Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

بیٹری آپ کے فون کی…

$
0
0

جس طرح موبائل فون آج کل ہماری زندگیوں میں دخیل ہو کر ان کا ایک جز لاینفک بن چکا ہے اس پر تو بات کرنا سراسر اصراف کے زمرے میں ہی آئے گا تاہم اب اصل مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ موبائل کے اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے اس کی بیٹری کی چارجنگ جلد ختم ہو جاتی ہے۔

گو اس کے حل کے طور پر ’پاوربنک‘ (power bank) سمیت کئی دیگر آپشنز مثلاً سفری چارجر اور عوامی مقامات پر چارجنگ کی سہولت وغیرہ اختیار کیے جاسکتے ہیں لیکن ان سب اور ان جیسی دوسری کئی چیزوں کے حوالے سے لوگوں میں مختلف باتیں مشہور ہو گئیں جو دراصل کوئی عملی بنیاد نہیں رکھتی تھیں۔ اس مضمون میں ایسے ہی مفروضوںکا جائزہ لے کر ان کے متعلق ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش وجستجو کی گئی ہے۔

1 ۔ موبائل کو رات بھر چارجنگ پرلگائے رکھنا نقصان دہ ہے ؟
آج کل کی جدید سمارٹ ٹیکنالوجی، فون کی بیٹری پوری طرح چارج ہونے پر چارجنگ کے عمل کو خودبخود روک دیتی ہے۔ بعد میں اگر چارجر بجلی کے ساکٹ میں لگا ہوا ہو اور بیٹری کی چارجنگ ایک مخصوص پوائنٹ سے نیچے گِر جائے تو فون دوبارہ سے خودبخود اسے چارج کرنا شروع کر دیتا ہے۔ موبائل فون بنانے والی ایک مشہور کمپنی میں بطور الیکٹرونک انجینئر تعینات ’سَرگیو فلورِس‘ (Sergio Flores) کہتے ہیں کہ اگر آپ کا فون ساری رات بھی چارجنگ پر لگا رہے تو بھی یہ بات کسی نقصان کا باعث نہیں کیونکہ یہ صرف اس وقت اور اتنی دیر کے لیے ہی چارج ہو گا جتنی ضرورت ہو گی۔

2 ۔ فون کو ہر وقت ’لو پاور موڈ‘(low-power mode) پے رکھنا اچھا ہے ؟
چارج ہونے کے بعد اگر آپ اپنے فون کو ’لو پاور موڈ‘ (low-power mode) پر رکھتے ہیں تو اس سے موبائل کے سوفٹ ویئر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ تاہم اس کے نتیجے میں موبائل کے استعمال کا تجربہ کوئی بہت زیادہ ’دل خوش کُن‘ نہیں ہوتا۔ براڈ نیکولس (Brad Nichols) جو ایک معروف ’ٹکنالوجی ریپئر سروس کمپنی‘ میں ٹیکنیشن ہیں، کے مطابق موبائل فونز اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے استعمال کنندہ کو اپنی چمک دمک سے ایک ایسا خیرہ کُن احساس دلائیں کہ وہ مسحور ہو کے رہ جائیں۔ اور جب آپ موبائل کو ’ایفی شینسی موڈ‘ (Efficiency mode) یا ’لو پاور موڈ‘ (low-power mode) پر کر دیتے ہیں تو وہ بہت سی فالتو یا آرائشی چیزوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے فون استعمال کرنے والے کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ مثلاً ’برائٹ نس ‘ کم ہونے سے سکرین پر ظاہر ہونے والا مواد صحیح اور واضح طور پر مشکل سے دکھائی دیتا ہے۔ کال کی آواز کے معیار پر فرق پڑتا ہے۔ مزید برآں فون میں انسٹال ’ایپس‘ (apps) کی محض ’نوٹیفیکیشز‘ (notifications)کو ہی دیکھنے کے لیے ہر 10 منٹ بعد چیک کرنا پڑتا ہے، اس طرح آپ اس فوری ’فیڈبیک‘ (feedback) سے محروم رہتے ہیں، جس کے آپ عادی ہوتے ہیں۔

3 ۔ عوامی مقامات پر دستیاب فون چارجنگ کی سہولت کا استعمال محفوظ ہے ؟
عوامی مقامات پر فون کو چارج کرنے کی سہولت کے استعمال سے آپ کے فون میں موجود معلومات کے چوری ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ آپ اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ریسٹورینٹس اور ہوائی اڈوں پر نصب موبائل چارجنگ ساکٹس، بجلی کی دوسری عام ساکٹس سے مختلف ہوتی ہیں اور ان مخصوص ساکٹس کے ذریعے نہایت آسانی کے ساتھ ’ڈیٹا‘ کسی دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کے ’آئڈینٹٹی تھیفٹ ریسورس سینٹر‘ (Identity Theft Resource Center) کی ’سی ای او‘ اور صدر ’ایوا وِلاسکوئز‘ (Eva Velasquez) نے بتایا ’’لوگ نہیں جانتے کہ یہ مخصوص ساکٹس صرٖف بجلی کی فراہمی کا ذریعہ نہیں ہیں اور ان میں چارجنگ کے لیے فون لگانا اتنا عام سا معاملہ نہیں جیسے کسی لیمپ کا سوئچ ساکٹ میں لگانا، بلکہ ہیکرز آپ کے موبائل فون میں موجود ہر معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کی ای میل، تحریروں، فوٹو اور ویڈیوز غرض ہر چیز کو ہیک کر سکتے ہیں۔ پھر بھی اگر آپ کو عوامی مقامات پر اپنا موبائل چارج کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو بہتر ہے کہ آپ سفری چارجر استعمال کریں۔

4 ۔ نئے موبائل فون کی بیٹری کو پہلیبار زیادہ چارج کرنا چاہئے ؟
نئے موبائل کی بیٹری میں پہلے ہی سے کچھ چارجنگ موجود ہوتی ہے اس لیے پہلی بار اسے اگر زیادہ دیر تک چارج نہ بھی کیا جائے تو بیٹری کی لائف پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیا فون بننے اور کارکردگی چیک کرنے کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب صارف کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے تو اس وقت تک وہ اپنی چارجنگ کا بیشتر حصہ خرچ کر چکا ہوتا ہے چنانچہ چند موبائل فون بنانے والی کمپنیاں اس بات کی تاکید، کہ پہلی مرتبہ چارجنگ زیادہ کریں، محض اس لیے کرتی ہیں کیونکہ اس سے فون کا پہلا تاثر اچھا پڑتا ہے۔ ’براڈ نیکولس‘ کا کہنا ہے کہ ’’موبائل فون کی تیار کنندہ کمپنیاں یہ ہدایت اس لیے بھی کرتی ہیں کیونکہ اگر وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے فون کی بیٹری آٹھ گھنٹے کا ’ٹاک ٹائم‘ دیتی ہے اور وہ پہلی بار چارج نہ کرنے پر صرف چار گھنٹے کا وقت نکالیں گی تو اس سے کمپنی کی ساکھ پر بُرا اثر پڑے گا۔ اس لیے اس طرح کی ہدایات کا اصل مقصد صارف کو یہ محسوس کروانا اور یقین دلانا ہوتا ہے کہ فون کی کوالٹی کے متعلق کمپنی نے جو دعوے کیے تھے وہ ان پر پورا اُترتا ہے۔

5 ۔ جب تک موبائل کی بیٹری مکمل استعمال نہ ہو جائے، اسے چارج نہیں کرنا چاہیے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ’لیتھیم آئیون‘ (lithium-ion) بیٹری کی چارجنگ مکمل خرچ ہونے سے پہلے ہی اسے چارج کرنا بہتر ہوتا ہے۔ ’سَرگیو فلورِس‘ کے مطابق اس طرح کی بیٹریاں اپنی پوری گنجائش کا لیول ’بھول‘ جاتی ہیں۔ اس لیے جب انہیں چارج کیا جاتا ہے تو وہ دوبارہ اس لیول تک چارج نہیں ہوتیں جو شروع میں ہوتا ہے۔ موبائل بنانے والی بڑی بڑی کمپنیاں اس معاملے کو بہت حد تک حل کر چکی ہیں تاہم فون کے پرانے ماڈلز شاید ابھی بھی اس مسئلے سے دوچار ہوں۔

6 ۔ محض ایک ’ایپ‘ (App) استعمال کرنے سے بیٹری زیادہ خرچ نہیں ہوتی ؟
سچ تو یہ ہے کہ ایک ’ایپ‘ (App) کا استعمال بھی بیٹری کی چارجنگ کا بڑا حصہ خرچ کر ڈالتا ہے، جیسا کہ ’فیس بُک‘۔ براڈ نیکولس کہتے ہیں کہ ’’فیس بُک کی طرح کی بہت سی ’ایپس‘ (apps) کو آپ جب استعمال نہ بھی کر رہے ہوں تو بھی وہ پس منظر میں کام کر رہی ہوتی ہیں اور وہ مسلسل آپ کے لیے آنے والے پیغامات اور ’اسٹیٹس اَپ ڈیٹس‘ کو چیک اور آپ کی ’فیڈ‘ (feed) کو ’ری فریش‘ کر رہی ہوتی ہیں‘‘۔ اینڈرائڈ (Android) استعمال کرنے والے کئی صارفین نے بتایا کہ جب انھوں نے اپنے موبائل سے ’فیس بُک‘ کی ’ایپ‘ حذف (delete)کی تو دوسری ’ایپس‘ 15 فیصد تیزی سے کام کرنے لگیں اور اُن کے فون کی بیٹری کی چارجنگ کی 20 فیصد بچت ہوئی۔ اسی لیے ’نیکولس‘ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ اپنے موبائل کی بیٹری کی چارجنگ بچانا چاہتے ہیں تو ’فیس بُک‘ کی ’ایپ‘ کی بجائے اسے صرف ’ویب برائوزر‘ (web browser) کے ذریعے استعمال کریں۔

7 ۔ بیٹری کی چارجنگ محفوظ رکھنے کے لیے موبائل کو بند کرنا بے فائدہ ہے ؟
فون کو ’ری سیٹ‘ (Reset) کرنا، بیٹری کی چارجنگ محفوظ رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ’ایپس‘ کو استعمال کرنے کے بعد انہیں صحیح طرح بند نہیں کرتے۔ یوں وہ ’ایپس‘ پس منظر میں اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ گو، ہر ’ایپ‘ بیٹری کی بہت زیادہ چارجنگ استعمال نہیں کرتی لیکن جتنی دیر بھی وہ اپنا کام کرتی رہے گی اُتنا ہی بیٹری کی چارجنگ کم ہوتی چلی جائے گی۔ اگر آپ کو اپنے موبائل میں ’ایپس‘ کو کُھلا رکھنے کی عادت ہے تو بہتر ہے کہ پھر آپ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے فون کو بند کر دیا کریں تاکہ بیٹری کی چارجنگ چوسنے والی ان جونکوں سے نجات حاصل کر سکیں۔ ’نیکولس‘ کے مطابق موبائل کو ’ری سیٹ‘ (Reset) کرنے میں صرف 2 منٹ لگتے ہیں اور اس سے آپ کو اپنے فون کی بیٹری کی چارجنگ کے معاملے میں واضح فرق محسوس ہوگا۔ تاہم ساری رات کے لیے موبائل بند کردینا حقیقت پسندی نہیں، ہاں البتہ لمبی میٹنگ یا کوئی فلم دیکھنے جانے سے قبل ایسا کرنا سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔

8 ۔ فون جب بجلی کے ساکٹ میں لگا ہو تو اسے ہاتھ لگانا خطرناک ہوتا ہے ؟
یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ آپ چارجنگ کے عمل کے دوران اپنے موبائل کو آرام سے استعمال کرسکتے ہیں۔ ’سَرگیو فلورِس‘ کے بقول چارجنگ کے وقت فون اپنی بیٹری کی بجائے بجلی کی طاقت سے چلتا ہے۔ ویسے تو بیٹری بھی موبائل کو بجلی ہی فراہم کرتی ہے مگر کام یکساں ہونے کے باوجود دونوں میں فرق ہے۔ تاہم ’فلورِس‘ یہ انتباہ کرتے ہیں کہ چارجنگ کے دوران فون کا استعمال اس کے چارج کرنے کے دورانیے کو طویل کردیتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب بہتر ہے۔

9 ۔ سستا چارجر پیسے بچاتا ہے ؟
سَستا چارجر آپ کے موبائل کی بیٹری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ’نیکولس‘ کہتے ہیں کہ ’’ضروری نہیں کہ سَستا چارجراتنا معیاری ہو کہ وہ فون کو بجلی کے مطلوبہ ولٹیج (voltage) مہیا کر سکے اور ولٹیج (voltage) کی کمی بیشی یا اُتارچڑھائو ناصرف چارجر کی ’پورٹ‘ (port) بلکہ بیٹری کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے معیار پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

10 ۔ ایجکٹ (eject)کیے بغیر موبائل کوکمپیوٹر سے الگ کرنے میں کوئی حرج نہیں ؟
’نیکولس‘ کا کہنا ہے کہ ’’جب ہم اپنے موبائل کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کرتے ہیں توڈیٹا ٹرانسفر کر لینے یا فون چارجنگ کے دوران یا بعد عموماً اسے ’ایجکٹ‘ (eject) کا آپشن استعمال کیے بغیر ہی کمپیوٹر سے الگ کر دیتے ہیں۔ یہ عمل ڈیٹا فائلز کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ موبائل کو کمپیوٹر سے الگ کرنے سے پہلے باقاعدہ ’ایجکٹ‘ (eject) کا آپشن استعمال کیا جائے اور اسی طرح بجلی کے ساکٹ سے بھی اس کا سوئچ نکالتے وقت پہلے بٹن بند کر دیا جائے، تاکہ کسی نقصان سے بچا جاسکے۔

11 ۔ وائی فائی سرچنگ (Wi-Fi searching) میں بہت چارجنگ ضائع ہوتی ہے ؟
گو وائی فائی سرچنگ (Wi-Fi searching) میں بیٹری کی توانائی استعمال ضرور ہوتی ہے، تاہم بہت ہی قلیل مقدار میں۔ جب آپ کا فون ’وائی فائی‘ (Wi-Fi) سگنلز کو تلاش کر رہا ہوتا ہے تو وہ ساتھ ساتھ اپنا محلِ وقوع بتانے کے لیے اپنے سگنلز بھی بھیج رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ جب بھی گھر سے باہر جانے لگیں تو ہر مرتبہ اپنے موبائل کا ’وائی فائی‘ بند کر دیں۔ ’نیکولس‘ بتاتے ہیں کہ اس عمل میں بیٹری زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post بیٹری آپ کے فون کی… appeared first on ایکسپریس اردو.


اردو ناولوں کی رومن میں اشاعت بہت متنازع اور کام یاب قدم تھا

$
0
0

اِس گفتگو سے پہلے ہم اُن کی شخصیت کے صرف ’کتابی‘ پہلو سے واقف تھے۔۔۔ یعنی بطور ناشر اُن کا کام اور بچوں کے ادب سے اُن کے خصوصی لگائو نے ہماری توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی۔۔۔ لیکن جب اُن سے گفتگو ہوئی، تو ان کی شخصیت کی بہت سی دیگر جہتیں بھی کھلتی گئیں۔ یوں اہم حوالوں اور معلومات سے آراستہ اُن کے منفرد تجربات اور خیالات ایک دل چسپ ملاقات کی صورت اختیار کر گئے۔

وہ خود کو ایک ’کاروباری‘ کہتے ہیں، لیکن ’اٹلانٹس پبلی کیشنز‘ کے ذریعے انہوں نے اپنی صلاحیتیں اشاعت کتب میں لگا کر یقیناً ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ یہ بے باک اور منفرد شخصیت فاروق احمد کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب سے الف مد زبر آ پڑھنا شروع کیا، تب سے ہمیں تحفے میں صرف کتاب ملی، یہ اُس زمانے کا اعجاز تھا کہ گھروں میں بچوں کے اپنے کتب خانے ہوتے تھے۔ تیسری جماعت کے نتائج پر امی نے جب مکمل داستان امیر حمزہ تحفے میں دی، تو گویا کتابوں کا نشہ سا سوار ہوگیا۔

روزانہ تین روپے جیب خرچ ملتا تھا، جسے بچا کر روزانہ شام کو ناظم آباد چار نمبر میں گھر کے قریب ’اسٹوڈنٹ کارنر‘ اور ’بانو بک ڈپو‘ جا کر کتابیں خریدتے۔ ’بانو بک‘ کے مالک رشدی صاحب پینسل، شاپنر لینے آنے والے بچوں کو کتابوں خریدنے کا کہتے اور روپے، روپے والی کہانیاں تحفتاً دے دیتے، ایسے لوگ اب نہیں ملتے۔

اس زمانے میں زیادہ تر تین روپے والی کہانیاں آتی تھیں۔ میری عمر کوئی آٹھ سال رہی ہوگی، ’اسٹوڈنٹ کارنر‘ میں ایک کتاب ’دولت پور میں‘ ساڑھے چار روپے کی تھی، میں روزانہ شام کو جاتا اور کتاب نکال کر قیمت پوچھتا، اور رکھ دیتا۔ ایک دن انہوں نے پوچھا بیٹا تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں، میں نے کہا تین روپے، تو انہوں نے تین روپے میں ہی وہ کتاب مجھے دے دی۔

1970ء کی دہائی تک فیروز سنز کی تمام مطبوعات جمع کر لی تھیں۔ 1975ء میں اشتیاق احمد کا نام سامنے آیا۔ ناول ’الہ دین کا چراغ اور ہم‘ میں انہوں نے اپنا پتا لکھ دیا، تو انہیں خط لکھا کہ ہم آپ کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ تب ہم 11 سال کے تھے، تین دن بعد جب اُن کا جواب آگیا، تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے مصنف نے ہمیں جواب دیا۔ جنوری 1980ء میں لاہور گئے، تو اشتیاق احمد سے بھی ملے۔ انہی دنوں وہ پی ٹی وی کے پروگرام ’فروزاں‘ میں مدعو ہوئے، تو ہمیں بہ ذریعہ پوسٹ کارڈ اس کی خبر کی کہ ضرور دیکھیے گا۔

اس انٹرویو میں غزالہ قریشی نے ان سے پوچھا کہ کبھی ایسا لگا کہ ’انسپکٹر جمشید سیریز‘ کا کوئی کردار آپ کے سامنے آگیا ہو، تو انہوں نے کہا ہاں کراچی سے ایک لڑکا فاروق میرے پاس آیا تھا، وہ بالکل میرے کردار فاروق جیسا تھا، یہ ہمارے لیے بات بڑی بات تھی۔ ہمارے ادب سے لگائو میں والدہ کے کردار کے بعد اس طرح کے حوصلہ افزائی نے اہم کردار ادا کیا۔ اُس زمانے کے لوگ بچوں کو پورے خلوص سے جواب دیتے تھے، اشتیاق احمد اگر میرے خط کا جواب نہ دیتے، تو میرا کتابوں کا شوق بھی شاید اس نہج پر نہ پہنچتا۔

وہی اشتیاق احمد پھر فاروق احمد کے لیے ایک اہم حوالہ بنے، اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’جولائی 2001ء میں اشتیاق احمد 713 ناول لکھ چکے تھے، پھر انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا کہ اب 500 ناول بھی فروخت نہیں ہوتے، کہاں پہلے 12،12 ہزار نسخے بِک جاتے تھے۔

’کیا واقعی ایسا ہو؟‘ اس لمحے ہم بھی حیران ہوئے، فاروق صاحب بولے کہ ’آپ اُن کے اس وقت کے ناولوں کے دیباچے پڑھیے، اس میں بے انتہا مایوسی ہے۔ ہمارا ان سے تعلق تھا کہ وہ یہاں آتے تو ہمارے ہاں قیام ہوتا، اور ہم وہاں جاتے تو ان کے ہاں ٹھیرتے۔ جب پتا چلا کہ لکھنا چھوڑ دیا تو ان سے کہا کہ ان کرداروں کو نہ ماریے۔ یہ محمود، فاروق اور فرزانہ بچپن سے ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہیں۔ وہ بولے کہ اب پیسے نہیں ملتے، کون چھاپے گا، مجھ میں اب ہمت نہیں۔ میں نے کہا اچھا میں شایع کرتا ہوں، وہ بولے کہ تم نے تو کبھی چھاپی نہیں، میں نے کہا، لیکن مجھے پتا ہے کہ کوئی کاروبار کس طرح کیا جاتا ہے۔ ہم نے بھرپور تشہیر کی اور جون 2003ء میں ہم نے ان کا پہلا ناول ’فائل کا دھماکا‘ شایع کر دیا۔

ہماری ادبی تاریخ میں غالباً پہلی بار دو ’ایف ایم‘ چینلوں پر ناول کے اشتہار چلے، ’بل بورڈ‘ لگے، اخبارات میں اشتہار آئے اور ’کیبل‘ پر اشتہاری پٹی چلوائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین دن میں ایک ہزار نسخے فروخت ہو گئے، مزید دو ہزار چھاپیں، وہ 15 دن میں ختم ہوگئیں، وہ حیران ہوئے کہ ایسا کیا کر دیا؟ ہم نے کہا اب تشہیر کا ڈھنگ بدل گیا ہے۔ ہمارے ادیب اور ادارے کتاب نہ بِکنے کا رونا روتے ہیں، لیکن آپ لوگوں کو بتائیں گے تو وہ کتاب لیں گے، ورنہ جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا۔ آج بھی ہماری کتابوں کا ہر ماہ اشتہار شایع ہوتا ہے، پھر وہ کتاب فروخت ہوتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے اشتہار کے لیے مثال دیتے ہیں کہ نماز کے لیے بھی پانچ مرتبہ بتایا جاتا ہے، تو لوگ آتے ہیں۔

اشتیاق احمد کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے فاروق صاحب کہتے ہیں کہ وہ بہت حساس تھے، ذرا سی بات پر ناراض اور ذرا سی بات پر خوش ہو جاتے تھے، ہم نے کبھی کہہ دیا کہ جو لکھ رہے ہیں یہ سرکاری پالیسی پر نہیں آتا، تو خفا ہو گئے کہ لکھوں گا ہی نہیں۔ ہم انہیں تبدیلیوں پر آمادہ کرتے۔ وہ انتہائی نیک سیرت، سیدھے اور مخلص آدمی تھے، مان جاتے۔‘

’سرکاری پالیسی سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘ ہمیں اچنبھا ہوا۔ وہ بولے کہ پرویز مشرف کا دور تھا اور وہ طالبان کی حمایت میں لکھتے، پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی، اُن سے کہا کہ ہم بھی زد میں نہ آجائیں۔ انہوں نے تو چار حصوں میں شایع ہونے والے دو ہزار صفحات کے ناول ’’غار کا سمندر‘‘ کا انتساب ہی طالبان کے نام کیا، جو ہم نے تب تو ہٹوایا، لیکن اب اسے یک جا کرکے شایع کیا ہے، تو ان کا وہ انتساب بحال کر دیا ہے!

اشتیاق احمد پر فرقہ وارانہ رنگ کا ذکر ہوا تو فاروق احمد بولے کہ آپ نے بہت اہم سوال اٹھایا، میں اس معاملے میں اُن کا دفاع کرتا ہوں۔ میں فرقہ وارانہ حوالے سے لکھے گئے اُن کے ایک لفظ سے بھی متفق نہیں، لیکن یہ اکیلے صرف انہوں نے نہیں کیا، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ وہ مقبول زیادہ تھے، اس لیے ان پر اس حوالے سے زیادہ تنقید ہوتی ہے، ورنہ اے حمید نے بھی حرف بہ حرف یہ کیا۔ بائیں بازو کے ستار طاہر تک نے اپنے ناولوں میں ایسے ذکر شامل کیے۔

اشتیاق صاحب پر تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام لگے۔ انہوں نے ایک ناول میں ہندوؤں کو سازشی لکھا، تو میں نے خط لکھ کر اعتراض کیا۔ ناول ’وادی مرجان‘ پر بھی اعتراض کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کو پڑھنے والے مختلف عقائد کے لوگ ہیں، لیکن وہ اس وقت تک بہت آگے چلے گئے تھے۔ وہ لاہور سے جھنگ آگئے، تو اُن کی سوچ پر ماحول کی اس تبدیلی کا بہت اثر ہوا۔ لکھاری کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سراہے جانے کا خواہاں ہوتا ہے، اب وہاں کے ماحول میں بائیں بازو کی کسی بات پر تو تعریف نہیں ہوتی۔ کوئی مانے نہ مانے، لکھنے والا وہی لکھنے پر مجبور ہوتا ہے، جو پڑھا جائے، کیوں کہ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ اس لیے ’ردعمل‘ دینے والا بہت اہم ہوتا ہے۔‘

’قلم کار کی اپنی بھی تو کچھ ذمہ داری ہوتی ہے؟‘ ہم نے اپنے ذہن کی چبھن عیاں کی، تو وہ بولے کہ ’ہر آدمی اپنے کام کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر لیتا ہے، دہشت گرد کے پاس بھی کوئی جواز ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ مالی منفعت کا ہوتا ہے۔‘

’کیا قلم والوں کو اس سے تھوڑا ماورا نہیں ہونا چاہیے؟‘ ہم نے قلمی ذمہ داری کے تناظر میں کریدا۔ وہ بولے کہ ’ابن صفی بھی اس سے ماورا نہیں تھے۔ ان کے زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ کمیونزم دین سے دور کر رہا ہے۔ اُن کے ہاں ایسے حوالے ملتے ہیں، ان کا کردار ’عمران‘ کہہ رہا ہے کہ میں اس قوم میں دَہریت پھیلنے نہیں دوں گا۔ یہ سوچ جنرل ضیا کی نظریاتی سرحدوں کی حفاطت والی سوچ سے ملتی ہے، اُن کا کردار تو 1960ء اور 1970ء میں یہ کر رہا ہے۔ ابن صفی انتہاپسندی کی طرف جا رہے تھے، اُن کے پرستار اُسے تصوف کہتے ہیں۔ دراصل وہ اُس وقت کے معاشرے کی پیروی کر رہے تھے۔ اشتیاق احمد کا معاشرہ اس سے آگے جا چکا تھا، تو انہوں نے پھر اس کی پیروی کی۔

ہم نے پوچھا کہ ’قلم کار اپنے سماج کی پیروی کرتا ہے کیا؟‘ انہوں نے کہا ’بالکل کرتا ہے، اور یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔ تب ہی تو مزاحمتی ادب ’ادب عالیہ‘ کہلاتا ہے، جس کی توصیف بعد میں ہوتی ہے۔ اگر ابن صفی اپنے کردار کے ذریعے یہ کہہ دیتے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ اس معاشرے کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، میری اور لوگوں کی فکر الگ الگ ہے!‘ تو اُن کی کھپت آدھی رہ جاتی! اشتیاق صاحب کے پاس منفی ردعمل آتا تو وہ دو دن سو نہیں پاتے تھے، مجھے فون کرتے کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا، مجھے لعن طعن کی جا رہی ہے۔ بات تو غلط نہیں، لیکن لوگ غلط کہہ رہے ہیں۔ میں کہتا اسے چھوڑیے لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔‘ ہم نے ان کے مخصوص مذہبی رنگ پر ناپسندیدگی کا پوچھا، تو وہ بولے کہ ’ہزاروں خطوط آتے تھے، فقط ایک فی صد میں مخالفت ہوتی تھی۔ اپنے وقت کے تابع ہونے والے مصنفوں کو وہ مرتبہ نہیں ملتا، جو کرشن چندر، عصمت چغتائی اور منٹو وغیرہ جیسے لوگوں کو ملتا ہے، جنہوں نے گالیاں اور مقدمے سہے، لیکن اس سے غرض نہ رکھی کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔

سعید لق کی خدمات کو سراہتے ہوئے فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’فیروز سنز کا بچوں کا ادب اُن کے دم سے تھا۔ میں بھی بچوں کی کتابوں کی طرف مرکوز ہوں۔ اشتیاق صاحب کو لے کر چلنا میرے دل کا سودا تھا، لوگ اُن کی واپسی سے بہت خوش ہوئے۔ ہم انہیں باقاعدہ کراچی لے کر آتے، ریڈیو اور ٹی وی پر بلایا جاتا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اشتیاق احمد کو دوسرا ادبی جنم دیا۔ اب لوگ انہیں جانتے ہیں۔ جب اُن کا انتقال ہوا، تو یہ چینلوں پر ’بریکنگ نیوز‘ اور اخبارات میں صفحہ اول کی خبر تھی۔ اگر وہ 2001ء میں لکھنا چھوڑ دیتے اور جھنگ میں گُم نام ہوجاتے، تو پھر انہیں آج کوئی نہیں جانتا ہوتا۔‘

فاروق احمد نے انکشاف کیا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل لاہور میں تین، چار لوگوں کی موجودگی میں ذکر نکلا کہ آپ کے بعد کون لکھے گا؟ تو انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ لکھے گا! میں نے ہنس کے ٹال دیا، وہ کہنے لگے ’مجھے پتا ہے تم لکھ سکتے ہو۔ میرے بعد میرے کرداروں کو تم لکھو گے۔‘ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے، کوشش کریں گے۔ انہوں نے اپنے انتقال سے دو ماہ پہلے لکھے جانے والے ایک ناول ’’سیاہ کہانی‘‘ کے دیباچے میں بھی اس کا اظہار کر دیا۔ میں نے اس دیباچے کا تحریری عکس بھی ساتھ شایع کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ ’میرے بعد فاروق لکھے گا اور آپ کو دوسرا اشتیاق احمد مل جائے گا۔‘

’کیا ’دوسرا اشتیاق احمد‘ جھنگ والے اشتیاق احمد کی طرح لکھے گا؟‘ ہم نے بے ساختہ استفسار کیا، وہ بولے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ لکھ سکوں گا یا نہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ جب بھی وقت ملے، کوشش ضرور کروں۔ مجھے ان کے شروع کے 32 ناولوں جیسا انداز پسند ہے، اسی ڈھب پر لکھوں گا۔ ایک ناول ’عمران کی واپسی‘ ان کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھا بھی ہے۔ میں جب ان کے پرانے ناول دیکھتا ہوں تو ان کی پرانی تحریر کی خوب صورتی ’دور جھنگ‘ میں نظر نہیں آتی۔ اُن کے شروع کے 100 ناولوں تک ان کا ’عہد لاہور‘ ہے۔ لاہور میں ان کے حلقے میں انور جلال، ستار طاہر، اسرار زیدی، مقبول جہانگیر، سید قاسم محمود، الطاف حسن قریشی وغیرہ جیسے نام وَر لوگ تھے، انہیں ردعمل دینے والے یہی تھے۔

ان کے اس زمانے میں لکھے گئے افسانے بھی بہترین ہیں۔ تب وہ یہ لکھتے تھے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا اور ہم کن جھگڑوں میں پڑے ہیں، جھنگ آکر ناول ’باطل قیامت ‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان چاند پر گیا ہی نہیں، یہ تو سب یہودیوں کی سازش ہے! ہم نے ان سے کہہ کر وہ جملہ ہٹوایا۔ اُن کے اطراف کے لوگوں نے انہیں تباہ کیا، وہ اُس ماحول کے یرغمال بن گئے۔ ان کے اندر بہت ترقی پسند اور روشن خیال آدمی چھپا ہوا تھا جس کا ذاتی طور پر گواہ ہوں، میری ان سے بہت بے تکلفی تھے۔ وہ جب کراچی آتے، تو ہمارے ساتھ ہندوستانی فلمیں دیکھتے، ہیما مالنی کی ہنسی پر وہ قربان تھے۔

مطبوعات کے حوالے سے فاروق احمد نے بتایا کہ وہ اشتیاق احمد کے 117 نئے ناول چھاپ چکے ہیں، جب کہ 500 سے زائد ناولوں کی طبع ثانی کی۔ وفات سے پہلے اُن کا 800 واں ناول شایع ہوا اور انتقال کے وقت 24 ناول غیر مطبوعہ تھے، جس میں سے اب تک 12 ناول شایع ہوچکے، دو ناول نامکمل رہ گئے، جنہیں مکمل کرنا ہے۔

فاروق احمد 2015ء میں ’رومن‘ (انگریزی رسم الخط کی اردو) میں بھی اشتیاق احمد کے دو ناول شایع کر چکے، اسے وہ ’اُردش ناول‘ کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بہت متنازع اور کام یاب قدم تھا، جب اشتیاق احمد کو معاہدے کے مطابق ان ناولوں کے نسخے بھیجے، تب تو بہت تعریف کی، پھر جب منفی ردعمل آیا، تو برہم ہوگئے کہ تم نے بے عزتی کرادی اور وہ رومن نسخے بھی لوٹا دیے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ بھی ’رومن اردو‘ پر سخت ناراض ہوئے اور اسے اردو اور ملک سے غداری قرار دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اردو سے تمام تر محبت کے باوجود 50 سال بعد ہمارے اور آپ کے بچے ’رومن‘ اردو ہی پڑھ رہے ہوں گے۔ شکیل عادل زادہ سے تحریری اردو پر خدشات سن کر ’رومن‘ کتب چھاپنے کا خیال آیا۔

ہم نے کہا رسم الخط بدلنے سے تو پوری زبان بدل جاتی ہے؟ لیکن وہ ادبی سرمائے کو اگلی نسل تک پہنچانے کے لیے اسے ضروری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دراصل ترجمہ ہے، ہم فارسی نہیں پڑھ سکتے تھے، اس لیے ’طلسم ہوش رُبا‘ ’اردو‘ میں پڑھی۔ آج جس طرح ’رومن‘ آرہی ہے، اردو بھی اسی طرح پروان چڑھی۔ حاکم فارسی اور عوام اردو بولتے، تو زبان تو عوامی رہ گئی، مگر رسم الخط فارسی ہو گیا۔ اب زبان اردو اور رسم الخط انگریزی ہو رہا ہے۔ زبان اگر طبقہ اشرافیہ، دفتری اور دربار کی ہو تو تو ترقی کرتی ہے۔ ہم نے کہا پہلے یہاں دربار کی زبان تو فارسی تھی، اس نے ترقی کیوں نہ کی؟ تو وہ بولے کہ فارسی کا رسم الخط تو آگیا۔

اب سرکار میں انگریزی زبان ہے، تو وہی رسم الخط آرہا ہے۔ رومن میں اردو کے تلفظ کے مسئلے پر کہتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے، جیسے اردو رسم الخط کے پرانے نسخوں کا املا بہت مختلف ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ہاتھ سے ہر لفظ الگ طرح لکھا جاتا ہے، لیکن کمپیوٹر پر ہر لفظ کے لیے ایک ہی طرح بٹن دباتے ہیں، جس سے کتابت کی اغلاط بڑھی ہیں۔ رومن اردو کی کتب کی کھپت کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ چار سال میں ’رومن اردو‘ کے 16 ہزار نسخے فروخت ہوئے، جس کی 20 فی صد کھپت اندرون ملک بھی ہوئی۔

باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے فاروق احمد ابن صفی کو کسی مقدس کتاب کی طرح سرہانے رکھتے ہیں، کہتے ہیں گذشتہ تین سال سے روزانہ اپنے بچوں کو کہانی سناتا ہوں۔ پہلے میں کہتا تھا کہانی سنو، اب وہ اصرار کرتے ہیں کہ کہانی سنے بغیر نیند نہیں آئے گی۔ میں انہیں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش رُبا اور عمروعیار وغیرہ کی کہانیوں کے علاوہ فیروز سنز کے دسیوں ناول سنا چکا ہوں۔ ہم اردو کا بیج ڈال رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اردو کی طرف آئیں گے۔ انہیں کہانیاں سنانے سے یہ پتا چلا کہ آج کے بچے کیا پسند کرتے ہیں۔ ’فیروز سنز‘ کے 1950-60ء کی دہائی کا ادب باقاعدہ اجازت لے کر ’شاہ کار کتابیں‘ کے عنوان سے شایع کر رہا ہوں۔ اس کے لیے میں نے بچوں کو اپنا ’مدیر‘ بنا دیا ہے، جو کتابیں وہ پوری توجہ سے سنتے ہیں، وہ اشاعت کے لیے چُن لیتا ہوں۔ فیروز سنز کی 500 میں سے 20 کتب ہی آج کے بچوں کے رجحان کے مطابق ہیں، البتہ سعید لق کی ساری کتب ہمارے بچوں کو بہت پسند ہیں۔ اشتیاق احمد کی کتابیں تھوڑے بڑے بچوں کے لیے ہیں۔ ان کے ہاں مکالمہ زیادہ ہے، جب کہ چھوٹے بچوں کے لیے بیان زیادہ ہونا چاہیے، اگر مکالمہ ہو تو بہت دل چسپ ہو۔

