یہ 1977ء کی بات ہے‘ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار غیر کانگریسی رہنماؤں نے حکومت سنبھالی۔ اسی حکومت میں بعض وزیر قوم پرست ہندو طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ وزیر تحریک چلانے لگے کہ نصابی کتب میں جن مسلمان بادشاہوں اور لیڈروں کا ذکر ہے‘انہیں ختم کر دیاجائے۔ یہی نہیں‘ ہندوستان میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ اقتدار کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ ثابت ہو سکے کہ اس دوران ہندو عوام مسلم حکومت کے ظلم وستم کا شکار رہے۔
بھارتی قوم پرست وزیر جن نصابی کتب میں تبدیلیاں چاہتے تھے‘ ان میں سے بعض تاریخ کی پروفیسر رومیلا تھاپر نے تحریر کی تھیں۔ جب رومیلا تھاپرکو وزرا کی تحریک کا علم ہوا‘ تو انہوں نے دھمکی دی کہ کتب میں سے کچھ بھی مواد ختم کیا گیا‘ تو پھر کتابوں پر ان کا نام بھی نہیں چھپے گا۔ یہ دھمکی کارگار ثابت ہوئی کیونکہ وزیر چاہتے تھے‘ پروفیسر رومیلا اور دیگر مورخین اپنے قلم ہی سے تبدیلیاں انجام دیں… تبھی انہیں علمی لحاظ سے مستند تصّور کیا جاتا۔ اگر وہ از خود تبدیلیاں لاتے‘ تو مقامی و عالمی سطح پر ان کی بھد اڑ سکتی تھی۔
نصابی کتب میں تبدیلیوں کا معاملہ زیر غور تھا کہ جنوری 1980ء میں جتنا پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی۔ اسی سال ہندو قوم پرست رہنماؤں نے بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے نام سے نئی جماعت بنالی ۔ مسلمانان ہند کے خلاف ہندو عوام کے مذہبی جذبات ابھار کر یہ پارٹی مقبول ہوئی۔کانگریسی لیڈروں کی کرپشن اور عوام کی محرومیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
نتیجے میں بی جے پی 1999ء میں حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔اس حکومت میںانتہا پسند جماعت، آر ایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کا رہنما‘ مرلی منوہر جوشی وزیرتعلیم بن بیٹھا۔ اب وہ کوشش کرنے لگا کہ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ ان تبدیلیوں کا محور یہ نکتہ تھاکہ مسلمانوں کے رہنماؤں کو بطور ولن اور ظالم پیش کیا جا ئے جبکہ ہندو لیڈر ہیرو قرار پائیں۔ گویا آر ایس ایس اور بی جے پی نصابی کتب میں من پسند تاریخ ٹھونسنا چاہتی تھی۔
پروفیسر رومیلا تھاپر اور دیگر مورخین نے پھر قوم پرست حکومت کو خبردار کیا کہ وہ نصابی کتب میں من پسند تبدیلیاں کرنے سے باز رہے کیونکہ اس طرح تاریخی حقائق کا حلیہ بگڑ جائے گا۔ یہ اقدام تاریخ مسخ کر سکتاہے۔پروفیسر رومیلا و دیگر مورخین کی تنقید نے بھارتی وزیر تعلیم کو غضب ناک کیا کہ اس نے پارلیمنٹ میںانہیں ’’غدار‘‘ کہہ ڈالا… مطلب یہ کہ حکومتی نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے مورخین ہندو اکثریت کے مخالف قرار پائے۔ یہی نہیں‘ اس نے مطالبہ کیا ’’ہندوستان کی تاریخ میں ردوبدل کرنے والے ’’علمی دہشت گرد‘‘ ہیں اور پڑوس سے آنے والوں سے زیادہ بدتر لہٰذا انہیں فوراً گرفتار کر لینا چاہیے۔‘‘
ان اشتعال انگیز باتوں کو مگر پروفیسر رومیلا تھاپر نے علمی وقار سے برداشت کیا اور بچکانہ پن کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن تب سے بھارتی قوم پرست سیاست دانوں ‘ مورخین اور ماہرین تعلیم نے انہیں نشانہ بنا رکھا ہے۔
