Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

نام والی تختی

$
0
0

اندرون لاہور میں واقع ایک عظیم الشان کوٹھی میں نواب فیروز خان کا خاندان رہتا تھا۔ علاقے میں سب انھیں نواب صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ نواب صاحب کی شان و شوکت قابل دید تھی۔ اونچی پگڑی، چست شیروانی اور کامدار کھسہ ان کا لباس تھا۔ جب وہ اس شان سے بگھی میں بیٹھ کر بازار سے گزرتے تو دکان دار اور راہگیر مڑ مڑ کر انہیں دیکھتے تھے۔

ان کے انداز سے غرور و تکبر جھلکتا تھا۔ نواب صاحب کے خاندان میں کل پانچ لوگ تھے: دو بیٹے، ایک بیٹی، بیگم اور اماں بی۔ بیگم صاحبہ تو ہر وقت سونے کی دکان بنی رہتیں، نمائش میں اپنے شوہر سے دو ہاتھ آگے تھیں۔ اماں بی ٹھہرے ہوئے مزاج کی عورت تھیں مگر ان کی کوئی نہ سنتا تھا۔

نواب صاحب کے بیٹے اپنے شوق کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے والد کی پگڑی اونچی رکھنے کے لیے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اب رہ گئی نواب زادی ماہ فیروز جو عمر میں سب سے چھوٹی تھی، وہ بھی اپنے ماں، باپ کے غرور و تکبر کی وجہ سے ان جیسی ہوگئی تھی، ملازموں اور غریبوں سے بہت برا سلوک کرتی، انھیں بری طرح دھتکارتی اور ذلیل کرنے کے موقع ڈھونڈتی رہتی۔

ایک دن وہ دالان میں کھڑی تھی کہ کسی فقیر نے دستک دے کر صدا لگائی:’’ہے کوئی میری مدد کرنے والا؟‘‘

ماہ فیروز دروازے تک گئی تو فقیر نے کہا:’’اللہ نوابوں کی شان سلامت رکھے۔ تم ہمیں دو گے تو اللہ تمہیں اور دے گا۔ اللہ بھلا کرے گا بیٹی! کچھ کھانے کو دے دو!‘‘

ماہ فیروز نے غرور بھرے لہجے میں کہا:’’اب کیا نوابوں کی شان تجھ جیسے کمی کمینوں کی وجہ سے ہے؟ تم جیسوں کا تو کام ہی در در جا کر بھیک مانگنا ہے، جاؤ جا کر کہیں اور مانگو!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ملازم کو دروازہ بند کرنے کا اشارہ دیا۔ فقیر نے اس سے نرمی سے کہا:’’بی بی! ان کوٹھیوں پہ غرور نہ کر! آج تیری تو کل کسی اور کی۔‘‘ ابھی بات اس کے منہ میں ہی تھی کہ دروازہ بند ہو گیا۔

ماہ فیروز کے ذہن میں وہ الفاظ نقش ہوگئے، وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی کہ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑے انتہائی پھٹے ہوئے اور حالت بے حد خراب تھی۔ اپنے ہی گھر کی کی دہلیز پر بیٹھی گڑگڑا رہی تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو نام والی تختی (نیم پلیٹ) بدل چکی تھی۔ اب اس پر اس کے باپ کا نام نہیں لکھا تھا۔ اسے دھچکا لگا۔ اس پر اپنے ہی گھر کا دروازہ بند ہو چکا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اس نے اس فقیر کے لیے کیا تھا۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی اور اس نے خود کو کرسی پر پایا۔ اپنے قیمتی کپڑوں کو چھو کر دیکھا سب کچھ ٹھیک تھا۔ وہ پریشانی سے بھاگتی ہوئی باہر گئی، دروازے کے باہر لگی تختی کو دیکھا، اس پر وہی نام تھا: نواب فیروز خان۔ اس کی جان میں جان آئی کہ وہ صرف ایک خواب تھا۔

وہ اندر گئی، اپنی دادی کی گود میں سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پھر سارا ماجرا بیان کیا۔ اماں بی نے اسے پیار کیا اور کہا:’’بیٹی! اس فقیر نے سچ کہا تھا، نام، رتبہ، شان سب عارضی ہیں۔ غرور و تکبر انسان کو اللہ کی نظر میں گرا دیتا ہے۔ اگر اس نے آج یہ شان و شوکت دے رکھی ہے تو کل چھین بھی سکتا ہے۔ کیا پتا کہ کل وہی فقیر تمہاری جگہ ہو اور تم اس کی جگہ! اگر رب نے تمہیں مال دیا ہے تو وہ خدا کی مخلوق کے لیے ہے، تمہیں کون سا اپنی جیب سے دینا ہے، یہ تو سب اس ذات کی عطا ہے۔ تم ایک دو گی تو تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ وہ تمہیں کہاں کہاں سے نواز دے۔ نام والی تختیاں تو بدلتی رہتی ہیں، باقی نام صرف اللہ کا رہے گا۔‘‘

تب سے ماہ فیروز نے اماں بی سے عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی کسی کو اپنے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاؤں گی اور نہ ہی کسی کے ساتھ بدسلوکی کروں گی، کیوں کہ وہ یہ حقیقت جان چکی تھی کہ یہ شان و شوکت یہ محل عارضی چیزیں ہیں، ہمیشہ رہنے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔

The post نام والی تختی appeared first on ایکسپریس اردو.


کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں لیا، ’’بہاؤ‘‘ جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا

$
0
0

دریا کبھی یکساں نہیں رہتا۔۔۔وہ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی خاموش، کبھی غصیل، کبھی مٹیالا، کبھی شفاف۔

مسلسل بہتے ہوئے وہ موسمی اثرات قبول کرتا ہے، جغرافیائی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ بدلتا جاتا ہے۔ اور یوں ہر بار دریا اپنے ملاقاتی کو ایک نئی کہانی سناتا ہے۔ ایک ان کہی کہانی۔

ہزاروں قارئین کی زندگی پر دیر پا اثرات مرتب کرنے والے عہدساز ادیب، مستنصر حسین تارڑ بھی ایک ایسے ہی دریا کے مانند ہیں، جن سے ہر ملاقات میں، ہر مکالمے میں ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔

گذشتہ دنوں ’ادب فیسٹول پاکستان‘ میں شرکت کے لیے وہ کراچی آئے، تو اُن کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی، جس میں اردو کی تاریخ کے اِس مقبول ترین لکھاری نے اردو زبان، اپنے ہم عصروں، اردو ادب کے مستقبل پر، اپنے مخصوص بے ساختہ انداز میں تفصیلی اظہار خیال ہے۔

اس روز موسم خوش گوار تھا۔ آسمان پر بادل تھے۔ ہم کراچی جم خانے پہنچے، تو وہ منتظر تھے۔ نشست سنبھالنے کے بعد پوچھا کیے، آپ نے اپنے کیریئر میں ناول لکھے، سفر نامے ، ڈرامے لکھے، ڈراموں میں کام کیا، وہ کون سا کام تھا، جس میں خود کو تخلیقی طور پر زیادہ مطمئن اور مسرور محسوس کیا؟ تو کہنے لگے کہ میں جو بھی کام کرتا ہوں، پوری سنجیدگی سے کرتا ہوں، اور اُس میں مکمل طور پر شامل ہوجاتا ہوں۔

’’ چاہے کمپیئرنگ ہو، ایکٹنگ ہو، سفرنامہ ہو، ناول ہو، I am totally committed to it۔ اور اُس وقت وہ میرے لیے سب سے اہم ہوتا ہے، میں تخصیص نہیں کرتا کہ یہ میرے لیے زیادہ اہم ہے، وہ کم اہم۔ البتہ جب آپ ایک ناول لکھتے ہیں، تو اس کی باگیں آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، سفرنامہ لکھتے ہوئے آپ کو کراچی سے لاہور جانا ہے، تو راستہ میں گلگت نہیں آئے گا، وہ راستہ طے شدہ ہے۔ البتہ ناول طے شدہ نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے ناول طے شدہ نہیں ہوتے۔ ناول میں چیزوں کو manipulate کرنے کا اختیار ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ تخلیق کار خود کو چھوٹا سا خدا سمجھتے ہیں، کیوں کہ تخلیق کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح کئی لوگ خدا سے باغی ہوجاتے ہیں، اِسی طرح کچھ کردار ناول نگار سے باغی ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں، اور وہاں سے ناول بڑا بنتا ہے، کیوں کہ اگر تمام کردار آپ کی مرضی کے مطابق چل رہے ہیں، تو آپ کی زبان بول رہے ہیں، آپ کی فکر کی تقلید کر رہے ہیں، لیکن اگر باغی ہوجاتے ہیں، تو اُن کی اپنی فکر سامنے آتی ہے۔ تو ناول لکھتے ہوئے تخلیقی عمل کی جو طمانیت ہوتی ہے، وہ الگ ہے۔ تاج محل جنھوں نے بنایا ہوگا، انھوں نے کہا ہوگا کہ خدا، تو نے ہمیں بنایا، اور دیکھ ہم نے تاج محل بنایا۔ تو ناول میں یہ معاملہ ہے۔‘‘

زندگی کے ایک خاص موڑ پر تارڑ صاحب نے شوبز کی دنیا ترک کی، اور خود کو کلی طور پر لکھنے کے لیے وقف کردیا۔ اِسی تناظر میں ہم نے پوچھا، شہرت تو بڑی سحرانگیز ہوتی ہے، کیا یہ مشکل فیصلہ نہیں تھا؟ کہنے لگے،’’کسی زمانے میں لگاتار دو برس میں گیلپ کے سروے میں پاکستان کا مقبول ترین شخص ٹھہرا۔ اب یہ شہرت کی انتہا ہوسکتی ہے۔ تب میں کسی محفل میں گیا، وہاں اور بھی لکھنے والے تھے، مگر بہت سے لوگ میری طرف آئے۔ جب میں فری ہوا، تو دیکھا، ممتاز مفتی مجھے گھور رہے ہیں۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ تم میں بڑا رائٹر بننے کی تمام تر صلاحیتیں ہیں، مگر تم نہیں بن سکو گے۔ یہ شہرت تمھیں کھا جائے گی۔ میں نے انھیں کہا کہ مفتی صاحب، میں حلفیہ کہتا ہوں، میں نے کبھی اِسے سنجیدگی سے نہیں لیا، یہ ایک عارضی معاملہ ہے۔ میڈیا میری مجبوری ہے، کیوں کہ مجھے گھر کا خرچ چلانا ہے۔ کہنے لگے، نہیں اگر میڈیا نہیں چھوڑو گے، تو میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ خیر، چند برس بعد انھوں نے مجھے خط لکھا، جس کے مندرجات میں پورے بیان نہیں کرسکتا، مگر انھوں نے مجھ سے معذرت کی، اور لکھا کہ تم نے مجھے غلط ثابت کیا، شہرت تم پر اثرانداز نہیں ہوسکی۔ آگے انھوں نے ایک حوالہ دیا کہ فلاں پر شہرت نے اثر کیا، اور اس میں جو ٹیلنٹ تھا، وہ اس کا اظہار نہیں کرسکا۔‘‘

گو تارڑ صاحب نے تذکرہ تو نہیں کیا، مگر ہمارے ذہن میں پہلا خیال اشفاق احمد کا آیا، اسی تناظر میں پوچھا، کیا اشفاق احمد نے ناولز نہ لکھ کر اپنے فن کے ساتھ ناانصافی کی؟

ان کا کہنا تھا کہ اشفاق صاحب اپنے عہد کے نمایندہ شخصیت تھے۔ بنیادی طور پر وہ داستان گو تھے۔ اُن جیسی گفتگو بہت کم لوگ کرسکتے ہیں۔ ’’میں نے ان کے کئی ڈراموں میں کام کیا، روحی بانو کے ساتھ میں نے جو ڈرامے کیے، زیادہ تر اُن ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ میں انھیں ٹیلی ویژن کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما نگار مانتا ہوں، انھوں نے جن موضوعات کو اٹھایا، لوگ آج بھی اٹھانے سے گھبراتے ہیں، یہ تو ہوئی ڈرامے کی بات۔ اگر لٹریچر کی بات کی جائے، تو وہاں لوگ ٹھوس ثبوت مانگتے ہیں، اور ثبوت انھوں نے کم چھوڑے۔ ریڈیو میں بہت دل چسپی تھی، تلقین شاہ ایک کلاسیک تھا، پھر ’زاویہ‘ تھا، مگر میری یہ خواہش تھی کہ وہ ناولز لکھتے کہ ان میں تمام تر صلاحیت موجود تھی، جب کہ بانو آپا نے ’راجہ گدھ‘ لکھ دیا۔ البتہ یہ ان کی صوابدید اور اختیار تھا۔ اگر انھوں نے مناسب سمجھا کہ ریڈیو اور ٹی وی کو زیادہ وقت دیں، اپنی بابا شخصیت کو زیادہ پراجیکٹ کریں، تو یہ ان کا اپنا انتخاب تھا۔‘‘

کیا ناول نگاری اور سفرنامہ نویسی کا فن یک سر الگ ہے؟ تارڑ صاحب اِس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ اُن کے بہ قول،’’بالکل، سفرنامہ طے شدہ ہے۔ آپ تھوڑا اِدھر ادھر نکل جائیں گے، بس۔ جیسے ’سنو لیک‘ میں مَیں قرۃ العین طاہرہ کو یاد کرتا ہوں، وہ الگ معاملہ ہے، مگر ناول طے شدہ نہیں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں، ہر گام پر ہمیں ایک کہانی نظر آتی ہے، مجھے نہیں آتی۔ کچھ ادیب کہتے ہیں کہ پورا تصور ذہن میں آگیا، میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا، کوئی سچویشن ہوتی ہے، فقرہ آتا ہے، احساس ہوتا ہے، جو مجھے تحریک دیتا ہے۔‘‘

تارڑ صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ عبداللہ حسین واحد ادیب ہیں، جن سے اُن کی دوستی تھی۔ اُن کی بابت پوچھا، تو فرمایا،’’ہم دونوں ایک دوسرے کے رازداں تھے۔ وہ ایک ایب نارمل انسان تھے، اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کوئی نارمل ادیب بڑا ادیب نہیں بن سکتا، کیوں کہ قاری آپ سے ایب نارمل اور معمول سے ہٹ کر لٹریچر اور کرداروں کی توقع کرتا ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب آپ ایک بے راہ رو قسم کی زندگی گزاریں۔ اور وہ تمام تجربات آپ کے پاس ہوں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں، ناول کے لیے ایک ولی اللہ سے لے کر ایک طوائف تک، تمام طبقات کے تجربات آپ کے پاس ہونے چاہییں، تب ہی آپ ناول لکھ سکتے ہیں۔ عبداللہ حسین کے پاس وہ تمام تجربات تھے۔ کم لکھا، کیوں کہ عرصہ دراز وہ باہر رہے، مگر جتنا بھی لکھا، وہ بالکل مختلف لکھا۔‘‘

وہ کراچی میں ایک فیسٹول میں شرکت کے لیے آئے تھے، اِسی تناظر میں پوچھا، آج میگاایونٹس ہورہے ہیں، ادبی کانفرنسیں، میلے ، فیسٹولز، کیا یہ سرگرمیاں فروغ ادب میں معاون ہیں، یا پھر وہ ادبی نشستیں ، جو ماضی میں ہوا کرتی تھیں، زیادہ اثر انگیز تھیں؟ بلاتامل کہا،’’وہ نشستیں زیادہ اثرانگیز تھیں۔ یہ کمرشل سرگرمی ہے، اسپانسر آتے ہیں۔ ہم جیسوں کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دیگر ادیبوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ لوگ مل بیٹھتے ہیں۔ میرے نزدیک پیمانہ یہ ہے کہ فیسٹول میں ادیبوں کی کتابیں کتنی فروخت ہوئیں؟ اگر نہیں ہوئیں، تو وہ فیسٹول بے معنی ہے۔ میرے نزدیک اہم یہ ہے کہ لوگ کتابیں خریدیں۔ پھر  یہ کہ نئے ٹیلنٹ کی آب یاری ہو۔ وہ نہیں ہورہی۔ یہاں اسٹارز زیادہ بلائے جاتے ہیں، بدقسمتی سے میں بھی ان اسٹارز میں شامل ہوں۔ میں دو تین درجن ایسے اہم ادیبوں کا حوالہ دے سکتا ہوں، جنھیں میں نے کبھی کسی فیسٹول میں نہیں دیکھا۔ یہ بہت ناانصافی ہے۔‘‘

ہم نے کہا، آپ نے اکثر اپنے کالموں میں الطاف فاطمہ کا ذکر کیا، وہ بھی نوّے برس کی عمر میں گذشتہ سال ہم سے جدا ہوگئیں۔ کہنے لگے، الطاف فاطمہ صوفی اور درویش قسم کی خاتون تھیں۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ کئی بار اکیڈمی آف لیٹرز نے انھیں اپروچ کیا کہ ہم پرائیڈ آف پرفارمینس کے لیے آپ کا نام دے دیتے ہیں، مگر انھوں نے منع کر دیا۔ حالاں کہ انھیں مالی مسائل درپیش تھے، مگر انھوں نے مالی معاونت گوارا نہیں کی۔ یہ کہہ دیا کہ آپ مجھے ترجمے کا کام دے دیں۔ الگ تھلگ رہتی تھیں۔ میرا اُن سے خاص تعلق تھا، کوئی پچاس برس پہلے سے۔ ان کی پرانی کوٹھی تھی، میں وہاں جایا کرتا، ان سے باتیں کیا کرتا۔ میرے لیے ایک fascination  یہ بھی تھی کہ ان کے ماموں سید رفیق حسین تھے، اور میرے نزدیک دنیا بھر میں کسی نے جانوروں کے بارے میں اتنا اچھا ادب نہیں لکھا، جتنا سید رفیق حسین نے لکھا ہے۔ وہ دراصل انسان نہیں تھے، ایک بارہ سنگھا تھے، ایک شیر تھے۔ وہ ان جانوروں کے قالب میں ڈھل جاتے تھے۔ تو الطاف فاطمہ کی زبان میں بناوٹ نہیں تھی، وہ ایسی رواں اور سریلی تھی کہ دل میں اترتی چلی جاتی۔ ان کے کسی افسانے میں ایک جملہ پڑھا، تو میں نے سوچا کہ یہ صورت حال، جو الطاف نے ایک جملے میں لکھی، اگر مجھے لکھنی ہوتی، تو شاید پورا صفحہ لکھتا۔ میرے سفرناموں کو وہ بہت سراہتی تھیں، خاص کر ’اندلس میں اجنبی‘ کے کوٹس مجھے بھیجا کرتی تھیں۔ ان کے جانے کا بہت دکھ ہوا۔ اِس وجہ سے بھی وہ ادیبوں کی جو Rat race ہے، کبھی اس کا حصہ نہیں بنیں، مین اسٹریم میں آئی ہی نہیں۔ اور انھیں اُس کا کوئی غم بھی نہیں تھا۔‘‘

کیا لکھنے والا تخلیقی عمل کے دوران اُس شہرت اور محبت کا دباؤ محسوس کرتا ہے، جو اُس کے حصے میں آئی، کیا تارڑ صاحب کبھی ایسے کسی تجربے سے گزرے؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ اُن کے بہ قول، لکھتے وقت میں ان چیزوں سے ماورا ہوتا ہوں۔ مجھے یہ فکر نہیں ہوتی کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، اسے بقائے دوام حاصل ہوگی، پسندیدگی حاصل ہوگی، یا یہ بڑا ادب بنے گا۔ اس وقت میں اُس میں اتنا شامل ہوتا ہوں کہ میں فقط اپنے لیے لکھ رہا ہوتا ہوں۔ تو کوئی پریشر نہیں ہوتا۔ ہاں، ایک بات کا دھیان رکھتا ہوں، میں قاری کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ یہ میرے ذہن میں ہوتا ہے کہ مجھے بات کو سہل کرنا ہے۔ بہت سے دوست کہتے ہیں کہ قاری خود کو ایجوکیٹ کرے، ہماری سطح پر آئے، مگر میں ایسا نہیں کرتا، میں خود کو تھوڑا نیچا کرکے قاری کی سطح پر چلا جاتا ہوں۔‘‘

اگر وہ ابلاغ کو اہمیت دینے والے ادیبوں کے قبیلے سے ہیں، تو اُس پُرپیچ ادب کو کیسے دیکھتے ہیں، جو انور سجاد کے قبیلے کے ادیبوں نے لکھا؟ کہنے لگے،’’انور سجاد ماڈرن اسٹوری کے بانیوں میں سے ہیں۔ انور کی نثر میں ایک خاص ردھم ہے، اس میں ایک پیٹرن ہے۔ انور نے، بلراج من را نے جو کچھ لکھا، اس کا اثر ہے، اس سے بچا نہیں جاسکتا۔ اُسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ وہ اہم تھا۔ تجربات ہوتے رہتے ہیں، نئے لکھنے والے ان سے سیکھتے ہیں، اور اپنی راہ خود نکالتے ہیں۔‘‘

عام رائے ہے کہ اردو ادب یوں عالمی دنیا تک نہیں پہنچا کہ یہ کم زور ہے، مگر اِسی خطے کی کہانیاں بیان کرنے والے یہاں کے انگریزی ادیب بین الاقوامی اعزازات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بہ طور سوال ان کے سامنے رکھا، تو کہنے لگے،’’ترجمے کا شعبہ اردو میں بہت کم زور ہے، بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترکی، عربی زبانوں میں دنیا بھر کا عالمی ادب موجود ہے۔ چینی حکومت کی دعوت پر میں سنکیانگ گیا۔ وہاں ایغور زبان بولی جاتی ہے، جس کا ہم نے نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ آپ تو یہی کہتے ہیں کہ اردو کی بڑی دھوم ہے، ٹھیک ہے، دھوم ہوگی، ایغور کی تو دھوم نہیں، مگر اس میں بھی تمام روسی ادب، کلاسیکی ادب موجود ہے۔ اور ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ شاید یہ سبب ہو کہ انگریزی ہماری سیکنڈ لینگویج ہے، جسے خواہش ہوتی ہے، وہ انگریزی میں پڑھ لیتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اردو ادب کم زور ہے، اس کا ترجمہ ہوا ہی نہیں، وہ پہنچا ہی نہیں۔ میں نے جو ایرانی، ترکی اور دیگر زبانوں کے ناولز پڑھے ہیں، ہمارے ناول ان سے کم تر نہیں، مگر ان کا ترجمہ نہیں ہوا۔ اب آتے ہیں کہ انگریزی میں لکھنے والوں پر۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگ انگریزی میں لکھ رہے ہیں، میری انگریزی اچھی ہوتی، تو شاید میں بھی لکھتا، مگر جب بین الاقوامی سطح پر کوئی فہرست ترتیب پاتی ہے، تو اِس خطے کے انگریزی میں لکھنے والے اُس میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ ہاں، یہاں ان کی اہمیت ہے۔ اور بہت سے اچھے لکھنے والے ہیں۔ محمدحنیف، ندیم اسلم ہیں، ایم ایچ نقوی اور کاملہ شمسی ہیں، مگر ان میں سے بیش تر وہی موضوع اور کردار دہرا رہے ہیں، جو ہم کب کے لکھ چکے۔ دراصل تراجم کے لیے پورے ادارے چاہییں۔ اب جنوبی کوریا کو نوبیل انعام نہیں ملا، تو اُنھوں نے مہم شروع کر رکھی ہے۔ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے، حکومتوں کی سطح پر ادب کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔‘‘

راقم الحروف نے جو ناولز پڑھے، اُن میں جنھوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا، مستنصر حسین تارڑ کا ’بہاؤ‘ ان میں سے ایک ہے۔ تین عشروں قبل شایع ہونے والے اس ناول کا شمار اب کلاسیک میں ہوتا ہے، ادبی جریدے ’ذہن جدید‘ کے سروے میں اس کا ذکر اردو کے دس بہترین ناولز میں کیا گیا، بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ’تنہائی کے سو سال‘ سے کیا۔ تو ہم نے پوچھا، آج جب پلٹ کر دیکھتے ہیں، تو اپنی تخلیقات میں اِسے کہاں کھڑا پاتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ’بہاؤ‘ جیسا ناول اب وہ خو د بھی نہیں لکھ سکتے۔ ’’پانچ ہزار سال پہلے جانا، ایک خاص کیفیت میں کلام کرنا، وہ میں دوبارہ نہیں کرسکتا۔‘‘

اُنھیں اپنے ناولز کا اردو کے کلاسیک ناولز سے موازنہ پسند نہیں۔ بہ قول اُن کے،’’جب بھی میرا کوئی ناول چھپتا ہے، اور اگر اچھا ہوتا ہے، تو کراچی میں اس کا موازنہ کیا جاتا ہے کہ ’آگ کا دریا‘ سے اچھا ہے یا نہیں۔ ہندوستانی ادیب ، مشرف عالم ذوقی نے میرے ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ کو ’آگ کا دریا‘ سے آگے کی چیز قرار دیا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہر ادیب اپنی جگہ اہم ہوتا ہے، موازنہ ممکن نہیں۔ ہم اورحان پامک کا موازنہ یاشر کمال سے نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے ہاں موازنہ ہوتا ہے۔ قرۃ العین لاہور آئیں، تو چند نقاد بیٹھے۔ انھوں نے ابتدائی تمام سوالات ’آگ کا دریا‘ کے بارے میں کیے، وہ واک آؤٹ کر گئیں کہ میں نے اُس کے بعد بھی چار پانچ ناولز لکھے ہیں، آپ نے وہ نہیں پڑھے؟ جب مجھ سے باربار پوچھا گیا کہ کیا آپ ’آگ کا دریا‘ جیسا ناول لکھ سکتے ہیں، تو میں نے تنگ آکر کہا کہ نہیں، وہ تو عینی آپا کا ہے، مگر قرۃ العین حیدر بھی ’بہاؤ‘ نہیں لکھ سکتیں۔‘‘

ہم نے کہا، لگتا ہے، ناول کی بحث ’آگ کا دریا‘، ’اداس نسلیں‘ اور ’خدا کی بستی‘ پر آن کر ختم ہوجاتی ہے، تو انھوں نے ہم سے اتفاق کیا۔ کہنے لگے،’’دراصل آپ کو علم نہیں ہے۔ پتا ہی نہیں کہ کیا کیا لکھا جارہا ہے۔ آپ اسی پر تکیہ کرتے ہیں، جو آپ نے لکھا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

تارڑ صاحب کی شہرت کے کئی اسباب، مگر جس ہنر نے ہمیں گرویدہ بنایا، وہ ناول نگاری ہے۔ اُن کا آخری ناول ’اے غزال شب‘ تھا، جس کے بعد خاموشی چھا گئی، چند برس پہلے کراچی میں ملے، تو انھوں نے یہی کہا تھا کہ فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں، مگر رواں برس کے آخر میں ’منطق الطیر، جدید‘ آیا، جو فرید الدین عطار کے کلاسیک کا ماڈرن روپ ہے۔ اِس بار ملے، تو ہم نے پوچھا، یہ وقفے کیسے ختم ہوا؟

ان کا کہنا تھا،’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناول لکھتے ہوئے ہی آپ کے ذہن میں کوئی نیا خیال، کوئی ایسی چیز آجاتی ہے، جس پر آپ مستقبل میں قلم اٹھائیں۔ ’اے غزال شب‘ کے بعد میرے پاس ایسا کوئی خیال نہیں تھا، نہ ہی میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عطار میرے مرشد ہیں، میں پچاس سال سے اُن کے پرندوں کے عشق میں مبتلا ہوں، تو ان کا ایک تازہ ترجمہ انگریزی میں ہوا، اور انگریزی میں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے رومی کا پہلے بھی ترجمہ ہوا تھا، مگر بعد میں جو ترجمہ ہوا، اس کی وجہ سے اُنھیں دنیا کا سب سے بڑا صوفی قرار دیا گیا۔ تو ’منطق الطیر‘ کے پہلے بھی تراجم ہوئے، مگر جو تازہ ہوا، وہ میں نے پڑھا، تو میرے ذہن میں آیا کہ جیسے پرانی داستانوں کو بار بار لکھا جاتا ہے، ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کو بار بار لکھا گیا، تو یہ بھی ایک کلاسیک ہے، اس کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ گو فریدالدین عطار کے نقش قدم پر چلنا، اپنے پیروں کو جلانے کے مترادف ہے، مگر ’بہاؤ‘ کے بعد جس ناول کو لکھتے ہوئے میں نے چیلینج محسوس کیا، وہ جس طرح کہتے ہیں، کچھ چیزیں اترتی بھی ہیں، وہ ’منطق الطیر جدید‘ ہی ہے۔‘‘

ہم نے کہا،’آگ کا دریا‘، ’اداس نسلیں‘،’کئی چاند تھے سر آسماں‘، ان کے مصنفین نے خود ہی اپنے ناولز کا ترجمہ کیا، کبھی ایسا خیال آپ کے ذہن میں آیا؟ تو کہا،’’مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں ’راکھ‘ کا ترجمہ کروں، تو دو سال لگ جائیں گے، تو دو سال میں ترجمہ کیوں کروں؟ نیا ناول کیوں نہ لکھوں؟ اگر ’راکھ‘ اور ’بہاؤ‘ میں قوت ہے، تو لوگ بعد میں خود ہی اُن کا ترجمہ کر لیں گے۔ میرے پاس جو محدود ٹائم ہے، میں چاہوں گا کہ جو بھی مجھ پر اتر رہا ہے، اُسے قلم بند کروں، دوسری بات یہ ہے کہ جب آدمی خود ترجمہ کرتے ہیں، تب یا تو اُسے ایڈٹ کرتا جاتا ہے، یا پھر اُسے تبدیل کرتا جاتا ہے، جس سے اُس کی ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ترجمہ کیا، قرۃ العین نے کیا۔ آج آپ اُنھیں پڑھ ہی نہیں سکتے، ان میں Readability ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس میرے ناول ’اے غزال شب‘ کا ’لینن فار سیل‘ کے نام سے ترجمہ ہوا، اس کی سیل بھی ہوئی، اور اس میں Readability بھی ہے، کیوں کہ کسی اور شخص نے کیا ہے۔ ’بہاؤ‘ کا بھی ہوچکا ہے، پروفیسر سفیر اعوان نے کیا ہے، ’راکھ‘ کا بھی ہوچکا ہے، یہ ابھی شایع ہوں گے۔ البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر انگریزی میں ترجمہ ہو، تو وہ بین الاقوامی قاری تک بھی پہنچے۔ ورنہ یہ لاحاصل مشق ہے۔ گھر کی بات گھر ہی میں رہ جاتی ہے۔ اس میں حکومت کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

ہم نے ذہن میں کلبلاتا ایک سوال داغا؛ کیا اردو زبان میں بڑا ناول لکھنے کی سکت نہیں؟ کہنے لگے، ’’اردو ایک نومولود زبان ہے، اس کی اپنی محدودات ہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اِس کی عمر کیا ہے۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی عمر طویل ہے۔ ’مراۃالعروس‘ اور ’امراؤ جان ادا‘، جو اردو کے ابتدائی ناولز ہیں، وہ ناول کی تعریف پر پورے اترتے ہی نہیں، اس زمانے میں دنیا میں کیا کچھ لکھا جارہا تھا۔ تو اردو کی اتنی عمر نہیں ہے۔‘‘

لاہور کا عشق ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اس تعلق پر کہتے ہیں،’’کیوں کہ میں پلا بڑھا لاہور میں ہوں، گو میرے خاندان کا پس منظر دیہات کا ہے۔ کچھ روز قبل میں لاہور کے سب سے قدیم گورا قبرستان میں گیا۔ اس میں امریکا سے آئے ریوینٹ فورمین کی قبر تھی، جسے دیکھ کر میں سناٹے میں آگیا، کیوں کہ نام کے نیچے لکھا تھا:’فاؤنڈر آف رنگ محل مشن ہائی اسکول اینڈ فارمن کرسچن کالج لاہور‘۔ اب میں رنگ محل اسکول کا پڑھا ہوا ہوں، میرے بچے فارمن کرسچن کالج کے پڑھے ہوئے ہیں۔ اب یہ ربط کسی اور شہر کے ساتھ نہیں بن سکتا۔ مختصراً یہ کہ میرے پاس دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں مستقل قیام کے بہت اچھے مواقع تھے، مگر میں نے لاہور کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔‘‘

ہم نے کہا، کبھی بڑے بڑے ادیب کالم لکھا کرتے تھے، مگر اب یوں لگتا ہے کہ سیاسی کالم جلد ادبی کالموں پر غالب آجائیں گے۔ تارڑ صاحب کہنے لگے،’’سیاسی کالم اب ادبی کالموں پر غالب آگئے ہیں۔ سیاسی کالموں کی یوں اہمیت ہے کہ ان کے ذریعے آپ کسی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں، کسی کے دوست ثابت ہوسکتے ہیں۔ کوئی آپ کو نواز سکتا ہے، گاڑی دے سکتا ہے۔ ادبی کالم لکھنے کا اس تناظر میں تو کوئی فائدہ نہیں۔ مگر میری مجبوری تھی کہ میں ادبی کالم ہی لکھ سکتا تھا۔ (ہنستے ہوئے) ورنہ مجھے بھی کوئی بنگلا یا گاڑی دے دیتا۔ خیر، یہ صنف اب زوال ہی کی جانب جارہی ہے۔‘‘

روانگی کے سمے ہم نے سوال کیا، آپ نے ہمیشہ خود کو چیلینج کیا ہے، اب اگلا چیلینج کیا ہے؟ کہنے لگے،’’کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے، کچھ نہ لکھوں، اب سکت کم ہوتی جارہی ہے۔ لکھنے کے لیے طاقت، سکت چاہیے۔ کالم میرا ذریعہ معاش ہے، وہ لکھتا رہوں گا، اُسے ادب شمار نہیں کرتا۔ میرے خیال میں کافی لکھ لیا ہے۔ کوئی نئی چیز نہ آجائے، تو شاید کچھ نہ لکھوں۔‘‘

٭ روحی بانو کا خلا کیوں پُر نہیں ہوگا؟

روحی بانو اور تارڑ صاحب ٹی وی ڈراموں میں ساتھ جلوہ گر ہوئے، دوران گفتگو اس بے بدل اداکارہ اور اس کے المیوں پر بھی بات ہوئی۔ کہنے لگے، ’’کئی المیے ایسے ہوتے ہیں، جو معاشرہ آپ پر نافذ کردیتا ہے۔ وہ دوسروں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ روحی کے مسائل پر میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ایک طرف گورنمنٹ کالج کے فلسفی طالب علم تھے، دوسری طرف ان کا گھر تھا۔ وہ اکثر اپنے پاگل پن میں مجھ سے کہا کرتی کہ ’تم میرے ہیرو ہے، مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔‘ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں کا خلا پُر نہیں ہوگا، میں اس پر کوئی خاص یقین نہیں رکھتا۔ البتہ جتنے بھی لوگ گئے، ان میں میرے نزدیک روحی وہ واحد شخصیت ہے، جس کا خلا پر نہیں ہوگا ۔ اس جیسی اور بھی اچھی، خوب صورت، باصلاحیت اداکارئیں آئیں گی، لیکن اس کے حسن میں جو حزن ہے، اور اس کی اداکاری میں جو سوگواری ہے، اور پھر اُس کی جو بے ساختگی اور پاگل پن ہے، وہ ہمیں پھر نہیں ملے گا، یہ کاک ٹیل وہی بنا سکتی ہے۔‘‘

٭میں، انتظار حسین اور پرندے

انتظار حسین اور مستنصر حسین تارڑ، شاید یہ دو ہی ادیب ہیں، جنھوں نے زندگی کے بڑے حصے فقط لکھا، کوئی ملازمت نہیں کی۔ انتظار صاحب کا فکشن بھی موضوع بحث بنا۔ کہتے ہیں،’’انتظار صاحب اور ہمارے محور مختلف تھے۔ ہماری ثقافت، زبان، زندگی کے بارے میں رویے مختلف تھے۔ وہ ادب برائے ادب کے قائل تھے، ہم تھوڑے بہت ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ اُن کا ماخذ اساطیر تھی۔ البتہ انھوں نے جو کچھ لکھا، اس کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کا اپنا دبستان ہے، اپنا اسکول ہے۔ میر ا اور اُن کا جو تھوڑا بہت واسطہ تھا، وہ پرندوں کے حوالے سے تھا۔ وہ بھی پرندوں میں دل چسپی رکھتے تھے، اور باقاعدہ مجھ سے پوچھا کرتے تھے۔ تو قدرت کے ساتھ، پرندوں اور مناظر کے ساتھ جو لگاؤ تھا، وہ ہم دونوں میں یکساں تھا۔‘‘

٭لاہور لحاظ نہیں کرتا

تارڑ صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ انتظار حسین کو انتظار حسین بنانے میں لاہور نے کلیدی کردار ادا کیا، تو ہم نے پوچھا، کیا لاہور کی برکات سے آپ بھی مستفید ہوئے؟ کہا،’’بالکل، میں اُس کے بیچ میں موجود تھا۔ ہماری بیجوں کی ایک دکان تھی۔ ادھر جسٹس کیانی، ملکہ پکھراج آتی تھیں۔ مرزا ادیب ادھر آیا کرتے تھے، اشفاق احمد کا گزر ہوتا تھا۔ ٹی ہاؤس میں لیجنڈز بیٹھا کرتے تھے۔ کشورناہید، جمیلہ ہاشمی، ساحرہ کے گھر میں، میرے گھر میں، آپا حجاب کے گھر میں محفلیں ہوتی تھیں۔ اُن کا اثر ہوا ہے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور آدمی کی مالی حیثیت سے متاثر نہیں ہوتا۔ ایک واقعہ بھی سنایا۔ ’’ایک بار زبیر رضوی، جو بہت اچھے شاعر اور ’ذہن جدید‘ کے مدیر تھے، لاہور آئے، تو ہم نے حلقہ ارباب ذوق میں بلایا۔ حبیب جالب کی صدارت تھی، زبیر رضوی نے اپنی ایک نظم سنائی، جس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ بلکہ ایک مصرعے پر روحی بانو بے تحاشہ ہنسنے لگیں۔ بڑی مشکل سے اُنھیں چپ کروایا۔ تب حبیب جالب نے کہا:’میاں صاحب زادے، کوئی کام کی چیز ہے، تو سناؤ، یہ لاہور ہے۔‘ تب انھوں نے ایک غزل سنائی، جس پر انھیں داد ملی، بعد میں انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں دہلی میں یہ نظم سناتا ہوں، تو پچاس ہزار کا مجمع کھڑا ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا، یہی فرق ہے لاہور اور دہلی میں، لاہور لحاظ نہیں کرتا۔‘‘

٭ کراچی شہر نہیں ہے، جزیرہ ہے!

