Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
دادِ غالب، سندِ میر نہیں چاہتی میں
فیض یابی تری صحبت ہی سے ملتی ہے مجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
قید اب وصل کے زنداں میں تُو کر لے مجھ کو
یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں چاہتی میں
مجھ کو اتنی بھی نہ سکھلا تُو نشانہ بازی
تجھ پہ چل جائے مرا تیر نہیں چاہتی میں
اب تو آتا نہیں عنبرؔ وہ کبھی سپنے میں
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں
(نادیہ عنبر لودھی، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


کبھی جو تیری حسین یادوں سے احتیاطا بھی کٹ گئے ہیں
ہم اپنے اندر سے اٹھنے والی اداسیوں سے لپٹ گئے ہیں
کوئی سبب ہے کہ رابطہ ہی نہیں کیا اس نے سال بیتے
وگرنہ دنیا ہے عالمی گاؤں، فاصلے تو سمٹ گئے ہیں
مرے قبیلے کے لوگ ہوتے تو آ کے پہلی صفوں میں لڑتے
یہ کون ہیں جو بس ایک آہٹ پہ الٹے قدموں پلٹ گئے ہیں
تم آزمالو کہ سوچ کر ہی وفا نبھانے کی بات کی ہے
ہم اتنے قابل نہیں ہیں پھر بھی جو کہہ دیا ہے تو ڈٹ گئے ہیں
میں جانتا ہوں یہ جن کے چہرے نمائشی مسکرا رہے ہیں
یہ اپنا مقصد بھلا چکے ہیں یہ اپنے خوابوں سے ہٹ گئے ہیں
(عرباض اطہر، تاندیانوالہ فیصل آباد)

۔۔۔
’’خوش فہمی‘‘
ہر بار بکھرتا ہے
مشکل سے سمٹتا ہے
پھر بھی یہ پاگل دل
ہر بار بکھرنے کو
مشکل میں پڑنے کو
تیار ہی رہتا ہے
اور اس پر ستم یہ کہ
پامالیِ ہستی کو
’’عشق‘‘ یہ کہتا ہے!!
(عنبرین احمد، ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


مرے ہم نفس تری یاد کا رہا سلسلہ بڑی دیر تک
وہ جو آفتابِ فراق تھا وہ نہ ڈھل سکا بڑی دیر تک
کوئی خواب تھا کہ سراب تھا، ترے ہاتھ میں مرا ہاتھ تھا
ترے لطفِ خاص کا سلسلہ نہیں چل سکا بڑی دیر تک
وہ عجیب لمحہ فراق کا دیئے یادِ وصل گزر گیا
جسے جانا تھا وہ چلا گیا، میں کھڑا رہا بڑی دیر تک
جو نہ چاہتا تھا وہی ہوا، مرا رازِ دل بھی عیاں ہوا
شبِ غم میں دل تھا غزل سرا، میں سنا کیا بڑی دیر تک
مرے دوستوں کو خبر کرو کہ نہ تیر و سنگ و تفنگ دے
جو لگا ہو گھاؤ زبان کا کہاں بھر سکا بڑی دیر تک
ابھی اور لمحے ہیں عیش کے، کئی دور باقی ہیں جام کے
میں اسی فریبِ خیال میں رہا مبتلا بڑی دیر تک
(محبوب خان، شکاگو)

۔۔۔
غزل


ردھم کی تان جب دیپک بنے گی
تو میری سانس بھی چلنے لگے گی
کسی کی آنکھ روئے گی لہو اور
کسی کے ہاتھ پر مہندی لگے گی
مرے گھر سے اٹھے گی میری میت
محبت پھول برساتی رہے گی
سبھی لوگوں کے دامن تو ہیں خالی
ندی کس کس کے دامن کو بھرے گی
جو مجھ سے بات تک کرتی نہیں ہے
وہ میرے شعر لوگوں سے سنے گی
تجھے میں خواب میں ملتا رہوں گا
مجھے تُو دیکھ کر ہنستی رہے گی
خدا سے مانگتا رہتا ہوں بارش
اسی صورت تری کھڑکی کُھلے گی
(عاجز کمال، خوشاب)

۔۔۔
غزل


لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ہیں
پرانے دوست نیا روپ دھار سکتے ہیں
ہم اپنے لفظوں میں صورت گری کے ماہر ہیں
کسی بھی ذہن میں منظر اتار سکتے ہیں
بضد نہ ہو کہ تری پیروی ضروری ہے
ہم اپنے آپ کو بہتر سدھار سکتے ہیں
وہ ایک لمحہ کہ جس میں ملے تھے ہم دونوں
اس ایک لمحے میں صدیاں گزار سکتے ہیں
ہماری آنکھ میں جادو بھرا سمندر ہے
ہم اس کا عکس نظر سے نتھار سکتے ہیں
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل


ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے
یہاں شجر تھا جہاں پہ کھمبا لگا ہوا ہے
تمام خوش ہیں کہ مل کے بیٹھے ہیں آج سارے
ہمارے دل میں دکھوں کا میلہ لگا ہوا ہے
میں کیا کسی کو منع کروں کہ شجر نہ کاٹو
شجر کے پیچھے تو خود پرندہ لگا ہوا ہے
جو تو نے بھیجی ہے مجھ کو، اس کو میں کیا پڑھوں اب
’’دعا‘‘ کے اوپر تو ایک ’’نقطہ‘‘ لگا ہوا ہے
کوئی بتائے کہ ایسے سپنے کا کیا ہے مطلب
’’حسین چڑیا کے پیچھے کوّا لگا ہوا ہے‘‘
مجھے پتا ہے یہ اب کسی کی نہیں سنے گی
مری اداسی کو سخت صدمہ لگا ہوا ہے
میں آپ اپنے پہ خود ہی نظریں رکھے ہوں ویسیؔ
مرے تعاقب میں میرا ’’سایہ‘‘ لگا ہوا ہے
(اویس ویسی، زیارت معصوم، ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل
جدائی میں بھی ان یادوں کا مجھ کو آسرا ہے
مجھے تو بس ترا ہونے سے کتنا سکھ ملا ہے
مجھے معلوم ہے اس کو محبت ہی نہیں ہے
مگر یہ دل، مگر یہ دل جو یوں ضد پر اڑا ہے
زمانے کے دکھوں سے دل شکستہ لوگ ہیں ہم
ہمارے واسطے لمبی عمر اک بد دعا ہے
کہ جب تک آنکھ روشن ہے دیا جلتا رہے گا
کبھی لوٹو تو آ جانا ہمارا در کھلا ہے
ملن کیا ہے عمر کی رہ گزر کا اک پڑاؤ
جدائی بھی محبت کے سفر کا مرحلہ ہے
یہ کوئی درد ہے زخم جدائی سے مزین
مری چپ میں یہی آواز بن کر بولتا ہے
(بشریٰ شہزادی، ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل


اس نے آنا ہے تو آ جائے بلاوا کیسا
دل کے رشتوں میں مری جان دکھاوا کیسا
نیند کا بوجھ ہے آنکھوں میں تو سو جاؤ میاں
کوئی کاندھا ہو میسر یہ تقاضا کیسا
ہم نے ہتھیار اٹھائے ہیں حفاظت کے لیے
اب بھلے صلح، بھلے جنگ ہو خطرہ کیسا
اس سے کہنا کہ عیادت کا تکلف نہ کرے
جب ڈبویا ہے تو تنکے کا سہارا کیسا
اور معیار نہیں یار کی آنکھوں کے سِوا
اس کے آگے سے گزر جائے تو کھوٹا کیسا
ایک فٹ پاتھ پہ بیٹھے ہوئے بچے نے کہا
جیل خانے میں دیا جاتا ہے کھانا کیسا
(اکرام افضل،مٹھیال، اٹک)

۔۔۔
غزل
میں بلاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
بد دعاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
کاٹ نہ دیں مجھے کہیں یہ شجر
ان کی چھاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
کہیں رہ میں کچل نہ دوں خود کو
اپنے پاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
مجھ سے کوئی خطا نہ ہو جائے
ان خطاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
اک سمندر ہوں میں بھلے، پھر بھی
میں ہواؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
پہلے چلّا رہا تھا میں ڈر سے
اب صدائوں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
طائرؔ اس طرح کا ہوں نجم کہ میں
کہکشاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
(اویس طائر، کراچی)

۔۔۔
غزل


میں سانس لیتا رہوں اور سمے بسر ہی نہ ہو
ترے بغیر تو جیون کا پیر سَر ہی نہ ہو
میں چاہتا ہوں کہ ہر دل میں ہو سرور کی لہر
محبتوں میں سراسیمگی کا ڈر ہی نہ ہو
خضر کو چاہیے تقسیم کر لے عمر پہ وقت
کہیں حیاتِ مسلسل بھی مختصر ہی نہ ہو
لبوں پہ آ نہ سکے جذبِ عشق کا مفہوم
کسک ہو دل میں مگر بات کا ہنر ہی نہ ہو
اڑائے رکھتا ہے یہ خوف میری نیندوں کو
میں رہ رہا ہوں جہاں یہ کسی کا گھر ہی نہ ہو
مری عبادتیں سب رائیگاں نہ ہو جائیں
جدھر میں جا نہیں سکتا خدا ادھر ہی نہ ہو
بدل نہ جائے ہوائے زمانہ سیف ریاض
دلِ تباہ کہیں پھر سے معتبر ہی نہ ہو
(سیف ریاض، کراچی)

۔۔۔
’’انتظارِ دید‘‘


شریر و شوخ اور چنچل ہوا کی معرفت اس نے
کسی بادل کے آنچل پر، ابھی پیغام بھیجا ہے
مجھے پھر انتظارِ دید کا مژدہ سنایا ہے
بیاضِ دل کا ہر نغمہ!
(جواباً) مسکراتا، گنگناتا ہے
دھنک کے رنگ والی شوخیاں اس کی
تصور کے حسیں آنگن میں خوشبو بن کے اتری ہیں
میری امید کی یہ ادھ کھلی کلیاں
کلابی سردیوں کے نرم بستر پر
بڑے ارمان سے چپ چاپ سوتی ہیں
کبھی ہولے سے پھر وہ مسکراتی ہیں، مہکتی ہیں
مجھے معلوم ہے سب۔۔۔انتظارِ دید کی لذت
نہیں اس کے مقابل کچھ، وصالِ یار کی حدّت
(انور ندیمؔ علوی ایڈووکیٹ، نواب شاہ)

۔۔۔
غزل


حق تب ہے کہ موہوم سے موہوم سمجھ لے
وہ علم بھی کیا علم جو معلوم سمجھ لے
عاجز کا تدبر ہے درِ عشق پہ جھکنا
مغرور کو ادراک سے محروم سمجھ لے
تشبیہ، اشارہ، نہ کنایہ، نہ کوئی لفظ
میں کچھ نہ کہوں اور وہ مفہوم سمجھ لے
الزام تراشی میں تو فن کار ہے دنیا
اس بار بھی لیلیٰ کو نہ معصوم سمجھ لے
کچھ فرق نہیں دونوں میں ہو عشق کہ وحشت
تُو چاہے تو جس نام سے موسوم سمجھ لے
ہم نے تو رمیض اس کے سوا کچھ نہیں سیکھا
’’بیٹا! جو ہتھیلی پہ ہے مقسوم سمجھ لے‘‘
(رمیض نقوی، خوشاب)

۔۔۔
غزل


اک نئی دنیا بسائی خاک پر
پھر نئی شمع جلائی خاک پر
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے
ہم نے اک صورت بنائی خاک پر
سامنا مجھ کو تو ناکامی کا تھا
راہ یہ کس نے دکھائی خاک پر
گلستاں کیوں صورتِ صحرا ہوئے
کب تھی ایسی بدنمائی خاک پر
زاویے سوچوں کے بدلے ہیں سروشؔ
کس کی ہے جلوہ نمائی خاک پر
(نوید سروش، میرپور خاص)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

’’کھاٹ بُنالو‘‘ یا ’’چارپائی بُنالو؟‘‘
حکیم خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی

اکبر ثانی کے حضور میں پرچا گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھٹ بُنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بُنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں ’’کھاٹ بُنالو کھاٹ۔۔۔ کھاٹ بُنا لو کھاٹ!‘‘

شہر والوں نے کہا نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منہ سے نکالتے ہو۔ پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ بہ جائے کھاٹ بُنا لو کے چار پائی بُنالو کہا کرو، چناں چہ جب سے اب تک کھاٹ بُنے، چارپائی بُنالو ہی کہتے ہیں۔ اس تکلف وتنبیہہ اور تدبیر اور تدبر سے اردو معلیٰ کو سنوارا گیا ہے اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے۔ ان کھٹ بُنوں کی ایک صفت قابل رشک ہے کہ شاہ جہاں کے عہد سے آج تک ان کا کسی قسم کا مقدمہ عدالت شاہی میں نہیں آیا۔ ان کا سرگروہ جو چوہدری کہلاتا ہے، وہی چُکا دیتا ہے۔

(کتاب ’’لال قلعے کی ایک جھلک‘‘ سے چُنا گیا)

۔۔۔

خود کو زندہ ثابت کیجئے ۔۔۔ !
آمنہ احسن، کراچی

حادثے کے موقع پر اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ مجمع تو اکھٹا ہو چکا ہے، لیکن کوئی آگے بڑھ کر مدد کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ پوچھو، تو بتایا جاتا ہے کہ صاحب، آج کل کسی کے معاملے میں پڑ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالیں؟ یہ نہیں سوچا جاتا کہ خدانخواستہ کل اگر ہمارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا، تو ہماری بھی کوئی یہی سوچ

کر مدد نہیں کرے گا کہ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالیں؟
کل میرا بھائی ایک دکان میں والدہ اور اپنے بیٹھے کے ہم راہ خریداری میں مصروف تھا، لمحے بھر کو اپنے بچے پر سے نظر ہٹی اور بچہ بھاگتا ہوا دکان سے باہر سڑک پر نکل گیا۔ میری والدہ نے دوڑ کر اسے پکڑا، ورنہ پتا نہیں وہ کہاں نکل جاتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے لوگ تھے، لیکن باہر اکیلے جاتے ہوئے بچے کو دیکھ کر کسی نے نہیں روکا۔ باہر موجود مسلح محافظ سے جب میرے بھائی نے کہا کہ آپ ہمیں آواز تو دے سکتے تھے، تو اس نے جواب دیا: ’’صاحب یہ ہماری ذمہ داری تھوڑی ہے۔‘‘

اس جواب پر غصہ کرنے والے ہم سب بھی در حقیقت وقت آنے پر ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے گریڈز کے پیچھے دوڑانے والے ہم، انہیں سب سے قیمتی تعلیم دینے اور انسانیت کا سبق پڑھانے سے قاصر ہیں۔ ہم نے خود بھی اس سبق کو اپنی زندگی کا حصّہ نہیں بننے دیا۔

بڑے اسکولوں میں پڑھنے والے اور بہترین اداروں میں کام کرنے والے جان دے سکتے ہیں، لیکن کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔ حالات کو خراب دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا مسئلے کا حل نہیں۔ جہاں تک ہو سکے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مصیبت میں مبتلا کسی فرد کو مجمع کی نہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی کی زندگی میں اہمیت رکھنے والے کی جان بچا لیتے ہیں، تو یقین جانیے ساری زندگی سکون ہمارا نصیب ہو جائے۔ احساس سے عاری انسان رکے ہوئے پانی جیسا ہے، جو بو پیدا کرتا ہے اور کسی کے کام بھی نہیں آتا۔ وقت پر اپنا مثبت کردار ادا کر کے، خود کو زندہ ثابت کیجیے۔

۔۔۔

ڈاکٹر جمیل جالبی
کا نقشہ
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال

سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جواس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشا اﷲ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن ، گوری رنگت ، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس، میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی، کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ’’ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔‘‘ ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ’’یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔‘‘

پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ’’ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔ ‘‘

(انتظار حسین کی کتاب ’’چراغوں کا دھواں‘‘ سے لیا گیا)

۔۔۔

ہم پر بم پھینکنے والا ’’ہیرو‘‘
اکثر ہجوم شدید جذبات میں ’ہُو ہَا‘ کر رہا ہے۔۔۔ مگر ہم مجمع سے بالکل الگ دَم سادھے بیٹھے ہیں کہ جیسے ہمارے سامنے ’لوڈ‘ بندوقیں ٹانگے دو ’’افراد‘‘ بِھڑ گئے ہوں اور ہمیں یہ خوف کہ کہیں بے دھیانی میں ہی کسی کی بندوق (جوہری بم) نہ چل جائے۔۔۔! ہم اِدھر اُدھر سب ہی کو سمجھا بھی رہے ہیں کہ میاں، لڑائی ختم کرنے کی بات کرو، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔۔۔ کشمیر سے پکڑے جانے والے بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ’ابھی نندن‘ کو یکم مارچ 2019ء کو امن اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا گیا، تو جنگ کے لیے تالیاں پیٹنے والوں کی اکثریت نے اسے ناپسند کیا۔

ہم نے اس قدم کی تائید کی، کہ بات امن کی تھی۔۔۔! مگر صاحب، ہم یہ کیا دیکھتے ہیں کہ اکثر بھارتی ٹی وی چینل تو آگ بھڑکانے میں کئی ہاتھ آگے نکلے ہوئے ہیں اور ’امن‘ کے لیے کیے جنے والے اس قدم کو پس پشت ڈال کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی جنگ جیت لی ہے۔۔۔! یہ تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کا مسئلہ تھا کہ وہ ’دشمن‘ کے ہاتھوں گرفتار پائلٹ کی رہائی کو بھی اپنا ’کارنامہ‘ گنوانے بیٹھ جائیں۔۔۔ ایسے میں کانگریس اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ایسے تاثر کو زائل کرتیں۔۔۔ لیکن مستقبل کے وزیراعظم سمجھے جانے و الے کانگریسی راہ نما راہول گاندھی نے تو بالاکوٹ میں بھارتی طیاروں کے گھس آنے پر اپنی فوج کو سلام ٹھوکا تھا۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حب الوطنی کس قدر ’بے ہنگم‘ ہو چکی ہے۔۔۔! خیر، کرنے کی بات یہ ہے کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی پر اکثر بھارتی جنتا بھی اتنی ’اتاولی‘ ہوتی گئی کہ یہاں سے ’امن‘ کے نام پر چھوڑا گیا قیدی اہل کار وہاں ’’ہمارا ہیرو!‘‘ ہو گیا۔۔۔

ستم یہ کہ پاکستان سے امن کی خواہش رکھنے والے افراد بھی اسی جذباتیت میں بہتے دیکھے گئے۔۔۔ ارے بھئی، ابھی نندن کے ’’کارنامے‘‘ کو ایک طرف رکھ کر لمحے بھر کے لیے یہ تو سوچ لو، تم ’’ہمارا ہیرو‘‘ کہہ کس کو رہے ہو، اُسے، جو ہم پر بم گرانے آیا تھا۔۔۔؟ اگر ایسا کرو گے، تو پھر کہاں جائے گی تمہاری امن پسندی؟ یہ ٹھیک ہے، آپ کا قیدی چُھوٹ کر آ رہا ہے، خوشی کی بات ہے، ریاستی مجبوری بھی ہے کہ حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کاخوب استقبال کیا جائے، لیکن ’ہیرو‘ کہنے کے بہ جائے یہ کہہ کر اظہار مسرت کیوں نہ کیا گیا کہ پڑوسی ملک نے صرف امن کے لیے ایک قدم اٹھایا ہے۔۔۔ اگر اُسے اعتدال پسند حلقے بھی ’’ہیرو‘‘ کہیں، تو پھر یہ کسی کی کام یابی یا ناکامی سے قطع نظر آپ کی امن پسندی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔!

۔۔۔

محبت
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

میں جب بھی اس کی سحر انگیز آنکھوں کو دیکھتا تو اس کی نگاہیں احمد فراز کے شعر کا استعارہ معلوم ہوتی تھی۔

اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی

اس کا نام تو جانے کیا تھا۔ ہم اکثر یونیورسٹی کی کینٹین کے سامنے بڑے گرائونڈ میں سیمنٹ کے بینچوں پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اس کی باتوں اور خیالوں میں ہمیشہ مرد کی ازلی بے وفائی کا طنز ہوتا تھا۔ میں کئی بار اس سے بے سبب اداس رہنے کی وجہ پوچھتا، تو وہ ہنس کر ٹال دیا کرتی تھی۔

ان دنوں رنگ برنگے کھلتے پھول بہار کی آمد کا پتا دے رہے تھے، ہوائیں چلتیں تو موسم کی رومانیت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی۔ ایک دن ایک سہ پہر معمول کی طرح میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک ہمارے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں نے اس کو بغور دیکھا، تو وہ بہت زیادہ غمگین لگ رہی تھی میں اس وقت اس بے معنی خاموشی کو سمجھنے کی سوچوں میں غرق تھا کہ اس نے سلسلہ تکلّم شروع کیا۔

’’اس دنیا میں محبت کے سارے قاعدے اور اصول، حدود و قیود صرف عورت کے لیے کیوں مختص ہیں؟ کیا محبت کرنے اور جتانے کا حق حاصل صرف مرد کو ہے؟ کوئی مرد کی بے وفائی پر کچھ کیوں نہیں لکھتا؟ میں سمجھتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، لیکن یہ میرا محض وہم تھا حقیقت نہیں تھی!‘‘ اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں کہنے لگی ’’تاریخ میں جھانک کر دیکھو تو کوئی ہمارے وجود کو بلا بتاتا ہے، کسی کے نزدیک ہم غلاظت کا پلندا ہیں، کسی کے خیال میں محض ایک کھیل تو کوئی ہمیں کم تر سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے آنسوئوں تک کو ان مرد ادیبوں نے ٹسوئوں سے تشبہہ دی اور کیا برے القاب ہماری توہین نہیں؟‘‘

مجھ میں اس کی مزید گفتگو سننے کا حوصلہ نہیں تھا، یوں میں اس کو اکیلا چھوڑ کر اپنے ہاسٹل کی جانب چل دیا۔

۔۔۔

کارنامہ
مرسلہ: سترط شاداب،
لانڈھی، کراچی

افریقا کے گھنے ترین جنگل میں ایک نہایت قیمتی ہرن گُم ہو گیا۔۔۔ جب مقامی پولیس اور ادارے اسے تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے، تو دنیا بھر کے سراغ رسانوں کو تلاش کرنے کے لیے بلایا گیا۔۔۔ پہلے امریکا کی ٹیم گئی، اپنے تئیں چپہ چپہ چھان مارا ناکام رہی۔ پھر جاپانی اہل کار گئے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے مایوس لوٹ آئے۔۔۔ برطانیہ کے اعلیٰ ادارے کے لوگ بھی گئے مگر نامراد پلٹے۔۔۔ الغرض دنیا بھر کے بے شمار ادارے گئے، مگر ہرن کسی کو نہ ملا۔ آخر میں پاکستانی پولیس گئی، ایک گھنٹے میں ایک ہاتھی کو پکڑ کر لے آئی جو زور زور سے یہ کہہ رہا تھا کہ ’’ہاں، ہاں میں ہرن ہوں۔۔۔ ہاں، ہاںِ میں ہرن ہوں۔۔۔!‘‘
(عمر شریف کے پیش کیے گئے ایک کھیل سے لیا گیا)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
نئی سڑک
رضوان طاہر مبین

ثمر کی ٹانگ میں ’پلاستر‘ دیکھا تو استفسار کیا، وہ بولا:
’’ہماری طرف کی سڑک نئی بن گئی ہے ناں۔۔۔‘‘
’’سڑک نہیں اپنی چوٹ کا بتائو۔۔۔؟‘‘ مجھے قطع کلامی کرنا پڑی۔
ثمر بولا ’’وہی بتا رہا ہوں۔۔۔
مجھے روزانہ ایک مصروف سڑک پار کرنا پڑتی ہے۔ وہاں ’بالائی گزر گاہ‘ بھی نہیں۔۔۔
میں دوسری جانب جانے کے لیے ایک گڑھے کا ’سہارا‘ لیتا تھا۔۔۔ گاڑی قریب بھی ہوتی، تو مجھے اندازہ ہوتا کہ گڑھے میں اس کی رفتار دھیمی ہوگی اور میں آسانی سے گزر جائوں گا۔۔۔
کل وہ سڑک نئی بن گئی۔۔۔!‘‘
ثمر نے کراہتے ہوئے کہا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


بڑی محبت سے بات کرتا بڑے سلیقے سے بولتا ہے
وہ شخص جب بھی کسی جگہ پر مرے حوالے سے بولتا ہے
یہ خوش گمانی فقط مجھے ہے یا اس گلی سے گزرنے والی
ہوا کواڑوں سے کھیلتی ہے، دیا دریچے سے بولتا ہے
اکیلے پن کا عذاب کتنا برا ہے تجھ کو خبر نہیں ہے
خدا صحیفے اتارتا ہے کسی بہانے سے بولتا ہے
وہ کھلکھلا کر ہنسا تو مجھ پر، کُھلا کہ سب کچھ غلط ہوا ہے
میں سوچتا تھا وہ خوش طبعیت مرے بلانے سے بولتا ہے
میں ایک گڑیا کو تم سمجھ کر وہ ساری باتیں کروں گا اس سے
وہ ساری باتیں جو ایک بچہ کسی کھلونے سے بولتا ہے
(نذر حسین ناز، چکوال)


غزل


دو چار لوگ کیا مرے حصے میں آگئے
میرے تمام لفظ اجالے میں آ گئے
میں نے ابھی تو آپ سے کچھ بھی نہیں کہا
کیوں آپ مجھ کو دیکھ کے غصے میں آ گئے
ہم نے تو اضطراب میں عمریں نکال دیں
تم ایک غم کو دیکھ کے سکتے میں آ گئے؟
رومال کی مہک تھی کہ دَر یاد کا کُھلا
بیتے سمے نگاہوں کے حلقے میں آ گئے
کیا آپ بھی ڈسے ہیں اسی نامراد کے؟
کیا آپ بھی اس آنکھ کے دھوکے میں آگئے؟
دل نے کسی کے ہجر کی تلخی کو کیا پیا
صدیوں کے غم زبان میں لہجے میں آ گئے
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ)


غزل


کچھ ایسے خاک اُڑی دل کے کارخانے سے
زمین بیٹھ گئی آسماں اٹھانے سے
جہاں فقیر خدا بن کے بیٹھے ہوتے ہیں
مری تو بنتی نہیں ایسے آستانے سے
مرے مزار سے جو شخص دور بیٹھا تھا
قریب آیا چراغوں کی لَو بڑھانے سے
ہمارے عہد میں جادوگری نہیں چلتی
غزل بنا نہیں کرتی غزل بنانے سے
تمہارے ہو نہیں سکتے زمانہ ساز کبھی
میں جانتا ہوں اِنھیں یار اک زمانے سے
کوئی قبیلے میں اپنے مزاج کا نہیں تھا
کسی سے بات بھی کرتا تو کس بہانے سے
میں سچ کو جھوٹ سمجھتا رہا یہاں عادِس
کچھ اس لیے بھی نکالا گیا فسانے سے
(امجد عادِس، راولا کوٹ، آزاد کشمیر)


غزل


غفلت سے چھٹکارا پا، کر دل کو کر بیدار
حسنِ عمل سے پیدا کر مانندِ سحر کردار
فِتنوں کے اِس دور میں یا ربّ جینا ہے دشوار
ارض و سما کے مالک تیری رحمت ہے درکار
صبح و مسا کی گردش غافل، کہتی ہے ہر بار
دنیا جائے فانی ہے، نہ لمبے پیر پسار
قوت والے، عظمت والے، پھولوں جیسے لوگ
موت کے ہاتھوں ہوجاتے ہیں سارے ہی لاچار
راہِ فنا پہ جاتے دیکھے پہنے ایک لباس
بچے، بوڑھے، عالم، جاہل، صوفی اور مے خوار
رنج و الم کی چادر اوڑھے، حیدرؔ میرے یار
کس کی خاطر کہتے ہو تم، درد بھرے اشعار
(ایس۔ مغنی حیدر۔ ملیر، کراچی)


غزل


درد میرے سنا کرے کوئی
میری خاطر دعا کرے کوئی
ضبط آخر کو ٹوٹ جاتا ہے
کس قدر حوصلہ کرے کوئی
بھید تجھ پہ کھلے اذیت کا
ساتھ تیرے دغا کرے کوئی
ہے یہ معصوم سی مری خواہش
میری خاطر سجا کرے کوئی
شعر کہنے ہیں غم منانا ہے
ساتھ میرے جفا مرے کوئی
تم مروت سے کام لیتے ہو
تیرا سلمانؔ کیا کرے کوئی
(سلمان منیر خاور ، فیصل آباد)


غزل


سنا ہے لوگوں سے اچھا دکھائی دیتا ہے
میں مل کے دیکھوں گا کیسا دکھائی دیتا ہے
چلا ہوں اتنا کہ شل ہو گئے مرے پاؤں
اور اب تو رستہ بھی دھندلا دکھائی دیتا ہے
میں جب بھی کرتا ہوں آنکھوں کو بند تو اس وقت
بس ایک چاند سا چہرہ دکھائی دیتا ہے
اگر میں سوچوں تو لگتا نہیں وہ کچھ بھی مرا
میں جب بھی دیکھوں تو اپنا دکھائی دیتا ہے
وہ سرخ ہونٹ، کہ جیسے گلاب کی رنگت
خزاں کی رت میں بھی کھلتا دکھائی دیتا ہے
یہ جھوٹ ہے کہ اسے مجھ سے پیار ہے لیکن
ہر ایک بات میں سچا دکھائی دیتا ہے
(بلاول شفیق، ہری پور)


غزل


جو زندگانی میں ساتھ تیرا نہیں ملے گا
میں جانتا ہوں مجھے وہ رتبہ نہیں ملے گا
تمہیں خوشامد تو کرنے والے بہت ملیں گے
یہ پُرخلوص اور میٹھا لہجہ نہیں ملے گا
تو خوب صورت ہے، مانتا ہوں، مگر بتا دے
کہاں لکھا ہے تمہارے جیسا نہیں ملے گا؟
اگر میں تیرا نہیں ہُوا تو بتا رہا ہوں
کسی کو نام و نشان میرا نہیں ملے گا
تمہارے بدلے جہان سارا بھی پا لیا تو
میں جتنا دے دوں گا مجھ کو اتنا نہیں ملے گا
اگر درختوں کے ساتھ اُس کی نہیں بنی تو
کسی کو بھی اِن کے نیچے سایہ نہیں ملے گا
(وقاص امیر، کہوٹہ)


غزل


کمالِ آشنائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
مری خود تک رسائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
بظاہر مسکراتا میں دکھائی یار دیتا ہوں
مری مجھ سے لڑائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
رکھا اہلِ محبت نے، محبت نام ہے جس کا
کسی در کی گدائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
کوئی بتلائو تو اس طائرِ ناسوت کو قیصرؔ
اسیری ہی رہائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
(قیصر عباس قیصر، گوجرانوالہ)


غزل


اس کا دیدار ہو گیا تھا جی
میں تو سرشار ہو گیا تھا جی
بیٹے پڑھ لکھ کے گاؤں چھوڑ گئے
بوڑھا لاچار ہو گیا تھا جی
جو نہ آیا کبھی قبیلے میں
وہی سردار ہو گیا تھا جی
اس کے آنے سے دل یہ پتھر سا
گُل و گلزار ہو گیا تھا جی
جو کسی کی بھی دسترس میں نہ تھا
مجھ کو درکار ہو گیا تھا جی
حیثیت جس کی ایک فرد کی تھی
میرا سنسار ہو گیا تھا جی
(نعمان ذوالفقار، فیصل آباد)


’’شہزادی‘‘
اس نے مجھ سے کہا
شاہزادی ترے واسطے
گرم اور ٹھنڈے شفاف پانی کے
آرام دہ حوض ہیں
شاہزادی ترے ہاتھ میلے نہ ہوں
میں ترے واسطے دس کنیزیں مقرر کروں
آئینہ ہے کہ پاؤں ترے، فرق کیسے کروں
تیری آنکھیں ہیں یا شبمنی جھیل ہیں
یہ سبھی لفظ تھے کھوکھلے
مجھ پہ تب یہ کھلا
جب مجھے اس کی باندی بنایا گیا
گھر کے کاموں سے ہاتھوں پہ چھالے پڑے
اور اس کے عوض
چند سکے مرے ہاتھ پر اس رعونت سے رکھے گئے
میرا دل بجھ گیا
اور سَر جھک گیا
( حنا عنبرین، کروڑ لعل عیسن، ملتان)


غزل


گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور
ہاں! نظرآتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور
کارواں یونہی بھٹکتا رہے ہر بار حضور
نیک نیت نہ ہوں گر قافلہ سالار حضور
وہ جو از خود ہی بنے بیٹھے ہیں سردار حضور
وقت اک دن انہیں لائے گا سرِ دار حضور
خود کو دیتے ہیں وہ دھوکا یونہی بیکار حضور
جو خطاؤں کا نہیں کرتے ہیں اقرار حضور
سامنے آکے رہے سچ سرِ بازار حضور
کوئی کتنا ہی کرے جھوٹ کا پرچار حضور
(صبیح الدین شعیبی، کراچی)


غزل


ہم نے چھوڑے ہیں فلک لاکھوں بسیرا کر کے
آج بیٹھے ہیں مکاں ہی میں اندھیرا کر کے
میں جو بچھڑا ہوں زمانے سے نئی بات نہیں
سب ستارے چلے جاتے ہیں سویرا کر کے
میں دیا ہوں، کروں گا سارا زمانہ روشن
لوگ بیٹھے ہیں ہر اک سمت اندھیرا کر کے
میں کسی چال میں یارو نہیں آنے والا
جیت سکتے ہو مجھے پیار کا گھیرا کر کے
کیسے یکجا کوئی ہوگا یہاں حق کی خاطر
لوگ جھکتے ہیں یہاں آگے وڈیرا کر کے
ڈر نہیں ہے یہ محبت کا اثر ہے صاحب
سانپ ڈستے ہی نہیں مجھ کو سپیرا کر کے
(مہر علی رضا، امین پور بنگلہ)


غزل


گزرا ابھی یہاں سے وہ خود کو سنوار کر
اور کہہ گیا مجھے کہ ابھی انتظار کر
وہ جو لڑے ہیں ان کو منانے کی ٹھان لے
اور مصلحت کی راہ بھی کوئی اختیار کر
تجھ کو بتا نہیں رہا لرزہ وجود کا
میں آ رہا ہوں تازہ شبِ غم گزار کر
چلنا ہے تھوڑی دیر میں کچھ دیر گھومنے
چل جا کے یار، جلدی سے اپنا سنگھار کر
جیسے وہ چل رہا ہے ذرا دیکھیے اسے
لگتا ہے آ رہا ہے کہیں خود کو ہار کر
یہ لوگ تنگ کریں گے سحرؔ بعد میں تجھے
اتنا اِنہیں ابھی سے نہ سَر پہ سوار کر
(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)


غزل
راز سارے خوشی کے پانے کو
دل یہ چاہا تھا مسکرانے کو
تُو نے ہی رُخ کو اپنے پھیر لیا
آ رہی تھی تمہیں منانے کو
سوچ، یہ وقت کی ہے جادو گری
آ گیا پھر ہمیں ملانے کو
تیری دو پل کی چاہ کافی ہے
کون کہتا ہے جاں لٹانے کو
اب کہاں انتظار کی ہمت
اب تو کوکیؔ! ہے جان جانے کو
(کوکی گِل، رحیم یار خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اسرائیل نہایت پُرامن ریاست تھی‘‘

$
0
0

 ہتھیاروں سے بھری، بموں کے نشانے پر کھڑی اور ماحول کی تباہی کے خطرے پر دھری دنیا ایک طرف جس شاخ پر بیٹھی ہے اُسے کاٹ رہی ہے دوسری طرف خلاء میں اپنے ٹھکانے کے لیے نئی ’’شاخیں‘‘ تلاش کررہی ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ انسانی حرکتیں کرۂ ارض کو برباد کردیں گی، دوسرے سیاروں پر بستیاں آباد کرنے کی فکر کی جارہی ہے۔

اسی اندیشے کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل نے ’’برشیت‘‘ نامی ایک خلائی جہاز چاند کی جانب بھیجا ہے، جس میں موجود ٹائم کیپسول میں ڈی وی ڈی جسامت کی ایک ڈسک میں انسانی مشترکہ علم و حکمت کے علاوہ دیگر بہت سی معلومات موجود ہیں۔

اس ’قمری کتب خانے‘ کی تیارکنندہ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ ڈیجیٹل لائبریری اگلے 6 ارب سال تک برقرار رہے گی اور یوں لکھی ہوئی کتابوں سے اس کی عمر کہیں زیادہ ہے۔ اس کمپنی کے سربراہ نووا اسپائی ویک کا کہنا ہے کہ انسان کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس ضمن میں ماضی کی تاریخ ایک بہترین شے ہے جسے اس ڈیجیٹل ڈسک میں شامل کیا گیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس ڈسک میں نغمے، بچوں کی ڈرائنگ اور اسرائیلی تاریخ بھی رکھی گئی ہے۔ وکی پیڈیا انگلش کا پورا متن، لاکھوں کتابیں، درسی کتب اور 5 ہزار زبانوں میں مضامین بھی سموئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ ارب سے زائد ایسے مضامین بھی ہیں جو مختلف زبانوں میں ہیں اور ان میں علم و حکمت، تاریخ اور تہذیب کی روداد موجود ہے۔

