Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

کوچۂ سخن

$
0
0

’’عید آئی ہے!‘‘


عید آئی ہے مگر عید کی ساری خوشیاں
یہ صداقت ہے کہ بچپن میں ملا کرتی تھیں
لذتیں عود کے آ جاتی تھیں پکوانوں میں
اور نئے کپڑوں کی پوشاکیں سلا کرتی تھیں
سخت غربت میں بھی اخلاص کا پیکر تھے لوگ
سب کے آنگن میں مسرت کی ردا چھاتی تھی
قہقہے گونجتے رہتے تھے فضا میں کتنے
کتنی رونق تھی جو پھر گاؤں میں لگ جاتی تھی
اب یہ عالم ہے، دبے پاؤں گزر جاتی ہے
رونقیں عید کی اب پہلے سی باقی ہی نہیں
گرچہ رنگوں سے مزین تو ہے اب بھی لیکن
عید کی کوئی بھی چھب پہلے سی باقی ہی نہیں
(فیصل مضطر۔ آزاد کشمیر)

۔۔۔
’’خوشبو‘‘
مرے آنچل سے لپٹی ہے
مری آنکھوں میں سمٹی ہے
تمہارے لوٹ آنے کی
نئی امید کی خوشبو
مرے گجرے میں مہکے گی
مری چوڑی میں کھنکے گی
تمہارے پیار کی خوشبو
تمہاری دید کی خوشبو
میں جب اپنی ہتھیلی پر
حنا کے سرخ رنگوں سے
تمہارا نام لکھوں گی
تو تم تک آن پہنچے گی
تری ناہید کی خوشبو
تمہارے ساتھ مہکے گی
ہماری عید کی خوشبو
(ناہید اختر بلوچ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
’’اذانِ عید‘‘


اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
وگرنہ یہ
شہر بدر سماعتیں
تڑی پار لمس کیا کرتے
مقید سراپوں پہ کیا بیتتی
اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
آہنی چھتوں کے سایے میں
حبس زدہ سانسیں
مہیب لہروں کی
گردش میں پھنسے
وہ پردیسی ، وہ بے گھر
کیا کرتے
اے اذانِ عید
لاکھ شکر کہ تُو
پنجگانہ نہیں
روزانہ نہیں
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


مکینِ لامکاں کوئی تو ہو گا
ورائے آسماں کوئی تو ہو گا
مری منزل ہے اوجِ آدمیت
مرا بھی کارواں کوئی تو ہو گا
بچائے جو چمن کو آندھیوں سے
حریمِ گلستاں کوئی تو ہو گا
جسے آئندگاں بھی مان جائیں
مثالِ رفتگاں کوئی تو ہو گا
صدائے لا الٰہ جو آ رہی ہے
سرِ نوک سناں کوئی تو ہو گا
ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں
ہمارے درمیاں کوئی تو ہو گا
(حسن علی طاہر۔ ٹیکسلا)

۔۔۔
غزل


لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے
وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے
یہ شہر ابنِ زیاد اور یزید مسلک ہے
یہاں پہ سوچیے گا اعتکاف کرتے ہوئے
چراغ ہم نے چھپائے ہیں کیا تہِ دامن
ہوائیں گزری ہیں دل میں شگاف کرتے ہوئے
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے
اسی لیے تو مرے جرم ہیں سبھی کو پسند
کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے
کسی کے لمس کی سردی اتر گئی ہے آج
دہکتی دھوپ بدن کا غلاف کرتے ہوئے
ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہہ
کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے
(فقیہہ حیدر۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


نشست بدلی ہے خانہ بدل کے دیکھا ہے
جنوں، جنوں ہے ٹھکانہ بدل کے دیکھا ہے
میں ایک اور تعلق سے ہوگیا محروم
نصیب نے تو نشانہ بدل کے دیکھا ہے
کہیں پہ لوگ نہ موسم کہیں پہ راس آیا
جگہ جگہ پہ ٹھکانہ بدل کے دیکھا ہے
لگی نہ آنکھ دوبارہ کسی بھی کاندھے پر
سرشت بدلی ہے شانہ بدل کے دیکھا ہے
ہیں چند لمحے میسر جو استفادہ کرو
کہاں کسی نے زمانہ بدل کے دیکھا ہے
عجیب شخص ہے اختر کہ بھولتاہی نہیں
ہزار دل نے بہانہ بدل کے دیکھا ہے
(اختر ملک۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


تمہارے لہجے میں تم سے میں گفتگو کروں گا
تمہیں میں آج تمہارے ہی روبرو کروں گا
میرا یہ عشق عقیدے میں ڈھل گیا جس دن
تیری تلاش میں نکلوں گا تُو ہی تُو کروں گا
تیرے وصال میں جو ہجر سا مزا نہ ملا
میں تجھ سے مل کے بچھڑنے کی آرزو کروں گا
رکھوں گا اس کو رقیبوں تلک ہی کب محدود
کیا جو یار کا چرچا تو کو بہ کُو کروں گا
نہیں ہے آس پاس کوئی خیر خواہ میرا
سو آج میں بھی یہاں کھل کے گفتگو کروں گا
(سلمان احمد۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


اک مری جھونپڑی چھوڑ کر سارے عالم پہ سایہ کیا
اس نے سب کو گلے سے لگایا، مجھے کیوں پرایا کیا؟
جونہی چھٹی ہوئی اس نے فوراً رُخ نور کو ڈھک لیا
ورنہ کیمپس میں جب تک رہی اس نے بس اک عبایا کیا
جب وہ رخصت ہوا تو مری آنکھ کا نور بھی لے گیا
یعنی اس نے مری ذات پر اس قدر گہرا مایا کیا
چھت جو ٹوٹی کڑی دھوپ میں تو مجھے فکر تک نہ ہوئی
کیوں کہ اک شخص کے گیسوؤں نے مرے بت پہ چھایا کیا
تیرے لکھے ہوئے سب خطوں کو جلایا غمِ ہجر میں
تیرے بھیجے ہوئے سارے تحفوں کا گھر سے صفایا کیا
(ریحان سعید۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


جو گزرتی ہے محبت میں بتا دیتے ہیں
دل کی دھڑکن سے نیا شعر سنا دیتے ہیں
ہم نے سیکھا ہے لکیروں کو منقش کرنا
آئنہ دیکھ کے تصویر بنا دیتے ہیں
ہم ہیں خاموش تو پھر کوئی سبب ہی ہو گا
آپ کہتے ہیں تو پھر حشر اٹھا دیتے ہیں
دل کے مندر میں سجاتے ہو انا کے بت کیوں
تم کو کیا چیز یہ پتھر کے خدا دیتے ہیں
انکساری کی رسائی ہے دلوں تک ایسی
جو بھی ملتا ہے اسے دل سے دعا دیتے ہیں
پیار بھی کھیل بنایا ہے عجب لوگوں نے
ایک تصویر بناتے ہیں، مٹا دیتے ہیں
ان پرندوں کے تعاقب میں نہ جانا زہرا
جب یہ اڑتے ہیں تو گھر بار بھلا دیتے ہیں
(زہرا بتول۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


سب کو اپنی مثال دیتا ہے
میرا حصّہ نکال دیتا ہے
کیسا دیکھو عجیب دریا ہے
میری نیکی اچھال دیتا ہے
ہم پرندوں کا پاسباں دشمن
خود شکاری کو جال دیتا ہے
فیصلے اس طرح نہیں ہوتے
تو جو سکہ اچھال دیتا ہے
گر ہے جائز مطالبہ تیرا
دے گا وہ ذوالجلال دیتا ہے
پڑھ کے غالب کا شعر کوزہ گر
سب کو جامِ سفال دیتا ہے
(حارث انعام۔ حکیم آباد، نوشہرہ)

۔۔۔
غزل


جلتے ہوئے چراغ بجھاتی ہیں آندھیاں
سناہٹوں میں شور مچاتی ہیں آندھیاں
جانے وہی کہ جس نے گزاری ہو غم کی شب
کیسے کواڑ گھر کے بجاتی ہیں آندھیاں
صحرا پہ، دشت پر ہی نہیں ان کو دسترس
شہروں میں بھی تو خاک اڑاتی ہیں آندھیاں
آتی ہیں بن کے یاد کسی کے وصال کی
تا صبح چشم نم کو جگاتی ہیں آندھیاں
رہتے ہو کس گمان میں اسلم رؤف تم
بجھتے چراغ کو بھی ستاتی ہیں آندھیاں
(رؤف اسلم آرائیں۔ ڈگری)

۔۔۔
غزل


تیری آنکھیں کمال ہیں جاناں
چاندنی کی مثال ہیں جاناں
کیا یہ کم ہے کہ دیکھ کر تجھ کو
ہوش اب تک بحال ہیں جاناں
ماہِ کامل لگیں خدا شاہد
وہ جو تیرے ہلال ہیں جاناں
زندگی یار بن کٹے کیسے
اب تو سانسیں وبال ہیں جاناں
اس سے بڑھ کر ہیں یار غم تیرے
جتنے احمد کے بال ہیں جاناں
(احمد عباس۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل


کوئی دیوانہ کہتا ہے کہ اس میں موت بستی ہے
محبت نام ہے جس کا فقط پستی ہی پستی ہے
میں تیری آنکھ کی پرہیزگاری سے نہ بچ پایا
تمہارا وار چلتا ہے تمہاری آنکھ ڈستی ہے
میری یہ بات سن لے تُو مجھے تجھ سے نہیں چاہت
میری اس ذات کے آگے بھلا تیری کیا ہستی ہے
تو ہر سو وارداتوں میں پھنسانے میں رہا مجھ کو
نہ اب کچھ ہوش رہتا ہے جو رہتی ہے تو مستی ہے
یہ تم ارباب کس خطے میں آ پہنچے مرے ہمدم
یہاں پر عشق رہتا ہے یہ دیوانوں کی بستی ہے
(ارباب اقبال بریار، احاطہ دیوی دیال۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
آج پھر دل جلا کے دیکھتے ہیں
ان سے نظریں ملا کے دیکھتے ہیں
دیکھ کر میکدے میں ساقی کو
کوئی تہمت لگا کے دیکھتے ہیں
بوجھ ہلکا ہوا نہ رونے سے
آج ہم مسکرا کے دیکھتے ہیں
چاندنی ہے چکور آئے گا
اس کی گردن اڑا کے دیکھتے ہیں
اس سے کہنا کہ داد زندہ ہے
وہ جو زہریں پلاکے دیکھتے ہیں
(داد بلوچ۔ فورٹ منرو)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت؛ ان ہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا!

$
0
0

قسط نمبر46

ہم سب سے کچھ کھو سا گیا ہے !… کہیں گم ہوگئی ہے وہ!… یوں لگتا ہے… سب کچھ تو ہے لیکن وہ نہیں ہے!… اور اگر وہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ہے…! ہم در بہ در خاک بہ سر… اُسے تلاش کرتے پھرتے ہیں… ہلکان ہوگئے ہیں… تھک گئے ہیں ہم… پر وہ ہمیں نہیں ملتی… اب ہم اسے کہاں ڈھونڈیں! بہت مشکل ہوگیا ہے جینا… سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے کا احساس… کتنا جان لیوا ہے یہ اور کتنا بے مایا بھی … بس سانس کی آمد و رفت جاری ہے۔

کیا زندگی صرف سانسوں کی آمد و رفت ہی کو کہتے ہیں، واقعی! لیکن ہم تو اسے جینا کہہ رہے ہیں … اور پھر نعرہ زن بھی ہیں کہ جیسے چاہو جیو، لیکن ہمارے بھیتر سے کوئی کراہتا ہے اور ہمیں اس کی آواز صاف سناتی دیتی ہے … کچھ نہیں بہت محرومی ہے! اور المیہ یہ کہ کھوجنے پر بھی نہیں معلوم کہ اتنے ہنگاموں میں، مَیلوں میں، بازاروں میں، اتنے سارے لوگوں کے درمیان بھی تنہائی، اداسی، مایوسی، گھٹن اور اتنی کہ لوگ اس سے تنگ آکر پھندے پر جُھول جاتے ہیں۔ جہاں دل کے لیے موت مشینوں کی حکم رانی ہو کہ احساس مروت کو کچل دیتے ہوں آلات، عجب کیا اس میں کہ اب انسان خود اک مشین میں ڈھل گیا ہے۔ پتا ہے آپ کو کہ وہ کمی کیا ہے، تو سنیے وہ ہے زندگی کا حقیقی رس اور چس… پھر کیا کریں ہم! کہاں سے لائیں اسے! بازار میں تو وہ ملتی نہیں کہ چلو چاہے کتنی مہنگی ہی سہی خرید لائیں اسے… اور جو بازار میں ملتی ہے اس سے تو مرض اور بڑھتا جاتا ہے تو اب ہم کیا کریں…! بس ایک گردش ہے… ایک گرداب ہے… اور ہم اس میں پھنس سے گئے ہیں… کیسے نجات حاصل کریں اس سے … ہم زندگی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں… کراہ رہے ہیں… ہمارے نالے بلند ہوتے ہیں اور دم توڑ دیتے ہیں… پکار پکار کر ہم نڈھال ہوگئے ہیں… پر اس کا پتا نہیں ملتا… بہت اذیت ناک صورتِ حال ہے یہ۔

بچپن سے دیکھتا چلا آیا ہوں… ہزاروں سے ملا ہوں… ملتا رہتا ہوں… اور زندگی رہی تو ملوں گا بھی… میں نے لوگوں سے بہت پوچھا: آپ خوش ہیں۔۔۔۔ مسرور ہیں؟ رسماً تو سبھی کا جواب ہوتا ہے: ہاں ہم بہت خوش ہیں۔۔۔۔ سب کچھ تو ہے ہمارے پاس۔ لیکن ان کے چہرے پر لکھی اداسی۔۔۔۔ ناآسودگی اور محرومی پکارتی ہے: نہیں۔۔۔۔ نہیں جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔ کہاں خوش ہیں ہم۔۔۔۔ کہاں مسرور ہیں۔۔۔۔ بس زندگی کے نام پر زندہ ہیں۔۔۔۔ چل پھر رہے ہیں۔۔۔۔ خوش کب ہیں ہم… ہم سب خود کو دھوکا دے رہے ہیں… کہ بہت خوش ہیں ہم۔

ہاں یہ بہت زیادتی ہوگی… نہیں زیادتی نہیں بددیانتی ہوگی کہ میں نے بہت کم بل کہ بہت ہی کم لوگوں کو خُوش دیکھا ہے… حقیقی مسرت میں ڈوبا ہوا… اور حیرت ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا… ہاں کچھ بھی نہیں… تن کا کپڑا، پیسہ پائی لیکن وہ خوش تھے… مسرور تھے۔ خوشی مسکراہٹ بن کر ان کے چہرے پر رقص کر رہی تھی، بل کہ نُور بن کر چمک رہی تھی… بہت شانت تھے وہ… بہت پُرسکون… ایسا لگتا تھا کہ ہفت اقلیم کی دولت ہے ان کے پاس اور تھا کچھ بھی نہیں… بس اﷲ دے اور بندہ لے! … نہ رہنے کے لیے مکان … نہ سونے کے لیے گدّا … نہ اوڑھنے کے لیے چادر … نہ پہننے کے لیے ڈھنگ کے کپڑے … سماج میں کوئی نام… نہ دعویٰ نہ کچھ اور … بس مست ملنگ لوگ … روکھی سوکھی کھا کر …رب کا شکر ادا کرنے والے … اور نہ ملے تو پھر بھی خوش … عجیب لوگ تھے وہ … کچھ تواب بھی ہیں فقیر کے آس پاس۔ ان میں سے ایک وہ بھی تھے جو مجھے ایک سڑک پر چلتے ہوئے ملے تھے، اور کر کیا رہے تھے، چلیے بتاتا ہوں۔

میں بہت دیر سے ان کا پیچھا کر رہا تھا… ایک بڑا سا تھیلا کاندھے پر لٹکائے ہوئے وہ بہت انہماک و توجہ سے کاغذ چنتے ہوئے چلے جا رہے تھے اور میں ان کے پیچھے تھا … مست ملنگ، سفید ریش بوڑھا آدمی… نہ جانے وہ کتنی مرتبہ جُھکا ہوگا … ہر پل وہ جھک کر کاغذ اٹھاتا اور اپنے تھیلے میں ڈال لیتا … میں صبح سے اس کے پیچھے چل چل کر تھک گیا تھا … لیکن وہ بہت توانا تھا … پھر دوپہر ہوگئی تھی… اس نے اپنا تھیلا ایک فٹ پاتھ پر رکھا اور چھپر ہوٹل سے ایک نان لیا … پھر خاموشی سے سر جھکائے اسے چبانے لگا … سوکھی روٹی کھانے کے بعد اس نے پانی پیا … اور پھر وہ لمحہ آیا جب میں دنگ رہ گیا …! ویسے تو ایسے لمحات فقیر نے بہت دیکھے ہیں، لیکن ایسا لمحہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا … بالکل بھی نہیں۔ میں اسے اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ بیان کیسے کردوں وہ لمحہ … بس وہ محسوس کرتا ہوں … وہ لمحہ بس محسوس ہی کیا جاسکتا ہے … وہ اپنے جمع کیے ہوئے کاغذ کے تھیلے پر بیٹھ گیا اور پھر اس کے دونوں ہاتھ اپنے رب کے حضور بلند ہوئے … وہ بہت انہماک سے کچھ مانگ رہا تھا۔ میرے اندر کے تجسس نے انگڑائی لی … میں اس کے بالکل قریب جا پہنچا … اب میں اس کی آواز سن سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ پشتو میں اپنے پالن ہار سے مخاطب تھا اور کتنی عاجزی سے کہہ رہا تھا: ’’شُکر ہے میرے مولا … میرے اﷲ تُو تو بہت اچھا ہے …کتنا خیال ہے تجھے میرا … واہ واہ… آج تو بہت مزہ آیا… بس مجھے تیری رضا چاہیے …دیکھ تُو نے مجھے کتنا اچھا رکھا ہوا ہے … ہر چیز وافر …ہر نعمت دی ہے تُو نے…‘‘

بس اسی طرح کی باتیں … میں بہت دیر تک اس بابا کی باتیں سنتا رہا … کیا انہماک تھا اس کا … پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور اٹھ کھڑا ہوا …مجھے اپنے قریب پا کر اسے حیرت ہوئی تھی …مجھے یاد ہے دعا مانگتے ہوئے تو وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا … ہاں وہ واپس لوٹ آیا تھا۔

’’بابا آپ بہت خوش ہیں…؟‘‘ میں نے پشتو میں ان سے پوچھا۔ میرا سوال ان کے سامنے تھا … اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے، جی بہت پیار سے، کتنا نُور تھا ان کے چہرے پر … سفید ریش… خوب صورت بوڑھا مسکرایا تو یوں لگا جیسے ساری کائنات مسکرا رہی ہو … میں اپنے جواب کا منتظر تھا… اور پھر میرا سوال آسودہ ہوگیا…

’’ہاں میں بہت خوش ہوں … بہت زیادہ…‘‘

میرا ’’کیوں‘‘ پھر ان کے سامنے تھا۔

’’بس خوش ہوں … اس لیے کہ میرا رب مجھے سنبھالے ہوئے ہے … اس عمر میں بھی میں صحت مند ہوں … محنت سے روزی کماتا ہوں … ہاتھ نہیں پھیلاتا …اور یہ ساری طاقت و توانائی مجھے میرا رب ہی تو دیتا ہے … اور مجھے یقین کامل ہے وہ مجھے کبھی کسی کے حوالے نہیں کرے گا …کبھی نہیں …اس لیے کہ میں خود کو اس کے حوالے کرچکا ہوں …جو اس کے حوالے ہوجائے اسے کوئی فکر نہیں ہوتی … بس اسی لیے میں خوش ہوں … کوئی غم نہیں ہے مجھے، نہ کوئی فکر۔‘‘

میں ان سے اور باتیں بھی کرنا چاہتا تھا کہ پھر ان کا ہاتھ اٹھا اور میرے سر پر پھیر کر وہ بغیر کچھ سنے رخصت ہوگئے… ہاں وہ بہت خوش تھے … اور کچھ بھی نہیں تھا ان کے پاس … ہوٹل سے لی ہوئی روٹی… جسے وہ سوکھی کھا رہے تھے… اور پانی پی کر بھی خوش تھے اور ہم!!! سمجھ میں اب بھی نہیں آیا کیا آپ کو ، جناب مخبر صادقؐ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ محنتی، ہاتھ سے رزق کمانے والا رب تعالی کا دوست ہے۔ جان گئے ناں آپ اس سفید ریش کچرا چننے والے بابا کے اطمینان کا راز، جی محنتی ہے رب تعالی کا سنگی دوست۔

جب نیا سال شروع ہوا تو میں ایک اور پاگل کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا …وہ بھی میرا دوست ہے۔ عجیب سی باتیں کر رہا تھا وہ… کہنے لگا: ’’کب خوش ہوں گے لوگ…‘‘

میں نے کہا ’’خوش تو ہیں …دیکھ نہیں رہے… آتش بازی… دھوم دھڑکّا… موج میلہ… مستی، خوشی اور سرشاری…‘‘

تو کہنے لگا: ’’یہی تو کہہ رہا ہوں کہ یہ خوش نہیں ہیں … مسرور نہیں ہیں … اداکاری کر رہے ہیں … خود کو بہلا رہے ہیں … دھوکا دے رہے ہیں خود کو…‘‘

’’تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے آخر؟ میں نے پوچھا! تب وہ بولا:

’’تُو بہت بھولا ہے… بہت بے وقوف ہے… پاگل آدمی! … دیکھ اگر انسان خوش ہو تو اسے کوئی کہے آؤ خوشی منائیں تو وہ معلوم ہے کیا کہے گا؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں مجھے تو نہیں معلوم‘‘

تو کہنے لگا: ’’ابے موٹی عقل والے اتنی سی بات تیرے بھیجے میں نہیں آرہی… وہ کہے گا: ’’بھائی مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تو ویسے ہی خوش ہوں … جو لوگ ایسی جگہوں پر جاتے ہیں …وہ اپنی دُکھ بھری زندگی چاہے وہ کتنی ہی پرآسائش ہو … دو چار گھڑیاں اپنی افسردہ زندگی کو مصنوعی خوشی سے ہم کنار کرنے جاتے ہیں اور پھر افسردہ ہوجاتے ہیں۔ تُو خود ہی تو کہہ رہا تھا… لوگ تجھ سے میوزک شو …ڈرامے …مستی نائٹ کے کارڈ مانگتے رہتے ہیں۔‘‘

’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘

’’تو یار وہ خوش نہیں ہیں ناں… ایک ایک پاس کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں … ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں …بس چند گھڑیاں خوش رہنے کی خاطر اور وہ بھی مصنوعی…‘‘

نہ جانے وہ کیا کہہ رہا تھا…! میں خاموش ہوگیا۔

لیکن ایک بات مجھے معلوم ہے۔ میں نے ان لوگوں سے دریافت بھی کیا ہے …وہ کیوں خوش ہیں … ان میں سے ایک کی بات مجھے کبھی نہیں بھولتی … بُھول ہی نہیں سکتا میں وہ بات: ’’ دیکھو حقیقی مسرت اور سچی خوشی کو کہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے… اسے کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے …وہ تو آپ کے اندر ہے …بس اس کی جھاڑ پونچھ کرنے کی ضرورت ہے …وہ آپ کے اندر سے پھوٹتی ہے … بس چھوٹا سا کام کرنا ہوگا … آپ اپنی خوشیاں دوسروں میں بانٹنا شروع کردیں …آپ کی خوشی کو پَر لگ جاتے ہیں …خود کو خلقِ خدا کے لیے وقف کردیں تو خوشی اترائے پھرتی ہے اور آپ کے اندر سے خوشی کی پھوار آپ کو شانت کرنے لگتی ہے … دوسروں کے دکھ کو سکھ میں بدلنے سے خوشی کے قہقہے گونجنے لگتے ہیں …بس خالقِ حقیقی کے بندوں کے ساتھ جینا سیکھو … خود کو بھول جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گا … کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا …اپنی خوشی دوسروں کو دے کر تو دیکھو… خود بدل جاؤ گے اور پھر خود سے کہو گے: اوہو… کتنی زندگی ضایع کردی میں نے … کتنا تھک گیا ہوں میں …خوشیوں کو کھوج کھوج کر … وہ تو میرے اندر تھیں…!

بات ختم ہوگئی … ہاں چلتے چلتے ایک بات یاد آگئی … ایک اداسی اور ہوتی ہے …وہ بڑے نصیب سے ملتی ہے… اسے اب کسی اور وقت پر رکھتے ہیں …انتظار کرتے ہیں اس کا … یہ دوسری دنیا کا قصہ ہے… پھر کریں گے بات۔

وہ سڑک کے کنارے بیٹھا ہوا خوشی سے جھوم رہا تھا … کسی نے آکر اسے کہا: ’’جناب کچھ خبر بھی ہے آپ کو … انسان چاند پر پہنچ گیا۔‘‘

وہ یک دم ہمہ تن گوش ہو گیا اور کہنے لگا: اچھا انسان چاند پر پہنچ گیا …! واہ واہ … کیا بات ہے جی…‘‘ اور پھر بہت اشتیاق سے معلوم کرنے لگا:

’’چاند پر کیا ملا انسان کو؟‘‘

تو بتانے والے نے بتایا: ’’کچھ نہیں بس چند گڑھے پتھر وغیرہ … اور تھا ہی کیا وہاں۔‘‘

تب اس کا قہقہہ گونجا اور وہ کہنے لگا: کیا بات کی تم نے… اتنی محنت کے بعد بھی پتھر گڑھے!‘‘ اور پھر سب نے سنا … معلوم ہے وہ کیا کہہ رہا تھا:

تجھ کو تو ملے قریۂ مہتاب میں گڑھے

ہم کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں

وہ تھا خوش …بہت خوش تھا وہ … ہم بھی کھوج ہی لیں گے مسرت کو … خوشیوں کو …سانوں کی مالا چلتی رہی تو بات کرتے رہیں گے ہم … رب نے چاہا تو میرا آپ کا ساتھ رہے گا۔ خوش رہیے… آباد رہیے …دل شاد رہیے سدا۔

دیکھیے آپ نے ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کی۔ آپ نے اپنی راتیں رب کا کلام سننے اور پڑھنے میں گزاریں۔ کس لیے؟ اس لیے ناں کہ آپ اور ہم اور ہم سب کا رب ہم سے راضی ہو جائے۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خبر گیری کی۔ داد رسی کی۔ سب کچھ دیا بھی رب کا ہے۔ اور ہم نے پھر اسے لوٹایا بھی۔ جب سب کچھ اس کا ہے تو پھر ہم نے کیا کمال کیا۔ لیکن میرا رب کتنا بلند و بالا عظمت و شان والا ہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اور وہ آپ کا نگہبان بن گیا۔ اور جس کا وہ نگہبان بن جائے پھر اسے کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی۔ قطعاً نہیں رہتی۔

ہم انسان ہیں۔ خطا کار ہیں۔ ہم لاکھ چاہیں کہ دل آزاری نہ کریں۔ کسی کی عزت نفس پامال نہ کریں۔ کسی کو دکھ نہ دیں۔ لیکن ہو جاتی ہے غلطی۔ لیکن انسان وہ ہے جو اپنی غلطی کو مانے اور جس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معذرت کرے۔ وہ انسان جو تائب ہو جائے وہی منزل پر پہنچتا ہے۔

عید کے پر مسرت موقع پر ہم سب کو چاہیے کہ رنجش ختم کردیں۔ ہوجاتی ہے غلطی، آخر انسان ہے، کوئی فرشتہ تو ہے نہیں۔ سو معاف کردیں انھیں، گلے سے لگائیں جو روٹھ گئے ہیں انھیں منائیں۔ اس دکھ بھری زندگی میں دن ہی کتنے ہیں کہ ہم اسے جہنم بنا لیں۔ میرا ایک بہت پاگل سا دوست ہے بہت باکمال لیکن بالکل چٹّا ان پڑھ۔ میرا رب اسے سلامت رکھے۔ ہر وقت ایک ہی بات کرتا ہے: ’’دو دناں دی چاندنی، تے فیر اندھیری رات‘‘

ایک دن ہم نے پوچھا: رب سے معافی کیسے مانگیں تو کہا بہت آسان ہے۔ اس کے بندوں کو معاف کرو اور پھر رب سے کہو۔ میں تو تیرا بندہ ہوکر تیری مخلوق کو معاف کرتا ہوں۔ تُو تو ہم سب کا رب ہے۔ ہمیں معاف کردے۔ سو معاف کردیے جاؤ گے جو کسی بندے بشر کو معاف نہ کرے۔ اُسے کیسے معاف کردیا جائے گا۔

آپ سب بہت خوش رہیں۔ میرا رب آپ کی زندگی سکون و آرام سے بھر دے۔ آپ سدا مسکرائیں آپ کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے۔ بہار آپ کا مقدر بن جائے۔ ہر شب، شب مسرت بن جائے۔ فقیر آپ سب کو کہتا ہے عید مبارک

کیا عجب ہے کہ ہمیں جس کی ضرورت بھی نہ تھی

بیچ کر خُود کو وہ سامان خریدا ہم نے

بند ہونے کو دکاں ہے تو خیال آیا ہے

فائدہ چھوڑ کے نقصان خریدا ہم نے

عبداللطیف ابُوشامل
abdul.latif@express.com.pk

The post جہاں گشت؛ ان ہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا! appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی انتخابات 2019ء؛ کیا بی جے پی اپنے وعدوں سے انحراف کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟

$
0
0

بھارت کے شہر بھوپال سے بی جے پی کی لوک سبھا کے لیے امیدوارپراگیہ سنگھ ٹھاکر کمال کی شخصیت ہے۔

بی جے پی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اِس کے رہنماؤں اورارکان اسمبلی کے لیے دہشت گردی کے معاملات میں ملوث ہونا ایک عام سی بات ہے، سو پراگیہ سنگھ بھی 2008ء میں ایک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں 9برس جیل میں گزار کر ضمانت پررہا ہوئی ہے۔ اس بم دھماکے میں 6مسلمان شہید ہوئے تھے۔

پراگیہ سنگھ بظاہر تو یہ کہتی پائی جاتی ہے کہ اُس کا بم دھماکے کے اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ جو پولیس افسر میرے خلاف تحقیقات پر مامور تھا اُسے میں نے شاپ دیا (بددُعا دی) جس کے اثر سے وہ قتل ہوگیا۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایان علی یا اِس کے سرپرست یہ دعوی کردیں کہ ایان علی کے خلاف تحقیقات کرنے والا افسر اُن کی بددعا لگنے سے قتل ہوگیا۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران اِس عورت کی تقریروں کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کے ہاتھوں 400برسوں پر محیط ذلت کا انتقام ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں بابری مسجد پرہندوؤں کے حملے کے واقعہ کو بڑے اہتمام سے سناتی ہے۔ وہ کہتی ہے 27 برسقبل ایشور نے مجھے یہ عظیم موقع فراہم کیا کہ میں خود بابری مسجد کی چھت پر چڑھی اور اسے اپنے ہاتھوں سے توڑا جس پر مجھے فخر ہے۔ الیکشن کمیشن نے مذہبی منافرت پھیلانے پر حالیہ انتخابات میں اس کی انتخابی مہم پر 72گھنٹے کی پابندی بھی عائد کی۔

الیکشن کمیشن اس بات پر بھی نالاں تھا کہ پراگیہ بھارتی قوم کے باپو کرم چند گاندھی جی کے قاتل کو اپنے جلسوں میں محب وطن ہیرو قرار دیتی ہے۔ ان تمام حقائق سے واقفیت رکھنے کے باوجود ہندوؤں نے پراگیہ کو ریاست مدھیہ پردیش کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہنے والے دگوی جیا سنگھ کے مقابلے میں3لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری سے کامیاب کرایا ہے۔

