دس سالہ سلیم رتوڈیرو کا رہائشی ہے۔ یہ قصبہ صوبہ سندھ میں لاڑکانہ شہر سے 28کلو میٹر دور واقع ہے۔ سلیم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ شادی کے دس سال بعد دن رات دعائیں مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا۔ یوں گھر کے سونے آنگن میں بہار آ گئی۔
ماں باپ اپنے بیٹے پر فدا ہونے لگے۔سلیم کا باپ کسان ہے۔ وہ اپنی تھوڑی سی زمین پر اناج اگاتا اور اسے بیچ کر گذر بسر کرتا ہے۔چند ماہ قبل سلیم بخار اور جسمانی درد میں مبتلا ہو گیا۔ وہ اسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے دوا دی اور بچے کو انجکشن بھی لگایا۔ فارغ ہوکر باپ بیٹا گھر واپس آ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس عمل کے باعث ایک موذی آفت نے انہیں آن گھیرا ہے۔
ڈیڑہ ماہ بعد سلیم کو پھر بخار ہو گیا ۔ اس بار حملہ کافی شدید تھا۔ باپ بیٹے کو لیے پھراسی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اس نے دوا دی اور پھر انجکشن لگایا مگر سلیم کو افاقہ نہ ہوا بلکہ بخار کی شدت بڑھ گئی۔ باپ قدرتاً پریشان ہوگیا۔اب وہ اسے لیے ڈاکٹر عمران اربانی کے پاس پہنچا ۔یہ ڈاکٹر تجربہ کار اور جہاں دیدہ تھا۔ اس نے بچے کا معائنہ کیا تو اسے شک ہوا کہ بچہ ’’ایچ آئی وی وائرس‘‘(human immunodeficiency virus) کا نشانہ بن چکا۔ بخار ہونے کے علاوہ سلیم کی زبان پر سفید دھبے نمودار ہو چکے تھے۔جلد پر بھی سرخ دھبے واضح تھے۔ وہ خاصا کمزور بھی ہو چکا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر نے سلیم کے خون کا نمونہ لیا اور اسے برائے معائنہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی لیبارٹری بھجوا دیا۔
چند دن بعد لیبارٹری سے رپورٹ آئی، تو انکشاف ہوا کہ سلیم واقعی ایچ آئی وائرس کا شکار ہے۔ جب بچے کے ابا کو معلوم ہوا کہ اکلوتا بیٹا ایک ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہو چکا تو اس کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ وہ دھاڑیںمار کر رونے لگا۔ ڈاکٹر نے اسے دلاسا دیا کہ ادویہ کی مدد سے سلیم کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ ادویہ حکومت اسے مفت دے گی۔ یہ سن کر والد کو کچھ تسلی ہوئی مگر بیٹے کی بیماری نے اسے نڈھال اور پریشان کر دیا تھا۔
ڈاکٹر نے سلیم کے ابا سے دریافت کیا کہ کیا وہ بچے کو کسی دوسرے معالج کے پاس لے گیا تھا؟ باپ نے بتایا کہ وہ سلیم کو فلاں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور اس نے اسے انجکشن بھی لگایا۔ یہ بات سن کر ڈاکٹر عمران جان گیا کہ سلیم ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ کیونکر بنا۔وہ ڈاکٹر دراصل عطائی تھا، محض ایک کمپاؤنڈر جو کمائی کے لالچ میں آ کر انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگا۔ وہ ڈاکٹر بن بیٹھا اور ناخواندہ و بے شعور لوگوں کا الٹا سیدھا علاج کرنے لگا۔ پیسے بچانے کی خاطر وہ اکثر مریضوں کو ایک ہی انجکشن سے ٹیکا لگاتا تھا اور اسے صاف کرنے کی بھی زحمت نہ کرتا۔(انجکشن کے اندر ایچ آئی وی وائرس ’’28‘‘دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔)