ظاہر ہے یہ سارا جنجال مستقبل کے انسان کے لیے پالا گیا ہے، تاکہ وہ تباہ ہوجانے والی دنیا کے بارے میں حقائق جان سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کُتب خانے میں ایسا مواد موجود ہے جس میں خود اسرائیل کی حقیقت بیان کی گئی ہو؟ جھوٹے دعوؤں پر استوار صہیونیت اور صہیونی ریاست سے سچ کی اُمید کسے ہوسکتی ہے۔ تو صاحب! اگر خدانہ خواستہ زمین پر اتنی تباہی پھیلے کہ تمام تر تاریخی آثار اور تحریروں کا خاتمہ ہوجائے تو ہزاروں سال بعد کا انسان اسرائیل کی چاند پر بھیجی گئی تاریخ سے اسرائیل کے بارے میں جو کچھ جانے گا وہ یوں ہوگا:

’’اسرائیل ایک نہایت پُرامن ریاست تھی، جس کے باسی جسم کا خون چوستے مچھر کو مارنے سے پہلے اُس سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کیا کرتے تھے اور مارنے کے بعد اس کے غم میں دیوارِ گریہ پر جاکر آہ وزاری کیا کرتے تھے۔ مگر کیا کرتے ان کو فلسطینی نامی ایک دہشت گرد قوم کا سامنا تھا، جو پتھروں سے حملے کرکے اسرائیلیوں کو ڈرایا دھمکایا کرتی تھی۔ ان پتھروں سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کو صرف اپنے دفاع کی خاطر بم بنانا پڑے، ہتھیار تیار کرنا پڑے، اور حملے کرنا اس کی مجبوری ٹھہرا۔ فلسطینیوں کی غلیلیں گرانے کے لیے اسرائیل کو ان پر بم باری کرنا پڑتی تھی، جس پر کبھی کبھی اقوام متحدہ اُسے ۔۔۔’گندی بات، آپ تو اچھے بچے ہیں ناں، اب نہیں کیجیے گا‘ کہہ کر جانب داری اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈانٹ دیا کرتی تھی۔

وہ تو ہمارے جیسا ایک امن پسند ملک امریکا اور یورپ کے چھوٹے چھوٹے ملک ہمارا ساتھ دیتے تھے ورنہ یہ ظالم فلسطینی تو پتھر مار مار کر ہمیں پتھر کے دور میں لے جاتے۔ جب فلسطینیوں کے ہاتھوں ہماری ایک آدھ قیمتی جان ضائع ہوجاتی اور جواب میں ہم درجنوں سیکڑوں فلسطینیوں پر اپنے بم، میزائل اور گولیاں ضائع کرکے انھیں معمولی سا زخمی کرنے کی کوشش کرتے اور اس کوشش کے دوران اپنی ہی کسی غلطی کے باعث وہ مارے جاتے تو دنیا کے دیگر طاقت ور ممالک خوامخواہ ہم سے ناراض ہوجاتے اور ہم سے کہتے ’شریر کہیں کے، بس بہت کھیل لیے اب گھر جاؤ‘ مجبوراً ہمیں باقی فلسطینیوں کو چھوڑ کر لوٹنا پڑتا۔ رہے مسلم ممالک تو وہ بھی مذہب کی بنیاد پر جفاکار فلسطینیوں کا ساتھ دیتے تھے، کبھی کبھی اُن کے لیے امداد بھیج کر، کبھی کبھار ان کے حق میں بیان دے کر اور تقریریں کرکے۔

تو اے مستقبل کے انسانو! تمھیں پتا چلا ہم اسرائیلی کتنے مشکل حالات میں رہے۔‘‘

اسرائیل کو تاریخ بچانے سے زیادہ اپنے ہاتھوں مسخ شدہ تاریخ ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جس کا آغاز اس اعتراف سے ہوگا کہ جس سرزمین پر اسرائیل نامی اَڈا قائم کیا گیا وہ فلسطینیوں کی ہے، اس ابتدائی اعتراف کے بعد تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی ٹھیک ہوجائے گا، اس تصحیح کے ہوتے ہی پورے کا پورا ’’اسرائیل‘‘ برطانیہ پہنچ کر کہے ’’ماں! میں آگیا، ماں مجھ کو جھلاؤ نہ جھولا رے ۔۔۔۔مجھے خود سے دور کیوں پالا ماں، اپنی اولاد سے ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔ بے بے اب میں آپ کی گود ہی میں رہوں گا مجھے کہیں نہیں جانا‘‘ یا امریکا جاکر فریاد کرے’’اباجی! مجھے اپنے قدموں میں جگہ دیجیے، خود سے اتنا دور نہ رکھیے، نیویارک ہی میں اسرائیل بنادیجیے، اگرچہ میں برطانیہ کا پاپ ہوں مگر اب آپ کو باپ سمجھتا ہوں۔‘‘ ہمیں یقین ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنی ناجائز اولاد اور لے پالک بچے کو مایوس نہیں کریں گے۔

The post ’’اسرائیل نہایت پُرامن ریاست تھی‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان مودی جی کے بھیجے میں گُھس بیٹھا

$
0
0

یہ نفرت اور دشمنی بھی عجیب بلائیں ہیں، آسیب کی طرح یوں سر پر سوار رہتی ہیں کہ آدمی ’’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کے مصداق دشمن کے بارے میں سوچ سوچ کر خود اپنا دشمن ہوجاتا ہے۔ اسی نفسیات کو احمد جاوید کا یہ شعر بیان کرتا ہے:

ہمیشہ دِل ہوسِ انتقام پر رکھا

خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا

واہگہ پار بسنے والے نریندرمودی جی بھی اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ موصوف کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مودی تو ہیں مگر ’’موڈی‘‘ نہیں، اُن پر ہر وقت ایک ہی موڈ طاری رہتا ہے، یعنی مسلمانوں اور پاکستان پر غصے کا موڈ۔ یہ موڈ ان کی کیفیت ہی نہیں سیاسی ضرورت بھی ہے۔ اُن کا معاملہ یہ ہے کہ:

کروں گا کیا جو ’’میں نفرت‘‘ میں ہوگیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

لے دے کے انھیں چائے بنانا ہی آتی ہے، اس کام کو بھی چھوڑے عرصہ ہوگیا، جب مسلمانوں کے خلاف چائے کی طرح خود اُبلنے اور کھولنے لگے، تو سیاست میں گُھس آئے، اب وہ چائے کی پیالی میں طوفان تو اُٹھا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ چائے بنانے کا طریقہ یاد ہے یا بھول چکے ہیں۔ بہ ہرحال، ان دنوں مودی جی کی نفرت کا اُبال زوروں پر ہے، غصے میں چولہے پر چڑھی کیتلی بنے ہوئے ہوئے ہیں۔

اُن کا یہ موڈ چھوت کی طرح بھارت میں پھیلا ہے، جسے پھیلانے میں بھارتی الیکٹرانک میڈیا آگے آگے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو ہم آپ کو سمجھانے کے لیے کہہ رہے ہیں، ورنہ دنیا میں جسے الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے بھارت میں وہ ’’الیکٹرانک مودیا‘‘ ہوچکا ہے اور نہایت ’’موذیا‘‘ بھی۔ یہ موڈ مودی جی کے سر پر ایسا سوار ہے کہ ان کی زبان پر ہر وقت پاکستان یا اس سے متعلق کوئی نام رہتا ہے۔

چناں چہ گجرات کے علاقے جام نگر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی جی بھارتی شہر کوچی کو کراچی کہہ گئے۔ لوگ ہنسے تو جھینپ کر کہنے لگے میرے دماغ میں آج کل صرف پاکستان چل رہا ہے۔ لگتا ہے کہ جلد ہی الزام لگادیں گے کہ پاکستان ان کے بھیجے میں گُھس بیٹھا ہے، جہاں سے پاکستان کو نکالنے کے لیے بھارتی سینا کو گھسنا پڑے گا۔ خُدا خیر کرے، مودی جی کے بھیجے میں ہونے والے اس آپریشن کے دوران بساند اور سڑاند کے باعث جانے کتنے سینکوں کی جان جائے گی۔

بہ قول مودی صاحب اُن کے دماغ میں پاکستان ’’چَل رہا ہے‘‘، لہٰذا اندیشہ ہے کہ جس طرح وہ ’’کوچی‘‘ کو کراچی کہہ گئے، اس طرح کی غلطیاں آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ ہوسکتا ہے اداکار سلمان خان کی تعریف کرتے ہوئے کہہ جائیں ’’عمران کھان بہت اچھی پھائٹ کرتا ہے۔‘‘ جاویداختر کی شاعری کو سراہتے ہوئے فرمائیں ’’بھیا! قمرجاوید کے گیت نے تو ہمیں ناچنے پر مجبور کردیا۔‘‘ غضب تو تب ہوگا جب وہ خود کو نریندرمودی کی جگہ حافظ سعیدی یا اظہرمسعودی کہہ جائیں گے۔ سُننے والوں کا کیا حال ہوگا جب پردھان منتری جی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے،’’بھارتیو! تمھارے ہر درد کا علاج حافظ سعیدی کے پاس ہے‘‘ یا ’’جنتا بھارت کے وِکاس کے لیے اظہرمسعودی کا ساتھ دے۔‘‘

The post پاکستان مودی جی کے بھیجے میں گُھس بیٹھا appeared first on ایکسپریس اردو.

قومی خزانے کا منہ۔۔۔ خواص کے لیے کُھلا، عوام کے لیے بند

$
0
0

کتنی اچھی بات ہے کہ جب معاملہ قومی مفاد کا ہو تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کی ساری خطائیں معاف کرکے آج کل کے معروف محاورے کے مطابق ایک صفحے پر آجاتی ہیں، عموماً یہ صفحہ چیک بُک کا ہوتا ہے، جیسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے معاملے میں ہوا ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ میں شایع ہونے والی وقاص احمد کی خبر کے مطابق،’’قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہوتے ہی کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور اراکین کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔‘‘ یہ خبر بتاتی ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو نئی تیرہ سی سی گاڑیوں سمیت بہتر ہزار روپے سے زائد کی اضافی مراعات اور اعزازیہ دیا جائے گا، جب کہ اراکین کو تین سے پانچ ہزار روپے تک ٹریولنگ اور اسپیشل الاؤنس ملے گا۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان بہ طور رکن اسمبلی بھی مراعات اور تنخواہیں وصول کرتے رہیں گے۔

خبر میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ فریقین میں سے کسی نے بھی ان مراعات پر اعتراض یا کوئی سوال کیا ہو، اس کے بہ جائے یہ سب حکومت اور حزب اختلاف کے کام یاب مذاکرات کے بعد بڑی خوش اسلوبی اور باہمی رضامندی سے طے پایا ہے۔

آپ کہیں کہ گے یہ قومی مفاد کا معاملہ کیسے ہوا؟ آپ نے شاید وہ اشتہار نہیں دیکھا جس میں ایک بچہ کہتا ہے ’’کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا‘‘، تو بھئی ہمارے منتخب ارکان مراعات اور اعزازیے کھائیں گے تو بڑے ہوں گے پھر ملک وقوم کے لیے کام کریں گے بڑے بڑے۔ واضح رہے کہ یہ وہ ’’کھانا‘‘ ہے جو مجبوراً دکھانا پڑتا ہے۔ چلیے آپ اسے قومی مفاد ماننے کو تیار نہیں تو ’’قومی اسمبلی مفاد‘‘ یا ’’قائمہ مفاد‘‘ کہہ لیجیے، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ جب قومی خزانہ خالی تھا تو اُس کے وہ کون سے منہ ہیں جو کُھلے تو ان سے اتنا کچھ نکل آیا۔ بات یہ ہے کہ قومی خزانہ ہر ایک کو منہ نہیں لگاتا، عوام کے لیے یہ منہ بند ہی رکھتا ہے، خواص اس کے منہ بولے بھائی بیٹے ہیں، سو اُن کا منہ موتیوں سے بھردینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

اب آپ بچت، اخراجات میں کمی اور سادگی جیسے حکومتی اعلانات کی بات کریں گے اور سوال اُٹھائیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال بہت دیر کے اُٹھے ہوئے تھے، اُٹھے اُٹھے تھک گئے، ہلکان ہوگئے، اب جاکے سوئے ہیں، انھیں سونے ہی دیجیے، یہ سمجھ لیجیے کہ یہ ویسے ہی اُٹھ چکے ہیں جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ سب مراعات نہ دی جائیں تو قائمہ کمیٹی کے قائم ہونے اور رہنے کا کیا فائدہ۔ قائمہ کمیٹیوں کے باعث بہت سے ارکان اسمبلی کا حکومت سے رشتہ قائم رہتا ہے، وہ حکومتی بینچوں ہی پر قیام پذیر رہتے ہیں ٹھکانا نہیں بدلتے۔

یہ خوامخواہ کا سوال بھی مت پوچھیے گا کہ جب ملک کی معاشی حالت یہ ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی ’’لائے جا پالیسی‘‘ بن چکی ہے، غیرملکی دورے ’’فقیرانہ آئے صدا کرچلے‘‘ کی تصویر اور غیرملکیوں کی آمد ’’بہاروں پھول برساؤ مِری امداد آئی ہے‘‘ کا منظر ہیں، مجبوری کا یہ عالم ہے کہ جس آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی کے مترادف تھا اُس سے ہنسی خوشی رابطہ کرلیا گیا۔۔۔۔تو ایسے میں اگر ہمارے مفلوک الحال منتخب نمائندے بہ طور رکن قومی اسمبلی ملنے والی تنخواہ اور مراعات ہی پر گزارہ کرلیتے، اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ اور رُکن کی حیثیت سے کچھ نہ لیتے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑتی؟۔۔۔بھئی کیوں نہ لیتے۔ عوام کی خاطر اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے، تقریریں کرکرکے گلا خراب کرلیا، سارے کام چھوڑ کر جلسے کرتے رہے۔۔۔۔کروڑوں خرچ ہونے کی وجہ سے بے چارے پائی پائی کو محتاج ہوگئے، گلاخراب ہونے کے باعث علاج کے لیے باہر جانا پڑا وہ خرچہ الگ، جلسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دیہاڑی نہیں لگاسکے۔

اب یہ غریب نہ جانے بچوں کے اسکولوں کی فیس کیسے ادا کرتے ہوں گے، بجلی گیس کے بِل کہاں سے بھرتے ہوں گے، مہینے کا راشن کیسے لاتے ہوں گے۔۔۔۔قسم سے یہ سب لکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھیگ گئیں مگر پڑھ کر آپ کا دل نہ پسیجا ہوگا۔ ان کی قربانی کا تو تقاضا تھا کہ پوری قوم ان پر قربان ہوجائے، خیر یہ کام وہ خود کر ہی لیں گے، قوم بس اتنا کرے کہ منتخب ارکان پر خزانے کے منہ کُھلے رہنے دے، اپنا منہ ہرگز نہ کھولے۔

The post قومی خزانے کا منہ۔۔۔ خواص کے لیے کُھلا، عوام کے لیے بند appeared first on ایکسپریس اردو.

ملکہ الزبتھ تخت سے دستبردار ہوں گی؟

$
0
0

اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں شاہی نظامِ حکومت پایا جاتا ہے۔ برطانیہ بھی انھی ملکوں میں شامل ہے۔

کہاوت مشہور ہے کہ دنیا کے اختتام تک اس زمین پر صرف پانچ بادشاہ باقی رہ جائیں گے، چار تاش کے اور ایک انگلستان کا۔ الزبتھ دوئم 1952ء میں انگلستان کی ملکہ بنیں اور اب اگر کوئی اس بات کی شرط لگانا چاہے کہ کیا وہ اپنے ولی عہد شہزادہ چارلس یا اپنے پوتے شہزادہ ولیم کے حق میں کبھی تخت سے دستبردار ہوں جائیں گی ؟ تو ہمارا جواب ہو گا کہ ’نہیں‘۔ آیئے اس کی وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہو گا۔

گزشتہ برس برطانوی روزنامے ’دی ڈیلی میل‘ (The Daily Mail) نے ایک سرخی جمائی جس میں پوچھا گیا تھا کہ ’’کیا ملکہ تخت سے دستبرداری کی تیاری کر رہی ہیں ؟‘‘ تاہم اخبار کی یہ تمام تر کہانی محض اس افواہ کی بنیاد پر تھی کہ ملکہ الزبتھ یہ منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ جب وہ 95 برس کی ہو جائیں گی تو سارے اختیارات شہزادہ چارلس کو منتقل کر دیں گی۔

برطانوی تاریخ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ اختیارات منتقل کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ملکہ یا بادشاہ تخت سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ملکہ قانونی طور پر بھی اس بات کی مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کسی اور کو منتقل کر دیں۔ البتہ برطانوی قانون ’ریجینسی ایکٹ آف 1937‘ (Regency Act of 1937) اس بارے میں کہتا ہے کہ ایسا صرف اِس صورت میں ممکن ہے اگر مخصوص حالات اس کا تقاضا کریں۔

اگرچہ چند شاہی خاندانوں میں یہ روایت موجود رہی ہے کہ بادشاہ یا ملکہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر تخت سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں، جیسا کہ ہالینڈ کے شاہی خاندان میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ در حقیقت تخت سے دستبرداری کے متعلق خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ عمل بادشاہت کے غیر رسمی اصولوں کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1936ء میں جب برطانوی شاہ ایڈورڈ ہشتم (Prince Edward VIII) نے ’والِس سیمپسن‘ (Wallis Simpson) نامی خاتون سے شادی کرنے کی خاطر تخت وتاج کو ٹھکرا دیا تھا تو ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا۔

اپنی 21 ویں سالگرہ پر ملکہ الزبتھ نے انگلستان کے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تاحیات اُن کی ملکہ رہیں گی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’میں آپ سب کے سامنے یہ اعلان کرتی ہوں کہ میری تمام زندگی، قطعِ نظر اس بات کے کہ وہ طویل ہو گی یا مختصر، آپ کی اور ہمارے عظیم شاہی خاندان، جس سے ہم سب تعلق رکھتے ہیں، کی خدمت کے لیے وقف ہو گی‘‘۔ اپنے عوام کے ساتھ ملکہ کا یہ بہت بڑا وعدہ تھا جسے وہ پچھلے 67 برس سے بحسنِ خوبی نبھا رہی ہیں۔

شاہی نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ کرنے والے ماہرین میں سے ایک ’سارہ بریڈفورڈ‘ (Sarah Bradford) جنہوں نے ملکہ الزبتھ کی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ’کوئین الزبتھ اا : ہَر لائف اِن آور ٹائمز‘ (Queen Elizabeth II: Her Life in Our Times) ہے، نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملکہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ زندگی بھر بادشاہت کرنا اُن کی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی۔ سارہ بریڈفورڈ (Sarah Bradford) نے مشہور جریدے ’دی ویک‘ (The Week) کو بتایا کہ ’’ملکہ نے تو کبھی تخت سے دستبرداری کے بارے میں سوچا تک بھی نہیں ہے‘‘۔

بہت عرصہ پہلے شاید انگلستان کے لوگوں نے یہ چاہا ہو کہ ملکہ تخت سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی پریستان کی کہانیوں کی طرح مشہور ہونے والی شادی کا ہر طرف چرچا تھا۔ دی ویک (The Week) کے مطابق 1990ء کی دھائی کے اوائل میں شہزادہ چارلس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، دھائی کا آخر آتے آتے بتدریج گھٹتی چلی گئی تاہم وہ اپنی مقبولیت کے عروج کے وقت بھی تخت کے حصول اور ملکہ کی دستبرداری کے سلسلے میں نمایاں طور پر عوام کی بامعنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تازہ ترین عوامی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 70 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ ملکہ، ’پرنس آف ویلز‘ (Prince of Wales) کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے خود حکومت کرتی رہیں، جب تک وہ زندہ ہیں۔

انگلستان کے عوام کو ملکہ سے جتنی محبت ہے، بادشاہت کے لیے اُن کی چاہت اُتنی شدید نہیں، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ملکہ کی جگہ کسی اور کو بادشاہ دیکھنا پسند کریں۔ اسی لیے اُن کی اکثریت ملکہ کو تاعمر حکمران دیکھنا چاہتی ہے۔ ’پولی ٹوائینبی‘ (Polly Toynbee) برطانوی روزنامے ’دی گارڈین‘ (The Guardian) میں لکھتے ہیں کہ ’’ملکہ الزبتھ دوئم کو ساری عمر حکومت کرنے دینا چاہیے مگر وہ برطانیہ کی آخری ملکہ ہونی چاہیئں‘‘۔ اس طرح کے عوامی جذبات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ تصور کرنا محال دکھائی دیتا ہے کہ ملکہ کسی اور کو اقتدار منتقل کر دیں گی۔

بالفرض انگلستان کے لوگ اگر کسی نئے بادشاہ کو تخت پر دیکھنا بھی چاہیں تو بھی ولی عہد شہزادہ چارلس کی تخت نشینی ایک مسئلہ سمجھی جاتی ہے۔ دی ڈیلی میل (The Daily Mail) کے ’آلیسَن پیرسَن‘ (Allison Pearson) طنزاً لکھتے ہیں ’’ہم شہزادہ چارلس کے ماضی اور اُن کی خامیوں کے متعلق خوب جانتے ہیں اور اُن کا احترام کرتے ہیں جیسا کہ ہم اُن کی والدہ کا احترام کرتے ہیں‘‘۔

مزیدبرآں شہزادہ چارلس کے ضمن میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ شکوک وشبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ آیا وہ بعض سیاسی معاملات اور مسائل میں مطلوبہ شاہی غیرجانبداری برقرار رکھنے کی صلاحیت کے حامل ہیں یا نہیں۔ اس تاثر کے پیشِ نظر یہ بہت ممکن ہے کہ ملکہ اپنے پوتے شہزادے ولیم کے حق میں تخت سے دستبردار ہوں۔ تاہم برطانوی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ ولی عہد (پرنس آف ویلز) جو روایتاً اگلا بادشاہ سمجھا جاتا ہے، کو نظرانداز کر کے اُس کے بیٹے کو حکمرانی سونپ دی جائے۔

علاوہ ازیں اگر ملکہ اپنی ضعیف العمری کے باعث تخت سے دستبردار ہوتی بھی ہیں تو اُن کے ولی عہد شہزادہ چارلس خود بھی زندگی کی 70 سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ لیڈی ڈیانا کے سابق بٹلر ’پائول بریل‘ (Paul Burrell) سمیت شاہی محل کے چند دیگر اندرونی افراد کے خیال میں عوام شہزادہ چارلس کو بادشاہ کے کردار کے لحاظ سے زائدالعمر سمجھتی ہے۔

اس تمام تر بحث سے قطع نظر کہ کیا ملکہ تخت سے دستبردار ہوں گی یا نہیں، شاہی خاندان کے بارے میں ایک اور موضوع جو عوام میں بہت گرم ہے وہ یہ ہے کہ اگر شہزادہ چارلس جب تخت سنبھالیں گے تو کیا اُن کی اہلیہ ’کمیلا پارکر بائولز‘ (Camilla Parker Bowles) ملکہ کہلائیں گی ؟ روایتی طور پر تو بادشاہ کی بیگم ملکہ ہی کہلاتی ہے البتہ عوامی جذبات ’کمیلا پارکر‘ (Camilla Parker) کے لیے ’ملکہ کمیلا‘ (Queen Camilla) کے لقب کی بالکل حمایت نہیں کرتے۔

اگرچہ 2005ء میں شہزادہ چارلس نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ ’کمیلا‘ کبھی بھی ملکہ نہیں کہلائیں گی بلکہ وہ اس کی بجائے ’شہزادی کانسورٹ‘ (Princess Consort) کا لقب اختیار کریں گی لیکن بعد میں وہ اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے، یہاں تک کہ انھوں نے عوام کو اپنی یقین دہانی کے اُس پیغام کو اپنی سرکاری ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملکہ الزبتھ ایک پینڈورا باکس کھولنے کا انتخاب کریں گی ؟ قرائین وحالات یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گی۔ حالانکہ اگر آپ کو ’کمیلا پارکر‘ جو اس وقت ’ڈَچز آف کارنوال‘ (Duchess of Cornwall) کا لقب رکھتی ہیں، کو جاننے کا موقع ملے تو شاید ہو سکتا ہے کہ آپ انہیں پسند ہی کرنے لگیں۔

مئی میں جب ملکہ الزبتھ کے شوہر شہزادہ فلپ (Prince Philip) ریٹائر ہوئے تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ کیا اس معاملے میں اب ملکہ بھی اپنے شوہر کی پیروی کریں گی ؟ مگر ملکہ کی جانب سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہ آنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شوہر کے برعکس اُن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

شہزادہ فلپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف عوامی تقریبات کے موقعوں پر اُن کی بجائے ملکہ کے ہمراہ اُن کے بیٹے اور پوتے دکھائی دیئے۔ یوں شہزادہ چارلس، شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری نے وہ کردار نبھایا جو کبھی شہزادہ فلپ ادا کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بادشاہت کو خودبخود ایک سنوارا ہوا چہرہ میسر آگیا اور وہ پھر سے تروتازہ نظر آنے لگی ہے۔

ملکہ کافی عرصے سے اپنے زیادہ سے زیادہ فرائض اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو منتقل کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حکمرانی کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنی اثرپزیری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات ثابت کر رہی ہیں کہ جب وہ اِن چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے نوجوان شاہی خون کو شاہی فرائض کی ادائیگی میں حصہ دار بنا سکتی ہیں تو انہیں تخت سے دستبردار ہونے جیسا بڑا اقدام کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟

اس موسمِ گرما میں برطانوی حکومت نے ملکہ کے انتقال کی صورت میں ہونے والی تقریب کی ’ڈریس ریہرسل‘ (dress rehearsal) کی۔ برطانیہ کے روزنامے ’ایکسپریس‘ (Express) کے مطابق تاریخ میں پہلی بار وزراء نے اسی تقریب کی قبل از وقت مشق میں حصہ لیا۔ اور تو اور انھوں نے اس مشق کو ’لندن برِج‘ (London Bridge) کا خفیہ نام بھی دیا۔ ملکہ کے انتقال کے پہلے دِن کا خفیہ نام ’ڈی ۱‘ (D1) رکھا گیا۔ اس ساری صورتِ حال سے تو یہی لگتا ہے کہ ملکہ اپنے انتقال تک ملکہ ہی رہیں گی اور اُن کی تخت سے دستبرداری کا دُور دُور تک بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

The post ملکہ الزبتھ تخت سے دستبردار ہوں گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

راستہ دیں اور زندگی بچائیں!

$
0
0

پرہجوم سڑکوں پر’’ نوائے پریشاں ‘‘سنا کر راستہ مانگتی ایمبولینس کوئی عام گاڑی ہے نہ اُمید و بیم کی حالت میں اس کے اندر لیٹا شخص کوئی عام مریض ہے۔

ایمبولینس میں کسی بیمار کواس کے عزیز تشویشناک حالت میں طبی ادارے میں لے جا رہے ہیں، حادثے کے بعد کسی زخمی کو ہسپتال پہنچایا جا رہا ہے، گولی بارود سے لہولہان کوئی شہری مسیحاؤں کی جانب رواں دواں ہے۔

ایسے مریضوں کی زندگی کے تحفظ یا انہیں کسی مستقل معذوری سے بچانے کے لیے پہلا ایک گھنٹہ بہت اہم ہے جس میں انہیں طبی امداد کے لیے فوراََہسپتال پہنچانا ہوتا ہے۔ ایمبولینس ہسپتال بروقت پہنچ جائے تو ان کی زندگی بچ سکتی ہے۔اگر ٹریفک جام ہونے یا کسی دوسری وجہ سے راستہ نہ ملنے پر تاخیر ہوجائے توکسی مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے یا وہ عمر بھر کی معذوری اور محرومی کاشکار ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں ایمبولینس کو راستہ نہ دینے کا منفی رجحان پایا جاتا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔اس کی مختلف سماجی،سیاسی اور انفرادی وجوہات ہیں۔ آبادی بڑھنے، موٹر گاڑیوں میں اضافہ ہونے اور سڑکوں کی تنگی کے سبب اکثر ٹریفک جام رہتی ہے اور عزیزو اقارب سڑکوںپرمریض کی زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ایک وجہ آئے دن کے ’’ضروری وغیر ضروری‘‘ احتجاج ہیں، مظاہرین راستہ روک لیتے ہیںاور ایمبولینس کے مسلسل بجتے سائرن کا حال یہی ہوتا ہے کہ

شور میں کہیں دب کر نہ رہ جائے تمہاری آواز

شہر میں اگر زخم کھاؤ تو چیخا نہ کرو

ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے انفرادی رویے ہیں، جسے آپ غفلت یا بے حسی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ لوگوں کو مسئلے کی نزاکت کا احساس ہی نہیں ہے۔ ڈرائیورز مائیک میں آوازدے رہے ہوتے ہیں:’’بھائی! راستہ دے دیں، مریض کی حالت خراب ہے‘‘ لیکن کچھ لوگ دیوار بنے کھڑے رہتے ہیں۔

بعض موقع پرست سمجھتے ہیں کہ ایمبولینس کو تو راستہ ملنا ہی ہے اور اپنی گاڑی اس کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں۔کسی جگہ ویگن یا بس سواریاں اتار نے کے لیے بیچ سڑک راستہ روکے نظر آتی ہے۔ اگر کہیں بند اشارے پر ٹریفک وارڈن ایمبولینس کو گزرنے کی اجازت دیتا ہے یا ایک طرف سے آنے والی ٹریفک کو روک کے راستہ بناتا ہے تو ایک جمِ غفیرخاص طور پر موٹرسائیکل سوار اس کوشش میں ہوتا ہے کہ بند اشارے پر ایمبولینس کے ساتھ ہی گزر جائیں۔

ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی ایک وجہ اربابِ سیاست و ریاست کا پروٹوکول بھی ہے(جس میں اب نسبتاً کمی ہوئی ہے)۔بقول انور مسعود:

مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں

اور ان کی حالت ہے ایسی کہ مرنے والے ہیں

مگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے

یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں

انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس (ICRC)نے چند برس قبل (2015میں) AAPNAانسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سندھ میڈیکل یونیورسٹی اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر کے اشتراک سے ایک تحقیقی مطالعہ کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میںدیگر طبی عملے کے ساتھ ساتھ ایمبولینس ڈرائیوز (66%) کو بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جسمانی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کراچی میں سات مختلف مقامات پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جناح میڈیکل سنٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شیراز شیخ کا کہنا ہے: ’’سڑک پر دوتہائی لوگ ایمبولینس کو راستہ دیتے ہیں جبکہ ایک تہائی ایسا نہیں کرتے اورا یمبولینس کے توجہ دلانے پر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ ٹریفک جام میں ہی ایمبولینس کو دشواری ہوتی ہو، بعض اوقات کوئی ایک گاڑی بھی رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔‘‘ راولپنڈی اسلام آباد میںآغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی تحقیق کہتی ہے: ’’978 مریضوں میں سے صرف 303 (30.9%) مریض ایک گھنٹے کے اندر اندر ایمرجنسی رُوم تک پہنچ سکے۔ حادثے کے بعد کسی مریض کو پہنچنے میں تو پونے پانچ گھنٹے بھی لگے۔ ‘‘

ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طلبہ اکثر اپنے مطالبات کے حق میںیا مخالف طلبہ تنظیم کے سلوک کے خلاف ہاسٹلز سے نکل کر کیمپس پل پر احتجاج کرتے ہیں اور کبھی نہر پر دونوں طرف سے آنے والی ٹریفک روک لیتے ہیں۔

شہر میں آنے جانے کا داخلہ بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور ایمبولینس اس ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں۔ نہر کے ساتھ گزرتی یہ سڑک جناح ہسپتال،شیخ زید ہسپتال، جنرل ہسپتال سمیت کئی بڑے ہسپتالوں کی طرف جاتی ہے۔ لاہور کا کوئی بھی ہسپتال ہو ،ملتان روڈ سے آنے والے مریض کے لیے تواس سڑک پرٹریفک جام ہونا رکاوٹ ہی ہے۔یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم ایک دو بار مریض کے دم توڑ جانے کی خبر بھی سننے کو ملی ہے۔ جب ایسی صورتحال ہو تو بوجوہ حالات یونیورسٹی انتظامیہ کے قابو میں نہیں ہوتے اور ایک دو گھنٹے بعد پولیس آتی ہے، مذاکرات ہوتے ہیںاور پھر کہیں جا کر راستہ کھلتا ہے۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ایدھی سنٹر کے ایک ڈرائیور سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔اس نے بتایا کہ سڑک پر اکثر لوگ سائرن یا مائیک کے ذریعے راستہ مانگنے پر تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی طرف سے بے اعتنائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ریسکیو سروس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہمارا رسپانس ٹائم سات منٹ ہے ،ہمیں اس تھوڑے سے وقت کے اندر جائے حادثہ پر پہنچنا ہوتا ہے،بعض لوگ خالی گاڑی دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید ہم کسی اور کام سے جارہے ہیںاور راستہ نہیں دیتے۔

پس چہ باید کرد؟ٹریفک میں ایمبولینس کے ساتھ تعاون کے لیے ہم سب کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

سب سے پہلے تو ہمیں انفرادی سطح پر اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ہمیں چاہیے کہ جیسے ہی ایمبولینس کا سائرن سنیں،نہ صرف اس کو راستہ دیں بلکہ اس کے لیے راستہ بنانے میں کردار ادا کریں۔دیگر ملکوں میں سڑک کے دائیں طرف کی لائن ایمبولینس کے لیے خالی کردی جاتی ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بائیں طرف ہو کر ایمبولینس یا ریسکیو کی گاڑیوں کو راستہ دیں۔ اگر سڑک پر بے احتیاطی کریں اور کچھ دیر بعد آپ کو پتہ چلے کہ ایمبولینس میں مریض آپ کا اپنا عزیز تھااور راستہ نہ ملنے سے اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہے تو سوچیں،آپ پر کیا بیتے گی؟

اگر سڑک پر کوئی ایمرجنسی گاڑی یا ایمبولینس خالی سفر کر رہی ہے تو وہ فراغت سے نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زخمی یا مریض کو لینے جارہی ہے۔ان کو فوری راستہ دینا اس لیے بھی اہم ہے کہ جائے حادثہ سے مریض کو ایمبولینس میں شفٹ کرکے اسے ابتدائی طبی امداد یا کوئی اور طبی سہولت فراہم کر کے اس کی زندگی بچائی جاسکتی ہے یا جسمانی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔

حکومت اور میڈیا کی ذمہ داری ہے اس مسئلے کی حساسیت سے لوگوں کو آگاہ کرے کہ ایمبولینس کا ٹریفک میں پھنسنا مریض کی جان کے لیے خطر ناک ہوسکتا ہے۔ عوامی آگاہی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت ایک مراسلہ جاری کرے اور ہر علاقے کے ایس ایچ او کے ذریعے مساجد میں جمعہ کے خطبہ میں اس مسئلے کی سنگینی اور تدارک کی طرف توجہ مبذول کروائے۔ذرائع ابلاغ بالخصوص سماجی رابطے کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا )کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی اور آگاہی کا سلسلہ شروع ہو(مثلاََکوئی #ٹیگ کی مہم چلائی جائے)۔

ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے ہمارے ملک میں کوئی واضح قانون سازی نہیں۔دیگر ملکوں میں ایمرجنسی سروسز دینے والی گاڑیوں کو راستہ دینے کے ضمن میںباقاعدہ قوانین ہیں جنہیں (Move Over Laws)کہا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں ایسے قوانین بننے چاہئیں جو یہ طے کریں کہ سڑک پر ایمبولینس کے گزرنے کا راستہ کیا ہو،سائرن کی آواز سن کر لوگوں کا کیا ردِعمل ہواور راستہ نہ دینے پریا ان پر کسی قسم کا تشدد کرنے پر کیا سزا ہوگی۔ پھر ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے۔ آج کل ایک خاص ذہنیت کے حامل کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں پر ’’ہُو ٹر‘‘لگا رکھے ہیں،اس لیے شاید لوگ بعض اوقات ایمبولینس کی آواز کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ٹریفک پولیس کو چاہیے کہ ایسی گاڑیوں کو موقع پر نہ صرف بھاری جرمانہ کریں بلکہ انہیں گاڑی سمیت تھوڑی دیر کے لیے جیل بھجوادیا جائے۔

کئی ملکوں میں ایمرجنسی گاڑیوں کے لیے الگ ٹریک ہوتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایسی سہولت کا ملنا فی الحال خواب ہی ہے۔ تاہم حکومت کوچاہیے کہ بڑے شہروں کی شاہراہوں پر کوئی الگ ٹریک بنانے کا آغاز کرے ۔اگر اور کچھ نہیں تو جن شہروں میں میٹرو بس کے راستے(ٹریک)ہیں،ا ن کو ایمبولینس اور ریسکیو گاڑیوں کے آنے جانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے ۔اس سے بہت سوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔

بڑے شہروں میں ایمبولینسوں کی کسی ایک مرکز سے ریگولیشن بھی ضروری ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی خود کش حملے یا سانحہ کے بعد کئی سرکاری اور رفاہی اداروں کی ایمبولینسیں جائے وقوعہ پر ایک ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے بھی رش پیدا ہوتا ہے اور ایک ایمبولینس دوسری کے لیے رکاوٹ پیدا کردیتی ہے۔ علاوہ ازیںٹریفک پولیس کے تعاون سے ایمبولینس ڈرائیورز کو بھی پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور سڑک پر مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کی رہنمائی کی جائے۔

ایمبولینس کو راستہ دینے کے موضوع پر تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز میں سیمینارز اور پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ میٹرک کے نصاب میں اس سے متعلق کوئی مضمون شامل کیا جائے۔ ہم نصابی سرگرمیوں (تقریری و تحریری مقابلوں) میں اس مسئلے کو موضوع بنایا جائے اور آرٹس کونسلز مسئلے کی نزاکت اجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

اشفاق احمد کہا کرتے تھے ’’اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے‘‘۔بحیثیت انسان ہمارا اخلاقی و سماجی فرض ہے کہ فرمانِ الٰہی ’’ومن احیاھا فکانمااحیا الناس جمیعا‘‘(المائدہ)کو ذہن میں رکھ کر ایمبولینس کو دیکھتے ہی،آواز سنتے ہی اس کو گزرنے کے لیے راستہ دیں۔ آج کوئی اور ہے تو کل اس میں ہمارا کوئی پیارا بھی ہو سکتا ہے یاہم خود بھی ہوسکتے ہیں۔ ذرا سوچئے!