کردار کشی کی ایسی مخالفانہ اور گھٹیا مہم میں بیشتر دانش ور اپنی جان و آن بچانے کی خاطر خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ پھر کسی پر جائز تنقید بھی نہیں کرتے اور خاموشی سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ تاہم پروفیسر رومیلا دلیر و بہادر خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ پچھلے انیس برس سے کھل کر آر ایس ایس اور بی جے پی پر تنقید کرتیں اور ان کی عیاری و جھوٹ سامنے لاتی ہیں۔ گویا بھارت میں انہوں نے حق و سچائی کی شمع بجھنے نہیں دی اور جرأت و ہمت سے نفرت و دشمنی کی سیاست کرنے والے لیڈروں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ علم کی طاقت ہی انہیں یہ حوصلہ بخشا کہ وہ خطرناک جہلا سے نبرد آزما ہو جائیں۔
٭٭
بیاسی سالہ رومیلا تھاپر 30نومبر 1931ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ والد فوج میں ڈاکٹر تھے لہٰذا وہ جہاں تعینات ہوتے‘ بچوں کو بھی وہیں جانا پڑتا۔ رومیلا نے بچپن اور لڑکپن کے سال لاہور اور پشاور میں بھی گزارے۔ پنجاب یونیورسٹی ‘ لاہور سے انگریزی ادب میں بی اے کیا۔ مسلم گھرانوں سے میل ملاپ رکھنے کے باعث وہ بہت سی اسلامی اقدار اور روایات سے آگاہ ہوئیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بچپن سے تاریخ کے موضوع میں دلچسپی رکھتی تھیں۔
یہی وجہ ہے، بی اے کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی آف لندن چلی گئیں اور 1958ء میں قدیم ہندوستانی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ وطن واپس آئیں‘ تو پہلے کو درکیشتر یونیورسٹی پھر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر رہیں۔1971ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (دہلی ) میں شعبہ قدیم ہندوستانی تاریخ کی بنیاد رکھی ۔ فی الوقت اسی شعبے سے بطور پروفیسر ایمرطیس وابستہ ہیں۔
پروفیسر رومیلا ہندوستانی تاریخ اور قدیم ہندوستانی شخصیات پر بیس سے زائد کتب تحریر کر چکیں۔ غیر جانب دار نظریات و خیالات رکھنے کی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں مستند و بہترین مورخ سمجھا جاتا ہے۔ آپ دو مرتبہ بھارت کا تیسرا بڑا قومی ایوارڈ‘ پدما بھوشن لینے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ کہ پروفیسر صاحبہ صرف درسگاہوں اور علمی تنظیموں سے ایوارڈ لیتی ہیں۔
رومیلا تھاپر اپنی زندگی میں کئی انٹرویو دے چکیں جن میں ان کے نظریات و خیالات بکھرے پڑے ہیں۔پروفیسر صاحب کے افکار خاص طور پہ ہندوستان پہ قبضہ کرنے والے انگریز غاصبوں کا وہ طریق کار (بلکہ طریق واردات) واضح کرتے ہیں جس کی بدولت ہندوستان میں ہندو قوم کے مابین انتہا پسندی ، قوم پرستی خصوصاً مسلم دشمن جذبات نے جنم لیا۔لاکھوں لوگوں نے امن ومحبت کو تج کر نفرت اپنے من میں بسا لی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسی رو کے نمائندے بن چکے جن کے دور حکومت میں خصوصاً بھارتی مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کو بھی بھارتی حکمران طبقے کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اہم سوالات و جوابات کا انتخاب پیش خدمت ہے۔
٭٭
