Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پاک چین راہداری سے منسلک ترقیاتی منصوبے

$
0
0

29 مارچ 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے گوادر کے انٹر نیشنل ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے ساتھ سی پیک سے منسلک اور بہت سے منصو بوں کے سنگ بنیاد رکھے اور بعض کا افتتاح بھی کیا ، اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال اور وفاقی وزراء اور اعلیٰ چینی حکام بھی موجود تھے۔

یہ مستقبل قریب میں نہ صر ف پاکستا ن کا بلکہ خطے کا ایک بہت ہی بڑا، مصروف ترین اور وسیع ائیر پورٹ ثابت ہو گا ، اس پر ATR 72 – ائیر بس اے 3000 اور بوئنگ 13-747 کے آنے جانے کی گنجائش ہو گی، یو ں اب یہا ں بڑے طیاروں کے ذریعے مسا فروں سمیت مال بر داری کے لیے بہت بڑے ٹرانسپورٹ طیارے بھی لینڈنگ اور ٹیک آف کر سکیںگے اور بڑے ڈیپ سی پورٹ کے بعد اب گوادر کو جلد بڑے جدید اور اہم ائیرپورٹ کی سہولت ہوگی۔

پاکستان کی شمالی سرحد پر چین پاکستان اقتصا دی راہداری کا دروازہ ہے خنجرآب، جس کے معنی ہیں خنجر کی کاٹ کی طرح سرد پانی، خنجرآب جو سطح سمندر سے 16010 فٹ بلند ہے، یہ علاقہ تقریباً ہمیشہ ہر موسم میں برف سے ڈھکا رہتا ہے اور جب کبھی یہاں سورج اپنی کرنیں بکھیرتا ہے تو یہ سارے پہاڑ چاندی کی طرح جھل مل کرتے چمکنے لگتے ہیں ۔ یہاں سے سی پیک کے مشر قی روٹ سے تقریباً 2688 کلومیٹر اور مغربی روٹ سے2463 کلو میٹر جنوب میں گوادر ہے۔

گہرے پانی کی بند رگاہ گوادر ایک جزیرہ نما ہے، یعنی اس کے تین اطرف میں سمندر اور ایک جانب پیلا ریتلا ساحل ہے، یہاں چودھویں کا چاند اپنے عام حجم سے نہ صرف کافی بڑا دکھائی دیتا ہے، بلکہ سطحِ سمندر اور سنہری ریت سے جب چاند کی کرنیں منعکس ہوتی ہیں تو یہ علاقہ سونے کی سی جھلک دکھلاتا ہے، جگمگاتا ہے، یوں سونے اور چاندی کی سی سُچی چمکتی اور ہمالہ جیسی اُونچی اور مضبوط اور بحیرہ عرب سے گہری دوستی پا کستان چین دوستی واقعی سی پیک اور گوادر کی زبان سے گواہی دیتی ہے کہ اس کی یہ چمک دمک آسمان والے کی مہربانی اور رحمت ہے۔

یہ ارضِ پاک کی ہتھیلی پرخوش قستمی کی واضح لکیر ہے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس کے مغربی روٹ پر 2463 کلومیٹر طویل عالمی معیار کی شاہراہ کی تعمیر چند برس پہلے 700 ارب روپے سے شروع کردی تھی جو ابھی جاری ہے اور اس کا بیشتر حصہ بلوچستا ن سے گزرتا ہے۔ یہ مغربی روٹ خنجرآب گلگت بلتستان سے حویلیاں، ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان ژوب، لورالائی ، بوستان، کوئٹہ ، مستونگ سے کراچی جانے والی شاہرہ سے خصدار سے ذرا پہلے ہوشاب،بسیمہ، پنجگور، تربت،گوادر تک جاتا ہے۔ ایک راستہ جو کوسٹل ہائی وئے کہلاتا ہے یہ گوادر سے بحیرہِ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ کراچی جاتا اور پھر مشرقی روٹ سے روہڑی ، ملتان،لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد ، حویلیاں اور ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا خنجرآب پہنچتا ہے۔ مشرقی روٹ کا ایک راستہ گوادر، تربت، پنجگور، خصدار، شہداد کو ٹ اور روہڑی بھی تجویز کردہ ہے۔

13 نومبر 2016 کو مغربی روٹ سے چار سو کنٹینروں پر مشتمل پہلا بڑا قافلہ خنجرآب سے گوادر پہنچا تھا ۔ سی پیک منصوبے سے چین اور پاکستان سمیت دیگر بہت سے ملکوں کو فائدہ ہوگا اور خصوصاً ہمارے علاقائی ملکوں میں اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور دنیا کا نصف سے زیادہ رقبہ ہے۔ یہ علاقے معدینات، زرعی پیداوار اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں یہاں دنیا کے ذہین اور اعلیٰ مہارتوں کے حامل اربوں افراد رہتے ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا ہیومن کیپیٹل یعنی انسانی سرمایہ ہیں اور ان سب میں پاکستان ہر اعتبار سے نمایاں اور بہت سے شعبوں میں منفرد ہے اور یہ تمام عوامل اب یقین میں ڈھل گئے ہیں کہ اب ہمارے پاس اور ہمارے ہمسایہ دوست چین کے پاس ٹیکنالوجی بھی اور عزم وہمت بھی ہے۔

اس منصو بے کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سے ایک پہلو یا شعبہ توانائی کا بھی ہے، پاکستان میں توانائی کا بحران 80 ء کی دہا ئی سے سر اٹھانے لگا، اور اس دوران ماہرین نے کالا باغ ڈیم سمیت بہت سے منصوبے دیئے تھے جن سے پانی کے مسئلے کے حل کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بھی بڑھنا تھی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ سی پیک منصوبے کا ایک خو ش کن پہلو یہ ہے کہ اس میں توانائی کے بھی بہت سے منصوبے شامل ہیں جن پر تیز رفتاری سے کام مکمل ہو رہا ہے اور توانائی کے بہت سے منصوبے مکمل بھی ہو گئے ہیں اور باقی تیزی سے تکمیل کی جانب رواں دواں ہیں۔

چینی کمپنیوں نے پاکستان میں توانائی کے 19 منصو بو ں کے لیے 35 ارب ڈالر کی سر مایہ کاری شروع کر رکھی ہے ، واضح رہے کہ دنیا میں کوئلے، تیل،گیس اور ایٹمی ایندھن سے بھی بجلی بنائی جاتی ہے اس کے علاوہ ہوا ، سورج کی شعاؤں اور پانی سے بھی بجلی تیارکی جاتی ہے، اس وقت ان چینی کمپنیوں نے تحقیق کی بنیاد پر جہاں جہاں توانائی کی پیداوار کے لیے جس نوعیت کے وسائل کو بہتر پایا اور دیکھا ہے کہ یہاں کس نوعیت کے توانائی کے منصوبے بہتر رہیں گے وہاں حرکی ، شمسی،کوئلے اور پن بجلی کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔

ان منصوبوں میں، صوبوں کے حوالے سے زیادہ حصہ سندھ کا ہے ، جو عنقریب ان منصوبو ں سے پوری پیداوارا کے ساتھ 5580 میگا واٹ بجلی پید ا کر کے نیشنل گرڈ سسٹم میں دے گا، اور اس کے بعد پنجاب کے توانائی کے منصوبے ہیں جن کی پیداورای صلاحیت بھی سندھ کی طرح تقریباً پوری طرح مکمل ہونے کے قریب ہے اور پنجاب 2940 میگا واٹ بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل کردے گا۔ بلوچستان میں سی پیک کے توانائی کے منصوبے 16200 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے، آزادجموں وکشمیرمیں سی پیک کے تحت قائم ہوئے منصو بوں کی پیداواری صلا حیت 1124 میگاواٹ ہے جب کہ ، خیبر پختونخواکے منصوبے 870 میگاواٹ کے ہیں ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت ہماری ضرورت کے مطابق ہے، مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہماری ٹرانسمیشن لائنیں بہت کمزور ہیں اور اتنی مقدار میں بجلی کا بو جھ برداشت نہیں کر سکتیں، سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں کی مجمو عی لاگت کے علاوہ اربوں روپے کی مالیت سے اب پہلے مرحلے میں پشاور سے کراچی تک ان ٹرانسمیشنن لائنوں کو درست کیا جائے گا ، اور ان میں زیادہ مقدار کی بجلی کو برداشت کرنے کے لیے نئی تاریں بچھا ئی رہی ہیں ،جب کہ سی پیک کے ان توانائی کے منصوبوں میں مستقبل کی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے، توانائی کے ان منصوبوں میںسے پانچ منصوبے کوئلے سے چلنے والے جن میں سے چار درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ہیں، ان میں 3960 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ بجلی پیداکرنے والے منصوبوں میں چار ونڈ پاور پروجیکٹ ہیں، یعنی یہ وہ منصوبے ہیں جن میں ہوا سے بجلی پیدا کی جائے گی، اسے حرکی توانائی بھی کہتے ہیں۔

تین ہا ئیڈرو پروجیکٹ ہیں ان کو پن بجلی منصوبے بھی کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں گذشتہ چار دہائیوں پہلے پن بجلی کا تناسب ہی سب سے زیا دہ ہوا کرتا تھا، اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاںدوبارہ پھر پن بجلی کے بڑے منصوبے شروع ہو گئے ہیں اور جہاں تک تعلق سی پیک کے ان توانائی کے منصوبوں کا ہے جو توانائی کا اہم حصہ ہیں ان میں سے ایک بڑا منصوبہ شمسی توانائی کا ہے یعنی سورج کی شعاؤں کی حد ت سے بجلی کی تیاری، شمسی توانائی کا سی پیک کی جانب سے یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا منصو بہ ہے، ان منصوبوں کے لیے 660 kv ٹرانسمیشن کی لائن بھی لگائی جا رہی ہے، سی پیک کے ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی کی پیداوار کے ان منصوبوں میں بجلی کی مقدار 2714 میگا واٹ ہے، سولر انرجی یعنی شمسی توانائی کی مقدار 900 میگا واٹ ہے، اور سی پیک توانائی کے منصوبوں میں حرکی توانائی یعنی ونڈ پاورکی مقدار، 300 میگاواٹ ہے، بلو چستان کے لیے دیگر منصو بوں کے علاوہ توانائی کا ایک بہترین منصوبہ نیشنل گرڈ سے منسلک 300 میگاواٹ کی بجلی کا منصوبہ ہے جس سے گوادر کی ضرورت پوری ہو جائے گی ، جہاں تک تعلق کول پاور پروجیکٹس یا منصوبوں کا ہے تو اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ کوئلے کو اُن مقامات تک پہنچانے کے لے مناسب انتظامات ہونے چاہیے۔

سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں کے علاوہ، سی پیک ہی کی جانب سے شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کے منصو بے بھی ہیں، ان میں سے ایک منصوبہ ریلوے لائن کراچی تا راولپنڈی پشاور ایم ایل ٹریک ون کو زیادہ بہتر کرنے کا ہے، اس ریلوے لائن کو معیاری بناتے ہو ئے اس سے گڈز ٹرینوں کے ذریعے کوئلہ ضرورت کے مطابق کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں تک پہنچایا جا ئے گا ، یہاں یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ اب ہمارے بجلی کی توانائی کے یہ منصوبے زیادہ ماحول دوست منصوبے ہیں کیو نکہ حرکی ، شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبوں سے قدرتی ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا ۔ سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں سے آئند ہ صرف ایک سے دو برسوں میں ہمارے پاس وافرا بجلی ہو گی یوں اس بجلی سے نہ صرف ہمارے گھر اور دفاتر روشن ہو ں گے بلکہ اس سے ہماری صنعتی ترقی میں بھی بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گی،کارخانوں اور فیکٹریوں کی مشینیں چلیں گی۔

روزگار میں اضافہ ہوگا، اور جیسے جیسے پیدوار اور روزگار میں اضافہ ہو گا ہماری معیشت ترقی کرتی جائے گی، زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھنے لگیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہی توانائی ہوتی ہے، توانائی روشنی بھی ہے اور طاقت بھی، یوں ہم خنجراب میں چاند ی جیسے پہاڑ سے سونے کی طرح چمکتے ہوئے ساحل اور بحیرہِ عرب پر واقع گوادر کی بندرگاہ تک کے راستے یعنی چین پاکستان اقتصادی رہداری پر اب روشنی ہی روشنی دیکھ رہے ہیں۔ یہی روشنی ہمیں خوشحالی کی عظیم منزل پر پہنچائے گی۔

لیکن یہاں کسی مفکر کا قول یاد آرہا ہے کہ بہت تیز روشنی اور اندھیرے میں کو ئی فرق نہیں ہوتا کیو نکہ دونوں میں انسانی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اس کے لیے حقائق کو بہت شفاف انداز میں سامنے رکھنے کی ضرورت اور بدقسمتی سے 2002 ء میں جب گوادر ڈیپ سی پروجیکٹ کا آغاز ہوا تھا اُسی وقت سے بہت سی چیزوں کو فوری طور پر اور شفاف انداز میں سامنے نہیں لایا گیا، اور اس ابہام کی وجہ سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اگر چہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی وفاقی حکومتوں کو بلوچستان کے تحفاظات دور کر نے کے لیے جتن کر نے پڑے اور ڈیپ سی پروجیکٹ تقریباً مکمل ہوا تو سب سے اہم یہ تھا کہ اب گوادر ڈیپ سی پورٹ سے جو راستے پاکستان چین سرحد تک جائیں گے ان کے روٹ کیا ہوں گے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی جانب سے یہ سوالات شکو ک اور اندیشوں کے ساتھ 2013 ء سے 2018 ء تک متواتر اٹھائے جاتے رہے اور کئی مرتبہ اُس وقت وفاقی وزیر احسن اقبال اسلام آباد کے علاوہ ، پشاور اور کوئٹہ آکر بھی بریفنگ دیتے رہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ساتھ ہی یہ باتیں عام رہیں کہ سی پیک کا مشرقی روٹ جو روہڑی اور گھوٹکی سے ملتان،لاہور ، راولپنڈی اور پورے پنجاب سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس پر کام کی رفتار بھی زیادہ رہی اور اس روٹ پر اکنامک زون بھی زیادہ رہے، اس پر یہ تنقید بھی ہو تی رہی کہ یہ سی پیک روٹ جو مغربی روٹ کے مقا بلے میں 300 کلو میٹر زیادہ طویل اور بہت زیادہ ٹریفک کے بو جھ تلے دبا ہوا ہے یہاں ووٹ بنک کو مدنظر رکھ کر زیادہ منصوبے اور رقوم خرچ کی جا رہی ہیں، مگر اب 29 مارچ 2019 ء کو عمران اور اِن کی وفاقی حکومت نے یہ کہا کہ پہلے مغربی روٹ پر کام ہوگا اور بوستان تا ژوب اب شاہراہ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بلو چستان میں آبادی کی گنجانیت سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں بیس گنا کم ہے۔

اس لیے بلو چستا ن کی شاہراہوں کراچی تا اسلام آباد کے مقابلے میں ٹریفک کا دباؤ بھی بیس گنا کم رہتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب گوادر ڈیپ سی پورٹ سے پہلے مرحلے میں خشکی کے راستے خنجراب سے آگے کاشغر اور بیجنگ تک کنٹینروں کے کاروان شروع ہو ں گے تو مشرقی روٹ کے مقابلے میں مغربی روٹ ہی زیادہ کا ر آمد ہو گا۔ جہاں تک تعلق گوادر ڈیپ سی پورٹ سے سی پیک کے اُن روٹوں کا ہے جو ایران اور ترکی کے بعد مغربی یورپ آسٹریا اور جرمنی تک جائیں گے اور دوسری جانب افغانستا ن ، ترکمانستان ، تاجکستان، کر غزستان ، قازقستا ن، از بکستان ،آذر بائیجان، اور اس سے آگے روس، یوکرائن اور پھر مشرقی یورپ پولینڈ وغیرہ تک پہنچیں گے تو یہ روٹ بھی مستقبل میں مغربی روٹ سے ہی منسلک ہو ں گے، یوں اہم روٹ مغربی روٹ ہی ہے اور اس پر پہلے ہی تو جہ دی جانی چاہیے تھی۔ بہر حال شکر ہے کہ اب مغربی روٹ پر توجہ دی جا رہی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاہراہوں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائنوں کے منصوبے بھی شروع کئے جا رہے ہیں جو سی پیک کی انہی شاہراہوں کے ساتھ ہوں گے۔

 یہاں یہ وضاحت ضر وری ہے کہ انگر یزوں کی آمد سے صدیوں پہلے شاہراہوں کے اعتبار سے چین کی شاہراہ ِ ریشم بہت اہم تھی اور اُس وقت چینی تہذیب و تمدن اور صنعتی ترقی یورپ سے بہت آگے تھی۔ ریشم کی صنعت پر پوری دنیا میں اُ ن کی اجارہ داری تھی، اور دنیا میں کاغذ کی ایجاد کی طرح ریشم کی دریافت کا سہرا بھی چینیوں کے سر تھا اور دیوار ِ چین جہا ں چین کے بادشاہوں نے منگولوں، تاتاریوں سے دفاع کے لیے بنائی تھی وہاں اس کا بڑا مقصد ریشم کے راز کو باقی دنیا سے محفوظ رکھنا تھا، اور پھر صدیوں بعد مغربی یورپ کے دو جاسوس جو یہاں پادریوں کے روپ میں آئے تھے کئی سال یہاں قیام کے بعد اپنے عصا کو اندر سے کھوکھلا کر کے ان میں ریشم کے کیڑے چھپا کر یورپ لے گئے اور یہ راز دنیا کومعلوم ہو گیا۔

ہمارے ہاں تقر بیاً ساڑھے تین سو سال قبل اہم ترین شاہراہ مشہور بادشاہ شیر شاہ سوری نے تعمیر کر وائی تھی، یہ شاہر اہ پشاور سے ڈھاکہ تک ہے اور اب سی پیک کے روٹ کے چر چے ہیں، جہاں تک انگریزوں کے عہد میں ہونے والی ترقی یا ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے تو انگر یزوں نے یہاں برصغیر میں آبپاشی اور نہری نظام کو توسیع بھی دی اور جدید تر بنایا بلکہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی دیئے، انگر یز موجد جارج اسٹیفن نے 1825ء میں نوے ٹن وزنی لوھے کے اسٹیم انجن کی ایجاد کے ساتھ 21 ویگنوں اور ایک کوچ پر مشتمل دنیا کی پہلی ٹرین کو 38 میل چلا کر کامیا ب تجربہ کیا اور 1830ء میں برطانیہ میں ٹرینیں باقاعدہ چلنے لگی تھیں۔ ممبئی میں 1853 اور ہمارے پاکستان کے علاقے میں کراچی سے کو ٹری تک ٹرین سروس 1861 میں شروع کر دی گئی تھی جو جلد ہی پنجا ب اور سندھ میںایک نفع بخش سروس ثابت ہوئی اور برصغیر کی اِن ریلوے کمپنیوں کو سالانہ لاکھوں کروڑوں روپے کا منافع دینے لگیں۔ 1839

تک نہ صرف پورے یورپ بلکہ امریکہ میں بھی ریلوے سروس شروع ہو چکی تھی، اور سب سے اہم یہ کہ ریلوے کو جنگوں کے اعتبار سے اہم قرار دیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے بھاری توپوں اور اسلحہ گولہ و بارود کو بڑی مقدار اور تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے اور کم وقت میں پہنچا یا جا سکتا تھا ۔ برطا نیہ کو برصغیر کے دفاع کے لحاظ سے افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے خطرہ تھا، اور تاریخ نے انگریز کو یہ بتا دیا تھا کہ ہندوستان کے حکمرانوں کی دفاعی پالیسی میں یہ خامی تھی کہ وہ افغانستان کی سر حد پر دشمن کو روکنے کی بجائے پنجاب کے وسط پانی پت میں دفاعی لائن ترتیب دے کر برصغیر کا ناکام دفاع کرتے تھے اس لیے انگر یز نے 1839–42 میںپہلی اینگلو افغان جنگ پھر 1878 ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ اور پھر 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ لڑی، یہ تینوں جنگیں ا فغا نستان کی سرحدوں پر یا افغانستان کے اندر لڑیں اور انہی جنگوں کی منصوبہ بندی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ریلوے لائنیں بچھائیں۔

اگر چہ اُس وقت اِن ریلوے لائنو ں کے بچھا نے پر اور پھر ان کی دیکھ بھال پر کافی اخراجات آتے تھے۔ بلو چستان کی آبادی تو اُس وقت تین چار لاکھ سے زیادہ نہ تھی اور اِس آبادی کی اکثریت بھی خانہ بدوش تھی جس کو ریلو ے سروس سے کو ئی سروکار نہیں تھا ۔ کے پی کے کی آبادی آٹھ سے دس لاکھ تھی اور وہ بھی قبائلی آ باد ی تھی اِس لیے ریلو ے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نقصان میں تھی اور اس کا نقصان برصغیر کے دیگر علاقوں میں نفع کمانے والی ریلوے کی کمپنیوں کی مالی امداد سے پورا کیا جاتا تھا ۔ انگریزوں کے جانے کے بعد اگر چہ یہاں صورتحال بدل گئی اور ایک تو آبادی میں اضافہ ہوا تو ساتھ ہی افغانستان، پاکستان تعلقات خصوصاً عوامی سطح پر خوشگوار اور دوستانہ رہے تو شروع ہی میں ریلو ے کا خسارہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کا فی کم ہو گیا اور اگر ہوا تو وہ بعد کے دنوں میں خصو صاً 1980 کی دہائی کے بعد جب پاکستان ریلوے ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی وجہ سے بری طرح اور بڑے خسارے میں جانے لگی، لیکن 2002 ء میں جب گوادر ڈیپ سی پورٹ کا منصوبہ شروع ہوا تو ایک بار پھر بلو چستان میں ریلوے کی اہمیت و افادیت پر ماہرین نے توجہ دی۔

انگر یزوں نے اپنے دور حکومت میں روہڑی ، جیکب آباد ، سبی، بولان ،کو ئٹہ براڈ گیج ٹریک ۔ سبی، ہرنائی برا ڈ گیج ٹریک۔کوئٹہ ،سپیزنڈ ، مستونگ روڈ ، دالبندین، تفتان آگے ایرانی علاقے میر جا وا اور زاہدان تک براڈ گج ٹریک ۔کوئٹہ ، چمن براڈ گیج ٹریک بچھا دیا تھا جب کہ کوئٹہ بوستان براڈ گیج ٹریک کے بعد بوستان سے ژوب تک تقریباً تین سو کلو میٹر ’’چھوٹی لائن،، نیرو گیج ریلوے ٹریک بچھا یا تھا جو 1985 ء میں پاکستان ریلوے نے بند کر دیا، اس ریلوے لائن کے اسٹیم انجن اب ریلوے کوئٹہ اور راولپنڈی کے اسٹیشنوں کے علاوہ ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور اور چند دیگر مقامات پر یادگار کے طور پر کھڑے ہیں۔

2006-7 ء میں بلوچستان کے سابق گورنر اویس غنی نے تجویز دی تھی کہ کوئٹہ سے ژوب براڈ گیج ریلوے ٹریک بچھا کر یہاں سروس شروع کی جائے پھر اس منصوبے کا پی سی ون بھی بنا کر وفاقی حکومت کو بھیجا جس میں فی کلومیٹر برا ڈ گیج ریلوے لائن کی لاگت ایک کروڑ تھی، باوجود اس کے کہ اس منصو بے کو پسند بھی کیا گیا تھا اس پر آج تک کام نہ ہو سکا ، اب اس جانب اشارہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں بوستان سے ژوب تک براڈگیج ریلوے ٹریک کو ڈیرہ اسماعیل خان اور حویلیاں، ایبٹ آباد اور پھر خنجرآب تک لے جایا جائے گا۔ اسی طرح کوئٹہ سے ایران کی سرحد پر واقع پاکستانی ٹا ؤن تفتان 600 کلو میٹر جو ٹریک اپنی خستہ حالی کے باوجود موجود ہے اس کو معیا ر ی بنایا جائے گا اور ایک نیا ٹریک جو گوادر، تربت ، پنجگور، بسمیہ، خضدار، قلات ، مستونگ تک آ کر ایک جانب کو ئٹہ سے منسلک ہو کر چمن تک اور دوسری جانب مستونگ سے منسلک ہو کر تفتان تک جائے گا جب کہ مستونگ کے بعد دالبندین کے قریب سے بھی افغانستان کی سرحد ملتی ہے جہاں افغا نستا ن کے ایک سو کلو میٹر علاقے کے بعد سنٹرل ایشیا ترکمانستان شروع ہو جا تا ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کو ضرورت اس کی ہے کہ فوری طور پر اس کی معیشت بہتر ہو جائے اس کے لیے یا تو جلد ازجلد سی پیک مکمل ہو جائے اور یہاں تیزی سے کارباری تجا رتی اقتصادی سر گرمیاں شروع ہو جائیںاور ہمار ی آمدنیوں میں فوراً مناسب اضافہ ہو جائے یا پھر کہیں سے فوراً تیل اور گیس کے ذخائر دستیا ب ہو جائیں۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ دونوں صورتیں دکھائی تو دے رہی ہیں مگر فی الحال اِن کی صورت سراب کی سی ہے۔ 22

کروڑ عوام پر مالیاتی اقتصادی بحران بڑھ رہا ہے، عوام یہ جانتے ہیں کہ پاکستا ن کی حیثیت بہت زیا دہ اور عمدہ دودھ دینے والی گا ئے کی سی ہے مگر اس کی اقتصادی چراگاہ کو کچھ غیر ملکی اور چند ملکی شخصیات نے صحرا میں بدلنے کی کو شش کی ہے، حکومت وقت کے پاس اب وقت کا ہی امتحان ہے اُسے تھوڑے یا کم وقت میں اس دودھ دینے والی گائے کو مناسب اقتصادی چارہ دینا ہے تاکہ اس کا دودھ جاری رہے اس کے لیے نہایت تیز رفتاری سے متوازن اور مستحکم انداز میں کام کر نا ہو گا، یہاں اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر 2007 ء میں بوستان تا ژوب براڈ گیج ریلو ے ٹریک مکمل ہو جاتا تو آج اس پر فی کلو میٹر پچیس گنا زیادہ لاگت کا تخمینہ بھی نہ ہوتا اور یہ منصوبہ اپنی اس وقت کی لاگت سے دس گنا زیادہ کما کر دے چکا ہوتا ۔

ڈاکٹرعرفان احمد بیگ (تمغۂ امتیاز)

 

The post پاک چین راہداری سے منسلک ترقیاتی منصوبے appeared first on ایکسپریس اردو.


ہیلو فائٹ۔۔۔۔ بنجر زمین سونا اُگلے

$
0
0

ہم میں سے اکثر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی وہ دل خراش تصویر دیکھ رکھی ہوں گی، جس میں ایک قحط زدہ افریقی بچی قریب المرگ ہے، اور چند فٹ دوری پر موجود گِدھ اس کے مرنے کا منتظر ہے۔

قحط کے شکار ملک سوڈان میں کھینچی گئی یہ تصویر ’گدھ اور چھوٹی لڑکی ‘ کے عنوان سے 26مارچ 1993کے نیو یارک ٹائمز میں شایع ہوئی۔ اس تصویر کی اشاعت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ ایک سال بعد اس تصویر کے خالق فوٹو گرافرکیون کارٹر کو دنیا کے معتبر ترین صحافتی ایوارڈ ’پیولٹزر ایوارڈ ‘ سے نوازا گیا۔

سسکتی بلکتی انسانیت کا نوحہ سناتی اس تصویر نے دنیا بھر میں تو کیون کارٹر کو بام شہرت پر پہنچا دیا، لیکن دنیا کا معتبر ترین بین الاقوامی صحافتی ایوارڈ بھی کیون کی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اُس منظر کو اوجھل نہیں کرسکا، گدھ کی آنکھوں میں اپنی خوراک کو دیکھ کر پیدا ہونے والی حریصانہ چمک، بھوک اور پیاس سے ہڈیوں کا ڈھانچا بنی لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب جانے والی بچی کی بے بسی، اپنی بے حسی اور بچے کو نہ بچانے کی خلش نے کیون رچرڈ کو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کردیا۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹو گرافر کیون رچرڈ نے 27جولائی1994کو خودکشی کرکے اس اذیت سے نجات حاصل کرلی۔ دوسری طرف جنوب ایشیائی خطے میں واقع ملک پاکستان ہے، جس کے ایک صحرا میں سیکڑوں بچے بھوک سے نڈھال ہوکر مرتے رہتے ہیں، مائیں اولاد کے غم میں نہ اپنی سوکھی چھاتیوں کو پیٹ سکتی ہیں اور نہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔ تھر، تھر واسیوں کے لیے قحط کا دوسرا نام ہے۔ تھر، جہاں زندگی ارزاں اور پانی مہنگا ہے۔

تھر، جہاں موت ہمہ وقت رقصاں رہتی ہے۔ سوڈان اور تھر میں ایک چیز ’خشک سالی‘ اور ’ قحط‘ مشترک ہے۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی ہوتی جارہی ہے، میٹھے اور صاف پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی آبادی نے ایک عالم گیر مسئلے کو جنم دیا ہے جسے ہم ’ فوڈ سیکیوریٹی ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ کہنے تو یہ دو لفظ ہیں لیکن ان دو لفظوں پر پوری دنیا کی بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ فوڈسیکیوریٹی کو لاحق چیلنجز میں سرفہرست پانی کی قلت، زرعی زمین کا بنجر ہونا، ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کی، زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے پھلوں اور سبزیوں کے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئیں، زمین کو بہتر بنانے کے لیے کیمیائی اور طبعی تبدیلیاں کی گئیں۔

خود اقوام متحدہ غذائی ضروریات کے لیے حشرات الارض کو بہ طور خوراک کھانے کی تجویز دے چکا ہے، لیکن انہیں کھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ سائنس دانوں نے جینیٹک انجینئرنگ جیسی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پودوں کو ’سالٹ آرڈر پلانٹ‘ بنانے کی کوششیں کی، لیکن اس میں بھی ناکام رہے، کیوں کہ ’سالٹ آرڈر‘ ایک کثیرالجینیاتی (ملٹی جینی) کریکٹر ہے، کیوں کہ اس عمل میں بعض اوقات پچاس ساٹھ سسٹم ’سوئچ آن ‘ اور ’سوئچ آف‘ ہو نے پر ہی اس سسٹم میں سسٹین ایبیلٹی آتی ہے۔

حقیقی معنوں میں سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ سوئچ آن اور سوئچ آف کرنے والے ان پچاس ساٹھ سسٹمز کو ایک پودے سے نکال کر دوسرے پودے میں ڈال سکیں۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں مستقبل میں انسانوں کو غذائی قلت سے قابل عمل ’ہیلو فائٹ‘ بچاسکتا ہے، کیوں کہ پانی کی قلت اور زرعی زمین کا بنجر ہونا فوڈ سیکیوریٹی کو درپیش اولین مسائل میں شامل ہے۔ کھارے پانی سے اور بنجر زمین پر نشوونما پانے والے ان پودوں (ہیلو فائٹ) کو جانوروں اور انسانوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال مما لک میں سے ایک ہے۔ دیگر بہت سے قدرتی وسائل کی طرح پاکستان میں بھی ہیلو فائٹ نسل کی ساڑھے چار سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جن کو موثر طریقے سے استعمال کرکے خوردنی تیل، حیاتیاتی ایندھن اور طبی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دنیا بھر میں گنتی کے چند ایک شعبے ایسے ہیں جن میں پاکستان سائنس دانوں کے کام کو سراہا جاتاہے جن میں ایک شعبہ ہیلو فائٹ پر تحقیق کا بھی ہے، جس میں پاکستان کو دنیا بھر میں لیڈر مانا جاتا ہے، لیکن حکومتی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ایک دہائی سے کا زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس سے مستفید نہیں ہوسکا ہے جو کہ ہماری بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بیس جنوری 2006کو جامعہ کے اندر ہی ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن ‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ کھارے پانی میں نشوونما پانے والے پودوں پر تحقیق کے لیے قائم کیے جانے والے اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا مقصد پاکستان خصوصاً تھر میں بنجر زمینوں پر کھارے پانی سے کاشت کاری کرنا تھا۔

کئی کروڑ روپے لاگت سے تیار ہونے والے اس انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ موجودہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر اجمل خان کو بنا یا گیا، جنہوں نے فنڈز کی عدم دست یابی کے باوجود تھر جیسے بنجر صحرا کے ایک ٹکڑے کو عملی طور پر سرسبزوشاداب کر کے دکھایا ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ ’پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھارا پن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔ اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی ۔ اب ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے۔

خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیوں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے تھر سے لے کر مراکش تک کا سارا کا سارا زون ’فوڈ ان سیکیور‘ ہے۔ دنیا بھر میں پودوں کی چھے ہزاراقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتی ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے، جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ میں ہم ایسے تمام پودوں (ہیلو فائٹ، نمکین زمین قدرتی طور پر اگنے والا پودا) پر تحقیقات اور ان کی اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔

ہیلو فائٹ نمکیات والی زمین میں تیزی سے بڑھوتری کرنے والا پودا ہے۔ دوسرے عام پودے مخصوص حد تک نمکیات کو برداشت کرتے ہیں اور جب زمین میں نمکیات بڑھ جائیں تو ان کی نشوونما رُک جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ بہت زیادہ کھاری زمین میں بھی نشوونما پاسکتا ہے۔ ہم نے عملی طور پر اس کام کا آغاز سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹیوں پر پائے جانے والے ہیلو فائٹ سے کیا۔ انہی دنوں میں نے بلوچستان کے علاقے جیونی گیا تو وہاں گدھا گاڑی پر چارے کے طور پر ایک پودا بک رہا تھا، میں نے اسے سونگھ کر دیکھا تو وہ ہیلو فائٹ نسل کا پودا  Panicum Turgidum نکلا، میں اسے خریدنے والے فرد سے کہا کہ یہ تو زہریلا پودا ہے تم اسے جانور کو کھلارہے ہو تو اس نے ہنستے ہوئے کہا سر ہمارا جانور تو پلاسٹک کھا جاتا ہے یہ تو پھر بھی پودا ہے۔ اس کی بات سن کر میں نے طے کرلیا کہ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں سب سے پہلے اسی پر تجربہ کریں گے۔ چارے کے طور پر استعمال ہونے والا یہ پودا کھارے پانے سے نشوونما پاتا ہے اور سالانہ ساٹھ ہزار کلو گرام فی ہیکٹر فصل دیتا ہے۔

ہم نے Panicum Turgidum پر چار پانچ سال تجربہ کیا، جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا اور اسے میٹھے پانی سے پیدا ہونے والی مکئی کی طرح ہی مفید پایا، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میٹھے پانی اور اچھی زمین پر کاش ہونے والی مکئی کی ٖفصل سال میں دو بار ہوتی ہے اور ہیلو فائٹ نسل کا یہ پودا سال میں بارہ فصلیں دیتا ہے۔ گرمیوں میں اس کی فصل زیادہ اور سردیوں میں کم ہوتی ہے، گرمیوں میں آپ بیس پچیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں، سردیوں میں چالیس پینتالیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں۔ ہم نے Panicum Turgidum کا مکمل کیمیائی تجزیہ کیا، اس کی غذائی خصوصیات اچھے اور برے کیمیائی خواص کا کیمائی تجزیہ کیا۔

