Quantcast
Channel: ایکسپریس اردو »میگزین
Viewing all 4080 articles
Browse latest View live

ترکی کے ڈرامے۔۔۔ معیشت سے سیاست تک

$
0
0

خلافتِ عثمانیہ دنیا کی وسیع ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ تین براعظموں پر محیط یہ خلافت چار سوسال تک 72 مختلف اقوام پر حکم رانی کرتی رہی۔

خلافت عثمانیہ میں یورپ سے البانیا، بوسنیا ہرزے گووینا، افریقی خطے سے سے الجیریا، مصر، اریٹیریا، صومالیہ، سوڈان، لیبیا، ایشیائی خطے سے فلسطین، سعودیہ عربیہ، عراق شام، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل تھے، ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور خان آف ترکک بھی خلافت عثمانیہ کے اطاعت گزار تھے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں مشترکہ اسلامی تاریخ کی وجہ سے ترکی کا تاریخی اور ثقافتی پس منظر پچاس سے زائد ملکوں کے ثقافتی اور سماجی روابط کا شان دار مظہر ہے۔

علاوہ ازیں اس مشترکہ پس منظر سے جدید ترکی کو اپنی معاشی، ثقافتی اور سماجی اقدار کو فروغ دینے میں بہت مدد ملی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کے ورثے نے دنیا بھر میں ترک عوام کو مسلم اقوام سے مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کبھی خلافت عثمانیہ کو ایک مضبوط اور مسلمانوں کی محافظ مسلم ریاست کے طور پر جانا جا تا تھا۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جدید ترکی کے عوام خلافت عثمانیہ دور کی مختلف نسلوں کے اجداد میں سے ہیں، اور کئی مسلم اقوام خلافت عثمانیہ کی وجہ سے ہی ترک عوام کے ساتھ اپنی قربت کو ظاہر کرتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد تقریباً ایک صدی کی تنہائی کے بعد ترکی نے مسلم ممالک سے سماجی اور ثقافتی روابط کو دوبارہ بحال کرنا شروع کیے۔

گذشتہ ایک دہائی میں ترکی نے اپنی کثیرالجہتی پالیسیوں کو مضبوط بناتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے دور کے اپنے اتحادیوں افریقا، مشرق وسطی اور ایشیا کے کچھ ممالک بشمول انڈونیشیا اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مستحکم کرنا شروع کردیے۔ ترکی کی ان پالیسیوں نے ان اقوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنایا۔ خلافت عثمانیہ سے وراثت میں ملنے والی مسلم اقوام کی مشترکہ خصوصیات نے ترکی کو زندگی کے کئی شعبوں بشمول دفاع اور حکمت عملی دیگر کئی شعبوں میں مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔

ترکی کی ایشیائی ممالک میں موجودگی کا آغاز خلافت عثمانیہ میں اس وقت ہوا، جب مغل سلطنت، بہمنی سلطنت (اس سلطنت کی بنیاد سلطان محمد بن تغلق کے نائب ظفر خان نے دکن کے سرداروں کے ساتھ مل کر رکھی اور علاؤ الدین حسن گنگو بہمنی کا لقب اختیار کیا، یہ سلطنت صرف اٹھانوے سال ہی برقرار رہ سکی) اور آچے سلطنت (سولہویں اور سترہویں صدی میں انڈونیشیا کے آج کے صوبے آچے میں قائم تھی، اس دور میں یہ سلطنت علاقائی طاقت کی مظہر تھی) کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے۔

ایشیا میں خلافت عثمانیہ آچے سلطنت کی جانب سے آباد کاروں کے خلاف مدد کی درخواست کی وجہ سے قائم ہوئی، کیوں کہ اس وقت خلافت عثمانیہ کو مسلمانوں کی محافظ تصور کیا جاتا تھا۔ اس دور میں برصغیر کے مسلمانوں کی مدد اور وفاداری نے ایشیا میں خلافت عثمانیہ کی ایشیا میں موجودگی کو مستحکم کیا، مشترکہ مذہبی اور سماجی اثرات کی وجہ سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے آج ترکی کے تعلقات انڈونیشیا، فلپائن، چین، انڈیا، پاکستان ، بنگلادیش، سری لنکا، کمبوڈیا اور میانمار (پرانا نام برما) کے ساتھ بہت اچھے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ترکی اور ترک لوگوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کچھ لوگ ترکی کو حکم راں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور اس کے سربراہ طیب اردغان کی وجہ سے جانتے ہیں، لیکن پاکستان میں ترکی کی شناخت کا اہم وسیلہ تاریخی اور ثقافتی ڈراموں اور ان کے کرداروں کے نام ہیں۔ پاکستان میں بہت سے ترک ڈرامے اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر ہوئے لیکن 2012 میں نشر ہونے والے ڈرامے ’عشق ممنوع‘ نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے۔ اس مشہور رومانوی ڈرامے میں ایک خوب صورت جوان جوڑے بہلول اور ِبتر کی محبت دکھائی گئی ہے، جب کہ ِبتر کی شادی اس نوجوان کے چچا کے ساتھ طے ہے۔

اس ڈرامے میں بہلول کے کردار کو ترکی میں ’اسلامی بریڈ پٹ‘ کے لقب سے مشہور اداکارکیوانک تاتلیتغ نے ادا کیا، تاریخ اور سلیقے سے دکھائے گئے رومانوی مناظر سے بھرپور اس ڈرامے کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دل چسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔ اسی طرح 2008 ء میں ’غمز‘ کے نام سے بننے والے ڈرامے نے بھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی آخری قسط کو دنیا بھر کے دس کروڑ سے زائد ناظرین نے دیکھا تھا۔

ایشیا اور عرب ممالک میں بہت سے ٹی وی چینلز پر ترکی ڈرامے پیش کیے جار ہے ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک میں انہیں پسند کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ترک ڈراموں میں خاندانی مسائل کو پیش کیا گیا ہے جو کہ اپنے آپ میں بڑا چیلنج ہے۔ ترک ڈراموں کی کام یابی میں بہترین پروڈکشن اور خوب صورت لوکیشنز کا بھی اہم کردار ہے۔ ترک ڈرامے اس وقت ترکی کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں پیدا ہونے والی کاروباری مسابقت کے باوجود دنیا بھر میں ترک ڈراموں کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب ترک ناظرین لاطینی امریکا سے ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے سو سے زائد ممالک بشمول یورپ اور شمالی امریکا کے ٹی وی چینلز پر ڈیڑھ سو سے زائد ترک ڈرامے دیکھے جارہے ہیں۔ ان ڈراموں کی وجہ سے ترکی کو سالانہ برآمدات کی مد میں ساڑھے تین سو ملین ڈالر کا زرمبادلہ مل رہا ہے، اس میں ان ڈراموں کی وجہ سے ترکی کے خوب صورت مقامات دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے ملنے والا زر مبادلہ شامل نہیں ہے۔

لیکن، تُرک حکومت کی ترجیح انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے ہونے والے منافع سے زیادہ جغرافیائی سیاست کے فروغ پر ہے۔ ڈراموں کے ساتھ ترکی کے نام کی ’برانڈنگ‘ ہونے کی وجہ سے ترکی کو ملکی اور غیرملکی سطح پر اپنا جیو پولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی تصور) امیج بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے ۔ جغرافیائی سیاست کے تصور کی بنیاد اس بات پر منحصر ہے کہ انٹرٹینمنٹ اور خوشی کے نام پر کیا دکھایا جار ہا ہے۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جغرافیائی سیاست کرنے کی سب سے بڑی مثال امریکا کی ہالی وڈ کی جنگی فلموں میں ویت نام کی شمولیت ہے۔

امریکا کا انٹرٹینمنٹ کا شعبہ اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں سے ویت نام میں امریکی شکست کے تاثر کو زائل کرنے میں کافی حد تک کام یاب بھی رہا، امریکا نے اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے ترکی کے بین الاقوامی امیج کو بھی متاثر کیا۔ ترکی کے امیج کو سب سے زیادہ متاثر Billy Hayes کی1978 ء میں بننے والی فلم ’مڈنائٹ ایکسپریس‘ نے کیا۔ امریکا کی طرح ترکی بھی اپنے جغرافیائی سیاسی تصور کو بہتر بنانے کے لیے اپنے انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کو استعمال کررہا ہے، جس سے برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ترکی کا بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی تصور بھی بہتر ہورہا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف مالی فوائد دے رہی ہے بلکہ ترک قوم کے سیاسی بیانیے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر بھی کر رہی ہے۔

تُرک سنیما نے ابتدائی طور پر اپنی ثقافتی اور جغرافیائی سرحدوں کو 2000ٗ ء کے وسط میں پار کرنا شروع کیا، 2006ء میں ’ویلی آف دی وولف عراق‘ اور2000ء میں ’وولز فلسطین‘ کے نام سے ٹیلی ویژن سیریز کا آغاز کیا جس نے مشرق وسطی اور فلسطین کے بارے میں طویل عرصے سے موجود جغرافیائی سیاسی تصورات کو تبدیل کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ہلچل پیدا کرنے کا آغاز کیا۔ اس مووی سیریز نے نائن الیون سے پہلے ہالی وڈ کی جانب سے بنائے گئے جغرافیائی سیاسی بیانیے کو چیلینج کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر بننے والی فلموں اور سیریز کو متنازع بنادیا، جن میں اشارتاً مسلمانوں اور مشرق وسطی کو ممکنہ طور پر دہشت گرد اور ان کی جغرافیائی حدود کو تشدد اور افراتفری سے بھرپور ظاہر کیا گیا تھا۔

’ویلی آف دی وولف عراق‘ کو دنیا کے منظرنامے پر لانے کا مقصد مسلمانوں کے بارے میں مغربی تصورات کا تدارک کرنا تھا۔ اس فلمی سیریز میں عراق جنگ اور امریکا کی عراقی تیل کے حصول کے درمیان ربط اور مشرق وسطی میں ہر صورت اسرائیلیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے امریکی ہتھکنڈوں کو ایکسپوز کیا گیا۔ ’ویلی آف دی وولف عراق‘ نے عراق میں امریکی موجودگی کی ازسر نو تشکیل کی۔ اس سیریز کے اسکرین پر ظاہر ہوتے ہی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرق وسطی کے بارے میں پالیسیوں پر تنقید اور ستائش دونوں ہی کی گئیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس فلم کے ذریعے ترکی کو دنیا کی جغرافیائی سیاست کے منظرنامے میں ایک ایسے علاقائی کردار کے طور پر داخل ہونے کا موقع ملا جو مشرق وسطی کی سیاسی سمجھ بوجھ پر تسلط کو چیلینج کر سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاسی تصور کو بہتر بنانے کے لیے تُرک انٹرٹینمنٹ  صنف کا دوسرا دور 2014 سے شروع ہوا جو اب تک جاری ہے، جس میں ترکی کا نام سرحدوں کو پار کرکے مشرق وسطی سے شمالی امریکا کے لاکھوں گھروں میں پہنچ چکا ہے۔ اس دور میں یہ ٹی وی ڈرامے ترکی کے خلاف بنائے گئے تصورات کو تہہ بالا کرنے سے کہیں زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ترکی کے ٹی وی ڈراموں میں مختلف کہانیاں اور پلاٹ استعمال کیے جا رہے ہیں، جن سے نہ صرف لاکھوں ناظرین محظوظ ہورہے ہیں بلکہ یہ ڈرامے ناظرین کو دنیا کی سیاست کا متبادل فرق بتانے کے ساتھ ساتھ جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں ترک بیانیے کے فروغ کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کارپوریشن (ٹی آر ٹی) کی معاونت سے تیار کی جانے والی ٹی وی سیریلز تاریخی واقعات اور تفریح سے بھرپور ہیں جس نے ترکی کے جغرافیائی سیاسی تصور کو بدل دیا ہے۔ ’آخری شہنشاہ‘ ، ’سپاہی کُت ال امارہ‘ اور ان جیسے تاریخی پس منظر میں بننے والے کتنے ہی ڈرامے نہ صرف خلافت عثمانیہ کی شان و شوکت کو بیان کرتے ہیں بلکہ نئے جغرافیائی سیاسی تصورات، اور عوام کے لیے قومی بیانیے کو دوام بخش رہے ہیں۔

ڈراموں کی اس سیریز میں تاریخی اور جغرافیائی واقعات کو اس خوب صورتی کے ساتھ ڈھا لا گیا ہے جو کہ روایتی طریقے سے ترکی کی تاریخ اور جغرافیائی سیاست پڑھنے سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر ڈراما سیریز ’ریاست عبدل حامد ‘ میں خلافت عثمانیہ دور کے متنازعہ وقت کو پیش کرتے ہوئے عبدل حامد دوئم (جنہیں مغرب میں کزل سلطان یا سرخ بادشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کی تاریخی کہانی بیان کی گئی۔ اس سیریز میں ان کی سرگذشت بیان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ انہوں کیسے مغرب کی جانب سے کی جانے والی سامراجی مداخلت کا مقابلہ کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ کو کئی دہائیوں تک زندہ رکھا۔

اس سیریز میں تاریخی پس منظر کو موجودہ واقعات سے اس طرح مربوط کیا گیا کہ اکثر و بیشتر یہ سیریز ناظرین کے لیے متبادل تاریخی بیانیے کے طور پر deja vu(ایک فرانسیسی اصطلاح جس میں دیکھنے والا خود کو اس منظر میں محسوس کرے) اثرات مرتب کرتی ہے۔ اگرچہ یہ سیریز تاریخی واقعات کا احاطہ کرتی ہے ، لیکن اس میں ناظرین کے لیے دیے گئے پیغام کو آج کے حالات کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ترکی کی انٹرٹینمنٹ کی صنعت، سنیما اور ٹی وی ڈرامے دونوں، بلاشبہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اصلاحی اور غیراصلاحی بیانیے کے ساتھ جغرافیائی سیاسی تصورات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ہالی وڈ کی ایکشن فلم ریمبو کی طرح جنگ کے موضوع پر بننے والی ترک فلم نے ترکی اور مشرق وسطی کے درمیان جغرافیائی سیاسی تصورات قائم کرکے تنازعات کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم، حال ہی میں ٹی آر ٹی اور دیگر چینلز سے نشر ہونے والی ٹی وی سیریز نہ صرف جغرافیائی سیاسی مخالف پروڈکشن کے طور پر سامنے آئیں، جن کا مقصد غیرتعمیری بیانیہ قائم کرنا ہے بلکہ ترکی کی متبادل جغرافیائی سیاسی تصور کے لیے معقول پیغام ظاہر کرنا بھی ہے۔ ان سیریز کا مقصد تاریخ اور جغرافیہ کے ذریعے ترکی کے نئے بیانیے کو شدت کے ساتھ ابھارنا ہے۔ واضح رہے کہ ترکی کے وزیرثقافت و سیاحت نبی آوجی بھی چند ماہ قبل کہہ چکے ہیں ترک ڈراما سیریلز دیکھنے کی شرح سب سے زیادہ یورپ میں ہے۔

ڈیڑھ دہائی قبل تک ترکی میں گنتی کی فلمیں بنتی تھیں، لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر ڈیڑھ سو تک جاپہنچی ہے۔ ترکی میں بننے والی متعدد فلموں نے حالیہ چند برسوں میں بین الاقوامی فلمی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ درحقیقت یہ فلمیں اور ڈرامے نہیں یہ ترکی کی معاشی ترقی اور سیاسی اثرورسوخ کے لیے طے شدہ لائحہ عمل کے تحت جاری تحریک ہے، جس میں وہ کام یابی حاصل کر رہا ہے۔

اس تناظر میں ہم اپنے ملک کی انٹرٹینمنٹ  انڈسٹری کا جائزہ لیں تو یہ جان کر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی ہم زوال کا شکار ہیں، حالاںکہ ہمارے ڈرامے پاکستان کی شناخت اور معیشت کے لیے بہت سودمند ثابت ہوسکتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان میں شان دار ڈرامے بنتے تھے، جو بھارت میں بھی مقبول تھے، لیکن غیرسنجیدہ اور غیراخلاقی موضوعات، لچر پن، اور بوگس اسکرپٹ کی بھرمار پاکستان ناظرین کو چھوٹی اسکرین سے دور کر ہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے آن ایئر ہونے پر گلیوں، محلوں میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ لوگ شادی کی تاریخیں بھی ان ڈراموں کے نشر ہونے کی تاریخ اور وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے متعین کی جاتی تھیں۔

سید بابر علی
 babar.ali@express.com.pk

The post ترکی کے ڈرامے۔۔۔ معیشت سے سیاست تک appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

نانی ماں۔۔۔ میرے ناز اٹھائو ناں۔۔۔!
محمد علم اللہ (نئی دلی)

یہ یادیں بھی بڑی عجیب ہیں، کبھی کوئی تازہ بات یاد نہ آئے گی اور کبھی بہت پرانی یادوں کا طویل سلسلہ چل نکلے گا۔ جب میری نگاہ اپنی ڈائری میں مرحومہ نانی اماں پر لکھے گئے الفاظ پرگئی تو یادوں کا ایک پٹارا کھل گیا۔ میری نانی کا انتقال تقریبا آٹھ برس قبل ہوا۔

’’رفتہ رفتہ/ تیرا چہرا/ کہیں دور کھو جاتا ہے/ مگر آنکھوں میں تیرا عکس اب بھی باقی ہے۔۔۔!‘‘ یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ایک سات آٹھ سال کے بچے کے ہیںِ، جس میں اُس کا درد پنہاں ہے، جسے اس نے اپنے انداز میں اپنے دکھ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن آج اتنے دن بعد بھی میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ وہ میرے سامنے ہی جلی حرف والا تقطیع سائز کا قران مجید رحل پر لیے بیٹھی انتہائی پر سوز آواز میں تلاوت کر رہی ہیں۔

میری آنکھوں میں جاڑوں کا منظر اُجل جاتا ہے، ایک بڑی سے کڑاہی کے نیچے لکڑیاں سلگ رہی ہیں، دھوئیں کے مرغولے فضا میں غالب ہیں، اس کی جھانج سے آنکھیں اَشک بار ہیں، لیکن گھر بھر اس کے گرد جما بیٹھا دنیا جہاں کے قصوں میں مصروف ہے۔۔۔ اور نانی اماں گفتگو میں ٹکڑے بھی لگا رہی ہیں اور مٹر کی پھلیاں بھی تل رہی ہیں۔

کبھی اس حلقے میں شکر قندی بھنی جا رہی ہے، تو کبھی نہاری اور پائے گرم کیے جا رہے ہیں اور سارا ’کُٹم‘ نانی اماں کے گرد گھیرا ڈالے ان کے ہاتھ کے لذیذ پکوان سے لطف اٹھا رہا ہے۔

پھر مجھے تیوہار یاد آتے ہیں۔۔۔ مہمان آنے والے ہیں، تو نانی اماں پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر، شاداں وفرحاں ان کی راہ تک رہی ہیں۔ گھر کی ڈیوڑھی پر غریب وناداروں کی آوا جاہی لگی ہوئی ہے اور نانی سب کو کچھ نہ کچھ دے رہی ہیں۔ کام کرنے والیاں واپس جا رہی ہے، تو ڈھیر ساری سبزیاں، اشیائے خور دو نوش اور بچوں کے کھانے کے لیے چیزیں اس کے جھولے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ جس پر ماموں کچھ خفا بھی ہوتے۔

یادوں کے پردے پر ایک اور منظر ابھرتا ہے، میں گلی سے دیکھتا ہوں، نانی اماں دروازے کی اوٹ سے لگی ہوئی ہیں، مدرسے کے چھوٹے بچوں اور ضرورت مند راہ گیر وں کی منتظر ہیں کہ ابھی کوئی اِدھر سے گزرے اور وہ آواز دے کر اُسے کچھ نہ کچھ تھما دیں۔

چلچلاتی گرمیاں ہیں، تربوز، آم، امرود اور لیچی کا دور چل رہا، سارے بچوں کا محور نانی اماں ہی ہیں، وہ بڑے چائو سے پھل چھیلتی جا رہی ہیں اور باری باری سب کو قاشیں دے رہی ہیں۔ کچھ بچے کسی بات پر رو دیے، تو نانی انہیں چپ کرا نے کو بے کل ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ادھر بیل اور آم کے شربت کے لیے ہدایات دے رہی ہیں،کہ دیکھنا، شکر بس اتنا ہو اور پانی کی مقدار اس طرح رہے۔ ابھی گلی میں ’سِل، بٹّا‘ (مسالا پیسنے کے مخصوص پتھر) ’بنانے‘ والے کی آواز آئی ہے اور وہ یوں اُسے پانی پلانے کو دوڑیں کہ اُن کا کوئی عزیز مہمان آگیا ہو۔

میں اپنے ہاسٹل کے تکلیف دہ ماحول سے بھاگ کر نانی اماں کے گھر پر پناہ لیتا، وہ میری تواضع میں جُت جاتیں، انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں سے بچا کر مٹھائی یا اور کوئی چیز میرے لیے رکھی ہوتیں۔ وہ مجھے ابو کی پٹائی سے بچاتیں، میں جب ہاسٹل نہ جانے کی ضد کرتا، رونے لگتا تو نانی بھی میرے ساتھ رو دیتیں۔۔۔ پھر ابو سے مجھے ہاسٹل نہ بھیجنے کی سفارش کر ڈالتیں، لیکن نانی کا کہنا بھی کچھ کام نہ آتا اور مجھے ہاسٹل جانا پڑتا! مجھے وہ منظر بھی یاد ہے، جب میں پہلی بار ہاسٹل کے لیے نکل رہا تھا اور نانی کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں، وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتیں اور دعائیں دیتی جاتی تھیں۔

نانی اماں کے انتقال کے چھے سال بعد آج دلی کے پر شور ماحول میں جب اُن کا نواسا یہ الفاظ لکھ رہا ہے، تو اسے بالکل ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے، جیسے ابھی وہ ہاسٹل میں ہے اور بھاگ کے ابھی نانی اماں کے گھر پہنچ جائے گا اور نانی اس کے خوب ناز اٹھائیں گی۔ وہ سوچ رہا ہے، نانی کا یہ نواسا اگرچہ بڑا ہو گیا ہے، لیکن مناسب نوکری نہ ملنے اوراب تک ایسے ہی پردیس کی زندگی اور تلخ تجربات کے بارے میں نانی اماں کو بتائے گا، تو وہ تسلی دیں گی اور دنیا جہاں کے قصے سنا کر دل جوئی کریں گی۔

مگر یک دم یہ سارے مناظر ویران ہوئے جاتے ہیں، آج یہ نواسا اگر کچھ دیر کو غم روزگار بھلا کر بچہ بن بھی جائے تو مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو جانے والی نانی ماں کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائے۔۔۔ ان کی بے کراں محبت تو اب قصہ پارینہ ہوئی، دائمی ہجر کی تلخی دور تلک کسی اندھیارے کی صورت پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔ مَن میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے، پلکیں ڈبڈبائی جاتی ہیں، ساون بھادوں کا ایک ریلا سا ہے، جسے اب پلکوں پر روکے رکھنا مشکل ہوئے جا رہا ہے۔

۔۔۔

صرف کھاتا پیتا ہوں لیکن ’روزے‘ سے ہوں۔۔۔!
سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

کچھ نوجوانوں نے دیکھا، ایک بوڑھا چپکے سے کچھ کھانے میں مشغول ہے۔ ایک نوجوان نے نزدیک جا کر پوچھا:
’’چچا جان! کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا؟‘‘
بوڑھے نے جواب دیا:
’’کیوں نہیں، میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔‘‘
نوجوان ہنس پڑے اور بولے ’’کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟‘‘
بوڑھے نے کہا: ’’ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ کسی پر بری نگاہ نہیں ڈالتا۔۔۔ کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ کسی کا دل نہیں دکھاتا۔۔۔ کسی سے حسد نہیں کرتا۔۔۔ مالِ حرام نہیں کھاتا اور اپنی ذمے داریاں اور فرائض دیانت داری سے انجام دیتا ہوں، لیکن چوںکہ مجھے شدید بیماری لاحق ہے، اس لیے میں اپنے معدے کو روزے دار نہیں بنا سکتا۔‘‘
پھر اس بوڑھے آدمی نے ان نوجوانوں سے پوچھا :
کیا آپ بھی روزہ دار ہیں؟
ان میں سے ایک نوجوان نے سر جھکائے ہوئے آہستگی سے جواب دیا:
’’نہیں، ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔۔۔!‘‘

۔۔۔

کیا پھر ’’چاند رات‘‘ بھی دَم توڑ دے گی۔۔۔؟

وفاقی وزارت اطلاعات میں تشویش کی بہت سی لہریں دوڑانے کے بعد اِن دنوں فواد چوہدری صاحب، سائنس وٹیکنالوجی کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں، ماہ صیام کی آمد کے موقع پر موصوف نے ’رویت ہلال‘ یعنی چاند دیکھنے کے روایتی سلسلے پر بات کر ڈالی، اور کہا کہ طے شدہ ہجری کلینڈر کے ذریعے اس طرح چاند دیکھے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ جس پر ہماری ’رویت ہلال کمیٹی‘ کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن سمیت بہت سے حلقوں نے تنقید کی۔

دوسری طرف بہت سے لوگ فواد چوہدری کے حامی بھی سامنے آئے، جب کہ ہم ہر دو موقف پر کچھ کہے بغیر صرف چاند کی دِید سے جڑی اس روایت میں کھو کر رہ گئے۔۔۔ ابھی زیادہ پرانی بات تو نہیں نا، جب ہم بھی بچے ہوا کرتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہر سال شعبان اور رمضان کی 29 ویں تاریخ کو باقاعدہ یہ ایک ’موقع‘ ہوتا تھا، جس کا انتظار کیا جاتا اور پھر نوعمر لڑکے باقاعدہ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ اس بار فلاں مسجد کی چھت پر چاند دیکھنے جائیں گے۔۔۔ اسی سبب اکثر نمازوں سے غافل رہنے والے بچے ٹولیوں کی صورت میں نماز مغرب کے لیے مختلف مساجد کا رخ کرتے۔۔۔ اور نماز کے بعد اتنظار کرتے کہ کب مسجد کا خادم یا موذن سیڑھیوں کا تالا کھولے اور وہ مسجد کی چھت پر جا کر ’ہلال‘ کو ڈھونڈا کیے۔۔۔

حالاں کہ شاید ہی کبھی 29 کا چاند یوں دکھائی دیا ہو۔۔۔ سنتے تھے کہ 29 کا چاند مغرب کے بعد بہت مختصر سے وقت تک ہی دکھائی دیتا ہے، پھر بھی ایک لگن ہوتی تھی کہ شاید دکھائی دے جائے۔۔۔ بچوں کی ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ رمضان ہو یا عید، بس کل ہی ہو جائے۔۔۔ پرسوں تک کا انتظار تو بہت پہاڑ معلوم ہوتا تھا، اور جب 29 ویں کو عید کا چاند دکھائی دے گیا، تو پھر ’چاند رات‘ کہاں کٹتی تھی۔۔۔ اب اگر عیسوی کی طرح ہجری تقویم بھی جاری ہوگئی تو عملاً ’چاند رات‘ کا تو کریا کرم ہو ہی جائے گا۔ بھئی جب پہلے سے پتا ہو کہ عید یا رمضان فلاں دن ہے، تو پھر ایک دن پہلے کو آپ کہنے کو ’چاند رات‘ کہہ لیں، لیکن وہ دیر تک کا اضطراب کہ خبر نہیں کہ آج چاند رات ہے بھی یا نہیں، وہ بات نہیں آسکے گی۔

آپ کو چاہے ہماری یہ باتیں کتنی ہی ’دقیانوسی‘ یا ’’غیر سائنسی‘‘ لگے، لیکن وہ جو رمضان اور عید کے آج یا کل ہونے کے بیچ کا لطف ہے، اُس کی کشش ہی کچھ ایسی ہے، کہ ہم یہ سب لکھنے پر مجبور ہو گئے اور اگر کبھی پہلے 29 کا چاند نہیں بھی ہوتا تھا، تب بھی اگلے دن کے یقینی چاند دیکھنے کے لیے بھی مساجد اور بلند عمارتوں کی چھتوں پر جمگھٹا لگ جاتا تھا۔۔۔ اور اب یقینی چاند کا تو یہ حال ہے کہ اس 30 شعبان کو ہمیں بھی مغرب کی سمت رخ کر کے یوں ہی چاند دیکھنا یاد نہ رہا۔۔۔ورنہ پہلے یہ ہماری ایک عادت سی تھی۔۔۔

۔۔۔

ناصر کاظمی اور بنگلا سرزمین
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال

گھروں میں، محفلوں میں، جلسوں میں سوگ کی فضا تھی اور ناصر کاظمی کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یکم مارچ 1972 کو صبح منہ اندھیرے جب ابھی چڑیوں نے بولنا شروع کیا تھا، وہ درختوں اور چڑیوں کی اس دنیا سے سدھار گیا۔ پاکستان اور ناصر چند مہینوں کے فرق سے بس آگے پیچھے گئے۔ یعنی وہ پاکستان جس میں، میں نے 1947ء کے آتے جاڑوں آکر قدم رکھا تھا اور بنگالی جس کا جزو لاینفک تھے اور اس نئے ملک کی اکثریت تھے، اب جو پاکستان تھا وہ تو بھٹو صاحب کے دیے ہوئے نام کے مطابق ’نیا پاکستان‘ تھا اور اب مجھے یاد آرہا ہے کہ ناصر جب ڈھاکا اور ڈھاکا کے آس پاس کی بستیوں میں گھوم پھر کر واپس آیا تو کتنا گرم جوش نظر آرہا تھا لگتا تھا کہ اس ہری بھری دھرتی نے اس کے تخیل کو نئے سرے سے تازہ کردیا ہے اور اس نے کس درد سے اس سرزمین کو یاد کیا:

جنت کے ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
(انتظار حسین کی کتاب ’’چراغوں کا دھواں‘‘ سے انتخاب)

۔۔۔

’’میں نے اِسے رکاوٹ نہیں جانا۔۔۔‘‘
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

میں نے پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے کہ میں عملی طور پر یہ ثابت کر دوں کہ پردے کی حدود میں رہتے ہوئے بھی علم و عمل کی وسعتیں اپنے دامن میں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ میں نے عملی، دینی، سماجی ، تہذیبی اور سیاسی الغرض ہر شعبۂ زندگی میں حصہ لیا۔ انجمنیں چلائیں اور ملک کے اندر اور باہر کانفرنسوں میں شمولیت کی اور ڈٹ کر اپنے موقف کے حق میں تقریریں کرتی رہی۔ میں نے اورنٹیل کانفرنس لاہور منعقدہ 1956ء میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں نے اسی نقاب کے ساتھ بے شمار ممالک کی سیر کی، وہاں کے ذہین طبقوں سے خطاب کیا اور اپنے دل کا درد ان کے اندر منتقل کرنے کا تجربہ کیا مگر یہ برقع میری راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا جو خواتین اسے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تصور کرتی ہیں دراصل ان کے نزدیک ترقی کا مفہوم ہی دوسرا ہے۔ اگر ترقی سے مراد نسوانی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرکے معاشرے کی خواہشات کا کھلونا بننا ہے تو یقیناً پردہ ایسی ترقی کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے، لیکن کیا اسلام ایسی ہی ترقی پسند عورت کی تخلیق کے لئے آیا تھا؟

(’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ از الطاف حسین قریشی میں ڈاکٹر مس خدیجہ فیروزالدین کی باتیں)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
’رونق‘
رضوان طاہر مبین
چنّو برسوں بعد پرانے محلے کی مسجد آیا، ثمر سے ملا، بولا:
’’اپنی کالونی میں روزوں کے رنگ ہی الگ ہیں۔
نئے محلے میں رمضان کی وہ رونق نہیں۔۔۔!‘‘
’’ہاں یہ بات تو ہے۔۔۔‘‘ ثمر نے کہا۔
پہلے یاد ہے، رمضان میں مسجد باہر صحن تک بھر جاتی تھی۔۔۔
پھر ہم سردی میں چھت پر صفیں بنواتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں؟‘‘
چنّو نے پوچھا۔
’’ہاں، اب بہت سے نمازی ہم سائے محلے کی مساجد چلے جاتے ہیں۔‘‘
ثمر نے بتایا۔
’’وہ کیوں؟‘‘ چنو حیران ہوا۔
’’وہاں کی مساجد میں ’اے سی‘ نصب ہیں نا۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ آپ کا گھر ہے، محاذِ جنگ نہیں!