یہ آج کے ’’سیکولر‘‘ بھارت کا اصل چہرہ جس پر کانگریس نے کئی دہائیوں تک سیکولرازم کا نقاب چڑھا کر پوری دنیا کو بیوقوف بنائے رکھا۔ بھارت کے حالیہ انتخابات اِس حوالے سے غیرمعمولی اہمیت کے حامل تھے کہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں بی جے پی کو لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں اتنی اکثریت حاصل نہیں تھی جس کی بنیاد پر بھارت کے ہندوؤں سے کئے گئے وہ وعدے پورے کیے جاسکتے جو آر ایس ایس بھارت کی آزادی سے بہت پہلے سے کرتی چلی آرہی ہے۔ بعدازاں جب آر ایس ایس کے فلسفے پر یقین رکھنے والے رہنماؤں نے باقاعدہ سیاست میں حصول اقتدار کی جدوجہد شروع کی تو آر ایس ایس کے مقاصد کی تکمیل کی ذمہ داری بھی سیاسی لیڈر شپ پر عائد ہوگئی۔ انتہائی صبرآزما اور طویل جدوجہد کے بعد آج بھارتیہ جنتا پارٹی اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اُسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔

ہمارے ہاں بھارتی انتخابات کے بارے میں عموماً دو قسم کی آرا ملتی ہیں۔ ہمارے کچھ لبرل سیکولر دانشور تو بھارت کے سیکولر ازم پر (جس کا وجود اُس کے آئین میں تو ہے لیکن بھارتی حکومت اور قومی اداروں کے رویے میں کبھی نظر نہیں آیا) اسی طرح یقین رکھتے ہیں جیسے کوئی اپنے عقیدے میں رکھتا ہو۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ کوئی کتنی بھی اکثریت حاصل کرلے بھارتی سیکولر ازم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اگر بھارتی آئین کی سیکولر حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی گئی تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی قوتیںبزور اسے ناکام بنا دیں گی۔

بہت کم مبصرین ایسے ہیں جو ایک طویل عرصہ سے اس ممکنا صورتحال کے بارے میں خبردار کررہے ہیں جو آج ہمارے سامنے ہے۔ ا س بات کا تصور بھی محال ہے کہ بی جے پی نے جس جدوجہد کا آغاز1920ء میں کیا تھا اب ہندواکثریت نے اسے شاندار کامیابی دلائی ہے اسے محض بھارتی سیکولر ازم کے دکھاوے کے لیے دریا برد کردے۔

سن 2019ء کے بھارتی انتخابات کی عمومی صورتحال دیکھی جائے تو حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس  اور اپوزیشن اتحاد ’یونائیٹڈ پروگریسوالائنس‘ ، دونوں نے گزشتہ عام انتخابات کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ نقصان چھوٹی پارٹیوں کا ہوا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے2014ء کی نسبت 21 سیٹیں زیادہ جیت کر مجموعی طور پر 303 سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ این ڈی اے نے مجموعی طور پر 352نشستیں جیتی ہیں۔ یاد رہے کہ حکمران اتحاد نے 2014ء میں 336نشستیں حاصل کی تھیں۔اسی طرح بڑے اپوزیشن اتحاد ’یو پی اے‘ میں شامل سب سے بڑی جماعت ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کو 52نشستیں ملی ہیں جبکہ پانچ سال قبل اس کی44 سیٹیں تھیں۔ بحیثیت مجموعی یو پی اے نے حالیہ انتخابات میں91 سیٹیں جیتی ہیں، 2014ء میں اسے 60سیٹیں ملی تھیں۔

این ڈی اے کے ووٹ بنک میں 6.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ یو پی اے کا ووٹ بنک تین فیصد بڑھا ہے۔ حکمران اتحاد این ڈی اے کی گیارہ جماعتوں میں سے پانچ جماعتوں کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دو کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا، چارجماعتوں نے گزشتہ عام انتخابات جیسے ہی نتائج حاصل کئے۔اپوزیشن اتحاد یو پی اے میں شامل10جماعتوں میں سے پانچ پارٹیوں کی سیٹوں میں اضافہ ہوا جبکہ تین کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوجماعتوں نے گزشتہ عام انتخابات جتنی سیٹیں ہی حاصل کیں۔

2014ء کے انتخابات میں تامل ناڈو کی معروف سیاست دان جیاللیتا زندہ تھیں، ان کی پارٹی نے 34 نشتیں حاصل کی تھیں، اس بار اسے محض ایک سیٹ مل سکی۔ جیسے ہی جیا للیتا کا انتقال ہوا، ان کی پارٹی کو بی جے پی  نے ہڑپ کرلیا۔ ممتا بینرجی کی جماعت ’آل انڈیا ترینامول کانگریس‘ کی 2014ء میں 34 نشستیں تھیں ، اب کی بار اسے محض 22 ملیں۔ واضح رہے کہ  14فروری2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں ایک خودکش حملے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی ماہ کے اواخر میں بھارت نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کرکے جیش محمد کے 130سے 170 تک جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ۔ پاکستان  کے دلائل اور موقع واردات پر موجود شواہد سے ثابت ہوا کہ بھارتی طیارے سوائے ایک کوے کے کوئی جانی نقصان نہ پہنچا سکے کیونکہ وہاں جیش محمد کے کسی تربیتی کیمپ  کا وجود ہی نہیں تھا۔ انتخابات سے بہت پہلے خود بھارت   میں جو چند ایک سنجیدہ تجزیہ نگار موجود ہیں انہوں نے الیکشن سے پہلے پاکستان سے جھڑپوں کی سازش کو بے نقاب کیا تھا ۔ رائے عامہ کے جائزوں نے ثابت کیا کہ اس جھوٹے سچے حملے کے بعد مودی سرکار کی عدم مقبولیت ایک بار پھر مقبولیت میں بدل گئی۔

کئی عشروں بعد نریندرمودی پہلے وزیراعظم ہیں،جنھوں نے ایک مدت پوری کرنے کے بعد دوسری مدت کے لئے پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔گجرات کے وزیراعلیٰ سے ملک کے وزیراعظم بننے تک ، انھوں نے ’ہندونیشنل ازم‘ کے تحت لوگوں کے جذبات ابھارکر کامیابی حاصل کی۔اس باربھی ان کی یہ حکمت عملی مفید ثابت ہوئی۔

٭راہول گاندھی کو بدترین شکست کا سامنا

بھارتی ڈرامہ ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘کی معروف اداکارہ سمرتی ایرانی نے انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو امیٹھی کے حلقے سے 55 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ یہ حلقہ گاندھی خاندان کا قدیم حلقہ تھا، راہول گاندھی گزشتہ 15برس سے یہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہو رہے تھے۔ اس شہر سے راہول کی شکست کو امیٹھی سے باہر لوگ ’اپ سیٹ‘ قرار دے رہے ہیں لیکن اہلیان حلقہ کا کہناہے کہ ہرگز ’اپ سیٹ‘ نہیں، ان کی شکست صاف نظرآرہی تھی۔’ٹائمز آف انڈیا‘ نے حلقے کے عوام سے سوالات پوچھے، لوگوں کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے پورا پورا گھرانہ کانگریس کو ووٹ دیتا تھا لیکن اب کی بار انھوں نے کانگریس کو دھتکاردیا۔

اندرا کے قتل کے بعد ہمدردی کا ووٹ راجیو کو ملا، سات برس بعد وہ بھی خودکش حملے کا شکار ہوگئے، لیکن ان کے بعد انڈین نیشنل کانگریس ایسے برے حالات کا شکار ہوئی کہ اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ راجیوگاندھی کے بیٹے راہول کرشماتی شخصیت ثابت نہ ہو سکے، وہ امیٹھی سے بھی نکال باہر کئے گئے حالانکہ یہ شہر گزشتہ 39برس سے گاندھی خاندان کے پاس تھا۔ سمرتی ایرانی نے 2014ء میں بھی یہاں سے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ ہار گئی تھیں۔ بعدازاں وہ مسلسل امیٹھی میں نظرآتی رہیں،انھوں نے لوگوں سے رابطہ برقرار رکھا لیکن راہول کاخیال تھا کہ یہ آبائی حلقہ ہے، لوگ ان کے باپ کی وجہ سے انھیں اس بار بھی کامیاب کریں گے۔

٭ مسلمانوں کی نمائندگی

حالیہ بھارتی انتخابات میں27 مسلمان کامیابی حاصل کرسکے جن میں سے دو خواتین بھی ہیں۔ 2014ء میں کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد23تھی۔ بی جے پی کے تمام کامیاب امیدواروں میں صرف ایک مسلمان شامل ہے جس نے مغربی بنگال کے بشنوپور حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ 1980ء میں 49 مسلمان امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی جن میں سے30 کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے تھا۔ تب پارٹی کی سربراہ اندرا گاندھی تھیں۔

بی جے پی بھارت کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے مذہبی بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کے فلسفے پر یقین رکھنے والی تنظیم کے بطن سے جنم لیا ہے۔ یہ وہی تنظیم تھی جس کے قائدین اپنے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل اور عوام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آڈولف ہٹلر اور میسولینی کی فاشسٹ جماعتوں سے رہنمائی لیتے تھے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ یکجان رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنے مقاصد سے انحراف نہیں کیا۔ 30جنوری1948ء کو پاکستان کو اس کے طے شدہ اثاثے دینے کے لیے احتجاج پر گاندھی جی اسی جماعت کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

اس جماعت کی مستقل مزاجی1992ء میں بابری مسجد کی شہادت تک پہنچی۔ جب یہ برسراقتدار آگئے تو ’’سیکولر‘‘ بھارت کی ’’سیکولر‘‘عدالتیں تک ان کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ایسے ہندو انتہا پسند جو مسلمانوں کے قتل عام کا اقرار کرچکے عدالتیں انہیں بری کردیتی ہیں۔بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آرہی ہے کہ نا صرف بھارتی اسٹیبلشمنٹ بلکہ متحدہ بھارت کے تصور پر یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی بی جے پی کی کامیابی میں رخنہ ڈالنے کے حق میں نہیں تھیں۔ بی جے پی نے بھارتی عوام سے جو وعدے کررکھے ہیں۔

ان تمام سے اتفاق نہ بھی ہو تو بعض وعدے ایسے بھی ہیں کہ کانگریس سمیت بڑی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ان پر عملدرآمد ہوجائے جن میں سب سے اہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرکے وہاں فلسطین کی طرز پر ہندوؤں کو آباد کرنے کے مقاصد شامل ہیں۔ بھارتی سیاسی جماعتیں کوئی بدنامی مول لیے بغیر یہ گندے کام بی جے پی سے کروانا چاہتی ہیں جبکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا تو یہ درینہ خواب ہے کہ کشمیر ہر طرح سے بھارت کا حصہ قرار دے دیا جائے۔ بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اب جو قوت حاصل ہوگئی ہے، اُس کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ مستقبل میں جو صورتحال پیدا ہوگی اُس میں بھارتی اپوزیشن یہی کہتی پائی جائے گی ’’ہم کیا کرسکتے ہیں، ہمارے پاس تو ان کا راستہ روکنے کے لیے عددی اکثریت ہی نہیں ہے۔‘‘

ان حالات میں پاکستان پر دباؤ میں غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ ہمیں بھارتی حزب اختلاف یا اُس عالمی برادری سے، جس میں امریکہ بھارت کا حلیف ہے، امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے اپنے آپ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔

The post بھارتی انتخابات 2019ء؛ کیا بی جے پی اپنے وعدوں سے انحراف کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

تحفۂ رمضان؛ عید سعید

$
0
0

رمضان الکریم کو الوداع کہنے کے ساتھ یہ دعا بھی کہ ہمیں آئندہ سال آنے والے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی بھی سعادت و توفیق ملے۔

رب تعالٰی ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرمائے اور ہمیں اپنا بندہ بننے کی کرامت مرحمت فرمائے۔ حصول مسرت انسان کی جبلّت میں ہے۔ اسے ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے جس میں وہ اپنے احباب اور عزیز و اقرباء کے ساتھ اجتماعی طور پر خوشیاں منا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایام عید و جشن کو اپنے عقائد و تصورات، روایات اور ثقافتی اقدار و تہذیب کے مطابق مناتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تصور عید بھی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔ اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ بہ صد عجز و انکسار و خشوع و خضوع تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت ، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔

اسلام جامع اور مکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام جو زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، کا اپنے پیروکاروں سے مطالبہ ہے کہ وہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوں یعنی ان کا ہر عمل دین اسلام کی ہدایات کے مطابق ہو۔ اسلام اعتدال کا دین ہے جو خوشیوں کے لمحات میں مسرت کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، مگر ایسی خوشی کو قطعاً پسند نہیں کرتا جس سے اللہ اور اس کے حبیب کریم ﷺ کی نافرمانی لازم آئے، نخوت و غرور کی بُو آئے، تکبر کی جھلک نمایاں ہو، خوشی کی آڑ میں اخلاقی اقدار پامال ہوں اور شرعی حدود کا پاس و لحاظ نہ کیا جائے۔ جو خوشی و مسرت، تشکر و عاجزی سے بھرپور ہو، اللہ و رسول کریم ﷺ کی رضا کے لیے اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہو، اسلام ایسی خوشی کی نہ صرف اجازت دیتا بل کہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم عیدالاضحی اور یوم عیدالفطر۔‘‘

رمضان المبارک ہمارے لیے اللہ کا عظیم اور خصوصی فضل و انعام ہے۔ اس ماہ مقدس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، جو مسلمانوں کے لیے کامل دستور حیات ہے۔ خدا نے عیدالفطر کا یہ بابرکت اور مقدس یوم سعید امت رسول ﷺ کو تحفۂ رمضان کی صورت میں عطا فرمایا۔ دراصل عید کا یہ مقدس دن بارگاہ الہیٰ میں سجدہ شکر بجا لانے کا دن ہے کہ اللہ نے ہمیں رمضان المبارک عطا فرمایا۔ ہم نے رمضان المبارک کی عظیم ساعتوں میں رحمتوں اور برکتوں سے اپنی جھولیاں بھریں تو اللہ نے اپنی ان نعمتوں پر شکر اور خوشی ظاہر کرنے کے لیے مسلمانوں کو یہ عید کا پرمسرت دن عطا کیا ہے۔

ہمارا رب تو یہ چاہتا اور پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے آپس میں اظہار مسرت کریں اور اس کی نعمتوں کا کثرت سے شکر ادا کریں۔ اس لیے تو روزے کی فرضیت اور احکام بیان کرنے کے بعد آخر میں فرمایا کہ تاکہ تم اللہ کی تکبیر کہو، اس پر کہ اس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو یعنی جب رمضان کے دن پورے ہو جائیں تو اللہ کی طرف سے رمضان کے احکام کی پابندی کرنے اور اس کی دی ہوئی ہدایت کا شکر ادا کرنے پر تم تکبیر کہو اور تکبیر والی نماز پڑھو، ایسی نماز جس میں تمام نمازوں سے زیادہ تکبیریں ہیں۔ غرض رمضان میں عطا کی جانے والی نعمتوں کے شکرانے کو ہم عیدالفطر کہتے ہیں۔ اس دن مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کو مبارک دینا اور باہمی محبت و الفت کو ظاہر کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ خدا کو اپنے بندوں کی یہ ادا بہت پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا کے لیے آپس میں پیار و محبت کا اظہار کریں، اکٹھے ہوں اور سب مل کر خوشیاں منائیں اور اس کی نعمتوں کا شُکر ادا کریں۔

عید کا یوم سعید قریب ہے۔ ماہ صیام کے اختتام پر مسلمانوں کا یہ عظیم مذہبی تہوار درحقیقت اسلام کا ایک مقدس شعار ہے۔ اس روز فرزندان اسلام اللہ کریم کا شکر بجا لاتے ہیں۔ عیدالفطر کے اجتماعات میں لوگوں کے ایک ساتھ جمع ہونے سے معاشرے میں اتحاد و یک جہتی اور محبت و رواداری کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ اس عظیم الشان موقع پر باہمی روابط بڑھنے سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے جذبات فروغ پاتے ہیں اور یہ عید کا پُرمسرت دن امیر غریب، افسر و ماتحت، تاجر و مزدور سب کے لیے ایک جگہ جمع ہونے کا موجب بنتا ہے۔

یوں مساوات اور یگانگت کے ولولہ انگیز مظاہرے کے ذریعے مسلمانوں کی ملی شناخت آشکار ہوتی ہے۔ دیگر اقوام و مذاہب سے وابستہ لوگ اسلام کے درس اخوت و محبت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں جس سے غیرمسلموں کو اسلام کی طرف راغب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نماز پنج گانہ، جمعہ اور نماز عیدین کے اجتماعات کا ایک مقصود یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا کی دیگر تہذیبوں کو اسلام کی عظمت و رفعت باور کرائی جائے اور انھیں یہ بتایا جائے کہ اسلام نے حسب، نسب، رنگ و نسل اور مال و دولت کے تمام امتیازات کو مٹاتے ہوئے تمام انسانیت کو برابری کا درس دیا ہے اور اسلام کے ہاں عزت و برتری کا معیار تقویٰ و خشیت الہی ہے۔ عید کا دن فرزندان اسلام کے لیے مسرت و شادمانی کا دن ہے۔

یہ بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کے لیے اظہار مسرت کا دن ہے۔ عیدالفطر دراصل تشکر و امتنان، انعام و اکرام اور ضیافت خداوندی کا دن ہے۔ عیدالفطر روحانی سکون کا یوم سعید ہے۔ اس دن کی فضیلت ہے کہ روز مسلمان پانچ مرتبہ جماعت نماز کی صورت میں اللہ کے گھر سجدہ کرنے جاتے ہیں اس دن پانچ کے بہ جائے مسلمان چھے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہ چھٹی نماز عید ہوتی ہے جو شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ اسی لیے صدقۂ فطر مقرر کیا گیا ہے اس کی ادائی کا حکم اسی لیے تو نماز عید سے قبل کا ہے تاکہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔ ہمیں بیماروں اور معذورں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے۔

عید صرف خود ہی انواع و اقسام کے خوان کھانے کا نام نہیں ہے بل اپنے ساتھ ان بے کس و نادار لوگوں کو بھی شامل کرنے کا نام ہے جن کے لیے یہ خوان نعمت ایک خواب ہیں۔ عید صرف خود ہی نئے کپڑے پہن کر سیر و تفریح کا نام نہیں بل کہ اپنے اردگرد اور خاص کر اپنے پڑوس میں کوئی ایسا خوددار نادار نظر آئے تو اس کی بھی مدد کیجیے تاکہ وہ بھی نیا لباس پہن سکے۔ ناداروں کی مدد اخلاص سے کیجیے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ نیکی میں دکھاوا قطعاً نہیں ہونا چاہیے، ورنہ یہ ریاکاری ہوگی اور ریاکار نیکی برباد اور گناہ لازم کر بیٹھتا ہے۔

اس لیے ریاکاری و نام نمود جیسی خصلت بد سے خود کو ہر حال میں بچائیے۔ کسی کی عزت نفس کو پامال کرکے نیکی کا کام کرنے سے بہتر ہے کہ اسے نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس کا اجر تو کیا ملے گا بل کہ رب تعالٰی اس بات پر گرفت فرمائے گا۔ اخلاص شرط اول ہے اور اگر سوچیے تو آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ رب کا دیا ہوا ہے، تو آپ نے اگر اسی کی راہ میں اخلاص سے خرچ کیا اور اس کے نادار بندوں پر خرچ کیا تو اسے رب تعالٰی کی عنایت سمجھتے ہوئے سجدہ شکر بجا لائیے کہ اس نے آپ کو یہ سعادت عظمی بخشی۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھیے جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ان بیواؤں کا سہارا بنیے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ غربا و مساکین کو خاص طور پر اپنی خوشیوں میں عملی طور پر شریک رکھیے کہ یہی عید کا اصل پیغام ہے۔

عبداللطیف ابُوشامل
abdul.latif@express.com.pk

The post تحفۂ رمضان؛ عید سعید appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

نماز عید سے سوئیوں اور چوڑیوں تک۔۔۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عیدگاہ تعمیر کی جاتی تھی۔ یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔

مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہد مغلیہ میں دلی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جد کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

ہاں عیدگاہ کے نمازیوں میں سب سے پرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے، جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔

ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کردیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سوئیوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سوکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

اور ہاں عید کا چاند۔ ا رے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہوکر تم ہلال عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔

(انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
المیہ۔۔۔!
 رضوان طاہر مبین

اُس روز ہوا بہت طوفانی تھی۔۔۔

کئی جگہ بجلی کے تار گر گئے۔۔۔

کچے مکانات کی چھتیں اُڑ گئیں۔۔۔

ایک گھنا پیڑ تیز جھکڑوں کی تاب نہ لا سکا اور پاس کھڑی ہوئی گاڑیوں پر جا گرا۔۔۔

ثمر نے اس واقعے کی ’خبر‘ بناتے ہوئے لکھا:

’’شکر ہے گاڑیاں خالی تھیں، اس لیے اس حادثے میں کوئی ’جانی نقصان‘ نہیں ہوا۔۔۔!‘‘

اچانک میں نے دیکھا کہ درخت کی بھاری شاخ تلے چڑیا کا ایک بچہ مر چکا تھا۔۔۔!

میں نے سوچا خبر ’درست‘ کرا دوں، لیکن پھر خیال آیا کہ بے زبانوں کی موت بھلا خبر کہاں ہوتی ہے۔۔۔!

۔۔۔

ہندوستانی ’ادارے‘ اتنے ’’ناکارہ‘‘ کہ۔۔۔
ر۔ ط ۔ م
لیجیے وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، ہندوستانی ’جمہور‘ نے اعلان کر دیا کہ نریندر مودی مزید پانچ سال اقتدار میں رہیں گے، اب اس پر مہر بھی ثبت ہو گئی۔۔۔ اور مہر ثبت ہوگئی کا مطلب آپ سمجھ لیجیے کہ ہمارے اس جڑواں دیس میں ’’ادارے‘‘ اس قدر ’ناکارہ‘ ہیں کہ اپنے وزیراعظم تک کو مدت پوری کرنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔ الّا یہ کہ پارلیمان میں کوئی جوڑ توڑ نہ ہو جائے، لیکن مودی جی کی ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اب پارلیمان میں اتنی مضبوط ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی ’غیر پارلیمانی‘ حرکتیں کر لے، اُسے ایسے کسی ’پارلیمانی‘ خطرے کا سامنا نہیں ہو سکتا۔

وہاں انتخابات میں بھی لے دے کر ایک کانگریس نامی جماعت ہی سے اس کا جیسا تیسا مقابلہ تھا۔ جو ’بی جے پی‘ سے کئی گنا پیچھے تھی، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ کانگریس بی جے پی کے ’مقابل‘ یوں کہی جا رہی تھی کہ وہ ہندوستان کی کم زور ترین سیاسی جماعتوں میں سب سے مضبوط شمار ہو رہی تھی۔۔۔ کہنے کو تاریخی طور پر ’بی جے پی‘ کا اقتدار کانگریس کے مقابلے میں ہم سرحد پار والوں کے لیے بہتر کہا گیا، لیکن جانے کیوں ’بی جے پی‘ کی انتہا پسندی کا اتنا خوف ہے کہ ’کانگریس‘ ہی ہمیں بھلا انتخاب معلوم ہوتی۔۔۔ اب ہندوستانی سماج کے نصیب میں ’تبدیلی‘ بھی تو نہیں کہ کوئی تیسری مضبوط جماعت آکر کھڑی ہو، جو خم ٹھونک کر کہے کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔۔۔!‘‘

چند برس پہلے دلی میں اروند کیجریوال کی ’عام آدمی پارٹی‘ جھاڑو کے انتخابی نشان کے ساتھ ایک نئی امید سی پیدا کرنے لگی تھی، لیکن موجودہ چنائو سے واضح ہوگیا کہ بات زیادہ آگے تک نہیں چل پائی۔۔۔ اب راجستھان سے لے کر بنگال اور نیچے جنوبی ہند تک گہرا ’نارنجی‘ رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری بار پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی ’بی جے پی‘ کی جیت پر متوازن فکر کے حامل بھارتی صحافی روش کمار کہتے ہیں کہ ’اب ہندوستان کو سمجھنے کے لیے موہن داس گاندھی یا امبیڈکر نہیں، بلکہ کسی نئے پیمانے کی ضرورت ہے۔۔۔

ہندوستان کی 18 فی صد مسلم اقلیت سے ڈرا کر 80 فی صد ہندو اکثریت کے ووٹ لیے گئے ہیں۔۔۔!‘ بھئی ماجرا ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ووٹ تقسیم ہوگیا تو ’بی جے پی‘ آگے آگئی۔۔۔ یہاں تو ’بی جے پی‘ کے نمایاں حریفوں کے ووٹ یک جا ہو کر بھی اتنے نہیں بن رہے کہ مقابل پس پا ہوتا۔۔۔ گویا آج ہندوستان کے ’باپو‘ یعنی بابائے قوم کہے جانے والے موہن داس گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے پیروکار اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ مسلسل دوسری بار برسر اقتدار آجاتے ہیں۔ دوسری طرف تقسیم ہند کے طالب علم اب یہ بات کرنے لگے ہیں کہ ہندوستان میں انتہاپسندی کا یہی وہ انت تھا، جس سے بچنے کے لیے 1947ء میں مسلمانوں نے تقسیم کی راہ چُن لی تھی۔۔۔!

۔۔۔

خبر کی بھی ’خبر‘ رکھیے۔۔۔!
محمد علم اللہ (نئی دہلی)
ہمارے عہد میں انسان کی تقدیر کو بنانے اور سنوارنے میں اطلاعات یعنی خبروں کا کردار مرکزی ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ طاقت کا ایک خصوصی اور اہم ذریعہ ہیں، یہاں تک کہ اطلاعات نے، دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں، امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ یا پھر اسرائیل کے نیتن یاہو ان سب کی کام یابی کے پیچھے بھی اس ٹیکنالوجی کا اہم کردار رہا ہے۔ ہمارے استاد ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اکثر کہا کرتے ہیں، وہ لوگ جو افتخار، طاقت اور ترقی چاہتے ہیں ان کو اس اہم ذریعہ کا نظم و انتظام سیکھ لینا چاہیے اور مسلسل ترقی کرتی ہوئی اطلاعات کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہنا چاہیے۔
اطلاعات کی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ماجرا یہ ہے کہ جو بھی اطلاعات کو قابو میں رکھنے میں کام یاب ہوتا ہے، وہ تمام دنیا میں غلبہ پالیتا ہے۔ بہ ظاہر دیکھیں تو ہمیں اطلاعات کا طوفان دکھائی دیتا ہے، جو دراصل بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اہل یورپ بھی سمجھنے اور انتخاب کرنے کی صلاحیت میں پیچھے رہ گئے ہیں، جب کہ اطلاعات کو پیدا کرنے والے ادارے انہی کے ہیں اور ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے اِبلاغی اداروں کا کردار ثانوی ہے۔

مغربی تہذیب کے متوالے اطلاعات کی دنیا میں رو نما ہونے والے انقلاب کو ایک بہت ہی نمایاں کام یابی سمجھتے ہیں۔
آج گروہی مفادات کے لیے اطلاعات نہ صرف گڑھی جاتی ہیں، بلکہ من چاہی اطلاعات کو روکا اور پیش کیا جاتا ہے، تاکہ صنعتی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کی جائے جو کہ محروم و پس ماندہ طبقے کے حقوق پر ڈاکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آج سارے ہی لوگ ایک خاص تناظر میں نہ سوچ رہے ہوتے۔ اطلاعات کا دائرہ ہمیشہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔

ہمیں آج کی دنیا کے واقعات کے بارے میں باخبر ہونا لازمی ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ خود کو اطلاعات کے بہائو میں بہنے سے روکیں، ہر اطلاع پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں، کہی گئی ہر بات کو فوراً مان لینے سے باز رہیں، واقعات کی صحت اور اطلاعات کی صداقت اور ان کے افشا ہونے کا موقع ذہن میں رکھیں اور اس کے بعد ہی اپنی کوئی رائے قائم کریں یا تجزیہ کریں۔ پھر اس کے ظاہر ہونے کا مخصوص وقت بھی دیکھیں، بہت سی پرانی اطلاعات روک کر مخصوص فائدے کے حصول کے لیے بعد میں ظاہر کر دی جاتی ہیں اور عام لوگ اس سے بے پروا ہو کر اس اطلاع کو قبول کرلیتے ہیں، جس سے اطلاع دینے والے کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۔۔۔

ہمیں آج کی کتنی عیدیں یاد ہیں؟
آمنہ احسن، کراچی

تہواروں پر ہمارے ذہن میں بچپن کے دنوں کی ایک فلم سی چلنے لگتی ہے، کچھ یہی حال عید کا ہے، جی چاہتا ہے کہ ہم وہ خوشی پھر سے محسوس کریں جیسی بچپن میں کرتے تھے، اُس معصوم عمر میں ملنے والی عیدی کی بھی کیا بات تھی، لیکن اس کے ساتھ جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ ’عید کارڈ‘ ہیں۔ ہر ایک کے لیے الگ طرح کے کارڈ خریدنا اور پھر اس کی شخصیت اور پھر ہمارے اس سے تعلق کے حساب سے شعر منتخب کرنا۔۔۔ چاہے وہ سہیلیاں ہم سے روز ملتی ہوں، لیکن عید کارڈ کے وسیلے ہم باقاعدہ لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کر لیتے تھے۔۔۔ اور لکھ کر کیے گئے اظہار کا لطف ہی جدا ہوتا تھا۔۔۔ برسوں بعد آپ اسے کھول کر پڑھ لیجیے، پھر سے انہی بے فکری کے لمحوں میں پہنچ جائیے۔۔۔ وہ اشعار پڑھیے اور ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ کا لطف لیجیے کہ ذہن میں ایک در سا کھل گیا ہے، سب کچھ یاد آگیا ہے کہ یہ شعر فلاں کے لیے کیوں لکھا تھا۔۔۔ اسے تنگ کرنا مقصود تھا، اس کا کوئی خاص پس منظر ہے اور پھر کس طرح ہم ساتھ مل کر زور زور سے ہنسے تھے۔۔۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں، جب بازار میں جا بہ جا دیدہ زیب اور انواع اقسام کے عید کارڈ سجا لیے جاتے تھے۔ گھر کے کسی بڑے کے ہم راہ بازار کا رخ کیا جاتا۔ بیل بوٹوں، پھولوں والے، گڑیا، ٹیڈی بیئر والے یا کسی مشہور شخصیت کے روپ والے کارڈ دکھائی دے جاتے۔۔۔ کچھ کارڈ تو دیکھتے کے ساتھ ہی ہم اُچک لیتے کہ ارے یہ تو فلاں کے لیے بہترین رہے گا۔۔۔ جب کہ کچھ ’اپنے‘ ایسے بھی ہوتے کہ جن کے ’شایان شان‘ کارڈ ڈھونڈنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔۔۔ پھر مرحلہ ہوتا ان پر اپنے جذبات کے اظہار کا اور کم سے کم دو سے تین اشعار ضرور لکھے جاتے۔۔۔ اکثر لگے بندھے اشعار ہی ہوتے، کبھی کوئی نیا شعر نظر سے گزرتا، تو وہ ہم اپنے سب سے خاص دوست کے لیے لکھتے۔ ان کارڈز کے ساتھ اپنے قریبی دوستوں کو عیدی کے طور پر چوڑیاں وغیرہ بھی دی جاتی تھیں۔

زمانہ بدلا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب کچھ ماضی کی ایک یاد بن گیا۔ اب نہ وہ عید کارڈ رہے، نہ ہی رات رات بھر بیٹھ کر دوستوں کے لیے اشعار لکھنے والے۔۔۔ اب ایک پیغام ایک جنبش پر ہزاروں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایسی کتنی عیدیں گزار لیں، سب یک ساں ہیں، جب کہ اگر ہم ماضی میں خود کو ملنے والے کارڈز لے کر بیٹھیں، تو آج بھی ہر عید کا رنگ اور لطف الگ الگ دکھائی دے گا۔۔۔ ہر کارڈ اٹھا کر آپ اس سے جڑی کتنی ہی باتیں کر لیں گے، کہ یہ فلاں کو تب دیا تھا اور یہ اس موقع پر دیا تھا، تب اُس کی شروع شادی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان بیتی عیدوں کے کارڈ دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کا بچھڑنا بھی آپ کو آب دیدہ کر دے گا۔۔۔ لیکن یہ کارڈ اُن کی یاد اُن کا لمس بن کر ہماری عید میں آج بھی شامل محسوس ہوگا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بے لگام خواہشات اور بے جا فرمائشیں

$
0
0

شادی کے بعد زوجین میں جھگڑا، تلخ کلامی اور دوریوں کی ایک وجہ بیوی کا اپنے شوہر کی مالی حالت اور ماہانہ بجٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خواہشات کا اظہار اور فرمائشیں پوری کرنے پر اصرار بھی ہوتا ہے۔

اکثر عورتیں سمجھتی ہیں کہ منہگے اور کسی معروف برانڈ کے ملبوسات، زیورات، پرس، سینڈل پہن کر وہ کسی محفل میں نمایاں ہو سکتی ہیں اور سب کی نظروں میں ان کے لیے ستائش ہو گی۔ سجنا سنورنا اور خوب صورت نظر آنا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی رشتوں کی خوب صورتی برقرار رکھنے اور تعلقات کو مضبوط بنانے پر بھی دھیان دینا چاہیے۔

بیوی کی ہٹ دھرمی، ضد اور بے جا فرمائشیں شوہر کو اس سے بدظن کردیتی ہیں۔ رشتوں کی خوب صورتی تو قناعت، قربانی اور توازن میں پنہاں ہے۔ ایک عام عورت جس کو اپنی ذات پر اعتماد ہو، اسے اپنے ظاہر کی تعریف سننے کی  تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ سادہ سے لباس، ہلکے پھلکے میک اپ میں بھی وقار سے سر اٹھا کر چلتی ہے اور خوش رہتی ہے۔

اگر دیکھیں تو شوہر بھی اپنی محدود تن خواہ میں اپنی بیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے قیمتی اور نام ور برانڈ کی چیز دلائے مگر ضد اور بے جا فرمائش اسے اپنی بیوی سے دور کرسکتی ہے۔ اگر وہ ہر تقریب کے لیے ایسے خرچے کا متحمل نہیں ہوسکتا تو بیوی کی ضد اس کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے اور وہ اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔

شوہر یہ محسوس کرتا کہ بیوی کو گھر سے یا اس سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ اس کی خوشی محض برانڈڈ بیگز، چپل یا ملبوسات ہیں۔ خواتین کی لامحدود خواہشات گھریلو جھگڑوں کا سبب بنتی ہیں۔ درحقیقت یہ شخصیت میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے  جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ کیا خوشی کا دار و مدار ان قیمتی اور مہنگی اشیا پر ہے۔ انسان کی سوچ، اس کا کردار اور تعلقات ان تمام قیمتی اشیا سے بڑھ کر قیمتی ہے۔ جو خواتین اپنی خواہشات کی غلام ہوتی ہیں، درحقیقت وہ اپنی شخصیت کو اس قیمتی شے یا لباس کے متوازی گردانتی ہیں جب کہ شخصیت اس سے بہت بالاتر ہوتی ہے۔

بعض اوقات خواتین اچھی خاصی فضول خرچی کر جاتی ہیں، جب کہ وہ اپنے پرس کی کشادگی سے بھی واقف ہوتی ہیں اور انہیں اپنے شوہروں کی آمدنی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہماری معاشرتی اقدار اور ہمارا مذہب ہمیں فضول خرچی کی اجازت بالکل نہیں دیتا۔ ہمارے دین نے تو ہمیں اعتدال کا درس دیا ہے جس کے بعد ہمارے معاشرے میں، خاندانوں کے درمیان پیار و محبت کی راہ ہموار ہوتی ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال کرنے والے بنتے ہیں۔

اس حوالے سے خواتین بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، کیوںکہ وہ اپنے گھر کی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسے ہر طرح کے خسارے سے بچاسکتی ہیں۔ بیوی اگر اپنے شوہر کی جیب دیکھتے ہوئے فرمائش کرے تو شوہر کو بھی اپنی گنجائش دیکھتے ہوئے بیوی کی فرمائش ضرور پوری کرنی چاہیے۔ اسے اس موقع پر بخل اور کنجوسی سے ہٹ کر  بیوی کو کم از کم اس پیمانے پر ضرور رکھنا چاہیے جہاں وہ خوش بھی دکھائی دے اور مطمئن بھی۔

The post بے لگام خواہشات اور بے جا فرمائشیں appeared first on ایکسپریس اردو.

