Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

ہنسی میں سنجیدگی ۔۔۔’’آئی جی نوبیل پرائز‘‘

$
0
0

نوبیل انعام کو دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔

اس ایوارڈ کے بانی سوئیڈن میں پیدا ہونے والے موجد الفریڈ نوبیل تھے، اپنی پوری زندگی میں الفریڈ نوبیل نے بہت سی ایجادات کیں ، لیکن ان کی ایک ایجاد ڈائنامائٹ نے نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ڈائنامائٹ کے موجد الفریٖڈ نوبیل کا انتقال 1896میں ہوا اور اس وقت ان کے اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم موجود تھی۔

الفریڈ نوبیل نے اپنی تمام تر دولت کو ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو بہ طور انعام دینے کی وصیت کی، جنہوں نے اس عرصے میں طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی ایجاد کی ہو یا کارنامہ انجام دیا ہو۔ الفریڈ کی وصیت کے مطابق ان کی چھوڑٰی گئی دولت سے ایک فنڈ قائم کردیا گیا۔ نوبیل انعام دینے کا آغاز الفریڈ نوبیل کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10دسمبر1901سے کیا گیا جب سے ہر سال اسی تاریخ کو یہ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اسی الفریڈ نوبیل کی یاد میں ہر سال ایک ایوارڈ تقریب  اور منعقد کی جاتی ہے۔

نوبیل انعام کی پیروڈی سمجھے جانے والی آئی جی نوبیل انعام کی تقریب ہر سال ستمبر کے پہلے ہفتے میں کی جاتی ہے۔ یہ انعام ایسے موضوع کی تحقیق پر دیا جاتا ہے جو پہلی نظر میں ایک مذاق نظر آتا ہے لیکن جب اس پر غور کیا جائے تو اس کی وجوہات خالصتاً سائنسی نظریات پر مبنی ہوتی ہیں۔ ٰآئی جی نوبیل انعام کا بنیادی نعرہ ’ لوگوں کو ہنسانا پھر انھیں سوچنے پر مجبور کرنا‘ ہے۔ اس ایوارڈ کی دل چسپ بات یہ ہے کہ سال میں طب، سائنس اور ٹیکنالوجی پر کی گئی سب سے احمقانہ تحقیق یا ایجاد پر یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ بات بہت بچکانہ لگتی ہے لیکن درحقیقت اس کا مقصد حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ تحقیقی مقالے دنیا کے مشہور تحقیقی جرائد میں شایع بھی ہوتے ہیں۔

آئی جی نوبیل پرائز کا آغاز1991میں امریکی مزاحیہ سائنسی جریدے ’’اینلز آف امپروبیبل ریسرچ‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ آئی جی نوبیل انعام دس کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے، جن میں فزکس، نیوروسائنس، نفسیات، پبلک ہیلتھ، بائیولوجی، آرٹ، معاشیات، ادویات، آرکٹک سائنس اور نیوٹریشن شامل ہیں۔ یہ جریدہ امریکا اور دنیا بھر میں کسی بھی موضوع پر ہونے والی غیرحقیقی تحقیق اور حقیقی تحقیق جمع کرتا ہے۔ یہ تحقیق یا ایجاد اچھی اور بُری بھی ہوسکتی ہے، اہم اور غیراہم بھی ہوسکتی ہے، قابل قدر اور بے وقعت بھی ہوسکتی ہے۔ ہر سال ستمبر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ’سینڈرز تھیٹر‘ میں سب سے زیادہ احمقانہ اور غیرسنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد کو آئی جی نوبیل انعام دینے کی عظیم الشان تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

اس ایوارڈ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ فاتحین کو انعامات دینے کے لیے حقیقی الفریڈ نوبیل انعام جیتنے والے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے۔ آئی جی نوبیل انعام جیتنے والے شخص کو اسٹیج پر اظہارخیال کے لیے ایک منٹ کا وقت دیا جاتاہے۔ اگر وہ ساٹھ سیکنڈ سے زیادہ وقت لے لے تو ایک چھوٹی سی لڑکی ’بورنگ، بورنگ‘ پکارنا شروع کردیتی ہے۔ دل چسپ روایات سے بھرپور اس تقریب کی ایک اور خاص بات کاغذ کے بنے ہوائی جہاز ہال میں اُڑانا ہے۔