فاروق احمد کے بقول چھٹی، ساتویں کلاس میں اُن کی کہانیاں آٹھ، آٹھ آنے والی پتلی کتابوں میں ’خواجہ پرنٹرز‘ نے چھاپیں، ماہ نامہ ’بچوں کی دنیا‘ میں بھی کچھ کہانیاں شایع ہوئیں۔ میٹرک میں ’سرنگ میں لاش‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا، جو ’غزالی پبلشرز‘ نے شایع کیا۔ فاروق احمد کی مزید دو کتابیں شایع ہوئیں، ایک ’فکشن کی تاریخ‘ اور ایک ’بچوں کے ادب کی تاریخ‘ ہے۔ ’بچوں کے ادب کی تاریخ‘ کے اب دوسرے حصے پر مصروف ہیں۔ اشتیاق احمد پر اُن کی ایک کتاب ’اکادمی ادبیات‘ کی طرف سے شایع ہونے کو ہے، ساتھ ہی ’جاسوسی فکشن کی تاریخ‘ اور سعید لق کی خدمات پر بھی کام کر رہے ہیں۔

ایک دوست 10 روپے میں ’محبت نامہ‘ پہنچاتا تھا
فاروق احمد کی شریک حیات سائرہ فیشن ڈیزائننگ کی شوقین ہیں، بہ ذریعہ ’فیس بک‘ یہ کام کرتی ہیں۔ جب ہمیں پتا چلا کہ اُن کی شادی پسند کی ہے، تو ہم نے تفصیل پوچھی، انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ حیدری میں ہمارے گھر کے سامنے رہتی تھیں، یہ اسکول میں اور ہم فرسٹ ائیر میں تھے، ہم صبح اسکول جاتے ہوئے انہیں خط بھجواتے، جو ایک دوست 10روپے کے عوض لے کر جاتا۔ ہم خود جاتے تو پھنسنے کی صورت میں پٹائی کا اندیشہ تھا۔ والدین کو بتایا تو پابندیاں لگ گئیں، خط وکتابت بھی پہروں میں آگئی، لیکن سلسلہ جاری رہا، چند ایک ملاقاتیں بھی رہیں۔ ایک مرتبہ انہیں آئس کریم کھلانے ’مونٹینا‘ حیدری لے گئے، لیکن جب دیکھا تو جیب خالی۔۔۔! بہت سٹپٹائے، آخر کو 350 روپے کے بدلے دستی گھڑی رکھوائی، لیکن کیشئر نے گھڑی نہیں لی اور کہا کوئی بات نہیں دے دینا، پھر شام کو جا کر پیسے دیے۔

یوں یہ سلسلہ آٹھ سال جاری رہا، پھر ’ایم بی اے‘ کے بعد والدہ سے کہا انہوں نے ابا سے پوچھ کر بات چلائی اور 1991ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔ اُن کے چار بچے ہیں بڑی بیٹی رمشا کی شادی ہوچکی، انہوں نے ’ایم بی اے‘ کیا ہے۔ دوسری بیٹی ’میڈیا سائنسز‘ میں ہیں، تیسرے نمبر کے بیٹے ہیں، جو دوسری صاحب زادی سے 14 برس چھوٹے ہیں، وہ ففتھ اور ان سے چھوٹی بیٹی فورتھ میں ہیں۔ بڑی بیٹی انگریزی نظمیں اور چھوٹی بیٹی انگریزی میں بلاگ لکھتی ہیں۔‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا ’انگریزی میں؟‘ تو وہ اسے المیہ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ جب بڑے بچے چھوٹے تھے، تو مصروفیات کے سبب زیادہ وقت نہ دے سکے۔

پاکستان کا تقریباً 90 فی صد بچوں کا ادب موجود ہے!
ملاقات کے دوران فاروق احمد نے ہمیں گھر کی بلائی منزل پر اپنا کتب خانہ بھی دکھایا، کہتے ہیں کہ بچوں کی ساڑھے پانچ ہزار کتب سمیت 17 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، بچوں کے رسائل اس کے علاوہ ہیں، جس میں ’تعلیم وتربیت‘ کا 1953ء سے اب تک کا مکمل شمار محفوظ ہے۔ بہت سی مطبوعات 100 سال پرانی بھی ہیں۔ 1894ء میں لاہور سے شایع ہونے والا ایک جاسوسی ناول بھی ان کے پاس ہے۔ امتیاز علی تاج کے جاسوسی ناول بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس حتی الامکان پاک وہند کا ’بچوں کا ادب‘ موجود ہے، اِسے پاکستان کا 90 فی صد اور پاک وہند کا 60 فی صد مواد کہہ سکتے ہیں۔ امتیاز علی تاج کی والدہ محمدی بیگم نے جب دیکھا امتیاز تاج کے لیے بچوں کی کتابیں نہیں ملتیں، تو وہ لاہور سے بطور خاص دلی اور یوپی گئیں، وہاں جا کر وہاں کے گھرانوں اور حویلیوں میں بچوں کو سنائی جانے والی کہانیاں جمع کیں اور انہیں 1904ء میں کتاب کی شکل میں شایع کیا۔ بچوں کی پرانی کتب میں آج کی نسل کی دل چسپی میں وہ پرانی زبان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں، اگر شایع کریں، تو انہیں ازسرنو لکھنا پڑے گا۔

کیا اشاعت کتب گھاٹے کا سودا ہے۔۔۔؟
اپنے کاروبار کے متوازی ’اشاعت کتب‘ کی بابت فاروق احمد کہتے ہیں کہ کاروباری انتظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو متعلقہ شعبے کی مہارت کے بارے میں معلومات ہوں۔ ایک کمپنی کئی کام کرتی ہے، تو اس کے سربراہ ان تمام کاموں کا ماہر نہیں ہوتا، لیکن وہ درست آدمی سے کام لینا جانتا ہے۔ میں نے بطور ناشر پہلے سات سال چودہ، پندرہ لاکھ روپے ڈبوئے۔ ایک کتاب میں 15 ہزار روپے کمائے، تو اس کے اشتہاروں کی لاگت ہی 50 ہزار روپے تھی، کسی بھی کاروبار میں بنیاد بنانی پڑتی ہے، پھر یہ پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے۔ 2011ء تک صرف اشتیاق احمد کو شایع کیا، اس کے بعد دیگر کتب شایع کرنا شروع کیں۔اشاعت کتب کے منفعت بخش ہونے کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ہم بچوں کی 700 سے زائد کتب چھاپ چکے ہیں، اس سے کما تو سکتے ہیں، لیکن گھر نہیں چلا سکتے۔ یہ میرا مرکزی کاروبار نہیں، کُل آمدن میں یہ 30 فی صد تک بن جاتا ہے۔

یہ دل کا کھیل ہے، جتنا وقت لگتا ہے، اتنا آمدن نہیں دیتا۔ میں اس کو دیا گیا نصف وقت اپنے کام پر لگائوں تو 10 گنا زیادہ آمدن ہو، لیکن میں اپنا زیادہ وقت ’اشاعت‘ کو دیتا ہوں۔فاروق احمد بتاتے ہیں کہ کرامت اللہ غوری کی تصنیف ’بار شناسائی‘ پاکستان میں شایع کی اور ہر اشاعت پر انہیں معاوضہ بھیجا تو وہ بہت حیران ہوئے کہ پہلے انہیں کسی پاکستانی ناشر نے ایک دھیلا نہیں دیا۔ تعداد کتب کے استفسار پر وہ بولے کہ ادبی کتاب 15 سو اور ناول تین ہزار فروخت ہوتے ہیں۔ مسودہ پڑھ کر کسی کتاب کی اشاعت کا فیصلہ کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک شناسا کے افسانوں کا مجموعہ چھاپا، تو ایک قاری نے کہا کہ ’آپ نے اپنے نام کو بٹا لگا لیا!‘ اس کے بعد طے کیا کہ اگر ایسی کتاب شایع کروں گا، تو اپنے ادارے کا نام نہیں دوں گا۔

جاسوسی کے آلات سے ’پی ٹی وی‘ پر اداکاری اور لکھنے تک
والد کی بیماری کے سبب فاروق احمد کو کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ 1994ء میں دبئی گئے، جہاں سے کچھ جاسوسی کے آلات، جیسے اسٹن گن، ٹیلی فون ریکارڈنگ ڈیوائسز، کیمرے یا ریکارڈنگ والی گھڑی یا کیلکولیٹر وغیرہ لے آئے، اخبار میں اشتہار دیا، 500 کی لی ہوئی چیز پانچ ہزار میں فروخت ہوئی، یوں اسے کاروبار بنا لیا۔ پھر ’خفیہ اداروں‘ نے بھی اُن سے آلات خریدے۔ ہم نے پوچھا کہ انہوں نے روکا نہیں کہ ایسی چیزیں عام لوگوں کو نہ دیں؟ وہ بولے کہ روکا، پھر میں بے ضرر سی چیزیں تو عام فروخت کرتا، لیکن دوسرے قسم کے آلات صرف انہیں دیتا۔ یہی ’اسپائنگ ڈیوائسز‘ کا اشتہار پڑھ کر ’پی ٹی وی‘ سے آصف انصاری نے اپنے پروگرام کے لیے عاریتاً کچھ آلات لیے۔ ایک دن وہ بولے کہ آپ جیمز بونڈ لگتے ہیں، ہمارے پروگرام میں جاسوس کا کردار ادا کر لیجیے، یوں ٹی وی پر اداکاری بھی کی۔

فاروق احمد نے 2000ء تا 2002ء ’پی ٹی وی‘ کے لیے لکھا۔ اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ آصف انصاری سیریل ’ایڈونچر ٹائمز‘ کے پروڈیوسر تھے، جسے محمود احمد مودی لکھ رہے تھے، انہوں نے مزید لکھنے سے معذرت کرلی، تو میں نے اشتیاق احمد سے ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اجازت لی، یوں ’ایڈونچر ٹائمز‘ کے لیے ان کے ناول ’فون کی چوری‘ کی ڈاکٹر طاہر مسعود سے ڈرامائی تشکیل کرائی، اس کے بعد طاہر مسعود نے مصروفیت کا عذر کر لیا، تو آصف انصاری نے مجھے لکھنے کے لیے کہہ دیا کہ تم کالم لکھتے ہو، یہ بھی کر لو گے، ان کے کہنے پر ناولوں کی ڈرامائی تشکیل شروع کی، اس سیریل میں اداکار شکیل بھی تھے، ایک دن انہوں نے پوچھا کہ یہ کون لکھ رہا ہے، تو میں نے سوچا کہ آج بے عزتی ہو جائے گی، لیکن انہوں نے تعریف کی، جس سے بہت حوصلہ بڑھا، یوں اشتیاق احمد کے آٹھ ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔

تایا ڈاکٹر منظور احمد ’نیشنل عوامی پارٹی‘ کراچی کے صدر رہے
فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ان کے والد 1949ء میں حیدرآباد دکن سے کراچی آئے اور محکمہ صحت میں ملازم ہوئے، پھر کیمیکل کی صنعت لگائی، جو تاحال جاری ہے۔ ننھیال کا تعلق یوپی سے ہے، نانا بہاول پور ریاست میں چیف انجینئر تھے۔ فاروق احمد6 مئی 1966ء کو پیدا ہوئے۔ گھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد پہلی جماعت سے اسکول میں داخل ہوئے، ’پی اے ایف‘ اسکول سے 1981ء میں میٹرک اور پھر 1986ء میں گورنمنٹ پریئمر کالج ناظم آباد سے بی کام کیا۔ 1994ء میں ’آئی بی اے‘ سے ایم بی اے کیا۔ ایک چھوٹے بھائی وقار احمد ہیں، جو میوزک کمپوزر ہیں۔

اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ہمارا گھر محلے کے بچوں کا ’کلب‘ تھا، آہنی دروازہ بند بھی ہوتا، تو بچے اسے پھاند کر اندر آجاتے۔ 1970ء کے زمانے میں محلے داری بہت تھی، متوسط طبقے میں رکھ رکھائو اور عقائد ونظریات اور سوچ کی یک سانیت تھی۔ خلیجی ممالک سے جو بغیر تعلیم کے بہت آسانی سے روپیا پیسا آیا، اس سے ہمارا سماجی رکھ رکھائو بدلا۔ میرے والد اور تایا حیدرآباد دکن میں ’تیلنگانہ موومنٹ‘ سے منسلک رہے، ہمارے دادا کا زمینوں پر اپنے بھائیوں سے تنازع ہوا، تو اپنے بچوں کو ان جھگڑوں سے بچانے کی خاطر وہ اپنے حصے سے دست بردار ہوئے 1930ء میں ’بیڑ‘ آکر جامعہ عثمانیہ کے اسکولوں میں پڑھانے لگے، پھر وہاں انسٹرکٹر اسکول بن گئے۔ ہمارے تایا ڈاکٹر منظور احمد ’نیشنل عوامی پارٹی‘ کے کراچی کے صدر رہے، 1977ء کا انتخاب بھی لڑے۔ دوسرے تایا جماعت اسلامی میں تھے۔ یوں خاندان میں تنوع تھا اور مدلل بحث ہوتی، جس سے یہ سیکھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ فلاں جماعت کا ہے تو اس سے بات ہی نہ کرو۔

براہ راست فون آیا کہ میرا کالم روک دیا جائے۔۔۔
کالم نگاری کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ’1996ء میں ’جنگ‘ میں ہفتہ وار یہ سلسلہ شروع ہوا، وہاں کے ادارتی انچارج ارشد امام نے ایک دن کہا کہ ہم جو کہیں، آپ وہ لکھیں، جیسے عمران خان کے سیتا وائٹ والے معاملے پر۔ میں نے معذرت کرلی، تو وہ کہنے لگے کہ پھر آپ ’جنگ‘ میں نہیں لکھ سکیں گے اور فون بند کر دیا، یوں چار، پانچ ماہ بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا ارشد امام سب لکھنے والوں کو ہدایات دیتے تھے، تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے پھر 1997ء میں ’نوائے وقت‘ کے لیے لکھا، جو 2004ء تک جاری رہا۔ وہاں کے نگراں قاری حسن جاوید کہتے کہ تمہارے نظریات سے اختلاف ہے، لیکن تمہارے کالم سے حب الوطنی کی خوش بو آتی ہے۔

بہ یک وقت تین اخبارات میں کالم نگاری کے حوالے سے فاروق احمد گویا ہوتے ہیں کہ نوائے وقت میں ’کار جہاں ساز‘، ’جرأت‘ میں ’انداز بیاں‘ مستقل عنوان تھا، جب کہ روزنامہ ’دن‘ میں روزانہ ’تکلف برطرف‘ کے نام سے کالم آتا تھا، ’جنگ‘ کے سوا ہر جگہ بامعاوضہ لکھا۔ ’نوائے وقت‘ میں فی کالم 500، ’جرأت‘ میں 300روپے ملتے، ’دن‘ میں ایک کالم کا معاوضہ ہزار روپے سے کچھ کم تھا۔ ’ایکسپریس‘ کے علاوہ 1999ء تک ’کائنات‘ میں بھی لکھا، وہاں انور سن رائے میرے تندوتیز کالم کی اشاعت کے لیے لڑ جاتے، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ میرے کالم کے لیے الجھے اور پھر ’کائنات‘ چھوڑ گئے۔اپنے کالموں کو کتابی صورت میں لانے کے حوالے سے فاروق صاحب نے بتایا کہ مواد کمپوز کرا کے رکھا ہوا ہے، لیکن فرصت نہیں ملتی۔

اُن کا خیال ہے کہ ’سول بالادستی کے لیے شاید ہی کسی اور نے اس طرح لکھا ہو، جیسا میں نے لکھا۔ 1998ء میں ’جرأت‘ کے لیے ایک کالم یہ سوچ کے لکھ دیا کہ تدوین کر لی جائے گی۔ وہاں جمال فریدی نے اسے کاٹ پیٹ کر بے ضرر کیا اور اپنی دراز میں رکھ کر چلے گئے، اُدھر میں نے یہ سوچ کے کہ ملا ہوگا یا نہیں، دوبارہ فیکس کردیا، جو کسی نے اٹھا کر ان کی دراز میں رکھ دیا۔ کمپوزر نے حسب ہدایت میرا کالم ان کی دراز سے نکالا، تو اوپر سے غیرتدوین شدہ کالم اٹھا لیا اور وہ اگلے دن چھپ بھی گیا۔ میں نے اخبار دیکھا، تو میرے پسینے چھوٹ گئے کہ اب کیا ہوگا۔’جراَت‘ کے مدیر مختار عاقل نے مجھے بلا کر بتایا کہ ہمیں براہ راست فون کر کے تمہارے کالم روکنے کے لیے کہا ہے، پھر 15 دن تک کچھ نہ لکھا۔ جب ڈاکٹر طاہر مسعود ’نوائے وقت‘ میں تھے، ایک کالم پر انہوں نے کہا کہ اگر کل یہ چھپ گیا، تو پرسوں ’نوائے وقت‘ نہیں نکلے گا، وہ کہتے کہ تم تو گھر بیٹھ کر لکھ دیتے ہو ہمیں رات کو تین بجے گھر جانا ہوتا ہے۔ میں نے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف بھی لکھا، اور کچھ پولیس کے خلاف بھی لکھا۔‘

ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ردعمل کا استفسار کیا، تو فاروق احمد نے بتایا کہ یہ 1998ء کا زمانہ تھا، وہ گھر پر تنبیہی رقعہ ڈال جاتے، کبھی گاڑی پر چپکا جاتے کہ اپنی حد میں رہیں یا جو کر رہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ کالموں پر ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کی طرف سے بھی دھمکیاں ملیں کہ ’آپ ایک سوشلسٹ کی حیثیت سے ہماری نظر میں ہیں۔ 2002ء میں والد کے اچانک انتقال کے سبب کاروباری ذمہ داریاں مجھ پر آگئیں، پھر صرف ’نوائے وقت‘ میں ہی کچھ عرصے لکھ سکا۔‘

پہلے ’اے پی ایم ایس او‘ پسند آئی، پھر سوچا ’جمعیت‘ ہی اچھی تھی!
فاروق احمد تھرڈ ائیر میں ’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ڈی ایس ایف) سے منسلک ہوگئے، اچھے ہینڈ بل لکھ لینے کے سبب جلد ہی ’ڈی ایس ایف‘ کے پریس سیکریٹری ہو گئے، خبریں لکھ کر اخبارات میں دے کر آتے اور طلبہ تنظیموں پر پابندی کے باوجود اِن تنظیموں کی خبریں ’کالعدم‘ کے سابقے کے ساتھ شایع ہوتی تھیں۔ ’ڈی ایس ایف‘ کا رسالہ ’چنگاری‘ ہاتھ سے لکھتے اور پھر چُھپ چُھپا کر سائیکلواسٹائل کراتے، پھر فوٹو اسٹیٹ کرانے لگے۔

فاروق احمد نے بتایا کہ ’ڈی ایس ایف‘ درپردہ ’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘ کا ’اسٹوڈنٹ ونگ‘ تھا۔ ہم چار لڑکوں نے پریمئر کالج میں ’ڈی ایس ایف‘ کا یونٹ بنایا، پھر تنظیمی انتخابات کرائے۔ کالج کے کُل 500 میں سے 400 طلبہ نے اس میں ووٹ دیا، اتنی سختیوں میں ہم بڑے بڑے پوسٹر لگاتے، جرائد نکالتے اور کھلے عام سوشل ازم کی بات کرتے۔ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ حریف تھی، مگر 1985ء کے آخر تک ماحول اتنا اچھا تھا کہ مخالف نعرے بھی لگاتے اور کینٹین میں چائے پکوڑے بھی ساتھ کھاتے۔ اگست 1986ء سے پہلے ’اے پی ایم ایس او‘ (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کا وجود صرف اتنا تھا کہ دیواروں پر لکھا ہوتا ’’اے پی ایم ایس او‘ قائد تحریک الطاف حسین‘‘۔

’مہاجر ازم‘ کا تیل یہاں سے وہاں تک بکھرا ہوا تھا، ایک چنگاری کی دیر تھی، وہ الطاف صاحب نے دکھا دی۔ شروع میں ہمیں ’اے پی ایم ایس او‘ بھلی لگی کہ جمعیت کو نکال دیا، لیکن پھر جو تشدد کی صورت حال ہوئی، تو سوچا کہ جمعیت ہی اچھی تھی۔ جمعیت کے اندر ایک فاشسٹ رجحان تھا، ان کا تھنڈر اسکواڈ مار پیٹ کرتا تھا، لیکن وہ جامعہ کراچی اور اردو سائنس کالج تک محدود تھا۔ ایک مرتبہ میرے کالج میں جمعیت کے لڑکوں سے تکرار ہوئی، نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ چار دن بعد کالج آتے ہوئے بس میں میرا کنڈیکٹر سے جھگڑا ہوا، تو انہی جمعیت کے لڑکوں نے کنڈیکٹر کو دھکا دے کر کہا ’بہت ماریں گے۔۔۔!‘ وہ مجھ سے بولے کہ ’دیکھ! ہمارے سارے جھگڑے کالج کی حد تک، باہر ہم یار ہیں۔۔۔!‘

فاروق احمد کے بقول ’ضیاء الحق کا دور آج سے ہزار گنا اچھا تھا، ہم پر نظر رکھی جاتی تھی، لیکن ہمیں گرفتار کرتے، تو ہمیں پتا ہوتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافی بصیر نوید پھوپھی زاد بھائی ہیں، وہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کا معاملہ سامنے لائے، بگرام سے ان کی پہلی تصویر بھی نکلوائی۔ پھر اقبال حیدر اور صالحہ اطہر کے ساتھ فوزیہ صدیقی کو بٹھا کر پریس کانفرنس کرائی، میں بھی ساتھ تھا، فوزیہ صدیقی سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا، پھر جماعت اسلامی نے اس مسئلے پر اپنا اجارہ قائم کرلیا۔

The post اردو ناولوں کی رومن میں اشاعت بہت متنازع اور کام یاب قدم تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

جس کی لاٹھی اُس کا ’’سانپ‘‘

$
0
0

شاعروں نے حسیناؤں کی زُلف کو سانپ سے تشبیہ دی ہے، حُسن والوں کو اپنے گیسوؤں کی اس صلاحیت کا پتا چلا تو اسے خوب خوب استعمال کیا، اسی طرح کی ایک حسینہ نے اپنی زلف کا استعمال کرتے ہوئے بہ زبان شاعر یہ کیا:

ذرا اُن کی شوخی تو دیکھنا، لیے زُلفِ خم شدہ ہاتھ میں

مِرے پاس آئے دبے دبے، مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

ہمارے خیال میں ان محترمہ نے یہ حرکت یہ جاننے کے لیے کی تھی کہ شاعر صاحب زلف اور سانپ میں فرق کرپاتے ہیں یا نہیں، ’’ڈرا دیا‘‘ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ موصوف ڈر گئے، مگر جب حقیقت کا پتا چلا تو خوشی سے نہال ہوگئے ہوں گے، ہوسکتا ہے زلف ہاتھ میں لے کر جوئیں دیکھنے بیٹھ گئے ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ شاعر کی محبوبہ کا یہ حربہ تھا جو اس نے موصوف سے نجات حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا۔ اگلی بار ان کی محبوبہ ہاتھ میں سانپ ہی لے کر آئی ہوں گی، اور انھوں نے اُسے زلف سمجھ کر خوشی خوشی پھن تھام لیا ہوگا، یوں اس کہانی کا انجام ہوا ہوگا۔

شعر سے جنم لینی والی اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ انسان کو سانپ کی پہچان ہونی چاہیے اور یہ سبق سکھانے کا خیال ہمیں مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا کے صدر کے متعلق ایک خبر پڑھ کر آیا۔

اس خبر کے مطابق لائیبریا کے صدر کو دفتر میں 2 زہریلے سانپوں کی موجودگی کی وجہ سے کار مملکت اپنے گھر سے چلانا پڑ رہے ہیں۔ صدر جارج ویح کے دفتر خارجہ کی عمارت میں واقع دفتر میں دو سانپوں کو دیکھا گیا جو ملازمین کے ہاتھ نہ آسکے جس کے بعد صدر کو حفاظتی اقدام کے تحت دفتر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

امید ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وہ سانپ پکڑ لیے یا مار دیے گئے ہوں گے، ورنہ سانپ نکل گئے ہوں گے اور لکیر پیٹی جارہی ہوگی۔

شکر ہے لائبیریا کے صدر کے دفتر کا عملہ سانپ کی پہچان رکھتا ہے، ورنہ انھیں زُلف دراز سمجھ بیٹھتا تو خدشہ ہے کہ صدر کی عمر دراز ہونے سے رہ جاتی۔

بتائیے بھلا، سانپوں کی وجہ سے صدر صاحب کو اپنا دفتر چھوڑنا پڑا۔ ان سانپوں کا یہی ہے یہ حکم رانوں کو دفاتر اور ایوانوں سے باہر کردیتے ہیں۔ مسئلہ وہی انھیں نہ پہچاننے کا ہے، مگر پہچان کر بھی کیا ہوتا ہے، کچھ حکم راں تو بڑے پیار سے آستین میں سانپ پالتے اور انھیں دودھ پلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پالتو سانپ دشمنوں کے سینے پر لوٹ رہے ہیں مگر درحقیقت یہ خود انھیں لُوٹ رہے ہوتے ہیں۔

یہ سانپ عام سانپوں سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ گرگٹ رنگ بدلتا ہے، سانپ سو سال بعد کینچلی بدلتا ہے، لیکن یہ دونوں بدلاؤ کے بعد بھی گرگٹ اور سانپ ہی رہتے ہیں، پارٹی نہیں بدلتے، لیکن آستین کے سانپ حکم راں کا وقت بدلتے ہی پارٹی بدل لیتے ہیں اور ہاتھ پر ڈستے ہوئے آستین سے نکل جاتے ہیں، جس کے بعد کبھی یہ رٹو طوطے کا روپ دھارتے ہیں کبھی کسی کے گھر کی مُرغی کا۔

حکم راں ان سانپوں کی نیت جان لیں تو کوشش کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، دراصل اکثر یہ کوئی عام سانپ نہیں ہوتے، بلکہ اس کے خاص ہوتے ہیں جس کے پاس لاٹھی ہونے کی وجہ سے اس کی بھینس ہوتی ہے۔ اب آپ کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ بھینس اور سانپ ایک ہی لاٹھی والے کے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی کبھی بھولے سے بھینس کو سانپ سمجھ کر اُس کے سامنے بین بجادیتا ہے۔ چناں چہ حکم رانوں کو خطرہ ہوتا ہے کہ سانپ کو مارا تو اُن پر لاٹھی ٹوٹ پڑے گی، لہٰذا انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے، جس کے بعد وہ کسی خطرے کی بو نہیں سونگھ پاتے، یوں اقتدار کے سانپ سیڑھی کے کھیل میں وہ سیڑھی سے دھڑام سے نیچے آگرتے ہیں، گرتے ہی اپنی آستین میں جھانکتے ہیں، جو خالی ملتی ہے۔

The post جس کی لاٹھی اُس کا ’’سانپ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ووٹ کو صحت دو

$
0
0

اکبرالہ آبادی نے اپنے دور کے سیاست دانوں کے بارے میں کہا تھا،
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

وہ اُس دور کے راہ نما تھے، آج کے راہ نما کھاتے ہی نہیں کھلاتے بھی ہیں، اور اُن کے قوم کے غم میں مبتلا ہونے کا تو یہ حال ہے کہ اس غم میں کھو کر اپنا ہر غم بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ بیمار ہونا بھی یاد نہیں رہتا، لیکن جیسے ہی انھیں ان کی چہیتی لاڈلی قوم سے جُدا کرکے جیل میں ڈالا جائے فرُقت کا صدمہ اُنھیں علیل کردیتا ہے اور ان علیل راہ نماؤں کا دل چاہتا ہے کہ کوئی انھیں غلیل میں رکھ کر جیل کی دیواروں کے پار پھینک دے تاکہ وہ عوام کے پاس پہنچیں اور اپنے پیارے عوام کو گود میں اُٹھا کر ’’ایک پپی اِدھر، ایک پپی اُدھر‘‘ کریں، مگر ان کی یہ خواہش ڈیل، ڈھیل اور بیماری سے نڈھال ہوئے بغیر پوری نہیں ہوتی۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ کبھی وہ کہتے تھے ’’کیوں نکالا‘‘ اور اب کہتے ہیں ’’نکال کیوں نہیں رہے۔‘‘ اگرچہ قوم کی خاطر وہ قید رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، مگر مچھروں کا کاٹنا اور دل میں عوام سے جُدائی کا کانٹا چین سے نہیں رہنے دیتا، اور اب تو شدید بیمار بھی ہیں جس میں ہمیں کوئی شک نہیں، اس لیے عدالت میں درخواست دی ہے کہ انھیں علاج کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی جائے۔

جب وہ پچھلی مرتبہ قید ہوئے تھے تو پرویزمشرف سے معاملہ کرکے سعودی عرب کی راہ لی تھی، پھر سب نے دیکھا کہ ’’بادشاہ، بادشاہ سے بادشاہ جیسا سلوک کرتا ہے‘‘ کے اصول پر عمل ہوا اور نوازشریف کے دورِحکومت میں مقدمات میں کمرکمر تک دھنسے مشرف اسی کمر کے درد کو جواز بنا کر برطانیہ سُدھار گئے۔ عجیب بات ہے کہ ہمیں برطانیہ سے آزاد ہوئے ایک مُدت گزر گئی لیکن ہمارے سیاست داں انگریزوں کے دیس میں آباد ہونے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جانے اس ملک کی فضاؤں میں کیا ہے کہ وہاں ان کی صحت بھی بنتی ہے جائیداد بھی۔

ہم نوازشریف صاحب کی تن درستی کے متمنی ہیں، اور چاہتے ہیں کہ وہ علاج کے لیے ملک سے باہر جائیں۔ بھئی ظاہر ہے وہ ہماری آپ کی طرح عام پاکستانی تو ہیں نہیں کہ بیمار ہوئے تو ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس دوڑے جارہے ہیں، فائدہ نہیں ہوا تو ہومیوپیتھ سے علاج کروارہے ہیں، وہاں بھی بات نہ بنی تو کسی حکیم کے مطب میں پائے جارہے ہیں، اور وہاں بھی ’’کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ تو کسی پیر کے آستانے میں بیٹھے پانی پر پھنکوارہے ہیں۔ بڑے لوگ وضع دار بھی ہوتے ہیں، جس سے علاج کرانا ہے اُسی سے کرائیں گے، جیسے میرتقی میر جو بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے ’’برخوردار‘‘ سے دوا لیتے تھے۔ اسی طرح نوازشریف صاحب کا بھی اپنے برطانوی معالج کے بارے میں کہنا ہے ’’وہی علاج کرے گا تو زندگی ہوگی۔‘‘

پھر یہ بھی تو ہے ناں کہ ہمارے حکم رانوں نے ملک میں علاج کی معیاری سہولتیں فراہم ہی کب کی ہیں جو کوئی یہاں علاج کرائے، اب ’’شریف آدمی‘‘ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرے ملک کے اسپتال اور ڈاکٹر اس قابل ہی نہیں کہ ان سے علاج کرایا جائے، وہ شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ علاج کے لیے باہر جانے دو۔ ویسے منطق یہی کہتی ہے کہ جس طرح کوئی آلودہ فضا کے باعث کسی مرض میں مبتلا ہوا ہے وہ صاف فضا میں پہنچ کر صحت یاب ہوجائے گا، اسی طرح جو ’’اندر‘‘ جاکر بیمار ہوا ہے ’’باہر‘‘ جاکر ٹھیک ہوجائے گا۔

ہم ن لیگ والوں سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ میاں صاحب کی علالت بڑا سنگین معاملہ ہے، چناں چہ اب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ذرا سا تبدیل کرکے ’’ووٹ کو صحت دو‘‘ کا نعرہ اپنالیں۔

The post ووٹ کو صحت دو appeared first on ایکسپریس اردو.