خیالی دنیا سے باہر نکلیں

$
0
0

’’میں زہر کھالوںگی لیکن اس موٹے سے ہرگز شادی نہیں کروں گی۔‘‘
’’امی میں ایسی غیر رومانوی اور روبوٹ جیسی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں اس شخص سے خلع لے لوں گی۔‘‘

ایسی باتیں ہم سنتے رہتے ہیں۔ کم فہم اور جذباتی لڑکیاں ایسے فیصلے کرکے پچھتاتی ہیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد لڑکیاں اپنے ہم سفر کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ وہ افسانوں، ڈراموں، فلموں کے ہیرو کی طرح ایک جیون ساتھی کا خواب دیکھتی ہیں۔ وہ ایک خیالی دنیا بنانے لگتی ہیں جس میں کوئی خامی نہیں ہوتی۔ وہ امیر کبیر ہوتا ہے اور کسی یونانی دیوتا جیسا اور اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے وہ بہت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔

اپنے اس آئیڈیل لڑکے کی کھوج میں لڑکیاں اپنے آنے والے ہر رشتے کو مسترد کرتے کرتے عمر کی اس دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں جہاں بالوں میں چاندی آجاتی ہے لیکن وہ آئیڈیل شوہر کے حوالے سے سمجھوتا نہیں کرتیں۔ لڑکیوں کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے والدین وقت سے پہلے بوڑھے اور لاغر ہوجاتے ہیں۔

اگر والدین لڑکی کی ضد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کا رشتہ کہیں طے کردیتے ہیں تو وہ اپنے خاوند کا موازنہ اپنے ذہن میں موجود آئیڈیل سے ہی کرتی رہتی ہیں اور پھر اچھے بھلے انسان میں اسے سو سو خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ اسے دل سے تسلیم ہی نہیں کرپاتیں اور یوں اچھی بھلی زندگی برباد ہونے لگتی ہے۔ لڑکی کے سمجھوتا نہ کرنے کی وجہ سے آخر کار نوبت طلاق پر آجاتی ہے اور وہ اپنے والدین کے گھر آجاتی ہے۔

لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا شوہر معاش کی فکر کرے، دفتری اور کام کی پریشانیوں اور بوجھ کے ساتھ شادی کی سال گرہ، پہلی ملاقات کا دن اور سب تاریخیں یاد رکھے اور افسانوی ہیرو کی طرح انھیں سیلیبریٹ بھی کرے۔ یہ سب باتیں فلموں اور افسانوں میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن حقیقت میں ممکن نہیں۔ آپ کو سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ زندگی نشیب و فراز کا دوسرا نام ہے۔ اسی آئیڈل ازم کی وجہ سے لڑکیاں اپنے گھر آباد کرنے سے پہلے ہی برباد کر دیتی ہیں۔ دوسری طرف بعض بدکردار اور شریر صفت لڑکے ایسی جذباتی اور آئیڈیل ازم کی ماری لڑکیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ ان کا آسان شکار ہوتی ہیں۔

لڑکیوں کو چاہیے جس سے والدین رشتہ استوار کریں اس کا موازنہ اپنے آئیڈیل سے نہ کریں۔ کیوں کہ آئیڈیل آپ کی خیالی دنیا کا ایک کردار ہوتا ہے جسے آپ نے خود تخلیق کیا ہے اور جس شخص کے ساتھ آپ شادی کے بندھن میں منسلک ہیں وہ ایک حقیقت ہے۔ آپ اسے دل سے قبول کریں اور خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اس کی شخصیت میں خوبیاں ڈھونڈیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کو قلبی اور ذہنی سکون میسر آئے گا ساتھ ہی آپ کی ازدواجی زندگی بھی خوش گوار ہوجائے گی۔

آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی لڑکیوں کے ذہن متاثر ہورہے ہیں۔ جن لڑکیوں کی نئی نئی شادی ہوتی ہے وہ اپنی دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے یا پھر اپنے عزیز و اقارب کو دکھانے کے لیے اپنی شاپنگ، گھومنے پھرنے کی تصاویر لگاتی ہیں تو کبھی اپنے شوہر کی تعریف کرتی ہیں جس کے بعد مالی طور پر کم زور گھرانے کی شادی شدہ لڑکیاں احساس کم تری کا شکار ہو کر اپنے شوہر سے الجھ جاتی ہیں اور دوسری طرف غیرشادی شدہ لڑکیاں اپنی آنے والی زندگی کے حسین خواب بننے لگتی ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں لڑکیوں کو اس سے باہر نکل کر اپنی شخصیت اور کردار کو تعلیم اور ہنر کے ذریعے سنوارنا چاہیے اور اپنی شخصیت میں ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہییں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں اور آپ کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔

The post خیالی دنیا سے باہر نکلیں appeared first on ایکسپریس اردو.

رشتوں کے مابین توازن ضروری ہے!

$
0
0

ہمارے سماج میں بیٹے کو بڑھاپے کا سہارا اور وارث مانا جاتا ہے۔ جس جوڑے کے گھر بیٹا پیدا ہو وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ اسی بیٹے کو سب سے پہلے ایک عورت یعنی اس کی ماں ہتھیلی کا چھالا بناتی ہے۔۔۔ اور پھر وہ چاہتی ہے کہ اس کی دوسری اولاد یعنی اس کی بیٹی بھی یہی روش اپنائے۔ وہ بھائی کا ہر طرح خیال رکھے، اس کی ایک آواز پر دوڑی چلی آئے، اس کے معاملے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔

ایک بیٹا اس کے دوسرے بیٹے کو مارے تو کوئی بات نہیں، لیکن بہن کسی بات پر بھائی کو مار دے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے سماج میں عام ہے اور بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دینے کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ بہن کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ کچھ بول سکے جب کہ بھائی جو چاہے کرے۔ جن گھرانوں میں بچپن سے ہی بیٹے کو اس کی کسی بری بات اور حرکت پر ٹوکا نہ جائے، اسے بہن پر ترجیح دی جائے تو کیا وہ خود پسند اور گھمنڈی نہ ہو گا؟

ہمارے ہاں بچپن سے ہی ایسی ذہن سازی اور تربیت کی جاتی ہے جو بیٹی کا اعتماد بری طرح مجروح کردیتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ بھائی کو مارتے نہیں، اگر وہ تمہیں مارے تو جواب میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ وہ اپنے کھلونے چھوڑ کر تمہاری گڑیا مانگے تو دے دو، اسے انکار مت کرو، وہ بھائی ہے۔ گویا بچپن سے ہی اسے حق جتانے یا مانگنے کے استحقاق سے بھائی کے مقابلے میں محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ گھر کی چار دیواری میں اولاد کو سب سے زیادہ وقت دینے والا فرد یعنی ماں سکھاتی ہے جو ایک عورت بھی ہے، مگر جانے کیوں وہ مرد کے مقابلے پر عورت کا استحقاق خود بھی قبول نہیں کرتی۔

ہمارے سماج میں ہماری مائیں، بزرگ خواتین لڑکے کے احساسِ برتری کا بیج کم عمری میں ہی لڑکی کے ذہن میں بو دیتی ہیں کیوں کہ اسے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اس کا تشخص مرد کی دین ہے۔ سو اس سے آنکھ ملا کر بات نہ کرو، اس کے آگے سر اٹھا کر نہیں چلو اور جو لڑکی اس کے خلاف کرے اسے یہ سماج بدکرداری یا بے باکی کی سند ہاتھوں میں تھما دیتا ہے۔ اسی لیے اگر بیٹا بے جا ضد فرمائش یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جائز اور اگر یہی روش بچی اپنائے تو ناجائز اور قابلِ گرفت ہوتی ہے۔

پاکستانی سماج کے خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم بیٹا یا بیٹی کو ایک ہی احساس کے ترازو میں نہیں رکھتے، ہم لڑکیوں کو خوف کے ماحول میں پالتے ہیں، زمانے کی اونچ نیچ، بدنامی کے خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ عزت ایک کانچ کی چوڑی جیسی ہے اور یہ جملہ بول بول کر اس میں خوف بھرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بن جائے تو وہ بیچاری خود کو ہی قصور وار سمجھتی ہے، مگر ہم بیٹے کی پرورش اس خوف کے ساتھ نہیں کرتے۔

ایک بیس بائیس سالہ بہن ٹیوشن سینٹر، اکیڈمی یا بازار جانے کے لیے اگر تیار ہوتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے کر جاؤ،  اکیلی نہ جانا۔ اسے خاص زاویے سے دیکھیں تو بیٹوں کے سامنے بیٹیوں کو بار بار ایسی ہدایت، ایسی تنبیہ سے ہم لڑکوں کو تو نڈر بنا رہے ہیں مگر لڑکیوں کو خوف میں مبتلا اور بزدل بنا رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا بھی ہے کہ اس طرح سے ہم لڑکیوں سے ان کا اعتماد نہیں چھین رہے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ احساسِ کم تری کا شکار ہو کر شدید ڈپریشن میں مبتلا ہو  رہی ہیں۔

جب آپ نسلوں کو پروان چڑھانے والی عورت سے اعتماد ہی چھین لیں گے تو کیا وہ سَر اٹھا کر زندگی کی اونچ نیچ کو سمجھے گی؟

والدین ہمیشہ ساتھ تو نہیں رہتے۔ اگر لڑکی زندگی کے سفر میں تنہا رہ جاتی ہے تو کیا وہ اس قابل ہو گی کہ مسائل اور مشکلات سے نمٹ سکے۔ وہ اپنے حق کے لیے کسی سے لڑ پائے گی۔ کیا آپ نے کبھی خود سے یہ سوال پوچھا ہے… نہیں، تو بحیثیت ماں آپ خود سے سوال کب کریں گی؟

یہ سوال ان ماؤں سے ضرور پوچھنا چاہیے جو بیٹا اور بیٹی میں تفریق اور امتیاز کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے صنفی امتیاز کا آغاز ہمارے  گھروں ہی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی بنیاد بچپن ہی میں رکھ دی جاتی ہے۔ ایک اور بات پر یہ معاشرہ بھی غور کرے کہ کیا ایک نوجوان بچی کو ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر لے جانے کی ذمہ داری اس کے چھوٹے بھائی پر ڈالی جا سکتی ہے جو ابھی خود بھی اپنی حفاظت نہیں کرسکتا؟ جو ابھی معاشرے کی غلیظ سوچ سے واقف نہیں، جو اپنے لاابالی پن میں ساتھ ساتھ چلنے کا شعور بھی نہیں رکھتا؟

وہ کسی برے وقت میں اپنی بہن کی حفاظت  کیسے کرے گا؟ خطرہ تو دونوں کے لیے ہو سکتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بھیڑیے اور درندہ صفت صرف لڑکیوں کے لیے وبال نہیں ہیں بلکہ ان سے لڑکے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہاں، آپ اپنی تسلی، ڈھارس بندھانے کو جوان بہن کے ساتھ کم عمر بھائی کو ضرور بھیج دیتے ہیں۔ اگر اس طرح آپ کی نظر میں آپ کی بیٹی محفوظ رہ سکتی ہے تو یہ مشق جاری رکھیے۔ اس خوف کے عالم میں کیا یہ بہتر نہیں کہ والدین میں سے کوئی ایک بچے یا بچی کے ساتھ ہو، کیا ہم اپنے بچوں کا اعتماد گھر سے ہی بحال کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں بیٹی کی پرورش کرتے وقت والدین کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کی پرورش کرتے ہوئے محبت اور پیار میں توازن رکھیں، انہیں ایک دوسرے پر فوقیت نہ دیں بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھائیں۔ جب ایک بیٹا گھر کی چار دیواری یعنی اپنی پہلی درس گاہ میں اپنی بہن کی عزت کرنا سیکھ جاتا ہے تو باہر نکل کر وہ غیر عورتوں کی بھی اسی طرح عزت کرے گا۔ وہ اسے اپنا اخلاقی فرض سمجھے گا۔

سماج میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رشتوں کے مابین توازن، احساسِ ذمہ داری، محبت، خلوص کا اہتمام کریں گے اور بیٹے یا بیٹی کے درمیان  گھر کی چار دیواری کے اندر مثبت اور صحت مند رویے پروان چڑھائیں گے۔ اسی صورت میں اجتماعی سطح پر ہم اُس خوف سے باہر نکل سکیں گے جس میں ہر دوسرے تیسرے روز جنسی زیادتی اور عورت کی رسوائی کا سن کر دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔

The post رشتوں کے مابین توازن ضروری ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.


کیا آج کی لڑکی پر صرف عشق کا بھوت سوار ہے؟

$
0
0

کیا ہم عورت کو، اس عورت کو جو اس معاشرے کی نصف طاقت ہے، آج کے دور میں بھی کسی شاعر کی غزل اور ڈراما نگار کی کہانی کو رنگین بناتا دیکھنا چاہتے ہیں؟ شاید ایسا ہی ہے۔

ہم عورت کو سماج کے کسی شعبے میں ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر متحرک دیکھنے سے زیادہ اسے شام کے وقت سجا سنورا کھڑی یا چھت پر لٹکے ہوئے، گلی سے آنچل لہراتے ہوئے گزرتا دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔

ہم بات کریں ڈراموں کی تو ان میں چھتوں پر جو رنگین اور سنگین مناظر دکھائے جاتے ہیں، لڑکی جس طرح دبے پاؤں آدھی رات کو اپنے محبوب سے ملنے جاتی ہے اور کھلی ہوئی لمبی زلفیں، چوڑیوں کی کھنک، پازیب کی جلترنگ، بے ترتیب سانسوں کے ساتھ دوریوں نزدیکیوں کے سین دیکھنے کے بعد نوعمر ناظرین کے کم سن جذبوں کا مچل جانا بعید از قیاس تو نہیں۔ منظر ختم ہونے کے بعد بھی ذہنوں کا اسی منظر میں گم رہنا، ناپختہ ذہنوں اور کچے جذبات پر منفی اثرات ہی تو مرتب کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ پھر ایسے ڈراموں کا انجام قتل پر ہوتا ہے، گویا ہم بہت آسانی سے خونی رشتوں کو ویمپائر، گھر کو دوزخ، والدین کی ناموس کو ہیل کی نوک تلے رکھنے اور اجنبی کو فرشتہ اور ان کے ساتھ کو نعمت دکھا کر، سماج کی قدریں ڈھٹائی سے پامال کر رہے ہیں اور ہماری اس ساری کاوش کی بنیاد رکھی جاتی ہے عورت پر۔ ماضی کے کئی ڈرامے اپنے شان دار اسکرپٹ اور جان دار اداکاری کی وجہ نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ بامقصد اور معیاری تفریح فراہم کرنے کے ساتھ سماج کو ان کے ذریعے مثبت اور توانا پیغام دیا گیا۔

ان ڈراموں میں جو سب سے روشن پہلو دکھایا  گیا ہے وہ ایک لڑکی کا مضبوط کردار کا مالک ہونا ہے… مگر آج کل کے ڈراموں کے میں ہر لڑکی عشق میں پاگل ہو رہی ہے۔ وہ سوتے جاگتے بس خواب بن رہی ہے…اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ کسی طرح اپنی محبت کو پاسکے۔ آخر اس سماج میں لڑکیوں کے خوابوں کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ کیوں  ہو رہا ہے۔

کیوں صرف ان کے خوابوں کو ایک ہی سمت دی جارہی ہے؟ لڑکیوں کو صرف عشق کے بھوت ہی میں مبتلا کیوں دکھایا جاتا ہے؟ ان کو بامقصد زندگی گزارتے ہوئے، کسی بڑے کام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، اپنے اور اپنے خاندان کے روشن مستقبل کے لیے بھاگ دوڑ کرتے کیوں نہیں دکھایا جاتا؟ کیوں نہیں دکھاتے ایک لڑکی کا ڈاکٹر بننے کا سپنا کتنے رتجگوں کے بعد ممکن ہوا کیوں نہیں دکھاتے کہ گول روٹی پکانے کے لیے ہتھیلی کتنی بار جلی؟ اور کیوں نہیں دکھاتے کہ جب ایک بیٹی کینسر کے تیسرے اسٹیج پر پہنچی ہوئی ماں کی میڈیکل رپورٹس لے کر اسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوتی ہے تو وہ اس وقت کیسے زندگی کی تلاش میں ہوتی ہے۔

یہ بھی تو بتائیں کہ جب ایک لڑکی ماں کی بیماری سے لڑنے کا عزم لے کر اٹھتی ہے تو کائنات اس کا طواف کرتی ہے۔ بیٹی کے واحد سہارے پر ماں کی آنکھوں میں جو نئی طاقت ابھرتی ہے یہ عشق کی طاقت ہوتی ہے اور ایسے عشق کی روداد کیوں نہیں اسکرین پر دکھائی جاتی؟ کوئی مزدور، تھکا ہارا باپ جب گھر لوٹتا ہے تو دوڑ کر اس کے سینے سے لپٹنے والی گڑیا اس کی ساری تھکن کیسے ختم کر دیتی ہے، اس بے مثال اور لازوال محبت کو کیوں عکس بند نہیں کیا جاتا؟

ہمارے سماج میں کئی خواتین رول ماڈل کے طور پر ابھری ہیں۔ ہزاروں رکاوٹوں، نامساعد حالات کے باوجود افواج، سیاست، طب، سفارت کاری غرض ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔

شاہدہ آرمی میڈیکل کور میں پہلی خاتون جنرل بنیں، یہ اعزاز پہلی بار فوج میں ایک خاتون کو ملا۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ کیا انھیں یہ منصب گھر بیٹھے مل گیا تھا یا اسے پلیٹ میں سجا کر پیش کیا گیا تھا؟  اسی طرح کئی نام ہیں جو ہمارے سماج کا روشن چہرہ ہیں اور ہر لڑکی جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کا آئیڈیل بن سکتے ہیں۔

اپنے کیریئر پر فوکس رکھنے والی لڑکیوں کو ڈرامے کی ہیروئن اور ان کی جدوجہد کو کہانی کا محور بنانے میں کیا قباحت ہے؟ ہم ایسے روشن کرداروں کے ذریعے اپنی قوم کی بیٹیوں کو اچھی اور صحت مند ترغیب دے سکتے ہیں مگر نہیں کرتے۔

ہمارے دیہی علاقوں میں چوہدریوں، وڈیروں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی کسی نہتی لڑکی کی کوششوں کی تشہیر کیوں نہیں کی جاتی؟ آخر لڑکی ذات کو کم زور ہی کیوں دکھایا جاتا ہے، جو گھر سے باہر خوف کے حصار کو توڑ کر نکلتی ہے اسے کیوں ہمارے ڈراموں میں اجاگر نہیں کیا جاتا؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی زندگی اور ان کی جدوجہد کی عکس بندی کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ بیٹی اتنی باہمت بھی ہو سکتی ہے جو دیارِ غیر میں بڑی بڑی قوتوں کے سامنے اپنے قوم کے ایشوز پر آواز اٹھانے سے نہیں ہچکچاتی۔ چھریوں کے وار سہنے کے بعد اپنے لیے خود آواز بننے والی اور انتہائی بااثر ملزم کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے والی اس کم زور، مگر ہار نہ ماننے والی لڑکی کی جدوجہد کسی کہانی کا اہم موضوع کیوں نہیں بن سکتی۔

خاوند کے مرنے کے بعد بچوں کی کفالت کی بھاری ذمہ داری اٹھانے والی ایک باہمت ٹیکسی ڈرائیور کسی ڈرامے یا فلم کی ہیروئن کب بنے گی؟ کیمسٹری کی گولڈ میڈلسٹ لڑکی جو پیدائشی طور پر ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اور اس کی وہیل چیئر یونیورسٹی کی تعلیم میں حائل نہیں ہوئی، کبھی ایسی نڈر لڑکی کے جذبات، احساسات سے ہمارے خام ذہنوں کو روشناس کروایا جائے گا؟ عشق کرنا اور ساجن کی مالا جپنا ہی کیا لڑکی کی زندگی کا واحد مقصد رہ گیا ہے؟ یقیناً آپ غلط ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔

آپ کے ہاں عشق شروع ہوا اور ملن پر اس کی کہانی خوش گوار انجام کو پہنچی، مگر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ بھی دکھانا ہو گا۔ اس سماج میں کتنے ہی کردار ہیں، کتنے ہی توانا روپ ہیں ایک عورت کے، مگر شاید لوگ اسے دیکھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

آج کی لڑکی بہت مضبوط کردار کی مالک ہے۔ جیسا آپ سوچتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں اس سے بالکل مختلف۔ وہ اپنے سے منسلک رشتوں اور زندگی سے مخلص بھی ہے۔ وہ رشتے توڑ کر نہیں، انھی بندھنوں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں سانس لیتے ہوئے اس کی خاطر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتی ہے، وہ جدوجہد کرتی ہے، لڑتی ہے، ٹوٹتی بھی ہے مگر رشتوں کو جھکنے نہیں دیتی، انھیں مرنے نہیں دیتی۔

آج کی لڑکی ہیر کی طرح رانجھا ڈھونڈنے نہیں نکلتی، نہ ہی اسے ہیر بننے میں دل چسپی ہے۔ آج کی لڑکی مضبوط اعصاب اور کردار کی مالک ہے۔ وہ زندگی کی مشکلات کو سمجھنے والی اور مقابلہ کرنے والی جاں باز ہے، یہ آپ کے ڈراموں، ڈائجسٹ کے سحر سے نکل چکی ہے۔ اسے سمجھیں اور بہتر ہوگا اس کا وہ کردار دکھائیں جس کی سماج اور دنیا کو ضرورت ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ڈرامے، ڈائجسٹ اور فلم کا ہماری زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر نوعمر اور کچے ذہن اس کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں اور وہ ایک تصوراتی دنیا بسا لیتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ان کے ذریعے مثبت رجحانات کو اجاگر کیا جائے اور اس سے کردار سازی اور تربیت کے ساتھ بامقصد اور معیاری تفریح فراہم کی جائے۔

کوشش کیجیے کہ لڑکیوں کے اندر شعور اجاگر کریں۔ ایسی کہانیاں اور کردار سامنے لائے جائیں جو سماج میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں۔ گھر سے بغاوت اور رشتوں سے نفرت کو فروغ نہ دیں بلکہ اس بات کو سمجھیں کہ جب ہمارا خاندانی ڈھانچا اور سماجی سسٹم مغرب جیسا نہیں تو پھر وہاں کی روایات اور اقدار کو یہاں فروغ دینے کا کیا مقصد ہے؟

ڈراموں کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا کام احسن طریقے سے لیا جا سکتا ہے۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب کرداروں کے درمیان مکالموں کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی طرف آئیں۔ معاشرے کے ہر طبقے کو عورت کی عزت اور قدر کرنا سکھائیں۔ اسے مضبوط اور توانا بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسے ترقی اور خوش حالی کے عمل میں شریک کریں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔

The post کیا آج کی لڑکی پر صرف عشق کا بھوت سوار ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل، الجھنیں اور اُن کا حل

$
0
0

شاعروں نے جوانی کے ایام کو زندگی کے سنہری دنوں سے تشبیہ دی ہے۔ واقعی زندگی کے اس دور میں عزم جواں ہوتا ہے، جذبہ زندہ ہوتا ہے، جھپٹنے، پلٹنے، اور پلٹ کر جھپٹنے کے لیے خون ہر دم گرم رہتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اگر زندگی کے اس حسین دور میں امنگیں پوری نہ ہوں، آرزوئیں پایہ تکمیل کو نہ پہنچیں، ناکامیاں گھیراؤ کرلیں تو پھر زندگی کا یہ حسین وقت بدترین بھی بن سکتا ہے۔

ہر نوجوان چاہتا ہے کہ اس کی ہر آرزو پوری ہو، اسے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مناسب مواقع ملیں اور اسے ہر قسم کی سہولیات حاصل ہوں، مگر آج کل کے مادی اور انتشار کے دور میں چونکہ مسائل میں پے در پے اضافہ ہو رہا ہے، ہر کوئی کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے۔

نوجوانوں میں پژمردگی، پریشانی، ڈیپریشن، نفسیاتی الجھنیں، ذہنی دباؤ، سٹریس وغیرہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے ذہنی مسائل کی مختلف وجوہات درج ذیل ہیں:

1۔ وسائل کی کمی،2۔ مناسب مواقع کا نہ ملنا،3۔ مالی پریشانیاں،4۔ امتحان میں ناکامی، 5۔ مناسب توجہ کا نہ ملنا،6۔ ماں باپ میں آپس کی لڑائی، 7۔ دوستی یا محبت میں ناکامی،8۔ بیروز گاری۔

ان وجوہات کی بنا پر اکثر لوگ پریشانیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ذہنی پریشانیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بندہ اپنی جان لینے کے در پے ہو جاتا ہے۔

ذہنی پریشانیوں سے بچاؤ:

قدرتی طور پر حالات آدمی کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کے حالات گھریلو سطح پر یا ملکی سطح پر صحیح نہ ہوں تو وہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ان سے بچاؤ کے لیے بہت ضروری ہے کہ زندگی کے اس دور میں نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولیات پہنچائی جائیں۔ جہاں تک ہو سکے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جائے تاکہ وہ نہ تو بھٹکیں اور نہ نشہ جیسی جان لیوا عادتوں میں مبتلا ہوں،کیونکہ پریشانیوں سے تنگ آ کر بندہ خاص کر نوجوانی میں کوئی نہ کوئی مصنوعی سہارا ضرور ڈھونڈتا ہے جس میں سب سے زیادہ خطرناک ہیروئن کا نشہ ہے۔

ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہمارے ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نوجوان بچوں کے ساتھ بالکل دوستانہ رویہ رکھیں۔ پریشانی و ناکامی کی صورت میں ان کی ہمت بڑھائیں اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں کیونکہ اگر جوان بچوں کو زیادہ ڈانٹا جائے تو پھر وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں جس کا نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔

ماں باپ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ یہ آپ کی عمر کے بہترین دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور ہمت دی ہے۔ اپنی توانائیوں کو بھرپور اور مثبت طریقے سے استعمال کریں۔ اپنا کام دیانتداری اور خوب لگن سے کریں۔

کسی بھی ناکامی کی صورت میں کبھی ہمت نہ ہاریں۔ اپنے کام میں دل جمعی سے لگے رہیں اور اپنے خیالات کو پراگندہ ہونے سے بچائیں۔ نشہ جیسے جھوٹے سہارے لینے سے آپ نہ صرف اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں بلکہ اس سے سارا خاندان برباد ہو جاتا ہے۔

اپنے آپ کو پہچانیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ آپ اپنی ہمت سے ہر مشکل پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں۔

اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی

’’جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔‘‘

اکثر طالب علم یہ شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں……..