اس کے بعد ہم نے اسے جانوروں کو کھلا کر ان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا اور اسے مکئی سے زیادہ بہتر پایا۔

یہ سب کام کرنے کے بعد ہم نے اس پودے کو اگانے اور مزید کھارا ہونے سے بچانے کے لیے ایک معیاری طریقۂ کار وضح کیا کہ اس پودے کو کس طرح لگایا جائے جس سے زمین میں نمکیات مزید نہ بڑھیں، اس کے لیے ہم وسط میں Panicum Turgidum کو لگایا اور اطراف میں ہیلو فائٹ نسل کے وہ پودے لگائے جن کے پتے نمکیات کو جذب کرتے ہیں۔ اپنی اس تحقیق کو ہم نے بین الاقوامی تحقیقی جریدے Elsevier  میں شائع کروایا، بین الاقوامی سائنسی جریدے ’سائنس میگزین‘ نے اپنے ایڈیٹوریل میں ہماری اس ریسرچ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایسی ہی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ہیلو فائٹ نسل کے دیگر پودوں سے تیل نکالنے کے لیے گیس کرومیٹک گراف استعمال کیا، ایک پودے کا گیس کرومیٹوگراف کا سیمپل تیار کرنے میں کم از کم دو ہفتے لگتے ہیں، ہم نے تقریباً ساٹھ پودوں سے نکلنے والے تیل کے نمونوں کا گیس کرومیٹو گراف کیا۔ نکلنے والے تیل کا تفصیلی تجزیہ کیا۔

کھانے کے لیے سب سے اچھا تیل وہ ہوتا ہے جس میں غیرسیرشدہ چکنائی زیادہ ہو۔ اس تحقیق سے ہمارے سامنے ایسے بہت سے ہیلو فائٹ آئے جن میں غیرسیرشدہ چکنائی مکئی، پام آئل اور دیسی گھی زیادہ تھی (تقابلی جائزہ گراف میں دیا گیا ہے)۔ اب اگر مکئی اور ہیلو فائٹ میں استعمال ہونے والی زمین اور پانی کو دیکھا جائے تو ہم خراب زمین اور خراب پانی سے زیادہ اچھی فصل دے رہے ہیں۔ اسی انسٹی ٹیوٹ میں ہم نے ہیلو فائٹ سے ایسینشل آئل اور حیاتیاتی ایندھن بھی نکالا۔ دنیا بھر میں بایو فیول بنانے کے دو طریقے رائج ہیں، پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ بیج سے نکلے ہوئے تیل میں سے گلیسرین الگ کردیں ، بچ جانے والا تیل خالص حیاتیاتی ایندھن ہوگا، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پورے پودے کو لے کر اسے ڈائجسٹ (پودے کو شکر میں تبدیل کرنا) کردیں۔

ہیلو فائٹ میں بہت زیادہ نشاستہ پایا جاتا ہے اور جب آپ اسے توڑتے ہیں یہ نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے، حاصل ہونے والی شکر کو الکحل میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور اس الکحل کو حیاتیاتی ایندھن یا ایتھا نول کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایندھن کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ہماری یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جرائد میں شایع ہوئی، اور ہمیں دنیا بھر سے کافی اچھا ریسپانس ملا کہ آپ سمندری پانی اور بنجر زمینوں سے ایتھانول بنا رہے ہیں، یہ بنجر زمینوں کے استعمال کا بہترین تصور ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سرمایہ لگانے پر ہی تیار نہیں ہے۔ اگر کوئی اس تحقیق میں سرمایہ کاری کرے تو پھر ہم چند سالوں میں ہی تھر اور پاکستان کی بنجر زمینوں کو سرسبز اور شاداب بنا سکتے ہیں۔

اس انسٹی ٹیوٹ میں ہیلو فائٹ کے مختلف لیولز کی تحقیق کی جاتی ہے، اور جانا جاتا ہے کہ قدرتی ماحول میں وہ کس طرح رہتا ہے، درجۂ حرارت ، کھاراپن بڑھنے یا روشنی کم ملنے سے اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے وغیرہ وغیرہ، پھر ہم پودے کے اندر جا کر اس کی بایو کیمسٹری دیکھتے ہیں، درج بالا عوامل کی وجہ سے پودے کے انزائم، ہارمونز پر کیا اثر پڑا اور کیا کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں، بایو کیمسٹری کے بعد ہم پودے کے جینز پر جاتے ہیں، یہ بات حقیقت ہے کہ ابھی ہم پودے کے جینز کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوئے ، لیکن مستقل تحقیق ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔

ہمارے پاس جینٹکس کی پوری لیباریٹری ہے، تمام آلات موجود ہیں، ہم جینو مکس (کرموسومز کا مکمل سیٹ) پر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم پودوں کی پروٹین اور دوسرے کیمیکلز پر کام کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں ہم پودے کے کام کرنے کے خلیات کے لیول، فیلڈ لیول، پاپولیشن لیول، انفرادی لیول، مالیکول کا لیول اور دیگر تمام لیول پر کام کر رہے ہیں، دنیا میں ایسے بہت کم انسٹی ٹیوٹ ہیں جہاں ان تمام لیولز پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جارہا ہو۔ ایک طرح سے یہ ہمارے اس انسٹی ٹیوٹ کی انفرادیت ہے۔ ہمارا اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کی موجودہ ڈائریکٹر بلقیس گُل کا کہنا ہے کہ گھارو، بدین اور اطراف کے علاقوں کی بہت ساری زمین سیم و تھور کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے، اگر ہمیں فنڈز دیے جائیں تو ہم وہاں قدرتی ماحول میں کاشت کاری کر سکتے ہیں، یہ جامعہ کراچی کے تحت چلنے والے اس ادارے کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجٹ میں ہمارا فنڈ پندرہ لاکھ روپے مختص کیا جاتا ہے، اس فنڈ میں توہم یہاں کے مینٹینینس کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتے، صرف آلات کو ہی ورکنگ کنڈیشن میں رکھنے کے لیے پچاس ساٹھ لاکھ روپے سالانہ چاہیے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے روکی گئی ریکرنگ (متوازی) گرانٹ ہے، اگرچہ یہاں کے اسٹاف کی تنخواہیں جامعہ کراچی ادا کر رہی ہے لیکن ہمیں تحقیقی کاموں، کروڑوں روپے مالیت کے آلات کو بچانے کے لیے، ان کی مینٹی نینس کرنے کے لیے فنڈز چاہییں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر چلانے کے لیے کم از کم پچاس ملین سالانہ کا بجٹ مختص کیا جانا چاہیے، ابھی ہم صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام میں داخلہ دے رہے ہیں جس میں بایولوجیکل سائنسز کے مختلف شعبوں اور کیمسٹری سے بھی طلبا یہاں آتے ہیں، ہمارے یہاں طلبہ کی تعداد محدود ہے، ایم فل کے لیے پندرہ اور پی ایچ ڈی کے لیے ہر سال دس طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔

اس وقت ہمارے پاس سات ریسرچ گرانٹ ہیں، جو کہ ہماری فیکلٹی اپنی مدد آپ کے تحت لے کر آتی ہے۔ لیکن مالی مشکلات کے باوجود یہ انسٹی ٹیوٹ ڈھائی سو کتابیں اور پانچ سو سے زائد تحقیقی مقالے شائع کرواچکا ہے۔ اگر ہمیں تحقیق کے لیے فنڈز عطا کیے جائیں تو نہ صرف تھر بلکہ پاکستان کو غذائی قلت کے بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہم پورے تھر کو سرسبزوشاداب بنا سکتے ہیں۔ ہم اس سے ادویات، حیاتیاتی ایندھن، خوردنی تیل اور دیگر بہت سے کیمیکل حاصل کرکے زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔

ہم نے فنڈز نہ ہونے کے باجود اپنی ریسرچ نہیں روکی ہے، اس کے علاوہ ہم یونیسکو کی ایکو سسٹم (ماحولیات) پر شایع ہونے والی ایک کتابی سیریز پر کام کر رہے ہیں، گذشتہ ماہ ہی اس سیریز کی 49 ویں بک شائع ہوئی ہے۔ نجی شعبے کے بہت سے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، بہت سے لوگوں کی ہزاروں ایکٹر بنجر زمین تھی، ہم نے انہیں بتادیا کہ وہ سارے اخراجات برداشت کریں تو ہم کام کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمارے پاس آنے والی بزنس کمیونٹی یہ چاہتی ہے کہ آج کام شروع ہو اور دو ماہ بعد ہی زمین سونا اگلنا شروع کردے جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے اور پودوں کو مستحکم کرنے کے لیے کم از کم بارہ سے پندرہ ماہ کا عرصہ لگتا ہے، اس کے بعد آپ اگلے کئی سالوں تک فصل کی کٹائی کرتے رہیں۔

دنیا بھر میں ہیلو فائٹ کی چھے ہزار سے زائد اقسام ہیں، ان میں سے پندرہ فیصد پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ہم نے جو کیٹلاگ کی ہے وہ چار سو پچاس سے زائد ہیں۔ اور اس میں سے ڈیڑھ سو اقسام پاکستان کے کوسٹل ایریاز میں پائی جاتی ہیں۔ ویسے تو ہلکی نمکین زمین پر پالک، ٹماٹر کی کچھ اقسام ، آلو ، چیکو اُگ جاتے ہیں لیکن ساری فصلوں کے لیے نمکین زمین اور پانی کا استعمال نظری اعتبار سے تو ممکن ہے لیکن عملی طور پر ابھی اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے تھر میں کان کنی کرنے والی ایک کمپنی سے رابطہ کیا، کان کنی میں پانی بہت زیادہ نکلتا ہے، ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اس پانی کو کہیں نہ کہیں محفوظ طریقے سے استعمال کرنا ضروری تھا، کیوں کہ اس پانی کو صحرا میں نہیں پھینکا جاسکتا، اگر صحرائی زمین پر نمکین پانی ڈال دیا جائے تو وہ علاقہ بالکل برباد ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس کمپنی سے کہا کہ ہمارے پاس اس پانی کے استعمال کا ایک متبادل طریقہ ہے۔

ہم اس پانی سے اتنا چارہ پیدا کردیں گے کہ تھر میں پھر کبھی قحط نہیں آئے گا، پھر ہم نے ’بایو سلائین ایگری کلچر‘ کے نام سے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا، ڈرپ ایری گیشن کا سسٹم بنایا۔ اس کمپنی نے اس کام کے پائلٹ پراجیکٹ کا خرچہ بھی خود ہی اٹھایا ہم نے اپنی ٹیکنالوجی انہیں دینے کے لیے ایک روپیہ نہیں لیا۔ تھر میں زمین تیار کرنے اور ڈرپ ایری گیشن کے لیے انہوں نے خرچہ کیا۔ ہیلو فائٹ کے لیے فلڈ ایری گیشن نہیں کی جاسکتی، ڈرپ ایری گیشن ہی کرنی پڑتی ہے جس میں ابتدائی طور پر زیادہ خرچہ آتا ہے۔

اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عام فصل تو ایک بار پک جانے کے بعد اکھاڑ کر دوسری فصل لگائی جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ کو ایک بار لگانے کے بعد پانچ سال تک جان چھوٹ جاتی ہے۔ تھر میں ابتدائی طور پر ہم نے ڈیڑھ ایکٹر کے رقبے پر یہ کام کیا، پہلے اپنی نرسری میں پودے کی نشوو نما کی، پھر چھوٹے پودوں کو وہاں لے جا کر اپنی نگرانی میں لگوایا۔ اس کو بڑے پیمانے میں تھر میں پھیلانا ہماری گنجائش سے باہر ہے، ایک تنظیم یہ کام کر رہی ہے جس کے ہیڈ وزیر اعلیٰ سندھ ہیں، وہ اس پراجیکٹ کو آگے لے جانے کے لیے بہت زیادہ دل چسپی لے رہے ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہم اس کا دوسرا فیز شروع کریں گے۔

ایک ڈیڑھ سال پہلے حکومتِ سندھ کے ایک وزیر نے فوڈر پلانٹیشن پر ہم سے کونسیپٹ نوٹ مانگا تھا کہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ کو یہ پروگرام بہت پسند آیا ہے۔ ہمارے پاس کچھ فنڈ ز ہیں جن سے ہم اس منصوبے کو فروغ دینا چاہ رہے ہیں، ہم وہاں آپ کی لیباریٹری بنائیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی جواب نہیں آیا، اس کے علاوہ چند ماہ پہلے ہی گورنر صاحب نے ہمیں بلایا، ہم نے انہیں اس پراجیکٹ کی تمام تر تفصیلات سے آگا ہ کیا، انہوں نے بھی اس میں کافی دل چسپی ظاہر کی، لیکن ابھی تک اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہاں میں ایک بات یہ بھی بتادوں کہ دنیا کے چند گنے چُنے ممالک میں ہی ہیلو فائٹ پر کام ہورہا ہے، چین روایتی فصلوں کو بھی نمکین پانی اور بنجر زمین پر اگانے کے لیے کافی کام کر رہا ہے ، انہوں نے حال ہی میں صحرا میں چاول اگانے کا ایک تجربہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران، تیونس، اسرائیل، امریکا، ترکی میں بھی اس پر تھوڑا بہت کام ہورہا ہے۔

ہیلوفائٹ کے طبی فوائد

ڈاکٹر بلقیس گُل کے مطابق پاکستان میں پائے جانے تقریباً تمام ہیلو فائٹ میں کوئی نہ کوئی طبی خصوصیت ہے، یہ اینٹی آکسیڈینٹ مانع تکسید مادے کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، ہیلو فائٹ میں دوسرے پودوں کی نسبت اینٹی آکسیڈنٹ کئی سو گنا زیادہ ہوتا ہے۔

ہم ہیلو فائٹ کی ان خصوصیات سے فائدہ اٹھا کر کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، آپ سمندر کے پانی سے بنجرزمین پر اسے کاشت کریں، اس میں سے طبی خواص کے حامل کیمیکلز کشید کر کے انہیں بیروں ملک برآمد کریں، یہ دنیا بھر میں مہنگے داموں بکنے والا کیمکل ہے، کیوں کہ اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ اس میں تو ہمارا فائدہ سو فیصد ہے کیوں کہ نہ ہی ہم اچھا پانی استعمال کررہے ہے اور نہ ہی اچھی زمین۔ ہم نمکین پانی اور بنجر زمین استعمال کرکے آپ کو ایک دنیا بھر میں بے پناہ طلب والی کموڈیٹی دینے کو تیار ہے۔

یہ تو محض ایک کیمیکل ہے۔ ہیلو فائٹ کے ہر پودے کے کوئی نہ کوئی طبی خواص ہیں۔ مثال کے طور پر Cressa cretica Linn کو آپ زخموں کے علاج میں، Tribulus terrestris Linn کو جریان، ضعف کے لیے، Acacia nilotica (L.) Willd کو لیکوریا اور پیچش، Ipomoea pes-caprae (Linn.)  Sweet.  کو قبض، دافع تشنج، اسہال اور Zygophyllum simplex Linn. کو امراض چشم اور پیٹ کے کیڑوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

The post ہیلو فائٹ۔۔۔۔ بنجر زمین سونا اُگلے appeared first on ایکسپریس اردو.

کیٹی بومن

$
0
0

امریکی سائسدان کیٹی بومن 29 سالہ کمپیوٹر سائنٹسٹ ہیں جنھوں نے سائنسدانوں کی اس ٹیم کی قیادت کی جس نے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے والا الگورتھم بنایا کیٹی کے اس کام کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں تعریف کی جارہی ہے۔

کیٹی بومن کی قیادت میں ان کی ٹیم نے وہ کمپیوٹر پروگرام بنایا جس کے ذریعے یہ سائنسی کارنامہ ممکن ہو سکا۔ 10اپریل کو جاری کی جانے والی اس تصویر میں زمین سے پانچ سو ملین ٹرلین یا پانچ ہزار کھرب کلومیٹر دور ایک بلیک ہول دیکھا جاسکتا ہے جس میں دھول اور گیس کا ہالا نظر آرہا ہے۔

اس سے قبل سائنسی حلقوں میں یہ تصور تھا کہ اس طرح کی تصویر لینا شاید ممکن نہ ہو۔ کیٹی بومن اس بڑے کارنامے کے لمحے پر انتہائی پرجوش تھیں اور ان کی ایک تصویر میں انھیں بلیک ہول کی تصویر اپنے لیپ ٹاپ پر ڈاؤن لوڈ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنی فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر کیٹی نے لکھا:

’جیسے جیسے بلیک ہول کی میری بنائی ہوئی پہلی تصویر حصوں میں تشکیل پا رہی تھی تو مجھے بلکل یقین نہیں آرہا تھا۔‘

کیٹی بومن نے تین برس قبل اس وقت سے الگورتھم بنانا شروع کردیا تھا جب وہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں گریجویشن کی طالب علم تھیں۔ وہاں انھوں نے اس پراجیکٹ کی قیادت کی اور ان کے ساتھ ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جنس لیبارٹری، ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس اور ایم آئی ٹی ہے سٹیک آبزرویٹری کی ایک ٹیم کا تعاون حاصل رہا۔

بلیک ہول کی یہ تصویر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ یا ای ایچ ٹی نے بنائی جو کہ اصل میں آٹھ دور بینوں کا ایک دوسرے سے جڑا ایک نیٹ ورک ہے۔ لیکن ان الگ الگ دوربینوں کی بنائی ہوئی تصویروں کو رینڈر یا یکجا ڈاکٹر بومن کے الگورتھم نے کیا۔

بلیک ہول کی غیرمعمولی تصویر کے جاری ہونے کے بعد گھنٹوں میں ڈاکٹر بومن بین الاقوامی سطح پر معروف نام بن گئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ ایم آئی ٹی اور سمتھسونین نے بھی سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی۔

ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائینس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیب نے لکھا، ’تین برس قبل ایم آئی ٹی کی گریڈ طالبہ کیٹی بومن نے بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے کے لیے ایک نئے الگورتھم بنانے کی قیادت کی، آج یہ تصویر جاری ہوگئی ہے۔‘ لیکن ڈاکٹر بومن کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم بھی برابر کی تعریف کی مستحق ہے جس نے اس خواب کو حقیقت بنایا۔ وہ اب امریکہ کے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

بلیک ہول کی یہ تصویر لینے کے لیے انٹارکٹیکا سے لیکر چلی تک پھیلے ہوئے دوربینوں کے نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا اور اس کام میں دو سو سے زیادہ سائنسدان شامل تھے۔ ڈاکٹر بومن نے امریکی ٹیلی ویژن چینل ’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ایک شخص اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ مختلف طرح کا کام کرنے والے بہت سارے لوگ اس پر مل کر کام کر رہے تھے۔

٭بلیک ہول کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

٭بلیک ہول آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور وہ چالیس بلین کلومیٹر طویل یا زمین سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے۔

٭یہ میسیئر 87 گیلیکسی میں دس روز تک سکین کیا جاتا رہا۔

٭نیدر لینڈ کی یونیورسٹی رڈباؤڈ کے پروفیسر ہائنو فالکے نے اس تجربے کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بلیک ہول کا حجم ہمارے پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے۔

کیٹی بومن کے الگورتھم نے یہ تصویر کیسے بنائی؟

عام زبان میں بتایا جائے تو یہ ہے کہ ڈاکٹر بومن اور دیگر سائنسدانوں نے مل کر ایسے الگورتھمز کا سلسلہ تشکیل دیا جنھوں نے مختلف دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اس تاریخی فوٹوگراف میں تبدیل۔ اب اس تصویر کو دنیا کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔

میتھمیٹکس اور کمپیوٹر سائنس میں الگورتھم ایک ایسا عمل یا اصولوں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔

کوئی ایک ٹیلی سکوپ اتنی طاقتور نہیں ہے جو بلیک ہول کی تصویر بنا سکتی ہو اس لیے انٹرفیرومیٹری نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے، آٹھ دوربینوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا۔ان دوربینوں کو سیکڑوں کمپیوٹر ہارڈ ڈراؤز پر محفوظ کیا گیا اور انھیں امریکہ کے شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون میں قائم مرکزی پراسسنگ مراکز میں بھیجا گیا۔

کہا جارہا ہے کہ اس ڈیٹا کو پراسز کرنے کا جو طریقہ ڈاکٹر بومن نے وضع کیا تھا وہ اس تصویر کو بنانے یا یو کہیے کہ یکجا کرنے میں سب سے اہم ثابت ہوا۔ ان کے طریقے سے متعدد الگورتھمز مختلف ممکن زاویوں اور امکانات کا استعمال کرتے ہوئے دستیاب ڈیٹا سے تصویر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے بعد ان الگورتھمز کا تجزیہ چار الگ الگ ٹیموں نے کیا تاکہ ان کی دریافت کے بارے میں مکمل اعتماد کیا جاسکے۔ ڈاکٹر بومن نے کہا کہ ’ہم فلکیات دانوں، فزکس کے ماہرین، ریاضی دانوں اور انجینیئرز کا ایک مجموعہ تھے تبھی اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اب سے پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی۔‘

The post کیٹی بومن appeared first on ایکسپریس اردو.

پروسٹیٹ گلینڈ کی سوزش سے بچاؤ کے فطری طریقے

$
0
0

انسانی زندگی کو عام طور پر تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، بچپن،جوانی اور بڑھاپا۔ان ادوار کے بدنی مسائل،غذائی ضروریات اور معمولات کی نوعیت بھی جداہوتی ہے جبکہ بیماریاں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ہاں ایک حقیقت جس سے طبی نقطہ نظر سے انکار ممکن نہیں کہ بچپن اور بڑھاپے میں ایک قدر مشترک ہے، وہ ہے کمزوری۔ بچپن میں بچے کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے، بڑھاپے میں بھی جسمانی اعضاء کی کارکردگی میں ضعف واقع ہونے سے بیماریوں کے خلا ف قوتِ مدافعت کمزور پڑجاتی ہے۔

بچے اور بوڑھے کی زندگی کے مابین ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ بچے کو والدین انتہائی توجہ،تحفظ اور پیار دیتے ہیں جبکہ بوڑھے افراد اکثر بے توجہی اور اولاد کی لا پرواہی کا شکار ہونے کی وجہ سے امراض کے نرغے میں زیادہ پھنستے ہیں حالانکہ بزرگوں کی صحت بھی بچوں کی طرح ہی توجہ،تحفظ اور بہتر نگہداشت کی متقاضی ہو تی ہے۔ بڑھاپا تو بذاتِ خود ایک بہت بڑا مرض ہے، جب اس سے بے توجہی برتی جائے تو بڑھاپے سے جڑے دیگر عوارض اس کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ یوں تو بڑھاپے میں کئی ایک امراض بڑی شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں ان میں جسمانی کمزوری،عضلاتی و اعصابی کمزوری، ضعفِ بصارت وسماعت،امراضِ قلب و گردہ،دماغی مراض اور بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں۔

بوڑھے افراد کے امراض میں سب سے زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ بیماری غدہ قدامیہ(پروسٹیٹ گلینڈ) کی سوزش یا عظمِ غدہ قدا میہ ہے۔ یہ دورِ جدید کا ایک کثیر الوقوع اور صرف مردوں کا مرض ہے۔دنیا کے ہر خطے میں یکساں طور پایا جاتا ہے،عام طور پر 50 سال کی عمر کے بعد سامنے آتا ہے۔ایسے افراد جو صحت کے حوالے سے بے احتیاطی اور لا پرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں یہ مرض40 سال کے بعد لاحق ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔اسے تکلیف دہ اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بوڑھے اور ضعیف افراد کا مرض ہے جبکہ ضعیف افراد تو پہلے ہی انحطاط پزیر ہوتے ہیں، قوتِ مدافعت کمزور پڑجانے سے ان میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت بہت کم رہ جاتی ہے۔

عظمِ غدہ قدامیہ کے اسباب

یہ غدود مثانے کے منہ پر پایا جاتا ہے اور پیشاب کی نالی اس میں سے گزرتی ہے۔جب یہ غدود بڑھتا ہے تو پیشاب کی نالی پر دباؤ پڑ جاتا ہے جس سے پیشاب آنے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔غدہ قدامیہ کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ مردانہ ہارمونز کی افزائش میں بتدریج کمی ہوتی ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وقوع پزیر ہوتی ہے۔مائکرو سکوپی کے ذریعے تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پراسٹیٹ گلینڈکے اندرونی حصہ کے خلیات کا سائز بڑھ جاتا ہے،اور غدود کی فائبرس مسکولر بافتوں کی ساخت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔غدہ قدامیہ کے بڑھنے سے پیشاب کی نالی کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے جس سے پیشاب کے اخراج میں رکاوٹ اورتنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ پیشاب پوری طرح سے خارج نہ ہونے کی وجہ سے مثانہ بھرا بھرا سا رہتا ہے جس سے مثانہ اور گردے متاثر ہوتے ہیں۔

طب قدیم کی رو سے غدہ قدامیہ کی سوزش کے اسباب میں بوڑھے افراد کو ٹھنڈ لگ جانا،پیشاب کو زیادہ دیر تک روکے رکھنا، بدہضمی، تیزابیت، تبخیر، قبض اور بعض بخاروں کا شدید حملہ شامل ہیں۔آج کل ادھیڑ عمر افراد میں بھی غدہ قدامیہ کی سوزش سامنے آرہی ہے۔ایسے افراد جو جنسی عمل میں بہت زیادتی کا مرتکب ہوتے ہیںانھیں اس پریشانی سے پالا پڑسکتا ہے۔

علامات

پیشاب کی شدید رکاوٹ اچانک غدود کے بڑھنے سے ہوتی ہے۔اس کی وجہ غدود کی انفیکشن اور سوزش ہوتا ہے۔مریض کو پیشاب کی حاجت ہوتی ہے لیکن وہ اسے خارج کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔مثانہ پیشاب سے بھرجاتا ہے اور اس میں سخت کھچاؤ اور شدید درد ہوتا ہے۔عام طور پر پیشاب میں خون کی آمیزش ہوتی ہے۔غدہ قدامیہ کی سوزش کی علامات میں دو پہلو زیرِ غور رہنے چاہئیں۔ اول: مریض کو پیشاب کی شدید حاجت ہوتی ہے لیکن جب وہ پیشاب کرنے لگتا ہے تو پیشاب خارج نہیں ہوتا اور  اسے پیشاب کے اخراج کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔پیشاب کی دھار بھی بہت کمزور ہوتی ہے۔دوم: مریض کو پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے۔ایسی حالت میں پیشاب تھوڑا تھوڑا اور با ر بار آتا ہے ۔بعض اوقات پیشاب آنے کا درمیانی وقفہ صرف پانچ یا دس منٹ تک ہوتا ہے۔

تشخیص

اس مرض کی تشخیص میں علامات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور معالج علامات کو مدِ نظر رکھ کر ہی تشخیص کر تاہے۔ پروسٹیٹ کی انفیکشن کی تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ تو پیشاب کی رکاوٹ ہی ہوتی ہے لیکن بسا اوقات یہ علامت کافی نہیںسمجھی جاتی یا یہ مرض کی پوری کیفیت کو ظاہر نہیں کر پاتی۔ تاہم تشخیصی نظام کی جدید ایجادات الٹرا سونو گرافی اور سسٹو سکوپی سے اس مرض کی تشخیص میں کافی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقعد کے ذریعے امتحان بھی تشخیص میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر مزید تشخیص درکار ہو تو ہڈیوں کا سکین، ایکسرے LFT وغیرہ Test کروانے سے مرض کی تشخیص میں  آسانی ہوجاتی ہے۔

 نیچرو پیتھی علاج

طبِ قدیم غدہ قدامیہ کی سوزش کا مکمل،شافی اور کامیاب علاج موجو دہے۔ وقتی افاقہ کے لییِ کیسو کے پھولوں کو پانی میں پکا کر بیرونی طور پر ٹکور کرنے سے فوری آرام ملتا ہے۔ اسی طرح تمباکو کو پانی میں ابال کر نیم گرم باندھنے سے بھی فوری طور پر درد سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گلِ بنفشہ5  گرام، بادیاں5گرام ،جڑ کاسنی5گرام ،مکو خشک 5 گرام،بیج قرطم5 گرام،خطمی5  گرام اور منقیٰ 9  عددکو ایک پاؤپانی میںپکا کر چھان لیں۔ دن میں دو بار شربتِ بزوری کے چار چمچ ملا کر استعمال کریں۔سماق دانہ کو باریک پیس کر ہموزن مصری ملا کر نہار منہ 5 گرام کی خوراک دینے سے بھی مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔علاوہ ازیں بازار میں دستیاب ادویات بھی کمال نتائج کی حامل ہیں۔عرقِ مکو ،عرقِ کاسنی وغیرہ بھی بہترین نتائج کی حامل ادویات ہیں۔

جدیدعلاج

جدید طب میں غدود کے سائز کو کم کرنے کے لیے الفا بلاکرز ڈرگز دی جاتی ہیں۔یہ ایسی ادویات ہوتی ہیں جنہیں مسلسل استعمال کیا جائے تو افاقہ ، دوا چھوڑتے ہی مرض دوبارہ ظاہر ہو کر تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔علاوہ ازیںان ادویات کے ذیلی اور ما بعد اثرات بھی ہوتے ہیں۔جیسے بلڈ پریشر اور سر چکرانا۔ جدید طب میں اس کا سب سے اچھا اور آسان حلTUR ہے۔اس سے پیشاب کی رکاوٹ فوری دور ہوجاتی ہے۔اس آپریشن کو عام طور پر چھوٹے آپریشنز میں شمار کیا جاتا ہے جس سے مریض جلد ہی صحت یاب ہوجاتا ہے لیکن مرض کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات بہر حال موجود رہتے ہیں۔دھیان رہے کہ اس مرض سے بے توجہی برتی جائے تو مرض شدت اختیار کرکے کینسر کے مراحل میں بھی داخل ہوسکتا ہے۔لہٰذا مرض کی ہلکی سی علامت ظاہر ہونے پر ہی اس کے علاج پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے تاکہ بعد ازاں کسی بھی خطرناک صورتِ حال سے بچا جاسکے۔

پرہیز

دورانِ مرض مریض کو چاہیے کہ مکمل طور پر آرام و سکون کرے۔جسمانی حرکات و سکنات سے باز رہے۔وظیفہ زوجیت کی ادائیگی سے بھی دور رہے۔چاہے،کولا مشروبات، شراب، گوشت، تیز مصالحہ جات،سرخ مرچ، چاول، گوبھی، بینگن، چکنائیاں،مٹھائیاں،ترش اور بادی اشیا کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا جائے۔پیشاب آور مشروبات، پھلوں کے جوس وغیرہ کثرت سے استعمال کیے جائیں۔حفظ ما تقدم کے طور پر بچاؤ کے لیے’’سدا بہار جوانی‘‘ اور مخصوص لمحات سے محظوظ ہونے کے نسخوں سے بہر صورت دور رہا جائے۔طاقت بڑھانے کے شوقیہ فارمولوں سے بھی پرہیز کیا جائے۔مرغن اور تلی ہوئی غذاؤں سے بھی اجتناب کیا جائے۔حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر روزانہ صبح کی سیر تواتر سے کی جائے۔ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ آپ اس اذیت ناک مرض سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوںگے۔ n

حکیم نیاز احمد ڈیال
niazdayal@gmail.com
www.hkniaz.com

The post پروسٹیٹ گلینڈ کی سوزش سے بچاؤ کے فطری طریقے appeared first on ایکسپریس اردو.