کراچی بھی آنا جانا رہتا ہے۔ پوچھا، اِس شہر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کہنے لگے،’’کراچی شہر نہیں ہے، یہ ایک تجارتی حب ہے۔ لاہور اور کراچی کے مزاج میں بہت فرق ہے۔ اِس کا اپنا مزاج ہے۔ میں نے لٹریچر فیسٹول میں کہا تھا کہ کراچی ایک جزیرہ ہے، یہ شاید دیگر شہروں سے کٹا ہوا ہے۔‘‘

٭مدینہ منورہ اور ایک غیرمطبوعہ ناول

ہم نے پوچھا، آپ نے دنیا کے کئی شہر دیکھے، کون سا شہر بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے؟ کچھ ساعت توقف کیا، پھر کہنے لگے،’’مدینہ منورہ۔ میرا اس شہر سے ایک روحانی تعلق ہے۔ میں نے ایک ناول لکھ رکھا ہے، کسویٰ کا سوار۔ ساڑھے تین سو صفحات کا ہے، رسول کریمﷺ کی زندگی پر، مگر اُسے میں ابھی شایع نہیں کروارہا۔ خیر، تو ایک ذاتی قسم کا تعلق ہے۔ البتہ میں روایتی معنوں میں مذہبی نہیں۔ اس شہر میں بار بار جانے کی خواہش رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہے۔ میری یہ بھی آرزو ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک فلیٹ لے کر دو تین ماہ نارمل زندگی بسر کروں، لوگوں سے ملوں، چلوں پھروں۔‘‘

The post کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں لیا، ’’بہاؤ‘‘ جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر33

بزرگ بابا بھی کیا باکمال انسان تھے، حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ میں نے کسی کو بھی بابا سے ملتے جُلتے نہیں دیکھا تھا۔ ویسے تو جب وہ صبح ناشتے کا انتظام کرتے تھے، اس دوران وہ ان مزدوروں سے بس سرسری سی گفت گو کرتے تھے، کوئی پیسے دیتا تو لے لیتے اور نہ دیتا تو مانگتے نہیں تھے، میں نے کچھ مزدوروں کو ان سے پیسے ادھار لیتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور واپس لوٹاتے ہوئے بھی، لیکن بابا کسی سے کوئی تفصیل نہیں پوچھتے تھے، اس لحاظ سے وہ اپنی انوکھی دنیا کے واحد مکین تھے، سب میں رہتے ہوئے بھی سب سے الگ تھلگ، کنول کے پُھول۔ مسجد میں بھی بس گنے چنے نمازی آتے ان سے بھی وہ بس واجبی سی سلام دعا تک محدود تھے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا کہ ان کے کسی سے خصوصی تعلقات ہوں۔ ایک میں ہی ان کے ساتھ رہتا تھا بس۔ وہ شب بیدار تھے، نصف شب کے بعد ان کی آہ و زاری سے کٹیا گونجنے لگتی، پھر وہ ناشتے کا انتظام کرتے اور ہم دونوں اپنے کام پر نکل جاتے، بہ مشکل دو گھنٹوں میں ہم واپس اپنی کٹیا پہنچ جاتے تھے، بابا واپس آکر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر قبرستان میں گھومتے ہوئے مجھ سے باتیں کرتے، وہ زاہد خشک نہیں تھے، کبھی کبھی وہ کوئی گیت بھی گنگناتے تھے، بلاشبہ ان کی آواز میں سوز و درد بسیرا کیے ہوئے تھے، مجھ سے بھی کبھی فرمائش کرتے تھے اور میری ستائش بھی کرتے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی کہ وہ بحرالعلوم ہیں اور جانتے ہیں، ماضی کو بھی اور مستقبل میں بھی جھانک سکتے تھے، پھر بھی ان کے پاس کوئی ملنے نہیں آتا۔ یہ بہت زیادہ حیران کردینے والی بات تھی کہ ایک شخص جو دوسروں کو اگر میں یہ کہوں کہ ان سے زیادہ جانتا ہے لیکن کوئی اور اسے جانتا تک نہیں، بہت زیادہ حیران کن تھا یہ، لیکن تھا تو کیا کِیا جائے۔ دیکھیے کیا یاد آیا اس وقت، شعر تو یہ بابا واصف علی واصف کا ہے کہ وہ تھے ہی ایسے اور جانتے تھے اور جاننے کا دعویٰ کرسکتے تھے اور بالکل بجا دعویٰ، لیکن فقیر نے بزرگ بابا کو بھی ایسا ہی پایا۔

ورق ورق میری نظروں میں کائنات کا ہے

کہ دستِ غیب سے لکھی ہوئی کتاب ہوں میں

واہ جی واہ کیا کہنے، بار بار پڑھیے اور سوچیے پھر یہ شعر آپ پر کھلے گا۔ جاننے کا دعویٰ تو بزرگ بابا نے کبھی نہیں کیا تھا، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے، جانتے تو وہ تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا: بیٹا جی! تم تو بہت فلمیں دیکھتے تھے، کیا کبھی کوئی حقیقی فلم بھی دیکھی تم نے۔ بابا فلمیں تو میں دیکھتا رہا ہوں، اب بھی موقع ملے تو دیکھوں گا، آپ کبھی دکھانے لے چلیں ناں مجھے کوئی فلم، بہت عرصے سے تو میں نے کوئی فلم نہیں دیکھی لیکن یہ حقیقی فلم کا کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھا نہیں، میں نے کہا۔ تم بھی پرلے درجے کے گاؤدی ہو، ابے بدھو! تم اتنا بھی نہیں جانتے کہ فلم میں اس کا ہر کردار مصنوعی ہوتا ہے، سب بس ناٹک کھیلتے ہیں، نری اداکاری، حقیقی دنیا سے اس کا بس اتنا سا تعلق ہوتا ہے کہ کہانیاں یہیں جنم لیتی ہیں اور پھر اداکار اپنی فن کاری کا جوہر دکھا کر اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، کردار میں جو جتنا اچھا رنگ بھرے وہ اتنا بڑا اداکار، ہوتے تو نہیں ہیں ناں وہ اصل، وہ جو ہیرو ہے وہ بھی اور جو ہیروئن ہے وہ بھی اور جو ولن ہے وہ بھی، بس اداکاری کرتے ہیں وہ، فلم کی شوٹنگ کے دوران روتے ہیں، ہنستے ہیں، مار ڈھار کرتے ہیں، عشق بگھارتے ہیں، اور شوٹنگ ختم ہوجائے تو جاؤ بھائی تم کون، ہم کون، سب جعلی، سب مصنوعی۔ بابا نے یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ یہ تو آپ صحیح فرما رہے ہیںمیں نے کہا۔ میں کیا فرماؤں گا، بس کہہ رہا ہوں، اچھا تو تم کیا کہہ رہے تھے کہ تم نے بہت عرصہ ہوا کوئی فلم نہیں دیکھی، اور میں تمہیں کوئی فلم دکھانے لے چلوں۔ جی بابا بہت مزا آئے گا دونوں ساتھ چلیں گے، بہت عرصہ ہوا کوئی فلم ہی نہیں دیکھی، میں نے اصرار کیا۔ اب اتنا اتاولا بننے کی کیا پڑی ہے، چلیں گے کل ناں، بابا نے میرے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

دوسرے دن میں اور بابا جی اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنی کٹیا پہنچے، ہم نے اپنا سامان رکھا اور بابا جی سونے کے بہ جائے کہنے لگے: چلو بیٹا کل تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں فلم دکھانے لے چلوں گا، تو چلو فلم دیکھنے چلتے ہیں۔ لیکن بابا جی اس وقت کون سی فلم چلتی ہے، پہلا شو ہی تین بجے شروع ہوتا ہے، اتنی جلدی جاکر کیا کریں گے۔ میں جو فلم دکھانے جارہا ہوں وہ ہر وقت چلتی ہے، چل اب۔ بابا جی یہ کہہ کر باہر نکل گئے۔ میں سوچنے لگا آخر ایسا کون سا سینما گھر ہے جہاں ہر وقت ہی فلم چلتی ہے۔ ہم دونوں باہر نکلے اور پیدل چلنے لگے۔ ہاں تو بیٹا! کہاں دیکھنی ہے تم نے فلم؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ بابا جی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ دیکھو کسی باغ میں دیکھنی ہے، کسی بس اسٹاپ پر، کسی چوراہے پر، یا ریلوے اسٹیشن چلیں، اب جو تم کہو گے ہم وہ کریں گے۔ بابا نے تو مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کیا کرنے والے ہیں، کون سی فلم ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت ہی چل رہی ہے اور مجھے نظر بھی نہیں آرہی تو میں نے کہا جہاں آپ مناسب سمجھیں بس وہیں۔

بابا مسکرائے اور کہا تو چلو اُس چوراہے سے شروع کرتے ہیں ناں پھر۔ چند قدم پر ایک چوراہے کے فٹ پاتھ پر ہم بیٹھ گئے، لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی، انبوۂ آدم، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، ایک ہجوم خلق خدا۔ ایک نوجوان سر جھکائے پریشان حال جارہا تھا اور ایک بوڑھی خاتون اس کے ہم راہ تھی۔ اسے دیکھ رہے ہو تم بیٹا! بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی میں دیکھ رہا ہوں کسی مشکل میں گرفتار لگتا ہے مجھے یہ نوجوان۔ لگتا نہیں ہے، گرفتار ہے، تم اتنے کور چشم ہو کہ اس کی پوری کہانی اس کے چہرے پر کندہ ہے اور تم کہہ رہے ہو، لگتا ہے، بابا نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا، دیکھو اس نوجوان کی ماں ہے اس کے ساتھ، بیمار ہے، رشتے داروں نے تو چھوڑا ہی چھوڑا باپ نے بھی دھتکار دیا انہیں، اب پھر کسی امید پر وہیں جا رہے ہیں جہاں سے دھتکارا گیا تھا، بے بسی ہے ناں، انسان اتنا ہی بے بس ہے اور خود غرض تو ہے ہی۔ ایک بہت وجیہہ نوجوان کو دیکھ کر بابا بولے، یہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟

بابا یہ تو کوئی خوش حال لگتا ہے مجھے، اسی لیے تو مطمئن کہیں جارہا ہے، میں نے اپنا اندازہ بتایا۔ بیٹا جی یہی ہے دنیا، کوئی مطمئن نہیں ہے یہ بھی مفلوک الحال ہے، بے روزگار اور افلاس کا مارا، کہیں کام کی تلاش میں ہے لیکن خود کو چھپا رہا ہے اور ظاہر ایسا کر رہا ہے جیسے مطمئن ہو اور آسودہ بھی۔ وہ سامنے دیکھو اس لڑکی کو جو بس کے انتظار میں کھڑی ہے اور اسے کچھ لوگ گُھور رہے ہیں، ایسے جیسے اسے نوچ رہے ہوں، کیسا ہے انسان بھی تُف۔ میں نے اس طرف دیکھا تو بابا بولے، اور یہ لڑکی تمہیں کیسی لگتی ہے۔ پتا نہیں بابا کہیں جارہی ہوگی کام کرنے، میں نے بے دلی سے کہا۔ ہاں ظاہر ہے کہیں تو جا ہی رہی ہے، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے کام سے اس وقت واپس آرہی ہو۔ لیکن اس وقت کیسے واپس آسکتی ہے یہ کام سے، ابھی تو کاروبار شروع ہوا ہے، میں نے اپنی دانش بگھاری۔ کیوں نہیں آسکتی یہ اس وقت اگر کہیں رات گزار کے آرہی ہو، مجبور ہو اور اپنا جسم بیچ کر آرہی ہو تو؟ بابا کی اس بات سے میں چونکا اور اچانک میرے منہ سے نکلا کیا یہ طوائف ہے بابا۔

بابا نے انتہائی غضب سے مجھے گھورا، ہاں یہ طوائف ہے اور ہم سب اس کے دلّال، مجبور ہو کوئی تو وہ طوائف ہوجاتی ہے ناں، اور ہم سب اسے پتھر مارنے لگتے ہیں، حرام خور کہیں کے، مَردُود۔ بابا بہت غصے میں تھے، اور دیکھنی ہے فلم تم نے، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی بابا لیکن کہیں اور چلتے ہیں۔ دراصل میں اکتا چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے اس بات کی تصدیق ہو کہ بابا یہ سب کچھ درست بتا رہے ہیں، اسی شش و پنج میں میں نے انہیں کہیں اور چلنے کو کہا تھا، تھوڑی دیر بعد ہم دونوں راول پنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے، کوئی ٹرین آچکی تھی اور مسافروں سے اسٹیشن کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ یہاں بھی بابا مجھے مختلف مسافروں کی کہانیاں سنا رہے تھے، عجیب کہانیاں، لیکن میرے اندر بس ایک ہی جوار بھاٹا چل رہا تھا کہ آخر اس کہانیوں کی سچائی کی تصدیق کیسے کی جائے، میں تو کسی کو جانتا نہیں ہوں اور نا ہی اس کا امکان تھا کہ میں کسی اور وقت آکر ان کہانیوں کی سچائی معلوم کرسکوں اس لیے یہاں تو سب مسافر تھے ابھی ہیں اور کچھ دیر بعد وہ اوجھل ہوجائیں گے تو میں انہیں کیسے اور کہاں ڈھونڈتا اور تصدیق کرتا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں آخر کیا کروں؟ میں اپنا تجربہ بالکل فراموش کرچکا تھا کہ جب میں بابا سے ملا تھا، تب بھی تو انہوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا، ہاں میں یہ بھول چکا تھا، انسان کی مت جب ماری جاتی ہے تو وہ ایسا ہی ہوجاتا ہے، سب کچھ فراموش کر دیتا ہے، اس کی عقل پر پتھر پڑجاتے ہیں، وہ کچھ سوچنے سمجھنے سے یک سر عاری ہوجاتا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ میں تو ہوں ہی کوتاہ اندیش، بے وقوف، جاہلِ مطلق اور گنوار جو ہمیشہ کرنے کے بعد سوچتا ہے، اچانک میرے اندر عجیب سا احساس پیدا ہوا کہ مجھے فوری طور پر بابا کے انکشافات کی تحقیق کرنا چاہیے اور میں نے ایسا کیا بھی۔

ہوا یوں کہ ایک شخص دو بچوں اور ایک خاتون کے ساتھ سر جھکائے افسردہ شکل بنائے اسٹیشن سے باہر نکل رہا تھا۔ بابا نے مجھے اس کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا: دیکھ رہے ہو اسے، ابھی کچھ دن پہلے اس کی ماں اتنی شدید بیمار تھی، اسے کئی مرتبہ اطلاع بھی دی گئی، لیکن نہیں ہوا ٹس سے مس، بے حس انسان، اور پھر آخر کیا ہوا بدنصیب کو اپنی ماں کا آخری وقت بھی نصیب نہیں ہوا، اس سے بڑی بدنصیبی بھلا اور کیا ہوگی، افسوس، اور یہ پہنچا بھی اس وقت جب ماں کو خاک آسودہ کردیا گیا تھا۔ میں بہ غور بابا کی باتیں سن رہا تھا، پھر بابا بولے: اب باپ بیمار ہوا تو فوراً ہی پہنچ گیا، جانتے ہو کیوں؟ نہیں بابا میں نہیں جانتا، میں نے جواب دیا۔ پھر بابا نے بتایا: اس لیے کہ باپ کے ترکے سے کہیں محروم نہ رہ جائے، اس لیے فوراً پہنچ گیا لالچی۔ مجھے افسوس تو ہوا کہ کس قدر بدنصیب ہے اور غصہ بھی آیا کہ عجیب آدمی ہے یہ اور پھر مجھ سے وہ حرکت سرزد ہو ہی گئی، میں غلط کہہ رہا ہوں کہ سرزد ہوگئی، میں نے قصداً ایسا کیا تھا، اس سے پہلے مجھے بابا روکتے میں بھاگتا ہوا اس شخص کے سامنے جا پہنچا اور اسے بے نقط سناتے ہوئے اس کے کرتوت اس کے سامنے کھول بیٹھا، اسے شرمندہ تو ہونا ہی تھا، لیکن وہ مجھے بت بنا دیکھ رہا تھا، اچانک اس کے منہ سے نکلا، لیکن یہ سب کچھ آپ کیسے جانتے ہیں، اور اسی کے ساتھ مجھے اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا، میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو بابا وہاں موجود نہیں تھے۔

وہ شخص میرے ہاتھ پکڑے گڑ گڑا رہا تھا، اس کی بیوی مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی، آس پاس کے کچھ لوگ ہمیں گھور رہے تھے، میں نے اس سے اپنے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت سخت تھی، بس وہ بار بار التجا کر رہا تھا کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں، میں اسے غصے میں جھاڑتے ہوئے بولا، چھوڑو میرے ہاتھ، میں کچھ نہیں جانتا، جاؤ اپنا کام کرو، رب سے التجا کرو کہ تمہیں معاف کردے بدنصیب آدمی، لیکن وہ بہ دستور میرے ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔

آخر میں نے اسے دھمکایا اگر تم نے میرے ہاتھ نہیں چھوڑے تو بہت پچھتاؤ گے، پھر وہ کہنے لگا، مجھے محروم مت کیجیے، میں وعدہ کرتا ہوں جیسے آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔ پھر مجھ سے ایک اور بھیانک غلطی ہوئی، میں نے کہا ٹھیک ہے، میں فلاں قبرستان میں رہتا ہوں وہاں آجانا، اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے میرے ہاتھ چھوڑ دیے اور میں تیزی سے اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ میں پاگلوں کی طرح بابا کو ڈھونڈنے لگا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئے، اب میں قبرستان کی سمت دوڑ رہا تھا اور اس امید پر کہ بابا مجھے وہاں مل جائیں گے اور میں ان سے اپنی سنگین غلطی کی معافی طلب کروں گا، مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔

مجھے آس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا، بس میں سرپٹ بھاگتا چلا جارہا تھا اور پھر میں قبرستان میں اپنے ٹھکانے پر تھا، میں نے بابا کو وہاں نہ پاکر انہیں پکارنا شروع کیا، لیکن وہ موجود نہ تھے، میں نے قبرستان چھان مارا تھا لیکن وہ غائب تھے، میں نڈھال ہوکر کٹیا میں آکر لیٹ گیا تھا، خدشات میرے سامنے پھن پھیلائے رقص کناں تھے، پھر میںظہر کا انتظار کرنے لگا اس امید پر بابا نماز کے لیے تو تشریف لائیں گے ہی، ظہر کی اذان کا وقت ہوچکا تھا، میں مسجد پہنچا اور وضو کرکے رب کی کبریائی کا آوازہ بلند کیا، اب میں بابا کی آمد کا منتظر تھا، وہی تین مزدور آچکے تھے لیکن بابا کا کوئی اتا پتا نہیں تھا، پھر ایک بوڑھے مزدور نے بابا کا مجھ سے معلوم کیا، میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے نماز کی امامت کی، اور پھر وہ سب سنت و نوافل کے بعد چلے گئے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، بے بسی میرے سامنے تھی اور اس کے ساتھ محرومی بھی، کیسی غلطی میں کر بیٹھا تھا کہ بابا مجھ سے دُور چلے گئے تھے، لیکن امید کا ایک چراغ میرے اندر روشن تھا کہ وہ مجھے ایسے نہیں چھوڑ کے جاسکتے اور بس کچھ ہی دیر میں واپس آجائیں گے، اب تو عشاء کی نماز بھی ادا کی جاچکی تھی لیکن بابا ۔۔۔۔۔! میں اپنی کٹیا میں آکر لیٹ گیا تھا، آنسو میری آنکھوں سے دریا کی طرح رواں تھے، اور پھر میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا، میری چیخوں سے قبرستان گونج رہا تھا، میں پاگلوں کی طرح قبرستان میں انہیں پکارتا ہوا گھوم رہا تھا، آخر تھک ہار کر میں ایک بوسیدہ سی قبر کے سرہانے بیٹھ گیا پھر مجھے کوئی خبر نہیں ہوئی کہ میں سو چکا تھا، شاید نصف شب بیت گئی تھی کہ مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی تھی، وہی کالی چادر والی عظیم خاتون میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں جو مجھے روز اول اپنے مکان سے نکلتے ہوئے ملی تھیں۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ہم دو دن چھپے رہے‘‘ کشمیری طلبہ کی بپتا

$
0
0

جب بائیس سالہ کشمیری نوجوان، امتیاز احمد میر چندی گڑھ پہنچا تو وہ بھوک و پیاس سے بے حال تھا۔ خوف و دہشت نے اس کا دماغ سُن کررکھا تھا۔ وہ پچھلے دو دن موت و حیات کی کشمکش سے گزرا تھا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ موت کب اس کو آدبوچے گی۔

کشمیری طلبہ کی تنظیم، جموںکشمیر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنوں نے امتیاز احمد سمیت دیگر طلبہ کا استقبال کیا،انھیں تسلی دی کہ اب وہ محفوظ مقام پہ ہیں اور انہیں کھانا کھلایا۔ جب امتیاز کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے جان بچ جانے پر اللہ کا شکریہ ادا کیا۔

امتیاز احمد ریاست  جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کا رہائشی ہے۔ وہ ریاست اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون کے الپائن کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس نے شہر کے سدھا والہ نامی علاقے میں دیگر کشمیری طلبہ کے ساتھ ایک گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ علاقے میں بہت سے کشمیری طلبہ مقیم تھے۔پندرہ فروری کو ان تمام کشمیری طلبہ پر آفت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یہ کہ پچھلے دن ضلع پلوامہ میں بارود سے بھری ایک کار بھارت کی نیم فوجی فورس، سنٹرل ریزرو پولیس کے قافلے سے جا ٹکرائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کار ایک کشمیری نوجوان، عادل ڈار چلا رہا تھا۔ اس خودکش حملے میں سنٹرل ریزرو پولیس کے چالیس سے زائد فوجی مارے گئے۔

اگلے ہی دن سدھاوالہ میں موٹر سائیکلوں پر سوار سیکڑوں نوجوان آپہنچے۔ وہ کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف مغظلات بکنے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے۔ یہ نوجوان بھارت کی قوم پرست اور انتہا پسند ہندو جماعتوں… آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تلواروں، ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔

امن پسند کشمیری انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے خود کو کمروں میں بند کرلیا۔ جب شام کو بلوائی واپس پلٹے تو بعض کشمیری اپنا سامان حتیٰ کہ تعلیمی سرٹیفکیٹ چھوڑ کر کشمیر گھر روانہ ہوگئے۔ دیگر کشمیری طلبہ کا خیال تھا کہ غنڈے اب نہیں آئیں گے لیکن ہفتے کی صبح بلوائی پھر آدھمکے۔ اس بار ان کی تعداد زیادہ تھی اور وہ پہلے سے زیادہ متشدد ہوچکے تھے۔ چناں چہ کشمیری طلبہ پھر اپنے کمروں میں محصور ہوگئے۔

بہت سے طلبہ بشمول امتیاز احمد کے پاس جمعہ 15 فروری کی رات ہی کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ تاہم وہ خوف کے مارے سامان لینے باہر نہ جاسکے۔ ہفتے کا دن تو ان پر قہر بن کر ٹوٹا۔ اب وہ حاجت کی خاطر شاپر استعمال کرنے لگے۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ باہر جائے حاجت کرنے گئے تو بلوائی انہیں پہچان کر حملہ کردیں گے۔

16 فروری کی شام سدھاوالہ میں مقیم سبھی کشمیری طلبہ کو مالک مکانوں نے کہہ دیا کہ وہ گھر خالی کردیں۔ مالکوں کا کہنا تھا کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے انہیں دھمکی ملی ہے کہ کسی کشمیری کو بطور کرایہ دار نہ رکھا جائے ورنہ ان کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔یہی نہیں جب وہ کھانے پینے کا سامان خریدنے مقامی مارکیٹ گئے تو ہر دکان دار نے انھیں سودا فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔لگتا تھا،وہ کشمیریوں کے بائیکاٹ  کا پروگرام بنا چکے۔اس حوصلہ شکن صورت حال کے بعد سولہ فروری کی رات امتیاز احمد اور دیگر کشمیری طلبہ نے اپنا سامان سنبھالا اور چھپتے چھپاتے ڈیرہ دون کے بس اڈے پہنچ گئے۔

ایک اور گمبھیر مسئلہ وہاں منتظر تھا۔ بس والوں نے کشمیری طلبہ کو بسوں میں بٹھانے سے انکار کردیا۔ مجبوراً طلبہ نے ٹیکسی والوں سے رجوع کیا۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے کرائے میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ لالچی اور ہوس کے مارے ٹیکسی ڈرائیور کشمیری طلبہ کی بے بسی اور لاچاری سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ خوف کا شکار طلبہ کو اپنی جانیں بچانامقصود تھا، لہٰذا ناچار گاڑی والوں کو منہ مانگا زیادہ کرایہ دیا اور چندی گڑھ پہنچ گئے۔ وہاں جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس تنظیم نے قیام و طعام کا انتظام کررکھا تھا۔

نفرت کی لہر

بھارتی ریاست جموں و کشمیر کی پڑوسی ریاستوں… اترکھنڈ، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ، راجھستان، اترپردیش اور دہلی کے تعلیمی اداروں میں ہزارہا کشمیری طلبہ تعلیم پارہے ہیں۔ 14 فروری کو پلوامہ حملے کے بعد خوف و دہشت نے انہیں آن دبوچا۔ انتہا پسند اور قوم پرست ہندو انہیں ڈرانے دھمکانے اور نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے لگے۔ یہ عمل مودی حکومت کی نفرت انگیز سیاست کے باعث پورے بھارت میں جنم لے چکا۔

بھارت کی انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف محاذ بناکر اپنے پلیٹ فارم پر کروڑوں ہندوؤں کو جمع کرلیا ہے۔ ان ہندوؤں کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً بھارتی مسلمانوں یا پاکستان کو’’ ہوّا ‘‘بناکر پیش کیا جائے۔ یہی وجہ ہے، جب بھی پلوامہ جیسا واقعہ رونما ہو، تو تمام انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کے لیڈر اشتعال انگیز بیانات دیتے اور بھارتی مسلمانوں و پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ اور ’’مجرم‘‘ قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ نفرت کا یہ ماحول بھارت میں اکثر غیر مسلموں کو اپنی گرفت میں لے چکا۔ بدقسمتی سے باہمی رابطے کی جدید ٹیکنالوجی نفرت پھیلانے میں انتہا پسندوں کی مدد گار بن رہی ہے۔ اس کی ایک مثال  پلوامہ حملے کے بعد سامنے آئی۔

اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون میں تین ہزار سے زائد کشمیری طلبہ مقیم تھے۔ اس لیے وہاں انتہا پسند ان کے خلاف بڑے سرگرم نظر آئے۔ 14 فروری کے بعد ٹویٹر انڈیا میں ’’#Badlakb ‘‘(بدلہ کب ) ’’ #Palwamarevenge ‘‘ (پلوامہ بدلہ) اور ’’IndiaWantsRevenge #‘‘(انڈیا بدلہ چاہتاہے)کے ہیش ٹیگ گردش کرنے لگے۔ اب جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والا انیس سالہ عادل ڈار ریاست کا نیا دشمن بن گیا۔ یوں دشمنوں کی طویل فہرست میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا۔ شروع میں بھارتیوں کے مابین یہ جملہ ’’جیش محمد کا مقامی کشمیری دہشت گرد‘‘ زیر بحث رہا۔ رفتہ رفتہ ’’مقامی کشمیری دہشت گرد‘‘ ’’مقامی کشمیری‘‘ اور پھر ’’کشمیری‘‘ بھارتی عوام کی اشتعال انگیزی اور غصّے کا نشانہ بن گئے۔

اس دوران پورے بھارت میں ہزاروں انتہا پسند بھارتی سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر پر کشمیری عوام کے خلاف نفرت انگیز پوسٹیں لگانے لگے۔ ان کا زہر پڑھنے والوں میں بھی پھیلنے لگا۔ ایک ایسی  ہی پوسٹ فیس بک پوسٹ اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون میں بھی نمودار ہوئی جہاں پچھلے تین برس سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس ریاست کی آبادی ایک کروڑ پینتیس لاکھ ہے۔ ان میں چودہ فیصد (تقریباً انیس لاکھ) مسلمان ہیں۔

یہ فیس بک پوسٹ ککرتی سہراب نامی شخص نے پوسٹ کی۔ اس کی پروفائل کی رو سے وہ فورسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ڈیرہ دون میں ملازم تھا۔ یہ پوسٹ جمعہ 15 فروری کو صبح دس بجے نمودار ہوئی۔ اس میں الپائن کالج کے ایک سابق طالب علم کا تذکرہ تھا جو 13 فروری کو بڈگام میں بھارتی فوجیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوا تھا۔ ککرتی سہراب نے پھر دعویٰ کیا کہ ڈیرہ دون کے کئی کالجوں مثلاً الپائن، گرافک کالج، ڈولفن انسٹیٹیوٹ وغیرہ میں ہزارہا کشمیری طلباء و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ یہ تعلیم کے نام پر ’’دہشت گردی‘‘ پھیلانے میں مصروف ہیں۔

یہ پوسٹ فیس بک پر لگاتے ہوئے ککرتی سہراب نے تجویز دی ’’آؤ بھارتیو! ہم وٹس اپ گروپ بناکر منظم ہوتے ہیں۔اب ہمیں ان کشمیریوں کا ’’کچھ کرنا‘‘ ہوگا۔‘‘ یہ پوسٹ آدھے گھنٹے میں کئی ہزار بھارتی شیئر کرچکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کمنٹس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انجو چوہان نامی بھارتی نے تبصرہ کیا: ’’باہر نکالو ان دیش دھروئیوں کو، مار ڈالو ان کو۔‘‘

سہراب یادو نامی شخص نے کمنٹ کیا ’’یہ سالے دہشت گردوں کے حامی ہیں۔ ان کو گھر اور فلیٹ کرائے پر نہ دو۔ یہ بھی دہشت گرد بن سکتے ہیں۔‘‘ انشول اواستھی نامی ایک یوزر نے دعویٰ کیا ’’میں نے چند ساتھی جمع کیے اور ایک کشمیری طالب علم کو خوب پیٹا، مگر پولیس آگئی اور وہ بچ نکلا۔ اب دوبارہ نظر آیا تو ہم پھر اسے خوب ماریں گے۔‘‘

فیس بک پوسٹ پر کمنٹس جاری تھے کہ پردیپ سرسوتی نامی مقامی یوزر نے اعلان کیا کہ اس نے نوجوانوں پر مشتمل ایک وٹس اپ گروپ بنادیا ہے تاکہ سب جمع ہوکر ’’کام  دکھا‘‘سکیں۔ پردیپ نے نوجوانوں کو بتایا ’’سینا (حکومت) تو قانون میں بندھی ہے مگر ہم نوجوان نہیں۔‘‘

غرض فیس بک اور وٹس اپ کی زہریلی اور اشتعال انگیز پوسٹوں کے باعث جمعہ 15 فروری کی دوپہر تک ڈیرہ دون کے کئی سو نوجوان ان تعلیمی اداروں پر حملے کرنے کے پروگرام بنانے لگے جہاں کشمیری طلباء و طالبات زیر تعلیم تھے۔ جلد ہی آر ایس ایس اور بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے اس نفرت انگیز تحریک کی کمان سنبھال لی تاکہ اسے منظم شکل دی جاسکے۔

وکاس ورما ڈیرہ دون میں بجرنگ دل کا لیڈر ہے۔ اس نے بھارتی ویب سائٹ، دی وائر کے نمائندے کو بتایا:’’ ہاں، کشمیری ہمارے ٹارگٹ بن چکے۔ وہ ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ہم انہیں کھلاتے پلاتے اور اپنے گھروں میں رکھتے ہیں مگر وہ ہمیں بدلے میں کیا دیتے ہیں؟ ہم انہیں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ ڈیرہ دون میں اب کتا تو رہ سکتا ہے، کشمیری نہیں۔‘‘

حملوں کا آغاز

جمعہ 15 فروری کی شام ڈیرہ دون میں انتہا پسند جماعتوں سے منسلک غنڈوں نے ڈولفن گروپ آف انسٹی ٹیوٹ کے گرلز ہوسٹل پر دھاوا بول دیا۔ وہاں بیس کشمیری لڑکیاں  رہ رہی تھیں۔ غنڈے کشمیریوں کے خلاف کان پھاڑ دینے والے نعرے لگانے لگے۔ اس نفرت بھری فضا میں قدرتاً سبھی لڑکیاں انتہائی خوفزدہ ہوگئیں۔ انہوں نے دیوانہ وار کشمیر میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو فون کیے۔ گھبرائے ہوئے والدین نے اترکھنڈ اور ڈیرہ دون میں پولیس افسروں سے رابطے کیے۔ تاہم پولیس دو گھنٹے بعد گرلز ہوسٹل پہنچی۔ شکر ہے کہ غنڈوں کو موقع نہیں ملا کہ وہ کشمیر کی بیٹیوں کو نقصان پہنچاسکیں۔

ڈیرہ دون کے دیو بھومی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انجینئرنگ میں زیر تعلیم ایک طالب علم، فاروق انصاری اب واپس اپنے شہر، سری نگر پہنچ چکا۔ وہ بتاتا ہے ’’میں اپنے چھ کشمیری ہم وطنوں کے ساتھ ہوسٹل میں مقیم تھا۔ 15 فروری کو سہ پہر اچانک ہجوم نے کالج کا گھیراؤ کرلیا۔ وہ نعرے لگارہا تھا کہ کشمیری واپس کشمیر چلے جائیں۔ ہم بہت خوفزدہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے ہمارا پرنسپل دلیر آدمی تھا۔ اس نے انتہا پسندوں کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا اور وہ رات تک منشتر ہوگئے۔ میں نے اپنا سامان اٹھایا اور گھر جانے کی خاطر بس اڈے پہنچا۔ لیکن ہائی وے بند ہونے کی وجہ سے اکا دکا بسیں چل رہی تھیں اور ان کے کرائے بھی چار پانچ گنا بڑھ چکے تھے۔ میں پھر جائے امن کی تلاش میں دہلی چلا گیا جہاں میرے کچھ عزیز رہتے ہیں۔ یوں میں ڈیرہ دون کے جہنم سے نکلنے میں کامیاب رہا۔‘‘

دیگر کالجوں کے پرنسپل مگر اتنے بہادر نہیں نکلے۔ الپائن کالج میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم بتاتا ہے ’’انتہا پسند پورے ڈیرہ دون میں گھوم پھر کر لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اعلان کرنے لگے کہ سارے کشمیری شہر سے باہر نکل جائیں۔ وہ علی الاعلان ہمیں دھمکیاں دے رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھا۔ ہم نے اپنا سامان وہی چھوڑا اور کالج پرنسپل کے پاس مدد حاصل کرنے پہنچے۔ مگر اس نے نہایت سرد مہری دکھائی۔ وہ ہمیں کہنے لگا، تم لوگ وہاں (کشمیر میں) ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہو؟ جب ہمیں محسوس ہوا کہ کالج میں ہم محفوظ نہیں، تو اسے چھوڑ دیا۔ مجھے یقین تھا کہ آج میری زندگی کی آخری رات ہے۔ کوئی نہ کوئی انتہا پسند مجھے گولی مار دے گا۔ ہم پھر ایک باغ میں جاچھپے ۔ جب رات گہری ہوگئی تو باغ سے نکلے اور بس اڈے پہنچے لیکن وہاں کوئی بس والا ہمیں بٹھانے پر تیار نہ ہوا کیوں کہ ہم چہرے مہرے سے صاف کشمیری لگتے تھے۔ آخر ایک بس ڈرائیور کو بھاری رقم دی تو تب اس نے بٹھایا۔ لیکن وہ ہمیں کشمیر نہیں چندی گڑھ لے گیا جہاں ہماری ایک تنظیم نے متاثرہ طلبہ کی امداد کے لیے ایک کیمپ لگادیا تھا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ پلوامہ حملے کے بعدکلکتہ سے لے کر ڈیرہ دون تک بھارت کی سبھی ریاستوں میں قیام پذیر کشمیری مرد،خواتین،نوجوان حتی کہ بچے تک  انتہا پسندوں اور قوم پرستوں کی نفرت انگیز مہم کا نشانہ بن گئے۔ملازمت پیشہ کشمیریوں کو کام کی جگہوں پہ نفرت و ہراسگی کا نشانہ بننا پڑا ۔ ہجوم نے جس کشمیری کو تنہا پایا، اسے پیٹ ڈالا۔ حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والے غنڈوں نے کئی ایسے محلوں کا گھیراو کر لیا جہاں کشمیری مقیم تھے۔ انھیں پھر دھمکیاں دی گئیں کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ہر مالک مکان پہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کسی کشمیری کو گھر کرائے پر نہ دے۔جموں شہر میں بلوائیوں نے مسلمانوں کی گاڑیاں جلا دیں۔غنڈوں نے کالجوں کا گھیراؤ کرلیا اور کالج انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ کشمیری اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کو نکال دیا جائے۔ اکثر مقامات پر پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی اور اس نے شدید خوفزدہ کشمیریوں کو سہارا دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔جموں میں کرفیو کے باوجود بلوائی دندناتے پھرتے رہے۔

اگلے چند دنوں میں پورے بھارت میں کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے سینکڑوں کشمیری طلبہ نکال دیئے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ فیس بک، واٹس اپ میں آزادی کشمیر کے سلسلے میں پوسٹیں لگاتے ہیں۔ یہی نہیں، بعض تعلیمی اداروں نے ان پوسٹس کو ’’غداری‘‘ اور ’’قومی سلامتی کے منافی‘‘ قرار دے کر کشمیری طلباء و طالبات کے خلاف پرچا بھی کٹوا دیا۔ چناں چہ بہت سے کشمیری طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔

بھارتی حکمران بھارت کو فخریہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہاں اعلانیہ کشمیر کے عوام کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ ان کے آزادی اظہار کا حق سلب کیا جارہا ہے۔ تاہم خودکو انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والا مغربی میڈیا خاموش ہے۔ اسے بھارتی حکمرانوں کا نہتے و بے بس کشمیریوں پر ظلم و ستم دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہے۔

دوسری طرف مودی سرکار پلوامہ حملے کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے لگی۔ 15 فروری کو وزیراعظم مودی نے جھانسی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’بھارتی عوام الیکشن میں ہمیں ووٹ دے تاکہ ہم طاقتور حکومت بناکر دشمن کو کرارا جواب دے سکیں۔‘‘اگلے دن مودی نے بہار اور جھاڑ کھنڈ میں جلسوں سے خطاب کیا۔ اس موقع پرموصوف بولے ’’یہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دل میں بھی (بدلے کی) آگ جل رہی ہے۔‘‘لیکن مودی نے کشمیریوں سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہا جن پر ان کی جماعت کے غنڈوں نے چڑھائی کررکھی تھی اورجنہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔

19 فروری کو آر ایس ایس اور بی جے پی رہنماؤں کی حقیقی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔ تاتگھٹے رائے مغربی بنگال میں بی جے پی کا صدر رہا ہے۔ جب مودی نے حکومت سنبھالی، تو انہیں ریاست میگھالایہ کا گورنر بنادیا۔ از روئے قانون گورنر سبھی ریاستی شہریوں کے حقوق کا نگران ہوتا ہے۔ مگر اس اصول کو پیروں تلے روندتے ہوئے تاتگھٹے رائے نے 19 فروری کو ٹویٹ کیا ’’بھارتی قوم کو کشمیر اور کشمیریوں کا بائیکاٹ کردینا چاہیے۔‘‘ یوں ایک گورنر نے بھارتی عوام کو کشمیریوں کے خلاف متحرک ہونے کا عندیہ دے دیا۔

پلوامہ حملے کے بعد یقینا پورے بھارت میں مقیم ہزارہا کشمیریوں کو انتہا پسندوں کے حملوں کا شکار ہونا پڑا۔ وہ دکھ و کرب کے عالم سے گزرے۔ مگر اس واقعے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خصوصاً قوم پرست ہندو جماعتوں کے لیڈروں اور ان کے پیروکاروں کی ذہنیت دنیا والوں پر آشکارا ہوگئی۔ یہ لیڈر کشمیری عوام کو بدستور اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ جو کشمیری احتجاج نہ کرے، وہ اسے تو اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو کشمیری نعرہ آزادی بلند کرے اور اکثریت کے احکامات ماننے سے انکار کردے، وہ بھارتی حکمرانوں کے لیے دشمن اور واجب القتل بن جاتا ہے۔ وہ یہی سوچ اب بھارتی غیر مسلم عوام میں بھی منتقل کرچکے۔ یہی وجہ ہے، پلوامہ حملے کے بعد کشمیری جن غیر مسلموں کو اپنا دوست و ساتھی سمجھتے تھے، وہ بھی انتہا پسندوں اور غنڈوں کے ساتھ مل کر کشمیریوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے اور انہیں دھمکیاں دیتے پائے گئے۔ اسی امر نے کشمیریوں کو زیادہ خوفزدہ کر ڈالا اور انہوں نے وطن واپس جانے میں ہی عافیت جانی۔

سچ یہ ہے کہ کشمیری بھارت میں ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری رہیں گے۔ جب تک وہ برہمن طبقے کی قید سے آزاد نہیں ہوتے، انہیں بھارت میں اکثریتی طبقے کے ظلم و ستم سہنے پڑیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل اس بات کا ادراک کرچکی، اسی لیے اب وہ ہر ممکن طریقے سے بھارتی حکمرانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے…چاہے انہیں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے جان ہی دینا پڑے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو نیا خون ملتا رہا، تو بھارتی حکمران جلد یا بدیر اس ارضی جنت کو آزادی دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

سکھ تنظیم کا جذبہ ہمدردی

بھارت میں کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں فیس بک اور وٹس اپ نے اہم کردار ادا کیا، تو یہ دونوں میڈیا سائٹس ان کی مددگار بھی بن کر سامنے آئیں۔ یوں ثابت ہوگیا کہ سائنس و ٹیکنالوجی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی، اسے برتنے والے انسان اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ہوا یہ کہ جب بھارتی ریاستوں میں انتہا پسند ہندو کشمیری طلبہ اور دیگر لوگوں پر حملے کرنے لگے، تو انہوں نے بذریعہ وٹس اپ اور فیس بک ایک طلبہ تنظیم، جموں و کشمیر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے رابطہ کرلیا۔ یہ تنظیم دو سال قبل دو کشمیری طلباء، خواجہ عطرت اور فہیم الدین ڈار نے دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر قائم کی تھی۔ یہ تنظیم کشمیر اور بھارتی ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ و طالبات کو ہر ممکن مدد فراہم کرتی ہے۔

جب خوف و دہشت کا شکار کئی سو کشمیری لڑکے لڑکیاں مدد کے طلبگار ہوئے، تو طلبہ تنظیم نے فیصلہ کیا کہ انہیں فیس بک اور وٹس اپ کے ذریعے عارضی طور پر موہالی (چندی گڑھ) پہنچنے کا کہا جائے۔سوشل میڈیا کی مدد ہی سے  مقامی کشمیری طلبہ کے ذریعے وہاں تنظیم نے دیگر شہروں سے آنے والے کشمیریوں کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کردیا۔ جن کمروں میں ایک ایک کشمیری طالب علم مقیم تھے، انہوں نے جذبہ ایثار سے کام لیتے ہوئے دو کمرے مہاجرین کے لیے خالی کر ڈالے۔

اس دوران سکھ سماجی تنظیم، خالصہ ایڈ کو خبر ملی کہ کشمیری انتہا پسندوں کے زیر عتاب ہیں۔ وہ بھی پھر جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر مصیبت کا شکار کشمیریوں کی مدد کرنے لگی۔ اس نے اپنے لنگر خانے ان کے لیے کھول دیئے۔ نیز پھنسے کشمیریوں کو کشمیر بجھوانے کے لیے بسوں کا بھی انتظام کیا۔جب خالصہ ایڈ نے کشمیریوں کے ساتھ جذبہ ہمدردی دکھایا تو انتہا پسند ہندو اسے بھی تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانے لگے۔ خالصہ ایڈ نے کشمیری طلبہ میں کھانا تقسیم کرنے کی ایک ویڈیو فیس بک پر جاری کی تھی۔ اس پر کمنٹ کرتے ہوئے پرکاش نامی بھارتی نے لکھا ’’اب جہادی گردواروں میں قیام کریں گے۔‘‘ دوسرے نے لکھا ’’سکھ اپنا راستہ بدل لیں ورنہ انہیں بھی ہمارے غصے کا نشانہ بننا پڑے گا۔‘‘ نفرت انگیز کمنٹس کے بعد ویڈیو ہٹادی گئی۔بہرحال خالصہ ایڈ کا جذبہ ہمدردی قابل تحسین ہے کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کو خاطر میں نہ لاکے مصیبت زدہ کشمیریوں کی مدد کرتی رہی۔

مولانا اظہر کا آڈیو پیغام

ضلع پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی فورس کے قافلے سے گاڑی ٹکرانے والا شہید، عادل احمد ڈار ایک سال پہلے مقبوضہ کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم، جیش محمد میں شامل ہوا تھا۔ یہ تنظیم 2000ء میں جہادی رہنما، مولانا مسعود اظہر نے قائم کی تھی۔ 2002ء میں حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگادی ۔ خیال ہے کہ مولانا مسعود اظہر پھر مقبوضہ کشمیر یا افغانستان چلے گئے  اور کسی نامعلوم مقام پر قیام پذیر ہیں۔پلوامہ حملے کے چند دن بعد جیش محمد نے مولانا مسعود اظہر کا مبینہ ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اس پیغام کے اقتباسات پیش ہیں:۔

’’مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی بیرونی امداد کی محتاج نہیں۔ ہمارا مجاہد کشمیری نوجوان تھا اور یہ حملہ سری نگر کے نزدیک ہوا، پاکستان کی سرحد سے بہت دور۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مودی حکومت کے دباؤ سے ہرگز متاثر نہ ہو۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت حسب معمول پاکستان پر الزام لگانے لگا حالانکہ ظالم بھارتیوں پر یہ حملہ ایک کشمیری نے کیا ہے۔ مگر اس بار بھارت کی چال کامیاب نہیں ہوسکی۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ یورپی یونین اور چین نے بھی مذمت نہیں کی۔ اسی لیے کہ اس حملے میں شہری ہلاک نہیں ہوئے۔

نریندر مودی پر اب دباؤ بڑھے گا۔ لیکن پاکستانی حکومت اس کا دباؤ سہار نہیں پائی اور مودی کی شرائط تسلیم کرلیں، تو وہ پھر طاقتور ہوسکتا ہے۔ مودی فخریہ اعلان کرتا تھا کہ کشمیر سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ ہوچکا۔ لیکن ہمارے حملے نے اس کی لاف زنی کا پول کھول دیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پلوامہ حملے کے باعث مودی کو لوک سبھا الیکشن میں فائدہ ہوگا۔ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ خیال ظاہر کرنے والے لوگ بھارتی سیاست اور ہندو ذہنیت کو نہیں سمجھتے۔ اس واقعے کے بعد مودی کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے۔ مودی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ کشمیر میں تحریک آزادی ختم ہوچکی۔ اگر وہ ختم ہوچکی تو یہ حملہ کیسے انجام پایا؟ میں آخر میں تمام کشمیریوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی ۔‘‘

بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی

پلوامہ حملے کے بعد مودی سرکار نے فوراً ہی اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے ڈالا۔ بھارتی حکومت کا زر خرید ٹی وی میڈیا پاکستان کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز پروگرام کرنے لگا اور اس نے بھارت میں جنگی ماحول پیدا کردیا۔ تاہم ایسے جذباتی ماحول میں بھی کہیں کہیں سے سمجھ بوجھ کی آوازیں سنائی دیں۔ ان میں ادیب و صحافی اور این ڈی ٹی وی انڈیا پر نیوز پروگرام کرنے والا رویش کمار بھی شامل تھا۔رویش کمار نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’وہ تمام ٹی وی چینلز جو معاشرے میں خوف و دہشت پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے قومی سلامتی کے نام پر جنگجویانہ ماحول پیدا کردیا ہے، ان کو یہ غور و فکر بھی کرنا چاہیے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ صحافت کا پہلا اصول یہ ہے کہ نیوز اینکرز جذبات میں گرفتار نہ ہوں اور نہ ہی سامعین کو جذباتی کردیں۔ میں (یہاں کا ماحول) بدمزہ نہیں کرنا چاہتا مگر ہمارے سب چینل والوں نے ہندوستان کا مزہ خراب کردیا ۔‘‘

پنجابی نژاد ملائکہ دعا مشہور صحافی ونود دعا کی بیٹی ہے۔ یہ کامیڈی ویڈیو بھی جاری کرتی ہے۔ اس نے پلوامہ حملے کے بعد ایک ویڈیو میں بھارتی عوام سے سوال کیا ’’بھارت میں روزانہ بھوک، پیاس، بیروزگاری اور ڈپریشن سے کئی لوگ مرجاتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کسی کو فکر نہیں، کیا ان کی زندگیاں قیمتی نہیں یا ہم بھارتی بے حس ہوچکے۔‘‘لیکن انتہا پسند بھارتی ملائکہ دعا کے پیچھے پڑگئے کہ اس نے پلوامہ حملے کے ’’شہید‘‘ فوجیوں کا موازنہ عام بھارتیوں سے کیوں کیا ؟ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوت سنگھ سدھو اور کپل شرما نے بھی انتہا پسندوں کی مسلم دشمنی پر سوال کیا، تو انہیں غدا ر قرار دے دیا گیا۔ دوسری طرف بالی وڈ کے مسلمان اداکار بھی ہمیشہ کی طرح انتہا پسندوں کی غلیظ اور شرمناک مہم کا نشانہ بنے اور انہیں ذہنی اذیت پہنچائی گئی۔

اس جنگجویانہ ماحول میں مگر بھارتی فوج کے بعض سابق جرنیلوں اور سپریم کورٹ کے سابق جج، مرکنڈے کاٹجو نے مودی سرکار اور بھارتی عوام کو خبردار کیا کہ پاکستان سے جنگ مہنگی پڑسکتی ہے۔ سابق جرنیلوں نے افشا کیا کہ بھارتی فوج فرسودہ اسلحہ رکھنے اور تیاری نہ ہونے کی بنا پر جنگ نہیں کرسکتی۔ جبکہ کاٹجو نے سرعام کہا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور پاک فوج حملہ آور بھارتی فوج کو سبق سکھادے گی۔سابق جرنیلوں نے یہ امر بھی نمایاں کیا کہ پلوامہ حملہ دراصل بھارتی اینٹلی جنس کی نااہلی وناکامی کے باعث رونما ہوا۔

غیر مسلم بھی نہ بچ سکے

آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں نے پچھلی نصف صدی سے مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رکھی ہے۔ اس مہم کا بنیادی مقصد اقتدار حاصل کرنا اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا ہے۔ ان تمام قوم پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے بیشتر لیڈر برہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا مدعا یہ ہے کہ ماضی کی طرح برہمن پھر ہندوستان کے بلاشرکت غیرے حکمران بن جائیں۔

اس طویل اور مسلسل نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے کہ اب ہندوؤں میں سے جو بھی سوال کرے، اسے فوراً ’’غدار‘‘ اور ’’دیش دھروئی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو ہندو دانش ور ہندو مت پر تنقید کرے، وہ واجب القتل ہوجاتا ہے۔ انتہا پسند پھر مختلف حیلے بہانوں اور متشددانہ کارروائیوں کے ذریعے اس کا جیناحرام کر دیتے ہیں۔ان کی غنڈہ گردی کے باعث اب بھارت میں سوال پوچھنے اور تنقید کرنے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور اکثریتی فرقے کی آمریت جنم لے چکی۔ پلوامہ حملے کے بعد اسی آمریت کا ایک روپ سامنے آیا۔

بہار اور مغربی بنگال وہ بھارتی علاقے ہیں جہاں ماضی میں مہاتما بدھ نے برہمن مت (یا ہندومت) کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان علاقوں میں برہمنوں کے خلاف آج بھی جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، مغربی بنگال، بہار، کیرالہ، آندھیرا پردیش وغیرہ میں غیر مسلم مرد وزن آر ایس ایس اور بی جے پی کی مسلم مخالف مہم کے خلاف فیس بک یا وٹس اپ پر پوسٹیں لگاتے رہتے ہیں۔ وہ اسے انسانیت اور عقل و دانش کے خلاف تحریک سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی روشن خیال اور انسانیت پسند لوگ بھی پلوامہ حملے کے بعد مغربی بنگال، بہار اور دیگر بھارتی ریاستوں میں انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بن گئے۔

ایک ایسا پہلا واقعہ مغربی بنگال کے ضلع کوچ بہار میں پیش آیا۔ وہاں انتہا پسند پہلے انیک داس نامی نوجوان کے گھر پر جمع ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انیک نے فیس بک پر بھارتی فوج کے مخالف پوسٹ لگائی ہے۔ انیک نے انکار کیا مگر انتہا پسند زبردستی اسے سڑک پر لے آئے۔ وہاں پہلے اسے نیم برہنہ کیا گیا۔ پھر اس کے ہاتھ میں بھارت جھنڈا تھما کر مجبور کیا گیا کہ وہ سڑک پر مارچ پاسٹ کرکے بھارتی فوج زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے۔

مغربی بنگال کے شہر، بنگاؤں میں مقیم ایک سکول ٹیچر، چترادیپ شوم کو بھی ’’غدار‘‘ ہونے کے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ اس نے سوشل میڈیا میں بحث کے دوران سوال کیا تھا کہ پلوامہ میں مرنے والے فوجیوں کو ’’شہید‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ بس یہی سوال اس کا جرم بن گیا۔ سیکڑوں انتہا پسندوں نے اس کے گھر کا گھیراؤ کرلیا۔

بیچارا چترادیپ کہتا ہے کہ میں نے محض ایک سوال کیا تھا۔ مگر انتہا پسندوں نے زمین پر اس کی ناک رگڑوا دی۔ اس دوران بیچارے سے ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگوائے گئے۔ جب چترادیپ نے سرعام معافی مانگی تب ہی اس کی جان چھوٹی۔ مگر اگلے دن انتہا پسندوں کے نئے ہجوم نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ گھر کی ساری چیزیں توڑ پھوڑ دی گئیں۔ اس واقعے کے بعد چترادیپ اپنے اہل خانہ سمیت زندگیاں بچانے کی خاطر کلکتہ فرار ہوگیا۔

The post ’’ہم دو دن چھپے رہے‘‘ کشمیری طلبہ کی بپتا appeared first on ایکسپریس اردو.

بھیّے بھارتیو! روٹھنا ہے تو یوں روٹھو

$
0
0

بھارت میں انتخابات اور بھارتیوں کو پاکستان پر غصہ ساتھ ساتھ آتے ہیں۔

اس فارمولا فلم کی کہانی یہ ہوتی ہے کہ پہلے بھارت میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، جس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر منہہ سے خوب جھاگ اُڑایا جاتا ہے، جنگ کی دھمکی پاکستان کو دے کر اپنے فوجیوں کو دھمکایا جاتا ہے، جنتا کو پاکستان کے خلاف اُکسایا جاتا ہے، پھر الیکشن میں عوامی جذبات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ فلم کے اختتام پر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ اس بار یہ فلم پلوامہ کے خونیں منظر سے شروع ہوئی ہے۔

پلوامہ میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے چالیس اہل کاروں کی خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد بھارت کی مودی سرکار اور موذی میڈیا پاکستان کے خلاف طعنے، دھمکانے اور دنیا کو بھڑکانے کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو بھارت کی ’’پسندیدہ ترین قوم‘‘ ہونے کے ’’اعزاز‘‘سے محروم کردیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ وہ اپنی پسندیدہ ترین قوم سے یہ سلوک کرتے ہیں تو ناپسندیدہ اقوام کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے۔ دراصل بھارتی پسندیدہ ترین قوم کو اپنا لیتے ہیں، جیسے حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور سِکم۔ شکر ہے بھارت نے ہمیں پسندیدہ ترین اقوام کی فہرست سے نکال دیا، ورنہ مذکورہ اقوام کی طرح ہمیں اپنانے کی کوشش میں بھارتیوں کا بُھرکس نکل سکتا تھا۔

بھارتی روٹھی بیوی کی طرح پاکستان سے ناراضگی اور برہمی کے سارے تیور دکھا رہے ہیں، اور انھوں نے طے کیا ہے کہ پاکستانیوں کو بھارتی فلمیں اور بھارتی ٹماٹر کی شکل بھی نہیں دکھائیں گے۔ جہاں تک ٹماٹروں کا تعلق ہے تو یقین مانیے یہ مودی جی کے خلاف سازش ہے، جو ٹماٹر پاکستان بھیجے جانے تھے وہ رکھ کر سڑائے اور مودی جی کے جلسوں میں استعمال کیے جائیں گے۔

رہی بات فلموں کی تو ان کا پاکستانی سنیماؤں پر نہ لگنا پاکستانی شوہروں کا خرچہ بچائے گا۔ بھیّے بھارتیو! اگر ہم سے روٹھنے کے انداز اپنانا ہیں تو جیسا ہم کہتے ہیں ویسا کرو۔ پاک بھارت سیما پر موجود اپنے سینَکوں سے کہو کہ پاکستان کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوا کریں، پاکستانی تمھاری فلمیں انٹرنیٹ پر بھی کھوج کر دیکھ سکتے ہیں اس لیے اپنی ہیروئنوں کو پورے کپڑے پہناؤ بلکہ ان کے چہرے بھی ڈھانپ دو تاکہ پاکستانیوں کے ارمانوں پر اوس پڑ جائے اور وہ اپنا منہ دیکھتے رہ جائیں، جن ملکوں سے پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں، جیسے سعودی عرب، ان سے ہر تعلق توڑ لو اور وہاں کماتے بھارتیوں کو واپس بُلا لو۔

سب چھوڑو، وہ کرو کہ تمھیں موئے پاکستان کا کبھی منہہ نہ دیکھنا پڑے، اپنا پڑوس بدل لو اور سموچا بھارت اٹھاؤ اور انٹارکٹیکا میں لے جاکر بسا دو، جہاں پہنچ کر تمھارے دماغ ٹھنڈے رہیں گے، وہاں پڑوس میں کوئی پاکستان ہوگا نہ چین، بلکہ کوئی ہمسایہ ہوگا ہی نہیں۔ وہاں ہر بھارتی بیٹھ کر گایا کرے گا ۔۔۔مرے سامنے والی کھڑکی میں اک برف کا ٹکڑا رہتا ہے۔۔۔ساتھ ہی بھارتی مزاج کے مطابق شکایت کرے گا۔۔۔افسوس یہ ہے کہ وہ مجھ سے کُچھ اُکھڑا اُکھڑا رہتا ہے۔

The post بھیّے بھارتیو! روٹھنا ہے تو یوں روٹھو appeared first on ایکسپریس اردو.

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن ’’پِیے‘‘  مُرجھاگئے

$
0
0

کتنی زیادتی ہے کہ سگریٹ پینے کے نقصانات پر تو سب بات کرتے ہیں مگر سگریٹ نوشی کے فوائد کا تذکرہ کوئی نہیں کرتا، چلیے ہم کیے دیتے ہیں۔

سگریٹ کا پہلا فائدہ تو اسے بنانے والوں کو ہوتا ہے، پھر بیچنے والا اس سے مستفید ہوتا ہے، اگر کوئی سگریٹ سے متنفر ہو اور آپ اس سے تو دھواں اُڑا کر اسے اپنے سے دور بھگایا جاسکتا ہے، سگریٹ کے ٹوٹوں کے ذریعے عاشق حضرات محبوبہ کو اپنے عشق میں سُلگنے کا نظارہ کراتے ہیں، اسی کی مدد سے شاعر اور دانش ور اپنا شاعر اور دانش ور ہونا ثابت کرتے ہیں، مزید ثبوت کے لیے بڑھے بالوں اور بوتل کا سہارا لیا جاتا ہے، آخرالذکر کا سہارا لے کر یہ حضرات لڑکھڑاتے نظر آتے ہیں۔

تمباکو نوشی کے یہ فوائد ہمیں ایک خبر پڑھ کر یاد آئے جس کے مطابق، امریکی ریاست ہوائی کی مقامی حکومت نے تمباکو نوشی سے نجات پانے کے لیے بہ تدریج پابندی لگانے کے لیے سخت قانونی سازی شروع کردی ہے۔ 2024ء میں ہوائی میں قانونی طور پر صرف وہی شخص تمباکو نوشی کرسکے گا جس کی عمر 100 سال ہوچکی ہوگی۔ یہ قانون پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر رکن پارلیمنٹ رچرڈ کریگن کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔

بتائیے بھلا، اب آدمی سگریٹ پینے کی خاطر انسانی صحت کے لیے مضر تمام خرافات سے بچے تاکہ سو سال تک زندہ رہ سکے اور سواں سال لگتے ہی برتھ سرٹیفکٹ دکھا کر سگریٹ کی ڈبیا خریدے، پھر کش لگاتا اور گاتا پھرے ۔۔۔

سگرٹ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

سو سال گزارے، سبھی بے کار گزارے

ایسے بہت سے تمباکو نوشوں کی پہلی سگریٹ ہی ان کی آخری سگریٹ ثابت ہوگی۔ سلگائی سگریٹ کا ٹوٹا اور ان کی میت ساتھ ہی اُٹھیں گی۔ جو لوگ سینچری پوری کیے بغیر ننانوے سال کی عمر میں گزر جائیں گے اُن کی قبر پر لکھا ہوگا۔۔۔حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن ’’پیے‘‘ مُرجھا گئے۔

اس قانون سے یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ خواتین میں سگریٹ نوشی سرے سے ختم ہوجائے گی کیوں کہ کسی خاتون کے ہونٹوں میں دبی سگریٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ سو سال کی ہوچکی ہے، لہٰذا خواتین تمباکونوشی کرکے اپنی عمر کا کُھلا راز افشا نہیں کریں گی۔

ہمیں ایک ڈاکٹر کی طرف سے یہ قانون پیش کیے جانے پر حیرت ہے۔ موصوف نے اپنے ہم پیشہ افراد کے پیٹ پر بڑی زور کی لات ماری ہے، سگریٹ نوشی کے نقصانات سے ڈاکٹر ہی تو مستفید ہوتے ہیں جن سے یہ قانون مریضوں کی بڑی تعداد چھین لے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکی ریاست ہوائی کے ڈاکٹر اس رُکن پارلیمان ڈاکٹر سے شکوہ کریں گے۔۔۔غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم، اے جان وفا یہ ظلم نہ کر۔

The post حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن ’’پِیے‘‘  مُرجھاگئے appeared first on ایکسپریس اردو.

زرداری کی شاعری

$
0
0

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور بہت کچھ کہا۔ ان کی تین باتیں ہمارے دل کو لگیں، ایک یہ کہ ’’ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے‘‘ دوسری ’’حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اب مزید وقت نہیں دیں گے‘‘ تیسری ’’جیل میرا دوسرا گھر ہے۔‘‘

اگرچہ زرداری صاحب شاعر نہیں، مگر ہم انھیں شاعر مانتے ہیں، کیوں کہ ان میں شعراء کی کئی صفات پائی جاتی ہیں۔ جب وہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں تو لگتا ہے غزل ہورہی ہے، مخالفین پر طنز کے تیر چلائیں تو محسوس ہوتا ہے ہجو کہی جارہی ہے، ان کے لبوں سے کسی کی تعریف قصیدے کا روپ دھار لیتی ہے، جب اپنی قیدوبند کی تاریخ بیان کریں تو شان دار رزمیہ وجود میں آتا ہے، اور ان کی دھمکیوں نے دنیائے شعر میں ’’دھمکیہ‘‘ شاعری کی صنف کی طرح ڈالی ہے۔

شاعروں کی طرح ’’قفس‘‘ سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے، وزن کے معاملے تو وہ سو فی صد شاعر ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کدھر، کس پر، کب اور کتنا وزن ڈالنا ہے، ان کے لیے تو نعرہ بھی وزن والا لگایا جاتا ہے، یعنی ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘، اور ان کے شاعر ہونے کا آخری ثبوت یہ کہ شاعر مشاعرے لوٹتا ہے اور وہ۔۔۔۔۔

تو ان کی پریس کانفرنس میں کہے گئے شعر ’’ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے‘‘ میں شاعر کی مُلک سے مُراد درحقیقت ملک نہیں، آپ نے وہ نغمہ تو سُنا ہوگا ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘، اس مثال سے شعر کے معنی آپ پر صاف ہوگئے ہوں گے۔ شاعر سمجھتا ہے کہ ’’میں بھی پاکستان ہوں‘‘ بلکہ ’’میں ہی پاکستان ہوں‘‘ جو مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ اس شعر میں شاعر بغیر کہے یہ کہنا چاہتا ہے کہ ’’ملک‘‘ مشکل حالات سے گزرتے گزرتے حوالات تک پہنچنے والا ہے۔ ’’ملک‘‘ کی مشکلات کا تذکرہ کرکے وہ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ۔۔۔ہم ’’مُلک‘‘ بچانے نکلے ہیں، تم آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ مگر بچنے کی اُمید بھی نہیں بچی ہے، اور تو اور عمر بھر کی ’’بچت‘‘ بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے ’’حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اب مزید وقت نہیں دیں گے۔‘‘ اس شعر میں شاعر دھمکی نہیں دے رہا، وہ صرف یہ بتا رہا ہے کہ ’’اے میرے محبوب! میرے پاس اب دینے کو وقت نہیں ہے، جو ہے وہ بُرا وقت ہے، جو تم لوگے نہیں۔‘‘ شاعر نے یہاں ’’وقت‘‘ کو ’’دوست وہ ہے جو بُرے وقت میں کام آئے‘‘ کے سُنہری قول کے معنی میں استعمال کیا ہے، یوں کوزے میں دریا یا چوزے میں مرُغا بند کردیا ہے۔ شاعر حکومت سے سینیٹ کے انتخابات، وزیراعظم اور صدر کے چناؤ کے وقت اپنے ’’صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ جیسے تعاون کو لفظ ’’وقت‘‘ کے ذریعے لاکر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ’’ٹیم ٹیم کا گیم ہے پیارے۔۔۔اتنا کرنے پر بھی تم نہ ہوسکے ہمارے۔‘‘

شاعر حضرات محبوب کے حُسن، اُس کی نزاکت، اپنی کم زوری، فراق کے غم اور وصال کی خوشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، مگر ہمارا شاعر بعض چیزوں کو بہت گھٹا کر پیش کرتا ہے، غزل کے تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے، ’’جیل میرا دوسرا گھر ہے۔‘‘ یوں شاعر نے صرف ایک گھر کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے، شاعر بھول گیا کہ اس کے ’’مکاناتِ‘‘ آہ وفغاں اور بھی ہیں، مکانات شاعر کے ہیں اور آہ وفغاں عوام کی۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ شاعر نے جیل کو دوسرا گھر کہہ کر شوہروں کی ترجمانی کی ہے یا وہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ جیل گھر جیسا ہوگا اور وہاں گھر لانے کے قابل تمام ’’سازوسامان‘‘ کی فراہمی کی سہولت موجود ہوگی، اور وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچتے ہی کہے گا، ’’جیل‘‘ کو دیکھ کے گھر یاد آیا۔ لیکن اس بار شاید ایسا نہ ہو اور شاعر کو اپنے دوسرے گھر کے بارے میں کہنا پڑے۔۔۔ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

یہ وقت کی کمی ہے کہ شاعر نے شاعری کے قواعد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف تین اشعار کی غزل کہی ہے۔ ممکن ہے شاعر نے غزل کے اور بھی شعر کہہ رکھے ہوں، جو وہ وقتاً فوقتاً سُناتا رہے گا، لیکن شاعر کو جلدازجلد اپنی یہ غزل نذرسماعت کردینی چاہیے، اس سے پہلے کہ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ شروع ہوجائے اور شاعر کا قافیہ مزید تنگ ہوجائے۔

 

The post زرداری کی شاعری appeared first on ایکسپریس اردو.

’’پیرنی‘‘ پر انحصار اچھا نہیں

$
0
0

پولیس نے کراچی کے علاقے ڈالمیا میں چھپے ہوئے خزانے کی تلاش میں گھر میں کھدائی کرنے پر اس مکان کے مالک، ایک جعلی پیرنی اور کُھدائی کرنے والے 8 مزدوروں کو گرفتار کرلیا ہے۔

مکان کے مالک کا کہنا ہے کہ اُس کے برادر نسبتی نے گھر میں زیرزمین خزانہ چھپے ہونے کا خواب دیکھ کر انہیں آگاہ کیا تھا، جس پر اُس نے پیرنی سے رابطہ کیا جس نے گھر میں کھدائی کے مقام کی نشان دہی کرتے ہوئے آدھا خزانہ خود لینے کی شرط عائد کی تھی۔

اصولاً تو یہ خواب خود مالک مکان کو آنا چاہیے تھا، لیکن ان کے برادرنسبتی یعنی سالے صاحب نے دیکھ لیا۔ گویا خواب غلط آنکھ میں ’’لینڈ‘‘ کرگیا۔ کہتے ہیں ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف، لیکن ان صاحب نے سالے پر بھروسا نہیں کیا اور پیرنی صاحبہ کو اس راز میں شامل کرلیا۔ کہانی کے یہاں تک پہنچتی ہے تو یہ سبق ملتا ہے کہ کسی ’’پیرنی‘‘ پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے، ورنہ وہ خواہ مخواہ کھدائی کروادیتی ہے، نتیجے میں چوہا بھی نہیں نکلتا، بلکہ کھودنے والا خود کھودے ہوئے گڑھے میں جاگرتا ہے۔

مالک مکان صاحب کی سادہ دلی دیکھیے کہ انھوں خزانے کے راز میں کتنے لوگوں کو شریک کرلیا۔ برادرنسبتی تو خیر خواب دیکھ کر حصہ دار بن ہی چکا تھا، لیکن پیرنی صاحبہ کے لیے بھی آدھا خزانہ مختص کردیا، پھر آٹھ مزدور کھدائی پر لگادیے، جو یقیناً اپنا اپنا حصہ وصول کرتے۔ یوں ان صاحب کو خزانے سے جو حاصل ہوتا وہ کھدائی کی بھرائی میں لگ جاتا۔ موصوف کے اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خزانہ پانے سے زیادہ لُٹانے ٹھکانے لگانے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ بہ ہر حال اب وہ خود، پیرنی اور مزدور پولیس کے لیے ’’خزانہ‘‘ ہیں، جو کسی خواب اور کھدائی کے بغیر ہاتھ آگیا ہے۔

ویسے ان دنوں بغیر خواب کے بھی غریبوں کے پاس ایسے خزانے دریافت ہورہے ہیں جو ان کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھے۔ کسی دن اچانک کسی مفلس کے بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کا خزانہ نکل آتا ہے، یہاں کھدائی خزانہ نکلنے کے بعد ہوتی ہے جس میں گڑے مُردے اُکھاڑے جاتے ہیں۔ مذکورہ مالک مکان کو چاہیے کہ مایوس نہ ہوں، وہ اور ان کے برادرنسبتی اب خواب دیکھنے کے بہ جائے کُھلی آنکھوں سے اپنے اپنے بینک اکاؤنٹس پر نظر رکھیں، ممکن ہے کوئی خزانہ نکل آئے۔

 

The post ’’پیرنی‘‘ پر انحصار اچھا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.


کوچۂ سخن

$
0
0

غزل

اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟

مری سمجھ سے تو بالاتر ہے یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے

’’جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے‘‘

کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں یہ محاورہ ہے

ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں

مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

وہ اپنے اپنے تمام ساتھی، تمام محبوب لے کے آئیں

تُو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے ہمیں بھی اذن مباہلہ ہے

ارے او جاؤ!! یوں سر نہ کھاؤ!! ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟

نہ وہ ذہین و فطین یارو نہ وہ حسیں ہے نہ شاعرہ ہے

(فریحہ نقوی، لاہور)

غزل

ہمارے دل سے ہائے جا رہی تھی

خوشی کل منہ چھپائے جا رہی تھی

سحر افسردہ نازل ہو رہی تھی

شبِ غم مسکرائے جا رہی تھی

لبادے چاک ہونا چاہتے تھے

ہَوَس بھی دُم ہلائے جا رہی تھی

زمانہ لال پیلا ہو رہا تھا

محبّت رنگ لائے جا رہی تھی

مجھے ہر روز وہ شیریں لبوں سے

نئی تلخی پلائے جا رہی تھی

ہوائے سرد صبحِ زندگی کی

ہمارا دل جلائے جا رہی تھی

جنوں کی شمع روشن تھی گلی میں

فسانے بھی سنائے جا رہی تھی

دلِ برباد سے تاثیرؔ اک دن

بغاوت سر اٹھا ئے جا رہی تھی

(تاثیر خان، سوات)

غزل

اُسی کو دوست رکھا دوسرا بنایا نہیں

کئی بناتے ہیں میں نے خدا بنایا نہیں

یہ بستی رات کا کس طرح سامنا کرے گی

یہاں کسی نے بھی دن میں دِیا بنایا نہیں

پتہ کرو کہ یہ نقّاش کس قبیل کا ہے

پرندہ جب بھی بنایا رِہا بنایا نہیں

یہ لوگ ظلم کما کر شب ایسے سوتے ہیں

خدا نے جیسے کہ روزِ ِجزا بنایا نہیں

لہو بھی جلتا ہے جھڑتی ہے خاک بھی میری

کہ شعر اُترتا ہے لیکن بنا بنایا نہیں

وہ مہرباں ہے مگر بھولتا نہیں مجھ کو

وہ ایک کام  جو اُس نے مرا بنایا نہیں

اُداس دیکھا نہیں جاتا کوئی مجھ سے عقیلؔؔ

کسی کو اس لیے حال آشنا بنایا نہیں

(عقیل شاہ، راولپنڈی)

غزل

بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے

اک بے زمین ہاری ہوں صحرا نکال کے

ڈھونڈا بہت مگر کوئی رستہ نہیں ملا

اس زندگی سے تیرا حوالہ نکال کے

الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط

بیٹھا  ہوا ہوں آپ  کا وعدہ نکال کے

ہم رفتگاں سے ہٹ کے بھی دیکھیں تو شعر میں

موضوع  کم ہی بچتے ہیں نوحہ نکال کے

ملنا  کہاں تھا سہل درِ آگہی مجھے

آیا ہوں میں پہاڑ سے رستہ نکال کے

واعظ نہال آج خوشی سے ہے کس قدر

اک تازہ اختلاف کا نکتہ نکال کے

منعم کو اس نوالے کی لذت کا کیا پتہ

مزدور جو کمائے پسینہ نکال کے

حالات کیا  غریب کے بدلے کہ ہر کوئی

لے آیا ہے قریب کا رشتہ نکال کے

جاذبؔ کہاں خبر تھی کہ ہے باز تاک میں

ہم شاد تھے قفس سے پرندہ نکال کے

(اکرم جاذب، منڈی بہاء الدین)

غزل

کوئی شکوہ، نہ شکایت، نہ گلہ ہے اے وقت

وقت  بے  وقت  اگر درد  دیا  ہے اے وقت

مجھ کو معلوم تھا تم  آنکھ دکھاؤ گے ضرور

میری ڈرپوک شرافت کا  صِلہ ہے اے وقت

جھڑکیاں روز ملا کرتی ہیں لیکن  چپ ہوں

تو بھی عزت کو  گھٹانے پہ تُلا ہے اے وقت

جان  ہر ایک  کو  ہوتی  ہے اگرچہ تو عزیز

مار  دینے کا بھی ٹھیکہ تو  لیا  ہے اے  وقت

زندگی لطف سے  خالی ہے  ابھی  تک جب کہ

کوئی مَر مَر کے جو ہر روز جیا ہے اے وقت

 زمزمے  گیت  میں  شامل  نہیں  گوہرؔ  میرے

غم  سے بیٹھا ہوا جب خوب گلا ہے اے وقت

(گوہر رحمٰن گہر مردانوی، مردان)

غزل

جیسا خدا  کا حکم  ہے ویسا سمجھتا ہوں

پتّھر کے اِک مکان کو کعبہ سمجھتا  ہوں

تم کہہ رہے ہو اِک بڑی نعمت ہے زندگی

میں تو  اِسے  حضور کا صدقہ سمجھتا ہوں

کاغذ کے ایک  ٹکڑے  سے قائل نہ  کر مجھے

میں تو تمھارے فعل کو شجرہ سمجھتا ہوں

تم کہہ  رہے  ہو  عشق پہ  لاؤ   دلیل   بھی

میں تو بس ایک  یاد  کا  نقطہ سمجھتا ہوں

میں  جانتا   ہوں  مرتبہ   کِس  کا  بلند   ہے

اپنے  نبی کا  آخری  خطبہ  سمجھتا  ہوں

کیا تم  بتاؤ  گے مجھے، کیا  میرا  حال  ہے

کیفیؔ ہوں اپنے حال کا قِصّہ سمجھتا ہوں

(محمودکیفی، سیالکوٹ)

غزل

تبھی تو راہ میں پتھر نہیں ہوتے

ہماری بزم میں مخبر نہیں ہوتے

حیاتِ کرب کا اپنا تصرف ہے

بڑھے یہ خرچ تو مضطر نہیں ہوتے

گرا کے ایک پَل میں کہہ گئیں موجیں

سنو کمسن! گھروندے گھر نہیں ہوتے

میں تشنہ تو فرشتہ ہو نہیں سکتا

یہ بادل کس لیے کوثر نہیں ہوتے

ہمارے پاس بیٹھو گے تو جانو گے

سبھی شاعر انا پرور نہیں ہوتے

حدِ ادراک کی تمثیل ہیں دریا

امڈ بھی جائیں تو ساگر نہیں ہوتے

(ساگر حضور پوری، سرگودھا)

غزل

ایسے چہروں سے پیار کرتے ہیں

جو ہمیں سوگوار کرتے ہیں

لکڑیاں جل رہی ہیں ساتھ مرے

ہم تیرا انتظار کرتے ہیں

اپنے سینے کی چند سانسوں کو

زندگی میں شمار کرتے ہیں

بے یقینی کا ہاتھ تھامے ہوئے

ہم ترا اعتبار کرتے ہیں

اپنی آنکھوں پہ استخارے سے

خواب کو آشکار کرتے ہیں

(طارق جاوید، کبیر والا)

غزل

تماشا گاہ  میں کرتب دِکھانے والا ہوں

میں سب کے سامنے خود کو جلانے والا ہوں

کسی نے چھوڑ کے جانا ہے تو چلا جائے

چراغِ  خیمۂ دل  کو   بجھانے والا ہوں

نشانہ اِس دفعہ شاید میں خود ہی بن جاؤں

میں ایک تِیر ہوا میں چلانے والا ہوں

جو میرے پاس ہے اُس کی نہیں ہے قدر مجھے

جو  دور  ہے اُسے  اپنا  بنانے  والا  ہوں

ہمیشہ اُس کا  رہا منتظر، مگر اُس سے

یہی جواب ملا بس میں آنے والا ہوں

ہجومِ غم سے کہو  ہوشیار  ہو جائے

میں داستانِ محبّت سنانے  والا ہوں

بس ایک غم کو بُھلانا ہے سو اِسی خاطر

غمِ جہاں کو گلے سے لگانے والا ہوں

میں ڈھونڈنے اُسے نکلا ہوں اُس جگہ تہذیبؔ

جہاں پہ جا کے  میں خود کو گنوانے  والا ہوں

(تہذیب الحسن، گلگت بلتستان)

غزل

شب میں پُر نور مناظر تو بڑے دیکھتے ہیں

چاند کے بیچ ترے نقش بنے دیکھتے ہیں

نہیں دکھتا ہے مجھے تُو، تو کوئی بات نہیں

میں انہیں دیکھ کے خوش ہوں جو تجھے دیکھتے ہیں

ساری دنیا بھی پھریں، واپسی یہیں ہو گی

جو تجھے دیکھ چکے ہوں وہ کسے دیکھتے ہیں

جیسے پیاسا کوئی دیکھے ہے سمندر کی طرف

یوں ترے چاہنے والے بھی تجھے دیکھتے ہیں

یار، ہم لوگ۔۔۔۔ہمیں نیند کہاں آتی ہے

یار، ہم لوگ مگر خواب بڑے دیکھتے ہیں

جو تجھے ڈھونڈتے پھرتے ہیں دربدر ساحر

وہ تھک تھکا کے ترے در پہ مجھے دیکھتے ہیں

(حسنین اقبال، کوٹ مٹھن، راجن پور)

’’موڈ‘‘

کتنے دنوں سے۔۔۔

بات نہیں اس سے کرسکی!

