Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

ترقی کے لیے سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، ڈاکٹرمحمد اجمل خان

$
0
0

تعارف:سائنس کے میدان میں ڈاکٹر محمد اجمل خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہوں نے جامعہ کراچی سے 1973 نباتیات میں بی ایس سی آنرز اور1974 میں نباتیاتی ماحولیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1977میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1985میں امریکا کی اوہائیویونیورسٹی سے نمک زدہ پودوں کی ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ایک سال بعد وطن آکر جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے اور پھر یہیں سے نباتیات میں ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی۔ ہیلو فائٹ (نمکین زمین پر قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) ان کی تحقیقی دل چسپی کا محور ہے۔

ڈاکٹر محمد اجمل خان نے 40 سال پر محیط تدریسی وتحقیقی کیریئر میں بے شمار اعزازات حاصل کیے اور مختلف بین الاقوامی جامعات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر پاکستان نے ڈاکٹر محمد اجمل خان کو ان کی سائنسی خدمات پر 2001 ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 2007 ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے 2005 ء میں انہیں ’ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ 2012 ء میں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے اور بعدازاں قطر یونیورسٹی کے فوڈ سیکیوریٹی پروگرام کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔

ڈاکٹر محمداجمل خان کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب اور قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بہ حیثیت سائنسی مشیر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے قطر یونیورسٹی میں ’مرکز برائے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سائنسی جرائد میں ڈاکٹرمحمد اجمل خان کے400 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان کو 2004 میں ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے اپنا فیلو مقرر کیا۔ سائنس کے شعبہ نباتیات میں نمایاں مقام رکھنے والے ڈاکٹر محمد اجمل خان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں جامعہ کراچی کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفت گو کی گئی جو نذرقارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: والد صاحب تقسیم سے پہلے سول سروس میں تھے، تقسیم کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور واپڈا سکھر میں کلرک کی ملازمت کرلی۔ چھے برس کی عمر میں والد صاحب برین ہیمرج کی وجہ خالق حقیقی سے جاملے، اور ہم سب کی کفالت کی ذمے داری بڑے بھائی پر آن پڑی، جو اس وقت انٹر میں زیرتعلیم تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم شاہ فیصل کالونی کراچی کے سرکاری اسکول سے حاصل کی، میٹرک کے بعد جامعہ ملیہ کالج، ملیر میں داخلہ لے لیا۔ انٹر کے بعد جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرزشعبہ نباتیات میں داخلہ لے لیا۔

ایکسپریس: آپ کو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں، آج آپ جامعہ کراچی کو کہاں دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دو سال پہلے جب میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے انٹرویو دے رہا تھا تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کے معاملات کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے اور آپ اسے کس طرح سر انجام دیں گے؟ تو اس وقت میرا جواب کچھ یوں تھا کہ معاملات کا ٹھیک ہونا اور نہ ہونا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن میں اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔

اس چیلینج کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ میں 1977سے جامعہ کراچی سے منسلک ہوں، یہ اور میں الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ معاملہ نوکری کا نہیں میرے اس جامعہ سے قائم دیرینہ رشتے کا ہے، آپ مجھے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کا موقع دیں، تاکہ آخری وقت میں مجھے اس بات کا افسوس نہ ہو کہ میں اپنی مادر علمی کے لیے کچھ کر نہیں سکا۔ لیکن، جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے معاملات تو میری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔

یہاں کوئی سسٹم آپریشنل نہیں تھا، تمام سسٹمزٕ کمپرومائز ہوچکے تھے، فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبُرد ہورہی تھی، شعبہ ہیومن ریسورس کا کچھ پتا نہیں تھا، غیرقانونی ترقیاں اور بھرتیاں ہورہی تھیں۔ ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی سب سے بڑی پوسٹ گریڈ اٹھارہ کی تھی جواب گریڈ بیس ہوگئی ہے ۔ اس طرح کے بے تحاشا معاملات ایسے تھے جو خلاف ضابطہ چل رہے تھے۔ کوئی بھی اشتہار تین ماہ کے لیے موثر ہوتا ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں چھے ماہ تک کی توسیع کردیں، لیکن ہمارے ہاں اشتہار دس، دس سال چلتے تھے۔ ہماری ساری بھرتیاں پرانی تاریخ میں ہوتی ہیں، نہ صرف بھرتیاں بلکہ انہیں تنخواہوں کی ادائیگی پرانی تاریخوں سے ہوتی ہے۔ یعنی کہ جامعہ کراچی لاکھوں روپے کی ادائیگی غیرقانونی کرتی ہے۔

اس بابت ہمیں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی کہہ چکا ہے کہ ادائیگیوں کا یہ نظام درست نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی نیب نے ہمیں ایسے 49 پوائنٹس کی نشان دہی کی ہے جہاں چیزیں غلط ہورہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی بے تحاشا باتیں ہیں۔ یہاں اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن گیا تھا، ہر آدمی صبح وقت پر آتا نہیں تھا لیکن شام میں دیر تک دفتر میں بیٹھا رہتا تھا، کیوں کہ اوورٹائم لگ رہا تھا۔ اگر سچ کہا جائے تو حالات ابھی بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں، مگر ہم نے بے تحاشا تبدیلیاں کی ہیں، یہاں معاملہ اتنا خراب تھا کہ آپ کتنی بھی تبدیلیاں کرلیں وہ کم ہی لگتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے دروازے بند کرنا شروع کیے۔ پہلے ایک بینک ڈرافٹ پر پچاس، ساٹھ داخلے ہوجاتے تھے اور بعد میں وہ ڈرافٹ بھی واپس ہوجاتا تھا، ہم نے اس خردبرد کو روکنے کے لیے رقم کی وصولی اور ادائیگی کو بینک ویری فیکیشن سے مشروط کردیا کہ جب تک بینک تصدیق نہیں کرے گا۔

اس وقت تک وہ ادائیگی، ادائیگی نہیں سمجھی جائے گی۔ صرف کلیکشن کو بینک کے ساتھ مربوط کرنے سے ہماری لکویڈیٹی بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ تو کرپشن کے چھوٹے چھوٹے معاملات تھے، اب ہم جامعہ کراچی میں مکمل طور پر ای آر پی (انٹر پرائیز ریسورس پلاننگ) سسٹم کے نفاذ کی طرف جا رہے ہیں، اگر ہم اسے مکمل طور پر نافذ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا تھا یہ پورے شہر کو پتا ہے۔ ہم نے داخلے کے نظام کو آن لائن کردیا، اب کوئی آدمی چاہے وہ گلگت میں ہو یا مٹھی میں، وہ وہاں بیٹھ کر داخلے کے تمام مراحل مکمل کرسکتا ہے، اب اسے کراچی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ دو سال میں ہونے والے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ہمیں اس ضمن میں بے ضابطگیوں کا پتا چلا تھا تو ہم نے فوراً ایسے داخلے منسوخ کردیے۔ ہمارا داخلے کا نظام ننانوے اعشاریہ نو فی صد میرٹ پر آگیا ہے۔

یہی طریقۂ کار ہم ایگزامیشن پر بھی لاگو کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس پر میں اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا کیوں کہ ایگزامینیشن کا نظام بہت بڑا ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں اور بے تحاشا کرپشن ہے، لیکن ہم نے اس میں ہونے والی کرپشن اور نقل کے رجحانات کو بتدریج کم کیا ہے، لیکن اس شعبے کو مکمل طور پر کرپشن سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جامعہ کراچی کے ننانوے فی صد استاد بہت محنت کرتے ہیں، ایمان دار ہیں، لیکن ماضی میں کچھ لوگ بشمول پروفیسر یہاں سرگرم تھے ، رجسٹرار آفس ان کے کنٹرول میں تھا ۔ وہ یہاں بیٹھ کر مافیا کی طرز پر معاملات چلاتے تھے وہ یہاں عملی طور پر وائس چانسلر بنے بیٹھے تھے ۔ ہم نے جامعہ کراچی کو اپنے قواعد اور ضوابط پر چلانا اور دوسروں کی مداخلت کو کم کرنا شروع کیا، ورنہ یہاں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک صاحب آئے انہوں نے کسی طالب علم کو پاس کرنا تھا تو اس کی فائل نکلوائی، اس پر نوٹ بنوایا، رجسٹرار سے منظوری کے دستخط کروائے اور وائس چانسلر کے سامنے رکھ کر انہیں دستخط کرنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے ان کا یہ نظام بھی ختم کردیا، تو آج جو بھی پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں وہ کرپشن کا نظام ٹوٹنے کا ردعمل ہے۔

ایکسپریس: جامعہ کراچی ایک عرصے سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے جامعہ کے لیے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟ کیا اس گرانٹ سے جامعہ کراچی کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوئی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: حکومت کے بہت سارے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، ہم سے بات کی، ہمارے مسائل سمجھنے کی کوشش اور ان کے حل میں دل چسپی ظاہر کی۔گورنر سندھ اور کئی وفاقی وزراء نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے کیے گئے سارے وعدے حقیقت کا روپ دھار لیں گے، مگر فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم وہ ہماری بات سن تو رہے ہیں۔ گذشتہ سال کافی طویل عرصے کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہمارے لیے تقریباً۔۔۔ایک ارب اسی کروڑ روپے کی ڈیولپمنٹ گرانٹ کی منظوری دی۔ اس گرانٹ سے آرٹس فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور ایک ویژیول اسٹیڈیز کا بلاک بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں لیباریٹری کے لیے آلات خریدنے ہیں۔ اس گرانٹ کی پہلی قسط کے ڈھائی کروڑ روپے (پچیس ملین) مل چکے ہیں۔

ایکسپریس: گذشتہ ماہ جامعہ کراچی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے کا چیک جاری کیا، اس سے جامعہ کے ماہانہ اخراجات میں کس حد تک کمی واقع ہوگی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے۔

میٹر لگوانے سے ہماری ریکوری لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں چلی جائے گی اور گیس کا لوڈ بھی بہت کم جائے گا۔ یہی معاملہ کے الیکٹرک کا ہے۔ کے الیکٹرک ابھی تک ہمیں بلک میں بجلی دیتی تھی اور وہ ہمارے ہاں میٹر لگانے پر تیار نہیں ہورہے تھے۔ ہم نے اس مسئلے پر ان سے بات کی اور دو سال بعد اب وہ میٹر لگانے پر تیار ہوگئے ہیں۔ جامعہ کراچی کے رہائشی علاقے میں واقع کسی گھر میں میٹر نہیں لگا ہوا، وہاں کا ماہانہ بل ایک سو سے سوا کروڑ روپے آتا ہے، لیکن کلیکشن صرف دس سے بارہ لاکھ ہے یعنی ہم ہر ماہ انہیں صرف بجلی کے بل کی مد میں ہی ایک کروڑ سے اوپر کی سبسڈی دیتے ہیں۔ میٹر لگنے کے بعد ہم پر سے یہ بوجھ کم ہوجائے گا۔

ایک دوسرا مسئلہ جامعہ کراچی کی زمین پر موجود پیٹرول پمپ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ کے الیکٹرک کا موقف یہ ہے کہ یہ کمرشل ادارہ ہے تو اس کی بلنگ بھی کمرشل ریٹ پر کی جائے گی۔ ہماری بلنگ بلک میں ہوتی ہے اور بلک میں کمرشل ریٹ الگ نہیں ہے تو کے الیکٹرک ہم سے فی یونٹ قیمت سب سے مہنگے ریٹ پر چارج کرتی ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس پیٹرول پمپ کو جامعہ سے الگ کرکے کے الیکٹرک سے کہیں کہ ان سے کمرشل ریٹ پر بجلی چارج کرو اور ہمیں سبسڈی ریٹ پر بجلی دو۔ اگر وہ مان جاتے ہیں تو ہمارا ماہانہ بجلی کا بل جو ڈھائی سے تین کروڑ روپے آتا ہے وہ ایک کروڑ سے بھی کم ہوجائے گا۔ اب رہی بات پیٹرول پمپ کی تو یہ بہت پہلے لیز پر دیا گیا تھا اور یہ لیز بھی مشتبہ ہے۔ اس کے معاملات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے ایک نجی پارٹٰی چلاتی ہے، ہمیں تو ہر ماہ ایک برائے نام رقم کرائے کی مد میں ملتی ہے۔

ایکسپریس: پانی کے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جامعہ کراچی کی پانی کی لائن کئی مرتبہ منقطع کردی گئی۔ کیا اب بھی جامعہ کراچی کو یوٹیلیٹی مسائل کا سامنا ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارا پانی کا بل تقریباً سوا کروڑ روپے ماہانہ آتا تھا، پھر ہمیں کہا گیا کہ میٹر لگوالیں تاکہ ہمیں پتا چل سکے کہ ہم حقیقت میں کتنا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ میٹر لگوانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ تھا جو کہ ہمیں ایک مخیر کاروباری شخصیت نے فراہم کر دیے ۔ ان پیسوں سے ہم مرکزی لائن پر میٹر لگوائے، جس کے بعد سے ہمارا پانی کا ماہانہ بل پینتالیس سے پیسنٹھ لاکھ روپے تک آرہا ہے ۔ اس کام سے ہمیں ماہانہ چالیس سے پچاس لاکھ ماہانہ بچت ہو رہی ہے۔

ایکسپریس: اوورٹائم کی عدم ادائیگی جامعہ کراچی کے ملازمین میں بے چینی کا ایک اہم سبب ہے اور اس وجہ سے وہ متعدد بار احتجاج بھی کرچکے ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جی بالکل اوورٹائم کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے، اوورٹائم کی مد میں ہونے والی غیر ضروری ادائیگیوں کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اب صرف چند دفتروں میں اوورٹائم کی مد میں ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور وہاں بھی ضرورت کے تحت جتنی دیر اسٹاف کو روکا جاتا ہے اس کے مطابق انہیں متعلقہ اوورٹائم دیا جاتا ہے، جب کہ اس سے پہلے اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن چکا تھا جس کو ختم کیا گیا۔ غیرضروری اوورٹائم ختم کرکے ہر ماہ ایک خطیر رقم کی بچت ہورہی ہے۔

ایکسپریس: پاکستان کے نظام تعلیم میں بہتری اور اسے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جامعات کی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ دیگر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جامعات کی سطح پر تحقیقی کام اس سطح پر نہیں ہو پارہا، جو کہ ہونا چاہیے، اس کے اسباب؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دیکھیں آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ریل گاڑی میں سفر کریں گے، اور اگر پیسے ہیں تو آپ ایک لگژری گاڑی میں سفر کریں گے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ شرم ناک حد تک کم ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، یہ قوم کا معاملہ ہے۔ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی کا بجٹ پاکستان کی تما م یونیورسٹیز کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جب آپ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے تو پھر بہتری کی کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ آپ اعلٰی تعلیم، اعلٰی تحقیق پر سرمایہ کاری کریں یہ آپ کو آخر میں ٹیکنالوجی دے گی، دولت دے گی، ترقی دے گی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں جب انیس سو اسی میں امریکا گیا تو صرف میری یونیورسٹی میں ہی چین سے فل اسکالرشپ پر کافی طلبا آرہے تھے۔

چین کی اُس وقت کی سرمایہ کاری نے آج اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آپ پرائمری کی تعلیم پر سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے سکینڈری کی تعلیم اچھی ہوگی، جب سیکنڈری تعلیم اچھی ہوگی تو کالج کی تعلیم اچھی ہوگی، اسی طرح یونیورسٹی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہوگا۔ جب شروع سے آخر تک پراڈکٹ اچھی ہوگی تو ہم آگے ترقی کریں گے ناں! ہماری جامعات کے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمائے کی کمی ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرکے ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ بنایا، ہم نے شروع میں اعلٰی معیاری آلات خرید لیے، لیکن اب اس انسٹی ٹیوٹ کو مینٹین کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، ایک چھوٹا سا آلہ بھی خراب ہوجائے تو پانچ سے دس لاکھ کا آتا ہے، لیکن یہاں تو اس انسٹی ٹیوٹ کی پوری گرانٹ ہی پندرہ سے بیس لاکھ ہے تو اس میں ہم اسے کیسے چلا سکتے ہیں؟

اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ صرف ایک انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے چاہییں تو پھر پوری یونیورسٹی کو چلانے کے لیے کتنا پیسا چاہیے؟ میں آپ کو ایک اہم بات بتاؤں سائنس سرمایہ مانگتی ہے، ہماری اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سائنس کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ ہمیں دکھا نہیں رہے۔ جس طرح آپ آم کا ایک درخت لگا کر پھل کے لیے پانچ سال انتظار کرتے ہیں، جس طرح آپ ایک بچے کو بیس پچیس سال تک پیسے خرچ کرکے کسی قابل بناتے ہیں، اسی طرح سائنس کو پالنا پڑتا ہے، اس کی کم از کم بیس سے پچیس سال تک آب یاری کرنی پڑتی ہے۔ چین نے سائنس کو پالا پوسا اور آج وہ تھرڈورلڈ کنٹری سے دنیا کا لیڈنگ ملک بن گیا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ دے کر پوچھتے ہیں کہ اس گرانٹ سے پاکستان میں کیا تبدیلی آئے گی؟ تبدیلی پانچ لاکھ کی سرمایہ کاری سے نہیں آئے گی، مستقبل میں ترقی کے لیے آپ کو سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔

چین آج سے نہیں بلکہ 1977سے سائنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور آج اس سرمایہ کاری کا پھل کھا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنا ہے تو پھر سائنس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور یہ سرمایہ کاری آج سے ہوگی تو اس کا پھل بیس پچیس سال بعد ملے گا۔ میں آپ کو ایک بات اور بتاؤں، جامعہ کراچی بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے اور یہ ڈوبتے ڈوبتے بھی پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے بہتر ہے، آپ ہمیں دس سال سپورٹ کریں تو پھر ہم بتاتے ہیں کہ ہم پاکستان کی ترقی اور معاشی نمو کے لیے کتنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کیپیسٹی ہے، پوٹینشل ہے، کام کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ بددل ہوکر سائنس سے دور جارہے ہیں، سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پاکستان کا قابل قدر اثاثہ ہیں۔

ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی سے ایک طرف طالب علموں کے لیے سہولیات پیدا ہوئیں تو دوسری جانب اس سے ’کاپی پیسٹ‘ کلچر کو بھی فروغ ملا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ جامعہ کراچی میں سرقے کے سدباب کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: سرقے کے لیے جامعہ کراچی میں زیروٹالرینس پالیسی ہے، اس کے لیے ہمارا ایک طریقۂ کار ہے۔ ٹیکنالوجی سے جہاں کاپی پیسٹ کرنا آسان ہوا اسی ٹیکنالوجی سے اس چوری کو پکڑنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جب پوری دنیا میں سائنس ترقی کا آغاز ہو ا تو وہاں پر بڑے پیمانے پر سرقہ ہونا شروع ہوا، لیکن جب چوری پکڑی جانے لگی تو وہاں یہ کاپی پیسٹ کا کلچر بھی بتدریج ختم ہوگیا۔ ہم اس سطح تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ سائنس میں سرمایہ کاری ختم کردی گئی، میری مراد ہائرایجوکیشن کمیشن سے ہے۔ اس کی گرانٹ، ترقی کم کردی گئی، اچھا کام کرنے والے لوگوں کو ہٹا دیا گیا تو ہماری جو بھی کارکردگی تھی وہ وہیں ختم ہوگئی۔ جب ہر ایک کے پاس کمپیوٹر ہوگا، ہر ایک انٹرنیٹ پر مواد سرچ کر رہا ہوگا، جب ہر ایک دوسرے کی چوری پکڑ رہا ہوگا تو یہ مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔

ایکسپریس: جامعہ کراچی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے کچھ واقعات رونما ہوئے، جن کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، ان تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جنسی ہراسگی کے سدباب کے لیے ہم نے ہر شعبے میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی بنائی ہے، جو ایک مرکزی کمیٹی کے سامنے جواب دہ ہے۔ حال ہی میں مرکزی ہراسمنٹ کمیٹی نے ایک فیکلٹی ممبر کے خلاف سخت فیصلہ کرتے ہوئے انہیں نوکری سے فارغ کردیا، لیکن ہم اس سزا پر عمل درآمد اس لیے نہیں کرسکے کہ ان صاحب کا کیس ہائی کورٹ میں اور گورنر سندھ کے پاس ہے، اب جو عدالت اور گورنر کا فیصلہ ہوگا ہم اس پر عمل درآمد کردیں گے۔

ایکسپریس: آ پ جامعہ کراچی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن ‘ کے بانی ڈائریکٹر بھی رہے ہیں، اس شعبے کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھاراپن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔ اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، انڈیا کے راجستھان سے لے کر مراکو تک سارا صحرا ہے، جہاں میٹھا پانی نہ ہونے کے برابر یا نہیں ہے۔ خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیو ں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرکے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پودوں کی ڈھائی ہزار اقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتے ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ میں ہم ایسے تمام پودوں جیسے ہیلو فائٹ (نمکین زمین قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) پر تحقیق اور ان کے اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔ سندھ لائیو اسٹاک کا ایک بہت بڑا مرکز ہے، اگر ہم اس گھاس کو پورے سندھ میں لگا دیں تو یہاں قحط کبھی نہیں آئے گا۔ سیم و تھور کی وجہ سے سندھ میں بنجر ہونے والی ہزاروں ایکٹر زمین پر اس نسل کے دوسرے پودے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر ہمارے اس منصوبے کو عملی طور پر صرف تھر میں ہی نافذ کردیا جائے تو تھر پاکستان کا امیر ترین علاقہ بن سکتا ہے ۔

ایکسپریس: ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جامعہ کراچی میں داخلے اور ملازمت دونوں ہی سفارش اور کسی سیاسی دباؤ کی بنیا د پر ملتی ہیں، یہ بات کس حد تک درست ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو داخلے کے لیے سفارش کرنے والوں کی وجہ سے میرا فون بجتا ہی رہتا تھا، لیکن میں نے اس معاملے میں اپنے کئی دوستوں اور بڑے بڑے لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے۔ جہاں تک بات ہے تقرری کی تو پچھلے دو سال میں جو انٹری لیول کی بھرتیاں ہوئی ہیں آپ ان کا معیار اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہم سلیکشن بورڈ میں پورے پاکستان کے لوگوں کو شامل کرتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو تکلیف اسی بات کی ہے کہ ہم نے نئی بھرتیوں میں کرپشن کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں، ہاں جو سیاسی اور سفارشی بنیاد پر مجھ سے پہلے بھرتی ہوچکے ہیں ان کے بارے میں ہم بعد میں فیصلہ کریں گے۔ اب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ داخلے اور کسی تقرری کے معاملے میں ڈاکٹر محمد اجمل خان سے کسی رعایت یا سفارش کی کوئی امید نہیں ہے۔

ایکسپریس: آپ طلبا یونین کی بحالی کے حق میں ہیں اور آپ نے اپنی تقرری کے بعد چیئرمین سینیٹ کو اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا تھا، وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنیاد پر طلبا یونینز کو بحال نہیں کیا جارہا؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: بالکل میں طلبا یونین کے حق میں ہوں اور پہلے بھی کئی بار اس بارے میں بات کرچکا ہوں۔ جہاں تک چیئرمین سینیٹ کو خط لکھنے اور کوئی پیش رفت نہ ہونے کا مسئلہ ہے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جامعات میں ایک کُھلا ماحول ہونا چاہیے، کسی انفرادی رویے اور نظریے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ سب کو آزادی سے اپنی بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں برا سمجھا جانے والا آئیڈیا ایک کھلے ماحول میں بحث کے بعد خود ہی ختم ہوجائے گا۔

اسے پیش کرنے والے والے لوگ بھی خود ہی سائیڈ لائن ہوجائیں گے، لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا۔ سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔

ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہے۔

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں، ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔

آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔ میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔

ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈر پشکن بھی اس فہرست میں شامل رہے ہیں۔

The post ترقی کے لیے سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، ڈاکٹرمحمد اجمل خان appeared first on ایکسپریس اردو.


’’کوچۂ سخن‘‘

$
0
0

غزل

گر دسترس نہیں تو ضرورت بنی رہے

پانی یہ چاہتا ہے سدا تشنگی رہے

جگنو نے پھر چراغ تلے شب گزار لی

وہ چاہتا نہیں تھا وہاں تیرگی رہے

یہ برگ ریز کی ہے تمنا کہ چرخ پر

قوس قزح کا رنگ بھی خاکستری رہے

مہتاب وہ رہے تو مری آنکھ جھیل ہو

وہ آفتاب ہو تو یہ سورج مکھی رہے

شیطاں بنے کبھی نہ فرشتہ صفت دکھے

ہر آدمی کو چاہیے بس آدمی رہے

مایوسیوں کی بیڑیاں ہوں جس کے پاؤں میں

اس زندگی کے سائے میں اک خودکشی رہے

جس گھر کا کوئی فرد شکاری ہوس کا ہو

اس گھر میں بھی شکار کوئی لازمی رہے

(سردار فہد، ایبٹ آباد)

غزل

جہانِ خواب کو بے خواب کر کے چھوڑ دیا

گلی کے شور نے گھر کا سکوت توڑ دیا

خود آپ راہ نے یہ پیچ و خم نہیں کھائے

مسافروں نے دیا جو بھی اس کو موڑ دیا

مرے عدیل ہے سچ جھوٹ سب تجھے معلوم

مگر کسی نے جو  بازو ترا مروڑ دیا

کہاں سے آئے گی ٹھنڈک وہ چاندنی والی

ہزار، لاکھ کہ چاہے جلے کروڑ دِیا

یہ نم ہمارا تو یوں بھی ہوا اچک لیتی

حرج ہی کیا، جو کسی نے بدن نچوڑ دیا

ہر اک روئیں میں نگاہوں کا شہر تھا آباد

بچاری آنکھوں کو ایسے ہی یار پھوڑ دیا

ذرا یہ ذہن بھی آنکھوں کے ساتھ کھول کے رکھ

تبھی تمام دکھے گا دیے سے جوڑ دِیا

(حبیب احمد۔ شورکوٹ، جھنگ)

غزل

رہِ غزل کے تصدق کہ خاص و عام چلے

مگر کچھ ایسے بھی تھے جو برائے نام چلے

ہماری در بدری کا حساب کون کرے

کہ ہم ہوا کے تعاقب میں صبح و شام چلے

تو پھر سمجھنا مدینہ یہاں سے دور نہیں

رئیسِ شہر سے آگے اگر غلام چلے

نواز کر تُو مجھے اتنا معتبر کر دے

ترے فقیر کا خیراتیوں میں نام چلے

بہکنے دے نہ کسی کو بھی دخترِ انگور

تمہارے ہاتھ سے گر سلسلۂ جام چلے

گلہ نہ کر کہ ابھی تک غزل ادھوری ہے

تو میرے سامنے بیٹھے تو میرا کام چلے

(راکب مختار، شورکوٹ)

غزل

خزاں رسید ہوں، لیکن بہار بانٹتا ہوں

محبتوں کا شجر ہوں میں پیار بانٹتا ہوں

وگرنہ پھول ہی دیتا ہوں میں تجارت میں

تمہارا کہنا ہے سو تم سے خار بانٹتا ہوں

کسی مسیح کی آمد کی راہ تکتا ہوں

میں منتظر بھی ہوں اور انتظار بانٹتا ہوں

مرے خلاف بناؤ ناں اپنا لشکر تم

میں اپنے پیادے بھی دوں گا سوار بانٹتا ہوں

میں اس سماج میں نجمیؔ یہی تو کرتا ہوں

شکست خوردہ دلوں کو قرار بانٹتا ہوں

(نجم الحسن نجمی، ایبٹ آباد)

غزل

جاگتی آنکھ بھی خوابوں سے لپٹ جاتی ہے

یاد تیری مرے لمحوں سے لپٹ جاتی ہے

ہے مرے گاؤں کی مٹی کو محبت مجھ سے

چلنے لگتا ہوں تو پیروں سے لپٹ جاتی ہے

سچ ہے تنہائی نہیں دوست بنانی پڑتی

خود بہ خود درد کے ماروں سے لپٹ جاتی ہے

تیرے آجانے سے بڑھ جاتی ہے گھر کی رونق

روشنی خود ہی چراغوں سے لپٹ جاتی ہے

تھام لیتا ہوں میں دامن جو تری یادوں کا

زندگی خوب سہاروں سے لپٹ جاتی ہے

کون شہزادؔ پکارے ہے مجھے پیچھے سے

کس کی آواز ہے کانوں سے لپٹ جاتی ہے

(شہزاد جاوید، گوجرانوالہ)

غزل

آپ کی یادوں سے کیسے ہم کنارا کر سکیں

لطف ہے  گر یہ محبت ہم دوبارہ کر سکیں

سیکھیے اِس عشق میں چاروں طرف سے وار ہیں

کیا خبر بَر وقت ہم بھی نہ اشارہ کر سکیں

نہ من و سلوٰی کی چاہت نہ نشیمن مانگ ہے

ہو اجازت تو یہاں دو سانس گارا کر سکیں

کیا خزینہ پاس ہے جو لوٹ لیں گے رات گر

یہ زیادہ سے زیادہ سَر سپارہ کر سکیں

قفسِ جاں پر درج ہے آزاد ہونے کا برس

پنچھیوں کو علم ہے شاید گزارہ کر سکیں

یہ نیا اعجاز ہے ناں ہم پڑھیں اور وہ سنیں

کاش ساگرؔ ہم سخن یہ سب گوارہ کر سکیں

(ساگر حضور پوری، سرگودھا)

غزل

میں کرتی نہیں ایسی محبت پہ تو تُھو بھی

کرلے جو محبت کی ہی عزت سے وضو بھی

آنسو تو بہا کرتے ہیں آنکھوں سے ہمیشہ

کچھ ایسی عنایت ہو نکل آئے لہو بھی

اک بار ذرا موت کا ناٹک تو رچا لے

سینے سے لگائے گا تجھے آکے عدو بھی

آزاد پسندی میں الگ نام ہے اس کا!!

خود نوچتا ہے زخم کو کروا کے رفو بھی

اے عکس! کیوں آنکھوں سے ملاتا نہیں آنکھیں

یعنی کہ بہت کام ہیں؟ مصروف ہے تُو بھی؟

میرا بھی تعلق ہے محبت کے نگر سے

میں پنجتنی! پنجتنی میرا گُرو بھی

(ماہ رخ  علی ماہی۔ کراچی)

غزل

پیڑ کاٹے تھے کسی اور نے چھاؤں والے

آ گئے دھوپ کی تحویل میں گاؤں والے

جنگ لڑنے کی اگر ٹھان لیں ماؤں والے

بھاگ میدان سے جاتے ہیں خداؤں والے

درد قدموں کا چھپایا نہ گیا چہرے سے

آبلے آنکھ سے بہتے رہے پاؤں والے

شہر کا شہر ہی جنگل میں بدل جائے گا

جس کی گلیوں میں نہیں لوگ صداؤں والے

اپنی قسمت میں نہیں لمس لدی شاخوں کا

ہم پرندے ہیں مری جان خزاؤں والے

میں نے دیکھے ہیں کئی عابد و زاہد مبروص

اور بخشے ہوئے دنیا میں خطاؤں والے

(علی شیران، شور کوٹ۔ جھنگ)

غزل

واہموں کو خیال کر ڈالا

اس نے کیسا کمال کر ڈالا

سانس بن کے وجود میں پھیلی

اس کا مرنا محال کر ڈالا

فیصلہ وقت کا لکھا اس نے

اور مجھ کو زوال کر ڈالا

لفظ تکتے ہی رہ گئے اس کے

ہم نے ایسا سوال کر ڈالا

بولتا تو نجانے کیا ہوتا

آنکھ سے ہی نڈھال کر ڈالا

اتنی آسانیاں تھیں راہوں میں

پھر بھی چلنا محال کر ڈالا

(عطیہ سہیل۔ اسلام آباد)

غزل

وقت پہ آتا ہے یہ وقت پہ جاتا ہے

موسم کا جو فرض ہے خوب نبھاتا ہے

کب تک زندہ رہ پائے گا آخر جسم

سانس اگل دیتا ہے جب بھی کھاتا ہے

میں ایسے ہی تھوڑی اس تک جاتا ہوں

اس کے گھر کا رستہ مجھ تک آتا ہے

کچھ تو درد مقدر میں ہی ہوتے ہیں

اور کچھ بندہ خود بھی درد کماتا ہے

سن کر جس کو جھومنے لگتا ہے ہر پھول

جانے بھنورا کان میں کیا بتلاتا ہے

شب کو سورج ڈھونڈنے جاتا ہے عزمیؔ

پھر صبح تک ڈھونڈ کے اس کو لاتا ہے

(عزم الحسنین عزمی، ڈوڈے۔ گجرات)

غزل

ہنستی ہوئی حسینہ کو مت ویشیا سمجھ

سن گاؤں زاد! شہر کی آب و ہوا سمجھ

اس بے سبب گریز سے بڑھ جائے گی طلب

آ بیٹھ میرے پاس، مرا مسئلہ سمجھ

کب تک چلے گا عقل کی انگلی پکڑ کے دل

اب خود ہی اپنا یار تو اچھا برا سمجھ

کرتا ہے رہنمائی جو راہِ حیات میں

اس کو خدا نہ جان مگر نا خدا سمجھ

ہر حسنِ بے مثال کو ہے احتیاجِ دید

لیکن تو دیکھنے کا طریقہ ذرا سمجھ

دنیا میں ایک تو ہی مخرَّب خراب ہے

خود کے علاوہ سارے جہاں کو بھلا سمجھ

(مخرب خراب، کراچی)

غزل

دل کی حسرت کو اب صدا کیجے

زندگی اپنی خود سزا کیجے

آپ خود پر لگائیے تہمت

آپ خود سے ہی فیصلہ کیجے

کوئی ایمان سے مرے تو یہاں

ورنہ بخشش کی کیوں دعا کیجے

دن کی عریانی بڑھتی جا رہی ہے

تن پہ اب رات کی قبا کیجے

جب کہ اپنی زمین ہو دشمن

پھر گلہ آسماں سے کیا کیجے

سب دعائیں تو میری رد ہی گئیں

اب مرے حق میں بد دعا کیجے

اس جہانِ خراب میں حامیؔ

کس کو چاہیں کسے خدا کیجے

(محمد حمزہ حامی، کراچی)

غزل

آنکھوں میں ہے خمار  تو سَر پر غبار بھی

اِک تیر ہو چکا ہے مرے دل کے پار بھی

یوں تو ہے اُس گلی میں میرا یار مستقِر

میرے لیے مگر ہے وہ جائے مزار بھی

فرقت تیری قبول مگر اِک ہے آرزو

تیری خبر میں ہو تو دلِ بے قرار بھی

اُس کی چمک سے چاند ستاروں میں روشنی

اُس کے قدومِ خیر ہیں جانِ بہار بھی

گہرے سکوت میں جو ترے لب ذرا ہِلے

ٹھہرا دیے ہیں پربتوں نے آبشار بھی

(اسامہ جمشید جام۔ گجرات)

غزل

جب ستم مہربان کرتا ہے

رقص اک نیم جان کرتا ہے

دام زلفوں کو، تیر پلکوں کو

ابروؤں کو کمان کرتا ہے

تب توکھلتے ہیں پھول باغوں میں

گریہ جب آسمان کرتا ہے

رُخ سے اب کیوں کفن اٹھاتے ہو

 بات کب بے زبان کرتا ہے

اس کی دریا دلی کا کیا کہنا

پھول میّت پہ دان کرتا ہے

طرزِ گفتار پر تِری صادقؔ

رشک سارا جہان کرتا ہے

(محمد ولی صادق، کوہستان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

The post ’’کوچۂ سخن‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


حَسین لڑکی! تمھارے رستے میں اک دیوانہ پڑا رہے گا
وہ گر خدا کی طرف گیا تو شراب خانہ پڑا رہے گا
تماش بینو! تمھیں خبر ہے؟ کہ خیمہ گاہِ عدو کے آگے
تمھاری آنکھیں پڑی رہیں گی ہمارا لاشہ پڑا رہے گا
یہ لوگ مجھ کو بتا رہے ہیں کہ صبر کرنے میں بہتری ہے
یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے تو فقط دلاسہ پڑا رہے گا
ہماری غزلوں کو لوگ شب بھر پڑھا کریں گے یقین مانو
تمھارے بچے کی ڈائری میں بھی اک ترانہ پڑا رہے گا
اسے بتانا کہ ایک شاعر سے روٹھنے کی سزا یہی ہے
تمھارے دل میں غزل رہے گی یا اک خلاصہ پڑا رہے گا
تمھیں یہ اکثر بتا چکا ہوں کہ گھر سے تھوڑا سا پڑھ کے آنا
تمھیں سکھانے کو بیٹھ جاؤں تو میرا پرچہ پڑا رہے گا
تم ابنِ مہدی یہ مت بتانا کہ سانحہ کس طرح سے ہوگا
فقط یہ پرچی پہ لکھ کے آنا کہ ’’اک جنازہ پڑا رہے گا‘‘
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