ادویات استعمال کرتے ہوئے احتیاط اور مشورہ لازم

$
0
0

مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایلو پیتھک ادویات اس صدی کی بہت بڑی دریافت ہیں۔اگرچہ یہ ادویات جلدی اثر کر کے صحت بخشتی ہیں لیکن بیماری کو ختم کرتے کرتے کچھ ایسے اثرات بھی چھوڑ سکتی ہیں جن کا بیماری کے علاج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان اضافی اور غیر ضروری اثرات کو مضر اثرات (Side Effects) کہتے ہیں۔ تقریباً تمام ایلوپیتھک ادویات کھانے سے مختلف قسم کے مضر اثرات ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

یہ اثرات معمولی نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ پرائیویٹ پریکٹس میں ادویات کے اندھا دھند اور غیر ضروری استعمال سے انسانی صحت کو بہت سارے خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مختلف قسم کی ایلو پیتھک ادویات ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کی جائیں اور استعمال کے دوران ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ہدایات کو پیش نظر رکھا جائے۔ عوام الناس کی آگہی کے لیے اس لکھے گئے مضمون میں مختلف قسم کی ایلوپیتھک ادویات اور اُن کے مضر اثرات کے بارے میں ضروری معلومات دی جا رہی ہے تاکہ اِن کے استعمال کے دوران ہونے والے کسی قسم کے مضر اثرات ہونے کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اِن پہ قابو پایا جا سکے۔

عام طور پر مضر اثرات ادویات کے کیمیائی اثر سے ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ادویات ایسی ہیں جن کے اثرات معمولی نوعیت کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں لیکن بعض دفعہ کوئی ایک مضر اثر خطرناک حدتک پہنچ جاتا ہے اور اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا جائے تو موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کسی دواکے تمام کے تمام مضر اثرات ایک ہی مریض میں ظاہر نہیں ہوتے۔ کچھ مریضوں میں ایک طرح کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو دوسرے مریضوں میں دوسری طرح کے۔ بعض مریضوں میں ایسے مضر اثرات سرے سے نمودار ہی نہیں ہوتے۔ ان اثرات کے ظاہر ہونے کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں جو مریض کی جنس، عمر، وزن، خوراک، دوا کی مقدار اور بیماری کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ دوا کی مقررہ مقدار سے زیادہ خوراک لینے سے بھی مضر اثرات ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر دوا کے ساتھ کھانے پینے کے بارے میں بتائی گئی ہدایات پر عمل نہ کیا جائے تو بھی مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔

آپ جب بھی کوئی دوا اکیلی یا دوسری ادویات کے ساتھ استعمال کر رہے ہوں تو ڈاکٹر سے ان کے ممکنہ مضر اثرات اور احتیاط کے بارے میں ضرور پوچھ لیں۔ بعض اوقات صرف دوا کی خوراک بدلنے یا اسے کھانے کے ساتھ لینے سے بھی مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے؛ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر ڈاکٹر کسی اور طریقے سے ان اثرات کو ختم یا کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

سات حفاظتی تدابیر:

-1دوا ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے لیں، نسخہ کے مطابق استعمال کریں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔

-2دوا لیتے وقت ڈاکٹر سے اس کے ممکنہ مضر اثرات کے بارے میں ضرور پوچھ لیں تا کہ آپ کو غیر ضروری پریشانی نہ ہو۔ عام طور پر ادویات کی پیکنگ کے اوپر یا اس کے اندر ایک کاغذ پر اس طرح کے مضر اثرات کی تفصیل اور دوسری معلومات لکھی ہوتی ہیں۔

-3یاد رکھیں اگر آپ حاملہ ہیں، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (شوگر) یا کسی اور پرانی بیماری کی مریضہ ہیں تو کوئی دوا کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔

-4اگر آپ کو کسی دوا سے الرجی ہے تو ڈاکٹر کو ضرور بتائیں۔

-5اگر دوا لیتے وقت یا اس کے فوراً بعد آپ کی طبیعت خراب ہونے لگے تو مزید دوا نہ لیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

-6مختلف ادویات کو آپس میں نہ ملائیں۔ اگر آپ ایک سے زیادہ ادویات استعمال کر رہے ہوں، چاہے وہ اسپرین (Aspirin) یا تیزابیت دور کرنے والی دوا (Antacid) ہی کیوں نہ ہو، ڈاکٹر کو اس کے بارے میں بھی ضرور بتائیں۔ دواؤں کو الکحل کے ساتھ کبھی استعمال نہ کریں۔

-7دوا کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ مدت تک کھائیں۔ اپنی مرضی سے اس مدت میں کمی بیشی نہ کریں۔

بچوں کے لیے ادویات کا استعمال:

بچوں کے معاملہ میں ادویات کے استعمال میں اور بھی زیادہ توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑوں کے برعکس، مختلف عمر کے بچوں کیلئے دوا کی خوراک مختلف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض ایسی ادویات جو بڑوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں، بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثلاً اسپرین (Aspirin)کا استعمال بچوں میں جگر کی بیماریوں اور دماغی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے بچوں کو اسپرین کبھی نہ دیں۔ اسی طرح 10 سال سے کم عمر کے بچوں کو اگر ٹیڑا سائیکلین (Tetracycline) دی جائے تو ان کے دانت پیلے ہو جاتے ہیں اور ان کی ہڈیوں کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مختلف ادویات دیتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:

٭                   تمام ادویات کو ہمیشہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔

٭                   دوا ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ خوراک و مقدار کے مطابق دیں۔

٭                   بچوں کو دوا ہمیشہ اپنی موجودگی میں دیں ورنہ وہ زیادہ مقدار میں خوراک لے سکتے ہیں۔

٭                   بچوں کو میٹھی یا شوخ رنگوں والی دوا کبھی مٹھائی یا جوس کہہ کر نہ پلائیں بلکہ دوا ہی بتا کر دیں۔

اسہال یا ڈائریا  (Diarrhoea)  میں ادویات کا استعمال:

جب دن میں تین یا تین سے زیادہ پتلے پاخانے آئیں تو اسے اسہال یا ڈائریا (Diarrhoea) کہتے ہیں۔ ہر سال بہت سے بچے ڈائریا کے نتیجے میں جسم میں پانی اور نمکیات کے ساتھ ساتھ غذائیت کی کمی سے مر جاتے ہیں۔

اچانک ہونے والا ڈائریا تو چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ڈائریا روکنے والی مختلف ادویات اور اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics) لینے کا بالکل کوئی فائدہ نہیں۔ تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈائریا میں ادویات کا استعمال بالکل غیر ضروری ہے۔ بلکہ ڈائریا روکنے والی ایک مشہور دوا سے کئی بچوں کی اموات بھی واقع ہوئیں۔ اس صورت میں ادویات  استعمال کرنے سے پیسے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کو نقصان پہنچنے کا بھی امکان ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی انفیکشن کی وجہ سے ڈائریا ہو تو پھر اس انفیکشن کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

اچانک ہونے والے ڈائریا کے زیادہ تر مریضوں کو کافی مقدار میں جوس، نمکول (ORS)، پانی اور سوپ وغیرہ دینا فائدہ مند ہے۔ صرف چند مریض ایسے ہوتے ہیں جنھیں پانی اور نمکیات کی شدید کمی اور نہ رُکنے والی بہت زیادہ قے کی صورت میں ہسپتال داخل کرانے کی  اشدضرورت ہوتی ہے، جہاں ان کے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو ڈرپ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔

جب آپ کے بچے کو ڈائریا ہو جائے تو اسے پینے والی چیزیں زیادہ دیں۔ دودھ پلانا جاری رکھیں اور اسے ابلا ہوا پانی، نمکول (ORS) اور ہلکی غذا دیں۔ ڈائریا کے ذریعہ جو پانی خارج ہو رہا ہے اس سے زیادہ بچے کو منہ کے ذریعے دینا چاہیے۔ اگر پانی اور نمکیات کی کمی پوری ہوتی رہے تو پھر ڈائریا سے کسی قسم کے فوری نقصان کا خطرہ نہیں رہ جاتا۔

حمل کے دوران ادویات کا استعمال:

حمل کے دوران کسی بھی مرحلے پر ادویات استعمال کرنے سے ہونے والے بچے پر ان کے نقصان دہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔ آسانی کے لیے حمل کی مدت کو 3 برابر مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

٭پہلی سہ ماہی: پہلے تین ماہ

٭دوسری سہ ماہی:چوتھے ماہ سے چھٹے ماہ تک

٭تیسری سہ ماہی:ساتویں ماہ سے نویں ماہ تک

پہلی سہ ماہی کے دوران ادویات کا استعمال بچوں میں کوئی پیدائشی نقص پیدا کر سکتا ہے۔ حمل کے شروع کے 3 سے 11 ہفتوں کے دوران بچے کو نقصان پہنچنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران دواؤں کے استعمال سے بچے کی نشوو نما رک سکتی ہے یا  پھراس کے جسم پر ادویات کے زہریلے اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ حمل کے آخری دنوں یا زچگی کے دوران لی گئی ادویات کا مضر اثر بچے پر پیدائش کے بعد بھی ظاہرہو سکتا ہے۔ حمل کے دوران صرف اسی صورت میں دوا استعمال کریں جب آپ کو پورا یقین ہو جائے کہ اس سے ماں یا بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگر ممکن ہو تو پہلی سہ ماہی کے دوران کسی قسم کی دوا استعمال نہ کریں۔

رضاعت  (Lactation)  کے دوران ادویات کا استعمال:

رضاعت وہ مدت ہے جس کے دوران ماں بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہے۔

دودھ پلانے والی ماؤں کو ادویات استعمال کرنے کے معاملہ میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بہت سی ادویات ماں کے دودھ میں شامل ہو کر بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

اگر ماں کے لیے دوا استعمال کرنا لازمی ہو اور دوا بھی کسی حد تک محفوظ ہو تو اسے دودھ پلانے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد اور دوبارہ دودھ پلانے سے تین گھنٹے پہلے استعمال کرنا چاہیے۔

ایسی ادویات جن کے دودھ پینے والے بچوں پر ہونے والے اثرات کے بارے میں تحقیق مکمل نہیں ہوئی انہیں استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ مشورہ ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے، اس لیے کوئی بھی دوا استعمال کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ بے حد ضروری ہے۔ ماں کے دودھ کے ذریعے بچے پر اثر انداز ہونے والی چند مشہور  ادویات میں کلورم فینی کال (Chloramphenicol) ڈائزی پام (Diazepam)، مارفین (Morphine)، ایسٹروجن (Oestrogen) وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اپنی مرضی سے ادویات استعمال کرنے کے نقصانات :

ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر اور اپنی مرضی سے ادویات استعمال کرنا صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ ان ادویات کے مضر اثرات سے زندگی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اسپرین (Aspirin) کا زیادہ استعمال کرنے سے معدے کا السر ہو سکتا ہے۔ پینسلین اور مختلف قسم کی اینٹی بائیوٹک ادویات کی وجہ سے ہونے والے صدمہ (Shock) سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یرقان اور گردے کی پتھری ہونے کی ایک وجہ اپنی مرضی سے ادویات لینا بھی ہو سکتا ہے۔ مختلف قسم کی ادویات کے غیر ضروری استعمال سے سب سے زیادہ جگر متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ جگر انسانی جسم کی بائیو کیمیکل لیبارٹری کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خود سے ادویات استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے اور مختلف بیماریوں کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات کا استعمال کیا جائے۔

اس کے علاوہ اپنی مرضی سے ادویات استعمال کرنے سے مریض ان کا عادی ہو جاتا ہے۔ شروع میں درد یا پریشانی دور کرنے کیلئے اپنے طور پر ہی کوئی نہ کوئی دوا مسلسل لی جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم اس دوا کا عادی ہو جاتا ہے اور آخر کار انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے جیسا کہ ہیروئین کے نشہ میں ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics)، سٹیرائیڈز (Steroids)، سکون آور دواؤں (Tranquillisers) کا بغیر سوچے سمجھے اور غیر ضروری استعمال جو معمولی امراض کیلئے کیا جائے بہت ہی خطرناک ہے۔ اس عادت سے وقتی طور پر آرام ضرور محسوس ہوتا ہے لیکن بعد میں زندگی بھر کیلئے پریشانی کا باعث بن جاتاہے۔ ان ادویات کے مسلسل استعمال سے گردے، جگر اور جسم کے دوسرے اعضا کو نقصان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان تمام نقصانات سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ دوا ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ کے بعدلیں۔

The post ادویات استعمال کرتے ہوئے احتیاط اور مشورہ لازم appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
چاروں طرف سے بند تھا پتھر کا آدمی
باہر کہاں سے جھانکتا اندر کا آدمی
میرے تمام راز عدو جانتا ہے کیوں
کیا اس سے مل رہا ہے کوئی گھر کا آدمی
میں ایڑیاں کٹا کے بھی اس سے بلند ہوں
وہ چاہتا ہے اپنے برابر کا آدمی
ہو کیسے ختم نشہ تری نسبتوں کا یار
جائے کہاں اب اٹھ کے ترے در کا آدمی
جیسے اسی کے پاس ہوں سب کارِ اختیار
اترا رہا ہے خود پہ یوں دَم بھر کا آدمی
گرداب کر رہے تھے مرا ذکر بار بار
لہروں کو میں لگا تھا سمندر کا آدمی
(آزاد حسین آزاد۔ منڈی بہائو الدین)

۔۔۔
غزل
آپ بے کار الجھ بیٹھے ہیں تقدیر کے ساتھ
پہلے پڑھیے تو ذرا صبر کو تفسیر کے ساتھ
مصلحت ہے کہ محبت ہے غضب ہے جو ہے
دیکھ! دیوار اتر آئی ہے تصویر کے ساتھ
مفلسی آگئی اس بار بھی آڑے ورنہ
لازماً پھول بھی ملتے تجھے تحریر کے ساتھ
کیا ہی اچھا تھا شہہِ وقت کہ ایسا ہوتا
دکھ فلسطیں کا بھی ہوتا تجھے کشمیر کے ساتھ
سوجھتا ہے کبھی فیصلؔ جو کنارا کرنا
لاکھ خدشات جنم لیتے ہیں تدبیر کے ساتھ
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
یہ مری شاعری محبت کی
داستاں آپ کی محبت کی
جن دنوں تیرے شہر آئے تھے
اُن دنوں آخری محبت، کی
پہلے تھا عشق شاعری سے مجھے
آپ سے دوسری محبت کی
چاندی اتری ہوئی تھی بالوں میں
ہم نے بے موسمی محبت کی
پھول مسلا پڑا ہے پیروں میں
دیکھ لے خود کشی محبت کی
ہم نے عمرانؔ عمر بھر بانٹی
چار سُو روشنی محبت کی
(علی عمران۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
اس سے کہتا ہوں مری جان، مری جان نہ لے
اور ڈرتا ہوں میری بات کہیں مان نہ لے
میں مسافر ہوں، مرے پاس فقط دل ہے مرا
میرا سامان یہی ہے، میرا سامان نہ لے
روز کاجل یونہی آنکھوں میں لگائے رکھنا
میری صورت کو زمانہ کہیں پہچان نہ لے
جانے والے میں ترے واسطے پاگل ہوں بہت
تجھ پہ مر جاؤں گا، لیکن مجھے آسان نہ لے
مشورہ دے تو دیا ہے کہ بچھڑ جاتے ہیں
یار جاذبؔ وہ کہیں میرا کہا مان نہ لے
(سلیمان جاذب۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
نہ تو ہجر ہی میں سکون ہے، نہ قرار پایا وصال میں
یہ بڑی عجیب ہے کیفیت، ہے کمی ہی کوئی غزال میں
وہ جو دور ہو تو رفیق ہے، وہ قریب ہو تو دقیق ہے
میں کروں تو ایسے میں کیا کروں، یہی کشمکش ہے خیال میں
وہ حسیں، جمیل ہے خوبرو، میں ہوں عام سی لیے رنگ و بُو
وہ ہے آسماں، تُو زمیں ہے، وہ عروج ہے، تُو زوال میں
تیری جستجو میں نہ کچھ ملا، مجھے شرق و غرب پھرا دیا
مجھے تُو کہیں بھی نہ مل سکا، نہ جنوب میں نہ شمال میں
وہ جواز تیری نماز کا، وہ خراج راز و نیاز کا
وہ جو کل ہے حسن مجاز کا، اسے ڈھونڈ حسنِ خیال میں
نہ قریب ہے نہ وہ دور ہے، نہ وہ برق ہے، نہ وہ طور ہے
وہ اگرچہ نور ہی نور ہے، وہ ملے گا قلبِ غزال میں
(غزالہ تبسم۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
پھول بکھرے پڑے ہیں وعدوں کے
کاغذی پیرہن ہیں باتوں کے
شہر میں تم ہی اک سخن ور ہو
پتے جھڑنے لگے ہیں شاخوں سے
شام ہوتے ہی گھیر لیتے ہیں
مجھ کو جگنو تمھاری یادوں کے
آپ نے ٹھیک ہی سنا ہو گا
اب کئی زاویے ہیں سوچوں کے
میں نے سارے اتار پھینکے ہیں
نقش جتنے تھے چاند چہروں کے
(امجد بابر۔ گوجرہ)

۔۔۔
غزل
عجب خمار تری یاد کی شراب میں ہے
کہ یہ قرار بھی اب حدِاضطراب میں ہے
بگڑتی بنتی ہے شب بھر وہ دیدہ و دل میں
جو ایک شکل دل و دیدۂ خراب میں ہے
وہ ابر تھا کہ نکل ہی نہیں سکی تھی وہ کل
جو دھوپ پھیلی ہوئی آج میرے خواب میں ہے
بچا کے رکھتا ہے ہر جمع و خرچ سے مجھے
وہ ایک دستِ دعا جو مرے حساب میں ہے
کسے بتائیں محبت ہے جو ہے پیشِ نظر
کسے دکھائیں جو وحشت ابھی حجاب میں ہے
(کامران نفیس۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
خموش ہونٹوں سے سارے کلام کرنے لگے
وہ سب کے سب ترے بارے کلام کرنے لگے
ڈھلی جو شام تو اشکوں سے گفتگو تھی مری
پھر اس کے بعد ستارے کلام کرنے لگے
تمہارا ذکر چھڑا جب تو معجزہ یہ ہوا
کہ جتنے گونگے تھے سارے کلام کرنے لگے
تری اداسیوں، بے چینیوں سے ظاہر ہے
کہ اب یہ زخم ہمارے کلام کرنے لگے
کسی کے سامنے گلزار آگ ہونے لگی
کسی کے جسم سے آرے کلام کرنے لگے
ہماری غزلوں کا تاثیر، آسرا لے کر
تمہارے ہجر کے مارے کلام کرنے لگے
(تاثیر جعفری۔ کبیر والا، ملتان)

۔۔۔
غزل
بیلوں سے لدی کوئی بھی کھڑکی ہے کہ در ہے
اندر بھی کوئی ہے کہ مِرا حسنِ نظر ہے
میں شہر میں رہ کر بھی کہاں ہوں کسے پوچھوں
اِن بَل پڑی گلیوں میں اِدھر ہے نہ اُدھر ہے
اترے ہیں سرِ شام شعاؤں کے جنازے
کیا میرے بدن میں بھی سمندر کا جگر ہے
ہِل جائوں اگر صبح کی اک چاپ بھی ابھرے
جس موڑ پہ اس وقت مِرا شب کا سفر ہے
آنکھیں ہیں کہ ہیں سرحدِ امکان پہ چوکس
دل ہے کہ ہلاکو کی گزر گاہِ نظر ہے
میں داد طلب تھاکبھی اب عذر طلب ہوں
اب عذر بیانی ہی یہاں دادِ ہنر ہے
(اقبال رمیض۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
کہتا ہے آج بھی مرا یاور فلاں فلاں
ہیں کام عشق سے بہتر فلاں فلاں
ہیں بابِ خواب پر کئی اپنے کماں بدست
تانے ہوئے فصیلوں میں نشتر فلاں فلاں
وہ سانحاتِ عشق سے ڈرتی ہے کیا کروں
کہ ہو رہے ہیں قتل بھی در در فلاں فلاں
حاصل ہوا ہے کیا ہمیں بیگانگی کے بعد
ہیں تذکرے تو آج بھی گھر گھر فلاں فلاں
کل ان کی خوشبوؤں نے سجایا تھا مرغزار
آئے ہوئے تھے پھول بھی چل کر فلاں فلاں
کہتی ہے اک غزل تو میرے نام بھی کہیں
ہیں آپ کو تو شعر بھی ازبر فلاں فلاں
عصمتؔ مقدروں کے ہیں تابع محبتیں
کہ ہیں اڑان میں کئی شاہپر فلاں فلاں
(عصمت اللہ سیکھو۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
ماہ گزرے ہیں سال گزرے ہیں
مجھ پر اکثر محال گزرے ہیں
مشکلیں، دکھ، مصیبتیں، صدمے
کیسے کیسے وبال گزرے ہیں
آنا جانا تھا جن کا سالوں سے
میرے کوچے سے خال گزرے ہیں
جب بھی آئے ہو میرے خوابوں میں
سارے لمحے کمال گزرے ہیں
دل شگفتہ میں راہیں نکلی ہیں
میرے شیشے میں بال گزرے ہیں
رونقیں میرے گھر کی کیا ہوں گی
سب اندھیروں میں سال گزرے ہیں
میں اکیلا کبھی نہ تھا بزمیؔ
ساتھ رنج و ملال گزرے ہیں
(شبیر بزمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
منصف ہو آج کر دو محبت کا فیصلہ
میں مانتا ہوں تیری شریعت کا فیصلہ
انصاف کب کسی کو ملا ہے سماج سے
کرتے ہیں لوگ اپنی ضرورت کا فیصلہ
سورج گرم ہے یا تیرے سانسوں کی ہے تپش
ہونے لگا ہے آج قیامت کا فیصلہ
تم آؤ گے؟ تو آؤں گا، موسم بھی خوش گوار
ہے آج تیری میری طبیعت کا فیصلہ
میں ہوں غلام اِبنِ علی کے غلام کا
کیسے کروں یزید کی بیعت کا فیصلہ
(شاہنواز ارشد۔ بھکر)

۔۔۔
غزل
دل میں تیرا خیال رکھنے سے
کیا ملا ہے ملال رکھنے سے؟
سب جوابوں سے آشنا ہوا میں
تیرے در پر سوال رکھنے سے
زہر اتنا بھی مت بھرو دل میں
پھٹ نہ جائے وبال رکھنے سے
تیری عزت بنی رہے گی میاں
پگڑیوں کو سنبھال رکھنے سے
دور بیماریاں ہو جاتی ہیں
رزق گھر میں حلال رکھنے سے
مر گئیں مچھلیاں سمندر میں
دیکھ پانی پہ جال رکھنے سے
کیا ملے گا تجھے بتا عاشرؔ؟
یونہی خود کو نڈھال رکھنے سے
(راشد خان عاشر۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
جھوٹی محبت، جھوٹے وعدے سارے ہیں
ہر میدان میں جیت کے بھی ہم ہارے ہیں
چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو آنگن میں
خواب ہیں، اک اک کر کے میں نے مارے ہیں
جو سورج تھا، وہ تو کب کا ڈوب چکا
اب تو میرے دامن میں بس تارے ہیں
جن کے ساتھ بہت ہی گہرا رشتہ تھا
اُف وہ در دیوار بہت ہی پیارے ہیں
توبہ توبہ کتنا شہرہ ہے ان کا
ان کی آمد کے ہر سو نقّارے ہیں
یا رب تیرے ہات میں لاج ہے احمدؔ کی
دریا میں ہے کشتی، دور کنارے ہیں
(احمد رضا۔ گجرات)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

تحقیق کرو۔۔۔ نیند کیوں کر آتی ہے؟

$
0
0

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کی نیند کے بارے میں بنائے جانے والے قصے کہانیاں نہ صرف ہماری صحت اور موڈ دونوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ ہماری زندگی کو بھی کم کرتے ہیں۔

نیو یارک یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے انٹرنیٹ پر دیے جانے والے رات کی نیند کے سب سے زیادہ مقبول نسخوں کا پتا لگایا۔ رپورٹ کے مطابق نیند لانے کے لیے آزمائے جانے والے نسخوں میں ٹی وی دیکھنا، اسمارٹ فون کا استعمال، الارم بجنے کے بعد ’’اسنوزبٹن‘‘ دبا کر جھپکی لینا شامل ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان نسخوں پر عمل سے نیند اچھی نیند نہیں آتی اور صحت پر مضر اثرات مُرتب ہوتے ہیں۔

محققین کی تحقیق اپنی جگہ لیکن ہمارا اس سے پوری طرح متفق ہونا ضروری نہیں۔ ویسے تو بعض لوگوں کو بیوی دیکھ کر بھی نیند آجاتی ہے، لیکن ٹی وی دیکھ کر خوابوں میں کھوجانا تو بڑی عام سی بات ہے، بشرط یہ کہ ٹی وی پر حکومت کا کوئی حامی اینکر حالات کی منظر کشی کر رہا ہو یا کوئی وزیر مستقبل کا نقشہ کھینچ رہا ہو، پھر تو دل ودماغ کو وہ سکون ملتا ہے کہ ناظر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا اور سوجاتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی حکومت مخالف تجزیہ کار حکومتی کارکردگی کا احوال پیش کر رہا ہو تو دیکھنے والے کو صبح دیکھ کر لگتا ہے ’’یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا‘‘ کا قصہ ہوگا، لیکن وہ استفسار پر جھنجھلا کر کہتا ہے ’’مجھ کو ایک تجزیہ کار نے سونے نہ دیا۔‘‘ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سوتے سمے ٹی وی پر ’’مثبت خبریں‘‘ دینے والے چینل اور پھر رات بھر سُہانے خواب دیکھیں۔

جس طرح ’’دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت‘‘ اس طرح ہمارے ہاں نیند لانے والے عوامل بہت کم ہیں اور اسے بھگانے والے افراط سے، جن کی فہرست میں ٹی وی سے پہلے بیوی کا نام آتا ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بیویوں کو اپنے نصیب کے سونے کا خیال عین شوہر کے سونے کے اوقات میں آتا ہے، پھر شکوے شکایات اور خاندان کی حکایات نہ سُنو تو ’’ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمھیں پیاری ہے‘‘ کا گِلہ سُننے کو ملتا ہے۔ بڑے جگر والے ہیں جو اس توتو میں میں، جس میں بیوی توتو اور شوہر میں میں کر رہا ہوتا ہے، کے بعد بھی ’’اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہوچکی‘‘ کا ارادہ باندھتے ہیں، ورنہ اس تکرار میں نیند فرار ہوچکی ہوتی ہے۔

نیند کی راہ کا روڑا وہ ایس ایم ایس بھی بنتے ہیں جن میں عین سوتے وقت آپ کو موت یاد دلائی جاتی ہے۔ یوں تو موت کا ایک دن معین ہے، لیکن ایسے ایس ایم ایس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی اس خوف میں گرفتار ہوجاتا ہے کہ کہیں کل کا دن ہی متعین نہ ہو۔ ہم جیسے سیاہ کار اس خوف کا شکار ہوکر نیکی کی طرف مائل ہونے کے بجائے اس فکر میں غلطاں ہوجاتے ہیں کہ کون کون سے گناہ سرزد ہونے سے رہ گئے؟

اگر آپ کا گھر کسی ’’لاؤڈاسپیکر‘‘کی زد پر ہے تو جوش سے بھری ہوش اُڑاتی آواز رات گئے تک آپ کی نیند اُڑائے رکھتی ہے۔ کان بند کرنے کے لیے تکیے پر تکیہ کرنے سے بھی بات نہیں بنتی۔ محلے کی شادی میں گانوں کی ریکارڈنگ اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ پھٹے ڈھول سی آوازوں کا شور آپ کو پَرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ بنائے رکھتا ہے، یہ شادی کئی دن تک آپ کی نیند کی بربادی بنی رہتی ہے۔ کسی شادی میں جانا بھی اپنے ہاتھوں نیند کو بھگانا ہے، جس کی وجہ رات بارہ بجے ملنے والا کھانا ہے۔ یہ مُرغن کھانا ڈکاروں کی صورت میں خراٹوں کو آپ سے دور رکھتا اور جاگنے پر مجبور رکھتا ہے۔

اب اتنے سارے نیند بگاڑ عوامل کے ہوتے ہوئے تحقیق یہ ہونی چاہیے کہ کسی کو نیند آتی ہے تو کیوں کر آتی ہے؟

The post تحقیق کرو۔۔۔ نیند کیوں کر آتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر بندروں میں ذہانت جاگ اُٹھی!

$
0
0

ہم جیسا ’’مِٹی پاؤ‘‘ فلسفے پر یقین رکھنے اور عمل کرنے والا شخص جب سائنس دانوں کو مختلف سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی جستجو میں ہلکان ہوتے دیکھتا ہے تو حیرت کرتا ہے کہ بھئی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ ایسا نہیں کہ ہم تحقیق کے قائل نہیں، ہم تو خود محقق ہیں۔

ہمارا تحقیقی موضوع تھا ’’غالب کی کالم نگاری کی خصوصیات، اوصاف اور تمام پہلوؤں کا باریک بینی اور گہرائی سے لیا جانے والا ایک دقیق وعمیق تحقیقی جائزہ۔‘‘ اس موضوع پر ہم نے تحقیق کے بعد اسی عنوان سے جو مقالہ لکھا وہ پورے کا پورا یہ تھا،’’ہم نے بڑی کھوج لگائی، مگر غالب کے کالم نگار ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، پس تو ثابت ہوا کہ وہ کالم نگار نہیں تھے، پھر کاہے کی خصوصیات۔‘‘ لیجیے مسئلہ پانی کردیا، اسے کہتے ہیں تحقیق۔ لیکن سائنس داں حضرات بلاوجہ کے سوالوں میں اُلجھ کر الجھنیں بڑھاتے ہیں۔

آپ ہی بتائیے، بھلا یہ کھوج لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ کون سے جین ہیں جو انسان کو ذہین بناتے ہیں۔ بھئی سُراغ لگانا ہے تو اس کا لگاؤ کہ سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جینیات میں ایسا کیا شامل ہے کہ وہ ذہین انسانوں کو بھی بے وقوف بنالیتے ہیں۔ خیر ہمیں کیا، بہ الفاظ دیگر مٹی پاؤ، بتانا یہ تھا کہ چینی سائنس دانوں نے بندروں کے دماغ میں انسانی جینز امپلانٹ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سے جینز ہیں جو انسانوں کو ذہین بناتے ہیں۔

ہمیں ڈر ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں اگر بندروں میں ذہانت جاگ اُٹھی تو کیا ہوگا؟ ڈارون صاحب کی مشہورزمانہ تھیوری کے باعث ہم پہلے ہی پریشان رہتے تھے کہ اس نظریے کے مطابق جس طرح ہم انسان بندروں کی ترقی یافتہ شکل ہیں اسی طرح جانے کب بندر ترقی کرکے انسان بن جائیں، ہم انھیں لاکھ سمجھائیں کہ بھیا ہم نے ’’کیا پایا انساں ہوکے‘‘ لیکن وہ باز نہ آئیں۔ اب تو ہمیں اپنا یہ خدشہ حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

ہم اس فکر میں غلطاں ہیں کہ بندروں کو انسانی ذہانت مل گئی تو ہم بندوں کا کیا ہوگا۔ ادھر عقل آئی اور اُدھر چھوٹتے ہی وہ مطالبہ کردیں گے کہ بندروں کو انسانی حقوق دیے جائیں، رہنے کو گھر دیے جائیں، روزگار فراہم کیا جائے۔ چلیے نوکریوں کی تو خیر ہے وہ تو ایک کروڑ سے زیادہ آنے والی ہیں ان میں سے لاکھ دو لاکھ بندروں کو بھی مل جائیں گی، اسی طرح پچاس لاکھ گھروں میں سے چند ہزار ان کی ملکیت میں چلے جائیں گے، رہے انسانی حقوق تو بندروں کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا جائے گا کہ وہ تو انسانوں کو بھی میسر نہیں، اس دلیل میں اتنا دَم ہوگا کہ بندر دُم ہلاکر تائید کریں گے اور اپنا یہ مطالبہ منوانے کے لیے ناک میں دَم کرنے سے گریز کریں گے۔ مسئلہ تب پیدا ہوگا جب بندر ووٹ کا حق مانگیں گے۔

انھیں لاکھ سمجھایا جائے گا کہ ’’اے پیارے بندرو! ووٹ دینے کے لیے ضروری ہے کہ رائے دہندہ بچہ جمورا ہو، اور اپنی اپنی قیادت اور جماعت کی ڈگڈگی پر ناچتا ہوا جائے اور ووٹ ڈال آئے۔ اگر ایسا کرسکتے ہو تو ووٹ کا حق لے لو۔ ورنہ ووٹ بندر کے ہاتھ میں ناریل بن جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر بندر جو جامے سے باہر تو ہوتے ہی ہیں آپے سے بھی باہر ہوجائیں گے، انھیں ’’آپے‘‘ میں واپس لانے کے لیے پوری اپنائیت سے آپ جناب کرتے ہوئے کہا جائے گا ’’آپس کی بات ہے، اگر بندر بانٹ کا وعدہ کرلو تو ہم تمھیں ووٹ کا حق دے دیں گے‘‘، بندر جس طرح ادرک کا مزا نہیں جانتے اسی طرح جوڑتوڑ کے مزے سے بھی ناواقف ہوں گے، ٹکا سا جواب دیں گے’’ہم بندربانٹ صرف بندروں کے درمیان کرتے ہیں‘‘ جس پر کہا جائے گا،’’چلو تمھیں ووٹ کا حق دیتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ پھر تمھیں سیاسی جماعت بھی بنانا ہوگی‘‘ بندر حیران ہوکر پوچھیں گے ’’یہ شرط کیوں‘‘، جواب ملے گا،’’یار تم لوگ چھینا جھپٹی، چھلانگ مارنے اور قلابازی لگانے میں ماہر ہو، بس ہمیں یہی چاہیے۔‘‘

اور پھر دونوں فریقوں میں مفاہمت ہوجائے گی۔

The post اگر بندروں میں ذہانت جاگ اُٹھی! appeared first on ایکسپریس اردو.