میرا بھی موڈ آف ہے

اُس کا بھی موڈ آف!

کیسے بحال اس سے تعلق کروں میں اب

میرا بھی فون آف ہے

اُس کا بھی فون آف!!!

(نادیہ حسین، کراچی)

غزل

فسانہ عہدِ الفت کا نہ دہراؤ تو اچھا ہے

فریبِ حسن کے جلوے نہ دکھلاؤ تو اچھا ہے

مجھے اک بار اپنا رخ دکھا جاؤ تو اچھا ہے

میری حالت پہ اتنا رحم فرماؤ تو اچھا ہے

نئے عہد و وفا کرنا، قسم کھانا میرے سَر کی

مجھے ایسے کھلونوں سے نہ بہلاؤ تو اچھا ہے

میرے غم خوردہ دل کی اور بڑھ  جاتی ہے بے چینی

میری بزمِ تصور  میں نہ تم آؤ تو اچھا ہے

حریمِ بزم عالم میں ہے صابر تیرگی ہر سُو

نقابِ ناز اب رخ سے جو سرکاؤ تو اچھا ہے

(صابر میاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

غزل

تیری غداریوں سے واقف ہوں

ان اداکاریوں سے واقف ہوں

میں نے مدت سے تیری قید سہی

تیری کمزوریوں سے واقف ہوں

بے وجہ جو حرام کھاتے ہیں

ایسے پٹواریوں سے واقف ہوں

میں ادا باز تو نہیں، پھر بھی

اپنی فنکاریوں سے واقف ہوں

جو مرا دل بنا سکیں بغداد

ایسے تاتاریوں سے واقف ہوں

جو طلب ایسے خود کشی کرتے

ان کی مجبوریوں سے واقف ہوں

(محمد نعیم طلب، سرگودھا)

غزل

میں خزاں میں گزار دوں! اچھا

اور تم کو بہار دوں! اچھا

جان تجھ پر میں وار دوں! اچھا

عمر یونہی گزار دوں! اچھا

جس کو چاہے گلے لگا لے تو

تجھ کو یہ اختیار دوں! اچھا

تیرے قدموں میں بیٹھ جاؤں میں

اپنی پگڑی اتار دوں! اچھا

اپنی ہستی مٹا کے اے ہمدم

تیری زلفیں سنوار دوں! اچھا

چاند تارے بھی جس پہ رشک کریں

تجھ کو ایسے نکھار دوں! اچھا

(راشد خان عاشر، ڈیرہ غازی خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

ایک فلم کی کہانی

مبشر علی زیدی

میٹرو ٹرین اسٹیشن ایسا مقام ہوتا ہے، جہاں کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ سب لوگ دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف رنگوں، نسلوں اور اقوام کے لوگ۔۔۔ مختلف زبانیں بولتے ہوئے لوگ۔۔۔ مختلف ثقافتوں کے پہناوے پہنے ہوئے لوگ۔۔۔

میرے پاس ہمیشہ کچھ اضافی وقت ہوتا ہے۔ میں گھر سے جلدی نکلتا ہوں۔ میں دفتر دیر سے پہنچ سکتا ہوں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ رولر کوسٹر پر سوار ہیں اور میں زمین پر کھڑا ہوکر انھیں گھومتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ امریکا میں کوئی کسی کو نگاہ بھر کے نہیں دیکھتا۔ کوئی کسی پر توجہ نہیں دیتا۔ نہ ہی کسی کو اس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں۔

میں نے بہت سی مختصر کہانیاں لکھی ہیں لیکن ابھی تک کسی فلم کا اسکرپٹ نہیں لکھا۔ فلم کے لیے میرے پاس کرداروں کی کمی ہے۔ افسانے کی نسبت فلم میں زیادہ کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میٹرو اسٹیشن پر مجھے بہت سے کردار دکھائی دیتے ہیں۔ میں ان کرداروں کو غور سے دیکھتا ہوں۔

ایک جاپانی گڑیا بے چینی سے پلیٹ فارم پر ٹہل رہی ہے۔ اسے کام پر جانے کو دیر ہو رہی ہے۔ اس نے لمبا اسکرٹ اور سفید شرٹ پہن رکھی ہے۔ کندھے پر سیاہ بیگ ہے۔

ایک بھاری بھرکم لڑکا سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہانپ رہا ہے۔ اس نے شارٹ، ٹی شرٹ اور سفید جوگرز پہنے ہوئے ہیں۔ ہیڈ فون چڑھا ہوا ہے۔

ایک لال پری بھاگم بھاگ پہنچی ہے اور اس کا چہرہ لالوں لال ہورہا ہے۔ لال پینٹ شرٹ میں ملبوس ہے اور ہونٹوں پر لالی سجائی ہوئی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھ کر اسے لال سلام پیش کروں۔

ایک سیاہ فام بوڑھا اپنے وجود کو اپنی مرضی کے خلاف گھسیٹتے ہوئے مخالف سمت میں جارہا ہے۔ اس کا چہرہ رونق سے محروم ہے۔ پرانے جوتے پالش سے محروم ہیں۔ سلوٹوں بھرا کوٹ اچھا نہیں لگ رہا۔

ایک دراز قد جرمن لڑکی میرے دائیں جانب کھڑی ہے۔ ڈریس پینٹ اور جیکٹ سے تن چھپایا ہوا ہے۔ ایک ہاتھ میں کافی اور دوسرے میں کتاب ہے۔ کتاب دیکھ کر ہی اس کے جرمن ہونے کا اندازہ لگایا ہے۔

میرے بائیں جانب ایک میکسیکن فنکار بینچ پر بیٹھا ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ ہاتھ میں ایک پینسل اور چھوٹی سی نوٹ بک ہے۔ وہ نوٹ بک کے صفحات پر تیزی سے انگوٹھا پھیر رہا ہے جیسے بعض لوگ تاش کی گڈی کو پھینٹنے سے پہلے کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی نوٹ بک میں بہت سے خاکے بنے ہوئے ہیں۔ شاید وہ بھی میری طرح میٹرو اسٹیشن پر کردار ڈھونڈتا ہے۔

پٹری کے قریب پلیٹ فارم کے فرش میں نصب بتیاں جلنے بجھنے لگی ہیں۔ ٹرین آنے کو ہے۔ ٹرین رکنے کے پانچ سیکنڈ بعد دروازے کھلیں گے۔ پندرہ سیکنڈز بعد بند ہوجائیں گے۔ ہجوم باہر نکلے گا۔ ہجوم اندر گھسے گا۔ لیکن کوئی بدنظمی نہیں ہوگی۔ کسی کو دھکا نہیں لگے گا۔ جو بیٹھنا چاہے گا اسے نشست مل جائے گی۔ کچھ لوگ خالی نشستوں کے باوجود کھڑے رہیں گے۔

ٹرین میں کوئی شخص بات نہیں کرتا۔ فون آئے تو کال ریسیو نہیں کرتا۔ سب خاموشی سے کتابیں یا اخبار پڑھتے رہتے ہیں۔ یا گانے سنتے رہتے ہیں۔ میں ٹرین کے سفر میں کچھ نہیں پڑھتا۔ میں ڈرائیونگ کے دوران گانے سنتا ہوں لیکن ٹرین کے سفر میں میوزک نہیں سنتا۔ میں لوگوں کو دیکھتا رہتا ہوں۔ انہیں اپنی فلم میں کردار بنانے کے بارے میں غور کرتا ہوں۔ ان کے لیے موزوں مکالمے سوچتا ہوں۔

17 منٹ کے سفر میں سات اسٹیشن آتے ہیں۔ میں اکثر آخری ڈبے میں سوار ہوتا ہوں۔ اس میں نقل و حرکت کم ہوتی ہے۔ کوئی کوئی باہر جاتا ہے۔ کوئی کوئی اندر گھستا ہے۔ کرداروں پر غور کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔

منزل پر پہنچ کر میں پلیٹ فارم پر ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہوں۔ باقی سب لوگ خارجی راستوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہیں، اترتے ہیں۔ دوسری ٹرین پکڑنے کے لیے پلیٹ فارم بدلتے ہیں۔

چھٹنے میں بمشکل ساٹھ سیکنڈ لگتے ہیں۔ یہ کسی فلم کا ایسا منظر لگتا ہے جسے فاسٹ فارورڈ کیا جا رہا ہو۔ میں اس کا لطف اٹھاتا ہوں۔ منظر دوبارہ معمول پر آتا ہے تو میں اپنی آنکھوں پر پانی کا ایک چھپکا مارتا ہوں۔ پھر ہولے ہولے باہر کی طرف چل پڑتا ہوں۔ تب تک میرے پاس ایک فلم کی کہانی ہوتی ہے۔ میں کرداروں کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہوں۔

خانہ پُری

اب تو سب ’’کھاتے‘‘ ہیں۔۔!

ر۔ ط۔ م

انسان کا ’’کھانے‘‘ سے تعلق کس قدر پرانا ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ ’ہستی‘ جنت سے نکالی ہی ’’کھانے‘‘ کے جرم میں گئی۔۔۔! اب لوگ ’’کھانے‘‘ کے جرم میں حکومتوں سے نکالے جاتے ہیں۔ ’اہل حَکم‘ اور ’کھانے‘ کا سمبندھ بھی بہت قدیم ہے (اہل حَکم میں سیاست دان ’’بھی‘‘ شامل ہیں!)

ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’بھوک‘‘ آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی اور پھر بھی ’’کھانے کے ادب‘‘ کو انسان کے بنیادی سلیقوں میں رکھتے ہیں۔ ’’کھانے‘‘ کے ادب میں یہ صلاح سرفہرست ہے کہ ’’چھپ کے کھاؤ، نہیں تو سب کو کھلاؤ!‘‘ لیکن سماج میں یہ مسئلہ کافی گنجلک ہے کہ ہم ’’کھاتے‘‘ کم ہیں اور ضایع زیادہ کرتے ہیں۔۔۔!‘‘ ہمیں ’’اجتماعی کھانے‘‘ میں خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیے کہ ’’جتنا کھا سکو، اتنا ہی نکالو!‘‘ لوگ ایسا نہیں کرتے، بلکہ زیادہ نکال کر ’’کھا‘‘ نہیں پاتے، پھر اپنے نکالے جانے پر شکوہ کرتے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا۔۔۔؟‘‘

’’کھانے‘‘ کے ادب میں یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنے آگے سے ہی کھائے (رکابی میں بھی) اور جب کوئی دوسرا ’’کھا‘‘ رہا ہو تو پہلے اس کے ’کھانے‘ کا انتظار کر لیں، پھر اپنا ہاتھ (رکابی کی طرف) بڑھائے! (ورنہ ’وہ‘ آپ کے ’’کھائے‘‘ کی مخبری کر دے گا)

ایک ’افسر‘ دھڑلے سے یہ کہتے تھے کہ ’’اب تو سب کھاتے ہیں۔۔!‘‘ ہم نے انہیں یہ کہا بھی کہ ’’میاں!‘‘ کھانے کے لیے زندہ نہ رہو، زندہ رہنے کے لیے ’’کھاؤ!‘‘ جواب میں وہ بولے کہ ’’کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا؟‘‘ ہم چُپکے ہو گئے، واقعی آج ’بڑے‘ کون ہیں، کھانے والے یا نہ کھانے والے۔۔۔؟ لیکن یہ خیال محو نہ ہو کہ ’’جس کا کھاؤ اس کا گاؤ!‘‘ ورنہ۔۔۔

’’کِھلا‘‘ کر منہ بند کرنے والی ایک ’’مخیر‘‘ ہستی کا دعویٰ ہے کہ ’ایک کھاؤ پھر رک کے دکھاؤ!‘ (اس میں ’ایک‘ کے بعد ’پلاٹ‘ کا لفظ بھی ضرور پڑھیے) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ’’مخیر‘‘ ہستی کا محور یہی ہے کہ ’’کھا گئے ملک کھانے والے۔۔۔ اب ہے ’کام‘ ہماراااا۔۔۔!‘‘ (ملک میں ’م‘ پر زبر پڑھ کر مماثلت ضرور ڈھونڈیے)

بعض اداروں میں کھلائی پلائی کو ’چائے پانی‘ بھی کہا جاتا ہے، اگر نہ ’’کھلاؤ‘‘ تو اہل کار ’کاٹ کھانے‘ کو دوڑتے ہیں، یا پھر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ (یہاں مراد کتوں سے نہیں) کچھ لوگ ’مال کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے‘ مزے کی بات ہے کہ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ان کا ’ہاضمہ‘ اچھا ہے، حالاں کہ پھر وہ کھا نہیں پاتے، بلکہ مال ’پی‘ جاتے ہیں۔

چوں کہ ’کھاتے کھاتے تو کنواں بھی خالی ہو جاتا ہے!‘ اس لیے ’کھانے والوں‘ سے اگلوانے کے لیے ہمارے ہاں باقاعدہ ایک ادارہ قائم ہے جسے پیار سے ’نیب‘ کہتے ہیں۔ کھانے کو تو ہمارے ہاں ’بھتا‘ بھی خوب کھایا گیا، پھر یہی ’بھتا‘ انہیں ہی کھا گیا۔۔۔ اب وہ لاکھ کہیں کہ ’ہم نہیں تھے‘ انہیں ’منہ کی ہی کھانا‘ پڑ رہی ہے۔

’’کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ (یہ شیر ’ن لیگ‘ کا نہیں، نہ ہی یہ بات ’نیب‘ نے کہی) بعض ناقد کہتے ہیں کہ اصل فقرے میں ’شعر کی نگاہ‘ ہے، یعنی یہ بات محبوب کے لیے کہی گئی ہے۔

کچھ لوگوں پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ ’’کھائے بکری کی طرح، سوکھے لکڑی کی طرح!‘‘ کیوں کہ اُن کا ’’کھانا‘‘ دراصل ’کھانے پینے‘ کے سوا ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں یاد آیا کہ اردو میں محمد حمید شاہد کا ایک ناول ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ بھی تو ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کی ’نظر‘ پتھر کو بھی کھا جاتی ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ ’’زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے!‘‘

ہمارے ہاں بدمعاش دھمکیاں بھی ’ٹبر کھانے‘ کی دیتے ہیں۔۔۔ شریف لوگ کتابیں، آجر تنخواہیں، مولوی چندے، محلے کی خالائیں ’بی سیاں‘، ’ایمپائر‘ آؤٹ اور ننھے بچے لکھتے ہوئے ’نقطے‘ کھا جاتے ہیں۔۔۔ قصہ مختصر ’اب تو سب ’’کھاتے‘‘ ہیں، البتہ ان میں ’’کھاتے‘‘ کسی کسی کے بنتے ہیں!

یا ابولعجب

مرسلہ: ظہیر انجم، کراچی

٭ایک صاحب زکوٰۃ کی تقسیم کے موقع پر نو جوڑے جوتے یہ کہہ کر لے گئے کہ میرے گھر کی بچیاں ننگے پاؤں پھرتی ہیں۔ اگلے دن واپس آکر کہنے لگے کہ جوتے کپڑوں سے میچ نہیں کرتے۔

٭وہ آب دیدہ تھا کہ میرے گھر میں آٹا بھی نہیں ہے، میں گھر میں کچھ رقم دینے گیا تو بتایا گیا کہ تھوڑی دیر میں آئیے گا، ابھی بابو چھت پر دھوپ سینک رہے ہیں۔

٭بوڑھی عورت نے مسجد میں صدا لگا رہی تھی کہ قسم کھاتی ہوں میں نے تین دن سے کچھ نہیں پکایا، میری مدد کرو۔ ایک شخص نے اسے کھانا کھلایا اور کچھ روپیا بھی دیا۔ میرے جانے کے بعد پھر وہ یہی آواز لگانے لگی۔ میں نے اُسے ٹوکا تو وہ بولی کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے کچھ نہیں کھایا!

اعتماد

مرسلہ: اویس شیخ ٹوبہ ٹیک سنگھ

جن لوگوں پر ہمیں اعتماد ہو، انہیں کبھی اس بھروسے کی یقین دلانے کی نوبت نہیں آتی۔۔۔! دنیا میں کون آپ سے کتنی محبت کرتا ہے اور کون آپ کو حقیر گردانتا ہے؟ اس بات کی گواہی انسان کی نظریں دیتی ہیں۔ کون آپ پر کتنا اعتماد کرتا ہے اور کون آپ کو بد دیانت خیال کرتا ہے اس کا پتا انسان کے لہجے اور رویے دینے لگتے ہیں۔ جو لوگ بھری محفل میں آپ کے اعتماد اور خلوص کا ذکر کرتے ہیں ، وہی لوگ پیٹھ کے پیچھے آپ کو لعن طن کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقتیں ہمارے سامنے ہوتی ہیں، انہیں جاننے کے لیے بس ذرا سی غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اکثر ہم محبت میں اندھے ہونے کے سبب نہیں کرپاتے۔

صد لفظی کتھا فکر

رضوان طاہر مبین

’’ارے۔۔۔ میں بوڑھا ہو گیا یار۔۔۔!‘‘

ثمر دفتر پہنچا، تو اس نے نہایت فکر مندی سے کہا۔

میں نے کمپیوٹر سے نگاہ ہٹا کر اس کے بالوں کو غور سے دیکھا۔۔۔

سیاہ بالوں کو اب بھی ’دو تہائی اکثریت‘ حاصل تھی۔

’’بھئی، اچانک ایسی کیا بات ہو گئی ہے؟‘‘

میں نے استفسار کیا۔

’’میں بس میں جب بھی کسی بزرگ کو دیکھتا ہوں تو فوراً اپنی جگہ اُن کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔‘‘ وہ بولا۔

تو کیا اس بار نہیں چھوڑی۔۔۔!‘‘

مجھے ماجرا جاننے کی جلدی ہوئی۔

’’دراصل آج ایک مسافر مجھے دیکھ کر اپنی نشست سے اٹھ گیا۔۔۔!‘‘

جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں

سیمیں کرن، فیصل آباد

سوشل میڈیا دیکھیے یا پھر ٹی وی۔ اس وقت جو سودا سب سے منہگا بک رہا ہے، وہ جنگی جنون کا ہے۔ دونوں طرف کے عوام ایک طویل جغرافیے کے ہی نہیں، ثقافت، نفسیات، رسومات، زبان و ذایقے کے اشتراک سے لے کر ایک طویل ساجھے داری میں جڑے ہیں۔ رنگ ایک ہم بہت سوں کے، اب وجد ایک، سرحد پار علاقوں میں اکثر آدھا خاندان ادھر آدھا ادھر، خونی رشتے ہیں، جو تقسیم ہوئے پڑے ہیں، کیا ان تمام اشتراکات کے بعد یہ جنگی جنون ہمارے ذی ہوش ہونے پہ بہت بڑا سوال کھڑا نہیں کرتا؟ کیا یہ جنگی جنون ثابت نہیں کرتا کہ گر اس بدنصیب خطے کو ارباب و اختیار نادان ملے ہیں، تو عوام نے بھی کسی دانش مندی اور عقل و فہم کا ثبو ت نہیں دیا۔ کون نہیں جانتا یہ بات کہ آج کے دور میں جنگ سب سے منافع بخش سودا ہے یہ حکومتوں کا مکروہ کاروبار ہے جس کا ایندھن ہم عوام ہیں اور ہمارے معصوم بچے ہیں۔ اس جنگی جنون کا فائدہ مگر کس کو ہے ؟ کیا پاکستان اور پاکستانیوں کو جنگ فائدہ دے گی؟ کیا ہندوستان جیسا بڑا ملک جو پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیا وہاں کے عوام کے لیے جنگ مزید تباہی بربادی اور غربت نہیں لائے گی؟ کیا سرحد پار کے عوام کے سب مسائل حل ہوگئے ہیں، جو ہم دونوں پڑوسی جنگ جنگ کھیلنے کا خواب دیکھنے لگے ہیں؟

کیا جنگ واقعی کھیل ہے؟

کیا ہم پاکستانی اور ہندوستانی عوام واقعی یہ نہیں جانتے کہ جنگ وہ عذاب ہے جس میں صرف ہماری کوکھ، ہمارا مال، ہماری دولت، ہماری زندگیاں اجڑتی ہیں؟ مجھے آج عوام تو عوام ادیبوں جیسے خواص کے قبیلے کے غیر ذمہ دارانہ باتیں پڑھتے ہوئے، ایام جاہلیت کے شعرا و قصیدہ خواں یاد آتے ہیں۔ ان میں نام ور و بہادر وہی ہوتا تھا، جو جتنی زیادہ آگ سلگا سکتا تھا۔ تاسف، افسوس، حیرت سب یک جا ہو جاتے ہیں، جب اس جنگی جنون میں مبتلا ہر خاص و عام، مرد وزن کو دیکھتی ہوں۔ میری اپنے ملک کی ادیب برادری سے ہی نہیں، بلکہ سرحد پار کے ہر ادیب سے پر زور اپیل ہے کہ جنگی جنون کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

مضحکہ خیز ناموں والے امریکی شہر

$
0
0

دنیا میں بہت سی پُراسرار جگہیں پائی جاتی ہیں، حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں اور رنگ برنگے پرندے، انواح واقسام کے جاندار اور ایسی ایسی صلاحیت کے حامل انسان دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن کے بارے میں علم ہونے پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان ورطہء حیرت میں ڈوب کر اُنگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

آپ نے یقینا بہت سی ایسی چیزوں کے متعلق پڑھا یا سُنا ہو گا جنہوں نے اپنے عجیب وغریب اور انوکھے خواص کی بنا پر آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہو گی۔ اِن تمام مقامات، جانداروں، چیزوں اور واقعات کی انفرادیت قدرتی بھی ہو سکتی ہے اور انسانوں کے ذہنِ رسا کے ہُنرکاری کی کارفرمائی بھی۔ لیکن ان سب سے قطعِ نظر بعض اوقات کچھ ایسی چیزیں بھی نظر سے گزرتی ہیں کہ انسان اپنی بے ساختہ ہنسی پر قابو نہیں پا سکتا۔ شاید آپ نے کراچی کے دو علاقوں ’مچھرکالونی‘ اور ’بھینس کالونی‘ کا نام سُنا ہو لیکن ہم آپ کو امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے چند چھوٹے شہروں اور قصبات کے ایسے ناموں کا احوال بتاتے ہیں جن کے بارے میں جان کر آپ اپنے ہونٹوں پر اُبھرنے والی مسکراہٹ کو روکنے میں ناکام ہو جائیں گے۔

1 ۔ جلی ہوئی مکئی، الاباما (Burnt Corn, Alabama)

غذائی ناموں  پر شہروں کے  مضحکہ خیز نام رکھنے کی سب سے اعلٰی مثالوں میں سے ایک  ریاست الاباما کا یہ قصبہ بھی ہے۔ اس قصبے کے نام کی وجہء تسمیہ کے حوالے سے مختلف روایات مشہور ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر یورپی آبادکاروں نے ریڈانڈینز کے کھیت جلائے تھے جبکہ  چند لوگوں کا ماننا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہوا تھا یعنی ریڈانڈینز نے آبادکاروں کے کھیتوں کو آگ لگائی تھی۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی رہی ہو، تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 1813ء میں اِس مقام پر دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تھی جو ریڈانڈینز نے جیتی تھی۔

2 ۔ اَن الاسکا، الاسکا  (Unalaska, Alaska)

انگریزی زبان میں کسی لفظ کا مطلب نفی کے معنوں میں لینے کے لیے اُس کے ساتھ ’اَن‘ (un) لگایا جاتا ہے۔ تاہم اس قصبے کے نام کا مطلب ’اینٹی الاسکا‘ (anti-Alaska) ہرگز نہیں ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس جگہ آباد ’اَن اینگین‘ (Unangan) یا ’الیوِٹ‘ (Aleut) قوم کے مقامی افراد اس علاقے کو ’اگنالکش‘ (Agunalaksh) کہتے تھے لیکن ہجوں اور لہجوں کے فرق کے باعث سال ہاسال تک اس کے تلفظ کے بارے میں اُلجھن برقرار رہی۔ آخرکار  1800ء کے اواخر میں ’دی یونائیٹڈ اسٹیٹس بورڈ آن جیوگرافِک نیمز‘ (the United States Board on Geographic Names) نے یہ اعلان کیا کہ اس قصبے اور جس جزیرے پر یہ واقع ہے، دونوں کا سرکاری نام ’اَن الاسکا‘ (Unalaska) ہے۔ یہ نام اِن کے اصل نام کو آسان بنانے کے تجویز کیا گیا تھا۔

3 ۔ کیوں، اریزونا (Why, Arizona)

کیوں (why)، اوہ کیوں، یہ قصبہ ’کیوں‘ (why) کہلاتا ہے ؟ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ریاستی ہائی ویز نمبر 85 اور 86 اس مقام پر آ کر ملتے ہوئے انگریزی حرف ’Y‘ کی شکل بناتی ہیں۔ ریاست اریزونا کے قانون کے مطابق کسی بھی شہر کا نام کم ازکم تین حروف پر ضرور مشتمل ہونا چاہیے۔ اس لیے اس قصبے کے بانیان نے اس کا نام ’Y‘ سے تبدیل کر کے ’وائے‘ (why) رکھ دیا۔ البتہ اِن دونوں ناموں کو بولتے ہوئے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، جب تک اِن کو لکھا ہوا نہ دیکھیں۔

4 ۔ انگوروں کا مکر، آرکنساس (Possum Grape, Arkansas)

یہ نام اِتنا عجیب تو نہیں ہے، جتنا سُننے میں لگتا ہے کیونکہ ’پوسم گریپ‘ (Possum Grape) امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں پیدا ہونے والے انگوروں کی ایک مقامی قِسم کا نام ہے۔ ریاست ’آرکنساس‘ (Arkansas) بھی امریکا کے جنوب میں واقع ہے، اس لیے یہاں کے باسیوں کے لے یہ نام عجیب نہیں۔ اس قصبے کے نام کے متعلق ایک دلچسپ روایت یہ بھی ملتی ہے کہ قریباً 20 برس تک یہاں کے باشندوں میں اس بات پر ہی اتفاق نہ ہو سکا کہ اس کا نام ’پوسم‘ (مکر کرنا یا جھوٹ موٹ آنکھیں موند لینا) ہونا چاہیے یا صِرف ’انگور‘ کا لفظ ہی کافی ہے۔

5 ۔ زیڈ زیڈ وائے زیڈ ایکس، کیلیفورنیا (Zzyzx, California)

’کرٹِس ہوو سپرنگر‘ (Curtis Howe Springer) ریڈیو پر تبلیغ کرنے والا ایک عیسائی مبلغ تھا۔ ستم ظریفی مگر یہ تھی کہ وہ اپنے ریڈیو پروگرام میں لوگوں کو یہ جھانسا دیتا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور یوں انہیں اپنی جعلی ادویات بیچنے کی کوشش کرتا۔ اس نے پورے ملک میں معدنی پانی سے غسل کروانے والے حماموں کا نظام بھی بنا رکھا تھاجو اس کے بقول صحت کے لیے انتہائی مفید تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان حماموں سے ہونے والی آمدنی پر اس نے کبھی ٹیکس نہیں دیا۔ جب اس نے ’صحرائے موجاو‘ (Mojave Desert) میں کچھ زمین لی اور وہاں معدنی پانی سے غسل کے چشمے بنائے تو اس جگہ کو ’زیڈ زیڈ وائے زیڈ ایکس مِنرل سپرنگ ریزورٹ‘ (Zzyzx Mineral Springs resort) کا نام دیا۔ شائد اِس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ یہ صحت حاصل کرنے کا آخری مقام ہے۔ بلآخر وہ اپنی ہیراپھیریوں کی وجہ سے ’ایف بی آئی‘ (FBI) کی نظروں میں آ گیا اور پکڑا گیا۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُسے کتنی قید ہوئی ؟ محض 49 دن۔۔۔

6 ۔ بے نام، کولوراڈو  (No Name, Colorado)

مضحکہ خیز ناموں والے شہروں میں اس قصبے کی خاص اہمیت ہے کیونکہ اس کا نام ہی ’بے نام‘ (No Name) ہے۔اس غیر معمولی نام کا سہرا اُن تعمیر کنندگان کے سر جاتا ہے جو بین الریاستی سڑک نمبر 70 بنا رہے تھے۔ انھوں نے سڑک کے متعدد خارجی راستوں کو بغیر نشانوں کے خالی چھوڑ دیا۔ جب ’کولوراڈو ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسپورٹیشن‘ (Colorado Department of Transportation) کا ایک افسر اُن راستوں کے نشان لگانے کے لیے گیا تو اُس نے خارجی راستے نمبر 119 پر ’بے نام‘ (No Name) لکھ دیا۔ اس وقت سے اِس قصبے کا کوئی نام نہیں۔ ریاستی حکام نے ایک بار اس علاقے کا نام رکھنے کی کوشش کی لیکن مقامی باشندوں نے مزاحمت کر کے اس کو ناکام بنا دیا۔

7 ۔ ہیپی لینڈ، کنیکٹی کٹ (Happyland, Connecticut)

’ہیپی لینڈ‘ (Happyland) دراصل ریاست ’کنیکٹی کٹ‘ (Connecticut) کے بڑے قصبے ’پریسٹن‘ (Preston) کے ایک چھوٹے سے علاقے کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے یہاں پر ایک تفریحی پارک ہوتا تھا جو بدقسمتی سے 1930ء کی دھائی میں آنے والے ایک طوفان نے برباد کر دیا۔ اس تباہی کے بعد بھی اس پارک کی یاد میں اس جگہ کا نام ہی ’ہیپی لینڈ‘ (Happyland) پڑ گیا۔

8 ۔ چھوٹی جنت، ڈیلاور  (Little Heaven, Delaware)

1870 ء کی دھائی میں اس جگہ ایک زمیندار نے اپنے آئرش مزدوروں کی رہائش کے لیے چند کیبن تعمیر کیے اور اُن کا نام ’چھوٹی جنت‘ (Little Heaven) رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں اسی علاقے میں ایک جگہ کا نام ’چھوٹا جہنم‘ (Little Hell) بھی تھا۔ تاہم اب وہ موجود نہیں ہے۔

9 ۔ جلی ہوئی دکان، فلوریڈا  (Burnt Store, Florida)

مقامی افراد کے مطابق اس قصبے کا یہ نام اُس دکان کے نام پر پڑا جو ’دریائے پیس‘(Peace River) کے کنارے واقع تھی اور 1849ء میں جلا دی گئی۔ اس دکان کا ’جارج‘ نامی منتظم، ریڈانڈین قبیلے ’سیمی نال‘ (Seminole) سے ملاقاتیں کرتا رہتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ اسی قبیلے کے ایک حملے میں مارا گیا اور اس کے بعد وہ دکان بھی نظرِآتش کر دی گئی۔

10 ۔ تجربہ، جارجیا  (Experiment, Georgia)

گو مضحکہ خیز ناموں والے تمام شہروں کو بھی بذاتِ خود ’تجربے‘  (Experiment) ہی کہا جا سکتا ہے مگر جارجیا (Georgia) کے اس قصبے کے نام کی وجہ اس کے قریب ہی واقع جارجیا یونیورسٹی کی ’زرعی تجربہ گاہ‘ (Agricultural Experiment Station) ہے۔

11 ۔ ہائیکو، ہوائی (Haiku, Hawaii)

’ہائیکو‘ (Haiku) نام پڑھ کر شاید آپ کا ذہن جاپانی شاعری میں نظم کی ایک صنف کی طرف چلا گیا ہو، جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن ریاست ’ہوائی‘ (Hawaii) کے اس قصبے کا نام جاپانی نظم پر نہیں بلکہ ’ہوائی‘ زبان کے ایک قدیم نام ’ہا ایکو‘ (Ha’iku) پر رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’قدرتی وادی‘۔ کچھ لوگ کہتے  ہیں کہ یہ نام ’ہوائی‘ زبان کے ایک اور لفظ پر رکھا گیا، جس کا مطلب ’غصے میں اچانک بولنا‘ یا ’تڑخ کر کے ٹوٹنا‘ ہوتا ہے۔ دیگر چند لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مقامی پھول کا نام ہے۔

12 ۔ سانتا کلاز، انڈیانا  (Santa Claus, Indiana)

پہلے اس قصبے کا نام ’سانتا فے‘ (Santa Fe) تھا۔ 1856ء میں جب سرکاری حکام کو یہ معلوم ہوا کہ ریاست میں اسی نام کا ایک اور شہر بھی موجود ہے تو انھوں نے اس کا نام بدل کر کرسمس کے تہوار کے مشہور مذہبی کردار  ’سانتا کلاز‘ (Santa Claus) کے نام پر رکھ دیا۔

13 ۔ ہیپو، کینٹکی  (Hippo, Kentucky)

ریاست ’کینٹکی‘ (Kentucky) کے شہر ’ہیپو‘ (Hippo) میں ’ہیپوز‘ (دریائی گھوڑے) تو نہیں پائے جاتے البتہ اس کا نام 20 ویں صدی میں یہاں رہائش پزیر ’بی میڈیسن‘ (Bee Madison) نامی شخص کے نام پر رکھا گیا جس کی عرفیت ’ہیپو‘ (Hippo) تھی، حالانکہ اُس شخص کا دور دور تک دریائی گھوڑوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

14 ۔ واٹر پروف، لوئسیانا  (Waterproof, Louisiana)

شروع شروع میں اس جگہ کو آباد کرنے والے لوگ محض اس لیے یہاں آئے کیونکہ پورے علاقے میں یہ واحد جگہ تھی جو ’دریائے میسیسیپی‘ (Mississippi River) میں آنے والے تباہ کُن سیلابوں سے محفوظ تھی۔ اسی لیے اس کا نام ’واٹر پروف‘ (Waterproof) پڑ گیا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس بات کا اندازہ یہاں کے باشندوں کو اس وقت ہوا جب 2008ء میں یہاں قحط پڑا اور کسانوں کی قیمتی فصلیں تباہ ہو گئیں۔

15 ۔ حادثہ، میری لینڈ  (Accident, Maryland)

اس عجیب نام کی وجہء تسمیہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی کا سفر کرتے ہوئے 1700ء کے اواخر میں جانا پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست ’میری لینڈ‘ (Maryland)  جب ایک کالونی کی حیثیت رکھتی تھی تو اس وقت وہاں کے دو ’سروئیرز‘ (surveyors) جن کے نام ’بروک بیل‘ (Brooke Beall) اور ’ولیم ڈیکنز جونیئر‘ (William Deakins, Jr.) تھے اور وہ دونوں آپس میں دوست بھی تھے، کو اتفاق سے زمین کا ایک ہی ٹکڑا پسند آ گیا اور انھوں نے اس کے حصول کے لیے درخواست دے دی۔ دونوں اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک ہی جگہ لینا چاہ رہے ہیں۔ ’ڈیکنز‘ (Deakins) کو جب اس بات کا پتا چلا تو اس نے اپنی درخواست واپس لے لی کیونکہ ’بیل‘ (Beall) نے اس سے پہلے درخواست دی تھی۔ یوں اس کہانی کا انجام بخیر ہوا اور ایک حادثاتی اتفاق کی وجہ سے اس علاقے کا نام ’حادثہ‘ (Accident) پڑ گیا۔