کچھ نئی وزارتیں

$
0
0

متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم شیخ محمد رشید المختوم نے ’’وزارتِ امکانات‘‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کا کوئی وزیر نہیں ہوگا۔ یقیناً متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم نے یہ وزارت پاکستان کی نقل کرتے ہوئے بنائی ہے، جہاں ہر وزارت وزارتِ امکانات ہے۔

ہر وزیر کے اعلانات سُن کر پاکستانی قوم کبھی نوکریوں کی برسات کی تلاش میں آسمان کو تکتی ہے، تو کبھی لاکھوں مکانات کی کھوج میں زمین پر نظر دوڑاتی ہے، اور پھر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرلیتی ہے کہ ’’وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘، وابستہ رہنے اور امیدبہار رکھنے کے لیے اشجار کی کوئی کمی نہیں، بہ قول وزیراعظم عمران خان ملک میں پانچ ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔

وزیراعظم یہ خوش خبری ملک میں رہتے ہوئے بھی سُنا سکتے تھے لیکن انھوں نے یہ اطلاع چین جاکر دی، وہ جانتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، اس لیے ڈھول ہمیشہ دور جاکر بجانا چاہیے تاکہ سُہانا لگے۔ بہ ہر حال، قوم کو چاہیے کہ یہ پانچ ارب پیڑ ڈھونڈے، ان سے وابستہ رہ کر صبر کا پھل توڑ توڑ کر کھاتی رہے اور ان کی شاخوں پر جھولے ڈال کر حکومت کے گُن گاتی رہے۔

ہماری تجویز ہے کہ جس طرح متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ہماری نقل کرتے ہوئے ’’وزارت امکانات‘‘ قائم کی ہے ہم بھی جواباً یا انتقاماً یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اپنی ہر وزارت کو کوئی ایسا نام دے دیں جس میں کوئی ممکنہ پہلو نکلتا ہو، مثال کے طور پر بھارت کے حملے کا ڈراوا دینے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت کو ’’وزارت خدشات‘‘ کا نام دیا جائے، مالی امور کی ذمے داری ’’وزارت صدمات‘‘ کا نام پائے، اسے پیار سے ’’وزارتِ قرضیات‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔

ماحولیات سے متعلق معاملات کے لیے ’’وزارت سبزباغات‘‘ ہو، صحت کا شعبہ ’’وزارت برائے گرانیٔ ادویات‘‘ کے تحت ہو۔ فیصل واوڈا کی وزارت آبی وسائل متعلقہ وزیر کے پانی کے بلبلوں جیسے دعووں کے باعث ’’وزارت بُلبُلات‘‘ کہلائے، اسے ’’وزارت سرابیات‘‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ وزارت اطلاعات کے حالیہ دور میں فرائض کے پیش نظر اسے ’’وزارت دفاع و وضاحتِ زبانی پھسلنیات‘‘ قرار دینا مناسب ہوگا۔ ریلوے کی وزارت وزیرموصوف کی مناسبت سے ’’وزارتِ شیخی بھگاریات‘‘ کا نام پاسکتی ہے۔

اگرچہ ہم پاکستانیوں کو ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ لیکن جو صورت حال ہے اس میں گھبراہٹ، جھلاہٹ، بوکھلاہٹ اور بولاہٹ سے وہی بچ سکتا ہے جو انتہائی درجے کا ہٹ دھرم ہو، اس لیے قوم کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھنے کی خاطر کئی وزارتوں کے قیام کی ضرورت ہے، جیسے ’’وازرتِ توقعات‘‘، ’’وزارت انسدادِ وسوسہ جات‘‘، ’’وزارت تَسَلّیات‘‘، ’’وزارتِ خوابیات‘‘،’’وزارتِ گَپّیات۔‘‘ ان وزارتوں کا کام بس قوم کو امید دلانے رہنا اور خواب دکھاتے رہنا ہوگا، ہمیں یقین ہے کہ جب اتنی وزارتیں مل کر ایک ہی کام کر رہی ہوں گی تو قوم توقعات میں یوں گِھرجائے گی کہ ذرا بھی نہ گھبرائے گی۔

The post کچھ نئی وزارتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


چاہت میں تری سَر پہ یہ الزام بہت ہے
اک تیرے تلک دل مرا ناکام بہت ہے
لے دے کے محبت کی جگہ درد نے لے لی
اب ٹوٹ کے رویا ہوں تو آرام بہت ہے
میں کب تجھے کہتا ہوں مرے پاس ہی آ جا
اک سال میں اس دل کو بس اک شام بہت ہے
گردے کو جو بیچے گا تو مفلس ہی بیچارہ
اس دور کا سلطان بھی ناکام بہت ہے
جاتا ہوا موسم بھی پریشان بہت تھا
آتی ہوئی رُت کا یہی پیغام بہت ہے
خط لکھ کے وہ کہتا ہے صائمؔ مے چھوڑ دو
قربت ہو اگر اس کی تو اک جام بہت ہے
(مختار صائم قادری۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


بے دھوپ آفتابوں کی صبحیں طلوع کر
موجوں کو تھام ہاتھوں میں دریا شروع کر
چل جھاڑ ان غلافوں سے غفلت کی دھول کو
ماموم بن قلندر کا پھر سے رکوع کر
موضوع صرف اتنا ہے فانی حیات کا
قائم تو رہ اصولوں پہ تابع فروع کر
رندانِ دہر کا تو مسیحا ضرور ہے
یہ کب کہا تجھے کہ تو اعلانِ نوع کر
ملبوسِ آگہی ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھے
وہ اوڑھ! پھر تلاشِ خشوع و خضوع کر
ہر چاندنی رکھی ہے مرے بام سے پرے
اب ٹمٹما اے جگنو کہیں پر وقوع کر
ساگرؔ بڑے فہیمِ فراق و وصال ہیں
جب ہجرتیں ستاتی ہوں اُن سے رجوع کر
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


کوئی نہیں ہے جو اس کے ماسوا ہی نہیں
کہ یہ اداسی فقط تیرا مسئلہ ہی نہیں
وہ پہلے ایک تسلسل سے دیکھتا ہے مجھے
پھر اس کے بعد کئی روز دیکھتا ہی نہیں
تمہارے ساتھ کئی لوگ بیٹھتے تھے یہاں
تمہارے بعد تو جیسے کوئی رہا ہی نہیں
مری دعا ہے وہ مالک سے مانگ لے مجھ کو
اور اس کے بعد کوئی اور التجا ہی نہیں
اسے میں اور بلاتا بھی کس طرح اطہرؔ
رکو رکو بھی پکارا مگر رکا ہی نہیں
(عرباض عرضی۔ تاندلیانوالہ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


اس لیے آپ سے بدگماں تھے
آپ ہی تو مرے رازداں تھے
زندہ رہنا بھی آساں نہیں تھا
دن نہیں تھے کڑے امتحاں تھے
میں کہیں قیس ہی تو نہیں ہوں
دشت میں میرے پا کے نشاں تھے
کیا کہا! آنکھ پتھر سی کیوں ہے
پوچھ سکتا ہوں اب تک کہاں تھے
صبر کی خوب منظر کشی ہے
کوئی بوڑھا تھا لاشے جواں تھے
جب میں اندھے سفر پر تھا نکلا
لفظ روشن تھے اور مہرباں تھے
(زعیم جعفری ۔گجرات)

۔۔۔
غزل


آپ کو شاعری بنانی تھی
میں نے کچھ روشنی بنانی تھی
آئنے پر جو بوند چلتی ہے
اس میں تصویر سی بنانی تھی
شعر تم نے برائے شعر کہا
شعر سے زندگی بنانی تھی
نقشہ سازِ دیارِ دیر و حرم!
اک تو سیدھی گلی بنانی تھی
جانے کیوں بے گھری بنا بیٹھا
میں نے تو جھونپڑی بنانی تھی
تم نے پھر سرخ رنگ بھر ڈالا
شام بس سرمئی بنانی تھی
منہ بنانے سے کچھ نہیں ہوگا
کوئی صورت نئی بنانی تھی
خودبخود تازگی بنی نیرؔ
یہ نہیں تازگی بنانی تھی
(شہزاد نیر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


لوگوں کو دے سکے نہ جو کوئی ثمر بھلا
ایسے ہنر مندوں سے تو میں بے ہنر بَھلا
تم پھر سے چل پڑے ہو محبت کی راہ پر
کرتا ہے کوئی کام یہ بارِ دگر بھلا
یادوں میں آگیا کوئی بھولا ہوا خیال
شعروں میں آگیا ہے پلٹ کر اثر بھلا
خود کو تمام دن کی مشقت میں جھونک کر
لوٹا ہے کون ہنستا ہوا اپنے گھر بَھلا
نیزے کی نوک پر بھی تلاوت میں محو ہو
شبیر کے سوا کوئی دیکھا ہے سَر بھلا
منزل کا کچھ پتہ ہے نہ رستے کی کچھ خبر
یہ کیسا کارواں ہے سرِ رہ گزر بَھلا
اس راہ سے امید مت رکھو وسیمؔ
راہِ وفا میں دیکھا ہے کوئی شجر بھلا
(وسیم عباس۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


آرزو بے کنار ہے دل میں
جیسے تیرا ہی پیار ہے دل میں
یا اداسی ہے ہجر موسم کی
یا ترا انتظار ہے دل میں
کون یہ نیند میں چلا آیا
خواب کا سب خمار ہے دل میں
کوئی وحشت نہیں ہے چہرے پر
بس جنوں کا غبار ہے دل میں
یوں تو آنکھوں میں شام ہے آصفؔ
پھر بھی صبحِ زار ہے دل میں
(ڈاکٹر شفیق آصف۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


تیری الفت سے ہی الفت کی ہوا بنتی گئی
رفتہ رفتہ زندگانی کی فضا بنتی گئی
امتزاجِ شبنم و لالہ جہاں ہوتا گیا
صحنِ گلشن میں وہیں بادِ صبا بنتی گئی
میری خود داری نے کشتی ناخدا سے چھین لی
میری خود داری ہی، میری ناخدا بنتی گئی
کوئی مشکل تو نہیں تھی میرے ہونٹوں پر دعا
جب صدا اٹھتی رہی دل کی دعا بنتی گئی
تیری الفت نے مرے ہونٹوں کو سِی ڈالا مگر
میری خاموشی مرے دل کی صدا بنتی گئی
(قیامت بخاری۔ بھکر)

۔۔۔
غزل


جھیل کا گہرا، نیلگوں پانی
تیر ے جیسا ہے ہو بہ ہو پانی
کوِئی تعبیر تو، بتائے مجھے
میں نے دیکھا ہے، چار سو پانی
کیسے اس بات کا یقیں کر لوں
آج رکھے گا، آبرو پانی!!
میرے پائوں زمیں پہ لگتے نہیں
ہوگیا میرا جب سے تُو پانی
اپنے ہاتھوں سے میں پلائوں گا
مجھ سے مانگے اگر عدو پانی
بے کراں دشت میں حسین امجد
کیسی کرتا ہے، گفتگو پانی
(حسین امجد۔ اٹک)

۔۔۔
غزل


شامِ غم کیا ہے بچھڑنے کی اذیّت کیا ہے
میں نے تو ہجر میں جانا ہے کہ قربت کیا ہے
عمر بھر ان کے مقدر میں ہے جلنا یارو
اور چراغوں کی مرے خون سے نسبت کیا ہے
جن کی شاخوں پہ پرندوں کا بسیرا نہ رہا
ان درختوں سے کبھی پوچھ کہ وحشت کیا ہے
پوچھتی ہو مری بیٹی مری محنت کا صلہ
تیری مسکان ہے بس اور مری اجرت کیا ہے
تم تو ہر درد سے انجان بنے بیٹھے ہو
تم نے جانا ہی کہاں یار محبت کیا ہے
تو جو ہر بات پہ رکھتا ہے تعصب مجھ سے
پھر مجھے دوست بھی کہنے کی ضرورت کیا ہے
ہر خوشی پر ہے کشیدہ مرے آنگن کی فضا
جانتا کوئی نہیں وجہِ کدورت کیا ہے
جانتے ہو روشِ گردشِ دوراں کو رضاؔ
پھر بھی دیوار سے لگنے کی ضرورت کیا ہے
(احمد رضا۔ گکھڑ منڈی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے
جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے
جیسا میں ہوں میرے چہرے کی ہنسی جیسی ہے
غور سے دیکھ کہ ہوتے نہیں جو کر ایسے
تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی
اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے
آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں
کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے
زلف ایسی کہ سیاہ ریشمی جنگل کوئی
نین اس شخص کے ہیں سرمئی مَرمر ایسے
کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا
بات تھی، بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے
کس نے سوچا تھا کمروں میں فقط چپ ہوگی
کس نے سوچاتھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے
ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر ؔ
ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے
(ازبر سفیر۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


باندھ کر گھنگھرو کبھی وہ کیا کرتا ہے دھمال
ہم نے اس واسطے ہر گیت میں لکھا ہے دھمال
منتیں مان کے جس شخص کو ماں نے مانگا
رات دن اس لیے اس شخص نے سوچا ہے دھمال
لال شہباز قلندر کی گلی کا منگتا
جب کوئی بات لکھے بات میں لکھتا ہے دھمال
ہیر اور سوہنی سے اس بات کا جا کر پوچھو
آنکھ ہے جھیل تو اس جھیل کا دریا ہے دھمال
منزلِ عشق پہ گاڑی نہیں جاتی مقبول ؔ
ان کے در جانے کا بس اک رستہ ہے دھمال
(سید مقبول حسین۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


دل سے اک سوختہ سی آہ اٹھی
آرزو پا کے نئی راہ اٹھی
خود میں ہی ڈوبا ہوا تھا ہر اک
بے خودی میں جدھر نگاہ اٹھی
بڑھا جب حد سے زور باطل کا
حق کی پھر ترجماں سپاہ اٹھی
اجلے چہرے بدل گئے شب کو
رات جب بن کے اک گناہ اٹھی
دیکھ کر بم دھماکوں کی زد میں
زندگی رو پڑی، کراہ اٹھی
بے کسی کے خلاف اک لڑکی
لے کے جذبات بے پناہ اٹھی
اختلافِ مزاج تھا گرچہ
زندگی پھر بھی وہ نبھا اٹھی
(سائرہ حمید تشنہ۔ فیصل آباد)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

دو سپر پاورز کے مابین جاری 5G کی سنسنی خیز جنگ

$
0
0

وطن عزیز میں عام آدمی تو آٹے دال کے چکر میں پھنسا رہتا ہے، اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد کی فکر و معلومات بھی ذاتی یا جماعتی مفادات سے اوپر نہیں اٹھ پاتی۔

مثال کے طور پر پاکستان میں کم ہی لوگ اس زبردست عالمی جنگ کی ماہیت و نوعیت سے واقف ہیں جو دنیا کی دو سپر پاورز … چین اور امریکا کے مابین جاری ہے۔ اس جنگ کے باعث پاکستان بھی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے کیونکہ وہ چین کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

چین و امریکا کی جاری عالمی جنگ بعض عیاں عوامل رکھتی ہے۔ مثلاً دونوںممالک کی باہمی تجارت میں امریکا کو اربوں ڈالر کا خسارہ ہورہاہے۔ لہٰذا امریکی حکمران چینی درآمدات کم کر کے تجارتی خسارہ کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے جب امریکا نے چینی درآمدات پر ٹیکس لگائے تو چین نے بھی امریکی اشیا پہ نئے ٹیکس ٹھونس دئیے۔ یوں دونوں طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ چھڑ گئی جو عارضی طور پر التوا کا شکار ہے۔دوم دونوں سپر پاورز دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دست و گریباں ہیں۔ چین کئی ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں چینی حکومت کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو‘‘ بین الاقوامی پروجیکٹ پاکستان سمیت تقریباً ستر ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکا اس عظیم الشان منصوبے سے بہت خائف ہے۔ امریکی حکمرانوں کو یقین ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا، تو خصوصاً ایشیا اور یورپ میں چین کا اثر و روسوخ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔سوم بحیرہ جنوبی چین بھی مختلف ممالک کے مابین وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔ اس سمندر میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ چین اس بحیرہ کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے لیکن امریکا اور اس کے حواری مثلاً جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان چینی دعویٰ کو درست نہیں سمجھتے۔ اسی لیے علاقے میں بحری جنگ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

سائنس وٹیکنالوجیکا اہم محاذ

دنیاکی یہ دونوں سپر پاورز سائنس و ٹیکنالوجی کے محاذ پر بھی ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔پاکستانی اسی محاذ کی نوعیت سے کم واقف ہیں۔ حالانکہ یہی اہم ترین میدان جنگ ہے۔ وجہ یہ کہ جو بھی ملک سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت پالے، وہ دنیا کی سرخیل طاقت بن جاتا ہے۔ماضی میں چین‘ یونان اور ہندوستان سائنس و ٹیکنالوجی کے مراکز رہے ہیں۔ نویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی تک مسلمان عرب اسی شعبے میں سپر پاور رہے۔ ان کے بعد مغرب نے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی کمان سنبھال لی۔

مگر اب چین دوبارہ اس شعبے کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔سال روا ں میں چین اپنے جی ڈی پی کا 2.5حصہ سائنس و ٹکنالوجی سے متعلق شعبہ جات اور سرگرمیوں پر خرچ کر رہا ہے۔ چین کا جی ڈی پی ( پی پی پی) عالمی مالیاتی اداروں کی رو سے 25 ہزار دو سو اڑتیس ارب ڈالر ہے۔ گویا چین شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی پر 2019ء میں چھ سو تیس ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگایئے کہ یہ پاکستان کے پچھلے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ گویا چین پاکستان کے کل بجٹ سے زیادہ رقم اپنے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی و بہتری پر خرچ کر رہاہے۔ یہ دنیا بھر میں اس شعبے کا سب سے بڑا بجٹ بن چکا۔

امریکا کی شاطر چال

پیسے کی ریل پیل سے فائدہ اٹھا کر چین کی کمپنیاں جدید ترین سائنسی شعبوں… 5جی موبائل کمیونیکیشن اور مشینی یا مصنوعی ذہانت میں زبردست ترقی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر چینی کمپنی ، ہواوے موبائل کمیونیکشن میں مستعمل آلات اور سازو سامان بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی۔ مزید براں جنوبی کورین سام سنگ کے بعد یہی دنیا کی دوسری بڑی موبائل کمپنی بھی ہے۔ لیکن امریکی حکمرانوںکی نگاہ میں یہی اعزاز خار بن کر کھٹکنے لگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہووائے 4جی اور 5جی استعمال کرنے والی موبائل نیٹ ورک کمپنیوںکے لیے بیشتر آلات تیار کرتی ہے۔ پچھلے سال امریکا اور اس کے حواری ممالک یعنی برطانیہ ‘کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو احساس ہوا کہ اگر ان کے ملکوں میں موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں 5جی کمیونیکشن میں چینی ساختہ آلات و سامان استعمال کرنے لگیں‘ تو اس طرح چین کو اربوں ڈالر کامالی فائدہ پہنچے گا۔ یوں چین حقیقی معنوں میں معاشی دیو بن کر ابھر سکتا ہے۔

چین کو معاشی فوائد سے محروم کرنے کی خاطر امریکا نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ ہووائے اور چین کی دیگر کمپنیوں کے بنے موبائل نیٹ ورکنگ آلات میں جاسوسی کرنے والے پرزے بھی نصب ہوتے ہیں۔ ان پرزہ جات کی مدد سے چینی حکومت موبائل نیٹ ورک ڈیٹا میں موجود ہر ملک کے سرکاری و خفیہ راز جان سکتی ہے۔ اس مفروضے کی بنیاد پر امریکی حکومت نے نہ صرف اپنے ملک میں پابندی لگائی بلکہ دیگر ملکوں پر بھی دباؤ ڈالنے لگی کہ وہ اپنی موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کو چینی ساختہ آلات و سامان استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

چینی کمپنیوں کے خلاف مہم چلاتے ہوئے امریکی حکومت کی ایما پر ہی کینیڈا نے پچھلے سال ہواوے کی چیف آپریٹنگ آفیسر اور بانی ادارہ کی بیٹی‘ منگ وانزو کو گرفتار کرلیا۔ منگ پر الزام ہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود وہ ایرانی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیوں کو اپنی کمپنی کے آلات وغیرہ فراہم کرتی رہی ۔امریکا کے شدید دباؤ کی وجہ سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور فرانس کی حکومتیں اعلان کر چکیں کہ ان کی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں 5 جی ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے چینی کمپنیوں کے ساختہ آلات و سامان استعمال نہیں کریں گی۔ جبکہ مستقبل میں برطانیہ‘ کینیڈا ،جرمنی اورنریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر بھارتی حکمران بھی اسی قسم کا اعلان کر سکتے ہیں۔

چین کیوں نشانے پر؟

صورتحال سے واضح ہے کہ امریکا کسی صورت چین کو معاشی فوائد نہیں پہنچانا چاہتا۔ دوسرے امریکی حکمرانوں کو یقین تھا کہ اگر دنیا بھر کی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساختہ آلات استعمال کرنے لگیں، تو ان کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا۔ یوں رفتہ رفتہ چین ان ملکوں میں زیادہ اثرورسوخ حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے بھی امریکی حکومت نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ چینی کمپنیاں موبائل ٹیلی کمیونیکشز آلات میں جاسوسی کرنے والے پرزے بھی فٹ کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ محض پروپیگنڈا اور غلط بات ہے۔ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکمران چین کو سائنس و ٹیکنالوجی میں کمال مہارت رکھنے والا ملک بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ خاص طور پر پچھلی ایک صدی سے امریکا ہی ٹیلی کمیونیکیشن سپرپاور بنا چلا آرہا ہے۔ پہلے پہل امریکیوں ہی نے ٹیلی گراف یا تار کے نظام کو ترقی دی۔ پھر گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کردیا۔ گراہم بیل ہی نے اے ٹی اینڈ ٹی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کا شمار دنیا کی بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں میں ہوتا ہے۔

امریکی حکومت کے ساتھ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج امریکا میں ایسی کوئی کمپنی نہیں رہی جو 5 جی نیٹ ورکس کے لیے درکار آلات وسیع پیمانے پہ بناتی اور خدمات (سروسز) فراہم کرتی ہو۔ حتیٰ کہ امریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں بہت سے آلات اور خدمات کے سلسلے میں چینی کمپنیوں کی محتاج ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ 5 جی نیٹ ورکس قائم کرنے کے لیے چینی کمپنیوں سے مدد لیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چینی کمپنیوں کے آلات اور خدمات سستی ہیں جبکہ یورپی و امریکی کمپنیاں مہنگے داموں انہیں فروخت کرتی ہیں۔امریکا مگر جلدازجلد 5 جی ٹیکنالوجی کو اپنانا چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ یہ ٹیکنالوجی انسان کی روزمرہ زندگی میں انقلاب لاسکتی ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے کام کرنا آسان ہوجائے گا۔ خاص طور پر 5 جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت کے اشتراک یا تال میل سے مشین اور انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ باہم منسلک ہو کے بہت سے کام مشترکہ طور پر انجام دے سکیں۔ غرض 5 جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت کا ادغام ہر ملک کو اربوں ڈالر کا معاشی فائدہ پہنچاسکتا ہے۔

امریکہ کا سینٹر، راجر ویکر امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) میں کامرس، سائنس اینڈ ٹرانسپورٹیشن کا سربراہ ہے۔ اس نے حال ہی میں بیان دیا ’’ یہ نہایت ضروری ہے کہ امریکہ 5جی ٹیکنالوجی کی دوڑ جیت لے۔ اگر وہ یہ ریس نہ جیت سکا، تو دنیائے ٹیکنالوجی میں اس کی اہمیت اور معاشی وقعت کم ہوجائے گی۔‘‘

چینی کمپنیوں کی خصوصیات

کچھ عرصہ قبل امریکی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں مثلاً اے ٹی اینڈ ٹی، ویریزن اور اسپرنٹ نے اعلان کیا کہ وہ دوست ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر 5 جی ٹیکنالوجی کے آلات بنائیں گی۔ نیز خدمات بھی فراہم کی جائیں گی۔ ان دوست کمپنیوں میں نوکیا، ارکسن اور سام سنگ شامل ہیں۔ مسئلہ مگر یہی ہے کہ یورپی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے آلات و خدمات خاصی مہنگی ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام ان کمپنیوں کے آلات پر مبنی 5 جی نیٹ ورکس کی مہنگی سروسز قبول کرلیں گے؟ جبکہ انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں چینی کمپنیوں کے آلات پر مبنی 5جی نیٹ ورکس سستی خدمات لوگوں کو فراہم کررہے ہیں؟ اس صورت حال میں امریکی عوام اپنے حکمرانوں کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ امریکی ٹیلی کمیونی کیشن مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کو بھی آنے کی اجازت دے دیں۔ مقصد یہی ہوگا کہ 5جی نیٹ ورکس کی سروسز سستی ہوسکیں۔

ایک وقت تھا کہ چین میں تیار کردہ اشیا ناپائیدار اور جدت کے لحاظ سے گھٹیا سمجھی جاتی تھیں۔ مگر یہ زمانہ گزرگیا۔ اب چین میں اعلیٰ معیار کی اشیا بھی بن رہی ہیں جو ظاہر ہے کچھ مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ چینی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں اپنے آلات اور سروسز کو اس لیے کم قیمت رکھنے پر کامیاب رہیں کیونکہ وہ انہیں وسیع پیمانے پہ تیار کرتی ہیں۔ اسی لیے پیداواری لاگت کم ہوجاتی ہے۔ صرف چین ہی میں کروڑوں لوگ ان کمپنیوں کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا وسیع پیمانے پر تیاری ہی نے چینی کمپنیوں کو یورپی و امریکی کمپنیوں پر یہ فوقیت دے ڈالی کہ وہ اپنی مصنوعات اور خدمات سستی رکھیں اور یوں عالمی منڈیوں میں اپنا حصہ بڑھالیں۔

چین کی ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک نمایاں خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے منافع کا بڑا حصہ آر اینڈ ڈی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) پر خرچ کرتی ہیں۔ اسی خوبی نے انہیں یہ سنہرا موقع عطا کردیا کہ وہ نہ صرف اپنی مصنوعات کو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہتر بناسکیں بلکہ ہر سال نت نئی اشیا بھی مارکیٹ میں لے آئیں۔ یہی وجہ ہے، چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں ہر سال نہیں ہر مہینے ہمہ اقسام کے نئے آلات پیش کردیتی ہیں جو کارکردگی میں پچھلوں سے زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔

ڈیٹا کی طاقت

امریکا 5جی ٹیکنالوجی کے ضمن میں چین کے خلاف تیزی سے اس لیے بھی سرگرم ہوا کہ امریکی افواج چینی کمپنیوں کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھنے لگی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ 5جی ٹیکنالوجی مستقبل میں شعبہ جنگ وجدل میں بھی انقلابی تبدیلیاں لے آئے گی۔ حتیٰ کہ وہ فن حرب کی ماہیت و ہیت بھی بدل سکتی ہے۔یہ یاد رہے کہ 5جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت مل کر یہ انقلاب جنم دیں گی۔ مشینی ذہانت کی بنیاد ڈیٹا ہے، عظیم الشان ڈیٹا جو خصوصاً دنیائے انٹرنیٹ اور کمپیوٹروں وغیرہ میں موجود ہے۔ یہ ایسا طوطا ہے جس میں مشینی ذہانت کی روح حلول کرچکی۔ماہرین کی رو سے اس وقت دنیائے انٹرنیٹ میں تقریباً 3 زیٹابائٹس ڈیٹا جنم لے چکا۔ اس مقدار کی عظیم الشان وسعت  سمجھنے کے لیے جانیے کہ 1024 گیگابائٹ مل کر 1 ٹیرا بائٹ بناتے ہیں۔ 1024 ٹیرا بائٹ ڈیٹا 1 پیٹا بائٹ کے برابر ہے۔ ایک ایکسا بائٹ 1024 پیٹا بائٹ کے برابر ہے جبکہ 1024 ایکسا بائٹ مل کر ایک زیٹا بائٹ تشکیل دیتے ہیں۔ اس وقت ہر ایک سیکنڈ میں دنیائے انٹرنیٹ پر 2 میگابائٹ نیا ڈیٹا جنم لے رہا ہے۔

یہی بے حساب اور لاتعداد ڈیٹا مشینی یا مصنوعی ذہانت کا ایندھن یا توانائی بن چکی۔ اس ڈیٹا کی مدد ہی سے مشنیی ذہانت اب ایسے کام کرنے لگی ہے جنہیں وہ پہلے انجام دینے سے قاصر تھی۔ 5جی ٹیکنالوجی اس عمل کو ممکن بنائے گی کہ مشینی ذہانت بے حساب ڈیٹا کو تیز رفتاری سے پروسیس کرسکے یعنی اپنے کام میں لاسکے۔ یوں وہ مطلوبہ تیزی سے اپنے کام انجام دے گی۔ڈیٹا کی بڑھتی اہمیت کے باعث ہی علم کا ایک نیا شعبہ ’’ڈیٹا سائنس‘‘ جنم لے چکا۔ اس شعبے میں ڈیٹا سے متعلق تمام امور کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی رو سے ڈیٹا اکیسویں صدی کا سونا ہے، نئی قسم کا پٹرول۔ جو ملک اس ڈیٹا پر کنٹرول کرنے کے قابل ہوگیا، وہ دنیا پر راج کرسکتا ہے۔

5جی کی بنیادی خصوصیت اس کا تیز رفتار ہونا ہے۔ فی الوقت 4جی میں ڈیٹا زیادہ سے زیادہ ایک گیگا بائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتا ہے مگر 5جی کے ذریعے وہ دس تا بیس گیگا بائٹ کی رفتار سے سفر کرسکے گا۔ عام افراد کے لیے باعث مسّرت بات یہ ہے کہ وہ 5جی کی بدولت نیٹ سے من پسند فلم یا ویڈیو چند لمحوں میں ڈاؤن لوڈ کرلیں گے۔ مگر یہ ٹیکنالوجی بہت سے دیگر اہم اور بڑے فوائد رکھتی ہے۔

انٹرنیٹ آف تھنگس

ایک بڑا فائدہ یہی ہے کہ 5جی کی بدولت سینسروں (حساس آلات) روبوٹوں، مشینوں، کاروں وغیرہ کے وسیع نیٹ ورک کو باہم منسلک کرنا ممکن ہوجائے گا۔ یہ رابطہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام پائے گا۔ ماہرین اسی رابطے کو ’’انٹرنیٹ آف تھنگس‘‘ (Internet Of Things)کا خطاب دے چکے۔ جب بھی اس عمل نے جنم لیا، ہم یہ حیرت انگیز منظر دیکھیں گے کہ ہمہ رنگ اشیا اور آلات انسان کی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے سے ’’باتیں‘‘ کررہے ہیں۔ یہ رابطہ عظیم الشان ڈیٹا اور 5جی کے ذریعے ہی پیدا ہوگا۔

سائنس فکشن فلموں میں ہم یہ حیران کن مناظر دیکھتے ہیں کہ روبوٹ مالک کے لیے کھانا تیار کررہے ہیں۔ کارخانے میں مشینیں خود بخود مصنوعات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک شہر میں بیٹھا ڈاکٹر کیمرے اور سکرین کی مدد سے دوسرے شہر میں آپریشن تھیٹر میں لیٹے مریض کا آپریشن کررہا ہے۔ فضا میں کاریں پرواز کررہی ہیں۔ لیکن مستقبل میں 5جی اور مصنوعی ذہانت کے ادغام سے درج بالا حیرت انگیز مناظر ہماری روزمرہ زندگی میں عام ہوجائیں گے۔

مستقبل کی جنگیں

یہی نہیں، مستقبل کی جنگ کو بھی 5جی اور مصنوعی ذہانت نیا رنگ و روپ عطا کریں گی۔ مثال کے طور پر تصّور کیجیے کہ پاک فوج کا ایک دستہ دوران جنگ جنگل میں موجود ہے۔ اس نے جنگل میں دشمن کی ایک چوکی تباہ کرنی ہے۔ دستے میں شامل فوجی سنبھل کر چلتے دشمن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہر فوجی کی کلائی سے ایک گھڑی بندھی ہے۔ وہ اسے جنگل میں موجود تمام ساتھیوں کی پوزیشن دکھا رہی ہے۔ چونکہ جنگل میں مصنوعی سیارے (سیٹلائٹ) کے ذریعے رابطہ نہیں ہوپاتا لہٰذا یہ کلائی گھڑیاں مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کررہی ہیں۔

اچانک دشمن نے فائرنگ کرکے پاک فوج کے ایک جوان کو زخمی کر ڈالا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کے بدن سے مجموعی حالت پر نظر رکھنے والا آلہ نصب ہے۔ اس کے سینسر آلے کو بتاتے ہیں کہ فوجی بے ہوش ہوچکا۔ وہ آلہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔آلے کے حکم پر فوجی کی زخمی ٹانگ کے گرد بیلٹ کسی جاتی ہے۔ وہ آلہ بدن میں ایڈرلین کا انجکشن لگاتا ہے تاکہ جوان جراثیم سے محفوظ رہے۔ پھر وہ فیلڈ ہسپتال اور بقیہ جوانوں کو سگنل بھیج کر انہیں زخمی کی حالت سے مطلع کرتا ہے۔

اپنی اپنی کلائی گھڑیوں پر سگنل موصول ہونے کے بعد تمام جوان اپنی پوزیشن واضح کرتے اور دشمن کا گھیراؤ کرنے لگتے ہیں۔ اسی دوران فیلڈ ہسپتال سے ایک ہیلی کاپٹر زخمی جوان کو لینے آپہنچتا ہے۔ جلد ہی خودکار طریقے سے چلنے والی بکتر بند گاڑیاں بھی دستے کی مدد کو آپہنچتی ہیں۔ ہر فوجی مخصوص آلات کی مدد سے وہ گاڑیاں چلاسکتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد دشمن کی چوکی تباہ کردی جاتی ہے۔

اب ذرا مختلف منظر تصور میں لائیے۔کراچی میں دہشت گردوں نے ایک عمارت پر قبضہ کرکے وہاں موجود شہریوں کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گرد پوری طرح مسلح ہیں۔ سکیورٹی ادارے اس عمارت میں ننھے منے بے آواز ڈرون داخل کردیتے ہیں۔ یہ ڈرون دہشت گردوں کی پوزیشن اور ان کی سرگرمیاں ریکارڈ کرتے ہیں۔ جب یہ کام انجام پاجائے، تو اسلحے سے لیس ڈرون کا کام شروع ہوتا ہے۔ یہ ڈرون کھڑکیوں یا کسی اور خلا کے راستے عمارت میں داخل ہوتے اور دہشت گردوں پر فائرنگ کرنے لگتے ہیں۔ زبردست مقابلے کے بعد تمام دہشت گرد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

یہ کسی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ امریکا، چین اور دیگر ممالک میں ایسے روبوٹ اور ڈرون تیار کیے جاچکے جو مختلف قسم کے ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں۔ انہیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایجاد کیا گیا اور اب 5جی ٹیکنالوجی ان کی استعداد کار میں بے پناہ اضافہ کردے گی۔ اسی لیے 5جی مستقبل کی جنگوں کا منظر نامہ بدلنے کی صلاحیت و قدرت رکھتی ہے۔

5جی کی تیز رفتاری کے باعث دور دراز علاقوں میں بھی ممکن ہوجائے گا کہ مختلف سینسر اور روبوٹ باہم منسلک ہوجائیں۔ چناں چہ مستقبل میں گاڑیوں سے لے کر کارخانوں تک بہت سے کام مشینیں انجام دیں گی۔ میدان جنگ میں بھی روبوٹ اور ڈرون 5جی کی بدولت کنٹرول کرکے لڑائے جائیں گے۔ غرض جنگی نقطہ نظر سے بھی یہ ٹیکنالوجی بے پناہ اہمیت کی حامل بن چکی۔

امریکا کو خطرہ ہے کہ دنیا بھر میں 5جی ٹیکنالوجی پر چینی کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی، تو اس کی سپرمیسی کا سورج غروب ہوجائے گا۔ اسی لیے امریکی حکمران سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ 5جی ٹیکنالوجی پر چینی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم نہ ہونے دیں۔

ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر

چین کی حکومت مگر 5جی ٹیکنالوجی کی جنگ میں چینی کمپنیوں کو ہی فتح یاب ہوتا دیکھنا چاہے گی۔ وجہ یہ کہ معاشی، عسکری اور سیاسی طور پر طاقتور ہونے کے بعد چین سمجھتا ہے کہ امریکا کا ’’ورلڈ آرڈر‘‘ بنیادی طور پر اس کے خلاف ہے۔ اسی لیے امریکی حکومت خفیہ و عیاں طور پر کوشش کرتی ہے کہ چین کو خصوصاً معاشی فوائد حاصل نہ ہونے پائیں۔ چینی حکومت کی واضح پالیسی یہ ہے کہ ہر ممکن طور پر براہ راست تصادم سے گریز کیا جائے۔ لیکن اب چین بھی وقتاً فوقتاً خفیہ یا ظاہری طور پر امریکی حکمرانوں پر عیاں کرنے لگا ہے کہ وہ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی نہیں، مستقبل میں چین اپنا ورلڈ آرڈر لانے کی بھی سعی کرسکتا ہے۔

ماہرین نے چین کے مجوزہ عالمی آرڈر کو ’’ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا ہے۔ وجہ یہ کہ چین مصنوعی ذہانت اور 5جی ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی قومی اور عالمی معیشت کو ڈیجٹائز کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے ’’ڈیجیٹل شاہراہ ریشم‘‘ بھی تخلیق کررہا ہے۔

فائبر آپٹکس کیبلزکی اہمیت

5جی ٹیکنالوجی کا دارومدار فائبر آپٹکس کیبلز پر ہے جوزیر سمندر یا زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔انھی تاروں کے ذریعے اربوں کھربوں گیگابائٹ ڈیٹا پوری دنیا میں چکر کھا رہا ہے۔ مگر ان تاروں کی اکثریت امریکی و یورپی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔ لہٰذا چینی حکومت ان کیبلز کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسے خوف ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ان کیبلز میں موجود چین کا قیمتی و خفیہ سرکاری ڈیٹا چرا کر مذموم مقاصد پورے کرنے میں استعمال کرسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے، چینی حکومت بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے مختلف ممالک میں جو شاہراہیں اور ریل پٹڑیاں تعمیر کررہی ہے تو اکثر جگہوں پر ان کے ساتھ ساتھ فائبر آپیکل کیبلز بھی بچھائی جارہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ چین کو مستقبل میں امریکی و یورپی کمپنیوں کی ملکیت والی فائبر آپٹیکل کیبلز استعمال کرنے سے نجات مل جائے۔ جب بھی بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو منصوبے مکمل ہوئے، دنیا کے بہت بڑے علاقے میں چین کی فائبر آپٹیکل کیبلز کا نظام پھیل جائے گا۔

چین اور پاکستان کے تعاون سے پچھلے سال ’’پاک چائنا فائبر آپٹک پروجیکٹ‘‘ مکمل ہوچکا۔ اس منصوبے کے ذریعے درہ خنجراب سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک تاریں بچھائی گئیں۔یہ تاریں ’’ٹرانسٹ یورپ۔ ایشیا ٹیرسٹریل کیبل نیٹ ورک ‘‘( Transit Europe-Asia Terrestrial Cable Network)سے منسلک ہیں۔ یہ نیٹ ورک جاپان سے لے کر چین، وسطی ایشیائی ممالک، روس اور یورپی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔

چین بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے 70 تا 152 ممالک میں مختلف منصوبے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ان منصوبوں پر چھ تا آٹھ ٹریلین ڈالر خرچ آئے گا۔ ماہرین اسے انسانی تاریخ میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیتے ہیں اور چین کا فائبر آپٹک نظام ان منصوبوں کے حامل تمام ممالک کو باہم منسلک کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ اس طریقے سے چینی حکومت کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔

اول یہ کہ چین کواپنی منصوعات فروخت کرنے کی خاطر بہت بڑی منڈی مل جائے گی۔ دوسرے فائبر آپٹک نظام میں عموماً چینی کمپنیوں کے آلات اور خدمات استعمال ہوں گی۔ یوں چین کی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا بزنس ملے گا۔ تیسرے چین امریکی و یورپی فائبر آپٹک نظام کا محتاج نہیں رہے گا۔ چوتھے انشیٹیو میں شامل تمام ممالک میں چین کا اثرورسوخ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو پر بڑا الزام یہ ہے کہ وہ ممالک کو مقروض بنا رہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پروجیکٹ کی مدد سے کئی ملک اپنے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً پاکستان میں لوڈشیڈنگ ایک سنگین مسئلہ تھا۔ چین کی مدد سے بجلی گھر تعمیر کرکے مسئلے کی سنگینی کم کرنے میں مدد ملی۔