علامہ آئی آئی قاضی

$
0
0

حیدر آباد: سندھ کے لوگوں میں تعلیمی وسیاسی شعور بیدار کرنے میں سندھی ادیبوں کا اہم کردار ہے۔ ان شخصیات میں ایک ایسا نام بھی شامل ہے جو سندھی قوم کا محسن ہے، جس کی سندھ کے لیے تعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ امداد علی امام علی قاضی اور ان کا ادبی نام علامہ آئی آئی قاضی ہے۔

علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر تھے۔ آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا، ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں قاضی عبداﷲ انصاری عرب سے ہجرت کرکے پاٹ ضلع دادو سندھ اور ان کے بھائی عبدالسمیع روہڑی میں قیام پذیر ہوئے۔

علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔

قاضی امام علی کی پہلے ہی سے ایک بیوی اور تین بیٹیاں پاٹ گاؤں میں تھیں۔ انھوں نے دوسری شادی حیدرآباد شہر میں کی۔ اس بیوی سے ان کی مزید آٹھ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام قاضی امداد علی (علامہ آئی آئی قاضی) اور دوسرے کا نام فخرالدین تھا۔ قاضی امام علی کی دوسری بیوی حیدرآباد سندھ کے مشہور خاندان سیٹھ حافظ کی بیٹی تھیں۔ یہ وہی سیٹھ محمد حافظ ہیں جن کے نام پر سیٹھ حافظ پرائمری اور ہائی اسکول پھلیلی میں واقع ہے۔ قاضی امام علی کی دوسری زوجہ اپنے شوہر کی طرح بلند خیال تھیں۔ علامہ آئی آئی قاضی 19 اپریل 1886 کو پاٹ دادو میں پیدا ہوئے۔ فخرالدین امام علی بڑے جب کہ علامہ آئی آئی قاضی ان کے چھوٹے بیٹے تھے۔ قاضی فخرالدین نے ریاست بھوپال میں برطانوی حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر فرائض انجام دیے۔

ابتدا میں علامہ آئی آئی قاضی کو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بٹھایا گیا۔ جب وہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے تو ان کا خاندان حیدرآباد منتقل ہوگیا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم آخوند عبدالعزیز سے حاصل کی۔ مکتب آخوند عبدالعزیز سے علامہ آئی آئی قاضی نے عربی، اسلامی تعلیمات، فارسی زبان اور شاعری اور صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی بطور موذن اذان دینے لگے۔ 1902 میں 16 سال کی عمر میں ہم علامہ قاضی آئی آئی کو صوفیوں کی صحبت میں دیکھتے ہیں۔ 1902 میں علامہ آئی آئی قاضی صوفی فقیر احمد تھیبو کے حلقے میں شامل ہوئے۔ صوفی ازم کی تعلیمات کا اثر علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت پر بہت گہرا ہوا اور آپ اسلام کے مبلغ بن گئے۔

18 سال کی عمر میں 1904 میں مقامی سندھی فائنل امتحان بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیا، فارسی لازمی مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1905 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1906 میں 20 سال کی عمر میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر ایک سال وہاں قیام کرنے کے بعد واپس آگئے۔ 1907 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ لندن میں قاضی صاحب نے پہلے ایک سال پرائیویٹ اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اگلے سال 1909 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخل ہوگئے۔

ڈاکٹر کینن Dr. Canon ان کے استاد تھے۔ انھوں نے سائیکلوجی ڈاکٹر آرنلڈ Dr. Arnold سے اور سوشیالوجی پروفیسر ہوب ہاؤس Prof. Hob-House سے پڑھی۔ اس کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1910 میں جرمنی تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً ایک سال گزارا۔ 1910 سے 1911 کے دوران علامہ آئی آئی قاضی کی ملاقات ایلسا سے ہوئی جن کے عشق میں وہ گرفتار ہوگئے۔ اس محبت کا آغاز یوں ہوا کہ ایک دن وہ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی میں بیٹھنے کے لیے پہنچے تو ریل گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی، جلدی میں وہ ریل کے آخری ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے ایک کونے میں خوبصورت لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ قاضی صاحب بڑے اسلامی طرز کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے ایک لڑکی کے سامنے جاکر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا اور ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔

جب اس لڑکی نے دیکھا لڑکا اس کے پاس بیٹھنے سے شرما رہا ہے تو اُس نے اُسے بیٹھنے کی پیشکش کی مگر وہ وہاں نہیں بیٹھے۔ علامہ آئی آئی قاضی کی اس ادا اور اخلاق نے ایلسا کو بہت متاثر کیا اور منزل پر اترنے سے پہلے ایلسا نے ان کا پتا پوچھا۔ اب ایلسا اس نوجوان سے ملنے کے لیے بے چین تھی جس نے ایک اکیلی لڑکی دیکھ کر بھی اس کا احترام کیا۔ ایک دن دیے ہوئے پتے پر ایلسا پہنچ گئیں اور ایک دوسرے سے واقفیت کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکی جرمن ہے۔ علامہ کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق پر ایلسا فدا ہوگئیں اور علامہ کو بھی ایلسا کا حسن اور انداز بہت اچھا لگا۔ اب دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ان میں ذہنی ہم آہنگی نے دوستی کو محبت اور محبت کو ازدواجی زندگی میں تبدیل کردیا۔ اس طرح سے دونوں کی شادی جرمنی میں 1910 میں ہوگئی۔ مشہور ہے کہ جرمنی کی عورتیں وفادار ہوتی ہیں، جس کی تصدیق مدر ایلسا قاضی کی صورت میں ہوتی ہے۔

ایلسا قاضی کا پورا نام “Elsa Gentrude Loesch Alias Madam Elsa Kazi” جو بعد میں ایلسا قاضی جنھیں سندھ کے لوگ احترام سے ’’امڑ ایلسا‘‘ (ماں ایلسا) کہتے ہیں۔ ایلسا قاضی 3 اکتوبر 1884 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے علاقے ریڈل اسٹیڈٹ (Rudal Stadt) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اس وقت کے ایک مشہور موسیقار اور ایک ثروت مند جرمن باشندے تھے۔ ان کی لندن میں بہت سی جائیداد تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ان کی یہ جائیداد تباہ ہوگئی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انھیں اس نقصان زرِتلافی کے طور پر کافی رقوم دی گئیں۔

یہ خاندان لندن سے جرمنی جاکر آباد ہوگیا۔ ایلسا لندن میں ہی زیرتعلیم رہیں اور وہیں سے انھوں نے اپنی مادری زبان یعنی جرمن میں شارٹ اسٹوریز، ون ایکٹ پلے، افسانے، ناولز لکھنے اور شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ مصوری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے آرٹ کے ہر شعبے میں اپنا ہنر آزمایا۔ وہ سندھی زبان سے مانوس نہیں تھیں مگر پھر بھی اپنے لیے انھوں نے مترجم کا انتظام کرکے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا۔ ان کی نظم نیم ٹری Neem Tree نویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں شامل ہے۔ 1911 میں آئی آئی قاضی لنکڈان یونیورسٹی لندن کو چھوڑ کر واپس اپنی جرمن بیوی ایلسا قاضی کے ہندوستان واپس آگئے مگر جلد ہی واپس لندن روانہ ہوگئے۔

1911 میں قاضی صاحب نے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔1911 سے 1919 تک علامہ آئی آئی قاضی اپنی اہلیہ کے ساتھ وطن آتے جاتے رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت کی اور زندگی کے ہر شعبے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ 1919 کے بعد وہ سندھ چلے آئے۔ لندن میں تقریباً 30 سال کا عرصہ رہے۔ اس دوران وہ ریسرچ کے کام میں لگ گئے اور خاص طور پر مذہبی انقلابات پر کام کرتے رہے کہ مختلف مذہب کیسے کیسے اور کہاں کہاں سے آخر اسلام کی شروعات تک پہنچے۔ اس سلسلے میں دونوں نے اور خاص طور پر علامہ نے مل کر اس پر کئی مضامین لکھ ڈالے۔ 1919 میں جب واپس پاکستان آئے تو انھوں نے حکومت میں ملازمت کرنے کا ارادہ کیا۔ سب سے پہلے ٹنڈو محمد خان میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔

اس کے بعد سب جج حیدرآباد بنے، جب 1921 میں خیرپورمیرس میں سیشن جج کی جاب شروع ہوئی تو آپ کو عارضی ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا۔ ریاست کے حکمران میر علی نواز خیرپور جلاوطنی میں تھے جب علامہ آئی آئی قاضی نے جوڈیشل ایجوکیشن ممبر آف ایڈوائزری کونسل برطانیہ حکومت 1930-1921 کے بننے کے کچھ عرصے بعد میر علی نواز ناز، حکمران خیرپور ریاست (1921-36AD) کی غیرموجودگی میں آپ کو جوڈیشل کونسل کا ممبر بنایا گیا۔ مگر دو سال بعد علامہ نے وہاں سے خیرپور ریاست کے حکمران میر علی نواز سے اختلافات اور انگریزوں کی اسٹیٹ کے بارے میں پالیسیوں سے عدم اتفاق کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ لندن چلے گئے۔

خیرپور میں رہائش کے دوران ایلسا قاضی نے ایک تصویر میر علی نواز کی زوجہ اقبال بالی کی بھی بنائی تھی۔ واپس لندن جاکر انھیں لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں سندھی زبان کا ٹیچر بن کر پڑھانے کا بھی موقع ملا تھا جس سے انھیں اپنے شاگردوں کو بڑے احسن طریقے سے پڑھاکر مقبولیت اور اہمیت حاصل کی۔ وہ بہت مصروف رہتے تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر خدمت کرنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ پوئٹری سوسائٹی لندن کے وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوگئے اور اس عہدے پر وہ 1946 تک فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ لندن فلاسیفکل سوسائٹی کے ممبر بھی رہے جس کی وجہ سے انھیں فلاسفی کو فروغ دینے کا موقع ملا۔ جیساکہ انھیں مسلمانوں اور اپنے دین اسلام سے لگاؤ تھا جس کے لیے وہاں پر جماعت المسلمین قائم کی۔

علامہ آئی آئی قاضی کو اچھے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا اور اکثر وہ فل سوٹ میں نظر آتے تھے، ان کا لباس تو مغربی تھا مگر دل مشرقی تھا اور انھیں اپنی دھرتی سندھ سے بے حد محبت تھی۔ انگریزی زبان اور ادب انھوں نے بہت پڑھا تھا اور خاص طور پر انھیں دو کتابیں بہت پسند تھیں جن میں سے ایک تھی Adventure of a Black Girl اور دوسری تھی In Search of God ۔ ان کتابوں سے بہت زیادہ متاثر تھے، اسی طرح کی انھوں نے کتاب لکھی جس کا نام تھا The adventures of a brown girl in search of godاسی طرح ان کی کتاب ہے Casual Peeps at Sophia۔ علامہ صاحب نے اکثر کتابیں اور مضامین انگریزی زبان میں لکھے۔ شاہ صاحب کے رسالے پر تحقیقی مقالہ سندھی زبان میں لکھا۔

1934 میں جب وہ قاہرہ میں تھے تو انھوں نے جامعہ الازہر قاہرہ مصر میں اور انگلینڈ میں قیام کے دوران لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں عربی کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ الزہرہ قاہرہ سے ماسٹر کیا۔ 1932-33 میں جب علامہ لندن میں آپ پڑھ رہے تھے تو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال بھی وہیں مقیم تھے۔ علامہ قاضی کی شہرت صرف سندھ تک محدود نہیں تھی۔ سندھ کے علاوہ برصغیر کے اہل علم اور جانی پہچانی عظیم شخصیات علامہ صاحب کی علمیت اور فکر سے آگاہ تھیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے صدر بھی رہے ان کے ساتھ علامہ آئی آئی قاضی خط و کتابت کرتے رہے۔ علامہ صاحب کی وفات کی خبر نشر ہونے کے بعد صدر پاکستان سے قبل ہندوستان کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعزیتی پیغام آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم نشر کیا گیا۔

تقسیم ہند سے قبل علامہ آئی آئی قاضی کراچی میں جناح کورٹس کی مسجد میں جمعہ کے دن خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہند سے قبل ان سے ملنے کراچی آئے تھے۔ انھوں نے علامہ صاحب کا جمعہ کا خطبہ بھی سنا اور جمعہ کی نماز بھی ان کی امامت میں پڑھی۔ مولانا آزاد علامہ صاحب سے بے حد متاثر تھے۔ علامہ صاحب کی شخصیت بہت متاثر کن تھی۔ آپ سے جو بھی ملتا آپ کی شخصیت کے سحر میں کھو جاتا۔ ان سے متاثر ہونے والوں میں علامہ اقبال، جی ایم سید، جارج برنارڈشا، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان جیسی شخصیات شامل ہیں۔ علامہ آئی آئی قاضی نے اپنی زندگی کے دوران جنگ و جدل اور خونی انقلاب کا دور بھی دیکھا۔

1936 میں جب سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کردیا گیا صرف پنجاب یونیورسٹی اس خطے میں موجود تھی۔ سندھ کے تمام اسکولز اور کالجز بمبئی یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ سندھ کا بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ صوبہ بننے کے بعد سندھ کے مسلمان سیاستدانوں نے سندھ میں علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کردی تاکہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جاسکے۔ مسلسل دس سال کی جدوجہد کے بعد 3 اپریل 1947 کو کراچی میں سندھ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ شروع میں صرف میٹرک، انٹر اور بی اے کا امتحان لیا جاتا تھا اور ڈگری بمبئی یونیورسٹی سے ملتی تھی۔ 1951 تک سندھ گورنمنٹ نے سندھ یونیورسٹی کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا اور نہ کوئی تعلیمی اور سائنسی شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ 1951 میں سندھ یونیورسٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک کراچی یونیورسٹی، اور دوسری سندھ یونیورسٹی، بعد میں سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کردیا گیا اور علامہ آئی آئی قاضی کو 9 اپریل 1951 کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔

علامہ آئی آئی قاضی نے سندھ کے مسلمان طلبا کی تعلیمی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اسکولوں اور کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر جدید اسلامی تعلیم کو روشناس کرایا۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے بانیان میں شمار ہوتے ہیں۔ جب علامہ صاحب نے وائس چانسلر کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی کا چارج لیا تو سندھ یونیورسٹی کی الحاق اور امتحانی شعبوں کی تعداد پانچ کالجوں اور چونتیس ہائی اسکول تک رہ گئی تھی۔ اس وقت یونیورسٹی کی ذمے داری صرف میٹرک، انٹر اور گریجویشن ڈگریوں کا امتحان لینا تھا۔ علامہ قاضی نے سندھ یونیورسٹی کیمپس کی جامع منصوبہ بندی کی اور اخراجات کا تخمینہ 3 کروڑ روپے لگایا۔ اس وقت سندھ میں گورنر راج تھا۔ علامہ صاحب نے گورنر کو گرانٹ بڑھانے کے لیے خط لکھا اور یونیورسٹی کی مالی مشکلات بیان کیں، ایک دم گرانٹ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کردی گئی۔

علامہ صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سندھ یونیورسٹی کو پاکستان کی پہلی ریزیڈینشل یونیورسٹی بنایا۔ انہوں نے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جن کو دمشق میں ڈپلومیٹ مقرر کیا گیا تھا، اس بات پر راضی کیا کہ وہ چوںکہ پی ایچ ڈی ایجوکیشن میں ہیں، اس لیے بحیثیت پروفیسر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دیں تاکہ اساتذہ کی تربیت کے لیے بی ایڈ اور ایم ایڈ کا پروگرام شروع کیا جائے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے علامہ قاضی کا حکم مانتے ہوئے اپنی زندگی سندھی نوجوانوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے وقف کردی۔

25 مئی 1959 کو پاکستان میں پہلا مارشل لا لگا تو علامہ آئی آئی قاضی نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور سندھ ادبی بورڈ کے لیے کتابیں لکھنے لگے۔ اگرچہ علامہ صاحب اپنی ادبی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے ملک کی سیاست میں بھی عملی طور پر دلچسپی لیتے تھے۔ دسمبر 1943 میں جب کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا تو وہ اس کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین مقرر ہوئے تھے۔ وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ انھوں نے لندن میں بھی اسلام کا نام روشن کر رکھا تھا۔ علامہ آئی آئی قاضی جید عالم تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ دینی اور سائنسی علوم میں کوئی تضاد نہیں۔ اسلام کو وہ مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے۔ اسلام کی تشریح علامہ صاحب سائنٹیفک طریقے سے کرتے تھے۔

علامہ صاحب کو یونانی اور ہندی فکر و فلسفہ کے ساتھ ساتھ جدید یورپ کے سائنسی اور سماجی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ دراصل وہ علم کا دریا تھے۔ ایسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب تک زندہ رہے، علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔

ایلسا اور علامہ کی جوڑی ایک مثالی جوڑی تھی جن کی محبت اور وفا دیکھ کر لوگ رشک کرتے تھے۔ پھر ایک دن قسمت نے یہ جوڑی توڑ دی اور علامہ قاضی کی زندگی دکھوں اور اندھیروں میں ڈوب گئی۔ یہ28 مئی 1967کا دن تھا۔ ایلسا اور علامہ دریائے سندھ کے بائیں جانب غلام محمد برج جامشورو کے قریب ٹہل رہے تھے کہ اچانک ایلسا کا پاؤں پھسل گیا۔ وہ دریائے سندھ میں جا گریں اور جاں بحق ہوگئیں۔ یوں وہ 83 سال کی عمر میں علامہ صاحب کو اکیلا اپنی یادوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ کر چلی گئیں۔ علامہ قاضی اپنی محبوبہ ایلسا کے بچھڑنے کے بعد بھی کھانا کھانے جب بیٹھتے تو ایلسا کا حصہ بھی اپنے کھانے کے ساتھ رکھتے تھے۔ علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایلسا کی روح کھانے کی میز پر میرے ساتھ ہوتی ہے۔

وہ اکثر شام کے وقت دریائے سندھ کے کنارے غلام محمد برج جامشورو کے مقام پر جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ اور وہ سوچتے تھے کہ میں وہاں ٹہلنے کیوں گیا؟ انھوں نے دریا کے کنارے ٹہلنا جاری رکھا وہ کہتے تھے کہ انھیں ایلسا پکار رہی ہے اور انھیں اپنا وعدہ یاد دلوا رہی ہے کہ ہمیشہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ وہ اپنے خاص دوستوں اے کے بروہی اور آئی ڈی جونیجو سے کہتے تھے کہ میں دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دوں گا۔ علامہ قاضی کو دریائے سندھ بہت پسند تھا اور وہ اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد دریائے سندھ کے پانی میں چلتا ہوا اپنے خدا سے ملوں گا، اور اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ایک دن دوپہر کے ڈیڑھ بجے وہ سول لائن حیدرآباد میں واقع اپنے گھر سے رکشے میں سوار ہوکر دریائے سندھ جامشورو کے بائیں جانب پہنچے اور وہاں پہنچ کر رکشے والے کو جانے کا اشارہ کیا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر چلنا شروع کیا۔ وہاں کچھ دیر بیٹھے رہے۔ اپنا کیپ اور ٹائی اتار کر ایک جانب رکھ دیے اور اپنے آپ کو پانی کے حوالے کردیا۔

ان کے ساتھی آئی ڈی جونیجو اور ان کے بھائی امید علی جونیجو نے علامہ صاحب کو ڈھونڈنا شروع کیا اور وہ جب دریائے سندھ کے کنارے پہنچے تو وہاں پر موجود علامہ قاضی کی کیپ اور ٹائی ملی۔ دونوں نے قیاس کیا کہ علامہ آئی آئی قاضی نے خودکشی کرلی ہے۔ انہوں نے مچھیروں کے ذریعے علامہ صاحب کی لاش کو تلاش کروایا اور تقریباً چھے گھنٹے کی طویل جدوجہد کے بعد بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔ مزید کوشش کرنے کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ آپ کا مردہ جسم پانی کی گہرائی میں جا چکا ہے۔

کافی دیر تلاش کرنے کے بعد مچھیروں کو کامیابی حاصل ہوئی وہ اس طرح کہ آپ کے ہاتھ میں موجود چھتری دکھائی دی جس کے ذریعے آپ تک پہنچنا ممکن ہوا۔ لہٰذا مچھیروں نے دریا سے لاش باہر نکالی۔ لاش نکالنے کے بعد یہ بات حیران کن تھی کہ آپ کے جسم میں ایک قطرہ پانی داخل نہیں ہوا تھا جس سے یہ اندازہ ہوا کہ آپ کی روح پانی میں ڈوبنے سے قبل پرواز کرچکی تھی۔ علامہ آئی آئی قاضی نے 13 اپریل 1968 کو خودکشی کرکے اپنی حیات کا خاتمہ کیا۔ علامہ آئی آئی قاضی کی آخری آرام گاہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں اپنی اہلیہ ایلسا قاضی کے ساتھ واقع ہے۔

The post علامہ آئی آئی قاضی appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنے آپ سے لڑتا بھارت

$
0
0

بھارت کے طول و عرض میں اس وقت درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے کچھ اندرونی خودمختاری اور بقیہ بھارت سے آزادی کی خواہش مند ہیں۔ نریندر مودی کے دورِحکومت میں تو ان علاقوں کو ’’’نو گو ایریاز‘‘ کے طور پر برتا جا رہا ہے۔

ان تحریکوں سے جڑی خبروں کو نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ وہاں کا بکاؤ میڈیا بھی منظرِعام پر نہیں لاتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ’’سچ چھپائے نہیں چھپتا‘‘، حقیقت کُھل کر رہتی ہے۔ کئی نڈر، بے باک اور ذمہ دار صحافیوں نے پوری دنیا کو بھارتی ظلم و بربریت کی وہ داستانیں سنائی ہیں کہ ’’بھارت ماتا‘‘ کے پُجاریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے، امریکا تک اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگیا ہے اور بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں اونچے درجے پر فائز کیا گیا ہے۔

کشمیر، خالصتان اور ماؤنواز تحریکوں کے بارے میں تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت کی ’’ 7 ریاستی بہنوں‘‘ میں غریب عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے۔

بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں واقع ہیں جنہیں ’’ سات ریاستی بہنیں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھا لیہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ سِکم، جسے اکثر لوگ ان ریاستوں کا حصہ سمجھتے ہیں ان سے ہٹ کر واقع ہے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ 262،230 کلومیٹر اسکوائر ہے جب کہ مجموعی آبادی 45،772،188 ہے۔ ان ریاستوں کے لوگوں میں اکثریت بدھ مت اور عیسائیت کی پیروکار ہے۔ نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی زبان، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نسل تک ہندو اور ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ یہ چینی نسل کے لوگ ہیں جن کو خود بھارت کے اندر بھی تعصب کا سامنا ہے۔

ہند چینی کا یہ خطہ جو بھارت، چین، بھوٹان اور برما کے بیچ میں واقع ہے، ماضی میں کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا اور آج بھی یہ بھارت کے مرکزی حصے سے الگ 22 کلومیٹر کی ایک چھوٹی سی تنگ زمینی پٹی ’’سلیگوری کوریڈور‘‘ (جسے دنیا کے نقشے پر اپنی تنگی و باریکی کی وجہ سے چوزے کی گردن بھی کہا جاتا ہے) سے جُڑا ہے۔ یہاں کے ابتدائی آبادکاروں کا تعلق ’’جنوب مشرقی ایشیا‘‘ سے تھا، جن کے بعد قبلِ مسیح کے دور میں تبت اور برما کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ’’قبائلی علاقہ‘‘ رہا ہے جہاں مختلف قبائل اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور الگ الگ ثقافتوں کے ساتھ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ برطانوی سام راج نے بیسویں صدی کے اوائل میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پر ریاستوں کی شکل دی۔ اس وقت تک یہ علاقے اپنے روایتی تجارتی حلیفوں، بھوٹان اور میانمار سے کٹ چکے تھے۔ برطانوی سام راج میں، موجودہ دور کے میزورام، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے لوگوں کو عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تعلیم دی اور ان کو عیسائی بنا دیا۔

آئینے ان ریاستوں اور ان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔

اروناچل پردیش:
بھوٹان، بھارت، برما اور چین کے بیچ سینڈوچ بنی یہ ریاست اپنے برف پوش پہاڑوں اور خوب صورت نظاروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ ریاست کے ایک بڑے رقبے پر چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کی ملکیت ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن جلد ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے چین ’’میکموہن لائن‘‘ پر واپس چلا گیا، جو انڈیا اور چائنا کی بین الاقوامی سرحد ہے، لیکن آج بھی چین کے نقشوں پر یہ علاقہ تبت کے جنوبی حصے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

اس علاقے کا پرانا نام ’’شمال مشرقی سرحدی ایجنسی‘‘ تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ’’یونین‘‘ کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ’’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ‘‘ اور’’اروناچل ڈریگن فورس‘‘ سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ’’ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ’’برٹش تولا کاؤنٹی‘‘ تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔

اس علاقے میں بھارتی فوجوں کو نہ صرف چین کی طرف سے دراندازی کا خطرہ لاحق ہے بلکہ وہ اندرونی مزاحمت سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔

آسام:
سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست آسام ، اپنے گھنے جنگلات، برہم پُترا کی وادیوں، تیل کے ذخائر، آسامی ریشم اور چائے کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکو بنگلہ دیش اور بھوٹان کا بارڈر لگتا ہے جب کہ ’’سلیگوری‘‘ نام کی ایک تنگ سی پٹی آسام سمیت تمام ساتوں ریاستوں کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔
1824 کی اینگلوبرمی جنگ میں فتح کے بعد یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے1833 میں ’’راجا پُرندر سنگھ‘‘ کے حوالے کردیا اور 1838 کے بعد اس کو اپنے تسلط میں لے لیا۔ شروع میں آسام کو بنگال کا حصہ بنایا گیا۔ 1906 میں اسے مشرقی بنگال کے ساتھ ’’بنگال اور آسام‘‘ کے نام سے علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ 1937 میں آسام لیجسلیٹو اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ساتھ ہی برطانوی تاجروں نے وسطی ہندوستان سے مزدوروں کو یہاں لا کر آباد کیا اور آسام کی آبادی میں کام یابی سے ردوبدل کیا۔ بٹوارے کے دوران آسام کا ضلع ’’سلہٹ‘‘ مشرقی پاکستان میں شامل کردیا گیا۔

بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے اس صوبے اور یہاں کے قبائل کی طاقت کو توڑنے کے لیے بار بار تقسیم کیا۔ 1963 میں ضلع ’’ناگا ہِلز‘‘ میں توینسانگ کا علاقہ ملا کر بھارت کی 16 ریاست ’’ناگا لینڈ‘‘ بنادی گئی۔ پھر 1970 میں، سطح مرتفع میگھا لیہ کے لوگوں کے پر زور اسرار پر آسام کے اندر ایک خودمختار ریاست بنائی گئی جو 1972 میں ایک علیحدہ ریاست ’’ میگھالیہ‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ 1972 میں ہی میزورام اور اروناچل پردیش کو آسام سے علیحدہ کر کے الگ ریاست بنادیا گیا۔ یوں آسام کی بہت بڑی ریاست سمٹ کر رہ گئی۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف قبائل کا ہے جو وقتاً فوقتاً بھارت سے اپنی آزادی اور خودمختاری کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ 1970 کے بعد سے آسام کی آزادی کے لیے بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں ’’یونا ئیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام‘‘ (اُلفا)، ’’مسلم لبریشن ٹائیگرز‘‘ ، ’’آسام رائفلز‘‘ اور ’’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ‘‘ شامل ہیں۔ 1990 میں بھارتی فوج نے ان تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا جس میں اُلفا کے 12000 جنگجو مارے گئے اور دس سال تک یہ علاقہ جلتا رہا۔ اُلفا مسلح کوشِشوں کے ذریعے ایک آزاد آسامی ریاست کا قیام چاہتی ہے جس میں اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ 1990 میں بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی۔ آج تک اس علاقے میں نسلی فسادات عروج پر ہیں اور بھارتی فوج چاہ کر بھی اپنی رٹ یہاں قائم نہیں کرپائی۔

منی پور:
میانمار کے مشرق میں واقع ریاست منی پور اپنے لوک رقص اور ثقافتی رنگوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ برطانوی راج اور اس سے پہلے یہ ریاست ایک ’’ شاہی ریاست‘‘ تھی۔ منی پور نے انگریز دور میں ’’برما‘‘ کی بجائے ’’ہندوستان‘‘ میں ضم ہونے کو ترجیح دی۔ 1949 میں ’’مہاراجا بُدھا چندرا‘‘ نے ریاست کا الحاق بھارت سے کردیا جس پر مختلف ریاستی گروہوں کو شدید تحفظات تھے۔ یہی تحفظا ت آنے والے 50 سالوں میں ریاست میں بدامنی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ بنے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان ان ہنگاموں اور کارروائیوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ منی پور میں 53 فی صد لوگ ’’میٹی‘‘ قوم جب کہ 20 فی صد مختلف قبائل سے ہیں۔ ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے بھی یہاں بستے ہیں۔ یہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کی دو اقسام ہیں، قبائلی عوام اور شہری عوام۔

تمام تحریکوں ’’منی پور پیپلز لبریشن آرمی‘‘، ’’یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ اور ’’پیپلز فرنٹ آف منی پور‘‘ کی آواز ایک ہی ہے، ریپبلک آف منی پور کی آزاد ریاست کا قیام۔

میگھالیہ:
بنگلادیش اور آسام کے درمیان واقع ’’مشرق کے اسکاٹ لینڈ‘‘ میگھا لیہ کو اگر موسلا دھار بارشوں، جنگلات اور بادلوں کی سر زمین کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریاست کے 70 فی صد رقبے پر ایسے جنگلات ہیں جہاں بھارت میں ریکارڈ بارش ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں۔
1972 میں آسام کے ’’خاصی‘‘، ’’گارو‘‘ اور ’’جینتیا ‘‘ ضلعوں کو ملا کر ریاست میگھالیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور حیرت انگیز طور پر انگریزی ریاستی سرکاری زبان قرار پائی۔ برٹش راج سے پہلے بھی خاصی، گارو اور جینیتا قبائل کی اپنی الگ الگ ریاستیں تھیں جنہیں پہلے آسام اور پھر صوبہ مشرقی بنگال و آسام کا حصہ بنادیا گیا۔ لیکن تب بھی اس علاقے کو ’’نیم خودمختار‘‘ ریاست کا درجہ حاصل رہا۔

شروع شروع میں تو میگھالیہ کے قیام کو ایک ’’وسیع بھارتی ریاست میں الگ قومیت کے انضمام‘‘ کی مثال کے طور پر بہت سراہا گیا لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب مقامی قبائل کے درمیان ایک قوم کے طور پر ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی اور بھارتی قوم پرستی، خاصی اور گارو قوم پرستیوں کے مدِمقابل آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ریاستوں میں موجود قوم پرستی اور لسانیت پرستی نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ قبائل کے آپسی لڑائی جھگڑوں سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور میگھالیہ میں مختلف علیحدگی پسند گروہوں (اے ام ایل اے، ایچ این ایل سی) نے جنم لیا۔

میزورام:
آبشاروں، جھیلوں، وادیوں اور پرانی رسومات کی سرزمین میزورام ، برما اور بنگلادیش کی سرحدوں کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے معنی ہیں ’’میزو کی سرزمین‘‘۔ دیگر ریاستوں کی طرح 1972 تک میزورام بھی پہلے آسام کا حصہ تھی جب اسے آسام سے نکال کر ایک یونین اور پھر 1987 میں بھارت کی تئیسویں ریاست بنایا گیا۔ یہ بھارت کی دوسری کم آبادی والی ریاست ہے۔

ریاست کے 95 فی صد باشندوں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے مختلف قبیلوں سے ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ قبائل اس ریاست میں رہتے ہیں۔ اور میزورام بھارت کی تین ’’عیسائی اکثریتی‘‘ ریاستوں میں سے ایک ہے۔

ریاست میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ باہر سے آنے والے آسامی لوگوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور مقامی ’’میزو‘‘ قبائل کا نظرانداز ہونا ہے۔ یہاں بسنے والے قبائل ہمارس، چکماس، بروس، لائیس اور ریانگس حکومت سے علیحدگی اور خودمختاری کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ’’میزورام فارمرز لبریشن فورس‘‘ اور ’’زومی انقلابی تحریک‘‘ بڑے علیحدگی پسند گروہ ہیں۔

ناگا لینڈ:
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ’’ناگا لینڈ‘‘ اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور برما کے درمیان واقع ہے۔ اس ریاست میں 16 قبائل رہتے ہیں جو زبان، رسم و رواج اور پہناوے تک میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔زیادہ تر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔

تقسیم کے بعد ناگالینڈ ریاست آسام کا حصہ تھا، 1963 میں اسے علیحدہ ریاست بنادیا گیا۔ اگرچہ ناگا قوم کی خودمختاری اور آزادی کے بھرپور مطالبے کے بعد اسے الگ ریاست بنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ جہاں ایک طرف بھارت آسام کی قوت کو کم کرنا چاہتا تھا وہیں دوسری طرف ناگا قبائل کو اپنے آئین کے تحت لانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے عزائم پورے نہ ہوسکے آسام میں اب بھی بغاوت جاری ہے اور ناگالینڈ علیحدہ ریاست بن جانے کے باوجود بھارتی آئین کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یہاں بھی بقیہ 6 ریاستوں کی طرح آزادی کی زبردست تحریک جاری ہے۔ناگا قوم، ناگالینڈ، آسام اور برما تک پھیلی ہوئی ہے۔

ناگالینڈ کا علاقہ آزادی سے قبل بھی انتہائی پسماندہ تھا لیکن انگریزوں نے اس علاقے کو فروغِ عیسائیت کے لیے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ترقی دی اور عیسائی مشنریز نے یہاں کے لوگوں کو تعلیم و صحت کے بدلے میں عیسائیت کی تبلیغ کی۔ تبھی آج اس ریاست میں (میگھالیہ اور میزورام کی طرح) عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے۔

1947 میں جب ناگا قوم نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کیا تب بھارت نے کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح اس علاقے پر بھی فوج کشی کردی۔ بہت سے ناگا نوجوان مارے گئے لیکن حریت پسندوں کی بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت ختم نہ ہوئی اور ایک بار پھر 1955 میں ناگا قوم نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بھارت نے اسے بغاوت تصور کرتے ہوئے ناگا قوم پر ایک بار پھر جنگ مسلط کردی۔ ناگا لینڈ میں بھرپور زمینی اور فضائی کارروائی کی گئی اور کئی دیہات کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ناگا قوم کے لوگ مارے گئے اور بہت سوں کو سپردِزنداں کردیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ’’ناگے‘‘ خاموش نہیں بیٹھے اور احتجاج شروع کردیا۔ تنگ آ کر بھارت نے 1963 میں ناگالینڈ کو آسام سے علیحدہ کر کے ایک الگ ریاست بنادیا۔ ناگوں کی بھارت سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور یہ بھارت سے سوائے آزادی کے کسی چیز پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔

اگر یہ کہا جائے کہ کشمیریوں کے بعد اگر کسی نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے تو بلاشبہ وہ ناگا قوم ہے۔

ناگالینڈ میں ’’ناگا نیشنل کونسل‘‘ ، ’’نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ‘‘ اور ’’ناگامی فیڈرل آرمی‘‘ کے نام سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں۔ ناگالینڈ کے عیسائی ہونے کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پہ فرانس اور جرمنی جب کہ ناگالیڈروں نے نیدرلینڈ میں اپنی جلاوطن حکومت کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تمام 7 ریاستوں میں ناگالینڈ کی تحریک نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پر بھی مضبوط ہے۔ ناگا قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے دشمن کے سر کاٹ کہ اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ناگے بھارت کا سر کاٹتے ہیں یا بھارت انکا سر کچلنے میں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

تری پورہ:
تری پورہ کی شاہی ریاست وہ آخری ریاست تھی جس نے حکومتِ ہندوستان سے 1949 میں الحاق کیا۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تری پورہ کی ریاست تین اطراف سے بنگلادیش سے یوں گِھری ہے جیسے کسی ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔
تری پورہ میں بدامنی اور سرکشی کی تاریخ 1970 سے شروع ہوتی ہے جب قرب و جوار کے بنگالیوں نے اس علاقے میں منتقل ہونا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بنگالیوں نے یہاں کی آبائی اقوام اور قبائل کو اقلیت میں بدل دیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان قبائل کی روایتوں اور ثقافت کو نقصان پہنچا بلکہ ان کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ باہر سے آبسنے والے بنگالیوں کے خلاف

ریاست کے لوگوں میں نفرت پنپتی رہی اور آخر تری پورہ کے باسیوں نے بھی اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھالیے۔

مارچ 1989 میں ’’نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ‘‘ اور1990 میں ’’آل تریپورہ ٹائیگر فورس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان گروہوں کے قیام کا واحد مقصد صرف ’’بنگالی مہاجروں‘‘ کا ریاست سے اخراج تھا لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور ناانصافیوں سے تنگ آ کر ان تنظیموں نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا۔

شمال مشرقی ریاستوں یا ’’سات بہنوں‘‘ کا علاقہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہ تھا۔ ہمیشہ سے یہ علاقے یا تو خودمختار رہے ہیں یا ان پر مختلف قبائل اور راجوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے کے ایک طرف ایشیا کا ’’منگول‘‘ حِصہ جب کہ دوسری جانب ایشیا کا ’’آرین‘‘ حِصہ ہے۔ یہاں کہ لوگ نہ صرف نسلی طور پر، بلکہ مذہبی، معاشرتی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر جنوب مشرقی ایشیا، تبت اور برما سے جڑے ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ ان علاقوں پر بھارت کے جبری قبضے کا نوٹس لے اور آزادی کی ان تحریکوں کی مالی و اخلاقی مدد کرے۔

The post اپنے آپ سے لڑتا بھارت appeared first on ایکسپریس اردو.

