Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

نہایت دل کش رواج، شہد کی مکھیوں سے سرگوشیاں

$
0
0

زمانۂ قدیم میں برطانیہ کے دیہی علاقوں کے سبھی چھوٹے اور بڑے گھرانوں میں ایک عجیب اور حیرت انگیز روایت عام تھی، وہ یہ کہ پہلی بات تو یہ تھی کہ ان سبھی گھروں میں شہد کی مکھیاں پالی جاتی تھیں اور دوسری بات یہ تھی کہ ان مکھیوں سے گھر میں ہونے والی ہر نئی اور انوکھی بات شیئر کی جاتی تھی، ہر راز انہیں بتایا جاتا تھا اور ان سے خوب سرگوشیاں بھی کی جاتی تھیں۔

ساتھ ہی یہ رواج بھی عام تھا کہ اگر کبھی کسی گھرانے میں کسی کی موت واقع ہوجاتی تو اس گھرانے کا کوئی فرد بڑی راز داری سے شہد کی مکھیوں کے چھتوں کے پاس جاتا اور اس عظیم سانحے کے بارے میں ان چھتوں میں رہنے والی تمام مکھیوں کو بتادیتا کہ اس گھر میں اتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے، اس طرح مذکورہ گھر کے لوگ یہ بات شہد کی مکھیوں کو بتاکر ان سے گویا ہمدردی بٹور لیا کرتے تھے۔

ان سبھی گھرانوں میں یہ رواج بھی تھا کہ اگر شہد کی مکھیوں کو یہ افسوس ناک خبر نہ دی جاتی تو شہد کی مکھیاں اس گھر والوں سے ناراض ہوجاتیں جس کے بعد یا تو وہ اپنے چھتے چھوڑ کر چلی جاتیں یا پھر مطلوبہ مقدار میں شہد پیدا کرنا بھی بند کردیتیں، یہاں تک کہ وہ خود بھی اپنی زندگیاں ہار جاتیں اور اپنی جانوں سے چلی جاتیں۔

اس دور کے قدیم گھرانوں کی یہ روایت بھی تھی کہ شہد کی مکھیوں کو اس گھر یا گھرانے میں ہونے والی ہر نئی بات سے پوری طرح باخبر رکھا جاتا تھا اور نہ صرف خاندان میں ہونے والی اموات سے آگاہ کیا جاتا تھا بلکہ دیگر معاملات کے بارے میں بھی بتایا جاتا تھا جن میں اس گھرانے میں نئے پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں بھی سب کچھ بتایا جاتا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ کب کس گھر میں کس لڑکی یا لڑکے کی فلاں گھرانے کی کس لڑکی یا لڑکے کے ساتھ شادی ہورہی ہے۔ جب کبھی اس گھرانے کے کسی فرد یا افراد کو بیرونی سفر پر جانا ہوتا تو اس کی طویل غیرحاضری کے بارے میں بھی سب سے پہلے شہد کی مکھیوں کو ہی آگاہ کیا جاتا تھا۔ ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا یعنی شہد کی مکھیوں کو اس بارے میں کچھ نہ بتایا جاتا تو ان گھرانوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی تھیں، نہ جانے کیسی کیسی تباہیاں اور بربادیاں اس گھرانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھیں۔ اس عجیب و غریب رواج کو عام لوگ اپنی زبان میں “telling the bees” کہا کرتے تھے، یعنی شہد کی مکھیوں کو اپنے ہر راز سے آگاہ کرنا!

انسان کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا اور سوچا جاتا ہے کہ اس کے شہد کی مکھیوں کے ساتھ بہت خاص قسم کے روابط ہوتے ہیں۔

ازمنہ وسطی یورپ میں شہد کی مکھیوں کا ایک دور میں بہت احترام کیا جاتا تھا، انہیں ان کے اعلیٰ قسم کے شہد اور موم کی وجہ سے بڑے بڑے انعامات بھی دیے جاتے تھے۔ شہد کی مکھیوں کا پیدا کردہ اعلیٰ قسم کا شہد بہ طور خوراک یا دوا استعمال کیا جاتا تھا، اس سے نہایت نفیس قسم کے مشروب بھی تیار کیے جاتے تھے، قدیم دنیا میں ہر طرح کے پیچیدہ امراض میں علاج کے لیے اسی شہد سے دوائیں بھی تیار کی جاتی تھیں ، اس کی تیار کردہ دواؤں سے خاص طور سے جلنے کے باعث آنے والے زخموں کا علاج بھی کیا جاتا تھا۔ کھانسی کی بیماری کا علاج بھی اسی شہد سے ہوتا تھا، اس کے علاوہ نظام ہضم کی خرابی اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے بھی شہد کو ہمیشہ سے ہی اعلیٰ دوا اور تریاق سمجھا جاتا تھا۔ ایک بات ہمیشہ سے یہ بھی مشہور تھی بلکہ آج بھی ہے کہ شہد کی مکھیوں کے چھتوں کے موم سے تیار کردہ موم بتیاں جلنے کے بعد زیادہ روشنی دیتی تھیں، یہ موم بتیاں زیادہ دیر تک بھی جلا کرتی تھیں اور ان کی روشنی دیگر موم بتیاں کی روشنی کے مقابلے میں بہت صاف اور واضح ہوتی تھی۔

قدیم انگلستان میں عام طور سے شہد کی مکھیوں کے چھتے خانقاہوں یا پھر جاگیرداروں کی کوٹھیوں میں لگائے جاتے تھے اور ان کی پرورش بڑے اہتمام، توجہ اور احترام سے کی جاتی تھی اور ان شہد کی مکھیوں کو اپنے گھر کے افراد یا کمیونٹی کے رکن والا احترام دیا جاتا تھا۔ اس کی ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ شہد کی مکھیوں کی اتنی عزت کی جاتی تھی کہ ان کے سامنے افراد آپس میں نہ تو لڑتے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے کی بے عزتی کرتے تھے۔

چناں چہ telling the bees یا شہد کی مکھیوں سے سرگوشیوں کا یہ سلسلہ Celtic mythology یا کلٹی اساطیریات سے تعلق رکھتا تھا جہاں اس کی بنیاد رکھے جانے کے ثبوت ملتے ہیں۔ کلٹی اساطیریات میں شہد کی مکھیوں کا تعلق ہماری اس دنیا اور روحوں کی دنیا سے ملتا ہے، اس لیے اگر آپ کو روحوں کی دنیا میں اپنے کسی آنجہانی دوست یا رشتے دار کو کوئی خاص پیغام بھیجنا ہے تو یہ کام بہت آسان ہے، آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ مذکورہ پیغام شہد کی مکھیوں تک پہنچادیں اور وہ آپ کا یہ پیغام آپ کے دنیا سے گئے ہوئے دوست یا رشتے دار تک نہایت محفوظ انداز اور سرعت سے پہنچادیں گی۔

Telling the bees کا یہ سلسلہ لگ بھگ پورے کے پورے یورپ میں وسیع پیمانے پر رائج تھا اور پھر یہ یورپ بھر میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک قوم سے دوسری قوم تک پہنچتا اور فروغ پاتا رہا جس کے نتیجے میں یہ عظیم روایت یورپ سے نکل کر مزید آگے تک پھیلتی چلی گئی اور جلد ہی اس نے بحر اوقیانوس کے پار اور شمالی امریکا میں بھی اپنی جڑیں مضبوطی سے جمالیں۔

Telling the bees کا نہایت پیچیدہ اور مشکل ترین طریقہ کوئی ایسا سادہ اور آسان کام نہ تھا، اس کے لیے صرف یہ کرنا ہوتا تھا کہ پہلے وہ بات جو آگے بتانی اور پھیلانی ہوتی تھی، وہ گھر کے بڑے یا گھر والی کو بتادی جاتی جس کے لیے گھر سے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کے چھتے کے پاس جانا پڑتا تھا۔

اس کے بعد شہد کی مکھیوں کے چھتے پر نہایت نرمی اور آہستگی سے دستک دی جاتی تاکہ شہد کی مکھیوں کی توجہ حاصل کی جاسکے جس کے بعد چھتے کے پاس کھڑے ہوکر نہایت دھیمی اور مدھم آواز میں یعنی بھن بھناتے ہوئے موسیقی کی سی دھن میں مذکورہ خبر شہد کی مکھیوں کی سنادی جاتی۔ لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صدیوں کے اس سفر کے دوران چھوٹے چھوٹے بندوں پر مشتمل نظمیں یا قافیے بھی بنتے چلے گئے جو ہر خاص علاقے سے جڑے تھے اور وہ خبر کی صورت میں اسی انداز سے دہرائے جانے لگے۔

ناٹنگھم شائر میں یہ دستور تھا کہ مرنے والے کی بیوی شہد کی مکھیوں کے چھتے کے سامنے کھڑے ہوکر نہایت دھیمی آواز میں وہ گیت یا نظم گاتی تھی جس میں وہ موت کے فرشتے سے مخاطب ہوتی تھی اور یہ کہتی تھی:’’اے موت کے فرشتے تو یہاں سے چلا جا، ہوسکتا ہے کہ تیری بیوی تیرے لیے اچھی ہو، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تو اس کے پاس واپس چلا جا۔۔۔‘‘

جرمنی میں بھی اسی انداز کی شاعری سنی جاتی تھی جس میں کہا جاتا تھا:’’اے چھوٹی شہد کی مکھی، ہمارا لیڈر مرچکا ہے، تم میرے لیے اور مسائل کھڑے نہ کرو۔‘‘

Telling the bees کی یہ روایت نیو انگلینڈ میں بھی عام تھی۔ انیسویں صدی کا امریکی شاعر جان گرین لیف وھٹیئر اس عجیب و غریب رواج کو اپنی 1858 کی ایک نظم “Telling the bees” میں اس طرح بیان کرتا ہے:

ان کے سامنے باغ کی دیوار کے نیچے

آگے اور پیچھے

وہ چھوٹی سی لڑکی گاتی ہوئی جارہی تھی

اس نے سیاہ کپڑے سے ہر چھتے کو ڈھانپ رکھا تھا

میں نے اس کی لرزتی ہوئی آواز سنی:

گرمی کے سورج میں

برف کی سردی اور ٹھنڈک تھی

میں جانتا تھا کہ وہ چھوٹی لڑکی شہد کی مکھیوں کو کسی کی موت کی خبر سنا رہی ہے، وہ کسی کے طویل سفر پر جانے کی اطلاع دے رہی ہے۔۔ جہاں ہم سبھی کو جانا ہے!

اور وہ جو گیت گا رہی تھی، وہ میرے کانوں میں بس گیا تھا۔۔۔۔وہ مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔۔۔۔

’’اے پیاری شہد کی مکھیو! اپنے گھروں میں رہو، یہاں سے اڑکر کہیں مت جاؤ، ہماری مسٹریس میری مرگئی ہے اور وہ دنیا سے جاچکی ہے۔‘‘

موت کی صورت میں شہد کی مکھیوں کے رکھوالے اپنے چھتوں کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپ دیا کرتے تھے، اگر خاندان میں کوئی شادی وغیرہ ہوتی یا ہونے والی ہوتی تو ان تمام چھتوں کو سجایا اور سنوارا جاتا اور ان چھتوں کے باہر کیک کے ٹکڑے بھی رکھ دیے جاتے جو ان مکھیوں کے لیے ہوتے تھے، تاکہ وہ بھی خاندان کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔

اس کے علاوہ نئے شادی شدہ جوڑوں کو گھر میں شہد کی مکھیوں کے چھتوں کے پاس لے جاکر ان سے اچھی طرح متعارف کرایا جاتا، کیوںکہ یہ ان گھر والوں کا عقیدہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نئے شادی شدہ جوڑے اچھی اور خوش حال زندگی نہیں گزار سکیں گے۔

اگر شہد کی ان مکھیوں کو ایسی اندوہ ناک خبروں سے آگاہ نہ کیا گیا تو اس خاندان کے ساتھ نہ جانے کیسے کیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، یہ عقیدہ تھا ان سب لوگوں کا، یہاں تک کہ شہد کی مکھیوں کے وہ چھتے خریدنے والا فرد بھی معاشی بدحالی کا شکار ہوسکتا تھا۔

Margaret Warner Morley ایک وکٹورین بایولوجسٹ ہے، اس نے اپنی کتاب The Honey-Makers (1899) میں لکھا تھا کہ نارفوک میں ایک ایسا کیس پیش آیا تھا جہاں ایک آدمی نے شہد کی مکھیوں کا ایک چھتا خریدا جو ایک ایسے فرد کی ملکیت تھا جو دنیا سے جاچکا تھا، اس چھتے کا سابق مالک شہد کی مکھیوں کو ماتم و سوگواری میں مبتلا نہیں کرسکا تھا، اس لیے وہ تمام مکھیاں بیمار ہوگئیں، جب مکھیوں کے نئے مالک نے اس چھتے کو سیاہ ماتمی کپڑے میں لپیٹا تو شہد کی مکھیاں ٹھیک اور تن درست ہوگئیں۔

ایک اور کہانی میں لکھا ہے کہ ایک آکسفورڈ شائر کا خاندان سترہ چھتوں کا مالک تھا کہ ان کا مالک مرگیا۔ چوں کہ انہیں کسی نے بھی اس کی موت کے بارے میں نہیں بتایا تھا، اس لیے شہد کی ہر مکھی مرگئی۔ اس کتاب میں ایسی متعدد کہانیاں شامل ہیں۔

Telling the Bees, by Albert Fitch Bellows. circa 1882شہد کی مکھیوں اور ان کی نگہ داشت کرنے والوں کے درمیان ایک خاص قسم کے تعلق اور پیار کے حوالے سے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں جن کے باعث متعدد لوک داستانیں بھی وجود میں آچکی ہیں۔ ایک لوک کہانی میں بتایا گیا ہے شہد کی مکھیوں کے ان چھتوں کو بیچنے یا خریدنے کی وجہ سے انسان کی قسمت کھل بھی سکتی ہے اور وہ بدقسمتی کے چنگل میں بھی پھنس سکتا ہے۔ اسی لیے کچھ کہانیوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایسے چھتوں کی خرید و فروخت نہیں کرتے تھے، بلکہ انہیں بارٹر سسٹم کے تحت دوسری چیزوں کے بدلے لے لیا کرتے تھے یا دے دیا کرتے تھے یا بہ طور تحفہ دے دیا کرتے تھے۔

ایک کہاوت یہ مشہور ہے کہ اگر کسی گھر کے اندر شہد کی کوئی مکھی اڑے تو جلد ہی کوئی اجنبی کال کرے گا، اگر شہد کی یہ مکھیاں چھت پر بیٹھ جائیں تو جلد ہی خوش قسمتی اپنا زور دکھاتی ہے۔

لیکن انسان اور شہد کی مکھیوں کے درمیان محبت اور پیار کا رشتہ توہمات سے کافی دور اور الگ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شہد کی مکھیاں انسان کے بہت کام آتی ہیں، وہ اس کے لیے صحت اور خوش حالی بھی لاتی ہیں اور دولت اور تونگری بھی۔

The post نہایت دل کش رواج، شہد کی مکھیوں سے سرگوشیاں appeared first on ایکسپریس اردو.


ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد

$
0
0

فرد کی طرح معاشرہ بھی بیمار ہوتا ہے۔

جی ہاں، اور جس طرح کوئی مرض فرد کو بے چین اور مضمحل کرتے ہوئے اس کی قوتِ ارادی کو زائل اور وجود کو کھوکھلا کردیتا ہے، بالکل اسی طرح کا معاملہ معاشرے کو لاحق ہونے والی بیماری اُس کے ساتھ کرتی ہے۔ اُس کے اجتماعی رگ و ریشے میں بے چینی پھیلاتی اور اُسے نڈھال کردیتی ہے۔ بیماری کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ اُسے موت کے منہ میں دھکیلتی رہتی ہے اور بالآخر اذیت دہ انجام سے دوچار کرتی ہے۔ فرد کی طرح معاشرے میں بھی بیماری کی علامات بہت دیر تک پوشیدہ نہیں رہتیں، بلکہ نمایاں ہوکر بیماری کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارا معاشرہ اسی صورتِ حال کا اظہار کررہا ہے۔

ہمارے معاشرتی وجود کو لاحق بیماری کا اظہار جو علامتیں کررہی ہیں، اُن میں سے ایک عدم برداشت کا رویہ بھی ہے۔ امیر غریب، پڑھے لکھے ان پڑھ، دین دار دنیا دار، ترقی یافتہ پس ماندہ، وسیع کنبے والے تنہا افراد— غرضے کہ اپنے معاشرے کے کسی بھی گروہ کو دیکھ لیجیے، آپ کو اس بات کا اندازہ بہت جلد ہوجائے گا کہ ہمارے یہاں عدم برداشت کا رویہ نہایت تشویش ناک حد تک پایا جاتا ہے۔ اس کا اظہار ہم سب کرتے ہیں اور کسی بڑے مسئلے، کسی نازک صورتِ حال یا کسی اَن ہونی پر نہیں، بلکہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں اور بے حد معمولی چیزوں پر بھی۔ یہاں تک کہ اُس صورتِ حال میں بھی جب بات کو ہنس کر ٹالا جاسکتا ہے یا کاندھے اُچکا کر موضوع کو بدلا جاسکتا ہے، ہمارے یہاں لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ یہ نقشہ بتا رہا ہے کہ عدم برداشت کا رویہ ہمارے یہاں کس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کسی معاشرے میں عدم برداشت کی بیماری پیدا کب ہوتی ہے؟ اُس وقت ہوتی ہے جب اُس میں تعصب کا وائرس پھیل جاتا ہے۔ تعصب کا وائرس کسی معاشرے میں کب پھیلتا ہے؟ اُس وقت جب اس کے افراد ہر بات میں خود کو درست اور باقی سب کو غلط سمجھتے لگتے ہیں۔ اور ایسا کب ہوتا ہے؟ اُس وقت ہوتا ہے جب ہر شخص اپنی جگہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ آدمی ایسا کب اور کیوں سمجھتا ہے؟ اُس وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنے استحقاق سے زیادہ کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے کو اپنا حق اور لازمی گردانتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عدم برداشت کی بنیاد اصل میں حرص و ہوس پر ہے۔ یہ کبھی محرومی، کبھی حق تلفی، کبھی خود رحمی اور کبھی خود پسندی کے احساس کی صورت میں انسانی ذہن کے راستے معاشرے کے اجتماعی وجود میں داخل ہونے والی بیماری ہے اور ایک بار راستہ پاجائے تو معاشرے کے وجود سے اس کی روح کو نکال باہر کرتی ہے۔ روح نکل جانے کے بعد جو حال انسانی وجود کا ہوتا ہے، وہی معاشرے کا ہوتا ہے، یعنی مٹی کا ڈھیر۔

ہمارے یہاں عدم برداشت کا عالم اس وقت یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کی بات سننا، اُن کے مؤقف کو سمجھنا اور انھیں وہ حق دینا قطعی طور پر چھوڑ دیا ہے جو ہم اپنے لیے طلب کرتے ہیں۔ اب ہم اختلافِ رائے کو مخالفت اور دشمنی باور کرتے ہیں۔ ہم اب اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ دیکھیں اور غور کریں کہ کسی مسئلے یا کسی الجھن کے ایک سے زیادہ پہلو بھی ہوسکتے، بلکہ ہوتے ہیں، اور کسی کے لیے کوئی پہلو اور کسی کے لیے کوئی دوسرا پہلو زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اب ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ایک سے زائد آرا اور مختلف نکتہ ہاے نظر تو دراصل اس دنیا کی رنگارنگی کے مظہر ہیں۔ یہ تنوع اس کائنات کی فطرت کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یکسانیت کا احساس جمود بن جائے اور آدمی کا دم گھٹ جائے۔ مکمل یکسانیت بے حس مشینوں میں ہوسکتی ہے، زندہ انسانوں میں نہیں۔ جس طرح انسانوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اسی طرح اُن کے سوچنے، دیکھنے اور سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہر ایک مسئلے اور معاملے میں حرف بہ حرف اتفاق تو سگے اور خون کے رشتے میں بھی ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی ضروری۔

یہ جو عدم برداشت کا عفریت ہے، یہ ہمارے یہاں ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ہماری عمر کے جن لوگوں کے حافظے میں چالیس پینتالیس برس اور اس کے پہلے کی دنیا ہے، وہ اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ اس معاشرے میں جینے کے رنگ ڈھنگ یہ نہیں تھے جو آج دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پہلے لوگوں میں برداشت اور تحمل کا مادّہ بہت تھا۔ انسان کو سب سے پہلے اس کی انسانی حیثیت میں دیکھا جاتا تھا، اس کے عقائد، سماجی مرتبے، قوم قبیلے، رنگ و نسل اور زبان میں کسی کو تعصب کی بنیاد نہیں بنایا جاتا تھا۔ انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق ایسے سب تعصبات سے بالاتر تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فرشتوں کا معاشرہ تھا اور اس میں کوئی جھگڑا، اختلاف یا دنگا فساد نہیں ہوتا تھا۔ کسی سے کوئی تعصب ہی نہیں برتا جاتا تھا اور نہ ہی کسی کا استحصال ہوتا تھا۔ نہیں، ایسا تو نہیں تھا۔ جھگڑا اور اختلاف بھی ہوتا تھا، کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہوتی ہوگی، لیکن اس کا تناسب اس قدر کم تھا کہ وہ معاشرے کے مجموعی قوام پر اثر انداز نہیں ہوپاتا تھا۔ اکثریت کا دل اور دامن دونوں صاف رہتے تھے۔ چناںچہ معاشرے میں بگاڑ کی وہ صورت نہیں تھی جو کہ اب نظر آتی ہے اور نہ ہی خوف اور گھٹن کا وہ عالم تھا جو آپ اور ہم محسوس کرتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ جوش ایسا (بقولِ خود) رندِ خراباتی بابا ذہین شاہ تاجی ایسے صوفی کی محفلوں میں جاکر بیٹھتا اور اُن کے مریدوں کے سامنے اُن کو مخاطب کرکے کہتا کہ یہ کیا تم نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ یہ بھی اُسی معاشرے میں ہوا تھا کہ جوش کو مولانا مودودی کی علالت کی اطلاع ملی اور وہ عیادت کے لیے اسپتال گئے اور پوچھا کہ مرض کی تشخیص کیا ہوئی ہے؟ بتایا گیا کہ گردے میں یا پتے میں پتھری ہے تو فوراً جواب آیا کہ مولانا اس کا مطلب ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کررہا ہے۔ اس پر خود جوش صاحب یا مودودی صاحب ہی نے قہقہہ نہیں لگایا، بلکہ اور بھی جو لوگ موجود تھے، سب کے سب اس زعفران زار محفل کا حصہ بن گئے۔ اللہ اللہ! کیسا معتدل، انسان دوست، کشادہ دل اور عالی ظرف معاشرہ تھا۔ فرد میں اور سماج میں یہ اوصاف اس لیے تھے کہ کوئی کسی کی نیت پر شبہ نہیں کرتا تھا۔ بات کو بات کی حد تک سنا اور سمجھا جاتا تھا۔ اس کے ڈانڈے خواہ مخواہ کسی فتنے یا فساد سے نہیں جوڑے جاتے تھے۔ آدمی کے کردار پر شک نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کا کوئی عمل اُس کے رشتے، محبت اور حیثیت کی نفی نہیں کرتا تھا۔ آدمی تک آدمی کی حرارت ہر حال میں پہنچتی رہتی تھی۔

ایک زمانے میں عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے تینوں بیٹوں سے ہماری ملاقاتیں رہیں۔ ہم نے شاہ جی کے بارے میں ایک واقعہ سنا تھا کبھی۔ منجھلے بیٹے عطاء المحسن صاحب سے اس کی تصدیق چاہی۔ شاہ جی لمبی لمبی تقریریں کیا کرتے تھے اور زبان کی حلاوت کا اثر یہ کہ مجمع رات رات بھر شاہ جی کو سنتا اور جھومتا رہتا۔ ایک بار کسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے۔ تقریر رات کو کسی وقت شروع ہوئی اور فجر کی نماز کے آس پاس کہیں جاکر ختم ہوئی۔ گاؤں کے وڈیرے ملک صاحب یا چودھری صاحب وہ جو بھی تھا، اس نے نمازِ فجر کے بعد ناشتے کا اہتمام اپنے یہاں کیا ہوا تھا۔ شاہ جی کے ساتھ گاؤں کے اور کچھ اشراف بھی مدعو ہوں گے۔

اب صورت یہ ہے کہ ناشتا بس لگا چاہتا ہے۔ گپ شپ چل رہی ہے۔ اس زمانے کے گھروں میں رفعِ حاجت کے لیے نظام یہ نہیں تھا جو آج ہے اور گھر کے ہر کمرے میں اس طرح فلیش سسٹم باتھ روم نہیں ہوا کرتے تھے۔ عام گھروں میں کیا چودھریوں کی حویلی میں بھی نہیں۔ بہت ہوا تو دو جگہ یہ انتظام ہوگیا، یعنی ایک زنانے میں اور دوسرا مردانے میں۔ مہتر یا مہترانی صفائی کے لیے آیا کرتے تھے۔ اُس وقت شاہ جی کی جہاں نشست تھی، سوئے اتفاق، وہیں سے مہتر کا گزر ہوتا۔ سو وہ اپنے وقت پر کام کے لیے پہنچا۔ یہ بھی اتفاق کہ اُس وقت وہاں کوئی نوکر چاکر نہ تھا کہ اسے آگے بڑھنے سے روکتا کہ پھر آجانا، ابھی مہمان بیٹھے ہیں۔ اسے مہمانوں کی موجودگی میں وہاں پاکر چودھری صاحب چراغ پا ہوئے۔ اب یہ ہے کہ وہ وہاں کھڑا ہے اور چودھری صاحب اُس کی اِس ناوقت لغزش پر برافروختہ ہیں اور جھاڑ پلا رہے ہیں۔

وہ جیسے زمین میں گڑا ہے کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ شاہ جی معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اُس کی مدد ضروری سمجھتے ہیں، کہتے ہیں، اچھا بھئی اب آگیا ہے تو جاکر اپنا کام بھی نبیڑآ۔ مہتر کیا جانے یہ بزرگ کون ذات شریف ہیں۔ سو وہ ڈرتے جھجکتے چودھری صاحب کی طرف نظریں اٹھاتا ہے۔ وہاں اب خاموشی ہے جسے وہ اجازت کا کنایہ جانتا ہے اور تیزی سے کام کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔ کام کرکے لوٹتا ہے تو اس سے بھی زیادہ برق رفتاری سے اس جگہ گزرنا چاہتا ہے کہ پھر وہی بزرگ آواز لگاتے ہیں، بھئی کام نبیڑ لیا ہے تو جا اب ہاتھ دھوکر آجا، ناشتا ہمارے ساتھ کرلے۔ شاہ جی بات کرتے ہیں اور چودھری سمیت سارا مجمع گم صم۔ کس میں ہمت کہ شاہ جی کی بات کاٹے یا کہے کہ نہیں، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔

اُدھر مہتر کو یقین ہی نہیں آتا کہ کیا سن رہا ہے۔ حیرت، بے یقینی اور خوف کے ملے جلے جذبات سے رک کر نظریں اٹھاتا ہے۔ بزرگ کا مسکراتا ہوا چہرہ حوصلہ دلاتا ہے تو وہ کہتا ہے، میں— میں جی! میں تو چوڑا۔ شاہ جی کہتے ہیں، او بھئی تو بندہ بھی تو ہے۔ یہاں بندے ہی ناشتا کرنے بیٹھے ہیں۔ جا تو بھی ہاتھ دھو کر آجا۔ اب اس نے پھر ہمت کرکے چودھری صاحب کے چہرے کی طرف نظریں اٹھائیں۔ وہاں مکمل خاموشی ہے، لیکن تناؤ نہیں، اطمینان ہے۔ گومگو کی کیفیت میں وہ آگے بڑھ گیا۔

اب وہ اُس گھر کے کسی ملازم کو دیکھ کر اس کی طرف لپکا ہوگا اور پوچھا ہوگا کہ بھائی یہ بتا آخر یہ بزرگوار کون ہیں کہ ایسا کرنے کو کہتے جیسا میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا، ارے دیکھنا تو کجا سوچا تک نہیں۔ کون ہستی ہیں یہ کہ ان کے سامنے کسی کی نہیں چلتی، اور تو اور چودھری صاحب بھی چپ ہیں۔ بتانے والے نے اپنے انداز سے بتایا ہوگا، لیکن اُس کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اضطراب کی لہر جیسے جسم میں دوڑنے لگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا، کیا کرے۔ باقی گھروں کا کام چھوڑ وہ الٹا اپنے گھر لوٹ جاتا ہے۔ پھر لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ ہاتھ دھوکر نہیں لوٹا، بلکہ نہا دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر پلٹا ہے۔ شاہ جی اُسے آتا ہوا دیکھتے ہیں تو ذرا سرک کر اپنے پاس جگہ بناتے ہوئے کہتے ہیں، آجا بھئی، یہیں آجا۔ یہ جھجھکتا کانپتا قریب ہوتا ہے اور بھیگی آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ کہتا ہے، شاہ جی لقمہ بعد میں لوں گا پہلے کلمہ پڑھا دیں۔ اللہ غنی!

شاہ جی تو بڑے آدمی تھے اور زمانہ بھی خاصا پہلے کا ہے، ایک واقعہ چار پانچ عام سے نوجوانوں کا سن لیجیے اور بات بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ یہی کوئی چونتیس چھتیس برس پہلے کی ہے۔ یہ نوجوان بھی ایسے ہی تھے، جیسے ہر زمانے کے اکثر نوجوان ہوا کرتے ہیں۔ پڑھنا پڑھانا تو جو تھا سو تھا، اچھلنے کودنے اور کھیلنے کھلانے کے زیادہ شوقین تھے۔ اس لیے اسکول کی ہاکی اور کرکٹ دونوں ٹیموں کا حصہ تھے۔ کالج میں آئے تو کرکٹ کے ہورہے۔ ایک روز میچ کھیل کر واپسی ہورہی تھی۔ سب کے سب ایک سے تھے، کھلنڈرے اور شوخ۔ بس ایک ذرا سا الگ نظر آتا تھا کہ وہ شیو نہیں بناتا تھا۔ باپ کا، نانا یا دادا کا اثر تھا کہ نوجوانی میں ڈاڑھی رکھ لی تھی۔ سائیکل چلاتے ہوئے اس نے مغرب کی اذان سنی تو ساتھیوں سے کہا، آؤ نماز پڑھتے ہیں۔ ہمہ یاراں بہشت۔ سب نے اثبات میں سر ہلایا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ایک احاطے پر نگاہ پڑی۔ آثار عبادت گاہ کے تھے اور گیٹ یوں کھلا ہوا جیسے کبھی بند ہی نہ کیا جاتا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب مسجدیں اور امام بارگاہیں خوف اور وحشت کی سرحد سے باہر ہوا کرتی تھیں۔ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا تک نہ تھا۔

خیر، نوجوانوں کا یہ قافلہ سائیکلوں کے ساتھ احاطے میں داخل ہوا۔ سائیکلیں کھڑی کیں، بلا، پیڈ اور وکٹ وغیرہ ان پر جمایا اور سب کے سب وضو کرنے جابیٹھے۔ وضو کرکے جب اندر پہنچے تو وہاں آدم نہ آدم زاد۔ سمجھ گئے کہ امام بارگاہ میں آگئے۔ یہاں مغرب ذرا دیر میں ہوگی۔ شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں۔ اتنے میں امام بارگاہ کے خادم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سنی لڑکے ہیں، اس لیے وضو کرکے وقت سے پہلے آن پہنچے، ان کی طرف قدم بڑھائے اور قریب آکر کہا، یہاں تو ابھی اذان نہیں ہوئی، تھوڑی دیر ہے۔ تم اپنی نماز پڑھ لو اِدھر۔ لڑکوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ڈاڑھی والا امام بن کر کھڑا ہوا، باقیوں نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو خادم کو صحن میں کچھ کام کرتے دیکھا۔ اس کے پاس جاکر ہاتھ ملایا۔ اس نے کہ سن رسیدہ تھا، نوجوانوں کو سلامتی اور آبادی کی دعا دی۔ یہ سائیکلوں پر سوار ہوئے اور پھر اسی طرح ہنستے بولتے اپنے رستے پر چل دیے۔

ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے۔ ایک بچہ پہلی یا دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ اسے صبح میں تو اس کے والد اسکوٹر پر بٹھا کر اسکول لے جاتے ہیں، لیکن دوپہر میں جب چھٹی ہوتی ہے تو سائیکل پر ملازم لینے آتا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں معمول یہ ہے کہ ملازم راستے میں ایک گھر کے آگے سائیکل روکتا ہے۔ وہاں ایک بڑے میاں چھاؤں میں چارپائی ڈالے بیٹھے ہیں۔ سرھانے کی طرف گھڑونچی پر ایک صراحی دھری ہے اور اس پر اسٹیل کا گلاس اوندھا رکھا ہے۔ ملازم سائیکل روکتا تو بچہ بھی سائیکل سے اترتا ہے۔ دونوں جاکر بڑے میاں کو سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے ہیں۔ وہ انھیں چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود اٹھتے ہیں اور صراحی سے پانی گلاس میں انڈیل کر پہلے بچے کو دیتے ہیں۔

وہ پانی پیتا ہے، کبھی پورا نہیں پی پاتا تو گلاس میں پانی بچ بھی جاتا ہے۔ اسی بچے ہوئے پانی میں بڑے میاں اور پانی انڈیل کر ملازم کو دیتے ہیں۔ وہ پی کر گلاس واپس کرتا ہے تو بڑے میاں اپنے لیے پانی لیتے ہیں اور اُن کے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے سے پڑھائی اور اسکول کی دو ایک باتیں کرکے پھر وہ ملازم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہاں بھئی رامو، تمھاری ماتا جی کب آرہی ہیں گڑگاؤں سے؟ دیکھو، تم پہلے ہی اُن کو چٹھی لکھ کے بھیج دو کہ اب کی وہ تمھارا گھر بسا کے یہاں سے لوٹیں۔ پہلے تمھاری پتنی گھر میں لاکے بسائیں پھر خود واپس جائیں۔ رامو کھی کھی کرکے دانت نکوستا ہے اور کہتا ہے، ماشٹر جی! مجھے شرم لگتی ہے، اپنے منہ سے کیسے کہوں ماتاجی سے۔ ماسٹر جی، رامو کی حیاداری سے محظوظ ہوتے ہیں، لیکن اس جواں سال آدمی کی آنکھوں میں گھر بسنے کے ذکر پر پیدا ہونے والی چمک سے بھی خوش ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں، ارے یار تم مجھے لادو ماتا جی کا پتا، میں خود بہن جی کو خط لکھوں گا اور ساری بات پکی کرلوں گا۔ اُس وقت تو پانچ چھے برس کے بچے کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا، لیکن آج بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے وہ اُس گئے زمانے کو یاد کرتا ہے تو سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ وہ بڑے میاں— ’’ماشٹر جی‘‘ کسی اسکول میں پڑھانے والے ماسٹر جی تھے یا کوئی ولی تھے، اور وہ رامو— جس کا پورا نام رام لعل تھا، رام دین تھا یا رامانند یا پھر خدا جانے کچھ اور— وہ کھتری نوجوان ماسٹر جی کو واقعی کیسا عزیز تھا کہ اس ہندو کو پانی پلا کر وہ گلاس دھوئے بغیر پانی انڈیلتے اور خود پینے بیٹھ جاتے۔ پھر خود ہی اُسے خیال آتا ہے، آخر کیوں نہ ہوتا وہ انھیں عزیز کہ وہ بھی تو مسلمان بچے کا چھوڑا ہوا جھوٹا پانی ایسے ہی پی لیتا تھا جیسے امرت ہی تو پی رہا (جاری ہے۔)

The post ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد appeared first on ایکسپریس اردو.

