزار ارب روپے سے بڑھ چکی۔

اگرملک و قوم پر قرضے بڑھتے چلے گئے تو خدانخواستہ پاکستان قرض دینے والے عالمی و مقامی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن سکتا ہے اور اس کی خودمختاری و آزادی کو شدید ضعف پہنچے گا۔درج بالا خطرے کا احساس کرتے ہوئے غیر دستاویزی معیشت میں شامل ہر محب وطن پاکستانی کو چاہیے کہ وہ قومی ٹیکس نظام کا حصہ بن جائے۔ قانون پر عمل کرنے سے ذہنی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ضمیر بھی مطمئن رہتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی حکومت نے بھی تمام پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم جائز سرگرمیوں پر خرچ ہو گی۔ کرپشن ہرگز وہ رقم ہڑپ نہیں کر سکتی۔باہمی اعتماد بڑھنے کے باعث ہی پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت اتنا سکڑ سکتی ہے کہ وہ قومی معیشت کے لیے نقصان دہ اور خطرہ نہ رہے۔

غیر دستاویزی معیشت کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حکومت نہ صرف بہت سے بالواسطہ ٹیکس عوام پر ٹھونس دیتی بلکہ ان کی شرح بھی زیادہ رکھی جاتی ہے۔بالواسطہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین کوئی تمیز نہیں کرتے اور سبھی کو ایک جیسی شرح کے مطابق رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ا مرا تو باآسانی یہ ٹیکس دیتے ہیں مگر غریبوں پر مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔

گویابالواسطہ ٹیکس نچلے و متوسط طبقات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان میں بھی بالواسطہ ٹیکسوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان میں سیلز ٹیکس ‘ ودہولڈنگ ٹیکس‘ کسٹم ڈیوٹیاں اور سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں نمایاں ہیں۔ وفاقی ‘ صوبائی اور مقامی … حکومت کی تینوں سطحوں میں مختلف اقسام کے بالواسطہ ٹیکس موجود ہیں جو غریب پر خوامخواہ کا مالی بوجھ ڈالتے ہیں۔ ٹیکس چوروں اور کرپٹ پاکستانیوں کے جرم کی سزا انہیں بھگتنا پڑتی ہے۔ حکومتوں نے کاروباری افراد پر بھی براہ راست ٹیکسوں کے علاوہ کئی بالواسطہ ٹیکس تھوپ رکھے ہیں۔ کاروباری تو ان ٹیکسوں کی رقم اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر پا لیتے ہیں مگر یہ عمل ملک میں مہنگائی بڑھا دیتا ہے۔حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ’’75‘‘فیصد آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے ہی ملتی ہے۔

عادلانہ و منصفانہ ٹیکس نظام

پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کا ٹیکس نظام عادلانہ اور منصفانہ بنائے۔ اس نظام میں بیشتر آمدن براہ راست ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس‘ ویلتھ ٹیکس‘ کارپوریٹ ٹیکس ‘ پراپرٹی ٹیکس‘ گفٹ ٹیکس وغیرہ سے حاصل کی جائے۔امیر طبقہ ہی یہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔جبکہ بالواسطہ ٹیکس کم سے کم رکھے جائیں، نیز عام استعمال کی اشیا کو سیلز ٹیکس سے مبرا رکھا جائے۔ دنیا بھر میں ٹیکسوں کا یہی منصفانہ نظام رائج ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کو بنیادی طورپر انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ذریعے آمدن ہوتی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کمپنیوں جبکہ سیلز ٹیکس پُرتعیش اشیا پہ لگتا ہے۔

عام استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کم رکھی جاتی ہے۔ کینیڈا میں امرا پر انکم ٹیکس کی شرح 58 فیصد ہے۔ گویا کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی نے بالفرض سال میں ایک ارب روپے کمائے تو اس رقم سے 58 کروڑ روپے بطور انکم ٹیکس اسے کینیڈین حکومت کو دینا پڑیں گے۔ دیگر ممالک میں انکم ٹیکس کی بالائی شرح یہ ہے… سویڈن 57 فیصد، جاپان 56 فیصد، ڈنمارک 56 فیصد، اسرائیل 50 فیصد، چین 45، پاکستان 31 فیصد اور بھارت 30 فیصد۔ بھارت میں جو شخص سالانہ ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ کمائے، اسے انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ دار کے لیے یہ شرح چھ لاکھ جبکہ غیر تنخواہ دار پاکستانی کے واسطے چار لاکھ روپے ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں شہری اطمینان و سکون سے ٹیکس دیتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقہ ہڑپ نہیں کر سکتا بلکہ وہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ پھر انہیں کئی سرکاری سہولیات مفت بھی ملتی ہیں۔ مثلاً ہسپتالوں میں مفت علاج، مفت ابتدائی تعلیم، فوری انصاف، بیروزگاری الاؤنس وغیرہ۔ مزید براں جو شہری دھوکے بازی سے ٹیکس نہ دیں، حکومت زبردستی ان سے رقم نکلوالیتی ہے۔ وجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں معیشت سو فیصد تک دستاویزی ہوچکی۔ بیشتر ممالک میں آپ سو ڈیڑھ سو ڈالر جتنی رقم کا ہی نقد لین دین کرسکتے ہیں۔

بڑی خریداری کی صورت میں لین دین بذریعہ چیک یا کریڈٹ کارڈ ہوگا۔ نیز خریدار کو اپنی شناخت کروانا ہوگی۔ دستاویزی معیشت کے باعث حکومت ہر شہری کی آمدن اور اخراجات سے باخبر رہتی ہے اور اس بات سے بھی کہ وہ کتنا ٹیکس دے رہا ہے۔ کوئی شہری آمدن و خرچ کے حساب سے ٹیکس نہ دے تو فوراً پکڑا جاتا ہے۔ اکثر ممالک میں ٹیکس چوری پر مجرم کو نہ صرف بھاری جرمانہ ہوتا بلکہ اسے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ نیز معاشرے میں ذلت و خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔ پھر کوئی اس سے لین دین کرنا پسند نہیں کرتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں گویا ٹیکس چوری ایک بہت بڑا جرم ہے جس کے مرتکب فرد سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔

حالیہ قومی بجٹ میں پی ٹی آئی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا۔ صنعت کاروں، تاجروں اور کاروباری افراد کو کہا گیا کہ وہ ٹیکس نظام سے باہر جس غیر رجسٹرڈ شخص سے پچاس ہزار روپے سے زائد مالیت کا لین دین کریں، تو اس کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی اور لین دین کی تفصیل ایف بی آر کو فراہم کریں۔ مگر کاروباری طبقے نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ تجویز پر عملدرآمد سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی۔ بعض کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ یہ تجویز تین چار ماہ تک موخر کردی جائے۔

وی آئی پی کلچر کا خاتمہ

پاکستان کے ٹیکس گزاروں کی ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ حکمران طبقہ محنت مشقت سے کمائی ان کی رقم کی قدر نہیں کرتا۔ یہ رقم ٹیکسوں کی صورت حکمران طبقے کو ملتی ہے مگر وہ اسے اپنے اللے تللوں اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پر اڑا دیتا ہے۔ مثلاً جو بھی نئی حکومت آئے، تو اس کا ہر وزیر مشیر اپنے دفتر کی تزئین و آرائش اور نئی گاڑیاں خریدنے پر کروڑوں روپے خرچ کردیتا ہے۔ غیر ملکی دوروں میں بھی ٹیکس گزاروں کی رقم بے دردی سے خرچ کی جاتی ہے اور حکومتی ارکان غیر ممالک میں شاہانہ طرز رہائش اختیار کرتے ہیں۔

گویا غریب ٹیکس دہندگان کی رقم حکومت کو پالنے پوسنے میں صرف ہوجاتی ہے۔پاکستان میں فی الوقت 197 سرکاری ادارے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے دس پندرہ کو چھوڑ کر بقیہ خسارے میں ہیں۔ یہ ادارے ہر سال اربوں روپے پی جاتے ہیں مگر بدلے میں منافع نہیں دیتے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں پی آئی اے، کوئٹہ الیکٹرک کمپنی، حیدر آباد الیکٹرک کمپنی، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر الیکٹرک کمپنیاں شامل ہیں۔ او جی ڈی سی ایل اور نیشنل بینک سب سے زیادہ منافع کمانے والے سرکاری ادارے ہیں۔

حکومت پاکستان نئے مالی سال میں ٹیکسوں کے ذریعے ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کی خاطر حکومت نے بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی جس سے متوسط و غریب طبقوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایلیٹ طبقے سے ٹیکسوں کی زیادہ رقم حاصل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرتی مگر ریاست مدینہ بنانے کے دعویٰ داروں نے حسب روایت تنخواہ دار اور متوسط و غریب طبقات ہی کو آمدن بڑھانے کے لیے قربانی کا بکرا بنالیا۔ اس عمل سے عوامی سطح پر حکومت مخالف جذبات جنم لیں گے۔

یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ بظاہر غریب نظر آنے والے کئی پاکستانی دراصل امیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی وضع قطع ایسی رکھی ہوتی ہے کہ وہ غریب دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو ایک ٹھیلا چلا کر روزانہ ہزارہا روپے کماتے ہیں مگر کچھ بالواسطہ ٹیکسوں کے علاوہ کوئی انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس وغیرہ ادا نہیں کرتے۔ ان کی ٹیکس چوری کا خمیازہ پھر خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے جسے ہر حال میں براہ راست اوربالواسطہ، دونوں اقسام کے ٹیکس ادا کرنے ہیں۔

بعض پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ٹیکس نظام غیر اسلامی ہے کیونکہ ایک اسلامی حکومت میں ٹیکس نہیں پائے جاتے۔ یہ گمراہ کن سوچ ہے، اسلامی حکومت بھی ٹیکس لگاتی ہے تاہم ان کی نوعیت مختلف ہے۔ ظاہر ہے، دفاع مضبوط کرنے اور دیگر امور مملکت چلانے کی خاطر اسلامی حکومت کو بھی سرمایہ درکار ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ اسلامی حکومت بذریعہ ٹیکس اتنی ہی رقم وصول کرے جتنی اسے ضرورت ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں تو حکومتیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی لت میں گرفتار ہوچکیں۔ وجہ یہ کہ وہ آمدن کے لحاظ سے اخراجات نہیں کر پاتیں۔یہ صورت حال جنم لینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ دور جدید کا انسان مادی خواہشات کے پھندے میں پھنس چکا۔ قناعت و سادگی کو خیرباد کہہ کر اس نے لالچ و ہوس سے ناتا جوڑ لیا۔

اب وہ اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے جائز و ناجائز اقدامات کرنے کو تیار ہے۔ حالانکہ سوچا جائے تو ایک انسان کو روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے؟ مادی خواہشات سے پاک ایک انسان تو دو وقت کی روٹی کھا کر بھی اپنے ذہنی و جسمانی افعال درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ مگر خواہشات میں پھنسا انسان روزانہ کروڑوں روپے بھی کمائے، تو اس کی ہوس ختم نہیں ہوتی ۔ ایسے انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ چاہے کھربوں کمالے، دنیا میں خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی دامن لیے ہی جائے گا۔

پی ٹی آئی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت ختم کرنے کی مہم چلا کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیئے۔ اس دوران حکومت سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ مثلاً پکانے کے تیل، چینی اور دیگر ایسی اشیا پر ٹیکس بڑھا دیا گیا جسے متوسط و غریب طبقہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن ریاست اب معیشت کو دستاویزی بنانے کا فیصلہ کرچکی۔ طویل المعیاد لحاظ سے ملک و قوم کے لیے یہ خوش آئند فیصلہ ہے۔

لہٰذا تمام پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرکے قانونی و اخلاقی فرض انجام دیں۔ اسی طرح ملک و قوم کو ترقی دینا اور خوشحال و مضبوط بنانا ممکن ہو گا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس دینے لینے کا طریق کار آسان بلکہ کمپیوٹری بنا دے تاکہ کسی قسم کی باہمی کرپشن کا امکان نہ رہے۔ جو پاکستانی ٹیکس چور رہنا چاہتے ہیں ،انہیں دین و دنیا میں اپنے بدانجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

The post  دستاویزی معیشت کی سمت بڑھتے قدم appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنی تخلیقات اور ایجادات کو چوری ہونے سے کیسے بچائیں؟

$
0
0

’حقوق املاک دانش‘کہنے کو یہ صرف تین لفظ ہیں۔ یہ تین جادوئی لفظ، ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے ایسے محافظ ہیں جن سے ہم کبھی مستفید ہی نہیں ہوسکے، یہ تین جادوئی لفظ ایسی دولت کے نگہبان ہیں جس کی ہمیں قدر ہی نہیں، ہمارے گلی کوچوں، اسکول و جامعات میں علم و ہنر کے ایسے ایسے قیمتی موتی بکھرے پڑے ہیں، جنہیں اپنی قدر خود ہی نہیں، دہشت گردی، ظلم و ستم اور غربت کے خمیر سے اٹھنے والی ہماری نئی نسل کو شاید اس بات کا تو بخوبی علم ہے ‘ کہ وہ کوئلے کی سیاہی میں چھپے ایسے ہیرے ہیں۔

جنہیں محض تھوڑا سا تراشنے کی ضرورت ہے، پھر یہ اپنی آب و تاب سے دنیا بھر کی آنکھوں کو خیرہ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود سے ناآشنا ہماری نئی نسل اپنی تمام تر توانائیوں کو وقتی فوائد کے لیے تباہ کر رہی ہے۔ ہم ایسے سُر تخلیق کرتے ہیں جو ہجر کو وصل اور وصل کو ہجر میں تبدیل کردیں۔ ہم جب کینوس پر برش چلاتے ہیں تو ہمارے کردار زندگی کی عملی تصویر بن کر رقصاں دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جب قلم اٹھاتے ہیں تو تحریر میں ایک ایک لفظ کو موتی کی طرح پُرو دیتے ہیں۔ شاید ہمارے نوجوانوں کے لیے ہی علامہ اقبال نے یہ شعر کہا ہے؛

’آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ بھی تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو

ہمارے نوجوان اس وقت دنیا بھر میں ڈیزائننگ، مصوری کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی فری لانس کام کرکے فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، لیکن ان کی ساری محنت کا صلہ، ان کی ساری تخلیقی صلاحیتوں کا کریڈٹ بین الاقوامی ادارے لے رہے ہیں، دوسرے ممالک، ادارے ہمارے نوجوانوں کی ذہانت، جمالیاتی حس، تخلیقی صلاحیتوں اور آئیڈیاز پر نقب لگا رہے ہیں اور ہم اس بات سے دانستہ یا نادانستہ طور پر لاعلم بیٹھے ہیں۔ اسٹیوجابز کا ایک مشہور قول ہے

’چیزوں کی چوری ہر ایک کا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس عقل و دانش کی بہت زیادہ دولت ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ لوگ اسے چُرائیں۔ لوگ چیزیں چُرا رہے ہیں اور ہم خوش فہمی میں ہیں، ہمیں یقین ہے کہ اسی فی صد لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ جو چیز چُرا رہے ہیں اس کا کوئی قانونی متبادل بھی نہیں ہے۔‘

ہم جانتے ہی نہیں ہیں کہ ’انٹیلکچوئل پراپرٹی‘ قانون کی شکل میں ہم دنیا کے 177ممالک میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے کا بلاشرکت غیرے مالک ہیں۔ ہم آئے دن خبروں میں سنتے رہتے ہیں کہ فلاں بھارتی موسیقار نے جو گیت گایا ہے وہ پاکستانی گلوکار کا ہے، اس کا مصنف پاکستانی ہے۔ فلاں کمپنی کا لوگو ہمارے ملک میں چند ڈالر میں بنواکر آگے ہزاروں ڈالر میں فروخت کیا گیا لیکن ہم سب کچھ جانتے بوجھتے بھی مذکورہ فرد یا ادارے کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے کے اہل ہی نہیں کیوں کہ جب ہم نے اپنے ہی کام کو اپنے نام سے آئی پی او میں رجسٹرڈ کروا کر ’حقوق املاک دانش ‘ کو تحفظ فراہم نہیں کیا تو پھر ہم کس بنیاد پر اس پر ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟

ہماری عقل و دانش، ہماری تحریر، ہماری تصویر، ہماری تخلیق کی چوری میں خود ہمارے پاکستانی ہی پیش پیش ہیں تو پھر ہم دوسرے ممالک سے کیا شکوہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں ’حقوق املاک دانش‘ پر سب سے زیادہ نقب کتابوں اور رسائل پر لگائی جاتی ہے۔ کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک اور پیٹینٹ کے قوانین اور معتبر سائنسی جریدے ’ گلوبل سائنس‘ کے چیف ایڈیٹر علیم احمد سے مواد کی چوری پر کی گئی گفت گو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

٭بے حس قاری، بے رحم ٹیکنالوجی اور علمی حقوق کی پامالی

علمی مواد کی چوری نے ایک طرف تو رسد میں اضافہ کرکے علم کی طلب میں کمی کردی ہے تو دوسری طرف چوری شدہ مواد کے مفت میں مل جانے کی وجہ سے علم کی قدرومنزلت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مجھے ڈیجیٹل دنیا سے کوئی شکایت نہیں لیکن اسی ڈیجیٹل سرقے بازی نے ہمارے ہاں روایتی ذرائع ابلاغ (ٹریڈیشنل میڈیا) کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

آج سے تقریباً دس سال پہلے کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے بازار میں دست یاب مختلف کتابیں اسکین کرکے انٹرنیٹ پر رکھنا شروع کردیں، تاکہ ان دنوں نئے نئے وجود میں آنے والے ’’گوگل ایڈسینس‘‘ پروگرام سے فائدہ اٹھاسکیں اور ڈالر کما سکیں۔ تاثر یہ دیا گیا کہ ہمارا مقصد تو علم کا فروغ ہے۔ البتہ، کچھ عرصے بعد ہی تازہ ترین رسائل و جرائد کی اسکیننگ کرکے انہیں بھی انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنا شروع کردیا گیا۔ بعض ستم ظریف تو ایسے تھے کہ انہوں نے نہ صرف کتابوں اور رسائل کی غیرقانونی اسکیننگ کی، بلکہ پی ڈی ایف بناتے وقت ان پر اپنے ادارے کا ’’واٹر مارک‘‘ بھی لگا دیا کہ جیسے وہ ان کے ادارے کی ملکیت ہو۔ انٹرنیٹ سے پیسہ کمانے کی اس روِش نے بطورِخاص کتابوں اور رسائل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

لیکن ’’مَرے کو مارے شاہ مَدار‘‘ کے مصداق، ٹیکنالوجی کی ترقی سے پاکستان میں علمی حقوق سے وابستہ مسائل بڑھتے ہی گئے۔ تازہ شائع شدہ کتب نہ صرف اسکین کرکے پی ڈی ایف میں تبدیل کی جانے لگیں بلکہ واٹس ایپ گروپس میں بڑی فراخ دلی سے مفت میں تقسیم بھی کی جانے لگیں۔ جو شخص کچھ رقم خرچ کرکے کتاب خریدنے کی سکت رکھتا تھا، وہ اس لیے کتاب خریدنے سے باز رہا کیوں کہ اسمارٹ فون پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے؛ اور اسمارٹ فون پر موجود پی ڈی ایف کو اس لیے نہیں پڑھتا کہ کتاب کہاں بھاگی جارہی ہے… جب فرصت ملے گی تو پڑھ لیں گے!

ٹیکنالوجی کے ہاتھوں علمی حقوق کی پامالی کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بہت سے معیاری رسائل بند ہوچکے ہیں، کیوں کہ قارئین کی بڑی تعداد انہیں چوری شدہ پی ڈی ایف کی شکل میں پڑھ لیا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں، تفریحی اور افسانوی طرز کے مشہور جرائد بھی پہلے کی نسبت آج صرف 40 فی صد ہی فروخت ہوپارہے ہیں؛ البتہ یہ رسائل و جرائد اپنے اخراجات کا بڑا حصہ اشتہارات سے پورا کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا خسارہ ایک خاص حد سے نہیں بڑھ پاتا۔ لیکن پاکستان سے شائع ہونے والے بیشتر جرائد یا تو بند ہوچکے ہیں یا پھر بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کتابوں کا معاملہ تو اس سے بھی خراب ہے۔

اگر ہم 2000ء یا اس کے آس پاس کا جائزہ لیں تو اگر کوئی کتاب ایک ہزار سے دو ہزار کی تعداد میں بھی فروخت ہوجاتی تھی، اسے کام یاب قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن آج یہ پیمانہ سمٹ کر صرف 200 کتب کی فروخت تک محدود ہوگیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، کتاب کی اشاعت آج کل ہر اعتبار سے خسارے کا سودا رہ گیا ہے۔ علمی حقوق کی چوری کے معاملے میں قاری کا رویہ سب سے زیادہ خراب اور حوصلہ شکن ہے۔

پچھلے سال راقم نے اسٹیفن ہاکنگ کی آخری کتاب کا ترجمہ کیا۔ جب وہ کتاب (بڑے سوالوں کے مختصر جواب) شائع ہوئی تو بہت سے لوگوں نے ’’مفت پی ڈی ایف مل جائے گی؟‘‘ کی فرمائش کی؛ اور جب کسی سے کہا کہ وہ کتاب خرید لے تو جواب میں انتہائی بیہودہ کلمات سننے کو ملے۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اگر آپ نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب ترجمہ کی ہے تو کون سا احسان کیا ہے؟ یعنی ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری!

پرنٹ میڈیا تو مغرب میں بھی دم توڑ رہا ہے، لیکن وہاں ڈیجیٹل میڈیا نہ صرف اس کے ایک آسان اور تیزرفتار متبادل کے طور پر جگہ لے چکا ہے بلکہ قلم کاروں اور اشاعتی اداروں کے لیے معقول آمدن کا ذریعہ بھی بن رہا ہے… کیوں کہ وہاں علمی حقوق کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر قارئین کی اکثریت ’’ای بُکس‘‘ کو خرید کر پڑھتی ہے۔

جس سے لکھنے والے کی بھی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے اپنی علمی کاوش کا مناسب معاوضہ بھی ملتا ہے۔ ہمارے پاس وہ ساری ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی بدولت ہم ڈیجیٹل میڈیا کو فروغ دے سکیں، لیکن ہمیں اپنے قارئین کو بھی یہ سمجھانا پڑے گا کہ وہ مفت پی ڈی ایف کے نام پر علمی حرام خوری کرنے کے بجائے اپنی جیب سے رقم خرچ کرکے کتب پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ یقین کیجیے کہ اگر ہمارے یہاں بطورِخاص کتب نویسی کے حوالے سے علمی حقوق کی پامالی اور اس جانب سے برتی جانے والی بے حسی اور بے رحمی والی روِش ختم نہ کی گئی تو شاید آنے والی نسلوں میں ہمارے پاس انسانی شکل و صورت والے حیوانوں کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

٭ٹریڈمارک اور اس کے حصول کا طریقۂ کار

انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان کے مطابق کوئی بھی ایسا لفظ، جملہ، علامت یا ڈیزائن جو کسی بھی جنس (گڈز) کے منبع کو دوسرے فریق سے جداگانہ حیثیت یا فرق ظاہر کرے اسے ’ٹریڈ مارک‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسا لفظ، جملہ، علامت یا ڈیزائن جو کسی بھی خدمت (سروس) کے منبع کو دوسرے فریق سے جداگانہ حیثیت یا فرق ظاہر کرے اسے ’سروس مارک‘ کہا جاتا ہے۔ رومن سلطنت میں لوہار اپنی تیار کردہ تلواروں پر ایک مخصوص مہر لگایا کرتے تھے، اور مورخین کے خیال میں یہ دنیا کا پہلا ٹریڈ مارک ہے۔ تاہم اس وقت تک ٹریڈمارک کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہ تھی۔

1266ء میں برطانوی بادشاہ ہینری سوم کے دورحکومت میں برطانوی پارلیمنٹ نے ٹریڈمارک کے حوالے سے پہلی قانون سازی کی، ا س قانون کے تحت تمام بیکریوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اپنی فروخت ہونے والی تمام ڈبل روٹیوں پر ایک مخصوص و منفرد نشان لگائیں۔ 1883میں جرمنی کی ایک کمپنی  Anheuser-Busch InBevنے اپنی بیئر کی بوتل پر شیر کے نشان کو بہ طور ٹریڈ مارک استعمال کیا۔ تاہم اس وقت تک ٹریڈ مارک کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہ تھی۔ ٹریڈمارک کے قانون کی جدید شکل 1857میں معرض وجود میں آئی۔

فرانس نے پوری دنیا کے لیے پہلے جامع ٹریڈ مارک سسٹم کے قانون کو پاس کیا جسے ’مینو فیکچرر اینڈ گڈ مار ک ایکٹ‘ کا نام دیا گیا۔ برطانیہ نے1862میں ’مرچنڈائز مارکس ایکٹ1862‘ کے تحت کسی کی ساکھ سے فائدہ اٹھانے اور دھوکادہی کرنے کے لیے کسی دوسرے کے ٹریڈ مارک کے استعمال کو مجرمانہ اقدام قرار دیا۔ پاکستان میں اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ٹریڈ مارک رجسٹری انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او پاکستان) کی پریمیئر باڈی ہے جو کہ ٹریڈ مارک آرڈینینس2001 کے تحت ٹریڈ اور سروس مارک کی رجسٹریشن کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ ایک وفاقی انتظامی ادارہ ہے.