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

وجوہات:

موقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگاؤ اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔

اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔

نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں،ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پڑمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔

علاج اور بچاؤ:

جو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

1۔ ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔

2۔ روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔

جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔

3۔ بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ’’سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ ان شاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔

4۔ ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کے لیے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔

5۔ بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کے لیے بعض دواؤں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔

6۔ اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سست اور اونگھتے رہتے ہیں۔

7۔ امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔

توجہ اور دھیان کا فقدان کیوں؟

’’جب بھی پڑھائی شروع کرتا ہوں، توجہ بٹی رہتی ہے۔ پڑھائی کے علاوہ دوسرے خیالات بھی آتے رہتے ہیں۔ اکثر بھولی بسری باتیں یاد آتی ہیں اور یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے اور گھنٹوں بیٹھنے کے باوجود کتاب میں سے نہ کچھ یاد رہتا اور نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔‘‘

اکثر اوقات طالب علم اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور امتحان وغیرہ میں اپنی ناکامی کی وجہ اس بات کو گردانتے ہیں۔

اس کے برعکس وہ طالب علم جو یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ کم وقت میں اپنے مضامین کو نہ صرف یاد کرلیتے ہیں بلکہ ان پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتے ہیں اور یوں وہ اعلیٰ کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں۔

طلبہ کے ان دونوں گروپوں میں بڑا فرق توجہ اور دھیان کا ہے۔ ایک مکمل دھیان اور توجہ کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسرے بغیر توجہ اور دھیان کے کام مکمل کرنے کی بے سود کوشش کرتے ہیں اور یوں پریشانی و ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔

وجوہات:

پڑھائی ہو یا کوئی اور کام، جس میں دلچسپی نہ لی جائے، اس میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کسی کام یا پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کی بڑی بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ خاص مضمون میں رجحان نہ ہونا،2۔ بے قاعدہ طرز زندگی

3۔ پلاننگ کا فقدان،4۔ ورزش کا نہ ہونا

5۔ پے در پے ناکامیاں،6۔ کھانے پینے میں بے اعتدالی

7۔ جسمانی اور ذہنی عوارض،8۔ مالی مسائل وغیرہ

توجہ اور دھیان کیسے حاصل کیا جائے؟

1۔ اپنے کام میں مکمل دلچسپی لیں:

جب بھی آپ کوئی کام کرنے لگیں تو اس میں پوری دلچسپی لیں۔اپنے آپ کوپوری طرح اس میں شامل کریں۔ذہن کو بالکل خالی کر لیں۔اس وقت دنیاومافیہا سے بے خبر ہو جائیں۔کام شروع کرنے سے پہلے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں اور تمام ذہنی تفکرات کو بھلا کر خدا سے مدد مانگیں اور اس کے بعد کام یا پڑھائی میں لگ جائیں۔

ان شاء اللہ یکسوئی حاصل ہو گی اور توجہ اور دھیان کے ہوتے ہی مسائل کا حل آسان ہوجائے گا اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی(ان شاء اللہ)۔

2۔باقاعدگی کی اہمیت:

زندگی کو ایک قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنے سے اکثر مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کو ایک پلاننگ کرکے اور کاموں کا شیڈول بناکر گزارتے ہیں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔

3۔ اپنے فیصلے خود کیجیے:

اکثر اوقات ہمیں وہ کام کرنے پڑتے ہیں جو دوسرے ہم پر ٹھونستے ہیں جس کی وجہ سے توجہ اور دھیان بالکل حاصل نہیں ہوتا۔ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔

اپنے فیصلے خود کرنے سے بندہ بہت ساری قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔ کسی بات میں اپنے قریبی لوگوں سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے مگر جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے وہ آپ کا اپنا ہونا چاہیے۔ جو کام خود فیصلہ کرکے کیا جائے اس میں بندے کی دلچسپی سو فیصد بر قرار رہتی ہے اور ذہن پوری توانائیوں سے اس کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

4۔ خوراک کی اہمیت:

کھانے پینے کی بے اعتدالیاں آدمی کو سو طرح کے مسائل کا شکار کرتی ہیں۔ جسم ٹھیک نہ ہوتو ذہن بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا اور بیمار ذہن کبھی بھی توجہ اور دھیان سے کام نہیں کرسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کھانا کھاتے وقت اعتدال سے کام لیا جائے۔ بھوک رکھ کر کھایا جائے اور سادہ غذا استعمال کی جائے۔

5۔ ورزش کی اہمیت:

جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش کی بھی بہت اہمیت ہے۔ سادہ اور مکمل غذا کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ورزش بھی بہت ضروری ہے۔ اس سے جسم کے ساتھ ساتھ ذہن بھی تروتازہ رہتا ہے۔

غرضیکہ توجہ اور دھیان حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کام میں پوری دلچسپی لیں۔ اپنی غذا کو سادہ رکھیں۔ زندگی میں باقاعدگی پیدا کریں۔ روزانہ ورزش کو معمول بنائیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔

The post نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل، الجھنیں اور اُن کا حل appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

خانہ پُری
اتنا ’’سونا‘‘ ٹھیک نہیں۔۔۔!
ر۔ ط۔ م

گئے وقتوں میں لین دین کے لیے سونے چاندی کو بطور تبادلۂ جنس استعمال کیا جاتا تھا۔۔۔ پھر ذرا ترقی جوہوئی تو سونا چاندنی تو ہوا ایک طرف، ایک چھوٹے سے کاغذ پر اس کی ’مالیت‘ لکھ کر اس کی ’قیمت‘ اور اس کے ذریعے ہماری ’امارت‘ کا تعین کر دیا گیا۔ اب حجم کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک طبع شدہ کاغذ ہے، جس پر اس کی ’رقم‘ درج ہے اور یہاں سے وہاں تک اِسے ’زر‘ مان بھی لیا گیا ہے۔۔۔ مگر اس ’زر‘ کی قیمت بھی دراصل اُسی پرانے خزانے سے نتھی ہے، جن میں اب بھی سونا خاصا نمایاں ہے، اس لیے کچھ سیانے آج بھی اپنے ’اثاثے‘ سونے کی صورت میں محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ روپیے کا کیا بھروسا کب آج کے انسان سے بھی زیادہ گرا چلا جائے۔۔۔ لیکن بہت سے سمجھ دار لوگ سونے کے ذریعے اپنے مالی مقاصد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ پھر آج کل تو لوگوں کے طرز زندگی پر خاص نظر رکھی جانے لگی ہے کہ کہیں سے کوئی سُن گُن ملے اور پھر اس کی رسیدیں مانگی جائیں، اور آمدن سے زائد اثاثوں کی کھوج لگے، پوری تفتیش ہو۔۔۔ تفیش سے ہمیں یاد آیا کہ کچھ بااثر افراد کے گھروں سے بھاری مقدار میں ’سونا‘ برآمد کی خبریں کسی نہ کسی طرح منظر عام پر آئی تھیں، لیکن بوجوہ ان خبروں سے مجموعی طور پر لاتعلقی کا ایسا رویہ رکھا گیا، ورنہ اگر ایسی اطلاعات اگر افواہ کی شکل میں بھی ہوں، تو کم سے کم ان کی تردید تو بڑے زور شور سے کر دی جاتی ہے۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

خیر، اب پتا نہیں انہیں بچپن میں یہ سبق پڑھایا گیا تھا یا نہیں کہ ’اتنا ’’سونا‘‘ ٹھیک نہیں۔۔۔!‘‘ کتنے دوراندیش لوگ تھے نا، ہمیں قبل از وقت ہی اگلے وقت کا سبق پڑھا گئے، حالاں کہ تب تو ’نیب‘ وغیرہ جیسے ادارے بھی نہیں تھے۔۔۔ اسی ’نظم‘ میں ہمیں آگے یہ بھی پڑھایا گیا کہ ’’سورج نکلا تارے بھاگے، دنیا والے سارے جاگے۔۔۔‘‘ اب آپ کہیں گے کہ میں اچھے بھلے نصاب کو سیاسی بنا رہا ہوں ، لیکن آپ خود سوچیں سیاسی اور سماجی دنیا کے کتنے ’تارے‘ ایسے ہیں جو سورج کی عدم موجودگی میں اپنی چمک دکھانے کا شوق پورا کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں پتا ہوتا ہے، جس دن سورج نکل گیا اس دن تاروں کو بھاگنا ہی پڑے گا۔۔۔ (ہمارے تاروں کے بھاگنے کی من پسند جگہیں دبئی، لندن اور امریکا ہیں) پھر شاعر نے یہ بھی بتایا کہ تاروں کے بھاگتے کے ساتھ ہی دنیا والے جاگ جاتے ہیں، بہ الفاظ دیگر جب تک سورج کی غیر حاضری میں ستارے چمکتے ہیں، تب تک دنیا والے سونے میں لگے رہتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔۔۔

بہت سے لوگ سورج کے آگے چادر تان کر بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سورج نہیں رہا۔۔۔ لیکن سورج اسی طرح چمک رہا ہوتا ہے، جب سورج کے آگے سے چادر ہٹتی تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس تو اتنا ’سونا‘ ہوتا ہے کہ وہ اپنے

بچوں تک کو سونے کے نوالے کھلاتے ہیں، لیکن دیکھتے شیر کی نگاہ سے ہیں۔

یوں تو سونے کا بنیادی ماخذ (بے نامی کھاتوں کے علاوہ) زمین ہی ہے، لیکن قیمتی زمین کے لیے بھی یہ محاورہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ’زمین بھی سونا اُگلتی ہے‘ حالاں کہ ابھی زمین نے سونا اُگلا بھی نہیں ہوتا کہ اِسے نگلنے کے لیے دسیوں منہ آن لگتے ہیں۔۔۔ بہت سے اداروں اور عہدوں کو بھی سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا جاتا ہے، مراد یہی ہوتی ہے کہ یہ بہت منفعت بخش ہیں اور ’سونے پہ سُہاگہ‘ یہ ہے کہ یہ ’سونے کی چڑیا‘ ملتی بھی انہیں ہی ہے جو پہلے ہی بہت سونا لیے بیٹھ ہوئے ہوتے ہیں۔

سونے کی ’سماجی‘ اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اچھائی بھی کچھ اس طرح بتائی جاتی ہے کہ ’بھئی فلاں آدمی تو ’سونا‘ ہے۔۔۔!‘ کچھ لوگوں کے من بھی سونے جیسے ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بہت سے من کالے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اس لیے ایک شاعر نے دعا کی کہ ’دل کے کالوں سے اللہ بچائے!‘

۔۔۔

تحریر کیسے رقم ہوتی ہے؟
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
خوشی تخلیق کرنے کے لیے تکلیف کے اَن گنت سنگ میل عبور کرنے پڑتے ہیں۔ الفاظ صفحہ قرطاس پر ظاہر ہونے سے پہلے شعری وریدوں کو زہر میں بُجھے ہوئے خنجروں سے چھیدنے کا وصف رکھتے ہیں اور عین اسی لمحے جب ایک لکھاری گئی رات میں بستر کی راحت سے جدا، نیم روشن گوشے میں سر جھکائے سیاہ و سفید معجزے تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اس کے لہو میں پھیلتے احساس کے زہر سے اس کی بینائی دھندلانے لگتی ہے۔۔۔ پپوٹے نیلگوں ہو کر پھول جاتے ہیں۔۔۔ اور لہو کی نمکین چپچپاہٹ اس کی دریدہ انگلیوں سے رِس کر کاغذ پر بین السطور وہ حکایت دل رقم کرتی ہے جسے پڑھ پانا فقط سچے اہل بصیرت کے لیے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے تحریر کا۔۔۔ لکھاری کا۔۔۔ اس کے لفظ اور قلم کا احترام کیا کیجیے۔

۔۔۔
لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی ہے۔۔۔
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال

محل وقوع: ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے، لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتا یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں ایک کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے اس لیے اب یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔

لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسر دہلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے، یوپی کے حملہ آور دہلی کے راستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں۔ موخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں اور اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

حدود اربعہ: کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

(’’پطرس کے مضامین‘‘ سے اخذ کیا گیا)

۔۔۔
’قاف‘ درست کرنے والی کہاوت
مرسلہ:سارہ شاداب،لانڈھی،کراچی
دلی کے شاہی قلعہ میں یہ رواج تھا کہ جس بچے کے منہ سے ’قاف‘ صاف نہ نکلتا تھا اُسے یہ کہاوت یاد کرائی جاتی تھی، اس کہاوت کو کہتے کہتے بچہ ’قاف‘ اچھی طرح سے کہنے لگتا تھا۔ یہ کہاوت کچھ یوں تھی ’’قاضی قوام الدین جی قربان بیگ کے قل پڑھنے جاتے ہوئے وہاں سے قلعہ قریب ہے، قلیدسے کہیو، کیا تو قانقیں کی قید میں مقید ہے، قصبہ کے قاضی قوی جی نے قاب قورمہ بھیجی ہے، قدم رنجہ کرو تو قوت قبول ہو۔‘‘

۔۔۔
پہلے ہمیں اپنے موبائل سے فرصت تو ملے۔۔۔
آمنہ احسن
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، جب ہمارے گھروں میں ایک رواج یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کسی چھوٹے بچے کو اس کی ماں، دادی دادا یا گھر کا کوئی بھی بڑا ساتھ لے کر بیٹھتا، تو اسے مختلف دل چسپ کہانیاں سناتا۔ وہ کہانیاں جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کبھی خود سیگھر کا درواز نہیں کھولنا۔ وہ کہانیاں جن میں صلاح ہوتیکہ اکیلے سفر کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ کہانیاں جو بتاتی تھیں کہ جان پہچان کتنی ہی پرانی ہو کسی پر خود سے زیادہ یقین نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کہانیاں جن میں یہ سبق ہوتا تھا کہ مسائل سے دوچار ہونے کی صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جانا چاہییں۔ آج میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ جدید ذرایع اِبلاغ اور سوتے جاگتے ہر لمحہ فون کی اسکرین کی نذر کرنے والوں نے صرف کہانیاں سنانا ہی نہیں چھوڑیں، بلکہ اپنی ایک ایسی سنہری سماجی روایت کو کھو دیا جو ہمیں اپنے بچوں سے جوڑتی تھی اور انہیں اچھے برے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی تھی۔ آج تو ہمیں اپنے موبائل فون سے فرصت نہیں، بلکہ بچے بھی اب موبائل میں چلتی پھرتی تصاویر سے ہی ’اچھا، برا‘ دیکھ لیتے ہیں، شاید اسی کا خمیازہ ہم ناخوش گوار واقعات کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

۔۔۔
وہ دن جو ٹھیرے نہیں کبھی۔۔۔
ہاجرہ غزالی، شادمان ٹائون،کراچی

زندگی کوئی گاڑی نہیں کہ چلتے چلتے رک جائے۔ کوئی چاہے اس کی کتنی ہی منتیں کرے ، یہ نہ سنتی ہے نہ سمجھتی۔ کبھی بہت سست روی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو کبھی یک دم انتہائی تیز ہو جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان چاہے کہ وقت تھم جائے تو زندگی ضد بن کر دوڑنے لگتی ہے اور جب وہ چاہے کہ یہ وقت تیزی سے گزر جائے، تو زندگی دھیمی ہو کر لمحے لمحے کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔

یکایک اُس کی زندگی بھی دوڑنے لگی تھی۔ اْس نے چاہا کہ وقت رک جائے اور وہ ہر گزرتے لمحے کو اپنے اندر اتار لے۔ اپنی یادوں میں سمْو لے۔ اْس کچے آنگن میں پھولوں کے اْن گملوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے باتیں کرے۔ اْن برساتوں کو یاد کرے جس میں برستی بارش میں وہ اپنی کاغذ کی کشتیاں نکالتی۔۔۔ اور ان کشتیوں کے بھیگ جانے پر کبھی تو ہنستی اور کبھی چڑ سی جاتی۔ اس کی کشتیاں کیوں منزل پر نہ پہنچ پاتیں، یہ اْس نے کبھی نہیں سوچا، لیکن اب سوچنا چاہتی تھی۔

وہ پھر گھر کی اُس چھت پر ایک بار پھر چڑھنا چاہتی ہے، جہاں جا کر ہمیشہ اْس نے اپنے گھر کو سجایا تھا۔ وہ گھر کے ارد گرد بکھری ان سڑکوں پر ٹہلنا چاہتی تھی، جن پر وہ شام گئے وہ سائیکل چلایا کرتی تھی۔ انہی گلیوں میں وہ کتنی دفعہ گری تھی، آج وہ اُن بھر جانے والے زخموں کو پھر سے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ تب وہ گلی میں گھروں کے آگے بنے ہوئے تھلّوں اور چبوتروں پر ’اونچ نیچ کا پہاڑ‘ کھیلتی۔۔۔ آدھی رات تک تمام ہم عمر رشتے داروں کے ساتھ ’’کھو، کھو‘‘ کھیلا جاتا۔ وہ وقت کتنا خوب صورت تھا، جو اب خواب ہوا۔

وہ ہر بقرعید پر وہ محلے بھر کا گشت کرتی اور اکثر جانوروں کو ہاتھ لگا کر ’اللہ حافظ‘ کہا کرتی۔ جان بوجھ کر گھر سے پرے جا کر نئی گلیوں میں بھٹکتی اور گھر پہنچ کر امی سے ڈانٹ سنتی۔ انہیں کُوچوں سے تو اس نے زیست کی راہ میں کٹھنائیوں کا فلسفہ سمجھا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح اپنے محلے میں گھومنا چاہتی تھی۔

وہ اْن 29 کچی سیڑھیوں کو ایک بار پھر گننا چاہتی تھی۔۔۔ وہ 29 زینے، جہاں کتنی ہی باربیٹھ کر وہ گھر والوں سے الگ بیٹھ کر روئی تھی۔ گھر کی دونوں منزلوں کو جوڑتی ہوئی یہ سیڑھیاں کتنی دفعہ اس کے آنسوئوں کی گواہ بنی تھیں۔۔۔ انہوں نے اِسے کبھی تنہا نہ چھوڑا۔۔۔ ایک اچھے اور باوفا دوست اور ساتھی کی طرح ہمہ وقت وہاں موجود رہیں۔

اسے اپنے اُس مکان سے کبھی محبت نہ تھی۔۔۔ اسے تو مسلسل ہجرتوں کی خواہش تھی۔۔۔ اس نے تو کہیں دور پہاڑوں کے درمیاں ایک چھوٹے سے مٹی کے گھر کا خواب دیکھا تھا، لیکن یہ مکان بھی تو اس کا گھر ہی تھا۔ وہ کیسے بھول جاتی اسے؟ اسے معلوم تھا ایک دن یہ آنگن مسمار کر دیا جائے گا اور یہاں پھر ایک پکا فرش تعمیر ہوگا۔۔۔ یہ برسوں پرانی وضع کی تعمیر والا مکان اب جلد ہی جدید طرزِ رہایش کا شاہ کار ہوگا۔

آج یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقت نہیں رکتا وہ ایک دفعہ وقت روک دینا چاہتی ہے، بلکہ بیتے پلوں کی طرف پلٹ دینا چاہتی ہے، انہی لمحوں کو پھر ایک زندگی تک سوچنا چاہتی ہے۔۔۔ کچی عمر اور نہ پختہ سپنوں اور سچے جذبوں کو جینا چاہتی ہے، اپنا وہی ہنستا گاتا بے فکرا بچپن دُہرانا چاہتی تھی۔۔۔ بس ایک بار حقیقتًا زندگی جینا چاہتی ہے۔

صد لفظی کتھا
’’مسئلہ۔۔۔!‘‘
رضوان طاہر مبین

کی کچرا کنڈی کے قریب کچرا جلانے کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا۔
بہت سے اساتذہ اور طالب علم شعور اجاگر کرتی ’تحریریں‘ تھامے کھڑے تھے۔
ایک کونے میں کچرا چُننے والے کچھ بچے بھی خوب نعرے لگا رہے تھے۔۔۔
’’ان بے چاروں کا تو روزگار ہی کچرے سے وابستہ ہے۔۔۔!‘‘
میں نے خود کلامی کی۔
پھر ایک بچے کے قریب جا کر اس بات کی تصدیق چاہی، وہ بولا:
’’نہیں صاحب۔۔۔!
ہمیں ’کچرا‘ تو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتا ہے۔۔۔
لیکن کچرے کو آگ لگانے سے یہاں پڑے روٹی کے ٹکڑے بالکل نہیں کھائے جاتے۔۔۔!‘‘

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

عسکری تاریخ کا انوکھا باب؛ بھارت کی نیول وار روم لیکس

$
0
0

یہ جولائی 2005ء کی بات ہے‘ ونگ کمانڈر سمباجی سرو کی بیگم چوکنا ہوگئی۔ پچھلے چند ہفتے سے اس کا شوہر ایک مشکوک عورت کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔ دونوں اس کے سامنے بھی ہنستے بولتے رہتے۔ بیگم کو محسوس ہو ا کہ ان کے مابین ناجائز تعلقات قائم ہو چکے۔ اپنے شوہر کو بے راہرو ہوتا دیکھ کر وہ قدرتاً تاؤ میں آ گئی۔ تب ونگ کمانڈر سمبا جی نیودہلی میں واقع بھارتی فضائیہ کے ائر ہیڈکوارٹر میں بطور ڈائریکٹر آپریشنز تعینات تھا۔

ونگ کمانڈر کی بیگم فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر سے ملی اور شکایت لگائی کہ اس کا شوہر ایک آوارہ عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔ یہ تشویش ناک بات تھی۔ کوئی بھی ادارہ حد پار کر جانے والے ملازم کو پسند نہیں کرتا، یہ تو پھر بھارتی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔عام طور پہ اعلی افسر اس جگہ نیک نام اور مودب افراد ہی تعینات ہوتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ متعلقہ افسر نے ائر انٹیلی جنس کے اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ ونگ کمانڈر سمبا جی سرو پر نظر رکھیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔

ایک دن سمبا جی کی بیگم اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ اس شام ونگ کمانڈر اپنی محبوبہ کوگھر لے آیا تاکہ عیش و عشرت میں وقت گزار سکے۔ مگر یہی فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ اسی رات ائر انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے سمبا جی کے گھر چھاپہ مارا ۔وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ توقع کے عین مطابق دونوں نیم برہنہ حالت میں پائے گئے۔ مگر اصل انکشاف ہونا باقی تھا۔ جب اہل کاروں نے ونگ کمانڈر کے لباس کی تلاشی لی ‘ تو ایک جیب سے یو ایس بی ڈرائیو برآمد ہوئی۔کمپیوٹر پر جب وہ یو ایس بی ڈرائیو چلائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس میں نیول ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئیں ٹاپ سیکرٹ دستاویز موجود ہیں۔ یوں ونگ کمانڈر سمبا جی کی بداحتیاطی کے باعث وہ گروہ منظر عام پر آ گیا جو نیول ہیڈ کوارٹر اور ائر ہیڈ کوارٹر سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات چوری کر رہا تھا۔ اس گروہ میں بھارتی بحریہ اور بھاری فضائیہ کے سابق و حاضر افسروں کے علاوہ سول افراد بھی شامل تھے۔

بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق سے بعدازاں افشا ہوا کہ یہ گروہ سات ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ دستاویزات 8یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے چرائی گئیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں صرف دو ڈرائیوز ہی برآمد کر سکیں۔ اگر ونگ کمانڈر سمبا جی اپنی رنگ رلیاں پوشیدہ رکھتا تو عیاں ہے کہ بھارت کا شاطر گروہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے مزید خفیہ دستاویزات چرانے میں کامیاب رہتا ۔ بھارتی بحریہ میں ہیڈ کوارٹر ’’نیول وار روم ‘‘بھی کھلاتا ہے۔ اس لیے ٹاپ سیکرٹ دستاویزا ت کا معاملہ بھارت میں’’نیول وار روم لیک کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

کمزور بھارتی نظامِ احتساب

پاکستان میں بھی پچھلے دنوں پاک فوج کا ایک اسکینڈل سامنے آیا۔ فروری 2019ء میں انکشاف ہوا کہ دو اعلی فوجی افسروں نے غیر ملکی انٹیلی جنس ادارے کو قومی سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔ چنانچہ فوجی افسروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک حساس ادارے سے منسلک ڈاکٹر بھی زیر حراست  لیا گیا۔دنیا کے ہر ادارے میں لالچی اور کرپٹ لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے گندی مچھلی کے مانند سارے تالاب کو گندا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر پاک فوج کے نظام احتساب نے پہلے تو مجرموں کو بروقت دبوچ لیا۔

پھر نظام انصاف نے فوری مقدمہ چلاتے ہوئے انہیں سخت سزائیں سنا دیں۔ اس طرح دیگر لالچی اور کرپٹ لوگوں کو یہ سخت پیغام ملا کہ انہوںنے کسی بھی قسم کی کرپشن کی تو چاہے وہ کتنے ہی طاقتور و باثر ہوں،انہیں بخشا نہیں جائے گا۔پاک فوج کا قابل ستائش اور سریع الاثر نظام انصاف ہی بھارت کے ’’نیول وار روم لیک کیس‘‘ کو نمایاں کر گیا۔ یہ دونوں کیس جرم کی نوعیت میں مماثلت رکھتے ہیں۔مگر یہ مماثلت بس یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ پاک فوج کے کڑے احتسابی نظام نے تو ملک و قوم کے غداروں کو بہت جلد سخت سزائیں سنا دیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر بھارت میں ملک و قوم کے غدار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔بعض ملزمان پر تو چودہ سال گذر جانے کے باوجود قبھی تک مقدمے چل رہے ہیں۔  بھارتی افواج اور بھارتی حکومت کے ڈھیلے ڈھالے اور کمزور احتسابی نظام کے باعث ہی وہاں وقتاً فوقتاً  فوج یا حکومت سے وابستہ مالی اسکینڈ ل سامنے آتے رہتے ہیں۔

مجرم  بارسوخ و بااثر نکلے

نیول وار روم لیکس کیس کے مرکزی مجرم دراصل اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے بچ نکلے ۔ پہلا مرکزی مجرم، روی شنکرن بھارتی بحریہ کے سابق چیف، ارون پر کاش کا قریبی عزیز ہے ۔اورن پرکاش جولائی 2004ء تا اکتوبر 2006ء بحریہ کا چیف رہا۔ دوسرا مرکزی مجرم‘ ابھیشک ورما کانگریس پارٹی کے اعلی عہدے دار شری کانت ورما کا بیٹا ہے ۔اس کی ماں کانگریس کی نائب صدر رہ چکی۔

روی شنکرن بھی بھارتی بحریہ میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھا۔ 2003ء میں طبی وجوہ کی بنا پر اس نے بحریہ کو خیر باد کہا اور اسلحے کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگا۔ وہ شراب و کباب و شباب کی محفلوں میں جانے کا شوقین تھا۔ ایسی ہی ا یک محفل میں اس کی ملاقات ابھیشک ورما سے ہوئی۔ وہ بھی کھلنڈری اور عیاش طبیعت کا مالک تھا۔ چنانچہ دونوں میں دوستی ہو گئی اور وہ اکٹھے رنگین محفلیں منعقد کرنے لگے۔ یہ واضح رہے کہ ابھشیک نے بھی اسلحے کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی کھول رکھی تھی۔

جب دو شیطان اکٹھے ہو جائیں تو شیطانی منصوبے ہی تخلیق ہوتے ہیں۔ روی اور ابھیشک پیسے کے پجاری تھے کیونکہ اسی کی بدولت وہ اپنی نفسانی  خواہشات پوری کرتے ۔ زیادہ پیسہ کمانے  کی خاطر ہی انہوںنے یہ منصوبہ بنا لیا کہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں متعلقہ افسروں کو پھانس کر وہاں سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات حاصل کر لی جائیں۔ وہ یہ دستاویزات اسلحے کی غیر ملکی کمپنیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو منہ مانگے داموں فروخت کر کے کروڑوں روپے کما سکتے تھے۔

چونکہ دونوں بھارتی افواج اور حکومت میں بیٹھی مجاز شخصیات سے تعلق رکھتے تھے‘ اسی لیے ان کے منصوبے نے عملی جامہ بھی پہن لیا۔نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں براجمان بیشتر متعلقہ افسر روپے کی خیرہ کن چمک کے سامنے اپنی فرض شناسی اور ذمہ داری بھول گئے۔ انہوں نے دونوں اسلحہ ڈیلروں سے بھاری رقم لے کر انہیں عسکری ٹاپ سیکرٹ داستاویزات فراہم کر دیں۔ ونگ کمانڈر سمبا جی جیسے بعض افسروں کو اپنے جال میں گرفتار کرنے کی خاطر انہیں صنف نازک سے مدد لینا پڑی۔ بہر حال پیسہ پانی کی طرح بہا کر روی اور ابھیشک اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔گویا انسان کالالچ و ہوس ان کی راہ میں سیڑھی بن گئی۔

راز جو افشا ہوئے

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق دونوں اسلحہ ڈالر نیول  اورائر ہیڈ کوارٹروں سے درج ذیل ٹاپ سیکرٹ فائلوںکی نقول بذریعہ یو ایس بی ڈرائیو حاصل کرنے میں کامیاب رہے:

(1) ایک فائل جس پر ’’وار گیم‘‘ لکھا تھا۔ اسی فائل میں ان جنگی مشقوں کا تفصیل سے تذکرہ تھا جنھیں بھارتی بحریہ اگلے دس برس تک انجام دینا چاہتی تھی۔

(2) وہ فائلیں جن میں بھارتی بحریہ کے آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے درج تھا۔ فائلوں میں یہ بھی تذکرہ موجود تھا کہ بحریہ کتنے جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معلومات بھی درج تھیں کہ اگلے بیس سال میں بھارتی بحریہ کتنے جنگی جہاز اور آبدوزیں خریدنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ یہ معلومات کسی اسلحہ ڈیلر کے ہاتھ لگ جاتیں تو اس کی انگلیاں گھی شکر میں ہوتیں۔

(3) سر کریک کے بارے میں ایک فائل جس پر ’’سیکرٹ‘‘لکھا تھا۔اس زمانے میں بھارت اور پاکستان کے مابین سر کریک (رن آف کچھ)کا قضیہ حل کرنے کی خاطر بات چیت جاری تھی۔فائل میں اسی گفت وشنید سے متعلق اہم معلومات موجود تھیں۔

(4) ایک اور فائل جو سرکریک ہی سے متعلق تھی۔ اس کے کاغذات میں تفصیل سے درج تھا کہ اگر پاکستان نے رن آف کچھ میں بھارت پر حملہ کیا تو بھارتی بحریہ‘ فضائیہ اور بری افواج مشترکہ طور پر کس قسم کا جوابی اقدام کریں گی۔

(5) ایک فائل کی دستاویزات میں تفصیل سے درج تھا کہ روسی ساختہ پیچورا(S-125) میزائل کس طرح چلایا جاتا ہے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔

نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئی دستاویزات میں دو انکشافات سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ ایک ٹاپ سکرٹ فائل میں ان آبدوزوں کا تفصیلی تذکرہ تھا جنہیں بھارتی بحریہ عنقریب خریدنا چاہتی تھی۔ ان غیر ملکی آبدوزوں میں فرانسیسی ساختہ آبدوز ’’اسکار پین‘‘ بھی شامل تھی۔ اس کو نیم سرکاری فرانسیسی کمپنی تھیلز گروپ تیار کراتی تھی۔

ابھیشک ورما تھلیز گروپ کے سی ای او‘ جین پال سے قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ جب ورما نیول ہیڈ کوارٹر سے آبدوزوں کی خریداری والی فائل اڑانے میں کامیاب رہا تو اس نے اسے جین پال کے حوالے کر دیا۔ جین پال نے پھر بھارتی حکومت کے ایوانوں میں یہ زور دار مہم چلائی کہ اسکار پین آبدوز بھارتی بحری دفاع کے لیے موزوں ترین ہتھیار ہے۔

یہی نہیں‘ اس نے منصوبے سے متعلق سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور سرکاری افسروں میں تقریباً دو کروڑ ڈالر بطور رشوت بھی تقسیم کیے۔ اس زور دار مہم کے باعث آخر کار اکتوبر 2005ء میں بھارتی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ چھ اسکارپین آبدوزیں خرید رہی ہے۔ تھیلز گروپ کو یہ آرڈر حاصل کرنے میں اسی لیے کامیابی ہوئی کہ ابھشیک ورما کے ذریعے فرانسیسی کمپنی کے ہاتھ بھارتی بحریہ کی ٹاپ سکریٹ فائل لگ گئی۔ اس فائل میں تفصیل سے درج تھا کہ بھارتی بحریہ کس قسم کی آبدوز چاہتی ہے۔ اسی تفصیل سے تھیلز گروپ نے فائدہ اٹھایا اور اربوں ڈالر مالیت کا آرڈر لے اڑا۔ ظاہر ہے‘ تھلیز گروپ نے ابھیشک ورما کو بطور انعام بھاری رقم دی ہو گئی۔

اپنے ہی قومی عسکری راز چرانے والا لالچی ٹولہ ائر ہیڈ کوراٹر سے بھی ایک قیمتی فائل چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ اس فائل میں درج تھا کہ بھارت کے فضائی دفاعی نظام (ائر ڈیفنس سسٹم) میں کہاں کہاں خامیاںپائی جاتی ہیں۔ اور دشمن کن طریقوں سے نظام ناکارہ بنانے کی سعی کر سکتا ہے۔ یہ فائل اگر چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ باآسانی بھارت کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنا سکتے تھے۔

ماہرین نے خبردار کر دیا

درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ روی شنکرن اور ابھیشک ورما کی زیر قیادت لالچ وہوس کا شکار ٹولہ نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹرز سے انتہائی خفیہ فائلیں اور دستاویزات چرانے میں کامیاب رہا۔ یہ فائلیں وہ اسلحہ ساز کمپنیوں کو فروخت کر کے کروڑوں ڈالر کما سکتا تھا۔ مزید براں یہ فائلیں بھارت کے معاصر ممالک مثلاً چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتیں‘ تو بھارتی دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ گویا کرپٹ ٹولے میں شامل بھارتی بحریہ کے افسران اور شہریوں نے ملک وقوم سے غداری کا سنگین جرم انجام دیا تھا۔

اس کے علاوہ  نیول وار روم لیک کیس نے بھارتی افواج کو پوری دنیا میں بدنام کر دیا۔یہ اسکینڈل ان کی نااہلیت  اور کرپشن کو سامنے لے آیا۔شدید حیرانی کی مگر بات ہے یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے ایوانوں میں کسی قسم کی کھلبلی نہیں مچی۔ حتیٰ کہ بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے اعلی افسر بھی یوں پُرسکون رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجرموں کے خلاف فوری ایکشن نہ لینے کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ قومی راز چرانے والا ٹولہ حکومت اور افواج دونوں میں اعلی سطح تعلقات رکھتا تھا۔ اسی لیے ٹولے کے خلاف فوراً قانون حرکت میں نہیں آسکا۔اوائل میں بھارتی بحریہ کے اندرون خانہ ہی انکوائری جاری رہی۔ دسمبر 2005ء میں تین افسر مجرم قرار پائے مگر انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ البتہ ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس دوران نومبر 2005ء میں روی شنکرن لندن جانے میں کامیاب ہو گیا۔

وہ تب سے لندن میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔فروری 2006ء میں بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا کہ اسکارپین آبدوز کے سودے میں کرپشن ہوئی ہے۔ اسی کرپشن میں ابھیشک ورما کانام بھی نمایاں ہوا جو نیول وار روم لیک کیس میں بھی شریک جرم تھا۔ بھارتی میڈیا نے واویلا مچایا تو بھارتی حکومت نے لیک کیس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کر دیا۔جون 2006ء میں سی بی آئی نے ابھیشک کو گرفتار کر لیا۔مگر 2011ء میں بھارتی عدالتوں نے اسے ’’بے گناہ ‘‘ قرار دے کے رہا کر ڈالا۔

نیول وار روم لیک کیس ایک بہت بڑا اسکینڈل تھالیکن اسے انجام دینے والے شاطر مجرموں میں سے ایک بھی بھی مجرم کو سزائے موت یا عمر قید جیسی سخت سزائیں نہیں ملیں۔عسکری ماہرین بھارتی افواج اور بھارت حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ انھوں نے نظام احتساب مضبوط نہ کیا تو مستقبل میں نیول وار روم لیک کیس جیسے کرپشن کے مذید اسکینڈل جنم لیں گے۔آخر انسان کُلی طور پر لالچ وہوس کو خیرباد نہیں کہہ سکتا!