خوف کا شکار امریکی

امریکی حکمرانوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کی کامیابی سے ایشیا، یورپ اور افریقا کے کئی ممالک کی منڈیوں پر رفتہ رفتہ امریکی کمپنیوں کا اثر ختم ہوجائے گا۔ یوں امریکا کو معاشی و تجارتی طور پر شدید نقصان پہنچے گا۔ اسی لیے امریکا اور اس کے حواری چین کے پروجیکٹ کو ناکام بنانے کی خاطر خفیہ و عیاں سازشیں کررہے ہیں۔ چین کی موبائل کمیونی کیشن کمپنیوں کے لیے مسائل کھڑے کرنا اور انہیں کاروبار کرنے سے روکنا انہی سازشوں کی کڑی ہے۔

چین بھی امریکا کی سازشوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لیے وہ خاموشی سے ایسے اقدامات کررہا ہے کہ مستقبل میں جنگ جنم لے، تو اس میں فتح یاب ٹھہرے۔

حال ہی میں خبر آئی کہ چین بڑی تعداد میں ہمہ اقسام کے میزائل تیار کررہا ہے۔ عسکری ماہرین کی رو سے میزائل کے شعبے میں چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکا۔اس رپورٹ کے مطابق اگر آج بحرالکاہل میں چین اور امریکا کی بحری افواج کے مابین جنگ چھڑجائے، تو چینی فوج کا پلہ بھاری رہے گا۔ وجہ یہ کہ چینی میزائل چھوڑ کر امریکا کے تمام طیارہ بردار جہاز اور مختلف جزائر میں واقع امریکی فضائی و بحری اڈے تباہ کردیں گے۔ یوں بحرالکاہل میں امریکی نہیں چینی فوج کا پلہ بھاری ہے۔

نایاب ارضی دھاتیں

مزید براں جتنی بھی اہم دھاتیں اور معدنیات ہیں، چین ہی سب سے زیادہ ان کے ذخائر رکھتا ہے۔ یہ دھاتیں اور معدنیات ہوائی جہازوں، گاڑیوں اور موبائلوں سے لے کر عام پرزہ جات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔اس کے علاوہ جو دھاتیں ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، ان کا ذخیرہ بھی چین ہی رکھتا ہے۔ ان میں نایاب ارضی دھاتیں (rare-earth elements)، اینٹی مونی، بستھ، وینڈیم، ٹنگسٹن، مولی بڈنیم، کوبالٹ اور میگنشیم نمایاں ہیں۔

بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘

اس کے ساتھ ساتھ چین کا ’’بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘‘ (BeiDou Navigation System)بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔یہ کل 35مصنوعی سیاروں پہ مشتمل ہے جن میں سے 33خلا میں چھوڑے جا چکے۔اگلے سال یہ نظام بھرپور طریقے سے کام کرنے لگے گا۔یوں چین کو پھر اپنے حریف،امریکا کے جی پی ایس(گلوبل پوزیشینگ سسٹم )کی ضرورت نہیں رہے گی۔5جی ٹکنالوجی کی کامیابی اور ڈیجٹل شاہراہ ریشم کی تعمیر کے لیے بی ڈی ایس(بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم)کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری تھا۔اس کی مدد سے چین کو نہ صرف ’’پوزیشن،نیوی گیشن اور ٹائمنگ‘‘ (Position, Navigation, and Timing)کے امور انجام دینے میں آسانی ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا اثرورسوخ بڑھ جائے گا۔

بی ڈی ایس عوام کو مفت خدمات فراہم کرنے لگا ہے۔اس کے تحت عام افراد کو  10میٹر کی لوکیشن ٹریکنگ ایکوریسی میسر ہو گی۔جبکہ افواج کو10سینٹی میٹر کی لوکیشن ٹریکنگ ایکوریسی سہولت مل سکے گی۔اس وقت دنیا کی صرف دو فوجوں…چین اور پاکستان کی افواج بی ڈی ایس استعمال کر رہی ہیں۔بی ڈی ایس کی تکمیل سے پاک افواج کو بھی جی پی ایس سے زیادہ قابل اعتماد گلوبل پوزیشنگ سسٹم مل جائے گا اور وہ مخالف قوتوں کے نظام کی محتاج نہیں رہیں گی۔

The post دو سپر پاورز کے مابین جاری 5G کی سنسنی خیز جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

قانون بے بس کیوں ہے؟

$
0
0

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ 2008 ء تک بیرونی قرضہ 37 ارب ڈالر تھا جو گیارہ سالوں میں بڑھ کر 98 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، یعنی صرف گیارہ سالوں میں61 ،ارب ڈالر تقریباً 87 کھرب روپے کا بیرونی قرضہ مزید اس کچلی ہوئی قوم پر چڑھ چکا ہے اور قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے، 80 فیصد آبادی خوشیوں کی رمِق سے ہی محروم ہو چکی ہے۔ 

فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے دوسرے ترجمان بار بار قوم کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ یہ ساری دولت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ان کے منظورِ نظر بیوروکریٹس اور حواریوں نے لوٹی ہے۔ قوم ششدر ہے کہ ’’جرم‘‘ بھی چھپا نہیں ہے ’’مجرم‘‘ بھی آپ کی دسترس سے باہر نہیں ہیں پھر وہ کونسی وجہ ہے کہ اُن سے دولت واپس نہیں لی جا رہی۔آپ بیرون ملک ان کی جائیدادوں اور کاروبار کا بھی بتا رہے ہیں مگر پھر بھی ایک روپے کی وصولی نہیں ہو رہی بلکہ جب بھی ان کا کیس نیب یا عدالتوں میں لگتا ہے تو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ان کی حفاظت پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔

عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ ہی اس بنیاد پر دیا تھا کہ ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی ہو گی طبقاتی تفریق کو ختم کیا جائے گا اور لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت بھی قائم ہے انھیں فی الوقت کسی چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں ہے، قوم بھی اپنے اچھے مسقبل کے انتظار میں ہے۔ الٹا اپوزیشن راہنما حکومت، نیب اور اداروں کو للکار رہے ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مہاجرقومی موومنٹ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی انتہا ہوگئی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم دنیا کی سب سے بڑی انڈرورلڈ جماعت تھی، اس کے بانی الطاف حسین کھلم کھلا ملک اور اداروں کو للکارتے اور بّرابھلا کہتے مگر قانون خاموش تھا وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے بھی بھاری رقومات وصول کرتے رہے۔ ثبوت بھی موجود تھے۔

ان کے حکم پر ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا مگر متعلقہ محکموں کی آنکھیں بند تھیں۔ ایکشن اس وقت ہوا جب الطاف حسین بانی ایم کیو ایم شراب کے نشے میں اپنے کارکنوں کو قومی اور نجی تنصیبات پر حملے کا حکم دینے لگے۔ الطاف حسین کی کالج  لائف سے لندن کی زندگی تک کا سفر بڑا طویل تھا مگر کوئی انھیں پوچھنے والا نہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے کچے کے علاقے  کے’’ چھوٹوگینگ‘‘ کا بڑا چرچا رہا، بڑی مشکل سے اس کا قلع قمع کیا گیا۔ مگر ایک آدمی کا اکیلے جرائم کی دنیا میں داخل ہونا پھر سینکڑوں افراد کو ساتھ ملا کر جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جانا، سب کچھ قانون کی نظر سے اوجھل رہا۔مدرسوں کے طالبعلموں کا دھشت گرد تنظیموں میں شامل ہونا پھر مضبوط ہو کر پورے ملک کو آگ اور بارّود میں جھونک دینا بھی قانون نافذ کروانے والے اداروں سے چھپا رہا۔ یا قانون ان کے سامنے بھی بے بس تھا۔

بلوچستان، کے پی کے، سندھ  اور پنجاب میں سرداروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کا اپنے علاقوں میں حکمرانی کا متبادل نظام قائم کرنا بھی سب کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔

سڑکوں پر ہر طرف لاقانونیت کے مناظر نظر آتے ہیں مگر متعلقہ محکمہ صرف سیٹ بیلٹ بندھنے اور ہیلمٹ پہننے کو ہی قانون سمجھتا ہے۔ بے ھنگم ٹریفک اور ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔

خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد سے روکنے کیلئے قوانین موجود ہیں مگر خواتین آج بھی ظلم اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، گھروں، دفاتر اور سڑکوں پر انھیں کھلم کھلا ہراسمنٹ کا شکار بنایا جاتا ہے مگر قانون بے بس اور خاموش ہے ۔ 99 فیصد خواتین اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا کسی کو بتا بھی نہیں سکتی ہیں کہ تھانوں میں انھیں انصاف دینے کی بجائے مزید تذلیل کی جاتی ہے، عدالتوں میں مخالف وکیل عجیب وغریب سوال پوچھتے ہیں۔

چائیلڈ لیبر کو بھی پاکستان میں جرم سمجھا جاتا ہے مگر ہر جگہ بچے اور بچیاں کام کرتے نظر آتے ہیں یہ بچے بھی متعلقہ محکموں کو نظر نہیں آتے۔ لین دین کے معاملات میں پولیس کو مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ لین دین کے معاملات عدالتوں میں حل کئے جائیں گے مگر عدالتی نظام کا سُن کر ہی متاثرہ فریق اپنی رقم یا جائیداد سے ہی دستبردار ہو جاتا ہے۔ جب لین دین کا معاملہ کسی بھی تھانے جاتا ہے تو عموماً پولیس والے اس معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں مگر بعد میں ملزم پارٹی سے کچھ رقم لیکر سائل کو عدالت جانے کا مشورہ دیدیتے  ہیں ۔

وطن عزیز میں ہر طرف لاقانونیت کے مناظر نطر آتے ہیں، ہر تھانے کی حدود میں جرائم کھلم کھلا ہو رہے ہیں، اس کا عِلم پورے معاشرے کو ہوتا ہے مگر صرف محکمہ پولیس ان جرائم سے لا علم ہوتا ہے، محکمہ پولیس کی سرپرستی اور غفلت کی وجہ سے جرائم پیشہ گروہ اس قدر طاقتور ہو جاتے ہیں کہ معاملہ ہی ہاتھ سے نِکل جاتا ہے۔

بادی  النظر میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ بدمعاشوں کے ڈیرے ہر وقت جرائم پیشہ افراد سے بھرے رہتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر اس طرف جاتی ہی نہیں، بدمعاشوں کی ’’بہادری‘‘ اور غنڈہ گردی کی داستانوںپر مشتمل فلمیں بنا کر انھیں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بظاہر صوبائی اور قومی حکومتیں اپنی گڈگورنس اور مکمل  امّن وامان کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کسی بھی شہری کو کسی بھی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کسی بھی شہری کو انصاف اس کی دہلیز پر حاصل نہیں ہوتا ۔

موجودہ حکومت سے شہریوں نے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر اب یہ اُمیدیں بھی مایوسی میں بدل چکی ہیں۔ بد معاشوں کے اڈے آج تک آباد ہیں ۔ منشیات فروشی میں مز ید اضافہ ہو چکا ہے، لوگوں کی املاک پر آج بھی قبضے ہو رہے ہیں، طاقتور آج بھی کمزور کا استحصال کر رہا ہے، جرائم پیشہ اور قبضہ گروپ آج بھی ’’وی آئی پی‘‘ ہیں یہ افراد آج  بھی گن مینوں کے جھُرمٹ کے ساتھ اس شان سے نکلتے ہیں کہ عام شہریوں پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہی لوگ خود بھی سیاسی میدان میں موجود رہتے ہیں سیاستدانوں کی سرپرستی بھی کرتے رہتے ہیں ۔ عوام کے نام نہاد نمائندوں کی ساری توجہ کمزور افراد کی املاک ہتھیانے میں لگی رہتی ہے۔

ایک سماجی تنظیم سوشل ایڈآٓرگنائزیشن(ساؤ) کے سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 92 فیصد افراد ظلم واستحصال کا شکار ہیں ۔ ان افراد کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے کہیں نہ کہیں زیادتی ضرور ہوتی ہے مگر انصاف کے پیچیدہ  نظام کی وجہ سے یہ افراد خاموش رہتے ہیں، جو افراد اپنے ساتھ کئے گئے ظلم کو سامنے لانے کی ہمت کرتے ہیں انھیں مزید پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس تنظیم کے سروے کے مطابق تھانوں میں رپٹ درج کروانے کے باوجود صرف پیسے والے کی شنوائی ہوتی ہے۔

ایوب خان  کے دور صدارت میں لاہور میں نامی گرامی بدمعاشوں کا بہت شہرہ تھا، جگا گجر، اچھا شوکروالا، شاہیا پہلوان، ریاض گجر اور  بے شمار بدمعاش تھے۔ ان کے اڈے خفیہ نہیں تھے ۔ یہ لوگ علی الاعلان منشیات بیچتے، املاک پر قبضے کرتے، شریف شہریوں سے غنڈہ ٹیکس وصول کرتے، مگر محکمہ پولیس نے ان تمام بدمعاشوں کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ یہ افراد قتل و غارت میں بھی ملوث تھے، اس دور میں گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کو ان بدمعاشوں کی سرکوبی کیلئے غنڈہ ایکٹ لگانا پڑا،کئی روپوش ہوگئے، مگر کچھ عرصے بعد پھر بدمعاشوں کے اڈے قائم ہونے لگے۔

گوالمنڈی میں ریاض گجر کا بڑا شہرہ تھا اس کا اڈہ وقت اشتہاریوں سے بھرا رہتا تھا، مگرکسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، اس نے اپنے مخالفیں کو چن چن کر قتل کروایا۔ اب بھی پورے ملک میں تقریباً ہر تھانے کی حّدود میں جرائم کے چھوٹے بڑے اڈے قائم ہیں مگر انھیں کسی قانونی کاروائی کی فِکر نہیں ہوتی، گوالمنڈی کے علاقہ میں گوگی بٹ اور ٹپیو ٹرکاں والا گروپ میں قتل وغارت کا جو بازار گرم ہوا ابھی تک گرم ہے۔ ٹیپو ٹرکاں والا کے ماموں خالد محمود عرف بھئی پہلوان نے شاہ عالمی چوک میں اپنے اڈے میں میونسپل کارپورشن کی جانب سے تعمیرکی گئی دکانوں پر ہی قبضہ کر لیا ہے، جبکہ یہ جگہ حکومت کی ملکیت ہے۔ گوالمنڈی کے علاقہ میں منشیات کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔

پورے ملک میں تجاوزات قائم ہیں، تقریباً ہر دکان کے آگے سرکاری املاک فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر قبضہ کر رکھا ہے، کونسا ایسا علاقہ ہے کہ جہاں تجاوزات نہیں ہیں مگر متعلقہ محکموں کو صرف اپنی منتھلی سے غرض ہے، لوگوں کا پیدل گزرنا محال ہے۔ ہر سڑک پر ٹھیلوں، ریڑھیوں اور عارضی دکانوں کی بہتات نظر آتی ہے مگر اچنھبے کی بات ہے متعلقہ محکموں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ، ہر شہری ملاوٹ،کم تول اور جعلی مصنوعات کی شکایت کرتا نظر آتا ہے مگر متعلقہ محکموں کو صرف اپنی مراعات اور منتھلیوں  کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔اب ہر علاقے میں کیمیکل سے تیار کردہ مضرصحت دُودھ اور دہی فروخت ہو رہا ہے مگر انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

منشا ء بم نے شریف شہریوں کے ساتھ سرکاری املاک پر بھی قبضہ کر لیا تھا مگر کسی کو یہ قبضے نظر نہیں آتے، موجودہ حکومت نے اپنی سرکاری زمین تو وقتی طور پر اس  سے چھڑوالی ہے، مگر ان شریف شہریوں کے ہاتھ اب تک کچھ نہیں آیا کہ جن کی املاک پر اس نے قبضہ ’’ ٹکوں‘‘ کے عوض ان کی  زمینیں زبردستی خرید لی تھیں،گلشن مصطفٰے سکیم کے سارے پلاٹوں پر منشاء بم نے قبضہ کر لیا تھا پھر پلاٹ مالکان کو چند پیسے دیکر یہ پلاٹ خرید لئے تھے ۔ آج بھی شہری پی آئی اے روڈ لاہور سے گزرتے ہوئے حیران  رہ جاتے ہیں کہ اس نے مین سڑک کے آس پاس  کے سارے سرکاری پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا، ان پر دکانیں تعمیر کروا رکھی تھیں ان دکانوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی وہ انکا کرایہ بھی وصول کر رہا تھا مگر کسی بھی متعلقہ محکمے کو یہ قبضے نظر نہیں آئے۔

پچھلے دنوں انجمن تاجران صدر مجاہد بٹ کاتنازع بھی سامنے آیا سارا اندرون شہر تقریباً مارکیٹوں میں تبدیل ہو چکا ہے تمام رہائشی مکانوں کی جگہ مارکیٹیں بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔ یہ مارکیٹیں تعمیر کرنے کیلئے کسی سے بھی اجازت نہیں لی جا تی۔ مکانوں کی جگہ کئی ہزار دکانیں قائم ہو چکی ہیں مگر کسی بھی متعلقہ محکمے کے کان پر جّوں تک نہیں رینگی،کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اندرون شہر کے رہائشیوں سے زبردستی ان کے مکان اونے پونے خریدے جا رہے ہیں۔ تقریباً کافی تاجر راہنما قبضہ گروپ بن چُکے ہیں مگر قانون خاموش ہے۔

قانون کی اس بے بسی اور خاموشی پر ہر شہری مضطرب ، پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر شہری ملک سے باہر جانے اور’’سیٹل‘‘ ہونے کیلئے بے تاب ہے۔ جو لوگ باہر سیٹ ہو چکے ہیں وہ وطن واپس نہیں آنا چاہتے ۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہاں وہ اپنے آپ کو اور اپنے اثاثوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ لاقانونیت کے مناظر ہر شہری کو متنفر اور بددل کر دیتے ہیں۔

موجودحکومت بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہی ہے۔ بیرونی سیاحوں کو پاکستان کی سیاحت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ویزے کو بالکل آسان کر دیا گیا ہے مگر سیاحوں کا رجحان ابھی تک پاکستان کی سیاحت کی جانب نہیں ہوا اسکی اصل اور بنیادی وجہ ہی پاکستان کا بے بس اور خاموش قانون ہے۔ یا متعلقہ محکموں کی نااہلی ، بددیانتی، غفلت اور سہولت کاری ہے۔ قانون کی حاکمیت کے مظاہرے سڑکوں پر نظر آجاتے ہیں مگر سڑکوں پر ہی ہر طرف لاقانونیت، بے ھنگم ٹریفک، بے ھنگم عمارات، تجاوزات اور بے حسِی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ہوگی تو ملک کے حالات بہتر ہونگے۔ اگر موجودہ حکومت میں بھی قانون و انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں ہے تو انھیں اس کا اعلان کرنا چاہیے یا اپنی مجبوریاں واضح طور پر عوام کے سامنے رکھنی چاہئیں تاکہ عوام مزید کسی ابہام کا شکار نہ رہے؟

The post قانون بے بس کیوں ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


سیاسی شطرنج پر نئی چالیں

$
0
0

سیاسی بساط پھر توجہ طلب ہے۔

یہ کہنا تو ابھی ذرا قبل از وقت ہوگا کہ ہماری سیاسی بساط پر جو حرکت نظر آرہی ہے اب ایک بار پھر کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اتنی بات تو سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار ہی نہیں، بلکہ آپ ہم سبھی محسوس کررہے ہیں کہ یہ حرکت بے وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کا کوئی مقصد ہے اور کچھ ایسا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا جو سیاسی منظر کی تبدیلی کا سبب بنے گا۔

اگرچہ سیاسی بساط کی موجودہ حرکت کو غیرمحسوس حد تک کم اور مہروں کی چال کو بہت فطری انداز میں رکھا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود حرکت ایسی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چناںچہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں اس بساط پر کچھ مہرے پٹتے ہوئے دکھائی دیں گے اور کچھ پیادے کسی بڑے گھر تک پہنچ کر بڑا قد کاٹھ بھی حاصل کرلیں گے۔ بات یہ ہے کہ کھیل چاہے شطرنج کا ہو یا سیاسی بساط کا، بازی پلٹنے یا پھر مات ہونے کا دارومدار تو مہروں کی چال پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ اچھے کھلاڑی نہ صرف پوری بساط کو نظر میں رکھتے ہیں، بلکہ ضرورت کے مطابق مہروں کو بڑھا بھی خوب لیتے ہیں۔ ہماری سیاسی بساط کی حالیہ نقل و حرکت اس حقیقت کا ثبوت بخوبی فراہم کررہی ہے۔

غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران میں مختلف سیاسی مہرے اس بساط کے الگ الگ مقامات پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حرکت مختلف، بلکہ متضاد سمتوں میں ہوئی ہے۔ شطرنج کے کھیل کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ بساط کا توازن اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے، جب ایک پیش رفت کا جواب دوسری طرف سے مل جائے۔

اگر ایسا نہ ہو تو بساط الٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ اب اگر آپ سیاسی منظرنامے کے گزرے ہوئے چند مہینے سامنے رکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس عرصے میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی طرف جو کچھ ہوا ہے، اس نے بساط کو بڑی حد تک متوازن رکھا ہے۔ ظاہر ہے، اس طرح نہ صرف کھیل جاری رہتا ہے، بلکہ اس میں فریقین اور شائقین کا انہماک بھی برقرار رہتا ہے۔ اس سے اتنی بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کھیلنے والے سمجھ دار اور تجربہ کار لوگ ہیں اور کھیل میں اپنے حصے اور حیثیت سے بھی خبردار۔

چلیے، اب ذرا دھیان میں لائیے کہ سیاسی بساط پر کیا کیا ہوتا رہا ہے اس عرصے میں۔ قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف ضمانت پر نہ صرف رہا ہوگئے، بلکہ ان کا نام ای سی ایل سی بھی نکال دیا گیا اور اب وہ برطانیہ میں ہیں۔ حنیف عباسی (المعروف ڈیفیڈرین کیس) بھی ضمانت پر رہا ہوگئے۔ ایک زمانے میں میڈیا کی آنکھ کا تارا بننے والے شیخ رشید کچھ نہ کرسکے، بس تلملا کر رہ گئے۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ شیخ رشید اب پہلے کی طرح میڈیا کی توجہ کیوں حاصل نہیں کرپاتے تو ظاہر ہے کہ سوال کرنے والے کی سادگی پر مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں نواز شریف بھی ضمانت پر جیل سے باہر آگئے۔ اگرچہ یہ کہا گیا کہ ایسا صرف انسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے، تاکہ وہ بہتر علاج کراسکیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، قابلِ غور بات یہ ہے کہ انھیں رعایت کے قابل گردانا گیا۔ اب وہ ملک سے باہر جاکر علاج کرانے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

خیر، اب اور آگے دیکھیے۔ ایک زمانے سے وزیرِاعظم کے نہایت بااعتماد ساتھی علیم خان گرفتار کرلیے جاتے ہیں، حالاںکہ انھیں تو حکومت کے بنیادی آدمی کی حیثیت سے خاصا اہم کردار ادا کرنا تھا۔ جہانگیر ترین نااہل قرار پاجاتے ہیں، یعنی تحریکِ انصاف کی حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت کو اقتدار سے بارہ پتھر دور کردیا گیا۔ اعظم سواتی پہلے مضارعوں کے ساتھ زیادتی اور سرکاری زمین پر قبضے کی خبروں کا موضوع بنے اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا، اور اب چند ماہ بعد وہ پھر حکومت کا حصہ ہیں۔

ادھر پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان جو اپنے تند و تیز بیانات کی شہرت رکھتے تھے، اپنے ہی ایک بیان کی لپیٹ میں آگئے اور ٹھکانے لگا دیے گئے۔ ویسے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اُن کے بیانات کا انداز و آہنگ شروع ہی سے ایسا تھا، اور صاف بتا رہا تھا کہ انھیں آگے چل کر اپنی زبان کے نشتر سے ہی کسی مرتبے پر فائز ہونا ہے۔ ایک فیاض چوہان پر ہی کیا موقوف، تحریکِ انصاف کے بیشتر وزیروں اور مشیروں کا انداز و آہنگ ایسا ہی ہے۔ آپ شہریار آفریدی اور فیصل ووڈا کے بیانات اور نشریات کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آدمی بڑبولے پن کے کسی مقابلے میں شریک ہے اور ہر قیمت پر بازی جیت لینا چاہتا ہے۔

ہماری سیاسی شطرنج پر کھیل اگر یہیں تک رہتا تو بھی کم لوگوں کو اندازہ ہوپاتا کہ کون سے مہروں پر کیا چالیں چلی گئیں ہیں۔ کم سے کم عوام تو ضرور بڑی حد تک پورے معاملے سے بے خبر رہتے، لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ کھیل اچھا ہو یا برا، ایک بار شروع ہوجائے تو پھر رکتا نہیں۔ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔

سیاسی بساط پر بھی یہی ہوا ہے۔ چناںچہ ایک شام ملک کے طول و عرض میں وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے کی خبر قدرے استعجاب کے ساتھ سنی گئی۔ یہ استعجاب بے سبب نہیں تھا۔ پہلی بات، اسد عمر، مالیات کے شعبے کے حوالے سے ایک کرشماتی شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ خود وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے کم و بیش سارے ہی نمائندہ افراد نے ان کے بارے میں عوامی سطح پر اس تأثر کے قائم ہونے میں کردار ادا کیا ہے۔ اسد عمر نے اگرچہ خود ایسا کوئی دعویٰ تو نہیں کیا، لیکن اس سے پہلے اپنی تقاریر اور الیکٹرونک کے پروگرامز میں جو گفتگو وہ کرتے رہے ہیں، وہ بھی واضح طور پر یہی تأثر دیتی رہی ہے کہ ملک کے مالیاتی مسائل تو چٹکی بجانے میں حل کیے جاسکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے جب بھی کسی پروگرام میں ملک کے معاشی مسائل کے حوالے سے گفتگو کی تو سننے والوں نے واضح طور پر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے ایک بڑا وژن رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ عالمی صورتِ حال اور ملک کے معاشی مسائل اور وسائل بھی پوری طرح ان کی نظر میں ہیں۔ وہ اگر ایک بار ملک کی وزارتِ خزانہ سنبھال لیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حالات درست نہ ہوں اور عوام کی تقدیر بدل نہ جائے۔ تحریکِ انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد ابتدائی چندہ ماہ اس تأثر کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنے۔

حالاںکہ حکومتی فیصلوں نے جلد ہی عوام کو مہنگائی کے تحفے پیش کرنے شروع کردیے تھے۔ اس کے باوجود اسد عمر کی کرشماتی شخصیت کا تأثر اسی طرح قائم تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کی شخصیات میں وزیراعظم عمران خان کے بعد جس نام سے سب سے زیادہ توقعات وا بستہ کیں، وہ اسد عمر ہی تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت کا منی بجٹ آیا، پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ میں اضافہ ہوا، روپے کی قدر ستر برس کی ملکی تاریخ میں پہلی بار اس درجہ گری کہ سنبھالے نہ سنبھلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مہنگائی بوتل کے جن کی طرح قابو سے باہر ہوگئی۔ اسد عمر اور وزیر اعظم ایسے ہر موقعے پر یہ کہہ کر عوام کا دل بڑھاتے رہے کہ کچھ سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ اس کے باوجود اسد عمر کا امیج متأثر نہ ہوا۔ عوام کے خلاف کئی سخت فیصلے کیے گئے اور پھر ایک سخت فیصلہ خود وزیرِخزانہ کے بارے میں ہوگیا۔ اس فیصلے نے عوام کو حیران ہی نہیں کیا، اضطراب سے دوچار بھی کیا۔

اضطراب بجا ہے۔ اس لیے کہ حالات کی سنگینی سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ کوئی کتنا ہی حوصلہ مند اور امید پرور ہو، مگر اس حقیقت کو کیسے فراموش کرسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دست راست اور مالیات کی کرشماتی شخصیت اسد عمر کے آٹھ ماہ کے اقتداری دورانیے میں مختلف انداز سے ہی سہی مگر چار بجٹ پیش کیے گئے، 3489 ارب کا نیا قرضہ لیا گیا، ملک کو لگ بھگ 2500 ارب کا خسارہ ہوا، ملک کی اسٹاک ایکسچینج 52000 سے گر کر 36000 پوائنٹس پر آگئی۔ شرح نمو یا ترقی کی رفتار 6 سے گھٹ کر 3 پر آگئی۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ وزیرخزانہ جاتے ہوئے آئی ایم ایف سے آٹھ ارب ڈالر کے نئے قرضے کا معاہدہ آخری مراحل تک لے آئے تھے۔ عوام مالیات کی دقیق اصطلاحات کو نہیں جانتے اور نہ ہی معاشیات کے فارمولے سمجھتے ہیں۔ البتہ اتنی بات وہ بہ آسانی اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک اور ان کی تقدیر پر چھائے ہوئے بادل کم نہیں ہوئے، بلکہ اور گہرے ہوگئے ہیں— اور ایسا اس دور میں ہوا ہے جب ملک ایک مسیحا نفس کے ہاتھوں میں تھا اور خزانہ اس کے سب سے بااعتماد ساتھی کے۔

فواد چودھری ملک کے وزیر اطلاعات تھے اور ملک کے کونے کونے میں ہی نہیں، چار دانگ عالم میں اپنے بیانات سے پہچانے گئے۔ وہ بھی اپنی بڑبولی اور منہ زور وزارت سے یوں الگ کردیے گئے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی مصاحبی، بڑھ چڑھ کر بیان بازی، مخالفین کی روز و شب کردار کشی، غرض کچھ بھی تو کام نہ آیا۔ عوام ان سے مرعوب یا خوش تو خیر کیا ہوتے، لیکن انھیں حکومت کا ایسا ذمے دار نقارچی ضرور باور کرتے تھے جو اپنا کام مستعدی اور ضرورت سے کہیں زیادہ مستعدی سے انجام دیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جانے پر بھی لوگوں کو تعجب ہوا کہ اچھا یہ وکٹ بھی گرگئی اور وہ ابھی ایسی کارکردگی دکھانے کے باوجود اور صرف آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں۔ عوام کے اس تعجب کا سبب فواد چودھری سے ہم دردی نہیں، بلکہ یہ خیال ہے کہ آنے والوں دنوں میں یہ شعبہ اس سے بڑے کسی جغادری کو سونپا جائے گا اور وہ جانے کیا کہے گا اور کیسی زبان استعمال کرے گا۔

بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ اس سے آگے بھی کھیل کی اور چالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت الیکٹرونک میڈیا کے نامی گرامی صحافی کھلے بندوں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے گرد گھیرا بہت تنگ کیا جاچکا ہے اور ان دونوں کے بچ نکلنے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف آپ انھیں اسمبلی کا اجلاس سنبھالتے ہوئے بھی آئے دن دیکھ سکتے ہیں۔ اِدھر اس عرصے میں مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر فعال نظر آئے۔

ان کی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جو اس بات کا اعلامیہ ہیں کہ اپوزیشن میں متحد حرکت اور ردِعمل کا ماحول بن رہا ہے۔ دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایان علی، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم حسین، انوار مجید وغیرہم کے مقدمات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک اور ان کے دورِ اقتدار کے معاملات بھی سامنے آرہے ہیں جو تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کا وہی چہرہ دکھا رہے ہیں جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مطعون کرنے کا جواز رہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ صاحبہ کا کیس اور اداروں کا اس کے بارے میں رویہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ کیا یہ سارا منظرنامہ فطری اور وقت کے اپنے داخلی عمل کا پیدا کردہ ہے؟ سوال بے شک سادہ سا ہے، لیکن اس کا جواب کئی ایک اگر مگر اور چوںکہ چناںچہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ان سب کے بعد حالیہ دنوں میں ایک واقعہ اور ہوا ہے جو ہمیں حالات اور حقائق پر ایک بار پھر نئے سرے سے غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ملک کی مرکزی سیاست میں کراچی کا ایک کردار ہمیشہ رہا ہے۔ ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے اٹھاکر اسلام آباد ضرور منتقل کیا، لیکن کراچی کے کردار کو مرکزی سیاست میں وہ اور ان کے بعد کوئی اور بھی ختم نہیں کرسکا۔ حالاںکہ کوشش اس کی بہرحال کی گئی۔ یوں تو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی ملک کی سیاسی صورتِ حال میں کراچی کی ایک حیثیت ہے، لیکن گزشتہ صدی کی نویں دہائی سے اب تک، یعنی لگ بھگ گزشتہ چار عشروں میں ملک کی مرکزی سیاست میں کراچی کو عمل انگیز کی حیثیت سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ضیاء الحق ہوں یا پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ، ضرورت پڑنے پر سب ہی کراچی سے کمک حاصل کرتے رہے ہیں۔ کراچی صحیح معنوں میں ایک کوسمو پولیٹن شہر ہے، صرف ثقافتی ہی نہیں، بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی۔ یہاں مختلف سیاسی اکائیاں اپنا اپنا ایک ووٹ بینک رکھتی ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف انداز سے مرکزی دھارے کی سیاست میں اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا ہے۔ اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم اس شہر کی ایک نمایاں سیاسی حقیقت ہے۔

گذشتہ دو برسوں میں اس جماعت کی سیاست اور اس کے سیاسی وجود پر جو گزری ہے، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مردم شماری میں کراچی کے جو اعداد و شمار سامنے آئے، وہ نہ صرف متنازع قرار پائے، بلکہ انھوں نے اس شہر کی سماجی زندگی پر سوالات اٹھائے اور سیاسی حالات پر اثرات بھی مرتب کیے۔ تاہم اس کے باوجود ایم کیو ایم سکرٹی سمٹتی چلی گئی۔ 2018ء کے انتخابی نتائج نے تو اس جماعت کو پہاڑ سے رائی بناکر رکھ دیا۔ تاہم اب پھر یک بہ یک منظر بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہی ایم کیو ایم بیدار ہوئی اور پچھلے دنوں اس نے اپنے ماضی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ایک بڑا سیاسی جلسہ کر دکھایا۔ اس جلسے کا بنیادی موضوع صوبے کی سیاست تھا۔ پیپلزپارٹی اور اس کے سیاسی اقدامات اور اہداف کو ایم کیو ایم کے سیاسی رہنماؤں نے کھل کر موضوع بنایا اور کچھ اسی انداز کی گفتگو کی جیسی وہ اپنی طاقت کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا اعتماد اور لہجے کی گمبھیرتا بتا رہی ہے کہ طاقت کے اوتاروں نے ٹھیک سے اس کی کمر تھپتھپائی ہے۔

اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک غیر سیاسی ذہن بھی اتنی بات تو آسانی سے سوچ اور سمجھ سکتا ہے کہ پاکستانی سیاست ایک بار پھر مہم جوئی کے مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی کہ اختیار، طاقت اور فیصلوں کا کھیل سیاست کی شطرنج پر سیاسی مہروں سے زیادہ کچھ اور ہاتھ کھیلتے ہیں۔ حالت کی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے، یہ سب چاہے جتنا بھی فطری اور بے ساختہ نظر آئے، لیکن کہیں اور کسی ڈور کے ہلنے کا نتیجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کی آواز اوّل تو ہمارے یہاں سنائی ہی نہیں دیتی، اگر سنائی بھی دے تو دور تک نہیں جاتی۔ ممکن ہے، ایسا ہی ہو، لیکن یہ پورے معاشرے کا سچ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آدمی اب خواب سے بہرحال بیدار ہوچکا ہے، اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کو گروی رکھنے پر تیار بھی نہیں ہے۔

The post سیاسی شطرنج پر نئی چالیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ملک میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ریسرچ سینٹر سے محروم

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز پتوکی ریسرچ سینٹر اور کولڈ اسٹوریج کی سہولت سے محروم ہے جس کی وجہ سے کاشت کار پھولوں کی چند روایتی قسمیں ہی کاشت کررہے ہیں جب کہ اسٹوریج کی سہولت نہ ہونے سے روزانہ کئی من پھول ضائع ہوجاتے ہیں، نئی تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار بھارتی اقسام کے پھول کاشت کرنے پرمجبور ہیں۔