لیونیٹک ایکسپریس۔۔۔۔ پاگل ٹرین

$
0
0

ویسے تو لیونیٹک کے لفظی معنیٰ پاگل یا مخبوط الحواس کے ہیں، مگر یہاں اس سے مراد ہے: وہ سر پھری ٹرین جس نے آج کے کینیا کی بنیاد رکھی۔ گویا اس ریلوے نظام کی وجہ سے ہی ہم موجودہ کینیا کو دیکھ رہے ہیں، یعنی اگر افریقی ملک کینیا میں یہ ریلوے نظام نہ ہوتا تو شاید آج کینیا کا وجود ہی نہ ہوتا۔

یہ کم و بیش ایک صدی یا سو سال پہلے سے بھی زیادہ عرصے کی بات ہے جب اہل یورپ نے اس سرزمین پر قدم رکھے تھے جسے آج ہم ’’کینیا‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، تو اس موقع پر یہاں کے ایک مقامی قبائلی سردار جس کا نام Kimnyole تھا، اس نے اپنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے تھے:

’’ہماری سرزمین پر ایک خوف ناک فولادی سانپ آرہا ہے جو جب ہمارے گھاس سے بھرے ہوئے میدانوں سے بے دھڑک گزرے گا تو ہمارے سرسبز میدانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، وہ ان زمینوں میں نہ صرف زلزلے جگادے گا بلکہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کردے گا۔ اس فولادی سانپ کی قیامت خیزی پورے خطے میں ایک ایسی ہلچل پیدا کردے گی کہ ہم سب تباہ و برباد ہوجائیں گے۔‘‘ اس قبائلی سردار Kimnyole نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ فولادی درندہ اپنے ساتھ ایسے عجیب و غریب اجنبیوں کو لائے گا جنہیں اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ ان میں سے بعض کے بال سرخ ہوں گے اور پھر یہ سرخ بالوں والے لوگ ہی اس سرزمین کے مالک بن بیٹھیں گے اور یہاں انہی کی حکومت قائم ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ Kimnyole نے اس موقع پر جو باتیں کی تھیں، وہ بہت زیادہ واضح تو نہیں تھیں مگر ان میں ایک بات بالکل صاف اور واضح تھی کہ اس سرزمین اور اس خطے کے لیے آنے والا وقت بہت سی مشکلات اور پریشانیاں ساتھ لارہا تھا۔

ہمارے قارئین یہ بات قطعاً نہیں جانتے ہوں گے کہ Kimnyole نے فولادی سانپ کسے کہا تھا؟ اس نے یہ خطاب اصل میں ’’کینیا، یوگنڈا ریلوے‘‘ کو دیا تھا جو اصل میں ایک Lunatic Express تھی اور برطانوی ذرائع ابلاغ نے اس خطاب کو بہت پسند کیا تھا، کیوں کہ ان کے خیال میں اس دور میں دولت کا نوآبادیاتی فضلہ اس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہا تھا اور اس کے تعمیراتی دور میں انسانی زندگی کو بے پناہ مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا تھا۔ گویا ان کے خیال میں اس ریلوے نظام نے چوں کہ پورے خطے میں تباہی مچادی تھی، اس لیے اس ریلوے نظام کو لیونیٹک ایکسپریس کا نام دیا گیا یعنی ایک ایسا پاگل پن کا ریلوے نظام جو سبھی کو تباہ کرنے والا تھا۔

اس کے نتیجے میں اس خطے میں رہنے والے سبھی قبائل نے یہاں ریلوے کی تعمیرات کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور اس کام میں خوب روڑے اٹکائے۔ انہوں نے قرب و جوار کے اور پڑوسی قبائل کے خلاف فتح کے جھنڈے لہراتے ہوئے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور نندی لوگوں نے سفید فاموں کے خلاف ناقابل بیان کام یابیاں سمیٹیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب نندی لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیے، مگر اس وقت تک ہزاروں لوگ دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاچکے تھے اور ان لوگوں کو افرادی قوت کے حوالے سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ Kimnyole کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی تھیں اور اس نے ماضی میں جن خطرات کی نشان دہی کی تھی، وہ بھی بالکل سچے ثابت ہورہے تھے۔ فولادی سانپ خطے میں دندناتا پھر رہا تھا اور اس نے بڑے ڈرامائی انداز سے اس علاقے کے لوگوں اور خاص طور سے نندی لوگوں کی زندگیوں کو بڑے انقلابی اور مثبت انداز سے بدلنا شروع کردیا تھا اور بے شک یہ وہ تبدیلیاں تھیں جن کے بارے میں Kimnyole نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔

اس خطے میں ریلوے کا نظام اس وقت قائم ہونا شروع ہوا جب یورپ کی بڑی اقوام نے دیوانوں کی طرح اس چھوٹے سے افریقی ٹکڑے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی اور سب کی نظریں اس خطے پر گویا جم کر رہ گئیں۔ یہ انیسویں صدی کا آخری زمانہ تھا اور متعدد یورپی نوآبادکاروں نے افریقی ساحلوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی تجارتی کوٹھیاں بنانی شروع کردی تھیں، مگر ان میں سے چند ایک کو اندرونی مزاحمت کا شدید سامنا کرنا پڑا تھا۔ ادھر برطانوی زیادہ تر مصر، جنوبی افریقہ اور مشرقی افریقہ میں موجود تھے۔

بلاشبہہ مشرقی ساحل پر یہ ایک وسیع وعریض خطہ تھا جو بعد میں بیس اقوام میں تقسیم ہونے والا تھا۔ فرانس کے زیرتسلط مغربی افریقہ سے اور پھر وہاں سے یہ لوگ آہستہ آہستہ افریقہ کے اندرونی علاقوں کی طرف جارہے تھے جن کا ایک اہم اور بنیادی مقصد ایک ایسی سلطنت قائم کرنا تھا جو مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہو۔ ادھر برطانویوں کی خواہش تھی کہ وہ فرانسیسی نوآبادکاروں کی پیش قدمی اور ان کا راستہ روک دیں جس کے لیے انہوں نے ایک ریلوے نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو مومباسا کی بندرگاہ کو مشرقی ساحل پر جھیل وکٹوریا سے ملادے۔ اس طرح ان کی رسائی دریائے نیل تک بھی ہوسکتی تھی اور اس کے نتیجے میں پورا نیل ان کے قبضے میں آجاتا۔

دریائے نیل جنوب سے شمال تک براعظم کے بیچ سے گزرتا تھا جو ظاہر ہے کہ کسی بھی ایسی قوم کے راستے کی دیوار بن سکتا تھا جو مشرق سے مغرب تک اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہو۔ چناں چہ اس کا مقصد دریائے نیل کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تجارتی فوائد بھی حاصل کرنا تھا۔

لیونیٹک ایکسپریس یوگنڈا ریلوے:

دسمبر 1895ء میں برطانوی انجینئر جارج وائٹ ہاؤس کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ وہ کینیا۔ یوگنڈا ریلوے کی تعمیر شروع کرے۔ اس وقت اسے اس روٹ کے صرف ایک اسکیچ کے ساتھ مومباسا کی بندرگاہ بھیج دیا گیا جہاں سے یہ ریلوے سسٹم شروع ہونا تھا۔ یہ طویل ریلوے لائن لگ بھگ ایک ہزار کلومیٹر پر محیط تھی اور بلاشبہہ یہ اس وقت کا سب سے طویل ترین پراجیکٹ تھا جو اہل برطانیہ شروع کرنے جارہے تھے۔ اسی دوران جارج وائٹ ہاؤس نے بھی اندازہ لگایا کہ نہ صرف یہ ایک نہایت مہنگا ترین کام ہے، بلکہ یہ کام ساتھ ساتھ ہی جسمانی طور پر نہایت صبر آزما بھی تھا۔ مومباسا کے براہ راست مغرب میں ایک بہت وسیع و عریض پانی سے پاک خطہ واقع تھا، جہاں سے کاروان اور قافلے سفر نہیں کرتے تھے۔

اس مجوزہ ریلوے لائن کو پانچ سو کلومیٹر پر مشتمل سوانا اور چھوٹے درختوں اور گھاس پھوس پر مشتمل میدانوں سے گزرنا تھا جہاں صرف مچھروں اور دلدل کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد بلندیوں پر واقع آتش فشانی خطہ بھی راستے میں آگیا جس کی وجہ سے یہ راستہ 80کلومیٹر چوڑی گریٹ رفٹ ویلی میں تقسیم ہوگیا اور یہ وادی یکایک دو ہزار فیٹ کا غوطہ لگاتی ہوئی میدانوں میں اتر گئی تھی۔ اس کے بعد آخر کار 150 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد جھیل کا کنارہ آیا جو نہایت بھیگا ہوا اور شرابور دلدل پر مشتمل تھا۔

اس ریلوے لائن کی تعمیر کا کام مومباسا میں 1896 میں شروع ہوا اور یہ لائن بڑی تیزی سے جھیل وکٹوریا کے مشرقی کنارے پر اپنے آخری اسٹیشن کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ اگلے پانچ برسوں کے دوران مومباسا کی بندرگاہ پر مٹیریلز کی بہت بڑی مقدار پہنچ گئی جن میں درج ذیل نمایاں تھا: دو لاکھ ریل کی پٹریاں، 1.2ملین سلیپرز، دو لاکھ فش پلیٹس، چار لاکھ فش بولٹس اور 4.8 ملین فولادی چابیاں اور فولادی گارڈرز۔ مزید یہ کہ لوکوموٹیوز، ٹینڈرز، بریکس، وینز، سامان کی ویگنز اور پسنجرز کو لے جانے والے ڈبے بھی لائے جانے تھے۔ چناں چہ اس کام کے لیے گودام بھی تعمیر کیے گئے اور ورکرز کی رہائش کے لے گھر بھی بنوائے گئے۔ اس کے علاوہ مرمت کرنے کے لیے بھی ورکشاپ بنائے گئے۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مومباسا کا پرسکون اور خواب آلود ٹاؤن بہت تیزی سے بیدار ہونے لگا اور اس نے جلد ہی ایک جدید بندرگاہ کی شکل اختیار کرلی۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر میں شامل لگ بھگ سبھی ورکرز برٹش انڈیا سے لائے گئے تھے۔ ان کی تن خواہوں ، مفت خوراک اور مفت سفر کے لیے تمام انتظامات مکمل کیے گئے، 37,000 ورکرز کے ساتھ ساتھ ماہر نگراں بھی منگوائے گئے، لیکن ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ کام شروع ہونے کے پہلے ہی سال میں لگ بھگ نصف افرادی قوت ملیریا، اسہال اور دوسری استوائی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی۔ اس خطے کی گرمی نے کام کرنے والوں کو الگ پریشان کیا اور یہاں آنے والے دھول مٹی کے طوفانوں نے انہیں اور بھی مشکلات میں مبتلا کردیا۔

اس ریلوے نظام کا سب سے ہیبت ناک پہلو وہ تھا جو 1898 میں اس پل کی تعمیر کے دوران وقوع پذیر ہوا جو Tsavo River کے دوسری طرف جانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ رات کے وقت جب کچھ ورکرز اپنے خیمے میں سو رہے تھے کہ دو آدم خور شیروں نے ان پر حملہ کردیا اور انہیں گھسیٹتے ہوئے وہاں سے دور لے گئے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ یہ حملہ ایک بار نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ لگ بھگ دس ماہ تک جاری رہا اور ورکرز آدم خور شیروں کا شکار بنتے رہے، اس مدت کے دوران سو سے زیادہ لوگ آدم خو شیروں کے پیٹوں میں چلے گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سو کے قریب ورکرز اپنا کام چھوڑ کرTsavo سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ریلوے لائن کا تعمیراتی کام درمیان میں ہی لگ بھگ رک گیا۔

اس کے بعد وہاں کی انتظامیہ نے آدم خور شیروں کی نگرانی کی، ان پر کڑی نگاہ رکھی اور آخرکار وہ ہلاک کردیے گئے۔ ریلوے لائن کی اس تعمیر کے دوران کم و بیش 2,500 کے قریب ورکرز لقمۂ اجل بنے۔ اس کا اوسط چار افراد فی میل بنتا ہے۔ لگ بھگ 6,700 افراد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کام میں آگے نہیں جائیں گے بلکہ پیچھے رہ کر ہی کام کریں گے جس کی وجہ سے کینیا میں انڈینز کی پہلی کمیونٹی وجود میں آگئی۔ اور باقی افراد نے اپنے گھروں کی طرف واپسی کی راہ لی۔ اس ریلوے نظام کی ابتدائی لاگت لگ بھگ پانچ ملین پاؤنڈ لگائی گئی تھی، لیکن یہ بڑھ گئی اور برطانویوں کو نو بلین پاؤنڈ ابتدائی لاگت یا اخراجات کے طور پر برداشت کرنے پڑے جس پر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی کافی تنقید ہوئی اور میڈیا نے بھی ذمے داروں کو خوب نشانہ بنایا۔ اس کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ریلوے نظام کے شروع ہونے سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے اس خیال کی خوب مخالفت کی تھی۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن Henry Labouchère نے نہایت تضحیک آمیز انداز اختیار کیا تھا اور اس موقع پر اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جارج کرزن کو اپنی مشہور نظم کی صورت میں جواب دیا تھا جس میں اس پراجیکٹ پر جی بھر کر تنقید کی گئی تھی۔ اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے اس منصوبے کر نہایت دلیرانہ منصوبہ قرار دیا تھا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے برطانوی حکومت کی جرأت مندانہ کوشش قرار دی تھی۔ سر ونسٹن چرچل نے اس پراجیکٹ کو اپنے ملک کا ہنرمندی اور آرٹ کا وہ شاہ کار قرار دیا تھا جس نے اس ملک کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔

اگلی ایک صدی کے دوران اس ریلوے نظام نے اس خطے کی ترقی اور خوش حالی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایک تو مشرقی افریقہ کے اندرونی علاقے ساری دنیا پر کھل گئے تھے ور پھر ان کا تعلق ساحلوں سے بھی جڑ گیا تھا۔ جب کہ اس ریلوے سے پہلے نیروبی ایک غیر آباد، اجاڑ اور سنسان دلدلی علاقہ تھا۔ چناں چہ جارج وائٹ نے یہاں ایک بڑا گھر، ایک اسٹور ڈپو اور ایک شان دار میدان تعمیر کرایا اور آج نیروبی کینیا کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی تین ملین افراد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

چارلس ایلیٹ جو 1900 اور 1904 کے درمیان برٹش ایسٹ افریقا کے کمشنر تھے، انہوں نے کہا تھا:’’کسی بھی ملک کے لیے ریلوے کا نظام قائم کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے، مگر خاص بات یہ ہے کہ کوئی ریلوے نظام کسی ملک کی بنیاد ڈال دے۔‘‘

یہ ریلوے نظام لگ بھگ 116 برسوں تک کام یابی کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ 2017 آگیا جب آخری meter-gauge ٹرین نے مومباسا اور نیروبی کے درمیان سفر مکمل کیا۔ اس روٹ کی جگہ اب ایک نئی اور زیادہ تیز رفتار ریل سروس شروع ہوگئی ہے جس کی لائنیں اصل یوگنڈا ریلوے کی لائنز کے متوازی چل رہی ہیں۔ اس ساری کہانی کا تاریخی منظر وہ سین ہے جب لیونیٹک ایکسپریس نیروبی کے مضافات میں کبیرا کے غیرترقی یافتہ علاقے سے گزرا کرتی تھی اور آج وہاں ایک مکمل اور ترقی یافتہ ملک بڑی شان کے ساتھ موجود ہے جو دنیا سے اپنے ہنرمندوں کی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوارہا ہے۔

The post لیونیٹک ایکسپریس۔۔۔۔ پاگل ٹرین appeared first on ایکسپریس اردو.

اکیسویں صدی کا اچھوتا انکشاف؛ ججوں نے سپرپاور کو ’’معصوم‘‘بنا دیا

$
0
0

اناطول فرانس کا شمار مشہور فرانسیسی ادبا میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایملی زولا اور وکٹرہیوگو کے مانند انسانی فطرت کا بڑی گہرائی میں مطالعہ کیا۔ اناطول فرانس کا انوکھا قول ہے: ’’انصاف وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ناانصافی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ قول  منفی طرزفکر کی ترجمانی کرتاہے۔مگر یہ دور جدید کی مغربی حکومتوں خصوصاً امریکی حکومت کے رویّے پر پورا بھی اترسکتا ہے۔

امریکا سیاسی، معاشی اور عسکری لحاظ سے دنیا میںسپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی حکمران اکثر آزادی، حقوق انسانی، جمہوریت، انسان دوستی اور مساوات کی باتیں کرتے ہیں۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپنی قوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکمران دنیا بھر میں ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے۔دنیا میں قانون وانصاف کا عالمی نظام رائج کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن خاص طور پہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکمرانوں کے اندازواطوار بالکل بدل گئے۔وہ اکثر معاملات میں ظالم کے ساتھی بلکہ سرپرست بن بیٹھے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ  جب اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی بات آئے، تو امریکی حکومت قانون و انصاف کو بھی دھڑلے سے پامال کر ڈالتی ہے۔ اسی قسم کی  غنڈہ گردی کا مظاہرہ پچھلے دنوں دیکھنے کو ملا۔

ہوا یہ کہ اکتوبر 2017ء میں عالمی عدالت جرائم کی پراسکیوٹر، فاتو بنسودہ نے اپنے ججوں کو  درخواست دی: ’’یہ تفتیش کرنے کا حکم دیا جائے کہ کیا افغانستان میں امریکی و اتحادی فوج اور مغربی خفیہ ایجنسیوں نے جنگی جرائم انجام دیئے؟‘‘ یہ درخواست بھجوانا تھی کہ امریکی حکومت غصّے سے پیچ و تاب کھانے لگی۔ امریکی صدر ٹرمپ اٹھتے بیٹھتے فاتو بنسودہ پر تنقید کرنے لگے کیونکہ وہ گیمبیا سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان وکیل ہیں۔ عالمی عدالت جرائم بھی امریکی حکومت کی سخت تنقید کا نشانہ بن گئی حالانکہ اس بین الاقوامی ادارے کی بنیاد ڈالتے ہوئے امریکا پیش پیش رہا ہے۔

جنگ…تاریخ بنی نوع انساں

تاریخ پہ نگاہ دوڑٓئی جائے تو یہ افسوس ناک انکشاف ہوتا ہے کہ طاقت کے نشے میں بدمست انسان زمانہ قدیم سے اپنے معاشی، سیاسی، نسلی یا مذہبی مفادات کی خاطر کمزوروں پر ظلم ڈھارہے ہیں۔ قبیلوں سے لے کر ممالک تک کے آمروں اور سرداروں نے خوفناک جنگیں چھیڑ کر اپنے پرائے… لاکھوں انسانوں کو زندگی کی نعمت سے محروم کردیا۔ اسی لیے بعض مورخین جنگ کی تاریخ کو ’’تاریخ بنی نوع انساں‘‘ اور انسانی تاریخ کو ’’جنگی تاریخ‘‘ قرار دیتے ہیں۔امریکی قوم بھی اپنی تاریخ میں بے در پے جنگوں سے گزری۔ جنگوں کے خوفناک تجربات سے گذر کر ہی بانیانِ امریکا نے ایسا آئین تیار کیا۔

جس میں انسان کی آزادی، عزت، مساوات، انصاف اور قانون کو فوقیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کی خوفناکی دیکھنے کے بعد بھی اس اجتماعی سوچ نے جنم لیا کہ عوام پر ظلم و ستم کرنے والے حکمرانوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ ان پر مقدمے چلا کر انہیں سزا دینی چاہیے۔ اسی سوچ کے باعث اقوام متحدہ اور انصاف و قانون پر مبنی مختلف عالمی ادارے وجود میں آئے۔ لیکن صد افسوس کہ بیسویںصدی شروع ہوتے ہی امریکی حکمرانوں نے اپنے قول وفعل سے خصوصاً ان عالمی اداروں کی تضحیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو امریکا کی غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے آگے بند باندھنے کی سعی کرتے۔ چونکہ امریکا سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر طاقتور تھا، اس لیے عالمی ادارے بھی اس کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئے۔

طاقتور کی چلتی ہے

1945ء کے بعد ایسے واقعات بہت کم رونما ہوئے جب قانون و انصاف فراہم کرنے والے عالمی ادارے بنی نوع انسان کی امیدوں اور توقعات پر پورے اترے۔ ایک نمایاں مثال ’’انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل فار دی فارمر یوگوسلاویہ‘‘ کی ہے۔ اس عدالت کی بنیاد اقوام متحدہ نے 1993ء میں رکھی تاکہ یوگوسلاوی جنگوں میں جنگی جرائم کرنے والے افراد پر مقدمے چل سکیں۔ اس عدالت نے ظالم سرب رہنمائوں دوران کارازیچ، راٹکومالدک وغیرہ کو کڑی سزائیں دیں جنہوں نے بوسنیائی مسلمانوں پر خوفناک مظالم ڈھائے تھے۔ یوں بوسنیائی باشندوں کو کسی حد تک انصاف مل گیا۔

عالمی عدالت جرائم جولائی 2002ء میں قائم کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرم اور تشدد کے واقعات میں ملوث طاقتور افراد کو عدالتی کٹہرے میں لایا جاسکے۔ ایک سو پچیس ممالک اس عالمی عدالت کے رکن ہیں۔ عدالت اب تک ’’44‘‘ افراد کو سزائیں دے چکی جن میں لیبیا کے مقتول صدر معمر قذافی، کینین صدر اوہورد کینیاتا، سابق سوڈانی صدر، عمرالبشیر اور سابق آئیوری کوسٹ صدر لورنت گیابگو شامل ہیں۔یہ تمام ’’مجرم‘‘ مگر کمزور و غریب افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

عالمی عدالت جرائم کے جج آج تک کسی طاقتور ملک کی مجرم شخصیت کو عدالتی کٹہرے میں لانے کی ہمت نہیں کرسکے۔ مثال کے طور پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ عالمی عدالت جرائم سابق صدر بش جونیئر پر جنگی جرائم انجام دینے پر مقدمہ چلائے۔ موصوف کی زیر قیادت امریکی فوج نے افغانستان، عراق اور عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں جنگیں چھیڑیں۔ ان کی ایما پر ہی گوانتانامو جیل اور افغان جیلوں میں مسلمان قیدیوں سے وحشیانہ سلوک ہوا۔ تاہم بش جونیئر عیش و آرام سے اپنے محل نما فارم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ممکن ہے، مسلمانوں سے تعصب اور تنگ نظری برتنے پر وہ پچھتاتے ہوں مگر اب اس کا کیا فائدہ؟

افغانستان کی داستان ِغم

صدر ٹرمپ تو مسلم دشمنی میں اپنے پیش روئوں سے دو ہاتھ آگے نکلے۔ صدارتی کرسی سنبھالتے ہی وہ کوشش کرنے لگے کہ مسلمان امریکا میں نہ بس پائیں اور جب فاتو بنسودہ نے عالمی عدالت جرائم میں امریکا کے گناہوں کی  فائل کھولنے کے سلسلے میں درخواست دی، تو ٹرمپ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

امریکی حکمران طبقے کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت پروان چڑھانے اور افغانستان کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کی خاطر 2001ء میں انہوں نے سرزمین افغاناں پر حملہ کیا۔ تب سے امریکا افغانستان پر قابض چلا آرہا ہے۔ وہاں کے حکمران امریکا کی کٹھ پتلی ہیں۔اس دوران امریکی فوج نے افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ سکول و ہسپتال کھولے۔ ڈیم اور سڑکیں بنائیں لیکن اس ساری سرگرمی کے بہت کم اثرات ہی افغان عوام  تک پہنچ سکے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک نے افغانستان میں جو اربوں ڈالر خرچ کیے، اس کا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ اس بات کا اقرار امریکی حکومت کے اپنے احتسابی ادارے بھی کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے، آج بھی افغان عوام کی اکثریت غربت، بیماری اور جہالت کا شکار ہے۔ امریکی ڈالر ان کی قسمت تبدیل نہ کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی جنگ نے افغانستان کو پہلے سے زیادہ تباہ و برباد کردیا۔ معاشرے میں افغانوں اور غیر افغانوں کے مابین نسلی، لسانی، معاشی، سیاسی اور مذہبی اختلافات میں بھی شدت آگئی۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ غرض کامیاب اور بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔

2001ء سے 2019ء کے مابین اٹھارہ سالہ طویل جنگ میں امریکی و اتحادی فوجیوں نے وقتاً فوقتاً ’’فرینڈلی فائر‘‘ کی بدولت ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کردیا گیا۔ بے سوچے سمجھے مدارس، ہسپتالوں اور دیگر عوامی مقامات پر بم باری کی گئی۔ بعدازاں جانی و مالی نقصان کو ’’کولیٹرل ڈمیج‘‘ کی بے حس اصطلاح کے پردے تلے چھپا دیا جاتا۔امریکی و یورپی اتحادی افواج میں متعصب فوجی بھی شامل تھے۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے اور ٹھیکے دار کمپنیوں کے اہل کار بھی دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت چھپائے ہوئے تھے۔

یہی وجہ ہے، جب کوئی افغان یا مسلمان قیدی ان کے ہاتھ آتا، تو وہ اس پر تشدد کرتے۔ قیدی سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا۔ حتیٰ کہ امریکی حکمران طبقے نے اپنی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ انجام دیتے ہوئے قانون و انصاف کے وہ بین الاقوامی اصول بھی توڑ ڈالے جو مختلف معاہدوں مثلاً جنیوا کنونشن کے تحت عالمی برادری نے بنائے تھے۔حد یہ ہے کہ امریکی عدالتیں بھی انتقام کی آگ میں جلتے اپنے حکمرانوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں بلکہ ان کی سرگرمیوں میں ممدد معاون بن گئیں۔ 2006ء میں امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ بھی ایک قسم کا مسلح تنازع ہے۔ یوں امریکی سکیورٹی فورسز کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ مخالفین کے خلاف ہر قسم کا غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی قدم اٹھالیں۔ اس دوران دنیا کے سبھی طاقتور ممالک بھی امریکی حکومت کے سامنے صم بکم کی تصویر بنے رہے۔

عالمی عدالت جرائم کو دھمکیاں

عالمی برادری کی خاموشی کے باعث ہی امریکی حکمرانوں کی دیدہ دلیری بڑھ گئی اور وہ اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھنے لگے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان، عراق، یمن، صومالیہ، شام وغیرہ میں امریکی فوج کی ناکامی پر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ ان سے یہ بھی نہ پوچھا جائے کہ ڈرون حملوں سے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہنستے کھیلتے، بولتے چالتے معصوم بچے کیسے مارے گئے؟ ان کی نظر میں درج بالا اسلامی ممالک کے عوام کیڑے مکوڑے ہیں، اسی لیے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

یہی وجہ ہے، جب فاتو بنسودہ نے امریکی حکمرانوں کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی مہم چلائی، تو وہ تائو کھاگئے۔ انہیں یقین نہیں آیا کہ گیمبیا جیسے غریب ملک کی ایک غیر معروف وکیل نے ان کی حاکمیت و طاقت کو چیلنج کردیا۔ امریکی حکومت پھر علی الاعلان عالمی عدالت جرائم کو دھمکیاں دینے لگی کہ اگر امریکا کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، تو اچھا نہیں ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیو نے دھمکی دی کہ اگر امریکا کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا تو ان کی حکومت عالمی عدالت جرائم پر معاشی پابندیاں عائد کردے گی۔ امریکا میں مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے بیان دیا کہ اگر عالمی عدالت جرائم نے افغانستان میں امریکی فوج کے جرائم کی چھان بین کا آغاز کیا، تو عدالت کا کوئی ملازم امریکی سرزمین پر قدم نہیں دھرسکتا۔ چناں چہ عالمی عدالت کی پراسیکیوٹر،فاتو بنسودہ کو امریکا آنے سے روک دیا گیا۔

ان زبانی کلامی دھمکیوں سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ خوف کا شکار ہوگیا… یہ خوف کہ عالمی عدالت جرائم امریکی جرنیلوں اور لیڈروں کو سزا سناسکتی ہے۔ ظاہر ہے، ان سے افغانستان میں جرائم سرزد ہوئے تھے جو تحقیق و تفتیش سے سامنے آجاتے۔افسوس کہ عالمی عدالت جرائم کے جج سپرپاور کی دھمکیوں سے ڈرگئے۔ یہ ممکن ہے کہ معاشی پابندیوں سے انہیں اپنی نوکری ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ لہٰذا 17 اپریل کو انہوں نے فیصلہ سنایا کہ افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم انجام دینے کے سلسلے میں امریکا پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ اس فیصلے پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔

عالمی عدالت جرائم کے ججوں نے قرار دیا کہ امریکی حکومت دوران مقدمہ تعاون نہیں کرے گی…اس لیے مقدمہ چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن غیر جانب دار قانونی ماہرین کے نزدیک یہ بودی دلیل ہے۔ ان کی رائے میں عالمی عدالت کو مقدمہ چلانے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔اگر امریکی حکمران فیصلہ تسلیم نہ کرتے تب بھی ان  کے کرتوت دنیا والوں پر آشکارا ہوجاتے۔

فیصلے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ’’عالمی عدالت جرائم کو امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں پر کسی قسم کا مقدمہ نہیں چلانا چاہیے۔‘‘ یاد رہے، عالمی عدالت اسرائیل پر بھی مقدمات چلانا چاہتی ہے۔ اسرائیل پر الزام ہے کہ اس نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھائے اور ان کے گھر بار تباہ کردیئے۔صدر ٹرمپ کی منطق سے عیاں ہے کہ انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی تمام تر باتوں کے باوجود عملی طور پر آج بھی دنیا میں دو قسم کے قانون رائج ہیں… ایک کمزور بے بس کے لیے اور دوسرا طاقتور کے لیے۔ یہ نظام کمزور و غریب کو تو معمولی جرائم انجام دینے پر بھی سخت سزائیں دیتا ہے جبکہ طاقتور گھنائونے جرائم کرنے پر بھی سزا سے بچ نکلتا ہے۔

عالمی عدالت جرائم پر زبردست دبائو ڈال کر امریکی حکمرانوں نے ایک اور ’’انوکھی روایت ‘‘ ڈال دی۔ یہ کہ کوئی بھی ملک بیرون ممالک ہر قسم کے جنگی جرائم اور گناہ کرے مگر وہ قانون کی گرفت میں آنے سے بچ نکلے گا۔ عالمی عدالت جرائم کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں وہ بھی یہ دعویٰ کرکے اپنے کرتوتوں اور گناہوں سے بری الذمہ ہوجائے گا کہ وہ تو عالمی قوانین اور اصول تسلیم ہی نہیں کرتا۔

اسی منطق کے تحت بھارت میں انتہا پسند نریندر مودی اور امیت شاہ بھارتی مسلمانوں کو خلیج بنگال میں پھینک دینا چاہتے ہیں کیونکہ عالمی برادری میں کوئی نہیں جو ان سے پوچھ گچھ کرسکے۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ عالمی عدالت جرائم کے ججوں نے امریکی سپرپاور کو افغانستان میں جنگی جرائم سے ’’بری الذمہ‘‘ اور ’’معصوم‘‘ قرار دے کر  خطرناک روایت ڈال دی ہے۔ جب انصاف دینے والے ہی جانب دار اور کمزور ہوجائیں، تو پھردنیا میں ظلم بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورت حال مستقبل میں مزید قتل و غارت کو جنم دے گی۔

The post اکیسویں صدی کا اچھوتا انکشاف؛ ججوں نے سپرپاور کو ’’معصوم‘‘بنا دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

ہاتھی…ایک جہانِ حیرت

$
0
0

اردو کا ایک محاورہ ہے ’’ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ اس کا مطلب ہرگز ہاتھی کی جسامت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت بولا جاتا ہے، جب کسی شخص کی قوت و اختیار کا اظہار مقصود ہو۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہاتھی کرہ ارض کا دوسرا اور خشکی کا سب سے بڑا جاندار ہے۔

بظاہر ہاتھی کو دیکھنے سے اس کی جسامت کی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بہت خونخوار جبلت کا مالک ہو گا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ کچھ دیگر سردائی مقامات پر پایا جانے والا یہ جاندار زمانہ قدیم سے انسان کے کام آ رہا ہے۔ باربرداری سے لے کر پرانے زمانے میں جنگوں کے دوران استعمال تک اور بادشاہوں کی شاہی سواری سے لے کر موجودہ دور میں بچوں کے سواری کے طور پر استعمال ہونے تک ہاتھی ہماری زندگیوں میں ایک اہم کردار کے طور پر دخیل رہا ہے۔ یہاں ہم آپ کو قوی الجثہ مگر معصوم طبیعت کے حامل جانور کی ان چند خصوصیات سے روشناس کروائیں گے، جو شائد عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں۔

فٹ پاتھ اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے گڑھے بنانا

کرہ ارض پر خشکی کے سب سے بڑے جانور ہونے کی حیثیت سے ہاتھی اپنی جسامت اور وزن کا بہترین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں ہاتھیوں کے تحفظ کے حوالے سے معروف ادارے دی ایلی فینٹ سنیچری(The Elephant Sanctuary)  کے آؤٹ ریچ منیجر ٹوڈ منٹگمری (Todd Montgomery) کا کہنا ہے کہ ’’ ہاتھی اپنے بھاری بھرکم پاؤں، سونڈ اور بڑے بڑے دانتوں کے ذریعے ایسے گڑھے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جن میں زیرزمین یا بارش کا پانی جمع ہو سکے، جو بعدازاں نہ صرف ہاتھیوں بلکہ دیگر مقامی جانوروں کی ضروریات بھی پورے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھی ایک ترتیب سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں ان کے بھاری بھرکم پاؤں جس جس زمین پر پڑتے ہیں وہاں ایک فٹ پاتھ بن جاتا ہے، جو انہیں واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‘‘

نمک تلاش کرنے کی صلاحیت

ہاتھی صرف جسمانی اعتبار سے ہی ایک طاقت ور جانور نہیں بلکہ وہ ذہنی توانائی سے بھی مالا مال ہے۔ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہاتھیوں میں یہاں تک صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر زمین سے نمک تک تلاش کر سکتے ہیں۔ ٹوڈ مینٹگمری کہتے ہیں کہ ’’ ہاتھیوں کو آبیدگی کیلئے نمکیات کی بہت ضرورت ہوتی ہے، جسے وہ پودوں سے پورا کرتے ہیں، تاہم اگر یہ پودے ان کی نمکیات کی ضرورت کو پورا نہ کر سکیں تو وہ زمین میں ایسی جگہوں پر گڑھا کھود لیتے ہیں، جہاں نمک پایا جاتا ہے‘‘ ہاتھیوں کی جانب سے نمک کی تلاش میں زیرزمین غار بنانے کی ایک بڑی مثال کینیا کا مؤنٹ ایلگون نیشنل پارک ہے، جہاں ہاتھیوں کا بنائی کیتم غار ہے۔

ایک دن میں 12سے 18 گھنٹے تک کھانا

ہاتھیوں کے جسمانی وزن کی بات کی جائے تو ایک افریقی ہاتھی کا وزن 6 ٹن جبکہ ایشیائی کا تقریباً 4 ٹن ہوتا ہے۔ اپنے اس بھاری بھرکم جسم کو برقرار رکھنے کے لئے ہاتھی کو بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے وہ ہر قسم کے پودے، گھاس، پتے، پھول اور پھل کھا لیتے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق ایک ہاتھی کو روزانہ تقریبا ساڑھے 3 من خوراک کی ضرورت ہے، جس کو پورا کرنے کے لئے وہ 12 سے 18 گھنٹے تک کھاتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سال میں ایک ہاتھی 50 ٹن سے زیادہ خوراک استعمال کرتا ہے۔

بہترین خاندانی نظام اور اس پر مادہ کی حکمرانی

ہاتھی ایک سماجی مخلوق ہے، جن میں خاندانی نظام کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے اور اس خاندانی نظام میں مادہ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ٹوڈ مینٹگمری کے مطابق ’’ ہر جھنڈ میں مختلف مزاج کے ہاتھی ہوتے ہیں، جس کی سربراہی عمومی طور پر ان کی ماں، دادی یا پھر کسی آنٹی کے پاس ہوتی ہے۔ اور اس مادہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جھنڈ ہر لمحہ پر ہدایات دیتی ہے۔‘‘