$
0
0

انسانی رشتے ناتے اور تعلقات ایثار، قربانی اور تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنائیت اور خلوص کا مظاہرہ ان رشتوں کو نکھارتا اور مضبوط بناتا ہے۔

غرور، احساسِ برتری، بے جا ضد، انا، من مانی یا دوسرے پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو خونی رشتے اور دیرینہ تعلقات بکھر سکتے ہیں۔ اگر ہم بہو اور ساس کی بات کریں تو یہ نازک اور حساس نوعیت کا تعلق ہے۔ شادی کے بعد اگر کسی کی بیٹی، ایک گھر کی بہو بنتی ہے تو وہ عورت بھی جو کل تک صرف ماں تھی، ساس کہلانے لگتی ہے۔

کئی برس تک اپنے گھر پر راج کرنے، اسے اپنے اصولوں کے مطابق چلانے والی یہ عورت وسیع اختیارات کی حامل اور طاقت ور ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر کی فضا کو مخصوص روایات کا پابند کرکے نہ صرف خود اس کی پاس داری کرتی ہے بلکہ اپنی اولاد سے بھی کرواتی ہے۔ وہ اپنی اولادوں کی گھر میں حیثیت، ان کے رتبوں کا تعین بھی خود کرتی ہے۔ بیٹیاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں، وہ ان کی قدر و منزلت بھی اپنے بیٹوں کے ذہنوں پر نقش کرنا نہیں بھولتی۔ اسی طرح وہ بہو کے اپنے گھر میں مقام کا تعین بھی پہلے سے کر لیتی ہے، مگر اسے خوش دلی سے اور کب مکمل طور پر قبول کرنا ہے، اس کا فیصلہ کرنا شاید اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

ہمارے سماج میں عورت نہ صرف مرد کے تابع اور زیرِ اثر رہی ہے جب کہ پسماندہ سوچ اور فرسودہ روایات کی پروردہ بھی ہے اور ایسے ماحول میں اس کی شخصیت کے ارتقاء کی کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی، اس لیے وہ گھر کے سربراہ سے تو من مانی نہیں کرسکتی، مگر موقع ملتے ہی اپنی ساری حسرتیں پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ عورت ایک لڑکی کو خود بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کے لیے پسند کرتی ہے اور پھر بیاہ کر تو لے آتی ہے، مگر یہ خوشی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک بہو اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہے۔

گھر کے ایک نئے فرد کے طور پر بہو کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ خوش اسلوبی سے تمام ذمہ داریاں نبھائے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت اور ساکھ بھی بنائے اور جب وہ اس میں کام یاب ہونے لگتی ہے تو ساس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت رہی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک ساس تحفظات اور اندیشوں کا شکار ہو جاتی ہے اور ساس، بہو کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی اور گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے یا برقرار رکھنے کی رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے جو نہ صرف ان دونوں کے باہمی تعلقات کو متاثر کرتی ہے بلکہ گھر کے دیگر لوگوں میں بھی اضطراب اور کھنچاؤ کو جنم دیتی ہے۔ مشرقی سماج کی عورت بھی اب جذبۂ قربانی سے معمور اور پرانے خیالات کی نہیں رہی کہ بہو کے بے جا ناز نخرے برداشت کرے یا اس کے ستم پر کچھ کہہ نہ سکے۔ وہ فریادی بن کر چپ چاپ زندگی گزار کے بجائے محاذ آرائی کے سارے ہتھکنڈے بخوبی استعمال کرتی ہے۔ اسے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کماؤ پوت بیٹا مکمل طور پر بیوی کے حوالے کردے، اس لیے وہ گاہے بہ گاہے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے گھریلو امور میں بے جا مداخلت بھی کرتی ہے جس سے گھر کی فضا کشیدہ رہتی ہے۔

اس کا آغاز وہ کچن سے کرتی ہے کیوں کہ وہ بہت جلد بھانپ لیتی ہے کہ امورخانہ داری میں یہ لڑکی کتنی طاق ہے۔ بہو کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا ایسے چیک کیا جاتا ہے جیسے اسے پکوان سے متعلق کسی مقابلے میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا، حوصلہ افزائی کا دور دور امکان نہیں ہوتا، مگر نقص زبان کی نوک پر دھرے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں تو نقص بیانی اکا دکا نوالے میں سمیٹ دی جاتی ہے مگر پھر یہ ریت ہر کھانے پر بڑی مہارت اور خوبی سے نبھائی جاتی ہے۔ اس دوران باتوں باتوں میں لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کی ماں کی تربیت کی ’’دھلائی‘‘ بھی فرض سمجھی جاتی ہے۔ بہو کی عزت کم کرنے کے لیے موقع ملتے ہی اس طرح کی باتیں بیٹے کے سامنے ذرا زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنی بیوی سے متنفر ہو یا اس کی طرف جھکاؤ کم ہو، مگر اس کا الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ بہو یا تو روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے یا پھر شوہر پر زور دیتی ہے کہ اسے الگ گھر لے کر دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں نقصان صرف ساس کا ہی ہوتا ہے۔ ایک تو وہ بیٹے سے محروم ہوجاتی ہے یا بیٹے کی نظر میں اپنی حیثیت اور مقام کھو دیتی ہے۔

مانا کہ اپنے دورِ اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا، لیکن حقیقت پسند بنیے۔ اگر عورت فطرت اور سماج کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ بہت آسان اور باعثِ راحت ہو گا۔ دراصل اسے سماجی اور خاندانی نظام اور روایت کے طور پر سمجھنے کی کوشش اور پھر قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے سدا بادشاہی تو کسی کی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔ اس حقیقت کو ایک ساس جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی اپنے وقار کو بچا سکتی ہے۔

ساس کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں بہو کو دل سے قبول کرے اور جہاں پہلے وہ خود فیصلے کیا کرتی تھی اور سب اسے تسلیم کرتے تھے، اب اس میں بہو کو بھی کھلے دل سے شریک کر لے جس سے اعتماد کی فضا قائم ہو گی۔

ساس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آنے والی اپنے تمام جذباتی رشتے ناتے چھوڑ کر آتی ہے، اس کے لیے سسرال کے تمام رشتے ناتے اور یہ جذبے سب نئے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے اور اپنانے میں اسے وقت تو لگے گا۔ لہٰذا اسے وقت دیا جائے۔ ساس اسے ماحول کو سمجھنے میں مدد دے اور نئے گھر کو اپنانے کے حوالے سے اس کی راہ نمائی کرے۔

کچن میں، گھر میں چیزوں کی من پسند ترتیب ہر بہو کی اولین خواہش ہوتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ بات خوشی اور محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ بہت جلد بہو کو احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ گھر میرا ہے، جس دن اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا تو پھر اس کے لیے سب سے مقدم بھی یہی گھر اور اس کے تمام رشتے ہوں گے۔

کچن میں روٹی جل جائے، سالن میں گھی زیادہ ہو جائے یا تیل برتن میں ڈالتے ڈالتے گر جائے، پلیٹ یا گلاس ٹوٹ جائیں تو بہو کو پھوہڑ اور بے ڈھنگی نہ فرض کر لیا جائے۔ اس طرح اس کا اعتماد متزلزل ہو گا اور وہ احساسِ کمتری میں بھی مبتلا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں آپ کا بس ذرا سا ساتھ دینا اسے آپ کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہ ہونے دیں کہ آپ نے اس کی غلطی پکڑ لی ہے یا کام میں کم زوری اور کوتاہی کو جان گئی ہیں۔ جب آپ کچن میں نگراں سے زیادہ مہربان بن کر اس کے ساتھ کھڑی ہوں گی تو اس کے لیے تمام مرحلے طے کرنا آسان ہوجائیں گے۔

آپ کی بہو کی ایک فطری خواہش اور جذبہ سجنا سنورنا بھی ہے۔ آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ میک اپ کرنے کی اس کی عمر ہے۔ اسے ٹوکنے کے بجائے ایک بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں۔ اسے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائیں، اپنی تہذیب اور روایت، گھر کے ماحول اور مردوں کے مزاج سے آگاہ کریں، لیکن اس پر اپنی رائے مسلط کرنے سے پرہیز کریں۔ یاد رکھیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے کبھی خوشی نہیں ملتی بلکہ یہ نئے رشتے میں کدورت اور فاصلہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ساس بننے سے پہلے آپ کو اپنا جائزہ لینے کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اب آپ صرف ماں نہیں رہیں گی بلکہ اس بندھن کی صورت میں ایک خاندان آپ کو ایک جیتا جاگتا کردار سونپ رہا ہے اور دراصل عورت کا نیا امتحان بھی اب شروع ہوتا ہے جہاں کرنے کو اس کے پاس کوئی کام، کوئی ذمہ داری نہیں رہتی مگر یہاں محبت اور اخلاص جیسے جذبوں سے ایک نئے رشتے کی آب یاری میں پہل اسے ہی کرنی پڑتی ہے۔

دیکھا جائے تو وہ لڑکی جو بہو بن کر آپ کے گھر آتی ہے، بڑی تہی داماں ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام خونی رشتے، سہیلیوں کو چھوڑ کر آپ کے گھر چلی آتی ہے تو کیا اس کا ہاتھ تھامنے میں، اسے اپنانے اور اس سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے میں آپ کو پہل نہیں کرنی چاہیے؟

 

The post یہ آپ کا گھر ہے، محاذِ جنگ نہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

صنفی امتیاز: سفر کٹھن، منزل دُور ہے!

$
0
0

ہمارے سماج میں اب عورت پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور خود مختار ہے۔ اسے خانگی معاملات اور پیشہ ورانہ زندگی میں نہ صرف اہمیت دی جاتی ہے بلکہ کسی حد تک وہ فیصلہ ساز بھی ہے۔

معاشرہ اسے تسلیم کرتا ہے، اس کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا جانے لگا ہے۔ ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے معاشی میدان میں خواتین کی شراکت ضروری سمجھی جارہی ہے۔ یہ ایک تأثر ہے! بظاہر ہمارے معاشرے کی عورت کو بنیادی حقوق دینے کے ساتھ سیاسی، سماجی، معاشی میدان میں آگے بڑھنے کی زیادہ آزادی اور مواقع میسر ہیں، لیکن کیا حقیقی معنوں میں عورت کو اس کا جائز مقام اور حق دینے کی سمت ہم اپنا سفر شروع کرچکے ہیں؟

یہ ایک سوال ہے جس کا درست جواب تو مستند اور غیرجانب دار جائزہ رپورٹیں ہی دے سکتی ہیں، مگر اس تأثر کی مکمل نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ چند برسوں کے دوران تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ خواتین بھی مختلف شعبہ ہائے حیات میں آگے آئی ہیں۔ خصوصاً غیر روایتی یا غیر رسمی اور فنی مہارت کے شعبوں میں عملی طور پر خواتین کی شرکت سے اس تأثر کو تقویت ملی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ منزل ابھی بہت دور ہے! جب تک آبادی کے اس نصف کو، چار دیواری اور گھر سے باہر تحفظ، تعلیم و صحت، سفر کی سہولیات، فوری اور بلامعاوضہ قانونی مدد، مساوی تنخواہ اور کام کا معقول معاوضہ نہیں دیا جائے گا اور دیہاتی عورت کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا، یہ تأثر۔۔۔ یقین میں نہیں بدل سکتا! اس کے ساتھ ساتھ اس بیمار ذہنیت اور رجعت پسند سوچ کو بدلنا ہو گا جو پاکستانی عورت کو بااختیار اور طاقت وَر بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

یقیناً انٹرنیٹ کی دنیا اور ذرایع ابلاغ نے ہماری فکر اور عورت سے متعلق تصورات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور شہری علاقوں کی عورت جہاں اپنے حقوق سے زیادہ آگاہ ہے، وہیں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اس میں مزاحمت کا جذبہ بھی بیدار ہوا ہے۔ وہ شاید زیادہ پُراعتماد اور باہمّت بھی ہے، لیکن افسوس کہ دیہات کی عورت روز ہی جبر اور استحصال کا کوئی نہ کوئی روپ دیکھنے اور اسے جھیلنے پر مجبور ہے۔ وہ بدترین حالات میں سسک سسک کر زندگی بسر کر رہی ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ چند دہائیوں قبل تک تعلیم اور روزگار کا حصول عورتوں کے لیے فقط ایک خواب تھا، مگر آج صورتِ حال کسی حد تک مختلف ہے۔ اب عورت جہاں روایتی شعبوں میں سرگرمِ عمل ہے، وہیں ہیوی وہیکل کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے اور گاڑیوں کے انجن ٹھیک کرتی دیکھی جاسکتی ہے۔

اسے امورِ خانہ داری نمٹانے کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں بھاری اور آہنی اوزار اٹھا کر بھی کام کرتا دیکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد اسی عورت نے روزگار کے حصول کے لیے صرف سرکاری اور نجی اداروں کی ملازمت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اپنا کاروبار شروع کیا اور کئی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنی، لیکن کیا اسے عزت اور احترام کے ساتھ سماج میں تحفظ بھی حاصل ہوا ہے، اسے بہتر اور سازگار ماحول میسر ہے۔ کیا غیرت کے نام پر تشدد، قتل، تیزاب سے چہرہ جھلس جانے، شادی کے بعد بات بات پر مار پیٹ، جہیز نہ لانے یا کوئی مالی مطالبہ پورا نہ کرنے پر آگ لگائے جانے کے خوف سے یہ عورت کسی قدر آزاد ہو چکی ہے۔ گھروں میں ماسی اور آیا کی حیثیت سے کام کرنے والی کتنی آسودہ اور مطمئن ہے۔ کھیتوں میں مشقت کے بعد کسی عورت کو اجرت ملنے کا یقین ہوتا ہے۔

عورتوں کو سڑکوں پر آوارہ ذہنیت، پبلک ٹرانسپورٹ، دفاتر اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے نجات مل چکی ہے۔ کیا پاکستانی عورت کو اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر نوکری اور عہدوں پر ترقی دی جارہی ہے۔  حکومتی دعووں، قوانین کے شور کے بعد اب اسے بہتر تنخواہ یا معقول اجرت دی جارہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو جان لیں کہ ابھی منزل دور اور راستہ کٹھن ہے۔ جب تک حکومت جامع اور واضح پالیسی کے ساتھ عورت کی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی ترقی اور خوش حالی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ چند روشن چہروں اور کام یابی کی مثالوں کو انفرادی حیثیت ہی میں دیکھا جائے تو بہتر ہو گا جب کہ حکومت اور متعلقہ اداروں پر اس ضمن میں فوری، ٹھوس اور دیرپا اقدامات کے لیے دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

یقیناً آج کئی خواتین ان عورتوں کے لیے مثال ہیں جوکچھ کرنا چاہتی ہیں، معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتی ہیں، لیکن نصف آبادی میں یہ محض چند نام ہی تو ہیں۔ ابھی اس راستے میں کئی مشکلات اور مسائل موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر عورت کا احساسِ عدم تحفظ دور کرنا ہو گا۔ ملازمت پیشہ خواتین کی بات کی جائے تو یہ بہت سارے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ عورتیں ڈاکٹر، انجینئر، استانی یا کسی دفتر میں کلرک ہوں، ان کے مسائل اور عذاب مختلف نہیں۔ عالمی اداروں کے خواتین کی ترقی اور خوش حالی سے متعلق اہداف اور اس سمت میں حکومتی اقدامات اور کارکردگی کی جائزہ رپورٹوں پر نظر ڈالیں تو ہم بہت پیچھے ہیں۔ کام کی جگہوں پر عورت کا ایک بڑا مسئلہ محفوظ اور سازگار ماحول ہے۔ خواتین بَروقت دست یاب ٹرانسپورٹ اور محفوظ سفر سے محروم ہیں۔ یہ بات ہمیشہ کی جاتی ہے کہ عورت کو عزت، احترام دینے اور تحفظ کا احساس دلانے کی ضرورت ہے، لیکن کیا ہمارے سماج میں اس حوالے سے کوئی نمایاں تبدیلی آئی ہے؟

حکومتوں کے دعوے بلند بانگ اور ارادے ہمیشہ نیک رہے ہیں، مگر کیا عورتوں کو سفر کی محفوظ اور فوری سہولت میسر آئی جو کہ ایک بنیادی بات ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث عورتوں کو سڑکوں پر انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، گھر یا کام کی جگہوں پر پہنچنے میں تاخیر کے باعث مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی قابل اور باصلاحیت خواتین ایسی ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دست یابی کی وجہ سے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جس سے ان کی تعلیم اورہنر ضایع ہو رہا ہے اور جو خواتین پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتی ہیں وہ ماحول کی وجہ سے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو رہی ہیں۔ انھیں دورانِ سفر ہراساں کیا جانا اور ان کے ساتھ بدسلوکی عام ہے۔ جب تک عورت کو گھر اور کام کی جگہ تحفظ کا احساس نہیں ہو گا اور اسے سازگار ماحول نہیں ملے گا، اس وقت تک ایک خاندان سے لے کر ملکی ترقی کے عمل تک ان سے فعال کردار کی توقع بھی عبث ہے۔

بدقسمتی سے خواتین کے تحفظ اور شکایات کے ازالے کے لیے جو ادارے موجود ہیں، وہ قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ عورتیں کسی بھی موقع پر اپنے دفاع اور تحفظ میں خود کو ناکام اور بے بس تصور کرتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ شکایت کے اندراج کا ہے۔ پولیس اسٹیشن ایک ایسی جگہ ہے جہاں مرد بھی داخل ہوتے ہوئے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی عورت کسی مسئلے اور شکایت کی صورت میں قانون کی مدد لینے کے لیے رابطہ کرنے، تھانے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ گھروں میں تشدد اور سڑکوں پر تنگ کیے جانے کو جرم ہی تصور نہیں کیا جاتا اور اکثر پولیس یا انتظامیہ رپورٹ کرنے کی صورت میں اس پر ایکشن لینے سے گریز کرتی ہے۔ اس پر توجہ دینا ہو گی۔ پاکستان میں خانگی امور پر اختلاف اور جھگڑے کے بعد عورت پر تشدد کے علاوہ غیرت کے نام پر مار پیٹ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے اقدامات تو کیے ہیں، لیکن معاشرے کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ اس حوالے سے مسلسل اور بڑے پیمانے پر کوششیں کی جائیں تبھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ عورتوں کی معاشی اور سماجی حالت میں واضح بہتری اور ترقی اور خوش حالی کے سفر میں ان کی بامعنی شمولیت یقینی بنانے کے لیے امتیازی سلوک اور تشدد کا خاتمہ کرتے ہوئے محفوظ اور سازگار ماحول کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ اس حوالے فقط قانون سازی اور چند ادارے یا ہیلپ سینٹر قائم کرنا کافی نہیں بلکہ ہر حالت میں، ہر صورت میں قانون پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا، تبھی عورت سے متعلق مذکورہ تأثر یا کسی تصور کو یقین کا پیراہن نصیب ہو گا اور ملکی ترقی و خوش حالی کا خواب پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔

 

The post صنفی امتیاز: سفر کٹھن، منزل دُور ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

وجہ ڈھونڈیں، خامی دور کریں، غلطی سدھاریں

$
0
0

اس نے تعلیم مکمل کی تو ماں کو اس کے رشتے کی فکر ہوگئی اور پھر رشتہ کرانے والی کے توسط سے گھر میں ہر دوسرے تیسرے روز اسے دیکھنے کے لیے خواتین کا آنا جانا شروع ہو گیا۔

چائے اور دیگر لوازامات ٹرے میں سجائے اور سَر پر دوپٹہ جمائے وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی تو لمحوں میں اس کی نظریں ان خواتین کی نظروں میں اپنے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پڑھ لیتیں۔ ان کے جانے کے بعد رشتے کرانے والی خاتون کی کال آتی تو معلوم ہوتا کہ وہ لڑکے والوں کو پسند نہیں آئی۔ متعدد بار مسترد کیے جانے سے وہ ذہنی طور کرب اور اضطراب کا شکار ہوگئی۔ والدہ ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئیں جس کے بعد وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگی۔ دن گزرتے رہے۔ چھوٹی بہنوں کے رشتے طے ہوگئے اور وہ بیاہ کر چلی گئیں، مگر اس کا نصیب نہ جاگا۔ ماں نے رشتہ ڈھونڈنے کی کوششیں مزید تیز کردیں۔ بالآخر شادی ہوگئی۔

شادی کے بعد پتا چلا کہ شوہر نشے کا عادی ہے۔ وہ اس پر تشدد کرتا۔ وہ چپ چاپ ہر ظلم سہتی رہی، مگر ایک روز شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ اب وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لڑکی کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔ وہ یہ سمجھتی کہ گویا شوہر نے بھی اسے ٹھکرا دیا ہے۔ طلاق لے کر جب میکے واپس آئی تو کچھ عرصے بعد ماں کا انتقال ہو گیا اور بھائی نے ایک بات پر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب وہ ایک عزیز کے گھر رہنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ ذہنی و نفسیاتی دباؤ کے زیر اثر تھی!!

ایسے کئی واقعات اور بے شمار کردار ہمارے سامنے ہیں۔ یوں تو ہر انسان اپنے جذبات، خواہشات اور کسی بات کے رد ہونے پر، کسی بھی حوالے سے نظرانداز کیے جانے پر رنجیدہ، مایوس اور بعض صورتوں میں ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو سکتا ہے، مگر لڑکیاں اس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی جس کے مطابق ایک لڑکی نے رنگت کی وجہ سے ہر بار رشتے سے انکار کے بعد اپنا رنگ گورا کرنے کا علاج کروایا، مگر بدقسمتی سے اس علاج نے اسے جلد کی ایسی بیماری کا شکار بنا دیا جس نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

کسی بھی حوالے سے مسلسل انکار سننے، نظر انداز اور مسترد کیے جانے کا خوف ہماری شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتا ہے۔ یہ اعتماد کو نگل کر کسی کو بھی احساسِ کمتری کا شکار کر سکتا ہے اور اسے اپنی بے وقعتی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اسے شدید مایوسی کا شکار کر دیتی ہے اور ایسا کوئی بھی فرد مستقبل میں بھی ہر قدم پر ٹھکرائے جانے اور مسترد ہونے کے اندیشے کی وجہ سے آگے بڑھنے سے ڈرتا ہے۔ اپنی بے وقعتی کا خوف اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنی کسی خواہش، کسی جذبے کے اظہار اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے سے کترانے لگتی ہے اور زندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے۔

تاہم ایسی کسی کیفیت اور مسئلے سے دوچار لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ مایوس اور خوف کا شکار ہونے کے بجائے اس کی کوئی ٹھوس وجہ اور اسباب تلاش کریں۔ ہر بار خود کو مسترد کیے جانے کی وجوہات پر غور کر کے ان کا سدباب کرلیا جائے تو زندگی بدل سکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بھی حوالے سے انکار اور نظر انداز کیے جانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی بلکہ آپ کسی کی منفی سوچ اور آزار پسند طبیعت کا  نشانہ بنتی ہیں۔ ان دونوں میں تمیز کرنے کے بعد ہی آپ اس کا حل نکال سکتی ہیں۔ مسترد ہوجانے  کا خوف جب اعصاب پر سوار ہوجائے تو جینے کی امنگ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ خوف صرف رشتوں ناتوں اور گھر تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملازمت، دوستی، تعلیم، الغرض زندگی کے ہر مرحلے پر اس کا اثر ہوتا ہے۔

تعلیمی میدان:

عموماً اساتذہ ذہین طلبا کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو پڑھائی میں کم زور طلبا و طالبات میں احساسِ کم تری پیدا کردیتا ہے۔ وہ ایک قسم کا ذہنی دباؤ محسوس کرنے لگتے ہیں جو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان کو امتحانات میں بھی اپنی ناکامی کا گویا یقین ہوجاتا ہے۔ یہ کیفیت اور احساس ایسے طلبا کی تعلیم سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ بسا اوقات طلبا یہ مفروضہ قائم کرلیتے ہیں کہ اساتذہ مجھے پسند نہیں کرتے، لہٰذا امتحان میں بھی کم نمبر دیتے ہیں۔ ایسے طلبا کے دل و دماغ پر مسترد کیے جانے کا خوف اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ہوم ورک اور اسائنمنٹ کرتے ہوئے بھی یہی سوچتے ہیں کہ اسے مسترد کردیا جائے گا۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی، توجہ اور والدین کی راہ نمائی ان کو اس کیفیت سے باہر نکال سکتی ہے۔

گھریلو ماحول:

گھر کا ماحول ایسا نہ ہو کہ جب بچے کسی معاملے میں مشورہ یا تجویز دیں تو بڑے اسے غور سے سنیں، اہمیت دیں یا یکسر مسترد کرنے کے بجائے سلیقے اور طریقے سے سمجھائیں تو بھی ان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور مسترد ہو جانے کا خوف دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ مشورہ گھر کی سجاوٹ کے معاملے سے لے کر چھوٹے بہن بھائیوں کی اسکولنگ یا کپڑوں کی خریداری کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر والدین کے لیے اولاد کی تجویز قابلِ قبول نہ ہو تب بھی ان کی بات غور سے سنیں، سراہیں اور مثبت انداز میں اس کے قابلِ عمل نہ ہونے کی وجہ یا جواز بتائیں تو یہ بچے کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ایک خاص عمر سے بچوں سے بات کرنا، مشورہ کرنا یا تجویز لینا شروع کریں، ان کو اہمیت دیں، کپڑوں کی خریداری میں ان کی پسند ناپسند پوچھیں، ان کی بات غور سے سنیں۔ اور پھر اس کے مثبت و منفی پہلو سے آگاہ کریں تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر مشورہ، تجویز قابل عمل نہیں ہوتی جس سے مستقبل میں کسی موڑ پر ناکامی یا مسترد ہونے پر وہ بددل ہونے کے بجائے مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔

ملازمت:

ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنا عملی زندگی میں پہلا قدم رکھنا ہوتا ہے۔ نوکری کے لیے انٹرویوز دینا پڑتے ہیں جہاں انکار اور رد کیا مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ایسا متعدد بار ہو تو آپ ذہنی تناؤ اور مسترد کیے جانے خوف میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں۔ اس موقع پر کڑھنے اور دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے خود پر نظر ڈالیں، اپنی کم زوریوں کا جائزہ لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کو کیوں مسترد کیا گیا۔ ملازمت کے لیے لکھی جانے والی درخواست سے لے کر انٹرویو دینے تک بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ صلاحیت و قابلیت میں کمی سے لے کر اعتماد کا مظاہرہ نہ کرنا بھی رد کیے جانے کا سبب ہو سکتا ہے۔

اگلی بار اپنی ایسی کم زوری، خرابی یا خامی دور کرکے آگے بڑھنے کی تیاری کریں۔ بسا اوقات ملازمت کے دوران ترقی نہ ملنا اور کسی دوسری ساتھی کو اہم عہدے پر فائز کیا جانا بھی تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا آپ اسے بھی خود کو مسترد کیا جانا تصور کریں گی؟ غور کریں تو شاید آپ کی وہ دفتری ساتھی کسی حوالے سے آپ سے بہتر ہوں اور اعلیٰ تعلیمی سند کے ساتھ ساتھ ایسے کورسز بھی کرچکی ہوں جس کی بنیاد پر اس عہدے کے لیے ان کو آپ کے مقابلے میں زیادہ موزوں سمجھا گیا ہو۔ لہٰذا اپنی خامیوں پر بھی نظر رکھیں اور اس کو مثبت انداز سے سوچیں۔ فارغ وقت میں ایسے کورسز کرنے پر توجہ دیں جو ملازمت میں ترقی کا سبب بنیں۔

سوشل میڈیا:

بعض تحقیقی رپورٹوں اور جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹ پر تصاویر یا پوسٹ پر لائک یا کمنٹس نہ آنا بھی نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ وہ اسے نظر انداز کرنا یا مسترد کیا جانا تصور کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی عمل یا سوشل میڈیا کی دنیا میں لوگوں کا ایک خاص قسم کا برتاؤ ہے، لیکن یہ ذات کی نفی کے احساس کو جنم دے کر مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسے اہمیت نہ دیں تو پُرسکون رہیں گی۔

درحقیقت عوامل کچھ بھی ہوں، کسی بھی موقع پر اور کسی بھی حوالے سے رد ہو جانے یا نظر انداز کیے جانے کا احساس ہمیشہ اس خیال کو جنم دیتا ہے کہ دوسرے میرے متعلق منفی سوچ رکھتے ہوں گے۔  میں کچھ نہیں کرسکتی اور اسی قسم کے دوسرے مایوس کن خیالات تنگ کرتے ہیں، لیکن اس کیفیت سے باہر نکلنے کی کوشش اور مثبت سوچ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی صورت میں آپ اچھا محسوس کریں گی۔

اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دیں۔ زندگی کو بامقصد بنائیں، وہ مشغلہ ضرور اپنائیں جو آپ کی خوشی کا باعث ہو۔ اپنی خوبیوں پر نظر رکھیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں اور منفی خیالات کو ذہن میں جگہ نہ دیں۔ یاد رکھیے آپ پہلی عورت نہیں جسے ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ ہر انسان زندگی میں کئی مراحل پر اس قسم کے حالات کا سامنا کرتا ہے۔ مثبت طرز فکر آپ کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہو گا۔

The post وجہ ڈھونڈیں، خامی دور کریں، غلطی سدھاریں appeared first on ایکسپریس اردو.

چُھٹّیاں مناؤ، موج اُڑاؤ؛ کوئی شے بے کار نہیں

$
0
0

السلام علیکم  ڈیئر کرنیں فرینڈز! آپ سب کیسے ہیں؟ چھٹیاں کیسی گزر رہی ہیں؟ امید ہے آپ اور آپ کے دوست، کزنز ہماری تجاویز پر عمل کرکے چھٹیوں سے بھرپور لطف اندوز ہو رہے ہوں گے،  لیکن پھر بھی اکثر اوقات آپ بوریت محسوس کرتے ہوں گے۔  لہٰذا آج ہم اسی بوریت کا حل لائے ہیں۔ بوریت کا اتنا دل چسپ حل ہے کہ آپ اور آپ کے گھر والے سب بے حد خوش ہوجائیں گے۔

گھر میں موجود بے کار اشیا کو کارآمد بنانا ایک ایسا دل چسپ مشغلہ ہے جو آپ کو خوشی اور اطمینان عطا کرے گا۔ آپ اپنے دوستوں اور کزنز کو بھی یہ طریقے بتائیں، تاکہ وہ بھی ان پر عمل کریں اور پھر آپ دیکھیں کہ سب سے اچھی چیز کس نے بنائی ہے؟

اس کے لیے آپ کو گھر میں موجود خالی ڈبے، خالی ٹن، جام جیلی کی خالی بوتلیں، مٹی کے پرانے کھلونے وغیرہ درکار ہوں گے۔ اسی طرح ان کو کارآمد بنانے کے لیے بھی چند ایسی ہی اشیا درکار ہوں گی۔ امی جان سے یہ اشیا لے کر آپ نئی اشیا بنالیں۔

٭جام جیلی کی خالی بوتلیں:

جام جیلی کی خالی بوتلوں پر اگر کوئی لیبل  لگا ہوا ہے تو اسے پانی میں بھگو دیں۔ کچھ دیر بعد یہ لیبل ہٹ جائے تو دھوکر اور  صاف کرکے خشک کرلیں۔ اب اس پر آپ کوئی بھی ڈیزائن یا ڈرائنگ بناسکتے ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کاغذ پر ڈیزائن یا پھول یا کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو وہ لکھ دیں۔ اب اس ڈیزائن یا پھول وغیرہ کو کالے مارکر سے آؤٹ لائن بوتل پر بنالیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ بوتل پر صحیح نہیں بنا پائیں گے تو اس کاغذ کو بوتل کے اندر اس طرح پکڑیں کہ بوتل کی بیرونی سطح پر ڈیزائن نظر آئے۔ اس پر کالے مارکر سے آؤٹ لائن لگاکر اب کاغذ نکال کر آئل پینٹ کو برش کی مدد سے ڈیزائن میں رنگ بھریں۔ کچھ دیر سوکھنے دیں۔ لیجیے تیار ہے۔ اسے آپ کسی کو تحفے میں بھی دے سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ خالی بوتل میں تھوڑا پانی بھریں جس میں منی پلانٹ کی ایک ٹہنی ڈال دیں۔ کچھ دن میں اس ٹہنی پر نئے پتے اگیں گے تو آپ کو بے حد خوشی ہوگی۔

٭پرانی سی ڈی:

پرانی سی ڈی کے کناروں پر گلو لگا کر شیشے کے بڑے موتی چپکا دیں۔ پھر  ان کے اوپر گلو لگا کر مزید موتی چپکالیں۔ اس طرح چار قطاریں بنالیں۔ اب  اسے سوکھنے کے لیے چھوڑ دیں۔ ہاں، اس کے درمیان چھوٹی سی خودکار لائٹ یا بلب یا موم بتی رکھ کر روشن کردیں، بے حد خوب صورت لگے گا۔

٭ٹیشو پیپر رول:

کچن میں خالی ٹیشو پیپر رول ہو تو امی جان سے کہیں کہ اسے پھینکیے گا نہیں۔ آپ اس پر گلو لگاکر کاغذ پر یا کوئی پرانا رومال وغیرہ چپکا دیں۔ کسی پرانی کاپی کا گتا ہو تو اس پر یہ ٹیشو پیپر رول رکھ کر پینسل سے گولائی کا نشان بناکر کاٹ لیں۔ اب اس گول گتے پر کاغذ چپکا کر ٹیشو پیپر رول کے ایک طرف چپکا دیں۔ لیجیے آپ کا پینسل باکس تیار ہے۔ اس پر آپ ربن وغیرہ چپکا کر امی کو بھی گفٹ دے سکتے ہیں،  تاکہ وہ میک اپ کے برشز وغیرہ  اس میں رکھیں۔

٭مٹی کے پرانے کھلونے:

مٹی کے پرانے کھلونے یا مٹی کی خالی مٹکیاں وغیرہ آپ کے پاس ہوں تو ان پر واٹر کلر کردیں اور  سوکھنے دیں۔ اب اس پر اسکواش ٹیپ تھوڑے تھوڑے فاصلے سے یا کسی بھی ڈیزائن میں چپکا دیں۔ اب کوئی اور رنگ لیں جس کا امتزاج پہلے کیے گئے رنگ کے ساتھ خوب صورت محسوس ہو تو وہ رنگ پورے کھلونے یا مٹکی وغیرہ پر کردیں اور  سوکھنے دیں۔ پھر ٹیپ اتار دیں تو بہت خوب صورت ڈیزائن محسوس ہوگا اور یوں  لگے گا جیسے  آپ نے دو رنگوں سے کلر کیا ہے۔ اب اس پر چھوٹے موتی اور چھوٹے شیشے گلو کی مدد سے چپکا دیں۔ خوب صورت شوپیس تیار ہے۔

٭جوتے کے خالی ڈبے:

جوتے کے خالی ڈبے پر گفٹ پیپر یا سادہ رنگ دار کاغذ چپکا کر ڈھکن پر بھی چپکالیں۔ اب اس کے اندر خانے بنانے کے لیے کسی پرانی کاپی یا جرنل کا گتا اس کے سائز کا کاٹ کر اس پر بھی کاغذ چپکالیں اور اس کو اس ڈبے کے اندر گلو کی مدد سے چپکادیں۔ اس طرح مختلف اشیا رکھی جاسکتی ہیں مثلاً پینسلیں، مارکر، پنیں، پونیاں وغیرہ یا باجی کو گفٹ دے دیں، تاکہ وہ اپنی سلائی کا سامان اس میں رکھ دیں۔

٭آئس کریم اسٹک:

