Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

بات نہیں سنتے، کہا نہیں مانتے!

$
0
0

’’اشعر میری بات بالکل نہیں سنتا، اسے چاہے کتنی آوازیں دے لو، مگر اس کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ یہی حال نادیہ کا ہے۔ سارا دن چیختے رہو بس۔‘‘

خاتون نے اپنی سہیلی کے سامنے شکایتی لہجے میں کہا۔

’’ہاں تم صحیح کہہ رہی ہو، آذر بھی ایسا ہی ہے، اسے نہ تو مہمانوں کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کا ادب لحاظ ہے ذرا، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اسے کس طرح سمجھاؤں کہ میری بات مانے۔ دوسروں کے سامنے تو نہ کرے کم از کم۔‘‘ دوسری طرف سے بھی ایسی ہی بات سامنے آئی۔

یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ ہر گھر کا اور سبھی مائیں اس قسم کے شکوے کرتی ہیں  کہ ان کے بچے ان کے قابو میں نہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی وہ ان کی بات نہیں سنتے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ مگر کبھی آپ یہ بھی سوچیں کہ بچوں کے ان رویوں، نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے اور اس مسئلے سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ کہیں آپ ان سے ایسا کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں یا ایسا کام جس میں ان کی دل چسپی کم ہے۔ جیسے کہ بچوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں پسند نہیں ہوتیں جب کہ وہ ان کے لیے صحت افزا اور بہت مفید ہوتی ہیں۔ آپ جب انھیں وہی کھانے کے لیے مجبور کرتی ہیں تو وہ چڑتے ہوئے کھانے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس موقع پر بدتمیزی بھی کرجاتے ہیں۔

اگر آپ بچوں کو اسی کھانے کا نعم البدل دے دیں تو وہ شوق سے کھائیں گے اور انھیں احساس ہوگا کہ آپ ان کی خواہش کو پورا کرتی ہیں اور ان کا خیال رکھتی ہیں۔ بچے اگر دودھ شوق نہیں پیتے تو انھیں رس ملائی یا فریش جوس بنا دیں۔ اس کے علاوہ بچے سادہ گوشت ناپسند کرتے ہیں اور اسے کھانے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو انھیں چکن ونگز یا سینڈوچ بنا دیں۔ آپ انھیں پیار اور شفقت سے کھانے پینے کی چیزوں کی افادیت کے بارے میں بتائیں گی تو وہ خود ہی اس طرف مائل ہوں گے۔

دوسرا اگر آپ ایک ہی بات کو دہراتی ہیں تو یاد رکھیں اس کی وجہ سے وہ ضدی اور ہٹ دھرم بن گئے ہیں۔ کچھ بچے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں اور ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تو آپ اس بات کو اپنے سَر پر سوار نہ کریں بلکہ ان کی شخصیت کو پرکھیں کہ کہیں وہ دبو اور تنہائی پسند تو نہیں ہیں لیکن جب آپ انھیں مجبور کریں گی اور انھیں زبردستی سب کے درمیان لے جائیں گی تو وہ خود سَر بننے کے ساتھ ساتھ ضدی اور بدتمیز بن جائیں گے اور آپ کی ہر بات کا منفی ردعمل دیں گے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ انھیں اپنے قریب لائیں اور پُراعتماد بنانے کی کوشش کریں۔ اگر بچوں کے مزاج کو سمجھیں گی تو اس طرح آپ کی پریشانیاں بڑھنے گے بجائے کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔

آپ کی بے جا محبت نے انھیں ضدی اور گھمنڈی بنا دیا ہے۔ اب آپ ان کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سختی برت رہے ہیں تو وہ اس سے مشتعل ہو رہے ہیں۔ وہ آپ کے سخت رویے کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اب انھیں سیکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔

بچوں کو بے جا لاڈ پیار نہ کریں، بچپن میں اسی بات کو بری طرح نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے رویے کو متوازن رکھنا پڑتا ہے۔ نہ اتنی سختی کریں کہ وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھیں اور نہ اتنا پیار کریں کہ ان کی اصلاح میں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بچے جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو ان کی بچپن کی عادات مزید پختہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بچے درست سمت نہیں جارہے ہیں اور انھیں سمجھانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس وقت انھیں سختی اور ڈانٹ پھٹکار سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس کوشش کے نقصان زیادہ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ بچے اچانک آپ کی طبیعت میں سختی کو سمجھ نہیں پاتے اور وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنے رویے کو اے کدم نہ بدلیں بلکہ آہستہ آہستہ بچوں کی عادتوں کو ختم کرنے کی کو شش کریں اور انھیں اس طرح سمجھائیں کہ وہ آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جائیں۔

بچوں کو مار پیٹ اور سختی کر کے  ان کی اصلاح کرنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس طریقے سے بچے مزید بگڑ جائیں گے۔ بچوں کو طنزیہ انداز سے سمجھانا اور انھیں بار بار ان کی زندگی میں آنے والی ناکامیوں کا احساس دلانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بچے آپ کا کہنا ماننے کے بجائے آپ کی ہر صحیح بات کو بھی غلط گرداننا شروع کر دیں گے۔

اکثر والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے سامنے ان کے کزنز اور دوستوں کو سراہتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنی صلاحیتوں کو بھی منفی عینک سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور والدین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی بات ماننا تو دور کی بات ان سے اپنی کوئی بات بھی شیئرنہیں کرتے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے سامنے دوسروں کو ضرور سراہیں اور ان کی تعریف کریں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ اس طرح ان کے کزنز کی مثالیں دیں کہ وہ خود بھی ان سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو بہتر بنائیں اور اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لائیں نہ کہ بچوں میں کسی طرح کا احساس کمتری پیدا ہو۔

اپنی بات پر ڈٹے رہیں۔ اگر کسی بات کے لیے آپ نے انکار کر دیا ہے تو اب اپنی بات پر قائم رہیں یعنی فرض کریں کہ آپ بچوں کی کسی بات پر روکتی ہیں جیسے کوئی اسکول ٹور یا کسی دوست کے گھر جانے سے لیکن ان کے والد انھیں اجازت دے دیتے ہیں تو یہ بھی بچوں کے حق میں اچھا نہیں ہے کیوں کہ اس طرح وہ آپ سے دور ہو جائیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے آپس میں مشاورت کرلیں کہ بچوں کو کیا کہنا ہے اور کس طرح اس بات سے روکنا ہے۔ اس طرح بچے آپ کی بات ماننے پر راضی ہو جائیں گی اور آپ بچوں کی اصلاح و تربیت میں کام یاب ہو جائیں گی۔

بچوں پر بے جا پابندیاں بھی انھیں بگاڑنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ بچوں کو ہر جگہ جانے سے منع کرنا اور سختی سے دباؤ ڈالنا بھی ان کے حق میں بہتر نہیں ہوتا۔ اس طرح وہ آپ کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ الغرض آپ بچوں سے ہر بات منوا سکتی ہیں لیکن اس کام میں سوچ بچار اور تحمل کی اشد ضرورت ہے۔

The post بات نہیں سنتے، کہا نہیں مانتے! appeared first on ایکسپریس اردو.


’’ہیلو۔۔۔ کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی؟‘‘

$
0
0

موبائل فون جہاں اپنوں سے رابطے میں رہنے کا ایک آسان اور مؤثر ذریعہ ہے، وہیں خواتین کے لیے رانگ کالز بڑا دردِ سَر ہیں۔

یہ کالز جہاں ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں، وہیں اکثر غلط نہ ہونے کے باوجود خواتین دوسروں کی نظروں میں مشکوک اور احساسِ جرم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسی کالز کی وجہ سے ہنستے بستے گھر اور زندگیاں برباد ہو جانے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

لڑکیوں کے لیے رانگ نمبر اور موبائل فون کال کیسے اذیت اور مصیبت بن سکتی ہے، اسے رانیہ کی زبانی سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ ایک فرضی کردار ہے جس کی مختصر کہانی آپ کو ایسی ذہنی کوفت، اذیت اور شرمندگی سے بچا سکتی ہے۔

رانیہ کے والد دو روز ایک اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد اب گھر لوٹے تھے۔ انہیں تیز بخار، شدید کھانسی اور سینے کے انفیکشن کی شکایت پر اسپتال لے جایا گیا تھا۔ دوست احباب اور رشتے داروں کو ان کے گھر لوٹنے کی خبر ملی تو عیادت کے لیے ان کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ اس سے پہلے بیماری کا سن کر بھی مختلف احباب اور عزیز رانیہ کے موبائل فون پر ان کی خیریت دریافت کرتے رہے تھے۔ وہ اپنے گھر میں سب سے بڑی بھی تھی اور ذمہ دار بھی۔ اسی لیے سب نے اس دوران رانیہ سے رابطہ کیا۔

رانیہ عموماً انجان نمبر سے آنے والی فون کال اٹینڈ نہیں کرتی تھی، لیکن اسی دوران ایک انجان نمبر کی کال دو مرتبہ یہ سوچ کر اٹینڈ کر لی کہ شاید کوئی جاننے والا ہو جو والد صاحب کی طبیعت پوچھنا چاہتا ہو اور یہی بات گویا اس کے گلے پڑ گئی۔ اس لڑکے نے رانیہ کو دوستی کی پیش کش کی اور بات بڑھانا چاہی، مگر مثبت جواب نہ پا کر اب اسے تنگ کرنے لگا تھا۔ اس سِم کارڈ سے اگلی تمام کالز رانیہ نے مسترد کر دیں تو اس نے میسجز بھیجنا شروع کر دیے۔

رانیہ کچن اور گھر کے معمول کے کاموں کے ساتھ مہمانوں کی آؤ بھگت اور والد کی دیکھ بھال بھی کررہی تھی اور اس پر بار بار موبائل فون کا بجنا اس کی قوتِ برداشت پر ضرب لگا رہا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس روز جب قریبی رشتہ دار آئی ہوئی تھیں تو رانیہ جو اپنا موبائل فون والد کے بیڈ کے ساتھ موجود کارنر ٹیبل پر رکھ کر کاموں میں مصروف تھی، اس ڈھیٹ شخص کے بار بار کال کرنے سے روشن ہوتا اور رنگ بیل کمرے میں گونجتی۔ رانیہ نے آکر موبائل فون دیکھا، مگر نظر انداز کر کے چلی گئی۔ تاہم وہ باز نہ آیا اور جب ساتویں بار رانیہ کی موجودگی میں کال آئی تو رشتہ دار خواتین کے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ دوڑ گئی۔

’’کس کی کال ہے اٹھاؤ ناں۔‘‘ ان میں سے ایک خاتون معنی خیز لہجے میں بولیں۔

’’ جی بس یہ ایسی ہی ہے۔‘‘ یہ جملہ ادا کرتے ہوئے رانیہ کو لگا جیسے اس نے کتنی کڑی مسافت طے کی ہو۔ یہ کیا سوچتی ہوں گی کہ کچھ تو ہے، کوئی بہت بے تاب ہے بات کرنے کے لیے تبھی مسلسل کال ملا رہا ہے، ورنہ اس طرح تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ اس کال کو رانیہ تو نظر انداز کر رہی تھی، مگر وہ خواتین نہیں۔ ان کے ہاتھ تو جیسے چٹ پٹا موضوع لگ گیا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ رانیہ موبائل بند نہیں کرسکتی تھی کیوں کہ والد کی چند طبی تشخیصی رپورٹس کی اطلاع آنی تھی اور دوسرا بیرونِ ملک موجود بڑی بہن کی کال کسی بھی وقت آسکتی تھی۔ اسی لیے رانیہ نے فون بھی والد کے قریب ہی رکھا ہوا تھا، مگر اب وہ کیا کرسکتی تھی۔

یہ لفظی منظر کشی موبائل فون سے جڑے ایک عام مسئلے کی نشان دہی کرتی ہے۔ ایسی ہر کال اور اس موقع پر احساسِ شرمندگی سے بچنا چاہتی ہیں تو اس کے چند طریقے ہم آپ کو بتا رہے ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں اپنے ہر صارف کو ناپسندیدہ کال اور پیغامات کو بلاک کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ آپ کال سینٹر پر نمائندے سے بات کر کے یہ طریقہ جان لیں اور اس طرح ہدایات پر عمل کرکے اس مسئلے سے نجات پا سکتی ہیں۔ ایسا کوئی بھی نمبر بلاک کیا جاسکتا ہے۔ ایسا تو شاذ ہی ہو گا کہ آپ کی تنگ نہ کرنے کی درخواست پر کوئی شخص آپ کا پیچھا چھوڑ دے۔

اسی طرح اکثر ایسے مرد کسی لڑکی کی جانب سے ڈرانے، دھمکانے کا اثر بھی نہیں لیتے بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوں آپ جتنی بات کریں گی، باتیں سنائیں گی وہ اتنا ہی محظوظ ہو گا اور بات سے بات نکالتا رہے گا۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ جب بھی رانگ نمبر اٹینڈ ہو جائے تو اس سے بات کیے بغیر لائن منقطع کر دیں۔ ہر بار ایسا ہی کریں اور ڈانٹنے یا سمجھانے کی کوشش نہ کریں۔ بلاک کرنے کی صورت میں ہو سکتا ہے آپ کو کسی دوسرے نمبر سے اسی شخص کی کال موصول ہو، اس نمبر کے ساتھ بھی وہی کریں جو پہلے کرچکی ہیں۔

بدقسمتی سے ہماری ذہنیت آج بھی تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔ لڑکی آج بھی موبائل فون پر گھر والوں، عزیز یا کسی دوست سے چند منٹ بات کرلے تو دور سے دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ اپنے کسی عاشق یا دوست سے راز و نیاز کر رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں تب بھی کوئی لڑکی راہ چلتے ہوئے جب موبائل کان سے لگاتی ہے اور چند منٹ تک محوِ گفتگو رہتی ہے تو اس کا اچھا تاثر نہیں  لیا جاتا۔

’’کال بار بار کیوں آ رہی ہے؟ کون کر رہا ہے؟ اور ضرور اپنا نمبر تم نے ہی اسے دیا ہوگا‘‘ یہ وہ سوالات ہیں جو ایک لڑکی سے بہت آسانی سے کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اس کے جواب میں اگر وضاحت دینا چاہیں تو کوئی اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور یہ سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ لڑکی کا نمبر بھی آؤٹ ہو سکتا ہے اور اگر کوئی اسے تنگ کر رہا ہے تو اس میں اس لڑکی کا کیا قصور ہے۔

اگر آپ ایسی صورتِ حال کا سامنا کر رہی ہیں تو پہلی کوشش یہی کریں کہ اس نمبر کو فوراً بلاک کردیں۔ کیوں کہ کسی بھی نمبر کو بلاک کرنے کا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ آپشن ہر فون میں موجود ہوتا ہے اور آپ ایسا آسانی سے کرسکتی ہیں۔

دوسرا حل یہ ہے کہ ایسے کسی نمبر پر لمبی بات کریں، نہ ہی بحث کریں۔ اس کے کسی بھی وائس یا ٹیکسٹ میسج کا جواب ہرگز نہ دیں۔ آپ دیکھیں گی کہ وہ چند روز بعد خود ہی تھک ہار کر آپ کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ یاد رکھیں آپ کے لیے یہ جاننا ہرگز اہم نہیں کہ فون کے اُس جانب کون ہے۔ کیا وہ آپ کا کوئی واقف ہے یا اس الجھن کا شکار بھی نہ رہیں کہ اس کے پاس آپ کا نمبر کہاں سے آیا۔ خصوصاً لڑکیاں جب کسی کو ڈانٹیں گی یا اسے ایسی حرکت سے باز رکھنے کے لیے دھکمی آمیز لہجہ اختیار کریں گی اور اس کے میسج کا جواب دیں گی تو امکانات ہیں کہ تنگ کرنے والا مزید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے گا اور مسلسل تنگ کرتا رہے گا۔ ہاں، خاموش ہو جانے اور مکمل طور پر نظر انداز کر دینے کی صورت میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ایسا کالر مایوس ہو کر آپ کا پیچھا چھوڑ دے۔ یاد رکھیے کسی کو دھمکی یا برا بھلا کہنا بھی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایسے اخلاقی طور پر پست اور گھٹیا کردار کے حامل لوگ گالیاں سن  کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے بلکہ اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔

یہ بھی خیال رکھیں کہ ایسے کسی کالر کے سامنے کم زوری اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ نہایت اعتماد کے ساتھ اس کی کال کاٹ دیں اور کسی بھی دھکمی آمیز یا الجھا دینے والی بات سے متاثر نہ ہوں۔ اس پر ثابت کریں کہ آپ ان معمولی مسئلوں سے گھبرانے والی نہیں ہیں۔ بار بار کال آنے سے بھی پریشان نہ ہوں بلکہ طریقے سے نمٹیں۔ کال اٹینڈ کر کے چھوڑ دیں۔ بار بار بیلنس اور وقت ضایع ہونے کے علاوہ جب وہ یہ جان لے گا کہ آپ موبائل فون کہیں رکھ کر کاموں میں لگ جاتی ہیں تو اسے شدید مایوسی ہو گی اور جلد آپ کی جان چھوڑ دے گا۔ اسی طرح موبائل فون کمپنی کے نمائندے کو اس نمبر کی شکایت کریں۔ یہی نہیں بلکہ پی ٹی اے کو بھی ای میل کرسکتی ہیں اور بتا سکتی ہیں کہ یہ نمبر آپ کو ہراساں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو کسی نمبر سے دھمکی دی جارہی ہے اور تنگ کرنے کا سلسلہ ناقابلِ برداشت ہے تو قریبی پولیس اسٹیشن میں اس کی رپورٹ کریں۔

لڑکیوں کو چاہیے کہ ایسی کالز کی صورت میں اپنے اہلِ خانہ، گھر کے بڑوں کو ضرور آگاہ کریں۔ ان سے کچھ مت چھپائیں۔ کیوں کہ آپ کا گھر اور چار دیواری ہی تو آپ کی اصل پناہ گاہ ہے۔ والدین یا بھائی کو اس بارے میں بتائیں اور معاملہ ان پر چھوڑ دیں۔

پاکستانی سماج میں سب گھرانے ایسے نہیں ہیں کہ جن میں بچیاں اپنے دل کی بات، اپنی مشکلات کا اظہار مردوں سے آسانی سے کرسکیں۔ بعض گھروں کا ماحول اتنا سخت ہوتا ہے کہ لڑکی بے قصور ہوتے ہوئے بھی گھر سے مدد لینے سے ڈرتی ہے۔کیوں کہ عموماً سخت گیر مرد پہلے عورت پر ہی شک کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اس کی اہلیت نہ رکھنے اور کم فہمی کی وجہ سے اگر بات بگڑ جائے تو پورے گھرانے کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنا رویہ اور طرزِ فکر تبدیل کریں اور اپنی بیٹیوں اور گھر کی عورتوں کا اعتماد بحال اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان پر بیجا شک نہ کریں اور ایسی کوئی بات معلوم ہو تو سب سے پہلے ان سے تفصیل سے مسئلہ دریافت کریں اور ان کا مؤقف جانیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسائل عورتوں کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کی جڑ وہ خود ہوں۔ یا یہ ضروری نہیں کہ پہل ان کی طرف سے ہوئی ہو، اپنے گھر کی عورت کو آپ اعتماد اور اعتبار نہیں بخشیں گے تو باہر والوں سے اس کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔

لہذا سب سے پہلے تو اپنے خاندانی نظام میں یہ گنجائش پیدا کریں کہ آپ کی بیٹیاں، بہنیں ڈر اور جھجھک کے بغیر آپ سے اپنا مسئلہ شیئر کرسکیں اور کسی مشکل کے وقت ان کو باہر سے کسی کی مدد نہ لینا پڑے۔ ان کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا اور ان کی بات سننا آپ کا اخلاقی اور سماجی فرض ہے۔

The post ’’ہیلو۔۔۔ کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی؟‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے، ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے

$
0
0

قسط نمبر 37

ہم قبرستان کو بہت پُراسرار مقام سمجھتے ہیں، ایک حد تک تو یہ درست ہے لیکن قبرستان ایسی بھی جگہ نہیں جس سے خائف ہُوا جائے۔ قبرستان تو بہت امن و آشتی کی جگہ ہے، غوروفکر کا مقام ہے، دنیا کی حقیقت اسی جگہ تو دیکھنے کو ملتی ہے، عزیز رشتے داروں کا تعلق یہیں تو کُھلتا ہے کہ وہ جو مرنے پر بین کر رہے تھے، مرنے کے بعد آپ کو کتنا یاد رکھتے ہیں۔ قبرستان تو خود ایک دنیا ہے، اس دنیا کے باسی کسی سے کچھ بھی تو طلب نہیں کرتے، کوئی پانی چھڑک دے تب بھی، نہ چھڑکے تو بھی، کوئی پھول رکھ دے اور نہ رکھے تب بھی، عجب دنیا ہے یہ، جی ہم اس پر بات کرتے رہیں گے اس لیے کہ یہ تو میرے ساتھ ہی رہا ہے اور رہے گا۔

سچ پوچھیے تو مجھے قبرستان سے زیادہ کوئی اور مقام نہیں بھایا، اب آپ اسے میری قنوطیت مت سمجھ لیجیے گا، نہیں بالکل نہیں، اگر آپ ایسا سمجھیں گے تو یہ دعویٰ ہوگا کہ آپ مجھے جان گئے ہیں، چاہے تھوڑا سا ہی، تو دست بستہ عرض گزار ہوں کہ جناب! میں خود اب تک یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ میں خود کو جان گیا ہوں تو آپ کیسے یہ کرسکتے ہیں؟ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ بابا جی قبرستان میں روتے تو تھے ہی لیکن گاتے بھی تھے، چہکتے بھی تھے، اور چاندنی راتوں میں تو ان کا رنگ ہی دیکھنے کا ہوتا تھا، کبھی رو رہے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں۔

کبھی ناچ رہے ہیں اور کبھی ان کا بلند قہقہہ گونجتا۔ جی بہت طویل ہے داستاں، آپ سننے پر جب تک آمادہ رہیں گے، سنائی جاتی رہے گی ورنہ خموشی تو ہے ہی ناں۔ تو بابا جی کہتے تھے جس جگہ مستقل جانا ہے وہاں کے باسیوں سے پہلے ہی سے راہ و رسم پیدا کرو کہ جب تم آؤ تو اجنبی نہ رہو۔ میں سوال کرتا جو میری سرشت میں گُندھا ہوا ہے کہ کیسے؟ تو مسکرا کر پہلے پیار اور شفقت بھری ایک چپت رسید کرتے اور پھر کہتے: دیکھو یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، یہ تو تمہیں خود سوچنا چاہیے، سیدھی بات ہے جہاں جانا ہے تو اس جگہ کی زبان سیکھو، رسم و رواج سیکھو، ان سے دوستی کرو، ان کے ماحول میں رچ بس جاؤ کہ جب تم مستقل آجاؤ تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ سمجھے کہ نہیں کہہ کر وہ مسکراتے۔ جی انہوں نے میری تربیت کی، ایسی کہ مت پوچھیے، جانتے تھے وہ۔ مجھے اس سے آگے منع کیا گیا ہے کہ میں یہیں رکوں تو بس اتنا ہی، کبھی آگے بڑھنے کا پروانہ ملا تو چلیں گے آگے بھی۔

تو بات ہورہی تھی قبرستان کی، کبھی کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا۔ کیسے لکھیں، کیا لکھیں، کس کے لیے لکھیں۔ الفاظ یوں دور بھاگتے ہیں جیسے کوئی ہم کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ یوں ہی تو نہیں ہوتا ناں وہ کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی کبھی الٹ ہوجاتا ہے۔

لفظ قطار باندھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور لکھاری سے التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو۔ پَر لکھاری بھی کیا لکھے! کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے! اندر کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کفالت نہ کریں تو ایسے میں سوائے خموشی کے کچھ چارہ نہیں رہتا۔ بس خاموشی۔ اندر کا قبرستان کتنا اجڑا ہوا، بے چراغ اور گُلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنا قبرستان خود اٹھائے سرگرداں رہتے ہیں۔ اپنی قبر ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوندِ خاک ہوگئے، اندر کی قبر ظاہر ہوگئی۔ لیکن کس قدر سادہ ہیں ہم، سمجھتے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے۔ کوئی نہیں، کبھی نہیں، کچھ بھی تو ایسا نہیں ہوگا۔ اتنے منصوبے، اتنے پروگرام بناتے ہیں اور بُھول جاتے ہیں اندر کی قبر پکار رہی ہے: مجھے بھرنا ہے۔ مجھے بھرنا ہے تُو نے اپنے ناز و نعم سے پالے ہوئے جسم سے میری کوکھ بھرنی ہے۔ کب آئے گا تُو۔ آخر کب۔ میں کتنا انتظار کروں تیرا۔ کب آئے گا تو!

کبھی ہم نے اپنے اندر کی قبر کی وحشت ناک چیخیں سنی ہیں۔ نہیں، میں نے تو نہیں سنیں۔ پَر نہ سننے سے کیا ہوتا ہے! ہونی ہوکر رہتی ہے۔ سُنی اَن سُنی کردو، کچھ نہیں ہوتا۔ ہونی ہوکر رہتی ہے۔ لیکن ایسا بھی کتنا عجیب سا لگتا ہے ناں کہ سب انسانوں کی قبریں ایک ساتھ پکارنا شروع ہوجائیں۔ آؤ، آؤ! بال کھولے بین کرتی ہوئی موت لوگوں کو ایک ساتھ پکار رہی ہو۔ اگر ہم اپنے کان کھول لیتے تو ہمیں بھی سنائی دیتا۔ پَر کیسے سنائی دیتا! اتنی ڈرا دینے والی آواز آخر ہم کیوں سنیں! چلیں ہم سُن بھی لیتے تو کیا کرتے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تھے ہم۔ موت سے نہیں بھاگ سکتے ہم۔ کہاں بھاگ سکتے ہیں۔

زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے۔ ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے۔ موت کا پہرہ۔۔۔۔ کوئی بچ کر نہیں نکل سکتا اس سے۔ چاہے کوئی بھی ہو۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پُتلا ہو یا مجھ ایسا مجسم حماقت، زاہد، عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بچہ ہو، معصوم ہو، کلی ہو یا پھول ہو، کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ موت کچھ بھی نہیں دیکھتی۔ اپنا کام کرتی ہے۔ بروقت موت۔۔۔۔ نہ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے۔ مہلتِ عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی۔ لے اڑتی ہے اپنے شکار کو۔۔۔۔ کچھ نہیں دیکھتی۔ یہ بھی نہیں کہ اتنی محنت کے بعد گھر بنایا ہے۔ ابھی تو بیٹا باہر سے آیا ہے۔ بیٹی جوان ہوگئی ہے۔ کتنے کام باقی ہیں۔ ابھی تو آگے جینا ہے۔ نئے کچھ خواب دیکھے ہیں انھیں تعبیر کرنا ہے۔

ابھی تو یہ بھی کرنا ہے ابھی تو وہ بھی کرنا ہے۔ جیون کے امرت رس کا مزہ ہی ایسا ہے، آگے آگے اور آگے۔ پَر موت کا ذائقہ چکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ جب ہمیں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ یہاں نہیں رہنا تو پھر ہم کیوں ایسی حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں! کیوں سچائی کا، حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ پتا ہے کہ سر ریت میں دے لینے سے کچھ نہیں ہونے والا، کچھ بھی تو نہیں۔ تو پھر بھی دھوکا اور کھلا دھوکا کھانے میں کتنا سرور محسوس کرتے ہیں۔ نشّہ سا ہوگیا ہے ہمیں۔ کبھی سوچا ہے کس طرح زندگی گزار رہے ہیں ہم۔ کچھ نہیں سوچتے، کچھ نہیں دیکھتے، بس دریا کے رخ پر بہے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے آواز آرہی ہے جیسے چاہو جیو۔ ہاں میرا بھی جی چاہتا ہے، کاش ایسا ہوجائے۔ جیسے جی چاہے کر گزرو۔ پَر نہیں کرسکتا ناں ایسا۔۔۔۔ بالکل نہیں ہوسکتا۔

ہم ایک ضابطے کے پابند ہیں۔ من چاہی زندگی نہیں گزار سکتے۔ کیسی زندگی۔ بس چند گھڑیاں چند لمحے۔ یہی ہے زندگی! اس کو سمجھ لیا ہے ہم نے زندگی۔ سب مایا ہے، سب مایا۔۔۔۔ کچھ نہیں بچے گا۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔ نت نئے مصائب، ناگہانی آفات ہمیں تنبیہ کرتی رہتی ہیں، سنبھل جاؤ۔ اب بھی وقت ہے، اپنا رخ ٹھیک کرو۔ اپنا رہن سہن سدھارو۔ انسانوں پر ظلم بند کرو۔ ان کی تحقیر مت کرو۔ خدا بننے کی کوشش بند کرو۔ نہیں بن سکتے تم خدا۔ کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ تم مجبورِمحض ہو، یہی رہو گے۔ اپنی اوقات میں رہو۔

اپنی ہستی پہچانو۔ رب سے جنگ کرنے چلے ہو۔ کوئی نہیں جیت سکا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے، درِتوبہ کھلا ہے۔ اقرار کرلو اپنی بے بسی کا۔ اپنی اکڑی گردن جھکادو، اُس کے آگے سجدہ ریز ہوجاؤ۔ عاجزی اختیار کرو۔ کوئی دُور نہیں ہے اُس کی خُوش نودی، وہ تو تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اور کتنا قُرب چاہیے تمہیں۔ وہی ہے گھاؤ بھرنے والا۔ بڑے سے بڑے حادثے کو رحمتوں میں بدل دینے والا۔ عبرت پکڑو۔ زمینی خداؤں سے انکار کردو۔ خالقِ حقیقی کے بن جاؤ۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سب کا بھلا سب کی خیر۔ ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے کہ رب تعالٰی نے زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت کو بنایا ہے، واہ جی واہ، موت زندگی کی حفاظت کرنے پر مامور کی گئی ہے اور وہ ایسے کہ جب تک وقت نہیں آیا کوئی آپ کی زندگی نہیں چھین سکتا، چھین ہی نہیں سکتا کہ اس پر موت کا پہرہ جو لگا ہوا ہے، کب آئے گی، کہاں آئے گی، کیسے حالات میں آئے گی۔

یہ سب کچھ لکھا جاچکا ہے اور وہ دن مقرر کردیا گیا ہے تو اب آپ سکون سے رہیں کہ کوئی بھی آپ کا جیون نہیں چھین سکتا اور جب سمے آگیا تو کوئی بھی، جی کوئی بھی اس سمے کو واپس دھکیل نہیں سکتا۔ موت کبھی کسی کو کسی کے حوالے نہیں کرتی، کبھی نہیں بس خود حفاظت کرتی ہے اس سمے تک جو لکھا جاچکا ہے تو بس شانت رہیے، کبھی کبھی قبرستان جایا کیجیے اور وہ کرنے کی کوشش کیجیے جو مجھے بابا نے بتایا اور سکھایا۔ بابا کُھبے ہوئے ہیں۔

مجھ نادان و ناہنجار میں اور صرف وہی نہیں اور بھی بہت سارے بابے، اصل راز زندگی کو پائے ہوئے، یک رنگ بھی اور ہمہ رنگ بھی، تنہا بھی اور محفل سجائے ہوئے بھی، بہت عجیب ہوتے ہیں جی یہ۔ اور کوئی آپ کے دل میں کھب جائے تب کیا ہوتا ہے! آپ یکسر بدل جاتے ہیں، پھر آپ اپنے بس میں نہیں رہتے۔ عقل کچھ کہتی ہے اور آپ اس کا کہا نہیں مانتے۔ آپ دل کے فیصلے پر فدا ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ ہاں، لاکھ طوفان آئیں، آندھیاں چلیں، اور چلتی بھی ہیں۔ نصیحتیں کرنے والے آپ کو سیاہ قلب و نظر سمجھتے ہوئے فراموش کر ڈالتے ہیں۔ وہ اتنی سادا سی بات بھی نہیں جانتے کہ جب کوئی خود کو بھی فراموش کر دے تو وہ کیا دلیل مانے گا! اس لیے کہ وہ یہ بات جان چکا ہوتا ہے جو بابے اقبال نے بتائی ہے: ’’عقل عیّار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔‘‘

آپ کہیں اور ہوتے ہیں۔۔۔۔ اپنے آپ سے بھی بے خبر۔ مُحِب، محبوب پر نثار ہوتا ہے۔ اس کی ہر ادا پر۔۔۔۔ چاہے وہ کسی کو اچھی نہ لگے۔ مُحِب اور محبوب پر تو بہت کچھ کہا گیا، لکھا گیا اور یہ چلتا بھی رہے گا۔ یہ جو تعلق ہے، اسے کیسے بیان کیا جائے۔ بہت مشکل ہے۔۔۔۔ بہت ہی مشکل اور جان لیوا۔ ہاں اسے آگ بھی کہتے ہیں کہنے والے۔۔۔۔۔ لیکن ہر ایک کا نصیبا نہیں ہوتا کہ وہ اس آگ میں خود کو بھسم کر ڈالے۔ خود اختیار کردہ ہوتا ہے۔ کوئی جبر نہیں ہوتا۔ بس محبوب کی ہر ادا پر نثار اور اس کے جنبشِ لب کا منتظر۔۔۔۔ بس اشارہ ہوا اور وہ آگ میں کُود جاتا ہے۔ کچھ نہیں سوچتا۔۔۔۔ وہ تو بس محبوب کو دیکھتا ہے۔ عقل محوِتماشائے لبِ بام ہوتی ہے اور وہ کُود جاتا ہے۔ لوگ دانا اور بینا انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ انہیں کچھ پلّے نہیں پڑتا کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ الگ تجربہ ہے، اس میں کوئی شریک نہیں کیا جاسکتا۔ ہے ناں اسی طرح!!