The post عسکری تاریخ کا انوکھا باب؛ بھارت کی نیول وار روم لیکس appeared first on ایکسپریس اردو.

’’سیمسین اینڈ ڈی لا ئلا‘‘ اور عمران خان

$
0
0

ہماری پیدائش سے ٹھیک پا نچ برس قبل21 دسمبر1949کو ہالی وڈ امریکا نے مشہور فلم سیمسین اینڈ ڈی لائلا بنائی تھی جس کے ڈائر یکٹر Cecil B.Denille اور کہانی نویس Ze,ev Jabotinsky تھے۔

اس فلم کو بیسٹ کسٹیوم ڈیزائن یعنی بہترین لباس کی بنیاد اوربہترین پروڈکشن پر اکیڈمی ایوارڈز دیئے گئے۔ اس فلم میں سیمسین کا کرداروکٹر میکچو ر Victor Mucture نے ہیروئن یعنی ڈی لائلا کا کردار ہیڈی لامارّ Hedy Lamarr نے اوراِس کی بڑی بہن سیمادر کا کردارAngela Lansbury  نے ادا کیا تھا۔ ہم نے یہ فلم اپنے بچپن میں دیکھی تھی اور اتفاق دیکھیں کہ 4 اگست 1999 ء میں، میں اور میرا دوست اپنے بچوں کو لیکر یہ فلم دیکھنے کے لیے کوئٹہ کے ڈی لائٹ سینما ہال میں گئے تھے تو اُس وقت دوران ِ فلم وکٹر میکچور کی وفات کی خبر چلی، وکٹر جان میکچور29 جنوری 1914 ء میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کی شہرت یہ تھی کہ وہ عموماً فلموں میں شیر اور دیگر درندوں سے لڑتے تھے، اس فلم کی کہانی قبل از مسیح کے فلسطین اور اسرائیل کے علاقے کی تھی سیمسین اور ڈی لائلا اور اُس کی بڑی بہن اور بادشاہ کے قریب تھے۔

کہانی یوںشروع ہوتی ڈی لائلا اور اُس کی بڑی بہن دونوں بہت خوبصورت ہوتی ہیں سیمسین بڑی بہن سے محبت کرتا ہے جب کہ چھوٹی بہن ڈی لائلا بھی سیمسین کو پسند کرتی ہے اور دوسری جانب بادشاہ کا نوجوان سپہ سالار بھی ڈی لائلا کی بڑی بہن کو پسند کرتا ہے اور جس دن اُس کی شادی ہو رہی ہوتی ہے تو سپہ سالار کو اس کی خبر ہو جاتی ہے اَس پر وہ مداخلت کرتا ہے اور اس لڑائی میں نیزہ لگنے سے ڈی لائلاکی بڑی بہن نئی نویلی دلہن ہلاک ہو جاتی ہے، سیمسین جو کپڑے کا سوداگر اور نہایت ہی طاقتور انسان ہے اکیلا ہی پورے فوجی دستے سے لڑتا ہے اوردرجنوں سپاہیوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور پھر وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔ سپہ سالار اُس کی حیرت انگیز طاقت پر پریشان ہو جاتا ہے، اب سیمسین حکومت کا باغی ہوتا ہے اور اس کی سرکوبی کے لیے بادشاہ کے حکم سے ایک بڑی فوج سیمسین کو گرفتار کرنے جاتی ہے مگر سیمسین کی طاقت کے آگے سب بے بس ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں سپاہی ہلاک ہو جاتے ہیں، بادشاہ کی شکست خوردہ فوج بڑے نقصان اور تباہی کے بعد واپس ہو جاتی ہے، اور سلطنت کا یہ علاقہ اب سیمسین کی وجہ سے سلطنت کے اہلکاروں کے لیے محفوظ نہیں رہتا، مگر پھر بھی سیمسین بادشاہت کا لحاظ کرتا ہے۔

اسی دوران ڈی لائلا اپنے محافظو ں کے ہمراہ یہاں سے سفر کرتی اور کچھ فاصلے پر بادشاہ بھی یہاں اُس کے پیچھے کارواں کے ساتھ آرہا ہو تا ہے، سیمسین کے علاقے میں ڈی لائلا کی گھوڑا گاڑی کے سامنے اچانک شیر آجاتا ہے اور حملہ کرنے والا ہو تا ہے کہ سیمسین شیرکے مقابل آکر اس سے خالی ہاتھوں سے لڑتا ہے اور آخر شیر کا گلہ گھونٹ کر شیر کو ہلاک کر دیتا ہے۔اسی اثنا میں بادشاہ بھی پہنچ جا تا ہے تو ڈی لائلا بتاتی ہے کہ سیمسین نے خالی ہاتھوں شیر کو ہلا ک کیا۔ بادشاہ متاثر بھی ہوتا ہے اور قدرے خوفزدہ بھی کہ حکومت کا مخالف نہ صرف بہت طاقتور ہے بلکہ بہت بہادر بھی ہے، اس کے بعد ڈی لا ئلا اور سیمسین کا عشق شروع ہو جا تا ہے اور ڈی لائلا اُس سے ملنے جنگل میں جاتی ہے جہاں سیمسین کا قیام ہوتا ہے۔ جب سیمسین ڈی لائلا کے عشق میں پوری طرح گرفتار ہو جاتا ہے تو ڈی لائلا اُس سے اُسکی بے پناہ طاقت کا راز معلوم کر لیتی ہے سیمسین یہ بتا دیتا ہے کہ اُس کی طاقت اُس کے گھنے اور لمبے بالوں میں ہے ، ڈی لائلا اس راز کو وعدے کے مطابق

کسی کو نہیں بتاتی مگر اپنی محبت کی وجہ سے یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح وہ بادشاہ سے بات کر کے سیمسین کو حاصل کر لے۔ یوں وہ بادشاہ کو بتاتی ہے کہ اگر بادشاہ اُس سے یہ وعدہ کر لے کہ گرفتاری کے بعد وہ سیمسین کو ڈی لائلا کو دے دے گا تو وہ اُسے دھوکے سے نشہ پلا کر گرفتار کروا دے گی۔ اس پر بادشاہ اُس سے وعدہ کر لیتا ہے اور ڈی لائلا اُسے دھوکے سے نشہ پلا کر بے ہوش کر دیتی ہے اور پھر تیز دھار خنجر سے اُس کے گھنے اور لمبے بال کا ٹ دیتی ہے اور یوں بادشاہ کے سپاہی اُس کی آواز پر آکر اُسے گرفتا رکر لیتے ہیں، مگر جب ڈی لائلا قید خانے میں بڑی شان کے ساتھ سیمسین کو دیکھنے جاتی ہے تو اُسے بڑا افسوس ہو تا ہے کہ بادشاہ نے سیمسین کو اندھا کروا دیا ہوتا ہے۔ وہ سیمسین کو بتاتی ہے کہ اُس نے تو بادشاہ سے اُسے مانگا تھا۔ قصہ مختصر کہ پھر سال بعد جب سیمسین کے گھنے بال دوبارہ بہت لمبے ہو جاتے ہیں تو پروگرام کے مطابق سالانہ جشن میں بڑے اسٹیدیم نما محل میں ہزاروں لوگوں کے سامنے عبرت کے لیے اندھے سیمسین کو ذلیل کرنا ہوتا ہے یہ محل نما اسٹیڈیم تعمیر کے اعتبار سے بڑا عجیب ہوتا ہے کہ سینکڑوں ٹن وزنی پتھروں اور چٹانوں کو تراش کر بنایا گیا ہوتا ہے اور اس کا پورا بوجھ چار سے پانچ فٹ کے فاصلے پر واقع سو، سو فٹ موٹے اور پچاس پچاس فٹ گول بلند تین ستونوں پر ہو تا ہے۔

یہ تمام باتیںڈی لائلا سیمسین کو قید خانے میں بتا دیتی ہے اور سیمسین اُس سے یہ کہتا ہے کہ کسی طرح جشن کے روز اُسے اِن تین ستونوں کے پا س لے جانا۔ اس فلم میں جشن کا منظر قابل دید ہے کہ بادشاہ جہاں بیٹھا ہے وہاں اُس کے تخت کے ٹھیک اُوپر کوئی تیس فٹ کی بلندی پر اُن کے دیوتا کا بہت بڑا دیو ہیکل مجسمہ ہے جس کے پیٹ میں الاؤ ددھک رہا ہوتا ہے،خوبصورت ڈی لائلا بادشاہ کے پہلو میں بیٹھی ہوتی ہے اور کامیابی سے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ تو صرف اور صرف بادشاہ کی وفادار ہے، اُسے اندھے سیمسین سے اب کیا لینا۔ یوں جب سیمسین کو ہزاروں افراد کے سامنے عبرت کے لیے بونے نوکیلے تیروں سے کچوکے لگا لگا کر زخمی کرتے ہیں تو اس منظر سے ڈی لائلا بادشاہ اور تماشائیوں کے ساتھ قہقہے لگا کر خوشی کے اظہار کے ساتھ بظاہر لطف اندوز ہو تی ہے، اور آخر میںجب سیمسین کو واپس لے جانا ہوتا ہے تو وہ بادشاہ کی اجازت سے ایک بہت لمبے ہنٹر کیساتھ سیمسین کے قریب آتی ہے اُسے دو، تین ہنٹر مارتی ہے۔

بادشاہ سمیت تمام لو گ خوش ہوتے ہیں کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسی حسینہ نے اس نہایت طاقتور انسان کو گرفتار کروایا تھا۔ پھر منصوبے کے مطابق وہ اس طرح سیمسین کو ہنٹر مارتی ہے کہ سیمسین ہنٹر کو پکڑ لیتا ہے اور اس کے سہارے نابینا سیمسین کو اُن تین ستونوں کے قریب لے آتی ہے جس میں سے دو ستونوں کے درمیان اور تیسرے ستون کے سامنے کھڑے ہو کر وہ دائیں بائیں دونوں ستونوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی قوت سے مخالف سمت میں دھکیلتا ہے جن پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس پر بادشاہ سمیت اُس اسٹیڈیم نما محل میں موجود ہزاروں لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے ہیںکہ اس حقیر اندھے انسان کو دیکھو کہ اس عظیم الشان عمارت کو گرانے چلا ہے کہ اچانک دونوں ستونوں کی ہزاروں ٹن وزنی سلیں ایک ارتعاش اور خوفناک آواز کے ساتھ سرکتی ہیں تو سب کے قہقہے اچانک خوف میں بدل جاتے ہیں اور جب تک سپاہی سیمسین اور ڈی لائلا کے قریب پہنچتے ہیں سیمسین دونوں ستونوں کو گرا دیتا ہے اور تیسرے ستون سے اُس کا سر ٹکراتا ہے۔

اب پورا اسٹیڈیم اپنی بھاری سلوں کے ساتھ زمیں بوس ہو جاتا ہے اور تمام لوگ اس کے ملبے میں دب کر ہلا ک ہو جا تے ہیں۔آج کے قومی علاقائی اور بین لاقوامی تناظر میں جب میں دیکھتا ہوں تو فلم سیمسین کے اُن تین ستونوں کے اعتبار سے علامتی طور پر کئی تین طرح کی صورتیں دکھا ئی دیتی ہیں ، مثلاً عالمی یا بین الاقوامی طور پر دیکھیں تو خطے میں خصوصاً پاکستان کے حوالے سے تین بڑی طاقتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں نمبر1 امریکہ ، نمبر 2 روس جو اِس خطے کی گریٹ گیم کے پرانے کھلاڑی ہیں اور اب گذشتہ تین دہائیوں سے تیسری قوت چین کی ہے اور اِن کے مقابلے میں علاقے کے تین کم طاقتور اور ترقی پذیر ملک ، نمبر 1۔ پاکستان، نمبر 2 ۔ ایران اور نمبر 3 ۔افغانستان ہیں ۔

پھر دنیا میں اقوام متحدہ کی میز پر عالمی سطح کے تین بڑے اور اہم مسئلے ہیں نمبر 1 ۔کشمیر، نمبر2 ۔ فلسطین اور نمبر 3 ۔افغانستان ۔ علاقائی سطح پر جائز ہ لیں تو نمبر1۔ چین جو 1964 ء میں ایٹمی قوت بنا، نمبر 2 ۔ بھارت جس نے 1974 ء میں ایٹمی دھماکہ تو کیا مگر پوری طرح ایٹمی قوت بننے کے اعتبار سے اُس نے مئی 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کئے اور اعلانیہ دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا اور اس کے جواب میں پاکستان نے چند روز بعد ہی 28 مئی 1998 ء میں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے چھ ایٹمی دھماکے کئے اور دنیا کی ساتویں اعلانیہ ایٹمی قوت بن گیا۔ واضح رہے کہ اِن تینوں ملکو ں کے درمیان ایٹمی قوت بننے سے قبل جنگیں ہوئی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1948 ء میں پھر 1965 ء میں اور آخری جنگ 1971 ء میں ہوئی۔ جب کہ چین اور بھارت کے درمیان 1962 ء میں جنگ ہوئی اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ اِن ملکوں کی رنجشیں اور تناعازت ختم نہیں ہوئے بلکہ کئی ایسے مواقع آئے جب بھارت اور پاکستان میں جنگ کے اندیشے بہت بڑھ گئے اور اس وقت بھی صورتحال بہت کشیدہ ہے۔

یہ تین ملک جواب دنیا کی سات ایٹمی قوتوں میں سے تین ہیں ان تینوں ملکوں کی سرحدیں بھی آپس میں ملتیں ہیں اور انہی سرحدوں پر تنازعات بھی ہیں یہ تینوں ممالک دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بھی تین بڑے ملک ہیں چین پہلے ، بھارت دوسرے اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ جہاں تک ملکوں کی مضبوطی اور ترقی و خوشحالی کا تعلق ہے تو حقیقی معنوں میںصرف چین ایسا ملک ہے جو نہ صرف دنیا کی تیسری فوجی قوت بن رہا ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اقتصادی صنعتی طور پر بھی چین خود انحصاری کی مضبوط بنیاد کے بعد اب دنیا کی تجارت اور صنعت میں تیسرا بڑا حصہ دار بن رہا ہے، یوں اس کے تیسرے حصہ دار بننے سے عالمی اقتصادیات میں پہلی قوتوں کے حصے کا تناسب کم ہو رہا ہے اس لیے اُسے روکنے کے لیے علاقائی سطح پر میدان گرم کیا جا رہا ہے اور بھارت کو گذشتہ 25 برسوں سے رفتہ رفتہ اس کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے اور پاکستا ن جس نے 1965 ء کی جنگ اور پھر1971 ء کی جنگ میں تمام تر انحصار امریکہ پر کیا تھا اُس نے امریکہ سے تعلقات کو متوازن کرنے کے لیے چین سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کئے تھے۔

اب بھارت امریکہ تعلقات کے تناظر میں پاکستا ن کی خارجہ پالیسی کے لیے چین پاکستان امریکہ تعلقات توازن کے اعتبار سے آزمائش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر مزید تین صورتیں یہ ہیں کہ علاقے میں پراکسی وار جاری ہے جس میں فوجوں کے مقابلے میں ملکوں کے اندر ہی قومی، نسلی، لسانی اور مذہبی فرق کو نمایاں کرتے ہوئے تضادات کو تصادم تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر اِن بنیادوں پر گروہی تصادم کروا کے اور معاشی و سیاسی بے چینی پیدا کر کے ملکوں کو کمزور کیا جا تا ہے اور بعض مرتبہ ملکوں کو تقسیم بھی کر دیا جاتا ہے جہاں تک چین کا تعلق ہے تو یہ ملک اپنے قدرے آمرانہ نظام ِحکومت اور اپنی نسلی، لسانی، قومی، ثقافتی اور معاشرتی مضبوط بنت کے لحاظ سے دنیاکا سب سے مضبوط ملک ہے مگر اس کے مقابلے میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کمزور ہیں۔ پاکستان اور افغانستان 72 برسوں سے مذہب ِ اسلام کی بنیاد پر یک جہتی اور سالمیت کو قائم رکھنے کی کامیاب کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیںاوردوسری قوتیں اِنھیںکمزور کرنے کی کو ششیں بھی کرتی رہی ہیں جس میں کہیں زیادہ تیزی اور شدت آچکی ہے۔

بھارت اپنے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان اور افغانستا ن کے مقابلے میںسات سے آٹھ گنا بڑا ملک ہے جہاں اسی تناسب سے نسلی، لیسانی ، قومی، مذہبی ، ثقافتی، فرق موجود ہیں جو صدیوں سے تضادات کی شدت کے ساتھ بڑے تصادم کی صورت رونما بھی ہوتے رہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا ملک ہے جو حقیقت میں اب پہلے نمبر پر آچکا ہے اور اس کا اعلان 2021 ء میں ہونے والی مردم شماری میں ہو جائے گا۔ بھارت کی جہاںآبادی بھی بہت زیادہ ہے اور ساتھ ہی تضادات بھی تصادم کی طرف جا رہے ہیں ۔2011 ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی ایک ارب21 کروڑ ہو چکی ہے جس میں 79.8% ہندو، 14.2% مسلمان، 2,3% عیسائی، 1.7 فیصد سکھ اور باقی بدھ مت،جین مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔

مجموعی ہندو آبادی جو ایک ارب کے قریب ہے اس میں دنیا کے بہت سے مذاہب کے مقابلے میں تناسب اور تعداد کے اعتبار سے کہیں زیادہ تعداد اور تناسب ہے یعنی ایک ارب ہندو آبادی میں اعلیٰ ذات کے ہندوں کا تناسب 26 فیصد دیگر کم درجے کی ہندو آبادی کا تنا سب 43%  اور شیڈول کاسٹ کا تناسب 22%  ہے۔ دیگر لسانی، قومی اور ثقافتی بنیادوں پر یہ ایک ارب 21 کروڑکی آبادی 35 سے زیادہ بڑے گروہوں میں تقسیم ہے، افغانستان اور پاکستان کی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے جس کو اسلامی قوت کی بنیاد پر یکجا، رکھنے کی کامیاب کو ششوں کے مقابلے میں بھارت نے اپنی بڑی آبادی کو یکجا، رکھنے اور ملکی اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے سیکولرازم اور جمہوریت کو بنیاد بنائے رکھا جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی قومی پالیسی تھی مگر اب بدقسمتی سے اس پالیسی کو نریندر مودی نے ترک کر دیا ہے جو بھارت کی ملکی یک جہتی کے لیے نقصا ن دہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینک رہے ہیں۔

یہ تو وہ تین پہلو یا عالمی اور علاقائی صورتیں ہیں جو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کوعالمی اورعلاقائی سطحوںپر درپیش ہیں۔ اب اندرونی یا ملکی اور قومی تناظر میں سیمسین اینڈ ڈی لا ئلاکے تین ستونوں کے علامتی نقطے کو مدنظر رکھ کر جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں 1970 ء کے پہلے عام انتخابات میں دو جماعتیں سامنے آئی تھیں۔ 1977 ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے قومی اتحاد قائم ہوا تو پھر دو قوتی سیاسی صورتحال بنی مگر ضیاالحق کے مارشل لاء کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد مصنوعی طور پر ایک جماعتی نظام نافذ کرنے کی کو شش کی گئی اور پھر جب 1988 کے انتخابات ہوئے تو ڈھائی پارٹی یا جماعتی نظام سامنے آیا کہ جو ایم کیو ایم کی صورت 2008 کے عام انتخابات تک رہا اور 2008 کے انتخابات کے بعد وفاقی سطح پر دو جماعتی پارلیمانی جمہوری عمل چلا جس کی بنیاد محترمہ بینظر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق ِ جمہوریت کو بھی کہا گیا۔ 2008 کے عام انتخابات بینظر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوئے جس میں ٹرن آوٹ 44.10% رہا۔ پیپلز پارٹی 30.5% ووٹ کے ساتھ قومی اسمبلی کی 91 جنرل نشستیں حاصل کر سکی ۔

مسلم لیگ ق نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے23.12% ووٹ لیکر 38 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن 19.65 فیصد ووٹ لیکر 69 نشستیں حاصل کیں جب کہ ایم کیو ایم 7.43% ووٹ لیکر اگر چہ قومی اسمبلی میں چوتھی جماعت تھی مگر سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پی پی پی کی 93 جنرل نشستوں کے مقابلے میں کراچی کی بنیاد پر 51 نشستیں حاصل کر کے ایک طاقتور پوزیشن میں تھی اور یوں 1988 ء سے 2008 ء تک ملک میں وفاقی حکومت سازی کے لحاظ سے دو جماعتیں تو اہم تھیں مگر اکثر ان کو توازن ایم کیو ایم کی حمایت سے ملتا تھا لیکن 2013 ء میں انتخابات کے بعد سہہ قومی سیاسی منظر نامہ سامنے آیا۔ اِن عام انتخابات میں کل 45388404 ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے32.77 فیصد یعنی کل 14874104 ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ پی پی پی نے 15.23% کی بنیاد پرکل ووٹو ں میں سے6911218 ووٹ لیے اور اِن کی قومی اسمبلی میں 33 جنرل نشستیں تھیں۔ قومی اسمبلی میں 28 نشستیں لے کر تیسری پوزیشن تحریک انصاف نے حاصل کی جب کہ مجموعی طور پرتحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

اِن کے کل ووٹ 7679954 تھے جو 16.92% تھے۔ یہ انتخابات ایسے تھے کہ وکٹری اسٹینڈ پر پہلی پوزیشن پر مسلم لیگ ن تھی، دوسری پوزیشن پی پی پی تھی اور تیسری پوزیشن پر نئی سیاسی قوت کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف تھی۔ پاکستان میں دوسری مرتبہ دوسری منتخب حکومت نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کی مگر ان پانچ برسوں میں تحریک انصاف نے حکومت پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے مشکل وقت دیا تھا اور پھر جون 2018 ء کے عام انتخابات میں کل ڈالے گئے 53123733 ووٹوں میں پی ٹی آئی نے 16903702 ووٹ یعنی 31.82% حاصل کئے اور اس کی قومی اسمبلی میں 116 جنرل نشستیں تھیں، مسلم لیگ ن نے 12934589 ووٹ یعنی24.35% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 64 جنرل نشستیں لیں اور پاکستا ن پیپلز پارٹی 6924356 ووٹ یعنی 13.03% پر قومی اسمبلی کی 43 جنرل نشتیں لے کر تیسری پو زیشن پر رہی۔ یوں یہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی بنیادوں پر ہونے والے تین مسلسل انتخابات کے بعد ایسی حکومت ہے جو اس تسلسل کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت مختلف جماعت کی ہے۔ عمران خان نے جو منشور اور پروگرام انتخابات میںعوام کو دیا تھا وہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گیا ہے۔

اب قومی اسمبلی میں بھی تین مضبوط سیاسی جماعتیں ہیں ایک اقتدار میں ہے اور دو اپوزیشن میں ہیں،آخری مثلث یا تکون ریاست کے تین ستون ہیں جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ نیب کے حوالے سے معاملات سیاسی لیڈروں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور سیاست دان اس کے خلاف بھی ہو چکے ہیں۔ انتظامیہ یعنی بیوروکریسی بھی بقول حکومت مشکلات پیدا کر رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اب عمران خان انتظامیہ اور مقننہ کے دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہیں اور سامنے عدلیہ کا ستون ہے ۔ انتظامیہ گذشتہ 35 برسوں میں پی پی پی یا مسلم لیگ کی حکومتوں کے ساتھ چلتی رہی ہے اور تحریک ِ انصا ف کی حکومت مختلف بھی ہے یوں اس وقت مجموعی طور پر حکومت اور اپوزیشن تو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں ہی مگر افسوس یہ ہے کہ عوام کو اس کا زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت حاصل کرنے کے لیے پرانے اور ہر انتخا ب میں منتخب ہو نے والوں کو شامل رکھا ہے جن میں سے بہت سوں پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ عمران حکومت کو اندرونی طور پر سب سے بڑا مسئلہ معاشی اقتصادی بحران کا ہے جس کی جڑیں ، تنا ، شاخیں ، ٹہنیاں سب ہی 1988 ء سے تقویت پاتے رہے ہیں۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے نہایت تلخ اور پتھر جیسے پھل عمران خان کی حکومت کے پہلے ہی سال اقتصادی بحران کی تند و تیز آندھیوں سے 22 کروڑ عوام پر گرنے لگے ہیں۔ اس کی تیز رفتاری میں عالمی اور علاقائی عناصر کے ساتھ اندرونی عناصر بھی شامل ہیں، اس وقت جب قومی بجٹ 2019-20 ء آنے والا ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ حتمی مراحل میں ہے، امریکی ڈالر کی قیمت 150 روپے سے زیادہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی جس کے لیے گذشتہ دونوں حکومتیں بھی دعوٰے کرتی رہیں، واپس نہیں آسکی، عمران کی حکومت کو معمولی عددی برتری حاصل ہے، بعض اطلاعات کے مطابق تینوں بڑی جماعتوں میں مختلف گروپ بھی موجود ہیں جو اپنی قیادتوں سے منا سب وقت پر منحرف ہو سکتے ہیں، جب کہ یہ سامنے ہے کہ طویل عرصے کے بعد ملک میں حکومت مخالف ایک بڑا ایسا سیاسی اتحاد قائم ہوا ہے جس میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں اور یہ اتحاد حکومت مخا لف تحریک کا اعلان بھی کر چکا ہے۔

اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کو ہلانا تو چاہتی ہیں مگر گرانا نہیں چاہتیں کیونکہ مقننہ اور انتظامیہ کے ستونوں کے ہلنے یا سرکنے سے پوری سیاسی عمارت کے تمام سیاسی جماعتوں پر گرنے کا شدید اندیشہ ہے۔ یوں اپوزیشن کے بعض لیڈر اس کوشش میں بھی ہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران خان اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے اسپیکر اسمبلی کو کہتے ہیں تو اپوزیشن، پی ٹی آئی کے بعض الیکٹبل ممبران کے ساتھ مل کر اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دے کیونکہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر اس بار اسمبلیاں تحلیل ہو تی ہیں پھر 2000 ء تا 2002 ء کی طرح صرف دو سال کے لیے نگران یا عبوری حکومت نہیں آئے گی ، بلکہ اس کی مدت بھی زیادہ ہو گی اور اِس کا بھی اندیشہ ہے کہ ملک میں طرز حکومت اور آئین بھی تبدیل ہو جائے ؟ تو اب پوری عمارت کھڑی ہے، کیا عمران خان ستونوں کو خستہ اور بوسید قرار دیکر گرانے کی قوت رکھتے ہیں؟ کیونکہ اس وقت کا سیمسین ’’عمران‘‘ ستونون کے درمیان تو آچکا ہے اور ہر جانب سے قہقہے بھی بلند ہو رہے ہیں۔

اب دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟وہ سیمسین جس نے شیر کو خالی ہاتھوں ہلاک کیا تھا اُسے بونے نوکیلے تیر لے کر متواتر زخمی بھی کرتے رہے پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی ایسے انسان جس کے بال بہت گھنے ہوں اُن کو شمار کر نا مشکل ہوتا ہے البتہ کمپیوٹر اُن کی تعداد کروڑوں میں شمار کرتا ہے، بالو ں میں طاقت دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چھٹے ملک پاکستان کے عوام کی علامت بھی ہو سکتا ہے، اِسے بس اتفاق سمجھیں کہ میری توجہ نہ معلوم کیوں فلم سیمسین اینڈ ڈی لائلا کی جانب گئی۔

The post ’’سیمسین اینڈ ڈی لا ئلا‘‘ اور عمران خان appeared first on ایکسپریس اردو.