جس کا دائرہ کار پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ٹریڈ اور سروسز مارک تک محدود ہے۔ یہ ایک سول عدالت کی طرح کام کرتا ہے اور اس کے فیصلوں کو صوبائی ہائی کورٹس میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔ ٹریڈمارک رجسٹری کی سربراہی ایک رجسٹرار کرتا ہے جس کا دفتر کراچی اور علاقائی دفتر لاہور میں واقع ہے۔ ٹریڈ مارک آرڈیننس 2001ء کی تشہیر کے ساتھ ٹریڈمارک رجسٹری نے پاکستان میں حقوق املاکِ دانش کی اہمیت کے بارے میں بڑے پیمانے پر شعور اُجاگر کرنا شروع کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے آئی پی او پاکستان نے انٹرپرینیورز کو اپنے سروسز اور ٹریڈمارک کے تحفظ کی جانب مائل کرنا شروع کیا ہے، تاکہ وہ اپنے کاروبار کو تمام قانونی تقاضوں کے ساتھ مستحکم کر سکیں۔

آئی پی او پاکستان کے ٹریڈ مارک آرڈیننس 2001 ء کی دفعہ 14 کی ذیلی دفعہ 3 کے کلاز (الف) اور دفعہ 17 کی ذیلی دفعہ 2 کلاز (الف) کے تحت کسی بھی ایسے ٹریڈمارک کو رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکتا جو کسی اور کے ٹریڈ مارک سے مشابہت رکھتا ہو۔ پاکستان میں ٹریڈمارک کی رجسٹریشن کے لیے ایک قانون موجود ہے جس کے تحت ٹریڈمارک کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ/ سروس مارک کے حصول کا طریقۂ کار چار مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ تلاش کا ہے جس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ٹریڈمارک رجسٹرڈ کروانے کے خواہش مند فرد یا کمپنی کی جانب سے جس ٹریڈ مارک کو رجسٹرڈ کروانے کی درخواست دی گئی ہے وہ کسی دوسرے فرد یا کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ نہ ہو۔ اگر مذکورہ ٹریڈ مارک کسی اور کے استعمال میں نہیں ہے تو پھر ٹریڈ مارک رول، 2004ء کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ ٹریڈ مارک کی ’کلاس‘ چیک کی جاتی ہے۔

اس رول میں جنس یا سروس کی بنیاد پر ٹریڈمارک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ نمبر ایک سے نمبر34  تک کی کلاس جنس (اشیاء) کے لیے مختص کی گئی ہے جب کہ نمبر 35 سے 45تک کی کلاس خدمات کے لیے رکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی کپڑے کے برانڈ کو رجسٹرڈ کروا رہے ہیں تو آپ کی درجہ بندی ایک سے 34نمبر کے درمیان ہی کی جائے گی، اور کسی قسم کی خدمات فراہم کرنے کی صورت میں آپ کے ٹریڈ مارک کی درجہ بندی 35سے 45تک کی کلاس کے درمیان کی جائے گی۔ ٹریڈ مارک کی کلاس منتخب کرنے کے بعد آپ کو آئی پی او رجسٹرار آفس سے ایک فارم TM-55 فراہم کیا جائے گا اور آپ اسے تمام تر تفصیلات کے مطابق پُر کرنے کے بعد مطلوبہ فیس کے ساتھ جمع کروادیں گے۔

انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان کے ٹریڈمارک آرڈیننس، 2001ء کی 14 اور 17 کے تحت کسی بھی فرد یا ادارے کا ایسا ٹریڈ مارک رجسٹرڈ نہیں کیا جاسکتا جس کا مقصد کسی غلط ارادے یا غلط کام کی شروعات ہو، کسی مشہور ٹریڈمارک یا کمپنی کے نام یا نشان سے مماثلت رکھتا ہو، کسی ملک کے نام پر ہو، یا اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ فارم TM-55 کے بعد ایک اور فارم TM-1 جمع کروایا جاتا ہے جس میں مطلوبہ ٹریڈ مارک کا نام، اس کی ملکیت، شہریت اور کاروبار کی تاریخ ابتدا اور دیگر معلومات درج کی جاتی ہیں۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ٹریڈمارک حاصل کرنے کا خواہش مند فرد یا ادارہ ایک اور فارم TM-48 آئی پی او رجسٹرار کو جمع کرواتا ہے۔

اس فارم میں مجاز افراد کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ اگر ٹریڈمارک رجسٹرار اس فارم میں بیان کی گئی تفصیلات سے مطمئن ہو تو پھر وہ ایک لیٹر جاری کرکے آپ کے ٹریڈ مارک کا اشتہار شایع کرواتا ہے۔ اگر کسی کو اس ٹریڈمارک پر اعتراض ہو تو اس اشتہار کی اشاعت کے بعد متعین کی گئی مدت میں اعتراض جمع کرواسکتا ہے۔ کوئی اعتراض نہ ہونے پر ٹریڈمارک رجسٹرار اس کو حتمی طور پر منظور کرکے سرٹی فیکیٹ کے اجرا کے لیے چھے ہزار روپے کا ڈیمانڈ نوٹ جاری کردیتا ہے۔ ٹریڈ مارک کے حصول کے چوتھے اور آخری مرحلے میں ٹریڈمارک کا خواہش مند فرد 6000 روپے فیس کے ساتھ ایک آخری فارم TM-11 جمع کرواتا ہے اس فارم کے جمع ہونے والے کے 60 دن بعد اسے مطلوبہ ٹریڈمارک کا سرٹی فیکیٹ مل جاتا ہے۔

٭ پیٹینٹ اور اس کے حصول کا طریقۂ کار

پیٹینٹ ’حقوق املاک دانش‘ کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کسی موجد کو اس کا بات کا قانونی حق تفویض کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص مدت (بیس سال) تک اپنی ایجاد کی تیاری، استعمال، فروخت اور درآمد کو دوسروں کی دسترس سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں پیٹینٹ کو سول لا کے ماتحت رکھا گیا ہے۔ اب یہ پیٹینٹ کے موجد یا مالک پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ایجاد پر اگلے بیس سال تک اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ تاہم پیٹنٹ کا مالک باہمی معاہدے کے تحت کسی ایک یا ایک سے زیادہ پارٹیوں کو اپنی ایجاد کے استعمال کی منظوری دے سکتا ہے۔ اسی طرح پیٹینٹ کا مالک اپنی ایجاد کے مالکانہ حقوق کو کسی دوسرے کو فروخت کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ تاہم ٹریڈ مارک یا کاپی رائٹ کی طرح پیٹینٹ کی دوبارہ تجدید نہیں کروائی جاسکتی، اور بیس سال بعد یہ اپنے مالک کی دسترس سے نکل کر پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے۔ اور دوسرا فرد، یا ادارہ اس ایجاد کو اپنے حساب سے استعمال کرسکتا ہے۔

پاکستان نے تقسیم کے بعد 1948ء میں برطانوی دور کے پیٹینٹ اینڈ ڈیزائنز ایکٹ،1911ء کے سیکشن 55کے تحت پیٹینٹ آفس قائم کیا۔ پاکستان نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شامل ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے ’ٹریڈ ریلٹڈ اسپیکٹس آف انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ (TRIPS)کے بعد 1911ء کے ایکٹ میں ترمیم کرکے ’پیٹینٹ آرڈینینس، 2000ء اور ’رجسٹرڈ ڈیزائن آرڈینینس،2000 ء نافذ کیا۔ مزیدبرآں ’رجسٹریشن آف لے آؤٹ ڈیزائنز آف انٹیگریٹڈ سرکٹس‘ کے قانون کو بھی ’رجسٹرڈ لے آؤٹ ڈیزائنز آف انٹیگریٹڈ سرکٹس آرڈینینس‘ کے نام سے شائع کیا۔ پیٹینٹ آفس اپریل2005ء سے انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ کا حصہ ہے۔ کسی بھی تخلیق یا ایجاد کو بہ طور پیٹینٹ رجسٹرڈ کروانے کے ضروری ہے کہ؛

٭  یہ ایجاد، طریقہ (پراسس) یا پراڈکٹ ہونی چاہیے۔

٭  اس ایجاد میں کچھ نیا اور اچھوتا ہونا چاہیے۔

٭  اس میں ایجادی مرحلے شامل ہوں۔

٭  یہ صنعتی ایپلی کیشن کی صلاحیت کی حامل ہو۔

انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان کے پیٹینٹ آرڈیننس، 2002 کے تحت پیٹینٹ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کا تیکنیکی اور قانونی اہلیت کے تحت جائزہ لیا جاتا ہے۔ پیٹینٹ آرڈیننس، 2002 کے مطابق یہ ایجادات پیٹینٹ سے مبرا ہیں؛

٭  کوئی دریافت، سائنسی نظریہ، قانونِ فطرت یا ریاضیاتی طریقۂ کار۔

٭  کوئی ادبی، تمثیلی، میوزیکل یا فن کارانہ کام یا کسی جمالیاتی کردار کی تخلیق۔

٭  کوئی اسکیم، کسی بھی ذہنی کام کو ادا کرنے کے لیے وضح کردہ طریقہ یا اصول، کھیل کھیلنا یا کاروبار کرنا۔

٭  معلومات کی پیش کش، کمپیوٹر سافٹ وئیر۔

اسی طرح ان ایجادات کو پیٹنٹ نہیں کیا جاسکتا ہے؛

٭  مفاد عامہ یا اخلاقیات کے خلاف ایسی ایجادات جن سے انسان، ماحول، جانوروں، پودوں کی زندگی اور صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوں۔

٭  پودوں اور جانوروں ماسوائے خردبینی اجسام، پودوں اور جانوروں کی پیداوار کے لیے لازم حیاتیاتی طریقۂ کار ماسوائے غیرحیاتیاتی اور مائیکرو بایولوجیکل طریقۂ کار۔

٭ انسانوں اور جانوروں میں علاج کے لیے تشخیص، دافع امراض اور جراحی کے طریقۂ کار۔

٭  پہلے سے موجود پراڈکٹ اور طریقۂ کار کے نئے اور بعد کے استعمال۔

٭  کیمیائی مصنوعات کی طبعی خصوصیات میں معمولی تبدیلیاں۔

 ٭  پیٹینٹ کی اقسام

انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان کے تحت پیٹینٹ کو درج ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1۔’عارضی اور مکمل تفصیلات‘ کے ساتھ پیٹینٹ کی حصول کی ایک عام درخواست، جس پر پیٹینٹ کی درخواست کی سرکاری تاریخ درج ہو۔

2۔’ترجیحی حق‘ کا دعویٰ رکھنے والی پیٹینٹ کے حصول کی ایک کنوینشنل درخواست، جس پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے رکن ملک میں پہلی بارپیٹینٹ کی درخواست کے لیے کی گئی آفیشل تاریخ درج ہو۔

3۔پہلے سے رجسٹرڈ پیٹینٹ میں بہتری کے لیے کی گئی نئی جدت میں اضافے اور ترمیم کے لیے کی جانے والی پیٹینٹ کی درخواست برائے اضافہ۔

٭ کاپی رائٹ اور اس کے حصول کا طریقۂ کار

کاپی رائٹ کا تصور چھاپہ خانوں کی ایجاد کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ سولہویں صدی کے وسط میں برطانوی پارلیمنٹ نے کتابوں کی غیرقانونی طریقے سے نقل تیار کرنے کے خلاف ایک قانون نافذ کیا۔ ’لائسینسنگ آف دی پریس ایکٹ 1662‘ کے نام سے لاگو کیے گئے اس قانون کے تحت کتابوں کے لیے لائسنس کی رجسٹریشن کو لازمی اور اس کی ایک کاپی سرکار کی جانب سے بنائے گئے ’اسٹیشنرز کمپنی‘ میں جمع کروانے کو لازم قرار دیا گیا۔ کاپی رائٹ ایک ایسا قانونی ہتھیار ہے جو تخلیقی کام کرنے والوں کی تخلیق کو قانونی شکل فراہم کرتا ہے۔

یہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر تخلیقی کام کو تحفظ فراہم کرتا ہے، کاروباری ادارے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے لوگو، ڈیزائن وغیرہ رجسٹرڈ کرواتے ہیں تو ایک مصنف اپنی تصنیف کو، ایک ڈیزائنر اپنے ڈیزائن کو اور ایک مصور اپنی تصویر کو کاپی رائٹ رجسٹرڈ کروا کر اپنے فن پارے کو قانونی تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان نے برٹش کاپی رائٹ ایکٹ، 1911ء کو اپنایا، بعدازاں اس قانون کو کاپی رائٹ آرڈیننس، 1962ء سے تبدیل کردیا گیا، تاہم کاپی رائٹ کی رجسٹریشن کا کام 1967ء سے شروع ہوا۔ 1968میں پاکستان نے انٹرنیشنل کاپی رائٹ آرڈر جاری کیا۔ 2002ء میں کاپی رائٹ رولز میں ترمیم کی گئی۔ 2005ء میں اسے انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔

کاپی رائٹ قانون درج ذیل تخلیقی کاموں پر لاگو ہوتا ہے؛

٭ ادبی کام؛ کتب، جرائد، رسالے، لیکچرز، ڈرامے، ناول، کمپیوٹر پروگرامز، سافٹ ویئر اور ڈیٹا کو مرتب کرنے والے کام اس زُمرے میں آتے ہیں۔

٭فن کارانہ کام؛ تصاویر، نقشے، مصوری، نقش و نگار، جدولز، کیلی گرافی، مجسمہ سازی، تعمیراتی کام، لیبل ڈیزائنز، لوگوز، خطاطی اور اس طرح کے دیگر کام اس میں شامل ہیں۔

٭سنیماٹو گرافک کام؛ فلمیں، صوتی اور بصری کام، دستاویزی فلمیں وغیرہ اس میں آتے ہیں۔

٭ ریکارڈ ورک؛ اس زمرے میں ساؤنڈریکارڈنگز اور میوزیکل کام شامل ہے۔

کاپی رائٹ کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دہندہ کاپی رائٹ رجسٹرار ایک فارم (اسے آئی پی او کی ویب سائٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے) حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد درخواست دہندہ اپنے تخلیقی کام کی بابت رجسٹرار کو آگاہ کرتا ہے کہ یہ ڈیزائن، تصویر یا لوگو اس کا تیار کردہ ہے، یا کتاب کا مصنف اور سافٹ ویئر کا ڈیولپر وہ خود ہے۔ درخواست دہندہ فارم میں مانگی گئی تمام تر تفصیلات پُر کرکے اسے ایک حلفیہ بیان کے ساتھ رجسٹرار آفس میں جمع کرواتا ہے۔

اگر درخواست دہندہ نے اس تصویر، لوگو، سافٹ ویئر یا کتاب کو کسی سے خریدا ہے تو پھر وہ اس کے خالق کا قومی شناختی کارڈ نمبر، حلف نامہ اور دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کی کاپی بھی ساتھ جمع کروائے گا۔ مقررہ فیس کے ساتھ اس درخواست کو جمع کروانے کے بعد درخواست دہندہ رجسٹرار آف کاپی رائٹ کی طرف سے اخبار میں ایک اشتہار شایع کروائے گا کہ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو وہ متعین کی گئی مدت کے دوران رابطہ کرے۔ اگر کوئی شخص اس کتاب، تصویر ، لوگو، ڈیزائن پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتا تو اس کے بعد رجسٹرار آفس تمام قانونی تقاضے پورے کرکے سرٹی فکیٹ جاری کردیتا ہے۔

(انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس کے حوالے سے اس رپورٹ کا پہلا حصہ سنڈے میگزین کی گذشتہ اشاعت میں شایع کیا گیا تھا، جس میں حقوق املاک دانش سے متعلق قوانین اور ان سے بے اعتنائی کے باعث ہماری برآمدات اور معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے دوسرے حصے میں حقوق املاک دانش کے حصول کا طریقۂ کار اور متعلقہ اُمور کو موضوع بنایا گیا ہے)

The post اپنی تخلیقات اور ایجادات کو چوری ہونے سے کیسے بچائیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یورپ میں قیامت خیز گرمی

$
0
0

آج کل لگ بھگ پور اہی یورپ شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے اور گرمی کی ان لہروں نے اس خطے میں واقع چھوٹے اور بڑے ملکوں کو گویا بھٹی بنادیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے پورا خطہ ہی اس بھٹی میں تپ رہا ہے۔ خاص طور سے پیرس کی گرمی نے ساری حالت ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ سائنسی ماہرین اس صورت حال پر کافی تشویش میں مبتلا ہیں اور وہ سبھی مل جل کر اس بات کا تعین کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کہیں گرمی کی اس موجودہ اور شدید ترین لہر کا تعلق ہمارے کرۂ ارض پر ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلیوں سے تو نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سبھی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ بہ ذات خود حضرت انسان ہے جس کی اپنی آئے دن کی غلطیوں اور سائنسی و تکنیکی حکمت عملیوں کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض پر آب و ہوا میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور ہم کبھی سخت گرمی کا شکار ہوجاتے ہیں تو کبھی سخت سردی ہمارے اوسان خطا کردیتی ہے۔

یورپ کا سب سے اہم اور بنیادی خطہ تو اتنی شدید گرمی کی لپیٹ میں آچکا ہے کہ حال میں کافی دنوں تک یہ پورا کا پورا علاقہ ہی ریکارڈ شکن ٹمپریچرز کی زد میں ہے اور اس ساری صورت حال نے ہمارے تمام سائنسی ماہرین کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اس بات کی ریسرچ کرکے کوئی نتیجہ نکالیں کہ کتنی زیادہ گرمی یا خوف ناک گرمی کا تعلق آب و ہوا کی تبدیلی سے جوڑا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں World Weather Attribution Network نے سائنس دانوں کے ایک انٹرنیشنل کنسورشیم کا انعقاد کروایا تھا جس پر ایک مفصل رپورٹ جلد ہی ریلیز کردی جائے گی۔

یورپ کے مختلف حصوں میں گرمی کے سابقہ ریکارڈز 2003 کے موسم گرما میں قائم کیے گئے تھے جب جنوبی فرانس کے ٹاؤن Conqueyrac میں درجۂ حرارت 44.1 درجے سینٹی گریڈ (111.4° Fahrenheit)  تک جا پہنچا تھا۔ اس پورے براؑعظم میں شدید ترین گرمی نے 70,000  سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا تھا، یہ ایک ایسا ڈیتھ ٹول تھا جس کے بارے میں ماہرین نے اس بات کا تعین کیا تھا کہ اس کا سبب آب و ہوا کی تبدیلی ہی تھی۔

یورپ میں شدید گرمی کی ایک اور خطرناک لہر 2018 میں آئی اور وہ لگ بھگ تین ماہ تک برقرار رہی۔ اس ضمن میں کنسورشیم نے نہایت سرعت کے ساتھ اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ تیار کی اور یہ طے کیا کہ ایسا بشری تکوین یعنی anthropogenic کے بغیر نہ ہوا ہوتا یعنی یہ انسان کی اپنی غلطیوں کے باعث نہیں ہوسکتا تھا جو اس کے اپنے کاموں کی وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی کا سبب بن سکتے تھے۔

اس ریسرچ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ ایسے واقعات سال میں ہی اس وقت وقوع پذیر ہوسکتے تھے اگر کسی جگہ کا درجۂ حرارت 2100 تک پری انڈسٹریل لیول میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا۔ اگر گلوبل وارمنگ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کردی جاتی تو ایسے واقعات کے بارے میں یہ پیش گوئی کی جاسکتی تھی کہ یہ ہر تین میں سے دو سال بعد وقوع پذیر ہوسکتے تھے۔

اس سال کا ایونٹ جو جون کے وسط میں شروع ہوا، اس کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ یہ چھوٹا ہوگا۔ لیکن یہ نہایت شدید ہے۔

28 جون کو جنوبی فرانس کے ایک شہر Gallargues-le-Montueux میں درجۂ حرارت بڑھ کر  45.9°سینٹی گریڈ(114.6° F) تک جا پہنچا تھا جس نے اس ملک کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے تھے، لیکن اس وقت دنیا بھر میں صرف یورپ ہی وہ خطہ نہیں ہے جہاں گرمی شدید ترین اور خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

اس خطے کے علاوہ انڈیا اور پاکستان بھی مئی کے وسط سے شدید ترین گرمی میں مبتلا ہیں اور غالباً ان دونوں ملکوں کی تاریخ میں یہ شدید ترین گرمی کا ایک طویل ترین ریکارڈ ہوگا۔ حالیہ جون میں نئی دہلی میں درجہ ٔ حرارت 48°درجے سینٹی گریڈ یعنی 118.4°فارن ہائیٹ تک جا پہنچا تھا۔ یہ غالباً اس مہینے میں انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ کیا گیا تیز گرمی کا سب سے بلندترین ریکارڈ تھا۔ جون 21 تک شدید ترین گرمی اور اس سے متعلقہ اسباب کی بنا پر 180 افراد موت کا شکار ہوچکے تھے۔

اس ضمن میں یونی ورسٹی آف انگلینڈ میں جب آب و ہوا کے معروف سائنس داں Karsten Haustein سے بات کی گئی جن کا تعلق مذکورہ کنسورشیم سے بھی ہے اور ان سے پوچھا گیا کہ ان خوف ناک ترین اور مہلک ایونٹس کے پس پردہ کون سے محرکات کارفرما ہیں۔ ان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ سائنسی ماہر اس بات کا تعین کیسے کرتے ہیں کہ ایک خاص گرمی کی لہر آب و ہوا کی تبدیلی کا سبب کیسے بنتی ہے تو انہوں نے بتایا:

ہم نے نہایت شدید گرمی کے واقعات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اور انہیں آب و ہوا کی تبدیلی سے جوڑنے کے لیے یہ سب کیا تھا۔ مثال کے طور پر ایسا سو سال میں سے صرف ایک سال میں ہوتا ہے اور اس دوران یہ میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتا ہے، اس طرح ہم دوسرے محققین کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ کینیا، جنوبی افریقا اور آسٹریلیا کے ماہرین کی تربیت کیسے کی جائے اور انہیں وہ سب طریقے کیسے سکھائے جائیں۔

٭یورپ میں موجودہ گرمی کی لہر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:

گرمی کی موجودہ اور شدید ترین لہر دس روز پہلے شروع ہوئی، اس شدید ترین لہر کا ماحول پہلے سے بن رہا تھا، اس لیے ہم اس کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے۔ اگست 2003 سے فرانس میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 44.1 سینٹی گریڈ تھا جو واقعی تشویش ناک تھا۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ مزید بڑھ کر 45° سینٹی گریڈ تک جاپہنچے گا جو اس خطے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ ہوگا۔ جون میں جرمنی میں ٹمپریچر اگلے کئی روز میں شدید ترین ہوں گے اور پھر آسٹریا میں بھی کافی بڑھ جائیں گے ۔

٭اس شدید ترین گرمی کے فضائی اثرات کیا ہیں؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرمی کی لہر کے جاری رہنے کے لیے ہمیں بالائی سطح میں گرم ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو جنوب سے یعنی افریقا سے آتی ہے۔ ہمیں ٹمپریچرز کے لیے زمین کی سطح سے 1.5 کلومیٹر اوپر ایک ریکارڈ قائم کرنا ہوتا ہے جو 25.5 سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ بالائی سطح پر ہوا کی یہ سطح کس طرح ناپی اور اس کی پیمائش کی جاتی ہے، یہ بالکل ایک الگ اور مختلف کہانی ہے جسے ہمیں بھی گہرائی میں جاکر سمجھنا ہوگا۔

سادہ سی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ جیٹ اسٹریم جہاں شمال کی سمت سے آنے والی یہ یورپ کی زیادہ ٹھنڈی ہواؤں کو جنوب کی گرم ہواؤں میں تقسیم کرتی ہے، مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شمالی نصف کرے کی اس تیز ہوا کا یہ بہاؤ ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف کچھ زیادہ ہی لڑکھڑانے لگتا اور حرکت کرنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں شمالی افریقا کی طرف ہواؤں کے درمیان بہت سے بڑے اور چھوٹے شگاف یا درزیں (جھریاں) بن جاتی ہیں، اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے درحقیقت افریقا سے یورپ کی طرف گرم ہوا چل پڑتی ہے۔ اگر ان گرم ہواؤں کا یہ سلسلہ یورپ کے اوپر زیادہ دن تک برقرار رہے تو پھر یہ اس کی سطح کو گرم بلکہ کافی حد تک گرم کردیتی ہے۔