گذشتہ سال  طب کا آئی جی نوبیل انعام ’رولر کوسٹر کے ذریعے مثانے کی پتھری جلد نکالنے ‘ پر کی گئی تحقیق کرنے والے امریکی ماہر طب ڈیوڈ ڈی وارٹنگر کو دیا گیا۔ تحقیقی طبی جریدے American Osteopathic Association  میں شایع ہونے والی یہ تحقیق مارک اے مچل اور ڈیوڈ ڈی وارٹنگر نے کی۔ محققین نے اس انوکھی تحقیق میں ایسے مریضوں کو منتخب کیا جو پہلے ہی ureteroscopy (پیشاب کی نالی سے پتھری نکالنے کے لیے اختیار کیا جانے والا سب سے عام طریقۂ کار) سے گزر چکے تھے۔ ان مریضوں کو مختلف اوقات میں 60 مرتبہ رولر کوسٹر کی رائیڈ کرائی گئی، جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ رولر کوسٹر میں پیچھے بیٹھنے والے مریضوں میں پتھری کے ریزہ ریزہ ہونے کی شرح55 فی صد رہی، لہٰذا  مثانے میں پتھری کے مریضوں کے لیے رولر کوسٹر کی عقبی سیٹ پر رائیڈ کرنا طبی فوائد کا حامل ہے۔

اینتھروپولوجی (علمِ بشریات) کا آئی جی نوبیل انعام ’چمپینزی اور چُڑیا گھر میں آنے والے وزیٹررز کے درمیان ہونے والے بے ساختہ کراس اسپیشیز باہمی عمل اور نقالی‘ پر دیا گیا۔ سوئیڈن، رومانیہ، ڈنمارک، نیدرلینڈ، جرمنی، برطانیہ، انڈونیشیا اور اٹلی  میں ہونے والی اس مشترکہ تحقیق کو تحقیقی جریدے Primates نے شائع کیا۔ اس ریسرچ کے محققین ٹوماس، Gabriela-Alina Sauciuc اور ایلائینی میڈسین نے چُڑیا گھر میں چمپینزی کس طرح انسانوں کی نقل کرتے ہیں اور انسان کس طرح چمپینزی کی نقل کرتے ہیں، کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔

حیاتیات کے میدان میں آئی جی نوبیل انعام ایک مضحکہ خیز تحقیق کرنے والے  سوئیڈن، کولمبیا، جرمنی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے پال بیکر، Sebastien Lebreton، ایریکا والن، ایرک ہیڈین اسٹارم، فیلیپ بوریرو، میری بینگسٹین، واکر جورگر اور پیٹر وٹزگال کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع یہ تھا کہ ’ شراب کے رسیا افراد صرف سونگھ کر جام میں موجود کسی مکھی کی موجودگی کا بتا سکتے ہیں۔‘ دی سینٹ آف فلائی کے عنوان سے ہونے والی اس انوکھی تحقیق کو bioRxiv نامی ایک تحقیقی جریدے نے شائع کیا۔ اس تحقیق کا نتیجہ اس بات پر اخذ کیا گیا کہ مکھیاں ایک مخصوص بو پیدا کرتی ہیں، اور نر کی نسبت مادہ سے خارج ہونے والی یہ بو زیادہ تیز ہوتی ہے۔ نر مکھیوں کے مقابلے میں مادہ کی بو کی شناخت کرنا زیادہ آسان ہے۔

کیمسٹری کا آئی جی نوبیل انعام پرتگال کے محققین پاؤلا روماؤ،  Adília Alarcãاور آنجہانی سیزر ویانا کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع بہت ہی انوکھا تھا۔ ان افراد نے چار سال کا طویل عرصہ صرف اس بات کی تحقیق میں صرف کیا کہ کس انسان کا تھوک گندی سطح کی صفائی کے لیے بہترین کلیننگ ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ ’ہیومین سلیوا ایز اے کلیننگ ایجنٹ فار ڈرٹی سرفیسز‘ کے عنوان سے ہونے والی اس تحقیق کو Studies in Conservation نامی ریسرچ جرنل نے شائع کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق انسانی تھوک کئی نسلوں سے گندی سطح کی صفائی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچرز نے کرومیٹوگرافک طریقہ استعمال کرتے ہوئے عملی تجربہ کیا۔