کرکٹ ورلڈکپ؛ ریکارڈز اور دلچسپ حقائق

$
0
0

دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ سجنے میں اب کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ایکسائٹمنٹ لیول بہت زیادہ ہے۔

کرکٹ، برِصغیر کے لوگوں کا پسندیدہ ترین کھیل ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز میں یہاں کی گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں خواہ میچ کسی بھی ٹیم کا ہو۔ یہاں کے لوگ کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کے از حد شوقین ہیں۔ شوق کا یہ عالم ہے کہ لڑائی مار کُٹائی سے بھی نہیں چوکتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کرکٹ کے علاوہ دوسرا گیم نہ ہی ٹھیک سے کھیلنا جانتی ہے اور نہ ہی ٹی وی پر دیکھنا پسند کرتی ہے۔

خیر تو بات ہو رہی تھی کرکٹ ٹورنامنٹ کی لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو دنیائے کرکٹ کے معرکوں کے بارے میں دل چسپ اور مفید معلومات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی شروعات 1975 میں برطانیہ سے ہوئی اور اس کے بعد آج تک یہ عالمی کپ ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کرتی ہے۔ اس کے شروع ہونے سے پہلے آزمائشی ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے عالمی کپ کو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ 1973ء سے خواتین کا علیحدہ عالمی کپ کھیلا جاتا ہے۔

عالمی کپ دس ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور آئی سی سی ٹرافی میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے ممالک کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اب تک 11 عالمی کپ کھیلے جا چکے ہیں۔ آخری کپ2015 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔ کرکٹ ورلڈ کپ میں اب تک آسٹریلیا کی ٹیم سب سے کام یاب ٹیم ہے جو پانچ دفعہ فاتح رہ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو دفعہ، جب کہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار کرکٹ کے عالمی کپ کے فاتح رہ چکے ہیں۔

٭ورلڈ کپ 1975
دنیائے کرکٹ کا پہلا ورلڈ کپ 1975 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں کل آٹھ ممالک کی ٹیمز نے حصہ لیا۔ مشرقی افریقہ کی ٹیم وہ واحد ٹیم ہے جس کا پہلا ورلڈ کپ ہی اس کا آخری ورلڈ تھا۔ یہ ورلڈ کپ وہ واحد ٹورنامنٹ تھا جس میں ایشیا کی کوئی بھی ٹیم سیمی فائنلز میں جگہ نہ بنا سکی۔
اس ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں گھمسان کا رن پڑا اور جزائر کریبین کی کالی آندھی کہلائی جانے والی ٹیم نے کلائیو لائیڈ کی کپتانی میں یہ معرکہ مار لیا۔ ویسٹ انڈیز نے یہ میچ 17 رنز سے جیتا تھا۔

٭ورلڈ کپ 1979
1979 کی میزبانی پھر انگلینڈ کے حصے میں آئی اور لندن شہر کے لارڈز میں فائنل منعقد ہوا۔ اس ورلڈ کپ میں براعظم افریقہ سے کسی بھی ٹیم نے شرکت نہیں کی۔ ان مقابلوں کو شائقین کی عدم دلچسپی اور خراب موسم کا بھی سامنا رہا۔ ویسٹ انڈیز کی قسمت اور جاندار پرفامنس انہیں دوبارہ فائنل تک لے آئی جبکہ اس بار انکی مدِمقابل ٹیم انگلینڈ کی تھی۔ قسمت نے ایک بار پھر ساتھ دیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم 92 رنز سے یہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی اور دینا نے دوسری بار گوروں کی سرزمین پر کالوں کو جشن مناتے دیکھا۔

٭ورلڈ کپ 1983
یہ ورلڈ کپ بھی مسلسل تیسری بار انگلینڈ میں منعقد کیا گیا۔ ان مقابلوں میں بھی آٹھ ٹیموں نے شرکت کی جن میں نئے نئے ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل سری لنکا کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی کی فاتح زمبابوے کی ٹیم بھی شامل تھی جس کا یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ ویسٹ انڈیز اپنی گذشتہ دو کام یابیوں اور اپنے اعتماد پر فائنل میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ لیکن اس بار مدِمقابل ایک ایشیائی ٹیم تھی۔ اور وہ تھی بھارت کی ٹیم۔ کپل دیو کی سربراہی میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت نے یہ میچ 43 رنز سے اپنے نام کیا اور کرکٹ کی ٹرافی کو ایشیا کا راستہ دکھایا۔

٭ورلڈ کپ 1987
ٹرافی کے بعد ورلڈ کپ نے بھی ایشیا کا راستہ دیکھ لیا۔ 1987کا کرکٹ ورلڈ کپ پہلی مرتبہ انگلینڈ سے باہر منعقد کیا گیا اور اس بار میزبانی کا شرف بھارت اور پاکستان کے حصہ میں آیا۔ برصغیر میں دن میں روشنی کے اوقات میں کمی کی وجہ سے پہلی مرتبہ اننگز کا دورانیہ تعداد 60 اوورز سے 50 اوورز کردیا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے شہر کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں فائنل کا میچ کھیلا گیا۔ اس بار گوروں پر قسمت مہربان ہوئی اور آسٹریلیا نے انگلینڈ کو جان توڑ مقابلے کے بعد 7 رنز سے ہرا کر پہلی بار ٹرافی اپنے نام کر لی۔

٭ورلڈ کپ 1992
اب کی بار میزبانی کی باری کیویز اور کینگروز کی تھی۔ یہ ورلڈ کپ دنیا سے دور دو ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد کیا گیا جہاں پہلی بار رنگین یونیفارم، سفید گیندیں اور فلڈ لائٹ میچ متعارف کروائے گئے۔ 21 سال کی بے دخلی کے بعد یہ جنوبی افریقہ کا پہلا ٹورنامنٹ تھا۔ فارمیٹ کو بدل کر 9 ٹیم کو جگہ دی گئی اور اب ہر ایک ٹیم نے بقیہ آٹھ ٹیموں سے بھڑنا تھا۔

میلبورن کے کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیمز کے درمیان فائنل کھیلا گیا جو عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 22 رنز سے جیت لیا اور یوں پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی ایک مسلمان ملک کی سیر کرنے آئی۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے ”مین آف دی ٹورنامنٹ” کا ایوارڈ شروع کیا گیا جس کے پہلے حق دار آسٹریلیا کے مارٹن کروو ٹھہرے۔

٭ورلڈ کپ 1996
یہ ورلڈ کپ ایک یادگار ورلڈکپ تھا کیوںکہ اس بار تین ممالک اس کی میزبانی کر رہے تھے۔ پاکستان، بھارت اور سری لنکا۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھا کر 12 کر دی گئی جب کہ کینیا، نیدرلینڈز اور متحدہ عرب امارات نے پہلی بار دنیائے کرکٹ کے اس عظیم مقابلے میں قدم رکھا۔ فائنل کی میزبانی کا قرعہ شہرِ لاہور کے نام کھلا جہاں قزافی اسٹیڈیم میں آسٹریلیا اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور بالآخرراناٹنگا کی سربراہی میں سری لنکا نے عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے 7 وکٹوں سے میدان مار لیا۔ اس ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بی نظیر بھٹو نے سری لنکن ٹیم کو دی۔ یوں پہلی بار ایک میزبان ملک نے جیت حاصل کی۔ سری لنکا کے ہی سنتھ جے سوریا کو مین آف ٹورنامٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔

٭ورلڈ کپ 1999
بیسوں صدی کا آخری ورلڈ کپ شایانِ شان طریقے سے انگلینڈ اور ویلز میں منعقد ہوا جب کہ کچھ میچ نیدرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں بھی کھیلے گئے۔ اس مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ چار برس کے وقفے کی بجائے تین برس کے بعد منعقد ہوا۔ یہ ٹورنامنٹ اپنے اس سیمی فائنل کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جب آسٹریلیا کے خلاف میچ میں جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ ایک رن نہ بنا سکے اور رن آؤٹ ہو گئے۔ یہ میچ ٹائی ہوا لیکن آسٹریلیا بہتر ریکارڈ کی وجہ سے فائنل میں پہنچ گیا۔ آسٹریلیا اور پاکستان کے بیچ لندن کے میدان لارڈز میں فائنل میچ کھیلا گیا جو کینگروز نے 8 وکٹوں سے جیت لیا، جب کہ جنوبی افریقہ کے لینس کلاسنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے نوازا گیا۔

٭ورلڈ کپ 2003
نئی صدی کے آغاز میں کرکٹ ورلڈ کپ کا رخ برِاعظم افریقہ کی طرف موڑ دیا گیا اور جنوبی افریقہ کو میزبان منتخب کیا گیا لیکن کچھ میچز کینیا اور زمبابوے میں بھی کرائے گئے۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران انگلینڈ نے زمبابوے میں اور نیوزی لینڈ نے کینیا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ فائنل ٹاکرا جنوبی افریقا کے شہر جوہانسبرگ میں بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیوں کے بیچ ہوا جس میں رکی پونٹنگ کی کپتانی میں آسٹریلیا نے 125 رنز کے بڑے مارجن سے بھارت کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے شاندار بلے بازی کے عوض مین آف ٹورنامنٹ کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔

٭ورلڈ کپ 2007
2007 کا ورلڈ کپ پہلی بار ویسٹ انڈیز میں منعقد کیا گیا۔ ہر ملک میں میچ منعقد کروائے گئے جن میں اینٹی گوا اینڈ باربوڈا، بارباڈوس، گرینیڈا، گیانا، جمیکا، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، سینٹ لوسیا اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو شامل ہیں۔ فائنل میچ کی میزبانی برج ٹاؤن شہر نے کی جہاں بارش کی رم جھم میں آسٹریلیا نے 53 رنز سے سری لنکن ٹیم کو ہرا کر مسلسل تیسری بار ٹائٹل اپنے نام کر کے دنیائے کرکٹ پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ آسٹریلیا کے ہی گلین میک گرتھ نے مین آف ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اسی ورلڈ کپ کے دوران ایک انہونی ہوئی جب پاکستان ٹیم کی آئرلینڈ سے شکست کے بعد کوچ باب وولمر نے دل برداشتہ ہو ک خودکشی کر لی تھی۔

٭ورلڈ کپ 2011
2011 ورلڈ کپ کی میزبانی ابتدائی طور پر بھارت، پاکستان، بنگلادیش اور سری لنکا کو دی جانی تھی لیکن بھارتی سازشوں اور پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے باعث پاکستان میں کھیلے جانے والے میچز دیگر ممالک میں منتقل کر دیے گئے یوں پہلی بار بنگلادیش میں کوئی عالمی مقابلے منعقد ہوئے۔ فائنل میچ ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ پہلی بار کرکٹ مقابلوں میں دو ایشیائی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ ہوم کراؤڈ اور ٹیم سپرٹ کی بدولت اٹھائیس سال بعد بھارت یہ میچ 6 وکٹوں سے جیت گیا اور ہوم گراؤنڈ پر فتح پانے والا دوسرا ملک بن گیا۔ بھارت کے یووراج سنگھ نے مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز جیتا۔

٭ورلڈ کپ 2015
2015 کے ورلڈ کپ کی میزبانی دو ہمسایہ ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو دی گئی۔ فائنل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوا جہاں مائیکل کلارک کی سربراہی میں 7 وکٹوں سے آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو ہرا کر پانچویں بار ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یہ ورلڈ کپ اس طرح بھی یادگار ٹھہرا کہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں میزبان تھیں اور آسٹریلیا وہ تیسری ٹیم قرار پائی جس نے ہوم گراؤنڈ پر فتح کا مزہ چکھا۔ مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز آسٹریلیا کے مشل اسٹارک کے حِصے میں آیا۔

٭ورلڈ کپ 2019
اب آتے ہیں موجودہ ورلڈ کپ پر جو انگلینڈ اور ویلز میں کھیلا جائے گا۔ یہ ورلڈ کپ پانچویں بار انگلینڈ میں کھیلا جائے گا۔ اس بار بھارت، آسٹریلیا،جنوبی افریقہ اور سری لنکا کی ٹیموں کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کچھ کمزور ہے لیکن سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہے۔

اب تک بیس ممالک ورلڈ کپ میچوں کے لیے کم از کم ایک بار کوالیفائی کر چکے ہیں جن میں سے پانچ ٹائٹل جیت بھی چکے ہیں۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے مسلسل یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز نے دو اور آسٹریلیا نے تین بار۔ ٹیم آسٹریلیا نے کل گیارہ میں سے سات فائنل کھیل کر زیادہ فائنل کھیلنے والی ٹیم کا اعزاز حاصل کیا ہے، جب کہ تین بار رنر اپ رہنے والی ٹیم انگلینڈ نے ایک بار بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔

ایک دل چسپ بات یہ کہ 1992 میں آسٹریلیا، 1999 میں انگلینڈ، 2003 میں جنوبی افریقہ قور 2011 میں بنگلادیش وہ ٹیمیں تھیں جو میزبان ہو کر بھی پہلے مرحلے میں آؤٹ ہو گئی تھیں۔

٭پہلی بار کھیلنے والی ٹیمیں
1975 آسٹریلیا، انگلینڈ، انڈیا، نیوزی لینڈ، پاکستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز۔ ، 1979 کینیڈا،1983 زمبابوے، 1992 جنوبی افریقہ ، 1996کینیا، ہالینڈ، متحدہ عرب امارات، 1999 بنگلادیش اور اسکاٹ لینڈ، 2003 نمیبیا ، 2007 برمودہ اور آئرلینڈ، 2015 افغانستان۔

دنیائے کرکٹ کے اہم ریکارڈز
کرکٹ سمیت دنیا کا کوئی بھی کھیل ہو اس میں ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر بات کی جائے کھلاڑیوں کے کیریر کی تو چند حقائق ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ تو جانیے کچھ ایسے ہی ریکارڈز جن کے بارے میں پڑھ کر آپ بھی حیرت زدہ ہوجائیں گے ؛
٭ سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ اسکور کا ریکارڈ ؛ مارٹن گپٹل (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ رنز کی پارٹنرشپ کا ریکارڈ؛ کرس گیل اور سیمویلز (ویسٹ انڈیز)۔
٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ سینچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ؛ سچن ٹنڈولکر (بھارت)۔
٭ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے اچھے اسٹرائیک ریٹ کا ریکارڈ ؛ ملینگا (سری لنکا)۔

٭ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا کھلاڑی ؛ گلین میک گریتھ (آسٹریلیا)۔
٭ سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر کا ریکارڈ ؛ رکی پونٹنگ (آسٹریلیا)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ اسکور؛ آسٹریلیا 417 (بمقابلہ افغانستان)۔
٭ کسی بھی ٹیم کا سب سے کم اسکور ؛ کینیڈا 36 (بمقابلہ سری لنکا)۔
٭ لوگوں کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اوور میں سب سے زیادہ بنائے جانے والے رنز 36 ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک اوور میں 77 رنز بنائے گئے ہیں۔ یہ میچ Canterbury اور ولنگٹن کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔
٭ سعید اجمل کی باؤلنگ جادوئی تو قرار دی جاتی ہے۔ اور کئی دفعہ وہ آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہ چکے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر کبھی انہیں ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ‘‘ مین آف دی میچ ‘‘ کا اعزاز حاصل نہیں ہوسکا۔
٭ مہندرا سنگھ دھونی انڈیا کے زبردست بیٹسمین ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا سے باہر منعقد ہونے والے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کبھی کوئی سینچری اسکور نہیں کی۔
٭ آپ کو شاید اس بات پر یقین نہ آئے کہ وسیم اکرم کا ٹیسٹ اننگ کا بلند ترین اسکور سچن ٹنڈولکر کے اسکور سے بھی زیادہ ہے۔ جی ہاں ٹیسٹ میچ میں وسیم اکرم کا سب سے زیادہ اسکور 257 ہے جب کہ سچن ٹنڈولکر نے 248 رنز بنا رکھے ہیں۔
٭ سر ڈون بریڈ مین نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں صرف 6 چھکے لگائے تھے۔
٭ ڈرک نینز ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے آسٹریلیا اور نیدرلینڈ دونوں کی جانب سے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں کھیل پیش کیا ہے۔
٭ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں شاہد آفریدی کے رنز اور وکٹیں عمران خان کے رنز اور وکٹوں سے دو گنا زیادہ ہیں۔ جی ہاں شاہد آفریدی نے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 378 وکٹیں اور 7619 رنز اسکور کر رکھے ہیں جب کہ عمران خان نے 182 وکٹیں اور 3709 رنز بنائے ہیں۔
٭ طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ پاکستانی کرکٹر لٹل ماسٹر حنیف محمد کے پاس ہے۔ انہوں نے 970 منٹ یعنی 16 گھنٹے سے زائد اننگز کھیلی اور 337 رنز اسکور کیے۔
٭ انگلینڈ کے کھلاڑی سر جیک ہوبس نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 199 سینچریاں بنا رکھی ہیں۔
٭ انگلینڈ ہی کے ایک اور کھلاڑی ویلفریڈ رہوڈز نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر میں 4204 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 39967 رنز بھی اسکور کیے۔
٭ سچن ٹنڈولکر نے اپنے پورے کرکٹ کیریر میں شعیب اختر کی 328 گیندوں کا سامنا کیا اور ان گیندوں پر وہ صرف 251 رنز ہی اسکور کر پائے۔
٭ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے تیز رفتار گیند پھینکنے کا ریکارڈ شعیب اختر کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ گیند 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی۔ یہ گیند 2003 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک میچ میں کروائی گئی۔
٭ اس سے تو سب واقف ہیں کہ سچن ٹنڈولکر نے انڈیا کے لیے اپنا سب سے پہلا میچ 1989 میں کھیلا لیکن اس بات سے کم لوگ واقف ہوں گے کہ انڈیا سے قبل ٹنڈولکر 1987 میں ایک میچ میں پاکستان کے لیے بھی کھیل چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ میچ انڈیا کے خلاف تھا اور ٹنڈولکر کو عمران خان کی ٹیم میں متبادل فیلڈر کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے کپل دیو کو آؤٹ بھی کیا۔ یہ میچ ممبئی کے برابورن اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔

ورلڈ کپ کے دل چسپ حقائق
٭انگلینڈ، ورلڈ کپ کی سب سے زیادہ میزبانی کرنے والا خطہ ہے جب کہ دوسرے نمبر پر بھارت کا نمبر آتا ہے۔
٭ 1992 کو ورلڈ کپ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس کی میزبانی کرۂ ارض کے جنوبی ممالک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے کی۔
٭ 1992 کے ٹورنامنٹ میں پہلی بار سفید گیندوں کا استعمال کیا گیا۔ اسی ٹورنامنٹ میں ہی فلڈ لائٹس کو بھی استعمال میں لایا گیا۔
٭ نسلی امتیاز پر مبنی نظامِ حکومت چلانے کی بدولت جنوبی افریقہ کو پہلے چار ورلڈ کپ ٹورنامنٹس سے باہر رکھا گیا۔
٭ رکی پونٹنگ اور کلائیو لیوڈ وہ کپتان ہیں جنہوں نے دو دو بار یہ ٹارنامنٹ جیتا ہوا ہے۔
٭ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، کینیا، زمبابوے، بنگلادیش، آئرلینڈ، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور کینڈا کی ٹیموں نے اب تک ایک بھی ورلڈ کپ نہیں جیتا۔ n

The post کرکٹ ورلڈکپ؛ ریکارڈز اور دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا‘‘

$
0
0

’’ وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان کے عوام کی کردار سازی میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کا حصہ نمایاں ہے، جو گزشتہ 53 سالوں سے مسلسل ایک مقصد کے تحت کام کرتا رہا ہے‘‘ یہ الفاظ یقینا اس جریدے، اس میں لکھنے اور اسے پڑھنے والوں کے لئے اعزاز ہیں۔ اس جریدے کے بانیوں میں ایک بڑا نام الطاف حسن قریشی کا ہے، جنہوں نے جو بھی لکھا، کمال لکھا۔

’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ الظاف حسن قریشی کی کتاب ہے جو کچھ ہی عرصہ پہلے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے اُن تجربات اور تاثرات کا مجموعہ ہے جو قومی سطح کی اہم شخصیات سے ملاقات کے نتیجے میں ان کی یادداشت کا حصہ بنے۔ یہ کتاب بالخصوص ملک کے نوجوانوں کے لئے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں ملکی تاریخ کے اہم ادوار پر اُن شخصیات کا نقطئہ نظر موجود ہے جو تمام معاملات کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اس کتاب میں23 نامور لوگوں کے انٹرویوز ہیں، جن کے ذریعے مصنف نے بغیر کسی لگی لپٹی کے ان شخصیات کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔

الطاف حسن قریشی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہیں ایسے نابغہ روز گار لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور انہوں نے اسے پوری صحافیانہ دیانت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کتاب میں جن لوگوں کے انٹرویوز شامل ہیں ان میں تمام شخصیات اپنے طور پر علاقائی اور عالمی سطح پر اہمیت کی حامل ہیں۔ کتاب میں شاہ فیصل، سید ابوالاعلیٰ مودودی، جسٹس ایس اے رحمان، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن، جنرل محمد ضیاء الحق، سلیمان ڈیمرل، خان قلات احمد یار خان بلوچ، چیف جسٹس اے آرکارنیلیس، ڈاکٹر سید عبداللہ، اے کے بروہی، غلام رسول مہر، ڈاکٹر مس خدیجہ فیروز الدین، مولوی تمیز الدین خان، پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر عبدالرحمن بار کر، چوہدری محمد علی، حکیم محمد سعید دہلوی، جسٹس حمود الرحمن، ایس، ایم ظفر، مولانا ظفر احمد انصاری، قدرت اللہ شہاب اور ائیر مارشل اصغرخان کے انٹرویو شامل ہیں۔

الطاف حسن قریشی کا اسلوب ایسا ہے کہ انہوں نے محض انٹرویوز ہی نہیں کئے بلکہ ارد گرد کے ماحول اور لوگوں سے تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں،گویا ان بڑی شخصیات کے ساتھ کئی دوسری بڑی شخصیات کا کوئی واقعہ، رویہ، چٹکلا یا تعارف بھی اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کتاب کے حواشی اتنے مفصل اور معلومات افزا ہیں کہ انہیں کتاب در کتاب کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ آنے والوں کو سونپ سکیں۔ انہوں نے کچھ انٹرویو کئی کئی نشستوں میں بڑی تگ و دو سے کئے ہیں مثلاً کسی کے ڈرائنگ روم سے ہوٹل اور جہاز تک میں جا کر جہاں جب اور جیسے موقع ملا انہوں نے بڑے لوگوں کے وقت کی قدر کا اندازہ کرتے ہوئے ان سے نشستیں کیں۔

یہاں ہم اپنے قارئین کے لئے منتخب انٹرویوز سے چنیدہ حصوں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔

مولانا مودودیؒ کا انٹرویو خاصے کی چیز ہے۔ اس انٹرویو کے آخر میں مولانا کا الطاف صاحب سے ایک سوال بہت معنی خیز ہے جو شاید آج ہر مسلمان سے پوچھا جانا چاہیے۔

’’کیا تم ان لوگوں کے زمرے میں تو نہیں آتے جو اسلام کو مانتے ہوئے اس کی حدود میں رہنے کو تیار نہیں؟‘‘

’’قانون کے ماہرین اور اہل علم و فضل یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں تو اسلامی فقہ کے ذخائر، قاضیوں کے عدالتی فیصلوں اور قانونی نظائر سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کو مربوط اور قابل فہم صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔اگر انگریزی قانون کی لائبریریاں آباد ہوسکتی ہیں، تو آخر اسلامی قانون پر اس نوع کا تحقیقی کام کیوں نہیں ہوسکتا؟‘‘

(جسٹس اے۔آر۔کارنیلیس)

شاہ فیصل کا انٹرویو تو شاندار ہے ہی لیکن حواشی پڑھ کر حسرت جاگتی ہے کہ کاش! وہ کچھ اور زندہ رہ جاتے تو شاید آج مسلم دنیا کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ انہوں نے نکسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:’’میری آرزو ہے کہ بیت المقدس آزاد ہو اور میں مسجد اقصٰی میں نماز ادا کروں۔‘‘

جب تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، تب بھاری قیمت وصول کرتی ہے؛ دوسرا یہ کہ طاقت کی انتہا کرپشن کی انتہا کو جنم نہیں دیتی بلکہ طاقت چھن جانے کا خوف بدترین کرپشن کا باعث بنتا ہے۔(ایس ایم ظفر)

کتاب سچے، دلچسپ اور متاثر کن واقعات سے بھری ہوئی ہے مثلاً جسٹس حمود الرحمن کو ابتدائی تعلیم کے بعد جب کلکتہ کے مشہور انگریزی سکول میں داخل کروایا گیا تو وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں’’ ہمیں فادر سبق پڑھا رہا تھا، سبق کے دوران اس نے کہا وکٹو ریہ میموریل، تاج محل سے زیادہ خوبصورت ہے۔میں اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا اور فادر سے مخاطب ہوا آپ نے تاج محل نہیں دیکھا ہے، اس لئے وکٹو ریہ میموریل کا تاج محل سے مقابلہ کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میموریل کو تاج محل سے کوئی نسبت نہیں۔ فادر کو غصہ آ گیا اور اس نے مجھے پیٹنا شروع کر دیا۔میں مار کھاتے ہوئے یہی کہتا رہا آپ کی اس مار سے غلط بات کو صحیح نہیں مان سکتا۔ میرے اندر اسی روز غلط بات کے خلاف ڈٹ جانے کا داعیہ مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔ اس واقعے نے مجھے آئندہ کی زندگی میں تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا ‘‘۔

’’ اسی فادر کے کردار کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجیے کہ اگلے سال وہ تاج محل دیکھنے کے لئے آگرہ گیا۔ اس نے واپس آ کر بھری کلاس میں مجھ سے معافی مانگی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ تاج محل، میموریل سے بہت زیادہ خوبصورت ہے۔ فادر کے اس اعتراف نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میں اس سے بے پناہ محبت کرنے لگا۔

اس حقیقت کا مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ائیر مارشل اصغر خان غضب کی نظر رکھتے ہیں اور ان کا دماغ حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے، اس ضمن میں ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا ’’ڈیفنس سوسائٹی کراچی میں ائیر مارشل صاحب کا مکان تعمیر ہو رہا تھا جس کی ڈیزائننگ مشہور آرکیٹیکٹ مسٹر بلوم فیلڈ نے کی تھی۔ ایک روز ائیر مارشل اس فرم کے نہایت کہنہ مشق انجنیئر مسٹر لٹن کے ساتھ مکان دیکھنے گئے اور سیڑھیوں سے اوپرچلے گئے۔ واپسی پر ایک سیڑھی پر آکر رک گئے اور کہنے لگے : مسٹر لٹن ! ’’یہ سیڑھی چھوٹی ہے‘‘۔

’’جی نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔

’’میرے خیال میں یہ 8 / 1 انچ چھوٹی ہے‘‘۔

مسٹر لٹن مسلسل انکار کرتے رہے۔ تب فیتہ منگوایا گیا اور سیڑھی واقعی ٹھیک 8 / 1 انچ چھوٹی نکلی۔ اس پر سب حیران رہ گئے۔

ستمبر کی جنگ میں پاک فضائیہ کی برتری ائیر مارشل کی قائدانہ صلاحیتوں کا جیتا جاگتا کرشمہ ہے۔ انہوں نے اس جنگ میں جو کردار ادا کیا، اس سے اعلیٰ حلقے اچھی طرح واقف ہیں۔ پہلے رسالپور میں تربیتی کالج کی بنیاد رکھی، ہوا بازوں کو تربیت دی اور پھر انہیں پیشہ ورانہ طور پر اس اعلیٰ مہارت سے تیار کیا کہ ان پھرتی، شجاعت اور حیرت انگیز کارکردگی پر پوری دنیا حیران رہ گئی۔‘‘

ائیر مارشل کے بھائی بریگیڈیر افضل خان کا ایک ڈیری فارم ہے جو ایک عرصے سے پی آئی اے کو کچھ چیزیں فراہم کرتا تھا۔جب ائیر مارشل نے پی آئی اے کا چارج سنبھالا تب پہلا کام یہ کیا کہ اپنے دستخطوں کے ساتھ اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آج کے بعد آپ کی فرم کا پی آئی اے اور شہری ہوا بازی کے محکمے سے کوئی کاروباری لین دین نہیں ہونا چاہئے۔اس خط سے ان کے بھائی کو ہر ماہ اسی ہزار روپے کا نقصان ہو رہا ہے، مگر انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کرنے کے لئے اقربا پروری کا ہر امکان ختم کر دیا‘‘۔

اکثر مقامات پر انٹرویو دینے والی شخصیت نے ایسی دھماکا خیز معلومات فراہم کی ہیں کہ پڑھنے والے تو کیا حیران ہوں گے خود الطاف صاحب بھی بھونچکا رہ گئے مثلاً : انصاری صاحب کی باتوں سے ایسا دھچکا لگا کہ ذہن تلپٹ ہو کے رہ گیا۔ ایک دو لمحوں کے لئے مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا، لیکن ان کے الفاظ بالکل نستعلیق اور واضح تھے۔ وہ میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ بڑے سکون سے دیکھتے رہے، پھر ان کی آنکھوں میں علمی وجاہت کی ایک چمک پیدا ہوئی اور متانت آمیز لہجے میں گویا ہوئے:’’ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ میری باتیں تمہیں پریشان کر دیں گی۔ یہ ہر اس شخص کے لئے دھماکہ ثابت ہوں گی جو واقعات کی صرف ظاہری سطح پر نظر رکھتا ہے۔ میرے پاس یہودی صحافیوں، اہل قلم اور قائدین کی تحریریں اور بیانات موجود ہیں جن میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ روسی انقلاب صیہونیت کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ تھا۔میں چند واقعات، شواہد اور تحریریں پیش کرتا ہوں‘‘۔

قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد کچھ عرصے کے لئے انہیں صنعتوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ان دنوں کلیم داخل کئے جا رہے تھے اور ایک خاص رقم سے نیچے کے کلیم ہمارے محکمے کے دائرہ کار میں تھے نہ ہم کوئی معاوضہ دیتے تھے۔ایک کلیم آیا جو مخصوص رقم سے کم تھا۔ ہم نے کلیم والے کو طلب کیا، تو ایک سفید ریش بزرگ داخل ہوا۔ اس کے نحیف و نزار جسم سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے تقسیم میں بہت سختیاں جھیلی ہیں۔ ہم سب اس کی مدد کرنا چاہتے تھے ، مگر قانون کے مطابق اس کا معاوضہ نہیں دے سکتے تھے، ہم میں سے کسی نے اس ضعیف آدمی سے کہا:

’’بابا! آپ کا کلیم تھوڑی مالیت کا ہے، اس میں اضافہ کر دیجئے۔‘‘

اس نے بھولپن سے جواب دیا:

’’زندگی بھر حلال رزق کھایا ہے اور آج بے ایمانی کیسے کروں؟‘‘

ہم شب و روز جو آوازیں سن رہے تھے، یہ آواز ان سے بالکل مختلف تھی۔تنہا، بالکل تنہا۔

ہم نے بابا سے پھر کہا:’’جو مشین آپ چھوڑ کر آئے ہیں، اس کی قیمت آج بڑھ گئی ہے۔‘‘

’’جناب! مجھے اتنا بڑا دھوکا تو نہ دیں۔ میرا وہاں چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشین کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔‘‘

’’بابا! افسوس ہے کہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

’’بیٹا! آپ مجھے کچھ دیں یا نہ دیں، میں جھوٹ تو کسی قیمت پر نہیں بولوں گا۔میرے جسم میں ابھی کچھ توانائی ہے، اس سے حلال رزق کمانے کی کوشش کروں گا۔‘‘

بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا تھا۔‘‘

اس کتاب کو پڑھنا ہر طبقے کے لئے بہت ضروری ہے عام آدمی سے لے کر دانشور برادری تک کیوں کہ جسٹس حمودالرحمن جیسے حقیقی دانش وروں نے عام دانشوروں میں پائی جانے والی کچھ خرابیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید نے اپنے انٹرویو میں پوری سوسائٹی کے اخلاقی امراض کی نبض شناسی کی ہے، خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کی۔ ایک اور بات قابل غور ہے کہ اس کتاب میں بہت ساری منجھی ہوئی شخصیات کا یورپ میں پڑھنے،رہنے یا کام کرنے کا تجربہ رہا ہے اور انہوں نے آج کل میڈیا پر قابض دانشوروں کے برعکس بیرونی ثقافت اور تہذیب کو قطعا پسند نہیں کیا ماسوائے وہاں کے قانون اور نظم و ضبط کے۔ اس ایک کتاب پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک دستاویز ہی نہیں ادب پارہ بھی ہے، اسے پکڑ کر چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے اور پڑھ کر دل و دماغ کے بہت سے دریچے کھل جاتے ہیں۔

The post ’’بابا اطمینان سے چلا گیا، لیکن ہمارا اطمینان چھین کر لے گیا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ نازک سی تحریک سڑکوں پر کیسے چلے گی!

$
0
0

سابق صدر آصف زرداری جو اب خود خاصی مشکل سے چل پاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ وہ عید کے بعد سڑکوں پر حکومت مخالف تحریک چلائیں گے۔

زرداری صاحب اچھے اچھوں کو چلا سکتے ہیں، ان کے لیے کوئی تحریک چلانا کیا بڑی بات ہے، لیکن تحریک کو سڑکوں پر چلانے سے پہلے انھیں خیال رکھنا چاہیے کہ سڑکوں پر موٹرسائیکلیں، کاریں، بسیں، ٹرک اور ٹرالر چل رہے ہوتے ہیں، نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی تحریک ان سب کے درمیان کیسے چل پائے گی۔

ارے نہیں بھئی، خُدارا یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا اشارہ کسی اور طرف ہے، ہم تو بس یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نہیں جس کی تحریکیں آندھی طوفان کی طرح چلتی تھیں، آصف زرداری کی قیادت اور بلاول بھٹو کی سیادت میں پیپلزپارٹی کی سیاست، جرأت اور احتجاجی روایت ماضی کی حکایت ہوئی، زرداری صاحب کی پی پی پی گلشن کا کاروبار چلاسکتی ہے، کوئی چکر چلاسکتی ہے، ہوا میں تیر چلا سکتی ہے، لیکن جہاں تک تحریک کا تعلق ہے تو شاید وہ کوئی ’’چل سو چل‘‘ تحریک ہی چلاسکے۔ اگر کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ٹرین مارچ کے بہانے بلاول کو ریل گاڑی کی سیر کرانے کی طرح کوئی خراماں خراماں چلتی تحریک چلی بھی تو اس کے ذریعے حکومت کو چلتا کرنا یا چلتے مقدمات کو لنگڑی دے کر گرانا ممکن نہیں لگتا۔

آصف زرداری نے یہ بھی کہا ہے کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتیں، کیوں بھئی! کیا انھوں نے معیشت کو نیب کے سامنے یہ گانا گاتے سُنا ہے:

میں ترے سنگ کیسے چلوں ساجنا

تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

یوں بھی نیب کا کام معیشت کے ساتھ چلنا نہیں، اس ادارے کا فریضہ ان کا چال چلن ٹھیک کرنا ہے جن کی چال بازیوں نے معیشت کو چلنے نہیں دیا۔ اس مقصد کے لیے یہ ادارہ ’’چل چلیے دنیا دے اُس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہوئے‘‘ کی پالیسی پر گام زن ہے، اب یہ الگ بات ہے کہ نیب ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کا قائل نہیں، جس پر اس کا بس چلتا ہے اُسی پر کیس چلتا ہے، پھر یا تو وہ ’’اچھا تو ہم چلتے ہیں‘‘ کہتا بیرون ملک چل دیتا ہے یا۔۔۔۔۔۔چلو رے ڈولی اُٹھاؤ کہار۔۔۔۔’’کِیّا‘‘ بھگتنے کی رُت آئی۔۔۔ کی سدا پر کھولی میں پہنچ جاتا ہے۔

ہم سوچ رہے ہیں کہ زرداری صاحب نے یہ کہہ کر کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، کہیں یہ تو کہنا نہیں چاہا کہ ’’اے بی نیب! تم یہ موئی معیشت کے ساتھ کیوں چل رہی ہو، مجھے ساتھ لے کر چلو تو سفر اچھا کٹے گا۔ اگرچہ ان دنوں میری اور معیشت کی رفتار ایک جتنی ہی ہے، مگر مجھے ساتھ لے کر چلنے میں تمھیں فائدہ یہ ہوگا کہ تمھاری سمجھ میں بہت سی چالیں اور چالاکیاں آجائیں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ کچھ مُدت بعد ۔۔۔چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں۔۔۔کہنا ہوگا، اور ہاں، مجھے اُٹھاکر چلنے کی کوشش مت کرنا تمھاری سانس پھول جائے گی کیوں کہ میں سب پر بھاری ہوں۔ میری صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا تو ایک دن جھوم جھوم کر گا رہی ہوگی۔۔۔یوں ہی کوئی مل گیا تھا، سرراہ چلتے چلتے۔‘‘

The post یہ نازک سی تحریک سڑکوں پر کیسے چلے گی! appeared first on ایکسپریس اردو.

افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں

$
0
0

فلپائن کے ایک قصبے بائنالونن کے میئر نے افواہیں پھیلانے اور کُھسرپھسر کرنے کو خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔

قصبے کے نئے قانون کے تحت افواہیں پھیلانے والے کو جُرمانہ دینا ہوگا اور تین گھنٹے تک سڑک کی صفائی کرنی ہوگی۔ اگرچہ افواہ کی تعریف نہیں بتائی گئی ہے، تاہم قصبے کے میئر رامون گائکو کا کہنا ہے کہ قصبے کے رہائشیوں کے باہمی تعلقات یا ان کے مالی معاملات کے حوالے سے غیبت کرنا یا افواہ پھیلانا قابل تعزیر جرم تصور کیا جائے گا۔

بھلا بتاؤ، یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ آدمی غیبت بھی نہ کرے، پھر فارغ وقت میں آخر کرے تو کیا کرے۔ یوں بھی غیبت تو ایک دوسرے کو یاد رکھنے کا بہانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے دوست اور کورنگی ڈھائی نمبر کے معروف دانش ور، فلسفی اور مفکر بابوٹینشن کا کا قول ہے،’’سُن بے، اگر دنیا میں نام بنانا اور یاد رہنا ہے پیارے تو لوگوں کے ساتھ اتنی بُری کر کہ کوئی تجھے بھول نہ پائے۔‘‘ موصوف خود اپنے ہی قول کی عملی تفسیر ہیں۔ کبھی کسی سے قرض لے کر واپس نہیں کیا، سو متاثرین کے گھروں میں ہر روز ان کا نام لیا جاتا ہے، مگر کچھ غیرانسانی ناموں کے ساتھ اور بڑے مقدس رشتوں اور نہایت ’’نجس‘‘ افعال کو جوڑ کر، جسے عرف عام میں گالی کہا جاتا ہے۔

بابوٹینشن کا قول زریں تو یاد رہنے کا گُر بتاتا ہے، مگر دوسروں کو یاد رکھنے کے لیے اکثر غیبت ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اب کسی محفل میں ایسی باتوں میں کب تک دل چسپی رہ سکتی ہے ’’لُڈن میاں بہت شریف ہیں، کسی خاتون کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے، جب بھی دیکھتے ہیں کَن انکھیوں سے دیکھتے ہیں‘‘،’’کلن میاں کا بہت دنوں سے کوئی افیئر نہیں چلا، ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔‘‘ بات یہ ہے کہ اگر دو آدمی بیٹھ کر تیسرے کی تعریف کر رہے ہوں تو وہ موجود ہے یا مرحوم ہے، تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی کی غیرموجود میں اس کی تعریف کردی جائے تو صاحب تعریف کی وفات کی افواہ پھیل جاتی ہے، یہ غیبت ہی بتاتی ہے کہ موضوع گفتگو بننے والے صاحب یا خاتون زندہ ہیں اور خیریت سے ہیں۔

قصبے بائنالونن کے باسیوں کے لیے ہماری تجویز ہے کہ وہ اب غیبت نہ کریں بلکہ ہر ایک کے ’’باہمی تعلقات‘‘ اور ’’مالی معاملات‘‘ کا تذکرہ یوں کریں کہ وہ کسی زاویے سے بھی غیبت نہ لگے۔ مثال کے طور پر تعلقات کا ذکر یوں ہوسکتا ہے:’’مسٹرفلانے رات دو بجے مسز چمکی کے گھر سے نکلتے دیکھتے گئے، یقیناً وہ اپنی امی کو ڈھونڈنے وہاں گئے ہوں گے اور جاتے ہی پوچھا ہوگا، چمکی باجی! ہماری امی کہاں ہیں؟ مسز چمکی نے تلاش میں مدد دینے کے لیے انھیں اندر بلالیا ہوگا، جہاں وہ اپنی والدہ کو خاصی دیر تلاش کرتے رہے، اور جب یاد آیا کہ ان کا تو پچھلے سال انتقال ہوگیا ہے، تو گھر کی راہ لی۔‘‘

اسی طرح کسی کے مالی معاملات یوں زیربحث آسکتے ہیں،’’مسٹرڈھماکے نے پچھلے دو سال میں جو زمینیں خریدیں اور مکان بنائے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یقیناً ایک وقت ایسا آیا تھا کہ زمینیں اتنی سستی ہوگئی تھیں کہ بس ایک دن سگریٹ نہ پیو پیسے بچاکے زمین خرید لو، دوسروں کو اس ارزانی کی بھنک بھی نہ مل پائی، مسٹرڈھماکے کی قسمت اچھی تھی جو انھوں نے دھڑادھڑ زمینیں خرید لیں اور امیر ہوگئے۔۔۔ان کی ایمان داری پر کوئی شک۔۔۔۔بالکل نہیں۔‘‘

رہی بات افواہ کی تو بہ قول شاعر:

بس تِرے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار، اچھے ہوگئے

یعنی داغوں کی طرح افواہیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ کم ازکم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں، جیسے یہ افواہیں کہ نوکریاں برسنے والی ہیں، اربوں پیڑ لگ گئے ہیں اور لاکھوں مکانات بننے کو ہیں۔ ان افواہوں کے پھیلنے اور پھلنے پھولنے سے لوگوں کی آس بندھی رہتی ہے، آس کا بندھا رہنا ہی اچھا ہے ورنہ کُھل گئی تو افواہ سے زیادہ خود پھیل جائے گی اور کٹ کھنے بیل کی طرح ٹکریں مار مار کر افواہیں پھیلانے والوں کا یوں حلیہ بگاڑے گی کہ وہ افواہ کے ساتھ ہاتھ پھیلانے کے قابل رہیں گے نہ گند پھیلانے کے۔

The post افواہیں اچھی بھی ہوتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

فوائد چوہدری نے کیا ناسا کا ’’ستیاناسا ‘‘

$
0
0

فواد چوہدری صاحب ان دنوں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر ہیں۔ ہم نے ’’ان دنوں‘‘ اس لیے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے جس واحد وعدے پر عمل کر رہی ہے وہ ہے تبدیلی کا وعدہ۔ اسے کہتے ہیں ایفائے عہد۔ جب کوئی ٹھان لے کہ ’’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘ تو وعدہ نبھانے کے چکر میں کبھی پولیس افسران کی تبدیلی ہوتی ہے، کبھی سرکاری حکام کی اور کبھی وزیر بدلے جاتے ہیں، تاکہ وعدہ پورا ہوتا نظر آئے۔

خیر یہ تو وضاحت تھی، کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وفاقی وزیرسائنس اور ٹیکنالوجی نے حال ہی میں جب یہ کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی دوربین ’’ہبل‘‘ پاکستانی ادارے سپارکو نے بنائی اور خلاء میں بھیجی ہے، تو دوسروں نے ان کا مذاق اُڑایا مگر ’’مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا‘‘، ہمارے خیال میں ہبل کی بابت ناسا کا دعویٰ غلط ہے اور فواد چوہدری صاحب نے سچ بول کر ناسا کا ’’ستیاناسا‘‘ کردیا ہے۔

ہمارے خیال میں خلائی دوربین ہبل پاکستان اسٹیل ملز میں بنائی گئی ہوگی، اور اس پر آنے والی لاگت ہی کی وجہ سے اسٹیل مل کی یہ حالت ہوئی کہ اس دوربین سے اب اسٹیل مل کی پیداوار تلاش کی اور منافع ڈھونڈا جارہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔بلکہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت فواد چوہدری کے علاوہ اور کوئی کیوں نہ جان سکا؟ ناسا اب تک جھوٹ بول کر ہبل کو اپنے نام کرتا رہا تو پاکستانی حکم راں خاموش کیوں رہے؟ اور خود سپارکو نے کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی؟ اول تو ایسے سوالات پیدا ہو ہی گئے ہیں تو انھیں پالنے کی ضرورت نہیں، انھیں پالنے میں پڑا رہنے دیں، زیادہ روئیں تو جھنجھنا دے کر کہہ دیں ’’جاؤ کھیلو یہ لو جھنجھنا۔‘‘ اگر پھر بھی یہ چُپ نہ ہوں تو فکر نہ کریں، ہمارے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا ہے کہ یہ جو اپنے فواد چوہدری ہیں درحقیقت یہ فوائد چوہدری ہیں، جن کے بہت سے فوائد ہیں۔ واضح رہے کہ ہم صرف اس مفید وصف کی بات نہیں کر رہے کہ وہ ہر حکومت اور سیاسی جماعت میں یوں فِٹ بیٹھتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ، سُسرال میں نیک پروین حسینہ اور گرمی میں ساون کا مہینہ، یہ خصوصیت تو کئی سیاست دانوں کو حاصل ہے کہ وہ ہر ایک کو حاصل ہیں۔

ہم تو فواد چوہدری کے ان فوائد کی بات کر رہے ہیں جو صرف ان سے مخصوص ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو کوئی نہیں جانتا یہ وہ بھی جانتے ہیں، جیسے صرف پچاس روپے فی کلومیٹر ایندھن خرچ کرکے ہوائی جہاز اُڑانے کا طریقہ، ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنی گفتار سے گلیشیئر پر بھی آگ لگا سکتے ہیں، اس باعث سیاچن میں ہمارے بہت کام کے تھے پتا نہیں ان سے غلط جگہ کیوں فرائض انجام دلوائے جارہے ہیں، چوہدری صاحب کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے ایوان سے عوام تک ہنسنے کی سہولت میسر رہتی ہے۔

ان سارے فوائد کے باوصف ان کا کھوج کھوج کر قومی املاک اور ورثہ تلاش کرنا اور اس پر حق جتانا ایک الگ ہی خوبی ہی۔ کچھ دنوں قبل انھوں نے برطانیہ سے کوہ نور ہیرا طلب کیا تھا، امید ہے اب تک آچکا ہوگا۔ ویسے ملکہ برطانیہ سمیت سارے برطانوی ہمارے چوہدری صاحب کا مطالبہ سُن کر حیران رہ گئے ہوں گے کہ قرضے اور امداد طلب کرنے والوں کے بیچ یہ کون ہیرا ہے جو ہیرا طلب کر رہا ہے۔ اس روش کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہبل کو پاکستان ساختہ دوربین کہہ کر دراصل امریکا اور ناسا سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’میاں! سیدھی طریوں مان لو کہ ہبل ہماری ایجاد ہے، ورنہ اچھا نہیں ہوگا بتائے دے ریا ہوں۔‘‘ چوہدری صاحب کیا کریں۔

ان کا وہی حال ہے جو علامہ اقبال کا، جو کتابیں اپنے آبا کی یورپ میں دیکھتے تھے تو ان کا دل ہوتا تھا سیپارہ۔ چوہدری صاحب اقبال تو نہیں بلند اقبال ضرور ہیں، اس لیے اپنی میراث دوسروں کے ہتھے چڑھے دیکھ کر وہ ہتھے سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ کچھ دنوں بعد ان کی زبانی ہم مزید حقائق جان پائیں گے، جیسے سب سے پہلے چاند پر قدم ایک پاکستانی نے رکھا تھا، وہ تو وہ سابق حکومتوں کے خلاف بہ طور احتجاج چاند ہی پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا اور واپس نہیں آیا، ورنہ یہ اعزاز تو ہمیں حاصل ہے۔ یہ تو سو فی صد ممکن ہے کہ وہ دعویٰ کرکے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیں کہ ’’ہمارا خلائی مخلوق سے رابطہ ہو گیا ہے، اور کوئی آج نہیں ہوا، بہت پہلے سے ہے، بتا آج رہے ہیں۔‘‘

The post فوائد چوہدری نے کیا ناسا کا ’’ستیاناسا ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

دور حاضر کا ایک نازک وحساس سوال؛ مسجد اقصیٰ کیا ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر ہوئی؟

$
0
0

چند ماہ قبل فرانس کے مشہور گرجا گھر نوٹرے ڈیم میں آگ لگی اور اس کا بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ عجب اتفاق ‘ اسی دن بیت ا لمقدس یایروشلم میں بھی مسجد اقصیٰ کو آگ لگ گئی تھی تاہم محافظ اسے بروقت بجھانے میں کامیاب رہے۔ یوں مسجد کو نقصان نہیں پہنچ سکا۔یہ امر پُراسرار ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں آگ کیسے لگی؟

اکثر لوگوں پر گمان گزرا کہ کسی انتہا پسند یہودی نے یہ ناپسندیدہ حرکت کی ہوگی۔نصف صدی قبل 21اگست 1969ء کو بھی ایک انتہا پسند آسٹریلوی نوجوان نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگانی چاہی تھی۔ اس حادثے نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشتعل کر دیا ۔ چنانچہ سعودی عرب کے شاہ فیصلؒ کی سعی سے سربراہان اسلامی ممالک کااجلاس ہوا جس میں آئندہ مسائل پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر ایک تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد رکھی گئی۔

اسرائیل میں انتہا پسند یہودی خصوصاً بیت المقدس سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے سبھی نمونے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں نہ صرف یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بن سکے بلکہ ٹیمپل ماؤنٹ پر تیسرا ہیکل تعمیر کر لیا جائے۔ مگر مسجد اقصیٰ کی موجودگی کے باعث وہ ا بھی تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔واضح رہے، یہ معاملہ دنیا کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اگر انتہا پسندوں نے خصوصاً مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا چاہا توعالمی جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔انتہا پسند یہود کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی، وہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا۔ آئیے تاریخ کی روشنی میں ان کے اس دعویٰ کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق مسلم اور غیر مسلم مورخین کی مستند کتب میں موجود و محفوظ ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر

یروشلم یھودا ( Judaean Mountains)نامی سلسلہ ہائے کوہ میں سطح مرتفع پر واقع ہے۔ شہر میں جابجا ٹیلے پھیلے ہیں۔چاروں سمت وادیاں یا نشیبی علاقے دکھائی دیتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں سبھی اولیں انسانی بستیاں‘ چشموں‘ ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں اور یروشلم کی بنیاد بھی اسی طریقے سے رکھی گئی۔سات آٹھ ہزار سال پہلے کچھ خانہ بدوشوں نے یروشلم میں ایک چشمہ دریافت کیا جو آج ’’نبع ام الدرج‘‘(Gihon Spring) کہلاتا ہے ۔ چنانچہ انہوںنے چشمے کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے۔ یوں یروشلم کی انسانی تاریخ کا آغاز ہوا۔

2400 ق م (قبل مسیح )کے لگ بھگ عراق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ارض فلسطین تشریف لائے۔آپ پھر طویل عرصہ ارض فلسطین میں مقیم رہے۔آپ نے چشمے کے نزدیک ایک ٹیلے پر عبادت گاہ بھی تعمیر فرمائی تاکہ وہاں نماز پڑھی جاسکے۔ کتب تاریخ میں ایسی عبادت گاہ کا ذکر نہیں ملتا مگر قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں جس ’’دور کی مسجد‘‘ (مسجد اقصیٰ) کا تذکرہ کیا گیا، وہ یہی عبادت گاہ ہے۔’’پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کو ،جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی تھیں،لے گیا تاکہ ہم اسے اپنے بعض نشان دکھا سکیں۔بے شک وہی سننے والا،دیکھنے والا ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں اسراء و معراج شریف کا ذکر ہے جب حکم ربی پر نبی کریم ﷺ مکہ معظمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔یہ واقعہ ’’اسرا‘‘ کہلاتا ہے۔حرم الشریف ہی وہ مقام ہے جہاں سے آپﷺ کو آسمانوں پر لے جایا گیا۔اس واقعے کو ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ دونوں واقعات ہجرت ِمدینہ سے قبل پیش آئے۔آیت مبارکہ سے عیاں ہے کہ ان اسفار کے ذریعے رب کریم اپنے پیارے رسولﷺ کو اپنی قدرت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتے تھے۔حضرت انسؓ بن مالک کی حدیث کے مطابق معراج شریف کے سفر ہی میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی۔(البخاری و مسلم)قران کریم میں حضرت ابراہیم ؑکو ’’اقوام عالم کے امام‘‘ (سورہ البقرہ آیت 124) اور ’’مسلمانوں کا جد‘‘ (سورہ الحج آیت 78) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؒ کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ تنہائی محسوس کرنے لگے تو ایک رات حکم ربی سے آپؐ کو بذریعہ ’’اسراء‘‘ بیت المقدس لے جایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ نبی کریمؐ کی تنہائی دور کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ یوں اپنے محبوب پیغمبرؐ کو یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ وہ کفار مکہ کے مقابلے میں تنہا نہیں ۔

سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں پہلے مسجد الحرام کا ذکر فرمایا گیا۔ یہ احادیث کی رو سے کرہ ارض پر پہلی مسجد ہے جسے پہلے حضرت آدم ؑ نے تعمیر فرمایا۔ پھر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد ازسر نو بنایا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے ’’میں نے ایک بار نبی اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ روئے ارض پر کون سی پہلی مسجد تعمیر ہوئی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مسجد الحرام۔‘‘ میں نے پوچھا ’’اس کے بعد؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’مسجد الاقصیٰ۔‘‘ میں نے دریافت کیا ’’ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’چالیس برس۔‘‘ (صحیح بخاری)

معراج سے واپسی کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو یقینا ’’دور کی مسجد‘‘ کے مقام سے مطلع فرمایا ہوگاجو تاریخ اسلام میں مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہوئی۔جب اسراء و معراج پیش آیا، تو بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ موجود نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے معراج سے رسول کریمؐ پر القا فرمایا کہ اس جگہ ایک مسجد موجود تھی۔یہی وجہ ہے، جب 638ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا، تو خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے اس مقام پر ایک عارضی مسجد تعمیر فرمادی۔ اموی خلفا کے دور میں اس مقام پر مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔ اموی خلفا ہی نے ٹیلے کے وسط میں گنبد قبتہ الصخرہ بھی تعمیر کرایا۔ گنبد کے درمیان میں ایک چٹان ’’صخرہ مشرفہ‘‘ واقع ہے۔ روایت ہے کہ حضور اکرمﷺؐ اسی چٹان پر قدم رکھ کر آسمان کی جانب روانہ ہوئے تھے۔

مسجد اقصیٰ دین اسلام میں ایک اور وجہ سے بھی اہم ہے:یہ مسلمانان عالم کا قبلہ اول ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام مکہ معظمہ میں پچھلے انبیاء کی پیروی کرتے ہوئے حرم الشریف کی سمت نماز ادا فرماتے تھے۔ یہ نماز اس طرح پڑھی جاتی کہ خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ بیک وقت سامنے آ جاتے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی سولہ سترہ ماہ تک نبی کریمؐ مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکے عبادت الٰہی فرماتے رہے۔ آخر سورہ البقرہ کی آیات 142 تا 144 نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا۔حیرت انگیز بات یہ کہ جب اسراء و معراج ظہور پذیر ہوئے اور نبی کریمؐ صحابہ کرام کی معیت میں مسجد اقصیٰ کی جانب رخ فرما کر نماز ادا فرماتے رہے، تو اس مسجد کا نام و نشان نہیں تھا۔ وجہ یہ کہ نصاریٰ نے اس مقام کو کوڑا خانہ بنا رکھا تھا۔یہ مقدس مقام بنی اسرائیل کے گناہوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اس حال تک پہنچا۔ یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اس مقام کو پستی کی انتہا سے نکالا اور اسے پھر دنیا بھر میںاعلی عزت و احترام کا مسکن بنادیا۔

مسلمانان عالم آج اس مقام کو ’’حرم شریف‘‘ کہتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ میں ’’ٹیمپل ماؤنٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ چشمہ ’’نبع ام الدرج‘‘کے نزدیک واقع ٹیلہ ہے جس کا قطر چھتیس ایکڑ ہے۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت ابراہیمؑ نے اسی جگہ حضرت اسحاقؑ کی قربانی دینا چاہی تھی جبکہ سورہ بنی اسرائیل آیت 1 کے مطابق مسجد الحرام کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے وہاں مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی۔گویا مکہ معظمہ اور بیت المقدس، دو مقدس ترین شہروں کی بنیاد چشموں کے کنارے رکھی گئی۔حضرت ابراہیمؑ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ’’بنی اسرائیل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسرائیل حضرت ابراہیمؑ کے پوتے، حضرت یعقوبؑ کا ایک نام ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے فرزند، حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے۔ مصریوں نے جب بنی اسرائیل کو غلام بنالیا اور ان پر ظلم کرنے لگے تو چار سو برس بعد حضرت موسیٰؑ انہیں واپس ارض فلسطین لے آئے۔ان چار سو برس کے دوران بنی اسرائیل میں بہت سی مشرکانہ عادات و خصائل پیدا ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے، وہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں و پیغمبروں سے سرکشی کرتے رہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں سزائیں دینے کے بعد معافی عطا فرمائی اور انہیں بار بار اصلاح احوال کا موقع دیتے رہے۔

ہیکل سلیمانی

بنی اسرائیل نے آخر یروشلم سمیت ارض فلسطین کی مختلف آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت سلیمانؑ کے دور میں حرم شریف یا ٹیمپل ماؤنٹ کے مقام پر عبادت گاہ تعمیر ہوئی جو ہیکل سلیمانی کہلاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہیکل سلیمانی کا تذکرہ موجود نہیں البتہ سورہ سبا کی آیات 12 اور 13 میں آیا ہے: ’’کچھ جن اس کے (حضرت سلیمانؑ) کے تابع تھے۔ وہ جو چاہتا، اس کے لیے بناتے… قلعے، مجسّمے، حوض کی طرح کے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔‘‘ مسلمان تو یقین رکھتے ہیں کہ حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند،حضرت سلیمانؑ نے مسجد ابراہیمی کو نئے سرے سے تعمیر فرمایا مگر خود یہود و نصاری میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ اسرائیل فنکلسٹین(Israel Finkelstein) اور نیل ایشر(Neil Asher Silberman) اسرائیل کے دو ممتاز اثریات داں ہیں۔

ان دونوں نے 2002ء میں ایک کتاب’’The Bible Unearthed: Archaeology’s New Vision of Ancient Israel and the Origin of Its Sacred Texts‘‘ لکھی۔ کتاب میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی یہود کی ریاست، یہودا کے بادشاہ، یوسیاہ (Josiah) نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بادشاہ کا دور حکومت 649 ق م (قبل مسیح) سے 609 ق م رہا ہے ۔جبکہ عبرانی بائبل کی رو سے ہیکل سلیمانی 931 ق م تا 920 ق م کے مابین تعمیر ہوا۔ ان اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ یوسیاہ کے دور حکومت سے تین سو سال پہلے حضرت سلیمانؑ کی ریاست اتنی دولت مند اور طاقتور نہیں تھی کہ وہ ہیکل سلیمانی جیسی بڑی عمارت تعمیر کرلیتی۔

امریکا کی ماہر اثریات، کیتھلین کینیون (1906ء۔ 1978ء) بیسویں صدی کی نامور ماہر آثار قدیمہ ہے۔ اس نے 1961ء تا 1967ء ’’شہر داؤد‘‘ (City of David) میں کھدائیاں کی تھیں۔ ماضی میں حرم شریف کے اردگرد کا علاقہ ’’شہر داؤد‘‘ کہلاتا تھا۔ عبرانی بائبل کی رو سے اسے حضرت داؤدؑ نے آباد کیا تھا۔ کیتھلین کینیون(Kathleen Kenyon) نے شہر داؤد میں کھدائیوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس علاقے سے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار نہیں ملے۔

امریکا کا سائنس داں، ارنسٹ ایل مارٹن (1932ء۔ 2002ء) آثار قدیمہ سے بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ 1961ء کی بات ہے، جب ارنسٹ مارٹن(Ernest L. Martin) کی ملاقات اسرائیل میں ’’بابائے آثار قدیمہ‘‘ بینجمن مازار ( Benjamin Mazar) سے ہوئی۔ بنجمن نے اپنے امریکی ممدوح کو بتایا کہ یروشلم میں یہ قدیم روایت ملتی ہے کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل ’’اوفل ‘‘(Ophel) ٹیلے پر واقع تھے۔یروشلم میں حرم شریف اور شہر داؤد کے درمیان واقع بلند مقام اوفل کہلاتا ہے۔یہ چشمہ ام الدراج کے عین سامنے واقع تھا۔ ارنسٹ ایل مارٹن پھر تحقیق کرنے لگا کہ کیا ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اس جگہ واقع تھے؟ارنسٹ مارٹن نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ایک کتاب’’The Temples that Jerusalem Forgot‘‘ لکھی جو 1999ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں اس نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اوفل ٹیلے پر واقع تھے۔ لیکن یروشلم کے حاکم، شمعون حسمونی(Simon the Hasmonean)نے اپنے دور حکومت( 142ق م تا 135 ق م)میں نیا ہیکل حرم شریف میں تعمیر کرا دیا۔ بعدازاں رومیوں کے باج گزار یہودی حکمران، ہیروداول(Herod the Great) نے اپنے دور (37 تا4 ق م )میں اسی ہیکل کو توسیع دی اور اسے عظیم الشان عمارت میں ڈھال دیا۔

یاد رہے، بابل کے بادشاہ، نبوکد نصر نے 586 ق م میں یروشلم تباہ کردیا تھا اور ہیکل سلیمانی بھی ملیامیٹ کرڈالا۔ وہ پھر تمام یہود کو غلام بناکر بابل لے گیا۔ صرف بوڑھے یہودی ہی یروشلم میں مقیم رہے۔ 539 ق م میں ایرانی بادشاہ، سائرس اعظم نے بابل فتح کرلیا۔ اس نے یہود کو واپس یروشلم جانے اور نیا ہیکل بنانے کی اجازت دے دی۔دوسرا ہیکل 537 تا 515 ق م کے درمیان تعمیر ہوا۔ یہ بھی ہیکل سلیمانی کے مانند تھا۔ عبرانی بائبل کے مطابق ہیرود اول نے اسی کو توسیع دی اور حرم الشریف میں عظیم الشان ہیکل تعمیر کروایا۔ مگر ارنسٹ مارٹن اور ان کے نظریات سے اتفاق کرنے والے دیگر ماہرین اثریات کا دعویٰ ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل اوفل ٹیلے پر تعمیر ہوئے جو نسبتا ًچھوٹا ٹیلہ تھا۔گویا شمعون حسمونی اور ہیرود اول نے تیسرا ہیکل حرم الشریف میں تعمیر کرایا جو چوڑائی، لمبائی اور اونچائی میں زیادہ بڑا ٹیلہ تھا اور یہ کہ اس ٹیلے پر حضرت سلیمانؑ کے دور حکومت میں قلعے تعمیر ہوئے تھے۔

یہود پہ عذاب ِالٰہی

330ق م میں اسکندر اعظم نے فارسی حکمران،دارا سوم کو شکست دی تو ارض فلسطین رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔66ء میں علاقے کے یہود نے رومی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردی جو چار برس تک جاری رہی۔ اپریل 70ء میں مستقبل کا رومی بادشاہ، شہزادہ تیوس ( Titus) کثیر فوج لیے یروشلم آپہنچا۔ اس نے پونے پانچ ماہ شہر کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر شہر پہ قبضہ کیا اور اسے ملیامیٹ کر ڈالا۔ یوں دوسرا ہیکل بھی تباہ ہوگیا۔ اس کی صرف کچھ دیواریں ہی کھنڈرات کی صورت باقی رہ گئیں۔ ہیرود اول نے حرم الشریف کے گرد چار دیواری تعمیر کرائی تھی۔رومی فوج کے حملوں سے علاقے میں آباد ہزارہا یہودی مارے گئے۔ جو نوجوان زندہ بچے، رومیوں نے انہیں غلام بنالیا۔ بقیہ یہودی جانیں بچانے کی خاطر دور دراز علاقوں میں چلے گئے۔ اسی طرح رومی حملے خدائی قہر بن کر یہودی قوم پر نازل ہوئے اور اسے تباہ و برباد کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے یہودی علما یعنی ’’عموریم‘‘ (Amoraim) کی رو سے یہودی قوم سر تا پا گناہوں میں لتھڑ چکی تھی۔

اسی لیے خداوند تعالیٰ نے رومیوں کو عذاب کی شکل میں یہود پر نازل کردیا ۔جبکہ عیسائی علماء کے نزدیک یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر ظلم و ستم کیے تھے۔ اسی گناہ کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے رومی فوج کے ہاتھوں یہودی قوم کو تتر بتر اور برباد کرڈالا۔ روایت ہے کہ یہودی علماء ہیکل کے کھنڈرات میں جاکر عبادت کرتے رہے۔ رومی بادشاہ ہیڈرین کے دور حکومت( 117ء تا 138ء) میں یہود نے پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ ہیڈرین کے احکامات پر اس بغاوت کو نہایت سختی سے کچلا گیا۔ہیڈرین نے پھر یروشلم کی جگہ نیا شہر بسایا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ جس جگہ ہیکل قائم تھا، وہاں اس نے ایک معبد تعمیر کرایا جہاں جوپیڑ (مشتری) دیوتا کی عبادت ہوتی تھی۔ بادشاہ ہیڈرین نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ نئے شہر میں کوئی یہودی داخل نہیں ہوسکتا۔ یوں یروشلم میں یہود کی آمد پر پابندی لگ گئی۔

312ء کے لگ بھگ رومی سلطنت کے بادشاہ، قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کرلی۔ بادشاہ کو عیسائی بنانے میں اسی کی والدہ، ملکہ ہیلانہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ملکہ ہیلانہ ہی ہے جس نے یروشلم میں اولیّں چرچ تعمیر کرائے۔ ان چرچوں کی تعمیر کے بعد ماؤنٹ ٹیمپل کی مذہبی اہمیت کم ہوگئی۔اکثر مغربی مورخین نے لکھا ہے کہ یروشلم کی عیسائی حکومت نے ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان میں بدل دیا یعنی وہاں شہر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جانے لگا۔ مقصد حضرت عیسیٰؑ کی یہ پیشن گوئی پورا کرنا تھا کہ ہیکل مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔متی 2:24 میں ہے: ’’جب حضرت عیسیٰؑ ہیکل سے نکلے اور چلنے لگے تو ان کے پیروکار بھی پیچھے آئے اور ہیکل کی عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’آپ ان سب کو دیکھتے ہیں؟‘‘ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ’’میں تمہیں سچ بتاتا ہوں۔ اس جگہ ایک پتھر بھی دوسرے پتھر پر باقی نہیں رہے گا۔ سب کچھ ڈھایا جائے گا۔‘‘قسطنطین اعظم کے حکم پر ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات باقی رکھے گئے۔ مدعا یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہودیت مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی منشا یہ تھی کہ انسان کھنڈرات دیکھ کر عبرت پکڑیں اور ایسے بداعمال کرنے سے باز رہیں جن کی وجہ سے یہود پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور وہ برباد ہوگئے۔

قسطنطین نے بھی یروشلم میں یہود کے داخلے پر پابندی لگادی۔ تاہم وہ سال میں ایک مرتبہ ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرسکتے تھے۔ مگر عیسائی مذہبی رہنماؤں کو اس امر پر بھی اعتراض تھا۔ پوپ لیو اول (400ء تا 461ء) روم کو دنیائے عیسائیت میں مرکزی حیثیت دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اسی طرح چوتھی صدی عیسوی کے دوران دنیائے عیسائیت میں ایتھناسیوس اسکندروی(Athanasius) مشہور مذہبی رہنما گزرا ہے ۔وہ اسکندریہ شہر کا بشپ تھا۔ وہ عیسائیوں میں یہ تبلیغ کرتا تھا کہ اگر یہود کو ٹیمپل ماؤنٹ پھر مل گیا، تو وہ نہایت خطرناک ہوجائیں گے۔311ء میں عیسائیت رومی سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔ یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر مظالم توڑے تھے۔ اسی لیے اب پوری سلطنت میں یہود کو مختلف طریقوں سے دق کیا جانے لگا۔ وہ ریاست کے ناپسندیدہ عناصر بن گئے۔ اکثر جگہوں پر عیسائیوں نے ان کا معاشرتی مقاطع (بائیکاٹ) کردیا۔ یہی وجہ ہے، یہود کی اکثریت رومی سلطنت سے نکل کر عرب ممالک، افریقا حتیٰ کہ افغانستان اور ہندوستان میں جابسی۔

عیسائی حکمرانوں اور عوام نے ٹیمپل ماؤنٹ کو بالکل نظر انداز کردیا۔ جیسا کہ بتایا گیا، وہ علاقہ فضلہ پھینکنے کی جگہ بن گیا۔ 381ء میں اسپین سے ایک نن، ایگیریا (egeria) ارض فلسطین پہنچی تاکہ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرسکے۔ اس نے اسپین میں ساتھی ننوں کے نام طویل خط بھیجا جس میں یروشلم کا تذکرہ محفوظ ہے۔ اس تذکرے میں ٹیمپل ماؤنٹ کا کا کوئی ذکر نہیں۔ لگتا ہے، ہسپانوی نن کو علم ہی نہیں تھا کہ یہود کی اہم ترین عبادت گاہ شہر میں موجود ہے۔دنیائے عیسائیت میں حکمرانوں اور مذہبی رہنماؤں، دونوں کی سعی تھی کہ عوام کی یادداشت سے ٹیمپل ماؤنٹ کو نکال باہر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے، ہمیں اردن کے شہر، مادبا میں سینٹ جارج چرچ کے فرش پر بنائے گئے یروشلم کے موزیک نقشے پر ٹیمپل ماؤنٹ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ موزیک نقشہ 542ء تا 570ء کے درمیان بنایا گیا۔

311ء کے بعد رومی سلطنت میں رفتہ رفتہ یہود کی سینکڑوں عبادت گاہیں،صومعہ (Synagogue) ڈھا دی گئیں۔ 425ء میں یہودی عدالت (Sanhedrin) کے جج (nasi) کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔رومی شہنشاہ، تھیوڈویس دوم کی بیوی، ملکہ ایلیا جوڈویسیا (Aelia Eudocia) یہود سے ہمدردی رکھتی تھی۔438ء میں اس نے ارض فلسطین کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران بچے کھچے یہود نے رومی ملکہ سے درخواست کی کہ انہیں ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ ملکہ نے درخواست قبول کرلی۔انھوں نے پھر خوشی کی یہ خبر خطوط کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے یہود تک پہنچادی۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ خوشی منانے یروشلم پہنچ جائیں۔ چناں چہ تقریباً ایک لاکھ یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے یروشلم آپہنچے۔ مگر یہود کا جم غفیر دیکھ کر عیسائی عوام گھبراگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہود دوبارہ شہر پر قبضہ کرنے کی سعی کرسکتے ہیں اسی لیے وہ یہود کی راہ میں مزاحم ہوگئے۔مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ ایک دن عیسائیوں اور یہود کے مابین زبردست تصادم ہوا۔لڑائی میں چار یہودی مارے گئے۔ جو یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر چڑھنے کی سعی کرتا، عیسائی اسے پتھر مارتے۔عیسائی تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔ آخر کار انہوں نے تمام یہود کو شہر سے نکال دیا۔ اس کے بعد تقریباً دو سو برس تک ایک بھی یہودی یروشلم میں داخل نہیں ہوسکا۔ یہ عرصہ یہودی تاریخ میں ’’مستور دور‘‘ کہلاتا ہے۔

614ء میں فارس کی فوج نے یروشلم پر حملہ کیا۔ ارض فلسطین میں آباد یہود بھی اس فوج کا حصہ بن گئے۔ فارسی فوج نے یروشلم پر قبضہ کیا، تو انہوں نے ایک یہودی رہنماء نحمیا بن ہوشیل کو وہاں کا حاکم بنادیا۔ دو ہفتے بعد شہر کے عیسائیوں نے اسے ساتھیوں سمیت مار ڈالا۔ فارسی فوج نے یہود کے ساتھ مل کر دوبارہ یروشلم پر دھاوا بولا اور ہزارہا عیسائیوں کو قتل کر ڈلا۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ فارسی فوج نے بہت سے چرچ تباہ کردیئے اور وہ صومعہ بھی جو یہود نے ٹیمپل ماؤنٹ پر تعمیر کرلیا تھا۔ 628ء میں ایرانی بادشاہ، خسرو دوم اور رومی شہنشاہ ہرقل کے مابین دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ 630 میں ہرقل فاتحانہ یروشلم میں داخل ہوا۔ شروع میں اس نے یہود کو امان دے دی۔ تاہم عیسائی مذہبی رہنماؤں کی سرزنش پر یہ امان ختم کردی گئی۔ چناں چہ یروشلم اور قرب و جوار کے علاقوں میں بیسیوں یہودی قتل کردیئے گئے۔ یروشلم میں ان کا داخلہ دوبارہ ممنوع قرار پایا۔

مسلمانوں نے یہود کو پناہ دی

صرف نو سال بعد اسلامی فوج نے یہ شہر فتح کرلیا۔ مگر اس موقع پر شہر کا کوئی باسی قتل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی چرچ ڈھایا گیا۔ خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اہل شہر کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی عطا فرمائی۔تاریخ طبری میں درج ہے کہ اسی دورے میں خلیفہ دوم حرم الشریف (ماؤنٹ ٹیمپل) بھی تشریف لے گئے جہاں کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ آپؓ نے صحابہ کرام کی مدد سے سارا کوڑا کرکٹ صاف کیا۔ تبھی مسجد ابراہیمی کی جگہ ایک عارضی مسجد تعمیر کی گئی۔ نیز صخرہ مشرفہ کے گرد حصار بنایا گیا۔

آج بھی مسجد اقصیٰ کے بغل میں ایک کمرہ ’’مسجد عمرؓ‘‘ یا ’’محراب عمرؓ‘‘ کہلاتا ہے۔ روایت ہے حضرت عمرؓ نے اسی جگہ عارضی مسجد تعمیر فرمائی تھی۔تاریخ طبری میں یہ بھی درج ہے کہ اوائل میں حضرت عمر فاروقؓ اور یروشلم کے بشپ، صفرونیوس کے مابین یہ طے پایا تھا کہ یہود حسب دستور یروشلم میں آباد نہیں ہوں گے۔تاہم اٹھارہویں صدی میں قاہرہ، مصر کے ایک صومعہ کے جنیزہ (اسٹور روم) سے قدیم مخطوطے برآمد ہوئے جو 870ء میں لکھے گئے تھے۔ ان مخطوطوں(Cairo Geniza)میں درج ہے کہ بعدازاں یہود نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی تھی کہ 200 خاندانوں کو یروشلم آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے 70 خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ یہود شہر کے جنوبی حصے میں آباد ہوئے۔ یوں حضرت عمرؓ الفاروق کی مہربانی و کرم سے 438ء کے بعد پہلی بار یہود یروشلم میں مقیم ہوگئے۔

آنے والے ادوار میں بعض مسلم حکمرانوں نے یہود کے ساتھ سخت سلوک کیا لیکن مجموعی طور پر اسلامی حکومتوں میں یہود کو امن و امان میسر رہا بلکہ انہیں ترقی کرنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع بھی میسر آئے۔ جب اسپین و پرتگال پہ دوبارہ قبضے کے بعد عیسائیوں نے وہاں یہود کا قتل عام کیا تو بیشتر یہودیوں نے اسلامی مملکتوں ہی میں پناہ لی ۔ حتیٰ کہ یہ ایک مسلمان بادشاہ ہے جس نے یہود کو ’’مغربی دیوار‘‘ (Western Wall) کا تحفہ عطا کیا۔ہوا یہ کہ 14 جنوری 1546ء کو یروشلم میں شدید زلزلہ آیا۔ اس باعث حرم الشریف کے اطراف میں بنے کئی گھر منہدم ہوگئے۔

اس وقت یروشلم ترک عثمانی سلطان، سلیمان عالیشان کی سلطنت میں شامل تھا۔ سلطان سلیمان یہود سے ہمدردی رکھتے تھے اور انہوں نے اسپین و پرتگال سے آئے کئی یہود کو یروشلم و ارض فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی تھی۔سلطان سلیمان نے پھر مغربی دیوار کے نزدیک منہدم تمام گھر صاف کرائے اور وہاں یہود کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ آج مغربی دیوار یہود میں دوسری مقدس ترین یادگار ہے۔یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس چار دیواری کا حصہ ہے جو ہیرود اول نے دوسرے ہیکل کے گرد بنوائی تھی۔یہودیت میں مقدس ترین جگہ ’’قدس القدس‘‘ (Holy of Holies) ہے۔ یہود کے نزدیک اس جگہ خدا تعالیٰ قیام فرماتاہے۔ یہ جگہ ایک خیمے (خیمہ اجتماع) کے اندر واقع تھی۔ عبرانی بائبل کی رو سے یہ خیمہ ہیکل سلیمانی کے مغربی کونے میں بنایا گیا تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ بھی رکھا تھا۔ تاہم نبوکدنصر کے حملے میں وہ تباہ ہوگیا ۔

حرف آخر

قران پاک ،احادیث بنویﷺ اور تاریخی حقائق سے عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقع عطا فرمائے مگر وہ گناہ اور بد اعمال کرتے رہے۔چناں چہ بطور سزا نافرمان یہود کو پوری دنیا میں منتشر کردیا گیا۔اس کے بعد عیسائی قوم نے یہود پہ ظلم وستم توڑے اور ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان بنا لیا۔پھر مسلم قوم کا ظہور ہوا۔مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کر کے حرم الشریف کی مقدس حیثیت بحال کر دی ۔وہاں حضرت ابراہیمؑ کی مسجد ازسرنو تعمیر کی اور صخرہ مشرفہ کو بھی چار دیواری میں محفوظ کر دیا۔یہی نہیں ،انھوں نے یہود کو بھی سہارا دیا اور ان کو ترقی کے مواقع فراہم کیے۔

