Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

misophonia ایک عام مگر پُراسرار مرض

$
0
0

 کیا آپ کو کچھ عام سی آوازیں جیسے کسی کے آلو کے خستہ چپس کھانے کی آواز فوراً غصے میں لے آتی ہے؟ کیا کھانا کھانے کے دوران کسی کے منہ سے برآمد ہوتی آواز آپ کے ضبط کا امتحان لیتی ہے؟

بعض افراد کو کسی کے کچھ چبانے، ٹائپ کرنے یہاں تک کہ کسی کے سانس لینے کی آواز بھی اس قدر ناگوار محسوس ہوتی ہے کہ وہ چشم زدن میں غصے کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، ان کا پارا آسمان کو چُھونے لگتا ہے، دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور دل میں اس شخص کا سر توڑ دینے کی شدید خواہش جنم لیتی ہے۔ قوت برداشت جواب دے جائے تو وہ اس شخص سے الجھ بھی پڑتے ہیں۔

اگر آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے تو پھر آپ میزوفونیا (misophonia ) میں مبتلا ہیں۔ طبی محققین کے مطابق یہ ایک پراسرار کیفیت ہے جس میں مبتلا فرد کچھ عام سی آوازوں سے بے حد حساسیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پُراسرار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت سنگین بھی ہے اور بعض اوقات متأثرہ فرد کی زندگی میں اہم تبدیلیوں کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ایمسٹرڈم یونیورسٹی کے ماہرنفسیات پروفیسر ڈیمیئن ڈینس کہتے ہیں کہ دوران تحقیق یہ دیکھا گیا کہ میزوفونیا کے کئی مریضوں نے اس کیفیت کے زیراثر اپنے شریک حیات سے طلاق لے لی تھی، جنھیں کھانے پینے کے دوران اپنے زوج کے منھ سے آتی آواز برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اس کیفیت میں مبتلا کئی افراد نے ملازمتیں بھی چھوڑ دیں۔ یوں یہ پراسرار مرض اپنے اندر گہری سنگینی بھی لیے ہوئے ہے۔

ماہرین طب میزوفونیا کو اگرچہ ایک سنگین کیفیت گردانتے ہیں مگر اس مرض پر تحقیق کا دائرہ محدود ہے اور اب تک اسے باقاعدہ طور پر کوئی نفسیاتی یا دماغی مرض تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ ماہرین نفسیات، جنھوں نے اپنے مریضوں میں میزوفونیا کے شدید اثرات کا مشاہدہ کیا ہے، کا کہنا ہے کہ اس مرض کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے نیویارک سٹی میں واقع ارونگ میڈیکل سینٹر سے وابستہ طبی نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلی میٹو کہتے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ یہ مرض ہوتا ہے، مگر یہ دراصل ہے کیا؟ یہ ہنوز ایک راز ہے۔

میزوفونیا کے پس پردہ اسباب سے اب تک مکمل طور پر پردہ نہیں اٹھایا جاسکا، تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ کچھ مخصوص آوازوں کو دماغ کا پروسیس کرنا اور ان پر ردعمل ظاہر کرنا ہے۔ دوران تحقیق پروفیسر ڈیمیئن ڈینس اور ان کی ٹیم نے پتا لگایا کہ میزوفونیا میں مبتلا افراد کے دماغ کے salience network میں کچھ عام سی آوازیں سننے پر سرگرمی بہت بڑھ جاتی ہے۔ salience network دماغ کا وہ حصہ ہے جو اطراف موجود اشیاء پر ہماری توجہ مرکوز کرتا ہے۔ نارمل افراد میں دماغ کا یہ حصہ پُرسکون رہتا ہے۔ دماغ کے اس جزو میں تحریک کی وجہ سے ایک فرد یکایک غصے اور ناگواریت کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

میزوفونیا پر زیادہ تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کے اسباب مکمل طور پر آشکارا نہیں ہوسکے چناں چہ اس کی تشخیص اور علاج معالجے کے بارے میں بھی ماہرین خاموش ہیں۔ بہرحال ماہرین نفسیات ظاہر ہونے والی کیفیات کی مناسبت سے علاج کی تیکنیک اختیار کرتے ہیں۔ جو مریض کھانے پینے یا کسی کے سانس لینے کی آواز سُن کر غصے میں آجاتے ہیں ان کے علاج کے لیے ماہرین نفسیات اعصاب کو پُرسکون کرنے کی تیکنیک سے کام لیتے ہیں۔ بعض افراد یہ آوازیں سُن کر خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے علاج کے لیے ماہر نفسیات انھیں آوازیں سنا کر ان کے دل و دماغ سے ان کا خوف نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم سب سے مؤثر طریقہ cognitive behavioral therapy ثابت ہوا ہے جس میں معالج آوازوں یا صورتحال کے بارے میں میزوفونیا سے متأثرہ فرد کی سوچ کا انداز تبدیل کرنے اور ان کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

The post misophonia ایک عام مگر پُراسرار مرض appeared first on ایکسپریس اردو.


ماں جی

$
0
0

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔

جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو ’’بار‘‘ کا علاقہ کہا جاتا تھا۔

اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہوئی ہو گی۔

ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا۔ والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی۔ ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سرہند کی کھدائی ہو رہی تھی۔ نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی۔ رو پڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دیئے جاتے تھے۔ نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے۔ کبھی اتنا بھی معلوم نہ کر سکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لئے کیا قدم اٹھانا چاہئے۔ انجام کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی کی مزدوری کرنے لگے۔

انہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آباد کاروں کو مفت زمین مل رہی ہے۔ نانا جی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہو گئے۔ سواری کی توفیق نہ تھی۔ اس لئے پا پیادہ چل کھڑے ہوئے۔

راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے۔ نانا جی جگہ بہ جگہ قلی کا کام کر لیتے یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے۔ نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کے فرش اور دیواریں لیپ دیتیں۔ لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔

ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے۔ پا پیادہ چلنے اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ یہاں پر چند ماہ قیام کیا۔ نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے۔ نانی چرخہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا۔

انہی دنوں بقر عید کا تہوار آیا۔ نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے ماں جی کو تین آنے بطور عیدی دیئے۔ زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے۔ انہوں نے بہت سوچا لیکن اس رقم کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آسکا۔ وفات کے وقت ان کی عمر کوئی اسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے، دس روپے، پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا۔ عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے۔ جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا۔ باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے تو وہ فوراً مسجد میں تیل بھجوا دیتیں۔

ساری عمر جمعرات کی شام کو اس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں۔ رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آ گئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی انہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے۔ وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے۔ غالباً یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لئے جمع کر رکھے تھے چونکہ وہ جمعرات کی شب تھی۔

ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی اور نہ کوئی زیور۔ اسبابِ دنیا میں ان کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں۔ تین جوڑے سوتی کپڑے، ایک جوڑا دیسی جوتا، ایک جوڑا ربڑ کے چپل، ایک عینک، ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے۔ ایک جائے نماز، ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔

پہننے کے لئے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں۔ ایک زیب تن، دوسرا اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکئے کے نیچے رکھا رہتا تھا۔ تاکہ استری ہو جائے۔ تیسرا دھونے کے لئے تیار۔ ان کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتی تھیں۔ اسی وجہ سے ساری عمر انہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔ لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے۔ کپڑوں کی پوٹلی بنا کر انہیں جائے نماز میں لپیٹا۔ جاڑوں میں اونی فرد اور گرمیوں میں ململ کے دوپٹے کی بکل ماری اور جہاں کہیئے چلنے کو تیار۔ سفرِ آخرت بھی انہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا۔ میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھے۔ نہا دھو کر بال سکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اسی خموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں۔ غالباً اس موقع کے لئے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اٹھا لے۔ اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔

کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں۔ ان کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، دھنیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی۔ باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں۔ تقریباً ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کر تی تھیں۔ پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کبھی کبھار کیلے کی فرمائش کرتی تھیں۔ البتہ ناشتے میں چائے دو پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں۔ کھانا صرف ایک وقت کھاتی تھیں۔ اکثر و بیشتر دوپہر کا۔ شاذ و نادر رات کا۔ گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی پتلی نمکین لسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی ان کی محبوب خوراک تھی۔

دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ دعا کرتی تھیں۔ سب کا بھلا۔ خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لئے انہوں نے براہ راست کبھی کچھ نہ مانگا۔ پہلے دوسروں کے لئے مانگتی تھیں اور اس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں۔ اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی ’’میرے بیٹے‘‘ یا ’’میری بیٹی‘‘ کہنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کو اللہ کا مال کہا کرتی تھیں۔

کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا۔ اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں۔ اگر کوئی ملازم زبردستی ان کا کوئی کام کر دیتا تو نہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اسے دعائیں دیتی رہتی تھیں۔

سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقیناً زندگی کے زیر و بم نے سکھایا تھا۔

جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خورد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس مقام پر جانا ہے اور زمین حاصل کرنے کے لئے کیا قدم اٹھانا ہے۔ ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میں ان کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہ کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہو گا۔ کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پا پیادہ بھٹکتا رہا لیکن کسی راہ گزار پر انہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے چک نمبر 392 میں جو ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دیئے۔ لوگ جوق در جوق وہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ کالونی میں آباد ہونے کا شاید یہی ایک طریقہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگے۔ انہی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لئے آیا۔ نانا جی کے پاس الاٹ منٹ کے کاغذات نہ تھے۔ چنانچہ انہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں ان کے برتن اور بستر قرق کر لئے گئے۔ عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروا لیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی۔ جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصہ بری طرح سے پھٹ گیا۔

چک 392 سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر لو چلتی تھی۔ پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چھوٹے بھائیوں کو چساتی جائیں۔ اس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر507 میں پہنچے جہاں پر ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نانا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں۔ ان دنوں انہیں مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پور ی طرح کھا سکیں۔

کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا۔ کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو ان کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ ایک روز کہیں سے توریئے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آگیا۔ نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الّن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آ پڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا۔

چک نمبر507 نانا جی کو خوب راس آیا۔ چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آبادکاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر ان کو ایک مربع زمین مل گئی۔ رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں ان کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا۔ جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی توں توں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی۔ چنانچہ خوشحالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا۔ ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا۔ وہ سارا وقت کھڑکی سے باہر منہ نکال کر تماشہ دیکھتی رہیں۔ اس عمل میں کوئلے کے بہت سے ذرے ان کی آنکھوں میں پڑ گئے۔ جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم میں مبتلا رہیں۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔

ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ائیر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحائف دیئے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھرماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس زمانے میں لائل پور کے مربعہ داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ہو تا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لئے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے، یہ خیال بخش مربعہ دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھئے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

’’ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا!‘‘ ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

’’توبہ توبہ پت‘‘ ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں، ’’میر ی نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘

ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہو گئے۔

سرسید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

’’کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟‘‘ سر سید نے کڑک کر پوچھا۔

’’جی ہاں‘‘ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔

یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ’’اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔‘‘

عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔

جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ ان کی منگنی ہو گئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جائیں۔

منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبد اللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔

ماں جی کی سہیلیوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر ان سے پانچ پانچ روپے وصول کر لئے۔ عبداللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپے پیش کئے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔

’’اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی‘‘ عبداللہ صاحب نے پوچھا۔

’’اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈال دوں گی۔‘‘ ماں جی نے جواب دیا۔

زندگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔ اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔

گلگت میں عبداللہ صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی۔ خوبصورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکر چا کر، دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ۔ جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گورنر خاص سیاسی انتظامی اور سماجی اقتدار کا حامل تھا لیکن ماں جی پر اس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہوتا تھا۔ بلکہ ماں جی کی اپنی سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔

ان دنوں سر مالکم ہیلی حکومتِ برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور ان کی بیٹی ماں جی سے ملنے آئیں۔ انہوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں کھلی تھیں۔ یہ بے حجابی ماں جی کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے لیڈی ہیلی سے کہا ’’تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزر ہی گئی ہے۔ اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے مس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور چند مہینوں میں اسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔

جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچنر سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔ ان کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا اہتمام ہوا۔ ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے۔ کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا ’’مسٹر گورنر، جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہِ مہربانی میری طرف سے آپ ان کے ہاتھ چوم لیں۔‘‘

دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں و شاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی خانے کے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔

ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا ’’اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں؟‘‘

’’میں‘‘ ماں جی تنک کر بولیں۔ ’’میں اس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیتی۔ پھر آپ کیا کرتے؟‘‘

’’میں‘‘ عبداللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔ ’’میں ان مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا، جیسے سرسید کے ہاں سے بھاگا تھا۔‘‘

ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بار ماں جی رشک و حسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔

گلگت میں ہر قسم کے احکامات ’’گورنری‘‘ کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا۔

’’بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خواہ مخواہ!‘‘

عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا۔ ’’بھاگوان یہ تمہارا نام تھوڑا ہے۔ گورنری تو دراصل تمہاری سوکن ہے جو دن رات میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔‘‘

مذاق کی چوٹ تھی۔ عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔

کچھ عرصہ کے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ ماں جی نے مہارانی سے اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال میں آ گئی ’’ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم۔ میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔‘‘

جب یہ مقدمہ مہاراجہ پرتاب سنگھ تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی۔ عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آپڑی لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوں خوب ہنسے۔ آدمی دونوں ہی وضعدار تھے۔ چنانچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکاراجائے۔ 1947ء کی جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔

یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔

’’اب تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔‘‘ مہارانی نے کہا۔ ’’کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔‘‘

مہاراجہ اور مہارانی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔ اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔

ماں جی خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ ان جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر، تسلیم و رضا کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیب کے پردے میں کتنے دکھ، کتنے غم، کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔

اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کئے۔ دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصہ بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں۔ سب سے بڑا بیٹا عین عالم شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔

کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو رویا نہ کرتی ہوں گی!

جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسب معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائنتی بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں۔ وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔ پھر یکایک سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے۔ ’’بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دیئے تھے کیا ان کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا؟‘‘

ماں جی نے نئی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔ ان کے سینے میں بیک وقت بہت خیال امڈ آئے۔ ’’ابھی وقت کہاں آیا ہے۔ سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔ اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں۔ ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔‘‘

لیکن قضا و قدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا۔ جب ماں جی نے سر اٹھایا تو عبد اللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے۔ ماں جی نے بہتیرا بلایا، ہلایا، چمکارا لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں۔

ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا لگا کر تلقین کی ’’بچہ رونا مت۔ تمہارے ابا جی جس آرام سے سو رہے تھے، اسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت۔ ان کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔‘‘

کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیاکہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا، ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہو ں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک انہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے گورنری کے علاوہ اور کوئی سوکن اس کے سرپر لا کر نہیں بٹھائی۔

جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں، جو قیامت تک انہیں عقیدت کے بیابان میں سرگرداں رکھے گا۔

اگر ماں جی کے نام پرخیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی، لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔

ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔

ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ان کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔

The post ماں جی appeared first on ایکسپریس اردو.

گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز

$
0
0

لاکھوں سال سے سمندر کی گہرائیوں میں موجود کئی سو فٹ لمبے، خطرناک، رونگٹے کھڑے کردینے والے دیوہیکل عفریت لیکن بے حد خوب صورت جانور گوڈزیلا کی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کرتی فلم ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کا انتظار دنیا بھر کے شائقین بے چینی سے کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم نے ریلیز ہوتے ہی دنیا بھر میں دھوم مچادی اور اب تک کروڑوں ڈالرز کا بزنس کرچکی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ فلم اس قابل ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاسکیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

31 مئی 2019 کو ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ فلم ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کو مائیکل ڈورٹی نے ڈائریکٹ کیا ہے جب کہ فلم کی کہانی ڈورٹی، زیک شیلڈز اور میکس بورینسٹین نے مل کر لکھی ہے۔ یہ فلم 2014 میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ فلم ’’گوڈزیلا‘‘ کا سیکوئل ہے۔ ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ پر بات کرنے سے قبل اس کی تھوڑی سی تاریخ جان لیتے ہیں۔ یہ فلم گوڈزیلا فرنچائز کی 35 ویں فلم ہے۔ اس فرنچائز کی پہلی فلم 1954 میں ’’گوڈزیلا‘‘ (جاپانی میں اسے گوجیرا کہا جاتا ہے) کے نام سے ریلیز ہوئی تھی جسے جاپان کی پروڈکشن کمپنی توہو نے پروڈیوس کیا تھا۔ فلم کی غیرمعمولی کام یابی کے بعد اس کمپنی نے مزید گوڈزیلا فلمیں پروڈیوس کیں اور اب تک گوڈزیلا فرنچائز کی 35 فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ اس فرنچائز کی 32 فلمیں توہو پروڈکشن نے پروڈیوس کی ہیں جب کہ تین فلمیں ہالی ووڈ میں بنی ہیں۔

ہالی ووڈ میں گوڈزیلا فرنچائز کی پہلی فلم مئی 1998 میں ریلیز ہوئی تھی جسے رونالڈ ایمرچ نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ یہ گوڈزیلا فرنچائز کی 23 ویں فلم تھی جسے مکمل طور پر ہالی ووڈ اسٹوڈیو نے پروڈیوس کیا تھا۔ فلم میں میتھیو بروڈرک، ماریا پیٹیلو اور جین رینو نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم کہانی، گرافکس اور اینی میشن، ہر لحاظ سے بہترین تھی۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح فرانس کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں سے نکلنے والی تابکاری نے چھوٹی چھپکلیوں کو بڑے بڑے دیوہیکل گوڈزیلا میں تبدیل کردیا تھا، جن سے دنیا اور انسانوں کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ چونکہ یہ فلم امریکا میں بنی تھی لہٰذا فلم میں دکھایا گیا کہ یہ نیوکلیئر ٹیسٹ فرانس نے کیے تھے، لہٰذا فرانسیسی حکومت اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلیے خفیہ ادارے کے چند لوگوں کو امریکا بھیجتی ہے جو فلم کے ہیرو امریکی ڈاکٹر نک ٹاٹو پولس (میتھیو بروڈیرک) کے ساتھ مل کر اس بڑی چھپکلی (گوڈزیلا) کا خاتمہ کرتے ہیں۔

اس فلم میں کئی مناظر ہیں جو دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں، جیسے کہ فلم میں کیمرا مین ’’اینیمل‘‘ جو گوڈزیلا کی تصاویر اتارتے وقت اس دیوہیکل جانور کے پیروں کی انگلیوں کے درمیان آجاتا ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے تو دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے، تاہم جب کیمرامین کی جان بچتی ہے تو جان میں جان آتی ہے۔ اسی طرح بڑی بڑی بلڈنگوں کے درمیان گوڈزیلا اور فائٹر پائلٹس کی لُکا چھپی کا کھیل ہو یا سمندر کے اندر گوڈزیلا اور آبدوز میں موجود انسانوں کے درمیان زندگی اور موت کی لڑائی! فلم کا ہر منظر شائقین کو آنکھیں مسلسل اسکرین پر جمائے رکھنے پر مجبور رکھتا ہے۔

فلم میں صرف گوڈزیلا پر ہی فوکس نہیں کیا گیا بلکہ دیگر کرداروں پر بھی اتنی ہی محنت کی گئی ہے کہ جتنی گوڈزیلا کے کردار پر۔ فلم میں ڈاکٹر نک اور نیوز رپورٹر آڈری (ماریا پیٹیلو) میں رومانس کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے، جب کہ ایکشن اور جذباتی مناظر بھی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ مثلاً گوڈزیلا کے بچوں کی موت کے وقت اس دیوہیکل جانور کی اپنے بچوں سے محبت اور ان کی موت کا بدلہ لینے کے لیے فلم کے مرکزی کرداروں کا پیچھا کرنے والے مناظر شائقین کو بھی جذباتی کردیتے ہیں۔ 1998 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ہر طرح سے ایک بہترین فلم تھی لیکن اس کے باوجود یہ باکس آفس پر مایوس کن ثابت ہوئی جس کے بعد فلم کا سیکوئل بنانے کا ارادہ بھی ترک کردیا گیا۔

تاہم ہالی ووڈ نے 16 سال بعد ایک بار پھر گوڈزیلا بنانے کا بیڑا اٹھایا اور 2014 میں ’’گوڈزیلا‘‘ دوبارہ اسکرین پر اپنا خوف پھیلانے آگیا۔ اگر آپ ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ دیکھنے کا ارادہ کررہے ہیں تو اس سے پہلے آپ کو 2014 میں ریلیز ہونے والی ’’گوڈزیلا‘‘ دیکھنی پڑے گی ورنہ اس کی کہانی آپ کے بالکل بھی پلے نہیں پڑے گی۔ لہذٰا ’’کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کے بارے میں بات کرنے سے قبل 2014 کی ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی کو تھوڑا سا کھنگالنا پڑے گا۔

2014 میں ریلیز ہوئی ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی 1998 میں ریلیز ہوئی فلم سے بالکل مختلف تھی۔ اس فلم میں امریکیوں کو جاپان پر کیے گئے ایٹمی حملوں کی وضاحت دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ 40 کی دہائی میں امریکا کی جانب سے جاپان پر گرائے گئے ایٹم بم دراصل گوڈزیلا کو مارنے کی کوشش تھی اور وہ یہ جان لیوا دھماکے کرکے دنیا کو گوڈزیلا سے بچارہے تھے۔ (کیا مذاق ہے! جیسے ساری دنیا کو بچانے کا بیڑا صرف امریکا نے اٹھایا ہوا ہے؛ اور باقی پوری دنیا کے سائنس داں، ذہین و فطین لوگ صرف امریکی فتوحات دیکھنے کے لیے ہی دنیا میں آئے ہیں) اس فلم میں ہمیں مونارک نامی تنظیم سے بھی متعارف کروایا گیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔

خیر! فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور انکشاف ہوتا ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے نکلنے والی ریڈی ایشن (تاب کاری) کو گوڈزیلا اپنی غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے اور یہ ریڈی ایشن اسے طاقت دیتی ہے، جس کی وجہ سے گوڈزیلا لاکھوں سال تک دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کام یاب ہوا ہے۔ اس فلم میں صرف گوڈزیلا پر ہی فوکس نہیں رکھا گیا بلکہ لاکھوں سال قبل دنیا پر حکومت کرنے والے مزید دیوہیکل مکڑی نما جانوروں ’’میوٹو‘‘ کو بھی دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ان جانوروں اور گوڈزیلا کے درمیان دنیا پر حکم رانی کے لیے ہونے والی لڑائی دیکھنے کے قابل ہے جس کے ہر منظر پر سانسیں رک جاتی ہیں۔

’’گوڈزیلا‘‘ کی ریلیز کے 5 سال بعد یعنی 31 مئی 2019 کو اس کا سیکوئل ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کے نام سے ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی امریکی سائنس داں ایما سے شروع ہوتی ہے جس کا تعلق مونارک نامی تنظیم سے ہے جسے گوڈزیلا سمیت دیگر دیوہیکل جانوروں کو مارنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہ تنظیم اپنے اصل کام کو چھوڑ کر گوڈزیلا کو بچانے میں لگ جاتی ہے۔ مونارک سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایما ’’اورکا‘‘ نامی مشین بناتی ہے جس سے نہ صرف گوڈزیلا جیسے مونسٹرز کی باتیں سمجھی جاسکتی ہیں، بلکہ ان سے اپنی باتیں منوائی بھی جاسکتی ہیں۔ اس بار فلم میں دیوہیکل مونسٹرز کی تعداد میں اضافہ کرکے فلم کو مزید خوف ناک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم میں گوڈزیلا کے علاوہ 17 دیوہیکل جانور دکھائے گئے ہیں جنہیں ’’ٹائٹنز‘‘ کہا گیا ہے۔ تاہم فلم میں پورے 17 ٹائٹنز نہیں دکھائے گئے بلکہ صرف چار ٹائٹنز (گوڈزیلا، کنگ گیڈورا، روڈین اور موترا) کو فلم میں ایک دوسرے سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔

اس فلم میں گوڈزیلا کو پچھلی فلموں کی نسبت زیادہ بڑا، خطرناک اور بے حد شان دار دکھایا گیا ہے جو کنگ گیڈورا (تین منہ والے ڈریگن) کو مار کر ثابت کرتا ہے کہ وہی دنیا کا اصل بادشاہ ہے۔ فلم میں کنگ گیڈورا اور گوڈزیلا کے درمیان کئی ایکشن سینز ہیں جو بلاشبہ دیکھنے والوں کو دنگ کردیتے ہیں۔ پچھلی فلم (2014 میں ریلیز ہوئی فلم) کی نسبت اس بار ’’گوڈزیلا‘‘ میں اینی میشن اور گرافکس کا استعمال بھی بخوبی کیا گیا ہے جب کہ اسکرین پر گوڈزیلا کی موجودگی کا ٹائم پچھلی فلم سے زیادہ ہے۔ فلم میں جب گوڈزیلا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے جسم سے خارج ہونے والی نیلی روشنی نہایت خوب صورت لگتی ہے۔ اسی طرح فلم میں روڈن دیوہیکل پروں والے شان دار پرندے کی انٹری بھی کمال کی ہے۔ روڈن جہاں جہاں سے گزرتا ہے، اس کے دیوہیکل پروں کی زد میں آکر بلڈنگوں کے تباہ ہونے کے مناظر کو اتنی خوبی سے فلمایا گیا ہے کہ شائقین اس منظر کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اینی میشن اور گرافکس کے لاجواب استعمال سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ فلم میں بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا ہے۔

تاہم جہاں فلم سازوں نے گوڈزیلا کو رواں سال کی سب سے شان دار فلم بنانے کے لیے بے تحاشہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے، وہیں فلم کی کہانی اتنی ہی کم زور ہے۔ فلم میں شامل انسانی کردار شائقین کو کہیں پر بھی فلم سے جوڑ نہیں پاتے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انسان اور گوڈزیلا دشمن نہیں بلکہ ایک ہیں۔ اس کے باوجود گوڈزیلا اور انسانوں کے درمیان جذباتی مناظر کا بے حد فقدان نظر آتا ہے جس کے باعث کہانی بہت کم زور محسوس ہوتی ہے۔ فلم کے آخر میں گوڈزیلا کو دنیا کا اصل حکم راں دکھایا گیا ہے جس کے آگے باقی تمام جانور جھک کر اس کی بادشاہت قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم فلم یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سلسلے کی اگلی فلم 2020 میں پیش کی جائے گی جس میں گوڈزیلا اور اسکل آئی لینڈ پر حکومت کرنے والے دیوہیکل گوریلا کنگ کانگ کو آمنے سامنے دکھایا جائے گا۔ اپنی اپنی دنیاؤں کے ان دونوں بادشاہوں کے درمیان دنیا پر حکمرانی کی جنگ یقیناً دیکھنے کے قابل ہوگی۔

اب بات کرتے ہیں فلم میں شامل امریکیوں کے ایجنڈے کی۔ کہنے کو تو ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی محض فکشن ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن فلم کی کہانی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا بڑے بجٹ کی ان فلموں سے اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کررہا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکا اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک گرسکتا ہے۔ 1945 میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کی جانب سے گرائے جانے والے ایٹم بموں کے اثرات آج بھی وہاں موجود ہیں۔ ان ایٹمی حملوں کی وجہ سے امریکا کے لیے دنیا بھر میں شدید نفرت پائی جاتی ہے، لہٰذا امریکا نے ’’گوڈزیلا‘‘ فلم کے ذریعے اپنی پوزیشن کلیئر کرتے ہوئے بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ جاپان پر ایٹم بم گرا کر دراصل دنیا کو گوڈزیلا جیسے جانور سے بچا رہے تھے۔

یقیناً، یہ فکشن کے نام پر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا وہ واحد ملک ہے جس نے جنگ جیتنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں نہتے اور بے قصور لوگوں پر ایٹم بم کا استعمال کیا اور جاپان کے لاکھوں شہریوں کو نہ صرف موت کے گھاٹ اتارا بلکہ تاب کاری کے اثرات سے ان کی آئندہ نسلیں تک تباہ کردیں۔ 6 اگست 1945 میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم ’’لٹل بوائے‘‘ بم گرایا جس کے نتیجے میں 80 ہزار لوگ فوراً لقمہ اجل بن گئے، جب کہ اس بم کے اثرات سے بعد میں مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔

اس کے بعد بھی جاپان نے جنگ میں ہتھیار نہیں ڈالے تو امریکا نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے پہلے حملے کے تین روز بعد ناگاساکی پر ایک اور ایٹمی حملہ کیا اس ایٹم بم کا نام ’’فیٹ مین‘‘ تھا اور اس ایٹمی حملے کے نتیجے میں اندازاً 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا قتل عام کرنے کے بعد اب امریکا اپنے ان حملوں کی وضاحتیں فلموں کے ذریعے دینے کی کوشش کررہا ہے۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہالی وڈ میں بننے والی تقریباً تمام سائنس فکشن اور ایکشن فلموں میں امریکا کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اور امریکا کو دنیا کا واحد سہارا دکھایا جاتا ہے۔ دنیا پر چاہے ایلین حملہ کریں، خطرناک سونامی آئیں، یا گوڈزیلا جیسے دیوہیکل جانور دنیا کو نقصان پہنچائیں، امریکا کے کاندھے پر پوری دنیا کو بچانے کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ باقی ممالک کا کردار ثانوی بھی نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تو وہ امریکا سے مدد مانگتے نظر آتے ہیں۔ نئی ’’گوڈزیلا‘‘ بھی اسی پرانی ’’ہالی وڈ سنڈروم‘‘ میں مبتلا نظر آتی ہے جس کے ذریعے امریکا نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن منہ کی کھائی ہے۔

The post گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت: دیکھ! خالق کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں… !

$
0
0

 قسط نمبر 50
آپ نے چاچا بُوٹا کی رُوداد حج تو پڑھ لی کہ کیسے چاچا بُوٹا، بابا بُوٹا میں ڈھل گئے۔ اُس حج نے ان کا جیون یک سر بدل دیا اور وہ اشتعال سے اطمینان میں داخل ہوئے، وہ جو خلق خدا کا جیون اجیرن کیے ہوئے تھے، کیسے ان کے لیے رحمت خداوندی میں بدل گئے، وہ جن سے خالق کی مخلوق بے زار رہتی تھی، کیسے ان کی مشتاق رہنے لگی، اور وہ جو مخلوق پر عذاب بن کر مسلط ہوگئے تھے، کیسے باران رحمت میں ڈھل گئے، وہ جن کے شر سے لوگ پناہ مانگتے ہوئے، ان کی طول عمری کے لیے دعائیں مانگنے لگے۔ بابا بُوٹا ایک ہی جست میں وہ کچھ پاگئے جسے حاصل کرنے کے لیے یہ جیون بھی کم ہے۔ اسے ہی کہتے ہیں حج مقبول و مبرور۔

تو چلیے جب بات چھڑ ہی گئی ہے تو ہم اسے آگے لے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ چند دن بعد آپ وہ منظر دیکھیں گے جو آپ اور ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔ وطن عزیز ہی کیا سارے عالم کے قریے قریے سے عُشاق کے قافلے نکلیں گے اور ان کا رخ سُوئے حرم ہوگا۔ ہر بندۂ مومن اور مومنہ کی دل کی آرزو ہے اس گھر کی زیارت، بعض تو سارا جیون اس کے زاد راہ کے لیے ٹکا پیسا پائی جوڑ کر تیاری کرتے ہیں، خود بھوکے رہ جاتے ہیں لیکن موت سے پہلے اپنے خالق کے گھر کا طواف کرنے کو مچلتے رہتے ہیں۔ مالک ان کی مساعی کو اپنے دربار عالیہ میں منظور و مقبول فرمائے۔ اور پھر وہ منظر بھی جب وہ آنکھوں میں اشکوں کی برسات لیے واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔

فقیر دیکھتا ہے… شاہ راہ فیصل سے گزرتے ہوئے کتنے خوب صورت لگتے ہیں وہ … گلاب کے تازہ پھولوں کے ہار ڈالے… کاندھے پر بیگ لٹکائے… سرمنڈائے اور سامان تحائف سے لدے پھندے ۔ بہت اچھے لگتے ہیں وہ… شانت اور آسودہ… واہ کیا بات ہے ان کی! ہاں وہ فقیر کو بہت پیارے لگتے ہیں۔ لاکھ سہولتیں سہی… آسائشیں اور آسانیاں بجا… مگر گھر کے سُکھ، چین اور آرام کو تج کر اپنے رب کے حضور پہنچنے والے خاص بندے… اور پھر وہاں اُسے روتے ہوئے… آنسوؤں کی برسات میں پکارنے والے: ’’لبّیک لبّیک‘‘ میں حاضر ہوں… میں حاضر ہوں میرے مالک، میں حاضر ہوں۔ دیکھ مجھے میں بھی تو ہوں اس قافلۂ عشاق کا اک عاجز بندہ۔ دیکھ میری جانب میں آگیا ہوں تیرے دربار میں کھڑا ہوں اور تیری رضا چاہتا ہوں، لبّیک، لبّیک، لبّیک، حاضر، حاضر، حاضر، بس میری طرف دیکھ لے مالک۔

یہ عرفان ستّار کس وقت یاد آئے، وہ جہاں رہیں، خوش رہیں

کُوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں

اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہُوں

اگر آپ خوش نصیبی سے اس منظر کا حصہ رہے ہیں تو سبحان اﷲ، کیا کہنے! اور اگر نہیں رہے تو رب تعالٰی آپ کو اس منظر کا حصہ بنائے، لیکن اب تو برقی ذرائع ابلاغ اتنے عروج پر ہیں کہ وہ یہ منظر لمحہ بہ لمحہ سب کو دکھاتے ہیں۔ سُوئے حرم اور دیار حبیبؐ سے لوٹنے والوں کو مبارک باد دینا چاہیے… ہاں وہ بہت خوش نصیب ہیں… بہت نصیب والے۔ اﷲ سب کو سلامت رکھے اور پھر سے طلب بھی فرمائے۔

اچھا تو اب فقیر یہاں سے کسی اور سمت نکل رہا ہے… کہاں؟ یہ تو وہ بھی نہیں جانتا۔ لیکن ایک بات سن لیجیے… فقیر کی بات سے آپ متفق بھی ہوں یہ ضروری نہیں… بالکل بھی نہیں… مانیں نہ مانیں۔ لیکن فقیر ایک بات کررہا ہے، سن تو لیجیے… ہاں آپ کا ظرف بہت بڑا ہے… آپ فقیر کی ہر بات سن لیتے ہیں… اور پھر بات آگے چلتی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ فقیر کی ہر بات درست ہو۔ انسان ہوں، غلطیاں کرتا رہا ہوں، کرتا رہوں گا۔ آپ اسے دل پر نہ لے لیجیے گا… بس یہ کہہ رہا ہوں معاف کردیا کیجیے… یہی تو انسان کا سب سے بڑا وصف ہے۔ وسیع القلبی اور اعلٰی ظرفی اسے ہی تو کہتے ہیں۔

تو فقیر کہہ رہا تھا کہ اس کا ایک پاگل سے بہت گہرا ناتا ہے… ایک دن بہت عجیب سی بات کی تھی اُس نے… فقیر کو تو اچھی لگی اور ڈرا بھی بہت۔ یہی موسم تھا… سب جارہے تھے… اپنے رب کے گھر۔ فقیر کو یہ منظر بہت اچھا لگتا ہے۔ فقیر نے کہا: تُو دیکھ رہا ہے ناں! کتنے خُوش نصیب ہیں یہ سُوئے حرم جانے والے، لبّیک، لبّیک پکارنے والے… تو وہ خاموش ہوگیا۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ سب دوست جا چکے تھے تب فقیر نے اسے پھر کہا: سُوئے حرم اور دیار حبیبؐ، کیا بات ہے جانے والوں کی، ہے ناں…! لیکن وہ خاموشی کو اوڑھے رہا، بالکل خاموش، تب فقیر کو بولنا پڑا : تُو کچھ بولتا کیوں نہیں… کیا ہوا ہے تجھے!