خوشحالی کا تمام تر انحصار تجارتی ترقی پر ہے

$
0
0

کسی بھی ریاست کے استحکام میں مضبوط معیشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے، وطن عزیز میں اس وقت ریاست اور عوام دونوں ہی بحران کا شکار ہیں، معاشی ناہمواری میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں عوام کے دکھ اور مسائل بھول کر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ایک انگریزی محاورے کا اُردوترجمہ’’ چھوٹے ذہن! لوگوں کے متعلق بات کرتے ہیں‘عام ذہن! عام چیزوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں‘ اور عظیم ذہن! آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں ۔‘‘ اور موجودہ وقت میں ہماری سیاسی قوتیں صرف ذاتیات پر ہی بات کر رہی ہیں۔

ایک دوسرے کو ناکام بنانے اور غلط ثابت کرنے کیلئے صرف الزامات لگائے جا رہے ہیں، انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کس بحران کا شکار ہے، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوںکا اوّلین فرض تھا کہ نہ صرف لوٹی ہوئی دولت رضا کارانہ طور پر واپس کردیتے بلکہ ضرورت سے زیادہ دولت بھی ریاست کے خزانے میں جمع کروادیتے، دوسرے سرمایہ داروںاور دولت مند افراد کو ترغیب دیتے کہ اس وقت ریاست کو ہمارے ایثار اور قربانیوں کی ضرورت ہے،جبکہ سب لوگ ریاست کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اب جانی قربانیوں کا وقت نہیں، مالی قربانیوں کا وقت ہے، فوج نے رضاکارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ نہیں لیا، یہ بہت بڑا قدم ہے لیکن سرمایہ داروںاور کو آگے بڑھناچاہئے تھا کہ و ہ کہتے کہ فوج اپنا بجٹ کم نہ کرے، ہم لوگ محب وطنی کا فرض ادا کریں گے۔حیرت ہوتی ہے ان حالات میں بھی یہاں کے مفاد پرست اورخود غرض سرمایہ دار لوگ ملک کے استحکام کیلئے اپنے ملک سے ہی لوٹی ہوئی اور کمائی ہوئی اپنی بے پناہ دولت کا کچھ حصہ بھی ریاست کو دینے کیلئے تیار نہیںہیں ۔’’یہ کیسے پاکستانی محب وطن ہیں؟‘‘ ان سرمایہ داروں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کن مشکلات کا سامناکر رہا ہے۔ عالمی ادارے ہماری اس مجبوری کا کیا کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

تحریک انصاف کی حکومت نے 11 جون 2019 ء کو اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا، بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان  نے بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادیں رکھنے والوں کو وارننگ دی کہ وہ  30 جون 2019 ء سے پہلے پہلے اپنے اثاثے اور اکاؤنٹس ظاہر کر دیں وگرنہ انھیں کوئی دوسرا موقع نہیں دیا جائے گا، جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو بجٹ نہ تو متاثر کن ہے اور نہ ہی استحصال زدہ عوام کو کوئی ریلیف دیا گیا ہے، اب حکومت کا ہدف یہی ہو سکتا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے، وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ان ملک دشمنوں سے لوٹی ہوئی دولت جلد از جلد ملک میں واپس لے آئیں، اس کام میں مزید دیر نہ کریں۔

تجارتی خسارہ 30 کھرب روپے سالانہ ہے، ملکی قرض کے سود کی  ادائیگی کی رقم  21 کھرب روپے سے زائد ہے۔ اتنی بڑی رقم کچلی ہوئی عوام سے کسی صورت وصول نہیں کی جا سکتی، معلوم نہیں کس نے وزیراعظم عمران خان کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ، اب تو تما م پٹرولیم مصنوعات پر کئی قسم کے ٹیکسز لگے ہوئے ہیں ۔ استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس لگا ہوا ہے لوگ مصنوعات کی قیمت کے ساتھ یہ تمام ٹیکسز بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ تمام یوٹیلیٹی بِلز کے ساتھ مختلف قسم کے ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ موبائل فون کے استعمال پر بھاری ٹیکسز عائد ہیں، موبائل فونز کا استعمال اب عوام کیلئے بھی ناگزیر ہے، قانون نافد کرنے والے اداروں کو بھی ان کا  فائدہ ہے۔

ہر چیز پر ٹیکس ہے مگر حکومت کا بیانیہ یہی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی، یہاں سکت ہو یا نہ ٹیکس ضرور وصول کیا جاتا ہے۔عوام اور خواص نے نئے بجٹ سے خاص توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، پوری حکومت کہہ رہی ہے کہ تجارتی خسارہ 30 کھرب روپے سالانہ ہے سب سے پہلے یہ خسار ہ توازن میں لانے کیلئے موثر پالیساں نافذ کیوں نہیں کی جا رہیں ؟ یہ بجٹ  ریاست کیلئے انتہائی اہم ہے حکومت کی توجہ ایکسپورٹ بڑھانے کی طرف ہونی چاہئے۔ اس کے لئے گراس روٹ پر انڈسٹری قائم کرنے کی ضرورت ہے، یہ بجٹ کاروبار ی دوست  بجٹ ہونا چاہیے تھا ۔ بجٹ کا ہر راستہ، ہر سمت کاروبا ری ترقی اور سرمایہ کاری کی جانب ہونی چاہیے تھی۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ بجٹ بنانے والے بھی عوام دوست نہیں ہیں۔ اس بجٹ میں بھی صرف ٹیکس چوروں کو ریلیف دیا گیا ہے، جب تک معاشرے میں توازن قائم نہیں ہوگا مسائل بڑھتے جائیں گے، عوام کے استعمال کی عام اشیاء سے جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکسز ختم ہونے چاہئیں، ٹیکسوں کا سارا بوجھ ان افراد پر ڈالا جائے کہ جو ایک کنال یا اس سے بڑے گھر میں رہتے ہیں جن کے پاس ایک سے زائد گھر اور ایک سے زیادہ گاڑیاں ہیں، جن کے بچے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو ہر سال بیرون ممالک سیروتفریح کیلئے جاتے ہیں، جو تیس دن ہوٹلنگ کرتے ہیں، جو قیمتی ترین ملبوسات اور زیورات پہنتے ہیں، جن کے گھروں میں ملازمین کی فوج ہوتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے کسی بھی کونے میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کی نشاندہی باآسانی ہو جاتی ہے، مگر ’’ معاشی دہشت گرد‘‘ کسی کو نظر نہیں آتے، بڑے بڑے پلازے ، شورومز، کاروبار، جائیدادیں اور دوسرے وسائل ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

حکومتِ وقت کو احساس ہی نہیں ہے کہ عوام کی محرومی کا نتیجہ کیا نِکلتا ہے، معاشی و اقتصادی بحران سے نبٹنے کیلئے دولت اُن افراد سے وصول کی جائے جہنوں نے سرکاری و سیاسی مشینری کی مدد سے ریاست کے وسائل لوٹے، عوام کو بدحالی کی آخری سیڑھی تک پہنچایا، ہمارا پورا معاشرہ غیر متوازن ہو چکا ہے، غیر متوازن تجارت، غیرمتوازن روّیے، غیر متوازن طبقات، غیر متوازن معیشت، غیر متوازن اقتصادیات غرض کہ ہر چیز غیر متوازن ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرے میں توازن پیدا کرنا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی و اقتصادی ابتری، بدامنی، بے سکونی اور غیر یقینی صورتحال نے عوام سے زندگی کی رمِق اور تما م خوشیاں چھین لی ہیں، ہر حکومت عوام کی بد حالی کی اصل وجہ تجارتی خسارہ اورقرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ بتاتی ہے، عوام اور ریاست کو اس نہج پر پہچانے والی پاکستان کی نااہل حکومتیں اور نا اہل بیوروکریسی ہے۔

 ’’ بیرونی تجارت میں توازن کیسے پیدا ہوگا؟‘‘

کیا ’’سیاسی بقراطوں ‘‘ پر مشتمل ہماری کسی حکومت اور بیوروکرسی کو اس بات کا علِم نہیں تھا کہ اُن کی پالیسیوں کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے؟ عجیب بات ہے کہ امراء اور حرام کمائی والوں کی زندگیوں کو شاندار بنانے کیلئے زرمبادلہ کے انبار خرچ کر کے تعِیشات زندگی پاکستان درآمد کی جا رہی ہیں، مگر ادائیگیوں کا توازان برقرار رکھنے کیلئے برآمدات بڑھانے کی جانب چنداں توجہ نہیں دی جا رہی، پاکستان کے تمام نمایاں شہروں میں شاہانہ زندگی گزارنے والوں کی شان و شوکت کے نمونے نظر آتے ہیں، سڑکوں پر بیش بہا قیمتی گاڑیوں کی بہتات نظر آتی ہے، کروڑوں ڈالر خرچ کرکے یہ گاڑیاں امپورٹ کی جا رہی ہیں، امراء اور حرام کمائی والوں کیلئے بیش قیمت سامان زندگی درآمد کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ’’لگژری‘‘ زندگی گزار سکیں۔

چند لاکھ افراد کی عیش و آرام کی زندگی کیلئے خزانے میں موجود رہا سہا زرمبادلہ خرچ کردیا جاتا ہے پھر 16 ارب ڈالر کی حد قائم رکھنے کیلئے امیر ممالک اور عالمی اداروں سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ ستِم یہ کہ عوام کے سامنے امپورٹ ایکسپورٹ کے درست اعدادوشمار بھی نہیں رکھے جاتے کہ جس سے عوام کو اندازہ ہو کہ زرمبادلہ انتہائی ضرورت کی اشیاء پر خرچ کیا جا رہا ہے یا چند لاکھ افراد کیلئے فضول چیزیں،گاڑیاں اور الیکٹرونکس کے سامان پر زرمبادلہ لٹایا جا رہا ہے۔ ہماری حکومتیں، بیوروکریسی ، سفیر اور کمرشل اتاشی اپنے ملک کی برآمدات بڑھانے کیلئے کیا اقدامات اور کوششیں کرتی ہیں۔

جب تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تو ملک کے سنجیدہ طبقات نے اس پارٹی سے کچھ ایسی اُمیدیں وابستہ کیں کہ جو ابتدائی چند ماہ میں ہی ختم ہوگئیں۔

نمبر ۱:  درآمدات اور برآمدات میں فوری طور پر توازن پیدا کرنے کے اقدامات کئے جائیںگے اور تعیشات صرف پر فوراً پابندی لگا دی جائے گی کہ طبقاتی تفریق کم کرنے کیلئے بھی اس قسم کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

نمبر ۲:  محکمہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں گی۔ مگر پولیس کے روّیے میں چنداں تبدیلی نہ آئی بلکہ اب ان کے دِ لوں میں حکومت کے احتساب کا خوف بھی ختم ہوگیا اور ان کی ناانصافیوں اور من مانی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، صوبائی حکومتیں محکمہ پولیس پر گرفت مضبوط نہیں رکھ سکی ہیں۔

نمبر۳:   ریاستی اداروں میں قابل اور دیانت دار افراد کو تعینات کیا جائے گا، مگر بیوروکریسی کو جلد ہی حکومت کی نا تجربہ کاری کا اندازہ ہو گیا، اس حکومت میں بھی ان کے ذاتی مفادات، ملکی مفادات پر غالب آ چکے ہیں، آ ج بھی نااہل اور سازشی افراد ہی کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں۔

نمبر۴:  ادویات کی قیمتوں میں کمی اور ہسپتالوں کی صورتحال میں بہتری لائی جائے گی، مگر ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے، ہسپتالوں کی حالت اور بھی ابتر ہو چکی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج ہی ختم نہیں ہوتا ۔

نمبر۵:  پورے ملک میں نظام تعلیم اور نصاب جدید بنیادوں پر استوّار کرکے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔ ملک کے تمام اساتذہ کی جدید تر بیت کی جائے گی، مگر اس طرف بھی نہ تو چنداں توجہ دی گئی اور نہ ہی کوئی بہتر قدم اٹھایا گیا۔

نمبر ۶ :   انصاف لوگوں کی دہلیز تک پہنچایا جائے گا، عوام کو خوشحالی،امن اور سکون کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ مگر استحصالی طبقہ مزید مضبوط ہوگیا ہے۔

ان حا لات میں بھی قوم مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئی، مگر کسی بھی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ۔

’’ موجودہ حکومت بھی برآمداتبڑھانے میں سنجیدہ نہیں‘‘

اگر ایک مخصوص طبقے کے بہترین طرز زندگی کیلئے زرمبادلہ خرچ کرنا ضروری ہی ہے تو برآمدات میں اضافہ کرنا چاہیے تھا، مگر اس معاملے میں حکومت سنجیدہ ہے نہ متعلقہ ادارے۔ الٹا عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہمارے حالات اور مصنوعات ہی ایسی نہیں ہیں کہ برآمدات کو بڑھایا جا سکے، حالا نکہ تمام معاشی اور اقتصادی اُمور کے ماہرین اور محب وطن سرمایہ کار اور تاجر بار بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ابھی برآمدات بڑھانے کے لا تعداد اور بے شمار مواقع موجود ہیں مگر بیوروکریسی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے، موجودہ حکومت بھی اس معاملے میں قطعاًسنجیدہ نہیں ہے۔

ہمارے سفارت خا نوںکو پاکستان کی بر آمدات بڑھانے میں دلچسپی نہیں ہے ، شائد اس کی وجہ حب الوطنی کا فقدان ہے یا خود غرضی کی انتہا ہے ، ان افرادکو صرف اپنی آسائشوں اور شان و شوکت سے غرض ہے، چند منظور ِ نظر افراد کو سفیر بنایا جائے گا اور سفارت خانوں میں سفارشی افراد کو تعینات کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہی نِکل سکتا ہے، جبکہ ہمارے حریف ملک بھارت کے سفارت خانے اپنے ملک کا وقار، کاروبار اور بیوپار بڑھانے کیلئے بہترین کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ملکی متعلقہ محکمے بھی برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی میں مصروف ہیں۔ متعلقہ محکموں کے ایک فرد کے ذہن میں بھی نہیں ہے کہ زرمبادلہ بڑھنے سے کتنے ملکی مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاخیری حربوں سے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو بددل کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں چھوٹے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے بلکہ انکی ’’ بزنس فوج‘‘ تیار کی جاتی ہے۔

یہ ’’بزنس فوج ‘‘ دوسرے ممالک کے ایکسپورٹرز کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ اختیارکرتی ہے، مگر یہاں صرف بڑے ایکسپورٹرزکو ہی موقع مِلتا ہے اور اس میں حکومت کی کسی قسم کی مدد نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اندرون ملک مصنوعات کی وہ قیمت نہیں مِلتی جو کہ ایکسپورٹ کے نتیجے میں مل جاتی ہے، وطن عزیز میں پہلا قدم ہی یہ ہونا چاہیے تھا کہ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں رکھا جاتا، اگر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے تو پاکستان میں پائی جانے والی معدنیات برآمد کر کے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، مگر معانیات کو نکالنے کی صلاحیت ہی آج تک پیدا نہیں کی گئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ ملک میں کوئی بھی ایسا جدید ادارہ نہیں ہے کہ جہاں لوگوں کو کان کنی کی بہترین تربیت دی جا سکے، معدنیات ، تیل اور گیس نکالنے کی جدید تربیت دی جا سکے۔ وطن عزیز میں معدنیات کے خزانے بھرے ہوئے ہیں مگر ہم میں انھیں نکالنے کی صلاحیت ہی نہیںہے۔

یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ صنعت وتجارت کا محکمہ کیا کر رہا ہے ؟ ایکسپورٹ پروموشن بیوروکی کارکردگی کیا ہے؟ دوسرے متعلقہ محکمے کیا کر رہے ہیں؟اگر حقائق کو غور سے دیکھا جائے توواضح نظر آتا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے کے چکر میں سرمایہ کاروںاور تاجروں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی فضا بنا رہی ہے، اگر اس وقت ملک چلانے کیلئے سرمائے کی ضرورت ہے تو اُُن آ ٹھ سو افراد سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جن کی فہرست ایف بی آر اور تمام متعلقہ محکموں کے پاس ہے کہ ان آٹھ سو افراد کے پاس ظاہراً و پوشیدہ ملکی دولت کا تقریباً آدھا حصہ ہے۔ مشکل سے وقت گزارنے والے ہر شہری پر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت ہے، ایسی فضا قائم ہوکہ سرمایہ کار اور تاجر خود باآسانی اور رضا مندی کے ساتھ ٹیکس جمع کروائیں۔

حکومت براہ راست سرمایہ کاروں اور تاجروں کے ساتھ رابطہ قائم کرے اور انھیں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا جائزہ لے، ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور خصوصی عزت و تکریم ہونی چاہیے، سرمایہ کاروں، تاجروں اور صنعتکاروں کی بددلی کا سبب بننے والے افراد کو عبرت ناک  سزادی جائے ۔تمام سفارت خانوں میں انتہائی تجربہ کا ر سفیر، کمرشل اتاشی اور دوسرا عملہ تعینات کیا جائے تا کہ وہ تجارت کو فروغ دے سکیں۔

’’بے نامی اکاؤنٹس اور بے نامی جائیداد کی رقم سے تجارت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘

اہم ترین بات یہ ہے کہ حکومت موجودہ ایمنٹسی سکیم کی کامیابی کیلئے یہ ا علان کرے کہ اگر کوئی فرد بھی بے نامی اکاؤنٹ یا جائیداد کی رقم کو تجارت، صنعت اور کاروبار میں استعمال کرے گا تو اس سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اگر بے نامی اکاؤنٹ اور جائیداد کی رقم کو تجارت اور صنعتی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے تو ملک میں سرمایہ کاری کا سیلاب آسکتا ہے۔

’’ تاجر معاشی  فورس ہیں انھیں منظم کیا جائے تو بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں‘‘

’’حکیم محمد عثمان‘‘

مرحبا لیبارٹریز کے چیف ایگزیکٹیو حکیم عثمان کاکہنا ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاروں، تاجروں اور برآمد کنندگان کو خصو صی ا ہمیت دی جاتی ہے، کاروبار بڑھانے کیلئے ہر قسم کی سہولتیں دی جاتی ہیں، کسی بھی ملک کی مضبوطی کیلئے دفاعی افواج، سرمایہ کار اور تاجر اولیّن اہمیت رکھتے ہیں، سرمایہ کاروں اور تاجروں کو ’’ معاشی فوج‘‘ قراردیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ تو یہی ہے کہ ملکی  تجارت وہ بنیاد ہے کہ جس پر پور ے ملک کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والی فوج کی تنحواہیں فوجی ضروریات بھی اُس وقت پوری ہو سکتی ہیں کہ جب خزانے میں رقم ہوگی، دوسرے تمام اداروں کی مالی اور دوسری ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی خزانے میں رقم کا ہونا ضروری ہے، خزانہ بھرنے کیلئے سب سے بڑا ذریعہ تجارت ہے، جس ملک میں کاروبار ترقی کر رہا ہو اُس ملک کا ہر ادارہ اور فرد بھی ترقی کرتا ہے،خوشحال ہوتا ہے۔

صنعتکار اور تاجر ملکی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں زرمبادلہ بھی کماتے ہیں۔ اور ٹیکسزکی شکل میں خزانے میں رقم جمع کرواتے ہیں۔ مگر میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ پاکستان میں تمام متعلقہ ادارے صنعت کارورں اور تاجروں کی راہنمائی اور مدد کرنے یا انھیں بزنس کے فروغ کیلئے سہولیتں مہیا کرنے کی بجائے ہراساں اور بددل کرتے ہیں۔ یہاں یہ تصور ہی مفقود ہے کہ صنعتی اور تجارتی ترقی سے ملک مضبوط اور خوشحال ہوگا۔ متعلقہ ادارے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری مراعات اور تنخواہوں کا سلسلہ بھی سرمایہ کار طبقے کی محنت اور کامیابی سے جُڑا ہوا ہے۔ عجیب سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ دوسرے ممالک سے قرضہ لیکر ملک چلایا جائے یہ سوچ ہی نہیں پیدا ہو رہی کہ اپنی ’’معاشی فوج ‘‘ (سرمایہ کاروں اور تاجروں) کو حد درجہ مضبوط کیا جائے۔ عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ اگر گھر کا کوئی فرد کمانے والا ہو تو اُسے گھر میں خصوصی پذیرائی دی جاتی ہے کہ گھر کے تمام معاملات اسی کی کمائی سے چلتے ہیں۔ باپ کی کمائی سے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، خوراک اور گھر کے دوسرے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر کی حیثیت ریاست میں کمانے والے فرد کی ہوتی ہے اُسے خصوصی پذیرائی ملنی چاہیے۔

حکیم عثمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ساڑھے تین سو (350) روپے سے کاروبار کا آغاز کیا۔اللہ پاک کے کرم سے آج ہر گھر میں مرحبا لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹیڈ کی مصنوعات نظر آتی ہیں ۔ میں دنیا کے 35 ممالک کا دورہ کر چکا ہوں، دنیا کے ان ممالک میں ہماری مصنوعات جا رہی ہیں مگر ہمارے کاروبار کے پھیلاؤ اور زرمبادلہ  کے حصول میں حکومتی محکموں کا کوئی کردار، عمل دخل یا راہنمائی نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ہمیں ہماری بیوروکریسی یا متعلقہ محکموں کے روایتی روّیے کی وجہ سے تکلیف برداشت کرنی پڑی، پچھلے دنوں ہمیں ویت نام ملک سے آرڈر مِلا انھوں نے رقم بھی زرمبادلہ کی شکل میں بجھوا دی ۔

ہمیں ڈرگ اتھارٹی سے ایک سرٹیفکیٹ چاہیے تھا، ہمیں وقت پر نہیں مِلا ، نتیجہً ہمارآرڈر کینسل ہوگیا اور تمام زرمبادلہ واپس بھجوانا پڑا۔ پاکستان کواس وقت ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے ہمارے سرمایہ کار، تاجر اور برآمدکنند گان اس وقت ملک میں زرمبادلہ لانے کیلئے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں مگر بیوروکریسی اور متعلقہ اداروں کو حالات کی سنگینی کی ذرا پرواہ نہیں ہے۔ پاکستان ایک گھر ہے یہاں کمانے والے کی کامیابی کیلئے مدد کرنی چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور دعا بھی ہونی چاہیے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ سرمایہ کار، صنعتکار اور تاجر ملک کی خدمت کر رہے ہیں انھیں ایوارڈ سے نوازے، انھیں خصوصی سند دی جائے ، خدمت کا اعتراف ہمیشہ ’’ کماؤ مرد‘‘ میں مزید حوصلہ اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ اس حوصلہ افزائی سے ملکی کاروبار فروغ پائے گا، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

موجودہ وقت میں حکومت کو چاہیے کہ اچھی ساکھ رکھنے والے کامیاب بزنس مینوں پر مشتمل ’’ بزنس پروموشن ٹیم ‘‘ بنائے،جو حکومت کو بزنس بڑھانے کیلئے مشورے دے۔ دفاتر میں بیٹھے سرکاری ملازمین جنہوں نے کبھی بزنس کیا ہی نہیں ہوتا وہ بزنس کے فروغ میں کیا مدد کرسکتے ہیں۔ ’’ بزنس مین ‘‘ سے مشورے ہی بزنس کو کامیاب کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیمبر آف کا مرس میں بھی اب سیاست کا عنصر زیادہ ہو چکا ہے۔ مسا ئل حل کرنے کی جا نب پہلی سی توجہ نہیں ہے۔

حکیم محمد عثمان نے کہا کاروبا خصوصاً برآمد ات کی کامیابی کیلئے ایمانداری اور دیا نتداری کا ہونا بہت ضروری ہے، غیر ممالک میں ہمارے کچھ غیر ذمہ دار عناصر کی وجہ سے ہماری ساکھ خاصی خراب ہو چکی ہے، کئی پارٹیوں نے نمونے کے مطابق مال نہیں بجھوایا جس کی وجہ سے بھی ہماری برآمدات کم ہوئی ہیں ۔انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں اور تاجروں کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ بیرون ممالک بجھوایا جانے والا مال نمونے سے بھی بہت بہتر ہونا چاہیے۔ برآمدات کے معاملے میں ملاوٹ یا دونمبری کا تصور ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تاجر ایسا غیر ذمہ دارانہ روّیہ رکھتا ہے کہ جسکی وجہ سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوتی ہے اُس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، مگر محب وطن سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور پوری ریاست کو اُسکی پشت پناہی کرنی چاہیے۔

انکا کہنا ہے کہ پاکستان کو ’’ بزنس دوست‘‘ ملک بنانے کی جانب توجہ دی جانی چاہیے، نوجوان نسل کو کاروبار کی جانب راغب کرنا چاہیے، ہم طالبعلموں اور مختلف طبقات کو اپنے ادارے کا دورہ (وزِٹ) کرواتے رہتے ہیں انھیں کامیابی حاصل کرنے اور کاروبارکرنے کے طریقے بتاتے ہیں ،اس مقصد کیلئے جو محکمے قائم ہیں اُن کا دائرہ کار اور طریقہ کار بتاتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ بزنس کیلئے کونسے کونسے محکموں سے اُن کا واسطہ پڑے گا۔

حکیم محمد عثمان نے کہا’’ مجھے یہ بات بڑے افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل ذہنی وجسمانی سہل پسندی کی طرف مائل ہے۔ ذہنی سہل پسندی میں مبتلا افراد ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں مگر اپنا کاروبار نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت اگر کاروبار کا فروغ چاہتی ہے تو وہ سرمایہ کار اور تاجر طبقے کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے تاکہ انھیں علِم ہوکہ ملکی کاروبا ر اور برآمدات کی راہ میں کون لوگ اور کونسے ادارے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سرمایہ کاروں اور تاجروں کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے ، انکے ساتھ مجرموں والا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ جس دن حکومت نے ’’ معاشی فوج‘‘ کی اہمیت کو محسوس کرلیا انھیں منظم کرنے میں کامیاب کوگئی تو ہم جلد ہی چین ، کوریا ، جاپان اور دوسرے صنعتی و تجارتی ممالک سے بازی لے جائیں گے۔ حوصلہ شکنی کرنے والے سرکاری عناصر کو ملک دشمن سمجھا جائے اور انھیں معاشی بد حالی کا مرتکب قرار دیا جائے، اقتصادیات کی تباہی کا سہولت کار سمجھا جائے۔‘‘

’’ اب ایف بی آر کا ’’ فن ‘‘ کام آئیگا‘‘
کہاجاتا ہے کہ ایک مداری نے لیموں کاٹ کر زور لگا کر سارا رس نکال کرکہا کہ مجمع میں سے کوئی ایک قطرہ بھی مزیدنکال کر دکھا دے ، ایک دّبلا پتلا فرد آگے بڑھا اور اُس نے تین قطرے مزید نکال دئیے ، مداری ششدررہ گیا ، پوچھنے لگا کہ آپ کیا کرتے ہیں، جواب مِلا کہ میں ’’ ایف بی آر ‘‘ کا آفسرہوں‘‘ وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایف بی آر کے چیئرمین شیر زیدی کے ساتھ مل کر 1000، ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کی کوشش کریں گے ، شائد یہ کاو ش کا میاب ہوجائے اور اس غریب عوام سے مزید تین قطرے نِکل آئیں ۔ ایف بی آر کو یہ فن تو آتا ہی ہے۔۔۔۔

’’ وزیر اعظم عمران خان نہیں سرکاری مشینری نا اہل ہے ،سرکاری مشینری میں مطلوبہ اہلیت ہی نہیں ہے‘‘
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نااہل سازشی اور بد دیانت سرکاری ملازمین ہیں۔ یہاں بار بار سیاسی نظام کے فلاپ ہونے کی اصل وجہ بھی نااہل سازشی اور بد دیانتی افسران و اہلکار ہیں، سیاستدان ملک و قوم کی ترقی کیلئے مختلف آئیڈیاز پیش کرتے ہیں ان پر سرکاری ملازمین نے عمل کرنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ موجودہ تما م تر سرکاری ملازمین میں مطلوبہ اہلیت نہیں ہے کہ حکومتی ایجیڈے کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے، جب تک اہل قابل اور دیانت دار افراد کو سرکاری ملازمتوں میں نہیں کھپایا جائے گا، حالات اور بھی دگرگوں ہونگے ، موجودہ نااہل سرکاری ملازمین بہترین سے بہترین آئیڈیا کا بھی ستیا ناس کردیتے ہیں۔یہ افراد اپنی ضد ،ہٹ دھرمی ،بے شرمی اور عوام سے ذلِت آمیز سلوک کی وجہ سے عوام کے دل میں ریاست کیلئے بددلی اور بیزاری پیدا کر رہے ہیں ۔

ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ماضی کی سیاسی حکومتوں نے محض اپنے ووٹ بنک کی خاطر نا اہل ، خود غرض ،غیر ذمہ دار اور منفی رحجانات رکھنے والے افراد کو ریاست پر مسلط کردیا ہے ،اور ملکی اداروں کو تباہ وبرباد کر دیا ہے،۔ خمیازہ تو انھوں نے بھی اپنے دور حکومت میں نا کامیوں کی صورت میں بُھگتا ہے مگر سب سے زیادہ مشکلات تحریک انصاف کی حکومت کودر پیش ہونگی۔ مو جودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ریاست کو مستحکم دیکھنے کی متمنی ہے مگر اس ناکارہ سرکاری مشینری میں معاملات کو چلانے یا بہتر بنانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت فوری طور پر اہل اورقابل افراد کی بھرتی کا سلسلہ شروع کرئے ۔ نا اہل افراد کو فارغ کیا جائے ،چاہے اسکے لئے صدارتی آرڈینس لانا پڑے ۔ موجودہ حکومت کو بہت بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔وگرنہ حالات کی بہتری کی کوئی اُمیدنظر نہیں آتی۔ گاڑی کے نا قابل استعمال پُرزوں کے ہوتے ہوئے ڈرائیور کی مہارت کسی کام نہیں آتی۔

’’عوام بھی فضول خرچی چھوڑنے پر تیار نہیں‘‘
یہ بھی حیران کُن بات ہے کہ موجودہ بحرانی کفیت میں عوام بھی فضول خرچی کرنے سے بازنہیں آئی ، آج سے چالیس سال قبل تک سادہ زندگی کزارنے والی عوام کا پیسہ کچھ ایسی ’’ضررویات ‘‘ پر خرچ ہورہا ہے ، جسکے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے ، لو ئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس میں بھی سگریٹ،موبائیل ، بجلی ،موٹر سائیکل ، پیٹرولاور دوسری فضول اشیاء کا بے جا استعمال سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خوراک ، تعلیم ،علاج اور دوسری بنیادی ضروریات کو پس پشُت ڈالکر یہ اخراجات پورے کئے جارہے ہیں ۔ مڈل کلاس میں مہنگے موبائیل ،ائیر کنڈیشنڈ کے استعمال ، گاڑیاںپر آوٹنگ اور ہوٹلنگ‘‘ کے رحجاناتمیں اضافہ ہورہا ہے۔ ’’ قرض کی مے‘‘ کی کچھ ایسی عادت پڑ چکی ہے کی فاقہ مستی کا خوف و خیال ہی ختم ہو چکا ہے۔ بیرونی قوتیں ہماری حالت زار اور ہماری’’عیا شیوں ‘‘ پر ہنستی ہیں۔ n

The post خوشحالی کا تمام تر انحصار تجارتی ترقی پر ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


درپیش تجھے ہے جو سفر، رختِ سفر ہے؟
دینا جو پڑا راہ میں سَر دیکھ لو، سَر ہے
کشتی مری سیدھی نہیں چلتی کبھی دریا
چلتا ہوں ترے ساتھ اگر تجھ میں بھنور ہے
پہلے کبھی احساس تھا دکھ درد تھے بٹتے
اب دیکھنا پڑتا ہے کہاں دیدۂ تر ہے
بچتے ہیں اگر اس سے تو بچتا نہیں کچھ بھی
یہ کیا ہے انا مجھ سے مری زیر و زبر ہے
حسنین کریمین کی ہے چشمِ عنایت
احباب سمجھتے ہیں سحر اہلِ نظر ہے
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


خونِ دل ہوتا رہا تلخیِ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ؟
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں ترے انکار کے ساتھ
کون پونچھے گا مری آنکھ سے بہتے آنسو؟
کون سینے سے لگائے گا مجھے پیار کے ساتھ
روزِ اول سے غلامی کا شرف بخشا گیا
روزِ اول سے ہے نسبت مری سرکار کے ساتھ
میری فطرت میں وفا رکھی گئی ہے امجد
کس طرح ہاتھ ملاتا کسی غدار کے ساتھ
(حسین امجد۔ اٹک)