16 ۔ سینڈوِچ، میساچیوسیٹس (Sandwich, Massachusetts)

1639 ء میں تشکیل پانے والا یہ قصبہ ’کیپ کوڈ‘  (Cape Cod)نامی بندرگاہ کا سب سے پُرانا قصبہ ہے، جس کا نام انگلستان کی کاؤنٹی ’کینٹ‘ (Kent) کی بندرگاہ ’سینڈوِچ‘ (Sandwich) کے نام پر رکھا گیا۔

17 ۔ جہنم، مشی گن (Hell, Michigan)

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے ’’جہنم میں جاؤ‘‘ تو ضروری نہیں کہ وہ غصے کا اظہار ہی کر رہا ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو سمت سمجھا رہا ہو۔ اس قصبے کے نام کی کہانی کچھ ہوں ہے کہ ’جارج ریویس‘ (George Reeves) نامی ایک شخص نے ریاست مشی گن کے اس وسطی علاقے میں آٹا پیسنے کی چکی لگائی۔ وہ آٹا پسوانے کے لیے آنے والے کسانوں کو گھر میں کشید کی ہوئی شراب پیش کرتا۔ کھیتوں میں جب کوئی اُن کسانوں کی بیویوں سے اُن کے بارے میں پوچھتا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو وہ جل کے جواب دیتیں ’’وہ پھر جہنم میں گئے ہیں‘‘۔ اس طرح اس قصبے کا نام ’ہیل‘ (Hell) ہو گیا۔ آج بھی اس قصبے کے ڈاک خانے سے بھیجی جانے والی ہر ڈاک کو ’داغ‘ کے آگے روانہ کیا جاتا ہے تاکہ پتا چلے کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔

18 ۔ گرم کافی، میسیسیپی  (Hot Coffee, Mississippi)

اس قصبے کی ایک سرائے کا مالک ’ایل جے ڈیوِس‘ (L.J. Davis) اپنی کافی (Coffee) کی تشہیر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ اس پورے علاقے میں اُس سے بہتر کافی کوئی نہیں بنا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنے اِس دعوے میں سچا تھا کیونکہ وہ اپنی کافی میں چشمے کا صاف پانی، مٹھاس کے لیے خالص گُڑ کا شیرہ اور ’نیو اورلینز‘ (New Orleans) کے کافی کے بہترین بیج استعمال کرتا تھا۔ لوگوں کو اس کی کافی اس قدر پسند تھی کہ انھوں نے اسی پر اپنے قصبے کا نام رکھ دیا۔

19 ۔ بڑا بازو، مونٹانا  (Big Arm, Montana)

یہ قصبہ اپنے نزدیک واقع جھیل ’فلیٹ ہیڈ‘ Flathead (مچھلی کی ایک قسم) کی خلیج ’بِگ آرم‘ (Big Arm Bay) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جھیل مچھلیاں پکڑنے کے شوقینوں کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔

20 ۔ کیڑے، نیبراسکا  (Worms, Nebraska)

ریاست ’کینٹکی‘ (Kentucky) کے شہر ’ہیپو‘ (Hippo) کی ہی طرح یہ نام ’کیڑے‘(Worms) بھی جنگلی حیات کی وجہ سے نہیں رکھا گیا بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نام جرمنی (Germany) میں واقع شہر ’وارمز‘ (Vorms) سے لیا گیا ہے۔ گو دونوں شہروں کے نام کے ہجوں میں فرق ہے تاہم بولنے میں ایک ہی طرح ادائیگی ہوتی ہے۔ ’وارمز‘ (Vorms) ایک رومی بادشاہ کی عرفیت تھی۔

21 ۔ چینی کا گودام، نیواڈا  (Sugar Bunker, Nevada)

جتنا یہ نام میٹھا لگتا ہے بدقسمتی سے حقیقت اُس کے اُلٹ ہے۔ 20 ویں صدی کے وسط تک یہ جگہ دھماکہ خیز کیمیائی مواد کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اچھی بات مگر یہ ہے کہ اب آج کل یہاں کیمیائی ٹیسٹ نہیں کیے جاتے۔

22 ۔ کیوں نہیں، نارتھ کیرولینا (Whynot, North Carolina)

افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ قصبہ،  ریاست ’اریزونا‘ (Arizona) کے قصبے ’کیوں‘ (Why) کا جُڑواں شہر نہیں ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ جب جرمن اور برطانوی آبادکار اپنے اس نئے قصبے کا نام رکھنے کی بحث میں مصروف تھے تو ایک شخص بولا ’’کیوں نہ (Why not) اس قصبے کا نام ’کیوں نہ‘ (Why not) ہی رکھ دیں اور گھر چلیں ؟‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

23 ۔ پی پی، اوہیو (Pee Pee, Ohio)

ایک شخص نے اس علاقے کے ایک بڑے درخت پر اپنے نام کا مخخف ’پی پی‘ (PP) کندہ کیا ہوا تھا اور یوں اس قصبے کا نام ’پی پی‘ (Pee Pee) پڑ گیا۔ اس شخص کی شناخت کے بارے میں مختلف لوگوں کی الگ الگ رائے ہے۔ کچھ کے خیال میں وہ قصبے کا بانی ’میجر پاؤل پین‘ (Major Paul Paine) تھا جبکہ چند کے نزدیک وہ ’پیٹر پیٹرِک‘ (Peter Patrick) نامی کوئی شخص۔

24 ۔ اُکتاہٹ ؍ بیزاری، اوریگون (Boring, Oregon)

اس قصبے کے اس نام کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہاں زندگی کی کوئی رنگینی نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا نام اس میں ابتدائی سکونت اختیار کرنے والے لوگوں میں سے ایک ’ولیم ہیریسن بورنگ‘ (William Harrison Boring) کے نام پر رکھا گیا۔ اس علاقے میں عمارتی لکڑی کی وافر مقدار میں موجودگی کے باعث جلد ہی یہ قصبہ ’ریلوے‘ (railway) کا اہم مرکز بن گیا اور یہاں ریل کی پٹڑیوں کے درمیان بچھائے جانے والی لکڑی کے تختے بنانے کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کو ایندھن کی فراہمی بھی ہونے لگی۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں ریل کا انجن بھاپ سے چلتا تھا۔

25 ۔ پناہ،پینسلوینیا  (Asylum, Pennsylvania)

کئی مرتبہ یہ لفظ ذہن میں عجیب ڈراؤنے سے مناظر اُبھار دیتا ہے لیکن اس قصبے کے نام میں یہ لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ انقلابِ فرانس کے دوران تشدد سے بچنے کے لیے جو پناہ گزین وہاں سے بھاگ کر یہاں پہنچے، انھوں نے یہ قصبہ آباد کیا اور اسی وجہ سے اس کا نام ’پناہ‘ (Asylum) پڑ گیا۔ 1800ء کے قریب یہاں کے بہت سے رہائشی واپس فرانس چلے گئے تاہم اس قصبے کا یہی نام برقرار رہا۔

26 ۔ ڈرپوک ؍ بزدل، ساؤتھ کیرولینا (Coward, South Carolina)

اس بارے میں کچھ زیادہ تو معلوم نہیں کہ اس قصبے کا یہ نام کیسے پڑا۔ تاہم یہ قصبہ قریبی جنگل کے درختوں کی اونچائی سے بھی اوپر بنائے گئے معلق پُلوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جن پر چلنا بہرحال بزدل اور ڈرپوک لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ جھولتے ہوئے پُل جنگل کے فرش سے قریباً 50 فٹ کی اونچائی پر بنائے گئے ہیں اور خوفناک طریقے سے ڈولتے ہوئے ان پُلوں پر چلنا مہم جو افراد کا دل پسند مشغلہ ہے۔

27 ۔ میٹھے ہونٹ، ٹینیسی  (Sweet Lips, Tennessee)

بمشکل 100 افراد کی آبادی والے اس چھوٹے سے قصبے کا نام اس کے قریب ہی واقع ایک کھاڑی کے نام پر ہے۔ امریکی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے سپاہی اس ندی کے پانی کو باقی جگہوں کی نسبت میٹھا خیال کرتے تھے۔

28 ۔ انڈے کا مشروب، یوٹاہ  (Eggnog, Utah)

امریکا اور کینیڈا میں کرسمس کے موقعے پر انڈے کا ایک خاص قسم کا مشروب تیار کیا جاتا ہے۔ اس قصبے کا یہ نام شاید اس لیے پڑ گیا کیونکہ اس علاقے میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے والے آبادکاروں کو پینے کے لیے اکثر یہی مشروب پیش کیا جاتا تھا۔

29 ۔ کُبڑے گُلِ لالہ، واشنگٹن (Humptulips, Washington)

اس نام کا گُلِ لالہ نامی پھول کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ زیادہ تر ذرائعے کہتے ہیں کہ یہ لفظ مقامی قبائل کی زبان سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ’بانس سے چلانا مشکل‘۔ دراصل مقامی ریڈانڈین لوگ اس علاقے میں واقع دریا میں ایک ڈونگا نما کشتی استعمال کیا کرتے تھے جسے ایک بانس کی مدد دھکیلا جاتا تھا۔ اس لفظ میں اُس مشکل کا ذکر ہے جو اس سلسلے میں درپیش آتی تھی۔ دوسرے نظریئے کے مطابق اس لفظ کا مطلب ہے ’سرد مزاج‘۔

30 ۔ بہتی ناک کا سوراخ ویسٹ وِرجینیا  (Booger Hole, West Virginia)

یہ نام تو ریاست ’نیبراسکا‘ (Nebraska) کے شہر ’وارمز‘ (Worms) سے بھی زیادہ کراہت انگیز لگتا ہے۔ گو اس قصبے کا ماضی اور تاریخ قابلِ شرمندگی ہے البتہ اس کا بہتی ہوئی ناکوں سے کوئی تعلق نہیں۔ 1900ء کے اوائل میں یہ قصبہ بدمعاشوں کی بھرماراور مجرموں سے اٹا ہوا تھا اور پُرتشدد کارروائیوں سے دوچار رہنے کے سبب بدنام تھا۔ یہاں کئی لوگ قتل ہوئے اور بہت سے اجتماعی طور پر غائب کر دیے گئے۔ آج کل یہ قصبہ بھوت پکڑنے کے شوقینوں کا مرکزِنگاہ ہے۔ جہاں تک اس کے عجیب وغریب نام کا تعلق ہے تو داستانوں کے مطابق یہاں کے بہت سے رہائشی اس قصبے میں لوگوں کے قتل اور غائب ہونے کے واقعات کو ’بُوگی مین‘ (boogieman) سے منسوب کرتے ہیں جو ایک دیومالائی عفریت کے کردار کا نام  ہے۔

31 ۔ میں اکیلا ہوں، وِسکونسِن (Imalone, Wisconsin)

اس قصبے کے نام کے حوالے سے ایک دلچسپ کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اس قصبے کے بانی کا نام ’سنوبال اینڈرسن‘ (Snowball Anderson) تھا۔ ایک دن وہ کہیں جانے لگا تو اپنے پیٹرول پمپ کی دیکھ بھال کے لیے ایک شخص ’بِل گرینجر‘ (Bill Granger) کو ذمہ داری سونپ گیا۔ اسی دوران ایک سیلزمین وہاں پہنچا اور اپنے ریکارڈ میں لکھنے کے لیے ’بِل‘ (Bill) سے اس جگہ کا نام پوچھا۔ سیلزمین کے استفسار پر ’بِل‘ (Bill) نے جواب دیا کہ ’’میں اکیلا ہوں‘‘ (I’m alone)۔ دراصل ’بِل‘ (Bill) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مجھے معلوم نہیں، اور کیونکہ پیٹرول پمپ پر میں اکیلا ہوں اس لیے کسی سے اس جگہ کا نام پوچھنے کے لیے بھی نہیں جا سکتا۔ ہوں اس سیلزمین نے اپنے سوال پر ’بِل‘ (Bill) کے جواب ’میں اکیلا ہوں‘ (I’m alone) کو اس علاقے کا نام سمجھتے ہوئے اپنے ریکارڈ میں یہی لکھ دیا۔ جبکہ قصبے کے ایک موجودہ رہائشی کے مطابق ’اینڈرسن‘ (Anderson) نے اس قصبے کا یہ نام خود ہی رکھا تھا کیونکہ وہ خود بھی اکیلا ہی تھا۔

32 ۔ ڈکارتا پانی،  وائے اومینگ (Chugwater, Wyoming)

اس نام کے پیچھے جو کہانی مشہور ہے وہ یہ ہے کہ مقامی ریڈانڈین قبائل کا ایک نوجوان جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ’اَرنے بھینسوں‘ کے شکار کو جاتا تو وہ اکثر نوجوانی کے جوش وجذبات میں آکر اُن جنگلی بھینسوں کے تعاقب میں چٹانوں کی چوٹیوں تک پہنچ جاتا جہاں سے کئی بھینسے پھسل کر نیچے جا گرتے اور گرتے ہوئے بھیانک انداز میں ڈکارنے کی بلند آوازیں نکالتے۔ چونکہ وہاں وادی میں نزدیک ہی ایک ندی بھی تھی اس لیے مقامی باشندوں نے اس علاقے کو اپنی زبان میں ’’وادی کا وہ پانی جہاں بھینسے ڈکارتے ہیں‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعدازاں مختصر ہو کر ’ڈکارتا پانی‘ (Chugwater) رہ گیا۔افسوس کہ آج 21 ویں صدی میں ہم میں سے بہت سے لوگ اس طرح کی آوازیں اس وقت نکالتے ہیں جب انہیں بہت شدید پیاس لگی ہوئی ہو۔

zeeshan.baig@express.com.pk

The post مضحکہ خیز ناموں والے امریکی شہر appeared first on ایکسپریس اردو.

تحقیق میں خود نمائی سے دور رہا، بطور مرتب بھی نام آنا اچھا نہیں لگتا، ڈاکٹر ابو سلمان

$
0
0

عروس البلاد کا حُسن جب اپنے ہی ڈھنگ میں قدیم بستیوں سے اِٹھلاتا ہوا اُس نگری پہنچتا ہے، تو اِس کے رنگ کچھ الگ ہی ہونے لگتے ہیں۔۔۔ گرومندر، پٹیل پاڑہ، لسبیلہ، گولی مار، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد سے آگے چلتے چلے جائیے اور نظارہ کیجیے۔۔۔

اُس روز ہماری منزل بھی اسی راستے سے ہو کر ملنا تھی، شہر کے ’جنوب‘ سے سوا گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ’شمالی کراچی‘ پہنچے۔۔۔ اب ہمارے سامنے سڑک کے دائیں سمت ’نئی‘ جب کہ بائیں سمت ’شمالی‘ کراچی اپنی بانہیں پھیلائے تھی۔۔۔ ہم جیسا شہر کے گنجان ترین حصے سے آنے والا دیکھتا ہے کہ یہاں نیلا گگن بہت دور تلک نگاہوں کا ساتھ دیتا ہے۔۔۔

جلد ہی ہمارے قدم مطلوبہ پتے کے مطابق اِس شاہ راہ سے ایک گلی کو مُڑ گئے۔۔۔ یہ گلی دراصل اپنے دائیں بائیں نکلتی ہوئی گلیوں کے لیے ایک ’سڑک‘ تھی۔۔۔ سو ہم بھی کچھ دیر بعد ایسی ہی ایک گلی میں داخل ہوئے۔۔۔ جہاں کچھ مکانوں کے صحن اب بھی اِکا دُکا درختوں کو اپنا مکین کیے ہوئے تھے۔۔۔ سو وہ جھوم جھوم کے ہماری طبیعت کو شاداں کرتے۔۔۔ ایک بادام کے پیڑ کے بچھے ہوئے بڑے بڑے سرخی مائل زرد پتے خبر دیتے تھے کہ بہار ابھی اپنے جوبن پر نہیں آسکی۔۔۔ مگر اسی ’بادام کے پیڑ والی گلی‘ میں ہم نے علم وتحقیق کے ایک ’گھنے شجر‘ کی چھائوں کو اپنی تقدیر میں پا لیا۔۔۔

سادہ سے گھروں کے بیچ یہ مسکن اُن کی ہستی کے طفیل عظیم تر ہے۔۔۔ اگر اُن سے واقف نہ ہوں، تو یہ بھی ایک عام سا مکان دکھائی دے۔۔۔ لیکن اگر خبر ہو تو اِسے علمیت کا ’دولت کدہ‘ جانیے۔۔۔ جہاں ہمارے مہمان گاہ میں بیٹھنے کے کچھ لمحوں بعد ہی وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے جلوہ افروز ہو گئے۔۔۔ اُن کے نورانی سراپے میں ایک ماہتابیت سی تھی۔۔۔ ایسی کہ نگاہ ہٹانا مشکل۔۔۔ اس گھڑی یہ لفظ لکھنے والے کا وجود خود پر نازاں تھا، کیوں کہ اس کے سامنے موجودہ عہد کے ممتاز محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری تھے۔

باقاعدہ گفتگو شروع کرنے سے پہلے ہم نے اُن کی ایک کتاب پر اپنے نام کے ساتھ دستخط ثبت کرا لیے۔۔۔ پھر انہوں نے ہمارے اخبار اور انٹرویو کے مقصد سے واقفیت حاصل کی اور فرمایا کہ ’’میں اس لیے الگ تھلگ رہتا تھا کہ یہ (اخبار نویس) جا کر الٹا سیدھا لکھ دیتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر ابو سلمان کی یادداشت کی باگ چاہے کتنی ہی چُھوٹی جائے، لیکن شیریں و نستعلیق گفتار کی رکاب میں ذرا بھی لغزش نہیں۔۔۔ اُن کے جملوں کا آغاز ’’جناب والا‘‘ سے سجتا ہے۔ اُن کے سخن میں پرندوں کی چہچہاہٹ پس منظر میں رَس گھولتی رہتی ہے۔۔۔ کبھی کسی پھیری والے کی سمع خراش صدا سے یہ چہچہاہٹ پس پَا ہو جاتی۔۔۔ ٹین ڈبے والا، کبھی ’گلاس برنی‘ اور کبھی پٹیز والا۔۔۔ لیکن گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک صاحب اپنی کتاب پر دیباچہ لکھوانے کے لیے آئے، جس میں مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق کافی بے بنیاد باتیں منسوب تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو بالکل خلاف حقیقت باتیں ہیں، یہ اُن کی حیثیت اور مرتبے کے خلاف ہیں۔ اسے شایع نہیں کرنا چاہیے، لیکن انہوں نے وہ کتاب چھاپ دی۔‘ ہم نے اس کتاب یا مصنف کا نام پوچھا، لیکن وہ اِسے بازیافت کرنے میں کام یاب نہ ہو سکے۔۔۔!

ہم نے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے ذاتی زندگی کے سوالات کیے، تو انہوں نے مع سَن معلومات بتانے سے معذوری ظاہر کی اور کوائف دیتے ہوئے کہا ’یہ آپ اس میں سے لکھ لیجیے گا۔ ہجرت سے متعلق بتایا کہ ’’یہاں آنے کے بعد بہت تکالیف میں رہا، یہاں میرے ساتھ دو بڑے اور دو چھوٹے بھائی بھی تھے۔ میں نے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور ہندوستان میں اپنے خاندان کے ایک ایسے بزرگ سے پڑھا، جو ہمارے بچھڑے ہوئے رشتہ دار تھے۔‘‘

پھر اُن کی گفتگو بھٹکتی ہوئی 1857ء کی جنگ آزادی کی طرف جا نکلی، انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں ان کے بزرگوں نے حصہ لیا، بہت سے افراد بچھڑے اور لاپتا ہوئے۔ عالم یہ تھا کہ بچے ایک ساتھ کھیلتے تھے، ایک دوسرے کے ہاں پڑھنے جاتے تھے، لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خونی رشتے دار بھی ہیں۔

ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے بتایا کے اُن کے پردادا 1857ء کی جنگ میں شہید ہوئے اور ان کی تدفین ’شاہ جہاں پور‘ کی عید گاہ میں ہوئی۔ وہ اپنے اساتذہ کے باب میں ’جمعیت علمائے ہند‘ سے وابستہ کسی بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے خاندان کے لوگ جا رہے ہیں، آپ ہندوستان میں بالکل تنہا رہ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم نے آپ کے زیرنگرانی پڑھا، آپ سے محبت کی، ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے، آپ کی خدمت کریں گے۔ جس پر انہوں نے کہا نہیں، تم اپنے والد کے ساتھ چلے جائو۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میں دراصل اُن کے دادا کے قبیل سے ہوں۔۔۔ نہ ہی میں اس رشتے سے آگاہ تھا۔

تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر ابو سلمان بتاتے ہیں کہ انہوں نے وہاں مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی اسکول میں بھی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ ہجرت کے بعد کراچی آکر کسی دکان وغیرہ پر بھی کام کیا، پھر سیاست سے دل چسپی لیتے ہوئے ’جمعیت علمائے اسلام‘ کے قریب ہونے کا ذکر کرتے ہیں، کہتے ہیں، کہ لیکن میں بوجوہ اس میں شامل نہیں ہوا۔

ہم نے مولانا ابو الکلام آزاد پر سند سمجھے جانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی یادداشت سے مولانا کے بارے میں کچھ یادیں ٹٹولنا چاہیں، تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ ’میں نے انہیں دیکھا، ملا، گفتگو کی، تقریر سنی، اور میرا ان سے تعلق ہندوستان میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔‘

اس کے بعد ان کی یادداشت کے پَنّوں میں دسمبر 1986ء میں ان کے کتب خانے کو جلائے جانے کی شبیہیں ابھرنے لگی تھیں۔۔۔ کہ جب دہشت گردوں نے علی گڑھ کالونی میں بڑے پیمانے پر مکانات پر حملہ کر کے آگ لگا دی تھی، اس کی زد میں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا گھر اور کتب خانہ بھی آیا اور سیکڑوں نادر ونایاب کتب اور تاریخی دستاویزات خاکستر ہوگئیں۔۔۔ اُن کی نواسی طیبہ بتاتی ہیں کہ نانا کو اس سانحے کے صدمے میں پہلی بار دل کا دورہ پڑا!

علی گڑھ کالونی پر حملے کے اس واقعے کے لیے وہ ’جنگ‘ کا لفظ برت جاتے ہیں اور ذہن کے پردے سے اس دل دوز سانحے کا کچھ مِٹا مِٹا سا احوال ’پڑھنا‘ شروع کرتے ہیں:

’وہاں سب میری بہت عزت کرتے تھے، میری بات مانتے تھے۔ جب ہمارے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر کچھ مشتعل لڑکے آگئے۔۔۔ میں نے انہیں کہا کہ دیکھو، جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ وہاں کے جو پٹھان ہیں، انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اس لیے ہم کسی کے ساتھ کچھ غلط فعل نہیں کریں گے، ایک لڑکا چیخ پڑا کہ ہم یہاں سے فلاں کو نکالیں گے۔ ہم نے باور کرایا کہ دیکھو، یہ مدرسہ پورے علاقے کا ہے، یہاں سب اکھٹے ہوتے ہیں، یہ جگہ لوگوں کے ملنے اور ان کی سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ ہم نہ کسی کو ماریں گے اور نہ لڑیں گے!‘

’’آپ کے گھر پر حملہ کیوں کیا گیا؟‘‘ ہم نے جاننا چاہا، وہ بولے کہ ’’بس انہوں نے یہ دیکھا کہ ’ہندوستان والے‘ کا ہے، وہ ہمیں جانتے نہیں تھے۔‘‘ وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو ناپسند کرتے ہیں اور چیئرمین عظیم احمد طارق کو انتہائی شریف قرار دیتے ہیں۔

ابو سلمان کہتے ہیں کہ میں تحقیق میں خود نمائی سے ہمیشہ دور رہا، لیکن اب مرتب کے طور پر تو سرورق پر ہمارا نام ظاہر ہوگیا۔ ’شاہ جہاں پور، تاریخ عمومی اور جنگ آزادی 1857ء کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بطور خاص اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس میں جن لوگوں کا ذکر ہے، ان کی آج موجود آل اولاد کو بھی خبر کی جائے کہ ان کے آبا نے اس جدوجہد میں کیا کردار ادا کیا، تاکہ انہیں مسرت ہو۔ بے شمار کاغذات اور دستاویزات کو اس مختصر سی کتاب میں جمع کیا گیا ہے، اب مزید اس سے زیادہ اچھا مواد موجود ہے، ایسی بہت سی شخصیات ہیں، جو لاپتا ہوگئیں یا کہیں اور قتل کی گئیں یا دربدر ہو گئیں۔‘

ڈاکٹر ابو سلمان نے بتایا کہ انہیں ’ہندی‘ کی بھی تھوڑی بہت شد بد ہے، لیکن اُن کا زیادہ تر کام اردو میں ہی رہا۔ یہاں وہ کچھ عرصہ نواب شاہ میں رہے، تو سندھی کے کچھ جملے بولنا سیکھ لیے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے پاکستان سے متعلق جو کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُن سے بہت سی غلط باتیں منسوب کر دی جاتی ہیں؟‘ وہ بولے کہ ’’وہ دوسرے قسم کے معاملے تھے، آپ اس کو چھوڑیے، ا للہ بہتر کرے گا۔۔۔!‘‘ ایسا معلوم ہوا کہ اُن کی یادداشت تو ساتھ دے رہی تھی، لیکن انہوں نے دانستہ اس بات کو پوشیدہ رکھا۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ اخبار میں آنے والی بات نہیں ہے، میں اپنی اولاد اور دوستوں کو بھی ساری باتیں نہیں بتاتا!‘

’’ابو سلمان ہندی‘‘ اور ’’ابو سلمان سندھی‘‘!
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے دیے گئے کوائف کے مطابق وہ 1940ء میں شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی) میں محمد حسین خان کے ہاں پیدا ہوئے، اُن کا نام تصدق حسین خان رکھا گیا، لیکن انہوں نے قلمی نام ابو سلمان الہندی اپنایا، یہاں آکر انہوں نے خود کو کئی بار ’ہندی‘ کے بہ جائے ’سندھی‘ بھی لکھا۔ ان کے جد امجد نواب بہادر خان سترہویں صدی کے وسط میں شمال مغربی علاقے سے ’یوپی‘ آئے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے 1951ء میں پاکستان ہجرت کی، لکھنے کا سلسلہ 1957ء میں شروع ہوا، وہاں دینی مدارس میں زیر تعلیم رہے، یہاں آکر 1962ء میں میٹرک، 1968ء میں بی اے اور 1970ء میں ایم اے کیا، جب کہ 1980ء میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس پر مامور رہے۔ پاک وہند کی سیاسی تاریخ، تحریک ولی اللہی، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحریکوں کے نشیب وفراز ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔ دسمبر 1986ء میں علی گڑھ کالونی میں دہشت گردی کے بدترین واقعے میں ان کے گھر کے سامان کے ساتھ قیمتی مخطوطات، دستاویزات اور کتب جل گئیں۔ یہ قومی اور ملی تحریکات میں ان کے ذاتی ذخیرے میں کم سے کم پاکستان میں سب سے زیادہ قیمتی ذخیرہ قرار دیا جاتا تھا۔

1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین مختلف رسائل میں شایع ہوئے اور بعض پرچوں میں فرضی ناموں سے بھی مضامین لکھے۔ ہندوستان میں معارف اعظم گڑھ، برہان (دہلی)، اردو ادب (علی گڑھ)، ہماری زبان (علی گڑھ)، مدینہ (بجنور) الجمعیت (دہلی) سب رس (حیدرآباد، دکن) وغیرہ، جب کہ یہاں ہفت روزہ ’چٹان‘، سہ ماہی اردو، قومی زبان، اردو نامہ، افکار، اخبار اردو ، الفتح، الحق، فنون اور ‘پاکستان ہسٹاریکل جرنل‘ وغیرہ میں لکھتے رہے۔

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب ’غبار خاطر‘ سے ایسے متاثر ہوئے کہ پھر ابو الکلام آزاد کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھیں۔ اُن کی سوانح حیات بہ عنوان ’’امام الہند، تعمیر افکار‘‘ بھی لکھی، جس میں 1912ء تک کی زندگی کا احاطہ ہے۔ 1988ء میں ابو الکلام آزاد کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے 24 کتب پر مشتمل کتب کی تصنیف وتالیف کا منصوبہ بنایا۔

دوران انٹرویو ہم پر ابو الکلام آزاد کا ’’دست شفقت‘‘۔۔۔!
مولانا ابو الکلام آزاد کے اِس عقیدت مند نے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری تک صرف انٹرویو کرنے کی خواہش پہنچائی تھی۔۔۔ لیکن ہماری بیٹھک کے اُس لمحے ہم پر ایک عجب کیفیت ہی طاری ہوگئی، جب انہوں نے فرمایا کہ وہ ہمیں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ابو الکلام آزاد کی طرف سے ملنے آئیں گے۔۔۔! ابھی ہم اسے مولانا آزاد سے اپنی پرخلوص وابستگی کا روحانی نتیجہ سمجھنے پر اَش اَش ہی کر رہے تھے کہ کیسے بِن بتائے وہ ہمیں مولانا آزاد سے نتھی کر رہے ہیں، پھر انہوں نے کہا ’ہندوستان میں ہم اُن کے خاندان سے ملے، انہوں نے یہ ہمیں دو چیزیں دیں۔۔۔ ایک یہ چھوٹا سا بستہ، اور یہ ٹوپی، یہ مولانا ابو الکلام آزاد کی ہے۔ جب بھی ہمارا کوئی دوست ملنے آتا ہے، ہم یہ ٹوپی پہن کر آتے ہیں اور کچھ دیر یہ اُس کے سر پر بھی رکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ بھی رکھیے۔۔۔!‘‘ ہمارے لیے ابوالکلام سے جُڑے ایک درویش کی قدم بوسی کیا کم تھا کہ یہ اعزاز بھی نصیب ہوگیا۔۔۔ ہمیں یوں لگا جیسے ’امام الہند‘ نے سرحد پار اپنے ایک ادنیٰ عقیدت مند کے سر پر اپنا ’’دست شفقت‘‘ رکھ دیا ہو۔۔۔!

ذخیرۂ کتب جلنے پر ہم دردی کرنے والوں سے احسان مندی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری اپنے کتب خانہ جلنے کے سانحے پر مختلف شخصیات کی ہم دردی کا بڑی احسان مندی سے ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وہ فائل بھی دکھائی جس میں اس حوالے سے مختلف خطوط اور تحریروں کے عکس شامل ہیں۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان احباب کا ذکر ضرور کیا جائے۔

ان کے پاس محفوظ ہم دردی کے خطوط میں دبیر حسین رضوی (علیگ)، ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر وحید قریشی، محمد اسحق بھٹی (ادارہ ثقافت اسلامیہ)، رفیع الدین ہاشمی (جامعہ پنجاب)، تحسین فراقی (جامعہ پنجاب)، شفقت رضی (نیشنل کالج، کراچی)، نجم الاسلام (جامعہ سندھ)، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی (جامعہ کراچی)، آغا عبدالغنی (آرکیلوجیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان)، ڈاکٹر وقار احمد رضوی (جامعہ کراچی)، اور ڈاکٹر شیر بہادر خان (دارالشفا ایبٹ آباد) کے مراسلے شامل ہیں۔ اخبار و رسائل میں خبروں کے علاوہ ’قومی زبان‘ (کراچی)، الاعتصام (لاہور)، جریدۂ ہمدرد، ’تکبیر‘ (کراچی) اور بزنس ریکارڈر (کراچی) میں لکھا گیا، جب کہ قمر الحق قمر، اشتیاق اظہر، مختار زمن اور شعیب الرحمن (دریچہ خانیوال) نے اپنے مضامین میں اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا۔ 23 دسمبر 1986ء کو شایع ہونے والے اپنے بیان میں ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے کہا کہ میرا مکان پہلی رو میں ہونے کے سبب سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا اور پھر اس آگ نے پوری کالونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہی میری حیات کا سہارا تھا، افسوس اب زندگی کی کوئی خواہش نہیں!

بہت سی کتب شایع ہونے کو ہیں۔۔۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی گفتگو میں ضعیف یادداشت کے سبب ’اسم‘ کا ذکر بہت کم ہے۔۔۔ اس لیے ہمیں بہت سی تاریخی گفتگو مبہم ہونے کے سبب حذف کرنا پڑی! وہ بات کرتے کرتے مسجد یا عید گاہ کا لفظ بازیافت نہیں کر پاتے، تو پوچھتے ہیں کہ جہاں نماز پڑھتے ہیں۔ تھانہ کہنا یاد نہیں آتا تو دریافت فرماتے ہیں، وہ جو سپاہیوں کا ادارہ ہوتا ہے۔ بینک کہنا چاہتے ہیں، تو استفسار کرتے ہیں جہاں سے روپیا پیسا لیتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعت کے بہ جائے سیاست کا ادارہ کہہ کر اپنی بات پوری کرتے ہیں۔

انہیں ماشااللہ چلنے پھرنے میں تو دشواری نہیں، لیکن کم زور یادداشت کے سبب باہر آنا جانا موقوف ہے، کیوں کہ ایک مرتبہ گھر سے نکلے تو راستہ چُوک گئے۔۔۔ اُن کی نواسی طیبہ اُن کے ساتھ رہتی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ نانا نے خرابی صحت کی بنا پر دو سال سے تحقیقی کام چھوڑا ہوا ہے۔ اُن کے ذخیرے میں 40 ہزار کے قریب کتب تھیں، جو ایک واقف کار تنویر صاحب کے سپرد کر دی ہیں۔ اب تھوڑی بہت کتب ہیں۔‘ ڈاکٹر ابو سلمان کی تصانیف وتالیفات کا شمار سیکڑوں میں ہے۔ ابو الکلام آزاد کے علاوہ ان کی کتابوں کے موضوعات برصغیر کی تاریخ، اسلامی تحریکات اور علما وغیرہ ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی میز پر چھے، سات کتابوں کے مسودے بندھے پڑے ہیں۔ طیبہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے کاغذات سے کچھ چیزوں کو یاد کر کے اشاعت کے لیے نکالتے رہتے ہیں۔ نواسی طیبہ کے بقول ڈاکٹر ابو سلمان کو اپنے دوستوں کے نام یاد نہیں رہتے، ان کی خط وکتابت وہی کرتی ہیں، کبھی فون پر بات کرتے ہوئے وہ طیبہ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابو سلمان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، ایک بیٹی اور بیٹے کا انتقال ہو چکا ہے۔

کسی طرح ’جامعہ سندھ‘ کے ایک مقالہ نگار کا سراغ لگانا ہے!
2000ء میں شعبہ اردو، جامعہ سندھ میں ایم اے کے ایک طالب علم نعیم الرحمن جستجو نے سید جاوید اقبال کی زیر نگرانی ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ طالب علم سے ڈاکٹر صاحب کا بہ ذریعہ خط وکتابت رابطہ رہا، لیکن پھر یہ رابطہ منقطع ہوگیا، نعیم الرحمن جستجو نے اپنا مقالہ درست کرنے کے لیے انہیں بھجوایا تھا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح جامعہ سندھ کے طالب علم نعیم الرحمن سے اُن کا رابطہ ہو جائے۔ ہمیں بھی ہدایت کی یہ ذکر بھی کر دیجیے گا، کہتے ہیں کہ ’ہے یہ نوجوان کوئی ہندوستان کی طرف کا ہی، کیوں کہ اس نے ہمارے نام خاندان اور علاقے وغیرہ سے متعلق جس طرح معلومات لی ہیں، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔‘

The post تحقیق میں خود نمائی سے دور رہا، بطور مرتب بھی نام آنا اچھا نہیں لگتا، ڈاکٹر ابو سلمان appeared first on ایکسپریس اردو.