تب وہ بولا : ’’ہاں ، ہاں بہت نصیب والے ہیں، لیکن…‘‘

’’ہاں بول، رک کیوں گیا، لیکن کیا ؟‘‘ فقیر کو اسے پھر جِھنَجوڑنا پڑا، تب وہ بولا:

’’ دیکھ بات بہت بڑھ جائے گی۔‘‘

تو بڑھنے دے… بول تو۔ فقیر بہ ضد تھا تب وہ کہنے لگا: ’’ مسئلہ کچھ اور ہے، سب طلب نہیں کیے جاتے…‘‘

فقیر نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا مطلب سب طلب نہیں کیے جاتے! تو پھر کیا ہے یہ سب کچھ…‘‘

تب اس نے فقیر پر ایک راز کھولا اور گویا ہوا: ’’ہاں یہ ہے اصل بات۔ دیکھ خالق کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں… لیکن اکرام سب کا کرتا ہے… رحمت کی بارش سب پر ہوتی ہے… کوئی محروم نہیں رہتا داتا کے گھر میں…‘‘

فقیر تو ویسے بھی پرلے درجے کا احمق ہے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے چلا جارہا ہے، آپ کو بھی الجھن سی ہورہی ہوگی کہ آخر یہ کیا ہے پھر۔

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا: ’’دیکھ ہمارے گھروں میں کتنے مہمان آتے جاتے رہتے ہیں… روزانہ، کبھی ہفتے میں، کبھی مہینے میں… لیکن سب کو تو ہم طلب نہیں کرتے ناں۔‘‘

فقیر نے کہا: ہاں، ہاں ایسا ہی ہے، تُو سچ کہہ رہا ہے۔

پھر وہ بولا: ’’لیکن سُن، جب کوئی مہمان گھر آجائے تو ہم کیا کرتے ہیں… یہی ناں کہ ہم چائے کا وقت ہو تو چائے پلاتے ہیں، بسکٹ، کیک، پیسٹری، سموسے جو اہتمام ہوسکتا ہو، ہم کرتے ہیں۔ ہم انہیں کھانا کھلاتے ہیں، بہت عزت و احترام سے پیش آتے ہیں، ہم اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں کہ وہ خوش ہوکر جائیں، خفا نہ ہوجائیں… ہماری کوشش ہوتی ہے وہ خوش خوش جائیں۔ لیکن ہم انہیں طلب تو نہیں کرتے ناں… وہ خود آجاتے ہیں بن بلائے… اچھا دوسرے مہمان وہ ہوتے ہیں جن سے ہم بہت اصرار کرتے ہیں کہ آپ ضرور آئیے ہمارے گھر… ہمارے ساتھ کھانا کھائیے … کچھ دیر قیام کیجیے… ہمیں بھی خدمت کا موقع دیجیے۔ ہم ان سے درخواست کرتے رہتے ہیں، اور پھر ہماری امید بر آتی ہے اور وہ وعدہ کرلیتے ہیں ٹھیک ہے ہم ضرور آئیں گے… تو ہم بہت بے صبرے ہوکر پوچھتے ہیں، کب آئیں گے آپ؟ تو وہ وقت بتاتے ہیں کہ ہم آئیں گے فلاں دن… ہماری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا کہ واہ واہ وہ ہمارا کہا مان گئے۔ کتنی خوشی و مسرت ہوتی ہے ہمیں… اور پھر جب وہ دن قریب آنے لگتے ہیں ، تب ہماری تیاریاں بھی زور پکڑنے لگتی ہیں، یہ کمرہ انہیں دیں گے، یہ سہولت وہ آسائش… کھانے پینے کی نعمتیں ہم جمع کرنے لگتے ہیں کہ ہماری دعوت پر وہ آرہے ہیں… اور پھر وہ گھڑی جس کا ہم شدت سے انتظار کرتے ہیں… تُو وہ کیا شعر سنا رہا تھا اس دن ؟ ہاں یاد آیا:

اے میرے دل کے چین، مرے دل کی روشنی

آ اور صبح کردے شبِ انتظار کی

بس اس طرح کی بات… اور پھر وہ وقت ، وہ گھڑی، وہ لمحہ آتا ہے جب وہ آجاتے ہیں تو لگتا ہے بہار آگئی… نسیم صبح اترائے پھرتی ہے… ہمیں ہر چیز رقص کرتی نظر آتی ہے… مسرت جھومتی ہے اور مسکراہٹ اترائے پھرتی ہے، دل کی کلی کِھل کر گُل میں ڈھل جاتی ہے…! واہ واہ کیا بات کریں، کیسے اپنی کیفیت کو بیان کریں۔ ہمارا والہانہ پن جسے تم اپنا پن کہتے ہو، سب کچھ سارے منظر خوش نما اور موسم سہانا لگنے لگتا ہے۔ جب تک وہ رہتے ہیں، ہمیں کوئی تھکن نہیں ہوتی، ہم بے زار نہیں ہوتے، تنگ نہیں پڑتے… بل کہ ہنسی خوشی ان کی خدمت کرتے ہیں… بار بار کہتے ہیں تکلّف بالکل مت کیجیے گا، بالکل بھی نہیں، اسے اپنا گھر سمجھیے گا۔ یہ کھالیجیے وہ نوش جاں کرلیجیے، ہم نے بڑی چاہت سے، بہت محبت سے، بہت ہی خلوص سے یہ بنایا ہے… اور جب وہ کہتے ہیں: کتنا اچھا بنایا ہے آپ نے، کتنا لذیذ ہے یہ، کتنا مزے دار ہے… تو آپ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ پھر ان کے لیے تحائف خریدتے ہیں، یہ آپ کے لیے ہے، قبول کرلیجیے، ہماری خوشی کو بڑھا دیجیے۔ ہم اپنی آنکھیں ان کی راہ میں بچھا دیتے ہیں۔ دل کے دریچے وا کردیتے ہیں کہ دیکھیے آپ یہاں قیام پذیر ہیں اور ہم کتنے خوش۔‘‘

یہاں پہنچ کر وہ پھر خاموش ہوگیا۔ فقیر بہت عجلت پسند ہے جیسا کہ ہر احمق و نادان و ناسمجھ ہوتا ہے تو وہ لمحات بہت اذیت پہنچاتے ہیں، جب بات ادھوری اور تشنہ رہ جائے… فقیر بے چین ہوگیا لیکن اس کی خاموشی ختم نہیں ہورہی تھی تو فقیر نے کہا: آگے بھی تو بول، چپ کیوں ہوگیا؟

تب وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: ’’مجھے معلوم تھا، بے وقوف آدمی اب بھی نہیں سمجھا… دیکھ، پھر یہ ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے دن قریب آنے لگتے ہیں، اور ہماری بے کلی بڑھنے لگتی ہے، بے چینی ہونے لگتی ہے، ہمیں تھوڑا تھوڑا سا غصہ آنے لگتا ہے۔ ان پر نہیں خود پر، کہ ہم کیسے رہیں گے ان کے بغیر کیا ہوگا… اور ہمارا اہتمام بڑھنے لگتا ہے، ہمیں سمجھ نہیں آتا کیا کچھ کر گزریں ان کے لیے… اور پھر وہ لمحہ آ پہنچتا ہے کہ وہ رخصت ہونے لگتے ہیں… ہم پھر بھی ان آخری لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی سعی کرتے ہیں، ہاں اسٹیشن چلیں گے… ایئرپورٹ چلیں گے… یا ہم انہیں لاری اڈے پر رخصت کرنے جاتے ہیں… اور پھر ہماری آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوجاتی ہیں… ہم کوشش بھی کرتے ہیں لیکن کچھ کام نہیں آتا… اور آخری گھڑی ہم التجا کرتے ہیں، آپ ضرور آئیے گا دوبارہ، آپ جس عزت و اکرام کے مستحق تھے وہ ہم سے نہ ہوسکا… اور وہ کہتے ہیں: نہیں نہیں آپ نے تو ہمارا دل جیت لیا، ہم تو جارہے ہیں، پر دل تو یہیں چھوڑے جارہے ہیں… بس اس طرح کی باتیں اور پھر وہ چلے جاتے ہیں اور ہم بجھے بجھے سے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ کچھ اچھا نہیں لگتا ہمیں۔ ابھی کچھ دن پہلے بل کہ کچھ گھڑیاں پہلے تو سب کچھ سہانا تھا، ہمیں ہر چیز اچھی لگ رہی تھی، ہر موسم سہانا لگ رہا تھا… وہ سب کچھ چند لمحے بعد بے رنگ ہوجاتا ہے اور ہم پھر سے اداس ہوجاتے ہیں، بے کل ہوجاتے ہیں… بس ایسا ہوجاتا ہے… اور پھر ہم انہیں پیغام بھیجتے ہیں:’’I Miss you‘‘ ہم آپ کو بے انتہا چاہتے ہیں… آپ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ حالاں کہ سب کچھ وہی ہوتا ہے، اندر سے بدل جاتا ہے آدمی۔ وہ تُو بتا رہا تھا ناں کہ تیرا ایک دوست یہ بہت گاتا ہے اور پھر روتا بھی ہے۔ وہ کیا تھا ؟ ہاں وہ تھا:

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

تو بس ایسا ہوجاتا ہے۔ ’’وہ ہوتے ہیں ہمارے منتخب مہمان۔‘‘

فقیر کو پھر کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ فقیر محسوس کررہا تھا… لگتا ہے کہ آپ کو بھی کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہوگا۔ بس آپ اسے محسوس کیجیے۔ فقیر نے دانا سے جسے یار لوگ پاگل سمجھتے تھے سے دریافت کیا: تو پھر ایسا کیا کریں کہ ہم بھی منتخب مہمان بن جائیں؟ تب دانا نے بتایا: ’’ آسان ہے، بہت آسان، دیکھ یہ جو بابے اقبال نے بتایا ہے ناں کہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے! اب نادان خودی کو انا سمجھتے ہیں، نہیں ، نہیں خودی انا نہیں ہوتی وقار کو کہتے ہیں خودی، خود شناسی کو کہتے ہیں خودی، توکل کو کہتے ہیں خودی، بس مالک کا بن جانا خودی ہوتا ہے، بس مالک پر یقین کامل کو کہتے ہیں خودی، مالک کی رضا پر تسلیم کو کہتے ہیں خودی، اور جب بندہ یہ منزل سر کرلے تب مالک اسے اعزاز بخشتا ہے اور پھر خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔‘‘

فقیر نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر سے دریافت کیا: بہت مشکل راستہ ہے یہ تو، کوئی اس سے آسان راستہ نہیں ہے؟

وہ مسکرایا اور ان کے دھن سے پھول جھڑے: ’’ ہاں ہے ناں اور بہت آسان، ساری مشکلات کا حل اور رب کا مقرب و منتخب بننے کا آسان راستہ، کہ جو اسے اختیار کرے گا یقیناً رب کا منتخب ہی نہیں، مقرب و چہیتا بھی بن جاتا ہے۔‘‘

فقیر کی بے چینی انتہا کو چُھونے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے دل کی دھک دھک ٹھہر جائے گی لیکن وہ خاموش تھے تب فقیر کی چیخ بلند ہوئی کہ وقت نہیں رہا جلد بتائیے کہ وہ کون سا آسان راستہ ہے۔

دانا مسکرائے اور اس راز کو افشاء کردیا:

کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

پھر فقیر کے سامنے ایک روشنی سی ہوئی اور وہ جان پایا اوہو! تو یہ جوہر ہے… پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا… جس کے پاس بھی زاد راہ ہے، وہ چل پڑتا ہے… بعض تو ہر سال جارہے ہیں… کتنی سہولتیں ہیں، آسائشیں ہیں اور اشتہارات بھی… حج پیکیج، عمرہ پیکیج… اور اس میں نوید ہے ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی آپ کو… بالکل اپنے گھر جیسا سمجھیے۔ تو بس لوگ جارہے ہیں، آرہے ہیں… جانا بھی چاہیے اگر زادہ راہ ہے تو۔

لیکن اب یہ تو فقیر کو نہیں معلوم، کتنے منتخب ہوتے ہیں، طلب کیے جاتے ہیں، بہت محبت سے مدعو کیے جاتے ہیں ۔ ایسے میں فقیر کو اقبال بابے یاد آتے ہیں، نہ جانے کس ترنگ میں، کتنی محبت سے کہہ دیا انہوں نے… یہ ہر ایک تو نہیں کہہ سکتا، یہ تو تعلق کی بات ہے۔

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کارِجہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر

اور کتنے ایسے ہیں جو بن بلائے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ تو آپ کو اپنے اندر سے معلوم ہوسکتا ہے، کسے طلب کیا تھا کون بن بلائے پہنچ گیا۔

بس اتنی سی بات تھی۔ دل آزاری نہیں کررہا تھا، بالکل بھی نہیں، ایسا تو فقیر سوچ بھی نہیں سکتا، بس اپنے اندر جھانکنے کا کہہ رہا تھا… آپ کو بُرا لگا ہو تو معاف کردیجیے گا، بھول جائیے گا، یہی تو اعلیٰ ظرفی ہے۔

فقیر اجازت چاہے گا… رب نے چاہا تو ملیں گے ہم۔ ٹھیک ہے باتیں ہوں گی، جھگڑیں گے بھی اور گلے شکوے بھی ہوں گے، لیکن رہیں گے ہم ساتھ… کہ تعلق اسی کا نام ہے۔ فقیر کی حاضری کو قبول کیجیے، سدا خوش رہیے۔

دیکھیے! آپ نے سنا ہوگا ، بارہا سنا ہوگا، فقیر کی ہمت و استطاعت نہیں، لیکن بہ صد احترام یہ بتانے کی جسارت کر رہا ہے کہ آپ نے سنا ہوگا:

پیغام صبا لائی ہے دربارِ نبیؐ سے

آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے

اگر ایسا ہی ہے تو آپ انتہائی خوش نصیب ہیں، رب تعالی ہمیں ایسا بنا دے ، فقیر تو یہ کہنے کی جسارت ہرگز نہیں کرسکتا جب کہ آرزو تو بس یہی ہے۔ فقیر آگے نہیں بڑھ پائے گا، رخصت ہوتا ہے۔

عشق والوں کو عشق نے ڈھونڈا

عقل والوں کو عقل نے چھانا

ہوش آتا ہے جب تو یاد تری

تھپتھپاتی ہے درد کا شانہ

The post جہاں گشت: دیکھ! خالق کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں… ! appeared first on ایکسپریس اردو.

دُنیا کو بچانا ہے؟ تو پھر بیف چھوڑیں، چکن کھائیں

$
0
0

یہ بحث اکثر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ مرغ کا گوشت بہتر ہے یا پھر گائے کا۔ عام طور پر طبی معالجین بڑے گوشت سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے نقطہ نظر سے گائے بھینس کا گوشت انسانی صحت کے لیے مُضر اور چھوٹا گوشت مفید ہوتا ہے۔

مغربی محققین کی تازہ ریسرچ بھی مرغ کے حق میں گواہی دیتی ہے مگر اس کی بنیاد انسانی صحت کے بجائے ’ماحول کی صحت‘ پر ہے۔ دنیا بھر میں کئی عشروں سے جو ماحولیاتی مسئلہ سب سے زیادہ زیربحث ہے، وہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے۔ سائنس داں اور ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں جیسے جیسے اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرۂ ارض گرم ہوتا جارہا ہے۔ اس گرماؤ کے نتیجے میں عالمی آب و ہوا میں بہ تدریج بدلاؤ آرہا ہے۔

کہیں انسان پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں تو کہیں شدت سے بارشیں ہوتی ہیں۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ موسموں کے آنے اور جانے کے ایام تبدیل ہورہے ہیں۔ اور اس سب کی وجہ ہے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جس کے اخراج کے بے شمار ذرائع ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں، صنعتوں اور گاڑیوں کے علاوہ یہ گیس جانور اور انسان بھی خارج کرتے ہیں۔

ییل یونی ورسٹی، بارڈ کالج اور ویزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس کے محققین کی مشترکہ ٹیم کی تحقیق کا موضوع مرغ اور گائے کا گوشت کھانے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج تھا۔ تاہم تحقیق میں صرف جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نہیں بلکہ مرغیوں اور مویشیوں کی افزائش، دیکھ بھال سے جڑے تمام پہلووں کے کاربن کی پیدائش میں کردار کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا۔

تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ بیف کے مقابلے میں چکن کھانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نصف رہ جاتا ہے۔ چناں چہ آپ محض گائے، بھینس کے گوشت کو خیرباد کہہ کر گلوبل وارمنگ کے ہاتھوں تباہی کے ممکنہ خطرے سے دوچار دنیا کو بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق روزمرہ معمولات میں تھوڑا سا بدلاؤ لاکر ہم ماحولیاتی تبدیلی سے جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تحقیق کہتی ہے کہ گائے بھینسوں کو پالنے پر خرچ ہونے والی توانائی، کھاد اور اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین مرغ بانی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہونے کا باعث بنتی ہے، لہٰذا ماحولیات کے اعتبار سے مر غ کے گوشت کا استعمال زیادہ مفید ہے۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سنگین صورت اختیار کرتی جارہی ہے لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دنیا کی آبادی لگ بھگ نو ارب تک پہنچ چکی ہے۔ اگر نصف آبادی بھی اپنی خوراک میں چارپایوں کا گوشت کم کردے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔

The post دُنیا کو بچانا ہے؟ تو پھر بیف چھوڑیں، چکن کھائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

5G سیلولر ٹیکنالوجی کیا انسانی صحت کے لیے مُضرہوگی؟

$
0
0

کمپیوٹنگ ڈیوائسز چاہے وہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ہو یا لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ ہو یا اسمارٹ فون، ہم چاہتے ہیں کہ یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دیا گیا ہر حکم بجالائیں۔

ہماری خواہش ہوتی ہے کہ پلک جھپکنے کے مساوی ساعت میں ہماری دی گئی ہر کمانڈ کی تکمیل ہوجائے۔ ایسا ہوتا بھی ہے۔ بہت سے کام یہ کمپیوٹنگ ڈیوائسز سیکنڈوں میں انجام دے دیتی ہیں۔ پھر بھی کچھ ایسے کام ہیں جن کی تعمیل میں وقت لگتا ہے جیسے بھاری ملٹی میڈیا فائلز کی ڈاؤن لوڈنگ۔ ماضی کی نسبت دورحاضر کی کمپیوٹنگ ڈیوائسز بے حد تیزرفتار ہیں مگر تیز سے تیز تر ڈیوائسز کی خواہش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ یہ خواہش شدید ہوتی چلی جارہی ہے جس کی تکمیل کے لیے طاقت وَر پروسیسرز اور ٹیکنالوجیز وضع کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

جب سے کمپیوٹر کی تمام خصوصیات سیل فون میں سمائی ہیں، یہ آلہ دیگر تمام کمپیوٹنگ ڈیوائسز پر بازی لے گیا ہے۔ اب صارفین کے ساتھ ساتھ ماہرین کی توجہ کا مرکز بھی اسمارٹ فون اور سیلولر ٹیکنالوجی ہے۔ اب مقابلہ تیز تر اسمارٹ فون پیش کرنے اور سیلولر ٹیکنالوجی کو بہتر سے بہتر کرنے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلولر ٹیکنالوجی1G، 2G، 3G اور 4G سے گزرتی ہوئی اب 5G کے نئے اور حیران کُن دور میں داخل ہونے کے لیے پر تول رہی ہے۔

سیلولر ٹیکنالوجی کی پانچویں نسل (ففتھ جنریشن) سے آئندہ برس آپ مستفید ہورہے ہوں گے۔ یہ ٹیکنالوجی کس قدر تیز ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ڈاؤن لوڈنگ اسپیڈ 1 گیگابائٹ فی سیکنڈ ہوگی۔ یعنی آپ پوری فلم محض ایک سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ کرسکیں گے! 4G استعمال کرتے ہوئے مشینوں کے درمیان رابطے میں 50 ملی سیکنڈ کی تاخیر ہوتی ہے تاہم 5G میں یہ وقفہ کم ہوکر محض 1 ملی سیکنڈ پر آجائے گا، جس کا مطلب ہے کہ انٹرنیٹ سے منسلک مشینوں کے درمیان رابطہ کاری سہل اور آسان تر ہوجائے گی۔ یہ تفصیلات جان کر اگر آپ کے ذہن میں ٹرمینیٹر سیریز کی فلموں میں دکھائے گئے اسکائی نیٹ کا تصور آگیا ہے تو آپ غلط نہیں ہیں۔

5G سیلولر ٹیکنالوجی کی یہ حیران کُن رفتار ان موجوں کی رہین منت ہے جو ملی میٹر ویوز ( MMW ) کہلاتی ہیں۔ یہ ریڈیو سگنلز ہیں جن کا تعدد یا فریکوئنسی 30 اور 300 گیگاہرٹز کے درمیان ہوتی ہے۔ جہاں ان موجوں کے بلند فریکونسی بینڈز کی گنجائش بہت وسیع ہوتی ہے وہیں کم طول موج کی وجہ سے ان کی رینج بھی محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمارتیں، گاڑیاں، ہوائی جہاز اور درخت وغیرہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ماہرین نے اس مسئلے کا حل ’’ اسمال سیل انٹینا‘‘ کی صورت میں تلاش کیا۔ دو اسمال سیل انٹینا کا درمیانی فاصلے 4G انٹینا کے باہمی فاصلے سے کم ہوتا ہے۔ یہ انٹینے 500 فٹ کے فاصلے سے لگائے جاتے ہیں۔

ایک تحقیقی فرم کی اسٹڈی کے مطابق 2017ء کے اختتام تک امریکا میں 4G کے 320000 سیل انٹینا تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5G کے لیے 769000اسمال سیل انٹینا درکار ہوں گے۔ اسمال سیل انٹینا کی اونچائی 4 فٹ ہوتی ہے اور بعض انٹینا کی جسامت ایک بڑے ریفریجریٹر کے مساوی بھی ہوتی ہے۔ سیل فون آپریٹرز اسمال سیل انٹینا کو بجلی، ٹیلی فون بجلی وغیرہ کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دیتے ہیں یا پھر زمین میں نصب کرتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں میل باکس کی شکل بھی دے دی جاتی ہے۔

امریکا میں ان دنوں اسمال سیل انٹینا کے انسانی صحت پر مضر اثرات پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکی ریاست اوریگون کے سٹی آف پورٹ لینڈ میں جگہ جگہ نصب ان انٹینا کو شہر میں آشوب چشم پھیلنے کی وجہ قرار دے دیا گیا ہے۔ سٹی آف پورٹ لینڈ میں آشوب چشم کے پھیلاؤ کے مبینہ طور پر ذمے دار ہونے سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ کیا یہ انٹینا حقیقتاً محفوظ ہیں؟ 5G موجیں انتہائی بلند فریکوئنسی اور شدت کی حامل ہیں۔ جہاں 1G، 2G، 3G اور 4Gموجوں کی فریکوئنسی 1 سے 5 گیگا ہرٹز تک ہوتی ہے وہیں 5G موجیں 24 سے 90گیگاہرٹز کی درمیانی فریکوئنسی سے کام لیتی ہیں۔

ریڈیو فریکوئنسی تابکاری، قانون مربع معکوس ( inverse-square law) کی پیروی کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے قریب موجود تابکار موجوں کے مآخذ فاصلے پر موجود مآخذ کے مقابلے میں انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تابکار موجوں کی زد میں رہنے کی مدت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اور یہ اسمال سیل انٹینا ہفتے میں سات دن اور چوبیس گھنٹے فعال رہیں گے۔

9 جون 2017ء کو سائنس دانوں کے ایک گروپ نے امریکی وفاقی کمیونی کیشنز کمیشن ( FCC ) کو خط لکھا تھا۔ خط میں کمیشن سے کہا گیا تھا کہ ففتھ جنریشن وائرلیس انفرا اسٹرکچر بچھانے سے پہلے آبادی کی صحت اور تحفظ پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ خط میں مزید لکھا گیا تھا کہ ملک میں انفرااسٹرکچر کی تنصیب ان بڑھتے ہوئے سائنسی شواہد پر توجہ دیے بغیر کی جارہی ہے جن میں یہ رپورٹیں بھی شامل ہیں کہ وائرلیس مآخذ سے خارج ہونے والی موجیں ممکنہ طور پر سرطان اور دماغی امراض کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ متعدد حالیہ سائنسی مطبوعات ظاہر کرتی ہیں کہ برقی اور برقناطیسی میدان ( EMF) جان دار اجسام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان اثرات میں سرطان کا بڑھتا ہوا خطرہ، جینیاتی بگاڑ، نظام تولید میں ساختی اور فعلی تبدیلیاں، یادداشت کی خرابی اور دماغی امراض کا لاحق ہوجانا شامل ہیں۔

5G تابکار موجیں مائیکروویو اوون میں کھانا پکانے میں استعمال ہونے والی شعاعوں سے مشابہ ہیں۔ اسی بنیاد پر 2016ء میں یروشلم میں واقع ہبرو یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ییل اسٹین نے ایف سی سی کمشنرز، امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے صحت، تعلیم، لیبر و پینشن، سینیٹ کمیٹی برائے کامرس، سائنس اینڈ ٹرانسپورٹیشن کو مکتوب لکھا تھا جس میں انسانی جلد پر 5G تابکاری کے اثرات کا اجمالی احاطہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹراسٹین کے مطابق جلد کی بیرونی پرت ( epidermis ) اور نچلی پرت (dermis) 90 فیصد سے زائد مائیکروویو تابکاری جذب کرتی ہے۔ ہماری جلد میں موجود پسینہ خارج کرنے والی نالیاں مرغولہ دار انٹینا (helical antennas ) کے طور پر عمل کرتی ہیں۔ یہ انٹینا برقی مقناطیسی میدان میں آجانے کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہیں چناں چہ ہمارا جسم 5G تابکار موجیں جذب کرے گا اور ان موجوں کا بچوں، حاملہ خواتین اور بالغ افراد پر کیا اثر ہوگا یہ فی الوقت نامعلوم ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے پاس ایک دفاعی ہتھیار موجود ہے جو Active Denial System کہلاتا ہے۔ یہ ہتھیار ملی میٹر ویوز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی جلد پر شدید جلن کا احساس پیدا کرتا ہے۔ زیادہ شدت کے ساتھ چلانے پر اس دفاعی نظام سے کسی انسان کو اسی طرح سینک کر موت کے گھاٹ بھی اتارا جاسکتا ہے جیسے مائیکروویو اوون میں کھانا گرم ہوتا ہے۔ یہ دفاعی نظام ظاہر کرتا ہے کہ ملی میٹر ویوز انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔

یو ایس نیشنل ٹوکسیکولوجی پروگرام کی ایک تحقیق، جس کا ذرائع ابلاغ میں چرچا رہا تھا، کے دوران چوہوں کو دن میں نو گھنٹے تک ریڈیو فریکوئنسی ریڈی ایشن میں رکھا جاتا رہا۔ دو سال کے بعد ان کے دماغ اور دل میں نادر قسم کی رسولیاں بن گئیں۔ اس تحقیق کے بعد امریکن کینسر سوسائٹی تابکاری اور کینسر سے متعلق اپنے موقف پر نظرثانی پر مجبور ہوگئی۔ سوسائٹی نے کہا کہ انسانی صحت پر ریڈیو فریکوئنسی ریڈی ایشن کے اثرات کے بارے میں اس کی موجودہ تفہیم اتنی ہی نامکمل ہے جتنی ماضی میں تمباکونشی اور پھیپھڑوں کے سرطان کے باہمی تعلق کے ضمن میں تھی۔

انسانی صحت پر تابکار موجوں کے اثرات سے قطع نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے 5G سیل فون نیٹ ورک کے بارے میں بے حد پُرجوش ہیں۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں انھوں نے کہا تھا،’’5G موجودہ 4G سیلولرنیٹ ورک سے سو گنا زیادہ تیز ہوگی۔ یہ ہمارے شہریوں کے کام کرنے، سیکھنے، ابلاغ و رابطہ کاری اور سفر کرنے کے انداز کو بدل دے گی۔ یہ ٹیکنالوجی امریکا کے کھیتوں کو مزید زرخیز، اشیاء سازی کو بہتر بنائے گی اور صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنادے گی۔ یہ حیران کُن ٹیکنالوجی ہے جو بے شمار ایسی چیزیں ممکن بنادے گی جو اب تک ناممکن سمجھی جاتی رہی ہیں۔ ‘‘

انسانی صحت پر 5G کے اثرات کی بحث سے قطع نظر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں 5G نظام کی تنصیب کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس ٹیکنالوجی کی راہ میں آنے والی قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے لابنگ فرموں کی خدمات بھی حاصل کررکھی ہیں جو ان کے لیے امریکی کانگریس میں لابنگ کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں 5G کے انسانی صحت پر اثرات اور اس ٹیکنالوجی سے جُڑے دیگر معاملات پر کئی بل زیرغور ہیں۔

The post 5G سیلولر ٹیکنالوجی کیا انسانی صحت کے لیے مُضرہوگی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بجٹ ۔۔۔عوام دوست۔۔۔مگر نادان دوست

$
0
0

بجٹ آگیا۔۔۔۔اب آپ کہیں گے کہ بجٹ ہم ہی پر آکر گرا ہے اور یہ ہمیں یوں بتا رہا ہے جیسے خبر دے رہا ہو۔

نہیں صاحب ایسا نہیں، یوں سمجھیں ہم نے ویسا ہی بین کیا ہے جیسے کوئی میت ہوتے ہی لواحقین کرتے ہیں ’’ارے ابا چلے گئے ے ے ے ے‘‘ یہاں اہل خانہ، اہل محلہ اور خود ابا مرحوم کو بتانا مقصود نہیں ہوتا کہ وہ وفات پاچکے ہیں، بلکہ غم کا بے ساختہ اظہار ہوتا ہے، سو ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ یعنی ہمارے فقرے کو یوں پڑھا جائے ’’ہائے بجٹ آگیااااااا‘‘،’’ارے کیوں آگیااااا۔‘‘

چلیں اب تو آہی گیا، آنے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔

اس بار کا بجٹ بہت مختلف ہے۔ ہر بجٹ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں، اس کی خاطر گرفتاریاں کی گئیں۔ ہر بجٹ کے بعد منہگائی کا ’’مولاجٹ‘‘ آتا ہے، اس مرتبہ ’’کپتان‘‘ اور ان کی ٹیم نے بجٹ سے پہلے ہی گرانی کا ’’وارم اپ میچ‘‘ کرادیا، تاکہ عوام منہگائی کے عادی ہوجائیں اور ان کی اتنی چیخیں نکل جائیں کہ بجٹ آنے کے بعد نکلنے کے لیے صرف آہ اور کراہ بچے۔ ہر بار بجٹ تقریر ہی کافی ہوتی ہے، لیکن اس بار عوام کو رُلانے کے لیے بجٹ تقریر کی گئی پھر انھیں منانے، رجھانے، بنانے اور خاص طور پر ہنسانے کے لیے وزیراعظم نے تقریر کی۔

یہ تاریخی خطاب تھا، ایک تو اس لیے کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار بجٹ تقریر کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک اور تقریر ہوئی، بالکل اسی طرح جیسے پشتو فلموں میں ایک درجن افراد کے قتل کے ہر منظر کے بعد ایک گانا ہوتا ہے جو پچھلے منظر سے بھی زیادہ خوف ناک ہوتا ہے۔ دوسرے یہ تاریخ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے باعث بھی تاریخی خطاب تھا۔

حکومت کے مخالفین کچھ کہیں ہمارے نزدیک تو یہ بہت اچھا اور عوام دوست بجٹ ہے۔ یہ الگ بات کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، اور بعض دفع تیر کھانے کے بعد مُڑ کر دیکھو تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے جو زخمی کی ’’ہائے‘‘ کا جواب ہاتھ ہلا اور ہائے (HI) کہہ کر دیتے ہیں، بجٹ کو نادان دوست بھی کہا جاسکتا ہے لیکن بہ ہر حال ہے عوام دوست۔

لوگوں کو اعتراض ہے کہ حکومت نے چینی کے نرخ بڑھا دیے ہیں، بھئی جب میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرتے ہیں تو اب کڑواکڑوا تھوتھو نہ کریں۔ ہمارے خیال میں یہ نرخ اس لیے بڑھائے گئے ہیں کہ ملک میں چینی کی بدترین قلت ہے اس فیصلے کا کسی اور ’’ترین‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قلت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب موجودہ حکومت آئی تو لوگ مہینوں مٹھائیاں بانٹتے اور ایک دوسرے کا منہہ میٹھا کراتے رہے، خوشی منانے کا یہ سلسلہ رُکا تو حکومت کی کارکردگی نے عوام کا منہہ یوں کڑوا کیا کہ وہ دن بھر میٹھا کھانے پر مجبور ہوگئے، اگر ایسا نہ کرتے تو جو کڑواہٹ منہہ سے باہر آتی اس سے حسب ہدایت ’’ملک کی مثبت تصویر کے برعکس ناک سکیڑ کر ’’اونہوں‘‘ کرتی تصویر سامنے آتی۔

اسی طرح گھی کے نرخ بھی اس لیے بڑھانے پڑے کہ ملک میں گھی کی کمی ہوگئی ہے۔ چوں کہ تحریک انصاف کی انتخابات میں کام یابی کا گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا تھا اور پھر انگلی بھی ایمپائر کی تھی، ایمپائر سیدھی انگلی دکھانے کا عادی ہے اسے انگلی ٹیڑھی کرنے کی عادت نہیں، سو ٹیڑھی انگلی سے نکالتے ہوئے بہت سا گھی ضائع ہوگیا۔ پھر جب نئی حکومت آئی تو ملک بھر میں گھر گھر گھی کی چراغ جلائے گئے، ان دنوں ’’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘‘ کا منظر تھا۔۔۔اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس چراغاں میں ٹَنوں کے حساب سے گھی کام آگیا۔ حکومت کے معاشی اقدامات کے باعث عوام کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے، انگلیاں پڑنے کی وجہ سے ناپاک ہوجانے والا گھی کسی کام کا نہیں رہا، سو گھی کی قلت ہوگئی۔

جہاں تک گوشت کے دام بڑھنے کا تعلق ہے تو اس کا غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ بِلّی اور پاکستان کے غریب آدمی کو تو اب خواب میں بھی چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔ بِلی خوش نصیب ہے کہ اُس کے بھاگوں کبھی کبھی چھینکا ٹوٹ جاتا ہے، غریب کے سر پر تو مسلسل قیامت ہی ٹوٹ رہی ہے۔ غریب اب صرف قربانی ہی کا گوشت کھاسکتے ہیں، مگر وہ بھی ہر قربانی کے بکرے کا نہیں، خاص طور پر اُن بکروں کا جنھیں ’’وعدہ نبھانے‘‘، حکومتی کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لیے قربان کیا گیا اور کیا جارہا ہے، کیوں کہ ایک تو ان کی کھال بہت موٹی ہے اُترے گی ہی نہیں، دوسرے یہ اتنے ’’بڑے‘‘ ہیں کہ ان کا گوشت گلنے کا نہیں۔

بجٹ میں سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، بالکل صحیح بڑھی ہیں۔ بتاؤ بھلا، جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے لوگ دھڑدھڑا دھڑ مکان بنائے اور اپنے گھروں میں توسیع کیے جارہے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ حکومت نے لوگوں کو اتنی خوشیاں دی ہیں کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے، پھولتے پھولتے اتنا پھول گئے ہیں کہ ان کے گھر اُن کے لیے چھوٹے پڑگئے اور وہ بالکل اسی طرح اپنے گھروں میں پھنس گئے جس طرح بعض لوگ ’’شیروانی‘‘ میں پھنس جاتے ہیں، بس پھر کیا تھا، تعمیر اور وسعت کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ملک سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ اس صورت حال میں ان اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر حکومت نے نہایت دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔

رہی کاسمیٹکس منہگی ہونے کی بات، تو ہم اس راز سے پردہ اٹھادیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پاکستانی خواتین نے کاسٹمیٹکس کا استعمال ترک کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ہمہ وقت روتی رہتی ہیں، ادھر میک کیا اور اُدھر آنسوؤں نے دھو ڈالا۔ کیوں روتی ہیں؟ اس کا سبب سامنے نہیں آیا، ہمارے خیال میں یہ خوشی اور شکرانے کے آنسو ہیں جو تھم کے نہیں دے رہے۔ ویسے حکومت نے کاسمیٹکس منہگی کرکے شوہروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، میک اپ کے بغیر بیویوں کی شکل نہیں دیکھی جارہی اور جیب دیکھتے ہیں تو کاسمیٹکس خریدنا ناممکن، کریں تو کیا کریں۔

حکومت نے اشیاء کی قیمتیں بڑھائی ہی نہیں کم بھی کی ہیں، جیسے بیکری اشیاء اور ریستورانوں میں ٹیکس پر کمی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اے پیارے عوام! اگر منہگائی کی وجہ سے کھانا پکانے کے لالے پڑگئے ہیں تو کوئی بات نہیں بیکری سے لاکے کھاؤ یا ریستورانوں میں جاکے کھاؤ۔۔۔گھبرانا نہیں ہے، میں ہوں ناں۔

The post بجٹ ۔۔۔عوام دوست۔۔۔مگر نادان دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

نجم الثاقب: دانشور، شاعر، ادیب، سفارتکار اور اینکر

$
0
0

کوئٹہ شہر ایک حسین گلدستہ ہے۔ ماضی میں یہ اور بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا۔

1980 ء تک اس کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی، مستطیل پیالہ نما وادی کے درمیان جنوب سے شمال کی جانب دریائے لورا پشین بہتا تھا جس کے کناروں پر شفاف پانی کے درجنوں چشمے ہوا کرتے تھے ، قدرے جنوب مشرق میں ولی تنگی کے چشموں سے مل کر بہتی ندی پہاڑوں سے ٹکراتی شور مچاتی اوڑک میں آبشارکا گونجدار جھرنا بجاتی چند کلو میٹر آگے سیب کے باغات کو سیراب کرتی، ہنہ کے مقام پر ڈیم کی جھیل کو بھر دیتی ، اور اسی پانی کی بڑی مقدار کو کو ئٹہ چھاؤنی اور شہر کے لوگ استعمال کرتے تھے، شہر میں زرغون روڈ پر چنارکے تناور درخت اپنی اُوپری شاخوں سے ایک دوسرے کو پیار کرتے سایہ دار سرنگ بنائے رکھتے تھے ، لسا نی اعتبار سے اس شہر میںبراہوی ، بلوچی ، پشتو ، ہزارگی، سرائیکی ، اردو کے ادیب، شاعر، دانشور کبھی عطا شادکے ادارہ ثقافت میں اور کبھی جناح روڈ پر میٹروپول ہوٹل یا کیفے صادق میں جمع ہو اکرتے۔ پھر شام کو مقامی اخبار کے ادبی میگزین کے دفتر میں ہم نوجوان ادیب شاعر اکٹھا ہو جایا کرتے تھے ، میں، بیرم غوری، محمد عبداللہ ، تینوں پرانے دوست تھے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، مائیں کھانا کھلائے بغیر نہیں چھوڑتی تھیں۔

ہم تینوں نے میٹرک کے بعد ہی ملازمت کر لی تھی ۔ صبح سرکاری ملازمت اور شام کو اخبارات میں کام کیا کرتے تھے ۔ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا مگر اس کے باوجود یہ بے فکری کا دور تھا ۔ ایک روز شام بیرم غوری ہی کے دفتر میں ایک بہت ہی وجیہہ خوبصورت نوجوان آیا جو ہم سے عمر میں چار پانچ سال کم اور قد میںاتنے ہی انچ بڑا تھا ۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، گلابی رنگت ، گھنے ابرو اور پلکوں کے ساتھ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، کشادہ پیشانی پر لٹیں بکھیر تے گھنے بال، چہرے پر فیشنی داڑھی۔ گرمیوں میں جین اور اس پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس لباس نے اُسے کچھ زیادہ سمارٹ کر دیا تھا ۔

نوجوان نے بڑے پُراعتماد اور گونجدار لہجے میںآتے ہی تعارف کر وایا ’’مجھے نجم الثاقب ‘‘ کہتے ہیں، میں شعر کہتا ہوں افسانہ لکھتا ہوں اور یہاں کوئٹہ میں لاء کالج میں د اخلہ لیا ہے، یہ تعارف ہمارے لیے ادھورا تھا کیوں کہ ہم کوئٹہ والے اپنے لہجے، مخصوص عادات، مزاج اور ایک خاص رکھ رکھاؤ کے ساتھ یہاں کی ایک مشترکہ ثقافتی پہچان رکھتے ہیں جو اُس وقت نجم الثاقب کے پاس نہیں تھی۔ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ بیرم نے پو چھا ’’ سیالکوٹ سے ،، میرے دماغ میں، پنجابی فلمی گیت کا مصرع گونجا ’’منڈیا سیالکوٹیا،، مگر اس کے گال پر تل نہ تھا لیکن تھوڑی سی گفتگو کے بعد احساس ہوا اس کے پاس دل ہے اور بہت اچھا دل ہے، شائد کو ئٹہ والوں کی طرح کا کشادہ اور حساس دل اور یہی وجہ تھی کہ پھر نجم الثاقب ہمارا بہت گہرا دوست بن گیا اور عمر کے تھوڑے فرق کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو گیا۔

اُس کا بھائی میجر تھا مگر اچانک اُس کا تبادلہ ہو گیا تو اب نجم الثاقب نے ایک کھٹیا نما کمر ہ کرائے پر لے لیا اور وہاں رہنے لگا تاکہ اپنی ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کر لے۔ وہ سیالکوٹ کے مرے کالج سے امتیازی حیثیت میں بی اے کرکے یہاں آیا تھا اور یہاں ایل ایل بی کر نے کے بعد اُس نے سی ایس ایس کر نا تھا ۔ نجم الثاقب کے والد ایم اے انگریزی ادب اور والدہ بھی انگریری ادب کے ساتھ گریجویٹ تھیں جب کے ان کے نانا پروفیسر جمشید علی را ٹھور پی ایچ ڈی تھے اور علامہ اقبال کے ہمراہی شمس العلماء میر حسن کے شاگر تھے ۔

علامہ اقبال کا گھر سیالکورٹ میں ان کے گھر سے پیدل تین منٹ کے فاصلے پر ہے۔ بقو ل ثاقب وہ پچپن ہی سے کتابوں کے حصار میں رہا۔ کردار وراثت میں پا یا کہ اِن کے والدمحمد بشیر بٹ قیام پاکستا ن کے بعدلاہور میں سیٹلمنٹ کمشنر تھے۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان سے 45 لاکھ ہندوں اور سکھوں نے بھارت ہجرت کی اور ہندو ستان سے 65 لاکھ مسلمان پاکستان آئے۔

تقسیم کے اعتبار سے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر نہر و اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ کلیم کی بنیاد پر بھارت سے آنے والے مسلمانوں کو یہاں ہندوں اور سکھوںکی جائید ادیں اور یہاں سے بھارت جانے والوں کو وہاں بھارت میں پاکستان ہجرت کرنے والوں کی جائیدادیں دی جائیں گی یوں صوبہ پنجاب میں ثاقب کے والد سب سے بڑے امانت دار تھے اور انتقال کے وقت اُن کے پاس اُن کاصرف ایک آبائی مکان تھا۔

ثاقب کو ئٹہ میں تین سال رہا لیکن کوئٹہ نے اسے اور اُس نے کو ئٹہ کو اب تک ایک دوسرے میں سمویا ہوا ہے۔ کوئٹہ میں ہم نے یعنی میں ثاقب بیرم غوری، عبداللہ ،سرور جاوید، وحید زہیر، افضل مراد،محسن شکیل نے عطا شاد، خادم مرزا، عین سلام،اور ماہر افغانی کے ساتھ مل کر ادبی تنظیم حلقہ حرف وحکایات بنائی اور اُس زمانے میں کوئٹہ کی ادبی سرگر میاں عروج پر رہیںاور یہاں جتنے بھی آل پاکستان مشاعرے منقعد ہو ئے اُن میں نجم الثاقب نے پروین شاکر ، قتیل شفائی ، منیرنیازی، محسن احسان،محسن بھوپالی،احمد ندیم قاسمی،حفیظ جالندھری،احسان دانش،جیسے شاعروں کے ساتھ شرکت کی اور داد پائی اُس دور کے نجم الثاقب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

سیلاب کے جاتے ہی چلے آئے ہو تم بھی

جب اپنی تباہی پہ میں رویا تو کہاں تھے

سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے، یہ میں نے پو چھا تو رو پڑا وہ

جواب کتنا عجیب سا تھا، سوال کتنا عجیب سا تھا

ہاں جسم تو ہوتا ہے مگر جاں نہیں ہوتی

وہ گھر بھی کو ئی گھر ہے جہاں ماں نہیں ہوتی

ہم ملازم تھے کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت تھی مگر ثاقب نئی اور مہنگی کتا بیں کہیں نہ کہیں سے اڑا لیتا تھا اور ہمیں تحفے میں پیش بھی کرتا تھا۔،اور کہتا تھا کہ جب میں بھی ملازم ہوا توتنخو اہ کی رقم سے کتابیں خریدوں گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا نجم الثاقب کو ئٹہ میں متواتر تقریباً تین سال رہا لیکن وہ اس کے بعد سے کسی نہ کسی اعتبار سے کو ئٹہ ہی میں حاضر رہا اس میں اُس کی کو ئٹہ اور کو ئٹہ والوں سے محبت اور پھر کو ئٹہ اور کوئٹہ والوں کی جوابی محبت شامل ہے جو اُسے جو نہ صرف ادبی جرائد اور میگزینوں میں اس کی تخلیقات کی بنیاد پر حاضر رکھتے ہیں بلکہ وہ جب پاکستان آتا ہے اُسے کوئٹہ بلوا کر اُس کے ساتھ ادبی نشستوں کا اہتمام کر تے رہتے ہیں اور اِس میں ہمارے دانشور ادیب اور معروف کالم نگار دوست راحت ملک کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔

1985 ء میں نجم الثاقب نے سی ایس ایس کا امتحان پنجاب سے بہت نمایاں حیثیت میں پاس کر لیا اور اس کی بنیاد پر اُسے اُسکی پسندکا شعبہ یعنی فارن گروپ مل گیا۔ ثاقب اکیڈمی سے فارغ ہوئے تو میں بھی گریڈ 17 میں پہلے فیڈرل گورنمنٹ میں اور پھر 18 گریڈ میں صوبائی محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا۔ تھوڑے عرصے بعد بیرم غوری بھی بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرار ہو گئے۔ یعنی اب عملی زندگی کا آغا ز ہو گیا تھا پاکستان میں قیام کے دوران شروع میں ثاقب نے اُس وقت کے واحد پی ٹی وی چینل سے صبح کی نشریات بطور میزبان شروع کیں اُس وقت اُن کے ساتھ مستنصر حسین تارڑ تھے۔ مہینے میں آدھے آدھے پروگرام یہ دونوں کیا کرتے تھے پھر ثاقب کی پوسٹینگ اسپین ہو گئی۔ 1994 ء میں واپسی ہو ئی تو پی ٹی وی سے حالات ِ حاضرہ کے پر وگرام صبح کی نشریات نیوز مارنیگ اور رات کی نشریات میں نیوز نائٹ شروع کیں۔

ریڈیو پروگرام تو ثاقب نے کو ئٹہ ہی سے شروع کر دئے تھے لیکن اسلام آباد اور پنڈی ریڈیو سے اُنہوں نے یاد گار پروگرام ’’بولتی تحریریں‘‘ اور ’’بک شلف‘‘ کئے 1992 ء میں نجم الثاقب کا پہلا مجموعہ کلام ’’رتیلے خوابوں کی رُت‘‘ شائع ہواپھر شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’درد کے جزیر ے تک‘‘ شائع ہو ا 2004 ء میں تیسرا مجموعہ ’’ہزار خواب ہیں‘‘کے نام سے منظر ِ عام پر آیا۔ 2005 ء میں ہسپانوی زبان میں اُن کی شاعری کی کتاب Tal Vez la Vida میڈرڈ سے شائع ہوئی اگر چہ شاعری کے ساتھ ہی ثاقب نے افسانے اور افسانچے لکھنے شروع کر دیئے تھے مگر افسانوں کے مجموعے کی بجائے،پہلے ناول ’’یہاں سے آگے‘‘آیا جس پر دنیائے اردو کے عظیم افسانہ نگار اور محقق،تنقید نگار جناب انتظار حسین مر حوم نے لکھا۔ ’’یہاں سے آگے‘‘ ناول کے تمام لوا زمات کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ یہاں سے آگے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی کرتا ہے ۔ ’’کیا ہے‘‘ اور’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کی الجھی گھتیوں کوسلجھانے کی منزلیں سہو لت سے طے کرتا ہے۔

یہ ناول اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔،، کیپ ٹاؤن سے اِن کے اس ناول کا انگریزی ترجمہ Baoo کے نام سے شائع ہوا ہے یوں نجم الثاقب کو اردو ، ہسپانوی اور انگریزی تین زبانوں کے ادیب اور شاعر ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور انہوں نے ہسپانوی اور انگریزی پڑھنے والوں کو اردو اور پاکستانی لٹریچر سے متعار رف کرویا ہے۔ اب اُن کا چوتھا شعری مجموعہ منظر ِعام پر آنے والا ہے اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف پر بولان اکیڈمی نے انہیں ایکسیلنس ان لٹریچر ایوارڈ دیا۔ نجم الثاقب کی ایک اور خوبی سے صرف ان کے قریبی لوگ ہی واقف ہیں اور وہ ان کی خوبصورت آواز ہے۔ ہم دوست اکثر اِن سے غزلیں اور گیت سنتے رہتے ہیں اس پر نکھار اُن کی بنگلہ دیش کی پو سٹینگ کے بعد آیا جب انہوں نے وہاں ڈھائی تین سال موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ نجم

الثاقب ایک محب وطن سچا پاکستانی ہے اِس اعتبار سے وہ جوانی ہی میں اپنا ہدف طے کرچکا تھا۔ اس کے بھائی فوجی آفیسر رہے یہ سب سے چھوٹا اور لاڈلاتھا اِس نے جب سی ایس ایس کیا تو اُس وقت فارن گروپ میں جانے کا رحجان کم تھا، اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بطور سفارتکار دنیا بھر میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرئے گا۔ اہل علم و دانش یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے زمانے میںفوج کے بعد اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ ملکی قومی خد مت کر سکتا ہے تو وہ فارن سروسز کا شعبہ ہے اِس لیے دنیا کے اہم اور ترقی یافتہ ملکوں میں فارن آفس میں تمام افراد اور اِن ممالک کے بیرونِ ملک سفیر باقاعدہ یا ریگولر فارن سروس کے لوگ ہوتے ہیں اور اگر پارٹی کی بنیاد پر وہ چند سفیر اہم ملکوں میں تعینات کرتے ہیں تو ایسے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو اُن ملکوں میں ’جہا ں وہ سفیر ہوتے ہیں‘ اُن کے حوالے سے زیادہ علم، مشاہدہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔

یوں جن ملکوں نے بیرون ملک ہمیشہ سے ریگولر سروس کے لوگ ہی بطور سفیر تعینات کر رکھے ہیں اُن کی خارجہ پالیسی مستحکم متوازن اور ملک کے بہتر مفاد میں ہو تی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستا ن کو گذشتہ دس برسوں میں ایسی پالیسی نہ ہو نے کی وجہ سے اور بیرونِ ملک سیاسی بنیادوں پر تعینات افراد کی ناتجربہ کاری یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نقصا ن اٹھا نا پڑا،اس کے مقابلے میں بھارت اس اعتبار سے بہت فائد ے میں رہا، پاکستان جیسے ملک کو بیرون ملک ذہین ،تجر بہ کار،ماہر سفارتکاروں کی شدید ضرورت رہتی ہے ،اِس وقت 22 کروڑ آبادی کے اس ملک کے تقربیاً نوے لاکھ پاکستانی ملک سے باہر،ساؤتھ افریقہ، اسپین، جرمنی، فرانس،ناروے، سوئیڈن، بلجیئم،برطانیہ، امریکا، کینیڈا، آسڑیلیا، سعوی عرب، عرب امارات،اور دوسرے ملکوں کام کر کے سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ یہ سفارتخانے ہی ہوتے ہیں جو اِن بیرون ملک پاکستانیوں کی نمائندگی بھی کر تے ہیں اور ملکی مصنوعات کو متعارف کرتے ہوئے تجارت کے فرو غ کے لیے انتھک محنت بھی کرتے ہیں، یوں ملک کے لیے زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

افرادی قوت کی ہنر مندی سے ملکی کارخانے زیادہ پیداور دیتے ہیں تو روزگار میں اضافہ ہو تا اور غربت میںکمی ہو تی ہے۔ پھر سب سے اہم یہ ہو تا ہے کہ جو مسائل اور خطرات ملک کو خصوصاً دشمن ملکوں کے حوالے سے درپیش ہو تے ہیںاُن سے تحفظ کے لیے بہتر حکمت عملی اور منصوبہ بندی اختیار کرتے ہوئے اقدامات کریں اور دشمن ملکوں کو بیرون ملک خارجہ محاذ پر شکست دیں ۔پھریہ بھی ایک اچھے سفیر کی نشا نی ہو تی ہے کہ وہ بیرونِ ملک ہم وطنوں کو متحد کرتے ہیں۔ سفارت خانے کی جانب سے بھی اِن کے مسائل حل کرتے ہیں اور کمیونٹی میں اشتراک عمل اور اپنی مدد آپ کے جذبے اور رُجحان کو فروغ دے کر اِن کو مستحکم اور مضبوط کرتے ہیں۔

پاکستا ن دنیا میں بہت خاص اور اہم جغرافیائی پو ز یشن پر واقع خطے کا ایک اہم ترین ملک ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک اور ساتھ ہی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے،جو برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد تین مرتبہ بھارتی جارحیت کا شکار ہو چکا ہے اور بھارت کے ساتھ اقوام متحدہ کی ٹیبل پرکشمیر کا تنازعہ سب سے پرانا ہے یوں پاکستا ن کی فارن سروس سے کوئی بھی شخصیت وابستہ ہو اُسے یہ بنیادی نکتہ جذبہ حب الوطنی کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ نجم الثاقب کے لئے یہ اہمیت یوں بھی زیادہ جذباتی وابستگی کا باعث بن جاتی ہے کہ نجم الثاقب نسلاً کشمیری ہے۔

یوں جب نجم الثاقب سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا تو اُسی وقت نہ صرف وہ یہ طے کر چکا تھا کہ وہ فارن گروپ میں جائے گا بلکہ وہ کس انداز سے ملک و قو م کی خدمت کرے گا۔ نجم الثاقب آج اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے اور اسے اِس پر فخر بھی ہے ، 22 ستمبر 2020 ء میں نجم الثاقب انشا اللہ تعالیٰ اپنی 35سالہ ملازمت کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جا ئے گا،اور پاکستان کی 73 سالہ امورخارجہ کی تاریخ کے ریکارڈ میں مادرِوطن کی خد مت کے اَن مٹ نقوش چھوڑ جائے گا۔ نجم الثاقب ریکارڈ کے مطابق وہ واحد سفارت کار ہے جو پانچ براعظموں میں یا 13ملکوں میں پاکستا ن کا سفیر رہا۔ سی ایس ایس کے دیگر گروپوں میں پی بی ایس 17 سے 22 گریڈ تک پروموشن ہو تی ہے اور ہر گروپ یا محکمے میں عہدوں کے نام بھی ہو تے ہیں جیسے پو لیس میں ایس پی سے لے کر آئی جی تک اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ میں اسسٹنٹ کمشنر سے کمشنر اور چیف سیکرٹری تک یو ں پاکستان کے دفترِ خارجہ میں سیکشن آفیسر یا اسسٹنٹ ڈائر یکٹر سے سیکرٹری خارجہ تک ایک انتظامی ڈھانچہ ہو تا ہے اور مختلف ممالک کے حوالے سے الگ الگ شعبے یا ڈیسک ہو تے ہیں۔

جب کہ بیرونِ ملک سفارت خانوں میں جونیر کچھ سینئر اور پھر اہم سفارتخانوں میں بہت زیادہ سینئر سفارکار تعینا ت ہو تے ہیں۔ یہی سفارتکار جب واپس وطن آتے ہیں تووزارت ِ خارجہ کے دفتر میں درج بالا شعبوں اور اِن عہدوں پر تعینات ہو تے ہیں اور پوری سروس میں یہ آنا جا نا لگا رہتا ہے۔ نجم الثاقب دفتر خارجہ میں کئی بار ڈپٹی ڈائر یکٹر ،ڈائریکٹر ، ڈائر یکٹر سارک اور ڈائریکٹر جنرل تعینات رہے اور بطور سینئر سفارتکار وہ اکیڈمی میں انٹر نیشنل ریلیشن، انٹر نیشنل لاء اور پاکستان کے اعتبار سے سفارتکاری جیسے موضوعات پر لیکچرز بھی دیتے رہے اور سینئر سفارتکار کی حیثیت سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں معاونت و مشاورت کے فرائض بھی انجام دئیے۔

سی ایس ایس افسران کے مقابلے کے امتحان اور انٹرویو میں جن اہم خصوصیات کی تلاش کی جاتی ہے اُن میں درست و بروقت فیصلہ کی قوت،علم اور مہارت کے ساتھ مشاہدے اور تجربے سے بھر پور استفادے کی صلاحیت، حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی اسطاعت جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ بد قسمتی سے مقابلے کے امتحان میں کامیابی اور بطور افسر تعیناتی کے تھوڑے ہی عرصے بعد اِن افسران کی اکثریت اِن خوبیوں سے نہ صرف دستبرار ہوجاتی ہے بلکہ بہت سی متضاد برائیوں کو بطور خصلت اپنا لیتی ہے۔ لیکن جو افسرا ن اپنی خوبیوں کو سچائی ،حق پرستی اور جذبہ ء حب الوطنی کے ساتھ اپنائے رکھتے ہیں وہ تاریخ میں اپنا نام چھوڑ جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے نجم الثاقب اِن ہی افسران میں شامل ہے۔

1985 ء کے بعد نجم الثاقب نے کچھ عرصہ جو نیئر سفارت کار کی حیثیت سے بنگلہ دیش اور آذربائیجان میں اپنے فرئض انجام دئیے ۔ یہ دونوں ملک سفارتکاری کے اعتبار سے اُس زمانے میں اہم تھے۔ بنگلہ دیش 23 برس تک مشرقی پاکستان تھا اور اس کے بعد اندرونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے بنگلہ دیش میں تبد یلی کردیا گیا۔ وہاں اُس وقت شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد صورتحال مختلف تھی۔ پاکستان افغانستان میں سویت یونین کی فوجی مداخلت کی وجہ سے جنگ میں فرنٹ لائن ملک بن چکا تھا۔ بھارت سے بھی پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور سابق سویت یو نین اور بھارت ہی وہ دو بڑے کردار تھے جن کی وجہ سے بنگلہ دیش 16 دسمبر 1971 ء کو وجود میں آیا تھا۔ یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 13 برس بعد بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارت خانے کا کردار کتنا اہم تھا اور اُس وقت کی صورتحال سے واضح ہو تا ہے کہ پاکستا ن کے دفترخارجہ اور بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارتکاروں نے کتنا اہم کردار ادا کیا۔

 

1990 ء میں جب روسی صدر گارباچوف نے گلسنس اور پرسٹریکا جیسی پالیسیوں کو متعارف کراتے ہو ئے سابق سویت یونین سے اشتراکی نظام کا خاتمہ کر کے آزاد معاشی اقتصادی نظام کو اپنایا اور ساتھ ہی مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو آزاد اور خود مختار بنا دیا تو سنٹرل ایشیا میں تاجکستان، آذر بائیجان ، ازبکستان ، کرغزستان ، قازقستان، ترکمانستان جیسی مسلم اکثریتی ریاستیں آزاد ہو گئیں جو تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل تک تاریخ میں اہم کرادر کی حامل رہی تھیں اور خصوصاً پاکستان کی تاریخ میں اِن کا اہم مذہبی ، ثقافتی ، تمدنی ، سیاسی کردار رہا تھا۔ ثاقب کی بطو ر جو نیئر سفارتکارآذربائیجان میں اُس وقت پوسٹینگ ہوئی جب یہاں پاکستان کا سفارت خانہ نیا نیا قائم ہو اتھا اور آذربائجان سمیت سنٹرل ایشیا میں پاکستان نے اس بدلے ہو ئے تناظر میں سفارتی محاز پر یہاں اِن نو آزاد مسلم اکثریت کے ملکوںسے مضبوط معاشی ، اقتصادی ، تجارتی ، تعلقات کے ساتھ ملکی اور علاقائی دفاعی نوعیت کے امور کو بھی مستقبل کے تناظر میں اپنے قومی مفاد میں کر نا تھا۔ ہمارے ہاں 19 گریڈ میں ترقی کے بعدNIPA ٹرینگ کورس لازمی ہو تا ہے نجم الثاقب نے اس کے لیے بھی کو ئٹہ کا انتخاب کیا اور یہاں اپنی ادبی سرگرمیوں اور پرانی دوستیوں کے باوجود پہلی پو زیشن حاصل کی۔

پھرگریڈ 20 میں پر موشن پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں سول افسران کو نیشنل سیکورٹی کورس کر نا ہو تا ہے نجم الثاقب نے نہ صرف یہ کورس کیا بلکہ یہاں اُسے وار کورس کے لیے بھی منتخب کر لیا گیا جو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کی پرموشن کے لیے لازم ہو تا ہے یوں ثاقب اس اعتبار سے بھی فارن سروس کے اب تک کے وہ واحد افسر ہیںجو وار کورس بھی کر چکے ہیں۔ جونیئر سفارتکاری کے بعد مڈل لیول یا درمیانی سفارتکار کے طور پر نجم الثاقب نے کینیا اور کینڈا میں اہم کردار ادا کیا۔ کینڈا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے اور بیشتر ڈاکٹر انجینئر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اسپین میں نجم الثاقب نے نہ صرف خود بطور ادیب شاعر وہاں کی علمی ادبی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا بلکہ یہاں اُنہوں نے دو یونیورسیٹوں میں علامہ اقبال اور قائد اعظم نشستوں کا اجراء بھی کرا یا۔ اب اسپین کی اِن دونوں یو نیورسٹیوں میں اسلا میات ، مطالعہ پاکستان اور اردو ادب کے مضامین پڑھا ئے جا تے ہیں جس کے لیے پروفیسر پاکستان سے مقررہ مدت کی ملازمت پر وہاں جاتے ہیں۔ بطور سینئر سفارتکار جنوبی افریقہ میں نجم الثاقب کا کردار ایک بڑا چیلنج تھا۔

اہل علم ودانش یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے اہم لیڈر موہن داس گاندھی جب ممبئی میں بطور وکیل ناکام ہو گئے تو انہوں نے ساوتھ افریقہ کا رخ کیا اور وہیں سے وہ لیڈر بنے یوں جنوبی افریقہ میں بھارتی سیاست کے نقوش گہرے اور بہت پرانے ہیں اور وہاں بھارتیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے مگر پاکستانی بھی یہاں دو لاکھ سے زیادہ ہیں یوں یہ ثاقب کو ایسا ملک ملا تھا جہاں پاکستانی بڑی تعداد میں تھے اور ہر شعبہ ء زندگی میںاُ ن کا مقابلہ بھارتیوں سے تھا۔ یہاں اُنہوں نے آتے ہی پورے ساوتھ افریقہ میں مو جود پاکستانیوں کو ایک کیا پہلے یہاں مختلف شہروں میں پاکستانیوں کی مختلف تنظیمیں تھیں اِن کی کوششوں سے پاکستان ساؤتھ افریقہ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے تحت پورے جنوبی افریقہ کے 17 شہروں میں اس کے 17 ۔17 صدور نائب صدور اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے یوں یہاں دولاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم میسر آگیا،اُنہوں نے یہاں 10 ہزا ر سے زیادہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ جاری کئے اور یہاں ایجنٹ مافیا کا خاتمہ کردیا۔

2014 ء میںیہاں وفاقی وزیر آئے۔ 2015 ء میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف تین روزہ دور ے پر آئے اور اپنے ہم منصب سے ملا قات کی۔ معاشی اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہو ئے یہاں پاکستانی مصنوعات اور اشیاء کی مارکیٹ میں گیارہ فیصد سے زیادہ اضافہ کیا۔ اِن کے دور میں ساؤتھ افریقہ میں پاکستان نے 11 بین الاقومی صنعتی نمائشوں میں شرکت کی۔ پاکستان سے 13 تجارتی وفود جنوبی افریقہ آئے اور یہاں کی مارکیٹ میں پاکستانی پنکھوں ،چاقو چھریوں آلات جراحی کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کی مصنو عات میں بہت زیادہ اضافہ ہو ا۔

اُنہوں نے اپنی دن رات کی کوششوںسے یہاں Sassol اور Grindrod،Glencore جیسی بڑی کمپنیوں سے پاکستان میںاربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی ، اُن کی کو شش رہی کہ برطانیہ ،کینڈا اور امریکہ کی طرح ساؤتھ افریقہ میں مقیم دو لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کے نمائند وں کو پارلیمنٹ میں نمائند گی مل جائے اس کے لیے اُنہوں نے بنیاد کام کردیا ہے اور وہاں مقیم پاکستانی تارکین وطن اب متحد ہیں اور وہ دن دور نہیں جب جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ میں اِن کی نمائند گی ہو گی اس کے بعد 2017 ء میں بطور سفیر ہی نجم الثاقب برازیل جیسے اہم ملک میں تعینات ہوئے ہیں اور اب چونکہ وہ ایک سال بعد اپنی ملازمت سے ساٹھ سال کی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے اس لیے یہ غالباً اُن کی آخری پو سٹنگ ہو۔ یہاں وہ نہ صرف برازیل کے سفیر ہیں بلکہ بولیویا،گیانا،سری نام،کولمبیا اور وینز ویلا کے لیے بھی پاکستانی سفیر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے قریب سی ایس ایس افسران عموماً گھبرائے اور پریشان دکھائی دیتے ہیں لیکن نجم الثاقب مجھے کہیں زیادہ مطمئن نظر آئے وہ مارچ میں برازیل سے آئے تو اسلام آباد میں اگر چہ اُن کا قیام چند روز کا تھا مگر میری دعوت پر وہ دو روز کے لیے کو ئٹہ آئے جہاں دوستوں نے اُن کے اعزاز میں خصوصی ادبی نشست کا اہتمام کیا تھا اس موقع پر انہوں نے نوجوانوں سے خطاب بھی کیا ، میں نے ریٹائرمنٹ کے اعتبار سے پو چھا تو بولے:

اُسے خبر ہے میں کمزور ہوں ریاضی میں

خدا کا شکر مجھے بے حساب ملتا ہے

بولے کہ مجھے میرے رب نے اتنا نوازا کہ میری گنتی ختم ہو گئی ہے ، یہ نبی کریمﷺ سے میری اتھاہ عقیدت کا فیض ہے، میری ماں کی دعائیں ہیں اور اپنے وطن کی خد مت کا جذ بہ ہے کہ میرے مولا نے ہمیشہ بامرا د رکھا۔

The post نجم الثاقب: دانشور، شاعر، ادیب، سفارتکار اور اینکر appeared first on ایکسپریس اردو.


تعلیم وتربیت کے اعلیٰ معیار کا طلسم پاش پاش؛ ایلیٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کا مہا فراڈ

$
0
0

’’پیسہ بعض چیزیں خرید سکتا ہے۔ مگرچھوٹی چھوٹی باتیں ہی انسان کی زندگی کو پُرلطف اور خوشگوار بناتی ہیں۔‘‘
( سباسٹین ویٹل‘ ورلڈ چمپئن فار مولا ون ریس)

٭٭

چھپن سالہ فلیسٹی ہوفمین جانی پہچانی امریکی اداکارہ ہے۔ 2006ء میں فلم ’’ٹرانز امریکا‘‘ (Transamerica) میں بہترین اداکاری کا مظاہرہ کرنے پر آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ۔ تاہم اسے بین الاقوامی شہرت ٹی وی ڈرامہ سریز ’’Desperate Housewives  ‘‘سے ملی جو 2004ء تا2012ء جاری رہی۔ فلیسٹی نے 1997ء میں اداکار ولیم ہوفمین میکے سے شادی کی تھی۔ وہ دو بیٹیوں کی ماں ہے۔

اواخر 2016ء میں فلیسٹی کی بڑی بیٹی صوفیہ نے SATامتحان دیا تاکہ اسے اپنے وطن کی کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ مل سکے۔ مگر امتحان میں صوفیہ کے اچھے نمبر نہیں آئے۔ یوں وہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے محروم رہی۔ جبکہ فلیسٹی ہوفمین کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی ’’آئیوی لیگ‘‘ (Ivy League)میں شامل کسی یونیورسٹی ہی میں تعلیم پائے۔ (امریکا میں سات ایلیٹ یونیورسٹیوں یعنی براؤن ‘ کولمبیا‘ کورنیل‘ ہارورڈ‘ پنسلوانیا‘ پرنسٹن ‘ ئیل اور ڈراٹماؤتھ کالج کا مجموعہ آئیوی لیگ کہلاتا ہے۔یہ امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں بہترین یونیورسٹیاں تسلیم کی جاتی ہیں)اگلے سال دسمبر 2017ء میں صوفیہ نے دوبارہ  SATامتحان دیا۔ اس بار صوفیہ کے کل 1600میں سے 1420 نمبر آئے۔ یہ پہلے امتحان کے مقابلے میں 400 نمبر زیادہ تھے۔ یوں اب صوفیہ اب امریکا کی کسی ایلیٹ یونیورسٹی مثلاً کولمبیا یا کورنیل میں داخلہ لینے کی اہل ہو گئی۔ ظاہر ہے، نتیجہ دیکھ کر صوفیہ اور اس کے والدین بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ صوفیہ اور اس کے امی ابا نے نے بڑے فخر اور مسرت  سے نتیجہ رشتے داروں اور دوستوں کو دکھایا ہو گا۔

یہ ساری خوشی مگر مارچ 2019ء کے دوسرے ہفتے خاک میں مل گئی۔ 12مارچ کو امریکی تحقیقاتی ایجنسی ،ایف بی آئی کے اہل کاروں اور سرکاری وکلا  نے انکشاف کیا کہ دسمبر 2017ء میں صوفیہ فلیسٹی کے ممتحن(طالبہ کی نگرانی کرنے والے)نے بعد ازاں اس کے غلط جواب درست کر دئیے تھے۔اس غیر قانونی عمل کے باعث صوفیہ چار سو نمبر زیادہ لینے میں کامیاب رہی۔فراڈ  اور دھوکے بازی کا یہ سارا حیرت انگیز ڈراما سوچا سمجھا تھا۔دراصل جب SATامتحان میں صوفیہ کے نمبر کم آئے‘ تو اس کی ماں کو شدید دھچکا لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ اب صوفیہ کسی ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتی۔ مگر یہ بات فلیسٹی کو گوارا نہ تھی… وہ اپنا ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ ہر صورت بلند تر رکھنا چاہتی تھی۔ فلیٹی کو دوست احباب سے یہ سننا ہرگز پسند نہ تھا کہ افسوس‘ اس کی بیٹی کسی آئیوی لیگ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکی۔ معاشرے میں اپنا اسٹیٹس سمبل برقرار رکھنے کی خاطر ہی فلیسٹی نے پھر غیر قانونی اور غیر اخلاقی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

اوائل 2018میں اسے ایک دوست نے بتایا کہ ولیم رک سنگر نامی آدمی اس کی بیٹی کے SATاسکور میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ آدمی ’’دی ایج کالج اینڈ کیرئر نیٹ ورک‘‘ (The Edge College & Career Network) نامی کمپنی چلا رہا تھا۔ دوست کے مشورے پر فلیسٹی نے ولیم سنگر سے رابطہ کر لیا۔ولیم دھوکے باز‘ چالاک‘ شاطر اور کرپٹ آدمی تھا۔ لچھے دار گفتگو کرنے کے فن سے واقف تھا ۔ باتوں باتوں میں دوسرے کو سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھانس لیتا۔ سادہ لوح مرد وزن اس کی باتوں پر اعتبار کر لیتے اور یوں ولیم کے پھندے میں پھنس جاتے۔

یہ فراڈی آدمی دراصل ایک بشری انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا تھا… یہ کہ بعض اوقات انسان مال و دولت حاصل کرنے کے لیے غلط کام انجام دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ڈالروں کی خیرہ کن چمک بہت سے انسانوں کو کرپشن کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ اسی چمک سے مدد لے کر ولیم سنگر نے نہایت عیاری و چالاکی سے اپنا کرپٹ نظام کھڑا کر لیا اور سالانہ خوب کمائی کرنے لگا۔دولت کمانے کا ایک شیطانی طریقہ اس کے ہاتھ لگ گیا۔

ولیم سنگر کا طریق واردات یہ تھا کہ وہ امیر والدین سے بھاری رقم لیتا تھا تاکہ ان کے بچوں کو امتحان میں اچھے نمبر دلوا سکے یا پھر مطلوبہ یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہو جائے۔کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ولیم نے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جن کی بدولت اسے کامیابیاں بھی ملیں۔ انہی کامیابیوں نے ولیم سنگر کو امریکا ہی نہیں بیرون ممالک بھی ایسے دولت مند والدین کا منظور نظر بنا دیا جو ’’ہر قیمت پر‘‘ اپنے بچوں کا داخلہ کسی ایلیٹ امریکی یونیورسٹی میں کرانا چاہتے تھے۔ یوں وہ اپنے حلقہ احباب میں اپنا اسٹیٹس سمبل بلند کرنے کے متمنی تھے۔ ان امرا کی یہی ازحد تمنا ولیم سنگر کے لیے خوب کمائی کرنے کا ذریعہ بن گئی۔

2011ء میں ولیم سنگر نے اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی اور اپنے ’’کام‘‘ کا آغاز کر دیا۔ وہ SATاور ACT امتحانات سے منسلک اساتذہ اور انتظامیہ کے افسروں سے تعلقات بڑھانے لگا۔ اسی دوران آئیوی لیگ میں شامل یونیورسٹیوں کی سپورٹس ٹیموں کے کوچوں سے بھی وہ د وستی کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے انہیں قیمتی تحائف دیئے اور یوں اپنے قریب لے آیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے فراڈی نظام کی بنیاد رکھ سکے۔ انسان کے لالچ اور حد سے بڑھی تمناؤں کے باعث یہ کرپٹ نظام پھلنے پھولنے لگا اور چھ سال تک امریکی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا رہا۔

ولیم سنگر نے فلیسٹی کو بتایا تھا کہ SAT امتحان کے بعد صوفیہ کا ممتحن اس کے غلط جوابات درست کردے گا۔ یوں وہ اتنے نمبر ضرو حاصل کرلیتی کہ کسی آئیوی لیگ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکے۔  ہوفمین جوڑے نے ولیم سنگر کا یہ منصوبہ منظور کرلیا۔ بدلے میں انہوں نے ولیم کو پندرہ ہزار ڈالر ادا کیے۔اس فراڈیئے نے ’’کی ورلڈ وائڈ فاؤنڈیشن‘‘(Key Worldwide Foundation) کے نام سے ایک سماجی تنظیم بنارکھی تھی۔ بظاہر یہ تنظیم غریب و نادار طلبہ کی مالی امداد کرتی تھی تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکیں۔ مگر یہ ایک پردہ اور دھوکے کی ٹٹی تھی۔ ولیم سنگر نے یہ سماجی تنظیم اس لیے بنائی تھی تاکہ کرپشن سے حاصل کردہ رقم کو پوشیدہ رکھا جاسکے۔ والدین جب اس کا کوئی منصوبہ قبول کرلیتے، تو وہ مطلوبہ رقم کی فاؤنڈیشن کو چندہ دے کر ادا کرتے تھے۔ چونکہ امریکی قانون کی رو سے چندے کی رقم ٹیکس نیٹ میں نہیں آتی لہٰذا وہ حکومتی ریڈار میں نہ آپاتی۔اس چال سے ولیم نے کروڑوں ڈالر جمع کر لیے۔

فلیسٹی نے بھی پندرہ ہزار ڈالر فاؤنڈیشن ہی کو ادا کیے۔ ولیم سنگر پھر ایسے ممتحن کا بندوبست کرنے لگا جو SAT امتحان میں فلیسٹی کی بیٹی کے غلط جوابات درست کرسکے۔ اوائل میں صوفیہ کا سینٹر ہالی وڈ شہر میں ایسی جگہ پڑا جس کے ممتحن نے ولیم سنگر کے ساتھ ’’تعاون‘‘ کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا صوفیہ نے دوبارہ امتحان کے لیے درخواست دی۔ اس بار ولیم سنگر نے نئے سینٹر کے ممتحن کو چند ہزار ڈالر دے کر اپنے چنگل میں پھانس لیا۔ چناں چہ صوفیہ امتحان دے چکی، تو ممتحن نے اس کے سبھی غلط جوابات درست کردیئے۔ یوں وہ 1420 نمبر لینے میں کامیاب رہی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلیسٹی ہوفمین اپنی دوسری بیٹی کو بھی SAT امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس کرانا چاہتی تھی۔ چناں چہ وہ ایک ریکارڈ شدہ گفتگو میں ولیم سنگر سے کہتی ہے کہ میری چھوٹی بیٹی کے لیے بھی کسی اچھے ممتحن کا بندوبست کرو۔ ولیم اسے بتاتا ہے کہ بہتر ہے، یہ منصوبہ ترک کردیا جائے کیونکہ فلیسٹی کی چھوٹی کھلنڈری بیٹی نے بھی 1400 سے زیادہ نمبر لیے تو لوگوں کو شک ہوسکتا تھا کہ وہ فراڈ سے کام لے رہی ہے۔ غور و فکر کے بعد فلیسٹی نے یہ منصوبہ ترک کردیا۔

جب مکروفریب پر مبنی ولیم سنگر کے دھندے کا پردہ چاک ہوا تو اس کے علاوہ فلیسٹی بھی گرفتار ہوگئی۔ اسے ڈھائی لاکھ ڈالر زرضمانت جمع کرنے پر رہائی ملی۔ 13 مئی کو فلیسٹی نے عدالت میں فراڈ سے امتحان میں اپنی بیٹی کو کامیاب کرانے کا جرم تسلیم کرلیا۔ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے عدالت کو بتایا ’’میں اپنے جرم کا اقرار کرتی ہوں۔ مجھے اپنے کیے پر شدید شرمندگی ہے۔ یہ سوچ کر بھی بہت شرمندہ ہوں کہ میری وجہ سے بیٹی، خاندان، دوستوں اور معاشرے کو تکلیف پہنچی۔ میں ان سے معافی مانگتی ہوں۔ میں ان طلبہ سے بھی معذرت کی طلبگار ہوں جو امتحان میں کامیاب ہونے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں اور ان والدین سے بھی جو اپنے بچوں کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بے انتہا قربانیاں دیتے ہیں۔ اور وہ بھی کامل دیانت داری سے۔‘‘یہ کریڈٹ بہرحال فلیسٹی ہفمین کوملنا چاہیے کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔ اداکارہ نے اپنے گناہ کو درست ثابت کرنے کی خاطر تاویلیں نہیں گھڑیں اور نہ ہی الٹے سیدھے دلائل سامنے لائی۔ عدالت 13 ستمبر 2019ء کو اسے سزا سنائے گی۔ خیال ہے کہ امریکی اداکارہ کو چار سے دس ماہ تک کے لیے جیل جانا پڑے گا۔

معیار کا طلسم پاش پاش

جب ایک بچہ دنیا میں قدم رکھے، تو اس کے والدین کی فطرتاًیہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ خوب پڑھ لکھ کر نام کمائے۔ اپنا اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کرے۔ پاکستان میں صاحب حیثیت والدین کوشش کرتے ہیں کہ ان کا بچہ اعلیٰ تعلیم پانے امریکا یا برطانیہ کی کسی یونیورسٹی کا رخ کرے۔ یوں اس کی زندگی سنور جائے گی۔ ان کی سوچ ایسی غلط بھی نہیں کہ آج دنیا کی 25 بہترین یونیورسٹیوں میں سے بیشتر امریکا یا برطانیہ میں واقع ہیں۔پاکستان اور دیگر ممالک میں یہ خیال عام ہے کہ امریکی و برطانوی یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم بہت بلند ہے اور یہ کہ وہاں صرف اہل، محنتی، ذہین اور قابل طلبہ و طالبات ہی کو داخلہ مل پاتا ہے۔ لیکن امریکا میں سامنے آنے والے حالیہ اسیکنڈل نے کم از کم امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت کے اعلیٰ و ارفع معیار کا طلسم پاش پاش کردیا۔ اسیکنڈل سے یہ لرزہ خیز حقیقت آشکار ہوئی کہ نامی گرامی یونیورسٹیوں میں  انتظامیہ کے افسر، اساتذہ، کوچ وغیرہ بھاری رشوت لے کر بعض اوقات نالائق، غبی اور نااہل طلبہ و طالبات کو بھی داخلہ دے دیتے ہیں۔

امریکہ کی بیشتر یونیورسٹیاں کئی سو سال پرانی ہیں۔ اس دوران ان کے گرد تقدس کا ہالہ پیدا ہوگیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ جس لڑکے لڑکی کو وہاں داخلہ مل گیا، اس کی تو زندگی سنور گئی۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت اسے کامل انسان بنا دیتی ہے۔ لیکن  اسیکنڈل کے باعث یہ ہالہ بھی خاک میں مل گیا۔ اس سے واضح ہوا کہ آج امریکا کی اعلیٰ و عام یونیورسٹیوں میں جو لاکھوں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، ضروری نہیں کہ وہ سبھی محنتی، ذہین، فطین اور قابل ہوں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہزارہا لڑکے لڑکیوں کو امیر والدین نے دولت کے بل بوتے پر داخلہ کرایا ہو۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں سرخرو ہوجائیں اور یہ ڈینگیں مار سکیں کہ ان کا بچہ تو فلاں نامی گرامی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔

اہل پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ اب امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیاں اعتماد کے قابل نہیں رہیں۔ خود سوچئے کہ جن یونیورسٹیوں میں روپے کی طاقت سے ایک ناکام طالب علم کو بھی داخلہ مل جائے، تو وہاں اعلیٰ معیار تعلیم رائج ہونے کا دعویٰ محض ڈھکوسلا اور لاف زنی ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم بلند کرنے کے ٹھوس اقدامات کرے۔ اس طرح پاکستانی طلبہ و طالبات کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے اور پڑھائی کے لیے خوار نہیں ہونا پڑے گا۔

امریکا کے مشہور روزنامے، نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تمام ایلیٹ امریکی یونیورسٹیوں میں اب داخلے کا نظام مال و دولت کی بنیاد رکھتا ہے۔ مادہ پرستی ان یونیورسٹیوں پر اس حد تک چھاچکی کہ جو امریکی انہیں بھاری چندہ دے، وہ کسی بھی وقت اپنی اولاد کو داخلہ دلوا سکتا ہے۔ بہترین سمجھی جانے والی یہ یونیورسٹیاں اب غریب طلبہ و طالبات کی پہنچ سے باہر ہوچکیں چاہے وہ کتنے ہی قابل اور ذہین فطین ہوں!ایلیٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کے اسیکنڈل نے عالمی سطح پر امریکا کے مقام کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ بیرون ممالک یہی سمجھا جاتا ہے کہ امریکی اصول اور اخلاقیات پر بھی عمل کرنے والے انسان ہیں۔ لیکن اسیکنڈل نے آشکارا کردیا کہ امریکی معاشرے کا مقتدر طبقہ اپنے مفادات کی خاطر قانون و اخلاق کو پیروں تلے روندنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اس اسیکنڈل سے ان امریکی یونیورسٹیوں کا عالمی وقار اور ڈگریوں کی وقعت بھی کم ہوگئی جنہیں اعلیٰ معیاری تعلیم کی حامل درس گاہیں سمجھا جاتا تھا۔اسی بات کو مدنظر رکھ کر امریکی میڈیا نے اسکینڈل کو  نمایاں کرنے سے گریز کیا۔یہ پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں جنم لیتا تو مغربی میڈیا اسے خوب اچھالتا اور عالم اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔

کوچ فراڈیا بن گیا

لگتا ہے کہ ولیم سنگر ہالی وڈ میں معروف شخصیت تھا کیونکہ اس نے ایک اور مشہور اداکارہ، لوری لوگلین(Lori Loughlin) کو اپنے جال میں پھانس لیا۔ لوری کو ٹی وی ڈرامہ سیریز ’’فل ہاؤس‘‘(Full House) سے بین الاقوامی شہرت ملی۔ اس کا شوہر، موسیمو گنالوی مشہور فیشن ڈیزائنر ہے۔ ان کی دو جڑواں بیٹیاں ہیں، ازبیلا اور اولویا۔ لوری اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی آف ساوتھرن کیلی فورنیا میں داخل کرانا چاہتی تھی، اسی لیے ولیم سنگر کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ولیم سنگر نے امیر جوڑے کو بتایا کہ سپورٹس کی بنیاد پر ان کی بیٹیوں کا ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہوسکتا ہے مگر مال بہت خرچ ہوگا۔ لوری اور موسیمو نے ہامی بھرلی۔ چناں چہ ولیم سنگر نے یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا میں سینئر ایسوسی ایٹ ایتھلیٹک ڈائرکٹر، ڈونا ہینی سے رابطہ کرلیا۔

امریکا میں ہر یونیورسٹی مختلف کھیلوں کی ٹیمیں رکھتی ہے۔ شعبہ کھیل سے منسلک ڈائریکٹر، کوچ اور دیگر عملہ مل کر ہر ٹیم کے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ڈونا ہینی نے ولیم سنگر کو بتایا کہ دونوں لڑکیاں یونیورسٹی کی کشتی رانی ٹیم کا حصہ بن سکتی ہیں۔ وہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کو ازبیلا اور اولویا کے نام بھجوا دیتی۔ ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کی سفارش پھر تسلیم کرلی جاتی۔ ڈونا نے یہ سفارش کرنے کے لیے ایک لاکھ ڈالر طلب کیے۔ لوری نے یہ رقم اسے بھجوادی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ازبیلا اور اولویا ابھی تک کشتی میں نہیں بیٹھی تھیں، کشتی رانی کرنا تو دور کی بات ہے۔ لیکن ولیم سنگر نے داخلے سے متعلق ہر قسم کی جعلی دستاویز بناکر انہیں تجربے کار اور ماہر کشتی راں بنا دیا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو کشتی رانوں کا لباس پہنا کر مختلف کشتیوں کے ساتھ ان کی تصاویر اتروائیں۔ مقابلوں میں حصہ لینے کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی تیار کیے۔ غرض فراڈ و دھوکہ دہی کا ہر وہ کام کیا جس کے ذریعے دونوں لڑکیاں کشتی راں ٹیم میں شامل ہوکر یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلیفورنیا میں داخل ہوجائیں۔