بیسویں صدی میں یہود دوبارہ دنیا میں اہم قوم بن کر ابھر آئے۔اس حیرت انگیز کایاپلٹ نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔مثلاً مغربی دنیا میں سیکولرمت کا پھیلاؤ،یہود کا بینکار و سرمایہ دار بن جانا،سائنس وٹکنالوجی میں خوب ترقی کرنا اور مغربی حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیابی کہ قیام اسرائیل سے بائبلی پیش گوئیاں پوری ہو سکیں گی۔اب معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بن کر اسرائیلی حکمران مسلمانوں کے احسان فراموش کر چکے۔وہ ٹیمپل ماؤنٹ پہ مسجد اقصیٰ ،گنبد صخرہ اور دیگر اسلامی تعمیرات شہید کر کے تیسرا ہیکل بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔اگر امت مسلمہ خواب غفلت سے نہ جاگی،مسلمان بدستور باہمی اختلافات کا شکار اور آپس میں لڑتے رہے تو انتہا پسند اسرائیلی حکمران اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہود کے مذہبی علما کا دعوی ہے کہ مسلمان اب اپنے گناہوں اور بداعمال کی وجہ سے ’’امت وسط‘‘(سورہ البقر ہ آیت 143)نہیں رہے جبکہ بنی اسرائیل نیکی وحق کی راہ اختیار کر کے دوبارہ خدا تعالیٰ کی چہیتی قوم بن چکے۔

The post دور حاضر کا ایک نازک وحساس سوال؛ مسجد اقصیٰ کیا ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر ہوئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


پاکستان میں پھیلتا خطرناک ایچ آئی وی وائرس

$
0
0

دس سالہ سلیم رتوڈیرو کا رہائشی ہے۔ یہ قصبہ صوبہ سندھ میں لاڑکانہ شہر سے 28کلو میٹر دور واقع ہے۔ سلیم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ شادی کے دس سال بعد دن رات دعائیں مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا۔ یوں گھر کے سونے آنگن میں بہار آ گئی۔

ماں باپ اپنے بیٹے پر فدا ہونے لگے۔سلیم کا باپ کسان ہے۔ وہ اپنی تھوڑی سی زمین پر اناج اگاتا اور اسے بیچ کر گذر بسر کرتا ہے۔چند ماہ قبل سلیم بخار اور جسمانی درد میں مبتلا ہو گیا۔ وہ اسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے دوا دی اور بچے کو انجکشن بھی لگایا۔ فارغ ہوکر باپ بیٹا گھر واپس آ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس عمل کے باعث ایک موذی آفت نے انہیں آن گھیرا ہے۔

ڈیڑہ ماہ بعد سلیم کو پھر بخار ہو گیا ۔ اس بار حملہ کافی شدید تھا۔ باپ بیٹے کو لیے پھراسی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اس نے دوا دی اور پھر انجکشن لگایا مگر سلیم کو افاقہ نہ ہوا بلکہ بخار کی شدت بڑھ گئی۔ باپ قدرتاً پریشان ہوگیا۔اب وہ اسے لیے ڈاکٹر عمران اربانی کے پاس پہنچا ۔یہ ڈاکٹر تجربہ کار اور جہاں دیدہ تھا۔ اس نے بچے کا معائنہ کیا تو اسے شک ہوا کہ بچہ ’’ایچ آئی وی وائرس‘‘(human immunodeficiency virus) کا نشانہ بن چکا۔ بخار ہونے کے علاوہ سلیم کی زبان پر سفید دھبے نمودار ہو چکے تھے۔جلد پر بھی سرخ دھبے واضح تھے۔ وہ خاصا کمزور بھی ہو چکا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر نے سلیم کے خون کا نمونہ لیا اور اسے برائے معائنہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی لیبارٹری بھجوا دیا۔

چند دن بعد لیبارٹری سے رپورٹ آئی، تو انکشاف ہوا کہ سلیم واقعی ایچ آئی وائرس کا شکار ہے۔ جب بچے کے ابا کو معلوم ہوا کہ اکلوتا بیٹا ایک ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہو چکا تو اس کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ وہ دھاڑیںمار کر رونے لگا۔ ڈاکٹر نے اسے دلاسا دیا کہ ادویہ کی مدد سے سلیم کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ ادویہ حکومت اسے مفت دے گی۔ یہ سن کر والد کو کچھ تسلی ہوئی مگر بیٹے کی بیماری نے اسے نڈھال اور پریشان کر دیا تھا۔

ڈاکٹر نے سلیم کے ابا سے دریافت کیا کہ کیا وہ بچے کو کسی دوسرے معالج کے پاس لے گیا تھا؟ باپ نے بتایا کہ وہ سلیم کو فلاں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور اس نے اسے انجکشن بھی لگایا۔ یہ بات سن کر ڈاکٹر عمران جان گیا کہ سلیم ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ کیونکر بنا۔وہ ڈاکٹر دراصل عطائی تھا، محض ایک کمپاؤنڈر جو کمائی کے لالچ میں آ کر انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگا۔ وہ ڈاکٹر بن بیٹھا اور ناخواندہ و بے شعور لوگوں کا الٹا سیدھا علاج کرنے لگا۔ پیسے بچانے کی خاطر وہ اکثر مریضوں کو ایک ہی انجکشن سے ٹیکا لگاتا تھا اور اسے صاف کرنے کی بھی زحمت نہ کرتا۔(انجکشن کے اندر ایچ آئی وی وائرس ’’28‘‘دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔)

اس نے سلیم کو جو انجکشن لگایا، اس سے پہلے ایڈز کے ایک مریض کا خون نکالا گیا تھا۔ یوں انجکشن یا سوئی کی سطح سے ایچ آئی وی وائرس چمٹ گیا۔ اور جب عطائی نے اس انجکشن سے سلیم کو دوائی کا محلول دیا تو وائرس بچے کے جسم میں داخل ہو گیا۔پولیس اس عطائی کو گرفتار کر چکی ۔ عطائی پر الزام ہے کہ وہ کئی بچوں کو ایچ آئی وی وائرس کا شکار بنا چکا۔ یوں اس ظالم ‘ لالچی اور بے حس انسان نے بہت سے معصوم اور بے گناہ بچوں کی زندگیاں جہنم بنا دیں اور انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ایسے ہی شیطان صفت لوگ انسانی معاشروں میں کلنک کے ٹیکے جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔

دراصل جب جہاں دیدہ ڈاکٹر کے پاس بیماری کی ملتی جلتی علامات لیے کئی بچے پہنچے تو اس نے سبھی کا خون برائے معائنہ سرکاری لیبارٹری بھجوا دیا ۔یوں ڈاکٹر عمران واقعی مسیحا ثابت ہوا۔رپورٹیں آنے پر پتا لگا کہ اکثر بچوں کے بدن میں ایچ آئی وی وائرس پنپ رہا ہے۔ اس اطلاع نے رتوڈیرو ہی نہیں پورے ضلع لاڑکانہ میں تشویش و پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ حکومت سندھ پھر مختلف بچوں بڑوں کا معائنہ کرانے لگی تاکہ معلوم ہو سکے، ضلع میں کتنے افراد ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہو چکے۔ یہ تحریر قلم بند ہونے تک ’’393 ‘‘ مریض سامنے آچکے۔ ان میں سے ’’312‘‘ بچے ہیں جو نہایت پریشان کن بات ہے۔صورت حال سے عیاں ہے کہ یہ خطرناک وائرس قوم کے مستقبل کو نشانہ بنانے لگا ہے،ان بچوں کو جنھوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

جس کا کوئی علاج نہیں

ایچ آئی وی بنیادی طور پر چیمپنزی بندر کو نشانہ بنانے والا وائرس ہے۔ افریقہ میں بہت سے لوگ ان بندروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے۔ افریقی باشندوں کے ذریعے پھر یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یہ وائرس انتقال خون ‘ جسمانی ملاپ اور شیرِ مادر کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے ۔ وائرس انسانی جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹی خلیے (T cell)مار ڈالتا ہے۔ ان خلیوں کی عدم موجودگی سے انسان پھر مختلف خطرناک امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماریوں کا نشانہ بننے کی کیفیت ’’ایڈز‘‘ کہلاتی ہے۔ ایڈز کا کوئی علاج نہیں اور اس میں مبتلا انسان آخر کار سسک سسک کر قبر میں پہنچ جاتا ہے۔

یہ 1987ء کی بات ہے‘ جب پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا حامل پہلا مریض سامنے آیا۔ تب سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ وجہ یہی کہ یہ وائرس جس انسان کے جسم میں داخل ہو جائے تو پھر ساری زندگی اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ مریض کو تاعمر خصوصی ادویہ کھانا پڑتی ہیں تاکہ وائرس اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ مریض جیسے ہی ادویہ چھوڑے یا انہیں لینے میں کوتاہی برتے‘ تو ایچ آئی وی وائرس چند ہفتوں میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس پھر ٹی خلیوں پر حملہ کر کے نہایت تیزی سے اپنی نقول تیار کرتا اورانسانی مامون نظام (immune system) تباہ و برباد کرنے لگتا ہے۔ تب کوئی دوا اس وائرس کا راستہ روک نہیں پاتی۔

وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ نہایت تشویش ناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ اکثر موذی بیماریاں مثلاً کینسر، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب، فالج، امراض تنفس وغیرہ ایک انسان سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوسکتیں۔ مگر ایچ آئی وی وائرس اور ہیپاٹائٹس سی کے وائرس مریض سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوکر ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ایچ آئی وائی نہایت خطرناک وائرس ہے اور پاکستانی معاشرے میں اس کے پھیلنے کا مطلب ہے کہ ہمارے کروڑوں بچے بڑے اس کی زد میں آچکے ۔

انجکشن کا ناروا استعمال

دنیائے مغرب اور بہت سے مشرقی ممالک میں خواہش نفس کی تسکین سے یہ موذی وائرس مریض سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے بنیادی اسباب مختلف ہیں۔ جائز ناجائز ملاپ بھی ایک سبب ہے مگر اس کی اہمیت زیادہ نہیں۔ماہرین کے نزدیک پاکستان میں ایچ آئی وائی وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ انجکشن کا ناروا استعمال ہے۔لہذا یہ یقینی بنانا ہر شخص کے ضروری ہے کہ ڈاکٹر یا نرس مریض پہ نیا انجکشن اور سوئی ہی استعمال کر رہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے نشئی اکثر ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرتے ہیں۔ یوں ایچ آئی وائی وائرس کا شکار نشئی اپنا وائرس صحت مند انسان کے بدن میں منتقل کر دیتا ہے۔ بہت سے نشئی اپنا خون بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔ایسے لوگ اکثر غیر قانونی بلڈ بینک میں جا کر اپنا خون بیچتے ہیں۔ یہ بلڈ بینک غریبوں کو کم قیمت پر خون فروخت کرتے ہیں۔ یوں نشئی کا وائرس زدہ خون دوسرے انسانوں کے جسم میں بھی دوڑنے لگتا اور انہیں بھی ایچ آئی وی کا مریض بنا دیتا ہے۔

عطائی ڈاکٹر بھی ایچ آئی وی وائرس پاکستانی قوم میں پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکے ۔ یہ خصوصاً دیہی معاشرے میں جابجا ملتے ہیں۔ مثلاً رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا کئی مریض سامنے آئے‘ تو کمشنر ضلع لاڑکانہ نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ضلع میں چار سے پانچ ہزار عطائی سرگرم ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں، انہی کی وجہ سے دیہی سندھ میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ضلع شکار پور میں بھی وائرس کا نشانہ بنے لوگ دریافت ہو چکے۔یہ عطائی لیبارٹریوں، کلینکوں، بلڈ بینکوں ،میٹرنٹی ہوموں وغیرہ کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ یہ عطائی رقم بچانے کے لیے ایک ہی انجکشن کئی مریضوں پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ نہایت خطر ناک عمل ہے۔ ایک ہی انجکشن کے بار بار استعمال سے ایچ آئی وی ہی نہیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے وائرس بھی مریض سے صحت مند انسان کے بدن میں منتقل ہوتے اور اس کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ افسوس پیسے کا لالچ انسان کو حیوان بنانے لگا ہے۔بعض ماہرین کا مطالبہ ہے کہ کلینکوں میں انجکشن لگانے پر پابندی لگائی جائے تاکہ ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔

پاکستان کے دیہات میں جہالت اور غربت کا دور دورہ ہے۔ وہاں کے باسی شعور نہ ہونے پر عطائی اور مستند ڈاکٹر کے مابین تمیز نہیں کرپاتے۔ حیرت یہ ہے کہ شہروں میں بھی کئی تعلیم یافتہ عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یہ تشویش ناک صورتحال جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اکثر پڑھے لکھے پاکستانی بھی نہیں جانتے کہ ایچ آئی وی وائرس کیا ہے، یہ کیسے پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کے کیا طریقے اختیار کیے جائیں۔

افسوس کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سرگرمی سے مہم نہیں چلائی۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس وائرس کی بابت شاذونادر ہی معلومات دی جاتی ہیں۔ لہٰذا عام لوگ یہی نہیں جانتے کہ کن طریقوں سے اس خطرناک وائرس کا پھیلاؤ روکنا ممکن ہے۔ اسی باعث پاکستان میں یہ وائرس ایک سے دوسرے اور تیسرے چوتھے تک پھیلتا چلا جارہا ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام میںاس خونی وائرس سے آگاہی پھیلانے کے لیے زوردار مہم چلائیں۔

وائرس کے اعدادوشمار

وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعدادو شمار کی رو سے پاکستان میں ’’ڈیڑھ لاکھ‘‘ سے زیادہ افراد ایچ آئی وی وائرس کے حامل ہیں۔ ان میں سے 75 ہزار صوبہ پنجاب، 60 ہزار صوبہ سندھ، 15 ہزار صوبہ خیبرپختونخواہ اور 5 ہزار صوبہ بلوچستان میں آباد ہیں۔ مگر یہ عدد زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ عموماً سرکاری اعدادو شمار حقیقی تصویر سامنے نہیں لاتے۔ ماہرین کی رو سے دو تا ڈھائی لاکھ پاکستانی ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوچکے۔

دسمبر 2018ء میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (World Health Organization) نے پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جو خوفناک انکشافات سامنے لائی۔ اس کے مطابق پاکستان میں ہر سال ’’بیس ہزارپاکستانی‘‘ ایچ آئی وی وائرس کا شکار بن رہے ہیں۔ اور اگر صورتحال یہی رہی، تو مستقبل میں متاثرہ افراد کی سالانہ تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ کی رو سے پاکستان میں وائرس میں مبتلا صرف ’’9 فیصد مریض‘‘ اپنا علاج کروارہے ہیں۔

ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ پاکستانیوں کی اکثریت غریب اور ناخواندہ ہے۔ اکثر نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں موت پنپ رہی ہے۔ مزید براں بہت سے پاکستانی وائرس کی بابت جان بھی جائیں تو یہ خبر پوشیدہ رکھتے ہیں۔وجہ یہ کہ پاکستانی معاشرے میں ایڈز سے متاثرہ شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حقیقتاً روزمرہ زندگی میں مریض کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ ہزارہا پاکستانی کرہ ارض پر بستے موت کے فرشتوں کے مانند ہیں۔ وہ جانے انجانے میں اپنی موت کا سبب دوسروں میں بھی تقسیم کررہے ہیں۔ بعض تو باغی بن کر دانستہ معاشرے کو نقصان پہنچاسکتے ہیں تاکہ کسی قسم کا انتقام لے سکیں۔ مثلاً رتوڈیرو کے رہائشی ڈاکٹر مظفر پر الزام لگا ، اس نے انتقاماً کئی بچوں میں اپنا ایچ آئی وی وائرس منتقل کردیا۔ وہ ذہنی مریض بتایا جاتا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ لوگوں کو مفت علاج میسر ہے، مگر بہت کم پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی مریضوں کو علم ہی نہیں کہ حکومت مفت علاج فراہم کرتی ہے اور دیگر مریض شرم یا خوف کے مارے علاج نہیں کراتے اور سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔

پُر اسرار اور انوکھا وائرس

ایچ آئی وی وائرس کی دو اقسام ہیں:وائرس 1 اوروائرس -2 وائرس 1 کی مزید چودہ ذیلی اقسام (Subtypes) ہیں۔ خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس 1 کی ذیلی قسم سی (C) اور ای (E) کے مریض بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں موجود ہیں۔دنیا میں تین کروڑ ستر لاکھ انسان اپنے جسم میں ایچ آئی وی وی وائرس رکھتے ہیں۔ ان میں سے ’’90 فیصد‘‘ وائرس 1 سے متاثر ہیں۔ان میں سے ’’پچیس تا تیس فیصد‘‘ متاثرہ مردوزن اور بچے نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں ایک خطرناک وائرس داخل ہوچکا۔

ایچ آئی وی وائرس خاصا پُر اسرار اور انوکھا ہے۔ وجہ یہ کہ کبھی تو وہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد انفلوئنزہ مرض جیسی علامات پیدا کردیتا ہے ۔مگر کبھی خاموش پڑا رہتا اور کئی سال بعد نظام مامون کے ٹی خلیوں کو تباہ و برباد کرنا شروع کرتا ہے۔ بہرحال ’’40 سے 90 فیصد‘‘ انسانوں کے بدن میں یہ وائرس داخل ہو، تو وہ دو سے چار ہفتوں بعد بخار، جسمانی سوجن، تھکن، سردرد اور گلے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اکثر جسم پر دھبے پڑھ جاتے ہیں۔ یہ حالت طبی اصلاح میں’’ایکیوٹ انفیکشن‘‘( Aucte Infection )کہلاتی ہے۔عام طور پر ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ یہ کسی چھوٹی بیماری کی علامات ہیں۔ لہٰذا وہ مروجہ ادویہ سے ان کا علاج کرتے ہیں۔ کم ہی ڈاکٹر جان پاتے ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس یہ علامات پیدا کررہا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات معلوم ہوجائے، تو پھر مخصوص ادویہ سے وائرس کو برتا جاتا ہے۔

اگر بدقسمتی سے ایکیوٹ انفیکشن دور یا پہلے مرحلے میں وائرس دریافت نہ ہوسکے، تو پھر دوسرا مرحلہ جنم لیتا ہے جسے طبی زبان میں ’’کلینکل لیٹینسی‘‘(clinical latency) کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ تین سال سے بیس سال کے درمیان رہتا ہے۔ اوسط مدت آٹھ سال ہے۔ اس مرحلے کے آخر میں بہت سے مریض بخار، وزن میں کمی، امراض معدہ اور عضلات میں درد سے دوچار رہتے ہیں۔ 50 سے 70 فیصد مریضوں کے لمفی غدود سوج جاتے ہیں۔جب مریض کے جسم میں ٹی خلیے بہت کم رہ جائیں، تو تیسرے اور آخری مرحلے یعنی ’’ایڈز‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں مریض مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر رفتہ رفتہ موت کے منہ میں جانے لگتا ہے۔ اب کوئی علاج کام نہیں آتا اور جلد قبر اس کا آخری ٹھکانا بن جاتی ہے۔

شناخت اور علاج

اللہ نہ کرے کوئی ہم وطن ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ بن جائے۔ لیکن اگر یہ وائرس کسی کے جسم میں داخل ہوچکا اور وہ اپنی علامات (بخار، تھکن، جسمانی دھبے وغیرہ) پیدا کرنے لگا ہے تو گھبرائیے مت اور فوراً سرکاری ادارے، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے کسی سینٹر سے رجوع کیجیے۔حکومت پاکستان نے 1987ء میں یہ سرکاری ادارہ قائم کیا تھا تاکہ وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔ ادارے کے تحت ملک بھر میں ’’35‘‘ طبی مراکز کھولے جاچکے۔ ان مراکز میں نہ صرف ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کا ٹیسٹ مفت ہے بلکہ مریض ہونے کی صورت میں پاکستانی شہریوں کا مفت علاج بھی ہوتا ہے۔ ایسے 19 مراکز صوبہ پنجاب، 9 صوبہ سندھ، 3 صوبہ خیبرپختون خواہ، 2 بلوچستان اور 2 وفاقی علاقے میں کام کررہے ہیں۔ ان کا نام و پتا ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسے مزید طبی مراکز دیگر علاقوں میں کھولے جائیں تاکہ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ موثر انداز میں روکا جاسکے۔

جب خدانخواستہ ایچ آئی وی وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجائے، تو وہ ٹی خلیوں پر حملہ آور ہوکر پہلے انہیں مارتا پھر ان کی مدد سے اپنی نقول تیار کرتا ہے۔ یوں وائرس آخر کار اپنی فوج تیار کرلیتا ہے۔ ہمارا جسم یہ فوج مارنے کے لیے خاص پروٹینی مادے بناتا ہے جنہیں ضد جسم یا اینٹی باڈیز (Antibodies) کہتے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس ٹیسٹ میں خون میں موجود انہی اینٹی باڈیز کو شناخت کیا جاتا ہے۔ہمارا جسم ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہونے کے بعد تین سے چار ماہ میں اتنے زیادہ پروٹینی مادے (اینٹی باڈیز) بنالیتا ہے کہ وہ بذریعہ ٹیسٹ شناخت ہوجائیں۔ اسی لیے یہ ٹیسٹ اسی وقت کارآمد ثابت ہوتا ہے جب وائرس کو انسانی جسم میں بسیرا کیے تین ماہ ہوجائیں اور وہ سرگرم یعنی ایکٹو بھی ہو۔

ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کے لیے مختلف ٹیسٹ ایجاد ہوچکے تاہم دنیا بھر میں اینٹی باڈیز کی کھوج لگانے والے ٹیسٹ ہی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ ٹیسٹ آسان اور کم قیمت ہیں۔ نیز نتیجہ بھی جلد مل جاتا ہے۔ اب تو اینٹی باڈیز ٹیسٹ کی ایسی کٹس ایجاد ہوچکیں جن کی مدد سے انسان گھر پر ہی وائرس شناخت کرسکتا ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول کے کسی طبی مرکز سے یہ ٹیسٹ کرایا جائے۔

بدقسمتی سے یہ خبر ملے کہ مریض کے بدن میں وائرس داخل ہوچکا، تو پھر اس کے مزید مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی مدد سے دیکھا جاتا ہے کہ جسم میں ٹی خلیوں کی کتنی تعداد ہے۔ خون میں وائرس کی کتنی زیادہ نقول جنم لے چکیں اور یہ کہ وائرس کی قسم 1 ہے یا 2 ۔اگر قسم 1 ہے تو پھر اس کی ذیلی قسم جاننے کے لیے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس ذیلی قسم کا جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ تبھی معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کنٹرول میں رکھنے کی خاطر مریض کو کس قسم کی ادویہ دینی ہیں۔

جب ایچ آئی وی وائرس سے متعلق ساری بنیادی معلومات مل جائیں تو پھر علاج شروع ہوتا ہے۔ اب مریض کو ایک یا زیادہ ادویہ روزانہ کھانا ہوتی ہیں۔ جب وائرس ایک بار جسم میں داخل ہوجائے، تو پھر وہ باہر نہیں نکل سکتا اور نہ ہی اسے مارنا ممکن ہے۔ لہٰذا مریض کو ساری عمر ادویہ کھانا ہوں گی۔ تبھی وہ نہ صرف زندہ بچے گا بلکہ عام انسانوں کے مانند صحت مندانہ زندگی بھی گزار لے گا۔ روزانہ ادویہ کھانا مشکل کام ہے مگر انسان کو اپنی زندگی محفوظ کرنے کی خاطر اسے اپنانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر ہر چار پانچ ماہ بعد مریض کے خون کے ٹیسٹ بھی لیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خون میں اینٹی باڈیز، ٹی خلیوں اور وائرس کی نقول کی تعداد جانی جاسکے۔ اگر ادویہ موثر انداز میں کام کررہی ہیں، تو خون میں خصوصاً وائرس کی نقول بہت کم ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ٹیسٹ میں شناخت ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایچ آئی وی وائرس مریض کے جسم سے اڑن چھو ہوچکا، وہ اب بھی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا مریض صحت مند انسانوں کو وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ اسی لیے اسے اور اس کے اہل خانہ وغیرہ کو احتیاط کرنی چاہیے کہ مریض کے بدن سے وائرس کسی اور کے جسم میں نہ جانے پائے۔

یہ واضح رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کو کنٹرول کرنے والی بعض ادویہ ضمنی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ ان اثرات میں یہ نمایاں ہیں: متلی آنا، ہڈیوں کا بھربھرا ہوجانا، خون میں شکر کی سطح بڑھ جانا، دل کے مسائل جنم لینا اور جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کا بڑھنا۔ اگر ضمنی اثرات شدید ہوجائیں، تو کبھی کبھی ادویہ تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ایچ آئی وی وائرس قابو کرنے والا علاج طبی اصطلاح میں ’’اینٹیریٹرو وائرل تھراپی‘‘ ( Antiretroviral therapy) یا اے آر ٹی کہلاتا ہے۔ اسی لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے طبی مراکز بھی اے آر ٹی سینٹر کہلاتے ہیں۔ ان طبی مراکز میں تھراپی کی مختلف ادویہ مفت دستیاب ہیں۔ اگر مریض ایڈز کا شکار ہوچکا، تو اسے ہسپتال داخل کرلیا جاتا ہے۔

ماضی میں ایچ آئی وی وائرس ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ وجہ یہ کہ تب اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے جو انسان وائرس کا نشانہ بنتا، وہ جلد یا بدیر موت کے گھاٹ اتر جاتا۔ لیکن اب مختلف ادویہ کی مدد سے موذی وائرس کو کنٹرول کرنا ممکن ہوچکا۔ لہٰذا بدقسمتی سے جو پاکستانی اس وائرس کا نشانہ بن جائے، وہ پریشان نہ ہو، بذریعہ علاج اور مناسب نگہداشت سے وہ صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

دوران علاج یہ ضروری ہے کہ مریض اپنے ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ رکھے۔ ڈاکٹر جو ادویہ تجویز کرے، وہی استعمال کرے۔ نسخے کے مطابق ہی دوا کھائے، ڈاکٹر جس غذا سے پرہیز بتائے، وہ استعمال نہ کرے۔ معالج کی ہدایات پر عمل کرکے مریض تندرستی کی دولت پاسکتا ہے۔آخر میں وفاقی حکومت اور خصوصاً سندھ و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے کہ وہ عام پاکستانیوں تک ایچ آی وی وائرس کی بنیادی معلومات پہنچانے کے لیے پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر سرگرم مہم چلائیں۔ آگاہی عام ہونے کی بدولت ہی کروڑوں پاکستانی اس خطرناک وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ وائرس رفتہ رفتہ لاکھوں پاکستانیوں کو اپنا شکار بناکے ہمارا پاکستانی معاشرہ تباہ بھی کرسکتا ہے۔

وائرس سے بچاؤ کے طریقے

مریض کے ساتھ بیٹھنے، ہاتھ ملانے، گلے لگانے، اس کے برتن استعمال کرنے سے ایچ آئی وی وائرس صحت مند انسان میں منتقل نہیں ہوتا۔ اسی طرح مچھر اور دیگر حشرات بھی مریض کا خون چوس کر وائرس دیگر انسانوں میں منتقل نہیں کرسکتے۔یہ پانی اور غذا سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔تاہم مریض کے وہ آلات استعمال نہ کیجیے جو اس کے جسم میں داخل کیے جائیں۔ وائرس صرف انتقال خون(Blood transfusion)، مخصوص جسمانی مادوں اور ماں کے دودھ کے ذریعے دوسرے انسانوں کے بدن میں داخل ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایک انجکشن کے بار بار استعمال کے علاوہ انتقال خون کا عمل بھی ایچ آئی وی وائرس پھیلانے میں بڑا مجرم بن چکا۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ جب کسی انسان کا خون نکالا جائے، تو کسی دوسرے کو دینے سے قبل اسے اسکریننگ ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں دیکھا جاتا ہے کہ خون میں ایچ آئی وی وائرس، ہیپاٹائٹس سی اور بی کے وائرس اور دیگر ایسی بیماریوں کے وائرس و جراثیم تو موجود نہیں جو خون کے ذریعے پھیلتی ہیں۔

خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دینے کے لیے ایک کٹ ملتی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی لیبارٹریاں اور بلڈ بینک پیسے بچانے کے لیے سستی اور غیر رجسٹرڈ کٹس اسکریننگ ٹیسٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کٹس عموماً خون میں پوشیدہ خطرناک وائرس اور جراثیم دریافت نہیں کرپاتیں۔ یوں خون محفوظ قرار پاتا ہے حالانکہ اس میں خطرناک ایچ آئی وی وائرس موجود ہو سکتا ہے جو صحت مند انسان کے بدن میں پہنچ کر اسے بھی چمٹ جاتا ہے۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو یہ قانون بنانا چاہیے کہ تمام لیبارٹریاں اور بلڈ بینک اسکریننگ ٹیسٹ کے لیے صرف معیاری اور رجسٹرڈ شدہ کٹس ہی استعمال کریں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ لوگوں کی قیمتی زندگیوں سے کھیلنے والی غیر معیاری اور سستی کٹس مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان کٹس پر فوراً پابندی عائد ہونی چاہیے۔ معیاری کٹ دو ڈھائی سو میں ملتی ہے جبکہ سستی کٹ بیس پچیس روپے میں بھی مل جاتی ہے۔

حکومت پاکستان نے منتقلی خون کا عمل صاف شفاف بنانے کی ایک سرکاری ادارہ، سیف بلڈ ٹرانس فیوژن پروگرام بنا رکھا ہے۔ چند سال قبل ادارے کے سربراہ، پروفیسرڈاکٹر حسن عباس ظہیر نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً چالیس لاکھ انتقال خون کے عمل انجام پاتے ہیں اور ان میں سے ساٹھ تا ستر فیصد میں غیر معیاری و سستی کٹس استعمال ہوتی ہیں۔گویا پاکستان میں خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دیتے ہوئے معیاری کٹس استعمال ہوں، تو مریض سے ایچ آئی وی وائرس کی دوسرے شخص تک منتقلی کا عمل بہت کم ہوسکتا ہے۔ معیاری ٹیسٹ کے باعث ایچ آئی وی وائرس کا حامل خون ناکارہ قرار پائے گا۔

پاکستان میں حجام بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ بعض حجام پیسے بچانے کی خاطر شیو کرنے یا بال کاٹنے کے دوران ایک ہی بلیڈ استعمال کرتے ہیں۔ اگر مریض کا خون بلیڈ پر لگ جائے تو پھر اس سے وائرس باآسانی صحت مند گاہکوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ حجام سے اصرار کریں کہ وہ نیا بلیڈ استعمال کرے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا بلیڈ خرید لیں اور حجام اسی سے خط بنائے۔

فحاشی اور منشیات کے اڈے بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں۔ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ ان اڈوں میں جانے سے پرہیز کرے ورنہ زندگی بھر کے روگ اسے چمٹ سکتے ہیں۔ فطری طریقوں سے خواہش پوری کرنے میں ہی بھلائی ہے جبکہ غیر فطری طریقے اپنانے سے انسان ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔

The post پاکستان میں پھیلتا خطرناک ایچ آئی وی وائرس appeared first on ایکسپریس اردو.

زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائیں

$
0
0

جوہر ٹاؤن لاہور کی ایک کوٹھی کے باہر مردوں اورخواتین کا رش لگا ہوا تھا ۔ یہ لوگ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ گئے تھے کہ ہر سال رمضان کی تین تاریخ کو یہاں زکوٰۃ تقسیم کی جاتی تھی، کوئی وقت مقرر نہیں تھا اس لئے لوگ سویرے ہی پہنچ جاتے تھے ان میں اکثریت ان خواتین و حضرات کی ہوتی تھی،جو اپنے دیہی علاقوں سے شہروں میں ’’رمضان سیزن ‘‘ لگانے کیلئے آتے ہیں۔

رمضان آتے ہی لاہور اور دوسرے شہری علاقوںمیں گداگروں اور مانگنے والوں کی بہتات نظر آتی ہے یہ لوگ پورا مہینہ زکوٰۃ،صدقات اور خیرات اکٹھی کرکے عید سے پہلے یا بعد میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں، اسی کوٹھی کے باہر سے گزرتے ہوئے ایک صاحب نے حسرت سے کو ٹھی مالکان کی ’’دریا دلی ‘‘ دیکھی تو آبدیدہ ہوئے، یہ صاحب کوٹھی کے مالک کے سگے بھائی ہیں ان کی بیوی بیمار ہوئی تو پیسہ پانی کی طرح خرچ ہوا، کاروبار تباہ ہوگیا۔

اُن کا چھوٹا بیٹا جو میٹرک کا طالبعلم تھا پڑھائی چھوڑ کر کسی دکان پر ملازمت کرنے لگا، یہ صاحب اپنے بھائی کی عالیشان کوٹھی میں پہنچے اور تمام حالا ت بتا کرمدد چاہی مگر انھوں نے مالی حالات کی تنگی کا بہانہ بنا کر صاف انکارکر دیا، اب رمضان کی تین تاریخ کو انکے گھر کے باہر سینکڑوں افراد زکوٰۃ اور راشن لینے کیلئے کھڑے تھے وہ فیملی ان تمام افراد کو حسب توفیق زکواۃ اور راشن دے گی مگر انکا اپنا سگا بھائی جو کہ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے انکی اس سخاوت سے محروم تھا، جبکہ انھیں علِم بھی ہے کہ انکا سگا بھائی آج کل انتہائی تنگدستی کا شکار ہے، ا سکی بیوی بیمار ہے، معصوم بچہ تعلیم چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے مگر انکی آنکھوں پر شائد انّا پرستی ، تکبر اور خود نمائی کی پٹی بندھ چکی تھی۔

اسی شہر لاہور میں پانچ بچیوں کی ماںایک بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنی بچیوں کا پیٹ پال رہی ہے، اسکے جیٹھ اور دیور متمول افراد ہیں اسکے سگے بہن بھائیوں کا شمار بھی کھاتے پیتے افراد میں ہوتا ہے، ان سب کو اپنی بہن یا بھابھی کی بے کسی کا علم بھی ہے مگر انکی دریا دلی گھریلو ملازمین یا پیشہ ور بھکاریوں تک محدود ہے۔

لاہور کی ایک فیکٹری کے مالک نے ایک ہسپتال کو بیس لاکھ روپے زکوٰۃ کی مَد میں عطیہ دیا جبکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اسکے والدین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،ایک بھائی کی کریانے کی چھوٹی سی دکان ہے اور اسکی بڑی بچی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔

اس قسم کے واقعات ہمارے معاشرے میں بِکھرے پڑے ہیں ہر جگہ ایسے مناظر نظر آتے ہیں، ہر سال تقریباً 60 ارب روپے زکوٰۃ کی مَد میں خرچ کئے جاتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ کم ازکم 45 ارب روپے غیر مستحقین افراد میں خرچ کردئیے جاتے ہیں جس سے زکوٰۃ کی اصل روح ہی مجروح ہو جاتی ہے، بے حسِی اور خودغرضی کے مناظر تو عام نظر آتے ہیں مگر ہمدردی اور ایثار کے اصل مناظر دھندلکوں میں کھوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن مشکلات کی دلدل میںدھنستا جا رہا ہے۔

زکوٰۃ کا نظام اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اگر زکوٰۃ مستحق افراد میں صحیح طریقے سے تقسیم کی جائے تو ہر سال کم از کم 3 لاکھ مستحق بچیوں کی شادی ہو سکتی ہے، پانچ لاکھ بیروزگار افراد کو کاروبارکروایا جا سکتا ہے، پندرہ لاکھ بچوں کا ایک سال کا تعلیمی خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پانچ لاکھ مستحق مریضوں کو ادّویا ت فراہم کی جا سکتی ہیں۔اس رقم سے پورا سال کم از کم 2 لاکھ سفید پوش گھرانوں کی مالی کفالت کی جا سکتی ہے۔

زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک سال ایک مخصوص رقم خرچ نہ ہو یعنی فالتو پڑی رہے یا اتنی رقم کا سونا پڑا رہے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے (ایک سال کا تصاب تقریباً 45000/. روپے ہے اور اس سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے) ۔

اسلام میںسرمائے (نقدی، سونا،چاندی اور دوسری اشیاء) کو جامد کرنے سے منع کیا گیا ہے، سرمائے کو خرچ کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ رقم پھیلاؤ میں رہے، اسلامی معاشرے میں معیشت کی بنیاد ہی سرمائے کی ’’سرکولیشن‘‘ پر رکھی گئی ہے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، سرمائے کو جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ اس طریقہ کار سے صرف فرد کو فائدہ ہوتا ہے معاشرے کو نہیں۔ اگر دولت ’’سرکولیٹ‘‘کرتی ہے تو مختلف ہاتھوں میں پہنچتی ہے جسکا فائدہ زیادہ سے زیادہ افراد کو پہنچتا ہے اگر کوئی فرد اپنی دولت،نقدی، سونے، چاندی یا دوسرے طریقوں سے جامد کرتا ہے تو پھر اُسے ایک سال بعد اپنی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر صرف سونا یا چاندی ہو مگر نقدی نہ ہو تو سونا اور چاندی فروخت کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے وگرنہ سخت گناہ گار ہوگا اور اسکے مال میں اللہ تعالیٰ کی برکت و تائید شامل نہ ہوگی بعض مفتیان حضرات نے ایسے جمع شدہ مال کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ جسکی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت ابو بکر صدیقؓکے دور خلافت میں جب کچھ افراد نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا انکے خلاف باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔

اللہ کے حکم سے انحراف ممکن ہی نہیں ہے۔ جب زکوٰۃفرض ہے تو اسکی ادائیگی بھی اسی طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کا حکم دیا گیا ہے، اپنے طور پر یا اپنے گمان کے مطابق یہ فریضہ ادا نہیں ہو سکتا۔ زکوٰۃ کی رقم فلاح و بہبود کے اجتماعی کاموں میں بھی خرچ کی جا سکتی ہے کہ جیسے کچھ ادارے اپنے طور پر بہترین طریقے سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کا ادارہ ’’الخدمت‘‘ یتیم بچوں کی بہترین طریقے سے کفالت کر رہا ہے یہ ادارہ اپنے طور پر مستحق افراد کی چھان بین کرکے ہر ماہ یتیم بچوں کی تعلیم کی مَد میں مخصوص رقم بنک کے ذریعے ادا کر رہا ہے، میرا ایک دوست کچھ عرصہ قبل دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گیا، لواحقین میں ایک بیوہ اور چار زیر تعلیم بچے تھے، اس خاندان پر غموں اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، انھوں نے کسی طرح ’’الخدمت‘‘ سے رابطہ کیا۔’’الخدمت‘‘سے تعلق رکھنے والے افراد نے چھان بین کے بعد ایک مخصوص رقم بیوہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جو اب ہر تین ماہ کے بعد اس بیوہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتی ہے جس سے اسکے بچوںکی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔

اس طرح ’’اخوت‘‘ بھی بے روزگار اور بے سہارا افراد کا بہترین سہارا ثابت ہو رہی ہے۔ اربوں روپے بے روزگار افراد کو قرض حسنہ کے طور پر دیئے گئے ہیں، ان افراد نے اس رقم سے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، ’’اخوت‘‘ نے اسلام کے عین اصولوں کے مطابق افراد کو بھیک کا عادی بنانے کی بجائے انھیں رزق کمانے کی ترغیب اور مدد دی، کہا جاتا ہے کہ قرض حسنہ کے طور پر دی گئی تقریباً تمام رقم واپس آجاتی ہے۔

شوکت خانم ہسپتال میں بھی کینسر کے مرض میں مبتلا نادار افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔ وگرنہ اتنا مہنگا علاج کروانا غریب تو درکنار خاصے کھاتے پیتے افراد کے بس میں بھی نہیں ہے۔

اسی طرح پاکستان میں لا تعداد ادارے بشمول ایدھی فاؤنڈیشن بھی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی رقم سے چلائے جا رہے ہیں، ان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر اوّلیت اسلام کے ان اصولوں کو ہی دینی چاہیے کہ جن کے واضح احکامات موجود ہیں۔ زکوٰۃ کے پہلے حقدار قریبی رشتہ دار، محلہ دار یا قریبی جاننے والے ہی ہوتے ہیں۔ اسلام میں’’تم اور وہ‘‘ کا فلسفہ موجود ہے یعنی سب سے پہلے انکی اپنی جان یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر سب سے پہلا حق اس فرد کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہو، اسکے بعد سامنے والے افراد یعنی قریبی رشتہ دار، محلہ دار اور واقف کار، اسکے بعد وہ افراد اور ادارے جو کہ آپ سے دور ہوں یعنی عام مسلمان، اسی فلسفے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی ہماری اپنی، ہمارے تعلیمی اداروں اور عام مسلمانوں کی حالت سنور سکتی ہے۔قرابت داروںپر زکوٰۃ اور دوسری رقومات خرچ کرنے کا دو گنا اجّر ہے پہلا اجّر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا اجّر عزیز رشتہ داروں پر احسان کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داری جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کُنبہ مضبوط اور خوشحال ہو پھر خاندان مضبوط ہو، قرابت داری میںحسن سلوک کی وجہ سے کوئی رشتہ دار اپنے آپ کو تنہا اور بے بس محسوس نہ کرے۔

وطن عزیز پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ افراد حد غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کی کہانیاں سُن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے،اسی شہر لاہور میں پینتالیس سال کی چار بچوں کی ماں اپنے آپ کو بیچنے کیلئے سڑک کنارے کھڑی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کر سکے اور اسی شہر لاہور میں صرف رمضان میں شاہانہ افطاریوں کی مَد میں کم ازکم 120 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں، یہ افطاریاں صرف اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں صرف ان افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جنہیں اللہ نے اپنی ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے اور ان میں سے بیشتر افراد کا روزہ بھی نہیں ہوتا ۔

کراچی میں ایم کیو ایم ’’بزور بازو‘‘ زکوٰۃ اکٹھی کر تی تھی رقم کا بیشتر حصہ لندن اور دوسرے بیرون ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ زکوٰۃ کی رقم سے بانی ایم کیو ایم اور انکے ساتھی شراب اور عیش و عشرت کی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی اور پارٹیاں بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آ گئیں۔ سب اپنے زیر اثر علاقوں سے زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرتی تھیں ۔ زبردستی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا سب سے بڑا کارنامہ حکومت پاکستان سرانجام دیتی ہے۔ ہر یکم رمضان کو بنکوںمیں نصاب سے زائد رقم پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے چاہیے یہ رقم صرف دس دن پہلے ہی بنک میں جمع کروائی گئی ہو ۔ لوگوں کی اکثریت یکم رمضان سے پہلے ہی اپنی رقم بنک سے نکلوا لیتی ہے یا بنک میں ’’ڈیکلریشن‘‘ جمع کروادیتی ہے کہ وہ زکوٰہ نہیں دینا چاہتے۔

رمضان نزدیک آتے ہی بے شمار ’’این جی اوز‘‘ بھی زکوٰۃ اکٹھی کرنے کیلئے میدان میں آجاتی ہیں کئی ’’ این جی اوز‘‘ کمپنیوں اور مخیرحضرات کو اپنے فلاحی کاموں کی تفصیلات بتا کر رقم اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ این جی اوز محض دوماہ کیلئے مخیر حضرات کو کال کرنے کیلئے خوبصورت آواز والی لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتی ہیں۔ انھیں تنخواہ کے علاوہ کمیشن بھی دیا جاتا ہے، زکوٰۃ کی رقم کا تھوڑا سا حصہ یہ اپنے فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہیں زیادہ حصہ انکی جیبوں میں جاتا ہے۔

بے شمار این جی اوز رمضان کے دِ نوں میں ’’فری افطاری‘‘کا اہتمام بھی کرتی ہیں یہ این جی اوز سڑک کنارے فٹ پاتھوں یا خالی جگہ پر بڑے بڑے بینر لگاتی ہیں کہ’’ناداروں اور بے کس افراد کی فری افطاری ’’لا تعداد غریب‘‘ افراد ان دسترخوانوں پر بیٹھے روزہ کُھلنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جس طرح غریب اور نادار افراد کی افطاری کی تشہیر کی جاتی ہے، کوئی سفید پوش فرد وہاں روزہ کھولنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ این جی اوز افطاری کے چکر میں خاصی رقم اکٹھی کر لیتی ہیں زیادہ تر پیسہ ان کے کرتا دھرتا افراد کی جیبوں میں جاتا ہے۔

زکوٰۃ، صدقات اورخیرات کا اصل مقصد مستحق افراد کی مدد اور اُنکی بحالی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے ہے اسے جرمانے کی رقم کی مانند ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ رقم ایسے مستحق افراد میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو اپنی سفیدپوشی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے۔انھی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اگر آج یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق کافی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔

The post زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

دیسی نسل کی چڑیا پکڑنے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا

$
0
0

دیسی و گھریلوچڑیا (اسپارو) کو پکڑنے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا،شہر کے دورافتادہ مضافاتی علاقوں اور اندرون سندھ کے اضلاع میں معصوم پرندوں کو دھوکے سے پکڑنے کا کارروبار جاری ہے، رمضان میں پرندوں کا شکار کرنے والی مافیا زور و شور سے سرگرم ہو جاتی ہے،شہر بھر کے چوراہوں اور مارکیٹوں اور شاپنگ پلازہ کے باہرمنتوں مرادوں جبکہ صدقے کے طورپر پرندوں کو آزادکرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

پاکستان میں سالانہ 10 لاکھ پرندوں کو قید اور پھر صدقہ کے نام پرآزاد کیا جاتا ہے، پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35فیصد بھوک، پیاس،خوف ، ڈر اور شدید دھوپ وگرمی کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام تک تنگ پنجروں میں منتقلی کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے رواں سال کے شروع میں ان روایتی چڑیوں کے بے دریغ شکار اور معدومیت کے خطرے کے پیش نظر برسوں سے جاری پرمٹ منسوخ کر کے ان کے شکار پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، ذرائع کے مطابق گھروں اور انسانی آبادیوں کے قرب وجوار میں پائی جانے والی دیسی نسل کی گھریلو چڑیوں کا چھوٹے بڑے جال کے ذریعے گھیر کر پکڑنے کا دھندہ بڑھ گیا ہے۔

خصوصاً ماہ رمضان میں مختلف مرادوں و منتوں جبکہ صدقے کے لیے ان معصوم و بے زبان پرندوں کو قید کرنے والی مافیا کا دھندا بے لگام ہو جاتا ہے جو انھیں شہر بھر کی مختلف پرندہ مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں اور بعدازاں انفرادی طور پر مختلف افراد انھیں خرید کر شہر بھر کے چوراہوں و سگنل جبکہ بھیڑ والی جگہوں پر چھوٹے پنجروں میں فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں دیسی گھریلو نسل کی چڑیوں کو دیگر جنگلی حیات یا پرندوں کی طرح گھروں میں پالنے کا رواج نہیں ہے ان کے شکار کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ قید کے بعد پیسوں کے عوض آزاد فضائوں میں رہا کر دیا جائے۔

قیدکیے گئے پرندوںکے بچے بھوک کی وجہ سے مرجاتے ہیں

خوراک کا جھانسہ دے کر ٹریپ کرکے پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35 فیصد بھوک، پیاس، دھوپ، ڈر، گرمی کے دوران اونچے نیچے راستوں پرایک جگہ سے دوسری جگہ شدید گرمی کے دوران منتقلی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں،اور اس قید وآزادی کے چکر میں ان پرندوں کے گھونسلوں میں موجود بچے چیل کووں اور بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

مضافاتی علاقوں میں ننھی منی چڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے

شہر کے مضافاتی علاقوں اور اندورن سندھ میںچڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے،پابندی کے باوجود اسپارو نامی دیسی چڑیا کے شکاراور کاروبار جاری ہے، چڑیوں کو دام میں پھانسنے کے لیے شکاری خاص جال لگاتے ہیں جس کے اندر ان کے من پسند حشرات ،کیڑے اور دانہ موجود ہوتا ہے جسے فضائوں میں اڑتی ہوئی چڑیا تاڑ لیتی ہے اور اس دانے کو کھانے کے لیے اترتے ہی صیاد کے دام میں پھنس جاتی ہیں۔

شکاری سڑکوں پر راہ گیر اور گاڑی سوار افراد سے بھائو تائو کر کے پرندوں کو آزاد کرتے ہیں ویسے تو یہ دھنداپورے سال جاری رہتا ہے مگر رمضان میں اس میں تیزی آجاتی ہے،رمضان میں شہری پرندوں کو زیادہ آزاد کراتے ہیں، یہی نفسیات ان مافیاز کو ان پرندوں کو قید کرنے کے لیے اکساتی ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ پرندوں کو پہلے قید کیا جاتا ہے، پھر انھیں صدقے کے نام پر آزاد کیا جاتا ہے۔

نرم قوانین نے مافیاکے حوصلے بلند کر دیے ، عبدالقیوم چنا
محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے انسپکٹر عبدالقیوم چنا کے مطابق ان چڑیوں کے شکار کیلیے پہلے پرمٹ جاری کیے جاتے تھے جن میں ایک دن میں 15 سے 25 چڑیوں کو پکڑنے کی اجازت ہوتی تھی،تاہم رواں سال جنوری میں ان تمام پرمٹس کو منسوخ کردیا گیا ہے عبدالقیوم چنا کا کہنا ہے کہ نرم قوانین نے اس مافیا کے حوصلے بلند کیے ہیں اگر اس سنگین نوعیت کے معاملے کے حوالے سے سخت سزائوں پر عمل شروع کر دیا جائے تو اس روایتی نسل کے ماحول دوست پرندے کی بقا ممکن ہے ۔

جھرکی اور پدی نسل کی چڑیا زیادہ پکڑی جاتی ہیں وائلڈ لائف انسپکٹر
وائلڈ لائف گیم انسپکٹرریڈ پارٹی حیدرآباد اور میرپور خاص اعجاز نوندھانی کے مطابق ڈسٹرکٹ دادو، میہڑ، رادھن سینا روڈ جبکہ ننگر پارکر دیسی چڑیا جسے سندھی میں جھرکی کہتے ہیں،جبکہ ایک اور نسل کی چڑیا پدی کو جالوں کے ذریعے پکڑنے کے ان گنت واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے مادہ چڑیا کو تو منتوں مرادوں اور صدقے کے لیے پکڑا جاتا ہے، جبکہ چڑے (جھرک) کا شکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ اسے مقامی طبیب و حکما اس کے گوشت کو براہ راست غذا یا پھر جڑی بوٹیوں کے ملاپ سے بننے والی دوائوں کو جنسی طاقت میں اضافے لیے استعمال کرتے ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے کارروائیوں میں 7600 ہزار چڑیاں تحویل میں لیں
محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے رواں ماہ کے دوران 2 مختلف کارروائیوں کے دوران چڑیوں کی بھاری تعداد کو تحویل میں لیا جس میں سے ایک کارروائی اندورن سندھ کی گئی جس میں گاڑیوں پر لدے پنجروں کے ذریعے فروخت کے لیے لے جائی جانے والی 7 ہزار چڑیاں قبضے میں لی گئیں، جبکہ چندروز قبل ایمپریس مارکیٹ صدر میں 2 دکانوں پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران 600 چڑیاں تحویل میں لی گئیں، جنھیں بعدازاں ملیر کے باغیچوں میں آزاد کردیا گیا۔

دیسی چڑیا ایشیائی ممالک ،یورپ اورامریکا میں بھی پائی جاتی ہے
محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ کے مطابق مشہوردیسی چڑیا پاکستان کے علاوہ ایشیا، یورپ اور امریکا میں بھی پائی جاتی ہے جس کا تعلق پیٹرو ڈومیسٹکس گروہ سے ہے، تاہم ان کی اقسام قدرے مختلف ہیں،برصغیر میں چڑیا ایک عام پرندہ ہے، جسے گھریلو چڑیا بھی کہا جاتا ہے عام طورپر یہ چڑیا اورچڑے چھوٹی جسامت جبکہ ان کا رنگ گندمی اوربھورا ہوتا ہے اس کی دم چوڑی جبکہ چونچ باریک اور مضبوط ہوتی ہے اس کو گھریلو چڑیا اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ اکثر و بیشتر گھروں میں بسیرا کرتی ہیں، گھریلو چڑیا عام طورپر ہجرت نہیں کرتیں بلکہ یہ انسانی آبادی کے قریب خود کو محدود رکھتی ہے ، ان چڑیوں کے گھونسلے عمارت کی چھتوں، بالکونیوں جبکہ درختوں پر ہوتے ہیں چڑیوں کی غذائوں میں مختلف قسم کے پھولوں کے بیج یا پھر دانہ دنکا جبکہ چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔

پرندے چھوٹے پنجروںمیں ٹھونسنے سے مرجاتے ہیں

پرندوں کو پکڑنے کے بعد بے دردی سے چھوٹے سائز کے پنجروں میں ٹھونس دیا جاتا ہے،ایک ایک پنجرے میں ہزاروں کی تعداد میں چڑیوں کو بند کرنے کی وجہ سے بیشتر کی موت واقع ہوجاتی ہے اس بے دریغ شکار کی وجہ سے دیسی چڑیا اور دیگر جنگلی پرندے تیزی سے ختم ہورہے ہیں، عموما ان چڑیوں کو پکڑنے والا مافیا پہلے اپنے مقصد کے لیے علاقے کا انتخاب کرتے ہیں جو ایک کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہوتا ہے اس کے بعد یہ شکاری کئی روز تک اس جگہ پر دانہ وغیرہ پھینکتے رہتے ہیں اور دور سے بیٹھ کر ان کی ریکی کرتے ہیں پھر اگلے مرحلے میں مٹی کی رنگت والا انتہائی باریک جال بچھا کے چلے جاتے ہیں،جس کا سرا کافی فاصلے پر ان شکاریوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے پھر جھٹ پٹے کے وقت یعنی جب صبح پو پھٹ رہی ہوتی ہے اس وقت یہ جال پر دانہ دنکا چگنے میں مصروف سیکڑوں چڑیوں پر ہاتھ میں پکڑے لوہے کے تار کے ذریعے جال کو الٹ دیتے ہیں اور یوں یہ معصوم پرندے صیاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔

The post دیسی نسل کی چڑیا پکڑنے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

شیرشاہ سوری قلعہ کی تاریخی حیثیت بحال کرنے کاحکم

$
0
0

 راولپنڈی: صدر عارف علوی نے جہلم کے قانون دان عارف کریم سمیت شہریوں کی پٹیشن منظور کرلی۔488برس پراناشیر شاہ سوری قلعہ کی تاریخی حیثیت بطور قومی ورثہ بحال کرنے، ازسرنو تزئین و آرائش ،مسرقہ نوادرات،مرکزی آہنی دروازہ، کھڑکیاں اور دیگراشیا برآمد کرنے جبکہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔

1.4 ایکڑپرمشتمل قلعہ مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار ہے، شیر شاہ سوری دور میں یہ پولیس تھانہ بھی تھا، مجرموں اور مخالفین کو یہاںقیدکیاجاتاتھا۔یہ 10 سال قبل تک سیاحت کا بڑا مرکز تھا،اس کے ساتھ ریلوے اسٹیشن ہونے کے باعث یہ محکمہ کے زیرتسلط رہا۔اس نے یہاں ورکشاپ بنادی جبکہ قلعہ حفاظت کے نام پرمقامی گوالے کو 1500 روپے ماہانہ کرایے پر دے دیا۔

جس نے بھینسیں، بکریاں، گائے، کتے باندھ کراسے گوالہ کالونی بناڈالا۔دوسری طرف چور مرکزی دروازہ ،دیگر دروازے اوردرجنوںکھڑکیاں اکھاڑ کر لے گئے جبکہ تنصیبات، دستاویزات، تحریریں، درخت اوردر ودیوار بھی توڑے گئے۔ صدرمملکت نے یہاں سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں تاریخی ورثے کی حفاظت کرتی ہیںجس سے نہ صرف نئی نسل کو اپنی تاریخ اورثقافت سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ یہ سیاحت کے فروغ کا باعث بھی بنتا ہے۔

The post شیرشاہ سوری قلعہ کی تاریخی حیثیت بحال کرنے کاحکم appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنوں سے دُور نہ ہوں! ؛ بیٹھیں، بات کریں تو راستہ نکل آئے گا

$
0
0

ایک گھر کا تصور کیجیے جس میں بچہ، اس کی ماں اور ایک بوڑھی خاتون (ساس) موجود ہیں۔ بچہ کسی بات پر بُری طرح رو رہا ہے۔

گھر کے ضروری کام نمٹاتے ہوئے ماں بچے کو بہلانے میں ناکام ہورہی ہے۔ شام گہری ہو چکی ہے۔ اس عورت کا شوہر اور سسر کام پر سے گھر لوٹنے والے ہیں اور اب تک کھانا تیار نہیں ہوا ہے۔ اسی وقت اُسے اپنے کمرے میں موجود ساس کی آواز آتی ہے۔

’’بہو۔۔۔ گڈو کو مجھے دے دو، تم اطمینان سے اپنے کام نمٹاؤ، میں سنبھال لوں گی اسے۔‘‘ بچے کو ساس کے سپرد کر کے وہ کچن میں چلی جاتی ہے۔ اب وہ اطمینان سے کچن میں کام کررہی ہے۔

یہ ایک اور منظر ہے۔

’’ بیٹا، یہ تو بہت بری بات ہے۔ یہ گندی گالی آپ نے کہاں سے سیکھی؟‘‘ ماں نے فکرمند لہجے میں مگر پیار سے پوچھا۔

’’ممی، چاچو اپنے دوست کو ایسے بول رہے تھے۔‘‘

’’بچوں کے سامنے گالیاں مت دیا کرو فراز، اور تم دوستوں سے بھی تمیز سے بات کرو، بچے کی موجودگی میں تو خاص طور پر خیال کرو۔۔۔۔‘‘ وہ اپنے دیور سے شکایتی لہجے میں مخاطب تھی جو یہ سن کر اچانک ہی بگڑ گیا۔

’’بھابھی، میری مرضی، میں جس سے جس طرح چاہے بات کروں۔ آپ اپنی اولاد کو پھر خود سنبھالا کریں، میرے متھے کیوں مارتی ہیں اور اب تمیز سکھانے بیٹھ گئی ہیں۔‘‘

اگر تصویر کا پہلا رخ دیکھا جائے تو مشترکہ خاندانی نظام کسی رحمت سے کم نہیں لگتا جب کہ دوسرے منظر پر غور کریں تو یہ ایک افسوس ناک رویے کی مثال ہے، لیکن اس نظام کو زحمت بنانے میں زیادہ تر عمل دخل ہمارے منفی رویوں کا ہے جس کی وجہ سے شاید اب جوائنٹ فیملی سسٹم اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور زیادہ تر اس کی خرابیوں اور خامیوں پر بات کی جانے لگی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ خوشی خوشی اپنی بیٹی کی شادی ایک بھرے پرے خاندان میں کرتے تھے تاکہ ان کی بیٹی جو اپنے سارے رشتوں کو چھوڑ کر زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے وہ رشتوں کی کمی اور اپنوں کی دوری کو محسوس نہ کرے۔ اسے دیور کی شکل میں بھائی ملے تو نند کی صورت میں بہن کی اپنائیت نصیب ہو، لیکن اب ماں باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ ایسے خاندان میں کیا جائے جہاں کم سے کم افراد ہوں تاکہ ان کی بیٹی کسی  مشکل اور مشقت میں نہ پڑے اور نئے ماحول سے جلد ہم آہنگ ہوجانے کے ساتھ نسبتاً آزادی سے رہ سکے۔ جوائنٹ فیملی میں بیٹیوں کو نہ بیاہنے کی بڑی وجہ کام کا بوجھ بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں لڑکی بیاہ کر جاتی ہے تو ساس نندیں آپس میں کام تقسیم کرنے کے بجائے  سارا بوجھ نئی نویلی دلہن پر ڈال کر خود آزاد ہو جاتی ہیں۔ یہ اس نظام کا موجودہ شکل میں ایک منفی پہلو ہے۔

اس میں وقت کے ساتھ مزید شدت اس وقت آجاتی ہے جب ساس، نندوں کے علاوہ گھر میں موجود دوسری بہوئیں کسی وجہ سے ہتک آمیز رویہ اپنا لیتی ہیں اور یوں محبت کے بجائے ان کے مابین کدورت اور فاصلے بڑھتے ہیں۔ گھر کا ماحول محاذ آرائی میں بدل جاتا ہے، جہاں رشتے مضبوط ہونے چاہیے تھے وہاں منفی رویوں کی بدولت ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو زندگی بھر دور نہیں ہوتیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کی تنزلی کا  دوسرا بڑا سبب والدین کا اپنے بچوں سے روا رکھا گیا امتیازی سلوک بھی ہے۔ پہلے زمانے میں جس بیٹے کی آمدنی کم ہوتی تھی والدین اس کا زیادہ خیال رکھتے تھے تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو جب کہ اب  مادّی دور میں اکثر والدین بھی زیادہ کمانے والے بیٹے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اس کی رائے کا احترام کرتے ہیں حتی کہ اس کی بیوی اور بچوں سے بھی زیادہ انسیت اور لگاؤ ظاہر کیا جاتا ہے۔

والدین کا یہ امتیازی سلوک بھائی بہنوں میں ایک دوسرے کے لیے حسد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور پھر یہی جذبہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک مسئلہ بچوں کی تربیت کا بھی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک چھت تلے موجود متعدد افراد کی سوچ اور بات کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور بچے جو دیکھتے ہیں وہ فورا اپنا لیتے ہیں۔ وہ بہت سی منفی اور غلط باتیں بھی سیکھتے ہیں۔ پھر گھریلو رنجشیں، جھگڑے اور سازشیں ان کے دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں اور یہ سب ان کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ آگے چل کر اپنی زندگی میں کرتے ہیں۔ یہی باتیں بچوں کی مخصوص انداز سے تربیت کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کے بعد لوگ جوائنٹ فیملی کو خیر باد کہہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ نجی زندگی متاثر ہونا بھی ہے۔ اسے پرائیویسی کہہ لیں جسے ہر چھوٹا بڑا اپنا حق سمجھتا ہے، لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس میں سب کی خوشیاں اور غم ایک ہوتے ہیں، لوگ بغیر پوچھے ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کرلیتے ہیں، لیکن اب یہی بات بچے سے لے کر بڑوں تک کو کٹھکتی ہے۔ یوں تو کوئی بھی فرد اپنی زندگی میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے مگر اب یہ مسئلہ موبائل فونز یا لیپ ٹاپ وغیرہ کی صورت میں مزید شدید ہوگیا ہے۔ رابطے کے برقی آلات، ان کے چارجر اور پاس ورڈ طرح طرح کے جھگڑوں کا باعث بن رہے ہیں۔

یہ چند وجوہات ہیں یا اسے ایک سرسری جائزہ کہہ لیں جس کا مقصد علیحدہ رہنے اور مشترکہ نظام سے جڑ کر رہنے کی افادیت اور چند خرابیوں کو بیان کرنا ہے، مگر جاننے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم رشتوں ناتوں کا احترام کریں جب کہ تعلقات کی اہمیت اور تعاون اور سہولت کو نظر انداز کرنے سے پہلے یہ سوچیںکہ کیا یہ اتنی بڑی وجوہات ہیں اور ایسے مسائل ہیں جن کا حل ہمارے پاس نہیں ہے، ان کا سدباب نہیں کیا جاسکتا؟ تاہم اس کے لیے سبھی کو آگے بڑھنا اور ماحول بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا۔

بصورتِ دیگر اکٹھا رہنا آسان نہ ہو گا۔ یوں تو الگ رہنے یا مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کا فیصلہ اپنے گھر کے ماحول، آپس کے تعلقات، رشتوں کی اہمیت کے پیشِ نظر، سہولیات اور آسانیوں کو دیکھتے ہوئے اور اپنے حالات کے مطابق ہی کیا جانا چاہیے، لیکن غیرضروری باتوں، معمولی نوعیت کے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا ماحول اور فضا تشکیل دی جاسکتی ہے جس میں سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ثابت ہوں۔

The post اپنوں سے دُور نہ ہوں! ؛ بیٹھیں، بات کریں تو راستہ نکل آئے گا appeared first on ایکسپریس اردو.

باتیں نہ بنائیں! حوصلہ بڑھائیں، ہمّت بندھائیں

$
0
0

’’یہ تمھاری بہو نظر نہیں آرہی۔ خیریت تو ہے؟‘‘ فہمیدہ خالہ کو گھر آئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا، لیکن نادیہ نظر نہیں آئی تو انھوں نے اس کی ساس سے پوچھ ہی لیا۔

’’نادیہ نے نوکری کر لی ہے، شام کو ہی گھر واپس آتی ہے۔‘‘ ان کا جواب سن کر فہمیدہ خالہ نے عجیب سا منہ بنایا اور بولیں۔

’’ایک تو یہ آج کل کی لڑکیوں کو کوئی خیال ہی نہیں بیچاری ساسوں کا، اب گھر کا سارا کام تم ہی سنبھالتی ہوگی۔‘‘ انھوں نے فوراً ہم دردی جتائی۔

’’ارے میں کیوں سنبھالوں گی، وہی کرتی ہے آکر۔ میں نے تو کہا نہیں ہے نوکری کرنے کو۔‘‘ ساس نے بھی جھٹ اپنا دل ہلکا کر لیا۔

’’بھئی سچ ہے، تم کیوں کرو، جس کی اصل ذمہ داری ہے وہی نبھائے۔ اب میں کل ہی ایک بیان سن رہی تھی، مولوی صاحب کہہ رہے تھے آج کل کی ماؤں کے پاس گھر داری اور بچوں کے لیے وقت ہی نہیں، نوکریاں کرتی ہیں تاکہ پیسہ کمائیں زیادہ سے زیادہ اور اپنے فیشن پورے کریں۔‘‘ فہمیدہ خالہ کو تو جیسے موقع ہی مل گیا تھا نادیہ کے خلاف ان کے کان بھرنے کا۔

یہ چند مکالمے ایک سماجی رویے اور سوچ کے عکاس ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے اس دور میں بھی ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنے کنبے کی کفالت اور خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا نہ معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے طعنے دیے جاتے ہیں اور ایسی عورت کو نہایت تکلیف دہ باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عیب جُو اور روایتی سوچ کی حامل عورتیں نوکری کرنے والی کسی بھی خاتون کے بارے میں یہ فرض کر لیتی ہیں کہ اسے آزاد رہنا پسند ہے، اسے شوہر کی خدمت، بچوں کی دیکھ بھال اور گھرداری سے کوئی دل چسپی نہیں بلکہ وہ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے کمانے نکلی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملازمت پیشہ کوئی بھی عورت گھر میں رہنے والی عورت سے زیادہ کام کرتی ہے۔

ہمارے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں کوئی عورت گھر سے باہر نکلنے، دفتری کاموں کا بوجھ اور مختلف قسم کا دباؤ برداشت کرنے کے بعد جب گھر لوٹتی ہے تو ہمّت نہ ہونے کے باوجود بھی اسے گھر کے کئی کام نمٹانا ہی پڑتے ہیں۔  اس کے باوجود اسے سسرال میں، عزیزوں اور جاننے والوں سے تکلیف دہ باتیں سننا پڑتی ہیں۔ پاس پڑوس کے لوگوں کے سوالات اور باتیں بھی اس کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ یہ کچھ اس قسم کی باتیں ہوسکتی ہیں۔ کیا شوہر کی تنخواہ کم ہے؟ تمھارے جانے کے بعد ساس بچے سنبھال لیتی ہیں؟ کیا گھر کی صفائی اور کھانا پکانے کا شوق نہیں ہے تمھیں؟ ساس باتیں تو سناتی ہوں گی؟

ان کا جواب دینا ضروری بھی نہیں، مگر یہ سب سن کر کسی عورت کے لیے صبر اور ضبط کرنا آسان ہوتا ہو گا؟  اس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکتا ہے۔ کیا کسی ملازمت پیشہ عورت کے پاس ایسے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے ہوں گے کہ آخر اس نے کیوں گھر کی چار دیواری سے قدم باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ سفر کی تکلیف اٹھانے اور دفتر کے مسائل اور ذمہ داریوں میں الجھ کر وہ کتنی خوش ہے۔ اس کے پاس سب باتوں کا جواب ہوتا ہے اور نوکری کرنے کی ایک وجہ نہیں بلکہ اس کے پاس لمبی فہرست ہوسکتی ہے جس میں اس کا اپنا ذکر کہیں نہیں ہوتا، مگر اسے کوئی حقیقی غم گسار، کوئی ہم درد، کوئی راز داں میسر آئے تو وہ اپنے دل کی بات اس کے سامنے رکھے ناں۔

مردوں کے مقابلے میں عورت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہے۔ اسے اپنے شوہر اور سسرال کا بھرم بھی رکھنا پڑتا ہے کہ اب وہ اسی گھر میں بہو، بیوی بن کر رہ رہی ہے۔ یہ اس کا بھی گھر ہے اور یہ لوگ اس کے اپنے ہیں۔ ان کی عزت اور بھرم رکھنے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی عزت اور بھرم رکھ رہی ہے۔ اسی لیے شوہر کی کم تنخواہ کا کسی کو بتاتے ہوئے اس کا دل دکھتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے اور بچوں کے لیے دن رات ایک کررہا ہے، وہ محنت کرتا ہے، تکلیف اٹھاتا ہے، مگر منہگائی کے اس دور میں گزارہ مشکل ہو رہا ہے۔

اس کی نظر میں شادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کا ہر طرح اور ہر موقع پر ساتھ دیا جائے، وہ خوشی اور غم بانٹنے کے علاوہ شوہر کا معاشی میدان میں بھی ساتھ دینا چاہتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے اور مانتی ہے کہ گھر اور بچے اس کی بھی ذمہ داری ہیں اور اگر وہ پڑھی لکھی ہے اور باعزت طریقے سے کوئی روزگار، نوکری  کرسکتی ہے تو اسے ضرور کرنا چاہیے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات، فرمائشیں تو اپنے بابا کے گھر چھوڑ کر آگئی، مگر اپنی اولاد کو وہ سب دینا چاہتی ہے جس سے ان کا احساسِ محرومی دور ہوسکے اور ان کی ضروریات بہتر انداز سے پوری ہو سکیں۔ جب وہ دیکھتی ہے کہ اس کا بچہ کسی دوسرے بچے کے ہاتھوں میں کوئی کھلونا دیکھتا ہے تو اسے بھی اس کی چاہ ہوتی ہے اور تب وہ اپنی تنخواہ میں سے اس کی فرمائش پوری کرتی ہے اور خوشی سے نہال ہو جاتی ہے۔ غور کریں تو اس طرح جہاں کوئی عورت ایک طرف اپنی اولاد کی کوئی خوشی پوری کرتی ہے، وہیں دراصل اس کے شوہر کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔

ایک عورت کڑوی کسیلی باتیں سنتی، طعنے اور طنز سہتی ہوئی جب بھر جاتی ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ سوال کرنے والوں سے پوچھے کہ وہ کن بچوں کو سنبھالنے اور ان کی تربیت کی بات کررہے ہیں، انھیں کن بچوں کی پروا ہے؟ ان بچوںکی جنھیں اس نے خود نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا، جن کی ضروریات پوری کرنے لیے وہ راتوں کی نیند حرام کرتی رہی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ پوچھوں یہ لوگ کس گھر کی صفائی اور اس کے کاموں کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہیں؟ یہ وہی گھر تو ہے جس کے لیے اس نے اپنے شفیق باپ، اپنی غم خوار ماں اور پیارے بہن بھائیوں سے دوری اختیار کر لی۔ کیا یہ اسی گھر کی بات کررہے ہیں جس میں وہ ایک بیوی، بہو بن کر قدم رکھ چکی ہے۔ وہ اپنے دفتر میں فکرمند رہتی ہے کہ بچوں نے کھانا کھایا ہو گا یا نہیں، کہیں وہ امی (ساس) کو تنگ تو نہیں کررہے۔ انھیں کھیل کود کے دوران چوٹ تو نہیں لگی ہو گی۔ اسے ان سب باتوں کی فکر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کسی کے بتانے اور سکھانے کی بات نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لوگ اس کی مجبوری سمجھیں۔ اس کا احساس کریں اور صرف اس کی ہمّت بندھائیں۔

صرف بچوں کی تعلیم ہی پر بات کر لیں۔ ایک ماں جب اپنی اولاد کے سہانے مستقبل کا خواب لے کر کسی نام ور نجی اسکول میں داخلے کے لیے چکر لگاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے وہ یونیفارم، کتابیں کاپیوں کے ساتھ اس کی ماہانہ فیس ادا نہیں کرسکتی اور اسے مشورہ دیا جاتا ہے کہ سرکاری اسکول کا منہ دیکھے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی کارکردگی سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ایسے میں ایک معاشی طور پر مستحکم عورت ہی کوئی اہم قدم اٹھا سکتی ہے۔ وہ اپنی تنخواہ آگے کرتی ہے اور یوں نہ صرف بچوں کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے بلکہ  شوہر سے ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی پورا کردیتی ہے۔ بدلے میں وہ اپنے شوہر اور گھر والوں سے صرف ایک پُرخلوص مسکراہٹ، شاباشی ایک حوصلہ افزا جملہ چاہتی ہے اور بس!