اس نے سلیم کو جو انجکشن لگایا، اس سے پہلے ایڈز کے ایک مریض کا خون نکالا گیا تھا۔ یوں انجکشن یا سوئی کی سطح سے ایچ آئی وی وائرس چمٹ گیا۔ اور جب عطائی نے اس انجکشن سے سلیم کو دوائی کا محلول دیا تو وائرس بچے کے جسم میں داخل ہو گیا۔پولیس اس عطائی کو گرفتار کر چکی ۔ عطائی پر الزام ہے کہ وہ کئی بچوں کو ایچ آئی وی وائرس کا شکار بنا چکا۔ یوں اس ظالم ‘ لالچی اور بے حس انسان نے بہت سے معصوم اور بے گناہ بچوں کی زندگیاں جہنم بنا دیں اور انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ایسے ہی شیطان صفت لوگ انسانی معاشروں میں کلنک کے ٹیکے جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔
دراصل جب جہاں دیدہ ڈاکٹر کے پاس بیماری کی ملتی جلتی علامات لیے کئی بچے پہنچے تو اس نے سبھی کا خون برائے معائنہ سرکاری لیبارٹری بھجوا دیا ۔یوں ڈاکٹر عمران واقعی مسیحا ثابت ہوا۔رپورٹیں آنے پر پتا لگا کہ اکثر بچوں کے بدن میں ایچ آئی وی وائرس پنپ رہا ہے۔ اس اطلاع نے رتوڈیرو ہی نہیں پورے ضلع لاڑکانہ میں تشویش و پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ حکومت سندھ پھر مختلف بچوں بڑوں کا معائنہ کرانے لگی تاکہ معلوم ہو سکے، ضلع میں کتنے افراد ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہو چکے۔ یہ تحریر قلم بند ہونے تک ’’393 ‘‘ مریض سامنے آچکے۔ ان میں سے ’’312‘‘ بچے ہیں جو نہایت پریشان کن بات ہے۔صورت حال سے عیاں ہے کہ یہ خطرناک وائرس قوم کے مستقبل کو نشانہ بنانے لگا ہے،ان بچوں کو جنھوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔
جس کا کوئی علاج نہیں
ایچ آئی وی بنیادی طور پر چیمپنزی بندر کو نشانہ بنانے والا وائرس ہے۔ افریقہ میں بہت سے لوگ ان بندروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے۔ افریقی باشندوں کے ذریعے پھر یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یہ وائرس انتقال خون ‘ جسمانی ملاپ اور شیرِ مادر کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے ۔ وائرس انسانی جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹی خلیے (T cell)مار ڈالتا ہے۔ ان خلیوں کی عدم موجودگی سے انسان پھر مختلف خطرناک امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماریوں کا نشانہ بننے کی کیفیت ’’ایڈز‘‘ کہلاتی ہے۔ ایڈز کا کوئی علاج نہیں اور اس میں مبتلا انسان آخر کار سسک سسک کر قبر میں پہنچ جاتا ہے۔
یہ 1987ء کی بات ہے‘ جب پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا حامل پہلا مریض سامنے آیا۔ تب سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ وجہ یہی کہ یہ وائرس جس انسان کے جسم میں داخل ہو جائے تو پھر ساری زندگی اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ مریض کو تاعمر خصوصی ادویہ کھانا پڑتی ہیں تاکہ وائرس اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ مریض جیسے ہی ادویہ چھوڑے یا انہیں لینے میں کوتاہی برتے‘ تو ایچ آئی وی وائرس چند ہفتوں میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس پھر ٹی خلیوں پر حملہ کر کے نہایت تیزی سے اپنی نقول تیار کرتا اورانسانی مامون نظام (immune system) تباہ و برباد کرنے لگتا ہے۔ تب کوئی دوا اس وائرس کا راستہ روک نہیں پاتی۔
وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ نہایت تشویش ناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ اکثر موذی بیماریاں مثلاً کینسر، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب، فالج، امراض تنفس وغیرہ ایک انسان سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوسکتیں۔ مگر ایچ آئی وی وائرس اور ہیپاٹائٹس سی کے وائرس مریض سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوکر ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ایچ آئی وائی نہایت خطرناک وائرس ہے اور پاکستانی معاشرے میں اس کے پھیلنے کا مطلب ہے کہ ہمارے کروڑوں بچے بڑے اس کی زد میں آچکے ۔
انجکشن کا ناروا استعمال
دنیائے مغرب اور بہت سے مشرقی ممالک میں خواہش نفس کی تسکین سے یہ موذی وائرس مریض سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے بنیادی اسباب مختلف ہیں۔ جائز ناجائز ملاپ بھی ایک سبب ہے مگر اس کی اہمیت زیادہ نہیں۔ماہرین کے نزدیک پاکستان میں ایچ آئی وائی وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ انجکشن کا ناروا استعمال ہے۔لہذا یہ یقینی بنانا ہر شخص کے ضروری ہے کہ ڈاکٹر یا نرس مریض پہ نیا انجکشن اور سوئی ہی استعمال کر رہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے نشئی اکثر ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرتے ہیں۔ یوں ایچ آئی وائی وائرس کا شکار نشئی اپنا وائرس صحت مند انسان کے بدن میں منتقل کر دیتا ہے۔ بہت سے نشئی اپنا خون بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔ایسے لوگ اکثر غیر قانونی بلڈ بینک میں جا کر اپنا خون بیچتے ہیں۔ یہ بلڈ بینک غریبوں کو کم قیمت پر خون فروخت کرتے ہیں۔ یوں نشئی کا وائرس زدہ خون دوسرے انسانوں کے جسم میں بھی دوڑنے لگتا اور انہیں بھی ایچ آئی وی کا مریض بنا دیتا ہے۔
عطائی ڈاکٹر بھی ایچ آئی وی وائرس پاکستانی قوم میں پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکے ۔ یہ خصوصاً دیہی معاشرے میں جابجا ملتے ہیں۔ مثلاً رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا کئی مریض سامنے آئے‘ تو کمشنر ضلع لاڑکانہ نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ضلع میں چار سے پانچ ہزار عطائی سرگرم ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں، انہی کی وجہ سے دیہی سندھ میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ضلع شکار پور میں بھی وائرس کا نشانہ بنے لوگ دریافت ہو چکے۔یہ عطائی لیبارٹریوں، کلینکوں، بلڈ بینکوں ،میٹرنٹی ہوموں وغیرہ کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔
قبل ازیں بتایا گیا کہ یہ عطائی رقم بچانے کے لیے ایک ہی انجکشن کئی مریضوں پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ نہایت خطر ناک عمل ہے۔ ایک ہی انجکشن کے بار بار استعمال سے ایچ آئی وی ہی نہیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے وائرس بھی مریض سے صحت مند انسان کے بدن میں منتقل ہوتے اور اس کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ افسوس پیسے کا لالچ انسان کو حیوان بنانے لگا ہے۔بعض ماہرین کا مطالبہ ہے کہ کلینکوں میں انجکشن لگانے پر پابندی لگائی جائے تاکہ ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