ولیم سنگر کی بھاگ دوڑ رنگ لائی اور لوری کی بچیوں کو مطلوبہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ یوں لوری کے من کی مراد پوری ہوگئی۔ اب وہ اپنے حلقے میں سر اٹھا کر چل سکتی تھی۔ اپنی تمنا پوری کرنے کی خوشی میں اس نے ولیم سنگر کو چار لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اد کر دی۔ لوری اور اس کے شوہر کو اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے ایک انتہائی غلط کام کیا ہے اور جلد وہ مکافات عمل کا ایسا عبرت ناک نشانہ بنیں گے کہ ان کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔ 13 مارچ کو امریکی تحقیقاتی ادارے، ایف بی آئی نے فراڈ کرنے پر انہیں گرفتار کرلیا۔ عدالت میں دس دس لاکھ ڈالر کے مچلکے جمع کرانے پر انہیں رہائی ملی مگر وہ امریکا سے باہر نہیں جاسکتے۔ لوری اور موسیمو نے جرم کا اقرار نہیں کیا۔ گویا ان پر مقدمہ چلے گا۔ اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو انہیں دو سے بیس سال کے مابین سزائے قید ہوسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ ایف بی آر نے ان پر منی لانڈرنگ کا چارج بھی ٹھونک دیا۔

دولت کا ہتھیار

امریکی تحقیقاتی ایجنسیاں بارہ مارچ کو یہ اسکینڈل سامنے لائی تھیں۔ تب سے 50 افراد ملزم قرار دیئے جاچکے اور ان پر مقدمے چلیں گے۔ ان میں سے 33  والدین ہیں اور بقیہ یونیورسٹیوں کے کوچ، عہدے دار اور SAT و ACT کے ممتحن و اساتذہ وغیرہ۔ تاہم اسکینڈل کے مرکزی کردار ولیم سنگر کا دعویٰ ہے کہ 2011ء سے وہ ایک ہزار سے زائد والدین کے بچوںکو فراڈ و دھوکا دہی کے ذریعے امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوا چکا۔یہ والدین امریکا ہی نہیں بیرون ممالک مثلاً چین سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں میں بذریعہ فراڈ داخلے کا یہ اسیکنڈل نہایت خوفناک اور بھیانک ہے۔ یہ آشکار کرتا ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں اعلیٰ تعلیم (ہائیر ایجوکیشن) کا نظام لالچ و ہوس سے لتھڑا ہے۔ اس نظام میں اب پیسہ، اثرورسوخ، جھوٹی شان و شوکت، نفع وغیرہ اہمیت رکھتے ہیں۔ محنت، لیاقت، ذہانت اور علم و دانش کی خوبیاں پس پشت چلی گئی ہیں۔یہ ہمیں بتاتا ہے کہ آج امریکا میں جس شہری کے پاس پیسہ ہے، وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر نالائق اور نااہل بچوں کو بھی اعلیٰ ترین یونیورسٹی میں داخلہ دلوا سکتا ہے۔ گویا امریکی دولت مند اعلیٰ تعلیمی نظام میں میرٹ اور دیانت داری کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔ یہی نہیں، اگر کوئی غیر ملکی لاکھوں ڈالر دینے پر تیار ہوجائے، تو امریکی یونیورسٹیاں اس کے بچوں کو بھی داخلہ دے دیتی ہیں۔

اس اسکینڈل نے ایلیٹ امریکی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم بھی مشکوک اور مشتبہ بنادیا۔ جب کوئی بھی پیسے والا دھوکے بازی سے ان یونیورسٹیوں میں اپنے بچے داخل کراسکتا ہے، تو پھر ان کا معیار تعلیم اعلیٰ کہاں رہا؟ اسکینڈل تو یہی آشکارا کرتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو میرٹ نہیں ڈالر یا تعلقات کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔یہ نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ایک طرف وہ طلبہ و طالبات ہیں جو سارا سال محنت سے پڑھتے اور راتوں کو جاگ کر تیاری کرتے ہیں تاکہ امتحانات میں اچھے نمبر لے سکیں۔ دوسری سمت امرا کی اولادیں ہیں جن کے غلط جوابات خود ممتحن درست کردیتے ہیں۔ وہ پھر داخلہ لینے میں باآسانی کامیاب رہتے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیاں سیٹیں پُر ہو جانے کی وجہ سے ان بچوں کو دھتکار دیتی ہیں جو سارا سال محنت کرتے ہیں تاکہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ والدین اپنی تمناؤں کا گلا گھونٹ کر بچوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام پاسکیں۔ لیکن حالیہ اسکینڈل افشا کرتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں نظام داخلہ محنتی بچوں اور ان کے والدین سے زیادتی کررہا ہے۔ درحقیقت یہ نظام ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

یہی وجہ ہے، امریکا کے طلبہ و طالبات اور والدین سکینڈل میں ملوث یونیورسٹیوں کے خلاف مقدمے کھڑے کررہے ہیں۔جنیفر لیزی اوک لینڈ کی رہائشی ہے۔ اس نے کیلی فورنیا کی ہائی کورٹ میں ولیم سنگر، ملوث تمام والدین اور یورنیورسٹیوں پر مقدمہ قائم کرتے ہوئے ان سے بطور ہرجانہ ’’پانچ سو ارب ڈالر‘‘ طلب کیے ہیں۔ جنیفر کاجوشوا نامی بیٹا ہے۔ اس نے 2017ء میں ہائی سکول پاس کیا، تو بہت اچھے نمبر لیے۔ مگر بھرپور سعی کے باوجود اسے کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکا۔ ماں بیٹا یہی سمجھے کہ مقابلہ بہت سخت تھا، اس لیے انہیں ناکامی ہوئی۔

اب جنیفر اور جوشوا کو معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹیوں میں داخلے کا طریق کار منصفانہ اور میرٹ پر مبنی نہیں تھا۔ دولت مند والدین انتظامیہ کے افسروں کی ملی بھگت سے اپنے بچوں کو انہی یونیورسٹیوں میں داخل کرنے میں کامیاب رہے جنہوں نے جوشوا کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ گویا تمام ملزمان نے اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ طاقت یا پیسے والے ہیں، اس لیے انہیں جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے، فراڈ کرنے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا حق حاصل ہوگیا۔اسی طرح سٹانفورڈ یونیورسٹی کی دو طالبات، اریکا اور کائلہ نے ایڈمیشن اسیکنڈل میں ملوث یونیورسٹیوں کو ہائی کورٹ میں گھسیٹ لیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ فراڈ، بے پروائی اور دھوکہ دہی میں ملوث ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسیکنڈل کی وجہ سے ان کی ڈگریوں کا مقام و مرتبہ کم ہوچکا۔

دس کروڑ روپے کا خرچ

ایف بی آر کو یونیورسٹیوں کے داخلے میں وسیع پیمانے پر فراڈ کی سن گن اپریل 2018ء میں ملی۔ تب امریکی تحقیقاتی ایجنسی لاس اینجلس کے ایک کاروباری، موری ٹوبن سے سٹاک مارکیٹ میں فراڈ کرنے پر پوچھ گچھ کررہی تھی۔ موری ٹوبن نے ایف بی آر والوں کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر انہیں اطلاع دی کہ ئیل(Yale) یونیورسٹی میں خواتین فٹ بال ٹیم کے کوچ، رڈلف رڈی میرلیڈتھ نے اس سے لاکھوں ڈالر کی  رشوت لی ہے۔ موری ٹوبن اپنی چھوٹی بہن کو ئیل میں داخل کرنا چاہتا تھا۔رڈلف میرلیڈتھ کا کہنا تھا کہ وہ موری ٹوبن کی بیٹی کو ’’بہترین فٹ بالر‘‘ قرار دے کر یونیورسٹی ٹیم میں شامل کروا لے گا… حالانکہ لڑکی نے ساری زندگی فٹ بال نہیں کھیلا تھا۔ رڈلف کا کہا درست ثابت ہوا اور لڑکی ئیل یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن گئی۔موری ٹوبن پھر رڈلف کو اقساط میں رشوت کی رقم ادا کرنے لگا۔ جب ایف بی آئی کی ٹیم اس تک پہنچی، وہ ڈھائی لاکھ ڈالر رڈلف کو ادا کرچکا تھا۔

اس وقت تک رشوت کی قطعی رقم طے نہیں ہوئی تھی۔ ایف بی آئی کی ہدایت پر موری ٹوبن خفیہ کیمرا پہن کر 12 اپریل 2018ء کو رڈلف میرلیڈتھ سے ملا۔ اسی ملاقات میں رڈلف نے اپنے گاہک کو بتایا کہ ولیم سنگر نے ساڑھے چار لاکھ ڈالر کی فائنل رقم بتائی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایف بی آئی نے ولیم سنگر کا نام سنا۔ وہ پھر اس کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے لگی۔ جلد ہی انہیں ولیم سنگر کے فراڈی نظام کے متعلق خاطر خواہ معلومات حاصل ہوگئیں۔بیشتر مجرموں کی طرح ولیم سنگر بھی بزدل ثابت ہوا۔ اس نے فوراً اپنا جرم تسلیم کرلیا۔ وہ پھر ایف بی آئی کو ان والدین کے متعلق بنانے لگا جن کی اولادوں کو اس نے غیر قانونی انداز سے یونیورسٹیوں میں داخل کرایا تھا۔ ان والدین میں مشہور کاروباری، صنعت کار، اداکار وغیرہ شامل تھے۔ ایف بی آئی گیارہ ماہ تک کیس کی تحقیقات کرتی رہی پھر ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدمات دائر کردیئے گئے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ 2017ء میں چین میں ایک بڑی ادویہ ساز کمپنی کے کھرب پتی مالک، زاؤ تاؤ نے سٹانفورڈ یونیورسٹی میں اپنی بیٹی، یوسی کا داخلہ کرانے کی خاطر ساڑھے چھ لاکھ ڈالر (دس کروڑ روپے) خرچ کیے تھے۔ یہ اس سیکنڈل کی سب سے بڑی رقم ہے۔ولیم سنگر نے زاؤ تاؤ کو بتایا تھا کہ اگر وہ سٹانفورڈ یونیورسٹی میں کشتی رانی ٹیم کو پانچ لاکھ عطیہ کردے، تو اس کی بیٹی ٹیم میں شامل ہوسکتی ہے۔ چناں چہ چینی والد نے مطلوبہ رقم عطیہ کردی۔ نیز ولیم سنگر کو بھی ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کیے۔ یہ ولیم کی خدمات کا صلہ تھا۔ دلچسپ بات یہ  کہ جب یوسی زاؤ کا سٹانفورڈ یونیورٹی میں داخلہ ہوگیا، تو اس نے یوٹیوب میں اپنی ایک ویڈیو جاری کردی۔ اس میں وہ بڑے فخر و خوشی سے کہتی نظر آتی ہے:

’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دولت مند ہونے کے ناتے سٹانفورڈ میں میرا داخلہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری سخت محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘

لیکن بعدازاں افشا ہوا کہ دنیا کی ایک ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ اس کے باپ کی دولت کا چمتکار تھا ورنہ اس میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ سٹانفورڈ جیسی درس گاہ میں داخلہ لے پاتی۔غرض پوری دنیا میں دولت مند طبقے کی خودغرضی اور معاشرے میں اسٹیٹس سمبل قائم رکھنے کی ہوس نے امریکا ہی نہیں برطانیہ،کینیڈا،آسٹریلیا وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں بھی داخلے کے نظام پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔لوگ اب سوچنے لگے ہیں کہ کیا ان ملکوں کی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی زرکثیر لے کر کند ذہن اور نالائق طلبہ و طالبات کو داخلہ دے دیتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق امیر طبقات سے ہوتا ہے؟ممکن ہے ،بعض غبی طلبہ رقم دے کر ڈگریاں بھی حاصل کر لیتے ہوں۔

The post تعلیم وتربیت کے اعلیٰ معیار کا طلسم پاش پاش؛ ایلیٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کا مہا فراڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

صدر ڈاکٹر محمد مرسی کس جرم میں مارے گئے؟

$
0
0

ڈاکٹرمحمد مرسی اور ان کی جماعت کیسے برسراقتدارآئی؟یہ ایک طویل کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ انھیں ایوان اقتدارکی طرف بڑھنے سے کیسے روکنے کی کوشش کی گئی ، تاہم جب وہ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ملک کی زمام کارسنبھالنے میں کامیاب ہوئے تو اقتدارپسندفوجی جرنیلوں نے جمہوریت کے نعرے لگانے والے سیکولراورلبرل طبقہ کو استعمال کرتے ہوئے کیسے ملک کو ایک بارپھر آمریت کی راہ پر ڈال دیا۔

ملک کی سب سے بڑی جماعت اخوان المسلمون اور دیگر انقلابی گروہوںکی بھرپورجدوجہد کے نتیجے میں عشروں سے اقتدارپر مسلط ڈکٹیٹر حسنی مبارک فروری2011ء میں ایوان اقتدار سے نکل بھاگے تو فوج کی سپریم کونسل نے عبوری اقتدارسنبھال لیا۔

فوجی سپریم کونسل نے پہلے مرحلہ میں ایوان زیریں اور ایوان بالاکے انتخابات منعقد کرائے، یہ جنوری2012ء میں مکمل ہوئے ۔ دونوں ایوانوں میںقریباً تین چوتھائی سیٹیں اسلام پسند اخوان المسلمون اور النور کے حصے میں آئیں جبکہ سیکولر و لبرل جماعتیں مکمل طورپر ناکام رہیں۔حسنی مبارک کے ساتھیوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہوسکا۔

مئی2012ء میں صدارتی انتخاب منعقد ہوا جس میں اخوان المسلمون کے سیاسی بازو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرمحمد مرسی نے51 فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ صدارتی انتخاب دومراحل میں ہوا۔ پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکا، رن آف الیکشن سرفہرست ڈاکٹرمحمدمرسی اور حسنی مبارک دور کے آخری وزیراعظم احمدشفیق کے درمیان ہوا۔صدارتی نتائج آنے کے فوری بعد عسکری کونسل نے1981ء سے مسلط ایمرجنسی ختم کردی۔

مئی2012ء ہی میں حسنی مبارک کو مظاہرین کے مقدمہ قتل میں عمر قیدکی سزاسنادی گئی جبکہ جولائی میں اعلیٰ ترین آئینی عدالت نے پارلیمان کے بعض ارکان کا انتخاب غیرقانونی قراردے کر پارلیمان تحلیل کرنے کا حکم دیدیا۔ فوجی کونسل نے عدالتی حکم پر فی الفور عمل درآمد کرتے ہوئے حکم نامہ جاری کردیا۔ اس سے ملک میں سیاسی بحران پیداہوگیا۔ ماہرین حیران تھے کہ پارلیمان کے بعض ارکان کے انتخاب کے غیرقانونی ہونے سے پوری پارلیمان کیسے تحلیل ہوسکتی ہے؟

بعض حلقوں کاخیال تھا کہ ملک کی اصل مقتدر فوج اور حسنی مبارک کے بنائے ہوئے ججز کواسلام پسندوں کی اکثریت کی حامل پارلیمان قبول نہیں، اس لئے وہ سارے نظام کو رول بیک کرناچاہتے ہیں۔ اس وقت تک صدرمرسی کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنا کردار اداکرنے کی کوشش کی لیکن وہ پھڑپھڑانے سے زیادہ کچھ نہ کرسکے کیونکہ فوجی کونسل ہی سارے فیصلے کرنے پر تلی ہوئی تھی، حتیٰ کہ وہ صدرمملکت کو سپریم کمانڈر ماننے کو بھی تیارنہ تھی۔

اگست میں صدرمرسی نے حکومت سازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہاشم قندیل کو وزیراعظم مقررکیا جنھوں نے ٹیکنوکریٹس، اسلام پسندوں، سیکولر اور لبرل افراد پر مشتمل اپنی کابینہ تشکیل دی۔دوسری طرف فوج کی طرف سے پہلے سے’’حکم‘‘ آچکاتھا کہ وزیردفاع فوجی کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی ہی ہوںگے۔

٭اقتدارپسند جرنیلوں کی برطرفی

صدرمرسی کے حکومت سازی کرنے کے بعد فوج نے نہ صرف ملک پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اورصدرمرسی کو مجبورمحض بناکر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ فوج چاہتی تھی کہ نیا صدر فوجی سپریم کونسل کی ہدایا ت پر عمل کرے، اس کی طرف سے آنے والے فیصلوں پر محض دستخط کرے۔ چنانچہ پہلے دن سے ہی فوج اور صدرمرسی کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔ آنے والے حالات نے ثابت کیا کہ ڈاکٹرمحمدمرسی جرنیلوں ہی کو فیصلہ کن طاقت تسلیم کرلیتے،خود رسمی طورپرصدر بنے رہتے تو وہ کبھی صدارتی محل سے نہ نکالے جاتے۔ تاہم جس دن صدرمرسی نے اقتدارپسند جرنیلوں کو ہٹایااور طاقتور سربراہ مملکت بنے، اسی روزسے فوج اور ججز انھیںہٹانے کے لئے ماحول بنانے میں جُت گئے۔

پھراگست ہی میں صحرائے سینا میں ایک فوجی چوکی پر شدت پسندوں کے حملہ کا واقعہ پیش آیا جس میں 16فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ غیرمعمولی اور حیران کن نتائج لے کر سامنے آیا۔صدرمرسی نے فی الفور انٹیلی جنس چیف جنرل موافی اور متعلقہ صوبہ کے گورنر کو برطرف کردیا۔ بعدازاں وزیردفاع اور آرمی چیف طنطاوی، چیف آف سٹاف سمیع عنان سمیت تینوں افواج کے چھ اعلیٰ افسران کوبھی فارغ کردیا۔یادرہے کہ یہ سارے فوجی افسران حسنی مبارک کے قریبی ساتھی شمار کئے جاتے تھے۔

صدرمرسی کے عملاً سپریم کمانڈر بننے کے بعد حسنی مبارک دور کی پیداوار ججز تنہا ہوکے رہ گئے تھے ۔ تاہم وہ ’انقلاب 25 جنوری‘ کے ساڑھے آٹھ سو شہدا کے قاتلوں کو ایک ایک کرکے رہا کررہے تھے۔ان کے فیصلوں سے واضح ہورہاتھا کہ وہ انقلاب کو رول بیک کرناچاہتے ہیں۔

٭آئینی ریفرنڈم

نومبر 2012 میں آئین ساز اسمبلی نے آئینی مسودہ منظورکرلیا، صدرمرسی نے مسودے پر دستخط کرکے اسے منظوری کے لئے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن نے ریفرنڈم منسوخ کرانے کی بھرپورکوشش کی تاہم صدرمرسی اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ان کاکہناتھا کہ آئینی مسودہ کو منظور یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار عوام ہی کے پاس ہے، اس لئے وہ ریفرنڈم بہرحال کرائیں گے۔ ریفرنڈم کی نگرانی ججز کو کرناتھی تاہم ملک کے مجموعی21000ججز میں سے 12000 نے اپنے فرائض منصبی اداکرنے سے صاف انکارکردیا۔ ایسے میں صدرمرسی نے ریفرنڈم کو دوحصوں میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ پہلے مرحلے میں قاہرہ سمیت ملک کے 27صوبوں میں سے 10 صوبوں میں15دسمبرکو ووٹنگ ہوئی جبکہ دوسرا مرحلہ22دسمبر کو منعقد ہوا۔ پہلے مرحلے میں57 فیصد جبکہ دوسرے مرحلے میں64 فیصد لوگوں نے ’’ہاں‘‘ پر مہرلگائی۔ اپوزیشن نے بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کئے لیکن آئینی ریفرنڈم کے نتائج تسلیم کرلئے۔

٭صدرمرسی کے دور رس اقدامات

تمام تر مخالفتوں کے باوجود ڈاکٹرمرسی نے اپنے پہلے سال کیا خدمات سرانجام دیں؟ اس کا جواب لبنان سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ’قطب العربی‘ یوں دیتے ہیں:

’’ ڈاکٹرمحمد مرسی کا سب سے بڑی کارنامہ ( جو انقلاب روم کے نصف کے برابر ہے) فوج اور شہریوں کے درمیان اقتدار کے دوہرے پن کو ختم کرنا ہے تاکہ ساٹھ کے عشرے میں متعارف کردہ فوجی نظام حکومت کے بعد مصر خالص شہری سٹیٹ بن سکے۔ فوجی کونسل نے اس دعویٰ سے کہ اس نے انقلاب25جنوری کے دوران عوام کی حفاظت کی تھی، اس کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کئے تھے اور پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی حفاظت کی تھی، قوم پر اپنے اس ’’احسان‘‘ کے بدلے میں اس نے خود ہی اپنے آپ کو انقلاب پر وصی مقرر کر لیا تھا، پھر حسنی مبارک کے جانے کے بعد وہی عملاً مصر کی حاکم بن بیٹھی تھی، حتیٰ کہ صدرمحمد مرسی نے 12اگست کو اپنے انقلابی اقدامات کے ذریعے فیلڈ مارشل حسین طنطاوی، کرنل سمیع، ملٹری کونسل کے دیگرنمایاں کمانڈرون کو برطرف کرکے نئے وزیردفاع، چیف آف آرمی سٹاف اور بنیادی شعبوں کے کمانڈروں کو مقررکیا، پھر نئے وزیردفاع نے سابق نظام حکومت سے وابستہ 70 فوجی افسران کو ریٹائر کیا‘‘۔

قطب العربی کا کہناتھا:’’صدرمرسی نے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہزاروں کسانوں کو معافی دی، ملازمین اور پنشنروں کو پندرہ فیصد الاؤنس دیا، اجتماعی انشورنس کی رقم میں ماہانہ تین سو پونڈ کا اضافہ کیا، ہزاروں عارضی ملازمین ومزدوروں کو مستقل کیا، شمالی مغربی خلیج سوئس کے غیرسنجیدہ سرمایہ کاروں سے24ملین میٹر مربع زمین واپس لی، اس کے علاوہ پورٹ سعید کے مشرق میں اکتالیس ملین میٹر مربع زمین واپس لینے کے احکام صادر کئے، تمام ضلعوں اور سرکاری اداروں میں شکایات سیل قائم کئے(جہاں لوگ ان کے خلاف شکایات درج کراتے ہیں اور جن پر ایکشن ہوتاہے)، دومراحل میں سیاسی قیدیوں کو رہاکیا،سابق نظام سے مربوط افسران کی تطہیر کا عمل بھی جاری رکھا۔دوسری طرف سرکاری اور عوامی سطح پر صفائی اور تزئین و آرائش کی ایک وسیع مہم جاری ہے، جس کی بدولت سڑکوں اور میدانوں سے ٹنوں کوڑاکچرا اٹھایاگیا، بجلی کی کمی پر فوری طورپر قابوپالیا گیا، گیس پائپ لائن کا مسئلہ ختم ہوگیا، روٹی بحران اور اس کی لمبی قطاریں بھی غائب ہوگئیں‘‘۔

ڈاکٹرمرسی نے خطے میں مصر کی صحیح معنوں میں قیادت بحال کی، سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، ایران، اٹلی اور بروکسل میں یورپی یونین کے دوروں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔ صدرمرسی برسراقتدار رہتے تو مصر، ترکی اور قطر کا ایک نیااتحاد پروان چڑھتا جو خطے میں خاصی اہمیت کا حامل ہوتا۔انھوں نے برسراقتدار آتے ہی اس اتحاد کی کوششیں شروع کردیں تھیں۔اس سے پہلے ترکی اور قطر مشرق وسطیٰ میں زیادہ متحرک نہیں تھے جبکہ مصر سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں مختلف حکمت عملی اختیارکئے ہوئے تھا جس سے اسرائیلی مفادات کو زیادہ فائدہ پہنچتاتھا جبکہ فلسطینی بے بس تھے۔یادرہے کہ صدر ڈاکٹرمحمد مرسی اسی اخوان المسلمون کے تربیت یافتہ تھے جس نے فلسطین کی تحریک حریت ’’حماس‘‘ کو جنم دیاتھا، پال پوس کے بڑا کیاتھا۔ظاہر ہے کہ مرسی کے اقتدار میں اسرائیل ایسا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاسکتاتھا جو اسے اب تک مل رہے تھے۔

٭اپوزیشن اتحاد کی تشکیل

صدرمرسی جس رفتار سے اقدامات کررہے تھے، کوئی بھی سوچ سکتاہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرتے تو مصر کو کس قدر ترقی، خوشحالی اور استحکام ملتا۔ یہی چیز اقتدارپسند فوجی جرنیلوں، مخالف سیکولر اور لبرل جماعتوں کو بے چین کررہی تھی۔ فوج کو کون سا درد بے چین کررہاتھا، وہ سابقہ سطور میں بیان ہوچکاہے تاہم سیکولر اورلبرل حلقے مضطرب تھے کہ اسلام پسند ملک کے سیاسی منظرنامے پراسی طرح آگے بڑھتے رہے تو ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ صدرمرسی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سیکولر اور لبرل حلقے ’نیشنل سالویشن فرنٹ‘ کے نام سے متحد ہوگئے۔وہ صدر مرسی کو پریشان کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے، وہ ایک شکست کے بعد اگلے معرکے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے تھے۔

مخالف کیمپ میں صرف حسنی مبارک کے حامی نظرآتے تو قابل فہم بات تھی لیکن وہاں تو حسنی مبارک کے خلاف کامیاب انقلابی تحریک میں شامل ہونے والے لبرل اور سیکولر انقلابی بھی نظرآرہے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اس پراسیکیوٹرجنرل عبدالمجیدمحمود کی برطرفی کا صدارتی فیصلہ تسلیم کرنے سے بھی انکاری تھے جس پرالزام تھا کہ اس نے شہدائے انقلاب کے قاتلوں کے خلاف شفاف تحقیقات کے بجائے انھیں رہاکرانے میں زیادہ سرگرمی دکھائی تھی۔

صدرمرسی کے مخالفین میں صحافی بھی شامل تھے، حالانکہ انھیں نصف صدی سے زائدعرصہ میں پہلی بار آزادی نصیب ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ صدر مرسی نے برسراقتدارآکر صدر کی ہتک کا قانون سرے سے ہی ختم کردیا تھا۔ صحافیوں کو اس قدر آزادی نصیب ہوئی کہ نیوزکاسٹر بھی ٹی وی سکرین پر آکر خبریں پڑھنے کے بجائے صدرکے خلاف تقریریں کرنے لگیں۔

٭مصری سلفیوں کے سرپرست ملک کا مسئلہ

جون2011ء میں مختلف سلفی گروہ النور کے نام سے اکٹھے ہوئے تھے اور عمادالدین عبدالغفور سربراہ بن گئے ۔ حسنی مبارک کے بعد منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں النور دوسری بڑی جماعت بن کے ابھری تھی۔ اس نے 75لاکھ 34 ہزار 266 ووٹ (27.8فیصد)حاصل کرکے پارلیمان کی مجموعی498نشستوں میں سے 127سیٹیں حاصل کی تھیں۔ ڈاکٹرمحمد مرسی نے صدمنتخب ہونے کے بعد عمادالدین عبدالغفور کو اپنا مشیر مقررکرلیا۔ ان کا یہ اقدام مصری سلفیوں کو ایک مہرہ کے طور پر استعمال کرنے والے ایک ملک کو پسند نہ آیا، اسے خدشہ لاحق ہوگیا کہ مصری سلفی اسی طرح صدرمرسی کے قریب ہوتے چلے گئے تو وہ اس سے دور ہوجائیں گے،چنانچہ صدرمرسی کا اقتدار اس کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا۔نتیجتاً پہلے مرحلے پر سلفیوں کو تقسیم کیاگیا۔ اغلب خیال ہے کہ یہ تقسیم ان کے سرپرست ایک عرب ملک کا منصوبہ تھا۔

٭صدرمرسی کیخلاف تحریک چلانے کا بہانہ کیابنا؟

ڈاکٹرمحمد مرسی پر ان کے مخالفین صدارتی مہم سے لے کر تادم آخر مسلسل حملے کرتے رہے۔ صدارتی مہم کے دوران انھیں امریکی شہری قراردے کرنااہل کرانے کی کوشش کی گئی تاہم یہ حملہ معمولی ہی ثابت ہوسکا۔ صدارتی انتخاب کے موقع پر فوجی جرنیل ان کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے تھے، انھوں نے حسنی مبارک کے آخری وزیراعظم احمد شفیق کی جیت کے تمام تر انتظامات مکمل کرلئے تھے، حتیٰ کہ انتخابی نتائج میں آخری لمحے پر بھی ردوبدل کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹرمرسی کی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (اخوان المسلمون کے سیاسی بازو) نے ہرپولنگ سٹیشن کے سرکاری مصدقہ نتائج کی نقول حاصل کرکے، انھیں ایک کتاب کی صورت دے کر پورے ملک میں تقسیم کردیا۔ فوجی جرنیلوں نے ان اعدادوشمار کو جمع کرتے ہوئے ہیراپھیری کرنی تھی لیکن فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے اپنی چال چل کر فوجی جرنیلوں کو بے بس کردیا۔ یوں الیکشن کمیشن کو ڈاکٹرمرسی کی کامیابی کا اعلان کرناہی پڑا۔

بعدازاں فوجی جرنیلوں کی کونسل نے اپنے آپ کو صدرمرسی پر بالادست قراردیدیا۔اس مہم میں حسنی مبارک کے متعین کردہ ججز کی عدلیہ بھی فوجی کونسل کے ساتھ تھی۔ یوں محسوس ہورہاتھا، جیسے صدر مرسی کو نام نہاد صدر کے طورپر ہی زندگی بسرکرناہوگی تاہم پھر ایک روز صدر مرسی نے اچانک فوجی کونسل کے سربراہ سمیت تمام افواج کے سربراہان کو برطرف کردیا اور اپنی بالادستی ثابت کردی۔ یہ اقدام اس قدراچانک اور حیران کن تھا کہ برطرف ہونے والے جرنیلوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اگلے ہی لمحے نئی تعیناتیاں کردی گئیں۔

٭باقاعدہ لڑائی کا آغاز

اب تک کی کہانی سے آپ کو اندازہ ہوچکاہے کہ صدرمرسی کے خلاف میدان کیسے تیارکیاگیا۔ پھرباقاعدہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب صدر مرسی نے پراسیکیوٹرجنرل عبدالمجید محمود کو ان کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ان سرکاری اہلکاروں کے دوبارہ ٹرائل کاحکم جاری کیا جوحسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران انقلابیوں کی ہلاکتوں میں ملوث سمجھے جاتے تھے۔ یادرہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ساڑھے آٹھ سومظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔ پراسیکیوٹرجنرل کی برطرفی کا سبب یہ بیان کیاگیا کہ اس نے انقلاب کے دوران میں ہونے والی ہلاکتوںکی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کے بجائے ذمہ دار اہلکاروں کو سزا سے بچانے میں زیادہ سرگرمی دکھائی۔

اپنے صدارتی فرمان میں جہاں ڈاکٹرمرسی نے طلعت ابراہیم عبداللہ کو نیاپراسیکیوٹر جنرل مقررکیا، وہاں دستورساز اسمبلی کی مدت میں دوماہ کی توسیع کا اعلان بھی کیا۔ ساتھ یہ بھی قراردیاکہ صدر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جو بھی فیصلے کئے ، قوانین اور اعلامیے منظورکئے، انھیں عدلیہ سمیت کوئی بھی اتھارٹی منسوخ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔ فرمان میں یہ بھی شامل تھا کہ مصر کی دستورساز اسمبلی اور پارلیمان کے ایوان بالا شوریٰ کونسل کو عدلیہ سمیت کوئی بھی اتھارٹی تحلیل نہیں کرسکتی۔

پراسیکیوٹر جنرل کی برطرفی پر ججز نے صدرمرسی کے متعین کردہ نئے پراسیکوٹرجنرل طلعت ابراہیم عبداللہ پر اس قدرزیادہ دباؤ بڑھایا کہ انھوں نے ازخود استعفیٰ دیدیا۔اپوزیشن جماعتیں ڈاکٹر مرسی کے اقدامات کو مطلق العنان بننے کی کوشش سے تعبیر کر رہی تھیں، عدلیہ نے بھی ابتدائی طورپر اسے اپنی آزادی پر حملہ قرار دیا اور ججز نے ہڑتال کردی۔

٭عدالتی اصلاحات بھی مسئلہ بن گئیں

مصری صدر عدالتی اصلاحات متعارف کرانا چاہتے تھے جن کے مطابق ریٹائرمنٹ کی حد عمر 70 سال سے کم کر کے 60 سال کی جاتی۔نتیجتاً 3000 ہزار سے زیادہ جج خود بخود سبکدوش ہوجاتے، ججز کلب نے ان اصلاحات کی شدیدمخالفت کی۔ جبکہ سلفیوں کی جماعت ’’النور‘‘ نے بھی یہ کہہ کر اصلاحات کو مسترد کردیاتھاکہ آئین کے تحت قانون میں ترمیم سے قبل عدلیہ سے وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے۔ قاہرہ میں عدالت عالیہ کے باہر مٹھی بھر افراد نے مظاہرہ کیا اور انھوں نے عدلیہ کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے جبکہ اسلامی جماعتوں نے عدلیہ کی تطہیر کے عنوان سے مظاہرے کیے تھے۔

اس کے لئے صدر محمد مرسی اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل کونسل کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں عدالتی نظام کے مستقبل کے عنوان پر ایک کانفرنس بلانے پر اتفاق کیاگیا تاکہ دونوں فریقوں کیلیے قابل قبول اصلاحات وضع کی جائیں۔ اس کے بعد صدر مرسی اس کانفرنس میں منظور کردہ مجوزہ قوانین سے متعلق تمام سفارشات کو اختیار کرتے ہوئے انھیں حتمی منظوری کیلیے مجلسِ شوریٰ (پارلیمان کے ایوان بالا) میں پیش کرتے۔

٭صدرمرسی اور ان کی جماعت کا موقف

اس مرحلے پر ڈاکٹر مرسی کاکہناتھا:’’ مصرآزادی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے۔ میں ملک میں سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام کیلئے کام کررہاہوں۔ میں نے ہمیشہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اورعوام کی منشا کو پہچاناہے اوران شاء اللہ مستقبل میں بھی ایساہی کروں گا۔کوئی بھی ہماری آگے کی طرف پیش قدمی کو روک نہیں سکتا۔ میں اللہ اور قوم کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے اپنے فرائض سرانجام دے رہاہوں اور میں نے ہرکسی سے مشاورت کے بعد فیصلے کئے ہیں۔انھوں نے کہاکہ کسی بھی قیمت پر قانون کا نفاذ کیاجائے گا اورمیں ان لوگوں کے خلاف ثابت قدم رہوں گا جو مصر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اوراس کی جمہوری جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالناچاہتے ہیں۔ میں نے جو بھی اقدامات اور فیصلے کئے ہیں ، ملکی مفاد میں کئے ہیں اوران کا کسی بھی طرح یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنے آئینی اختیارات میں اضافہ کرناچاہ رہا ہوں۔ میں جب بھی ملک اورانقلاب کوخطرے میں دیکھتا ہوں تو صورتحال میں مداخلت کرنے اور قانون کی عملداری کا پابند ہوں‘‘۔

جبکہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ایک اعلیٰ رہنما جہاد حداد کاکہناتھا کہ ’’انقلاب کو بروئے کار لانے کیلئے ڈاکٹرمرسی کے حالیہ فیصلے ضروری تھے کیونکہ مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث وزارت داخلہ کے اہلکاروں کے خلاف نئے سرے سے قانونی کارروائی کیلئے کوئی چارہ کارنہیں رہاتھا۔ مظاہرین کی ہلاکتوں میںملوث اہلکاروں کے خلاف ناقص تفتیش کی گئی اوران کے خلاف شواہد کو ضائع کردیاگیا یاانھیں چھپادیاگیا۔جس کی وجہ سے بہت سے اہلکاروں کو ان مقدمات سے بری کیاجاچکاہے‘‘۔

٭اورپھراحتجاج شروع ہوگیا

سن2013ء میںصدر مرسی کی صدارت کا پہلا سال مکمل ہونے پر اپوزیشن اور حکمران جماعت، دونوں نے مظاہروں کا اعلان کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے پُرامن مظاہروں کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مسلح افراد نے حکمراں جماعت اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹرز پر دھاوا بولنے کے بعد اسے نذرآتش کردیا، مظاہرین وہاں سے سامان لوٹ کر لے گئے،اس پر اخوان المسلمون کے رہنماؤں نے سکیورٹی فورسز کے کردار پر کڑی تنقید کی کہ وہ اخوان کے ہیڈ کوارٹرز کو تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہیں۔

٭اپوزیشن کی طرف سے فوج کو اقتدارسنبھالنے کی دعوت

یہ بھی کم بدقسمتی نہ تھی کہ جمہوریت کے ایک بڑے موید اور بائیں بازو کے رہنما حمدین صباحی نے واضح طورپر فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی۔انھوں نے کہا:’’اگر صدر مرسی عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے اقتدار سے الگ نہیں ہوتے تو فوج مداخلت کر کے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرے۔‘‘

پختہ جمہوری سوچ کے حاملین سیاست میں کسی بھی صورت میں فوج کو دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے، چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے لیکن یہ آسمان نہیں ٹوٹا تھا بلکہ مصر ترقی، خوشحالی اور استحکام کی راہ پر چلنے لگاتھا۔ بدقسمتی سے مصر کے لبرل اور سیکولر حلقوں کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہواکہ وہ کسی ایسی جمہوریت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں جس کے نتیجے میں حکومت کسی اسلامی ذہن رکھنے والے فرد کو مل جائے۔

٭صدرمرسی کے خلاف احتجاج کی بنیادیں

جرنیل، ججز اور سیکولر، لبرل حلقے صدرمرسی کے خلاف احتجاج کے تین اسباب بیان کرتے تھے:

اول: جب صدرمرسی نے اقتدارپسند فوجی قیادت کو ان کے مناصب سے فارغ کیا اور نئے جرنیلوں کوذمہ داریاں تفویض کیں تو حمدین صباحی اور محمد البرادعی جیسے اپوزیشن رہنماؤں نے صدارتی اقدام کو غلط قراردیا۔ حالانکہ دنیا کے ہرجمہوری ملک کا آئین ملک کے سربراہ کو حق دیتاہے کہ وہ فوجی قیادت کو تبدیل کرسکتاہے حتیٰ کہ بلاجواز بھی ایسا کرسکتاہے۔

دوم:دوسری بنیاد 22نومبر2012ء کا جاری کردہ صدارتی فرمان تھا جسے عدلیہ کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کے طورپر سمجھاگیا۔ حالانکہ ڈاکٹرمرسی نے یہ فرمان آئین ساز اسمبلی کے تحفظ کے لئے جاری کیاتھا اور قراردیاتھا کہ عدلیہ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی ۔ساتھ ہی اسمبلی کی مدت میں دو ماہ کا اضافہ کردیا۔ فرمان میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ کوئی بھی ادارہ صدارتی اقدامات کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ فرمان میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف انقلابی تحریک کے دوران ہلاکتوں کے واقعات کی ازسرنو تحقیقات کی بات بھی کی گئی تھی ۔

سوم: صدرمرسی نے ملک کو ایک نیاآئین دیا، لبرل اور سیکولرحلقوں نے اسے ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی ایک کوشش قراردیا۔ جب صدرمرسی نے اسے قوم سے منظوری دلانے کے لئے ریفرنڈم منعقد کرانے کا اعلان کیا، اس پر سیکولرحلقے سڑکوں پر آگئے، ان کا مطالبہ تھا کہ ریفرنڈم منسوخ کیاجائے۔ دوسری جانب ججز نے اس ریفرنڈم کے انعقاد کے موقع پر نگرانی کے آئینی فرائض ادا کرنے سے انکار کردیا۔ انہی دنوں(8دسمبر2012ء کو) فوج کی طرف سے پہلابیان سامنے آیا جس میں عزم ظاہر کیاگیا کہ وہ حالات کو گھمبیر نہیں بننے دے گی۔آنے والے دنوں نے اس فوجی بیان کی معنویت کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔

٭فوجی جرنیلوں کے عزائم

اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے دوران فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے واضح طور پر محسوس ہوا کہ وہ مصری صدر کے خلاف اس احتجاج پر خاصے خوش اور پرجوش ہیں۔ پھرایک روز مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے تمام سیاسی قوتوں کو کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے 48گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور کہا کہ اگر وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے تو پھر انھیں مستقبل کے لیے فوج کے نقشہ راہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس میں ہر کوئی شامل نہیں ہوگا۔ جنرل السیسی نے صدر مرسی کے خلاف ریلیوں کو عوام کی رائے کا ایک بے مثال مظاہرہ قرار دیا۔ جب اپوزیشن کے مظاہرین سڑکوں پر تھے، فوجی ہیلی کاپٹران کے اوپر پروازیں کرتے اور مظاہرین پرمصری پرچم نچھاور کرتے رہے۔

اس موقع پر ڈاکٹرمرسی فوجی عزائم کے سامنے ایک مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ انھوں نے فوج کی طرف سے کسی قسم کے الٹی میٹم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ ’’وہ قانونی طور پر ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور کسی بھی دباؤ کے نتیجے میں مستعفی نہیں ہوں گے اور وہ حکومت مخالف مظاہروں کے باوجود اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کا دفاع کریں گے۔‘‘