گھر میں مہمانوں کی اچانک آمد پر ان کی تواضع، چھوٹے موٹے کام نکل آنا اور تقریبات میں سلامی دینا ہو تو یہی عورت آگے بڑھتی ہے۔ یہ شوہر کو مشکل سے نکال لیتی ہے اور گھر کا بجٹ متاثر نہیں ہونے دیتی۔ اپنے دفتر سے چھٹی کا دن وہ بھی گھر کے مردوں کی طرح آرام کرنے کی خواہش رکھتی ہے، مگر ایسا ہوتا نہیں بلکہ اس روز وہ کچن میں سب کی فرمائشیں پوری کرتی نظر آتی ہے، گھر کے بہت سے کام نمٹاتی ہے اور مہمان آجائیں تو ان کی خاطر مدارت بھی کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویہ تبدیل کریں اور کسی کی زندگی میں بے جا مداخلت نہ کریں۔ عیب جوئی اور تاک جھانک کے بجائے اپنی توانائیاں تعمیری کاموں میں صَرف کریں۔ اگر آپ کسی کی ہمّت نہیں بندھا سکتے، اسے حوصلہ نہیں دے سکتے تو اس سے سوالات بھی نہ کریں۔ جس طرح ایک باشعور، پڑھی لکھی اور سمجھ دار عورت اپنے فرائض و وظائف، کاموں اور ذمہ داریوں سے واقف ہے، اسی طرح اپنے مسائل، پریشانیوں اور مشکلات بھی وہی سمجھ سکتی ہے۔

The post باتیں نہ بنائیں! حوصلہ بڑھائیں، ہمّت بندھائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

میٹھی عید لائی میٹھی میٹھی سوغاتیں

$
0
0

عیدالفطر کا موقع ہو تو ہر گھر میں روایتی میٹھے پکوان بنائے جاتے ہیں۔ کہیں شیر خرمے میں خشک میوے اور مٹھائی ڈال کر پکایا جاتا ہے اور مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

کہیں صبح کے ناشتے میں ابلی ہوئی سوئیوں پر چینی اور دیسی گھی ڈال کر اس کا مزے دار ناشتہ تناول کیا جاتا ہے تو کہیں چھواروں میں کھویا بھر کر اسے فریز کردیا جاتا ہے اور پھر مہمانوں کی آمد پر اس خاص روایتی میٹھے پکوان سے ان کی تواضع کی جاتی ہے۔

گو کہ عید کے موقعے پر سوئیوں کی ڈش اور شیرخرمہ ہر دستر خوان اور عید ٹرالی کا خاص جزو سمجھی جاتی ہے، اس کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ سوئیوں سے تیار کردہ نت نئی ڈشز اور دیگر میٹھی ڈشز کو مہمانوں کی تواضع اور خاطر داری کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا خواتین کی اکثریت عید کے مواقع پر نئی اور منفرد تراکیب کی تلاش میں رہتی ہے، اسی لیے آج ہم آپ کے لیے چند ایسی تراکیب لے کر آئے ہیں جو بے حد آسان ہیں اور ان کے ذائقے بھی لذیذ ہیں تو پھر آج ہی پکائیے جس کے بعد مہمان ہوں یا اہل خانہ آپ کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکیں گے۔

سوئیوں کا پکوان۔۔۔۔ اسٹفڈ ورمیسلی
درکار اجزاء:
سوئیاں:آدھا پیکٹ
دودھ: پونا کپ
ونیلا کسٹرڈ پائوڈر: ڈیڑھ کھانے کا چمچا
چینی: آدھا کپ یا حسب ذائقہ
کریم: ایک پیکٹ
چیڈرچیز: ڈھائی کھانے کا چمچا کدوکش کیا ہوا
موزریلا چیز: ڈھائی کھانے کا چمچا کدوکش کیا ہوا
ونیلا ایسنس: ایک چائے کا چمچا
مکھن: پانچ کھانے کے چمچے
چاشنی بنانے کے اجزاء:
چینی: ایک کپ
پانی: ایک کپ
زعفران کا ایسنس: چند قطرے
بادام پیستے: حسب ضرورت باریک کٹے ہوئے سجاوٹ کے لیے
ترکیب: دودھ میں چینی ملاکر دھیمی آنچ پر پکائیں، ابال آجانے پر کسٹرڈ پائوڈر کو تھوڑے سے پانی یا دودھ میں گھول کر ڈالیں اور پھر پکائیں جس کے بعد چولہے سے اتار کر کریم، چیڈرچیز، موزریلا چیز اور ونیلا ایسنس اس میں ملادیں۔ دوبارہ تھوڑا پکاکر پھر اتار لیں۔ اس کے بعد سوئیوں کو مکھن کے ساتھ چوپر میں ڈا؛ کر پیس لیں۔ کپ کیک کی ٹرے میں پیپر کیس لگاکر تھوڑا تھوڑا سوئیوں کا آمیزہ ڈالیں اور چمچے سے دبائیں جس کے بعد کسٹرڈ ایک سے دو چمچے ڈالیں، اس کے بعد اس پر سوئیوں کا آمیزہ ڈال کر چمچے سے دبائیں۔ احتیاط کریں کہ کسٹرڈ اوپر نہ آئے۔ اب پہلے سے گرم کیے ہوئے اوون میں 180ڈگری پر بیک ہونے کے لیے رکھ دیں۔ چینی اور پانی ملاکر چاشنی تیار کرلیں۔ اتنا پکائیں کہ چینی اچھی طرح گھل کر حل ہوجائے، لیکن یہ چاشنی گاڑھی نہ ہو۔ پھر اس میں زعفران کا ایسنس شامل کردیں۔ اوون میں چیک کریں۔ اگر سوئیاں اوپر سے سنہری رنگ کی ہوجائیں تو نکال لیں۔ تھوڑی چاشنی تمام سوئیوں کے کیس میں ڈالیں اور اوپر سے بادام اور پستہ چھڑک دیں۔ ٹھنڈا ہونے دیں۔ پھر کپ کیک کی ٹرے سے نکال کر ڈش میں رکھیں۔ فریج میں ٹھنڈا کرکے پیش کریں۔

کولڈ کافی پڈنگ
درکار اجزاء
کافی: دو کھانے کے چمچے
دودھ:آدھا لیٹر
چینی پانچ کھانے کے چمچے یا حسب ذائقہ
کریم: دو پیکٹ
کیک رسک: میڈیم سائز کے دو پیکٹ
ترکیب:دودھ میں ایک کھانے کا چمچہ چینی کافی اور تین کھانے کے چمچا چینی ملاکر پکائیں۔ ابال آجائے تو اتار لیں۔ تھوڑی سی کریم میں بقیہ کافی اور بقیہ چینی ملاکر مائیکرو ویو اوون میں ایک سے دو منٹ کے لیے گرم کریں پھر نکال کر اچھی طرح ملائیں۔ جب چینی اور کافی اچھی طرح گھل جائے تو مزید کریم اس میں ملالیں۔ اب ایک شیشے کی گہری ڈش لیں۔ ایک ایک کیک رسک کو کافی میں ڈبوکر ڈش میں تہہ لگاتی چلی جائیں۔ پھر کریم کی تہہ لگائیں، پھر اس کے اوپر بقایا کیک رسک کو کافی میں بھگوکر ان کی تہہ لگادیں۔ پھر بقیہ کریم کی تہہ لگا کر اس پر تھوڑی سی کافی چھڑک دیں اور بقایا کریم سے پھول بناکر فریج میں رکھ دیں۔ کم از کم تین سے چار گھنٹے ضرور رہنے دیں یا عید ٹرالی کے لیے تیار کرنا ہو تو چاند رات کو بناکر فریج میں رکھ دیں۔ یہ لذیذ کولڈ کافی پڈنگ آپ کے مہمانوں کو یقیناً پسند آئے گی۔

چاکلیٹ پن وہیل سینڈوچ
درکار اجزاء:
ڈبل روٹی کے سلائس: تین سے چار عدد
مکھن : ایک کھانے کا چمچا
کوکو پائوڈر : ایک کھانے کا چمچا
چینی : دو کھانے کے چمچا
پانی: آدھا کھانے کا چمچا
دودھ: آدھا کھانے کا چمچا
ونیلا ایسنس: چند قطرے
کریم : آدھا سے ایک کپ
اخروٹ: آدھا کپ کوٹے ہوئے
ترکیب:سلائس روٹی کے کنارے کاٹ کر بیلن سے بیل لیں۔ ایک چھوٹی دیگچی میں مکھن، کوکو پائوڈر، چینی، پانی، دودھ اور ونیلا ایسنس کو ملاکر پکائیں۔ چینی گھل جائے اور گاڑھا ہونے لگے تو اتار کر تھوڑی سی کریم ملالیں۔ زیادہ پتلا نہ ہو۔ پھر ہر سلائس پر یہ سوس لگائیں۔ تھوڑی سی کریم ڈالیں اور اخروٹ چھڑکیں۔ پہلے ایک فوائل پیپر یا پلاسٹک کے اوپر سلائس رکھ کر یہ سب لگادیں اور پلاسٹک یا فوائل پیپر یا پلاسٹک میں لپیٹ دیں اور فریج میں رکھ دیں۔ چند گھنٹوں بعد نکال کر پلاسٹک یا فوائل ہٹاکر رول کے سلائس کاٹ لیں ۔ کریم سے گارنش کرکے پیش کریں۔

باؤنٹی کھجور
درکار اجزاء:
چھوارے: آٹھ سے دس عدد
کھوپرا پسا ہوا: آدھا کپ
کریم: حسب ضرورت
چینی: ایک کھانے کا چمچا
ملک چاکلیٹ: پائو سے آدھا کپ کرش کی ہوئی
ترکیب:چھواروں کے بیج نکال لیں۔ چھواروں کو دو حصوں میں ٹکڑے نہ ہونے دیں۔ پھر پانی میں بھگودیں۔ کھوپرے میں ایک چائے کا چمچا چینی، پسی ہوئی اور تھوڑی سی کریم ملاکر گاڑھا سا آمیزہ تیار کرلیں۔ کریم کی مقدار زیادہ نہ ہو۔ ایک دیگچی میں پانی گرم کریں۔ چاکلیٹ اور کریم کو ملاکر ایک پیالے میں رکھیں۔ پیالے کو کھولتے پانی کی دیگچی پر رکھ دیں۔ پیالے کا سائز بڑا ہونا چاہیے۔ چاکلیٹ پگھل جائے تو اتار کر کریم کے ساتھ اچھی طرح مکس کرلیں۔ چھواروں کو پانی سے نکال کر صاف نیپکن سے خشک کرلیں۔ چھواروں کے اندر کھوپرے کا آمیزہ بھرکر چاکلیٹ میں ڈپ کریں۔ چمچے کی مدد سے اچھی طرح چاکلیٹ سے چھوارہ ڈھک جائے تو کسی پلیٹ میں ڈال کر فریز کردیں۔ چند گھنٹوں بعد ذائقے دار بائونٹی کھجور کا مزہ اٹھائیں۔

۔۔۔

اوریوڈیلائٹ
درکار اجزاء:
اوریو بسکٹ یا چاکلیٹ بسکٹس: نو سے دس عدد یا حسب ضرورت
دودھ: آدھا لیٹر
چینی: چار کھانے کے چمچے یا حسب ذائقہ
ونیلا کسٹرڈ پائوڈر: دو کھانے کے چمچے
سوس کے اجزاء:
مکھن : ایک کھانے کا چمچا
کوکو پائوڈر: ایک کھانے کا چمچا
چینی : دو کھانے کے چمچے
پانی: آدھا کھانے کا چمچا
دودھ : آدھا کھانے کا چمچا
ونیلا ایسنس: چند قطرے
کھوپرا پسا ہوا: سجاوٹ کے لیے حسب ضرورت
ترکیب: چند بسکٹ کے علاوہ بقیہ تمام بسکٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرلیں۔ دودھ میں چینی ملاکر ابال لیں۔ کسٹرڈ پائوڈر کو تھوڑے دودھ یا پانی میں گھول کر اس میں ملاکر اتنا پکائیں کہ کسٹرڈ گاڑھا ہوجائے۔ اتار کر ٹھنڈا کرلیں۔ ایک چھوٹے سوس پین میں سوس کے اجزا ملاکر پکائیں۔ چینی گھل جائے اور گاڑھا ہوجائے تو اتارلیں۔ سرونگ ڈش یا پیالیوں میں تھوڑے بسکٹ کے ٹکڑے ڈالیں، اس پر کسٹرڈ کی تہہ لگائیں۔ دوبارہ بسکٹ کے ٹکڑوں کی تہہ لگائیں۔ آخر میں کسٹرڈ کی تہہ لگائیں۔ کچھ دیر بعد احتیاط سے سوس اس کے اوپر ڈالیں۔ علیحدہ کیے ہوئے بسکٹ سے سجاکر پسا ہوا کھوپرا چھڑک دیں۔ فریج میں چند گھنٹوں کے لیے رکھ دیں۔ عید ٹرالی پر اوریوڈیلائٹ کو بچے بڑے سبھی پسند کریں گے۔

۔۔۔

پائن ایپل کریم
درکار اجزاء:
پائن ایپل کے ٹکڑے: ایک پیالی
کریم: ایک پیالی
چینی: دو کھانے کے چمچے یا حسب ذائقہ
اخروٹ: آدھی پیالی موٹا کوٹا ہوا
چاکلیٹ چپس: دو کھانے کے چمچے
ترکیب: کریم میں چینی ملاکر پائن ایپل کے ٹکڑے اور اخروٹ ڈال کر اچھی طرح ملالیں۔ پھر سرونگ ڈش میں ڈال کر چاکلیٹ چپس سے سجاکر فریج میں ٹھنڈا کرنے کے لیے رکھ دیں۔ جھٹ پٹ تیار ہونے والی یہ ڈش سبھی کو بے حد پسند آئے گی اور یقین مانیے آپ کا عید کی مہمان نوازی کا مزہ بھی دوبالا ہوجائے گا۔

The post میٹھی عید لائی میٹھی میٹھی سوغاتیں appeared first on ایکسپریس اردو.


ایڈیسن سے جاپانیوں کا عشق

$
0
0

تھامس ایلوا ایڈیسن کی شہرۂ آفاق ایجاد بلب نے ہماری دنیا کے اندھیروں کو دور کرکے اسے جگمگاتی روشنیوں سے بھر دیا۔

اگر ایڈیسن دنیا میں رہنے والے لوگوں کے گھروں کو روشن بلب کا روشن تحفہ نہ دیتا تو شاید دنیا آج بھی تاریک رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیسن آج بالخصوص جاپان میں بڑی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ کلیولینڈ بیسڈ اخبار The Plain Dealer لکھتا ہے کہ جاپانی لوگوں کی بڑی تعداد بڑے احترام اور پیار سے ایڈیسن کے بچپن کے گھرکا وزٹ کرتی ہے جو امریکی ریاست اوہایو کے شہر میلان میں واقع ہے۔

ایڈیسن کا جاپانیوں سے محبت کا رشتہ تھا۔ اس ملک کے گوشے گوشے میں آپ کو ایڈیسن کے عاشق اور ان سے پیار کرنے والے مل جائیں گے، لیکن ان سے خاص طور سے کیوٹو کمشنری میں واقع Yawata سٹی کے شہری بہت پیار کرتے اور عقیدت رکھتے ہیں۔ اس شہر کی Iwashimizu Hachiman نامی خانقاہ کے مقام پر ایڈیسن کی یاد میں ایک بڑی یادگار تعمیر کی گئی ہے اور اس پہاڑ کے دامن میں جہاں یہ خانقاہ واقع ہے، وہاں ایک چھوٹا سا شاپنگ ڈسٹرکٹ بھی واقع ہے جسے سب ’’ایڈیسن اسٹریٹ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں جہاں ایڈیسن کا کانسی سے بنایا ہوا ایک مجسمہ بھی لگایا گیا ہے۔ Yawata Cityاصل میں میلان کا ایک سسٹر سٹی بھی ہے جہاں ایڈیسن پیدا ہوا تھا اور 1980 کے عشرے کی ابتدا سے ہی یہاں دونوں مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان خوشی اور پیار سے تحائف کے تبادلے بھی کیے گئے ہیں۔

اس کا نام ہے:Iwashimizu Hachiman Shrine bamboo grove یعنی ’’اس مقام پر واقع خانقاہ میں بانس کے جھنڈ‘‘بانس سے بنے ہوئے درختوں کا یہ کنج  Iwashimizu Hachimangu نامی خانقاہ کے قریب کیوٹو میں واقع ہے۔

اس علاقے کے بانس سے ابتدا میں روشنی کے بلب کے لیے فلامنٹ بنائے جاتے تھے۔ بعد میںایڈیسن نے 1878 میں incandescent یا دہکتے ہوئے روشنی والے بلب کے ساتھ تجربات کرنے شروع کردیے تھے۔ اس incandescent لیمپ یا بلب نے ایک پتلے سے دھاتی مٹیریل کے ذریعے بجلی استعمال کرتے ہوئے اس سے حرارت پیدا کرنی شروع کردی جسے فلامنٹ کہا جاتا تھا۔ یہ فلامنٹ اتنا گرم ہوتا ہے کہ پھر روشن ہوکر چمکنے لگتا ہے۔ بعد میں متعدد موجد حضرات نے اس incandescent lamp کو اور بھی زیادہ بہتر اور پرفیکٹ بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کے تیار کردہ سبھی بلب زیادہ عرصے تک نہ چل سکے۔ دوسرے کچھ لوگوں نے جو بلب بنائے، وہ تجارتی بنیاد پر اچھے خاصے مہنگے ثابت ہوئے اور اسی لیے یہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکے۔

پھر بھی لوگ اپنی کوششوں میں لگے رہے اور انہوں نے ایک بار پھر موٹا تار استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے نتیجے میں ایک بار پھر لاگت میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن زیادہ کرنٹ گزارنے کے لیے موٹے تار کی ضرورت تو تھی، مگر بڑھتی ہوئی لاگت راستے میں مزاحم ہوتی رہی اور اس طرح یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ فلامنٹ کے لیے اچھا مٹیریل تلاش کرنا ایڈیسن کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن وہ اپنی کوششوں میں مسلسل لگا رہا اور آخر کار اس نے یہ مسئلہ حل کر ہی لیا۔

ایڈیسن سمجھ چکا تھا کہ کرنٹ کے بہاؤ کو کم رکھنے کے لیے اسے ایک ایسا مٹیریل درکار ہوگا جس میں high resistanceہو یعنی یہ زیادہ قوت مزاحمت رکھتا ہو۔ فلامنٹ کی زندگی کو وسعت دینے کے لیے ایسا مٹیریل چاہیے ہوگا جو حرارت یا گرمی میں پائے دار ہو۔ چناں چہ ایڈیسن نے ہزاروں کی تعداد میں مٹیریل ٹیسٹ کرنے کے بعد جن میں پلاٹینم سے لے کر داڑھی کے بال تک شامل تھے، ایڈیسن نے یہ دریافت کر ہی لیا کہ وہ جس طرح کا فلامنٹ تلاش کررہا تھا، ایسی خصوصیات صرف کاربن سے تیار کردہ فلامنٹ میں ہیں۔

چناں چہ  وہ اس کے لیے ایک carbonized cotton سے تیار کردہ فلامنٹ کا دھاگا تیار کرے گا۔ اس نے یہ کام کردیا تو یہ بلب ریکارڈ کم و بیش چودہ گھنٹے تک جلتا رہا۔ چناں چہ ایڈیسن نے یہ فارمولا فوری طور پر اپنے پیٹنٹ پراپلائی کردیا جہاں اس نے یہ بھی بتایا کہ کاربن فلامنٹ مختلف مٹیریلز سے بنایا جاسکتا ہے جیسے کاٹن اور لینن تھریڈ، لکڑی کے splint، کوائل بنائے ہوئے مختلف کاغذ وغیرہ۔

اس کے بعد بھی ایڈیسن اپنے تجربات کرتا رہا اور اس کے لیے اس نے مختلف نامیاتی مٹیریل استعمال کیے جیسے کاربنائزڈ اشیاء مگر یہ سب کام اس نے اپنی لیباریٹری میں کیا تھا۔ اس نے ماہرین حیاتیات سے بھی رابطہ کیا اور انہیں مختلف استوائی پودوں کے فائبر یا ریشے بھجوائے۔ اس نے اپنے ورکرز کو دنیا بھر میں مختلف مقامات پر تعینات کردیا جن کا کام یہی تھی کہ وہ مذکورہ فلامنٹ کے لیے مطلوبہ پرفیکٹ مٹیریل تلاش کرتے رہیں۔

ایڈیسن نے یہ تخمینہ بھی لگایا کہ اس کو 6,000 سے کم سبزیوں کی بڑھوتری کا جائزہ لینا ہوگا چناں چہ وہ مسلسل ایسے فلامنٹ کی تلاش میں لگارہا جو اس کی مطلوبہ طلب پوری کردے۔

ایڈیسن کے ایک ساتھی ورکر ولیم ایچ مور نے 1880 میں اسے بانس کے درختوں سے کچھ نمونے لے کر بھیجے جو کیوٹو میں Iwashimizu Hachiman Shrine کے قریب اُگ رہے تھے۔ بانس کے یہ درخت چین اور جاپان میں بڑی تعداد میں اگتے ہیں جہاں کھوکھلے بانس کے تنے بانسریاں بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے مختلف آرٹس اینڈ کرافٹس میں مختلف کام لیے جاتے ہیں۔ یہ بانس بہت عمدہ فشنگ راڈ کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک بار ایڈیسن نے خود بھی اس بانس کو مچھلی کے شکار کے دوران بہ طور فشنگ راڈ استعمال کیا تھا۔ چناں چہ اسے یاد آگیا کہ اس نے یہ فشنگ راڈ تیار کرنے کے دوران اس کے ریشے چیک کیے تھے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ایڈیسن کو اس بانس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا اور اس طرح کاربنائزڈ بانس سے ایک نہایت شان دار قسم کا فلامنٹ تیار کرلیا گیا۔

یہ فلامنٹ تیار کرنے کے لیے ایک سنگل بانس کے ٹکڑوں کو لمبائی میں نہایت عمدہ پتلی پٹیوں میں کاٹا گیا اور پھر انہیں مطلوبہ انداز سے موڑا گیا، تاکہ اسے بلب کے اندر فٹ کیا جاسکے۔ انہیں پاؤڈر کی شکل میں موجود کاربن سے کور کردیا گیا اور پھر اسے ایک بھٹی کے اندر نہایت زبردست درجۂ حرارت پر گرمی سے گزارا گیا، وہ بھی کئی گھنٹوں تک اور پھر اسے ٹھنڈا کیا گیا۔ اس سارے کام کے دوران بانس کی یہ باریک پٹیاں اپنی شکل سے بدل گئیں اور ایک خالص کاربن اسٹرکچر بن گئیں، اب یہ شیشے سے تیار کردہ بلب میں لگائے جانے کے لیے تیار تھیں۔

تاہم بانس سے تیار کردہ یہ فلامنٹ بانس میں دو جوائنٹس کے درمیان ہوسکتا تھا۔ اب یہ مسئلہ فلامنٹ کی لمبائی کے آڑے آگیا اور اس کی وجہ سے اس فلامنٹ کی روشنی اور چمک بھی ماند پڑگئی۔ روشنی کے بلب جو کاربنائزڈ بمبو فلامنٹ سے بنائے گئے تھے، وہ ایک موم بتی سے زیادہ روشنی نہیں دیتے تھے، لیکن اس وقت وہ اس سے زیادہ نہیں جلتا تھا۔ کچھ ایسے ہی بلب جو ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تیار کیے تھے، وہ 1,200 سے زیادہ گھنٹوں تک جلتے رہے۔

Iwashimizu Hachiman Shrineکاربن فلامنٹ روشن بلب تیار کرنے میں ایک غالب مٹیریل بن گیا۔ اور یہ کام ٹنگسٹن فلامنٹ کے تیاری تک ہوا تھا۔ یہ زیادہ عرصے تک چلتا تھا اور کاربن فلامنٹ سے زیادہ روشنی بھی دیتا تھا۔

ابتدائی ٹنگسٹن فلامنٹ ایک ہنگری کی کمپنی Tungsramنے 1904 میںبنائی تھی۔ پھر 1911 تک ایڈیسن کی کمپنی جنرل الیکٹرک بھی ٹنگسٹن کی طرف شفٹ ہوگئی تھی۔

1931 میں ایڈیسن کی موت واقع ہوگئی تو تین سال بعد تھامس ایلوا ایڈیسن مونومنٹ بھی Iwashimizu Hachimangu میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ خانقاہ ماؤنٹ اوٹوکویاما پر تعمیر کی گئی تھی۔ 1964 میں ایڈیسن کی بیٹیMadeleine Edison Sloane نے Iwashimizu Hachimangu کا دورہ کیا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ہر سال ایڈیسن کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر ایک لائٹ فیسٹیول اس مقام پر یعنی اس یادگار پر منایا جاتا ہے جس میں روایتی بانس سے تیار کردہ لالٹینیں روشن کی جاتی ہیں اور امریکا کا قومی ترانہ بھی بجایا جاتا ہے۔

The post ایڈیسن سے جاپانیوں کا عشق appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد

$
0
0

(گزشتہ سے پیوستہ)

بات ختم ہی نہیں ہوکے دے رہی۔ قصے پر قصہ نکلے چلا آتا ہے۔ اچھا بس زیادہ نہیں، ایک اور سن لیجیے کہ اب ڈاکٹر ڈی سوزا یاد آگئے ہیں۔ وہ بھی اس بھولے بسرے معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار ہی تو تھے۔ ہماری عمر مشکل سے گیارہ بارہ برس رہی ہوگی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ سارا گھر رات کو چھت پر سویا ہوا تھا۔ خدا جانے وہ کون سا پہر تھا کہ اچانک آنکھ کھلی۔ کچھ افراتفری سی محسوس ہوئی۔ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا ہے، لیکن بے کار۔ نیند کا غلبہ تھا، پھر سوگئے۔ صبح اٹھ کر اسکول۔ دوپہر کو واپس آتے ہوئے ملازم نے خبر دی کہ سیّد سجاد حسین صاحب جنھیں ہم چچا کہتے تھے۔

ان کے یہاں پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ ان کی بہو مرتے مرتے بچی ہے، بچہ بہت کم زور ہے، گھر والے پریشان ہیں۔ گھر آکر امی سے تشویش کا اظہار کیا اور خیر خبر چاہی تو انھوں نے کچھ گول مول سا جواب دیا اور ماں اور بچے کے لیے صحت و سلامتی کی دعا کی ہدایت کی۔ اس وقت تو کچھ خاص معلوم نہیں ہوا تھا اور جو معلوم ہوا تھا، اس سے زیادہ کوئی بات سمجھ بھی نہیں آئی تھی۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اس زمانے میں بارہ برس کی عمر ایسی باتیں سمجھنے کے لیے قطعی ناکافی ہوا کرتی تھی۔ آج کے بچے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ خیر، یہ واقعہ ایسا تھا کہ اس کی گونج خاصے دن رہی۔ بعد میں کسی وقت گھر کے ملازموں کو آپس میں بات کرتے پایا تو کچھ تفصیل کان میں پڑی جو دیر تک ذہن میں رہی اور بعد ازاں کچھ سمجھ بھی آئی۔

اچھا یہ جو سیّد سجاد حسین صاحب تھے، یہ ہمارے ابا کے دوست تھے۔ بھلے آدمی تھے، مگر کم گو۔ دوسرے چوتھے ابا سے ملنے آتے اور بس دو چار منٹ کو کھڑے کھڑے حال احوال پوچھا اور چل دیے۔ کبھی کبھار ہی چائے پینے کو بیٹھتے ورنہ ابا کہتے رہ جاتے اور چچا سجاد حسین یہ جا وہ جا۔ وہ پہلے تو کہیں کام کرتے تھے، لیکن پھر اُن کا ذہن چل گیا اور اپنے آپ کے نہ رہے۔ اصل میں ایک رات اُن کی بیوی پانچ بچوں اور اُن کو سوتا چھوڑ کر خدا جانے کس کے ساتھ گھر سے نکل گئیں اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ چچا سجاد حسین کو اس واقعے سے ایسا صدمہ پہنچا کہ از خود رفتہ ہوگئے۔ گم متھان۔ کھانے پینے کا ہوش اور نہ ہی اوڑھنے پہننے کا خیال۔ کڑکتے جاڑے میں بنیان گلے میں ڈالے گھر سے باہر نکل آتے۔ سارا سارا دن کچھ نہ کھاتے پیتے۔ روتے نہ ہنستے، کچھ کہتے نہ سنتے۔ کبھی کبھی سر ہلاتے اور بدبداتے نظر آتے، لیکن کچھ سمجھ نہ آتا، کیا کہتے ہیں اور کس سے مخاطب ہیں۔ وہ ڈیڑھ دو برس ڈاکٹر ڈی سوزا کے زیرِ علاج رہے۔ ملازمت جاتی رہی۔

گھر میں چار لڑکے اور ایک لڑکی اور ان کے ساتھ اسّی برس کی نحیف و نزار ماں۔ اس واقعے کے بعد ان کا سسرال تو ویسے ہی کٹ گیا تھا اور عزیز رشتے دار شاید ایسے کوئی تھے ہی نہیں۔ محلے والوں نے اس زمانے میں اُن کے ساتھ اپنوں سے بڑھ کر نبھائی۔ ناشتے کا ذمے دار ایک گھر تھا تو دوپہر کے کھانے کا دوسرا اور رات کا کھانا تو پابندی سے ڈاکٹر ڈی سوزا کی بیگم خود لاتیں اور اپنے سامنے بچوں اور اُن کی دادی کو کھلا کر گھر واپس جاتی تھیں۔ محلے کے سب لوگ انھیں ڈاکٹرنی صاحبہ کہا کرتے تھے، حالاںکہ وہ طب کے شعبے سے تعلق نہ رکھتی تھیں، بلکہ ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ چچا سجاد حسین علاج معالجے سے کچھ بہتر ہوئے تو بس اتنے کہ گھر بار کی ذمے داریوں کو جاننے اور بچوں کو پہچاننے لگے۔ کچھ اور وقت گزرا تو پھر شاید کام کاج کے لیے بھی کہیں جانے لگے تھے۔ خیر، جب کچھ حواس بحال ہوئے تو اب انھوں نے گھر چلانے سنبھالنے کے لیے عورت کی ضرورت محسوس کی۔ بس جھٹ پٹ بڑے بیٹے کی شادی کردی جس کی عمر تئیس برس بھی نہیں ہوئی تھی۔ انیس بیس برس کی بھانجی کو بہو بناکر گھر لے آئے۔

اب یہ اُس رات کا قصہ ہے کہ انھوں نے آکر ہمارے دروازے پر دستک دی۔ بہو پورے دنوں سے تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ میٹرنٹی ہوم کے نام سے واقف نہ تھے۔ اس معاشرے میں ایک کردار دائی ہوا کرتا تھا۔ یہ خاتون اس موقع پر گھر پہنچتی اور پھر اسی کے ہاتھوں بچے کی ولادت ہوتی۔ خیر، تو اُس رات چچا سجاد حسین پہلے دائی کے گھر گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ پاس پڑوس کے کسی گاؤں میں عزیزوں کے یہاں گئی ہوئی ہے۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں آکر ابا کو جگایا اور مشورہ چاہا۔ ابا نے پہلے تو فوراً ہماری والدہ کو اس بچی کی نگہداشت کے لیے چچا کے گھر چھوڑا اور پھر چچا کو لے کر ڈاکٹر ڈی سوزا کے گھر پہنچے۔ لگ بھگ ستر برس کی عمر کے ڈاکٹر ڈی سوزا آدھی رات کو یوں جگائے جانے پر آنکھیں ملتے باہر آئے تو انھیں جلدی جلدی سارا مسئلہ بتایا گیا۔ وہ لپک جھپک گھر کے اندر گئے اور ذرا سی دیر میں بیگم اور اپنے ڈاکٹر والے بیگ کے ساتھ واپس باہر آگئے۔

فوکسی میں بیٹھ کر دونوں میاں بیوی ابا کے اسکوٹر کے پیچھے پیچھے چچا سجاد حسین کے گھر پہنچے۔ کچھ ہدایات دے کر ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹرنی صاحبہ کو اندر بھیجا اور کہا کہ جاکر زچہ کو دیکھیں اور فوراً آکر حال بتائیں۔ ڈاکٹرنی صاحبہ نے جو حال بتایا تو ڈاکٹر ڈی سوزا نے کہا، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب اندر جاکر انھوں نے اس کم سن لڑکی کو خود دیکھا جو ماں بننے جارہی تھی۔ اسے پینے کی کوئی دوا دی گئی۔ اب یہ خواتین کمرے میں اس کے پاس اور مرد صحن میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں صورتِ حال بدل گئی۔ لڑکی درد سے بلبلانے لگی، لیکن ادھر بچے کی ولادت کے کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ وقت کے ساتھ تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا تو پہلے خواتین کے ہاتھ پاؤں پھولے اور پھر مردوں کے بھی۔ فیصلہ ہوا کہ لڑکی کو اسپتال لے جانا ضروری ہے۔ لے جانے کی واحد صورت ڈاکٹر ڈی سوزا کی فوکسی۔ جیسے تیسے ڈاکٹرنی صاحبہ اس کم عمر اور درد سے بلکتی سہاگن کو لے کر گاڑی میں بیٹھیں، لیکن اب یہ کہ گاڑی اسٹارٹ ہوکر نہ دے۔ خیر، دھکے سے اسٹارٹ ہوئی اور ڈاکٹر ڈی سوزا اسپتال روانہ اور اُن کے پیچھے اسکوٹر پر ابا اور چچا سجاد حسین۔ فجر کی اذان کے ساتھ چچا سجاد حسین کے پوتے صاحب اس دنیا میں وارد ہوئے۔ اس اثنا میں لڑکی کی ماں اور میکے کے دوسرے لوگ بھی اسپتال پہنچ گئے۔ تب ڈاکٹر ڈی سوزا، ڈاکٹرنی صاحبہ اور ابا اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔

یہ واقعہ جیسے کل ہی تو ہوا تھا۔ گورے رنگ اور کھڑے قد کے ڈاکٹر ڈی سوزا جو اونچا سنتے تھے اور ان کی پکے رنگ والی فربہی کی طرف مائل بیگم کے چہرے اس وقت آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ ڈاکٹر ڈی سوزا لاولد تھے اور مذہباً عیسائی— لیکن ان کا ایمان تو انسانیت پر تھا— پکا اور غیرمشروط۔ ہمارے یہاں سے کبھی کوئی دوا لینے چلا جاتا تو سارے گھر کی خیریت پوچھتے۔ اپنی میز کی دراز میں ٹافیاں رکھتے تھے۔ کوئی بچہ مریض اُن کے پاس آجاتا تو دوا کے ساتھ دو ٹافیاں بھی دیتے اور کہتے، ایک آج کھانا اور ایک کل۔ پھر ساتھ ہی رات کو سونے سے پہلے دانتوں پر برش کرنے کی تاکید کرتے۔ جب بھی یاد آتے ہیں تو دل سے دعا نکلتی ہے۔ اگر وہ زندہ ہیں تو خوش رہیں۔ رخصت ہوگئے تو خدا ان دونوں میاں بیوی کی روحوں کو سکون اور راحت سے نوازے۔ ہم نے تو ایسے لوگ اور ان کا زمانہ دیکھا ہے اور آج یہ دور بھی دیکھ رہے ہیں۔ اُس وقت انسان کے انسان سے تعلق کے بیچ کچھ حائل نہیں ہوتا تھا۔ آج یوں لگتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا اور خلا میں بسنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے، لیکن افسوس اب لوگ ایک دوسرے تک نہیں پہنچ پاتے۔ کبھی تو لگتا ہے، ایک دوسرے تک ہماری آواز ہی نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی دُوری، ایسی بے مہری۔ خدا کی پناہ۔

مذہب جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی کے سلوک کی تعلیم دیتا ہے، ہمارے درمیان فاصلوں کا ذریعہ بن رہا ہے۔ زبان کہ جسے ہم نے ایک دوسرے تک اپنے جذبات و احساسات پہنچانے کے لیے ایجاد کیا تھا، وہی ہمیں ایک دوسرے سے الگ کردیتی ہے۔ علم اور تہذیب کہ جن کے ذریعے ہم اپنے فکر و شعور کو زمانوں اور نسلوں میں پھیلائیں، وہ اب ایک دوسرے سے ہمارے تصادم کے لیے جواز اور دلائل کی فراہمی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ آپ کبھی ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ آپ کس دور میں اور کیسے حالات میں جی رہے ہیں تو آپ کو سخت الجھن ہو، ذہن چکرائے اور دل لُٹ کر رہ جائے۔

معاشرہ تو اس سے پہلے ہی کسی مرحلے پر خراب ہونے لگا ہوگا، لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں بالخصوص ہمارے یہاں انسانوں کے بیچ ایسے فاصلے پیدا ہوتے چلے گئے ہیں کہ اب اجتماعیت کا احساس مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے۔ پہلے زمینی فاصلوں کے باوجود لوگ ذہنی اور دلی طور پر قریب رہتے تھے، اور اس قدر کہ جغرافیائی فاصلے ان کے رشتوں کا کچھ نہ بگاڑ پاتے اور اب یہ عالم ہے کہ ایک شہر نہیں، ایک محلے میں رہنے والوں کے مابین جیسے براعظموں کا فاصلہ در آیا ہے۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ خلیج تو دلوں میں پیدا ہوتی ہے، اور اگر ہوجائے تو دیوار بھر کا فاصلہ بھی براعظم سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس فاصلے میں عدم تحفظ کے احساس نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔ اب ہم سب غیرمحفوظ ہوگئے ہیں، اس لیے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کی انسانیت پر ہمارا یقین باقی نہیں رہا ہے، کیوں نہیں رہا؟ اس لیے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ خود اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ہم خود چوںکہ ایک دوسرے کو اپنے اندر موجود کسی تعصب کے زاویے سے دیکھتے ہیں، اس لیے آپس میں خوف زدہ رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان رواداری اور اعتماد کا تعلق اس تیزی سے ختم ہوا اور مزید ہوتا جارہا ہے کہ ہمیں ہر وقت خوف، الجھن اور وحشت پیدا کرنے والی سوچیں گھیرے رہتی ہیں۔

بے شک ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں نے بھی ضرور کوئی نہ کوئی چال چلی ہوگی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے خود بھی ایک دوسرے پر بڑا ظلم کیا ہے، بہت نقصان پہنچایا ہے آپس میں۔ خوف، وحشت اور عدم برداشت کے اس منظرنامے کا ہم جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں جو زخم لگے ہیں، ان میں زیادہ تر تو ہمیں خود ایک دوسرے کے ہاتھوں لگے ہیں، دشمنوں کے نہیں۔ ہم نے ہی خود کو بے یارومددگار کیا ہے۔ ہم خود ہی ایک دوسرے سے بیگانے ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ ہم سب خود مرکز اور خودپسند ہوکر اپنی ذات کے زنداں میں قید ہوتے چلے گئے۔

اس قیدِتنہائی نے باقی سب کو ہمارے لیے لاتعلق اور ناقابلِ برداشت بنا دیا۔ سارتر نے کہا تھا، دوسرا ہمارے لیے جہنم ہے۔ ہم نے اس حقیقت کا بدترین مفہوم اپنی زندگی میں رائج کرکے دکھایا ہے۔ ہماری انا بڑی ہوتی ہوتی ایک عفریت بن گئی ہے اور ہمیں دوسروں سے ہر وقت ڈراتی رہتی ہے۔ اس نے دوسروں کو ہمارے لیے ناقابلِ قبول، ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ برداشت بنادیا ہے— اور یوں ہم خود اپنی ہی وحشت، خوف، لاتعلقی اور تنہائی کے ہول ناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اس بری طرح کہ سانس لینا بھی محال ہوگیا ہے۔ وہ چیزیں جو ہمارے روزمرہ منظر کا حصہ تھیں، ہم اُن سے غافل ہوگئے، جو لوگ ہماری زندگی کے تناظر کو توسیع دیتے تھے، ہم نے ان کی طرف نگاہ کرنا چھوڑ دیا اور وہ کام جن کے کرنے سے ہمیں جینے کا احساس ہوتا تھا، ہم نے ان سے منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد کیا یہی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جو ہمارے ساتھ ہوا؟

ہمارے سماج کو بربادی کے اس راستے پر دھکیلنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ہمارے سیاست دانوں نے۔ جی ہاں، سیاست داں— مگر کون؟ صرف وہ نہیں جو سیاسی جماعتیں بناتے، جذباتی نعرے ایجاد کرتے اور عوام کو نشے کی طرح جھوٹی امنگوں میں مبتلا رکھنے والے خواب دکھاتے ہیں۔ وہ تو خیر ہیں ہی، لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ سب لوگ بھی دراصل سیاست داں ہیں جو مذہب و مسالک کے نام پر، صوبائیت اور علاقائیت کے نام پر، زبان اور کلچر کے نام پر عوام کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا استحصال کرتے ہیں، ان کے معصوم دل کی زرخیز زمین میں نفرت اور تعصب کے بیج بوتے اور مغائرت اور اشتعال کی فصلیں اگاتے ہیں۔ انھیں کسی مسلک، صوبے، علاقے، زبان اور کلچر سے رتی برابر محبت نہیں ہوتی۔ ان کی نظر تو صرف اور صرف اپنے ہدف پر ہوتی ہے۔ وہ تو صرف اپنے مفاد کی فکر کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ عوام کی جان، مال، عزت اور ملک کے وقار، استحکام اور سلامتی سے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان میں سے ہر چیز کو وہ لوگ اپنے معمولی سے فائدے کے لیے بے دریغ داؤ پر لگانے اور قربان کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہمارے ملک کی گزشتہ ستر برس کی تاریخ تو اس حقیقت کو بارہا ثابت کرتی رہی ہے۔