ہم درد

ہاتھیوں کی ذہانت اور ان میں سماجی تعلقات کے حوالے سے پائی جانے والی صفت کے باعث ان میں ہمدردی کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہاتھیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ایک اور ادارے سیو دی ایلیفینٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فرینک پوپ ُFrank Pope) کہتے ہیں کہ ’’ اپنے مزاج کے مطابق ہاتھی ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ہر رکن کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں، حتی کہ وہ اپنے مرنے والوں پر ماتم بھی کرتے ہیں۔‘‘

بہترین یاداشت

ٹوڈ مینٹگمری کا کہنا ہے کہ ’’ قدرت نے ہاتھیوں کو حیران کن ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی یاداشت بہت شاندار ہوتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے، جس سے وہ ہر ماحول کو جان کر اس کی آسانیوں اور خطروں کا پتہ چلا لیتے ہیں۔ ماحول کے علاوہ ہاتھی ایک بار جب کسی دوسرے ہاتھی سے مل لیتے ہیں تو زندگی بھر پھر اسے بھولتے نہیں اور یہی ان کی وہ خصوصیت ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنے جھنڈ میں شامل ہونے والے کسی بھی نئے ہاتھی کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔‘‘

نوکیلے دانت بہترین اوزار

ہاتھی کے نوکیلے دانت اس کا موثر ترین اوزار ہے، جن کے ذریعے وہ بہت سارے کام سرانجام دیتے ہیں۔ ٹوڈ مینٹگمری کے مطابق ’’ ہاتھی اپنے دانتوں کے ذریعے نہ صرف درختوں کی چھال کھینج کر انہیں کھاتے ہیں، جھاڑیوں کو دوڑ سکتے ہیں، زمین میں گڑھے بناتے ہیں بلکہ خطرے کی صورت میں اپنا دفاع بھی کرتے ہیں۔‘‘

دھوپ کی شدت سے بچاؤ

بلاشبہ سورج کی تپش سے جانور بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن ہاتھیوں کے پاس اس مشکل کا بہت آسان حل موجود ہے۔ اس ضمن میں ٹوڈ مینٹگمری بتاتے ہیںکہ ’’ ہاتھی خود کو دھوپ کی شدت اور مضرحشرات الارض سے بچانے کے لئے دھول، گرد اور کیچڑ کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنی سونڈ میں پانی بھر کر اسے اپنے جسم کے ہر حصے پر بہاتے ہیں، پھر دھول، گرد اور کیچڑ کو خود پر گرا کر سورج کی تمازل کامقابلہ کر لیتے ہیں‘‘ ایک نئی تحقیق کے مطابق ہاتھی کے جسم پر قدرتی طور پر پائے جانے والی جھریاں پانی اور کیچڑ کو زیادہ دیر تک برقرار رکھتی ہیں، جس سے ہاتھیوں کو سکون ملتا ہے اور وہ سورج کی تپش سے پیدا ہونے والے مسائل سے خود کو محفوظ بنا لیتے ہیں۔

شیشے میں خود کی پہچان

ہاتھی وہ جانور ہے، جو اگر شیشے میں خود کو دیکھے تو اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ شیشے میں دکھائی دینے والا ہاتھی وہ خود ہی ہے، حالاں کہ بہت سارے جانور شیشہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ وہاں کوئی اور جانور ہے۔ حتی کہ ہم اگر انسان کی بات کریں تو 18 ماہ تک کا بچہ بھی شیشے میں خود کو نہیں پہچان سکتا۔ اس حوالے سے فرینک پوپ کہتے ہیں کہ ’’ ہاتھی کا شیشہ میں خود کو پہچاننا کوئی بڑی بات نہیں، کیوں کہ متعدد ٹیسٹوں میں وہ یہ ثابت کر چکا ہے۔ البتہ ان کی یہ ذہانت دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ بھی ان کی حقیقی پہچان کر کے ان کو تحفظ فراہم کریں۔‘‘

فاصلاتی ابلاغ

فرینک پوپ کا کہنا ہے کہ ’’ ہاتھیوں میں فاصلاتی ابلاغ کی وہ صفت ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر اپنے ساتھیوں کو بہت دور سے خطرہ سے خبردار کر دیتے ہیں اور دیگر ہاتھی پیغام بھیجنے والے کے قدموں سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان کے لئے یہ ابلاغ قابل سماعت نہیں ہوتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک ہاتھی کا پاؤں کے ذریعے مخصوص رویہ اس کے ساتھیوں کو صورت حال کا اندازہ کرواتا ہے۔ اس تحقیق نے سائنسدانوں کے لئے تھرتھراہٹ کے ذریعے ابلاغ کرنے کے حوالے سے نئے راستے بھی نکالے ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہاتھیوں میں بصارت سے زیادہ سماعت کی طاقت ہوتی ہے۔‘‘

شکاریوں سے بچنے کی تربیت

ہاتھی اپنے ماحول کو ہی یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس ماحول کی آسانیوں اور خطروں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہاتھیوںکا جھنڈ ہمیشہ ایسے راستوں سے سفر کرتا ہے، جہاں ان کا شکاریوں سے سامنا ہونے کا امکان نہ ہو، خصوصاً جب ان کے جھنڈ کا سربراہ کسی شکاری کے ہتھے چڑھ جائے۔ اس سلسلے میں فرینک پوپ بتاتے ہیں کہ ’’ ہماری تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق ہاتھی ایسے علاقوں میں رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں وہ اس سمت میں تیزی سے دوڑتے ہیں، جو ان کو شکاری سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پُرخطر علاقہ میں ہاتھی ہمیشہ ایک سیدھی لائن بنا کر سفر کرتے ہیں اور منزل تک پہنچنے سے قبل وہ اس دوران چارے کے لئے بھی زیادہ دیر تک توقف نہیں کرتے۔ یہ سب چیزیں بلاشبہ ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘

کینسر کا مقابلہ

ہاتھی کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ عمر پانے والے جانوروں میں ہوتا ہے اور سائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ بھاری بھرکم جسم کے ساتھ لمبی عمر پانا والا جانور کو کینسر کو مات دے دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ہاتھیوں میں ایک ایسا جین پایا جاتا ہے، جو کینسر کو جسم میں پھیلنے سے روک دیتا ہے۔ یوں ہاتھیوں کے اندر کینسر سے لڑنے کا ایک خودکار نظام موجود ہوتا ہے، جو انسان کے بھی کام آ سکتا ہے۔

The post ہاتھی…ایک جہانِ حیرت appeared first on ایکسپریس اردو.

’’مفاد پرستی اور بے حسی کا نیا کلچر‘‘

$
0
0

وطن عزیز خوفناک ترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو جو ہوش رّبا اعداد وشمار سامنے آئے اس نے حکومت کے ہوش ہی اڑا دئیے۔

سابقہ حکومتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اس صورتحال کا بخوبی اندازہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت پہلے تین ماہ میں ہی گھٹنے ٹیک دے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور دوست ممالک کے تعاون سے ملکی معیشت کو سہارا مِلا، ڈگمگاتی کشتی کچھ سنبھل گئی۔

اپوزیش جماعتوں نے عمران خان کو ’’بھکاری خان‘‘کا خطاب دیا ۔ مگر سنجیدہ عوامی حلقے کو سابقہ حکومتوں اور موجودہ اپوزیش کے اس روّیے سے خاصا صدمہ پہنچا کہ ہمارے موجودہ حکمران صرف عوام کیلئے اپنی جھولی پھیلا رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو اس مقام تک پہنچانے والے ہی حکومتی کوششوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

مفاد پرستی اور بے حِسی کے اس روّیے نے عوام کو خاصا دل برداشتہ کر رکھا ہے۔کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں مفاد پرستی کا ایک ’’نیاکلچر‘‘ پیدا ہوا ہے کہ’’ چاہے قوم بھوکی مر جائے ہمیں تو سونے کا نوالہ ہی چاہیے‘‘ اس وقت ہمارا ملک اور کئی ملکی ادارے خسارے سے دوچار ہیں ۔ عوام کی حالت نہ گفتہ بِہ ہے، ہر سال 28کھرب روپے تجارتی خسارہ ہو رہا ہے مگر تمام سیاستدانوں کو شاہانہ مراعات چاہئیں، پیشہ ور اور مفاد پرست سیاستدان تو اپنی جگہ مگر جب حکومتی سرپرستی میں چلنے والے خسارہ زدہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سابقہ اور موجودہ افسران اور ملازمین بھی شاہانہ مراعات طلب کرنے کیلئے احتجاج کا سلسلہ اپناتے ہیں تو بیچاری قوم شُشدر ہی رہ جاتی ہے، منافع بخش قومی اداروں کو تباہ کرنے والے کس منہ سے اپنی ’’خدمات‘‘کا صلہ مانگ رہے ہیں؟

قومی ائیرلائن پی آئی اے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک مثالی ادارہ تھا ۔ اس کا سلوگن تھا بلکہ اب بھی ہے ’’بے مثال لوگ لاجواب سروس ‘‘ ۔ پی آئی اے کا شمار چند اچھی ساکھ والی فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا، یہ ایک منافع بخش ادارہ تھا، پی آئی ے کے ملازمین کو پُرکشش پیکیج دیا جاتا تھا بلکہ اب بھی دیا جاتا ہے، تنخواہ کے علاوہ رہائش، میڈیکل اور سفری سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ بیرون ممالک فلائیٹس کرنے والے فضائی عملے کو بیرون ممالک میں فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام وطعام کی سہولت کے علاوہ اخراجات کیلئے ڈالرز کی شکل میں معقول رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ پندرہ روزہ انٹرنیشنل فلائیٹس کرنے والے ملازمین کو سفری اخراجات کی مد میں تقربیاًٍ ایک ہزار ڈالر ادا کئے جاتے ہیں جو کہ عموماً بچ ہی جاتے ہیں۔

اس قدر منافع بخش نوکری ہو تو کِس کا دل نہیں للچائے گا ۔ پہلے پی آئی اے میں میرٹ کی بنیاد پر ملازمین بھرتی کیئے جاتے تھے پھر حکمرانوں نے اپنے منظور نظر افراد کو نواز نے کیلئے اس ادارے میں بھی سفارشی بھرتیاں شروع کردیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پی آئی اے ملازمین نے اپنی یونین قائم کر لیں ۔ پیپلزیونٹی اور ائیر لیگ کے ملازمین کے کارنامے سامنے آنے پر قوم اچھی خاصی اضطراب میں مبتلاہوئی، عوام میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں سفارشی اور نااہل افراد اس قومی ادارے کا ستیاناس ہی نہ کردیں۔

ہوا بھی یہی، اسوقت صورتحال یہ ہے کہ دسمبر 2018 ء تک یہ ادارہ 415 ،ارب روپے خسارے کا شکار تھا۔ جب بھی حکومت نے ملکی خسارہ کم کرنے کی غرض سے اس ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو پی آئی ے کے تمام ملازمین نے احتجاج شروع کردیا۔ اس وقت یہ لاجواب سروس فضائی مسافروں کیلئے ایک سزا بن چکی ہے، محکمہ زبردست خسارے کا شکار ہے، سابقہ حکومتوں نے سفارشی افراد کی بھرتیوں سے ادارے پر خاصا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی آئی اے کے ایک جہاز کیلئے 700 ملازمین کا بوجھ ہے جبکہ ’’سعودی ائیرلائن ‘‘میں ایک جہاز کیلئے 240 ملازمین اور ’’ایمریٹس‘‘کے ایک جہازکیلئے 140 ملازمین ہیں۔ جبکہ یہ ممالک تیل کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔

انھیں اپنی ائیرلائن کیلئے بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے تیل نہیں خریدنا پڑتا ۔ پی آئی اے کے ملازمین اپنی مراعات سے بھی دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہر فلائیٹ میں مفت سفر کرنے والے موجودہ اور ریٹائر ملازمین کی بھی مطلوبہ تعداد موجود ہوتی ہے اس کے علاوہ اب بھی ملازمین کے اہل خانہ کو بیرون ممالک سیروتفریح کیلئے مفت سفری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ مسافروں کو کئی کئی دن سیٹ کا انتظار کر نا پڑتا ہے مگر ان ملازمین کے اہل خانہ کیلئے ’’باہمی تعاون ‘‘کی بنیاد پر ہر وقت سیٹ میسر ہوتی ہے۔ خسارے کے باوجود قومی ائیرلائن کے ریٹائر ملازمین کو پنشن کی مدَ میں بڑی رقم ادا کی جا رہی ہے جس کا سارا بوجھ خزانے پر ہے۔ سابقہ حکومتوں نے اپنے ووٹ بنک اور مفادات کیلئے ہزاروں فالتوں ملازمین تو بھرتی کر لئے مگر اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ عوام کی جیبوں سے اُن نااہل ملازمین کو تنخوائیں اور پنشن دی جا رہی ہے کہ جو اس منافع بخش ادارے کو شدید خسارے میں لے گئے اور اب اپنی ’’خدمات ‘‘کا بہتر صلہ مانگ رہے ہیں۔

دسمبر2018 ء تک پاکستان اسٹیل مِل کا خسارہ 480 ارب روپے تھا ۔ جون 2015 ء سے یہ ادارہ بند پڑا ہے مگر ہر ماہ ملازمین کو 37 کروڑ روپے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس ادارے میں بھی سفارشی ادارے کا بوجھ ڈالا گیا اس ادارے کو تباہ کرنے میں دو پارٹیوں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا خاص کردار رہا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی تعداد 197 ہے۔دسمبر2018 ء تک ان اداروں کا خسارہ ایک کھرب 57 ارب روپے تھا ۔ زیادہ تر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے خسارے میں ہی چل رہے ہیں ۔ ان اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے ادا کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی بدحالی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت ان اداروں کی نجکاری یا اسے بند کرنے کا عندیہ دیتی ہے تو ان اداروں کی یونینیں ملازمین کو لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ مصروف سڑکوں پر ا حتجاج شروع کردیا جاتا ہے۔ حکومت بالآخر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور انھیں اپنا ارادہ موُخر کرنا پڑتا ہے۔

یوٹیلٹی سٹورز بھی حکومتی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ ناقص حکمت عملی اور ملازمین کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے عوام کو اب سستی اشیائے خورونوش کی سہولت میسر نہیںہے مگر جب بھی حکومت اِسے محدود کرنے یا بند کرنے کی کوشش کرتی ہے اس ادارے کے متعلقہ افراد بھی احتجاج شروع کردیتے ہیں، حکومت کواپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔اگر سیا ستدانوں کی کرپشن سامنے لائی جائے ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب مانگا جائے اور یہ دولت قومی خزانے میں واپس جمع کرنے کا کہا جائے تو یہ سیاستدان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

جلسے ، جلوس اور ٹرین مارچ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا یہ احتجاج حکومت کے خلاف نہیں عوام کے خلاف ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی دیکھا دیکھی اب عام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین نے بھی احتجاج کی روش اپنالی ہے۔کبھی ینگ ڈاکٹرز، کبھی نرسز، کبھی پیر ا میڈیکل سٹاف، کبھی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، کبھی اسپیشل پرسنز، کبھی کسی ادارے اور کبھی کسی محکمے کے لوگ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کردیتے ہیں اور اُس وقت اٹھتے ہیں جب تک اپنے جائز و ناجائز مطالبات نہیں منوالیتے ، ان کی ان مراعات کا بوجھ ملکی خزانے پر پڑ تا ہے جو کہ عوام کے ٹیکسوں اور کمائی سے بھرا جاتا ہے۔جب پاکستان میںکمپنیوں کی نجکاری کی گئی تو وہ کمپنیاں جلد ہی خسارے سے نِکل گئیںاور منافع میں چلی گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال PTCL ہے ، جسکی سروس بھی لاجواب ہو چکی ہے اور یہ ادارہ منافع بخش بن چکا ہے، بجلی کے ترسیلی نظام کی ذمہ دار بعض کمپنیوں کی نجکاری کے بعد خسارہ ختم ہوا یا کم ہوگیا ۔جن الیکٹرک کمپنیوں کی نجکاری نہیں کی گئی اب بھی وہ بھاری خسارے میں ہیں۔

اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست اور عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی نجکاری کردی جائے یا انھیں بند ہی کردیا جائے۔ جو افراد ملکی دولت واپس کرنے سے انکاری ہیں یا عوام کی دولت ہڑپ کرنے پر بضد ہیں انھیں عوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔ عوام کو شعور دیا جائے کہ ان کا احتجاج حکومت کے خلاف نہیں ، ریاست اور عوام کے خلاف ہے۔ عوام ان کا آلہ کار بننے کی بجائے خود ان کے احتجاج کو ناکام بنائیں۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ ریاست اور عوام اصل ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ہوتے ہیں ان کے مفادات کو ہمیشہ مقدم رہنا چاہیے ۔ سونے کا نوالہ عوام کو ملِنا چاہیے نہ کہ ملک اور ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے والے افرادکو۔۔؟

’’ لوٹ جاتی ہے اک نظر اِدھر بھی !
ایک طرف سابق حکمران اور اُن کے حواری اپنے کھربوں روپے کا حساب کتاب دینے سے گریزاںہیں، اور موجودہ حکمران اور انکی ٹیم محلات میں رہ کر غریبوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے بنارہی ہے۔ سرکاری افسران اور ملازمین مزید مراعات حاصل کرنے کیلئے آئے دن احتجاج کررہے ہیں۔دوسری طرف و طن عزیز پاکستان میں 3 1/2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 20 سال سے کم 2 لاکھ بچیاں محض غربت کی وجہ سے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

کم ازکم 60 لاکھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ضمیر فروشی پر مجبور ہیں،15 سال سے کم عمر کی 9 لاکھ بچیاں گھریلوملازماوٗں کے طور پر کام کررہی ہیں،پونے دوکروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ملک کی 6 کروڑآبادی متوازن خوراک اور مناسب طِبی سہولتوں سے محروم ہے۔کم ازکم 40 لاکھ بیمار افراد مناسب علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے اور انکا مرض پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ 22 کروڑ میں سے کم ازکم 17 کروڑ عوام بمشکل زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں،ا سکی وجہ ہماری معاشی واقتصادی بدحالی ہے، اپنے لئے مزید مراعات اور سہولیات کا مطالبہ کرنے والے کبھی یہ سوچیں گے کہ عوام کو اس حال تک پہنچانے والا کون ہے؟ ملک کو خسارے سے دوچار کرنے والے ’’مہربان‘‘اور اداروں کو تباہی کے دہانے پہنچانے والے ’’بے ایمان‘‘ مراعات کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

خسارہ زدہ ملک اور اداروں کے استحصالی مزید مراعات مانگ رہے ہیں
پاکستان 97ارب ڈالر کا مقروض ہے جسکا روزانہ 6 ارب روپے سود اور ادائیگیوں کی مَد میں خرچ کیا جارہا ہے۔ یعنی 1کھرب ،80 ارب روپے ماہانہ ادا کئے جارہے ہیں، مگر بیرون ممالک کے بنکوں میں پاکستانیوں کے400 ارب ڈالر موجود ہیں۔دوسری جائیدادیںالگ ہیں، عام پاکستانی اسقدر کسمپرسی کا شکار ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان چند ڈالر قرضے کیلئے غیر ممالک کی منتیں کر رہے ہیںمگر ان بے ضمیرپاکستانیوں کو شرم نہیں آتی کہ جنہوں نے ملک کی لوٹی ہوئی دولت باہر جمع کروا رکھی ہے، جب اِن سے دولت واپس لانے کا کہا جاتا ہے تو سونے کا نوالہ کھانے کی ضد کرنے والے یہ لوگ ’’سابقہ خدمات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بھوکی مرتی عوام سے مزید مدد مانگتے نظر آتے ہیں۔ایسا نظارہ دنیا کے کسی ملک میں نظر نہیں آتا۔

The post ’’مفاد پرستی اور بے حسی کا نیا کلچر‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

معاصر ادب میں نئی تحریک

$
0
0

کیا اِس وقت ہمیں ایک نئی ادبی تحریک کی ضرورت ہے؟

بلاشبہ یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اس پر غور کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ کم سے کم ایک ڈیڑھ بات تو بالکل صاف لفظوں میں سمجھ لی جائے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کوئی بھی خیال یا سوال اگر آج کسی کے ذہن میں آرہا ہے تو چاہے اُس کے اسباب جو بھی ہوں، مگر اُسے اور اس کے ساتھ دوسروں کو بھی جان لینا چاہیے کہ یہ کوئی طبع زاد یا بالکل نیا اور اچھوتا خیال نہیں ہے۔ صرف گزشتہ چار دہائیوں ہی کو سامنے رکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان ہندوستان دونوں جگہ اس سوال کی گونج کئی بار سنی گئی ہے۔ آلِ احمد سرور، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر اسلوب احمد انصاری فضیل جعفری کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی اپنے اپنے انداز سے اس ضمن میں اپنا ممکنہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔

آلِ احمد سرور طرزِ احساس کی تبدیلی کے ذریعے نئے ادب کی تخلیق کے خواہاں تھے۔ وزیر آغا نظم کی کروٹوں میں اس کا سراغ پاتے اور امتزاجی تنقید سے اس کے لیے راہ ہموار کرتے رہے۔ اسلوب احمد انصاری فکشن اور فضیل جعفری نئی دنیا کے حقائق کے ذریعے نئے ادب کا رستہ دیکھتے تھے۔ البتہ جمیل جالبی نے اس ضمن میں سب سے زیادہ کام کیا۔ انھوں نے اس دور میں تخلیق کیے جانے والے ادب کا مطالعہ و محاکمہ کیا اور من حیث المجموع اُس کے اور بالخصوص غزل، نظم اور افسانے کے ژولیدہ اور پژمردہ ہونے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے ان کو مسترد کیا اور کہا کہ اب نئی تحریک ہی ان اصناف میں نئی روح پھونک کر انھیں تازہ کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے نئی تنقید کے خطوط متعین کیے اور کہا کہ وہ اس سے اسی طرح کام لینے کے خواہاں ہیں جیسے سائنس سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس خیال کا بالکل کھلے بندوں اظہار کیا کہ یہ تنقید نئے شعور کو جنم دینے اور نئی ادبی تحریک کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔ مختصر یہ کہ نئی ادبی تحریک کی ضرورت ہمارے یہاں کم سے کم پچھلے چار عشروں سے محسوس کی جارہی ہے۔

دوسرے یہ کہ تہذیب، سماج اور ادب میں تبدیلی کی ہوائیں تو وقتاً فوقتاً چلتی رہتی ہیں اور ان ہواؤں کے اثرات بھی وقت کے عمل میں نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن جسے انقلابی درجے کی تبدیلی کہا جاتا ہے، جس کے بعد منظرنامہ بالکل بدل کر رہ جائے اور نئے رجحانات و امکانات ایک تحریک کی صورت گری کرتے دکھائی دیں، وہ چیزے دگر ہوتی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ادب یا تہذیب کی سطح پر انقلابی تغیر یا نئی تحریک کا یہ تناظر کسی فرد کی ذاتی خواہش و کوشش اور اعلانات سے قائم ہوتا ہے اور نہ ہی رونما۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہمارے یہاں گزشتہ نصف صدی میں ایک نہیں، کئی ایک تحریکیں ادب میں جنم لے چکی ہوتیں۔ اس لیے کہ نئی ادبی تحریک کے حوالے سے جن لوگوں نے ضرورت کا اظہار کیا تھا، وہ سب ہمارے ادب کے نمائندہ افراد تھے اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے اپنے دائرۂ فکر و فن میں نہ صرف خود کام کیا تھا، بلکہ دوسروں کے لیے ایک لائحۂ عمل بھی بنایا اور اُن خطوط کا تعین بھی کیا جن پر کام کرکے نئی تحریک کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

اب اگر یہ سب انفرادی کوششیں کام یاب نہیں ہوپائیں، اور ہمارے یہاں کوئی نئی ادبی تحریک اس عرصے میں سامنے نہیں آئی تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اس نوع کے کسی بھی کام کے پس منظر میں انفرادی خواہشیں اور کوششیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ جس تہذیب اور معاشرے میں ایسا ہوتا ہے وہاں بہ یک وقت متعدد عوامل اور محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ خارجی ہوتے ہیں اور کچھ داخلی۔ ان میں سب سے قوی محرک اجتماعی روح کا وہ مطالبہ ہوتا ہے جو ایک طرف شعورِ عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی روایت کے زندہ عناصر سے مملو بھی۔ اس لیے کہ کوئی بھی تحریک خواہ وہ تہذیبی ہو یا سماجی، فکری ہو یا ادبی پہلے اجتماعی باطن میں اپنی ضرورت اور وقعت کا احساس پیدا کرتی ہے، بعدازاں ظاہر میں اس کے نقوش اور اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ اپنی تہذیب کے زندہ عناصر کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے ہی کرسکتی ہے، ان کے بغیر نہیں۔

اچھا تو سوچا جانا چاہیے کہ کسی سماج یا اس کے کسی تہذیبی مظہر، مثلاً ادب میں کوئی نئی تحریک پیدا کس وقت ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب خاصی تفصیل چاہتا ہے، لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں جب کسی سماج کی روح یہ محسوس کرتی ہے کہ مروّجہ اسالیب و افکار یہاں تک کہ الفاظ اور اُن کے رائج معانی، سب کے سب اُس کی قوت کو سہارنے اور ابھارنے سے قاصر ہیں، اُس کی کیفیات کی تفہیم و ابلاغ سے عاری ہیں اور اُس کے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں تو بس پھر اجتماعی لاشعور میں وہ عمل شروع ہوجاتا ہے جو آگے چل کر کسی تحریک کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ایک مثال سے بات ذرا واضح ہوپائے گی۔ کسی سماج یا تہذیب میں کوئی نئی تحریک اسی طرح پیدا ہوتی جس طرح ایک کونپل چٹان کا سینہ چیر کر رونما ہوتی ہے۔ جب تک وہ ظاہر نہیں ہوجاتی، اُس وقت تک دیکھنے والوں کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ چٹان میں کسی جگہ ایسا کوئی شگاف پڑ سکتا ہے اور وہاں سے ایک نازک سی کونپل بھی سامنے آسکتی ہے۔ اِس عمل میں کئی ایک فیکٹرز مکمل خاموشی، لیکن مؤثر انداز سے اپنا کردار ادا کرتے اور مل کر اُس قوت کو متحرک کرتے ہیں جو اس عمل کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔

ملکوں کی سماجی و تہذیبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اِس قوت کا ایک نام نژادِ نو بھی ہے۔ نئی نسل کے متحرک اور زرخیز لوگ اپنے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی مظاہر اور اُن کے سیاق میں اپنے یہاں موجود بیانیے سے جب مکمل ناآسودگی اور سخت الجھن محسوس کرتے اور اسے اپنی راہ میں حائل دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف بغاوت پر مائل ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن موجود نظام، رویے اور صورتِ حال انھیں اس کا موقع دیتی نظر نہیں آتی۔ تب اپنے اظہار کے لیے اور اپنا لوہا منوانے کے لیے جو کچھ رائج ہے، اس سے ٹکرانا اور اس کی نفی کرنا ان کے داخل کا ایک ناگزیر باطنی مطالبہ بن جاتا ہے۔ یہ کام ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اچھے خاصے پُرسکوت نظر آنے والے پہاڑوں میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکتا رہتا ہے جو ایک خاص مرحلے پر اس طرح باہر آتا ہے کہ پھر روکے نہیں رکتا اور کسی شے کو اپنی راہ میں حائل نہیں رہنے دیتا۔ تاہم تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کسی سماج میں نفی کا یہ عمل صرف اسی صورت میں بعدازاں اثبات کی بنیاد بن سکتا ہے، یعنی ایک نئی تحریک پیدا کرسکتا ہے جب اس باغی نژادِ نو کے پاس نہ صرف تخلیقی قوت اور کہنے کے لیے کچھ نیا ہو، بلکہ اُس نے بغاوت اور انہدام سے پہلے پورے شعور کے ساتھ اپنی روایت کے زندہ عناصر کو بھی اپنے اندر جذب کرلیا ہو۔

یہ تو ہوئے کسی سماج میں ایک نئی تحریک کو جنم دینے والے عوامل اور لوازم۔ آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ہمارا عصری ادبی و سماجی منظرنامہ کیا نقشہ دکھا رہا ہے؟ کیا وہاں پر ایسے کچھ حالات دکھائی دے رہے ہیں جو کسی نئی تحریک کے رونما ہونے اور معاشرے میں نئے رنگ و آہنگ کے ابھرنے کا سامان مہیا کرتے اور راستہ بناتے ہیں؟ یہاں ہمیں چند باتوں پر غور کرنا ہوگا، مثلاً یہ کہ گذشتہ دو عشروں میں نژادِنو کی ہمارے ادب میں جو دو نئی صفیں شامل ہوئی ہیں، کیا وہ اس تخلیقی قوت کی حامل ہیں کہ اس روایت کے دھارے کو اپنی ضرورت اور خواہش کے تحت کوئی نیا رخ دے سکیں؟ کیا ہماری اجتماعی روح اپنے اظہار و اثبات کے لیے کسی نئے شعور کی متقاضی ہے؟

کیا تہذیب و سماج کے خارجی عناصر ایسے کسی مطالبے کے آثار ظاہر کررہے ہیں؟ کیا وقت کی شاہراہ پر ہمیں اپنے اندر یا کہیں باہر فکر و احساس کے کسی نئے کارواں کی چاپ سنائی دے رہی ہے؟ کیا ادب اور سماج میں ہمارے یہاں اس وقت وہ رشتہ ہے جو اجتماعی شعور کو کسی نئی سمت میں بڑھنے کے لیے درکار قوت فراہم کرسکے؟ کیا اس وقت ہمارے یہاں اپنے فکری بیانیہ اور تخلیقی رویوں سے عدم اطمینان کا احساس نمایاں ہورہا ہے، اگر ایسا ہے تو کیا اس کی بنیاد شعور کی کسی نئی تشکیل پر ہے؟ کیا ادب کی نئی تحریک سے ہم اپنی تہذیب کی بقا و استحکام اور اس کے مظاہر کی تجدید چاہتے ہیں؟ یہ اور ایسے ہی بعض دوسرے سوالوں پر ہمیں بالالتزام اور تفصیلاً غور کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن نکتہ حاصل ہوسکتا ہے۔ تاہم اجمالاً ان سب سوالوں کا ہمارے پاس فی الجملہ جواب ہے، نہیں۔ ہر سوال کے سیاق میں اس ’نہیں‘ کے اسباب بے شک الگ ہوں گے، لیکن آخر میں ہمیں جواب اسی ’نہیں‘ کی صورت میں ملے گا۔

یہ تو نہیں کہا جانا چاہیے کہ اس وقت ہمارے یہاں ادب تخلیق نہیں ہورہا۔ یقینا ہورہا ہے اور اُس میں اچھا اور معیاری ادب بھی بہرحال نظر آتا ہے، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا تناسب کچھ بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہمارے یہاں سماج اور ادب کا رشتہ بھی آج بہرحال اب وہ نہیں ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا جس کی جدلیاتی فضا دونوں طرف اثرات کا ثبوت فراہم کرتی تھی۔ ٹھیک ہے، لوگ اب بھی پڑھتے ہیں، ادب پر سوچتے اور بات کرتے ہیں، مگر یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اب ادب اور ادیب ہمارے سماجی منظرنامے کے مرکز میں نہیں رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ سرکتے ہوئے اب تو وہ حاشیے پر آگئے ہیں۔ یہ احساس ہمیں گہرے اضطراب میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم یہاں گھڑی بھر کو رک جائیں اور ذرا عالمی تناظر میں ادب، بلکہ جملہ تہذیبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈال لیں۔ تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، سو اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ادب اور تہذیب سے اغماض کا یہ رویہ آج صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ اس وقت یہ ایک گلوبل فینومینا ہے۔

تہذیبیں اور اُن کے مظاہر عالمی تناظر میں روگردانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ عہدِجدید اس وقت انسانی فکر و احساس کا پورا پیراڈائم تبدیل کررہا ہے، بلکہ بڑی حد تک کرچکا ہے۔ آج انسانی زندگی میں اشیا، افکار اور افراد کی ضرورت و اہمیت کا معیار اس حد تک بدل چکا ہے کہ گذشتہ زمانے کے اصولوں اور معیاروں سے اس عہد کی صورتِ حال کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا عہد مادّے کی فتح مندی کا زمانہ ہے۔ ادب جیسی غیرمادّی چیزیں اس عہد کی ضرورت ہی نہیں رہیں۔ اس لیے ہمارے یہاں، بلکہ پوری دنیا میں اب عام آدمی کی توجہ کا اس سے ہٹ جانا اور ادیب شاعر کا سماج کے اقداری نظام کے مرکز سے نکل کر حاشیے پر منتقل ہوجانا کتنی ہی افسوس ناک ہو، لیکن اچنبھے کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔

اب رہ گئی بات ہمارے یہاں نژادِنو کی تو آپ اور ہم سب ہی مل کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ اُس میں غالب اکثریت اوّل تو ادب سے کوئی سروکار نہیں رکھتی، اور اگر ان میں کچھ فی صد لوگ ایسے ہیں جو ادب سے کچھ تعلق جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ بھی ادب سے زیادہ اصل میں اس کی سماجیات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اُن کے نزدیک ادب مقصود بالذات نہیں ہے، جیسے کبھی ہماری روایت میں ہوا کرتا تھا، بلکہ وہ تو اب کچھ اور مقاصد کی تکمیل اور دوسرے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ رویہ بھی محض مقامی نہیں، بلکہ عالمی تناظر میں سامنے آیا ہے۔ اب جب کہ حقائق اور احوال نامہ یہ ہے تو ادب میں یا پھر اس وقت یا مستقبل قریب میں کسی نئی تحریک کے رونما ہونے کا احساس سراسر خیالِ خام کے سوا بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔

غرضے کہ اب اپنی قومی صورتِ حال دیکھیے یا عالمی سطح پر نگاہ کیجیے، دونوں طرف منظر یہی بتاتا ہے کہ تہذیب و ادب، بلکہ جملہ ثقافتی اوضاع و مظاہر پر اس وقت پت جھڑ کا موسم ہے۔ خالی پن اور سناٹا بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس موسم میں برگ و بار نہیں آتے۔ چہچہے سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی شگوفے کہیں پھوٹتے ہیں۔ یہ وقت کا عمل ہے اور جو کچھ ہورہا ہے فطرت کے اصول کے عین مطابق ہورہا ہے، اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی وقت کے پہیے کو الٹا پھیرا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی موسم کا احساس بیان کرتے ہوئے میر صاحب نے کہا تھا:

صد موسمِ گل ہم کو تہِ بال ہی گزرے

مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

اب سوال یہ ہے کہ ایسے بے برگ و بار دنوں میں کیا کیا جانا چاہیے۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ اس موسم میں وقت کی منڈیر پر امید کے چراغ اور انسانی سینے کی محراب میں جذبے کی لو کو زندہ رکھنا ہی اصل کام ہے۔ تاریکی اور سکوت موت کا احساس بڑھاتے اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔ ان کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا، گزر جائے گا۔ اگر معاشرے میں ادب پڑھنے اور تخلیق کرنے والے موجود ہیں تو پھر آگے چل کر اپنے وقت پر اس میں نئی تحریک کے راستے بھی خود بہ خود پیدا ہوجائیں گے۔ فی الحال تو ادب کو اُس کی حرارت کے ساتھ باقی رکھا جانا اصل کام ہے۔ اس کی ذمے داری ہم پر، یعنی ڈھلتی عمر کے لوگوں پر سب سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے بعد کے لوگوں اور نوجوان نسل کے اندر اپنی روایت کے زندہ عناصر کا شعور پیدا کرنا ہے، ان کے تحفظ کی ضرورت کا احساس دلانا ہے اور نئے لوگوں کو جوڑنا اور مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے اور اپنا جوہر بہ روے کار لانے کا موقع اور اعتماد فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح جیسے اگلے وقت میں ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے یہ سب کام کیے تھے۔ اس لیے کہ فی الحال یہی ہماری تہذیبی اور ادبی بقا کا راستہ ہے۔

The post معاصر ادب میں نئی تحریک appeared first on ایکسپریس اردو.