پاکستان میں پتوکی پھولوں کا مرکز مانا جاتا ہے، اسے سٹی آف فلاورزبھی کہتے ہیں جہاں گلاب کی بھارتی اقسام سمیت کئی طرح کے گلیڈ ، موتیا، چنبیلی اوررات کی رانی کے پھول کاشت کئے جارہے ہیں۔ تحصیل پتوکی میں واقع ایک درجن کے قریب دیہات میں پھولوں کی کاشت کی جارہی ہے اور سب سے زیادہ نرسریاں بھی اسی علاقے میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تحصیل پتوکی میں 40 سے 50 فیصد مقامی خاندانوں کا ذریعہ معاش نرسریوں اور پھولوں کی کاشت سے وابستہ ہے جبکہ پاکستان میں 7  لاکھ افراد اس کاروبار سے جڑے ہیں۔

پتوکی کے مقامی رہائشی ندیم مصطفائی نے بتایا کہ یہ خطہ پھولوں کی کاشت کے حوالے سے انتہائی زرخیزہے، لوگ مختلف فصلوں اورسبزیوں کی کاشت چھوڑ کر اب مختلف اقسام کے پھولوں کی کاشت کررہے ہیں، اس کاروبار نے مقامی لوگوں کو خوشحال کردیا ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ پھول اورپودے یہاں کاشت ہوتے اور پھر ملک بھر میں سپلائی کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پھولوں کی باغبانی اور نرسریوں کا رواج گزشتہ کئی سال سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گلاب، گلیڈ، موتیا ، چنبیلی اور دیگر پھولوں کی پنکھڑیوں کو شادی بیاہ، کانفرنسز، میٹنگز ہالز اور دیگر تقریبات کے لیے گلدانوں میں خوبصورتی کے لیے رکھا جاتا ہے۔پاکستان کی نرسریوں میں کاشت ہونے والے پھولوں کو نہ صرف ایشائی ممالک بلکہ یورپی ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔

گلاب اور گلیڈ کی کاشت کرنیوالے میاں شفقت علی کا کہنا تھا اس علاقے میں سب سے زیادہ گلاب اورگلیڈکاشت ہوتا ہے ، گلاب کی 100 سے زائد اقسام ہیں جبکہ گلیڈ کی بھی کئی قسمیں کاشت کی جارہی ہیں۔ان پھولوں کا بیج ہالینڈ سے منگوایا جاتا ہے جب کہ اب مقامی سطح پربھی بیج تیارہوتاہے۔ کٹ فلاور کا رحجان بہت زیادہ ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہاں کاشت ہونے والے پھول ٹرین کے ذریعے کراچی ،اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں بھیجے جاتے ہیں۔افغانستان سمیت کئی ممالک میں بھی پاکستانی پھول بھیجے جاتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے نرسری کے کاروبارسے جڑے سخاوت علی بتایا کہ اس علاقے میں نرسریوں کا آغاز 25 ،30 سال پہلے حادثاتی طور پر ہوا، پتوکی کے رہائشی ایک بزرگ نے نہر میں بہتی پھول کی ایک ٹہنی کو پکڑ کر اپنے ڈیرے پر کاشت کیا اور چند ہی دنوں میں اس ٹہنی سے کونپلیں نکلنا شروع ہوگئیں، اس طرح یہاں نرسری کا آغاز ہوا اور آج تحصیل پتوکی کے ایک درجن دیہات میں سیکڑوں نرسریاں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے یہا ں زیادہ تر گلاب کی بھارتی اقسام کاشت کی جارہی ہیں کیونکہ بھارت میں اس شعبے پر خاصی تحقیق کی گئی ہے۔ گلاب کے ایک ہی پودے سے مختلف رنگوں کے پھول حاصل کرنے کے لئے پودوں کو کیمیکل کے انجیکشن لگاناپڑتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے ہم روایتی اندازمیں ہی پھول کاشت کررہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت تحصیل پتوکی میں تقریباً 5 ہزار ایکڑ رقبے پرمختلف اقسام کا گلاب جب کہ 400 ایکڑ پر گلیڈ کاشت کیا جارہا ہے، ایک ایکڑ میں لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک بیج لگایا جاتا ہے۔ بیج کو کھیلیوں میں لگایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تقریباً دو فٹ کا فاصلہ رکھا جاتا ہے، ایک ایکڑ گلیڈ کاشت کرنے پر تقریباً پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے اور اس سے تقریباً 3 سے 6 لاکھ روپے تک منافع حاصل ہوتا ہے۔

مقامی کاشت کار سید افضل حسین نے ایکسپریس کو بتایا کہ پھولوں کی کاشت کے شعبے میں جدت اور تحقیق کی ضرورت ہے ، پتوکی پاکستان میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ہے مگر یہاں کوئی ریسرچ سینٹر ہے اور نہ ہی پھولوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی کولڈ اسٹور ہے، پھولوں کی عمرچند گھنٹے ہوتی ہے ۔ٹرانسپوٹیشن کے دوران بڑی مقدارمیں پھول ضائع ہوجاتے ہیں ، اگر یہاں کولڈ اسٹور بن جائے تو کاشت کار اس نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

سید افضل حسین نے بتایا پاکستان میں پھولوں کی کاشت کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ شادی ہالوں میں اسٹیج ڈیکوریشن کے لئے پھولوں کی طلب میں اچھا خاصا اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی طرح شادی بیاہ میں بھی گلاب کے پھولوں کے ہار، ریشمی ہاروں کی جگہ لے رہے تھے۔ دلہا کی گاڑیوں پر قدرتی پھول لگانے کے علاوہ مختلف تقریبات میں پھولوں کے گلدستے پیش کرنے کے رواج میں بھی پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔

The post ملک میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ریسرچ سینٹر سے محروم appeared first on ایکسپریس اردو.

ملتانی کاشی گری

$
0
0

بہت پہلے فارسی کے ایک مشہور شعر میں ملتان کو گرد، گدا، گرما اور گورستان کا شہر گردانا گیا تھا۔ لیکن اُس ملتان اور آج کے ملتان میں بہت فرق ہے۔

آج کا ملتان پنجاب کا چوتھا بڑا شہر ہے جو دنیا بھر میں کئی حوالوں سے مشہور ہے جن میں ملتان کی سر زمین پر آرام فرما رہے اولیاء و صوفیاء، ملتانی سوہن حلوہ، آم کے باغات، ملتانی کاشی گری اور ظروف سازی، چمڑے کے دیدہ زیب کھسے، کمنگری، اونٹ کی کھال سے بنے لیمپ شیڈ، کڑھائی شدہ کرتے اور دوپٹے، ملتانی کھیس، ریشمی لنگیاں، مجسمے، تیل دھنیاں، کاشی کی اینٹیں اور نیلی اجرک وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن یہاں میں ملتان کی جس صنعت کا ذکر کروں گا وہ خالص ملتانی ہے اور یہیں سے پورے ملک میں پھیلی ہے، یہ صنعت ہے کاشی گری یا ظروف سازی (بلیو پاٹری) کی۔

پہیے کی ایجاد کے بعد فنِ ظروف سازی نے ایک نئی کروٹ لی اور تقریباً 3000 سال قبلِ مسیح میں سفال گروں نے اس پہیے کو ایک نئی شکل میں ڈھال کر مٹی کو اس پر نچانے کی ابتدا کر دی۔ کمہار کے ہاتھوں نے اس پہیے پر جادو دکھانا شروع کیا اور چھال یعنی ”پوٹرز وہیل” دیکھتے ہی دیکھتے کمہار کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جب کہ پہیے کی ایجاد سے پہلے یہ تمام کام انسانی ہاتھ سے کیے جاتے تھے جو کافی وقت لیتے تھے۔

انسانی تاریخ میں صدیوں پہلے سے مٹی کو حُسن پرستی جمالیاتی ذوق اور کاری گری کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ مجسمہ سازی کا فن ہو، تعمیری شاہکار ہوں یا فنِ بت سازی، یہ مٹی کب سے مختلف اشکال میں انسانی ذوق کی تسکین کا باعث بنتی آ رہی ہے۔ موہنجودڑو، بابُل اور ہڑپہ کی قدیم تہذیبیں بھی مٹی کو برتن بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ چناںچہ اگر مٹی سے ظروف بنانے کے فن کو قدیم ترین فنون میں سے ایک کہا جائے تو کُچھ غلط نہ ہوگا۔

آج بھی ظروف سازی کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک اور ثقافت کا حصہ ہے لیکن ماضی میں چینی قوم اس ضمن میں سب سے پہلے منظرِعام پر آئی۔ چینیوں نے پورسلین اور ظروف کے روغن دریافت کیے اور اس سے برتن بنانے شروع کردیے لیکن ان کے برتن نیلے رنگ کے بغیر بہت پھیکے لگتے تھے۔ پھر ایرانی سلطنت میں ”کوبالٹ آکسائیڈ” کی دریافت نے تہلکہ مچادیا۔ اس کو مٹی کے برتنوں پر روغن کے طور پہ مَلا جاتا تھا جو بھٹی میں تپنے کے بعد خوبصورت اور چمکتے ہوئے نیلے رنگ میں بدل جاتا تھا۔

1301 میں ایران کے عبدل قاسم قاسانی نے برتنوں پر نقش نگاری اور رنگوں سے متعلق ایک کتاب لکھی۔ چینی قوم کسی بھی قیمت پر ایرانیوں سے رنگوں کا یہ فن سیکھنا چاہتی تھی۔ ایرانی حکمران شاہ عباس نے 300 چینی کاری گروں کو ایران بلوایا جہاں آکر انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایران کی مٹی پورسلین بنانے کے لیے بالکل کارآمد نہیں ہے۔ وہ مایوس تو ہوئے لیکن اپنے ایرانی ہم عصروں کے ساتھ مل کر انہوں نے ”نیلے رنگ کے برتن” دریافت کر لیے۔ اِن برتنوں کو ”بلو پاٹری” نام انگریزوں کا دیا ہوا تھا جب کہ ایران میں یہ ”سنگینے” کے نام سے جانے جاتے تھے جس کا مطلب ”پتھر سے بنے ہوئے”ہے۔ پھر یہ فن افغانستان سے ہوتا ہوا برِصغیر وارد ہوا جہاں ملتان شہر اس کا گڑھ بنا اور ملتان سے یہ لاہور، دہلی اور آگرہ تک جا پہنچا۔

فنِ ظروف سازی پر ایرانی، چینی اور منگول اقوام کا اثر بہت زیادہ ہے اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کاشی کے فن کی ابتدا مغربی چین کے شہر کاشغر سے ہوئی تھی، جو بعد میں ایرانیوں نے اپنایا اور آج بھی آپ کو ایران میں جگہ جگہ مختلف مزارات اور عوامی جگہوں پر نیلا ٹائل ورک نظر آئے گا۔

ملتان میں عمارتوں اور برتنوں پر نیلے رنگ کی نقاشی کی روایت بھی قدیم عہد سے چلی آ رہی ہے، اس فن کیلئے نیلے رنگ کا ایک خاص روغن تیار کیا جاتا ہے۔ کاشی گری کے فن میں دوسرے رنگوں کا استعمال بہت ہی کم ہوا ہے اور غالباً کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔ کاشی گری اصل میں مٹی اور دھاتوں کے ایک خاص مرتب سے بنائے گئے برتنوں پر نیلگوں نقش و نگار بنائے جانے کو کہتے ہیں۔

نیلا رنگ ہی کیوں؟ خطہ ملتان میں نیلے رنگ کے فروغ کے حوالہ سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ رنگ انتہائے نظر اور آفاقیت کی ایسی علامت ہے جس سے روح و چشم کو سکون ملتا ہے۔ ملتان اور سندھ کی تہذیب و تاریخ میں نیلے رنگ کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اجرک جو سندھ اور ملتان کا تہذیبی پہناوا ہے، کی رنگائی بھی نیل سے ہی کی جاتی تھی، ملتان میں سر ڈھانپنے کی ایک مخصوص چادر کو ’’نیلا‘‘ کہا جاتا تھا‘ دریائے سندھ کا پرانا نام بھی ’’نیلاب‘‘ ہے۔ اس خطے میں پڑنے والی شدید گرمی نے بھی نیلے رنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا کیوںکہ نیلا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ سو نیلا رنگ اب ملتان اور تمام جنوبی پنجاب کی پہچان بن چُکا ہے۔

آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فن ملتان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور شہرِ ملتان، فارس اور ترکی کے ساتھ ہمارے پرانے اور اٹوٹ رشتوں کی جیتی جاگتی مِثال ہے۔ ایک زمانہ تھا جب (رنگوں کی خاص ترتیب اور بناوٹ کی وجہ سے) ملتانی ہنرمند کئی عرصے تک اس فن کو ایک راز کے طور پر نسل در نسل منتقل کرتے رہے، لیکن آج یہ ہر جگہ پھیل چکا ہے۔ ایران کی طرح ملتان کی بھی کئی معروف عمارتیں کاشی گری کا شاہ کار ہیں جن میں بزرگانِ دین کی درگاہیں، مساجد، بہاؤ الدین یونیورسٹی کا شعبۂ سرائیکی اور اُمراء کے بنگلے شامل ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان، گجرات اور لاہور میں شاہدرہ لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔

1853 میں قلعہ کہنہ قاسم باغ کی کھدائی کے دوران سر الیگزینڈر کننگہم کو 900 میں بنائی گئیں ملتان کی روغنی ٹائلیں ملیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹائلیں محمد بن قاسم کی ملتان آمد کے بعد بنائی گئی مسجد میں استعمال کی گئی تھیں۔

آج ملتان سمیت سندھ پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ نیلا رنگ ٹائل اور پتھر کی صورت میں ہمیں ملتا ہے جن میں اُچ شریف کے مقبرے، نواب آف بہاولپور کا آبائی قبرستان، درگاہ سچل سرمست، مزار شاہ عبدالطیف بھٹائی، سندھ میں تالپوروں کے مقبرے، لاہور میوزیم، ہولی چرچ بنوں، دربار بابا فرید الدین پاکپتن، اور مختلف امراء کی حویلیاں اور بنگلے شامل ہیں۔ قطر کی مشہور لال اور نیلی مسجدوں میں بھی ملتانی کاشی کاری کی گئی ہے، جب کہ ملتان کی اس صنعت کو وزیراعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، بیرونِ ملک پاکستان کے سفارت خانوں، پاکستان کی مشہور چہار و پنج ستارہ ہوٹلوں اور برٹش میوزیم لندن میں بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

اب آتے ہیں اس کی تیاری کے مراحل پر۔ یہ برتن ہم تک مختلف مراحل طے کر کہ پہنچتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔

1- مٹی کی تیاری؛

ظروف سازی کے لیے بنیادی عنصر مٹی ہے جو اکثر دریاؤں اور بڑی نہروں کے تل سے حاصل کی جاتی تھی لیکن دریاؤں کی آلودگی کی وجہ سے ملتانی مٹی زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مانسہرہ، گجرات، تھرپارکر اور پشاور کی خاص مٹی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس مٹی کو خام مال جیسے کانچ کے ٹکڑوں اور گوند میں ملاکر اچھی طرح پیس لیا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ پاؤڈر کی شکل میں آ جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں پانی ڈال کر کچھ دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پانی جذب ہو جانے کے بعد اس کو آٹے کی طرح اچھی طرح گوندھا جاتا ہے۔

2- گوندھی ہوئی مٹی کو پھر پلاسٹر آف پیرس کے مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ سانچے مختلف ڈیزائنز اور مختلف سائز کے ہوتے ہیں جنہیں اگر احتیاط سے استعمال کیا جائے تو یہ لمبے عرصے تک چلتے ہیں۔ بڑے حجم کے برتنوں کو تین چار سانچوں میں ڈھال کر جوڑ دیا جاتا ہے۔ کم نرم ہونے کی وجہ سے اس مٹی کو چھاک (برتن بنانے والا پہیہ) پر ڈھالنا مشکل ہے تبھی یہ پہیہ ملتانی برتنوں میں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔

3- مناسب مقدار میں گندھی ہوئی مٹی کو سانچے میں ڈال کر برابر کردیا جاتا ہے۔ سانچے کو اچھی طرح ہلا کر گُندھی مٹی برابر کی جاتی ہے اور جب یہ ترتیب سے بیٹھ جاتی ہے تو سانچے میں راکھ ڈال کر اسے احتیاط سے دبایا جاتا ہے تاکہ مٹی سانچے کی شکل میں بیٹھ جائے۔ اس کے بعد باہر نکلی ہوئی مٹی کو چھری سے کاٹ کر سانچے کو کچھ دیر رکھ دیا جاتا ہے۔ اسے کھولنے کے بعد حاصل ہونے والے پراڈکٹ کو راکھ سمیت ایک دو دن سُوکھنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔

4- سوکھنے کے بعد اس پراڈکٹ سے راکھ کو اچھی طرح جھاڑ لیا جاتا ہے۔ برتن پر جمی راکھ نفیس برش کی مدد سے صاف کی جاتی ہے اور اسکو ایک چھوٹے گھومنے والے تختے پر رکھ کر لوہے کی ایک چھری (پتی) سے اس کی ناہموار سطحوں اور سائیڈوں کی رگڑائی/کٹائی کی جاتی ہے، جس سے یہ برتن ہموار شکل میں آجاتا ہے اور اس کی سائیڈوں پر لگی غیرضروری مٹی صاف ہو جاتی ہے۔

5- اس کے بعد پراڈکٹ کو کئی چھوٹے موٹے مراحل سے گزارا جاتا ہے جس میں ریگ مال سے برتن کو صاف کرنا، اس کے اندر کی صفائی کرنا، مختلف طریقوں سے سطح کو ہموار کرنا، کوئی داغ دھبا اگر لگا ہو تو اس کو بھی صاف کرنا شامل ہے۔ پھر اس کو پیندے سے جوڑا جاتا ہے۔ بڑے گلدان اور برتن بغیر پیندے کے بنائے جاتے ہیں اور بننے کے بعد پیندا جوڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ اُسے سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

6- اب مرحلہ آتا ہے ڈیزائننگ کا۔ یہاں آرٹسٹ اپنی مہارت سے نِت نئے ڈیزائن ان برتنوں پر تخلیق کرتے ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ڈیزائن چھاپ لیا جائے۔ تمام پراڈکٹس ایک ایک کر کے ہاتھ سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں جو ہمارے محنت کشوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈیزائئنگ میں سب سے پہلے کوبالٹ آکسائیڈ سے خاکہ بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ خاکہ ہے جو بھٹی میں تپ کر برتن کو اسکا اصل گہرا نیلا رنگ دیتا ہے۔ یہ خاکے مختلف سائز کے برش سے بنائے جاتے ہیں۔

7- اس کے بعد اُن ڈیزائنوں اور گل بوٹوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔ یہ رنگ زیادہ تر آکسائیڈز ہوتے ہیں جو عمدہ اور نفیس برش کی مدد سے بھرے جاتے ہیں۔ زیادہ تر پیلا، سبز، لال، نارنجی اور آسمانی رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ رنگائی کے بعد برتن کو سُوکھنے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

8- اب آتا ہے چمکائی/روغن لگانے کا مرحلہ۔ جب برتن اچھی طرح سوکھ جاتا ہے تو اس پر روغن کیا جاتا ہے۔ مختلف خام مال کو مختلف تناسب سے ملا کر ایک خاص روغن بنایا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر شیشے کا پاؤڈر، زِنک آکسائیڈ، پوٹاشیم نائٹریٹ، سُہاگہ اور سُہاگے کا تیزاب شامل ہیں، جن کو گرم کر کہ سکھایا جاتا ہے اور اس میں میدہ اور پانی شامِل کر کہ روغن تیار کیا جاتا ہے۔

9- روغن شدہ برتن لوہے کی بڑی ٹرالی میں رکھ کر بھٹی میں ڈال دیے جاتے ہیں جس کا درجۂ حرارت 850-800 ڈگری سیلسیئس تک رکھا جاتا ہے۔ یہ برتن ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھے جاتے ہیں کیوںکہ اگر یہ ایک دوسرے سے چپک جائیں تو مکمل کالے ہو جاتے ہیں۔ بھٹی کو اوپر سے بند کردیا جاتا ہے پھر لکڑی اور چارکول کی مدد سے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔ یہ مرحلہ 4 سے 5 گھنٹے لے لیتا ہے، جس کے بعد بھٹی کو بتدریج ٹھنڈا کرنے کے لیے دو تین دن چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر اسے کھول کر تمام برتن نکال کر چیک کیے جاتے ہیں۔ ٹوٹے اور جُڑے ہوئے برتنوں کو نکال کر ایک رجسٹر میں درج کر لیا جاتا ہے، جب کہ باقی کو صاف کر کہ پیک کردیا جاتا ہے اور آرڈر دینے والے تک بحفاظت پہنچا دیا جاتا ہے۔

اس وقت ملتان میں مختلف چھوٹے بڑے ادارے بلیو پاٹری کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سرِفہرست ”انسٹیٹیوٹ آف بلو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان” ہے جو حکومتِ پنجاب کے ما تحت خوش اصلوبی سے چلایا جا رہا ہے۔ جہاں نہ صرف آپ اپنے گھر کے لیے خوب صورت ملتانی برتن و گل دان خرید سکتے ہیں بلکہ ان برتنوں کو بنتا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ادارہ تین سے چھ ماہ کے کورس بھی کرواتا ہے۔

اس کے علاوہ استاد عالم کا پوٹری انسٹیٹیوٹ بھی بہت مشہور ہے۔ پرائیڈ آف پرفامینس اور یونیسکو پرائز کے حامل مرحوم اُستاد عالم، مرحوم استاد اللہ وسایا کے شاگرد تھے جو پوٹری کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھے (ان کے علاوہ میاں رحیم بخش اور استاد اللہ ڈیوایا بھی اس زمانے کے بہترین کاشی گروں میں سے تھے)۔ انہوں نے اپنی زندگی میں پانچ سو سے زیادہ شاگردوں کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اب ان کا یہ ادارہ ان کے جانشین چلا رہے ہیں۔

اگرچہ یہ ادارے ملتانی کاشی گری کی صنعت کو اور اوپر لے جا رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں قائم ان بڑے، متحرک اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اداروں کی موجودگی میں ملتان کے چھوٹے چھوٹے کاشی گر اپنی روزی کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ وہ تنِ تنہا ان اداروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کے مطابق یہ ادارے فن سکھانے سے زیادہ اس صنعت کو کمرشل بنیادوں پر چلا کر ان کی روزی پر لات مار رہے ہیں جس سے ان کے گھروں کے چولہے جلائے نہیں جلتے۔

ملتان کی گلیوں میں کاشی گری کی صنعت ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغِ سحری کی طرح بجھنے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ چھوٹے موٹے لیکن باصلاحیت اور ہُنرمند کاری گر مایوس ہو کر اپنے پیشے کو خیر باد کہہ دیں حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت دونوں کو اس بات کا نوٹس لے کر اس ضمن میں بروقت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ملتانی کاشی گری کی اس قدیم صنعت کو ملتان ہی میں مرنے سے بچایا جا سکے۔

The post ملتانی کاشی گری appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر 43

اس نوجوان کی کتھا بھی کیا عجب تھی۔ ہاں مجھے معلوم ہوئی تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ وہ تھا ہی اتنا وجیہہ کہ مت پوچھیے۔ اس کے والد اپنے گاؤں کے انتہائی نیک نام زمین دار تھے، اتنے بڑے نہیں کہ جاگیر دار ہوں لیکن ایک بااثر انسان، نیک اور متّقی۔ وہ نوجوان ایک بہن اور اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فراوانی میں پلا بڑھا اور گاؤں کی زرخیز زمین میں پلا پوسا۔ ویسے بھی گاؤں کے باسی کھلے ڈھلے ماحول کے عادی ہوتے ہیں۔

ان کے گھر تو الگ ہوتے ہیں لیکن وہ سب ایک خاندان کی طرح سے رہتے ہیں، وہاں مرد و زن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ہاں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی الگ رِیت رواج ہیں وہاں ایسا نہیں ہے، وہ سب اپنی تہذیب و روایات سے انتہائی مضبوطی سے وابستہ ہیں، زنان خانے الگ اور گھروں سے خاصے فاصلے پر مردوں کے حُجرے۔ وہاں کوئی بھی خواتین سے گُھل مل نہیں سکتا، بل کہ خونیں رشتے دار بھی اپنی محرمات تک سے ایک فاصلہ رکھتے ہیں۔ خیر تو وہ نوجوان جس گاؤں کا تھا وہ سب بھی ایک خاندان کی طرٖح تھے، سب اک دوجے سے قریب، پردے کا وہ تصوّر بھی نہیں تھا جو مطلوب ہے۔ چھوٹا تھا تو خودسر اور ضدی بھی ہوگیا، کوئی فرمائش کی تو اسے پورا کیا گیا۔ جب وہ اسکول جانے کے لائق ہوا تو اسے بھی داخل کرادیا گیا، گاؤں کے بچے اور بچیاں ساتھ ہی پڑھتے تھے اور وہ گاؤں کے چودھری صاحب کی بچی کے ساتھ بچپن سے ہی کھیلتا کودتا رہا تھا، اس لیے وہ ان کے پڑوسی تھے، اسکول میں بھی وہ ساتھ ہی تھے۔

اس کی عمر ابھی دس برس ہی تھی کہ ایک حادثہ ہوگیا اور وہ یہ کہ وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے، کھیت کھلیان ٹاپتے ہوئے، اس وقت گنے کی فصل سر اٹھائے کھڑی تھی، شہری تو شاید کم جانتے ہوں لیکن گاؤں کے باسی بہ خوبی جانتے ہیں کہ گنے کی فصل میں کوئی قد آور بھی داخل ہوجائے تو نظر نہیں آسکتا، اسی لیے اس موسم میں وارداتیں بھی بہت ہوتی ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک رات میں اپنے سنگی ساتھیوں کے ساتھ گنے کے کھیت میں داخل ہوا اور رات بھر ہم گنے چُوستے رہے، ہم سب اس وقت ایک بابا جی کے پاس مقیم تھے، فجر سے پہلے وہ جاگ چکے تھے اور ہمیں نہ پاکر انہوں نے کھیتوں کا رخ کیا اور ہم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے، پھر تو نہ پوچھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا، پہلے تو بابا جی نے وہیں ہم سب کی اچھی طرح سے ٹھکائی کی اور سب سے زیادہ میری، اور اس کے بعد وہ ہمیں لے کر اس کھیت کے مالک کے پاس پہنچے، وہ بابا کے ساتھ ہمیں آتا دیکھ کر ذرا سا پریشان ہوا تب بابا نے اسے کہا: میرے ان بچوں نے تمہارے کھیت سے رات بھر گنے چُرائے اور چوسے ہیں، اب آپ مجھ سے ان کا معاوضہ لے لیں اور انہیں معاف کرسکتے ہیں تو مہربانی اور نہیں تو یہ سب آپ کے سامنے ہیں آپ جو سزا انہیں دینا چاہیں، مجھے منظور ہے۔ بابا تو یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔

کھیت کا مالک تھا بڑا کشادہ دل اور ہوتے ہیں وہ ایسے تو اس نے ہم سب کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا: تم سب نے کتنے گنے توڑے ہیں۔ میں چوں کہ سب سے بڑا مجرم تھا اور میرے ہی کہنے پر وہ سب چلے آئے تھے تو میں نے ان سے کہا: ہمیں یاد نہیں ہے لیکن بہت سارے تھے۔ وہ میری بات سن کر پھر سے مسکرایا اور بابا سے کہا: بزرگو! آپ سے یہی امید تھی، بس آپ انہیں میرے پاس لے آئے تو میں نے انہیں معاف کیا۔ بابا نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ ایک قدم آگے بڑھا اور ہم سب کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا: پُترو! جتنے گنے چُوپنے ہیں، چُوپو، دل بھر کے چُوپو، اجازت ہے، ساتھ لے کر جانا چاہو تب بھی اجازت ہے اور ہاں بس ایک کام کرنا مت بھولنا کہ میری فصل میں برکت کی دعا کرنا۔

تو وہ دونوں اسکول سے واپس آرہے تھے کہ اس نے عجیب حرکت کی اور اس بچی کو کھیت میں لے گیا اور اس پر دست درازی کی کوشش کی، بچی نے شور شرابا کیا تو قریب سے گزرتے ہوئے دو لوگوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور اپنے ساتھ گاؤں لے آئے اور اس کے کرتُوت سے اس کے والد اور چودھری صاحب کو آگاہ کیا۔ دونوں بچے تو تھے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی اور بس دو چار تھپڑ رسید کیے اور آئندہ سے احتیاط کرنے کی تنبیہ کرکے چھوڑ دیا۔ نوجوان کے والد چوں کہ بہت نیک نام تھے تو انہوں نے اسے اسکول سے نکالا اور گھر میں محصور کردیا، وہ اپنے بیٹے کی حرکت پر بہت شرمندہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اسے اگر کبھی باہر جانا ہوتا تو اس کا کوئی بھائی ضرور اس کے ساتھ ہوتا۔

تین سال بہت ہوتے ہیں، اس کی آزادی چھن چکی تھی۔ ایک دن جب اس کی عمر صرف چودہ سال ہی تھی کہ وہ گھر سے بھاگ گیا، اس کے والد نے تو منع کیا کہ اب اسے تلاش نہ کیا جائے لیکن ماں تو جی ماں ہوتی ہے ناں، ان کے کہنے پر اس کے بھائیوں نے جب اسے تلاش کرنا شروع کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ تو قریبی گاؤں کے تھانے کی حوالات میں ہے، جب اس کے بھائی وہاں پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس نے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے۔ سوائے شرمندگی کے وہ کیا کرتے لیکن ماں کا حکم تھا اور پھر وہ چھوٹا بھائی تھا تو انہوں نے متاثرہ لڑکی کے وارثوں سے مل کر معاملہ رفع دفع کرایا اور اسے لے کر واپس آئے۔ انہوں نے اس کے کرتوت سے سوائے ماں کے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا، والد یہ سمجھے کہ گھر کی قید سے گھبرا کر چلا گیا ہوگا تو اب واپس آگیا ہے، لیکن گاؤں میں بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے تو اس گاؤں کے کسی آدمی کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی اور پورے گاؤں میں پھیل گئی تب اس کے والد کو ساری حقیقت معلوم ہوئی۔

اب کوئی چارہ نہ رہا تھا تو انہوں نے اسے دُور کسی شہر میں اپنے کسی عزیز کے سپرد کردیا کہ وہ اسے کسی اسکول میں داخل کرادیں۔ پہلے تو وہ گاؤں میں تھا اب وہ شہر کی اور کھلی فضا میں آچکا تھا۔ ایک سال تو خیریت سے گزرا اور پھر ایک دن اس نے پھر اسی طرح کی حرکت کی لیکن اس مرتبہ وہ جیل پہنچ چکا تھا۔ اس کے گھر والوں کو خبر پہنچی تو اس کے والد نے اس سے گاؤں والوں کے سامنے قطع تعلق کرلیا اور مرتے دم تک اس کا چہرہ نہ دیکھنے کی قسم اٹھالی، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے اپنے پورے خاندان کو اس کی کوئی مدد نہ کرنے کا بھی کہہ دیا تھا، وہ سال بھر سے زیادہ جیل میں گزار چکا تھا کہ کسی طرح بابا کو اس کی بابت معلوم ہوا اور وہ اس کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ بابا نے اپنی ضمانت پر اسے جیل سے باہر نکالا اور پھر اس کا مقدمہ بھی ختم کرایا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر تو جا نہیں سکتا تھا تو وہ بابا کے ساتھ قبرستان میں ہی رہنے لگا تھا۔

بابا اسے اپنا بچہ ہی سمجھتے تھے اور اصل بابا ایسے ہی ہوتے ہیں، بابا اسے لے کر اسی طرح جیسے مجھے لے کر جاتے اور صبح کو مزدوروں کو ناشتا کراتے اور رزق حلال کماتے تھے۔ وہ کچھ عرصے تک تو ان کے ساتھ سعادت مند بن کر جاتا رہا لیکن واپس آکر پھر سے ان سے ضد کرتا کہ وہ باہر گھومنے پھرنے جائے گا۔ بابا نے اس پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی، وہ اس کی تربیت کی اپنی سی کوشش بھی کرتے رہے۔ قبرستان کا ماحول ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ہر ایک اس میں رچ بس جائے اور سوچے، اور پھر ہر ایک کے بس کا یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایسی تربیت سے گزرے کہ موت سے پہلے اس کی آنکھ بینا ہوجائے اور وہ اصل کو جان سکے، جی اتنا سہل نہیں ہوتا یہ۔ موت سے پہلے دنیائے ناپائیدار کی اصل حقیقت کو کوئی بینا آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے، مجھ جیسا عجلت پسند نہیں۔ آپ میں صبر کے ساتھ ضبط بھی ہونا چاہیے، قناعت اور توکّل کے ساتھ اپنے راہ بر سے وابستگی اور وہ بھی ہر حال اور رنگ میں، اور پھر اس راہ میں پیش آنے والی ہر کیفیت کو اخفاء رکھنا اور تجربے کو سہارنا بھی کوئی معمولی مشقت نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ جیسے جیسے آپ پر حقیقت کُھلتی چلی جائے آپ اس قدر خالق کائنات کے سامنے جُھکتے چلے جائیں اور اسی سے وابستہ ہوتے جائیں۔

آپ کا باطن بس اپنے رب کی مرضی کے سامنے تسلیم ہوتا جائے اور پھر آپ تسلیم و رضا کے پیکر میں ڈھل جائیں۔ اس راہ میں کوئی بھی اصل راہ بر اپنی جانب نہیں، بالکل اور قطعاً نہیں، بل کہ بندے کو خدا کے سامنے زیر کرتا اور اس کے لیے دعا کرتا رہتا ہے کہ خدا اسے اپنی جناب میں قبول فرمالے۔ دیکھیے میں پھر سے دوسری راہ پر چل نکلا تو بابا نے اسے بھی ان مراحل سے گزارنے کی اپنی سی سعی کی تھی اور پھر ایک دن اس نے بابا سے عجیب سا سوال کیا تھا، اس نے بابا سے کہا: بابا کیا میں ساری زندگی اب بس قبرستان میں ہی رہوں گا اور آپ جس راہ پر مجھے لے جا رہے ہیں آخر اسے اس کا دنیاوی فائدہ کیا ملے گا ۔۔۔۔؟ بابا اس کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور بس وہی لمحہ تھا جب بابا نے اس کے لیے دوسری راہ منتخب کی۔ بابا نے اسے دھتکارا نہیں بالکل بھی نہیں کہ اصل بابا کبھی نہیں دھتکارتے وہ تو مخلوق کے لیے رحمت خداوندی ہوتے ہیں، ایثار و قربانی کا مجسم۔ بابا نے اس کی راہ بدل ڈالی، پہلے تو اس کے لیے قریبی گاؤں میں اس کے رہنے کا انتظام کیا اور پھر اسے راجا بازار میں ایک اسٹور پر دکان داری سیکھنے کے لیے بھیج دیا، ذہین تو وہ تھا ہی اور پھر بازار کا آزاد ماحول اسے راس بھی آیا، اس نے محنت بھی کی اور پھر وہ دن بھی آیا کہ بابا نے اسے ایک دکان خرید کر دی اور اس طرح وہ ایک تاجر بن گیا، کام یاب تاجر، لیکن بابا نے اس کی سرپرستی نہیں چھوڑی تھی۔ پھر بابا نے اس کے لیے قریب کے گاؤں میں ایک مکان بنوایا، یہی وہ مکان تھا، میں نے جس مکان میں اس نوجوان کو تنہا دیکھا تھا۔

بابا اسے دکان دلا ہی چکے تھے، مکان بھی اس کے پاس تھا۔ بازار میں ہی خریداری کے لیے آنے والی ایک لڑکی اسے پسند آگئی تھی، اس نے بابا کو اپنی خواہش بتائی تھی اور بابا نے اس کے رشتے کی بات اس لڑکی کے سرپرستوں سے طے بھی کرلی تھی۔ بابا اسے یہی بتانے گئے تھے اور میں بابا کے ساتھ تھا۔ بابا نے صرف اتنا ہی نہیں کیا تھا بل کہ وہ اس کے والد سے بھی ملے تھے اور انہیں اسے معاف کردینے کا کہا تھا۔ لیکن اس کے والد نے صاف منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شُکر گزار ہوں کہ آپ نے اسے راہ راست پر لگایا، اب وہ آپ کا ہی بیٹا ہے، آپ بااختیار ہیں اس کے متعلق جو فیصلہ کریں۔ جی پھر میں نے اس کی شادی میں شرکت بھی کی تھی۔ اس کی والدہ، بہن اور بھائی بھی اس کی شادی میں شریک تھے۔

لیکن میں آج تک وہ منظر نہیں بھول پایا کہ وہ تھا ہی ایسا۔ اس کی بارات لے کر ہم گئے اور شام تک رخصتی ہوگئی۔ مغرب کے بعد اس سے بابا نے اجازت لیتے ہوئے کہا: بیٹا! فقیر نے اپنا فرض پورا کیا بہ حمد اﷲ، اب تمہارا فرض ہے کہ اپنی بیوی کا خیال رکھنے کے ساتھ مخلوق خداوندی کا بھی خیال رکھو، آج کے بعد تم خود مختار ہو، میں تمہیں خود سے آزاد کرتا ہوں، اب دھیان سے زندگی گزارنا اور سنبھل کر چلنا کہ یہ دنیا بہت احتیاط سے چلنے کی جگہ ہے، ذرا سی بے دھیانی انسان کو کسی دلدل میں دھنسا سکتی ہے یا کسی کھائی میں گرا سکتی ہے۔

اس وقت میں بابا کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا جب بابا اس سے یہ باتیں کررہے تھے۔ بابا کی ساری باتیں اس نے بہ غور سنیں اور پھر وہ ان سے لپٹ کر رونے لگا اور ایسا برسا کی جل کا تھل کردیا، بس وہ یہی کہے جارہا تھا: آپ صادق ہیں بابا، سب کچھ کر لیجیے بس مجھے آزاد مت کیجیے۔ بس وہ یہی کہے جارہا تھا اور بابا اسے اپنے ساتھ لپٹائے خاموش تھے، بالکل خاموش۔ پھر انہوں نے اسے خود سے الگ کیا اور میرا ہاتھ پکڑے روانہ ہوتے ہوئے بس اتنا کہا: جب بھی اسے کوئی پریشانی یا ضرورت ہو، وہ بلاتکلف ان کے پاس چلا آئے۔ میں نے دور جاکر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا اسے، مجھے ایسا لگا جیسے اس سے متاع زندگی کہیں کھوگئی ہو۔ جی مجھے وہ وقت یاد آیا جب اس نے مجھ سے کمبل کے پیسے لینے سے انکار کردیا تھا اور جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ مجھے کیسے جانتا ہے اور کس نے اسے پیسے دیے ہیں، تب اس نے بتایا تھا کہ بابا نے میری نشان دہی کی تھی اور پیسے ادا کیے تھے جب میں ایک ٹھیلے پر پُرانا کمبل لینے کے لیے رُکا تھا۔

میری سماعت میں بابا کے الفاظ گونج رہے تھے: ہاں وہ نوجوان بھی تو اس راہ کا مسافر تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ ! عجیب ہے بندہ بشر بھی، ہائے افسوس!