٭ ان درزوں یا جھریوں والی جیٹ اسٹریم (تیز گرم ہواؤں) نے خوف ناک صورت حال کیوں اور کیسے اختیار کرلی؟

اس کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی اور اہم وجوہ یہ ہیں کہ Arctic یا بحرمنجمد شمالی میں درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن نہ تو ہم اس پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اس تبدیلی کی حقیقت کو اصل تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ ہم پچھلے دنوں میں اس حوالے ایک عام سی بات کو ہی بار بار دہراتے رہے ہیں کہ ہمارے کرۂ ارض کے موسمیاتی پیٹرن کا یہ ایک نمونہ بن چکا ہے اور جیسے جیسے یہ جیٹ اسٹریم مزید جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یورپ مزید گرمی میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے۔

٭انڈیا اور پاکستان میں خوف ناک اور ناقابل برداشت گرمی

اس وقت صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ مئی کے وسط اور جون 2019 تک انڈیا اور پاکستان میں شدید ترین گرمی نے ان علاقوں کو اور ان میں رہنے والوں کو گرمی سے نڈھال کردیا ہے۔ ایک تو گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اوپر سے یہاں آنے والا بارشوں کا مون سون سسٹم بھی مسلسل تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ اس گرمی کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہیں جن میں بارشوں کا تاخیر سے آنے والا مون سون سسٹم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں مسلسل بڑھتی ہوئی گرمی کے صحت پر پڑنے والے اثرات ابھی تک غیر واضح ہیں اور دیگر وجوہ کی بنا پر یہ صحت عامہ کو بھی بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑا اور اہم سبب اس خطے میں ہوا میں نمی کا بڑھتا ہوا تناسب humidityاور فضائی آلودگی کی بلند سطحیںair pollution levels ہیں۔پھر مزید یہ کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس خطے میں  1970 کے عشرے سے اس بڑھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فضائی ٹمپریچرز کے مجموعی رجحان کا کیا سبب ہے۔

Karsten Haustein کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک آب و ہوا میں اس اہم اور غیرمتوقع تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ اسی طرح کا کام ہے جیسا ہم نے 2016 میں انڈیا میں گرمی کی شدید ترین لہر پر کیا تھا۔ اس میں انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں وہ ریکارڈ توڑ ٹمپریچر بھی سامنے آیا تھا جو 51° سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا تھا۔انڈیا کے 2019 کے یہ ٹمپریچرز بھی قدرتی اور سال بہ سال بدلتے ہوئے ہیں۔ہم نے اس ضمن میں ایک تفصیلی تجزیہ بھی کیا تھا اور یہ نتیجہ نکالا تھا کہ پورے انڈیا میں گرم مہینوں میں درجۂ حرارت زیادہ واضح طور پر نہیں بڑھ رہے ہیں۔

٭2018 میں یورپ میں گرمی خوف ناک ترین لہر کا تجزیہ کرتے ہوئے کنسورشیم نے کیا نتیجہ نکالا؟

اس سوال کے جواب میں Karsten Haustein نے بتایا کہ عالمی سطح پر گرمی کی شدت اور فریکوئنسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

Heat waves in Europe کی رپورٹ جیسی کہ 2018 میں پیش ہوئی تھی، مگر یہ کم از کم دگنی ہوچکی تھی اور آب و ہوا کی یہ تبدیلی پورے ہی خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ساری صورت حال کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں کیسی اور کون سی حکمت عملیاں اختیار کی جاسکتی ہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے البتہ یہ سب قدرت کے کھیل ہیں اور وہی جانتی ہے کہ یہ کب اور کیسے قابو کی جاسکتی ہیں، فی الحال تو دیکھو اور انتظار کرو والی صورت حال ہے۔

The post یورپ میں قیامت خیز گرمی appeared first on ایکسپریس اردو.

ادب اور اعزازات

$
0
0

ہمارے یہاں ابھی اعزازات کا موسم گزرا ہے۔

سرکاری سطح پر، علمی ادبی اداروں اور بینکوں کی طرف سے یکے بعد دیگرے ادیبوں، شاعروں اور دوسرے فن کاروں کے لیے انعامات کا اعلان ہوا۔ یوں تو یہ سالانہ معمول کی کارروائی ہے۔ تاہم اس بار ہوا یہ کہ کہیں دیر سویر کی وجہ سے انعام و اکرام کے یہ سارے اعلانات تھوڑے سے وقفے کے ساتھ آگے پیچھے ہی سنائی دیے۔ سو، یوں لگا جیسے اعزازات کا موسم آیا ہوا ہے۔ سچ پوچھیے تو اچھا معلوم ہوا۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ کسی بھی معاشرے اور تہذیب کے زندہ ہونے کی بلاشبہ ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اْس میں اہلِ ادب، اہلِ فن اور اہلِ ہنر کی تکریم و تعظیم کے مواقع سامنے آتے رہتے ہیں۔ تہذیبوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو معاشرہ اپنے فن کاروں سے غافل ہوجاتا ہے، وہ دراصل اپنے ضمیر کی آواز سے بے بہرہ اور اپنی روح کے احوال سے روگرداں ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کسی عہد اور سماج میں ایسے لوگوں کی پذیرائی یقیناً خوش آئند سمجھی جانی چاہیے۔ ہمارے یہاں جس سطح پر بھی یہ سرگرمی جاری ہے، اسے ہمارے لیے خوشی کا باعث ہونا چاہیے اور ہمیں اس معاملے کو نگاہِ استحسان سے دیکھنا چاہیے۔

یہ تو ایک اصولی اور عمومی بات ہوگئی۔ اب ذرا سچائی سے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں اعزازات کی جو سرگرمی دکھائی دیتی ہے، کیا واقعی وہ ہمارے لیے خوشی کا سامان رکھتی ہے؟ ندامت اور افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن اعتراف کرنا چاہیے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مگر کیوں؟ مختصر سا یہ سوال اپنے جواب کے لیے خاصی تفصیل چاہتا ہے۔ دیکھیے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ انعامات صحیح معنوں میں اپنے حق داروں تک نہیں پہنچتے یا پھر یہ کہ انعامات ادیب، شاعر، فن کار کے شایانِ شان نہیں ہیں، اور نہ ہی سوال یہ ہے کہ ان کے لیے جو نظام بنایا گیا اور جو طریقِ کار اختیار کیا جاتا ہے، وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اگر اعتراض براے اعتراض مقصود ہو تو اور بات ہے، ورنہ ہمارے یہاں انعام و اکرام کا جو سلسلہ ہے، اس پر ایسے کسی سوال کی ضرورت نہیں ہے۔

اب ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ کسی چھوٹی موٹی تنظیم یا ادارے کے انعام سے لے کر نوبیل ایوارڈ تک کوئی بھی اعزاز ایسا نہیں ہے جس کے اعلان پر سب لوگ آپ کو خوش نظر آئیں۔ ایسے ہر اعلان پر کسی نہ کسی انداز سے اختلاف کی کوئی نہ کوئی صورت سامنے آتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے پاس کچھ نہ کچھ جواز اور دلائل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ انعام یافتہ کو بجا طور پر مستحق جانتے ہیں اور بعض لوگ کسی اور کو اس سے زیادہ حق دار گردانتے ہیں اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ ایسے اختلافِ رائے سے انعام اور انعام یافتہ دونوں کو فرق بھی کوئی نہیں پڑتا۔ اب رہی یہ بات کہ ہمارے یہاں جو اعزازات دیے جاتے ہیں، وہ شایانِ شان ہیں کہ نہیں۔ اس ضمن میں بھی ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں، لیکن یہ بھی ایسی کوئی قابلِ توجہ بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی اعزاز کی اہمیت اس کی مادّی وقعت سے متعین نہیں ہوتی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انعام تو دراصل تکریم و اعزاز کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے فن کار یا تخلیق کار کی کارگزاری کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی اسے انعام کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، اسے کسی طور بھی کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ہمارے جیسے معاشرے اور اس دور میں تو یہی بہت ہے کہ ادیب، شاعر اور فن کاروں کی پذیرائی کا ایسا کوئی سلسلہ چل رہا ہے۔ اب جہاں تک بات ہے ہمارے یہاں انعامات کے طریقِ کار کی تو اس سے بھی کچھ لوگ اتفاق کریں گے اور کچھ نہیں، لیکن یہ بھی کوئی بہت اہم مسئلہ نہیں ہے کہ جس پر ہم کسی الجھن کا شکار ہوں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر سوچنا چاہیے کہ آخر کیا سبب ہے کہ اعزازات کا یہ معاملہ ہمارے لیے خوشی کا باعث نہیں بن پاتا؟

بات تو بری ہے، لیکن کہے بنا چارہ نہیں۔ اصل میں ہماری اس ناخوشی کا سبب اور کوئی نہیں، بلکہ ہمارے ادیب شاعر ہیں۔ جی ہاں، ہم ادیب شاعر لوگ خود۔ بھلا کیسے؟ ایسے کہ وہ اس قسم کی چیزوں کے حصول کے لیے جس طرح چوہا دوڑ کا ماحول بناتے اور اس کام کو جس درجہ سنجیدگی، محنت، توجہ اور لگن سے کرنے کی کوشش اور اس کے لیے جس طرح کی بھاگ دوڑ، گٹھ جوڑ اور آپادھاپی میں مصروف نظر آتے ہیں، اس کو دیکھ کر یہ گمان تک نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے یہاں ادیب شاعر کا اصل کام تخلیقِ ادب یا اپنی خداداد فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اصل کام تو بس یہی انعام یا اعزاز کا حصول ہے، باقی سب کچھ ثانوی۔ اس ساری دوڑ دھوپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کے لیے انعام حاصل کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے انعام حاصل نہ کیا جاسکا تو ان کے کام کا اعتراف تو رہا ایک طرف، خود زندگی گویا داؤ پر لگ جائے گی۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ انعام کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والا جو ادیب شاعر اپنا ہدف حاصل نہیں کرپاتا اور اسے مطلوبہ انعام نہیں ملتا تو وہ انعام پانے اور دینے والوں دونوں ہی کے لیے جس افسوس ناک، ندامت خیز اور توہین آمیز رویے کا اظہار کرتا ہے، وہ بجائے خود سوا حیرت اور ملال کا باعث ہوتا ہے۔ حیرت اور ملال میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج جن لوگوں سے وہ سر بہ سر شاکی اور انعام نہ ملنے پر نالاں ہے، انھی کے بارے میں کل تک وہ کس طرح ستائش اور اپنائیت کا اظہار کرتا رہا ہے۔

ممکن ہے کہ اس معاملے پر کچھ لوگ یہ کہیں کہ بھئی یہ کون سی نئی بات ہے۔ ہر عہد اور ہر سماج میں اس طرح کے مسائل پیش آتے ہیں، اور اگلے وقتوں میں بھی ضرور پیش آتے رہے ہوں گے۔ چلیے مانے لیتے ہیں، ایسا ہی ہے، سب جگہ ہے اور ہمیشہ سے ہے، لیکن اس حقیقت سے تو ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب ہمارے یہاں اس رویے کا اظہار جس درجے میں اور جس تواتر سے ہونے لگا ہے، وہ ہمیں اس صورتِ حال کے بے حد سنگین ہوجانے کا احساس دلاتا ہے۔

عالم یہ ہے کہ اب ان لوگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کا ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے جو اس سے پہلے ایک نہیں، کئی ایک اعزازات اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھے ہوں۔ ہمارے لیے اس معاملے میں سب سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ انعام نہ پاکر ردِعمل کا اظہار کرنے والے لوگ یہ تک دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں کہ اُن کے مقابل جس شخص کو اعزاز پیش کیا گیا ہے، وہ عمر اور کام دونوں اعتبارات سے ان سے بہرحال آگے اور اس اعزاز کا بلاشبہ کہیں زیادہ مستحق ہے۔ وہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ کوئی اعزاز جب کسی مستحق شخص کو پیش کیا جاتا ہے تو اس اعزاز میں اُس کے ساتھ سب لائق، اہل اور جینوئن لوگ شریک ہوتے ہیں۔ وہ سب کے لیے اعزاز اور طمانیت کا باعث ہوتا ہے— اور یہ بھی کہ کسی جینوئن فن کار کو ایوارڈ ملنا دراصل خود اس اعزاز کے لیے بھی توقیر و اعتبار کا باعث ہوتا ہے۔

یہ درست ہے کہ اعزاز کا اعلان کسی بھی ادیب شاعر کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اسے احساس دلاتا ہے کہ اس کی کارگزاری کا اعتراف کیا گیا ہے۔ بالکل ٹھیک ہے، مانتے لیتے ہیں۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بڑے سے بڑا اعزاز کسی ادیب، شاعر یا فن کار کی حقیقی قدر و منزلت میں بھی واقعتاً کوئی اضافہ کرسکتا ہے؟ کیا اسے اپنے فن کی تاریخ میں حیاتِ جاوید عطا کرسکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ ایک لمحے کو رکیے اور ماضی کے دریچوں میں جتنی دور تک جھانک سکتے ہیں، جھانک کر دیکھیے اور یاد کیجیے کہ میر، غالب، مصحفی، آتش اور اقبال وغیرہم کون کون سے اعزاز کے حوالوں کے ساتھ ہماری ادبی تاریخ میں زندہ ہیں۔ اچھا چلیے، ماضیِ بعید کو رہنے دیجیے۔ ماضیِ قریب، بلکہ حال میں آجائیے اور بتائیے راشد، میراجی، مدنی، مجید امجد، منٹو، غلام عباس، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، محمد سلیم الرحمٰن، احمد شمیم وغیرہم میں سے کس کو بھلا کون سا انعام دیا گیا تھا جو کہ ان کا نام آتے ہی ہمارے حافظے میں تازہ ہوجاتا ہے۔

چھوڑیے، یہ بھی نہیں۔ آئیے یوں یاد کیجیے کہ اپنے عہد کے حاضر و موجود لوگوں میں اسد محمد خاں، اکرام اللہ، آفتاب اقبال شمیم، فتح محمد ملک، ظفراقبال، توصیف تبسم، مسعود اشعر، سحرانصاری، خورشید رضوی، احفاظ الرحمٰن اور زاہدہ حنا میں سے کسی تخلیق کار کا نام جب آپ کے ذہن کی اسکرین پر چمکتا ہے تو کسی انعام یا اعزاز کی بنیاد پر ایسا ہوتا ہے یا کہ کسی افسانے، شعر، مضمون، ناولٹ، ناول یا پھر کسی کتاب کی نسبت سے؟ اچھا، یہ بھی رہنے دیجیے۔

اب یوں کیجیے کہ آپ ان میں جس ادیب، شاعر یا فن کار کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں یا جس کے قریب ہیں، اُس کو سامنے رکھ کر خود سے ذرا ایک بار یہ پوچھیے کہ اُسے کون کون سا انعام مل چکا ہے؟ خدا لگتی کہیے، کیا جواب ملا اس سوال کا؟ وہ سب لوگ جو آپ کے دوست ہیں، آپ کو عزیز ہیں، آپ ان تک کے بارے میں وثوق سے یہ کہہ نہیں پائیں گے کہ انھیں فلاں فلاں انعام ملا ہے، اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے بارے میں تو آپ یہ بھی یاد نہیں کرپائیں گے کہ انھیں کوئی انعام ملا بھی ہے کہ نہیں۔ ایسا صرف آپ کے ساتھ نہیں ہے، ادب و فن سے سچا تعلق رکھنے والے عوام و خواص میں سے بیشتر لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ چاہے تاریخ ہو یا اجتماعی و انفرادی حافظہ— ادیب، شاعر، فن کار کی یاد آوری اور بقا کا انحصار صرف اور صرف اس کے کام پر ہے، باقی دوسری کسی شے پر نہیں۔

ہمارے گھر، دفتر اور شہر میں جیسے کوڑے دان ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی ہمارے حافظے میں بھی ہوتے ہیں، اور جس طرح ہم ان میں فضول، بے کار اور بے مصرف چیزیں ڈال کر انھیں قطعی طور پر فراموش کردیتے ہیں، اسی طرح ہمارا ذہن بھی کچھ چیزوں کو پہلی فرصت میں اور بلاتکلف اپنے کوڑے دان میں ڈال کر ان سے یوں غافل ہوجاتا ہے کہ پھر پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ کم و بیش یہ ایوارڈ، انعام جیسی چیزیں بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے، العقل فی القلب۔ بس سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جو حافظہ ہوتا ہے، یہ ہمارے دل سے جڑا ہوتا ہے۔ جو چیز دل کو بھاتی ہے، وہ حافظے میں خود بہ خود اپنی جگہ بنالیتی ہے، اس کے سوا سب کچھ کوڑے دان میں چلا جاتا ہے۔

اہلِ بصیرت کہتے ہیں کہ مُحکمات پر اپنے یقین کا اعادہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ بسا اوقات ایسا مفید ہی نہیں ہوتا، بلکہ ضروری بھی ہوجاتا ہے، کیوںکہ وقت، حالات اور بعض منفی رویوں کی وجہ سے اڑنے والی گرد کو یہ عمل صاف کرکے ہمارے یقین و اعتبار کے آئینے کو اجال دیتا ہے۔ بار بار کی کہی ہوئی بات ہے، لیکن چلیے ایک بار پھر اسی خیال سے دہرائے لیتے ہیں، یہ کہ ادیب شاعر کا اصل اعزاز تو اْس کا کام ہے۔ اس کی توقیر و تعظیم کا دارومدار صرف اور صرف اُس کے کام پر ہوتا ہے۔

یہ اس کا کام ہی ہوتا ہے جو اسے اپنی تہذیب و تاریخ کے روشن منظر میں جگہ بناکر دیتا ہے اور عوامی حافظے میں زندہ رکھتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی بھی شے وقتی بہلاوے کی صورت تو بے شک پیدا کرسکتی ہے، لیکن بقا کا سامان نہیں۔ ایامِ گزشتہ پر ایک نظر ڈال لیجیے اور دیکھیے کہ کتنے ہی ایسے لوگ تھے کہ جنھوں نے تعلقات کی مہارت سے اکرام و اعزاز کی ہر منزل اپنی زندگی میں سر کی اور اپنے دور کے مرکزی دھارے میں بڑی شان و تمکنت سے نظر آتے تھے، لیکن وہ تہذیب اور عوام دونوں کے حافظے میں اتنی جگہ بھی نہ پاسکے کہ آج کوئی انھیں ادب کی تاریخ کے حاشیے میں رکھ کر ہی یاد کرسکے۔ اسی طرح دوسری طرف آپ دیکھیں گے کہ ایسے بھی نام ہیں کہ ساری زندگی گوشہ نشینی میں بسر کی۔ انھیں تعلقاتِ عامہ سے کوئی سروکار اور نہ ہی مرکزی دھارے میں ادب کے نام پر ہونے والی سماجی سرگرمیوں میں دھما چوکڑی کا کوئی شوق۔ وہ تو بس سب سے بے نیاز ہوکر اپنے کام میں مگن رہے اور آج دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ زمانہ در زمانہ خوش دلی سے اور بہ تکریم یاد کیے جاتے ہیں۔ وہ خود گوشہ نشیں رہے اور آج ان کا کام محفل آراء ہے۔

بات یہ ہے کہ سارا معاملہ خود فن کار پر منحصر ہے، چاہے تو وہ زمانے کی چکاچوند کی طرف لپکے یا پھر اپنے کام کی طرف۔ حیاتِ مستعار و مختصر یا حقیقی اور دیرپا زندگی—!

The post ادب اور اعزازات appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت : دن کیا، رات کیا، خزاں کیا، بہار کیا، بس حکم ہوا تو پکارنا چاہیے حاضر و تسلیم۔۔۔!

$
0
0

قسط نمبر53

ہم اُس نوجوان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں اور چل پڑے یعنی  مرکزی شاہ راہ سے کسی ذیلی سڑک پر چلتے ہوئے بہت دُور کہیں آگے نکل گئے تھے، چلیے اس دوران یہ تو ہُوا کہ آپ جو سوالات فقیر سے کیے جارہے تھے وہ آسودۂ جواب تو ہوئے۔

اب یہ دوسری بات کہ آپ اس سے مطمئن بھی ہوئے اور قرار بھی پائے کہ نہیں، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات، کسی کے دل میں اتارنا تو فقیر سمیت کسی کے بھی بس میں نہیں، بس خالق کی صفت ہے کہ وہ قلوب کو پھیر دیتا ہے۔ تو اب واپس پلٹتے ہیں تو بابا کے ساتھ رہتے ہوئے خاصا عرصہ بیت گیا تھا اور ہمارے معمولات وہی تھے۔ فقیر نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ نوجوان آتا رہتا تھا لیکن مجھے وہ آج بھی اچھا لگتا ہے، ٹھیک ہے اس نے اپنا راستہ خود ہی منتخب کیا تھا لیکن وہ بابا کا احترام اسی طرح کرتا تھا اور کبھی کبھار آجاتا تھا، بابا بھی اس پر اسی طرح مہربان تھے۔ اس دوران میں تربیت کے مختلف ادوار سے گزرا، اس کے ذکر کا آپ کو کیا فائدہ ہوگا تو اسے رہنے دیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔

ایک دن جب ہم اپنے کام سے واپس آئے تو بابا نے فرمایا: بیٹا تمہیں اسی وقت ٹیکسلا جانا ہوگا۔ میں نے حیران ہوکر ان کی جانب دیکھا کہ یہ اچانک کیسے پروگرام بن گیا لیکن میں خاموش رہنا سیکھ چکا تھا، میری خاموشی دیکھتے ہوئے انہوں نے خود ہی مسکراتے ہوئے فرمایا: بیٹا جی! تم نے پوچھا نہیں کہ اچانک ہی میں تمہیں ٹیکسلا کیوں بھیج رہا ہوں ؟ بابا جی! مُردہ تو ہمیشہ زندوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو کیا پوچھوں۔ میرا جواب سن کر انہوں نے مجھے اپنے سینۂ پُرراز سے لگایا اور فرمایا: پگلے! ہماری دنیا میں اچانک کچھ نہیں ہوتا، بس وقت آیا اور حکم ہوا تو پھر دیر کیسی، یہاں سارے موسم ایک جیسے اور ساری گھڑیاں ایک جیسی ہیں، دن کیا، رات کیا، خزاں کیا، بہار کیا، بس حکم ہوا تو پکارنا چاہیے حاضر و تسلیم اور پھر اس حکم کو بجا لانا چاہیے۔

بابا نے ایک تھیلا جس میں میرے کپڑے تھے اور ساتھ ہی ایک اور تھیلا بھی جس میں کھانے پینے کا کچھ سامان تھا، میرے حوالے کیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کہ میں وہ تھیلا اس کے مستحق تک پہنچاؤں۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ مجھے ٹیکسلا جانا ہوگا لیکن خان پور کے راستے سے، ایک جگہ کی انہوں نے نشان دہی کی اور باقی ہدایات، اور پھر مجھے رخصت کردیا۔ یہاں پھر میں نے ایک حماقت کی اور وہ یہ کہ مجھے کہا گیا تھا کہ میں خان پور، جہاں کے مالٹے بہت مشہور ہیں اور وہاں ایک ڈیم بھی ہے، کے راستے جاؤں، وہاں ایک جگہ کی نشان دہی کی گئی تھی باقی سب کچھ مجھے سمجھایا گیا تھا۔ لیکن میں نے بس اسٹاپ پر پہنچ کر سیدھا ٹیکسلا جانے کا پروگرام بنایا اور بس میں سوار بھی ہوگیا۔ اسلام آباد سے ٹیکسلا کچھ زیادہ دُور نہیں ہے، ٹیکسلا کے اسٹاپ پر اترا تو میں نے خان پور جانے والی گاڑی کا معلوم کیا، وہاں تک جانے کے لیے کوئی سواری نہیں تھی، تب میں جان پایا کہ مجھ سے حماقت ہوئی، اسلام آباد سے مجھے سیدھا خان پور ہی جانا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں حماقت کر ہی چکا تھا تو اب بھگتنا بھی تھا۔