آج ہم ایک بیمار معاشرہ ہیں۔ ایک مضمحل اور مضطرب سماج۔ اندیشوں، وسوسوں اور خوف میں گھرا ہوا ایک بے سمت اور بے قوت گروہ۔ ہمیں تحمل اور دیانت داری سے اپنا جائزہ لینا اور خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، کیا یہ وہی راستہ ہے جس پر ہم چلنا چاہتے تھے تاکہ زندگی، بقا، عزت، خوشی، آسودگی اور استحکام کی منزل تک پہنچ سکیں؟ اگر واقعی ہم ایک بار ہمت کرکے یہ سوال خود سے پوچھ ہی ڈالیں تو یقین کیجیے، ہمیں اس کا جواب بھی مل جائے گا— اور وہ جواب ہوگا، نہیں— ہرگز نہیں۔

یہ جواب پاکر ہم ٹھٹک جائیں گے، چلتے چلتے رک جائیں گے۔ اس لیے کہ ان ساری ابتلاؤں، آزمائشوں، تکلیفوں اور ہزیمتوں کے باوجود ہم اب تک مکمل طور پر بے حس نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارا ضمیر اب تک بھی مردہ نہیں ہے۔ ہماری عقل اور ہمارے حواس بھی کسی حد تک کام کررہے ہیں۔ زندگی کی حرارت ابھی ہمارے لہو میں باقی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہمارا مرض لاعلاج نہیں ہوا ہے۔ ہم ایک تنگ، تاریک اور دم گھونٹ دینے والی سرنگ میں تو ضرور ہیں، اور یہ سرنگ طویل بھی ہے، لیکن آگے بند نہیں ہے۔

اس کی دوسری طرف راستہ کھلا ہے، وہاں روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ کم کم ہی سہی ادھر سے آکسیجن لیے ہوئے کچھ نہ کچھ ہوا بھی آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے، ہمارے لیے ابھی تک تو زندگی کے امکانات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو اب بھی روشنی کی طرف بڑھ سکتے ہیں، خون میں موجود اس حرارت کو اپنی بقا کا سامان بناسکتے ہیں— اور یہ کوئی بہت اَن ہونی بھی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں پہاڑ کھود کر جوے شیر ہرگز نہیں نکالنی۔ بس اتنا کرنا ہے کہ ہم اس اذیت ناک اور جان لیوا احساس کو رد کردیں جو ہم پر، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ایک مہیب عفریت کی طرح غلبہ پانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ احساس کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، بس ایک وہم— یہ کہ ہم تنہا ہیں، کسی کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے، کسی کو ہماری پروا نہیں ہے، کسی کو ہماری ضرورت نہیں ہے، ہم کسی کے لیے نہیں ہیں— اور کوئی ہمارے لیے نہیں ہے۔

بس اس منفی سوچ کو ذہن سے نکال دیجیے۔ اپنے احساس کو اس جھوٹے خیال سے چھڑا لیجیے اور اپنی روح کو اس دھوکے کے شکنجے سے آزاد کرالیجیے۔ پھر آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کے دائیں بائیں تعلق کی گرمی، محبت کی خوش بو اور وارفتگی کی حیات بخش ہوا موجود ہے اور آپ تک بخوبی پہنچ رہی ہے۔ آپ کے آس پاس اخلاص، مروّت اور شیفتگی کے کتنے ہی رشتے جگمگا رہے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر ان کی طرف تو دیکھیے، آپ کے اندر روشنی بھر جائے گی۔ آئیے ان رشتوں کی طرف، محبتوں کی طرف واپس آئیے— یقین کی طرف، خوشیوں اور اعتبار کی طرف۔

The post ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

ٹخنے پر چوٹ لگنا
اقراء خان ، اسلام آباد
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں جیسے کسی مہمان کی آمد پہ کی جاتی ہے۔ میں اچانک نیچے بچھے میٹ سے الجھ کے نیچے گر جاتی ہوں جس سے میرے ٹخنے پہ شدید چوٹ لگتی ہے جیسے ھڈی کے ٹوٹنے کا درد ہو ، تکلیف کی شدت سے میں نیم بے ہوش ہونے والی ہوتی ہوں ۔ مگر میری والدہ پریشان ہو کر پھٹے ہوئے میٹ کو ہی دیکھتی چلی جاتی ہیں کہ یہ کیسے پھٹ گیا ۔
تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتا ہے۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

امام مسجد کا باجرے کی روٹی دینا
اکرام اللہ خان ، اسلام آباد
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے گیا ہوں۔ وہاں ہمارے مولوی صاحب اپنے گاوں کی سوغات باجرے سے بنی ہوئی روٹی مجھے دیتے ہیں۔ وہ میں نے اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں کھائی ہوتی۔ روٹی مجھے انتہائی لذیذ لگتی ہے ۔ میں تقریباً آدھی سے بھی زیادہ کھا جاتا ہوں اور باقی جیب میں یہ سوچ کر رکھ لیتا ہوں کہ گھر جا کر والدہ کو بھی چکھاوں گا۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

بازو مڑ جانا
محمودہ کلثوم، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کھانا پکا رہی ہوں ۔ کیبنٹ سے سامان نکالتے ہوئے میرا بازو مڑ جاتا ہے اور انتہائی تکلیف ہوتی ہے۔ درد سے کراہتے ہوئے میں اپنے ہمسائے کو فون کر کے بلاتی ہوں جو کہ ڈاکٹر ہے۔ وہ آ کر ایمبولنس کو کال کرتے ہیں اور مجھے ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔ وہاں ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ میرے سب پٹھے خشک ہو چکے ہیں ۔ میں یہ سن کر ڈر جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ ابھی تو میں بالکل درست حالت میں کچن میں کام کر رہی تھی، ایک دم سے سارے اعصاب کیسے جواب دے سکتے ہیں، مگر مارے خوف کے مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا ۔
تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

آٹا گوندھنا
سائرہ بشیر، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی امتحان کی تیاری کر رہی ہوں اور میری امی آ کر مجھے کہتی ہیں کہ کچن میں ان کی مدد کرا دوں ۔ مہمانوں کی آمد سے پہلے وہ کام مکمل کرنا چاہتی ہیں۔ میں کتابیں رکھ کے ان کے ساتھ چلی جاتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ برتن نہیں دھوئوں گی، بس آٹا گوندھ دیتی ہوں۔ یہ کہہ کے میں آٹا ڈالتی ہوں تسلے میں تاکہ گوندھ سکوں۔ اسی دوران ہماری ہمسائی کے گھر سے بھی مختلف آٹے آ جاتے ہیں۔ اور میں سوچتی ہوں کہ الگ الگ کرنے کی بجائے میں ایک ساتھ سارے گوندھ لیتی ہوں۔ مجھے اس کی تعبیر بتا دیں ۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے تنگ دستی غم اور پریشانی سے نجات ملے گی۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے قرض کی ادائیگی کی کوئی بہتر سبیل بن جائے گی۔ اور اس کے علاوہ اگر کوئی بیمار ہے،گھر میں تو اس کو شفاء ملے گی۔ آپ سب نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

کچن میں چوہے
محمد رضوان، لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنی نانی کے گھر ہوں اور ان کے کچن میں رات کے وقت اپنے لئے چائے بنا رہا ہوں۔ چائے کی پتی نکالتے ہوئے میں دیکھتا ہوں کہ کیبنٹ میں ایک چوہا موجود ہے جس پر میں گھبرا کر فوراً اسے بند کر دیتا ہوں۔ دوسری بارکھولتا ہوں تو ادھر بھی ایک چوہا موجود ہوتا ہے۔ جو تیزی سے میری طرف لپکتا ہے۔ میں ہاتھ آگے کر کے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں جس پہ وہ میرے ھاتھ میں آ جاتا ہے اور میں پھر اسے پکڑ لیتا ہوں کہ اس کو خود باہر پھینک آئوں مگر دیکھتا ہوں کہ وہ مر چکا ہے۔
تعبیر : خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔کاروباری معاملات میں بھی کسی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ہر جمعرات کو حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کریں۔

باہر جانے کیلئے تیار ہونا
سعدیہ نورین، لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں اور کہیں جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہو رہی ہوں، ساتھ ہی دل میں یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ میں نے بہت دیر کر دی ہے ۔ جب بال بنانے کے لئے بیٹھتی ہوں تو مجھے بال سلجھانے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔
تعبیر : خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی ناگہانی آفت یا پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ خاص طور پہ گھریلو معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔گھریلو معاملات کو کبھی حد سے بڑھنے نہ دیں۔ خاص طور پہ اپنے میاں کے ساتھ غیر ضروری بحث سے گریز کریں بلکہ ان کو جو بھی کھانے یا پینے کو دیں اس پہ ایک مرتبہ یا ودود اور ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کے پھونک مار کر دیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں ۔

درخت پر چڑھنے کا مقابلہ
سعدیہ کوثر، لاہور
خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے کالج کے ٹرپ کے ساتھ کہیں گئی ہوئی ہوں اور وہاں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کے درخت پہ چڑھنے کا مقابلہ کرتی ہوں کہ کون جلدی درخت پہ چڑھتا ہے، ہم تین دوستیں تیزی سے درخت پہ چڑھتی ہیں۔ میں سب سے پہلے اوپر مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہوں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو کہ خوشی پہ دلیل کرتا ہے۔ اس کا تعلق تعلیمی معاملات اور گھریلو دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

کھانے کی دعوت
مطلوب علی خاور، لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں دعوت پہ گیا ہوا ہوں اور وہاں پہ ہم کو ایک تھال میں انتہائی لذیز بھنا ہوا گوشت ملتا ہے جو کہ انتہائی مزیدار ہوتا ہے ہم سب جیسے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اس سے پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر نیت سیر نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیں تو میں نے زندگی میں کبھی اتنا لذیذ کھانا نہیں کھایا ہوتا۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے آپ کو مال و دولت عطا کریں گے ۔ مال و وسائل میں اضافے سے رزق میں بھی برکت ہو گی اور اس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

زنگ آلود چھری
جواد علی خان، لاہور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں بقر عید کے لئے جانور قربان کرنے کے لئے چھری لا کر رکھتا ہوں اور باقی کی چیزیں بھی اکٹھی کر کے قربانی کے لئے کام شروع کرتا ہوں مگر کیا دیکھتا ہوں کہ میری چھری بہت زنگ آلود ہوتی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ سبزی تک کاٹ سکے۔ جانور کٹنا تو ناممکن سی بات تھی۔ یہ دیکھ کہ میں بہت رنجیدہ و پریشان ہوتا ہوں اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا جاتا ہوں۔
تعبیر : آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اب اس کا تعلق گھریلو تعلیمی یا کاروباری دنیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ آپ چلتے پھرتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں، ممکن ہو سکے تو روزانہ حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں یا مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

بائیسکل کی شناسائی سے نا آشنائی کی جانب گامزن پاکستان

$
0
0

بائیسکل کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر

پیڈل سے قینچی، قینچی سے ڈنڈا اور پھر سیٹ ۔ یہ وہ مراحل تھے جنہیں عبور کرکے ہم نے بائیسکل چلانا سیکھی۔ کل کی بات لگتی ہے جب ہم کوئٹہ کی گلی کوچوں میں اپنے والد اور بڑے بھائی کی بائیسکل پر مشقِ سخن کرتے کرتے اِس کے سوار بن گئے۔ بائیسکل چلانے کو شوق یقینا ہر بچے کے خمیر میں رچا بسا ہوتا ہے۔

ہمیں تو اِس سواری سے محظوظ ہونے کا بھر پور موقع ملا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کی آبادی کم اور سڑکیں موٹر ٹریفک کے ازدھام کا شکار نہیں ہوئیں تھیں۔ بائیسکل مقبول اور عام سواری تھی۔ ہر گھر میں ایک سے زائد بائیسکل موجود تھیں۔ بچے ، نوجوان اور بڑے بوڑھے سبھی شوق سے اِس کی سواری کرتے۔کام پر جانا ہو یاپھر سکول یا کالج سبھی کاموں کے لئے بائیسکل ہی استعمال کی جاتی ۔ تفریح، سیاحت اور شاپنگ پر جانے کے لئے یہ کوئٹہ کے نوجوانوں کی پسندیدہ سواری تھی۔ والدین نے کوئی کام کہنا تو ہم نے بائیسکل پر جانے کی شرط فوراً سامنے رکھ دینی اور اجازت بھی مل جانی۔ یوں اِس کی سواری خوب کی۔ لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے بائیسکل خریدی تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھا کہ وہ اِسے چلائے گا کہاں پہ؟ کیونکہ اب گلی محلے کی سڑکیں بھی ٹریفک کے شدید دباؤ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی تیز دوڑتی موٹر سواریوں کی زد میں ہیں۔

اگر کسی پارک کا رخ کریں تو وہاں یہ تحریر استقبال کرتی ہے کہ ’’ پارک میں کرکٹ، فٹ بال کھیلنا اور سائیکل چلانا منع ہے‘‘ اب رہ گئے گراؤنڈ تو وہ شہروں سے یوں غائب ہو گئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تو پھر بچے بحفاظت بائیسکل کہاں چلائیں؟ اس سوال کا جواب ہر اُن والدین کو در کار ہے جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے بائیسکل کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور اُسے چلانا سیکھیں اور چلائیں بھی۔ لیکن جب میں نے اپنے بیٹے کو یہ بتایا کہ اُس کے دادا ابو بائیسکل پر کوئٹہ سے لاہور آئے۔ اور یہ مسافت انھوں نے دو ہفتوں میں طے کی تو اُس کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ وہ بھی ایسا کرے گا۔ یہ معصومانہ پرجوش خواہش یقینا قابل ستائش تو ہے لیکن قابلِ عمل اس حوالے سے نہیں کہ ہماری سڑکیں بائیسکل تو درکنار موٹر ویکلز چلانے کے لئے بھی کوئی خاص محفوظ نہیں ہیں جس کا اندازہ ریسکیو 1122 پنجاب کے ان اعدادوشمار سے بخوبی ہوتا ہے کہ گزشتہ سال صوبہ بھر میں 332516 ٹریفک حادثات ہوئے۔ یعنی روزانہ اوسطً911 حادثات ہماری شہری سڑکوں کے کس حد تک محفو ظ ہونے کی واضح منظر کشی کر رہے ہیں۔

ایسے میں ان سڑکوں پر بائیسکل کی سواری آبیل مجھے مار کے مترادف ہے کیونکہ ہماری ترقیاتی منصوبہ بندی میں بائیسکل نامی سواری کے فروغ کے لئے کچھ کیا ہی نہیں جاتا۔ ہم نے خطیر سرمایہ خرچ کر کے میٹرو سروس بنا لی، اورنج لائن ٹرین سروس کی تکمیل میں ہم شب روز مصروف ہیں۔ ناں بنا سکے تو سڑکوں پر بائیسکل سواری کے لئے علیحدہ لینز نہیں بنا سکے۔ ہم نے کروڑوں خرچ کرکے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بسیں خرید لیں۔ ناں کر سکے تو بائیسکل شئیرنگ سسٹم متعارف نہ کرا سکے۔ ہم نے جا بجا یہ پیغامات آویزاں کر دیئے کہ ماحول کی بہتری کے لئے اپنی ذاتی موٹر سواری کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ ناں کر سکے تو لوگوں کو یہ ترغیب دینے کی کوشش نہ کر سکے کہ وہ تندرست رہنے اور ماحول کو صاف رکھنے کے لئے بائیسکل کا استعمال کریں۔

ہم نے کبھی پیلی تو کبھی سبز ٹیکسیوں کی صورت میں سبسڈی پر  بے شمار گاڑیاں دیں۔ ناں دے سکے تو بائیسکل پر سبسڈی نہ دے سکے۔ ہم نے موٹر وہیکلز کی صنعت کو فعال رکھنے کے لئے کئی بار ٹیکسز میں چھوٹ دی۔ محروم رہی تو بائیسکل مینو فیکچرنگ کی صنعت اس سے محروم رہی۔ ہم اکثر مختلف کاموں کے حوالے سے قومی مہمیں چلاتے ہیں۔ نہیں چلاتے تو بائیسکل کی سواری کے فروغ کی مہم نہیں چلاتے۔ ہم ہر بار پیٹرول مہنگا کرکے مختلف تاویلیں گھڑتے ہیں۔ نہیں کرتے تو بائیسکل کو عام نہیں کرتے۔ ہم پیڑولیم مصنوعات کی درآمد پر وسیع زرمبادلہ خرچ ہونے کی دہائی تو دیتے ہیں۔

لیکن ایسی سواریوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو ان درآمد ات میں کمی کا موجب بنیں ۔ ہم لوگوں کو ہیلتھ کارڈ تو بنا کر دیتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو وہ اقدامات نہیں کر تے جن سے لوگ بیماریوں کا کم شکار ہوں اور صحت مند رہیں۔ ہم آلودگی اور کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے قدرتی وسائل کی کمی اور قدرتی آفات کے نتیجے میں اربوں روپے نقصان کا شور تو مچاتے ہیں۔ لیکن ان اقدامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے جو ہمیں ان سے بچا سکیں۔ ہم نے شہروں کو پھیلاتے ہوئے فاصلوں کو طویل کر لیا ہے۔ نہیں بناتے تو نئے شہر نہیں بناتے۔ ہم مغرب کی ہر وہ چیز اپنا رہے ہیں جو ہماری ثقافت اور روایات سے ہم آہنگ نہیں ۔ لیکن نہیں اپناتے تو اُن کی وہ چیزیں نہیں اپناتے جو انفرادی اور اجتماعی بہتری کے لئے ضروری ہیں۔

ہم روڈ پر موجود ہوتے وقت صرف اپنے ہی حق کو مقدم سمجھتے ہیں باقی روڈ صارفین کے حقوق کا خیال ہی نہیں رکھتے۔ ہم نے بائیسکل کو غریبوں کی سواری قرار دے کر اُسے سماجی رتبہ کا ایک نشان بنا دیا ہے۔اب ہر کسی کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی موٹرائزڈ سواری حاصل کر لے۔ ہم آج اپنے بچوں کو یہ تو کہتے ہیں کہ تم نے باتھ روم بھی جانا ہو تو تمہیں موٹر سائیکل چاہئے لیکن اپنے بچوں کو جسمانی طور پر متحرک رہنے کی عادت نہیں ڈالتے اور وہ وسائل فراہم نہیں کرتے جو اُنھیں جسمانی طور پر حرکت پذیر رکھیں۔ ہم سوشل میڈیا پر کبھی پھل ،کبھی گوشت ،کبھی کیا تو کبھی کیا کے بائیکاٹ کی اپیلیں کرنے میں تو بڑے متحرک رہتے ہیں۔

نہیں کرتے تو بائیسکل کی سواری کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور اس کے لئے محفوظ انفراسٹرکچر کی فراہمی کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ غرض ایسے بے شمار روئیے ہیں جن کا ہم شکار ہیں۔ لیکن شاید ہم اکیلے ہی ان کی گرفت میں نہیں بلکہ ہم جیسے بہت سے ممالک اس طرح کے اور ان سے ملتے جلتے رویوںکے اسیر ہیں ۔ تبھی تو اقوامِ متحدہ نے 2018 سے ہر سال03 جون کو دنیا بھر میں ’’ ورلڈ بائیسکل ڈے‘‘  منانے کا اعلان کیا ہے تاکہ دنیا بھر میںحکومتی، اجتماعی اور انفرادی سطحوں پر ان رویوں کو بدلا جا سکے جس سے بائیسکل کے استعمال کو فروغ ملے۔

گزشتہ تین عشروں میں پوری دنیا جس تیزی سے موٹرائزیشن کا شکار ہوئی ہے اُس کے اثرات ہمارے ہاں بھی واضح طوردیکھے جا سکتے ہیں ۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی روز بروز بڑھتی تعداد نے بائیسکل کو ہمارے ہاںکہیں ماضی کی گرد میں چھپا دیا ہے۔اب شہر کی سڑکوں پر خال خال ہی بائیسکلیں چلتی نظر آتی ہیں۔ موٹر وہیکلز کا ایک طوفان ہے جو کہ سڑکوں پر امڈا ہوا ہے ۔ اگر ہم گزشتہ دو مردم شماریوں کے مابین عرصہ ہی کو لے لیں ۔ تو پتا چلتا ہے کہ1998 سے2017 کے دوران ملک میں رجسٹرڈ موٹر وہیکلز کی تعداد میں400 فیصد اضافہ ہوا ۔ جبکہ اس کے برعکس ہماری ملکی آبادی میں اس دوران مجموعی طور پر 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موٹر سائیکل وہ سواری ہے جس نے ملک سے بائیسکل کو متروک کردیا ہے۔

جس کی تعداد میں مذکورہ عرصہ کے دوران657 فیصد اضافہ ہوا ۔ او ر اس وقت ملک میں اوسطً ہر 13 ویںفرد کی ملکیت میں ایک رجسٹرڈ موٹر سائیکل موجود ہے۔ جبکہ1998 میں ہر63 ویں فرد کے پاس اوسطً ایک رجسٹرڈ موٹر سائیکل تھی۔ ملک میں اس وقت رجسٹرڈ موٹروہیکلز کا73 فیصد موٹر سائیکلز پر مشتمل ہے۔ جبکہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق اِس وقت ملک کے 54.1 فیصد یعنی آدھے گھرانوں کے پاس موٹر سائیکل ہے۔ ہمارے دیہی علاقے بھی اس موٹرائزیشن کے اثر سے مبرا نہیں ۔ جہاں کے 49.4 فیصد گھروں میں موٹر سائیکل موجود ہے۔

جبکہ شہروں کے61.6 فیصد گھروں میں یہ سواری دستیاب ہے۔اس جدیدیت نے بائیسکل کو ہمارے ہاںکتنا متاثر کیا اِس کا اندازہ اِن اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2006-07 میں ہونے والے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق اُس وقت ملک کے40.7 فیصد گھروں میں بائیسکل موجود تھی۔ یہ تناسب 2012-13 میں کم ہوکر 27.8 فیصد پر آگیا اور اب تازہ ترینPDHS کے مطابق 2017-18 میں ملک کے صرف 20.3 فیصد گھرانوں کے پاس بائیسکل موجود ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ملک کے شہری علاقوں میں بائیسکل کی ملکیت رکھنے والے گھرانوں کا تناسب 37.5 فیصد سے کم ہوکر 17.7 فیصد اور دیہات میں 42.4 فیصد سے کم ہوکر21.9 فیصد ہو چکا ہے۔ ملک میں بائیسکل کی ملکیت میں کمی اور موٹر سائیکل کے تصرف میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری قراردی جاتی ہے تو وہ ممالک جہاں اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ بائیسکل چلائی جاتی ہے کیا وہ ہم سے کم معاشی آسودہ ہیں؟ مثلاً ہالینڈ کو ہی لے لیں جہاں 99 فیصد آبادی بائیسکل چلاتی ہے۔ 80 فیصد بائیسکل سوار آبادی کے ساتھ ڈنمارک دنیابھر میںسائیکلنگ سے محبت کرنے والا دوسرا نمایاں ملک ہے۔ جرمنی تیسرے نمبر پر ہے جہاں 76 فیصد لوگ بائیسکل چلاتے ہیں۔

سویڈن کی 64 فیصد، فن لینڈ کی 60 فیصد، جاپان کی 57 فیصد، سوئٹزرلینڈ کی49 فیصد، بیلجیئم کی48 فیصد اور دسویں نمبر پر موجود چین کی 37 فیصد آبادی بائیسکل چلاتی ہے۔ بائیسکل کی ملکیت اور اس کی سوار ی کے رجحان میں کمی کا آسودہ حال ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ اُس منفی سوچ کا عکاس ہے جس میں بائیسکل کو ہمارے ہاں سماجی رتبہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ پیدل چلنے کے بعد سائیکلنگ سب سے سہل اور نقل وحرکت کا قدرتی ذریعہ ہے۔ جس کے کثیر الجہت فوائد ہیں جو صحت، ماحولیات، معیشت اور سماج سب کوحاصل ہوتے ہیں ۔ آج بھی دنیا کے باشعور ممالک میں اس کا وسیع استعمال ہمارے لئے یقیناًحیرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔ ورلڈ بینک کے ایک بلاگ کے مطابق ’’اس وقت کرہ ارض پر 2 ارب سے زائد بائیسکلوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اور دنیا کے50  فیصد لوگ بائیسکل چلانا جانتے ہیں‘‘۔ کیونکہ ایک بار آپ نے بائیسکل چلانا سیکھ لی تو پھر یہ آپ کو عمر بھر نہیں بھولتی۔ اسی طرح جرنل آف ٹرانسپورٹ اینڈ ہیلتھ میں چھپنے والے ’’ ٹریکنگ گلوبل بائیسکل اونر شپ پیٹرنز‘‘  نامی ریسرچ پیپرکے مطابق ’’دنیا کے 42 فیصد گھروں میں بائیسکل موجود ہے‘‘۔

بائیسکل کے حوالے سے ہم ایک اور پہلو سے بھی روبہ زوال ہیں اور وہ ہے اُس کی پیداوار ۔ کیونکہ اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ ملک میں بائیسکل کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان اسٹیٹسٹیکل ائیر بک 2015 اور2017 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 2006-07 میں ملک میں 4 لاکھ86 ہزار3 سو بائیسکل بنائیں گئیں۔ یہ تعداد 2016-17 میں کم ہوکر 2 لاکھ2 ہزار تک آچکی ہے۔ یعنی ان 10 برسوں میں ملک میں بائیسکل کی پیداوار میں آدھی کمی (54 فیصد ) واقع ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس 2012-13 میں بھارت میں 15.5 ملین بائیسکلیں بنائی گئیں جو عالمی پیداوار کا10 فیصد تھیں ۔ چین دنیا کی67 فیصد بائیسکلیں بناتا ہے۔ بھارت 10 فیصد کے ساتھ دوسر ے اور 4 فیصد کے ساتھ تائیوان تیسرے نمبر پر ہے۔

اسی طرح دنیا کی 30 فیصد بائیسکل کی ڈیمانڈ چین کی ہے۔ 20 فیصد یورپ،17 فیصد امریکا اور 10 فیصد انڈیا کی طلب ہے۔ یورپین بائیسکل مارکیٹ 2017 ایڈیشن نامی کنفیڈریشن آف یورپین بائیسکل انڈسٹری کی رپورٹ کے مطابق 2016 ء میں یورپی یونین کے28 ممالک میں ایک کروڑ 66 لاکھ 66 ہزار بائیسکلیں بنائیں گئیں ۔ جبکہ مذکورہ سال ایک کروڑ 96 لاکھ 6 ہزار بائیسکل فروخت ہوئیں ۔ یورپی یونین کے28 ممالک میں 2016 کے دوران سب سے زیادہ بائیسکل جرمنی میں فروخت ہوئیں ۔ جن کی تعداد40 لاکھ 50 ہزار تھی ۔ جو یورپی یونین کے ان ممالک میں بائیسکل کی فروخت کا 21 فیصد تھا ۔ برطانیہ دوسرے نمبر پر تھا جہاں 16 فیصد بائیسکل بکیں ۔ جبکہ15 فیصد کے ساتھ فرانس تیسرے نمبر پر تھا ۔

بائیسکل کی پیداوار اور فروخت اپنی جگہ اہم ہے تاہم اس کا استعمال زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اس کے استعمال کے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی کوئی روایت ہی نہیں ڈالی گئی ۔ جب آپ کے پاس اعداد وشمار ہی نہیں ہوں گے تو آپ کیا منصوبہ بندی کریں گے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سائیکلنگ کے فروغ کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پلاننگ نہیں ہو پاتی ۔ لیکن دنیا کی کئی ایک ممالک میں ایسا نہیں ۔ وہاں بائیسکلنگ کے شعبہ میں بھرپور تحقیق کی جاتی ہے۔ اُس کے اثرات کو جانچا جاتا ہے ۔

اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کوپن ہیگن انڈکس آف بائیسکل فرینڈلی سٹیز ہر دو سال بعد مرتب کیا جاتا ہے جس میں دنیا کے ایسے20 شہروں کی نشاندہی اور درجہ بندی کی جاتی ہے جہاں سائیکلنگ کے حوالے سے حکومتی، نجی اور انفرادی طور پر بھرپور اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ 2017 کے انڈکس کے مطابق ان شہروں میں ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن  ہیگن پہلے، Utrecht دوسرے ، ایمسٹرڈیم تیسرے ، اسٹراسبرگ (Strasubourg) چوتھے اور مالمو( Malmo) پانچویں نمبر پر ہے۔

کوپن  ہیگن جسے ’’ بائیسکل سواروں کا شہر‘‘  (City of Cyclists) بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بائیسکل دوست شہر تصور کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہاں ہرایک گاڑی کے مقابلے میں پانچ بائیسکل موجود ہیں ۔ کوپن  ہیگن سٹی آف سائیکلسٹ فیکٹس اینڈ فیگرز2017  نامی رپورٹ کے مطابق شہر میں ہر روز چلنے والی بائیسکلوں کی مجموعی مسافت1.4 ملین کلومیٹر بنتی ہے۔ یعنی اگر ہم اسے زمین کے گرد چکر لگانے کے پیمانے سے مانپیں تو یہ دنیا کے روزانہ 35 چکر سے زائد کا فاصلہ بنتا ہے۔ شہر میں تمام طرح کے trips کا 29 فیصد بائیسکل پر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ کام اور پڑھائی کے مقصد کے لئے ہونے والے trips کا41 فیصد بائیسکل کے ذریعے ہوتا ہے۔

شہر میں 400 کلومیٹر طویل سائیکل پاتھ ہیں جوکہ کار لینز اور پیدل چلنے والوں سے بالکل علیحدہ ہیں ۔ یہ تو صرف یورپ کے ایک شہر کی صورتحال ہے اگر ہم ہالینڈ کی صورتحال دیکھیں تو پتا چلتا ہے وہاں بائیسکل کی تعداد آبادی سے زیادہ ہے۔ ہالینڈ کی 17 ملین آبادی کے مقابلے میں وہاں بائیسکلز کی تعداد23 ملین ہے۔ نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسپورٹ پالیسی اَ نیلسیز کے مطابق ملک میں روزانہ کی نقل و حرکت کا 25  فیصد بائیسکل پر ہوتا ہے۔ 2016 میں ملک میں بائیسکل trips کی تعداد 4.5 ارب تھی جو 15.5 ارب کلومیٹر کی مجموعی مسافت پر مشتمل تھے ۔

2017 میں دنیا میں بائیسکل مارکیٹ کا حجم 47.51 ارب ڈالر تھا۔اور اس کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں ۔ جبکہ ہم آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ یورپین سائیکلسٹ فیڈریشن کی دسمبر 2018 میں جاری شدہ رپورٹ ’’ دی بینیفیٹ آف سائیکلنگ ، اَن لاکنگ دئیر پوٹینشل فار یورپ‘‘ کے مطابق سائیکلنگ کے استعمال کا موجودہ رجحان دنیا کو 150 ارب یورو کے فوائد فراہم کر رہا ہے۔ جس میں سے 90 ارب یورو سے زائد عوامی صحت، ماحول اور نقل و حرکت کے نظام سے بچتا ہے۔ سائیکلنگ کا صحت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یعنی آپ اگر سائیکلنگ کرتے ہیں تو صحت مند اور چاق و چوبند ہیں کیونکہ اس سرگرمی کی باقاعدگی دل کی شریانوں کی صحت میں اضافہ کرتی ہے ۔ پٹھوں کی طاقت اور لچک بڑھاتی ہے۔

جوڑوں کی حرکت میں اضافہ کرتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی سطح کو کم کرتی ہے۔ جسم کو بہتر انداز میں حرکت دینے اور اس کی پوزیشن کو بہتر بنانے میں معاون ہوتی ہے ۔ ہڈیو ں کو مضبوط کر تی ہے۔ جسم کی چربی کی سطح کو گھٹاتی ہے۔ موٹاپے اور وزن کو کنٹرول کرتی ہے۔ کئی طرح کے کینسر سے تحفظ دیتی ہے۔ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ غرض بیماریوں کی روک تھام میں معاون ہے۔ بائیسکل کی سواری سہل پسند طرز زندگی سے منسلک صحت کے مسائل کے خطرات کو کم کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق جسمانی سہل پسندی کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں ملک کی نیشنل ہیلتھ سروسز کو سالانہ 1.08 ارب مارک کا براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں ۔ یونیورسٹی آف برٹش کو لمبیا کی تحقیق کے مطابق ہر روز اضافی30 منٹ جو ہم موٹر کار میں گزارتے ہیں ۔ موٹاپے میں مبتلا ہونے کے امکانات میں 3 فیصد اضافہ کا باعث بنتے ہیں ۔ اسی حوالے سے ایک امریکی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسے نو بالغ جو بائیسکل چلاتے ہیں۔

بالغوں کی نسبت ان میں موٹاپے کے امکانات میں 48 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔اور ایسی خاتون جو ہر روز 30 منٹ تک سائیکل چلاتی ہے۔ اُس میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ قدرے کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ڈنمارک میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جو اپنے کام پر جانے کے لئے بائیسکل استعمال کرتے ہیں ان میں شرح اموات 20 سے28 فیصد کم پائی گی ۔ علاوہ ازیں ایسی کمپنیاںجو اپنے ملازمین کے بائیسکل کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ ملازمین کی بہتر جسمانی اور ذہنی صحت کی وجہ سے زیادہ پیداواری فائدہ حاصل کرتی ہیں ۔ کیونکہ دیگر ملازمین کی نسبت سائیکلنگ اسٹاف زیادہ قابلِ اعتماد ( وقت کا زیادہ پابند اور کم بیمار) ہوتا ہے ۔ اور وہ کام کے دوران زیادہ متوجہ اور قابل ہوتے ہیں ۔

ایک اور اسٹڈی کے مطابق ملازمین کی سائیکل کی سواری کی حوصلہ افزائی سے اُن کی غیر حاضری کی شرح میں 14 سے80 فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ یورپ میں کی جانے والی ایک اسٹڈی یہ بتاتی ہے کہ ایک ایسا جسمانی سہل پسندی کا شکار فرد جو اپنے کام پر جانے کے لئے کار کی بجائے بائیسکل کا استعمال کرتا ہے وہ کمیونٹی کو 3 سے4 ہزار یورو سالانہ کے معاشی فوائد دیتا ہے۔اسی طرح بائیسکل ٹریفک پر خرچ کئے جانے والے ہر ایک یورو کے بدلے میں تین سے چار یورو کی ہیلتھ کے دیکھ بھال کے شعبہ میں بچت ہوتی ہے۔ یوں یورپ میں سائیکلنگ سالانہ 18110 اموات سے بچاتی ہے جس کی معاشی قدر 52 ارب یورو سالانہ ہے۔

سائیکلنگ وقت کے بہتر استعمال میں بھی معاون ہے اور یہ اُس سہل پسند وقت کو جو موٹر گاڑیوں، ریل گاڑیوں اور ٹرامز میں بیٹھ کر گزارا جاتا ہے اُسے صحت مند ورزش کے ساتھ بدل دیتی ہے۔ یہ آپ کے کام یا شاپنگ پر جانے کے باقاعدہ معمولات کو اتنی ہی باقاعدگی کے ساتھ ایک جسمانی مشق کی صورت دینے کے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ کیونکہ 15 منٹ کی بائیسکل سواری، کام پر جانے کے لئے یا خریداری کے لئے یا کسی سے ملنے جانے کی صورت میں ان تمام سفارشات کو پورا کرتی ہے جو کہ کسی بالغ کو ورزش کے لئے اضافی وقت مختص کرنے کے لئے دی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہت فطری ورزش ہے اور اس پر قائم رہنا جم جانے کی روٹین سے زیادہ آسان ہے ۔ اور یہ یقینی طور پر لوگوں کے ایندھن کے اخراجات اور جم جانے کے اضافی اخراجات سے بچاتی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں بائیسکل پائیدار شہری ٹرانسپورٹ کی ایک علامت بن چکی ہے۔ جو نقل و حرکت کے پائیدار ذرائع کو آپس میں جوڑتی بھی ہے۔ ہالینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 44 فیصد ٹرین کے مسافر اپنے گھر سے اسٹیشن تک آنے کے لئے بائیسکل استعمال کرتے ہیں ۔ یوں لوگ ٹرین اور بائیسکل کو یکجا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ شہروں میں نقل وحرکت کا ایک مثالی ذریعہ بھی ہے۔ کیونکہ پانچ کلومیٹر کے فاصلہ تک کے لئے (اگر ٹریفک جام ہو) یہ نقل وحرکت کا تیزموڈ ہے۔ یورپ میں تما م trips کے30 فیصد کا فاصلہ تین کلومیٹر سے کم ہوتا ہے اور50 فیصد کا پانچ کلومیٹر سے بھی تک ۔ اور ہم بھی اپنی روزمرہ گھریلوضروریات کی اشیاء اور خدمات سے استفادہ کے لئے اتنے ہی فاصلہ پر مبنی کئی ایک trips روزانہ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر موٹر سائیکل اور کارکے سہارے۔ اس کا مطلب ہے کہ بائیسکل کے استعمال کی ہر جگہ بہت گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔ خصوصاً ایسے اوقات میں جب ہر شخص کو کام پر جانا ہے۔

اسکول جانا ہے تو سڑکیں گنجائش سے زیادہ موٹر وہیکلز سے بھر جاتی ہیں ۔ نتیجتاً ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور لوگ اپنا قیمتی وقت ٹریفک جام میں گزارتے ہیں ۔کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پاکستان کے کئی ایک دیگر شہروں میں ٹریفک جام معمول کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ یورپ میں یہ ٹریفک جام اکانومی کو240 ارب یورو سالانہ کا نقصان پہنچاتی ہے جو یورپی یونین کے2 فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کار کو پارکنگ اور سڑک پر حرکت کے لئے جتنی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُتنی جگہ میں 7 سے9 بائیسکلز کھڑی ہو سکتی ہیں ۔