جب انسان عشق کی منزل میں ہو تو پھر سمے، سمے نہیں رہتا۔ اک سرشاری ہوتی ہے اور وہ بھی دائمی۔ پیار اک بہار ہے اور اسے خزاں نہیں ہے۔ محبت ایک روشنی ہے اور وہ اندھیروں کو راہ نہیں دیتی۔ اس روشنی میں اصل منزل تک پہنچتا ہے انسان۔ محبت اک سایہ دار درخت ہے جس کی گھنی چھاؤں سکون ہی سکون ہے۔ محبت مسکراہٹ ہے۔ عجیب سی بات ہے اس میں غم بھی سکون پہنچاتا ہے اور آنسو بھی۔۔۔۔ ہجر بھی وصال بھی۔۔۔۔ بہت عجیب ہے یہ۔ جب تعلق پیدا ہو جائے، کوئی کُھب جائے دل میں، تو پھر اس کا ہر اشارہ حکم کا روپ دھارتا ہے۔

مُحِب، محبوب کے آگے سر تسلیم خم کردیتا ہے اور پھر جب وہ فرمائش کردے تو مُحِب یہ نہیں دیکھتا کہ طوفان ہے، آندھی ہے، بارش ہے، دھوپ ہے، دن ہے، رات ہے۔۔۔۔ بس وہ نکل کھڑا ہوتا ہے، چاہے جان چلی جائے لیکن محبوب کا حکم سر آنکھوں پر ۔ کر گزرتا ہے وہ۔ ہاں لوگ اسے دیوانہ کہتے ہیں، پاگل اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جوگی اور آوارہ کہتے ہیں۔ سر پھرا اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن وہ کسی کی نہیں سنتا۔ بس سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ یہی اس کی زندگی ہوتی ہے۔ جینا اور مرنا محبوب کے لیے۔ ہاں پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جینا، جینا نہیں رہتا۔ مرنا، مرنا نہیں ہوتا۔ بس اشارۂ ابرو کا منتظر رہتا ہے وہ کہ حکم ہو اور وہ تعمیل کے لیے جُت جائے۔۔۔۔ اور پھر وہ منزل بھی آتی ہے جب محبوب کے دل میں خیال بھی پیدا ہو تو اسے علم ہوجاتا ہے۔ بہت بڑی منزل ہے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ خوش نصیبی کہیے اسے۔

جمعے کی نماز پڑھ کر میں اور میرا چھوٹا بیٹا اور دوست فرقان تفسیر جو اب سندیافتہ فلسفی ہے، بہت ہی زیرک و دانا، باہر نکلے تو بہت عجیب سا سوال کر بیٹھا وہ۔ کہنے لگا: یار بابے یہ بتاؤ کہ ہم اﷲ کی بات کیوں نہیں مانتے؟ میں تو تیری بھی مانتا ہوں۔ تو کہتا ہے ہاں یہ کام ہوجائے گا تو میں بہت مطمئن ہوجاتا ہوں کہ اب ضرور ہوجائے گا۔ لیکن ہم اﷲ جی کی بات نہیں مانتے، اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ کیوں؟ میں نے کہا: پڑھا لکھا تو تُو ہے اور پوچھ مجھ جیسے عامی سے رہا ہے، عجیب ہے تُو! مجھے نہیں معلوم، تُو بتا۔ پہلے تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: آوارگی کو جیون نہ کرتا، کچھ لکھ پڑھ لیتا تو کچھ سیکھ ہی جاتا لیکن چل اب جتنا مجھے معلوم ہو سکا میں بتاتا ہوں، مجھے تو یوں لگتا ہے ہمیں اﷲ جی سے محبّت ہی نہیں ہے، بس ویسے ہی کہتے رہتے ہیں، خالی خولی زبانی کلامی بس رسماً۔

میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا، بہت پیار بھی کیا اور اس کی تائید کی۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ میں آپ کی بات نہیں کر رہا۔ میں بہت دعویٰ کرتا ہوں محبّت کا۔ لیکن یہ ہوتی کیا ہے؟ نہیں معلوم۔ اگر اپنے رب سے میرا تعلق قائم ہوجائے تو بہت آسان ہوجائے ناں اس کی ہر بات ماننا! بہت آسان۔ پھر میں کوئی چُوں چَراں نہیں کروں گا۔ ہر وقت بس وہی کروں گا جو میرا رب کہے گا۔ مجھے دنیا کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ لاکھ کوئی دانش وری جھاڑے مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ لاکھ دلیل لائے، ڈرائے، دھمکائے، میں باز نہیں آؤں گا۔ ساری دنیا خفا ہوجائے تب بھی میں مطمئن رہوں گا۔ اس لیے کہ وہ خالق ہے اور مالک بھی۔ میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کردوں گا۔ پھر مخلوق کے دل کو کشادہ تو وہ کرے گا، میں نہیں۔ آسانیاں تو وہ پیدا کرے گا، دکھ درد تو وہ دور کرے گا۔

مجھے تو بس اپنے رب کے سامنے سر جھکا کے منتظر رہنا ہے اور اس کا حکم بجا لانا ہے۔ بس یہ ہے اصل، باقی سب کہانی ہے، داستان اور فسانہ ہے۔ ہم مصوّر کو چھوڑ کر تصویر کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف۔۔۔۔ عجیب بات ہے ناں! وہ جو حقیقتِ ازلی ہے۔ وہ جو اوّل و آخر ہے، اس پر اعتماد نہیں کرتے، اور پھر سراب ہی سراب رہ جاتا ہے ہماری زندگی میں۔ اقبال بابے نے تو جڑ پکڑی: ’’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘‘ کہہ دیا اور اپنے نورِبصیرت عام کو کرنے کی دعا کرڈالی۔ یہ ہم جو عقل و خرد کے مقلّد ہوگئے ہیں، اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ کیا میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں آپ تک پہنچ گئی ہے۔ تو بس دعا کیجیے گا۔ آپ تو اپنے رب سے بہت قریب ہیں۔ آپ تو صاحبِ دعا ہیں۔ وہ سب کچھ بن مانگے دیتا ہے۔ لیکن راز کی بات یہ ہے کہ یہ جو تعلق ہے اس کے لیے اپنے دل کی آگ اسے پیش کر دیجیے اور چپ چاپ اس میں سلگتے رہیے تو نظر کرم ہوجائے گی۔ ضرور ہوجائے گی۔ پَر دل سے اور بہت آہ و زاری کے ساتھ۔ وہ ایک بابے کی ایک اور بات یاد آگئی: ’’انسانی عقل و خرد کی تمام طاقتیں مکڑی کے کم زور جالے کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘

جانِ من با کمالِ رعنائی

خود تماشا و خود تماشائی

The post زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے، ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کہ جیل جانا فقط آرزو کی بات نہیں

$
0
0

برطانیہ کی ایک خاتون کو اس عمر میں جیل جانے کا شوق چَرایا ہے جس عمر میں سب جھیل کر آدمی قبر میں جانے کی سوچ رہا ہوتا ہے۔ محترمہ کی عمر ہے 104سال اور نام ہے اینی بروکن بروہے۔

کیئرہوم میں قیام پذیر ان خاتون سے جب ان کی کوئی ایسی خواہش پوچھی گئی جو پوری نہ ہوئی ہو، تو ان کا جواب تھا،’’میری اتنی عمر ہوگئی ہے اور میں نے آج تک کوئی قانون نہیں توڑا، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں جیل جاؤں۔‘‘

انسان کو جو خواہش ہوتی ہے اُس کے حصول کے لیے کوششیں کرتا ہے، تن من دھن کی بازی لگادیتا ہے، مگر ان محترمہ نے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ذرا بھی جتن نہیں کیے، ہمیشہ قانون کا احترام کیا اور پھر جیل جانے کی آرزو کرتی رہیں۔ ان بی بی کو کون سمجھائے کہ جیل جانا فقط آرزو کی بات نہیں۔

برطانیہ کا پتا نہیں، لیکن پاکستان میں داخلِ زنداں ہونا وہ واحد معاملہ ہے جہاں غریبوں کو امیروں سے کہیں زیادہ مواقع حاصل ہیں۔

پاکستان می غریب آتے جاتے جیل جاسکتا ہے، اس کی جیل یاترا کے لیے بجلی کا کُنڈا اور بھری ہوئی سگریٹ کا ایک سُٹا لگانا ہی کافی ہے، کسی پولیس والے کو گھور کے دیکھ لینا بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتا ہے، لیکن بے چارے امیر پاکستانی کے لیے یہ ’’مطلوبہ سہولت میسر نہیں۔‘‘ اُسے جیل کی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، پہلے سیاست میں آنا پڑتا ہے، پھر مال بنانے کے مواقع حاصل کرنا پڑتے ہیں، قسمت اچھی ہو تو سیاسی کیریر، دولت اور اقتدار دلہن کے جہیز میں آجاتے ہیں، لیکن ایسی ’’بے نظیر‘‘ قسمت کسی کی ہوتی ہے۔

اگر نصیب ایسا زردار نہیں تو مال دار ہونے کے لیے ایمان داری سے مکمل طور پر دست بردار ہوکر پیسہ بنانا پڑتا ہے، اس کے بعد اقتدار میں آنے کا مرحلہ آتا ہے، یہ دراصل جی بھر کے کمانے کا مرحلہ ہوتا ہے، عوام کے پیسے اور اپنے اختیارات کا خوب ناجائز استعمال کرکے بھی جب جیل جانے کی تمنا پوری نہیں ہوتی تو اقتدار جانے کے بعد بھی محروم اقتدار جماعت میں رہ کر اپنی گرفتاری کا سامان کیا جاتا ہے، آخرکار کوئی نہ کوئی عیب نیب کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، دن گِنے جاتے تھے جس دن کے لیے وہ دن آتا ہے اور بندہ جیل چلا جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست دانوں کے جیل جانے کے شوق کا یہ عالم ہے کہ وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ مگر جیل اُس وقت تک گھر لگتی ہے جب تک پولیس ’’گھر والی‘‘ بنی رہے، لیکن کبھی کبھی اُن کے ساتھ گھروالی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو کوئی سیاست داں جیب کاٹنے پر جیل جائے یا گلا کاٹنے پر، بڑے فخر سے کہتا ہے کہ اُس نے جیل کاٹی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے وہ بس مچھروں کے کاٹنے ہی کی شکایت کرتا رہتا ہے۔

اینی بروکن صاحبہ کی سبق سیکھنے کی عمر گزر گئی ورنہ ہم اُن سے کہتے کہ بی بی! آپ شوق کی تکمیل کے لیے پاکستان کے سیاست دانوں سے سبق سیکھیں۔ لیکن سیکھ بھی لیتیں تو اس سبق پر عمل کے لیے اینی بی بی کو پاکستان آنا پڑتا۔ ویسے وہ پاکستان آجاتیں تو قانون توڑے بغیر بھی جیل کی روٹیاں توڑنے کی خواہش پوری کرسکتی تھیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں غریب ہونا پڑتا۔ پھر کسی دن خبر آتی،’’ایک سو چار سالہ خاتون قیدی اینی بروکن نے، جو جرمانے کی رقم نہ ہونے کے باعث پچھتر سال سے قید ہیں، خواہش ظاہر کی ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں جیل سے جاؤں۔‘‘

The post کہ جیل جانا فقط آرزو کی بات نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک ’’انڈا‘‘ ؛ اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں

$
0
0

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی، آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ یہ وڈیو آسٹریلیا کے سینیٹر فریسر ایننگ کے انڈا کھانے کی ہے۔

اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں کہ انھوں نے انڈا کھایا، اگر یہی انڈا انھیں ناشتے میں بوائلڈ، فرائیڈ یا آملیٹ کی شکل میں پیش کیا جاتا اور رواج کے عین مطابق وہ اِسے منہہ سے کھاتے تو یہ روزمرہ کا ایک نہایت عام سا معاملہ ہوتا، جس کی وڈیو قطعاً نہ بنتی، اس انڈے کی خصوصیت یہ ٹھہری کہ یہ منہہ سے خاصی اوپر سر پر کھلایا گیا، بلکہ دے مارا گیا۔

نسل پرست اور مسلمان مخالف سینیٹر فریسر ایننگ انڈا کو غیرمتوقع اور غیرمناسب مقام پر اس لیے کھانا پڑا کیوں کہ انھوں نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کا ذمے دار پناہ گزینوں کو قرار دیا تھا، جس پر ایک سفیدفام نوجوان نے غصے میں آکر بطور احتجاج ان کے سر پر انڈا دے مارا۔

نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں ہونے والے حملوں میں 49 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد سینیٹر فریسر نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں انھوں نے متاثرین سے ہم دردی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا، اسلام کو اشتعال انگیز مذہب کہا اور فاشزم سے تشبیہہ دی۔

اس قسم کے خیالات کا اظہار کسی بھی مذہب اور اہل مذہب کے بارے میں کیا جائے اور کوئی بھی کرے وہ اپنے مذہبی گروہ، معاشرے اور ملک کا گندا انڈا کہلانے کا مستحق ہے۔ یوں ’’انڈا زنی‘‘ کا واقعہ دراصل دو

انڈوں کی باہمی سر پھٹول تھا، جس طرح ایک پُرانے بھارتی فلمی گانے کے بول ہیں ’’شیشہ شیشے سے ٹکرایا، شیشہ ٹوٹ گیا‘‘ اسی طرح اس چند لمحوں کی فلم میں ’’انڈا انڈے سے ٹکرایا، انڈا ٹوٹ گیا۔‘‘ اکثر دیکھا گیا

ہے کہ جب دو انڈے باہم ٹکراتے ہیں تو دونوں ہی ٹوٹتے ہیں، مگر اس معاملے میں یہ سائنسی حقیقت بھی سامنے آئی اگر دو انڈے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جائیں تو دونوں اچھے انڈے ہیں، لیکن اگر اس ٹکراؤ میں دونوں میں سے صرف ایک ٹوٹے تو بچ جانے والا گندا انڈا ہے۔

ویسے تو انڈے اور ٹماٹر مارنے کا فیشن پُرانا ہوچکا ہے، اب تو جوتے مارنے کا رواج ہے، لیکن یہ مارنے والے کو منہگا پڑتا ہے، اور اگر جسے مارا جائے اُسے نہ پڑے تو اور بھی بھاری پڑتا ہے۔ انڈا مارنے والے نوجوان کی نظر میں موصوف اس لائق نہیں ہوں گے کہ ان پر جوتا ضائع کیا جائے، ممکن ہے اس نے پنجابی کا یہ محاورہ سُن رکھا ہو ’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ چناں چہ اُس نے عزت افزائی کے لیے انڈے کا انتخاب کیا۔

ایک زمانے میں مشاعروں میں ناکام شاعروں پر انڈے برسائے جاتے تھے، اگر فریسر صاحب بھی کوئی بھلے مانس شاعر ہوتے تو انڈا کھا کر زردی سفیدی سے سَنا سَر جھکاکر گہری سوچ میں ڈوب جاتے پھر سَر اُٹھا کر کہتے۔۔۔ایک ’’انڈا‘‘ اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں۔۔۔۔میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے، لیکن وہ نہ شاعر نہ بھلے مانس، اس لیے سر پر انڈا ٹوٹتے ہی بن مانس کی طرح نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ ویسے جس طرح ’’انڈابار‘‘ نوجوان موصوف کے نہایت قریب آگیا تھا اُس سے لگتا تو یہی ہے کہ وہ اُن کا شناسا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ’’بڑا یارانہ لگتا ہے۔‘‘ شناسا نہیں بھی تھا تو ’’مانوس اجنبی‘‘ ضرور تھا، سو موصوف دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے:

عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کرگیا وہ

فریسر صاحب کو اس بات کا بھی افسوس ہوگا کہ انھیں انڈا مارنے والا کوئی مسلمان، ایشیائی یا سیاہ فام نہیں ان کا ہم نسل سفیدفام تھا، اور پھر انڈا بھی تو سفید ہونے کے باعث اپنا ہی تھا ناں۔ یعنی۔۔۔دیکھا جو ’’انڈا‘‘ کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔۔۔اپنے ’’سفیدیے‘‘ سے ملاقات ہوگئی۔ دوسری طرف موصوف کی دریدہ دہنی اور اشتعال انگیزی سے تنگ آجانے والے لوگ انڈاپھینکو نوجوان سے شکوہ کُناں ہوں گے۔۔۔تو ہی ناداں ’’ایک انڈے‘‘ پر قناعت کرگیا۔

فریسر صاحب کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ نفرت انگیزبیانات دینے اور پھر دھڑلے سے لوگوں کے درمیان پہنچ جانے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ۔۔۔اپنے ہی گِراتے ہیں نشیمن پہ ’’زردیاں۔‘‘

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post ایک ’’انڈا‘‘ ؛ اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.

’کراچی‘ سستا سے مُفتا تک

$
0
0

ارے واہ، ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہم جس کراچی میں رہتے ہیں وہ دنیا کا چَھٹا سستا ترین شہر ہے۔

برطانوی ادارے ’’اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ‘‘ کے سروے نے یہ انکشاف کرکے ہمیں خوشی سے نہال کردیا ورنہ ہم منہگائی کے غم میں نڈھال تھے۔ یہ خبر ہمارے لیے بے حد فرحت اور راحت کا باعث ہے کہ ہم جس شہر میں برسوں سے پڑے سستا رہے ہیں وہ کتنا سستا شہر ہے۔ چلیے جی اچھا ہوا ہم پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں بستے کراچی میں رہ کر سستے چھوٹ گئے۔

ہمیں کراچی کے سستا ہونے پر شک تو ایک مُدت سے تھا لیکن اب ایک مغربی ادارے نے ہمارے گمان کی تصدیق کی تو یقین آیا۔ کراچی میں ایک عرصے تک زندگی بہت سستی رہی۔ یہاں زندگی کی پوری قیمت چند روپے کی گولی اور ایک بوری ہُوا کرتی تھی۔

ایسا لگتا تھا کہ مشہورِزمانہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کندھے پر بوری رکھ کر گھوم رہے ہیں، جہاں ذرا بور ہوئے کسی کو بھی مار کر بوریت مٹالی۔ ان نامعلوم افراد کے بارے میں اگرچہ سب کو معلوم تھا لیکن جہاں ان کا تذکرہ آتا عام شہریوں سے میڈیا اور پولیس تک سب کندھے اُچکا کر کہتے ’’تجھ کو معلوم نہیں، مجھ کو بھلا کیا معلوم۔‘‘ ہر قتل کے بعد لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ۔۔۔ہم کو معلوم ہے ’’مرڈر‘‘ کی حقیقت لیکن۔۔۔۔اس ’’لیکن‘‘ کا مطلب ہوتا تھا کہ مرڈر کی حقیقت بیان کرنے کے معنی ہوئے کہ ۔۔۔خود کو مروانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

اس دور میں زندگی کے بعد دوسری سستی ترین چیز تھی شہرت۔ لوگ نام بناکر مشہور ہوتے ہیں، اس شہر میں نام بگاڑ کر شہرت حاصل کی گئی، اور لنگڑا، کانا، اندھا، ٹُنٹا، نفسیاتی جیسی عرفیتیں ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کی تشریح کرتی نظر آئیں۔ یہ سستا دور کراچی والوں کو بہت منہگا پڑا، مگر خیر گزر گیا۔

یہ سروے صرف شہروں کے سستے ہونے سے متعلق تھا اس لیے کراچی چھٹے نمبر پر آیا، ہمیں یقین ہے کہ اگر معاملہ ’’مُفتے‘‘ کا ہوتا تو ہمارا شہر فہرست میں پہلے نمبر پر جگہ پاتا۔

یہاں جو کچھ مفت دست یاب ہے کسی دوسرے شہر میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہر محلے میں عوام کی سہولت کے لیے اشیائے ضروریہ کے ڈھیر لگائے گئے ہیں، جنھیں عرفِ عام میں کوڑے کے ڈھیر کہا جاتا ہے۔ ان ڈھیروں سے مفلوک الحال افراد مفت کا کھانا تو حاصل کر ہی لیتے ہیں، لیکن جو اچھے حال میں ہیں انھیں بھی ان ڈھیروں سے پلاسٹک کی تھیلیاں، کاغذ، بوتلیں اور مختلف قسم کا دیگر سامان بہ آسانی مل سکتا ہے، بشرطے کہ وہ اپنی نفاست پسندی قربان کریں اور سونگھنے کی حِس کو سندھ کی صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کی طرح بے حس کرلیں۔

اگر ایسا کرکے انھوں نے ایک بار ان کوڑے کے پہاڑوں کو سر کرنا شروع کردیا تو اتنا کچھ ملے گا کہ کوڑے کے ڈھیروں سے صوبائی حکومت اور بلدیہ کراچی کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے واپس ہوں گے۔

مصنوعات اور خدمات کے اشتہارات کی مد میں لاکھوں کروڑوں روپے سرف ہوجاتے ہیں، لیکن سنگ دل محبوب کو چپل کی طرح آپ کے قدموں میں لا رکھنے والے جادو گر سے تمام پیچیدہ، پوشیدہ اور بے ہودہ امراض کا علاج کرتے نادیدہ اسناد والے حکیموں اور ڈاکٹروں تک کے لیے کراچی کی دیواریں بلاقیمت دست یاب ہیں۔

دوسری شہروں میں لوگ تفریح گاہوں میں جاکر جسم میں سنسنی دوڑاتے اور خوف سے دل کی دھڑکنیں روک دینے والے جھولوں میں پیسے دے کر بیٹھتے اور محظوظ ہوتے ہیں، کراچی میں یہ سہولت چنگچی رکشے کسی معاوضے کے بغیر فراہم کر رہے ہیں۔ صرف کرایہ دیں اور پورے راستے جان جوکھم میں ڈالتے، حادثے کا خوف پالتے اور دیگر تمام اعضاء کے ساتھ دل پیٹ سے حلق تک اچھالتے سفر کا لطف اُٹھائیں۔ اس سفر میں خدا سے قربت، موت کا ڈر اور نیکی کی رغبت کا پیدا ہونا مفت حاصل ہونے والے اضافی فائدے ہیں۔

اور تو اور کراچی کے تو بہت سے سیاست دانوں نے زندگی ہی چندے کی صورت اور اس سے بھی بُری صورتوں میں آنے والی کمائی پر بسر کی، یوں اُن کو اپنی زندگی اور سیاست مفت کی پڑی۔ اسی باعث بعض لوگ ان کی جماعت کو ’’مفتا قومی موومنٹ‘‘ کہنے لگے تھے۔

اتنی مفت خوری کرانے والا شہر دنیا میں اور کون سا ہوگا۔ ارے ہاں، اس معاملے میں سب سے بڑھ کر تو کراچی کی زمینیں ہیں، جنھیں کسی بھی پروجیکٹ کا نام دیا جائے ان کا مشترکہ عنوان ایک ہی ہے۔۔۔’’مالِ مفت، دلِ بے رحم۔‘‘

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post ’کراچی‘ سستا سے مُفتا تک appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

کوئی تعلق سی ’لاتعلقی‘ ہے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

عام طور پر سردمہری کی اگلی شکل کو ’لاتعلقی‘ کہا جاتا ہے۔ جو تعلق اعلانیہ نہ ہو، تو اکثر اس سے ’لاتعلقی‘ بھی غیراعلانیہ ہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اعلان ’لاتعلقی‘ سننے والے حیران ہوتے ہیں، اچھا یہ ’تعلق‘ بھی تھا یا یہ کہ فریقین کے درمیان جو آج سے پہلے تک تھا وہ ’تعلق‘ تھا۔۔۔!

عام زندگی کے بعد سب سے زیادہ لاتعلقی کا ’کھیل‘ میدان سیاست میں کھیلا جاتا ہے، اگر چہ ہجر اور وصل کے مختلف ذائقے لیے ہوئے اس پر ہمارے شعر ونثر میں بہتیرا مواد ہے، بقول ساحر لدھیانوی ؎

تعارف روگ بن جائے، تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے، تو اس کو توڑنا بہتر

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فریق کی جانب سے ’تعلق‘ کا دعویٰ کیا جانے لگتا ہے، دوسرا فریق چلّاتا پھرتا ہے کہ ’’یہ ہم نہیں۔۔۔!‘‘ اور دیکھنے والے صحیح غلط اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں۔ ابھی 28 فروری 2019ء کو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ٹیپو سلطان کی مدح کرتے ہوئے ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے ’لاتعلقی‘ کا اظہار کر ڈالا اور کہا ’بہادر شاہ ظفر نے غلامی کا انتخاب کیا اور ٹیپو سلطان نے آزادی کے لیے لڑنے کو ترجیح دی، اس ملک کا ہیرو بہادر شاہ نہیں، بلکہ ٹیپو سلطان ہے۔۔۔!‘

بھئی یہ درست ہے کہ انگریز آقا کے سامنے دونوں راہ نماؤں کے طریقۂ کار میں بہت فرق تھا، لیکن انگریز نے تو دونوں کو ہی دشمن تصور کیا، اُس نے ٹیپو کو شہید کیا، تو بہادر شاہ کو بڑھاپے میں اذیت ناک موت کے لیے رنگون میں قید کیا۔۔۔ شاید ’جناب‘ کے مصاحبین نے بہادر شاہ ظفر کا تعلق آج کی ’حزب اختلاف‘ سے بتا دیا ہو، جس پر چارو ناچار ’اعلان لاتعلقی‘ کرنا پڑا۔

جس طرح ’باپ‘ اپنی نافرمان اولاد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کرتا ہے، اسی طرح سیاست میں (سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی) بہت سے ’’باپ‘‘ اپنی کردہ اور ناکردہ ’’چیزوں‘‘ سے بہ امر مجبوری یا کبھی تنگ آکر ’لاتعلقی‘ کی منادی کرا دیتے ہیں، اس کے بعد وہ ’بچے‘ کبھی باپ کے مقابل بھی آن کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو، جس نے کبھی نہ کبھی ’لاتعلقی‘ سے استفادہ نہ کیا ہو۔۔۔ لیکن جس طرح ’متحدہ قومی موومنٹ‘ نے 23 اگست 2016ء کو اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اُس کی مثال جدید سیاسی تاریخ میں بہت مشکل سے ہی ملے گی۔۔۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہی قائد پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ’گرفت‘ میں آجانے والے اپنے ’بندوں‘ سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان کر دیتے تھے، اب یہ دن بھی آیا کہ یہاں موجود ان کی پوری جماعت نے اپنے قائد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کر دیا۔۔۔!

آخر میں بہ عنوان ’لاتعلقی‘ ایک ’رواں نثر‘ پیش خدمت ہے، جسے ’نثری نظم‘ کہنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، البتہ ہم ایسا سمجھنے والوں سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان بھی نہیں کرتے، بلکہ مَن ہی مَن میں اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ’پھر سے کہو۔۔۔ کہتے رہو۔۔۔!‘ :

میں مسلسل بہتے اِن آنسوؤں سے

لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔۔۔!

میں جھومتا ہوا بدن ہوں

میرا دھڑکنوں سے کوئی تعلق نہیں!

میں مسکراتا ہوا چہرہ ہوں۔۔۔

میرا اشکوں سے کوئی تعلق نہیں!

وہ گئے وقتوں کے خواب تھے۔۔۔

جو کھلی آنکھوں نے دیکھے۔۔۔

سو یہ دیتی رہیں اس ’دیکھے‘ کا خراج۔۔۔

میرا اب سپنوں سے کوئی تعلق نہیں!

یہ نم آنکھیں تھک رہی ہیں۔۔۔

میں روح ہوں۔۔۔

میرا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ہولی

رضوان طاہر مبین
لال، نیلے، ہرے، پیلے اور گلابی رنگوں نے ’خانہ بدوش‘ کے چہرے اورکپڑوں کو رنگ برنگا کیا ہوا تھا۔۔۔
اس کے لباس اور جلد کی رنگت میں اب کوئی فرق نہ تھا۔
’’کیا تم ہندو ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک نظر اپنی قمیص پر ڈالی اور جواب دیا: ’’نہیں صاحب۔۔۔!‘‘
’’پھر یہ ہولی کے رنگ۔۔۔؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا۔
’’اچھا لگ رہا ہے صاحب۔۔۔!
اتنے سارے رنگوں سے ہمارے کپڑے بھی آج ’بابو لوگ‘ کے موافق کتنے اُجلے لگ رہے ہیں ناں۔۔۔!‘‘
وہ ہاتھ پر لگے ہوئے ایک داغ پر رنگ لگاتے ہوئے بولا۔

۔۔۔

ماں کی ممتا پہ
سوال۔۔۔
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ گھر کی دیوار میں ایک کھڑکی ہے، جس میں سے اکثر اوقات بچوں کے کھیلنے کودنے اور رونے دھونے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ ایک سہ پہر میں کام میں مصروف تھا کہ ایک بچی کی آواز سنائی دی، وہ اپنے بھائی سے کہہ رہی تھی ’’احمد، چلو ہم کھیلتے ہیں۔ میں آپ کی مما بن جاتی ہوں اور آپ میرے بے بی!‘‘ یہ جملے اس بچی کے منہ سے نکلے، جسے ابھی اسکول کا پتا تک نہیں، لیکن اس کے یہ الفاظ سیدھے میرے دل و دماغ پر آ لگے تھے۔

اس کے جملے سن کر میرا خدا کی ربویت پر ایمان مزید پختہ ہوگیا کہ اس نے کتنی خوب صورتی سے ایک چھوٹی سی بچی کے دل میں ممتا کا احساس جگایا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ 24 فروری 2019ء کو جس ماں نے گھریلو اور شوہر کے جھگڑے سے تنگ آکر اپنی سات اور تین سال کی دو بیٹیوں کو نہربرد کر دیا وہ کون سی ماں تھی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کم سن بچی ممتا کے احساس سے آشنا ہے، لیکن ایک حقیقی ماں ایسے کس موڑ پر جاپہنچی کہ اس نے اپنی دو کلیوں کے ساتھ ایسا قبیح فعل کیا، یقیناً یہ کسی بھی سماج کے لیے بہت انتباہی صورت حال ہے کہ ایک ماں اپنی بیٹیوں کی جان کے درپے ہو جائے۔

وہ ماں جس کے لیے رب کی بندوں سے محبت کی مثال دی جاتی ہے کہ رب العزت ایک ماں سے 70 گنا زیادہ اپنے بندوں کو چاہتا ہے۔ ماہرین سماجیات کو ان محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔

پانی گدلا کیوں۔۔؟
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب
’’اس شاہ راہ پر آگے دور تک کوئی اور پنکچر والا نہیں۔ اس لیے پنکچر والے نے لکھا ہوا تھا ’آگے جانے سے پہلے احتیاطاً اپنی ٹائرٹیوب چیک کروا لیجیے، تاکہ کسی زحمت سے بچ سکیں‘ عجیب بات تھی کہ معائنے کے دوران ہر ٹیوب میں ’پنکچر‘ برآمد ہوجاتا۔۔۔ اور لوگ مطمئن ہوتے کہ چلو آگے ویرانے میں گاڑی پنکچر ہونے کی زحمت سے بچ گئے۔ بہت سے لوگ اسے درویش تک کہنے لگے۔ مجھے یہ ماجرا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

ایک دن میں اُس پنکچر والے کے پاس جا پہنچا، اس نے ٹیوب چیک کرنے کے لیے برتن میں گدلا پانی ڈالا ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا صاحب، گدلے پانی میں پنکچر جلد ’نظر‘ آتا ہے، میں حیران ہوا، جب وہ دکان سے باہر نکلا میں نے پنکچر چیک کرنے والا برتن انڈیل دیا۔ دیکھا تو اس برتن کے پیندے میں ایک عدد سوئی لگی ہوئی ہے، جب بھی کوئی پنکچر لگوانے آتا تو وہ گدلے پانی میں ٹیوب ڈبوکر سوئی چبھو کر اس میں پنکچر کردیتا۔ گدلے پانی کی وجہ سے سوئی نظر نہ آتی تھی، یہی وجہ ہے، وہ صاف پانی برتن میں نہیں ڈالتا تھا۔

دسترخوان کا جزو ’’ثقل دان‘‘ کیا تھا؟
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کوشش کی جاتی ہے کہ دسترخوان خوب صورت اور جاذب نظر انداز میں لگایا جائے۔ اس صورت خال کا منطقی تقاضا یہ بھی ہے کہ کھانے کے دوران منہ سے نکالی جانے والی فاضل، گراں بار، اور ناپسندیدہ اشیا، مثلاً گرم مسالے کے اجزا، ہڈی، ٹماٹر کے چھلکے، دھنیہ یا کسی قسم کی ادھ چبی اشیا، جو بعض اوقات ناگوار ذائقے کی بنا پر منہ سے نکالنا پڑ جاتی ہیں، انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی معقول اور نفیس انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی اشیا کے لیے کھلے برتن، طشتری یا رکابی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔

وہ بھی صرف بہت شائستہ قسم کے لوگوں میں، ورنہ اکثر و بیش تر دسترخوان پر ہی اس کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے، جو ہمارے خیال میں انتہا درجے کی بدذوقی ہے۔ برصغیر پاک و ہند جہاں ریاستوں کے نوابوں، مہاراجوں کے ہاں قسم قسم کے دسترخوان بچھانے اور سجانے کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے، ان معاشروں میں بھی ایسے کسی خاص برتن کا سراغ نہیں ملتا، جس میں کھانے کے دوران نکالی جانے والی ناگوار اور گراں بار اشیا رکھی جاسکیں۔

اس کے لیے دلی کے داستان گو میر باقر علی پر لکھے گئے ایک خاکے سے لفظ ’ثقل دان‘ دریافت ہوا۔ قدیم دلی میں ہر دسترخوان پر ’ثقل دان‘ رکھا جاتا تھا اور یہ مثل مرتبان کے ہوتا تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی ادھ چبی اور ناگوار اشیا اسی ’ثقل دان‘ کے تہہ نشیں ہوجائیں، دسترخوان پر کھانے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ کاش اس لفظ کو عام کر کے لوگوں کو ایسے برتن کے استعمال پر راغب کیا جائے، تاکہ ہم مکمل آداب دسترخوان اور شائستگی کے ساتھ کھانا تناول کر سکیں۔

’’آم‘‘آدمی۔۔۔
محمد فراز
بابو اپنی عمر کے 39 سال تک ایک عام آدمی تھا ایک ’’عام‘‘ آدمی جسے لکھا ’’ع‘‘ سے جاتا ہے مگر برتا ’’آ‘‘ سے جاتا ہے۔ بابو بھی 39 سال سے اس تماشے کا حصہ تھا اور پُرامید تھا کہ جب 39 سال گزار دیے، تو اگلے 20، 25 سال بھی گزر ہی جائیں گے اس عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب وہاں جنت میں تو بچوں کے پوتروں کا خرچہ نہیں کرنا پڑے گا، نہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی فکر اور نہ ہی کسی سیٹھ کی غلامی، کتنا سکون ہو گا نا وہاں، جنت میں رہنے کا کوئی کرایہ بھی نہیں دینا پڑے گا، نہ بجلی کا بل اور نہ لوڈ شیڈنگ، اسے پورا یقین تھا کہ جنت میں یہ سب کچھ ہوگا، مگر وہ جنت میں جائے گا یا نہیں اس بات کا یقین ڈگمگاتا رہتا۔ بابو کو اپنے سارے کرتوتوں کا علم جو تھا، مگر وہ یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر تا کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا اور اللہ تو توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بابو اتنا غریب تھا نہ جاہل۔۔۔ انٹر تک پڑھا تھا، مگر اس نے آرٹس لی تھی، اس لیے ملنے ملانے والے اس کے ’انٹر‘ کو کسی خاطر میں نہ لاتے۔۔۔ اب ظاہر ہے انٹر آرٹس کی کیا ’ویلیو‘۔

اب بابو نے یہ بات گرہ سے باندھ لی کہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں ڈلوا دوں گا، مگر آرٹس نہیں پڑھائوں گا۔ وہ اپنی پرچون کی دکان پر اکثر ادھار پر ادھار سودا لے جانے والے استاد سے اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھتا اور وہ اسے ہمیشہ ’اوکے‘ کی ہی رپورٹ دیتا۔ ایک دن جب بابو کو یہ پتا چلا کہ وہ ٹیچر ہی اسکول کے پرچے آئوٹ کرا کے بچوں کو پاس کراتا ہے، تو اسے بہت غصہ آیا، مگر پھر وہ بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنے غصے کو پی گیا۔

غصہ وہ واحد حرام چیز تھی، جسے وہ برسوں سے پی رہا تھا۔ اب تو اگر اسے کسی دن الٹی ہوتی تو جانے کون کون اس ’سیلاب‘ میں ’بہہ‘ جاتا۔۔۔! ہر شریف آدمی کی طرح اسے بھی یہ مان تھا کہ شریف آدمی جب غصے میں آتا ہے، تو اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے، اس لیے اس نے کبھی اپنی شرافت کا بند ٹوٹنے نہ دیا! محلے میں اس کے اخلاق کی قسمیں کھانے والوں کی کمی نہ تھی، مگر گھر والے ’بے قدر‘ تھے۔ وہ تُنک کر کہتا کہ جب میں نہیں رہوں گا ناں، تب تم لوگوں کو میری قدر ہوگی، جس پر بیوی چڑ کر کہہ دیتی کہ ہاں ہاںِ تب ہی ہوگی۔

بابو زیادہ بحث نہیں کرتا تھا، کبھی کسی ’’سنجیدہ مسئلے‘‘ پر غور کرنا ہو تو وہ علاقے کے چند ایسے چیمپیئن لوگوں کے بیچ چلا جاتا، جو سارے جہاں کے بارے میں سب ’’جانتے‘‘ تھے۔۔۔ وہ اسے زندگی کے ’’مفید مشورے‘‘ بھی دیتے، جیسا کہ بیوی کو قابو میں کیسے رکھیں، سسرالیوں میں عزت کیسے بنائیں، بچوں پر نظر کیسے رکھیں وغیرہ۔ وہ ان کے ساتھ تاش کھیلتے، ایک داڑھ میں پان دبائے، آدھے منہ سے چائے پیتے ہوئے گھنٹوں اس ’سیر حاصل گفتگو‘ کا حصہ بنا رہتا۔ گھر آتا تو بیوی نیند سے جاگ کر دروازہ کھولتی جس پر وہ ناراض ہوتا کہ وہ اتنی بے فکر ہے کہ اس کے آنے سے پہلے ہی سوگئی۔