چوٹ چلتے میں لگی پیٹھ پہ آوازہ لگا
تو اِسی بات سے حالات کا اندازہ لگا
زردیاں آنکھ سے آنگن میں اتر آئی ہیں
گھر ہمیں گھر نہ لگا خطۂ خمیازہ لگا
خواب کی محل سرا اپنی زمیں بوس ہوئی
عالمِ ہست کا بکھرا ہوا شیرازہ لگا
شام دہکا دے وہ رخسار گھڑی بھر کے لیے
خمِ عارض پہ کرن وار کے پھر غازہ لگا
ایک تارے سے کرن آتے وہ تاخیر ہوئی
خلد سے آدمِ خاکی کا سفر تازہ لگا
ایک پتھر نے مری خاک پہ دستک دی تھی
کاش ہوتا جو تہِ خاک میں دروازہ لگا
(حسن کیفی، جھنگ)

۔۔۔
غزل


جب تک میں ترے ذکر پہ مائل نہیں ہوتا
پھر خود سے مرا رابطہ اے دل نہیں ہوتا
اب خوف مجھے اپنے جنوں سے نہیں کوئی
جس دل میں ترا عشق ہو باطل نہیں ہوتا
آہٹ کوئی سنتا ہوں میں دروازے پہ اکثر
کھولوں جو اگر دَر کو تو سائل نہیں ہوتا
آتے ہو کبھی یاد تو جی اٹھتا ہوں پھر سے
دل تیرے بنا جینے کو قائل نہیں ہوتا
تب تک یہ مری ذات مکمل نہیں ہوتی
جب تک تو مری ذات میں شامل نہیں ہوتا
ہر خواب کی تعبیر تجھے مل نہیں سکتی
ہر خواب تو تعبیر کے قابل نہیں ہوتا
الجھا ہوں ابھی ذات کی تسکین میں عازم ؔ
دل ہے کہ تری یاد سے غافل نہیں ہوتا
(عبدالسلام عازم۔ اٹک)

۔۔۔
غزل

دعا یہ وحشت سے جاں چھڑانے کی اتنی مانگی کہ رٹ گئی ہے
نجات وحشت سے مل گئی پر، دعا لبوں سے لپٹ گئی ہے
یقین دھیانی اگر تُو چاہے تو آئینے کو گواہ کر لے
میں اب بھی اتنی ہی خوبرو ہوں، تری توجہ ہی بٹ گئی ہے
ہے یاد چودہ کا چاند دیکھا تو تم نے اس کو کہا محبت
میں اس پہ ایمان لے کے آئی کہ گھٹتے گھٹتے وہ گھٹ گئی ہے
کوئی تو سمجھے ہمارے غم کو،کوئی تو سمجھے ہمارا رونا
جو اک نگہہ ہم پہ اٹھ گئی تھی، وہ راستے سے پلٹ گئی ہے
طویل عرصے سے خود فریبی، ہمارے قدموں کو روکتی تھی
نہیں ہے اب ٹھوکروں کا خدشہ، جو دھند تھی ساری چھٹ گئی ہے
ابھی تو ہم ہیں تمہیں میسر، ابھی تو تم بھی ہو دسترس میں
تو پھر نہ جانے کیوں لگ رہا ہے، زمین مرکز سے ہٹ گئی ہے
(ثروت مختار۔ بھکر)

۔۔۔
غزل


یہ تسلی، یہ دلاسہ، یہ سہارا ناٹک
کتنا پیارا ہے میرے یار تمہارا ناٹک
درد سہنے کی اذیت سے گزاریں تم کو
ہم بھی دکھلائیں کسی روز کرارا ناٹک
بند کر دیجیے بندوں کو ملانا رب سے
بند کر دیجیے اب اپنا خدارا ناٹک
ایک جیسے ہیں ترے اور مرے غم جاناں
ایک جیسا ہے ترا اور ہمارا ناٹک
اس کی آنکھوں سے گرے اشک تو موتی ہو جائیں
میری آنکھوں سے چھلکتا ہوا تارا ناٹک
ہم اداکار تو چلتے تھے ہدایت لے کر
اپنی مرضی سے کہاں ہم نے گزارا ناٹک
یہ تو ہم ہیں جو تمیں سَر پہ چڑھا رکھا ہے
ورنہ کس کو ہے مری جان گوارا ناٹک
انگلیاں کس کی ہیں عارفؔ جو نچاتی ہیں ہمیں
خود سمجھ آیا نہیں ہم کو ہمارا ناٹک
(عارف نظیر، کراچی)

۔۔۔
غزل


لاکھ بہتر ہے کہ کٹ جائے جھکایا ہوا سَر
مان میرا ہے یہ شانوں پہ سجایا ہوا سَر
اتنا مجبور نہ کر ساری حقیقت کہہ دے
کب سے الزام پہ چپ ہے یہ ستایا ہوا سَر
یہ سیاست ہے یہاں دل نہیں سر ہوتا ہے
خود مٹاتے ہیں یہاں آپ بنایا ہوا سر
جلد بازی میں کہاں خوفِ خدا رہتا ہے
ہوش کھو دے نہ کہیں جوش میں آیا ہوا سَر
فلسفہ حق کا مٹانا نہیں ممکن اے غنیم
کتنے لوگوں میں بٹا ایک مٹایا ہوا سَر
(عامر مُعان، کوئٹہ)

۔۔۔
’’مصلحت‘‘


بچھڑنے والے
اپنے حصے کے خواب لے کر
تم تو موجِ ہوا ہوئے ہو
جدا ہوئے ہو
مگر میں کب سے
گزشتہ لمحوں کی راکھ میں گُم
اپنی صدیوں کو چُن رہا ہوں
میں سُن رہا ہوں
ہوائیں، پربت، پہاڑ، پنچھی
دشائیں مجھ سے یہ کہہ رہی ہیں
سلگتی سانسوں کی سسکیوں میں
بکھرتے لمحوں کے تار بُنتے
گزرتے دن کی پکار سنتے
کسی نظم سے اداس لڑکے!!
ہماری مانو تو مان لو تم
گزشتہ رُت کے تمام ہی دُکھ
جو اپنے دل سے
نچوڑ دو گے تو خوش رہو گے
عذاب بَنتی تمام یادوں کے
تلخ دھاگوں کو
توڑ دو گے تو خوش رہو گے
بھٹکتے رہنے کی خواہشوں کو
جو چھوڑ دو گے تو خوش رہو گے!!
(محمد احمد لنگاہ، عارف والا۔ پنجاب)

۔۔۔
غزل


میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے
کیا خبر تھی کہ پرندوں کا نگر بیچا ہے
حال مت پوچھ مرے فاقہ زدہ لوگوں کا
آنکھ بیچی تو کہیں نورِ نظر بیچا ہے
جانے کیسی تھی وہ مجبوری کہ ماں نے اپنا
چند سِکوں کے عوض لختِ جگر بیچا ہے
دوست حیدر کے ملنگوں کی کرامات تو دیکھ
اپنے ہاتھوں سے بنا خُلد میں گھر بیچا ہے
ایسے حالات بھی دیکھے ہیں مسرتؔ میں نے
پہلے بانٹا تھا مگر اب کے ہنر بیچا ہے
(مسرت عباس ندرالوی۔ چکوال)

۔۔۔۔
غزل


شام ہو شام پُر بہار بھی ہو
کوئی ہو اور اس سے پیار بھی ہو
مسکرا کر وہی ملے جس کو
مسکرانے کا اختیار بھی ہو
ائے وہ جس کے جانے کا دکھ ہو
آئے وہ جس کا انتظار بھی ہو
ہم جسے جان و دل سے اب چاہیں
کچھ تو اس کا اب اعتبار بھی ہو
اب ترا پیار مجھ سے کہتا ہے
اب ذرا خون میں فشار بھی ہو
(احسان فارس۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


حق اپنی محبت کا ادا کون کرے گا
جب ہم نہ رہیں گے تو وفا کون کرے گا
خوش ہوکے درختوں کی طرف دیکھنے والو
پنجروں سے پرندوں کو رہا کون کرے گا
اِس بار محبت تو مجھے خود سے ہوئی ہے
ایسے میں مجھے مجھ سے جدا کون کرے گا
مجنوں پہ سبھی سنگ اٹھائے تو کھڑے ہیں
معلوم نہیں پہلے خطا کون کرے گا
جب اپنا یہاں کوئی بھی واقف نہیں عاشیؔ
اِس شہر میں پھر ہم کو صدا کون کرے گا
(عائشہ شیخ عاشی۔ بہاولپور)

۔۔۔
غزل


دکھا دکھایا ہوا سوچنے لگے ہیں دوست
میں سوچتا تھا نیا سوچنے لگے ہیں دوست
اب آسمان کی وسعت کا تذکرہ چھیڑو
زمیں کو اچھا بھلا سوچنے لگے ہیں دوست
انہیں پتا نہیں معیارِ آدمی کیا ہے
ہر آدمی کا برا سوچنے لگے ہیں دوست
سراغ روشنی کا ڈھونڈ ہی نکالیں گے
سیاہ بخت دِیا سوچنے لگے ہیں دوست
ہم اپنے عہد کے شاعر ہیں مرسلہ ہمیں کیا
ہمارے بارے میں کیا سوچنے لگے ہیں دوست
(عثمان مرسل، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


یاد ہیں مجھ کو وہ پَل جو کَل گزارے ساتھ تھے
اِس لیے بھی یاد ہیں کہ تُم ہمارے ساتھ تھے
شہر میں آئے تھے تو اِک ڈَر سا دِل میں تھا کہیں
ڈر جہاں پر تھا وہیں کچھ لوگ پیارے ساتھ تھے
شہر کے دِل کش سے میلے میں بھی تَاریکی رہی
ایسا لگتا ہے وہاں پر کالے سائے ساتھ تھے
بچپنے میں اِس لیے بھی خوش بہت ہوتے تھے ہم
دوڑتے تھے جب بھی ہم تو چاند تارے ساتھ تھے
دوریوں میں زندگی اب کاٹ کر کٹتی نہیں
پہلے کَٹ جاتی تھی اچھی جب تمہارے ساتھ تھے
اِس لیے بھی شہر میں ہم ٹِک نہیں پائے علیؔ
بَخت کے مارے ہوئے کچھ شہر زادے ساتھ تھے
(ذمران علی، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
آیتِ صبر پڑھی سینہ کشادہ کیا ہے
منزلِ عشق پہ رہنے کا اعادہ کیا ہے
جس کے وعدے پہ ہم اک عمر گزارے ہوئے تھے
پھر اسی وعدہ فراموش نے وعدہ کیا ہے
پہلے تو خود کو اندھیرے کی اذیت سے نکال
روشنی چھونے کا گر تُو نے ارادہ کیا ہے
عمر بھر مردہ روابط میں یہاں سانسیں بھریں
دل کی وسعت سے بھی یہ کام زیادہ کیا ہے
خود کو برباد جو کرنا تھا سو ہم نے طارق ؔ
بس محبت کو یہاں اپنا لبادہ کیا ہے
(طارق جاوید، کبیر والا)

۔۔۔
غزل


زندگی! تُو ہی بتا مجھ کو یہ مرنا کیا ہے؟
تری لیلیٰ کا یہ مجنون پہ جینا کیا ہے
کوئی پوچھے تو سہی ہم ہی بتائیں گے اسے
چشمِ محبوب سے یوں نیند کا جانا کیا ہے
ہم نے بچپن میں کھلونے بھی بہت کھوئے ہیں
ہم کو شاید نہیں معلوم کہ پانا کیا ہے
ایک ہم کو تو محبت کا سلیقہ بھی نہ تھا
ایک تم کو بھی نہ آیا کہ نبھانا کیا ہے
مرے کانوں میں مری خانہ بدوشی نے کہا
جب ترا گھر ہی نہیں، لوٹ کے آنا کیا ہے
دل تو مرحوم ہوا مجھ کو بتا جانِ کمال
اب ترا اگلا ہدف اگلا نشانہ کیا ہے
(مبشر آخوندی۔ اسکردو)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر39

عجیب سی دعائیں مانگتی تھی وہ، مانگتی کیا تھی اب بھی مانگتی ہے۔ مالک مجھے اندھا بنائے رکھنا، مالک مجھے لنگڑی لُولی بننا اچھا لگتا ہے، میرے ہاتھ توڑے رکھنا، مجھے اپاہج ہی رکھنا، مالک مجھے تو جاننے کا بھی شوق نہیں ہے بس بے خبر رکھنا، اچھا بُرا کیا ہوتا ہے میں کیا جانوں، بس مجھے تنہا مت چھوڑنا، تجھے تیری عظمت کا واسطہ، تجھے میری بے بسی کی قسم، تجھے انسانیت کی حرمت کا واسطہ، کچھ بھی تو نہیں کرنا چاہتی میں، میں چاہتی کیا ہوں، وہ تو تُو جانتا ہی ہے، تُو بس اپنی امان میں رکھنا اور نہ جانے کیا کچھ۔ کلینک پر مریضوں کے ہجوم کی وجہ سے جب اس کی نماز کا وقت نکل جائے تو پھر اسے دیکھیے، جائے نماز پر ہاتھ باندھ کے عاجزی سے کھڑی ہوجاتی ہے اور پھر پکارتی ہے: مالک دیر ہوگئی، چاہتی تو نہیں تھی لیکن کیا کروں تیری مخلوق کو کیسے منع کرسکتی ہوں، وہ تو دکھوں میں مبتلا ہیں، ان کے زخموں سے تو لہو بہہ رہا ہے تو کیسے انہیں چھوڑ کر آجاتی، تُو نے ہی تو کہا ہے کہ خدمت کرو بس، تو دیر ہوگئی مالک۔ آنسوؤں کی مالا میں وہ پکارتی رہتی تھی، پکارتی رہتی ہے۔

ایک اسرار ہے اُس میں، ایسی ویسی نہیں بہت ہی محبت کی مُورت، پیار کی مٹی میں گندھی ہوئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایک پَل میں بات کی تہہ تک پہنچ جانے والی، مسکرانے والی، جب وہ اپنے کلینک میں ہو اور چہار جانب مریض رقص کر رہے ہوں تب اُس کا رنگ انوکھا ہوتا ہے، بہت دیر تک سوچتی ہے اور پھر سب سے سستی دوا تجویز کرکے رب سے کہتی ہے: صحت تو تیرے حکم میں ہے، منشا میں ہے، غریب ہے، کہاں سے خریدے گا، تُو چاہے تو مٹی کو شفا بنادے، پانی کو دوا بنادے۔ اور کوئی مریض اسے کہہ دے کہ دوا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں تو اس کا ہاتھ اپنے بڑے سے بیگ میں داخل ہوتا ہے اور پھر اس کی بند مٹھی اس مریض کی مٹھی میں کُھل جاتی ہے اور اس کی آواز آتی ہے جاؤ جلدی جاؤ دوا وقت پر لینا ذرا سی بھی فکر مت کرنا، رب جی ہے سب کا پالن ہار۔ کارِکُشا و کارساز۔

جی میں اُسے جانتا ہوں اور بہت اچھی طرح سے، اس لیے کہ وہ میری رضائی بہن ہے ماں جی کا عکسِ کامل ہی نہیں، اُن کی عادات واطوار کا خزینہ بھی اور ان ہی کی طرح آرائش و زیبائش سے یک سر بے نیاز و لاتعلق، مجسمِ عجز و انکسار اور اپنے نام کی طرح کوثر۔ یہاں سے طب کی سند لے کر جب وہ اعلٰی تعلیم اور اسپیشلائزیشن کے لیے برطانیہ جارہی تھی تو میں نے اسے چھیڑا تھا کہ اب تم سات سال تک جب وہیں رہو گی تو اس سماج میں رچ بس جاؤ گی اور ہوسکتا ہے وہیں شادی بھی کرلو۔ تو مسکرائی اور کہنے لگی: وِیرے! آپ کو میں کیا ایسی لگتی ہوں، نہیں وِیرے! میں اپنی مٹی میں واپس آؤں گی اور پھر اِس کی خاک اوڑھ کر سوجاؤں گی، آپ کو ہر روز مجھ سے ملنے آنا ہوگا۔

بہت سوچ سمجھ کر میں نے اُس کا نام چَریا رکھا ہے۔ آپ جانتے ہیں اس کا مطلب، جی پاگل کو کہتے ہیں عوامی زبان میں چَریا، وہ ہے ہی ایسی۔ اگر میدان میں اُتر آئے تو بڑے بڑے سورما پسپا ہونے پر مجبور ہوجائیں، لیکن وہ پَگلُو کبھی اپنا تعارف نہیں کراتی۔ مجھ جیسے احمق کی بھی اونگیاں بونگیاں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اتنی توجہ سے سنتی ہے کہ اُس کے صبر و برداشت پر حیرت ہوتی ہے۔ اپنی قابلیت جھاڑنے کے لیے کوئی بھی اُس کے پاس آجائے وہ اتنی توجہ سے اس کی بات سنتی ہے کہ مقرر اپنی تقریر طویل کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن کسی دھوکے میں مت رہیے گا۔ توجہ سے ضرور سنتی ہے، ہر بات سمجھتی ہے، لیکن جب پوچھو تو کہہ دیتی ہے۔ میں کیا جانوں وِیرے! جی وہ مجھے وِیرے کہتی ہے۔ بہت اسرار ہے اُس میں، پردہ ہی پردہ، اخفا ہی اخفا اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں واقفِ اسرار تو پہلے بھی نہیں تھا، بس اک مان ہے تو وہ سنتی ہے۔

ایک دن میں نے اسے کہا او چریا! ’’جی وِیرے‘‘ کہہ کر وہ بیٹھ گئی تب میں نے اس سے پوچھا یہ بتا یہ کیا دعا مانگتی رہتی ہے۔ مسکرائی پھر ہنسی اور کہنے لگی: آپ کو کیا بتاؤں، کچھ آتا نہیں تو کیا بتاؤں، کچھ جانتی ہی نہیں تو کیسے آگاہ کروں۔ لیکن جب میری پانچ سات بے نقط سن لیں تو پھر سکون سے بولی: ’’ اچھا تو وِیرے جی! بات یہ ہے کہ مالک اندھا بنائے رکھے ناں کہ میں وہ کچھ نہ دیکھ سکوں جس سے اﷲ جی نے منع کیا ہے، بس وہی دیکھوں جو اﷲ جی کو پسند ہو۔ مجھے لنگڑی لُولی بننا اس لیے پسند ہے کہ اُس طرف میرے قدم اٹھ ہی نہ سکیں جہاں جانا اﷲ جی نے پسند نہیں کیا۔

میرے ہاتھ توڑے رکھے، ناکارہ رکھے کہ میں وہ کام ہی نہ کرسکوں جو میرے اﷲ جی کو اچھے نہیں لگتے اور دیکھو وِیرے جی! جتنا بندہ جان لے گا تو اتنا حساب بھی تو دینا ہوگا تو بس انجان رہنے میں، لاعلم رہنے میں عافیت ہے۔ بندہ بشر کیا جانے اُس کی کیا اوقات کہ اچھائی برائی میں تمیز کرسکے بس رب وہ خود کردے۔ وہ کچھ کرادے، جو اﷲ کی رضا کا سبب بن جائے، دیکھو میرے وِیرے جی! رب جس کا نگہبان ہوجائے، سائبان بن جائے تو اس سے بڑی نعمت اور ہے ہی کیا، ساری دنیا سنگ رہے اور اﷲ جی سنگ نہ رہے تو کیسا بڑا نقصان ہے، سراسر خسارہ، تو بس یہ ہے دُعا کہ سب کچھ خود کردے مجھے تنہا نہ چھوڑے، بس پکڑے رکھے۔‘‘

میں اُس کی باتیں بہت توجہ سے سُن رہا تھا اور یہ جو تُو اُس کی عظمت کے ساتھ اپنی بے بسی کا واسطہ دیتی ہے یہ کیا ہے؟ ’’ وِیرے جی! یہ تو مان ہے ناں، اس کے شایان شان اُس کی عظمت ہے، اور دوسرا واسطہ اُس کا حبیبؐ ہے اس کا محبوبؐ ہے، اپنی نفی اپنی بے بسی کے اظہار میں ہے۔ جب ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے تو نفی کی منزل پر ہونا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا: لیکن نفی کی منزل تو توفیق پر ہے؟ ’’ جی وِیرے جی! بالکل ایسا ہی ہے تو پھر تو اور بھی زیادہ شُکر کرنا چاہیے کہ وہ اپنی نعمتوں کا اہتمام کرتا چلا جائے۔ آپ بس شُکر کرتے چلے جائیں اور آپ کا انت اخیر عافیت سے ہوجائے۔‘‘

کیا بات ہے تیری چَریا! واہ۔۔۔۔ میں نے اسے سراہا، ہاں سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ ہاں یہی ہے اصل جوہر زندگی، جوہر بندگی ہمارے بابے بھی تو یہی کہتے ہیں۔ رضا صبر و رضا، تسلیم و رضا، اپنی تگڑم نہیں بس تسلیم ہی تسلیم، ہر وقت رضا ہی رضا، مجسمِ تسلیم و رضا۔ شہر علمؐ کے بابِ علم امام المتّقین جناب علی مرتضیؓ نے پتا ہے کیا ارشاد فرمایا: ’’میں ایسی دنیا کی طلب ہی کیوں کروں جس کے حلال میں حساب اور جس کے حرام میں آگ ہے۔‘‘

ہمارے بابے کہتے ہیں اور بالکل سچ کہتے ہیں، جو خلقِ خدا کو معاف کردے گا اﷲ جی اُسے معاف کردے گا، جو مظلوموں کو، بے آسروں کو گلے سے لگائے گا اﷲ جی اسے سینے سے لگائے گا، جو بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرے گا، اﷲ جی اس کا نگہبان بن جائے گا، تو بس رب سے ناتا جوڑنا ہے تو بندگان خدا سے جوڑو، رب کو منانا ہے تو رب کے بندوں کو راضی رکھو، اگر سکون چاہتے ہو تو بندوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرو، اپنے لیے تو تھکتے رہتے ہو، ہلکان رہتے ہو، کبھی اوروں کے لیے بھی تھکو، ہلکان رہو، اشک بہاؤ، دیکھو کیسی رحمت باری تعالیٰ جوش میں آتی ہے، رم جھم، رم جھم، وہ تو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے بادلوں سے اور آنسوؤں سے مُردہ اور ویران دلوں کو، تو اس کے لیے نینوں کو رم جھم برساؤ۔ جی جناب، بہت سعادت ہے یہ، نینا برسیں رم جھم، رم جھم، یہ تو اﷲ جی کی دین ہے یارو، جسے چاہے سعادت بنادے، جسے چاہے سعدیہ۔

میرے مالک نے کیسا احسان کیا ہوا ہے اُس پر، رشک آتا ہے مجھے، اک میں ہوں، بے صبرا بھی، ناشکرا بھی، ٹنڈ منڈ درخت کی طرح، بس رب اپنا کرم کردے، فضل کردے، اُسے میں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے ہلکان دیکھا ہے، کیسی عظیم سعادت یہ ہے یہ بس ویسے ہی میں نے آپ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ اس میں آخر کیا ہے، آپ کو سمجھ آجائیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔ آپ سدا خوش رہیں، آباد رہیں، دل شاد رہیں۔ رہنا کس نے ہے یہاں پر، کسی نے بھی تو نہیں ناں۔ سب نے ہی تو چلے جانا ہے۔ خوش آمدید کہنے والوں نے بھی اور دھتکار دینے والوں نے بھی، پھر دفتر اعمال ہوگا ہم ہوں گے۔ ہاں یہاں کوئی بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا

آتشِ جاں کو جو دامن کی ہَوا دے، وہ حبیب

دردِ دل کو جو بڑھا دے، وہی ہے میرا طبیب

جام سے اپنے دے اک جرعۂ مے ہوش اُڑا

کسی باہوش کو لذّت نہیں اس مے کی نصیب

عجیب ہوں میں، کہیں سے کہیں اور نکل جاتا ہوں، گم راہوں کے لیے راستوں کی کیا قید، جہاں چاہے نکل جائیں۔ ہاں تو ہم بات کر رہے تھے بابا کی۔ بابا بہ مشکل سنبھلے لیکن مجھے اُن کی پوری کہانی سننا تھی، میری حماقت دیکھیے کہ کوئی کسی کی پوری کہانی بھی کبھی سُن سکا ہے بھلا۔۔۔؟ لیکن میری بے وقوفی کہیے کہ میں موقعے کے انتظار میں تھا اور ایک دن مجھے تو ایسا ہی لگا کہ بس مجھے کہہ دینا چاہیے اور میں نے ایسا ہی کیا اور بابا سے اگلی رُوداد کی فرمائش کر بیٹھا، وہ سنجیدگی سے مجھے گُھورتے رہے، خاموش رہے اور پھر بولے: نہیں مان کے دے گا تُو، کیا کریں تیری اس عادت کا، سوال پر سوال اور جب اُن کا جواب دیا جائے تو اس جواب میں سے بھی کئی سوال، کیوں نہیں تُو خاموشی اختیار کرتا ۔۔۔۔؟

کیسے اختیار کروں بابا، آپ تو بینا ہیں، دانا ہیں، اہل فہم و فراست ہیں، دُور اندیش ہیں، کسی کی بھی کہانی بِنا اس کے سنائے جان جاتے ہیں، میں تو اجڈ گنوار ایسا نہیں ہوں، مجھے تو سوال کرنا پڑتا ہے تاکہ جان سکوں کہ حقیقت کیا ہے، اور بابا میں یہ بھی بہ خوبی جانتا ہوں کہ میں جاہل کمّی موقع محل بھی نہیں دیکھتا، اور وہ اس لیے کہ میں دیکھ ہی نہیں سکتا تو بس سوال کر بیٹھتا ہوں، کیا کروں میں اپنی اس عادتِ بد کا، میری بھی تو مجبوری ہے ناں، اور پھر آپ جیسوں سے زیادہ کون جانتا ہے مجھے، عیاں بھی نہاں بھی ،  اک آگ ہے مجھ میں بس شعلہ بار رہتی ہے۔

بابا نے میری بات بہ غور سنی، مسکرائے، میرے شانے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور کہا: بیٹا کیا کہوں اب میں پھر سے تنہا ہوگیا تھا اور تنہا ذات تو بس رب کی ہے، بندہ بشر تو لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنے دکھ درد دوسروں سے شریک کرے اور ان کی سنے، تو پھر ہوا یہ کہ مجھے اپنی آیا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے والد کو زہر دے دیا گیا تھا اور دینا تو مجھے بھی تھا لیکن جسے رب جیون دے تو کوئی کیسے اسے مار سکتا ہے تو مجھے گھر سے نکال دیا گیا اور اس کے پیچھے صرف ایک مقصد تھا کہ ساری جائیداد ہتھیالی جائے اور میرے تایا اور تائی اماں اپنے اس مقصد میں بہ ظاہر کام یاب ہوگئے۔

بہ ظاہر میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انسان کو ساری کائنات کی نعمتیں بھی دے دی جائیں تو اس کی عمر ہی اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ ان سے کسی بھی صورت میں فائدہ نہیں اٹھا سکتا، بس ایک فریب میں مبتلا رہتا ہے وہ کہ بس اب وہ سارا جیون سکھی رہے گا، جب کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے لیکن انسان کی حرص کی کوئی دوا نہیں ہے ناں، بس جسے رب تعالی اس سے محفوظ رکھے۔

میں ایک بابا جی کے پاس پہنچ چکا تھا، وہ ایک چھوٹے سے مکان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے اور ریلوے اسٹیشن کے باہر کھانے کا ٹھیلا لگاتے تھے، مسافر بھی اور عام راہ گیر بھی ان کے ٹھیلے سے کھانے پینے کی اشیاء خریدتے تھے، انہوں نے ہی مجھے ہر طرح کا کھانا بنانا سکھایا اور اب تک میں یہی کام کر رہا ہوں کہ حکم ہے کہ محنت مشقت کرو، اپنے ہاتھ سے کام کرو اور رزق حلال کماؤ اور گزر بسر کرو۔ وقت گزرتا چلا گیا اور میں نے نوجوانی میں قدم رکھ دیا، بابا جی کی اہلیہ کو میں اماں کہا کرتا تھا اور وہ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھتی تھیں، پھر ہوا یوں کہ میں نے بابا اور اماں کو گھر پر آرام کرنے کا کہا اور اکیلے ہی یہ کام سنبھالا، بابا اور اماں کھانا تیار کرتے اور میں صبح سویرے ٹھیلے پر رکھ کر ریلوے اسٹیشن چلا آتا اور مغرب میں واپس گھر آجاتا، گھر بھی کوئی دور نہیں تھا۔

وہ ایک چھوٹا سا محلہ تھا جس میں مزدوروں کے گھر تھے اور بیٹا گھر بھی کیا، بس سر چھپانے کی جگہ کہو، ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آکر رہنے لگا، وہ صاحب راج مستری تھے، مکانات بناتے تھے اور اچھی یافت تھی ان کی۔ ایک دن میں گھر پہنچا تو اماں نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھ سے کوئی اہم بات کرنا ہے، میں نے کہا ضرور کیجیے تو انہوں نے بتایا کہ پڑوس سے خاتون آئی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ آپ کا بیٹا جوان ہے اور محنتی بھی تو ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردیں اس لیے میں آپ کے پاس آئی ہوں تو بیٹا اب تمہاری رضامندی درکار ہے۔

میں کیا کہتا خاموش رہا اور پھر بابا اور اماں سے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا تو آپ کا اختیار ہے، وہ مجھے آپ کا حقیقی بیٹا سمجھ رہے ہیں، تو شاید اس لیے کہہ رہے ہوں تو آپ ان سے میری اصلیت بیان کردیں تو بابا نے کہا وہ تو ہم انہیں پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ میری نسبت اس گھر میں طے کردی گئی اور سچ یہ ہے کہ زندگی اچھی لگنے لگی اور پھر وہ دن بھی آہی گیا کہ سادگی سے میری شادی ہوگئی۔ بہت اچھی لڑکی تھی وہ، خوب صورت، نیک سیرت اور سگھڑ بھی، اس نے نہ صرف گھر کے کام سنبھالے بل کہ بابا اور اماں کی خدمت کو بھی شعار کیا۔ اچھے دن تھے وہ، ایک دن میرے سسر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ٹھیلے کے بہ جائے کوئی جگہ لے لوں اور چھوٹا سا ہوٹل کھول لوں اور اس میں وہ میری پوری مدد کریں گے، تو میں نے ان سے کہا کہ یہ فیصلہ میرے بابا جی کرسکتے ہیں آپ ان سے معلوم کیجیے تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے بابا سے دریافت کیا تھا تو بابا نے انکار کردیا تھا۔

اب وہ مجھ سے براہ راست اس پر بات کرنا چاہتے تھے تو میں نے صاف انکار کردیا کہ بابا جو کہیں گے بس وہی ہوگا اور آپ کو اگر بابا نے انکار کردیا تھا تو مجھ سے دریافت کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ شاید انہوں نے میری اس بات کا بُرا مانا اور خفا ہوگئے، اب میں جب بھی ان سے ملتا تو ان کی بے اعتنائی صاف محسوس کرتا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا بھی کہ بابا میرے سرپرست ہیں یہ ان کا اختیار ہے تو اس میں خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ مان کے نہ دیے، پھر رفتہ رفتہ ساس صاحبہ کا بھی مجھ سے اور اماں سے اصرار بڑھتا رہا لیکن ہمارا انکار اپنی جگہ اٹل رہا، میں نے اپنی بیوی کو بھی سمجھایا اور وہ نیک بخت اپنے ماں باپ کو سمجھاتی بھی تھی لیکن بس ضد کا کیا علاج۔ ایک دن میں گھر پہنچا تو گاڑی پر سامان رکھا ہوا تھا معلوم ہوا کہ میرے سسرال نے کہیں اور گھر خرید لیا ہے تو وہ جارہے ہیں، مجھے حیرت ہوئی لیکن میں خاموش رہا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے بابا، اماں اور اپنی بیوی سے اس اچانک فیصلے کا معلوم کیا سب ہی اس سے بے خبر تھے۔ دوسرے دن میری غیرموجودی میں سسر اور ساس آئیں اور یہ کہتے ہوئے میری بیوی کو ساتھ لے گئیں کہ وہ کچھ دن بعد خود اسے چھوڑ جائیں گے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

داخلہ منع ہے!