دماغ اغوا ہونے لگیں گے

$
0
0

 یادداشت کا انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے، اگر آپ کا ماضی خوب صورت یادوں سے مزین ہیں تو پھر آپ یقینا دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں سے ایک ہیں، لیکن اگر آپ ماضی ’ یاد ماضی عذاب ہے یا رب ’کی عملی تصویر ہے تو پھر آپ اسے بھلانے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہتے ہیں۔

یادداشت سے جُڑی خوب صورت یادیں اور ناپسندیدہ تصورات اپنی جگہ لیکن ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ اپنے ماضی کے خوب صورت لمحوں کو اسی طرح اسکرول کرسکیں جس طرح آپ انسٹاگرام پر اپنی زندگی کے خوب صورت لمحات کو تمام تر جزیات کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ انسٹاگرام کی طرح کوئی آپ کی خوب صورت یادوں کو ہائی جیک کرلے، اور تاوان ادا نہ کرنے پر انہیں مٹانے کی دھمکیاں دے۔ سننے میں یہ بات مبالغہ آمیزی لگتی ہے کہ کوئی آپ کے دماغ میں موجود خوب صورت یادوں کو کیسے تاوان کے لیے اغوا کرسکتا ہے، لیکن جلد ہی مبالغہ آمیزی لگنے والی یہ بات حقیقت کے روپ میں ڈھلنے والی ہے۔

نیوروٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے ہمیں اس تصور کے قریب تر کردیا ہے کہ اب ہم نہ صرف اپنی دھندلی یادوں کو مزید واضح کرسکتے ہیں بلکہ انہیں اپنی انسٹاگرام پوسٹ کی طرح ڈی کوڈ، اپنی مرضی سے تبدیلیاں کرنے ساتھ ساتھ انہیں دوبارہ لکھ بھی سکتے ہیں۔

انسانی دماغ کے اس حیرت انگیز استعمال کے لیے صدیاں نہیں بس  چند دہائیاں درکار ہیں۔ انسانی دماغ میں اس طرح کی ڈیولپمنٹ کی تائید برین امپلانٹ سے بھی ہوتی ہے جو بہت تیزی سے نیورو سرجنز کا اہم ٹول بنتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال رعشہ، آبسیسو کمپَلسِو ڈس آرڈر (ایک دماغی عارضہ جو ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے، اس عارضے میں نہ چاہتے ہوئے بھی دماغ میں غیرضروری خیالات، واہمات ایک تسلسل کے ساتھ آتے ہیں) کے لیے بڑے پیمانے پر ڈیپ برین اسٹیمیولیشن (ایک نیورو سرجیکل طریقہ کار جس میں دماغ میں ایک طبی آلہ ’نیورواسٹیمیولیٹر‘ نصب کردیا جاتا ہے، جو دماغ کو برقی تحریک بھیجتا ہے) کیا جا رہا ہے۔

دماغی امراض کے ماہرین جلد ہی ڈیپ برین اسٹیمیولیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ذیابطیس اور موٹاپے کے علاج کے لیے بھی پُرامید ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اس ٹیکنالوجی کو یاسیت، مالیخولیا، لقوہ اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں استعمال کرنے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن محققین کسی حادثے کے نتیجے میں ختم ہوجانے والی یادداشت کی بحالی کے لیے بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ فوجی مقاصد کے لیے مصنوعی ذہانت اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو فوجی مقاصد میں استعمال کرنے کے منصوبے پر کام کرنے والی امریکی محکمۂ دفاع کی ایک ایجنسی ’ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘ دماغی چوٹ کے نتیجے میں فوجیوں کی ختم ہونے والی یادداشت کی بحالی کے لیے ایک وائرلیس عصبی انٹرفیس (ایک ایسا پوائنٹ جہاں دو ایلیمنٹس ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام یا معلومات کا تبادلہ کرسکیں) تیار اور اس کا کام یاب تجربہ کرچکی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبے نَف فیلڈ برائے سرجیکل سائنسز کے محقق Laurie Pycroft کا کہنا ہے کہ ’کہ اگلے دس سالوں میں دماغ میں نصب کی جانے والی یادداشت کی تجارتی بنیادوں پر دست یابی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیوں کہ ہم اس ٹائم فریم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی کام کر رہے ہیں۔ تاہم اگلے بیس سالوں میں یہ ٹیکنالوجی ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا اہل بناسکتی ہے کہ ہم اپنی یادداشت کی تعمیر، اسے بڑھانے اور واپس دماغ میں داخل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور اس دہائی کے وسط تک ہم اپنی یادداشت میں ردوبدل کرنے کی صلاحیت پر بھی قابو پاسکتے ہیں۔‘

پائیکروفٹ کا کہنا ہے کہ دماغ پر مکمل کنٹرول حاصل کر نے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا دماغ غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے ’برین جیکنگ‘ کا نام دے سکتے ہیں، تصور کریں کہ ایک ہیکر پارکنسن کے مریض کے نیورواسٹیمیولیٹر کو توڑتے ہوئے اس کی ترتیب میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔ اس مریض کے پورے دماغ پر قابو پانے کے بعد وہ ہیکر اس کی سوچوں اور طرزعمل پر اثرانداز ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ وہ جب، جس وقت چاہے اپنے شکار کو عارضی طور پر مفلوج بھی کرسکتا ہے۔ کوئی بھی برین جیکرکسی بھی فرد کے دماغ پر قابو پاکر اس کی یادداشت کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرسکتا ہے، تاوان کی عدم ادائیگی پر اس کی زندگی بھر کی یادداشت یکسر صاف یا اس میں کسی اور کی یادداشت لکھ سکتا ہے۔

یہ برین جیکنگ کے محض چند خاکے ہیں، اگر سائنس داں ہماری یادداشت کے عصبی سنگلز کو ڈی کوڈ (مرموز عبارت کو پڑھنا) کرنے میں کام یاب ہوگئے تو پھر اس طرح کے لامحدود واقعات ہوسکتے ہیں۔ ایسے غیرملکی انٹیلی جنس ہیکر کے بارے میں سوچیں جو واشنگٹن میں قائم فوجی اسپتال کے مریضوں کے دماغ پر قابو پا لے۔ پائیکروفٹ نے بتایا کہ 2012 میں کیلے فورنیا، برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے ایک تجربہ کیا۔

اس تجربے میں انہوں نے ایک گروپ کو گیمنگ ہیڈ سیٹ پہنا کر ان کی دماغی لہروں (P-300)کا مشاہدہ کیا۔ اس مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیڈ سیٹ کی مدد سے دماغی لہروں پر قابو پاکر کسی بھی فرد کی نجی معلومات، اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈ اور ان کے پن نمبر تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دماغ سے موصول ہونے والی ان معلومات کو انسانی ذہن کی بنیادی سوچ پڑھنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اور برین جیکر دماغ پر مکمل قابو پا کر دماغی لہروں کی مدد سے مذکورہ فرد کے طرزعمل اور جذبات میں ردوبدل کرسکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پیس میکر، انسولین پمپ جیسے امپلانٹ کی نسبت نیورولوجیکل امپلانٹ زیادہ پیچیدہ اور سائبر حملے کے لیے غیرمحفوظ ہے، کیو ں کہ پیس میکر اور انسولین پمپ کے برعکس اس کا تعلق مریض کی سوچ اور اس کے طرزعمل سے جڑا ہے، ہیکنگ کی اس خطرناک صورت حال میں کئی اخلاقی اور غیرقانونی مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔

پائیکروفٹ کے علاوہ دیگر محققین کو بھی عصبی سگنل پر مکمل قابو پانے کی ٹیکنالوجی پر تحفظات ہیں۔ سائبر سیکیوریٹی کے لیے کام کرنے والی مشہور کمپنی Kaspersky Lab کی ریسرچر دیمتری گیلووکا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے،’برین جیکنگ اور یادداشت میں نقصان دہ تبدیلیوں سے دنیا بھر میں سیکیوریٹی کے کئی مسائل درپیش ہو جائیں گے۔ اس ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے سیکیوریٹی کے ممکنہ خطرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے لیے ہم (Kaspersky Lab) آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔‘

گذشتہ سال اکتوبر میں کیسپر اسکائی لیب نے ’The Memory Market: Preparing for a future where cyberthreats target your past.‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر یادداشت پر ہونے والی موجودہ ترقی کو دیکھیں تو یہ اب بھی بہت سے لوگوں کی سوچ سے کہیں زیادہ جدید ہے، اس میں مریض کی حفاظت اور ضمانت کے درمیان واضح تناؤ ہے۔ اب یہ تصور بھی ناقابل یقین نہیں ہے کہ مستقبل کی آمر حکومتیں عوام کی یادداشت میں مداخلت کرکے تاریخ کو مسخ اور اپنی مرضی کی یادداشت داخل کردیں۔ اگر ہم اس ٹیکنالوجی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم لوگوں کے طرزعمل کو تبدیل کرنے کے اہل بھی ہوسکتے ہیں۔

اگر ان کا طرزعمل ہمارے لیے پسندیدہ نہیں ہے تو پھر ہم ان کے دماغ میں برے جذبات کو چنگاری دینے والے حصے کو تحریک دے کر انہیں روک سکتے ہیں۔ اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ ’فیوچر آف پرائیویسی فورم‘ کی ہیلتھ پالیسی فیلو کارسن مارٹینیز کا کہنا ہے ’یہ بات سوچنا بعیدازقیاس نہیں ہے کہ مستقبل میں یادداشت بڑھانے کے لیے برین امپلانٹ ایک حقیقت بن جائے گی۔ لیکن ! یادداشت میں ترمیم؟ یہ بات حقیقت کے بجائے ایک قیاس آرائی لگتی ہے۔ تاہم برین جیکنگ کے خطرات ناگزیر نہیں ہوسکتے، اہم بات یہ ہے کہ ہم اس خطرے کو سمجھتے ہوئے حقیقت پسندی سے اس سے تحفظ کے لیے کام کریں، کیوں کہ اس صورت میں مریضوں کا مکمل انحصار نیٹ ورک سے منسلک طبی آلات پر ہوگا۔

انسانی جسم و دماغ سے منسلک طبی آلات کی ہیکنگ کوئی نیا خطرہ نہیں ہے۔ 2017 میں امریکی حکام نے سائبر سیکیوریٹی حملے سے بچاؤ کے لیے غیرمحفوظ تصور کرتے ہوئے 4لاکھ65ہزار پیس میکر (دل کی ڈھرکن کو باقاعدہ رکھنے والی ڈیوائس) مارکیٹ سے واپس اٹھا لیے تھے۔ ایف ڈی اے (فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن ) نے اس ڈیوائسز کو واپس اٹھانے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ کچھ بیمار ذہنیت کے لوگ ان پیس میکر میں تحریف کرتے ہوئے دل کی رفتار میں تبدیلی یا بیٹری ختم کرکے مریضوں کو موت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔

ایف ڈی اے کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس طرح کا معاملہ پیش نہیں آیا ہے لیکن جس طرح طبی آلات کو انٹرنیٹ کے ذریعے اسپتال کے نیٹ ورک، اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور دیگر طبی ڈیوائسز سے جوڑا جا رہا ہے تو اس سے سائبرسیکیوریٹی میں تغیرپذیری کے خطرات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہ خطرہ بہت سے طبی شعبوں کے ساتھ درپیش ہے اور مستقبل میں مزید طبی آلات کو مشینوں سے منسلک کرکے ریموٹلی مانیٹر کیا جائے گا اور ڈاکٹرز کو صرف نہایت ہی ہنگامی حالات میں بلایا جائے گا۔

مارٹینیز کا کہنا ہے کہ سائبرسیکیوریٹی کے ڈیزائن اور پلاننگ میں ابتدائی تبدیلی سے زیادہ تر خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ انکرپشن (رمز نگاری۔ ڈیٹا کی انکوڈنگ کرنے کا ایسا طریقہ جس سے غیر مستند رسائی روکی جاسکے) آئی ڈینڈیٹیٹی اینڈ ایکس مینجمنٹ، سیکیوریٹی پیچنگ (کمپیوٹر پروگرام یا اپ ڈیٹ، درستی اور بہتری کے لیے ڈیزائن کیا سپورٹنگ ڈیٹا ڈیزائن کا سیٹ) اور اپ ڈیٹنگ کے ذریعے ان طبی آلات کو زیادہ قابل بھروسا اور مریضوں پر ان کا اعتبار قائم رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے اسپتال، کلینک کو بھی مریضوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اپنی ڈیوائسز کو ہیکنگ سے بچا سکتے ہیں۔

انسانی نمائندگی طبی آلات کے غیرمحفوظ ہونے کے اہم اسباب میں سے ایک ہے، کیوں کہ اس وقت دنیا بھر میں ہونے والے امپلانٹ مصروف ہیلتھ کیئر ماحول میں ہو رہے ہیں، اور اسپتالوں میں کام کرنے والے افراد سائبرسیکیوریٹی کے ماہر نہیں ہیں۔ کیسپر لیب کی جانب سے کی گئی آن سائٹ تحقیق کے نتائج بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مریض کی طرح اسپتالوں میں کام کرنے والا طبی عملہ اور ڈاکٹر حضرات بھی کلینیکل پروگرام کے لیے مضبوط پاس ورڈز نہیں رکھتے، طبی پروگرامز کے لیے پہلے سے انسٹال کیے گئے پروگرام کے ساتھ فراہم کیے گئے جدید آلات، آئی پیڈز، اسمارٹ فونز کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

آن لائن براوئزنگ، غیرضروری ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ یادداشت سنبھال کر رکھیں کہیں ’برین جیک‘ نہ ہوجائے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہیلتھ کیئر پروفیشنل بھی وہ ہی غلطی کرتے ہیں جو غلطی ایک عام استعمال کنندہ کرتا ہے۔ اس بات کا شعور اجاگر کرنا اشد ضروری ہے۔ تاہم بہت سے تیارکنندگان نے اپنی ڈیوائسز میں پہلے سے موجود طبی پروگرامز کے علاوہ تھرڈ پارٹی ایپلی کیشن کی انسٹالیشن پر روک لگا دی ہے۔ تاہم اسپتالوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ انسانی دماغ اور جسم کے امپلانٹ کے شعبے میں کام کرنے والے طبی عملے اور ڈاکٹر حضرات کو سائبر سیکیوریٹی کے حوالے سے بنیادی باتیں ضرور سکھائیں۔ ہم کسی بھی ڈاکٹر کو سائبر سیکیوریٹی ایکسپرٹ نہیں بنا سکتے۔ پائیکروفٹ کا کہنا ہے کہ برین امپلانٹ مستقبل میں زیادہ پیچیدہ، اور اسے آج کی نسبت بہت سی کنڈیشنز میں استعمال کیا جاسکے گا۔ اور ان عوامل کا ملاپ ہی اسے انسانوں میں نصب آلات کو ہیک کرنے کے خواہش مند ہیکرز کے لیے زیادہ آسان اور زیادہ پر کشش بنا دے گا۔ اس کے سدباب کے لیے ہم اگر امپلانٹ کی پہلی جنریشن میں ہی کوئی حل نہیں نکالتے تو پھر دوسری اور تیسر ی جنریشن بھی غیرمحفوظ رہے گی، لیکن امپلانٹ کے بہت زیادہ طاقت ور ہونے کا فائدہ حملہ آور کو ہی جائے گا۔

یادداشت کے بارے میں دل چسپ حقائق

ماہرِنفسیات انسانی یادداشت کی کم زوریوں سے بہ خوبی واقف ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یادداشت کے دھوکا دے جانے کی صلاحیت کو اہمیت نہیں دیتے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں کے بارے میں کچھ یاد رکھنا ناممکن ہے، لیکن کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انھیں ایسی چیزیں یاد ہیں۔ اپنی آپ بیتی میں اسپین کے مشہور مصّور سیلواڈور ڈالی نے لکھا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرے قارئین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ماں کی کوکھ میں گزرے ان کے زندگی کے اہم ایام کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہو گا، یا شاید کچھ دھندلا دھندلا سا یاد ہو، لیکن مجھے یہ سب ایسے یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔‘ انھیں توقع تھی ان کی اس ’آفاقی جنت‘ کی یادیں باقی لوگوں کو پیدائش سے پہلے کے گم شدہ لمحات کو یاد کرنے میں مدد دیں گی۔ حقیقت میں ڈالی کی یادیں ان کے گہرے تخیل کا نتیجہ ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے فوری بعد کے چند برس کے بارے میں کچھ بھی یاد رکھنا ناممکن ہے۔ یادداشت کے لیے درکار دماغ کا بنیادی ڈھانچا اس وقت مکمل طور پر بنا ہوا نہیں ہوتا جس کا مطلب ہے کہ ابتدائی عمر سے لے کر بچپن میں ہونے والے ذاتی واقعات کو یاد رکھنا جسمانی طور پر ناممکن ہے، بلکہ اُس وقت کی یادیں بعد میں اکٹھے کیے گئے تجربات اور معلومات کا مرکب ہوتی ہیں جو محض فریبِ نظر ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی ماہرِنفسیات اور کتاب ’دا میموری اِلوژن‘ کی مصنف جولیا شا اس عمل کی وضاحت کچھ اس طرح کرتی ہیں’ انسانی یادداشت واقعات کو یاد رکھنے کے لیے اردگرد کے حالات پر انحصار کرتی ہے۔ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس کے شرکا کو یخ پانی سے بھری بالٹی میں ہاتھ ڈال کر فہرست سے الفاظ یاد کرنے کے لیے کہا گیا۔ کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد محققین کو معلوم ہوا کہ دوبارہ یخ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے لوگوں کی یادداشت بہتر ہوگئی۔

ٹھنڈ یا شدید گرمی بھی آپ کی یادداشت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ ابتدائی مراحل میں ریکارڈ ہونے والی یادیں بظاہر غیرمتعلقہ لگنے والے چھوٹے ماحولیاتی یا فعلیاتی اشاروں کی تجدید کر کے بہتر طرح سے یاد رکھی جاسکتی ہیں۔ اپنی کتاب ’دا میموری الوژن‘ میں شا نے اس جانب نشان دہی کی ہے کہ لوگوں کو اپنے فائدے کے لیے ان فعلیاتی اشاروں کا استعمال کرنا چاہیے، جیسا کہ اکثر لوگ پڑھائی کرتے وقت کافی پیتے ہیں یا چیونگم چباتے ہیں، یہی فعل امتحان کے وقت دہرانے سے ان کی یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔ خوش بُو بھی یادداشت بہتر بنانے میں خاصی تاثیر رکھتی ہے، اس لیے دوران امتحان پڑھائی کرتے وقت مخصوص پرفیوم لگانے سے دہرایا گیا سبق یاد آجاتا ہے ۔

کچھ لوگوں کو اپنی اچھی یادداشت پر ناز ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی یادداشت اوسط سے بہتر ہے جب کہ یہ شماریاتی طور پر ناممکن ہے۔ ہم ان وقتوں کو بھول جاتے ہیں جب ہماری یادداشت ہمارا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور ترجیحی طور پر ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب یادداشت کام یاب ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ اگلی بار ہماری یادداشت ہمیں بالکل درست معلومات فراہم کرے گی۔ پولیس افسروں کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کیس میں ان کی یادداشت کی پختگی پر انحصار کرتے ہوئے مجرم کو سزا دے دی جائے اور بلکل یہی خوش فہمی ان طالب علموں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہے جنہیں یہ لگتا ہے کہ انہوں نے امتحان کے لیے بہت زیادہ تیاری کرلی ہے۔

یادداشت کے بارے میں خوش فہمی کا سبب ہمارے دماغ میں موجود ’پراسپیکٹِو میموری‘ ہے ، یادداشت کی یہ قسم ہمیں مستقبل میں چیزیں یاد رکھنے کی صلاحیت مہیا کرتی ہے۔ جولیاشا نے اپنی کتاب میں اس طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اگر آپ سے اپنے چہرے کو بیان کرنے یا اس کی تصویر بنانے کا کہا جائے تو آپ کو یہی لگے گا کہ آپ کو اپنی شکل کے بارے میں بہت کچھ یاد ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ممکن ہے کہ آپ ڈیجیٹل بھلکڑپن کا شکار ہوں۔‘ یادداشت میں کمی کا اہم سبب جدید ٹیکنالوجی بھی ہے۔ شعوری طور پر یاد کرنے سے یادیں کمزور اور غیرمستحکم ہوجاتی ہیں اور ہمارا دماغ یہ یادیں توڑمروڑ دیتا ہے۔ نتیجتاً کسی واقعے کی ایک خاص تفصیل کے بارے میں سوچنے سے اس تفصیل کے بارے میں ہماری یادداشت تو پختہ ہوجاتی ہے مگر اس سے جڑی باقی تفصیلات ہم بھول جاتیں ہیں۔ اس کی واضح مثال سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے، فیس بُک پر لگی کسی شادی کی کوئی مخصوص تصویر اگر آپ کو اپنی طرف مائل کرے تو ہم اُس دن سے جڑے باقی پہلو بھول جاتے ہیں۔

The post دماغ اغوا ہونے لگیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی آئین سے35-A ختم ہوئی تو معاملات بہت خراب ہوجائیں گے

$
0
0

تبدیلی ایک فطری عمل ہے، جو اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو کر رہتی ہے، لیکن اگر ہم وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس خطہ میں سیاست پر ہمیشہ سے چند خاندانوں کی گہری چھاپ رہی ہے، جو لمحہ موجود میں بھی جاری و ساری ہے، ان سیاسی خاندانوں میں ایک نام قصوری خاندان کا بھی ہے، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس علمی و مذہبی خاندان نے ہمیشہ صاف ستھری اور اصولی سیاست کی۔

قصور کی معروف مذہبی شخصیت مولانا عبدالقادر قصوری نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے انگریز راج میں سیاست کا آغاز کیا اور برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لئے صوبائی رہنما کی حیثیت سے کانگرس میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے بیٹے محمود علی قصوری نے بھی 1940ء تک کانگرس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا، لیکن پھر وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں چلے گئے۔ تحریک آزادی میں فعال کردار ادا کرنے پر انہیں کئی بار جیل یاترا بھی کرنا پڑی، لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ محمود علی قصوری انسانی حقوق کے سفیر اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ رہے۔

انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں خدمات سرانجام دیں لیکن ان کا شمار ملکی سیاست کے ان چند جرات مند اور اصول پسند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جن کے قدم کسی عہدے، مفاہمت یا مجبوری کے نام پر کبھی ڈگمگائے نہیں۔ آئینی معاملات پر ان کے ذوالفقار بھٹو سے اختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے وزیر قانون و پارلیمانی امور اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ دینے میں ذرا بھر تاخیر نہیں کی۔ حالاں کہ 1973ء کے آئین پاکستان کی تشکیل میں محمود علی قصوری نے اہم کردار ادا کیا، جس کا ہر سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے۔

محمود علی قصوری مرحوم کے بعد قصوری خاندان کی سیاسی میراث سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے حصے میں آئی۔ وطن عزیز کے تمام اہم نوعیت کے خارجہ امور میں ان کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان، مسئلہ کشمیر، ایٹمی دھماکے، امریکہ، بھارت، چین اور روس سے تعلقات ہوں یا افغان جنگ، ان تمام امور میں خورشید قصوری نے موثر کردار ادا کیا۔ جون 1941ء میں پیدا ہونے والے خورشید محمود قصوری نے ابتدائی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ گریجوایشن کے لئے پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن جلد ہی مائیگریشن کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انہوں نے 1961ء میں بین الاقوامی تعلقات میں بی اے آنرز کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پبلک ایڈمنسٹریشن اینڈ پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ کرنے کے لئے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لیا۔ 1963-67 میں وہ پیرس گئے، جہاں انہوں نے تاریخِ فرانس میں مختلف کورس کرنے کے بعد یونیورسٹی آف نائس سے تاریخِ فرانس اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر بھی دیئے۔ وہ امریکی جامعات میں مطالعہ پاکستان کی ترویج کے حوالے سے تیار کی گئیں رپورٹ کے مصنف بھی ہیں۔

بیرون ممالک سے واپسی پر انہوں نے خارجہ امور میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں تو انہیں سب سے پہلی سفارتی ذمہ داری مشرقی پاکستان کی سونپی گئی، جس پر انہوں نے سول نافرمانی کے بارے میں ایک مفصل اور جامع رپورٹ بھی مرتب کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لئے انہیں برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے متواتر اور مسلسل دورے کرنا پڑے۔ 1972ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اقوام متحدہ کے لئے تشکیل دیئے گئے سفارتی وفد کا حصہ بنا دیا۔ پھر خورشید محمود قصوری وزارت خارجہ میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر آف ڈائریکٹویٹ جنرل برائے سوویت یونین (روس) و مشرقی یورپ امور خدمات سرانجام دینے لگے۔

1990ء میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کو خارجہ پالیسی کی تشکیل میں معاونت فراہم کی۔ 1998ء میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے فیصلہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم کا خصوصی ایلیچی بن کر خدمات سرانجام دیں اور متعدد ممالک (امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، برطانیہ ودیگر) کا دورہ کیا۔ 1981ء میں خورشید قصوری نے دفترخارجہ کو خیر آباد کہہ کر قومی سیاست میں قدم رکھا اور تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے ایم آر ڈی جیسی تحریکوں کا حصہ بننے پر انہیں متعدد بار گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1983ء میں ضیاء الحق کی ملٹری حکومت کے باعث وہ بیرون ملک چلے گئے جہاں سے ان کی واپسی 1988ء میں ضیاء الحق کی پراسرار موت کے بعد ہوئی۔

1993ء میں انہوں نے پہلی بار پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور قصور سے ایم این اے منتخب ہوگئے، پھر 1997ء اور 2002ء میں بھی انہیں اسی حلقہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ق لیگ کے دور حکومت میں نومبر 2004ء میں جب وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے انہیں وزیرخارجہ نامزد کیا، تو اپوزیشن نے بھی ان کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جو خارجہ امور پر ان کی گرفت کا واضح ثبوت ہے۔ بعدازاں 2012ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ خارجہ امور کے ماہر خورشید محمود قصوری جہاں ایک طرف سفارتی و بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہیں دوسری جانب انہوں نے ملکی سیاست کے نشیب و فراز کو بھی بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے بالخصوص حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں کی جانے والی گفتگو قاریئن کی نذر ہے۔

ایکسپریس: بھارت کی حالیہ دراندازیاں محض چھیڑ خانی ہیں یا یہ پاکستان کو جنگ میں الجھانے کی سنجیدہ کوشش ہے؟۔
خورشید قصوری: دیکھیں! بات یہ ہے کہ جموں کشمیر میں آج جو حالات ہیں، اسے ہندوستان کے لئے قبول کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بھارت کو اپنے دل سے نکال پھین ہے۔ ان کی وہ لیڈرشپ جو عام طور پر بھارت نواز سمجھی جاتی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کی حامی تھی اب وہ بھی اب کُھل کر بول رہی ہے جبکہ حریت کی پوزیشن تو پہلے ہی سے بہت واضح ہے۔ بھارت کو اب سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ اس صورت حال کو کیسے سنبھالے کیوں کہ اس نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا ہے۔

بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے جموں کشمیر میں بڑی انویسٹمنٹ کی ہے، بڑے ترقیاتی کام کرائے ہیں، لیکن کشمیریوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کشمیریوں نے تو جیسے اپنی کتاب سے بھارت کا صفحہ ہی پھاڑ دیا ہے۔ اب اس صورت حال میں وہ کشمیر میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ بھارت نے وہاں محبوبہ مفتی کے ذریعے اپنی حکومت بھی بنائی تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں لیکن وہ بھی ساتھ نہ چل سکیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ جس معاہدے کے تحت ان کا الائنس بنا تھا وہ یہ تھا کہ حریت سے بھی بات ہو گی اور پاکستان سے بھی۔ لیکن مودی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ کیوں کہ الیکشن قریب آ رہا ہے، تو ان کی polarization کی جو پالیسی تھی، یعنی ہندو مسلم فسادات کو بڑھاوا، مسلمانوں پر نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنا، اس (پالیسی) سے مودی کے ووٹ بڑھ رہے تھے۔

اب پوزیشن یہ ہے کہ الیکشن بدقسمتی سے سر پر آ گئے ہیں، پانچ ریاستوں میں پہلے ہی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے، جن میں وہ تین بڑی ریاستوں میں کانگرس جبکہ باقی دو میں مقامی پارٹیوں سے ہار گئے، اس کے علاوہ جو ریاست سب سے اہم ہے، وہ یو پی ہے، جس کی 82 نشستیں ہیں، لیکن ان کو وہاں پر بھی پے در پے ناکامیوں کا سامنا ہے، پہلے یہ وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کی اپنی چھوڑی ہوئی نشست ہار گئے پھر ڈپٹی چیف کی نشست پر بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور تو اور انہوں نے تو اپنے دور میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دی، ان کے منہ پر طمانچہ تو اس وقت پڑا جب اپوزیشن نے ایک مسلمان خاتون کو ٹکٹ دیا تو وہ جیت گئی، تو جب اس قسم کے رزلٹ آ رہے تھے تو یہ بات طے تھی کہ انہوں نے کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچانا ہے۔

اب یہ جو واقعہ ہوا ہے پلوامہ کا، صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا یہ رپورٹ کر چکا ہے کہ اس میں جو بے چارہ لڑکا تھا، اسے بہت ذلیل کیا گیا تھا، پہلے اس کے ایک بھائی یا کزن کو قتل کیا گیا، پھر اس سے کیچڑ میں لکیریں نکلوائی گئیں۔ یعنی اس نوجوان کا مقصد بالکل واضح تھا۔ اب اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرا تعلق جیش محمد سے ہے تو پھر اگر کوئی القاعدہ کی فلاسفی سے تعلق رکھتا ہے یا کوئی داعش سے تعلق رکھتا ہے تو اس کے لئے کیا پھر سعودیہ اس کا ذمہ دار ہے کہ اُسامہ بن لادن سعودیہ کا تھا یا مصر ذمہ دار ہے کہ وہاں ڈاکٹر ایمن الظواہری ہے۔ دیکھیں! یہ ہوتا ہے حالات پر، کشمیر میں ایسے حالات ہیں کہ وہاں لوگ کسی ایسے گروپ میں اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں، جو آزادی کے ساتھ منسلک ہو۔

اب ان کے پاس کوئی شواہد نہیں تھے کہ پلوامہ حملہ میں پاکستان ملوث ہے، یہ آئی ایس آئی نے کیا یا پاکستان سے لوگ وہاں گئے، دوسری طرف یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مقامی لوگ تھے۔ تو ان کے لئے یہ حالات بہت مشکل بن چکے تھے، دوسری طرف کانگرس یہ کہہ رہی ہے کہ آپ تو ناکام ہو چکے ہیں، کیوں کہ آپ (مودی) تو کہہ رہے تھے کہ آپ مسئلہ کشمیر حل کر دیں گے لیکن آپ کے دور میں تو گورنر راج نافذ کرنا پڑ گیا، آپ تو وہاں معمول کے مطابق حکومت بھی نہ چلا سکے گی۔ تو یہ بات تو واضح ہے کہ بھارت پاکستان پر ملبہ ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر کانگرس نے انہیں مزید طعنے دیئے کہ آپ ہمیں کمزور کہتے تھے، لیکن آپ کے دور میں کیا ہو رہا ہے کہ پے در پے حملے ہو رہے ہیں یعنی پٹھان کوٹ، اڑی اور اب پلوامہ میں بہت سارے لوگ مارے گئے، اس لئے ان کے پاس بہانہ تو ہے۔

عقل نہیں مانتی کہ وہ دراصل جنگ چاہتے ہیں، اگر ایک بندہ عقل سے فارغ ہو جائے تو ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، لیکن میری عقل نہیں مانتی کہ وہ جنگ چاہتے ہیں، کیوں کہ جب Escalation ہوتی ہے تو پھر آپ یہ نہیں جان سکتے کہ دوسری پارٹی کیا کرے گی؟ پاکستان نے کہا کہ وہ جواب دینے کا حق رکھتا ہے، اب وہ کیا کر سکتا ہے اور کب کرے گا، ابھی کوئی نہیں جانتا، خود بھارت بھی شش و پنج میں ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ (بھارتی) چاہیں کہ جیسی چپت ہم نے ماری ہے وہ شائد پاکستان بھی مار لے۔( اس بات چیت کے بعد پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کی تھی جس کی مزاحمت کے دوران دو بھارتی لڑاکا طیارے پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہوئے۔)

ایکسپریس: تو پھر کیا اب مودی سرکار پر مزید پریشر بڑھ سکتا ہے؟
خورشید قصوری: یہ پلاننگ پر انحصار کرتا ہے کہ حکمت عملی ایسی بنائی جائے کہ نقصان بھی کیا جائے، پبلسٹی بھی ہو جائے اور ان کے منہ پر تھپڑ بھی پڑ جائے، کیوں کہ ساری دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ دو نیوکلیئر پاورز آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے کیوں کہ کوئی بھی ذی شعور جنگ نہیں چاہے گا، تاہم بعض اوقات ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں، جن کو پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور انسانی تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔ میرے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں، جن میں سے ہم اگر ایک کا ذکر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کی تباہ کن جنگ صرف ایک غلطی سے ہوئی، یعنی پہلی جنگ عظیم، جس میں 70 سے 80 لاکھ بندہ مارا گیا۔ وہ کیا غلطی تھی؟ وہ غلطی جس بندے نے کی، عام لوگوں کو تو اس کا نام تک نہیں پتہ، اس کا نام گاویرلو پرنسیپ (Gavrilo Princip) تھا۔

پرنسیپ سے ہندوستان کا کوئی واسطہ نہیں تھا، پھر جنگ میں یہاں کے کئی لوگ کیوں مارے گئے؟ اس بندے (پرنسیپ) نے سربیا کے ولی عہد کو گولی مار دی، جس کے بعد پھر روس آیا، جس کے مقابلے میں فرانس آیا، پھر جرمنی، برطانیہ وغیرہ بھی آ گئے۔ ولی عہد کی بگھی کو جو کوچوان چلا رہا تھا، وہ پہلے راستے سے بھٹک کر کسی اور سڑک پر مُڑ گیا تھا، جب اسے احساس ہوا تو وہ واپس پلٹا جہاں پرنسیپ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ اگر وہ کوچوان غلط راستے نہ پلٹتا تو شائد جنگ عظیم نہ ہوتی۔

تاریخ سبق سکھانے کے لئے ہوتی ہے، اس سے بھارت کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں، انہیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ چھیڑ چھاڑ تو ایک طرف گئی، اگر یہ معاملہ کنٹرول سے باہر ہو گیا تو یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لہٰذا آپ کے سوال پر میرا سادہ سا جواب یہ ہے کہ نہیں! وہ جنگ نہیں چاہتے، لیکن وہ صرف الیکشن جیتنے کے لئے شائد امن کو دائو پر لگا دیں، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔

یوں خطرہ تو موجود ہے، تو پھر پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ تو سب سے پہلے ہمیں متحد ہو جانا چاہیے، اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں، کوئی حکومت یا اپوزیشن نہیں۔ سب کچھ بعد میں پہلے پاکستان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا تجربہ مجھے کہہ رہا ہے کہ ذی ہوش لوگ برسراقتدار آئیں، کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اگلے قدم کا سوچتے ہیں اور اگر خدانخواستہ بات بڑھی تو پھر پاکستان کی قوم متحد ہے اور فوج مضبوط اور آزمائی ہوئی ہے۔ اچھا اس ضمن میں، میں ایک چیز بتا دوں کہ دنیا کی سب سے زیادہ سخت جان اور تجربہ کار فوج ہے پاکستان کی، کیوں؟ کیوں کہ اس کی Rotation بہت زیادہ ہے، پہلے وہ صرف سیاچین پر جاتے تھے، اب وہ وزیرستان بھی جاتے ہیں، جہاں فوج کے مختلف دستے جاتے رہتے ہیں، جہاں ان کی تربیت ہو رہی ہے، وہ وہاں لڑ رہے ہیں، جن میں افسر و جوان شہید بھی ہو رہے ہیں۔ تو بھارت کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، مودی جتنی ترقی کی بات کر رہا ہے، وہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔

ایکسپریس: بھارت کی طرف سے جاری مسلسل جارحیت کے بعد اب پاکستان بھی جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے تو اس ضمن میں ہمارے پاس کون کون سے ممکنہ آپشنز ہیں؟
خورشید قصوری: پاکستان ایسا قدم اٹھائے، جس میں نظر آئے کہ ہندوستان کی تنصیبات یا فوجیوں کو نقصان ہوا، کیوں کہ سول آبادی کو تو پاکستان نقصان پہنچانا ہی نہیں چاہتا اور نہ پاکستان نے آج تک یہ کام کیا ہے اور کشمیر میں خاص طور پر کیوں کہ وہاں تو دونوں طرف مسلمان ہیں۔ تو اس لئے پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ بھارت کو ایسی جگہ پر چوٹ پہنچائے جہاں اس کی ملٹری تنصیبات ہوں یا ان کے فوجی، یعنی ہماری بات رجسٹر ہو، لیکن Escalation نہ ہو، اتنا بڑا حملہ نہ ہو کہ معاملہ مزید آگے چلے۔

ایکسپریس: آپ کے بیانات کے مطابق مشرف دور میں، جب آپ وزیرخارجہ تھے، کشمیر کا معاملہ حل ہونے کے قریب تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی؟ حالاں کہ دوسری طرف تاثر یہ ہے کہ مشرف دور میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پاکستان نے پسپائی اختیار کی۔
خورشید قصوری: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس وقت بھارتی وزیراعظم نے اگست 2006ء میں پاکستان آنا تھا، جس کا مقصد سرکریک ایشو پر ایک معاہدہ پر دستخط کرنا تھے، تاکہ یہ پیغام چلا جائے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان اور بھارت خود کوئی بھی باہمی معاملہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کیوں کہ کہا یہ جا رہا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے لئے بھی انہیں ورلڈ بنک کی مدد لینا پڑی تھی۔ لیکن منموہن سنگھ نے یہ پیغام بھجوایا کہ آپ ابھی مجھے مت بلائیں کیوں کہ یہاں بشمول یو پی 6 ریاستوں میں الیکشن ہو رہے ہیں، اگر میں اس وقت آیا تو اپوزیشن معلوم نہیں کیا واویلا مچائے گی، تو آپ مجھے بعد میں بلا لیں، ہم نے انہیں دسمبر میں بلانا تھا، لیکن ہم نے انہیں مارچ میں بلا لیا اور اسی دوران چیف جسٹس افتخار چودھری والی تحریک شروع ہو گئی۔

جس میں وکلاء اور اپوزیشن اکٹھے ہو گئے، تو اس وقت جنرل مشرف نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا خیال ہے کہ اب اگر ہم منموہن کو بلا لیں تو میں نے جواب دیا کہ ابھی مت بلائیں کیوں کہ اس وقت اگر آپ ’سونا‘ بھی کریں گے تو اپوزیشن کہے گی کہ ’پیتل‘ ہے، لیکن پھر موقع نہ مل سکا، تاہم میں نے وہ ساری تفصیلات محفوظ رکھی ہیں تاکہ جب بھی کوئی موقع بنے تو ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر معاملات کو حل کر لیا جائے۔ دوسری بات مسئلہ کشمیر کی ہے، جس کے بارے میں 90 فیصد تک معاملات طے پا چکے تھے۔ توقعات یہ تھیں کہ بھارتی وزیراعظم اس معاہدہ پر آ کر دستخط کریں گے، کیوں کہ ساری باتیں طے ہو چکی تھیں، صرف چھوٹی چھوٹی باتیں رہ گئی تھیں۔ اچھا کشمیر معاہدہ کے حوالے سے جو باتیں رہ گئی تھیں، ان میں ایک بات یہ تھی کہ کشمیریوں نے ہمیں کہا کہ آپ باقی چیزیں تو بعد میں کیجئے گا سب سے پہلے آپ ہمارے بچوں اور خواتین کو ذہنی طور پر مفلوج ہونے سے بچائیں۔

کیوں کہ جب وہ باہر نکلتے ہیں تو بھارتی فوجی بندوقیں لے کر کھڑے ہوتے ہیں، جن سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، تو سب سے پہلے اربن ایریا سے فوج کو نکلوائیں، اور یہ بات حقیقت بھی تھی کیوں کہ مختلف رپورٹس کے مطابق جموںکشمیر کے باسیوں میں بہت زیادہ نفسیاتی مسائل جنم لے رہے تھے۔ دوسرا کشمیریوں کا کہنا تھا کہ یہ (بھارت) چاہتے ہیں کہ کشمیر کا سٹیٹس بھی ویسا ہی بن جائے جیسے پنجاب، یوپی یا ہریانہ کا ہے، حالاں کہ پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ہمارا سپیشل سٹیٹس تھا، اس معاہدے کے تحت خارجہ اور دفاعی امور کے علاوہ ہم ایک خود مختار ریاست تھے۔ تیسرا یہ کہ بھارت میں ہمیشہ فیئر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں کیا جاتا، لہذا اس سلسلے میں انٹرنیشنل مانیٹرز بلائے جائیں تاکہ ہمیں کچھ حقوق حاصل ہوں، جس پر اتفاق ہو گیا۔ پھر یہ بات ہوئی کہ کشمیر کیا ہے؟ وہ کہتے تھے کشمیر وہ ہے جو مہاراجہ کشمیر کا کشمیر ہے، جس میں گلگت بلتستان اس کا حصہ ہے۔