بات یہ تھی کہ 39 سال تک وہ ایک عام آدمی رہا اور اس کی کہانی میں کچھ بھی نئی بات نہ ہوئی۔ 39 واں سال اس کی زندگی کا سب سے اہم سال ثابت ہوا۔ سب ہی ملنے ملانے والے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنے لگے، لوگ اس کے قرضے لوٹانے لگے، یہی نہیں اس کے گھر کھانے پکا پکا کر بھیجنے لگے، اس کی بیوی کو تو چولھا جلانے کی ضرورت بھی نہ پڑتی، اس کے گھر کی صفائی کی ذمہ داری بھی رشتہ داروں نے لے لی، اس کے اہل خانہ کے تو ٹھاٹ ہی اور ہوگئے، کسی شاہی خاندان کی طرح ان کی دل جوئی کی جانے لگی، اور پھر۔۔۔

پھر سوگ کے تین دن پورے ہوگئے۔۔۔ پھر وہی ہوا اس کے بیوی بچوں کے دلوں میں بابو کی قدر جاگ گئی!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کا عہد

$
0
0

25 مارچ 1969 میں کوئٹہ کے سنڈمن ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا، ملک میں سیاسی بحران عروج پر تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان میں احتجاج اور تحریک شدت اختیار کر گئی تھی کہ اِس روز صدر مملکت ایوب خان نے قوم سے آخری خطاب کیا اور اقتدار چھو ڑ دیا اور ملک میں دوسرا مارشل لاء کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ خان نے نا فذ کردیا اور چیف مار شل لا ایڈمنسٹر یٹرکے ساتھ صدربھی بن گئے۔

صدر ایوب کی تقریر کے بعد عوام کی ایک بڑی اکثریت اداس تھی کیو نکہ یہ حقیقت تھی کہ صدر ایو ب خان کے دور حکومت میں ملک نے بے مثال ترقی کی تھی۔ دوسری جانب وہ عوام تھے جو غربت کا شکار تھے اِن کو سابق سوویت یونین کے اشتراکی نعرے بھی بھا تے تھے اور قوم پرستی کے نظریات بھی۔ پھر ایک واضح اکثریت وہ تھی جو مسلمان ہو نے کے ساتھ اس بات کی متقاضی تھی کہ اسلامی نظام ملک میں نافذ العمل ہو۔ ہم آٹھویں جماعت کے ایک بے فکر سے طالب علم کی طرح یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔

آج ٹھیک پچاس برس بعد ایک ایک بات یاد آرہی ہے، حقائق آج زیادہ عیاں اور واضح ہیں۔ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بعض ٹرکوں، بعض گھروں اور دکانوں میں سابق صدر ایوب خان کی تصاویر گیت کے  اس مصرعے کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں ( تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی )۔ یوں یہ واحد فوجی حکمران ہیں جن کی یاد، بہر حال اب بھی آتی ہے اور یہ بھی ہے کہ ایک حلقہ ایوب کو اب بھی فوجی آمر ہی کہتا ہے۔

جدید تاریخ میں ایوب خان کی شخصیت بہت منفرد ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو 1914 ء سے 1918ء تک جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کی آخری خلافت ترکی عثمانیہ تھی جب جنگ ختم ہوگئی تو اُس وقت دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ہی آزاد رہ گئے تھے جن میں افغانستان جس کو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان بفر اسٹیٹ یعنی حائلی ریاست کے طور پر دو بڑی قوتوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا تھا، آج کا سعودی عرب جس کو بڑی قوتوں نے اس لیئے کسی حد تک آزاد رکھا تھا کہ اگر حجاز مقدس پر قبضہ کرتے تو اس کا امکان تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کرتے اور صرف ترکی ایسا اسلامی ملک تھا جس کی عثمانیہ سلطنت یا خلافت کے دیگر ممالک تو برطانیہ اور دوسرے اس کے اتحادیوں نے اُس سے چھین لیئے تھے مگر مصطفی کمال پا شا نے ترکی کی آزادی کو بچا لیا تھا اور یوں باقی تمام اسلامی ممالک غلام تھے اور نو آبادیا تی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے تھے۔

14 اگست 1947 ء کو پاکستان بنا تو یہ اُس وقت نہ صرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا بلکہ فوجی قوت کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا مگر اس کی آزادی حقیقی معنوں میں اس وقت ہوئی جب پاکستان میں انگریز جنرل میسروری اور جنرل ڈیگلس گریسی کے بعد 1951ء میں ایوب خان ملک کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف بنے۔

واضح رہے کہ 1914ء سے 1945ء تک کا دور دنیا کا انتہائی اہم دور تھا جس کے دوران دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں، ان کی حکومتیں، باشاہتیں بنیں بھی اور برباد بھی ہوئیں۔ یوں ایسے تغیراتی دور کا تقاضا بھی تھا کہ تاریخ ساز شخصیات پیدا ہوں، یوں ان دونوں عظیم جنگوں کے درمیان دنیا کی تاریخ کے اہم ترین لیڈر انقلابی اور جنرل پیدا ہوئے اور بہت سے ایسے جنرل اور فوجی افسران تھے جوخصوصاً دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر لڑے بھی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد میں اپنے اپنے ملکوں میں کہیں بغاوت یا انقلاب کے ذریعے کہیں جمہوری بنیادوں پر انتخابات کے ذ ریعے اقتدار میں آئے۔

انقلاب یا بغاوت کی زیادہ صورت ترقی پذیر اور اُن ملکوں میں رہی جو برطانوی نوآبادیات کی بجائے فرانس، پرتگال، اسپین، ہالینڈ یا اٹلی کی نو آبادت تھے جہاں اُن ملکوں کے عوام نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ برطانیہ نے اپنی نو آبادیات میں حقائق کو تسلیم کرتے ہو ئے بہت ہوشیاری سے اپنے اقتدار کو طول دیا اور ساتھ ہی اِن نوآبادیات میں عوام کو خصوصاً پہلی جنگ عظیم کے بعد حکومتی اختیارات کے ساتھ مرحلہ وار اور محدود انداز میں حکومتی اور جمہوری عمل میں شامل کرنا شروع کردیا۔

جنگ عظیم اوّل کے بعد فوجی افسراں بھی مقامی طور پر برطانوی رائل فوج میں شامل کئے جانے لگے۔ اسی دور میں 14 مئی 1907ء میں ریحانہ نامی گائوں ضلع ہزارہ میں پیدا ہونے والے ایوب خان جنگ عظیم اوّل کے آٹھ سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے آغاز سے 13 سال پہلے 1926ء میں برٹش رائل آرمی میںکیڈٹ منتخب ہوئے اور دوسال کی تربیت کے بعد 2 فروری 1928ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوئے۔ 2 مئی 1930ء کو لیفٹیننٹ اور پھر 2 فروری 1937ء کو کیپٹن ہوگئے اور اس دوران یعنی 1933ء سے1939ء تک وہ وزیرستان میں تعینات رہے۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ 1939ء میں شروع ہوگئی تو وہ اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ 1942ء میں برما کے محاذ پر بطور کرنل جنگ میں مصروف رہے۔ 1945ء میں بطور کرنل کمانڈ برما میں اہم ذمہ داریا ں نبھائیں اور 1946ء میں اِن کی پوسٹنگ خیبرپختو نخوا میںکر دی گئی ۔

قیام پاکستان کے وقت وہ ون اسٹار بریگیڈئر ہو چکے تھے۔ یوں وہ 1926ء سے 1946ء بیس سال تک برٹش رائل آرمی کے افسر رہے اور پاکستان کی آزادی کے وقت وہ بریگیڈئر ہو گئے تھے۔ 1947ء کے بعد 1951ء تک وہ جی ایچ کیو سنٹرل کمانڈ سنٹرل کمانڈر، جی او سی ایسٹرن کمانڈ ڈھاکہ، جی او سی انفینٹری اور کمانڈر ایسٹ بنگال رہے۔ فوج میں اُن کا بنیادی تعلق 19/5th Punjab Regiment سے تھا اور 1951ء کو وہ پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف ہو گئے، 16 اکتوبر1951ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ملک غلام محمد جو اس وقت وزیر خزانہ تھے نے وزیر اعظم بنا دیا اور خود قائد اعظم اور خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بن گئے۔

چونکہ 1945-46 کے مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو نے والی اسمبلی 1935ء کے قانون ہند کی جگہ اپنا آئین نہیں بنا سکی تھی اس لیے ملک غلام محمد کو سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا اور اس کے بعد اسمبلیاں اور حکومتوں کو توڑنے اور برخاست کرنے کا سلسلہ شرع ہو گیا جس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اِس کی ایک بڑی وجہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کو درپیش بڑے مسائل بھی تھے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سابق سوویت یونین سے  1927ء سے تعلقات تھے، دوسری اہم وجہ روس سے پاکستان کی دوری کی یہ تھی کہ پاکستان اسلا می اعتبار سے دوقومی نظریے کے تحت بنا تھا اور روس کے لیے ایسا نظریاتی ملک ، نظریاتی لحاظ سے ایک چیلنج تھا۔ 1949ء میں چین سے بھی بھارت کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبوط ہو گئے۔ یوں خارجی محاذ پر ملک کو اس صورتحال میں روس، بھارت اور چین تینوں سے مقابلے کے لیے ایک مضبوط اور بڑی قوت کی ضرورت تھی اور یہ مجبوری لیا قت علی خان کے فوراً بعد پاکستان کو امریکہ کے قریب لے گئی۔

دنیا کی بد قسمتی یہ بھی رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ہی سرد جنگ چھڑ گئی اور دنیا کے ترقی پذیر اور پسماند ہ ممالک اس سرد جنگ کا شکار ہوگئے۔ مغربی پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بہت اہم ہے مگر اس وقت مشرقی پاکستان کے اعتبار سے بھی پاکستا ن دنیا کا  ایک منفرد ملک تھا کہ اس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد ہی کشمیر کی جنگ ہوئی، مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھی جب کہ مغربی پاکستان رقبے میں تقریباً سات گنا بڑا تھا، اُس وقت مغربی پاکستان کی آبادی میںہندو ں کا تناسب ایک فیصد تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کاتناسب تقریباً 22% تھا جو وہاں کی بنگالی مسلم آبادی کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یا فتہ اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز تھے اور اس صورتحا ل کو بھارت کی نہرو حکومت نے بہت گہری سازش کے ذریعے پروان چڑھایا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں خصوصاً مشرقی پاکستان کے اعتبار سے سیاسی بحران بڑھنے لگا ۔خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرہ 17 اپریل1953 سے 12 اگست 1955 تک وزیر اعظم رہے تو ان کے زمانے میں 1954 ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات کروائے گئے جس میں مسلم لیگ کو بری ظرح شکست ہوئی۔ مسلم لیگ 307 نشستو ں میں سے صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی۔

عوامی لیگ نے اپنی 143 نشستوں کے ساتھ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اے کے فضل الحق کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا مگر چھ ہفتوں میں جتو فرنٹ کی اس حکومت کو برطرف کرکے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا اور فضل الحق کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور یوں یہ بحران شدت اختیار کرتا رہا مگر اس کو غیر جمہوری انداز سے خصوصاً 1951ء کے بعد سے دبایا جاتا رہا۔ اس وقت ہی امریکہ نے دفاعی نوعیت کے لحاظ سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے لیے پاکستان میں امریکہ کی حمایت اس وقت کی اہم سیاسی جماعتیں اورشخصیات بھی کرنے لگیں جن میں پیش پیش ملک غلام محمد اور دوسرے اہم بیوروکریٹ اسکندر مرزا تھے جو ملک غلام محمد کے بعد گورنرجنرل اور پھر 1956ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان کے پہلے صدر مملکت بنے۔

اس دوران 1953ء سے 1958ء تک فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر ِداخلہ اور وزیر دفاع بھی رہے، لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد خوا جہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور آخر میں فیروز خان نون پاکستا ن کے وزرا، اعظم رہے۔ حسین شہید سہروردی کے دور میں امریکہ نے پاکستان میں پشاور کے نزدیک بڈ بیر کے مقام پر سابق سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے ہوائی اڈہ حاصل کر لیا جب کہ چوہد ری محمد علی نے 1956 ء کا پارلیمانی آئین بنایا اور آخری وزیر اعظم فیروز خان نون کے اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں گوادر کے علاقے کو مسقط سے خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے برطانیہ میں فیروز خان نون کے ذاتی تعلقات کے علاوہ کسی امریکی سروے رپورٹ کی بھی بڑ ی اہمیت رہی تھی پھر جب 1956 میں آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد 1935 کے قانون ہند میں گورنر جنرل کو اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کے اختیارات ختم کر دئیے گئے اوراسکندر مرزا نئے آئین کے تحت گورنر جنرل کی بجائے صدر مملکت ہو گے تو انہوں نے اسمبلی کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ وہ آئین کے تحت عام انتخابات نہ ہونے دیں اور جب سیاسی بحران انتہاکو پہنچ گیا تو اُنہوں نے کمانڈر انچیف  فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا۔

ایوب خان نے7 اکتو بر 1958 کو مارشل لا ء نافذ کر کے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر 1956 ء کے آئین کو منسوخ کر دیا اور پھر صدر اسکندر مرزا کو بھی برطرف کر کے 27 اکتوبر سے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا، یہ ملک کا پہلا مارشل لاء تھا جو آزادی کے گیارہ سال بعد حکومتوں کی مسلسل ناکامیوں، سیاست کے ایوانوں میں ہونے والی جوڑ توڑ اور مقررہ مدت کے دوران عام انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے بھی لگایا گیا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس کو قبول کیا اور بدقسمتی سے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں اُس وقت اس مارشل لا کے خلاف کوئی آواز کوئی تحریک نہیں چلی۔ ایوب خان نے مارشل لا کے خوف کو پوری طرح اور بہت کم مدت میں فوج کے ذریعے استعمال کیا اور چند مہینوں میں فوج کو واپس چھائونیوں میں بلوایا اور باقی انتظام سول ایڈمنسٹریشن سے بہت خوبی سے لیا اور بیوروکریسی اس لیے بھی ان سے خوف زدہ رہی کہ انہوں نے 303 اعلیٰ سول سروس افسران کو فارغ کر دیا تھا پھر ایوب خان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں جنرل محمد موسیٰ جیسا کمانڈر انچیف ملا تھا جس نے ایوب خان کا پوری طرح ساتھ دیا۔

ایوب خان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ عمومًا قابلیت اور اہلیت کی بنیادوں پر اپنے وزرا اور اعلیٰ افسران کو تعینات کرتے تھے اور اس عمل میں اندیشوں کو بھی نظرانداز کردیتے تھے اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں شمولیت تھی حالانکہ ایوب خان کو یہ معلوم تھا کہ سابق صدر اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اضفانی اور بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو آپس میں کزن تھیں اور اسکندر مرزا ہی نے بھٹو کو صرف 24 یا 25 سال کی عمر میں پاکستانی وفد میں شامل کرکے اقوام متحدہ میں بھیجا تھا اور پھر کابینہ میں بھی بطور وفاقی وزیر شامل کیا تھا۔

ایوب خان اس دوران بھٹو کی کارکردگی اور ذہانت سے واقف ہوگئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا، اس طرح اُن کی کابینہ میں جتنے بھی لوگ شامل تھے تقریبًا سبھی میرٹ کی بنیاد پر شامل کئے گئے تھے۔ جمہوریت پسندوں کے بالکل برعکس وہ پاکستان میں مکمل یا عوامی اعتبار سے براہ راست جمہوریت کے قائل نہیں تھے اور اسی لیے انہوں نے اقتدارمیں آتے ہی صدراتی نظام حکومت کے تحت بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا۔ یوں اُنہوں نے بنیادی جمہوریت کے تحت جو پہلے انتخابات کروائے وہ بلدیاتی طرز پر تھے اور اس کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان چالیس، چالیس ہزار چھوٹے حلقوں سے بی ڈی ممبران نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، بنیادی جمہوریت کے اِن منتحب اراکین کو الیکٹرول کالج کا درجہ دیا گیا پھر ان چالیس، چالیس ہزار بی ڈی ممبران نے صوبہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کیا۔

اس کے بعد دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے کل 80000 بی ڈی ممبران جو اپنے چھوٹے حلقوں کے کو نسلر بھی تھے انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کیا اور انہی اسی ہزار اراکین نے براہ راست محمد ایوب خان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر مملکت منتخب کیا، اس طرح صدر ایوب خان سب سے زیادہ بااختیار صدر ہو گئے اور جب انہوں نے 1962ء کا آئین نافذ کیا تو یہ بنیادی جمہوریت کا صدارتی نظام قومی اور عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا لیکن جہاں تک ملک میں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا تعلق ہے تو اُنہوں اس کی بھر پور مخالفت کی اسی دور میں انقلابی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم مشہور ہو ئی تھی (ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ) ۔

اگرچہ پاکستان امریکہ کے تعلقات پاکستان کے لیے نا گزیر تھے اور لیاقت علی خان نے3 مئی تا 26 مئی 1950ء کو ایک بڑے وفد کے ساتھ امریکہ کا سر کاری دورہ کیا تھا لیکن 1953 تک پاکستان نے ان تعلقات کو کافی حد تک متوازن رکھا تھا، مگر خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبو ط تو کہلانے لگے مگر یہ تعلقات متوازن نہیں تھے۔ 1954ء اور 1955ء میں پاکستان SEATO اور CENTO جیسے معاہدوں پر دستخط کر کے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت ختم کر چکا تھا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ صدر ایوب خان جیسے بااختیار اور طاقتور صدر کے اقتدار کے زمانے میں جب سوویت یونین کے وارسا پیکٹ گروپ اور امریکہ اور نیٹو اتحاد کے تحت دنیا میں سرد جنگ شدت اختیار کر گئی تھی پاکستان ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوا اور شائد اس کی ابتدا اُس وقت ہوئی تھی جب قائد اعظم وفات سے پہلے بیمار ہوکر بلوچستان کے علاقے زیارت میں زیر علاج تھے اور یہاں انہوں نے تقریباًدو ماہ دس دن گزارے اورکہا جاتا ہے کہ اس دوران وہ لیا قت علی سے قدرے ناراض تھے کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو کسی قسم کی لچک اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اور صدر ایوب خان جب 1958ء میں اقتدار میں آئے تو مسئلہ کشمیر گیارہ برس پرانا ہو چکا تھا۔

دوسری جانب مشرقی پاکستان کی 21% ہندو آبادی کے ساتھ وہاں سیاسی بحران کی شدت یوں بڑھ گئی تھی کہ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے مسلم لیگ کے بہت سے پرانے رہنمائوں کو اقتدار کے لالچ کی بنیادوں پر سیاسی گروپ بندی میں الجھا کر فائدے اٹھائے اور یوں سیاستدان جمہوری راستے سے بھٹک گئے تھے اس لیے ایوب خان کو دو بنیادی چیلنجوں کا سامناتھا ایک جانب مشرقی پاکستان کی آبادی کو مطمئن کرنا تھا کہ اُن کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی تو دوسری جانب بھارت سے کشمیر کے مسئلے کو حل کروانا تھا۔ مسئلہ کو خود بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے گیا تھا اور اس کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کی مرضی سے ریفرنڈم کی بنیاد پر کشمیریوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا پسند کر یں گے۔

صدر ایوب خان کی حکومت کو دو، ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1958 ء سے 1964ء تک ہے جس میں مغربی پاکستان میں ایوب خان بہت مقبول رہے اور مشرقی پاکستان میں بھی اِن کو قبول کیا گیا، اس دوران ملکی، قومی سطح پر سیاست دان تقربیًا خاموش رہے اور بہت حد تک بے بس نظر آئے۔ سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں تھیں اس کی ایک بنیادی وجہ حکومت کی سختی اور خوف بھی تھا۔ ملک بھر میں بیوروکریسی اور پولیس حکومت سے بھر پور تعاون کرتی رہی، اظہار خیال پر اس حد تک پابندی تھی کہ عام ریستورانوں میں یہ نو ٹ آویزاں کئے جاتے تھے کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، ایوب خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت سے پانی کی تقسیم کا تنازعہ سندھ طاس معاہد ے کے تحت 1960-61 میں طے کر لیا اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان فر یق اور ورلڈ بنک ضامن ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا، راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کردئیے گئے اور تین مغربی دریائوں، سندھ، جہلم اور چناب کے پانیو ں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کرلیا گیا، تین مشرقی دریائوں کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے منگلا اور تربیلا ڈیمز کی تعمیر کا فیصلہ ہو ا۔ اگر چہ کچھ لوگ سندھ طاس معاہدے پر اب بھی تنقید کرتے ہیں مگر پا کستان سمیت دنیا بھرکے ماہرین سندھ طاس معاہدے کو پانی کی تقسیم کا ایک بہترین معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ایوب خان کے دور اقتدار میں برصغیر کا بیشتر علاقہ سیلابوں ، سیم تھور، ٹڈی دل جیسی قدرتی آفات کا شکار رہا اس دوران امریکہ نے پی ایل480 کے تحت پاکستا ن کو غذائی اجناس خصوصًا گندم فراہم کی۔ حکومت کا امریکی مالی امداد پر بھی زیادہ انحصار رہا اور 1958ء سے 1969ء تک پاکستان نے اقتصادی امداد  لی، یو ایس ایڈ اور امریکی فوجی امداد کے حوالے سے کل 31208.86 ملین ڈالر کی امداد حاصل کی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1958 تک اقتصادی امداد کا حجم 968.22 ملین ڈالر یوایس ایڈ 589.59  ملین ڈالر اور فوجی امداد کی مد میں 533.13 ملین ڈالر تھا مگر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کی جانب سے امداد میں کمی آنے لگی اور جب 1969ء میں ایوب خان اقتدار سے رخصت ہو رہے تھے تو اس سال امریکہ کی جانب سے اقتصادی امداد کا کل حجم 541.76 ملین ڈالر یو ایس ایڈ 504.31 ملین ڈالر اور فوجی امداد صرف 0.5 ملین ڈالر تھی۔ جہاں تک تعلق  پاکستان کی معیشت کا ہے تو صنعت و تجارت کے شعبوں سمیت پاکستان کے تمام شعبوں میں ایوب خان کے زمانے میں بے مثال ترقی ہوئی اور ایشیا میں پاکستان ترقی کے لحاظ سے جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ اِن کے دور حکومت میں 1958ء سے 1969ء تک امریکی ڈالر تین روپے سے پانچ روپے کے درمیان رہا اور سونے کی قیمت 160 روپے سے 200روپے فی تولہ رہی اور ڈالر اور سونے کی قیمت میں جو اضافہ ہوا وہ بھی 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہوا۔ ملک میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگیں۔

اُس زمانے میں کسی ملک کی مستحکم ترقی کی بنیاد صنعتی ترقی ہی کو سمجھا جاتا۔ جہاں تک تعلق زراعت کا تھا تو اُس وقت تک ٹڈی دل،سیلاب اور خشک سالی ،فصلوں کی دیگر بیماریوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں نے قابو نہیں پایا تھااور آج کے مقابلے فی ایکڑ پیداوار نصف سے بھی کم تھی ،بد قسمتی سے ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کے مقابلے میں زرعی ترقی پر اتنی توجہ نہیںدی گئی جتنی ضرورت تھی جب کہ صنعتی ترقی کے لیے صنعتکاروںاور سرمایہ کاروں کو بے پناہ مراعات اور فائدے دیئے گئے ڈیوٹی ٹیکسوں میں ضرورت سے زیادہ چھوٹ دی گئی مزدورں کی تنخواہیں کم رہیں سوشل سیکورٹی کے قوانین مزدورں کے حق میں نہیں تھے اور سرمایہ دار وں ،کارخانہ داروں کے نفع کی شرح بہت زیادہ رہی، کراچی اور چند بڑے شہروں کی آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگااُس وقت پاکستان میںدیہی آبادی کا تناسب76% تھا،مگر سالانہ قومی بجٹ کا 80% شہری نوعیت کے منصوبوں پر خرچ ہوتا تھا۔

اِن تمام باتوں کے باوجود صدر ایوب خان اپنے اقتدار کے پہلے دور میں یعنی 1958 سے 1964 تک مقبول اور کامیاب صدر تھے اس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد قومی رہنمائوں اور سیاست دانوں نے عوام کو مایوس کیا تھا 1958 میں مارشل لا کے آغاز پر ملک بھر میں منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں ، اسمگلروں ،غنڈوں ،بدمعاشوں ،ڈاکوئوںکے خلاف سخت ایکشن لیا گیا تھا مارشل لا قوانین کے تحت کوڑے بھی لگائے گئے ،پھانسیاں بھی ہو ئیں،اگر چہ اس دور میں اظہار خیال پر بھی پابندیاں رہیں اورفیض احمد فیض ، حبیب جالب، میاں افتخارالدین،احمد ندیم قاسمی ، ضمیر علی اور دیگر شاعروں، ادیبوں،دانشوروں ،صحافیوں نے بھی بہت جبر سہا لیکن ملک میں مجموعی طور پر امن و امان اور عام سطح پر انصاف اور قانون کی حکمرانی رہی البتہ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا اُس وقت کا قانون جمہوریت اور اظہار رائے کے تقاضے پورے رکرتا تھا؟لیکن یہ ضرور تھا کہ حکومت کی رٹ بہت سختی سے برقرار تھی، پولیس کا ایک سپاہی چارپائی کی رسی سے بیس ،بیس آدمیوں کو باندھ کر لے جا تا تھا عام طور پر سفارش،اقربا پروری، رشوت ستانی ختم کر د ی گئی تھی ،پہلے دور میں آٹا سولہ روپے کا من گوشت چھوٹا دو روپے سے تین روپے سیر،بڑا گوشت ایک روپے سے ڈیڑھ روپے سیر، خالص گھی چار روپے سیر، دودھ ایک روپے سیر تھا۔

اس دورحکومت کو عوامی اعتبار سے پاکستان کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے مگر خارجہ پالیسی اور انٹر نیشنل ریلیشن کے لحاظ سے پاکستان کی بڑی مجبوری رہی کہ پاکستان مکمل طور پر برطانیہ اور امریکہ کے زیر اثر رہا ،اُس وقت بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلا ل نہرو تھے جنہوں نے سوویت یونین کے ،اشتراکی ممالک کے وراسا پیکٹ گروپ اور امریکی اتحاد نیٹو گروپ سے ہٹ اُس وقت کے دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے تحت نہ صرف پروپیگنڈا کی بنیاد پر بھارت نے خود کو خارجی محاذ پر غیرجانبدار ظاہر کیا تھا توساتھ ہی بھارت کے لیے ایک کامیاب متوازن خارجہ پالیسی اپنائی تھی اورغیر جانبدار ممالک کی اس تنظیم میں شامل ملکوں کو تیسری دنیا کا نام بھی دیا تھا ،اور اِن اہم پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں پر بھارت نے اس اعتبار سے خود کو لیڈر منوالیا تھا ۔ یہ نہر و سیاست کا ایک رخ اور دوسرا رخ یہ تھا کہ وہ امریکہ سے اور سابق سویت یونین سے بھی مفادات حاصل کر ہا تھا اور چین سے بھی اُ س کے تعلقات 1962ء تک بہت دوستانہ اورمضبوط تھے۔

صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں فرانس میں چارلس ڈیگال صدر تھے چین میں مازے تنگ لیڈر اور وزیراعظم چواین لائی تھے سابق سویت یونین میں خروشیف،اور برزنیف برسراقتدار رہے ،برطانیہ میںہارلڈمیکلین،الیک ڈیگلس ہوم،اور ہارلڈ ویلسن وزرااعظم رہے جب کہ امریکہ میں1958ء تا 1969ء آئزن آور،جان ایف کینڈی اور لنڈن بی جانسن صدر رہے ،ایوب خان نے 1960 میں برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تو اُن کا فقید المثال استقبال کیا گیا ،1961ء میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور یہاں بھی صدر جان ایف کینڈی نے اُن کا شاندار استقبال کیا ،امریکہ صدرجانسن نے 1967ء میں پاکستان کا دورہ کیا جب کہ نہرو نے1949 ، 1956 ،1960 اور1961 کو امریکہ کے سرکاری دورے کئے اور اِن کا بھی بہت گرم جو شی سے ستقبال کیا گیا 1956ء کے دورے میں نہرو نے بھارت کے لیے سالانہ اوسطا ً 822 ملین ڈالر کی امداد حاصل کرلی اور صدر آئزن ہاور سے تعلقات بڑھے اور1959ء میں آئزن ہاورنے انڈیا کا دورہ کیا۔

پاکستان کو 1960ء اور1962ء میں خارجہ پالیسی کے اعتبار سے مشکلات سامنا کرنا پڑا،یکم مئی 1960ء کو جب سویت یونین سے پاکستان کے تعلقات قدرے بہتر ہورہے تھے تو پاکستان کے علاقے سے اڑنے والے امریکی جاسوس طیارے U-2 کو سویت یو نین نے روسی علاقے کوسولینومیں مارگرایا اور اس کے پائلیٹFrancis Gary فر انسس گرے کو زندہ گرفتار کرلیا اور روس نے احتجاج کرتے ہوئے ایک جانب پیرس میں سویت یونین،فرانس،برطانیہ،اور امریکہ کے درمیان ہونے والی کانفرنس کا بائکاٹ کردیا تو دوسری جانب پاکستان کو دھمکی دی کہ روس نے پشاورکے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ پر جنگ چھڑی اسی دور میں کیوبا پر روسی میزائل نصب کرنے پر امریکہ اور روس کے درمیان نہایت خطرناک تنائو پید ا ہوا قدرت اللہ شہاب کے مطابق رات کو 2 بجے چینی سفارت خانے کی جانب سے یہ اطلاع ملی کہ صدر ایوب خان کو بتائو کہ چین اور بھارت جنگ ہو چکی ہے۔

غالباً یہ اشارہ تھا کہ پاکستان کشمیر کے لیے بھارت سے جنگ کردے ،لیکن ایوب خان نے ناگواری سے کہا کہ انہیں اس کی اطلاع ہے اس سوال پر اب تک بحث کی جاتی ہے مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ایک دن میں تشکیل نہیں پاتی ،یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چین جو اپنی آزادی کے بعدسے 13 سال تک تو بھارت کا دوست رہا اب اچانک جنگ پر یہ چاہے کہ پاکستان بھی بھارت پر حملہ کردے ،دوستی کا اعتبار قائم ہونے میں آخر کچھ وقت لگتا ہے پھر بطور صدر وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ نے انہیں واضح کردیا تھا بھارت بہرحال ایک غیر اشتراکی ملک ہے اور اس کی جنگ چین جیسے اشتر اکی ملک سے ہے اس لیے پاکستان اِس وقت اُس پر حملہ کرنے کی غلطی نہ کرے اور بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ بعد میں وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کرئے گا۔

27  اکتوبر1958 کو صدر ایوب نے ذولفقار علی بھٹوکواپنی کابینہ میںتجارت اور اطلاعات کا وفاقی وزیر بنایاتھا اس کے بعد ،1962 میں کابینہ میں ردو بدل کی تو منظور قادر کی جگہ سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا، کو وزیر خارجہ بنا دیا اِن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا وہ 23 جنوری 1963 میں انتقال کر گئے تو پھر کچھ عرصے بعد ذولفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا گیا جو خارجہ امورمیں ایوب خان کو پہلے ہی مفید مشورے دیتے تھے۔

واضح رہے کہ ایوب خان کو آج تک فرینڈ آف امریکہ کے خطاب سے بھی یاد کیا جا تا ہے جب کہ ایوب خان کی کتاب کا نام فرینڈز۔ ناٹ ماسٹر ہے جس کا ترجمہ تو اقبال کے اس مصرع سے کیا گیا کہ ’’اُس رزق سے موت اچھی،، لیکن اِس کا لفظی ترجمہ کچھ یو ں بنتا ہے ’’دوست۔ مالک نہیں‘‘یوں جب ذولفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے ایوب خان کے دل میں دبی ہوئی آرزو کو ابھارا ،اب چین واقعی بھارت سے دور ہو گیا تھا نہرو نے اُس وقت ہی بھارت کے وسیع رقبے اور اس کی آبادی کے پیش نظر یہ محسوس کر لیا تھا کہ مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی سطح پر معاشی اقتصادی، سیاسی میدان میں اُس کا مقابلہ ہمسایہ ملک چین سے ہو گا اور چین سے کیونکہ روس کے اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے تو نہروکی بھارتی خارجہ پالیسی کا تقاضہ یہی تھا کہ چین سے دشمنی کی وجہ سے اُسے روس اور امریکہ دونوں سے امداد اور فائدے حاصل ہونگے ،اور پاکستان کے لیے بہتر صورت یہ پیدا ہو رہی تھی کہ اُسے علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اُس سے ذرا بڑی قوت کی حمایت حاصل ہو گئی تھی مگر اُس وقت چین ترقی پزیر ملکوں کی صف میں بھی بہت آگے نہیں تھا اورچین 1964 میں ایٹمی قوت بناتھا یوں صدر ایوب خان اور اِن کے جوانسال باصلاحیت اور ذہین وزیر ِ خارجہ بھٹونے چین سے تعلقات کو مضبوط کیا اور کسی حد تک خارجہ پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش کی اس دوران چین سے اقتصادی معاشی ترقی اور اس میں تعاون کے معاہدے ہونے لگے ۔

مگر اہم اوربڑے ترقیاتی منصوبے امریکہ ،برطانیہ اور فرانس وغیرہ ہی سے کئے جاتے رہے ایوب خان کے دورحکومت کے پہلے نصف حصے میں 1961ء میں پاکستان میں ریلوے کا صد سالہ جشن منایا گیا اور لاہور تا خانیوال الیکٹریک ٹرین شروع کی گئی ،سکھر میں ریلوے کا نیا پل بنایا گیا اسلام آباد جیسا خوبصورت شہر اور دارالحکومت تعمیر کیا گیا اس دور میں پاکستان ایشیا میںجاپان کے بعد ترقی میں دوسرے نمبر پر تھا صدر ایوب خان نے ملک کی متوازن اور مستحکم ترقی کے لیے جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے تحت تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سالانہ بجٹ میں معقول رقم رکھی ایوب حکومت نے اپنا پہلا سالانہ قومی بجٹ مالی سال 1959-60 پیش کیا جس کا مجموعی ہجم ایک ارب 56 کروڑ 8 لاکھ تھا یہ خسارے کی بجائے بچت کا بجٹ تھا جس میں 2 کروڑ 63 لاکھ کی بچت تھی اور آخر ی بجٹ  مالی سال 1968-69 کا تھا جس کا مجموعی حجم 6 ارب88 کروڑ93 لاکھ تھا اور خسارے کی بجائے بچت 2 ارب 52 کروڑ73 لاکھ روپے تھی۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں دس قومی بجٹ پیش کئے یہ تمام بجٹ خسارے کی بجا ئے بچت کے بجٹ تھے۔

صد ر جنرل ایوب خان کی حکومت کا دوسرا دور اُن کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوا۔ بھارتی وزیر اعظم کی موت کے ایک سال بعد،1965 میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے جدو جہدآزادی تیز کر دی ،اور پاکستان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت اُن کے ساتھ تھی ایوب خان کو بھٹو نے یہ یقین دلایا تھا کہ نوے فیصد امید ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا اور اس طرح اگر یہ جدو جہد آزادی اسی رفتار سے جاری رہی تو بھارت کو مجبوراً  مقبوضہ کشمیر چھوڑنا پڑے گا مگر 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے مغربی پاکستان میں کشمیر میں جنگ بندی لائن کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے ملنے والی بین الاقوامی سرحدوںسے پوری قوت سے اور اچانک حملہ کردیا،بھارت نے مشرقی پاکستان کا محاذ نہیں کھولا تھا اُس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں شدید غذ ائی قلت کا شکار ہورہے تھے اور گندم کی فی ایکڑ ز تین گنا پیداوار کا بیچ ،میکسی پاک، امریکی ماہرین نے بنا لیا تھا جس کے جہاز اس پاک بھارت سترہ روزہ جنگ کی وجہ سے روک دیئے گئے اور یہ جنگ صرف 17 دن بعد اس لیے بند کرنی پڑی کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو اسلحے کی سپلائی روک دی تھی ۔

واضح رہے کہ بھارت اپنی فوج کے لیے بڑی مقدار اور تعدا د میں اسلحہ سویت یونین سے بھی خریدتا تھا اس لیے اُس کی مشکلات  پاکستان کے مقابلے میں کم تھیں،پاکستان کو ا س جنگ میں بھارت پر برتری حاصل تھی ،خصوصًا کشمیر میں پاکستان جنگ بندی لائن سے آگے بڑھ گیا تھا ،اور جب تاشقند میں معاہدہ طے پارہاتھا تو بقول ذولفقار علی بھٹونے صدر ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بین الاقوامی دبائو کے تحت یہ ضروری ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پو زیشن پر سرحد وں پرلے آئیں لیکن کشمیر اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کو نسل کے تحت ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل ہو ناہے اور یہاں عالمی سطح کی تسلیم شدہ سرحد نہیں اس لیے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فوجیں جہاں تک آگے بڑھ چکی ہیں وہاں نئی جنگی بندی لائن قرار دی جائے اور بقول ذوالفقار علی بھٹو یہاں جب اُن کے اس اعتراض کے باوجودپاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے تو ذولفقار علی بھٹو نے اس کے تھوڑے عرصے بعد وازارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر صدر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کردی یہ تحریک اس لیے بھی زیادہ قوت اختیار کر گئی جنوری1965 میں ایوب خان نے بنیادی جمہور یت اور صدارتی نظام کے لیے 1962 کے آئین کے تحت دوسرے انتخابات کروائے تھے۔

جس میں متحد ہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا بھٹو ایوب خان کی اس صدارتی انتخابی مہم میں ایوب خان کے ساتھ تھے اِن انتخابات میں بی ڈی ممبران کی تعداد دگنی کردی گئی تھی، انتخابات کے نتائج کے بعد صدر ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے اور اب تاشقند معاہدے میں ملکی مفادات کے خلاف فیصلے کا الزام تھا یوں بھٹو ،مجیب الرحمن ، مولانا بھاشانی،اور دیگر تقریباً تمام سیاسی رہنمائوں نے مل کر ایوب خان کے خلاف کامیا  ب تحریک چلائی اور ایوب خان نے 25 مارچ 1969ء کو اقتدارچھوڑدیا۔ انہیں کچھ عرصہ بعد دل کی تکلیف لا حق ہو گئی تھی اور 19 اپریل 1974ء کو اسی عارضہ قلب کی وجہ سے 66 سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پائی ،اُن کی وفات کو آج 45 سال گزر گئے ہیں اور اقتدار چھوڑے آج پوری نصف صدی گزر گئی ہے،آج بھی اُن کے لیے یہ مصرع لکھا نظر آتا ہے ’’ تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی۔‘‘

 ڈاکٹر عرفان احمدبیگ  ( تمغۂ امتیاز)

The post سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کا عہد appeared first on ایکسپریس اردو.


سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے!

$
0
0

جنوبی افریقہ کے لیجنڈری رہنما، نیلسن منڈیلا کا خوبصورت قول ہے ’’کوئی بھی انسان اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ وہ رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر دوسرے انسانوں سے نفرت کرے… اسے نفرت کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔ اگر ایک انسان نفرت کرنا سیکھ سکتا ہے، تو اسے محبت کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے۔ محبت کو اپنانا ویسے بھی آسان ہے کہ انسان کا دل قدرتی طور پر اسی کی جانب کھنچتا ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ نفرت کے مقابلے میں محبت کہیں زیادہ طاقتور جذبہ ہے۔ نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کے بعد پوری دنیا میں اسی جذبے کی فقید المثال کارفرمائی نظر آئی۔ اپنے پرائے سبھی نے نفرت کے ہرکارے، برینٹن ٹیرنٹ کے اقدام کی مذمت کی اور اسے اور اس کی طرز فکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دنیائے مغرب میں قوم پرست اور انتہا پسند اس کی تعریف میں رطب للسان رہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر تھی۔

دنیائے اسلام میں یہ تاثر جنم لے چکا تھا کہ کوئی مغربی باشندہ قتل عام کا ارتکاب کرے تو اسے مغربی میڈیا میں ’’جنونی‘‘، ’’پاگل‘‘ اور ’’لون و لف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بات کا چرچا ہوتا ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ لیکن جب کوئی مسلمان کسی بھی ردعمل میں فائرنگ کر ڈالے، تو مغربی میڈیا سبھی مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے لگتا ہے۔ سب مسلمان فوراً دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ لیکن کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد یہ تاثر کچھ حد تک ضرور زائل ہوگیا۔

اس کی ایک اہم وجہ وہ طریق کار ہے جسے اپنا کر برینٹن ٹیرنٹ نے نہتے اور معصوم نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ وہ پہلے اطمینان سے کار چلاتا مسجد پہنچا۔ لگ رہا تھا کہ وہ انسانوں کو قتل کرنے نہیں پکنک منانے اور سیروتفریح کرنے جارہا ہے۔ گویا وہ سادیت پسندی (Sadism) کو نئی انتہا پر لے گیا۔ (سادیت پسند لوگ دوسروں کو دکھ و تکلیف دے کر لذت محسوس کرتے ہیں)۔ برینٹن نے پھر بڑی سنگ دلی سے انسانوں پر گولیاں برسائیں اور ننھے بچوں اور بوڑھے افراد کو بھی نہیں بخشا۔ یہ سارا خوفناک منظر وہ دنیا والوں کے سامنے لائیو پیش کررہا تھا۔

وحشت و بربریت کے اسی زندہ مظاہرے نے پتھر دل لوگوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالا اور وہ برملا برینٹن کو دہشت گرد کہنے لگے۔ یہ دہشت گردی ہی تھی جس نے مسلمانوں سے تعصب و نفرت رکھنے کی بنا پر جنم لیا۔ برینٹن ہوش و حواس رکھنے والا نوجوان ہے۔ اگرچہ تعصب و نفرت نے اسے اتنا بے حس اور اندھا بنا دیا کہ وہ محبت و پیار جیسے لطیف انسانی جذبوں سے محروم ہوگیا۔

اس دلدوز سانحے کے بعد مگر پوری دنیا میں محبت، ہمدردی، غم خواری اور دلجوئی کے یادگار مناظر سامنے آئے۔ اجنبی بھی بڑھ کر سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین اور اسلامی برادری کو تسلی و تشفی دینے لگے۔ ان کو نہ صرف جذباتی سہارا دیا گیا بلکہ مالی مدد کے لیے چندہ مہمات بھی شروع کی گئیں۔ دنیا بھر میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے ذریعے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنا اور انہیں پیغام محبت دینا مقصود تھا۔

انسان دوستی کے اقدامات

دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں مگر لاکھوں غیر مسلموں کے طرز عمل سے عیاں ہوا کہ دنیا بھر میں انسانیت پسندی آج بھی مضبوط و توانا اور جاری و ساری ہے۔ جب کسی برداری پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹے، تو سبھی دوسری اقوام تمام تعصبات اور اختلافات بھلا کر اس کی مدد کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔

مثال کے طور پر سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی سرکاری اور نجی تنظیموں نے ان ویب سائٹس پر فنڈز جمع کرنے کی خاطر خصوصی پیج بنا دیئے جن پر چندے کی اپیل کی جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی پیج ’’گیواے لٹل‘‘ (Givealittle) نامی ویب سائٹ پر بنایا گیا۔ اگلے دو دن میں اس پیج نے پچاس لاکھ ڈالر جمع کرلیے۔ گیواے لٹل کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ڈونیشن بن گئی۔

اس طرح دیگر سماجی ویب سائٹس پر بھی مختلف پیجوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر جمع ہوئے۔ سب سے زیادہ امداد نیوزی لینڈ کے باشندوں سے موصول ہوئی۔ انہوں نے دل کھول کر عطیات دیئے تاکہ متاثرین کی مالی مدد کا انتظام ہوسکے۔ امدادی مہمات شروع کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ گزر جانے والوں کو واپس لانا ممکن نہیں لیکن ہم ان کے زندہ پیاروں کی کسی نہ کسی طرح مدد کرنا چاہتے ہیں۔

ایک پیج کیوی حکومت کے ادارے، کونسل آف وکٹم سپورٹ گروپس نے قائم کیا تھا۔ ادارے کی سربراہ، کیون ٹسو بتاتی ہے ’’نیوزی لینڈ اور دنیا بھر کے مردوزن نے کمال کی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اسے دیکھ کر میرا یہ ایمان پختہ ہوگیا کہ انسان بنیادی طور پر خیرو نیکی کی سمت زیادہ مائل ہوتا ہے۔‘‘

کرائسٹ چرچ میں مقامی سطح پر ہزارہا لوگوں نے ہر قسم کا سامان جمع کرکے متاثرین کے خاندانوں تک پہنچایا۔ اس سامان میں کھانے پینے کی اشیا اور ملبوسات شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سانحے کے موقع پر کئی غیر مسلموں نے نمازیوں کی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

انڈونیشیا کا طالب علم، عرفان یونیتو بتاتا ہے ’’جب گن مین نے حملہ کیا، تو میں خطبہ جمعہ سن رہا تھا۔ تبھی گولیوں کی تڑتڑ اور لوگوں کی چیخیں سنائی دیں۔ میں جان بچانے کے لیے مسجد کے پچھلے حصے کی طرف دوڑ پڑا۔ مسجد کی دیوار پھلانگ کر پھر میں ایک گھر میں گھس گیا۔‘‘

مسجد کے نزدیک واقع اس گھر میں ایک ریٹائرڈ غیر مسلم اور سفید فام ڈاکٹر مقیم تھا۔ عرفان بتاتا ہے ’’جب میں وہاں پہنچا، تو دیکھا گھر میں پندرہ سولہ اور نمازی چھپے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ہمیں مشروبات پلائے اور ہمیں آرام کرنے کی خاطر جگہ فراہم کی۔ اس کی مہمان نوازی سے ہم بہت متاثر ہوئے۔‘‘

عرفان اور دیگر نمازی چار گھنٹے تک ڈاکٹر کے گھر چھپے رہے۔ خوف و دہشت نے ان کے حواس سن کردیئے تھے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اگر وہ باہر گئے، تو کوئی چھپا حملہ آور ان کو مار ڈالے گا۔ جب پولیس آئی، تو وہ اس کی حفاظت ہی میں باہرنکلے۔ یوں ریٹائرڈ ڈاکٹر کے جذبہ ہمدردی نے نمازیوں کی قیمتی زندگیاں بچالیں۔

اسی طرح جب حملہ ہوا، تو بعض سفید فاموں نے اپنی گاڑیاں روک لیں۔ انہوں نے زخمی مسلمانوں کو اپنی گاڑیوں میں سوار کرکے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ تب انہوں نے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کی۔یہ امکان موجود تھا کہ حملہ آور کے ساتھی انہیں بھی نشانہ بنا دیتے۔ لیکن وہ زخمی مسلمانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے رک گئے۔ ان کے اس طرز عمل نے ثابت کردیا کہ ہر قوم میں اچھے یا برے، دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ حقیقتاً ہر قوم میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مگر ’’ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ‘‘کے مصداق برے لوگوں کی سرگرمیاں ہی زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے مردوزن کے کارناموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر نمایاں کیا جائے تاکہ دنیا میں نیکی کا بول بالا ہوسکے۔

مساجد پر حملے کے بعد کرائسٹ چرچ میں مقیم دو ہزار مسلمان شدید خوفزدہ ہوگئے اور سڑک پر نکلنے سے گھبرانے لگے۔ تبھی شہر و لنگڈن کی رہائشی، لیانسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا:

’’اگر ولنگڈن میں کوئی مسلم خاتون باہر نکلنے سے گھبرا رہی ہے، تو وہ پریشان مت ہو… میں اس کے ساتھ پیدل چلوں گی۔ اس کے ہمراہ بس سٹاپ پر انتظار کروں گی۔ بس میں ساتھ بیٹھوں گی۔ خریداری کرنے میں مدد کروں گی۔‘‘

اس پوسٹ کو نیٹ پر بہت شہرت ملی اور ہزارہا لوگوں نے اسے شیئر کیا۔

اس قسم کی سرگرمیوں نے عیاں کیا کہ اگر دنیائے مغرب میں تعصب کا شکار مردوزن مسلمانوں کو دق کرتے ہیں، تو مغربی معاشروں میں ان کے حمایتی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ضرورت پڑنے پر وہ مصیبت کا شکار مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

مسلم برادری سے اظہار یکجہتی

سانحے کے اگلے دن نیوزی لینڈ کا پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں مساجد، چرچوں اور سرکاری اداروں میں تعزیتی اور تقاریب دعائیہ منعقد ہوئیں۔ ان میں محبت کا پیغام پھیلایا گیا۔ لوگوں کو تلقین کی گئی کہ وہ برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ نیز مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اقدامات انجام دیں۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں رات کے وقت اہم تاریخی عمارات پر روشنیوں کی مدد سے نیوزی لینڈ کا جھنڈا بنایا گیا۔ فرانس کے مشہور ایفل ٹاور میں رات کو اظہار افسوس کے لیے بتیاں گل کردی گئیں۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار یہود نے مسلم برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی عبادت گاہیں(صومعے)یوم سبت پر بند رکھیں۔

پچیس سالہ کارٹونسٹ، روبی جونز ویلنگڈن شہر کی رہائشی ہے۔ اس نے کرائسٹ چرچ واقعے سے متاثر ہوکر ایک یادگار کارٹون بنایا جس میں سفید فام لڑکی ایک مسلم لڑکی کو گلے لگا کر کہہ رہی ہے ’’یہ تمہارا گھر ہے۔ اور تمہیں یہاں محفوظ ہونا چاہیے۔‘‘

اس کارٹون کے متعلق روبی جونز کہتی ہے ’’میں ایک پیشہ ور کارٹونسٹ ہوں۔ جب مساجد میں دہشت گردی ہوئی تو یہ دیکھ کر میں صدمے سے گنگ رہ گئی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ اس موقع پر میں متاثرین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ تبھی میں یہ کارٹون بنانے کا خیال آیا۔ اس کے ذریعے میں مسلم ہم وطنوں کو تسلی دینا اور ان سے ہمدردی کرنا چاہتی تھی۔ گلے لگانا معمولی سا عمل ہے مگر یہ پیار، محبت، بھائی چارے اور گرم جوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا میں روبی کے بنائے کارٹون کو بہت شہرت ملی اور ہزارہا مردوزن نے اسے شیئر کیا۔ ان میں 2017ء کی مشہور فلم ’’تھور: رگنا روک(Thor: Ragnarok) کا ڈائریکٹر، تیکا وتیتی بھی شامل تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کا باشندہ ہے۔ اس نے کارٹون شیئر کرتے ہوئے لکھا:۔

’’میرا دل ٹوٹ چکا۔ میرا وطن آنسو بہا رہا ہے اور میں بھی۔ مجھے یہ سننے سے نفرت ہے کہ یہ سانحہ میرے دیس میں رونما ہوا۔ میں سبھی متاثرین اور مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے خوبصورت جزائر کو اپنا دیس بنایا۔ ایسا کرنا ہمارا وتیرہ نہیں۔‘‘

آسٹریلیا میں ایک کمیونیکیشن سٹرٹیجکس، لیچ ڈرمنڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مسلمانان عالم کے ساتھ منفراد انداز میں اظہار یکجہتی کیا۔ اس نے غروب آفتاب کے وقت اذان سنائی اور اپنی پوسٹ میں لکھا:’’میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ میں (دکھ و افسوس کے ان لمحوں میں) سبھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ان کا درد بٹاتے ہوئے میں گھر میں اذان سنا رہا ہوں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔‘‘

ٹویٹر کی یہ پوسٹ بھی دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں نے شیئر کی جن میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ ایک پاکستانی صحافی عباس نصیر نے اسے شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’اس نے مجھے دوبارہ رونے پر مجبور کردیا۔‘‘ ایک ٹی وی پروڈیوسر، عالیہ چغتائی نے لکھا ’’یہ دنیا مضحکہ خیز بن چکی۔ مگر اس قسم کے عمل عیاں کرتے ہیں کہ لوگوں میں ندرت و خوبصورتی ابھی باقی ہے۔ ‘‘جب لیچ ڈرمنڈ کو مسلمانوں میں زبردست پذیرائی ملی، تو اس نے دوسری پوسٹ میں لکھا: ’’سب کا بہت شکریہ۔ تاریکی کے باوجود مجھے جو محبت اور مثبت باتیں ملیں، انہوں نے مجھے مغلوب کردیا۔ مجھے یقین ہے، میرے چھوٹے سے عمل سے امن، محبت اور عزت کو پھیلنے میں مدد ملی۔‘‘

کرائسٹ چرچ کے لرزہ خیز واقعے نے ہالی وڈ کو بھی ہلا ڈالا۔ گائے اوسیرے مشہور گلوکارہ، میڈونا اور یوٹوبینڈ کا مینجر ہے۔ اس نے ویب سائٹ، گوفنڈمی میں مسلمان متاثرین کی امداد کے لیے فنڈز دینے کی اپیل کردی۔اس اپیل کے جواب میں ہالی وڈ کی مشہور شخصیات نے چندہ دیا۔ میڈونا نے دس ہزار ڈالر دیئے۔ ممتاز اداکار بن سٹلر اور ایشن کچر نے دو دو ہزار ڈالر دیئے۔ کامیڈی اداکار کرس راک کی طرف سے پانچ ہزار ڈالر آئے۔ یوں اوسیرے اپنی مہم کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ ڈالر جمع کرنے میں کامیاب رہا جو متاثرین کو نیوزی لینڈ بھجوا دیئے گئے۔

دنیائے مغرب کی ممتاز سیاسی، سماجی، علمی اور سپورٹس و فلم سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی بیان دے کر مسلمانان عالم سے اظہار تعزیت کیا۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ واقعہ بڑھتے اسلاموفوبیا کی وجہ سے رونما ہوا۔ سابق امریکی صدر، بارک اوباما نے لکھا: ’’میں اور میخائیل مسلم کمیونٹی سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کو ہر قسم کی نفرت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘

امریکا کی ایمی ایوارڈ یافتہ اداکارہ، ڈیبرا میسنگ نے ٹویٹ کیا ’’مسلمانان عالم کے لیے… نیوزی لینڈ میں جو سانحہ رونما ہوا، اسے دیکھ کر میں صدمے اور غم سے نڈھال ہوں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم سفید فام انتہا پسندی اور اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ کریں گے حتیٰ کہ ہم سب خوف و دہشت سے نجات پالیں۔‘‘

معاشی طور پر دنیا کے ایک طاقتور ملک، سنگاپور کے وزیراعظم لی ہسین لونگ نے اپنے بیان میں کہا ’’یہ حادثہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ عالمی امن کے لیے دہشت گردی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس دلدوز سانحے کے ذریعے کوشش کی گئی کہ انسانی معاشروں میں خوف اور نفرت پھیل سکے اور انسانوں کے مابین تقسیم جنم لے۔ ہم سب کو اس کا جواب اتحاد، محبت، رواداری اور برداشت سے دینا چاہیے۔‘‘

ترکی کے وزیراعظم طیباردغان نے بھی کرائسٹ چرچ واقعے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’پچھلے کئی برس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کا استحصال ہورہا ہے اور دنیا والے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بے پروائی سے سارا منظر دیکھتے رہے۔ پہلے انتہا پسند انفرادی طور پر مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے، اب بات قتل عام تک پہنچ چکی۔ اگر مسلم دشمن قوتوں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے، تو اس قسم کے مزید حادثات رونما ہوں گے۔‘‘

میری بیٹی کے نام پر نہیں

کرائسٹ چرچ شوٹنگ کے مرتکب، بدبخت برینٹن ٹیرنٹ نے ایک ویب سائٹ پر اپنا منشور پوسٹ کیا تھا۔ اس میں برینٹن نے لکھا کہ وہ سویڈش لڑکی، ایبا ایکرلنڈ کی موت کا بھی بدلہ لے رہا ہے۔ اس نے ایبا کا نام اپنی ایک گن پر بھی کندہ کیا۔

اپریل 2017ء میں ایک ازبک باشندے نے اسٹاک ہوم میں اپنا ٹرک راہ چلتے لوگوں پر چڑھا دیا تھا۔ اس افسوسناک واقعے میں گیارہ سالہ ایبا سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ سویڈش حکومت نے ازبک باشندے کی درخواست پناہ گزینی مسترد کردی تھی۔ اس پر اسے اتنا غصہ آیا کہ وہ قاتل اور خونی بن گیا۔

ایبا کی والدہ، جینت اکرلینڈ نے مگر بیان دیا کہ منشور میں اپنی بیٹی کا نام پڑھ کر میں دم بخود رہ گئی۔ میری بیٹی کسی سے نفرت نہیں کرتی تھی۔ وہ امن و محبت کی پرستار تھی جو ایک ناراض روح کے غصّے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ میں سانحہ سے متاثر خاندانوں کے دکھ درد کو سمجھ سکتی ہوں اور ہر قسم کی نفرت پر لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘

برینٹن نے اپنے منشور میں اطالوی باشندے، لوکا تیرانی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور اپنی ایک بندوق پر اس کا نام جلی حروف سے لکھا۔ لوکا نے 2018ء میں نسلی تعصب کی بنیاد پر چھ افریقی مہاجرین کو گولیاں مار دی تھیں تاہم ان کی جانیں بچ گئیں۔ لوکا اس جرم کے باعث بارہ سال کی جیل کاٹ رہا ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد لوکا تیرانی کے وکیل، گیانوکا گیولیانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے موکل نے سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وجہ یہ کہ لوکا اپنے کیے پر پچھتا رہا ہے اور اب وہ نفرت سے تائب ہوچکا۔

مسلمانانِ عالم کے نئے ہیرو

سفاک برنیٹن ٹینٹ نے کرائسٹ چرچ کی مساجد میں زیادہ سے زیادہ نمازیوں کو شہید کرنے کا پورا گرام بنا رکھا تھا۔ وہ چار جدید گنوں اور لا تعداد گولیوں سے مسلح تھا۔ یہی وجہ ہے وہ جیسے ہی النور مسجد پہنچا‘ بے دریخ فائرنگ کرنے لگا۔ موت کو قریب دیکھ کر بڑے بڑے جی داروں کا پتا پانی ہو جاتاہے۔ اس صورتحال میں غیر معمولی انسان ہی دلیری‘ بے غرضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کی دونوں مساجد میں ایسے بہادر انسان ہی سامنے آئے۔

برنیٹن النور مسجد کے مرکزی کمرے میں داخل ہوا‘ تو گولیوں اور کراہوں کی آوازیں سن کر وہاں بیٹھے نمازی دائیں اور بائیں کونوں میں سمٹ گئے تھے۔ برنیٹن دیوانہ وار ان پر فائرنگ کر رہا تھا۔ جب وہ دائیں سمت متوجہ تھا‘ تو بائیں طرف موجود پچاس سالہ نعیم راشد قاتل کی جانب لپکے ۔ وہ اسے قابو کرنا چاہتے تھے لیکن برنیٹن نے انہیں دیکھ لیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔نعیم بعدازاں ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔

نعیم راشد کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ وہ ملکی حالات سے گھبرا کر اور اچھی زندگی کی تلاش میں نو سال پہلے نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔ وہاں کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر پورے خاندان کو جد وجہد کرناپڑی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور زندگی آرام و آسائش سے گذرنے لگی۔ ان کے بڑے بیٹے‘ طلحہ کوکچھ عرصہ قبل ہی ملازمت ملی تھی۔ اب کچھ عرصے بعد اس کی شادی تھی۔ مگر النور مسجد میں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی جانیں بچاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ یوں پاکستانی باپ بیٹے نے دلیری و ایثار کا نیا باب رقم کر ڈالا۔

نعیم اور طلحہ کی بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران پاکستانی سپوت کا ذکر کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ نعیم راشد کو زبردست شجاعت کا مظاہر کرنے پر قومی ایوارڈ ملے گا۔ نعیم اپنے ساتھیوں کی جانیں تو نہ بچا سکے مگر نہتے ہونے کے باوجود انہوں نے جس دلیرانہ اندازمیں مسلح اور جنونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ اس کا ثبوت ہے کہ برائی کے مقابلے میں اچھے لوگ ہمیشہ آگے بڑھتے رہیں گے چاہے انہیں اپنی جان ہی کی قربانی دینا پڑے۔

النور مسجد میں بیالیس نہتے نمازی شہید کرنے کے بعد جنونی قاتل لن وڈ مسجد پہنچا۔ یہ چند میل دور تھی۔ لگتا ہے کہ حملہ آور قریب سے اس مسجد کی ’’ریکی‘‘ نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے وہ مسجد کا مرکزی دروازہ ڈھونڈنے میںناکام رہا۔برنیٹن پھر فٹ ہاتھ پر چلتے نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ اس نے کھڑکیوں کے ذریعے بھی مسجد میں موجود نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ اس وقت افغانستان سے آیا عبدالعزیز بھی مسجد کے باہر کھڑا تھا۔ اندر اس کے چار بچے نماز جمعہ پڑھنے آئے ہوئے تھے۔

48 سالہ عبدالعزیز سمجھ گیا کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والا کوئی انتہا پسند مسجد میں سبھی نمازیوں کو شہید کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور ہم مذہبوں کی زندگیاں بچانے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ حملہ آور کو مسجد کے اندر داخل نہ ہونے دیں۔ چنانچہ وہ چیخ کر اور ہاتھ ہلا کر برنیٹن کو اپنی سمت متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

جب برینٹن بدستور کھڑکیوں کے ذریعے مسجد میں فائرنگ کرتا رہا‘ تو عبدالعزیز نے قریب ہی نصب کریڈٹ کارڈ مشین اکھاڑی اور حملہ آور کی جانب پھینک دی۔ اب برینٹن اس کی طرف متوجہ ہو کر عبدالعزیز پر گولیاں چلانے لگا ۔ اس نے پھرتی سے گاڑیوں کے پیچھے ہو کر اپنی جان بچائی۔

اس دوران برینٹن دوسری گن لینے اپنی کار کی جانب گیا۔ اس نے پہلی گن راہ میں پھینک دی تھی۔ عبدالعزیز تیزی سے چلی گن کی جانب لپکا اور اسے اٹھا کر لبلبی دبائی تاہم گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ادھر برینٹن دوسری گن سنبھال کر دوبارہ نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ مگر تب تک سب نمازی کہیں نہ کہیں پناہ لے چکے تھے۔ اب برینٹن مسجد کے اندر جا کر ہی مزید نمازی شہید کر سکتا تھا۔ مگر بہادر عبدالعزیز اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

جب برینٹن تیسری گن لینے گیا‘ تو عبدالعزیز نے اس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی گن اس کے کار کے شیشے پر دے ماری۔ شیشہ چھناک سے ٹوٹ گیا۔ زور دار آواز نے برینٹن کو خوفزدہ کر دیا۔ وہ سمجھا کہ عبدالعزیز بھی کوئی اسلحہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس نے افغان باشندے کو گالیاں بکیں اور پھر وہاں سے فرار ہو گیا۔

یوں بہادر عبدالعزیز یوں اپنی ذہانت اور دلیری کے ذریعے جنونی قاتل کو بھگانے اور مسجد میں موجود سینکڑوں نمازیوں کی جانیں بچانے میں کامیاب رہا۔ اگر خدانخواستہ برینٹن لن وڈ مسجد کے اندر پہنچ جاتا‘ تو النور مسجد کی طرح وہاں بھی کئی معصوم نمازی ظلم کا شکار ہو جاتے۔ عبدالعزیز کی حاضر دماغی نے لیکن صورتحال خراب ہونے سے بچا لی۔ یوں وہ مسلمانوں کا ہیرو بن گیا۔النور مسجد میں 42سالہ حسن آرا بھی اپنے خاوند فریدالدین کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ فریدالدین کی طبیعت خراب تھی‘ اس لیے وہ وہیل چیئر پر مسجد آئے تھے۔ جب حملہ ہوا تو حسن آرا خواتین کے حصّے میں تھیں۔ گولیوں اور چیخوں کی آوازیں سن کر قدرتاً اسی حصے میں خوف و دہشت کا ماحول بن گیا۔

حسن آرا نے تاہم اپنے اوسان بحال رکھے۔ اس حصّے سے ایک دروازہ پچھلی سمت کھلتا تھا۔ حسن آرا نے اس دروازے کے ذریعے کئی خواتین اور بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ چنانچہ جب برینٹن دندناتا ہوا اس حصّے میں پہنچا‘ تو صرف حسن آرا اور چند دیگر بوڑھی خواتین ہی وہاں موجود تھیں۔ وحشی نے انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

اسی طرح حسن آرا بھی مسلمانان عالم کی نئی ہیرو بن گئی ۔وہ چاہتی تو باآسانی دروازے سے نکل کر اپنی زندگی بچا سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے زبردست ایثار کا مظاہر کیا اور اپنی ساتھیوں اور بچوں کی جانیں بچانے کو ترجیح دی۔ یہ دراصل اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اسلام ہی مسلمانوں کو بے غرضی‘ دلیری اور دوسروں کے کام آنے کی تلقین کرتا ہے۔ کامل مومن مصیبت میں ہمیشہ دوسر وں کی زندگیاں اپنی جان پر مقدم رکھتا ہے۔ وہ پہلے دوسروں کو بچاتا پھر اپنا تحفظ کرتا ہے۔ اسی اصول پر گامزن رہتے ہوئے حسن آراء نے بھی اپنی جان ہم مذہبوں پر قربان کر دی۔

جس نے مسلمانوں کا دل موہ لیا
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے جنونی کو یقین تھا کہ بے گناہوں کو مارنے سے وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر لے گا۔مگر کاتب ِتقدیر نے تو کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔اس سانحے کے بعد نفرت کے ہرکارے نہیں محبت کی علامت،وزیراعظم نیوزی لینڈ،جیسندا آرڈرن نے عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور اپنے مثالی انداز ِحکمرانی کی وجہ سے مسلمانان ِعلم کی ہیرو بن گئیں۔

37سالہ جیسندا دنیا کی سے سے کم عمر حکمران ہیں۔سانحے کے بعد اکثر مغربی حکمرانوں کے برعکس انھوں نے اسے ’’دہشت گردی‘‘کا واقعہ قرار دیا۔برینٹن کوئی پاگل یا نفسیاتی مریض نہیں ’’دہشت گرد‘‘قرار پایا۔وزیراعظم نے پھر نیوزی لینڈ میں بسنے والے تقریباً پچاس ہزار مسلمانوں کی دلجوئی کرنے اور انھیں تسلی وتشفی دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔یوں وہ ایک ہمدرد وشفیق حکمران کی حیثیت سے نمایاں ہوئیں۔

جیسندا نے پھر مسلمانوں سے اظہار ِیکجہتی کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کیے۔تقاریب میں حجاب اوڑھ کر شریک ہوئیں۔گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کیا۔پارلیمنٹ میں تلاوت قران پاک سے اذان نشر ہوئی۔یہ مہم بھی چلائی گئی کہ تعزیتی تقریبوں میں غیرمسلم خواتین حجاب لے کر شریک ہوں۔غرض جیسندا آرڈرن نے ہر ممکن وہ قدم اٹھایا جس سے انتہاپسندی اور قوم پسندی کے مبنی بر تعصب نظریات وخیالات کو ضعف پہنچے۔جبکہ رواداری،برداشت،محبت اور امن کے مثبت نظریات کا بول بالا ہو جائے۔

وزیراعظم نیوزی لینڈ زبانی دعوی کرنے تک محدود نہیں رہیں ،انھوں نے چند دن کے اندر اندر خودکار ہتھیاروں کی عوام میں فروخت پر پابندی لگا دی۔ان کے عملی اقدامات سے ملک بھر میں افہام وتفہیم اور بھائی چارے کی فضا نے جنم لیا۔نیوزی لینڈ کے غیرمسلموں نے اپنی رہنما کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے بڑی تعداد میں انتہا پسندی کے خلاف مظاہرے کیے اور مسلم قوم سے اظہار یک جہتی کیا۔غرض جیسندا نے بڑی حکمت وتدبر سے سنگین حالات میں نہ صرف اپنی ریاست میں امن برقرار رکھا ،نفرت کے شعلوں کو بھڑکنے نہیں دیا بلکہ دنیا کے سبھی حکمرانوں کو یہ نہایت اہم پیغام دیا کہ آفت ومصبیت کے سمے ایک حکمران کو کس قسم کے برتاؤ اور طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

معاشی،مذہبی،تہذیبی ،معاشرتی اختلافات کے باعث آج دنیا میں نفرت ودشمنی کی آگ پھیل رہی ہے۔جیسندا آرڈرن جیسے ہمدرد،مخلص اور انسان دوست لیڈر ہی محبت و امن کے ٹھنڈے میٹھے اقدامات سے یہ بھڑکتی آگ بجھا سکتے ہیں۔

The post سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے! appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


بجھا کے رقص کیا رات بھر چراغ کی لَو
جلی ہے دیکھیے اس بات پر چراغ کی لو
یہ میرا عکس گریزاں ہے کس لیے مجھ سے
ہے جب چراغ کے نزدیک تر چراغ کی لو
مجھے پتا نہیں چلتا کہ کون کون ہے ساتھ
شبِ بلا میں نہ گُل ہو اگر چراغ کی لَو
وہاں کے لوگ تھے ترسے ہوئے اندھیرے کو
میں رک گیا تھا جہاں دیکھ کر چراغ کی لَو
اُسے ہَوا نہیں دوری بجھانے والی ہے
مجھے جو لگنے لگی ہے شرر چراغ کی لو
گزارا کرنا پڑا رات کی طوالت پر
میں کرسکا نہ بڑی کھینچ کر چراغ کی لَو
(مسعود صدیقی، فیصل آباد)


غزل
سماعتوں میں گھولنے لگا تھا رَس بیان سے
وہ خوش بیان بولنے لگا تھا جب زبان سے
وہ وقت بھی چلا گیا، وہ شام بھی گزر گئی
مگر وہ شخص جا نہیں رہا ہے میرے دھیان سے
وہ زود رنج تھا کسی کی کج ادائی سے مگر
نکال نہ سکا وہ خود کو شاید اس گمان سے
وہ خوش خصال جب ملا نظر جھکائے ہی ملا
وہ لگ رہا تھا سلجھے ہوئے، نیک خاندان سے
کسی کی معذرت سے بھی نہ بھر سکیں گے گھائو یہ
پلٹ کے تیر آیا کب جو چل چکا کمان سے
رہے گا کون، کب تلک، کسے دوام ہے بھلا
چلے ہی جانا ہے، چلے ہی جائیں گے جہان سے
(حنا کوثر، منڈی بہاؤ الدین)


غزل


مرنے والوں سے پوچھتا ہوں مَیں
جانے کس کے گلے لگا ہوں میں
نامہ بر خط ترا نہیں آیا
بس! اسی سوچ میں مرا ہوں مَیں
مطلبی دوست ہیں تمام یہاں
آخری بات پر اڑا ہوں میں
تیری پوجا نہیں کروں گا سُن
ایک آدم کی ہاں خطا ہوں میں
تیز بارش میں دشت کی جانب
اک مسافت کو لے گیا ہوں مَیں
اپنے ہاتھوں میں لے کے سورج کو
تیری دہلیز پر کھڑا ہوں میں
دشمنی آپ سے ارے توبہ
کس کی باتوں میں آگیا ہوں میں
پھر خیالِ ندیمؔ میں کھو کر
ایک مدت جیا گیا ہوں مَیں
(ندیم ملک، کنجروڑ، نارو وال)