پاکستان کے دیہات میں جہالت اور غربت کا دور دورہ ہے۔ وہاں کے باسی شعور نہ ہونے پر عطائی اور مستند ڈاکٹر کے مابین تمیز نہیں کرپاتے۔ حیرت یہ ہے کہ شہروں میں بھی کئی تعلیم یافتہ عطائیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یہ تشویش ناک صورتحال جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اکثر پڑھے لکھے پاکستانی بھی نہیں جانتے کہ ایچ آئی وی وائرس کیا ہے، یہ کیسے پھیلتا ہے اور اس سے بچاؤ کے کیا طریقے اختیار کیے جائیں۔
افسوس کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سرگرمی سے مہم نہیں چلائی۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس وائرس کی بابت شاذونادر ہی معلومات دی جاتی ہیں۔ لہٰذا عام لوگ یہی نہیں جانتے کہ کن طریقوں سے اس خطرناک وائرس کا پھیلاؤ روکنا ممکن ہے۔ اسی باعث پاکستان میں یہ وائرس ایک سے دوسرے اور تیسرے چوتھے تک پھیلتا چلا جارہا ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام میںاس خونی وائرس سے آگاہی پھیلانے کے لیے زوردار مہم چلائیں۔
وائرس کے اعدادوشمار
وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اعدادو شمار کی رو سے پاکستان میں ’’ڈیڑھ لاکھ‘‘ سے زیادہ افراد ایچ آئی وی وائرس کے حامل ہیں۔ ان میں سے 75 ہزار صوبہ پنجاب، 60 ہزار صوبہ سندھ، 15 ہزار صوبہ خیبرپختونخواہ اور 5 ہزار صوبہ بلوچستان میں آباد ہیں۔ مگر یہ عدد زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ عموماً سرکاری اعدادو شمار حقیقی تصویر سامنے نہیں لاتے۔ ماہرین کی رو سے دو تا ڈھائی لاکھ پاکستانی ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوچکے۔
دسمبر 2018ء میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (World Health Organization) نے پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جو خوفناک انکشافات سامنے لائی۔ اس کے مطابق پاکستان میں ہر سال ’’بیس ہزارپاکستانی‘‘ ایچ آئی وی وائرس کا شکار بن رہے ہیں۔ اور اگر صورتحال یہی رہی، تو مستقبل میں متاثرہ افراد کی سالانہ تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ کی رو سے پاکستان میں وائرس میں مبتلا صرف ’’9 فیصد مریض‘‘ اپنا علاج کروارہے ہیں۔
ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ پاکستانیوں کی اکثریت غریب اور ناخواندہ ہے۔ اکثر نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں موت پنپ رہی ہے۔ مزید براں بہت سے پاکستانی وائرس کی بابت جان بھی جائیں تو یہ خبر پوشیدہ رکھتے ہیں۔وجہ یہ کہ پاکستانی معاشرے میں ایڈز سے متاثرہ شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حقیقتاً روزمرہ زندگی میں مریض کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ ہزارہا پاکستانی کرہ ارض پر بستے موت کے فرشتوں کے مانند ہیں۔ وہ جانے انجانے میں اپنی موت کا سبب دوسروں میں بھی تقسیم کررہے ہیں۔ بعض تو باغی بن کر دانستہ معاشرے کو نقصان پہنچاسکتے ہیں تاکہ کسی قسم کا انتقام لے سکیں۔ مثلاً رتوڈیرو کے رہائشی ڈاکٹر مظفر پر الزام لگا ، اس نے انتقاماً کئی بچوں میں اپنا ایچ آئی وی وائرس منتقل کردیا۔ وہ ذہنی مریض بتایا جاتا ہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ لوگوں کو مفت علاج میسر ہے، مگر بہت کم پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی مریضوں کو علم ہی نہیں کہ حکومت مفت علاج فراہم کرتی ہے اور دیگر مریض شرم یا خوف کے مارے علاج نہیں کراتے اور سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔
پُر اسرار اور انوکھا وائرس