$
0
0

دنیا میں بہت کم مقام ایسے ہوں گے جہاں انسانی قدم نہ پہنچے ہوں اور ایسی تو شاید ہی کوئی جگہ پائی جاتی ہو جو انسانوں کی موجودگی کے اثرات سے متاثر نہ ہوئی ہو، لیکن کچھ مقامات ایسے ضرور ہیں جہاں مختلف وجوہات جیسا کہ قدرتی ماحول کی حفاظت، انسانوں کا تحفظ اور یا پھر ایسے حقائق کو پردہء اخفاء میں رکھنا مقصود ہو، جن کو وہاں کی حکومتیں عوام سے چھپانا چاہتی ہوں وغیرہ کی بنا پر عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں اور چند مخصوص افراد ہی وہاں جا سکتے یا کچھ فاصلے سے انہیں دیکھ سکتے ہیں۔

اس لیے بجائے اس کے کہ ہمارے اس کرہء ارض پر پائے جانے والے ان مقامات کو دیکھنے کے شوق میں آپ اپنی زندگی خطرے میں ڈالیں یا پھر قانونی کارروائی کا سامنا کریں، آج ہم آپ کو گھر بیٹھے ہی اِن جگہوں کی سیر کرواتے ہیں۔

1 ۔ سانپوں کا جزیرہ، برازیل (Snake Island, Brazil)

برازیل کے شہر ’ساؤ پاؤلو‘ (Sao Paulo) سے 93 میل کے فاصلے پر واقع اس جزیرے، جس کا سرکاری نام ’اِلحا ڈا کیویماڈا گرانڈا‘ (Ilha da Queimada Granda) ہے، پر محقیقین تو جا سکتے ہیں مگر عام انسانوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جزیرہ تقریباً 2 تا 4 ہزار سانپوں کا گھر ہے اور یہ کوئی عام سے سانپ نہیں بلکہ خاص نسل کے ’گولڈن لانس ہیڈ‘ (golden lanceheads) سانپ ہیں جو اپنے سُنہرے رنگ کی وجہ سے بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یہ سانپ اپنے انتہائی زہریلے پن کی وجہ سے مشہور ہیں اور جہاں یہ کاٹتے ہیں وہاں کا گوشت گل سڑ جاتا ہے۔

2 ۔ لاسکاؤس کے غار، فرانس (Lascaux Caves, France)

دنیا بھر میں آج تک دریافت ہونے والی زمانہء قبل از تاریخ کی غاروں کی دیواروں پر بنائی گئی تصاویر میں سے جنوب مغربی فرانس کی ’لاسکاؤس کے غاروں‘ (Lascaux Caves)کی دیواروں پر بنائی گئی تصویریں انتہائی شاندار اور اپنی مثال آپ ہیں۔ تصاویر کے اس طویل سلسلے میں کندہ کاری کے ذریعے بنائی گئی تصویریں بھی شامل ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 20 ہزار سال پُرانی ہیں۔ ان تصاویر میں دوسری چیزوں کے علاوہ جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے، ہرن وبارہ سنگھے اور مویشی بھی دکھائے گئے ہیں۔

غاروں کی دیواروں پر جہاں تک نظر جائے، ہر طرف تصویریں ہی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار میں بنی بیلوں کی چار تصاویر کی وجہ سے اسے ’ہال آف دی بُلز‘ (Hall of the Bulls) کا نام دیا گیا ہے۔ فنِ مصوری کے اعتبار سے یہ چاروں تصویریں حیران کُن حد تک کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر 17 فٹ لمبی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں یہاں آنے والے لوگوں کی وجہ سے ناصرف آرٹ کے اس نادر خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا بلکہ غار بھی پھپھوندی اور سیاہ کائی سے آلودہ ہو گئے۔ لہذا 1960ء کی دھائی میں ان غاروں کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں ان غاروں کے نزدیک ایک عجائب گھر اور ان غاروں کی نقل (بمطابق اصل ) بنا دیے گئے ہیں تاکہ لوگ انہیںدیکھ کر اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔

3 ۔ رقبہ 51، امریکا (Area 51, United States)

جتنے سازشی نظریات امریکا کے صحرا ’نیواڈا‘ (Nevada desert) میں واقع اس جگہ، جسے ’ایریا 51‘ (Area 51) کہتے ہیں، کے بارے میں آج تک سامنے آئے ہیں اتنے شاید ہی کسی اور جگہ کے متعلق پیدا ہوئے ہوں۔ یہ علاقہ سخت حفاظتی انتظامات کا حامل ایک خفیہ فوجی اڈا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے کیونکہ عام آدمی کی اس تک رسائی نہیں۔ ’ایریا 51‘ کے بارے میں سب سے مقبول روایت یہ مشہور ہے کہ وہاں خلائی مخلوق سے متعلق تحقیقات ہوتی ہیں۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس نظریئے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ساری دنیا کی حکومتیں اسی بات پر قائم ہیں کہ ہمارے اس کرہء ارض پر کبھی خلائی مخلوق کے آنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ ’ایریا 51‘ میںچاہے جو کچھ بھی ہو رہا ہو، یہ بات طے ہے کہ اس کے اردگرد موجود خصوصی حفاظتی اقدامات اور پورے علاقے میں بچھی ہوئی بارودی سرنگیں یہ پتا دے رہی ہیں کہ ’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے‘۔

4  ۔ شمالی سینٹینل جزیرہ، بھارت (North Sentinel Island, India)

بھارت کے نزدیک خلیج بنگال میں واقع ’شمالی سینٹینل جزیرے‘ کے باسیوں نے گزشتہ ساٹھ ہزار برس میں اپنی تنہائی کا بڑے جارحانہ انداز میں بچاؤ کیا ہے۔ یہاں کے مقامی باشندے باہر والوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ استوار رکھنے کے روادار نہیں اور جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس کو فوراً قتل کر دیتے ہیں۔ بھارتی ساحلی محافظ کبھی کبھار اس جزیرے کا فضائی جائزہ لیتے رہتے ہیں تاکہ آبادی کا تخمینہ لگا سکیں (جو کے حالیہ برسوں میں کم ہوئی ہے) اور اس بات کا تعین کر سکیں کہ آیا ان کو کسی مدد کی ضرورت تو نہیں، جیسا کہ 2004ء میں آنے والے سونامی کے موقع پر ہوا تھا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اس جزیرے پر جانے کی ممانعت ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان مبلغ، تبلیغ کے سلسلے میں کسی طرح اس جزیرے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیاتاہم آخری اطلاعات کے مطابق مقامی قبائل اس کی تیروں سے چھنی لاش کو ریت پر گھسیٹتے پھر رہے تھے۔

5 ۔ پوویگلیا، اٹلی (Poveglia, Italy)

اس چھوٹے سے اطالوی جزیرے کی پُرآشوب تاریخ نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ یہاں آنے والوں کی آمد پر روک لگا دے۔ ’وینس‘ (Venice) اور شمالی اٹلی کے ساحلی شہر ’لیڈو‘ (Lido) کے بیچ واقع یہ جزیرہ کسی زمانے میں ’طبی قید خانے‘ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ 14 ویں صدی عیسوی میں یہاں طاعون کے مرض میں مبتلا لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں 19 ویں صدی میں یہ ذہنی مریضوں کی آماجگاہ رہا۔ یہ افواہ بھی مشہور ہے کہ ایک ظالم طبیب یہاں مریضوں پر اذیت ناک تجربات کیا کرتا تھا۔ آج یہ جزیرہ ایک ممنوعہ علاقہ ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں ان بدنصیبوں کی روحوں کا بسیرا ہے جو تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ یہ پورے اٹلی کا سب سے بڑا بھوت نگر سمجھا جاتا ہے اور سیاحوں کے علاوہ مقامی افراد کے بھی یہاں داخلے پر پابندی ہے۔ تاہم اگر کوئی اپنی بہادری ثابت کرنا چاہے تو ایک طویل کاغذی کارروائی سے گزر کر یہاں جانے کا اجازت نامہ حاصل کر سکتا ہے۔

6 ۔ ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات، ویٹیکن سٹی (Vatican Secret Archives, Vatican City)

ماضی میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جب مذہب اور اقتدار آپس میں بہت ہی پیچیدہ اور الجھے ہوئے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ کچھ جگہوں پر شاید آج بھی ایسا ہی ہو۔ عیسائیوں کے مقدس ترین مقام ویٹیکن سٹی (Vatican City) جہاں ان کا سب سے بڑا روحانی پیشوا ’پوپ‘ (Pope) رہتا ہے، میں ایک جگہ ایسی ہی ہے جہاں ویٹیکنکی انتہائی خفیہ دستاویزات نہایت حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔ ان دستاویزات میں قدیم کیتھولک عیسائیت کے اہم ترین راز، صدیوں کے پوشیدہ حقائق اور مالی حساب کتاب سے لے کر ریاستوں ومملکتوں کے سرکاری کاغذات تک بہت کچھ یہاں محفوظ ہے جنہیں پڑھنا تو درکنار، دیکھنا بھی عام لوگوں کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ثقہ عالم ودانشور حضرات ہی کو انہیں ملاحظہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اس جگہ کو اتنا زیادہ خفیہ رکھے جانے کی وجہ سے اس کے متعلق دن بدن قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ آخر یہاں ایسا کیا مواد رکھا ہوا ہے جس کی اتنی حفاظت کی جاتی ہے ؟ کیا یہاں خلائی مخلوق کی موجودگی کے ثبوت اور شیطان کے بارے میں کوئی اہم معلومات چھپا کر رکھی گئی ہے یا پھر 20 ویں صدی عیسوی کے وسط میں قائم فسطائی حکومتوں اور کلیسا کے مابین ہونے والے مبینہ گَٹھ جوڑ کے شواہد کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھنا مقصود ہے ؟

7 ۔ چِن شی ہوانگ کا مقبرہ، چین (Tomb of Qin Shi Huang, China)

چِن شی ہوانگ (Qin Shi Huang) چین کا پہلا شہنشاہ تھا۔ اس کا وسیع وعریض مقبرہ آج تک دریافت ہونے والے ایسے تمام مقابر میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آپ نے چین کے جنگجوؤں کے مٹی گارے سے بنے مجسموں کے متعلق سنا ہوا ہے تو وہ یہیں پائے جاتے ہیں۔ گو یہ جگہ چین کے سب سے زیادہ مقبول سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے لیکن یہاں موجود مقبرہ سر بمہر ہے۔ سیاح مٹی گارے سے بنے اِن تقریباً 8000 مجسموں میں سے صرف 2000 کا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ باقی مجسمے زیرِزمین غاروں میں پنہاں ہیں۔ یہ افواہ مشہور ہے کہ اس علاقے کو چوری چھپے گھس آنے والوں سے بچانے کے لیے جگہ جگہ مختلف پھندے لگائے گئے ہیں تاکہ وہ ان غاروں اور مقبرے تک نہ پہنچ سکیں لیکن ایک بات جو حقیقت پر مبنی ہے وہ یہ کہ قدیم دور سے ہی ان غاروں میں بڑے پیمانے پر ’پارے‘ (mercury) کے ذریعے حفاظتی حدبندی کی گئی ہے جو بغیر حفاظتی انتظامات کئے یہاں آنے والے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ مستقبل میں بھی ’چِن شی ہوانگ‘ کا جسم، اس کے بے بہا خزانے کے ساتھ ساتھ محفوظ ہی رہے گا۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

 

The post داخلہ منع ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

دُنیا کو خواتین رہنماؤں کی ضرورت ہے، عائشہ رؤف

$
0
0

شمالی امریکا اور مغربی یورپ کی سیاست میں دیگر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ پاکستانی نژاد افراد کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں کینیڈا کی فیڈرل پارلیمنٹ میں دس مسلمان منتخب ہوئے جن میں پاکستانی نژاد والدین کی بیٹی اقراء سید اونٹاریو کی ایک اہم رائیڈنگ ’مسی ساگا‘ سے منتخب ہوئیں۔

آج ہم ’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کے توسط سے آپ کی ملاقات عائشہ رؤف سے کرواتے ہیں جو ایک پاکستانی نژاد کینیڈین ہیں، انھوں نے حال ہی میں کینیڈا کے صوبے ’البرٹا‘ کی صوبائی قانون ساز اسمبلی / کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عائشہ کا تعلق چولستان کے صحرا سے متصل پاکستان کے پس ماندہ ضلع بہاول پور سے ہے، ان کی کہانی مغربی سیاست میں امیگرنٹس کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے اور گلوبلائزیشن اور مغربی جمہوریت کی کامیابی کو بھی جس میں ایک عام امیگرینٹ کچھ ہی عرصے میں برابری کی بنیاد پر شہری حقوق حاصل کرکے سیاست میں کامیابی کی سیڑھیاں طے کرسکتا ہے۔

عائشہ بہاولپورشہرمیں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے بہاول پور یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز اور نمل یونیورسٹی سے لسانیات میں ایم فل کیا ہے۔ متوسط طبقے کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی عائشہ بہت چھوٹی عمر میں یتیم ہوگئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ددھیال کا تعلق علی گڑھ سے تھا اور ان کے والد ایک صحافی کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کے پہلے انگریزی اخبار ’عرب نیوز‘ کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ بچپن میں کچھ وقت عائشہ نے اپنے والد کے ساتھ مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں بھی گزارا۔

عائشہ 2001ء میں اپنے شریک حیات کے ساتھ بہاول پور سے کینیڈا پہنچیں تو ایک سال تک ان دونوں کو کوئی ملازمت نہ ملی۔ اسی دوران ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔ ان کا کہنا ہے،’کینیڈا میں زندگی پہلے پہل بہت مشکل تھی لیکن ہم نے ہار نہیں مانی اور نئے دیس میں اپنے آپ کو منوانے کی جدو جہد جاری رکھی‘۔ انہوں نے کینیڈا ہی میں رہ کر انگلش لینگوج ٹیچنگ میں ڈپلومہ لیا اور تدریس سے وابستہ ہو گئیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہیں والدہ کی بیماری اور اپنے شریک حیات کی ملازمت کے با عث دوبارہ پاکستان آنا پڑا۔ اس دوران انھوں نے نمل یونیورسٹی سے ایم فل مکمل کیا۔

سماجی سیاسی سرگرمیاں

عائشہ جب سے کینیڈا آئی ہیں متعدد سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہی ہیں، جن میں کینیڈین پیس انیشیٹو، ریڈ شو سوسائٹی آف البرٹا، شیوا کئیر کمیٹی، بزم سخن لٹریری اور کلچرل سوسائٹی اور پاکستان کینیڈا ویمن ونگ بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اپنی کمیونٹی کی خدمت میرا شوق ہے۔ میں انسانیت پر لوگوں کا یقین بحال کرنا چاہتی ہوں اور یہی چیز مجھے سیاست میں لے کر آئی ہے۔ البرٹا پارٹی کی ممبر بننے سے لے کر اس کا ٹکٹ حاصل کرنے تک کا سفر ایک کٹھن اور لمبا سفر تھا، میرے والدین کی تربیت اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ میرے شریک حیات اور بچوں کا تعاون بھی اس سیاسی سفر میں میرے ساتھ ہے جو میری طاقت ہیں‘‘۔

اس وقت عائشہ ’عالمی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے عائشہ کا کہنا ہے،’’عالمی اور مغربی میڈیا میں بھی خواتین کی نمائندگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں یکساں کام کا یکساں معاوضہ نہیں ملتا۔ دنیا کوخواتین لیڈرز کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا موقف سامنے لاسکیں اور پالیسی بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔

عائشہ اپنے بچپن اورخاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم تین بہن بھائی ہیں۔ ایک بہن امریکی ریاست ٹیکساس میں تدریس سے وابستہ ہے۔ بھائی فری لانس صحافی ہے اور بہاول پور میں ہی قیام پذیر ہے۔ بچپن سے ہی ہم بہن بھائیوں کو پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ ہماری پسندیدہ سرگرمی چھٹی والے دن بہاول پور کی پبلک لائبریری جا کر کتابوں کے ساتھ دن گزارنا ہوتی تھی۔ بچپن میں میرا ایک خواب تھا کہ میرا ایک گھر ہو جو کتابوں سے بھرا ہوا ہو۔ میری پسندیدہ کتابوں میں شہاب نامہ، لیو ٹالسٹائی کی اینا کرینینا، ہنچ بیک آف نوٹر ڈیم، مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے اور فاطمہ ثریا بجیا کے ناول ہیں‘‘۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ عام لڑکیوں جیسی ہی تھیں لیکن اپنی بڑی بہن سے مختلف تھیں جو گھریلو اور خاموش تھیں۔ ان کی امی کا کہنا ہے کہ یہ بچپن میں سوال بہت کرتی تھیں۔ ’بہاول پور میں، میں بھی وہاں کے رواج کے مطابق چادر لیتی تھی لیکن میں شروع سے زیادہ بولنے والی، زیادہ بولڈ، لوگوں سے ملنے اور بات چیت کی شوقین تھی‘۔ عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے سماجی کاموں اور آس پاس کے مسائل حل کرنے کا شوق تھا۔ وہ سوشل ورک پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن بہاول پور یونیورسٹی میں یہ شعبہ موجود نہیں تھا اور امی نے پنجاب یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے ایک سال آرمی پبلک اسکول میں تدریس کے فرائض بھی انجام دئیے۔

کینیڈا میں موجود پاکستانی اور مسلم کمیونٹی کے بارے میں عائشہ کا کہنا ہے،’’کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی ربڑ بند کی طرح ہے۔ یہ اپنا دیس چھوڑ تو دیتے ہیں لیکن ذہنی طور پر وہیں موجود ہوتے ہیں۔ اگر کسی پاکستانی سے اپنے حلقے کے ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں پوچھو تو اسے کچھ نہیں معلوم ہوتا‘‘۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ یہ رویہ غلط ہے۔ ہم جہاں موجود ہوں وہاں کی سماجی اور سیاسی زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ یہاں کے سیاسی نظام کو سمجھیں اور اپنے جمہوری حقوق و فرائض کا شعور حاصل کریں کہ کس طرح اپنی شکایت کو اپنے حلقے کے کونسلر سے مل کر پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔

اسی طرح عائشہ کو یہ بھی شکایات ہے کہ بعض امیگرینٹ والدین بچوں پر بے جا سختی کرکے انھیں اپنی اقدار اور کلچر سے بیزار کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور پاکستانی کلچر سے متعارف بھی کروانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کینڈین کلچرکا بھی شعور دینا چاہیے جہاں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انہیں ایک اچھا کینیڈین بنانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے،’ ہاں! ہمیں اپنے بچوں کو مغربی دنیا میں موجود اخلاقی برائیوں سے بچانے کی کوشش بھی ضرور کرنی چاہیے‘۔

عائشہ کا کہنا ہے ،’ کینیڈا آ کر پہلا فرق تو یہی محسوس ہوا کہ یہ بہت صاف ستھرا ملک ہے، یہاں ہر کام بہت منظم انداز میں ہوتا ہے۔ دوسرا یہاں سارا کام خود کرنا ہوتا ہے لیکن محنت میں برکت ہے‘۔ بہاول پور اور کینیڈا کے ماحول کے فرق کے بارے میں عائشہ کہتی ہیں:’جب ہم بیس سال پہلے کینیڈا آئے، تب بھی یہاں لوگوں میں قطار بنانے کا رواج تھا لیکن پاکستان میں آج بھی ہمیں قطار کا کلچر نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ صرف انفراسٹرکچر کی بات نہیں، عوام میں شعور کی بھی بہت کمی ہے۔ مجھے اگر کیلے کا چھلکا پھینکنے کے لئے کچرے کا ڈبہ نہ ملے تو میں آدھے گھنٹے بھی اسے ہاتھ میں پکڑے رہوں گی لیکن اسے سڑک پر نہیں پھینکوں گی۔ پاکستان میں پان کی پیک سڑک پر پھینکنے والا یہ سوچ نہیں رکھتا۔ وطن عزیز میں ابھی بہت سی مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے‘۔

پاکستانی سیاست کے بارے میں ان کا کہنا ہے،’سیاست دان قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ طاقت ور کمزور سے اور کمزور اپنے سے زیادہ کمزور سے چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔ کینیڈا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہاں لا قانونیت نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

اس سوال پر کہ کینیڈین سیاست میں مفاداتی گروہوں اور لابیز کا بھی تو کردار ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیتی ہیں اور اپنی مرضی کی قانون سازی کرواتی ہیں، عائشہ کا کہنا ہے،’اسی لئے اس الیکشن میں کارپوریٹ فنڈنگ ممنوع ہے کہ کوئی مخصوص انڈسٹری بعد میں اپنے مالی عطیہ کا فائدہ نہ اٹھا سکے‘۔ لیکن عائشہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سرمایہ دار اپنی ذاتی حیثیت میں سیاسی عطیات دے سکتا ہے۔اس سوال پر کہ آپ پاکستان میں ہوتیں تو بھی کیا کسی خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ کے بغیر سیاست میں حصہ لیتیں؟ عائشہ کا کہنا ہے،’میں ضرور سیاست میں آتی اور میں سیاست کو پاکستانی عورت کے لئے آسان بنانے کی کوشش کرتی کیونکہ عورت ہر چیز کو نرمی اور معاملہ فہمی سے حل کرنے کی عادی ہوتی ہے اور وطن عزیز میں ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے‘۔

عائشہ اپنے کام، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ تین بچوں کی ماں ہونے کی ذمہ داری بھی حسن و خوبی سے ادا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوکنگ میرا شوق ہے، لیکن مہینے میں ایک آدھ دفعہ میرے میاں بھی کھانا بناتے ہیں۔ ان کے شریک حیات سول انجنیئر ہیں اور سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں۔ صفائی ہم سب مل کر کرتے ہیں۔ ہمارا خاندان پورا موسم سرما گرمیوں کا انتظار کرتا ہے تاکہ ہم گھومنے پھرنے جا سکیں۔ عائشہ اپنے بچوں کے ساتھ بائیک بھی شوق سے چلاتی ہیں۔ انہوں نے دو بلیاں اور آسٹریلین طوطے بھی پال رکھے ہیں۔

پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سے اُٹھ کر کینیڈا کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی جدو جہد کرنے والی عائشہ کی زندگی دنیا میں پاکستانی خواتین کے با ہمت کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے اور گلوبلائزیشن کا عملی مظہر بھی ہے۔

The post دُنیا کو خواتین رہنماؤں کی ضرورت ہے، عائشہ رؤف appeared first on ایکسپریس اردو.

سائنس دانوں نے بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے…کیا واقعی؟

$
0
0

جب تک یہ سطریں آپ کی نظر سے گزریں گی، تب تک ماہرینِ فلکیات کی عالمی ٹیم اپنی ایک اہم دریافت کا اعلان کرچکی ہوگی، جو شاید انسانی تاریخ کی اہم ترین دریافتوں میں سے ایک ہو۔ تاہم اس وقت (مؤرخہ 5 اپریل 2019ء کے) روز جب کہ میں یہ مضمون قلم بند کررہا ہوں۔

عالمی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے بلیک ہولز کی ’’اوّلین تصویر‘‘ حاصل کرلی ہے، جسے وہ 10 اپریل کو ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہی خبر اس انداز میں بھی پیش کی جارہی ہے کہ ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے۔

کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی سائنس دانوں نے بلیک ہول کو ’’دیکھ‘‘ لیا ہے؟ یہ کوئی سچی خبر ہے یا پھر ہمیں اپریل فول بنایا جارہا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ان سائنسی نظریات سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی جو کسی ستارے میں مادّے کی مقدار (یعنی اس ستارے کی کمیت)، ستارے کی زندگی اور موت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے جو ہائیڈروجن کو ہیلیم اور دوسرے عناصر میں تبدیل کرکے زبردست توانائی خارج کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر سورج نہ ہوتا تو زمین پر زندگی کا وجود بھی ناممکن ہوتا۔ خیر، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ سورج آج سے تقریباً پانچ ارب سال پہلے وجود میں آیا؛ لیکن یہ ایک اوسط درجے کا، عام سا ستارہ ہے جو مزید پانچ ارب سال تک اسی طرح روشن رہ پائے گا۔ یعنی اس کی عمر لگ بھگ دس ارب سال ہوگی۔ سورج جتنی کمیت والے ستاروں کی عمر تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے کیوںکہ وہ بڑی آہستگی سے اپنا نیوکلیائی ایندھن (ہائیڈروجن اور ہیلیم) پھونکتے ہیں۔

البتہ، وہ ستارے جن کی کمیت سورج سے زیادہ ہوتی ہے، وہ بہت فضول خرچ ہوتے ہیں اور اپنا ایندھن بہت کم وقت میں، صرف چند کروڑ سال میں پھونک ڈالتے ہیں۔ ایسے ستاروں کا انجام بھی بہت بھیانک ہوتا ہے: ان میں سے کوئی سپرنووا کی صورت میں پھٹ پڑتا ہے اور اپنے مادّے کا بڑا حصہ خلاء میں دور دور تک بکھیرنے کے بعد ’’نیوٹرون ستارہ‘‘ بن جاتا ہے؛ تو کوئی سکڑتے سکڑتے اتنا مختصر ہوجاتا ہے کہ ’’بلیک ہول‘‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

بلیک ہولز (Black Holes) وہ مردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جب کہ ان کی کششِ ثقل (Gravity) اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہاں سے کوئی چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی… روشنی بھی نہیں۔

اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ چاند کی سطح پر ہوں اور چاند کی کششِ ثقل سے فرار ہونا چاہیں تو آپ کو 2.38 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سیدھا اوپر اٹھنا ہوگا۔ سائنس کی زبان میں اس رفتار کو ’’رفتارِ فرار‘‘ (Escape Velocity ) کہا جاتا ہے۔

زمین کے لیے رفتارِ فرار اس سے بہت زیادہ، یعنی 11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، کیوںکہ زمین کی کمیت بھی چاند کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مریخ کی کمیت، ہماری زمین سے کچھ کم ہے لہٰذا مریخ کے لیے رفتارِِفرار صرف 5 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری (جیوپیٹر) کے لیے فراری رفتار کا تخمینہ 59.3 کلومیٹر فی سیکنڈ لگایا گیا ہے۔

ہمارے سورج کی کمیت، مشتری سے بھی کئی گنا زیادہ ہے اس لیے سورج کی سطح (کرونا) سے فرار ہونے کے لیے 617.7 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار درکار ہوگی… یعنی سورج کی کششِ ثقل کو شکست دے کر وہاں سے فرار ہونے کے لیے کسی وجود کو ہر سیکنڈ میں کم از کم 617.7 کلومیٹر کی رفتار سے (سورج کے مخالف سمت میں) حرکت کرنا ہوگی۔ اب آئیے بلیک ہولز کی طرف۔

آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق، کائنات کی سب سے تیزرفتار شئے ’’روشنی‘‘ ہے؛ یعنی کوئی بھی چیز، چاہے مادّی ہو یا غیرمادّی، روشنی سے زیادہ رفتار پر حرکت نہیں کرسکتی (جب کہ خلاء میں روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جو کائنات میں رفتار کی انتہائی حد بھی قرار دی جاتی ہے)۔ یعنی اگر بلیک ہول سے روشنی فرار نہیں ہوسکتی، تو پھر کوئی بھی چیز وہاں سے فرار نہیں ہوسکتی۔ اب چوںکہ کسی بھی چیز کو ’’دیکھنے‘‘ کا انحصار، اس سے ہم تک پہنچنے والی ’’روشنی‘‘ پر ہوتا ہے، اور بلیک ہول سے کسی قسم کی کوئی روشنی تک خارج نہیں ہوسکتی، تو اصولی طور پر ہم بلیک ہول کو ’’دیکھ‘‘ نہیں سکتے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’روشنی‘‘ (Light) کا شمار برقناطیسی شعاعوں (الیکٹرو میگنیٹک ریڈی ایشنز) میں ہوتا ہے؛ اور اس قسم کی شعاعوں میں روشنی کے علاوہ انفرا ریڈ، الٹرا وائیلٹ، ریڈیو لہریں، ایکسریز اور گیما شعاعیں تک شامل ہیں۔

امید ہے کہ یہاں تک بات واضح ہوگئی ہوگی۔

البتہ، بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے یہ اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ’’واقعاتی افق‘‘ (Event Horizon) کہا جاتا ہے۔ قدرے آسان الفاظ استعمال کیے جائیں تو واقعاتی افق کو ہم بلیک ہول کی ’’سرحد‘‘ سمجھ سکتے ہیں۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بلیک ہول کی اسی ’’سرحد‘‘ پر بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ وہ اجسام (مثلاً گرد اور گیس کے وسیع و عریض بادل وغیرہ) جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، وہ جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں ان کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد ’’مرغولہ نما‘‘ (Spiral) راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔

زبردست رفتار کی وجہ سے ان اجسام کی اپنی توانائی بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان سے (روشنی سمیت) مختلف اقسام کی شعاعیں (ریڈی ایشن) خارج ہونے لگتی ہیں… اور جیسے ہی وہ واقعاتی افق سے بلیک ہول کے اندر گرنے لگتے ہیں ٹھیک اسی وقت، زبردست ایکسریز خارج کرتے ہوئے، وہ بلیک ہول میں ہمیشہ کے لیے گم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ فلکیات ان ایکسریز کو ’’بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی آخری چیخ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق ’’سائگنس ایکس ون‘‘ (cygnus x-1) نامی دوہرے (ثنائی) ستارے کے تفصیلی مشاہدے سے ہوچکی ہے۔ ستاروں کے اس نظام میں ایک چھوٹا ستارہ ہے جس سے اٹھتی ہوئی گیس، قریب ہی واقع ایک نادیدہ مقام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے… اور غائب ہوتی جارہی ہے۔ البتہ، غائب ہوتے وقت اس سے شدید ایکسریز بھی خارج ہورہی ہیں۔

اگر ’’سائنس کے باخبر ذرائع‘‘ کی بات کریں، تو ماہرین فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم اعلان یہ ہے کہ انہوں نے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہونے والی شعاعوں کی مدد سے ’’واقعاتی اُفق‘‘ کی نہایت مفصل اور واضح عکاسی کرلی ہے۔

اسی حوالے سے دوسری بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ مذکورہ دریافت کا تعلق ہماری اپنی ’’ملکی وے کہکشاں‘‘ کے مرکز میں موجود ایک بہت ہی بڑے یعنی ’’فوق ضخیم‘‘ (Supermassive) بلیک ہول سے ہے۔ اندازہ ہے کہ اس بلیک ہول کی کمیت، ہمارے سورج کے مقابلے میں تقریباً 45 لاکھ گنا زیادہ ہے جب کہ (زمین سے دیکھنے پر) یہ ’’برجِ قوس‘‘ میں نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی ’’قوس الف نجمہ‘‘ (Sagittarius A-Star) رکھا گیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ ریڈیو شعاعوں کا ایک منبع (source) ہے۔

بلیک ہول پر تحقیق کی غرض سے جاری عالمی منصوبے ’’ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ‘‘ (EHT) میں دنیا بھر سے 12 مقامات پر سیکڑوں طاقت ور فلکیاتی دوربینیں، ایک ساتھ مربوط انداز سے، شریک ہیں۔ خیال ہے کہ ای ایچ ٹی سے وابستہ ماہرین نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے ’’واقعاتی افق‘‘ کی مفصل اور کام یاب منظر کشی کرلی ہے۔ کچھ خبروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شاید اس واقعاتی افق کی ساخت کسی ڈونٹ (Doughnut) یا چھید والی باقر خانی جیسی ہوتی ہے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں سورج سے 45 لاکھ گنا زیادہ کمیت والے بلیک ہول سے وابستہ واقعاتی افق کا تفصیلی مشاہدہ کوئی معمولی بات ہے تو واضح رہے کہ یہ کوئی عام بلیک ہولز نہیں ہوتے۔ کسی ستارے سے بننے والے بلیک ہولز کے بارے میں خاصے اعتماد کے ساتھ ہم بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن ’’سپر میسیو بلیک ہولز‘‘ کا معاملہ ابھی تک معما بنا ہوا ہے۔

ناقابلِ یقین کمیت رکھنے والے ان سپر میسیو بلیک ہولز کے بارے میں ہم اب تک جو کچھ جان پائے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اب تک کئی کہکشاؤں کے مرکزوں میں ایسے بلیک ہولز دریافت ہوچکے ہیں جہاں سے غیرمعمولی ایکسریز کے علاوہ کئی اقسام کی ریڈیو شعاعوں کا اخراج بھی ہورہا ہے۔ اسی شدید اخراج کی وجہ سے انہیں ’’سرگرم کہکشانی مرکزے‘‘ (Active Galactic Nuclei) یا مختصراً ’’اے جی این‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ کہکشاؤں کے ارتقاء میں ان ہی بلیک ہولز نے کلیدی کردار ادا کیا ہوگا۔ لیکن یہ سپر میسیو بلیک ہولز کیسے وجود میں آئے؟ اس بارے میں فی الحال وثوق سے ہم کچھ نہیں جانتے۔

بعض حالیہ مفروضات کے تحت یہ خیال ضرور پیش کیا گیا ہے کہ شاید یہ بلیک ہولز، کائنات کے ابتدائی دور میں مادّے کی غیرمتوازن تقسیم کے نتیجے میں بنے ہوں گے جنہوں نے بعدازاں کہکشاؤں کے وجود میں آنے اور ارتقاء پذیر ہونے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ تاہم ان مفروضات کے حق میں ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں۔

البتہ، ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود سپر میسیو بلیک ہول سے متصل واقعاتی افق کا تفصیلی مشاہدہ ہمیں ان مفروضات کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ اعلان چاہے کچھ بھی ہو، یہ ذہن نشین رکھیے کہ سائنس دانوں نے بلیک ہول کی کوئی ’’تصویر‘‘ حاصل نہیں کی ہے بلکہ وہ بلیک ہول سے وابستہ ’’واقعاتی افق‘‘ کا مفصل ترین مشاہدہ کرکے اس کی باریک ترین جزئیات معلوم کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں… اور یقین مانیے کہ ہگز بوسون اور ثقلی لہروں کے بعد، یہ موجودہ صدی کی تیسری اہم ترین دریافت ہے۔

The post سائنس دانوں نے بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے… کیا واقعی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اقبال۔۔۔۔ پیامبرِ فطرت

$
0
0

ڈاکٹر محمد اقبال اگر ایک طرف مصورپاکستان ہیں، فلسفہ خودی و مرد مومن کے داعی اور اسلام کے پیغام اخوت کے عظیم مبلغ ہیں تو دوسری طرف ان کا شاعرانہ تخیل فطرت کی رعنائیوں پر بھی غزل سرا رہا ہے، حسن فطرت کی جھلکیاں ان کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہیں۔

کبھی وہ ’’ہمالیہ‘‘ کے سلسلہ ہائے کوہ میں خیمہ زن کالی گھٹاؤں کو داد دیتے ہیں اور پہاڑوں کی بلندیوں سے آتی ندیوں کی گنگناہٹ اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں اور کبھی خود دنیا کی محفلوں سے اکتا کر دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنانے کی ’’آرزو‘‘ کرتے ہیں لیکن اقبال کا بلند اقبال تخیل فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے اور اسے صرف داد دینے تک محدود نہیں رہتا ہے۔ کلام اقبال پڑھتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ مناظر فطرت میں پوشیدہ حقیقی پیغام ربانی کی ترجمانی کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے، جیساکہ وہ اپنے قاری کو بھی تلقین کرتے ہیں:

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالۂ و گل سے کلام پیدا کر

میں شاخِ تاک ہوں‘ میری غزل ہے میرا ثمر

مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر

ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں:

گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر

ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ

درحقیقت اقبال کے فلسفے کو جاننے کی جستجو کرنے والا ہر شخص اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ اقبال خالصتاً شاعرانہ انداز میں حسنِ فطرت کی جھلکیاں تو اپنے قاری کو دکھا ہی دیتے تھے لیکن مناظرِ فطرت کی زبان بن کر ان کے اصل پیغام کو انسانوں تک پہنچانے میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ اگر انھیں اردو زبان کے ایسے عظیم شاعر کا لقب دیا جائے جو بجا طور پر ’’پیامبرِ فطرت‘‘ بھی تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اقبال کی کتاب ’’بانگِ درا‘‘ میں بالخصوص ایسی نظمیں اور اشعار جابجا نظر آتے ہیں جو مظاہرفطرت کی خوش نما عکاسی کرتے ہیں۔ بانگ دراِ کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ ہی اس امر کی ایک خوب صورت مثال ہے۔

اے ہمالہ! اے فصیل ِ کشورِ ہندوستاں

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں

تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں

اس نسبتاً طویل نظم کا ایک اور بند درج کرنا برمحل ہوگا جس میں شاعر اقبال کا دل فطرت کی گنگناہٹوں کو سن کر جھوم اٹھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی

کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی

آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی

سنگِ رہ سے گاہ بجتی‘ گاہ ٹکراتی ہوئی

چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشیں کے ساز کو

اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو

اپنی ایک اور نظم میں اقبال ’’ابرِ کوہسار‘‘ کی زبان بن کر کہتے ہیں:

ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا

ابرِ کوہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا

اسی نظم کا ایک شعر انسانی احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:

دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں

کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں

اپنی ایک اور نظم ’’آفتابِ صبح‘‘ میں وہ کرنیں بکھیرتے سورج سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

حسن تیرا جب ہوا بامِ فلک سے جلوہ گر

آنکھ سے اڑتا ہے یکدم خواب کی مے کا اثر

نور سے معمور ہو جاتا ہے دامانِ نظر

کھولتی ہے چشمِ ظاہر کو ضیا تیری مگر

نظم کے اسی بند میں آگے وہ اپنے حقیقی مقصود کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں:

ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے

چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوہ چاہیے

فلسفی اقبال جب دقیق فلسفیانہ گتھیوں اور کائنات کے ان پوشیدہ رازوں کی کھوج لگاتے ہوئے تھک جاتا ہے، جن کو بقول خود سینا و فارابی بھی نہ سمجھ پائے تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:

مرتا ہوں خاشی پر‘ یہ آرزو ہے میری

دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں

ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ

پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ

پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک کے گل کی ٹہنی

جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

یہ سچ ہے کہ شاعری انسانی احساسات کی ترجمان ہوتی ہے اور سچا شاعر وہی ہوسکتا ہے جو تنوع انسانی جذبات کی ہی نہیں بلکہ فطرت کے مختلف مظاہر کی بھی درست تصویر کشی کرسکے، چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال صرف نغمۂ بو و گل کی بات نہیں کرتے بلکہ ’’گل پس مردہ‘‘ کا نوحہ بھی بیان کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال کا مجموعی پیغام زندگی، حرکت، روانی اور مثبت سوچ سے عبارت ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری کے مرکزی استعارے گل ولعل، رواں دواں دریا، چمکتے ہوئے چاند ستارے، صبح کا پھیلتا اجالا، سبزہ، شبنم اور جگنو ہی ہیں۔ اسی لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ فلسفہ خودی و شاہین ہو، مردِ مومن کا تذکرہ ہو یا نیرنگئی فطرت کا بیان۔ اقبال کا لہجہ بھرپور اعتماد اور روشن امید کا مظہر رہا ہے۔ مثلاً اپنے قاری تک ’’پیام صبح ‘‘ پہنچاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

نسیمِ زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا

جگایا بلبلِ رنگین نوا کو آشیانے میں

کنارے کھیت کے شانہ ہلایا اس نے دہقاں کا

دیا یہ حکم صحرا میں‘ چلو اے قافلے والو!

چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا

اسی طرح جب کسی اداس لمحے کے ظلمت کدے میں ’’جگنو‘‘ کی روشنی پہنچتی ہے تو وہ بے اختیار پوچھ بیٹھتے ہیں:

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں؟

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں؟

اقبال اپنے دائمی پیغامات اپنے قاری تک پہنچانے کے لیے بڑی خوب صورتی سے مظاہر فطرت کو بطور استعارہ استعمال کرنے کا ہنر رکھتے تھے اور یہ انداز تعلیم انھوں نے غالباً قرآن کریم سے بھی مستعار لیا تھا جو بار بار نیرنگیٔ فطرت اور تخلیق کائنات کا حوالہ دے کر انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور حقیقت ازلی تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں:

کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ

ایامِ جدائی کے ستم دیکھ‘ جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں

یہ گنبدِ افلاک‘ یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ‘ یہ صحرا‘ یہ سمندر‘ یہ ہوائیں

تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ

چناںچہ ان کی شاعری شدت سے اس امر پر گواہ ہے کہ وہ مظاہر فطرت کو دیکھتے، سمجھتے اور بیان کرتے ہوئے اخذ کردہ سبق بھی بڑی خوب صورتی سے قاری تک پہنچا دیا کرتے تھے۔

اپنی ایک نظم میں موسمِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی شاخ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ٹوٹنے کے بعد اب موسمِ بہار میں بھی یہ شاخ ہری نہیں ہوسکے گی اور خزاں کی رُت اس کا مقدر ہوچلی ہے، چناںچہ وہ اپنے عہد کے مسلمانوں کو جن پر یقیناً عہدِخزاں چھایا ہوا تھا نصیحت کرتے ہیں:

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

اسی بات کو انھوں نے ایک اور انداز میں یوں کہا تھا:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اپنی ایک نظم ’’پھول‘‘ میں وہ کہتے ہیں:

تجھے کیوں فکر ہے اے گلِ دل صد چاک بلبل کی

تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کرلے

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں

تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے‘ پا بہ گل بھی ہے

انھیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو خو کرلے

اردو زبان میں بلاشبہ ایسے بڑے بڑے شعرا کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کی خوب صورت شاعری مظاہر فطرت کی دل فریب عکاس رہی ہے۔ تاہم مناظر فطرت سے ہم کلام ہونا، ان کی زبان بن جانا اور پندونصائح کی شکل میں اسے عام آدمی تک پہنچانا علامہ اقبال کا ہی خاصہ نظر آتا ہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے کی بنیاد ان کی ایک دو نظمیں نہیں بلکہ یہ ہنر ان کے تمام کلام میں ہی جابجا نمایاں ہے۔ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والی آنکھ، محسوس کرنے والا دل اور فطرت کی ترجمانی کرنے والی زبان بخشی تھی اور انھوں نے مشاہدہ کرنے، محسوس کرنے اور بیان کرنے کا حق اس طرح ادا کیا کہ آج نہ صرف پاکستان میں یا محض عالم اسلام میں بلکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے انھیں پڑھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں تو کبھی ان کا کلام گا کر فن کا لوہا منوا رہے ہیں اور بے شمار افراد جامعات میں کلام اقبال کے مختلف گوشوں پر تحقیق کرکے اپنے اور دوسروں کے علم میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

بہ حیثیت مجموعی کلام اقبال کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاہم ان کے موضوعات کو بھی مختلف حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ بطور پیامبر فطرت ان کے کلام پر نسبتاً کم بات کی جاتی ہے لیکن اگر صرف اسی موضوع کو اقبال پر تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو شاید ان کے کلام میں موجود فطرت کے بہت سارے پیغامات تک بہتر رسائی حاصل کی جاسکے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال کے متنوع موضوعات درحقیقت ایک ہی سبق دیتے ہیں جفاکشی، قناعت، خودداری، یقین محکم اور پابندی نظم و نسق۔ یہ پیغامات اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کے فلسفہ خودی، مرد مومن اور شاہین میں عیاں ہیں، مگر مخصوص ماحولیاوتی پس منظر میں بھی وہ انھی پیغامات کی ترسیل و تکمیل دیکھتے ہیں:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی

تاہم خوداری، جفاکشی اور قناعت پسندی پر ان کا یقین صرف صحرائی یا کوہستانی ماحول میں نمود نہیں پاتا بلکہ سرسبز لالہ زاروں میں بھی انھیں خود انحصاری اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزاری کا اشارہ ملتا ہے جسے وہ اپنے قاری تک پہنچاتے ہوئے گویا سورۂ رحمٰن کی اس آیت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ ملاحظہ فرمائیے بالِ جبریل سے ایک خوب صورت اقتباس جو یقیناً بطور ’’پیامبر فطرت‘‘ اقبال کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے:

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نعمتوں پہ اکسانے لگا مرغ چمن

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اودے اودے‘ نیلے نیلے‘ پیلے پیلے پیرہن

مرگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح

اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج

من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن

The post اقبال۔۔۔۔ پیامبرِ فطرت appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک نامعلوم ’عظیم انسان‘ کے نام۔۔۔!

$
0
0

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

غالباً مشتاق احمد یوسفی نے کہیں لکھا ہے کہ ’جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بہ جائے پیسے برآمد ہوں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اُسے کبھی سکون کی نیند نصیب نہیں ہوگی!‘ ہم نے گزشتہ دنوں ایک کچرا چننے والے محنت کش بچے کی کچھ ایسی ہی ویڈیو دیکھی، جو خود بھوکا ہے، لیکن ایک بلی کے لیے دودھ خرید کر لایا ہے!

ویڈیو میں ایک بند دکان کے تھلّے پر بلی دودھ پی رہی ہے اور ایک کچرا چننے والا بچہ نزدیک رکھے ہوئے اپنے بورے کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ عکس بندی کرنے والا اُسے پکارتا ہے، تو وہ خوف زدہ انداز میں چونک کر پلٹتا ہے، جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو، لیکن جب اُس سے مدعے کی بات کی جاتی ہے، تو یک دم چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہ شاید کسی کوڑے دان کا اوپر سے بند اور ایک طرف سے کھلا ہوا مخصوص ڈھکنا ہے، جو بلی کے اوپر سائبان بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اندر بلی دودھ پی رہی ہے، بوسیدہ سی جوتی پہنا وہ بچہ آکر ایک ہاتھ کی کہنی اس ڈھکنے پر ٹکاتا ہے اور دوسرا ہاتھ کمر پر رکھ کر اعتماد سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کی میلی کچیلی قمیص پر رفو گری نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ بلی کو کیا پلا رہا ہے، وہ بتاتا ہے کہ ’دودھ ہے۔۔۔!‘

سوالاً جواباً گفتگو میں پتا چلتا ہے کہ اس نے یہ دودھ بلی کے لیے 20 روپے میں خریدا۔۔۔! جب اس سے یہ دریافت کرتے ہیں کہ کیا تم نے خود کھانا کھایا؟ تو شاید وہ یہ جتانا نہیں چاہتا کہ وہ خود بھوکا ہے، اس لیے ناں کہتے کہتے، ہاں کہہ دیتا ہے، مگر جب دوبارہ پوچھتے ہیں کہ کب کھایا؟ تو اس کی یہ مصلحت یا ’دنیا داری‘ بُری طرح چغلی کھانے لگتی ہے، سراپا اعتماد بنی ہوئی ’بدن بولی‘ ساتھ چھوڑے دیتی ہے، وہ نگاہیں چراتا ہے۔۔۔ اُسے کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا۔ وہ بلاوجہ گردن کھجاتا ہے اور اپنی نگاہ بچاتے ہوئے بات بناتا ہے کہ ’ہم نے ناشتا کیا ہے۔۔۔!‘ لیکن جسمانی حرکات وسکنات اس کم زور عذر کا ذرا بھی ساتھ نہیں دیتیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ ’بدن بولی‘ چیخ چیخ کر اس کے خالی پیٹ کی شکایت کر رہی ہو۔۔۔! پھر اِس سے کہتے ہیں، ناشتا تو صبح کیا تھا، ابھی دوپہر کا کھانا؟ اب اس کی ساری ’مصلحت‘ اس سے چھُوٹی جاتی ہے، مگر مسکراہٹ پُرعزم ہے، وہ دبا دبا سا اعتراف کر لیتا ہے کہ نہیں! پھر پوچھا کہ تم نے خود نہیں کھایا اور اس بلی کے لیے کھانا لے آئے؟ تو وہ کہتا ہے ’ہاں!‘

اس سے پوچھتے ہیں ’’تمہیں بھوک لگ رہی ہے؟‘‘ وہ اپنے اعصاب کو مضبوط بناتے ہوئے خالی شکم کی پُکار کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور مسکراتے ہوئے گردن نفی میں ہلا دیتا ہے۔۔۔!!

پوچھا جاتا ہے ’کیوں۔۔۔؟‘ تو اس سے پھر کوئی جواب نہیں بن پاتا، وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے، جیسے یہ وقت ٹالنا چاہتا ہو۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’جس کی جیب خالی اور دل احساس سے بھرا ہوا ہو، وہ بھوک سے ماورا ہو جایا کرتا ہے صاحب۔۔۔!‘‘

اس کے چہرے پر اب بھی مایوسی، دکھ یا پریشانی کے کسی بھی رنگ کے بہ جائے گہری شادمانی کسی ’رئیس زادے‘ کی سی شبیہ بنا رہی ہے، جیسے کوئی ’سرپرست‘ اپنی ’کفیلوں‘ کا ذمہ پورے ہونے پر خوب مطمئن ہوتا ہو۔

’تمہیں کھانا کھانا ہے؟‘ اس سوال پر بھی اس کی خودداری اُسے اثبات میں سر ہلانے سے روکے رکتی ہے، وہ چُپکا اپنے اسی انداز میں مسکراتا رہتا ہے۔ اُسے کھانے کے لیے کچھ پیسے دینے کا کہتے ہیں، تو وہ مان لیتا ہے۔۔۔!

اس ویڈیو میں بچے کے پس منظر میں اشیائے ضروریہ کے تھیلے بھر کر آنے جانے والے بھی دکھائی دے رہے ہیں، یعنی وہ لوگ جب ’کھا‘ کر پھینک دیں گے، تو وہ باسی غذا، گتے، شیشے اور پلاسٹک جیسی اشیا اس جیسے ہزاروں لوگوں کی زندگی کا سامان بن جائیں گی۔ اس بچے نے اپنی بھوک قربان کر کے بلی کے لیے 20 روپے کا دودھ خریدا۔ ان 20 روپوں کا مطلب ان بچوں کی کئی گھنٹوں کی ’کمائی‘ ہے، بلکہ شاید کبھی تو یہ سارا دن کی اُجرت بنتی ہو۔۔۔!

شہر کی کچرا کنڈیوں سے لے کر ہماری آپ کی گلیوں تک روزانہ ہزاروں بچے صبح اندھیرے منہ کچرے سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔۔۔ بہت سی گلیوں میں جو بے شعور لوگ کچرے کی تھیلیاں پھینک دیتے ہیں، جب یہ ان تھیلوں کو چاک کر کے ’’کارآمد‘‘ چیز تلاش کرتے ہیں، تو اکثر مکین ان پر برہم ہوتے ہیں کہ گلی میں سارا کچرا پھیلا دیا! وہ تو ’انسان‘ ٹھیرے، لیکن انہی محنت کشوں کی طرح ’بے گھر‘ آوارہ کتوں کو جانے کیوں ان سے اللہ واسطے کا بیر رہتا ہے۔۔۔ بھونک بھونک کر ان کا گلی سے لَنگنا دوبھر کر دیتے ہیں۔۔۔ یہ غریب بھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ ہم بھی کتنے بدنصیب ہیں کہ انسان تو انسان، ہمیں تو گلی کے آوارہ کتے تک برداشت نہیں کرتے۔۔۔!‘

سچ پوچھیے تو ہمیں کتوں کی یہ سرشت خالص ’سرمایہ دارانہ‘ معلوم ہوتی ہے، جس کا زور غریبوں و بے کسوں پر ہی چلتا ہے۔ آج ’خانہ پُری‘ کے ٹوٹے پھوٹے سے یہ الفاظ اس نامعلوم عظیم انسان کی نذر ہیں، جس نے مفلسی کے عالم میں بھی اپنی بھوک ایک بے زبان بلی کی بھوک پر وار دی۔۔۔! یہ معصوم بچہ ہم جیسے ’باشعوروں‘ اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والوں سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔

۔۔۔

ٹڈی دَل
مستنصر حسین تارڑ
اُن دنوں ٹڈی دَل بہت آتے تھے۔ صرف کھلی آبادیوں اور کھیتوں پر ہی نہیں شہروں کے آسمان بھی ان سے ڈھک جاتے تھے اور جب کبھی ٹڈیوں کے یہ بادل لاہور کے آسمان کی روشنی پر اپنی متحرک سیاہ چادر ڈالتے تو مشاہد کے فلیٹ کے عین سامنے رہنے والا ’لاری خاندان‘ ہاتھوں میں بیڈ منٹن کے ریکٹ پکڑے چھت پر آجاتا اور اُچھل اُچھل کرٹڈیوں کا شکار کرنے لگتا۔ شام کو ان ٹڈیوں کو سرسوں کے تیل میں فرائی کرنے سے جو بُو مشاہد کے فلیٹ کے اندر تک جاتی تو اُس کی آپا جی ناک پر ململ کا دوپٹا ڈالے اُن مہاجروں کو کوستیں جو دیسی گھی کے بہ جائے کھانے میں تیل استعمال کرتے تھے اور ٹڈیوں جیسی مکروہ شے کو شوق سے نوش کرتے تھے۔
(ناول ’راکھ‘ سے اقتباس)

۔۔۔

اندھیر آکاش میں ایک برسات
مرسلہ: سارہ شاداب، کراچی
ایک تو رات اندھیاری اس پر بدلی کاری۔۔۔! تمام عالم پر گناہ کی سی تیرگی طاری۔۔۔ کالی گھٹائیں بجلی کی طرح کوند رہی تھی، جیسے تیرہ باطن پر خواہشِ گناہ آتشیں کوڑے برسائے، تیرگی منہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ جہانِِ سیاہ کاری کا نچوڑ ہوں۔ آسمان پر ابر ایسے تہ بہ تہ چڑھے تھے جیسے روزِ حشر ابنائے آدم کے گناہ انبار در انبار جمع کیے گئے ہوں۔ بارش یوں ہو رہی تھی جیسے عفریت طغیان زدہ عرقِ گناہ میں شرابور ہو یا عصیاں شعاروں کو غرق کرنے طوفان نوح بپھر کرآیا ہو۔ بادلوں کی گرج اس مست ہاتھی کی چنگھاڑ معلوم ہوتی، جو حیات پامال کرنے زنجیریں تڑا کر نکلا ہو۔ زمین نے اپنی سوتین کھول دی تھیں، آسمان پر سے تڑیڑے پڑ رہے تھے سما و سمک عذاب اگلتے نظر آتے تھے!
(کتاب ’’ابلیس‘‘ از خواجہ محمد شفیع بی اے سے انتخاب)

۔۔۔

اقلیتی مسلمان
سعداللہ جان برق
مملکت خداداد پاکستان کے نام پر ایک مملکت ایسے علاقوں میں قائم ہوئی، جہاں مسلمانوں کو پہلے ہی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کیوں کہ ان خطوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پنجاب، سندھ بنگال، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اگر ہندوستان متحد بھی ہوتا تو مسلمانوںکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا، نہ بُلٹ کے ذریعے اور نہ بیلٹ کے ذریعے۔ سارا مسئلہ ان لوگوں کا تھا، جو ہمارے خیال میں ہندووں کے علاقے میں رہتے تھے، ان کی آبادی کچھ کم نہیں تھی، ان کی تعداد تقریباً اتنی ہی تھی جتنی مسلمان مملکت کی تھی۔ یہ مسلمان اس خطرے کے بیچ میں رہ گئے اور پھر نقل مکانی میں بہت زیادہ جانی ومالی نقصان بھی ہوا۔
(تصنیف ’’مقدس خوں ریزیاں‘‘ سے چند سطریں)

۔۔۔

’’میں کام یاب ہوچکا؟‘‘
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
ایک دانش ور سے یہ پوچھا گیا کہ کام یابی کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے بڑا دل چسپ جواب دیا کہ ’’ہم انسانوں نے کام یابی کے اپنے اپنے پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی دولت اور کوئی شہرت حاصل کرنے کو کام یابی سمجھتا ہے، لیکن کام یابی انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔ انسان کی کام یابی یا ناکامی کا فیصلہ اوپر والی ذات کرتی ہے ہم انسان نہیں۔ کام یابی کی اصل تعریف یہ ہے کہ میں زندگی میں جو کچھ چاہتا تھا وہ میں نے پا لیا بس۔ مجھے اب کوئی اقتدار نہیں چاہیے، کوئی شہرت نہیں چاہیے۔ میں نے زندگی میں جو مقاصد حاصل کرنا تھے، کر لیے، یعنی میں کام یاب ہو چکا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ میں جس طرح کی زندگی گزارنے کا خواہش مند تھا، میں نے گزار لی ہے تو میں کام یاب ہوں۔

۔۔۔

’’مدد‘‘
رضوان طاہر مبین
مسافروں سے لدی ہوئی اُس بس میں ثمر بھی ’بے بس‘ تھا، جو رکتی زیادہ اور چلتی کم تھی۔۔۔
گرمی کا یہ عالم تھا کہ سورج سوا نیزے پر معلوم ہوتا۔۔۔ سانس لینا بھی دوبھر تھا۔
کچھ دیر بعد ثمر کے قریب ایک نشست خالی ہوئی، لیکن وہ اس نشست سے دست بردار ہو گیا۔
’’آپ بیٹھ جائیے۔۔۔!‘‘
اُس نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو جگہ دے دی۔
میں ثمر کے ایثار پر بہت حیران تھا، لیکن اگلے ہی لمحے بس بائیں جانب مڑ گئی۔
اب اُس نشت پر بہت تیز دھوپ پڑ رہی تھی۔۔۔!

۔۔۔

سنتوش کمار کے پان اور سنسر بورڈ
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال
اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آرہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ جرنیل ضیاء الحق کے دربار میں ہماری طلبی ہے۔ کس جرم میں۔ ابھی بتاتا ہوں۔ ادب سے اس پیشی کا تعلق نہیں ہے ۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔ اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔

اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزرگیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کردیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔ میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی۔

وہ ہیرو کا رول ادا کررہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما ، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہوگی ۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

(انتظار حسین کی کتاب ’’چراغوں کا دھواں‘‘ سے چُنا گیا)

The post ایک نامعلوم ’عظیم انسان‘ کے نام۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

بلیو اکانومی۔۔۔ سمندر سے جُڑی معیشت

$
0
0

 پانی زندگی کی اساس ہے۔ یہی پانی دنیا بھر کے اربوں لوگوں کے لیے غذا فراہم کرتا ہے تو یہی پانی دنیا بھر کے کروڑوں افراد کے لیے رزق حلال کمانے کا اہم ذریعہ ہے۔ کرۂ ارض کا تین چوتھائی حصہ اسی پانی پر مشتمل ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بقائے انسانی کے لیے ناگزیر اس عظیم نعمت سے دنیا کے 84 کروڑ 40 لاکھ افراد محروم ہیں۔ پانی کی قلت اور اس سے متعلق دوسرے مسائل کی وجہ سے دنیا کی معیشت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ صاف پانی کی تلاش میں ضایع ہونے والے وقت کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو اس سے اربوں ڈالر کے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

پانی جیسی بنیادی ضرورت کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 260 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پانی کی کم یابی اور آلودگی سے متعلق آنے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ صورت حال مزید خراب ہونا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی آلودگی، ماہی گیری کے لیے چھوٹے جالوں کے استعمال سے معدوم ہوتی مچھلیوں کی اقسام نے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کی بقا کو خطرات لاحق کردیے ہیں۔ بنی نوع انسان اپنی دسترس میں موجود زمین کے خشک حصے کو تو آلودگی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے خطرات سے دوچار کرچکا ہے، لیکن زمین پر انسانوں کے لیے موجود وسائل پر دباؤ بڑھنے سے ایک نئی اصطلاح ’نیلگوں معیشت ‘ نے جنم لیا۔

سمندر کئی دہائیوں تک بس ماہی گیری اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا رہا، لیکن زمین پر موجود انسانی وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث ہم نے زمین کے اس حصے کی جانب دیکھنا شروع کردیا جو کہ پانی پر مشتمل ہے، جو اب تک ہمارے لیے بے فیض اور ناقابل رسائی تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم زیادہ بہتر اور محفوظ طریقے سے ان وسائل سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں، جو کہ ہمارے سمندروں میں بڑی مقدار میں موجود ہیں؟ لیکن ان وسائل کو اس طرح برباد نہ کیا جائے جس طرح ہم اپنے زمینی وسائل کو کرچکے ہیں۔

چیزوں کو درست طریقے سے سرانجام دینے کے لیے یہ ہمارے پاس دوسرا موقع ہے ۔ سمندری وسائل وافر مقدار میں ہیں لیکن ان سے قدرت کو متاثر کیے بنا مستفید ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ماہی گیری کے لیے بھی ایک محفوظ طریقۂ کار کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی مچھلی اور دیگر سمندری حیات کے ذائقے سے آشنا ہوسکیں۔ دنیا بھر میں شکار کی جانے والی ہر دس میں سے ایک مچھلی اس نسل سے تعلق رکھتی ہے جسے ماہی گیر شکار نہیں کرنا چاہتے، عموماً ایسی مچھلیوں کو ماہی گیر مرنے کے بعد سمندر میں واپس پھینک دیتے ہیں، جو پانی میں جاکر کچرے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

صرف ایک مچھلی ہی نہیں بلکہ ہر سال اربوں سمندری اجسام انسانی سرگرمیوں کی بدولت اسی طرح سمندر بُرد ہوجاتے ہیں، یعنی ہر سال ہم اربوں روپے ان سمندری اجسام سے مستفید ہوئے بنا ضائع کردیتے ہیں۔ بھاری جرمانے اور سخت قوانین کے نفاذ سے اگرچہ غیرمحفوظ ماہی گیری پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے دنیا بھر میں نیلگوں معیشت کے رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک بہ شمول انڈیا، صومالیہ، نائجیریا اور جمہوریہ سیچلیز نیلگوں معیشت کو ڈیولپ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں گذشتہ سال برطانیہ کی انوائرمینٹل آڈٹ کمیٹی نے سسٹین ایبل سمندروں کے فروغ کے لیے ایک تحقیق کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یورپی یونین بھی اس کام کے لیے تحقیق اور جدت لانے کے لیے سرگرم عمل ہے، اس کام کے لیے ان کے پاس ہائی پروفائل فنڈز موجود ہیں جس کی مدد سے وہ اس مسئلے سے نمٹتے ہوئے ہورائزن 2020پروگرام (یورپی یونین کا سب سے بڑا تحقیق اور اختراعی پروگرام جس کے لیے سات سال 2014 تا 2020 تک کے لیے اسی ارب یورو کا فنڈ دست یاب ہے) کا حصہ بننے کے اہل ہوسکیں گے۔ ایکوا کلچر (آبی پودوں اور جانوروں کی پرورش)، ساحلی سیاحت اور سمندری توانائی یورپی یونین کی ’بلیو گروتھ‘ حکمت عملی کا حصہ ہے۔

انڈونیشیا نے بھی نیلگوں معیشت کے فروغ کے لیے ماہی گیری پر سخت قوانین نافذ کردیے ہیں اور وہ تیکنیکی نفاذ اور اختراعی تنظیم کاری سے ان قوانین کو مؤثر بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے بھی یورپی یونین کی جانب سے آئی یو یو (ال لیگل، ان ریگولیٹڈ اور ان رپورٹڈ) ریکارڈ پر ’یلو کارڈ‘ جاری کیے جانے کے بعد اپنی فشریز کو اپ گریڈ کیا ہے جس کے بعد اب وہ یورپی یونین میں شامل ممالک کو اپنی سمندری خوراک فروخت کرسکتے ہیں۔ 2017 میں امریکا نے بھی اپنے قوانین میں اصلاحات کا آغاز کیا تھا تاکہ اسے پتا چل سکے کہ وہ جو مچھلی خرید رہا ہے وہ کہاں سے آرہی ہے۔ حال ہی میں ریاست اوریگون نے اپنا پہلا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت جھینگے کے شکار کے لیے روشنی خارج کرنے والے آلات کے استعمال کا فرمان جاری کیا گیا ہے، تاکہ مچھلیوں کی معدوم ہوتی نسل eulachon  (قندیلہ مچھلیوں کی ایک قسم جو شمالی بحرالکاہل کے ساحلی پانیوں میں پائی جاتی ہے) کے غلطی سے پکڑنے جانے کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ یہ تمام اقدامات نیلگوں معیشت کے فروغ کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نیلگوں معیشت ہے کیا؟

٭نیلگوں معیشت کیا ہے؟

نیلگوں معیشت (بلیو اکانومی) کا ماڈل ایک جدید معاشی ماڈل ہے۔ بلیو اکانومی ماڈل میں پائے دار معاشی ترقی کے حصول کے لیے کسی ملک کی سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل ، جیسے زیرِ آب معدنیات، آبی حیات، تیل و گیس کے ذخائر کی آف شور ڈرلنگ، صنعتِ ماہی گیری اور فشریز پراڈکٹ کی صنعت، سامانِِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے جہاز رانی کی صنعت، ساحلی ہواؤں سے وِنڈ ٹربائن انرجی اور سمندری دھوپ سے شمسی توانائی کا حصول، ساحلی زمین پر ریزورٹس کی تعمیر اور ہوٹل اینڈ سیاحتی صنعت کا فروغ، سمندری حیاتیاتی ٹیکنالوجی، ایکوا کلچر اور میٹھے پانی کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ وغیرہ شامل ہیں۔

نیلگوں معیشت ایک تیزی سے ابھرتا ہوا نظریہ ہے جو کہ سمندر اور اس میں موجود ’نیلگوں‘ وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ہے، اس تصور کے پیچھے دولت مشترکہ کا نیلگوں منشور ہے، جس کا دنیا بھر میں پھیلے سمندروں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور دولت مشترکہ لوگوں کی خوش حالی سے قریبی تعلق ہے۔ یہ منشور دولت مشترکہ کی اقدار بہ شمول ساحلوں کی فیصلہ سازی اور سمندروں میں لوگوں کی یکساں حصہ داری کی توثیق کرتا ہے۔ نیلگوں معیشت اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز (ایس ڈی جی ایس، قابل برداشت ترقیاتی اہداف) خصوصاً ایس ڈی جی14 ’زیرآب زندگی‘ کی تائید، اور اس بات کو پیش نظر رکھنا ہے کہ سمندروں کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محٖفوظ بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے جُرأت مندانہ اور مساوی اقدامات درکار ہوں گے۔ نیلگوں معیشت کو اگر سمندری اقتصادیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی نمو کے لیے یہ ایک بہترین میکانزم ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک جہازرانی، تجارتی بنیادوں پر ماہی گیری، تیل اور گیس کی تلاش، زیرآب کان کنی اور دیگر سمندری وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان تجارتی سرگرمیوں سے کئی لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے۔

خصوصاً چھوٹے جزائر پر رہنے والے افراد کے لیے روزگار کے مواقع، غذائی تحفظ اور غربت میں کمی ہورہی ہے۔ سبز معیشت کی طرح نیلگوں معیشت کے ماڈل کا مقصد بھی ماحولیاتی خطرات میں نمایاں کمی کرتے ہوئے سماجی مساوات اور انسانی خوش حالی میں بہتری لانا ہے۔ یہ ایسی ساحلی ریاستوں کے لیے ایک جامع معاشی ماڈل ہے، جن کے پاس بعض اوقات بھرپور معدنیاتی وسائل کے استعمال کی گنجائش میں کمی ہوتی ہے، وہ ان ماڈلز کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام وسائل سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ نیلگوں معیشت سے زبردست فوائد حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام سماجی گروہ اور شعبہ جات اثرانداز ہوں۔ نیلگوں معیشت صرف مارکیٹ میں موجود ایک بہتر موقع نہیں، بل کہ یہ ’نیلے‘ وسائل کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، جیسے کہ روایتی طرز زندگی، کاربن کے اخراج میں کمی اور ساحلوں کے پھیلنے سے غیرمحفوظ ریاستوں کے لیے خطرات کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، جو کے اکثر وبیشتر موسمیاتی تبدیلیوں پر تباہ کن اثرات کرتب کرتی ہے۔

٭پاکستان اور نیلگوں معیشت

پاکستان اپنے شان دار سمندری محل وقوع کی بدولت نیلگوں معیشت سے بہت اچھی طرح مستفید ہوسکتا ہے۔ بحیرۂ عرب میں پاکستان کا خصوصی معاشی زون تقریباً ’’دولاکھ چالیس ہزار، اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں اقوامِ متّحدہ کی جانب سے پچاس ہزار کلومیٹر کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وسیع وعریض خصوصی معاشی زون کے تین حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ سندھ سے متصّل سمندر میں انڈس آف شور کہلاتا ہے، اس سے متصّل ساحل کی لمبائی 270 کلومیٹر ہے۔ دوسرا بلوچستان سے متصّل سمندر میں مکران آف شور کہلاتا ہے، جس سے متصّل ساحل کی لمبائی 720 کلومیٹر ہے۔ تیسرا حصّہ بحیرۂ عرب اور بحیرۂ ہند کا درمیانی علاقہ ہے جسے مرے رِج کا نام دیا گیا ہے۔

مرے رج ایک خصوصی معاشی زون ہے جس میں زیرآب معدنیات، تیل اور گیس کے ذخائر کے علاوہ مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر سمندری وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر نعت سے نوازا ہے، زمینی وسائل کی طرح مملکت خداداد آبی وسائل سے بھی مالامال ہے۔ پاکستان کا گیارہ سو کلو میٹر ساحل ایران سے انڈیا تک تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کا مجموعی بحری زون زمینی رقبے سے تیس فی صد زیادہ ہے، جس میں سے کچھ علاقے نیلگوں معیشت کے حوالے سے بہت زیادہ زرخیز ہیں اور یہ قیمتی آبی حیات اور معدنی وسائل سے بھرپور ہیں۔

پاکستان کی سمندری ماہی گیری کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مکران (بلوچستان) کی ساحلی پٹی اور کراچی (سندھ) کی ساحلی پٹی۔ مکران اور کراچی کی بندرگاہیں ماہی گیری کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری غذاؤں کی فی صد کھپت نسبتاً کم (ایک کلو نو سو گرام) ہے، اس کے باوجود اس شعبے کا قومی معیشت میں اہم کردار ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں ایک بڑا حصہ ماہی گیری کے شعبے کا ہے۔ پاکستان کی حدود میں آنے والا سمندری حصہ نایاب نسل کے جھینگوں، مچھلی، لابسٹر اور اس نوع کی دیگر آبی حیات سے لبریز ہے، لیکن ہم ابھی تک اپنے اس وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر سکے ہیں۔ ماہی گیری سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر محفوظ ماہی گیری کے لیے جدید تیکنیکی تربیت اور آلات کے فقدان کی وجہ سے ہم نیلگوں معیشت سے بھرپور طریقے سے مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔

٭نیلگوں معیشت اور بین الاقوامی ادارے

نیلگوں معیشت کے لیے ہر بین الاقوامی ادارے نے اپنی تشریح وضع کر رکھی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ’ذریعہ معاش میں بہتری، ملازمتیں، ایکو سسٹم اور سمندر کو محفوظ بناتے ہوئے معاشی ترقی کے لیے سمندری وسائل کو استعمال کرنا نیلگوں معیشت ہے۔ یورپی کمیشن اس کی توضیح اس طرح کرتا ہے ’براؑعظمی سمندر، ساحل اور سمندر سے متعلق ہونے والی تمام معاشی سرگرمیاں نیلگوں معیشت کے زمرے میں آتی ہیں۔

یہ ایک دوسرے سے مربوط اور ابھرتے ہوئے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔‘ فطرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی غیرسرکاری ماحولیاتی تنظیم نزرویشن انٹرنیشنل کے مطابق ’نیلگوں معیشت میں وہ تمام معاشی فوائد بھی شامل ہیں جنہیں مارکیٹ نہیں کیا جاسکتا ، مثال کے طور پر کاربن کا ذخیرہ، ساحلی تحفظ، ثقافتی اقدار اور حیاتیاتی تنوع۔‘ کامن ویلتھ نیشن ( دولت مشترکہ اقوام) نیلگوں معیشت کو ’ایک ایسا ابھرتا ہوا نظریہ تصور کرتی ہے جو ہمارے سمندروں اور آبی وسائل کی بہتر اسٹیورڈ شپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘ امریکی ریاست کیلے فورنیا کے مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے زہراہتمام چلنے والے تحقیقی مرکز ’دی سینٹر فار دی بلیو اکانومی‘ کا کہنا ہے کہ ’نیلگوں معیشت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔

جس کے تین متعلقہ مگر جدا گانہ معنی ہیں، اول، معیشت میں سمندروں کا مجموعی حصہ، دوم، سمندروں کی ماحولیاتی سسٹینیبلیٹی کی ضروریات، سوم، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کے لیے سمندری معیشت سے بڑھوتری کے مواقع فراہم کرنا۔‘ ماحول پر انسانوں کے اثرات میں کمی اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کوشاں بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے نیلگوں معیشت پر ایک تفصیلی رپورٹ ’پرنسپلز فار ا ے سسٹین ایبل بلیو اکانومی‘ کے عنوان سے شایع کی، جس سے نیلگوں معیشت کی دو اصطلاحوں کا ادراک ہوتا ہے۔ کچھ کے لیے ’نیلگوں معیشت کا مطلب سسٹین ایبل معاشی بڑھوتری کے لیے سمندر اور ان کے وسائل کا استعمال ہے، کچھ لوگ اسے بحری شعبے میں ہونے والی معاشی سرگرمی سمجھتے ہیں چاہے وہ سسٹین ایبل ہو یا نہ ہو۔

The post بلیو اکانومی۔۔۔ سمندر سے جُڑی معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.