The post راستہ دیں اور زندگی بچائیں! appeared first on ایکسپریس اردو.


’’ہندوستان میں انتہاپسندی کو انگریز نے رواج دیا‘‘

$
0
0

یہ 1977ء کی بات ہے‘ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار غیر کانگریسی رہنماؤں نے حکومت سنبھالی۔ اسی حکومت میں بعض وزیر قوم پرست ہندو طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ وزیر تحریک چلانے لگے کہ نصابی کتب میں جن مسلمان بادشاہوں اور لیڈروں کا ذکر ہے‘انہیں ختم کر دیاجائے۔ یہی نہیں‘ ہندوستان میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ اقتدار کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ ثابت ہو سکے کہ اس دوران ہندو عوام مسلم حکومت کے ظلم وستم کا شکار رہے۔

بھارتی قوم پرست وزیر جن نصابی کتب میں تبدیلیاں چاہتے تھے‘ ان میں سے بعض تاریخ کی پروفیسر رومیلا تھاپر نے تحریر کی تھیں۔ جب رومیلا تھاپرکو وزرا کی تحریک کا علم ہوا‘ تو انہوں نے دھمکی دی کہ کتب میں سے کچھ بھی مواد ختم کیا گیا‘ تو پھر کتابوں پر ان کا نام بھی نہیں چھپے گا۔ یہ دھمکی کارگار ثابت ہوئی کیونکہ وزیر چاہتے تھے‘ پروفیسر رومیلا اور دیگر مورخین اپنے قلم ہی سے تبدیلیاں انجام دیں… تبھی انہیں علمی لحاظ سے مستند تصّور کیا جاتا۔ اگر وہ از خود تبدیلیاں لاتے‘ تو مقامی و عالمی سطح پر ان کی بھد اڑ سکتی تھی۔

نصابی کتب میں تبدیلیوں کا معاملہ زیر غور تھا کہ جنوری 1980ء میں جتنا پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی۔ اسی سال ہندو قوم پرست رہنماؤں نے بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے نام سے نئی جماعت بنالی ۔ مسلمانان ہند کے خلاف ہندو عوام کے مذہبی جذبات ابھار کر یہ پارٹی مقبول ہوئی۔کانگریسی لیڈروں کی کرپشن اور عوام کی محرومیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

نتیجے میں بی جے پی 1999ء میں حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔اس حکومت میںانتہا پسند  جماعت، آر ایس ایس (راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ) کا رہنما‘ مرلی منوہر جوشی وزیرتعلیم بن بیٹھا۔ اب وہ کوشش کرنے لگا کہ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ ان تبدیلیوں کا محور یہ نکتہ تھاکہ مسلمانوں کے رہنماؤں کو بطور ولن اور ظالم  پیش کیا جا ئے جبکہ ہندو لیڈر ہیرو قرار پائیں۔ گویا آر ایس ایس اور بی جے پی نصابی کتب میں من پسند تاریخ ٹھونسنا چاہتی تھی۔

پروفیسر رومیلا تھاپر اور دیگر مورخین نے پھر قوم پرست حکومت کو خبردار کیا کہ وہ نصابی کتب میں من پسند تبدیلیاں کرنے سے باز رہے کیونکہ اس طرح تاریخی حقائق  کا حلیہ بگڑ جائے گا۔ یہ اقدام تاریخ مسخ کر سکتاہے۔پروفیسر رومیلا و دیگر مورخین کی تنقید نے بھارتی وزیر تعلیم کو غضب ناک کیا کہ اس نے پارلیمنٹ میںانہیں ’’غدار‘‘ کہہ ڈالا… مطلب یہ کہ حکومتی نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے مورخین ہندو اکثریت کے مخالف قرار پائے۔ یہی نہیں‘ اس نے مطالبہ کیا ’’ہندوستان کی تاریخ میں ردوبدل کرنے والے ’’علمی دہشت گرد‘‘ ہیں اور پڑوس سے آنے والوں سے زیادہ بدتر لہٰذا انہیں فوراً گرفتار کر لینا چاہیے۔‘‘

ان اشتعال انگیز باتوں کو مگر پروفیسر رومیلا تھاپر نے علمی وقار سے برداشت کیا اور بچکانہ پن کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن تب سے بھارتی قوم پرست سیاست دانوں ‘ مورخین اور ماہرین تعلیم نے انہیں نشانہ بنا رکھا ہے۔

کردار کشی کی  ایسی مخالفانہ اور گھٹیا مہم میں بیشتر دانش ور اپنی جان و آن بچانے کی خاطر خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ پھر کسی پر جائز تنقید بھی نہیں کرتے اور خاموشی سے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ تاہم پروفیسر رومیلا دلیر و بہادر خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ پچھلے انیس برس سے کھل کر آر ایس ایس اور بی جے پی پر تنقید کرتیں اور ان کی عیاری و جھوٹ سامنے  لاتی ہیں۔ گویا بھارت میں انہوں نے حق و سچائی کی شمع بجھنے نہیں دی اور جرأت و ہمت سے نفرت و دشمنی کی سیاست کرنے والے  لیڈروں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ علم کی طاقت ہی انہیں یہ حوصلہ بخشا کہ وہ خطرناک جہلا سے نبرد آزما ہو جائیں۔

٭٭

بیاسی سالہ رومیلا تھاپر 30نومبر 1931ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ والد فوج میں ڈاکٹر تھے لہٰذا وہ جہاں تعینات ہوتے‘ بچوں کو بھی وہیں جانا پڑتا۔ رومیلا نے بچپن اور لڑکپن کے سال لاہور اور پشاور میں بھی گزارے۔ پنجاب یونیورسٹی ‘ لاہور سے انگریزی ادب میں بی اے کیا۔ مسلم گھرانوں سے میل ملاپ رکھنے کے باعث وہ بہت سی اسلامی اقدار اور روایات سے آگاہ ہوئیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بچپن سے تاریخ کے موضوع میں دلچسپی رکھتی تھیں۔

یہی وجہ ہے، بی اے کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی آف لندن چلی گئیں اور 1958ء میں قدیم ہندوستانی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ وطن واپس آئیں‘ تو پہلے کو درکیشتر یونیورسٹی پھر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر رہیں۔1971ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (دہلی ) میں شعبہ قدیم ہندوستانی تاریخ کی بنیاد رکھی ۔ فی الوقت اسی شعبے سے بطور پروفیسر ایمرطیس وابستہ ہیں۔

پروفیسر رومیلا ہندوستانی تاریخ اور قدیم ہندوستانی شخصیات پر بیس سے زائد کتب تحریر کر چکیں۔ غیر جانب دار نظریات و خیالات رکھنے کی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں مستند و بہترین مورخ سمجھا جاتا ہے۔ آپ دو مرتبہ بھارت کا تیسرا بڑا قومی ایوارڈ‘ پدما بھوشن لینے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ کہ پروفیسر صاحبہ صرف درسگاہوں اور علمی تنظیموں سے ایوارڈ لیتی ہیں۔

رومیلا تھاپر اپنی زندگی میں کئی انٹرویو دے چکیں جن میں ان کے نظریات و خیالات بکھرے پڑے  ہیں۔پروفیسر صاحب کے افکار خاص طور پہ ہندوستان پہ قبضہ کرنے والے انگریز غاصبوں کا وہ طریق کار (بلکہ طریق واردات) واضح کرتے ہیں جس کی بدولت ہندوستان میں ہندو قوم کے مابین انتہا پسندی ، قوم پرستی خصوصاً مسلم دشمن جذبات  نے جنم لیا۔لاکھوں لوگوں نے امن ومحبت کو تج کر نفرت  اپنے من میں بسا لی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسی رو کے نمائندے بن چکے جن کے دور حکومت میں خصوصاً بھارتی مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کو بھی بھارتی حکمران طبقے کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اہم سوالات و جوابات کا انتخاب پیش خدمت ہے۔

٭٭

سوال: آپ نے اپنے ایک مضمون ’’عوامی دانشور‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے جیسے (بھارتی) معاشرے میں ایسے دانش وروں کا ہونا بہت ضروری ہے جو حکومت پر تنقید کریں اور سوال کرسکیں۔ ’’ہمارے جیسے معاشرے‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟

جواب: میری مراد اس معاشرے سے ہے جو پچھلے چار پانچ سال کے دوران جنم لے چکا۔ اسی دوران حکومت اور اس سے متعلق قوم پرست تنظیموں نے سوال کرنا خطرناک عمل بنا دیا۔ہر بھارتی شہری کو یہ  ڈکٹیٹ کرایا جانے لگا کہ جو بات ہمارے نزدیک درست ہے‘ تم بھی اسے صحیح کہو۔ اور جسے ہم غلط سمجھتے ہیں‘ تم بھی اسے غلط سمجھو۔ ایسے ماحول میں کوئی حکومت یا قوم پرست تنظیموں سے سوال کرے،ان کی سرگرمیوں پہ تنقید کرے تو وہ تشدد پر اتر آتی ہیں۔ اسی لیے ناقدین کے قتل ہوئے۔ جن لوگوں نے حکومتی نظریات کو درست تسلیم نہ کیا ،انہیں  مار دیا گیا۔

سوال: آپ نے دانشوروں کے قاتلوں کو دہشت گردوں سے تشبیہ دی ہے؟

جواب: جی بالکل! دہشت گرد کون ہے؟ جو دوسرے انسان کو خوفزدہ کرتا اور اسے مار ڈالتا ہے۔ اگر کوئی ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرے، تو ہم اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔ لیکن بھارت میں جب دانش ور (ایم ایم کلبلرگی، گووند پنسارے، نریندر دبھولکر وغیرہ) قتل ہوئے، تو حکومت نے الزام جرائم پیشہ لوگوں کے سر تھوپ دیا۔یہ بڑی تشویشناک صورتحال ہے۔ آج بھارتی قوم پرست تنظیموں نے دہشت گردوں پر مبنی گروہ بنالیے ہیں مگر وفاقی اور ریاستی حکومتیں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔

سوال: آپ نے درج بالا مضمون میں یہ بھی لکھاکہ آج  لیفٹسٹ سیاست داں یہ تصّور نہیں رکھتے کہ بھارت میں کس قسم کا معاشرہ وجود میں آئے۔ لیکن مذہبی انتہا پسندی پر مبنی قوم پرستی کے نام لیوا لیڈر اسی سلسلے میں بہت متحرک ہیں۔ دیگر رہنما کیوں متحرک نہیں رہے؟

جواب: آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے آپ کسی بھی درس گاہ میں جاتے تو وہاں کافی ہاؤسوں میں بحث کا موضوع یہ ہوتا تھا کہ معاشرے کو ترقی یافتہ کیسے بنایا جائے؟ معاشرتی انصاف کیونکرجنم لے ؟ عوام کے مسائل کیسے حل ہوں؟ آج آپ ان کافی ہاؤسوں میں جائیں تو پروفیسر ان موضوعات پر گفتگو کرتے ملیں گے کہ تنخواہ کب مل رہی ہے اور گریڈ کب بڑھے گا۔

لیفٹسیٹ اور اعتدال پسند طبقوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر دانشور اور سیاست داں بھی مادی باتوں کی سمت زیادہ متوجہ  ہیں۔اس صورت حال میں مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے قوم پرستانہ نظریات کی ترویج کا موقع مل گیا۔ یہ رہنما اب ہندو راشٹریہ(ہندو ریاست) کو آئیڈیل معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس ریاست میں سب شہریوں کو مساوات کے اصول پر مبنی حقوق نہیں ملیں گے۔ یہ رہنما اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

سوال: ہندو راشٹریہ کے حامی اتنے سرگرم کیوں ہیں جبکہ دوسرے متحرک نہیں رہے؟

جواب: ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ایک پلیٹ فارم پر لیفٹسٹ ‘ لبرل اور اعتدال پسند طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں‘ سیاست دانوں اور عام لوگوں کو جمع نہیں کر سکی۔ 1991ء ہندوستانی تاریخ کااہم سال ہے جب حکومت  نے مارکیٹ اکانومی اور نیو لبرل ازم کو اپنا لیا۔ تب معاشرے میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں آنے لگیں۔ جب عالمی سطح پر بھارتیوں کا دیگر اقوام سے مقابلہ ہوا تو انہیں پتا لگا کر بھارتی قوم تو ہر شعبے میں دیگر قوموں سے پیچھے ہے۔ اس احساس نے مایوسی اور ڈپریشن کو جنم دیا۔ اس عالم مایوسی میں جب مذہبی قوم پرست اپنا ایجنڈا سامنے لائے‘ تو ہندو عوام میں اسے مقبولیت ملی۔ ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ بھارت انہی کا ہے‘ وہ سبھی وسائل کے مالک ہیں اور انہیں ہی یہ ملک سنبھالنا چاہیے۔

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیفٹسٹ دانشور مذہبی معاملات پر گفتگو نہیں کرتے‘ یوں انہوںنے انتہا پسندوں کے لیے مذہب کا میدان خالی چھوڑ دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: یہ نکتہ نظر کسی حد تک درست ہے۔ اب بہت سے دانشور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مذہب کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انسان کا ذاتی و انفرادی معاملہ ہے۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن بھارتی معاشرے میں مذہبی تنظیمیں ہر شعبہ ہائے زندگی میں عمل دخل رکھتی ہیں۔ وہ انسان کی فکر و عمل پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ جدید دانشوروں نے اس حقیقت کا گیرائی و گہرائی میں مطالعہ نہیں کیا۔

سوال: آپ کوئی مثال پیش کرسکتی ہیں؟

جواب: سرکاری سکولوں کی مثال لیجیے۔ ماہرین تعلیم کی کوشش رہی ہے کہ وہاں ایسی نصابی کتب پڑھائی جائیں جن میں کسی مذہب کی تضحیک نہ ہو اور تمام تاریخی حقائق قوم پسند حکمرانوں کی مذہبی پالیسیوں کے مطابق پیش نہ ہوں۔ لیکن آر ایس ایس اور دیگر مذہبی تنظیمیں پورے بھارت میں اپنے لاکھوں پرائمری و ہائی اسکول چلارہی ہیں۔ ان میں ایسی کتب پڑھائی جاتی ہیں جن میں صرف ایک مذہب (ہندومت) کو عظیم ترین قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر مذاہب کے متعلق متنازع باتیں موجود ہیں۔میں نے ماضی میں حکومتوں اور وزارت تعلیم سے کئی بار اپیل کی ہے کہ وہ تحقیق کریں، آر ایس ایس کے اسکولوں میں کس قسم کا نصاب رائج ہے۔ کیا یہ درسی کتابیں پڑھ کر ایک طالب علم معاشرے کے لیے مفید شہری بنتا ہے یا دیگر مذاہب اور فرقوں کے خلاف اس کے دماغ میں زہریلا مواد ٹھونسا جاتا ہے۔

سوال: آپ نے ہندومت کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ اس تاریخ  کے بارے میں بتائیے۔

جواب: اس سوال کا جواب تو بہت طویل ہوگا۔بہرحال عرض کرتی ہوں کہ زمانہ قدیم میں ہندوستان میں مختلف اقوام آباد تھیں۔ ان سبھی اقوام کی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت اور مذاہب تھے۔ بس  ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ وہ متفرق دیوی دیوتائوں کی پوجا کرتے۔ عموماً ہر قوم کے اپنے مخصوص دیوی دیوتا تھے۔پانچ چھ ہزار سال پہلے وسطی ایشیا اور ایران سے قبائل ہجرت کرکے ہندوستان آنے لگے۔ ان قبائل کی اپنی تہذیب و ثقافت اور مذاہب تھے۔ یہ قبائل جنگجو تھے،اسی لیے رفتہ رفتہ  انہوں نے ہندوستانی اقوام کو زیر کرلیا۔

چناں چہ ہندوستانی اقوام کو فاتح کے مذہب اور تہذیب و ثقافت اپنانا پڑی۔ یہ قبائل آگے چل کر ’’آریہ‘‘ کہلائے۔انہی قبائل نے ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی بنیاد رکھی۔ فاتح قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد برہمن، کھشتری اور ویش بن بیٹھے۔ ہندوستان کی مقامی اقوام کے باشندے شودر یا اچھوت (اب دلت) کے زمرے میں شمار ہوئے۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کام کرتے تھے اور معاشرے میں ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ایک برہمن جب چاہے اچھوت کو قتل کرسکتا تھا اور اس سے باز پرس تک نہ ہوتی۔

برہمن عام طور پہ پوجا پاٹ کرتے اور مذہبی کتب لکھتے تھے۔ انہوں نے ہی وید، اپنشد، پران، بھگوت گیتا اور رزمیہ داستانیں مثلاً رامائن، مہا بھارت وغیرہ تخلیق کیں۔ ان برہمنوں کا تخلیق کردہ مذہب، برہمن مت موجودہ پاکستانی صوبوں اور شمالی ہندوستان میں زیادہ پھلا پھولا لیکن مشرقی ہندوستان (بہار، بنگال) اور جنوبی ہندوستان (کیرالہ،آندھرا پردیش)میں اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈھائی ہزار سال مشرقی ہندوستان میں مہاتما بدھ سامنے آئے جنہوں نے برہمن مت کے خلاف بغاوت کردی۔ وہ برہمنوں کے ذات پات والے نظام کو ناپسند کرتے اور انہیں آمر سمجھتے تھے۔ چناں چہ برہمن بدھا کے سخت خلاف ہوگئے۔ تاہم بدھا کے نظریات نے لاکھوں ہندوستانیوں کو متاثر کیا اور کئی صدیوں تک برہمن مت صرف شمالی ہند تک محدود رہا۔آٹھویں صدی عیسوی میں ایک برہمن پروہت، ادی شنکر اچاریہ نے برہمن مت کو پھر نئے سرے سے زندہ کیا اور یہ مذہب دوبارہ ہندوستانی اقوام میں پھیلنے لگا۔ لیکن جلد ہی مسلمان ہندوستان آپہنچے۔

مسلم صوفیا کی تبلیغ سے لاکھوں ہندوستانی مسلمان ہوگئے۔مسلمان افغانستان، ایران، عرب ممالک سے ہندوستان آئے تھے مگر وہ یہیں بس گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارا دا کیا۔ برہمنوں اور دیگر غیر مسلموں سے مسلم حکمرانوں کے تعلقات بالعموم خوشگوار رہے۔ حکمرانوں نے عموماً یہ کوشش نہیں کی کہ کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنالیا جائے۔ اسی لیے مسلم دور حکومت میں رواداری اور برداشت کا دور دورہ تھا۔ مسلم حکمرانوں نے کئی برہمنوں اور دیگر غیر مسلموں کو وزیر مشیر کے عہدوں پر بھی فائز کیا۔

اٹھارہویں صدی میں انگریز تاجر کے روپ میں ہندوستان میں وارد ہوئے۔ 1765ء تک وہ امیر ترین ہندوستانی صوبے، بنگال پر قبضہ کرچکے تھے۔ وہ پھر بقیہ ہندوستان پر قبضے کا خواب دیکھنے لگے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستان کے دو سب سے بڑے طبقات… مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آپس میں لڑوا دیا جائے۔ یہ لڑائی پیدا کرنے کی خاطر دیگر عوامل کے علاوہ سب سے زیادہ مذہب کا سہارا لیا گیا۔

اس وقت ہندوستان بھر میں پھیلے لاکھوں غیر مسلم مختلف دیوی دیوتائوں کی پرستش کرتے تھے۔ ان کے دو بڑے گروہ تھے: وشنو اور شیو۔ ان دونوں فرقوں کے پیروکار آپس میں برسرپیکار رہتے تھے اور ایک دوسرے پر خونریز حملے کیے جاتے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے فرقے کے پیروکار زیادہ بنائے جا سکیں۔ انگریزوں نے ان سبھی غیر مسلموں کو ’’ہندو‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ اصطلاح اصل میں مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ وہ دریائے سندھ کے پار بسنے والوں کو ’’سندھو‘‘ کہتے تھے، یہ نام بگڑ کر ہندو ہوگیا۔

میں نے پہلے بتایا کہ ہندوستان کے شمالی، جنوبی، مغربی اور مشرقی علاقوں میں بسنے والی ہندوستانی اقوام کی اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت اور دیوی دیوتا تھے۔ ان میں بس قدر مشترک یہ تھی کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے۔ وشنو اور شیو فرقوں کے پیروکار البتہ ویدوں، شاستروں، اپنشدوں وغیرہ کا بھی مطالعہ کرتے اور انہیں اپنی مذہبی کتب قرار دیتے۔

انگریز اب اپنے عزائم اور مفادات کی تکمیل کے لیے غیر مسلموں میں یہ نظریہ پھیلانے لگے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ان پر ظلم کیے ہیں۔ ان کو غلام بنائے رکھا ۔ وہ ہندوستان کی ملکی دولت اور وسائل پر قابض ہوگئے اور اس سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جبکہ غیر مسلم غربت و ناداری کی زندگی بسر کرتے رہے۔ لہٰذا اب انہیں مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان سے انتقام لینے کا وقت آپہنچا ۔

حقیقت میں یہ باتیں جھوٹ تھیں۔ تاریخ میں بہت کم ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے ثابت ہو کہ مسلم حکمران غیر مسلم رعایا پر سختی کرتے رہے  اور انھیں دانستہ ناخواندہ و غریب رکھا گیا۔بعض سخت مزاج حکمران گذرے ہیں مگر مسلم حکمرانوں  کی انصاف پروری کے واقعات بھی ملتے ہیں۔ انگریزوں نے مگر پوری کوشش کی کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا دیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کے مذہبی جذبات بھی مشتعل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

بنگال کا نظم ونسق سنبھال کر انگریزوں نے اہم انتظامی عہدوں پر برہمن تعینات کیے تھے۔وجہ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومتوں میں کام کر کے تجربے کار ہو چکے تھے۔ انگریزوں کے منظم پروپیگنڈے  سے متاثر ہو کر یہ برہمن غیر مسلموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ انہیں متحد کرکے طاقتور بنایا جاسکے۔ اصل مقصد یہ تھا کہ طاقتور ہوکر مسلم اشرافیہ کے خلاف مہم چلائی جائے جو ہندوستانی معاشرے میں اب بھی اثرورسوخ رکھتی تھی۔

بنگال میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کے مابین فساد کرانے کی انگریز پالیسی کامیاب ثابت ہوئی۔ دونوں فرقوں کے رہنما سیاسی و مذہبی بنیاد پر آپس میں لڑنے جبکہ انگریز حکومت کے مزے لوٹتے تماشا دیکھنے لگے۔ انگریزوں نے پھر اپنی اس عیارانہ پالیسی کو باقاعدہ شکل دینے کا فیصلہ کرلیا تاکہ ہندوستان پہ طویل عرصہ حکومت کی جا سکے۔ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی 1800ء تک بنگال اور ریاست میسور پہ قبضہ کر چکی تھی۔راجپوتانہ، پنجاب اور دہلی میں بھی اس کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ 1805ء میں کمپنی نے برطانیہ کے مورخ، جیمز مل (James Mill)سے رابطہ کیا۔ وہ اس انگریز دانشور سے ایسی درسی کتاب لکھوانا چاہتی تھی جس میں ہندوستان کی تاریخ کو ’’غیرمسلم‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے ابواب میں تقسیم کردیا جائے۔

جیمزمل کبھی ہندوستان نہیں آیا۔ اس نے برطانیہ ہی میں مختلف انگریز مصنفین کی لکھی کتب جمع کیں اور ان کی مدد سے ’’دی ہسٹری آف برٹش انڈیا‘‘(The History of British India) نامی کتاب تحریر کر ڈالی۔ جیمز نے کتاب میں بظاہر مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن یہ اقدام ایسٹ انڈیا کمپنی کی اصل پالیسی پوشیدہ رکھنے کے لیے اٹھایا گیا۔کمپنی کے مالکان نے جیمز مل سے یہ کتاب اس لیے لکھوائی تاکہ اس میں وہ مظالم نمایاں کیے جاسکیں جو مسلم حکمرانوں نے غیر مسلم رعایا پر ڈھائے تھے۔ ان مظالم کا بیشتر تذکرہ خود ساختہ تھا۔ بعض واقعات مجہول کتب سے لیے گئے۔ ممکن ہے کہ بعض واقعے جیمز مل نے خود ہی گھڑلیے۔ غرض اس کتاب میں یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ ہندوستان میں مسلمان حکمران ظالم رہے ہیں اور غیر مسلم رعایا مظلوم!

ایسٹ انڈیا کمپنی کے جو انگریز اہلکار ہندوستان جاکر انتظام سنبھالتے تھے، پہلے انہیں لندن کے نزدیک واقع ایک درس گاہ، ایسٹ انڈیا کالج میں تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ (یہ کالج اب ہیلی بری اینڈ امپریل سروس کالج کہلاتا ہے)۔ جیمزمل کی کتاب بطور نصاب اس کالج میں رائج کردی گئی۔ ہر اہل کار کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے۔ امتحان میں بھی بیشتر سوالات اسی کتاب سے متعلق ہوتے۔ اس کتاب کے نظریات کو تفصیل سے دیگر انگریز مورخین نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا۔ ان میں سے اکثر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار ملازم تھے۔

ایسٹ انڈیا کالج سے فارغ التحصیل ہوکر جو اہل کار ہندوستان آتے اور ملکی نظم و نسق سنبھالتے، ان میں یہ نظریہ راسخ ہوچکا ہوتا کہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلموں پر ظلم و ستم کیے۔ وہ پھر غیر مسلم دوستوں میں بھی اس نظریے کا پرچار کرتے اور یوں ان میں مسلم ہم وطنوں کے لیے نفرت و دشمنی کے جذبات پیدا کردیتے۔ انہی جذبات کے زیر اثر برہمن رہنما غیر مسلموں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ مسلمانوں سے بدلہ لیا جاسکے۔ یوں برہمن ہندوستان میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ حاصل کرنے کی بھی خواہش رکھتے تھے۔

جنگ 1857ء میں اگرچہ مسلمان اور غیر مسلم مل کر انگریز غاصبوں سے نبرد آزما ہوئے مگر یہ اتحاد آخری ثابت ہوا۔انگریز کے ایجنٹ بن کر برہمن رہنما ہندوستانی معاشرے میں تیزی سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کررہے تھے۔ اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ 1853ء میں وشنو فرقے کے ایک گروہ (نرموہی اکھاڑے) نے بابری مسجد پر قبضہ کرلیا۔ اسی تنازع پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین پہلا بڑا فساد بھی ہوا۔

جنگ آزادی کے بعد برہمن رہنمائوں کی یہ مہم تیز ہوگئی کہ غیر مسلموں کو ایک مذہبی پلیٹ فارم پر جمع کرلیا جائے۔ اسی پلیٹ فارم کا نام انہوں نے ’’ہندومت‘‘ رکھا۔ وہ کوشش کرنے لگے کہ تمام بت پرست ہندو بن جائیں اور برہمنوں کا ویدک مذہب اختیار کرلیں۔ان برہمن رہنمائوں میں کچھ اعتدال پسند تھے جنہوں نے کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا۔ یہ برہمن مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔یوںانھوں نے ایک مختلف راستہ اختیار کر لیا۔ مگر بقیہ برہمن رہنمائوں نے مسلمانوں کی مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا۔ گویا وہ انتہا پسندی اور قوم پرستی کی  راہ پر چل نکلے۔ ان رہنمائوں میں دیانند سرسوتی،بنکم چندر چٹرجی، پنڈت مدن موہن مالویہ، بال گنگادھرتلک، دمودر ساورکر، کے بی ہیڈگوار وغیرہ نمایاں ہیں۔

کے بی ہیڈگوار ہی نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ یہ  مذہبی و سماجی تنظیم ہے۔ بی جے پی اسی تنظیم کی سیاسی جماعت ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا بنیادی نظریہ یا فلسفہ یہ ہے… ’’ہندوستان میں آباد سبھی بت پرست (ہندو) زمانہ قدیم سے ویدوں، پرانوں،اپنشدوں وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ مسلمان حکمران غاصب تھے جنہوں نے ہندو رعایا پر ظلم ڈھائے۔ اب صرف ہندو ہی بھارت پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اکثریت ہونے کے باعث انہیں مراعات بھی زیادہ ملنی چاہیں۔‘‘ آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کی ہم خیال سبھی قوم پرست تنظیموں کے افراد سختی سے درج بالا نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان میں بعض انتہا پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہی کہ بھارت میں آباد تمام مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنالیا جائے کیونکہ ان کے اجداد بت پرست ہی تھے۔

سوال: آپ کی طویل گفتگو سے عیاں ہے کہ ہندومت دراصل برہمن مت کا نیا روپ ہے جس کی تشکیل میں انگریز نے بھی اہم کردار ادا کیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج آر ایس ایس اور بی جے پی میں نچلی ذات کے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مثلاً نریندر مودی بھی ان جماعتوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرچکے۔ برہمن طبقہ عام طور پہ یہ برداشت نہیں کرتا کہ نچلی ذات والے بلند مناصب پر فائز ہوجائیں اور ترقی کریں۔

جواب: شروع میں برہمن رہنمائوں کا یہی نظریہ تھا کہ صرف اعلیٰ ذات والے بت پرستوں (برہمنوں اور کھشتریوں) کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ مگر ہندوستان میں ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے  معاشرے میں اپنی سیاسی و معاشرتی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے برہمنوں کو مجبوراً نچلی ذات والے بت پرستوں سے رابطہ کرنا پڑا۔ انہیں یہ ترغیب دی گئی کہ اگر وہ ان کی مذہبی تحریک (ہندومت) میں آجائیں، تو وہ دنیاوی لحاظ سے ترقی کرسکتے ہیں۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوجائے گا۔

اس کے باوجود بیشتر بت پرست کئی برس تک قوم پرست برہمنوں کی سمت متوجہ نہیں ہوئے۔ 1980ء کے بعد بی جے پی پارٹی بنی، تو اس نے وسیع پیمانے پر نچلی ذات والے لوگوں سے رابطہ کیے۔ نیز مسلمانوں کے خلاف مختلف مہمات (مثلاً رام رتھ یاترا) چلا کران کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے۔ عوامی رابطے کی مہم اور مسلمانوں کے خلاف تحریکیں چلا کر بی جے پی نے اپنے پلیٹ فارم پر لاکھوں بت پرستوں کو جمع کرلیا۔

یوں وہ ہندومت کے دائرہ کار میں بھی شامل ہوگئے۔آج بھی آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر قوم پرست تنظیمیں نچلی ذات کے بت پرستوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے دام میں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی ان سے ملازمتیں دینے کا وعدہ ہوتا ہے۔ کبھی کاروبار کے لیے رقم دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ جب کبھی وہ کسی قانونی مسئلے میں پھنس جائیں، تو انہیں اس سے آزادی دلوائی جاتی ہے۔ غرض قوم پرست لیڈروں کی بھر پور سعی ہے کہ بھارت کے تمام بت پرستوں کو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیں۔ یوں نہ صرف بھارت کو ہندو مملکت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا بلکہ وہ طویل عرصہ حکمرانی کے مزے بھی لوٹ سکتے ہیں۔

سوال: نریندر مودی سمیت دیگر قوم پرستوں کو سیکولرازم سے کیا خطرہ لاحق ہے؟

جواب: میں سمجھتی ہوں کہ سیکولر ازم ایک انسانی رویّہ ہے جو انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ ایک سطح پر یہ تقاضا کرتا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سب لوگ مل جل کر رہیں۔ مزید براں یہ سبھی مذاہب کو ایک ہی سطح پر رکھتا ہے۔یہ تقاضا مگر ان افراد کو پسند نہیں آتا جو اپنے مذہب کو دیگر مذاہب سے ممتاز سمجھتے ہیں۔ یا مذہبی مفادات اور مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ریاست میں اکثریتی مذہب چھا جائے۔ مگر سیکولر ازم کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایک ریاست میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

بھارتی قوم پرست سیکولرازم کو اسی لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ ہندو راشٹریہ کا قیام چاہتے ہیں۔ اس مملکت میں ہندوئوں کو ہی زیادہ حقوق و مراعات حاصل ہوں گی۔ سیکولر معاشرے میں انسان کی شناخت بدل جاتی ہے۔ ذات  پات، مذہب، زبان کی شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور ہر انسان ایک جیسے حقوق رکھنے والا شہری بن جاتا ہے۔ اسے تمام انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

آج بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم رائج ہے۔ مگر حقیقت میں معاشرہ اکثریتی فرقے اور اقلیتی فرقوں میں تقسیم ہوچکا جن کی بنیادی شناخت مذہب یا ذات پات ہے۔ چناں چہ اکثریتی فرقہ تو معاشرے میں کئی اقسام کی مراعات رکھتا ہے جبکہ اقلیتی فرقوں کے باشندے استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ قانون کی نظر میں بھی سب شہری برابر نہیں۔ یہ تو جمہوریت نہیں بلکہ جمہوری نظام کے نام پر دھبہ ہے۔جمہوری اقدار اور سیکولرازم کے زوال کی وجہ سے ہی آج بھارتی معاشرہ مسلسل تنگ نظر ہورہا ہے۔ کتابوں پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔ دانش وروں کو آزادی سے بولنے نہیں دیا جاتا۔ غذا، لباس، رہن سہن، غرض ہر شے بھارتی قوم پرست اپنی طرز فکر کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔کیا ایسے معاشرے کو لبرل کیا جاسکتا ہے؟

The post ’’ہندوستان میں انتہاپسندی کو انگریز نے رواج دیا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

اشوک کمار؛ ورسٹائل آرٹسٹ، بولی وڈ لیجنڈ

$
0
0

اشوک کمار انڈین شو بز انڈسٹری کی وہ بے مثال اداکار تھے جنہیں پوری انڈسٹری کے لوگ نہایت عزت اور احترام کے ساتھ ’’پرنس آف بولی وڈ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، گویا وہ اس فلم انڈسٹری کے ایک ایسے شہزادے تھے جن کی کوئی دوسری مثال نہیں پیش کی جاسکتی تھی۔

اشوک کمار کا پیدائشی نام کمد لال گنگولی تھا اور پوری انڈسٹری کے لوگ انہیں پیار، ادب اور احترام سے دادا منی کہہ کر بھی پکارتے تھے جس کا مطلب تھا: بڑا بھائی، وہ واقعی اس انڈسٹری کے لیے ایک بڑے بھائی کا ہی درجہ رکھتے تھے۔ اشوک کمار بلاشبہ انڈین سنیما کے بے مثال اداکار تھے جنہیں 1988میں گورنمنٹ آف انڈیا نے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا جو انڈیا کے فلمی فن کاروں کے لیے سب سے بڑا قومی ایوارڈ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے لازوال کردار کے باعث 1999میں ’’پدم بھوشن‘‘ نامی ایوارڈ بھی وصول کیا تھا۔

اشوک کمار کو انڈیا کے ان سدابہار اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے اندر فن اور اداکارانہ مہارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے اگر اچھے اور نیک دل انسان کے کردار ادا کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا تو ساتھ ہی ولین یعنی برے آدمی کے کردار بھی پوری مہارت کے ساتھ ادا کرکے اپنے فن کی خوب داد سمیٹی۔ اپنی اداکارانہ مہارت اور قدرتی صلاحیت کی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں پوری فلم انڈسٹری پر چھائے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے باہر نہیں نکل پاتے تھے۔

٭پس منظر اور خاندان:اشوک کمار کا پیدائشی نام کمد لال گنگولی تھا اور وہ بھاگل پور کے ایک بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت وہ علاقہ برٹش انڈیا کی بنگال پریذیڈنسی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ آج یہ انڈیا کی ریاست بہار میں شامل ہے۔اشوک کمار کے والد کنج لال گنگولی ایک ماہر قانون تھے جب کہ ان کی والدہ گوری دیوی ایک گھریلو خاتون تھیں جن کے چار بچے تھے جن میں اشوک کمار سب سے بڑے تھے۔

اشوک کمار کی صرف ایک ہی بہن تھی، ستی دیوی جو ان سے چند سال چھوٹی تھی جس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں سشادھر مکرجی سے کردی گئی تھی جس کے بعد وہ ایک بہت بڑے دولت مند فلمی گھرانے کی کرتا دھرتا بن گئی تھی۔ ستی سے چھوٹا بھائی کلیان تھا جو اشوک کمار سے کم و بیش 14سال چھوٹا تھا جس نے بعد میں انوپ کمار کے نام سے شہرت حاصل کی۔ سب سے چھوٹے کا نام ابہاس تھا جس کا فلمی نام کشور کمار تھا اور جو آگے چل کر انڈین فلمی دنیا کا بہت مشہور اور کام یاب گلوکار ثابت ہوا۔ اشوک کمار کو اپنے سب سے چھوٹے بھائی کشور کمار سے اتنا پیار تھا کہ 1987 میں کشور کمار کی موت کے بعد اشوک کمار نے اپنی سال گرہ منانی بند کردی تھی۔