ہم نے اس سے انکار کر دیا کیوں کہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے آزادی حاصل کر لی تھی۔ ان سب چیزوں پر لمبی بحث ہوئی، جس کے نتیجے میں طے پایا کہ دونوں کشمیر خودمختار ملک ہوں گے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو بدلنا تھا، ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ لائن آف کنٹرول اگر وہاں ہے تو پھر سٹیٹس کو کیسے بدلے گا؟ تو پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ دونوں اطراف (مقبوضہ و آزاد کشمیر) کے دو، دو یا تین، تین منتخب نمائندوں کو اکٹھے بٹھایا جائے گا، جس میں پاکستان اور انڈیا کی نمائندگی بھی ہو، جو ان معاملات پر بحث کرکے کوئی حل نکالیں گے۔

اور یہ بھی فیصلہ ہو گیا تھا کہ جب بھی اس معاہدے کا اعلان ہو گا تو انڈیا اور پاکستان میں اپوزیشن ہنگامہ کھڑا کرے گی تو پھر دونوں طرف سے کوئی اس کو اپنی کامیابی قرار نہیں دے گا، تو دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ہم نے سوچا کہ ایسا حل تلاش کیا جائے گا، جو کشمیریوں کے لئے قابل قبول ہو، اسی لئے میں کشمیریوں سے ملاقاتیں کر رہا تھا، یہ ملاقاتیں نہ صرف پاکستان و بھارت بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتی تھیں، تاکہ ان سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور وہ کیا چاہتے تھے، میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اچھا! یہ معاہدہ ایسے ہی طے نہیں پا گیا بلکہ اس کے لئے ہمیں تین سال لگے، جس میں وزارت خارجہ آفس کی طرف سے میں اور سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان جبکہ فوج کی طرف سے جنرل احسن سلیم حیات شامل تھے، جنرل مشرف اس میں شامل نہیں تھے، کیوں کہ وہ سربراہ مملکت تھے۔

اچھا دوسری طرف بھارت میں بھی ایسا ہی چل رہا تھا، منموہن سنگھ اپنی فوج سے مشاورت جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن غالب نے کہا تھا کہ ’’کون جیتا ہی تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ میرے خیال آج بھی سب سے پہلے کشمیریوں کے بنیادی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور انڈیا اور پاکستان دونوں انہیں قبول کر لیں۔ تو اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات میں بھی کیا وہ چیزیں جو طے پا چکی تھیں، وہ قابل قبول ہیں؟ تو بالکل ہیں کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری جنگ نہیں ہو رہی اور دوسرا اگر ہو تو کیا جنگ پہلی بار ہونی ہے۔ دونوں ملک 9 بار جنگ لڑ چکے ہیں یا جنگ کے دہانے پر پہنچے، تین بڑی جنگیں اور دو (کارگل اور رن آف کچھ) چھوٹی جبکہ چار ایسے مواقع تھے، جب جنگ ہونے والی تھی، ایک بار میں جب وزیر خارجہ تھا، تو 10لاکھ فوج آمنے سامنے کھڑی تھی۔ لہذا جنگ کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ آج کل بھی جو حالات چل رہے ہیں، بھارتی الیکشن کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے۔ میری رائے میں اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے، باوجود اس کے کہ وہاں پاگل پن کا دورہ پڑا ہے، جنگ سے نہیں معاملات ٹیبل ٹاک کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس: اگر بھارت، جو اس کے طرز عمل سے محسوس ہو رہا ہے کہ اپنے آئین کے آرٹیکل 35اے (جو کشمیریوں کو سپیشل سٹیٹس دیتا ہے) کو ختم کر دیتا ہے تو پھر پاکستان کو کرنا ہو گا؟
خورشید قصوری: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ختم ہونے سے دونوں ملکوں کے درمیان بہت زیادہ معاملات خراب ہو جائیں گے۔ دوسرا پاکستان کو یہ کرنا پڑے گا کہ کشمیریوں کی پشت پناہی کرے، کشمیریوں کے حقوق کی عالمی فورم پر کھلے بندوں حمایت کرتے ہوئے اس کے لئے کام کرنا چاہیے۔

ایکسپریس: بھارت پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، دونوں ملکوں میں کشیدہ تعلقات سندھ طاس معاہدہ کے لئے بھی خطرہ بنے رہتے ہیں، ایسے میں پانی کی بلیک میلنگ کا پاکستان کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے؟
خورشید قصوری: نریندر مودی کیا خود دریا کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے؟ اول تو بھارت ایسا کر ہی نہیں سکتا اور اگر کرنا بھی چاہے تو ایسا کرنے کے لئے سالہا سال لگتے ہیں تو پاکستان کیا پاگل ہے کہ وہ بھوکے پیاسے مرنے کا انتظار کرتا رہے گا، کیوں کہ اگر مرنا ہی ہے تو پھر لڑ کر کیوں نہ مریں؟۔اچھا پھر جو پانی بھارت بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے یعنی ستلج، بیاس اور راوی کا پانی، وہ ہمارا ہے ہی نہیں، وہ بھارت کا پانی ہے لیکن یہ ان کی نااہلی ہے کہ وہ اس پانی کو بھی بند نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں، میں ایک آخری بات بھی کہہ دوں کہ کشمیر پر تو شائد جنگ ہو نہ ہو لیکن پانی پر ضرور جنگ ہو سکتی ہے کیوں کہ پیاسے مرنے سے اچھا ہے لڑ کر ہی مر لیں۔

ایکسپریس: آج کل افغان طالبان اور امریکا کے درمیان بڑے زور شور سے مذاکرات کے دور جاری ہیں تو اس ضمن میں فرمائیے گا کہ کیا افغان طالبان اور امریکا کے مابین امن معاہدہ طے پا جائے گا؟
خورشید قصوری: محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب معاہدہ ہو جائے گا کیوں کہ مذاکرات اب امریکہ کی مجبوری بن چکے ہیں اور یہی امریکا کے مفاد میں بھی ہے۔

ایکسپریس: جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کالعدم قرار، جیش محمد کا مبینہ مرکز حکومتی تحویل میں لینے جیسے فیصلوں پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا یہ اقدامات ایسے وقت پر کرنے کا فیصلہ درست تھا، جب بھارت ہم پر دبائو ڈال رہا ہے اور پھر اس فیصلے سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ ہم یہ سب کچھ بھارتی دبائو پر کر رہے ہیں اور یہ کہ بھارت کے الزامات میں سچائی ہے؟
خورشید قصوری: نہیں ایسی بات نہیں ہے، یہ سب کچھ تو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ٖFATF) کی وجہ سے کیا گیا ہے اور وہ ضروری تھا، ہم نے یہ کرنا ہی تھا، جہاں تک بات ہے بھارتی دبائو کی تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہے۔ بھارتی دبائو کی وجہ سے ہوتا تو ہم کبھی کا یہ کر گزرتے۔

The post بھارتی آئین سے35-A ختم ہوئی تو معاملات بہت خراب ہوجائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

’اسکاؤٹنگ‘ ذہنی و جسمانی ترقی میں نوجوانوں کی معاون

$
0
0

اسکاؤٹنگ یا اسکاؤٹ موومنٹ ایک تحریک ہے، جو ذہنی و جسمانی ترقی میں نوجوانوں کی مدد کرتی ہے تاکہ معاشرے میں افراد کی باہمی بقاء کے لیے مضبوط تعمیری کردار ادا کر سکیں۔

تاریخ پرنظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اس تحریک کی شروعات ہوئی، سب سے پہلے عمر کے حساب سے لڑکوں کے تین گروپ ( Cub Scout, Boy Scout, Rover Scout ) بنائے گئے اور پھر1910 ء میں لڑکیوںکے لیے اسکاؤٹنگ کی ایک تنظیم قائم کی گئی، جس میں مختلف گروپ (Brownie Guide, Girl Guide and Girl Scout, Ranger Guide ) شامل تھے۔

1906 ء اور1907 ء میں برطانوی فوج میں شامل لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ بیڈن پاول(Robert Baden Powell)   نے جاسوسی اور اسکاؤٹنگ پر ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب( Scouting for Boys) اس کی پچھلی کتابوں جو کہ فوجی اسکاؤٹنگ پر مبنی تھیں پر انحصار کرتی تھی۔1907ء میں موسم گرما میں برطانیہ میں براؤن سی (Brwon Sea) جزیرہ پر رابرٹ بیڈن پاول نے ایک کیمپ منعقد کیا۔ اس کیمپ اور کتاب ( Scouting for Boys) کو اس تحریک کے آغاز کے طور پر جانا جاتا ہے۔1908 ء میں ( Scouting for Boys) کتاب کی شکل میں برطانیہ میں شائع ہوئی۔

یہ اس وقت کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چوتھی کتاب تھی، جو بعدازاں امریکی ماڈل کی کتاب (  Boy Scout Handbook )کی بنیاد بنی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بوائز اسکاؤٹنگ تحریک نے خود کوبڑی تیزی سے پوری برطانوی سلطنت میں منظم کیا۔ 1908ء تک اسکاؤٹنگ جبرالٹر، مالٹا ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں قائم ہو چکی تھی، لیکن 1909ء میں چلی، برطانیہ کی سلطنت سے باہر وہ واحد ملک تھا جہاں پہلا اسکاؤٹنگ کا ادارہ بیڈن پاول کے نام سے قائم ہوا۔

1909 ء میں لندن میں کرسٹل محل میں منعقد ہونے والی اسکاؤٹنگ کی پہلی ریلی نے 10,000 کے قریب لڑکے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 1910ء میں ارجنٹینا، ڈنمارک ، فن لینڈ، فرانس، جرمنی ،ہندوستان ، ملائشیا، میکسیکو، نیدر لینڈ ، ناروے ، روس،سویڈن اور امریکہ میںاسکاؤٹس موجود تھے۔ 1910ء کے آخر تک کیوب سکاؤٹ اور روور سکاؤٹ کے پروگرام شروع ہو چکے تھے، جنہوں نے اس وقت تک اپنے ملک میں آزادانہ طور پر کام کیا جب تک ان کو اسکاؤٹنگ کی سرکاری تنظیم سے شناخت نہ مل گئی۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کیوب اسکاؤٹنگ کے پروگرام 1911 ء میں شروع ہوگئے تھے لیکن ان کو سرکاری شناخت 1930ء میں ملی۔ اُس زمانہ میں لڑکیاں بھی اس تحریک کا حصہ بننا چاہتی تھیں، لہذا بیڈن پاول اور اس کی بہن  ایگنس بڈین پاول (Anagnes Baden Powell) نے مل کر گرل گائیڈ کو 1910ء کے اوائل میں متعارف کروایا۔ جن لڑکیوں نے کرسٹل محل کی ریلی میں شمولیت اختیار کی تھی ان کی درخواست پر ایگنس بیڈن پاول کو لڑکیوں کی تحریک کا صدر نامزد کر دیاگیا، لیکن 1920ء میں بیڈن پاول کی بہن، اُس کی بیوی اولیو بڈین پاول(Olave Baden Powell) کے حق میں دستبرار ہو گئی۔

روائتی اسکاؤٹنگ میں سب سے اہم چیز بیڈن پاول کی فوجی تربیت اور تعلیم میں تجربہ تھے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسکاؤٹنگ کا نام پرانے وقت میں جنگوں میں موجود فوجی جوانوں (جو جاسوسی کا اہم اور رومانوی کردار ادا کرتے تھے ) سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔ سب سے پہلے بیڈن پاول نے یہ نام فوجی جوانوں کی تربیت کے لئے لکھی گئی کتاب ” Aids To Scouting ” میں استعمال کیا کیوں کہ اس نے برطانوی فوج کی تربیت میں فیصلہ سازی ، خود اعتمادی اور مشاہداتی صلاحیتوں کی ضرورتوں کو محسوس کیا۔ نوجوان لڑکوں میں اس کتاب کی شہرت سے اس کو بہت حیرانی ہوئی تو اس نے ’’Scouting for Boys‘‘ کے نام سے پوری کتاب ہی لکھ ڈالی۔

’’خدا کے لیے ڈیوٹی‘‘ اسکاؤٹنگ کا ایک اہم اصول ہے۔ اگرچہ اس کا نفاذ مختلف ممالک میں مختلف ہے، لیکن امریکہ میں ایک تنظیم ’’Boy Scouts of America‘‘ ایک مضبوط پوزیشن کی حامل ہے ۔ برطانیہ میں سکاؤٹ ایسوسی ایشن مختلف مذہبی ذمہ داریوں میں فرائض انجام دینے کے لیے کردار ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ 2014 ء میں برطانیہ نے سکاؤٹ کے حلف میں ’’خدا کے لیے ڈیوٹی‘‘ کو ’’ہماری اقدار کو برقرار رکھنا‘‘ سے تبدیل کر دیا۔ اسی طرح کینیڈا میں بھی اسکاؤٹس وعدے میں’’خدا کے لیے ڈیوٹی‘‘ کو وسیع کرکے بیان کیا گیا ہے۔دنیا میں ہر تین اسکاؤٹس میں سے ایک مسلم ہے۔

اسکاؤٹنگ کے طریقہ کار میں غیر رسمی تعلیم کے پروگرام اور عملی سرگرمیوں پر زور دینا جس میںکیمپنگ، پیدل سفر، بیگ پیکنگ اور کھیل وغیرہ شامل ہیں۔ اسکاؤٹس کی ایک اور پہچان اس کی یونیفارم ہے جو کسی بھی ملک یا معاشرے میں موجود تفرقات کو چھپاتے ہوئے اپنی پہچان کو اسکارف ، مخصوص ٹوپی اور مخصوص یونیفام کے نشان (جس میں ایک پھول اورچند علامتیں شامل ہیں) سے ظاہر کرتا ہے۔ دو بڑی عالمی تنظیمیں World Organization of the Scout Movement اور World Association of Girl Guides and Girl Scouts کے نام سے دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں۔ اسکاؤٹنگ کی تنظیمیں اسکاؤٹنگ کے طریقہ کار کے تحت لڑکے، لڑکیوں اور ان کے یونٹس کو چلاتی ہیں۔ لڑکوں کی تنظیم (WOSM) اس کو ایسے بیان کرتی ہے ’’نوجوانوں کے لیے ایک ایسی رضاکارانہ غیر سیاسی تعلیمی تحریک، جس میں رنگ نسل اور جگہ کا لحاظ رکھے بغیر مختص کردہ قوانین پر عمل کرنا‘‘ شامل ہوں۔ 1990ء تک لڑکوں کی تنظیم (WOSM)سے تعلق رکھنے والی دو تہائی تنظیمیں مخلو ط نظام تعلیم پر مشتمل تھیں۔

اسکاؤٹنگ کا مقصد نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اسکاؤٹنگ کے اصول تنظیم کے تمام اراکین کے رویے اور تحریک کی خصوصیات کو بیان کرتے ہیں ۔ اسکاؤٹس کا طریقہ کار ایک جدید نظام ہے، جو سات اصولوں یعنی قانون اور وعدہ،کام کوکر کے سیکھنا، ٹیم کے نظام، علامتی فریم ورک، نجی ترقی، قدرت اور بالغ لوگوںکی حمایت پر مشتمل ہے جبکہ کمیونٹی سروس بھی لڑکے اور لڑکیوں کی اسکاؤٹنگ تنظیم کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ اسکاؤٹنگ کے قانون اور حلف نے دنیا بھر میں موجود اسکاؤٹنگ تنظیموں کو یکجا کیا اور ان کی مشترکہ اقدار کو سراہا ہے۔ یہ قانون کام کو اپنے ہاتھ سے کر کے سیکھنے پر زور دیتا ہے۔

جب بندہ کام کو عملی طریقہ سے کر کے سیکھتا ہے تو اس کی خود اعتمادی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جب چھوٹے چھوٹے گروپ اتحاد بناتے ہیں تو بھائی چارے کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ تجربات امانت، ذاتی اعزاز،خود اعتمادی، پائیداری،تیار حالت میں رہنا اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے پر زور دینے میں مدد دیتے ہیں، جس سے قیادت اور تعاون میں رہنمائی ملتی ہے۔ ترقی پسند اور پر کشش سرگرمیوں کا ایک پروگرام اسکاؤٹس کے افق (علم ، تجربے اور دلچسپی کی حد ) کو بڑھا دیتا ہے اور یہ اسکاؤٹس کو گروپ سے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں اور کھیلوں سے خوشگوار طریقے سے اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی مہارت کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ کسی دوسری جگہ پر جا کر ایسی سرگرمیوں سے وہاں کے قدرتی ماحول کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

اسکاؤٹنگ کی ابتدا کے بعد دنیا بھر میں اسکاؤٹس سے اسکاؤٹنگ کے نظریات کو زندہ رکھنے کے لیے سکاوٹس وعدہ اور اسکاؤٹس کے قانون پر دستخط لئے گئے ہیں۔ اسکاؤٹس وعدہ اور اسکاؤٹس قانون کی شکل وقت اور ملک کے تبدیل ہونے سے تھوڑی مختلف ہو جاتی ہے لیکن قومی اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے لڑکوںکی تنظیم(WOSM) کی ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ سکاؤٹ نعرہ ’’تیار حالت میں رہو‘‘ 1907ء سے دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں لاکھوں اسکاؤٹس استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرا نعرہ ’’روزانہ کچھ اچھا کرو‘‘ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکا۔ اسکاؤٹس کا چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کرکے اکٹھے وقت گزارنا، اپنے مشترکہ تجر بات ،سرگرمیوںاور رسومات کو دوسروں سے شیئر کرنا اور ایک مناسب طریقے سے نوجوانوں کی طرف سے فیصلہ سازی، اسکاؤٹنگ کو لاگو کرنے کے طریقہ کار میں شامل ہیں۔ مقامی مراکز میں ہفتہ وار ملاقاتیں سکاؤٹ ڈینس کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

کیمپنگ کو یونٹ کی سطح پر منظم کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایسے کیمپس کو جمبورز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کیمپ ایک سال میں کئی بار منعقد کئے جاتے ہیں، جن میں مقامی یا قومی سطح سے بہت سے گروپ شامل ہو سکتے ہیں۔ کچھ ممالک میں اسکاؤٹنگ کے سال کو اجاگر کرنے کے لیے گرمیوں میں کم سے کم ایک ہفتہ بیرونی سرگرمیوں میں حصہ لیا جاتا ہے۔ یہ کیمپنگ،پیدل سفر،کشتی رانی وغیرہ یا وسیع پیمانے پر شرکت کرنے والے گرمیوں کے کیمپ ہو سکتے ہیں۔

اسکاؤٹس کی سرگرمیوں کے کیمپ میں شرکت اپنی مہارت کو بڑھانے کی لیے ہوتی ہے۔ سرگرمیوں کے کیمپ میں پرانے اسکاؤٹس کے لیے خصوصی پروگرامزچل سکتے ہیں جیسے کہ کشتی رانی، بیگ پیکنگ ، غاروں میں رہنا، مچھلیاں پکڑنا وغیرہ شامل ہیں۔ بین الاقوامی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے بھی اسکاؤٹنگ کو ایک کردار کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے لیے مختلف اقدامات کی تربیت کی ضرورت ہے، جس میں مختلف لوگوں میں برداشت، رواداری کے فروغ اور بڑے پیمانے پر موجود گروپوں کے فائدے کی سرگرمیاں شامل ہوں۔ سکاؤٹ یونیفارم اسکاؤٹنگ کی وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ خصوصیت ہے۔1937ء میں ورلڈ جمبورز میں بیڈن پاؤل کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’یہ ایک ملک میں سماجی اختلافات کو چھپا دیتا ہے اور برابری قائم کرتا ہے۔

یہ ملک، مذہب اور نسل کے اختلافات کو چھپا کر ایسا محسوس کرواتا ہے جیسے وہ سب لوگ ایک ہی گروپ کا حصہ ہوں‘‘ اصل یونیفارم جو ابھی تک وسیع پیمانے پر مانا جاتا ہے اس میں خاکی بٹن والی شرٹ ، شارٹس اور مہم جوئی والی ٹوپی تھی۔ بدین پاول نے بھی شارٹس(چھوٹا پاجامہ) کا استعمال کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اسکاؤٹس کی طرح کے لباس سے بچوں اور بڑوں میں عمر کا فرق کم نظر آتا ہے۔ یونیفارم کی شرٹس اب نیلی،نارنگی، سرخ، سبز اور پتلون پورا سال یا صرف سردیوں میں آدھی سے پوری میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جہاں سکاؤٹ کا یونیفام مساوات کا درس دیتا ہے وہاں یہ عملی طور پر بھی کام آتا ہے۔ شرٹ روایتی طور پر موٹی نظر آتی ہے جس کو عارضی طور پر سٹریچر کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اسکاؤٹس کو ڈنڈوں کے ساتھ شرٹ کو استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ چمڑے کے پٹے، مہم جوئی والی ٹوپی کی میخیں اور لکڑی کے بیج کو ہنگامی طور پر خون روکنے والی پٹی کے طور پر اور کہیں بھی ڈوری کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ سکاؤٹ کی طرف سے گلے کے رومال کو تین کونے والی پٹی بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہڈی کو جھٹکے سے بچانے کے لیے موزے کی ڈوری کو استعمال کرنے کے لیے بھی اسکاؤٹس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اسکاؤٹنگ کو بین الاقوامی سطح پر دو علامتوں سے جانا جاتا ہے۔ ٹریفول(trefoil) علامت جسے ورلڈ ایسوسی ایشن آف گرل گائیڈ اور گرل سکاؤٹ  (WAGGGS)کے ممبر لوگ استعمال کرتے ہیں۔ فلیور ڈی لیس (fleur-de-lis) کی علامت کو لڑکوں کی تنظیم (WOSM) اور بہت سی دوسری تنظیموں کے ممبر استعمال کرتے ہیں۔

مخلوط اسکاؤٹنگ کے لیے مختلف نقطہ نظر ہیں۔ کچھ ممالک میں اسکاؤٹنگ کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ تنظیمیں قائم ہیں۔ خاص طور پر یورپ کے اندر اسکاؤٹنگ اور گائیڈز کو آپس میں یکجا کر دیا گیا ہے اور وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک ہی تنظیم قائم کر دی گئی ہے۔ جو کہ WOSM تنظیم اور WAGGGS تنظیم دونوں کی ممبر ہے۔حال ہی میں امریکہ میں بوائے سکاؤٹ نے لڑکیوں کو اسکاؤٹنگ ممبر بننے کی اجازت دی ہے۔ گرل سکاؤٹ (GSUSA) امریکہ میں وہ واحد آزادتنظیم ہے جو صرف لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے لیے ہے۔ 2010ء میں دنیا بھر کے 216 ممالک میں تقریباً 3  کروڑ20 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ سکاؤٹ اور 1 کروڑ کے قریب رجسٹرڈ گائیڈز تھے۔2008 ء میں دنیا بھر میں تقریباً 539 اسکاؤٹنگ کی آزاد تنظیمیں تھیں جو WAGGGS یا WOSM کی ممبر تھیں۔ جن میں تقریباً آدھی مقامی یا قومی سطح کی تھیں۔90  قومی تنظیموں نے اپنی بین الاقوامی تنظیمیں بنائیں۔

پاکستان میں اسکاؤٹنگ برطانوی ہندوستان کی اسکاؤٹنگ ایسوسی ایشن کی برانچ کے طور پرشروع ہوئی۔ پاکستان بوائے سکاؤٹ ایسوسی ایشن1947 ء میں قائم ہوئی جس نے برطانیہ سے آزادی کے بعد 1948 میں بین الاقوامی تنظیم World Organization of the Scout Movement (WOSM) سے الحاق کیا۔ پاکستان بوائے سکاؤٹ ایسوسی ایشن پاکستان کی قومی سکاؤٹ کی تنظیم ہے جس کے تقریباً 5  لاکھ 56  ہزار 600 سو کے قریب ممبرز ہیں۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اسکاؤٹنگ کے بارے میںکہا تھا کہ ’’اسکاؤٹنگ ہمارے نوجوانوں کے کردار کے تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ ان کی ذہنی ،جسمانی اور روحانی نشوونما میں فروغ، نظم و ضبط اور اچھا شہری بننے میں مفید ہو سکتا ہے۔‘‘ جے ایس ولسن انٹر نیشنل بیورو کے سربراہ نے 1952ء میں کراچی کا دورہ کیا اور بوائے سکاؤٹ آف پاکستان سربراہ کے مہمان بنے۔ بہاولپور میں ان کا استقبال ڈپٹی چیف سکاؤٹ بریگیڈیئر ایم اے عباسی نے کیا۔

اسکاؤٹنگ مشرقی اور مغربی پاکستان میں بوائز سکاؤٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے حصے کے طو ر پر کام کرتی رہی جب تک 1971ء میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم نہ ہو گیا۔ اسکاؤٹنگ کی تحریک، پاکستان میں 1959ء کے آرٹیکل نمبر XLIII ( جو پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسو سی ایشن کا قانون بھی کہلاتا ہے)، اس کے بعد کے قواعد اور SRO 140/KE/93 ( جو پاکستان کے گزٹ میں شائع ہوا ہے اور 1992 کا PBSA کا قانون بھی کہلاتا ہے) کے زیر انتطام ہے۔ 1992ء کے اس قانون میں تنظیم کی پیروی کرنے کا طریقہ کار، تنظیم انتظامیہ کے قوانین اور موثر انتظام کو بیان کرتا ہے۔ ستمبر 2007 ء سے اسکاؤٹنگ کو سکولوں میں لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس کا مقصد تھا کہ 10 لاکھ نوجوان رضا کاروں کو ایمرجنسی میں دوسروں کی مدد کے لیے تیار کیا جائے۔

امتحانی بورڈ کی طرف سے حاصل شدہ فیس کا 2  فیصد مختلف اسکاؤٹنگ اور رہائشی تنظیموں کو ادا کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں اسکاؤٹنگ عملی طور پر صوبائی سطح پر منظم کی جاتی ہے۔ چھوٹی سطح پر اس کو منظم کرنے کا مقصد قوانین کو اچھے سے لاگو کرنا ہے۔ فی الحال پاکستان بوائز سکاؤٹ ایسو سی ایشن نے اسے 10 صوبائی تنظیموں میں تقسیم کیا ہے۔

جن میں پنجاب بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، سندھ بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن،خیبر پختون خوا بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، بلوچستان بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، گلگت بلتستان بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن ،آزاد جمو وکشمیر بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، اسلام آباد بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، وفاقی انتظامیہ اور قبائلی بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن، پاکستان ریلوے بوائز اسکاؤٹس ایسوسی ایشن اور بحری اسکاؤٹنگ شامل ہیں۔ اسکاؤٹس نے سیلاب زلزلہ ، انسانی اور قدرتی آفات میں اپنے غیر معمولی کام کی وجہ سے شہریوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ انھوں نے آفات میں خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور لوگوں میں تقسیم کیے۔انھوں نے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ابتدائی طبی امداد کے سینٹر قائم کیے۔تباہ شدہ دیہاتوں کی بحالی میں مدد کرنے میں وہ بہت فعال ہیں۔ اسکاؤٹنگ کے پروگرام سماجی خدمات اور تحفظ پر زور دیتے ہیں، لہذا اس میں شمولیت آج وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔

ڈاکٹر آصف چنٹر
ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122

The post ’اسکاؤٹنگ‘ ذہنی و جسمانی ترقی میں نوجوانوں کی معاون appeared first on ایکسپریس اردو.


جنگی جنون اور امن کا جذبہ

$
0
0

سرحدوں پر تناؤ میں کمی ہے تاہم ماحول میں اب بھی کچھ ویسی ہی کیفیت ہے جیسی کسی خلفشار کے موسم میں ہوتی ہے۔

سراسیمگی، اندیشے اور وحشت کا احساس ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ خیال کہ اگر واقعی جنگ ہوئی تو آگ اور خون کی ایسی بارش ہوگی کہ جنگوں کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی ایسی مثال نہ دیکھی گئی ہوگی، اب بھی ذہنوں اور دلوں کو پراگندہ کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں وار تھیٹر کے اس نقشے کا سہرا بلاشبہ ہندوستان کے پردھان منتری نریندر مودی کے سر باندھا جانا چاہیے۔

پلوامہ میں ہندوستان کی پولیس فورس کی گاڑی پر خودکش حملے کے بعد نریندر مودی نے جنوبی ایشیا کے ماحول کو گرمانے اور وار تھیٹر کا نقشہ جمانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا ہے۔ بڑے اہتمام سے گمبھیر انداز اور سانپ کی پھنکار کا سا لہجہ بنا بنا کر ایسے بھاشن دیے ہیں جو معاشرے کی رگوں میں بارود بھرنے کا کام کریں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک اشتعال کی تندوتیز لہر دوڑا دیں۔ واقعے کے بعد نریندر مودی کے ابتدائی بیانات سے ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ اب سرحدوں پر معمول کا ماحول نہیں رہے گا، بلکہ طبلِ جنگ بجا دینے والی جھڑپیں ہوں گی۔

توقع کے عین مطابق ایسا ہی ہوا۔ چند روز پہلے ایک رات کے اندھیرے میں ہندوستانی ایئرفورس کے چار طیارے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لگ بھگ چھے ایئرو ناٹیکل میل تک اندر آئے اور بالاکوٹ کے جنگلات میں کسی ہدف کا تعین کیے بغیر اپ لوڈ کیا ہوا سامان، یعنی بم گرا کر چلے گئے۔ مودی سرکار اور ان کی وزارتِ دفاع نے اسے سرجیکل اسٹرائیک کہا اور دعویٰ کیا کہ یہ بم دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر گرائے گئے ہیں اور ان کے ذریعے جو کیمپ تباہ ہوئے، ان میں کم سے کم تین سو افراد مارے گئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا دعویٰ تھا جسے ہندوستان کے وہ سارے ٹی وی چینلز جن کی سرپرستی مودی سرکار کرتی ہے، ہندوستانی فضائیہ کی ایک شان دار کامیابی بناکر نہایت پرجوش انداز میں بتا اور دکھا رہے تھے۔ ایک ارب سے زائد افراد کی آبادی والے ہندوستان میں جہاں ہندو واضح اکثریت میں ہیں، مودی سرکار کی اس کارروائی نے ملک کے طول و عرض میں ایک دم اُن کی بہادری اور مقبولیت کا ماحول بنا دیا اور ایک غلغلہ سا بلند ہوگیا کہ جیسے کسی بڑے اور پرانے خواب کو تعبیر مل گئی ہو۔ میڈیا جہاں بھی غیرذمے دار اور آپے سے باہر ہوتا ہے، ایسی ہی جہالت کے کھیل تماشے دکھاتا ہے۔ اگرچہ متوازن مزاج رکھنے والے ہندوستانی سیاسی راہنما اور ٹی وی چینلز کے اینکرز اپنی حکومت کے اس عمل کو درست قرار نہیں دے رہے تھے۔

ان میں کچھ لوگ یہ بھی پوچھنا اور جاننا چاہتے تھے کہ جو تین سو دہشت گرد مارے گئے ہیں، وہ کون تھے، یعنی دہشت گردوں کا کون سا دھڑا تھا، ان کا سرغنہ کون تھا اور یہ سوال بھی کیا جارہا تھا کہ ٹی وی چینلز اس تباہی کی فوٹیج کیوں نہیں دکھا رہے جو بھارتی فضائیہ کے برسائے ہوئے بموں سے ہوئی ہے۔ ملک میں چونکہ نقار خانے کی سی فضا تھی، اس لیے ایسے لوگوں کی بات عوام کے کانوں تک مؤثر انداز میں پہنچ ہی نہیں پارہی تھی۔

دوسری طرف اس واقعے کے بعد پاکستانی حکومت پر ایک دم دباؤ بڑھ گیا۔ سوال اٹھا کہ ملک کے دفاع اور اس کے وقار کی بحالی کے لیے وہ کیا کررہی ہے؟ قابلِ داد بات ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس دباؤ میں آکر غیرعقلی اقدامات کرنے کے بجائے تحمل سے پوری صورتِ حال پر غور کیا۔ جمہوری اور عسکری قیادت نے نہ صرف خود اکٹھے ہوکر مستقبل کے لائحۂ عمل کے لیے سوچا، بلکہ حزبِ اختلاف کی ساری جماعتوں کو بھی اس حوالے سے گفتگو میں ساتھ بٹھایا گیا۔ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ یہ بہت مستحسن اقدام تھا جس نے پورے ملک میں اتحاد، ہم آہنگی اور یگانگت کی ایسی فضا قائم کی کہ قومی جذبہ اور اجتماعی شعور پوری طرح نمایاں ہوا۔

باہمی مشاورت کے بعد سیاسی و عسکری سطح پر بہ یک آواز مودی سرکار کو پیغام دیا گیا کہ جو کچھ اُس نے کیا ہے، اُس کا جواب دیا جائے گا، لیکن طریقے اور وقت کا تعین حکومتِ پاکستان کرے گی۔ پاکستانی قیادت کے اس تحمل کو ہندوستان کے انتہاپسند طبقے اور چینلز نے خوف اور بزدلی سے تعبیر کرتے ہوئے اچھالا اور اپنے حق میں استعمال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ کوشش بلاشبہ، حد درجہ اشتعال انگیز تھی۔ خیر، اگر بات یہاں تک بھی رہتی تو چلیے ٹھیک تھا۔ اس صورتِ حال کو مودی سرکار بار بار اور دیر تک اپنے حق میں استعمال بھی کرسکتی تھی۔ یہ کام اگر وہ ہوش مندی سے کرتی تو اس کا پورا امکان تھا کہ اپنے اصل ہدف، یعنی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھی اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا سکتی تھی— لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس سے ایک چوک ہوگئی جس نے صورتِ حال کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔

پہلی بات تو یہی کہ جو بم گرائے اُن سے مودی سرکار نے ایسے نتائج اور کامیابی کے حصول کا دعویٰ کیا جو حالات اور حقائق کے برخلاف تھا۔ دعویٰ کرنے میں آدمی کا کچھ نہیں جاتا، لیکن اس دور میں کسی بھی دعوے کی حقیقت ذرا سی دیر میں کھل جاتی ہے۔ آج نیویارک میں اَنڈر ورلڈ کے جگمگاتے نائٹ کلبز سے لے کر افریقا کے تاریک جنگلوں تک دنیا کا شاید کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو سیٹلائیٹ کوریج کے دائرے سے باہر ہو۔ بالفرضِ محال اگر ہے بھی تو اس کے فوکس ہونے اور ساری دنیا کے سامنے آجانے میں دنوں یا گھنٹوں کا نہیں، صرف کچھ منٹ کا وقت ہی لگے گا۔

مودی سرکار نے جو دعویٰ کیا، وہ اپنے چینلز پر اس کے ثبوت کی فوٹیج دکھانے سے قاصر تھی۔ چلیے، وہ نہیں تو دنیا کی دوسری بڑی خبر رساں ایجنسیز کے ٹی وی چینل تو بغیر کسی تأمل کے مودی سرکار کی اس فتح کے شواہد بڑی آسانی سے دکھا سکتے تھے، لیکن وائس آف امریکا سے لے کر سی این این اور بی بی سی تک کسی چینل نے ایسی کوئی فوٹیج نہیں دکھائی جس میں تین سو دہشت گردوں کے تباہ حال کیمپ اور باقیات کو فوکس کیا گیا ہو۔ تین سو آدمی تو بہت بڑی بات ہے تین سو چوہے یا کوے بھی ایک جگہ ماردیے جائیں تو اس واقعے کا ثبوت مکمل طور پر کسی بھی طرح لمحوں میں چھپائے نہیں چھپ سکتا۔ اصل میں اس دعوے سے مودی سرکار اپنے عوامی جذبات کو متحرک کرنا چاہتی تھی تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھا سکے، لیکن ایسا ممکن نہ ہوا، بلکہ یہ عمل بیک فائر کرگیا اور مودی سرکار کو الٹا لینے کے دینے پڑ گئے۔

ادھر یہ ہوا کہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا اور دنیا کے دوسرے ٹی وی چینلز نے جس علاقے میں بم گرائے گئے تھے، وہاں کی خوب کوریج کی، بار بار دکھایا گیا کہ ان بموں سے چھے درخت تباہ ہوئے، ایک کوا مارا گیا اور ایک شخص زخمی ہوا۔ یہ ہے ہندوستانی فضائیہ اور مودی سرکار کا کل کارنامہ۔ اب دباؤ چوںکہ خود مودی سرکار پر آگیا اور کام یابی کا اعلان رسوائی کے نقشے میں تبدیل ہوگیا تو اس نے ادبدا کر پاکستان پر ہوائی حملہ کرادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ بھی دراصل حملہ نہیں تھا، محض سرجیکل اسٹرائیک کا ڈراما تھا، جس کا ہدف اور کچھ نہیں صرف اور صرف مودی سرکار کی جگ ہنسائی کو روکنا اور اس کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنا تھا۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ اب جو جنگی جہاز ایئر اسٹرائیک کررہے تھے وہ نہ تو تباہی کا کوئی واضح ہدف لیے ہوئے تھے اور نہ ہی تباہ کار سامان سے لیس تھے۔ یہ سارا منصوبہ چوںکہ کسی سوچ بچار، حکمتِ عملی اور جنگی تیاری کا نتیجہ نہیں تھا، اس لیے کامیابی کے بجائے مودی سرکار کے لیے رسوائی کا کچھ اور سامان سمیٹ لایا، اور وہی ہوا کہ:

بندہ جوڑے پلی پلی اور رام مندھائے کپے

مودی سرکار نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں سوائے ہوسِ اقتدار کے تماشے کے سوا ویسے تو اور کیا ہی کیا ہے، لیکن اگر کچھ کوشش بھی کی تھی تو وہ ایک ہی جھٹکے میں ٹھکانے لگی۔ اب صورت یہ ہے کہ جس اقتدار کے لیے وہ یہ سرجیکل اسٹرائیک اور دہشت گردوں کے صفائے کا سارا ناٹک رچا رہے تھے، وہ اب انھیں صاف صاف ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے، اور انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کریں تو کیا اور جائیں تو کہاں؟

سیاسی راہنما کی حیثیت سے مودی کی عقل و نظر اور فہم و بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اب وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے سوائے ہذیان کے اور کچھ ظاہر نہیں ہورہا، مثلاً اس واقعے کے بعد کہ جب انھوں نے ہوائی حملہ کیا جس میں ان کے دو جہاز پاکستان ایئر فورس نے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کرلیا، ایک گفتگو میں انھوں نے اعلان کیا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ تو صرف پائلٹ پروجیکٹ تھا، اصل کام تو اب شروع ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی طبعاً متشدد اور انتہا پسند آدمی ہیں۔ اگلے انتخابات میں کام یابی کی خواہش نے اس وقت ان کے اندر مایوسی کی حد کو پہنچی ہوئی شدت پیدا کردی ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا اور انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ کس طرح ابھی آئندہ انتخابات میں ان کی کام یابی کا اعلان ہوجائے۔