لوگ خیرات دیدیتے ہیں، ٹیکس نہیں دیتے

$
0
0

ملک کے موجوہ وزیر اعظم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تاسف بھرے لہجے میں کہا ’’لوگ خیرات دیدیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے‘‘ عوام نے ان کی اس بات کو بڑے ہلکے پھلکے انداز میں لیا۔

اکثریت نے کہا کہ ہمارا ٹیکس حکومتیں اور بیوروکریسی کھا جاتی ہے۔ ہمارے ٹیکس اور خون پسینے کی کمائی سے یہ لوگ اندرون اور بیرون ممالک عیش کرتے ہیں، جائیدادیں بناتے ہیں، رنگ رلیاں مناتے ہیں، اپنے بچوں کو بیرون ممالک تعلیم دلواتے ہیں، معمولی بیماریوں کا علاج بھی باہر سے کرواتے ہیں، ہمارے ہی ٹیکسوں کی رقم سے تھوڑے بہت ترقیاتی کام کروا کر احسان بھی ہم پر جتاتے ہیں ۔

کسی بھی ملک میں عوام کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی بڑی وجہ ملک میں قومی اجتماعی زندگی کا فقدان اور عوام کا اپنی حکومت اور قیادت پر عدم اعتماد ہے۔ یہ رجحان مثبت نہیں ہوتا اور اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں، آ ج تک کسی نے اس سنگین مسئلے کی جانب توجہ نہیں دی کہ ہماری قومی و مِلی اجتماعی زندگی زوال پذیر ہے، نفسانفسی، انفرادی زندگی اور خود غرضی کا رجحان بڑھ رہا ہے، اس کی تمام تر ذمہ داری ہماری لیڈرشپ اور سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستانی عوام کی شناخت ’’پاکستانی قوم ‘‘ کے طور پر اُبھری تھی۔ منزل ایک تھی۔ پہلی منزل پاکستان کا حصول اور دوسری منزل ملکی وقومی ترقی اور عوام کی خوشحالی تھی۔ مگر پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ قوم بکھرتی گئی اور کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ سقوط ڈھاکہ کا المیہ رونما ہوگیا۔ اجتماعیت کا خاتمہ ہوگیا، قوم گروہوں میں بِٹ گئی، مفادات کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی، گروہ اکٹھے کر کے ملک میں حکومت کرنے کا رجحان اور کلچر شروع ہوا، قومی سرمائے کی بندربانٹ شروع ہوگئی۔ ملک کی تقدیر بنے ہوئے ’’لیڈروں‘‘ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا اور یہ رقم اپنے ملک میں رکھنے کی بجائے بیرون ممالک بجھوا دی، بیرون ممالک بنکوں میں سرمایہ رکھا، جائیدادیں خریدیں، عیش وآرام کیا، عوام کی حالت ناگفتہ بہ ہو گئی۔

اس تمام تر صورتحال میں بھی عوام سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ اب بھی دل وجان سے ٹیکس دیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت عوام کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اب ان کی رقم اور ٹیکس کسی غلط جگہ خرچ نہیں ہوگا۔ عمران خان نے یقین دلانے کیلئے وزیر اعظم کے اخراجات میں 30% تک کمی کی ہے۔ علامت کے طور پر فالتو گاڑیاں اور بھینسیں فروحت کردی ہیں، فالتو عملہ دوسرے محکموں میں بھجوادیا ہے۔ پُرتعیش کھانوں کی بجائے مہمانوں کو صرف چائے او ر بسکٹ پیش کئے جا رہے مگر عوام کا یہ حال ہے کہ ’’دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ پھر لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ابھی تو خزانہ ہی خالی ہے، ہمارے ٹیکسوں اور خون پسینے کی کمائی سے اگر یہ بھر گیا تو کیاگارنٹی ہے کہ دوبارہ قومی سرمائے کی بندربانٹ نہیں ہوگی؟

قوم میں اجتماعی زندگی کا تصور صرف وہی’’راہنما‘‘ پیدا کر پاتے ہیں کہ جو اس کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں، ایسے راہنما اپنے کردار یا فعل سے عوام کو مایوس نہیں کرتے، یہ راہنما اپنی جھوٹی انا کے غلام نہیں ہوتے، دولت کی ہوس میں مبتلا نہیں ہوتے، صرف اپنے آپ یااپنے خاندان کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ عوام کے احساسات اور محسوسات کی زیادہ پرواہ کرتے ہیں۔ یہ ایسی پالیساں بناتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں حب الوطنی اور ملک کیلئے قربانی کے جذبات پیدا ہوں، یہ اپنے خاندان اور حواریوں کو نوازنے کی بجائے قومی فلاح وبہبود کے پروگرام بناتے ہیں، پاکستان میںقومی اجتماعی زندگی کا تصور ختم ہو کر انفرادی زندگیوں میں بدل گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب عوام کو ریاست کی طرف سے زندگیوں، علاج معالجہ، صحت اور روزگار کا تحفظ نہیں ہے۔

قومی اجتماعی زندگی کا تصور اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب راہنما اور ریاست ملک میں رہنے والے ہر فردکی زندگی، صحت، تعلیم، خوراک اور روزگار کی ذمہ داری لیتی ہے، قوم کو احساس دلاتی ہے کہ آ پ کا ٹیکس اور خون پسینے کی جو کمائی حکومتی سطح پر جمع کی گئی ہے وہ قوم کی اجتماعی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوگی، حکومتیں احساس دلاتی ہیں کہ آپ کے ٹیکس کی معمولی قوم سے بھی آپ کی اپنی انفرادی زندگی کو تحفظ حاصل ہوگا اور وقت پڑنے پر یہی رقم کئی گنا کرکے آپ پر خرچ کی جائے گی، ترقی یافتہ ممالک میں شہری اپنے ٹیکس کو ہی اپنی اصل ’’سیونگ‘‘ (جمع پونجی) سمجھتے ہیں کہ بوقت ضرورت ریاست ان کی ہر ذمہ داری پوری کرے گی۔

انفرادی طور پر خیرات اور صدقات دینے سے ہماری انفرادی زندگی کا پہلو سامنے آرہا ہے کہ لوگ اپنے طور پر صدقہ وخیرات کرکے عافیت اور دنیا سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں، عام تصور ہے کہ صدقہ وخیرات کا دس گنا اّجر دنیا میں اور ستر گّنا آخرت میں ملے گا۔ حالانکہ محض انفرادی صدقہ وخیرات اسلام کے مجموعی معاشی نظام کی ضِد ہے۔ اسلام میں خیرات صدقات اور زکواۃ کا بنیادی تصور یہی ہے کہ آپ کی زکوٰۃ پر پہلا حق آپ کے اُن عزیزوں، رشتہ داروں، ہمسایوں اور جاننے والوں کا ہے کہ جنہیں آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اسلام میں معیشت کا اجتماعی نظام بھی رائج رہا ہے اور آج بھی ہے کہ ریاست کے پاس بھی اتنا سرمایہ ہونا چاہیے کہ اجتماعی مفاد کے منصوبے بنائے جا سکیں اور اجتماعی طور پر لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جا سکے۔

پاکستانی حکمرانوں نے کبھی نہیں سو چا ہوگا کہ ان کی ہوس دولت اور مفادات نے قومی اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، عوام اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔ ملکی خزانے خالی ہیں۔ قرضوں کا نہ اترنے والا بوجھ چڑھ چکا ہے۔ پوری قوم عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہے، ترقیاتی کاموں کے معاملات میں بھی حکمرانوں کی ذاتی پسند و نا پسند نے عوام کو بیزار کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف اٹھارہ لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اُن میں بھی دس لاکھ ملازمت پیشہ افراد ہیں کہ جنہیں ٹیکس کاٹ کر باقی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، باقی کل 8 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ اعدادو شمار ٹھیک نہیں ہیں، اب تمام یوٹیلٹی بِِلوں کے ساتھ زبردستی ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں، جائیدادوں اور گاڑیوں کی خریدوفروخت میں بھاری ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ ضروریات زندگی کی تقربیاً ہر شے پر GST ) جنرل سیلز ٹیکس) اور دوسرے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں اور ٹیکسوں کا یہ بوجھ نادار عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ ماچس پر بھیGST لگا دیا گیا ہے۔ اس وقت صرف کھلی سبزی پھل اور دودھ دہی پر GSTٓ اور دوسرے ٹیکس نہیں ہیں وگرنہ پیکنگ والی تمام اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ GST کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی اور کئی د وسرے ٹیکس بھی اشیاء کی فروخت سے پہلے ہی وصول کر لئے جاتے ہیں ۔ اگر بلاواسطہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد دیکھیں تو پورا ملک ہی ٹیکس گزار ہے۔

بجلی چوری اور ٹیکس چوری کے طریقے متعلقہ محکموں کے بددیانت افسران اور اہلکار ہی بتاتے ہیں بلکہ مجبور کرتے ہیں جو ان کے ساتھ تعاون نہ کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اب پاکستان کا تجارتی کلچر ہی ٹیکس چوری اور’’باہمی تعاون‘‘کی بنیادوں پر قائم ہے، ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے مقابلہ ہی نہیں کر سکتے، ایک ماہراقتصادیات کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کے نظام کی حالت بہت خراب ہے، کم ازکم چالیس برسوں سے ٹیکس چوری کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے اور اس کے ذمہ دار متعلقہ افسران اور اہلکار ہیں جو تاجروں اور صنعتکاروں کو ٹیکس چوری کا مشورہ اور ترغیب دیتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے تاجروں اور صنعتکاروں کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جو ٹیکس بجلی اورگیس چوری کر کے کس قدر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اقتصادیات کے اس ماہر کا کہنا ہے کہ وطنِِِِ عزیز پاکستان میں تاجر وں اور ایف بی آر کے افسران اور ملازمین کی خوشحالی کی اصل وجہ ہی باہمی تعاون ہے،

انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ تاجروں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے افسران اور ملازمین کا بھی احتساب ہونا چاہیے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے ملک میں عام افراد بھی جائیدادوں کی انتہائی کم مالیت ظاہر کر کے رجسٹریاں کرواتے ہیں جس سے حکومت کو ہر سال کم ازکم 20 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، ظاہر ہے یہ کام بھی مِلی بھگت سے ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپریزمنٹ کسٹمکے افسران کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ دیکھیں جائیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے، یہ وہ افسران ہیں کہ جو درآمدشدہ مال کی انتہائی کم ڈیوٹی لگا کر درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچاتے ہیں، انھیں تو مالی فائدہ ہو جاتا ہے مگر حکومت کو اس مَد میں بھی اربوں روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ یہی حال واپڈا اور گیس کے افسران اور اہلکاروں کا ہے، سب کو معلوم ہے کہ ان سرکاری ملازمین کی خوشحالی کی اصل وجہ کیا ہے مگر آج تک ان سے نہیں پوچھا گیا کہ ’’آپ ذرائع آمدن سے بڑھ کر پُر تعیش زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟‘‘

ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ میاں برادران، جہانگیرترین، علیم خان اور دوسرے تمام سیاستدانوں سے تو تفتیش ہو رہی ہے کہ ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ کی کیا وجہ ہے مگر ابھی تک اُن سرکاری اہلکاروں کو گرفتار نہیں کیا گیا جو ٹیکس، بجلی اور گیس چوری میں ان کے سہولت کار اور معاون تھے۔ اس لحاظ سے کرپشن کے خلاف یہ مہم صرف سیاسی عناد ہے اور سیاسی فائدے کیلئے ہے وگرنہ اگر مقصد کرپشن کی روک تھام ہوتا تو ان سیاسی افراد کے سرکاری سہولت کاروں کو پہلے پکڑا جاتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی افراد براہ راست کرپشن، کمیشن یارشوت میں عموماً ملوث نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر ٹیکس ، بجلی اور گیس چوری کرتے ہیںاور دوسری مراعات حاصل کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب مِل ملا کر ہوتا ہے اگر موجودہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ بدعنوانی کے خلاف واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ان کے سہولت کار بدعنوان سرکاری عناصر پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین موجودہ وزیراعظم عمران خان کی اس نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کہ وہ واقعی بدعنوانی کے خاتمے کے خواشمند ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیںآرہا کہ اس عفریت کا مقابلہ کیسے ممکن ہے۔ ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری ہمارے تجارتی کلچرکا سب سے اہم حصّہ اور جّزو ہے اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اب اسے اکھاڑنا مشکل نظر آتا ہے مگر ارادہ پُختہ ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے۔

پیچیدہ نظام ٹیکس
ماہرین ٹیکس کا کہنا ہے کہ ریاست کے ’’معاشی بقراطوں‘‘ نے ٹیکس کا نظام اس قدر پیچیدہ کردیا ہے کہ عام لوگ اس نظام میں داخل ہوتے ہوئے ہی ڈرتے ہیں ۔ ایک بنک آفیسر نے کہا کہ میری تنحواہ میں سے باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس منہا کیا جاتا ہے ۔ 4 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی والے تمام تنخواہ دار افراد کی تنخواہ کے ساتھ ہی مختلف شرح سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ مگر ہم لوگ GST اور دوسرے ٹیکسز بھی ادا کرتے ہیں ۔ اب ٹیکس نظام کے مطابق ہم اپنے گوشواروں میں دہرے ٹیکسوں کا اندراج کرکے ریفنڈ مانگ سکتے ہیں مگر جب ہم لوگ ریفنڈکا کلیم کرتے ہیں تو ایک نیا ’’پنڈورابکس‘‘کھل جاتا ہے، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔ دنیا میں ٹیکس نظام کو اتنا آسان بنایا جاتا ہے کہ عام لوگ باآسانی ٹیکس نیٹ ورک میں آجاتے ہیں، یہاں عام لوگ تو درکنار ماہر اقتصادیات بھی اس نظام کو نہیں سمجھ پا رہے۔

ٹیکس وصول کرنا غیر اسلامی نہیں ہے
ایک مشہور عالم دین اور صوفی بزرگ اپنے مریدین کو اکثر یہ کہتے تھے کہ ٹیکس چوری جائز ہے کیونکہ اسلام میں زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ کسی اور ٹیکس کا تصور نہیں ہے۔ انھیں شائد اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسلامی ریاست کی وسعت پذیری کے ساتھ دوسرے ٹیکسز کا نظام قائم کر دیا گیا تھا، پہلے حضرت عمرِ فاروقؓ نے باقاعدہ دوسرے ٹیکسز کاآغاز کیا ۔ پھر دوسرے مسلمان حکمرانوں نے بھی اس ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ کیا۔ ریاست کی ضروریات کے مطابق ٹیکس لگانا ضروری ہوتے ہیں، اصل مسئلہ ٹیکسوں کو جائز اور مساوی طریقے سے عوام پر خرچ کرنا ہے۔

بڑے سرمایہ کار ملازمت پیشہ افراد سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں
ایف بی آر نے ایسے دوہزار متمول افراد کی تفصیلی جانچ پڑتال کیلئے نوٹس جاری کردیئے ہیں کہ جن کے ماہانہ اخراجا ت کروڑوں میں ہیں۔ مگر وہ معمولی سا ٹیکس ادا کر رہے ہیں، حالانکہ ایسے افراد کی تعداد کم ازکم 32 ہزار ہے جو اپنی اصل آمدنی کے مقابلے میں کئی سو گنا کم آمدنی ظاہر کر کے چند ہزار روپے میں ٹیکس ادا کرتے ہیں، ایف بی آر کے ایک ریٹائر اعلی افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑی لگژری رہائش گاہوں (1000گز کورڈ ایریا )کی تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ان رہائش گاہوں اور ان کے مکینوں کے ماہانہ اخراجات ان کا شاہانہ رہن سہن بیرون ممالک سیروتفریح، بچوں کا غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنا ہوٹلنگ اور فنکشنز دیکھے جائیں تو آمدنی کا فوراً اندازہ ہو جاتا ہے مگر یہ لوگ تنحواہ دار افراد سے کہیں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ انھوں نے تاسف سے کہا کہ ٹیکس چوری کے طریقے خود ایف بی آر کے افسران اور ملازمین بتاتے ہیں۔

The post لوگ خیرات دیدیتے ہیں، ٹیکس نہیں دیتے appeared first on ایکسپریس اردو.

سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکوں کے مجرم کیسے رہا ہوئے؟

$
0
0

’’مجھے کون بتائے گا کہ میرے پانچ بچوں کا قاتل کون ہے؟ اس عدالتی فیصلے نے تو مجھے مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ حد یہ ہے کہ مجھے عدالت میں گواہی کے لیے نہیں بلایا گیا۔ افسوس کہ انسانیت سے میرا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔‘‘

بھارت کے مشہور اخبار، انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار کو یہ باتیں اکسٹھ سالہ رانا شوکت علی نے فون پہ آنسو بہاتے ہوئے بتائیں۔ اوائل جنوری 2007ء میں فیصل آباد کا رہائشی رانا شوکت بیوی بچوں کے ہمراہ نئی دہلی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا تھا۔ وہاں انہوں نے خوب مزے سے وقت کاٹا اور ہلہ گلہ کیا۔ وہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے واپس وطن آرہے تھے کہ ان کی بوگیوں میں بم دھماکے ہوگئے۔

دھماکوں میں رانا شوکت کے پانچ معصوم بچے شہید ہوگئے۔ اس دلدوز سانحے نے اس کی ہنستی بستی زندگی اجاڑ ڈالی۔رانا شوکت آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ وہ روتے ہوئے کہتا ہے ’’ہندو ہوں یا مسلمان، بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ مگر حیوانوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔ مجھے تو یہی لگتا  ہے کہ بم دھماکے کرنے والے سنگدل اس دنیا میں سزا سے بچ جائیں گے۔‘‘

دراصل 20مارچ 2019کو بھارت کی خفیہ ایجنسی، این آئی اے (نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی) کی ایک خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس میں بم نصب کرنے والے انتہا پسندوں کو رہا کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ دہشت گردوں کا لیڈر، سوامی آسیمانند ماضی میں کئی بار اپنے جرم کا اقرار کرچکا ۔ ملزموں کے خلاف کیس بھی مضبوط تھا۔ لیکن مودی سرکار کے دباؤ کی وجہ سے این آئی اے نے کیس اتنا کمزور کردیا کہ خصوصی عدالت نے آخر کار ملزمان کو رہا کر ڈالا۔حقائق سے آشکارا ہے،  یہ رہائی حقیقتاً مودی حکومت اور این آئی اے کے افسروں کی ملی بھگت کا نتیجہ  ہے۔یہ مقدمہ دس برس سے زائد عرصے چلتا رہا مگر سانحے کے متاثرین کو انصاف نہ مل سکا ۔اب تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو چکے۔

انصاف کا خون

اس رہائی نے مگررانا شوکت جیسے ان گنت پاکستانیوں کو سخت دکھ و غم میں مبتلا کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے مودی سرکار نے دن دیہاڑے قانون اور انصاف کا قتل کرڈالا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اصول پسند، دیانتدار اور سچا لیڈر ثابت کریں لیکن سمجھوتہ ایکسپریس میں ستر انسانوں کے قاتلوں کی رہائی نے ایک بار پھر دنیا والوں پر ان کا اصل مکروہ چہرہ عیاں کردیا۔ وہ جان گئے کہ نریندر مودی دراصل ایک متعصب اور قوم پرست لیڈر ہے جو اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر قانون و انصاف کو بھی پیروں تلے روند ڈالتا ہے۔اسی دوران یہ بھی افشا ہوا کہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرانے کے سلسلے میں مودی حکومت اور بھارتی فضائیہ نے جھوٹ بولا۔یوں عالمی سطح پر مودی سرکار کو خفت وبدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

بھارتی حکمران طبقہ اپنے ملک بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر مودی دور حکومت میں یہ مملکت بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک دیوہیکل قید خانے کی حیثیت اختیار کرچکی۔ افسوس کہ بھارت نواز مغربی میڈیا یہ سچائی بہت کم بیان کرتا ہے۔ وجہ یہی کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی و مشرقی ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی و تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ وہ ان مفادات کی خاطر مودی حکومت پر تنقید کرکے اسے ناراض نہیں کرسکتے۔ یہ عالمی سپرپاورز کی حد درجہ منافقت ہے۔ایک طرف بھارت میں قوم پرست تنظیموں کے دہشت گرد عدالتوں سے رہائی پارہے ہیں مگر عالمی طاقتیں خاموش ہیں۔

دوسری طرف ایف اے ٹی ایف اور سکیورٹی کونسل جیسے اداروں کے ذریعے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں سرگرم مسلح تنظیموں کی حامی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالمی سپرپاورز کی نظر بھارت کی ان سیاسی و سماجی تنظیموں پر کیوں نہیں پڑتی جن کے دہشت گرد بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھارہے ہیں؟ یہ رویّہ عالمی سپرپاورز کی منافقت اور دوہرا معیار افشا کرتا ہے۔

نفرت کی فصل

تاریخ دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سوامی دیانند سرسوتی پہلا ہندوستانی لیڈر ہے جس نے مذہبی تعصب کی بنا پر تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا۔ یہ لیڈر سمجھتا تھا کہ ہندوستان میں آباد بیشتر مسلمان ہندوؤں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا اس نے مسلمانوں کو زبردستی سے دوبارہ ہندو بنانے کے لیے 1877ء میں ’’شدھی تحریک‘‘ کا آغاز کیا۔ 1881ء میں گائے کی حفاظت کے لیے ’’گؤ رکھشا تنظیم‘‘ قائم کی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین لڑائی جھگڑے شروع کرنے میں ان دونوں تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا۔

سوامی دیانند سرسوتی، بنکم چٹرجی، سوامی ویویکانند، بال گنگا دھرتلک وغیرہ کے نفرت و تعصب پر مبنی نظریات سے متاثر ہو کر عام ہندو مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ یہ دشمنی رفتہ رفتہ اتنی بڑھی کہ وہ دہشت گرد بن کر اقلیتی مسلمانوں پر حملے کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے بیسویں صدی ہندو مسلم فسادات کے خوفناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات میں دہشت گردوں نے لاکھوں مسلمان شہید کردیئے۔بیسویں صدی میں مغربی استعماری قوتیں آپس ہی میں لڑنے مرنے کے باعث کئی اسلامی ممالک کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ لیکن فلسطین اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود غیر مسلم طاقتوں کے غلام بنے رہے۔ جب ان علاقوں میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں تو مجاہدین کو ’’دہشت گرد‘‘ بنا دیا گیا۔

تقسیم ہند کے بعد بھارت میں جو بھی حکومت آئی، اس نے بھارتی مسلمانوں سے کی معاشی، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی ترقی کے لیے بہت کم اقدامات کیے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی مسلمان بھارت کی سب سے پسماندہ  قوم بن گئے۔ 2014ء میں جب نریندر مودی کی زیر قیادت قوم پرست ہندو برسراقتدار آئے تو بھارتی مسلمانوں کو مذہبی تعصب کا بھی شکار ہونا پڑا جس کی لرزہ خیز تفصیل سے قارئین آگاہ ہوں گے۔2002ء میں بطور وزیراعلیٰ گجرات، نریندر مودی نے گجراتی مسلمانوں کی نسل کشی میں حصہ لیا تھا۔ اس نسل کشی کے ردعمل میں بعض جوشیلے بھارتی مسلم گروہوں نے بھارتی حکومت کی تنصیبات کو  نقصان پہنچایا۔

حکومت اور قوم پرست بھارتی مل کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہے تھے اور ان کی تمنا تھی کہ مسلمان چوں بھی نہ کریں… یہ کیسے ہوسکتا تھا؟جب بعض مسلم گروہوں نے مندروں کو بھی نشانہ بنایا، تو بھارتی قوم پرست انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔ انہوں نے ’’بم کا بدلہ بم‘‘ کا نعرہ لگانے شروع کردیا۔ چناں چہ ’’سنگھ پریوار‘‘ میں شامل جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں سے مطالبہ کرنے لگے کہ انہیں بھی مسلمانوں اور مساجد پر بم دھماکے کرنے کی اجازت دی جائے۔

یاد رہے، بھارت میں جو سیاسی و سماجی جماعتیں اور تنظیمیں ’’نظریہ ہندتوا‘‘ یا بھارت کو ہندو ریاست میں ڈھالنے والے پروگرام پر یقین رکھتی ہیں، ماہرین سیاسیات انہیں ’’سنگھ پریوار‘‘ کی چھتری تلے جمع کرتے ہیں۔ ان جماعتوں میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو مہاسبھا، شیوسینا سب سے نمایاں ہیں۔ ان جماعتوں کے لاکھوں کارکن پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی انتہا پسند یا شدت پسند کے زمرے میں شامل ہیں۔ یہی انتہا پسند اقلیتوں پر حملے کرنے سے دہشت گرد بھی بن جاتے ہیں۔

ایک انتہا پسند کی کہانی

بھارتی مسلمانوں پر بم حملوں کی تمنا کرنے والے قوم پرست لیڈروں میں سوامی آسیمانند بھی شامل تھا۔ یہ آر ایس ایس کا ایک بااثر رہنما تھا۔ اس کی داستان زندگی عیاں کرتی ہے کہ ایک عام بھارتی رفتہ رفتہ انتہا پسند اور پھر دہشت گرد کیسے بن جاتا ہے۔آسیمانند کا اصل نام نابھ کمار سرکار ہے۔ وہ 1952ء میں مغربی بنگال کے شہر، کمرپکار میں پیدا ہوا۔ باپ کانگریس سے منسلک تھا مگر خاندان بہت غریب تھا۔ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی اور تن ڈھاننپے کی خاطر کپڑا بہ مشکل ہی میسر آتا۔ آسیمانند نے ہوش سنبھالا، تو وہ ٹیوشنیں پڑھا کرتعلیم حاصل کرنے لگا۔

لڑکپن میں آسیمانند آر ایس ایس کا رکن بن گیا۔ جب ایم ایس سی کرلیا تو اس نے اپنے آپ کو ہندومت کی تبلیغ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے سوامی ویویکانند کے ایک قول کا ہاتھ تھا۔ قول یہ ہے: ’’جب کوئی ہندو مسلمان یا عیسائی ہوجائے، تو یوں نہ صرف ہم میں سے ایک ہندو کم ہوتا ہے بلکہ ہمارا ایک اوردشمن پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘ چناں چہ آسیما نند نے اپنی زندگی کا مشن یہ بنالیا کہ ہندوؤں کے دشمن کم سے کم کیے جائیں۔

سوامی آسیما نند پھر ان علاقوں میں جانے لگا جہاں عیسائی اور مسلمان مبلغ اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ کر رہے تھے۔ آسیما نند کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ انتظامیہ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ لہٰذا سرکاری افسر آسیما نند کو ہر ممکن سہولت و مدد فراہم کرتے تاکہ وہ قبائلیوں ‘ جنگلیوں ‘ دلتوں اور دیگر پسماندہ اقدام میں ہندو مت کا پرچار کر سکے۔اپنے جوش و جذبے اور مذہبی جنون کے سبب آسیما نند جلد ہی مشہور و معروف پرچارک (مبلغ ) بن گیا۔

آسیمانند خصوصاً جزائر نکوبار وانڈیمان ‘ کیرالہ‘ چھتیس گڑھ اور گجرات میں ہزار ہا قبائلیوں کو ہندو بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کامیابی کے سبب اسے سنگھ پریوار میں بہت عزت و احترام سے دیکھا جانے لگا۔ 2006ء میں آسیمانند نے گجرات کے ضلع ڈینگ میں ایک بہت بڑے آشرم کی بنیاد رکھی۔ اس کے افتتاح میں وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی بھی شریک تھے۔قبائلیوں اور جنگلیوں میں اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہوئے آسیما نند کبھی ترغبیب و تحریض سے مدد لیتا۔ انہیں ضروریات زندگی مثلاً آٹا‘ سبزی‘ دوا مفت دی جاتی تاکہ انہیں اپنے جال میں پھانسا جا سکے۔ کبھی وہ ڈرانے دھمکانے حتیٰ کہ تشدد کرنے سے بھی کام لیتا۔

تشدد کا ہتھیار

1997ء میں آسیما نند ضلع ڈینگ،گجرات پہنچا۔ تب ضلع  میں عیسائی مشنری بہت متحرک تھے۔ ان کی تبلیغ سے ہر مہینے ہزار ہا قبائلی عیسائی ہو رہے تھے۔ ضلع میں کئی چرچ بن گئے تھے۔ جب آسیمانند نے وہاں ہندومت کے پرچار کا آغاز کیا تو اسے آغاز میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ناکامی نے اسے غصّے سے بھر دیا۔آسیما نند پھر گجرات حکومت کے متعصب سرکاری افسروں کی مدد سے قبائلیوں کو خوفزدہ کرنے لگا۔ انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر وہ ہندو نہ ہوئے تو ان کو حاصل سرکاری مراعات ختم کر دی جائیں گی۔ نیز سرکاری ٹیکس دوگنا لیاجائے گا۔ یوں قبائلیوں کے مابین خوف و دہشت پھیلا کر آسیما نند بہت سے مقامی لوگوں کو ہندو بنانے میں کامیاب رہا۔ کئی دیہات میں اس نے چرچ بھی ڈھا دیئے اور وہاں عارضی مندر بنا ڈالے۔

تاہم سوامی آسیما نند کی کارروائیاں پوشیدہ نہیں رہ سکیں اور عالمی میڈیا یہ خبریں چھاپنے لگا کہ بھارتی ریاست گجرات میں ہندو پرچارک خوف و تشدد پھیلا کر عیسائی قبائلیوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں۔ ان خبروں کے بعد امریکا‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ گجرات میں اپنے انتہا پسندوں کی سرگرمیاں روکنے کا بندوبست کرے۔

اسی زمانے میں بی جے پی کے رہنما‘ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ وہ گجرات آئے اور مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ چرچوں کی حفاظت کی جائے۔ تاہم وہ بھی آسیما نند کی کھلے عام ڈانٹ ڈپٹ نہیں کر سکے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی سینئر رہنما درپردہ آسیما نند کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ اس کی سرگرمیوں کو سراہتے تھے۔غرض ہزار ہا بھارتیوں کو ہندو بنا لینے کے باعث سوامی آسیما سنگھ پریوار میں نامی گرامی شخصیت بن گیا۔ خاص طور پر وہ نریندر مودی کی طرح ایسا عملی آدمی سمجھا جانے لگا جو کام مکمل کر نے کے لیے دنگا فساد سے بھی پرہیز نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے‘ سنگھ پریوار میں شامل انتہا پسند بھارتی اسے اپنا ہیرو سمجھنے لگے۔ رفتہ رفتہ آسیما نند کے گرد ایسا حلقہ بن گیا جس میں شامل بیشتر نوجوان انتہا پسند تھے۔ وہ ہر قیمت پر اندرون و بیرون ملک اپنے مذہب کا بول بالا کرنا چاہتے تھے چاہے اس کے لیے تشدد ہی کا سہارا لینا پڑے۔

بم کا بدلہ بم

سنگھ پریوار کے انتہا پسند مسلمانوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ انہیں متعصب ہندو مورخین کے اس پروپیگنڈے پر یقین ہے کہ مسلمان حکمران ماضی میں غیر مسلم رعایا پر ظلم وستم ڈھاتے رہے۔ لہٰذا اب وہ حکمران بن کر مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ انتہا پسند اسی ذہنیت اور طرز فکر کے باعث مسلمانان بھارت سے نفرت کرتے‘ انہیں ہر ممکن طریقے سے ستاتے اور قتل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ ان کی خواہش بن چکی کہ بھارتی مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیا جا ئے اور وہ کھل کر اسلامی اقدار‘ روایات اور رسومات پر عمل نہ کرسکیں۔

یہی وجہ ہے ‘ جب فروری 2002ء میں گودھرا ریلوے اسٹیشن ‘ گجرات پر سنگھ پریوار کے کارکنوں اور مقامی مسلمانوں کے مابین لڑائی ہوئی تو اسے بہانہ بنا کر وزیراعلیٰ نریندر مودی نے مسلمانوں کی نسل کشی کا حکم دے دیا۔ اگلے تین ماہ تک سنگھ پریوار کے دہشت گردوں اور غنڈوں نے ریاست میں ہزار ہا مسلمان شہید کر دیئے۔ خوف و دہشت کی ایسی فضا تخلیق کی گئی کہ مسلمانان گجرات الگ تھلگ بستیوں میں جانوروں کی طرح رہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس قتل عام میں آسیما نند نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔ اس نے2011ء میں بھارتی رسالے‘ کاروان سے منسلک صحافی لینا گپتا کو فخر سے بتایا تھا’’میںنے اس وقت ضلع ڈینگ میں سبھی مسلمانوں کا صفایا کر ڈالا۔ ضلع میں ایک مسلمان بھی نہ رہا‘ سبھی دوسرے اضلاع میں فرار ہو گئے۔ اب کوئی مسلمان ضلع ڈینگ آنے کی ہمت نہیں کر سکتا‘‘۔

گجرات فسادات کے بعد  بعض مندروں اور دیگر بھارتی مقامات پر بم دھماکے ہوئے۔ بھارتی حکومت نے الزام لگایا کہ شدت پسند مسلمانوں کی تنظیمیں یہ بم دھماکے کر رہی ہیں۔ اسی پروپیگنڈے نے سوامی آسیما نند اور اس کے حلقے میں شامل انتہا پسندوںکو اشتعال دلا دیا۔ انتہا پسندوں میں اس سوچ نے جنم لیا کہ بھارتی حکومت تو اپنے مفادات کے باعث جوابی وار نہیں کر سکتی لیکن ان کے ہاتھ پاؤں تو نہیں بندھے۔ لہٰذا انہیں بھی مسلمانوں پر حملے کر کے جواب دینا چاہیے۔

 لیڈروں اور جرنیلوں کا ساتھ

یہ اکتوبر 2005ء کی بات ہے کہ آر ایس ایس کے اہم لیڈر موہن بھگوت اور اندریش کمار سوامی آسیما نند سے ملنے گجرات آئے۔ سوامی نے ان کے سامنے اپنا یہ منصوبہ رکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت مساجد اور مسلمانوں کی دیگر جگہوں پر بم دھماکے کرنا چاہتے ہیں۔ آسیما نند نے لینا گپتا کو بتایا:’’موہن بھگوت اور اندریش کمار دونوں کو ہمارا منصوبہ پسند آیا۔ وہ بھی ہمارے اسی خیال سے متفق تھے کہ مسلمانوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے تاکہ انہیں سبق سکھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم منصوبے کے سلسلے میں ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارا نام نہیں آنا چاہیے۔ ہم نے ہامی بھر لی‘‘۔

موہن بھگوت اور اندریش کمار سنگھ پریوار کے نامی گرامی رہنما تھے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایئے کہ موہن بھگوت بعد میں آر ایس ایس کا پرمکھ (سربراہ ) بن گیا۔ چنانچہ دونوں اہم رہنماؤں کی حمایت پا کر آسیما نند اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ بم بنانے کے لیے مسالا کہاں سے آئے؟ آر ایس ایس 1932ء سے ناسک‘ مہاراشٹر میں ’’بھونسلا ملٹری اسکول‘‘ چلا رہی ہے۔ ہر سال اس سکول سے جنگی تربیت پائے ہوئے طالبعلم بھارتی فوج کا حصہ بنتے ہیں۔ عام طور پر یہ فوجی بھی نظریہ ہندتوا پر یقین رکھتے ہیں۔ بم بنانے کے لیے آر ایس ایس نے انہی قوم پرستوں فوجی ا فسروں سے رابطہ کر لیا۔ ان افسروں کے حلقے میں جنرل‘ بریگیڈیئر‘ کرنل اور دیگر اعلیٰ رینک کے فوجی شامل ہیں۔ان فوجی افسروں نے اپنے حلقے میں شامل اور ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر‘ لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سوامی آسیما نند اور اس کے ساتھیوں کو آر ڈی ایکس مادہ فراہم کر دے۔ یہ ایک دھماکہ خیز مادہ ہے جو ٹی این ٹی کے ساتھ مل کر بم بنانے میں کام آتا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل پروہت نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر جموں و کشمیر فوجی ڈپو سے 60 کلو آر ڈی ایکس حاصل کر لیا۔

اب بھونسلا ملٹری سکول میں بھارتی فوج کے حاضر و سابق فوجی افسر آر ایس ایس کے دہشت گردوں کو بم بنانے اور چلانے کی تربیت دینے لگے۔ ان دہشت گردوں کی تعداد پچاس سے سو کے مابین  بتائی جاتی ہے۔ تربیت پا کرانہوں نے 2006ء سے 2008ء تک بھارت کے مختلف مقامات پر بم دھماکے کیے۔ ان کی دہشت گردی کا نشانہ معصوم اور نہتے بھارتی مسلمان تھے۔ شروع میں دہشت گردوں کی ناتجربے کاری کے باعث بم دھماکے جانی  نقصان نہیں کر سکے لیکن بعدازاں وہ خوفناک ثابت ہوئے۔ ان دہشت گردوں نے جوواقعات انجام دیئے‘ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

٭… 8 ستمبر 2006ء … مالیگاؤں، مہاراشٹر کی مسجد میں بم دھماکے۔ 40 مسلمان شہید، سوا سو زخمی۔

٭… 18 فروری 2007ء سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے۔ 70 شہید، سینکڑوں زخمی۔

٭… 18 مئی 2007ء ۔۔۔۔ مکہ مسجد، حیدر آباد دکن میں بم دھماکہ۔ 16 شہید، 100 زخمی۔

٭… 11 اکتوبر 2007ء … اجمیر شریف درگاہ میں بم دھماکہ۔ 20 شہید، 17 زخمی۔

٭… 29 ستمبر 2008ء۔۔۔۔ مالیگاؤں، مہاراشٹر کی مسجد میں بم دھماکہ، 9 شہید، 8 زخمی۔

٭… 29 ستمبر 2008ء۔۔۔۔ موڈاسا، گجرات میں بم دھماکہ، 1 شہید، کئی زخمی۔

ایک فرض شناس پولیس افسر

مسلمانوں پر بم حملوں کا یہ سلسلہ شاید مزید جاری رہتا مگر بمبئی پولیس کا ایک فرض شناس پولیس افسر، ہیمنت کرکرے دہشت گردوں کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ وہ یہ جاننے میں کامیاب رہا کہ آر ایس ایس اور دیگر قوم پرست تنظیموں کے قائدین کی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی جاری ہے۔ ہیمنت کرکرے مہاراشٹر میں انسداد دہشت گردی کے ادارے کا سربراہ تھا۔اس نے بم دہماکوں میں ملوث دہشت گرد گرفتار کر لیے جن میں ایک خاتون، سدھوی پرگیا سنگھ بھی شامل تھی۔

14 نومبر 2008ء کو ادارے کے افسر سوامی دیانند پانڈے کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے قبضے سے ایک لیپ ٹاپ برآمد ہوا جس میں آر ایس ایس کے لیڈروں کی گفتگو ٹیپ محفوظ تھی۔ انہی ٹیپوں سے انکشاف ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے بنانے  میں ہندو قوم پرست تنظیموں کے نامی گرامی لیڈر، اعلیٰ فوجی افسر، پولیس افسر اور سرکاری افسر شریک ہیں۔ ڈی آئی جی ہیمنت کرکرے نے ان سب لوگوں کے نام طشت ازبام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ہیمنت کرکرے کی تفتیش اور پھر نام سامنے لانے کے فیصلے نے بھارتی فوج، پولیس، بیورو کریسی اور قوم پرست جماعتوں کے اندر ہلچل مچادی۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ ہیمنت کرکرے کے انکشافات سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوگی اور بھارتی قوم پرست دہشت گرد قرار پائیں گے۔ اسی لیے کرکرے کو قتل کرنے کی سازش بنائی جانے لگی۔ اسی سازش کے ذریعے 26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔

یہ سازش بھارتی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کا مشترکہ ’’کارنامہ‘‘ تھی۔ دہشت گردی کے اس واقعے سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ دو بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اول ہیمنت کرکرے کا خاتمہ۔ دوم کرکرے کی تفتیش سے بھارتی قوم پرستوں کے خلاف جو ماحول بن گیا تھا، اسے ختم کردینا۔ اضافی فائدے یہ ملے کہ پاکستانی تنظیمیں لشکر طیبہ اور جیش محمد دہشت گرد تنظیمیں قرار پائیں اور پاکستان بھی دنیا بھر میں بدنام ہوگیا۔