غزل


لبوں پر گُل تسلی کے نمایاں کیوں نہیں ہوتے
پریشانی پہ میری تم پریشان کیوں نہیں ہوتے
ہمارے گھر میں دیکھو ایک مدت سے اندھیرا ہے
محبت کے چراغ آخر فروزاں کیوں نہیں ہوتے
قدم اپنے خیالِ یار ہی سے لڑکھڑاتے ہیں
تو ہم نذرِ نگاہِ جانِ جاناں کیوں نہیں ہوتے
اگر وہ غم کی دنیا میں رہے ہوتے تو کیوں کہتے
غریبوں کے مکانوں پر چراغاں کیوں نہیں ہوتے
سمجھ بیٹھے ہیں شاید چاندنی وہ اپنے دامن کو
میں اب سمجھا کہ چاک ان کے گریباں کیوں نہیں ہوتے
جو گھبراہٹ سے کانپے تھے ہمارے نام پر معراجؔ
ستم کرتے ہوئے وہ ہاتھ لرزاں کیوں نہیں ہوتے
(محمد معراج صدیقی، آصف نگر، کراچی)


غزل


خواہش تھی جس کی آج تک حاصل نہیں ہوا
شاید میں دردِ عشق کے قابل نہیں ہوا
بیگانگی رہی ہے مجھے اپنی ذات سے
تجھ سے تو ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوا
اس بار تیری شوخیِ چشمِ غضب نہیں
اس بار میں تو پہلے سا گھائل نہیں ہوا
نکلا تھا تیرے حکم پہ جنت سے ایک روز
پھر اپنی ضد پہ آج تک داخل نہیں ہوا
میں گر ترے وجود میں شامل نہیں تھا دوست
تو بھی مرے وجود میں شامل نہیں ہوا
شہباز ؔ اس کو تجھ پہ تو راسخ یقین تھا
پھر کیوں وہ تیری بات پہ قائل نہیں ہوا
(شہباز راجہ، سرگودھا)


غزل


تم وسعتِ بے انت، جہاں سرِ نہاں ہو
تم کوئی حقیقت بھی ہو یا ویسے گماں ہو؟
میں ڈار سے بچھڑے ہوئے پنچھی کی طرح ہوں
تم اس کے لیے چلتی ہوا، پھیلا جہاں ہو
میں شام کے منظر میں ہوں تحلیل شدہ اور
تم دور کسی گاؤں کی، مغرب کی اذاں ہو
میں چلنے سے پہلے کا کوئی تیر ہوں رکھا
تم مجھ کو چلانے کے لیے کوئی کماں ہو
میں پھیلے ہوئے دشت کی بے انت فضا ہوں
تم چھوڑے ہوئے لوگوں کا ویران مکاں ہو
(زاہد خان، ڈیرہ اسماعیل خان)


غزل


ہوا غبارے میں ڈھیر ہونے سے پھٹ گیا ہے
وہ چار زخموں پہ مجھ سے آ کے لپٹ گیا ہے
میں زندگی کا یہ روزنامہ پڑھوں تو کیسے؟
مرا ستارہ مری نظر سے جو ہٹ گیا ہے
جہاں ہماری محبتوں میں نہ تھی جدائی
وہ شہر خوابوں کے جاگنے سے اُلٹ گیا ہے
جو ہجر پر امتحاں میں کوئی سوال آیا؟
وہ کیا لکھے گا کہ وصل کا باب رٹ گیا ہے؟
جو تیر پھینکا تھا اس نے مجھ پر جفا نما سا
وہ تیر دیکھو وہیں سے واپس پلٹ گیا ہے
یہی ہے شاہ میر جو کہیں پر سمٹ نہ پایا
تری جو بانہوں میں آ کے جاناں سمٹ گیا ہے
(شاہ میر ایلیا، سرگودھا)


غزل


کیسے آباد یہ گُل زار ہے، میں جانتا ہوں
حافظِ گُل بھی تو اک خار ہے، میں جانتا ہوں
جو نظر کے لیے دھوکہ ہے سب کے سامنے ہے
پر حقیقت پسِ دیوار ہے میں جانتا ہوں
طشت میں پھول دکھا کر مجھے گمراہ نہ کر
کہ ترے بغل میں تلوار ہے، میں جانتا ہوں
زلزلہ تو نہیں آیا ہے مگر غور سے سن!
کانپتا کیوں در و دیوار ہے، میں جانتا ہوں
میں کفن باندھ کے لڑنے کے لیے نکلا ہوں
دشمنوں میں بھی مرا یار ہے میں جانتا ہوں
میں کبھی ٹوٹ کے بکھروں تو تسلی دے گا
میرا مَن میرا پرستار ہے، میں جانتا ہوں
یونہی بھٹکا نہیں یہ راہ سے اپنی یاسرؔ
نااہل قافلہ سالار ہے، میں جانتا ہوں
(یاسر یاروی، اسکردو)


غزل


گلی گلی میں ستارہ شناس پھرتے ہیں
تمھارے شہر میں شاعر اداس پھرتے ہیں
یہ لوگ میری معیت میں بھی رہے ہیں کبھی
یہ لوگ اب جو ترے آس پاس پھرتے ہیں
غزال آنکھیں، تو ہیں ملگجی بدن اُن کے
جو فاقہ مست و دریدہ لباس پھرتے ہیں
فرات ان کے لیے مضطرب ہے صدیوں سے
اٹھا کے مشک میں اپنی جو پیاس پھرتے ہیں
کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے مری نگاہوں میں
جہاں میں تیرے کئی التباس پھرتے ہیں
یہ کون ہیں یہ مرے شہر کے نہیں ہیں اسدؔ
عجیب صورتوں میں بد حواس پھرتے ہیں
(اسد اعوان، سرگودھا)


غزل


اک مصوّر نے بچھایا آئنہ
چاند کو پورا بنایا آئنہ
پوری دنیا دیکھ سکتا ہوں ابھی
اک نجومی نے دلایا آئنہ
خود کو میں تنہا سمجھتا ہی نہیں
جب سے کمرے میں لگایا آئنہ
ساری بستی کو خبر یہ ہوگئی
شہر سے کس نے چرایا آئنہ
میرے عیبوں کو چھپائے، اس لیے
اپنے ہاتھوں سے بنایا آئنہ
پورا کمرہ روشنی سے بھر گیا
آئنے کو جب دکھایا آئنہ
حُسن زادی مر بھی سکتی تھی نذیر
جھونپڑی سے کیوں ہٹایا آئنہ
(نذیر حجازی، نوشکی۔ بلوچستان)


غزل


خوش خیالوں کے امیں ہیں سائیں
نور والوں کے امیں ہیں سائیں
ہم تو خورشید بکف پھرتے ہیں
ہم اجالوں کے امیں ہیں سائیں
جو بھرے نور سے رہتے ہیں سدا
انہی پیالوں کے امیں ہیں سائیں
دور بستی میں یہ پھیلے کھنڈر
خستہ حالوں کے امیں ہیں سائیں
پائے نازک میں پڑے تھے جو کبھی
انہی چھالوں کے امیں ہیں سائیں
لبِ یاسین پہ جم ہیں جو گئے
انہی نالوں کے امیں ہیں سائیں
(ایم یاسین آرزو، لاہور)


غزل


بہاروں کا عالم بہاروں سے پوچھو
مری بے کسی چاند تاروں سے پوچھو
بجایا تھا کیوں میں نے سازِ محبت
یہ قصہ مرے دل کے تاروں سے پوچھو
ہوا کس طرح غرق میرا سفینہ؟
یہ موجوں سے پوچھو، کناروں سے پوچھو
کہاں تک گئے ہیں تیری جستجو میں
ہمیں کیا خبر بے سہاروں سے پوچھو
کہاں تک جلے گا چراغِ تمنا
یہ وعدوں سے اور انتظاروں سے پوچھو
کہاں میں نے اپنی جوانی فدا کی؟
کسی کی حسیں رہ گزاروں سے پوچھو
(صابر میاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ)


غزل
دردِ دل کیوں بڑھاتا جاتا ہے
کون سا غم ہے جو چھپاتا ہے
رنگ کیا کیا نہ ہم نے دیکھ لیے
کون سا رنگ اب دکھاتا ہے
قدر چاہت کی کسی نے پائی یاں
ہاں مگر دل تو خون رلاتا ہے
وقت جو مسکرانے میں گزرا
اس کی قیمت کوئی چکاتا ہے؟
اونچا اڑنے میں ہو پروں میں زور
خواب تو دل بہت دکھاتا ہے
پاس تھے جب تو کوئی قدر نہ تھی
فاصلہ تشنگی بڑھاتا ہے
عمر کافی گنوا لی ہم نے اب
زیست کا دیپ ٹمٹاتا ہے
(سائرہ حمید تشنہ، فیصل آباد)


غزل


یاد آتا ہے تجھے دل میں بسائے رکھنا
اپنی آنکھوں کو محبت سے جھکائے رکھنا
موت حیران ہوئی ایسا بھلا ممکن ہے؟
بوجھ خود نعش کا کاندھوں پہ اٹھائے رکھنا
رات کے پچھلے پہر تم جو چلے آئے ہو
تم پہ لازم ہے سنو راز چھپائے رکھنا
ڈال دیتا ہے تعجب میں کئی لوگوں کو
شوق کے بحر کو سینے میں سمائے رکھنا
جانچ کر ہجر کے ابواب حسّانی نے کہا
یار کی یاد سے فرقت کو مٹائے رکھنا
(حسن رضا حسانی، سیالکوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم

$
0
0

15 مارچ 2019 مسلمانوں کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔نیوزی لینڈ جیسے پُر امن ملک میں بھی دو مساجد میں مسلمان نمازیوں کو سفید فام دہشتگرد نے بے دریخ فائرنگ کرکے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا، اس دلخراش واقعہ میں 50 سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔اس میں 9 پاکستانی بھی شامل تھے، یورپی راہنماؤں نے رسمی بیانات دئیے۔

آہستہ آہستہ یہ المناک اور دلخراش واقعہ بھی وقت کی دھول میں گم ہو جائے گا، اگر یہی واقعہ غیر مسلموں کے خلاف ہوتا اور اس میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو دنیا میں کہرام مچ گیا ہوتا اور مسلمان ممالک پر حملہ کر دیا جاتا۔ مگر۔۔۔؟

مقبوضہ کشمیر میں 1989سے لے کر اب تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد مسلمان کشمیریوں کو شہید کیاجا چکا ہے۔ 2 لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، ان میں سے کم از کم سات ہزارکشمیری مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں، 2016 سے لے کر اب تک پیلیٹ گنز کے استعمال سے ساڑھے پانچ ہزار لوگ اندھے ہو چکے ہیں ۔ جولائی 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈ ربرہان وانی کی شہاد ت سے تحریک آزادی میں نیا موڑ پیدا ہوا تھا۔ جولائی 2016 سے اب تک تقریباً 6344 کشمیری شہید ہو چکے ہیں ۔ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، یعنی ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔

کشمیر میں موت اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ گبھرو جوان شہید ہونے پر مائیں اور بہنیں ماتم کرنے کی بجائے اس کے جنازے پر سہرے کے گیت گاتی ہیں، شہید کو دلہا بنایا جاتا ہے۔ یہ اتنا دلخراش منظر ہوتا ہے کہ زمین کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے مگر عالمی برادری کے کان پر جوں نہیں رینگتی، بعض ممالک تو بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ۔ آزادی مانگنے والے کشمیریوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کمزور مسلمان ہیں ۔

٭ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد انہ کاروائیوں میں ستر ہزار (70,000)افراد جام ِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، کنٹرول لائن پر شہیدہونے والے بے گناہ شہریوں کی تعداد 400 سے تجاوزکر چکی ہے۔

٭ 2003 میں جب امریکا اور اتحادی افواج نے صدام حسین کے دور ِحکومت میں عراق پر حملہ کیا تو تقریباً چھ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔

٭ شام میں اب تک 5 لاکھ 67 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں 42 ہزار خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ صرف 8سالوں میں 3 لاکھ 70 ہزار مسلمان شہید ہوئے ہیں۔

٭ کچھ سال قبل بھارت کے شہر گجرات میں دس ہزار مسلمانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اس کے بعد بھارت کے باقی شہروں میں مسلم کش فسادات میں صرف بیس سالوں میں 1750مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔

٭ برما میں سات لاکھ مسلمانوں کو ہجرت کے لیے مجبور کیا گیا۔ سات ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ 4000 سے زائد ڈوب کر شہید ہو گئے۔ 2700 مختلف حادثات کا شکار ہو ئے۔ بہت بڑی تعداد نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ میانمار (برما) کا سرکاری مذہب بدھ مت ہے جو کہ اپنے ماننے والوں کو امن کا پیغام دیتا ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

٭ افغانستان میں اب تک 3 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں سینکڑوں مسلمانوں کو نسلی تعصب کا شکار بنا یا گیا ہے۔

٭ عراق کویت کی جنگ، ایران عراق کی جنگ ، لیبیاء فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہونے والے حملوں میں بھی ایک لاکھ 75 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔

پاکستان ، مقبوضہ کشمیر، فلسطین ، برما، بھارت، عراق، شام، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کو ہی ظالم ، دہشت گرد اور مجرم قرار دیا جا رہا ہے، صورتحال کا اصل رخ یہ ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی غیر مسلم ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا نہ کسی ملک پر چڑھائی یا لشکر کشی کی،کسی بھی غیر مسلم ملک پر بمباری بھی نہیں کی ۔

امریکا کی طرف سے 9/11 کے حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے، جبکہ بعد کے شواہد سے یہ بات منظر عام پر آئی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دوسری عمارات پر حملوں کے ذ مہ دار صرف یہودی تھے، امریکا میں صرف یہودی لابی ہی سائنس اور ٹیکنالوجی پر اتنا عبور رکھتی ہے کہ جو حملوں کے خلاف مدافعانہ نظام کو بے اثر بنا سکے۔ ان حملوں کی اصل وجہ یہ بنی کہ امریکی انتخابات میں ٹونی الگور جو کہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا کو زبر دستی ہرا دیا گیا، یہودی جو کہ امریکی معیشت اور تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی اور جنگی سازو سامان کے شعبے میں بھی اجارہ داری قائم کر چکے ہیں انھوں نے اس بات کا شدید اثرلیا کہ ٹونی الگور کو صرف اس لیے حکومت میں نہیں آنے دیا گیا کہ وہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا اور یہود کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا، 9/11 کا واقعہ اصل میں یہودی اور عیسائیوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تھا جس کی تمام تر ذمہ داری اُسامہ بن لادن پر ڈال دی گئی۔

اُسامہ بن لادن افغان روسِ جنگ میں امریکا اور اس کے حواریوں کی آنکھ کا تارا تھا، اس نے اپنی دولت اور اپنی افرادی قوت افغانِ جنگ میں دل کھول کر خرچ کی، روس کی شکست میں پاکستان کے بعد اسامہ بن لادن بھی ایک بہت بڑا کردار تھا جس نے امریکا کی دوستی میں افغانِ جنگ میں اپنا بہت کچھ جھونک دیا۔ افغانِ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کو پاکستان اور افغان مجاہدین کے علاوہ اسامہ بن لادن بھی کھٹکنے لگا تھا ۔ جن مجاہدین نے افغانِ جنگ لڑی اب وہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے تھے۔

ملا عمر کے دورِ حکومت میں طالبان ٹریپ ہوئے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات کو لے کر مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکا اور وہاں بسنے والے عیسائی دہل کر رہ گئے، یہودیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مخصوص ایجنڈا امریکی حکومت کے سامنے رکھا۔ پھر دنیا میں ایک نئی جنگ شروع ہو گئی امریکی، نیٹو اور ایسافٖ فورسز اسامہ بن لادن کا مقابلہ کرنے کے لیے براستہ پاکستان، افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ افغانِ جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی مجاہدین جو کہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے اس صورتحال سے خاصے بددل ہوئے انھوں نے جارحانہ کاروائیاں شروع کر دیں ۔کہا جاتا ہے کہ مجاہدین کو اس نہج تک لانے میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ مجاہدین بھی ٹریپ ہو گئے، انھوں نے غیر ملکی قوتوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کی بجائے پاکستانی عوام، فورسز اور اداروں پر غصہ نکالنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قوتوں کی حکمتِ عملی کی وجہ سے ملک عراق، شام، لیبیاء اور افغانستان بننے سے بچ گیا۔

ایک طویلِ جنگ نے پاکستان کو نئی زندگی اور قوت بخشی، ملک کی اہم قوتوں کو احساس ہوا کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا ء مرگِ مفا جات ‘‘چنانچہ اب ہر پہلو کی اصلاح کرنے کا ارادہ کیا گیا، ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی کسمپرسی اورِ بِے بسی کا اندازہ لگاتے ہوئے کچھ سخت فیصلے بھی کیے گئے، دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا گیا، ملک کو اندرونی طور پر کمزور بنانے کی تمام سازشیں ناکام بنائی گئیں، جب پاکستان نے ایسی جنگ جیتی کہ جس کی کسی کو بھی ا’مید نہ تھی، انڈیا پیٹھ ٹھونک کر میدان میںآ گیا، مگر پاکستان کے عسکری ادا روں کی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستان میں تیار کیے گئے جدید اسلحہ اور جے ایف 17تھنڈرکی وجہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا ۔

فوجی محاذ پر تو ہماری مضبوطی کو بھانپ بھی لیا گیا ہے اور فوجی صلاحیت کو سراہا بھی جا رہا ہے مگر ابھی تک ہمارا اقتصادی محاذ خاصا کمزور ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت مسلمان ممالک میں صرف پاکستا ن ہی ایٹمی قوت ہونے کے علاوہ مضبوط عسکری قوت بھی ہے، مگر ابھی بہت سے محاذوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، قوم کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید ریسرچ پر شدید توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے، افرادی قوت اور وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگر چہ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی کی تحرکیں چل رہی ہیں، مگر سب سے کامیاب تحریک مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی کے عوام اپنے آپ کو پاکستان سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دوسرے حصے کے مسلمان مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، انتہا تو یہ ہے کہ یہی مسلمان دشت گردی کا شکار ہیں، برما میں باقاعدہ وہاں کی فوج نے نہتے روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، فلسطین میں اسرائیلی گرفت مضبوط ہو رہی ہے، عراق اور شام پر امریکی اور نیٹو بمباری کے باوجود احتجاج کا ایک لفظ بھی نہ ادا کر سکے، صرف افغانستان میں مزاحمت جاری ہے مگر یہ مزاحمت بھی خاصی کمزور ہے وگرنہ نیٹو اور ایساف کی افواج چند ماہ سے زیادہ وہاں قدم نہیں جما سکتی تھیں۔

مسلمانوں کی کسمپرسی کی اصل وجہ جدید علوم سے دوری ہے، بے پناہ دولت وسائل اور افرادی قوت ہونے کے باوجود انھیں استعمال کا طریقہ نہیں آتا۔ انہی اقوام کی محتاجی ہے کہ جو انھیں نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کہ ان کی دولت لوٹ کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں، کئی اہم مسلم ممالک عالمی قوتوں کی کالونی بنے ہوئے ہیں، اس وقت سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا اہم ضرورت ہے۔ خلیجی ممالک کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اپنی دولت کا معمولی سا حصہ خرچ کرکے اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر سکتے ہیں مگر اس مقصد کے لیے انھیں جدید علوم کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہوگی ۔

جدید ترین تعلیمی اداروں کا جال بچھانا پڑے گا، مگر اس وقت خلیجی ممالک اپنے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں آپس میں متحارب ہیں، کبھی ان ممالک میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) جیسی تنظیمیں پیدا کی جاتی ہیں، حوثی گروپ کو ہلہ شیری دے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے، کبھی شیعہ سنی کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ عراق نے کویت پر حملہ کر کے ایسی غلطی کی کہ جس کا خمیازہ عراقی عوام ابھی تک بھگت رہی ہے ، ایران، عراق جنگ میں بھی مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا، اب افغانستان غیر ملکی ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے ہر قدم پر پاکستان کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس وقت صرف مسلم ممالک ہی میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، بے پناہ دولت اور وسائل ہونے کے باوجود ہر معاملے میں اغیار کے مختاج ہیں، مسلمانوں کی اس ذلت کی اصل وجہ اسلام سے دوری ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انخراف ہے، اسلام میں امتِ مسلمہ کا تصور ہے، ہماری تمام عبادات اجتماعیت کا درس دیتی ہیں مگر دنیا بھر کے مسلمان بکھر چکے ہیں بیت المال کا تصور خاصا کمزور ہو چکا ہے۔

اسلام انسانیت کے لیے سراسر بھلائی ہے، اسلا م انفرادیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، عبادات کے ذریعے اور اجتماعی زندگی کا تصور واضح کردیا گیا ہے کہ تمام فرض عبادات میں اجتماعیت کا ہونا ضروری ہے، نماز میں بھی فرض اجتماعی طور پر اور نفل اور سنتیں انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں، اسلام میں بیت المال کا تصور ہے مگر مسلمان اپنے ذاتی خزانے اور تجوریاں بھر رہے ہیں، تیل اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے حاصل ہونے والی دولت یہود و نصاریٰ بنکوں میں جمع کروائی جا رہی ہے۔

اسلام میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے دئیے ہوئے مال پر تمام مسلمانوں کاحق ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی کے دیئے ہوئے رزق کو بانٹنے کا حکم دیا گیا ہے مگر عرب ممالک سمیت تمام اسلامی ممالک میں اس حکم سے انخراف کرتے ہوئے ذاتی مال و دولت میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ دولت مسلمانوں کی اجتماعی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا مسلمان ملک بھی پاکستان کو بھی سود پر رقم اور ادھار تیل دے رہا ہے۔ مسلمانوں میں طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے ، کئی ممالک میں مسلمانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے ،کئی ممالک میں دولت کی فراوانی ہے، دولت اور سونے کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر ان ممالک کو یہ منظور ہے کہ ان کی دولت سے اغیار فائدہ اٹھائیں، بہانے سے ان کی دولت ہڑپ کر جائیں مگر غریب مسلمان ممالک کی حالت بہتر بنانا منظور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ پر استعمال کرنا منظور نہیں ہے۔

اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور امت ِ مسلمہ کاتصور واضح ہو جائے، دولت پر نادار مسلمان ممالک اور ضرور ت مند مسلمانوں کا حق سمجھ لیا جائے، یہ دولت مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی بجائے، تعلیم، صحت اور بہتر خوراک کے لیے خرچ کی بجائے۔ یہ دولت باہمی جھگڑوں پر خرچ کرنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی ترقی و سرفرازی کے لیے خرچ کی جائے تو نہ صرف مسلم ممالک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات نازل ہوںگی بلکہ کچھ عرصہ بعد وہ دنیا میں ’’لیڈنگ رول‘‘ ادا کرتے نظر آئیںگے۔

اس وقت جن اسلامی ممالک کے پاس دولت ہے وہ اپنی دولت عیش و عشرت پر خرچ کر رہے ہیں، خلیجی ممالک میں انفرادی طور پر لوگ اربوں ڈالر کے مالک ہیں، جب سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو صرف چند شہزادوں نے دو سو ارب ڈالر حکومت کو واپس کر دئیے، دولت بے انتہا مگر بے بسی ، کسمپرسی اور مختاجی بھی بے انتہا ہے، اس کی وجہ اجتماعیت کے درس کو فراموش کر کے انفرادی زندگی گزارنا ہے،خود غرضی اور نفسانفسی کے ان جذبات کی وجہ سے مسلمان دنیا بھر میں دوسری اقوام کے ظلم و استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان کی دولت سے اسلام دشمن ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک میں مسلمان امت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اُمت کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جب غریب مسلم ممالک میںمعاشی استحکام پیدا ہوگا تو یہاں اخلاقی وسماجی برائیاں بھی ختم ہونگی، ترقی کی دوڑ میں یہ ممالک شامل ہونگے، اللہ کی برکات بھی شامل ہوں گی اور موجودہ ذلتِ اور رسوائی بھی ختم ہوگی۔

1۔ جب حضوراکرم ﷺ کا وصال ہوا تو ضرورت کی چند اشیاء کے سوا گھر میں کچھ بھی نہ تھا مگر دیوار پر سات تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ۔
۲۔ فتح ایرا ن کے بعد جب مال غنیمت مدینہ لا یا گیا تو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ؓ آبدیدہ ہو گئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ جس مال و دولت نے ایرانیوں کو عیش پسند بنا دیا مجھے خوف ہے کہ مسلمان بھی اس دولت کی وجہ سے عیش پسند نہ ہو جائیں۔
۳۔ اُموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے خاندان کی ساری جائیداد اور ذاتی مال بیت المال میں جمع کرا دیا، اب تو انفرادی طور پر بے شمار مسلمانوں کے خزانے بھر ے ہوتے ہیں ۔
۴۔ کہا جاتا ہے کہ اگر خلیجی ممالک اپنی تمام تر دولت مغربی ممالک اور امریکا وغیرہ سے نکال لیں تو ان ممالک میں فوراً بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔
۵۔ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائیں اور بھارت کا جنگی جنون اور پاگل پن ختم ہو جائے تو ترقی یافتہ ممالک کی اسلحہ صنعت کو اس قدر زِک پہنچے گی کہ یہ ممالک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں رہ پائیں گے ۔

The post ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم appeared first on ایکسپریس اردو.

سائنس نامہ

$
0
0

خلائی دوڑ: جاپان بھی تسخیرِقمر کے لیے کوشاں
جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی مستقبل قریب میں چاند کی جانب تحقیقی خلائی جہاز روانہ کرنے کے لیے تیاریاں

چاند، کرۂ ارض سے نزدیک ترین قدرتی سیارہ ہے۔ اسی قربت کے باعث یہ جرم فلکی ہمیشہ سے انسان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چاند کی مسحورکن خوب صورتی پر شاعروں نے تخیلاتی پروازیں کرتے ہوئے دیوان کے دیوان لکھ ڈالے وہیں کتنے ہی فلکیات دانوں کی زندگیاں اس کے مادّی پہلوؤں سے جوجھتے گزر گئیں مگر ان کی یہ محنت و سعی لاحاصل نہیں رہیں۔

آج چاند سے متعلق جتنی بھی معلومات ہمیں دست یاب ہیں وہ اسی طبقۂ انسانی کی رہین منت ہیں۔ ماہرین فلکیات اور سائنس داں ہر دور میں اپنے پیش روؤں کی محنت سے استفادہ کرتے ہوئے چاند پر تحقیق کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 13 ستمبر 1959ء وہ تاریخی دن تھا جب سطح قمر پر انسانی ساختہ کوئی شے اتری۔ یہ سابق سوویت یونین کی جانب سے بھیجا گیا مصنوعی سیارہ Luna 2 تھا۔ 20 جولائی 1969ء کو اس وقت تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب ابن آدم کے قدم چاند کی سرزمین سے مَس ہوئے۔ 1969ء سے لے کر 1972ء تک انسان 6 مرتبہ چاند پر اترا۔ چاند کی جانب خلابازبردار مشن کی روانگی کا سلسلہ 7 دسمبر 1972ء کو اپالو 17کی پرواز کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا، تاہم مصنوعی سیارے بھیجے جاتے رہے، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

امریکا، روس اور چین کے خلائی مشن کام یابی سے چاند پر اترچکے ہیں۔ خلائی تحقیق کی دوڑ میں شامل جاپان بھی دو بار چاند کے مدار میں خلائی تحقیقی جہاز پہنچا چکا ہے، یہ خلائی جہاز اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد چاند سے ٹکرا کر فنا ہوگئے تھے۔ مشرقی ایشیا میں واقع ملک نے اب چاند کی سطح کو کھوجنے کے لیے تحقیقی جہاز روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرزمین قمر پر اتر کر یہ مجوزہ تحقیقی خلائی جہاز یا گاڑی ( moon rover ) زیرزمین چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ خلائی گاڑی کی تیاری کے لیے جاپان ایرواسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی ( JAXA ) نے عالمی شہرت یافتہ کارساز ادارے ٹویوٹا سے اشتراک کرلیا ہے۔

خلائی تحقیق میں نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے پیش نظر حکومتیں اپنے منصوبوں کے لیے نجی اداروں سے اشتراک کررہی ہیں۔ JAXA نے بھی اسی رجحان کے تحت ٹویوٹا سے ہاتھ ملایا ہے۔ جاپانی خلائی ایجنسی کی ویب سائٹ پر دست یاب معلومات کے مطابق مجوزہ خلائی منصوبے جسے LUNAR-A کا نام دیا جاسکتا ہے، کے تحت براہ راست چاند کے زیرزمین حصے پر تحقیق کی جائے گی جس سے اس قدرتی سیارے کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں مفید معلومات ہوسکتی ہیں۔

جاپانی خلائی ایجنسی کے مطابق یہ خلائی مشن چاند پر ’’ ہارڈ لینڈنگ‘‘ کرے گا یعنی انتہائی تیزرفتار سے چاند کی سطح سے ٹکرائے گا۔ درحقیقت خلائی جہاز سے دو penetrator نکل کر برق رفتاری سے سطح قمر سے ٹکرائیں گے اور زیرمین ایک سے تین میٹر تک چلے جائیں گے۔ JAXA کے مطابق اس مشن کے دو مقاصد ہوں گے: پہلا مقصد چاند کی لوہے سے بھرپور اندرونی سطح کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ یہ معلومات خلائی جہاز کے چاند کی سطح سے زوردار انداز میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی لہروں کی پیمائش کے ذریعے حاصل ہوں گی۔ لہروں کی پیمائش کے لیے خلائی جہاز میں دیگر جدید آلات کے ساتھ انتہائی حساس سیزمومیٹر نصب ہوں گے۔ مشن کا دوسرا مقصد حرارتی بہاؤ ( heat flux ) کی پیمائش کرنا ہے۔ اس ڈیٹا سے سائنس دانوں کو چاند کے اندرونی حصے میں حرارت پیدا کرنے والے تاب کار عناصر کی بہتات کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔

مشن کی روانگی کی حتمی تاریخ کا تعین فی الوقت نہیں کیا گیا تاہم یہ خلائی جہاز جاپان کے انتہائی طاقت وَر V راکٹ پر سوار ہوکر ارضی مدار سے باہر نکلے گا۔ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے نصف برس کا عرصہ درکار ہوگا۔

تسخیرقمر کو نصف صدی گزرجانے کے بعد کئی اقوام چاند پر اپنے مشن بھیج کر معلومات حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ناسا نے2024ء میں زمین کے گرد محوگردش سیارے کی طرف مشن روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ ماہ اسرائیل خلائی جہاز روانہ کرچکا ہے جو اسی برس چاند کی سطح پر اترے گا۔

جاپانی خلائی ایجنسی حالیہ دنوں میں ایک سیارچے سے چٹان کے نمونے حاصل کرنے کے تاریخی مشن کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اس کا خلائی جہاز ’ ہایابوسا 2‘ سیارچے کا ایک چکر کامیابی سے لگا چکا ہے، مزید دو چکر لگانے کے بعد وہ زمین کا رخ کرے گا اور سیارچے کی مٹی اور پتھر کے نمونے ماہرین کے حوالے کرے گا۔ JAXA کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان نمونوں سے آغاز حیات اور تخلیق کائنات کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب حاصل ہوسکیں گے۔

۔۔۔

کائنات کے سب سے ’ بوڑھے‘ ستارے دریافت
ہماری کہکشاں کی وسعتوں میں ڈیرہ ڈالے ’بزرگوں ‘ کی عمر 13 ارب سال ہے

ماہرین فلکیات نے ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ میں کائنات کے چند قدیم ترین ستارے دریافت کرلیے ہیں جن کی عمریں سائنس دانوں کے مطابق 12.8ارب سال تک ہیں۔ ملکی وے کی وسعتوں میں چُھپے ان ستاروں کو منظرعام پر لانے کا کارنامہ برازیل میں واقع سائو پالو یونی ورسٹی سے وابستہ فلکیاتی ماہرین نے انجام دیا ہے۔ رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ماہنامہ ’’منتھلی نوٹسز‘‘ میں شایع شدہ تحقیق کے مطابق فلکیات داں چلی میں نصب جیمینی ٹیلی اسکول اور ارضی میں محوگردش مشہور زمانہ ہبل ٹیلی اسکوپ سے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کررہے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ کا مرکز زمین سے 21500 نوری سال کی دوری پر واقع ستاروں کا جُھرمٹ تھا جو فلکیاتی اصطلاح میں HP1 کہلاتا ہے۔ ماہرین فلکیات جانتے تھے کہ یہ جُھرمٹ قدیم ترین ستاروں کا ہے جن کی روشنی بھی ’پیرانہ سالی‘ کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتی چلی گئی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ جُھرمٹ کائنات کے سب سے عمررسیدہ ستاروں کا مسکن ہے جن کی عمریں اندازاً 12 ارب 80 کروڑ سال تک ہیں۔

سائو پالو یونی ورسٹی کی محقق اسٹیفانو سوزا کے مطابق ہماری کہکشاں کا پھیلائو 10ہزار نوری سال کے مساوی ہے اور اس کی وسعتوں میں ان گنت ستارے اور سیارے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں جن میں یہ قدیم ترین ستارے بھی شامل ہیں۔ یہ ستارے ملکی وے کے باہر کو نکلے ہوئے حصے یا اُبھار ( bulge) میں دریافت ہوئے ہیں۔

اس تحقیق کے ماہرین فلکیات کی ٹیم نے adaptive optics نامی امیجنگ تیکنیک کا استعمال کیا۔ یہ تیکنیک خلائی تصاویر میں سے ارضی مدار میں بکھری روشنی کی لہروں کے باعث پیدا ہونے والے غیرضروری نشانات کو ختم کردیتی ہے جس کی وجہ سے تصاویر بالکل واضح ہوجاتی ہیں اور ان کا تحقیقی مطالعہ و تجزیہ آسان ہوجاتا ہے۔

دونوں دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا (تصاویر و اعدادوشمار ) کو یکجا کے کر تحقیقی ٹیم زمین سے ان ستاروں کے فاصلے کا تعین کیا۔ حتیٰ کہ سب سے مدہم ستارے کی بھی زمین سے دوری معلوم کی گئی۔ فاصلے کی پیمائش کے اعدادوشمار سے کام لیتے ہوئے بعدازاں یہ تعین کیا گیا کہ کون سا ستارہ کتنا روشن ہے۔ ہر ستارے کی روشنی کی شدت اور اس کی رنگت سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ آیا کوئی ستارہ ، بونا ستارہ ( dwarf star) ہے یا نہیں، اور کیا اس میں سے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر کا اخراج ہورہا ہے؟

ستاروں کے عناصر کا وزن (metallicity) ’ بزرگی ‘ کو پہنچے ہوئے اجرام فلکی کی عمر کا تعین کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ کائنات کے ابتدائی ستارے خالص ہائیڈروجن گیس کے بادلوں سے تشکیل پائے۔ اسی طرح کائنات میں ہیلیئم گیس کے اولین ایٹم ان قدیم ترین ستاروں کے مرکزوں میں ہونے والے نیوکلیائی تعاملات کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ جیسے جیسے مزید ستارے تخلیق پاتے رہے ویسے ویسے نیوکلیائی تعاملات کی وجہ سے مزید عناصر جنم لیتے گئے جن سے آج ہم واقف ہیں۔

ماہرین کے مطابق جو ستارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری عناصر خارج کرتے ہیں انھیں نسبتاً جوان خیال کیا جاتا ہے۔ چناں چہ جب محققین نے مشاہدہ کیا کہ HP1 نامی ’آبادی‘ کے ’مکین‘ برائے نام بھاری عناصر اپنی جسمانی حدود سے باہر دھکیل رہے ہیں تو انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کی جڑیں کائنات کے ابتدائی ادوار میں پیوست ہیں۔ بعدازاں مشاہدات کی بنیاد پر محققین نے ان ستاروں کی عمر کا تعین کیا جو اوسطاً 12.8 ارب سال تھا۔
ماہرین کے مطابق اس دریافت سے کائنات اور ہماری کہکشاں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

۔۔۔

زہریلے مادّے کھا کر بجلی بنانے والے بیکٹیریا۔۔۔۔۔!
ماحولیاتی آلودگی اور توانائی کا بحران قصۂ پارینہ بن جائے گا

آلودگی کرۂ ارض کا اہم ترین ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے دنیا مختلف جتن کررہی ہے۔ سماج کے دوسرے طبقوں کی طرح سائنس داں برادری بھی آلودگی سے نبردآزما ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے نت نئی ایجادات اور دریافتیں کررہی ہے۔ حال ہی میں امریکا کی واشنگٹن اسٹیٹ یونی ورسٹی کے محققین ایسے خردبینی جان دار پکڑنے میں کام یاب ہوئے جو آلودگی کھاتے اور بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ خردبینی جاندار ریاست مونٹانا کے یلواسٹون نیشنل پارک کی ہارٹ لیک کے طاس کے علاقے میں پائے گئے جہاں پانی کا درجۂ حرارت 43 سے 93 ڈگری سیلسیئس تک تھا۔ یونی ورسٹی کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق یہ پہلی بار ہے جب یہ بیکٹیریا شدید گرم ماحول میں پائے گئے ہیں۔ سائنس داں کا کہنا ہے کہ یہ منفرد خردبینی جاندار آج دنیا کو درپیش دو اہم ترین مسائل یعنی بڑھتی ہوئی آلودگی اور توانائی کی قلت سے نجات دلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیکٹیریا یہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیکٹیریا حقیقتاً آلودگی کو کھا جاتے ہیں۔ یہ زہریلے آلودہ مادّوں (toxic pollutants) کو کم زہریلی اور کم خطرناک مادّوں یا اشیاء میں بدل دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمان محمد کے مطابق ’ آلودگی خوری‘ کے دوران بیکٹیریا کے الیکٹران دھاتوں اور دوسری سطحوں پر منتقل ہوتے ہیں اور اس عمل کے دوران برقی رَو خارج ہوتی ہے جس کے استعمال سے کم طاقت والے برقی آلات چلائے جاسکتے ہیں۔

پروفیسر عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ان جراثیم کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خردبینی جانداروں کو پکڑنے کے لیے محققین نے انتہائی گرم پانی میں کچھ برقیرے ( electrodes) چھوڑ دیے۔ اس عمل سے انھیں امید تھی کہ بیکٹیریا اپنی ’ کمین گاہوں‘ سے باہر آجائیں گے۔ بیکٹیریا کو پکڑنے کے لیے پروفیسر عبدالرحمان نے حرارت کا طاقت وَر مزاحم آلہ (potentiostat ) تیار کیا۔ پوٹینشواسٹیٹ ایک برقیاتی آلہ ہوتا ہے جو تین برقیروں پر مشتمل سیل کو کنٹرول کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ محققین نے پانی میں برقیرے ڈال کر چھوڑ دیے۔ ایک ماہ بعد انھوں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے کہ ان کی محنت رنگ لے آئی تھی اور وہ ان نادر بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں کام یاب ہوچکے تھے۔ یہ کام یابی اس لیے اہم تھی کہ تجربہ گاہ میں جیوتھرمل خواص جیسے گرم چشمے وغیرہ کا مہیا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے جب سائنس دانوں نے جراثیم کو بجلی پیدا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ پہلے بھی اس نوع کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ تاہم بیکٹیریا کو ان کے قدرتی ماحول میں پکڑنے میں سائنس داں پہلی بار کام یاب ہوئے، اور انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خردبینی جاندار آلودگی کے خاتمے اور بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کریں گے۔

The post سائنس نامہ appeared first on ایکسپریس اردو.