سوال: آپ نے اپنے ایک مضمون ’’عوامی دانشور‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے جیسے (بھارتی) معاشرے میں ایسے دانش وروں کا ہونا بہت ضروری ہے جو حکومت پر تنقید کریں اور سوال کرسکیں۔ ’’ہمارے جیسے معاشرے‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب: میری مراد اس معاشرے سے ہے جو پچھلے چار پانچ سال کے دوران جنم لے چکا۔ اسی دوران حکومت اور اس سے متعلق قوم پرست تنظیموں نے سوال کرنا خطرناک عمل بنا دیا۔ہر بھارتی شہری کو یہ ڈکٹیٹ کرایا جانے لگا کہ جو بات ہمارے نزدیک درست ہے‘ تم بھی اسے صحیح کہو۔ اور جسے ہم غلط سمجھتے ہیں‘ تم بھی اسے غلط سمجھو۔ ایسے ماحول میں کوئی حکومت یا قوم پرست تنظیموں سے سوال کرے،ان کی سرگرمیوں پہ تنقید کرے تو وہ تشدد پر اتر آتی ہیں۔ اسی لیے ناقدین کے قتل ہوئے۔ جن لوگوں نے حکومتی نظریات کو درست تسلیم نہ کیا ،انہیں مار دیا گیا۔
سوال: آپ نے دانشوروں کے قاتلوں کو دہشت گردوں سے تشبیہ دی ہے؟
جواب: جی بالکل! دہشت گرد کون ہے؟ جو دوسرے انسان کو خوفزدہ کرتا اور اسے مار ڈالتا ہے۔ اگر کوئی ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرے، تو ہم اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔ لیکن بھارت میں جب دانش ور (ایم ایم کلبلرگی، گووند پنسارے، نریندر دبھولکر وغیرہ) قتل ہوئے، تو حکومت نے الزام جرائم پیشہ لوگوں کے سر تھوپ دیا۔یہ بڑی تشویشناک صورتحال ہے۔ آج بھارتی قوم پرست تنظیموں نے دہشت گردوں پر مبنی گروہ بنالیے ہیں مگر وفاقی اور ریاستی حکومتیں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔
سوال: آپ نے درج بالا مضمون میں یہ بھی لکھاکہ آج لیفٹسٹ سیاست داں یہ تصّور نہیں رکھتے کہ بھارت میں کس قسم کا معاشرہ وجود میں آئے۔ لیکن مذہبی انتہا پسندی پر مبنی قوم پرستی کے نام لیوا لیڈر اسی سلسلے میں بہت متحرک ہیں۔ دیگر رہنما کیوں متحرک نہیں رہے؟
جواب: آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے آپ کسی بھی درس گاہ میں جاتے تو وہاں کافی ہاؤسوں میں بحث کا موضوع یہ ہوتا تھا کہ معاشرے کو ترقی یافتہ کیسے بنایا جائے؟ معاشرتی انصاف کیونکرجنم لے ؟ عوام کے مسائل کیسے حل ہوں؟ آج آپ ان کافی ہاؤسوں میں جائیں تو پروفیسر ان موضوعات پر گفتگو کرتے ملیں گے کہ تنخواہ کب مل رہی ہے اور گریڈ کب بڑھے گا۔
لیفٹسیٹ اور اعتدال پسند طبقوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر دانشور اور سیاست داں بھی مادی باتوں کی سمت زیادہ متوجہ ہیں۔اس صورت حال میں مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے قوم پرستانہ نظریات کی ترویج کا موقع مل گیا۔ یہ رہنما اب ہندو راشٹریہ(ہندو ریاست) کو آئیڈیل معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس ریاست میں سب شہریوں کو مساوات کے اصول پر مبنی حقوق نہیں ملیں گے۔ یہ رہنما اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
سوال: ہندو راشٹریہ کے حامی اتنے سرگرم کیوں ہیں جبکہ دوسرے متحرک نہیں رہے؟
جواب: ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ایک پلیٹ فارم پر لیفٹسٹ ‘ لبرل اور اعتدال پسند طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں‘ سیاست دانوں اور عام لوگوں کو جمع نہیں کر سکی۔ 1991ء ہندوستانی تاریخ کااہم سال ہے جب حکومت نے مارکیٹ اکانومی اور نیو لبرل ازم کو اپنا لیا۔ تب معاشرے میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں آنے لگیں۔ جب عالمی سطح پر بھارتیوں کا دیگر اقوام سے مقابلہ ہوا تو انہیں پتا لگا کر بھارتی قوم تو ہر شعبے میں دیگر قوموں سے پیچھے ہے۔ اس احساس نے مایوسی اور ڈپریشن کو جنم دیا۔ اس عالم مایوسی میں جب مذہبی قوم پرست اپنا ایجنڈا سامنے لائے‘ تو ہندو عوام میں اسے مقبولیت ملی۔ ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ بھارت انہی کا ہے‘ وہ سبھی وسائل کے مالک ہیں اور انہیں ہی یہ ملک سنبھالنا چاہیے۔
سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیفٹسٹ دانشور مذہبی معاملات پر گفتگو نہیں کرتے‘ یوں انہوںنے انتہا پسندوں کے لیے مذہب کا میدان خالی چھوڑ دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ نکتہ نظر کسی حد تک درست ہے۔ اب بہت سے دانشور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مذہب کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انسان کا ذاتی و انفرادی معاملہ ہے۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن بھارتی معاشرے میں مذہبی تنظیمیں ہر شعبہ ہائے زندگی میں عمل دخل رکھتی ہیں۔ وہ انسان کی فکر و عمل پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ جدید دانشوروں نے اس حقیقت کا گیرائی و گہرائی میں مطالعہ نہیں کیا۔
سوال: آپ کوئی مثال پیش کرسکتی ہیں؟
جواب: سرکاری سکولوں کی مثال لیجیے۔ ماہرین تعلیم کی کوشش رہی ہے کہ وہاں ایسی نصابی کتب پڑھائی جائیں جن میں کسی مذہب کی تضحیک نہ ہو اور تمام تاریخی حقائق قوم پسند حکمرانوں کی مذہبی پالیسیوں کے مطابق پیش نہ ہوں۔ لیکن آر ایس ایس اور دیگر مذہبی تنظیمیں پورے بھارت میں اپنے لاکھوں پرائمری و ہائی اسکول چلارہی ہیں۔ ان میں ایسی کتب پڑھائی جاتی ہیں جن میں صرف ایک مذہب (ہندومت) کو عظیم ترین قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر مذاہب کے متعلق متنازع باتیں موجود ہیں۔میں نے ماضی میں حکومتوں اور وزارت تعلیم سے کئی بار اپیل کی ہے کہ وہ تحقیق کریں، آر ایس ایس کے اسکولوں میں کس قسم کا نصاب رائج ہے۔ کیا یہ درسی کتابیں پڑھ کر ایک طالب علم معاشرے کے لیے مفید شہری بنتا ہے یا دیگر مذاہب اور فرقوں کے خلاف اس کے دماغ میں زہریلا مواد ٹھونسا جاتا ہے۔
سوال: آپ نے ہندومت کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ اس تاریخ کے بارے میں بتائیے۔
جواب: اس سوال کا جواب تو بہت طویل ہوگا۔بہرحال عرض کرتی ہوں کہ زمانہ قدیم میں ہندوستان میں مختلف اقوام آباد تھیں۔ ان سبھی اقوام کی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت اور مذاہب تھے۔ بس ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ وہ متفرق دیوی دیوتائوں کی پوجا کرتے۔ عموماً ہر قوم کے اپنے مخصوص دیوی دیوتا تھے۔پانچ چھ ہزار سال پہلے وسطی ایشیا اور ایران سے قبائل ہجرت کرکے ہندوستان آنے لگے۔ ان قبائل کی اپنی تہذیب و ثقافت اور مذاہب تھے۔ یہ قبائل جنگجو تھے،اسی لیے رفتہ رفتہ انہوں نے ہندوستانی اقوام کو زیر کرلیا۔
چناں چہ ہندوستانی اقوام کو فاتح کے مذہب اور تہذیب و ثقافت اپنانا پڑی۔ یہ قبائل آگے چل کر ’’آریہ‘‘ کہلائے۔انہی قبائل نے ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی بنیاد رکھی۔ فاتح قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد برہمن، کھشتری اور ویش بن بیٹھے۔ ہندوستان کی مقامی اقوام کے باشندے شودر یا اچھوت (اب دلت) کے زمرے میں شمار ہوئے۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کام کرتے تھے اور معاشرے میں ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ایک برہمن جب چاہے اچھوت کو قتل کرسکتا تھا اور اس سے باز پرس تک نہ ہوتی۔