خوابوں کی تعبیر

$
0
0

بچوں میں حلوہ بانٹنا
احمد بشیر، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے پرانے محلے میں کسی دوست سے ملنے گیا ہوں۔ وہاں پہ میری امی بھی موجود ہیں اور ہمارے ہمسائیوں کے گھر کھڑی سب بچوں کو حلوہ بانٹ رہی ہیں۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ امی میرے ساتھ ہی آ جاتیں۔ میرے بہت سے پرانے دوست اور کئی محلے والے ان کا شکریہ ادا کرنے آ رہے ہوتے ہیں۔ پھر ہم بھی اس کو کھاتے ہیں جو کہ بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کو مزید بھی بنوا دوں اپنی امی سے۔ برائے مہربانی مجھے اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے تنگ دستی، غم اور پریشانی سے نجات ملے گی۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے قرض کی ادائیگی کی کوئی بہتر سبیل بن جائے گی۔ اور اس کے علاوہ اگر کوئی بیمار ہے گھر میں تو اس کو شفاء ملے گی۔آپ سب نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

سرسوں کی سوکھی فصل
محمد علی، شیخوپورہ

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کھیتوں کا جائزہ لے رہا ہوں اور اپنے ہمسائیوں کی فصل کو دیکھ کہ سوچتا پوں کہ ان کا کھیت سرسوں سے لدا پڑا ہے جبکہ میرا اس سال اچھی کھاد استعمال کرنے کے باوجو اتنا کم کیوں ہے اور واقعتاً میرا لگا ہوا سرسوں کافی سوکھا ہوا اور کم نمو یافتہ ہوتا ہے جس کو دیکھ کہ میں بہت رنجیدہ ہوتا ہوں اور ڈیرے کی طرف چل پڑتا ہوں۔

تعبیر: خواب ظاپر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔کاروباری معاملات میں بھی کسی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ہر جمعرات حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کریں۔

بکری خریدنا
نورین خان، سرگودھا

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے میاں کے ساتھ کہیں جا رہی ہوں ۔ راستے میں کہیں ریوڑ ملتا ہے جس کی پیاری پیاری بکریاں دیکھ کر میں اصرار کرتی ہوں کہ میں اپنے بیٹے کے لئے ایک بکری لے جاؤں تا کہ وہ اس سے کھیلا کرے ۔ میری ضد سے تنگ آ کر میرے میاں ایک بکری خرید لیتے ہیں۔ مگر گھر آ کر جب ھم دیکھتے ہیں تو وہ بکری مری ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کہ میرے میاں مجھ پہ بہت زیادہ ناراض ہوتے ہیں اور پھر مجھے سمجھ بھی نہیں آتی کہ میں اس کو کہاں پھینکوں۔

تعبیر : خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی ناگہانی آفت یا پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ خاص طور پہ گھریلو معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔گھریلو معاملات کو کبھی حد سے بڑھنے نہ دیں، خاص طور پر اپنے میاں کے ساتھ غیرضروری بحث سے گریز کریں ۔ بلکہ ان کو جو بھی کھانے یا پینے کو دیں اس پہ ایک مرتبہ یا ودود اور ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کے پھونک مار دیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

ریشم کا لباس
کوثر پروین، لاہور

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کالج کسی فنکشن میں گئی ہوئی ہوں اور خوب پیارا ریشم کا بنا ہوا قیمتی لباس پہنے ہوئے ہوں۔ میری دوستیں بھی خوب بن سنور کے آئی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود سب مجھ سے اس جوڑے کے بارے میں پوچھ رہے ہوتے ہیں جو کہ مجھے خود نہیں پتہ ہوتا کہ کس نے دیا یا کہاں سے آیا ۔جب ہم اپنے اساتذہ سے ملتے ہیں، میری کئی اساتذہ مجھے بلا کے اس سوٹ کی نرمی اور خوبصورتی کی تعریف کرتی ہیں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو کہ خوشی پہ دلیل کرتا ہے۔ اس کا تعلق تعلیمی معاملات اور گھریلو دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا، آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

دوست کے گھر زردہ کھانا
 عدنان خاور،لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوست کے گھر گیا ہوں اور جیسے وہاں کوئی دعوت ہو رہی ہے۔ میں یہ دیکھ کر سوچتا ہوں کہ میں اس وقت واپس چلا جاتا ہوں اور دوبارہ کسی روز آ جاوں گا ۔ مگر میرے دوست کی والدہ مجھے زبردستی اندر لے جاتی ہیں اور ایک کمرے میں بٹھا دیتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ادھر ملازمہ کچھ ٹرے میں لے کر آتی ہے جو کہ زردہ ہوتا ہے۔ مجھے ذاتی طور یہ پسند نہیں مگر وہاں میں یہ کھا لیتا ہوں اور بے حد لذیذ اور ایسے ذائقے والا ہوتا ہے کہ میرا ھاتھ نہیں رکتا۔ میں پوری پلیٹ ختم کر جاتا ہوں۔ اتنی دیر میں میرا دوست بھی آ جاتا ہے تو میں اس سے بھی اس کے منفرد ذائقے کی تعریف کرتا ہوں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے آپ کو مال و دولت عطا کریں گے ۔ مال و وسائل میں اضافے سے رزق میں بھی برکت ہو گی اور اس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں۔

چھری زنگ آلود
جواد منصور، لاہور

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں بقر عید کے لئے جانور قربان کرنے کے لئے چھری لا کر رکھتا ہوں اور باقی کی چیزیں بھی اکٹھی کر کے قربانی کے لئے کام شروع کرتا ہوں، مگر کیا دیکھتا ہوں کہ میری چھری بہت زنگ آلود ہوتی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ سبزی تک کاٹ سکے، جانور کاٹنا تو ناممکن سی بات تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت رنجیدہ و پریشان ہوتا ہوں اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا جاتا ہوں ۔

تعبیر :آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اب اس کا تعلق گھریلو تعلیمی یا کاروباری دنیا سے بھی ہو سکتا ہیے ۔ آپ چلتے پھرتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ ممکن ہو سکے تو روزانہ حسب توفیق صدق و خیرات کریں یا مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں ۔

باس بادام بھیجتا ہے
شاہد قیوم،اوکاڑہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا ہوں کیونکہ مجھے وہ اسی دن پورا کر کے جمع کرانا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں جلدی جلدی مکمل کر کے باس کی متوقع ڈانٹ سے بچ سکوں۔ اسی اثناء میں چائے کا وقت ہو جاتا ہے اور میں بھی کچھ دیر سکون کے لیے چائے پینے لگتا ہوں، تو میں دیکھتا ہوں کہ میری پلیٹ میں ایک طرف کچھ بادام پڑے ہیں۔ میں ان کو حیران ہو کر دیکھتا ہوں کہ کس نے مجھے بھیج دئیے کیونکہ اور کسی کے پاس نہیں تھے۔ اس پہ چپڑاسی مجھے کہتا ہے کہ یہ باس نے میرے لئے بھیجے ہیں اور میں پھر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو کہ کاروباری یا نوکری  کے معاملات میں ترقی پہ دلیل کرتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے مزید آسانی حاصل ہو گی ۔ آپ لازمی نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور ممکن ہو سکے تو گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں ۔

نرگس کا پھول دیکھنا
تمنا ظہیر، آسٹریلیا

خواب:۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے میاں کے ساتھ ایک مقامی باغ میں جاتی ہوں۔ وہاں ہم دونوں سیر کر رہے ہوتے ہیں اور پھر میں پھولوں کی ایک کیاری کے پاس آکر رک جاتی ہوں۔ وہاں پر نرگس کے پھول لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں ان کو بڑے غور سے دیکھتی ہوں اور پھر نیچے جھک کر اس کی خوشبو بھی سونگھتی ہوں۔ بڑی اچھی خوشبو ہوتی ہے اور پھر ہم وہا ں سے واپس آتے ہیں تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے ہاں ایک خوبصورت فرزند پیدا ہوگا جو آپ کے خاندان کی عزت اور وقار میں اضافہ کرے گا۔ تجارت اور کاروبار میں ترقی ہوگی اور آپ کے رزق میں بھی اضافہ ہوگا جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد بھی جاری رکھیں۔

ماں میرا صدقہ دیتی ہے
سمیرا خان، لاہور

خواب:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں سو رہی ہوتی ہوں کہ میری امی میرے کمرے میں آتی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کچھ گوشت ہوتا ہے اور وہ گوشت میرے جسم پر سے سات مرتبہ وار دیتی ہیں۔ پھر نوکرانی کو آواز دے کر وہ گوشت اس کے حوالے کر دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ صدقہ ہے اور کسی کو باہر دے آؤ۔ میں اپنی امی کی طرف دیکھتی ہوں تو پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تنگ دستی، غم اور پریشانی سے نجات ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے قرض کی ادائیگی کی کوئی بہتر سبیل بن جائے گی۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو اس کو شفاء ملے گی۔ کاروبار میں اضافہ ہوگا جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بہتری آئے گی۔ گھر کا ماحول بہتر ہوگا۔ آرام اور سکون بھی ملے گا۔ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد بھی کیا کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کی صوتی جارحیت کے سامنے ریڈیو پاکستان بے دست و پا کیوں؟

$
0
0

27 مارچ 2012  ء کے روز ڈھاکہ کے بنگا بندھو انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں دنیا بھر سے اُن شخصیات، ممالک اور اداروں کے نمائندوں کو اکٹھا کیا گیا۔ جنہوں نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تقریب میں آل انڈیا ریڈیو کو پاکستان کو تقسیم کرنے کی کوششوں کے شراکت دار ہونے کے اعتراف میں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سرکاری ایوارڈ دیا گیا۔

48 سال قبل بھارت نے اپنے سرکاری ریڈیو کے ذریعے پاکستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی جس حکمت عملی پر کام کیا تھا آج وہ اُس حکمت عملی کو دوبارہ استعمال کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔اس حوالے سے بھارت آل انڈیا ریڈیو کے انفراسٹراکچر کو تیزی سے بڑھاتا اور ترقی دیتا جارہا ہے۔ جس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 2017-18 میں آل انڈیا ریڈیو نے ملک میں 52 نئے ٹرانس میٹرز لگائے۔ اور 2016-17 سے2017-18 کے دوران 49 نئے اسٹیشنز قائم کئے۔جبکہ وہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ نئے اور جدید طاقتور ٹرانس میٹرز کی تنصیب بھی کر رہا ہے۔

اس وقت پاکستان سے ملحقہ بھارت کی تین ریاستوں پنجاب، راجستھان، گجرات اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں آل انڈیا ریڈیو کے 83 اسٹیشنز اور 105 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں۔یہ تعداد آل انڈیا ریڈیو کے تمام اسٹیشنز کا 17.3  اور تمام ٹرانس میٹرز کا 15.4 فیصد ہے۔سب سے توجہ طلب پہلو یہ ہے بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کو دبانے ، آزاد جموں کشمیر، گلگت  بلتستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں اپنا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے سرکاری ریڈیو کے نیٹ ورک میں اضافہ اور اسے مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔

اس وقت مقبوضہ علاقے میں آل انڈیا ریڈیو کے 24 اسٹیشنز اور 41 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں۔جس میں میڈیم ویوز کے14 ، شارٹ ویوز کے 3 اور ایف ایم کے24 ٹرانس میٹرزشامل ہیں۔ بھارت نے آل انڈیا ریڈیو کے لئے مقبوضہ جموں میں جدید DRM ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرنصب کیا ہے جبکہ سری نگر میں بھی 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو کاٹرانس میٹرموجود ہے ۔ اسی طرح کارگل میں 200 کلوواٹ پاور کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرکام کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ 10 کلو واٹ کے6 ٹرانس میٹرز بھی سرگرم عمل ہیں۔جبکہ مقبوضہ جموں کشمیر  میں مختلف مقامات پر نئے ایف ایم ٹرانس میٹرز کی تنصیب کا کام بھی تیزی سے جاری ہے ۔ کچھ ہی عرصہ قبل ہیPatnitop  کے مقام پر 10 کلوواٹ کا ایف ایم ٹرانس میٹرنصب کیا گیاہے جس نے 02.09.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔ اسکے علاوہ Naushera کے مقام پر 10 کلوواٹ کے نئے ایف ایم ٹرانس میٹرکی بھی تنصیب کی گئی ہے اس ٹرانس میٹرکو 01.11.2018 سے فعال کردیا گیاہے۔ اسی طرح Udhampur کے مقام پر بھی 10 کلوواٹ کا نیاایف ایم ٹرانس میٹرلگایا گیا ہے جو  21.01.2019 سے کام کررہا ہے۔

علاوہ ازیں اس وقت بھارتی پنجاب میں آل انڈیا ریڈیو کے 18 اسٹیشنز اور11 ٹرانسمیٹرزموجود ہیں۔ جن میں میڈیم ویو کے 2 اورایف ایم کے9 ٹرانس میٹرز ہیں۔ صوبے میںمیڈیم ویوز کے سب سے طاقت ور ٹرانس میٹرز جالندھر میں نصب ہیں۔ جہاں جدید DRM ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا اور میڈیم ویو 200 کلوواٹ کا ٹرانسمیٹرلگایا گیا ہے۔ راجھستان میں 25 اسٹیشنز اور میڈیم ویو ز کے 8 ،شارٹ ویو کا ایک اور ایف ایم کے 23 ٹرانس میٹرز یعنی مجموعی طور پر 32 ٹرانس میٹرز ہیں۔

اجمیر میں 200 کلوواٹ کا DRM ٹیکنالوجی کا حامل میڈیم ویو ٹرانس میٹراور سورت گڑھ میں بھی اس ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا ٹرانس میٹرنصب گیاہے۔ جبکہ جودھ پور میں 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرکا م کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست گجرات میں سرکاری ریڈیو کے 16 اسٹیشنز اور 21 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں جن میں 6 میڈیم ویوز اور 15 ایف ایم کے ٹرانس میٹرز ہیں۔گجرات میں راج کوٹ کے مقام پر انڈیا نے سب سے طاقتور1000 کلوواٹ کا DRM ٹیکنالوجی کا حامل میڈیم ویو ٹرانس میٹرکے ساتھ ساتھ اسی ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا ایک اور ٹرانس میٹر بھی نصب کر رکھا ہے۔یوںان انڈین ریڈیو اسٹیشنز کی ایک نمایاں تعداد کو پاکستانی علاقوں میں واضح طورپر سنا جاسکتاہے۔بھارتی پنجاب میں پاکستانی بارڈر کے ساتھ بھی آل انڈیا ریڈیو کے نئے ٹرانس میٹرز لگانے کا کام جاری ہے۔

اس تناظرمیں امرتسر Ghrindaکے مقام پر 20 کلوواٹ کا نیاایف ایم ٹرانس میٹر ایک ہزار فٹ کی بلندی کے حامل انٹینا کے ساتھ نصب کیا ہے۔جو پاکستان کے علاقوں سیالکوٹ، گجرانوالہ اور لاہور میں سنا جا سکتا ہے۔اس ٹرانس میٹرنے 24.09.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بارڈر پر  Fazilka کے مقام پر 20 کلو واٹ کا ایف ایم ٹرانسمیٹربھی نصب کیا گیاہے۔جو پاکستان کے علاقوں پاکپتن، حویلی لکھا، بصیر پور، دیپالپور، حجرہ شاہ مقیم، کنگن پور، منچن آباد، اللہ آباد، پیال کلاں، چونیاں، پتوکی ، رینالہ خورد اور اوکاڑہ تک پہنچ رکھتا ہے۔ یہ ٹرانس میٹر25.12.2015 سے متحرک ہے ۔اسی طرح بھارت نے راجھستان میں Chautan Hill کے مقام پر بھی 20  کلو واٹ کا ایف ایم ٹرانس میٹرلگایا ہے جس نے01.10.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔بھارت پاکستان بارڈر کے ساتھ اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل لوکیشنز پر88 نئے ٹرانس میٹرز لگانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ بھارت ریڈیو کے میڈیم کا استعمال کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اور وہ ایف ایم ریڈیو کا سہارا کیوں لے رہا ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر ریڈیو ہر جگہ سنا جاتا ہے ۔ یونیسکو کی 2015 ء کی رپورٹ’’ ری شیپنگ کلچرل پالیسیز‘‘ بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے43 فیصد اور ترقی یافتہ مما لک کے 56 فیصد افراد روزانہ ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتے ہیں۔جبکہ ورلڈ ویلیوز سروے کی ویو 6 کے مطابق دنیا کے43.2 فیصد افراد ریڈیو  کے ذریعے باخبر رہتے ہیں۔برطانوی ادارے کی 2015  میں شائع ہونے والی رپورٹ کلچرل ٹائمز دی فرسٹ گلوبل میپ آف کلچرل اینڈ کریٹیو انڈسٹریز کے مطابق 2012 ء میں دنیا بھر میں ریڈیو نے 46 ارب ڈالر کا ریونیو پیدا کیا اور 5 لاکھ 2 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کیں۔اسی سال سب سے زیادہ ریڈیو ریونیو امریکہ میں حاصل ہوا جو عالمی ریونیو کا 45 فیصد تھا۔ جبکہ سب سے زیادہ ریڈیو ملازمتوں کے مواقع ایشیا میں پیدا ہوئے جو 35 فیصدتھیں۔اعداد وشمار کی یہ جھلک اُس دنیا کی ہے جہاں ذرائع ابلاغ کی ہرجدید صورت ناصرف موجود ہے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے لئے دیگر تمام ذرائع/ وسائل بھی دستیاب ہیں۔یعنی بجلی ہروقت اور سب کو دستیاب ہے۔

انٹرنیٹ ہر کسی کی پہنچ میں ہے۔ قوتِ خرید بھی موجود ہے اور خواندگی بھی 100  فیصد۔لیکن پھر بھی وہ ریڈیو سے اتنا کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ یہی بات امریکی صدر کو ہر ہفتہ ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کی روایت کے احیاء اور اسے برقرار رکھنے کا موجب ہے۔لیکن ہمارے پالیسی ساز اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔جبکہ بھارت اس حقیقت کا پورا ادراک رکھتا ہے۔ اُس کے پیش نظرہمارے وہ زمینی حقائق بھی ہیں جو ریڈیو کو پاکستان میں آج بھی موثر ذریعہ ابلاغ بنا تے ہیں۔یعنی بجلی سے محروم پاکستان کی 5 کروڑ 9لاکھ آبادی( ماخذ: ورلڈ انرجی آوٹ لک2017 ) اور طویل لوڈشیڈنگ کی شکار دیگر آبادی سے ابلاغ کرنا ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

پاکستان کے 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 42  فیصد ناخواندہ افراد ( ماخذ: اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 )سے رابطہ کا اہم ذریعہ صرف ریڈیو ہی ہے۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 24.3 فیصد پاکستانیوں ( ماخذ: اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 )سے تعلق ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں سہولیات کی محرومی اور شہری علاقوں میں زندگی کی تیزی ریڈیو کی ضرورت کو دوچند کررہی ہے۔اس کے علاوہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ان شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں رہتی ہیں جو بھارت کے بارڈر کے قریب100 کلومیٹر سے کم فاصلہ پر آباد ہیں۔ اور ان آبادیوں کی ایک نمایاں تعداد تک ریڈیو پاکستان کے سگنلز اپنی پوری طاقت سے نہیں پہنچتے۔ سرحد کے قریب پاکستان کے چھوٹے شہروں ،قصبوں اور دیہاتوں میں سے اکثر میںریڈیو پاکستان کو کوئی اسٹیشن یا ٹرانس میٹرموجود نہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو یا ایف ایم ٹرانس میٹربھی نہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میںکافی ابلاغی خلا موجود ہے جس میں آسانی سے گھسا جاسکتا ہے۔ اس آبادی کو معیاری ایف ایم سگنلز اور موسیقی کے ذریعے بھارت اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔

جتنا طاقتور ایف ایم ٹرانس میٹرہوگا اتنا ہی وہ صاف طور پر اپنے ریڈیس کے اندر ہر جگہ سنا جائے گا اور اپنے ساتھ قریب کی ایف ایم فریکونسیوں پرجب ان کی نشریات بند ہو تو بھی سنا جاسکتا ہے۔اسی طرح جس فریکونسی پر وہ کام کررہا ہوگا اُس فریکونسی پر کام کرنے والے کسی دوسر ے کم طاقت کے ایف ایم ٹرانس میٹرپربھی غالب آجاتا ہے ۔ عموماً ہرایف ایم ٹرانس میٹرکی پہنچ 50 کلو میٹر تک ہوتی ہے ۔ لیکن انٹینا کی بلندی میں اضافہ کر کے اسے 10 سے30 کلومیٹر تک مزیدبڑھایا جاسکتاہے۔ اگر ہوا کارخ ٹارگٹ علاقہ کی جانب ہو تو کوریج میں اضافہ یقینی ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ اسے باآسانی موبائل فون پر بھی سنا جاسکتا ہے۔اور ریڈیو سیٹ پر بھی یہ قابلِ سماعت ہے۔ اس کے برعکس میڈیم ویو اور شارٹ ویوٹرانس میٹرکی پہنچ ایف ایم سے اگر چہ کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن موسمی حالات اس کی پہنچ اور سگنلز کے معیار پر کافی اثر ڈالتے ہیں۔اور ان کی نشریات کو سننے کے لئے ریڈیو سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ موبائل پر نہیں سنے جاسکتے(اس طرح کے ٹرانس میٹراس وقت ضروری ہوجاتے ہیں جب آپ نے زیادہ فاصلہ تک موجود آبادی کو یا پھردور اور بکھری ہوئی آبادی کو کور کرنا ہو)۔ بھارت سرحدکے قریب چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں آباد پاکستانیوں کی اُس خواہش کا استعمال کرنا چاہتا ہے جو ایف ایم سننے کے حوالے سے اُن علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ نوجوانوں میں یہ خواہش زیادہ شدت سے ہے جن کے پاس خصوصاً اور باقی عمر کے افراد کے پاس عموماً موبائل فون سیٹس کی موجودگی پاکستان کے ان علاقوں میںایف ایم ریڈیو سننے میںمزید سہولت فراہم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاک بھارت سرحد سے ہٹ کر بھی بھارت ہمارے دیگر علاقوں کو ٹارگٹ کر رہا ہے جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ آل انڈیا ریڈیو نے اپنی بلوچی سروس کو ازسر نو مرتب کرتے ہوئے اس کے لئے نئی ویب سائیٹ اور ایپ متعارف کروائی ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ دورانیہ کی یہ سروس میڈیم ویوز پر بھی پیش کی جاتی ہے۔

اس تمام صورتحال میں ضروری ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا ریڈیو پاکستان اس قابل ہے کہ وہ بھارت کی اس صوتی جارحیت کا مقابلہ کرسکے۔اعداو شمار بتاتے ہیںکہ اس وقت پورے ملک میں ریڈیو پاکستان کے براڈکاسٹنگ ہاوسز/ اسٹیشنز کی تعداد 32ہے(براڈکاسٹنگ ہاؤس / اسٹیشن سے مراد ریڈیو پاکستان کی وہ عمارت جہاںاسٹوڈیو کی سہولت موجود ہو اور وہاں سے ایک یا ایک سے زائد چینلز کی نشریات پیش کی جاتی ہوں)۔ ریڈیو پاکستان کے پاس ٹرانسمیٹرزکی تعداد74ہے۔ جن میں سے22 میڈیم ویوز، 02 شارٹ ویوز اور 50 ایف ایم کے ہیں۔بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول اوربارڈرسے قریب اس وقت ریڈیو پاکستان کے05 اسٹیشزمیر پور، مظفر آباد ، سیالکوٹ، نارووال اور لاہور میںموجودہیں۔یہ پانچ اسٹیشنز مجموعی طور پر13ٹرانس میٹرز کی مدد سے نشریات پیش کر رہے ہیں۔

جن میں 03 میڈیم ویوز کے اور 10ایف ایم کے ٹرانس میٹرز ہیں۔ان اسٹیشنز میں میرپور میں 100 کلوواٹ کا میڈیم ویو کا ایک ٹرانس میٹراور 2 کلوواٹ فی کس کے دو ایف ایم ٹرانس میٹرکام کر رہے ہیں۔ جبکہ مظفر آباد میںایک کلوواٹ کاصرف ایک ایف ایم ٹرانس میٹرفعال ہے۔ یعنی آزاد جموں و کشمیر کی حدود میں ریڈیو پاکستان کے 2 اسٹیشنز اور 04ٹرانس میٹر کام کر رہے ہیں۔ریڈیو پاکستان کے سیالکوٹ اسٹیشن پر اس وقت ایف ایم کا ایک ٹرانس میٹر موجود ہے جس کی طاقت02کلوواٹ ہے۔ نارووال ریڈیو اسٹیشن پر ایک ایک کلوواٹ کے دو ایف ایم ٹرانس میٹر کام کر رہے ہیں۔جبکہ لاہور میںمیڈیم ویوز کے دو ٹرانس میٹرنصب ہیں جن کی طاقت 100 کلوواٹ فی کس ہے۔

جبکہ 5 کلوواٹ کے ایک ٹرانس میٹرکے ساتھ ساتھ اڑھائی اڑھائی کلوواٹ کے دو اور02 کلوواٹ کا ایک ٹرانس میٹرکام کر رہا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان ٹرانس میٹرز کی اکثریت بلکہ ملک بھر میں موجود ریڈیو پاکستان کے ٹرانس میٹرز کی بھی اکثریت کوان کی پوری طاقت پر نہیں چلایا جاتا کیونکہ وہ پرانے ہونے کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں کہ اُنھیں پوری طاقت پر چلایا جائے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس میڈیم ویو کا سب سے طاقت ور ٹرانس میٹر 500 کلوواٹ تک کا ہے۔ جو250 کلوواٹ کے دو ٹرانس میٹرز کو ملا کر بنا یا گیا ہے۔

اورایف ایم کے زیادہ سے زیادہ ٹرانس میٹرکی ہمارے ہاں طاقت 5 کلوواٹ ہے۔ جبکہ ہمارے مشرقی ہمسائے میں ان ٹرانس میٹرزکی زیادہ سے زیادہ طاقت بالترتیب ایک ہزار اور 20 کلوواٹ تک ہے۔تیسرا المیہ یہ ہے کہ جو ٹرانس میٹرخراب ہوتا ہے اُسے ٹھیک کرنے یا پھر تبدیل کرنے کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے۔ اور یوں چند میڈیم ویو،شارٹ ویو اور ایف ایم ٹرانس میٹرزخراب ہونے کے بعد بند ہوچکے ہیں۔چوتھاا المیہ یہ کہ ہمارے ہاں سرحد کے قریب ٹرانس میٹرزکے ریلے سینٹرز بنانے پر کوئی کام ہوا ہی نہیں۔جہاں ریڈیو اسٹیشنز ہیں اکثر ٹرانس میٹرزبھی وہیں ہیں۔جبکہ ہمارا پڑوسی مختلف علاقوں میں ریڈیو کے ریلے اسٹیشنز قائم کرکے اپنی پہنچ میں وسعت لا رہا ہے۔

ریڈیو پاکستان کو درپیش ان المیوں اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ ہمارے منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کا اس مفروضے کی قید میں جکڑے ہونا ہے کے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں ریڈیو کون سنتا ہے؟ تاہم ایسا سوچتے ہوئے وہ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی صرف22 فیصد آبادی (44.61 ملین پاکستانی) انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ 18 فیصد آبادی (37 ملین) سوشل میڈیا کے Active users  ہیں(ماخذ: گلوبل ڈیجیٹل رپورٹ2019 )۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں ریڈیو لسننگ کے رجحانات کو جانچنے کی باقاعدہ کوئی سائنٹفک کوشش کی ہی نہیں جاتی۔اس لئے ہمارے کرتا دھرتا ریڈیو کو ایک مرتا ہوا میڈیم خیال کرکے یہ رائے بنا چکے ہیں کہ پاکستان میں اب ریڈیو سنا نہیں جاتا۔اس رائے کو اگر حقیقت مان لیا جائے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ملک میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ 142 پرائیویٹ کمرشلایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کا عمل بھی جاری ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ بہت عقل مند طبقہ خیال کیا جاتا ہے ۔ اگر ملک میںریڈیو مقبول نہیں رہا تو پھر ریڈیو پر اشتہارات جن کی مالیت دو ارب کے لگ بھگ ہے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اگرریڈیو مقبول نہیں تو پرائیویٹ سیکٹر نے ایف ایم انڈسٹری میں 1000 ملین روپے کی انویسمنٹ کیوں کر رکھی ہے؟

اس کے علاوہ بدقسمتی سے ہماری تقریباً ہر آنے والی حکومت ریڈیو پاکستان جیسے اہم قومی ادارے کو ایک مردہ ادارے سمجھ کر اس سے جان چھڑانے والا طرز عمل اپنا ئے رکھتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ ادارہ کما تا نہیں اس لئے خزانے پر بوجھ ہے۔ تو پھر سرکاری سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، پولیس،عدلیہ وغیرہ کون سا کماکر حکومت کو دیتے ہیں ۔یہ تمام وہ ادارے ہیں جو قوم کو Serve کرتے ہیں۔ ان کا کام کمانا نہیں بلکہ قوم کو بنانا،اُس کی آبیاری کرنا اور ملک و قوم کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

ہر ریاستی ادارہ معاشرے میںاپنی ایک خاص ضرورت رکھتا ہے ۔ جسے کوئی دوسرا پورا نہیں کرسکتا۔ جب یہ ادارے اپنے فرائض کو پورا کرتے ہیں تو کچھ کی آؤٹ پُٹ ظاہری طور پر نظر آتی ہے اور کچھ کی آؤٹ پُٹ نظر نہیں آتی بلکہ محسوس کی جاتی ہے۔ ریڈیو پاکستان بھی ان اداروں میں شامل ہے جس کی آؤٹ پُٹ صرف محسوس کی جاسکتی ہے ظاہری طور پردیکھی نہیںجاسکتی۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے۔اس کے برعکس دنیا بھر میں کہیں بھی سرکاری ریڈیو کا کام کمرشل بزنس حاصل کرنا نہیں ہے۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈوئچے ویلے، سی آر آئی، این ایچ کے اور آل انڈیا ریڈیو وغیرہ کی ترجیحات میں کمرشل بزنس کے حصول میں سرگرم رہنا قطعاً شامل نہیں بلکہ ان کی ترجیحات میںصرف ریاستی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے اس لئے ان کی مالی ضروریات متعلقہ حکومتیں پوری کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں جو بھی حکومت آتی ہے وہ یہی کہتی ہے کہ ریڈیو پاکستان کماتا نہیں۔ چلیں ریڈیو پاکستان اپنی قومی ذمہ داریاںچھوڑ کر پوری دنیا کے سرکاری ریڈیو کے اداروں کے برعکس کمانے کی کو ئی نئی روایت ڈال لیتا ہے۔لیکن جب ادارے کے ٹرانسمیٹرہی پرانے ہوں۔ لوڈشیڈنگ میں جنریٹر کیلئے فیول نہ ہو۔اسٹوڈیو کے اندر اور باہر جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہو وہ بوسیدہ ہو۔ جو چیز خراب ہو جائے اُسے ٹھیک کرنے کے فنڈز نہ ہوں۔پروگرامنگ کے لئے پیسے نہ ہوں۔ حاضر سروس ملازمین اور پینشنرز مسائل سے دوچار ہوں تو ادارہ کیسے کمائے؟ہماری حکومتیں ریڈیو کے حوالے سے اپنے حصے کا کام تو کرتی نہیں لیکن ریڈیو پاکستان سے کمائی کی خواہاں رہتی ہیں۔

ہم اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ریڈیوپاکستان جیسے ادارے کی ضرورت اور اہمیت کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔جبکہ ہمسایہ ملک ریڈیو کے میڈیم کو اپنے مزموم مقاصدکے لئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر چکا ہے کیونکہ بھارت کے پالیسی ساز ریڈیو کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم آل انڈیا ریڈیو پربطور وزیراعظم ’’ من کی بات ‘‘ نامی پروگرام خودHost کرتے ہیں۔

ریڈیو پاکستان غلط پالیسیوں کا شکار تب سے ہونا شروع ہوا جب ریڈیو میں غیر پیداواری شعبوں میں پیداواری شعبوں کی نسبت زیادہ بھرتیوں کا آغاز کیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے موجودہ مستقل ملازمین کی مجموعی تعداد کا 51.6 فیصد (47 فیصد ایڈمنسٹریشن اور4.7 فیصد اکاؤنٹس) کا تعلق ایڈمنسٹریشن اور اکاؤنٹس جیسے غیر پیداواری شعبوں سے ہے ۔ یقینا کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ان شعبوں کی ضرورت اور اہمیت کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ان شعبوں میں اتنی زیادہ تعداد کو بھرتی کر لیا جائے کہ وہ پیداواری شعبوں میں موجود افرادی قوت کو اقلیت میں بدل دیں۔ ریڈیو پاکستان کا کام تفریح، معلومات اور اطلاعات پر مبنی پروگرام پیش کرنا ہے جن کی تیاری اور پیشکش شعبہ پروگرام کرتا ہے۔

یوں ریڈیو میں پروگرامنگ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر شعبہ جات میں نیوزسیکشن کی ذمہ داری خبروں کی تیاری اور پیشکش ہے اس لئے پروگرامنگ کے بعد شعبہ نیوز کو ریڈیو میں اہمیت حاصل ہے۔لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ریڈیو پاکستان میں موجودمستقل ملازمین کاصرف 11.6 فیصد پروگرام اور 3.3 فیصد نیوز کے اسٹاف پر مشتمل ہے۔جبکہ وہ شعبہ جات جنہوں نے پروگرام اور نیوز سیکشن کی صرف دفتری امور میں معاونت کرنی ہے انکے ملازمین کی تعداد پروگرام اور نیوز کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہے۔ کیا دنیا بھر میںمیڈیا کے کسی بھی ادارے میں ایسا ہے؟اس کے بعد دوسری نمایاں غلط پالیسی سیاسی بنیادوں پر اور غیر ضروری طورپر، PC-Iکی منظوری کے بغیر ملک کے طول و عرض میں کئی اسٹیشن اور چینلز کے کھولے جانے کی صورت میں سامنے آئی۔ جن کی کوئی فیزیبلٹی سٹڈی ، ایڈوانس پلاننگ یا فنانس منسٹری کی منظوری بھی نہیں لی گئی۔