آئس کریم کھانے کے بعد آئس کریم اسٹک کو نہ پھینکیں۔ دھو کر دھوپ میں سکھا لیں۔ پھر کسی بوتل یا پلاسٹک کے ڈسپوزایبل گلاس پر گلو کی مدد سے چپکا کر سوکھنے دیں۔ پھر اس پر ربن اور موتی چپکالیں۔ یہ پیس آپ ڈرائنگ روم میں رکھ کر اس میں چند پھول بھی سجا سکتے ہیں اور عید پر دوستوں اور  سہیلیوں کو گفٹ میں بھی دے سکتی ہیں۔

دوستو! آپ کو یہ آئیڈیاز کیسے لگے؟ آپ خود بھی سوچیں گے تو بہت سے نئے آئیڈیاز آپ کو ملیں گے۔ آپ نے کیا کیا بنایا؟ اور سب نے کتنا پسند کیا؟ یہ بتانا نہ بھولیے گا، ہمیں آپ کی آرا کا انتظار رہے گا۔

The post چُھٹّیاں مناؤ، موج اُڑاؤ؛ کوئی شے بے کار نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


میں اس کو چھوڑ رہا ہوں یہ کام ٹھیک نہیں
معاف کرنے کے بعد انتقام ٹھیک نہیں
مرے قریب نہ آ مجھ سے استفادہ کر
دیے سے اتنی دعا و سلام ٹھیک نہیں
ہوس میں عشق ملانا گنہ سمجھتا ہوں
فروخت دودھ ہو پانی کے دام ٹھیک نہیں
ہم اپنے فون کو چومیں گے کب تلک آخر
خیال و خواب کی حد تک کلام ٹھیک نہیں
گزر رہا ہوں تو روکو نہ راستہ میرا
کھلی سڑک پہ ٹریفک ہو جام ٹھیک نہیں
نہ کارِ عشق نہ کارِ جہاں نہ کارِ ثواب
یہاں ہمارے لیے کوئی کام ٹھیک نہیں
میں آفتاب مسلسل ہی جل رہا ہوں دیکھ
نہ میرے نام پہ رکھنا، یہ نام ٹھیک نہیں
ترے مکان کا ملبہ اٹھا نہ لیں عارضؔ
گلی میں لوگوں کا یہ اژدہام ٹھیک نہیں
(آفتاب عارض۔ ملتان)

۔۔۔
غزل


جب پرندوں کے پَر نکلتے ہیں
ان کے سینوں سے ڈر نکلتے ہیں
کاٹ دیتے ہیں کاٹنے والے
جونہی شاخوں سے سَر نکلتے ہیں
میری آہ و فغاں مرے نالے
ہو کے اشکوں سے تَر نکلتے ہیں
ایک تاریک دشت کی جانب
کچھ مکانوں کے در نکلتے ہیں
پھر کہیں کے بھی ہم نہیں رہتے
تیرے کوچے سے گر نکلتے ہیں
اس زمیں کو نہ روند کر گزرو
اس زمیں سے گہر نکلتے ہیں
(صدام فدا۔ واہ کینٹ)

۔۔۔
غزل


ایک سے ایک حویلی کا بڑا دروازہ
ایک کھلتا تو نظر آتا نیا دروازہ
جانے کیونکر نہیں جاتی ہے صدا اس جانب
بند کرتا بھی نہیں میرا خدا دروازہ
کھل گئی آنکھ حسیں خواب مکمل نہ ہوا
رات اس زور سے آندھی میں بجا دروازہ
ہم ہی محبوس رہے فکر کے زندانوں میں
ہر نئی سوچ کا خود بند کیا دروازہ
کس نئی بحث میں احباب الجھ بیٹھے ہیں
پہلے دیوار بنی یا کہ بنا دروازہ
جو بھی اترا ترے آنگن میں، کہیں جا نہ سکا
میں تو میں بھول گئی موجِ صبا دروازہ
ہم نے دشمن کے ارادوں کو پسِ پشت رکھا
حبس اتنا تھاکہ بس کھول دیا دروازہ
عمر بھر جیسے مرے ساتھ رہیںدیواریں
دائم ایسے ہی تو ہمراہ چلا دروازہ
بس اسی بات پہ ٹھہرائے گئے ہیں باغی
چار دیواری میں کیوں ڈھونڈا گیا دروازہ
اسی کمرے میں مقید ہوں ابھی تک جاذبؔ
جہاں بچپن پہ جوانی کا کھلا دروازہ
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


سب اندھیروں کو مٹا دینے کی راہیں نکلیں
اک دیا میں نے جلایا کئی شمعیں نکلیں
بد قماش اب نہیں رہ سکتے بدل کر بہروپ
باہر اب عرصۂ ظلمات سے نسلیں نکلیں
سوچتے سوچتے اک شخص نمودار ہوا
دیکھتے دیکھتے دیوار سے آنکھیں نکلیں
زندگی سر بہ کفن پھرتی ہے گلیوں گلیوں
قبروں سے لوگ کہ لوگوں سے یہ قبریں نکلیں
علم والوں نے تو بے علموں کو الجھا ہی دیا
ایک اک نکتے سے سو طرح کی شرحیں نکلیں
بچ گئے سارے مکیں زندہ سلامت فرخ ؔ
گھر کے ملبے سے مگر خوابوں کی لاشیں نکلیں
(سید فرخ علی جواد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


شکست خوردگی کے بعد حوصلہ نہیں ہوا
جو چوکا پہلا وار ہی تو دوسرا نہیں ہوا
کہا ہوا، سنا ہوا، لکھا ہوا نہیں ہوا
ہمارے حق میں تو کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا
قدم ثقیل ہوگئے طویل راہ ہو گئی
ملال تھا کمال پر وصال تھا! نہیں ہوا
تمام دل کے پارچے بکھر چکے زمین پر
حساب رکھنے والے کا محاسبہ نہیں ہوا
پلٹ گئے تماش بیں، گئی وہ شعبدہ گری
تھی گنگ وہ زبان جب کہا ہوا نہیں ہوا
ہوئی بلند اک صدا کہ اب کرو وہ ’’دوسرا‘‘
نگاہ ناز یافتہ وہ ’’دوسرا‘‘ نہیں ہوا
تمہارے نقش پا پہ میں جو چل رہا ہوں دیر سے
میں ختم ہو رہا تو ہوں پہ راستہ نہیں ہوا
(ابو لویزا علی۔کراچی)

۔۔۔
’’وحشت‘‘


شام بیٹھی ہوئی ہے حجرے میں
رات کہتی ہے کچھ اجالے دو
اور سویرے کا سرد چہرہ ہے
عکس ڈھلتا ہے زرد سورج کا
اک گھنے پیڑ میں نکلتا دن
چھپ رہا ہے سیاہ آنکھوں میں
دور تک روشنی کا نام نہیں
اور وہ دیکھو کہ ایک پگلی نے
طاق میں پھر دیا جلایا ہے
چاند کہتا ہے جھیل میں اترو
اک ذرا دیر ہمنشیں ٹھہرو
مجھ سے باتیں کرو کہ وحشت نے
شہر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں
شب کو ڈھلنے سے روک رکھا ہے
دن نکلنے سے روک رکھا ہے
(سارا خان۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


پہلے تو درد کا احساس دلایا جائے
پھر کہیں جا کے نیا زخم لگایا جائے
جس کے فن پر مجھے لکھنے کا ابھی حکم ملا
اس کے بارے مجھے تھوڑا سا بتایا جائے
میں تو مدت سے مقید ہوں نہاں خانے میں
حاکمِ وقت مجھے شہر پھرایا جائے
اب تو یہ چاند ترے حسن پہ اترانے لگا ہے
رخ پہ زلفوں کو مری جان گرایا جائے
اپنے سینے میں جو رکھتاہے ارے سنگ اسے
اشک پانی میں ملا کر ہی پلایا جائے
اس سے پہلے کہ وہ نوخیرکہیں عشق کرے
اس کو پڑھ کر مرا انجام سنایا جائے
تیرگی ختم کر ے اور ضیا دان کرے
دیپ ایسا بھی زمانے میں جلا یا جائے
آدھا دامن تو دریدہ ہے مسافر کا سحرؔ
تیر اب اور نہ اس سمت چلایا جائے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال )

۔۔۔
’’پچھتاوا‘‘


کسی کو چاہتا تھا میں
محبت بانٹتا تھا میں
مجھے بھی چاہتی تھی وہ
محبت بانٹتی تھی وہ
دعا سجدوں میں کرتی تھی
بہت وہ مجھ پہ مرتی تھی
مگر دنیا سے ڈرتی تھی
کہیں چھپ چھپ کے روتی تھی
اسے تھی فکر دنیا کی
مجھے بھی فکر اس کی تھی
اسے ماں باپ رکھنے تھے
بڑے ہی نیک سپنے تھے
اسے معلوم تھا سارا
نہیں مانے گا گھر اس کا
مگر وہ پھر بھی کر بیٹھی
محبت دل میں بھر بیٹھی
بہت غمگین رہتی ہے
سسکتی ہے تڑپتی ہے
تڑپ کے یہ ہی کہتی ہے
محبت کی ہی کیوں میں نے
میں نے دیکھے ہی کیوں سپنے
بزرگوں کی انا رکھ لی
محبت ختم کر ڈالی
بنا سوچے بنا سمجھے
بنا پرکھے بنا دیکھے
کہانی موڑ دی اس نے
محبت چھوڑ دی اس نے
کسی کی ہو گئی ہے وہ
عجب سی ہو گئی ہے وہ
بہت افسردہ رہتی ہے
یہی اک بات کہتی ہے
خسارہ کر لیا میں نے
خدا کیا کر لیا میں نے
جسے دن رات چاہا تھا
جسے اپنا پنایا تھا
اسی کو چھوڑ بیٹھی ہوں
میں خود کو توڑ بیٹھی ہوں
(سلمان منیر خاور۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


رقیبوں کے دل کو جلاؤ تو جانیں
ہمیں اپنا کہہ کر بلاؤ تو جانیں
نگاہیں ملا کر نگاہوں سے جاناں
شرابِ محبت پلاؤ تو جانیں
بنے پھر رہے ہو طبیبِ زمانہ
مرا روگِ دل بھی مٹاؤ تو جانیں
ملیں گے زمانے میں یوں تو ہزاروں
جو ہم سا کہیں ڈھونڈ پاؤ تو جانیں
مٹا کر دلوں سے یہ نفرت اسد تم
محبت کا نغمہ سناؤ تو جانیں
(زین اسد ساغر۔ شیخوپورہ)

۔۔۔
غزل


سکوں کو چھوڑ کے غم بے حساب لاتا ہوں
سہانے خواب بھی سارے خراب لاتا ہوں
جو تم نے توڑے پرانے تھے سارے کے سارے
ذرا رکو، نیا کوئی میں خواب لاتا ہوں
مکان نہر کنارے تمہیں مبارک ہو
میں کم سہی، مگر آپ اپنا آب لاتا ہوں
وہ بولے مجھ سے محبت گناہ تھی، سو میں
انہیں لٹانے کو، اپنے ثواب لاتا ہوں
کہانی مجھ کو سناؤ نہ اور لوگوں کی
میں اپنے واسطے اپنی کتاب لاتا ہوں
تمہارے ہر گِلے کا، ہر سوال کا سالِم
تُو میرے دل سے گر اترے جواب لاتا ہوں
(سالِم احسان۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


راہ پر دید رہی دید ہٹائی بھی نہیں
چاند دیکھا جو نہیں عید منائی بھی نہیں
کوئی پازیب نہ گجرا نہ کوئی ہار سنگھار
دیکھ لے آ کے میرے ہاتھ حنائی بھی نہیں
جو تیرے ساتھ خوشی عید سے بڑھ کر تھی مجھے
لوٹ کر پھر وہ خوشی ہاتھ میں آئی بھی نہیں
تم نے دیکھے ہیں میری آنکھ کے آنسو جاناں
دل کی دھڑکن تو ابھی تم کو سنائی بھی نہیں
جس کی آنکھوں میں کسی اور کا چہرہ تھا نویدؔ
آنکھ اس شخص سے پھر ہم نے ملائی بھی نہیں
(نوید انجم۔ احمد پور سیال، ضلع جھنگ)

۔۔۔
غزل
شش جہت شمس فروزاں سے نہ باہر نکلی
روشنی اس کے گریباں سے نہ باہر نکلی
ساز آواز کی وحشت سے لپٹ کر رویا
خامشی دل کے بیاباں سے نہ باہر نکلی
جب بھی ہونٹوں پہ مرے آئی محبت کی صدا
روح کی خوئے گریزاں سے، نہ باہر نکلی
عرصۂ ہجر میں رونے کے لیے ایک بھی آنکھ
بستیِ چشم فروشاں سے نہ باہر نکلی
نظم کو درد کے رستے میں نکلنا پڑا ہے
جب غزل جشن بہاراں سے نہ باہر نکلی
منصب قیس وراثت میں نہیں مل سکتا
لیلیٔ ہجر مزاراں سے نہ باہر نکلی
(عاجزکمال، جوہر آباد۔ خوشاب)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

 

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

سیٹینل دی لاس بودیگاس

$
0
0

یہ ہے اسپین کا ایک ایسا علاقہ جہاں ایسے عجیب اور غریب پہاڑوں کے نیچے ایسے ایسے گھر دکھائی دیتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ان میں رہنے کا تو خیال آہی نہیں سکتا البتہ انہیں دیکھ کر ایسا ضرور لگتا ہے جیسے اگر ان میں رہنے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش میں رہنے والا دم گُھٹ کر مرجائے گا۔اسپین میں قدم قدم پر عجائبات آپ کو حیران کرنے کے لیے موجود ہوں گے۔

اسپین میں جہاں آپ کو بے شمار عجائبات ملیں گے، وہیں آپ کو  نہایت حیرت انگیز اور قدیم شہر Setenil de las Bodegas  بھی آپ کو چونکا دے گا جہاں ایک چٹان کے نیچے ایک دو نہیں پورے 3000 نفوس بڑے اطمینان سے رہائش پذیر ہیں۔ آپ اس بات پر یقین کریں یا نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اکثر لوگ اس علاقے میں رہنے کو اپنی مرضی سے ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ وہ قدرتی عجائبات کے رسیا ہیں اور ان کے لیے یہ تاریخی شہر اپنے اندر بے حد کشش رکھتا ہے، کیوں کہ یہ دنیا کا ایسا واحد اور منفرد مقام ہے جہاں رہنے کے لیے آپ کو کچھ تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ اس کی قدرتی اور قدیم پہاڑیاں جو دیکھنے میں ایسی لگتی ہیں جیسے سروں پر گرنے والی ہیں، ان میں سے اچھا خاصا حصہ انہیں قدرتی طور پر تعمیر شدہ ہی مل جاتا ہے۔ ان حیرت انگیز مکانوں کو تعمیر کرنے کے لیے نہ تو آپ کو چھت کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی دیواروں کی، البتہ تھوڑا بہت تعمیراتی کام کرانا ہوگا یا اس میں معمولی سی ترمیم کرنی ہوگی، باقی سب بنا بنایا مل جائے اور نہایت کم وقت میں گھر تیار ہوجائے گا۔

پھر ان پہاڑی چھجوں نے ان مکانوں کو گرمی، سردی، بارش اور برف باری سے ایسا تحفظ فراہم کررکھا ہے کہ اگر یہی مکان کہیں اور تعمیر کیے جاتے تو موسموں سے بچاؤ کے لیے انہیں کافی کام کرانا پڑتا، گرمی سردی اور برف باری کے ساتھ ساتھ بارش سے بچاؤ کے لیے بھی خصوصی انتظام کرنا پڑتا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ آج سے نہیں بلکہ قبل از تاریخ سے رہ رہے ہیں اور یہ جگہ ان کی پسندیدہ رہائشی جگہ ہے جہاں سے وہ نہ کہیں جانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی جگہ کسی اور علاقے یا جگہ کو ترجیح دیتے ہیں۔

جنوب مغربی اسپین میں Cádiz کے صوبے میں واقع یہ قدیم ساحلی شہر جو بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر اپنے عجیب و غریب بلند پہاڑی گھروں، رہائش گاہوں اور پہاڑی عمارتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت مشہور اور معروف ہے، کیوں کہ اس کے گھر، اس کی بستیاں اور عمارتیں ان پہاڑی کناروں اور کونوں پر آگے کو نکلی ہوئی معلق چٹانوں یا پہاڑیوں کے چھجوں پر واقع ہیں۔ یہ انوکھی پہاڑی بستیاںاسی کے اوپر معلق ہیں۔ یہاں کی 2005 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی لگ بھگ 3,016 نفوس پر مشتمل ہے۔ Setenil de las Bodegas نامی یہ چھوٹا سا شہر Cádiz کے شمال مشرق میں 157 کلومیٹر یا 98 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر کی  علیحدہ اور جداگانہ طرز تعمیر ایسی ہے جو ایک تنگ اور پتلے دریائی گڑھے کے ساتھ بنی ہوئی ہے۔ یہ شہر Rio Trejo کے ساتھ ساتھ دور تک پھیلا ہوا ہے جس کے ساتھ ساتھ کچھ مکان دریائی گڑھے کی  چٹانی دیواروں یا فصیلوں پر بھی تعمیر کیے گئے ہیں جس سے ایک جانب تو قدرتی غاروں کو وسعت مل گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اوپر معلق گھروں کی تعمیر نے بھی ان میں ایک عجیب و غریب حُسن پیدا کردیا ہے جس کے نتیجے میں ایک قدرتی بیرونی دیوار یا فصیل بھی وجود میں آگئی ہے۔

Setenil نامی یہ شہر دنیا کا وہ انوکھا شہر ہے جو گوشت کی پیداوار کے حوالے سے بڑی شہرت کا حامل ہے، اس شہر کی تیار کردہ نہایت نفیس اور عمدہ پیسٹریاں بھی ساری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں اور بڑی رغبت اور چاؤ سے کھائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے چائے خانے بھی بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے مضافاتی علاقوں میں واقع کھیت کھلیان اور باغات تازہ پھلوں اور قسم قسم کی سبزیوں کی فراہمی کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں جن سے مقامی ضروریات بہت آسانی سے پوری کرلی جاتی ہیں۔

دورجدید کا Setenil  نامی یہ شہر اصل میں ایک قدیم محصور اور محفوظ اسپینی شہر کے طرز پر بنایا گیا ہے، یہ شہر قدیم اسپینی شہر Rio Trejo کی طرز تعمیر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا جو ایک بلند و بالا پہاڑ کے اوپر آباد تھا اور وہاں سے یہ شہر نیچے کے پورے علاقے کی نگرانی بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے ساری دنیا کو یہ بھی بتاتا ہے کہ میں اس پورے علاقے کا محافظ اور نگران ہوں، کس کی مجال ہے کہ وہ میرے خطے کی طرف اور میرے رہنے والے امن پسند مکینوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ سکے۔  واضح رہے کہ Rio Trejo نامی یہ قدیم شہر رونڈا کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ اصل میں ایک مضبوط اور محفوظ پہاڑی قلعہ ہے جو اصل میں یہاں کا حفاظتی قلعہ یا نگرانی کرنے والی چوکی ہے، اس کا تعلق بارھویں صدی کے Almohad دور سے تھا۔اس جگہ کو یقینی طور پر رومی دور کے حملے کے وقت یعنی پہلی صدی عیسوی میں قبضے میں لیا گیا تھا۔ کسی زمانے میں Setenil کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ رومی شہر Laccipo کا successor یا جانشین تھا۔

لیکن بعد کے شواہد اور آثار سے یہ ثابت ہوگیا کہLaccipo اصل میں Malaga سیزر کا شہر بن گیا تھا۔ اس شہر کے قریب اور اطراف میں ان معاشروں کی آبادی کے شواہد بھی ملتے ہیں جو کسی دور میں غاروں کو اپنے مسکن بنایا کرتے تھے۔ غاروں میں رہائش پذیر ان سوسائیٹیوں میں Cueva de la Pileta نامی سوسائٹی بھی شامل ہے جو دور قدیم میں رونڈا کے مغرب میں آباد تھی۔ اس خطے میں آبادیوں اور بستیوں کے آثار بتاتے ہیں کہ یہاں انسانی آبادیاں کم و بیش 25,000 برسوں سے بھی پہلے ہوا کرتی تھیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اور بھی زیادہ عرصہ پہلے یہاں پائی جاتی ہوں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ چوں کہ اس قدیم ارضی خطے میں انسانی آبادی مسلسل جاری رہی اس لیے یہاں سے پچھلی آبادیوں کے شواہد اور ثبوت خود بہ خود مٹتے چلے گئے۔

یہاں کی جانے والی ریسرچ اور تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اس شہر کا قشتالی نام ایک رومی لاطینی فقرے septem nihil  سے بنا تھا جس کا مطلب تھا: سات بار کچھ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں چوں کہ سات بار اسپینیوں نے حملہ کیا تھا مگر یہاں کے عیسائیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور سات حملوں کے بعد ہی یہ شہر ان کے قبضے میں جاسکا تھا۔ اسپینیوں نے جب مسلسل اس شہر کا محاصرہ جاری رکھا تو آخر انہیں فتح مل گئی۔ 1484 میں جب عیسائی افواج نے اسپینی حملہ آوروں کو اپنے شہر سے واپس دھکیلا تو Setenil آخر کار چھڑا لیا گیا۔عیسائی افواج نے صرف پندرہ دنوں میں بارود سے مسلح توپ خانے کی مدد سے اس قلعے پر قبضہ کرلیا جس کے کھنڈرات آج بھی ماضی کی داستان بڑی شان و شوکت کے ساتھ سنارہے ہیں۔

Satanic نامی اس شہر کی اسٹریٹیجک اہمیت کے باعث اس فتح کا جشن بڑے پیمانے پر پورے قلعے میں منایا گیا تھا اور اس حوالے سے اس دور کی معروف تاریخی اور لوک کہانیاں آج بھی اس خطے میں بڑے شوق سے سنائی جاتی ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی  Isabella I کا اسی محاصرے کے دوران حمل ساقط ہوگیا تھا، چناں چہ ضائع ہونے والے بچے کی یاد میں اس جگہ ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی تھی جسے Sebastian کا نام دیا گیا تھا تاہم تاریخ میں اس واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ماضی بعید کا یہ شہر آج بھی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنے انوکھے طرز تعمیر کی وجہ سے اپنی طرف مائل کرنے میں کام یاب ہے۔

The post سیٹینل دی لاس بودیگاس appeared first on ایکسپریس اردو.


زہر کی تجارت کرنے والا بھارتی قبیلہ

$
0
0

کبھی آپ کا گزر کسی کچی بستی سے ہوا ہے؟ یقیناً آپ نے سیکڑوں کچی بستیاں دیکھی ہوں گی۔ اور آپ اپنے تخیل کی مدد سے اپنے ذہن میں وہاں کے مختلف مناظر تازہ بھی کرسکتے ہیں۔

آپ کے دماغ کی اسکرین پر اُبھرتی تصویروں میں جھونپڑیاں، ان کے باہر رکھی چارپائیاں، ذرا فاصلے پر بیٹھ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی ہوئی عورتیں، ننگے پائوں اور بعض ننگے بدن بچے بھی پھٹے ہوئے اور گندے کپڑے پہنے کھیل کُود میں مگن نظر آرہے ہوں گے۔ کہیں چائے پیتے اور حلقۂ یاراں میں سستے سگریٹ کا دھواں اڑاتے بوڑھوں کے ساتھ چند بے فکرے جوانوں کی اپنے ہم خیالوں سے سنگت کا عکس بھی نمایاں ہُوا ہوگا۔ اس کے ساتھ آپ بے ترتیب گلیوں، اونچے نیچے راستوں پر گندے پانی اور غلاظت کے ساتھ بے شمار مکھیاں، اور کتے، بلیاں بھی دیکھ رہے ہوں گے، جن کے آوارہ اور پالتو ہونے میں تمیز مشکل ہوتی ہے۔

آپ کا یہ تصور یقیناً درست ہے، لیکن اس میں ’سانپ‘ کو بھی شامل کر لیجیے۔ سپیروں یا جوگیوں کا کردار ہمیشہ ہی سے پُراسرار رہا ہے، ان جوگیوں کی روزی روٹی کا دارومدار ہی سانپوں کو پکڑنے اور گلی محلوں میں تماشا دکھانے پر ہوتا ہے۔ زہریلے سانپوں کے ساتھ شب و روز بسر کرنے والے یہ جوگی سانپ کے زہر کا تریاق کسی دوائی یا جڑی بوٹی سے نہیں بلکہ ’’سانپ کے منکے‘‘ سے کرتے ہیں۔ کچھ جوگی زہریلے سانپوں کا زہر نکالنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ عموماً کسی بھی سانپ کو قابو میں کرنے کے لیے بین استعمال کی جاتی ہے، جس کو بجانا بھی ایک فن سمجھا جاتا ہے، بین کی سُریلی آواز سے سانپ بے اختیار ہوکر جھومنے لگتا ہے اور سپیرا اس موقع کا فائدہ اْٹھا کر اْس کو پکڑ لیتا ہے۔ بعض سپیرے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھا کر روزی کماتے ہیں۔ خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے والے یہ سپیرے ہماری ثقافت اور تہذیب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

بھارت ریا ست تامل ناڈو میں صدیوں پرانے قبیلے ارولا کے ارکان کا کام بھی سپیروں کی طرح سانپ پکڑنا ہی ہے، لیکن وہ ان سانپوں کو بین بجا کر انسانوں کے سامنے جھومنے پر مجبور نہیں کرتے، وہ تفریح طبع کی خاطر ان سانپوں کو نیولے سے لڑا کر چند کھنکتے سکے جمع نہیں کرتے۔ ارولا قبیلے کے یہ لوگ ان سانپوں کی جان لیے بنا انسانوں کی زندگی بچا نے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس راز کو جاننے کے لیے ہمیں اس قدیم قبیلے کے پس منظر میں جانا ہوگا۔ بھارتی شہر چنائے کے مضافات میں واقع ساحلی گائوں ودانیملی میں کاروبار زندگی کا آغاز ہوچکا ہے۔ خلیج بنگال کاپانی سورج کی کرنوں کی وجہ سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے۔ ساحل کے قریب ہی راجیندرا نامی شخص ایک پٹاری کاندھے سے لٹکائے زمین پر کچھ تلاش کر رہا ہے۔ راجیندرا کا تعلق ارولا قبیلے سے ہے، یہ انڈیا کی قدیم ترین کمیونیٹیز میں سے ایک ہے، جو ریاست تامل ناڈو کی شمال مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ زمانہ قدیم سے رہائش پذیر ہیں۔

اس قبیلے کے باشندوں کی شناخت سانپوں کے متعلق بے پناہ معلومات اور مہارت ہے۔ اس گائوں کو غیرمرئی طور پر بھارت کے صحت عامہ کے نظام میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔ راجنیدرا کا روزگار بھی انہی خطرناک زہریلے سانپوں سے وابستہ ہے۔ انہی سانپوں کے ساتھ کھیل کر جوان ہونے والے راجیندرا کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ سانپوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سانپ کو صرف اپنے تحفظ سے دل چسپی ہوتی ہے اور اگر اسے آپ سے خطرہ محسوس نہیں ہوگا تو وہ کبھی آپ پر حملہ نہیں کرے گا۔ ہماری ہل چل کو سانپ اپنے لیے خطرہ محسوس کرکے حملہ کرسکتا ہے۔ راجیندرا اور گائوں کے بہت سے افراد کا ذریعہ معاش یہی زہریلے سانپ ہیں، یہ لوگ کوبرا اور اس طرح کے دیگر زہریلے سانپوں کو ’ارولا اسنیک کیچر انڈسٹریل کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی‘ میں واقع دفاتر میں لے جا کر ان کا زہر فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ 1978میں قائم ہونے والی اس صنعتی سوسائٹی میں پکڑے گئے سانپوں کا زہر کشید کرنے کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

بھارت میں ہر سال 50 ہزار افراد سانپ کے کاٹنے سے جاں بحق ہوجاتے ہیں، انڈیا میں چھے بڑی ادویہ ساز کمپنیاں سالانہ15لاکھ سانپ کے تریاق کے انجکشن تیار کرتی ہیں، ان انجکشنوں کی اکثریت میں تریاق کے طور پر استعمال کیا گیا زہر ارولا قبائلیوں کے پکڑے گئے سانپوں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ گھانس پھونس سے بنے سانپ کا زہر کشید کرنے والے مراکز میں سے ایک ہے، نشیب میں بنے اس مرکز میں دیواروں کے ساتھ سانپوں کو رکھنے کے لیے مٹی کے مرتبان اور درمیان میں ایک سیاہ تختہ رکھا ہوا ہے، جس میں اس مرکز میں آنے والے سانپوں کی تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ سانپ کو اس مٹی کے مرتبان میں ڈالنے سے پہلے اس میں مٹی بھری جاتی ہے، اس کے بعد سانپ کو اس میں ڈال کر اس مرتبان کا منہ ایک جالی دار کپڑے سے اچھی طرح بند کردیا جاتا ہے کہ ہوا اندر جاتی رہے اور سانپ باہر نہ نکل سکے۔ ایک مرتبان میں دو سانپ رکھے جاتے ہیں۔ ان مراکز میں ایک وقت میں 800 سانپوں کو رکھنے کا لائسنس ہے۔

یہاں ہر سانپ کو 21دن رکھ کر چار مرتبہ اس کا زہر کشید کیا جاتا ہے۔ ان سانپوں سے زہر کشید کرنے کے بعد انہیں واپس جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن انہیں آزاد کرنے سے پہلے ان کے پیٹ پر ایک نشان لگادیا جاتا ہے تاکہ ایک ہی سانپ کو بار بار نہ پکڑا جائے۔ یہ نشان چند مرتبہ کینچلی بدلنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ بچپن سے ہی جنگلوں، ویرانوں میں سانپوں کے ساتھ وقت گزارنے والے راجیندرا کے لیے دنیا کا زہریلا ترین سانپ بھی ایک پالتو جانور کی طرح ہی ہے۔

اس بابت راجیندرا کا کہنا ہے کہ دس سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی میں سیکڑوں سانپ پکڑ چکا تھا۔ روایتی سپیروں کے برعکس ارولا قبیلے کے لوگوں کا سانپ پکڑنے کا طریقہ قدرے مختلف ہے۔ اس سارے کام میں ’خاموشی‘ اولین شرط ہے۔ یہ جبلی طور پر اس بات کی اہمیت سے واقف ہیں اسی لیے گروپ کی شکل میں یہ دبے پائوں کوئی آواز نکالے بنا اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے اپنے کوڈ ورڈ ہیں۔ ارولا کمیونٹی کا نسب اور سانپوں کے ساتھ اُن کا باہمی تعلق پُراسراریت کی دبیز تہہ تلے دبا ہوا ہے، لیکن ان کی اساطیر مقامی روایات اور اس خطے کی بولی کا امتزاج ہے۔ ان کی مرکزی دیوی کا نام ’کانی اماں‘ ہے جس کا گہرا ربط کوبرا سانپ سے ہے۔ اس دیوی کی عبادت میں ان کے مذہبی پیشوا وجد کی کیفیت میں آکر سانپ کی طرح پھنکارتے ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط تک ہزاروں ارولاز کا ذریعہ معاش کھال کے لیے سانپوں کا شکار کرنا تھا، لیکن اپنی دیوی کی تعظیم میں وہ سانپوں کا گوشت نہیں کھاتے۔ مقامی دباغ (چمڑا رنگنے والے) انہیں ایک سانپ کی کھال کے دس سے پچاس روپے تک ادا کرتے تھے، اور پھر کھالوں کو پراسیس کرکے امریکا اور یورپ برآمد کردیا جاتا تھا، جہاں کی فیشن انڈسٹری میں سانپ کی کھال کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ 1972میں انڈیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون بنا کر جانوروں بہ شمول سانپوں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔ پچاس سال سے ارولاز کے ساتھ کام کرنے والے ماہرحشریات اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی رومو لس وائٹکر کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون نے اس قبیلے کو معاشی طور پر بہت کم زور کردیا تھا۔

سانپ کی کھالوں کی فروخت سے ملنے والی معمولی رقم بہت سے ارولاخاندانوں کی ماہانہ آمدن کا بڑا حصہ تھی، یوں سمجھ لیں کہ ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔ کوآپریٹیو سوسائٹی کا قیام ان کے معاشی حالات میں بہتری کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اگرچہ اس سوسائٹی نے ان کی آبادی کے ایک فی صد سے بھی کم لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے، لیکن اس سے کم از کم ان کی سانپ پکڑنے کی مہارت کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اور مقامی سرکاری حکام انہیں شکاری تصور کرتے ہیں، تاہم اس خطے کی دوسری کمیونیٹیز میں انہیں شک کی دیکھا جاتا ہے اور سانپوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ تعصب بھی برتا جاتا ہے۔ انہیں توہین آمیز ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے، اور پیسوں کے لین دین میں ان کے ساتھ اکثر دھوکادہی کی جاتی ہے۔

شرح خواندگی بہت کم ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کے بہت سے مرد و خواتین چاول کی ملوں میں جبری مشقت کرتے ہیں۔ سانپوں کے بارے میں معلومات کی بنا پر اس قبیلے کے دو افراد کو فلوریڈا فش اینڈ وائلڈ لائف کنزرویشن کمیشن کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔ میسی اور ویدویل نامی ان دونوں افراد نے فلوریڈا کا دورہ کیا، جس کا مقصد ایور گلیڈیز نیشنل پارک میں موجود برمی نسل کے اژدہوں کو درپیش مسائل میں کمی کے لیے شروع کیے گئے ایک پراجیکٹ میں حصہ لینا تھا۔ ان اژدہوں کی بڑے پیمانے پر بڑھتی ہوئی آبادی سے اس نیشنل پارک میں چھوٹے ممالیہ جانوروں کی آبادی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ دو ماہ کے عرصے میں میسی اور ویدویل نے 34 اژدہوں کو پکڑ لیا، جب کہ ان اژدہوں کو تربیت یافتہ کتے اور امریکی شکاری بھی پکڑنے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آباد کاری آہستہ آہستہ دنیا کے قدیم ترین قبائل میں سے ایک ارولا کو بھی نگل رہی ہے۔

حال ہی میں عالمی ادارہ برائے صحت نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کے جن سانپوں کا زہر حاصل کیا جائے انہیں مکمل طور پر قید رکھنا لازمی ہے، ڈبلیو ایچ او کی اس تجویز سے جنگلی سانپ پکڑنے والے ارولاز کی طلب کم ہوسکتی ہے۔ جیتندرا، میسی اور ویدیویل شاید سانپوں کو سمجھنے والی ارولاز کی آخری نسل ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ارولا بچوں کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے سانپ پکڑنے کے روایتی ہنر کے بجائے کسی نہ کسی طرح بھارتی معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ اب بہت سے بچوں جنگلوں میں اپنے والدین کے ساتھ سانپ پکڑنے کے بجائے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، اور ان کی نوجوان نسل کی اکثریت کو اب سانپوں سے خوف آتا ہے۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے اور نسلی امتیاز کی وجہ سے انڈیا کا صدیوں پرانا اساطیری روایات کا حامل قبیلہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

٭ سانپ کے زہر کی اثرپذیری
مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہو جاتا ہے۔
کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

٭سانپوں سے متعلق اساطیر اور چند حقائق
سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر اس خطّے میں نمایاں ہے۔ سانپوں سے جڑی اساطیر کی اثرانگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریعُ الاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارومدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔ ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔

بعض ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بُو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔ سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔ زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سے جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

٭سانپوں سے بچنے کا طریقہ
سانپوں کے زندگی بسر کرنے والے جوگیوں کے مطابق جس جگہ سانپ کی موجودگی کے امکانات ہوں، وہاں زمین پر اپنا پائوں زور سے رکھتے ہوئے چلنا چاہیے، کیوں کہ سانپ معمولی ترین ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارتعاش محسوس کرکے ہی وہ اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس سانپ پکڑنے والے ایسی جگہوں پر بہت آہستگی سے اپنے قدم زمین پر رکھتے ہیں۔ ایک ہی نسل کے سانپ کا زہر اور ڈسنے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔

اِس کا انحصار اُن کی خوراک اور ماحول پر ہوتا ہے۔ ریگستانی یا پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے سانپوں میں زہر کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ سانپوں کے بادشاہ کو بلیک کوبرا کہا جاتا ہے، جس کی عمر سو سال ہوجانے کے بعد وہ نہ صرف اپنا رنگ بلکہ حلیہ بھی تبدیل کرسکتا ہے اور یہ بہت مشہور بات ہے۔ کافی عرصے پہلے کی بات ہے کہ سانپ کا زہر چوس کر جسم سے نکالا جاتا تھا، لیکن اب دور جدید کے معالجین اس طریقے کو نہیں مانتے۔

سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk

The post زہر کی تجارت کرنے والا بھارتی قبیلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

تم سے ملنا بھی ہے، ملنا بھی نہیں ہے تم سے!