مودی حکومت کا ’’کارنامہ‘‘

واقعہ 26/11 کے بعد بھارتی قوم پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف جاری تفتیش تقریباً ختم ہوگئی۔ 2010ء میں اسے این آئی اے کے سپرد کردیا گیا۔ کانگریسی لیڈروں کی کرپشن کے باعث 2014ء میں شدت پسند نریندر مودی کی زیر قیادت قوم پرست پھر برسراقتدار آگئے۔ حکومت سنبھالتے ہی نریندر مودی نے بیوروکریسی کو حکم دے دیا کہ جن ہندو قوم پرستوں پر مقدمے چل رہے ہیں، انہیں رہا کرانے کی ہر ممکن ترکیب اختیار کی جائے۔یوں مودی سرکار قانون و انصاف کو دھڑلے سے یوں پیروں تلے روندنے لگی جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔

روہنی سیلین (Rohini Salian) ممبئی کی مشہور وکیل ہے۔ وہ عدالت میں مالیگاؤں بم دھماکوں کا مقدمہ لڑرہی تھی۔ مقتول ہیمنت کرکرے صرف دوماہ کی قلیل مدت میں بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انہی کی مدد سے 2010ء میں آسیمانند کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔مودی حکومت آئی، تو روہنی سیلین پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ قوم پرستوں کے خلاف کیس کمزور کردے۔ وہ مضبوط کردار کی عورت تھی۔ لہٰذا روہنی میڈیا کے سامنے یہ انکشاف لے آئی کہ مودی حکومت کس قسم کا  گھٹیا دباؤ ڈال رہی ہے۔

بھارتی عدلیہ اور بیوروکریسی میں مگر بیشتر بھارتی جج، وکلا اور سرکاری افسر مودی حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنے لگے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی دل سے بھارت کو ہندو مملکت میں بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چار برس کے دوران بھارتی عدالتوں نے بیسیوں قوم پرست دہشت گردوں کو ’’بے گناہ‘‘ قرار دے کر رہا کردیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں آسیمانند اور دیگر دہشت گردوں کی رہائی اسی منصوبے کی حالیہ کڑی ہے۔ان بھارتی دہشت گردوں نے جو بم دھماکے کیے تھے، پولیس نے انہیں انجام دینے کا الزام مسلم نوجوانوں پر تھوپ دیا تھا۔ ان نوجوانوں کو پھر جیلوں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں بعض مسلمان آج بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں، جبکہ قوم پرست دہشت گرد رہائی پاکر دندناتے پھرتے ہیں۔ جو دہشت گرد گرفتار ہیں، انہیں بھی قید میں ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں اور وہ آرام و آسائش میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے حوصلے بلند

مودی حکومت کی مسلم دشمنی، بے غیرتی اور ڈھٹائی کا اندازہ اس سچائی سے لگائیے کہ جب خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے دہشت گردوں کو رہا کیا، تو فخریہ یہ اعلان کیا گیا، مودی حکومت اعلیٰ عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گی۔ غرض مودی حکومت علی الاعلان دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اس طرح ہندو قوم پرستوں کو پیغام دے دیا گیا کہ وہ اقلیتی اقوام پر جتنا مرضی ظلم و ستم کریں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔2007ء میں جب سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ رونما ہوا، تو وکاش نارائن راؤ ہریانہ پولیس کے سربراہ تھے۔ انہوں نے کیس حل کرنے میں ذاتی دلچسپی لی اور پتا چلا لیا کہ ریل میں بم دھماکے کسی بھارتی قوم پرست گروہ نے کیے ہیں۔

بعدازاں اس گروہ کو ہیمنت کرکرے نے طشت ازبام کیا۔آسیمانند اور دیگر دہشت گردوں کی حالیہ رہائی کے بعد وکاش نارائن نے بھارتی اخبار، انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’این آئی اے کے وکلا نے ملزمان کے خلاف دانستہ کیس کمزور کردیا۔ اس لیے خصوصی عدالت کے جج کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ مالیگاؤں، مکہ مسجد اور اجمیر شریف میں ایک ہی گروپ نے بم دھماکے کرائے۔ لیکن سرکاری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کوتاہی کے باعث گروپ کے کارندے عدالتوں سے رہائی کے پروانے پارہے ہیں۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی میڈیا نے سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کرنے والے شدت پسندوں کی رہائی پر کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی بھارتی حکومت و عدلیہ کو مطعون کیا جا سکا۔ کوئی پاکستانی عدالت ان ملزموں کو رہا کردیتی تو مغربی میڈیا یہ خبر خوب اچھالتا اور پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست ملک قرار دیتا۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ مغربی میڈیا انتہائی یک رخا اور منافق ہے۔بھارت میں الیکشن ہو رہے ہیں۔اگر مودی سرکار پھر برسراقتدار آگئی تو یہ یقینی ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مزید کارروائیاں کرے گی۔ بھارت اور جنوبی ایشیا میں نفرت وتعصب پھیلائے گی تاکہ اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کر سکے۔اس نفرت انگیز ماحول میں خصوصاً بھارتی انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔وہ تب

بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں تیز کر دیں گے۔ممکن ہے کہ خاص طور پہ جن علاقوں میں مسلمان بہت کم ہیں،وہ اپنا مذہب پوشیدہ رکھنے یا بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔گویا مودی حکومت کا دوبارہ آ جانا لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی مشکلات کا سندیسہ ثابت ہو گا۔

The post سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکوں کے مجرم کیسے رہا ہوئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

48 چھوٹی خوشیاں جو زندگی میں خالص لطف پیدا کرتی ہیں

$
0
0

بعض اوقات ہم بڑی خوشیوں کی آس لگائے زندگی میں موجود چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ انھیں نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہی اصل خوشیاں ہوتی ہیں جو روز مرہ کے معمول میں موجود ہوتی ہیں۔

ذیل میں ہم ایسی ہی 48 خوشیوں کا ذکر کرتے ہیں، آپ انھیں یاد رکھئے گا اور انھیں محسوس کیجئے گا، آپ کو یقیناً ایسا لطف ملے گا جو آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا ۔

1۔صاف چادریں:
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس چیز سے بہتر بھی کچھ ہو سکتا ہے کہ آپ گرم پانی سے غسل کریں اور پھر صاف ستھرے بستر پہ سر کے پیچھے تکیہ رکھتے ہوئے لیٹیں اور تازہ ہوا اندر اتاریں ؟

2۔ مٹی کی خوشبو:
گرمیوں کی بارش کے بعد زمین سے اٹھنے والی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، چند لمحوں کے لیے آپ کا سانس روک دے گی۔ یہ خوشبو آپ کو بچپن کے زمانے میں لے جائے گی۔

3۔بچے کے سر کی خوشبو:
جی ہاں! نوزائیدہ بچوںکے سر سے ایک عجب خوشبو آتی ہے، آپ بھی اس الوہی خوشبو کو محسوس کیجیے۔آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ بچوں کو کیوں جنت کا پھول کہا گیا ہے۔

4۔ خالی سنک:
برتنوں سے خالی سنک ظاہر کرتا ہے کہ دن بھر کا کام تمام ہوا اور اب آرام کا وقت ہے۔ صاف کچن اور دھلے برتن آپ کو یک گوْنہ سکون دیں گے، اب آپ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کریں یا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھ لیں ، یہ آپ کی مرضی کی منحصر ہے۔ یہ احساس ہی بڑا فرحت بخش ہے کہ صبح دھلے ہوئے برتن ملیں گے۔

5۔ مزاح:
عام تاثر یہ ہے کہ کوئی بھی مزاحیہ بات ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ کا باعث بن جائے گی لیکن وہ مزاح بھری بات سب سے زیادہ مزہ دیتی ہے جو اچانک یاد آئے اور آپ اپنے دوست کو سنا کر کھلکھلا کر ہنس پڑیں گے، اتنا زور سے ہنسیں گے کہ سانس لینا بھول جائیں گے۔ چاہے آپ کے ارد گرد کے لوگ آپ کو گاؤدی کیوں نہ سمجھیں، وہ آپ کے ماضی کی اس خوشگوار یاد سے واقف نہیں ہوں گے لیکن یقین کیجئے کہ وہ شرارتی یاد آپ کو دلی خوشی سے ہمکنار کرے گی۔ اس لیے لوگوں کی پرواہ نہ کیجئے، مسکرائیے، آپ کا چہرہ روشن لگے گا ۔

6۔ محبوب افراد کا پیغام:
کئی سال قبل آپ کو اپنے پیاروں سے آدھی ملاقات کے لیے دنوں، ہفتوں اورمہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ دلوں میں چاہت بھی خوب ہوتی تھی اور لکھنے کو بے شمار باتیں بھی جمع ہوتی تھیں لیکن اب ہم ایک ہی لمحہ میں کسی بھی شخص تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت روابط میں آسانی ہو گئی ہے،آپ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پیاروں کو پیغام بھیجا کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ دوسروں کو غیر متوقع خوشی دے کر آپ بھی سکون محسوس کریں گے۔

7۔نئی جرابیں:
نئی جرابیں بھی آپ کو عجب خوشی دیتی ہیںکیونکہ جرابیں ہمارے پائوں کی ایسی دوست ہوتی ہیں جو مشکل میں ساتھ دیتی ہیں، پائوں کی حفاظت کرتی ہیں اور انھیں فنگس وغیرہ سے بچاتی ہیں۔

8۔کاموں کی فہرست:
کیا اس سے زیادہ خوشی دینے والی کوئی دوسری چیز ہو سکتی ہے کہ آپ کے کرنے کے کاموں کی فہرست میں شامل مشکل کام مکمل ہوجائیں اور آپ انھیں فہرست سے خارج کریں۔

9۔صاف ستھرا کمرہ:
ایک گندے، بکھرے ہوئے کمرے میں، بکھرے ہوئے سامان سے بھری ہوی آپ کی میز کیا آپ کو کوئی تخلیقی کام کرنے دے گی؟ لہذا اپنا کمرہ اور میز صاف ستھرا اور ترتیب سے رکھیں، ایسا کرنے سے آپ کی طبعیت اور سوچ پہ مثبت اثر پڑے گا ۔

10۔ ذائقہ دار چاکلیٹ:
اگر میں یہ کہوں کہ چاکلیٹ اپنے اندر جادوئی خاصیت رکھتی ہے تو غلط نہ ہو گا جس طرح یہ آپ کی زبان پہ پگھلتی اور آپ کے منہ میں مکمل گھلتے ہوئے آپ کے چکھنے کی حس کو مطمئن کرتی ہے، ایسا اطمینان کھانے کی کوئی دوسری چیز نہیں دے سکتی۔

11۔ بہار کی ہوا :
جب موسم انگڑائی لیتا ہے توطویل اور اداس کر دینے والی شاموں اور ٹھنڈے بند گھروں میں آپ بند کھڑکیاں کھولتے ہیں، تب موسم بہار کی تازہ ہوا آپ کا استقبال کرتی ہے۔ بہار کو خوش آمدید کہیں اور بدلتے موسم میں وقت نکال کر ذرا گھر سے باہر نکلیں، کسی قریبی پارک میں جائیں، آپ بہت خوشی محسوس کریں گے۔

12۔تازہ کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو:
کیا آپ نے کبھی تازہ کٹی ہوئی گھاس سے اٹھتی ہوئی خوشبو کو محسوس کیا ہے؟ اس کیلئے ضروری نہیں کہ آپ خود گھاس کاٹیں، آپ ہمسائیوں کے لان سے بھی یہ خوشبو محسوس کر سکتے ہیں۔

13۔ پھول توڑنا:
آپ کسی بھی سٹور سے پھول خرید سکتے ہیں، یہ موسم بہار کی خوبصورت اور خوشبودار یاد دہانی ہوتی ہے، اپنے باغیچے یا صحن سے پھول توڑئیے، یاد کیجیے کہ کیسے مٹی میں ایک بیج بویا تھا، زمین کے پیٹ سے نکل کر، موسموں کی سختی سہنے کے بعد کیسا دلکش پھول آپ کے ہاتھ میں موجود ہے۔

14۔اجنبی کو دیکھ کر مسکرانا:
آپ کسی سٹور میں لائن میں کھڑے ہیں، یا اپنی کسی اپائنٹمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں، یا کسی بور سی میٹنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہیں یا گھر کی جانب رواں دواں ہیں تو کسی اجنبی کی طرف خیرمقدمی مسکراہٹ اچھالیے۔آپ کو ایک لفظ بھی بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آپ کی مسکراہٹ سب کہہ دے گی،آزما لیجیے۔

15۔سرد دن میں گرم مشروب:
باہر ناقابل برداشت ٹھنڈ ہو، ظالم موسم کسی قدر نرمی پر بھی آمادہ نہ ہو، ایسے میںگھبرائیے مت! گرما گرم چائے کا کپ یا اچھی سی کافی لیں اور بند گھر میں سے گرم مشروب سے لطف اٹھاتے ہوئے باہر کا منظر دیکھیں۔

16۔ قلفیاں:
قلفی کا نام لیتے ہی بچے ذہن میں آتے ہیں حالانکہ یہ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے۔ رنگ دار قلفی کھائیں، ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ مزیدار ذائقے کو اندر اتارتے ہوئے بچپن کی یاد تازہ کریں۔

17۔ انٹرنیٹ بند کر دیجیے:
بعض اوقات جو چیز ہمارے لیے بڑی نعمت ہوتی ہے،کثرت استعمال سے وہ زحمت بن جاتی ہے۔ انٹر نیٹ ان میں پہلے نمبر پر ہے۔ اگر انٹر نیٹ بند ہو جائے تو آپ موبائل، کمپیوٹر کچھ بھی استعمال نہیں کر سکتے لیکن ان سب چیزوں کے وقتی طور پہ نہ ہونے سے آپ کو لازمی سکون کا احساس ہو گا۔ جو ای میلز، ویڈیوز،کالز آپ وصول نہ کر سکیں ، انھیں بعد میں دیکھ لیجیے گا لیکن سکون کے ان لمحات سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا موقع ضائع مت کریں ۔

18۔ بچپن کی پسندیدہ کتاب پڑھیں:
بڑا سا سبز رنگ کا کمرہ،جس میں ایک فون پڑا ہے، ایک سرخ رنگ کا غبارہ بھی ہے، ایک گائے کی تصویر بھی جو خوشی سے اچھل رہی ہے۔ یقیناً باقی کی کہانی آپ خود مکمل کر لیں گے، بہت دلچسپ کہانی تخلیق ہوگی۔ بچوں کی بعض کتابیں بڑوں کے لیے بھی یکساں پرلطف ہوتی ہیں۔ آپ اپنے بچپن کی کوئی سب سے پسندیدہ کتاب لے کر پڑھیں۔ یقیناً آپ اْس کتاب سے اْتنی ہی محبت کریں گے جتنی آپ نے اِسے پہلی بار پڑھتے ہوئے کی تھی۔

19۔ خوشی میں چھلانگ:
آپ کو ٹویوٹا خریدنے کی ضرورت نہیں ہے،نہ ہی کسی پروموشن کی، نہ لاٹری جیتنے کی، نہ کسی ٹی وی چینل سے منظور شدہ پروگرام کی،کہ آپ خوشی سے اچھلیں۔ دراصل آپ کو فطرتاً زندہ دل ہونا چاہئیے۔کبھی کبھی بلاوجہ دونوں ایڑیاں جوڑ کر جمپ لگایا کریں، شور مچایا کریں،آپ کو اچھا لگے گا۔

The post 48 چھوٹی خوشیاں جو زندگی میں خالص لطف پیدا کرتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سائنس نامہ

$
0
0

سولر پینلز، ونڈ ٹربائن مویشیوں کے لیے موت کا پیغام۔۔۔۔ ؟
فرانس میں سیکڑوں گائیں پُراسرار موت کا شکار، ماہرین حیوانات اور محققین وجہ کا تعین کرنے میں ناکام

گذشتہ چند برسوں کے دوران فرانس کے شمال مغربی علاقے برٹنی میں سیکڑوں مویشی پُراسرار موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان میں اکثریت گایوں کی ہے۔ کوشش کے باوجود ماہرین حیوانات اور محققین ہلاکتوں کے پُراسرار سلسلے کی وجوہ کا تعین نہیں کرسکے۔ گائیں کسی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر وزن گھٹانے لگتی ہیں۔ پوری خوراک کھانے کے باوجود چند ہی ماہ میں ان کا وزن اتنا گرجاتا ہے کہ ہڈیوں پر بس کھال رہ جاتی ہے اور پھر وہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔

ماہرین جب ہلاکتوں کی وجوہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے تو پھر گلہ بانوں نے اپنے طور پر تحقیق شروع کی اور آخرکار مویشیوں کی اموات کا سبب جان لینے کا دعویٰ کیا۔ گلہ بانوں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں گایوں کی پُراسرار موت کا سبب اس علاقے میں مختلف مقامات پر نصب سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوا اور دھوپ سے بجلی کشید کرنے کی غرض سے نصب کی گئی یہ مشینیں زمین میں مقررہ حد سے زیادہ برقی رَو منتقل کررہی ہیں جس کے نتیجے میں مویشی موت کا شکار ہورہے ہیں۔

یوںتو برٹنی کے پورے علاقے میں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں تاہم Cote-d’Amour کے علاقے میں صورت حال سنگین تر ہوچکی ہے جہاں کئی کسان اپنے سیکڑوں مویشیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ انھی کسانوں میں سے ایک پیٹرک لی نشیت ہیں۔ چند برس قبل پیٹرک کے مویشی جسمانی طور پر کمزور ہونے لگے اور بہ تدریج ان میں سے بیشتر موت کے جبڑوں میں چلے گئے۔ عجیب بات یہ تھی کہ بہ ظاہر یہ جانور کسی بھی بیماری میں مبتلا نظر نہیں آتے تھے۔ مختلف تشخیصی ٹیسٹ کرنے کے باوجود حیوانات کے معالج وزن میں کمی اور پھر موت کا سبب نہ جان سکے۔ پے در پے اموات کے بعد لی نے خود اس پراسرار معاملے کی گتھی سلجھانے کا تہیہ کرلیا۔ کئی ماہ طویل تحقیقات کے بعد لی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جانوروں کی اموات کا سلسلہ انھی دنوں شروع ہوا تھا جب اس علاقے میں فوٹووولٹک تنصیبات ہونے لگی تھیں۔

ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹرک لی نے کہا کہ پانچ سال کے دوران اس کی 120 گائیں ہلاک ہوئیں۔ اس صورت حال نے اسے انتہائی پریشان کردیا تھا، وہ حیران تھا کہ گائیں یکے بعد دیگرے موت کا شکار کیوں ہورہی ہیں۔ حیوانات کے معالجین سے مایوس ہونے کے بعد اس نے خود اس اسرار سے پردہ اٹھانے کا عزم کرلیا۔ پیٹرک کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ علاقے میں سولر سیلز اور ونڈ ٹربائن کی تنصیب کے ساتھ ہی مویشیوں کا وزن گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس نے اپنے کیٹل فارم اور اطراف کی زمین پر ٹیسٹ کیے اور یہ معلوم کرنے میں کام یاب رہا کہ مٹی یا خشکی اور پانی کے ذخائر میں ایک وولٹ سے زائد طاقت کا برقی کرنٹ موجود تھا۔ کرنٹ کی یہ طاقت جانوروں کے لیے تسلیم شدہ حد سے تین گنا زیادہ تھی۔

پیٹرک لی کا کہنا ہے کہ مویشیوں کی موت ان کے پیروں تلے دوڑ رہی ہے۔ انھیں اس طرح بے بسی کے عالم میں موت کے منھ میں جاتے ہوئے دیکھنا یقیناً میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔

Cote-d’Amour سے 30 کلومیٹر کی دوری پر اسٹیفن لی بریشے کا کیٹل فارم ہے۔ چند برس کے دوران اس کے 200 مویشی پراسرار حالات میں موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جب 6 ماہ کے دوران اسٹیفن کی37 گائیں موت کا شکار ہوگئیں تو اسے احساس ہوا کہ یہ قدرتی اموات نہیں ہیں۔ اس کا سبب کچھ اور ہے۔ گایوں کی اموات کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب 200 پر پہنچ چکی ہے اور وہ باقی بچ جانے والی گایوں کے بارے میں شدید فکرمند ہے۔

اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس نے گلہ بانی کے کاروبار میں پانچ لاکھ یورو کی رقم لگائی تھی۔ مویشیوں کی پے در پے اموات نے اسے شدید مالی بحران سے دوچار کردیا ہے اور صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ وہ یوٹیلی بلوں کی ادائیگی سے قاصر ہوگیا ہے۔ اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں مویشیوں کی ہلاکتوں کے 17 ذمے داران ہیں جن میں ونڈٹربائن، سیل فون ٹاور اور ٹرانسفارمرز بھی شامل ہیں۔

اگرچہ فرانسیسی کسانوں کے پاس اس امر کے ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں کہ سولر پینلز، ونڈ ٹربائن اور اسی نوع کی دیگر تنصیبات سے خارج ہونے والا برقی کرنٹ ہی مویشیوں کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے، لیکن مویشیوں پر برقی کرنٹ کے منفی اثرات تسلیم شدہ ہیں۔ دو سال قبل دریائے رون کے قریبی علاقے کے رہائشی ایک فرانسیسی کسان پیٹر آندرے نے نزدیکی صنعتی علاقے سے زمین میں جذب ہونے والے برقی کرنٹ پر اپنے مویشیوں کے ردعمل کے بارے میں باقاعدہ شکایات درج کرائی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بڑے بڑے ٹرانسفارمرز سے زمین میں جذب ہونے والی برقی رَو اس کی گایوں کی صحت اور رویے پر اثرانداز ہورہی ہے۔

پیٹر کا کہنا تھا کہ جب ٹرانسفارمر یا تاروں سے کسی سبب چنگاریاں چھوٹتی ہیں تو اس کے باڑے میں پھیلی ہوئی گائیں دوڑتی ہوئی ایک کونے میں جمع ہوجاتی ہیں۔ کچھ لنگڑانے لگتی ہیں اور بچھڑے عام طور پر اسی وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیٹر نے یہ بھی شکایت کی کہ اس کی گائیں صحت مند ہونے کے باوجود وزن گھٹارہی ہیں اور دودھ کی پیداوار بھی کم ہوتی جارہی ہے۔

ایک سائنسی ماہر کے مطابق بجلی مویشیوں کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ انسانی جسم میں 1500 اوہم کے مساوی برقی مزاحمت پائی جاتی ہے جب کہ گایوں میں یہ مزاحمت صرف 500 اوہم ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسانی پیر جوتوں، چپلوں کی وجہ سے زمین سے اتصال میں نہیں رہتے لیکن گایوں کو یہ ’سہولت‘ میسر نہیں ہوتی۔ یوں وہ ہر لمحہ زمین میں دوڑتے کرنٹ سے نبردآزما رہتی ہیں۔

۔۔۔

قلت آب۔۔۔
کاشت کاری میں پانی کا استعمال محدود کرنے کی تیکنیک وضع کرلی گئی

قلت آب ایک عالمگیر مسئلہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ پیش گوئی کی جاچکی ہے کہ تیسری عالمی جنگ معدنی نہیں آبی ذخائر پر قبضے کے لیے ہوگی۔ تازہ پانی کا سب سے زیادہ استعمال ( 70 فی صد) کاشت کاری میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسانی ضروریات آتی ہیں۔ عوام الناس کو پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کی تاکید کے لیے تو دنیا بھر میں آگاہی مہمات چلائی جاتی رہتی ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں نے زراعت میں بھی پانی کے محدود استعمال سے اچھی فصل حاصل کرنے کی تیکنیک ایجاد کرلی ہے۔ یہ کارنامہ گلاسگو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈنکالا ہے جس کے ذریعے پتوں کے مساموں ( stomata ) کے کھلنے اور بند ہونے کے عمل کو تیز تر کیا جاسکتا ہے۔

بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر دنیا بھر میں زیرکاشت رقبے کے حجم میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے، اور اسی تناسب سے کاشت کاری میں پانی کی کھپت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تازہ پانی کے آبی ذخائر میں اس رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کا باکفایت استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پودوں کے پتوں کے مساموں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر اس اخراج کو محدود کیا جاسکے تو پھر پودوں کو نشوونما کے لیے پانی کی کم مقدار درکار ہوگی۔ پتوں کے مساموں کی حرکت پر قابو پانے کے لیے محققین نے بیجوں میں جینیاتی ردوبدل کرکے پودے تیار کیے۔ ان پودوں کی خاصیت یہ ہے کہ خوراک کی تیاری کے عمل (ضیائی تالیف) کے دوران زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کام میں لاتے ہیں اور عام پودوں کی نسبت کم مقدار میں پانی خارج کرتے ہیں۔

گلاسگو یونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر، سیل اینڈ سسٹم بایولوجی سے وابستہ ڈاکٹر ماریا پاپاسیو کہتی ہیں کہ پودوں میں خوراک کی تیاری کے دوران پانی کی زائد مقدار خارج ہوتی ہے۔ ہم نے جینیاتی انجنیئرنگ سے کام لیتے ہوئے پتوں کے مساموں کو اس قابل کیا کہ وہ ضیائی تالیف کے دوران زیادہ عرصے بند رہیں تاکہ پانی کا ضیاع کم سے کم ہو اور پھر آئندہ انھیں کم مقدار میں پانی درکار ہو۔

۔۔۔

Giant Magellan Telescope
ہبل سے دس گنا زیادہ طاقت وَر دوربین 2025 میں فعال ہوجائے گی

کائنات کی وسعتوں میں پنہاں سیکڑوں ہزاروں اجرام فلکی انسانی مشاہدے اور علم میں آچکے ہیں۔ خلائے بسیط کے ان سربستہ رازوں تک انسان کی رسائی میں کلیدی کردار خلائی دوربینوں کا ہے۔ انتہائی طاقت وَر عدسوں سے لیس یہ دوربینیں بلاشبہ انسانی آنکھیں ہیں جن سے وہ خلا میں کروڑوں اربوں نوری سال کی دوری پر معلق ستاروں، سیاروں، سیارچوں اور دیگر اجرام فلکی کے وجود سے واقف ہورہا ہے۔ انھی آلات کی بدولت انسان تک اجرام فلکی کی ماہیئت، طبعی حالات وغیرہ کے متعلق معلومات بھی پہنچتی ہیں۔

ارضی مدار میں موجود خلائی دوربین ’ہبل‘ تسخیر کائنات کے سفر میں 1990ء سے انسان کی رہبر کا کردار نبھاتی آرہی ہے۔ کئی طاقت وَر دوربینیں سطح ارض پر موجود رہ کر انسان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تسخیر کائنات کی مہم کو مہمیز کرنے کے لیے ایک اور انتہائی طاقت وَر دوربین کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ نئی دوربین جو منصوبے کی بروقت تکمیل کی صورت میں 2025ء میں فعال ہوجائے گی، کو Giant Magellan Telescope (جی ایم ٹی ) کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتہائی وسیع و عریض عدسے کی حامل یہ دوربین کائنات کو دیکھنے کا انسانی انداز اور سوچ بدل دے گی۔

جی ایم ٹی چلی میں واقع Las Campanas نامی رصدگاہ میں تعمیر کی جائے گی۔ یہ دوربین کئی لحاظ سے دیگر دوربینوں سے منفرد ہوگی۔ جی ایم ٹی کے سات عدسے ہوں گے۔ ہر عدسے کا قطر 8.4میٹر (27.6 ) ہوگا۔ یہ عدسے ایک ہی عدسے کے طور پر کام کریں گے جس کا مجموعی قطر 80 فٹ ہوگا۔ یوں اس کی طاقت ہبل دوربین سے دس گنا زیادہ ہوگی۔

ماہرین فلکیات شدت سے جی ایم ٹی کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ سائنسی حلقوں میں اس منصوبے کے حوالے سے بہت اشتیاق پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے سلسلے میں ہونے والی ہر پیش رفت فوری زیربحث آتی ہے۔ اس منصوبے کے مرحلے میں دوربین کی تنصیب کے لیے مطلوبہ مقام پر کھدائی کا کام یابی سے مکمل کرلیا گیا ہے۔ اگلے مرحلہ ’’واٹر پیکیج‘‘ کا ہے جس کی تکمیل میں 8 ماہ صرف ہوں گے۔ اس مرحلے میں چلی کی پہاڑیوں پر منصوبے کے لیے مختص جگہ پر پانی کے پائپ بچھائے جائیں گے اور رصدگاہ کے ٹینک سے آنے والے پانی کو ذخیرہ، ٹریٹ اور ترسیل کرنے کے لیے عمارت تعمیر کرکے اس میں مطلوبہ مشینری نصب کی جائے گی۔ بعدازاں پہاڑی چوٹی پر عارضی کنکریٹ پلانٹ تعمیر کیا جائے گا، اور دوربین کی تنصیب کے لیے کنکریٹ کے ستون اور دیگر تعمیرات کی جائیں گی۔

جی ایم ٹی کی تعمیر امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور جنوبی کوریا کا مشترکہ منصوبہ ہے جس کے لیے ایک ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔

The post سائنس نامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کرکٹ اور بریانی

$
0
0

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کی اب بھی بریانی سے تواضع کی جارہی ہے، قومی ٹیم بریانی کھا کر ورلڈکپ میں مدمقابل چیمپیٔن ٹیم کو شکست نہیں دے سکتی۔

یہ کیا بات ہوئی، بریانی ہمارا قومی کھانا ہے، اب قومی ٹیم قومی کھانا نہ کھائے تو کیا کھائے۔ وسیم اکرم صاحب عجیب پاکستانی ہیں۔ وہ یہ حقیقت نہیں جان سکے کہ کوئی پاکستانی نادانی، فحاشی وعریانی، بدزبانی، غلط بیانی، آناکانی سب سے بچ سکتا ہے، لیکن اُس کے لیے بریانی سے بچنا ممکن نہیں۔ بریانی وہ ناگہانی ہے جو کچھ کر لو ہوکے رہتی ہے۔

شادی ہو یا منگنی ہو، رسم قُل ہو یا سیاسی جلسہ، کسی بزرگ کا عرس ہو یا کسی کے ننھے کی مسلمانی، ہمارے دیس میں ہر تقریب ہے بہرِِبریانی، یعنی ہمارا ہاں ہر رسم اور تقریب بریانی پکانے اور کھلانے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ بریانی کھانے کا دل چاہا تو شادی کرلی، کھلانے کا شوق چَرایا تو وفات پاگئے۔ تعطیل کا عنوان بریانی، دعوت کا پکوان بریانی، پکنک کا سامان بریانی، جب بھی جمع ہو خاندان۔۔۔بریانی۔ بریانی کی اتنی فراوانی ہو تو اُس سے کیسے بچا جاسکتا ہے، اور کرکٹروں کو یہ کھانا اس لیے بھی مرغوب ہے کہ بریانی اور کرکٹ کی کہانی میں بڑی مماثلت ہے۔

کرکٹ کی طرح بریانی کا سمجھنا بھی بہت مشکل ہے۔ مثلاً ہم آج تک نہ سمجھ پائے کہ اس پکوان میں بہت سی ایسی اشیاء کیوں ڈالی جاتی ہیں جو کھاتے ہوئے نکالی جاتی ہیں۔ کرکٹ ٹیم میں بھی بریانی کے کچھ مسالوں کی طرح بعض کھلاڑی بلاوجہ ڈالے جاتے ہیں۔ کرکٹ پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین کھیل ہے اور بریانی مرغوب ترین کھانا۔ بدترین کرکٹ دیکھنے اور بدترین بریانی کھانے کے باوجود ہم پاکستانی ان دونوں سے رغبت ترک نہیں کرپاتے۔

بریانی کی پکائی اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے ایک میچ کا دورانیہ یکساں ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے سامنے اچھی ٹیم ہو اور بہو کا سامنا سُسرالیوں سے ہو تو میچ اور بریانی کا انجام یکساں ہوتا ہے۔ پکتی بریانی اور میدان میں اُترتی قومی ٹیم سے پاکستانی ایک سی امیدیں باندھ لیتے ہیں، جب پلیٹ اور نتیجہ سامنے آتا ہے تو منہ کا مزا اور دل خراب ہوجاتا ہے۔

وسیم اکرم صاحب! اب آپ ہی بتائیے ہمارے کرکٹروں کو بریانی کیوں نہ عزیز ہو، اور یہ انھیں کیسے نہ کھلائی جائے؟ جہاں تک تعلق ہے ورلڈکپ جیتنے کا تو بھیا تاریخ اور حالات بتاتے ہیں کہ ورلڈکپ جیتنا ہمیں راس نہیں آتا، بلکہ یہ کپ گلے پڑجاتا ہے۔ اس لیے ٹیم کو دل اور پیٹ بھر کے بریانی کھانے دیجیے، عین نوازش ہوگی۔

The post کرکٹ اور بریانی appeared first on ایکسپریس اردو.


وزیر برائے ’’خوابی وسائل فیصل وعدہ‘‘

$
0
0

فیصل واوڈا صاحب وفاقی وزیر برائے آبی وسائل ہیں، لیکن ان کے ملازمتوں کی برسات کے عنوان سے مشہور ہونے والے دعوے کے بعد لگتا ہے کہ وہ ’’خوابی وسائل‘‘ کے وزیر ہیں۔ انھوں نے نوکریاں برسانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے بعد لوگ انھیں پیار سے ’’فیصل وعدہ‘‘ کہنے لگے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ فیصل واوڈا نے واشگاف الفاظ میں خوش خبری سُنائی ہے ’’اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ لوگ کم پڑ جائیں گے۔ پان والا ٹھیلے والا کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو۔‘‘ کوئی کچھ کہے ہمیں تو فیصل واوڈا صاحب کی بات پر مکمل یقین ہے۔ آپ بھی دیکھیے گا کہ بہ قول وزیرموصوف کوئی تین چار ہفتے بعد ’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے‘‘ آئے گا اور پوری قوم جھوم جھوم کر گارہی ہوگی ’’اللہ اللہ کتنے پیارے دن آگئے‘‘، کسی کی زبان پر ہوگا ’’آئے موسم رنگیلے سُہانے جیا نہیں مانے‘‘، یہ گانا وہ گائیں گے جن کا جیا نہیں مان رہا کہ فیصل صاحب سچ کہہ رہے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے۔

اس دعوے پر ہمارے یقین کی بنیاد پانی پر ہے، ارے بھئی سمندر کے پانی پر جس سے تیل نکلنے کا عمران۔۔۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔۔ امکان ہے۔ تیل کا نوکری اور خوش حالی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں ’’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘ اس محاورے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رادھا کار کی طرح تیل سے چلنے والی کوئی مشین ہے جو تیل پی کر ناچے گی، بات یہ ہے کہ جس کا پاس تیل ہو اُس کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے، رادھا بے چاری کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ جن کے پاس تیل ہے ان کے ہاں ناچنے پر پابندی ہے، چناں چہ نو من تیل والے ناچ دیکھنے سمیت ہر من مانی کے لیے دبئی، امریکا اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔

خیر بات ہورہی تھی تیل اور خوش حالی کی، تو صاحب جب ہمارے سمندر سے تیل نکلے گا تو ہر طرف اتنا تیل ہوگا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی، بلکہ کسی بھی دھرنے کے لیے جگہ نہیں ہوگی، اچھا ہوا کہ تیل نوازشریف کے دور میں نہیں نکلا ورنہ دھرنا دینے والوں کی دھرنے کی خواہش دھری کی دھری رہ جاتی۔ سو جب اتنا تیل نکلے گا تو ظاہر ہے ہم تیل میں خودکفیل ہوجائیں گے، بلکہ اتنے ’’کفیل‘‘ ہوجائیں گے کہ سعودی عرب اور کویت وغیرہ سے ’’کفیل‘‘ آکر ہمارے ’’رفیق‘‘ بنیں گے۔

اُدھر سمندر سے تیل ہی تیل نکلے گا اِدھر زمین پر نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔ دو تین کروڑ لوگوں کی نوکری تو بس یہ ہوگی کہ سمندر کے کنارے بیٹھ جاؤ اور ’’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔‘‘ ویسے تو تیل کی صفائی کے لیے اُس سے بے کار اجزاء نکالنے کے بہ جائے اُسے تحریک انصاف میں شامل کردینا کافی ہوگا، لیکن کیوں کہ حکومت کا مقصد ملازمتیں پیدا کرنا ہے، اس لیے وہ تیل کی صفائی کے لیے کارخانے لگائے گی، یہ کارخانے ہی اتنے ہوں گی کہ سارے بے روزگار انھی میں کھپ جائیں گے، پھر بھی کارکنوں کی گنجائش رہے گی اور لوگوں کو زبردستی پکڑ کر ’’کارخانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ کہتے ہوئے لایا اور ان کارخانوں میں بھرتی کیا جائے گا۔

یہاں ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ ’’پڑھی فارسی بیچا تیل‘‘ کے مشہور محاورے سے اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنا ضروری ہے، عربوں کو دیکھیے وہ فارسی پڑھے بلکہ بہت سے تو کچھ بھی پڑھے بغیر تیل بیچ رہے ہیں۔ چلیے آپ کو تو ہم نے اس غلط فہمی سے بچالیا، لیکن حکم رانوں کو کسی غلط فہمی اور خوش فہمی سے بچانا ہمارے بس کی بات نہیں، اس لیے یقیناً وہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہوئے پوری قوم کے لیے فارسی پڑھنے کا سرکاری انتظام کریں گے، تاکہ قوم اچھی تیل فروش بن سکے۔ یوں ایک کروڑ کے لگ بھگ فارسی پڑھانے والے اساتذہ کی اسامیاں وجود میں آئیں گی۔

جن سرکاری حکام کو عرصے سے عوام کا تیل نکالنے کی عادت پڑ چکی ہے ان کی یہ عادت ختم کرکے انھیں تیل نکالنے کی تربیت دینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ماہرینِ نفسیات اور ماہرین تیلیات کی تقرری کی جائے گی، جو انھیں عوام کو قریب سے دکھا کر سمجھائیں گے کہ ’’دیکھو پیارے! ان تِلوں میں اب تیل نہیں ہے۔‘‘ پھر سمندر دکھا کر بتائیں گے کہ تیل اب یہاں سے نکالنا ہے۔

یہ تو صرف تیل سے متعلق ملازمتیں ہیں، جب یہ تیل دنیا میں بِکے گا اور ہمارے پاس قرضوں اور امداد کے بہ جائے معاوضے کی صورت میں پیسہ آئے گا تو ہر طرف ادارے ہی ادارے اور نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔ بھرتیوں پر بھرتیاں ہونے کے بعد بھی ’’اسامیاں خالی ہیں‘‘ کے اشتہارات آتے رہیں گے۔ نوبت یہ آئے گی کہ افرادی قوت بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گی۔ پھر ہوگا یہ کہ امریکی لاہور میں ٹیکسی چلاتے نظر آئیں گے، انگریز کراچی میں گنے کا رس بیچتے دکھائی دیں گے، جرمن پنڈی بھٹیاں میں ڈھابے کھولے بیٹھے ہوں گے، فرانسیسی مردان میں ٹھیلے لگائے ہوں گے۔

اب تک تو ملازمتوں کی کمی کے باعث صورت حال یہ تھی کہ پولیس کی نفری ناکافی ہونے کی وجہ سے پولیس آپریشن میں فیصل واوڈا صاحب کو پستول لے جانا پڑتا تھا، لیکن کچھ دنوں بعد واوڈا صاحب ’’تجھ کو پَرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ پر عمل کرتے نظر آئیں گے، اس لیے بہت کم نظر آئیں گے۔

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post وزیر برائے ’’خوابی وسائل فیصل وعدہ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا!