برہمن عام طور پہ پوجا پاٹ کرتے اور مذہبی کتب لکھتے تھے۔ انہوں نے ہی وید، اپنشد، پران، بھگوت گیتا اور رزمیہ داستانیں مثلاً رامائن، مہا بھارت وغیرہ تخلیق کیں۔ ان برہمنوں کا تخلیق کردہ مذہب، برہمن مت موجودہ پاکستانی صوبوں اور شمالی ہندوستان میں زیادہ پھلا پھولا لیکن مشرقی ہندوستان (بہار، بنگال) اور جنوبی ہندوستان (کیرالہ،آندھرا پردیش)میں اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈھائی ہزار سال مشرقی ہندوستان میں مہاتما بدھ سامنے آئے جنہوں نے برہمن مت کے خلاف بغاوت کردی۔ وہ برہمنوں کے ذات پات والے نظام کو ناپسند کرتے اور انہیں آمر سمجھتے تھے۔ چناں چہ برہمن بدھا کے سخت خلاف ہوگئے۔ تاہم بدھا کے نظریات نے لاکھوں ہندوستانیوں کو متاثر کیا اور کئی صدیوں تک برہمن مت صرف شمالی ہند تک محدود رہا۔آٹھویں صدی عیسوی میں ایک برہمن پروہت، ادی شنکر اچاریہ نے برہمن مت کو پھر نئے سرے سے زندہ کیا اور یہ مذہب دوبارہ ہندوستانی اقوام میں پھیلنے لگا۔ لیکن جلد ہی مسلمان ہندوستان آپہنچے۔
مسلم صوفیا کی تبلیغ سے لاکھوں ہندوستانی مسلمان ہوگئے۔مسلمان افغانستان، ایران، عرب ممالک سے ہندوستان آئے تھے مگر وہ یہیں بس گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارا دا کیا۔ برہمنوں اور دیگر غیر مسلموں سے مسلم حکمرانوں کے تعلقات بالعموم خوشگوار رہے۔ حکمرانوں نے عموماً یہ کوشش نہیں کی کہ کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنالیا جائے۔ اسی لیے مسلم دور حکومت میں رواداری اور برداشت کا دور دورہ تھا۔ مسلم حکمرانوں نے کئی برہمنوں اور دیگر غیر مسلموں کو وزیر مشیر کے عہدوں پر بھی فائز کیا۔
اٹھارہویں صدی میں انگریز تاجر کے روپ میں ہندوستان میں وارد ہوئے۔ 1765ء تک وہ امیر ترین ہندوستانی صوبے، بنگال پر قبضہ کرچکے تھے۔ وہ پھر بقیہ ہندوستان پر قبضے کا خواب دیکھنے لگے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستان کے دو سب سے بڑے طبقات… مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آپس میں لڑوا دیا جائے۔ یہ لڑائی پیدا کرنے کی خاطر دیگر عوامل کے علاوہ سب سے زیادہ مذہب کا سہارا لیا گیا۔
اس وقت ہندوستان بھر میں پھیلے لاکھوں غیر مسلم مختلف دیوی دیوتائوں کی پرستش کرتے تھے۔ ان کے دو بڑے گروہ تھے: وشنو اور شیو۔ ان دونوں فرقوں کے پیروکار آپس میں برسرپیکار رہتے تھے اور ایک دوسرے پر خونریز حملے کیے جاتے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے فرقے کے پیروکار زیادہ بنائے جا سکیں۔ انگریزوں نے ان سبھی غیر مسلموں کو ’’ہندو‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ اصطلاح اصل میں مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ وہ دریائے سندھ کے پار بسنے والوں کو ’’سندھو‘‘ کہتے تھے، یہ نام بگڑ کر ہندو ہوگیا۔
میں نے پہلے بتایا کہ ہندوستان کے شمالی، جنوبی، مغربی اور مشرقی علاقوں میں بسنے والی ہندوستانی اقوام کی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت اور دیوی دیوتا تھے۔ ان میں بس قدر مشترک یہ تھی کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے۔ وشنو اور شیو فرقوں کے پیروکار البتہ ویدوں، شاستروں، اپنشدوں وغیرہ کا بھی مطالعہ کرتے اور انہیں اپنی مذہبی کتب قرار دیتے۔