$
0
0

 قسط نمبر44
abdul.latif@express.com.pk

میں راستے بھر اُسی نوجوان کے متعلق سوچتا رہا۔ اس کا ہجر تو وصل میں بدلنے والا تھا، لیکن پھر یہ درمیان میں کیسی گھڑی آگئی تھی جس نے اسے برسات بنا ڈالا تھا۔ نہ جانے کس حالت میں ہوگا وہ، میں نے سوچا۔ میں کُڑھ ہی سکتا تھا اور کیا تھا مجھ جیسے بے بس کے بس میں۔ کیسا ہے انسان بھی ناں، عجیب بہت عجیب، ہوسکتا ہے وہ ایسے سوچ رہا ہو!

کیا عجب ہے کہ ہمیں جس کی ضرورت بھی نہ تھی

بیچ کر خود کو وہ سامان خریدا ہم نے

بند ہونے کو دُکاں ہے تو خیال آیا ہے

فائدہ چھوڑ کے نقصان خریدا ہم نے

بابا میری کیفیت جان چکے تھے، میں بہت بولتا ہوں، بولتا چلا جاتا ہوں اور اگر میں کبھی خاموش ہوجاؤں تو عجیب بات ہے کہ پھر اکثر کو میری خاموشی ڈسنے لگتی ہے۔ بابا نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: بیٹا! پالن ہار سب کچھ بِن مانگے عطا فرماتا ہے، لیکن اپنی خاص عنایت بن مانگے نہیں عطا فرماتا۔ میں نے پوچھا وہ کیا بابا! تو بتایا تھا: انسان کو رزق بن مانگے مل سکتا ہے اور ملتا ہے، اس کی ضرورت کا سارا رزق۔ نادان انسان تو بس کھانے پینے کوہی رزق سمجھتا ہے ناں لیکن اگر وہ ذرا سا غور کرے اور سوچے تو معلوم ہوگا کہ رزق تو ہر شے ہے۔

سونا، جاگنا، سننا، بولنا، چلنا، پھرنا، دیکھنا سب کچھ رزق ہی تو ہے اور انسان کے لیے رب تعالی نے ہر شے رزق بنائی ہے، اس سے آگے غور کرو تو تم جان پاؤ گے کہ انسان کے لیے اس خالق و باری نے اپنی ہر مخلوق کو پیدا کیا اور اس سے اسے نفع پہنچایا، سمندر کی مخلوق سے لے کر زمینی مخلوق اور پھر آسمانی سب کچھ خدا نے انسان کے رزق کے لیے ہی بنائی ہے، سمندر میں مچھلیاں ہی نہیں نہ جانے اور کتنی ہی نعمتیں اس میں پوشیدہ ہیں، یہ اتنے بڑے پہاڑ جیسے بحری جہاز دیکھا نہیں کیسے اس سمندر کے سینے پر تیرتے ہیں، یہ بھی تو رزق کی فراہمی کا ذریعہ ہیں ناں، بس ذرا سا غور کرو تو تم پر یہ اسرار کُھلتا چلا جائے گا، اور پھر یہ بھی کہ اس نے سب کچھ پیدا کیا اور عام کیا، تم اس سے نہ بھی مانگو تب بھی وہ دیتا ہے، اس پر ہم کبھی تفصیل سے تمہیں سمجھائیں گے۔

لیکن بیٹا! ایک نعمت اس کی اتنی عظیم ہے کہ اسے بن مانگے وہ نہیں دیتا، اسے بار بار مانگنا پڑتا ہے، رت جگے کرنا پڑتے ہیں، آہ و زاری کرنا پڑتی ہے، اس کے لیے دل سوزی چاہیے، طلب چاہیے اور خالص، اس کے لیے تڑپنا پڑتا ہے، اس کے سامنے عاجزی سے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اور جب وہ بہ فضل تعالٰی مل بھی جائے تب بھی اسے مانگنا پڑتا ہے اور مسلسل، اور تم جانتے ہو وہ کیا ہے؟ وہ ہے ہدایت! ہدایت اسے ملتی ہے جو اسے اخلاص سے طلب کرے، یہ کوئی معمولی نعمت نہیں، نعمت عظمٰی کہنا چاہیے اسے اور کہنا کیا یہ ہے نعمت عظمی۔ نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں ناں ہمیں راہ مستقیم دکھا، ان لوگوں کے رستے کا مسافر بنا جو تجھے محبوب رہے ہیں اور ہیں، ہمیں ہدایت پر رکھنا، ہر رکعت میں مانگتے ہیں ہدایت۔ سب کچھ بن مانگے مل جاتا ہے اور مل سکتا ہے لیکن ہدایت بن مانگے نہیں ملتی، نہیں جی نہیں ملتی۔ تو بس اس نے جو طلب کیا تھا۔

جس کی تمنا کی تھی اسے مل گئی ہے اور اس نادان کو وہ بن مانگے بھی مل جاتی لیکن بد بختی اور کسے کہتے ہیں جو بن مانگے ملتا ہے انسان اسے ہلکان ہوکر طلب کرتا رہتا ہے اور جس کے لیے ہلکان ہونا چاہیے کہ طلب کے بنا نہیں مل سکتی اسے طلب کرنا تو دُور کی بات کبھی سنجیدگی سے اس کے متعلق سوچتا بھی نہیں۔ تو بیٹا! سب کچھ بن مانگے مل سکتا ہے جو رب تعالٰی نے مقدر کر دیا لیکن ہدایت طلب کرنا پڑتی ہے تو بس دانائی یہ ہے کہ جو بن مانگے مل سکتا ہے ہاں اس کے لیے بھی سعی کرنا فرض ہے لیکن جو بن مانگے نہیں ملتی تو اس کی طلب میں ہلکان ہونا چاہیے ناں کہ زندگی تو بس اسی کا نام ہے، راہ راست اور ان محبوب لوگوں کا راستہ جن پر اس رب کائنات نے فضل کیا انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمایا ہے۔

اور اب یہ کیا یاد آگیا ہے

کسی بازار میں ملتی ہے جنوں نام کی شے

حوصلے عشق کے تیّار کہیں ملتے ہیں

تم سے ملنا بھی ہے، ملنا بھی نہیں ہے تم سے

آؤ تم سے سرِ بازار کہیں ملتے ہیں

جی بالکل ایسا ہی ہے جیسا بابا جی نے بتایا تھا۔

فقیر کی زند گی میں ایسے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں اور پھر اس نادان و بے عقل و فہم نے ان گنت ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ وہ ایسی تعیشات میں اپنا جیون گزاریں گے، انہوں نے تو اپنے گاؤں، گوٹھوں اور دور دراز علاقوں سے بس مٹھی بھر اناج کی تلاش میں شہروں کا رخ کیا تھا اور پھر ایسا چمتکار ہوا کہ وہ خود بھی ساری زندگی حیران رہے۔ فقیر آپ کو ایک ایسے ہی بچہ مزدور کی بپتا سناتا ہے۔

عجیب انسان تھے وہ۔ بہت ہم درد، مخلص اور ایثار کیش، پڑھے لکھے نہیں تھے، بس کسی سے دست خط کرنا سیکھ گئے تھے۔ ان کی کتھا بھی اتنی ہی عجیب ہے جتنے وہ خود تھے۔ جہلم کے ایک گاؤں سے روزی رزق کی تلاش میں کراچی آگئے تھے اور اس وقت صرف بارہ برس کے تھے۔ خاندان کے باقی لوگ بھی اپنی زمینوں پر بس معمولی کھیتی باڑی کرتے تھے، لیکن ان کے والد کے پاس تو وہ بھی نہیں تھی۔ بارہ سال کا بچہ کیا کام کرتا، ان کے ایک عزیز نے ہوٹل پر لگا دیا تھا ، جہاں وہ برتن دھویا کرتے تھے، وہاں سے انہیں دو وقت کھانے اور ناشتے کے ساتھ تیس روپے ماہانہ بھی ملتے تھے اور رہائش بھی۔ بہت معصوم سے، کم گو، محنتی، بس کام سے کام رکھنے والے۔ چار سال تک وہ یہی کام کرتے رہے۔

ہوٹل کا مالک ان کے کام سے خوش تھا اور اس نے ان کی تن خواہ ستّر روپے ماہانہ کردی تھی۔ وہ اپنی ساری تن خواہ اپنے والدین کو بھیج دیا کرتے تھے۔ کراچی میں اس وقت غیرملکی سیاح بلاخوف و خطر گھوما پھرا کرتے تھے۔ امن تھا، امان تھی، بھائی چارہ تھا، یگانگت تھی، بس یوں سمجھیے کہ زندگی تھی۔ وہ اپنی کہانی کسی کو نہیں سناتے تھے، لیکن مجھ سے ان کا نہ جانے کیسا رشتہ تھا، جب بھی ان سے کچھ پوچھا، کبھی انکار نہیں کیا۔ میں انہیں بھائی جان کہتا تھا، میں نے ان کا جیون کھوجنے کی کوشش کی۔ پہلے تو وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے اور سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتارتے رہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی شاید وہ نمی تھی، شاید غلط کہہ گیا ہوں یقیناً، پھر وہ سنبھلے اور رواں ہوئے، نہ جانے کیا کیا پوچھتا رہتا ہے تُو۔

ایک دن میں ہوٹل کے باہر بیٹھا برتن دھو رہا تھا۔ دسمبر تھا اور سخت سردی۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہوا تھی کہ جسم میں لہو جم رہا تھا۔ یخ پانی کی وجہ سے میرے ہاتھ شل ہو رہے تھے۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میرا جسم بُری طرح سے کانپ رہا تھا، لیکن کام تو کرنا ہی تھا۔ نوکری، مزدوری میں نخرا کیا کرنا۔ اتنے میں ایک کار آکر رکی جسے ایک گورا چلا رہا تھا۔ وہ اترا اور بازار میں غائب ہوگیا۔ لیکن کار میں ایک خاتون بیٹھی رہی، بعد میں پتا چلا کہ وہ اس گورے کی بیوی تھی، میں اپنا کام کر رہا تھا، لیکن وہ خاتون مسلسل مجھے دیکھے جارہی تھی، تھوڑی دیر تو وہ مجھے دیکھتی رہی، اور پھر اتر کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ میں بہت پریشان ہوا، پھر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا، لیکن میں کچھ نہیں سمجھ پایا، اسے میرے پاس بیٹھے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی اور ہوٹل کے سارے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے نہ جانے کیا معلوم کرنا چاہ رہی تھی اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، لیکن اس وقت مجھے اپنی ماں بہت یاد آرہی تھی۔

اس خاتون میں مجھے نہ جانے کیوں اپنی ماں دکھائی دے رہی تھی۔ پھر عجیب ماجرا ہوا۔ وہ رونے لگی۔ اتنے میں اس کا شوہر آگیا۔ دونوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’کیا تم میرے ساتھ کام کروگے؟‘‘ میں تو بوکھلا گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں، میں خا موش رہا۔ وہ گورا میرے مالک کے پاس گیا اور کچھ باتیں کیں اور پھر ہوٹل کا ما لک مجھ سے آکر کہنے لگا: جاؤ پیارے! تیری تو قسمت کُھل گئی۔ ماں باپ کی دعائیں تیرے کام آگئیں۔ یہ جرمن ہے اور یہاں ایک ٹیکسٹائل مل چلاتا ہے۔ یہ تمہیں کا م سکھائے گا اور اپنے ساتھ رکھے گا۔ اگر تمہارا وہاں دل نہ لگے تو واپس آجانا۔ میں تیار ہوگیا۔ میرے پاس تھا ہی کیا صرف دو جوڑے کپڑے تھے۔ وہ لیے اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ قائداعظم کے مزار کے پاس ایک کوٹھی کے اندر کار رکی اور ہم نیچے اترے۔ میں خوش تو تھا اور حیران بھی، لیکن مجھ سے زیادہ وہ خا تون خوش تھی۔ میرے کپڑے میلے تھے، اس کے باوجود اس نے مجھے بہت پیار کیا۔ وہ خاصی بڑی کوٹھی تھی۔

انہوں نے مجھے نہانے کا کہا، گرم پانی سے نہانے کا مزا مجھے اس دن آیا۔ میں نے صاف کپڑے پہنے اور ان سے باتیں کیں اس شخص کو اردو آتی تھی، بس اس طرح کی باتیں کہ کہاں کے ہو، ماں باپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتا دیا کہ اماں ابا بہت بوڑھے ہیں اور غریب بھی، اس لیے میں مزدوری کرنے نکلا ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے ایک کمرا دے دیا، جس میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا اور اک الماری تھی۔ دوسرے دن وہ مجھے صدر لے گئے۔ اس وقت صدر ہی کراچی کا واحد کاروباری مرکز تھا، جہاں ضروریات زندگی کا سب سامان مل جاتا تھا اور ارزاں بھی۔ وہاں سے انہوں نے مجھے بہت ساری پینٹ شرٹس اور قمیص شلوار لے کردیے، دوپہر تک ہم خریداری کرتے رہے پھر اک بہت بڑے ہوٹل میں ہم نے کھانا کھایا۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور خواب تھا۔ اس کے بعد ہم گھر آگئے وہ جرمن خاتون میرے لیے ماں جیسی تھی۔ ہم گھر پہنچ کر سوگئے۔ شام کی چائے پر کچھ دیر باتیں ہوئیں اور میں نے انہیں ان کی فرمائش پر ممی اور ڈیڈی کہنا شروع کردیا۔ ان لفظوں کا مطلب بھی انہوں نے ہی مجھے سمجھایا تھا اور بعد کی زندگی میں انہوں نے اور میں نے یہ رشتہ نبھایا بھی۔ داستان بہت طویل ہے۔ ڈیڈی ایک ٹیکسٹائل مل میں پرنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے نگراں تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ پرنٹنگ مشینیں بھی جرمنی کی بنی ہوئی ہیں۔

وہ پرنٹنگ میں جو کیمیکل اور رنگ استعمال ہوتے ہیں ان کے ماہر تھے۔ وہ پہلا دن مجھے یاد ہے، جب میں ان کے ساتھ کار میں کام پر گیا، اتنی بڑی مشینیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ اب تم دل لگاکر اور آنکھیں کھول کر کام سیکھو، سب سے پہلے احتیاط سیکھو، ہمارا کام بہت خطرناک ہے بس یہ سمجھو ہمارے آس پاس زہر بکھرا ہوا ہے اور ہمیں اسی زہر کو اپنے کام میں لانا ہے۔ اپنی آنکھیں بہت بچا کر رکھنا اور منہ پر کپڑا باندھ کر رکھنا اور جب تک کام کرو اپنا چشمہ مت اتارنا۔ اب بس تم مجھے غور سے دیکھا کرو میں کیا کرتا ہوں۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں ڈرم رکھے ہوئے تھے، شیشے کے مرتبان تھے، مختلف پیمانے تھے، شیشے کی ٹیوبس تھیں، ترازو تھے اور ہر طرح کے رنگ۔ انہوں نے ہال میں داخل ہوکر اس کا دروازہ بند کردیا اور پھر اپنا کام کرنے لگے، وہ بہت سارے رنگوں اور کیمیکل کو مختلف مقدار میں لے کر ملا رہے تھے۔

میں انہیں بہت غور سے دیکھ رہا تھا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ دو گھنٹے ہوگئے تھے پھر انہوں نے جو محلول بنایا تھا اسے ایک کین میں انڈیلا اور ہاتھ منہ دھو کر دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کسی کو فون کیا اور دو مزدور وہ کین اٹھا کر لے گئے۔ باہر نکل کر انہوں نے اس ہال کا دروازہ بند کر کے تالا لگادیا اور اپنے دفتر میں آکر بیٹھ گئے۔ پھر چائے آگئی، ہم نے پی۔ کچھ دیر وہ ایک رجسٹر دیکھتے رہے اور پھر گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں انہوں نے مجھ سے کہا: ’’تم کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا بس یہ بتائیں کہ آپ نے ہال کو اندر سے بند کیوں کیا تھا؟ وہ مسکرائے اور گُڈ کہا اور پھر بتایا: ’’دیکھو! ہر کام کے کچھ راز ہوتے ہیں اور یہی راز انسان کو اہم بناتے ہیں، اگر یہ عام ہو جائیں تو ہماری اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ کاروباری راز ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہنر ہے۔ ہم جو رنگ بنا تے ہیں ان کا فارمولا اگر سب کو معلوم ہوجائے تو سب بنالیں گے اور ہماری اہمیت ختم ہوجائے گی، بس ہر کام رازداری سے کرنا۔ اپنے فارمولے کسی بھی قیمت پر کسی کو بھی مت بتانا۔ جب تک تم راز کو راز رکھو گے بادشاہ رہو گے اگر بتا دیا تو گداگر!

ابتدا میں مجھے بہت پریشانی ہوئی، اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا، اس لیے مجھے سب فارمولے زبانی یاد رکھنے پڑتے تھے، لیکن پھر مجھے اس کی مشق ہوگئی اور سچ تو یہ ہے کہ والدین کی دعاؤں سے اﷲ نے میرا دماغ کھول دیا، مجھے آج بھی سارے فارمولے زبانی یاد ہیں۔ ڈیڈی میرے کام سے بہت خوش تھے۔ وہ میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور ممی تو بہت ہی خوش تھیں۔ میں اس وقت جب ہزار روپے بہت زیادہ تن خواہ سمجھی جاتی تھی بیس ہزار روپے ماہانہ اپنے والدین کو بھیجتا تھا۔

میری کمائی سے ابا نے شان دار گھر بنایا تھا اور زرعی زمین بھی لے لی تھی۔ دو سال بعد میں نے ڈیڈی سے کہا کہ میں کچھ دن کے لیے گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے جب شام کو ہم گھر جا رہے تھے تو وہ راستے میں ایک دفتر میں گئے اور پھر آکر ایک لفافہ مجھے دیا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تم گاؤں جا رہے ہو تو یہ جہاز کا ٹکٹ ہے۔ اس وقت جتنی خوشی مجھے ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک ہفتے تک میں نے خریداری کی اور پھر ممی اور ڈیڈی مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔ ممی نے مجھے گلے لگایا وہ رو رہی تھیں اور پھر کہا: بس ایک ہفتے میں واپس آجانا۔

میں وہ منظر نہیں بُھول سکتا۔

The post تم سے ملنا بھی ہے، ملنا بھی نہیں ہے تم سے! appeared first on ایکسپریس اردو.

قصہ انوکھی دکانوں کا۔۔۔

$
0
0

روزانہ علی الصبح شہر قائد کے طول وعرض سے جامعہ کراچی کے درجنوں ’پوائنٹس‘ روانہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ’پوائنٹ‘ کے مسافر 35 سالہ عادل بھی ہیں۔۔۔

وہ لیاقت آباد، کراچی سے عازم سفر ہوتے ہیں۔ یوں تو ’پوائنٹ‘ میں عمومی طور پر جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات سفر کرتے ہیں، لیکن عادل نہ تو جامعہ کے طالب علم ہیں اور نہ ہی ملازم۔۔۔ لیکن ان کی منزل ’جامعہ کراچی‘ ہی ہوتی ہے۔۔۔ مگر کس لیے۔۔۔؟ یہ جاننے سے پہلے ہم ذرا عادل سے تعارف کراتے چلیں۔۔۔

عادل عام لوگوں سے تھوڑے سے مختلف ہیں، وہ یوں کہ ان کا قد عام لوگوں کی نسبت ذرا چھوٹا ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو بڑے قد کے بہت سے ’پستہ قامت‘ لوگ ان پر آوازیں کستے ہیں۔۔۔ بہت سے انہیں طرح طرح کے تضحیک آمیز ناموں سے بھی پکارتے ہیں۔۔۔ مگر وہ ایسی باتوں کو کان میں مار جاتے ہیں، اِن دل آزار صداؤں پر وہ بالکل دھیان نہیں دیتے، لیکن جب ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر درپیش ہو تو انہیں کراچی کی بے لگام مسافر بسوں سے جھوجھنا پڑتا ہے، جس میں انہیں چڑھنے اور اترنے میں شدید دشواری پیش آتی ہے۔

کچھ انہی مسائل کے سبب عادل کے والد نے انہیں گھر سے زیادہ باہر نہیں نکلے دیتے تھے۔۔۔ لیکن 12 سال قبل جب اُن کے والد دنیا سے گزر گئے، تو بالآخر انہیں تلاش معاش کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔۔۔ کراچی کی انہی نہ رکنے والی بسوں سے چڑھنا، اترنا پڑا اور تکلیف دہ سفر کے دھکے کھانے اور اذیتیں سہنا پڑیں۔ کبھی کبھی کسی موٹر سائیکل سوار کی مدد بھی مل جاتی، لیکن ایسا کم ہی ہوتا تھا۔

اُن کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔۔۔ اس لیے انہیں شہر کی مختلف کمپنیوں اور اداروں میں چھوٹے موٹے مشقت اور مزدوری کے کام ہی مل سکے، کہتے ہیں کہ میں نے جہاں بھی ملازمت کی وہاں میری استطاعت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالا گیا، اس لیے میری اکثر ملازمتیں چند ماہ ہی چل پاتیں، اور پھر ہر تھوڑے روز بعد بے روزگاری کے دن دیکھنے پڑ جاتے۔ ڈین آف آرٹس ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اس بابت کہتی ہیں کہ ’چھوٹے قد کے افراد کو سماج سے لے کر گھروں تک میں مکمل توجہ نہیں دی جاتی، انہیں نظرانداز کیے جانے کے سبب ان کی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے، سماج میں بھی انہیں عضو معطل سمجھا جاتا ہے، ورنہ ان کی ذہنی استعداد کسی بھی طرح ایک نارمل فرد سے کم نہیں ہے، پہلے میرا خیال بھی یہی تھا کہ شاید یہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں، لیکن جب ان پر کام کیا تو یہ بات پوری طرح آشکار ہوئی کہ یہ بالکل کسی بھی عام فرد کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں، چوں کہ ایسے افراد کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے اور پھر اپنے چھوٹے قد کے سبب زیادہ مشقت کا کام نہیں کر سکتی، اس لیے یہ روزگار کے مسائل سے دوچار رہتی ہے، جو پھر براہ راست ان کی نجی اور سماجی زندگی کا پہیا روک دیتی ہے۔‘

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ عادل گذشتہ دو سال سے روزانہ جامعہ کراچی کیوں آ رہے ہیں، یہاں شعبہ ’سماجی بہبود‘ میں ان کے جیسے افراد کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ’منچی کرنچی‘ کے نام سے ٹافیوں، چپس اور بسکٹ وغیرہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول کر دی گئی ہے۔ جامعہ کراچی کی رئیس کلیہ فنون ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کے بقول چند برس قبل چھوٹے قد کے افراد کے مسائل پر تحقیق کے دوران ان پر انکشاف ہوا کہ ہمارے ہاں ان کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے، پھر اسی سے زندگی کے باقی مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں، چناں چہ ان کی جسمانی استطاعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طے کیا گیا کہ انہیں ’ٹک شاپ‘ کھول کر دی جائیں، تاکہ یہ اِدھر اُدھر ملازمتوں کے دھکے کھانے کے بہ جائے اپنی آمدنی کے مسئلے کو مستقل طور پر حل کر سکیں۔

اس منصوبے کے لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لی گئی اور پہلے مرحلے میں جامعہ کراچی میں دو ٹک شاپس کھولی گئیں۔ ایک دکان کی تیاری پر تقریباً20  ہزار روپے کا خرچہ آیا اور پھر اس میں پانچ ہزار کا سامان ڈلوایا گیا، یوں کُل 25 ہزار روپے میں ایک مکمل دکان تیار ہوگئی، جو ان کے حوالے کردی گئی، دکان کے مالکانہ حقوق جامعہ کراچی کے پاس ہیں، لیکن یہ دکان بلامعاوضہ ان کے حوالے ہے کہ یہ اسے خود چلائیں اور اپنی آمدنی کریں۔

یہ تمام کام مختلف مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوا، بہت سے لوگوں نے اسے اسپانسر کیا۔ جامعہ کراچی کی ہی ایک طالبہ نے عادل کو چپس بنانے کی مشین عطیہ کردی۔ پھر ایک کولڈڈرنک کمپنی سے بات کی گئی تو انہوں نے فریج بھی دے دیا۔ جب اس منفرد کام کا چرچا ہوا تو امریکا سے ایک اور مخیر صاحب نے رقم دی، تو ان کی دکان کے ساتھ ہی فریج کے لیے ایک محفوظ جگہ بنوا دی گئی، جس سے وہ روزانہ دکان کھولتے بند کرتے ہوئے فریج دھکیلنے کی مشقت سے بچ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ ’منچی کرنچی‘ منصوبے کے تحت جامعہ کراچی میں مزید تین ’ٹک شاپس‘ تیار ہیں، جس کی اجازت ملتے ہی انہیں مرحلے وار کھول دیا جائے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ جامعہ کراچی کی ہر فیکلیٹی میں یہ شاپس کھلیں۔ ساتھ ہی ایسے افراد کی آمدورفت کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ایسے جو افراد جامعہ کراچی سے دور رہتے ہیں، انہیں اپنے گھروں سے قریب ہی یہ دکانیں کھول کر دے دی جائیں۔ اس کے لیے ’بلدیہ کراچی‘ سے اجازت لیں گے، تاکہ کہیں تجاوزات قرار دے کر مسمار نہ کردی جائیں۔ ہم نے چھوٹے قد کے افراد کی تعداد کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس بابت ابھی تک کوئی باقاعدہ اعدادوشمار موجود نہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں ایسے افراد کی تعداد 10 سے 15 ہزار تک تو ہو گی۔

ان دنوں جامعہ کراچی کے ’سماجی بہبود‘ کے شعبے میں چھوٹے قد کے افراد پر ایک ’پی ایچ ڈی‘ کی سطح کی تحقیق بھی جاری ہے، ایسے غیرتعلیم یافتہ افراد کو دفاتر وغیرہ میں چھوٹے موٹے کام کرنا پڑتے ہیں۔ جو کسی قدر تعلیم یافتہ ہیں یا کوئی ہنر اور صلاحیت ہے تو کمپیوٹر وغیرہ پر بھی بہ آسانی کام کر لیتے ہیں، لیکن جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، ان کے لیے ہمارے سماج میں بے پناہ مسائل ہیں۔ اکثر خاندانی مسائل کے سبب پڑھ نہیں پاتے۔ دراصل گھروں میں انہیں عام افراد جیسی اہمیت نہیں دی جاتی۔

اس حوالے سے بھی لوگوں میں بہت زیادہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں نظر انداز کرنے کے بہ جائے ان کی نشوونما اور تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دی جاسکے۔ چھوٹے قدر کے افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے شہر میں بہ یک وقت ان کی کئی انجمنیں بھی قائم ہیں، بدقسمتی سے ان کے درمیان ہم آہنگی نہیں۔ ڈاکٹر نسرین اسلم ان کے اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، کہتی ہیں کہ ہماری کوشش ہے کہ انہیں قائل کیا جائے کہ وہ اپنی رنجشیں اور اختلافات دور کر کے ایک تنظیم پر متحد ہوں۔ عہدے کچھ نہیں ہوتے، دراصل لوگ اپنے کام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہر سال 25 اکتوبر کو شعبہ ’سماجی بہبود‘ کے تحت ان کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ ان کی مختلف ٹیموں کو جامعہ کراچی میں کرکٹ وغیرہ کھیلنے کے لیے بھی باقاعدہ اجازت دلوائی گئی ہے۔ جامعہ کراچی کی دوسری ’ٹک شاپ‘ کے مالک فیصل اِن دنوں علالت کے سبب نہیں آرہے، یوں ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔

ہم جب عادل کی ’منچی کرنچی‘ پہنچے تو انہوں نے اس چھوٹی سی ’آمدن نگری‘ میں بہت پرجوش انداز میں ہمارا سواگت کیا، چھوٹے سے پنکھے کا رخ اپنی طرف سے ہماری سمت کیا، اور اکلوتا اسٹول ہماری طرف سرکا کر کھڑے ہوگئے۔۔۔ ہم نے شکریے کے ساتھ یہ سہولتیں انہیں واپس کیں۔۔۔ عادل نے ہمیں بتایا کہ وہ یہاں اپنے کام سے بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ یہاں کوئی انہیں برے القاب سے نہیں پکارتا، سب بہت اچھی طرح پیش آتے ہیِں اور بہت عزت دیتے ہیں۔ بالخصوص اپنی مرضی اور سہولت سے آنے جانے کی آسانی انہیں بہت زیادہ شاداں کرتی ہے اور انہیں اپنی نوکریوں کے تلخ تجربات یاد آجاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کمپنیوں میں نوکری کرتے ہوئے، آنے جانے کے حوالے سے ان کی پریشانی کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا، اور کافی زیادہ تنگ کیا جاتا تھا۔ عادل چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدین اور سب بہن بھائی نارمل ہیں، صرف ان کا قد چھوٹا ہے۔

ہم نے پوچھا کہ اگر وہ اپنی آمدنی سے متعلق کچھ بتانا چاہیں تو وہ بولے کہ ’یہاں یومیہ 300 روپے تک بچا لیتا ہوں۔‘

ہم نے ان کی ازدواجی حیثیت جان کر ان سے شادی کا سوال کر ڈالا، وہ مسکراتے ہوئے بولے،’’ابھی تو صرف اپنے خرچے نکال پاتا ہوں، ذرا کام تھوڑا اور اچھا ہو جائے، تو پھر شادی بھی کر لوں گا۔‘

یوں تو سماجی مسائل حل کرنے کو لاتعداد غیرسرکاری تنظیمیں موجود ہیں، جو کسی نہ کسی میدان میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں، لیکن اس میدان میں ہماری جامعات کا وہ کردار دکھائی نہیں دیتا، جس کی توقع کی جاتی ہے۔ عموماً کہا یہ جاتا ہے کہ یہ جامعات تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ریاستی اداروں اور جامعات میں کوئی ربط نہیں ہے کہ یہ خبر دی جا سکے کہ ہمیں کس شعبے کے لیے مزید کتنے افراد کی ضرورت ہے، تاکہ اس حساب سے ماہرین تیار کیے جا سکیں۔

اسی طرح جامعات میں سماجی علوم یا سوشل سائنسز کی تحقیق کے حوالے سے بھی یہ تاثر عام ہے کہ ان کے موضوعات اکثر لایعنی ہوتے ہیں، یا پھر ان کی تحقیق قابل عمل نہیں ہوتی، فقط الماریوں میں بند کر کے رکھ دی جاتی ہیں، اس تحقیق کی روشنی میں سماجی مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔۔۔ کسی بھی سماج میں جامعات کے حوالے سے ایسی رائے قائم ہونا نہایت فکر انگیز امر ہے، لیکن ’منچی کرنچی‘ جیسے منصوبوں کے ذریعے اس عام خیال کی نفی ہوتی ہے اور ہمیں پتا چلتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر جامعات میں سماجی مسائل کے حوالے سے نہ صرف قابل عمل حل پیش کیے جا رہے ہیں، بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے، کہ ہر شعبے میں ایسے منصوبوں کو باقاعدہ شکل دی جائے، تاکہ معاشرے کی بہتری کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا کام منظم ہو کر سامنے آسکے۔

The post قصہ انوکھی دکانوں کا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کو جنگلات بڑھانے کی ہنگامی منصوبوں کی ضرورت