مجھے نواز کوئی ہجر بھرا ہُوا عشق

میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اُداسی ہے

اور اب یہ کیا یاد آگیا۔۔۔۔۔۔!

عشق نہیں نِبھا سکا، ہجر نِبھا رہا ہوں میں

دیکھ خراب ہوں مگر، پُورا خراب بھی نہیں

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

تمباکو نوشی کیسے چھوڑی جائے؟

$
0
0

بلاشبہ ’’ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ لیکن کیا اس کا مطلب خودکشی کر لینا ہے کہ مرنا ہے تو اپنے ہاتھوں ہی گلا گھونٹ لیا جائے۔

زندگی قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے، جس کی قدر ہر انسان پر لازم ہیں اور اس میں بھی ذرا بھر شک نہیں کہ انسان زندگی کی قدر کرتا ہے، لیکن انسان کی کچھ بری عادات زندگی سے محبت اور اس کی حفاظت کے حقیقی دعوئوں کو ہوا کر دیتی ہیں، جن میں سے ایک مہلک عادت تمباکو نوشی ہے۔

ایک عالمی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ دل اور سٹروک کی بیماری ہے اور انتہائی افسوس سے بیان کیا جاتا ہے کہ ان دونوں بیماریوں کے جنم لینے میں تمباکو نوشی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ دل اور سٹروک کی بیماری سے ہلاکتوں میں صرف تمباکو نوشی کا حصہ 30، 30 فیصد ہے جبکہ پھیپھڑوں کے کینسر میں یہ حصہ 90 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

ان کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر، منہ، گلے کا کینسر اور سانس کی بیماریاں وغیرہ بھی تمباکو نوشی کا ہی ’’تحفہ‘‘ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 70 لاکھ افراد تمباکو نوشی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، جن میں سے تقریباً 60 لاکھ وہ افراد ہیں، جو خود تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ 10 لاکھ کے قریب زائد ایسے بدقسمت ہیں، جو خود تو سگریٹ، بیڑی، سگار یا حقّہ نہیں پیتے، لیکن کسی دفتر، بس سٹاپ، سڑک، گاڑی یا کسی اور عوامی مقام پر تمباکو کا دھواں سانس کے ذریعے باامر مجبوری ان کے اندر چلا جاتا ہے۔ تو یوں تمباکو نوش نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی جان کو بھی خطرات لاحق کرنے کا باعث بن رہے ہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو نوشی کے تدارک کے لئے نہ صرف قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے بلکہ شہریوں میں اس کے نقصانات کے حوالے شعور بھی اجاگر کیا جائے۔

تمباکو نوشی کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس بری عادت کو چھوڑنے کا ارادہ بھی کرتے ہیں، لیکن بار بار خود سے وعدے کرنے کے باوجود وہ ان کو ایفا نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کو کبھی نیکوٹین کی فوری کمی کا درد ستانے لگتا ہے، کام کے بوجھ میں خود کو ریلیکس کرنے کا ذریعہ تو کبھی کوئی غم غلط کرنا مقصود بن جاتا ہے، تو ایسے افراد کی آسانی کے لئے ہم یہاں آپ کو کچھ ایسے طریقوںسے روشناس کروائیں گے، جن کے ذریعے آپ اس سے باآسانی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

فیڈ بیک
ایک صفحہ کے درمیان میں لائن کھینچ کر اپنی پسند ناپسند کی چیزوں اور عادات کے بارے میں دیانت داری کے ساتھ ایک فہرست مرتب کریں۔ پھر اس فہرست میں شامل عادات پر دوسروں سے رائے لیں کہ وہ کون سی عادات ہیں، جو براہ راست آپ کی صحت،کام یا خاندان وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔ اس ضمن میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میڈیکل سنٹر میں نفسیاتی تحقیق کے مرکز ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈینئیل زیڈ لیبرمین کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ بہادر اور سچے ہیں تو پھر اپنے دوستوں اور گھروالوں سے اس فہرست کے بارے میں فیڈ بیک لیں، خصوصاً سگریٹ نوشی کے بارے میں ان سے جانیے کہ وہ آپ کی اس عادت کو کن وجوہات کی بنیاد پر پسند نہیں کرتے۔ یوں آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی روز آپ کے پاس تمباکو نوشی چھوڑنے کی بہت ساری وجوہات اور حوصلہ ہو گا، جس کی بنیاد پر آپ اس بری عادت کو ترک کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں وقتاً فوقتاً تبدیلی بھی کرتے رہیں تاکہ آپ کی شخصیت کا کوئی بھی ایسا پہلو چھپا نہ رہ جائے، جس کے بارے میں دوسروں سے رائے یا مدد لینا ضروری تھا‘‘

تمباکونوشی چھوڑنے میں
حائل رکاوٹوں کی فہرست

ان تمام وجوہات کی باقاعدہ اور مکمل دیانت داری کے ساتھ ایک فہرست بنائیں، جن کی وجہ سے آپ تمباکو نوشی چاہ کر بھی نہیں چھوڑ پا رہے۔ جس کے بعد ان وجوہات یا مجبوریوں کو ایک ایک کر کے ڈسکس کریں اور ان کے متبادل تلاش کریں، یعنی اگر آپ نیکوٹین کی بات کریں تو بلاشبہ یہ ایک ڈرگ ہے، جس کی لت پڑ جائے تو چھوڑنا مشکل ہو جاتی ہے، تو اس ضمن میں آپ اس کا متبادل تلاش کریں یعنی آپ نیکوٹین لینے کے لئے سگریٹ پینے کے بجائے کسی مثبت چیز میں اسے عارضی طور پر حاصل کریں، جو آپ کی صحت کو متاثر نہ کرے۔

دوسرا ذہنی دبائو میں مدد کے لئے اگر آپ تمباکو نوشی کا استعمال کرتے ہیں تو اس کے بجائے آپ ریلیکس ہونے کے لئے 5 منٹ کی سیر کی عادت اپنائیں، تیسرا عصر حاضر میں کچھ لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ سٹائل مارنے کے چکر میں اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں، تو ایسے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سٹائلش بننے کے دیگر ہزاروں طریقوں کو استعمال کریں، چہ جائے کہ وہ اپنا شدید نقصان کر بیٹھیں، تو یوں تمباکو نوشی کے لئے آپ کا ذہن یا ماحول جو بھی مجبوریاں پیش کرتا ہے، ان کا حل مثبت اور متبادل طریقوں میں تلاش کریں۔

وقت کا تعین
تمباکو نوشی وہ بری عادت ہے، جو انسان کے اندر تک راسخ ہو جاتی ہے، لہٰذا اسے ترک کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس لئے تمباکو نوشی سے نجات حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ایک ٹائم فریم بنائیں، وقت کا تعین کریں کہ میں کب تک اسے چھوڑ دوں گا اور یہ سب کچھ زبانی کلامی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک کاغذ پر اسے باقاعدہ طور پر تحریر کریں، جس پر نہ صرف آپ کے دستخط ہوں بلکہ ایک ہم درد گواہ بھی موجود ہو۔

تدارک کی وجوہات
قلم اور کاغذ لے کر بیٹھیں اور اس پر وہ وجوہات تحریر کریں کہ آپ کیوں کر اور کیسے تمباکو نوشی ترک کر سکتے ہیں، یعنی آپ اس پر لکھ سکتے ہیں کہ تھوڑے وقفہ کے ساتھ مجھے کھانسی، زکام یا نزلے کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے، طبیعت میں بے چینی محسوس ہوتی ہے، جس کی بڑی وجہ یہ تمباکو نوشی ہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ اس پر تحریر کر سکتے ہیں کہ چوں کہ میری بیٹی، بیوی یا ماں کو سگریٹ نوشی سخت ناپسند ہے اور وہ وقتاً فوقتاً مجھے اسے چھوڑنے کی تاکید کرتی رہتی ہیں۔ اگر آپ حقیقت میں تمباکو نوشی ترک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر کوشش کرکے اس تحریر کو جتنا بھی ممکن ہو ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں، کیوں کہ یہ آپ کو سگریٹ نوشی ترک کرنے کا یاد کرواتی رہے گی۔

پیکٹ مت خریدیں
سگریٹ کا پورا پیکٹ خریدنے کے بجائے ہمیشہ دو سے تین سگریٹ خریدیں، جنہیں آپ سگریٹ باکس میں رکھ سکتے ہیں۔ کم سگریٹ خریدنے کے باعث آپ ہر وقت سموکنگ کرنے سے پرہیز کریں گے، کیوں کہ آپ کو یہ خدشہ ہو گا کہ اگر یہ بھی ختم ہو گئیں تو پھر آپ کیا کریں گے۔ اس عادت کو اپنانے سے ایک تو ہر وقت سگریٹ پینے کی عادت بدلے گی اور دوسرا آپ آہستہ آہستہ تمباکو کے مکمل تدارک کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔

طلب کی وجوہات اور متبادل راستے
امریکن ایسوسی ایشن برائے سموکنگ ایشوز کے چیئرمین گیلنے مونے کہتے ہیں کہ ’’اپنی ڈائری میں یہ بھی تحریر کریں کہ کن کن مواقعوں پر یا اوقات میں آپ کو سگریٹ کی بہت زیادہ طلب ہوتی ہے۔ یہ چیز آپ کو تمباکو ترک کرنے میں بہت معاون ثابت ہو گی‘‘ پھر ان مواقعوں پر سگریٹ پینے کے بجائے آپ خود کو کسی اور سرگرمی میں مصروف کریں، جیسے سیر کو جائیں، پانی پئیں، بچوں کو پیار کریں، گیم کھیلیں، اپنی گاڑی دھوئیں، الماری کو صاف کرلیں، چیونگم چبائیں، منہ دھوئیں، دانت صاف کریں، کچھ دیر کے لئے سو جائیں، چائے یا کافی پئیں (لیکن کافی بہت زیادہ پینا مضر صحت ہو سکتا ہے)، لمبے لمبے سانس لیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ایک صفحہ پر لکھنے کے بعد اس کی چند کاپیاں کروا لیں، جن میں سے ایک ہر وقت آپ کی جیب میں ہونی چاہیے تاکہ جب بھی آپ کو سگریٹ کی طلب ہو، آپ اسے نکال کر پڑھیں اور سوچیں کہ اس جگہ یا وقت آپ ان میں سے ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ آپ کا ذہن بدل جائے۔ ان کے علاوہ ناشتے کی میز پر پہلے سے مقررہ کرسی تبدیل کر لیں، اگر آپ کافی کے ساتھ سگریٹ پیتے تھے تو کافی چھوڑ کر چائے پئیں۔

اچھا موڈ
انسانی مزاج کے حوالے سے ہونے والی مختلف تحقیقات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی کام کی کامیابی یا ہدف کے حصول میں آپ کے مزاج کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اگر آپ ذہنی دبائو یا مایوسی کا شکار ہیں تو کسی بھی معاملہ میں آپ کی کامیابی کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے، لہذا کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے موڈ کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے اور اسی بنیاد پر ہم یہاں یہ بیان کرنا چاہ رہے ہیں کہ کبھی بھی کسی مشکل وقت میں سگریٹ چھوڑنے کا فیصلہ نہ کریں، کیوں کہ اس سے فائدہ کے بجائے مزید نقصان بڑھنے کا خدشہ ہو سکتا ہے، لہذا تمباکو نوشی ترک کرنے کے لئے اچھے موڈ کا انتظار کریں۔

تمباکو نوشی سے متعلقہ چیزوں کو خود سے دور کر دیں
سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لئے آپ نے جو وقت مقرر کیا تھا، جب وہ آن پہنچے تو فوری طور پر وہ تمام چیزیں یا تمباکو تلف کر دیں، انہیں پھینک دیں، خود سے دور کر دیں، یعنی ماچس، لائٹر (کوشش کریں کہ گاڑی میں موجود لائٹر سسٹم بھی نکلوا دیں)، ایش ٹرے اور بچے ہوئے سگریٹ بھی پھینک دیں۔

سگریٹ پر خرچ ہونے والی رقم جمع کریں
آپ کے اندر یہ احساس جنم لینا بہت ضروری ہے کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے نہ صرف آپ کی صحت بلکہ بہت زیادہ پیسہ بھی برباد ہو رہا تھا۔ سگریٹ پر خرچ کی جانے والی رقم کو باقاعدہ ایک غلّے میں جمع کریں، پھر اس پیسے کو وہاں استعمال کریں، جہاں آپ یہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے خود کو بے بس محسوس کرتے تھے، یعنی کبھی آپ کا دل کرتا تھا کہ آپ بزنس کلاس میں سفر کریں، لیکن پیسے کم ہونے کے باعث آپ اکانومی میں بھی سفر کر لیتے تھے، کسی پرانے دوست کو مل کر اس کی تواضع کرنے میں جو کمی رہ جاتی تھی یا پھر جب آپ کا خود کچھ اچھا کھانا کھانے کو من چاہ رہا ہوتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔

ماضی کی کامیابیاں
ڈاکٹر ڈینئیل زیڈ لیبرمین کہتے ہیں کہ ’’اپنے قریبی لوگوں سے پوچھیں کہ ماضی میں وہ کون کون سے اہداف تھے، جنہیںآپ نے انتہائی کامیابی کے ساتھ حاصل کیا، کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ کو خوداعتمادی حاصل ہو گی اور آپ خود کو قائل کر سکتے ہیں کہ تمباکو نوشی کے بغیر بھی آپ یہ سب کام اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔‘‘

غذائیت بخش خوراک
سگریٹ کے بجائے سورج مکھی کے بیج، لولی پاپ، چیونگم، گاجر اور اجوائن جیسی خوراک اپنے ساتھ رکھیں، جو نہ صرف آپ کو سگریٹ کی طلب سے بچائیں گی بلکہ ان کے استعمال سے صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ اخروٹ سگریٹ نوشی کی عادت ترک کروانے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں، سگریٹ کی طلب ہو یا نہ ہو تھوڑی دیر بعد اخروٹ کا کچھ حصہ چبا لینا چاہیے، کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ کو بالکل سگریٹ کی طرح اپنا ہاتھ اور منہ چلانا پڑتا رہے گا اور یوں آپ سگریٹ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق جو کا عرق سگریٹ کی طلب کم کرنے میں نہایت مفید ہے۔ دن میں چار بار ایک ملی لیٹر جو کا عرق استعمال کرنے سے سگریٹوں کی تعداد میں واضح طور پر کمی واقع ہو سکتی ہے۔

نباتاتی چائے
جڑی بوٹیوں سے چائے بنانا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی چسکیاں (جرعہ) لینے سے ذہنی دبائو میں ویسا ہی سکون ملتا ہے جیسا کہ سگریٹ کے ذریعے نیکوٹین سے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دار چینی کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں ہر وقت جیب میں رکھیں تاکہ جب بھی سگریٹ کی طلب ہو تو فورا دارچینی کا ایک ٹکرا منہ میں رکھ لیا جائے۔

کھیل
اگر آپ کے دفتر یا گھرمیں کسی قسم کی ممانعت نہ ہو تو جب بھی سگریٹ کی طلب ہو، اس وقت سگریٹ پینے کے بجائے 5 منٹ کے لئے کمپیوٹر پر کوئی بھی گیم کھیلیں، اس سے آپ کی توجہ بٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ برطانوی محققین نے ایک دلچسپ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کا کہنا ہے کہ سگریٹ کی طلب کے وقت اپنے تصورات میں ٹینس کا میچ دیکھنے والے اس بری عادت سے جلد نجات پا لیتے ہیں۔

تمباکو سے پاک ماحول
عوامی مقامات پر سگریٹ پینا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی ایک جرم ہے، کیوں کہ اس سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، پھر اوپر جیسے ہم نے بیان کیا کہ ایسے افراد کی تعداد ایک ملین کے قریب ہے، جو خود تو سگریٹ نہیں پیتے لیکن اس کا دھواں سانس کے ذریعے ضرور ان کے اندر چلا جاتا ہے۔ لہذا اپنے گھر، گاڑی اور حتی کہ ریسٹورنٹ میں اگلی نشست پر بیٹھے شخص کو بھی سگریٹ پینے کی اجازت مت دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے گھر اور گاڑی پر ’’No Smoking‘‘ سائن بورڈ آویزاں کریں، جن سے آپ کو اپنے مقصد کے حصول میں کافی حد تک سہولت محسوس ہو گی۔

نقصانات سے آگاہی
تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے مسائل یعنی بیماریوں کے حوالے سے ایک فہرست مرتب کریں اور انہیں ایسی جگہ پر چسپاں کریں، جہاں پر یہ نہ صرف باآسانی دیکھی بلکہ پڑھی بھی جا سکے۔ یوں جب بھی آپ کو سگریٹ کی طلب ہو تو آپ فوراً اس لسٹ کی طرف دیکھیں، جس پر لکھا ہو گا کہ:-
٭تمباکو نوشی پھیپھڑوں، مثانہ، منہ، گلے، خون سمیت مختلف اقسام کے کینسر کا باعث ہے
٭تمباکو پینے سے دل کی تکلیف، سٹروک، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
٭تمباکو الزائمر اور ذہنی دبائو بڑھانے کا باعث بنتا ہے
٭تمباکو یاداشت اور مجموعی طور پر ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے
٭تمباکو ہڈیوں کو کمزور کرنے کا باعث ہے
٭تمباکو کے استعمال سے نامردی کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں
٭تمباکو سونگھنے اور ذائقہ کی حس کو بھی متاثر کرتا ہے
٭تمباکو قبل ازوقت پیدائش اور نومولود کے کم وزن کا بھی باعث ہے
٭تمباکو دوران حمل استعمال کرنے سے نومولود میں موٹاپے اور بعدازاں شوگر کا مرض لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں

اپنے احساسات کا اظہار کریں
کسی بھی قسم کے احساس کو دبانے کے بجائے اپنے دوستوں، کولیگز، باس، ساتھی اور بچوں سے اس کا اظہار کریں، یعنی اگر آپ کو کسی بات یا معاملہ میں غصہ آ رہا ہے تو اس کا قطعاً یہ حل نہیں کہ آپ سگریٹ سلگا کر اندر ہی اندر کڑتے رہیں بلکہ آپ اپنے قریبی یا متعلقہ لوگوں کو بتائیں کہ آپ کو یہ بات پسند نہیں آئی، جس سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی عملی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ کو بوریت کا احساس ہو رہا ہے تو اس احساس کو قبول کرتے ہوئے دوسروں کو بتائیں کہ آپ بور ہو رہے ہیں، کیوں کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر آپ کو اپنا غم غلط کرنے کا ذریعہ سگریٹ ہی دکھائی دے گی۔

ایکوپنکچرسٹ سے ملاقات کریں
ایکوپنکچر(سوئی کھال میں چبھا کر بیماری کا علاج کرنا) ایک قدیم چینی طریقہ علاج ہے، جو آج دنیا بھر میں نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور آج اس طریقہ علاج کو تمباکو نوشی ترک کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے معروف نیچروپیتھک فزیشن اطہر علی کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ ایکوپنکچر کے ذریعے تمباکو نوشی کی عادت چھڑوائی جا سکتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں چھوٹی چھوٹی سوئیاں کانوں میں ڈالی جاتی ہیں۔ یہ عمل ایکوپنکچرسٹ کے پاس جائے بغیر خود بھی انجام دیا جا سکتا ہے، بس آپ کو جسم کے ان مخصوص پوائنٹس کا علم ہونا چاہیے، جہاں علاج کی غرض سے سوئی ڈالی جا سکتی ہے، جس کے بعد جب بھی سگریٹ کی طلب ہو تو ان سوئیوں کو تھوڑا دبا دیا جائے تو طلب بالکل ختم ہو جاتی ہے یا کم از کم اس میں کافی حد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔

ہمت مت ہاریں
اچھے کام کو انجام دینے میں ہار ماننا انسان کے مرتبے کے خلاف ہے، دنیا میں کچھ بھی ایسا نہیں، جس کو قدرت نے انسان پر فوقیت دی ہو۔ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے نیک نیتی کے ساتھ کسی بری عادت سے چھٹکارے کی پوری کوشش کرتے ہیں، تراکیب اختیار کرتے ہیں، لیکن پھر بھی بشری کمزوریوں کے باعث آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ تمباکو نوشی ایک بری اور مہلک لت ہے، جس کے نہ صرف خود پر بلکہ پورے خاندان اور معاشرے پر مضراثرات مرتب ہوتے ہیں، لہذا اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوشش جاری رکھنی چاہیے، کیوں کہ تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی کے تدارک کے لئے متعدد افراد نے ایک، دو یا تین نہیں بلکہ 8،8 بار تک کوشش کی اور بالآخر وہ اس کوشش میں کامیاب ہوئے۔

The post تمباکو نوشی کیسے چھوڑی جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ لوگ سیلفی بناکر کمال کرتے ہیں

$
0
0

افریقی ملک کانگو میں ہے ’’ویرنگوا نیشنل پارک‘‘ جہاں ہزاروں جانور محفوظ اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں، ان میں گوریلے بھی شامل ہیں۔

ایک خبر کے مطابق یہ گوریلے اپنے نگرانوں کے ساتھ خوشی خوشی تصاویر بنواتے ہیں بل کہ ان کی سیلفی میں شامل ہوتے ہوئے پوز بھی بناتے ہیں۔ اس خبر کی سُرخی ہے ’’گوریلے بھی سیلفی کے شوقین نکلے۔‘‘ اگر موبائل فون ان گوریلوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو یہ بھی اپنی سیلفی بنابنا کر دیکھ رہے ہوں گے۔

ڈارون کے نظریے کے مطابق گوریلے انسانوں کے اسلاف ہیں، تو پھر انھیں بھی آج کے انسان کی طرح سیلفی کا شوق کیوں نہ ہو!

سیلفی کا سلسلہ موبائل فون میں کیمرے کی سہولت سمانے کے بعد سے شروع ہوا ہے، اسمارٹ فون نے ’’سیلفیانے‘‘ کے شوق کو جنون میں بدل ڈالا ہے۔ جب تک یہ سہولت نہیں تھی لوگ آئینے میں خود کو دیکھ کر خود پر واری صدقے ہولیا کرتے تھے۔ آئینے کے بارے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ سچ بولتا ہے، حالاں کہ صرف وہی آئینہ سچ بولتا ہے جو دوسرا دکھائے اور اس سچ بولتے آئینے کو دیکھ کر دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے، جو آئینہ خود دیکھا جائے اس میں خود کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لوگ اپنے حُسن سے بے خود ہوجاتے ہیں۔

آئینہ کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اسے جیب میں ڈال کر باہر نہیں لے جایا جاسکتا، چناں چہ جہاں اپنا آئینہ میسر نہ ہو وہاں اپنا آپ دیکھنے کے لیے نسوار کی ڈبیا میں لگا شیشہ، کسی کی کار کا سائڈ مرر، دکانوں پر لگے تاریک شیشے اور دوسروں کی آنکھوں پر جمے کالے چشمے کام آتے تھے۔ اب موبائل فون نے اپنا عکس دیکھنا ہی نہیں اسے عظیم قومی ورثے کی طرح محفوظ کرنا بھی آسان کردیا ہے، اور اس عکس نے سیلفی کا نام پایا ہے۔

سیلفی کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ’’سیلفش‘‘ سیلفی ہوتی ہے جس میں صرف صاحب سیلفی کا رُخ روشن نظر آرہا اور اس کے سوا سب کو ڈرا اور یہ عبرت دلا رہا ہوتا ہے کہ خود کو قریب سے دیکھنا کتنا خوف ناک ہوتا ہے، دوسری قسم کی سیلفی ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کی عکاس ہوتی ہے۔۔۔۔ارے نہیں نہیں آپ غلط سمجھے۔۔۔۔یہ لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بی بی قندیل بلوچ کی وہ سیلفی نہیں جس میں مفتی قوی اپنے سارے تقوے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں، ہم ایسی تمام سیلفیوں کی بات کر رہے ہیں جن میں صاحب سیلفی اپنے منہ کے ساتھ دوسروں کا منہ لانے کی کوشش میں انھیں مطلوبہ زاویوں میں لاکر ان کے چہرے بگاڑ دیتا ہے، اور پھر اس سیلفی کو یوں فخریہ دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔۔ ایک میں ہوں کہ دیا سب کی ہی صورت کو بگاڑ۔۔۔۔۔

سیلفی لینا بعض لوگوں کے لیے سانس لینے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے ان خواتین وحضرات کو کسی پر اعتبار ہو یا نہ ہو اپنے ذاتی منہ پر ذرا اعتبار نہیں، انھیں ہر کچھ دیر بعد لگتا ہے کہ شاید وہ ایک گھنٹے پہلے والا منہ نہیں رہا۔ اس امید پر کہ شاید وہ کترینہ کیف لگنے لگی ہوں یا سلمان خان کا روپ دھار چکے ہوں، اور دماغ کا یہ پیغام سُن کر کہ ’’زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا‘‘ وہ جھٹ اپنی سیلفی لے کر دیکھتے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی سیلفی والوں کو۔۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِ’’خرافات‘‘ چاہیے۔

سو کوئی بھی موقع ہو ان کا مسئلہ صرف یہ تاریخی ریکارڈ جمع کرنا ہوتا ہے کہ کس شادی، کس منگی اور کس میت میں یہ موجود تھے اور کیسے لگ رہے تھے، تاکہ مستقبل کے مورخ کو ان عظیم شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے ذرا سی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔ دراصل اہل سیلفی وہ فلسفی ہیں جو ہمہ وقت خود پر روشنی ڈالتے اور اپنی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے لیے سیلفی کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر داغ دہلوی آج زندگی ہوتے تو اپنا مشہور زمانہ شعر یوں کہتے:

بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر اے داغ

یہ صرف سیلفی بنا کر کمال کرتے ہیں

The post یہ لوگ سیلفی بناکر کمال کرتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جھوٹے دعوے اور پھسلتی زبان

$
0
0

لوگ دوسروں کے نوالے گنتے ہیں مگر امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جھوٹ گنتا ہے۔

اب تک کی گنتی کے مطابق ڈونلڈٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد 800 دن میں 10 ہزار سے زائد جھوٹے دعوے کیے۔ واضح رہے کہ اخبار کے ’حقائق پر نظر‘ کے ڈیٹا بیس نے یہ رپورٹ ٹرمپ کی مدت صدارت کے آٹھ سو روز مکمل ہونے پر شایع کی۔ خبر کے مطابق اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر 5 جھوٹے دعوے کیے ہیں۔

فارسی کا محاورہ ہے ’’حسابِ دوستاں دَر دل‘‘ یعنی دوستوں کے مابین حساب کتاب دل ہی میں رہتا ہے، اگرچہ ٹرمپ صاحب امریکیوں کے نادان دوست سمجھے جاتے ہیں، مگر ہیں تو دوست ناں، یوں تو خود امریکا کی دوستی بھی ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ کی عملی تفسیر ہے، بہ ہر حال دوست دوست ہوتا ہے، چناں چہ امریکی اخبار کو امریکی صدر کے جھوٹ کا حساب نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی شاعر، شوہر اور سیاست داں کے جھوٹ کو ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی‘‘ کی چھوٹ حاصل ہے، ان کے جھوٹ گِننا تو کجا انھیں جھوٹ سمجھنا بھی نہیں چاہیے۔

ضروری بھی نہیں کہ ٹرمپ صاحب کے جس قول یا دعوے کو دروغ گوئی سمجھا اور گنا جارہا ہے وہ الفاظ انھوں نے سوچ سمجھ کر ادا کیے ہوں۔ کچھ سیاست دانوں اور حکم رانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان پھسل جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی سائنسی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ شاید اقتدار کے لیے برسوں مسلسل رال ٹپکنے کے باعث ان کے منہ میں بہت پھسلن ہوجاتی ہے، سو زبان پھسلتی رہتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عرصے تک عوام کو بہلانے پھسلانے اور دن رات چکنی چپڑی باتیں کرنے کی وجہ سے منہ میں چکنائی کا تناسب اس قدر بڑھ گیا ہو کہ زبان پھسل پھسل جائے۔

ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں، اس لیے محاوروں کے سمجھنے میں اکثر چوک ہوجاتی ہے یا یوں کہیے کہ پھسل جاتے ہیں، ہمارے خیال میں جس طرح پھسلنے فرش پر مٹی ڈال کر پھسلن ختم کی جاتی ہے، اسی طرح ’’مُنہ میں خاک‘‘ کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

ابھی پاکستان میں جھوٹے دعوے گننے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، ورنہ تارے اور بال گننے کی طرح یہ شماری دن رات جاری رہنے کے باوجود ختم نہ ہوتی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ایسے دعوے اور وعدے گننے سے بہتر ہے کہ دن گنے جائیں۔

The post جھوٹے دعوے اور پھسلتی زبان appeared first on ایکسپریس اردو.


کچھ آئے نہ آئے غصہ آتا ہے

$
0
0

امیرمینائی نے کہا تھا
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

شاعر نہ جانے کس مٹی کا بنا ہے، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس سرزمین کی مٹی کا تو نہیں بنا، اس مٹی سے بننے والوں کو شاعر کے محبوب کی طرح کچھ آئے نہ آئے غصہ ضرور آتا ہے، اور اب تو یہ بات پایۂ تحقیق تک بھی پہنچ چکی ہے۔

مشہور زمانہ ادارے گیلپ نے مختلف ممالک کے باسیوں کے جذباتی رویوں سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں اقوام عالم میں غصے کا تناسب پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان دسویں نمبر پر جگمگا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستانیوں کے غصے سے ڈر کے انھیں دسویں نمبر رکھا گیا ورنہ ہم سے زیادہ غصہ کس قوم کو آتا ہوگا۔ اگر مولانا الطاف حسین حالی ہمارا حال لکھتے تو یوں لکھتے:

کہیں دیر سے کھانا لانے پہ غصہ

کہیں پیٹ بھر کے نہ کھانے پہ غصہ

کہیں کار آگے بڑھانے پہ غصہ

کہیں لال بتی کے آنے پر غصہ

نہائے کوئی تو نہانے پہ غصہ

کوئی گھر پہ آئے تو آنے پہ غصہ

چلا کوئی جائے تو جانے پہ غصہ

صبح جلدی اُٹھنے اُٹھانے پہ غصہ

میاں چائے مانگے، پلانے پہ غصہ

کہے بیوی یہ لادو، لانے پہ غصہ

غصہ روزمرہ کی زندگی سے لے کر ہمارے شاعری، فلم، سیاست اور صحافت تک ہر جگہ اپنے جلوے دکھاتا ہے۔ شاعر کا اشتعال ۔۔۔’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں، اس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں، ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں‘‘ کے عزائم سامنے لاتا ہے، پھر غصہ بڑھتا ہے تو ’’توڑدوں‘‘ اور ’’پھونک‘‘ دوں کے ارادوں میں ڈھل جاتا ہے۔ خیر ہوئی کہ ہمارے شاعر خلاء چھوڑ جاتے ہیں خود خلاء میں نہیں جاتے ورنہ اب تک چاند تارے نوچ کر بلیک ہول میں پھینکے جاچکے ہوتے۔

شاعر بے چارہ محبت کرے یا غصہ دعوے ہی کر سکتا ہے، نہ تارے نوچ سکتا ہے نہ توڑ کر محبوب کی مانگ میں سجانے کے قابل ہے، مگر فلمی دنیا میں سب کر دکھایا جاتا ہے۔ یوں تو ہماری اردو فلموں میں بھی ہیرو کا غصہ ’’سیٹ کے سیٹ‘‘ پھونک ڈالتا ہے، لیکن اگر فلم پنجابی ہو تب تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ ہیرو کو غصہ آئے گا، وہاں تو پوری فلم میں ہیرو کا غصہ جاتا ہی نہیں۔ اُسے تو پیار لُٹاتی اور ناچتی گاتی ہیروئن پر بھی طیش آرہا ہوتا ہے کہ ایویں ٹائم ضائع کر رہی ہے ورنہ اب تک میں دس بارہ بندے پھڑکا چکا ہوتا۔

سیاست بہت تحمل اور برداشت مانگتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسے سیاسی راہ نماؤں کی کمی نہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے سیاست نہیں غصہ کر رہے ہیں۔ بہت سے سیاست دانوں کا طرزحکم رانی بتاتا ہے کہ وہ سیاست میں آئے ہی عوام پر غصہ اُتارنے کے لیے تھے۔ جب اُن کا غصہ اور عوام کے کپڑے اُتر جاتے ہیں تب کہیں جا کر وہ کُرسی سے اُترتے ہیں۔ جس طرح حصہ بہ قدر جُثہ کا اصول ہے، اسی طرح بعض سیاست دانوں کا غصہ بہ قدر حصہ ہوتا ہے۔ یعنی جتنا اقتدار میں حصہ اتنا ہی حکومت پر کم غصہ۔ کچھ کا غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے، یہ دھرے دھرے یوں چپک جاتا ہے کا ناک رگڑ کر ہی اس سے چھٹکارا ملتا ہے۔

صحافت ٹھنڈے دماغ سے کرنے والا کام ہے، مگر دماغ ٹھنڈا ہو تو ریٹنگ بھی ٹھنڈی رہتی ہے، اس لیے انگارے اُگلنا پڑتے اور چنگاریاں برسانا پڑتی ہیں۔ اس معاملے میں بعض اینکر انسانی شکل میں آئل ٹینکر ہوتے ہیں جنھیں بس تیلی دکھانے کی دیر ہوتی ہے۔ تیلی اور سُرخ رومال دکھانے کے لیے چینل خصوصی طور پر ایک عدد نوجوان بھرتی کرتے ہیں، جو سنیئر صحافی کے عین سامنے یوں بیٹھا ہوتا یا بیٹھی ہوتی ہے جیسے کسی زمانے میں خواتین لکڑی والے چولہے کے سامنے بیٹھ کر آگ بھڑکاتی تھیں۔ اسی قبیل کے تجزیہ کار بھڑکنے میں خودکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ احباب کے مشورے پر اس نوع کے اینکر اور تجزیہ کار غصہ پیتے ہیں، مگر مصیبت یہ ہے کہ صرف غصہ ہی نہیں پیتے، اس لیے پی کر غصہ اور بڑھ جاتا ہے، جسے وہ آن ایئر تھوکتے ہیں۔

اب آپ ہی بتائیے اتنی غصیلی قوم کو جو ووٹ بھی غصے میں دیتی ہو، غصہ ور اقوام کی فہرست میں دسویں نمبر پر رکھنا کہاں کا انصاف ہے!