انگریز اب اپنے عزائم اور مفادات کی تکمیل کے لیے غیر مسلموں میں یہ نظریہ پھیلانے لگے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ان پر ظلم کیے ہیں۔ ان کو غلام بنائے رکھا ۔ وہ ہندوستان کی ملکی دولت اور وسائل پر قابض ہوگئے اور اس سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جبکہ غیر مسلم غربت و ناداری کی زندگی بسر کرتے رہے۔ لہٰذا اب انہیں مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان سے انتقام لینے کا وقت آپہنچا ۔
حقیقت میں یہ باتیں جھوٹ تھیں۔ تاریخ میں بہت کم ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے ثابت ہو کہ مسلم حکمران غیر مسلم رعایا پر سختی کرتے رہے اور انھیں دانستہ ناخواندہ و غریب رکھا گیا۔بعض سخت مزاج حکمران گذرے ہیں مگر مسلم حکمرانوں کی انصاف پروری کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ انگریزوں نے مگر پوری کوشش کی کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کے مذہبی جذبات بھی مشتعل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
بنگال کا نظم ونسق سنبھال کر انگریزوں نے اہم انتظامی عہدوں پر برہمن تعینات کیے تھے۔وجہ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومتوں میں کام کر کے تجربے کار ہو چکے تھے۔ انگریزوں کے منظم پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ برہمن غیر مسلموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ انہیں متحد کرکے طاقتور بنایا جاسکے۔ اصل مقصد یہ تھا کہ طاقتور ہوکر مسلم اشرافیہ کے خلاف مہم چلائی جائے جو ہندوستانی معاشرے میں اب بھی اثرورسوخ رکھتی تھی۔
بنگال میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کے مابین فساد کرانے کی انگریز پالیسی کامیاب ثابت ہوئی۔ دونوں فرقوں کے رہنما سیاسی و مذہبی بنیاد پر آپس میں لڑنے جبکہ انگریز حکومت کے مزے لوٹتے تماشا دیکھنے لگے۔ انگریزوں نے پھر اپنی اس عیارانہ پالیسی کو باقاعدہ شکل دینے کا فیصلہ کرلیا تاکہ ہندوستان پہ طویل عرصہ حکومت کی جا سکے۔ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی 1800ء تک بنگال اور ریاست میسور پہ قبضہ کر چکی تھی۔راجپوتانہ، پنجاب اور دہلی میں بھی اس کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ 1805ء میں کمپنی نے برطانیہ کے مورخ، جیمز مل (James Mill)سے رابطہ کیا۔ وہ اس انگریز دانشور سے ایسی درسی کتاب لکھوانا چاہتی تھی جس میں ہندوستان کی تاریخ کو ’’غیرمسلم‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے ابواب میں تقسیم کردیا جائے۔
جیمزمل کبھی ہندوستان نہیں آیا۔ اس نے برطانیہ ہی میں مختلف انگریز مصنفین کی لکھی کتب جمع کیں اور ان کی مدد سے ’’دی ہسٹری آف برٹش انڈیا‘‘(The History of British India) نامی کتاب تحریر کر ڈالی۔ جیمز نے کتاب میں بظاہر مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن یہ اقدام ایسٹ انڈیا کمپنی کی اصل پالیسی پوشیدہ رکھنے کے لیے اٹھایا گیا۔کمپنی کے مالکان نے جیمز مل سے یہ کتاب اس لیے لکھوائی تاکہ اس میں وہ مظالم نمایاں کیے جاسکیں جو مسلم حکمرانوں نے غیر مسلم رعایا پر ڈھائے تھے۔ ان مظالم کا بیشتر تذکرہ خود ساختہ تھا۔ بعض واقعات مجہول کتب سے لیے گئے۔ ممکن ہے کہ بعض واقعے جیمز مل نے خود ہی گھڑلیے۔ غرض اس کتاب میں یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ ہندوستان میں مسلمان حکمران ظالم رہے ہیں اور غیر مسلم رعایا مظلوم!