دوسری طرف خود اپنے ہی ملک میں اس وقت اُن کی شخصیت ایک انتہاپسند اور اقتدار پرست سیاست داں کی حیثیت سے گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ان کی حمایت کرنے والے میڈیا ہاؤسز بھی اس سلسلے میں ان کی ساکھ کو سنبھالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کا اندازہ اُن بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو سیاست داں، صحافی اور سماجی راہنما ان کے بارے میں دے رہے ہیں۔ معروف سیاسی راہنما کیجروال نے کہا ہے کہ مودی سرکار سے پوچھا جانا چاہیے کہ اقتدار کی تین سو نشستوں کے لیے انھیں کتنے فوجیوں کی لاشیں درکار ہیں؟ اندراگاندھی کے پوتے اور کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے کہا ہے کہ مودی ملک کو آگ میں جھونک رہے ہیں اور یہ کہ انھوں نے ہندوستانی فضائیہ کے تیس ہزار کروڑ روپے امبانی کی جیب میں ڈال دیے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے اس سارے معاملے میں اصل اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کیا ہے۔ معروف صحافی راجدیپ سرڈیسائی نے کہا کہ شاید ہم بھارتیوں کو یہ بات پسند نہ آئے، لیکن اخلاقی سطح پر یہ عمران خان کی جیت ہے۔ اسی طرح ساگا ریکا گھوس نے بیان دیا کہ مودی جی سے معذرت کے ساتھ، لیکن آج عمران خان نے انھیں ڈپلومیسی میں، جنگ کی حکمتِ عملی میں اور عوامی مقبولیت میں چت کردیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار، سماجی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ارون دھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں اس پوری صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مودی سرکار کے سارے اقدامات کو انتخابی نتائج حاصل کرنے کا ناٹک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ انتہا پسندی کو اپنے پوری حکومتی دور میں مسلسل عوام دشمن مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کی متحدہ اپوزیشن بھی اب انھیں بالکل کھلے لفظوں میں عوام دشمن، ہوسِ اقتدار والا عفریت اور تباہ کار جنگجو قرار دے رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں حکومتی حکمتِ عملی نے ہندوستانی سماج میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور اسے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان تدبر رکھنے والی معتدل مزاج سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں۔ اس پوری صورتِ حال میں انھوں نے جس طرح تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا، بار بار بھارت کے وزیراعظم کو مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت دی، ردِعمل کی سیاست سے گریز کیا، جنگ کے خلاف ایسے بیانات دیے کہ جنگ شروع ہوجائے تو پھر کسی کے قابو میں نہیں رہتی، یا یہ کہ جنگوں کے بارے میں لگائے گئے اندازے ہمیشہ غلط ثابت ہوتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر انھوں نے مارگرائے جانے والے جنگی جہاز کے زندہ گرفتار ہونے والے پائلٹ کو طبّی امداد اور بہتر انسانی سلوک کے بعد کسی شرط اور مطالبے کے بغیر اور فوراً ہی جس طرح بھارتی حکومت کو واپس کردیا ہے— یہ سب باتیں اُن کے سیاسی قد و قامت میں نہایت غیر معمولی اضافے کا سبب بنی ہیں۔ اب ان کا شمار عالمی سطح کے سیاسی قائدین میں کیا جارہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اگر ذرا بھی ناسمجھی اور ردِعمل کی سیاست کا راستہ اختیار کرتی تو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا میدان سجنے میں لمحوں کی بھی تاخیر نہ ہوتی۔

یہ جنگ اس بار بھی پہلے کی طرح روایتی حریفوں کی محاذآرائی ہوتی یا پھر اس کے ذریعے تیسری عالمی اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کا آغاز ہوتا— قطعیت کے ساتھ اس سلسلے میں کچھ کہنا ذرا مشکل ہے، اس لیے کہ دنیا میں ہونے والی جنگوں اور قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جنگ کا آغاز ایک قاعدے اور باضابطہ حکمتِ عملی سے ہوتا ہے، لیکن بہت جلد جنگ کے تباہ کن شعلے جس شے کو سب سے پہلے نگلتے ہیں وہ قاعدہ اور حکمتِ عملی ہی ہوتی ہے۔ جنگ دراصل جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے، ہر سمت اور رینگتے رینگتے یک لخت اچھلتے ہوئے۔ یہ بھی طے ہے کہ جنگ جیتنے والا بھی ہارنے والے سے کچھ کم نقصان نہیں اٹھاتا۔ اس کے حصے میں بھی تباہی اور موت بہت بڑے تناسب کے ساتھ آتی ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے مابین اب جنگ نہیں ہونی چاہیے اور امید کی جاسکتی ہے کہ ہوگی بھی نہیں۔ اس لیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت اور اسلحے کے بڑے ذخائر کے مالک ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کی دوستی ان عالمی طاقتوں سے ہے جو اسلحے کی تجارت سے اپنے ملک کی معیشت کا پہیہ چلاتے ہیں۔ پاکستان چین اور ہندوستان اسرائیل سے اندھا دھند اسلحے کی خریداری کرتا ہے۔ اب اگر دونوں ملک روایتی جھگڑے سے آگے بڑھ کر اپنے مہلک ہتھیار استعمال کرنے پر آجائیں تو دونوں ہی خطۂ ارض سے اس طرح مٹ کر رہ جائیں گے کہ ان کا نشان تک نہ ملے گا۔ بات صرف ان دونوں ملکوں کی بھی نہیں ہے، اس تباہی کی لپیٹ میں پورا خطہ نہیں، بلکہ دنیا کا اور بھی بڑا حصہ آجائے گا۔ اس حقیقت کو عالمی برادری اچھی طرح سمجھ سکتی ہے۔ اسی لیے تناؤ کی اس فضا میں عالمی سطح پر مصالحت کا کردار ادا کرنے والے ممالک اور افراد فی الفور سامنے آئے ہیں۔

تاہم اس حقیقت کو بھی مسلسل پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ نریندر مودی جیسے متشدد اور اقتدار کے پجاری اپنی ہوس کے بھرے میں آکر کسی بھی انتہائی مرحلے تک جاسکتے ہیں۔ حصولِ اقتدار کی مایوس کن صورتِ حال اُن کے لیے جنگ کو حصولِ مقصد کا سنہری موقع بنا دیتی ہے۔ مایوسی اور محرومی کی نفسیات بڑی تباہ کن ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو خود کو پھونک ڈالنے سے لے کر دنیا کو آگ لگانے تک کسی بھی اقدام پر اکسا سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس صورتِ حال میں نہ صرف چاق چوبند رہنا ہے، بلکہ اس جنگی جنون کا توڑ ہر ممکن امن کے جذبے سے کرنا ہے۔

The post جنگی جنون اور امن کا جذبہ appeared first on ایکسپریس اردو.

میرے لیے کون سا شعبہ بہتر رہے گا؟

$
0
0

ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد ہر طالبِ علم کی زندگی میں وہ مرحلہ بھی آتا ہے جب وہ ان  مضامین کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں اور کسی شعبے میں کیریئر بنانے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ یہ یقیناً وہ مرحلہ ہوتا ہے جب طلباء اپنے شوق، لگن اور برسوں کی محنت اور خوابوں کو تعبیر کا روپ دیتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ ڈگری کے حصول کے بعد جب ملازمت کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح شادی کے بعد اگر خواتین معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتی ہیں اور کچھ کرنا چاہتی ہیں تو کسی شعبے انتخاب کرنے میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں اور اس حوالے سے فیصلہ ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر بھی پریشان ہوتی ہیں کہ جو کام وہ کرنا چاہتی ہیں، کیا معاشی لحاظ سے نفع بخش اور سود مند ثابت ہو گا؟

بہت سی لڑکیاں شادی سے قبل یا شادی کے بعد اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت، کاروبار یا گھر بیٹھے ایسے کئی کام کرتی ہیں جو ان کے لیے آمدن بڑھانے اور معاشی استحکام کا باعث تو بنتے ہیں، مگر شاید وہ ان کے لیے خوشی کا باعث نہیں ہوتے۔ وہ کام جو شوق اور آپ کی دل چسپی سے خالی ہو خوشی کا باعث نہیں بنتا۔ اگر خوش گوار اور معاشی لحاظ سے بھی مستحکم ہونا چاہتی ہیں تو اپنی قابلیت، وسائل کے ساتھ اپنے شوق اور دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے شعبے کا انتخاب کریں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا شادی کے بعد جب آپ معاشی میدان میں سرگرم ہونا چاہیں تو بھی یہ سوال ذہن میں آئے کہ’’کیا کیا جائے؟‘‘

’’کس شعبے میں ملازمت یا کون سا کاروبار کرنا بہتر ہے؟‘‘

’’پیسہ کمانے کے لیے بہتر اور موزوں طریقہ کیا ہے؟‘‘

تو خوب سوچ بچار کریں۔ اپنی قابلیت، مشاغل کو مدنظر رکھیں اور اپنی ذات سے کچھ سوال کریں اور ان کے جواب تحریر کرلیں۔

٭ زندگی  میں وہ کون سا کام ہے جس کو آپ بہت شوق سے کرتی ہیں؟

٭اس سوال کا پوری دیانت داری سے جواب تحریر کریں۔ صرف کیریئر نہیں۔ ہر شعبۂ زندگی میں سوچیں، مثلاً کئی لڑکیوں کو کیک بیک کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے، کسی کو کپڑوں کی ڈیزائننگ کا شوق ہوتا ہے، کسی کو گھر کی سجاوٹ یا آرٹ اینڈ کرافٹ سے دل چسپی ہوتی ہے، کسی کو سوشل ورک یا فلاح و بہبود کے کاموں میں خاصی دل چسپی ہوتی ہے، الغرض جو بھی آپ کا جواب ہو اسے تحریر کرلیں۔

دنیا کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ یہ دوسرا سوال بھی بے حد اہم ہے۔ آپ کے خیال میں دنیا کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ مثلاً کھانا پکانے کی شوقین خاتون شاید یہ سوچیں کہ گھر کے بنے لذیذ کھانے سب کی ضرورت ہیں۔ نفسیات کی طالبہ یہ سوچ سکتی ہے کہ اظہارِ خیال اور اظہارِ رائے کی آزادی سب سے اہم ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی طالبہ یہ سوچ سکتی ہے کہ دنیا کو مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل کی ضرورت ہے اور اس کے لیے عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ کمپیوٹر کی فیلڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکی یہ سوچ سکتی ہے کہ اس انڈسٹری کو سوفٹ ویئر ڈیولپرز کی بہت ضرورت ہے۔

الغرض، ہم زیادہ تر یہی سوچتے ہیں کہ جس کام میں ہم اچھے ہیں دنیا کو اسی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ اپنی سوچ کے مطابق اس سوال کا جواب بھی تحریر کرلیں۔

٭ وہ کونسا ایسا شعبہ ہے جس سے میں معاشی طور پر مستحکم ہوسکتی ہوں/ پیسہ کماسکتی ہوں؟

عموماً خواتین/ لڑکیاں ان شعبوں کے متعلق سوچتی ہیں جن میں ان کی دل چسپی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر دنیا کا مشاہدہ کریں کہ وہ کون سے شعبے ہیں جن کو اس وقت معاشی لحاظ سے مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً چند دہائیوں قبل تک کمپیوٹر خصوصاً ’’مصنوعی ذہانت ‘‘ یا ’’آرٹیفیشل انٹیلیجینس‘‘ کا کوئی تصور بھی نہ تھا مگر اس وقت یہ شعبہ ترقی کی معراج پر ہے۔ کئی والدین بھی بچوں خصوصاً لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے وقت ایسے کیریئر کا انتخاب کرنے پر زور دیتے ہیں جو اسے زبردست مالی فائدہ پہنچا سکتا ہو۔ چاہے وہ کسی شعبے میں ملازمت اور بھاری تنخواہ کی صورت ہو یا پھر کاروبار کی صورت میں زبردست اور فوری منافع کی شکل میں ہو۔ الغرض آپ کیا سوچتی ہیں۔ اپنے جوابات تحریر کرتی جائیں۔

آپ کس شعبے میں ماہر ہیں؟ ہو سکتا ہے کسی لڑکی نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی ہو، لیکن اس کو فیبرک پینٹنگ کرنے میں مزہ آتا ہو اور اس کے خیال میں وہ فیبرک پینٹنگ یعنی کپڑوں پر پینٹ کرنے میں ماہر ہے تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں، تصور میں اپنی مہارت کو جانچیں اور اسے تحریر کریں۔

اب ان چاروں سوالوں کے جوابات کی روشنی میں فیصلہ کریں۔ کیوں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو لوگ مقصدِ حیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں یا کسی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں وہ خوش و خرم اور صحت مند رہنے کے ساتھ طویل عمر پاتے ہیں، اور درج بالا چاروں نکات ہمیں اسی طرف مائل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی لڑکی کو اگر سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کا شوق ہے، ساتھ ہی اسے کپڑوں کی ڈیزائننگ کا بھی شوق ہے اور ٹیبل ٹینس کھیلنے کا بھی شوق ہے تو ان تینوں میں سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان میں سے کس کے ذریعے زیادہ رقم کمائی جاسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹیبل ٹینس کے علاوہ دونوں شعبوں کا انتخاب کرلے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا کو ان دونوں میں سے کس شعبے کے ماہر افراد کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کا بھی جواب تحریر کرنے کے بعد یہ دیکھیں کہ کس شعبے میں آپ ماہر ہیں، جس کام کو کرنے میں آپ کو مزہ آتا ہے، اب ان جوابات میں مشترکہ جواب تلاش کریں۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں آپ کو اپنے شعبے کا انتخاب کرنا آسان ہوگا۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے شعبے کا انتخاب کرلیا جاتا ہے جو آپ کے لیے خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی ٹیچر ہے جب کہ اسے پینٹنگ کا شوق ہے تو مایوس نہ ہوں۔ وقت کی صحیح تقسیم سیکھیں۔ اگر چھے گھنٹے اسکول میں گزارتی ہیں تو باقی اٹھارہ گھنٹوں میں اپنے شوق کے لیے وقت نکالیں اور اس کام کا بھی آغاز کریں جو آپ کی اصل دل چسپی کا باعث ہے۔

The post میرے لیے کون سا شعبہ بہتر رہے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ذرا اس طرف توجہ دیں۔۔۔

$
0
0

اولاد قدرت کا انمول تحفہ اور نعمت ہے۔ اس کی نگہداشت، پرورش اور بہترین تربیت کرنا اہم ذمہ داری ہے۔ والدین بچوں کی صحت، ان کی تعلیم اور ہر چھوٹی بڑی خوشی کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں بعض اوقات ہماری کوتاہی، عدم دل چسپی، کمی یا غفلت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

بچے اپنے ماں باپ اور اہلِ خانہ کے رویے، برتاؤ اور ان کی باتوں کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ جب والدین کسی چیز یا شخص کے بارے میں بچوں کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا کسی کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں تو بچے اسے بہت دھیان سے سنتے ہیں اور اس کا گہرا اثر لیتے ہیں۔ والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو ان کے ذہن پر جیسے نقش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب ماں باپ آپس میں کسی بات پر اختلاف کرتے ہیں اور اس دوران بات بڑھ کر جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بچہ اس کا بھی گہرا اثر لیتا ہے۔ یاد رکھیے بچے نہایت حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ والدین کے جھگڑوں اور تلخ جملوں سے جہاں سہم جاتے ہیں، وہیں بعض اوقات یہ سب ان کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرسکتا ہے اور ان کی شخصیت مسخ ہو سکتی ہے۔

پھولوں کی طرح کھلے ہوئے چہرے ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑا دیکھ کر کمھلا جاتے ہیں۔ انجانا خوف ان کے ذہن اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ماں باپ کے درمیان لڑائی اور تلخ کلامی یا علیحدگی کا بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

امریکی سائنس دانوں کی ایک تحقیق کے مطابق ماں باپ کے جھگڑوں سے صرف سمجھ دار بچے ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور جذبات کے اظہار کی طاقت نہ رکھنے والے بچے بھی اس کا نہایت منفی اثر لیتے ہیں۔ والدین کو تکرار کرتا دیکھنے والے بچوں کی نیند متاثر ہوسکتی ہے اور وہ پُرسکون نظر نہیں آتے۔ بچپن ہی سے اپنے والدین کو جھگڑتا دیکھنے والے بچوں میں اشتعال انگیزی بڑھ جاتی ہے۔ وہ بے جا بحث، تکرار اور جھگڑا کرنے کو درست اور  ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔

لڑکے تو چیخ کر، جھگڑ کر اپنا مسئلہ نمٹا لیتے ہیں، لیکن لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں تو اعصابی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں اور سہمی ہوئی رہتی ہیں۔کیوں کہ ایک خاص عمر تک تو وہ اسی دباؤ میں رہتی ہیں ان کا اپنے بھائیوں کی طرح چیخ کر اور بلند آواز بالکل برداشت نہیں کی جائے گی اور وہ سنتی رہتی ہیں کہ عورتوں کی آواز گھر سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ بچپن سے والدین میں لڑائی جھگڑا دیکھنے والی بچی جب اپنے بہن بھائیوں یا دوستوں پر برہم ہوتی ہے تو ایک خاص ایج تک تو خوب غصہ کرتی ہے مگر بعد میں وہ اپنے آپ کو ایک خول میں گویا قید کر لیتی ہیں۔ اس کا ان کی مجموعی ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے بچوں کی طبیعت میں ایک چڑچڑا پن آجاتا ہے، وہ تمام لوگوں سے اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔ کسی سے جلدی مانوس نہیں ہوتے، ایسے بچے خود کسی کے قریب جاتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سوالات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گھر آئے مہمان یا کہیں بھی رشتے دار ہو یا اجنبی اس سے بات چیت اور اس کے سوالات کا سامنا کرنے گریز کرتے ہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ ایسے بچے کوشش کرتے ہیں کہ اس جگہ سے ہٹ جائیں جہاں ان سے یا ان کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔ اسی طرح جو بچے اپنی ماؤں پر جسمانی تشدد دیکھتے ہیں، آگے چل کر خود بھی اسی روش کو اپناتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ والدین جو اپنے بچوں کو خوش گوار ماحول فراہم کرتے ہیں، ان کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں اور بچوں کے سامنے جھگڑنے سے اجتناب کرتے ہیں تو ایسے ماحول میں نشوونما پانے والے بچے کی شخصیت میں توازن اور اعتماد نظر آتا ہے۔ وہ منفی سوچ اور طرزِ عمل کے حامل نہیں ہوتے، وہ صلح جُو اور شائستہ آداب ہوتے ہیں جس کا معاشرے پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ میاں بیوی میں تلخی اور اختلافات فطری بات ہے، لیکن اس پر شائستہ، منطقی اور لحاظ و مروت کے ساتھ ردعمل دینا الگ بات ہے جب کہ اس پر تشدد، بدکلامی اور غیرمہذب انداز اپنانا ایک منفی رویہ ہے جس کا نہ صرف ایک کنبے پر اثر پڑتا ہے بلکہ یہ معاشرے کے لیے بھی خرابیوں کا باعث ہوتا ہے۔

جب بچے اپنے گھر کو میدان جنگ اور اپنے والدین کو دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے الجھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں، کسے صحیح سمجھیں اور کون غلط ہے۔ ذرا سوچیے، ایک معصوم کے لیے وہ کتنا کڑا موقع ہو گا جب اسے ماں یا باپ میں سے ایک کی طرف جھکاؤ رکھنے اور صحیح سمجھنے کا فیصلہ کرنا ہو۔ ایسا موقع آتا ہے تو اس کے جذبات بری طرح مجروح ہوتے ہیں۔

ایک جانب ماں کی ممتا کھو دینے کا ڈر اور دوسری طرف باپ کی شفقت سے محروم ہونے کا خدشہ اسے چڑچڑا اور بدتہذیب بنا دیتا ہے۔ اس کشمکش سے بچنے کے لیے وہ گھر کے بجائے باہر وقت گزارنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی موجودگی میں کمرے سے باہر رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے کسی جھگڑے اور لڑائی کو دیکھنے کا موقع نہ ملے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے تمام اختلافات کو شائستگی اور مناسب انداز سے حل کریں اور اپنے جگر گوشوں کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ ان کی جذبات مجروح نہ ہوں۔ بچوں کے سامنے اپنا رویہ درست رکھیں اور کسی بات پر اختلاف ہو تو تہذیب و شائستگی کے ساتھ منطق اور دلیل سے بات کریں۔

The post ذرا اس طرف توجہ دیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

بیٹیاں؛ ماں باپ کی عزت، بھائیوں کا مان

$
0
0

بہن، بیوی اور ماں جیسے پاکیزہ رشتے اور عظیم مقام تو عورت بعد میں پاتی ہے، سب سے پہلے تو اسے بیٹی کی پہچان ملتی ہے۔ اس کارخانۂ قدرت میں آنکھ کھولتے ہی وہ بیٹی کا مقام و مرتبہ اور درجہ پا لیتی ہے۔ وہ رحمت بن کر گھر میں آتی ہے۔ بیٹی ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہوتی ہے۔ یہی بیٹیاں ہوتی ہیں باپ کی شہزادی اور بھائیوں کی پیاری ہوتی ہیں۔ اگر باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی ہر خواہش پوری ہو تو بھائیوں کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اسے خوش رکھیں اور اس کا بہت خیال رکھیں۔ غرض بیٹیاں سبھی کو پیاری ہوتی ہیں اور یہ رشتہ نہایت عزت و وقار اور تکریم کا متقاضی ہوتا ہے۔ لڑکیاں اپنے باپ کا فخر، بھائیوں کا مان ہوتی ہیں۔

پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ماں باپ بڑی چاہ سے اپنی بچیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، اس موقع پر وہ اپنی بیٹیوں کو یہ تاکید اور نصیحت کرتے ہیں: ’’بیٹی! اپنی اور ہماری عزت کا مان رکھنا۔‘‘

بیٹیاں اس نصیحت کو پلے سے باندھ لیتی ہیں، مگر زندگی کے سفر میں ناسمجھی، شعور اور آگاہی نہ ہونے یا کسی کے بہکاوے میں آجانے سے وہ ماں باپ کی نافرمانی کر سکتی ہیں۔ وہ راستے سے بھٹک سکتی ہیں اور ماں باپ کا مان اور بھروسا توڑ دیتی ہیں۔ یہی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے لیے دکھ اور افسوس کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ موجودہ دور میں  جب دنیا ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے اور ہم جدید آلات کے استعمال میں آگے بڑھ گئے ہیں تو فکر و نظر کا زاویہ بدلتے ہوئے، نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا اور تربیت و کردار سازی کے حوالے سے ماں باپ کو اپنی اولاد پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی نازک کلیوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھیں۔ خاص طور پر مائیں اس حوالے سے اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔

لڑکیوں کو بے جا روک ٹوک کر کے خود سے دور نہ کریں بلکہ ان کو اعتبار بخشیں اور اپنی دوست بنا لیں۔ ان کے دل کی بات سنیں اور ان سے قریب رہیں۔ ٹیلی ویژن سے لے کر موبائل فونز تک کے استعمال پر ماں باپ نظر رکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ ان کا انٹرنیٹ کے ذریعے کس سے رابطہ ہے اور وہ مثبت تفریح اور معلوماتی موضوعات سے ہٹ کر غیرمعیاری اور فضول ناول اور کہانیاں تو نہیں پڑھ رہیں۔ انہیں پیار سے سمجھائیں کہ یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے اور کسی طرح ان کے لیے مفید بھی نہیں۔ اس کے بجائے وہ کسی مفید اور تعمیری سوچ پیدا کرنے والی کتاب کا مطالعہ کریں۔ کم عمری سے ہی بچیوں سے قریبی اور دوستانہ تعلق قائم رکھیں۔

یہ جانیں کہ ان کی سہیلیاں کون ہیں، کس کے ساتھ آپ کی بیٹی زیادہ وقت گزارتی اور بات کرنا پسند کرتی ہے، اپنی بیٹی کی سہیلیوں کے عام حالات اور کوائف کا علم رکھیں۔ بچیاں اگر کسی نئی سہیلی کے گھر جانا چاہیں تو یہ معلوم کریں کہ ان کی سہیلی کے گھر میں کون کون رہتا ہے، ان کے والدین کون ہیں۔ جب بھی بیٹی اسکول یا کالج سے واپس گھر آئے تو ان سے یہ جانیں کہ آج کیسا وقت گزرا، کس سے ملیں اور کیا کچھ کیا۔ یہ سب نہایت دوستانہ اور پیار بھرے انداز میں ممکن ہے۔ اگر آپ اس کی سہیلی جیسی ماں ہیں تو بچی کو یہ احساس بھی نہیں ہو گا کہ آپ اسے کھوج رہی ہیں۔

شروع سے ہی آپ یہ عادت اپنالیں گی تو بچیاں آپ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گی، بلکہ اپنا ہر مسئلہ، ہر پریشانی اور عام باتیں آپ سے شیئر کریں گی۔ بیٹیوں کو اتنا مان دیں کہ وہ خود کو کبھی کم زور یا تنہا محسوس نہ کریں۔ کوشش کریں تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی جتنی بھی سہیلیاں ہیں، ان سے  ذاتی طور پر رابطے میں رہیں۔ اپنی بیٹیوں کے موبائل فون بھی وقتاً فوقتاً چیک کرتی رہیں۔ ان کو بچپن سے صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھائیں، تاکہ وہ کسی غلطی اور کم زوری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔

ان کو شعور کی عمر تک پہنچنے پر یہ سمجھائیں کہ فلموں اور ڈراموں کی زندگی نمائشی ہے اور حقیقی زندگی اس سے بالکل الگ ہے۔ کسی فریب اور دھوکے میں نہ آجانا۔ بچیوں کو بتائیے کہ کبھی کوئی آپ کو گھر سے باہر راستے میں یا تعلیمی ادارے میں تنگ کرے یا موبائل فون پر آپ کو پریشان کرے تو سب سے پہلے اپنی والدہ کو بتائیں یا کسی بھی بڑے سے تذکرہ کریں اور تمام بات تفصیل سے بتائیں۔ ماں باپ کا مان رکھنا سیکھیں اور کسی قسم کی کم زوری کا مظاہرہ نہ کریں۔ والدین اور اپنے بزرگوں کے آپ پر اعتبار اور بھروسے کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں۔ ہر معاشرہ والدین کی فرماں برداری، احترام کا تقاضا کرتا ہے، عورت کو اپنی عزت اور وقار کی حفاظت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں سب سے پہلے تو عورت کے مقام کا اور اس کی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے حقوق پر بات کی گئی ہے اور پھر اسے والدین اور اپنے شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی فرماں برداری کی ہدایت کی ہے۔

The post بیٹیاں؛ ماں باپ کی عزت، بھائیوں کا مان appeared first on ایکسپریس اردو.

آئیے، خود کو بدلیں!!

$
0
0

ہماری بعض عادات اور مزاج جہاں ہماری شخصیت کو سنوارنے یا اس پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث ہوتا ہے، وہیں ہماری نفیسات اور ذہنی کیفیت بھی ہمارے ظاہر پر گہرا اثر چھورتی ہے۔ ایک طرف ہمارے سوچنے کا انداز اور کسی بھی شے یا لوگوں سے متعلق طرزِ فکر بھی ہماری شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور دوسری جانب انسانی نفسیات اور اس سے جڑے عوامل ہمیں اچھا یا برا بناتے ہیں۔

کسی بھی انسان کی شخصیت اور اس کی ذہنی کیفیت یا نفسیات بچپن کے ماحول، والدین اور لوگوں کا رویہ اور برتاؤ، خاندانی اور سماجی معاملات کے تحت تشکیل پاسکتے ہیں اور یہ مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو کر ہمارے رویوں سے جھلکتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گتّھیاں سلجھانا اور ان کی پیچیدگی دور کرنے کی کوئی کوشش شاید ہی کسی نے کی ہو اور اس حوالے سے اپنے تجربات دنیا کے سامنے رکھے ہوں۔ البتہ کسی بھی فرد کی ابتدائی زندگی کو جان کر ایک خاص عمر میں اس کی شخصیت میں پیدا ہونے والی کجی، کمی کو دور کر کے اسے نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے اور یہ کام یاب بھی ہوتی ہے۔ عام بات ہے کہ جہاں زندگی کے مختلف ادوار کے حالات اور مختلف عوامل انسانی شخصیت میں بعض اچھے نقش ابھارنے کا سبب بنتے ہیں، وہیں منفی سوچ اور جذبات بھی پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ تاہم اس پر قابو پانا اور مثبت تبدیلی لانا ضروری ہے ورنہ بعض صورتوں میں یہ منفی جذبے شخصیت کو بری طرح مسخ کر سکتے ہیں۔

یہ منفی سوچ اور جذبے کسی سے مختلف وجوہ کی بنا پر اور بسا اوقات بے سبب ہی نفرت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ذہنی کیفیت حسد، جلن، احساسِِ کم تری، بے حسی، خود غرضی کو جنم دینے کے ساتھ کسی بھی انسان کو غیرذمہ دار اور دوسروں کے لیے ناپسندیدہ بنا دیتی ہے۔ یہ سب ابتدا میں عارضی کیفیت معلوم ہوتی ہے، لیکن بدلاؤ کی کوشش نہ کرنے اور مسلسل منفی جذبات اور ردعمل ظاہر کرنے سے یہ شخصیت کا مستقل حصّہ بن جاتے ہیں۔ ایسے منفی جذبوں کی وجہ سے آپ اپنے اہلِ خانہ، سہیلیوں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت بن سکتی ہیں جس کا نقصان آپ ہی کو ہوتا ہے۔ آج اگر آپ اپنی بعض عادات اور اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیں تو ہم آپ کو اس کا ایک عام طریقہ بتا رہے ہیں۔ اس طرح آپ جان سکتی ہیں کہ کہیں آپ بھی کسی منفی جذبے کا شکار تو نہیں؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کسی نہ کسی طرح منفی خیالات میں گِھرا ہوا ہے، مگر مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے اندر اس قسم کے جذبات زیادہ آسانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ تاہم پریشان نہ ہوں۔ یاد رکھیں کوئی بھی شخص کسی طرح مکمل نہیں ہوتا، ہم سبھی میں کوئی خامی یا کوئی ایسا عیب ضرور موجود ہوتا ہے جو ہماری شخصیت پر برا اثر چھوڑتا ہے۔ ان عیوب میں پہلے قدرتی طور پر ہمارے اندر رہ جانے والی خامیوں کی بات کرتے ہیں، یہ خامیاں ذہنی و جسمانی معذوری کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اس کے آگے ہم بے اختیار ہیں۔ ایسے افراد کو ہماری خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی عادات اور رویے ہم سے رعایت، صبر اور درگزر کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خامیاں اور کمی ہوتی ہے جو ہمارے اندر کسی نہ کسی طرح پیدا ہو جاتی ہیں اور ہماری شخصیت کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ اگر آپ ایک عورت ہیں تو ان باتوں کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر پڑے گا اور یہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

٭ سوچیے کہ کسی خلافِ مزاج بات یا واقعے پر آپ ایک دَم غصے میں آجاتی ہیں اور آپ کے اندر ایک لاوا سا اُبلنے لگتا ہے، دل چاہتا ہے کہ سب کچھ تلپٹ کردیں، اپنی ذات یا دوسروں کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچائیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ غصّے کی عادی ہو چکی ہیں اور آپ کے اندر برداشت ختم ہو چکی ہے۔ یہ ایک منفی جذبہ ہے۔ جب کہ آپ جانتی ہیں کہ اکثر باتیں ہمارے مزاج کے خلاف ہوتی ہیں اور اس حوالے سے رواداری اور درگزر کی عادت ڈالنی چاہیے۔

٭ کیا دنیا میں کوئی وجود ایسا بھی ہے جو آپ کے لیے سخت ناپسندیدہ ہے، آپ کی دلی خواہش ہو کہ وہ اب مزید نہ رہے، یا پھر اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے، اسے تباہ و برباد کرنے کا خیال آپ کے دل میں شدت سے موجود ہو اور اس سے جان چھڑانا ممکن نظر نہ آتا ہو۔ اگر ایسا ہے تو آپ نفرت کرنا سیکھ چکی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ نفرت خود ایک قابل مذمت جذبہ ہے۔ کسی بھی انسان سے ذاتی رنجش اور کسی وجہ سے اختلاف رکھنے کے باوجود آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کے لیے انتہائی برا سوچیں۔ نفرت کو دفن کر دیں۔ یہ آپ کی صلاحیتوں اور وقت کو نگل رہی ہے۔ اختلاف اور ناپسندیدگی ایک حد تک بہرحال قابلِ قبول ہے اور یہ عام بات ہے، مگر اس سے زیادہ سوچنا آپ کی شخصیت کو برباد کر رہا ہے۔

٭ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کی سہلیاں آپ سے مخلص نہیں، محض مطلب اور ضرورت پڑنے پر آپ سے ملتی ہیں۔ اگر یہ خیال چند ایک کے بارے میں ہے تو کسی حد تک درست ہو گا، کیوں کہ یہ بھی انسان کی فطرت ہے اور ایسے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ سب کے لیے ہی ایسا سوچتی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کی شخصیت میں کمی ہے اور آپ بے اعتمادی کا شکار ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ اپنے اندر اس حوالے سے مثبت تبدیلی لائیں۔ تمام لوگ ایسے نہیں ہوتے۔ شک کرنے کی عادت اور غیر ضروری طور پر دوسروں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلینا ایک منفی جذبہ ہے۔

٭ حسد اور جلن بھی انسان کی شخصیت کو کھا جاتے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے ارد گرد موجود خود سے کسی بھی حوالے سے بہتر لوگوں سے چڑ ہوتی ہے۔ وہ آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، دوستوں کی کام یابی آپ کو اچھی نہیں لگتی، دوسروں کی ترقی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے، دوسروں کی سماجی حیثیت، خوب صورتی، ان کا ہر دلعزیز ہونا آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہے؟ جان لیں کہ آپ حسد کا شکار ہیں۔ یاد رکھیے! اس طرح ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر آپ خود کو زندگی کی حقیقی خوشیوں سے دور کررہی ہیں۔ ان سے سیکھنے کی کوشش کریں، ان کی حیثیت کا احترام کریں اور سوچیں کہ آپ بھی ان جیسی بن سکتی ہیں۔

٭ کیا آپ سوچتی ہیں کہ دوسرے آپ سے زیادہ باصلاحیت ہیں، وہ جو کام کرسکتے ہیں آپ اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکتیں ، آپ ہر معاملے میں اپنے آپ کو پست گردانتی ہیں، یہ احساس کم تری کا جذبہ ہے، جو آپ کی شخصیت کو گھن کی طرح کھا رہا ہے، کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتیں، وہ نہیں کرسکتیں، اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ جب جسمانی طور پر معذور شخص پہاڑ کی بلند چوٹی سَر کرسکتا ہے، تیرنے کا عالمی ریکارڈ بنا سکتا ہے، ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اپنے پاؤں سے آرٹ تخلیق کرسکتا ہے تو پھر آپ کیوں نہیں کچھ کر سکتیں۔ کم از کم آپ اپنے گھر کو اچھی طرح سجانے اور سنوارنے کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ کے سکون اور ان کی زندگی آسان بنانے کے لیے تو اپنی توانائیاں صرف کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی کام یابی ہے۔ اپنے گھر والوں کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مختلف شکلوں میں بروئے کار لائیں۔ کیا صرف پہاڑ کی چوٹی پر جھنڈا گاڑنا اور کوئی فن پارہ تخلیق کر کے شہرت پانا ہی کمال ہے؟

٭ آپ کوئی کام کرنے سے پہلے بار بار سوچتی ہیں، ارادہ کرتی ہیں اور پھر ملتوی کردیتی ہیں، اور بار بار ایسا کرتے ہوئے کوئی بھی کام سَر انجام نہیں دے پاتیں، یہ جھجھک آپ کو نکالنا ہو گی۔

٭یہ بات تسلیم کرتے ہوئے سب ہی ہچکچاتے ہیں کہ وہ غیر ذمے دار ہیں، لیکن اگر آپ ضروری کاموں کو ٹال دیتی ہیں، چھوٹی بڑی باتوں کا خیال نہیں کرتیں، اپنے رویوں اور کام کے لیے آپ کی سوچ ’’سب چلتا ہے‘‘ والی ہے تو تسلیم کرلیجیے کہ آپ غیر ذمے دار ہیں۔ اس حوالے سے خود کو بہتر بنانے کی سعی کریں۔ ہر معاملے میں ذمہ داری کا ثبوت دیں تو آپ خود اپنے اندر تبدیلی محسوس کریں گی۔

٭ آج انسان جس قدر مصروف ہوتا جارہا ہے، بے حس اور سرد مہری کا مظاہرہ کرنے لگا ہے۔ یہ منفی جذبہ غیر محسوس انداز میں اس پر حاوی ہوتا جارہا ہے، ماضی میں کسی کی تکلیف پر لوگ بے چین ہوجایا کرتے تھے، اس کی پریشانی اور مشکل میں ہر طرح سے کام آنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن آج حالات بہت بدل چکے ہیں۔ آپ اپنا جائزہ لیجیے کہ کہیں آپ بھی بے حس تو نہیں ۔

٭ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ہر جگہ، ہر معاملے میں اپنے مفادات عزیز رکھتی ہوں، دوسروں کے جذبات، احساسات، رشتوں کی اقدار سے زیادہ اپنی ذات کو اہمیت دیتی ہوں، اپنے ذرا سے فائدے کی خاطر دوسروں کے نقصان کی پروا نہیں کرتیں، ایسا ہے تو یقین جانیے! آپ بہت جلد تنہائی کا شکار ہونے والی ہیں، خود غرضی کے اس منفی جذبے سے جتنی جلد ممکن ہو نجات حاصل کر لیں۔

یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ منفی جذبے کسی بھی قسم کے ہوں، شخصیت کی خامی تصور کیے جاتے ہیں، یہ شخصیت کی تکمیل اور لوگوں میں آپ کی مقبولیت کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ ایسے تمام تر جذبوں کا خاتمہ پختہ ارادے کے ساتھ ثابت قدم رہ کر کیا جاسکتا ہے۔

The post آئیے، خود کو بدلیں!! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>