جب بھی ہم کوئی دوا یا روزمرہ استعمال کی پراڈکٹ خریدتے ہیں تو اس میں ایک معلوماتی کتابچہ بھی موجود ہوتا ہے۔ دنیا بھر خصوصاً ایشیائی ممالک میںزیادہ تر اس معلوماتی کتابچے کو کھولے بنا ہی پھینک دیا جاتا ہے۔  یہاں تک کہ ہم ادویات کے ساتھ ملنے والے معلوماتی کتابچے کو پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے، حالانکہ اس میں اس دوا کی خوراک، اس کے مضمرات، دوسری دواؤں کے ساتھ تعامل، اور زیادہ خوراک کھا لینے کی صورت میں فوری طبی امداد کی معلومات تک درج ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال ادب کا آئی جی نوبیل انعام بھی ان ہی معلوماتی کتابچے کے مفید اور غیرضروری ہونے پر کی گئی تحقیق پر دیا گیا۔

سائنسی جریدے ’ انٹریکٹنگ ود کمپیوٹرز‘ میں “Life Is Too Short to RTFM: How Users Relate to Documentation and Excess Features in Consumer Products,” کے نام سے شایع ہونے والی اس ریسرچ کو تین ممالک آسٹریلیا، ایلسواڈور اور برطانیہ کے ریسرچرز تھیابیکلر، رافیل گومیز، ویزنا پوپووک اور ایم ہیلین تھامپسن نے سات سال تحقیق کے بعد مکمل کیا۔ اس تحقیق کو انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا۔ سات سال بعد انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں کی اکثریت پراڈکٹ میں دیے گئے مینول کو نہیں پڑھتی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صارفین اس پراڈکٹ کے تمام تر فیچرز کو اچھی طرح استعمال نہیں کر پاتے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواتین، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں معلوماتی کتابچے کو پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے۔

نیوٹریشن کا آئی جی نوبیل انعام زمبابوے کے جیمز کولی کو دیا گیا۔ جیمز کی تحقیق کا موضوع کچھ اچھوتا اور کافی حد تک وہشت ناک تھا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں قدیم دور میں انسانوں کے گوشت پرمبنی غذا میں موجود کیلوریز (حراروں) اور دورحاضر میں جانوروں کے گوشت میں موجود کیلوریز کا حساب کتاب کیا۔ طبی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں “Assessing the Calorific Significance of Episodes of Human Cannibalism in the Paleolithic,” کے عنوان سے شایع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق انسانی گوشت میں موجود حراروں کی تعداد جانوروں کے گوشت میں موجود حراروں سے کم ہے۔ جیمز نے ایک پُرانی تحقیق گارن اینڈ بلیک کا ریفرینس کچھ اس طرح پیش کیا ہے ’ پچاس کلو وزن کے حامل ایک مرد کے جسم میں سے 30کلو کھانے کے لائق گوشت حاصل ہوتا ہے، اس تیس کلو گوشت میں پروٹین کی مقدار ساڑھے چار کلو ہوتی ہے، جو کہ 18ہزار کیلوریز بنتی ہیں۔ (تاہم یہ معلومات صرف اندازے تک محدود ہیں اور اس کی کبھی جانچ نہیں کی گئی)۔‘ محقق کا مزید کہنا ہے کہ پروٹین کی یہ مقدار ایک دن میں 60کلو کا اوسط وزن رکھنے والے 60 لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ پروٹین کی ضروریات کے اصولوں کے مطابق ایک انسان کو ایک کلو وزن کے لیے روزانہ ایک گرام پروٹین درکار ہوتی ہے۔