٭امریکا اور اسرائیل کا ردعمل

مصرکے سیاسی بحران پر امریکہ کی طرف سے سامنے آنے والا ردعمل بھی خاصا معنی خیز ہے۔ امریکی حکام واضح طورپر اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہے تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے صدر مرسی پر زور دیاکہ وہ اپنے خلاف مظاہرے کرنے والوں کے تحفظات کا خیال رکھیں۔اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی مصری صدرکو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے مطالبات تسلیم کریں۔ اسرائیل نے بھی ان مظاہروں کے بعد سکھ کا سانس لیا، وہ خطے میں ’سٹیٹس کو‘ کا حامی تھا، تاہم عرب بہار نے اسے خاصا پریشان کردیا تھا۔ عرب انقلابات کے نتیجے میں خطے میں اسرائیل کی اجارہ داری مکمل طورپر ختم ہوکے رہ گئی تھی۔ اس کے لئے حسنی مبارک جیسے حکمران ہی مفید تھے جو اپنے اقتدار کے نشے میں ہی مست رہتے تھے۔

٭جرنیل مافیا نے اقتدار پھر سنبھال لیا

تین جولائی 2013ء کو مصر ایک بار پھر اسی فوج کے جرنیلوں کے ہاتھ میں واپس چلا گیا، نئے مقتدر جرنیلوں نے حسنی مبارک ہی کے متعین کردہ ایک جج عدلی منصور( سپریم کورٹ) کوملک کا عبوری صدر بنایا، یہ انہی ججز میں شامل تھا جنھوں نے حسنی مبارک کے ساتھی احمد شفیق کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی حالانکہ حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہونے کے بعد مقتدر فوجی کونسل نے جو قانون نافذ کیا تھا، اس میں بھرپور عوامی دباؤ کے نتیجے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ حسنی مبارک کے کسی بھی ساتھی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہوگی۔

٭فوجی انقلاب کیخلاف صدرمرسی کی جماعت کا ردعمل

جرنیل مافیا کی مداخلت پرحکمران جماعت اخوان المسلمون نے سخت مزاحمت کا اعلان کیااورکہاکہ وہ منتخب رہنما کے خلاف فوجی بغاوت کی صورت میں ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوں گے اور شہادت کو ترجیح دیں گے۔ نتیجتاً انھوں نے قاہرہ کے الرابعہ سکوائر میں بڑے پیمانے پر دھرنا دیا۔اس موقع پر اخوان المسلمون کے مرشدعام (سربراہ) ڈاکٹرمحمد بدیع نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم ملک کی سب سے بڑی سیکورٹی طاقت ہو لیکن تم نے یہ طاقت اخوان المسلمون کے نہتے لوگوں پر آزمائی ہے۔ تمہارا کام سرحدوں پر ملک کی حفاطت کرنا ہے اور ہمارا کام یہ کہ ملک کو ایک منتخب قیادت دیں۔ آپ واپس لوٹ جاؤ اور ہمارے منتخب صدر کو صدارت واپس لوٹا دو، تم ہمیں ٹینکوں سے ڈراتے ہو ، تو سن لو یہ ناممکن ہے۔ہم تہماری گولیوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقتور ہیں‘‘۔

اخوان المسلمون نے اپنے مذکورہ بالا عزائم کو سچ ثابت کردیا۔ اس کے 2600 سے زائد ارکان فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے ، ان میں سے بہت سی خواتین اور بچے بھی تھے ۔

٭اور پھرمرسی کے مخالفین پچھتانے پر مجبورہوگئے

صدرمرسی کے خلاف مظاہروں میں شریک افراد کو بعدازاں شدیدپشیمانی کا احساس ہونے لگا کہ ان کی وجہ سے حسنی مبارک کے ساتھیوں کا دور واپس آگیا اور ایک بار پھر آمریت قائم ہوگئی ۔ڈاکٹر مرسی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے والی تمرد (باغی) تحریک جنرل السیسی کی مقررکردہ عبوری حکومت کے ابتدائی دنوں میں احتجاج پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے عبوری صدر عبدلی منصور کے اعلان کردہ آَئینی اعلامیے کو’’آمرانہ‘‘ قرار دے کر مسترد کیا۔ اور کہا کہ’’ہم فوج کے مقرر کردہ عبوری صدر کے حوالے ہوجائیں گے‘‘۔ دوسری طرف جامع الازہر کے علما بھی صدرمرسی کے خلاف اقدامات پر تقسیم ہوگئے۔

شیخ الازہر کے مشیر ڈاکٹر حسن الشافعی کا بیان بھی سامنے آیا کہ ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف روز اول سے ہی سازشیں تیار کی جا رہی تھیں اور مارشل لاء بھی ان میں ایک تھا۔ انھوں نے ہزاروں اخوانیوں کو شہید کرنے کے واقعہ کے بعد ریکونسیلیشن(مصالحتی) کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا تھااورکہا:’’اخوان کے لوگوں کوگھر بھیجنے کا یہ طریقہ انتہائی غیر انسانی تھا۔ سب سے عجیب بات کہ ان پر دوران نماز فجر گولیاں پرسائی گئیں۔ تشدد اور دباؤ سے اسلام پسندوں کو گھر بھیجنا، اس سے بڑی بھول اور کوئی نہیں‘‘۔

انھوں نے فوجی جرنیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم فوجی صرف موقع کی تاڑ میں رہتے ہو اور صرف اقتدار کے بھوکے ہو۔ ان کاکہناتھا : ’’لوگوں میں خوف اور دباؤ کی ایسی کیفیت کم سے کم ڈاکٹر محمد مرسی کے ہوتے ہوئے نہیں تھی۔ اس وقت رائے کی آزادی تھی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ 25 جنوری کے انقلاب کے بعد دیکھا جائے تو مصر نہیں بدل سکا۔ایک بار پھر وہی تشدد پسند اور کرپٹ عناصر اقتدار پر قبضہ کر چکے ہیں اور عوام کے ووٹوں کو ذرا حیثیت نہیں دی گئی‘‘۔ ان کاکہناتھا:’’دنیا کو اب دیکھ لینا چاہیے کہ تشدد پسند اور دہشت گرد مذہب نہیں بلکہ برداشت سے دور لبرل طبقہ ہے‘‘۔

۔۔۔

صدرمرسی کے خلاف عالمی طاقتوں کارندوں کا کردار
صدرمرسی کے خلاف شروع دن سے دو کردار متحرک رہے، ایک محمد البرادعی تھے اور دوسرے عمروموسیٰ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حسنی مبارک کے بعد امریکا نے مصر کی سیاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ان دونوں شخصیات کو متحرک کیا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادعی کے بارے میںعمومی تاثر ان کے امریکی وفادار ہونے کا ہے۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی مہم میں کلیدی کردار اداکرتے رہے۔ انہی کے عہد میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے امریکی جھوٹ کاحصہ بنی، بعدازاں جب امریکی قیادت میں غیرملکی افواج نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو معلوم ہوا کہ عراق میں کہیں سے بھی ایسا کوئی ایک ہتھیار بھی برآمد نہیں ہوا۔ پھر امریکی قیادت نے بھی مان لیا کہ اس نے عراق پر جنگ مسلط کرنے کے لئے جھوٹ گھڑا تھا۔

وہ حسنی مبارک کے خلاف انقلابی تحریک کے دوران میں ملک میں اترے تھے اوراپنے آپ کو متبادل رہنما کے طورپر پیش کرنے لگے تاہم لوگوں نے انھیں انقلابی تحریک کی قیادت بھی نہیں کرنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے آنے والے دنوں میں صدارتی انتخاب میں شرکت کا ارادہ بھی ختم کردیا حالانکہ انھوں نے سب سے پہلے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیاتھا۔

عمرو موسیٰ عرب لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں۔ انھیں بھی ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرناپڑاتھا۔ انھیں مشرق وسطیٰ میں امریکی کھیل کا حصہ سمجھاجاتارہا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل بننے سے پہلے وہ بھی سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے اہم ترین ساتھی اور وزیرخارجہ رہے ہیں۔

اپنے مہروں کے پٹ جانے کے بعد امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتوں کے لئے حسنی مبارک کے بعد قائم ہونے والا سیٹ اپ قابل برداشت نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپوزیشن تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، صدرمرسی کا تختہ الٹنے والی فوج کے سرپر دست شفقت رکھا۔ ذرا! دیکھئے کہ جنرل السیسی کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ہرقدم پر کیسے مغربی امداد ملی۔

The post صدر ڈاکٹر محمد مرسی کس جرم میں مارے گئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات

$
0
0

شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ’’قراقرم ہائی وے‘‘ ، این-35 اور ’’شاہراہِ ریشم‘‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی درۂ خنجراب کی 4693 میٹر بُلندی سے ہو کر چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

شاہراہِ قراقرم بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اور اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کی تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ، یوں یہ ملکِ پاکستان کی سب سے زیادہ سڑک ہے۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے اور خنجراب، سوست، پسو، عطاآباد، کریم آباد، علی آباد، ہنزہ، نگر، گلگت، دینیور، جگلوٹ، چلاس، داسو، پٹن، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم کندہ چٹانیں، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چوٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں ہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

یوں تو اس شاہراہ پر کئی لوگ کئی بار سفر کر چکے ہیں لیکن سب کے مشاہدات میں فرق ہوتا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اُن تمام علاقوں کے منفرد اور انوکھے پہلوؤں سے روشناس کراؤں جہاں سے یہ سڑک گزرتی ہے۔ قراقرم ہائی وے کب کیسے اور کتنی قربانیوں کے بعد بنی یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ جاننے کی بات یہ ہے کہ یہ شاہراہ پہلے تھاکوٹ ضلع بٹگرام سے شروع ہوتی تھی لیکن پھر اسے ایکسٹینشن دے کر حسن ابدال تک کھینچ دیا گیا۔ اب تو اس میں ہزارہ موٹروے کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، لیکن مجھ جیسے سیاحوں کو تو تھاکوٹ پل دیکھ کر ہی قراقرم روڈ والی فیلنگ آتی ہیوں تو اللّٰہ پاک نے پاکستان کے شمال کو ہر نعمت اور خوب صورتی سے نوازا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر شاہراہِ قراقرم نہ ہوتی تو شاید یہ خوب صورتی بھی ہم میں سے بہت سوں کی نظروں سے اوجھل رہتی۔ یہ روڈ وسیلہ ثابت ہوئی ہے گلگت بلتستان کے حُسن و ثقافت کو ہم تک بہ آسانی پہنچانے کا۔ آئیں اس عجوبہ نما سڑک پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور دیکھے ان دیکھے حسن کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شاہراہِ قراقرم پنجاب میں حسن ابدال اور ہزارہ ڈویژن میں حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اور بٹل کے خوب صورت علاقوں سے گُزر کر تھاکوٹ پہنچتی ہے. تھاکوٹ ضلع بٹگرام کا آخری قصبہ ہے جس کے بعد ضلع شانگلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تھاکوٹ ہی وہ جگہ ہے جہاں شیر دریا، سندھ آپ کا ہم سفر بنتا ہے اور بنتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آپ اس سے تنگ آ جاتے ہیں۔

تھاکوٹ کے خوب صورت چینی ساختہ پل پر سے ہو کر آپ بشام سے گزرتے ہیں جو کوہستان سے پہلے اس روٹ کا آخری بڑا شہر ہے. پھر کچھ ہی دیر بعد ضلع کوہستان شروع ہو جاتا ہے۔

یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کوہستان ایک وسیع علاقہ ہے جو خشک و چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ دیر کوہستان، سوات کوہستان، اپر کوہستان، لوئر کوہستان اور چلاس کوہستان پر مشتمل ہے۔ یہ پہلو بہ پہلو چلتا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی خاصیت بنجر پن اور چٹیل پہاڑ ہیں۔

عموماً کوہستان سے ہم خیبرپختونخواہ کا ضلع مراد لیتے ہیں جو کومیلا سے شروع ہو کر سازین تک جاتا ہے اور یہاں قراقرم ہائی وے کا سفر انتہائی کٹھن، تھکا دینے والا اور لمبا ہے۔

پاکستان کی تمام وادیوں کی شاہ رگ کوئی نہ کوئی دریا ہے جو اس وادی کو نہ صرف تمدن کی روشنی بخشتا ہے بلکہ اس کی تمام معاشرتی و معاشی زندگی کا دارومدار اسی دریا پر ہوتا ہے۔ کوہستان کی وادی کی لائف لائن دریائے سندھ ہے جو گلگت بلتستان سے اس علاقے میں داخل ہوتا ہے اور پورے کوہستان میں شاہراہِ قراقرم کے ساتھ ساتھ ایک لاڈلے بچے کی طرح چلا جاتا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہراہ ریشم اور قراقرم میں فرق ہے۔ شاہراہِ ریشم وہ تمام راستے تھے جو چین سے وسط ایشیا کے ذریعے یورپ تک ریشم کی تجارت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، جب کہ شاہراہ قراقرم وہ سڑک یا راستہ ہے جو شاہراہ ریشم کے راستوں کے کچھ حصوں پر بنائی گئی ہے۔ اس کو میں آگے چل کر ذرا تفصیل سے بیان کروں گا۔

کوہستان کے پہاڑ سختی، جانفشانی، کٹھنائیوں اور محنت کی علامت ہیں۔ مانا کہ سوات و مری کے پہاڑ زیادہ جاذبِ نظر ہیں مگر دریائے سندھ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے کوہِ قراقرم کے یہ پہاڑ اپنے اندر ایک عجیب حسن رکھتے ہیں بشرطے کہ دیکھنے والی آنکھ میسر ہو۔ انہی چٹیل پہاڑوں پر سے دودھ سے سفید جھرنے اٹھکیلیاں کرتے نیچے آتے ہیں اور سندھ کے گدلے پانی میں مل کر اپنے وجود کی نفی کرتے ہیں۔

اسی طرح چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی انہی پہاڑوں سے یوں گرتی ہیں کہ جسے پتھروں کے آنسو۔ یہاں دریائے سندھ کا گدلا، میلا اور پھیکا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا ہے۔ داسو اس علاقے کا مرکزی شہر ہے جو بالکل قراقرم ہائی ویپر واقع ہے جہاں داسو ہائیڈروپاورپروجیکٹ کے علاوہ کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔

اس سے آگے ثمر نالا کے مقام پر ایک بڑا نالہ دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ یہاں کچھ چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی ہیں جہاں کام کرنے والوں کو اپنے کوہستانی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بقول ’’ہم کوہستانی مرد محنت و جفاکشی کا دوسرا نام ہیں‘‘ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پاکستان کے شمال میں اس سے زیادہ سخت علاقہ اور کوئی نہیں جہاں زندگی گزارنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ سہولیات سے عاری کوہستان گرم، بے رنگ اور چٹیل پہاڑوں، دور دور بسائی گئی آبادیوں، چھوٹے بڑے پُلوں، لوازماتِ زندگی سے عاری قصبوں اور گدلے سے دریائے سندھ پر مشتمل ہے۔

ثمر نالے کے بعد سازین آتا ہے جو گلگت بلتستان کی جانب کوہستان کی آخری بڑی آبادی ہے اور پھر تھور کے بعد گلگت بلتستان شروع ہو جاتا ہے جہاں ”ویلکم ٹو لینڈ آف ماؤنٹینز” کا بورڈ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب آپ چِلاس کوہستان میں داخل ہوچکے ہیں جو گلگت

بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے۔ یہیں ایک جگہ گزرتے ہوئے سڑک کے قریب مجھے تعمیراتی سامان رکھا نظر آ یا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہی بدنصیب دیامیر بھاشا ڈیم کی مجوزہ سائیٹ ہے جہاں گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ڈیم بننے جا رہا ہے لیکن افسوس کہ یہاں کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا بند گلگت بلتستان جبکہ اسکی جھیل پختونخواہ میں بنے گی جس پر دونوں صوبوں میں رائیلٹی کا مسئلہ حل طلب ہے۔ امید ہے کہ یہ جلدی حل ہو جائے تاکہ ہم بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

چلاس، جہاں اکثر گرمی کا راج ہوتا ہے ایک بڑا اور قدیم شہر ہے جہاں سے بہت پہلے قدیم تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے جسکی نشانی یہاں موجود ”تھلپان کی چٹانیں” ہیں۔ چلاس کے پاس اس جگہ پر مختلف چٹانوں پر کئی ہزار سال قدیم بدھا کی تصاویر اور مختلف حروف کندہ ہیں جو اس بات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں کہ بدھ مت کے عروج کے دور میں یہ کوئی مقدس مقام رہا ہو گا۔ لیکن ہماری ازلی بے حسی اور آرٹ سے نابلدی، ان چٹانوں پر کسی مردانہ کم زوری سے متاثر دل جلے نے مختلف اشتہار پینٹ کر کہ اس کی تصویروں کو چھپا دیا ہے لیکن ابھی بھی اس کو صاف کیا جا سکتا ہے۔

چِلاس کا انتظام وفاقی ادارے چلاتے ہیں، جو انتظام برائے شمالی علاقہ جات کے تحت ہوتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں گرم اور مرطوب جب کہ سردیاں خشک اور سرد ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچنے کے دو بڑے راستے ہیں۔ پہلا راستہ شاہراہ قراقرم جب کہ دوسرا وادی کاغان سے ہوتے ہوئے دربابوسر سے ہے۔ وادی چلاس کے عین وسط سے دریائے سندھ بہتا ہے اور غیرملکی افراد کو یہاں سفر کرنے اور عارضی رہائش کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔ چلاس سے آگے ایک زیرِتعمیر یونیورسٹی کی عمارت ہے جس کے لیے زمین مقامیوں نے حکومت کو تحفتاً پیش کی ہے واقعتاً گلگت بلتستان کو اب نئی یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔

چلاس کے بعد کچھ چھوٹے چھوٹے قصبے آتے ہیں جہاں سیاحوں کے لیے ہوٹل اور ریزارٹ بنائے گئے ہیں۔ پتا چلا کہ یہ ابھی کچھ سال پہلے بنے ہیں۔ یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب واقعی پاکستان ایک بڑی ٹریول ڈیسٹینیشن بنے گا، ان شاء اللہ۔

آگے چلیں تو آپ کا سامنا رائے کوٹ کے پُل سے ہو گا جہاں سے نانگا پربت کے بیس کیمپ ”فیری میڈوز” کو راستہ جاتا ہے جو ایک انتہائی خوب صورت جگہ ہے۔ یہاں سے آگے قراقرم ہائی وے کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سی روڈ یک دم نئی نویلی دلہن کی طرح سج دھج کر سامنے آ جاتی ہے۔

دور حدِ نظر سے آگے کہیں

زندگی اب بھی مسکراتی ہے

(اتباف ابرک)

کچھ آگے سفر کریں تو ایک راستہ استور کو مُڑتا ہے جو آگے راما، چِلم چوکی، بُرزیل پاس اور دیوسائی سے ہو کر اسکردو تک جاتا ہے۔ یہاں سے چلتے چلتے آپ کو نانگا پربت ویو پوائنٹ کا بورڈ نظر آئے گا جہاں سے اس ہیبت ناک پہاڑ کا سحر انگیز نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہاڑ سر کرنا بہت مشکل ہے اور اسی خواہش میں کئی کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تبھی ہم جیسے اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔

آگے چل کر جگلوٹ کے بعد اس سڑک پر میرا پسندیدہ مقام ’’جنکشن پوائنٹ‘‘ آتا ہے۔ ایسا مقام دنیا بھر میں اور کہیں نہیں تبھی تو کہتے ہیں کہ پاکستان خدا کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ گلگت شہر سے 45 کلومیٹر جنوب میں واقع اس جگہ دنیا کے تین عظیم اور ہیبت ناک پہاڑی سلسلے ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ ملتے ہیں اور انہی کی گود میں دریائے گلگت اور سندھ کا سنگم ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی جگہ تین سمتوں میں آپ تین مختلف پہاڑی سلسلوں اور دو بڑے دریاؤں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

پہاڑ، دشت، سمندر، ٹھکانے دریا کے

زمیں کو رنگ مِلے ہیں بہانے دریا کے

(ظہیر احمد)

یہ جگہ قراقرم ہائی وے کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ چار سال پہلے جب میرا یہاں سے گزر ہوا تھا تو یہاں ایک بورڈ ہوا کرتا تھا جس پر اس جگہ کی تفصیل درج تھی۔ اب جب گیا تو یہ جگہ بن رہی تھی بورڈ بھی غائب تھا اور اوپر بنا مانومنٹ بھی۔ یہاں سے کچھ آگے ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک اسکردو تک جاتی ہے جو آج کل زیرِتعمیر ہے۔

اس علاقے میں قراقرم ہائی وے کسی ایسی خوب رو دوشیزہ کی طرح لگتی ہے جو محبوب کے لیے خوب ہار سنگھار کیے بیٹھی ہو۔ سامنے برف پوش چوٹیوں کا نظارہ، مٹیالا سندھو دریا، کناروں پر چیری اور خوبانی سے بھرے شاپر تھامے ننھے منے بچے، خوب صورتی یہ نہیں تو اور کیا ہے؟

تبھی تو گلگت بلتستان کو پاکستان کے سر کا تاج کہا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ انتہائی دل کش و حسین ہے بلکہ اگر آپ پاکستان کا نقشہ دیکھیں گے تو یہ سب سے اوپر واقع ہے جیسے کسی شہنشاہ کے سر پر تاج ہو۔ لگے ہاتھوں اس علاقے کا کچھ تعارف ہو جائے۔

گلگت بلتستان کا کل رقبہ تقریباً 119985 مربع کلومیٹر ہے، اس کی آبادی تقریباً چودہ لاکھ چھیانوے ہزار سات سو ستانوے نفوس پر مشتمل ہے۔ دو ڈویژنوں گلگت، بلتستان پر مشتمل اس مجوزہ صوبے کا مرکزی مقام گلگت ہے، جب کہ ان ڈویژنز کو اسکردو، گانچھے، شِگر، خرمنگ، گلگت، غذر، ہُنزہ، نگر، دیامیر اور استور میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اردو کے علاوہ یہاں پر بلتی، شینا، بروشسکی، کشمیری، واخئی، کوہواری اور کوہستانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔

شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی۔ واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغور کا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جب کہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہیں۔

دنیا کے بلندترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش تینوں یہاں موجود ہیں۔ یہاں پر سات ہزار میٹر سے زائد بلند 50چوٹیاں واقع ہیں، اسی طرح تین بڑے گلیشیئر بھی یہیں واقع ہیں۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشیئر بلتستان کے ضلع گانچھے کے پہاڑی سلسلے قراقرم میں واقع ہے تاہم متنازع ہونے کی وجہ سے کبھی اسے بلتستان میں شمار کیا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔

مناور اور جٹیال (یہیں سے ایک روڈ گلگت شہر کو مڑتی ہے) سے ہو کر ہم دینیور پہنچتے ہیں۔ دریائے گلگت کے کنارے واقع دینیور شہر سرسبز کھیتوں اور پاپولر کے گھنے درختوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ دینیور کی سرنگ کے اوپر شاہ سلطان علی عارف کا مزار، دریائے گلگت پر دینیور کا منہدم شُدہ معلق پُل، چینی انجنیئرز کا قبرستان اور آثارِقدیمہ سے تعلق رکھے والی دینیور کی کُندہ چٹانیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ اب تک تقریباً 20 ہزار سے زائد ایسی چٹانیں اور مقامات دریافت ہوئے ہیں جو قدیم تہذیبی اہمیت کی حامل ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ اور ہربن کی جانب دس بڑی جگہیں آثارقدیمہ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت اہم ہیں۔ یہ آثار حملہ آوروں، تاجروں اور زائرین کی یادگار ہیں جنھوں نے اس قدیم تجارتی راہدری میں سفر کیا۔ 5000 اور 1000 قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں ان آثار میں کثرت سے جانوروں، تکونی انسان اور شکار کی شبیہات جن میں جانور انسانوں سے بڑے دکھائے گئے ہیں، ملتی ہیں۔ یہ آثار پتھریلی چٹانوں پر نقش ہیں جن کو پتھر کے اوزاروں سے بنایا گیا ہے۔

آئیے قراقرم کے ان عجائبات کی تفصیلی سیر کرتے ہیں۔

 ٭بِرینو کا معلق پُل:

یہ پُل گلگت بلتستان کے سب سے پرانے معلق پُلوں میں سے ایک ہے جسے 1960 میں ہُنزہ سے تعلق رکھنے والے انجنیئر احمد علی برینو مرحوم نے بنایا تھا اس مناسبت سے اسے ”برینو کا پُل” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 510 فٹ ہے۔ یہ پُل ا س جگہ سے 2 کلومیٹر دور ہے جہاں دریائے ہُنزہ، دریائے گلگت میں ضم ہوتا ہے۔ یہ پل صرف چھوٹی گاڑیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ بعد میں اس کے قریب ایک متبادل کنکریٹ کا پل بنا دیا گیا۔ 2018 میں اس کی مرمت کی گئی اور سڑک پر لکڑی کا خوب صورت جنگلہ لگا کر اسے ایک سیاحتی پوائنٹ بنا دیا گیا۔ آج کل یہ سیاحوں کی من پسند جگہ ہے جس پر صرف پیدل افراد اور موٹر سائیکلز چل سکتے ہیں۔

٭دینیور کی کُندہ چٹانیں:

شاہراہ قراقرم کے ساتھ واقع قدیم آثارِ قدیمہ میں سے ایک دینیور کی چٹانیں ہیں جو ساتویں اور آٹھویں صدی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں سب سے پہلے 1958 میں کارل جیٹمر نے دیکھا تھا جن پر مختلف جانوروں کی شکلیں اور الفاظ کُندہ تھے۔ یہ جگہ سیاحوں میں بہت زیادہ مشہور نہیں ہے۔ چند آثارِقدیمہ کی تنظیموں اور تحقیقی ماہرین کے علاوہ ان تک کوئی نہیں پہنچتا۔

٭چینی قبرستان:

مقامی طور پر ’’چائینہ یادگار‘‘ کے طور پر جانا جانے والا یہ قبرستان ان چینی انجینئرز اور مزدوروں کی آخری آرام گاہ ہے جنہوں نے 1960 اور 70 کی دہائی میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے چین کی قربانیوں کا مظہر ہے جو بالکل قراقرم روڈ کے اوپر ہے اور آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔

٭یادگارِ شہدا شاہراہِ ریشم:

قراقرم ہائی وے پر آگے چلیں تو سائیڈ پر ایک اونچے چبوترے پر پیلے رنگ کی ڈِرل مشین لگی نظر آئے گی۔ یہ گلگت بلتستان کے اُن بہادر لوگوں کی یادگار ہے جنہوں نے اس خونی سڑک کی تعمیر میں اپنی زندگیاں پیش کیں تاکہ گلگت بلتستان کی آنے والی نسلیں اس شاہراہ کی بدولت ترقی کریں اور خوشیوں کے دن دیکھ سکیں۔ اس میموریل مانومنٹ پر لکھے گئے الفاظ یہ ہیں؛

MEMORIAL 103 EB (Engineering Battalion)

In memory of their gallant men who proffered to make the Karakorams their permanent abode.

In that rich soil a richer dust conceals.

1966-1972

٭قدیم سِلک روٹ:

کُچھ آگے جا کر ایک بورڈ پر نظر پڑی لکھا ہوا تھا ’’اولڈ سِلک روڈ‘‘ اور بائیں ہاتھ پر موجود تنگ پہاڑی راستے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ یہ پہاڑی پر سے گزرتے قدیم سِلک روٹ کے بچے کھچے وہ ٹکڑے ہیں جو آج کل صرف مقامی افراد کے استعمال میں ہیں جہاں سے وہ روزانہ اپنی بھیڑ بکریاں چرانے نیچے لے کر آتے ہیں۔

اس بورڈ کے مطابق یہ چینی تاجروں کا ریشم کی تجارت کے لیے استعمال کیا جانے والا وہ قدیم راستہ ہے جسے ’’شاہراہِ ریشم‘‘ یا سِلک روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ عہدِقدیم کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرۂ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔

شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، برصغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔ شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ داں فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیوںکہ قراقرم زیادہ تر ان علاقوں سے گزرتی ہے جو سلک روٹ کا حِصہ نہیں رہے۔

مصنف ڈاکٹر برکت علی کاکڑ کے مطابق،’’ قدیم شاہراہ ریشم کے دھندلے خدوخال سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ہزاروں اونٹ اور باربرداری کے دیگر چوپائے روم سے چین تک غالباً چار ہزار میل کی مسافت طے کرتے تھے۔ اس مسافت کے دوران بعض اوقات بچوں کی ولادت ہوجاتی جو اپنی آبائی سر زمین تک پہنچتے پہنچتے سات، آٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے۔ سیاہ داڑھی کے ساتھ جانے والے واپسی پر بالوں اور داڑھی میں چاندنی لے کر آتے۔ دن کو اوسط 40 کلومیل کا فاصلہ طے کیا جاسکتا تھا، لہٰذا، ہر 40 میل بعد ایک کاروان سرائے تعمیر کیا گیا تھا جسے عرف عام میں ربط بھی کہتے تھے۔ یہاں پر تھکے ماندے مسافروں کے آرام اور استراحت کا پورا انتظام موجود ہوتا تھا۔ یہ کاروان سرائے جو بعد میں رفتہ رفتہ شہروں کی شکل اختیار کر گئے، ان میں حجام اور طبیب کی دکانیں ساتھ ساتھ ہوتیں۔ انہی سے متصل کیمیاگر یا دواساز ڈیرہ ڈالتے۔ اس کے پہلو میں کوئی کاتب، جوتا بنانے اور سلائی کرنے والا موچی ہوتا، درزی، لکڑہارا، تو ویسے بھی اس وقت کے ایسے کردار ہیں جن کا تذکرہ عام قصوں کہانیوں میں بھی مل جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں پر فال گر یا فال نکالنے والوں، مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کے ساتھ موسیقار، آرٹسٹ اور سب سے بڑھ کر داستان گو موجود تھے جو خصوصاً رات کو مسافروں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے قصے کہانیاں سناتے یا پھر نَے اور نَے کا دور چل نکلتا۔ اس قدیم شاہراہ کو اگر ہم موجودہ افغانستان اور پاکستان میں دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کریں تو اس میں یقیناً مشکل نہیں ہوگی۔‘‘

کاکڑ صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’شاہراہ ریشم پر صرف اشیائے ضرورت اور خورد و نوش کی خریدوفروخت اور نقل و حرکت نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس تاریخی شاہراہ نے افکار، نظریات، اساطیر، عقائد، ادب، آرٹ، زبانوں اور ثقافتوں کی اتصال میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس شاہراہ کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ، اس پر واقع اہم ترین قومیں اور جغرافیائی وحدتیں اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پانچ سوسال تک نظر انداز کیے گئے پاکستان اور افغانستان کے وہ حصے جو شاہراہ ریشم کے دہانے پر واقع ہیں اور جس سے یورپ اور ایشیا کے ثقافتی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی وصلت ممکن ہوئی ہے، نے آج ایک دفعہ پھر اہمیت اختیار کی ہے‘‘۔

(جاری ہے)

 

The post شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت ؛ پُھول، پودوں اور مٹی کی وجہ سے مجھے بیٹے بھی ملے ہیں ۔۔۔

$
0
0

قسط نمبر 51

آپ نے کرامت کا دریافت کیا تو فقیر نے اسے بیان کرنے کی اپنی بساط بھر کوشش کی، اب یہ دوسری بات کہ آپ کے سوالات اس سے آسودہ ہوئے اور قرار بھی پائے کہ نہیں۔ اب کچھ قارئین نے صاحب دعا کا معلوم کیا تو فقیر کیا کہے یہ تو آپ کو کسی اہل علم و فضل اور صاحب شریعت و طریقت سے معلوم کرنا چاہیے تھا ناں، یہی تو ہمارے سادہ دل لوگوں کا روگ ہے کہ وہ اصل لوگوں کو چھوڑ کر مجھ ایسے بے عقل و فہم، گم راہ اور بہروپیوں سے اپنا علاج کرانا چاہتے ہیں، مالک انہیں سمجھ دے اور ان کے روگ کو سُکھ و شانتی میں بدلنے کی راہیں آسان فرمائے۔ اب جب کہ آپ نے فقیر سے صاحب دعا کا معلوم کیا ہی ہے تو کوشش ہے کہ اس پر بات کی جائے۔

دیکھیے صاحبِ دعا تو آپ بھی ہوسکتے ہیں، نہ جانے آپ یہ کیوں سوچ بیٹھے ہیں کہ اس کے لیے کسی مخصوص لباس اور حلیے کی ضرورت ہے، اصل کو تو اس ظاہر سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔ فقیر کو تو جو بتایا گیا ہے وہ بیان کیے دیتا ہے۔ رب سے قُرب کے لیے سب سے اہم اور بنیادی شرط ہی حصول رزق حلال ہے تو بس یہ طے ہوا کہ کہ رزق حلال ہی سے اس مبارک سفر کی ابتداء ہوسکتی ہے، اور جب کوئی بندہ اپنے شکم کو رزق حلال سے آسودہ کرے تو وہ مقربِ الہی بن جاتا ہے۔ فقیر نے آپ سے عرض کیا تو تھا کہ رب تعالٰی تو کسی کی بھی دعا کو رد نہیں کرتا، کسی کی بھی، چاہے وہ منکر رب جلیل ہی کیوں نہ ہو، تو پھر آپ کی دعا کیوں کر رد کرے گا، بس مشکل یہ ہے کہ ہماری خواہش ہوتی ہے جیسے ہی دعا کی جائے وہ مجسم قبولیت بنی سامنے آن کھڑی ہو تو ایسا تو بس خواہش ہی ہوسکتا ہے ناں۔ حلال کا لقمہ اپنے شکم میں اتاریے اور پھر دعا کیجیے تو سمجھیے کہ قبول ہوئی اب ذرا صبر کو اختیار کیجیے تو آپ اپنی دعا کو ثمربار پائیں گے۔

اب میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں شاید آپ صاحب دعا کو پہچان پائیں، یہ کئی برس پہلے فقیر کے ساتھ پیش آیا تھا، تو آئیے فقیر کے سنگ۔ وہ بہت خوب صورت انسان ہے … بہت ہی خوب صورت۔ معلوم ہے آپ کو وہ اتنا خوب صورت کیوں ہے؟ بتاتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ اندر باہر سے ایک جیسا ہے۔ جیسا نظر آتا ہے ایسا ہی۔ کوئی بناوٹ نہیں، کوئی تصنع نہیں، کوئی کھوٹ نہیں … سَچّا اور سُچّا آدم۔ بہت ہی ہنس مکھ، بے باک، بے خوف، ہوا کے دوش پر قہقہے بکھیرنے والا، ہنسنے اور ہنسانے والا۔ کئی برس پہلے وہ مجھے ملا تھا۔ ہُوا یوں کہ ہمارے ایک محلے دار نے مکتب کھول لیا تھا تو سالانہ امتحانات کے نتائج کی تقریب کی تیاری شروع ہوئی، میں صرف نگرانی کررہا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا: اسکول کا مالی آئے گا، گھاس بڑھ گئی ہے، یہ پودے اور ڈم ڈم کی ٹہنیاں بس آپ دیکھتے رہیے گا، میں اسے ہر کام سمجھا چکا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ تھوڑی دیر گزری تھی، میں فرش پر بیٹھا تھا کہ مالی صاحب آگئے، غور سے دیکھا اور بولے: صاحب کہاں ہیں؟ وہ تو چلے گئے، میں نے کہا۔ اچھا تو تم کون ہو؟ ابھی میں جواب دینے لگا تھا کہ مالی صاحب بولے: صبح تو اسکول میں دوسرا چوکی دار تھا، کیا تم رات کے چوکی دار ہو چلو اچھا ہوا، تم مل گئے، میں کام بھی کروں گا اور باتیں بھی۔

اس طرح بات شروع ہوئی، خوب صورت انسان کی سادگی میں رچی بس باتیں … دل کو موہ لینے والی باتیں … اور پھر تو باتوں کا سیلاب امڈ آیا۔ درمیان میں وہ قہقہہ برساتا اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی شروع ہوجاتا۔ یار تمہارا نام کیا ہے؟ مجھ سے اس نے پوچھا۔ عبداللطیف نام ہے میرا۔ تو کہنے لگا: اچھا تو لطیف بھائی آج سے تم میرے دوست ہو، تم چوکی دار میں مالی، لیکن ایک بات بتاؤں۔ میں نے کہا ضرور بتاؤ۔ تو اس نے نصیحت کی کہ دیکھو چوکی داری کوئی ہنر نہیں ہے، بس خالی خولی بیٹھنا اور بس، مجھے دیکھو، میں مالی ہوں۔ یہ معمولی ہنر نہیں ہے، سمجھے! یہ کام میں نے ایسے ہی نہیں سیکھ لیا، جان مارنا پڑتی ہے اس میں، تم تو بس بیٹھے رہتے ہو، میرا کہا مانو چھوڑو چوکی داری کو، مجھ سے یہ ہنر سیکھ لو، بہت فائدے میں رہوگے، میں تمہیں جلد ہی سب کچھ سکھا دوں گا، اچھی طرح سوچ لو، اب بھی موقع ہے اور تم یہ بتاؤ یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے اپنا، تمہارے پاس بال کٹوانے کے پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لو، میں نے تمہیں دوست کہا ہے۔

دوستوں سے کیا پردہ، صبح میرے ساتھ چلنا، ایک نائی میرے گاؤں کا ہے، تمہیں بابو بنادے گا۔ لطیف بھائی یہ تو بتاؤ، تم کچھ پڑھے لکھے ہو یا چٹے ان پڑھ ! دیکھو میں مالی ہوں اور چار جماعت پاس ہوں، اب میری تمہاری دوستی ہوگئی ہے، تم بالکل فکر نہ کرو، سمجھے! چلو چائے منگا کر پیتے ہیں۔ پھر ہم چائے پینے لگے تو کہنے لگا: یار لطیف تُو ایک بات تو بتا، تُو اتنا اداس اداس کیوں ہے؟ کچھ بولتا ہی نہیں، بس میں ہی بولتا جارہا ہوں، یار تُو بھی تو کچھ بول ناں۔ اچھا کیا بولوں؟ میں نے پوچھا۔ جو چاہے بول شرم نہ کر، دوستوں سے کیا پردہ، بول دے آج سب کچھ اعتبار کر مجھ پر یار، کیوں نہیں بولتا تو فکر نہ کر، اب رمضان مالی تیرا دوست ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لطیف یار! تو یہ بتا تُو ساری رات کیا کرتا رہتا ہے اور اسکول میں ہے ہی کیا جو کوئی چوری کرنے آئے گا! بہت کچھ ہے اسکول میں کمپیوٹر ہیں اور … میں نے اسے بتایا۔ تو کہنے لگا: بس، بس کمپیوٹر کو کسی نے کیا کرنا ہے اور سلیٹی کون چوری کرے گا پاگلا! بس خواہ مخواہ کی چوکی داری تُو ساری رات پڑا سوتا رہتا ہوگا، اسی سے تیری عادت خراب ہوگئی ہے، چل اب فیصلہ کرلے چوکی داری نہیں کرنی، ہنر سیکھنا ہے، اچھا تُو یہ بتا تیرے پاس سائیکل ہے؟ نہیں تو، سائیکل تو نہیں ہے میرے پاس، میں نے اسے بتایا۔

چل تیرا کام بن گیا، میرے پاس ایک پُرانی سائیکل ہے اس کا پچھلا پہیا خراب ہے، اسے ٹھیک کرا دیتا ہوں پھر دونوں بھائی روٹی روزی کی تلاش میں نکلیں گے، ٹھیک ہے ناں! پھر وہ اپنا کام کرنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کتنا اچھا ہے رمضان مالی، کتنا خوب صورت ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے تو اس سے دوستی ہوئی ہے اور وہ اپنا سب کچھ مجھے دینے پر تیار ہوگیا ہے، صرف چار جماعت پاس رمضان مالی اور ہم … میں بہت دُور نکل گیا تھا کہ اس کی آواز آئی: اور لطیف بھائی، تُو بہت نکمّا آدمی ہے، یار تین آوازیں دے چکا ہوں، تُو سنتا ہی نہیں ہے، تُو بہت بے وقوف بندہ ہے۔ او جَھلیا! سوچنے سے کیا ہوتا ہے؟ کرنے سے ہوتا ہے، مجھے دیکھ صبح سویرے نکلتا ہوں اﷲ جی کو یاد کرکے، سائیکل پر بیٹھ کر بڑے بڑے صاحب لوگوں کے گھر جاتا ہوں، پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں، اﷲ جی نے کرم کیا ہے بہت، وہاں چائے بسکٹ بھی ملتا ہے، دس بیس پچاس روپے بھی جیب میں آجاتے ہیں۔

پودوں میں زندگی گزرگئی میری۔ میں نے پوچھا: یار تُو یہ کام کتنے عرصے سے کررہا ہے؟ او پاگلا! بچپن سے یہ کام کررہا ہوں۔ اس نے بتایا تو میں نے دریافت کیا: رمضان تُو ابھی تک تنگ نہیں پڑا اس کام سے؟ تو بتانے لگا: او بے وقوفا، جھلیا، تو واقعی فقیر بندہ لگتا ہے، کیوں تنگ ہوجاؤں! سچی بات بتاؤں لطیف بھائی، یار مجھے عشق ہوگیا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور راز دارانہ انداز میں پوچھا، کس سے؟ اس کا جان دار قہقہہ گونجا اور کہنے لگا: اوئے پودوں سے، پُھولوں سے، اس مٹی سے اور کس سے۔ اور ایک بات بتاؤں، ان پُھولوں، پودوں اور مٹی کی وجہ سے مجھے بیٹے بھی ملے ہیں۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا: بیٹے! تب اس نے مجھے بتایا تھا: ہاں بیٹے، تُو کیوں حیران ہورہا ہے۔ میں بتاتا ہوں، دیکھ میری شادی کو سات سال ہوگئے تھے۔ دو بیٹیاں ہوئیں، بیٹا نہیں ہوا، تو عزیزوں نے، دوستوں نے، بیلیوں نے بہت طعنے مارے کہ تیرا بیٹا نہیں ہوگا اس بیوی سے۔ چھوڑ دے اس بیوی کو، دوسری شادی کرلے۔