ایسٹ انڈیا کمپنی کے جو انگریز اہلکار ہندوستان جاکر انتظام سنبھالتے تھے، پہلے انہیں لندن کے نزدیک واقع ایک درس گاہ، ایسٹ انڈیا کالج میں تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ (یہ کالج اب ہیلی بری اینڈ امپریل سروس کالج کہلاتا ہے)۔ جیمزمل کی کتاب بطور نصاب اس کالج میں رائج کردی گئی۔ ہر اہل کار کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے۔ امتحان میں بھی بیشتر سوالات اسی کتاب سے متعلق ہوتے۔ اس کتاب کے نظریات کو تفصیل سے دیگر انگریز مورخین نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا۔ ان میں سے اکثر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار ملازم تھے۔
ایسٹ انڈیا کالج سے فارغ التحصیل ہوکر جو اہل کار ہندوستان آتے اور ملکی نظم و نسق سنبھالتے، ان میں یہ نظریہ راسخ ہوچکا ہوتا کہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلموں پر ظلم و ستم کیے۔ وہ پھر غیر مسلم دوستوں میں بھی اس نظریے کا پرچار کرتے اور یوں ان میں مسلم ہم وطنوں کے لیے نفرت و دشمنی کے جذبات پیدا کردیتے۔ انہی جذبات کے زیر اثر برہمن رہنما غیر مسلموں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ مسلمانوں سے بدلہ لیا جاسکے۔ یوں برہمن ہندوستان میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ حاصل کرنے کی بھی خواہش رکھتے تھے۔
جنگ 1857ء میں اگرچہ مسلمان اور غیر مسلم مل کر انگریز غاصبوں سے نبرد آزما ہوئے مگر یہ اتحاد آخری ثابت ہوا۔انگریز کے ایجنٹ بن کر برہمن رہنما ہندوستانی معاشرے میں تیزی سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کررہے تھے۔ اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ 1853ء میں وشنو فرقے کے ایک گروہ (نرموہی اکھاڑے) نے بابری مسجد پر قبضہ کرلیا۔ اسی تنازع پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین پہلا بڑا فساد بھی ہوا۔
جنگ آزادی کے بعد برہمن رہنمائوں کی یہ مہم تیز ہوگئی کہ غیر مسلموں کو ایک مذہبی پلیٹ فارم پر جمع کرلیا جائے۔ اسی پلیٹ فارم کا نام انہوں نے ’’ہندومت‘‘ رکھا۔ وہ کوشش کرنے لگے کہ تمام بت پرست ہندو بن جائیں اور برہمنوں کا ویدک مذہب اختیار کرلیں۔ان برہمن رہنمائوں میں کچھ اعتدال پسند تھے جنہوں نے کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا۔ یہ برہمن مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔یوںانھوں نے ایک مختلف راستہ اختیار کر لیا۔ مگر بقیہ برہمن رہنمائوں نے مسلمانوں کی مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا۔ گویا وہ انتہا پسندی اور قوم پرستی کی راہ پر چل نکلے۔ ان رہنمائوں میں دیانند سرسوتی،بنکم چندر چٹرجی، پنڈت مدن موہن مالویہ، بال گنگادھرتلک، دمودر ساورکر، کے بی ہیڈگوار وغیرہ نمایاں ہیں۔
کے بی ہیڈگوار ہی نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ یہ مذہبی و سماجی تنظیم ہے۔ بی جے پی اسی تنظیم کی سیاسی جماعت ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا بنیادی نظریہ یا فلسفہ یہ ہے… ’’ہندوستان میں آباد سبھی بت پرست (ہندو) زمانہ قدیم سے ویدوں، پرانوں،اپنشدوں وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ مسلمان حکمران غاصب تھے جنہوں نے ہندو رعایا پر ظلم ڈھائے۔ اب صرف ہندو ہی بھارت پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اکثریت ہونے کے باعث انہیں مراعات بھی زیادہ ملنی چاہیں۔‘‘ آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کی ہم خیال سبھی قوم پرست تنظیموں کے افراد سختی سے درج بالا نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان میں بعض انتہا پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہی کہ بھارت میں آباد تمام مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنالیا جائے کیونکہ ان کے اجداد بت پرست ہی تھے۔
سوال: آپ کی طویل گفتگو سے عیاں ہے کہ ہندومت دراصل برہمن مت کا نیا روپ ہے جس کی تشکیل میں انگریز نے بھی اہم کردار ادا کیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج آر ایس ایس اور بی جے پی میں نچلی ذات کے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مثلاً نریندر مودی بھی ان جماعتوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرچکے۔ برہمن طبقہ عام طور پہ یہ برداشت نہیں کرتا کہ نچلی ذات والے بلند مناصب پر فائز ہوجائیں اور ترقی کریں۔