ایچ آئی وی وائرس کی دو اقسام ہیں:وائرس 1 اوروائرس -2 وائرس 1 کی مزید چودہ ذیلی اقسام (Subtypes) ہیں۔ خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس 1 کی ذیلی قسم سی (C) اور ای (E) کے مریض بھارت، پاکستان،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں موجود ہیں۔دنیا میں تین کروڑ ستر لاکھ انسان اپنے جسم میں ایچ آئی وی وی وائرس رکھتے ہیں۔ ان میں سے ’’90 فیصد‘‘ وائرس 1 سے متاثر ہیں۔ان میں سے ’’پچیس تا تیس فیصد‘‘ متاثرہ مردوزن اور بچے نہیں جانتے کہ ان کے بدن میں ایک خطرناک وائرس داخل ہوچکا۔
ایچ آئی وی وائرس خاصا پُر اسرار اور انوکھا ہے۔ وجہ یہ کہ کبھی تو وہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد انفلوئنزہ مرض جیسی علامات پیدا کردیتا ہے ۔مگر کبھی خاموش پڑا رہتا اور کئی سال بعد نظام مامون کے ٹی خلیوں کو تباہ و برباد کرنا شروع کرتا ہے۔ بہرحال ’’40 سے 90 فیصد‘‘ انسانوں کے بدن میں یہ وائرس داخل ہو، تو وہ دو سے چار ہفتوں بعد بخار، جسمانی سوجن، تھکن، سردرد اور گلے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اکثر جسم پر دھبے پڑھ جاتے ہیں۔ یہ حالت طبی اصلاح میں’’ایکیوٹ انفیکشن‘‘( Aucte Infection )کہلاتی ہے۔عام طور پر ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ یہ کسی چھوٹی بیماری کی علامات ہیں۔ لہٰذا وہ مروجہ ادویہ سے ان کا علاج کرتے ہیں۔ کم ہی ڈاکٹر جان پاتے ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس یہ علامات پیدا کررہا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات معلوم ہوجائے، تو پھر مخصوص ادویہ سے وائرس کو برتا جاتا ہے۔
اگر بدقسمتی سے ایکیوٹ انفیکشن دور یا پہلے مرحلے میں وائرس دریافت نہ ہوسکے، تو پھر دوسرا مرحلہ جنم لیتا ہے جسے طبی زبان میں ’’کلینکل لیٹینسی‘‘(clinical latency) کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ تین سال سے بیس سال کے درمیان رہتا ہے۔ اوسط مدت آٹھ سال ہے۔ اس مرحلے کے آخر میں بہت سے مریض بخار، وزن میں کمی، امراض معدہ اور عضلات میں درد سے دوچار رہتے ہیں۔ 50 سے 70 فیصد مریضوں کے لمفی غدود سوج جاتے ہیں۔جب مریض کے جسم میں ٹی خلیے بہت کم رہ جائیں، تو تیسرے اور آخری مرحلے یعنی ’’ایڈز‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں مریض مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر رفتہ رفتہ موت کے منہ میں جانے لگتا ہے۔ اب کوئی علاج کام نہیں آتا اور جلد قبر اس کا آخری ٹھکانا بن جاتی ہے۔
شناخت اور علاج
اللہ نہ کرے کوئی ہم وطن ایچ آئی وی وائرس کا نشانہ بن جائے۔ لیکن اگر یہ وائرس کسی کے جسم میں داخل ہوچکا اور وہ اپنی علامات (بخار، تھکن، جسمانی دھبے وغیرہ) پیدا کرنے لگا ہے تو گھبرائیے مت اور فوراً سرکاری ادارے، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے کسی سینٹر سے رجوع کیجیے۔حکومت پاکستان نے 1987ء میں یہ سرکاری ادارہ قائم کیا تھا تاکہ وطن عزیز میں ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔ ادارے کے تحت ملک بھر میں ’’35‘‘ طبی مراکز کھولے جاچکے۔ ان مراکز میں نہ صرف ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کا ٹیسٹ مفت ہے بلکہ مریض ہونے کی صورت میں پاکستانی شہریوں کا مفت علاج بھی ہوتا ہے۔ ایسے 19 مراکز صوبہ پنجاب، 9 صوبہ سندھ، 3 صوبہ خیبرپختون خواہ، 2 بلوچستان اور 2 وفاقی علاقے میں کام کررہے ہیں۔ ان کا نام و پتا ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسے مزید طبی مراکز دیگر علاقوں میں کھولے جائیں تاکہ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ موثر انداز میں روکا جاسکے۔