$
0
0

یہ ہٹلر صاحب بھی عجیب ہیں، اتنے عجیب تو وہ تھے ہی کہ خود کو مع مبینہ اہل اور دوسروں کے عیال تباہ کرلیا، مگر یوں بھی عجیب ہیں کہ دنیا ان سے نفرت کرتی ہے لیکن ان کا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے، ان سے نفرت کرنے والوں کے ساتھ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔‘‘

حال ہی میں موصوف کا نامِ نامی مشہورِزمانہ والٹ ڈزنی کمپنی کے سی ای او بوب ایگر کی زبان پر آیا ہے، جو کہتے ہیں ’’ایڈولف ہٹلر سوشل میڈیا سے محبت کرتا، کیوں کہ یہ اُس کے انتہاپسندانہ افکار پھیلانے کا ایک ذریعہ بنتا۔‘‘

ذرا سوچیے، ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا یا سوشل میڈیا کے دور میں ہٹلر ہوتا تو کیا ہوتا!

ہٹلر کے حامی فیس بُک پر اس قسم کی پوسٹس کر رہے ہوتے ’’ہم نہیں ہمارے بعد ۔۔۔ایڈولف ایڈولف۔۔۔جب آپ اس پوسٹ کو شیئر کریں گے تو شیطان آپ کو روکے گا۔‘‘ نازی پارٹی کے ارکان ہٹلر کی ایسی تصویریں ٹوئٹر اور فیس بک پر سامنے لاتے کے دیکھنے والوں پر رقت طاری ہوجاتی، ہم جیسے حساس لوگ تو دھاڑیں مار کر رونے لگتے۔ کسی تصویر میں ہٹلر صاحب فٹ پاتھ پر سوتے نظر آتے تو کسی میں اُن کے کوٹ کا سوراخ ان کی دیانت داری کا ثبوت پیش کررہا ہوتا۔ جرمنوں کو انگریزوں یا فرانسیسیوں کے خلاف اُکسانے کے لیے ’’جاگ جرمن جاگ، تیری پگھ نوں لگ گیا داغ‘‘ جیسے نعرے سماجی میڈیا کی زینت بن رہے ہوتے۔

ہٹلر کے دور میں جرمن منہگائی پر بلبلا اُٹھتے تو اُس کے طرف داروں کی پوسٹس کچھ یوں ہوتیں،’’منہگائی پر واویلا کیوں؟ چور لٹیرے حکم رانوں سے عوام کا پیسہ بچانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوام کے پاس کَکھ نہ رہے۔‘‘ ہٹلر کے جیالے، متوالے اور کھلاڑی اُسے امن کا سفیر قرار دیتے ہوئے بھی نہ شرماتے اور سماجی ویب سائٹس پر یہ کہتے نظر آتے،’’قوم کے عظیم قائد محترم ایڈولف ہٹلر جنگ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

اسی لیے وہ اپنے ہر مخالف کو مٹادینا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا کوئی امکان نہ رہے۔‘‘ نازی افواج کی روس پر حملے میں بدترین ناکامی اور تباہی پر اس قسم کے ٹوئٹس دیکھنے کو ملتے،’’واہ ہمارے قائد کی دانش، فوجیوں کی تعداد گھٹا کر دفاعی اخراجات کم کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا۔‘‘

معاملہ صرف ستائش تک نہ رہتا، ہٹلر پر تنقید کرنے والے کو اس کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ہر گالی سے نواز رہے ہوتے۔ نازی حکومت سے متعلق منفی خبریں دینے والے صحافی دشمنوں کے ایجنٹ اور غدار کے القاب پارہے ہوتے۔ بات صرف گالیوں اور الزامات تک نہ رہتی، بلکہ فیس بُک کی پوسٹ گیس چیمبر کا ہوسٹ بنادیتی۔

The post اگر ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا! appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

گندے اور خراب دانت
زوھیب رب نواز، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کالج جانے کے لئے تیار ہو رہا ہوں، اچانک میری نظر اپنے دانتوں پر پڑتی ہے جو کہ بہت گندے اور خراب نظر آ رہے ہوتے ہیں ۔ میں یہ دیکھ کر کافی پریشان ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مجھے فوراً کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر دانت چیک کرانے چاہئیں، اس کے بعد مجھے یاد نہیں۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری آ جائے جس کی وجہ سے آپ پریشان ہو سکتے ہیں ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ محفل مراقبہ میں بھی دعا کرا دی جائے گی ۔

سانپ کاٹ لیتا ہے
لبنٰی سعید، شاہ کوٹ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے صحن میں صفائی کر رہی ہوں ۔ وہاں جو کونے میں درخت ہے اس کے نیچے دھوتے ہوئے اچانک کوئی چیز میرے اوپر گرتی ہے جس سے میں ایک دم بہت خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ دیکھتی ہوں تو وہ ایک پتلا سا کالا سانپ ہوتا ہے جو میری طرف لپکتا ہے۔ میں تیزی سے جھاڑو اس کی طرف پھینکتی ہوں مگر وہ اس کو لگتا نہیں اور وہ تیزی سے میری طرف لپکتا ہے اور میری ٹانگ پہ اچھل کے کاٹ لیتا ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا جس سے آپ کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حفیظ یا اللہ کا ورد کیا کریں ۔کوشش کریں کہ کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔ صبح بعد از فجر اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ 101 مرتبہ نصرمن اللہ و فتح قریب پڑھ کر اللہ تعالی سے دعا کریں کہ آپ کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے ۔

شہد کھاتی ہوں
نسرین بیگم ( راولپنڈی)

خواب:۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے ماموں کے گھر میں ہوتی ہوں۔ وہاں پر صبح میری ممانی میرے لئے کمرے میں ناشتہ لے کر آتی ہیں۔ ناشتہ میں ایک بوتل میں شہد بھی ہوتا ہے۔ شہد مجھے بہت پسند ہوتاہے۔ میں شہد کودیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں کہ میری پسند کا خیال رکھا گیا ہے۔ میں جلدی سے ڈبل روٹی کے ایک ٹکرے پر شہد لگا کر کھاتی ہوں تو پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو طاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اگر آپ بیمار ہیں تو انشاء اللہ جلد شفا مل جائے گی۔آپ کے رزق میں برکت ہوگی۔آپ کے کاروبار میں اضافہ ہوگا ۔ جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد جاری رکھیں اور کچھ صدقہ وخیرات بھی کریں۔

بارونق بازار
ایمن رسول(گوجرانوالہ)

خواب:۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک پررونق بازار سے گزر رہی ہوں، میرے ساتھ میرے میاں بھی ہیں ہم خوب رونق دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے چیزیں بھی خرید رہے ہیں۔ اسی رش میں ایک جنازہ گزر رہا ہوتا ہے اور میں ایک سائیڈ پر کھڑی ہوجاتی ہوں۔ اس کے بعد جب وہ واپس آتے ہیں تو ہم اپنی شاپنگ دوبارہ سے شروع کر دیتے ہیں۔

تعبیر:  یہ سعد خواب ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے آپ کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوگا اور آپ کی صحت اور تندرستی میں اضافہ ہو گا۔ آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی اور رزق میں اضافہ ہو گا۔ جس سے آپ کے مال اور وسائل میں بہتری آئیگی ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا حیی یا قیوم کا ورد بھی جاری رکھیں اور کچھ اللہ کی راہ میں خیرات کیا کریں۔

بار بار سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا
عثمان ادریس،لاہور

خواب:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بلڈنگ میں کبھی سیڑھیاں چڑھتا ہوں اور کبھی اترتا ہوں۔ ایسا میں کئی بار کرتا ہوں، کچھ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ بار بار سیڑھیاں اترنے اور چڑھنے سے کیا مراد ہے؟

تعبیر:۔ آپ کے خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ معدہ میں رطوبات فاسد بنتی رہتی ہیں۔ بار بار سیڑھیاں اترنا چڑھنا ان رطوبات کی وجہ سے ہے اور یہ گیس بن کر دماغ تک پہنچتی ہیں۔

چھپکلیاں مارنا
اقراء معین،لاہور

خواب:۔ میں دیکھتی ہوں کہ اپنے بھائی اور ابو کے ساتھ چھپکلیاں مار رہی ہوں۔ ایک چھپکلی میرے بھائی کے ڈنڈے سے زخمی ہوجاتی ہے اور کہیں چھپ جاتی ہے۔ہم بہت ڈھونڈتے ہیں مگر نظر نہیں آتی۔پھر بھائی کی نظر بیڈ کے پیچھے پڑتی ہے جہاں وہ زخمی پڑی ہوتی ہے۔

تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کسی کمزور کو اپنی ریشہ دورانیوں سے تنگ کر رہے ہیں اور اس سے ان کو نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر آپ ہر لحاظ سے سے بہتر ہیں تو بجائے کسی کو ستانے کے اپنے آپ کو دوسروں کیلئے مفید بنائیں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حیی یا قیوم کا ورد کیاکریں۔کوشش کریں کہ ہر ہفتے کسی غریب کو کھانا کھلا سکیں۔

پودینہ گھر لے جانا
احمد رضا،شاہ کوٹ

خواب:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں پودینہ پکڑا ہوا ہے اور وہ بہت تازہ اور ہرا ہے۔ میں اس کو لے کر بہت خوشی خوشی گھر جا رہا ہوں۔

تعبیر:۔ یہ ایک اچھا خواب ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ نیک اور خوش قسمت ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیاکریں اور کثرت سے یا حیی یا قیوم کا ورد بھی کیا کریں۔ ممکن ہوسکے تو کسی مسکین کو جمعرات کو کھانا بھی کھلائیں۔

ننگے پاؤں شاپنگ کرنا
مصباح ثناء،فیصل آباد

خواب:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور میں کھڑی کچھ برانڈڈ سوٹ دیکھ رہی ہوں۔ اچانک میری نظر اپنے پاؤں پر پڑتی ہے تو میں حیران رہ جاتی ہوں کہ میرے دونوں پاؤں ننگے ہیں یعنی میں بغیر جوتی کے شاپنگ کر رہی ہوں۔گھبراہٹ میں ایک کونے میں کھڑی ہوجاتی ہوں، اس کے بعد موبائل کی گھنٹی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ آپ کے خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے آپ کو کوئی غم یا پریشانی آسکتی ہے، آپ کے کاروبار میں کوئی رکاوٹ یا بندش بھی آسکتی ہے، گھر کا کوئی مسئلہ بھی ہوسکتاہے اس لئے نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حیی یا قیوم کا ورد کریں اور حسب توفیق صدقہ وخیرات کریں۔

پیاس میں پانی کی عدم دستیابی
سلمان حسین، قصور

خواب:۔ میں نے دیکھا کہ اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوں، اس دوران مجھے شدید پیاس محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنے کیبن میں موجود بوتل چیک کرتاہوں اس میںپانی نہیں ہوتا۔میں اٹھ کر باہر جاتا ہوں کہ کسی ساتھی سے مانگ لوں مگر سب کے پاس پانی ختم ہوچکا ہوتا ہے۔پھر میں دوسرے سیکشن میں جا کے ڈسپنسر سے پینے لگتاہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہ بھی خالی پڑاہوتا ہے حتیٰ کہ اس کے اوپر بوتل بھی نہیں لگی ہوتی۔

تعبیر:۔ آپ کے خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے آپ کو کسی رنج وناامیدی کا شکار ہونا پڑسکتا ہے۔ اس میں ترقی سے وابستہ مسائل بھی ہو سکتے ہیں اور تعلیمی بھی، آپ کوشش کریں کہ حسب توفیق صدقہ دیں۔نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور یا حیی یا قیوم کا ورد چلتے پھرتے کثرت سے کیا کریں۔

گھرکی چھت پر چڑھنا
فیصل خان، پشاور

خواب: میں نے دیکھا کہ میں بازار سے آکر اپنے گھر میں داخل ہوتا ہوں اور مکان کی سیڑھیوں سے چڑھ کر مکان کی چھت پر آجاتا ہوں، ہمارا گھر تین منزلہ ہوتا ہے اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی کافی ہوتی ہے۔ میں آہستہ آہستہ ان سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر چھت پر آجاتا ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو اپنے قبیلے کی سرداری مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاروبار میں برکت عطا فرمائیں گے۔ وسائل اور دولت میں اضافہ ہوگا جس سے آپ کا شمار امیر کبیر لوگوں میں ہوگا کسی حاکم وقت کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے جس سے آپ کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوگا۔ نماز پنجگانہ کے ساتھ کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔ کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں ۔

بارش
عابد سلیم، نوشہرہ

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے فلیٹ کی چھت پر ہوں اور مغرب سے ایک دم بادل آتے ہیں۔ ساتھ ہوا بھی چل رہی ہوتی ہے کہ ایک دم بارش شروع ہوجاتی ہے۔ آسمان سے گرتے بارش کے قطرے بڑے صاف اور شفاف نظر آتے ہیں اور پھر بارش سارے علاقے میں شروع ہو جاتی ہے۔ اس خواب کی تعبیر بتا دیجئے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے کاروبار میں اضافہ ہوگا۔ مال اور وسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ زندگی میں آرام اور سکون بھی مل سکتا ہے۔ ترقی اور کامرانی آپ کے قدم چومے گی۔ رزق میں اضافہ ہوگا۔ دین اور دنیا میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کریں اور کثرت سے یاشکور کا ورد بھی کریں اور کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

مایوسی کو اُمید میں بدل لیجیے؛ 21 مشورے جو زندگی گزارنا سکھائیں

$
0
0

پچھلے دنوں ایک امریکی خاتون لورین جیلمین کی مرتب کردہ کتاب ’’بہترین نصیحتیں‘‘(Best Advices) زیر مطالعہ رہی۔ اس کتاب میں مرتب خاتون نے ایسی نصیحتیں ‘ تجاویز اور مشورے جمع کر ڈالے ہیں جو انسان کو ڈھنگ سے زندگی گزارنا سکھاتے ہیں۔

قارئین ایکسپریس کے لیے اس کتاب سے چیدہ مشوروں کا انتخاب پیش ہے۔ یہ نصیحتیں اور مشورے امریکا میں مقیم ماہرین تعلیم، دانشوروں ‘ صنعت کاروں‘ ادیبوں ‘ ڈاکٹروں‘ اداکاروں وغیرہ کے بیش قیمت تجربات کا نچوڑ ہے۔

دنیا والوں سے برتاؤ
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے فیصلہ کیا کہ شراب نوشی ترک کر دی جائے۔ میں عرصے سے اس لت میں مبتلا تھا لہٰذا اسے چھوڑتے ہوئے خاصی مشکل پیش آئی۔ ایک دن میں باہر چہل قدمی کر رہا تھا کہ میرے پڑوسی بوڑھے چچا ملے۔ مجھے کچھ پریشان دیکھا تو بولے ’’نوجوان! آج تم دنیا والوں سے کیا برتاؤ کرو گے؟‘‘

یہ سوال سن کر میں کچھ حیران ہوا۔ پوچھا’’چچا‘ آپ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گی؟‘‘

انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ارے بھئی‘ میں نے جو پوچھا اس کا مطلب وہی تھا۔ یاد رکھو‘ دنیا چاہے تم سے کیسا ہی بُرا سلوک رکھے‘ تم نے اس سے محبت آمیز ‘ رحم دلانہ اور پُرشفقت برتاؤ ہی کرنا ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ یوں زندگی کا تمہارا سفر آسان ہو جائے گا۔‘‘

اس واقعے کو کئی سال بیت چکے مگر جب بھی میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو بوڑھے پڑوسی کی قیمتی نصیحت مجھے حوصلہ و ہمت عطا کرتی ہے۔
(پال ولیمز ‘ شاعر‘ موسیقار اور اداکار)

مفروضے نہ سوچو!
میرا خاندان مقبوضہ کشمیر میں آباد تھا۔ میں دیہی ماحول میں پہلا پڑھا۔ میرے دادا سیبوں کے ایک باغ کے مالک تھے۔ مہینے میں دو تین باروہ سب پوتے پوتیوں کو اپنے باغ میں لے جاتے۔ میں دیکھتا کہ جس سیب کو کسی پرندے نے کھایا ہوتا،وہ صرف اسے توڑتے‘ پانی سے دھوتے اور پھر کسی بچے کو تھما دیتے۔

ایک دن میں نے دادا سے پوچھا’’آپ پرندوں کا کھایا جھوٹا سیب ہمیں کیوں کھلاتے ہیں؟ صاف ستھرا سیب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ مجھے یقین تھا کہ دادا اپنے ستھرے سیب بچانے کے لیے ہم بچوں کو پرندوں کے ادھ کھائے سیبوں پر ٹرخا دیتے ہیں۔

میرا سوال سن کر دادا مسکرائے۔ میرے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرااور بولے ’’بیٹے‘ پرندہ صرف وہی پھل کھاتا ہے جو میٹھا ہو۔ لہٰذا میں تمہارے لیے اپنے باغ کے سب سے شیریں سیب توڑتا ہوں۔یاد رکھو‘ کبھی مفروضے کو سامنے رکھ کر عمل نہ کرو‘ ہمیشہ پوچھ لیا کرو تاکہ سچ جان سکو۔‘‘

میں اپنی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں ہمیشہ دادا ابو کی نصیحت پر عمل کرتا ہوں۔

(ڈاکٹر خورشید احمد گرو، ڈائریکٹر روبوٹک سرجری ‘ روزویل پارک کینسر انسٹی ٹیوٹ‘ بفلو ‘ نیویارک)

غیر یقینی حالات کا مقابلہ
جب سوویت یونین کے حالات خراب ہوئے تو میرے والدین ہجرت کر کے آسٹریا چلے آئے۔ وہاں ایک ریفیوجی کمیپ میں ہمیں جگہ ملی۔ حالات بہت غیر یقینی تھے۔ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ ہم سبھی بچے خوفزدہ اور پریشان رہے۔ تمام تر پریشانی کے باوجود ایک دن ابا نے اعلان کیا کہ ہم سب اوپیرا دیکھنے ویانا ہاؤس جائیں گے۔

میں بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ ابا سے کہا ’’ ہمارے پاس رقم کم ہے۔ ہم یہاں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔ پریشانی و مصیبت کے اس عالم میں میں آپ کو اوپیرا دیکھنے کی کیا سوجھ گئی؟
میرے والد مسکرائے اور کہا ’’بیٹی! زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔ یہ بے وقوفی ہے کہ انسان بیٹھ کر ہر وقت اپنی مصیبتوں پہ ماتم کرتا رہے۔‘‘
آج میں جان چکی کہ ان کا کہنا درست تھا۔
(نٹالے کوگان‘ سی ای او ہپئیر کمپنی)

کوئی جھگڑا کرے تو…
جب میں چھ سات کی تھی، تو ایک میگزین میں انوکھی تصویر دیکھی۔ تصویرمیں ایک پولیس افسر نے ایک لڑکی پر بندوق تان رکھی ہے۔ مگر وہ لڑکی خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے پھول پیش کر رہی ہے۔ یہ تصویر عشرہ 1970 ء میں ایک جنگ مخالف امن مارچ کے دوران کھینچی گئی تھی۔ تاہم اس تصویر میں پائے جانے والے تناقص نے مجھے متجسس اور حیرت زدہ کر دیا ۔ آخر اپنی والدہ سے اس تناقص کا ذکر کیا۔انہوں نے بتایا کہ یہ لڑکی نفرت دکھانے کے بجائے محبت اور دوستی کا مظاہرہ کر کے پولیس افسر کو اپنا دوست بنانا چاہتی ہے۔ والدہ کے الفاظ یہ تھے:’’اس نے انہیں سُپر محبت دے ماری‘‘۔(“Zap them back with super love.”)
آنے والے برسوں میں جب کبھی مجھے نفرت‘ جھگڑے اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے اپنی ماں کے الفاظ یاد آجاتے ہیں۔ سچ ہے کہ دوسرے پہ بہترین محبت دے مارنے پر میں نے کبھی پچھتاوا محسوس نہیں کیا۔
( شیرل اسٹریڈ‘ مشہور ناول نگار‘ اور ادیب)

جیت ،مگر کیسے؟
’’بحث کرتے ہوئے یہ نہ سوچو کہ تم نے ہر حال میں جیتنا ہے ۔ تمہاری کوشش ہونی چاہے کہ تمہیں اپنا راستہ مل جائے۔‘‘
برسوں پہلے میری ساس‘ دیا میکنا نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا۔ جب بھی میں کسی مشکل میں پھنسا ہوں تو یہ مشورہ چراغ بن کر میری راہ منور کرتا رہا۔ میںنے ہمیشہ اس سے فائدہ ہی حاصل کیا۔
(پال اسٹیگر ‘ سابق منیجنگ ایڈیٹر‘ دی وال اسٹریٹ جنرل)

دھیان سے سنو!
میرے والدین اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے لیکن جب بھی انہیں موقع ملتا وہ ہمیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ بھی بتاتے۔ ایک بار امی کہنے لگیں ’’بیٹا ایک بات یاد رکھنا! جب تم کوئی اہم فیصلہ کرنے لگو، تو پہلے ہر جاننے والے سے مشورہ کرو۔ اور وہ جو باتیں کرے، انہیں دھیان سے سنو۔ جب ہر ایک باتیں سن لو، تم کسی نتیجے پر پہنچو۔‘‘
یہ نصیحت آگے چل کر میرے بہت کام آئی۔ وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی دوسرے کی باتیں غور سے سنے، تو وہ کچھ نہ کچھ سیکھتا اور نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے میری سعی ہوتی ہے کہ میں خود بولنے کے بجائے دوسروں کی باتیں سنوں اور کچھ سیکھنے کی سعی کروں۔ اس طرز عمل سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔
(سٹیون اسپیل برگ، فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر)

حد سے نہ بڑھو
میں نے تعلیم مکمل کی، تو ایک سکول میں پڑھانے لگا۔ تمنا تھی کہ میں سکول میں بہترین استاد بن جاؤں۔ اس لیے میں چھٹی ہونے کے بعد بھی دیر تک سکول میں بیٹھتا اور نت نئے سوال تیار کرتا رہتا۔ تعلیم کے مختلف انداز بھی سوچتا۔مگر مجھے محسوس نہیں ہوا کہ حد سے زیادہ کام کرنے کے باعث میری صحت گرگئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑگئے اور میں کچھ غائب الدماغ رہنے لگا۔ میری یہ حالت اس وقت اجاگر ہوئی جب میرے ایک چچا بیرون شہر سے ہمارے گھر آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھے۔

انہوں نے محسوس کرلیا کہ میں ضرورت سے زیادہ جان ماری کررہا ہوں۔ وہ مجھے لے کر بیٹھے اور بولے ’’بیٹا! انسان کو یقیناً بہترین کام کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر تم حد سے زیادہ بڑھو گے تو ذہنی و جسمانی طور پر تھک جاؤ گے۔ تب تم سے قطعاً بہترین کام نہیں ہوسکتا۔‘‘

میں نے اس نصیحت پر غور کیا، تو مجھے یہ بہت صائب نظر آئی۔ چناں چہ میں ایک معین وقت پر ہی غور و فکر کرنے لگا۔ اس طرح مجھے اپنی جماعت کے سبھی طلبہ پر زیادہ دھیان دینے کا موقع ملا۔ یہی تبدیلی مجھے کامیاب استاد بنانے کا ذریعہ بن گئی۔
(سین میکومب جنھیں امریکا کے نیشنل ٹیچر کا ایوارڈ ملا)

وقت ترجیح نہیں…
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں ایک اخبار میں کام کرتی تھی۔ تب میں نے تھریسا ڈینئر نامی ایک خاتون کا انٹرویو کیا۔ وہ ایک کنسٹریکشن کمپنی کی مالک اور چھ بچوں کی ماں تھی۔ ان میں دو بچے جڑواں تھے۔مجھے تعجب تھا کہ وہ کاروبار کرانے اور بچے سنبھالنے کی خاطر وقت کیونکر نکال لیتی ہے؟

انٹرویو دیتے ہوئے تھریسا نے بتایا ’’میں کبھی اپنے آپ یا دوسروں سے یہ بھی نہیں کہتی ’’میرے پاس وقت نہیں۔‘‘ بلکہ میرا جواب ہوتا ہے ’’یہ میری ترجیح نہیں‘‘۔ ظاہر ہے، اگر میرے بچے مجھ سے کہیں کہ ہمارے ہم جماعتوں کی خاطر کیک بنادو تو یہ کام میری ترجیح نہیں ہوگا۔ لیکن مجھے کہا جائے کہ کیک بنانے پر ایک ہزار ڈالر ملیں گے، تو میں یہ کام کرنے کے لیے ہر حال میں وقت نکال لوں گی۔‘‘

تھریسا کی بات مجھے دل کو لگی۔ انسان جس کام کو ترجیح دے، اسے فوری انجام دے ڈالتا ہے۔ گویا کام کرنے کے معاملے میں وقت نہیں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ وہ کتنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے، اب میں ٹائم مینجمنٹ یعنی اپنے کاموں کو انجام دینے کا نظام الاوقات بتاتے ہوئے وقت نہیں اپنے کاموں کی ترجیحات کو مدنظر رکھتی ہوں۔ اس انداز کار کا نتیجہ ہے کہ میرا ہر کام بہترین طریقے سے مکمل ہوتا ہے۔
(لارا وینڈرکم، ناول نگار)

ناقدین کی منفی باتیں
یہ کئی برس پہلے کی بات ہے، ایک تقریب سے موٹیویشنل مقرر، ہیری ہنٹن ’’زگ‘‘ زکلر نے خطاب کرنا تھا۔ مجھے بھی تقریر کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ تقریب میں بیس ہزار لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ میں سٹیج کے پیچھے زگ زکلر کے ساتھ بیٹھی تھی۔موقع سے فائدہ اٹھا کر میں نے ان سے دریافت کیا ’’جو مردوزن آپ کو سننے آتے ہیں، وہ ان میں سے یقیناً سبھی آپ کے پرستار نہیں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کے ناقد ہی ہوں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا رویّہ کیسا ہوتا ہے؟‘‘

وہ مسکرا کر بولے ’’بھئی میں ان مردوزن پر کم ہی توجہ دیتا ہوں جو منفی طرز فکر رکھیں اور کسی قیمت پر اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوں۔ اس لیے میں اپنی توانائی ایسے لوگوں پر خرچ کرتا ہوں جو اچھی اچھی باتیں سننے اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے یہاں آتے ہیں۔‘‘

یہ نصیحت میرے دل میں کھب سی گئی۔ اس سے میں نے یہ سیکھا کہ اپنے ناقدین کی منفی باتوں کو نظر انداز کردو اور ان لوگوں کی بہتری پر اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرو جو آپ کے ساتھ گانا اور ناچنا چاہتے ہیں۔
(بسیتھ گوڈین، ادیبہ و پبلک اسپیکر)

استقامت اور ہمت نہ ہارنا
یہ پچاس سال پہلے کی بات ہے، میں فونیکس شہر کے ایک اخبار سے منسلک تھا۔ ایڈیٹر نے میری ذمے داری لگا دی کہ ہائی کورٹ جاکر رپورٹنگ کرو۔ چناں چہ میں مختلف عدالتوں میں جاکر مقدمات کی سماعت سنتا۔ جب مقدمہ ختم ہوتا، تو وکلاء ملزمان اور کبھی کبھی ججوں سے بھی سوال کرتا۔مجھے کورٹ رپورٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے شروع میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اکثر لوگ میرے سوالات کو ٹال جاتے اور میں مطلوبہ جواب حاصل نہ کرپاتا۔ یوں میری رپورٹنگ ادھوری اور کمزور رہتی۔ اس کوتاہی پر ایڈیٹر نے چند بار ڈانٹ ڈپٹ بھی کی۔

ہائی کورٹ میں ایک خاتون بھی بحیثیت جج کام کرتی تھیں۔ ایک دن جب مقدمے کی سماعت ختم ہوچکی تھی اور وہ اپنے چیمبر سے نکل رہی تھیں، تو انہوں نے مجھے بنچ پر افسردہ بیٹھے دیکھا۔ وہ میرے قریب آئیں اور کہا ’’نوجوان! تم کچھ پریشان نظر آتے ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘

میں نے انہیں بتایا کہ ناتجربے کاری کے باعث میں کورٹ رپورٹنگ صحیح طرح نہیں کرپاتا جس پر ایڈیٹر ناراض ہوتا ہے۔ یہ سن کر خاتون جج نے کچھ سوچا اور پھر بولیں ’’بہترین رپورٹنگ کرنے کا ہنر استقامت اور ہمت نہ ہارنے میں پوشیدہ ہے۔ مطلب یہ کہ تم متعلقہ شخص سے مسلسل سوال کرتے رہو تاایں وہ جواب دے ڈالے۔ مطلوبہ جوابات حاصل کرنے تک اس کا پیچھا نہ چھوڑو۔‘‘

آج میں الزائمر مرض میں مبتلا ہوں۔ میری یادداشت رفتہ رفتہ کمزور ہورہی ہے۔ پھر بھی میں اس دانش مندانہ نصیحت پر عمل کرتا ہوں جو برسوں قبل سینڈرا اوکونر نے دی تھی۔ انہی کو آگے چل کر امریکی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سینڈرا کے شوہر، جان بھی دو عشروں تک الزائمر مرض سے نبرد آزما رہے اور پھر اسی بیماری میں چل بسے۔ لیکن میں سوالات کرنے کی قوت سے اپنی یادداشت توانا رکھنے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہوں۔
(گریگ اومبرائن، صحافی اور ادیب)

جان لڑا دو
جب میں پچیس برس کا تھا تو طبی معائنے سے انکشاف ہوا کہ میں ڈائی سیلسیا کی نرم قسم میں مبتلا ہوں۔ یہی وجہ ہے، میں پڑھنے لکھنے میں دقت محسوس کرتا تھا۔ تاہم اس انکشاف کے بعد بھی میں نے طب کی تعلیم پڑھنا جاری رکھی۔ میں نے بچپن سے سرجن بننے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔

مگر جب پتا لگا کہ میں ڈائی سیلسیا میں مبتلا ہوں، تو میرے بعض اساتذہ اور کالج انتظامیہ بھی مجھ پر زور دینے لگی کہ میں طب کی تعلیم چھوڑ دوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس بیماری کے باعث کبھی سرجن نہیں بن سکتا۔ تاہم میں ان کی باتوں سے دل برداشتہ نہیں ہوا… کبھی کبھی وہ نصیحت یا مشورہ بہترین ثابت ہوتا ہے جس پہ آپ عمل نہ کریں۔دراصل میری مستقل مزاجی کا راز ایک چھوٹے سے جملے میں چھپا تھا۔ یہ جملہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ مجھے اتنا پسند آیا کہ اسے کاٹ کر اپنی ڈائری میں رکھ لیا۔ جب بھی روزانہ رات کو ڈائری لکھتا تو اسے پڑھ لیا کرتا۔ جملہ یہ تھا ’’جس خیال کو سوچا جاسکے، اسے تخلیق کرنا بھی ممکن ہے۔‘‘(“What can be conceived can be created.”)