مجھے ٹیکسلا سے اپنی مطلوبہ جگہ پہنچنا تھا۔ ٹیکسلا میوزیم تک تو مجھے ایک صاحب نے چھوڑ دیا تھا، وہاں سے میں پیدل ہی اپنی منزل کی جانب چل پڑا تھا لیکن خان پور خاصا دُور تھا، پختہ سڑک پر چلتے چلتے میں تھک چکا تھا لیکن ابھی منزل دُور تھی، میں نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میرے قریب ایک سائیکل سوار مزدور آکر رکے۔ بوسیدہ لباس اور اس پر لکڑی کا بُرادہ لگا ہوا، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: کہاں جاؤ گے بیٹا ؟ خان پور، میں نے انہیں بتایا۔ میں بھی وہیں جارہا ہوں چلو پیچھے بیٹھ جاؤ اور میں ان کے سنگ ہولیا۔ ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ وہ ایک درخت کے نیچے ٹھہر گئے۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، وہاں کس سے ملنا ہے تمہیں ؟ یہ تو میں نہیں جانتا جی! میرا جواب سُن کر وہ مسکرائے اور کہا: تو پھر جیسے کہا تھا تو ویسے کیوں نہیں کیا تم نے؟ جی مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے انہیں بتایا۔ اچھا کرتے ہو تم کہ فوری اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتے ہو، اسی میں مواخذے کا خطرہ ٹل جاتا یا کم ہوجاتا ہے اور بچاؤ کا راستہ بھی نکلتا ہے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں اُن کی بات سن کر حیران ہوا ہوں گا، تو جی نہیں، میں قطعاً حیران نہیں ہوا، اس لیے کہ اب اس دنیا کی ذرا سی سُدھ بُدھ سے میں آگاہ ہوگیا تھا اور میرے ساتھ ہونے والے واقعات اس کی تصدیق کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بتایا: جب تم نے اپنا راستہ بدلا تو میں تیار تھا اور اسٹاپ پر پہنچا تو تم مجھے نظر آئے لیکن میں نے نظرانداز کیا کہ تمہیں تمہاری غلطی کا احساس تو دلایا جائے اور میں تمہارے پیچھے چلا آرہا تھا، جیسا کہا جائے ویسے عمل کرنا چاہیے تھا ناں، لیکن چلو تم نے اپنی غلطی مان لی ہے تو رعایت تو دینا ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد ہم پھر روانہ ہوئے، گاؤں سے باہر ایک چھپّر سا تھا، دُور تک بندہ نہ بندے کی ذات، اوپر اﷲ جی اور نیچے ہم بندے جی۔ اندھیرے نے روشنی کو وقتی طور پر پسپا کردیا تھا، بابا جی نے سائیکل چھپّر کے ساتھ کھڑی کی اور اندر داخل ہوئے، دیا سلائی سے لالٹین روشن کی اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئے۔ بیٹا جی دیکھ لو حویلی! اب ہم یہاں رہیں گے، پھر انہوں نے کھانا گرم کیا اور میں نے وہ تھیلا جو بابا جی نے مجھے دیا تھا ان کے حوالے کردیا۔ کھانا کھا کر میں نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی اور پھر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بابا جی تو سوگئے ہیں۔

میں باہر نکلا، وسیع سرسبز میدان جہاں چار سُو خاموشی نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، اشجار سر جھکائے محو خواب تھے، لیکن فلک پر بادلوں کی ٹولیاں بھٹکتی پھر رہی تھیں اور چاند ان سے چھپن چھپائی کھیل رہا تھا، دُور کسی گاؤں کے آثار تھے، میں اس منظر کے سحر میں بہت پیچھے ماضی میں جا نکلا تھا، نہ جانے کیا کچھ ایک فلم کی طرح رواں تھا، صرف رواں نہیں پوری جزئیات کے ساتھ، شانتی سے ابتدا ہوئی، پھر اس میں پَری داخل ہوئی اور پھر گُل بی بی میرے سامنے تھی۔ آپ بُھول سکتے ہیں فقیر نہیں، چلیے یاد دلاتا ہوں، وہی شانتی جو گلی میں جھاڑو لگاتی تھی اور اس سے بات کرتے ہوئے ابّا جی نے میری پٹائی کی تھی، یاد آیا آپ کو، اُس شانتی سے پانچ برس پہلے تک فقیر کا رابطہ بھی رہا پھر اس کا دیہانت ہوگیا، شانتی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا تو فقیر اس کی آخری رسومات میں بھی موجود تھا۔

پَری کو بھول گئے ناں آپ، وہی جب مجھے اغواء کیا گیا تھا تو اُس نے اپنی جان کی بازی لگا کر مجھے وہاں سے آزادی دلائی تھی، اور گُل بی بی! جب میں اس عقوبت خانے سے فرار ہوکر ایک بابا جی کے پاس پہنچا تھا تو ان کی اکلوتی بیٹی، جس نے ایک ماں کی طرح میری تیمارداری کی تھی۔ ایک بات بتاؤں، رب جی نے ہر بچی میں ایک ماں رکھی ہے، عمر کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہر بچی اپنی فطرت میں ایک ماں ہی ہوتی ہے، ہاں اس سے رشتے بدل جاتے ہیں، لیکن اس کے اندر کی ماں غالب ہی رہتی ہے، ہاں اس عظیم کالی چادر والی ماں کو تو میں فراموش کرنا بھی چاہوں تو نہیں کرسکتا کہ وہ ہمیشہ میرے سنگ ہیں، کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سامنے موجود ہوتی ہیں، جی ڈانٹا بھی بہت کہ میری حرکتیں ہی ایسی ہیں، لیکن کبھی تنہا نہیں چھوڑا کہ ماں بھی کبھی اپنے بچے کو تنہا چھوڑ سکتی ہے بھلا۔ ڈانٹنے پر مجھے اپنی رضائی ماں یاد آئیں، راجپُوتنی ہیں، ضد پر آجائیں تو بس رب ہی انہیں باز رکھ سکتا ہے۔

دُبلی پتلی اور دراز قد لیکن رگ و پے میں برق بھری ہوئی، تھکن کس بلا کا نام ہے، وہ جانتی ہی نہیں، میں انتہائی شرارتی تھا، الٹے کام کرنا میری گُھٹّی میں ہے، نت نئی شرارتیں، عجیب سے شوق، جب بہت چھوٹا تھا تو کبھی نہیں مارا، لیکن آخر کب تک، ایک دن ایک زور دار تھپڑ رسید کیا، اور میں باہر کی جانب دوڑ پڑا، پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں، ان کی آواز آئی، رُک چھورا! لیکن میں باہر گلی میں تھا۔ ان کے شوہر جو میرے ابّا جی کے گہرے دوستوں میں سے تھے، کو میں ہاشم بابا کہتا تھا، بڑے زمین دار، اصیل، کھرے اور اپنی روایات سے انتہائی سختی سے جُڑے ہوئے راجپوت، انتہائی کم گو اور دوٹوک، گہری سانولی سیاہی مائل رنگت اور گھنی، دراز اور نوکیلی مونچھیں، دہلا دینے والی آواز، بلا کے بارعب اور وجیہہ، جہاں سے گزرتے وہاں سب خاموشی کو اوڑھ لیتے اور زمین کو دیکھنے لگتے، ہمیشہ سفید براق مایع لگے کپڑوں میں ملبوس، لیکن مجھے یاد ہے جب انہوں نے ذوالفقار بھائی کو ایک سرد رات میں پانی کی دھار کے نیچے کھڑا کردیا تھا اور انہیں پیٹ رہے تھے تو کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ انہیں روک لے۔

ہاں پھر میں نے جاکر ان کا ہاتھ پکڑنے کی جسارت کی تھی، لیکن انہوں نے مجھے گُھورا تو میں پلٹ آیا تھا اور دادی سے جاکر ان کی شکایت کی تھی، ضعیف و کم زور سی دادی نے جب یہ سنا تو میرے کاندھے پر ہاتھ دھرے وہاں پہنچیں اور پھر ان کی زوردار آواز گونجی: او چھورا ہاشم! ارے بہت جیادہ بگڑ گیا رے تُو، دفع ہوجا میری نجروں کے سامنے سے رے بدبخت۔ اور پھر منظر بدل گیا تھا، ہاشم بابا اپنی ماں کے پاؤں پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے، بس خاموش اور بوڑھی ماں انہیں معاف کرنے پر تیار نہیں تھیں، جی پھر میں نے ہی دادی، جن کا میں سب سے زیادہ چہیتا تھا، سے کہا: دادی! ’’بابا نے معاف کردے‘‘، اتنا سننا تھا کہ دادی نے انہیں معاف کردیا تھا۔ بہت لمبی داستان ہے ہاشم بابا کی بھی، ہاں مجھ فقیر کی ہر بات توجّہ سے سنتے ہی نہیں تھے، مان بھی جاتے تھے، رب تعالٰی نے موقع دیا تو سناؤں گا بھی، اُن کی وسیع حویلی کے اطراف میں دکانیں تھیں جو ہاشم بابا نے کرائے پر دی ہوئی تھیں۔ ان دکانوں میں عبدالرحیم حلوائی کی دکان بھی تھی۔

میں ماں کے دوسرے تھپڑ سے بچنے کے لیے باہر بھاگ نکلا تھا، پھر نہ جانے کیا ہوا، میں حلوائی کی دکان پر پہنچا اور اس سے پورے پانچ سیر مٹھائی تُلوائی، پیسے اس نے اس لیے نہیں مانگے کہ باقی دکان دار بھی نہیں مانگتے تھے، سب کے پاس ہمارا کھاتا کُھلا ہوا تھا، پیسے جانیں اور بابا، ہم تو بس خریدتے تھے، مٹھائی لے کر میں نے اپنی گلی کے پہلے گھر سے ابتدا کی، بدّن بُوا رہتی تھیں وہاں، میں نے انہیں ان کے حصے کی مٹھائی دی تو انہوں نے پوچھا، کس بات کی مٹھائی لے کر آئے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ آج پہلی مرتبہ ماں نے مارا ہے ناں تو اس لیے مٹھائی بانٹ رہا ہوں، پہلے تو حیران ہوئیں اور پھر کہا: بالکل ہی پگلا گیا رے تُو تو۔ میں نے جسے بھی مٹھائی دی تو اس نے یہی پوچھا جو بدّن بُوّا نے پوچھا تھا اور میں نے انہیں وہی جواب دیا جو میں نے بدّن بُوّا کو دیا تھا، سب ہی حیران تھے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں، بس چند گھر ہی رہ گئے تھے کہ میرے رضائی بھائی ذوالفقار میرے پاس آپہنچے، بھائی عمر میں مجھ سے خاصے بڑے تو تھے ہی لیکن ایثارومحبت کا مجسم بھی تھے، صرف میرے لیے ہی نہیں سب کے لیے، انتہائی دردمند انسان، انہوں نے آتے ہی مسکرا کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا: کیا کر رہا ہے رے تُو، تو میں نے انہیں بھی یہی بتایا، وہ مسکرائے اور کہا جلدی سے باقی گھروں میں مٹھائی دے لے اور چل میرے ساتھ گھر، ماں بلا رہی ہیں، اور پھر میں مٹھائی تقسیم کرکے ان کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ سارا محلہ ہمارے گھر جمع ہے۔

ماں نے مجھے جیسے ہی دیکھا تو وہ میری جانب دوڑیں اور پھر تو مت پوچھیے کیا ہوا، میں نے ماں کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا، لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ لپیٹے زاروقطار رو رہی تھیں، بس کہے جاتی تھیں: میرا پاگل چھورا، کیا کروں رے میں تیرے ساتھ، میں نے پہلی دفعہ ہاتھ اٹھایا تو مٹھائی بانٹنے لگا رے۔ بس وہ مجھے چومے جارہی تھیں اور روئے جارہی تھیں، سارا محلہ یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں ماں جی کا وہ لمس کبھی نہیں فراموش کرسکتا، کر ہی نہیں سکتا، میری زندگی میں وہ لمحہ امر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے بعد تو ماں جی سے جو تعلق بنا اسے بیان کرنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے، جب بھی مجھے دیکھتیں تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں اور پھر مجھ پر ان کا پیار برسات بن کر برستا۔ لیکن اس واقعے کے بعد ایک مصیبت بھی مجھ پر نازل ہوئی اور وہ یہ کہ محلے کے سارے بچے بہ شمول میرے رضائی بھائی بہنیں سب مجھے کوستے تھے اور وہ اس لیے کہ جب بھی کوئی بچہ اپنی ماں سے بدتمیزی کرتا تو اس کی ماں اسے کہتی: جاکر دیکھو اُسے اور کچھ سیکھو کہ ماں نے جب اُسے مارا تو اس نے کوئی بدتمیزی نہیں کی بل کہ وہ تو مٹھائی تقسیم کرنے لگا اور ایک تم ہو کہ ۔۔۔۔۔ کیسے کیسے نادر و نایاب اور اپنے منتخب بندوں کے ساتھ رکھا رب تعالٰی نے اپنے اس بے کارو بے مصرف بندے کو، ساری حمد و ثنا بس رب جلیل کے ہی لیے ہے۔ مالک ان سب کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے اور فقیر کو کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

میں ماضی میں گم تھا کہ اچانک ہی ایک بزرگ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے، میں انہیں پہلی نظر میں پہچان ہی نہیں سکا، جی وہی بابا جی تھے جن کے ساتھ میں آیا تھا، اُجلے کپڑے پہنے جن سے خوش بُو پھوٹ کر ماحول کو معطر کر رہی تھی۔ بیٹا! رات بھر سوئے نہیں بس ماضی میں کھوئے رہے جی بابا! سمے کا پتا ہی نہیں چلا کہ شب تیسرے پہر میں داخل ہوگئی ہے، میرے جواب پر مسکرائے اور بس مسکرائے، اور پھر نیّت باندھی اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرنے لگے اور میں چھپر میں داخل ہوکر دراز ہوگیا۔ نہ جانے کب مجھے نیند نے آگھیرا تھا، بابا کی آواز سے میری آنکھ کھلی، میں نے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی، پھر انہوں نے ناشتہ لگایا، رات کی باسی روٹی اور چائے کا مزا ہی نرالا ہے، سبحان اﷲ و بہ حمد۔

بابا نے اپنا پرانا لباس پہنا، سر پر رومال لپیٹا، راشن کا وہ تھیلا جو میں ساتھ لایا تھا، مجھے پکڑایا اور پھر ہم سائیکل پر جسے بابا چلا رہے تھے ایک سڑک جو واہ کینٹ جارہی تھی، پر رواں تھے۔ واہ کینٹ شروع ہوگیا تھا، سڑک کے کنارے ایک کارخانے جس میں آرا مشین لگی ہوئی تھی اور باہر درختوں کے تنے بے ترتیب پڑے ہوئے تھے، کے سامنے جاکر وہ رک گئے۔ انہوں نے سائیکل کھڑی کی اور ایک جانب چلنے لگے، کچھ فاصلے پر ایک کچے مکان کے سامنے پہنچ کر انہوں نے آوازہ لگایا اور ایک بچہ باہر نکل آیا، انہوں نے مجھے راشن کا تھیلا اندر رکھنے کا حکم دیا اور ہم واپس کارخانے پہنچ گئے۔ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوگئی تھی، بابا نے آرا مشین کا بٹن دبایا اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔

The post جہاں گشت : دن کیا، رات کیا، خزاں کیا، بہار کیا، بس حکم ہوا تو پکارنا چاہیے حاضر و تسلیم۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

ایسا نہ کرنا ؛ مختلف ممالک کے دل چسپ رسم و رواج

$
0
0

چین میں چھریاں تحفے میں نہیں دینی چاہیے، برطانیہ میں قطار نہیں توڑنی چاہیے اور ویت نام میں جوتے گھر کے باہر اتارنے چاہییں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے رواج رائج ہیں، جو دیگر ممالک کے باشندوں کے لیے تعجب کا باعث ہیں، لیکن سیروسیاحت کے لیے ان ممالک کا دورہ کرنے والے افراد کو ان باتوں کا جاننا ازحد ضروری ہے۔

ایسے ہی چند عجیب وغریب رسم و رواج درج ذیل ہیں جو یقیناً آپ کو جان کر بہت حیرت ہوگی۔

 ٭  جاپان میں چوپ اسٹکس کو چاول میں کھڑا رکھنا مرنے کی یاد دلاتا ہے

جاپان میں چوپ اسٹکس chopsticks (چاول وغیرہ کھانے والی تیلیاں) کو چاول کے پیالے میں عمودی انداز میں کھڑا نہیں رکھنا چاہییے۔ یہ وہاں ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ یہ جاپانیوں کو مُردوں کی تدفین کے وقت کی یاد دلاتا ہے۔ وہاں مردے کی تدفین کرتے وقت اس کے ساتھ ایک چاول کا پیالہ رکھا جاتا ہے جس کے درمیان میں چوپ اسٹکس کو عمودی انداز میں کھڑا رکھا جاتا ہے، گویا مرنے والے کو یہ کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ چوپ اسٹکس کو پیالے کے اوپر ترچھے انداز میں رکھ سکتے ہیں یا اگر ابھی کھانا کھارہے ہیں تو پیالے کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔

٭  ویت نام میں جوتے پہن کر گھر میں داخل نہ ہوں

بیشتر ممالک کے سیاحوں کے لیے شاید یہ اچنبھے کی بات ہو، لیکن اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ ویت نام میں جوتے پہن کر کسی گھر میں داخل نہیں ہونا ہے۔

گھر کے اندرونی حصے کو ذاتی جگہ سے معمور کیا جاتا ہے لہٰذا گھر میں جوتے پہن کر آنے کو بدتہذیبی اور ثقافت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا جوتے باہر اتاریں چاہے طویل قیام یعنی آٹھ دس گھنٹے گزارنے کا ارادہ ہو۔ البتہ پیر صاف ہونے چاہیے۔

٭  اٹلی میں بیرا بل نہیں لاتا

اٹلی میں کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے دوران آداب کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی روایات کے مطابق کھا نے کو رسمی معاملات سے بڑھ کر خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں ایک خاص فرق یہ بھی ہے کہ اطالوی بیرا بل لاکر آپ کے ہاتھ میں نہیں دیتا، بلکہ کھانے کے بعد بیرے سے بل لانے کی درخواست کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد بل آپ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر آپ اٹلی میں کسی ہوٹل میں کھانا کھانے جائیں تو بل کا انتظار کرنے کی بجائے خود بل کا پوچھ لیں اور پھر ادائیگی کردیں۔

٭  یونان میں پلیٹوں میں کھانا نہ چھوڑیں

یونان میں پلیٹ میں کھانا نہ چھوڑیں، اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ میزبان کی بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا مہمان کو پسند نہیں آیا۔ اگر آپ زیادہ کھانا کھانے سے بچنا چاہتے ہیں یا کوئی ڈش آپ کو مرغوب نہیں تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ کم مقدار میں کھانا پلیٹ میں ڈالیں تمام ڈشز چکھیں پھر جو ڈش پسند آئے، اس کو دوبارہ لے سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کا میزبان بے حد خوشی، اور عزت افزاء محسوس کرے گا۔

٭  سعودی عرب میں خواتین کا لباس

کسی ملک میں سیاحت کے دوران وہاں کے لباس، رہن سہن اور تہذیب و ثقافت سے آگاہی بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب میں خواتین سر پر اسکارف پہنتی ہیں اور ان کا لباس عبایا ہوتا ہے۔ خصوصاً مساجد میں اسی لباس میں جاتی ہیں۔ وہاں سیاحت کے لیے جانے والی خواتین کو بھی اس لباس کی پابندی کرنی چاہیے۔ گو کہ مشرقِ وسطیٰ میں اتنے سخت قوانین نہیں ہیں پھر بھی وہاں کے سفر سے قبل وہاں کے رسوم و رواج اور ثقافت سے آگاہی ضروری ہے۔

٭  کینیا کے ماسا قبیلے میں ملنے کا عجیب انداز

جس طرح آپ جب کسی دوست یا رشتے دار سے ملتے ہیں تو مصافحہ کرتے ہیں، اسی طرح کینیا کے ماسا قبیلے کے افراد ایک دوسرے پر تھوکتے ہیں، ان کی ثقافت میں اس کو تحفہ دینے اور تعریف و ستائش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ البتہ وہ کینیا باشندے جن کا ماسا قبیلے سے تعلق نہیں ہے، وہ عام انداز میں ہاتھ ہلاتے یا مصافحہ کرتے ہیں۔

٭  فجی میں کسی شے کی تعریف نہ کریں

فجی تہذیب و ثقافت میں آج بھی ان کے قدیم رواج ’’کیری کیری‘‘ کی پاس داری کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کسی شخص نے کوئی چیز مانگی ہے تو وہ اس کو بخوشی دی جاتی ہے اور واپسی کی امید بھی نہیں رکھی جاتی البتہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر آپ نے کسی شے کی تعریف کردی تو فجی کے باشندے بخوشی وہ شے آپ کو دے دیں گے لہٰذا فجی میں سیاحت کے دوران کسی بھی شے کی تعریف کرنے میں محتاط رہیں۔

٭  تھائی لینڈ میں ہتھیلیاں ملا کر ملنے کا انوکھا انداز

تھائی لینڈ میں ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرنے کے بجائے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو آپس میں ملا کر سینے کے قریب لے جاتے ہیں۔ وہاں کی ثقافت میں ملتے وقت اس انداز کو مؤدبانہ تصور کیا جاتا ہے گویا ملنے والے کی تعظیم کی جارہی ہے۔

٭  برطانیہ میں قطار نہ توڑیں

قطار بنانا اور قطار میں تحمل سے اپنی باری کا انتظار کرنا اس کو مغربی معاشرے میں معاشرتی آداب کے ضمن میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ قطار توڑنا یا قطار تیزی سے پھلانگنا یا بے صبری کا مظاہرہ کرنا کم زور شخصیت کی علامت سمجھا جاتا یے، جب کہ قطار میں تحمل سے انتظار کرنے اور اس دوران بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرنے والوں کو اخلاقی اعتبار سے مضبوط کردار کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ طویل قطار میں صبر و برداشت سے انتظار کرنا بھی ایک خوبی ہے۔ اس کو اپنی شخصیت میں ضرور اجاگر کرنا چاہیے۔

٭  روس میں سورج مکھی کے پھولوں کا گلدستہ نہیں دینا چاہیے

روس میں کسی شخص کو زرد پھول پیش کرنا ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے اور نفرت کا اظہار گردانا جاتا ہے۔ وہاں زرد پھولوں کو تدفین کے پھولوں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھولوں کے متعلق ہی روس میں ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ طاق اعداد میں پھول دیتے ہیں۔

٭  مراکش میں باوقار لباس زیب تن کریں

باحیا و باوقار لباس صرف مذہبی اعتبار سے ہی ضروری نہیں بلکہ مراکش میں بااخلاق و باعزت ہونے کی بھی علامت ہے۔ وہاں خواتین ہوں یا مرد سب سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسا لباس پہنیں جو کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک بدن کو ڈھانپے رکھے۔ مختصر لباس، بنا آستین کی قمیص یا تیراکی کا لباس روزمرہ معمولات کے دوران پہننا ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔

٭  چین میں چھریاں تحفے میں دینے سے گریز کریں

تحفہ دینا چین کی خاص روایت ہے، خصوصاً جب کسی سے نے دوستی ہوئی ہو۔ لیکن جب آپ کسی چینی دوست کے لیے کوئی تحفہ منتخب کریں تو دھیان رہے کہ کسی ایسی شے کا انتخاب نہ کریں جو کاٹنے کے لیے استعمال ہوتی ہو مثلاً چھری، قینچی یا ایسے کوئی دوسرے اوزار وغیرہ۔ یہ رشتوں کو قطع کرنے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ کا چینی دوست یہ مطلب اخذ کرسکتا ہے کہ آپ یہ دوستی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

٭   میکسیکو میں وقت کی تاخیر کو تحمل سے برداشت کریں

بیشتر مغربی ممالک کے تیزرفتار معمولات زندگی کی بہ نسبت میکسیکو میں زندگی کی رفتار خاصی سست ہے۔ لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں تاخیر سے پہنچنے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ لہٰذا اگر آپ کو کہیں پہنچنے میں دیر ہوجائے تو پریشان نہ ہوں۔ اسی معاشرتی رویے کے سبب اگر آپ پریشان یا عاجز آجائیں تو جذبات کے اظہار سے گریز کریں، کیوںکہ مغربی ممالک کی روایتی پابندی وقت کا شکوہ کرنے سے آپ کو ناخوش گوار ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بنیادی طور پر میکسیکو کے باشندے بہت بااخلاق اور نرم مزاج ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں کسی بھی کام میں تاخیر پر غصے میں آنے، چیخنے چلانے یا شکایت کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح وہ آپ کو بدتمیز وغیرمہذب تصور کریں گے اور وہاں قیام کے دوران کسی بھی معاملے میں کوئی بھی آپ کی مدد کے لیے آمادہ نہ ہوگا۔ لہٰذا صبروبرداشت سے کام لیتے ہوئے اپنے وقت کو خوش گوار بنائیں۔

The post ایسا نہ کرنا ؛ مختلف ممالک کے دل چسپ رسم و رواج appeared first on ایکسپریس اردو.