٭کم عمری میں شادی: کمد لال یا اشوک کمار کی شادی کم عمری میں ہی ان کے ماں باپ نے شوبھا نامی لڑکی سے بڑے روایتی اور خالصتاً انڈین انداز سے کردی تھی، اس وقت تک اشوک کمار نے فلم انڈسٹری میں اپنا کیریئر بھی شروع نہیں کیا تھا۔ یہ نہایت کام یاب شادی ثابت ہوئی اور اشوک کمار نے اپنے فلمی کیریئر کے باوجود خود کو صرف اپنے کام تک محدود رکھا اور اپنی روایات کی پاس داری کی۔ پوری زندگی ان کا کبھی کوئی اسکینڈل نہیں بنا تھا۔اشوک کمار کا ایک بیٹا اروپ گنگولی تھا اور تین بیٹیاں بھارتی پٹیل، روپا ورما اور پریتی گنگولی تھیں۔

اروپ کمار نے 1962ء میں صرف ایک فلم ’’بے زبان ‘‘ میں کام کیا جو باکس آفس پر فلاپ ہوگئی جس کے بعد اروپ کمار نے تجارتی شعبے کی طرف قدم بڑھادیے اور فلمی دنیا کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

بھارتی پٹیل اشوک کمار کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو انورادھا پٹیل کی ماں ہے جس کی شادی کنول جیت سنگھ سے ہوئی تھی۔ اشوک کمار کی دوسری بیٹی روپا ورما معروف ایکٹر اور کامیڈین دیون ورما کی بیوہ ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی پریتی گنگولی وہ واحد بیٹی تھی جو فلم انڈسٹری میں گئی۔ اس نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے دوران متعدد ہندی فلموں میں ایک مزاحیہ ادکارہ کے جوہر دکھائے اور 2012 میں ایک سہاگن کی حیثیت سے دنیا سے چلی گئی۔

کمد لال یعنی اشوک کمار کی بیٹی بھارتی کی شادی دو بار ہوئی تھی، دونوں مرتبہ یہ محبت کی شادی تھی۔ اس نے پہلی شادی ایک گجراتی جینٹل مین مسٹر پٹیل سے کی تھی جس سے اس کی بیٹی انورادھا پٹیل پیدا ہوئی ۔ بعد میں اس نے اپنے پورے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے سعید جعفری کے بھائی سے شادی کی جس سے اس کی ایک بیٹی شاہین جعفری پیدا ہوئی۔ اسے اس لیے بھی شہرت ملی کہ وہ معروف ایکٹر سلمان خان کی پہلی محبت تھی۔

٭ابتدائی سال:اشوک کمار پیدا تو بھاگل پور میں ہوئے تھے، مگر ان کی تعلیم و تربیت پریذیڈنسی کالج آف دی یونی ورسٹی آف کلکتہ میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی، مگر ان کا دل اس میں نہ لگا، کیوں کہ وہ شاید پیدائشی طور پر سنیما کی طرف مائل تھے۔ وہ اس شعبے میں ایک ٹیکنیشئن بننا چاہتے تھے۔

٭کیریئر اور زندگی: اشوک کمار کے بہنوئی سشادھر مکرجی ممبئی فلم انڈسٹری میں ایک ٹیکنیشیئن کی حیثیت سے کام کرتے تھے، چناں چہ اشوک کمار بھی اسی طرف جانے کا ارادہ کرنے لگے۔ اس دوران وہ اپنے قانون کے امتحان میں فیل ہوگئے تو گھر والوں کی سرزنش سے بچنے کے لیے وہ کچھ عرصے کے لیے اپنی بہن کے پاس ممبئی چلے گئے، یہاں تک کہ دوبارہ امتحان کا وقت آگیا۔

انہوں نے اپنے بہنوئی سے درخواست کی کہ مجھے اسی فلم انڈسٹری میں کوئی کام دلوادو، جو اس وقت بمبئی ٹاکیز کے ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ میں سینیر پوزیشن پر کام کررہے تھے۔

انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کمد لال کو بمبئی ٹاکیز میں ایک لیباریٹری اسسٹنٹ کی جاب دلوادی، اشوک کمار وہاں کام کرنے لگے اور اپنی بہن کے گھر میں رہنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنے والد کو سمجھالیا کہ وہ قانون کے شعبے میں کام نہیں کرسکیں گے اور ایک لیباریٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام یاب رہیں گے۔ ان کے والد مان گئے اور اس طرح اشوک کمار کا فلمی کیریئر حادثاتی طور پر 1936 میں شروع ہوا ورنہ وہ تو لیباریٹری اسسٹنٹ بن کر بہت خوش تھے۔

ان دنوں بمبئی ٹاکیز میں ’’جیون نیا‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی کہ اس کے ہیرو نجم الحسن کی ساتھی اداکارہ دیویکا رانی جو اس کی بیوی بھی تھی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ بعد میں وہ آ تو گئی مگر اس دوران فلم کا ہیرو اشوک کمار کو بنانے کا فیصلہ ہوگیا۔ حالاں کہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ اس نوجوان (اشوک کمار) میں ہیرو والی کوئی بات نہیں ہے، مگر چوں کہ فیصلہ ہوچکا تھا، اس لیے اشوک کمار اس فلم کے ہیرو بن گئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بڑے زبردست انداز سے کیا۔ انہوں نے اسی دوران ’’اچھوت کنیا‘‘ نامی فلم میں کام کیا جو اس دور کی ایک بلاک بسٹر فلم ثابت ہوئی۔

اس فلم کی کام یابی نے اشوک کمار اور دیویکا رانی کو اس دور کی کام یاب جوڑی بنادیا۔ اس کے بعد ان دونوں نے جنم بھومی، عزت، ساوتری، وچن اور نرملا میں بھی ساتھ ساتھ کام کیا، ان دونوں کی آخری فلم ’’انجان‘‘ تھی جو 1941ء میں آئی تھی اور یہ باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ اس کے بعد اس جوڑی کا فلمی ساتھ ختم ہوگیا۔دیویکا رانی اب بھی ایک بڑی اسٹار تھی جب کہ اشوک کمار اس کے سائے میں کام کررہے تھے۔ پھر اشوک کمار نے دیویکا رانی کے سائے سے نکل کر لیلا چٹنس کے ساتھ جوڑی بنالی جو بمبئی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام تھی۔کنگن، بندھن اور آزاد کے ساتھ اشوک کمار نے کام یابی کا نیا سفر شروع کیا، بعد میں لیلا چٹنس کے ساتھ ’’جھولا‘‘ میں اشوک کمار نے اپنے قدم اس انڈسٹری میں مضبوطی سے جما لیے۔

٭اشوک کمار کا 1943 سے 1950تک کا سفر: 1943 میں گیان مکرجی نے ’’قسمت‘‘ کی ہدایات دیں جس میں جس میں اشوک کمار نے پہلا اینٹی ہیرو کردار کیا اور پھر اس فلم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس فلم نے اشوک کمار کو راتوں رات انڈین سنیما کا سپراسٹار بناڈالا۔پھر تو اشوک کمار اس دور کے سب سے مہنگے اسٹار بن گئے، ان کی فلمیں یکے بعد دیگرے کامیاب ہوتی چلی گئیں جن میں چل چل رے نوجوان، شکاری، ساجن، محل، مشعل، سنگرام اور سمادھی شامل تھیں۔اس کے علاوہ اشوک کمار نے بمبے ٹاکیز کی متعدد فلمیں بھی پروڈیوس کیں جن میں ضدی بھی شامل تھی، اس فلم نے دیوآنند اور پران کے کیریئرز کو استحکام بخشا۔ ’’نیل کمل‘‘ نے راج کپور کو ڈیبیو دیا اور ’’محل‘‘ میں اشوک کمار نے مدھو بالا کے مقابل کام کر کے اس فلم کو لازوال شہرت بخشی۔

1950 کے عشرے میں اشوک کمار نے زیادہ میچیور کردار کرنے شروع کردیے۔ اس دور کے معروف اداکاروں دلیپ کمار، دیو آنند، اور راج کپور کی موجودگی میں بھی اشوک کمار نے اپنا منفردا انداز برقرار ر کھا۔ ان کے اس دور کی مشہور فلموں میں افسانہ، نوبہار، پرینیتا، بندش اور ایک ہی راستہ شامل تھیں۔

واضح رہے کہ اشوک کمار کی اس دور کی سب سے مقبول فلم ’’دیدار‘‘ تھی جو 1951 میں آئی تھی۔ اس فلم میں اشوک کمار نے دلیپ کمار کے ساتھ سیکنڈ لیڈ کیریکٹر کیا تھا۔ اشوک کمار 1950 کی دہائی میں اکثر و بیش تر نلنی جیونت کے ساتھ متعدد فلموں میں جلوہ گر ہوئے، اس کے علاوہ انہوں نے مینا کماری کے ساتھ بھی کم بیش 20برسوں کے دوران 17فلموں میں کام کیا تھا جن میں ’’تماشہ‘‘ سے لے کر عالمی شہرت یافتہ ’’پاکیزہ‘‘ شامل تھیں۔

٭1960 اور1970 کے عشرے:اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب اشوک کمار نے کیریکٹر رول کرنے شروع کردیے، کبھی وہ والدین کے کردار میں دکھائی دیے تو کبھی چچا کے، کبھی انہوں نے دادا یا نانا بن کر بھی اپنی اداکارانہ صلاحیت کے جوہر دکھائے، لیکن جو کردار بھی کیا، جم کے کیا اور ہر کردار کو قبول کرتے ہوئے بہت محتاط انداز اپنایا۔ فلم ’’قانون‘‘ میں انہوں نے ایک جج کا کردار نبھایا تو ’’بندنی‘‘ میں وہ ایک عمر رسیدہ حُریت پسند کے روپ میں جلوہ گر ہوئے، ’’چترلیکھا‘‘ میں انہوں نے ایک عمر رسیدہ پادری کا کردار ادا کرکے فلم بینوں کو حیران کردیا تو ساتھ ہی فلم ’’جواب‘‘ میں انہوں نے ایک ظالم زمین دار کا رول کرکے ثابت کیا کہ وہ ایک ورسٹائل فن کار ہیں۔انہوںنے جیول تھیف، آشیرواد، پورب اور پچھم، پاکیزہ، ملی، چھوٹی سی بات اور خوب صورت میں بھی لازوال اور یادگار کردار ادا کیے۔

٭زندگی کے آخری سال اور موت:1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اشوک کمار نے چند فلموں میں کام کیا، کبھی کبھار وہ ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کرتے رہے، جن میں سب سے مشہور ڈراما ہم لوگ تھا۔ اشوک کمار کی آخری فلم 1997 کی فلم ’’آنکھوں میں تم ہو‘‘ تھی۔ وہ ایک اداکار کے ساتھ ساتھ ایک ماہر مصور بھی تھے اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 275 کے لگ بھگ ہندی فلموں میں کام کیا، جب کہ انہوں نے30سے زائد بنگالی ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اشوک کمار 90برس کی عمر میں 10دسمبر2001کو ہارٹ فیل ہوجانے کے باعث ممبئی میں انتقال کرگئے۔

The post اشوک کمار؛ ورسٹائل آرٹسٹ، بولی وڈ لیجنڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’کتنے لگاؤں۔۔۔؟‘‘
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

بامحاورہ زبان، بذلہ سنجی اور سخن فہمی دلی والوں کی زندگی میں یوں رچی بسی ہے کہ دلی کی پنواڑنیں اور مینھارنیں تک زبان کے معاملے میں یکتا تھیں۔ ایک بار حضرت داغ دہلوی اپنے ساتھیوں سمیت ’’پھول والوں کی سیر‘‘ گئے۔ داغ دہلوی پان بہت کھاتے تھے۔ دوران سیر انہیں ایک نوجوان پنواڑن کی سجی سجائی دکان نظر آئی۔ لپکے اور پنواڑن سے بولے ’’بی پنواڑن! دس پان لگانا!‘‘ پنواڑن کا جنم دلی کے کوچوں میں ہوا تھا۔ اسے یہ تو پتا نہیں تھا کہ غالب کون ہے، لیکن اسے جملہ غیر فصیح لگا۔ اس نے اپنی جوتی کی نوک کو ہاتھ لگایا اور بولی ’’کیا فرمایا کتنے لگائوں۔۔۔؟‘‘

داغ دہلوی جھینپ گئے اور پنواڑن سے صحیح محاورہ سن کر پھڑک گئے اور سنبھل کر بولے ’’دس پان بنانا۔‘‘

واپس آکر انہوں نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو پنواڑن کی بامحاورہ زبان کے بارے میں بتایا جس نے ایک استاد شاعر کی زبان کی اصلاح کس خوب صورتی سے بغیر تنبیہہ کے کر دی تھی۔ تب کسی نے کہا کہ ’’صحیح محاورہ اور روزمرہ کے لیے صرف عالموں اور شعرا حضرات کی محفل کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے بازاروں اور گلی کوچوں کی سیر بھی ضروری ہے۔‘‘
(رئیس فاطمہ کے کالم سے ایک دل چسپ اقتباس)

۔۔۔

خانہ پُری
ر ط م
ہمارا ’’قبلہ‘‘ ہی تو درست نہیں۔۔۔!

چھے مارچ 2019ء کو حزب اختلاف نے احتجاجی ترنگ میں آکر قومی اسمبلی کے اندر جو نماز مغرب ادا کی، اس پر حکم راں تحریک انصاف نے ایک قرارداد جمع کرائی کہ ’حزب اختلاف کا قبلہ درست نہ تھا۔۔۔!‘ جب کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ ’قومی اسمبلی‘ کا بھی قوم کی طرح اکثر ’’قبلہ‘‘ غلط رہتا ہے۔۔۔! ویسے دوسروں کا ’’قبلہ‘‘ درست کرانے سے پہلے کم سے کم اخلاقی تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ اپنا ’’قبلہ‘‘ درست کر لیا جائے!‘ پتا نہیں اس طرف کسی نے توجہ دلائی یا نہیں۔

حزب اختلاف کے خلاف اس حکومتی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ غلط قبلے سے آگاہ کرنے کے باوجود نماز پڑھنے والے ارکان نہ مانے اور غلط رخ پر ہی نماز ادا کی۔ ہو سکتا ہے، انہوں نے ایوان کے اندر اسے بھی اپنے خلاف ’حزب اقتدار‘ کی ’سازش‘ جانا ہو کہ جان بوجھ کر یہ لوگ ہمارا ’’قبلہ‘‘ بدلوا کر رخ اپنے ’’قبلے‘‘ کی طرف کرا رہے ہیں۔

ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔۔۔؟ اُس طرف کوئی ملک، کوئی مرکز، شہر یا ادارہ تو واقع نہیں؟ اگر یہ تفصیل پتا چل جاتی، تو ہی اس کے غلطی یا سازش ہونے کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا تھا، کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ایسی ہی ’دیگر‘ جگہوں کو اپنا ’’قبلہ‘‘ مانا ہوا ہے۔۔۔

نامہ نگار کے مطابق اجلاس کے دوران عموماً اذان کے بعد وقفہ ہوتا ہے، لیکن اُس روز نہیں ہوا، جس پر جمعیت علمائے اسلام کے رکن مولانا اسعد محمود نے نماز کی امامت شروع کر دی۔ ان کے پیچھے صف میں اُن کی جماعت کے علاوہ ’ن لیگ‘ کے مرکزی اراکین احسن اقبال، خواجہ آصف، مرتضیٰ جاوید عباسی وغیرہ بھی شامل ہو گئے، علامہ اقبال نے تو کہا تھا؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

اتفاق سے اس ’صف‘ میں ’نواز‘ لیگ کے کچھ ارکان تو شامل ہوئے، لیکن حکومتی ارکان ساتھ کھڑے نہ ہوئے۔ لگتا یہی ہے کہ انہیں غلط ’’قبلے‘‘ پر ہی اعتراض ہوگا، ورنہ ہمیں ایوان میں علامہ اقبال کے اس شعر کی ’صورت گری‘ دکھائی دے جاتی! دراصل ’حزب اقتدار‘ اور ’حزب اختلاف‘ کے ’’قبلے‘‘ ہی تو الگ ہیں، تب ہی تو دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

قومی اسمبلی میں اس طرح نماز کی ادائی کا واقعہ پہلی بار ہوا اور ’پہلی بار‘ والے ’ریکارڈ‘ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی ’توڑے‘ نہیں جا سکتے۔ اب تاریخ میں جب بھی ذکر ہوگا، یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ پہلی بار پڑھی گئی نماز کا قبلہ ہی غلط تھا۔

ہماری خواتین
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

ہماری عائلی زندگی میں عورت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وہ پورے خاندان پر فیصلے کن اثر ڈالتی ہے۔ بچے باپ کے مقابلے میں ماں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اور اسے ان کی تربیت اور نگہداشت کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ اس طرح ماں کی حیثیت سے وہ بچوں کی ذہنی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بیوی اور بہن کی حیثیت سے بھی اس کا دائرہ کار اچھا خاصا وسیع ہے۔ خواتین اپنی سادگی، خلوص اور اچھے کردار سے مردوں پر کئی طریقوں سے اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہماری بہت سی سماجی خرابیاں عورتوں کی کج روی اور بے اعتدالی کی پیداوار ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بدل دینے کا عزم کرلیں تو اس کے نتائج ہمہ گیر اور نہایت خوش آئندہ ہوں گے۔ پاکستانی عورت کی توجہ کا بنیادی مرکز گھر ہونا چاہیے، لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ہماری جو عورتیںگھروں میں رہتی ہیں، انہیں جاہل اور دقیانوسی خیال کیا جانے لگا ہے۔ اب ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے، ایسی عورتیں جو گھروں سے باہر نہیں نکلتی اور دوسری وہ عورتیں جو گھروں میں بالکل نہیں بیٹھیں یہ افراط و تفریط کسی صورت میں بھی ہمارے لیے مفید نہیں۔

(الطاف حسن قریشی کی تصنیف ’’ملاقاتیں کیا کیا،‘‘ میں شامل ڈاکٹر خدیجہ فیروزالدین کی گفتگو)

’گاندھی جی‘ کے بیٹے کا’مسلمان‘ ہونا
انتظار حسین

گاندھی جی کے فرزند ارجمند نے ڈنکے چوٹ پر بمبئی کی بڑی مسجد میں جا کر کلمہ پڑھا تھا۔ بمبئی کے مسلمان کتنے خوش ہوئے تھے۔ انہوں نے گاندھی جی کو خط لکھا کہ اگر پدرتنواند پسر تمام کند۔ بیٹے کی بات پر دھیان دیں اور آپ بھی مسلمان ہو جائیں۔ گاندھی جی نے کیا خوب جواب دیا۔ ذرا کان لگا کر سنیے۔ انہوں نے کہا میں اسلام کا دل سے احترام کرتا ہوں، مگر تھوڑا انتظار کر لیجیے۔ اگر میرے بیٹے کے مسلمان ہو کر بھی وہی لچھن رہے، جو ہندو ہوتے ہوئے بھی تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات بھی اس نالائق کو راہ راست پر نہیں لائیں۔‘ گاندھی جی سچے نکلے۔ ہوا یوں کہ اُن کا نالائق بیٹا پھر اپنے مذہب پر واپس چلا گیا اور اس طرح واپس کہ وہ ’سیوک سنگھ‘ میں بھرتی ہوگیا۔

’’خیر سگالی‘‘ یا ’’غیر سگالی‘‘؟
احمد ندیم قاسمی
بھارتی وزیر دفاع مسٹر سورن سنگھ نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات سدھر جائیں، مگر پاکستانی لیڈروں نے ہندوستان کے خلاف ہمیشہ بہت کڑا رویہ اختیار کیے رکھا اور ہندوستان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کو ٹھکرا دیا۔ ہم سورن سنگھ صاحب سے متفق ہیں کہ ہندوستان نے خیرسگالی کا ماحول پیدا کرنے میں واقعی کوئی کمی نہ کی۔

مثال کے طور پر ہندوستان کی اس پیش کش کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کشمیر کے موضوع پر بھی پاکستان سے گفتگو و شنید کرنے کو تیار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ گفتگو و شنید صرف اس موضوع پر ہو سکتی ہے کہ اس موضوع پر کوئی گفتگو و شنید نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے پاکستانی لیڈر اس معیار کی خیرسگالی کو ٹھکرا دیتے ہیں کیوں کہ اس خیرسگالی میں ’’کتابت‘‘ کی غلطی ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کی یہ خیرسگالی دراصل ’’غیر سگالی‘‘ ہے!

ہندوستانی وزیر دفاع نے پاکستان کی طرف سے چین کے ساتھ بھی جذبات خیر سگالی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ تم 1962ء میں ہندوستان پر حملہ کر چکے ہو، مگر 1968ء کے ہندوستان اور 1962ء کے ہندوستان میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے اور تم نے ہندوستان پر حملہ کیا، تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

یعنی وزیر دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ 1962ء میں خمیازہ ہندوستان ہی کو بھگتنا پڑا۔ یہ اعتراف حقیقت کا بالواسطہ اظہار ہے۔ جب کوئی کہے کہ آج جو ہوا، سو ہوا مگر کل میں تمہاری خوب خبر لوں گا، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج تم نے میری خوب خبر لی۔۔۔! پھر سورن سنگھ نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ جو 1968ء اور 1962ء میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے، تو انہوں نے زمین کس سال کو قرار دیا ہے اور آسمان کس سال کو۔ یہاں ہمیں ایک امریکی کا لطیفہ یاد آگیا ہے کہ جب اس سے کسی دوست نے پوچھا کہ شادی کا تم پر کیا اثر ہوا تو وہ بولا ’’شادی کے بعد میں لکھ پتی ہوگیا۔‘‘ دوست نے کہا ’’بڑی خوشی کی بات ہے مگر شادی سے پہلے تم کیا تھے۔‘‘ امریکی بولا’’شادی سے پہلے میں کروڑ پتی تھا۔‘‘

انسان کی ذہنی صلاحیت

مولانا وحید الدین خان
اسٹیفن ہاکنگ 1942ء میں امریکا میں پیدا ہوئے۔ ’ایم ایس سی‘ کرنے کے بعد وہ ’پی ایچ ڈی‘ کے لیے تحقیق کر رہے تھے کہ ان پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا۔ اپنے حالات کے ذیل میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں تحقیق کا طالب علم تھا۔ میں مایوسانہ طور پر ایک ایسے مسئلے کے حل کا منتظر تھا، جس کے ساتھ مجھے ’پی ایچ ڈی‘ کا مقالہ مکمل کرنا تھا۔ دو سال پہلے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ مجھے ایک مہلک بیماری ہے۔ مجھے باور کرایا گیا تھا کہ میرے پاس اب زندہ رہنے کے لیے صرف ایک یا دو سال اور ہیں۔ ان حالات میں بہ ظاہر میرے لیے ’پی ایچ ڈی‘ پر کام کرنے کا زیادہ وقت نہیں تھا، کیوں کہ میں اتنی مدت تک زندہ رہنے کی امید نہیں کر سکتا تھا، مگر دو سال گزرنے پر بھی میرا حال زیادہ خراب نہیں ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعات میرے لیے زیادہ بہتر ہوتے جا رہے تھے۔

ڈاکٹروں کے اندازے کے خلاف اسٹیفن ہاکنگ زندہ رہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنی محنت سے اتنی لیاقت پیدا کی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ آئن اسٹائن کے بعد سب سے بڑے نظریاتی طبعیات داں قرار پائے۔ پھر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمٹیکس کے پروفیسر رہے۔ یہ وہ کرسی ہے جو اب تک صرف ممتاز سائنس دانوں کو دی جاتی رہی ہے۔ ان کی ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ 1988ء میں چھپی، تو وہ اتنی مقبول ہوگئی کہ پہلے ہی سال اس کے 14 ایڈیشن شایع کیے گئے۔ انسان کی ذہنی صلاحیتیں اس کی ہر کم زوری کی تلافی ہیں۔ اس کا ارادہ ہر قسم کی رکاوٹوں پر غالب آتا ہے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لیے کام یابی کا نیا راستہ نکال لیتا ہے۔
(تصنیف ’کتاب زندگی‘ کا ایک ورق)

صد لفظی کتھا
’’مرہم‘‘
رضوان طاہر مبین

’’آپ تو غم کے ستائے ہوئوں کے زخموں پر ’مرہم‘ ہیں۔۔۔
اُن کے ’درد‘ کی ’دوا‘ بنتے ہیں۔۔۔
لیکن خود ہمیشہ تنہا رہتے ہیں۔۔۔؟‘‘
میرا سوال سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’مرہم کی ضرورت گھائو کے مندمل ہونے تک رہتی ہے۔۔۔!‘‘
ایک زیرتعمیر عمارت میں چھت ڈالنے کے لیے لگے ہوئے تختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے:
’’دیکھو، جوں ہی سمینٹ کی چھٹ مضبوط ہوگی، یہ ’کھانچا‘ ہٹا لیا جائے گا۔۔۔
ہم پٹی بھی تب تک باندھتے ہیں، جب تک تکلیف ہو۔۔۔
اب خوامخواہ میں دوا، مرہم، پٹّی، یا ’لاٹھی‘ کون لیے پھرتا ہے۔۔۔!‘‘

ترتیب وتدوین:رضوان طاہر مبین
rizwan.tahir@express.com.pk

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

جنگیں اور بھی تباہ کُن ہونے کو ہیں

$
0
0

ایک دور تھا جب جنگیں نیزوں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں، پھر وقت کے ساتھ ساتھ جنگی طریقۂ کار بھی تبدیل ہوتا گیا۔

آتشیں ہتھیاروں، جنگی جہازوں، ٹینکوں کے بعد ایک جنگیں محض ایک بٹن پر سمٹ آئی ہیں۔ وہ بٹن ایٹمی ہتھیاروں کو آپریٹ کرنے والا بٹن ہے۔ ماہرینِ حرب اب مستقبل میں ہتھیاروں کی کم سے کم وقت میں زیادہ ہلاکت خیزی بڑھانے پر غور کر رہے ہیں۔

دنیا بھر کا ہر ملک چاہے اس کے عوام کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ہو، پینے کے لیے صاف پانی نہ ہو، رہنے کے لیے گھر نہ ہو، لیکن اس کا دفاعی بجٹ تعلیم اور صحت سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ ہر ملک اپنے حریف ملک پر دفاعی برتری کے حصول کے لیے دن رات کوشاں ہے، کچھ ممالک مصنوعی ذہانت کو جنگی میدان میں لانے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں تو کچھ ممالک اپنے روایتی ہتھیاروں کو زیادہ سے زیادہ تباہ کن بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

اپنے حریف کو زیر کرنا ازل سے انسانی جبلت کا خاصہ رہا ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے دفاعی ماہرین کے سوچنے سمجھنے کے انداز بھی بدل دیے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں حربی ہتھیاروں پر جتنی تحقیق کی گئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز نے دنیا بھر کے ممالک کی اولین ترجیح دفاع کو بنا دیا۔

حریف پر سبقت پانے کی خواہش میں ہی امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا جس کے نتائج دنیا آج تک بھگت رہی ہے ، لیکن بنی نوع انسان نے اس ہلاکت خیزی سے سبق سیکھنے کے بجائے ایٹمی ہتیھاروں کے حصول کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی جوہری توانائی کے حصول میں پاگل ہوا جا رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جب کہ پاکستان اور بھارت نے بھی اپنی ایٹمی طاقت کے ذریعے خطّے میں طاقت کا توازن قائم کر رکھا ہے، لیکن چُوں کہ ایٹم بم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار ہے۔

لہٰذا ایٹمی طاقت رکھنے والا کوئی بھی مُلک اسے استعمال کرنے کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں۔ ایٹم بم نہ صرف دشمن مُلک کو ہدف بناتا ہے، بلکہ اسے استعمال کرنے والے مُلک کے تاب کاری کے زد میں آنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ نیز، حملے کی زد میں آنے والے مُلک کے گرد و پیش میں واقع ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ ایٹم بم کی ایجاد نے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کو تو جنگوں کے خطرات سے دور کردیا ہے لیکن شام، افغانستان، یمن اور دیگر عرب خطوں میں ہونے والی خانہ جنگی نے ہتھیاروں کی صنعت کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔

آج دنیا بھر کی طاقتیں ایٹمی جنگ کے خلاف تو ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو سپر پاور سمجھنے کے لیے کسی صورت تیار بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر چین اور رُوس دونوں ہی امریکا کو واحد سُپرپاور تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور یہ دونوں ممالک اپنی اپنی جنگی استعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چین اور رُوس اپنی جنگی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے نہ صرف بجٹ کا بہت زیادہ حصہ خرچ کر رہے ہیں بلکہ دوسرے دوست ممالک کے ساتھ جنگی معاہدے بھی کر رہے ہیں۔ چین و اسرائیل اور رُوس و اسرائیل کے مابین فوجی تعاون کے معاہدے اس کی واضح مثال ہیں۔

ایٹمی جنگ سے بچنے سے کے لیے بہت سے ممالک میدانِ جنگ میں براہِ راست ایک دوسرے کے مدِمقابل آئے بغیر ہی پراکسی وارمیں مصروف ہیں۔ اس قسم کی جنگ کو ’’ہائبرڈ وار فیئر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین حرب کے مطابق اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی، اقتصادی، سفارتی، جاسوسی اور کسی حد تک مجرمانہ سرگرمیوں کے مشترکہ استعمال کے لیے بھی ہائبرڈ وارفیئر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں جوہری ہتھیار ’’دہشت کا توازن‘‘ قائم کرنے میں کام یاب رہے ہیں تاہم پھر بھی پاکستان بھارت، امریکا اور رُوس، چین اور امریکا اور شمالی کوریا اور امریکا بھی ایک دوسرے کو ایٹمی حملے کی دھمکی دینے سے نہیں چوکتے۔ جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دیں۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمر پیوٹن بھی وقتاً فوقتاً حریف ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔

عالمی طاقتوں کے درمیان ’’دہشت کا توازن‘‘ برقرار ہونے کے باوجود رُوس، چین اور امریکا زیادہ سے زیادہ جدید جوہری ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا گذشتہ 10برس سے ایسے ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جن کی مدد سے وہ جوہری حملہ کیے بغیر ہی دشمن کے جوہری اثاثوں کو تباہ یا ناکارہ کر دے۔ یہ سسٹم روایتی بم کو ہائپر سونک رفتار (آواز سے پانچ گُنا زیادہ رفتار) سے ہدف تک اس انداز سے پہنچا کر انتہائی منظّم دفاعی نظام کو بھی ناکارہ بنا دیتا ہے۔

اس سسٹم کو اپ گریڈ کر کے دہشت گردوں، ایٹمی تنصیبات اور دشمن کے کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ چین اور رُوس کو اس امریکی منصوبے پر شدید تحفظات ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں امریکا کے اس نظام سے سے خطے میں طاقت کا توازن بُری طرح بگڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، جوہری نظام کو تباہ کرنے کا ایک طریقہ ’’قاتل روبوٹس‘‘ بھی ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ ابھی ابتدائی شکل میں ہیں، لیکن ڈرونز کی شکل میں ان کی افادیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ روبوٹس صرف ایک بٹن دبانے پر انسانوں کا قتلِ عام کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں ان کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں اسٹیفن ہاکنز جیسے عالمی شُہرت یافتہ سائنٹسٹ بھی شامل تھے۔ پھر ایک بڑا چیلینج یہ بھی ہے کہ اس قسم کی ٹیکنالوجی سِول سیکٹر میں بھی ترقّی کر رہی ہے۔

جس پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں۔ امریکا میں تو پینٹاگون اس ٹیکنالوجی کو اپنے زیرِانتظام لینے کا منصوبہ بنا چُکا ہے، لیکن باقی ممالک میں ایسا ممکن نہ ہو گا۔ لہٰذا، فی الوقت اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں جنگوں کے دوران ایسے ہتھیاروں کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے اخلاقی اقدار اور انسانی جانیں ہی ہدف بنتی ہیں اور فتح کے حصول کی خاطر سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا مستقبل کی جنگوں میں ان عوامل پر قابو پانا ممکن ہو گا۔

سرد جنگ کے زمانے میں ایم ون ٹینک، اور اپاچی ہیلی کاپٹر کو کو جدید ترین جنگی ہتھیار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب دنیا ان سے کئی گنا آگے نکل چکی ہے۔ امریکی افواج پہلے ہی ہتھیاروں کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے ہیں، لیکن امریکا کی اولین ترجیح خود کو ہائی ٹیک روسی اور چینی فوج سے نبزد آزما ہونے کے لیے جدید سے جدید تر ہتھیار بنانا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج میزائلوں اور ٹینکوں میں جدید سے جدید نظام لا رہی ہے۔ امریکا کی طرح ہر حکومت کی خواہش ہے کہ وہ ہتھیاروں کی اس دوڑ میں اپنے حریف ملک پر سبقت لے جائے۔ اسی دوڑ نے سرد جنگ کے زمانے میں جدید کہلائے جانے والے ابرام ٹینک اور اپاچی ہیلی کاپٹرز کو آہستہ آہستہ جنگی میدان سے خارج کردیا ہے اور اب ان کی جگہ جدید اور زیادہ ہلاکت خیز ہتھیاروں کی نئی جنریشن لے رہی ہے۔

آنے والے چند برسوں میں میدان جنگ کا نقشہ یکسر بدل چکا ہوگا، جس میں انسانی جانوں کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے زیادہ بہتر ٹیکنالوجی پر کام کیا جا رہا ہے۔

اسی کی دہائی تک دنیا کے بیشتر ممالک کی افواج زمینی لڑائی کے لیے ایم ون ابرام ٹینک اور ایم ٹو بریڈلی جنگی لڑاکا گاڑیوں پر انحصار کرتی تھی۔ کئی سالوں تک ان دونوں کے ڈیزائن کو جدید دور سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپ گریڈ کیا جاتا رہا۔ یہ ایم ون اور ایم ٹو ٹینک سوویت ٹینکوں کا راستہ روکنے کے لیے تو موثرتھے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں محدود پیمانے پر ہونے والی خانہ جنگی اور انسداد بغاوت کے لیے انہیں موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی محکمۂ دفاع نے اپنی افواج کے لیے ایسی فوجی گاڑیاں بنانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا جو چھوٹے مقامات پر ہونے والی جنگوں کے ساتھ امریکا کے حریف ممالک امریکا اور روس کے خلاف جنگ میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال کی جاسکیں۔

امریکی فوج کے اس ’نیکسٹ جنریشن کومبیٹ وہیکل‘ پروگرام کا مقصد اکیسویں صدی کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے ٹینک، انفینٹری فائٹنگ وہیکلز، سیلف پروپیلڈ گنز اور روبوٹ ٹینک کی تیاری ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع نے اس مقصد کے لیے کئی ڈیزائن تیار کیے ہیں جن میں بی اے ای سوئیڈش سی وی نائنٹی انفینٹری کیریئر بھی شامل ہے۔

امریکا کے محکمۂ دفاع کے مطابق وہ گذشتہ چار دہائیوں کی ٹیکنالوجی کو ایک گاڑی میں سمو دینا چاہتے ہیں۔ اینٹی ٹینک میزائیل کو روکنے کے موثر حفاظتی نظام اور ٹیکٹیکل نیٹ ورک کے ساتھ ڈرون بھی اس گاڑی کے نظام کا حصہ ہوں گے۔ امریکا کی ’ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘ بھی مستقبل کی فوجی گاڑی کے منصوبے ’گراؤنڈ ایکس وہیکل ٹیکنالوجیز‘ پروگرام پر کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت تیار کی جانے والی گاڑی(GXV-T) کو موجودہ فوجی گاڑیوں سے وزن میں نصف کرنے کے ساتھ اس میں افادی قوت کا استعمال بھی پچاس فی صد تک کم ہوجائے گا۔ یہ گاڑیاں موجود گاڑیوں کی نسبت سو گنا زیادہ رفتار سے دشوار اور تنگ راستوں تک 95فی صد رسائی حاصل کرنے اور دشمن کی نظروں سے ممکنہ حد تک اوجھل رہنے کی خصوصیات کی حامل ہوگی۔

امریکی فضائیہ کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے حرکت پذیر مختصر مدتی فضائی دفاع کے لیے ایک نظام (MSHORAD) کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔ امریکی فضائیہ چینی اور روسی ہائی ٹٰیک ڈروں طیاروں، ہیلی کاپٹر اور جنگی جہازوں سے نمٹنے کے لیے زمینی فوج کے ساتھ ہم آہنگی رکھنے والے جدید میزائل کی تیاری پر بھی کام کر رہی ہے۔

’اسٹاپ گیپ سلوشن‘ کے نام سے شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت تیار ہونے والے اسٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائیلوں کو ہلکی فوجی گاڑی اسٹرائیکر پر سے بہ آسانی فائر کیا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہٌ دفاع اسٹرائیکر پر ’ڈائریکٹڈ انرجی ویپنز‘ سے لیس لیزر ٹیکنالوجی بھی نصب کرنے کا منصوبہ بندی کر رہا ہے، جو کہ اپنے ہدف کو میزائل کی نسبت زیادہ بہتر اور جلدی انگیج کرنے کے ساتھ ایمونیشن کے ختم ہونے کے جھنجھٹ سے بھی آزاد ہوگا۔ امریکی محکمۂ دفاع مستقبل کی جنگوں میں اپنے فوجیوں کو کم سے کم محاذ پر بھیجنے کے لیے کوشاں ہے۔

اس مقصد کے لیے وہ روبوٹ ٹینکس کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ روبوٹ ٹینکس کا تصور سب سے پہلے سائنس فکشن فلموں میں پیش کیا گیا تھا، لیکن اب یہ ایک حقیقت کی صورت میں جلد ہی سامنے آنے والا ہے۔

امریکی فوج کے ’آپشنلی مینڈ فائٹنگ وہیکل‘ منصوبے کے تحت میدان جنگ میں امریکی فوجیوں کے ضیاع کو روکنے اور زیادہ تباہی پھیلانے والے روبوٹ ٹینکس کی تیاری پر کام جاری ہے۔ اس ضمن میں امریکی فوج نے حال ہی میں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے روبوٹ آرمڈ پرسنل کیریئر M113 کا تجربہ کرچکی ہے۔ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی جنگی گاڑیوں کا تصور کچھ نیا نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں روس اپنی دو بٹالین ، ’ریموٹ کنٹرول آرمڈ ٹینکس کے ساتھ داخل ہوا تھا، جب کہ نازی جرمنی نے بھی اپنی ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی والی Goliath گاڑیوں کا بھرپور استعمال کیا تھا۔ تاہم اس وقت یہ ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی اور ان گاڑیوں کے آپریٹرز کو بھی قریب ہی رہنا پڑتا تھا۔ تاہم امریکی کے یہ جدید روبوٹ ٹینک اس خامیوں سے مبرا ہوں گے۔

جس طرح سرد جنگ میں موثر کردار ادا کرنے والے ایم ون ٹینکوں کو جدید ٹینکوں سے تبدیل کیا گیا، اسی طرح امریکی فوج اپنے بلیک ہاک اور اپاچی ہیلی کاپٹرز کو بھی ایسے جدید ہیلی کاپٹرز سے تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جنہیں کثیر جنگی مقاصد میں استعمال کیا جاسکے۔ امریکی محکمۂ دفاع اس مقصد کے لیے ایک منصوبے ’فیوچر ورٹیکل لفٹ ‘ پر کام کر رہا ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر جنرل والٹر روگین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت تیار ہونے والے ہیلی کاپٹر تیزرفتاری سے حملہ کرنے اور نگرانی کے ساتھ زمین پر موجود فوجی دستوں کو مدد بھی فراہم کرسکیں گے۔ دشمن کی نظروں سے اوجھل رہنا ہر ملک کی اولین خواہش ہے۔

اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں ایک ایسا ہلکا، مُڑجانے کی صلاحیت رکھنے والا میٹریل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بننے والے لباس کو پہن کر دشمن کی نظروں سے اوجھل رہا جاسکے۔ اور اس مادے سے بننے والے لباس کو پہن کر دشمن کے قریب تر جانے، حملہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔ ایک کینیڈین کمپنی نے حال ہی امریکی اور کینیڈین افواج اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی پولیس کے لیے ایسے مادے سے بنے چوغے ’ہائپر اسٹیلتھ ‘

کا مظاہرہ کیا ہے جسے پہن کر وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ امریکی بحریہ اپنے سمندری دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے ’الیکٹرو میگنیٹک ریل گنز‘ کی تیاری کے لیے مصروف عمل ہے۔ برقی مقناطیسیت کی خصوصیت سے لیس یہ گن بارود یا کسی ایندھن کے بغیر مقناطیسی میدان کی مدد سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ گن ساڑھے چار ہزار میل فی گھنٹہ سے 5ہزار600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے ہدف تک پہنچتی ہے۔

الیکٹرو میگنیٹک گنز کے نظام کو پہلی بار 2005میں امریکا کے بحری تحقیق کے مرکز نے متعارف کروایا تھا۔ 2012 میں اس کی استعداد میں اضافے کے لیے موجودہ پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔

امریکی بحریہ کو امید ہے کہ وہ اس گن کی رینج کو 64 میگا جولز استعمال کرتے ہوئے دو سو ناٹیکل میل تک بڑھانے میں کام یاب ہوجائیں گے، لیکن اس گن سے ایک فائر کرنے کے لیے ساٹھ لاکھ ایمپیئر (کرنٹ کی اکائی) بجلی درکار ہوگی۔ اس مقصد کے لیے امریکی بحریہ کے برقی سائنس دان ایسے طاقت ور کیپیسیٹڑ (کرنٹ کو محفوظ کرنے والاآلہ) کی تیاری میں مصروف ہیں جو اتنی طاقت پیدا کر سکے۔ یاد رہے کہ امریکا کے ساتھ ساتھ چین بھی آبی جنگوں میں استعمال کے لیے الیکٹرو میگنیٹک گنز کی تیاری میں مصروف ہے اور 2012 میں وہ منگولیا کے خودمختار خطے میں اس گن کا تجربہ بھی کرچکا ہے، تاہم ابھی اس کی زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

The post جنگیں اور بھی تباہ کُن ہونے کو ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

بیمار ہوں، نہیں ہوں!