میں نے بہت سوچا، بہت سوچا، پاگل ہوگیا میں سوچ سوچ کر، پھر میں نے سوچا اس میں بیوی کا کیا قصور اگر بیٹا نہیں ہورہا تو! میری بیوی بھی بہت پریشان تھی تو میں نے اس سے بھی کہا کہ پریشان ہونا چھوڑ دے اس میں تیرا کیا دوش کہ بیٹا نہیں ہورہا تو، لیکن اس کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی تو پھر ایک دن تو مجھے بہت غصہ آیا۔ طرح طرح کی باتیں سُن سُن کر میں بہت پریشان تھا۔ آخر میں نے کہا، آج کچھ بھی ہوجائے، اس مسئلے کو، اس کِل کِل کو ختم کرکے رہوں گا۔ وہ یہ بتا کر خاموش ہوگیا تو میں نے بے چینی سے پوچھا: کیا، کیا تم نے پھر رمضان۔ میں ہمہ تن گوش تھا تو بتانے لگا: او پاگلا، زیادہ اوکھا نہ ہو، سُن میں نے کیا کرنا تھا، غریب کا ایک ہی آسرا ہے، اﷲ جی اور کیا۔ وہ پھر خاموش ہوگیا تو میں نے دریافت کیا: کیا کہا تم نے اﷲ جی سے؟ وہ پھر سے رواں ہوا: میں نے کیا کہنا تھا، میں نہایا کپڑے پہنے اور ایک جگہ میں نے بہت سے پودے لگائے تھے وہاں جا پہنچا۔

میں نے وہاں جاکر نماز پڑھی اور اﷲ جی سے کہا: اﷲ جی! تُو تو سب دیکھ رہا ہے، تُو تو سب کچھ کرسکتا ہے ناں۔ میں ایک عاجز بندہ ہوں، دیکھ میں نے کتنے پودے لگائے ہیں۔ ہرے بھرے پودے، یہ دیکھ کتنا اچھا پودا ہے، اس پُھول کو دیکھ کتنا سوہنا ہے، سب توں سوہنے اﷲ جی! جب میں عاجز یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، تو تُو مجھے ایک بیٹا کیوں نہیں دے سکتا۔ مجھے بھی ایک بیٹا دے۔ مجھے بھی ہرا بھرا کردے، تُو میرا اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتا تُو تو سب کرسکتا ہے ناں۔ تو پھر کردے یہ کام بھی، دیکھ تُونے یہ کام نہ کیا تو مجھے غصہ آئے گا، بہت غصہ، غصے میں تو ہر کام خراب ہوجاتا ہے ناں، غصے میں تو سب کچھ خراب ہوجاتا ہے، تُونے ہی تو منع کیا ہے غصہ نہ کرو۔ اب اگر تُو چاہتا ہے کہ میں غصہ نہ کروں تو مجھے بھی بیٹا دے اور جلدی دے۔ پھر دیکھ میری بیوی بھی تو تیری مخلوق ہے اسے بھی نہ جانے کیا کچھ سننا پڑتا ہے تُو دیکھ تو رہا ہے ناں، ہمارا کیا قصور ہے اس میں، سن لے ہماری بھی۔ پھر میں بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ اچھا اب میں جاؤں اﷲ جی، کیا تُونے میری دعا سن لی ہے؟ اگر سن لی ہے تو کوئی اشارہ دے۔ پھر میں مطمٔن ہوگیا کہ ہاں اﷲ جی نے میری دعا سُن لی ہے۔ میں نے گھر آکر اپنی بیوی سے کہا: او بھلی لوکے غم نہ کر، اﷲ جی نے ہماری سن لی ہے۔ میری بیوی نے حیران ہوکر پوچھا: کیا کہہ رہا ہے تُو رمضان، اﷲ جی نے کیا سن لیا۔ تو میں نے اسے پورے یقین سے بتایا: اوئے یہی کہ وہ ہمیں بیٹا دے گا، اچھا اب تُو غم فکر نہ کر، اپنا کام کر، میں بھی کام پر جارہا ہوں۔

پھر اچانک اس نے مجھ سے پوچھا: یار لطیف تو ڈرائیوری جانتا ہے؟ ہاں کیوں نہیں، میرے پاس تو لائسنس بھی ہے، میں نے کہا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور مجھے کوسنے لگا: بہت ہی بے وقوف ہے تُو۔ یار تُو بڑا ہی نکما ہے۔ لائسنس تیرے پاس ہے اور کررہا ہے چوکی داری! لیکن تو اب سُن لے اب تو چوکی داری نہیں کرے گا، سمجھا، بالکل بھی نہیں کرے گا۔ بس تُو اب مالی بھی نہیں بنے گا۔ میرا کام آسان ہوگیا، تُو ابھی اور اسی وقت اپنے لائسنس کی نقل میرے کو دے اور کل سے کام پر چڑھ جا۔ وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا اور بس اپنی کہے جارہا تھا: اور میں تیری کوئی گل بھی سننے کو تیار نہیں ہوں، اب جو میں کہوں گا تُو وہ کرے گا، تُو یہ بتا پیجارو چلالے گا؟ پیجارو کیا میں تو بس بھی چلالوں گا، میں نے اسے بتایا تو وہ میرے سر ہوگیا: اوئے ہوئے، بالکل بے کار بندہ ہے تُو۔ ابھی نقل لا کل ہی کام شروع۔ میں آج صبح ایک بنگلے پر کام کے لیے گیا تھا، تو دو میڈمیں باتیں کررہی تھیں۔

پیجارو کے لیے ڈرائیور چاہیے۔ پس میں یہ کام ختم کرکے ابھی جاتا ہوں۔ سمجھ لے تیرا کام ہوگیا، آٹھ ہزار سے کیا کم تن خواہ ہوگی۔ پھر کھانا پینا، سیر سپاٹا مفت میں، مزے ہی مزے۔ مجھے تجسس نے پُوری طرح گھیر لیا تھا تو میں نے کہا: اچھا لائسنس کی نقل تو میں تجھے دے دوں گا، یہ بتا پھر بیٹے کا کیا بنا؟ تب وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: تو لطیف بھائی، بننا کیا سی، بیٹا ہوگیا اور کیا، سب کے منہ بند ہوگئے، دیکھ یہ بندے کا وعدہ تھوڑی ہے جو ٹرخادے، یہ اﷲ جی کا وعدہ ہے، اﷲ جی نے کہا ہے، مانگ بندے مانگ، جی بھر کے مانگ ، میرے خزانے میں کیا کمی ہے، تُو تو ایک بیٹا مانگ رہا ہے ، میں دو دوں گا۔ تو کیا تمہارے دو بیٹے ہیں، میں نے پوچھا۔ اور کیا ، دو بیٹے ہیں، اوئے اپنی تو گڈی چڑھ گئی، ویریوں کے منہ پر خاک پڑگئی۔

وہ اپنے رب سے تعلق کو بیان کرتے ہوئے ہنستا ہے، مُسکراتا ہے، بڑا مان ہے اسے اپنے تعلق پر، کتنا اچھا لگتا ہے وہ اﷲ جی کہتا ہوا، اپنی گُفت گُو میں وہ بار بار یہ کہتا ہے: سوہنے اﷲ جی نے میری سُن لی، میرا سوہنا اﷲ جی، میرا پیارا اﷲ جی۔ میں نے اسے کبھی رنجیدہ نہیں دیکھا، رنجیدہ ہو بھی کیوں؟ وہ اپنے رب کی رضا میں راضی ہے۔ ایک دن اپنی ترنگ میں تھا، کہنے لگا: لطیف بھائی! ایک دن مجھے ڈیڑھ سو روپے زیادہ مل گئے تو میں نے اﷲ جی سے کہا: واہ میرے مالکا، آج تو تُونے خوش کردیا، اوئے ڈیڑھ سو روپے زیادہ، واہ واہ میرے مولا خوش کردِتّا۔ نہ جانے اس طرح کی کتنی ہی باتیں اور ہر بات میں شُکر ہے مالکا، تیرا بڑا ہی شُکر ہے۔ اسے جب بھی کسی شے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسی وقت کہتا ہے۔ اﷲ جی یہ تو تُو کرے گا میرا کام۔ وہ اکثر کہتا ہے: میرے سوہنے اﷲ جی نے کبھی میری بات نہیں ٹالی، کبھی بھی نہیں، بس دیر سویر ہوجاتی ہے وہ تو ہونی بھی چاہیے۔

کیا بات ہے رمضان مالی کی، کبھی ہم بھی سوچتے ہیں، کتنی آسائشیں ملی ہوئی ہیں ہمیں، کیا ہمارا اﷲ جی سے ایسا تعلق ہے جیسا رمضان مالی کا ؟ تھوڑی سی تکلیف آتی ہے اور ہماری سانس پھول جاتی ہے، ہائے مرگئے، برباد ہوگئے، تباہ ہوگئے، ہم ہی ملے تھے کیا اسے۔ ہم روز یہ سنتے ہیں۔ رمضان مالی تو کہتا ہے اﷲ جی اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا، کتنے ہی بوجھ اٹھا کر ہم گھوم رہے ہیں، اتار کیوں نہیں دیتے اس بوجھ کو، کہہ کیوں نہیں دیتے اﷲ جی کو۔ دل کھول کے کیوں نہیں رکھ دیتے اس کے آگے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے (میرے منہ میں خاک) ہمیں اﷲ جی پر اعتبار نہیں رہا؟ چلیے آج ہم کچھ لمحات ضرور نکالیں گے کہ ہمارا اﷲ جی کا رابطہ کیسے بحال ہو۔ کیسے، سوچیے گا پھر فقیر کو بھی بتائیے گا۔ لیکن ذرا سا ٹھہریے! بس ذرا سا دم لیجیے۔ کیا ہمیں رونا آتا ہے، اﷲ جی کے سامنے رونا؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں معلوم مجھے تو بہت سارے سوالات کے جوابات نہیں آتے۔ دیکھیے مجھے بابا واصف علی واصف یاد آرہے ہیں، کہہ رہے تھے: ’’آنسو کیا ہے؟ بس موتی ہیں، چمکنے والے بہنے والے، گرم آنسو انسان کی فریاد ہیں۔ پرانی یادوں کے ترجمان ہیں۔ یہ آنسو انمول خزانہ ہیں، معصوم و پاکیزہ مستور دوشیزہ کے حُسن سے زیادہ حسین اور یہ خزانہ کم زور کی قوت ہے، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والا آب حیات کا سرچشمہ، سعادتوں کا سرچشمہ ، آرزوؤں کے صحرا میں نخلستانوں کا مژدہ، آنسو تنہائی کا ساتھی، دعاؤں کی قبولیت کی نوید، انسان کے پاس ایسی متاع بے بہا ہے جو اسے دیدہ وری کی منزل عطا کرتی ہے، یہ موتی بڑے انمول ہیں، یہ خزانہ بڑا گراں مایہ ہے، یہ تحفہ فطرت کا نادر عطیہ ہے، تقرب الٰہی کے راستوں پر چراغاں کرنے والے موتی انسان کے آنسو ہیں۔‘‘

کیا آپ اب بھی فقیر سے دریافت کریں گے کہ صاحبِ دعا کسے کہتے ہیں!

The post جہاں گشت ؛ پُھول، پودوں اور مٹی کی وجہ سے مجھے بیٹے بھی ملے ہیں ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارا نیلسن منڈیلا

$
0
0

وہ چینی کہاوت تو آپ نے سُنی ہوگی کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، اب اگر تصویر زرداری سب پر بھاری کی ہو تو اُس کے وزن کا اندازہ لگالیجیے۔

ہم جس تصویر کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ حال ہی میں مختلف شہروں کی سڑکوں پر نمودار ہوئی ہے، مگر چینی کہاوت کے برعکس اس تصویر کے نیچے تحریر الفاظ تصویر سے کہیں زیادہ بھاری ہیں، یہ صرف تین لفظ ہیں ’’پاکستان کا نیلسن منڈیلا۔‘‘ زرداری صاحب کے اس نئے تعارف نے ہمیں ان کا مزید گرویدہ کردیا۔ ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارا اپنا نیسلن منڈیلا ہمارے درمیان منڈلا رہا ہے۔

زرداری صاحب کے نیلسن منڈیلا ہوجانے پر وہ لوگ حیران ہیں جو ان کے ارتقاء سے واقف نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ڈارون کے نظریے والا ارتقا نہیں تھا۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے  آصف علی زرداری کو ملنے والا پہلا خطاب ’’مسٹرٹین پرسینٹ‘‘ تھا، ہماری انگریزی بہت کم زور صحیح لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ اس خطاب کے ذریعے انھیں ’’سینٹ‘‘ (Saint) قرار دیا گیا تھا، ان کی روحانیت کی تصدیق ان کرشموں سے ہوتی ہے کہ وہ آصف زرداری ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو کے شوہر بھی بن گئے اور ملک کے صدر بھی۔

اللہ اللہ کیا کرامت ہے، ہاتھ پھیلا کر دعا مانگی ’’پاکستان کَھپّے‘‘ اور کچھ عرصے بعد وہ صدر تھے اور پورا پاکستان ان کے ہاتھ میں تھا، اتنے بابرکت ہاتھ کون نہیں دیکھنا چاہتا، سو انھوں نے صدرمملکت بننے کے بعد خوب ہاتھ دکھائے۔ ان کی کرامتوں کا ایسا چرچا ہوا کہ لوگ انھیں مخاطب کرکے کہنے لگے،’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘، شاعری نہ سمجھنے اور زرداری کو سمجھنے والوں کو ہم سمجھادیں کہ ایسا ان کی کرامتیں دیکھ کر کہا جاتا تھا اس کا کسی قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض لوگ تو زرداری صاحب کے لیے اس شعر کا پہلا مصرعہ بھی پڑھتے ہیں ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘‘ یہ ان کی صفائی پسندی اور نفاست کو خراج تحسین ہے، کیا اپنے کیا غیر ان کی صفائی کم ازکم ہاتھ کی صفائی کے سب ہی معترف ہیں۔

انھیں اگلا مرتبہ ’’مردِحُر‘‘ کے خطاب کی صورت میں مجید نظامی صاحب کی طرف سے ملا، جس کا سبب پرویزمشرف کے دور میں ان کی طویل قید تھی۔ اُن کے اس مقام کو سب نے قبول کیا، نہ مَردوں نے اعتراض کیا نہ پیرپگارا کے مُرید حُر معترض ہوئے۔ اسیری سے نجات پاکر اور اس کے بعد مشکل وقت آنے پر وہ جس طرح بیرون ملک گئے اور وہاں طویل سکونت اختیار کی اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نظامی صاحب نے مستقبل بینی کرتے ہوئے اُنھیں ’’مردِ پُھر‘‘ قرار دیا ہوگا جو ’’سنور کر‘‘ مردِحُر ہوگیا۔

زرداری صاحب کی کرامتوں کے سب قائل ہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ کسرنفسی سے کام لیا، یہاں ان لوگوں کو جن کی اردو ہمارے کردار سے بھی زیادہ کم زور ہے بتادیں کہ کسرنفسی کسی ماڈل کا نام نہیں، آسان زبان میں اس کا مطلب ہے عاجزی، مزید وضاحت کے لیے ہم اس لفظ کو جملے میں بھی استعمال کیے دیتے ہیں ’’وہ نیب سے اتنا عاجز آیا کہ اس نے عاجزی سے کہا۔۔۔حساب کتاب چھوڑو آگے بڑھو۔‘‘ تو کسرنفسی کے باعث زرداری صاحب نے کبھی اپنی روحانیت کا ذکر نہیں کیا، اپنی روحانیت کو بھی دولت کی طرح چُھپائے رکھا، مگر ایک دن کہہ بیٹھے ’’اگرچہ میرا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں لیکن مجھ میں بھٹو کی روح داخل ہوگئی ہے۔‘‘ ان کے اس انکشاف نے بھٹو کے زندہ ہونے کا مسئلہ تو حل کردیا مگر یہ سوال پیدا ہوگیا کہ بھٹو نے ’’چُن لیا میں نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا‘‘ کہتے ہوئے اپنے قیام کے لیے زرداری صاحب کے جسم ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ ہمارے خیال میں بھٹو کی روح نے سوچا ہوگا کہ داخلے کے لیے کسی ایسے جسم کا انتخاب کیا جائے جو مقدمات اور جیلوں سے زندہ بچ نکلتا ہے۔

کچھ حلقوں کی جانب سے اس شبہے کا اظہار بھی کیا گیا کہ آصف زرداری کو ’’غلطی لگی‘‘ ہے جو روح ان میں حلول کرگئی ہے وہ بھٹو کی نہیں ضیاء الحق کی ہے، اس شبہے کو پیپلزپارٹی کی حالت سے تقویت ملتی ہے، مگر ہمیں زرداری صاحب ہی کی بات پر یقین ہے، صاف لگتا ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان والی تقریر کے وقت ان میں بھٹو کی روح موجود تھی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں تو ایک جسم میں دو روحیں کیسے قیام پذیر ہوئیں؟

ممکن ہے روح خود نہ داخل ہوئی ہو بلکہ کراچی کے کسی بس کنڈیکٹر نے یہ فریضہ انجام دیا ہو۔ جو بھی ہو، کُل ملا کے بات اتنی ہے کہ اس دعوے کے ساتھ ہی زرداری صاحب کے درجات بلند ہوئے اور وہ ’’مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ سے ترقی پاکر بھٹو ہوگئے۔ اس حقیقت کو ماننے میں تعجب نہیں کرنا چاہیے، بھئی جو شخص اپنے زرداری بچوں کو پلک جھپکنے میں بھٹو کردے وہ برسوں کی تپسیا کے بعد خود بھٹو نہیں ہوسکتا؟

ہوتے ہوتے آخر آج زرداری صاحب نیلسن منڈیلا ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان کے مقامی نیلسن منڈیلا ہونے پر کوئی شک نہیں، دونوں میں ہر طرح مماثلت پائی جاتی ہے، نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ پر گوروں کے تسلط کے خلاف تحریک چلانے کی وجہ سے زندگی کا طویل حصہ جیل میں گزارہ تو ہمارے نیلسن منڈیلا نے بھی برسوں جیل کاٹی، انھیں بھی اپنے وطن کی سرزمین اور قوم کی دولت پر کسی کا اور تسلط پسند نہیں تھا، وہ اراضیاں اور مال دوسروں کے قبضے سے چھڑواکر اپنی پناہ میں لینے میں مصروف رہے، اسی پاداش میں اسیری جھیلی۔

افریقی منڈیلا نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ظلم ڈھانے والے گورے حکم رانوں کو معاف کردیا تھا، پاکستانی منڈیلا نے بھی صدر بننے کے بعد اپنی اہلیہ کے قاتلوں سے درگزر سے کام لیے، اُس نیلسن منڈیلا نے ہر ستم توڑنے والے گورے حکم راں کو شریک اقتدار کرلیا تھا، ہمارا نیلسن منڈیلا کیوں پیچھے رہتا، اس نے جسے قاتل لیگ کہا تھا اس جماعت کو گلے سے لگا کر نائب وزارت عظمیٰ کا عہدہ دے دیا۔ اور بھیا اس سے بڑھ کر مماثلت اور مشابہت کیا ہوگی کہ ایک نے سیاہ فاموں کے لیے جدوجہد کی دوسرے نے سیاہ کاموں کے لیے۔

اللہ آصف زرداری صاحب کو زندگی دے، ابھی ان کی درجات کی بلندی کا سفر باقی ہے، امید ہے کہ اگلے درجے میں انھیں ’’مدرٹریسا‘‘ کا مقام عطا ہوجائے گا۔

The post ہمارا نیلسن منڈیلا appeared first on ایکسپریس اردو.

شاہراہِ قراقرم کے عجائبات

$
0
0

دوسری قسط

یہ تو تھی شاہراہِ ریشم کی کہانی، قراقرم پر ہم اپنا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ دینیور سے کچھ آگے گلگت بلتستان کا ضلع نگر شروع ہو جاتا ہے جہاں وادیٔ نگر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ زمین کے تخت پر براجمان ہے۔ نگراصل میں ایک بہت بڑی وادی ہے جس میں چِلت، بار، نِلت، جعفرآباد، تھول، مسوت اور گلمت کی چھوٹی چھوٹی وادیاں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ تو قراقرم ہائی وے پر ہیں اور باقی اس سے ذرا ہٹ کر واقع ہیں۔ یہاں پر بھی کئی تاریخی و ثقافتی جگہیں دیکھنے کے قابل ہیں چلیں ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہوں۔

٭زمینی پرتوں کے ٹکراؤ کی جگہ؛

سِلک روٹ کے ٹکڑوں سے آگے چلت وادی کے قریب ہی بین البراعظمی پلیٹس کے ٹکراؤ کی جگہ ہے۔ یہ گلگت سے شمال میں 53 کلومیٹر کے فاصلے پر قراقرم ہائی وے پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی 5 کروڑ سال پہلے اس جگہ انڈین اور یورشین پلیٹس آپس میں ٹکرائی تھیں جس کے نتیجے میں سطحِ مُرتفع تبت اور کوہِ ہمالیہ کا سلسلہ وجود میں آیا۔ اسی طرح زمین کی پرتوں پر شدید دباؤ کے نتیجے میں قراقرم کے پہاڑوں نے سر اُٹھایا۔ یہ جگہ بھی سیاحوں کی من پسند جگہ ہے۔

٭راکاپوشی ویو پوائنٹ؛

آگے چل کر یہاں کا سب سے سحرانگیز مقام غُلمِت میں واقع ’’راکاپوشی ویو پوائنٹ ‘‘ہے جہاں سے آپ کئی زندگیاں نگلنے والے اس قاتل پہاڑ کا وحشی نظارہ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ راکاپوشی کا قریب ترین نظارہ ہے۔ یہ جگہ وسطی قراقرم نیشنل پارک میں شامل ہے جو خطرے سے دوچار مارکوپولو شیپ، برفانی تیندوے، بھورے ریچھ اور دیگر کچھ جانوروں کا مسکن ہے۔ اس ویو پوائنٹ پر کھڑے ہو کر آپ 1950 میٹر کی بلندی پر زمین کی سب سے اونچی سالِم ڈھلوان کو دیکھ سکتے ہیں۔ راکاپوشی دنیا کا اکلوتا ایسا پہاڑ ہے جو زمین کی سطح سے سیدھا کئی کلومیٹر تک بلند پے۔ سمٹ سے لیکر بیس کیمپ تک اسکی متواتر بلندی 6000 میٹر ہے جو اسکو ہم جیسوں کے لیے ہیبت ناک اور مہم جوؤں کے لیے دل کش بنانے کے لیے کافی ہے۔

آج سے بائیس تئیس سال پہلے یہاں راکاپوشی ویو پوائنٹ کے بورڈ کے سوا کچھ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ یہ جگہ ترقی کرتی رہی اور ایک بہت بڑے بازار کے روپ میں یہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سیاحوں کا خوب رش ریتا ہے۔ تازہ خوبانی اور مزے دار کالی چیری یہاں وافر موجود ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی خاص ڈِش ”چاپشورو/شارپشورو” بھی یہاں تازہ بنائی جاری ہے جسے اکثر لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا لوکل پیزا ہے جس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ خشک خوبانی، اشکین اور دیگر جڑی بوٹیاں بھی یہاں سے آپ کو سستی مل جائیں گی۔ نوادرات، دست کاریوں اور مقامی مصنوعات کا بھی ایک بڑا سٹور یہاں موجود ہے جو میرے خیال میں مناسب قیمتوں پر سامان مہیا کر رہا ہے۔ غرض یہ جگہ اچھی اور سستی شاپنگ کے لیے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔

٭علی آباد؛

غُلمِت سے آگے ’’آباد‘‘ لاحقوں والے علاقے شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناصر آباد، مرتضیٰ آباد، حسن آباد، علی آباد وغیرہ شامل ہیں۔

علی آباد گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کا تجارتی علاقہ ہے۔ دریائے ہنزہ کے کنارے آباد یہ شہر ضلع ہنزہ۔ نگر کا صدر مقام ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی فاریسٹ آفیسرز سب کے دفاتر یہیں واقع ہیں۔ علی آباد کے بازار سے ذرا اوپر پہاڑ پر ایک خوب صورت گیسٹ ہاؤس ” بیگ گیسٹ ہاؤس” واقع ہے جسے گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروپ اپنے والد دیدار علی کی سربراہی میں چلا رہا ہے۔ یہ نوجوان پنجاب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیمِ یافتہ ہیں اور اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں سیاحوں کو سہولت بھی پہنچا رہے ہیں۔ ان سے بات کرنے پر آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ اپنے علاقے، اپنے گلگت بلتستان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آگے چل کر میں ان سے ہوئی گفتگو کا احوال شیئر کروں گا۔ اس جگہ آپ نہ صرف قریبی برفانی چوٹیوں کا دل کش نظارہ کر سکتے ہیں بلکہ مارخور کی کھوپڑی اور سینگ بھی دیکھ سکتے ہیں جو گیسٹ ہاؤس انتظامیہ نے زینت و آرائش کے طور پر لٹکا رکھے ہیں۔

٭گنیش؛

علی آباد کے بعد وادیٔ ہنزہ کا قدیم ترین قصبہ ’’گنیش‘‘ واقع ہے جو سِلک روڈ پر بسائی گئی سب سے پہلی اور پرانی آبادی تھی۔ یہاں بہت سی قدیم نگہبان چوکیاں (واچ ٹاور)، روایتی مسجدیں اور مذہبی سینٹر قائم تھے جن میں سے کچھ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک بڑے شکاری ٹاور کے ساتھ بنا 400 سالہ ’’علی گوہر ہاؤس‘‘ یہاں کی پہچان ہے جسے 2009 میں یونیسکوایوارڈ برائے تحفظ ثقافتی ورثہ (برائے ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک) سے نوازا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا، چین، بھارت، کوریا، ویتنام، نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کا خوب صورت ثقافتی ورثہ تھا۔ یہ قدیم گھر کاشغر کے لیے میر آف ہُنزہ کے سفیر کے زیرِاستعمال تھا، جسے بعد میں آغا خان فاؤنڈیشن نے ازسرِنو بحال کیا ہے۔

٭کوئین وکٹوریہ یادگاری ٹاور؛

مقامی زبان بروشسکی میں ’’ملکہ مو شکاری‘‘ کے نام سے جانا جانے والی یہ یادگار کریم آباد میں ایک چٹان پر واقع ایک ٹاور ہے جسے ناظم خان نے بنوایا تھا۔ بلتت گاؤن سے چڑھائی چڑھ کر مختلف ندیوں، پولو گراؤنڈ، پرانے شکاری ٹاور اور ایک تنگ سے پہاڑی درے سے گزر کر تقریباً ایک گھنٹے میں اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔

٭ایگلز نیسٹ؛

اسی نام کے ہوٹل کے ساتھ پہاڑی پر واقع یہ جگہ ہُنزہ کی مشہور ترین جگہ ہے جو سورج اُگنے اور ڈوبنے کے خوب صورت و سحرانگیز مناظر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے۔ ایک پہاڑی پر واقع ایگلز نیسٹ کے ایک جانب مشہور پہاڑ ’’لیڈی فنگر پیک‘‘ اور دوسری طرف قراقرم کے پہاڑ ہیں جنہیں سورج قطرہ قطرہ اپنی روشنی سے منور کرتا ہے تو زرد  روشنی میں نہائے یہ برف پوش پہاڑ، کسی سُنہری تاج والی حسین پری کے مانند لگتے ہیں۔

٭کریم آباد؛

گنیش کے ساتھ کچھ شمال میں ہُنزہ کا صدر مقام ’’کریم آباد‘‘ واقع ہے جسے اگر ہُنزہ کی شان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ کریم آباد جس کا پرانا نام ’’بلتت‘‘ تھا، قدیم تجارتی قافلوں کے پڑاؤ کا مقام تھا جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تجارتی منڈی بن گیا۔ کریم آباد کو ’’دی گارڈین‘‘ اخبار نے پاکستان کے پانچ بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کیا ہے۔ اس شہر کو پرنس کریم آغا خان کے نام پر رکھا گیا ہے، جب کہ پرانے لوگ اب بھی اسے بلتت کہہ کر بلاتے ہیں۔

خوب صورت پتھروں کی چوڑی گلیوں کے اس شہر میں کئی اسکول، کالج، لائبریریاں، گراؤنڈز اور اسپتال ہیں۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ اس شہر کی شرحِ خواندگی 95 فی صد کے قریب ہے جو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

کریم آباد کا مشہور بازار جو بلتت قلعے کے سامنے واقع ہے، ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، پھلوں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں سیب، خوبانی، اخروٹ، ملبیری، چیری اور صنوبر کی بہتات ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوران ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ شہر کی اکانومی مکمل طور پر سیاحوں اور پھل سبزیوں پر ٹکی ہے۔

کریم آباد بازار سے بلتت فورٹ کی طرف جائیں تو گاؤں کے اندر سے ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے جو گاؤں ختم ہونے کے بعد ایک نالے کے ساتھ بتدریج چڑھائی کی طرف جانا شروع ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد سامنے پتھروں اور مٹی سے اٹھا بڑا سا گدلا گلیشیئر سامنے آجاتا ہے جو اُلتر گلیشیئر ہے۔ گلیشیئر کے بائیں کنارے پر چلتے ہوئے بلتت فورٹ سے تقریباً دو سے تین گھنٹے بعد اُلتر میڈوز کی چراگاہ کا وسیع میدان آتا ہے۔ اُلتر میڈوز کی بلندی تقریباً 2900 میٹر ہے۔ یہ کریم آباد اور ملحقہ آبادیوں کی مشترکہ چراگاہ ہے جہاں ان کے جانور چرتے ہیں۔ اُلتر میڈوز سے اُلتر پیک ون ٹو اور لیڈی فنگر کا بیس کیمپ بھی نظر آتا ہے۔

٭ التِت قلعہ؛

ہنزہ کی شاہانہ وجاہت کا عکاس ’’التِت فورٹ‘‘، دریائے ہُنزہ کے کنارے بالائی کریم آباد میں واقع ہے۔ التِت قلعے کو ’’میر آف ہنزہ‘‘ نے ہمسایہ ریاست نگر کے ’’میر‘‘ پر اپنی طاقت اور عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اور تقریباً 11 ویں صدی سے یہ اسی طرح ’’قراقرم‘‘ کے پہاڑوں پہ شان و شوکت سے براجمان ہے۔

اس قلعے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف کئی بیرونی حملوں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ زلزلوں میں بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ سرکا۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر قلعے کا ”شکاری ٹاور” تقریبا 900 سال پرانی جگہیں ہیں، یوں یہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ پاکستان کے دوسرے قلعوں کی طرح التِت فورٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا لیکن حال ہی میں ’’آغا خان ٹرسٹ برائے تاریخ و ثقافت‘‘ نے اسے حکومت ناروے کی مدد سے بحال کیا ہے۔

500 کا ٹکٹ لے کر اندر جائیں تو سرسبز ’’شاہی باغ‘‘ آپ کا استقبال کرتا ہے جس میں نارنجی پکی ہوئی خوبانی سے جُھکے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اس باغ کے ساتھ ایک خوب صورت پگڈنڈی آپ کو التیت فورٹ تک لے جائے گی جس کا شکاری ٹاور دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ یہ دریائے ہُنزہ سے 1000 فٹ کی بلندی پر ہے جو جنگی حالات میں تمام علاقے پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس زمانے میں وادیٔ ہُنزہ روس اور چین کی طرف سے حملوں کے خطرے میں گھری رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بنی ایک جگہ سے قیدیوں اور باغیوں کو نیچے دریائے ہُنزہ میں سزا کے طور پر پھینکا جاتا تھا جہاں سے ان کی لاش بھی نہ ملتی تھی۔

التیت قلعے کی تعمیر کے قریباً 400 سال بعد ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑ گئی اور پرنس شاہ عباس اور پرنس علی خان نے ایک دوسرے پر حملے کیے اور ہمارے گائیڈ کے مطابق پرنس عباس نے علی خان کو ایک ستون کے اندر زندہ چُنوا دیا جو آج بھی ٹاور کے اندر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف کمروں میں شاہی خاندان کے قدیم برتن اور بکس رکھے گئے ہیں۔ لکڑی کے چھوٹے دروازوں، سیڑھیوں اور کھڑکیوں خوب صورت کشیدہ کاری کی گئی ہے جس کے ڈیزائن دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ پرانے زمانے کے نقش و نگار تو نئے زمانے کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔

قلعے کا مرکزی ہال بیک وقت عبادت، کھانا پکانے اور مختلف مجالس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں ایک صدیوں پرانا کھانا پکانے کا برتن اور لکڑی کا پرانا بکس رکھا ہے جس پر’’سواستیکا‘‘ کے کئی نشان بنے ہیں۔ گائیڈ کے مطابق سواستیکا کا نشان آریائی زمانے میں چار بنیادی عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اسی سواستیکا کو ہٹلر نے اپنا نشان بنایا اور جرمنی کی فوج کو بھی پہنا دیا۔ یہ بکس آٹا رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کچھ شاہی کمرے دکھائے گئے جہاں پرنس اور شاہی خاندان کے دیگر افراد رہتے تھے۔ ان کمروں کی کھڑکیوں سے نیلے رنگ کے دریائے ہُنزہ کا شان دار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک ناگن سی بل کھاتی کالی لکیر بھی ہے جو شاہراہِ قراقرم ہے۔ اس سے آگے شاہی مہمان خانوں کے سامنے ایک خوب صورت گیلری سے ہُنزہ گاؤں کا خوب صورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ بنے چھوٹے چھوٹے گھر، ان میں سے اُٹھتا دھواں اور پسِ منظر میں برف پوش پہاڑ، التیت قلعے کو ایسے ہی نہیں ہُنزہ کی شان کہتے۔ قلعے کے اندر شاہی مہمان خانوں کو ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں شاہی خاندان اور ہُنزہ سے متعلق نادر تصاویر رکھی گئی ہیں۔ اوپر چھت پر شکاری ٹاور، لکڑی کی ایک کھڑکی اور ایک چھوٹا کمرہ بنا ہوا ہے جس کے چھوٹے سے دروازے پر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے۔ قلعے کے باہر سبز پانی کا خوب صورت تالاب، ہینڈی کرافٹ شاپس، کیفے اور خوب صورت گھر بنے ہیں جن کے سامنے بیٹھے ہُنزہ کے آرٹسٹ رباب پر قسم قسم کی دھنیں بجا کر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

جاپان نے یہاں پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کیا ہے. التیت قلعہ 2007 سے عوام کے لیے کھلا ہے۔

٭بلتِت فورٹ؛

اب رُخ کرتے ہیں بلتِت فورٹ کا۔ یونیسکو کی عارضی ثقافتی ورثے کی لسٹ میں شامل بلتِت کا قلعہ، پریوں کی کہانیوں مں موجود کسی خوب صورت پری کا گھر لگتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر واقع یہ قلعہ کوئی 650 سال پہلے تب بنایا گیا جب ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑی اور پھر پایہ تخت التِیت سے بلتِت قلعے میں منتقل ہو گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مرمت کیا گیا۔ 16 ویں صدی میں جب یہاں کے شہزادے نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تو وہ بلتی ہنرمندوں اور کاری گروں کو اپنے ساتھ لائی تاکہ وہ اس قلعے کی تزئین و آرائش کر سکیں اور اس قلعے کی موجودہ شکل تب کے بلتی کاری گروں کی ہی عنایت شدہ ہے۔

1945 میں میرِہنزہ نے اس قلعے کو چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے ایک اور قلعہ نما گھر بنایا اور وہاں منتقل ہوگئے جس کے بعد یہ قلعہ ایک ویران اور دہشت زدہ جگہ کا روپ دھار گیا۔ لوگوں نے یہاں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا اور قلعے سے قیمتی سامان چوری ہونا شروع ہو گیا جو آج تک نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اِس قلعے کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس کے منہدم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔ ہماری بے پرواہی نے اسے یونیسکو کی ’’خطرے میں موجود عمارتوں‘‘ کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ پھر اس علاقے کی ثقافت کے لیے شہہ رگ کی سی حیثیت رکھنے والا آغا خان ٹرسٹ اور لندن کی ’’رائل جیوگرافیکل سوسائٹی‘‘ کے اشتراک سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا جو 1996 میں ختم ہوا اور اس قلعے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی جسے بلتت ٹرسٹ چلا رہا ہے۔

بلتت کا قلعہ بھی کچھ کچھ التیت قلعہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے دروازے کھڑکیاں اچھوتے اور خوب صورت ڈیزائنوں سے مزین ہیں۔ سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو ایک ہال ہے جس میں سیڑھیوں سمیت تین کمروں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ایک کمرے میں برتن اور خوب صورت لال قالین رکھا گیا ہے جب کہ دوسرا کچن ہے جہاں ہر قسم کے برتن اور ایک انوکھی چیز رکھی ہے جو سمجھ نہیں آتی، غور کرنے پر پتا چلا کہ یہ ’’چوہے دان‘‘ ہے۔ پہاڑی بکروں کی کھال اور پرندوں کے پر بھی رکھے گئے ہیں۔ غرض یہ وادیٔ ہُنزہ کی ثقافت کا بھر پور عکاس ہے۔

اوپر جائیں تو ایک شان دار منظر آپ کو ملتا ہے۔ لکڑی کے کام سے مُزین ایک جھروکے میں ریاست ہُنزہ کے امیران کا خوب صورت تخت بچھا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنی رعایا سے خطاب کرتے تھے۔ اس کے ساتھ لکڑی کی دیوار پر مارخور کا ڈھانچا اور سینگ نمائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ اس قلعے کے لکڑی سے بنے دالانوں سے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

اوپر کے تمام کمرے میوزیم کا حِصہ ہیں جہاں پہلے کمرے میں ہنزہ کے والیان کی تصاویر، پوشاکیں، ہُنزہ کا جھنڈا، ڈھالیں اور تلواریں رکھی گئی ہیں۔ اس سے آگے کا کمرہ خوب صورت کشمیری اسٹائل کی چھت سے مزین ہے اور وہاں میر محمد کلیم خان کے دور کا کشمیری قالین ، تانبے کے برتن اور ریاست ہْنزہ اور چین کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدات کی نقول رکھی گئی ہیں جو چینی اور شینا زبان میں قلم بند ہیں۔ اگلا کمرہ میرانِ ہنزہ کی خاندانی تصاویر، آرام کرسی، گھڑیال اور پرانے ٹیلی فون پر مشتمل چیزوں سے سجا ہے۔ اس سے آگے کچن ہے جہاں بڑے چھوٹے برتن اور ایک بچے کا خوب صورت پنگھوڑا رکھا ہے۔

سب سے آخری کمرے میں علاقے کی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک طرف دیوار پر ڈھول، رُباب اور طمبق جیسے علاقائی سازوں سے سجا یہ کمرہ دوسری جانب لال، پیلے، نیلے، ہرے شیشوں کی کھڑکیوں سے مْزین ہے۔ یہاں 1920 کے دور کے پرانے چینی نوٹ بھی رکھے گئے ہیں، جب کہ ایک اور دیوار پر 1900 کے زمانے کا سنکیانگ (چین) کا قالین لٹک رہا ہے۔ یہاں سے باہر سیڑھیاں آپ کو نیچے اس جگہ لے جاتی ہیں جہاں ہُنزہ کی مشہور ’’زلزلہ‘‘ توپ رکھی گئی ہے۔ اس توپ کے لیے اہلِ ہُنزہ نے تانبے کے برتن اور کوئلہ مہیا کیا اور یہ 1891 میں انگریزوں کے خلاف استعمال کی گئی۔ انگریز فوج نے گلگت اور ہُنزہ کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد یہ توپ گلگت ایجنسی کے انگریز پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر رکھ دی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ وہیں رہی جب کہ جون 1999 میں اسے بلتت فورٹ ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں میرے دورے کے دوران بھی مرمتی کام جاری تھا اور اس کی آؤٹ لُک کو درست کیا جا رہا تھا۔ بلاشبہ بلتِت کا قلعہ پاکستان کے لیے ایک بیش قیمت اثاثے سے کم نہیں ہے۔ اس قلعے کے باہر کریم آباد بازار ہے جو ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوراں ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

٭ عطا آباد جھیل؛

کریم آباد سے آگے احمد آباد اور سلمان آباد کے بعد آتی ہے نیلے پانی کی وہ خوب صورت جھیل جو ویسے تو ایک قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی لیکن اب کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ وادی ہُنزہ کا بیش قیمت اثاثہ ’’عطا آباد جھیل‘‘ ہے۔

ہر پل مختلف رنگ بدلنے والی یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔

عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی

ہر اک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک

یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جب کہ 25000 مزید افراد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیرآب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہراہِ قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری سازوسامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 مکعب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔

شاہراہِ قراقرم کے 24 کلومیٹر ٹکڑے کے ڈوبنے کے بعد یہاں پانچ طویل سُرنگیں بنائی گئیں جن کی مجموعی لمبائی 7 کلومیٹر تک ہے اور قراقرم ہائی وے کو وہاں سے گزارا گیا۔ یہ منصوبہ تعمیراتی تاریخ میں ایک ماسٹر پیس کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے پاکستانی و چینی انجنیئرز نے سرانجام دیا۔

(جاری ہے)

The post شاہراہِ قراقرم کے عجائبات appeared first on ایکسپریس اردو.