ہوشو شیدی

$
0
0

جیسے دلی شاہجہاں آباد اور آگرہ اکبر آباد کہلاتا ہے اسی طرح حیدرآباد کے بھی نیرون کوٹ سمیت کئی نام ہیں مگر حیدرآباد کی شان بان اور آن نام نہیں شخصیات ہیں سیاہ و سفید، ارد گرد پھیلے میدان، نہریں، پہاڑی ٹکریاں اور دریائے سندھ کا کچا۔ ان سے منسوب داستانیں اور اساطیری کردار۔ بتاؤ تو کم کم کو یقین آئے۔

بکسر، پلاسی، سرنگا پٹم کی طرح ایک معرکہ حیدرآباد کے قریب میانی میں بھی ہوا تھا۔ جب شاہ عالم ثانی ، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی طرح حیدرآباد کے تالپوروں کو بھی ’’گوروں‘‘ نے شکست دی تھی لیکن یہ ہار بھی فاتحانہ تھی کہ شکست خوردہ تالپور میدان سے گھوڑوں پر فرار نہیں ہوئے تھے۔ صوبدار تالپور کی غداری کے باعث ہاتھوں میں تلواریں اٹھائے پیدل اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ غدار کہاں نہیں ہوتے میرجعفر، میرصادق نام بدل دو کردار وہی، افعال وہی، اعمال وہی۔ میروں کی ’’صاحبی‘‘ ختم ہوئی تو اپنوں کے لگائے زخم سے ایک ضرب المثل نے جنم لیا، ’’میرن کھے گھراں لگی‘‘ یعنی میروں کی شکست کا سبب اپنے نکلے۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

1843ء میں میانی کے میدان میں17فروری کو چارلس نیپئر کے لشکر نے تالپوروں کی عسکریوں کو ناکامی سے ہم کنار کیا تھا مگر آخری معرکہ اگلے ماہ مارچ کی 24 تاریخ کو دو آبہ کے میدان میں ہوا، جسے سندھی دبہ کی جنگ کہتے ہیں۔ عبدالجبار عابد لغاری نے ’’جدوجہد آزادی میں سندھ کا کردار‘‘ کے صفحہ 28  پر لکھا ’’یہ دن انگریزوں کے لیے مشکل ترین دن تھا اور یہ جنگ میانی سے کہیں زیادہ سخت تھی۔ بلوچ اور مقامی سپاہی فرنگیوں سے بے جگری، جرأت ، ہوشیاری اور بہادری کے ساتھ لڑے اور جنگ کا نتیجہ یقیناً سندھیوں کے حق میں ہی نکلنا تھا لیکن یہاں بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ ایک طرف انگریزوں کے جاسوسوں نے خفیہ طور پر تالپوروں کے بارودخانے کو آگ لگوا دی تو دوسری سمت ایسے ہواؤں کے جھکڑ چلے کہ پورا آسمان سیاہ نظر آنے لگا۔

ایسے میں ایک گھڑسوار اپنی شجاعت اور دلیری کے جوہر دکھاتا نظر آیا۔ جس دستے کی یہ کمان کررہا تھا اس کے جوان بھی لپک اور جھپٹ رہے تھے۔ میر شیر محمد تالپور اور چویاری سلطنت کے وزیراعظم نواب احمد خان لغاری ہی نہیں انگریزی کمانڈر چارلس نیپئر نے بھی کئی مواقع پر اس گھڑ سوار کی تعریف کی۔ جیتی گئی بازی پلٹتی نظر آئی تو اس گھڑسوار نے جو ہوش محمد شدی تھا میر شیر محمد تالپور کو میدان جنگ سے محفوظ مقام کی سمت نکلنے کا مشورہ دیا۔ شیر محمد تالپور اس کے حق میں نہ تھا لیکن ہوش محمد کا اصرار غالب آیا بالخصوص یہ جملہ ’’سرکار! آپ ہی اب سندھ کی امید ہیں آپ زندہ رہے تو انگریز کے ساتھ پھر بھی لڑسکتے ہیں اگر آج شہید ہوگئے تو پھر سب کے لیے غلامی کی زنجیریں ہی بچیں گی۔‘‘ نواب احمد خان لغاری نے میر شیر محمد کو زبردستی ساتھ لیا اور میدان کارزار سے چلے گئے اب قیادت ہوش محمد شدی کے پاس تھی۔

ہوش محمد شدی کون تھا؟ افریقی النسل سیاہ فام۔ زنجبار، افریقہ تنزانیہ سے فروخت کے لیے کراچی کے ساحل پر لایا گیا غلام یا پھر مہران میں میں صدیوں سے آباد ایسے قبیلے کا فرد جو کسی فاتح کے ساتھ آیا تھا۔ کچھ بھی ہو وہ آج سندھ کا فخر ہے جب کہ خیرپور کے تالپور حکم راں اور صوبدار تالپور جو حیدرآباد کی دوسری چویاری سلطنت کا حکم راں رکن تھا، اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے ہوشو شیدی اسی صوبدار تالپور کا ذاتی ملازم تھا۔ مزاجاً اپنے آقا سے یکسر مختلف۔ وہ سازشی، جاہ پسند، اقتدار کا خواہاں یہ دھرتی کا محب، انگریزوں کا دشمن، آزادی کا خوگر، غلامی کا دشمن، اسی لیے مالک سے رشتہ توڑا اور حریت پسندوں سے جا ملا۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

میانی کی جنگ میں میر شہداد تالپور نے ’’مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مرجائیں گے سندھ نہیں دیں گے) کا نعرہ لگایا تھا۔ بلوچ النسل تالپوروں کے گھروں میں آج بھی سرائیکی بولی جاتی ہے۔ یہی نعرہ دوآبہ کی جنگ میں ہوشو شیدی نے لگایا اور دھرتی پر قربان ہوگیا۔ معرکہ ختم ہوا تو ہوشو کی نعش اس حالت میں ملی کہ تلوار کا دستہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس کا لاشہ کئی انگریزوں کے مردہ جسموں کے اوپر تھا۔

مارچ کے مہینے میں جمعیت الحبش، قمبرانی اور شیدی برادریاں ہوشو کی برسی کا اہتمام کرلیتی ہیں، لیکن تاریخِ سندھ میں جو کردار ہوشو کا طے ہونا چاہیے تھا بدقسمتی سے نہ ہوسکا اور اسے بھلادیا گیا۔ برسوں بعد ایاز نے لکھا:

اے سندھ تیری مٹی کو پیشانی لگاؤں

آزاد سندھ کا آخری محافظ سندھ پر قربان ہوگیا اور مہران پر انگریزوں نے تسلط جمالیا۔ غلامی کی یہ زنجیر 14اگست کو ٹوٹی اور سندھ ہی کے فرزند محمد علی جناح نے جو بابائے قوم اور قائداعظم کہلائے پاکستان کی صورت ایک آزاد وطن کا تحفہ برصغیر کے مسلمانوں کو دیا۔ اس مملکت کے حق میں پہلی قرار داد بھی سندھ کی اسمبلی نے منظور کی۔ 3 مارچ 1943ء وہ یادگار دن تھا جو ایسی روشن صبح لے کر طلوع ہوا تھا جب سندھ مسلم لیگ کے صدر سائیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ:

’’ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور علیحدہ قومیت ہونے کے ناتے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘

سائیں جی ایم سید کی پیش کردہ قرار داد کے الفاظ تھے’’ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور علیحدہ قومیت ہونے کے ناتے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ سائیں جی ایم سید کے الفاظ تھے ’’یہ اجلاس حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ عزت مآب وائسرائے کے ذریعے شہنشاہ انگلستان کو اس صوبے کے مسلمانوں کے جذبات و خواہشات سے آگاہ کریں کہ ہندوستان کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، جن کا علیحدہ مذہب، فلسفہ، سماجی رسومات، ادب و روایات، سیاسی اور اقتصادی نظریات ہیں۔ وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف ہیں۔

مسلمان کی وہاں اپنی علیحدہ آزاد قومی ریاست ہو جہاں وہ ہندوستان کے علاقوں میں اکثریت رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا کوئی آئین قابل قبول نہیں ہوگا جس میں مسلمانوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت دوسری قوم کے زیراثر رکھا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی اپنی علیحدہ ریاست ہو۔ اگر مسلمانوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت رہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو حکومت اس کے لیے ذمہ دار ہوگی۔ جس کا نتیجہ خانہ جنگی ہوگا۔‘‘ اس قرار داد کے حق میں شیخ عبدالمجید سندھی نے تقریر کی اور دو ترامیم پیش کیں۔ باوجود اس کے کہ نہچلداس وزیرانی نے ان ترامیم پر اعتراض کیا مگر وہ منظور کی گئیں۔ ترامیم کی آخری تیسری سطر میں لفظ ’’اپنی‘‘ کی جگہ ’’اقلیتوں کی سلامی کے لیے‘‘ شامل کیا گیا اور دوسری ترمیم کی آخری سطر کے الفاظ ’’خانہ جنگی بے گوروکفن ‘‘ کے بجائے ’’خوف ناک‘‘ لفظ استعمال کیا گیا۔

صوبدار تالپور اور ناؤ مل ہوت چند کی سازشوں سے میانی اور دو آبہ کے مقابلوں میں فرنگی لشکر کو کام یابی تو ملی تھی لیکن سندھ کے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کے جذبے کی جو جوت ہوش محمد نے جلائی تھی وہ اب شعلہ جوالا بن چکی تھی۔ آزادی کی تڑپ کا لاوا بہہ نکلنے کو تھا اور ان کے عزائم بلند اور حوصلے جوان تھے آئینی، قانونی اور پارلیمانی سطح پر جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی، پیرالٰہی بخش شیخ غلام حسین، ہدایت اﷲ، ہاشم گزدر، میر محمد بلوچ، بندہ علی تالپور ، ایوب کھوڑو سرگرم عمل تھے تو تھر، نارا اور اچھڑو تھر کے ریگزاروں اور مکھی کے جنگل میں پیر صبغت اﷲ شاہ ثانی المعروف سورہتیہ بادشاہ کے حُر مرید مسلح جدوجہد کے ذریعے بغاوت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ 20 مارچ 1943کو حیدرآباد جیل میں پھانسی کا پھندا چوم کر کسی نامعلوم مقام پر دفن ہونے والے ’’پیر‘‘ کی آخری آرام گاہ کی ہنوز نشان دہی نہیں ہوسکی ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں تھر کے روپلوکولہی کا کردار بھی مثالی ہے جس نے بہادرانہ موت قبول کی یہ سب ایک تفصیلی تحریر کا موضوع ہیں فی الوقت تو بات ہوش محمد شیدی کی ہے جس کے ہم نام سندھ میں سیکڑوں ملتے ہیں لیکن صوبدار کہیں کہیں کوئی ایک۔ جیسے چنیسر اور دُودُو ۔ سومرو قبیلے کا فخر دُودُو ٹھہرا جس نے علاؤالدین خلجی سے مقابلہ کیا اور جان دے دی۔

رات ڈھلی اور صبح ہوئی

ابھرا صبح کا تارا

غوث بہاء الحق کا گونج اٹھا ہے نعرہ

ڈنکے پر ہے چوٹ پڑی بجنے لگا نقارہ

دودا ہے گھوڑے پہ سوار

ہرے گلابی پیلے پرچم

چہار سمت للکار یہی ہے

بڑھو لڑو اور وار کرو

ان ماؤں کے صدقے جاؤ

جن کی گودوں میں ایسے بیٹے پروان چڑھے

تالپور لشکر کی شکست کے بعد میران حیدرآباد گرفتار ہوئے میر نصیر محمد خان تالپور نے بقیہ زندگی کلکتہ میں گزاری۔ میر مراد علی تالپور کے فرزند کو چارلس نیپئر، میرآؤٹ رام کی بدعہدی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہوش محمد شہید ہوچکا تھا اور تالپور لشکر تتر بتر۔ قلعہ حیدرآباد میں انگریز سپاہیوں نے لوٹ مار کی ہتھیار، خزانہ، کتب خانہ اور قیمتی اشیاء سب فرنگیوں کی دسترس میں تھا۔

ہوش محمد شہید کی بہادرانہ موت کا اعتراف چارلس نیپئر نے بھی کیا۔ تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ عمل میں آئی ایک روایت کے مطابق 1801ء میں سندھ دھرتی پر پیدا ہونے والے ہوشو نے 24مارچ 1843ء کو دو آبہ کے میدان میں آخری سانس لی اور شہادت کا رتبہ پالیا۔ آج بھی ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا گونج دار نعرہ سندھ دشمنوں پر بصورت برق گرتا ہے کہ ہوشو کے اس نعرے نے اسے سندھ کی تاریخ میں امر کردیا۔ پونے دو سو برس گزر گئے لیکن ہوشو کو وہ مقام نہ مل سکا جو آزادی کے متوالے اور دھرتی پر جان قربان کرنے والے کا استحقاق تھا۔

The post ہوشو شیدی appeared first on ایکسپریس اردو.

آزاد کشمیر: سیاحت اور تاریخی ورثہ کا مرکز

$
0
0

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کوجانے کے لئے وزارت داخلہ حکومت پاکستان سے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد بین الاقوامی سیاحوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا، وہ مظفرآباد اور راولاکوٹ  تک پہنچے۔

وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن نمبر 18/97/1973-PE-II,21-3-2019 کے مطابق گلگت بلتستان میں پاک چین سرحد سے 10میل کے فاصلے تک ، آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے 5میل کے فاصلے تک اور سیاچن میں پاک بھارت ایکچوئل لائن آف کنٹرول سے 10میل کے فاصلے تک تمام غیر ملکیوں کو بغیر پیشگی اجازت نامہ جانے کی اجازت ہے۔اس سے قبل آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں سیاحت کے فروغ کیلئے نجی شعبے کو آزادکشمیر کے سیاحتی منصوبوں میں سرمایہ کاری اورمحکمہ سیاحت کی جانب سے نجی سرمایہ کاروں کو زمین یا بلڈنگ لیز پر منتقل کرنے کے بارے میں آرڈیننس منظور کیا گیا تھا اور وزیر سیاحت کی سربراہی میں ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی، اسے سٹیٹ ٹورازم ایگزیکٹو کمیٹی کہا جائے گاجو آرڈیننس رولزاور سیاحتی پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔ اب بین الاقوامی سیاحوں کو ریاست پاکستان کی جانب سے اجازت نامہ جاری کرنے کے بعد جہاں مقامی حکومت کی ذمہ داریاں بڑھیں گی وہیں آزاد حکومت کو اس صنعت سے اچھا زر مبادلہ بھی حاصل ہو گا۔

آزاد کشمیر میں آمدنی کے سب سے زیادہ مواقع ہائیڈل پاور کے بعد سیاحت میں ہیں۔ ہائیڈل پاور کے حوالے سے آزاد حکومت اور ریاست کے پاس اختیارات نہیں ہیں جس کی وجہ سے آزاد حکومت اور آزاد کشمیر کے عوام اس صنعت سے مستفید نہیں ہوسکتے تاہم سیاحت آزاد کشمیر کیلئے ایسی صنعت ہے جس سے عام آدمی سے لیکر آزاد حکومت تک مستفید ہو سکتے ہیں۔ پانچ ہزار مربع میل کے اس علاقے میں سینکڑوں خوبصورت سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ سینکڑوں تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ بھی موجود ہیں جو آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔

سیاحت بنیادی طور پر تفریح، فرحت بخشی،صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لئے سفر کو کہتے ہیں۔اس سے مختلف ثقافتوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔سیاحت کی مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والی سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں،تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں اور ایڈونچر ٹورازم(مہم جوئیانہ سیاحت) جس میں مختلف دشوار گزار راستوں اور دریاؤں وغیرہ کا سفر کیا جاتا ہے۔

آزادریاست جموںوکشمیرمیںقدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں،اس کے ساتھ ساتھ مختلف قلعے،تاریخی مقامات،آثار قدیمہ عمارتیں، وادیاں، دریا، جنگلات، جھیلوںسمیت بہت کچھ موجود ہے۔اسی طرح آزاد کشمیر میں تینوں اقسام کی سیاحت فروغ پاسکتی ہے۔

آزاد کشمیر آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثہ میں ممتاز مقام رکھتاہے۔ جہاں نامور حکمرانوں کے بنائے قلعہ جات طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں تو وہیں مساجد ، مندر، گردوارے اور درگاہیں مذاہب کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کا آئینہ دار ہیں۔2008 میں آزاد حکومت نے 26 تاریخی مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیںسیاحتی مقام کا درجہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

ایک تحقیق کے مطابق آزاد کشمیر100سے زائد قدیم تاریخی مقامات ہیں۔ جن میں قلعے ، مذہبی عبادت گاہیں، باولیاںاور کئی تاریخی عمارات کی بڑی تعداد موجود ہے جو ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا عکاس ہے تاہم آزاد حکومت کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کے باعث آثار قدیمہ کی حفاظت نہ کی جا سکی۔ ان مقامات کو آزاد حکومت سیاحت کے مقاصد کیلئے استعمال کرے اور ان کی حفاظت کرے تو آزاد کشمیر کی سیاحت میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور اس سے بین الاقوامی سیاحوں کی آزاد کشمیر میں دلچسپی بھی بڑھے گی۔آزاد کشمیر میں تاریخی ورثہ ہمیشہ سے خطرات سے دوچار رہا تاہم اب آزاد حکومت کی جانب سے آثار قدیمہ کے حوالے سے دلچسپی دکھائی جا رہی ہے اور آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں آرکیالوجی کا شعبہ قائم کیا گیا ہے جس سے آثار قدیمہ کے حوالے سے تحقیق ہو سکے گی۔

آزاد کشمیر میں آثار قدیمہ کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت پانے والا مقام شاردہ ہے جو نیلم میں موجود ہے۔ یہ قبلاز مسیح سے تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ مقام آج بھی ہندو مت، بدھ مت اور شیو مت  کے نزدیک مقدس جانا جاتا ہے۔ جب پاکستان کی جانب سے سکھوں کیلئے کرتار پور بارڈر کھولا گیا تو ہندؤں کی جانب سے شاردہ کا رستہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا جو اس مقام کی اہمیت کا ایک ثبوت ہے۔محققین کے مطابق3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیا میں آنے والے برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس جگہ آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔یہاں بڑے بڑے پتھروں کی 18سے28فٹ اونچی دیواروں کا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جو تہذیبوں کے مرکز کے طور پر مشہور ہے۔ہر سال ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیلم میں کشن گیتی غار بھی مشہور تاریخی مقام ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بڑی تعداد میں قلعے موجود ہیں جو یہاں کے حکمرانوں کی طرز حکمرانی اور فن تعمیر کے عکاس ہیں:

آزاد کشمیر میں موجود قلعوں میں

٭ قلعہ اور جھیل باغ سر( بھمبر کا ایک خوبصورت اور تاریخی مقام باغسرمیں واقع ہے۔ اس کی تعمیر مغلیہ دور میں ہوئی۔ یہ قلعہ ایک تاریخی روایت کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر جب دورہ کشمیر پر آیا تو واپسی میں وہ قلعہ باغ سر میں بیمار ہوا اور یہیں پر اس نے وفات پائی۔ اس کے جسد کو باغ سرسے لے جاکر لاہور میں دفن کیا گیاتھا۔ مغلوں کے بعد دیگر بادشاہ بھی قلعہ باغ سر میں رہے۔ قلعے کے دامن میں واقع باغ سر جھیل اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرتی ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے)۔

٭ قلعہ رام کوٹ ضلع میر پور (قلعہ رام کوٹ آزادکشمیر کا منگلا جھیل میں گھرا ہوا ایک گمنام قلعہ جو ڈھنگروٹ کے قریب ہے۔ قلعہ رام کوٹ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے،جو تین اطراف سے دریاؤں میں گھرا ہے۔ منفرد طرزِ تعمیر کی بنا پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ یہ قلعہ 900 سال قبل 1150 عیسوی میں گکھڑ دور میں سلطان راجن نے تعمیر کروایا اور اس کا نام ’’قلعہ ترلو‘‘ رکھاگیا۔ 1206 میں مسلم حکمران شہاب الدین غوری نے اسے فتح کیا۔ پھر سکھوں نے جب یہ علاقے فتح کئے تو1585 میں رانی منگو نے اس قلعے کی ایک بار پھر سے تزئین و آرائش کی اور نام بھی بدل ڈالا۔یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط آیا۔ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن اس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کرنا مشکل ہے کہ اس کی آخری تعمیر سولہویں صدی میں ہوئی۔پانی کے تالابوں کے بارے میں مورخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔ اس وقت قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔)

٭ بارل قلعہ پلندری (پلندری سے بارہ میل جنوب کی طرف دو بڑے نالوں کی درمیان اونچی گھاٹی پر ایک عمر رسیدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے کی مسلسل بے اعتنائیوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ یہ عمارت تقریباً  پونے دو سو سال قبل تعمیر ہوئی۔ یہ قلعہ بارل کے وسط میں واقع ہے اور ایک سو برس تک ڈوگرہ حکومت کامقامی مرکز رہا ہے۔ اس کے مشرق میں کوہالہ، مغرب میں اٹکورہ، شمال میں پلندری اور جنوب میں سہنسہ و اقع ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد 1837 میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں رکھا گیا۔ اسکے پتھر سہر نالہ (جو ڈیڑھ میل کی دوری پرہے)سے لائے گئے۔ علاوہ ازیں سرخی اور چونا پنیالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے)سے لایا گیا۔

قلعہ کی تعمیر میں جو پتھر استعمال ہوئے ہیں وہ مختلف سائز کے ہیں جن میں سب سے چھوٹا پتھر 47 انچ جبکہ سب سے بڑا 127 انچ کا ہے۔قلعے کی اندرونی دیواریں 22 انچ چوڑی ہیں جبکہ باہر کی دیوار 38 انچ چوڑی ہے جس میں بندوقوں اور ہلکی توپوں سے فائر کرنے کی جگہیں موجود ہیں۔ قلعے کی تکمیل 1839 میں ہوئی۔ ڈوگرہ سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص و عام بچوں کی ایک تربیت گاہ میں بدل گئی۔ 1947ء سے1957ء تک اس قلعے سے مڈل سکول کا کام لیا گیا کیونکہ سکول کیلئے کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔ یہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر سرگر یہ کناں ہے دو ہالوں اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط میں ایک کنواں ہے جس کی گہرائی کافی زیادہ ہوا کرتی تھی لیکن وہ اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔)

٭باغ قلعہ( ضلع باغ میں واقع ہے اور باغ پولیس کے انتظام میں ہے)۔

٭ قلعہ کرجائی (یہ قلعہ کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ سے تقریباً 13 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔)

٭ بھرنڈ قلعہ سہنسہ(سہنسہ میں موجود اس قلعے سے پورے سہنسہ کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قلعہ ڈوگرہ دور میں تعمیر ہوا )۔

٭ قلعہ منگلا میرپور( یہ قلعہ میرپور میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعہ کا نام بادشاہ پورس کی بیٹی منگلا دیوی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا)۔

٭لال قلعہ (ریڈ فورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مظفر آباد شہر میں واقع ہے ۔ یہ قلعہ چک دور کے حکمرانوں نے تعمیر کروایا)۔

٭قلعہ گوجرا (اسے بلیک فورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بھی مظفرآباد شہر میں واقع ہے)۔

٭برجان فورٹ(یہ قلعہ میرپور میں موجود ہے)۔

٭ تھروچی قلعہ( یہ قلعہ ضلع کوٹلی کے علاقے گلپور میں واقع ہے اور منگرالوں کے دور میں اس کی تعمیر ہوئی۔)

٭سوہلناں قلعہ ( یہ کوٹلی میں واقع ہے)۔

٭ایون قلعہ (یہ قلعہ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع  ہے اور ڈوگرہ دور میں تعمیر کیا گیا)، اس کے علاوہ ٭چک قلعہ،اور٭آئن فورٹ بھی شامل ہیں ۔

تقسیم سے پہلے آزاد کشمیر کے علاقے میں غیر مسلموں کی آبادی 12 فیصد تھی اور ہندو اور سکھ پورے علاقے میں موجود تھے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کی کئی جاگیریں تھیں اور معاشی اعتبار سے بہت مضبوط تھے۔ اس کی معاشی حالت مضبوط ہونے کے باعث وہ پورے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے اور ان ان کی عبادت گاہیں (گردوارے اور مندر ) پھیلی ہوئی تھیں۔ اس لیے آزاد کشمیر میں آج بھی ان کی عبادت گاہیں موجود ہیں جو تاریخی ورثے کا حصہ ہیں۔