جواب: شروع میں برہمن رہنمائوں کا یہی نظریہ تھا کہ صرف اعلیٰ ذات والے بت پرستوں (برہمنوں اور کھشتریوں) کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ مگر ہندوستان میں ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے معاشرے میں اپنی سیاسی و معاشرتی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے برہمنوں کو مجبوراً نچلی ذات والے بت پرستوں سے رابطہ کرنا پڑا۔ انہیں یہ ترغیب دی گئی کہ اگر وہ ان کی مذہبی تحریک (ہندومت) میں آجائیں، تو وہ دنیاوی لحاظ سے ترقی کرسکتے ہیں۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوجائے گا۔
اس کے باوجود بیشتر بت پرست کئی برس تک قوم پرست برہمنوں کی سمت متوجہ نہیں ہوئے۔ 1980ء کے بعد بی جے پی پارٹی بنی، تو اس نے وسیع پیمانے پر نچلی ذات والے لوگوں سے رابطہ کیے۔ نیز مسلمانوں کے خلاف مختلف مہمات (مثلاً رام رتھ یاترا) چلا کران کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے۔ عوامی رابطے کی مہم اور مسلمانوں کے خلاف تحریکیں چلا کر بی جے پی نے اپنے پلیٹ فارم پر لاکھوں بت پرستوں کو جمع کرلیا۔
یوں وہ ہندومت کے دائرہ کار میں بھی شامل ہوگئے۔آج بھی آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر قوم پرست تنظیمیں نچلی ذات کے بت پرستوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے دام میں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی ان سے ملازمتیں دینے کا وعدہ ہوتا ہے۔ کبھی کاروبار کے لیے رقم دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ جب کبھی وہ کسی قانونی مسئلے میں پھنس جائیں، تو انہیں اس سے آزادی دلوائی جاتی ہے۔ غرض قوم پرست لیڈروں کی بھر پور سعی ہے کہ بھارت کے تمام بت پرستوں کو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیں۔ یوں نہ صرف بھارت کو ہندو مملکت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا بلکہ وہ طویل عرصہ حکمرانی کے مزے بھی لوٹ سکتے ہیں۔
سوال: نریندر مودی سمیت دیگر قوم پرستوں کو سیکولرازم سے کیا خطرہ لاحق ہے؟
جواب: میں سمجھتی ہوں کہ سیکولر ازم ایک انسانی رویّہ ہے جو انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ ایک سطح پر یہ تقاضا کرتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سب لوگ مل جل کر رہیں۔ مزید براں یہ سبھی مذاہب کو ایک ہی سطح پر رکھتا ہے۔یہ تقاضا مگر ان افراد کو پسند نہیں آتا جو اپنے مذہب کو دیگر مذاہب سے ممتاز سمجھتے ہیں۔ یا مذہبی مفادات اور مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ریاست میں اکثریتی مذہب چھا جائے۔ مگر سیکولر ازم کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایک ریاست میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
بھارتی قوم پرست سیکولرازم کو اسی لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ ہندو راشٹریہ کا قیام چاہتے ہیں۔ اس مملکت میں ہندوئوں کو ہی زیادہ حقوق و مراعات حاصل ہوں گی۔ سیکولر معاشرے میں انسان کی شناخت بدل جاتی ہے۔ ذات پات، مذہب، زبان کی شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور ہر انسان ایک جیسے حقوق رکھنے والا شہری بن جاتا ہے۔ اسے تمام انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
آج بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم رائج ہے۔ مگر حقیقت میں معاشرہ اکثریتی فرقے اور اقلیتی فرقوں میں تقسیم ہوچکا جن کی بنیادی شناخت مذہب یا ذات پات ہے۔ چناں چہ اکثریتی فرقہ تو معاشرے میں کئی اقسام کی مراعات رکھتا ہے جبکہ اقلیتی فرقوں کے باشندے استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ قانون کی نظر میں بھی سب شہری برابر نہیں۔ یہ تو جمہوریت نہیں بلکہ جمہوری نظام کے نام پر دھبہ ہے۔جمہوری اقدار اور سیکولرازم کے زوال کی وجہ سے ہی آج بھارتی معاشرہ مسلسل تنگ نظر ہورہا ہے۔ کتابوں پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔ دانش وروں کو آزادی سے بولنے نہیں دیا جاتا۔ غذا، لباس، رہن سہن، غرض ہر شے بھارتی قوم پرست اپنی طرز فکر کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔کیا ایسے معاشرے کو لبرل کیا جاسکتا ہے؟
The post ’’ہندوستان میں انتہاپسندی کو انگریز نے رواج دیا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.