$
0
0

پاکستان اور اس کے اردگرد واقع ممالک چین ،بھارت ، ایران ،افغانستان اور اس سے آگے سنٹرل ایشیا کی ریاستیں ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان، آزربائجان اور پھر بحیرہِ عرب کے ساتھ خلیج فارس کے ساحلوں پر عرب امارت اور دیگر خلیجی ریاستیں سب ہی میں گذشتہ 70 برسوںسے قدرتی اور غیر قدرتی یعنی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے منفی ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں جن سے سب سے زیا دہ پا کستان متا ثر ہو ا ہے۔

اس دوران اِن تمام ملکوں میںکسی نہ کسی انداز سے انسانی سرگرمیاں گذشتہ ڈھائی ہزار سال کے مقا بلے میں اِن 70 برسوں میں کئی گنا زیاہ تیز ہو گئیں اِن ستر برسوں میں اِن ملکوں کی آبایوں میں تقریبا چار سے پانچ گنا اضافہ ہوا۔

دوسری جنگ اعظیم کے اختتام 1945 ء کے فوراً بعد سائنس اور ٹیکنالو جی کی ترقی نے تجارتی مقاصد کے ساتھ مفاہمت کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو زیادہ تر سرمایہ کے حصول اور لالچ سے ہم آہنگ کر دیا۔ اگر چہ میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کی وجہ سے انسان نے چیچک ، طاعون،جیسی وبائی بیمایوں کا دنیا سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور دیگر بیماریوں کے علاج اور کنٹرول کے لیے بھی نہایت موثر ادویات ایجاد اور دریافت کرکے انسانی اوسط زندگی جو 70 برس پہلے صرف چالیس سال تھی وہ ترقی پزیر ملکوں میں 80-82 برس اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں 66-67 سال تک بڑھادی ہے ، جہاں تک تعلق ترقی یافتہ ممالک کا ہے تو اِن ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے ایک جوڑے پر دو بچوں کے اصول کو اپنا تے ہو ئے ،اپنی آبادیوں کو منجمد کر دیا۔

مثلاً 1951 ء میںپہلی مردم شماری ہو ئی تو اُس وقت کے مغربی پاکستا ن اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ40 لاکھ تھی اُس وقت برطانیہ کی کل آبادی 5 کروڑ 30 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی آج برطانیہ کی آبادی تقریبا 6 کروڑ ہے اور اس آبادی میںجو 70 لاکھ کا اضافہ ہے وہ تارکین وطن کی وجہ سے ہے۔ جب کہ ہماری آبادی 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ،ہمارے ریجن یا علاقے میں واقع صرف چین ایسا ملک ہے جس نے جب یہ دیکھا کہ اس کی آبادی ایک ارب پندرہ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے تو اسی کی دہائی میں اُس نے اپنے ملک میں ایک جوڑے پر صرف ایک بچہ پیدا کر نے کے جبری قانون کو نافذ العمل کر کے تیز رفتار صنعتی اقتصادی ترقی کی اور اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جدید اور اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر استعما ل کیا ،یہی کچھ سابق سویت یونین نے کیا اور بہت حد تک بھارت اور ایران نے بھی کیا۔

مثلاً سابق سویت یونین نے پچاس کی دہائی میںسنٹرل ایشیاء کی ریاستوں میں خصوصاً ازبکستان میں واقع بحیرہ خوارزمAral Sea میں گرنے والے دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم تعمیر کرکے اِن دریاؤں کا پانی روک دیا جس کے بعد خشکی میںواقع اس چھوٹے سے سمندر یا کھارے پانی کی جھیل کا پانی دھوپ سے اڑتے اڑتے کم سے کم ہونے لگا پہلے مرحلے میں پانی کے خشک ہونے سے پانی میں نمکیات کے تناسب میں اضافہ ہوا اور مچھلیاں اور دیگر آبی مخلو قات ختم ہو نے لگی اور یوں لاکھوں ماہی گیر اور اس سے منسلک دیگر شعبوں سے وابستہ افراد بے روزگار ہوئے۔ ستر کی دہائی تک اس مختصر سمندر کے پانی کے خشک ہونے سے اس کا پانی کناروں سے کئی کئی کلو میٹر اندر سکڑ گیا اور پھر کناروں پر نمکیات کی پپڑیاں اور ریت گرمی کے ساتھ بگولوں کے ساتھ نہ صرف ازبکستان بلکے دیگر سنٹرل ایشیائی ریاستو ں اور روس اور چین تک کے علاقوں کو متاثر کرنے لگیں اور آج یہ صورتحال ہے کہ اس کے اثرات جاپان تک پہنچ رہے ہیں اور اس نمیکن پانی کی بڑی جھیل کا پانی اب صرف 20% رہ گیا ہے۔

اب یہ تو ممکن نہیں کہ اس مختصر سمندر کو دوبارہ بھرا جا سکے مگر اب ازبکستان کے ماہر ین نے اس کے منفی ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے یہاں اربوں درخت لگانے کے منصوبے پر عملدر آمد شرع کردیا ہے ،چین میں جہاں دنیا کا بڑا صحرائے گوبی بہت تیز رفتاری سے جنگلات ،چراگاہوں ،باغات اور کھیتوں کو سالانہ کئی کئی کلو میٹر نگلتا ہو بیجنگ سے صرف ستر کلو میٹر دور رہ گیا تھا، تو چینی قو م نے متواتر کو ششوں کے بعد اس پر گریٹ گرین وال قائم کر دی جو سینکڑوں کلومیٹر طویل اور اربوں درختوں کے انسانی ہاتھوں سے لگائے جنگل پر مشتمل ہے ،ہمارا ہمسایہ، مگر نقصان پہنچانے والا ہمسایہ ملک بھارت ہے جس کے ساتھ 1960-61 کے سندھ طاس معاہدے کے مطابق اس علاقے میں بہنے والے چھ دریاؤں میں سے تین پر ہمیں اس کا حق تسلیم کرنا پڑا تھا، بھارت نے اپنے پانی کے ذخائر میں اضافے کے لیے نہ صرف ہمارے حصے کے پانی پر بھی ڈاکہ ڈالابلکہ سیاہ چین گلیشیر پر بھی قبضہ کیا۔ ہمارے ملک میں صحرائی رقبے میں جاری اضافے کے عمل کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔

ایران میں سیستان ،بلو چستان میں دشت لوط ہے جہاں جون ،جولائی اور اگست میں درجہ حرارت 60 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اب دس بارہ برسوں سے یہاں سے بھی ایک عذاب پاکستان کی طرف اِن گرم مہینوں کچھ دنوں کے لیے آتا ہے جب ایرانی دشت لوط سے گرمیوں میں پوڈر کی طرح باریک مٹی بگولوں کی صورت آسمان پر تیس تیس چالیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی تک اٹھتی ہے اور ہوا کے ساتھ پاکستانی علاقے میں داخل ہوتی ہے اور اب یہ مٹی انتہائی بلندی پر اڑتی پاکستانی بلو چستان سے ہوتی سندھ کے بعض علاقوں کے علاوہ جنوبی پنجا ب آتی ہے اور آسمان سے متواتر دودو تین تین دن برستی رہتی ہے۔ اُس دوران بلو چستان میں طیاروں کی پرواز یں میں منسوخ کرنا پڑ جاتی ہیں۔ افغانستا ن جو گذشتہ چالیس سال سے متواتر جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار ہے وہاں بھی جنگلات رینج لینڈ اور چراگاہوں کو بہت نقصان پہنچا ہے،چین اور بھارت کوئلے کے ذریعے توانائی حاصل کرنے والے اور بڑے ڈیم بنانے والے بالترتیب دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر کے ملک شمار کئے جاتے ہیں۔

ان ممالک کی وجہ سے عالمی ماحولیات نظام کو سخت نقصا ن پہنچا ہے مگر چین کے بعد بھارت بھی علاقے کا ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے جنگلاتی رقبے میں اضافہ کیا ہے واضح رہے کہ 1935 کے قانونِ ہند میں جنگلات کا شعبہ صوبائی اختیار میں تھا اور آزادی سے قبل غیر تقسیم شدہ ہندوستان کے کل رقبے کا 19 فیصد جنگلات پر مشتمل تھا ستر کی دہائی کی کوششوں سے اب بھارت میں جنگلاتی رقبہ 23 فیصد تک پہنچ رہا ہے ہماری صورتحال بہت ہی خوفناک ہے ایف اے او کے فاریسٹری سیکٹر پلان 1992 ء کے مطابق اُس وقت 4.8%  رقبے پر جنگلا ت مو جود تھے اقوام متحدہ کے مطابق خواندگی اورماحولیاتی شعور میں کمی کی وجہ سے آج پاکستا ن میں جنگلاتی رقبہ مزید سکڑ کر صرف 1.9 فیصد رہ گیا ہے اور ہولناک صورت یہ ہے کہ 1990 ء سے 2015 ء تک یعنی 25 برسوں میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ جنگلاتی کٹائی ہو ئی جس کا تناسب 2,1فیصد سالانہ رہا IPCC انٹر نیشنل چینل آن کلائمیٹ چینج کے مطابق کسی بھی ملک ماحولیاتی استحکام کے لیے کل رقبے کا 25 فیصد پر جنگلات کا ہو نا ضروری ہے چین اس معیار پر پورا اتر تا ہے بھارت معیار کے قریب قریب ہے اور ہماری صورتحال ہولناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس اعتبار سے سیاسی قیادت بھی شعور کا مظاہرہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ مگر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو اس کریڈیٹ سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے 2013 ء کے انتخا بات میں موحولیات کے مسئلے کو اقتصادی ترقی سے مربوط کیا تھا اور خصوصاً انقلابی بنیادوں پر شجر کاری کی ضرورت پر نہ صرف زور دیا تھا بلکہ صوبہ خیبر پختونخواہ جہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت قائم ہوئی تھی وہاں اربوں درخت لگانے کے منصوبے شروع کئے تھے۔ وزیر اعظم کا عہد ہ سنبھالتے ہی انہوں نے اس جانب بھی توجہ دی اور پورے پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر جنگلاتی رقبے میںاضافے کے منصوبے بنائے۔

مگر یہ بھی ایک نہایت ہی تلخ حقیقت ہے کہ جس قدر مشکلات اور مسائل کی شکار یہ حکومت ہے اس سے قبل شاید ہی کو ئی حکومت رہی ہو اس وقت سب سے زیادہ مشکلات اقتصادیات کے شعبے میں ہیں کہ ماضی میں ملک میں بڑے منصوبے ایسے رہے کہ ان سے پیداواری عمل نہ تو تیز رفتار ہو سکا اور نہ ہی پیداوار میں اضافہ ہوا مہنگے قرضے لئے گئے جن پر شرح سود کی ادائیگی کی مدت کا ٹائم ٹیبل اگست 2018 ء کے بعد کا رکھا گیا ،یوں اب میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر لیے گئے قرضوں کی واپسی اِن پر سالانہ سود کی ادائیگی اور پھر اِن منصوبوں سے روزانہ مستفید ہونے والے ایک سے دو لاکھ افراد کو یومیہ کروڑوں روپے سبسڈی کی صورت میں جو نقصان ہو گا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اربوں روپے خرچ کر کے تعمیر کئے جانے والے ان منصوبوں توڑ دیا جائے بلکہ کیا یہ جانا چاہیے کہ ایسے اقدامات تجویز کئے جائیں کہ ان منصبوں کے نقصانات کو ختم کر کے انہیں ملک و قوم کے لئے فائدہ مند بنایا جا سکے۔

اسی طرح کچھ منصوبے جن کے بارے میں بین الاقوامی ادروں نے اِن کے شفاف ہونے کی تصدیق کی اُن منصو بوں کی پوری طرح چھان بین کئے بغیر جلد بازی میں ختم کردینا مناسب نہیں۔ ایسا ہی ایک اہم منصوبہ تقریباً دو سال قبل ساوتھ پنجاب فارسٹ کمپنی( SPFC ) کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 50.96 لاکھ ایکڑ ہے جس میں سے صرف 1.66 لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات ہیں۔ ملک میں لکڑی کی صنعت اس وقت اس لیے زوال پذیر ہے کہ ہمارا جنگلاتی رقبہ سُکڑ کر بہت کم رہ گیا، یوں اس شعبے سے وابستہ ہنر مند اور نہایت لاجواب کاریگر جن کے ہاتھوں سے بنے فرنیچر اور دیگر اشیا دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں اور ماضی قریب میں اِن اشیا کی برآمد سے ملک کو کرو ڑوں ڈالر کا زرِمبادلہ ملتا تھا اب بر آمد کی بجائے ہمیں بنے بنائے دروازے کھڑکیاں اور فرنیچر انڈونیشا اور چین سے در آمد کر نا پڑتا ہے جس کے باعث ہمارے لاکھوں ہنر مند اور کاریگر بے روز گار ہو رہے ہیں۔

ایسے اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کو کم کرنے اور رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے پنجا ب کی صوبائی حکومت نے کمپنیز ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 42 کے تحت صوبہ پنجاب میں رجسٹرار جوائنٹ اسٹاک کمپنیز ،لاہور کے ساتھ ایک پبلک سیکٹر غیر منافع بخش کمپنی ،،ساوتھ پنجاب فا ریسٹ کمپنی کی بنیاد رکھی اس کے تحت فاریسٹری ،وائلڈلائف اور فشریز کی جانب سے 16 مارچ 2016 ء کو ایک نو ٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے مطابق ،،ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کو جنوبی پنجاب کے 6 اضلاع ڈیرہ غازی خان ،راجن پور ،مظفر گڑھ، بہالپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں جنگلات کے لیے مختص کیئے گئے 134995 ایکڑ رقبے 42 جنگلات کی اراضی دوبار جنگلات کی صورت میں بحال کرنا تھا،اس مقصد کے حصول کے لیے ساوتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی نے کم از کم 15% حصص کے ساتھ پبلک پرئیویٹ پاٹنر شپ (پی پی پی )کے تحت نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پندرہ سال کے معاہدے پر جنگلات کے قیام دیکھ بھال اور منتقلی Build, Operate, Transfer  کا فیصلہ کیا۔ اس پراجیکٹ کے پندرہ سال کی تکمیل کے بعد اراضی دوبارہ SPFC کو منتقل کردی جا ئے گی اور یہ پھر دوبارہ پروپوزل کے ذریعے اہل سرمایہ کاروں کو فراہم کی جائے گی۔

سرمایہ کاروں کو اراضی کی پیشکش سے پہلے عالمی سطح کی معروف اور مستحکم ساکھ کی ٹرانزکیشن ایڈوائزر کنسلٹنٹ (M-s Grant Thornton Consulting  Pvt Limited) کی جانب سے ٹیکنیکل اور فنانشل امکانات بشمول قانونی مسائل فیلڈسروے ، پانی ،مٹی اور ماحولیات وغیرہ پر مبنی رپورٹس تیار کی گئی جس کے بعد بہالپور ،رحیم یار خان،راجن پور ،مظفر گڑھ،اور ڈیرہ غازی خان پانچ اضلاع کے 99077 ایکڑ رقبے پر جنگلات لگانے کے لیے ٹیکنیکل اور فنانشل امکانات، درخواست، برائے تجویز (آر ایف پی ) کی دستاویز ات اور رعایتی معاہد ہ جات ایس پی ایف سی کے جنگلات لگانے کے پراجیکٹس کو (پی پی پی ) کے اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ حکومت ِ پنجاب کی جانب سے جون 2017 ء میں پراجیکٹ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ( پی پی پی ) کے BOT کے قوانین کے تحت منظور کیا گیا ایس پی ایف سی نے اس ضمن میں بین الاقوامی سطح کے میڈیا پر 30 جولائی سے 12 اگست 2017 ء تک کے جنوبی پنجاب کے پانچ اضلاع بہاولپور،رحیم یار خان،راجن پور، مظفر گڑھ، اور ڈیرہ غازی خان میں 189 پراجیکٹس پر مشتمل 99077 ایکڑ اراضی کے لیے پرپوزل کی درخواستیںدی تھیں۔درخواست برائے تجویز اشتہار کے نتیجہ میں کل 348 پیشکشیں وصول ہوئیں اور 2 اکتوبر2017 ء کوتین بجے کھلنے والی پیشکشوں کے موقع پر 450 پیشکش دہندہ گان اور مجاز نمائندگان نے شراکت کی ۔

SPFC کی بڈ اوپننگ اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی ( بی او ای سی ) نے معزز پیشکش دہندگان کے سامنے پیشکشیں کھولیں ۔بی او ای سی نے اکتوبر 2017   ء کو 124 سب سے زیادہ بولی دینے والے پیشکش دہند گان کو منتخب کیا اور کامیاب پیشکش دہندگان کو 124 پراجیکٹس پر عملدر آمد کے لیے مجاز قرار دیا گیا۔ اراضی کے حوالے سے یہ کل 59862 ایکڑ رقبہ بنتا تھا جو کہ مجموعی اراضی 99077 ایکڑ کے 60 فیصد کے برابر ہے۔اس کامیاب پیشکش کے بعد پیشکش دہندگان کو لیٹر آف ایوارڈ ( ایل اواے) جاری کئے گئے اور ضروری اقدامات مثلاً اسپیشل پرپوزل وہیکل ( ایس پی وی)کی تشکیل ،پرفارمنس گارنٹی کی وصولی اور تفصیلی ڈیزائن وغیرہ کی منظوری کے بعد اب 55 سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدہ جات کئے گئے SPFC کے تحلیل ہونے تک 65 معاہدوں پر سر مایہ کاروں کے ساتھ دستخط کئے گئے ،مگر ان کو اس کے با وجود اراضی کا قبضہ نہ دیا جا سکا۔

اس پروجیکٹ کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس اہم ، نفع بخش اور ماحول دوست منصوبے کے بارے میں بعض ایسے افراد جو کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے نز دیک ہیں اور اِن کو غالباً اس منصوبے کی پوری اہمیت اور افادیت کے بارے میں معلومات بھی نہیں ہیں ممکن ہے اُ نہوں نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے اِس کی غلط انداز میں عکاسی کی ہے اور اب اس منصوبے پر نزلہ گرا ہے کہ عنقریب اس اہم اور مفید منصوبے کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر یہ پروجیکٹ پندرہ سال چلتا ہے تو پرائیویٹ پارٹیز کی جانب سے جو سرمایہ کاری کی جانی تھی اسی کے تحت ً35.5% ( کم ازکم فیصد پی پی پی سٹیرنگ کمیٹی میں مقررکی ہے) علاقہ جنگل کاشت کرکے ایس پی ایف سی کو مہیا کیا جانا تھا۔

جس پر مستقل جنگل قائم رہتے۔ اس منصوبے کے باعث ایندھن اور لکڑی کی صنعت کو خام مال فراہم ہوتا۔ نئے جنگل آباد ہونے سے قدرتی جنگلات پر کٹائی کا دباؤ ختم ہو جاتا ۔مقامی سطح پر 15000 افراد کو بلواسطہ یابلا واسطہ روزگار کے مواقعے میسر آتے۔ اسی طرح اس منصوبے سے فضاء میں35 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی واقع ہو تی جس سے ماحول خو شگوار ہوتا40 میلن یعنی چار کروڑ درخت لگائے جاتے اور SPFC اپنے حصے کے کم ازکم 25 فیصد کردار سے انہیں یعنی پرائیویٹ پارٹنرز کو 15 سال کے دورانیے میں درخت کاٹنے نہیں دیتی اور اس کے بعد میکنزم کے تحت یہ پیداوار مستحکم ہو تی اور ماحول میں بہتری آتی ،اس کے علاوہ اس پراجیکٹ کے دوران 240 ارب روپے گردش میں آتے اورحکومت کو 20 ارب روپے کا ریونیو ملتا ،لیکن اگر اب یہ منصوبہ ختم کر دیا جاتا ہے تو یہ بالکل اس طرح ہو گا کہ جسے فائد ے کو بڑے نقصان میں تبدیل کر دیا جائے یہ ضرور ہے کہ حکومت اپنے طور پر اس منصوبے کی اچھی طرح چھان بین کر لے اور ضرورت ہو تو نیب سے بھی تحقیقات کروا لے مگر خدارا ایسے مفید منصوبے کو ختم نہ کرے کیونکہ اس سے پہلے توکئی سو ارب روپے کا ملک کو نقصا ن ہو گا اور پھر آنے والے وقتوں میں اس کا ا ندیشہ ہے کہ ان زمینوں پر جنگلات کے بجائے تجارتی بنیادوں پر ہاوسنگ اسکیمیں وجود میں آجائیں یا بااثر افراد اِن زمینوں پرقبضہ کر لیں۔

 عرفان احمد بیگ (تمغۂ امتیاز)
مصنف پاکستان کے واحد صحافی ہیں جو گرین جرنلسٹایوارڈ حاصل کر چکے ہیں کیونکہ حکومت نے یہ ایوارڈصرف ایک مرتبہ جاری کیا

The post پاکستان کو جنگلات بڑھانے کی ہنگامی منصوبوں کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں تاریخ نے جنم لیا

$
0
0

دنیا میں ہر جگہ کی اپنی ایک خاص شنا خت ہے، کچھ مقامات مذہب کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں تو کچھ ممالک کی وجہ شہرت وہاں پیدا ہونے یا بننے والی مصنوعات ہیں۔

فرانس کے شہر پیرس کو خوشبویات سے جوڑا جاتا ہے تو مصر اپنے پراسرار اہرام اور ممیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ مقامات ایسے ہیں جن کی شہرت کہ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی تاریخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، جن کا احوال درج ذیل ہے:

٭ زندگی اور موت کی ایک عجیب کہانی

تین دسمبر1967، نسلی عصیبت کے شکار ملک جنوبی افریقا میں سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہی تھیں۔ دارالحکومت کیپ ٹاؤن کے Groote Schuur اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں ایک پُراسراریت سی چھائی ہوئی تھی۔ آج یہ اسپتال دنیا بھر میں جنوبی افریقا کی ایک نئی شناخت بنانے جا رہا تھا۔ صبح چھے بجے پروفیسرکرسٹیان نیتھلگ برنارڈ نے مضطربانہ انداز میں سرجیکل ماسک کے پیچھے سے ڈینس ڈارویل کے دل کو دیکھا، جو بے ترتیبی کے ساتھ زندگی کی طرف واپس آرہا تھا، اس کی دھڑکن ردھم میں آرہی تھی۔

اس سارے منظرنامے میں ایک بات نہایت غیرمعمولی تھی۔ ڈینس ڈارویل کا دل اب ایک دوسرے فرد لوئس وشکان اسکائے کے سینے میں دھڑک رہا تھا۔ ڈینس ڈارویل کا دھڑکتا دل ایک جیتا جاگتا انسانی معجزہ تھا۔ دنیا کی طبی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص کا دل دوسرے انسان کے سینے میں زندگی کی لو جلا رہا تھا۔ طبی تاریخ کے اس معجزے نے راتوں رات کیپ ٹاؤن کو دنیا بھر کے اخبارات کی شہہ سُرخی بنادیا۔ ہارٹ سرجن برنارڈ راتوں رات ایک عام سرجن سے سیلے بریٹی بن گئے۔ دنیا میں تبدیلی قلب کے اس پہلے آپریشن کی لمحہ بہ لمحہ کی داستان پوری دنیا میں سنائی گئی۔

ڈاکٹر برنارڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیپ ٹاؤن میں Groote Schuur اسپتال کے ساتھ ہی ’دی ہارٹ آف کیپ ٹاؤن‘ کے نام سے ایک میوزیم قائم کیا گیا۔ اس میوزیم کے بانی اور میوزیم کے مہتمم  Hennie Joubertکا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ایک میوزیم نہیں ہے، یہ ایک تاریخی ورثہ ہے‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں طبی تاریخ کا ایک محیر العقل معجزہ رونما ہوا۔ جوبرٹ کا کہنا ہے کہ یہ اسپتال اب کیپ ٹاؤن کا سب سے بڑا اسپتال بن چکا ہے اور یہاں علاج کے لیے آنے والے مریض اس میوزیم کا بھی لازمی دورہ کرتے ہیں۔

جوبرٹ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر برنارڈ اور میرے والد نے تعلیم کا آغاز ایک ساتھ یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤ ن سے کیا تھا، لیکن بعد میں برنارڈ جراحی کی دنیا میں چلے گئے اور میرے والد نے سیریس قصبے میں جنرل پریکٹس کا آغاز کردیا۔ طبی تاریخ میں انقلاب برپا کرنے والے ڈاکٹر کرسٹیان برنارڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جوبرٹ نے 2006 میں اپنے کاروبار کو فروخت کرکے میوزیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور دنیا میں تبدیلیٔ قلب کے پہلے آپریشن کی چالیسویں سال گرہ کے موقع پر اس میوزیم کو کھولا گیا۔ اس بابت جوبرٹ کا کہنا ہے کہ میوزیم میں حقیقی آپریشن تھیٹر کی بحالی اور ان تاریخی لمحات سے جُڑی ہر شے کو بنانے جمع کرنے کے لیے ساڑھے چار لاکھ پاؤنڈ کی رقم اپنی جیب سے لگا چکا ہوں۔ اس آپریشن سے پہلے جنوبی افریقا ایک ایسا ملک تھا جو اپنی پالیسیوں اور نسلی امتیاز کی وجہ سے دنیا بھر سے الگ تھلگ تھا۔ ڈاکٹر برنارڈ کی کام یابی نے دنیا بھر میں موت کی قانونی تشریح تبدیل کی۔

ڈاکٹر برنارڈ کے تبدیلیٔ قلب کے آپریشن سے پہلے امریکا کے ڈاکٹر رچرڈ لوور اور ڈاکٹر نارمین شموے پچاس کی دہائی میں ایک کُتے کے دل کی منتقلی کا کام یاب تجربہ کرچکے تھے، لیکن امریکی قانون کی وجہ سے وہ تبدیلی قلب کا تجربہ انسانوں پر نہیں کر سکے، کیوں کہ امریکی قانون کے تحت صرف حرکت قلب بند ہونے کے بعد ہی کسی فرد کو قانونی طور پر مردہ قرار دیا جاسکتا ہے، جب کہ جنوبی افریقا کے قانون کے تحت دماغی طور پر مردہ ہوجانے والے فرد کو قانونی طور پر مردہ قرار دے کر اس کے اعضا عطیہ کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر رچرڈ نے ایک مریض بروس ٹکر کے لواحقین کے علم میں لائے بنا انسانوں میں تبدیلی قلب کا آپریش کرنے کے لیے اس کا دل نکال لیا۔ بروس کے لواحقین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر رچرڈ پر بروس کی غلط موت کا کیس دائر کردیا۔ طویل قانونی کارروائی کے بعد1972میں بالآخر لوورکو اس الزام سے بری کرتے ہوئے موت کا تعین کرنے کے لیے امریکی قانون میں تبدیلی کی گئی۔ لیکن اس وقت تک ڈاکٹر برنارڈ تبدیلی قلب کا آپریشن کرنے والے دنیا کے پہلے سرجن بن چکے تھے۔ اور اب یہ اعزاز جنوبی افریقا کے پاس ہی رہے گا۔

٭ فجی نے ہمارے سفر کے طریقے تبدیل کردیے

گلوبل پوزیشنگ سسٹم (جی پی ایس) کے بارے میں آج ہم سب ہی جانتے ہیں، ٹیکنالوجی کی اس نئی جہت نے ہمارے سفر کے طریقہ کار کو یکسر ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں پہلی بار جی پی ایس کا استعمال خوب صورت جزائز پر مشتمل ملک فجی سے کیا گیا۔ ہوابازی کے نظام میں جی پی ایس کی شمولیت فجی کے جزائز سے کی گئی، جس نے ہمارے پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک کے سفر کرنے کے طریقۂ کار کو بدل دیا۔ ستر کے عشرے میں امریکی فوج نے پہلے سے موجود نیوگیشن کے طریقۂ کار کو بہتر بنانے کے لیے جی پی ایس ڈیولپ کیا۔ اس وقت تک فلائٹ نیوی گیشن راڈار اور بصری طور طریقوں پر منحصر تھی۔ 1940تک ہوا باز زمین پر بنائے گئے سگنل اسٹیشن کی مدد سے روٹ کا تعین کرتے تھے، یا پھر ریڈیو سگنل اور بصری نشانات انہیں راہ نمائی فراہم کرتے تھے۔

مثال کے طور پر اس وقت فجی کے صرف پانچ کنٹرول ٹاور ریڈیو سگنل اسٹیشن سے لیس تھے، اور باقی ملک کی اسی فی صد فضائی حدود میں ہواباز کی مدد کے لیے کوئی راڈار نہیں تھا۔ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوابازوں کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ ریڈیو سگنل اسٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے انہیںRECKONING (نیوی گیشن کی ایک تیکنیک جس میں آخری جانی گئی لوکیشن کی بنیاد پر موجودہ لوکیشن کا اندازہ لگایا جاتا ہے) یا فلک پیمائی (سورج ، چاند اور ستاروں کی حرکت سے سمت کا تعین کرنا) کا طریقہ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک فلائٹ نیویگیٹر ہوا بازوں کا نیوی گیشن کا بوجھ کافی حد تک کم کر دیتے تھے۔ جی پی ایس کی بدولت سیٹلائیٹ اور زمین پر اس کے محل وقوع کے درمیان مثلثی تقسیم کا ڈیٹا جہازوں کے درست محل وقوع سے متواتر آگاہ کر تا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے 1978میں 24 سیٹلائیٹ خلا میں بھیج کر جی پی اسی کے نظام کو مکمل کرنے کے پندرہ سالہ پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔

ابتدائی طور پر امریکی محکمۂ دفاع اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر عوام سے فیس وصول کرتا رہا، 1983میں سابق سوویت یونین کی جانب سے ممنوعہ فضائی حدود میں غلطی سے داخل ہونے والے کوریا کے مسافر بردار طیارے کو تباہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار 269افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے جی پی ایس سروس کو دنیا بھر میں مفت فراہم کرنے کا اعلان کردیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے سانحات سے بچا جاسکے۔ اس اعلان کے بعد نجی کمپنیوں نے بھی شہری استعمال کے لیے ایکوئپمنٹ تیار کرنے شروع کردیے۔ 1993کے اواخر تک پندرہ سالہ پراجیکٹ کے آخری اور چوبیسویں سیٹلائٹ کو آن لائن کردیا گیا اور اپریل 1994میں فجی کو آفیشیلی نیوی گیشن سسٹم میں جی پی ایس شامل کرنے والے دنیا کے پہلے ملک کا اعزاز مل گیا۔ اور آج دنیا بھر میں ہوائی جہاز سمندروں پر کئی کئی گھنٹے طویل پروازیں کر رہے ہیں۔ اور جی پی ایس کی بدولت ہمارے زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔

٭وہ شہر جس نے ہمیں وقت بتانا سکھایا

وقت ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جو اگر ہاتھ سے نکل جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کام یابی نے ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیا جو وقت شناس اور اس کے قدر داں ہوتے ہیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے ’وقت ازدست رفتہ و تیز از کمان جستہ بازینا ید‘ یعنی ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔ کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمدورفت کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ سے اس شہر کا نام پوچھا جائے جہاں سے ’وقت‘ کی فروخت کا آغاز ہو ا تو یقیناً بہت سے لوگ اس سوال کو احمقانہ سوال سمجھ کر نظرانداز کردیں گے، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ وقت کی فروخت کا آغاز امریکی ریاست میسا چیوٹیس کے ایک شہر والتھیم سے ہوا۔ اسی شہر سے نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرینوں کی آمدورفت کو وقت سے مشروط کیا گیا۔

اٹھارہویں صدی کے وسط میں اس شہر میں والتھیم واچ کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے قبل تک یہ شہر صنعتی اور تیکنیکی ایجادات کا مرکز تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک اس شہر میں تیار ہونے والی گھڑیاں مکمل طور پر انفرادی حیثیت میں تیار کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے یہاں بننے والی گھڑیاں بہت مہنگی اور تاخیر سے بنتی تھیں اور صرف امرا ہی گھڑی رکھنے کے متحمل ہوسکتے تھے ، جب کہ ایک ہی وقت بتانے کے لیے دو ٹائم پیس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دنیا کو درست وقت بتانے کے سفر کا آغاز بوسٹن کے ایک گھڑی ساز Aaron Lufkin Dennison کی کوششوں سے ہوا، ایک دن ڈینی سن کومیسا چیوٹٰس کی اسپرنگ فیلڈ میں واقع فوجی اسلحہ خانہ جانے کا موقع ملا۔ وہ وہاں بننے والے سازوسامان کی تیاری میں ان کی مہارت سے بہت متاثر ہوا اور واپس آکر اس نے فوجی طریقۂ کار کو لاگو کرتے ہوئے گھڑی سازی کے کام کا آغاز کیا۔ اس نے مزدوروں کے لیے سب ڈیویژن بناتے ہوئے ایسے آلات بنانے شروع کیے جنہیں ایک ہی ماڈل کی گھڑی میں آسانی سے استعمال کیا جاسکے۔

اپنے کام کو بڑھانے کے لیے اس نے کچھ سرمایہ کاروں کو راضی کیا اور بوسٹں واچ کمپنی کے نام سے گھڑی سازی کے کام کی شروعات کی۔ 1854میں ڈینی سن ویلتھم منتقل ہوگیا اور اپنی کمپنی کو ’ ویلتھم واچ کمپنی‘ کا نیا نام دے دیا۔ یہ اسمبلی لائن تیکنک استعمال کرنے والی امریکا کی پہلی کمپنی تھی۔ اسمبلی لائن تیکنیک کی وجہ سے گھڑیوں کی پیداوار بڑھی اور جیبی گھڑیوں کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی۔ دوسری جانب ایک جیسے آلات کے استعمال کی وجہ سے ہر گھڑی میں ایک ہی وقت ظاہر ہوتا تھا۔ دنیا بھر میں درست وقت بتانے میں اس چھوٹے سے امریکی شہر ویلتھم اورڈینی سن کا کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اور آج دنیا بھر میں گھڑیاں درست وقت بتاتی ہیں۔

٭ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز مقام

ذرا تصور کریں کہ اچانک سے اربوں ٹن وزنی چٹانیں اچانک پانی کی طرح اچھلنے لگیں تو اس پر کسی سائنس فکشن فلم کا گمان تو کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت کا نہیں، لیکن دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں66 ملین سال پہلے ایک شہاب ثاقب کے ٹکرانے کی وجہ سے ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ کئی دہائیوں کی تگ و دو کے بعد سائنس داں ان عظیم تصادم کی تفصیلی تصویر کشی کرنے کے اہل ہوچکے ہیں۔ اس دیوہیکل تصادم نے ڈائنوسارز کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا۔ 2016 میں بچھی کھچی بُھربُھری چٹانوں میں کی گئی ڈرل کی جانچ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں ابھی تک پگھلنے کا عمل جاری ہے۔

سائسی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ چٹانوں کے سفوف بننے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب خلا سے گرنے والا بارہ کلومیٹر چوڑا شہاب ثاقب پوری رفتار کے ساتھ زمین سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں تیس کلومیٹر گہرا اور سو کلو میٹر چوڑا پیالہ نما گڑھا بنا۔ یہ تصادم جس جگہ ہو وہ جگہ اب خلیج میکسیکو کی قریبی بندرگاہ Chicxulub کے نیچے دفن ہے۔ اس بارے میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے سائنس داں پروفیسر سین گیولک کا کہنا ہے کہ یہاں کی چٹانیں پگھل نہیں رہی، بلکہ انتہائی شدت کے ارتعاشی دباؤ کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہورہی ہیں۔ یہ دباؤ کا اثر ہے کہ ان چٹانوں سے گزرنے والی توانائی دس یا گیارہ زلزلے کے جھٹکوں کے برابر تھی۔ یہاں گرنے والے شہاب ثاقب کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے دس ارب ہیروشیما کی طاقت کے برابر تھی۔

انیس سو اسی کے وسط میں امریکا کے ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل ایک گروپ نے میکسیکو کے یاکٹین پینی سولاکے سیٹلائیٹ امیجز دیکھے جس نے انہیں حیرت میں مبتلا کردیا۔ اس علاقے کے دو سو کلو میٹر رقبے پر گول دائرے نما غیرمتوقع پیٹرن دکھائی دیا۔ یہ دائرہ ایوکاٹیسن کے دارالحکومت میریڈا اور ساحلی قصبوں سیسال اور پروگ ریسو کے گرد دکھائی دے رہا تھا۔ ان پر اسرار گڑھوں کی ہیت نے محققین کو دہشت زدہ کردیا۔ ماہرین آثار قدیمہ اور سائنس دانوں نے ان سیٹلائیٹ تصاویر کو 1988میں میکسیکو میں ہونے والی سائنس کانفرنس ’سیلپر‘ میں پیش کردیا۔ اس کانفرنس میں شریک ایک ماہر ارضیات اینڈریانا اوکیمپو جس نے بعد میں امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا میں ملازمت کرلی تھی، کا کہنا ہے کہ اس سیٹلائیٹ امیجز نے مجھے ڈرا کر رکھ دیا تھا کیوں کہ وہ وہ محض ایک دائرہ نہیں بلکہ ایک بپھرے ہوئے بیل کی آنکھ کی طرح خوف ناک دکھائی دے رہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دائرہ بارہ کلومیٹر چوڑے کسی شہاب ثاقب کے کے ٹکرانے کی وجہ سے بنا ہے، اور ناقابل بیان قوت سے ہونے والے اس ٹکراؤ نے ٹھوس چٹانوں کو پانی میں تبدیل کردیا۔ آج یہ جگہ ایک چھوٹے سے قصبے Chicxulub Puerto کے نیچے کئی سو کلومیٹر زمین میں دفن ہے اور اسے دنیا کے سب سے ہلاکت خیز مقام کا درجہ حاصل ہے جس نے روئے زمین سے ڈائنو ساز اور دیگر جان داروں کو صفحۂ ہستی سے ہی ختم کردیا۔

سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk

The post جہاں تاریخ نے جنم لیا appeared first on ایکسپریس اردو.