اور اگر3.5 میٹر چوڑائی کی حامل ایک سڑک پر ایک گھنٹے میں 2 ہزار کاریں گزر سکتی ہیں تو اُسی سڑک پر اتنے ہی وقت میں14 ہزار بائیسکل گزر سکتی ہیں ۔ یعنی بائیسکل کے استعمال کے لئے کم جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے تنگ سڑ کوں اور بعض اوقات بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بہت سے معاملات میں پبلک ٹرانسپورٹ اس ٹریفک جام کا بہتر متبادل نہیں ہے رش کے اوقات میں یہ بھی لوگوں سے بھر جاتی اور بے سکون ہو جاتی ہیں ۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے والے ادارے دن میں صرف ایک یا دو گھنٹے کی اضافی بھیڑ کے لئے مزید ٹرانسپورٹ نہیں خرید سکتے۔ یہ معاشی طور پر ممکن نہیں۔ لہذا ایسے اوقات میں بائیسکل ٹریفک کو متوجہ کرنا مناسب حل ہے۔ جو ٹرانسپورٹ کے تمام صارفین کے لئے مثبت اثرات رکھتا ہے جس میں ایک ماحولیاتی آلودگی میں کمی بھی ہے۔ کیونکہ کار کی بجائے سائیکل پر پانچ کلومیٹر کے ہر trip سے747 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچا جا سکتا ہے ۔ یعنی سال کے 350 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکا جاسکتا ہے ۔

یورپ میں سائیکلنگ سالانہ 16ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے محفوظ رکھتی ہے جوکہ کوریشیا جیسے ملک کے سال بھر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے برابر ہے۔ اسی طرح یورپ میں سائیکلنگ کا موجودہ رجحان سے سالانہ 03 ارب لیٹر تیل کی بچت ہوتی ہے جو کہ آئرلینڈ جیسے ملک کی روڈ ٹرانسپورٹ کی سال بھر کی ضرورت کے برابر ہے۔ بائیسکل کا ایک اور ماحولیاتی بہتری کا پہلو یہ بھی ہے کہ یورپ میں 2017 میں ایک اوسط گاڑی کا وزن1400 کلوگرام تھا  جبکہ ایک  بائیسکل کا وزن 20 کلو گرام جوکہ گاڑی کے وزن کا 1.5 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو بنانے کے لئے کار کی نسبت کم وسائل کی ضرورت ہے ۔ اس کے برعکس  ان تمام چیزوں کی دستیابی جو گاڑی بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے حصول کا مطلب زیادہ آلودگی اور زیادہ ماحولیاتی نقصان ہے۔ اس کے علاوہ ہر کار اپنی زندگی میں 1.3 ارب مکعب میٹر ہوا کو آلودہ کرتی ہے۔ 40 پاؤنڈ ٹائروں کے ذرات سڑکوں پر چھوڑتی ہے اور سڑک کی سطح کو گرم کرتی ہے۔

ایک بین الاقوامی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک ہی سڑک پر موجود گاڑی کی اند ر کی ہوا بائیسکل سوار کے کھلی فضا ء میں سانس لینے سے زیادہ آلودہ ہو سکتی ہے۔کیونکہ گاڑی کی اندر کی ہوا میں باہر کی نسبت دگنا کاربن ڈائی آکسائیڈ اور50 فیصد زائد نائٹروجن آکسائیڈ ہوتا ہے۔ یوں اگر کوئی شخص شہری علاقوں میں بائیسکل پر سالانہ اوسطاً 4 کلومیٹر فاصلے کے 160 trips لگاتا ہے تو وہ ماحول کی حفاظت کے تناظر میں79یورو کی بچت کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ بچت 15یورو ہے۔

سائیکلنگ کا معیشت پر ایک نمایاں اثر سیاحت کی صورت میں بھی پڑتا ہے۔ جس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ہر سال بائیسکل پر 2.3 ا رب سیاحتیtrips ہوتے ہیں ۔ جو خطے کو 44 ارب یورو کے معاشی فوائد مہیا کرتے ہیں ۔ اور اس طرح کی سیاحت یورپ میں 5 لاکھ 25 ہزار افراد کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ فرانس میں بائیسکل سیاح دیگر سیلانیوں کی نسبت20 فیصد زیادہ خرچ کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں بائیسکل سوار کار سواروں کی نسبت زیادہ شاپنگ پر جاتے ہیں  یہ کہنا ہے آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا جس کے مطابق 80 فیصد آسٹریلوی بائیسکل چلانے والے ہفتے میں کئی بار شاپنگ پر جاتے ہیں ۔ اور یورپ میں بائیسکل پر شاپنگ پر جانے والے افراد سالانہ 111 ارب یورو مالیت کی شاپنگ کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں پائیدار ٹرانسپورٹ بھی شامل ہے۔ لیکن اس وقت دنیا بھر میں زیادہ توجہ پبلک ٹرانسپور ٹ پر ہے جوکہ اکثر صورتوں میں غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بائیسکل کے فروغ کے پروگراموں اور اس سے متعلقہ انفراسٹرکچرکو ترقی دی جائے۔اس حوالے سے دنیا بھر میں بائیسکل شئیرنگ سسٹم، پبلک بائیسکل سسٹم یا بائیک شئیر اسکیم کام کر رہی ہیں ۔ جن کی رواں سال مارکیٹ کی مالیت 1570 ملین ڈالر ہے۔ اور2024 تک اس کے بڑھ کر5440 ملین ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی سروس ہے (یہ ہمارے ہاں ماضی میں کرائے پربائیسکل دینے کی جدید صورت ہے) جس میں بائیسکل مشترکہ استعمال کے واسطے انفرادیوں کو مختصر مدت کے لئے قیمتاً یا مفت فراہم کی جاتی ہے۔

بہت سے بائیسکل شیئرکرنے والے سسٹم لوگوں کو کسی ایک مخصوص مقام سے بائیسکل فراہم کرتے ہیں اور اُنھیں اسے کسی دوسرے مخصوص مقام پر واپس کرنا ہوتا ہے۔ ایسے نظام کوDock سسٹم کہتے ہیں ۔ یہ سسٹم دراصل بائیسکل کے ریک پر مشتمل ہیں جو بائیسکل کو لاک کرتے ہیں اور صرف کمپیوٹر کنٹرول سے تالا کھلتا ہے۔ کمپیوٹر میں ادائیگی کی معلومات داخل کی جاتی ہیں اور کمپیوٹر ایک سائیکل کو غیر مقفل کر دیتا ہے۔ صارف اسی طرح کے کسی دوسرے Dock  میں بائیسکل کھڑی کر کے اسے واپس کرتا ہے جو اُسے دوبارہ مقفل کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ Dockless سسٹم بھی موجود ہیں  جس میں سمارٹ فون میں موجود ایپ کی مدد سے آپ کے قریب ترین موجود بائیسکل کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ ایپ اُس کا لاک کھول دیتا ہے۔ آپ جہاں مرضی بائیسکل چھوڑ کر اُسی ایپ کی مدد سے اُسے دوبارہ لاک کر کے آن لائن پے منٹ کردیں ۔2014 تک دنیا کے855 شہروں میں بائک شئیرنگ سسٹم کام کر رہا تھا ۔ چین میں 753508 بائیسکل بائیک شیئرنگ سسٹم میں شامل ہیں ۔

فرانس دوسرے، اسپین تیسرے، امریکہ چوتھے اور جرمنی پانچویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان میں NUST یونیورسٹی کے چند طالب علموں نے CYKIQ کے نام سے dock-less بائیسکل شئیرنگ سسٹم متعارف کروایا ہے جو یونیورسٹی کی حدود کے اند ر ہی کام کرتا ہے جس میں150 سے زائد بائیسکل ہیں ۔ اس سسٹم کے2 ہزار سے زیادہ صارفین ہیں اور یہ سسٹم NUST یونیورسٹی کے اندر8 ہزار کلومیٹرز سے زائد کی رائڈز پوری کر چکا ہے۔ اس جیسے سسٹم کو حکومتی یا نجی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ شہروں کی سطح پر بھی اسے شروع کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ شہری علاقوں کی سڑکوں پر بائیسکل چلانے کے لئے خصوصی لینز جنہیں کسی چیز کی مدد سے موٹر وہیکلز ٹریفک سے باقاعدہ طور پر علیحدہ کیا گیا ہو بننا اشد ضروری ہے تاکہ بائیسکل کی سواری بلاخوف و خطر کی جا سکے۔کیونکہ ایک امریکی تحقیق کے مطابق محفوظ بائیسکل سواری کی لین سے اس کی سواری میں اضافہ، موٹر وہیکلز کی رفتار میں کمی، حادثات کو کم کرنے اور سڑکوں کے محفوظ ہونے کے بارے میں لوگوں کے احساسات کو بہتر کرتی ہے۔امریکی شہر نیویارک میں 30 میل علیحدہ سائیکل لین بنانے سے بائیسکل کی سواری میں55 فیصد اضافہ ہوا ۔

آب و ہوا کی تبدیلی کے پس منظر میں، تیل کی درآمدات پر خرچ ہونے والے کثیر زرمبادلہ کے پیش منظر اور عوامی صحت کے موجودہ تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم سفر کی اپنی موجودہ عادات اور رویوں کو بدلیں  تاکہ لوگوں کی عمومی صحت کے معیار اور ماحول کو بہتر بناتے ہوئے آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند اور ماحول دوست پاکستان دیا جا سکے ۔

The post بائیسکل کی شناسائی سے نا آشنائی کی جانب گامزن پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.

ماضی اور حال کی عیدیں

$
0
0

آج سے کچھ سال پہلے عید کی آمد سے چند روز قبل ہی خوشی اور غم کے مناظر کا عجیب سا امتزاج نظر آتا تھا، جہاں تمام مسلمانوں کو عید کی آمدکا بے چینی سے انتظار ہوتا وہاں رمضان المبارک جیسے مقدس اور بابرکت ماہ کے رخصت ہونے کا دُکھ بھی ہوتا کہ پتہ نہیں اگلے سال یہ بابرکت ماہ دوبارہ نصیب ہوگا کہ نہیں۔ اس مہینے کی ایک رات لیلتہ القدر کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، اس ماہ ِمقدس میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا زیادہ ہے، روزہ کا اجّر اللہ تعالیٰ نے خود دینے کا وعدہ کیا ہے۔

تمام مسلمانوں نے اس ماہِ مبارکہ میں اپنے نفس پر قابو رکھا، راتوں کو قیام کیا، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں صرف کیا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجّر ملنیِ کی اُمید پر دل خوش اور مطمین ہوتا تھا۔ عام مسلمان عہد کرتے تھے کہ وہ باقی سال بھی اسی طریقے سے زندگی گزاریں گے۔ نعت خوان ٹولیاں گلی محلوں میں پھیل کر سحری اور دوسرے اوقات میں ’’الوداع رمضان‘‘ کی شعر گوئی کرتی اور نعتیں پڑھتی تھی۔

عید سے دو تین روز قبل سے ہی گلی کوچوں میں مٹھائی کی دکانوں کو سڑک کی طرف بڑھا دیا جاتا، حلوائی ٹینٹ لگا کر پھٹے اُوپر نیچے رکھ کر اُن پر مٹھائیوں کے تھال رکھتے کہ عید کے روز لوگ اپنے عزیزواقارب کی طرف مٹھائی لیکر جانا ضروری سمجھتے تھے، اس زمانے میں بیکریوں کا موجودہ کلچر پیدا نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس زمانے میں مشہور بیکریوں کی چین ہوتی تھی، محلوں میں مختلف چھوٹی چھوٹی بیکریاں ہوتی تھیں۔ تین چار بیکری آئٹمز ہوتی تھیں۔ بیکری کی موجودہ اشیاء کا تصور بھی نہ تھا۔ مٹھائی کی دکانوںکے علاوہ مشروبات کی بوتلیںبیچنے والے بھی دکانوں کو سڑکوں تک بڑھا لیتے تھے،اس زمانے میں لیٹر، ڈیرھ لیٹر یا سوا دولیٹر کی بوتلیں نہ ہوتی تھیں۔ ریگولر بوتلیں ہی ہوتی تھیں، گولی والی بوتل کا نسبتاً ریٹ کم ہوتا تھا۔ انکا استعمال کم ہی ہوتا تھا، یہ وہ دورَ تھا کہ سّویوں کے علاوہ بوتل پینا اور پان کھانا ہی عید کی روایت سمجھی جاتی تھی ۔

اندرون ِشہر لاہورکی فصیل کے باہر باغات موجود تھے، اس زمانے میں یہ باغات قبضہ گروپوں اور لاہور میونسپل کارپوریشن کی دسترس سے بچے ہوئے تھے، عید کے دنوں میں ان باغات میں ’’عید میلہ ‘‘ سج جاتا ، قتلمے اندرسے،کھلونوں اور دوسری اشیاء کی دکانیں لگ جاتیں، اُس زمانے کے حساب سے جھُولے لگ جاتے، موجودہ جدید جھُولوں کا تصور نہ تھا۔ پینگیں اور چار سیٹوں والے لکڑی کے بنے ہوئے آسمانی جھُولے ہوتے تھے، بچے اس ’’عید میلے‘‘ میں عید مناتے، واپسی پر کھلونے خرید لئے جاتے اور سارا راستے باجے بجاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے، مائیں کھانا تیار رکھتیں اگرچہ سالن تو عموماً ایک ہی ہوتا تھا مگر اُس عید پر خاص طور گوشت یا مرغی کا سالن بنایا جاتا ۔دیسی مرغیاں ہوتی تھیں ابھی بوائلر مرغیوں کا کلچر نہیں ہوا تھا۔

لوگ اپنے عزیزواقارب سے ضرور ملِنے جاتے تھے، خاص طور پر روٹھے ہوئے دوستوں اور عزیزورشتہ داروں کو منانے ان کے گھروں میں جاتے،گلے ملتے ہی تمام گلِے شکوے دورُ ہو جاتے، روٹھوں کو منانا عید کا خاص جُزو سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی مگر جینے کا اپنا مزہ اور انداز تھا ۔گھر کے مرد تاش کی محفلیں سجاتے اور رات گئے تک تاش کی بازیاں لگاتے رہتے ۔ آج کی طرح ٹریفک کی بہتات نہ ہوتی، لاہور کی آبادی مخصوص جگہ میں قائم تھی ۔

ٹرو کا دِن ’’پکنک‘‘ کیلئے مخصوص تھا۔ جیلانی پارک (ریس کورس پارک) ماڈل ٹاؤن پارک، گلشن اقبال، فورٹریس سٹیڈیم کا جوائے لینڈ یا دوسرے پارکس موجود نہ تھے، لوگ پکنک منانے کیلئے ’’مقبرہ جہانگیر، شالامار باغ، جناح باغ اور چڑیا گھر کا رُخ کرتے، آمدورفت کیلئے عموماً تانگے کی سواری کی جاتی تھی ۔ تانگے کی سیر کا اپنا ہی مزہ اور ردھِم تھا ۔ تیسرے دن جسے ’’مرو‘‘ کہا جاتا ہے معمولات زندگی شروع ہو جاتی، اسکول کالج دفاتر اور دکانیں کھل جاتی تھیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی کہ کاش ایک دن اور چھٹی مِل جاتی، تیسرے دن مٹھائی اور مشروبات کی دکانوں سے ٹینٹ اُتر جاتے یہ دکانیں دوبارہ اپنی چاردیواری کے اندر سِمٹ جاتیں ۔ مگرعید کی خوشیاں اور مخصوص تاثر عرصہ تک یاد رہتا، زندگی میں سکون ہی سکون تھا، خاص طور پر روٹھوں ہوؤں کو منانے کا اپنا ہی مزہ تھا ۔ اجتماعیت کی فضا نظر آتی تھی۔ لوگ بے بس و بے کس افراد کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا عید کی خاص روایت سمجھتے تھے ۔ ان دنوں فضا میں بھی عید کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا احساس ہوتا تھا۔

’’ خواتین کی چاند رات ، مہندی اور عید‘‘

چاند نظرآتے ہی خواتین گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہو جاتی تھیں، اُس زمانے میں فریج اور فریزر عام نہیں ہوتے تھے، گوشت تو صبح سویرے ہی آتا تھا مگر لہسن، پیاز اور ادرک وغیرہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ چارپائیوں یا پلنگ پر دُھلی ہوئی یا نئی چادریں ڈال دی جاتی تھیں۔ خواتین گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہوکر پسی ہوئی مہندی کو پانی میں گھول لیتی تھیں، اس محلول کو ہاتھوں پر لگا کر لیٹ جاتی تھیں کیونکہ تصور یہی تھا کہ جتنی دیر مہندی لگی رہے اتنا ہی گہرا رنگ آتا ہے، مہندی لگنے کے بعد عجیب سی بُو فضا میں پھیل جاتی تھی مگر مہندی لگانا عید کی روایات میں اہم ترین روایت سمجھی جاتی تھی۔ خواتین اور بچیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر بھی مہندی لگائی جاتی تھی ،صبح خواتین ،بچیاں اور بچے اٹھ کر ہاتھ دھوتے اور ایک دوسرے کو دکھایا جاتا کہ کس کی مہندی کا رنگ زیادہ گہرا ہے، اُس زمانے میں خواتین کا رات گئے باہر نِکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا، چنانچہ چوڑیاں اور چھوٹی موٹی جیولری جو کہ موتیوں کے ہار اور انگوٹھی پر مشتمل ہوتی تھی ، شام سے پہلے ہی خریدی جاتی تھیں۔

عید کی صبح خواتین گھروںمیں سویاں بناتی تھیں پھر اپنے اہلخانہ کے ساتھ یہ سویاں محلہ میں بھی تقسیم کی جاتی تھیں ، جب بچیاں ٹرے یا تھال میں سویوں سے بھری چھوٹی چھوٹی پلیٹیں رکھ کر محلے میں ہر دروازے پر دستک دیتی تھیں تو عید کا خاص ماحول پیدا ہوتاتھا۔ گھروں میں سویاں بجھوانا بھی عید کی ضروری روایت سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ نماز عید سے قبل کھجور یا میٹھی چیز کھا نا سنتؐ ہے چنانچہ مرد بھی سویاں کھا کر ہی نماز عید کیلئے نکلتے تھے۔ اہل لاہور کی اکثریت بادشاہی مسجد ، مسجد وزیر خان اور مسجد داتا دربار نماز عید کیلئے جاتی تھی ۔ اُس زمانے میں عید کے بڑے اجتماعات ان تین مساجد میں ہی ہوتے تھے بعد میں آبادی بڑھنے کے ساتھ سینکڑوں جگہ نماز عید کے اجتماعات شروع ہوگئے۔

جیسے ہی مردنماز پڑھنے کیلئے نِکلتے ، خواتین بھی تیار ہونا شروع ہوجاتی تھیں ۔آج کل کے مہنگے ملبوسات یا ’’ڈیزائینر سوٹ‘‘ نہیں ہوتے تھے۔ عید پر عمو ماًساٹن اور کریب کے کپڑے پہنے جاتے تھے، میک اپ بھی بڑا سادہ ہوتا ۔ خواتین اور بچیاں فیس کریم لگا کر لپ اسٹک اور نیل پالش لگا لیتی تھیں، جہنیںلپ اسٹک بھی میسر نہ ہوتی وہ دنداسہ دانتوں پر مل کر ہونٹوں پر اورنج رنگ چڑھا لیتیں ، کپڑے اور میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی جاتیں ، گلے میں موتیوں کا ہار ڈال لیا جاتا اور ہاتھوں کی ایک دوانگلیوں میں انگھوٹھیاں پہن لی جاتی تھیں ، مرد جیسے ہی گھروں میں داخل ہوتے خواتین اور بچیاں انکے پاس آتیں اور وہ انھیں بھی عید مبارک باد دیتے ، ساتھ ہی بچوں کی طرف سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا ، عموماًاٹھنی یا ایک روپیہ عیدی دی جاتی مگر ایک روپیہ بھی اس زمانے میں بہت تھا۔اب تو ہزراروں کے حساب سے عیدی دی اور لی جاتی ہے، شادی شدہ بچیوں کے والدین بھی نماز عید سے فارغ ہوتے ہی انکے گھروں میں پہنچ جاتے اور حسب توفیق اپنی بچیوں،داماد اور بچوں میں عیدی تقسیم کی جاتی۔بیٹیاں اپنے والدین کی سویوں اور چائے یا دیسی مشروبات سے خاطر تواضع کرتی ۔ محبت کے یہ مظاہرے ہر گھر میں نظر آتے تھے۔ افراد کے باہمی روابط بہت مضبوط تھے، بے اعتنائی کا دور نہیں تھا۔ محلوں میں خواتین اور بچوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتاتھا، اس چہل پہل سے عید کا روایتی رنگ نمایاں نظر آتا تھا ۔

اب تو مہندی کے وہ پُرانے تصورات بھی تقریباًختم ہوچکے ہیں۔ کئی قسم کی ’’کون مہندیاں‘‘ مارکیٹ میں آچکی ہیں یہ کون مہندی کیمیکل کی مدد سے تیار کی جاتی ہے اب ہاتھوں پر مہندی کا لیپ چڑھانے کی بجائے ’’کون مہندی اور سرنج‘‘ سے خوبصوت پھول بوٹیاں اور نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، اب سادہ میک اپ کی بجائے جدید میک اپ مارکیٹ میں آچکا ہے، میک اپ کی سینکڑوں اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اب کم از کم ایک درجن اشیاء سے سادہ میک اپ ہوتا ہے ، میک اپ کا سامان تیار کرنے والی سینکڑوںکمپنیاں اپنی مصنوعات کی پُر کشش تشہیر کے ذریعے عام خواتین کو بھی اس راہ پر ڈال چکی ہے کہ پیسوں کی کمی کے با وجود انھیں اپنی آرائش و زیبائش کیلئے درجنوں چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اب عید کے دنوں میں بیوٹی پارلر جانا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان بیوٹی پارلرز میں خواتین کو خوبصورت اور جاذب نظر بنانے کیلئے کئی قسم کے جتن کئے جاتے ہیں۔ گلی محلے میں قائم بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی اکثر خواتین نا تجربہ کار ہوتی ہیں میک اپ کا سامان بھی غیر معیاری ہوتا ہے مگر پھر بھی خواتین کی گھنٹوں باری نہیں آتی۔ اب گلی محلوں میں یگانگت اور اپنائیت کا ماحول نظر نہیں آتا، ہر طرف نمائش و نمود کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے پورے لاہور میں ایک ہی قسم کی عید منائی جاتی تھی اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک جیسا ماحول ہی نظر آتا تھا، اُس زمانے میں جودوتین پوش علاقے موجود تھے وہاں دیرانیوں کے ڈیڑے ہوتے تھے، اب صرف لاہورمیں ہی قسم قسم کی عید منائی جاتی ہے۔ اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک مخصوص کلچر نظر آتا ہے، ڈیفنس میں دوسرا عید کلچر نظر آتا ہے ، نئی آبادیوں میں بھی الگ ماحول نظر آتا ہے۔پسماندہ علاقوں میں اور طرح کی عید منائی جاتی ہے، فلیٹوں کی عید اور ہوتی ہے ۔اب عید کا دن ایک دائمی سکون نہیں دیتا بلکہ یہ نماز عید کے بعد ایک ’’ڈیوٹی ‘‘ کا احساس ہوتا ہے کہ سب کو عید مبارک کا میسج بھیجنا ہے ، قریبی عزیز واقارب کو فون بھی کرنا ہے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے ناپسندیدہ افراد کے گھروں میں بھی جانا پار تا ہے، اپنے گھروں میں آنے والے بہت سے ناپسندیدہ افراد کو مصنوعی مسکراہٹ اور جبر کے ساتھ ’’ویلکم ‘‘ کرنا پڑتا ہے اور انکی خاطر تواضع بھی کرنی پڑتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اہل خانہ کے ساتھ نئے قائم ہونے والے شاپنگ مالز اور تفریحی مقامات پر جانا پڑتا ہے۔

سرکاری ملازمین اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو عموماً عید سے قبل تنحواہ ادا کردی جاتی ہے، عید سے پہلے ہی یہ تنحواہ عید کی تیاریوں پر خرچ ہوجاتی ہے۔ اسکے بعد پورا مہینہ کیسے گذاتا ہے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب عید پر بے جا اسراف کئے جاتے ہیں، پہلے عید پر جوکپڑے اور جوتے خریدے جاتے تھے پورا سال وہ پہنے جاتے تھے ، اب تو یہ کلچر ہی تبدیل ہوچکا ہے ۔اب عید پر اس قدر مالی بوجھ پڑجاتا ہے کہ کئی مہینے کے بعد بھی توازن قائم نہیں ہوتا۔

ایک ماہر اقتصادیات کاکہنا ہے کہ عید کا تہوار ہماری اقتصادیات اور معاشیات کیلئے بہت اہم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کپڑوں ِ، میک اپ ، چوڑیوں ، جوتوں اور جیولری کی 65 فصید خریداری ہی عیدین کے موقع پر ہوتی ہے جسکی وجہ سے اکانومی کا پہیہ چل رہا ہے وگرنہ صوتحال اور بھی ابّتر ہوجائے۔ انکا کینا ہے ٹیلرز ، ماہرین میک اپ اور بہت سارے پیشوں کا دارو مدار ہی عید شاپنگ پر ہے، عید کے دنوں میں کم از کم تیس لاکھ افراد کو وقتی روز گار مل جاتا ہے۔ پیسہ متمول افراد کے ہاتھوں سے نکل کر نیچے کی طرف بھی آتا ہے مگر ان دنوں میں امیر اور غریب کا فرق اور بھی گہرا اور واضح نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک دینی تہوار کا مخصوص تقدس نظر نہیں آتا۔

موجودہ دور میں جس طریقے سے عید منائی جاتی ہے اس میں دین کا رنگ نہایت پھیکا پڑ گیا ہے۔ بھائی چارے اور اجتماعیت کے مناظر نظر نہیں آتے ، اب عید کے موقع پر عید کارڈ نہیں بھیجے جاتے ، موبائل پر ہی ’’ فاروڈمسیج ‘‘ کردیا جاتا ہے یا رسمی طور پر عید مبارک کا پیغام بھیج دیا جاتا ہے، اب مسیج پیکج خاصا سستا ہوگیا ہے وگرنہ لوگ ’’ فاروڈمسیج‘‘ بھی نہ بھیجیں ، پہلے لوگ خود عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کو عید ملنے جاتے تھے، اب موبائل فون سے ہی کام چلالیا جاتا ہے۔ آج سے کچھ سال قبل لاہور کے شہری عید نماز کے فوراً نعد گھروں میں نہیں جاتے تھے۔ وہ گلی محلے میں کھڑے رہتے کہ سب محلے داروں سے عید مل لیں ، جب تک تمام افراد عید نہ مِل لیں ،جن تک تمام افراد آپس میں عید کی مبارک باد نہ دئیے گھروں میں نہیں جاتے تھے، اب ان مناظر میں بھی خاصی کمی آتی جارہی ہے۔ عید کا فلسفہ اجتماعیت کمزور تر ہورہاہے۔ جدت میں وہ روایات ختم ہورہی ہیں کہ جن کا اپنا ہی حسن ہے۔

دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے قانون نافذ کروانے والے ادارے اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہوتے ہیں ۔حتیٰ کہ عید کی نماز کے دوران بھی محکمہ پولیس کے جوان مکمل الرٹ ہو کر نمازیوں کی حفاظت کرتے ہیںبندوقوں کے سائے تلے عید کی نمازادا کی جاتی ہے۔

اب مٹھائی کی دکانوں پر شامیانے اور قناتیں نہیں لگائی جاتیں ،مٹھائی کی دکانوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے، حتیٰ کہ لاہور کے مشہور مٹھائی فروش بھی سمِٹے جا رہے ہیں ۔ اسکی بجائے بیکریوں کا نیا کلچر پیدا ہوا ہے اب بیکریوں میں مٹھائی بھی فروخت ہوتی ہے مگر مٹھائی کی بجائے اب عزیز واقاب اور دوستوں کے ہاں کیک، پیزا اور دوسری بیکری آئیٹمز بھیجی جاتی ہیں، اب آئس کریم ، قلفی ،گول گپے(پانی پوری)شوارما اور برگر کا نیا کلچر پیدا ہوچکا ہے، اب لوگ تاریخی عمارات کی بجائے جد ید تفریخی مقامات کا رخ کرتے ہیں اب عید میلے کی بجائے اپنے بچوں کو شاپنگ مالز اور دوسرے مقامات پربنے ہوئے ڈزنی لینڈ اور جوائے لینڈ وغیرہ لیکر جاتے ہیں۔ اس جدت میں پرُانی روایات و رسم رواج بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔

اب عزیز رشتہ داروں کے گھروں میں جانے کا رواج بھی کم ہورہا ہے،اپر مڈل کلاس اور متمول افراد ایک ہی عید مِلن پارٹی کرکے جان چھرواتے ہیں۔ اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کا رنگ غالب آرہا ہے، آج کے دن بھی بہت سارے لوگ اُداس اور تنہا ہیں، رمضان المبارک میں پیدا ہونے والا تقدس ، نادارافراد کا احساس ، عبادات ، بھائی چارہ اور عبادت کا جذبہ ایک دن میں کا فور ہوچکا ہے۔ شائد ہماری زندگیوں سے برکت اٹھ چکی ہے، نفسا نفسی ، خود غرضی اور انفرادیت نے عید کی خوشیوں کو بھی ماند کردیا ہے، ہر طرف بے جا اسراف کے مناظر نظر آتے ہیں مگر اپنے آس پاس بے بس و بے کس اور مجبور افراد کیلئے کسی کے پاس بھی سوچنے کا وقت نہیں ہے۔

عید الفطر ایک اجتماعی دینی تہوار ہے مگر ہم بِکھر چکے ہے تنہا تنہا ہوچکے ہیں ۔ خود نمائی اور جھوٹی شان وشوکت نے طبقات کے درمیان تفریق اور بھی گہری کردی ہے۔ طبقات کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اب عید کے تہوار پر ایک طرف دولت کی نمائش نظر آتی ہے دوسری طرف محرومیاں ،سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔ حد سے زیادہ مہنگائی نے لوگوں کے دلوں سے جینے کی رمق بھی چھین لی ہے۔ ذخیزہ اندوزں نے عوام سے عید کی خوشیاں ہی چھین لی ہیں۔

’’ وطن عزیز کی کچھ اہم عید یں‘‘

پاکستا ن کی پہلی عید الفطر آزادی کے صرف دو روز کے بعد منائی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوؤں اور سکھوِں نے مسلمانوں کی قتل وغارت شروع کردی تھی، تمام پاکستانی اس صورتحال پر بہت دل گرفتہ اور پریشان تھے ایسے موقع پر بابا ئے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستانیوں کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے جو تاریخی تقریر کی اس نے گویا مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کی۔ لاہور کے شہریوں نے انصار کی روایات کو قائم کرتے ہوئے مہاجرین کو گلے لگایا اور لاہور میں عید الفطر بھی پورے دینی جذبے کے ساتھ منائی گئی اور شہر میں بھائی چارے کی فضا نظر آنے لگی۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد جب پہلی عید الفطر منائی گئی تو پوری فضا سوگوار تھی، عید کی نماز پڑھانے کے بعد آئمہ حضرات نے مسلمانوں کو عید کی مبارک باد بھی نہ دی۔ اور بادشاہی مسجد میں بھی نماز عید مکمل ہونے کے بعد خاکساروں نے حضوری باغ میں روایتی گولوں کی سلامی نہ دی اور نہ ہی عید مبارک کے پیغام والے غبارے اڑائے گئے، نماز ختم ہونے کے بعد لوگ بہت ہی شکستہ دلوں کے ساتھ واپس لوٹے اس موقعہ پر پوری پاکستانی قوم ہی غمزدہ تھی۔

’’ انعام واکرام کی رات اور خرافات‘‘

عیدین کی راتوں کا شمار بھی اُن دس راتوں میں ہوتا ہے کہ جن میں عبادات کا اجّر و ثواب بہت زیادہ ہے یہ دعاؤںکی قبولیت کی راتیںہیں، بخشش و نجات کی راتیںہیں، انعام و اکرام نازل ہونے کی راتیں ہیں، مصائب سے چھٹکارے کی راتیں ہیں۔ دنیا و آخرت میں ُسرخروئی کی راتیں ہیں۔ محدثین اور علما وکرام کے مطابق عید الفطر کی رات مزدوری حاصل کرنے کی رات ہے اس رات اللہ تعالیٰ روزوں ، راتوں کے قیام ، عبادات ، زکوٰۃ ، صدقات ، خیرات اور دوسری نیکیوں کا زیادہ سے زیادہ اجّر عطا فرما تا ہے، مگر اچھنبے کی بات ہے کہ چاند کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں کی اکثریت ’’مزدوری ‘‘ اجّر و اکرام ، اسکی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں سے بے نیاز ہوکر خرافات میں کھو جاتی ہے، ماہ رمضان کا تقدس کہیں بھی نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ نماز عشاء میں نمازیوں کی تعداد میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ بعض بازاروں میں بے ہودگی کے وہ مناظر نظرآتے ہیں کہ جیسے شیطان کے چیلے اپنے ’’گرو‘ کی رہائی کا جشن منا رہے ہیں ۔

’’عام اور متمول افراد کیلئے فطرانے کا نصاب‘‘

نماز عید الفطر سے قبل مستحقین میں فِطرانہ تقسیم کرنا واجب ہے تاکہ وہ بھی اس مذہبی تہوار کی خوشیاں منا سکیں ، فطرانہ گندم ،جو، کھجوروں یا کشمکش کی شکل میں یا اسکی موجودہ قیمت کے حساب سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ مفتیاں ِ دین کے مطابق عام مسلمان گندم کی قیمت کے برابرفطرانہ ادا کریں مگر متمول افراد ایک’’صاع‘‘ (سوا سیر) کھجور یا کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کریں ۔ باحیثیت افراد کیلئے کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کرنا افضل ترین ہے۔ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کر نا اسکی رضا اور نجات کا باعث ہے۔ فطرانے کی رقم پیشہ ور فقیروں کی بجائے سفید پوش افراد کو دینے کا زیادہ اجّر ہے، مخصوص حالات میں فطرانے کی رقم ’’عیدی‘‘ کے طور پر بھی ادا کی جا سکتی ہے تاکہ اسکی عزتِ نفس مجروح نہ ہو مگر دینے والے کی نیت فطرانہ ادا کرنے کی ہی ہونی چاہیے، مقررہ حد سے بھی زیادہ فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ دین اسلام میں کم از کم حد رکھی گئی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔

’’ طبقاتی تفریق کی انتہا ‘‘

عید الفِطر مسلمانوں کا اجتما عی دینی تہوار اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے، عید الفطر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں کو آپس میں’’شیئر ‘‘ (تقسیم) کرنے کا دن ہے، اس دن کی اصل روح اور پاکیزگی ،ایثار، پیار، اخوت اور احساس میں پنہاں ہے۔ انفرادیت اور فضول اخراجات سے منع کیا گیا ہے مگر اکثر یت فضولیات اور خرافات کی انتہا کردیتی ہے۔ بیش قیمت ملبوسات بنائے جاتے ہیں، مہنگی ترین جوتیاں ، سامان میک اپ اور جیولری خریدی جاتی ہے، آرائش کیلئے بیوٹی پارلروں سے ہزاروں کا میک اپ کروایا جاتا ہے، مہنگے ترین ہوٹلوں اور ریستوارنوں میں کھانا کھایا جاتا ہے۔ بچوں کو مہنگے ترین تفریحی مقامات کی سیر کروائی جاتی ہے، مہنگے جھُولوں پر بٹھایا جاتا ہے، دولت کا اس قدر اسراف کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ، یہ دن تو اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے، طبقاتی تفریق کو کم کرنے کا دن ہے امیر اور غریب کا فرق مٹانے کا دن ہے عید کے روز طبقاتی تفریق عروج پر نظر آتی ہے، ہر طرف خوشیوں کی انتہا،دوسری طرف محرومیاں، سسکیاں اور آہیں ۔ اس دن پاکیزگی، ہمددری و ایثار، یگانگت کی بجائے بے ہودگی، خود نمائی اور خود غرضی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔

’’عید کی خوشیوں میں دّکھ بھرے مناظر‘‘

بے شمار ایسے شعبے اور افراد ہیں کہ جنہیں عید پر بھی چھٹی نہیں ملتی، افواج پاکستان رینجرز، محکمہ پولیس وغیرہ۔ نجی شعبے میں ہوٹلوں، ریستورانوں، تفریخی مقامات، مٹھائی کی دکا نوں، بیکریوں اور اشیائے خورونوش کی دکانوں پر کام کرنے والے افراد عید کے موقع پر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوگ خاص توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ عید کے دن ایک برگر شاپ پر 9 سالہ خوبصورت بچے کو کام کرتے دیکھا تواُس سے پوچھا ’’ کہ اُس نے عید کی چھٹی کیوں نہیں کی؟‘‘اُس نے جواب دیا ’’ میں ایک یتیم بچہ ہوں میری ماں بیمار ہے، دوچھوٹی بہنیں ہیں ہم بہت غریب ہیں آج مجھے دوسو روپے فالتو ملیں گے ٹپ بھی کچھ زیادہ مِل جائے گی۔

میں اپنے گھر مرغی کا گوشت لے جاؤں گا پھر ہمارے گھر بھی چکن پکے گا، میری ماں اور چھوٹی بہنیں خوش ہو جائیں گی‘‘ اسکی بات سُن کر میرے اندر چھنا کے سے کوئی چیز ٹوٹ گئی،کاروں میں بیٹھے افراد اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں مگن تھے۔ اُس بچے کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھا ۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہوا ہے وہ خوشیوں پر صرف اپنا اور اپنے بچوں کا حق ہی سمجھتے ہیں۔ عہدِ نبویﷺ میں آپ ﷺ نے ایک اداس یتیم بچے کو دیکھا تھا تو اسے گھر لے گئے تھے، آ پﷺ نے فرمایا تھا میں تمھارا باپ ہوں پھر اس یتیم بچے کو حضرت امام حسینؓ کے کپڑے پہنائے تھے اب مدینہ میں ایک بچہ بھی اداس نہیں تھا اور یہاں ؟؟؟

The post ماضی اور حال کی عیدیں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>