موجودہ جاری اخراجات اورہیومن ریسورس سے نئے اسٹیشنوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ادارے کے موجودہ وسائل پر بوجھ آن پڑا ۔ اس بوجھ میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ادارے میں سیاسی دباؤ ، سفارشی بنیادوں اور ذاتی پسندپر لوگوں کو عارضی حیثیت میںرکھنے کا عمل شروع ہوا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ادارے میں عارضی ملازمین کی تعداد ساڑھے سات سو کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔جو موجودہ مستقل ملازمین کی تعداد کے 30 فیصد کے برابر ہیں۔ ان عارضی ملازمین کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے اُنھیںسیلری ہیڈ کے بجائے پروگرام ہیڈ کی اُس رقم سے تنخواؤں کی مد میں ادائیگی کی جا رہی جو دراصل فنکاروں ،کمپیئرز، اناؤنسر، گلوکاروں، لکھاریوں اور Rjsکے لیے مختص ہے جس کی وجہ سے ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈکشن کی سرگرمیاں تقریباً منجمد ہوکر رہ گئی ہیں اور شعبہ پروگرام کی کارکردگی شدید طور پر متاثر ہوئی۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پروگرام اخراجات کے لیے دستیاب مجموعی طور پر 210ملین کا تقریباً80فیصد یعنی 16کروڑ 60 لاکھ روپے عارضی ملازمین کی تنخواہوں کی نذر ہوگیا۔ ان عارضی ملازمین کو دی جانے والی تنخواہ کا تعین اور اضافہ کسی اصول کے تحت نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ ادارے کی مینجمنٹ کے بعض اقدام بھی ادارے پر معاشی بوجھ کا باعث بنے۔ مثلاً 2015میںادارے میں پروگرام ، نیوزاور انجینئرنگ کے شعبوں میں بھرتیاں کی گیں۔ لیکن تاحال ان بھرتیوں کی فنانس ڈویژن سے منظور ی نہیںلی گئی۔جس کی وجہ سے رکھے گئے نئے اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے اضافی فنڈز نہیں مل پارہے اور ادارے کو اپنے بجٹ سے ہی ان اخراجات کو پورا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ ادارے میں مختلف شعبہ جات کے درمیان مراعات اور ترقی کی بھی کوئی یکساں پالیسی نہیں۔ باقی شعبوں میں اَپ گریڈیشن کی گئیں، اُن کے اسکیل بڑھائے گئے، اسپیشل الاؤنس جاری کیے گئے۔ اس بناء پر پروگرام افسران کی تنخواہیں دیگر شعبہ جات سے کم ہیں۔ شعبہ پروگرام کی مروجہ ترقیاںاکثر غیر ضروری انتظامی قدغنوں کا شکار رہتی ہیں جس کی وجہ شعبہ میں ترقیوں کی رفتار باقی شعبہ جات کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ پی بی سی رولز کے تحت ہر تین ماہ میںبورڈ کی ایک میٹنگ ضرور ہونی چاہیئے تاکہ فوری نوعیت کے اور اہم فیصلوں میں تاخیر نہ ہو۔لیکن ریڈیو پاکستان کے بورڈ کی میٹنگز تواتر کے ساتھ منعقد نہیں کی جاتیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان شعبہ جات کے ڈائریکٹرز کی ایک یا ایک سے زائدپوسٹوں (خاص کر ڈائریکٹر پروگرامزکی پوسٹ)کو اکثر غیر ضروری طور پر طویل عرصہ کے لئے خالی رکھا جاتا ہے(اس وقت بھی ڈائریکٹر پروگرامز کی پوسٹ خالی ہے)۔جس سے شعبہ کی آواز پی بی سی کے اس اہم پلیٹ فارم تک نہیں پہنچ پاتی۔

اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں اس بات کو تعین کرلینا چاہیئے کہ آیا ریڈیو پاکستان کا کام کمرشل بزنس کا حصول ہے یا اُسے اپنی ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ اور اس کے مسائل کو حقیقی بنیادوں پر کیسے حل کرنا ہے۔ کیونکہ آج بھی یہ ہی وہ ادارہ ہے جس کا حوالہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے عوامی جلسوں میں دیتے ہیں۔اور یہی ادارہ بھارت کی صوتی جارحیت کا حقیقی معنوں میں مقابلہ کر سکتا ہے۔

The post بھارت کی صوتی جارحیت کے سامنے ریڈیو پاکستان بے دست و پا کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سری لنکا میں مسرت کے لمحوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

$
0
0

سری لنکا قدرت کا شاہ کار سری لنکا۔ خوابوں کی سرزمین، سر سبز و شاداب کھیتوں اور چائے کے باغات کا سری لنکا۔ اسی خطۂ جنّت نظیر کے امن پسند عوام پر ایک بھیانک جنگ مسلط کی گئی تھی، جو 23 جولائی 1983ء کو تامل ٹائیگرز کی جانب سے حکومت کے خلاف ایک متنازع بغاوت کی صورت میں سامنے آئی۔

اس بغاوت کا مقصد ملک کے شمال مشرق میں ایک آزاد تامل ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ خانہ جنگی 26 سال جاری رہی اور آخر کار مئی 2009ء میں سری لنکا کی فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی، جس کے بعد یہ خانہ جنگی ختم ہوگئی۔ برسوں سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کی آبادی، ماحول اور معیشت نے خاصا نقصان اٹھایا اور اس دوران 80 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے۔

2013 میں حکومتی فورسز کے خلاف تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں کی وجہ سے 32 ریاستوں نے تامل ٹائیگرز کو دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا، ان ریاستوں میں امریکا، بھارت، کینیڈا اور یورپی یونین کے رکن ممالک شامل ہیں۔ سری لنکا کی حکومت نے اپنی معیشت کو بحال کرنے کے لیے سیاحت کو فروغ دینا شروع کیا اور اس میں کام یاب رہے۔ اس وقت سیاحت ان کی معیشت میں انتہائی اہم کردار کی حامل ہے۔ دنیا بھر کے سیاح قدرت کے شاہ کار سری لنکا کو دیکھنے پہنچتے ہیں۔

سری لنکا میں بُدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں، وہی مہاتما گوتم بُدھا جو امن کے پرچارک تھے۔ مسیحی وہاں کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ وہ ایسٹر کا دن کا تھا، جسے عیدالقیامت مسیح بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسیحی چالیس روزے رکھتے ہیں۔ ان روزوں کے آخری ہفتے کو ’’مبارک ہفتہ‘‘ کہا جاتا ہے اور کلیساؤں میں پورا ہفتہ خاص عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں پام سنڈے، پاک جمعرات، مبارک جمعہ، طلوع خورشید عبادت جو ایسٹر کی صبح چار بجے ادا کی جاتی ہیں اور پھر اتوار کو ایسٹر منایا جاتا ہے۔ گڈ فرائی ڈے ایسٹر سے دو دن پہلے ہوتا ہے۔

مسیحی عقائد کے مطابق اس دن یسوع المسیح کو صلیب پر مصلوب کیا گیا تھا اور یسوع المسیح کا صلیب پر جان دینا نسل انسانی کو خدا کے ساتھ اس رشتے میں پھر سے بحال کرتا ہے جو ابتدا میں باغ عدن میں حضرت آدمؑ کی خطا سے ٹوٹ گیا تھا، اسی خاص نقطے کو سامنے رکھ کے اس کو مبارک جمعہ یعنی گڈ فرائی ڈے کہا جاتا ہے۔ عام دنوں میں تو روزہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھا جاتا ہے لیکن گڈ فرائی ڈے کا روزہ سہ پہر تین بجے افطار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ وقت عبادت کے لیے خاص ہوتا ہے۔

اس دن کی عبادت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کلیساؤں میں آتی ہے۔ گڈ فرائی ڈے کی عبادات دوپہر بارہ بجے سے رات گئے تک مختلف اوقات میں شروع ہوتی ہیں۔ انجیل مقدس کے مطابق خداوند یسوع المسیح ہفتے کے پہلے روز یعنی اتوار کے دن مُردوں میں سے جی اٹھے تھے۔ مسیحی ہفتے کے پہلے روز یعنی اتوار کے دن ایسٹر مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جس دن خداوند نے اپنے وعدہ کے مطابق موت پر فتح پائی۔ مسیحی اس دن یسوع المسیح کے جی اٹھنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں۔

اس دن بھی ایسٹر تھا، جب سری لنکا کے مسیحی جوق در جوق کلیساؤں کا رخ کر رہے تھے، ان میں سب ہی شامل تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن سب اپنے خدا کی حمد و ثنا اور اپنی مناجات کے لیے کلیساؤں کا رخ کر رہے تھے۔ اور پھر ایک قیامت برپا ہوئی اور انسانیت کے دشمن ابلیس کے پیروکاروں نے ان امن و سلامتی کے علم بردار معصوموں کو خون میں نہلا دیا۔ مطہر خونِ انسانی سے اپنے بھیانک منصوبوں کی تکمیل ابلیسی گروہ، جس کا نام کوئی بھی ہو، کا خاص مقصد رہا ہے، اور پھر اس ابلیسی گروہ میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل ہیں، لیکن ان سب کا دعویٰ عبث ہے اور وہ اس لیے کہ وہ صرف مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں، ان سب کا بس ایک ہی نام ہے انسانیت کے دشمن شیطان لعین کے پیرو و آلہ کار، صرف ایک نام دہشت گرد۔

خدا انسان کی ضرورت ہے، ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی۔ دنیا جہاں میں انسانوں کی اکثریت کسی نہ کسی مذہب و مسلک سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد نیکی پر رکھی گئی اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کے ساتھ اپنے رب سے جُڑے رہنے اور اس کی مخلوق سے محبت، انسیت اور ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کو اصول رکھا گیا۔ عبادات کا اصل مقصد اپنے خدا سے رابطے کے ساتھ اس کی پیدا کی گئی ہر مخلوق کا احترام اور اس کے حقوق کی پاس داری ہے۔ ہر مذہب میں روزے کو ضبط نفس کی تربیت قرار دیا گیا ہے۔ ضبط نفس اس کے سوا کیا ہے کہ انسان خدا کے احکامات کو بہ ہر صورت بجا لائے اور احکامات کیا ہیں، یہی کہ انسان اپنی مرضی کے تابع ہونے کے بہ جائے الہامی اصولوں پر اپنی زندگی کو ترتیب دے۔ خدا نے انسان کی تکریم کو مقدم کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہر انسان اور اس کی عبادت گاہ کا احترام کیا جائے۔ عبادت گاہ خدا کی حمد و ثناء کے ساتھ اسی کے نام پر برکتوں کے حصول کی اجتماع گاہ ہے۔ کسی بھی عبادت گاہ میں وہ لوگ جاتے ہیں جو احکامات الٰہی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کی عبادات کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے لیکن مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے خدا کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی رضا کا حصول۔ عبادت گاہ میں امن پسند لوگ جاتے ہیں ایسے لوگ جو ہر انسان کی تکریم کو مقدّم جانتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر عبادت بس دکھاوا اور بے ثمر ہے۔ عبادت کرنے سے کون روکتا ہے! شیطان ابلیس جو انسان کو اپنے رب کے راستے پر چلنے سے روکنے کی سعی کرتا اور انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ ابلیس لعین جو اپنے مکر و فریب سے اپنے جیسے خصائل کے انسانوں کو اپنا لشکر بنا کر معصوم اور امن پسند انسانوں کو راستی سے روکتا ہے، اور اپنی اس قبیح منصوبوں کی تکمیل کے لیے انسانی خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ تو بس یہ طے ہوا کہ ایک خُدا کا لشکر ہے اور دوسرا شیطان رجیم کا۔

اسلام نے تو انسانیت کی تکریم کی اتنی تاکید کی ہے کہ کسی بھی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے کسی بھی انسان کی زندگی بچانے کو بقائے انسانیت قرار دیا ہے۔ وہ اسلام جس نے ہر مذہب کی عبادت گاہ کو محترم قرار دیا۔ دنیا میں جنگ و فساد کا بازار گرم ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کیا سوچ اور کیسے لوگ ہیں۔ کیا آپ نے Friendly Fire اور Collateral Damage (فوجی کارروائی میں عام لوگوں کا زخمی اور قتل ہونا) جیسی اصطلاحیں نہیں سنیں؟ جی دور جدید میں جو انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اسی میں معصوم انسانوں کو مارنے کے لیے ایسی اصطلاحیں تراشی گئی ہیں۔

لیکن اسلام! جی اسلام نے جنگ میں بھی نہ صرف تکریم انسانیت کو مقدّم رکھا ہے اور حکم دیا کہ حالت جنگ میں بھی کسی نہتے کو قتل نہیں کیا جاسکتا، کسی عورت، بچے، بوڑھے کو زد پر نہیں رکھا جاسکتا، کسی بھی عبادت گاہ کو کسی بھی صورت میں نہیں ڈھایا جاسکتا، پانی میں زہر نہیں ملایا جاسکتا، فصلوں کو برباد نہیں کیا جاسکتا، درختوں کو نہیں کاٹا جاسکتا، صرف ان لوگوں سے جنگ کی جاسکتی ہے جو ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر اتر آئیں، جی یہ ہے اسلام اور اس کی تعلیمات، اگر کوئی بھی ان احکامات کی پاس داری نہ کرے تو وہ اسلام کا منکر ہوتا ہے چاہے وہ کیسا بھی دعویٰ کرے۔

وہ مسیح ابن مریمؑ جن کی پوری زندگی ہی معجزہ تھی، وہ جو بن باپ کے پیدا کیے گئے اور روح اﷲ کہلائے، وہ جو مُردوں کو زندگی دیتے تھے، وہ جو نابینا کو بینا بناتے، وہ جو کوڑھیوں کو شفا دیتے، وہ جو انسانیت کے لیے امن و محبت کے پیام بر اور نوید زندگی بنے۔ وہ مسیح ابن مریمؑ جو مفلسوں کے ساتھ رہتے ہوئے شیطان ابلیس کے پیروکاروں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔ مسیح ابن مریمؑ کی تعلیمات امن، محبت، ایثار، قربانی، اخلاص اور بے نیازی و بے ریائی تھی۔ وہ مسیح ابن مریمؑ جنہوں نے مظلوم، مقہور، معصوم ، مفلس و پسے ہوئے انسانوں کے لیے آوازہ بلند کیا اور اس کی پاداش میں ظلم و ستم برداشت کیے، ایسے تھے مسیح ابن مریمؑ۔ انجیل مقدس جسے مسلمان نہ صرف آسمانی کتاب سمجھتے ہیں بل کہ مسیح ابن مریمؑ کو خدا کے پیغمبر ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے کہ انجیل مقدس کو آسمانی صحیفہ اور مسیح ابن مریمؑ پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں

ابن مریم ہُوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

وہ دُکھوں کا مداوا مسیحا!

انجیل مقدس ہمیں آزمائش کے بارے میں کیا سکھاتی اور خبردار کرتی ہے۔ شیطان اور اس کے چیلوں نے ہر راست باز کے راستے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ شیطان کے حملوں سے کوئی بھی نہیں بچ سکا اور آج تک کوئی بھی ان کا مقابلہ کرنے میں مکمل طور پر کام یاب نہیں ہوا، لیکن راست بازوں کو اکثر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ خدا نے مومن کو آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے ہی بنایا ہے۔

انجیل مقدس کی آیات ہمیں کس طرح آزمائش کے بارے میں تعلیم دیتی اور ہمیں خبردار کرتی ہیں۔

متّی 26 باب 41 آیت: ’’ جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔ روح تو مُستعد ہے مگر جسم کم زور ہے۔‘‘

لْوقا 22 باب 40 آیت: ’’ اور اس جگہ پہنچ کر اس نے ان سے کہا: دعا کرو کہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘

کرنتھیوں، باب 13: ’’تم کِسی اَیسی آزمائش میں نہِیں پڑے جو اِنسان کی برداشت سے باہِر ہو اور خدا سَچّا ہے۔ وہ تم کو تُمہاری طاقت سے زِیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا، بل کہ آزمائش کے ساتھ نِکلنے کی راہ بھی پَیدا کرے گا، تاکہ تم برداشت کر سکو۔‘‘

مصیبت میں خداوند کو پُکارنے کی تعلیم یوں دی گئی:

زبور: ’’تُو ہی مجھے پیٹ سے باہر لایا۔ جب مَیں شیر خوار ہی تھا، تُونے مجھے توکّل کرنا سکھایا۔ مَیں پیدائش ہی سے تجھ پر چھوڑا گیا۔ میری ماں کے پیٹ ہی سے تُو میرا خدا ہے۔ مجھ سے دُور نہ رہ کیوں کہ مُصیبت قریب ہے۔ اس لیے کہ کوئی مددگار نہیں۔ بہت سے سانڈوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ کُتّوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کا گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔ میں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قْرعہ ڈالتے ہیں۔ لیکن تْو اَے خُداوند! دُور نہ رہ۔ اَے میرے چارہ ساز! میری مدد کے لیے جلدی کر۔ میری جان کو تلوار سے بچا۔ میری جان کو کُتّے کے قابو سے۔ مجھے ببّر کے منہ سے بچا، بل کہ تُونے سانڈوں کے سینگوں میں سے مجھے چُھڑایا ہے۔

مَیں اپنے بھائیوں سے تیرے نام کا اِظہار کروں گا۔ جماعت میں تیری ستائش کروں گا۔ اَے خُداوند سے ڈرنے والو! اس کی ستائش کرو۔ اَے یعقوب کی اَولاد! سب اس کی تمجید کرو اور اَے اسرائیل کی نسل! سب اس کا ڈر مانو، کیوں کہ اس نے نہ تو مُصیبت زدہ کی مُصیبت کو حقیر جانا نہ اس سے نفرت کی۔ نہ اس سے اپنا منہ چھپایا۔ بل کہ جب اس نے خُدا سے فریاد کی تو اس نے سُن لی۔ سلطنت خداوند کی ہے۔ وہی قوموں پر حاکم ہے۔‘‘

سری لنکا میں برپا کی گئی قیامت پر ہر درد مند، انسان دوست اور امن پسند انسان رنجیدہ ہے، اور نہ صرف رنجیدہ بل کہ اس کی پُرزور مذمت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امن پسند اور انسان دوست گروہ ابلیسی گروہ کے خلاف اپنی جدوجہد کو مزید تیز اور عالمی سطح پر مربوط کرنے کا عہد بھی کرتا ہے۔

انجیل مقدس کی یہ آیات انسان دوستوں کی راہ نمائی کرتی ہیں : ’’ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تُم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اُوپر سے تو خُوب صورت دکھائی دیتی ہیں، مگر اندر مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘ (انجیل متی)

The post سری لنکا میں مسرت کے لمحوں پر قیامت ٹوٹ پڑی appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستانی کبوتروں نےخوبصورتی اور پرواز میں بھارتی کبوتروں کو پیچھے چھوڑ دیا

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں کبوترپروری کے شوقین استادوں نے بھارتی نسل کے کبوتروں سے کراس بریڈکے ذریعے ایسے کبوتر تیار کئے ہیں جو اپنی خوبصورتی اور پرواز میں بھارتی کبوتروں سے کہیں آگے ہیں۔ ٹیڈی اور گولڈن نسل کے یہ کبوتردن میں 18 گھنٹے تک پرواز کرسکتے ہیں جبکہ ایک کبوتر کی مالیت لاکھوں روپے تک بتائی جاتی ہے،پاکستان میں مغلیہ دورکے کبوتروں کی نایاب نسلیں بھی موجود ہیں۔

لاہور کے علاقہ کاہنہ میں ان دنوں کبوتربازی کے مقابلے ہورہے ہیں۔ کبوتربازی کے شوقین افراد تیز دھوپ اور گرمی میں نگاہیں آسمان پر ٹکائے اپنے کبوتروں کو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مختلف کبوتربازوں نے صبح ساڑھے پانچ بجے اپنے اپنے کبوتر اڑائے تھے اور اب شام ڈھلنے تک ان کی واپسی کا انتظار کیا جائے گا،جو کبوتر سب سے آخر میں واپس آکر بیٹھے گا وہ فاتح کہلائے گا۔

کبوتر پالنا ایک مہنگا اور محنت طلب شوق ہے۔ کبوتر بازی کے مقابلے اگرچہ سخت گرمیوں میں ہوتے ہیں مگر ان کی تیاری سارا سال جاری رہتی ہے۔ شوقین افراد ایک ایک کبوتر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ فطری ذہانت اور وفاداری کی وجہ سے ایک زمانے میں کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا تھا مگر اب ان کے دیر تک فضا میں اڑنے کے مقابلے ہوتے ہیں، یوں تو کبوتر باز سیکڑوں کبوتروں میں سے بھی اپنا کبوتر پہچان لیتے ہیں مگر بعض اوقات ان کے پاؤں میں رنگز ڈال کر بھی پہچان رکھی جاتی ہے۔ ان مقابلوں سے پہلے خصوصی غذا کی تیاری بھی ایک فن ہے۔ یہ مقابلے زیادہ تر مئی اور جون میں ہوتے ہیں جس کا انتظار کبوتر پرور پورا سال کرتے ہیں۔

کئی کبوتر باز ایسے بھی ہیں جو صرف شوق کے لئے کبوتر پالتے ہیں، وہ کبوتربازی کے روایتی مقابلوں میں حصہ نہیں لیتے۔ علی ٹاؤن لاہورکے رہائشی محمدریحان نے اپنی چھت میں 25 سے نایاب نسلوں کے سیکڑوں کبوتر پال رکھے ہیں۔ ان کبوتروں میں ٹیڈی، گولڈن، رام پوری، کمان گر، فیروزپوری، لاکھے، لاکھے جالندھری اور انمول شامل ہیں۔ ان میں سے ایک ایک کبوتر کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہے۔

محمد ریحان نے یہ کبوتر اپنے شوق کے لئے پالے ہیں ، وہ گھنٹوں ان کے ساتھ گزارتے ہیں اور انہوں نے مختلف کبوتروں کی کراس بریڈ کے ذریعے کئی نئی اقسام تیار کی ہیں جو اپنی اصل نسل کے کبوتروں سے کہیں زیادہ خوبصورت ، تیز اور زیادہ پرواز کرنے والے ہیں۔

محمد ریحان کہتے ہیں کہ کبوتروں کی زیادہ تر نسلیں بھارتی ہیں، ہم نے رام پوری ، سہارنپوری اور فیروزپوری کبوتروں کی مقامی ٹیڈی کبوتروں کے ساتھ کراس بریڈنگ کروائی ہے ان سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں وہ زیادہ خوبصورت، تیز اور زیادہ طویل پرواز کرنے والے ہیں، کبوتر کی قدر و قیمت اس کے حسن و جمال اور نسل کی بنیاد پر ہوتی ہے، ان کے پاس مغل بادشاہ اکبر کے دور کے کمان گر کبوتروں کی نسل کے کبوتر بھی ہیں، جو انتہائی ذہین سمجھے جاتے ہیں اسی طرح کبوتر کی ایک نسل کو طوفان کا نام دیا گیا ہے، یہ کبوتر تیز آندھی اور بارش میں بھی پرواز کرنے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان دنوں کبوتروں کے لئے بہترین خوراک گندم کا دانہ ہے۔ ان کا کبوتروں کی خوراک میں ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے خرچ آتا ہے۔

کبوتر پروری کے ایک اور شوقین محمد عرفان کہتے ہیں کہ کبوتر کی نسل کی پہچان کے لئے 3 ،4 چیزیں بڑی اہم ہیں، ہم سب سے پہلے کبوتر کی آنکھ دیکھتے ہیں ، ان کی آنکھوں میں مختلف دائرے ہوتے ہیں جن سے کبوتر کی ذہانت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے پنجے دیکھے جاتے ہیں جس سے کبوتر کی مضبوطی ظاہر ہوئی ہے ، پھر کبوتروں کے پروں کی لمبائی ، چوڑائی اور تعداد اس کی اڑان کا پتہ بتاتی ہے۔ کبوتروں کی دم کو متوازن رکھا جاتا ہے جو اسے زیادہ دیر تک اڑنے میں مدد دیتی ہے۔

محمد عرفان نے یہ بھی کہا کہ کبوتروں میں نر کا سر، مادہ کی نسبت بڑا ہوتا ہے ، جس کبوتر کا سر زیادہ بڑا ہوگا وہ زیادہ اچھا سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی کبوتر پرور اساتذہ نے بھارتی نسل کے کبوتروں کی کراس بریڈ کے ذریعے جو مختلف اقسام حاصل کی ہیں انہوں نے اپنی کارکردگی میں بھارتی کبوتروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پھر ان کبوتروں کو جب مقابلوں میں شریک کرنا ہوتا ہے تو انہیں بادام ، مختلف اقسام کے مربہ جات اور دیسی کشتے کھلائے جاتے ہیں۔

کبوتر پرور حضرات کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں زیادہ تر عام قسم کے کبوتر فروخت ہوتے ہیں جن میں جونسرے ، کلسرے اور چینے شامل ہیں جبکہ کل بوٹیا سمیت کچھ نسلیں ایسی بھی ہیں جواب نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ کبوتروں میں سوکھا پن، لقوہ اور رانی کھیت کی وبائیں عام ہیں ، رانی کھیت کی وجہ سے بعض اوقات ایک ہی دن میں سیکڑوں کبوتر مر جاتے ہیں تاہم ان بیماریوں سے بچانے کے کبوتروں کی ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے۔

The post پاکستانی کبوتروں نےخوبصورتی اور پرواز میں بھارتی کبوتروں کو پیچھے چھوڑ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

دعوت میں شرکت کرنا
سلمیٰ یاسمین، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی دعوت میں گئی ہوئی ہوں جو میرے خیال کے مطابق میری کسی کولیگ نے دی ہے۔ مگر وہاں کوئی بھی میرا جاننے والا مجھے نظر نہیں آتا ۔ جبکہ خود میں بالکل مطمئن بیٹھی ہوں جیسے بہت قریبی لوگوں کے گھر دعوت پہ ہمارا عمومی رویہ ہوتا ہے۔ وہاں بیرے ادھر ادھر میزوں پر انواع و اقسام کے کھانے سجا رہے ہوتے ہیں۔ اسی دوران مغرب کی اذان ہونے لگتی ہے۔ سب لوگ روزہ افطار کرنے کے لئے اپنی اپنی پلیٹیوں میں چیزیں ڈالتے ہیں۔ میں بھی اپنی میز پر سجے انتہائی خوشنما دکھائی دینے والے کھانے اپنی پلیٹ میں ڈالنے کے لئے آگے بڑھ جاتی ہوں۔ مہربانی فرما کے اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

ہوا میں اڑنا
حسنین علی،گجرات

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنی چھت پہ کھڑا ساتھ رہنے والے دوست سے باتیں کر رہا ہوں اور ہم دونوں آسمان کا پیارا سا رنگ دیکھ کر کافی خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ میرا دوست مجھے کہتا ہے کہ ہم پیرا گلائیڈنگ کرتے ہیں اور جہاں اس کی کلاسسز ہوتی ہیں ادھر جا کہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ میں اس بات پر اپنے دوست کو کہتا ہوں کہ میں تو کافی دفعہ آسمان کی سیر کر چکا ہوں۔ یہ کہہ کر میں بازو پھیلاتا ہوں اور اوپر کی طرف ایک پرندے کی طرح اڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرا دوست اس پہ کافی حیران ہوتا ہے، مگر مجھے بہت مزہ آ رہا ہوتا ہے۔ میں کافی دیر ایسے ہی ہوا میں تیرتا رہتا ہوں، پھر اذان کی آواز سن کے اتر آتا ہوں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

ہرن کا بچہ
تسنیم بیگ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی پہاڑی مقام کی سیر کرنے آیا ہوا ہوں۔ وہاں بہت خوبصورت پہاڑ ہیں اور قدرتی نظاروں کی بہتات ہوتی ہے ۔ ایک دن میرا ایک دوست ہم سب کو ٹریکنگ کرنے لے جاتا ہے ۔ تین سے چار گھنٹوں کی چڑھائی کے بعد ہم کو ایک چھوٹا سا قدرتی جنگل دکھائی دیتا ہے جس کے بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے وہاں کچھ ہرن پانی پی رہے ہوتے ہیں ۔ میں ان کی تصویر اتارتا ہوں اور اپنی جیب سے چھلی نکال کر ہرن کے چھوٹے بچے کی طرف بڑھاتا ہوں جو وہ میرے ہاتھ سے ہی کھا لیتا ہے۔ یعنی انسانوں سے مانوس دکھائی دیتے ہیں۔ پھر جب ہم چلنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ بچہ ہمارے پیچھے پیچھے آنا شروع ہو جاتا ہے۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ چونکہ میں نے اس کو چھلی دی تھی اس لئے وہ اور لینے کے لئے میرے پیچھے آ رہا ہے۔ میرے پاس اور تو کچھ دینے کے لئے نہیں ہوتا بس میں اس کو پیار کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں ۔ مگر وہ مسلسل میرے پیچھے آتا رہتا ہے۔ میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ یہ اب میرا ہو گیا ہے تو میں اس کو ساتھ اپنے گھر لے جائوں گا جس پہ وہ سب میرا خوب مذاق اڑاتے ہیں ۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں۔

سانپ راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنا
 سلمان اکرم ، لاہور

خواب : یہ خواب میرے ابو نے دیکھا کہ وہ اپنے گاوں چچا کے گھر رہنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ وہاں صبح کو کھیتوں کی سیر کے لئے جاتے ہیں تو ان کی نظر راستے میں بیٹھے دو سانپوں پہ پڑتی ہے جو کہ راستہ روک کے کچھ اس طرح پڑے ہوتے ہیں کہ کچی سڑک سے گزرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ میرے ابو ڈنڈے سے ان کو ہلانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ گزرنے والوں کو پریشانی نہ ہو اور یہ سانپ کھیتوں کی طرف نکل جائیں ۔ مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ ڈنڈا لگنے سے ان میں غصہ کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ابو کو نہیں یاد کہ وہ ہٹا پائے یا خود ادھر سے چلے گئے۔ برائے مہربانی اس کی کچھ تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری  یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

گھر میں سانپ دیکھنا
صوفیہ رحیم، سوات

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں اکیلی ہوں، سب گھر والے کسی شادی پہ گئے ہوئے ہیں۔ میں اپنی ہمسائی کو بلا لیتی ہوں تا کہ تنہائی کا احساس نہ ہو۔ اچانک میری نظر فرش پہ پڑتی ہے، ادھر ایک کالا سا سانپ رینگ رہا ہوتا ہے ۔ میں یہ دیکھ کے بہت ڈر جاتی ہوں اور چیخیں مارنا شروع کر دیتی ہوں۔ اس پہ میری ھمسائی فوراً اپنا جوتا اتار کر سانپ کی طرف پھینکتی ہے جس سے وہ کچن کی طرف چلا جاتا ہے۔ میں مارے خوف کے اس کو کہتی ہوں کہ چلو تمھارے گھر چلتے ہیں۔ ادھر کہیں یہ دوبارہ نہ آ جائے۔ مگر دروازے کے پاس زمین پہ مجھے مزید دو چھوٹے سائز کے سانپ نظر آتے ہیں جن کو دیکھ کر میری حالت مزید خراب ہو جاتی ہے ۔

تعبیر : خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری  یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

قرات کی تیاری
ھادیہ علی ، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی مقابلے میں حصہ لینے کے لئے قرات کی تیاری کر رہی ہوں ۔گھر میں شور سے بچنے اور یکسوئی کی خاطر میں اوپر چھت پر چلی جاتی ہوں۔ وہاں میں تلاوت شروع کر دیتی ہوں۔ اچانک میری نظر ساتھ والی چھت پہ پڑتی ہے وہاں نورانی چہرے والے ایک بزرگ بیٹھے ہوتے ہیں اور مجھے اپنی طرف اشارہ کر کے بلاتے ہیں ۔ میں ان کے پاس جاتی ہوں تو وہ مجھے انہی آیات کا پرنٹ دے کہ کہتے ہیں کہ ایک دو غلطیاں تم کر رہی ہو، اب نہ کرنا ۔ اور وہ پیپر مجھے دے دیتے ہیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی ۔ علم و حکمت ملے گی ۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

تحفے کے طور پر چقندر ملنا
صالحہ نبی بخش، وھاڑی

خواب : میں نے دیکھا کہ میری ایک دوست نے ہم کو اپنے فارم کے خالص چقندر تحفہ میں بھیجے ہیں جو کہ بہت ہی خوبصورت ٹوکری میں پیک ہیں ۔ میری امی بھی یہ تحفہ دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہیں اور ٹوکری  میں سے نکال نکال کر رکھتی جاتی ہیں اور تعریف کرتی چلی جاتی ہیں۔ اسی دوران میری چچی بھی کچن میں آ جاتی ہیں ان کو بھی یہ سب دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے لئے بھی کچھ الگ سے نکالنا شروع کر دیتی ہیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں ۔   n

ٹخنے پر چوٹ لگنا
اقراء خان ، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں جیسے کسی مہمان کی آمد پہ کی جاتی ہے۔ میں اچانک نیچے بچھے میٹ سے الجھ کے نیچے گر جاتی ہوں جس سے میرے ٹخنے پہ شدید چوٹ لگتی ہے جیسے ھڈی کے ٹوٹنے کا درد ہو ، تکلیف کی شدت سے میں نیم بے ہوش ہونے والی ہوتی ہوں ۔ مگر میری والدہ پریشان ہو کر پھٹے ہوئے میٹ کو ہی دیکھتی چلی جاتی ہیں کہ یہ کیسے پھٹ گیا ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتا ہے۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

امام مسجد کا باجرے کی روٹی دینا
اکرام اللہ خان ، اسلام آباد

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے گیا ہوں۔ وہاں ہمارے مولوی صاحب اپنے گاوں کی سوغات باجرے سے بنی ہوئی روٹی مجھے دیتے ہیں۔ وہ میں نے اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں کھائی ہوتی۔ روٹی مجھے انتہائی لذیذ لگتی ہے ۔ میں تقریباً آدھی سے بھی زیادہ کھا جاتا ہوں اور باقی جیب میں یہ سوچ کر رکھ لیتا ہوں کہ گھر جا کر والدہ کو بھی چکھاوں گا۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

 بازو مڑ جانا
محمودہ کلثوم، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کھانا پکا رہی ہوں ۔ کیبنٹ سے سامان نکالتے ہوئے میرا بازو مڑ جاتا ہے اور انتہائی تکلیف ہوتی ہے۔ درد سے کراہتے ہوئے میں اپنے ہمسائے کو فون کر کے بلاتی ہوں جو کہ ڈاکٹر ہے۔ وہ آ کر ایمبولنس کو کال کرتے ہیں اور مجھے ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔ وہاں ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ میرے سب پٹھے خشک ہو چکے ہیں ۔ میں یہ سن کر ڈر جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ ابھی تو میں بالکل درست حالت میں کچن میں کام کر رہی تھی، ایک دم سے سارے اعصاب کیسے جواب دے سکتے ہیں، مگر مارے خوف کے مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں جاتا ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>