قطب شمالی کے زیرآب معدنی وسائل پر قبضے کی دوڑ

$
0
0

 زیرزمین موجود معدنی وسائل سے حضرت انسان سطح ارض پر اپنی آمد کے بعد ہی سے مستفید ہوتا چلا آرہا ہے، مگر زیرآب پوشیدہ معدنیات تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔

بعض ممالک میں سمندروں کی تہہ سے تیل حاصل کیا جارہا ہے مگر دیگر معدنیات کے حصول میں کوئی خاص کام یابی حاصل نہیں ہوپائی، تاہم انسان کو یقین ہے کہ کرۂ ارض کے دو تہائی حصے پر پھیلے ہوئے سمندر اپنے دامن میں آبی حیات اور تیل و گیس کے ذخائر کے علاوہ قیمتی دھاتیں بھی چھپائے ہوئے ہیں۔

قطب شمالی کے منجمد سمندر کے بارے میں بھی اس کی یہی رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کے شمالی قطب پر قبضے کی جنگ بتدریج شدت اختیار کررہی ہے۔ گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ’کمیشن آن دی لمٹس آف کونٹینینٹل شیلف‘‘(CLCS ) میں قطب شمالی اور بحرمنجمد شمالی کے ایک وسیع حصے کی ملکیت کا دعویٰ دائر کرنے کے بعد کینیڈا بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا ہے۔ روس اور ڈنمارک کی طرح اس کا مطمعٔ نظر بھی بحرمنجمدشمالی کی تہہ میں موجود تیل کے مبینہ ذخائر ہیں جن تک رسائی قطبی برف کے پگھلنے کے ساتھ ساتھ آسان تر ہوجائے گی۔

قطب شمالی کے علاوہ دیگر سمندروں پر بھی متعدد ممالک نے اسی نوع کے دعوے کررکھے ہیں۔ ان تمام دعووں کی بنیاد سمندر کی تہہ کی نقشہ سازی (سی فلور میپنگ) پر ہے۔ سی فلور میپنگ کے بعد ہی ایک ملک قطب شمالی یا دیگر سمندروں کے کسی ٹکڑے پر ملکیت کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ جن ممالک کی سرحدوں کے ساتھ سمندر لگتا ہے، ان کے ساحل سے 200 ناٹیکل میل ( 370 کلومیٹر ) تک کا سمندری علاقہ ان کی حدود میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایکسکلوسیو اکنامک زون ( EEZ ) کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی ممالک اپنی سمندری حدود میں وسعت کا خواہاں ہے تو اقوام متحدہ کے 1982ء میں وضع کیے گئے ’کنونشن آن دی لا آف سی‘ کے تحت اسے ’کمیشن آن دی لمٹس آف کونٹینینٹل شیلف‘ کو قائل کرنا ہوگا کہ اس کا براعظمی کنارہ ( continental shelf ) ایکسکلوسیو اکنامک زون کی حدود سے بھی آگے تک پہنچا ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے دعوے دار ملک کو سی میپپنگ کرنی ہوگی اور اس کے لیے وہ سائنس دانوں اور جدید آلات پر مشن اس علاقے میں روانہ کرے گا۔

یہ شرط علم سائنس اور سائنس کے طالب علموں کے لیے بے انتہا مفید ثابت ہورہی ہے۔ دعوے دار ملک کا دعویٰ درست ثابت ہو یا نہ ہو مگر ان سائنسی مہمات کے دوران زیرسمندر دنیا کے بارے میں نت نئے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ نیوہمپشائر یونیورسٹی کے ماہر ارضی طبیعیات لیری میئر کہتے ہیں کہ مختلف ممالک کی معدنی وسائل پر قبضے یا کسی بھی وجہ سے سمندری حدود میں اضافے کی خواہش نے سمندروں کے بارے میں ہماری تفہیم کو ڈرامائی طور پر بدل دیا ہے۔

CLCS میں اب تک سمندری حدود میں اضافے کے لیے 84 دعوے دائر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا محرک تیل و گیس کے مبینہ ذخائر تھے، تاہم اب گہرے سمندر میں کان کنی کی ٹیکنالوجی نے ان دعووں کو اور بھی جواز فراہم کردیے ہیں۔ مثال کے طور پر برازیل کے دسمبر 2018ء میں دائر کردہ دعوے کی بنیاد دارالحکومت ریو ڈی جنیرو کے جنوب مشرق میں زیرسمندر 1500 کلومیٹر پر محیط سلسلۂ کوہ تھا جس میں کوبالٹ کے وسیع ذخائر ہیں۔

CLCS میں دعویٰ دائر کرنے کے لیے ایک ملک کو سمندری فرش یا تہہ (sea floor) سے متعلق تفصیلی معلومات جمع کرانی ہوتی ہیں۔ یہ معلومات سونار ( sonar ) کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔ سونار کے ذریعے سمندری فرش کا درست جغرافیہ، سیسمک پروفائلنگ اور دیگر تمام ڈیٹا حاصل ہوتا ہے۔ کینیڈا نے دعویٰ دائر کرنے سے قبل متعلقہ علاقے میں تحقیقی بحری جہاز بھیجے تھے جن پر سمندری فرش کی ساخت کا تعین کرنے کے لیے ہائی ریزولوشن گریویمیٹری کے آلات بھی موجود تھے۔

دعوے کی تیاری کے لیے متعلقہ معلومات کا حصول بے حد دشوار ہوتا ہے۔ بیشتر اوقات کئی بار مہمات بھیجی جاتی ہیں، تب کہیں جاکر ڈیٹا حاصل ہوپاتا ہے۔ ان تحقیقی مہمات پر کثیر اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ کینیڈا نے بحرمنجدشمالی میں 17 تحقیقی مشن روانہ کیے جن پر 12کروڑ کینیڈین ڈالر خرچ ہوئے۔

کینیڈا، روس، ڈنمارک اور دیگر ممالک کے دعووں کو تسلیم یا مسترد کیے جانے سے قطع نظر معدنی وسائل پر قبضے کی یہ دوڑ اوشینوگرافی کے لیے انتہائی مفید ثابت ہورہی ہے۔ سی میپنگ کی بدولت بحرمنجمد شمالی اور دیگر سمندروں میںمتعدد زیرآب پہاڑی سلسلے دریافت ہوئے جو قبل ازیں تحقیقی مہمات کی ’نظر‘ میں آنے سے محفوظ رہے تھے۔ اسی طرح الاسکا میں زیرآب سطح مرتفع Chukchi Cap میں ہزاروں دہانے دریافت ہوئے جن سے پتا چلا کہ منجمد میتھین گیس سمندری فرش سے خارج ہوئی تھی جس سے ماحولیاتی تبدیلی کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح متعدد مزید نئی باتیں بھی سائنس دانوں کے علم میں آئیں۔

قطب شمالی کس کی ملکیت ہے؟

کوئی بھی ملک 200 ناٹیکل میل کے ایکسکلوسیو اکنامک زون سے پرے اپنی سمندری حدود میں اضافے کے لیے دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ اس کے لیے سائنسی ڈیٹا کے ذریعے CLCS کو قائل کرنا ہوگا کہ جس علاقے کی ملکیت کے لیے دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ اسی ملک کی براعظمی شیلف کا حصہ ہے۔ روس، ڈنمارک اور کینیڈا بحر منجمد شمالی کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔

سمندری علاقے پر کسی ملک کا حق ملکیت تسلیم یا مسترد کرنے کا بااختیار کمیشن، CLCS ، 21 سائنس دانوں پر مشتمل ہے جو ارضیات، ہائیڈروگرافی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ سائنس دانوں کا انتخاب اقوام متحدہ کے رکن ممالک کرتے ہیں۔ سی ایل سی ایس اب تک 28 دعووں کی جانچ مکمل اور 24 دعوے تسلیم کرچکا ہے۔2008ء میں آسٹریلیا پہلا ملک تھا جس کا دعویٰ درست تسلیم کیا گیا جس کے بعد اس کی سمندری حدود میں 25 لاکھ مربع کلومیٹر کا اضافہ ہوگیا۔ سی ایل سی ایس کی مہربانی سے نیوزی لینڈ کی سمندری حدود اس کے خشکی کے رقبے سے چھے گنا زیادہ ہے۔ کمیشن غیرمتنازع دعویٰ ہی درست تسلیم کرتا ہے، یعنی جس رقبے پر حق ملکیت کا دعویٰ کیا گیا ہے اس کا کوئی اور دعوے دار سامنے نہ آیا ہو۔

بحرمنجمد شمالی کے سلسلے میں روس، ڈنمارک اور کینیڈا نے جن علاقوں پر حق ملکیت کا دعویٰ کیا ہے وہ جزوری طور پر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے (ovarlap) ہیں۔ چناں چہ سی ایل سی ایس ان دعووں کا تصفیہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ سائنسی طور پر دعوے درست تسلیم ہوجانے کے بعد یہ معاملہ تینوں ممالک کو سفارتی طور پر حل کرنا ہوگا۔

قطب شمالی پر کیے گئے حق ملکیت کے تینوں دعوے لومونوسوف کے زیرآب پہاڑی کے سلسلے کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ کینیڈا کے Qikiqtaaluk  علاقے سے شروع ہوکر روس کے نیو سائبیریائی جزائر سے ہوتا ہوا قطب شمالی پہنچتا ہے۔ دونوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ سلسلۂ کوہ ارضیاتی طور پر ان کے براعظم سے جڑا ہوا ہے۔ دوسری جانب ڈنمارک کا کہنا ہے کہ لومونوسوف کا پہاڑی سلسلہ گرین لینڈ سے بھی منسلک ہے۔

سی ایل سی ایس نے لومونوسوف کے تناظر میں قطب شمالی کے اس حصے پر روس کا ابتدائی مزید ڈیٹا کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ مسترد کردیا تھا۔ بعدازاں 2007ء میں بحرمنجمدشمالی کی تہہ میں روس کا دھاتی پرچم گاڑنے کے اقدام کے بعد روس اور دیگر مدعی ممالک کے درمیان تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اس وقت کینیڈ ا کے وزیرخارجہ نے روس کے اس اقدام کو ابتدائی یورپی قبضہ گیروں سے تشبیہہ دی تھی۔ میساچوسیٹس کے وُڈز ہول اوشینوگرافک انسٹیٹیوشن کے ماہرارضیات ہنری ڈک کہتے ہیں کہ سارا چکر  Amerasian Basin کے لیے ہے جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ تاہم ان ذخائر تک پُرامن رسائی برسوں تک ہونے کا امکان نظر نہیں آتا کیوں کہ سی ایل سی ایس اس معاملے میں بے بس ہے اور اس کی جانب سے اگر دعوے درست تسلیم بھی کرلیے جائیں تو تینوں ممالک کو سفارتی محاذ آرائی کرنی پڑے گی۔

The post قطب شمالی کے زیرآب معدنی وسائل پر قبضے کی دوڑ appeared first on ایکسپریس اردو.


کئی افراد کو مچھر زیادہ کیوں کاٹتے ہیں؟

$
0
0

آپ نے کئی لوگوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا ہوگا کہ مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ ان کی شکایت سُن کر شناسا ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ آپ کا خون میٹھا ہے اس لیے مچھروں کو زیادہ پسند ہے۔ تاہم سائنسی تحقیق اس کی مختلف وجہ بیان کرتی ہے کہ بعض افراد مچھروں کے ’پسندیدہ‘ کیوں ہوتے ہیں اور بعض کو وہ کاٹنا کیوں پسند نہیں کرتے۔

سائنس کہتی ہے کہ اس کا سبب ہمارے جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکل ہیں۔ نیدرلینڈ کی واخننگن یونیورسٹی سے منسلک ماہر حشریات جوپ وان لون کے مطابق مچھر اپنے خصوصی طرزعمل، حسی غدود اور انسانی جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکلز کے ذریعے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خاص طور سے ان کی راہ نمائی کرتی ہے۔ جب ہم سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں تو یہ فوراً ہوا میں شامل نہیں ہوجاتی بلکہ مرغولوں کی صورت میں موجود رہتی ہے جن کی طرف مچھر لپک لپک جاتے ہیں۔

جون وان لون کہتے ہیں کہ مچھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ان غیرمرئی مرغولوں کے ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں اس گیس کے ارتکاز میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے مچھر 50 میٹر ( 164 فٹ) کی دوری سے اپنے ہدف کی موجودگی کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ جب وہ ہدف سے ایک میٹر کی دوری پر پہنچتے ہیں تو پھر دیگر عوامل بھی ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ عوامل ہر فرد کے لیے مختلف ہوتے ہیں جیسے جلد کا درجۂ حرارت، آبی بخارات کی موجودگی اور رنگت وغیرہ۔

سائنس دانوں کے مطابق سب سے اہم عامل جس کی بنیاد پر مچھر ہدف کے انتخاب میں ایک فرد کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو ہماری جلد پر موجود جراثیم کی آبادیاں پیدا کرتے ہیں۔ وان لون کہتے ہیں کہ پسینے کے غدود سے خارج ہونے والی رطوبتوں کو جراثیم طیران پذیر (اُڑجانے والے) مرکبات میں بدل دیتے ہیں جو فضا میں شامل ہوجاتے ہیں اور مچھر کے سر پر موجود نظام شامہ سے ٹکراتے ہیں۔ انسانی جسم سے 300 قسم کے مرکبات خارج ہوتے ہیں اور ہر انسان کی جینیاتی ساخت کے لحاظ سے ان کی مقدار اور تناسب مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کے جسم کی بُو بھی جدا جدا ہوتی ہے۔

واشنگٹن یونی ورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر جیف ریفل کہتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے باپ اور بیٹے کے جسموں سے خارج ہونے والے جراثیمی مرکبات میں مختلف کیمیکلز کا تناسب مختلف ہوتا ہے جو انھیں مچھروں کے لیے ایک دوسرے سے منفرد بناتا ہے۔ تحقیق کے مطابق انسانی جلد پر جراثیم کی اقسام اور آبادیوں میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ جس انسان کی جلد پر زیادہ اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں وہ مچھروں کے لیے اتنی ہی کم کشش رکھتا ہے۔ اس کے برعکس جس انسان کی جلد پر جراثیم کی کم اقسام پائی جاتی ہیں اس کا خون مچھر زیادہ رغبت سے چوستے ہیں۔

The post کئی افراد کو مچھر زیادہ کیوں کاٹتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مرسی، مصر اور تاریخ

$
0
0

 سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز نے حالیہ پریس کانفرنس میں حکومت، سیاست اور معیشت کے حوالے سے جو باتیں کیں وہ اپنی جگہ۔ انھوں نے جس طرح اپنے والد کا دفاع کیا، وہ بھی بے شک ان کا حق ہے، تاہم اسی رو میں انھوں نے ایک فقرہ ایسا بھی کہا ہے جو ایک الگ تناظر میں قابل غور ہے۔ انھوں نے کہا، نہ یہ مصر ہے اور نہ ہی نواز شریف کو مرسی بننے دیا جائے گا۔

مریم نواز نے یہ بات ان معنوں میں کہی ہے کہ مصر کے پہلے اور اب تک واحد جمہوری صدر محمد مرسی کو بے رحمی مگر غیرمحسوس انداز میں جس طرح بے وقت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ایسا نوازشریف کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی یہ بات درست ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہو گا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ویسے اس معاملے میں پاکستان اور مصر کا موازنہ تو خیر نہیں کیا جانا چاہیے۔ خدا نہ کرے کہ جو کچھ مصر میں ہوا اور آگے ہوتا نظر آتا ہے وہ پاکستان میں ہو، لیکن ویسے ہمیں کسی خاص خوش فہمی میں بھی یہیں رہنا چاہیے۔

اس ملک میں طالع آزما اور غیرجمہوری قوتیں اس سے پہلے کئی بار اپنا کھیل کھیلتی آئی ہیں اور آئندہ کے لیے بھی ان پر دروازے بند تو نہیں ہیں۔ سو، یہاں بھی مصر جیسے حالات کا پیدا ہو جانا، کوئی ان ہونی ہرگز نہیں۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف اور محمد مرسی کے مزاج، حالات اور سیاسی اہداف میں یقیناً بہت فرق ہے۔ اس لیے نواز شریف کو اس تقدیر کا سامنا ہو، جس سے محمد مرسی دوچار ہوئے، یہ آسان نہیں ہے۔

اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ آج کے مصر اور محمد مرسی کے بارے میں وہ جانتے ہیں جو اصولاً ہمیں جاننا چاہیے؟ شاید چند فی صد بھی مشکل سے۔ یہی نہیں، بلکہ جو لوگ کچھ جانتے ہیں وہ بھی گمان غالب ہے کہ محض سرسری اور ضمنی باتیں ہوں گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم تو ایک زمانے سے من حیث المجموع خود اپنی افتاد میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ اپنے سے باہر کسی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا۔ یہ صورت حال ابھی کی نہیں ہے اور نہ ہی صرف ہم پاکستانی اس سے دوچار ہیں۔ یہ پوری اسلامی دنیا کا حال ہے اور ہم سب لگ بھگ نصف صدی میں رفتہ رفتہ اور باری باری ان حالات سے دوچار ہوئے ہیں، بلکہ ہم میں سے اکثر اب تک ان حالات کے زیر اثر چلے آتے ہیں۔ خیر، یہ ایک الگ موضوع ہے جس کو ذرا تفصیل میں دیکھا جا نا چاہیے۔ سو اس پر کسی اور وقت بات کرنا مناسب ہوگا۔

محمد مرسی کون تھے؟

محمد مرسی عیسی العیاط 8 اگست’ 1951 کو مصر کے صوبہ شرقیہ میں پیدا ہوئے قاہرہ یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں اسی یونیورسٹی سے میٹالرجی کے شعبے میں اعلٰی تعلیم کے مدارج طے کیے۔ ان کی ذہانت اور استعداد کو دیکھتے ہوئے انھیں وظیفہ دیا گیا اور وہ امریکا چلے گئے اور ساؤتھ کیلی فورنیا یونیورسٹی سے میٹالرجی کے شعبے میں ہی پی ایچ ڈی کیا- اس کے بعد اسی یونیورسٹی میں وہ اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے لگے۔ ان کا شعبہ امریکی خلائی ادارے ناسا کے اسپیس شٹل انجن کے ڈویلپمنٹ پروگرام میں تعاون کر رہا تھا۔ 1985میں مرسی مصر واپس آگئے اور زقازق یونیورسٹی میں بطور پروفیسر 2010 تک خدمات سرانجام دیں-

اس عرصے میں انھیں عالمی تناظر میں سیاسی منظرنامے کو دیکھنے اور اپنے ملک، عوام اور سیاسی حالات کو سمجھنے کا جو موقع ملا اس نے انھیں عملی سیاست کی طرف مائل کیا۔ وہ اس حقیقت کو واضح طور پر محسوس کر چکے تھے کہ اپنا قومی کردار وہ سیاست کے مرکزی دھارے میں آئے بغیر ہرگز ادا نہیں کر سکتے۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں مذہبی شعور نے بھی ایک اہم عامل کے طور پر حصہ لیا تھا۔ ملکی اور عالمی منظرنامہ بیک وقت حالات کا جو رخ پیش کر رہا تھا، اس نے بھی ان کو یہ بات سمجھا دی کہ اس وقت خاموشی اور لاتعلقی کا رویہ ملک و قوم کی طرف سے بے حسی اختیار کرنے کے مترادف ہو گا۔

چناںچہ وہ عملی سیاست کی طرف آئے اور پہلی بار سن 2000 میں مصری پارلیمنٹ میں پہنچے۔ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اپنے مذہبی شعور کی بنا پر وہ کسی ایسی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہتے تھے جو دینی اقدار کے ساتھ سیاسی میدان میں ہو۔ وہ ذہنی اور فکری لحاظ سے اخوان المسلمون کے قریب تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت اخوان پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی تھی- سیاست کے مرکزی دھارے میں آنے کے بعد جو حالات و حقائق ان پر کھلے، ان کی وجہ سے سیاست میں رہنا ان کے لیے ناگزیر ٹھرا۔ 2011 میں اخوان نے مرکزی سیاست میں شمولیت کی راہ نکالنے کے لیے “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی” قائم کی تو مرسی اس کے صدر منتخب ہوئے۔2011 میں جب انتخابات ہوئے تو اس جماعت نے شان دار کام یابی حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں مرسی اپنے ملک کی تاریخ میں پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے اور اقتداری طاقت کے مرکز تک پہنچ گئے – یہ مصر کی تاریخ کا نیا موڑ قرار دیا گیا، صرف ملک کے مذہب پسند عوام اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی۔

مرسی کو اپنی سیاسی، مذہبی، تاریخی اور قومی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس تھا، لہٰذا صدر کی حیثیت سے انھوں نے مصر کے معاشی حالات کی درستی، کرنسی کے استحکام، نظام تعلیم کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگی، بے روزگاری کے خاتمے اور عالمی برادری میں مصر کے قومی وقار کے لیے تیزی سے اقدامات کیے- اس کے ساتھ انھوں نے مصرکے اندرونی حالات پر بھی توجہ دی۔ یہاں بھی انتشار اور بے یقینی کی فضا تھی۔ حالات کی درستی کا کام سخت اور فوری اقدامات کا متقاضی تھا۔ مرسی کی توجہ ان سب معاملات پر تھی۔ انھوں نے مختلف جہتوں میں بیک وقت کام شروع کیا۔ ملک میں نئی آئین سازی کا کام بھی ہوا، تاکہ ادارے اپنا اپنا کام اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے پوری ذمہ داری سے انجام دیں اور ملک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں-

تاہم محمد مرسی اپنے ملک اور عوام کے لیے جو کرنا چاہتے تھے اس کے لیے وقت تو درکار تھا ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ بے حد سخت اقدامات کی بھی ضرورت تھی۔ دوسری طرف غیرجمہوری قوتیں بھی یہ اندازہ لگا چکی تھیں کہ وہ ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں اور آگے چل کر ان کو کن حالات کا سامنا ہو گا۔ ان کی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی۔ ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہونے لگا۔ مرسی کا سیاسی شعور اور قومی و بین الاقوامی اہداف بالکل واضح تھے۔ اس کا اظہار پوری قطعیت کے ساتھ

ان کی زندگی کی اس لازوال تقریر میں ہوا جو انھوں نے اقوام متحدہ میں ساری دنیا کی لیڈرشپ کے سامنے کی اور کہا:

“عزت اسی کی کی جائے گی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا- اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہیں کریں گے ان کی کوئی عزت نہیں کی جائے گی۔”

اب ایک طرف مرسی تھے اور دوسری طرف متحارب قوتیں۔ ان کی ساری کوششوں کے باوجود ملک میں پیدا کیے گئے حالات نے خرابی کا نقشہ تیزی سے ابھارنا شروع کیا۔ متحارب قوتوں نے ایک طرف عالمی سطح پر اور دوسری طرف ملک کے اندر سیاست اور بیوروکریسی کے کرپٹ عناصر کی مدد حاصل کرنی شروع کی۔ جلد ہی ان کو مطلوبہ نتائج حاصل ہونے لگے۔ ملک میں پیٹرول کی قلت پیدا کی گئی، معیشت کی تباہی کے اقدامات پر خاص طور سے توجہ دی گئی، مختلف سماجی، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی گروہوں کے ذریعے احتجاج کا آغاز ہوا جسے بڑھاوا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف عوام میں فوج کا امیج بہتر کرنے کے لیے باقاعدہ منظم طریقے سے بھرپور کوششیں شروع کی گئیں، مثلاً اگر ملک کے طول و عرض کہیں کوئی حادثہ ہو جاتا تو قریب ترین فوجی یونٹوں کو ہدایات دی گئی تھی کہ سول ایڈمنسٹریشن سے بھی پہلے وہاں پہنچیں اور ہر ممکن طریقے سے عوامی ہم دردیاں سمیٹیں۔

ادھر یہ کہ ملک کے سرحدی علاقے میں مختلف نوع کے دھماکے شروع ہو گئے جن کی ذمہ داری ان جان قسم کے گروہوں نے لینا شروع کر دی، اپوزیشن کے مختلف دھڑے متحد ہو کر حکومت کے خلاف بہت سرگرم ہو گئے۔ کھلے لفظوں میں اور بار بار حکومت کی ناکامی کا اعلان ہونے لگا۔ ظاہر ہے یہ سب ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے تھا اور پھر اس کا وقت طے کر لیا گیا۔ اٹھارہ جون کو ایک خفیہ خط کے ذریعے کورکمانڈرز کو کسی بھی ایمرجینسی کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا، فوجی جوانوں سے وفاداری کا حلف لیا گیا۔ اور پھر تین جولائی کو صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔

جرنل السیسی اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے ملک کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، آئین کو ایک بار پھر ردی کی ٹوکری میں اٹھا کر ڈال دیا گیا، ریاست کے ٹیلی وڑن نیٹ ورک سے خطاب شروع ہو گیا۔ تین مہینے میں الیکشن کا اعلان، بیرکوں میں واپس جانے کا وعدہ، وہی گھسی پٹی تقریر جو اس سے پہلے کتنے ہی ملکوں میں ڈکٹیٹر ہمیشہ کرتے آئے ہیں اور بھولے بھالے لوگ اپنی ازلی ابدی سادگی کے ہاتھوں جس پر ہمیشہ یقین کرلیتے ہیں۔ عدالتوں نے بھی چڑھتے سورج کی طرف رخ کر لیا۔ مظاہرین اپنے گھروں کو چلے گئے، اپوزیشن کی قیادت تو جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ صدر مرسی اور اس کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، غداری، قتل، بدعنوانی سمیت تعزیرات مصر میں جو بھی کبیرہ گناہ تھے انھیں بہت سے مقدمات میں ملوث کر لیا گیا۔ ایسا صرف ان کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ اخوان کی اعلٰی قیادت سے لے کر گلی محلے کے اراکین تک بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ لوگ بغیر وارنٹ کے گھر سے اٹھائے گئے، کچھ جیلوں تک پہنچے اور کچھ تاریک اور گم نام راہوں میں مارے گئے۔ وہ سب کچھ ہوا جو اس طرح کی صورت حال میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

وقت گزرنے پر آتا ہے تو گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں بھی دیکھتے ہی دیکھتے چھے برس گزر گئے، نہ معیشت سنبھلی، نہ ہی لوگوں کے روزگار میں کوئی بہتری آئی، نہ انصاف ہوا، نہ الیکشن کرائے گئے اور نہ ہی ملک کی تقدیر بدلی۔ ان چھے برسوں میں مرسی قیدوبند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے۔ ان کو بنیادی انسانی سہولتیں بھی فراہم نہ کی گئیں۔ علاج معالجے کی ضرورت تک کی نفی کی گئی، حق و انصاف تک رسائی مفقود۔ گھر والوں سے ملاقات پر پابندی لگائی گئی۔ قیدتنہائی میں رکھا گیا، مشقت سے گزارا گیا۔ مذاق اڑایا گیا۔ تذلیل کی گئی۔ اذیت رسانی کے ایسے طریقے اختیار کیے گئے کہ جن کو بتانا اور ثابت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کے علاوہ ملک میں ہی نہیں عالمی سطح پر بھی مرسی کی ساکھ خراب کرنے کے سارے حربے استعمال کیے گئے۔

صرف یہی نہیں، ان چھے برسوں میں مصری افواج نے سابق صدر مرسی کو غدار ثابت کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، اس کام کے لیے ادارے استعمال کیے گئے، پروپیگنڈا کیا گیا، پریس ریلیزیں جاری ہوئیں، صحافی قتل کیے گئے، اخبار خریدے گئے، غرض ہر ممکن طریقہ اور حربہ اختیار کیا گیا۔ لیکن قدرت کا اپنا انتظام ہوتا ہے۔ عدالتی کارروائی تو ابھی چل ہی رہی تھی۔ عدالت کو ابھی فیصلہ نہیں سنانا تھا۔ ابھی کچھ اور اقدامات باقی تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا؟

محمد مرسی 17 جون 2019 کو عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت سے کہا کہ ان کے سینے میں کچھ راز ہیں، کچھ حقائق ہیں جن تک وہ پہنچ گئے ہیں، اب وہ عدالت تک اور مصر کے عوام تک یہ سب کچھ پہنچانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے عدالت سے شکایت بھی کی کہ ان کے ساتھ جیل حکام کا رویہ بہت برا ہے۔ وہ ان کی جان کے درپے ہیں۔ ان کو خاموشی سے اور غیرمحسوس انداز میں قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ بیان ابھی جاری تھا کہ وہ عدالت کے کمرے میں گر پڑے۔ معائنہ کیا گیا اور ان کو بے ہوش بتایا گیا۔ اس کے بعد ہوش مندوں کی اس دنیا میں وہ لوٹ کر نہیں آئے۔ بے ہوشی کے عالم میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا اور سب سے بڑی عدالت میں جا پہنچے۔

مرسی نے عدالت سے رہائی نہیں مانگی، کسی رعایت کی درخواست نہیں کی، رحم کی اپیل نہیں کی، کسی این آر او کا سوال نہیں کیا۔ حکم رانوں اور اقتدار کی طاقت کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ وہ جن اصولوں اور اقدار کی بات کرتے تھے، ان پر قائم رہے۔ قدرت مہربان ہوئی اور ان کی آزمائش کو سمیٹ کر سرخ روئی کا سامان کردیا۔ آدمی کی مٹی کم زور ہوتی ہے جلد ڈھے سکتی ہے، لیکن قدرت آدمی کو نوازنے پر آ جائے تو ساری طاقتیں ایک طرف دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

تاریخ بڑی سفاکی سے عمل کرتی ہے۔ بعض اوقات بس ایک منٹ میں فیصلہ دے دیتی ہے، جیسے مرسی کا دے دیا۔ اب برس گزریں یا کہ صدیاں بیت جائیں، جرنل السیسی کا اقتدار ہزار برس قائم رہے، لیکن یہ طے ہے کہ تاریخ اسے فرعون کے طور ہی نہ صرف یاد رکھے گی بلکہ اس یاد کے ساتھ ہزیمت کے حوالے بھی جوڑ دے گی۔

اب سوچیے کہ تاریخ محمد مرسی کی موت کو کس عنوان سے یاد رکھے گی؟ کیا اسے کمرہ عدالت میں ماورائے عدالت قتل کہا جائے گا؟ اسے کام یاب سازش سمجھا جائے گا؟ یا پھر اقتدار کی راہ داریوں میں ایک آئیڈیالسٹ کی ناگزیر تقدیر؟ اسے کچھ بھی کہا جائے، لیکن یہ طے ہے کہ مرسی عزم، ارادے، اخلاص اور اصول پسندی کی مثال کے طور پر اپنے قومی حافظے میں دمکتے رہیں گے۔

The post مرسی، مصر اور تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے کرکٹ ورلڈ کپ کے حیران کن کیچز

$
0
0

’’Catches win Matches‘‘ کرکٹ کی وہ معروف کہاوت ہے، جس کے بارے میں ہر شائقِ کرکٹ جانتا ہے کسی  فیصلہ کن مرحلہ پر ایک کیچ کا چھوٹ جانا، پورے میچ کی بازی ہی پلٹ دیتا ہے۔

کرکٹ کی تاریخ میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں، جہاں صرف ایک کیچ چھوٹ جانے سے ٹیم کے ہاتھ سے پورا میچ ہی چھوٹ گیا، لیکن اسی میدان میں کچھ کھلاڑیوں کے ایسے کیچز بھی ہیں، جنہوں نے نہ صرف شائقین کو حیران کر دیا بلکہ اپنی ٹیموں کو بڑے بڑے اعزازات کا حق دار بھی بنایا۔ یہاں ہم آپ کے سامنے آئی سی سی ورلڈ کپ کے کچھ ایسے ہی کیچز کی تصویری جھلکیاں پیش کر رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ بھی فیلڈرز کو داد دیئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے قائد سرفراز احمد نیوزی لینڈ کے خلاف ایک سنسنی خیزمقابلہ کے دوران راس ٹیلر کا کیچ پکڑ رہے ہیں(2019)

.

آئی سی سی ورلڈ کپ کے 12 ویں ایڈیشن کے پہلے ہی میچ میں برطانوی آل رائونڈر بن سٹوکس جنوبی افریقہ سے مقابلے کے دوران ایک حیران کن کیچ تھام رہے ہیں (2019)

.

ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی شیلڈن کوٹریل بائونڈری لائن کے اوپر سے اچھلتےہوئے آسٹریلوی بلے باز سٹیو سمتھ کا کیچ لے رہے ہیں(2019)

.

جنوبی افریقہ اور بھارت میں کھیلے جانے والے میچ کے دوران افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک بھارتی قائد ویرات کوہلی کا ایک ہاتھ سے کیچ تھام رہے ہیں(2019)

.

ایک سنسنی خیز مقابلہ کے دوران کور میں کھڑے آسٹریلوی کھلاڑیاسٹیو سمتھ انگلش بلے باز ڈیوڈ کا کیچ پکڑ رہے ہیں(2015)

.

آسٹریلوی کھلاڑی ایرون فنچ تھرڈ سلپ پوزیشن پر افغان بلے بازمینگل کا آئوٹ سٹینڈنگ کیچ پکڑ رہے ہیں(2015)

.

ویسٹ انڈین کیپر شائی ہوپ آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ کے بیٹ سےٹکرائی گیند کو زمین پر لگنے سے قبل پکڑ رہے ہیں(2019)

.

 

The post دنیائے کرکٹ ورلڈ کپ کے حیران کن کیچز appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا فلاحی اسلامی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائیگا؟

$
0
0

جب سے عمران خان اور تحریک انصاف نے پاکستان کو ’’ ریاست مدینہ ‘‘ بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

ضیاء الحق کے ’’دور خلافت‘‘ اور پرویز مشرف کے’’  نظریہ سوفٹ امیج‘‘ کی ڈسی ہوئی قوم خوفزدہ اور سہمی ہوئی ہے کہ اب کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے کیونکہ اس صدی میں عالم اسلام اور مسلمانوں کی سرفرازی و سربلندی کیلئے کام کرنے والے راہنما ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن دھاندلی کی تحریک چلائی گئی جو بعد میں نفاذ نظام مصطفیٰ ؐمیں تبدیل ہوگئی۔

؎اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے حکومت پر قبضہ کیا ملک میں مارشل لاء لگا دیا، تحریک میںحصہ لینے والی دینی جماعتوں کو بھی وزارتوں سے نواز کر ان کی ’’خدمات‘‘ کا اعتراف کیا گیا، پھر جنرل ضیاء الحق نے عوام کو یقین دلایا کہ اب ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہونے والا ہے، ٹی وی میں آنے والی انانسروں کو دوپٹے اوڑھا دیئے گئے۔ اچھرہ میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والے 8 سالہ ( پیو ) بچے کے تین قاتلوں کوگرفتار کر کے کیمپ جیل کے باہر سر عام پھانسی پر لٹکا دیا گیا، گویا یہ اسلامی نظام کے نفاذ کی جانب پہلا قدم تھا۔ لوگوں کے دلوں میں مارشل لاء کی ہیبت چھا گئی۔ جمہوریت کی اہمیت مدہم پڑگئی۔

ضیاء الحق کے غیر اعلانیہ ’’دور خلافت ‘‘ کا آغاز ہوگیا۔ اس ’’دور خلافت ‘‘ میںکچھ صنعتکاروں اور پیپلزپارٹی کے مخالف جاگیرداروں، سرداورں، گدی نشینوں اور زمینداروں کی لاٹری نِکل آئی۔ اسی دور خلافت میں ’’افغان جہاد‘‘ لڑا گیا ۔ روس کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔ اس جنگ میں قیام پاکستان سے قبل قائم ہونے والی کچھ دینی جماعتوں نے بھی روس سوشلزم اور کیمونزم  کے خلاف ہونے والے جہاد میں اپنا مطلوبہ کردار سرانجام دیا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان جماعتوں کو جو اہمیت حاصل تھی وہ ’’ جہادافغان ‘‘ کے بعد تقریباً ختم ہوگئی ۔ بھٹو کے خلاف تحریک اِن جماعتوں کا نقطہ عروج تھی۔

دینی جماعتوں کے علاوہ ضیاء الحق کی اہمیت بھی ختم ہوگئی وہ اور جہاد افغان میں حصہ لینے والے دوسرے نمایاں’’سپہ سالار‘‘ بھی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ پھر پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی مسلم لیگ کی حکومتوں کا تسلسل شروع ہوا، میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اُس وقت کسی ’’ جد ید تکنیک‘ ‘ کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، مگر اُن کا طیارہ بخیریت اُتر گیا اور ملک میں ایک نیا مارشل لاء بھی لگ گیا ۔ پھر پرویز مشرف نے ملک میں ’’ نظریہ سوفٹ امیج‘‘ کا نعرہ بلند کیا، اس نعرہ کے بلند ہوتے ہی سب سے پہلے ٹی وی چینلوں کی اناونسرز کے دوپٹے اترے پھر عام خواتین کی اکثریت کے ، دوپٹوں کی جگہ ’’علامتی پٹی‘‘ نے لے لی جو کہ جسم کو ڈھاپنے کی بجائے فیشن کے طور پر گلے میں لٹکائی جاتی تھی ۔ اُن کے دور میں طا لبان اور  مذہبی جنونینوں‘‘ کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا، مدار س اور ان  مدرسوں میں دین کی تعلیم حا صل کرنے والے طالبعلموں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر دین کو دوسرے نمبر پر لا کر نظریہ پاکستان کے متعلق ہی شکوک و شبہات پیدا کردیئے گئے۔

بلکہ واضح طور پر عوام کو تاثر دیا گیا کہ پاکستان کو مکمل اسلامی ریاست بنانے اور دین پر عمل کرنے کو باقی دنیا میں ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھا جا رہا ہے، پا کستان کو ایک پسماندہ  ریاست قرار دیا جا رہا ہے اور عوام کو دقیانوسی سمجھا جا رہا ہے، ان کے دور میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھی ایک نا پسندیدہ شخصیت قرار دے دیا گیا، ان کے دور میں پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی مگر اس دفعہ ان مجاہدین کے خلاف مدد کی ضرور ت پڑی جنہوںنے افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اب ان مجاہدین کو طا لبان کا نام دیا گیا اور ا نھیںکسی اور طریقے سے استعما ل کیا گیا۔

پرویز مشرف جب اپنی خصوصی ذمہ داریاں پوری کر چکے تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا ’’ایک ایک دور اور چلا، نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں ’’انکشاف ‘‘ ہوا کہ وہ ملک سے مال  لوٹ کر دوسرے ممالک میں جمع کروا رہے ہیں۔ عوام اور ریاست سے مال  لوٹ کر دوسرے ممالک میں جمع کروانے پر عمران خان  پہلے طیش میں آئے پھر حکومت میں آئے اور انھوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے عزم کا اظہار کردیا، ماضی کے واقعات اور تجربات نے اس قوم کو بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ میڈیا نے بھی قوم کو باشعور بنانے میں اپنا کردار سرانجام دیا ہے۔ اب پوری قوم سہمی پڑی ہے کہ اس دفعہ کیا ہونے والا ہے۔

کیو نکہ ریاست مدینہ اس کائنات کے سب سے بڑے راہنما نے قائم کی تھی، جن کی اپنی ذات فخر انسانیت ہے ، فخر موجودات ہے، جو صادق اور امین تھے، جو آپﷺ کے نزدیک آیا اس کی کایا پلٹ گئی، ان کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں،آپﷺ نے انسانوں کی کردارسازی کا جو کام شروع کیا وہ پوری دنیا میں پھیل گیا، عام انسان مسلمان بنا تو تنہائی میں بھی گناہ کرنا تو در کنار، گناہ کے متعلق سوچتا بھی نہیں۔ آپﷺکے بعد بھی خلفاء اور مسلم راہنماؤں نے سب سے پہلے عوام کی کردار سازی اور پاکیزہ سوچ پر زور دیا، پھر ریاست سے ہر اُس چیزکو ختم کیا کہ جس کے ختم کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اور ہر اُس کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ سنتﷺ کے مطا بق زندگیاں گزارنے کیلئے مخصوص فضا اور ماحول قائم کیا گیا۔

اب بنی گالہ میں رہا ئش پذیر عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو قوم اس انتظار میں ہے کہ اب کیا ’’ ظہور پذیر ‘‘ہونے والا ہے۔ عمران خان ایسی پالیسیاں ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو ضیاء الحق کے ’’اسلامی دور‘‘ اور مشرف کے نظریہ سو فٹ امیج سے مختلف ہیں۔ مگر اس کاسنگین پہلو یہ ہے کہ فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنے کے دعویداروں کی اپنی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، آج بھی طبقاتی تفریق میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ طبقات کے ما بین خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