The post کچھ آئے نہ آئے غصہ آتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

’’دیکھتے ہی دیکھتے مناظر بدل گئے‘‘

$
0
0

جیسے ہی ریڈیو پاکستان پر رمضان کے چاند کا اعلان ہوا، ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ بزرگوں نے بچوں کو پیار اور دعائیں دیں یہ وہ زمانہ تھا کہ جب موبائل فون کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔

ٹیلی فون بھی اکاّدکا گھرانوں میں لگے ہوئے، تمام سرکاری ونیم سرکاری دفاتر میں بھی یہ سہولت عام نہ تھی۔ پی ٹی وی کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان قائم ہونے سے لیکر 1977 ء تک لاہور میں یہی مناظر نظر آتے تھے۔1965 ء میں جب پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو ٹیلی ویژن پر بھی چاند نظر آنے کی خبر نشر کی جانے لگی، ایک ہی چینل ہوتا تھا۔ موجودہ دوَر کی طرح چینلوں کی بہتات نہ تھی نہ ہی بریکنگ نیوز کا رواج تھا، جو لوگ پاس ہوتے وہ ایک دوسرے کومبارک باد دیتے،جن کے عزیز رشتہ داردور ہوتے وہ انھیں یاد کرکے اداس ہو جاتے۔

چاند نظر آتے ہی مساجد میں نقارہ (نوبت) بجا کر گویا اعلان کردیا جاتا۔کہیں کہیں سے سائرن کی آواز بھی آنے لگتی۔ بازاروں میں چہل پہل شروع ہو جاتی، محلے کی کریانے کی دوکانوں پر رش ہو جاتا، اس زمانے میں بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور بھی نہیں ہوتے تھے، اس زمانے میں ابھی کلو کا پیمانہ متعارف نہیں ہوا تھا۔ چھٹانک، سیر اور پاؤ کا حساب کتاب ہوتا تھا۔ کھانے کا آئل بھی نہیں ہوتا تھا، دیسی گھی اور بناسپتی گھی ہوتا تھا، لوگ عموماً دیسی گھی ہی خریدتے تھے، بناسپتی گھی بہت ہی کم فروخت ہوتا تھا، لوگ چھپ چھپا کر یہ گھی خریدتے تھے کہ اسے مصنوعی گھی قرار دیا جاتا تھا ۔

پیکنگ میں اشیاء دستیاب نہیں ہوتی تھیں ۔ پرچون فروش اپنے ترازو پر ایک ایک چیز کرکے تولتے تھے، پرچون فروشوں نے اپنے سامنے دس بارہ کھلے مُنہ کے کنستر رکھے ہوتے تھے جن میں اشیائے خورونوش بھری ہوتی تھیں۔ لوگوں کے پاس آج کی طرح پیسے کی بہتات نہ ہوتی تھی۔ زیادہ تر گھرانے روزمرہ کا سودا خریدتے تھے۔ مگر رمضان کی آمد پر چھٹانک، آدھ پاؤ کی بجائے سیر یا سواسیر کے حسا ب سے اشیاء خریدی جاتی تھیں۔ پورا رمضان خریداری کا یہی طریقہ چلتا تھا۔

خواتین چاند نظرآنے کی اطلاع مِلتے ہی سحری کی تیاری شروع کردیتیں،اُس زمانے میں فریج بھی بہت ہی کم ہوتے تھے،کھانے پینے کی اشیاء کو زیادہ دیر رکھنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔ اگر کچھ کھانا بچ جاتا تو وہ باسی ہی ہو جاتا تھا۔ گرمیوں میں تو اور بھی مشکل ہوتی، سحری کا وقت شروع ہوتے ہی ’’کنستر‘‘ پیٹنے والے اور ڈھول والے گلیوں اور بازاروں میں پھیل جاتے وہ ہر دروازے پر اسوقت تک کنستر یا ڈھول بجاتے کہ جب تک اہل خانہ اپنے جاگنے کا اعلان نہ کردیتے، پھر نعت خوانوں کی ٹولیاں گلیوں اور بازاروں میں نِکل آتی تھیں، وہ خوش الہانی سے نعت گوئی کرتے، ان کی نعت گوئی سے شہر میں عجیب سا سماں بندھ جاتا۔ فضا میں تقدس کا احساس ہوتا،ایک دم فضا بدلی ہوئی نظر آتی شہریوں کی زندگیوں میں بھی ایک تبدیلی آجاتی ،لوگ گناہ سے بچنے کا عہد کرتے، اور اپنی زندگیوں میں پاکیزگی کا رنگ بھر دیتے۔

اُس زمانے میں لاہور کی آبادی نہایت محدود تھی، نئی آبادیوں کا وجود نہ تھا، ماڈل ٹاؤن کو بھی لاہور سے باہر سمجھا جاتا تھا۔ سمن آباد اور شادمان کو لاہور کی جدید آبادی سمجھا جاتا اور اسے لاہور کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔اچھرہ کی آبادی معمولی سی تھی یہاں رہنے والے مال روڈ سے آگے جانے کیلئے جگہ کا نام لینے کی بجائے’’ شہر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے یعنی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ گوالمنڈی یا موچی دروازہ وغیرہ جا رہے ہیں بلکہ یہ کہتے تھے کہ’’شہر‘‘جا رہے ہیں۔ اب تو لاہور شہر اِتنا پھیل چکا ہے کہ لاہور کے ’’مضافات‘‘اور قریبی قصبے بھی شہر کا ہی حصہ بن چکے ہیں۔

رمضان کا اعلان ہوتے ہی ریستوانواں اور کھانے پینے کی دکانوں کے آگے پردے لگادیئے جاتے تھے ۔اس زمانے میں ضیاء الحق کا رمضان آرڈینس نہیں آیا تھا چنانچہ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں کھُلی رہتی تھیں مگر حیرت انگیز بات تھی کہ کھانے پینے کے ہوٹل اور دکانیں کھلی رہنے کے باوجود وہاں رش نہیں ہوتا۔ لوگ رمضان میں ہوٹلوں یا دکانوں پر جا کر کھا نا نہایت معیوب سمجھتے تھے، اکا دکا گاہک نظر آتا جو کہ کھانے پینے کا ساما ن لوگوں سے چھپ چھپا کر گھروں یا دکانوں میں لے کر جاتے تھے۔

احترام رمضان لوگوں کے دِلوں میں تھا ۔ لوگ اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کے چکر میں رہتے تھے۔ افطاری کے وقت لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں افطاری ضرور بھجواتے تھے۔ مسجدوں میں بھی کھجوریںوغیرہ بھجوائی جاتی تھیں،افطاری کا سامان عموماً سادہ ہی ہوتا تھا۔ مگر رزق حلال سے تیار کردہ سامان افطاری اور سحری کی اپنی ہی برکت اور ذائقہ ہوتا تھا۔ جیسے ہی افطاری کا وقت ہوتا مسجدوں سے نقارہ اور نوبت کی آوازیں بلند ہوتیں، اور فضا میں سائرن کی آوازیں بھی واضح طور پر سنائی دیتی تھیں ۔

لوگ ایک دوسرے کو خاص طور پر افطاری کیلئے بلُواتے تھے، زیادہ سے زیادہ افراد کو افطاری کروانا باعث اجّر وثواب سمجھا جاتا تھا ۔ افطاری کا سامان گھروں میں ہی تیار کیا جاتا تھا ۔ سموسوں،کچوریوں اور ایسی اشیاء کا رواج نہ تھا، فروٹ چاٹ اور دہی بھلے بھی دسترخوانوں کی زینت نہ بنتے تھے، نہ ہی رول پٹی اور چھوٹے سموسے استعمال کئے جاتے تھے۔ لوگوں کے دِل میں ایک دوسرے کا احساس ہوتا تھا ۔ روزہ اللہ ہی کیلئے رکھا جا تا تھا ۔ اور صرف فاقے یا ’’ڈائٹنگ‘‘کو روزہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کی اصل روح کو سمجھا جاتا تھا ۔ سحری اور افطاری کا سامان رزقِ حلال سے ہی خریدا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو گالی دینے یا لڑنے جھگڑنے سے اجتناب کرتے۔ ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرتے، فلمیں دیکھنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا اس لئے رمضان المبارک میں سنیما گھروں میں بہت ہی کم افراد جاتے، موجودہ دور کی طرح چینلوں کی بہتات نہ تھی ۔ مساجد میں تراویح کا بھی خاص اہتمام کیا جا تا، آبادی کم ہونے کے باوجود بھی مساجد بھری رہتی تھیں۔

اس وقت لاہور کی آبادی تقریباً 20 لاکھ تھی ۔ پھر ضیاء الحق کی ’’خلافت‘‘ کا آغاز ہوا ۔ ملک بھر میں رمضان آرڈ یننس نافذ کردیا گیا کہ کھانے پینے کے تمام ہوٹل اور دکانوں کو افطاری سے قبل بند رکھنے کا حکم دیا گیا۔ صرف ہسپتال اور اسٹیشن اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ آج تک اس آرڈنیس پر عمل ہو رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ پہلے لوگ دینی احکامات سمجھ کر اپنے تئیں رمضان کا احترام کرتے تھے اگر کوئی کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتا تھا تو کم از کم روزے کا احترام ضرور کرتا تھا حتیٰ کہ قیام پاکستان سے قبل ہند و، سکھ اور عیسائی بھی رمضان کا احترام سمجھتے تھے۔ مگر جب سرکاری احکامات نازل ہوئے تو لوگوں کے دِلوں میں دینی احکامات کی پابندی اور حُرمت کا جذبہ ماند پڑگیا، سرکاری احکامات کا خوف غالب آگیا۔

گھروں اور بند دروازوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ نیکی کا جذبہ صرف انسان کے اپنے اندر پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان اللہ کے خوف سے اس کو حاضر وناظر جانتے ہوئے اسکی رضا کیلئے دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی گناہ سے بچے ہروقت نیکی کرنے کی کوشش کرے۔اپنی اولاد، مال، طاقت اور عہدے کو اللہ کی امانت اور آزمائش سمجھے ۔گناہ کے مواقع ہونے کے باوجود بھی صرف اللہ کے خوف اور ناراضگی کے ڈرکی وجہ سے گناہ سے دور رہے۔ روزے کا مفہوم ہی نفس کشی،کردار سازی، ایک دوسرے کا احساس، جذبہ قربانی اور ایثار ہے۔

قرآنی احکا مات کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ دینی احکا مات اور ریاستی قوانین میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ دینی معاملات میں صرف اللہ کی رضا اورخوشنودی کیلئے سب کچھ کیا جاتا ہے۔ عمل العباد اور حقوق اللہ کا خیال اسکی رضا کیلئے کیا جا تا ہے اور یہ تصور پُختہ ہوتا ہے کہ اللہ ہر قت دیکھ رہا ہے ، جبکہ ریاستی قوانین میں صرف یہ احساس ہوتا ہے کہ جرم کا ارتکاب اگر قانون کی نظر میں آگیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے پکڑ لیں گے، اگر انکی مّٹھی گرم نہ کی گئی تو ایف آئی آر بھی کاٹ دیں گے۔ اسلامی معاشرے میں اسوقت دینی فضا نظر آتی ہے کہ جب لوگ اللہ کے خوف کی وجہ سے گناہ سے بچیں، خلوت اور جلوت میں بھی اللہ کو حاضر و ناظر سمجھیں ۔

اب دِور جدید میں ہر شے بدل چکی ہے، شام کے وقت سموسوں، کچوریوں ، چاٹ اور دہی بھلے کی دکان پر اس قدر رش ہوتا ہے کہ کتنی دیر باری نہیں آتی ۔ افطاری میں کئی اقسام کی چیزیں رکھی جاتی ہیں ۔ سموسے، کچوریا ں ، چکن رول، سبزی رول، بیکری کی اشیاء ،دہی بھلے، فروٹ چاٹ، کھجوریں اور مختلف انواع کے مشروبات ، اسی طرح سحری میں بھی اب دیسی گھی کے پراٹھوں کی بجائے بیکری کی اشیاء پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔

افطاریوں کا ماحول بھی بدل چکا ہے۔ پہلے ثواب کی نیت سے عزیزوں ، رشتہ داروں، محلہ داروں اور دوستوں کی افطاری کی جاتی تھی کہ روزہ کھلوانے کا اجر بھی روزہ رکھنے کے برابر ملتا ہے مگر اب سیاسی افطاریاں، صحافتی افطاریاں، فلمی افطاریاں، فنڈ ریزنگ افطاریاں،کاروباری افطاریا ں ، نمودنموئش والی افطاریاں اور سرکاری افطاریاں کروائی جاتی ہیں۔ ان افطاریوں میں عموماً بااثر شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ کل کلاں ان سے فائدے حاصل کئے جا سکیں۔

زکوٰۃاد ا کرنے کا تصور بھی تبدیل ہو چکا ہے، پہلے اسلامی احکامات کے مطابق اپنے غریب رشتہ داروں، عزیزوں، محلہ داروں اور واقف کاروں کو اس طرح زکوٰۃادا کی جاتی تھی کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور انھیں ماہ صیام اور عید کیلئے مالی دشواریوں کا سامنا نہ ہو، اب تو زکواۃٰ کی ادائیگی کی بھی خوب نمودو نمائش کی جاتی ہے، گھروں کے باہر سینکڑوں افراد کا جم گھٹا لگا ہوتا ہے کئی گھنٹوں کھڑا رکھنے کے بعد فی کس 100/200 روپے ادا کئے جاتے ہیں ۔ متوسط طبقہ میں زکوٰۃکی رقم سے راشن پیکج خرید کر اپنی کام والیوں کو دیدیا جاتا ہے کہ وہ راشن کے لالچ میں زیادہ محنت سے کام کریں اور ساتھ ہی ان سے وعدہ لے لیا جا تا ہے کہ وہ عید پر چھٹی نہیں کریں گی۔ امیر طبقہ اپنے باقی ملازمین میں بھی زکوٰۃکی رقم بانٹ دیتا ہے، تاجر طبقہ اس طرح زکواۃٰ ادا کرتا ہے کہ انکا ٹیکس بچ جائے۔

رمضان میں نیکی اور عبادات کے متعلق مسلمانوں کیلئے یہ خوشخبری ہے کہ اس ماہ میںفرض عبادات کا اجر ستر گنا زیادہ ادا کیا جائے گا، نفلی عبادات کا اجر فرض عبادات کے برابر دیا جائے گا، چونکہ زکوٰۃفرض ہے اس لئے پاکستان کے زیادہ تر مسلمانوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ماہ رمضان میں زکوٰۃادا کی جائے، مستحق افراد تک زکوٰۃپہنچانے کی بجائے غیر مستحق افراد اور اداروں کو اس طرح زکوٰۃادا کی جاتی ہے کہ جیسے زکوٰۃسے ’’چھٹکارا ‘‘ حاصل کیا جارہا ہے۔ اسلام کے اس معاشی و اقتصادی نظام کو ہی فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جس میں طبقاتی تفریق کم ہوتی ہے۔ مجبور اور بے بس افراد کی محرومیوں میں کمی ہوتی ہے، بے سہارا افراد کے مالی مسائل حل ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں غیر مسلم اپنے تہواروں پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں ماہ شعبان سے ہی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تمام اشیاء کی قیمتوں میں کم از کم تیس سے ساٹھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں دوسو فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت رمضان پیکج کے نام پر اشیائے صرف پر سبسڈی دیتی ہے مگر پھر بھی قیمتیں رمضان سے پہلے کی قیمتوں سے بھی زیادہ رہتی ہیں، تاجر اور صنعتکار پہلے ہی اضافہ کردیتے ہیں۔

اس سال بھی پنجاب حکومت نے عوام کو سبسڈی دینے کیلئے 12ارب روپے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب میں 300 سستے رمضان بازار بھی لگوائے ہیں۔ 200 دسترخوان بھی لگائے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود قیمت خرید عوام کی برداشت سے باہر ہے۔

رمضان کا وہ تقدس ہی مفقود ہو چکا ہے کہ جو چند سال پہلے لاہور میں نظر آتا تھا۔ ثقافت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب تو افطاری اور سحری کی نشریات کے دوران روزہ رکھا اور افطار کیا جا تا ہے۔ روزہ داروں کی توجہ دعاؤں کی بجائے چینلوں کے پروگرامز کی جانب ہوتی ہے۔ ٹی وی پروگرامز دیکھ کر روزہ گزارہ جاتا ہے۔ اب رمضان شریف میں وہ فضا اور تقدس نظر ہی نہیں آتا کہ جو ہر مسلمان کو اپنی زندگی بدلنے پر مجبور کردیتا تھا۔ مسلمان اس ماہ کو ریفریشر کورس کی مانند لیتے تھے کہ جس کا اثر وہ پورا سال محسوس کرتے تھے ۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ماہ رمضان میں بھی اگر بندے کی بخشش نہ ہو سکے۔

The post ’’دیکھتے ہی دیکھتے مناظر بدل گئے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

روزہ طبّی سائنس کی روشنی میں

$
0
0

جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آئے، تو دنیا بھر میں مسلمان ذوق و شوق سے روزے رکھتے ہیں۔ دن بھر کھانے، پانی، جھوٹ، غصّہ، گالم گلوچ وغیرہ سے پرہیز ہوتا ہے۔

روزہ رکھنا محض مذہبی فریضہ نہیں یہ مسلمان کو جسمانی و روحانی فوائد بھی عطا کرتا ہے۔ روزہ خصوصاً انسان کو تندرستی دینے کی ایسی زبردست حکمت عملی ہے جسے اللہ تعالی نے بطور تحفہ اپنے بندوں کو عطا فرمایا۔ جدید طبی سائنس اب اسی حکمت عملی میں پوشیدہ سائنسی حقائق دریافت کررہی ہے۔

اسی تحقیق کا نتیجہ ہے، یورپ اور امریکا کے کروڑوں لوگوں میں فاقہ کشی کرنے کے مختلف طریقے مقبول ٹرینڈ یا رجحان بن چکے۔اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل مسلمانان عالم کو رمضان المبارک کا تحفہ عطا کیا تھا۔ تب طبی سائنس گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ مگر خدائے برتر و بزرگ کو علم تھا کہ روزے کے عمل میں انسان کے لیے جسمانی و روحانی فوائد پوشیدہ ہیں۔ اسی باعث روزہ رکھنا ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ۔

یہ خدائے پاک کی بنی نوع انسان سے محبت اور اس کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جدید طبی سائنس چودہ سو برس بعد اس حقانیت سے واقف ہورہی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ اگر طبی طور پہ درست طریقے سے روزے رکھے جائیں تو محض تیس دن میں انسان صحت کی دولت پا لیتا ہے ۔وزن کم ہوتا ہے،بلڈ پریشر میں کمی آتی ہے اور انسان زیادہ چاق وچوبند ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ معجزہ جنم لینے کی وجوہ کیا ہیں؟بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزے رکھنے کا عمل انسانی جسم میں نہایت چھوٹی یعنی خلویاتی سطح پر ایسی حیرت انگیز تبدیلیاں لاتا ہے جو انسان کو تندرستی کی راہ پہ گامزن کر دیتی ہیں۔طبی سائنس سے منسلک ماہرین نے پچھلے چند برس کے دوران خلویاتی سطح پر تحقیق و تجربات کرنے سے ہی جانا ہے کہ روزے رکھ کر دن بھر بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کی صحت کیونکر بہتر ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیائے مغرب میں کروڑوں مرد و زن مسلمانوں کی دیکھا دیکھی سال کے مخصوص مہینے یا مہینوں کے مخصوص دنوں میں فاقہ کرنے لگے ہیں۔

امریکا اور یورپی ممالک میں ڈاکٹر فاقہ کشی کرنے کے اپنے خصوصی غذائی پروگرام ترتیب دے چکے جنہیں مقبولیت مل رہی ہے۔ ان کی بدولت ڈاکٹر سالانہ کروڑوں ڈالر کمارہے ہیں۔ اسی طرح کئی کمپنیاں فاقہ کشی سے متعلق مخصوص غذائیں تیار کررہی ہیں۔ دنیائے مغرب میں فاقہ کشی کی صنعت اربوں ڈالر مالیت کی ہوچکی۔طبی سائنس نے پچھلے چند برس کے دوران روزہ رکھنے (یا دن بھر فاقہ کرنے) کے جو فوائد دریافت کیے  ان کا بیان درج ذیل ہے۔

چربی کا خاتمہ

امریکا کی یونیورسٹی آف فلوریڈا میں تین ماہرین غذائیات… ڈگلس بین ‘ مارٹن ویگمن اور مائیکل گاؤ پچھلے دو برس سے اس امر پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جب انسان کئی دن کھانے پینے سے دور رہتا اور فاقے کرتا ہے تو انسانی جسم پر کس قسم کے اثرات پیدا ہوتے ہیں؟رمضان المبارک کے مہینے سے متاثر ہو کر ہی ان کی تحقیق کا آغاز ہوا۔ان ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ قدیم انسان بھی فاقے کرتے تھے۔ جب ان کے علاقے میں غذا کثرت سے ہوتی، تو وہ خوب کھانا کھاتے۔ مگر جب غذا نایاب ہو جاتی ‘ تو قدیم انسان کئی دن فاقے کرتے۔ یہی وجہ ہے‘ انسانی بدن کے خلیے بھوک اور قحط کا عمدگی سے مقابلہ کر لیتے ہیں۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ روزے رکھنے سے جب بدن میں شکرِ خون  (بلڈ شوگر) یا گلوکوز کی مقدار کم ہو جائے‘ تو اس عمل سے انسان کو طبی فوائد ملتے ہیں۔ یاد رہے‘ جب ہم کھانا کھائیں‘ تو ہمارا جسم غذا  سے شکر حاصل کرتا ہے۔ یہ شکر بھی جسم کا ایندھن ہے۔ خون ہر عضو تک یہ ایندھن پہنچانے کا ذمے دار ہے۔انسانی جسم میں جگر‘ پتہ اور آنتیں شکر کی مقدار متوازن رکھتی ہے۔ اگر زیادہ کھانا کھانے سے جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جائے‘ تو پتہ ایک ہارمون ‘ انسولین خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون زائد شکر کو گلائیکو جن (glycogen) مادے کی صورت جگر میں جمع کر دیتا ہے۔

انسانی جسم میں شکر کی مقدار کم ہو جائے تو جگر ایک ہارمون ‘ گلوکوجن (glucagon) خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون جسم میں جمع گلائیکو جن کو دوبارہ شکر میں تبدیل کر کے اسے خون میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ انسانی بدن کو روزمرہ کام کاج کرنے کی خاطر توانائی ملتی رہے۔ اگر جگر میں جمع گلائیکوجن ختم ہونے لگے‘ تو وہ اس کی بچی کچھی مقدار بچا لیتا ہے۔ یہ گلائیکوجن اب شکر کی صورت اہم انسانی اعضا مثلاً دماغ ،دل اور گردوں کو ایندھن یا توانائی فراہم کرے گا۔جگر پھر بقیہ انسانی اعضا کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے انسان کے بدن میں موجود چربی کو ’’کیٹونیس‘‘ (ketones)  کیمیائی مادوں میں بدل دیتا ہے۔ یہ کیٹونیس مادے بقیہ اعضا کے خلیوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام دے سکیں۔

ایک نارمل انسان کے بدن کو کیٹونیس مادہ نقصان نہیں پہنچاتا ۔ لیکن انسان  ذیابیطس  میں مبتلا ہے تو خون میں کیٹونیس مادے کی زیادتی اسے کئی مسائل میں گرفتار کر وا سکتی ہے۔ مثلاًقے آنا‘ سانس لینے میں مشکل ‘ دل تیزی سے دھڑکنا‘ گھبراہٹ‘ وغیرہ۔ اگر فوری علاج نہ ہو تو انسان مر بھی سکتا ہے ۔ اسی لیے ذیابیطس کا شکار مریضوں کو دیکھ بھال کر روزہ رکھنا چاہیے۔بہر حال نارمل انسان میں چربی ختم ہونے سے اسے سمارٹ اور تندرست بننے میں مدد ملتی ہے۔

موٹاپے کا شکار ذیابیطس میں مبتلا مرد و زن بھی روزے رکھ کر چربی سے نجات پا سکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ اپنے خون میں کیٹونیس مادہ بڑھنے نہ دیں اور اس کی مقدار اعتدال میں رکھیں۔وزن میں کمی دراصل طوالت عمر کی کنجی اور بڑھاپا روک حکمت عملی ہے۔ جانوروں اور انسانوں پر کیے گئے طبی تجربات سے ثابت ہو چکا کہ کم وزن رکھنے والے جان دار فربہ جانداروں کی نسبت زیادہ عرصے زندہ رہتے ہیں۔

مضر صحت آزاد اصلیے

انسان اربوں خلیوں کا مجموعہ ہے۔ یہی خلیے شکر کے ذریعے جسم کو درکار توانائی پیدا کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ایک خطرناک ضمنی پیداوار (بائی پروڈکٹ ) ’’آزاد اصلیے‘‘(free radicals) بھی جنم لیتی ہے۔ یہ ایسے  سالمات (مالیکیول) ہیں جن میں الیکٹرون نہیں ہوتا لہذا وہ شتر بے مہار غنڈے بن جاتے ہیں ۔وہ  خلیوں پر حملے کر کے ان کا الیکٹرون چراتے اور انھیں  ناکارہ بناتے ہیں۔قدرت الٰہی نے مگر آزاد اصلیے ختم کرنے کی خاطر انسان سمیت تمام جانداروں میں ’’ضد تکسیدی مادے‘‘ (antioxidants) پیدا کر دیئے ۔یہ مادے مسلسل آزاد اصلیوں کو الیکٹرون دے کر انھیں غیر مضر سالمات یا شرفا میں بدلتے رہتے ہیں۔ یوں انسانی جسم میں آزاد اصلیوں کی تعداد بڑھنے نہیں پاتی اور انسان تندرست رہتا ہے۔

انسان مگر مضر صحت غذا کھائے‘ تمباکو نوشی کرے‘ کیڑے مار ادویہ سے لت پت کھانے ہڑپ کرے‘ تو یہ اشیا جسم میں آزاد اصلیے زیادہ تعداد میں پیدا کرتی ہیں جنھیں ضد تکسیدی مادے ختم نہیں کر پاتے۔ چنانچہ آزاد صلیے پھر خلیوں پر حملے کر کے انسان کو موذی امراض مثلا کینسر‘ امراض قلب ‘ ذیابیطس ‘ ہائی بلڈ پریشر ا ور دیگر بیماریوں کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ یہی بیماریاں پھر انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر تیں اور آخر کار اسے قبر میں پہنچا دیتی ہیں۔ہر خلیے کا ایک مخصوص حصہ شکر سے توانائی بناتا ہے۔ یہ حصہ ’’مائٹوچونڈریا‘‘ (mitochondria) کہلاتا ہے جسے آپ خلیے کا بجلی گھر سمجھ لیجیے۔سائنس داں جان چکے کہ جب مائٹو چونڈریا میں کوئی نقص پیدا ہو  تو خلیہ زیادہ آزاد اصلیے بنانے لگتا ہے۔ جدید طبی سائنس نے اسی مائٹوچونڈریا کے حوالے سے روزے رکھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ دریافت کیا ہے۔

مائٹوچونڈریا ختم ہوتے ہیں

انسان جب ماہ رمضان میں متواتر روزے رکھے تو خلیوں کو دن بھر وافر شکر نہیں ملتی۔ تب انسانی خلیوں کو چربی اور انسانی جسم میں محفوظ دیگر غذائی مادے استعمال کر کے توانائی بنانا پڑتی ہے۔اس حالت میں خلیے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے خراب مائٹوچونڈریا سے نجات پا کر نئے تشکیل دے ڈالیں ۔ یوں ماہ رمضان کے دوران جو انسان باقاعدگی سے روزے رکھے اور صحت بخش غذا کھائے، اس کے لاکھوں کروڑوں خلیے اپنے ناقص مائٹوچونڈریا ختم کر ڈالتے ہیں۔یہ روزوں کا بہت بڑا طبی فائدہ ہے جو جدید سائنسی تحقیق سے سامنے آیا۔ وجہ یہ کہ روزے دار اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر کے اپنے خراب مائٹو چونڈریا سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔

اس طرح روزے دار کے جسم میں آزاد اصلیوں کی تعداد مسلسل کم ہونے لگتی ہے۔ یوں وہ  صحت و تندرستی کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ آزاد اصلیے کم ہونے سے اکثر اوقات موذی بیماریوں کی شدت بھی گھٹ جاتی ہے اور انسان افاقہ محسوس کرتا ہے۔ اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ آزاد اصلیے گھٹنے سے روزے دار کی عمر بڑھ جاتی ہے۔گویا روزے رکھنا عمر میں اضافے کا ایک آسمانی تحفہ اور سہل ذریعہ ہے۔

یاد رہے، جب انسانی بدن میں آزاد اصلیوں کی تعداد بڑھ جائے، تو یہ حالت سائنسی اصطلاح میں ’’آکسیڈیٹوسٹریس‘‘ (oxidative stress) یا تکسیدی دباؤکہلاتی ہے۔ یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک حالت ہے۔ اس کیفیت میں میں انسان اندرونی سورش (inflammation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ حالت پھر خلیوں، پروٹین مادوں اور ڈی این اے کو نقصان پہنچاتی ہے۔اسی نقصان  کے باعث موزی امراض چمٹ جانے اور اعضا کی شکست وریخت سے انسان بوڑھا ہونے لگتا ہے۔

یہ بات مگر دلچسپ ہے کہ جب ہم ورزش یا محنت مشقت والا کام انجام دیں، تو تب بھی بڑی تعداد میں آزاد اصیلے جنم لیتے ہیں۔ یہ سرگرمی بھی ہمارے بدن میںتکسیدی دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی کاریگری کا کرشمہ دیکھیے کہ ورزش سے جنم لینے والا یہ دباؤ انسانی جسم کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ مفید ہے۔یہ ہماری بافتوں (ٹشوز) کی نشوونما کرتا اور ہمارے بدن کے محافظوں، ضد تکسیدی مادوں کو جنم دیتا ہے۔ تاہم یہ  دباؤ مختصر وقت تک ہی رہتا اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ طویل عرصہ رہے تبھی انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔

جسمانی چربی کو جانیے

اس موقع پر چربی کا بھی تذکرہ ہوجائے۔ چربی کی مختلف اقسام ہیں مثلاً سیچورٹیڈ، ٹرانس فیٹس، مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ۔ عام خیال ہے کہ چربی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ مگر یہ خطرناک اس وقت بنتی ہے جب انسان روزانہ کثیر مقدار میں چربی سے لیس اشیا کھانے لگے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کو روزانہ 40 تا 70 گرام چربی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی تندرستی برقرار رکھ سکے۔ وجہ یہ کہ انسانی جسم میں چربی توانائی کے ’’بیک اپ‘‘ یا محفوظ ایندھن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے جسم کا بنیادی ایندھن نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) ہے جس سے کہ شکر بنتی ہے۔ مگر جب وافر شکر میسر نہ ہو تو جیسا کہ بتایا گیا، انسانی جسم چربی کو بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔ انسانی جسم نشاستے اور چربی کے علاوہ پروٹین سے بھی توانائی پاتا ہے۔ یہ تینوں غذائی مادے انسان کے بنیادی ذرائع ایندھن ہیں۔

درج بالا تینوں ذرائع ایندھن میں چربی ہی سب سے زیادہ کیلوریز یا حرارے رکھتی ہے۔ نشاستے اور پروٹین کے ہر ایک گرام میں 4 حرارے ہوتے ہیں جبکہ چربی کا ایک گرام 9 حرارے رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کی کوشش ہونی چاہیے کہ روزانہ اپنے حراروں کے کوٹے کا 25 تا 35 فیصد حصہ ہی چربی سے پورا کرے۔ زیادہ چربی کھانے سے صحت کو نقصان ہی پہنچے گا۔ وٹامن اے، ڈی، ای اور کے اسی وقت انسانی جسم میں جذب ہوتے ہیں جب ہمارے بدن میں چربی کی مطلوبہ مقدار موجود ہو۔ یہ وٹامن ہماری تندرستی کے ضامن ہیں۔ مثلاً وٹامن اے ہماری آنکھیں تندرست رکھتا اور بصارت تیز کرتا ہے۔ وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم جذب کرکے ہمارے ہڈیاں مضبوط بناتا ہے۔

وٹامن ای آزاد اصیلے ختم کرنے میں جسم کی مدد کرتا اور یوں خلیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ وٹامن کے خون میں لوتھڑے نہیں بننے دیتا۔ غرض انسانی جسم میں چربی کی معقول مقدار نہ ہو، تو انسان ان تمام اہم وٹامن سے محروم ہوکر بیمار پڑنے لگتا ہے۔مزید براں چربی ہماری جلد کے خلیوں میں جمع ہوکر ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی متوازن رکھتی ہے۔ نیز ہمارے اہم جسمانی اعضا کے گرد بھی چربی پائی جاتی ہے۔ یہ چربی انہیں صدمات سے بچاتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ ماہرین غذائیات چربی کی دو اقسام، مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ کو انسانی صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں جبکہ سیچورٹیڈ اور سٹرائس فیٹس کی اقسام نقصان دہ تصّور ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کوشش کرے کہ چربی کی مفید اقسام رکھنے والی غذائیں ہی تناول کرے۔ خاص طر پر رمضان المبارک کے دوران روزے دار چربی والی غذائیںاعتدال سے کھائے تاکہ اس بابرکت مہینے کے طبی فوائد بھرپور انداز میں حاصل کرسکے۔ مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ چربی یا چکنائی نباتی (ویجٹیبل) تیل، مغزیات اور سرد پانی کی مچھلیوں مثلاً ٹونا اور سالمن میں ملتی ہے جبکہ مضر صحت چربی سرخ گوشت، عام مچھلیوں اور ڈیری مصنوعات میں ملتی ہے۔ لہٰذا یہ غذائیں معتدل مقدار میں کھائیے۔ انسانی جسم میں مضر صحت چربی کی زیادتی انسان کو امراض قلب اور فالج میں مبتلا کرسکتی ہے۔

اندھا دھند پیٹ نہ بھرو

روزمّرہ غذا میں نشاستے کی زیادتی بھی نقصان دہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں زیادہ تر لوگ روٹی یا چاول کھا کر  پیٹ بھرتے ہیں مگر ان غذاؤں کے باعث انسانی جسم میں شکر بکثرت بنتی ہے۔ یہ شکر پھر خلیوں کو ہر وقت کام میں مصروف رکھتی اور انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کردیتی ہے۔ اسی خرابی سے انسان بھی جلد ضعیف ہوکر موت کو گلے لگالیتا ہے۔اسی لیے ماہرین غذائیت اب مردوزن کو مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ اپنے حراروں کی مطلوبہ مقدار کا 50 فیصد حصہ  نشاستہ دار غذاؤں سے حاصل کیجیے۔ بقیہ حرارے پروٹین اور چربی والے کھانوں سے لیجے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اتنا زیادہ کھانا مت کھائیے کہ پیٹ بھرنے سے سانس لینا ہی مشکل ہوجائے۔

سائنس دانوں نے مختلف تجربات سے جانا ہے کہ جو جاندار کم کھانے کھائے، وہ دوسرے کی نسبت زیادہ عرصے زندہ رہتا ہے۔ گویا کم کھانا صحت و طوالت عمر کی ضمانت ہے۔ یہی نہیں، پیٹ کا ایک حصہ خالی رکھنے والے بڑھاپے میں بھی تندرست رہتے ہیں۔ رمضان المبارک بھی ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ اندھا دھند پیٹ نہ بھرو بلکہ ایک حصہ خالی چھوڑ کر کھانا کھاؤ۔