جب خدانخواستہ ایچ آئی وی وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجائے، تو وہ ٹی خلیوں پر حملہ آور ہوکر پہلے انہیں مارتا پھر ان کی مدد سے اپنی نقول تیار کرتا ہے۔ یوں وائرس آخر کار اپنی فوج تیار کرلیتا ہے۔ ہمارا جسم یہ فوج مارنے کے لیے خاص پروٹینی مادے بناتا ہے جنہیں ضد جسم یا اینٹی باڈیز (Antibodies) کہتے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس ٹیسٹ میں خون میں موجود انہی اینٹی باڈیز کو شناخت کیا جاتا ہے۔ہمارا جسم ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہونے کے بعد تین سے چار ماہ میں اتنے زیادہ پروٹینی مادے (اینٹی باڈیز) بنالیتا ہے کہ وہ بذریعہ ٹیسٹ شناخت ہوجائیں۔ اسی لیے یہ ٹیسٹ اسی وقت کارآمد ثابت ہوتا ہے جب وائرس کو انسانی جسم میں بسیرا کیے تین ماہ ہوجائیں اور وہ سرگرم یعنی ایکٹو بھی ہو۔
ایچ آئی وی وائرس کی شناخت کے لیے مختلف ٹیسٹ ایجاد ہوچکے تاہم دنیا بھر میں اینٹی باڈیز کی کھوج لگانے والے ٹیسٹ ہی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہ ٹیسٹ آسان اور کم قیمت ہیں۔ نیز نتیجہ بھی جلد مل جاتا ہے۔ اب تو اینٹی باڈیز ٹیسٹ کی ایسی کٹس ایجاد ہوچکیں جن کی مدد سے انسان گھر پر ہی وائرس شناخت کرسکتا ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول کے کسی طبی مرکز سے یہ ٹیسٹ کرایا جائے۔
بدقسمتی سے یہ خبر ملے کہ مریض کے بدن میں وائرس داخل ہوچکا، تو پھر اس کے مزید مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی مدد سے دیکھا جاتا ہے کہ جسم میں ٹی خلیوں کی کتنی تعداد ہے۔ خون میں وائرس کی کتنی زیادہ نقول جنم لے چکیں اور یہ کہ وائرس کی قسم 1 ہے یا 2 ۔اگر قسم 1 ہے تو پھر اس کی ذیلی قسم جاننے کے لیے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس ذیلی قسم کا جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ تبھی معلوم ہوتا ہے کہ وائرس کنٹرول میں رکھنے کی خاطر مریض کو کس قسم کی ادویہ دینی ہیں۔
جب ایچ آئی وی وائرس سے متعلق ساری بنیادی معلومات مل جائیں تو پھر علاج شروع ہوتا ہے۔ اب مریض کو ایک یا زیادہ ادویہ روزانہ کھانا ہوتی ہیں۔ جب وائرس ایک بار جسم میں داخل ہوجائے، تو پھر وہ باہر نہیں نکل سکتا اور نہ ہی اسے مارنا ممکن ہے۔ لہٰذا مریض کو ساری عمر ادویہ کھانا ہوں گی۔ تبھی وہ نہ صرف زندہ بچے گا بلکہ عام انسانوں کے مانند صحت مندانہ زندگی بھی گزار لے گا۔ روزانہ ادویہ کھانا مشکل کام ہے مگر انسان کو اپنی زندگی محفوظ کرنے کی خاطر اسے اپنانا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ہر چار پانچ ماہ بعد مریض کے خون کے ٹیسٹ بھی لیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خون میں اینٹی باڈیز، ٹی خلیوں اور وائرس کی نقول کی تعداد جانی جاسکے۔ اگر ادویہ موثر انداز میں کام کررہی ہیں، تو خون میں خصوصاً وائرس کی نقول بہت کم ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ٹیسٹ میں شناخت ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایچ آئی وی وائرس مریض کے جسم سے اڑن چھو ہوچکا، وہ اب بھی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا مریض صحت مند انسانوں کو وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ اسی لیے اسے اور اس کے اہل خانہ وغیرہ کو احتیاط کرنی چاہیے کہ مریض کے بدن سے وائرس کسی اور کے جسم میں نہ جانے پائے۔