آزاد کشمیر میں گردوارے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

جن میں ٭علی بیگ گوردوارہ( یہ گوردوارہ بھمبر میں موجود ہے اور ابھی تاریخی سیاحتی مقام کے طور پر مشہور ہے۔٭دیری صاحب گردوارہ( یہ راولاکوٹ میں موجود ہے مقامی طور پر سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں) ، ٭ دھمنی گوردوارہ راولاکوٹ میں  ہے اس کے علاوہ بھی پونچھ کے مختلف علاقوں میں مندر پائے جاتے ہیں جن کی نشان دہی اور تحقیق ہونا باقی ہے۔

اسی طرح مندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں ٭سیتا رام مندر( مدینہ مارکیٹ مظفرآباد میں موجود ہے)،٭ پرانا سیکرٹریٹ مندرمظفرآباد، ٭چناری مندر، اس کے ساتھ کوٹلی میں کئی مندر موجود ہیں جس طرح موجودہ وقت میں کوٹلی میں مساجد کثیر تعداد میں موجود ہیں کسی وقت یہاں مندروں کی تعداد درجنوں میں رہی ہے۔ کوٹلی میں دریائے پونچھ کے کنارے کئی مندر ہیں جو آج بھی صحیح سلامت ہیں جن میں٭بلیاں محلہ مندر کوٹلی، ٭ شیوا مندر(جمال پور کوٹلی۔ کوٹلی شہر کے محلہ جمال پور میں واقع ہے۔)٭ کوٹلی میں دریائے پونچھ کے کنارے تین مندر ہیں جن میں ایک چھوٹا اور دو بڑے مندر ہیں، ٭ کوٹلی شہر کے محلہ شاہی جامعہ مسجد میں ایک مندر زیر زمین ہے جو ابھی تک موجود ہے۔ یہ مندر گھروں کے درمیان میں موجود ہے ، اہل محلہ کی دیکھ بھال کے باعث یہ مندر اچھی حالت میں موجود ہے۔ ٭منڈھول مندر ،٭ دھیرہ مندر ،٭ سیری مندر، ٭بھانگانہ مندر ،٭ بھرنڈ مندر ، ٭کیانی بیان مندر اور ٭ مترانی مندر شامل ہیں۔

سکھ دور کی کئی باولیاں بھی موجود ہیں جو اس دور کے فن تعمیر اور تاریخ کا بڑا حوالہ ہیں۔ یادرے کہ’’باولی ‘‘ پانی کے چشمے کو کہا جاتا ہے ۔ سکھوں کی باولیوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مخصوص طرز پر تعمیر کی گئیں ہیں جو اب بھی منفرد نظارہ رکھتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں موجود ان باولیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے تاہم ان میں سے کئی باولیاں بہت مشہور ہیںجن میں٭رانی کی باؤلی تیتری نوٹ( یہ ضلع پونچھ میں لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے یہاں سے آج بھی اہل محلہ پانی بھرتے ہیں)، ٭رانی بلاس پوری کی باولی (رانی بلاس پوری کی باولی کے نام سے مشہور عمارت پلندری شہر کے قریب واقع ہے، پلندی شہر سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔)٭رانی کی باؤلی اور چھپر بھمبر،٭سیتا باؤلی بھمبر،٭برنا باولی ،٭ چڑھوئی باؤلی ،٭ سیری باؤلی ،٭ چوخ باؤلی ،٭ منڈھول بازار باؤلی،٭ رکھنتری باؤلی ،٭ شمس آباد باؤلی ،٭ آرارہ باؤلی ،٭ اپر کوئیاں باؤلی (راولاکوٹ کے نواحی علاقے کھائیگلہ کے قریب پائی جاتی ہے)، ٭خوشیانی بہک باؤلی (راولاکوٹ سے براستہ دھمنی تولی پیر جاتے ہوئے راستے میں ہے) ، ٭نالہ باؤلی ،٭ دحیرہ باغ باؤلی ،٭ بھگت کیر باولی ،٭ ناوان باؤلی،٭ طلب رام سنگھ باؤلی میرپور ،٭ ناوان ویل میرپور شامل ہیں۔

آزاد کشمیر کے تاریخی ورثے میں مغلوں کی یادیں بھی موجود ہیں جن میں مغل روڈ دونوں اطراف کشمیر میں مغلوں کی بہترین یادگار مانی جاتی ہے اس کے علاوہ ٭۔مغل مسجد بھمبر،٭ہاتھی گیٹ بھمبر ، ٭سرائے سعد آباد سماہنی ، ٭36۔مغل سرائے کوٹلی، ٭رانی باغ حویلی ، ٭نوری چھمب (آبشار) حویلی میں موجود ہیں ۔

کئی اولیائے کرام کے مزارات بھی موجود ہیں جو تقسیم سے قبل سے آج تک اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان درباروں میں ٭دربار سائیں سہیلی سرکار، ٭دربار پیرچناسی (مزار پیر شاہ حسین بخاری) ،٭ دربار کھڑی شریف میرپور، ٭دربار بابا شادی شہید ، ٭دربار مائی طوطی صاحبہ کوٹلی، ٭دربار سائیں میٹھا،٭ دربار کائیاں شریف ، ٭ دربار سالک آباد،٭ بابا شیر شاہ دربار کوٹلی،٭،دربار بابا شادی شہیدبھمبر، ٭دربار حاجی پیر ضلع حویلی(لائن آف کنٹرول کے پاس موجود ہے)،  شامل ہیں۔

ان کے علاوہ کئی متفرق مقامات بھی ہیں جن میں ٭یادگار شہدائے منگ ہے ۔ یہاں ایک درخت ہے جس سے باندھ کر 1832ء میں سکھ حکمرانوں سے بغاوت کے جرم میں29 زندہ افراد کی چمڑیاں اتاری گئیں۔٭ڈاک بنگلہ ٹائیں ، ٹائیں ڈاک بنگلہ کے نام سے مشہور یہ ریسٹ ہاؤس تاریخ پونچھ اور کشمیر میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ مہاراجہ ہری سنگھ اور برطانوی سرکار کے زیرِاستعمال رہا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ زمانے کے استبداد اوراربابِ اختیار کی روایتی بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہو کر اب تیزی سے کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔٭ قائد اعظم ٹورسٹ لاج ،برسالہ مظفرآباد،اس کی تعمیر ڈوگرہ میں ہوئی۔ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ بانی پاکستان 25 جولائی 1944 کو یہاں رکے تھے جب وہ کشمیر کے دورے کے بعد سری نگر سے راولپنڈی جا رہے تھے۔٭کشن کور کی حویلی کھاوڑہ ،یہ حویلی مظفرآباد محض40کلو میٹر دور واقع ہے۔ڈنہ کچیلی گورنمنٹ کالج سے ملحق کشن کور کی تاریخی حویلی اور اس کے ساتھ پانی کی باولی ہے۔حویلی کی تعمیر مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں1916 میں ہوئی۔ ایک صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ عمارتیں اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی رہ کر گزرے حالات کا قصہ سنا رہی ہیں۔ 1947 سے یہ عمارت خالی پڑی ہے۔

کوٹلی کھوئی رٹہ میں کئی عجیب و غریب مقامات ہیں جو کسی تہذیب کا پتا دیتے ہیں ٭ وادی بناہ کی غاریں ،’’ پریوں کے گھر ‘‘کے نام سے مشہور یہ مقام کوٹلی میں ہے۔ ان غاروں کی دیواروں پر کشیدہ کاری موجود ہے جو کسی پرانی تہذیب کا پتا دیتے ہیں۔ اسی طرح قریب ہی ایک دوسری سرنگ ’’ بن گنگا سرنگ کھوئی رٹہ،‘‘ موجود ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ سرنگ کھوئی رٹہ سے راجوری جانے کا مختصر راستہ تھا تاہم اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے۔ ٭ بارات کے پتھر، کھوئی رٹہ کے مقام پر موجود ان پتھروں سے کئی عجیب کہانیاں منسلک ہیں تاہم یہ مقام بھی ایک تاریخ رکھتا ہے اور تحقیق کرنے والوں کو دعوت دیتا ہے۔ ٭ منجواڑ کھوئی رٹی کے مقام پر کسی پرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں اس کے علاوہ ٭قدیم غاریں نزد دربار مائی طوطی،٭ اصحاب رڈا( سات قبریں) بھی مشہور ہیں تاہم اس بارے تحقیق ہونا ابھی باقی ہے۔

یہ آزاد کشمیر میں قدیم مذہبی، تاریخی اور ثقافتی مقامات کی تفصیل ہے جن کی مرمت کے بعد آزاد حکومت ان کو سیاحت کیلئے کھول سکتی ہے اور اربوں روپے کا زرمبادلہ حاصل کر سکتی ہے۔

آزاد کشمیر کے تاریخی مقامات کے حوالے سے ثقافتی ورثہ پر تحقیق کرنے والی پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ خان کہتی ہیں کہ آزادکشمیر حکومت نے تاریخی اور قدیم ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی انھیں سیاحت کیلئے استعمال کرنیکی کوئی پالیسی بنائی ہے۔ آزادکشمیر حکومت ابھی تک مظفرآباد میں موجود تاریخی مقامات کو زلزلہ کے بعد مرمت نہ کر سکی تو دیگر جگہوں کو کیسے درست کرے گی؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسی تاریخی اور مذہبی جگہوں کو سیاحت کے استعمال سے قبل محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں محفوظ کرنے کے کئی مراحل ہوتے ہیں۔ جن میں ابتدائی مرحلہ کسی جگہ کی نشاندہی (ڈاکیومنٹ) کرنا ہوتا ہے،پھر اس کی پروٹیکشن کا مرحلہ آتا ہے جس میں جگہ کی صفائی وغیرہ کرنا ہوتا ہے اور حفاظت کا بندوبست کیا جائے، پھر کنزرویشن شروع کی جاتی اور پھر اس کو اصل اور پرانی حالت میں لانے کے اقدامات کرنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سائٹ کی تاریخ پر مبنی تختی لگائی جاتی ہے اور اس کے بعد سیاحوں کیلئے کھولی جاتی ہے۔ آزادکشمیر حکومت زبانی طور پر سیاحت کا سال منا رہی ہے لیکن ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنا کر سیاحتی مقامات کیلئے استعمال کرنے کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

مذہبی ، تاریخی اور ثقافتی سیاحت کے حوالے سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ترجمان راجا وسیم نے بتایا ہے کہ ثقافتی ورثے کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کرنے کیلئے حکومت نوٹیفیکیشن کرچکی ہے اور اس کے ساتھ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ میں آرکیالوجی ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آرکیالوجیکل ایکسپرٹ رکھے گئے ہیں جو ان سائٹس پر کام کر کے ان کی تعمیر نو یا سیاحتی مقام بنانے کیلئے کام کر سکیں گے۔ اس سال بھی ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے کام نہ کرنے کے باعث ثقافتی سیاحت کیلئے مختص کئی فنڈز سرنڈر ہوئے ہیں جس پر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے سخت نوٹس بھی لیا۔اب آرکیالوجیکل ونگ کے تحت ان سائٹس کی مرحلہ وار تعمیر نو کیلئے ایک کمپنی(جس کمپنی نے پاکستان کی کئی آرکیالوجیکل سائٹس کی تعمیر نو کی تھی) کی خدمات حاصل کی گئی ہیں تاکہ آزاد کشمیر میں مذہبی ثقافتی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ سیاحوں کی سہولیات کیلئے ہوٹلز، رہائشی مکانات ، لاگ کیبن ، گیسٹ ہا سز، ٹورسٹ ہٹس ، لکڑی کے بنے گھر،کیمپنگ سائٹس ،سیاحوں کے گروپ کے لیے رہائشی سہولیات ،ریسٹ ہاؤسز، ریسٹورنٹس ،ٹینٹ اور دیگر منصوبے بنائے گئے ہیں جن پر کام جاری ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پانچ ہزار مربع میل علاقے پر محیط آزادریاست جموں و کشمیر میں سیاحت کو ایک صنعت کا درجہ دینے کیلئے قدرتی حسن، مذہبی مقامات ، آثار قدیمہ اور ایڈونچر ٹورازم کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کرتے ہوئے حکومتی سرپرستی اور نجی شعبے کے اشتراک سے ڈیویلپ کیا جائے، تمام علاقوں تک آسان رسائی کیلئے سڑکوں کی بہتری اور پختگی کے علاوہ سیاحوں بالخصوص بین الاقوامی سیاحوں کو تمام تر جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے ترجیحی اقدامات کئے جائیں اورپھر بین الاقوامی سیاحوں کا رجحان اس حسین و جمیل خطے کی جانب موڑنے کیلئے تمام تاریخی، قدرتی اور مذہبی مقامات کی عالمی برانڈنگ کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس شعبے کو باضابطہ صنعت کا درجہ دیکر نہ صرف اس خطے کی معیشت کو ترقی دی جا سکے بلکہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے خوبصورت اور پر امن چہرے کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔

The post آزاد کشمیر: سیاحت اور تاریخی ورثہ کا مرکز appeared first on ایکسپریس اردو.

سرکاری ملازمین حاکم اعلیٰ، بے بس عوام بدترین غلام

$
0
0

وطن عزیز میں جب بھی کوئی شہری اپنے جائز مسئلے کے حل کیلئے کسی بھی سرکاری دفتر میں جاتا ہے تو فرعون بنے ہوئے سرکاری ملازمین اپنے ہی لوگوں سے وہ سلوک کرتے ہیں، جو دنیاکی کوئی بھی فاتح اور وحشی قوم بھی اپنی مفتوح اور غلام قوم سے نہیں کرتی اس قدر حقارت انگیز سلوک کیا جاتا ہے کہ ہر عزت دار بندہ سرکاری دفتر میں جانے سے اجتناب کرتا ہے، کسی ایک ادارے یا سرکاری دفتر میں عوام کو معمولی عزت نہیں دی جاتی۔ کوئی یہ بھی نہیں سوچتا کہ ایک سائل یا بے بس فرد کو ذلیل کرنا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا کتنا بڑا گناہ اور غیر اخلاقی بات ہے۔ حتیٰ کہ نائب قاصد اور گارڈ تک ہر عزت دار شہری کو بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

معدوم ہوتی ہوئی احتجاجی آوازیں
ہمارے ملک میں کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اب احتجاجی آوازیں کمزور ہوتے ہوتے معدوم ہو رہی ہیں، ظلم و ناانصافی پر احتجاج کرنے والے ریاستی معاملات سے بیزار اوربددل ہو چکے ہیں۔ جب عوا م کے احتجاج، جذبات، احساسات اور گلیِ شکوے کو چنداں اہمیت نہ دی جائے تو آخرکار بددلی اور بیزاری کے سوا اور کیا راستہ رہ جاتا ہے، بیزار اور بد دل افراد صرف وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، یہ افراد زندگی کی حقیقی رِمق اور خوشیوں سے محروم ہو چکے ہیں، اس بات کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جس سے اس وقت وطن عزیز دوچار ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں تنزلی کا شکار ہیں، ملکی ترقی، نظام تعلیم، سائنسی ترقی اور کھیل سمیت ہم ہر جگہ نیچے سے نیچے جا رہے ہیں۔

موجودہ دور میں بھی میرٹ کا نظام نظر نہیں آتا ’’وزیراعظم سٹیزن پورٹل‘‘ قائم ہونے کے باوجود افسر شاہی کے روّیے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ’’سٹیزن پورٹل ‘‘ میں تقریباً دس لاکھ شکایات درج کروائی گئیں، وزیر اعظم آفس کے مطابق 80 فیصد شکایات کو نبٹا دیا گیا ہے۔ مگر میڈیا میں ابھی تک ایک خبر بھی ایسی نہیں آئی کہ عوام کی تکلیف یا مشکل کا باعث بننے والے کسی بھی سرکاری ملازم کو غلط روّیے کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا ہو یا اُسے ایسی سزا دی گئی ہو کہ دوسروںکو عبرت حاصل ہو، بلکہ اُلٹا سرکاری ملازمین کے دلوںسے وزیراعظم اور وزیر اعظم آفس کا خوف بھی ختم ہوگیا ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی (جو کہ ہر چینل دکھا رہا ہوتا ہے) سے سرکاری ملازمین بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔نااہل، نکمے اور سازشی سرکاری ملازمین نے ریاست کو جس نہج پر پہنچایا ہے سب کے سامنے ہے مگر ان افراد نے عوام کو بھی ریاست سے ہی بد دل کر دیا ہے۔

محب وطن پاکستانی کی ہجرت
ماسٹر عبدالحمیدوطن اور دین سے انتہائی محبت رکھنے والے اسکول ٹیچر تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے انکا کُُنبہ گورداس پورمیںرہائش پذیر تھا، وطن کو آزادی مِلی تو ان کے دادا، تایا، والد اور ماموں کو شہید کردیا گیا۔ دو جوان بہنوں کو سکِھ بلوائی اٹھا کر لے گئے، ماں لاپتہ ہوگئی وہ کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچے، لاہور میں ان کا پہلا ٹھکانہ مہاجرکیمپ بنا پھر وہ گوالمنڈی کے علاقہ میں رہائش پذیر ہوگئے، مزدوری کرنے کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے، پھر بی اے کیا اور سرکاری نوکری کی بجائے صرف اس لئے’’ٹیچنگ ‘‘ کو تر جیح دی کہ انھیںقوم کو تعلیم دینے اور تربیت کرنے کا موقع مِلے گا۔

اس زمانے میں سرکاری نوکری مِلنا قطاً دشوار نہیں تھا بلکہ تعلیم یا فتہ نوجوانوں کی ضرورت تھی، وہ اپنے شاگردوں کو بڑی دلسوزی اور جانفشانی سے پڑھاتے تھے، اسی اثنا میں ان کی شادی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا ۔ وہ اپنے شاگردوں کو ’’نصاب اور کتاب ‘‘ پڑھانے کے علاوہ کردار سازی اور حبّ الوطنی پر بہت زور دیتے تھے، ان کے شاگرد نمایاں عہدوں تک پہنچے ، وہ ہمیشہ کہتے کہ اچھا استاد ’’معمارقوم‘‘ ہوتا ہے۔ شام کو وہ بہت سارے طالبعلموں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ کہتے تھے’’ میں اپنے وطن کی تعمیر نو میں اپنا حق ادا کر رہا ہوں،‘‘ اس وطن کیلئے جس کی بنیادوںمیں میرے پیارے ابا جی کا خون ہے، میرے دادا کا خون ہے، تایا کا خون ہے، میری بہنوں کی عصمتوں کا خون ہے، ہمارے پورے خاندان کی آزرئووںکا خون ہے۔

انھوں نے اپنے دونوں بیٹوںکی پرورش اور تربیت کی بنیاد ہی اعلیٰ اخلاقی اوصاف، دین سے محبت اورا نتہادرجہ کی حبّ الوطنی پر رکھی، وہ اپنے بچوں کو خاندان کی قربانیوں کا ذکر کر کے وطن کی خدمت کا درس دیتے، بچے یہی باتیں سُن کر جوان ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سرکاری نوکری کی تلاش شروع کی، ایک بیٹے کو کسی نہ کسی طرح ایک سرکاری محکمے میں نوکری مِل گئی مگر یہ و ہ دور تھا کہ سرکاری ملازم تنخواہ ’’ٹوکن منی‘‘ کے طور پر وصول کرتے تھے اصل آمدنی رشوت کی کمائی تھی، اسکی تربیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ رشوت کی کمائی سے بچوں کی تربیت کی جائے یا گھر یلو اخراجات پورے کئے جائیں، اس کی ایمانداری اس کے لئے وبال جان بن گئی، دفتری ساتھی اس کی ایمانداری سے تنگ تھے۔

محدود آمدنی کی وجہ سے معاشرے میں بھی اُسے کوئی مقام حاصل نہ تھا، اس کے اخلاقی اوصاف ، ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبات اس کی خوشیوں اور پُر سکون زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، داستان بڑی طویل ہے ، قصہ مختصر یہ کہ ایک دن وہ وطن چھوڑ کر لندن چلا گیا ، اب وہ وہاں پُر سکون زندگی گزار رہا ہے، وہاں اس نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کی، تین بچے ہوئے، بیوی نے کئی دفعہ کہا کہ بچوں کو ان کا اصل وطن دکھاتے ہیں، مگر وہ انکار کر دیتا ہے،کہتا ہے کہ وہاں انصاف نہیں ہے ، ایماندار اور محنتی شہریوں کی قدر نہیں ہے، وطن سے محبت کرنے والوں کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے، سرکاری ملازمین فرعونیت کی انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں، وہ وطن واپس نہیں آیا۔ اس وطن کے لئے سارا خاندان قربان کرنے والے کا بیٹا اپنا وطن چھوڑ کر چلا گیا ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟

محکمہ پولیس نوجوان نسل کی بددلی کا باعث بن چکا ہے
نعیم نامی ایک لڑکا وطن کی خدمت کا جذبہ لئے جوان ہوا، تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ مختلف جماعتوں کے سیا ستدانوں نے اپنا ووٹ بنک بنانے کیلئے اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کروا دیا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں بھرتی کروا دیا ہے کہ اب سالوں تک کوئی بھی نئی آسامی نہیں نِکل پائے گی، ان سیا ستدانوں نے میرٹ کی پرواہ کی نہ اہلیت کی، نا اہل اور نکمے ترین افراد کو سرکاری محکموں میں کھپا دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ ایک جماعت کے سربراہ کے اپنے خاندان کی لا تعداد سریا ملیں، شوگر ملیں، کارخانے اور دوسرے کاروبار تھے، انھوں نے اپنا ووٹ بنک بنانے اور بڑھانے کیلئے بے روز گار نوجوانوں کو اُن میں نوکریاں نہیں دیں بلکہ انھیں سرکاری محکموں میں نوکریاں دے کر قوم کو ذلیل کروانے کیلئے ان پر مسلط کردیا۔

اس نوجوان کو سرکاری نوکری نہیں مِلی تو اس نے نجی کمپنی میں نوکری کر لی، 3 ماہ بعد اُسے نجی کمپنی سے تنخواہ نہیں ملی بلکہ اُسے نوکری سے ہی نکال دیا گیا، اُس نے لاہور کے تھانہ لیا قت آباد سے رجوع کیا۔ وہاں صدیق نامی اے ایس آئی نے درخواست وصول کی دوسرے فریق کو بھی تھانے بلّوایا اُن سے علیحدگی میں ’’ کوئی بات ‘‘ کی پھر اس نوجوان کو ذلیل کر کے تھانے سے نکال دیا کہ آپس کے لین دین کے معاملات میں پولیس مداخلت نہیں کر سکتی، اُسے سول عدالت جانا پڑے گا، لڑکے نے اے ایس آئی کی خاصی منِت و سماجت کی مگر اُس نے ایک نہ سُنی، وہ نوجوان خاموش ہوگیا، اور ملک سے باہر جانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگیا، اُس کے والد نے کہا کہ وطن میں رہ کر ملک کی خدمت کرے تو تلخی سے کہنے لگا ’’اس وطن کی خدمت ؟‘‘ جہاں ہمیشہ ایماندار لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، شریف لوگوں کا حق مارا جاتا ہے، جہاں مظلوم کی کسی سطح پر شنوائی نہیں ہے۔

جہاں حکمرانوں کو صرف اقتدار سے چمٹے رہنے کی پرواہ ہوتی ہے۔’’ یہاں ہر دور میں غریب کی کمائی لٹتی ہے، یہاں ہر دور کے سلطان سے بھول ہوتی ہے، باپ کو کہنے لگا کہ ہر طاقتور اور با اثر آدمی کمزور پر ظلم کرتا ہے ، تھانے میں انصاف ملِتا ہے نہ کچہری میں، وہ باہر کے ملک میں دونمبر کا شہری بن کر زندگی گزار لے گا اب مجھ میں مزید ناانصافی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ یہ نوجوان بھی باہر چلا گیا، مگر بددلی کا باعث بننے والے وہ سر کاری اہلکار آج بھی اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کا روّیہ مجرمانہ سمجھا جاتا اور نہ ہی ایسے اہلکاروں کیلئے سخت سزائیں موجود ہیں۔

ٹریفک وارڈن کی ڈھٹائی
شاہ کام چوک لاہور میں کنور زاہد حسین نامی ٹریفک وارڈن نے رُکی ہوئی موٹر سائیکل کی ریس زیادہ ہونے کی پاداش میں ایک معمر شہری کا چالان کردیا، معمر شہری نے خاصی منت وسماجت کی کہ اسکی موٹر سائیکل خراب ہے مگر ٹریفک وارڈن نے اس کی ایک نہ سُنی، وہ بیمار اور معمر شہری میلوں دور ویلنشیاٹاؤن میں موجود نیشنل بنک گیا توپتہ چلا کہ اس بنک کا وقت دوسرے بنکوں کے مقابلے میں کم ہے، د و روز بعد وہ دوبارہ بنک گیا وہاں چالان کی رقم جمع کروانے والوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی کئی گھنٹوں بعد اسکی باری آئی ، اب چالان چھڑوانے کیلئے اُسے دوبارہ مزید میلوں دور’’ اڈہ پلاٹ رائے ونڈ‘‘ جانا پڑا ۔ شائد دنیا کے کسی اور ملک میں شہر یوں کی اتنی تذلیل نہ ہوتی ہوگی، جس قدرہمارے وطن عزیز میں ہوتی ہے۔