امن کا آئی جی نوبیل انعام دو ممالک اسپین اور کولمبیا کے فرانسسکو ایلونسو، کرسٹینا اسٹیبین، اینڈریا سرج، ماریا لوئسا بالیسٹر، جیمی سین مارٹن، کونسٹینزا اور بیٹ رِِزالامر کو دیا گیا۔ ان کی تحقیق کا موضوع ڈرائیونگ کے دوران چیخنے چلانے اور دوسرے ڈرائیوروں کو کوسنے سے امن وامان پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ یہ تحقیق جرنل آف سوشیالوجی اینڈ اینتھروپولوجی میں  “Shouting and Cursing While Driving: Frequency, Reasons, Perceived Risk and Punishment,” کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس تحقیق میں روڈ سیفٹی اور ڈرائیونگ کے درمیان ربط تلاش کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق گاڑی چلاتے ہوئے 26 اعشاریہ 4 فی صد ڈرائیور دوسرے ڈرائیوروں پر چیختے اور ان کی توہین کرتے ہیں، جب کہ 66 اعشاریہ4 فی صد ڈرائیوروں نے کبھی اس طرح کی حرکت نہیں کی۔ ساڑھے بائیس فی صد ڈرائیورز نے قانون توڑنے، 21 اعشاریہ4 فی صد ڈرائیورز نے روڈ پر خطرناک انداز میں ڈرائیونگ کرنے پر، 13اعشاریہ 6 نے دوسرے ڈرائیورز کو خطرے میں ڈالنے، تین فی صد نے غصے، 2اعشاریہ 7فی صد نے دوسروں کی غیرذمے داری اور 13اعشاریہ 6   فی صد نے ذہنی دباؤ کے نتیجے میں سڑک پر چیخنے اور دوسروں کی اہانت کرنے کا اعتراف کیا۔ بہ ظاہر یہ ریسرچ بچکانہ اور غیراہم لگتی ہے لیکن اہم سڑکوں پر ڈرائیونگ کے دوران ڈرائیور حضرات کے اس طرزعمل کا حادثات کے ساتھ گہر ا تعلق ہے۔

معیشت اور دفتر میں باس کے  اپنے ماتحت افسران کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرزعمل کا گہرا تعلق ہے۔ وہ آرگنائزیشن جس میں باس اپنے ماتحتوں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہو، اس کی ترقی کی شرح ایک ایسی آرگنائزیشن کی نسبت کم ہوگی جہاں دفتری ماحول تناؤ کا شکار نہ ہو۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کینیڈا، چین، سنگاپور اور امریکا کے محققین نے مشترکہ طور پر ایک اچھوتے موضوع  پر تحقیق کی۔ بزنس جریدے ’دی لیڈر شپ کوارٹرلی‘ میں  “Righting a Wrong: Retaliation on a Voodoo Doll Symbolizing an Abusive Supervisor Restores Justice,”  کے عنوان سے شایع ہونے اس تحقیق میں اس بات کی انویسٹی گیشن کی گئی کہ بدتمیز باس سے بدلہ لینے کے لیے جادو کی گڑیا  کا استعمال کس حد تک موثر ہے۔ ریسرچر Lindie Hanyu Liang، ڈگلس جے براؤن، ہوئی وین لیان، سیموئیل ہانگ، ڈی لینسے فیرس اور لیزا ایم کیپنگ نے اس ریسرچ کا نتیجہ کچھ اس طرح اخذ کیا ہے’باس یا سپروائزر کی جانب سے روا رکھے جانے والا توہین آمیز رویہ ماتحت ملازمین میں انتقامی جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریسرچرز نے بدتمیز باس کو ٹھیک کرنے کے لیے جادو کی گڑیوں کا استعمال کیا، جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔‘‘

اس سے قبل آئی جی نوبیل انعام  بہت ہی عجیب و غریب تحقیق پر دیے گئے، جیسے کہ ’چمپینزی دوسرے چمپینزیوں کو پیچھے سے دیکھ کر کیسے پہچان لیتے ہیں‘ یا ’ وہ کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے حرکت کرتی ہوئی پیالی سے کافی چھلک جاتی ہے۔ ‘ اسی طرح اگر آپ کا پاؤں کیلے کے چھلکے پر پڑ جائے تو آپ پھسل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ کو جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات عام طور پر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن جاپان میں ایک سائنس داں کو صرف اس بات پر تحقیق کرنے کی وجہ سے آئی جی نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ کیلے کی اسی خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپانی سائنس داں کیوشی مابوشی نے کیلے کے چھلکے پر تحقیق کی کہ اس میں ایسی کیا چیز پائی جاتی ہے جو پھسلن پیدا کرکے حادثے کا سبب بنتی ہے۔