افطاریاں کیسی کیسی!

$
0
0

 (۱) ’’فلمی ستاروں کی عجلت ‘‘
10 منٹ پہلے افطاری

آج سے کچھ سال پہلے کاذکر ہے کہ لاہور کے چند مقامات پر رمضان المبارک کے مہینے میں کیمپ لگائے گئے۔ ان میں ایک کیمپ شوبز کے افراد کی طرف سے والٹن روڈ نزد ڈیفنس موڑ پر لگایا گیا، ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ کیمپ کس سلسلہ میں لگایا گیا تھا۔ ہمیں بھی اس کیمپ پر افطارکی دعوت ملی، مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں پہنچے تو شوبز سے تعلق رکھنے والے کئی ستارے اور دوسرے معروف افراد بھی وہاں موجود تھے۔

افطاری کا خاص اہتمام کیا گیا تھا، کافی اشیاء تھیں مگر کچھ دیر بعد افراد کچھ زیادہ ہی ہوگئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر چند ہوشیار افراد نے اپنی پسندیدہ اشیاء سے پلیٹیں بھرنا شروع کر دیں، چند دوسرے افراد نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی افطاری پر ٹوٹ پڑے چند منٹوں میں ہی ڈشزخالی ہوچکی تھیں، سمجھ دار افراد اپنی پلیٹیں بھر کردائیں بائیں کھڑے ہو گئے تھے۔کچھ افراد کے ہا تھ کچھ نہیں آیا وہ تاسف سے اپنی سسُتی اور ’’شرافت ‘‘ کو کوس رہے تھے ، پھر ایک نسبتاً ہوشیار شخص نے روزہ کھلنے سے دس منٹ پہلے ہی کسی کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا، جب پلیٹ والے نے اپنے ’’مال غنیمت‘‘ کا یہ حشر دیکھا تو اُس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً ہی اس کے ہاتھ بھی چلنا شروع ہوگئے یہ صورتحال دیکھ کر وہاں ہڑبونگ مچ گئی۔

تقریباً تمام افراد پا نچ منٹ پہلے ہی ’’افطاری‘‘ کر چکے تھے سب کچھ صاف ہو چکا تھا۔ مگر اسکا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ کئی راہ چلتے افراد سمجھے کہ افطاری کا وقت ہو چکا ہے انھوں نے اپنے پاس موجود کسی بھی چیز سے روزہ افطار کر لیا، ان کا روزہ مکمل ہوا یا نہیں یہ تو مفتی حضرات ہی بتا سکتے ہیں، جب قریبی مسجد سے افطار کا اعلان ہوا تو ہم نے بڑی مشکل سے روزہ افطار کیا،اس تمام صورتحال سے ایک مخصوص طبقے کے متعلق عوام میں کیا تاثر پیدا ہوا اسکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، شائد ہم لوگوں میں صدیوں کی بھوک ہے جوکسی بھی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آتی ۔ رمضان کے علاوہ بھی لوگوں کا یہی رویہ نظر آتا ہے۔

(۲) ’’روزہ کھلتے ہی صبر ختم ہوگیا‘‘

ایک دینی جماعت نے مختلف حلقوں میں افطاریوں کاا ہتمام کیا،ایک راہنما ماہ رمضان کی فضیلت اور سعادتوں کا ذکر کر رہے تھے مگر مدعوئین کی اکثریت انکی بات سننے کی بجائے وہاں موجود تھی کہ جہاں افطاری اور کھانے پینے کا سامان رکھا گیا تھا، عین اُسی وقت خطیب صاحب روزہ کھولنے سے پہلے دعاؤں کی قبولیت کے متعلق بیان فرما رہے تھے، وہ بتا رہے کہ روزہ رکھ کر اپنے نفس پر قابو پانے کا اللہ کے ہاں کتنا بڑا اجّر تیار ہے مگر شائد اب زیادہ تر افراد کا نفس بے قابو ہو چکا تھا انکا دھیان صرف افطاری کا سامان اکٹھا کرنے کی طرف تھا۔

نفس کشی کی مشق آخری چند لمحوں میں ہی زائل ہو چکی تھی، اس جماعت کے سربراہ بھی اس افطارپارٹی میں موجود تھے۔انتہائی تاسف کے ساتھ انکے منہّ سے نکلا ’’سارے دن کی محنت پر ہمارے نفس نے پانی پھیر دیا، روزہ جس صبر کا درس دیتا ہے کہاں گیا،یہ سُن کر میں سوچتا رہا کہ شائد آج بھی ہم لوگ روزے کی اصل روح اور مفہوم سے ناآشنا ہیں۔

(۳)’’اجتماعی افطاری کی برکات‘‘

ہمارے مرحوم والد صاحب کے دور میں ہر سال ماہ رمضان میں کم از کم دو افطار پارٹیاں ضرور ہوتی تھیں کہ جن میں قریبی رشتہ دار، دوست احباب اور محلے دار مدعو کئے جاتے تھے، آئی جے آئی کے دور حکومت میں ہماری رہائش گاہ پر افطاری کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں اہم رہنماؤں کے علاوہ قریبی دوست صحافیوں اور سیاستدانوں کی خاصی تعداد بھی موجود تھی۔ ایم این اے میاں عثمان نے اقلیتی رہنما جے سالک کو بھی افطار پارٹی میں دیکھا تو ازراہ ِتفنن پوچھنے لگے’’ کیا تمھارا بھی روزہ ہے؟ جے سالک نے فوراً جواب دیا’’ آج میںنے بھی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی روزہ رکھا ہے‘‘ یہ سُن کر میاںعثمان کہنے لگے کہ ’’اسکا روزہ ڈبل کھلوانا ایک عیسائیوں والا اورایک مسلمانوں والا انکی یہ بات سُن کر سب بھڑک اُٹھے مگر جے سالک کہنے لگے’’جیسا دیس ہوتا ہے میں ویسا بھیس بناتا ہوں آج صرف مسلمانوں والا روزہ ہی کھولوں گا‘‘ پھر کہنے لگے کہ افطاری کے یہ مناظر مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ مسلمان ایک متحد قوم ہیں ان کی عبادات بھی اجتماعیت کا رنگ لئے ہوئے ہیں ۔

چند جملوں کے بعد انھوں نے دیکھا کہ اہم شخصیات کے ڈرائیور اور ساتھ آنے والا دوسرا عملہ بھی ایک ہی جگہ بیٹھے افطار کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں تو انھیں کچھ یاد آیا، بولے’’میں اپنا ڈرائیور بھی بُلا لاتا ہوں یہ کہ کے وہ باہر نکِلے واپسی پر ایک نوجوان انکے ساتھ تھا کہنے لگے’’ یہ میرا ڈرائیور ہے‘‘ افطاری کے بعد سب نماز میں مصروف ہوگئے تو جے سالک کہنے لگے کہ اجتماعی افطاری سے احساس ہوتا ہے کہ سب برابر ہیں۔’’جے سالک کو اسلام کے اس بنیادی فلسفے کا علِم تھا کہ نہیں، جس میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا گیا ہے، انکی خوشیاں اور دکھ سانجے ہیں، ہمارا مذہب صرف اجتماعیت کا درس دیتا ہے، دینی اجتماعات میں کوئی چھوٹا بڑ ا یا کوئی حقیر فقیر نہیں ہوتا۔ دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا، کھانے میں شریک کرنا یا روزہ کھلوانے کیلئے انکے گھروں میں اشیاء بھیجنا بھی ایسی عبادت ہے کہ جسکا بے پناہ اجّر ہے۔ روزوں اور ماہ صیام کا یہی فلسفہ ہے مگر اسکا رنگ پورا سال اور زندگی کے ہر پہلو میں نظر آنا چاہیے۔

(۴) ’’بے وضو نماز‘‘

ایک ایسی افطارپارٹی میں جانے کا اتفاق بھی ہوا کہ جہاں ہر مکتبہ فِکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ملک کی روحانی و دینی شحصیات بھی شریک تھیں، افطاری کے بعد مائیک پر اعلان کیا گیا کہ نما زمغرب کا وقت ہوچکا ہے سب لوگ نماز کیلئے مخصوص جگہ پر پہنچ جائیں آدھے سے زائد افراد وہیں بیٹھے رہے، جب ایک پیر صاحب نے یہ دیکھا تو انھوں نے مائیک پر آکر کہا کہ’’ نماز تو رمضان کے علاوہ بھی فرض ہے اور نماز چھوڑنے کی کوئی دلیل یا تاویل پیش نہیں کی جا سکتی۔

روزہ کھولنے کے بعد نمازنہ پڑھنے کا کتنا بڑا گُناہ ہوگا یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘ ان کی یہ بات سُن کر وہاں بیٹھے ہوئے افراد شرمندہ ہوگئے اور نماز کیلئے چل پڑے نماز شروع ہونے سے پہلے امام صاحب نے اعلان کیا ’’ جو شخص جان بوجھ کر بے وضو نماز پڑھے وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اسکی سخت سزا ہے پانی نہ مِلے تو بھی تیمم ضروری ہے یہاں تو وضو کا باقاعدہ انتظام اور وافر پانی موجود ہے‘‘ انکی یہ بات سُن کر تقر بیاً نصِف کے قریب افراد وضو کرنے چلے گئے۔ اسوقت احساس ہواکہ ہم دین کے معاملے میں بھی منافقت کا شکار ہوتے جارہے ہیں، روزہ کھولنے والے افراد بھی نمازکی فرضیت اور اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور نماز کے آداب و فرائض سے بھی ناواقف ہیں۔

  (۵)’’دیگ  ہی اٹھالی‘‘

ایک دفعہ پیپلز پارٹی کی افطار پارٹی میں شرکت کا اتفاق ہوا، جہانگیر بدر مرحوم اس افطار پارٹی کے مہمان خصوصی تھے۔ اافطاری سے قبل جب قبولیت روزے اور عبادات کی دُعا مانگی جارہی تھی تو جیالے دُعا مانگنے کی بجائے کھانے پر پل پڑے، ایک صاحب تو دیگ پکڑ کر ہی ایک سائیڈ پر لے گئے۔  ایک سینئر صحافی یہ منظر دیکھ کر تاسف کے ساتھ بولے’’ جانے ہم لوگوں کی بھوک و ننگ کب ختم ہوگی۔

(۶)’’ مجاہد کی افطاری‘‘

کئی سال پہلے ایک افطار پارٹی میں حزب المجاہدین کے سیکرٹری کمانڈرغلام رسول ڈار بھی جماعت اسلامی کے راہنماؤں کے ساتھ تشریف لائے، جماعت اسلامی کے موجودہ نائب امراء ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، میاں مقصود احمد، پی ٹی آئی کے میاں محمود الرشیدکے علاوہ سینئر صحافیوں اور دوسری جماعتوں کی اہم شحصیات بھی موجود تھیں، افطاری سے قبل حزب المجاہدین کے سیکرٹری کمانڈر غلام رسول ڈار سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اب مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی کی کیا صورتحال ہے تو وہ بتانے لگے کہ ’’اب وہاں مائیں اپنے بچوں کو شہید ہونے کیلئے ہی پیدا کرتی ہیں ،کہنے لگے میرا تعلق بڈگام سے ہے جب وہاں کوئی نوجوان شہید ہوتا ہے تو مائیں بین ڈالنے کی بجائے اسے کفن پہنانے کے ساتھ سہرا سجاتی ہیں اور سہرے کے گیت گائے جاتے ہیں۔

کہنے لگے کہ ہماری منزل صرف آزادی اور پاکستان کے الحاق ہے ہم کسی سیکنڈ یا تھرڈآپشن کیلئے جدوجہد نہیں کررہے اور نہ ہی ایک خودمختار ریاست کیلئے ہماری جدوجہد ہے‘‘ انکی گفتگو کے دوران گہرا سکوت چھا چکا تھا، انکے چہرے پر عزم اور تازگی تھی، کچھ سال بعد انھیں مقبوضہ وادی میں شہید کردیا گیا، انکی شہادت کی خبر قومی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی۔ میری زندگی میں سینکڑوں افطاریاں آئیں مگر ہر افطاری کے موقع پر انکا پُر عزم چہرہ نگاہوں کے سامنے پھرتا رہا۔

(۷)’’ قاضی حسین احمد کا استقلال ‘‘

کچھ سال قبل علماء اکیڈمی منصورہ کی افطار پارٹی میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔ انکے دل کا بائی پاس ہو چکا تھا اور وہ سارا دن جماعتی سرگرمیوں میں مصروف رہے تھے مگر افطار سے پہلے جب کہ اچھے خاصے تندرست افراد کا چہرہ اُترا ہوا تھا وہ بالکل تازہ دَم تھے، ایک مسکراہٹ سی انکے چہرے پر تھی، افطار اور نماز کی ادائیگی کے بعد وہ عام افراد میں اس طرح گُھل مِل کر بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے وہ ان کے قریبی عزیز ہوں، انکے چہرے سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں، انھیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مرض روزے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا، اب تو لوگ سردرد کا بہانہ بنا کر بھی روزہ نہیں رکھتے اور طبی عُذر پیش کردیتے ہیں۔ روزے کا بڑا اجّر ہے، روزہ خاص اللہ کیلئے اور اللہ ہی اسکا اجّر دے گا، مگر اکثریت روزے کی اہمیت سے ہی ناآشنا ہے، ہٹے کٹے افراد بھی روزہ نہیں رکھتے بلا عذر روزہ چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے جس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

(۸)’’رشوت کی کمائی سے افطاری‘‘

ایک ایسے بیوروکریٹس کی افطاری میں جانے کا اتفاق ہوا کہ جو رشوت خوری کے معاملے میں مشہور تھے، وہ صاحب ریٹائر منٹ کے بالکل نزدیک پہنچ چکے تھے، وہاں افطاری کی بجائے ولیمے کی تقریب کا گمان ہو رہا تھا۔ انھوں نے علاقے کے امام صاحب کو دُعا کیلئے مدعو کیا ہوا تھا، مولانا صاحب نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ دعا کے بعد فوراً مسجد نماز پڑھانے چلے جائیں گے۔، افطاری سے پہلے مولانا صاحب نے سورۃ بقرہ کی چند آیات تلاوت کیں ان کا ترجمہ بیان کیا اور تفسیر یہ بیان کی کہ حرام مال زکواۃ ،روزہ کھلوانے یاکسی بھی نیکی کے کام پر خرچ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس مال حرام سے کسی مستحق کی مدد کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسکا کوئی اجّر ہے، جب وقت افطار ہوا تو مولانا نے اپنی جیب سے کجھور نکالی، روزہ افطار کیا اور چلے گئے۔

آئے ہوئے مہمان کھانے پر پل پڑے ،کسی کو مولاناصاحب کی بات یاد نہیں تھی مگر وہ بیوروکریٹ خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے، پریشان نظر آرہے تھے۔ ان سے اجازت مانگی تو اُن کے منُہ سے صرف اتنا نکلا ’’ اب میں اور میرا خاندان اس حرام کمائی اور شان وشوکت کی دلدل میں اس طرح دھنس چکا ہے کہ نکِلنا ممکن نظر نہیں آتا، شائد دنیا کی چکا چوند نے میری بینائی چھین لی تھی‘‘ ان کے چہرے پر پریشانی اور تفکرات کے آثار نمایاں تھے، مگر آئے ہوئے مہمان ہر چیز سے بے نیاز ’’افطاری ‘‘ کے سامان سے پیٹ بھرنے میں مشغول تھے۔ حرام کمائی سے روزہ کھولنے کا کسی کو بھی احساس نہیں تھا ۔

(۹)’’ماہ رمضان انعام واکرام اور بخشش کا مہینہ‘‘

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے وہ جِسے اس دنیا میں بھیجتا ہے، انکے رزق، خاندان کی تشکیل اور دوسری نعمتوں کا بندوبست کرنے کے علاوہ انھیں بخشنے کی بھی سبیل پیدا کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کو بخشنے اور اپنی رحمتوں سے نوازنے کیلئے اُس نے سب سے بڑا تحفہ ماہ رمضان کی صورت میں دیا ہے،اس  مہینے کی ایک رات لیلتہ القدر کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل ہے، اس ماہ مبارکہ میں ہر نیکی کا اجّر ستر گنا زیادہ ہے۔ روزہ صرف اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہے۔

روزہ نام ہے پاکیزگی حاصل کرنے کا، غیبت، جھوٹ، حرام اور گناہوں سے بچنے کا، اپنے نفس پر قابو پانے کا، لالچ اور خود غرضی سے بچنے کا، صرف اپنی ذات کو ترجیح دینے سے بچنے کا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا، اپنے اندر کے لالچ اور بّرے انسان کو ختم کرنے کا، قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے کا، اور پورا سال اس مشق کو جاری رکھنے کا۔

اجتماعی افطاریوں کا مقصد مسلمانوں کا اکٹھا ہوکر اس کے رزق کی مساوی تقسیم،طبقاتی تفریق سے بالا تر ہو کر اکٹھے افطار کرنا، نماز ادا کرنا اور باری تعالیٰ کا شکرادا کرنا ہے، مگر اب کچھ عرصہ سے رمضان مبارک کا وہ تقدس نظر نہیں آتا جو کہ پہلے کبھی مسلم ریاستوں میں نظر آتا تھا، مصنوعی مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،غیر مستحق افراد کا زکواۃ حاصل کرنا اور گناہوں کا بھی عام نظر آنا یقیناً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ ہر سال بخشش کا بھر پور موقع دیتا ہے مگر ہم اس موقع کو ضائع کردیتے ہیں۔

روزے کا اصل مقصد اپنے نفس پر قابو پانا اور صبر و تحمل ہے، اسکا عملی نمونہ افطاری کے وقت نظر آنا چاہیے کہ ہم  میں صبر اور ایثار پیدا ہوا ہے؟ ہمارے اندر کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے یا ہم نے صرف ’’فاقہ کشی ‘‘ کی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا رمضان المبارک کے بعد مسلم معاشرے میں کوئی تبد یلی واقع ہوئی ہے؟ سوچ و فکر تبدیل ہوئی ہے یا ہم ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسا کہ رمضان سے پہلے تھے؟؟؟؟

The post افطاریاں کیسی کیسی! appeared first on ایکسپریس اردو.

چینی پاکستانی باشندوں کا شادی اسکینڈل

$
0
0

گذشتہ دنوں ایک خبر نے پاکستان اور چین کے عوامی اور حکومتی دونوں حلقوں میں بہ یک وقت تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس تشویش کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں میں حکومتی سطح پر اس خبر کا نوٹس لینا اور اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرنا ضروری سمجھا گیا۔

خبر یہ تھی کہ چین کے لڑکے یا مرد ہمارے یہاں آکر لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جارہے ہیں۔ وہاں ان لڑکیوں کو جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جسمانی اعضا بالخصوص گردوں کی فروخت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین خبر ہے جسے سن کر کوئی بھی با شعور، با ضمیر شخص غم و غصے اور نفرت کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا۔ اس خبر کی سنگینی میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب یکے بعد دیگرے ایسے کئی ایک واقعات سامنے آئے۔ یہ شکایات پہلے پولیس تھانوں تک اور اس کے بعد ایف آئی اے تک پہنچیں۔ ان رپورٹس پر متعلقہ اداروں میں کھلبلی مچی۔ ماتحت عملے نے اس معاملے میں پہلے اپنے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا پھر یہ خبریں ان کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئیں۔ غور و خوض کے بعد کارروائی کا حکم دیا گیا۔

پاکستانی لڑکیوں کے اہلِ خانہ سے تفصیلی معلومات لی گئیں اور ان کی رپورٹ پر چینی باشندے گرفتار کیے گئے۔ یہ گرفتاریاں ملک کے مختلف شہروں میں ہوئیں جن میں لاہور، فیصل آباد، منڈی بہاالدین اور اسلام آباد شامل ہیں۔ چینی باشندوں سے ابتدائی تفتیش کے بعد ان کی نشان دہی پر ان کے کچھ اور ساتھی اور مقامی سہولت کار بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔ بعد ازاں ایف آئی آر درج ہوئی۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے مزید تفتیش کے حکم کے ساتھ ملزموں کو جسمانی ریمانڈ پر متعلقہ اداروں کے حوالے کردیا۔ حالیہ اطلاع کے مطابق 79 افراد گرفتار ہیے جا چکے ہیں۔

ٹی وی چینلز نے اس خبر کو پہلی مرتبہ اسی سنجیدگی سے دیکھا اور نشر کیا ہے، لیکن یہ خبر ابھی اچانک سامنے نہیں آئی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونے میں اسے خاصا وقت لگا۔ لگنا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ سنی سنائی کے انداز میں اسے آگے بڑھا دیا جائے۔ ذمے داری سے اس کا جائزہ لینے اور چھان پھٹک کرنے کی ضرورت تھی، لیکن میڈیا مالکان اپنے ذرائع سے فی الفور اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ یہاں جن خاندانوں نے شکایات درج کرائی ہیں، ان سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کریں۔ دو چینلز نے اس سلسلے میں خاص طور پر کوشش کی۔ اذیت سے گزرنے والے خاندانوں نے جو واقعات بیان کیے، وہ سخت تکلیف دہ اور حیران کن تھے۔

دونوں چینلز نیوز بریک کرنا چاہتے تھے۔ یقینا اس میں ریٹنگ کا معاملہ بھی تھا، لیکن اس کی باقاعدہ اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے دونوں چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش اور کوشش کے باوجود خبر بریک نہیں کرپارہے تھے۔ خبر کی دنیا سے وابستہ افراد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بعض خبریں گرین سگنل کے بغیر نشریات کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ یہ ایسی ہی ایک خبر تھی۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی معاہدے، ان سے بھی بڑھ کر سی پیک ور اس کے علاوہ عالمی تناظر میں پاکستان کو حاصل چین کی حمایت جیسے معاملات اس خبر کے منظرِعام پر آنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ ان سب عوامل کے بارے میں یوں تو اب پاکستان کے عوام بھی بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن حکومتی ترجیحات اور حکمتِ عملی کی اہمیت سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔

ہمارے اداروں اور اربابِ اختیار نے اس سلسلے میں خاصا وقت لیا۔ حالاںکہ سوشل میڈیا نے گزشتہ دو ایک ماہ کے دوران میں اس خبر کو نہ صرف پھیلایا، بلکہ اس حوالے سے تبصرے اور آرا بھی سامنے آئیں، لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس خبر کو وہ توجہ نہیں مل سکی جو اسے ایک ایسا نیوز آئٹم بنا دے کہ پھر کوئی بھی حکومتی ادارہ اس کے لیے مزاحمت کے لائق ہی نہ رہے۔ اصل میں سنجیدہ اور پڑھا لکھا طبقہ اب سوشل میڈیا کی کسی بھی سرگرمی کو اس وقت تک قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتا جب تک دوسرے ذرائع اس کی تصدیق نہ کریں۔ یقینا یہ درست رویہ بھی ہے۔

اس لیے کہ سوشل میڈیا اپنی ساخت اور مزاج دونوں لحاظ سے کوئی بہت قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں ہے۔ پراکسی وار اور ففتھ جنریشن جنگی حکمتِ عملی کے لیے اس کے استعمال ہونے والے حقائق کی تفصیلات نے تو اس میڈیم کے بارے میں ویسے ہی بہت اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ چناںچہ ضروری ہے کہ عام آدمی بھی اس سلسلے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرے۔ اس پر آنے والی کوئی بھی اطلاع ضروری نہیں کہ واقعی اطلاع ہو۔ وہ محض ایک ایسی افواہ بھی ہوسکتی ہے جو خوف، انتشار اور ردِعمل کے حصول کے لیے پھیلائی جارہی ہو۔

اب جب کہ چینی پاکستانی باشندوں کی شادی کی یہ خبر باضابطہ نشر ہوچکی ہے تو اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جھوٹی شادی رچا کر جواں سال لڑکیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانا کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اچھنبے کی۔ انسانی اسمگلنگ کی تاریخ سیکڑوں سال پرانی ہے، ابھی لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے تک اسے کوئی بہت سنگین مسئلہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں قوانین ہونے کے باوجود اُن پر عمل درآمد کی صورتِ حال بہت اطمینان بخش بھی نہیں تھی۔ تاہم اب نہ صرف قوانین بہتر کیے گئے ہیں، بلکہ ان کو مؤثر انداز میں قابلِ عمل بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ پر بھی منشیات کی طرح مکمل طور سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ سخت ترین قوانین کے باوجود اس کی مکمل روک تھام کے بارے میں مستقبل قریب کے حالات بھی بہت زیادہ امید افزا نہیں کہے جاسکتے۔ اس لیے کہ اپنے بہیمانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کا کس کس طرح استحصال کرنے کا راستہ نکال سکتا ہے، اس پر قانون ہی نہیں، اخلاقیات، سماجیات اور نفسیات کے ماہرین بھی اب تک نئے تجربات کو دیکھتے ہوئے افسوس اور استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔

برِصغیر پاک و ہند کا خطہ ایسے واقعات کے لیے اپنی تاریخ کے قدیم ادوار سے زرخیز رہا ہے۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک تعلیم اور شعور کی کمی اور دوسرے افلاس اور روزمرہ ضرورتوں سے محرومی۔ اکیس ویں صدی تک آتے آتے دنیا بہت بدل چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ رد حقیقت ہے کہ اس خطے میں، بلکہ ساری پس ماندہ دنیا میں آج بھی انسانی استحصال کے امکانات اسی طرح موجود ہیں جیسے گزشتہ صدیوں میں تھے۔ یہ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے، جب تک ان معاشروں کا سماجی ٹیکسچر درحقیقت تبدیل نہیں ہوجاتا۔ ظاہر ہے، ایسا جہالت اور غربت کے خاتمے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے۔ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا، سوڈان، فلپائن، ایتھوپیا اور مشرقِ وسطیٰ کی متعدد ریاستیں اگر آج اس معاملے میں سنجیدہ ہوکر اقدامات کا آغاز کریں تو بھی حالات کی بہتری کے لیے انھیں کئی دہائیوں کا عرصہ درکار ہے۔

چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ امریکا اور روس جو ایک زمانے میں روایتی حریف تھے، دنیا کے قطبین میں طاقت کے توازن کا ذریعہ تھے۔ 1979ء میں روس کی یہ حیثیت ختم ہوگئی اور دنیا یک قطبی ہوگئی۔ اب تک ایسا ہی ہے۔ تاہم اس عرصے میں چین بڑی منزل سر کرچکا ہے۔ گو ابھی اسے امریکا کی ہم پلہ طاقت کا مرتبہ حاصل نہیں ہوا ہے، لیکن اب دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے امریکا بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی کے عرصے میں امریکا کی اسٹاک مارکیٹ کے سنگین بحران کے دو مواقع ایسے تھے جب چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھالا دیا۔

اسلحہ سازی کی معیشت میں بھی وہ اب امریکا کے آس پاس ہے اور اس کی مارکیٹ وسیع ہورہی ہے، جب کہ روزمرہ اشیا کی مارکیٹ میں وہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ جنوبی ایشیا میں اس کی راہ داری کا منصوبہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جانے میں اس کے سفر کی رفتار کو جس طرح بڑھائے گا، اس کا اندازہ اب امریکا اور یورپ کے ساتھ اور بھی بہت سے ممالک کو بخوبی ہوچکا ہے۔ چین اپنی حیثیت سے نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہے، بلکہ وہ اس کو اپنے مستقبل کے لیے بھی پوری طرح بروئے کار لارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے امریکا سے تجارتی مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہوجانا اس کے لیے نہیں، امریکا کے لیے زیادہ سوالات اٹھا رہا ہے۔

طاقت فرد کے پاس ہو یا کسی قوم کے، انسانی سائیکی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اثرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں، استحصال ان میں سب سے نمایاں مظہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کسی قاعدے، ضابطے، اصول اور قانون کو مانتی ہے۔ وہ ہر ممکن صورت میں اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ثبوت درجنوں مرتبہ گزشتہ چار دہائیوں میں امریکی اقدامات اور حکمتِ عملی کے ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے جب برطانیہ کی طاقتِ عظمیٰ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ برِصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی آمد سے جو دور شروع ہوا تھا، اس کی اصل حقیقت اٹھارھویں صدی کے آخری برسوں میں نمایاں طور پر سامنے آچکی تھی۔

1857ء کے بعد تو اس کا نقشہ پورے ہندوستان نے اچھی طرح دیکھ لیا۔ اسی زمانے میں محکوم قوم کے انفرادی اور اجتماعی استحصال کے ان گنت واقعات ہماری تاریخ اور ادب کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں۔ فاتحین اور طاقت وروں کی تاریخ کے ایسے ہر دور کی طرح اس زمانے میں بھی محکوم ہندوستان کی جواں سال لڑکیاں اور خوش رو عورتیں حاکم فرنگیوں کی توجہ اور التفات کا خاص مرکز تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء میں پاک و ہند کی تقسیم کے وقت انگریز حکم راں صرف زمینی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ پوری ایک اینگلو انڈین نسل بھی چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ اس نسل سے غافل یا لاتعلق بھی نہیں تھے، بلکہ وہ اس کے مستقبل کے بارے میں متفکر تھے۔ اس کی تفصیل عاشق حسین بٹالوی کی مرتب کردہ کتاب ’’لیکیوڈیشن آف برٹش ایمپائر‘‘ میں درج میں ہے۔

اکیس ویں صدی کی یہ دنیا ہی بیس ویں صدی سے مختلف نہیں ہے، بلکہ ہمارے چینی مہربان بھی فرنگی آقاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس فرق کا اظہار ہی تو ہے کہ انھوں نے اپنی ساری سرمایہ کاری کے باوجود اہلِ پاکستان سے حاکم و محکوم کا تعلق بنانے کے بجائے وہ رشتہ جوڑنے کی کوشش کی جو ہمیں برابری کا احساس دلائے اور ہمارے لیے جذباتی تسکین کا ذریعہ ہو۔ شادی کا بندھن ہمارے یہاں سماجی حیثیت کے ساتھ مذہبی جذبات کی تسکین کا سامان بھی رکھتا ہے۔ چین کے مردوں نے ہماری اس ذہنی ضرورت کو سمجھ کر ہی یہ طریقہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کی اس سوجھ بوجھ کو سراہا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ان پاکستانی لڑکیوں اور ان کے پورے کنبے کو بھی داد دینی چاہیے کہ جو ترقی، خوش حالی اور عالمی سیاحت کے خواب اس طرح کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اور کچھ سوچنے، دیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ شادی دو افراد کا نہیں، کم سے کم دو خاندانوں کا معاملہ ہوتا ہے۔

یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے بس یہ سن کر ایک چینی شخص مسلمان ہوگیا ہے اور ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، اٹھا کر اپنی بہن بیٹیوں کو اس سے بیاہ دیا۔ کسی تفتیش تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بات پر غور نہیں کیا کہ ان کی بہن بیٹی ایک ایسے ملک میں بیاہ کر جائے گی جس کی زبان، تہذیب، ثقافت اور سماجی زندگی سے وہ قطعی ناواقف ہے۔ وہاں وہ کس طرح رہ پائے گی۔ اس کے جینے کا ڈھب کیا ہوگا اور وہ کن حالات میں رہے گی؟ ہمارے یہاں کے ان لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ چین میں شادی کے بعد نیا جوڑا اگر اولاد کا خواہش مند ہو تو اسے باقاعدہ رجسٹریشن کرانی ہوتی ہے۔ گویا ماں باپ بننے کے لیے انھیں ایک طرح کا اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

واقعہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے یہاں اب جیتے جاگتے اور بیدار دل، بیدار ذہن کے لوگ بہت تیزی سے کم ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب زیادہ تر ہمارے یہاں تو ناآسودہ روحیں پائی جاتی ہیں اور ان گنت محرومیوں کے ساتھ۔ اگر کبھی آپ کو ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ خواہشوں اور امنگوں کے ہاتھوں گروی رکھے جاچکے ہیں۔ ان کے جسموں میں صدیوں کی پیاس جمع ہے اور روح لاتعداد حسرتوں کے انبوہِ گراں تلے دبی ہوئی سسک رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے، محرومی کی نفسیات ایک بڑی ہول ناک چیز ہے۔ جب آدمی کی نظر میں یہ دنیا بڑی اور وہ خود چھوٹا ہوجاتا ہے تو یہ نفسیات اور زیادہ تباہ کن ہوجاتی ہے۔ جن معاشروں میں یہ ہوتا ہے، وہاں پر اسی قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں۔

دنیا کے سارے ترقی یافتہ معاشروں کی طرح چینی سماج میں بھی ذہین اور محنت کش لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ایک طبقہ پایا جاتا ہے جو جبر اور استحصال کے ہر ممکنہ ذریعے کو اپنی ترقی اور کامیابی کے لیے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ اچھے برے لوگ ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ چین میں بھی ہیں۔ وہاں پر بھی لوٹ مار، چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ تفریحی، تاریخی اور سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو جعلی کرنسی دینے کے واقعات تو عام ہیں۔ حکومت ان پر قابو پانے کے اقدامات بھی کرتی ہے۔ جگہ جگہ انتباہ کے نوٹس بورڈ بھی لگے ہوتے ہیں۔

اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ اپنے کاموں کا راستہ نکالتے رہتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا چین ایسا نہیں ہے۔ دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایسے لوگ چند فی صد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اس لیے ایسے کسی واقعے کی بنیاد پر پورے چین کو مجرم سمجھنا درست نہیں۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے۔ اس کے باشندے دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اپنے ذاتی رجحان کے تحت وہ اچھا برا کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ان پر نظر رکھنا اور اپنے قانون کے تحت ان کا احتساب کرنا ہر ملک کا حق ہے۔ تاہم ایسے واقعات کو پورے چین کی تضحیک و تذلیل کا جواز بنانا یقینا غلط ہوگا۔

پاکستان میں گذشتہ دو تین برسوں میں ہونے والے جرائم کے پورے منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو اس میں سائبر کرائم اور بینک کے اے ٹی ایم سے جعلی ٹرانزیکشن سے لے کر اس شادی اسکینڈل تک چینی باشندوں کی شمولیت کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر ایک واضح پالیسی اور اس پر مکمل طور سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوامی شعور کی بہتری کے بغیر اس نوع کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ حالیہ شادی اسکینڈل کے سلسلے میں پاکستان کے دفترِخارجہ اور چینی حکومت کے ترجمان ادارے نے جس انداز سے اپنے ردِعمل کا اظہار کیا، وہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ دونوں ملکوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے واقعات کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائیگا۔ دونوں ملک ایسے ہر معاملے میں معلومات کا تبادلے اور ہر طرح کے تعاون پر متفق ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ افواہوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرانے کی کوششوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ یہ کام حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے کرنے کا بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا زمانہ ہے۔

The post چینی پاکستانی باشندوں کا شادی اسکینڈل appeared first on ایکسپریس اردو.