$
0
0

تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ صحت وہ انمول شے ہے جو دولت کے عوض نہیں ملتی۔

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ امیر لوگ پیسہ ہونے کے باوجود مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنے من پسند کھانے کھانے سے بھی محروم رہتے ہیں اور نیند کی روٹھی دیوی کو منانے کے لیے گولیاں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آرام دہ، پُرسکون اور میٹھی نیند کو ترستے ہی رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک غریب مزدور روکھی سوکھی کھا کر رات کو گھوڑے گدھے بیچ کر آرام سے سوتا ہے۔ ذیل میں چند ایسے امراض کا ذکر کیا جارہا ہے جو دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ سب کو ہر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور تمام بیماروں کو اپنی رحمت سے شفائِ کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

1 ۔ کوٹارڈ ڈیلوژن (Cotard’s delusion)
یہ وہ بیماری ہے جس میں مریض کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے یا یہ کہ وہ اپنے خون، جسم کے مختلف حصوں (ناک، کان، ہاتھ یا ٹانگ) یا اندرونی اعضاء (دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے وغیرہ) سے محروم ہو گیا ہے۔ 1880ء کے اوائل میں فرانس کے دماغی امراض کے ماہرِ ’ڈاکٹرجیولِس کوٹارڈ‘ (Dr. Jules Cotard) نے پہلی بار اس مرض کی تفصیلات کے متعلق وضاحت کی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ زندہ لاشوں یعنی زومبی (zombies) کو محض سائنس فکشن اور ڈرائونی فلموں کے کردار سمجھتے ہیں لیکن جو افراد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں اور اُن کا جسم گل سَڑ رہا ہے یا کم از کم بھی یہ کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے جسمانی اؑعضاء سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اکثرو بیشتر اسی فکر میں غلطاں وپیچاں رہتے ہیں کہ اگر وہ نہائیں گے تو اُن کے خراب اعضاء بھی پانی کے ساتھ ہی بہہ جائیں گے اور اگر انہوں نے کھانا کھایا تو وہ کہاں جائے گا کیونکہ اُن کے خیال میں اُن کا معدہ تو ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے وہ نہانے اور کھانے سے گریز کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس بیماری کی وجہ دماغ کے اُن حصوں کی کمزوری ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں اور یوں اُن کا دماغ احساسات سے لاتعلق ہوتا چلا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس مرض کے تدارک کے لیے استعمال کروائی جانے والی ادویات اکثر کارگر ثابت ہوتی ہیں۔

2 ۔ فارن ایکسنٹ سینڈروم (Foreign Accent Syndrome)
اس بیماری میں انسان اچانک ہی کوئی غیرملکی زبان بولنے لگتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ کسی دن جب آ پ صبح سو کر اُٹھیں اور بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ کوئی غیرملکی زبان فراٹے کے ساتھ بولنا شروع کر دیں تو کیا ہو گا ؟ پہلے تو یقیناً آپ کے آس پاس موجود افراد اور گھر والے ششدر رہ جائیں گے اور پھر وہ آپ سے پوچھیں گے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے اور آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ پھر اس کے بعد وہ تشویش کا شکار ہو کر کچھ بھاگ دوڑ شروع کریں گے کہ آپ میں آئی اس حیرت انگیز تبدیلی کا سبب جاننے کے لیے کسی سے معلوم کریں یا کسی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ یہ مرض بہت کم افراد میں پایا جاتا ہے۔ امریکا بھر میں اس کے محض 60 کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ پہلے پہل ڈاکٹر اس مرض کو اختباطِ ذہنی کا مسئلہ سمجھتے تھے لیکن 2002ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ اس مرض کے متاثرین کے دماغ کے بول چال اور الفاظ کی ادائیگی ولہجے کو کنٹرول کرنے والے حصوں میں رونما ہونے والی خلافِ معمول تبدیلیاں ایک جیسی تھیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بیماری دماغی دورے یا چوٹ کی صورت میں بھی لاحق ہو سکتی ہے۔

3 ۔ ایکواجینِک اُرٹیکاریا (Aquagenic Urticaria)
اس بیماری کے مریض کو پانی سے الرجی ہوتی ہے۔ تالاب میں تیراکی کرتے یا غسل خانے میں نہاتے ہوئے عام طور پر ہم میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہوتی لیکن اس مرض میں مبتلا لوگوں کے لیے پانی کے پُرسکون اور آرام دہ لمس سے محظوظ ہونا بھِڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ مرض بھی عام نہیں اور ’سی این این‘ (CNN) کے مطابق پورے امریکا میں اس کے صرف 30 ہی مریض ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس مرض کے متعلق زیادہ معلومات میسر نہیں اسی وجہ سے ابھی تک اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ امریکا کے ’نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ‘ (National Institutes of Health) کے مطابق اس بیماری کے متاثرین اس سے نمٹنے کے لیے مختلف کریموں کا لیپ کر کے اپنے جسموں کو ڈھانپے رکھتے ہیں اور اکثر ’بیکنگ سوڈے‘ (baking soda) سے نہاتے ہیں۔

4 ۔ پورفیریا (Porphyria)
یہ مرض اعصابی نظام اور جِلد کو متاثر کرتا ہے اور اس کے مریض کے پیشاب کا رنگ جامنی ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جسم ایک خاص قسم کا پروٹین ’ہیم‘ (heme) بنانا چھوڑ دیتا ہے۔ اس پرٹین کا کام خلیوں کو آکسیجن پہنچانے میں مدد فراہم کرنا اور ہیموگلوبن کو اس کا مخصوص رنگ دینا ہے۔ ’ہیم‘ (heme) کی عدم موجودگی کے باعث جِگر میں ’پورفِرنز‘ (porphyrins) نامی زہریلے مادے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور خطرناک سطح پر پہنچ کر جسم سے اخراج کے وقت پیشاب کا رنگ تبدیل کر دیتے ہیں۔ چند تاریخ دانوں کے نزدیک 19 ویں صدی کے مشہور ولندیذی مصور ’وِنسینٹ وین گوہ‘ (Vincent Van Gogh) اور انگلستان کے بادشاہ ’جارج سوئم‘ (King George III)، جس کو ’پاگل بادشاہ‘ بھی کہا جاتا ہے، میں ایک غیر معمولی بات مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اِن دونوں اشخاص کے پاگل پن کی حد تک پل پل بدلتے مزاج کو اسی بیماری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جبکہ اس نظریئے کے ناقدین ’وِنسینٹ وین گوہ‘ (Vincent Van Gogh) کی حد تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کے ’پل میں تولہ پل میں ماشہ‘ مزاج کی وجہ یہ بیماری تھی بلکہ وہ اسے اس کی ذہنی کج روی سمجھتے ہیں جو اکثر فنکاروں کی طبیعت کا خاصہ ہوتی ہے۔ اس بات کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ ’وِنسینٹ وین‘ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہسپتال میں زیرِعلاج رہ کر گزارا لیکن ڈاکٹروں کی رپورٹ میں اس کے پیشاب کا رنگ جامنی ہونے کے بارے میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ’وِنسینٹ وین‘ کی جانب سے اپنے بھائی ’تھیو‘ (Theo) کو لکھے گئے خطوط میں بھی اس نے ایسی کوئی چیز نہیں بتائی۔

5 ۔ پیکا سینڈروم (Pica syndrome)
اس بیماری میں مریض کا دل پینٹ(paint) اور مٹی وغیرہ کھانے کو کرتا ہے۔ جس طرح ’نیل کنٹھ‘ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز کھا جاتا ہے اسی طرح اس مرض میں مبتلا افراد بھی کھانے پینے کے معاملے میں کسی تخصیص کے قائل نہیں ہوتے اور پینٹ(paint) ، چکنی مٹی، چونا، صابن، دیواروں کا پلسٹر اور تو اور کچے چاول اور آٹے جیسی عام لوگوں کو نامرغوب اشیاء بھی نگلنے سے نہیں چوکتے۔ کیا کریں بے چارے ؟ ان کا دل جو یہ سب کھانے کو چاہتا ہے۔ اگر کسی کو اِن سب چیزیں کی طلب مسلسل ایک ماہ تک محسوس ہوتی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ’پیکا سینڈروم‘ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس مرض کی علامات عام طور پر بچوں اور حاملہ خواتین میں دیکھی گئی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ بیماری جسم میں ایک معدنی عنصر کی کمی کے باعث جنم لیتی ہے تاہم میڈیکل کے ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

6 ۔ ایلس ان ونڈرلینڈ سینڈروم (Alice in Wonderland syndrome)
اس مرض کے نام سے شاید آپ نے اندازہ لگا لیا ہو کہ اس کا نام ’لیوِس کارول‘ (Lewis Carroll) کی مشہور کتاب ’ایلسز ایڈونچرز اِن ونڈرلینڈ‘ (Alice’s Adventures in Wonderland) کے نام پر کیوں رکھا گیا ہے۔ ’آکسفورڈ ہینڈ بُک آف کلینکل میڈیسن‘ (Oxford Handbook of Clinical Medicine) کے مطابق اس بیماری کے متاثرین کو ہوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ تیزی سے سکڑتے یا پھیلتے جا رہے ہیں یا اکثر انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے پڑی چیزوں کا اصل حجم اس کے برعکس یعنی چھوٹا ہے جو انہیں دکھائی دے رہا ہے۔ تحقیق کار اس مرض کا تعلق آدھے سر کے درد ’مگرین‘ (دردِ شقیقہ) migraine سے جوڑتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ’لیوِس کارول‘ خود بھی دردِ شقیقہ کا مریض تھا، اسی لیے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی اس بیماری کے کچھ ناکچھ اثرات اس کی کتاب کے چند حصوں پر نظر آتے ہیں۔

7 ۔ پروگیریا (Progeria)
اس بیماری کے متاثرہ شخص کی عمر سات گُنا تیزی سے بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس مرض کا شکار ایک یا دو سالہ بچے اپنی ظاہری شباہت کی وجہ سے اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑے لگنے لگتے ہیں۔ یعنی اُن کی جسمانی نشونما تو عام بچوں سے بھی کم رفتار سے ہو رہی ہوتی ہے لیکن بوڑھوں کی طرح اُن کے بال گِر کر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بالاخر وہ اپنے جسم کی زیادہ تر چربی کھو بیٹھتے ہیں اور اُن کی کھال پر جھریاں پڑ جاتی ہیں جس کے سبب وہ اپنی اصل عمر سے بیسیوں برس بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ لفظ ’پروگیریا‘ یونانی زبان سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ’قبل از وقت بڑھاپا‘۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔ ’پروگیریا ریسرچ فائونڈیشن‘ (Progeria Research Foundation) کے مطابق ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا اور اس کے مریض اوسطاً 14 برس کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔

8 ۔ ایکسپلوڈِنگ ہیڈ سینڈروم (Exploding Head syndrome)
اس بیماری میں مبتلا لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ سو جاتے ہیں یا سو کر اُٹھتے ہیں تو انہیں انتہائی اُونچی آوازیں سُنائی دیتی ہیں جیسے بندوقوں سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں یا پھر بہت تیز آواز میں جھنکار والے ساز بج رہے ہوں، حالانکہ اُس وقت اُن کے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین میں اس مرض کی وجوہات پر اتفاق نہیں پایا جاتا تاہم وہ اس کو کسی ذہنی دبائو یا تھکن کی وجہ سے پیدا ہونے والی نیند کی خرابی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس بیماری کے متاثرین میں سے بیشتر کو پوری زندگی میں بس ایک یا دو بار ہی ایسی آوازیں سُنائی دیتی ہیں البتہ جن لوگوں کو یہ شکایت مستقل رہے تو اُن کے لیے ادویات کا استعمال ضروری ہے۔

9 ۔ ’کینیٹیز سبیٹا‘ یا میری اینٹواِنیٹ سینڈروم  (canities subita or Marie Antoinette syndrome)
آپ کے بال خدانخواستہ کسی پریشانی یا بُری خبر سُننے کی وجہ سے اگر اچانک سفید ہونا شروع ہو گئے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ ’کینیٹیز سبیٹا‘ (canities subita) جسے ’میری اینٹواِنیٹ سینڈروم‘ (Marie Antoinette syndrome) بھی کہتے ہیں، کا شکار ہو گئے ہوں۔ یہ اختراع فرانس کے انقلاب کے موقعے پر ’ملکہ میری اینٹواِنیٹ‘ (Queen Marie Antoinette) کے لیے گھڑی گئی تھی کیونکہ جس دن اُس کی گردن ماری جانی تھی، اُس سے پہلے راتوں رات اُس کے سر کے سارے بال اچانک سفید ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور سابق امریکی صدر بارک اوباما جیسی مشہور شخصیات بھی اس مسئلے سے دوچار ہوئیں۔ اس کی وجوہات میں مختلف عوامل اس کا سبب ہو سکتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جسم کا قدرتی مدافعتی نظام کسی خرابی کے باعث جلد کے رنگ کو کنٹرول کرنے والے نظام کو نشانہء ہدف بنا لیتا ہے جس سے بالوں کے رنگ کی پیداوار متاثر ہو جاتی ہے۔

10 ۔ کانجینیٹل اینالجیزیا (Congenital Analgesia)
آپ اس بات پر یقین کریں یا ناں کہ دنیا میں ایک محدود تعداد ایسے لوگوں کی بھی پائی جاتی ہے کہ جنہیں اگر آپ کوئی چیز چبھوئیں تو اُنہیں درد محسوس نہیں ہوتا۔ دراصل انہیں ایک وراثتی جینیاتی مسئلہ درپیش ہوتا ہے جو جسم کو درد کے سگنلز دماغ کو بھیجنے نہیں دیتا، اس مرض کو ’کانجینیٹل اینالجیزیا‘ (Congenital Analgesia) کہتے ہیں۔ گو سُننے میں یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ شاید ایسے انسان ، سُپر مین کی طرح کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہوں گے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے اور ناں ہی یہ کوئی فائدہ مند بات ہے، بلکہ اُلٹا اس کا نقصان ہی ہے کیونکہ ایسے شخص کو اگر کوئی چوٹ وغیرہ لگ جائے یا لاعلمی میں اس کے جسم کاکوئی حصہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے تو اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا اور اگر خدانخواستہ کسی حادثے میں اُن کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تو درد نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کے علاج کی طرف سے لاپرواہی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے مطابق یوں بار بار لگنے والی چوٹیں اُن کی زندگی کا دورانیہ کم کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔

11 ۔ ہائپرتھیمیزیا (Hyperthymesia)
اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ آج سے ٹھیک 8 برس قبل، آج ہی کے دن وہ کیا کر رہا تھا ؟ تو یقیناً بہت سے لوگ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں گے تاہم ’ہائپرتھیمیزیا‘ کے متاثرین آپ کو اُس دن کے ایک ایک لمحے کا احوال فَر فَر سُنا دیں گے۔ یہ مرض بھی بہت کم افراد میں پایا جاتا ہے۔ پورے امریکا میں اس کے صرف 33 مریض ہیں جن کو اپنی گزری ہوئی زندگی کے ہر ہر دن کی مکمل تفصیل یاد ہے۔ آپ اُن کی نوجوانی کے کسی بھی دن کی تاریخ کا حوالہ دیں اور پھر آرام سے بیٹھ کر اُن کی روداد سُنیں۔ اس مرض کے عام نہ ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی، اس لیے ماہرین کے پاس اس کی وجوہات اور علاج کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

12 ۔ فائبروڈائیسپلازیا اوسیفیکینز پروگریسیوا (Fibrodysplasia Ossificans Progressiva)
عجیب بیماریوں کی اس فہرست میں یہ مرض سب سے زیادہ عام ہے۔ امریکا کے ’نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ‘ کے مطابق ایک تا دو ملین افراد میں اس مرض کی تشحیص کی جا چکی ہے۔ یہ بھی جینیاتی خرابی کے باعث لاحق ہونے والی بیماری ہے جس میں کوئی چوٹ یا زخم لگنے کی صورت میں جسم کی نرم بافتیں، ہڈیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور مرض بڑھتے بڑھتے بالآخر جسم کے جوڑوں اور پٹھوں کو اکڑنے پر مجبور کر کے باہم پیوست کردیتا ہے اور مریض کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کے متاثرین کی کافی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

13 ۔ ٹری مین سینڈروم (Tree Man Syndrome)
اس مرض میں مریض کے جسم کی کھال درخت کی چھال کی مانند ہو جاتی ہے۔ درحقیقت یہ جلد پر بننے والے لاتعداد ’مسے‘ (warts) ہوتے ہیں جو اسے یہ شکل دے دیتے ہیں۔ یہ بیماری بھی جینیاتی خرابی کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ ہر سال اس طرح کے 600 کیسیز منظرِعام پر آنے نے ڈاکٹروں کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ گو آپریشن کے ذریعے اِن مسوں کو عارضی طور پر ختم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے لیکن طب دانوں کو اس کا مکمل علاج ڈھونڈنا ہو گا۔

14 ۔ موبائل فون سے دھپڑ (Rash from Cellphones)
ذرا تصور کریں کہ موبائل فون، وائی فائی رئوٹر یا کسی بھی ایسے ہی آلے، جن سے برقناطیسی لہروں کا اخراج ہوتا ہو، کے نزدیک جاتے ہی اگر کسی کے سر میں درد شروع ہو جائے یا جسم پر دھپڑ پڑنے لگیں تو کیا ہو ؟ آپ کو اس بات پر شاید یقین نہ آئے لیکن کچھ لوگوں کو روزانہ یہ تجربہ ہوتا ہے۔ برقناطیسی لہروں سے ہونے والی حساسیت کے بارے میں طبی حلقوں میں پائے جانے ابہام و اختلاف کے باعث 2004ء تک ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ (World Health Organization) نے اسے سرکاری طور پر بحیثیت ایک مرض کے تسلیم نہیں کیا۔ ماہرین کے خیال میں ابھی تک اس الرجی اور برقناطیسی لہروں کے درمیان کسی تعلق کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم اس بیماری کی اصل وجوہات کا پتا لگایا جانا ابھی باقی ہے۔

15 ۔ مورگیلنز (Morgellons)
مورگیلنز ریسرچ فائونڈیشن (Morgellons Research Foundation) کے مطابق اس مرض میں مبتلا افراد اپنے جسم پر کسی چیز کے رینگنے، کاٹنے، چبھنے یا ڈنک مارے جانے جیسا احساس محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے اُن کے سارے جسم کو کیڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ چند مریضوں کو ایسا احساس بھی ہوتا ہے کہ جیسے گہرے رنگ کے عجیب سے دھاگے یا ریشے اُن کی جِلد سے باہر کو نکل رہے ہوں۔ شروع شروع میں ڈاکٹروں نے اس کیفیت کو محض مریض کے دماغ کی کاررستانی قرار دیتے ہوئے زیادہ اہمیت نہیں دی مگر اب جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ شاید یہ عجیب وغریب بیماری، چچڑی کے انسانی خون چوسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی انفیکشن (tick-borne illness) کے باعث ہو سکتی ہے۔

16 ۔ مِرر ٹَچ سائنیستھیزیا (Mirror-touch Synesthesia)
ہم سب کے دماغوں میں ننھے ننھے عصبے موجود ہوتے ہیں۔ اُنہیں کی وجہ سے جب ہم دوسروں کو کسی دکھ درد یا تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ’مِرر ٹَچ سائنیستھیزیا‘ (Mirror-touch Synesthesia) سے متاثرہ لوگوں کے دماغ میں موجود یہ ننھے عصبے اوروں کی نسبت زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے دوسروں کی مصیبت وپریشانی پر اُن کا ردِعمل زیادہ شدید ہوتا ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے افراد جب کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تو اُن کو وہ درد اپنے جسم میں بعینہٖ اسی طرح اور اسی جگہ پر محسوس ہوتا ہے جہاں متاثرہ شخص محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ اس مرض کے بعض مریض تو اتنے حساس ہوتے ہیں کہ دوسروں کی ناک پر دھری عینک کا بوجھ بھی انہیں اپنی ناک پر محسوس ہوتا ہے۔

17 ۔ فیٹل فیمیلیَل اِنسومنیا   (Fatal Familial Insomnia)
اس بیماری کا نام ہی سُن کر پتا چل جاتا ہے کہ یہ کیا مرض ہو سکتا ہے۔ جینز میں پائی جانے والی اس مورثی خرابی، مریض کو پُرسکون اور گہری نیند سے محروم کر دیتی ہے اور بے خوابی کے باعث وہ ذہنی دبائو، اُکتاہٹ وبیزاری اور دماغی خلجان وہذیان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے مطابق گو اس بیماری کے متاثرین کی تعداد بھی انتہائی کم ہے تاہم وہ بے چارے ایک برس یا اس سے کچھ زائد کی نیند سے محرومی کے بعد اس مرض کا خراج ادا کرتے کرتے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post بیمار ہوں، نہیں ہوں! appeared first on ایکسپریس اردو.

کثرت آبادی نہیں بلکہ بیکار آبادی سب سے بڑا مسئلہ

$
0
0

ایک طرف برما،مقبوضہ کشمیر اور فلسطین سمیت کئی علاقوں میں مسلم نسل کشی کی جا رہی ہے، دنیا کے کئی مہذب ممالک سے مسلمانوں کا انخلا کیا جا رہاہے۔دوسری طرف تقریباً 60سال سے غیر ملکی قوتوں اور اداروں نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کر رکھا ہے اور بڑھتی ہوئی آ بادی کو سب سے بڑا خطرہ قراردیا گیا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔

بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا% 46 فیصد ہے اور پورے بلوچستان کی آبادی صرف 60 لاکھ ہے، جبکہ سمندری حدود تقریباً 650 کلومیٹر ہے،گوادر بلوچستان کی ساحلی پٹی کا حصہ ہے، بلوچستان کی زیادہ تر زمین غیر آباد ہے، اگر توڈیرو روڈ جو کہ پنجاب اور بلوچستان کو ملاتی ہے مکمل ہو جائے اور آبادی کا بہاؤ بلوچستان کی طرف کر دیا جائے تو پاکستان کی آبادی کم پڑ جائے گی،کہا جاتا ہے کہ اگر گوادر پورٹ اور سی پیک کا منصوبہ اصل تناظر میں کامیابی کی طرف بڑھتا جائے اور صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تو تقریباً 4لاکھ ہنر مندوں، کاریگروںاور مزدورو ںکی ضرورت ہوگی، تجارتی سر گرمیوں کے لیے 6 لاکھ مکانات اور رہائشگاہوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر بنجر زمینوں کو کارآمد بنانے کی کوشش کی جائے تو کم از کم 30 لاکھ کسانوںکی ضرورت ہوگی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 6 سال میں بلوچستان کی آبادی میں پونے دو کروڑ کا اضافہ ہو سکتا ہے یعنی پاکستان کے دوسرے حصوں سے ہنرمند، کاریگر، مزدور، کسان ، تاجر پیشہ افراد اور سرکاری ملازمین کی بہت بڑی تعداد بلوچستان میں آباد ہو سکتی ہے، بلوچستان ترقی کے دھارے میں آسکتاہے، بلوچستان کا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے۔ ترقی کے دھارے میں بہہ سکتا ہے، مسئلہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی نہیں بلکہ غیر آباد علاقوںکو آباد کرنا ہے۔اس وقت بلوچستان کی ترقی وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس مقصدکے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔کان کنی کے لیے بھی بلوچستان میں لاکھوںافراد کی ضرورت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں وہاں کا سرداری نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اگر ان کی اجارہ داری کو للکارا گیا تو ملکی سالمیت کو خطرات در پیش ہو سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مفاد پرست سرداروں نے پہلے ہی قومی ترقی میں حصہ نہیں لیا بلکہ بلوچستان کی آزادی کی تحریکیں پیدا کی ہوئی ہیں، انہوں نے ہی حالات ایسے پیدا کر رکھے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے، بعض غیر ملکی قوتوں کی بھی خاص دلچسبی رہی ہے کہ بلوچستان ترقی کے دھارے میں شامل نہ ہو سکے، یہی وجہ ہے کہ 650 کلومیٹر ساحلی پٹی ہونے کے باوجود بلوچستان میں ساحلی تفریحی مقامات نا پید ہیں ۔ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہر نہیں ہیں، وگرنہ ساحلوں کے ساتھ ساتھ کثرت آبادی والے شہر واقع ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی بجائے قومی ترقی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ قومی اثاثوں کو کار آمد بنانے کی ضرورت تھی ایک ایک انچ کو کارآمد بنایا جا سکتا تھا، ایک ایک فرد کو فعال کیا جا سکتا تھا، بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھانے کی ضرورت تھی اور کم آبادی کی پرواہ کیے بغیر بنیادی سہولتوں کی آسان فراہمی ضروری ہے، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً پینے کا صاف پانی، بجلی اور گیس مختلف علاقوں میں پہنچانی ضروری ہے، ساحلی علاقوں میں عموماً ہر علاقے سے لا تعداد افراد روز گار کے لیے آتے ہیں، کراچی سمیت پوری دنیا کے ساحلی شہروں اور علاقوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے مگر بلوچستان کی پوری پٹی ابھی تک غیر آباد ہے۔اگر بلوچستان کی بنجر، غیر آباد اور بیکار زمینوںکی اہمیت میں اضافہ ہو جائے تو وہاںکے مقامی باشندوں اور زمین مالکان کی زندگیوں میں مثبت انقلاب آ جائے گا اور خوشحال ہو جائیں گے، جیسا کہ گوادر اور آس پاس کی زمینوں کی قیمت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا،کوڑیوںکے مول بکنے والی زمینیں سونے کے بھاؤ بکنے لگی ہیں۔

اسی طرح پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی 85 ہزار ایکڑ زمین غیر آباد ہے جسے معمولی سی محنت سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ بہت بڑا رقبہ زیرکاشت لایا جا سکتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کو روز گارمل جائے گا۔

وطن عزیز اس وقت عالمی ترقی کی دوڑ میں سب سے پچھلی صفوں میں موجود ہے۔ اگر ملک میں تعلیمی سر گرمیاں شروع ہو جائیں تو ملک بھر میں مزید 8 لاکھ اساتذہ کی ضرورت محسوس ہوگی، تجارتی سرگرمیاں معمول پر آ جائیں تو ملک بھر میں 60 لاکھ ہنرمندوں اور کاریگروں کی ضرورت ہے۔ ملک اگر اپنی ڈگر پر چل پڑے تو کم از کم ایک لاکھ پندرہ ہزار مزید سرکاری اہلکاروں کی ضرورت ہوگی ۔ تجارت سے منسلک افراد کی تعداد میں بھی مزید 60 لاکھ کا اضافہ ممکن ہے، اگر اس تمام تر صورتحا ل کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ بڑھتی ہوئی آبادی مسئلہ نہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے، نہ ہم ملکی اثاثوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں نہ سیاحتی مقامات سے، نہ معدنیات سے اور نہ ہی افراد سے، پاکستان کے دشمنوں نے حکومتوں اور عوام کی توجہ کبھی اس جانب مبذول ہی نہیں ہونے دی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اپنے اثاثوں اور افراد سے بہت ہی کم فائدہ اٹھا سکا ہے۔

کسی بھی حکومت نے اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا کہ وہ اپنے اثاثوں، افراد، زمینوں اور قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے مکمل اعداد وشمار اکٹھا کرے ۔ مردم شماری کو صرف بندے گننے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ ہر شے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، قوم میں بھی وہ جذبہ پیدا نہیںکیا جا سکا کہ پاک سر زمین کے ایک ایک انچ، ایک ایک تنکے اور ایک ایک پتے کو بھی کارآمد اور مفید بنانے کی کوشش کرے، پاکستان نے ابھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے، اور جب ترقی کا پہیہ چل پڑا تو یہی آبادی انتہائی کم نظر آئی گی، خارجہ پالیسی کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کامیاب سفارتکاری کے ذریعے کم ازکم مزید سات لاکھ پاکستانیوں کو فی الفور روزگار کے لیے بیرون ممالک بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو لاکھوں کی تعداد میں ہنر مند درکار ہیں جس کا فائدہ بھارت اور بنگلہ دیش اٹھا رہے ہیں، اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں، افراد سے کام لینے کا ہے جس کا ادراک ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے۔

کافی عرصہ سے بین الاقوامی قوتیں اور ادارے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے متوحش نظر آتے ہیں، یہ قوتیں اور ادارے اس قدر فکر مند ہیں کہ تقریباً 55 سال سے پاکستان کو آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خطیر رقم امداد اور قرضے کی صورت میں فراہم کر رہے ہیں ۔

ان اداروں کا موقف ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمیابی کی وجہ سے پاکستان مسائل کا شکار ہو رہا ہے، خوراک ، علاج معالجہ اور تعلیمی سہولتوں میں اس قدر اضافہ نہیں ہو رہا جتنا کہ آبادی میں ہو رہا ہے، “خاندانی منصوبہ بندی” یا بہبود آبادی کا پروگرام صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں شروع ہوا، یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی آبادی موجودہ آبادی سے نصف سے بھی کم تھی، وسیع پیمانے پر آبادی پر قابو پانے کے لیے تشہیر کی بھی کی گئی اور پورے ملک میں بہبود آبادی کے مراکز بھی قائم کیے گئے، اس وقت کچھ علماء کرام نے اس پروگرام کی مخالفت کی اور اس پروگرام کو نبی کریمﷺ کے حکم کے منافی قرار دیا گیا کیوںکہ آپ ﷺ نے اپنی کثرت امت پر ناز فرمایا ہے، ایک حدیث ہے” قیامت کے روز جنت کی طرف 100 ( بعض جگہ120) قطاریں جائیں گی اور ان میں 80 قطاریں صرف میری امت کی ہونگی “۔ اس پروگرام کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا اور بعض علماء اور دانشوروں نے بر ملا کہا کہ یہ پروگرام پاکستان میں صرف اس وجہ سے شروع کیا گیا ہے کہ دوسری اقوام مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے فکر مند ہیں۔

مگر بات یہ ہے کہ سماجیات اور معاشیات کے ماہرین کے علاوہ بعض علماء کرام اور مفتی حضرات نے بھی اس پروگرام کی حمایت کی اور کہا کہ وسائل اور آبادی کا تناسب ایک جیسا ہونا چاہیے، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خوراک اور دوسری سہولتیں ناپید ہو جا ئیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی آبادی ناقص منصوبہ بندی یا غیر فعال اور بیکار افراد کی کثرت؟خوراک کا رونا رویا جاتا ہے، فصلوں کی انتہائی کم پیداوار کے باوجود بھی ہم خوراک گندم، چاول ،چینی، پھل اور سبزیاں بر آمد کر رہے ہیں جبکہ ہمارے وطن جسے زرعی ملک کہا جاتا ہے میں فی ایکڑپیداوار دنیا کے دوسرے ممالک سے کہیں کم ہے، یہاںفی ایکڑ 20 من گندم پیدا کی جاتی ہے جبکہ جاپان میں 108من فی ایکڑ گندم پیداکی جا رہی ہے۔

دنیاکے تمام ممالک میں زرعی ریسرچ اور تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے مگر زرعی ملک ہونے کے باوجود اس شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک صحیح کھاد اور کیڑے مار ادویات کا ہی تعین نہیں کیا جا سکا، ہر علاقے میں ایک جیسی کھاد اور ادویات کا سپرے کیا جا رہا ہے۔ بعض زمینوں پر اس کا الٹ اثر ہوتا ہے،کھاد اور ادویات کے بے پناہ استعمال کے باوجود پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا ، جبکہ زرعی ماہر اور سابق وزیر زراعت ملک خدا بخش بچہ کا کہنا تھا کہ اگر مناسب توجہ دی جائے تو ہماری زرعی زمینوں سے چار گنا زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے، آفات اور موسمی تغیرات کی وجہ سے فصلوں کی بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے۔

ـاصل مسئلہ کسی بھی ملک کے لیے کثرت آبادی نہیں ’’غیرفعال آبادی‘‘ہوتا ہے۔ لندن، پیرس، جاپان اور ہانگ کانگ سمیت بے شمار ترقی یافتہ ممالک اس بات کی زندہ مثال ہیں، بعض ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کا بہت زیادہ دباؤ ہے مگر وہاں کی آبادی  چونکہ غیر فعال اور بیکار نہیں ہوتی اور وہاں کا ہر فرد ہی مصروف اور کار آمد ہوتا ہے۔ اس لیے ان ممالک میں ’’کم وسائل اور زیادہ مسائل‘‘ والا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