۔۔۔
غزل


یہ جو آہٹیں ہیں ادھر ادھر سبھی کُن کا دائمی ساز ہے
وہی جاودانِ جہاں جسے ذرا فہمِ سوز و گداز ہے
ہے جو لاشعور کا آئینہ کبھی کر تو اس کا بھی سامنا
کبھی جان لا کا یہ مرحلہ، ترا عکس عکسِ مجاز ہے
نہ ہو منحرف ارے بے خبر کبھی اپنی ذات پہ غور کر
یہ وجودِ خاک ہے لمحہ بھر، یہاں کس کی عمر دراز ہے
یونہی دربدر کی صعوبتیں تری اپنی سوچ کی ظلمتیں
اسی دَر پہ کھول یہ کلفتیں جو ازل سے بندہ نواز ہے
یہاں ہر بشر ہے تماش بیں، کوئی نکتہ داں کوئی نکتہ چیں
جو خلوصِ دل سے ہو کچھ قریں ترا ہر عمل وہ نماز ہے
یہ سجیل زیست کا مرحلہ ہے تغیرات کے زاویہ
تھا جو خط کبھی ہوا دائرہ، جو نشیب تھا وہ فراز ہے
(سجیل قلزم۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


رگوں میں آتش دبی، تمہاری ہی منتظر ہے
گَلوں پہ بہتی نمی، تمہاری ہی منتظر ہے
عروسہ مہندی لگائے ہے کس خیال میں چپ
سوال کرتی ہنسی، تمہاری ہی منتظر ہے
فلک سے گرتی یہ ساری بوندیں ہیں استعارہ
یہ موسموں کی کمی تمہاری ہی منتظر ہے
یہ پیڑ پودے، یہ سب پرندے ہیں محوِ حیرت
یہ گاؤں والی گلی تمہاری ہی منتظر ہے
ترستی بانہیں تمہاری خوشبو کا لمس ڈھونڈیں
یہ میری بہکی خوشی تمہاری ہی منتظر ہے
سنو، کہ جب تک نظر نہ آؤ، تو عید کیسی
تو عید میری، ابھی تمہاری ہی منتظر ہے
یہ میرے نغمے تمہارے سُر میں بنے ہیں باقی
یہ جو غَزل ہے، یہ بھی تمہاری ہی منتظر ہے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


پیاس بجھا سکتے ہو، بھوک مٹا سکتے ہو
آنسو پی کر اگلا دھوکہ کھا سکتے ہو
دل کو جانے والا رستہ بند پڑا ہے
آنا ہے تو بس آنکھوں تک آ سکتے ہو
میں اک سمت ہوں، اور بھی سمتیں ہیں دنیا میں
تم جس سمت بھی جانا چاہو، جا سکتے ہو
خالی کاندھے لے کر جانے والو، ٹھہرو
تم بھی میرے جتنا بوجھ اٹھا سکتے ہو
جسم پہاڑی رستہ ہے ڈھلوان کی جانب
اس رستے پر کتنا آگے جا سکتے ہو
دولت، شہرت، لالچ، خواہش، شوق، عقیدہ
اپنی مرضی کا پنجرہ بنوا سکتے ہو
(شہزاد نیر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


دل کے زخموں کو بھر بھی سکتی ہوں
جاں سے اپنی گزر بھی سکتی ہوں
تُو اگر پیار سے کہے مجھ کو
تیری خاطر ٹھہر بھی سکتی ہوں
آخری سانس تک نبھاؤں گی
میں جو کہتی ہوں کر بھی سکتی ہوں
بات دل کی ہے سوچ لیجے گا
دل کو لے کر مکر بھی سکتی ہوں
مجھ سے نظریں چرا کے کیا حاصل؟
میں تو دل میں اتر بھی سکتی ہوں
میں جو چاہوں تو اپنی چھاگل میں
پورا تالاب بھر بھی سکتی ہوں
وہ کنول پیار سے اگر دیکھے
اس کی خاطر سنور بھی سکتی ہوں
(کنول ملک۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


میں نے تمہاری یاد کو رسوا نہیں کیا
جیسا کہا مُشیر نے ویسا نہیں کیا
تم نے تمام عمر مجھے درد ہی دیے
میں نے تمام عمر ہی شکوہ نہیں کیا
روتا رہا ہوں یاد میں تیری میں رات بھر
آنکھوں نے میری نیند سے سودا نہیں کیا
غیروں کے ساتھ اپنے بھی سب چھوڑتے گئے
میں نے تمہارے واسطے کیا کیا نہیں کیا
مجھ سے نہ یار خیر کی امید تُو لگا
میں نے تو اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا
کمرہ بِنا تمہارے نہیں جچ رہا تھا، پس!
کمرے میں، مَیں نے اپنے سویرا نہیں کیا
جانے کے بعد اس کے محبت نہیں ہوئی
سلمان میں نے عشق دوبارہ نہیں کیا
(سلمان منیر خاور۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


ناممکن ہے پر کرنا ہے
پانی کو پتھر کرنا ہے
شہروں کو ویرانی دے کر
صحراؤں میں گھر کرنا ہے
اتنی گہری آنکھیں گویا
ایک سمندر سر کرنا ہے
تصویروں سے مٹی جھاڑو
زخم کو تازہ تر کرنا ہے
منظر پر بے تابی چھڑکو
آنکھ کا چہرہ تر کرنا ہے
درد رمیض سنائی دے گا
شعروں کو منظر کرنا ہے
(رمیض نقوی۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل


پل رہی ہیں نفرتیں دل میں لگن کوئی نہیں
بے صدا ہے شہر سارا ہم سخن کوئی نہیں
سر بہ زانو مجلس، ہر طرف گہرا سکوت
ایسا لگتا ہے شریکِ انجمن کوئی نہیں
ظلمتیں پھیلا رہا ہے روشنی کا دعوے دار
یہ عجب خورشید ہے جس کی کرن کوئی نہیں
ایک دل ہے زخمیِِ شمشیرِ ذوقِ رنگ و بو
صفِ یاراں میں قدر دانِ چمن کوئی نہیں
صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں نااہلوں کے نام
اس حقیقت میں ذرا تخمین و ظن کوئی نہیں
چھاننی میں چھان بیٹھا سو دفعہ میں یار سب
سنگ ریزے ہیں خلش لعل و رتن کوئی نہیں
(عباس خلش۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


احوال دلِ زار سنایا نہیں جاتا
جو راز عیاں ہو وہ بتایا نہیں جاتا
تم ہی یہ بتاؤ میں بھلاؤں تمہیں کیسے
اس دل سے کوئی نقش مٹایا نہیں جاتا
سر پھوڑنا مشکل نہیں ہوتا جنوں میں
دیوار سے عاشق کو لگایا نہیں جاتا
تعبیر ملے یا نہ ملے بات الگ ہے
آنکھوں سے مگر خواب چرایا نہیں جاتا
اس شہر کی توقیر ہیں جاذب ہی سے عاشق
عشاق کو نظروں سے گرایا نہیں جاتا
(سلیمان جاذب۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ریکھاؤں سے صاف مقدر دکھتا ہے
ہر اک رستہ تجھ پہ آ کر رکتا ہے
پہلے تیری خوش بُو صادر ہوتی ہے
پھر یادوں کا اک گل دستہ بنتا ہے
تیرے خط بھی دو دھاری چنگاری ہیں
قاصد تو قاصد ہے قصبہ جلتا ہے
کون سا بازی اپنے حق میں کر لی ہے
تُو بھی تو بس باتیں کرتا رہتا ہے
نیند میں باتیں کرنا اچھی بات نہیں
میں نے پہلے بھی خمیازہ بھگتا ہے
معشوقہ بھی عصمت ایک سعادت ہے
ورنہ کس سے کون محبت کرتا ہے
(عصمت اللہ سیکھو۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
’’میں نے وہ نظم مٹا دی آخر!‘‘


ذہن میں ایک تصوّر اترا
میں یہی سوچ رہا تھا کہ لکھوں گا اس بار
کیسا ہوتا اگر اس وقت کی بڑھتی رفتار؟
میں نے اک نظم تو لکھ لی لیکن ۔۔۔
لیکن اس نظم میں دنیا میں تباہی ہی ہوئی!
اور گھڑی تیزی سے چلنے کے سبب ٹوٹ گئی
دن سے شب، رات سے دن، دن سے دوبارہ ہوئی رات
ایک لمحے میں گزرنے لگے لاکھوں لمحات
وقت پھر چلنے لگا اور بھی تیز
اب تو گردش بھی زمیں کی مجھے محسوس ہوئی
پودے پھر پیڑ بنے، پھل لگے، مرجھا بھی گئے
مری سوچوں سے تخیّل کے سبھی رنگ اڑے
اس لیے سر پہ مرے بال سفید، آ بھی گئے
اب تو ٹکرانے پہ آئے تھے سبھی سیّارے!
اور تباہ ہونے کو تھی
’’شمس کی وادی‘‘ آخر۔۔۔
میں نے وہ نظم مٹا دی آخر!
(اویس طائر۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
مل کے خود سے نہ ہم رہے تنہا
اب نہ کوئی ہمیں کہے تنہا
چاند کا درد تم نہ سمجھو گے
تم ہمیشہ نہیں رہے تنہا
وقت اچھا کٹے گا دونوں کا
ویسے رہنا ہے تو، رہے تنہا
بند کمروں میں بھی سکون نہیں
اور کتنا کوئی رہے تنہا
بات دل کی نہیں ہے کہتا وہ
ایسے رہنا ہے تو رہے تنہا
آدمی ایسا کوئی ہو سالِم
بات دل کی جسے کہے تنہا
(سالِم احسان۔ گوجرانولہ)

۔۔۔
غزل
ایک انسان دیکھتا ہوں میں
ہے پریشان دیکھتا ہوں میں
لوگ کھاتے ہیں خوف انساں سے
ایسے انسان دیکھتا ہوں میں
شہر آباد ہو گئے ہائے
گاؤں ویران دیکھتا ہوں میں
کچھ بھی مشکل نہیں لگے مجھ کو
سب ہی آسان دیکھتا ہوں میں
جب بھی ملتا ہے یار وہ مجھ سے
اس کی مسکان دیکھتا ہوں میں
میں تو اچھا نہیں مگر طارس
تیرا دیوان دیکھتا ہوں میں
(عبدالجبار طارس، میترانوالی۔ سیالکوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستانی وی لاگ۔۔۔ گالی گفتار اور بھونڈے انداز

$
0
0

محلے میں نوجوانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی اور گالم گلوچ تو بہت دیکھی ہے، اور کھڑکی میں کھڑے ہوکر نوجوانوں کا ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر پٹخا دینے کا مزہ بھی بہت لیا ہے؛ لیکن یہ ڈیجیٹل لڑائی پہلی بار دیکھی ہے جہاں نوجوان کام تو وہی محلے والا کررہے ہیں لیکن ذرا ماڈرن انداز سے۔

میں بات کر رہی ہوں یوٹیوب کی، جہاں پاکستانی نوجوان آج کل ایک دوسرے سے دست بہ گریباں ہیں اور مجھ سمیت پورا پاکستان اس لڑائی کا بالکل اُسی طرح مزہ لے رہا ہے جیسے کبھی کھڑکی میں کھڑے ہوکر محلے کے نوجوانوں کی لڑائی کا لطف لیا جاتا تھا۔ غضب خدا کا! یوٹیوب نہ ہوئی، اکھاڑے کا میدان ہوگیا، جسے دیکھو کسی نہ کسی کے ساتھ کسی نہ کسی لڑائی میں مصروف ہے۔

ویسے تو یوٹیوب کے لیے ہمیں گوگل کا شکرگزار ہونا چاہیے لیکن کیا کریں کہ جب سے پاکستان میں ’’یوٹیوب مونیٹائزیشن‘‘ یعنی یوٹیوب سے پیسہ کمانے کی ہوا چلی ہے، تب سے یہی مفید ایجاد ہمارے پاکستانی ’’وی لاگرز‘‘ (Vloggers) یا ’’ولاگرز‘‘ کے ہاتھوں ایسی بن کر رہ گئی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا ہو۔ جسے دیکھو بے تکی اور بے مقصد ویڈیوز بنا بنا کر یوٹیوب پر ڈال رہا ہے اور کم و بیش ہر ویڈیو میں ’’سبسکرائب کریں اور لائک کریں‘‘ کی فرمائش بھی کررہا ہے۔ فارغ نوجوانوں کی تو گویا عید ہوگئی۔ کوئی اور کام نہیں آتا تو کوئی بات نہیں، چلو ویڈیو/ وی لاگ ہی بنالیتے ہیں! کچھ ویڈیوز تو اتنی اوٹ پٹانگ بلکہ واہیات حرکتوں سے بھری پڑی ہیں کہ دیکھ کر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے، لیکن کیا کریں کہ ویڈیوز بنانے والوں کی طرح ہم بھی فارغ… چلو بھئی دیکھ ہی لیتے ہیں!

لیکن آخر کہاں تک ہم یہ اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ سکتے تھے، لہٰذا ہم نے کان پکڑے اور پیچھے ہٹ گئے۔ البتہ ہمارے ’’ولاگرز‘‘ پیچھے نہیں ہٹے اور انہوں نے مقبول سے مقبول تر ہونے اور یوٹیوب سے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر میں بیہودہ گفتگو اور ذومعنی جملوں پر مبنی ویڈیوز بنانی شروع کردیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ ولاگرز اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگتے جارہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ جب یوٹیوب کھولو وہی منظر سامنے آجاتا ہے جہاں ولاگرز ’’روسٹنگ‘‘ کے نام پر ایک دوسرے کی پول پٹیاں کھولنے اور ایک دوسرے کو رگڑا دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ (شاید اس لیے بھی کہ یوٹیوب پر ایسی ہی ویڈیوز اور وی لاگز دیکھنے کا رجحان زیادہ ہے) ان کا بس نہیں چلتا کہ ویڈیو سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے بال نوچنا شروع کردیں۔

پہلے تماشا محلے میں لگا کرتا تھا، اب یوٹیوب پر لگتا ہے جسے سب کانوں پر ہیڈ فون لگا کر اور چادر میں گھس کر بڑے مزے سے دیکھتے ہیں، کیوںکہ ان ویڈیوز میں استعمال ہونے والی گفتگو بالکل بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سنا جاسکے، اور والدین کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے اور سننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! ساتھ میں یہ ڈر بھی لگا ہوتا ہے کہ اگر امی یا ابو نے یہ گفتگو سن لی تو خدانخواستہ انٹرنیٹ سے ہاتھ نہ دھونا پڑجائیں، جب کہ چھترول الگ سے ہوجائے کہ انٹرنیٹ پڑھائی لکھائی میں مدد کے لیے لگوا کردیا تھا یا یہ بیہودہ چیزیں دیکھنے کے لیے! خدا پوچھے ان ’’ولاگرز‘‘ کو، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اگر ان ولاگرز کی ریسلنگ منعقد کی جائے تو مدمقابل کی ایسی چٹنی بنائیں گے کہ بڑے بڑے پھنے خان بھی شرما جائیں گے۔ یہ ولاگرز آ کل یوٹیوب پر بالکل محلے کی پھاپھا کٹنیوں کی طرح لڑتے نظر آتے ہیں، بس کمر پر ہاتھ اور کانوں کے پیچھے دوپٹا نہیں اڑسا ہوا ہوتا۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں، یوٹیوب پر اس طرح کی بیہودہ ویڈیوز/ وی لاگز بنانے کے ذمہ دار صرف ولاگرز ہی نہیں بلکہ اس میں بڑا ہاتھ خود یوٹیوب کا بھی ہے۔ گوگل اپنی ’’یوٹیوب مونیٹائزیشن‘‘ کے تحت ویڈیوز لگانے والوں (بشمول ولاگرز) کو، ویڈیو/ وی لاگ پر اشتہار دکھانے کے عوض، پیسے دیتا ہے۔ فارمولا وہی ایڈسینس والا ہے کہ یوٹیوب پر جو ویڈیو جتنی زیادہ مرتبہ دیکھی جائے گی، ویڈیو/ وی لاگ بنانے والے کو اتنے ہی زیادہ پیسے بھی ملیں گے۔ پاکستان کے لیے یوٹیوب مونیٹائزیشن کا اعلان ہونا تھا کہ فارغ پاکستانیوں کے مشاغل میں کبوتربازی اور پتنگ بازی وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک نیا مشغلہ بھی شامل ہوگیا، جس کے ذریعے وہ بے مقصدیت کا پرچار کرکے، کم وقت میں اور بغیر محنت کیے ہوئے پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔

لہٰذا تمام فارغ نوجوانوں کی تو عید ہوگئی اور انہوں نے زیادہ سے زیادہ سبسکرائبرز اور لائکس کے لالچ میں گالیوں، ذومعنی باتوں اور بیہودہ گفتگو پر مشتمل ویڈیوز بنانی شروع کردیں… بلکہ یوں کہیے کہ بے ہودگی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی گویا دوڑ لگانا شروع کردی۔ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے ٹاپ ’’ولاگرز‘‘ میں، جن کے سبسکرائبرز کی تعداد لاکھوں میں ہے اور جن کی ویڈیوز کو چند گھنٹوں میں ہزاروں اور چند دنوں میں لاکھوں ویوز مل جاتے ہیں، وہ ولاگرز اکثریت میں ہیں جن کا مواد گالیوں، بیہودگی یا چوری شدہ مواد سے بھرا پڑا ہے، جب کہ اچھا مواد تخلیق کرنے والے ولاگرز کو بہت کم دیکھا جاتا ہے، یا پھر دیکھا ہی نہیں جاتا۔

پاکستانی نژاد کینیڈین ولاگر شام ادریس کا شمار پاکستان کے ٹاپ ولاگرز میں ہوتا ہے۔ ان کے یوٹیوب چینل ’’شام ادریس ولاگز‘‘ کے سبسکرائبرز کی تعداد 17 لاکھ سے زائد ہے جب کہ ان کی ویڈیوز پر چند گھنٹوں میں ہی لاکھوں ویوز اور لائکس آجاتے ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ ان وی لاگز میں آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح ان پر بھنبھناتے رہتے ہیں۔ لاکھوں ویوز ہونے کے باوجود مجال ہے کہ شام ادریس کے چینل پر کوئی ایک ڈھنگ کی ویڈیو موجود ہو جس میں لوگوں کو کوئی اچھا پیغام دیا گیا ہو۔ اور تو اور، ان کی اہلیہ کوئین فروگی بھی کسی سے کم نہیں۔ دونوں میاں بیوی مل کر انتہائی بھونڈی اوربغیر سر پیر کی ویڈیوز بناکر ڈال دیتے ہیں اور بدلے میں خوب ڈالر کمارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں سبسکرائبرز اور ڈالرز کی برسات آپ کو دولت مند بنا سکتی ہے لیکن آپ کو عزت نہیں دلوا سکتی۔

چند روز قبل شام ادریس اپنے مداحوں سے ملاقات کرنے اپنی اہلیہ کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ اب لاکھوں ویوز اور لائکس کی بدولت انہیں لگا ہوگا کہ وہ پاکستان کے سیف علی خان اور ان کی بیوی کرینہ کپور ہیں لہٰذا جیسے ہی یہ ’’سپرہٹ جوڑی‘‘ پاکستان کی سرزمین پر پیر رکھے گی تو خود وزیراعظم پاکستان اس کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے اور وزیرخارجہ ہاتھوں میں پھولوں کی مالا لیے کہیں گے ’’آئیے آپ کا انتظار تھا!‘‘ لیکن شام ادریس کے خوابوں کا محل اس وقت ٹوٹ گیا جب مداحوں سے ملاقات کی ایک تقریب میں ایک نوجوان نے ان کی اہلیہ کے منہ پر گھونسے برسادیے۔ انہوں نے ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے ان گھونسوں کو بھی ویوز اور لائکس بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور رونے دھونے پر مبنی ویڈیو جاری کرکے ایک بار پھر ویوز اور لائکس لینے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ کوئی گھونسے کبھی پڑے ہی نہیں تھے بلکہ ان دونوں میاں بیوی نے ویوز کے چکر میں یہ سارا ڈراما رچایا تھا۔

ایسا نہیں کہ پاکستان میں صرف بے ہودہ مواد پر مبنی ویڈیوز ہی بنائی جارہی ہیں! بہت سے ولاگرز دل چسپی سے بھرپور مزاحیہ ویڈیوز بھی بنارہے ہیں جنہیں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ان میں کراچی وائنز نامی چینل سے لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے مزاحیہ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور ان کے سبسکرائبرز کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ’’دی ایڈیئٹز‘‘ کے نام سے موجود چینل پر بھی اچھی تفریحی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ اس چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد 8 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی یوٹیوبر آمنہ ’’کچن ود آمنہ‘‘ کے نام سے یوٹیوب چینل چلاتی ہیں اور پاکستانی خواتین کو خوب خوب مزے مزے کے کھانے بنانا سکھاتی ہیں۔ آمنہ پاکستان کی پہلی خاتون یوٹیوبر ہیں جن کے پاس یوٹیوب کا ’’گولڈن پلے بٹن‘‘ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں تعلیمی مواد اور معلومات پر مبنی یوٹیوب چینلز بھی موجود ہیں جن میں مختلف ولاگرز نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم اردو میں دیتے نظر آتے ہیں۔ ان میں عمران علی دینا ’’جی ایف ایکس مینٹور‘‘ کے نام سے گذشتہ 3 برسوں سے یوٹیوب چینل پر گرافک ڈیزائننگ، فوٹوشاپ اور ویڈیو ایڈیٹنگ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ عمران علی دینا گذشتہ 17 برس سے اس فیلڈ میں ہیں اور اب وہ اپنا تجربہ یوٹیوب کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں منتقل کرنے کا نیک کام کررہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ’’جی ایف ایکس مینٹور‘‘چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد صرف دو لاکھ ہے جو شام ادریس جیسے گھٹیا مواد پیش کرنے والے ولاگر کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

ہمارے نوجوانوں کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں بے کار کانٹینٹ کری ایٹرز کی ویڈیوز کو ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ویوز مل جاتے ہیں، وہیں عمران علی دینا کی ویڈیو کو (جو سنجیدہ اور پریکٹیکل معلومات پر مبنی ہوتی ہیں) دو ہفتوں میں بہ مشکل تمام صرف 10 ہزار ویوز ہی مل پاتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی بے روزگاری اور سرکاری نوکریوں کی کمی کے باعث نوجوان پریشان تو بہت نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں کو کام نہ کرنے کے بہانے چاہییں۔ اگر نوکریاں نہیں تو گرافک ڈیزائننگ اور فوٹوشاپ وغیرہ جیسا کوئی ہنر سیکھ کر، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نہیں! ہمارے نوجوان تو شام ادریس، ڈکی بھائی اور رضاسمو کی لڑائیاں دیکھ دیکھ کر اور ان کی فحش گفتگو سے لطف اندوز ہوکر اپنا وقت ضائع کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسے نوجوانوں کو بے روزگاری کا رونا بھی نہیں رونا چاہیے۔

عمران علی دینا کی طرح ’’خان اکیڈمی اردو‘‘ نامی یوٹیوب چینل پر پچھلے کئی برسوں سے اردو میں تقریباً دو ہزار معیاری تعلیمی ویڈیوز موجود ہیں، لیکن اس چینل پر جا کر اپنا سر پیٹنے کا دل کرتا ہے کیوںکہ یہاں کی سب سے مقبول ویڈیو کو 5 سال میں صرف 8000 ویوز ہی مل سکے ہیں جب کہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران اس چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد صرف 13 ہزار 800 تک پہنچ سکی ہے۔ اسی طرح اگر بات کریں یوٹیوب چینل ’’سائنس کی دنیا‘‘ کی تو پچھلے تین سال سے قائم ہونے والا یہ چینل بین الاقوامی معیار کی ویڈیوز بناتا ہے جن میں طالب علموں اور عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں موجود سائنس کے سوالوں کے جوابات نہایت آسان الفاظ میں دیے جاتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز کا معیار کسی بھی طرح نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری سے کم نہیں لیکن پاکستانیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں؛ انہیں تو صرف وہ مواد پسند آتا ہے جس میں گالیوں اور بیہودہ الفاظ کا بھرپور استعمال کیا گیا ہو۔

بعدازاں یہی نوجوان گِلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اچھی تعلیم بہت مہنگی ہے اور عام تعلیم اس قابل نہیں کہ اس کا مقابلہ کسی بین الاقوامی معیار کی تعلیم سے کیا جائے اس لیے ہمیں نوکریاں نہیں ملتیں اور ہم باقی دنیا سے پیچھے ہیں۔ میں ایسے تمام نوجوانوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ لوگ معیاری تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی سُستی اور کاہلی کی وجہ سے پیچھے ہیں۔

ہر چیز کا الزام حکومت یا اداروں کو دینا بھی صحیح نہیں۔ کیا گِلہ شکوہ کرنے والے نوجوانوں نے کبھی اچھی تعلیم اور ہنر سیکھنے کی کوشش کی؟ مجھے معلوم ہے کہ کبھی نہیں کی ہوگی کیوںکہ اچھا اور معلومات پر مبنی مواد ڈھونڈھنے میں تو محنت لگتی ہے؛ اور پاکستان میں فارغ لوگوں کا مقبول مشغلہ بغیر محنت کے پیسہ کمانا ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں بے روزگار نہیں بلکہ بے تحاشہ فارغ لوگ پائے جاتے ہیں جو بغیر محنت کیے ہی سب کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔

The post پاکستانی وی لاگ۔۔۔ گالی گفتار اور بھونڈے انداز appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’وہ‘‘ ہنس دیے۔۔۔ ’’وہ‘‘ چپ رہے۔۔۔!

ابھی ہم سنتے تھے کہ ’اپنا قائد صرف۔۔۔‘ کا نعرہ لگانے والوں کے لیے یہی نعرہ اس طرح برتا گیا کہ ’پابندی صرف۔۔۔‘ اُدھر 11 جون کو خبری چینلوں میں اچانک چھناکے گونجنے لگے کہ لندن۔۔۔! جی، جی لندن ہی میں پولیس نے ایک ’’60 سالہ پاکستانی نژاد‘‘ شہری کے گھر پر آکر کہا ہے ’’ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے!‘‘ اور پھر ’’انہیں‘‘ اپنے ساتھ تھانے لے گئے ہیں۔۔۔ اس سے ایک روز پہلے ہی تو یہاں سابق صدر آصف زرداری دھر لیے گئے، نواز شریف پہلے ہی اندر ہیں اور 11 جون کو حمزہ شہباز کی ’رخصتی‘ نبٹی بھی نہ تھی کہ ہر طرف ’لندن ہی لندن‘ ہونے لگا۔۔۔ پھر اخبارات نے بھی ’اُن‘ کے نام کے ساتھ سرخیاں جمائیں۔۔۔ ورنہ ’اُن‘ پر تو اب ایسی کڑی پابندی کے دن ہیں کہ شہر کی کسی دیوار تک پر ’اُن‘ کا نام دکھائی دے جائے، تو اس لکھے کی سیاہی کے پیچھے چھپے ’سیاہ کار‘ کی ڈھونڈ پڑ جاتی ہے، کہاں پہلے صورت حال یہ ہوا کرتی تھی ؎

جس طرف آنکھ اٹھائوں تیری تصویراں ہے
نہیں معلوم یہ خواباں ہیں کہ تعبیراں ہے

خیر اس ’گرفتاری‘ سے اب تو بہت سے اسیر ہوئے ’جذبات‘ کو ایک بار پھر ’رہائی‘ ملی۔۔۔ کسی نے لکھا ’ایک پپی اِدھر ایک پپی اِدھر‘ کسی نے ’اُن‘ کے ’’تھے ہو گئے‘‘ والی بات سے اپنا عنوان سجایا ’ایک تھی ایم کیو ایم۔۔۔‘ دراصل یہ اعمال بھی تو انہی کے تھے، یہ الگ بات ہے کہ کہیں بہ ظاہر وسعت نظری بھی تنگی کا مظہر نکل آئی۔۔۔

وفاقی وزیر ’بحری امور‘ علی زیدی نے گرفتاریوں پر یوں چوٹ کسی کہ ‘کہنا ’خان آیا تھا۔۔۔!‘ پھر ’خان‘ نے بھی اخبار کی تین کالمی سرخی کے لیے فقرہ دیا کہ ’لگتا ہے خدا مہربان ہو رہا ہے۔۔۔‘ سازشی نظریے والوں نے لندن میں گرفتاری کو ہمارے بجٹ کے خلاف عالمی سازش کی لڑی میں ٹانک دیا۔۔۔

خدا جانے کہاں سے پتا چلتا ہے یہ سب کچھ۔۔۔ جب کہ ماجرا تو 2016ء کی متنازع تقاریر کا تھا، جس کی شکایت پچھلی حکومت نے کی تھی۔۔۔ تاہم اگلے روز ہی ’انہیں‘ گھر بھیج دیا گیا، وہ لوٹے تو یہاں ’بہادر آباد‘ میں کسی ’عارضی مرکز‘ پر مستقل ٹھیرے ہوئے ’بچوں‘ کا جی چاہا ہوگا کہ رقص کرنے لگیں۔۔۔ لیکن پھر (اُن سے بھی) ’بڑے ابو‘ یاد آگئے ہوں گے۔۔۔ ہمں ’ناقص ذرایع‘ سے پتا چلا ہے کہ ’پیر‘ صاحب کی گرفتاری پر ’پیر کالونی‘ میں رہائش پذیر ایک ’سابق نفیس‘ شخصیت ’پریس کانفرنس‘ کی تیاری کرنے لگی تھی، یہ کہنے کے لیے کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔۔!‘ کہ اچانک انہیں بتایا گیا کہ ’بھیّے۔۔۔ بھول گئے کیا، آپ ہی کی ’قیادت میں تو ’ساتھی‘ تنگ آکر ’لندن‘ کی لائن کاٹے تھے!، پھر وہ ایک آہ بھر کر بولے ہوں گے جب سے ’بھائیوں‘ نے مجھے ’کٹایا‘ ہے، مجھے کچھ یاد نہیں رہتا۔۔۔ بس بیتے دنوں میں ہی محو رہتا ہوں۔

لندن میں ’اُن‘ کی واپسی کے بعد یہ اطلاعات آئیں کہ تفتیش کے لیے 30 گھنٹے ٹھیرائے گئے، مگر پولیس کے سوالوں کے جواب میں چُپ رہے؎

’وہ‘ ہنس دیے ’وہ‘ چُپ رہے۔۔۔

ہمیں خیال آیا کہ خطاب پر پابندی سے انہیں خاموشی کی عادت پڑ گئی ہو گی۔۔۔ پھر سوچا کہ لندن کی پولیس بھی تو اچھی خاصی ناکارہ نکلی، کراچی پولیس ہوتی تو 30 منٹ میں وہ ’’سب کچھ‘‘ قبول کروا لیتی، جو وہ 30 گھنٹے میں نہ اُگلوا سکے۔۔۔ بتایا یہ گیا ہے کہ ’’وہ‘‘ بالکل ہی خاموش نہیں رہے، بلکہ انہوں نے تین سوالوں کے جواب دیے، نام، تاریخ پیدائش اور پتا۔۔۔

انتہائی غیر مصدقہ ذرایع بتاتے ہیں کہ تین سوالوں کے بعد دراصل لندن پولیس ہی چُپکی ہو رہی۔۔۔ کیوں کہ پولیس نے پہلا سوال پوچھا، تو انہوں نے جواب کے ساتھ کہا ’’وآآآن۔۔۔!‘‘ دوسرا سوال پوچھا، اس کے جواب کے ساتھ وہ بولے ’ٹوووو۔۔۔!‘ تیسرا سوال کیا تو جواب کے ساتھ انہوں نے ’’تھری ی ی ی ۔۔۔۔!!‘ کی گرج لگا دی، پھر بقول شاعر؎

گھٹا چپ، زمیں آسماں چپ، کلی چپ، چمن چپ ہے اور کہکشاں بھی ہے چپ
اُدھر وہ بھی چپ ہیں اِدھر میں بھی چپ ہوں، الٰہی میری رات کیسے کٹے گی

آخر کو انہیں گھر بھیج دیا گیا، کچھ خوش ہوئے تو کچھ سوگوار ہوگئے، ’کہنا خان آیا تھا‘ کی جوابی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔۔۔ کسی نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا کہ شکر ہے کراچی بند نہیں ہوا تو کوئی بولا کہ لطف تو یہ ہے کہ ’اُن‘ کے نام پر کسی ایک نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کون ہے یہ آدمی؟

۔۔۔

محبت دوبارہ تو ہو سکتی ہے مگر۔۔۔
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

تم جانتی ہو؟ پچھلے برس جون کی تپتی ہوئی دوپہر میں جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا، تو مجھے تمہارے چہرے پر چھائی رنجیدگی نے بے حد اداس کر دیا تھا۔ تمہاری جبین پر سلوٹیں دیکھ کر میں سوچتا رہا تھا کہ کیا تمہاری زندگی کی الجھنیں بھی اسی سلوٹوں کی مانند ہے، جو تمہیں ہمہ وقت پریشان کیے رکھتی ہیں۔

میں نے اس سوال کی تلاش میں تمہیں کھوجنا شروع کر دیا، تم مجھے کہیں بھی نہیں ملی تھیں، لیکن تم ایک روز مجھے خواب میں ملیں نیناں۔

اس خواب میں تم سے پوچھنے کے لیے بہت سے سوالات تھے، لیکن تم نے میرے لب ہلنے سے پہلے ہی مجھ سے کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ ’’اگر تم مجھے پڑھنا چاہتے ہو، میرے حالات زندگی جاننا چاہتے ہو تو خلیل جبران کا ناولٹ ’’ٹوٹے ہوئے پر‘‘ پڑھو، تم مجھے جان جائو گے‘‘ میں نے تم سے پوچھا تھا ’’ٹوٹے ہوئے پر کیوں؟‘‘

لیکن موبائل فون کی گھنٹی نے ہمارے سلسلہ تکلم کو توڑ دیا اور میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں نے اس رات اٹھ کر ’’ٹوٹے ہوئے پر‘‘ پڑھنا شروع کیا، تو تمہاری اس التجا پر میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں، پتا ہے تم نے مجھ سے کیا کہا تھا؟

تم نے مجھ سے کہا کہ ’’میری التجا ہے کہ تم میرے بدنصیب باپ کے غم گسار بن کر رہو، کوئی وقت جاتا ہے، انہیں مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ ان کی جدائی مجھے نڈھال کر دے گی، ایسے میں صرف تم ہی میری دل جوئی کر سکو گے اور اس طرح مجھے تنہائی کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔‘‘

میں نے جواب دیا تھا کہ ’’تمہاری یہ تشنہ آرزو میرے لیے مقدس حکم کا درجہ رکھتی ہے، میں تمہاری یہ خواہش ضرور پوری کروں گا‘‘

میں نے اس کو جتنی بار پڑھا اتنی بار ہی میری آنکھوں سے آنسو بہے تھے، کاش! نیناں۔۔۔ کاش۔۔۔ تم بھی مجھ کو بھی ایک آدھ بار پڑھنے کی کوشش کرتیں۔ کاش۔۔۔ تم نے مجھے دماغ کی بہ جائے دل سے سوچا ہوتا۔

کاش۔۔۔ تم نے مجھے بار بار آزمائش میں نہ ڈالا ہوتا، تم دماغ لڑاتی رہی اور میں دل لڑاتا ہے۔۔۔ بالآخر جیت تمہاری ہی ہوئی اور میں ہار گیا، میں فقط تم سے ہی نہیں ہارا، بلکہ اپنے مقدر سے بھی ہار گیا تھا۔ تم کو پوری طرح سے اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو سکا تھا کہ یہ محبت نہیں تھی بلکہ محبت کی مثلث تھی۔

نیناں بولی ’’محبت کی مثلث؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘
اس محبت کا تعلق خدا سے بھی تھا، اس کے عطا کردہ علم اور شعور سے بھی۔ جب بندے کے اندر علم و شعور بیدار ہوتا ہے، تو اس کو خدا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور یہی معرفت بندے کو خدا سے ملا دیتی ہے اور دوسری محبت کا تعلق اس کائنات میں کھلنے والے رنگ برنگے خوش بو دار پھولوں سے ہے، میں ان پھولوں کی بات نہیں کر رہا ہوں، جنہیں ہم کتابوں میں رکھتے ہیں، بلکہ میں تو ان پھولوں کی ذکر کر رہا ہوں، جن کے بیج ہم بوتے تو اپنے تصورات میں ہیں، لیکن یہ کِھلتے دل کے آنگن میں ہیں، مگر ایک بات ہے کہ ان کے کِھلنے یا نہ کِھلنے کا فیصلہ محبت یا نفرت نہیں بلکہ دل کی آنکھیں کرتی ہیں، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمہارے دل کی آنکھیں کبھی میرے لیے کھل ہی نہیں سکی تھیں، تمہاری طنز آمیز باتوں میں میرے لیے سوائے حقارت کچھ بھی تو نہیں تھا. تمہیں یہ بات ماننا پڑے گی نیناں!