افغانستان۔۔۔۔ ایک صدی کی کہانی

$
0
0

دنیا میں سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والاعالمی نوآبادیاتی نظام امریکہ کی دریافت کے بعد امریکہ کی آزادی، خودمختاری انقلاب فرانسِ نپولین کی جنگوں اور اس کے بعد امریکی خانہ جنگی سے ہو کر انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر جنگِ عظیم اوّل ’’عالمی جنگ‘‘ کے قریب پہنچ رہا تھا۔

یورپ اور امریکہ میں پرانا جاگیردارانہ نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سرمایہ دارانہ اور صنعتی دور میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سنٹرل بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج فروغ پا کر عالمی معاشیات اور اقتصادیات پر سرمایہ دارانہ نظام کو ظالمانہ قوت کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط کر چکا تھا، لندن، نیویارک، پیرس اور ماسکو جیسے تہذیبی مراکز کہلانے والے صنعتی شہروں میں کو ئلے سے چلنے والے کارخانوں میں بچوں اورخواتین سے چودہ سے سولہ گھنٹے یومیہ مشقت نہایت کم معاوضے پر لی جاتی تھی.

یوں اس جنگِ عظیم اوّل سے قبل ہی ایک جانب مشرقی یورپ، چین، ہندوستان، روس اور دنیا کے دیگر آزاد اور نو آبادیا تی نظام میں جکڑے ہوئے ملکوں میں کارل مارکس اوراینجلز اشتراکیت کے نظریات، انقلابات سے قبل طوفان کی پہلی موجوں کی طرح ناکام بغاوتوں کی صورت ابھر رہے تھے، تو ساتھ ہی نو آبادیاتی قوتوں کے درمیان ملک ہوس گیری یعنی اب جن ملکوں کے پاس کم نو آبادیات تھیں وہ قوت کے بل پر بر طانیہ، فرانس، نیدر لینڈ، پرتگال، اٹلی، روس اور سپین سے مقبوضہ علاقے چھیننے کی کو ششوں میں تھے، پرانی دنیا کی تین بڑی قوتیں، روس، ترکی کی سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ تھیں جب کہ فرانس، جرمنی، سپین اور جاپان بھی بڑی قو توں میں شمار ہوتے تھے۔

امریکہ جو کبھی برطانیہ اور کچھ رقبے کے اعتبار سے فرانس کی نو آبادی تھی اپنی آزادی اور خانہ جنگی کے بعد اب نئی دنیا کی ایک بڑی قوت بن چکا تھا، ہمارے ہاں برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم ہو چکا تھا اس کے استحکام کے مراحل میں برطانیہ کی خاص سیاست اور حکمت عملی شامل رہی تھی۔

انگریزوں کو ہندوستان کے اعتبار سے یہ احساس شروع سے تھا کہ ہندوستان پر ہمیشہ افغانستان کی جانب سے حملے ہو تے رہے ہیں، اس لیے اُن کی حکمت عملی یہ رہی کہ اس سے قبل کہ افغانستان سے کوئی حملہ ہو پہلے اُ س پر حملہ کر کے اُسے زیر نگیں کر لیا، اِ س کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ روس کے زار پال اوّل نے 1800ء میں کو شش کی تھی کہ نپولین کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہو تو روس اس طرف یعنی خیبر پختونخوا اور بلو چستان سے ہندوستان میں براستہ افغانستان حملہ کرے گا، لیکن خدا کا کرنا کہ 1812 ء میں نپولین نے ہی ماسکو پر حملہ کر دیا اور روسیوں نے سردی کے شدید ہو نے تک انتظار کیا اور فرانسیسی فوجوں کو روکے رکھا اور پھر ماسکو کو آگ لگا کر پیچھے ہٹ گئے اور نیپولین کی آدھی فوج سردی سے مر گئی۔

1838ء میں برطانیہ کی جانب سے ہندوستان میں تعینات گورنر جنرل آکلینڈ نے شملہ میں افغانستان پر حملے کو آخری شکل دی ے دی، اور اس منصوبے کو شملہ مینیفسٹو کا نام دیا گیا، یہ پہلی اینگلو افغان وار یعنی پہلی برطانوی افغان جنگ تھی جس میں انگر یزوں نے اپنے حامی اور جلاوطن افغان شاہ شجاع کی مختصر فوج کی مدد کی۔ اس جنگ میں پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں کی مدد کرتے ہو ئے ایک بڑی فوج کے ساتھ خیبر پختو نخوا کے راستے کابل پر حملہ کیا جبکہ انگریزوں کی21 ہزار ہندوستانی افواج بلوچستان سے ہوتی 28 جولائی 1839 ء میں غزنی پر قبضہ کرکے اگست میں کابل پہنچ گئیں اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانے کے بعد سکھ فوج واپس ہو گئی ۔

افغانستان میں انگریزوں نے بارہ ہزار ہندوستانی فوج انگریز افسران کے ساتھ چھوڑی اور باقی فوج واپس ہو ئی، جب انگریز فوج کابل پر حملے کے لیے بلو چستان سے جا رہی تھی تو درہ بولان میں بلوچ قبائل نے گوریلا انداز کی جنگ میں اس فوج کو نقصان پہنچایا تھا، یوں واپسی میں انگریز فوج نے بلوچستان کے خان آف قلات میر محراب خان کواطاعت کا پیغام بھیجا جسے اِس غیرت مند بلوچ خان نے رد کر دیا اور جنگ کرتے ہو ئے شہادت کو ترجیح دی، افغانستان میں انگریز وں کے خلاف مزاحمت اُس وقت تیز ہو گئی جب انگریزوں نے اپنے فو جیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے اِن کے بیوی بچوں کو ہندوستان سے بلوا لیا، اِس کے منفی اثرات مرتب ہو ئے افغان یہ سمجھے کہ اب انگریز افغانستان میں مستقل قیام چاہتا ہے۔

1942 ء کے موسم سرما میں افغان مجاہدین نے انگریزوں کی فوج کے خلاف کاروائیاں تیز کردیں اورایسی شدید جنگ لڑی کہ انگریزوں کی تمام کی تمام بارہ ہزار فوج کو قتل کردیا اور صرف ایک انگریز ڈاکٹر ولیم برائڈن کو زندہ چھوڑا، مگر اِس کا ایک بڑا نقصان سنٹرل ایشیا کی آزاد اور خود مختار ریا ستوں کو ہوا جہاں روس کے زار سلطنت کی فوجیں آگے بڑھیں۔ 1842 ء سے پہلے روسی سرحد بحیرہ ایرال کی دوسری جانب تھی، پانچ سال بعد روس سنٹرل ایشیا میں دریائے آمو تک پہنچ گیا، 1863ء میں تاشقند پر قبضہ کر لیا اور 1873ء تک بخارہ پر بھی روس کا قبضہ ہو گیا۔

اب برصغیر میں انگریزوں کی گھبراہٹ بڑھنے لگی، یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ایک جانب1861 ء سے آج کے پاکستانی علاقوں میں ریلوے لائن تیزی سے بچھانی شروع کر دی تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اپنی دفاعی لائن زیادہ مضبوط کی اور 1878ء میں جنگ سے قبل ہی بلو چستان میں کو ئٹہ شہر اورچھائونی بنا دی اور اسی سال افغانستان پر حملہ کر دیا۔ یہ دوسری اینگلو افغان وار 1880ء تک جاری رہی، اس جنگ میں انگریز چونکہ فاتح تھا لہٰذا اُن کی اطلاعات کے مطابق 1630 سے زیادہ انگریز فوجی ہلاک جب کہ افغانستان کے 12700 فوجی اور قبائلی مجاہدین شہید ہوئے ۔

1879ء میں کابل افغانستان کی حکومت اور برطانوی ہند کے درمیان ایک معاہد ہ گنڈامیک ہوا پھر پہلے یہ طے ہوا کہ یعقوب خان کے بھائی ایوب خان کو بادشاہ بنایا جائے لیکن بعد میں انگریزوں نے اُس کے چچا زاد بھائی عبدالرحمن کو امیرِ کابل بنا دیا تو ایوب خان جو اُس وقت ہرات کا گورنر تھا اُس نے بغاوت کر دی، اُس کو انگریزوں نے 1880ء میں شکست دی اب افغانستا ن اس معاہدے کے بعد مکمل طور پر آزاد نہیںتھا، اورافغانستان نے اپنے امورخارجہ انگریزوں کے حوالے کر دئیے تھے اور اِس کے عوض سالانہ ایک بڑی رقم سبسڈی کی نام پر حاصل کر نا شروع کردی تھی انگریز نے یہ بھی یقین دلایا تھا،کہ افغانستان پر کسی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں برطانیہ اُس کی بھرپور فوجی مدد کرے گا ۔

دوسری جانب افغانستان کے شمال میں ترکمانستان، ازبکستان، اور تاجکستان میں اب روس موجود تھا، اب برطانیہ اور روس کے درمیان افغانستان تھا جہاں امور خارجہ انگریز کے ہاتھ میں تھے اور باقی اندرونی طور پر افغا نستان آزاد تھا، مگر اب آئندہ 39 سال پوری دنیا کے لیے نہایت اہم اور خطرناک تھے، یوں 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو ئی، اس جنگ میں ایک طرف سلطنتِ جرمنی، خلافتِ عثمانیہ، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ تھے جن کی فوجوں کی مجموعی تعداد 2 کروڑ 52 لاکھ 48 ہزار سے زیادہ تھی اور اس کے مقابلے میں جو اتحادی فوجیں تھیں۔

ان کی تعداد 4 کروڑ 29 لاکھ 59 ہزار سے زیادہ تھی اور اِس اتحاد میں روس، برطانیہ، فرانس،اٹلی ، رومانیہ ، جاپان، مونٹینگر و، یونان، پرتگال، سربیا وغیرہ تو آزاد حیثیت میںاور ساتھ اِن کی نوآبادیات شامل تھیں امریکہ اس جنگ اور اس اتحاد میں 1917 ء میں شامل ہوا جب کہ روس میں 1917ء میں لینن اور اسٹالن کی سر براہی میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو اِس انقلابی حکومت نے روسی کو جنگ عظیم اوّل سے نکال لیا اُ س وقت تک اس جنگ میں روس کے 1 کروڑ 20 لاکھ فوجی لڑے اور 18 لاکھ 11 ہزار فوجی ہلاک اور دگنی سے زیادہ تعداد میں زخمی اور معذور ہو چکے تھے، 1918 ء میں عالمی جنگ یا جنگ عظیم اوّل ختم ہو گئی۔

یہاں سے دنیا کی ایک نئی سیاسی،اقتصادی، عسکری ساخت واضح انداز میں سامنے آنے لگی، جنگ عظیم اوّل کے اختتام پر جرمنی اور سلطنت عثمانیہ شکست کھا کر بکھر گئی تھی، روس کی زار بادشاہت ایک برس پہلے ہی ختم ہو گئی تھی، برطانیہ کی نوآبادیات اگرچہ ابھی زیادہ تھیں اور دنیا کے25 فیصد رقبے اور پوری دنیا کی 24% آبادی پر اُس کی حکومت تھی مگر یہ بھی تلخ حقیقت تھی کہ اب وننگ اسٹینڈ پر دنیا کی سپر پاور برطانیہ کی بجائے امر یکہ تھا۔ اس جنگ عظیم اوّل میں جرمنی اور سلطنت عثمانیہ کی فوجوں کے43 لاکھ 46 ہزار فوجی جاں بحق ہوئے، 37 لاکھ سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے اور اِن سے دگنی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے۔ اِس کے مقابلے میں فاتحین نے اپنے جانی نقصان کی جو تفصیلا ت دیں اُن کے مطابق اتحادی افواج کے55 لاکھ 25 ہزار فوجی، 40 لاکھ سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے اور ان سے تین گنا زیادہ زخمی اور معذور ہوئے۔

یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بار ے میں سرمایہ داروں کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ اِن کا سرمایہ اب یہاں محفوظ نہیں اس لیے پوری دنیا سے سرمائے کا بہائو جنگ عظیم اوّ ل کے دوران امریکہ کی طرف ہوا، جو سات سمندر پار اب جدید سائنس اور ٹیکنا لوجی کے تمام شعبوں میں تیزی سے ترقی کرتا ، دنیا کا ایک محفوظ اور مضبوط ترین اقتصادی، صنعتی، دفاعی اور عسکری قلعہ بن چکا تھا اور اب تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ صلا حیتوں کے حامل افراد امریکہ جا رہے تھے۔ یہی وقت تھا جب نو آبادیاتی نظام دنیا میں مکمل ہو کر نئے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا، اِسی موقع پر علامہ اقبال نے مایوس مسلمانوں کی امید بندھاتے ہو ئے کہا تھا،

اگر عثمانیوں پہ کوہ، غم ٹو ٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جنگ عظیم کے بعد فوری طوری صرف حجاز مقدس ہی آزاد ملک تھا، انگریز یہ جانتے تھے کہ اگر اِس ملک پر قبضہ کر لیا گیا تو اُس وقت کی پوری دنیاکی ایک ارب 80 کروڑ آبادی میں 30 کروڑ مسلمانوں کو کنٹرول کر نا ناممکن ہو جائے گا جو ارضِ مقدس کی خاطر جان کی باز ی لگا دیں گے ، مگر 1919ء تک جب فرانس کے مشہور محل وارسسز میں شکست خوردہ جرمنی کو ذلت آمیز معاہدے ’’معاہدہ وارسائی‘‘ پر دستخط کروائے جانے والے تھے، دنیا میں تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوئے، مسلم ممالک میں اہم کردار ترکی اور افغانستان نے ادا کیا، افغانستان پر جنگ عظیم اوّل کے دوران 1879ء میں انگریزوں نے امیر عبدالرحمٰن سے گڈ میک معاہد کیا تھا، اِس کا انتقال 1901 ء میں ہوا۔

اِس کے بعد حبیب اللہ خان افغانستان کا بادشا ہ بنا تو اُس نے بھی اپنے باپ کی طرح گڈمیک معاہد ے کی پاسداری کی اور اپنی خارجہ پالیسی کو برطانوی مفادات کے تابع رکھا اور روس زارشاہی کے زمانے میں روس سے افغانستان کو دور رکھا، خصوصًا جب جنگ عظیم اوّل شروع ہوئی تو نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ برصغیر کے عوام نہایت جذباتی انداز میں خلا فتِ عثمانیہ کی حمایت میں تھے اور اِن کے شانہ بشانہ انگریزوں اور اتحادیوں کے خلا ف جہاد کرنا چاہتے تھے اور ان کی نظریں افغانستان کے بادشاہ حبیب اللہ کی جانب تھیں لیکن حبیب اللہ نے خود کو انتہائی غیر جانبدار رکھا، پھر 1917ء جب جنگ جاری تھی اور روس میں لینن اور اسٹالن کمیونسٹ انقلاب لے آئے تھے تو اُس وقت امر یکہ سمیت باقی اتحادی جنگ عظیم میں مصروف تھے۔

تو اُن کے لیے یہ بہت نازک موقع تھا اور اِس موقعے پر بھی حبیب اللہ خان نے برطانیہ سے معاہدہ نبھایا، یوں جب جنگ ختم ہوئی تو حبیب اللہ خان کو امید تھی کہ انگریز اُن کے اِس عمل کو تسلیم کرے گا اور اِ س کا کوئی نہ کوئی صلہ ضرور دیا جائے گا، یوں امیر حبیب اللہ خان نے انتظار کے بعد خود انگریز سرکار سے درخواست کی کہ 1919 ء میں ہونے والی ورسلز امن کانفرنس میں افغانستان کی خودمختار خارجہ پالیسی کو تسلیم کرتے ہو ئے بطور ایک آزاد ملک نشست دی جائے لیکن وائسرائے ہند، فیڈرک دی سنگر نے اُن کی اِس درخوست کو رد کردیا بعد میں اگرچہ اِس درخواست پر مذاکرات پر آمادگی ہو گئی تھی لیکن اسی دوران امیر حبیب اللہ خان کو افغانستان میں قتل کر دیا گیا اور اِ ن کے بھا ئی نصراللہ خان نے بادشاہت کا اعلان کر دیا مگر حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا غازی امان اللہ خان جو کابل میں خزانہ اور فوج کے اعتبار سے عہدے بھی رکھتا تھا اور اپنی خوبصورت اور دل آویز شخصیت کی وجہ سے عوام میں بھی بہت مقبول تھا اُس نے خود کو امیر حبیب اللہ خان کا جانشین قرار دے دیا اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہو ئے افغانستان کو مکمل آزاد کردیا، اور برطانیہ کی سبسڈی لینے سے انکار کرتے ہوئے۔

یہ واضح کر دیا کہ افغانستان اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد رکھے گا اور اپنے عوام اور افغانستان کے بہتر مفاد میں خارجہ پالیسی ترتیب دے گا، اس سے افغان عوام پُرجوش انداز میں غازی امان اللہ کے ساتھ ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اتاترک کمال پاشا نے انگریز فوجوں کو ترکی سے نکال کر ترکی کو جمہوریہ بنا کر آزاد اور خود مختار ملک بنادیا تھا، اور وہ قوم پرست ترک لیڈر کہلاتا تھا، اور ترکی اور ترک عوام کو زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق تیزی سے ترقی کی منازل طے کر وا کر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے برابر لانے کی کوششوں میں مصروف تھا، غازی امان اللہ اتاترک مصطفی کمال پاشا سے متاثر تھے، اِن کے اقتدار میں آنے سے ذرا قبل ہی جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف شدید غم و غصہ تھا کیونکہ یہاں 13 اپریل1919 ء کوجلیانوالا باغ میں فائرنگ کر کے379 افردکو جاں بحق کردیا گیا تھا، 1500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، اس کے علاوہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل انگریزوں کی فوج کا بڑا حصہ ابھی تک دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود تھا۔

جہاں محاذوں پر اگرچہ جنگ تو بند ہو چکی تھی لیکن وہاں حالات ابھی معمول پر نہیں آئے تھے، یوں غا زی امان اللہ نے سوچا تھا کہ افغانستان پر انگریزوں کے حملے کی صورت میں ہندوستان کے کروڑوں عوام انگریز کے خلاف بغاوت کر دیں، لیکن ایسا نہیںہو ا اور انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا، انگریزی فوج کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل سر آرتھر برائٹ بریگیڈئر جنرل ریجنیلڈ ڈائر، بریگیڈئیر جنرل الیگزینڈر اسیوٹیکس نے کی تھی جب کہ افغانستان کی فوج کی قیادت غازی امان اللہ خان اور جنرل نادر خان نے کی تھی، انگریزوں کی اس ہندوستانی فوج میںآٹھ ڈویژن، پانچ آزاد بریگیڈ، تین کیولری بریگیڈ ، جدید توپخانہ، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں شامل تھیں اور سب سے اہم یہ کہ انگریزوں نے اس تیسری اینگلو افغان جنگ میں اُس زمانے کے جدید لڑاکا طیارے بھی استعمال کئے تھے۔ اس کے مقابلے میں افغانستان کی باقاعدہ فوج پچاس ہزار تھی جب کہ خیبر پختونخوا کے اِس طرف اور اُس طرف کے قبائل کے لشکروں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ تھی۔

21 کیولری ریجمنٹ اور 75 انفٹری بٹالین بھی افغان فوج کے پاس تھیں۔ یہ جنگ 6 مئی 1919 ء سے8 اگست1919 ء تک جاری رہی ، اِس جنگ میںانگریزوں نے کابل شہر پر بمباری بھی کی۔ تین مہینے اور دو دن جاری رہنے والی یہ تیسری اینگلو افغان وار یا جنگ 8 اگست 1919 ء کو ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں انگریز اور افغانستان نے اپنے اپنے طور پر کامیابی کے دعوے کئے، جنگ میں افغانستان کے ایک ہزار افراد شہید ہوئے اور انگریزوں کی ہندوستانی افواج کے 1251 افرا د ہلاک ہوئے جبکہ ہیضے کی وجہ سے مزید 500 مارے گئے، غالباً غازی امان اللہ خان یہ جنگ بند نہ کرتے اگر ا نگر یزوں کی جانب سے کابل پر بمباری نہ کی جاتی، امان اللہ کا خیال تھا کہ انگریز شہری آبادی پر بمباری نہیں کریں گے ، اور اگر ایسا ہوتا اور جنگ طول کھینچ جاتی تو واقعی انگریزوں کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے۔ تیسری برطا نوی افغان جنگ کے بعد ہندوستان کی انگریز سرکار اور افغانستان کے درمیان امن کا معاہدہ ہوا جس میں گڈ میک معاہدے کو ختم کردیا گیا۔ افغانستان انگریزوں کی جانب سے دی جانے والی سالانہ سبسڈی سے دستبردار ہو گیا اور اس طرح افغانستان اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور میں آزاد ہو گیا،آئندہ برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان امن بر قر ار رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان Durand Line ڈیورنڈ لائن قرار دیا گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس لائن کے دونوں اطراف پشتون قبائل آباد ہیں، یوں یہ لائن روایتی ہی رہی۔

انگریزوں نے جنگ کے بعد اپنی خاص انداز کی سیاست سے کوشش کی کہ غازی امان اللہ خان سے تعلقات کو بہتر کیا جائے، یوں جنگ کے فوراً بعد راولپنڈی میں ایک شاہی دربار منعقد کیا جس میں افغانستان کی جانب سے امان اللہ خان کے سسر سردار محمد طرزئی وزیر خزانہ دیوان نرجن داس اور سردار علی جان نے شرکت کی انگریزوں کی جانب سے برطانیہ کے افغانستان میں سفیر سر فرانسس ہمزیز اور سرجان ٹامہپسن تھے ،اس دربار میں انگریزوں کے نمائندے کی تقریر کے بعد سردار علی احمد جان نے تقریر کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انگریز قوم جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب اور شائستہ قوم قرار دیتی ہے، اسی قوم نے حقیقت میں وحشی، سفاک اور بے رحمانہ انداز میں کابل جیسے پُرامن شہر پر بمباری کی اور معصوم شہریوں کو ہلا ک کیا، انگریز اس وقت اپنی خاص ڈپلو میسی کے تحت چپ رہے مگر اسی دن سے انہوں نے امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازشی منصوبے بنانے شروع کر دئیے۔1919ء میں برطانیہ سے جنگ اور پھر معاہدے کے فوراً بعد غازی امان اللہ خان نے ایک سفارتی وفد ماسکو بھیجا جس کو لینن نے پُر تپاک انداز میں خوش آمدید کہا اور جواب میں فوراً سفارتی نمائندہ کابل بھیجا۔ مئی 1921 ء میںافغانستان اور روس میں دوستی کا معاہد ہ طے پا گیا۔

یہ معاہدہ افغانستان کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے بعد بحیثیت آزاد ملک کسی دوسرے ملک سے پہلا معاہدہ تھا۔ واضح رہے کہ 1919 ء سے 1945ء تک پوری دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ہی آزاد تھے جن میں آج کا سعودی عرب، ترکی اور افغانستان شامل تھا، اِدھر انگریزوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی، اور وہ امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، غازی امان اللہ خان اپنی بہادری، مردانہ وجاہت اور افغانستان کی آزادی کے لحاظ سے تو عوام میں بے حد مقبول تھا مگر حکومتی امور چلانے اور منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اختیار کرنے کے لحاظ سے وہ اتاترک مصطفی کمال پا شا سے متا ثر تھا، وہ افغانستان کو قدامت پسندی سے نکال کر جد ید بنانا چاہتا تھا، لیکن افغانیوں کا یہ مزاج نہیں وہ آج بھی مغربی تہذیب اور اقدار کو پسند نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں غازی امان اللہ خان سے زیادہ کردار اُس کے خسر سردار محمد طرزئی اور اس کی بیٹی ملکہ ثریا کا تھا۔

وہ انگریز دشمنی میں بھی امان اللہ خان سے آگے تھے تو جدت پسندی میں اہل مغرب کے لباس اور انداز کو ناپسند نہیں کرتے تھے۔ اب انگریزوں نے اپنی خاص عیارانہ ڈپلو میسی کے تحت غازی امان اللہ خان کے خلا ف سازش تیار کی اور کچھ عرصے بعد کابل میں متعین انگریز سفیر سر فرانسس ہمفر نے امان اللہ خان کو یورپ کے دورے کی دعوت دی اور غالبا امان اللہ خان نے یہ دعوت اس لیے فوراً قبول کرلی کہ وہ برطانیہ سمیت پورے یورپی ممالک اور شائد امریکہ کو بھی یہ بتا نا چاہتا تھا کہ اب افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جو آزاد خارجہ پالیسی کے تحت روس سے سفارتی تعلقا ت قائم کر چکا ہے مگر اُس کی خارجہ پالیسی روس کے تابع نہیں ہے، جب غازی امان اللہ نے یہ دعوت قبول کر لی تو فوراً ہی برطانیہ سمیت فرانس، بیلجیئم اور دوسرے یورپی ملکوں میں بحیثیت افغانستان کے بادشاہ اُس کے فقید المثال استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئیں، یہ استقبال اس طرح کا تھا کہ جیسے امریکہ ، برطانیہ یا فرانس کے سربراہ کا استقبال کیا جاتا ہو، برطانیہ کی جانب سے وائسرائے ہند نے غازی امان اللہ خان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایک نہایت ہی عمدہ لگژری ٹرین مغلپورہ ریلوے ورک شاپ میں تیار کی، اس ٹرین کی چار بوگیاں تو ایسی تھیں جو اپنی سجاوٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے اس وقت دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں جب ٹرین تیار ہو گئی تو اِس ٹرین کو نہایت اعلیٰ شاہی آداب اور پروٹوکول کے ساتھ لاہور سے چمن ریلوے اسٹیشن پہنچایا گیا۔

دورے کے آغاز پر شاہِ افغان غازی امان اللہ خان ،قندھار سے افغان فوج کے دستوں کے جلو میں اپنی رولز رائس کار میں چمن ریلوے اسٹیشن پہنچے تو اسٹیشن پر نہایت پُر تکلف انداز میں اُن کا اور اُن کی ملکہ ثریا کا استقبال کیا گیا۔ چمن سے کو ئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی تک جہاں کہیں یہ شاہی ٹرین رکی وہاں بہت پُرجوش انداز میں شاہِ افغانستان کا استقبال ہوا، کراچی سے مارسیلز کا سفر بحری جہاز میں طے ہوا، یہاں سے شاہی استقبال کے بعد وہ جب پیرس پہنچے تو فرانس کے صدر پوانکارے نے اپنی پوری کا بینہ کے ہمراہ پیرس کے ریلوے اسٹیشن پر امان اللہ خان کا ا ستقبال کیا، اس موقع پر دنیا بھر کے بڑے اخبارات کے نمائندے اور فوٹو گرافر موجود تھے۔ ملکہ ثریا نے یورپی لباس پہن رکھا تھا، یہ فوٹو گرفر مختلف زاویوں سے اِن کی تصاویر بنا رہے تھے اور ملکہ ثریا استقبال کرنے والوں سے بلاجھجھک مسکراتے ہو ئے ہاتھ ملا رہی تھیں، اِن کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے، یہاں دودن شاہی مہمان کی طرح انہیں رکھا گیا اورانتہائی پروٹوکول دیتے ہو ئے خاص مہمان کے طور پر نپولین کے بیڈ روم میں اُن کے بستر پر سلایا گیا۔

برطانیہ میں اِن کا استقبال ملکہ میری نے تمام شہزادگان کے ساتھ کیا، اور دورانِ قیام بہت پُر تکلف دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آج تک اس خطے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی شخصت کا ایسا فقید المثال استقبال یورپ میں نہیں کیا گیا، شاید اُن کا خیال تھا کہ اس طرح وہ امان اللہ کو اپنا حلقہ بردار بنا لیں گے اور اس میں کامیاب ہو جائیں گے کہ بظاہر تو افغانستان کی خارجہ پالیسی آٓزاد رہے مگر اس کا جھکائو برطانیہ اور یورپ کی جانب ہو اور افغانستان کو سبسڈی کی بجائے امان اللہ اور اُس کے خاندان کو نواز ا جائے، مگر اس میں اُن کو شدید ناکامی اُس وقت ہو ئی جب دورے کے خاتمے پر امان اللہ نے واپسی پر براستہ روس افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں نے انہیں روس جانے سے روکنے کے لیے بہت کو ششیں کیں مگر وہ کسی طرح نہیں مانے وہ اس موقع پر پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے تھے کہ اب افغانستان دفاعی، خارجی اور داخلی طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہے ۔

دوسری جانب وہ روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ایک تو روس افغانستان کا ہمسایہ تھا اور ساتھ ہی ایک بڑی قوت بھی تھا، پھر افغانستان کی آزاد خارجہ داخلہ پالیسی کے بعد اب ضروری تھا کہ روس اور باقی ملکوں سے افغانستان کے ایسے اقتصادی ، تجارتی تعلقات ہوں جن کی بنیاد پر برطانیہ کی سبسڈی کے متبادل کے طور پر باعزت انداز میں قومی آمدنی میںاضافہ ہو سکے۔ برطانیہ امان اللہ کو روس جانے سے نہ روک سکا اور اس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں سیکرٹری آف اسٹیٹ انڈیا نے امان اللہ کو روکنے کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ Lord Birken head went out of his way advisiing Amanullha politely to refren from going to Russia, اس کے بعد برطانیہ نے اُسی لارڈ لارنس کی خدمات حاصل کیں جس نے عربوں کو ترکی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف ابھارا تھا اور جنگِ عظیم اوّل کی فتح میں اُس کا بڑا ہاتھ تھا، اسے تاریخ میں لارنس آف عریبیہ بھی کہا جاتا ہے اور ساٹھ کی دہائی میں ہالی ووڈ نے اس پر ایک زبردست فلم بھی اسی نام سے بنائی تھی، اس کی شخصیت بڑی کمال کی تھی وہ عبرانی، فارسی، عربی، پشتو اور کئی زبانوں کا ماہر تھا۔ زبور، توریت، انجیل اور قرآن مجید کا حافظ تھا کئی کئی دن بھوک اور پیاس کے ساتھ صحرائوں میں گزارا کر سکتا تھا۔