آج کی جدید دنیا میں حکومتیں ہر فرد کو کار آمد اور فعال بنانے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، ہر فرد کو اصلاحات بنانے اور اس کی خاص صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی مو ثر پلاننگ کی جاتی ہے، ہر فرد کی بنیادی ضروریات خوراک تعلیم و معالجہ اور رہائش کے لیے بہترین پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، عجیب بات یہ ہے ایک زرعی ملک میں پیدا وار کو بڑھا نے کی بجائے آبادی کو کم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، ہمارے حکمران شائد اس بصیرت سے ہی محروم تھے کہ جو قوموں کی ترقی اور انہیں فعال بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ابھی تک کسی حکومت نے اس عزم کا اظہار نہیں کہ وہ ہر فرد کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرے گی۔

ان کی عالمی معیار کی تعلیم و تربیت کے پروگرام کوبھی عملی جامہ پہنایا جائے گا اور  ضروریات زندگی کی ہر شے مہیا کی جائے گی، علاج کی بہترین سہولتیںفراہم کی جائیں گی۔ وسائل بڑھانا ہی حکومتوں کی اعلی کارکردگی کا ثبوت ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے متعلق بہترین پلاننگ کی جاتی ہے، وہاں کا نظام ہی ان بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ ریاست کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، اس بچے کو ہر بنیادی سہولت فراہم کرنا حکومت اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے، وہاں ان ممالک میں شخصیات کی بجائے نظر یات کی سیاست ہو تی ہے، وہاں یہ نظریہ نہیں جانا چاہیے کہ اگر آپ میں مسائل پر قابو پانے کی اہلیت نہیں ہے تو آپ حکومت میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟

پاکستان تجارتی عدم توازن کا شکار ملک ہے، اگر یہاں کی نوجوان آبادی کو پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھانے کی منصوبہ بندی کی جائے تو کل کلاں کو یہی آبادی کم نظر آئے گی، ایک ماہر معاشیات کے بقول اگر تجارتی خسارے میں توازن پیدا کرنا ہو تو صنعتوں کی تعداد دْگنا سے بھی زیادہ کرنی ہوگی، سرمایہ کاروں کو اگر مناسب سہولتیں دے دی جائیں اور ملک میں نئی صنعتیں قائم ہو جائیں تو کم ازکم مزید ڈیڑھ کروڑ افراد کی ضرورت ہو گی۔ اگر ایک کارخانے میں صرف 800 افراد بھی کام کرتے ہوں تو اس کارخانے کو مال مشینری اور دوسری اشیاء مہیا کی جاتی ہیں، ان سے منسلک افراد کی تعداد تقریباً 3500 ہوتی ہے۔

پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہر گز نہیں ہے، البتہ موجودہ دور میں غیر فعال اور بیکار افراد یا آبادی بہت زیادہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے پیشہ ور افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، پہلے الیکٹریشن، پلمبر، ترکھان اور تعمیرات سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثرت ہوتی تھی، اب آبادی کے تناسب سے ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

اگر سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور سی پیک کے اطراف میں صنعتی زون قائم ہو گئے تو یقیناً ہنر مند افراد کی کامیابی کا مسئلہ در پیش ہوگا، اس وقت شائد دوسرے ممالک کے ہنر مندوں کو پاکستان بلوانے کی ضرورت پڑے گی۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی مانند ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواہئشمند نظر آتے ہیں، سب سے پہلے وہ پاکستان سے ہر وہ کام اور نظر یہ ختم کریں جو دین اسلام کی ضد ہے، انہوں نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، وہ اس سے بھی دگنی آبادی کو روزگار دے سکتے ہیں اگر صرف چند ضروری اقدامات پر توجہ اور زور دیں۔

۱) موجودہ مردم شماری کی رو سے ناخواندہ، بے ہنر اور بے کار افراد کی فہرستیں تیار کی جائیں ۔

۲) پرائمری تک لازمی تعلیم کے قانون کو موثر بنایا جائے، حکومت اعلان کرے کہ سات سال بعد شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے پرائمری تعلیم مشروط ہوگی۔ پرائمری کا امتحان پورے ملک میں متعلقہ بورڈ لے اور وہی پرائمری کی سند جاری کرے۔

۳) دیہی اور پسماندہ علاقوں میں 72فیصدآبادی کوئی ہنر نہیں جانتی یہ لوگ زندگی بھر مزدوری، کھیتی باڑی اور بھٹوں پر کام کر کے گزار دیتے ہیں، ہر علاقے میں فنی تربیت کے مراکز قائم کئے جائیں جہاں مفت ہنر سکھائے جائیں ۔

۴) زیادہ سے زیادہ افراد کو مختلف ہنر سکھا کر بیرون ممالک بھجوانے کی مو ثر منصوبہ بندی کی جائے، کوشش کی جائے کہ ہنر مندوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی ہمراہ بھجوادیا جائے۔ یہ لوگ نہ صرف خود روز گار کما کر بہتر زندگی گزار سکیں گے بلکہ ملک کو زرِ مبادلہ بھجوانے کا ذریعہ بھی بنیں گے، اور جن علاقوں میں جائیں گے وہاں کی مسلم آبادی میں اضافہ ہوگا۔

۵) بلوچستان کے غیر آباد علاقوں کو آباد کیا جائے۔ بنجر علاقوں کو کار آمد بنایا جائے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں اور بلوچستان کو پر امن صوبہ بنایا جائے تاکہ آبادی کا بہاؤ اس طرف زیادہ سے زیادہ ہو، پنجاب میں بھی غیر آباد زمینیں کاشتکاروں کو تقسیم کر دی جائیں ۔

۶) شمالی علاقہ جات میں بھی فصلوں کی کاشت بڑھانے کی کوشش کی جائے اور زیادہ سے زیادہ پہاڑی رقبہ قابل استعمال بنایا جائے، پہاڑی علاقو ں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ اگر شمالی علاقہ جات عالمی سیاحوں کے لیے مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے تو ان علاقوں میں ہوٹل انڈسٹری، گائیڈ ز اور دوسری ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے کم ازکم 4 لاکھ ہنر مندوں ،کاریگروں اور دوسرے افراد کی ضرورت ہو گی ۔

۷) عالمی تجارت بڑھانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے، تمام صنعتوں اور کارخانوں میں فنی تربیت کے قیام کو ضروری بنایا جائے۔ ایسا قانون بنایا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ کارخانوں اور مختلف قسم کی انڈسٹریز میں ہی بے ہنرافراد کی تربیت دیکھ کر ہی ملازمت پر رکھا جائے ہر فیکٹری اور کارخانے میں مین تربیت کا شعبہ لازمًاقائم ہونا چاہیے اور متعلقہ کارخانہ یا فیکٹری تربیت حاصل کرنے والوں کو باقاعدہ ڈپلومہ دے تاکہ وہ کسی اور جگہ بھی ملازمت کر سکیں۔

۸)   میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز، انجیئرنگ کالجز اور یونیورسٹیز کے ساتھ اساتذہ کی پیشہ ورانہ مہارت کے لیے بھی ایسے کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جہاں اعلٰی اور عالمی معیار کے اساتذہ تیار کیے جا سکیں، اساتذہ کی پیشہ ور مہارت بڑھانے کے لیے ایسے کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام اشد ضروری ہے، ایک قابل ماہر تعلیم ہی قوم کو اچھی تعلیم و تربیت دے سکتا ہے۔

۹) پورے ملک میں شخصیت میں نکھار (کپیسٹی بلڈنگ)کے لیے پروگرام منعقد کیے جائیںاور شرکاء کو بتایا جائے کہ اللہ تعالٰی نے ہر فرد کو مخصوص صلاحیتوںکے ساتھ پیدا کیا ہے، اگر وہ ان صلاحیتوںکو بروئے کار لائے تو وہ معاشرے کا فعال ترین فرد بن سکتا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے رقبے کو دیکھتے ہوئے اگر آبادی کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے 40گنجان ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے، اگر مناسب حکمت عملی اپنائی جائے اور امت مسلمہ کے تصورکو اپناتے ہوئے ایک ایک مسلمان کو اسلام کا سپاہی اور فعال فرد بنایا جائے تو یہی ملک اسلام کا قلعہ اور دوسری عوام کی امامت کا حقدار بن جائے گا۔ انشا ء اللہ ۔

The post کثرت آبادی نہیں بلکہ بیکار آبادی سب سے بڑا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

قراردادِ پاکستان؛ زندہ تاریخ کا ایک باب

$
0
0

دونوں ہی باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔

یہ کہ اجتماعی زندگی میں ستّر بہتّر سال کا عرصہ خاصا طویل ہوتا ہے۔ بہت کچھ اوجھل کردیتا ہے آنکھوں سے اور کتنی ہی چیزوں سے توجہ ہٹا دیتا ہے۔ یہ بات اس لیے درست ہے کہ اگر بیس سال بعد بھی ایک نئی نسل زندگی کے میدان میں اپنے سے پہلے موجود لوگوں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے لگتی ہے تو لگ بھگ پون صدی کے اس عرصے میں کم سے کم تین نسلیں اجتماعی منظرنامے کا حصہ ضرور بن جائیں گی۔

اب اگر ایسا ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر نسل کے لوگوں کی زندگی کے اپنے حقائق و حالات ہوتے ہیں اور اپنے تجربات۔ ان کے ذریعے ہی اُن کے ذہنی رویے اور ترجیحات طے ہوتی ہیں۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ایک دور کے لوگ دیکھتے، سوچتے اور کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کے بعد کے لوگ اور پھر اُن سے اگلے دور کے لوگ بھی وہی کچھ سوچیں اور کریں۔ اس لیے جو خواب اور خواہشیں ایک نسل کے لیے جینے مرنے کا جواز ہوسکتی ہیں، بہت مشکل ہے کہ وہ دوسری، تیسری اور چوتھی نسل تک اس قدر اہم اور قابلِ توجہ رہ پائیں۔ اہم تو کیا، وہ ان کے لیے کوئی معنی بھی رکھتی ہوں، یہ تک ضروری نہیں۔ یہ انسانی زندگی کی ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یوں ستر بہتر سال کا وقت واقعی بڑا عرصہ معلوم ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پون صدی اتنا بڑا عرصہ نہیں ہے کہ جو اجتماعی حافظے پر اثرانداز ہو۔ اتنے سے دورانیے کی باتیں تو ایک زندہ اور مستحکم معاشرے میں موجود تین نسلوں کو اس طرح یاد ہوتی ہیں جیسے ابھی آنکھوں کے سامنے کے کوئی واقعات ہی تو ہیں۔ صرف خوش گوار اور کامیابی کی باتیں نہیں، بلکہ ناگوار اور ناکامی کے واقعات بھی اجتماعی حافظے میں ؤ طرح محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ زندہ قومیں اپنی ناکامی کو آنے والی نسلوں سے چھپاتی نہیں، بلکہ ان کا سامنا کرتی اور ان سے سبق حاصل کرتی ہیں اور اپنے اچھے برے سب تجربات کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا سامان کرتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ترقی، استحکام اور بقا کے راستے پر سفر کرنے والی تہذیبوں اور قوموں کا حافظہ عام طور سے ڈیڑھ دو صدی کے سفر کو تو مسلسل اور پوری طرح تازہ رکھتا ہے۔ اس سفر کے نشانات اور حاصلات نسل در نسل اس طرح منتقل ہوتے ہیں کہ وہ پرانے زمانوں اور گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات نہیں رہتے، بلکہ ہر نئی نسل کے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ ایسا صرف زندہ قوموں میں ہوتا ہے۔ ان میں ہر نسل اپنے بعد آنے والے لوگوں کو اپنے تجربات میں شریک کرنے اور ان کو اپنے ساتھ اجتماعی حافظے کا حصہ بنانے کا کام پوری ذمے داری سے کرتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اجتماعی حافظے کے بارے میں پون صدی کے عرصے کے حوالے سے یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کے لیے الگ الگ جواز موجود ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں کیا ہورہا ہے، یعنی کیا ہمارا قومی حافظہ درست طور پر کام کررہا ہے؟ سوال تو بہت سادہ سا ہے، لیکن اس کا جواب ہمیں دو جمع دو مساوی ہے چار کی سادگی سے براہِ راست نہیں مل سکتا، اس میں اگر، مگر، چوںکہ اور چناںچہ جیسے کئی ایک الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لیے کہ ہمارا سماجی مزاج عجب رنگوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ ایک طرف ہمارے یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنی تہذیب، اس کی اقدار اور نظریاتی بنیادوں سے ؤ طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں جیسے ہماری شاعری یا لوک داستانوں کا کوئی روایتی عاشق اپنے محبوب سے۔

یہ لوگ اگرچہ اب کچھ بہت بڑی تعداد میں ہمارے یہاں نہیں رہے ہیں، لیکن جتنے بھی ہیں، اُن میں سے ہر ایک دس کے برابر ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کی آنکھیں نئی دنیا کی چکاچوند سے خیرہ ہیں، اور اس حد تک کہ وہ اپنی روایت و تہذیب کے روشن نشانات کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سماجی شعور کا اینٹینا اپنے اجتماعی رویوں کی اسکرین پر کبھی ایک طرف کی نشریات دکھانے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف کی۔ کم سے کم پچھلے چالیس برس سے تو ہمارے یہاں سماجی صورتِ حال کا نقشہ یہی کچھ دکھا رہا ہے۔

اب خود سوچیے کہ ان حالات میں قومی حافظہ بھلا کیسے وہ کام کرسکتا ہے جو کرنے کی ذمے داری اس پر ڈالی جاتی ہے، اور کس طرح ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ نئی نسل تک ہمارا اجتماعی شعور پوری طرح منتقل ہورہا ہوگا اور اْس کی یادداشت میں ہمارے قومی تشخص اور تہذیبی تگ و دو کے سفر کے سارے سنگ ہائے میل روشن نشانات کی صورت میں محفوظ ہورہے ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ایسا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے۔ اب اگر ایسا ہی ہے اور واقعی ہماری نئی نسلوں تک وہ چیزیں منتقل نہیں ہورہیں جو کہ ایک زندہ قوم کے نوجوانوں تک پہنچنی چاہییں تو کیا پھر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں سے صبر کرلینا چاہیے کہ وہ ہمارے قومی و تہذیبی ورثے کی امین نہیں ہوں گی؟

حقائق کا پوری غیرجانب داری اور واقعیت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات نہایت ذمے داری سے کہی جاسکتی کہ حالات تشویش کی حد تک تو خیر ضرور آگئے ہیں، لیکن ابھی مکمل طور پر مایوس کن ہرگز نہیں ہیں۔ اس وقت بھی ان میں درستی اور بہتری کا امکان بہرحال موجود ہے۔ یہ امکان بار بار اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور اس کا تازہ ترین مظاہرہ حالیہ دنوں میں اس وقت ہوا جب ہندوستان کی مودی سرکار نے مئی میں ہونے والے انتخابات میں عوامی جذبات کو استعمال کرنے کے لیے بہت مذموم حرکت کی۔ سرحدوں پر اشتعال کا ماحول بنایا۔ انتہاپسندی اور جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اور ہم پر جنگ مسلط کرنے کی اپنے طور پر پوری کوشش کی۔

اس موقعے پر پاکستان کی صرف سیؤ اور عسکری قیادت ہی نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی جس طرح اجتماعی شعور اور قومی طرزِاحساس کا اظہار ہوا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے اندر ملّی جذبہ اور تہذیبی تشخص کا احساس نہ صرف موجود ہے، بلکہ ہمیں اب بھی حد درجہ عزیز ہے— چناںچہ یہ بات پوری وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تہذیبی اقدار، قومی شعور اور اجتماعی شناخت کی یہ دولت و وراثت اگلی نسلوں تک نہ صرف اب تک منتقل ہوتی آئی ہے، بلکہ آئندہ بھی اطمینان سے کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کے بارے میں خوف یا بدگمانی کا شکار ہونے کے بجائے، اس پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اس تک اپنی تاریخ کے واقعات، تہذیبی تجربات اور قومی احساسات کو کس طرح زندہ صورت میں پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس بات کا یقین بھی رکھنا چاہیے کہ نئے لوگ اپنے اس ورثے کے بہترین امین اور وارث بھی ثابت ہوں گے۔

یہ ذرا واقعی کچھ تھوڑا سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر بار بار بات کرنے اور اسے پوری طرح اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصے سے ہمارے یہاں یہ تأثر تواتر اور شد و مد سے پھیلایا گیا ہے کہ نئے لوگ اپنی تہذیبی وراثت سے بالکل بیگانے ہیں۔ انھیں اپنی اقدار اور روایات کا کوئی شعور نہیں ہے۔ وہ ان سے مطلق دل چسپی نہیں رکھتے۔ اس لیے ان سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ پہلی بات تو وہی، جس کا اظہار اس گفتگو کے آغاز میں کیا گیا، یعنی بعد میں آنے والی ہر نسل اپنے پرکھوں کی ہر چیز کو سر آنکھوں پر نہیں رکھتی، اہمیت نہیں دیتی، اور یہ کوئی غیر فطری بات بھی نہیں ہے۔ دوسری بات، یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، کم و بیش ہر معاشرے اور تہذیب میں ہمیشہ سے ایسا ہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ تیسری بات، ہم ہر وقت نئے لوگوں کو برا بھلا کہہ کر انھیں اپنی روایت کا پاس دار نہیں بناسکتے۔ اس کے برعکس ان کے اندر ردِعمل اور بیگانگی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ہاں، اگر ہم مثبت رویہ اختیار کریں تو نتائج ضرور بہتر ہوں گے۔

آج اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوان ذہنوں کو اپنی نظریاتی بنیادوں، قومی تشخص اور تاریخی سفر کے بارے میں لگن اور ذمے داری سے اس طرح آگاہ کریں کہ اُن کے اندر اپنے بزرگوں کے اس ورثے کو قبول کرتے ہوئے خوشی اور فخر کا احساس پیدا ہو۔ انھیں نہ صرف اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، بلکہ ان کے اندر اس کی نگہبانی کی خواہش بھی بیدار ہو۔ انھیں بتایا جانا چاہیے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف ایک سیؤ تشکیل کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک واضح نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی ایک باوقار مملکت ہے۔ برِصغیر میں جس سیؤ تحریک کے نتیجے میں ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے وجود میں آئی وہ فرنگیوں کے تسلط میں رہنے والی ہندوستان کی محض ایک اقلیت کی سیؤ اور گروہی کامیابی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک آئیڈیالوجی، ایک ضابطۂ حیات کی فتح تھی۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم دراصل مسلمانوں کی طرف سے پیش کیے گئے دو قومی نظریے کی حقیقت کا اعتراف ہے اور یہی نظریہ مسلمانانِ ہند کی اس آزاد ریاست کے قیام کا وہ جواز ہے جسے ساری کوششوں اور سازشوں کے باوجود نہیں جھٹلایا جاسکا۔ اس لیے دنیا کے ان سب ممالک میں جنھوں نے کسی استعمار سے آزادی حاصل کی ہے، پاکستان ایک منفرد حیثیت کا حامل ملک ہے کہ وہ ایک ضابطہ? حیات کے شعور اور ایک نظریاتی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ چناںچہ وہ جو کہا گیا کہ پاکستان کی بنیاد تو ؤ روز رکھی گئی تھی جس روز ہندوستان میں پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا، تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور وزن رکھتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح ایک بڑی عظیم الشان عمارت کی تعمیر کا آغاز ؤ وقت ہوجاتا ہے جب اس کی بنیاد کا پہلا پتھر رکھا جاتا ہے، تو بالکل ؤ طرح پہلے شخص کے مسلمان ہونے پر ہندوستان میں پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

قیامِ پاکستان کی سیؤ جدوجہد پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں 1930ء میں علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں جو تاریخی خطبہ دیا تھا، اس میں انھوں نے واضح طور ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کا مطالبہ جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کیا تھا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے جنوبی ایشیا میں تاجر بن کر آنے والے انگریزوں نے مغلیہ سلطنت کو رفتہ رفتہ کم زور کرتے ہوئے بالآخر 1857ء میں جب اس کا خاتمہ کیا اور تاجر کی بجائے ہندوستان کے تاج دار بن بیٹھے تو اس دور میں یہ صرف مسلمان آبادی تھی جو نئے حکمرانوں کے زیرِ اثر پورے ہندوستان میں ظلم و جور اور جبر و استحصال کے ہول ناک تجربے سے گزری۔

تہذیب و اقدار کا تو سوال کیا، اس وقت مسلمانوں کو تو وجودی بقا کے لیے جس ابتلا اور آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کو آج بھی بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس عرصے میں ہزار مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود مسلمانوں کا مذہبی شعور اور تہذیبی احساس ماند نہیں پڑا تھا، بلکہ وقت کی سان نے اس کو رگڑ ڈالنے کی کوشش میں اس کی چمک اور بڑھا دی تھی۔ علامہ اقبال کا خطبہ? الٰہ آباد اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ محکومی اور مجبوری کے لگ بھگ ترؤ برس بعد ایک قوم پورے سیؤ شعور کے ساتھ ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

علامہ اقبال کے اس خطبے کے بعد رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلمان عوام میں یہ شعور پھیلتا چلا گیا کہ برِصغیر میں ان کی آئندہ نسلوں کے لیے بقا، استحکام اور ترقی کا واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک آزاد اور خودمختار ریاست حاصل کریں۔ عوام میں اس شعور کو اجاگر کرنے اور ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑانے میں اْس عہد کے مسلمان سیؤ قائدین کے علاوہ چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھ چند پرجوش و پرعزم جواں سال لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے یہ کام مجلسِ کبیر پاکستان بناکر سیؤ، صحافتی اور سماجی سطح پر کیا۔ مجلسِ کبیر پاکستان فروری 1937ء میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں قائم ہوئی۔ اس کے بنیادی اراکین میں مرزا عبداللہ انور بیگ (وکیل)، خورشید عالم (جہاں گرد)، صاحب زادہ عبدالحکیم (وکیل) اور سرور ہاشمی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

مسلمانوں کی آزاد ریاست کا نام بھی چودھری رحمت علی ہی نے تجویز کیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کے نئے آزاد وطن کا نام پاکستان جن علاقوں سے لیا ان میں شامل تھے پنجاب (پ)، سرحدِ افغانی (الف)، کشمیر (ک)، سندھ (س)، بلوچستان (تان)۔ چودھری رحمت علی نے تاریخ کے حوالے سے ثابت کیا کہ ان علاقوں میں مسلمان بارہ سو سال سے آباد تھے۔ اس طرح یہ صرف ایک نام نہیں تھا، بلکہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی تقسیم کے لیے پورا ایک فارمولا بھی تھا۔ جواں سال لوگوں کی تنظیم مجلسِ کبیر پاکستان نے جس شبانہ روز محنت اور لگن سے قیامِ پاکستان کی ضرورت و اہمیت کو عوام میں اجاگر کیا، اس نے مسلمانانِ ہند کے دلوں میں جذبۂ آزادی کی لو کو تیز تر کردیا۔ گاؤں دیہات کی مختصر آبادی سے لے کر شہر کے بھرے پھرے علاقوں تک آزاد وطن کی آواز ایک قوت کے ساتھ گونج گئی۔ یہ آواز درحقیقت بیداری کی ایک لہر تھی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خون کو گرما دیا تھا۔

ظاہر ہے، یہ صورتِ حال خطے کی اکثریتی آبادی، یعنی ہندوؤں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ تو یہاں سے فرنگی حکم راں کے رخصت ہوجانے کے بعد اپنی عددی برتری کی وجہ سے پورے ہندوستان پر حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ نہ صرف خواب دیکھ رہے تھے، بلکہ انگریزوں کو ہر ممکن یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ ان کے بعد ہندوستان پر اقتدار کا حق صرف انھی کو حاصل ہے، اور یہ کہ اس خطے میں صرف وہی ہیں جو کسی تنگ نظری اور تعصب کے بغیر جنوبی ایشیا کی ساری اقلیتوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔

ایک طرف ان کی یہ ساری کوششیں تھیں اور دوسری طرف مجلسِ کبیر پاکستان کے سچے جذبے سے بھرے ہوئے نوجوان تھے جنھوں نے خطے کی مسلمان آبادی میں سیؤ شعور اور آزادی کا جذبہ بیدار کرکے ہندوؤں کی سیؤ قیادت کے اس خواب کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے ردِعمل میں سیؤ، صحافتی اور سماجی سطح پر ہندوؤں نے اپنے طور پر بڑی بھرپور مہم چلائی۔ سیؤ جلسوں ہی میں نہیں، سماجی مجلسوں میں بھی علامہ اقبال اور چودھری رحمت علی کے تقسیمِ ہند کے خیال کو ہر ممکن طریقے سے رد کیا گیا۔

اخبارات اور رسائل میں اس کے خلاف اداریے اور مضامین لکھے گئے اور اس تقسیم کو ناقابلِ عمل، وطن سے غداری اور ہندوستان کی متحدہ قومیت سے دشمنی قرار دیا گیا۔ مجلسِ کبیر پاکستان کے جواں سال کارکنوں نے ان سب حربوں کا منہ توڑ جواب دیا اور بھرپور دلائل کے ساتھ اپنے مؤقف کو درست ثابت کیا۔ ان لوگوں کے دلائل اتنے مضبوط اور طرزِاستدلال اس قدر مؤثر تھی کہ محکوم قوم کے لوگ ہی نہیں، بلکہ حکمران انگریزوں کو بھی ان کا اعتراف کرنا پڑا اور ان پر توجہ دینا ضروری محسوس ہوا۔

(جاری ہے)

The post قراردادِ پاکستان؛ زندہ تاریخ کا ایک باب appeared first on ایکسپریس اردو.


علاقائی سپرپاور بننے کا خواب چکنا چور؛ بھارتی فوج کا غیر معمولی حجم ریاست کیلئے مسئلہ بن گیا

$
0
0

’’اگر آپ اپنے دشمن اور اپنے آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں، تو چاہے سو جنگیں لڑئیے، آپ کو نتیجے سے کوئی ڈر نہیں لگے گا۔
’’اگر آپ اپنے آپ کو تو جانتے ہیں مگر دشمن کو نہیں تو پھر ہر فتح کے ساتھ ساتھ آپ کو شکست بھی ملے گی۔
’’اگر آپ اپنے دشمن کو نہیں جانتے اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں کا ادراک رکھتے ہیں تو ہر جنگ میں شکست کھانے کے لیے تیار رہیے۔‘‘(چینی ماہر عسکریات،ماسٹر سن ژی)
٭٭
یہ ستمبر 2018ء کی بات ہے، بھارتی بری فوج کے آٹھ سینئر ترین جرنیلوں کو اپنے آرمی چیف،بپن روات کا ایک اہم پیغام ملا۔ پیغام میں درج تھا کہ آرمی کمانڈرز کانفرنس اکتوبر کے بجائے اسی ماہ منعقد ہوگی۔ یہ پیغام پڑھ کر بھارتی جرنیل سمجھ گئے کہ یقیناً کوئی خاص بات ہے، تبھی کانفرنس ایک ماہ قبل بلالی گئی۔ یہ کانفرنس سال میں دو مرتبہ منعقد ہوتی ہے۔ آرمی چیف کی سربراہی میں آٹھ سینئر ترین جرنیل اس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ سازی کرنے اور پالیسیاں بنانے والا بھارتی فوج کا ایلیٹ ترین ادارہ ہے۔
جرنیلوں کی سوچ درست ثابت ہوئی۔ ماہ ستمبر کی آرمی کمانڈرز کانفرنس میں بھارتی آرمڈ فورسز کی نئی ملٹری ڈاکٹرائن پیش کردیا گیا۔ گو یہ بنیادی طور پر بری فوج سے تعلق رکھتا ہے مگر اس میں بھارتی فضائیہ اور بحریہ کے بعض عنصر بھی شامل ہیں۔ یہ نئی ملٹری ڈاکٹرائن تین نکات سامنے رکھ کر تیار کیا گیا:
(1) بھارتی افواج کی اہلیت و صلاحیت میں اضافہ تاکہ مستقبل میں بہترین طریقے سے جنگیں لڑی جاسکیں۔
(2) سپاہیوں کی استعداد کار میں اضافہ اور انہیں زیادہ موثر بنانا۔
(3) اخراجات میں کمی کرنا۔
بھارتی عسکری ڈاکٹرائن
ماضی کے زیرک جرنیلوں کا قول ہے کہ اس بات پر مطمئن و پرسکون مت ہوئیے کہ دشمن آپ پر حملہ نہیں کررہا بلکہ اپنی عسکری تیاریاں پوری قوت سے جاری رکھیے تاکہ دشمن کو بھر پور جواب دے سکیں۔ اس قول کی رو سے افواج پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حریف پڑوسی کی عسکری پالیسیوں پر نظر رکھیں۔

بھارت کے حکمران طبقے نے روز اول سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ وہ پاکستان کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصّہ سمجھتا ہے۔ بھارتی قوم پرستوں کے اقتدار میں آجانے سے پاکستان کے خلاف ان کی جارحیت بڑھ گئی ۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے تاکہ حریف کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ دفاع مستحکم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بھارتی آرمڈ فورسز کی پالیسیوں اور حکمت عملی پر گہری نظر رکھی جائے۔بھارتی بری فوج کی ملٹری ڈاکٹرائن کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ طویل عرصے تک اس کا مرکزی نکتہ دفاعی جنگ لڑنا رہا ہے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد بری فوج کو عموماً دو حصوں ’’دفاعی‘‘ (Holding) اور ’’جارح‘‘ (Strike) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دفاعی فوج کے دستے (ڈویژن) پاکستان اور چین کی سرحدوں کے قریب رکھے گئے۔ جارح فوج کے دستوں کو وسطی بھارت میں رکھا گیا۔یہ حکمت عملی عسکری اصطلاح میں ’’سندرجی ڈاکٹرائن‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ اس کی تشکیل میں سابق آرمی چیف کرشنا سوامی سندرجی(1986ء تا 1988ء) نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پہلے دفاعی بھارتی فوج حریف کے حملے کو روک لے۔ پھر جارح فوجی دستے حریف پر جوابی وار کردیں۔ یہ دستے ٹینکوں اور توپوں سے لیس تھے۔ انہیں بھارتی فضائیہ کی بھی بھرپور مدد حاصل تھی۔

دسمبر 2001ء میں کشمیری مجاہدین نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا۔ حسب روایت بھارتی حکومت نے اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا اور ارض پاک پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ جنگی تیاریوں کو ’’آپریشن پرکرم‘‘ کا نام دیا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ جارح بھارتی فوج سے پاکستان پر حملہ کردیا جائے۔ یہ تین کور (نو ڈویژن) فوج پر مشتمل تھی۔ یہ تین کور تقریباً ایک لاکھ فوجی رکھتی تھیں۔لیکن جارح بھارتی فوج کو سرحد تک پہنچنے میں تین ہفتے لگ گئے۔ اس دوران پاک بھارت کشیدگی میں پہلے جیسی تندی و گرمی نہیں رہی۔ عالمی قوتوں کی سفارت کاری کے باعث بھی حالات معمول پر آگئے۔ یوں بھارتی حکمران طبقہ پاکستان کو سبق سکھانے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد نہیں کرسکا۔ پاکستانی سرحد کے قریب موجود بھارتی دفاعی دستے ایسا جنگی سازوسامان نہیں رکھتے تھے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکیں۔ اگر ان کے ذریعے حملہ کیا جاتا ، تو افواج پاکستان انہیں ملیامیٹ کرسکتی تھیں۔اس تجربے کے بعد بھارتی مسلح افواج کے جرنیلوں اور حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ ’’سندرجی ڈاکٹرائن‘‘ پاکستان کے معاملے میں قابل عمل نہیں۔

اسی لیے نئی عسکری حکمت عملی کے تحت ایسی سریع الحرکت فوج بنانے کا فیصلہ ہوا جو تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرسکے۔ بھارتی عسکری و سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی سے افواج پاکستان اور پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ عسکری اصطلاح میں حکمت عملی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ (Cold Start doctrine)کے نام سے مشہور ہوئی۔بھارتی فوج کا طویل عرصہ یہ بیان رہا کہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کوئی وجود نہیں رکھتا۔ آخر دو سال قبل موجودہ آرمی چیف، جنرل بپن روات نے اس کی موجودگی تسلیم کرلی۔ اس دوران پاکستانی فوج نے حریف کی سریع الحرکت آرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبیراتی ایٹمی میزائل ’’نصر‘‘ تیار کرلیا۔ اس ایٹمی میزائل کے ذریعے وسیع رقبے پر پھیلی اور حملہ کرتی فوج کو تباہ و برباد کرنا ممکن ہے۔

مالی دبائو کا سامنا
ستمبر 2018ء میں بھارتی افواج کا جو نیا ملٹری ڈاکٹرائن سامنے آیا، وہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ دلچسپ بات مگر یہ کہ اسے بالکل مختلف وجہ کی بنا پر اپنایا گیا۔ اگرچہ سریع الحرکت فوج تشکیل دینا بھی اس نئی عسکری حکمت عملی کا اہم وصف ہے۔ تاہم بنیادی طور پر بھارتی افواج کو مالی دبائو سے چھٹکارا پانے کی خاطر یہ نیاڈاکٹرائن سامنے لانا پڑا۔

فروری 2019ء میں بھارتی حکومت نے نیا بجٹ پیش کیا، تو اس میں دفاع کے لیے چار کھرب اکتیس ارب روپے رکھے گئے۔ یوں بھارت امریکا، چین اور روس کے بعد سب سے بڑا دفاعی بجٹ رکھنے والا ملک بن گیا۔ جنگجوئی سے شغف رکھنے والے بھارتی یقیناً اس بات پر غرور کریں گے لیکن پس پردہ تلخ حقائق سے صرف بھارتی افواج ہی واقف ہیں۔دراصل اس بھاری بھرکم بجٹ کا ’’87 فیصد‘‘ حصہ فوجیوں اور سویلین کی تنخواہوں، دیگر روزمرہ اخراجات، پنشن، ایندھن کی خریداری اور گولہ بارود خریدنے پر صرف ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نئے جہاز، ٹینک، توپیں اور دیگر ہتھیار خریدنے کے لیے صرف ’’13 فیصد‘‘ رقم ہی بچتی ہے۔رقم کی کمی کے باعث ہی پچھلے کئی برس سے بھارتی افواج جدید ہتھیار نہیں خرید سکیں۔امریکی اخبار،نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ بھارتی افواج کے ’’68 فیصد ہتھیار‘‘ فرسودہ اور قدیم ہیں۔ ’’24 فیصد‘‘ ہتھیار جدید ٹیکنالوجی کے حامل جبکہ صرف ’’8 فیصد‘‘ ہتھیار جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ سے عیاں ہے کہ اگر آج بھارتی افواج کی چین یا پاکستان سے جنگ چھڑ جائے تو اس مقابلے میں فرسودہ ہتھیاروں کے باعث اسے شکست ہوسکتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ افواج پاکستان بھی مالی دبائو کا شکار ہیں۔ پچھلے سال کے بجٹ میں انہیں ایک کھرب تین سو ساٹھ ارب روپے ملے تھے۔ مگر ان میں سے صرف 282 ارب روپے ہتھیاروں اور اسلحے کی خریداری کے لیے تھے۔ بقیہ رقم تنخواہوں، پنشن، روزمرہ اخراجات، عمارتوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ کے لیے مخصوص کرنا پڑی۔ ہتھیار خریدنے کے معاملے پر لیکن دونوں ممالک کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت اپنی حریف بھارتی قیادت سے مقابلتاً زیادہ ذہین و دانشمند ہے۔ وجہ یہ کہ حالیہ بھارتی دفاعی بجٹ میں بھی تقریباً 282 ارب روپے ہی نئے ہتھیار خریدنے کے لیے مختص کیے گئے حالانکہ بھارت کا مجموعی دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں چار گنا بڑا ہے۔ اس موازنے سے عیاں ہے کہ چھوٹا ملک ہونے اور کمزور معیشت رکھنے کے باوجود ہتھیار خریدنے کے معاملے میں پاکستان اپنے دیرینہ حریف کو بھرپور جواب دے رہا ہے۔

بھارتی مسلح افواج مگر یہ دیکھ کر تلملا رہی ہیں کہ دفاعی بجٹ کا بیشتر حصہ غیر عسکری سرگرمیوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بھارتی بری فوج ہی دفاعی بجٹ سے سب سے زیادہ رقم لیتی ہے، اسی لیے وہ نیا ملٹری ڈاکٹرائن سامنے لے آئی۔ اس ڈاکٹرائن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کو چھوٹے عسکری یونٹوں میں تقسیم کردیا جائے جنہیں ’’اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس‘‘ (Integrated Battle Groups) کا نام دیا گیا۔