معدوم ہوتی پاکستانی زبانیں

$
0
0

کسی بھی قوم کی پہچان، اس کی شناخت اس قوم کی ثقافت کے بغیر ادھوری ہے۔ ثقافت ہماری زندگیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

دنیا کی کسی بھی قوم کو اْس کی زبان اور دیگر ثقافتی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ زبان صرف ایک ذریعہ ابلاغ ہی نہیں بلکہ یہ ثقافت کے اہم بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بغیر ثقافتیں ادھوری ہیں۔ زبان ہماری زندگیوں کا وہ اہم حِصہ ہے جس سے ایک طرف تو ہم اپنے خیالات دوسروں تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف اسی کی بنیاد پر ہم مختلف قوموں، گروہوں اور قبیلوں کی انفرادی شناخت کو پرکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہماری ثقافت، زبان پر اثرانداز ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف زبان بھی ثقافت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ غرض یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں۔

اس وقت دنیا میں کم و بیش 6500 کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں کچھ زبانیں تو صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں جب کہ کئی زبانوں کے بولنے والے ہزاروں بلکہ سیکڑوں میں ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی قسم قسم کی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں مختلف قومیں اور زبانیں ایک ملک میں رنگ برنگے گل دستے کی طرح اکٹھی رپتی ہیں۔ پاکستان کی خوب صورتی کے رنگ ان ہی ثقافتی پہلوؤں میں چھپے ہوئے ہیں۔

وطنِ عزیز میں تقریباً 65 سے 70 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو جب کہ سرکاری زبانیں اردو اور انگریزی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی علاقائی زبانوں میں پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور براہوی شامل ہیں۔ جب کہ شیناء، کشمیری، ہندکو اور بلتی زبانوں کا شمار چھوٹی علاقائی زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ ان زبانوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بہت سی زبانوں کے متکلمین کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند-فارس اور ہند-یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

پاکستان کے علاقے چترال کے بارے میں نارویجین زبان داں پروفیسر جارج مورگیسٹرن کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پوری دنیا میں لِسانی تنوع کے لحاظ سے سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ اِس چھوٹے سے خِطے میں کھووار کے علاوہ دس مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کالاشہ، یدغا، پالولہ، نورستانی، دامیلی، گواربتی(ساتر)، بروشسکی، واخئی، کیرغیز اور پشتو شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زبانوں کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ صرف چترال ہی نہیں، پاکستان کے بیشتر علاقے زبانوں کے لحاظ سے خاصے مالامال ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چار مختلف لِسانی خاندانوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہند یورپی (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو وغیرہ)، دراوڑی (براہوی)، چینی تبتی (بلتی و زنسکاری) اور بروشسکی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہنزہ کی بروشسکی ایسی زبان ہے جو دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ملتی، اس لیے لامحالہ اسے بھی ایک الگ خاندان قرار دینا پڑے گا۔ دوسری جانب یہاں عربی، فارسی اور یغور سمجھنے اور بولنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔

پاکستان میں بولی جانے والی 74 میں سے درجنوں زبانوں کے سر پر معدومی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کم از کم ایک زبان ‘بدیشی’ ایسی ہے جس کے بولنے والے صرف 3 افراد زندہ بچے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے اور وہ آس پاس کی دوسری زبانوں کے غلبے تلے دب کر ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

یہ تعداد محض اندازے ہیں جو اکثر و بیشتر مغربی ماہرینِ لسانیات نے برسوں دور دراز پہاڑی علاقوں میں کام کر کے اخذ کیے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری سطح پر اس ضمن میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

چترال کی کھووار اور دوسری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے چترال کے ایک شہری رحمت عزیز صاحب نے ایک شان دار قدم اٹھایا اور 1996 کراچی میں کھووار اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ زبانوں کی یہ تنظیم نہ صرف کھووار بلکہ کئی دوسری چھوٹی بڑی زبانوں میں مختلف کتابوں کے تراجم کر رہی ہے۔ اس اکیڈمی کو چترال اور ملک کی دیگر مادری زبانوں کے لیے ایک ”مضبوط سہارا” کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

پاکستان کی معدوم ہونے والی یا معدومیت کے قریب تر زبانوں کے بارے میں حقائق پیشِ خدمت ہیں۔

آیر

آیر یا آئر ہند-یورپی لسانی خاندان کی ہند-ایرانی شاخ سے نکلی زبان ہے جس کے بولنے والے قیام پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں کافی تعداد میں موجود تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد آیر زبان بولنے والے جو ہندو تھے وہ ہندوستان میں رہ گئے اور مسلمان پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں آیر بولنے والے زیریں سندھ اور خصوصاً حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ کھوار اکیڈمی کے مطابق اِس زبان کا اِرتقاء جنوبی ایشیا میں سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے دوران ہند زبانوں پر فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے ہوا۔ اس زبان کے بولنے والوں کی کل تعداد اب 150 کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔

آیر (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ) دُنیا کی تمام زبانوں میں آخری نمبر پر ہے۔ یہ پاکستان کے زیریں سندھ اور ہندوستان کی ریاست گجرات میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

باگڑی

دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی باگڑی زبان، زبانوں کے ہند یورپی خاندان کی ”راجستھانی-مارواڑی” شاخ سے تعلق رکھتی ہے جس کے زیادہ تر بولنے والے بھارتی صوبے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ زبان بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے پنجابی زبان کا ایک لہجہ مانتے ہیں لیکن بھارت میں یہ اقلیتوں کی تسلیم شدہ زبان ہے۔ اس کے کُل بولنے والوں کی تعداد اندازً 20 لاکھ ہے لیکن پاکستان میں اس کے بولنے والے بیت کم تعداد میں ہیں۔

باگڑی کا نام ”باگڑ” سے نکلا ہے جو شمال مغربی بھارت اور مشرقی پاکستان کے ریتلے علاقوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ بار (جیسے ساندل بار) باگڑ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

بدیشی

بدییشی زبان صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی چیل اور بشگرام میں بولی جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے ”بولی جاتی تھی” تو زیادہ مناسب ہوگا۔ تقریباً معدوم ہوچکی اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2018 میں صرف 3 تھی۔

براہوی

شمالی دراوڑی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان پاکستان میں صرف وسطی بلوچستان کے اضلاع کوئٹہ، قلات، خضدار، مستونگ، بولان، نصیرآباد اور سندھ کے کچھ علاقوں (لاڑکانہ اور نواب شاہ کے اضلاع ) میں بولی جاتی ہے۔ اس کے بولنے والے ایران، افغانستان اور ترکمانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے تقریباً 40 لاکھ کے قریب ہیں۔

براہوئی ایک قدیم ترین زبان ہے، جو ہر نئے سیکھنے والے کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ برطانوی دور میں انگریزوں نے برصغیر کی تقریباً زبانیں سیکھ لیں لیکن جب براہوئی زبان کے بارے میں کسی انگریز سے پوچھا گیا تو اس نے ہاتھ کھڑے کردیے۔ یہ زبان بہت وسیع علاقے میں بولی جاتی ہے۔ کوئٹہ سے لے کر ایران کی سرحدوں تک اور حب چوکی تک یہ زبان بولی جاتی ہے۔ جیسے یہ زبان جتنے بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے اسی طرح یہ اتنی ہی غیرمعروف ہے۔ کراچی کی طرف حب چوکی کے بعد کوئی اس زبان کے بارے کچھ نہیں جانتا۔ اس زبان میں تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ میں رہنے والے براہوئی خود کو”بروہی” کہتے ہیں جب کہ بلوچستان، افغانستان اور ایران میں براہوئی بولنے والے بلوچ کہلاتے ہیں۔

براہوئی زبان میں اس وقت کئی رسالے و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن تلار کے نام سے ایک ہفت روزہ 2004 سے مکمل تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ موجودہ دور میں تلار براہوی زبان کا واحد معیاری جریدہ ہے۔

بلتی

چینی-تبتی قبیلے کی لداخی بلتی شاخ سے تعلق رکھنے والی بلتی زبان پاکستان کے شمالی علاقے بلتستان اور کشمیر کے علاقوں کارگل اور لہہ میں بولی جاتی ہے۔ ہراموش سے کارگل اور قراقرم سے دیوسائی تک کا سارا علاقہ بلتی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کچھ دیہات کی زبان شینا ہے، لیکن اس میں بھی بلتی زبان کے کافی الفاظ شامل ہیں۔ یوسف حسین آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1990 میں ”بلتی زبان” نامی کتاب لکھ کر اس زبان کی ترویج کے لیے کام شروع کیا۔ بھر 1995 میں انہوں نے قرآن پاک کا بلتی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

آج بلتستان میں اس زبان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وفاقی حکومت سمیت گلگت بلتستان حکومت نے اس زبان پر کوئی خاص تحقیقی کام نہیں کیا ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی معدوم ہونے والی جن زبانوں کو بچانے کے لیے یونیسکو سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں بلتی بھی شامل ہے۔ بلتی زبان بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ ہے۔

بروشسکی

بروشسکی وہ زبان ہے جو نگر، ہنزہ ، اشکومن اور یاسین کی بروشو قوم بولتی ہے۔ یہ زبان بولنے والوں کی ایک قلیل تعداد سرینگر میں رہائش پذیر ہے۔ یہ واحد زبان ہے کہ جس کا کوئی خاندان یا قبیلہ نہیں ہے اس لیے اسے ”آزاد زبان” یا جداگانہ زبان کہا جاتا ہے۔ اس زبان کو بروچسکی، بروشکی، کھاجونہ اور بروشاس کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ زبان بہت قدیم زبان ہیجس کی ابتدا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بروشسکی لکھنے سے زیادہ بولی جاتی ہے اور ابھی تک اس زبان میں کوئی قابلِ ذکر کام منظرِعام پر نہیں آیا۔

کہا جاتا ہے کہ بروشسکی زبان کا آبائی وطن گلگت بلتستان کا شمالی علاقہ ہے جو پامیر کوریڈور سے منسلک ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 90000 کے قریب ہے۔ کھوار اکیڈمی نے اس زبان کے حروف تہحی، بلتی قاعدہ اور اس زبان کے لیے یونی کوڈز بھی بنائے ہیں۔

بھایا

صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میرپورخاص اور کھپرو میں اور اُس کے آس پاس بولی جانے والی بھایا زبان اب صرف چند سو افراد کی زبانوں پر ہے۔ ہند یورپی گروہ کی یہ زبان سخت خطرے میں ہے جس کو بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ دونوں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پارکری

پارکری زبان جسے ”پارکری کولی” بھی کہا جاتا ہے سندھ کے جنوب مشرقی سرحدی علاقوں تھرپارکر اور نگرپارکر میں بولی جاتی ہے۔ ہند یورپی خاندان کی یہ زبان مارواڑی اور گجراتی سے ملتی جلتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ڈھائی لاکھ ہے۔ جنوبی صحرائے تھر کی یہ زبان بھارتی سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے متکلمین کی تعداد لگ بھگ دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک ہے۔

پالولہ

پالولہ زبان، جسے پھالولہ، ڈنگریکوار اور عشیریتی بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے ضلع چترال کی وادی عشیریت، بیوڑی، شیشی اور کلکاٹک میں بولی جاتی ہے اور چترال کی باقی زبانوں کی طرح ہند یورپی قبیلے کی داردی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان دیر میں بولی جانے والی کلکوٹی اور افغانستان میں بولی جانے والی ساوی زبان سے ملتی ہے اور اس کے مُتکلمین کی تعداد 10ہزار تک ہے۔ اس زبان کے حروف تہجی وضع کیے جاچکے ہیں اور اس کے ادب کو محفوظ کرنے کا بیڑا بھی کھوار اکیڈمی نے اٹھایا ہوا ہے۔ ”فرنٹیر لینگویج انیشیٹیو” کے نام سے ایک ادارہ پھالولہ بولنے والوں کو تربیت دے رہا ہے۔ پالولہ بولنے والوں نے 2004 میں ”انجمنِ ترقیٔ پالولہ” کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جو پالولہ زبان میں تحقیق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عشریت کے اسکولوں میں بھی یہ زبان پڑھائی جا رہی ہے۔

توروالی

کوہستان اور سوات کے اضلاع میں بولی جانے والی اس زبان کا تعلق بھی داردی زبانوں سے ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ 85 ہزار ہے۔ یہ زبان توروالی لوگوں کی زبان ہے جو مدین سے آگے وادیٔ اپرسوات کے پہاڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے دو لہجے ہیں۔ بحرین اور چالی/چھالی۔

جدگالی

ہند ایرانی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان جدگال قبیلے کی زبان ہے جو پاکستان اور ایران میں پایا جاتا ہے۔ جدگالی زبان سندھی زبان کا اسلوب ہے جو لاسی سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد ابھی تک نامعلوم ہے۔ 2004 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں جدگالیوں کی تعداد 15600 تک تھی۔

اس زبان میں کوئی تحریر کوئی کتاب ابھی تک منظرِعام پر نہیں آئی۔

دامیلی

دامیلی ایک داردی زبان ہے جو ضلع چترال کی وادیٔ دومیل میں بولی جاتی ہے۔ اس کے لگ بھگ 5ہزار متکلمین ہیں۔

وادی دومیل یا دامیل دریائے چترال کی مشرقی سمت میں دروش سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دامیلی اب بھی کچھ دیہات میں بولی جاتی ہے اور روزمرہ کی زندگی میں بچے بھی سیکھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پشتو کو دوسری زبان کی حیثیت سے بولتے ہیں اور کچھ کھوار اور اردو بھی بولتے ہیں۔ آپ اس کے بولنے والوں کی تعداد سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ زبان کس حد تک معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

دھاتکی

دھاتکی جسے تھری بھی کہا جاتا ہے سِندھ کے صحرا تھرپارکر کی زبان ہے جو زبانوں کی راجستھانی و مارواڑی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بھارت کے علاقوں جیسلمیر اور بارمر سمیت سندھ کے ضلع تھرپارکر اور اُس سے مُتصل قریبی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ 1947 میں بہت سے تھری بولنے والے بھارت جا بسے تھے اور آج اندازً اس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اِس زبان کو صرف تھر واسیوں اور وہاں کے لوک فن کاروں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔

سانسی

پاکستان میں صرف 30 ہزار لوگ سانسی کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جو زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ اس لیے سانسی زبان کسی مخصوص خطے کی زبان نہیں ہے۔ اس کے بولنے والوں کی زیادہ تعداد ہندوستان میں رہائش پذیر ہے۔ یہ زبان پنجابی، ہندی اور مارواڑی زبان کے قریب خیال کی جاتی ہے۔ عنقریب یہ زبان بھی وطنِ عزیز سے ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔

شینا

شینا زبان ایک قدیم زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی خاندان کے ”داردی” قبیلے سے ہے۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ اِس زبان کے بولنے والے دریائے سندھ کے بالائی حصوں، اس کے معاون دریاؤں کے کناروں، کشن گنگا، دراس، استور، گلگت، ہنزہ، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا بولنے والوں کا تمام علاقہ بشمول گلگت، ہنزہ، نگر، چلاس، ہراموش، دریل، استور، غزر وغیرہ پاکستان کے زیرانتظام ہے جب کہ کِشن گنگا، دراس، تلیل، گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے کا علاقہ ہندوستان کے زیرانتظام ہیں۔

موجودہ دور میں شینا زبان بھی اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ ابھی تک اس زبان کا کوئی ایک رسم الخط باقاعدہ طور پر موجود نہیں ہے۔ اگر اہلِ زباں اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں شاید کبھی معاف نہیں کریں گی۔ 2017 میں گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے شینا زبان کو تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا جو واقعی قابلِ داد ہے۔

قرآنِ مجید کا شینا زبان میں سب سے پہلا ترجمہ جناب شاہ مرزا صاحب نے کیا ہے جن کا تعلق گلگت کے علاقہ جلال آباد سے ہے۔ امید ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت اس زبان کی ترقی کے لیے بر وقت اقدامات کرے گی۔

ہزارگی

فارسی زبان سے مطابقت رکھنے والی یہ زبان پاکستان اور افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی کی زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی زبانوں سے ہے۔ فارسی اور ہزارگی زبان میں بنیادی فرق صرف لہجے کا ہے۔ یہ تقریباً بائیس لاکھ لوگوں کی زبان ہے جس میں ترکی اور منگول زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ اور ہزارہ ڈویژن میں بولی جانے والی اس زبان کی ترقی کے لیے ابھی تک کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ لیکن ملک دشمن عناصر کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کے بعد ہزارگی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہزارگی ایک مضبوط زبان کے طور پر اُبھر رہی ہے۔

کالامی

کالامی زبان، جسے گاوری اور کالام کوہستانی بھی کہا جاتا ہے ہند یورپی زبانوں کے کوہستانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جو داردی کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کے ضلع سوات کے شمالی علاقے سوات کوہستان اور دیر بالا کی وادی اپر پنجکوڑہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان کو مادری زبان کے طور پر بولنے والے تقریباً ساٹھ سے ستر ہزار کے درمیان ہیں جو ایک قلیل تعداد ہے۔

سوات کے علاقے کالام میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے جس مناسبت سے اِسے کالامی زبان کہا جاتا ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال، سوات اور شمالی علاقہ جات کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ان زبانوں میں کالامی بھی شامل ہے۔ حکومتی سطح پر اس زبان کی ترقی کے لیے کوئی خاص قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔

کالاشی

کالاش یا کالاشہ ایک داردی زبان ہے جو پاکستان کے بالکل شمال میں ضلع چترال کی وادی کالاش کے علاقوں بریر، بمبوریت اور رومبر میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد لگ بگ 5 ہزار ہے جو کالاش قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے پاک افغان سرحد کے قریب آباد نورستانیوں کی ہم آہنگ قریبی زبان سمجھتے ہیں۔

کالاشہ کالاش کی زبان ہے جو کوہِ ہندوکش میں آباد ایک قبیلہ ہے۔ چترال میں جن چھوٹی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں ان میں کالاشہ زبان سرِفہرست ہے۔ کالاشہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیح دینے لگے ہیں، اگر یہی صورت حال جاری رہی تو کالاشہ زبان ختم ہوجائے گی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ کالاش میں حروف تہجی ایجاد کیے جاچکے ہیں اور کالاشہ ادب کو بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیلاش اور اس کی ثقافت کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار اس زبان کو بچانے کی عملی کوششوں کا آغاز کیا جائے گا۔

کلکوٹی

یہ داردی زبانوں میں شینا سے تعلق رکھتی ہے، جو خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ تقریباً 6000 لوگ کلکوٹی زبان بولتے ہیں جو زیادہ تر دیر بالا کی تحصیل کلکوٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ یہاں سے باہر اس زبان کو کوئی نہیں جانتا۔

کھووار

کھوار زبان جسے چترال کی نسبت سے چترالی بھی کہا جاتا ہے ایک ہند یورپی (داردی) زبان ہے جو پاکستان، ہندوستان، سنکیانگ (چین) اور افغانستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ کھووار کے لفظی معنی ہیں ”چترالیوں کی زبان” جو نہ صرف چترال بلکہ گلگت بلتستان کی وادیٔ یاسین، پھنڈر، اشکومن، گوپس، سوات کے علاقے متلتان اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بولی جاتی ہے۔ تاہم ہر علاقے کا لہجہ مختلف ہے۔ کھوار زبان کو آرنیہ، چھتراری، قشقاری، پتو اور چترالی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کھووار بولنے والوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ نوے ہزار ہے لیکن چترالی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم ادبی تنظیم ”کھووار اکیڈمی” نے رحمت عزیز چترالی کی حالیہ تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں کھوار بولنے والوں کی کل تعداد 10 لاکھ لکھی ہے۔

چترال کے اہل قلم نے اس زبان کو بچانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ چترال کے تقریباً اسی فی صد افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی معدومیت کے خطرے سے دوچار جن زبانوں کو بچانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے ”یونیسکو” سے درخواست کی ہے ان زبانوں میں کھوار (چترالی زبان) سرفہرست ہے۔

اس وقت کھووار زبان میں دو بڑے اخبار شائع ہو رہے ہیں جن میں سے پہلا کراچی اور چترال سے شائع ہونے والا ”چترال ویژن” اور دوسرا ”چترال ٹو ڈے” ہے جو چترال سے نکلتا ہے۔ کھووار ادب میں بھی نجی طور پر کافی کام ہوا ہے۔ کھووار ادب میں پہلا نام محمد شکور اتالیق صاحب کا ہے جن کا زیادہ تر کام عشقیہ مضامین پر ہے۔

”مرزا محمد سیر” جو چترال میں مہسیار کے نام سے مشہور ہیں، کو چترال کاعظیم ترین شاعر خیال کیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔ البتہ ان کا کھوار رومان ’’یار من ہمیں‘‘ ایک عظیم کھوار دستاویز ہے۔

جدید کھووار ادب کے حوالے سے ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی، سلطان علی، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا، پروفیسر اسرارالدین، جاوید حیات کا کا خیل، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، محمد شریف شکیب، رب نواز اور سلیم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

کھیترانی

پاکستان کے عین وسط میں کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جہاں کئی قبائل آباد ہیں۔ ان میں سے ایک کھیتران کا قبیلہ ہے جو شمال مشرقی بلوچستان کے اضلاع بارکھان، موسیٰ خیل اور کچھ حد تک کوہلو میں آباد ہے جن کی مادری زبان کھیترانی کہلاتی ہے۔ یوں تو ان کی کچھ تعداد پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں بھی آباد ہے لیکن وہ زیادہ تر سرائیکی بولتے ہیں۔ کھیترانی زبان کا تعلق بھی ہند یورپی زبانوں سے ہے۔ کھیترانی زبان میں گرامر کے کچھ قوانین سرائیکی اور سندھی سے ملتے جُلتے ہیں لیکن یہ ان سے مختلف زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ زبان ایک وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی لیکن پشتو اور بلوچی زبانوں کی ترویج سے یہ سکڑتی گئی۔ آج اس کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔

کوہستانی

خیبر پختونخواہ کے علاقے ضلع کوہستان میں بولی جانے والی یہ زبان انڈس کوہستانی، زبانوں کے داردی گروہ میں شامل ہے۔ اس کو اباسین کوہستانی زبان بھی کہا جاتا ہے جسے لگ بھگ دو لاکھ لوگ بولتے ہیں۔

اس زبان کو ایک علاقائی زبان دینے کا مطالبہ 2015ء سے زور پکڑ رہا ہے۔ شنید ہے کہ عنقریب یہ مطالبہ حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا۔ باقی زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سرکاری سطح پر سرپرستی سے محروم ہے۔ نجی طور پر بھی اس کو محفوظ رکھنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔

گوارباتی

گوارباتی جسے نرساتی، نریساتی، گواری، آرندو وار اور ساتر بھی کہا جاتا ہے، ایک دادری زبان ہے جِسے پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کی سرحد کے قریب بولا جاتا ہے۔ گوارباتی کا لفظی مطلب ”گوار لوگوں کی زبان” ہے۔ یہ زبان چترال میں وادی آرندو (جو افغانستان کی جانب چترال کا آخری گاؤں ہے) اور افغانستان میں برکوٹ میں بولی جاتی ہے۔ اس کے تقریباً 9 ہزار متکلمین ہیں جن میں سے پندرہ سو پاکستان میں اور سات ہزار پانچ سو افغانستان میں ہیں۔

مارواڑی

مارواڑی بھارتی ریاست راجستھان میں بولی جانے والی ایک راجستھانی زبان ہے۔ مارواڑی گجرات، ہریانہ، پاکستان اور نیپال میں بھی بولی جاتا ہے۔ مارواڑی کو لگ بھگ 2 کروڑ آبادی بولتی ہے اور یہ راجستھان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس کے زیادہ تر بولنے والے راجستھان میں رہتے ہیں، جب کہ سندھ میں قریب ڈھائی لاکھ مارواڑی رہائش پزیر ہیں۔ صحرائے چولستان میں بھی مارواڑی بولنے والوں کی ولیل تعداد آباد ہے جو زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ مارواڑی کے دو درجن لہجے ہیں۔

مارواڑی کو عام طور پر ہندی، مراٹھی، نیپالی اور سنسکرت کی طرح دیوناگری میں لکھا جاتا ہے، حالاںکہ یہ تاریخی طور پر مہاجنی میں لکھی گئی تھی، مگر پاکستان کے مارواڑی بولنے والے علاقوں میں نستعلیق رسم الخط استعمال ہوتا ہے۔

میمنی

سندھ کی میمن کمیونٹی کی اس زبان کا آبائی وطن بھارتی ریاست گجرات کا علاقہ کاٹھیاوار ہے اور یہ زبانوں میں سندھی کی شاخ ہے۔ 1947 میں تقسیم کے بعد بڑی تعداد میں میمن کمیونٹی نے پاکستان کا رُخ کیا اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ آج یہ زبان کاٹھیاواڑ کے علاوہ کراچی میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس زبان پر سندھی اور گجراتی زبانوں کی گہری چھاپ ہے۔ میمنی زبان میں اردو کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔

واخئی

واخئی یا واخی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے علاقوں وادیٔ گوجال، وادیٔ اشکومن اور وادیٔ یاسین کے سرحدی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادیٔ بروغل میں بولی جانے والی زبان ہے۔

پاکستان کے علاوہ واخئی زبان افغانستان کے صوبہ بدخشاں، واخان، تاجکستان کے علاقے گورنو بدخشان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے جب کہ ایک چھوٹا حِصہ روس اور ترکی میں بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق واخئی بولنے والوں کی آبادی تقریباً ستر سے اسی ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو 6 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ زبان 4000 سال قدیم ہے جس کا آبائی وطن واخان کا علاقہ ہے، اسی وجہ سے سے اس کا نام واخی پڑا۔

واخی کا شمار ہند یورپی قبیلے کی ایرانی و پامیری زبانوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے واخی زبان کو مستقبل میں ناپید ہونے والی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جو واخی بولنے والوں اور حکومت دونوں کے لیے ایک خطرے کی بات ہے۔

واخی زبان کو رومن اور روسی رسم الخط میں لکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن اب تک کوئی معیاری رسم الخط رائج کرنے میں کام یابی نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں واخئی زبان کے سب سے مشہور شاعر نذیر احمد بلبل ہیں۔ ان کی شاعری رومانوی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہے۔ ریڈیو پاکستان گلگت سے واخی زبان میں روزانہ ایک بلیٹن نشر کیا جاتا ہے۔

ونیتسی

ونیتسی جسے ترینو زبان بھی کہا جاتا ہے، پاکستان و افغانستان کے ترین قبیلے کی زبان ہے جو کوئٹہ کے قریب ہرنائی اور سنجاوی میں رہائش پذیر ہے۔ یہ زبان پامیری شاخ کی زبان مُنجی سے مماثلت رکھتی ہے۔ ونیتسی بولنے والوں کی تعداد تقریباً پچانوے ہزار ہے۔

کچھ افراد کے نزدیک یہ بھی پشتو زبان کا ایک لہجہ ہے لیکن موجودہ دور کے لسانی ماہرین اسے پشتو سے قریب تر لیکن الگ زبان تصور کرتے ہیں۔

یدغہ

یدغہ پاکستان کے ضلع چترال میں بولی جانے والی ایک ہند-یورپی زبان ہے جو پامیری زبانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زیادہ تر جو چترال کے علاقوں گرم چشمہ اور وادیٔ لوٹ کوہ میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان مُنجی سے ملتی جلتی ہے جو اس علاقے کے پار افغانستان میں بولی جاتی ہے۔

چترال میں اس زبان کو خطرات لاحق ہیں اور لوٹ کوہ کے لوگوں نے اس زبان کو بچانے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی ہے۔ لوٹ کوہ کے تقریباً 6000 افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ نارویجین زبان داں، پروفیسر جارج مورگینسٹرن (جنہوں نے 1923 سے 1971 تک افغانستان، پاکستان، انڈیا اور ایران میں زبانوں پر تحقیقی کام کیا تھا) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ لسانی تنوع (زبانوں کی اقسام) کے حوالے سے چترال دنیا کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ کھوار اکیڈمی نے بھی ”یدغہ” کو بچانے کے لیے یونیسکو سے اپیل کی ہے۔

کھوار زبان نے چترال میں بولی جانے والی جن بارہ زبانوں پر اپنا اثر چھوڑا ہے ان میں یدغہ بھی شامل ہے۔ اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر ہینرک کے مطابق یدغہ ختم ہونے کے شدید خطرات کا شکار ہے اور یدغہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیع دینے لگے ہیں اور یہی اس زبان کے آہستہ آہستہ ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

زنسکاری

جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں میں سے ایک زنسکاری، تبتی زبانوں کی لداخی-بلتی شاخ سے نکلی ہے جو جموں و کشمیرخصوصاً کارگل اور لداخ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی زیادہ تعداد دریائے زنسکار اور دریائے ڈوڈہ کے کناروں پر آباد ہے۔ زنسکاری بولنے والوں کی تعداد صرف 12,000 ہے۔

اِن زبانوں کے علاوہ پورگی، بروسکت، گوورو، جنداورہ، کاٹی، لوارکی، جوگی اور زبانیں بھی معدومیت کی دہلیز پر ہیں۔ ہندکو اگرچہ ایک بڑی زبان ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق اسے بولنے والوں کی تعداد بھی روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔

ان زبانوں کی شناخت، ترویج اور تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کیا کوششیں ہو رہی ہیں، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں پاکستان میں بولی جانے والی 74 زبانوں میں سے صرف 9 کی گنتی ہوئی ہے، جب کہ بقیہ 65 زبانوں کو ‘دیگر’ کے خانے کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔

ان زبانوں کے بولنے والوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں ان زبانوں کی عدم شمولیت دراصل ان ‘چھوٹی’ زبانیں بولنے والوں کی محرومیوں کا تسلسل ہے۔

اسلام آباد میں واقع ایک غیر سرکاری ادارہ ”فورم فار لینگویج انیشی ایٹیو” (ایف ایل آئی) ان کم بولے جانے والی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 19 برس بعد ہونے والی حالیہ مردم شماری کے فارم میں صرف نو زبانوں کو لانے اور باقی کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس ملک میں یہ زبانیں وجود ہی نہیں رکھتیں۔ اگر آپ صرف نو زبانوں کو فوقیت دے رہے ہیں اور باقی کو پیچھے رکھتے ہیں تو آپ ان کو مانتے ہی نہیں ہیں۔

ان زبانوں سے بے پروائی کا سب سے بڑا نقصان گلگت بلتستان کو ہوا ہے کہ اس 73 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کی ایک زبان بھی مردم شماری کے فارم کی زینت بننے سے قاصر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ضلع چترال اور ضلع کوہستان کی بھی کوئی زبان شامل نہیں ہے۔ اسی طرح سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ڈھٹکی، مارواڑی اور دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں جن کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں ایک قدیم زبان ”اورمڑی” بولی جاتی ہے، جنوبی وزیرستان سے لوگوں کی نقل مکانی کے بعد اس زبان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی والدہ، مرحومہ شوکت خانم اورمڑی زبان بولنے والے برکی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی خان صاحب نے ابھی تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔

پاکستان میں ”ریڈیو پاکستان” اور ”پاکستان ٹیلی ویژن” جیسے ادارے چھوٹی زبانوں میں مختصر وقت کے لیے بلیٹن نشر کرتے ہیں، لیکن یہ وقت ان زبانوں کے لیے ناکافی ہے اور یہاں تمام زبانوں کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پنجاب میں ایک اِدارہ ”پلاک” کے نام سے کام کر رہا ہے لیکن یہ صرف پنجابی زبان کی ترویج کا پلیٹ فارم ہے۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے اب تک چھوٹی علاقائی زبانوں کے تحفظ کے لیے کوئی قابلِ تحسین قدم نہیں اٹھایا۔ خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت نے ”مقتدرہ برائے علاقائی زبانیں ایکٹ 2011” کے تحت صوبے میں بولی جانی والی زبانوں کے تحفظ و ترقی کے لیے ”خیبرپختونخوا مقتدرہ علاقائی زبانیں” کے قیام کو قانونی شکل دی تھی، جو زبانوں کے تحفظ کے لیے ایک احسن اقدام ہے، لیکن ابھی بھی پاکستان میں زبانوں کی ترقی اور بقاء کے لیے بہت زیادہ تحقیق اور اس کی ترویج کی ضرورت ہے جو حکومتی سرپرستی کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔

The post معدوم ہوتی پاکستانی زبانیں appeared first on ایکسپریس اردو.