وہ جنگ عظیم کے بعد کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہو کر فارغ بیٹھا تھا اب خصوصی مشن پر پہلے کراچی پہنچا اور پھر کوئٹہ ہوتے ہوئے قندھارآیا اور یہاں سے افغانستان میں امان اللہ خان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ یہاں اُس نے خود کو ایک مسلمان با کرامت بزرگ کی حیثیت سے پیش کیا جو سادہ لوح افغانیوں کے مسائل خصوصا مالی مسائل اپنی روحانی کرامات سے فوراً حل کر دیا کرتا تھا ، دوسری جانب ملکہ ثریا نے یورپی لباس میں جو تصاویر یورپ کے دورے کے دوران مردوں سے مصافحہ کرتے ہو ئے بنوائی تھیں اُن کو کہیں زیادہ فحش امرتسر کی ایک پریس میں بنایا گیا،کئی ایسی تصاویر بھی بنائی گئیں جس میں برہنہ نچلا دھڑ کسی اور کا لگایا گیا اور ایسی لاکھوں کاپیاں افغانستان کے سادہ لوح عوام میں پھیلا دی گئیں۔

اب افغان عوام میں غم و غصے کی چنگاریاں اٹھ رہی تھیں کہ اِن کو بغاوت کے شعلوں میں بدلنے کے لیے بچہ سقہ کو تیار کیا گیا اور غازی امان اللہ کے خلاف پورے افغانستا ن میں بغاوت کے شعلے بلند ہو گئے، امان للہ کے خاندان کے بہت سے افراد کو قتل کر دیا گیا اور امان اللہ خان بہت مشکل سے اپنی رولز رائس کار میں فرار ہو کر قندھار سے ہو تا ہوا چمن پہنچا جہاں وہ ایک عام مسافر کی طرح چمن ریلو ے اسٹیشن سے روانہ ہوا، پھر کراچی سے بذریعہ بحری جہاز اٹلی گیا اور اپنی بچی کچی دولت سے وہاں مکان خریدا اور زندگی کا باقی حصہ جلا وطنی میں وہیں گزارا، اور اٹلی ہی میں وفات پائی ۔

تیسری اینگلو افغان جنگ جو 6 مئی 1919 ء سے 8 اگست1919 ء تک جا ی رہی اِسے اب پوری ایک صدی مکمل ہوگئی ہے اور اگر پہلی اینگلو افغان جنگ 1839 سے دیکھیں تو یہ عرصہ یا مدت 184 سال ہو چکی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ 100 برسوں سے افغانستان کسی نہ کسی حوالے سے جنگ آزادی میں مصروف ہے جس کا آغاز غازی امان اللہ نے کیا تھا اور کامیاب بھی رہا تھا مگر اس کے بعد افغا نستان ایک طویل عرصہ تک بفر زون یعنی حائلی ریاست رہا۔ یہ دورانیہ دو مراحل میں رہا پہلا مرحلہ امان اللہ خان کے رخصت ہونے کے بعد سے دوسری جنگ عظیم 1939 ء تا1945 تک رہا جب اس دوران بھی افغانستا ن نے خود کو غیر جانبدار رکھا۔ اس دوران سابق سوویت یونین بھی برطانیہ ، فرانس ، امریکہ کے اتحاد میں شامل رہا اور پھر دوسرا مرحلہ 1945 ء کے فوراً بعد کا رہا، جب تھوڑے عرصے بعد ہی ایک جانب امریکی بلا ک نیٹو بنا اور پھر اس کے مقابلے میں سابق سوویت یونین کا وارسا پیکٹ ممالک کا بلاک تھا۔

جس کے دوران اس کی ستر کی دہائی کے آخر تک اس سرد جنگ کے گرم میدان مشرق وسطیٰ ، کوریا ، ویتنام اور کیوبا بنے، مگر اسی دوران 1970-71 میں مشرقی پاکستان کا عظیم المیہ پیش آیا جس میں سوویت یونین اور بھارت گٹھ جوڑ تھا، اس کے ایک سال بعد ہی مشرق وسطیٰ میں 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی دونوں بلاک آمنے سامنے تھے اور اس میں کامیابی سابق سوویت یونین کو ہوئی مگر یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت تک افغانستا ن سرد جنگ کا گرم میدان نہیں بنا البتہ بفر زون ہو نے کی وجہ سے اِس قبائلی معاشرے میں ٹھہرائو ضرور رہا، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1839ء کی پہلی اینگلو افغان جنگ میں روس سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں میں داخل ہونے لگا۔ 1878 کی دوسری اینگلو افغان جنگ میں روس سنٹرل ایشیا کی تقریباً تمام ریاستوں پر قابض ہو چکا تھا اور 1990 ء میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد سنٹرل ایشیا کی ریا ستیں ازبکستان ، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، آذربائیجان میں شرح خواندگی98 فیصد تک تھی اور سیاسی، سماجی شعور کی سطح بہت بلند تھی، جب کہ پاکستان میں آج شرح خوندگی 58 % ہے مگر پاکستان میں دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میںجمہوری سیاسی شعور کہیں زیاد ہ ہے۔

لیکن جب ہم افغانستان کو دیکھتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس کو پوری دنیا نے بفر اسٹیٹ بنا کر نظر انداز کیا اور پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ جب 1977 ء میں پاکستان میں مارشل لا نافذ ہوا،1978-79 ء میں ایران میں شہنشاہ ایران کا تحت الٹ دیا گیا اور امام خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا تو ساتھ ہی افغانستان میں صدر دائود کے قتل کے بعد نور محمد ترکئی روس نواز، خونی اشتراکی انقلاب کے نام پر بر سر اقتدار آئے اور پھر سوویت یونین کی فوج اِن کی حمایت میں افغانستان میں داخل ہو گئی اور افغانستان کی بفر زون کی حیثیت ختم ہو گئی اور نور محمد ترکئی، پھر حفیظ اللہ امین کے قتل کے بعد ببرک کارمل برسراقتدار آئے۔ 1981 ء میں اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کی قرارداد 23 ملکوں کے مقابلے میں 116 ممالک کے ووٹ سے منظور ہوئی، 1982 ء سے پاکستان، افغانستان کے درمیان جنیوا مذاکرات شروع ہوئے اور آخر کار 14 اپریل 1988 ء کو جنیوا میں چار طاقتی معاہد ہ ہوا جس پر پاکستان کی جانب سے امور خارجہ کے وزیر مملکت زین نورانی نے، افغانستان کے وزیر خارجہ سردار الوکیل نے روس کی جانب سے شیورنازلے نے امریکہ کی جانب سے جارج شلٹر اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری پیریزڈی کوئیار نے دستخط کئے۔ اس معاہد ے کے اہم نکات یوں تھے:۔

1۔ روس کی مسلح افواج کا انخلا 15 مئی 1988 ء کے بعد شروع ہوگا، اور یہ عمل نو مہینے کے اندر مکمل ہو جائے گا
2 ۔ 15 مئی 1988 ء کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندرونی امور میں نہ کو ئی مداخلت ہوگی اور نہ ان کے خلاف کسی قسم کی جارحانہ کاروائی کی جائے گی۔
3۔ امریکہ اور روس علاقے کی دونوں ریا ستوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے امور میں دخل نہیں دیں گے، دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوںگے۔
4 ۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی خود مختاری، غیر جانبداری، استحکام اور یک جہتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا ئیں گے، نہ طاقت استعمال کریں گے اور نہ اس نوعیت کی دھمکی دیں گے ،اس سلسلے میں روس اور امریکہ نے ضمانتیںدیں۔
5 ۔ مہاجرین کی وطن واپسی کا بندوبست کیا جائے گا اور ممالک باہم مددکریںگے۔

واضح رہے کہ اس معاہد ے کے دوران پاکستان نے تجویز دی کہ روسی فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں عبوری حکومت قائم کی جائے پھر یہ تجو یز بھی دی گئی کہ یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے مگر افسوس ا یسا نہیں ہوا، روس اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑکر نکل گیا اس کے بعد ببرک کارمل کے قتل تک اور پھر آپس کی خانہ جنگی اور اس کے بعد طالبان کا زمانہ آیا اور پھر 11 ستمبر2001 ء سے لے کر آج تک پوری دنیا خود انصاف کرے کہ اُس نے افغانستان اور اُس کے معصوم عوام کے ساتھ کیا کیا اور اب تو افغانستان کی جنگ آزادی کو متواتر جنگوں اور جنگوں کی عالمی سازشوں کے ساتھ پورے سو سال ہو چکے ہیں۔ اور اب پھر یہ اندیشے ہیں کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کا انخلا کیسے ہو گا؟ کیا اس سے قبل کو ئی امن معاہدہ ہو گا؟،کوئی عالمی سچی ضمانت مکمل امن کی دی جا سکے گی؟ یہ سوال پوری دنیا سے ہے کیونکہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں برطانیہ نے بھی جنگ کی۔ روس کی فوجیں بھی یہاں آٹھ سال تک جارحیت میں ملوث رہیں اب اگرچہ نیٹو اور امریکی افواج اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر یہاں موجود ہیں مگر اب جا نا چاہتی ہیں، ہماری دعا ہے کہ اب افغانستان میں امن ہو اور پائیدار امن ہو، آمین۔

The post افغانستان۔۔۔۔ ایک صدی کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.

غزوۂ بدر: حق و باطل کی شناخت

$
0
0

خیر و شر کی کش مکش روز اول ہی سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ ازل سے شر خیر کے تعاقب میں ہے اور چاہتا ہے کہ خیر کو اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑ کے اس کے وجود کو بے معنی بنادے۔ بہ ظاہر شر کی قوتیں خیر پر حاوی نظر آتی ہیں لیکن نتیجے کے اعتبار سے فتح انجام کار خیر کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ خیر، حق کا عکس ہے۔

بنی اسرائیل کے آخری رسول عیسی ابن مریم علیہ السلام کے لگ بھگ ساڑھے چھے سو برس بعد جزیرہ نما عرب میں اس سلسلۂ نبوت و رسالت کی آخری کڑی خاتم المرسلین و خاتم انبیاء محمد بن عبد اﷲ ﷺ کے آفتابِ رسالت کی روشنی نے عرب کے ہر گوشے کو منور و تاب ناک کردیا۔ برس ہا برس سے چھائے ہوئے جہل کے اندھیروں کی قبا تار تار ہوگئی۔ من گھڑت خدا زمیں بوس ہوگئے۔ صدیوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں، حقوق و فرائض کے بگڑے ہوئے توازن میں اعتدال پیدا ہوگیا۔ ظلم و جبر کی برچھیوں تلے سسکتی انسانیت کو سکھ کا سانس لینے کی ساعتیں نصیب ہوئیں۔ انسان کے مادی تقاضوں کی اصلاح کے ساتھ قلب و ذہن میں بھی ایک عظیم انقلاب برپا ہوگیا۔

ڈاکٹر محمد حمید اﷲ لکھتے ہیں: ’’دنیا میں برائی اور گناہ کو فن لطیف بنا دینے والے بھی اور قوم کی حالت پر کڑھنے اور درد مند دل رکھنے والے بھی ہر جگہ اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں، برائی اور اخلاقی پستی جتنے بڑے طبقے میں پھیلتی اور شدت اختیار کرتی ہے، اتنے ہی بڑے کردار کے مصلح کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ رسولِ عربی ﷺ بھی ایسے ہی اخلاقی پستیوں میں گرے لوگوں کے درمیان مبعوث کیے گئے اور آپ کو اﷲ تعالیٰ نے اخلاق و کردار کے مقامِ رفیع پر فایز کرکے ان شرک و اوہام اور نجاست و آلودگی میں ڈوبے وحشی انسانوں کی اصلاح کی غرض سے بھیجا اور آپؐ کا مقصد بعثت قرآنِ حکیم میں ان الفاظ میں بیان ہوا: ’’ وہی (اﷲ) تو ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گم راہی میں تھے۔‘‘ (الجمعہ)

شر کی قوتوں پر جب حق و صداقت کی کاری ضرب لگتی ہے اور ان کے باطل عقائد و نظریات کی بنیادیں متزلزل ہونے لگتی ہیں تو انہیں اپنی سلامتی و بقا کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ کیوں کہ برسوں سے جمے جمائے ایک نظام سے کسی کے اعلان بغاوت کو ان کے مکر و فریب اور مفاد پرستی کی جڑیں ہلا دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چناں چہ جب توحید کی دعوت و تبلیغ کا ابتدائی مرحلہ شروع ہوا اور جس نے اس دعوت کو قبول کیا اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ کسی کو دھکتی آگ پر ننگی پیٹھ لٹایا گیا اور کسی کو اتنا مارا پیٹا گیا کہ بس مرنے کی کسر باقی رہ گئی۔ ایک صحابیہ حضرت سُمیّہؓ کو برچھی مار کر شہید کیا گیا، جو اسلامی تاریخ میں پہلی شہید خاتون کہلاتی ہیں۔ دیگر خواتین اسلام پر بھی ظلم و ستم کا ہر حربہ اپنایا اور انہیں آزمایا گیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مردوں کی طرح خواتین اسلام کے بھی پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ غرض کہ ایک داستان خوں چکاں ہے جس سے تاریخ کے صفحات رنگین ہیں۔ اتنے ظلم و مصائب ڈھائے گئے کہ بعض صحابۂ کرامؓ پکار اٹھے: ’’ اے اﷲ کے رسولؐؐ! اﷲ کی مدد کب آئے گی۔۔۔ ؟

آخرکار اس تشدد و تعدیب سے نجات کے لیے اﷲ کا حکم آگیا اور ان سعید روحوں کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ چناں چہ پہلے حبشہ اور بعد میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی گئی، مگر توحید رسالتؐ پر ایمان لانے والوں کی یہ آزادی ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کی جاسکتی تھی۔ دشمنان اسلام نے مدینہ میں بھی انہیں سکون سے نہ رہنے دیا اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے۔ جس کے نتیجے میں رسول اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ میں غزوات و سرایا کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور جن کا مسلح آغاز ’’ غزوۂ بدر ‘‘ سے ہوتا ہے۔

17رمضان المبارک بہ روز جمعۃ المبارک بدر کے مقام پر کفر اور اسلام صف آرا ہوئے۔ کفار قریش اور سرفروشانِ توحید و رسالتؐ کے لشکر اور جنگی ساز و سامان دیدنی تھا۔ دشمنِ اسلام ایک ہزار نفری اور اس وقت کے جدید کیل کانٹے سے لیس سامنے موجود تھا۔ جب کہ دوسری جانب 313 افراد اور ساز و سامان میں صرف دو گھوڑے اور ساٹھ اونٹ تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مادیت اور اس کی پرستش نے نسلوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ مادہ پرستی اپنے خمیر میں ایک احساسِ تفاخر رکھتی ہے، اس لیے اسے اس کے اندر چھپے ان عوامل کا شعور نہیں ہوتا جو بالآخر قوموں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر تا ہے۔ غزوۂ بدر میں بھی معاملہ ایمان اور مادیت کے تصادم کا تھا۔ لیکن جنگیں محض ہتھیاروں سے نہیں، بل کہ جذبے اور مضبوط قوت ِ ارادی سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور جذبہ جب ایمان کا اور قوت ارادی توحید و رسالتؐ کے خمیر سے اٹھی ہو تو شکست باطل قوتوں کا مقدر بن جاتی ہے۔

غزوہ کی ابتدا سے پہلے گھاس پھونس کی ایک جھونپڑی میں اﷲ کے رسول ﷺ نے ایک طویل سجدہ فرمایا اور اس میں انتہائی آہ و زاری سے یہ دعا فرمائی: ’’ اے اﷲ! یہ میری پندرہ برس کی کمائی ہے جو میں نے تیرے سامنے لاکر ڈال دی ہے، اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا کوئی نام لینے والا نہیں رہے گا، بارِِ الٰہا! تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تو مجھے کام یاب کرے گا، اب اس کو پورا کر نے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ پھر جنگ شروع ہوئی اور ساتھ ہی رحمت الٰہی جوش میں آئی اور نصرت ِ خداوندی سے کفار قریش کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے 70 بااثر لوگ قتل ہوئے اور 70ہی مشہور آدمی قیدی بنالیے گئے، جب کہ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے 13افراد نے جام ِ شہادت نوش کیا۔ رسولِ خدا ﷺ کا ازلی دشمن ابوجہل بھی اسی جنگ میں مارا گیا۔ جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا: ’’ یہ شخص اس امت کا فرعون ہے۔‘‘

غزوۂ بدر میں کفار کی شکست فاش کے نتیجے میں پورے عالم عرب اور خاص طور پر بدر کے اردگرد کے علاقے میں اہل ایمان کی دھاک بیٹھ گئی کہ قریش کی ایک ہزار کی جمعیت 313 بے سر و سامان مسلمانوں سے شکست کھا گئی۔ اس خبر سے سارے عالم عرب میں تہلکہ مچ گیا اور زبردست کام یابی کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کو پھیلنے میں بڑی تقویت ملی۔

اس فتح کے موقع پر سرفروشانِ اسلام کی تعداد انتہائی قلیل تھی اور ہتھیار بھی نہ ہونے کے برابر تھے، مگر اﷲ کی تائید و نصرت نے انہیں کام یابی سے ہم کنار کیا۔ لیکن آج ہماری تعداد اربوں میں ہے اور ہم ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بھی ہیں پھر بھی دنیا میں ہماری نہ کوئی عزت و وقعت ہے اور نہ کوئی ہماری واضح اور قابل قدر شناخت ہے۔ اگر آج بھی امت مسلمہ غزوۂ بدر کے واقعہ پر غور کرے تو یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ جذبہ اگر صادق ہو، دل میں دین کا سچا درد ہو اور ایمان و یقین اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ قلب و ذہن میں راسخ ہو تو مادی وسائل کی کمی بھی کام یابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ عزت و توقیر اور فتح و کام رانی آج بھی ہر محاذ پر ہمارے قدم چومے گی۔ اﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد بدر میں بھی آئی تھی اور جب ہم متحد ہو جائیں گے اور رسول ِ برحق ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین کو غالب کر نے کی جدوجہد کر یں گے تو آج بھی اﷲ اپنی بے حساب نعمتوں، رحمتوں اور فتح یابیوں کے دروازے کھولتا چلا جائے گا۔

ارشاد با ری تعالیٰ ہے: ’’ اے ایمان والو! اگر تم اﷲ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔‘‘

The post غزوۂ بدر: حق و باطل کی شناخت appeared first on ایکسپریس اردو.

یوم الفُرقان

$
0
0

بدر ایک گائوں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریبا اسّی میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔

اسی اثنا میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔

حضور نبی کریم ﷺ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے جواب میں نہایت جان نثارانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کی، یا رسول اﷲ ﷺ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو بھی تیار ہیں۔

حضرت مقدادؓ نے کہا، ہم موسیؑ کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپؐ اور آپؐ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بل کہ ہم آپ ﷺ کے دائیں سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ ﷺ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپ ﷺ بسم اﷲ کیجیے اور جنگ کا حکم فرمائیں، انشاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا۔ حضور سرکارِ دو عالم ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کے اس سرفروشانہ جذبے اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپؐ کا چہرہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعا خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: خداوند قدوس نے مجھ سے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اﷲ تعالی کا وعدہ سچا ہے اور قسم ہے اﷲ کی! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کی قتل کی جگہ کی نشان دہی فرما دی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہیں پر قتل ہوا۔ (مشکوۃ ، مدارج النبوت)

حضور سید عالم ﷺ اپنے تین سو تیرہ جان نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپؐ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپؐ نے لشکر اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ ایک کم سن سپاہی بھی اس میں شامل تھے، انہیں جب واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرمؓ ﷺ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار تھے۔ یہ بے نظیر و بے مثال لشکر اسلام 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات2 ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے ساز و سامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر اور سو سواروں کا دستہ تھا۔ قریش کے امراء سب شریکِ جنگ تھے اور امرائِ قریش ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، کو فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔

17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ حضور رحمت دوعالم ﷺ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری۔ صبح کو نماز فجر کے لیے تمام سرفروشان اسلام مجاہدین کو بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائی کے بعد قرآن مجید کی آیاتِ جہاد تلاوت فرما کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و جذبے کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد جنگ کے لیے تیار ہونے لگے۔

حضور نبی کریم ﷺ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپ مجاہدین کی صفیں قائم فرما رہے تھے۔ مہاجرین کا علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، خزرج کے علم بردار حباب بن منذرؓ اور اوس کے علم بردار سعد بن معاذؓ مقرر فرمائے۔ چناںچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ حضور سید عالم ﷺ نے میدانِ بدر میں اپنے جان نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو بارگاہِ خداوندی میں یوں التجا کی :’’اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)

حضور سرور دوعالم ﷺ کچھ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا کر رہے تھے کہ آپ ؓ کی چادر مبارک آپؐ کے دوش اقدس سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر مبارک اٹھا کر آپ کے کاندھے مبارک پر ڈال دی اور عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالی نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پورا فرمائے گا۔ (البدایہ والنہایہ)

دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتدا ہوئی تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِزار میں نکلا۔ لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہؓ، حضرت علی المرتضیؓ اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہم، عتبہ، ولید اور شیبہ کے مقابل ہوئے اور یوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی تو حضرت امیر حمزہؓ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کر دیا جب کہ حضرت علیؓ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، حضرت عبیدہؓ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت علی المرتضیؓ آگے بڑھے اور اپنی ضربِ کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ کو بھی جہنم رسید کر دیا۔ تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر ہوگئیں۔ آنِ واحد میں مشرکین کے تین سورمائوں کے قتل سے ہل چل مچ گئی، کیوںکہ قریش کے جب یہ تینوں سرداروں کو اسلام کے شاہینوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تو اس اندیشے سے کہ کفار حوصلہ نہ ہار دیں، ابوجہل نے بلند آواز سے یہ نعرہ لگایا، ہمارا مددگار عزی ہے اور تمھارے پاس کوئی عزی نہیں جو تمھاری مدد کرے۔

حضور سید عالم ﷺ نے فرزندانِ اسلام کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں : ’’ اﷲ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم کا ایندھن بنیں گے۔‘‘

اس کے بعد پھر عام لڑائی شروع ہوگئی تو حضور اکرم ﷺ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی اور فر مایا: ’’شاھت الوجوہ‘‘ یعنی برے ہوگئے یہ چہرے۔ چناںچہ کوئی کافر ایسا نہیں بچا جس کی آنکھوں اور ناک میں ان سنگ ریزوں سے کوئی چیز نہ پہنچی ہو۔ یہ سنگ ریزے ہر ایک کافر جنگ جُو کو لگے اور ان کی قوت و طاقت بالکل ٹوٹ گئی اور لشکر کفار میں بھگدڑ مچ گئی۔

قرآن پاک میں اﷲ تبارک و تعالی نے ان کنکریوں کا مارنا یوں بیان فرمایا ہے: ’’ اور (اے حبیبؐ) آپ نے (حقیقتا وہ خاک) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (خاک) پھینکی تھی، لیکن وہ (خاک) اﷲ تعالی نے پھینکی۔ (الانفال)

جب دست بہ دست عام لڑائی شروع ہوگئی تو لشکر اسلام کا ہر سپاہی پورے جوش و جذبے کے ساتھ لڑ رہا تھا اور سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔ اسلام کا ایک ایک سپاہی کفار کے بیسیوں سپاہیوں پر بھاری تھا اور ان کو جہنم رسید کر رہا تھا۔ ایسے ہی جاںباز و جان نثار اپنی شجاعت و بہادری اور جذبہ جان نثاری کی وجہ سے اپنے ملک و ملت اور دین پر پروانوں کی طرح اپنی قیمتی جان قربان کرکے اﷲ تعالی کے دربار میں سرخ رو ہوتے ہیں۔

میدانِ بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ اور جاں باز و جان نثار سپاہی کچھ اس بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی وقت میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی مستجاب دعائوں کے صدقے خدائے رب ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بہ دولت کفار کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔

کفار کے تقریبا ستر آدمی قتل ہوئے اور تقریبا اتنے ہی افراد کو قیدی بنا دیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوکر جہنم کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جا کر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14 خوش نصیب سرفروش مجاہدوں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھے مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔

مورخین اس معرکہ کو غزوۂ بدرالکبری اور غزوۂ بدرالعظمی کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اﷲ تبارک و تعالی نے اپنے لا ریب اور لا فانی کلام قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو یوم الفرقان (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتا چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے۔

The post یوم الفُرقان appeared first on ایکسپریس اردو.

بدر، نصرت الٰہی کا مظہر

$
0
0

بدر وہ مقام ہے جہاں 17رمضان المبارک کو کفار اور اہل ایمان کے درمیان جنگ ہوئی۔ یہاں ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر بن عامر تھا، اسی سے اس کنویں اور پھر اس جگہ کا نام بدر پڑا۔ مورخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ مگر جنگ بدر کی بڑی وجہ یہ واقعہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا: اگر تم ابی صفوان (امیّہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔ جواب میں حضرت سعدؓ نے فرمایا: اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔

قریش نے کبھی کسی کو خانہ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ جن کی تعداد تین سو سے کچھ زاید تھی، نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔

جب نبی کریم ﷺ نے چند بچوں کو جنگ میں جانے سے روک کر واپس بھیجا تو سعد بن ابی وقاصؓ کے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاصؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی اکرمؐ بہت متاثر ہوئے اور آپؐ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔

لشکر اسلام 16رمضان المبارک کو مقام بدر پر پہنچا۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے: یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ دوسرے روز جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جہاں حضور ﷺ نے نشان لگائے تھے۔

نبی کریم ﷺ کے لیے ایک جھونپڑی بنائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے۔ حضور ﷺ ساری رات اﷲ تعالی کی بارگاہ میں دعائیں فرماتے رہے۔ پھر اگلے روز یعنی17رمضان المبارک کو صحابہؓ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد جھونپڑی میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی:

’’ اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا فرما، اے اﷲ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما، اے اﷲ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔‘‘ نبی اکرمؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گرگئی تو ابوبکر صدیقؓ نے حاضر ہوکر چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا: یارسول اﷲ! ﷺ آپ کی اﷲ سے یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ اس کے بعد رسول مکرم ﷺ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے، عن قریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔

نبی کریم ﷺ چھڑی سے مجاہدین کی صفیں درست کررہے تھے کہ آپ کی چھڑی حضرت سوادؓ کے پیٹ پر لگی جس پر حضرت سوادؓ نے قصاص کا مطالبہ کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا، میرا شکم قصاص کے لیے حاضر ہے۔ حضرت سوادؓ نے فورا شکم مبارک کو چوم لیا۔ بعد میں جب حضرت سوادؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا، میدان جنگ میں اچانک اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش مرتے وقت میرا بدن رسول کریم ﷺ کے جسم مبارک سے چُھو جائے۔ اس پر حضور ؓ نے حضرت سواد انصاریؓ کے لیے دعا فرمائی۔

حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوحسیل ؓ کہیں سے آرہے تھے کہ کفار نے راستے میں روک لیا اور اس وعدے پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ دونوں صحابیؓ میدان میں پہنچے اور پوری صورت حال نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیان کی تو رسول کریم ﷺ نے ان دونوں کو صفوں سے الگ کردیا اور ارشاد فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔ جنگ بدر میں افراد کی کمی کے باوجود حضور ﷺ کا یہ فیصلہ ایفائے عہد کی عظیم مثال ہے۔

رمضان المبارک 2 ھجری کی 17 تاریخ، جمعہ المبارک کا دن تھا کہ دوپہر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ ابتدا میں انفرادی لڑائی ہوئی پھر اجتماعی جنگ ہوئی۔ حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہؓ نے شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور مختصر مدت میں کفار کی صفوں کو منتشر کردیا اور کفار نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس جنگ میں70 کفار قتل ہوئے، جن میں 22 سردار شامل تھے۔ 70سرکردہ افراد گرفتار ہوئے اور باقی فرار ہوگئے۔ اس طرح اﷲ تعالی نے رسول عربی ﷺ اور آپ کے غلاموں کو فتح مبین عطا فرمائی۔

جنگ بدر میں ابوعبیدہؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعبؓ نے اپنے بھائی کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور حب نبوی ﷺ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ جب قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی تو عمر فاروقؓ نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔نبی رحمت ﷺ نے صدیق اکبرؓ کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔ اس جنگ میں اﷲ نے مومنین کو فتح مبین عطا فرمائی۔ آج بھی اگر ہم اسوہ رسول اکرم ﷺ پر عمل پیرا ہوجائیں تو فرشتے ہماری مدد و نصرت کے لیے آسمانوں سے اتر سکتے ہیں۔

The post بدر، نصرت الٰہی کا مظہر appeared first on ایکسپریس اردو.

غزوۂ بدر

$
0
0

غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی شان دار اور باوقار فتح کے اثرات فوری طور پر اہل مکہ پر مرتب ہوئے اور قدرتی طور پر ایسا ہونا بھی چاہیے تھا، اس عبرت ناک شکست نے مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف جنگی جنون کو انتہاء تک لے جانے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ قریش کی عسکری اور سیاسی شہرت کا خاتمہ ہوگیا۔ مکہ میں حضور ﷺ کو شہید کرنے کی سازش کرنے والے چودہ میں سے گیارہ سردار مارے گئے، باقی تین سرداروں نے اسلام قبول کرلیا۔

غزوۂ بدر، حق و باطل کی معرکہ آرائی میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ مسلمانوں کو کفار پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی اور انہیں اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات کے بار ے میں عزم و عمل کے نئے دروازوں پر دستک دینے کا ہنر بھی عطا ہوا۔ مدینہ منورہ کے آسمان سے خوف و ہراس کے بادل چھٹ گئے۔ مدینہ منورہ کی غیر مسلم قوتیں اب کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ غزوہ بدر میں فتح کے بعد مسلمانوں کو معاشی، عسکری اور سیاسی حوالے سے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے اور وہ تمکنت اور وقار کے ساتھ نئے مسلم معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔

مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائیدہ مملکت کو سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے استحکام نصیب ہو۔ انہوں نے قدرتی طور پر غزوۂ بدر کے انجام پر منفی رد عمل ظاہر کیا۔ تاہم جن کے دلوں میں حق کی تلاش کی ذرا سی بھی جستجو تھی، انہوں نے بہ خوشی اسلام قبول کرلیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی نے بھی ان کے ساتھ کوئی تعرض نہ رکھا یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کی بڑی تعداد اپنے سابقہ دین پر قائم رہی۔ اسلام قبول کرنے والے یہودیوں میں کچھ نے تو دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنی روح کا حصہ بنایا اور چند ایک نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے کا گھناؤنا کاروبار شروع کردیا۔

میثاق مدینہ کے مطابق یہود اس بات کے پابند تھے کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہر رسولؐ کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی درپردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر مشرکین مکہ کو امداد کی پیش کش کرنے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبر کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا تھا، وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہوگئے۔ بعض قبائل کی گذر اوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی۔

تجارتی قافلے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہ تھے انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تو یہ سب سے پہلے اﷲ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اسلامی حکومت ترجیحی بنیادوں پر امن و امان قائم کرکے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی، اس طرح ان کی لوٹ مار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر تاجر پیشہ تھے، دیگر قبائل کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے قریش کی عسکری، سیاسی اور نفسیاتی شکست ان کے لیے بھی سوہان روح بن گئی۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت کے بت پر کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت اتنی مضبوط نہ رہی جتنی پہلے تھی۔

غزوۂ بدر جغرافیائی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی زندگی ہی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا باعث نہیں بنا بل کہ اس نے تاریخ انسانی کے سفر ارتقاء کو مختلف حوالوں اور مختلف جہتوں سے نہ صرف یک سر بدل کے رکھ دیا بل کہ تعلیمات اسلامی نے علمی، فکری اور اعتقادی دنیا کو ابہام و تشکیک کی گرد سے پاک کرکے عدل و انصاف کی حکم رانی کے شعور کو پختہ کیا۔ اگر خدانخواستہ اس جنگ میں فرزندان توحید کو شکست ہوجاتی اور باطل حق پر غالب آجاتا تو میدان بدر میں حضور ﷺ نے اپنی دعاؤں میں جس خدشے کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ کہ تیرا دین قائم نہ ہوسکے گا۔ وہ ظاہر ہوجاتا تو آج کرۂ ارض پر نہ انسانی حقوق کا نام لینے والا کوئی ہوتا اور نہ جمہوری معاشروں کی تشکیل کا تصور ہی ذہنوں میں جنم لیتا، نہ امن عالم کے خواب کو تعبیر ملتی اور نہ انسان کے پاؤں میں خود ساختہ خداؤں کی غلامی کی صدیوں سے پڑی زنجیریں ہی کٹ سکتیں۔

حق، باطل کے ساتھ کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی سمجھوتے کا روادار نہیں۔ اگر مسلمان اپنے عظیم مشن کو پس پشت ڈال کر باطل کے عقائد و نظریات کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے اور اپنے عقائد و نظریات سے اپنی فکری اور روحانی وابستگی کو کم زور کرلیتے تو معرکہ بدر کبھی برپا نہ ہوتا۔ مشرکین مکہ کی تلواریں کبھی بے نیام نہ ہوتیں، کفر اپنے پورے مادی وسائل کے ساتھ جذبہ شہادت سے سرشار مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو للکارنے اور ان کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔ لیکن ہادی برحق ﷺ نے باطل کے ساتھ کسی سمجھوتے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں کفر کے ساتھ ٹکر لینے کا عزم کرلیا۔ یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا جب تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ غزوہ بدر کے نام سے لڑی گئی۔

غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے  کاشرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قراردیا اور قرآن مجید نے اسے ’’یوم الفرقان‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔

The post غزوۂ بدر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4080 articles
Browse latest View live