ایک تو ٹریفک وارڈن نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، دوم چالان کی رقم کسی نزدیکی بنک میں جمع کروانے کی بجائے کوسوں میل دور کے بنک کا انتخاب کیا گیا۔ کاغذات واپس لینے کیلئے مزید میلوں دور جا نا پڑا، اس ناانصافی پر اس معمر شہری کے دل میں جو جذبات پیدا ہوئے ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تقر یباً تمام ٹریفک وارڈنز اسی روّیے کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر بے بس شہریوں کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ اس روّیے کی اصل وجہ موجودہ ’’ سی ٹی او‘‘ کی ہلہ شیری ہے کہ اب امن و امان قابو میں رکھنے اور شہریوں کو لا قا نیت سے بچانے کیلئے یہی رویہ اپنانا پڑا ہے، انھوں نے چالانوں کی حد بھی مقرر کر رکھی ہے۔

ہر حال میں ہر ٹریفک وارڈن مطلوبہ تعداد میں چالان کرے گا، اس چکر میں بیگناہوں کے بھی چالان ہورہے ہیں، مگر اس طرح امن وامان قابو میں رکھنے اور شہریوں کو لاقانونیت سے بچانے کی جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے نہ ان سرکاری افسران واہلکاروں کو احساس ہے نہ ہی دوسرے ریاستی اداروں کو ۔’’لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں‘‘ ۔ مگر یہ سوچ اُن ملکوں میں ہوتی ہے کہ جہاں صرف سیا ستدان نہیں بلکہ ’’ راہنما‘‘ بھی ہوتے ہیں اور یہاں تو کوئی بھی راہنما نہیں ہے۔ایسے واقعات وطن عزیز میں ہر جگہ اور ہر لمحہ رونما ہوتے رہتے ہیں، عوام کی بیزاری، بددلی اور لاتعلقی کے جذبات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے مگر کسی کے پاس یہ سب کچھ سوچنے یا سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہے، چند ہزار مفاد پرست ، لالچی اور بے ضمیر افراد نے پورے ملک کی عوام کو ایک خاص نہج تک پہنچا دیا ہے، اب حالات و واقعات وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا راستہ بھی نظر نہیںآتا۔

تمام سرکاری افسران اپنے آپ کو حاکم اعلیٰ سمجھتے ہیں
دنیا کے تمام مہذب ممالک میں شہریوں کو عزت، سُکون اور بہترین زندگی دینے کیلئے حکمت عملی طے کی جاتی ہے، سرکاری ملازمین کو ’’سول سرونٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے مگر یہاںہر سرکاری ملازم ’’ حاکم اعلیٰ ‘‘ اور فرعوں بنا ہوا ہے، سرکاری محکمے شہریوں کو سہولت دینے کیلئے بنائے جاتے ہیں مگر یہاں تمام محکمے ’’ اذیت ‘‘ دینے کیلئے قائم کئے گئے ہیں، دنیا کے تمام ممالک میں شہریوں کو ریاست سے بددل کرنے والے عناصر کو کسی معافی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں سرکاری افسران و اہلکا ر عوام کو انتہائی حقیر اور غلام سمجھتے ہیں۔

کسی بھی ریاست کے اصل ’’ اسٹیک ہولڈر ‘‘( مالک) عوام ہوتے ہیں ان کے تحفظ ، آسائشوں اور پُرسکون زندگی کیلئے تمام محکمے قائم کئے جاتے ہیں، عوام اس کے عوض ٹیکسوں کے ذریعے ان تمام سہولیات کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ عوام کی زندگی میں بہتری لانے اور انھیں مزید سہولتیں دینے کیلئے سرکاری، حکومتی مشینری کام کرتی ہے، ریاست چلانے کیلئے عوام میں سے بہتر افراد کو چنا جاتا ہے، عوام کے جذبات اور احساسات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر اُس کام سے اجتناب کیا جاتا ہے کہ جس سے فرد واحد کی دل آزاری ہو یا اس میں ریاست سے بددلی کے جذبات پیدا ہوں ۔ ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں افراد سے، سرکاری محکموں یا اداروں سے نہیں، موجودہ وزیراعظم عمران خان اس نقطے کو بخوبی سمجھتے بھی ہیں اور اسکی اہمیت سے بھی واقف ہیں وہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ اس کچلی ہوئی اور استحصال زدہ قوم کو ظلم و ناانصافی کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے سیاسی میدان میں آئے ہیں۔ مگر ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی دگرگوں ہوچکے ہیں ۔ سرکاری افسران کی گردن کا سریا مزید سخت ہوچکا ہے۔

وطن عزیزپاکستان کا سب سے نازک مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان نسل ملکی ترقی کے معاملات سے لا تعلق ہو رہی ہے، نوجوانوں میں بد دلی اور بے چینی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں، نفسانفسی خودغرضی اور مفاد پرستی اپنے عروج پر ہے، اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور وطن سے محبت کی قطعاً قدر نہیں ہے، اور اس کی اصل وجہ عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ طاقت کے ذریعے ہمیشہ کچھ وقت کیلئے عوام کو دبایا جا سکتا ہے ۔ کسی نہ کسی وقت گرفت ڈھیلی ضرور ہوتی ہے اور پھر واپسی کا راستہ نہیں رہتا۔

زیادہ دبانے سے قوم پھٹ جاتی ہے یا مردہ ہوجاتی ہے
یہ نقطہ بھی نہایت اہم ہے کہ اگر ظلم و استحصال کی شکار قوم کی زندگی میں انقلاب آجائے اور وہ استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، نااہل سازشی، نالائق اور لالچی افراد سے ریاستی معاملات چھین کر خود اختیارات سنبھال کر بہتری لے آئے تو بعض اوقات ریاست اور عوام کے حق میں اچھا ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی قوم اس حد تک مایوس، بددل اور لا تعلق ہوجائے کہ وہ اپنی ہی بہتری کیلئے بھی نہ سوچیں تو یہ وہ مقام ِ فکر ہے کہ جہاں سب کو سوچنا پڑے گا کہ کیا قوم ’’ مردہ‘‘ تو نہیں ہوگی ’’احساس زیاں‘‘ بھی تو ختم نہیں ہوگیا۔ جبر کے اس نظام نے کیا گل کھلائے ہیں؟ سب کو سوچنا پڑے گا مگر سب سے بڑی ذمہ داری، حکومت، عدلیہ، طاقتور اداروں اور اہل دانش طبقات پر عائد ہوتی ہے۔

اس مسئلے کا حل سب کو سوچنا ہے، حکومت ِوقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آتش فشاں پھٹنے سے پہلے احتیاطی تدبیر کریں ’’ریاست مدینہ‘‘ کا ماڈل بنانے کیلئے سب سے پہلے فرد کے جذبات، احساسات ، محسوسات ، سہولیات اور ہر قسم کے تحفظ کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ حکومت نے ہر فرد کی خوشیوں کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہے، اپنے اختیارات کا بھی حساب دینا ہے ۔ جب سرکاری افسران و ملازمین عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا بازار گرم کرتے ہیں ،’’ تو بوتا کوئی ہے اور کاٹتاکوئی اور ہے‘‘۔ بیدار مغز حکمران اس نقطے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی اوّلین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ سرکاری عمّال کو حّدود میں رکھا جائے۔ ملکی اور ریاستی قوانین ہی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ سرکاری افسران و ملازمین کو بے مہار ہونے کا موقع نہ ملے۔

وطن عزیز پاکستان میں ریاستی استحکام کبھی بھی نہیں رہا جس کی وجہ سے یہاں دیرپا عوام دوست پالیسوں کا مفاد مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔ اب بیوروکریٹس بھی اپنی لا بنگ کرتے ہیں، ہر سرکاری محکمے میں گروپ بندیاں ہو چکی ہیں، چالاک اور ہوشیار قسم کے بیوروکریٹس ریاست کی بجائے سیاسی افراد کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، سرکاری ملازمین کی سیاسی وابستگی کسی بھی ریاست میں مناسب نہیں سمجھی جاتی۔

ایک موجودہ بیوروکریٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت بیوروکریسی میں مداخلت کرتی ہے، نااہل ترین بندوں کی تعیناتیوں کیلئے سفارش کرتی ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کاعُذر سننا نہیں چاہتی، اگر کوئی بھی سفارشی اہلکار نااہلی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے متعلقہ افسران اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے۔ اس بیوروکریٹ نے برّملا کہا کہ موجودہ حکومت اس بات کا اعلان کردے کہ وہ سرکاری مشینری کو نہ ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرے گی اور نہ ہی بیوروکریسی میں کسی قسم کی مداخلت کرے گی ، تمام افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی ’’اے سی آر‘‘ (سالانہ خفیہ رپورٹ) پوری دیانتداری کے ساتھ تیار کرے، تاکہ اہل اور قابل افسران کو اوپر آنے کا موقع ملے، انھوں نے کہا کہ ہر دفتر میں سائلین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے افسران کو کسی بھی قسم کی اہم پوسٹنگ نہ دی جائے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری دفاتر میں بگاڑ بہت زیادہ پیدا ہو چکا ہے مگر ایک خاص حکمت عملی اور تدبیر سے آہستہ آہستہ یہ بگاڑ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری ملازمین کو یہ احساس دلانا اشد ضروری ہے کہ آپ کو عوام کی خدمت کیلئے سرکاری ملازمت پر رکھا گیا ہے اُن پر حاکمیت کیلئے اور آپ کی خدمات کے عوض آپ کو عوام کے پیسے سے ہی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، اگر کسی کوکوئی نجی ملازمت پر رکھتا ہے اور اس کا معاوضہ ادا کرتا ہے تو اس کی حکم عدولی کو سوچ بھی نہیں سکتا، اسی طرح سرکاری ملازمت کرنے والے افراد کا معاوضہ عوام اداکر رہی ہے ۔ مگر ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے؟ ریاستی طاقت کا استعمال ہمیشہ ریاست کو کمزور کرتا ہے۔

سرکاری اہلکاروں کے روّیے سے برسراقتدار طبقہ غیر مقبول ہوتا ہے
پاکستان کی عوام کی اکثریث حکومت اور ریاست میں فرق نہیں سمجھتی وہ سرکاری ملازمین اور بیورویسی کو ریاستی ملازم سمجھنے کی بجائے حکومت کا حصہ سمجھتے ہیں، جب یہ افسران و ملازمین عوام کے ساتھ بُرا روّیہ اپنائے رکھتے ہیں یا ان کے مسائل حل کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں تو لوگوں کے دِلوں میں حکومت سے بیزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، بیدار مغز حکمران ہمیشہ سرکاری مشینری کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے، موجودہ حکومت، وزیروں اور مشیروں کی فوج بھی بے لگام بیوروکریسی اور سرکاری افسران و ملازمین کو لگام ڈالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

تمام ریاستی اداروں میں احساس ذمہ داری اور عوام کے جذبات کو اہمیت دینے کا احساس پیدا کرنا ہوگا، عوام کو عزت دی جائے، ووٹر کو عزت دی جائے ،کچلے ہوئے طبقات کو عزت دی جائے، اور استحصال زدہ افراد کو عزت دے تاکہ سب اس وطن کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے اس کی سرفرازی کیلئے جدوجہد کر سکیں، اقتدار کے ایوانوں سے کبھی یہ آواز نہیں گوبجی کہ’’ شہریوں کو عزت دو‘ انھیں ان کا حق دو‘ اُنھیں بھی انسان سمجھو، ان کے احساسات اور محسوسات کی قدر کرو‘ ملک سے لُوٹی ہوئی ساری دولت انھیں واپس دو، اب اس مفتوح قوم کو آزادی دو، انھیں حقیقی خوشیاں اور سکون دو، اگر ہر شہری سے مجرموں والا سلوک کیا جائے گا تو اس کے اندر مثبت روّیہ اور مثبت سوچ کیسے پیدا ہوگی؟ سب کو اس کے متعلق سوچنا ہوگا۔

عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت ہے
اولاد، مال و دولت، اعلیٰ عہدے واختیارات، طاقت اور علِم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں ۔ اس امانت کو اُسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح اُس نے قرآن پاک کے ذریعے حکم دیا ہے، سنّت ﷺ اور احادیث موجود ہیں۔

صحابہ کرام ؓ کی زندگی مشعل راہ ہے، اولیا کرام ؒ کی تعلیمات موجود ہیں، جتنا بڑا عہدہ، جتنا زیادہ مال، جتنی زیادہ اولاد، جتنے زیادہ اختیارات، جتنی زیادہ طاقت، جتنا زیادہ علم اور جتنی زیادہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتیں، اُتنا ہی زیادہ حساب، اللہ تعالیٰ نے سرکاری افسران و اہلکاروں کو صاحب اختیار بنایا، یہ اختیارات اور عہدے اللہ کی امانت ہیں اگر لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی جائے۔ ان کے ساتھ حقارت انگیز سلوک کیا جائے، ان کی داد رسی نہ کی جائے، انھیں ریلیف نہ دیا جائے، تو گویا انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی نعمت کا بھی غلط استعمال کیا اس کی ناشکری اور نافرمانی کی اور ان خدمات کے عوض قوم سے اکٹھے کئے گئے ٹیکس سے جو تنخواہ مِلی اُسے بھی حرام کردیا۔

یہ بھی دین کا بنیادی فلسفہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی کام کیلئے اُجرّت لے کر وہ کام صحیح طریقے سے سر انجام نہ دے تو گویا اُس نے حرام کمایا، اپنے عہدے، اختیارات اور طاقت کا تو غلط استعمال کیا ہی، تنخواہ بھی جائز نہ رہی اوپر سے رشوت لیکر اللہ پاک کے غضب کو اور بھی دعوت دی، ’’حاکم اعلیٰ ‘ اور فرعون‘‘ بنے سرکاری ملازمین نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیںکی کہ اللہ تعالیٰ اس سے کس قدر ناراض ہوگا اور انھیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟ ہمارے اکابرین تو بیت المال کے تیل کی روشنی میں بھی اپنے ذاتی کام نہیں کرتے تھے، یہاں تو غریب قوم کی کمائی سے گل چھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی امانت میں ہر لمحہ خیانت کاآخر کار انجام کیا ہوگا؟، یہ کوئی بھی نہیں سوچتا۔

دنیا کی مظلوم ترین قوم
پاکستانی عوام دنیا کی سب سے مظلوم ترین قوم ہے۔ ایک یہاں برسر اقتدار رہنے والے تما م طبقات پہلے تو ملکی و سائل لُوٹ کر چٹ کرگئے، ملکی وسائل ختم ہوئے تو بیرونی حکومتوں سے قرض لی کر کھا گئے، پھر مزید قرضہ بھی ہڑپ کر گئے۔ پھر عوام کو مجبور کیا کہ لُوٹی ہوئے دولت کیلئے جو اندرونی اور بیرونی قرضے لئے گئے تھے اب وہ بے تحاشا ٹیکس ادا کرکے ان کا سُود ادا کریں ۔ عوام کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہے کہ وہ اپنی ’’خدمات ‘‘ کیلئے سرکاری افسران و اہلکاروں کی تنخواہوں کیلئے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور اپنے جائز کام کروانے کیلئے انھیں بھاری رقومات بھی بطور رشوت ادا کرتے ہیں، اتنی ’’خدمات ‘‘ کے باوجود انھیں ہر جگہ ذلِت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے باوجود پاکستانی قوم سے مزید قربانیوں اور خدمات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، سیاستدانوں، بیوروکریسی اور بالادست طبقے کی خوشیوں اور انھیں ریلیف دینے کیلئے’’ مزید محنت ‘‘ کا درس دیا جا رہا ہے ۔ خوراک، علاج، تعلیم اور خوشیوں کیلئے ترسنے والی عوام سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ حاکموں، افسران اور بالادست طبقے کی عیاشیوں کیلئے مزید جدوجہد کریں گے۔

سونا چاندی نہیں افراد اہم ہوتے ہیں
ایک انگریزی نظم کے پہلے مصرعے کا اُردو ترجمہ ہے’’ سو نا نہیں بلکہ افراد ہی کسی قوم کوعظیم اور مضبوط بنا سکتے ہیں ‘‘ ہمیشہ اُس قوم نے ترقی کی ہے، جہاں عوام کو عزت دی جائے عوام کو ریاست کی ’’آنرشپ‘‘(ملکیت) کا احساس دلایا جائے۔ انھیں باور کروایا جائے کہ حکومت اُن کے مفادات کی نگہبان ہے، ’’ سول سرونٹ‘‘ اُن کی خدمت کیلئے ہیں۔ تمام قوانین ان کے تحفظ کیلئے ہیں ۔ ریاست کے اصل مالک ’’وہ ‘‘ ہیں ۔ قوموں کی ترقی میں افراد کی ہی اصل اہمیت ہوتی ہے۔ سکھِ برادری ہر سکھِ کو ایک فرد نہیں بلکہ ’’ سولکھ خالصہ ‘‘( سو لاکھ کے برابر) سمجھتی ہے۔ کسی بھی ریاست میں رہنے والی اقلیتی عوام کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو فوراً احساس ہوتا ہے کہ ہر کمیونٹی اپنے افراد کو خصوصی اہمیت و عزت دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ترقی کے مراحل و منازل طے کرتی ہیں ۔ مگر وطن عزیز پاکستان میں ٹیکس دینے والی عوام کو مفتوح قوم سمجھ کر وہ غلامانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ جس کا مہذب دنیا میں تصور بھی نہیںکیا جا سکتا ، عوام کو ہر سرکاری دفتر میں دھتکارا جاتا ہے۔ حقارت انگیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس سلوک کو ہماری عمومی زندگی کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے ۔ مگر کئی ’’ دانشور ‘‘ اپنی تحریروں میں اس بات کا گِلہ کرتے ہیں کہ پتہ نہیں قوم بے حِس اور بیزار کیوں ہو چکی ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام’جمہوری ‘ ہے نہ ’ اسلامی‘
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بہت سے قوانین اسلامی احکامات سے متصادم ہیں۔ جمہوریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود عوام کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں ہے۔ بادشاہت میں تو صرف چند افراد ہی عوام پر حکومت کرتے ہیں یہاں ہر منتخب نمائندہ، سرکاری ملازم ، ہر جاگیردار، سردار، زمیندار، ہر طاقتور، ہر بدمعاش، ہر ظالم ، ہر استحصالی عوام پر’’ حکومت ‘‘ کرتا نظر آتا ہے۔ اس وقت ملکی خزانے لُوٹنے والوں کیلئے مقدمات چلانے، انصاف اور سزاء کی جو مثالیں قائم کی گئی ہیں، اس کچلی ہوئی عوام پر اس کے کیا ’’اثرات‘‘ مرتب ہو رہے ہیں؟ کوئی سوچتا بھی نہیںہے۔

وہ شہر جو ہم سے چھوٹا تھا
بہت سال گزرے پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ جوکہ امریکہ میں مقیم تھے، کا کسی اخبار کے سنڈے میگزین میں انٹرویو پڑھ رہا تھا۔ انٹرویو نِگار نے آخری سوال پوچھا کہ وہ پاکستان واپس کیوں نہیں آجاتے، انھوں نے بڑے دّکھ سے جواب دیا کہ عمر کے جس حصے میں ہوں اس عمر میں سکون، سہولیات اور تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان میں تو نہیں مل سکتے، ان کے یہ الفاظ آج تک مجھے یاد ہیں ۔ ایک دفعہ بیرونِ ملک مقیم ایک پاکستانی ماہر ِ تعلیم سے ملاقات ہوئی اُسے کہا کہ وہ پاکستان واپس آ کر ملک کی خدمت کرے، اُس نے کہا ’’ کہ اپنی پہچان، اپنا دیس اور اپنوں کو چھوڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے ہر تارکین وطن سے پوچھ کر دیکھیں۔ ہم اس وطن کے شہری ضرور تھے، مگر وہ وطن ہمارا نہیں تھا اُن چند ہزار افراد کا تھا اور ہے، کہ جو ملک اور لوگوں کی تقدیر کے مالک ہیں جن کی مرضی کے بغیر وہاں کچھ نہیں ہوتا، جس دن وہاں شہریوں کو عزت، حقوق اور آسودگی حاصل ہو جائے گی، ہر پاکستانی وطن واپس آجائے گا، چاہے اُسے کتنی ہی کم تنخواہ ملیِ، تارکین وطن زرمبادلہ ملک بھجوا کر ملک کی کس قدر خدمت کر رہے ہیں مگر انھیں اس کا کریڈٹ کیا ملتا ہے؟ ہم یہاں دونمبر کے شہری ہیں مگر اپنے وطن جا کر تین نمبر کے شہری بن جاتے ہیں کیونکہ پردیس میں رہنے کی وجہ سے وہاں ہمارے ’’ اعلیٰ سطحی ‘‘ تعلقات نہیں ہوتے اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا کوئی جائزکام بھی نہیں ہوتا ۔۔

ریٹائرڈ اعلیٰ پولیس افسر کا پچھتاوہ
ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ایک پولیس افسر کے پاس بیٹھا تھا، باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ دوران ملازمت ہر لمحہ احساس رہا کہ غریب، مظلوم اور استحصال کا نشانہ بننے والی عوام کے ساتھ بہت ہی ناانصافی اور ظلم ہوتا ہے،ان کا استحصال ہوتا ہے۔ میں نے اگرچہ بہت کوشش کی کہ مظلوم کے ساتھ ناانصافی نہ ہو مگر ہمارا سِسٹم ایسا ہے کہ طاقتور اور بالادست طبقہ صرف اپنی مرضی کا انصاف اور فیصلے چاہتا ہے، کوئی پولیس افسر جتنا بھی ایماندار کیوں نہ ہو کسی نہ کسی مقام پر وہ مجبور ہو جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں اگر آج لا تعداد مسائل اور مشکلات موجود ہیں تو اس کی اصل وجہ صرف یہی ہے کہ صاحب اختیار کو اللہ پاک کاخوف نہیں ہے، وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر کسی کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہوگی توکیا وہ ریاست کا ’’ وفادار‘‘ رہے گا؟ یااس کے دل و دماغ میں منفی خیالات پیدا ہونگے۔

The post سرکاری ملازمین حاکم اعلیٰ، بے بس عوام بدترین غلام appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا ایغور مسلمان انسان نہیں ہیں ؟

$
0
0

گلنازایغور چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم وہاں پیدا ہونے والے حالات نے انھیں اور ان کے گھروالوں کو اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ وہ مختلف ممالک سے گزرتے ہوئے بالآخر لندن مقیم ہوگئیں۔ گلنازایغور اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں کیوںکہ اس کے نتیجے میں انھیں اور ان کے گھر والوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آج کل معروف برطانوی جریدے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ سمیت مختلف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایغور قوم کے مصائب اور مشکلات پر لکھ رہی ہیں۔ (ادارہ)

میرا نام گلناز ہے اور میں ایغور مسلمان ہوں۔ میں مشرقی ترکستان میں پیدا ہوئی جسے دنیا ’سنکیانگ‘ کے نام سے جانتی ہے، سبب یہ ہے کہ چین نے اسے یہی نام دیا ہے۔ جب میں لڑکی تھی، ابھی ٹین ایج میں داخل ہورہی تھی، شاید گیارہ برس کی تھی۔ اس عمر کی لڑکی حالات دیکھ کر کافی حد تک سمجھ سکتی تھی کہ چین اس کے لئے محفوظ ملک نہیں ہے۔ اب میری عمر 25 برس ہے۔ اس قدر زیادہ برس باہر گزارنے کے باوجود سنکیانگ سے مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔

میری کوشش ہے کہ میں اپنے بارے میں بہت زیادہ گفتگو نہ کروں۔ میری یہ کہانی پڑھ کر شاید آپ میری پوزیشن کو سمجھ سکیں، اگر آپ پسند کریں تو آپ اسے دوسروں کو پڑھنے کے لئے بھیج سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے اسکول میں پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا کیونکہ میں اپنے والد کے ساتھ مل کر کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ بعض اوقات مجھے وہاں اکیلے ہی کام کرنا پڑتا تھا کیونکہ میرے والد کی طبعیت ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ میرے چھوٹے ہاتھ کام کرنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتے تھے لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