تینتیس کروڑ باشندوں کے دیس امریکا میں نظریاتی جنگ کون جیتے گا؟

$
0
0

یہ وسط فروری کی بات ہے، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر واقع شہر، ال پاسو پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ دوران تقریر امریکی صدر کا زور بیان اسی نکتے پر مرکوز رہا کہ ’’دیوار‘‘ کی تعمیر کے بعد ال پاسو محفوظ بستی بن گیا ورنہ اس سے قبل پڑوسی  ملک میکسیکو کے قاتلوں، لٹیروں اور زانیوں نے شہر میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوکر اودھم مچا رکھا تھا۔

دلچسپ بات یہ کہ ال پاسو کا میئر، ڈی مارگو صدر کی ری پبلکن پارٹی ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن وہ شہر کے باشندوں کو اکثر بتاتا کہ دیوار کی تعمیر سے قبل ہی ال پاسو محفوظ شہر بن چکا تھا۔ یہ دیوار امریکی حکومت نے 2006ء میں تعمیر کرائی تھی۔ اعدادو شمار بھی ڈی مارگو کی تائید کرتے تھے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ال پاسو میں قتل کی شرح قومی اوسط کے مقابلے میں نصف تھی جبکہ وہ امریکا کے محفوظ شہروں میں شمار ہوتا تھا۔

ٹرمپ کی ترپ چال

جلسے میں شریک امریکیوں نے مگر صدر ٹرمپ کے دعویٰ کو تسلیم کرلیا۔ وہ نعرے لگانے لگے کہ امریکہ کے دیگر سرحدی علاقوں میں بھی دیوار تعمیر کی جائے۔ ان کا جوش و خروش دیکھ کر صدر ٹرمپ پھولے نہ سمائے۔ امریکی عوام میں مقبولیت پانے کی خاطر دیوار کی تعمیر ان کے لیے ترپ چال بن چکی تھی۔یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ بہت سے امریکی ’’دیوار، دیوار‘‘ کی رٹ سنتے تنگ آچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، کئی ریاستوں میں امریکی عوام دیوار کے مسئلے پر تقسیم ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں جب اسی مسئلے کے باعث امریکی حکومت کئی دن شٹ ڈاؤن کا شکار رہی، تو اس سے بھی صدر ٹرمپ کی مقبولیت کو دھچکا لگا اور وہ کم ہوگئی۔

پھر بھی ٹرمپ بار بار اپنی تقریروں میں یہ معاملہ اجاگر کرتے ہیں۔وجہ یہ کہ دیوار امریکا میں مہاجرین کی آمد کے خلاف جاری مہم کی علامت بن چکی ہے۔ جب بھی ٹرمپ جلسوں میں اس معاملے کا ذکر کریں، ان کے طرف دار امریکی نعرے لگانے لگتے ہیں ’’دیوار بناؤ، دیوار بناؤ۔‘‘ ظاہر ہے، ٹرمپ نے 2016ء میں انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو بھی ٹارگٹ کیا تھا۔ سیکولر اور سوشلسٹ امریکی بھی ان کی تنقید کا نشانہ بنے۔ تاہم ٹرمپ کی ’’غیر قانونی مہاجرین کے خلاف جنگ‘‘ میں میکسیکن سرحد پر دیوار کی تعمیر سب سے بڑا انتخابی نعرہ بن گئی تھی۔ یہ رجحان تب سے برقرار چلا آرہا ہے۔

نفرت پہ مبنی انتخابی نعرے

صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے پہلے دن ہی میکسیکن مہاجرین کو زانی قرار دے ڈالا تھا۔ انہوں نے پھر اس نظریے کی ترویج کی کہ امریکا کو مہاجرین سے معاشی، سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی خطرات لاحق ہیں۔ مسلم مہاجرین خصوصاً امریکی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ ٹرمپ کے انتخابی نعروں کو ان سفید فام امریکیوں نے بہت پسند کیا جو مہاجرین کی آمد کے خلاف تھے۔ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ٹرمپ نے انہی امریکیوں کے تنقیدی خیالات کو زبان دی اور انہیں دنیا بھر میں نمایاں کردیا۔یہ امریکی رنگ، نسل، مذہب یا معاشی وجوہ کی بنا پر مہاجرین کے مخالف ہیں۔ بعض سیاہ فاموں کو نفرت سے دیکھتے ہیں۔

سفید فام نسل کو عظیم ترین سمجھنے والے دیگر انسانی نسلوں کو کمتر و حقیر سمجھتے ہیں۔مذہبی طور پہ قدامت پسند امریکیوں کا خیال ہے کہ مسلمان مہاجرین امریکا میں اسلامی اقدار و تعلیمات پھیلا کر اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہیں۔ امریکی شہریوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مہاجرین انہیں ملازمتوں سے محروم کررہے ہیں۔ غرض مہاجرین، غیر ملکیوں اور مسلمانوں کو ناپسند کرنے والے بہت سے امریکی ڈونالڈ ٹرمپ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ انہوں نے ہی غیر متوقع طور پر ٹرمپ کو اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچا دیا۔ٹرمپ حالانکہ مثالی صدارتی امیدوار نہیں تھے۔ ان کا ماضی بے راہ روی کی داستانوں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ صنف نازک کو محض تسکین کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مالی اسیکنڈلوں میں بھی ملوث رہے۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود کروڑوں سفید فام امریکی انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ انہیں یقین تھا، ٹرمپ ان کے مسائل حل کردے گا۔ ٹرمپ بھی اپنے ووٹروں کی توقعات سے بخوبی آگاہ تھے۔

جنگ کا آغاز

یہی وجہ ہے، حکومت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے مختلف اسلامی ممالک سے مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگادی۔ مہاجرین کو انہوں نے ’’کیڑے‘‘ قرار دیا جو امریکا میں گندگی پھیلا نے کا باعث ہیں۔ دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک، پاکستان پر برس پڑے کہ وہ برسوں سے امریکی ڈالر ہڑپ کررہا ہے۔ ایران، شام، ترکی، شمالی کوریا، چین، روس اور دیگر ممالک بھی ان کی تنقید کا نشانہ بنے۔امریکا کے پینتالیسویں صدر نے معاشی وسیاسی طور پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت میں زبردست نظریاتی جنگ چھیڑدی۔

اس جنگ کے دائیں سمت وہ سفید فام استادہ ہیں جو رنگ، نسل، مذہب یا معاشی وجوہ کی بنا پر غیر ملکیوں کے مخالف ہیں۔ وہ امریکا میں ان کی آمد روکنا یا بہت محدود کرنا چاہتے ہیں۔ بائیں سمت وہ امریکی کھڑے ہیں جن میں سوشلسٹ و لیفٹسٹ سفید فام، سیاہ فام، گندمی رنگت والی اقوام اور مسلمان شامل ہیں۔یہ قوتیں بائیں بازو کے سفید فاموں کو متعصب اور نفرت کا نمائندہ سمجھتی ہیں۔ ان دونوں کے مابین سیاسی و نظریاتی سطح پر ایک بڑی جنگ چھڑچکی ہے۔دنیائے مغرب میں امریکہ سرخیل مملکت کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر انگریزی بولنے والے ملکوں مثلاً برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ میں سبھی سفید فام امریکی سیاست، تہذیب و ثقافت سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، صدر ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد ان ملکوں میں بھی سفید فام قوم پسندی اور شدت پسندی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ امریکا کی طرح وہاں بھی مہاجرین اور مسلمانوں پر حملے ہونے لگے ہیں۔

برینٹن ٹیرنٹ کا منشور

کرائسٹ چرچ کی مساجد میں وحشیانہ طریقے سے فائرنگ کرنے والے آسٹریلوی برینٹن ٹیرنٹ کا معاملہ ہی دیکھئے۔ حملوں سے قبل اس نے 74 صفحات پر مشتمل اپنا ’’منشور‘‘ فور چان نامی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا۔ اس میں برینٹن نے صدر ٹرمپ کو ’’ازسرنو جنم لیتی سفید فام قوت کی نشانی‘‘ قرار دیا۔ اس امر سے عیاں ہے کہ قاتل ٹرمپ کے قوم پرستانہ خیالات و نظریات سے متاثر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی نفرت اتنی بڑھ گئی کہ برینٹن بے حس ہوگیا اور جیتے جاگتے انسانوں کو صرف اس لیے مار ڈالا کیونکہ وہ دوسرے مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

برینٹن ٹیرنٹ نے اپنے منشور میں مزید لکھا کہ وہ اپنے فعل سے امریکا میں نسلی و مذہبی منافرت پھیلانا چاہتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس منافرت کے باعث امریکا میں خانہ جنگی جنم لے اور آخر کار یہ ملک نسلی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات و نظریات کی وجہ سے امریکا میں بتدریج خانہ جنگی ماحول جنم لے چکا۔ اس کے اثرات یورپ و ایشیا کے ممالک پر بھی پڑسکتے ہیں۔

حکمت عملی کو خطرہ

امریکا میں اگلے سال الیکشن ہونے ہیں۔ چناں چہ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ سفید فاموں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیا جائے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ مزید چار برس اقتدار سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے، ٹرمپ دوبارہ آہستہ آہستہ شدت پسند بن رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کے نزدیک اب یہ حکمت عملی ناکام بھی ہوسکتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ دور حکومت میں بھی نچلے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فاموں کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکے۔

وہ بدستور مالی بحران میں مبتلا ہیں اور انہیں اچھی ملازمتیں نہیں مل سکیں۔ الیکشن 2016ء میں انہی سفید فاموں نے ٹرمپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ مگر اگلے سال ان کی کم تعداد ٹرمپ کو ووٹ دے سکتی ہے۔ ان کا ووٹ بینک برقرار رکھنا ٹرمپ کے واسطے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔یاد رہے، ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں کم ووٹ لیے تھے۔ البتہ وہ زیادہ امریکی ریاستیں جیتنے میں کامیاب رہے، اسی لیے زیادہ الیکٹرول ووٹ جیت کر صدر بن گئے۔ مگر اس بار سفید فاموں نے ٹرمپ کو کم ووٹ ڈالے، تو یقینی ہے کہ مخالف ڈیموکریٹک امیدوار زیادہ الیکٹرول ووٹ جیت کر صدر بن جائے۔

 جنوب کو کھوچکے

اسی لیے ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ الیکشن 2020ء جیتنے کی خاطر صدر ٹرمپ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ امریکیوں میں وہ اس وقت مقبول ہوسکتے ہیں جب انہیں یہ دکھانے میں کامیاب رہیں کہ وہ انتہا پسندی کی حد تک متعصب اور شدت پسند لیڈر نہیں۔ چناں چہ ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں پسند کرنے والے غیر متعصب امریکی بھی تب ان کی جانب متوجہ ہوں گے۔ادھر ڈیموکریٹک پارٹی کی یہی حکمت عملی ہے کہ بذریعہ میڈیا صدر ٹرمپ کو متعصب اور شدت پسند ثابت کیا جائے… اور جوکہ وہ ہیں۔ ان کی عملی پالیسیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں کی یہ بھی پالیسی بن چکی کہ رنگ، نسل اور مذہب سے ماورا ہوکے تمام امریکیوں کو ساتھ مل کر آگے بڑھا جائے۔

مسئلہ یہی ہے کہ کروڑوں امریکی رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت پڑی شدت سے اپنائے ہوئے ہیں اور اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ خاص طور پر سفید فام ہونا ان امریکیوں کے لیے فخر و غرور کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے، جب ڈیموکریٹک صدر، لندن جانسن نے جولائی 1964ء میں سول رائٹس ایکٹ منظور کیا، تو انھوںنے اس موقع پر اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا ’’ہم ایک نسل کے لیے جنوب کو کھوچکے۔ ‘‘

امریکا کی جنوبی ریاستوں میں متعصب سفید فام بکثرت آباد ہیں۔ اسی لیے صدر لندن جانسن نے اشارہ کیا کہ سیاہ فاموں کو شہری حقوق دیئے جانے کے باعث یہ سفید فام ڈیموکریٹک پارٹی سے ناراض ہوجائیں گے اور کم از کم ایک نسل تک الیکشنوں میں پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس کے دوران امریکی جنوبی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت بہت کم ہوچکی۔ گویا متعصب سفید فام امریکی سمجھتے ہیں کہ سیاہ فاموں کو حقوق عطا کرنے پر اس پارٹی سے جرم یا گناہ سرزد ہوگیا لہٰذا وہ معافی کی مستحق نہیں۔ افسوس، نفرت کا جذبہ بھی کیسے کیسے گُل کھلاتا ہے!

امریکی سیاسی تاریخ کا نیا باب

اُدھر پچھلے پچاس برس سے خصوصاً ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں کی سعی رہی ہے کہ امریکی معاشرے میں رنگ، نسل و مذہب کے مسائل و اختلافات بڑھائے جائیں۔ اس پالیسی کے ذریعے وہ سفید فام امریکیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ امریکا میں انہی کی اکثریت ہے۔ اسی لیے ہر صدارتی الیکشن کے موقع پر وہ نسلی و مذہبی اختلافات اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ری پبلکن پارٹی کی یہ قدیم چال ہے کہ وہ سیاہ فاموں کو لڑا کے، جھگڑالو، جاہل اور جرائم پیشہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سیاہ فاموں سے نرم سلوک کرتی ہے۔ اسی لیے جب وہ اقتدار میں آئے، تو سیاہ فام شیر ہوکر قانون شکنی کرنے لگتے ہیں۔ اس الزام کا جواب دینے کی خاطر ہی ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار آکر سخت قوانین بناتی ہے تاکہ حریف جماعت کا یہ پروپیگنڈا دور ہوسکے کہ وہ سیاہ فاموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔یہ بھی مگر سچ ہے کہ کسی ری پبلکن صدارتی امیدوار نے رنگ، نسل اور مذہب کے اختلافات پر کھلم کھلا باتیں نہیں کیں۔ وہ ڈھکے چھپے الفاظ، ذومعنی لہجے اور نجی محفلوں میں ہی ان امور پر گفتگو کرتے رہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ پہلا امریکی رہنما ہے جس نے ان اختلافات کو نہ صرف سرعام بلکہ اشتعال انگیز انداز میں بیان کیا۔ یوں اس نے امریکی سیاسی تاریخ میں نفرت و تعصب پر مبنی ایک نیا باب لکھ ڈالا۔ امریکا کی جدید سیاسی تاریخ میں اس جیسا لیڈر کم ہی نظر آتا ہے۔

آبادی کے اعداد وشمار

اس موقع پر امریکا کی نسلی و مذہبی تاریخ بھی بیان ہوجائے۔ اس براعظم کو ہزارہا سال قبل افریقا سے آئے انسانوں نے آباد کیا۔ جب کولمبس امریکا پہنچا، تو انہی کی اولاد یہاں آباد تھی۔ بعد ازاں برطانیہ نے امریکا کو اپنی نو آبادی بنالیا اور یہاں قیدی و مجرم لابسائے۔ ان انگریزوں نے امریکا کے ہزاروں مقامی باشندے (ریڈ انڈین) مار ڈالے اور یوں زبردستی علاقے پر قبضہ جمالیا۔

رفتہ رفتہ دیگر یورپی ممالک سے بھی لوگ امریکا چلے آئے۔ سترہویں صدی سے وہ افریقی باشندوں کو غلام بناکر امریکا لانے لگے تاکہ ان سے مختلف کام کرواسکیں۔ اسی دوران لاطینی امریکا کے باشندے بھی امریکہ میں آباد ہوئے جنہیں ’’ہسپانوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1700 میں امریکہ میں ڈھائی لاکھ انسان بستے تھے۔ ان میں سے 88.9 فیصد سفید فام اور سیاہ فام 11.1 فیصد تھے۔

1800ء میں امریکا کی آبادی تریپن لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان میں تینتالیس لاکھ (81.1 فیصد) سفید فام تھے اور دس لاکھ (18.9فیصد) سیاہ فام۔ 1860ء کی مردم شماری میں پہلی بار امریکا میں آباد ریڈ انڈینز، ایشیائی اور ہسپانوی لوگوں کی تعداد بھی گنی گئی۔ اس کے مطابق امریکا کی آبادی تین کروڑ چودہ لاکھ تینتالیس ہزار تھی۔ ان میں سے چھبیس لاکھ بانوے ہزار سفید فام، چوالیس لاکھ اکتالیس ہزار سیاہ فام، چوالیس ہزار مقامی باشندے (ریڈ انڈینز، اسکیمو، الیوت) اور تقریباً پینتیس ہزار ایشیائی تھے۔ ہسپانوی باشندے سفید فاموں میں شامل کیے گئے جن کی تعداد ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔

امریکا میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ گویا اگلے سال نئی مردم شماری انجام پائے گی۔ ایک تخمینے کی اور سے امریکا میں فی الوقت تقریباً تیتیس کروڑ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 62.6 فیصد لوگ یورپی سفید فام نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہسپانوی سفید فاموں کی تعداد 15.1 فیصد ہے۔ گویا امریکا میں سفید فاموں کی کل تعداد 77.7 فیصد ہے۔

متعصب ہونے کی وجوہ

درج بالا سفید فاموں میں سے کم از کم آدھے رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر متعصب ہیں۔ ان میں انتہا پسند یا شدت پسند کافی کم ہیں مگر سفید فاموں کا تعصب کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ووٹ کے ذریعے! چناں چہ امریکی لیڈر ان ووٹروں کو رجھانے کی خاطر مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ متفرق وجوہ کی بنا پر سفید فام امریکی بتدریج زیادہ متعصب ہورہے ہیں۔ ان میں نمایاں یہ ہیں۔

٭… سفید فام سمجھتے ہیں کہ خصوصاً ایشیائی مہاجرین ان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔

٭… امریکا میں افرادی قوت بہت مہنگی ہے اور دوسرے ملکوں میں سستی! لہٰذا امریکی صنعت کار دیگر ممالک میں کارخانے لگانے اور کمپنیاں بنانے لگے۔ اس باعث امریکا میں ملازمتیں کم تعداد میں جنم لینے لگیں اور بیروزگاری نے جنم لیا۔

٭… اعلیٰ تعلیم امریکا میں خاصی مہنگی ہے۔ طلبہ و طالبات کو ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں تب تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آسائشوں کی فراوانی نے امریکی سفید فام نوجوان نسل کو سہل پسند بنادیا ہے۔ لہٰذا وہ جان مار کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے، آج امریکا میں آدھے نوجوان لڑکے لڑکیاں کالج یا یونیورسٹی کی ڈگریاں نہیں رکھتے۔ اسی لیے انہیں معمولی نوعیت کی ملازمتیں ملتی ہیں۔ اس خرابی نے امریکی نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا کردی۔

٭…یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ایشیا، لاطینی امریکا اور افریقہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مغربی ممالک ہجرت کررہے ہیں۔ اسی باعث مغربی ملکوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تبدیلی ان ممالک میں نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔مثال کے طور پر اب امریکی و یورپی شہروں کے ہسپتالوں، سکولوں اور سرکاری دفاتر میں رش رہنے لگا ہے۔ ایک معمولی کام کرواتے ہوئے بھی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی امریکی و یورپی سفید فام باشندوں میں مہاجرین کے خلاف نفرت بڑھارہا ہے۔

٭… امریکا اور یورپ میں یہ نظریہ بھی پھیل رہا ہے کہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت مغربی معاشروں میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ مغرب آکر بھی اسلامی روایات و اقتدار کو ترک نہیں کرتے۔ یہ نظریہ بھی کئی سفید فاموں کو متعصب بنارہا ہے۔

عرب ممالک کی تقسیم

یہ واضح رہے کہ خصوصاً امریکا کے یورپی النسل باشندوں میں ایک طبقہ مذہبی طور پر قدامت پسند ہے۔ اس طبقے کو عموماً ’’صیہونی عیسائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طبقے میں شامل لوگ سمجھتے ہیں کہ جب یروشلم میں ہیکل سلیمانی تعمیر ہوگا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے۔ یہ نزول یقینی بنانے کے لیے ہی صیہونی عیسائی اسرائیلی حکومت کی بھر پور مدد کررہے ہیں تاکہ وہ مسجد اقصیٰ اور قبتہ الضحرہ شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرلے۔

امریکی حکمران طبقے میں شامل بہت سے وزیر مشیر اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا داماد تو یہودی ہے۔ یہی وجہ ہے، ٹرمپ نے عالمی رائے عامہ کی پروا نہ کرتے ہوئے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس لانے کا اعلان کردیا۔ حقیقت میں ٹرمپ حکومت اسرائیل کو مضبوط و طاقتور ریاست بنانے کی خاطر ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی یہ بھی کوشش ہے کہ عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک کو تقسیم کردیا جائے۔ چناں چہ وہ ایران و شام اور خلیجی عرب ممالک کے مابین محاذ آرائی اور جنگ کرانے کی سازش کررہے ہیں۔ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑمر کر کمزور ہوجائیں اور یوں کبھی اسرائیلی مملکت کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔

انتہا پسند سفید فاموںکا بڑا مسئلہ

سفید فام سپرمیسی کی جانب پلٹتے ہیں۔درج بالا وجوہ کے علاوہ قوم پرست اور انتہا پسند سفید فاموں کی نظر میں ایک اور مسئلہ سب سے بڑا خطرہ بن چکا۔ چند سال قبل امریکی محکمہ مردم شماری نے انکشاف کیا تھا کہ اگر امریکا میں مہاجرین اسی رفتار سے آتے رہے، تو 2050ء تک وہاں یورپی النسل باشندوں کی تعداد 46.6 فیصد رہ جائے گی۔ گویا امریکا میں غیر یورپی شہریوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

امریکی محکمہ مردم شماری کی اس رپورٹ نے امریکا میں مقیم یورپی النسل سفید فاموں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے (فوج، سیاست دانوں، افسر شاہی، صنعت کاروں) میں انہی یورپی سفید فاموں کی اکثریت ہے۔ یہی لوگ امریکی حکومت کی اچھی بری پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ اسی طبقے کو امریکا میں سب سے زیادہ مراعات بھی حاصل ہیں۔ لیکن یہ طبقہ اگلے تیس برس کے دوران امریکا میں اقلیتی حیثیت اختیار کرگیا، تو یقینا اپنی کئی مراعات اور طاقتوں سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔یہی امکان لاکھوں یورپی النسل امریکیوں سے کابوس (ڈراؤنا خواب) بن کر چمٹ گیا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ امریکی معاشرے میں اپنی حیثیت اور قوت سے محروم ہورہے ہیں۔اسی لیے وہ مہاجرین کے نہایت سخت مخالف بن چکے۔ان کی سعی ہے کہ مہاجرین کی آمد ہرصورت روکی جائے تاکہ امریکا میںیورپی النسل سفد فام امریکیوں کی حاکمیت برقراررہ سکے۔

ماضی میں جب کبھی الیکشن آتے تو عام طور پر امریکی سفید فام معاشی، اور معاشرتی مسائل کی بنیاد پر تقسیم ہوتے تھے۔ لیکن اب مہاجرین کی بڑھتی تعداد اور اسلام کا فروغ خصوصاً یورپی النسل سفید فاموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کررہا ہے۔ فی الوقت یہ ڈونالڈ ٹرمپ کا پلیٹ فارم ہے جو مہاجرین کی آمد روکنا چاہتا ہے اور امریکا میں مسلمانوں کے بڑھتے اثرورسوخ سے بھی خائف ہے۔ انہی سفید فاموں کے ووٹ پاکر ٹرمپ الیکشن 2016ء جیتنے میں کامیاب رہے اور اگلے بھی جیت سکتے ہیں۔

جب پہلا دھچکا لگا

ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ماضی کے امریکا میں یورپی النسل سفید فاموں کی حیثیت و طاقت محفوظ تھی۔ اسی لیے سیاہ فاموں سے نفرت کرنے کے باوجود انہوں نے ان کو شہری حقوق عطا کردیئے۔ اگرچہ امریکی معاشرے سے تعصب ختم نہ ہوسکا۔ سفید فاموں کو پہلا دھچکا 2008ء میں لگا جب سیاہ فام بارک اوباما امریکی صدر بن گئے۔ اس موقع پر پہلی بار یورپی النسل سفید فاموں کو احساس ہوا کہ امریکی معاشرے میں ان کی طاقت کو خطرات لاحق ہوچکے۔

امریکہ میں قدامت پسند میڈیا خصوصاً فوکس نیوز ان خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے لگا۔ ٹی وی اینکر چلانے لگے کہ امریکا میں سفید فام بچے کم پیدا ہورہے ہیں۔ کالم نگار دہائی دینے لگے ہیں کہ ’’سفید فام حاکمیت‘‘ ختم ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ 2012ء سے خصوصاً سوشل میڈیا میں یہ خبریں پھیلنے لگیں کہ سفید فام ’’نسل کشی‘‘ (Genocide) کا آغاز ہوچکا۔ انہی خبروں کے باعث برینٹن ٹرینٹ جیسے سفید فام نوجوانوں میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جذبہ نفرت اتنی شدت اختیار کرچکا کہ وہ معصوم بچوں کو مارتے ہوئے بھی اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔

اسی دوران بڑھتی مہنگائی، معاشی زوال، بیروزگاری، ملازمت جانے اور مراعات کھونے کے خوف نے لاکھوں سفید فام امریکیوں کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ کم ہی پاکستانی یہ سچائی جانتے ہیں کہ امریکہ و یورپ میں روزانہ کئی سفید فام نفسیاتی امراض یا نشے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔

سیاسی میدان میں یہ انقلاب آیا کہ یورپی النسل سفید فاموں کی اکثریت قدامت پسند ری پبلکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر آگئی۔ 2007ء میں ان سفید فاموں کا ’’44 فیصد‘‘ حصہ ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ چوالیس فیصد ہی ری پبلکن پارٹی کا حمایتی تھا۔ لیکن اب تقریباً ’’60 فیصد‘‘ یہ سفید فام ری پبلکن پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

ری پبلکن پارٹی کی حمایت میں اسی لیے بھی اضافہ ہوا کہ 2008ء تا 2016ء اوباما حکومت نے غیر قانونی مہاجرین کے معاملے میں نرمی برتی۔ انہیں یہ سہولت دی گئی کہ وہ کسی طرح امریکی شہریت حاصل کرلیں۔ اسی طرح پولیس کو ہدایت دی گئیں کہ سیاہ فاموں پر بے جا سختی نہ کریں۔ یورپی النسل سفید فاموں نے مگر ان اقدامات کو بہ نظر تحسین نہیں دیکھا اور انہیں محسوس ہوا کہ سیاہ فام حکومت ان کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

امریکی پارٹیوں کے مابین مقابلہ

غرض پچھلے پندرہ برس میں مختلف وجوہ کی بنا پر ’’سفید فام سپرمیسی‘‘ اب امریکی معاشرے میں پوشیدہ نہیں رہی بلکہ عام زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس یلغار سے سیاست بھی نہیں بچ سکی۔ مثال کے طور پر پر حالیہ وسط مدتی انتخابات میں یورپی النسل سفید فاموں نے صرف ان امیدواروں کو ووٹ دیئے جو مہاجرین کی آمد کے خلاف تھے۔ ایسے کئی امیدوار جیتنے میں کامیاب رہے۔

تاہم ڈیموکریٹک پارٹی بھی سفید فام سپرمیسی کی علم بردار بن جانے والی ری پبلکن پارٹی کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، اس پارٹی میں سیکولر، اعتدال پسند یا لیفٹسٹ یورپی النسل سفید فام بھی نمایاں تعداد میں ہیں۔ اب یہ پارٹی غیر سفید فاموں کی بھی نمائندہ جماعت بن چکی۔ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے حالیہ الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ’’180‘‘ خواتین کو امیدوار بناکر نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ ان میں سے 133 خواتین غیر یورپی النسل سفید فام، سیاہ فام یا مہاجر تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ ٹکٹ دیئے۔ڈیموکریٹک پارٹی نے معیشت، تعلیم اور صحت کے روایتی موضوعات پر الیکشن مہم چلائی۔ ری پبلکن پارٹی اسی خوف کو بڑھاوا دیتی رہی کہ مہاجرین کے ’’قافلے‘‘ امریکا کا رخ کررہے ہیں تاہم یہ خوف امریکیوں کے سروں پر سوار نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے، ری پبلکن پارٹی ایوان نمائندگان کی چالیس نشستیں ہار گئی اور امریکی قومی اسمبلی میں اس کی برتری اختتام کو پہنچی۔

اسلامی ممالک خطرے میں

ڈیموکریٹک پارٹی کی اس جیت سے عیاں ہے کہ امریکا میں سفید فام سپرمیسی کا جن ابھی تک پوری طرح بیدار نہیں ہوا۔ لیکن ری پبلکن پارٹی خصوصاً صدر ڈونالڈ ٹرمپ اب سفید فام سپرمیسی کا ڈھول پیٹ کر جیتنے کی بہترین حکمت عملی قرار دے چکے۔ لہٰذا آنے والے وقت میں ٹرمپ اپنی باتوں اور عمل میں مزید متعصب ہوسکتے ہیں تاکہ سفید فام امریکیوں کو اپنے جال میں پھانس سکیں اور الیکشن 2020ء میں فتح حاصل کرلیں۔

یہ عیاں ہے کہ اپنے مفادات کی تکمیل اور اقتدار پانے کے لیے تعصب و نفرت کے جذبات کو بڑھاوا دینے سے ٹرمپ مع اپنی ٹیم امریکا ہی نہیں دنیا کا امن خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سفید فام سپرمیسی کا جن رفتہ رفتہ امریکی و مغربی معاشروں میں چھاتا جارہا ہے اور یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی کے زیر اثر ایک آسٹریلوی انتہا پسند نے کرائسٹ چرچ میں کئی مسلمان شہید کر ڈالے۔ اگر سفید فام سپرمیسی سے وابستہ نفرت و تعصب کو مزید بڑھاوا ملا تو ممکن ہے، مستقبل میں اسلامی ممالک مثلاً ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان، دبئی وغیرہ میں مقیم اپنی انتہا پسندی کو پوشیدہ رکھنے والا کوئی سفید فام اچانک مسلمانوں پر کرائسٹ چرچ جیسا خوفناک حملہ کردے۔ ٹرمپ جیسے قوم پرست اور شدت پسند مغربی لیڈروں کی پالیسیاں فی الحال اس تصّوراتی امکان کو آگے چل حقیقت کا روپ دے سکتی ہیں۔ضروری ہے کہ ان پالیسیوں کا ابھی قلع قمع کر دیا جائے۔

The post تینتیس کروڑ باشندوں کے دیس امریکا میں نظریاتی جنگ کون جیتے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

خالصہ جنم دن، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر

$
0
0

حسن ابدال میں واقع گوردوارہ پنجہ صاحب کوخوبصورت روشنیوں سے سجا دیا گیا ہے، مختلف حصوں میں رنگ و روغن بھی مکمل ہو چکا ہے، مہمانوں کے لئے مختص 400 کمروں کی صفائی، ستھرائی بھی مکمل ہو گئی ہے۔

مختلف مقامات پر خوبصورت پھولوں کی کیاریاں سجائی گئی ہیں ۔ یہ سب انتظامات خالصہ جنم دن اور بیساکھی میلہ منانے کے لئے کئے گیے ہیں ۔ متروکہ وقف املاک بورڈکے ڈپٹی سیکرٹری شرائنزعمران گوندل ان تمام انتطامات کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ انہیں اس حوالے سے فوکل پرسن بھی مقررکیا گیا ہے۔

ڈپٹی سیکرٹری عمران گوندل نے بتایا کہ 321 ویں خالصہ جنم دن کی مرکزی تقریب 14 اپریل کو گوردوارہ حسن ابدال پنجہ صاحب میں منعقد ہو گی، اس کے شیڈول کی منظوری وفاقی حکومت نے دی ہے جس کے تحت 12 اپریل کو بھارت سے دوہزار سے زائد سکھ یاتری پاکستان پہنچیں گے۔ 14 اپریل کو بھوگ اکھنڈ پاٹھ صاحب کی مرکزی تقریب ہوگی ۔

بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ یاتری 14اپریل کو ہی بیساکھی کی خوشیاں بھی منائیں گے، 15اپریل کو سکھ یاتری گوردوارہ جنم استھان روانہ ہو ں گے، 17 اپریل کو گوردوارہ سچا سودا فاروق آباد کا دورہ کریں گے ۔ 18 اپریل کو یاتری خصوصی ٹرین کے ذریعے گوردوارہ شری ڈیرہ صاحب لاہور پہنچیں گے، 19 اپریل کو سکھ یاتری گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور، نارووال کے علاوہ گوردوارہ روہڑی صاحب ایمن آباد، ضلع گوجرانوالہ کی یاترا کے لئے جائیں گے۔ بھارتی سکھ یاتری 20 اپریل کو لاہور کی سیر کریں گے اور 21 اپریل کو بھارت واپس چلے جائیں گے ۔ بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتری دربارصاحب کرتارپور حاضری کے موقع پر یہاں کرتار پور راہداری کے تعمیراتی منصوبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔

خالصہ جنم دن سکھوں کے لئے بڑا اہم ہے، اس دن سے ان کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے ، 1699ء میں خالصہ پنتھ کی بنیاد رکھی گئی ، سکھ روایات کے مطابق 1699ء میں سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ نے بیساکھی کے موقع پر سنگھ سنگتوں کو آنند پور صاحب میں جمع کیا اور انہیں ایک نئی پہچان دی ۔ گورو گوبند سنگھ نے مجمعے سے مخاطب ہوکر کہا تھا، ہے کوئی جو خالصہ پنتھ کیلیے قربانی دے ؟ گورو کا حکم سن کر ایک جوان کھڑا ہوا ، گورو جی اسے ایک خیمے میں لے گئے جب واپس آئے تو ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔ گورو جی پھر بولے، کوئی اور ہے جو خالصہ پنتھ کیلیے قربانی دے ۔ ایک اور شخص آگے بڑھا ، گورو گوبند اسے بھی خیمے میں لے گئے اور جب واپس لوٹے تو پھر تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔ اسی طرح گورو گوبند جی نے پانچ افراد کو اندر بلایا اور جب یہ پانچوں لوگ خیمے سے باہر نکلے تو ان کا روپ بدل چکا تھا ۔ ان لوگوں کو گورو کے پانچ پیارے کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی تقریبات میں آج بھی کئی سکھ ان پانچ پیاروں کا روپ دھارتے ہیں اور انہیں بہت عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔

گورو گوبند سنگھ نے سکھوں کیلئے پانچ چیزیں لازمی قراردیں، کچھا، کڑا، کیس یعنی بال، کنگھی اور کرپان ۔یہ پانچ چیزیں سکھ مذہب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، مذہبی تعلیمات کو سیکھنے یا سکھانے کیلئے انھیں ضرور اختیار کیا جاتا ہے۔ سکھ مذہب کے ماننے والے مردوں کو سکھ یعنی شیر اور عورتوں کو شیرنی کا لقب دیا گیا ، جس کا مقصد سکھ برادری میں جرات اور بہادری کے جذبات پیدا کرنا ہے۔ یہ دن سکھوں کیلئے خالصہ کا جنم دن کہلاتا ہے، اس طرح بیساکھی کا ثقافتی تہوار خالصہ جنم دن میں گم ہوکر رہ گیا۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سابق سربراہ سردار بشن سنگھ بھی حسن ابدال میں مہمانوں کی رہائش گاہ کی صفائی ستھرائی کے معاملات کودیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا اب تو بیساکھی کی خوشیاں وقت کی گرم سرد ہواؤں میں گم ہوکر رہ گئی ہیں ۔ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہو چکا ہے، مشرقی پنجاب کے لوگ گندم کی کٹائی کے اس سیزن میں بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں ۔

قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار اپنی پوری آب و تاب اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا تھا ۔ گندم کی کٹائی کے موقع پر پنجاب کے گھبرو جوان ڈھول کی تھاپ پر کٹائی شروع کرتے، الہڑ مٹیاریں بھی سج دھج کر بیساکھی کے گیت گاتیں یوں پورے پنجاب میں پیار محبت کی فضا قائم ہو جاتی ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کرتا، اس دوران مختلف قسم کے مقابلے بھی ہوتے۔ مگر گزرتا وقت جیسے سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے ان روایتوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے اور اب ان کا صرف نام ہی باقی ہے جس کا نئی نسل کا پتہ نہیں ہم کو بہت افسوس ہے۔ بیساکھی دراصل ایک ثقافتی تہوار ہے جسے سکھوں کے مذہبی تہوار سے منسوب کردیا گیا ہے، پاکستان میں بسنے والے سکھ بیساکھی کے دن خالصہ جنم مناتے ہیں۔اس دن گوردواروں میں دن بھر بھجن کیرتن اور سکھوں کے مذہبی گیت ’’گروبانی‘‘ گائے جاتے ہیں، جبکہ لنگر کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں ’’ گرنتھ صاحب‘‘ کے پاٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں ۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے ان کے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترا پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔

تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ سکھ یاتری گورونانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔ گوردوارے کے اندر پرشاد پکائے جاتے ہیں ۔ سکھ رہنما سردارگوپال سنگھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ ایک زمانہ تھا جب بیساکھ کا مہینہ آتا تھا تو پورے علاقے میں لوگ خوشیاں مناتے تھے، ڈھول کی تھاپ پر لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے تھے اور ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا تھا، لیکن اب تو لگتا ہے وہ سب ایک خواب تھا ، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ایک زرعی معاشرہ ہے اور اس کی اقدار، رسم و رواج اور تہوار، سب زراعت سے جڑے ہیں ، جیسے گندم کی بوائی کے بعد پنجاب کے لوگ لوڑی کا تہوار مناتے تھے اور کٹائی کے وقت بیساکھی کا ۔ ان تہواروں میں پنجاب کے لوگوں کی اپنی دھرتی سے محبت اور زراعت سے جڑی خوشیاں اور جذبات صاف نظر آتے تھے، لیکن اب زراعت بھی وہ نہیں رہی اور وہ تہوار بھی ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور آنے والی نئی نسل اپنی پنجابی روایات اور تہواروں کو بھولتی جا رہی ہے۔

بھارت سے آئے ہوئے اکثر سکھ یاتری یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جو تصویر بھارت میں دکھائی جاتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں مکمل آزادی ہے اور یہاں کے مقامی افراد انہیں مہمان کا درجہ دیتے ہوئے ان کی آؤ بھگت کرتے ہیں، انھیں مذہبی مقامات کے علاوہ بھی گھومنے پھرنے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً بابری مسجد کو جس انداز میں شہید کیا گیا اور اب گائے کو ذبح کئے جانے کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، حتیٰ کہ بھارت کی مسلمانوں کے علاوہ بھی اقلیتیں بڑی کسمپرسی کا شکار ہیں ، معمولی بات پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ بھارت دنیا دنیا کی سب سے بڑی جہوریت ہونے کا دعویدار ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کو لے لیں جہاں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے، خالصہ جنم دن کا تہوار اسی مذہبی آزادی کا مظہر ہے۔

The post خالصہ جنم دن، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر appeared first on ایکسپریس اردو.