بھارت کی بری فوج اکیس لاکھ ستانوے ہزار سپاہ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بارہ لاکھ پینتیس ہزار تو حاضر یا ایکٹو فوجی ہیں۔ نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی محفوظ یا ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔ ہر روایتی فوج کے مانند انہیں بھی کور، ڈویژن، بریگیڈ، بٹالین اور کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک کور دو یا تین ڈویژن رکھتی ہے۔ ہر ڈویژن میں 15 ہزار سے زائد فوجی شامل ہوتے ہیں۔ ایک ڈویژن دو تین بریگیڈ رکھتا ہے اور ایک بریگیڈ میں تین بٹالین ہوتی ہیں۔ بھارتی فوج کی پندرہ کور ہیں۔ پاک بری فوج نو رکھتی ہے۔ ایک کور میں انفنٹری، میکنائزڈ (ٹینک)، آرٹلری (توپ خانہ) یا آرمرڈ (بکتر بند گاڑیاں) ڈویژن ہوتے ہیں۔ بعض مخصوص کور بھی ہوتی ہیں جیسے پاک فوج کی ’’آرمی اسٹرٹیجک فورسز کمانڈ کور‘‘ دو آرٹلری ڈویژن پر مشتمل ہے۔

فوج کی نئی صف بندی
بھارتی بری فوج کی قیادت اب تین چار اسٹرائکس یا جارح کور کے علاوہ بقیہ کور کو اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ ان عسکری گروپس کی دو بنیادی اقسام ہوں گی… میدانی اور پہاڑی۔میدانی جنگ لڑنے میں طاق اینٹیگریٹڈ گروپس پاکستان کی سرحد کے قریب رکھے جائیں گے۔ یہ گروپس ایسا اسلحہ اور دیگر عسکری سازوسامان رکھیں گے جو میدانی علاقوں میں جنگ لڑنے کے کام آسکیں۔ جبکہ پہاڑوں میں جنگ لڑنے کے قابل اینٹیگریٹڈ گروپس چین کی سرحد پر تعینات ہوں گے۔ البتہ بعض گروپس کشمیر میں بھی رکھے جانے کا امکان ہے کہ وہ بھی پہاڑی علاقہ ہے۔ایک اینٹیگریٹڈ گروپ چھ سات بٹالین پر مشتمل ہوگا۔ گویا اس میں تقریباً چھ ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ یہ گروپ اپنی جگہ ایک مکمل چھوٹی فوج ہوگا۔ یعنی اسے وہ تمام ہتھیار اور سازوسامان میسر آئے گا جو لڑنے کی خاطر فوج کو درکار ہوتا ہے۔ چناں چہ بھارتی اینٹی گریٹڈ گروپ کے بنیادی اجزا یا حصے یہ ہوں گے:٭پیدل فوج٭ ٹینک٭ توپیں٭ طیارہ شکن توپیں٭ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل٭ بکتر بند گاڑیاں٭ ہیلی کاپٹر٭ انجینئر اور الیکٹرونک آلات چلانے والے ماہرین۔ اس گروپ کی کمان ایک میجر جنرل کرے گا۔

بھارتی بری فوج کے تمام اینٹیگریٹڈ گروپس کی نئی کور تشکیل دی جائیں گی۔ ہر کور کی کمان لیفٹیننٹ جنرل کرے گا۔ ہر گروپ کے سربراہ اسی لیفٹیننٹ جنرل سے ہدایات لیں گے۔ ایک کور میں تین یا چار اینٹی گریٹڈ گروپس شامل ہوسکتے ہیں۔درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ بھارتی بری فوج نئے سرے سے اپنی صف بندی کررہی ہے۔ یہ اقدام کرکے وہ مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔تاہم بنیادی مقصد یہ ہے کہ سپاہ کی تعداد کم ہوسکے تاکہ اخراجات میں بچت ہو۔ بھارتی جرنیلوں کو یقین ہے کہ اینٹیگریٹڈ گروپس کی تشکیل سے ایک تا ڈیڑھ لاکھ فوجی کم ہوجائیں گے۔ خیال ہے کہ اس طرح بھارتی فوج کو ہر سال ستر ارب روپے کی بچت ہو گی۔

بھارت کے ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار بھارتی بری فوج اتنے وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے عمل سے گزرے گی۔ تاہم یہ عمل خاصا طویل ہے اور چند برسوں میں مرحلہ وار مکمل ہوگا۔ اس عمل کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا جب مودی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی بی شیکھتر کی زیر قیادت جرنیلوں کی ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے بھارتی آرمڈ فورسز کے اخراجات کم کرنے کی خاطر تجاویز دینی تھی۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) شیکھتر ایک تجربے کار جرنیل ہے۔ وہ اس نظریے کا حامی ہے کہ ایک فوج کو ضرورت سے زیادہ بڑا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ محض عددی برتری کی بنا پر جنگ نہیں جیت سکتی۔ ایک فوج کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ جدید ترین اسلحے سے لیس اور چست و چالاک فوجیوں پر مشتمل ہو۔ وہ وقت پڑنے پر تیزی سے جنگ کے لیے تیار ہوسکے۔ شیکھتر کمیٹی نے اواخر 2017ء میں مختلف تجاویز دیں جن میں سے بیشتر مودی حکومت نے منظور کرلیں۔

ایک تجویز یہ تھی کہ 57 ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کو نئی ذمے داریاں تفویض کی جائیں۔ اس تجویز پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ بھارتی فوج نے گوہاٹی (آسام) اور ادھم پور (جموں وکشمیر) میں دو ورکشاپ بنا رکھی تھیں جہاں افسروں اور جوانوں کو لیکچر دیئے جاتے تھے۔ ان ورکشاپس سے تین ہزار افراد منسلک تھے۔ کچھ عرصہ قبل یہ دونوں ورکشاپس بند کردی گئیں۔ ان سے وابستہ عسکری و سول ملازمین دیگر فوجی یونٹوں میں ٹرانسفر کردیئے گئے۔بھارتی فوج نے پورے بھارت میں اسی نوعیت کی پچاس ورکشاپس بنا رکھی ہیں۔ مرحلے وار سبھی کو بند کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان سے منسلک بیشتر ملازمین نجی صنعتوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ یوں انہیں تنخواہ دینا بھارتی فوج کی ذمے داری نہیں رہے گی۔ اسی طرح بھارتی جرنیل خطوط کی ترسیل کا قدیم نظام اور بہت سے ملٹری فارمز بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔

شیکھتر کمیٹی نے بنیادی طور پر بھارتی فوج غیر عسکری شعبوں کو ٹارگٹ بنایا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ وہاں افرادی قوت کم کرکے خرچ گھٹایا جاسکے۔ مگر موجودہ آرمی چیف، جنرل بپن روات فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد بھی کم کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے اوائل 2018ء میں چار ایسی عسکری کمیٹیاں تشکیل دیں جن کی سربراہی حاضر لیفٹیننٹ جنرل کررہے تھے۔ ستمبر 2018ء کی کمانڈرز کانفرنس میں انہی کمیٹیوں کی سفارشات اور تجاویز پیش کی گئی تھیں۔جنرل بپن روات دسمبر 2016ء میں بھارتی بری فوج کا سربراہ بناتھا۔ اس کی تقرری شروع ہی میں متنازع ہوگئی۔ وجہ یہ کہ تیتیس سال بعد پہلی مرتبہ سینئر ترین جنرل بھارتی فوج کا کمانڈر نہیں بن سکا۔ بپن روات کو دو سینئر جرنیل چھوڑ کر آرمی چیف بنایا گیا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ روات وزیراعظم مودی کی قوم پرستانہ اور نفرت پہ مبنی مذہبی پالیسیوں سے اتفاق رکھتا ہے۔

پچھلے دو برس میں جنرل روات اپنے بعض متنازع بیانات کی وجہ سے سیکنڈل کھڑے کرچکا۔ جب مقبوضہ کشمیر میں میجر گوگی نے ایک بے گناہ کشمیری نوجوان کو جیپ کے آگے رسیوں سے باندھ کر گھمایا پھرایا تو جنرل روات نے اس اقدام کی حمایت کرڈالی۔ بھارتی آرمی چیف نے اسے درست حرکت قرار دیا۔ تاہم انسانی حقوق کی بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس بیان پر جنرل روات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔جنرل بپن روات رفتہ رفتہ سیاست دانوں کی طرح سیاسی بیان دینے لگا۔

کچھ عرصے بعد اس نے فرمایا ’’ضروری ہے کہ (بھارتی) قوم فوج سے خوفزدہ رہے۔ جس ملک میں قوم فوج سے خوف نہ کھائے، وہ جلد زوال پذیر ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ بیان حکمران جماعت بی جے پی کی پالیسیوں کے عین مطابق تھا جو اقلیتیوں خصوصاً بھارتی مسلمانوں میں اکثریتی فرقے کا خوف و دہشت بٹھانا چاہتی ہے۔اس بیان پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام فوج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر فوج ہی ان میں اپنا خوف پیدا کردے، تو دونوں میں دوریاں جنم لیں گی۔ کئی ماہرین نے لکھا کہ آرمی چیف کو ’’سڑک کے غنڈے‘‘ کی طرح باتیں نہیں کرنی چاہیں۔

جنرل روات نے مگر طرز فکر تبدیل نہیں کی اور متنازع بیانات دینے پر تلا رہا۔ایک بار ارشاد فرمادیا کہ خواتین جنگ میں حصہ نہیں لے سکتیں کیونکہ وہ نرم و نازک اور جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ مخالفین مارنے کے لیے گولیاں نہیں چلاسکتیں۔ متنازع بیانات کے باوجود قوم پرست بھارتیوں میں جنرل روات کافی مقبول ہے اور وہ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ پچھلے آرمی چیفس کی طرح جنرل روات بھی چاہتا ہے کہ خصوصاً بھارتی بری فوج اس قابل ہو جائے کہ وہ دشمن پر جلد ازجلد وار کرسکے۔ اسی لیے وہ بری فوج میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لارہا ہے۔

چھوٹے پیمانے پر اس قسم کی تبدیلیاں پہلی بار جنرل کے سندرجی لایا تھا جب اس نے چار سریع الحرکت ڈویژن کھڑے کیے۔ ہر ڈویژن ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا ایک ایک بریگیڈ رکھتا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ دشمن پر جلد از جلد دھاوا بولا جاسکے۔اب جنرل روات ’’فوری حملے‘‘ کی حکمت عملی کے تحت ہی اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس متعارف کرانا چاہتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ چین کی بری فوج بھی 2013ء سے ’’کمبائنڈ آرمز بریگیڈ‘‘ تشکیل دے رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایسا ہر بریگیڈ آزادانہ طور پر ارضی و فضائی جنگ لڑنے کے قابل ہوجائے۔بھارتی جرنیلوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ بری فوج کے تمام چالیس ڈویژن اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ یوں تقریباً 140 ایسے گروپس وجود میں آئیں گے۔

یہ واضح رہے، پاک بھارت سرحد تقریباً تین ہزار کلو میٹر طویل ہے۔ یہ کوئی سیدھی لکیر نہیں… کشمیر میں اس سرحد پر بلند و بالا برفانی پہاڑ کھڑے ہیں۔ اکھنور اور چھمب میں سطح مرتفع آجاتی ہے۔ پنجاب میں ندی نالے، نہریں اور دریا پھیلے ہیں۔ راجھستان میں صحرا ہیں اور گجرات میں دلدلیں۔ غرض اگر بھارتی فوج نے اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس تشکیل دیئے تو ہر گروپ کو علاقے کے حساب سے متعلقہ ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس کرنا ہوگا۔ تبھی ہر گروپ جغرافیائی رکاوٹیں دور کرکے جنگ لڑسکے گا۔ایک سو چالیس اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس کی تشکیل سے پچانوے میجر جنرلوں کی نئی ملازمتیں جنم لے سکتی ہیں۔ اس طرح نچلے افسروں کی ترقی کا راستہ کھل جائے گا۔ فی الحال ایک بھارتی کرنل کو بریگیڈیئر بننے کے لیے چھ تا آٹھ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔بھارتی جرنیلوں کی نزدیک اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بھارتی بری فوج کو پھر چالیس ڈویژن ہیڈکوارٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وجہ یہ کہ گروپس براہ راست کور ہیڈکوارٹر کی ماتحتی میں ہوں گے۔ ڈویژن ہیڈکوارٹر ختم ہونے سے بھارتی فوج کو سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی۔

اسی طرح بھارتی عسکری قیادت این سی سی ڈائریکٹوریٹ، ملٹری ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ملٹری فارمر کے ادارے بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ مزید براں بہت سے ڈائریکٹوریٹ یا انفرادی عہدے ضم کردیئے جائیں گے تاکہ رقم بچائی جاسکے۔ مثال کے طور پر ڈائریکٹر جنرل سگنلز اینڈ ٹیلی کام اور ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہدے ختم کرکے نیا عہدہ، جی ڈی ایس ٹی تخلیق کیا جائے گا۔بھارتی فوج نے حال ہی میں ہائی برڈ جنگ لڑنے کے لیے ایک نیا ادارہ ’’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف شپنگ آف انفارمیشن انوائرمنٹ‘‘ کھولا ہے۔ ختم کیے اداروں سے کئی افسر اس نئے ادارے میں آجائیں گے۔پچھلے چند برس سے بھارتی عسکری قیادت میں یہ نظریہ جنم لے چکا کہ یہ امکان بڑھتا جارہا ہے، مستقبل میں بھارت کو بیک وقت دو محاذوں پر چینی اور پاکستانی افواج کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی جرنیل اب اسی نظریے کو سامنے رکھ کر نئی عسکری حکمت عملیاں ترتیب دینے لگے ہیں۔ مگر ان کے نئے منصوبے اسی وقت عملی صورت اختیار کریں گے جب جرنیلوں کے ہاتھ پیسہ آجائے۔

پیسہ کہاں سے آئے؟
مثال کے طور پر بھارتی فوج کو نئے جنگی اور باربردار ہیلی کاپٹر خریدنے کی خاطر دس کھرب روپے کی ضرورت ہے لیکن حکومت بھی اتنی زیادہ رقم بھارتی فوج کو نہیں دے سکتی کیونکہ اس کا سارا بجٹ بگڑ جائے گا۔اسی طرح بھارتی بری فوج میں باقاعدہ اور تربیت یافتہ فوجیوں کی تعداد آٹھ لاکھ ہے۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ معنی یہ کہ ان فوجیوں کے لیے بنیان جیسی معمولی شے بھی خریدنا پڑے تو کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اور جدید ہلکا اسلحہ خریدنا پڑے تو بات کھربوں روپے تک جاپہنچتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجیوں کے لیے رائفل، کاربائین اور ہلکی مشین گنیں خریدنے پر پندرہ کھرب روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔مزید براں بھارتی فوج چین سے متصل پہاڑوں پر جنگ لڑنے کی خاطر نئی کور کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اس کور سے ڈویژن (یا اینٹی گریٹڈ بیٹل گروپ) نئے ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس ہوں گے۔ اس کور کے لیے بھی کھربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہی نہیں، بھارتی فوج جدید خطرات مثلاً انفارمیشن جنگ سے نمٹنے کی خاطر نئے ادارے قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ عمل بھی بھارتی رقم سے انجام پائے گا۔

بھارتی بری فوج مگر جنگجو مزاج نریندر مودی کے ہوتے ہوئے بھی حکومت سے مطلوبہ رقم لینے میں شدید دشواری محسوس کررہی ہے۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی اور اپوزیشن کے بہت سے رہنما سمجھتے ہیں کہ بری فوج سفید ہاتھی بن چکی جو خزانے کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لیے مودی حکومت بھی عسکری قیادت پر زور دے رہی ہے کہ وہ اخراجات کم کرے تاکہ رقم کی کمی دور ہوسکے۔بھارتی افواج کا ایک بڑا خرچ سابق فوجیوں کی پنشن ہے۔ بھارت میں دو کروڑ سابق فوجی افسر و جوان آباد ہیں۔ حکومت ہر سال انہیں پنشن کی مد میں دس کھرب روپے ادا کرتی ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہ پاکستان کے کل دفاعی بجٹ کا دوگنا حصہ ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ رقم مسلسل بڑھتی چلی جائے گی۔ گویا بھارتی افواج کو تنخواہوں اور پنشن کی مد میں زیادہ رقم خرچ کرنا پڑے گی۔بھارتی ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ مودی حکومت بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتی ہے لیکن خیال اور عمل بالکل جداگانہ چیزیں ہیں۔ اگر حکومت نے جدید ترین اسلحہ نہیں خریدا، اپنے جوانوں

کو مناسب تنخواہیں اور سہولیات نہیں دیں، تو علاقائی سپرپاور بننا تو دور کی بات ہے، بھارتی افواج مملکت کا دفاع صحیح طرح نہیں کرسکیں گی۔
بڑھتے اخراجات کی تشویش ناک صورتحال ہی نے بھارتی جرنیلوں کو مجبور کردیا کہ وہ بری فوج میں ڈائون سائزنگ کے عمل کا آغاز کردیں۔ لیکن یہ سارا منصوبہ ابھی کاغذات تک محدود ہے اور بہت کم عملی روپ اختیار کرچکا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض جرنیل اس ڈائون سائزنگ منصوبے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے اخراجات پر خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن یہ بری فوج کو نئے اور مزید پیچیدہ مسائل  میں گرفتار کراسکتا ہے۔

گویا بڑھتے اخراجات نے بھارتی بری فوج کو بڑی مشکل صورتحال پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر وہ ڈائون سائزنگ کرکے اخراجات کم کرتی ہے، تو وہ نئے مسائل میں گھر سکتی ہے۔ مثلاً کئی معاملات افرادی قوت کم ہونے سے ٹھپ ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ ڈائون سائزنگ نہیں کرتی، تو فوج کو ملنے والی بیشتر رقم غیر عسکری اخراجات ہڑپ کر جائیں گے۔ یوں بھارتی فوج جدید ترین ہتھیار اور عسکری سامان خرید کر خود کو ہائی ٹیک آرمی کا روپ نہیں دے سکتی۔ اسے پھر فرسودہ اور قدیم ہتھیاروں اور سامان پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس صورت حال میں بھارتی فوج اپنی مملکت کا بخوبی دفاع ہی کرلے، تو یہ بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔

نئی بھارتی عسکری حکمت عملی اور پاکستان

جارح مزاج بھارتی حکمران طبقے اور مسئلہ کشمیر جنم لینے کی وجہ سے پاکستان کو اوائل ہی میں طاقتور افواج کھڑا کرنا پڑیں تاکہ ملکی دفاع مضبوط بنایا جا سکے۔دفاع پہ کثیر سرمایہ خرچ کرنے کا مثبت نتیجہ نکلا۔دشمن نے کئی بار حملے کیے مگر اللہ پاک کے فضل وکرم سے پاکستان کا وجود قائم ودائم ہے۔دشمن معاشی وعسکری طور پر کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی ارض پاک کو ہڑپ نہیں کر سکا جو اس بھارتی طبقے کا دیرینہ خواب ہے۔

جب بھارتی عسکری قیادت کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن سامنے لائی تو اس سے پاکستان کو خطرہ محسوس ہوا۔وجہ یہ کہ بھارتی بری فوج اپنی عددی برتری کے باعث پاکستان کے وسیع علاقے پہ قبضہ کر سکتی ہے۔اس ڈاکٹرائن کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ’’تدبیراتی ایٹمی ہتھیار‘‘ (tactical nuclear weapons) ایجاد کرنے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیار سے ایسا میزائل یا گائڈڈ بم مراد ہے جو کم فاصلے کی مار رکھتا ہو ۔مگر اتنا بڑا ہو کہ وسیع علاقے پر تباہی پھیلا سکے۔پاکستان کا پہلا ایسا ہتھیار ’’نصر میزائل‘‘ہے جو2011 ء میں سامنے آیا۔یہ میزائل 70کلومیٹر دور تک چھوٹا ایٹم بم لے جا سکتا ہے۔یہ میزائل کسی بھی علاقے سے بڑی تعداد میں چھوڑنا ممکن ہے۔

بھارت اب اپنی بری فوج کو اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا چکا۔یہ نئی جنگی حکمت عملی پاکستان کو مجبور کر دے گی کہ نہ صرف مختلف اقسام کے تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیار ایجاد کیے جائیں بلکہ انھیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بنانے کی سعی بھی ہو گی۔مقصد یہ ہو گا کہ دشمن کے حملہ آور اینٹیگریٹڈ بیٹل گروپس پر یہ ہتھیار پھینک کر ان کا راستہ روک دیا جائے۔

ایسے ہتھیاروں میں بارودی سرنگیں،ڈرون اور زیرزمین دبا کر رکھنے جانے والے ہائی ٹیک آلات شامل ہو سکتے ہیں۔یہ ایک عمدہ عسکری حکمت عملی ہے۔مذید براں پاکستان کے لیے یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ بڑھتے اخراجات نے بھارتی فوج کو پریشان کر رکھا ہے۔حتی کہ وہ اتنی رقم بھی نہیں رکھتی کہ جدید اسلحہ خرید کر اپنے فرسودہ اسلحے سے پیچھا چھڑا سکے۔اگرچہ بھارت معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے لیکن اب بھی اس کے دفاعی بجٹ کا کم حصہ جدید ہتھیاروں کی خرید پہ صرف ہوتا ہے۔گویا یہ عمل مستقبل میں بھی بھارت اور پاکستان کے مابین عسکری طاقت کا توازن برقرار رکھے گا جو ایک عمدہ خبر ہے۔اس دوران پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنی افواج کو جدید ترین تدبیراتی ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر لے۔یوں توازن مستقل طور پر برقرار رکھنا ممکن ہو جائے گا۔

The post علاقائی سپرپاور بننے کا خواب چکنا چور؛ بھارتی فوج کا غیر معمولی حجم ریاست کیلئے مسئلہ بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

نیوزی لینڈ کا سانحہ، مظلوم مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں گیا

$
0
0

تحریر و تقریر کی آزادی آزاد انسانوں ہی کا نہیں غلاموں کا بھی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کی بات بلاخوف و خطر لکھ اور بیان کرسکیں۔

ریاست اور سماج کا بھی یہ فرض ہے کہ ان کی بات کو دردمندی سے سنے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرے اور یہ کوئی رعایت اور بھیک نہیں، بنیادی انسانی حق ہے۔ اسی لیے اسے دنیا بھر کے انسانوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ تحریر و تقریر کی آزادی بھی ایک ضابطے، قاعدے اور نظم و نسق کی پابند قرار دی گئی ہے۔ اسی لیے دل آزار اور نفرت پھیلانے پر مبنی تحریر و تقریر پر نہ صرف پابندی ہے بل کہ اسے قابل سزا جرم تسلیم کیا گیا ہے۔

اب ایک سوال اور بھی جواب طلب ہے کہ ہم تحریر و تقریر میں خبریت، حقائق اور بلاتعصب تجزیے کے پابند رہتے ہیں یا اسے کسی کے خلاف منصوبہ بند کریہہ پروپیگنڈے کے لیے بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے بھی انسانیت کے خلاف جرم تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ دورجدید میں تحریروتقریر کی آزادی کے نام پر اسے بہ طور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ ہتھیار مہلک ترین بموں سے بھی زیادہ وحشت ناک ہوچلا ہے۔

نائن الیون کے بعد دنیا پھر کے مسلمانوں کے خلاف اس ہتھیار کا استعمال جس بے دردی اور سفاکی سے کیا گیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں انتہائی تیزی آگئی ہے، کی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اب اصل حقائق تک پہنچنے کی رِیت نہ صرف ختم ہوگئی ہے بل کہ مغربی ذرایع ابلاغ (سوائے چند استثناء کے) اس کے مہلک اثرات کی جانب توجہ دینے میں بھی کوتاہی یا بہ طور حکمت عملی کے مرتکب ہیں۔ کیا یہ بتانے میں کوئی عار ہے کہ اب دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو، اسے فوری طور پر مسلم دہشت گردی کہنا سکۂ رائج الوقت ہے۔ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے باصفا اہل دانش اس بات پر بی یک زبان متفق ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اب اسے منافقت سے کم کیا کہیں کہ مسلم دہشت گرد کی اصطلاح انہی کی ایجاد کردہ ہے۔

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے!

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں سیاست داں اور میڈیا بھی ذمے دار ہیں؟ ترکی کے وزیرخارجہ مولوت چاؤ شولو کا کہنا ہے کہ اس وحشت ناک حملے کے لیے ان سیاست دانوں اور میڈیا کے اداروں کو بھی ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنون کو ہوا دیتے ہیں۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان نے بھی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ حملہ نسل پرستی اور اسلام مخالف جذبات کی تازہ مثال ہے۔

کیا طیّب ارغان اور مولوت چاؤ شولو اپنے اس دعوے میں حق بہ جانب ہیں۔۔۔۔۔ ؟

آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر دہشت گرد حملے میں اب تک اکیاون مسلمان جاں بہ حق اور درجنوں موت و زیست کی کش مکش میں ہیں۔ کیا ہم اسے مسلمانوں کا منظم قتل عام کہہ سکتے ہیں؟ جیسے بوسنیا میں کیا گیا تھا۔ جس دہشت گرد نے حملے کیے اس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اخبارات نے تحریر و تقریر کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف کیا پروپیگنڈا کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔

One Path Network کی ایک تحقیق کے مطابق: ’’آج کل اسلام کو فروخت کیا جا رہا ہے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ اخبارات اسے (Cash) کر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ اس میں وہ کتنے زیادہ آگے نکل گئے ہیں۔ One Path Network کے ایک سال کے مطالعے میں آسٹریلیا کے پانچ سب سے زیادہ شایع اور فروخت ہونے والے اخبارات میں ہمیں تقریباً تین ہزار ایسے مضامین ملتے ہیں جن میں مسلمانوں اور اسلام کو تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی سے منسوب کیا گیا ہے اور یہ صرف 2017 کی بات ہے۔

تقریباً ہر ایک دن میں آٹھ مضامین ایسے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی منفی شکل پیش کرتے ہیں۔ پانچ ہزار مضامین میں سے 152 ایسے ہیں جو پہلے صفحے پر شایع کیے گئے اور یہ حقیقت ہے کہ تقریباً ہر سیکنڈ آسٹریلیا کے لوگوں کو اسلام کی منفی کوریج سے تباہ کیا جارہا ہے۔ بے شک ہمیں تشدد اور دہشت گردی کے بارے میں بات کرنا چاہیے مگر ہمیں یہ بھی تو سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ واقعی صداقت پر مبنی مضامین اور کہانیاں ہیں جو آپ شایع کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ کیا یہ واقعی خبر ہے یا پروپیگنڈا؟ دو صفحات کا ایک کثیرالاشاعت اخبار ’’اسلام ایک خطرہ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضامین روزانہ شایع کرتا ہے اور یہی کچھ دیگر اخبارات بھی کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کریہہ اور منظم پروپیگنڈے کی وجہ سے 49 فی صد آسٹریلین شہریوں نے مسلمانوں کی ایمیگریشن کے خلاف پول کیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ منظّم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بے سروپا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 70 فی صد آسٹریلوی باشندے خود یہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں برہ راست بالکل بھی نہیں جانتے۔ یہ ہے ہمارا میڈیا۔۔۔۔ یہ لوگ مسلمانوں کو جانتے تک نہیں لیکن ان سے نفرت کا درس دیتے ہیں۔‘‘

اس تحقیق کی روشنی میں کیا ہم اب یہ تسلیم کرنے میں حق بہ جانب نہیں ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار ایک منظم منصوبے کے تحت کررہے ہیں۔ اس پر اب کسی تبصرے کی گنجائش ہے؟ مسلم دہشت گردی کو کسی سائنسی تسلیم شدہ تھیوری کی صداقت کی طرح سمجھ لیا گیا ہے لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے خلاف محض ایک منصوبہ بند پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹیرینٹ کو دائیں بازو کا ایک دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اٹھائیس سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے آباؤاجداد کا تعلق یورپ سے تھا جو کئی سال قبل ہجرت کرکے آسٹریلیا پہنچے تھے۔ برینٹن ٹیرنٹ کے والدین آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر گرافٹن میں مقیم تھے۔

برینٹن ٹیرنٹ کے نظریات پر بحث نے اس وقت زور پکڑا جب انہیں نیوزی لینڈ پولیس نے 16 مارچ کو عدالت میں پیش کیا۔ برینٹن ٹیرنٹ کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ ہاتھ سے خاص طرح کا ’’اوکے‘‘ کی علامت بناتا رہا۔ حالیہ چند سالوں میں اس نشان کو سفید فام لوگوں کی بالادستی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی علامت اور سفید فام برتری پر ہالی وڈ کی چھے فلمیں بھی ریلیز ہوچکی ہیں، جن میں ’دی برتھ آف نیشن، امریکن ہسٹری ایکس، ویلکم ٹو لیتھ، امپیریم اور بلیک لانس مین‘ شامل ہیں۔ اس نشان کو ہلیری کلنٹن بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔

یورپی ممالک میں اس علامت کو فحاشی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس علامت کو سفید فام لوگوں کی بالادستی کے لیے ابتدائی طور پر 2016 میں استعمال کیا جانے لگا۔ اگست 2017 میں امریکی ریاست میساچوٹس سے شروع ہونے والے سفید فام لوگوں کے مظاہروں کو سفید فام لوگوں کے علاوہ دیگر افراد نے ’نیو نازی، نیو فاشسٹ، وائٹ سپرمیسسٹ، اینٹی سمائٹس، ہولوکاسٹ ڈنائرز، نیو کانفیڈریٹس اور کانسپائریسی تھیورسٹس کے مظاہروں کا نام دیا۔ سفید فام برتری کے لیے گذشتہ چند سال سے تواتر سے مہم جاری ہے۔ یہی علامت بناکر نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کرنے والا دہشت گرد بھی عدالت میں پیش ہوا۔

برینٹن ٹیرنٹ کی جانب سے مساجد پر حملہ کیے جانے سے کچھ دیر قبل جاری کیے گئے اپنے منشور میں اس نے خود کو یورپین اور سفید فام قرار دیا۔ اس نے اپنے منشور میں لکھا تھا کہ سفیدفام کا علاقہ، ان کی زبان، ان کا مذہب، ان کی ثقافت، ان کے سیاسی نظریات، ان کی فلاسفی، ان کی شناخت اور سب سے بڑھ کر ان کا خون‘ سب یورپی ہیں۔ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں پناہ گزین مخالف نظریات کا ذکر بھی کیا۔ برینٹن ٹیرنٹ نے یہ منشور حملے سے صرف 9 منٹ قبل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ایرڈرن سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان کو ای میل کیا تھا۔

اس منشور میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک حملہ کرے گا تاکہ یورپی سرزمین پر غیرملکیوں کے باعث ہونے والی لاکھوں اموات کا انتقام لے سکے۔ 74 صفحات پر مشتمل دستاویز میں اس نے لکھا تھا کہ جب تک ایک بھی سفید فام زندہ ہے یہ لوگ ہماری زمین کو فتح نہیں کرسکیں گے اور ہمارے لوگوں کی جگہ نہیں لے سکیں گے۔ برینٹن ٹیرنٹ کی جانب سے عدالت میں پیشی کے وقت وائٹ سپرمیسی کی علامت نشان ’’اوکے‘‘ کے بنائے جانے کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ بھی سفید فام لوگوں کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کیا۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں واقع اسلحے کی دکان کے مالک نے انکشاف کیا ہے کہ اس نے دو مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو 4 بندوقیں فروخت کی تھیں۔ کرائسٹ چرچ میں واقع اسلحے کی دکان گن سٹی کے مالک ڈیوڈ ٹیپل نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے اسٹور نے برینٹن ٹیرنٹ کو پولیس سے تصدیق شدہ آن لائن میل آرڈر کے ذریعے برینٹن کو 4 بندوقیں فروخت کی تھیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر ایک دہشت گرد حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں جو بھی ہوا ہے وہ ایک ناقابلِ قبول عمل ہے اور ایسے واقعات کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم آرڈرن نے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلینگٹن کی کِلبِرنی مسجد میں نمازیوں سے تعزیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے سیاہ رنگ کا اسکارف اور لباس زیب تن کیا تھا اور وہ لواحقین کے ہجوم میں کھڑے ہر شخص کے گلے لگ کر ان سے ذاتی طور پر افسوس کر رہی تھیں۔

نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں دو مساجد پر نماز جمعہ کی ادائی کے دوران کئی معصوم، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر دیا گیا، ان میں سے نو اعلٰی تعلیم یافتہ پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ممالک کی مسلم خواتین، مرد، بچے اور جوان سب ہی شامل ہیں۔ مسلمان نیوزی لینڈ میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمان نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد یعنی چالیس ہزار ہیں۔ یہ سب امن پسند اور قانون پسند شہری اور وہاں کی ترقی میں اپنا کردار بہ حسن و خوبی ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی صرف ایک فی صد آبادی کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ یہ اندوہ ناک سانحہ اس دلیل کی کھلی نفی کرنے کے لیے کافی ہے، جس کا ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ذرایع ابلاغ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے کہ دہشت گروں کا مذہب ان کی پہچان کبھی نہیں ہوتا، ان کی پہچان صرف دہشت گرد ہی ہوتی ہے۔ یہ اندوہ ناک سانحہ مسلمانوں کے خلاف کریہہ پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ پر انسانیت کی طرف سے ایک زوردار طمانچہ ہے۔

پوری دنیا کے انسانوں کی بنیادی ضرورت امن و بھائی چارہ ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی قوم و ملک ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی متحد رہ سکتا ہے۔ امن، عالم کی ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ امن ساری انسانیت کا مشترکہ خواب ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس سے انسانیت کی بقا وابستہ ہے۔ امن عالم کو قائم رکھنے ہی کے لیے ملکی اور بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں اور یہ قوانین بلاکسی رعایت ملک و ملت، قبیلہ و زبان اور مسلک و مذہب کے تمام پر لوگو ہوتے ہیں اور ان کی پاس داری کرنا ہی امن عالم کے ثبات کے لیے ضروری ہیں۔

ہماری دنیا جو اب گلوبل ولیج کہلاتی ہے کہ جدید سائنسی پیش رفت نے اسے بنایا ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی ہونے والا واقعہ صرف اس ملک کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں سب ہی اچھے اور پارسا نہیں بن سکتے اسی لیے قوانین کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے کہ امن و امان کی فضا مسموم نہ ہونے پائے۔ کچھ شرپسند اور انسانیت کے دشمن اسے نابود کرنا چاہتے ہیں، ان لوگوں کا نظریہ صرف اور صرف دہشت گردی کا فروغ ہے۔ ان کا صرف ایک ہی نام ہے دہشت گرد انسانیت کے دشمن۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والا اندوہ ناک سانحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کی کوئی مذہبی پہچان نہیں ہوتی وہ صرف امن عالم اور انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔

اس واقعے کا افسوس ناک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ جہاں فوراً پولیس پہنچ جاتی ہے وہاں 18 منٹ تک یہ ہوتا رہا اور فیس بک پر لائیو اس وحشیانہ پن کو بہ راہ راست دکھایا جاتا رہا۔ اور یہ سوال پوچھنا کیا دہشت گردی ہوگا کہ اس وقت ساری انتظامیہ کہاں تھی ؟ اس وحشت کا مظاہرہ کوئی مسلمان کرتا تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی۔ کیا یہ واقعہ اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف اپنا مکروہ وظیفہ جپنا بند کرے اور اپنے متعصبانہ رویے پر نظرثانی کرے۔ کچھ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ان انسانیت کے مجرموں کو نفسیاتی بیمار قرار دے کر اس واقعے پر پردہ ڈال دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے ہر پہلو کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

اس اندوہ ناک سانحے نے جہاں مسلم دہشت گردی کی تھیوری کو عوامی سطح پر مسترد کردیا، وہیں سفید فام برتری کے نعرے کو بھی کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پورپی ممالک کے امن و انصاف کے خواہاں ہزاروں شہریوں نے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے شان دار مظاہرے کیے جو اب بھی جاری ہیں۔ ایسے مظاہرے نہ صرف نیوزی لینڈ میں ہوئے بل کہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی ہورہے ہیں۔

 

 

The post نیوزی لینڈ کا سانحہ، مظلوم مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

اور جب ہم ’’چوتھی‘‘ میں تھے ۔۔۔!

کچھ دن قبل ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ پر ’’جب میں چوتھی میں تھا‘‘ کی ایک ’رِیت‘ سی چل نکلی، طنز ومزاح کے انداز میں اس ’رجحان‘ کے عنوان سے بہت کچھ لکھا گیا، لیکن ہم سنجیدگی سے اپنی ’چوتھی‘ جماعت میں جا پہنچے۔۔۔

یہ عرصہ اپریل، مئی 1996ء تا مارچ 1997ء تھا۔۔ہمیں ۔ اس زمانے کے عام انتخابات (فروری 1997ء) اور بے نظیر حکومت کا خاتمہ (1996ء) خوب یاد ہے۔ اسی زمانے میں عمران خان نے ’تحریک انصاف‘ بنائی اور پہلی بار ’چراغ‘ کے انتخابی نشان ’تَلے‘ انتخابی دنگل میں اترے۔۔۔ اسی زمانے سے جڑا ہوا کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل بھی ہے۔ ہم جماعت دھڑلے سے قتل کا الزام بھی ایک ’شخصیت‘ کے سر ڈالتے تھے۔۔۔ اخبارات میں مرتضیٰ بھٹو کی میت لے جانے والے ہیلی کاپٹر سے لٹک جانے والے جذباتی جیالے کی تصویر بھی ہماری یادداشت سے محو نہیں!