جب ہم مارکیٹ میں جاتے تھے تو مجھے وہ چینی سیکورٹی اہلکار یاد ہیں جن کی آنکھیں ہم پر جمی ہوتی تھیں۔ تب مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں، جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ تاہم اس ناپسندیدگی کا اصل سبب یہ تھا کہ ہم ایغور اور مسلمان تھے۔

پھر ایک رات چینی سیکورٹی اہلکاروں نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا، انھوں نے گھر کا ہر کونا کھدرا چھان مارا۔ میری والدہ نے مجھے تہہ خانے میں چھپادیا۔ انھوں نے ایک چھوٹی سی شیشی میں ایک محلول مجھے تھمادیا اور کہا کہ اگر کوئی اہلکار تمھیں چھوئے تو تم یہ شربت پی لینا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی نوبت نہ آئی۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ یہ معمول کی تلاشی ہے تاہم کچھ عرصہ بعد ایک ایسا خوفناک واقعہ ہوا جس نے ہمیں ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔

میری ایک خالہ ہمارے ہمسائے میں رہتی تھیں، وہ دوسرے بچے کے لئے امید سے تھیں، ان کے گھر والے انھیں کہیں دور بھیجنے کا منصوبہ بنارہے تھے کیونکہ ایغور ماؤں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ چین میں ایک بچہ پالیسی ختم کردی گئی تھی تاہم ایغور ماؤں کی مسلسل مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ دوبارہ حمل کی صورت میں انھیں ابارشن پر مجبور کیا جاتا ہے، وہاں یہ ایک معمول ہے۔ یہ چیز مجھے اس قدر خوفزدہ کرتی ہے کہ میں اپنے احساسات و جذبات اور اپنی شناخت لوگوں پر ظاہر نہیں کرتی۔

بہرحال کسی نہ کسی طرح چینی حکام کو میری خالہ کا پتہ چل گیا، انھوں نے اسے اسقاط حمل کرانے پر مجبور کردیا۔ گرد سے اٹے ایک ہسپتال کے ایک کمرے میں ایک رات میری خالہ انتقال کرگئیں۔ وہ اس وقت چھ ماہ کی حاملہ تھیں، ان کی زندگی کو شدید خطرہ تھا لیکن ڈاکٹر اپنا کام کرتے رہے۔

اس واقعے نے ہمارے خاندان کو شدید غم اور صدمہ سے دوچار کردیا۔ چنانچہ میرے والد نے چین چھوڑدینے کا فیصلہ کرلیا۔ ہم فوراً ترکی کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں ہم کسی ایک جگہ پر زیادہ دیر قیام نہیں کرتے تھے۔ اس طرح ہم دو سال تک زندگی بسر کرتے رہے۔ ان دو برسوں کے دوران میں ، ہم چین میں ایغور لوگوں پر کریک ڈاؤن کی خبریں سنتے رہے، ارمچی کے قتل عام کا بھی پتا چلا، مسجدوں کو شہید کرنے کی خبریں بھی ملتی رہیں، معصوم افراد کی گرفتاریوں کا علم ہوتا رہا، حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی خبر ملی کہ بیرون ملک مقیم ایغور مسلمانوں کو تلاش کرنے کے لئے آپریشن کئے جاتے ہیں۔

میرے والد نے ہمیں خبردار کیا ہوا تھا کہ اپنی ایغور شناخت ظاہر نہ کرنا۔ انھوں نے خود بھی ہمیں ایغور کلچر کی تعلیم دینے سے گریز کیا۔ پھر تھائی لینڈ سے خبر آئی کہ 300 ایغور لوگوں کو وہاں سے واپس چین بھیج دیا گیا، اس خبر نے ہمیں شدید خوفزدہ کردیا۔ حقیقت یہ تھی کہ گرفتار ایغور لوگوں کا احتجاج اور بھوک ہڑتال بھی ان کے کام نہ آسکی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر چین نے ہمیں بھی تلاش کرلیا تو ہمیں بھی سزا دی جائے گی۔

تمام تر مشکلات جو ہم نے برداشت کیں، کے باوجود میرے والد نے ہماری تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہماری تعلیم بہت اچھی ہو۔ ان کا خیال تھا کہ اچھی تعلیم ہی ہمیں ایک ایسے راستے پر لے جائے گی جو غلامی اور خوف سے نجات دلاسکتا ہے۔ وہ مجھے ایک ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں دنیا کو ہر فرد کے لئے ایک بہتر جگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔ اگرچہ میں اپنے آپ کو ایک ایکٹویسٹ سمجھتی ہوں، جب بھی میں ناانصافی کی کوئی خبر سنتی یا دیکھتی ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے، پھر میں کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتی ہوں۔

یہ دنیا ’پہلی دنیا‘ اور ’تیسری دنیا‘ کے ممالک میں تقسیم ہے، تاہم ایغور لوگوں کو کہیں بھی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ عالمی رہنماؤں نے ہم لوگوں کو مظالم سہنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ آخر ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کیا ہم ایغور انسان نہیں ہیں؟

چند سال پہلے میرے اندر کی ایغور لڑکی نے مجھ پر غلبہ پالیا، چنانچہ میں نے ٹوئٹر پر اپنا اکاؤنٹ بنایا جہاں میں بہت سے لوگوں کو چین میں جاری ایغور لوگوں کی جدوجہد سے آگاہ کرتی ہوں۔ آخر ہمیں ایغور اور مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا کیوں دی جارہی ہے؟ ہمارا جرم کیاہے؟ بہت سے لوگ جن سے میرا رابطہ ہوا، ان میں سے کچھ نے میری کہانی جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ تاہم میں ایسا کچھ نہیں بول سکتی جس سے میرے گھر والوں پر مشکلات آن پڑیں۔

یہ کہانی لکھنے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں کہ چینی حکام میرا تعاقب کریں گے۔ ممکن ہے کہ مجھے خاموش کرادیا جائے۔ تاہم میری کہانی بہت اہم ہے۔ دنیا ایک طویل عرصہ سے ایغور لوگوں کو نظرانداز کرتی رہی ہے لیکن اب وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوچکی ہے۔ بہت سے دیگر ایغور لوگوں کی طرح گلناز کو بھی اغوا کیا جاسکتا ہے، اس پر تشدد کیا جاسکتا ہے، اسے قتل کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی جنگ ، ناانصافی کے خلاف لڑائی کسی نہ کسی کو جاری رکھنی چاہئے، مجھے امید ہے کہ وہ آپ ہوں گے۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی ماں بنتی ہے یا کوئی باپ بنتا ہے تو اس وقت اس کے جذبات و احساسات بے مثال ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے جہاں ایک ننھی جان کو گھر میں لانے، اس کی پرورش کرنے اور اسے منازل طے کرتے ہوئے دیکھنے کا لطف ملتا ہے۔

آپ چشم تخیل سے دیکھیں کہ ایک دن آپ کو گھر سے آپ کے بچوں کی نظروں کے سامنے سے اٹھالیا جاتا ہے اور آپ کو ایک انٹرنمنٹ کیمپ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کو خبر تک نہیں ہوتی کہ آپ کو یہاں کیوں لایا گیا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنے بچوں سے دوبارہ مل سکیں گے یا نہیں۔ سوچئے کہ آپ کو دوران حراست یہ بتایا جائے کہ آپ کا جرم اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرناہے، اسی لئے آپ کو اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً آپ شدید خوف کا شکار ہوجائیں گے۔ اس وقت چین میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کو اسی خوف کے ساتھ شب و روز گزارنا پڑ تے ہیں۔

سنکیانگ میں واقع چینی کنسنٹریشن کیمپوں کو چینی حکام ’ووکیشنل ٹریننگ کیمپ‘ قرار دیتے ہیں، جہاں 20لاکھ ایغور قیدوبند کی صعوبتیں اٹھا چکے ہیں، تقریباً ایک لاکھ ایغور اب بھی وہاں انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ کیمپ ایغور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو نگل چکے ہیں۔ یہاں ان کی برین واشنگ ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے کلچر، مذہب اور دیگر شناختوں کو بھول جائیں۔ انھیں ان کے گھر والوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی تقریریں اور کمیونسٹ پارٹی کے گیت یاد نہ کرنے کے ’’جرم‘‘ میں خواتین کی عصمت دردی کی جاتی ہے اور مردوں کو کئی گھنٹوں تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چینی حکام کہتے ہیں کہ وہ سنکیانگ کے لوگوں کو بہترین ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل بنارہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایغور اسکالرز، ڈاکٹرز، سائنس دانوں اور فن کاروں کو کون سی ’’ملازمت‘‘ کی ضرورت ہے جو انھیں یہاں لایا گیا ہے؟ وہ پہلے ہی سے باروزگار تھے، پھر انھیں ملازمتوں کی ضرورت کیوں ہوگی بھلا؟

یہ کیسی ووکیشنل ٹریننگ ہے کہ ایک پوری قوم کو کیمپوں میں بند کردیا جائے اور ان سے کسی کو ملنے جلنے اور بات کرنے کی اجازت بھی نہ ہو! حتیٰ کہ گھروالوں سے بھی نہیں، انھیں گھر واپس آنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی !! ان کیمپوں کے بارے میں حقائق کو صرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق ہی نے دنیا والوں کے سامنے منکشف کیا۔

اس وقت ہزاروں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ان کیمپوں میں قید ہیں یا پھر انھیں یتیم خانوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ سنکیانگ کی سڑکیں خالی پڑی ہیں ، گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں، دکانیں بند پڑی ہیں کیونکہ ان کے مالکان لاپتہ ہیں۔ جب سے میں اپنے والدین کے ساتھ چین سے فرار ہوئی ہوں، وہاں حالات مزید سنگین ہوچکے ہیں۔ اگرچہ میں اب لندن میں ’’محفوظ‘‘ زندگی بسر کررہی ہوں تاہم رات کو والدین چھن جانے کا خیال آتے ہوئے میں ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہوں۔

جوں جوں دن گزر رہے ہیں، کیمپوں سے رہائی پانے اور تحقیقی رپورٹس لکھنے والوں کی گواہیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح سیٹلائٹ کے ذریعے ان کیمپوں کی تصاویر بھی منظرعام پر آچکی ہیں۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے ایک سینئیر روسی افسر کو بغیرمنصوبہ بندی کے سنکیانگ بھیجا۔ ان کے دورے کے بعد چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا کہ چین کا اقوام متحدہ کے ساتھ ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کی کوششوں پر اتفاق پایا گیا ہے۔ اس کے بعد سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔

واضح رہے کہ چین اس وقت اقوام متحدہ کی طرف سے ’امن کوششوں‘ کے بجٹ کا 10فیصد فراہم کررہا ہے۔ امریکا اس ادارے سے فارغ ہورہا ہے جبکہ چین ادارے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ عشروں تک چین اس ادارے میں پچھلی نشست پر بیٹھا رہا ، وہ خاموشی سے اپنے پوائنٹ سکور کرتا رہا، تاہم اب وہ کھل کر سامنے آرہا ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سابقہ رپورٹس میں چین کو انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اگر اس ملک کا اثرورسوخ اسی طرح بڑھتا رہا تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جب چین کا نام ایسی تمام فہرستوں سے خارج کروادیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی خاموشی کے نتیجے میں دنیا کے باقی لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا۔ اگر دنیا آج ایغور لوگوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی تو کل اس خاموش دنیا کے ساتھ بھی کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔ دنیا کے جن ممالک میں چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، وہاں کی حکومتیں بھی خاموش ہیں۔ مثلاً قازقستان میں موجودہ انسانی حقوق کی تنظیمیں قازق شہریوں کی چین میں حراست پر بات کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سبب یہ ہے کہ بذات خود قازقستان کی حکومت نے ان تنظیموں کے منہ بند کررکھے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں چین کے خلاف سخت رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے حالانکہ جعلی شادیوں کے نام پر پاکستانی لڑکیوں کو چین میں اسمگلنگ کرنے کا ایک معاملہ بھی سامنے آچکا ہے۔

The post کیا ایغور مسلمان انسان نہیں ہیں ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

لوگوں کو گَن پوائنٹ پر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل کرایا گیا

$
0
0

شیخ جعفر مندوخیل کا تعلق بلوچستان کے ایک معتبر سیاسی گھرانے سے ہونے کے ناتے سیاست انہیں اپنے اکابرین سے وراثت میں منتقل ہوئی ہے۔ ان کا خاندان نظریاتی اعتبار سے مسلم لیگی ہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔

انہوں نے 1988ء میں پہلی مرتبہ اپنے آبائی علاقے ژوب سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا اور 2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل تیس سال تک رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ ان سے قبل اس نشست سے 1985ء میں ہونے والے انتخابات میں ان کے چچا کام یاب ہوئے تھے۔ 1977ء میں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ملک بھر میں جب سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو شیخ جعفر مندوخیل کے والد نے اپنی جیت کے100 فی صد امکانات ہونے کے باوجود انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرکے ملک کی سیاسی قیادت کا ساتھ دیا۔ شیخ جعفر مندوخیل 1993ء کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے کام یابی کے بعد اپنے دیرینہ ساتھیوں سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی، میرجان محمد جمالی اور سعید احمد ہاشمی کے کہنے پر ق لیگ میں شامل ہوئے اور اب تک اس سے وابستہ ہیں اور ق لیگ کے صوبائی صدر ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ اصولی سیاست کرنے والوں کو پارٹیاں تبدیل کرنا زیب نہیں دیتا چاہے معروضی حالات جیسے بھی ہوں۔

شیخ صاحب ق لیگ کے قیام میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقیقت کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ تاہم ملک میں ایسی کوئی جماعت نہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کیے بغیر اقتدار میں آئی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی سیاسی حالات پر مصلحت اختیار نہیں کی نہ کبھی وہ کام کیا جس سے میرے اوپر حرف آئے۔ ق لیگ جب پنجاب اور مرکز میں حزب اختلاف میں تھی ہم بلوچستان میں حکومت کے اتحادی تھے معروضی حالات میں ہمیں فیصلے خود کرنا پڑتے ہیں۔

ق لیگ کے سابق پارلیمانی اراکین کی صوبے کی حکم راں جماعت میں شمولیت سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ چند دوست چھاؤں کی تلاش میں ضرور حکم راں جماعت میں شامل ہوئے ہیں مگر ان کی اکثریت نے اب اس جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اس وقت ان دوستوں کو گَن پوائنٹ پر بی اے پی (بلوچستان نیشنل پارٹی) میں شامل کرایا گیا تھا۔ میں نے طاقت کے آگے مزاحمت کی جس کی سزا بھگت رہا ہوں، جنہوں نے مزاحمت نہیں کی وہ آج افسوس کررہے ہیں۔ صوبے میں حکم راں جماعت کے قیام میں میرے دیرینہ دوست اور پارٹی کے بانی کا سیاسی تجربہ اس کی کوششیں اور بھاگ دوڑ ضرور شامل تھی، مگر اسے بنایا کسی اور نے ہے۔ دوستوں کے جانے کے باجود پارٹی آج بھی بلوچستان بھر میں فعال اور منظم ہے جو دوست حکم راں جماعت میں گئے تھے وہ جلد یا بدیر واپس لوٹ آئیں گے۔

جعفر مندوخیل تیس سال تک انتخابات میں ناقابل شکست رہنے کے باوجود 2018ء کے انتخابات میں اپنی شکست کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوستوں نے مجھے پیشگی بتادیا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ حکم راں جماعت میں اگر آپ نے شمولیت اختیار نہیں کی تو آپ کو ہرایا جائے گا۔ سیاسی حالات سے سمجھوتا کرکے وزارت حاصل کرکے پیسے کمانا کبھی میرا ہدف نہیں رہا ہے۔ آج رکن اسمبلی نہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اس عمل سے میری سیاسی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے میں صرف رکن اسمبلی تھا اب اس سے بڑھ کر ہوں سیاسی لوگ پر اعتبار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کم زور نظام کا حصہ بننے سے وہ عزت نہیں ہوتی جو آزاد سیاسی عمل میں کارکردگی دکھانے سے ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دعوے سے کہتا ہوں کہ 30 سالوں کے دوران ژوب میں جو ترقی ہوئی ہے وہ بلوچستان کے اکثر حلقوں سے زیادہ ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں سیاسی سطح پر کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ تاہم ہر حلقے کے اپنے مسائل ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی کی حکومتوں میں اپنی شمولیت سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سابق وزرائے اعلیٰ جام محمد یوسف مرحوم اور نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے دور حکومتوں میں دونوں وزرائے اعلیٰ کے اصرار کے باوجود کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی کیوںکہ ان کی حکومتوں میں جمعیت علماء اسلام کے اراکین کا اثرورسوخ زیادہ تھا، جن کی وجہ سے میں وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا جس کا صوبے کے لوگ مجھ سے تقاضا کرتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد صوبے میں بننے والی قوم پرست جماعتوں اور ن لیگ کی مخلوط حکومت نے ق لیگ کو حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی جس پر ہماری جماعت کے پارلیمانی اراکین نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم ن لیگ کے ساتھ بلوچستان حکومت میں اکٹھے ہوںگے۔

پارٹی کے پارلیمانی گروپ نے مجھے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور وزارت کے لیے نام زد کیا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کی مدت پوری ہونے پر جب نواب ثناء اللہ زہری کی کابینہ کے اراکین حلف لے رہے تھے انفرادی طور پر ہمارے کچھ دوستوں کی خواہش ضرور تھی کہ انہیں وزارت ملے تاہم نون لیگ کی اعلیٰ قیادت جس میں خواجہ سعد رفیق اور نوازشریف شامل تھے، انہوں نے مداخلت کرکے کابینہ کا حلف رکواکر موقف اختیار کیا کہ جب تک کابینہ میں سنیئر ممبر شامل نہیں ہوگا تو حکومت کیسے ڈیلیور کرپائے گی۔ انہوں نے مجھ سے کابینہ میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی چوںکہ ہمارے صوبے کی اپنی روایات ہیں جنہیں پس پشت ڈالا نہیں جاسکتا، ان کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت کابینہ میں میری پوزیشن سنیئر وزیر کی تھی۔

نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل نہ ہونے سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ موجودہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور موجودہ حکم راں جماعت میں شامل ان کے ساتھی جب نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرارہے تھے تو انہوں نے مجھے اس پر دستخط کرنے کو کہا۔ اگرچہ اس وقت نواب زہری سے میر ے اختلافات ضرور تھے میں نے اپنے محکمے میں ان کی مداخلت پر وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا۔ اس وقت کے سیاسی حالات میں عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ جب نواب ثناء اللہ زہری خود مستعفی ہوئے تو میں قدوس بزنجو کے ساتھ شامل ہوا۔

بلوچستان کے احساس محرومی میں کمی کے لیے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے منصب پر بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ ہے تو ان کے چیئرمین سینیٹ بننے سے کیسے بلوچستان کو اس کے حقوق ملے ہوںگے؟

وفاق میں بی این پی کی حکومت کی مشروط حمایت سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے مراعات اور وزارتیں حاصل نہ کرکے بلوچستان کے جن مسائل کے حل کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کی مشروط حمایت کی ہے اس سے بی این پی کے سیاسی گراف میں اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی حکومت کی کارکردگی سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ امریکا کا ڈومور کا مطالبہ ڈو ایوری تھنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ امریکا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی میں تناؤ کے باعث امریکا نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے پاکستان کو ملنے والے پیسے رکوادیے ہیں جس کے باعث ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ملک کو اس بحران سے نکالنا تنہا عمران خان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور ملک کا بجٹ چلانے والا عمران خان کی جگہ کوئی بھی ہوتا ملک کی حالت یہی ہونا تھی۔ جب ہم درست راہ پر چلیں گے تو ملک میں تبدیلی خود بخود آجائے گی۔ اپنے پیش رو کی ڈگر پر چل کر ان کی حکومت کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرانے سے ہمیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے متعلق سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاسی حالات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم اداروں میں موجود کچھ لوگوں کی اب تک خواہش ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہم ہی نے ڈکٹیٹ کرنا ہے۔

مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اخلاص سے آگے بڑھ کر اگر اپنا سودا نہیں کیا تو اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور حالات بہتر ہوںگے۔ ن لیگ یا پیپلزپارٹی نے اپنا سودا کرکے این آر اولیا تو ان کے اس عمل سے سیاسی حالات پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول مزید مضبوط ہوگا۔

حکومتِ بلوچستان کی کارکردگی سے متعلق جعفرخان مندوخیل کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کی کارکردگی سے جام کمال اپنی کابینہ اور پارٹی میں شامل اراکین اسمبلی کو اب تک مطمئن نہیں کرپائے ہیں۔ صوبائی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا ہے اس پر عمل درآمد سے ان کی کارکردگی کا پتا چلے گا۔

صوبائی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کام یابی یا ناکامی سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ جام کمال کی حکومت کو زورآور قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسمبلی میں کوئی ایسا رکن موجود نہیں جو کُھل کر حکومت سے اپنے اختلاف کا اظہار کرکے زور آور کی ناراضگی مول لے۔ اندرونی طور پر حکم راں جماعت کے اراکین میں اختلاف موجود ہیں۔ حکومت مخالف عدم اعتماد کی تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کرنے کے لیے اپوزیشن کو 10 اراکین اسمبلی کی حمایت درکار ہے، تاہم وہ کون سے ایسے ارکان ہوںگے جو مراعات کو ٹھکراکر عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنیں گے؟ مجھے موجودہ اراکین اسمبلی میں ایسے لوگ نظر نہیں آتے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں اے این پی واحد سیاسی جماعت ہے جو شاید زورآور کو خاطر میں نہیں لائے، مگر اب تک اے این پی کی صوبائی قیادت حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔

صوبے میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں مہارت رکھنے سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ نواب ذوالفقار علی مگسی اور میں اسمبلی میں موجود نہیں ہیں جب کہ جان محمد جمالی موجودہ تنخواہ پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں سے رابطے ہیں۔ جب تحریک چلتی ہے بڑے سے بڑے پہاڑ الٹ جاتے ہیں۔ صوبے میں حکومت مخالف کوئی تحریک چلتی ہے تو ساتھیوں سے مشاورت کے بعد سیاسی فیصلہ کروں گا۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے متحد ہونے سے متعلق ان کا موقف ہے کہ پشتون اضلاع میں عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ جب کہ بلوچ اضلاع میں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی میں موجود اختلافات انہیں متحد ہونے نہیں دیں گے۔ تاہم بلوچستان میں قومی جماعتوں کا وجود کم زور ہوتا جارہا ہے اور یہاں مقامی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں طاقت پکڑ رہی ہیں۔ لوگ مقامی اور علاقائی سیاست کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ صوبے کی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں آزادی صحافت، صوبائی خودمختاری، این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم، وفاق سے صوبے کے حقوق حاصل کرنے سمیت اجتماعی معاملات پر مشترکہ جدوجہد کو ترجیح دیں۔

جعفر مندوخیل بلوچستان کی محرومی کا ذمے دار صوبے کے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کی پس ماندگی کی سب سے بڑی وجہ پیسوں کی کمی نہیں ہے، یہاں کی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں بننے والی ہر حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ صوبے کی بدقسمتی ہے کہ لوگ یہاں الیکشن عوامی خدمت کرنے کی بجائے اس لیے لڑتے ہیں کہ آئندہ پانچ سال میں وہ دو تین ارب روپے بنالیں گے اور یہی وجہ ہے کہ کرپشن ہماری جڑوں تک سرایت اختیار کرگئی ہے۔ صوبے میں ایسے بھی محکمے ہیں جہاں 70 فی صد تک کرپشن پائی جاتی ہے۔

جعفرمندوخیل صوبے میں نواب اکبر خان بگٹی، نواب ذوالفقار علی مگسی، سردار اختر مینگل کی حکومتوں کو بااختیار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کی محصولات کو دُگنا کیا۔ تاہم اس کے بعد این ایف سی ایوارڈ سے چھوٹے صوبوں کو ان کا جائز حق نہ دے کر سابق حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کا سہرا آصف زرداری کو جاتا ہے۔ شہبازشریف نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب کے حصے میں کٹوتی کرکے این ایف سی ایوارڈ پر عمل درآمد کرانے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو راستہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی خودمختاری میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس میں مزید اصلاحات آئیں گی۔

شیخ جعفر مندوخیل ملکی مسائل کا حل شفاف انتخابات کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں آنے والی عوام کی حکومت ہی ملکی مسائل حل کرسکتی ہے اور اس سے جمہوریت پروان چڑھے گی۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کے لوگ حکومتوں میں شامل رہیں گے ملک میں کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

The post لوگوں کو گَن پوائنٹ پر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل کرایا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live