نیناں بولی ’’مجھے معاف کر دو، کیا اب واپس نہیں پلٹ سکتے ہو؟ تمہیں جو میں نے اذیت اس کا کیسے مداوا کروں؟ کیا یہ محبت دوبارہ نہیں ہو سکتی بتاو کچھ؟‘‘

سنو! محبت کے بعد محبت ممکن ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ ٹوٹ کر چاہنا صرف ایک بار ہوتا ہے۔ محبت میں کسی قسم کی امید نہیں رکھی جاتی ہے، بلکہ صرف چاہا جاتا ہے اور میں تمہیں صرف چاہا تھا۔ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ تمہارے سنگ دلانہ رویے ہم دونوں کے درمیان کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔

نیناں آب دیدہ ہو کر بولی ’’میں جانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی اور بہت بڑی غلطی ہوئی، لیکن تم کیسے مان سکتے ہو؟ لیکن مجھے ٹھکراو مت، میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ورنہ میں اکیلی رہ جائوں گی۔

تم نے مجھے بہت اذیت دی ہے، جتنا تم آج تڑپ رہی اس سے کہیں اس وقت زیادہ میں تڑپ رہا تھا، لیکن تم نے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لیے مجھے پلٹ کر بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تم میرا وہ خواب تھی، جس کی تعبیر اپنی تکمیل سے پہلے ہی مقدر سے مات کھا گیا۔ میں اب وقت، حالات، سماج اور دماغ میں مچلتی سوچوں کے بھنور کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہوں۔ میں نے ہار مان لی ہے، تم بھی تو یہی چاہتی تھیں، جائو اب تم اپنی فتح کا جشن منائو!

میں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی دور جا رہا ہوں. تمہیں بھولنا بہت مشکل ہو گا، لیکن ناممکن نہیں! خدا تمہارا حامی و ناصر ہو!

۔۔۔

جمہوریت چپلی کباب نہیں ٹیڑھی کھیر ہے!
مرسلہ:سارہ شاداب،لانڈھی،کراچی
بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے۔ پس جمہوریت اور آئین کو کھایا نہیں جا سکتا۔ اس پر ایک چٹورا ہونٹ چاٹتا ہمارے پاس آیا اور بولا کہ اگر جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ جمہوریت اصل میں جوتیوں میں دال بٹنے کا معاملہ ہے۔ اس پر چٹورا بھڑکا اور بولا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ چپل سے چلے جوتی تک پہنچ گئے اور کباب سے چل کر دال پہ آرہے ہیں۔ میں نے آپ سے صرف اتنا پوچھا کہ جمہوریت اگر چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کون سا کباب ہے۔
اس نے پھر پوچھا کہ ’ڈکٹیٹر شپ‘ کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ کباب میں ہڈی۔۔۔! اس میں وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا کہ تمہیں یاد ہے کہ جب ایوب خان صاحب نے گول میز کانفرنس بلائی تھی تو لیڈر اچکنیں سلوا سلوا کر وہاں پہنچے تھے۔ وزارتوں کا اچھا خاصا نقشہ جم گیا تھا، مگر مولانا بھاشانی اڑ گئے کہ میں کانفرنس میں شامل نہیں ہوں گا۔ اس پس منظر میں ذرا سوچو کہ کباب میں ہڈی کون ہوا۔ ہم واقعی سوچ میں پڑ گئے۔ ٹالتے ہوئے بولے کہ یار یہ ٹیڑھی کھیر ہے، وہ تڑپ کر بولا، تمہارے منہ میں گھی شکر، اصل میں جمہوریت ٹیڑھی کھیر ہے۔
(انتظار حسین کی تصنیف ’قطرے میں دریا‘ سے ایک اقتباس)

۔۔۔

ایک بیاہی بیٹی کی
ماں کا گریہ۔۔۔!
مرسلہ:جاوید ستار،کولکتہ
صحیح کہتے تھے لوگ کنواری کھائے روٹیاں، بیاہی کھائے بوٹیاں۔۔۔ اِدھر ہمارا حلق تر نہیں ہو ریا، اُدھر سمدھیانوں کے پیٹ بھرے جائو۔۔۔! آئے کوئی انتہا تو ہو، سال کے سال بس ٹوکرے لاد کے بھیجے جائو۔۔۔ پھر بھی میری بچی کی جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔۔۔ کوئی عزت نہیں کوئی حیثیت نہیں، کتنا بھی ناوا خرچ کر دو ان منحوسوں پہ۔۔۔ ایک نکھٹو داماد کی خاطر تجوریاں لٹا دیں، اس کی منتیں کب تک کرتی رووں، بڑا سونے میں لاد رکھا ہے نا میری بچی کو ۔۔۔!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بجٹ 2019-20 تھا جس کا انتظار وہی وار ہوگیا

$
0
0

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے گیارہ جون کو مالی سال 2019-20 کے لیے 8238اعشاریہ1ارب روپے اخراجات کا بجٹ پیش کردیا ہے، جو کہ گذشتہ مالی سال کی نسبت38اعشاریہ9 فی صد زائد ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ہندسوں کی مدد سے خوب صورت پیکنگ میں3560 ارب خسارے کا ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے جو عوام کے لیے منہگائی ہی کا تحفہ لائے گا، اور عوام جلد ہی اس ’ عوام دوست‘ بجٹ کی منہگائی سے لطف اندوز ہونا شروع کردیں گے۔

اس سال کے بجٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں دفاعی بجٹ کو گذشتہ مالی میں مختص کی گئی رقم 1152 پر ہی برقرار رکھا گیا ہے۔ مالی سال 2018-19 کے بجٹ میں دفاع کے بجٹ میں ساڑھے انیس فی صد اضافے کے ساتھ ایک کھرب اسی ارب روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تاہم اب بھی یہ رقم تعلیم اور صحت کے لیے رکھی گئی رقم سے زیادہ ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وسائل کی دست یابی کا تخمینہ7899اعشاریہ 1ارب روپے رکھا ہے ، جب کہ مالی سال 2018-19میں یہ 4917اعشاریہ2  ارب روپے تھا۔ مالی سال 2019-20 کے لیے وفاقی محصولات کا ہدف گذشتہ مالی سال کی نسبت19فی صد زائد رکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر67 کھرب 17 ارب روپے کے محصولات ہوں گے۔

وفاقی محصولات میں صوبوں کے حصے کا تخمینہ 3254 اعشاریہ 5 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گذشتہ مالی سال کی نسبت 25 اعشاریہ7 فی صد زائد ہے، جب کہ وفاقی ادارہ برائے ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس وصولی کے لیے 5550 ارب روپے کا ہدف دیا گیا ہے۔ محصولات کی وصولی کے لیے صوبوں کا حصہ 3254 اعشاریہ 526 ملین روپے رکھا گیا ہے، جو کہ گذشتہ مالی سال کے نظرثانی شدہ اندازے سے 32 اعشاریہ 2فی صد زائد ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی ) کا 7اعشاریہ2  فی صد رکھا گیا ہے۔

عوامی خدمات کی ترقی (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1613 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے 912ارب روپے صوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2019-20 میں ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں گذشتہ سال کی نسبت 32فی صد زائد رقم تقسیم کی جائے گی جو کہ 3255 ارب روپے ہے ۔ آئندہ مالی سال میں نیٹ وفاقی ذخائر 3462 اعشاریہ ایک ارب تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو کہ مالی سال 2018-19 سے12اعشاریہ 80فی صد زائد ہے۔ مالی سال 2019-20 میں مجموعی اخراجات کا اندازہ 8238اعشاریہ 1 ارب روپے لگایا گیا ہے، موجودہ اخراجات  7288اعشاریہ 1ارب روپے ہیں۔ آئندہ بجٹ میں عوامی خدماتی شعبے میں اخراجات کا تخمینہ  5,607ارب روپے لگایا گیا ہے ، جو کہ موجودہ اخراجات کا 76اعشاریہ9فی صد ہے۔ پی ایس ڈی پی کے علاوہ ترقیاتی اخراجات کے لیے پی ایس ڈی پی کے علاوہ 85اعشاریہ 8ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کے عوام اور کاروباری طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بجٹ کے اہم نکات کے ساتھ اس کی مختصر تفصیل قارئین کی آگاہی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

٭ تمباکونوشوں اور میٹھے کے شوقین افراد کے لیے بُری خبر

آئندہ بجٹ میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ایف ای ڈی کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بالائی درجے میں دس ہزار سگریٹ پر ڈیوٹی کی شرح ساڑھے چار ہزار سے بڑھا کر 5200 روپے کردی گئی ہے، اور زیریں سلیب پردس ہزار سگریٹ پر 1650 روپے کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جب کہ چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فی صد کر دیا گیا ہے ، اس سے پہلے شکر پر چھے فی صد سیلز ٹیکس لاگو تھا۔

٭ایل این جی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی

آئندہ بجٹ میں لیکویڈ نائٹروجن گیس (ایل این جی) کی درآمد پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو17 اعشاریہ 18 روپے فی مکعب فٹ سے بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

٭ صحت کے شعبے پر ایک اور ضرب

مالی سال 2019-20میں صحت کے شعبے کے شعبے پر ایک اور ضرب لگائی گئی۔ آئندہ مالی سال میں صحت کے لیے مختص رقم میں دو ارب 75کروڑ روپے کی کمی کردی گئی۔ مالی سال2018-19میں صحت کے لیے 13 ارب 89 کروڑ 70 لاکھ روپے رکھے گئے تھے، لیکن نئے مالی سال میں صحت کا بجٹ 11 ارب 5 کروڑ80 لاکھ کردیا گیا ہے، جب کہ اسپتال کی خدمات کے لیے مختص بجٹ میں بھی 3 ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ گذشتہ مالی سال میں اسپتال کی خدمات کا بجٹ 11 ارب 65 کروڑ روپے تھا جسے مزید کم کرکے 8 ارب 70 کروڑ روپے کردیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، صحت کے بجٹ میں کٹوتی غریب عوام کے مصائب میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔

٭ درآمدی گاڑیاں سستی، مقامی گاڑیاں منہگی

نئے بجٹ میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے، جس کے بعد ایک ہزار سی سی تک انجن والی گاڑیوں پر ڈھائی فی صد، ایک ہزار سے دو ہزار سی سی طاقت کا انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 5 فی صد اور دو ہزار سی سی سے زائد طاقت کا انجن رکھنے والی مقامی گاڑیوں پر ساڑھے سات فی صد کے حساب سے ڈیوٹی وصول کی جائے گی ، جب کہ بجٹ  2019-20 میں بیرون ملک سے درآمد ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس میں رعایت دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

٭ ’’سخاوت‘‘ کی انتہا، تنخواہ، پینشن اور کم سے کم اُجرت میں اضافہ

مالی سال 2019-20میں کم از کم تنخواہ کو بڑھا کر 17ہزار500 کرنے کی تجویز دی گئی ہے، وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے مطابق گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کے لیے ایڈ ہاک کی مد میں 10 فی صد اور گریڈ 17 سے 20 کے ملازمین کے لیے ایڈ ہاک کی مد میں 5 فی صد اضافہ کیا جائے گا، جب کہ وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کی تنخواہ میں دس فی صد کمی کی جائے گی۔ آئندہ بجٹ میں پینشن میں دس فی صد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

وزیرمملکت نے عام سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں آٹے میں نمک کے برابر اضافہ کیا، جب کہ پرائیویٹ اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹریوں کی خصوصی تن خواہ میں کئی گنا اضافے کا اعلان کیا۔ یہ خاص افراد خصوصی تن خواہ کی مد میں پہلے ہی بہت زیادہ مراعات حاصل کر رہے تھے۔ اسی طرح پینشن کے معاملات میں بھی عوام اور خواص میں امتیاز روا رکھا گیا۔ آئندہ بجٹ میں کم اُجرت پانے والے افراد کی ماہانہ اُجرت ڈھائی ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ملک میں ہونے والی منہگائی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ڈھائی ہزار روپے کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ معمولی سا اضافہ تنخواہ دار ملازمین کی اور غیرسرکاری ملازمین کے طرز زندگی پر مثبت اثرات کرنے میں ناکام رہے گا۔

٭ وزارت برائے غربت مٹاؤ

آئندہ مالی سال میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک نئی وزارت کا قیام عمل میں لانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے تحت دس لاکھ شہریوں کو علاج معالجے کی سہولت کے لیے خصوصی صحت کارڈ اور عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس گھر پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں معذور افراد کو وہیل چیئرز اور خصوصی آلات دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

٭توانائی کا بحران، ترقیاتی بجٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی

بجٹ 2019-20 میں حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 23 ارب کی بچت کی جا سکے گی۔ حکومت کے اخراجات میں کمی کر کے اسے 460 ارب سے 437 ارب تک لایا جائے گا۔

بجٹ میں توانائی کے شعبے کو خاص ترجیح دیتے ہوئے حکومت نے گذشتہ سال کی نسبت زائد رقم مختص کی ہے۔ توانائی کے لیے 80 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، 15 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم، 55 ارب روپے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 20 ارب مہمند ڈیم کی زمین کے حصول کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ اس ترقیاتی بجٹ میں سے 950 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس سال بھی کالا باغ ڈیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جاسکی۔

تاہم عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کیے گئے گذشہ وعدوں کی طرح اس وعدے کے وفا ہونے کی بھی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔ مالی سال 19-2018 کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت نے صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 1863 ارب روپے مختص  کیے گئے ہیں، جس میں پانی کے نظام، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، پن بجلی سے کم لاگت بجلی کی پیداوار، انسانی ترقی اور کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے منصوبے شامل ہیں۔ شاہراؤں کی تعمیر کے لیے 200 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، جب کہ حویلیاں سے تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے، برہان تا ہکلا موٹر وے کے لیے 13ارب روپے، کراچی تا سکھر موٹر وے اور ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مالی سال 2019-20میں خضدارشہداد کوٹ موٹرویم 230 کلومیٹر طویل لاہور تا ملتان موٹروے، 62 کلومیٹر لمبی گوجرہ تا شورکوٹ موٹروے، 64 کلومیٹر لمبی شورکوٹ تا خانیوال موٹروے،91 کلومیٹر طویل سیالکوٹ تا لاہور موٹروے اور 57 کلومیٹر طویل ہزارہ موٹروے کی تعمیر کے لیے 310 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ 2019-20میں کوئٹہ اور کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکیج کے دوسرے مرحلے کے لیے دس ارب چالیس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں یہ رقم پانی اور سڑکوں کے لیے جاری تیس ارب روپے کے وفاقی منصوبوں کے علاوہ ہے۔ کراچی کے نو ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45ارب50کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے ۔

٭ تنخواہ دار طبقے کے سر پر لٹکتی ٹیکس کی تلوار

بجٹ  2019-20 میں چھے لاکھ روپے سالانہ سے کم آمدن والے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بارہ لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدن کو ٹیکس سے استثنا حاصل تھا۔ چھے لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور بارہ لاکھ روپے سے کم آمدن پر 5 فی صد، 12 لاکھ روپے سالانہ سے 18 لاکھ روپے کی تن خواہ پر 30 ہزار روپے اور 12 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 10 فیصد اضافی انکم ٹیکس، 18 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 25 لاکھ روپے تک تنخواہ پر 90 ہزار روپے اور 18 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 15 فیصد انکم ٹیکس، 25 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 35 لاکھ روپے تک تن خواہ حاصل کرنے والے پر ایک لاکھ روپے اور 25 لاکھ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے سترہ فی صد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

35 لاکھ روپے سے 50 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ لینے پر شخص کو 3 لاکھ 70 ہزار روپے اور 35 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 20 فی صد، 50 لاکھ روپے سے 80 لاکھ روپے سے سالانہ تک تنخواہ پر 6 لاکھ 70 ہزار روپے اور 50 لاکھ روپے سے رقم پر ساڑھے 22  فی صد، 80 لاکھ روپے سے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ تک تن خواہ پر 13 لاکھ 45 ہزار روپے اور 80 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 25 فی صد، ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے 3 کروڑ روپے سالانہ تک تن خواہ پر 23 لاکھ 45 ہزار روپے اور ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے 27 فی صد، 3 کروڑ روپے سے 5 کروڑ روپے سالانہ تک تنخواہ پر متعلقہ شخص سے 72 لاکھ 95 ہزار روپے اور 3 کروڑ روپے سے زائد رقم پر اضافی 30 فی صد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

5 کروڑ روپے سے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ایک کروڑ 32 لاکھ 95 ہزار روپے اور 5 کروڑ روپے سے زائد رقم پر ساڑھے 32 فی صد اور 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے فرد پر 2 کروڑ 14 لاکھ 20 ہزار روپے ٹیکس اور 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم پر 35 فی صد اضافی ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ فنانس ایکٹ 2018 میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی تھی، جب کہ اس سے قبل ابل ٹیکس آمدن کی کم ازکم حد 4 لاکھ روپے تھی، جسے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محصولات کی مد میں 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

٭زرعی شعبے پر خصوصی توجہ

بجٹ  2019-20میں زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی، لیکن اس شعبے سے ہونے والی آمد ن کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس رقم سے کسانوں کو ٹیوب ویل اور نہری اور بارانی زرعی اراضی رکھنے والے کاشت کاروں کو ترجیحی بنیادوں پر قرضے دیے جائیں گے۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے مطابق رواں سال زرعی شعبے میں 4 اعشاریہ 4فی صد کمی ہوئی، جسے دوبارہ اوپر لانے کے لیے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 280 ارب روپے کا ایک 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، جس کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا، جس کے لیے 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام شروع کیا جائے گا جب کہ چاول، مکئی، گندم، گنا اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے 44 ارب 80کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ کیکڑے اور ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9 ارب 30کروڑ روپے، گلہ بانی کے لیے 5 ارب 60کروڑ روپے فراہم کر نے کے ساتھ ساتھ زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی 6 روپے 85 روپے فی یونٹ کے رعایتی نرخ پر فراہم کی جائے گی ۔

٭خواتین کے لیے بُری خبر

بجٹ  2019-20کو کسی صورت خواتین کے لیے خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ حکومت نے کاسمیٹکس اور آرائش حسن کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں اضافہ کردیا ہے۔ بننا سنورنا خواتین کا فطری حق ہے۔ تاہم نئے بجٹ کے بعد اب انہیں اپنے حسن کے نکھار کے لیے گھریلو بجٹ میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ حکومت سے اس فیصلے سے مشکلات کا شکار پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات میں گھِر جائے گی۔ پاکستان میں بننے والی بیوٹی پراڈکٹس پر لاگو سیلز ٹیکس لیوی اور ڈیوٹی کی وجہ سے خواتین بھارت، چین اور دنیا کے دیگر ممالک سے اسمگل ہوکر آنے والے کم قیمت مصنوعات زیادہ خریدتی ہیں۔ حالیہ ٹیکس سے پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

٭ سود کی ادائیگیاں

آئندہ مالی سال کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ مالی سال  2019-20کے بجٹ میں2891 اعشاریہ4 ارب روپے حکومت کی جانب سے لیے گئے بین الاقوامی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔  اور اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا تو پھر حکومت کو اگلے مالی سال کے اخراجات کے لیے بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر ہی گزرا کرنا پڑے گا۔

٭بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں اضافہ

بجٹ  2019-20میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی رقم 180 ارب روپے کردی گئی ہے۔ اس اسکیم سے پہلے 50لاکھ لوگ مستفید ہورہے تھے، اب مزید اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے، جب کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

٭اشیائے خورونوش منہگی اور موبائل فون سستا!!

مالی سال 2019-20میں کھانے کے تیل پر ٹیکس کی شرح کو 17 فی صد کر دیا گیا، جب کہ موبائل فون کی درآمد پر عائد تین فی صد ویلیو ایڈیشن ٹیکس کو ختم کردیا گیا ہے جس سے موبائل فون کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی۔ نئے مالی سال میں عوام الناس کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ منرل واٹر، پیک دودھ دہی، پنیر، فلیورڈ ملک، مشروبات اور دیسی گھی پر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگا کر مزید منہگا کردیا گیا ہے۔ آئندہ بجٹ میں بیکری مصنوعات پر ٹیکس میں کمی اور خوردنی تیل، گھی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا کر 17فی صد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اور ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے بدلے میں اس پر لاگو ایک روپیہ فی کلو ٹیکس کے خاتمے اور خوردنی بیجوں پر ٹیکس رعایت کو ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ جب کہ خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

٭سیمنٹ کی فی بوری قیمت میں اضافہ

بجٹ میں سیمنٹ کی فی بوری پر 2 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے قبل سیمنٹ پر فی کلو ڈیڑھ روپیہ فی کلو ایکسائز ڈیوٹی نافذ تھی۔

The post بجٹ 2019-20 تھا جس کا انتظار وہی وار ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

سیل فون بنے موسمیاتی سیٹیلائٹ!

$
0
0

ٹیلی ویژن چینلز پر موسم کا حال تو بارہا آپ نے د یکھا ہوگا اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بھی سنی ہوں گی۔

ان پیش گوئیوں کی بنیاد ارضی مدار میں موجود موسمیاتی مصنوعی سیارے سے حاصل کردہ ڈیٹا ہوتا ہے۔ تاہم اب ایک کمپنی نے سیل فونز اور سڑکوں پر نصب کیمروں کی مدد سے موسم کی درست ترین پیش گوئی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ClimaCell امریکی موسمیاتی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جو موبائل فونوں سے خارج ہونے والے سگنلز اور سڑکوں پر نصب کیمروں سے حاصل کردہ شبیہوں کے تجزیے کے ذریعے موسم کی صورتحال بتاتی ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی موسمیاتی پیش گوئیاں موجودہ تمام اداروں بشمول نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن ( NOAA ) کی پیش گوئیوں کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ درست ہوتی ہیں۔

کلائما سیل کے اس دعوے کی صحت کے بارے میں ماہرین موسمیات کو شکوک و شبہات ہیں تاہم کچھ اس دعوے کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کمپنی آب و ہوا کے بدلتے تیوروں کی شناخت کے لیے روایتی ٹیکنالوجی سے مدد نہیں لیتی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کروڑوں اربوں موبائل فونوں سے خارج ہونے والے اشارات سے بھی موسم کی ’ مخبری‘ کا کام لیتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو آگے بڑھاتے ہوئے کلائما سیل ایک نئے ریاضیاتی ماڈل پر کام کررہی ہے جو موبائل فونوں سے حاصل کردہ اشارات کو موسمیاتی ڈیٹا میں تبدیل کرے گا اور پھر اس ڈیٹا کو سمولیشن میں استعمال کیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق اس ریاضیاتی ماڈل کے ذریعے کسی مخصوص خطے میں موسم کی صورتحال پر نظر رکھی جاسکے گی اور سبسکرائبر تازہ ترین اپ ڈیٹس بھی حاصل کرسکیں گے۔

The post سیل فون بنے موسمیاتی سیٹیلائٹ! appeared first on ایکسپریس اردو.

45 کلومیٹر کی دوری سے واضح ترین تصویر لینے والا کیمرا

$
0
0

چینی سائنس دانوں نے ایک ایسی حیران کُن کیمرا ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جس کی مدد سے 28 میل ( 45 کلومیٹر) کی دوری سے انسان یا اس کے مساوی جسامت رکھنے والی اشیاء کی واضح تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔

اوپن سورس جرنل ArXiv میں شایع شدہ ریسرچ پیپر میں محقق ژینگ پنگ لی کہتے ہیں کہ ہدف کی واضح ترین تصویر کھینچنے میں دھند یا فضائی آلودگی کی دیگر اقسام بھی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ ان کا توڑ کرنے کے لیے اس جدید کیمرا ٹیکنالوجی کو لیزر امیجنگ اور مصنوعی ذہانت کے حامل سوفٹ ویئر کا ساتھ فراہم کردیا گیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی ’ لائٹ ڈٹیکشن اینڈ رینجنگ ‘ ( LIDAR ) کہلاتی ہے۔ اگرچہ ماضی میں کئی کیمروں اور امیجنگ تیکنیکوں میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاچکا ہے مگر ژینک پنگ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک نئے سوفٹ ویئر کی مدد سے اس ٹیکنالوجی کو نئی بلندیوں پر پہنچادیا ہے جس کے بعد اس کا دائرہ کار 45 کلومیٹر تک وسیع ہوگیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی کیمرے اور ہدف کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹوں ( دُھند اور آلودگی) پر بھی قابو پانے کے قابل ہوگئی ہے۔

ژینگ لی کے مطابق ہدف اور کیمرے کے درمیان در آنے والی رکاوٹوں پر قابو پانے کی تیکنیک ’’gating ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس تیکنیک میں سوفٹ ویئر کیمرے اور ہدف کے درمیان دیگر اشیاء سے منعکس ہونے والے فوٹانوں کو نظرانداز کردیتا ہے۔ ہدف اور دیگر اشیاء سے منعکس شدہ فوٹانوں میں تمیز کرنے کے لیے کیمرا لیزر سے کام لیتا ہے۔ لیزر کی مدد سے یہ تعین ہوجاتا ہے کہ ہدف سے منعکس ہوکر کیمرے تک پہنچنے میں روشنی کتنا وقت لے رہی ہے۔ اس کی بنیاد پر سوفٹ ویئر کیمرے کو ناپسندیدہ فوٹانز سے صرف نظر کرنے کے قابل کردیتا ہے۔

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے موقر سائنسی جریدے ’ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو‘ میں شایع شدہ چینی تحقیق کی جائزہ رپورٹ کے مطابق کیمرا1550 نینومیٹر طول موج کی انفرا ریڈ شعاعوں سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کیمرا محفوظ رہتا ہے بلکہ اس طول موج کی شعاعیں اس انسان کی آنکھوں کے لیے بھی بے ضرر ہیں جس کی تصویر کھینچی جارہی ہے۔ انفراریڈ ریز کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ شعاعیں شمسی فوٹانوں سے تصویر کی حفاظت کرتی ہیں جو بعض اوقات کیمرے کی ریزولوشن کے ساتھ ’ چھیڑ چھاڑ‘ پر مُصر ہوجاتے ہیں۔

چینی محقق کی وضع کی گئی ٹیکنالوجی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں کیمرے کے ذریعے حاصل کیے گئے بصری ڈیٹا کو باہم مربوط کرکے ایک شبیہہ تشکیل دینے کے لیے نئے الگورتھم کا استعمال کیا گیا ہے۔

ژینگ لی کے مطابق ان کی وضع کردہ ٹیکنالوجی کے وسیع استعمالات سامنے آئیں گے مگر اس کی سب سے زیادہ افادیت جاسوسی، نگرانی اور ریموٹ سینسنگ کے شعبوں کے لیے ہوگی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جدید کیمرے کی جسامت جوتے کے ڈبے کے مساوی ہے چناں چہ اسے چھوٹے ہوائی جہاز یا خودکار گاڑیوں میں بہ آسانی نصب کیا جاسکے گا۔

چہروں کی شناخت (فیشیئل ریکگنیشن) کی ٹیکنالوجی پر چین میں سب سے زیادہ تحقیق ہورہی ہے۔ ژینگ لی کی ٹیکنالوجی کا ایک اور اہم استعمال انسانی نگرانی کے لیے ہوگا۔

The post 45 کلومیٹر کی دوری سے واضح ترین تصویر لینے والا کیمرا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>