میں نے لوگوں کے کہنے کی پروا نہیں کی اور طبی تعلیم پاتا رہا۔ آخر میں سرجن بننے میں کامیاب رہا۔ کئی سال بعد مجھے علم ہوا کہ درج بالا جملہ کار کے ایک اشتہار کا حصہ تھا۔ بہرحال میں مرتے دم تک یہ جملہ نہیں بھول سکتا۔ یہ انسان کو بتاتا ہے کہ اگر تم بلند و بالا تصّورات رکھتے ہو تو پھر انہیں عملی روپ دینے کی خاطر جان لڑا دو۔
(ڈاکٹر ٹوبی کوسگریو، سی ای او کلیولینڈ کلینک)

امی ابو، خبردار!
جب میں زچگی کرانے ہسپتال میں داخل ہوئی تو ایک نن بھی وہاں مقیم تھی۔ وہ اپنے کسی مرض کا علاج کرانے آئی ہوئی تھی۔ ہمارے بستر ساتھ ساتھ تھے لہٰذا وہ میری سہیلی بن گئی۔ جب ٹام نے جنم لیا، تو نن نے میرے شوہر کو ایک ننھی یہ نظم دی:
’’نوجوان، اب جہاں بھی جاؤ، محتاط رہو
جو بھی کچھ کرو، احتیاط سے کرو
اب دو ننھی آنکھیں تمہیں تک رہی ہیں
دو ننھے پیر تمہارے نقش قدم پر چلیں گے‘‘

جب میں نے یہ نظم پڑھی تو اشکبار ہوگئی۔ والدین عام طور پر دھیان نہیں دیتے کہ بچے بڑی توجہ سے ان کی حرکات دیکھتے اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اہل خانہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ دن میں کتنی بار ’’پلیز‘‘ اور ’’شکریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ اشارہ تو نہیں توڑتے اور ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، بچے بظاہر لاپروا نظر آتے ہیں مگر وہ والدین کے ہر اٹھتے قدم کو بھی بغور دیکھتے ہیں۔
(پاؤلا سپنسر، صحافی اور ادیب)

چھوٹی چھوٹی خوشیاں
جب میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کا آغاز کیا توتین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ بچوں کو سنبھالنے اور ساتھ ساتھ تعلیم پانے کے دوہرے بوجھ نے مجھے ذہنی و جسمانی طور پر خاصا تھکا دیا۔ اخر میں طبی مشورہ کرنے ایک سن رسیدہ ڈاکٹر کے پاس پہنچی۔
ڈاکٹر نے مجھے ایک نظر دیکھا پھر پوچھا ’’یہ بتاؤ‘ تم نے آخری بار کب کتاب پڑھ کر لطف اٹھایا تھا؟‘‘ بتایا کہ عرصہ ہی ہوگیا۔ وہ مسکرائے اور بولے ’’بیٹی، اپنی زندگی میں لطف اٹھانا سیکھو۔ کوئی کتاب پڑھو، کوئی کھیل کھیلو۔ لطف کے یہ لمحات زندگی میں رنگ ہی نہیں لاتے بلکہ اسے بدل بھی ڈالتے ہیں۔‘‘

میں اسی دن بچوں کو لینے سکول گئی، تو راستے میں ایک بک سٹور سے کتاب بھی خریدلی۔ رات کو اس کا مطالعہ کیا، تو واقعی کئی دن بعد بہت مزہ آیا۔ میں نے پھر ڈاکٹر صاحب کی نصیحت پلّے سے باندھ لی۔ اب میں روزمرہ زندگی میں لطف حاصل کرنے کے چھوٹے چھوٹے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہوں تاکہ میرا دماغ اور جسم یکسانیت و بوریت کا نشانہ بن کر بنجر نہ ہوجائے۔
(مارتھا بیک، پی ایچ ڈی عمرانیات)

عمدہ ازدواجی زندگی کا راز
ایک بار میں سیروتفریح کرنے ریاست جارجیا گئی۔ وہاں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو پچھلے ساٹھ برس سے اپنے خاوند کے ساتھ نباہ کررہی تھی۔ باتوں باتوں میں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی شادی کو طویل عرصہ گزر گیا۔اس دوران آپ کو ازدواجی زندگی گزارنے کے تجربات بھی ملے ہوں گے۔کیا آپ نوجوان نسل کوان تجربات کا نچوڑ بتا سکتی ہیں؟ وہ مسکرائیں اور گویا ہوئی:
’’ ہرگز ایسا انسان بننے سے مت گھبراؤ جسے سب سے زیادہ چاہا جائے۔‘‘
(نیٹ بگیلے، مصنف و کاروباری)

اپنی موجودگی کو کارآمد بناؤ
میری والدہ ایک جہاں دیدہ اور ہمدرد خاتون تھیں۔ وہ اکثر مجھے کہتیں ’’انسان کو چاہیے کہ وہ آپ کو ہرجگہ کارآمد اور بامقصد بنائے۔‘‘ مثال کے طور پر آپ کے دفتر میں میٹنگ ہے تو اسے یادگار بنانے کی خاطر کوئی نیا کام کیجیے۔ کوئی منصوبہ بن رہا ہے تو اپنی ذہانت و صلاحیت سے اس میں جدت لائیے۔ انسان میز صاف کرتے یا کوڑا پھینکنے سے بھی اپنے آپ کو کارآمد بناسکتا ہے۔ اسی طرح نہ صرف انسان کو دلی سکون ملتا ہے بلکہ وہ دوست احباب میں مقبولیت بھی پالیتا ہے۔
(سین شمین، صنعتکار)

جیتنے اور ہارنے والوں میں بنیادی فرق
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ میرے سکول میں کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے پڑھتے تھے۔ میں سکول کی فٹ بال ٹیم کا کپتان تھا۔ ایک دن ہمارا مقابلہ ایسی ٹیم سے ہوا جس کے سبھی لڑکے یتیم خانے میں رہتے تھے۔ ان کے کپڑے معمولی تھے۔ بعض نے ٹیپ سے اپنی ٹی شرٹس پر نمبر چپکا رکھے تھے۔میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لٹے پٹے سے لڑکے ہمارا کیا مقابلہ کریں گے؟ ہم نے تو انہیں خوب گول مارنے ہیں۔ غرض ہم نے مخالف ٹیم کا خاصا مذاق اڑایا۔ آخر میچ شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ حریف تو فٹ بال کھیلنے میں طاق ہیں۔ انہوں نے ہمیں تھکا ڈالا اور میچ جیت گئے۔جب میچ ختم ہوگیا، تو ابو قریب آئے اور مسکراتے ہوئے بولے ’’بیٹے! اس میچ سے تم نے دیکھ لیا کہ جیتنے کی امنگ بہت طاقت رکھتی ہے۔ جیتنے اور ہارنے والوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ فاتح جیت کی امنگ رکھتے اور فتح پانے کے لیے جان لڑا دیتے ہیں۔‘‘
اس واقعے سے مجھے سبق ملا کہ انسان کامیابی چاہتا ہے، تو سخت محنت کرے اور اپنے آپ میں فتح کی امید کا ولولہ جگائے رکھے۔ دوسری صورت میں ٹیپ سے نمبر چپکانے والا لڑکا ہی کامیاب ہوجائے گا۔
(ڈاکٹر فل میگریو، ٹی وی پرسنیلٹی)

دلی اطمینان
چالیس سال پہلے میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ چہل قدمی کرنے نکلی۔ ہم باغ میں ٹہل رہے تھے کہ میں امی کو بتانے لگی کہ ریاضی کی ٹیچر، مس الزبتھ مجھے بہت پسندکرتی ہیں۔ پوری جماعت میں، میں ہی ان کی پسندیدہ ترین شاگرد ہوں۔ غرض میں اس قسم کی شیخیاں مارتی رہی۔ مجھے قطعاً علم نہ تھا کہ مس الزبتھ کی والدہ ہمارے پیچھے ٹہل رہی تھیں۔ انہوں نے میری ساری گفتگو سن لی۔
اگلے دن جب چھٹی ہوئی، تو مس الزبتھ نے مجھے اپنی جماعت میں بلوالیا۔ پھران کی والدہ نے جو میری باتیں سنی تھیں، وہ دہرائیں۔ میں تو شرمندگی کے مارے پانی پانی ہوگئی۔ مجھے یقین تھا کہ اتراہٹ اور شیخی دکھانے پر وہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ کریں گی مگر انہوں نے کہا:’’جوڈتھ، یاد رکھو، ہر انسان اپنا ہی سب سے بڑا پرستار ہوتا ہے اور سب سے بڑا ناقد بھی، اسے کسی کی نظروں میں پسندیدہ ترین بننے کی خاص ضرورت نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایسے کام کرے جن سے اس کے من کو شانتی و سکون ملے۔ اگر انسان کو دلی اطمینان ہی میسر نہیں تو پھر ہر بات بیکار ہے۔‘‘
(جوڈتھ روڈن، صدر راک فیلر فاؤنڈیشن)

حقیقی ماہر
یہ چند سال پہلے کی بات ہے، مجھے موٹی ویشنل مقرر، ڈاکٹر نیندو قوبین کا ایک لیکچر سننے کو ملا۔ وہ کہنے لگے ’’اگر آپ ایک حقیقی ماہر (ایکسپرٹ) کی باتیں سن رہے ہیں، تو آپ آسانی سے اس کی ہر بات سمجھ لیں گے۔ اگر آ پ کو اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقی ماہر نہیں ہے۔‘‘
ایک انسان روزمرہ زندگی میں کئی ما ہرین سے ملتا ہے اور ان کی باتیں سنتا ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب انسان کو کئی ماہر کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، تو وہ خود کو قصور وار سمجھتا ہے لیکن ڈاکٹر بندو قوبین کی نصیحت نے تو میرا دماغ روشن کردیا۔ اب میری جانچ پرکھ کا پیمانہ بالکل سادہ ہے… اگر کسی ماہر کی باتیں مجھے سمجھ میں نہ آئیں، تو میں اس کا لیکچر نہیں سنتا۔
(کپلنگ ایپل، استاد و مصنف)

اصل میں ہم کون!
ایک رات مجھ پر کام کا خاصا بوجھ تھا۔ جب مجھے بوریت ہوئی تو اس سے نجات پانے کی خاطر اپنی سہیلی لڈیا کو فون کردیا۔ طویل عرصے بعد ہماری بات چیت ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ کام کی زیادتی نے مجھے بدحال کررکھا ہے۔ ذمے داریوں سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں۔
لڈیا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی ’’میری! تمہیں یاد ہے، تم اکثر مجھے ایک جملہ کہا کرتی تھیں۔ وہ یہ کہ جب میں مروں گی، تو میری تمنا ہوگی، میری قبر پر کھڑے لوگ یہ مت کہیں کہ اس نے اپنا گھر پرفیکٹ حالت میں رکھا۔ بلکہ میں یہ سننا چاہوں گی، واہ اس عورت نے تو دنیا کو مسخر کرلیا۔‘‘
جب لڈیا نے یہ بات سنائی، تو مجھے بھی یاد آگئی ورنہ میں اسے بھول چکی تھی۔ اس یاد نے میری مایوسی کافور کر ڈالی اور مجھے پھر تازہ دم کردیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی احساس ہوا کہ پرانے دوست اور ان سے بندھے رشتے عظیم نصیحت ہیں کہ وہ گمشدہ یادوں کے خزینے کو سامنے لے آتے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل میں ہم کون ہیں… وہ نہیں جنہیں ذمے داریوں کا بوجھ برسوں کے عرصے میں جنم دے ڈالتا ہے۔
(میری باؤنڈز، صحافی اور ادیب)

امتحان کے لیے تیار
1980ء میں جب میں نے گریجویشن کرلی تو تقریبات میں اپنی مزاحیہ گفتگو کے جوہر دکھانے لگا۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگلے دس برس میں اتنا مشہور ضرور ہونا ہے کہ جونی کارسن مجھے اپنے پروگرام ’’دی ٹونائٹ شو‘‘ میں مدعو کرلے۔ یہ تب امریکا کا مشہور ترین مزاحیہ پروگرام تھا۔ اس میں وہ مختلف شخصیات کو بھی بلاتا تھا۔
1990ء کے اوائل میں میرے آٹھ آڈیشن ہوئے مگر مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آخر نویں آڈیشن میں کامیابی ملی اور مجھے پروگرام میں شامل کرلیا گیا۔ یوں میرا دس سالہ خواب پورا ہو گیا۔دی ٹونائٹ شو کے آڈیشن دیتے ہوئے ہی میری ملاقات جم میکولے سے ہوئی۔ وہ پروگرام کا پروڈیوسر تھا۔ وہ اکثر آڈیشن دینے آئے نوجوانوں سے کہتا تھا ’’بہتر ہے،جونی کارسن کے ساتھ پرفارم کرنے کی خاطر پانچ سال دیر سے آؤ جاؤ نہ کہ ایک دن پہلے آن ٹپکو۔‘‘
جم میکولے کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کامیابی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ انسان درست وقت پر درست جگہ جاپہنچے بلکہ ضروری یہ ہے کہ جب وقت آئے، تو وہ مقابلے یا امتحان کے لیے پوری طرح تیار ہو۔
(جم ڈینہیم، اسٹینڈ اپ کامیڈین)

سچ کا سامنا کرو
میں پندرہ سال کی تھی کہ میں نے اپنی سہیلی کو بتایا، میرے اندر ایچ آئی وی وائرس موجود ہے۔ یہ وائرس مجھے اپنے ایڈز زدہ باپ سے ملا تھا۔ جب میں آٹھ سال کی تھی تو وہ چل بسا تھا۔ سہیلی کو اپنا راز بتانا میرے لیے مصیبت بن گیا۔
سہیلی کے ذریعے سکول میں سب لڑکے لڑکیوں کو پتا چل گیا کہ میرے جسم میں ایڈز پیدا کرنے والا خطرناک وائرس پل رہا ہے۔ اب وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی کترانے لگے۔ میں جہاں جاتی میرا مذاق اڑایا جاتا۔ میرے گھٹیا نام بھی رکھ دیئے گئے۔ اس ذہنی ٹارچر کو میں برداشت نہیں کرسکی لہٰذا ایک دن نیند کی گولیاں کھالیں۔
میری زندگی باقی تھی، اس لیے خودکشی کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ ہسپتال میں میری ملاقات ایک ماہر نفسیات سے ہوئی۔ اس نے مجھے کہا ’’بیٹی، جو لڑکے لڑکیاں تمہیں تنگ کرتے ہیں، انہیں نظر انداز کردیا کرو۔‘‘
میں نے کہا، میں ایسا ہی کرتی ہوں اور وہ ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی۔ ماہر نفسیات کہنے لگی ’’دیکھو، نظر انداز کرنا اور نظر انداز کرنے کی اداکاری کرنا… یہ دو بالکل مختلف رویّے ہیں۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم کس قسم کا رویہ اختیار کروگی۔‘‘
ماہر نفسیات کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی طنزیہ باتوں سے مجھے سخت تکلیف پہنچتی تھی۔ لیکن میں ظاہر یہی کرتی کہ مجھ پر ان کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ اگر میں ردعمل دکھاتی، تو یہ طنزیہ گفتگو کرنے والوں کی جیت ہوتی۔
اسی دن مگر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے تسلیم کرنا ہوگا کہ لوگوں کی باتیں مجھ کو دکھ دیتی ہیں۔ اس فیصلے نے مجھے ذہنی سکون عطا کرڈالا۔ اب مجھے کسی قسم کی اداکاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یوں میں دکھ و غم سے نجات پاکر آزاد ہوگئی۔
(ہیگی رول، سماجی کارکن اور لکھاری)

The post مایوسی کو اُمید میں بدل لیجیے؛ 21 مشورے جو زندگی گزارنا سکھائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

’’میلہ دو دن کا‘‘ یہاں بیٹھ کسے نہیں رہنا

$
0
0

دنیا کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دو دن کا میلہ ہے، یہاں ہمیشہ کسی کو نہیں رہنا۔ اس میلے کو اسی طرح چھوڑ کے چلے جانا ہے لیکن جس دو دن کے میلے کا احوال میں آپ کو بتانے چلا ہوں وہ اتنا خوب صورت اور دل چسپ تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اب اگلے سال کا میلہ بھی ضرور دیکھوں۔

یہ میلہ ہر سال یکم اور دو اپریل کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کی کنگز کائونٹی کے شہر ہینفرڈ میں لگتا ہے اور یہ 1979ء سے بلا ناغہ ہر سال منعقد ہورہا ہے۔ اس میلے کا نام RENAISSANCE OF KINGS FAIRE ہے۔

میں جب میلے میں پہنچا تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن سبھی خوشی سے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ میلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ میں نے ایسی خواتین کو بھی دیکھا جو چند دن کے نوزائیدہ بچے کو گلے سے لٹکائے خوش خوش میلے کو انجوائے کررہی تھیں۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے پوچھا کہ اتنے چھوٹے بچے کو ساتھ لے کر میلہ دیکھنا مشکل کام نہیں؟ وہ ہنسی اور بولی پھر دوسرے میلے کے لیے ایک سال انتظار کرنا پڑتا۔

ایک بڑی اماں جی وہیل چیئر پر میلہ دیکھنے آئی تھی ان کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ جو محترمہ وہیل چیئر دھکیل رہی تھیں وہ ان کی بیٹی تھیں جو اپنی ماں سے بھی زیادہ بوڑھی دکھائی دے رہیں تھیں۔ بیٹی نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ بیمار رہنے کی وجہ سے میں ماں سے بھی بوڑھی دکھائی دیتی ہوں اور یہ کہ میری والدہ معذور ہیں چل نہیں سکتیں، اور میں اپنی والدہ سے 27 سال چھوٹی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میلہ دوبارہ ایک سال کے بعد لگے گا، اس لیے میری والدہ اور میں یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھیں۔

آپ نے اب اچھی طرح اندازہ کرلیا ہوگا کہ میلہ کتنا دل چسپ تھا۔ میلے میں کئی دل چسپ تفریحی پروگرام شامل تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ مجھے سب سے زیادہ انگلینڈ کے بادشاہ کا کھیل پسند آیا۔ یہ غالباً 16ویں صدی کا زمانہ تھا۔ انگلینڈ کا بادشاہ ہنری ہشتم فرانس کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا۔ اسٹیج پر ملکہ عالیہ اور دوسرے درباری وہی پرانے 16ویں صدی والے شاہی لباس میں کھڑے تھے۔ محافظ سپاہی تلواریں اور نیزے لیے چوکس کھڑے تھے۔ ملکہ عالیہ اپنے اعلیٰ عہدے دار سے بڑے وقار کے ساتھ بات کررہی تھیں ۔ اچانک وردی میں ملبوس ایک فوجی نے دربار میں بادشاہ کی آمد کی اطلاع دی، جس کے بعد کنگ ہنری ہشتم اپنے شاہی لباس میں تلواریں اور نیزے بردار محافظوں کے جلوے میں تشریف لائے۔ بادشاہ فتح یاب ہوکر واپس لوٹا تھا۔

بادشاہ کی شخصیت بہت رعب دار اور باوقار تھی۔ پھر بادشاہ کا ملکہ عالیہ اور اپنے کمانڈر سے مکالمہ ہوا۔ تماشائی زور زور سے بادشاہ کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ بادشاہ کے تمام درباری مرد و خواتین بھی بادشاہ کے لیے تحسین و آفرین کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ایک متاثر کن کھیل تھا جسے اس کے تمام اداکاروں نے بڑی خوبی سے نبھایا۔ خاص طور پر پرانے یورپی لباس نے اس خوب صورت کھیل میں حقیقت کا رنگ بھردیا۔ اس ڈرامے کے مکالمے بھی متاثر کن تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم واقعی بادشاہ ہنری ہشتم کے دربار میں بیٹھے ہیں۔ ہر درباری اور سپاہیوں نے وہی پرانے یورپی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ملکہ کی شخصیت بھی متاثر کن تھی۔

لوگوں نے انہماک سے یہ کھیل دیکھا اور پسند کیا۔ یہ 20-15 افراد پر مشتمل ایک ٹیم تھی جس نے بڑی مہارت اور محنت سے یہ متاثر کن کھیل پیش کیا۔ میلے کے دوسرے روز بھی یہی کھیل دوبارہ پیش کیا گیا اور لوگوں نے اسی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے بعد میں ملکہ عالیہ اور شاہ ہنری سے ان کے ’’محل‘‘ میں ملاقات کی۔ بادشاہ کا کردار ادا کرنے والے نوجوان نے مجھے بتایا کہ ہم کوئی پیشہ ور ایکٹر نہیں ہیں، بلکہ شوقیہ یہ کھیل پلے کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا کاروبار یا ملازمت کرتا ہے اور ہم صرف لوگوں کو پرانے زمانے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اس زمانے کی تہذیب و تمدن اور کاروبار سلطنت چلانے کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس جذبے کے تحت اکھٹے ہوکر یہ ’’پلے‘‘ کرتے ہیں، پھر ہر کوئی اپنی اپنی جاب پر چلا جاتا ہے اور جب دوبارہ کہیں کھیل پیش کرنا ہو تو ہم اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں چلے جاتے ہیں۔ مجھے ان کے اس رضاکارانہ جذبے نے بہت متاثر کیا۔ ان کی پوری ٹیم کے ارکان بہت بااخلاق تھے وہ لوگوں کی طرف سے معلومات کے لیے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب مسکراتے ہوئے دیتے تھے۔

مداریوں کی پارٹیاں بھی میلے کی ایک اہم رونق تھیں۔ ان کے ساتھ بھی 7-5مرد و خواتین کی ٹیم ہوتی ہے۔ ایک مداری صاحب کا قد ساڑھے چھے فٹ سے زیادہ تھا۔ انہوں نے مختلف کرتب دکھائے۔ کئی کرتب تو واقعی حیران کن تھے۔ ایک مداری بڑی بڑی 3 چھریوں کو اپنے ہاتھوں سے مسلسل 10-8 منٹ تک فضا میں اچھالتا رہا۔ اس کے ہاتھ اس طرح باری باری چھری کو پکڑتے تھے کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی تھی۔ لوہے کے رنگ میں سے اپنے پورے بدن کو گزار دیتا جس میں سے بظاہر ایک پتلا دبلا لڑکا بھی نہیں گزرسکتا۔ پھر جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال کر بجھانا، لوہے کے رنگ میں آگ لگاکر اس میں سے گزرنا غرض بے شمار حیران کن کمالات دکھائے گئے۔ ایک پارٹی نے ایک اور حیرت انگیز مظاہرہ کیا۔ دو مداری ایک دوسرے کی طرف لکڑی کے گول گول سے بنے ہوئے رولر جو ایک طرف سے ذرا موٹے تھے، تیزی کے ساتھ پھینکتے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں 3-3 رولر تھے۔

دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ 2 رولر تو ہر وقت ہوا میں رہتے ہیں۔ مداری کے دونوں ہاتھ مسلسل رولر کو پکڑ پکڑ کر ہوا میں دوسرے کی طرف اچھال رہے تھے۔ یہی عمل دوسرا مداری بھی کررہا تھا اور کمال یہ تھا کہ کوئی رولر نیچے نہیں گرتا تھا۔ یہ کرتب مسلسل تیزی کے ساتھ 10-8 منٹ جاری رہا۔ بعض دفعہ ہمیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ تماشائی کرتب دیکھ کر بہت محظوظ ہورہے تھے اور دل کھول کر مداری کو داد دے رہے تھے۔ مداری اپنے کرتبوں کے ساتھ ساتھ جگت بازی بھی کرتے ہیں۔ ان کی جگت بازی پر تماشائی دل کھول کر ہنستے ہیں۔ یہاں کے لوگ ہر کھیل کو پوری طرح انجوائے کرتے ہیں۔ جب مداری جان بوجھ کر گرتے تھے تو لوگ ان کے گرنے پر بھی ہنس ہنس کر بے حال ہوجاتے تھے۔ لوگ داد دینے کے لیے ہا ہا ہوہو کی زوردار آوازیں نکالتے تھے اور ان داد دینے والے لوگوں میں بچے بوڑھے جوان سبھی شامل تھے۔

اب آئیے جناب 16ویں صدی کے بیڑے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ ایک بادبانی کشتی ہے جو 20-18 فٹ لمبی ہے۔ اوپر جھنڈے لہرارہے ہیں۔ رسیاں بادبانوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اندر سمندر میں کام آنے والا سارا سامان بھی اسی 16ویں صدی کے زمانے جیسا ہے اور تو اور کشتی کے ناخدا اور اس کی فیملی نے بھی اپنا سارا لباس وہی پرانے ڈیزائن اور رنگوں کا پہنا ہوا ہے جو بہت تاریخی اور خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ کشتی کے ساتھ ایک خوب صورت دوشیزہ جل پری بنی ہوئی بیٹھی ہے جو اوپر سے لڑکی اور نیچے سے مچھلی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ خاص طور پر بچے جل پری کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے ہیں۔ کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی سی سیڑھی لگی ہوئی ہے جہاں سے بچے بڑے چڑھ کر کشتی پر جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر تصاویر بنواتے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہاں بھی کشتی کا سارا عملہ بچوں اور بڑوں کے ہر سوال کا جواب خندہ پیشانی سے دے رہے تھے اور اس طرح بچے بحری سفر کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کررہے تھے۔

اب چلیے ایک دوسرا فن دیکھتے ہیں۔ یہ زیادہ تر بچوں کے لیے ہے۔ بچے آگے چلے جاتے ہیں اور ان کے والدین سامنے تصاویر اور مووی بناتے رہتے ہیں۔ بچوں کو تلوار چلانے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ تلواریں لکڑی کی یا کسی ہلکی دھات کی ہوتی ہیں۔ عمر کے لحاظ سے مختلف سائز کی تلواریں ہوتی ہیں۔ بچے تلواریں پکڑ کر مشق کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ پھر جھوٹ موٹ کا مقابلہ کرواتے ہیں اور فن سکھانے والا بچے کے وار سے نیچے گرجاتا ہے۔ بچہ اس کی چھاتی پر پائوں رکھ کر فتح کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ اس طرح بچوں کو اپنا بچائو کرنے کا طریقہ آتا ہے اور بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں بھی فنکار بچوں بڑوں کے ہر سوال کا جواب خوش دلی سے دے رہے تھے۔

میرا خیال ہے کہ اب آپ تھک گئے ہوں گے، بھوک بھی تنگ کررہی ہوگی۔ یہاں 3-2 جگہوں پر سائے کا انتظام کرکے لوگوں کے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا، جہاں لوگ ذرا دم لیتے تھے اور وہیں بیٹھ کر کھا پی بھی لیتے ہیں۔ کھانے پینے کے بہت سے اسٹال تھے جہاں سے ہر قسم کے کھانے ملتے تھے۔ روایتی طریقے سے بھی پیزا وغیرہ تیار کیا جارہا تھا۔ میکسیکو اور یورپین تمام کھانے دست یاب تھے۔ لوگ قطاروں میں لگ کر خوراک خرید رہے تھے۔ سوڈا واٹر اور پانی بھی دستیاب تھا۔

اب آپ نے کھا پی بھی لیا اور کچھ آرام بھی کرلیا۔ اب آئیے ذرا کچھ شاپنگ بھی کرلیں۔ کہیں مردانہ اور زنانہ کپڑوں کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ کہیں خواتین کے ہار سنگھار کی اشیاء ہیں۔ کسی اسٹال پر جیولری بک رہی ہے ۔ ایک اسٹال پر سمندر اور پہاڑوں سے حاصل کیے گئے طرح طرح کے تراشیدہ پتھر رکھے تھے جو بہت دل کش رنگوں میں تھے۔ آئیے ایک بڑے اسٹال پر لوگوں کا بہت رش ہے ذرا دیکھتے ہیں وہاں لوگ کیا خریداری کررہے ہیں۔ یہاں طرح طرح کی خوب صورت تلواریں، کلہاڑیاں اور تیر کمان رکھے ہوئے ہیں۔ طرح طرح کے چھوٹے بڑے چاقو اور خنجر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو دھڑا دھڑ یہ چیزیں خرید کر دے رہے ہیں۔

بڑے بھی خوب صورت تلواریں خرید کر کمر کے ساتھ باندھے پھرتے تھے۔ میلے میں 16-15 اور 17ویں صدی کا رنگ زیادہ نمایاں تھا۔ اس لیے لوگ تلواریں کمر کے ساتھ باندھے اسی زمانے کے کپڑے پہنے ہوئے گھوم رہے تھے۔ خواتین نے شوقیہ عجیب و غریب لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، جن میں پرانے زمانے کی کشیدہ کاری اور موتی وغیرہ لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ پرانے زمانے کے فوجی لباس سرپر لوہے کا خود رکھے ہوئے تھے۔ لوگ مختلف GET UP بنائے ہوئے تھے۔ جو بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ کئی لوگوں کو روک کر میں نے ان کے لباس کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے بتایا کہ یہ لباس کس دور کی عکاسی کرتا ہے اور خوشی سے تصاویر بھی بنوائیں۔

لوگ ہینفرڈ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی یہ میلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ کئی لوگوں نے ’’جوکر‘‘ کا بہروپ بنایا ہوا تھا اور وہ اپنی حرکتوں سے دوسروں کو محظوظ کررہے تھے۔ ایک صاحب نے مکمل ’’ڈینوسار‘‘ کا روپ دھارا ہوا تھا۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ اصلی ڈینوسار ہے یا نقلی۔ جب وہ اچانک کسی کے پیچھے نمودار ہوتا تھا تو بعض دفعہ بچے ڈر جاتے تھے۔ لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنوا رہے تھے۔

آئیے جناب! بینڈ باجے اور ڈھول تاشے کی آوازیں آرہی ہیں۔ اس طرف دیکھتے ہیں کیا ہورہا ہے؟ اسٹیج پر پرانے زمانے کا دلکش لباس پہنے ہوئے خواتین بیلے ڈانس کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ڈانس کے مختلف انداز ہیں۔ ایک ڈانس ختم ہوتا ہے تو دوسرا ڈانس شروع ہوجاتا ہے۔ ڈانس میں اعلیٰ فن کاری کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ کبھی تلوار سر پر اس طرح رکھی جاتی تھی کہ مجال ہے کہ تلوار اپنی جگہ سے ذرا سی بھی ہلے۔ کبھی سر پر مٹکے رکھ کر ڈانس کیا جارہا تھا۔ 12-10 خواتین کا گروپ موسیقی کی ہر تال پر قدم ناپ تول کر رکھ کر ڈانس کررہی تھیں ۔ کبھی میوزک تیز ہوجاتا تھا کبھی ہلکا۔ اسی طرح رقص کے انداز بھی فوراً بدل جاتے تھے۔

ایک فنکار نے سر پر تلوار رکھے ہوئے نیچے بیٹھ کر جھک کر منہ کے ساتھ گلاس اٹھایا اور بغیر ہاتھ لگائے پانی بھی پیا لیکن ڈانس بھی جاری رکھا۔ لوگوں نے کھل کر داد دی۔ تالیاں بجائیں۔ بینڈ میں بھی 12-10 لوگوں کی ٹیم تھی۔ ان سب لوگوں نے بھی 16ویں صدی والے لباس پہنے ہوئے تھے۔ ایک صاحب نے عربی لباس پہنا ہوا تھا۔ بینڈ بھی مختلف دھنیں بجارہا تھا۔ کبھی عربی کبھی یورپین لیکن پرانے طریقوں کے مطابق۔ یہ رقص کافی دیر جاری رہا اور آخر کار رقاصائوں نے جھک کر حاضرین کو سلام کیا اور داد وصول کی۔

واہ بھائی واہ سارنگی کی دلکش آواز آ رہی ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں، لوگوں کا رش لگا ہوا ہے۔ یہاں12-10 خواتین اور مرد انگلینڈ کے شاہ ہنری ہشتم کے زمانے کا لباس پہنے ہوئے اس زمانے کا رقص پیش کررہے ہیں۔ ایک شخص سارنگی سے دھنیں بکھیررہا ہے۔ یہ بھی بڑا دلکش رقص تھا۔ رقاص ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر آگے پیچھے ہوکر رقص کررہے تھے۔ فوراً ساتھی بدل لیتے تھے۔ اب کسی اور کا بازو ہے پھر فوراً قطاریں بدل جاتی تھیں۔ غرض یہ بھی دل چسپ رقص تھا۔

اچانک کنگ ہنری ہشتم اپنے دربار سے اٹھ کر تلوار اور نیزہ بردار محافظوں کے ساتھ ملکہ عالیہ کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے وہاں آجاتے ہیں۔ رقص کرنے والی پارٹی فوراً جھک کر آداب بجا لاتی ہے اور ان کا انچارج انہیں کہتا ہے کہ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ تشریف لائے ہیں ان کے اعزاز میں رقص پیش کیا جائے۔ بادشاہ بڑے وقار سے اجازت دیتا ہے اور رقص شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بہت دل چسپ منظر تھا۔ بادشاہ سلامت پرانے زمانے کے شاہانہ لباس میں سر پر تاج رکھے ملکہ کے ساتھ کھڑے رقص دیکھ رہے ہیں اور رقص کرنے والے بھی وہی 16ویں صدی والے لباس پہنے رقص کررہے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ہم واقعی شاہ ہنری ہشتم کے دور میں انگلینڈ میں کھڑے یہ رقص دیکھ رہے ہیں۔ رقص ختم ہوا۔ رقاصوں نے جھک کر سلام کیا۔ بادشاہ نے ان کی مہارت پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور واپس دربار میں چلے گئے۔

اب دیکھیں کہ دوسری طرف کیا ہورہا ہے۔ لوگ ہنس ہنس کر تصویریں لے رہے ہیں اور وہی پرانے زمانے کے لباس پہنے ہاتھوں میں کوڑے لیے پولیس کے جوان کھڑے ہیں۔ ایک نوعمر لڑکے کی گردن اور ہاتھوں کو لکڑی کے ایک تختے میں جکڑا ہوا ہے اور کوڑابردار اس پر کوڑا تانے رعب کے ساتھ کھڑا ہے۔ ساتھ 4-3 چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہتھکڑیاں پہناکر گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے والدین خوش ہوکر تصاویر بنارہے ہیں۔ بچے بھی جکڑے ہوئے ہنس رہے ہیں۔ یہاں لوگوں کو پرانے زمانے کے ملزموں کو گرفتار کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ بچے بہت خوشی خوشی گرفتار ہورہے تھے۔ والدین بعد میں اس پارٹی کو کچھ نذرانہ دے دیتے تھے۔

اچھا بھائی اب دوسرے پلاٹ کی طرف چلتے ہیں۔ وہاں دیکھیں ڈھول اور باجے کی آوازیں آرہی ہیں۔ یہاں کچھ خواتین پرانے زمانے کے یورپ کے خانہ بدوشوں جنہیں ’’جپسی ‘‘ کہا جاتا ہے کا لباس زیب تن کیے ’’جپسی ڈانس‘‘ کررہی ہیں۔ ان کا ڈانس بھی کمال کا تھا۔ ان کا بڑا سا خیمہ بھی جپسی ثقافت کو ظاہر کررہا تھا۔ ڈھول تاشے بھی وہی پرانے زمانے کی طرز والے تھے۔ یہاں ڈانس کرنے والی ایک لڑکی سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے باقاعدہ یہ پیشہ اختیار کیا ہے؟ اس نے ہنس کر جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں شوقیہ یہ کررہی ہوں۔ میں نے باقاعدہ ڈانس کی تربیت لی ہے۔ اب میں ان لوگوں کے ساتھ جب دل چاہے شامل ہوجاتی ہوں۔ بس یہ مجھے پسند بہت ہے۔ ویسے میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں۔

آئیے اب آپ کو پرانے دور کی ایک اور دل چسپ عدالت دکھاتے ہیں۔ عدالت لگی ہوئی ہے 17-16 ویں صدی والے لباس پہنے سرکاری اہل کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مجرموں کو سزا دینے کے لیے ٹکٹکی رکھی ہوئی ہے جہاں مجرم کے ہاتھ پائوں باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے جب میں وہاں یہ سب دیکھ رہا تھا تو ایک فیملی آئی 3-2 خواتین اور بچے تھے۔ ایک 18سال کا نوجوان لڑکا بھی تھا۔ ایک لڑکی نے عدالت کو ان کے مخصوص کاغذ پر درخواست دی اور لڑکے پر کوئی الزام لگایا۔ اہلکار فوراً اٹھے اور لڑکے کو گرفتار کرلیا اور اس کا جرم اسے بتایا پھر جج نے اس کی عمر پوچھی تو لڑکے نے 18-17سال بتائی جج نے کہا عمر کم ہونے کی وجہ سے ٹکٹکی پر نہ باندھا جائے بلکہ ایک طرف لگے تختے کے سوراخ میں اس کی گردن ڈال کر اور ہاتھوں کو بھی جکڑ دیا گیا۔ اب لڑکا کوئی حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ گھر والے ہنس رہے تھے اور مووی بنارہے تھے۔ گرفتار لڑکا بھی ہنس رہا تھا پھر ایک سپاہی نے اس کے منہ پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسلسل بالوں والا برش اس کے منہ پر پھیر رہا تھا۔ اب لڑکے کی ہنسی بند ہوچکی تھی۔ آخر کار سزا کے بعد لڑکے کو آیندہ جرم نہ کرنے کا وعدہ لے کر رہا کردیاگیا۔ رہائی کے بعد لڑکا ہنس تو رہا تھا لیکن چہرہ ذرا سرخ ہوگیا تھا۔

میں نے آگے بڑھ کر لڑکے کی والدہ کو بیٹے کی رہائی پر مبارک باد دی۔ وہ اور ہنسنے لگے اس کی والدہ کہنے لگی۔ اس کی گرل فرینڈ کو مبارک دیں۔ اچھا میں نے تو اس کو لڑکے کی بہن سمجھا تھا۔ گرل فرینڈ ہنس ہنس کر بے حال ہوگئی اور کہنے لگی۔ میں نے ہی تو عدالت میں درخواست دے کر اسے گرفتار کروایا تھا۔ رہائی کے بعد دونوں دوست گلے ملے اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ ایک دفعہ میں دوبارہ وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ ایک نوجوان کو ٹکٹکی پر ہاتھ پائوں باندھ کر لٹکایا گیا تھا اور سپاہی اس کے سارے جسم پر بار بار ٹھنڈا پانی ڈال رہا تھا اور قہرآلود نظروں سے اس کو کہہ رہا تھا اب بتائو دوبارہ جرم کروگے؟ اس کے تمام گھر والے ہنس رہے تھے اور اس کی تصاویر بنارہے تھے۔ آخر کار سزا کے بعد اس کو رہا کردیا گیا لیکن آیندہ جرم نہ کرنے کے وعدہ پر ۔ لڑکے کا سارا جسم کپڑے پانی سے تر تھے اور لڑکا بھی ہنس رہا تھا۔ گھر والے تو بہت انجوائے کررہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ لڑکا دوبارہ گرفتار ہونے کا نہیں سوچے گا۔ اس قسم کے کھیلوں میں جرم و سزا کے بارے میں بچوں کو آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ نے بھی یہ دلچسپ میلہ دیکھنا ہے تو اب ایک سال انتظار کیجیے۔ اگلے سال پھر اکتوبر کی یکم دو کو اس خوب صورت شہر میں آئیے اور دو دن کا میلہ ضرور دیکھیں لیکن کہتے ہیں کہ یہ دنیا بھی دو دن کا میلہ ہے یہاں کسی کو نہیں رہنا لیکن دنیا امید کے سہارے قائم ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ سب کو سلامت اور صحت مند رکھے اور مجھے بھی۔ پھر آیندہ میلہ اکٹھے دیکھیں گے۔

The post ’’میلہ دو دن کا‘‘ یہاں بیٹھ کسے نہیں رہنا appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>