آسمانوں پر بنا جوڑا

$
0
0

مصر کے ایک معمر صاحب اور بزرگ خاتون پینسٹھ سال ایک دوسرے سے محبت کرنے کے بعد آخرکار شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ ہیں 85 سالہ حسین قدری اور 81 سالہ عصمت صادق۔

حُسین اور عصمت ایک دوسرے کے خالہ زاد ہیں، حسین کے مطابق انہیں عصمت سے محبت 4 سال کی عمر میں ہوئی، جب وہ شیر خوار تھیں، اور ان کی خالہ نے عصمت کو ان کی گود میں رکھ کر کہا میں کھانا بنالوں جب تک تم اسے اپنی گود میں رکھو، لیکن اسے کھلونا مت سمجھنا۔ حسین کا کہنا ہے کہ اسی وقت سے میں نے تہیہ کرلیا کہ اب آخری دم تک عصمت کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کی کوشش کروں گا۔ پھر یہ یک طرفہ محبت دوطرفہ ہوئی اور 1952 میں دونوں کی منگنی بھی ہوگئی۔

تاہم منگنی کے چند ماہ بعد عصمت کے والد نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے ان کی شادی اپنے بھتیجے سے کردی، اور وہاں سے دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ اس دوران دونوں کی ایک سے زائد بار شادیاں بھی ہوئیں، مگر دونوں ایک دوسرے کی محبت ہی میں گرفتار رہے، بالآخر 65 سال کے طویل انتظار کے بعد اس محبت نے شادی کی منزل پالی۔

ہم تو کہیں گے کہ ان دونوں بزرگوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا، کچھ دن اور انتظار کرلیتے تو ان کا جوڑا آسمانوں پر بن جاتا۔ ویسے جوڑے آسمانوں پر بننے والی کہاوت کا یقین بعض جوڑوں کو دیکھ کر آجاتا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ یہ آسمانوں پر بنے ہی نہیں بنے بھی آسمانوں کے لیے تھے، اس لیے زمین پر فِٹ نہیں بیٹھ رہے۔ یہ کہاوت حسین صاحب اور عصمت صاحبہ جیسے جوڑوں ہی کے لیے وضع کی گئی ہے، جن کی شادی لاکھ مشکلات کے باوجود ہوکے رہتی ہے۔

ہم حیران ہیں کہ اس جوڑے نے پینسٹھ سال محبت کی اور پھر شادی کرلی۔ ممکن ہے انھوں نے سوچا ہو کہ جتنی محبت کرنا ہے شادی سے پہلے کرلو، شادی کے بعد تو پیار ’’پی آر‘‘ بن کے رہ جاتا ہے۔ اور آخری عمر میں شادی کرنے مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو الزام اور طعنے دینے کے بہ جائے باقی کا وقت دوائیں دینے میں گزر جائے۔

اس ’’ڈیجیٹل عہد‘‘ کے نوجوان حیرت زدہ ہوں گے کہ کوئی جوڑا پینسٹھ سال تک محبت کر سکتا ہے؟ ان کا تعجب بجا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس زمانے میں مذکورہ جوڑے نے محبت کی اُس وقت ڈھنگ سے اظہار کرنے میں بھی کئی کئی سال لگ جاتے تھے، اب خط میں آدمی کتنا دل کا حال لکھے گا! اور رہا ٹیلی فون، تو پتا نہیں ہوتا تھا کہ دوسری طرف سے محبوبہ کی سُریلی آواز آئے گی یا اس کا باپ ہیلو کہہ کر دل ہلادے گا۔ ملنا تو بس اتنا ہی ہوتا تھا جتنی غریب کو خوشی ملتی ہے۔ محبوب کو ایک بار دیکھ کر ہی عاشق عمر بھر ’’وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے‘‘ کا ورد کرتا رہتا تھا۔ واضح کردیں کہ یہاں ’’کوٹھے‘‘ سے مُراد چھت ہے، جو کوٹھا آپ سمجھے وہاں تو آدمی دل ٹوٹنے کے بعد جاتا اور پوری طرح لُٹ جانے اور پیسے ختم ہونے پر ہاتھ پیر تُڑوا کر ہی نکلتا ہے۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔ موبائل کے پیکیجز کی وجہ سے اظہارمحبت کا سارا ذخیرہ چند راتوں میں ختم ہوجاتا ہے، محبت ڈیٹ پر لیٹ ہوجانے پر ہی انجام کو پہنچ جاتی ہے، ملاقاتیں اتنی ہوتی ہیں کہ پہلے۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِملاقات چاہیے ۔۔۔ہوتی ہے، پھر کسی تقریب کا بہانہ کرکے ملاقات منسوخ کردی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے ایک نوجوان کو اس بزرگ جوڑے کی داستان محبت سُنائی تو وہ حیران پریشان ہوکر بولا،’’ارے۔۔۔پینسٹھ سال تک ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے!۔۔۔ دونوں کا فیس بُک اکاؤنٹ نہیں تھا کیا؟‘‘

The post آسمانوں پر بنا جوڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ہوم ورک‘‘ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

$
0
0

برطانوی ویب سائٹ ڈیلی میل آن لائن کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ میں والدین یہ سمجھنے کے لیے کہ ان کا بچہ کیا پڑھ رہا ہے، خود پرائیویٹ ٹیوٹرز سے ٹیوشن پڑھ رہے ہیں۔

یہ برطانوی والدین ہی کا مسئلہ نہیں پاکستانی ماں باپ اسی مسئلے سو دوچار ہیں۔ دراصل بچوں کو اسکول سے جو ہوم ورک ملتا ہے اُس میں غرق ہوکر بھی والدین اُسے نہیں سمجھ پاتے، والدین تو والدین ’’سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی‘‘ لگتا ہے اسکول والے چاہتے بھی یہی ہیں کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘، نصاب جتنا مشکل ہوگا، اتنا ہی اسکولوں کے کوچنگ سینٹروں کا کاروبار چلانا آسان ہوگا۔

صورت حال یہ ہے کہ ہمارا عزم ہے ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ لیکن درحقیقت اپنے بچوں کو پڑھانا بھی مصیبت بن گیا ہے۔ اب تو جب بچے والدین کے سامنے ہوم ورک رکھتے ہیں تو وہ انھیں دشمن ہی کے بچے لگنے لگتے ہیں۔ ایسے میں دشمن کے بچوں کو پڑھانا احسان نہیں انتقام اور انتظام بن گیا ہے۔

انتظام اس طرح کہ ایک بار دشمن کے بچوں کو پڑھائی پر لگا دو، پھر وہ دشمنی، دہشت گردی اور مارا ماری بھول بھال کر اسکول کی فیسیں دینے، اسکولوں میں مختلف دن منانے کے اخراجات ادا کرنے اور بچوں کو ہوم ورک کرانے کی فکروں میں یوں ڈوبے گا کہ کبھی اُبھر نہ پائے گا۔ پھر دشمن کو سلیم کوثر کا یہ شعر ذرا سی ترمیم کے ساتھ سنا دیا جائے:

ہم نے تو ’’تم‘‘ سے انتقام لیا

تم نے کیا سوچ کر ’’پڑھائی‘‘ کی

اگر ہمارے ہاں بچوں کا ہوم ورک سمجھنے اور انھیں پڑھانے کے لیے والدین کے ٹیوشن پڑھنے کا چلن شروع ہوگیا تو کوچنگ سینٹروں کو ایک نئی ’’مارکیٹ‘‘ مل جائے گی، جسے پُرانے سامان کی مارکیٹ کہا جاسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہوگا، بلکہ کوچنگ سینٹر ٹیوٹروں کے لیے والدین کو پڑھانے کے گُر سکھانے کے طریقوں پر مبنی کورس متعارف کرائیں گے۔

پھر ہوگا یہ کہ پہلے ٹیوٹر والدین کو پڑھانے کے طریقے سیکھیں گے، پھر والدین ان سے پڑھیں گے، پھر وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں گے۔ یوں ہر گھر میں صبح شام پڑھائی ہورہی ہوگی۔ ان گھروں میں میاں بیوی کی گفتگو بھی ’’سبق یاد کرلیا؟‘‘،’’مشق کرلی؟‘‘،’’ذرا میرا سبق تو سُن لیں‘‘،’’میری کاپی کہاں ہے؟‘‘ ،’’کتاب چھوڑیے مجھے بھی یاد کرنا ہے‘‘ جیسے جملوں تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ جس طرح بعض لوگ بُرائی میں پڑ جاتے ہیں اسی طرح والدین پڑھائی میں پڑ جائیں گے۔

اتنی پڑھائی کا اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ اپنے ’’پپو‘‘ کے نمبر اُس کی پھپھو کے بیٹے، ماموں کی بیٹی، خالہ کے لڑکے، چچا کی لڑکی سے زیادہ آگئے تو کاپی کتابوں پر مسلسل جھکا ہوا والدین کا سَر فخر سے بلند ہوجائے گا۔

The post ’’ہوم ورک‘‘ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھ پولیس کی نئی وردی، جیبوں کی تعداد بڑھادیں

$
0
0

سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کلیم امام کی تجویز پر حکومت سندھ نے پولیس کی نئی وردی متعارف کرانے کی منظوری دے دی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجود سے بے زار کرے

کلیم امام صاحب نے سندھ پولیس کے پُرانے یونیفارم سے بے زاری کا اظہار کرکے اپنے نام ’’امام‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’امامت‘‘ میں امامِ برحق کے جو دیگر فرائض وافعال بتائے ہیں اگر کلیم صاحب نے ان سب پر عمل شروع کردیا تو خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو ’’خواجگی‘‘ برداشت نہ کرنے والے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ یا پنجاب پولیس کی اصلاح کے لیے لائے جانے والے ناصردُرانی کے ساتھ کیا گیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ جو ہوا وہ سمجھ میں آتا ہے، مگر ناصر دُرانی تو اپنے ’’حامیوں وناصروں‘‘ کے ہاتھوں ان کے دوران اقتدار ستائے گئے۔

بہ ہر حال، ہم بات کر رہے تھے علامہ اقبال کی بیان کردہ امامِ برحق کی نشانیوں پر، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’’زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے‘‘۔۔۔اب یہ آئی جی صاحب پر ہے کہ وہ حکم رانوں کی زندگی دشوار کرتے ہیں، پولیس اہل کاروں کی یا عوام کی، آخرالذکر کی زندگی پہلے ہی اتنی دشوار ہے کہ انھیں کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ اقبال کے ’’امام‘‘ کا ایک فریضہ یہ ہے کہ ’’فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے‘‘، اب جن پولیس والوں کو زر کی سان اور سر پر چڑھا کر ’’راؤانوار‘‘ کردیا جائے انھیں فقر کی طرف لاکر تلوار کرنا کس کے بس کی بات ہے؟ ہاں، انھیں ’’کسی‘‘ کا تیر ضرور کیا جاسکتا ہے۔

علامہ اُس امام کی امامت کو فتنہ قرار دیتے ہیں ’’جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے۔‘‘ لیکن آئی جی کی مجبوری ہے کہ وہ کسی کو سلاطین کا پرستار کرے یا نہ کرے اُسے پولیس والوں کو ’’سلاطین‘‘ کی وی وی آئی پی موومنٹ کے لیے اور ان کے نجی گارڈ کے طور پر بروئے کار لانا پڑتا ہے۔

ہم ہرگز اصرار نہیں کریں گے کہ کلیم امام صاحب بے زار ہونے کی طرح علامہ اقبال کی عاید کردہ تمام شرائط پوری کریں۔ اور بے زاری بھی یونیفارم تک ٹھیک ہے، اگر وہ حاضروموجود سے بے زار ہوگئے تو آج انھیں آئی جی کہا جاتا ہے، کل ان سے بے زار ہوکر انھیں ’’جائیے جی‘‘ کہہ دیا جائے گا۔

اب جہاں تک تعلق ہے پولیس کی وردی کا تو اس کے نئے رنگوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم شہری کالی قمیص اور خاکی پینٹ والی وردی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ رنگ بدل لینے والی پولیس کو کافی دنوں تک پہچاننے میں دشواری ہوگی۔ ملزمان بھی پکڑے جانے پر حیرت سے پوچھیں گے ’’تو وہی ہے یا کوئی اور ہے؟‘‘

جن پولیس اہل کاروں کے لیے یونیفارم سفید قمیص اور نیلی پینٹ مقرر کی گئی ہے، ان کی بیویوں کا کام بڑھ جائے گا، اب انھیں شوہر کی قمیص کی ’’بھی‘‘ دُھلائی روز کرنی پڑے گی۔ ویسے دل کی بات کہیں تو کالی پیلی وردی کا اپنا ہی ایک رعب ہے، رومانی نیلے اور امن کی علامت سفید رنگ میں وہ بات کہاں، لیکن خیر اس وردی میں داخل ہوتے ہی ہمارے پولیس والے ان رنگوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیں گے۔ پھر نیلا رنگ دیکھتے ہی شریف شہریوں کے چہروں پر موت کی نیلاہٹ آجایا کرے گی اور سفید رنگ دیکھ کر ہر شخص جان کی امان چاہے گا۔

ہماری بس ایک تجویز ہے۔ پولیس کی وردی جو بھی ہو اس میں پندرہ بیس جیبوں کا اضافہ کردیا جائے، یوں شہریوں کا وہ وقت بچے کا جو پولیس والوں کی بھری ہوئی جیب میں گنجائش بنانے کی کوششوں کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے۔

The post سندھ پولیس کی نئی وردی، جیبوں کی تعداد بڑھادیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹیلی پیتھی اور ’’ٹیڑھی پیتھی‘‘

$
0
0

برطانیہ کے لیے ’’بریگزٹ‘‘ یعنی یورپی یونین سے علیحدگی کا معاملہ دردِسر بن کے رہ گیا ہے۔ اب یہ ہندوستان سے نکلنے کا معاملہ تو ہے نہیں کہ ’’فرنگی بھائی کس کے، کھایا پیا کھسکے۔‘‘

برصغیر میں تو ویسے بھی انگریز بہ طور آقا آئے تھے، اور یوں آزاد کرکے گئے کہ اس خطے کے لوگ اب تک ان کے ذہنی غلام ہیں۔ لیکن یورپی یونین سے کھسکنا اتنا آسان نہیں۔ یہ معاملہ پوری گمبھیرتا کے ساتھ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔

اسرائیلی جادوگر اور شعبدہ باز یوری گیلر نے برطانیہ کو اس مشکل سے نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ موصوف جو ٹیلی پیتھی کے ماہر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ وہ برطانوی وزیراعظم سے متاثر ہیں اور برطانیہ کے عوام سے محبت کرتے ہیں۔ وہ یورپی یونین سے علیحدگی کو برطانیہ کے لیے مضر خیال کرتے ہیں، سو پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ بنے تھریسا مے سے فرماتے ہیں،’’چوں کہ میں آپ سے متاثر ہوں، اس لیے میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے آپ کو ایسا کرنے (یورپی یونین سے علیحدگی) سے روک دوں گا۔ آپ یقین کریں میں اس پر عمل کرنے کے قابل ہوں۔‘‘

یوری گیلر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سی آئی اے، برطانوی خفیہ ایجنسی ایم I5 اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ان کی ’’طاقت‘‘ جانچ چکی ہیں۔

برطانیہ کے ممکنہ نقصان پر کسی اسرائیلی کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنا سمجھ میں آتا ہے۔ آخر اسرائیل برطانیہ ہی کی ایجاد ہے، اور یوری صاحب کے جذبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی سعادت مند اولاد ہے۔

یوری گیلر کے دعوے اور ارادے کے بارے میں جان کر ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی ٹیلی پیتھی کے ذریعے حکم رانوں سے مطلوبہ فیصلے کروائے جا سکتے ہیں؟ بات تو سچ لگتی ہے۔ بعض حکم رانوں کے اقوال وافعال صاف بتاتے ہیں کہ ٹیلی پیتھی کی طرح کسی ’’ٹیڑھی پیتھی‘‘ کے زیراثر ہیں۔ صرف ٹیلی پیتھی ہی نہیں، اور بھی روحانی علوم ہیں جن کے بس میں آکر بندہ سارے ’’عمرانی علوم‘‘ بھول بھال کر بس ’’پیرانی علوم‘‘ کا ہوکے رہ جاتا ہے۔ عام طور پر جس پر ’’اثر‘‘ ہو وہ پہچانا جاتا ہے، لیکن حکم رانوں کا پتا نہیں چلتا۔ البتہ طرزحکم رانی بتادیتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے، چناں چہ منیرنیازی نے کہا تھا:

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

دراصل یہ آسیب ملک پر نہیں ملک چلانے والوں پر ہوتا ہے، اور جو حرکت تیز تر ہوتی ہے وہ زبان کی ہوتی ہے۔

ہمارے ایک حکم راں یحییٰ خان پر تو یہ اثرات صاف نظر آتے تھے۔ وہ روحانی نہیں ’’رانی علوم‘‘ اور ’’نورجہانی علوم‘‘ کے زیراثر تھے۔ مشہورزمانہ جنرل رانی اور ایک گلوکارہ کی ’’ڈیلی پیتھی‘‘ نے انھیں یوں مسحور کر رکھا تھا کہ وہ ناک نقشے میں کھوئے رہے اور ملک کا نقشہ بدل گیا۔ ان پر دوسرا اثر ’’کڑوے پانی‘‘ کا تھا، جس کے اثرات نے پوری قوم کو شرم سے پانی پانی کردیا۔

یونی گیلر صاحب نے تو تھریسا مے کو اپنا ہنر آزمانے کی دھمکی دی ہے، لیکن ہمارے ملک کے جادوگر اور شعبدے باز اپنی ’’ٹیڑھی پیتھی‘‘ کا فن آزما رہے اور کام یاب جارہے ہیں۔ یوری گیلر اور ہمارے شعبدہ بازوں میں ایک اور قدرمشترک ہے لیکن فرق کے ساتھ۔ جادو کے زور سے چمچا ٹیڑھا کردینا یوری گیلر کا مشہورومقبول شعبدہ ہے، جب کہ ہمارے شعبدہ باز اس سے بھی کہیں آگے جاکر خود چمچے بن جاتے ہیں، جو خود کو اتنا ٹیڑھا کرسکتے ہیں کہ جو گھی ٹیڑھی انگلی سے بھی نہ نکلے نکال کر پیش کردیں۔

The post ٹیلی پیتھی اور ’’ٹیڑھی پیتھی‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں لوک سبھا چناؤ 2019

$
0
0

بھارت میں عام انتخابات کا آغاز چند روز بعد ہورہا ہے۔ یہ لوک سبھا کا سترھواں انتخاب ہوگا۔

سات حصوں میں ہونے والے اس انتخاب کی ابتدا گیارہ اپریل 2019ء سے ہوگی، جب 91 نشستوں کے لیے ملک کے بیس حصوں میں انتخاب ہوگا جن میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، اُترکھنڈ، مغربی بنگال، اُترپردیش اور انڈمان شامل ہیں۔ انتخابات کا آخری مرحلہ 19 مئی کو ہوگا، جب آٹھ علاقوں جن میں ہماچل پردیش، جھاڑ کھنڈ، مدھیہ پردیش، پنجاب اور چندی گڑھ شامل ہیں، انسٹھ نشستوں پر مقابلہ ہوگا۔

اس کے بعد 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور اْسی شام یا رات تک نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ 543 نشستوں پر ہونے والے اس انتخابات میں سادہ اکثریت یعنی کم سے کم 272 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت اقتدار میں آکر حکومت بنانے کی اہل ہوگی۔ اس انتخاب میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اور آزاد حیثیت میں کل ملاکر 8251 امیدوار میدان میں اتریں گے۔ بھارت میں اس وقت سات سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو بڑے عوامی اثرورسوخ کی حامل نظر آتی ہیں اور قومی سطح پر اپنے سیاسی وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ ان میں انڈین نیشنل کانگریس (INC) سب سے پرانی جماعت ہے۔ یہ 1885ء میں قائم ہوئی تھی۔

اس وقت اندراگاندھی کے پوتے اور راجیو گاندھی کے بیٹے راہول گاندھی اس کے سربراہ ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI) دوسری سب سے پرانی جماعت ہے۔ یہ 1925ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے سربراہ سوراورم سدھاکار ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) 1964ء میں قائم کی گئی۔ اس وقت اس کے سربراہ سیتارام یچوری ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی 1980ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ امیت شا ہیں، لیکن سب سے نمایاں اور مرکزی شخصیت نریندر مودی ہیں۔ ان کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی (BSP)، آل انڈیا ترنمول کانگریس (AITC) اور نیشنل کانگریس پارٹی (NCP) بھی مرکزی قومی سطح کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اکیاون سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو علاقائی یا ریاستی سطح پر فعال ہیں اور اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کے علاوہ چھپن سیاسی جماعتیں اور بھی ہیں جنھوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا میں اپنی رجسٹریشن تو بے شک کروائی ہوئی ہے، لیکن عوامی حلقوں میں ان کا اثرورسوخ کچھ زیادہ نہیں ہے۔

ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کی گذشتہ چار پانچ دہائیوں کو سامنے رکھا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہی وہ دو سیاسی جماعتیں ہیں جو ملک کی اقتداری راہ داری میں نمایاں رہی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس اس وقت قائم ہوئی تھی جب ہندوستان پر برطانوی راج تھا اور تاجِ برطانیہ کا جھنڈا اقتدار کی چھت اور دالانوں میں لہراتا تھا۔ جب کہ بی جے پی اْس کے لگ بھگ سو سال بعد سیاسی میدان میں اْتری تھی۔ دونوں جماعتیں یوں تو جمہوری اقتدار کی علم برداری اور کثیر لسانی، ثقافتی اور مذہبی اقدار و رجحانات کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن دونوں ملک کی ہندو اکثریت کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی دیکھی گئی ہیں۔ گذشتہ دو عشروں میں خاص طور سے ہندوستانی سیاست نے جو رخ اختیار کیا ہے۔

اس کے بعد اب ملک کے عوام کانگریس کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کے یہاں اقلیتوں کے لیے گنجائش تھوڑی زیادہ پھر بھی نظر آتی ہے، جب کہ بی جے پی میں ہندو انتہاپسند رجحان قدرے نمایاں ہے اور پارٹی کا یہ عنصر شروع ہی سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا ہے۔ تاہم اس میں جب تک واجپائی جیسے سیاسی راہ نما رہے، یہ عنصر کسی نہ کسی طرح بہرحال ایک حد میں رہا اور اسے جمہوری قدروں کا پابند بنانے کی کوشش بھی کسی طور کام یاب رہی، لیکن بی جے پی کے حالیہ مرکزی راہ نما نریندر مودی انتہا پسند ہندو نظریات کی مستقل پہچان رکھتے آئے ہیں۔

خاص طور سے اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانوں کے خلاف ان کی کھلی منافرت کے جذبات کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ یہ صرف ایک الزام نہیں ہے، بلکہ نریندر مودی کا سارا سیاسی کیریئر اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے زمانے میں گجرات کے مسلمانوں کا جس طرح بہیمانہ قتلِ عام ہوا، مسلمان خاندانوں کو ان کے صوبے خصوصاً گجرات سے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر جس طرح نقل مکانی کرنی پڑی، ان کی جائیدادوں، اشیاء اور مال پر جس طرح غاصبانہ قبضہ جمایا گیا، وہ ہندوستان کی جمہوری تاریخ کے شرم ناک واقعات کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ ایسے واقعات کا ارتکاب کرنے والے افراد کو حکومتی اداروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کا ثبوت عالمی ذرائع ابلاغ نے حاصل کیا اور ساری دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔

2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے لوک سبھا کی 280 نشستیں حاصل کی تھیں۔ ملکی تاریخ میں گذشتہ تیس برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جماعت نے اتنی واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہ تین سے زائد نشستوں کا ہدف حاصل کرنے میں بہت آسانی سے کام یاب رہی۔ چناںچہ نریندر مودی وزارتِ اعلیٰ سے اٹھ کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک آپہنچے۔ اس انتخاب میں بی جے پی نے ’’اب راج کرے گا ہندو‘‘ کا نعرہ لگایا تھا جس نے ملک کی اکثریت میں خوب مقبولیت حاصل کی اور انتخابی عمل کو ایک خاص رخ بھی دیا اور ان کے دورِ اقتدار میں ہندوؤں کی انتہا پسندی کے واقعات سامنے آئے۔

ان کی سب سے بڑی مخالف جماعت کانگریس ان کے اس منفی رجحان کا زور توڑنے میں ناکام رہی تھی۔ خود بی جے پی کے کچھ راہنما بھی اس رویے اور نعرے کے حق میں نہیں تھے، لیکن وہ پارٹی کی اکثریت کے سامنے بے بس تھے۔ نریندر مودی 2019ء کے انتخابات میں ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ اور ان کی جماعت اقتدار کی امیدوار ہے۔ کیا بی جے پی اور نریندر مودی 2019ء میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کام یاب رہیں گے؟

اس سوال پر ہندوستان کے سیاسی و سماجی ماہرین، صحافتی حضرات، اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی مختلف زاویوں سے اپنے اپنے انداز میں غور کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 2019ء کے انتخابات پر جو معاملات اور مسائل اثر انداز ہوں گے ان میں پلوامہ کا واقعہ، پاکستان سے ہندوستان کا تناؤ اور پاکستان کا بھرپور، مؤثر اور معتدل جواب، نیشنل سیکیوریٹی، بے روزگاری، اقلیتوں میں بڑھنے والا عدم تحفظ کا احساس نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں حزبِ اختلاف نے مودی سرکار پر رافیل طیاروں کے حوالے سے بہت بڑے گھپلے کا الزام لگایا ہے۔

اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی سرکار نے ملک میں جمہوری عمل اور اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ، پارلیمان، ذرائع ابلاغ، ریزرو بینک ا?ف انڈیا، مرکزی بیورو تحقیقات اور حقِ آگاہی کے قانون کو بھی مودی سرکار نے زک پہنچائی ہے اور انھیں اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا ہے۔ مودی نے حزبِ اختلاف کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایسی باتوں کو ’’ایک بڑا لطیفہ‘‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن ان پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہے، جب کہ وہ خود اصل میں ان کاموں کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کو اداروں کی تباہی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

پلوامہ میں انڈین پولیس فورس پر حملے کے بعد جس میں چالیس سے زائد اہل کار مارے گئے تھے، مودی سرکار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ سیکیوریٹی اداروں کو حکومت نے اپنے کاموں میں اس طرح ملوث کرلیا ہے کہ وہ خود اپنے دفاع اور تحفظ تک سے غافل ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن نے جس غم و غصے کا اظہار کیا، اس نے حکومت پر سخت دباؤپیدا کردیا۔ اْس سے نکلنے کے لیے اس نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بالاکوٹ کے قریبی علاقے میں ان کے جہاز بم گرا کر چلے گئے۔ مودی سرکار نے اسے سرجیکل اسٹرائیک کہا اور اپنی بڑی کام یابی قرار دیتے ہوئے دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ نے حکومتی اعلامیے کے مطابق یہ خبریں نشر کیں کہ اس کارروائی میں تین سو سے زائد دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

اپنی کامیابی کو مزید ابھارنے اور عوامی جذبات کو متحرک کرنے کے لیے مودی سرکار نے اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کی اور پاکستان کی طرف تین جنگی جہاز بھیجے گئے۔ پاکستان آرمی نے اس کا بھرپور جواب دیا اور دو جہاز مار گرائے۔ ان میں ایک پاکستان کی حدود میں گرا اور اس کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت تک ہندوستان میں حکومت کا ہم نوا الیکٹرونک میڈیا مودی سرکار کی ان دونوں سرجیکل اسٹرائیکس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا تھا۔ تازہ حملے کو بھی حکومت کی بڑی کامیابی بتایا جارہا تھا۔ وہ تو جب پاکستانی میڈیا نے جہاز مار گرائے جانے کی خبر فوٹیج کے ساتھ نشر کی اور ابھینندن کو آرمڈ فورسز کی تحویل میں دکھایا تو انڈین چینلز نے ایک جہاز اور پائلٹ کے ’’مسنگ‘‘ ہونے کا اعلان اور بعد میں اْسے گرفتاری کا اعتراف بھی کرنا پڑا۔

ہندوستان میں مودی حکومت کے پاکستان کے خلاف ان اقدامات کو سرکاری سرپرستی والے چینلز نے ہر ممکن طریقے سے مودی سرکار کی ساکھ کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنے کی وجہ سے بالآخر اسے خاموش ہونا پڑا۔ دوسری طرف اپوزیشن نے ان اقدامات پر بھرپور ردِعمل کا اظہار اور کہا کہ مودی جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔ وہ اگلا الیکشن فوجیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر جیتنا چاہتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ملک کے عوام کو آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کا یہ ردِعمل بے حد شدید تھا اور چوںکہ حالات و حقائق بھی حکومتی اقدامات اور اعلانات کی قلعی کھول چکے تھے، اس لیے مودی سرکار کے پاس اپوزیشن کو جواب دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ آخر بے بس ہوکر انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اپوزیشن ان کی مخالفت میں ملک کے دشمنوں کی زبان بول رہی ہے اور انھیں مضبوط کررہی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ 2014ء میں انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے 2017ء میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست مدھیہ پردیش اور ملک کے شمالی مشرقی حصوں میں ضمنی انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے تک مودی سرکار کے پاؤں مضبوطی سے جمے ہوئے تھے اور اس کی ہوا بندھی ہوئی تھی۔ اس وقت مودی ملک کے سب سے مقبول اور بااثر سیاسی راہنما نظر آتے تھے۔ تاہم اب حالات کی تبدیلی کے نشانات واضح ہوچکے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران میں بی جے پی کو کئی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخاب میں کانگریس نے بی جے پی کو ہرا دیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں تو کانگریس دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ گئی اور اس نے بی جے پی کے دس سالہ اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔

2014ء کے چناؤ کی مہم کے دوران میں نریندر مودی نے جن چیزوں کو بار بار دہرایا اور عوام کو دینے کا وعدہ کیا تھا، ان میں ہندوستانی معیشت کی بہتری اور نوجوانوں کے لیے ملازمت اور روزگار کے مواقع سب سے نمایاں تھے۔ علاوہ ازیں نریندر مودی خود کو ملک کے مفلوک الحال طبقے کا ساتھی اور مکھیا کہتے رہے تھے۔ تاہم ان کے دورِ اقتدار میں کاروباری خوش حالی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہندوستان میں ہر سال لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان تلاشِ معاش کے میدان میں اترتے ہیں۔ مودی سرکاری نے ان کے لیے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق کچھ نہیں کیا۔

جنوبی بنگلور کی پریم جی یونی ورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح ملک کے ہندو اکثریتی علاقوں میں گذشتہ برسوں میں جس طرح ہندو انتہا پسندی کا اظہار ہوا ہے، اس نے بھی لبرل مزاج اور آزاد خیال طبقوں کو سخت تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ مسلمانوں، سکھوں اور کمیونسٹ ذہن رکھنے والوں کے خلاف جس رویے کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس نے ہندوستان کی کثیر ثقافتی زندگی کے ماحول کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ عدم برداشت کی فضا بڑھتی چلی گئی ہے۔ ملک میں مذہبی، لسانی اور ثقافتی تصادم کے حالات پیدا ہوچکے ہیں جو کسی بھی وقت دنگا فساد پھیلنے کا جواز فراہم کرسکتے ہیں۔

حالات کے یہ سارے مسائل اپنی جگہ اور سیاسی کھیل کا نتیجہ اپنی جگہ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ان سارے عوامل کے باوجود زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر ایوانِ اقتدار میں فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے داخل ہوں۔ اس کی وجہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی، سماجی بصیرت اور عوام کے لیے کرشمہ ساز شخصیت نہیں، بلکہ کچھ اور ہے۔ اس ضمن میں دو پہلوؤں کی نشان دہی خاص طور سے کی جارہی ہے۔ ایک یہ کہ انڈین آرمی میں مودی اپنا ایک رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کے بعض ناکام فیصلوں اور شکست سے دوچار ہونے والے اقدامات کے باوجود فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام تک مودی سرکار نے اپنے اسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائی فوج کی اسی پشت پناہی کا ثبوت ہے۔

ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ ملک کا سارا لبرل اور آزاد خیال طبقہ دوسری بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ ہے۔ وہ اس کے اقدامات کو سراہتا اور اسے مضبوط بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ مسلمان آبادی کا ایک حصہ بھی کانگریس کے ساتھ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی مل کر کانگریس کی وہ عوامی قوت بنانے میں کام یاب نہیں ہوسکے ہیں جو وہ اندرا گاندھی کے دور میں، راجیو گاندھی کی قیادت میں اور راجیو گاندھی کی موت کے بعد کے زمانے میں تھی۔ اس کا سبب سکھ اقلیت میں اس کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو بتایا جاتا ہے۔ پینتیس سال پہلے کیے گئے آپریشن بلیو اسٹار کی ہول ناک یادیں سکھ عوامی حافظے سے ابھی تک محو نہیں ہوئی ہیں، جس میں امرتسر کے ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) پر حملہ کرکے ان کے ہر دل عزیز مذہبی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے چناؤ 2019ء میں مسلمان اور سکھ اقلیتیں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں گی۔ ان کے بعد کمیونسٹ پارٹی بھی ایک سیاسی قوت کے طور پر حکومت سازی میں کردار ادا کرے گی۔ اس چناؤ کے نتائج اس طرح سامنے نہیں آئیں گے جس طرح 2014ء کے انتخابات کے بعد آئے تھے۔ حکومت میں آنے والی جماعت کو اتحاد بنانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اتحاد کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت ہی دراصل اب ہندوستان کے حقیقی سیاسی حالات کی نمائندگی کرے گی اور وہی اس کے سیاسی دھارے کا رخ اور سماج کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

The post بھارت میں لوک سبھا چناؤ 2019 appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>