ہمارا ’نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول‘ کہنے کو تو نجی تھا، لیکن 1988ء میں ہی سرکار سے واپس ملا تھا، اس لیے اس پر ’سرکاری پن‘ طاری تھا۔۔۔ رنگ و روغن سے لے کر پنکھے، بتی اور ڈیسکوں تک حکومتی ’’توجہ‘‘ کے ’گواہ‘ تھے۔۔۔ اسکول کے وسیع صحن میں ہمارا کمرہ نمبر 7 بالکل اسٹیج کے مقابل تھا، گویا دائیں کھڑکیوں سے دیکھیے، تو لمبان میں نگاہ سفر کرتے ہوئے بڑے سے کنکریٹ کے اسٹیج تک جائے۔۔۔ جب کہ بائیں طرف کی کھڑکیاں اسکول کی چار دیواری میں کھلتیں، جہاں سے روشنی بے حد کم آتی، اس کی دیوار کے پار کوئلے کا ٹال تھا۔

ہماری کلاس ٹیچر مس روبی تھیں، دراز قد کی ایک پُروقار اور رعب دار استاد۔۔۔ ابھی جب ہم تیسری میں تھے، تو تب وہ ہماری انگریزی کی استاد ’مس شازیہ‘ کے متبادل کے طور پر آئی تھیں۔۔۔ پتا یہ چلا تھا کہ اُن کی رشتے کی بہن ہی ہیں، مس شازیہ کی سختیوں سے تنگ بچوں نے جب مس روبی کو پایا، تو حکومت بیزار لوگوں کی طرح یہی بولے کہ ’’پہلے والی ہی ٹھیک۔۔۔‘‘ مگر جلد ہی اُن کی سخت گیری اچھے اور ہم جیسے ’متوسط‘ تعلیمی رجحان والوں کے لیے ختم ہوگئی۔۔۔

شاید یہی وہ ’چوتھی‘ تھی جب ہم نے زندگی کا پہلا روزہ رکھا۔۔۔ اتفاق سے اسی ’چوتھی‘ کی سائنس کی کاپی کے ورق بھی ہمارے سامنے آگئے، جس میں اسکول بھر کی ہر دل عزیز مس غزالہ کے دستخط ثبت ہیں۔۔۔! اسی ’چوتھی‘ میں ’ون‘ سے ’تھری‘ تک تین سال اول اور ایک بار اسکول میں ٹاپ کرنے والا عمیر اشرف کلاس کے کچھ منہ زور لڑکوں سے تنگ آکر اسکول چھوڑ گیا۔۔۔ جو بہ زور شمشیر اس سے اپنا ’ہوم ورک‘ کرانے لگے تھے۔۔۔ اسی کلاس میں پہلی بار ایک ہم جماعت ’ریحان‘ کو بلیک بورڈ پر ’آر پلس اے‘ لکھ کر ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا، تو پہلی بار سمجھ میں آیا کہ اس ’ریاضی‘ کا مطلب ’مبینہ طور پر‘ کیا ہوتا ہے۔

’جب ہم چوتھی میں تھے‘ تب ہی ہفتہ وار تعطیل جمعے کے بہ جائے اتوار ہوئی۔۔۔ کتنا عجیب سا لگا تھا۔۔۔ اور آج یہ عجیب لگتا ہے کہ پتا نہیں ہم تب کیسے جمعے کو کھیل کود بھی لیتے، یا کبھی گھوم پھر بھی آتے اور پھر نہا دھو کر ’جمعے‘ کا اہتمام بھی کر لیتے۔۔۔ ہمارا اسکول دوپہر کا تھا، جب اتوار کی چھٹی ہوئی، تو جمعے کو اسکول 10 تا 12 بجے لگتا، یوں جمعے کے بعد ہمیں کچھ وقت اپنے مرضی سے ’جینے‘ کی آزادی ملتی۔۔۔

پھر ہفتے کا دن، جو ہفتے کا پہلا دن ہونے کی بنا پر ایک کرخت تاثر رکھتا تھا، یکایک جمعرات کے بہ جائے ’شیریں‘ ہوتا چلا گیا۔۔۔ کیوں کہ اب جمعرات کے بہ جائے ہفتے کی شام کے بعد ہمیں یہ پُرسکون ترین احساس رہتا کہ کل کے دن ’نہیں ہے کوئی کام۔۔۔!‘

شاہانِ وقت اور فنِ خوش نویسی
مرسلہ: سعد الطاف، سعیدمنزل، کراچی

بادشاہ خوش نویسی سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اس لیے شاہی کتب خانوں کے لیے کاتب کا اہتمام خاص طور پر کیا جاتا اور یگانۂ روزگار کاتب ملازم رکھے جاتے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں کاتبوں کی قدر و منزلت اتنی بڑھی کہ انہیں مہتمم کے عہدوں پر فائز کردیا گیا۔ یہ کتب خانوں کے لیے کتابوں کے نسخے تیار کرتے تھے، ان سے بوقتِ ضرورت کتابوں کی نشر و اشاعت کا بھی کام لیا جاتا تھا۔ چناں چہ جہاں گیر کو جب تزکِ جہاں گیری کی اشاعت کی ضرورت ہوئی، تو اس نے کاتبوں کو اس کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ نسخے حکام اور ملک بھر کے امرا میں تقسیم کیے گئے۔

خوش نویسی کے فن میں ہندوستان بھی کسی اسلامی ملک سے پیچھے نہیں رہا۔ یہاں کے بادشاہوں، صوفیوں اور عالموں نے اسے عرشِ معلی پر پہنچا دیا تھا۔ ایک طرف سلطان ناصر الدین محمود اور عالم گیر تختِ شاہی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے لکھ رہے تھے۔ دوسری طرف سید عبدالجلیل بلگرامی جیسے ذی علم صوفی کے دست و قلم کتابت میں مصروف تھے۔

لیکن اس فن کی اصل ترقی عہد مغلیہ میں ہوئی۔ اس سے پہلے سلطان ابراہیم غزنوی اور سلطان ناصر الدین محمود کے نام کاتبوں کی فہرست میں ملتے ہیں، مگر اس زمانہ میں یہ فن پوری طرح ترقی نہ کر سکا۔ کتابیں عموماً خط شکست میں لکھی جاتی تھیں۔ مغلوں کے حسن ذوق نے اسے پسند نہ کیا اور خط نستعلیق میں کتابیں لکھوائیں۔ بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سارے مغل بادشاہ، شاہ زادیاں اور شاہ زادے خوش نویسی سے بے انتہا شغف رکھتے تھے۔ شاہ جہاں نہایت اچھا خوش نویس تھا۔ عالم گیر کو بھی اس فن میں بڑی دست گاہ حاصل تھی۔ بزم تیموریہ میں ہے کہ وہ شاہ زادگی سے لے کر آخری عمر تک فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا۔ اس نے مدینہ منورہ بھیجنے کے لیے دو قرآن اپنے ہاتھ سے لکھے اور ان کی تزئین وغیرہ پر سات ہزار روپے صرف کیے۔ بہادر شاہ ظفر کے ہاتھ کی کچھ وصلیاں (خوش خطی کے مشق کے کاغذ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغلوں کے زوال کے بعد بھی خطاطی کا شوق کمال پر تھا۔

خود مختار ریاستوں کے حکم راں بھی اس فن کے بڑے دل دادہ اور مربی تھے۔ گولکنڈہ کے سلطان قلی قطب شاہ اور بیجا پور کے سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی خوش نویس تھے۔ نوابین اودھ نے فنِ خوش نویسی کی جس طرح سرپرستی کی اس کا حال عبدالحلیم شرر نے ’’گزشتہ لکھنؤ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان شاہانہ سرپرستیوں کے اثر سے وراقیت اور نساخیت کا نظام ہندوستان بھر میں قائم ہوگیا تھا اور فنِ کتابت نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ بقول مولانا منظر احسن گیلانی ایک ایک آدمی صرف اپنے قلم سے مستقل کتب خانہ مہیا کرلیتا تھا۔ ابوالفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری نے اپنے ہاتھ سے پانچ سو ضخیم کتابیں لکھی تھیں۔ اس زمانے میں یہاں ایسے باکمال خوش نویس پیدا ہوئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔

(محمد زبیر کی کتاب اسلامی کتب خانے سے انتخاب)

’’برائی کا کوئی وجود نہیں!‘‘
آفتاب احمد خان زادہ

ایک مرتبہ ایک استاد سے شاگرد نے پوچھا ’’برائی کیا ہے؟‘‘ شاگرد نے جواب دیا ’’استاد محترم، میں بتاتا ہوں، لیکن پہلے مجھے آپ سے کچھ پو چھنا ہے۔‘‘ استاد نے کہا ’’ہاں پوچھو، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ تو شاگرد نے پوچھا ’’کیا ٹھنڈک کا وجود ہے؟‘‘ استاد بولا ہاں بالکل ہے۔ شاگرد نے جواب دیا ’’غلط محترم استاد، ٹھنڈ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ دراصل گرماہٹ کی غیرموجودگی کا نام ہے۔‘‘

شاگرد نے پھر پوچھا ’’بھلا اندھیرا ہوتا ہے کیا؟‘‘ استاد نے جواب دیا ’’ہاں بالکل ہوتا ہے!‘‘ شاگرد نے کہا ’’نہیں استاد محترم، اندھیرا خود کوئی چیز نہیں، بلکہ روشنی کی غیر موجودگی ہے، جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں، کیوں کہ طبعیات (فزکس)کے اصولوں کے مطابق ہم روشنی یا گرماہٹ کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں، لیکن ٹھنڈک یا اندھیرے کا نہیں۔‘‘ کچھ لمحے ٹھیر کر شاگرد نے پھر کہا ’’برائی کا بھی کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ دراصل اچھائی، ایمان محبت، نیکی اور خدا پہ پختہ یقین نہ ہونے کا نتیجہ ہے، جس کو ہم برائی کہتے ہیں۔‘ یہ شاگرد مشہور سائنس داں ابوریحان البیرونی تھا۔

تعلق کا فن
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
٭عزت، تعلقات اور محبت نہ ہی بھیک میں ملتی ہے اور نہ خیرات میں۔
٭بھری محفل میں تنہا ہونے کا احساس بہت جان لیوا ہوتا ہے۔
٭دنیا میں خوش و خرم رہنے کے لیے آپ کو خوشامد اور چاپلوسی کا فن آنا بہت ضروری ہے۔
٭جس طرح سچی محبت ڈھونڈنا مشکل ہے، ویسے ہی خالص نفرت بھی کسی کسی کا ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔
٭کچھ لوگوں کی قسمت میں صرف دھتکار ہی لکھی ہوتی ہے۔
٭زندگی میں کبھی کسی بھی مقام پر انسان کو محبت، عزت، وقار اور تعلقات کی خاطر غیر کے در کی قدم بوسی نہیں کرنی چاہیے، بندہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔

صد لفظی کتھا
رائے
رضوان طاہر مبین

شہر کے مشہور ’پنج ستارہ‘ ہوٹل کے نئے باورچی کو آج دوسرا دن تھا اور مینجر کو اِس کے نئے کھانے پر رائے درکار تھی۔
’’جناب! یہ لڑکا بتا سکتا ہے؟‘‘
ثمر نے ایک پرانے کپڑے پہنے ہوئے لڑکے کو آگے کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے، کوئی ایسا بندہ لائو، جو یہاں کھانا کھاتا رہا ہو۔۔۔؟‘‘
مینجر نے زور دیا۔
’’صاحب! نئے کھانے پہلے والے کھانوں سے بہت زیادہ لذیذ ہیں۔۔۔!‘‘
لڑکے نے قطع کلامی کی۔
’’تم کھانا یہاں کھاتے ہو؟‘‘ مینجر نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں صاحب!
میں تو یہاں بس جھوٹی پلیٹیں دھوتا ہوں۔۔۔!‘‘
لڑکے نے جواب دیا۔

ہارون رشید کے بیٹے کی ’شعرگوئی‘
مرسلہ: سارہ شاداب، کراچی
ہارون رشید کے بیٹے امین کو شعر کہنے کا بہت شوق تھا، چناں چہ ملکہ زبیدہ نے شاہی دربار کے ملک الشعرا اور خلیفہ کے نہایت قریبی ساتھی ابونواس کو شاہ زادے کی شعر گوئی کی اصلاح پہ مامور کیا۔ ابونواس انتہائی درجے کے بذلہ سنج اور ستم ظریف تھے اور کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ نڈر اور بے باک اتنے کہ برملا خلیفہ کی غلط باتوں پہ اسے ٹوک دیتے۔ چناں چہ اس نے جب شاہ زادے امین کی شاعری دیکھی، تو اس میں ’عروض‘ کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ انہوں نے اشعار میں ’عروض‘ کی تمام غلطیاں نکال کر شاہ زادے کے سامنے رکھ دیں۔ شاہ زادے کو طیش آگیا اور اس نے ابونواس کو قید کروادیا۔ ہارون رشید کو پتا چلا تو اس نے رہائی دلوائی اور پھر کچھ دن بعد بھرے دربار میں جب امین بھی موجود تھے، تو خلیفہ نے بیٹے سے کہا ’’تمہارے استاد بیٹھے ہیں، کچھ تازہ اشعار سنائو!‘‘ شہزادے نے ابھی دو چار شعر ہی پڑھے تھے کہ ابونواس محفل سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ خلیفہ نے پوچھا ’’ابونواس! کدھر جارہے ہو؟‘‘
ابونواس بولے ’’قید خانے!‘‘
(رئیس فاطمہ کے ایک کالم سے لیا گیا)

سائیں چپ شاہ
مرسلہ: ظہیرتبسم انجم، کراچی
درویش ہر وقت خاموش مراقبے میں رہتا تھا، کسی سے بات کرنا ہوتو زیادہ تر اشاروں سے کام لیتا، لیکن لوگوں کو اعتقاد تھا کہ اس کی دعا بہت جلدی قبول ہوجاتی ہے، اس لیے وہ اس سے دعائیں کراتے، مگر درویش ایک بندے کے لیے صرف ایک دعا کرتا۔ ایک دن ایک سائل اس کے پاس دعا کرانے کے لیے آیا، وہ بے اولاد تھا، والد غریب اور والدہ نابینا تھیں۔ سائیں نے انگلی اٹھا کر کہا : اے رب، اس کی والدہ اس کے والد اور بچوں کو اچھے گھر میں دیکھنا چاہتی ہے۔

اندھی تقلید
مولانا ابوالکلام آزاد
مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے کہ ہمارے یہ دوست اور ساتھی بیش تر سیاسی معاملات پر اپنی عقل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ گاندھی جی کے پکے مقلد تھے۔ جب بھی کوئی سوال اٹھتا وہ اس انتظار میں رہتے کہ دیکھیں گاندھی جی کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ گاندھی جی کے احترام اور عقیدت میں میں ان میں سے کسی سے بھی پیچھے نہیں ہوں، لیکن ایک پل کے یہ نہیں مان سکتا کہ ہمیں گاندھی جی کی اندھی تقلید کرنی چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ ان دوستوں نے 1940ء میں ورکنگ کمیٹی سے جس سوال پر استعفا دیا تھا، آج وہ ان کی نگاہ سے یک سر اوجھل ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی بغیر ایک فوج اور وسیع دفاعی انتظامات کے ہندوستان کی حکومت کو چلانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، نہ ہی انہوں نے جنگ کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ جواہر لال اس ورکنگ کمیٹی کے تنہا رکن تھے، جو میرے خیالات میں پوری طرح شریک تھے۔ میرا یقین ہے کہ واقعات کی منطق نے ان کے اور میرے موقف کی تائید کردی ہے۔
(’’آزادیٔ ہند‘‘ مرتبہ: ہمایوں کبیر سے کچھ سطریں)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


بڑے سلیقے سے اس کو جدا کیا میں نے
پھر اس کے بعد یہ سوچا کہ کیا کِیا میں نے
رکھا منڈیر پہ ٹوٹا ہوا دِیا کوئی
پھر انتظار ترا بے بہا کیا میں نے
تمھاری یاد کا پنچھی جب آ گیا اُڑ کر
قفس سے ایک پرندہ رہا کیا میں نے
یہ اور بات کہ تُو نے ابھی ابھی دیکھا
اشارہ ورنہ کئی مرتبہ کیا میں نے
جو دھوپ تیز ہوئی میں نے تجھ کو سوچ لیا
ترا خیال چُنا اور ردا کیا میں نے
مِرے بدن سے اندھیرے کی دھول چھٹنے لگی
جو دل کے داغ کو روشن ذرا کِیا میں نے
میں اپنے قول کا پکا رہا ہمیشہ اویسؔ
کسی حریف سے جو بھی کہا، کیا میں نے!
(اویس احمد، فیصل آباد)


غزل


خوش بُو کی قندیل جلائی اور سجائی شام
شب نے دھیرے سے دستک دی اور بجھائی شام
تیرے خیال سے خود کو سوچا، جگمگ دیپ جلے
تیری آنکھ سے خود کو دیکھا اور مسکائی شام
تیرے دھیان کا کنگن چھنکا، ڈھیروں ساز بجے
تیری یاد کا کاجل پہنا اور شرمائی شام
بانہیں تن کا ہار ہوئیں، سب لمحے بنے گلاب
بلبل نے اِک گیت سنایا، اور شہنائی شام
دیوانوں نے دیوانوں سے پوچھا کون ہے وہ
جس کے عشق میں پاگل رینا اور شیدائی شام
برہا آگ میں جل جل کر تن سارا راکھ ہوا
راکھ سے اٹھی اک سسکاری، اور کُرلائی شام
نیناؤں کی بدری سے جھر جھر موتی برسیں
چندرما نے نظر اتاری اور فدائی شام
(سارا خان، راولپنڈی)


غزل


میں نے سوچا تھا کچھ، عیاں کچھ تھا
اور حقیقت میں آسماں کچھ تھا
یہ تری آنکھ کی کرامت تھی
ورنہ منظر میں کب، کہاں کچھ تھا
اس محبت سے بھی بہت پہلے
ترے اور میرے درمیاں … کچھ تھا
سرِِ دیوار کچھ نہیں تھا اگر
پسِِ دیوار بھی کہاں کچھ تھا
ڈوبتی ناؤ کے علاوہ بھی
جھیل کے عین درمیاں کچھ تھا
(ذیشان مرتضی، پہاڑپور۔ ڈیرہ اسماعیل خان)


غزل


ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار، چھٹ جائے
وہ کچھ کہے، نہ سنے، مجھ سے بس لپٹ جائے
اسی لیے تو تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں
میں چاہتا ہوں سفر خیریت سے کٹ جائے
میں روند دوں گا محبت کو اپنے پیروں تلے
اسے کہو کہ مرے راستے سے ہٹ جائے
میں تیرا ذکر کروں اپنے شعر میں، یعنی!
فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے
جُھکا ہوا ہوں ترے سامنے میں، اور اسی وقت
ہے میرا دنیا سے جو رابطہ وہ کٹ جائے
(حذیفہ ہارون، کراچی)


غزل


پاؤں جب میرے آسمان میں تھے
اس گھڑی آپ ہی دھیان میں تھے
جس گھڑی ہم بہت تھے پُرامید
اس گھڑی آپ کے جہان میں تھے
عسرتِ زیست ہم غریبوں پر
دھوپ چھوٹی تو ہم تھکان میں تھے
یاد ہے ہم بھی کارآمد تھے
تیر تھے اور تری کمان میں تھے
سیر دیوار و در کی، کی ہم نے
عیش تھی رات ہم مکان میں تھے
یاد رہتے تو چُور ہو جاتے
خواب کیا کیا مرے گمان میں تھے
کس قدر ہو چلی ہے بے زاری
دل میں بھی ہم تھے، ہم تو جان میں تھے
(ابو لویزا علی، کراچی)


غزل


رنگ مل جائے خوشی کا تو دغا بازی کروں
خاک میں پگھلا کے اس کو آئینہ سازی کروں
وہ تخیل میں اگر آجائے میرے سامنے
اے خدائے بے نیازی کیا اسے راضی کروں
ایک بچے کی طرح سے ضد کیے جب دل مرا
صنعتِ ابلاغ پھر میں کیسے لفاظی کروں
اک معمہ سا کھڑا ہے آئینے کے سامنے
اپنی غمازی کروں کہ اس کی غمازی کروں
میں چراغِ آخرِ شب ہوں، کہ شمسِ صبحِ نو
کیا اسی اک چپقلش میں حال کو ماضی کروں
(محمد فراز، کراچی)


غزل


مجھے تو اس سے خوش بُو آ رہی ہے
جو اس نے پھول پھینکا کاغذی ہے
مرے گھر والوں سے پوچھے یہ کوئی
بھلا کس چیز کی اُس میں کمی ہے
کوئی تو بات ہے اس کے بھی دل میں
جو مجھ کو دیکھ کہ یوں ہنس پڑی ہے
مجھے ڈر ہے کہیں تجھ کو نہ تَک لے
اداسی روح و دل میں جھانکتی ہے
تیری تصویر کو دیکھا ہے میں نے
اگر تجھ سے کبھی فرصت ملی ہے
وہ بھی اکتا چکی ہے شاعری سے
غزل سانول ؔکی بھی یہ آخری ہے
(عمران اختر القادری سانول، لاہور)


غزل


مرے گماں سے نکل کر یقین میں آؤ
تم آسماں سے نکل کر زمین میں آؤ
میں دے رہا ہوں تمہیں اک حسین سی دعوت
بتوں کو توڑ کے دینِ مبین میں آؤ
میں کہہ رہا ہوں اداسی کو گھر سے دور رہو
نہیں ہے تم کو اجازت مکین میں آؤ
تُو ناسمجھ ہے چلا جا ہماری محفل سے
تمھارا کام نہیں تم فطین میں آؤ
میں اختتام غزل اس سمے کروں گا سیفؔ
کہ پہلے اس سے کہو سامعین میں آؤ
(سیف الرّحمٰن، سرگودھا)


غزل


خاک کا یہ ڈھیر بھی آخر پڑا رہ جائے گا
ڈوب جائے گا سفینہ ناخدا رہ جائے گا
ہم رہیں گے یا نہیں اشعار تو رہ جائیں گے
لاش اٹھ جائے گی لیکن حادثہ رہ جائے گا
ایک فرضی سے تعلق میں کہاں رعنائیاں
مل نہ پائیں گے کبھی ہم، رابطہ رہ جائے گا
ہم یونہی مرتے رہیں گے گر خدا کے نام پر
دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا
ہم کہاں تک روک لیں گے خون کی ترسیل کو
تجھ کو جاتا دیکھ کوئی دیکھتا رہ جائے گا
(وقاص علی، قصور)


غزل


کاش کوئی یہ بے بسی سمجھے
خوف میں جینا زندگی سمجھے
کیا عجب جھوٹ کے پجاری ہیں
تیرگی کو جو روشنی سمجھے
سب مری موت مانگنے والے
سانس لینے کو زندگی سمجھے
ہاں الٹ دے بساط ہر غم کی
آدمی کو جو آدمی سمجھے
درد اپنے غزل میں لکھتا ہوں
کون ایسا جو شاعری سمجھے
(اسلم صابر، عیسی خیل)


غزل


آہ بَھرتے ہوئے نکلتے ہیں
اشک جلتے ہوئے نکلتے ہیں
خوف پھیلا ہے اتنا بستی میں
لوگ ڈرتے ہوئے نکلتے ہیں
دل کی دھڑکن بدلنے لگتی ہے
جب وہ ہنستے ہوئے نکلتے ہیں
ہم قلندر مزاج گلیوں میں
رقص کرتے ہوئے نکلتے ہیں
شام ہوتے ہی تیری یادوں کے
سانپ ڈَستے ہوئے نکلتے ہیں
گھر سے نادِ علی کا ہم شافیؔ
وِرد کرتے ہوئے نکلتے ہیں
(محسن رضا شافی، کبیر والا)


غزل


جس طرح درختوں کا سائباں نہیں جاتا
جذبۂ محبت بھی رائیگاں نہیں جاتا
ہر قدم قیامت کے درد سہنے پڑتے ہیں
طالب محبت کا امتحاں نہیں جاتا
دن گزر تو جاتے ہیں غم کی دھوپ چھاؤں کے
سَر سے بدنصیبی کا آسماں نہیں جاتا
زخم بھر تو جائیں گے وقت کے گزرنے پر
عشق کا جو گھاؤ ہے جان جاں نہیں جاتا
آسماں کی پلکیں بھی اس سے بھیگ جاتی ہیں
دادؔ رات دن رونا رائیگاں نہیں جاتا
(داد بلوچ، فورٹ منرو)


غزل


نیک ہو عندلیب اچھا ہو
بیٹیوں کا نصیب اچھا ہو
قابلِ قدر ہو نظامِ نو
قوم کا جب نقیب اچھا ہو
اچھی تحریر سے نہیں مطلب
لکھنے والا ادیب اچھا ہو
ایک مدت سے بدگمانی ہے
یہ گماں عنقریب اچھا ہو
ایسا نقشہ کوئی نہیں حارثؔ
جس میں شہرِ غریب اچھا ہو
(حارث انعام، نوشہرہ)


غزل
نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے
یاد تمہاری شور مچانے لگتی ہے
ساتھ ملاتے ہیں آواز پرندے بھی
ہوا مجھے جب گیت سنانے لگتی ہے
دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی
آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے
پچھلے چہروں کو دفنا کے مٹی میں
آنکھ نیا اک عکس اگانے لگتی ہے
کچے پکے آم سہم سے جاتے ہیں
جب بھی چڑیا شاخ ہلانے لگتی ہے
اس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کے دیکھنا تم
دنیا کیسے آنکھ چرانے لگتی ہے
ہاتھ میں لے کر سورج کا نارنجی البم
شام وہ فوٹو کسے دکھانے لگتی ہے
دروازے پہ آن رکے باراتی تب
دلہن اک تصویر جلانے لگتی ہے
مجھ کو پاس بٹھا کے ماں کی خاموشی
سارے دل کے راز بتانے لگتی ہے
میرے آنچل پہ ست رنگی کرنوں سے
روشنی کوئی پھول بنانے لگتی ہے
(ناہید اختر بلوچ، ڈیرہ اسماعیل خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

پنجاب میں جنگلی حیات کی بقاء

$
0
0

جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہے اور ان کے تحفظ کے لئے کام کرنا ہم سب کا فرض ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جا رہی ہے اور اسے بچانے کاکام کرنے والی این جی اوز بھی سرگرم عمل ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں زیادہ تر چرند پرند موسم سرما میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں۔ نارووال اور شکر گڑھ کے سرحد ی علاقوں میں ہرن اور نیل گائے کی زیادہ آمد سرد موسم ہی میں ہوتی ہے اسی طرح سائبریا سے اڑنے والے پرندے بھی گرم علاقوں یا نسبتاً کم سرد جگہوں کا رخ کرتے ہیں اور یہی موقع ہوتا ہے جب ان پرندوں اور جانوروں کے شکاری بھی ان کو پکڑنے پرکمربستہ ہو جاتے ہیں۔

نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی ہے اور ان کو شکاریوں سے بچانے کے لئے حکومتی ادارے وقتاً فوقتاً اقدامات بھی کرتے ہیں مگر اس کے برعکس نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، ان نایاب پرندوں کا شکار کرنا ظلم ہے ان کی نسل بچانے کے لئے ان کی حفاظت ضروری ہے مگر جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہی ہوتا چلا گیا ہے اور آج جتنا ان نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔

جنگلی جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ ان سے ماحول اور بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے اسی وجہ سے جنگلی جانوروں کے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کی نسل کو ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی جانوروں کا گوشت کھا لیا جاتا ہے۔ جن جنگلی جانوروں کا زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جاتا ہے۔ ان میں کالا اور سر مئی بڑا تیتر، نیل گائے، پاڑ اور دلدلی ہرن کے نام قابل ذکر ہیں۔

گرین پاکستان پروگرام کے تحت جہاں پنجاب میں لاکھوں درخت لگائے جا رہے ہیں۔ وہیں جنگلی حیات کی بقا اور افزائش کے لئے بھی خاطرخواہ اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت جہاں مختلف شعبوں میں تبدیلی کے لئے اقدامات کر رہی ہے وہیں پہلی بارجنگلی حیات کی بقا اور افزائش کے لئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ ان منصوبوں کا جائزہ لیں تو ان میں سب سے بڑامنصوبہ پنجاب میں چار نئے نیشنل پارک بنانے کا پروگرام ہے، اسی طرح نایاب جانوروں اور پرندوں کی ای ٹیگنگ، جنگلی ماحول میں جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی، سالٹ رینج میں چنکارہ ہرنوں کی افزائش قابل ذکر ہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے سالٹ رینج میں بڑی تعداد میں چنکارہ ہرن چھوڑنے کا منصوبہ بنایا ہے، پنجاب کے سرکاری چڑیا گھروں اور پارکوں میں موجود سرپلس جانور اور پرندے نیلامی کے ذریعے فروخت ہوں گے، صوبے بھرمیں جال کی مدد سے کسی بھی قسم کے جانوروں اور پرندوں کو پکڑنے پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیرچوہدری نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق صوبے میں جنگلی حیات کی افزائش اور اضافے پر خصوصی توجہ مرکوزکی جا رہی ہے، جنگلی حیات کی وہ اقسام جن کی نسل ختم ہو چکی ہے یا ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں ایسے جانوروں اور پرندوں کی بریڈنگ سنٹرز سے افزائش کے بعد جنگلوں میں چھوڑا جائے گا۔ چولستان کے بعد اب سالٹ رینج میں بھی چنکارہ ہرن آزاد کئے جائیں گے تاکہ وہ کھلے ماحول میں پروان چڑھ سکیں،

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں جال کی مدد سے کسی بھی قسم کے جانور اور پرندے پکڑنے پر مستقل پابندی لگائی جا رہی ہے ، بالخصوص کوئل، بٹیرے، تیتر، مرغابی، سی سی، چکور اورکونج وغیرہ کوجال کی مدد سے پکڑا جاتا ہے ۔ پنجاب بھر میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جائے گا ۔ مارکیٹ میں صرف ایسے جانور اور پرندے فروخت کرنے کی اجازت ہوگی جوکسی بریڈنگ سنٹرسے خریدے گئے ہوں گے، جبکہ بریڈنگ سنٹرزکا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گا کہ انہوں نے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی افزائش مقامی سطح پرکروائی ہے یا کہیں سے خریدے تھے۔جنگلی حیات کے تحفظ ، بقا اور افزائش کے لئے آن لائن جنگلی جانوروں اور پرندوں کی خریدوفروخت ان کے شکارکی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کیخلاف بھی سائبرکرائم ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

اعزازی گیم وارڈن بدر منیر چوہدری نے بتایا کہ جب شکاری ، شکارکئے گئے جانور اور پرندوں کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پرشیئرکرتے ہیں تو اس سے ناصرف بین الاقومی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ دیگر شکاری مقابلے کے طور پر زیادہ جانور اور پرندے شکارکرکے ان کی تصاویر شیئرکرتے ہیں۔ یہ اقدام جنگلی حیات کے لئے انتہائی خطرناک ہے پنجاب میں جنگلی جانوروں کی بقا کے لئے ایک دستخطی مہم بھی شروع کی گئی ہے جس پرگورنر پنجاب چوہدری محمدسرور، صوبائی وزیرجنگلات سبطین خان، ڈی جی وائلڈ لائف پنجاب، ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر حامد نقی اور اعزازی گیم وارڈن بدر منیر چوہدری سمیت تین سوسے زائد اہم شخصیات نے دستخط کرکے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ جنگلی حیات سے پیارکرتے ہیں اور اس کے غیرقانونی شکار اور خرید و فروخت کو روکنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اسی طرح محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب اور وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اشتراک سے گرین پاکستان پروگرام کے تحت پنجاب میں جنگلات اور جنگلی حیات کی بحالی کے حوالے سے کام تیزی سے جاری ہے۔ پنجاب میں اس وقت چار بڑے نیشنل پارک ہیں جبکہ اس صوبے میں مزید چار نیشنل پارک بنانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ منصوبے پر 5 ارب روپے خرچ ہوں گے، بڑی تعداد میں کالے ہرن بھی چولستان کے علاقے میں چھوڑے جائیں گے تاکہ یہ نایاب نسل کا ہرن قدرتی ماحول میں پرورش پا سکے۔

پنجاب میں اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگلی جانوروں و پرندوں کی ٹریکنگ، ان کی آماہ جگاہوں کی میپنگ اور جی پی ایس کے ذریعے ان کی لوکیشن کا حصول بھی ممکن ہوگا، صوبہ بھر کے تمام ریجنل دفاتر میں جی آئی ایس کے 8 ریجنل نوڈز قائم کئے جا رہے ہیں جو ہیڈ کوارٹرز میں ایک مرکزی جی آئی ایس لیب کے ساتھ منسلک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تربیت حاصل کرنے والے تمام افسران اپنے اضلاع میں موجود جنگلی حیات کا ڈیٹا اپنے متعلقہ ریجنل دفتر کی جی آئی ایس لیب کو فراہم کریں گے جو اس کو اس جدید سائنٹیفک سافٹ ویئر کی مدد سے میپ میں تبدیل کرکے ہیڈ آفس کی مرکزی لیب کو فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید سافٹ ویئر کے ذریعے یہ جاننے میں آسانی ہو گی کہ جنگلی حیات کی کونسی آماجگاہ تباہی یا بہتری کی طرف گامزن ہے اور کس علاقے میں کس جنگلی حیات کی تعداد کتنی ہے تاکہ اس سلسلہ میں بروقت حکمت عملی تیار کی جا سکے۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر گرین پاکستان پروگرام میاں حفیظ احمد نے کہا کہ جنگلی حیات کے محفوظ اور زیادہ آبادی والے علاقوں اور یہاں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں کی آباد ی کی تعداد سے متعلق ڈیٹا جمع کرکے بھی ایک میپ تشکیل دیا جائے گا، اس جدید سافٹ ویئر کے ذریعے صوبہ بھر کے وائلڈ لائف پارکس، چڑیا گھروں اور بریڈنگ سینٹرز میں موجود جانوروں اور پرندوں کی صحت اور ان کو فراہم کی جانے والی خورا ک اور دیگر سہولیات کی مانیٹرنگ کرنا بھی ممکن ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وائلڈ لائف کے منصوبوں کے مینجمنٹ پلان کو بھی جی آئی ایس سسٹم سے منسلک کیا جائے گا ۔

گرین پاکستان پروگرام پنجاب کے انچارج میاں حفیظ نے پنجاب میں نئے نیشنل پارک بنائے جانے کے منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس نیشنل پارک لال سوہانرا ، نیشنل پارک چینجی، اٹک اور روہتاس میں نیشنل پارک اور ریزور ایریا ہے تاہم اب مزید چار نئے نیشنل پارک بنائے جا رہے ہیں جن میں چکوال کے علاقہ آڑہ بشارت میں 35 ہزار ایکڑ رقبے پر نیشنل پارک بنایا جائے گا، دوسرا نیشنل پارک مری کہوٹہ کے علاقے کوٹلی ستیاں میں 62 ہزار ایکڑ رقبہ پربنایا جائے گا، اس میں تمام علاقہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے ۔ تیسرا نیشنل پارک گجرات کے قریب پبی کے علاقے میں 26 ہزار ایکرڑ پر بنایا جائے گا اور چوتھا نیشنل پارک اٹک کے علاقہ کھیری مورت میں بنایا جائے گا ۔

کوٹلی ستیاں میں چار جنگل ہیں، یہاں نایاب نسل کے فیزنٹ اور سب سے چھوٹے سائزکے ہرن جنہیں بارکنگ ڈئیر بھی کہا جاتا ہے ان کی افزائش بھی اسی جنگل کے قدرتی ماحول میں کی جائے گی ۔ جبکہ اس نیشنل پارک کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈویلپ کیا جائے گا ۔ اسی طرح چولستان کے علاقے میں جہاں اس وقت سینکڑوں چنکارہ ہرن نظرآتے ہیں اب نایاب نسل کے کالے ہرن بھی چولستان میں چھوڑے جائیں گے تاکہ یہ یہاں کے قدرتی ماحول میں پرورش پا سکیں اور ان کی آباد ی میں اضافہ ہو ۔ کالا ہرن اس وقت پنجاب کے مختلف چڑیا گھروں اور بریڈنگ سنٹرز میں موجود ہے تاہم جنگل میں کالاہرن ختم ہو چکا ہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے چولستان کے علاقے میں جنگلی حیات خصوصاً کالا ہرن اور چنکارا ہرن کے تحفظ کے لئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے، سائبرکرائم کے وائلڈ لائف ایکٹ میں بھی ترمیم کی جائے گی ۔ اس حوالے سے تیارکی گئیں سفارشات کے مطابق گیم ریزرو میں شکار کے اسپیشل پرمٹ کے حصول کے لیے واضح پالیسی مرتب کی جائے گی، بٹیر کی کم ہوتی آبادی کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں گے تاکہ اس کی نسل کو بچایا جا سکے۔

اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سائبر کرائم وائلڈ لائف ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ وائلڈ لائف سائبر کرائم کو روکا جا سکے۔ سرکاری چڑیا گھروں اور بریڈنگ سنٹرز میں سرپلس جانوروں کی فروخت کے حوالے سے بھی واضح پالیسی تیار کی جائے گی ۔ جانوروں اور پرندوں کی قدرتی آماجگاہوں کی بحالی اور تحفظ کے لیے بھی اقدامات کئے جائیں گے جبکہ غیرقانونی شکار اور اسمگلنگ کی روک تھام میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے ملازمین کو انعامات بھی دیئے جائیں گے۔

The post پنجاب میں جنگلی حیات کی بقاء appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>