سّودی نظام مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ طاقتور اور مراعات یا فتہ طبقے کو مز ید نوازا جا رہا ہے ۔عمران خان ان کے وزراء، معاونین اور سینکڑوں ترجمان تقریباً ہر چینل پر ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کا دعویٰ تواتر سے کر رہے ہیں۔ ان کے پاس چینلز پر بحث و مباحثہ کرنے کیلئے وافر وقت ہے مگر جمعہ کی نماز سے پہلے اُردو خطبہ کیلئے قطعاً وقت نہیں ہے، قوم کی راہنمائی کیلئے بہترین ذریعہ محراب و منبر ہے۔ مگر یہ کام اوسط درجے کا دینی عِلم رکھنے والے مولوی حضرات پر چھوڑ دیا گیا ہے، ایک سروے کے مطابق ملک میں جمعے کا اُردو خطبہ دینے والے 80 فیصد ’’ علماء‘‘ دین کا صحیح عِلم نہیں رکھتے، انھیں ضعیف حدیثوں کے متعلق بھی عِلم نہیں ہوتا ۔ یہ مولوی حضرات دینی اور دنیاوی عِلم میں خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواہشمند منبر پر قوم کی راہنمائی کریں۔

ریاست مدینہ بنانے کیلئے اوّلین فریضہ اپنی زندگیوں کو  دین کے مکمل سانچے میں ڈھالنا اور قوم کی دینی و اخلاقی تربیت  ہے، اخلاقی  اور دینی اقدار سے عاری قوم کے دِلوں سے گناہ اور ثواب کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے، ہر فرد دوسرے کو دھوکا دے رہا ہے۔ دولت کمانے کے شارٹ کٹ ڈھونڈ رہا ہے، اسلام کے بنیادی اصولوں کے برعکس صرف اپنی ذات کو اہمیت اور ترجیح دے رہا ہے۔ نفسانفسی اور خود غرضی انتہا پر ہے۔ اجتماعی قومی زندگی کا تصور مفقود ہو چکا ہے۔

قرآن پاک اور سنت ﷺ کے ذریعے تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کیلئے زندی گزارنے کیلئے اصول متعین کر کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی ضابطہ حیات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ محض اپنی مرضی کے احکامات پر عمل کر نا کسی بھی طور مناسب نہیں، دین میں مکمل داخل ہونا ہی اسلام ہے۔

قرآن حکیم اور سنّت ﷺ سے عوام کے حقوق ، معاشیات، اقتصادیات، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، ریاست کی ذمہ داریاں، مرد و خواتین کی حُدود، خاندانی نظام، تعلیم و تربیت، اخلاقیات، طبقاتی تفریق کی نفی، نکاح اور طلاق اور وراثت کے معاملات، غرض یہ کہ ہر پہلو کو اچھی طرح کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بعض آیات بار بار دہرائی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں کو اچھی طرح ذہین نشین ہو جائیں۔ زندگی کے ایک پہلو کو بھی اس طرح نہیں چھوڑا گیا کہ کوئی بھی ابہام پیدا ہو، اسلام میں مرضی کی زندگی گزارنے یا نام نہاد مادر پدر آزادی کا تصور نہیں ہے، عورت کی اہمیت بڑھانے کیلئے اُسے مستور (پردے میں) کیا گیا ہے ۔ سونا، ہیرے جواہرات، نقدی اور قیمتی سامان ہمیشہ تجوریوں میںسنبھال کر رکھا جا تا ہے، دوسرے قیمتی سامان کو بھی گھروں میں بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھا جاتا ہے باہر صرف کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔ اب عو رتیں باہر ہی نظر آتی ہیں اور جس حلیئے میں نظر آتی ہیں سب کے سامنے ہے، کسی بھی پہلو سے یہ نظر نہیں آتا کہ پاکستان کو ’’ ریاست مدینہ ‘‘بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہاں توابھی تک انصاف، شہریوں کی عزت نفس، بنیادی حقوق کے تحفظ کا وہ احساس بھی نظر نہیں آتا کہ جو مغربی ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں نظر آتا ہے۔

اس ساری صورتحال میں پوری قوم سہمی ہوئی ہے کہ اب کیا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہیں ہم پر جمی ہوئی ہیں۔ پاکستان ایک شاندار ایٹمی قوت ہے، ہمارے ایٹمی اثاثوں اور ایٹمی میزائل پروگرام نے دشمنوں کی نیندیں اُڑائی ہوئی ہیں، پاکستان میں معدنیات کے خزانے چُھپے ہوئے ہیں ۔ یورینیم کی اعلیٰ قسم وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ شمالی علاقہ جات جیسے خوبصورت علاقے سوئیزر لینڈ میں بھی نہیں ہیں ۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ ہماری فوج ایک طویل اعصاب شکن جنگ لڑ کر کُندن بن چکی ہے، ہماری فوج وطن کے تحفظ کیلئے جو قربانیاں دے رہی ہے اس کی دوسری مثال موجود نہیںہے، پاک فوج پاکستان کے تمام دشمنوں اور بدخواہوں کیلئے ہیبت کی علامت بنی ہوئی ہے۔

دشمنوں نے حکومت، قوم اور فوج کے مابین  خلیج پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چیک پوسٹوں اور دستوں پر حملوں کو اُلجھانے کی کوشش کی گئی۔ دفاعی بجٹ میں کٹوتی کے معاملات میں بھارت کی زبان استعمال کی گئی مگر پاک فوج نے اچھے طریقے سے معاملات کو ہینڈل کیا ۔ وطن عزیز میںاس وقت جو صورتحال ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو خاص بصیرت کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔

ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا ماڈل اس وقت کئی جدید ممالک نے اپنا رکھا ہے بلکہ تمام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک نے ریاست مدینہ کا ماڈل سامنے رکھتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پالیسیاں ترتیب دے رکھی ہیں۔ محض عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرنے سے ریاست مدینہ قائم نہیں ہو سکتی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر اپنے اُوپر لاگو کرنے، مسلمانوں اور ریاست کو اسلام کے اُصولوں  کے مطابق ڈھالنے سے یہ تصور کا میاب ہوگا ۔ فی الوقت یہ امر انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے ۔حکومت پاکستان کو سب سے پہلے ملک سے رشوت، کمیشن، سفارش اور اقربا پروری کے خاتمے پرتوجہ مرکوز کرنی چاہیے۔قبضہ گروپوں اور استحصالیوں کو عوامی نمائندے کہلانے سے باز رکھا جائے۔ کمزور اور سادہ لوح طبقات تک ضروریات زندگی اور انصاف کی رسائی آسان بنائی جائے۔ حکومت عوام کی کردارسازی کرے۔ ریاست کو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط بنائے۔ اپنی زندگی کو سادہ اور  اسلام کے مطابق بنائے۔

حکومت یہ تہیہ کرے کہ اب ہم نے کسی ’’ غیر ‘‘ کی جنگ میں نہیں اُلجھنا، آج کل امریکہ اور ایران کے مابین تعلقات میں کشیدگی شدت اختیار کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کے بھی ایران کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں، جنرل (ر) راحیل شریف اتحادی افواج کے سربراہ ہیں، اس وقت پاکستانی فوج کو دنیا کی بہترین فوج تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب سمیت کئی دوست مسلم ممالک کی خواہش ہو سکتی ہے کہ پاکستانی افواج کی صلا حیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ مگر اب کسی بھی جنگ میں اُلجھنا یا کسی بھی تنازعے  میں فریق بننا، نہ ہمارے لئے بہتر ہے اور نہ ہی کسی مسلم ریاست کیلئے۔ اس وقت امریکہ اور کچھ عالمی قوتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں کو آپس میں صف آراء کریں۔

مگر موجودہ وقت میں تمام مسلم سر براہوں کو حقیقی بصیرت اور صبر کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔ پاکستان کو بڑے بھائی کا کردار سر انجام دیتے ہوئے مسلم ممالک کے آپس کے اختلا فات ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اپنے ہمسایہ مسلم ممالک سے تعلقات بہتر سے بہتر بنانے چاہئیں۔ حکومت  اور قوم تہیہ کر لے کہ اب ہم  نے کسی بھی تنازعہ میں نہیں اُلجھنا، نہ ہی ملک کے اندر ایسی فضا قائم ہونے دینی ہے کہ یہاںکی دینی جماعتیں اپنے پسندیدہ ممالک کی حمایت میں آپس میں اُلجھیں، ہم پہلے مسلمان پھر پاکستانی ہیں ۔ اسلام میں اُمت کا تصور بہت مضبوط ہے، یہاں مختلف فرقوں کے مابین قربت بڑھانے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی طرح فرقہ بندی کو بھی جّرم سمجھا جائے ۔

یہ  بات بھی اہم ہے کہ آغاز اسلام سے لے کر آج تک ہر مسلم ریاست کا تصور ’’ریاست مدینہ‘‘ سے جڑا ہوا ہے، ریاست مدینہ ہر مسلم ریاست کیلئے ایک نمونہ ہے، آپﷺ کی حیات مبا رکہ ہر مسلمان کیلئے نمونہ ہے اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھالنا ہی اصل اسلام ہے اس میںکو ئی دوسری رائے نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اب ہم نے کسی گیم کا حصہ نہیں بننا، اپنے دین، اپنے وطن اور تمام اُمت مسلمہ کی سرفرازی اور سر بلندی کیلئے کام کرنا ہے۔

سابقہ فوجی ادوار کا طعنہ موجودہ عسکری قیادت کونہیں دیا جاسکتا

افغان جہاد اور نائن الیون کے بعد اب تک پاکستان میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی اعصاب شکن جنگ جاری ہے، ایسا ف، نیٹو اور بھارت کے علاوہ کئی اسلامی ملک بھی پراکسی وار میں شامل ہیں، یہ قوتیں پاکستان کو افغانستان ، عراق، شام اور لیبیا سے بھی زیادہ کمزور دیکھنا چاہتی ہیں ۔ پاک فوج ملک میں خانہ جنگی کی متعدد کوششیں ناکام بنا چکی ہے۔ غیر ملکی قوتوں نے کئی مواقع پر دین کے ’’فیکٹر ‘‘ کو استعمال کرنے  کی کوشش کی ۔ ہزارہ قبیلے کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں پر حکومت اور فوج نے نہایت تدبیر کا ثبوت دیا، اس طرح کے بہت سارے مواقع آئے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کیا جا سکتا تھا، مگر پاک فوج کی معاونت سے ہر سازش کو نا کام بنایا گیا۔ بھارت، افغا نستان اور ایران کی سرحدوں سے دخل اندازی کا مناسب جواب دیا گیا۔

عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش مرکزی حیثیت اختیار کر جانے کی وجہ سے پاکستان یا کسی بھی ایسی ریاست کی فیصلہ سازی میں مسلح افواج کا کردارزیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ لیکن مسلح افواج بھی اُس وقت تک اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کرسکتی جب تک انہیں تمام سیاسی قوتوں اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہو لیکن بدقسمتی سے یہاںایسی قوتیں بھی موجود ہیں جو عوام کو باور کروانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ عمران خان کو فوج نے ’’سلیکٹ‘‘ کیا ہے حالانکہ ان حالات میں سول ملٹری تعلقات مثالی ہونے چاہئیں۔ پاک فوج کو عوام کی ’’اخلاقی حمایت‘‘ کی بہت ضرورت ہے۔ پوری قوم کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔

ہوس اقتدار کے پجاری بعض اوقات وہ زبان بول دیتے ہیں کہ جو بھارت میں بھی نہیں بولی جاتی۔ ایک طویل اعصاب شکن جنگ لڑنے والی فوج کو عوام کی محبت، خلوص اور تائید کی ضرورت ہے کہ قوم کی طرف سے دیا جانے والا حوصلہ  انھیں نئی زندگی بخش سکتا ہے۔ سابقہ فوجی ادوار کا حوالہ دے کر موجودہ عسکری قوتوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی اُن کی موجودہ حکمت عملی پر اعتراض کیا جا سکتا ہے ؟

پاکستان کا قیام ناگزیر کیوں تھا؟

پہلے قائد اعظم ؒ اور تمام مسلم اکابر ین ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔ وہ آزادی کی جنگ مل کر لڑنے کے خواہشمند تھے، مگر پھر حالات بدلتے گئے۔ ہندوؤں کے تعصب میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوا۔ ان میں ایک خاص سوچ پیدا کی گئی کہ ’’ھندِ‘‘ کی سر زمین مسلمانوں کیلئے تنگ کر دی جائے۔ انھیں اس حد تک کچل دیا جائے کہ وہ کبھی بھی سنبھلنے یا ترقی کرنے کے قابل نہ رہیں۔ برطانیہ اور عالمی قوتوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ مسلمان آزادی کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوگئے، مسلمانوں کی بقاء کا کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہ تھا، مگر پاکستان قائم ہونے کے بعد اس ریاست کو سوشلِزم اور کیمونزم کا مقابلہ کرنے اور سوشلسٹ قوتوںکو شکست سے دوچار کرنے کیلئے ’’فرنٹ لائن‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا،سوشلزم اور کیمونزم کے خلاف خاص سوچ پیدا کی گئی، دینی جماعتیں قائم کرنے اور انھیں مضبوط کرنے کیلئے ایک خاص پلاننگ کی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ دینی جماعتوں کی لیڈرشپ غیر ملکی قوتوں کی آلہ کار نہیں تھیں اور وہ دین کے احیاء کیلئے مکمل مخلص تھیں مگر ان کی جدوجہد کو سوشلِزم کے پھیلاؤ کو روکنے تک محدود کر دیا گیا، یہودونصاریٰ اور دوسری اُن تمام اقوام کی جانب توجہ مبذول ہی نہیں ہونے دی گئی جو مسلمانوں کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے اور انھیں پسماندہ رکھنے کی عملی کوششوں میں مصروف تھیں۔ اگر ان تمام معاملات کو حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ برصغیر کے مسلمان، پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم عالمی قوتوں اور مغرب کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کی مطلوبہ اہلیت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکی۔ غیر ملکی قوتیں تو حالات کا بہاؤ ہمیشہ اپنے حق میں کر لیتی ہیں مگر ہم اس بہاؤ کا رُخ موڑنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکے، اور نہ ہی خطرے کو فوری طور پر بھانپنے کی قابلیت رکھتے ہیں، پراکسی وار جیتنے کیلئے پوری قوم کو بیدار اور باشعور ہونا پڑے گا، آنکھیں بند رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا مزید اُلجھے گا۔

 دوسری قومیں ہماری سادگی سے فائدہ اٹھاتی ہیں

یہ بات طے شدہ ہے کہ تقریباً تمام غیر اقوام ہماری سادگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اور وہ اپنے مفادات پورے کرنے کیلئے بڑی آسانی سے پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی سیاستدانوں کو استعمال کر جاتی ہیں اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل جاتی ہیں، شائد اس کی اصل وجہ ہماری زیرک لیڈرشپ کا فقدان ہے، ذوالفقار علی بھٹو عالم اسلام کے بہت بڑے اور مخلص راہنما تھے، ان کا پروگرام بھی انقلابی اور مثبت تھا مگر وہ بھی اس درجہ زیرک نہ تھے کہ عالمی قوتوں اور غیر ممالک کی سازشوں سے بچ  کر اپنے پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔ اُن کے بعد تو کوئی بھی حکمران یا سیاستدان ایسا نہ تھا کہ جو قوم کی راہنمائی کرتا ۔ قوم کو سادگی کے خول سے نکالتا، یا غیر ملکی قوتوں کی سازشوں سے بچ سکتا ۔ ملک کا کوئی بھی سربراہ ملک دشمن، عوام دشمن یا غدار نہیں تھا، مگر ان میں کوئی بھی حددرجہ زیرک یا غیر معمولی فہم کا مالک نہ تھا ۔

دوسری ا قوام نے ان کی شخصیت، فکرو سوچ اور قابلیت کو مد نظر رکھ کر اپنی گیم کھیلی اور مطلوبہ مقاصد حاصل کئے، ان تمام حکمرانواں کوآسانی سے ’’ٹریپ ‘‘ کیا گیا جو عوام کی سوچ اور اُمنگوں کے مطابق کچھ کرنا چاہتے تھے، ضیاء الحق کو یقین دلایا گیا کہ آپ کی عوام اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے، پرویز مشرف کو کہا گیا کہ آپ کی عوام گھٹن زدہ زندگی سے تنگ آچکی ہے اور جد ید دنیا سے پیچھے رہ  گئی ہے۔ مگر ریاست مدینہ کا نظریہ بلا وجہ نہیں ہے۔ ہماری معاشی و اقتصادی ضروریات، ہماری ترقی اور اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرنے کی خواہش کو چالاک اقوام بڑی آسانی سے اپنا الّوسیدھا کرنے کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ موجودہ لیڈر شپ عالمی فورم پر اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ’’دوسری اقوام ہماری سادگی سے فائدہ اٹھاتی ہیں، جبکہ سنجیدہ حلقوں نے کہا ’’ ہماری بیوقوفی سے فائدہ اٹھاتی ہیں، یہاں ’’سادہ‘‘ ہونا فخر کی بات  یا ترقی کی علامت نہیں، شرمندگی کی بات ہے۔

بر صغیر کے مسلمانوں کا عقیدہ اور غیر اقوام کی سازشیں!

محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی آ مد اُس معاشرے میں ہوئی کہ جہاں صرف ظلمتوں کے اندھیرے تھے۔ پورا معاشرہ اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھا۔ ظلم و استحصال کا دورَ تھا، بُت پرستی کے علاوہ زنا کاری، شراب نوشی، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا، سّودی کاروبار، غلاموں کے ساتھ ظالمانہ سلوک، غرض کہ کوئی معاشرتی یا اخلاقی برائی ایسی نہ تھی کہ جو اُس معاشرے میں نہ ہو۔ جانوروں کو ذبح کر کے اس کا گوشت اور خون دیواروں اور چھتوں پر لگا دیا جاتا، آپ ﷺ پیدا ہوئے تو باپ کا سایہ، پیدا ہونے سے چھ ماہ پہلے ہی سر سے اٹھ چکا تھا۔

نہ بہن نہ بھائی ۔ جب آپ کی عمر چھ سال ہوئی والدہ بھی انتقال فرما گئیں، آٹھ سال کی عمر میں دادا بھی فوت ہوگئے۔ آپﷺ اپنے معاشرے میں اخلاقی، سماجی، معاشرتی برائیاں، ناانصافی، یتیموں، خواتین اور کمزوروں کے ساتھ ظلم وستم دیکھتے ہوئے جوان ہوئے۔ غارِ حرا تشریف لے جاتے، بعثت نبوت کے بعد اسلام کی دعوت دی اس کے بعد جو ظلم و ستم ہوئے اور غزوات لڑی گئیں ہر مسلمان واقف ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کاآغاز پہلے مسلمان سے ہی ہوگیا تھا، مدینہ کی ریاست میں بھی پاکیزگی نظر آتی اور گھروں میں بھی، مسلمانوں کی زندگیاں صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابع تھیں، آپﷺ کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کیلئے کوئی دلیل یا جواز نہیں گھڑا جاتا تھا۔ اب ہر ناجائز اور حرام کو حلال قرار دینے کیلئے جواز، تاویلیں اور دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔

بیرونی قوتوں نے برصغیرکے مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا ہے ماضی کے تمام واقعات سامنے ہیں۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں حکمرانوں، سیاسیدانوں اور عوام کو بہت زیادہ بیدار مغزی کا ثبوت دینا پڑے گا۔ اس وقت اس امر کی حد درجہ ضرورت ہے کہ امراء اور مراعات یافتہ طبقات اسلام کا معاشی، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی نظام قائم کرنے کیلئے اپنی ذمہ داری انجام دیں، ورنہ ظلم و استحصال والے معاشرے میں آخر کار طاقتوروں اوردولتمندوں کا بھی کچھ نہیں بچتا ۔ اگر معاشرے سے ظلم و نا انصافی مِٹ جائے، نفسانفسی کی جگہ ایثار پیدا ہو جائے تو شائد امراء اور مراعات یافتہ استحصالی طبقہ اللہ کی پکڑ، مظلوموں کی بددعاؤں اور استحصال زدہ طبقے کے غیض و غضب سے بچ جائے، وگرنہ یہ بات بہت اہم ہے کہ غیر اقوام ہمیشہ اس قسم کی حالت کا بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں۔

The post کیا فلاحی اسلامی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپائیگا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پانی کی کمی رنگ دکھانے لگی ؛ کراچی سے چینائے تک العطش کی دہائی

$
0
0

سنجیو ہریش درد سے تڑپ رہا تھا۔ آج اس کا آپریشن تھا۔ ڈاکٹر نے گردے سے پتھریاں نکالنی تھیں۔ سنجیو کو امید تھی کہ آج اسے گردے کے شدید درد سے نجات مل جائے گی۔ مگر ایک ناگہانی آفت نے سبھی کو آن دبوچا… ہسپتال میں پانی ختم ہو گیا۔ جبکہ آلاتِ آپریشن کی صفائی کے لیے پانی لازمی ضرورت تھا۔

سنجیو کو معلوم ہوا کہ پانی کا ٹرک شام کو آئے گا‘ تو اس پر گویا بجلی گر پڑی۔ اسے اب مزید کئی گھنٹے گردے کی جان لیوا تکلیف برداشت کرنی تھی۔یہ مریض کسی دوردراز گاؤں نہیں بہ لحاظ آبادی بھار ت کے چھٹے بڑے شہر‘ چینائے (مدارس) کا باسی ہے۔ چینائے اور اس کی مضافاتی بستیوں میں تقریباً ایک کروڑ انسان بستے ہیں۔ شہر خلیج بنگال پر واقع ہے۔ مگر مختلف مسائل کے باعث شہر میں پانی کی شدید قلت جنم لے چکی ہے ۔ عالم یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں سرکاری ٹرک شہریوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر پانی اتنا نایاب ہو چکا کہ اسے ڈرموں میں محفوظ کر کے تالے لگا دیئے جاتے۔ مقصد یہ کہ پانی چوری نہ ہو سکے۔ گویا چینائے میںپانی سونے کی طرح قیمتی شے بن چکا ہے۔

سنجیو ہریش کروڑوں بھارتی شہریوں کی طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ مقامی کمپنی میں ملازم ہے۔ آمدن اتنی ہے کہ ماہانہ اخراجات پورے ہو جائیں۔ مگر گردوں کی تکلیف نے اسے مالی مسائل میں بھی مبتلا کر د یا۔ اسے کمپنی سے بغیر تنخواہ کے دس دن کی چھٹی کرنا پڑی تاکہ گردے کا آپریشن کرا سکے۔ اب پانی کی قلت نے اسے نئی مصیبت سے دو چار کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ قلت آب نے چینائے کے لاکھوں باسیوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ مرد‘ عورتیں‘ بچے بوڑھے… سبھی کو روزانہ کئی گھنٹے قطار میں لگے صرف کرنے پڑتے ہیں تاکہ سرکاری ٹرکوں سے پانی پا سکیں۔ یہ مائع دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں بیش قیمت مصنوعہ بن گیا۔ امرا ہزاروں روپے دے کر پانی سے بھرے ٹرک خریدنے لگے۔ جن لوگوں کے گھروں میں پانی کے کنوئیں تھے، ان کی تو چاندی ہو گئی۔ وہ منہ مانگی قیمت پر پانی فروخت کرنے لگے۔

ایک ایک بوند کا حساب

چینائے کو چار ذرائع آب سے پانی ملتا ہے۔ علاقے میں پچھلے چار برس سے مون سونی بارشیں کم ہوئی ہیں۔ اس دوران آبادی بڑھنے سے پانی کا استعمال بھی بڑھ چکا۔ ان دو متضاد عوامل کے باعث چاروں جھیلوں میں پانی نہیں رہا اور وہ سوکھ گئیں۔ اسی عمل کی وجہ سے چینائے میں پانی کی شدید کمی نے جنم لیا اور تمام شہریوں کی روز مرہ زندگی تلپٹ ہو گئی۔ ان کا بیشتر وقت پانی کا بندوبست کرنے میں گذرنے لگا۔سرکاری اور نجی دفاتر میں ملازمین کو جلد چھٹی دی جانے لگی تاکہ وہ پانی کم استعمال کر سکیں ۔ کئی کمپنیوں نے تو ملازمین کو یہ کہہ دیا کہ وہ گھر پر کام کریں۔لوگوں نے نلکوں میں نوزل لگوا لیے تاکہ پانی کم خرچ ہو۔ شہر میں قلت آب سے ہوٹلوں کا دھندا ماند پڑ گیا۔ ظاہر ہے ہوٹلوں میں پانی ہی نہیں رہا، تو گاہک کیوں آئیں گے؟سب ہوٹل بڑے بڑے پتوں یا کاغذی برتنوں میں کھانا دینے لگے تاکہ انھیں پانی سے دھونا نہ پڑے۔ بہت سے اسکول وکالج بند کر دئیے گئے۔

چینائے کے باسی شدید قلت آب کا نشانہ بنے تو انھیں پانی کی قدر و قیمت کا احساس ہوا۔ وہ پھر بڑی کنجوسی سے یہ قدرتی نعمت استعمال کرنے لگے۔ جب پانی بکثرت تھا‘ تو کوئی اسے اہمیت نہ دیتا۔ پانی کا نلکا بہہ رہا ہے مگر کسی کو پروا نہ ہوتی۔سرکاری پائپ لائن رسنے لگتی تو کئی دن بعد ٹھیک کی جاتی۔ اب نلکے سے ہوا خارج ہوتی ہے، تو شہریوں کو بہتے پانی کا منظر تڑپاکر رکھ دیتا ہے۔ انہیں افسوس ہوتا ہے کہ وہ پانی کی قدر نہیں کر پائے۔ پھر عہد کرتے ہیں کہ اب وہ اس آسمانی نعمت کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں گے۔ یہی وجہ ہے ‘ چینائے کے شہری اب محض ایک لیٹر پانی سے بھی غسل کر لیتے ہیں۔وہ ایک ایک بوند کا حساب رکھنے لگے تاکہ اس نعمت سے بخوبی فائدہ اٹھا سکیں۔

چینائے میں مون سون کا موسم شروع ہو چکا۔ ہفتے میں دو تین دن بارشیں ہو جاتی ہیں۔ مگر یہ بارشیں اب قلت آب دور کرنے کا مستقل حل نہیں رہیں۔ وجہ یہ کہ بارشوں سے چاروں ذرائع آب میں جو پانی جمع ہوتا ہے، وہ چند ماہ کے اندر ہی شہری استعمال کر لیتے ہیں ۔چنانچہ پھر انہیں پانی کی کمی کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ چینائے سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اسی لیے وہاں زیر زمین پانی بھی کھارا ہے۔ میٹھے پانی کے کنوئیں شہرسے دور واقع ہیں۔چینائے بھارتی ریاست تامل ناڈو کا صدر مقام ہے۔ مشہور تفریحی وکاروباری مقام ہے۔

مقامی تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔ یہاں کے باسی اعتدال پسند اور روادار ہیں۔ چالیس پچاس سال پہلے تک ریاست میںپانی کی فراوانی تھی۔ ساحل سمندر سے دور زمین میں کنواں کھودا جاتا‘ تو جلد ہی میٹھا پانی مل جاتا۔ مگر بے دریغ استعمال کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچے جا چکی۔ اب کئی فٹ کھدائی کی جائے تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور وہ بھی عمدہ نہیں ہوتا۔پانی کی کمی کے باعث شہر میں لڑائی جھگڑے بھی د یکھنے کو ملے۔حتی کہ قتل بھی ہو گئے جو انہونی بات تھی۔ اہل چینائے ٹھنڈے مزاج کے صبر و سکون رکھنے والے شہری ہیں۔ مگر قلت آب نے شہریوں کو غصیلا اور جلد باز بنا دیا۔ جب پانی کا ٹرک پہنچے‘ تو لوگ بے تابی سے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تب ہر کسی کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ پہلے پانی حاصل کر لے۔

مگر جلد بازی کے باعث آپس میں لڑائی بھی ہو جاتی ہے۔ یوں قلت آب امن پسند شہر میں منفی تبدیلی لے آئی اور باسیوں کو جھگڑالو بنانے لگی۔چینائے ہی نہیں بھارت کے دیگر بڑے شہر اور علاقے بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ اس قلت نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔ مثال کے طور پر تامل ناڈو کے ممتاز ماہر آب ڈاکٹر شنکر رگھوان کا کہنا ہے ’’قلت آب جنم دینے میں انسانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ لوگ ندی نالوں اور جھیلوں میں کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔ اس باعث آبی ذخائر کا رقبہ سکڑ رہا ہے اور ان میں زیادہ پانی جمع کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔‘‘

بھارتی معیشت خطرے میں

دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑھتی آبادی‘ آب پاشی کے غلط طریقوں کا استعمال‘ پانی ضائع کرنا اور آب و ہوا میں تبدیلیاں قلت آب جنم لینے کے بڑے اسباب ہیں۔وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر،کراچی ہی کو لیجیے جہاں لاکھوں باسیوں کو روزانہ پانی حاصل کرنے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ ہمارے کرہ ارض کا بیشتررقبہ پانی سے گھرا ہوا ہے مگر یہ کھارا ہے۔ زمین پر موجود کُل پانی میں سے صرف 3.4فیصد میٹھا ہے۔ اس میٹھے پانی کا 1.7 فیصد حصہ زیر زمین آبی ذخائر اور 1.7 فیصد گلیشروں میں محفوظ ہے۔

افسوس کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے قطب شمالی‘ قطب جنوبی اور گرین لینڈ میں صدیوں سے منجمند میٹھا پانی پگھل کر سمندروں میں گر رہا ہے۔گویا میٹھے پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 ء تک دنیا بھر میں تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی کی کمی سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔گلیشیرؤں اور بارشوں کے پانی ہی سے دریا وجود میں آئے۔ دریاؤں کا پانی آب پاشی میں کام آتا ہے۔ بھارت اور کئی دوسرے ممالک میں 70تا 80 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ 22فیصد پانی کارخانوں میں کھپ جاتا ہے۔ یوں گھریلو مقاصد پورے کرنے کی خاطر 8 فیصد پانی بچ پاتا ہے۔ اسی پانی سے اہل خانہ پیاس بجھاتے ‘ کپڑے دھوتے‘ فلش کرتے اور دیگر کام انجام دیتے ہیں۔ ماہرین کی رو سے ہر انسان کو روز مرہ کام کرنے کے لئے 25 لیٹر فی کس پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

چینائے میں پانی کی قلت آب و ہوائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کی وجہ سے بھارت کی جنوبی اور مغربی ریاستوں میں پچھلے پانچ سال کے دوران کافی کم بارشیں ہوئی ہیں۔ بھارتی ریاستوں میں پانی کی کمی نے مہاراشٹر اور تامل ناڈو کو زیادہ متاثر کیا۔ یہ دونوں بالترتیب بہ لحاظ آبادی بھارت کی دوسری ( ساڑھے گیارہ کروڑ) اور چھٹی (سوا سات کروڑ) بڑی ریاستیں ہیں۔ بارشیں کم ہونے کے باوجود ان ریاستوں کے کروڑوں باسی آبی ذخائر کا پانی استعمال کرتے رہے۔

چنانچہ اب وہ سوکھ چکے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ رواں سال بھی مہاراشٹر اور تامل ناڈو کے بیشتر علاقوں میں مون سونی بارشیں کم ہی ہوں گی۔بھارتی حکومت کے لیے یہ اچھی خبر نہیں۔ بھارت کے جی ڈی پی میں سب سے زیادہ یہی دونوں ریاستیں حصہ ڈالتی ہیں۔ ان ریاستوں میں کئی ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے دفاتر اور کارخانے واقع ہیں۔ لیکن پانی کی کمی ان ریاستوں میں صنعت و تجارت ‘ کاروبار اور زراعت کو نقصان پہنچائے گی۔سرمایہ کار اپنے کارخانے اور دفاتر دیگر ریاستوں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوں گے۔یوں ریاستیں معاشی زوال کا نشانہ بن جائیں گی۔ان کے زوال سے بھارت کا جی ڈی پی بھی کم ہو گا۔ نیز معاشی ترقی کی شرح کو بھی ضعف پہنچے گا۔

چینائے قلت آب کا نشانہ بننے والا پہلا بڑا بھارتی شہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مستقبل میں پانی کی کمی بھارتی معیشت کو کافی نقصان پہنچائے گی۔ بڑھتی آبادی کے باعث بھارت میں پانی کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن پانی کے ذخائر میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ آب و ہواکی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے‘ جب بھارت آزاد ہوا تھا تو ہر شہری کو تین ہزار مکعب میٹر پانی میسر تھا۔ آج یہ عدد صرف ایک ہزار مکعب میٹر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔آج بھارت کے تمام بڑے شہروں میں قلت آب جنم لے چکی۔ غریب عوام خصوصاً اکثر پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ وہ گھٹیا معیار کا پانی پینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2024ء تک ہر شہری کو نلکے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ لیکن یہ مہم کیونکر کامیاب ہو گی ‘ اس ضمن میں مودی سرکار کے سامنے کوئی واضح پلان اور وژن موجود نہیں۔

 نت نئے مسائل کا جنم

بھارت میں کئی سو چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ان دریاؤں کا پانی کنٹرول کرنے کی خاطر ریاستی حکومتوں کے مابین اختلافات اور چپقلش بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے‘ ہر ریاستی حکومت چاہے گی کہ اس کی ریاست میں قلت آب جنم نہ لے۔ یہ قلت لوگوں میں بے چینی اور معاشرتی بگاڑ پیدا کرتی ہے جس سے ہر حکومت بچنا چاہتی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں قلت آب شدید ہوئی‘ تو پانی کے مسئلے پر ریاستی اختلافات بھی شدت اختیار کر لیں گے۔ تب ممکن ہے کہ وفاقِ بھارت ٹوٹنے کا خطرہ پیدا جائے۔ ظاہر ہے تب جذبہ حب الوطنی نہیں بقائے زندگی حکومتوں کے لیے اہمیت اختیار کر جائے گی۔ جب پانی نہ ہو تو انسان پہلے اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے‘ کوئی اور جذبہ پیاس بجھا کر ہی جنم لیتا ہے۔

ہمارے پڑوسی دیس میں یہ اعجوبہ بھی موجود ہے کہ وہاں پانی کی کل ضروریات کا 55فیصد حصہ زیر زمین واقع آبی ذخائر سے پانی نکال کر پورا کیا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت دریاؤں ‘ نہروں‘ جھیلوں کے پانی پر تو کچھ کنٹرول رکھتی ہے مگر زیر زمین ذخائر میں موجود بیشتر پانی شہریوں کی ملکیت ہے۔ یہی وجہ ہے پچھلے پچاس برس کے دوران شہری ان ذخائر سے اربوں گیلن پانی نکال چکے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بیشتر بھارتی اضلاع اور شہروں میں اگلے سال کے اواخر تک زیر زمین آبی ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یہ مودی سرکار کے لیے ایک اور بری خبر ہے۔ بھارت کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 16 فیصد ہے جبکہ بھارتی زراعت میں 25 فیصد پانی زیر زمین آبی ذخائر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر یہ ذخائر ختم ہوگئے، تو زراعت بھی ماند پڑجائے گی۔ یوں خوراک کم پیدا ہوگی۔ بھارتی حکومت کو بیرون ممالک سے غذا درآمد کرنا پڑے گی۔ اس طرح حکومت پر ایک اور مالی دباؤ پڑ ئے گا جو پہلے ہی بڑھتے اخراجات کے باعث پریشان ہے۔

یاد رہے، جو پانی زمین کی زیادہ گہرائی سے نکالا جائے، وہ ڈاکٹروں کے نزدیک عمدہ نہیں ہوتا۔ وجہ یہ کہ اس پانی میں بعض معدنیات مثلاً فولاد اور نمکیات تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اصطلاح میں یہ ’’بھاری پانی‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان اگر طویل عرصہ یہ بھاری پانی استعمال کرے تو مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ مثلاً بالوں کا گرجانا، جلدی مسائل اور خاص طور پر امراض معدہ، لیکن کروڑوں بھارتی یہ مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں صاف ستھرا پانی میسر نہیں۔بھارتی حکومت کے اپنے اعدادو شمار کی رو سے آج ’’ساٹھ کروڑ بھارتی‘‘ کسی نہ کسی طرح پانی کی کمی کا شکار ہو چکے۔ ان میں شہری، دیہاتی، کسان، مزدور، کلرک، تاجر، دکان دار غرض ہر پیشے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ قلت آب نے خصوصاً کسانوں کو زیادہ متاثر کیا ہے کیونکہ ان کا روزگار خطرے میں پڑچکا۔

مہاراشٹر، راجستھان، تامل ناڈو، کرناٹک، اڑیسہ اور پانی کی کمی کا شکار دیگر ریاستوں میں ہزارہا کسانوں کے کھیت قلت آب کے باعث تباہ ہوچکے۔ لاکھوں بھارتی مجبور ہوگئے کہ وہ اپنے دیہات سے نکل مکانی کرکے شہروں میں آجائیں تاکہ وہاں روزگار مل سکے۔ بھارتی شہروں میں دیہاتیوں کی بڑی تعداد آنے سے نئے معاشی و معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔شہروں میں مقیم بھارتیوں کو شکایت ہے کہ دیہاتی ان سے ملازمتیں چھیننے لگے ہیں۔ پھر پانی، بجلی اور گیس کے وسائل جو بڑھتی آبادی کے باعث پہلے ہی نایاب تھے، دیہاتیوں کی آمد سے ان پر مزید دباؤ پڑگیا۔ گھروں اور فلیٹوں کے کرائے میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ ان کی مانگ بڑھ گئی۔ غرض قلت آب بھارت میں نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔

پانی کی کمی اور بڑھتے درجہ حرارت سے پیدا ہونے والا قحط بھی بھارت میں مختلف خطرات سامنے لارہا ہے۔ سرکاری اداروں کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے ’’44 فیصد‘‘ علاقے کم یا زیادہ قحط میں مبتلا ہیں۔ اکثر علاقوں میں مویشی مرچکے۔ اس باعث دیہاتی اپنے اہم ذریعہ آمدن سے محروم ہوگئے۔ فصلیں تو پہلے ہی تباہ ہوچکی تھیں۔ لہٰذا بھوک، پیاس اور قرضوں کے ستائے کئی بھارتی کسان ہر سال خودکشی کرلیتے ہیں۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی جان لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔یاد رہے اناج، پھل اور سبزی کی کاشت آب و ہوائی تبدیلیوں، بڑھتے درجہ حرارت، مسلسل بارشوں اور دیگر موسی حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔ اگر طویل عرصہ شدید گرمی رہے، تو وہ فصلیں تباہ کر ڈالتی ہے۔ اسی طرح مسلسل بارشیں ہونا بھی نیک شگون نہیں ہوتا اور کھیت یا باغات برباد ہوجاتے ہیں۔ غرض زراعت کوئی آسان پیشہ نہیں بلکہ اس پیشے سے وابستہ افراد کو کوئی مسائل کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

بڑے شہر ہوں یا دیہات، آج بھارت کے باسی قلت آب سے دوچار ہوکر کٹھن زندگی کے نئے رنگ روپ سے آشنا ہو رہے ہیں۔ زیر زمین آبی ذخائر سوکھ چکے۔ انسانی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے والی جھلیوں اور تالابوں میں بھی پانی کم ہورہا ہے۔ وہ زمانہ بیت گیا جب ہر کسی کو وافر و مفت پانی دستیاب تھا۔ اب تمام بڑے بھارتی شہروں میں پانی کو راشن کرنا معمول بن چکا۔ کئی علاقوں میں ایک ایک لیٹر کا حساب رکھا جاتا ہے۔

اسی طرح بہت سی جگہوں میں بچے بڑے صبح اٹھ کر سب سے پہلے پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو پانی حاصل کرتے ہوئے کئی گھنٹے بیت جاتے ہیں۔ غرض ہزارہا بھارتیوں کے لیے پانی کا کھوج لگانا کل وقتی کام بن چکا۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں پانی کی تقسیم کا نظام بھی منصفانہ نہیں۔ دیہی علاقے میں بڑے زمین دار دریاؤں اور نہروں سے زبردستی زیادہ پانی لیتے ہیں۔ شہروں میں امیر و پوش علاقوں میں زیادہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ غرض غریب بھارتی گاؤں میں ہو یا شہر میں، پانی کا حصول اس کے لیے کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ یہ قدرتی نعمت پانے کی خاطر اسے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ پانی کرہ ارض کی روح ہے۔ مگر یہ روح رفتہ رفتہ بیمار و لاغر ہورہی ہے۔ اگر بنی نوع انسان نے اس روح کو تندرست و صحت مند بنانے کے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو خود اس کی بقا خطرے میں پڑجائے گی۔ لہٰذا پانی کی قدر کیجیے اور اسے محفوظ کرنے کے لیے اقدامات اپنائیے۔ یہ معمولی نہیں ہیرے سے بھی قیمتی شے ہے۔ پانی ضائع کرکے آنے والی نسلوں کو یہ موقع نہ دیجیے کہ وہ آپ پر لعنت ملامت کرتے زندگی گزارنے لگیں۔ یاد رکھیے، آپ کوئی بھی کام انجام دیں، توہ پانی کم سے کم استعمال کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔

The post پانی کی کمی رنگ دکھانے لگی ؛ کراچی سے چینائے تک العطش کی دہائی appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live