سیرٹوین  پروٹینی جین

چند ماہ قبل یونیورسٹی آف فلوریڈا کے تینوں نوجوان محققوں، نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے 24 مردوزن رضا کار لیے اور ان کو کہا کہ وہ تیس دن تک صبح شام معمول کے مطابق کھانا کھائیں۔ لیکن صبح اور شام کے درمیانی اوقات میں فاقہ کشی اختیار کریں۔( یہی عمل روزہ رکھ کر مسلمان بھی انجام دیتے ہیں۔)اس تجربے سے محقق جاننا چاہتے تھے کہ چار ہفتے مسلسل دن میں فاقہ کشی کرنے سے ان کے خلیوں پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد تجربہ تھا اور اس تجربے سے حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا۔ماہرین کو علم ہوا کہ انسان جب مسلسل فاقہ کرے، تو اس کے جسم میں ’’سیرٹوین‘‘ (Sirtuin) نامی پروٹینی جین سرگرم و متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ پروٹینی جین ہر خلیے کے مرکزے (نیوکلس) اور مائٹو چونڈریا میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہایت اہم جین ہیں کیونکہ یہ خلیوں کو صحت مند رکھتے اور انہیں ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔ نیز آزاد اصلیوں کو پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔

سائنس داں اب تک سیرٹوین پروٹینی جین کی سات اقسام دریافت کرچکے۔ درج بالا تجربے سے فلوریڈا یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا کہ جب انسان مسلسل روزے رکھے، تو اس کے خلیے سیرٹوین پروٹینی جین کی ایک قسم، سیرٹوین 3 کی کاپیاں (نقول) تیار کرنے لگتے ہیں۔ یہ نہایت اہم طبی دریافت ہے کیونکہ سیرٹوین 3 خلیوں کو بوڑھا ہونے سے بچاتا ہے۔ گویا جو مسلمان روزے رکھے، اس کے جسم میں زیادہ سیرٹوین 3 پروٹینی جین جنم لیتے ہیں۔ اس باعث بڑھاپے کے اثرات اس پر جلد اثر انداز نہیں ہوپاتے۔ یہ روزے رکھنے کا ایک اور بہت بڑا فائدہ ہے جو جدید سائنسی تحقیق سے سامنے آیا۔

پچھلے ایک برس میں سیرٹوین 3 پر دو تجربات ہوچکے اور ان سے بھی حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ قبل ازیں بتایا جاچکا کہ آزاد اصلیوں کی کثرت سے جنم لینے والا تکسیدی دباؤ انسان کو بوڑھا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ بھوک و پیاس کی حالت بھی انسانی جسم میں تناؤ اور سوزش پیدا کرتی ہے۔ مگر اب آکر ماہرین طب نے جانا ہے کہ اس حالت میں دراصل سیرٹوین پروٹینی جین متحرک ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر انسان میں بڑھاپے کا عمل آہستہ کرکے اسے پہلے کی نسبت تندرست بنا تے ہیں۔ یہ انکشاف اسی لیے سامنے آیا کہ جدید طبی سائنس  انسانی جسمانی نظام کی جزئیات تک پہنچ کر اس کے حیران کن ذیلی نظاموں کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کررہی ہے۔ اسی تحقیق سے روزے رکھنے کے ایسے طبی فوائد افشا ہورہے ہیں جو پہلے انسان کی نظروں سے اوجھل تھے۔

روزے کی حالت میں انسانی جسم کے ہر خلیے میں واقع بجلی گھر یعنی مائٹوچونڈریا کو مطلوبہ غذا میسر نہیں آتی۔ بھوک کی اسی کیفیت میں سیرٹوین 3 پروٹینی جین کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ وہ خلیے میں پائے جانے والے دو خاص میٹابولک خامرے (metabolic molecules) متحرک کردیتا ہے۔ انہی خامروں کے متحرک ہونے کی بدولت خلیہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ انسانی جسم میں جمع شدہ چربی یا پروٹین سے موثر انداز میں توانائی بناسکے۔بھوک پیاس کی حالت میں سیرٹوین 3 کا دوسرا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ’’این اے ڈی پی ایچ‘‘ (Nicotinamide adenine dinucleotide phosphate) نامی کیمیائی عمل جنم دینے والے خصوصی خامروں کو بھی متحرک کردیتا ہے۔ اسی کیمیائی عمل کی مدد سے تمام خلیے اپنے آپ کو تکسیدی دباؤاور سوزش سے بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ گویا سیرٹوین 3 ایک لحاظ سے خلیوں کا محافظ ہے جو انہیں مختلف حملوں سے بچاتا ہے۔

پہلا حیران کن تجربہ

پچھلے سال امریکی ریاست نیوجرسی کی روٹگیرز یونیورسٹی  کے نیوجرسی میڈیکل سکول میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم آر جی ایس 14(RGS14) نامی پروٹینی جین پر تحقیق کررہی تھی۔ اس کا تعلق ایسے پروٹینی جین گروہ سے ہے جو جی فیملی (G protein) نامی پروٹینی جین سرگرمیوں کو ریگولیٹ یا ترتیب دیتے ہیں۔ جی فیملی میں شامل پروٹینی جین کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ خلیے اور اس سے باہر موجود تمام جین کے مابین پیغام رسانی کرتے رہیں۔دوران تجربہ سائنس دانوں نے پانچ چوہوں کے جسم سے آر جی ایس 14 پروٹینی جین ختم کردیا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کی عدم موجودگی سے جانداروں کے جسم میں کس قسم کی  تبدیلیاں آتی ہیں۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ چوہوں کے جسم میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ سفید چربی کی مقدار کم ہو ئی جبکہ  ’’گندمی‘‘ چربی کی مقدار بڑھ گئی۔ یہ ایک انوکھی اور ناقابل یقین بات تھی۔

واضح رہے،انسان سمیت تمام بڑے جانداروں کے جسم میں دو قسم کی چربی پائی جاتی ہے۔ اول سفید چربی (white adipose tissue) اور دوم گندمی چربی (brown adipose tissue)جو صرف بچوں میں بکثرت ملتی ہے۔ یہ چربی بوقت پیدائش انہیں ہائپو تھرمیا سے بچاتی اور  جسم میں درجہ حرارت متوازن رکھتی ہے۔ مگر جوں جوں جاندار بالغ ہو، گندمی چربی جسم میں بہت کم رہ جاتی ہے۔جبکہ جسم کے بیشتر حصے میں سفید چربی ہی نظر آتی ہے۔

ماہرین اپنے تجربے کا نتیجہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اب وہ یہ جاننے کی جستجو کرنے لگے کہ وہ کون ہے جس نے چوہوں کے بدن میں گندمی چربی کی مقدار بڑھا دی؟ مزید تحقیق و تجربات سے افشا ہوا کہ جب بدن میں آر بی ایس 14 پروٹینی جین نہیں رہا، تو سیرٹوین 3 سفید چربی کو گندمی چربی میں تبدیل کرنے لگا۔ یوں سیرٹوین 3 کا ایک اور کرشمہ سامنے آگیا۔سفید کی نسبت گندمی چربی انسان سمیت تمام جان داروں کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ماہرین دریافت کرچکے کہ گندمی چربی ممالیہ جان داروں میں شکر جذب ہونے کا نظام بہتر بناتی ہے۔ ہڈیاں صحت مند رکھتی اور خلیوں کی کارکردگی بڑھاتی ہے۔ غرض جان دار کو تندرست رکھنے میں گندمی چربی کا کردار سفید چربی کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ روزے رکھنے سے مردوزن کے اجسام میں گندمی چربی کی تھوڑی بہت مقدار بڑھ جاتی ہو کیونکہ بتایا جاچکا، اس حالت میں خلیوں کے سیرٹوین 3 بہت سرگرم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے، آر جی ایس 14 کی موجودگی میں بھی وہ انسانی جسم میں کچھ گندمی چربی پیدا کردیتے ہوں۔ یہ گندمی چربی بھی پھر روزے دار کی مجموعی تندرستی میں اپنا کردار ادا کرتی ہو۔روٹگیرز یونیورسٹی کے ماہرین عنقریب 25 رضا کار مردوزن پر اپنا تجربہ کرنے والے ہیں۔ وہ ان میں آر جی ایس 14 پروٹینی جین ختم کردیں گے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ کیا انسانی جسم میں پائے جانے والے سیرٹوین 3 بھی انسان کی سفید چربی کو گندمی چربی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا، تو انسان کے ہاتھ ایک تیر سے دو شکار کرنے کا قیمتی نسخہ لگ سکے گا۔وہ یوں کہ موٹاپے میں مبتلا انسانوں میں آر جی ایس 14 ختم کیا جائے گا۔ تب ان کے سیرٹوین 3 پروٹینی جین اپنا کام شروع کریں گے۔ یوں انسان نہ صرف مضر صحت سفید چربی سے چھٹکارا پائے گا بلکہ اسے عمر بڑھانے والی گندمی چربی بھی مل جائے گی۔

دوسرا یادگار تجربہ

سیرٹوین 3 کی خصوصیات دریافت کرنے کے سلسلے میں پچھلے سال ایک اہم  تجربہ امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی آف برکلے میں کیا گیا۔ وہاں ماہرین طب نے ایسے بوڑھے چوہوں کے جسم میں سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھادی جو مختلف امراض میں مبتلا تھے۔ مقدار بڑھانے سے نمایاں ترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چوہوں کے خون میں سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ گئی۔انسان سمیت تمام جانداروں میں خون کا 40 سے 45 فیصد حصہ سرخ خلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سرخ خلیے خون کے بہاؤ میں شامل ہوکر پورے جسم کے کونے کونے تک پہنچتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر ہر  خلیے تک پہنچادیں اور ہر خلیے سے خراب ہوا یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیپھڑوں تک پہنچائیں تاکہ وہ اسے باہر نکال سکیں۔

انسانی جسم کے ہر خلیے تک تازہ ہوا (آکسیجن) کی مسلسل فراہمی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی کی مدد سے خلیے اپنی سرگرمیاں صحیح طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ اگر خلیوں کو مطلوبہ آکسیجن نہ ملے، تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔انسان سمیت سبھی جانداروں کے جسم میں ہڈیوں کے گودے میں خلیوں کی خاص قسم ’’بنیادی خلیے‘‘ (stem cells) پائے جاتے ہیں۔ یہی بنیادی خلیے خون کے نئے سرخ خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔ جدید طبی تحقیق کے مطابق ہر بالغ انسان میں ہر ایک سیکنڈ میں 24 لاکھ نئے سرخ خلیے جنم لیتے ہیں۔ ایک سرخ خلیہ چار ماہ زندہ رہتا اور پھر مرجاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہوتے ہی ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیوں کی تعداد گھٹنے لگتی ہے۔ چناں چہ وہاں سرخ خلیے بھی کم تعداد میں جنم لیتے ہیں۔

ان کی تعداد کم ہونے سے انسانی خلیوں تک آکسیجن بہ مشکل اور تھوڑی مقدار میں پہنچنے لگتی ہے۔ چناں چہ خلیوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ درست طریقے سے اپنی ذمے داریاں انجام نہیں دے پاتے۔ یہ منفی حالت بڑھاپا آنے کی رفتار تیز تر کردیتی ہے۔کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے محقق اپنے تجربے کا نتیجہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ وہ پھر یہ کھوج لگانے لگے کہ سیرٹوین 3 نے ایسا کیا کمال کردکھایا کہ خون میں سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ گئی؟ ان کی تعداد بڑھنے سے بوڑھے ہوتے چوہوں میں نمایاں مثبت تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

ان کی جلد پر پڑتی جھریاں دور ہونے لگیں۔ آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ چاق و چوبند ہوگئے۔ غرض ان کی مجموعی صحت ماضی کے مقابلے میں خاصی بہتر ہوگئی۔تحقیق سے افشا ہوا کہ سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھنے سے چوہوں کی ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیے زیادہ سرخ خلیے پیدا کرنے لگے۔ وجہ یہ  کہ سیرٹوین 3 کی کثرت کے باعث بنیادی خلیے تکسیدی دباؤ  سے نجات پاگئے۔ جب ان پر دباؤ کم ہوا، تو وہ قدرتاً زیادہ سرخ خلیے پیدا کرنے لگے۔

اس زبردست تجربے سے عیاں ہوا کہ رمضان المبارک میں روزے رکھ کر مسلمانان عالم صحت کیوں پاتے ہیں! وجہ یہی کہ بھوکا رہنے پر ان میں سیرٹوین 3 پروٹینی جین بکثرت جنم لیتے ہیں۔ ان کی مقدار بڑھنے سے ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیے تکسیدی دباؤ  سے نجات پاتے اور زیادہ سرخ خلیے پیدا کرتے ہیں۔ خون میں نئے سرخ خلیوں کی کثرت روزے دار کی مجموعی صحت بہتر بنا دیتی ہے۔ نیا خون روزے دار کو تندرست کردیتا ہے۔کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے ماہرین اب رضا کار مردوزن پر سیرٹوین 3 کا تجربہ کریں گے۔ انہیں یقین ہے کہ یہ تجربہ بھی پہلے تجربے جیسے نتائج سامنے لائے گا کیونکہ خلویاتی سطح پر انسان سمیت تمام جانداروں کے جسمانی نظاموں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ’’سیرٹوین 3 علاج‘‘ سامنے آجائے۔ یہ علاج اپناتے ہوئے بوڑھے مردوزن کے جسم میں سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھائی جائے گی۔ مدعا یہ ہوگا کہ ان میں نئے سرخ خلیے جنم لے سکیں تاکہ وہ انسان کو بڑھاپے کے اثرات سے بچالیں۔ یوں ایک نیا بڑھاپا روک علاج  دریافت ہو سکے گا۔

درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے، رمضان المبارک میں وہ کھانے پینے کا جو نظام اختیار کرتے ہیں، اسے وہ سارا سال بھی اپنا سکتے ہیں،یوں یہ آسمانی نظام ان کی صحت وتندرستی کا ضامن بن جائے گا۔

The post روزہ طبّی سائنس کی روشنی میں appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستانی قوم کے اذہان میں مچلتا سوال۔۔۔ بحیرہ عرب سے تیل نکل آئے گا؟

$
0
0

وطن عزیز میں چرچا ہے کہ بحیرہ عرب سے تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے بھی بیان دے کر قوم کو خوش خبری سنائی۔ظاہر ہے،اگر یہ ذخیرہ دریافت ہو جائے تو پاکستان کی سنگین معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں فوری نہیں تو چار پانچ سال بعد ضرور مدد ملے گی۔

حقائق سے آشکارا ہے کہ تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ ملنے کی پیش گوئی پوری بھی ہو سکتی ہے۔گیس اور پٹرول انسانی روزمرہ زندگی رواں دواں رکھنے کا بنیادی ذریعہ بن چکے۔ لہٰذا ان کی کمی یا مہنگا ہونے سے عوام کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

پاکستان کو قدرت نے درج بالاتوانائی کے دونوں ذرائع سے نوازا ہے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس قدرتی دولت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔یہی وجہ ہے ‘ پاکستان آج مجبور ہے کہ وہ ہر سال چودہ ارب ڈالر کا پٹرول اور گیس بیرون ممالک سے خریدتا رہے ۔لیکن یہی خریداری ہماری عالمی تجارت کو خسارے میں لے گئی۔پاکستان کو ہر سال عالمی تجارت میں اٹھارہ تا اکیس ارب ڈالر خسارہ  برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے بھی پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی اور ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔

وطن عزیز میں ذخائر ِایندھن

2015ء میں امریکا کے ادارے ‘ یو ایس ایڈ کی مدد سے پاکستانی و امریکی ماہرین ارضیات اور شعبہ پٹرولیم کے سائنس دانوں نے پاکستان کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں جدید آلات کے ذریعے تہہ زمین واقع چٹانوں پر تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ’’رسوبی چٹانوں‘‘ (Sedimentary rocks) کی ایک قسم شیل (Shale) میں دس ہزار ارب کیوبک فٹ گیس اور دو ہزار تیئس ارب بیرل تیل موجود ہے۔ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ درج بالا میں سے ’’بیس کھرب کیوبک فٹ گیس‘‘ اور ’’58ارب بیرل تیل‘‘ روایتی ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کرنا ممکن ہے۔

اس وقت پاکستان میں گیس کے معلوم ذخائر کی مقدار دو کھرب کیوبک فٹ تھی۔ جبکہ تیل کے ذخائر میں تقریباً 39 کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستان کی تہہ زمین میں تیل و گیس کے بھاری ذخائر موجود ہیں۔ یاد رہے‘ فی الوقت ونیزویلا تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتاہے جن میں تین کھرب بیرل تیل محفوظ ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب (2.66 کھرب بیرل) ‘ کینیڈا (1.69 کھرب) ایران (1.58 کھرب) ‘ عراق (1.42 کھرب)‘ کویت(ایک کھرب) ‘ متحدو عرب امارات (97ارب) اور روس (80 ارب بیرل ) آتے ہیں۔ گویا 58 ارب بیرل تیل کے ساتھ پاکستان دنیا میں تیل کا نواں بڑا ذخیرہ رکھتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ حکومت ایندھن کے اس بے حساب قدرتی خزینے کو دریافت کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کر رہی؟ ماہرین اس سوال کے مختلف جوابات دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ حکمرانوں کا بیشتر وقت اپنے دور حکومت میں اپنی کرسیاں محفوظ رکھنے میں گزر جاتا ہے۔ لہٰذا وہ قومی ترقی کے لیے اہم اقدامات پر غور وفکر نہیں کر پاتے۔ دوم یہ کہ تیل و گیس کی کھوج لگانا بڑا مہنگا اور پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستان ترقی پذیر مملکت ہونے کے ناتے اس کھوج پر زر کثیر خرچ نہیں کر سکتا۔

لہٰذا فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب تیل وگیس کے نئے ذخیروں کی تلاش سست رفتاری سے جاری ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تیل و گیس درآمد کرنا منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کاروبار سے ایک مافیا یا کارٹل وابستہ ہو چکا۔ اس کارٹل میں حکمران طبقے میں شامل طاقتور شخصیات بھی شامل ہیں۔ یہ شخصیات اپنے مفادات محفوظ رکھنے کی خاطر بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ پاکستان میں تیل و گیس کے نئے کنووؤں کی دریافت کا کام سست رفتاری سے جاری رہے۔ ظاہر ہے اگر نئے کنوئیں ملنے سے پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوا تو ان کا منافع بخش کاروبار تو ٹھپ ہو جائے گا۔

رسوبی چٹانوں کا تحفہ

یہ یاد رہے کہ دنیا بھر میں تیل و گیس اور کوئلے کے ذخائر عموماً رسوبی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ چٹانیں پتھریلے ذرات‘ مٹی‘ نباتات اور جانداروں کی لاشوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہیں۔ انہیں تشکیل پاتے ہوئے کروڑوں سال لگ جاتے ہیں۔زمین کے نیچے پونے دو کلو میٹر تک عام طور پر رسوبی چٹانیں ہی پائی جاتی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی بیشتر رقبہ انہی چٹانوں سے بنا ہوا ہے۔کروڑوں برسوں کے دوران ان چٹانوں کے درمیان پھنسا نباتاتی و حیوانی مواد (کاربن) ہی زبردست دباؤ اور درجہ حرارت کے سبب آخر تیل‘ گیس یا کوئلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔پاکستان کا رقبہ آٹھ لاکھ تین ہزار نو سو چار مربع کلو میٹر ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس رقبے میں سے آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پر رسوبی چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ چٹانیں سطح زمین پر واقع ہیں۔ نیچے دو کلو میٹر گہرائی تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ انہی رسوبی چٹانوں کے باعث ہی پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے۔ گویا یہ چٹانیں پاکستان کے لیے عظیم تحفہ ہیں۔

تین پاکستانی ارضی خطے

ماہرین جغرافیہ و ارضیات نے رسوبی چٹانوں کے لحاظ سے پاکستان کی ارضی و بحری زمین کو تین بنیادی خطوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کا تعارف درج ذیل ہے۔

٭سندھ بیسن (Basin)…یہ خطہ کوہاٹ سے لے کر کراچی اور کیرتھر اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پاکستان میں رسوبی چٹانوں کا سب سے بڑا خطہ ہے۔ اس خطے کو تین ذیلی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تین ذیلی خطے بھی سات مزید چھوٹے خطے رکھتے ہیں۔پہلے خطے،’’بالائی سندھ ذیلی خطے‘‘ میں دو ذیلی خطے واقع ہیں، یعنی کوہاٹ بیسن اور پوٹھوہار بیسن۔ دوسرے’’وسطی سندھ ذیلی خطے‘‘ کے تین ذیلی خطے یا علاقے ہیں یعنی شمالی پنجاب بیسن، وسطی پنجاب بیسن اور سلیمان (پہاڑی) بیسن۔تیسرا ’’نچلا سندھ ذیلی خطہ‘‘ دو چھوٹے خطے رکھتا ہے، سندھ بیسن اور کیرتھر (پہاڑی) بیسن۔

٭بلوچستان بیسن…یہ خطہ پشین سے لے کر ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے تین بڑے حطے ہیں، پشین بیسن، بلوچستان بیسن اور مکران بیسن۔

٭بحری (آف شور) بیسن…یہ خطہ پاکستان کے ساحلوں سے شروع ہوکر بحیرہ عرب کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے بحری قانون (The United Nations Convention on the Law of the Sea) کی رو سے بحیرہ عرب میں پاکستان کا خصوصی اکنامک زون (Exclusive economic zone) دو لاکھ چالیس ہزار مربع کلو میٹر (انسٹھ ہزار نو سو ساٹھ مربع میل) رکھتا ہے۔ اس رقبے کو دو ذیلی خطوں ’’سندھ ماورائے ساحل‘‘ (آف شور) اور ’’مکران ماورائے ساحل‘‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔

کھدائی کی تاریخ

تیل حاصل کرنے کی خاطر پہلا باقاعدہ کنواں 1848ء میں آذربائیجان میں کھودا گیا تھا۔ عام طور پر زیر زمین تیل و گیس کے ذخائر ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کنواں کھودتے ہوئے عموماً تیل اور گیس، دونوں ہی دریافت ہوجاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ہندوستان میں بھی تیل کی تلاش کا قصہ خاصا پرانا ہے۔ ہوا یہ کہ ضلع میانوالی کے علاقے کنڈل میں تیل خود بخود سطح زمین پر نمودار ہوگیا۔ چناں چہ 1866ء میں وہاں کنواں کھود کر تیل نکالا جانے لگا۔ بعدازاں بلوچستان کے مقام کٹھن (مکران) میں تیل دریافت ہوا۔ وہاں تیرہ کنوئیں کھود کر 1885ء سے 1892ء تک پچیس ہزار بیرل تیل نکالا گیا۔

رفتہ رفتہ تیل کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی۔ کنواں کھودنے والے جدید آلات و اوزار بھی ایجاد ہوگئے۔ اس بنا پر رسوبی چٹانوں میں کھدائی کرکے تیل و گیس تلاش کرنے کی مہمات تیز ہوگئیں۔ 1915ء میں اٹک آئل کمپنی نے پنڈی گھیپ کے علاقے میں تیل دریافت کیا۔ وہاں 1954ء تک تقریباً چار سو کنوئیں کھودے گئے جن سے تیل نکلتا رہا۔

قیام پاکستان کے بعد تیل کا پہلا کنواں سوئی گیس فلیڈ، بلوچستان کے نزدیک کھودا گیا۔ تاہم اس علاقے میں صرف گیس کے ذخائر ہی مل سکے۔ بعدازاں 1961ء میں پوٹھوہار کے علاقے توت میں تیل دریافت ہوا اور وہاں مختلف کنوئیں کھودے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقہ توت میں تب چھ کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔

1970ء کے عشرے میں امریکی تیل کمپنیوں نے پہلی بار تیل و گیس دریافت کرنے کی خاطر بحیرہ عرب میں کنوئیں کھودے تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران مختلف پاکستانی صوبوں میں وقتاً فوقتاً تیل خصوصاً گیس کے ذخائر دریافت ہوتے رہے۔

2015ء میں یو ایس ایڈ کی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تیل و گیس کی کھوج میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیاں دوبارہ پاکستان میں دلچسپی لینے لگیں۔ چناں چہ پچھلے پانچ سال کے دوران 445 کنوئیں کھودے گئے۔ ان کے باعث تیل و گیس کے 16نئے ذخیرے دریافت ہوئے۔ یہ اہل پاکستان کے لیے ایک بڑی خوشخبری تھی۔

’’کیکڑا ‘‘کنواں

جنوری 2019ء سے بحیرہ عرب میں ایک اہم کنوئیں کی کھدائی شروع ہوئی۔ یہ مقام کراچی سے جنوب مغرب کی سمت دو تیس کلو میٹر دور ہے۔ یہ منصوبہ چار کمپنیوں کی مشترکہ تخلیق ہے۔ ان کمپنیوں میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (پاکستان)، ای این آئی (اٹلی) اور ایگزون موبل (امریکا) شامل ہیں۔ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ کھدائی کے مقام پر تیل و گیس کا بھاری ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرہ میں تین تا آٹھ کھرب کیوبک فٹ قدرتی گیس اور ڈیڑھ ارب بیرل تیل موجود ہوسکتا ہے۔ ڈرلنگ کرنے والے خصوصی جہاز کے ذریعے یہ سطور قلمبند ہونے تک اس مقام پر کھدائی جاری ہے۔

اس جگہ 5500 فٹ گہرائی تک کھدائی کرنے کا پروگرام ہے۔ سمندر میں کھدائی زمین کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اسی لیے کھدائی کا کام سست رفتاری سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کھدائی کامیاب ثابت ہو اور متعلقہ جگہ سے تیل و گیس کا خزینہ برآمد ہوجائے۔ ایندھن کے اس خزانے کی بدولت پاکستان پھر اپنے معاشی بحران یہ قابو پاسکے گا۔

کھدائی کے اس عمل پر ساڑھے سات کروڑ تا آٹھ کروڑ ڈالر (پونے 11 ارب روپے تا ساڑھے گیارہ ارب روپے) خرچ آئے گا۔ یہ اخراجات چاروں کمپنیوں کے مابین تقسیم ہوں گے۔ تیل و گیس کی تلاش میں محو کمپنیاں اس خرچ کو ’’ڈوبی سرمایہ کاری‘‘ کہتی ہیں۔ وجہ یہ کہ کھدائی سے ایندھن دستیاب نہ ہو، تو رقم ضائع ہی جاتی ہے۔خوش قسمتی سے ’’کیکڑا‘‘ نامی اس کنوئیںسے تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوگیا، تو پاکستان جلد اس سے ایندھن حاصل نہیں کرسکتا۔ اس جگہ تیس کروڑ ڈالر (تینتالیس ارب روپے) کی لاگت سے چار پانچ برس میں انفراسٹرکچر تعمیر ہوگا۔ اس کے بعد وہاں سے تیل و گیس نکالی جاسکے گی۔

بحیرہ عرب میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہونے کے بعد ایندھن کی کھوج لگانے والی دیگر عالمی کمپنیاں بھی پاکستان کا رخ کریں گی۔ اس طرح ملک بھر میں نئے کنوؤں کی کھدائی سے تیل و گیس کے مزید ذخائر منظر عام پر آنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ صورتحال یقینا معیشتِ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہوگی جو قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بے حال ہو چکی۔مذید براں یہ ذخائر رکھنے سے ملک کی بین الاقوامی اہمیت وحیثیت میں بھی اضافہ ہو گا۔

The post پاکستانی قوم کے اذہان میں مچلتا سوال۔۔۔ بحیرہ عرب سے تیل نکل آئے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کے کچھ ایسے ٹی وی ڈرامے جنہوں نے کامیابی کے نئے سنگ میل طے کیے

$
0
0

وارث

جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتے اس ڈرامے کے مصنف معروف شاعر امجد اسلام امجد تھے۔ جس وقت یہ ڈراما نشر ہوتا تھا تو ملک بھر میں ہُو کا عالم ہوجاتا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی اور بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتے اس ڈرامے نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت دیتے اس ڈرامے میں چوہدری حشمت کا مرکزی کردار اداکار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا، جب کہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر فن کاروں کی جان دار اداکاری نے بھی اس ڈرامے کی کام یابی میں اہم کردار ادا کیا۔

خدا کی بستی

شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے حالات زندگی کے موضوع پر بننے والے اس ڈرامے ’خدا کی بستی‘ نے پوری دنیا میں لاکھوں ناظرین کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایک غریب بستی میں آباد ہونے والے خاندان کے مسائل کو بیان کیا گیا کہ انہیں کس طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کم زوروں کی بے بسی، طاقت وروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکے داروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر استحصالی کردار موجود تھا۔ یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی ’خدا کی بستی‘ کے نشر ہونے کے اوقات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔

اندھیرا اجالا

ایڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے ‘اندھیرا اجالا’ کو نہیں بھولے۔ اسے کے عشرے میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈراما بھی کہا جا سکتا ہے۔ قوی خان نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا، اور جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے اپنے جان دار کرداروں سے بھی اس ڈرامے کو لازوال بنا دیا۔ واضح رہے کہ آج کے مشہور اداکار فیصل قریشی نے بھی اس ڈرامے میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا تھا۔

دھواں

اس ڈرامے کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ایکشن ڈرامے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ فلم ’مالک ‘ کے ہدایت کار عاشر عظیم کے قلم سے تحریر ہونے والے اس ڈرامے نے کام یابی کے کئی مدارج طے کیے۔ عاشر عظیم نے اس میں ایک پولیس افسر اور خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار ادا کیا، جب کہ اداکار نبیل، نیئر اعجاز اور نازلی نصر کی جان دار اداکاری نے اس ڈرامے میں حقیقت کے رنگ بھر دیے تھے۔ اپنے وقت کے معروف ہدایت کار سجاد احمد کے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں اور محکمۂ پولیس کی کم زوریوں کو بہت خوب صورتی سے عکس بند کیا گیا تھا۔ المیہ اختتام پر ختم ہونے والے اس ڈرامے کو آج بھی کلاسک ڈراموں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

آنگن ٹیڑھا

مزاح اور حاضر جوابی پر مبنی ڈائیلاگ سے بھرپور یہ ڈراما انور مقصود کے قلم سے رقم ہوا۔ اداکارہ بشری انصاری، اداکار سلیم ناصر، شکیل اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث یہ ڈراما آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اس ڈرامے کی ہر قسط میں معاشرتی اور سماجی مسائل کو ایسے پُرمزاح انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈراما اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہوچکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

جانگلوس

وسطی پنجاب کے پس منظر میں بننے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے، جیل سے فرار ہونے والے دو قیدیوں لالی اور رحیم داد کے گرد گھومتے اس ڈرامے کا اسکرپٹ مشہور ادیب شوکت صدیقی کے ناول جانگلوس سے بنایا گیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے 1989 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ شبیر جان اور ایم وارثی نے قیدیوں کا مرکزی کردار اور شبیر جان قیدیوں کا مرکزی کردار ادا کیا۔ جب کہ شگفتہ اعجاز، سلیم ناصر، ظہور احمد، اور دیگر اداکاروں نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ بااختیار طبقے کے تاریک چہرے سے پردہ اٹھاتے والے ڈرامے ’جانگلوس‘ کو ارباب اختیار کے حکم پر بند کردیا گیا تھا۔

تنہائیاں

شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروزسبزواری اور مرینہ خان جیسے فن کاروں سے سجے اس ڈرامے کو بھی فقیدالمثال کام یابی ملی۔ حسینہ معین کے لکھے گئے اسکرپٹ اور معروف ہدایت کار شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کی کہانی دو بہنوں کے گرد گھومتی ہے جن کے والدین ایک حادثے میں مر چکے ہیں اور وہ اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دل چسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔

آنچ

گھریلو مسائل بننے والے اس ڈرامے نے اداکار شفیع محمد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اپنے وقتوں میں یہ ڈرامہ خواتین میں بہت زیادہ مقبول تھا۔ اس ڈرامے کی کہانی ایک ایسے ادھیڑ عمر شخص کے گرد گھومتی ہے جو پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلیتا ہے۔ پہلی بیوی کے بچوں اور سوتیلی ماں کے درمیان ہونے والی کش مکش نے خواتین کے دلوں گھر کرلیا۔ یہ ڈراما بھی اپنے دور میں انتہائی کام یاب رہا اور اس کے نشر ہونے کے وقت سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کے ہدایت کار طارق جمیل تھے، اور مرکزی کردار شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے ادا کیے ۔

ہوائیں

ہوائیں پی ٹی وی کا وہ ڈراما ہے جو آج بھی ان لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے جنھوں نے اسے دیکھا تھا۔ حیدر امام رضوی کی ہدایات اور فرزانہ ندیم سید کی تحریر سے سجے اس ڈرامے میں محمود علی، فرید نواز بلوچ، غزالہ کیفی، قیصر خان نظامانی، کومل رضوی، قاضی واجد، ہما نواب اور عبداللہ کادوانی جیسے اداکاروں نے کام کیا مگر جو شخص لوگوں کے ذہنوں پر چھایا وہ طلعت حسین تھے۔ یہ ڈرامہ ایک خاندان کی مشکلات کے گرد گھومتا ہے جس کا سربراہ قتل کے جعلی الزام میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس الزام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور جدوجہد دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیتی ہیں۔

شمع

یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے اے آر خاتون کے ناول کی بنیاد پر اسے ڈرامائی شکل دی۔ ہدایت کار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کردیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی اور عشرت حسین جان دار اداکاری نے اسے مقبول ترین ڈراموں کی صف میں کھڑا کردیا۔

ان کہی

1982 میں نشر ہونے والا ڈراما ’ان کہی‘ پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے، اس ڈرامے میں جاوید شیخ، سلیم ناصر، شہناز شیخ، شکیل، جمشید انصاری اور بہروزسبزواری کی لازوال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔ حسینہ معین کے قلم سے تحریر ہونے والے اس ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جب کہ اسی ڈرامے کی تھیم پر بھارت میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔

دھوپ کنارے

یہ ڈراما بھی حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہ کار تھا، ہدایات کارہ ساحرہ کاظمی کی ہدایت میں بننے والے اس ڈرامے کی کہانی ڈاکٹروں کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں۔ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد گھومتا یہ ڈرامہ پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔

دشت

اس ڈرامے کی عکس بندی بلوچستان کے علاقے دشت میں ہوئی۔ یہ ڈراما دو مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے جوڑے کے گرد گھومتا ہے جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر شادی کر لیتے ہیں اور یہ چیز دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ڈرامہ دل چسپ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اداکار عابد علی نے اس کی ہدایات دیں اور عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز اور اسد سمیت دیگر نے اس میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کیے۔

عروسہ

فاطمہ ثریا بجیا بلاشبہہ پاکستان کے بہترین ڈرامانگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے ڈراموں میں شادی بیاہ کی رسومات پیش کرنے کا رجحان متعارف کروایا، بالخصوص ان کے ڈراموں میں مہندی کی تقاریب کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ شادی بیاہ کے گیت آج بھی پاکستانی ڈراموں کی شان بڑھاتے ہیں جنہیں سب سے پہلے فاطمہ ثریا بجیا نے چھوٹے پردے پر پیش کیا تھا۔ عروسہ ڈرامے سے مشی خان اور عدنان صدیقی جیسے باصلاحیت اداکاروں کے کریئر کی ابتدا ہوئی۔

انا

قاسم جیلانی کے زیرہدایت 1982میں بننے والے اس ڈرامے سے اظہار قاضی اور مہرین الہٰی جیسے اداکاروں نے چھوٹی اسکرین پر سفر کا آغاز کیا۔ اس ڈرامے کے لیے بجیا کو نئے چہرے کی تلاش تھی، بھارتی فلمی صنعت کے مشہور اداکار امیتابھ بچن سے مشابہت کی بنا پر فاطمہ ثریا بجیا نے اظہار قاضی کو اداکاری کا موقع فراہم کیا۔

الفا براوو چارلی

اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئی اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اس وقت تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داؤ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی لطف آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔

The post پاکستان کے کچھ ایسے ٹی وی ڈرامے جنہوں نے کامیابی کے نئے سنگ میل طے کیے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>