یہ واضح رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کو کنٹرول کرنے والی بعض ادویہ ضمنی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ ان اثرات میں یہ نمایاں ہیں: متلی آنا، ہڈیوں کا بھربھرا ہوجانا، خون میں شکر کی سطح بڑھ جانا، دل کے مسائل جنم لینا اور جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کا بڑھنا۔ اگر ضمنی اثرات شدید ہوجائیں، تو کبھی کبھی ادویہ تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ایچ آئی وی وائرس قابو کرنے والا علاج طبی اصطلاح میں ’’اینٹیریٹرو وائرل تھراپی‘‘ ( Antiretroviral therapy) یا اے آر ٹی کہلاتا ہے۔ اسی لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے طبی مراکز بھی اے آر ٹی سینٹر کہلاتے ہیں۔ ان طبی مراکز میں تھراپی کی مختلف ادویہ مفت دستیاب ہیں۔ اگر مریض ایڈز کا شکار ہوچکا، تو اسے ہسپتال داخل کرلیا جاتا ہے۔
ماضی میں ایچ آئی وی وائرس ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ وجہ یہ کہ تب اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے جو انسان وائرس کا نشانہ بنتا، وہ جلد یا بدیر موت کے گھاٹ اتر جاتا۔ لیکن اب مختلف ادویہ کی مدد سے موذی وائرس کو کنٹرول کرنا ممکن ہوچکا۔ لہٰذا بدقسمتی سے جو پاکستانی اس وائرس کا نشانہ بن جائے، وہ پریشان نہ ہو، بذریعہ علاج اور مناسب نگہداشت سے وہ صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔
دوران علاج یہ ضروری ہے کہ مریض اپنے ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ رکھے۔ ڈاکٹر جو ادویہ تجویز کرے، وہی استعمال کرے۔ نسخے کے مطابق ہی دوا کھائے، ڈاکٹر جس غذا سے پرہیز بتائے، وہ استعمال نہ کرے۔ معالج کی ہدایات پر عمل کرکے مریض تندرستی کی دولت پاسکتا ہے۔آخر میں وفاقی حکومت اور خصوصاً سندھ و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے کہ وہ عام پاکستانیوں تک ایچ آی وی وائرس کی بنیادی معلومات پہنچانے کے لیے پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر سرگرم مہم چلائیں۔ آگاہی عام ہونے کی بدولت ہی کروڑوں پاکستانی اس خطرناک وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ وائرس رفتہ رفتہ لاکھوں پاکستانیوں کو اپنا شکار بناکے ہمارا پاکستانی معاشرہ تباہ بھی کرسکتا ہے۔
وائرس سے بچاؤ کے طریقے
مریض کے ساتھ بیٹھنے، ہاتھ ملانے، گلے لگانے، اس کے برتن استعمال کرنے سے ایچ آئی وی وائرس صحت مند انسان میں منتقل نہیں ہوتا۔ اسی طرح مچھر اور دیگر حشرات بھی مریض کا خون چوس کر وائرس دیگر انسانوں میں منتقل نہیں کرسکتے۔یہ پانی اور غذا سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔تاہم مریض کے وہ آلات استعمال نہ کیجیے جو اس کے جسم میں داخل کیے جائیں۔ وائرس صرف انتقال خون(Blood transfusion)، مخصوص جسمانی مادوں اور ماں کے دودھ کے ذریعے دوسرے انسانوں کے بدن میں داخل ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایک انجکشن کے بار بار استعمال کے علاوہ انتقال خون کا عمل بھی ایچ آئی وی وائرس پھیلانے میں بڑا مجرم بن چکا۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ جب کسی انسان کا خون نکالا جائے، تو کسی دوسرے کو دینے سے قبل اسے اسکریننگ ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں دیکھا جاتا ہے کہ خون میں ایچ آئی وی وائرس، ہیپاٹائٹس سی اور بی کے وائرس اور دیگر ایسی بیماریوں کے وائرس و جراثیم تو موجود نہیں جو خون کے ذریعے پھیلتی ہیں۔
خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دینے کے لیے ایک کٹ ملتی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی لیبارٹریاں اور بلڈ بینک پیسے بچانے کے لیے سستی اور غیر رجسٹرڈ کٹس اسکریننگ ٹیسٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ کٹس عموماً خون میں پوشیدہ خطرناک وائرس اور جراثیم دریافت نہیں کرپاتیں۔ یوں خون محفوظ قرار پاتا ہے حالانکہ اس میں خطرناک ایچ آئی وی وائرس موجود ہو سکتا ہے جو صحت مند انسان کے بدن میں پہنچ کر اسے بھی چمٹ جاتا ہے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو یہ قانون بنانا چاہیے کہ تمام لیبارٹریاں اور بلڈ بینک اسکریننگ ٹیسٹ کے لیے صرف معیاری اور رجسٹرڈ شدہ کٹس ہی استعمال کریں۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ لوگوں کی قیمتی زندگیوں سے کھیلنے والی غیر معیاری اور سستی کٹس مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان کٹس پر فوراً پابندی عائد ہونی چاہیے۔ معیاری کٹ دو ڈھائی سو میں ملتی ہے جبکہ سستی کٹ بیس پچیس روپے میں بھی مل جاتی ہے۔
حکومت پاکستان نے منتقلی خون کا عمل صاف شفاف بنانے کی ایک سرکاری ادارہ، سیف بلڈ ٹرانس فیوژن پروگرام بنا رکھا ہے۔ چند سال قبل ادارے کے سربراہ، پروفیسرڈاکٹر حسن عباس ظہیر نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً چالیس لاکھ انتقال خون کے عمل انجام پاتے ہیں اور ان میں سے ساٹھ تا ستر فیصد میں غیر معیاری و سستی کٹس استعمال ہوتی ہیں۔گویا پاکستان میں خون کا اسکریننگ ٹیسٹ انجام دیتے ہوئے معیاری کٹس استعمال ہوں، تو مریض سے ایچ آئی وی وائرس کی دوسرے شخص تک منتقلی کا عمل بہت کم ہوسکتا ہے۔ معیاری ٹیسٹ کے باعث ایچ آئی وی وائرس کا حامل خون ناکارہ قرار پائے گا۔
پاکستان میں حجام بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ بعض حجام پیسے بچانے کی خاطر شیو کرنے یا بال کاٹنے کے دوران ایک ہی بلیڈ استعمال کرتے ہیں۔ اگر مریض کا خون بلیڈ پر لگ جائے تو پھر اس سے وائرس باآسانی صحت مند گاہکوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ حجام سے اصرار کریں کہ وہ نیا بلیڈ استعمال کرے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا بلیڈ خرید لیں اور حجام اسی سے خط بنائے۔
فحاشی اور منشیات کے اڈے بھی ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں۔ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ ان اڈوں میں جانے سے پرہیز کرے ورنہ زندگی بھر کے روگ اسے چمٹ سکتے ہیں۔ فطری طریقوں سے خواہش پوری کرنے میں ہی بھلائی ہے جبکہ غیر فطری طریقے اپنانے سے انسان ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔
The post پاکستان میں پھیلتا خطرناک ایچ آئی وی وائرس appeared first on ایکسپریس اردو.