جاپانی سائنس داں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کیلے کا چھلکا سیب یا سنگترے کے چھلکے سے زیادہ خطرناک کیوں ہوتا ہے جس کے لیے انہوں نے کیلے کے چھلکے میں موجود ’رگڑ‘ کی پیمائش کی اور اس میں موجود رگڑ اور پھسلن کا سبب بننے والے مادے کا جائزہ لیا جو ہماری حرکت کو متاثر کرتا ہے۔ سائنس داں کا کہنا ہے کہ کیلے کے چھلکے میں موجود ایک مادہ ’فولیکولر جیل‘ اس میں پھسلنے والی خصوصیات پیدا کرتا ہے اور یہی جیل ہمارے جسم کے اندر موجود ان ممبرین میں پائی جاتی ہے جو ہمارے جوڑوں میں ہوتی ہے۔ سائنس داں کے مطابق اس نظریے کی مدد سے مصنوعی ہڈیوں کو تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

نیوروسائنس کا نوبیل پرائز یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے سائنس داں کینگ لی نے جیتا۔ انہوں نے تحقیق کی کہ لوگوں کوکھانے پینے کی مختلف اشیاء مثلاً توس پر کچھ مشہور لوگوں کے چہرے کیوں بنے نظر آتے ہیں۔ ایک دل چسپ تحقیق پبلک ہیلتھ کے شعبے میں سامنے آئی کہ کسی فرد کے لیے بلی کا پالنا یا رکھنا کیوں خطرناک ہوتا ہے۔ اس دل چسپ تحقیق سے انسانی زندگی کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جنہیں ہم مذاق میں نظرانداز کردیتے ہیں تاہم اس کے اندر ایک سنجیدہ پہلو چھپا ہوتا ہے جس پر تحقیق کے نتیجے میں کئی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے اور انسانیت کی بھی خدمت کی جاسکتی ہے۔

The post ہنسی میں سنجیدگی ۔۔۔’’آئی جی نوبیل پرائز‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 32

مجھے ایسا ہی محسوس ہوا کہ ماں جی نے میرا ہاتھ تھام لیا ہے، پھر میں پرسکون نیند سو چکا تھا، شاید شب کا نصف سے تھوڑا سا زیادہ پہر گزر چکا تھا کہ سسکیوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی، بزرگ بابا دعائے نیم شب میں مصروف تھے، میں نے پھر سے سونے کی کوشش کی لیکن! تھوڑی دیر بعد بابا نے چولہے کے نیچے لکڑیاں جائیں اور ان پر ایک بڑا دیگچا رکھا، میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا لیکن خاموش رہا۔

بابا یہ کرنے کے بعد پھر سے رب سے مناجات میں مصروف ہوگئے۔ کیا کر رہے تھے وہ، میں سوچنے لگا لیکن اب میں انتظار کرنا سیکھ گیا تھا، تھوڑی دیر بعد میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور باہر نکل گیا، خنک ہوا چل رہی تھی، گہری خاموشی تھی اور قبروں کے کتبے مجھے تک رہے تھے، عجیب منظر ہوتا ہے، قبرستان کا سناٹا اور گہری خاموشی، لیکن اس میں ایک خاص طرح کا سکون بھی پوشیدہ ہوتا ہے اور سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔

کیسے کیسے لوگ مٹی میں مل گئے لیکن انسان یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انجان بنا رہتا ہے، اور خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے، انجام معلوم ہے لیکن بس انجان، افسوس۔ تم جاگ گئے بیٹا؟ مجھے بابا جی کی آواز سنائی دی۔ جی بابا میں جاگ گیا ہوں۔ پگلے اسے جاگنا تھوڑی کہتے ہیں، خیر! بابا یہ کہتے ہوئے میرے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔

پھر وہ کہنے لگے:دیکھو بیٹا! مصوّر کی تصویر، مصوّر کا شاہ کار ہوتی ہے۔ اور پھر جب مصوّر خود منادی کرے کہ میں نے ہر تصویر شان دار، خوب صورت اور من موہنی بنائی ہے کہ میں نے خود بنائی ہے۔ اور پھر ایسی تصویریں جنھیں بنانے سے پہلے اس مصوّر نے تمام اعتراضات کو مسترد کردیا ہو۔ اور نہ صرف مسترد بل کہ اعتراض کرنے والوں کو حکم بھی دیا ہو کہ وہ اس کی بنائی ہوئی تصویر کا احترام کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجائیں اور پھر وہ ہوئے بھی لیکن ’’وہ‘‘ نہیں ہوا جسے راندہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا گیا اور وہ مایوس ابلیس کہلایا اور پھر یہی نہیں کہ تصویریں چاہ سے بنائیں بل کہ اپنی تصویروں کو اشرف کا مقام بلند بھی عطا فرمایا۔

پھر وہ مایوس کہ ابلیس کہتے ہیں جسے ، نے اس مصوّر سے کہا میں تیرے بندوں کو تیری سیدھی راہ پر بیٹھ کر گم راہ کروں گا اور رب نے اعلان کردیا کہ جو تیرے کہے میں آئیں گے اور تیری راہ پر چلیں گے میں ان سے اپنی جہنّم کو بھر دوں گا۔

عجب داستان ہے ابن آدم کی بھی، ہاں بہت عجیب۔ وہ آدم جسے رب نے کائنات میں افضل کیا، اسے خلافت کے مقام عظمت پر فائز کیا۔ اور اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اس کی نافرمانی کے باوجود اس کی جان کو اپنے گھر سے زیادہ تکریم دی ہاں وہ آدم۔

وہ آدم کہ جسے راہ دکھانے کے لیے اس نے اپنے برگزیدہ بندے اور نبی بھیجے اور پھر وہ نبی مکرّم کہ رحمت کہیں جسے، عالمین کے لیے رحمت۔ جناب نبی کریمؐ جو نبیوں میں رحمت لقب پانے والے اور مرادیں غریبوں کی بر لانے والے اور وہ جو اپنے پرائے کا غم کھانے والے اور وہ جو خود بچوں پر سلامتی بھیجنے والے، ہاں وہ جنہوں نے فرمایا کہ ’’ بچے رب کے باغ کے پھول ہیں‘‘ ہاں، ہاں وہی جنہوں نے طائف کے میدان میں پتھر کھا کے دعائیں دیں ، وہی نبی رحمتؐ کہ جنہوں نے جب سنا کہ کسی نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیا تو انکھیں برسنے لگیں، ہاں وہی نبی رحمتؐ کہ جو موسم کا پہلا پھل مجلس کے سب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماکر مسرور ہوتے۔

ہاں وہی نبی رحمتؐ کہ جنہوں نے جنگوں کے اصول بھی مرتّب فرمائے اور حکم دیا کہ ’’ کسی عورت، کسی بچے ، کسی بوڑھے، کسی نہتّے کو قتل نہیں کیا جائے گا، جو کہیں پناہ لے گا اسے امان ہوگی، بس اس سے مقابلہ کیا جائے گا جو ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر اتر آئے، کسی بھی صورت میں فصلوں کو برباد نہیں کیا جائے گا، درختوں کو نہیں کاٹا جائے گا اور پانی میں زہر قطعاً نہیں ملایا جائے گا۔‘‘

گم راہی کتنی سہانی ہوتی ہے لیکن کیا اتنی سہانی اور نشّہ انگیز کہ اس کے اسیر یہ بھی سوچنے سے عاری ہوجاتے ہیں کہ وہ خالق سے پیار کے نام پر اسی کی مخلوق کو قتل کرتے پھریں گے۔کیا اتنی کہ اس کے اسیر مصوّر کی محبت کے حصول کے لیے اسی مصوّر کی تصویروں کو نابود کرتے پھریں۔ کیا اتنی کہ اس کے اسیر اس کے باغ کے پھولوں کو مسل ڈالیں گے۔ہاں اتنی ہی نشّہ انگیز ہوتی ہے گم راہی، کہ اس کے اسیر یہ تک بھول جاتے ہیں کہ وہ اگر مصوّر کی تصویروں کو برباد کریں گے تو اس مصوّر کی محبّت نہیں اس کے عتاب کے حق دار ہوں گے۔کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ خالق سے محبت، مخلوق سے محبت سے مشروط ہے۔

کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے حرم کعبہ کے احترام سے زیادہ انسان کا احترام فرض ہے، جو خود رب نے حکم فرمایا ہے۔ وہ اپنی گم راہی کو راستی سمجھتے ہیں، جو بہ ذات خود گم راہی ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے انسانیت کو دوام بخشا۔ لیکن وہ نہیں جانتے، ہاں وہ نہیں جانتے کہ وہ زمین میں فساد برپا کررہے ہیں، جسے وہ اصلاح کا نام دیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مخلوق کو قتل کر کے خالق کی نافرمانی کی ہے وہ مایوس لوگ ابلیس کے پیروکار ہیں۔ اب وہ اپنی خیر منائیں اور انتظار کریں، کہ جس کا باغ اجڑا ہے وہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔

یہ دیکھ رہے ہو قبرستان، بھرے پڑے ہیں ایسے لوگوں سے۔ نبی رحمتؐ نے فرمایا ہے: قبر کو مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، یہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ نادان انسان، اس مٹھی بھر خاک کو  رب نے اشرف بنایا اور یہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اسفل بن گیا، اور احسان فراموش ایسا کہ بہ جائے بندہ بننے کے بعد خود کو خدا سمجھنے لگا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں بن سکتا، بن ہی نہیں سکتا، کہ رب تو بس وہی تنہا ہے اور اپنے لہجے میں کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ افسوس!

پھر خاموشی چھا گئی، بابا کا جلال عروج پر تھا۔ فجر کی نماز کے بعد انہوں نے کہا، چلو بیٹا رب کا حکم ہے کہ اس کا فضل تلاش کرو، محنت کرو، اکل حلال کے لیے تگ و دو کرو، یہ رب کے قرب کی بنیادی شرط ہے۔ ہم کٹیا میں آئے اور انہوں نے وہ دیگچا ایک چادر میں باندھا جس میں انہوں نے چھولے بنائے تھے، میں نے رکابیاں اور دری اٹھائی اور قبرستان سے باہر نکل گئے، کچھ دور چلنے کے بعد ایک چھپر ہوٹل کے تندور سے روٹیاں لیں اور پھر اس جگہ پہنچے جہاں کچھ عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں، میں نے بابا کے حکم پر دری بچھائی اور بابا نے دیگچا سنبھالا اور پھر چند لمحے بعد مزدور پہنچ گئے اور ہمارا کام شروع ہوگیا۔

وہ انتہائی محبت سے ان سے باتیں کرتے، ان کا حال پوچھتے، ان کے کام کا دریافت کرتے، اور ساتھ ہی انہیں ناشتہ کراتے، کوئی مزدور انہیں پیسے دیتا اور کوئی کہتا بابا لکھ لو جب آئیں گے تو دے دوں گا، اور بابا کہتے جاتے، کوئی بات نہیں بیٹا بس محنت کرو، کوئی فکر کی بات نہیں، جب پیسے ہوں تب دیے دینا، لیکن سنو پیسے ہوں نہ ہوں ناشتہ کرنے ضرور آنا، مجھے فکر ہوتی ہے ناں بیٹا!  بہ مشکل دو گھنٹے میں ہم فارغ ہوگئے تھے۔ مزدور اپنے کام پر چلے گئے اور ہم اپنے کام سے فارغ ہوکر اپنی کٹیا کی طرف روانہ ہوئے۔ کیسا لگا بیٹا! بابا نے اچانک مجھ سے دریافت کیا۔

جی بہت اچھا، میں نے کہا۔ ہاں اکل حلال کی تلاش فرض ہے بیٹا، اور دیکھو یہ جو کھانے پینے کا کام ہے اس میں تو دہرا اجر ہے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے دریافت کیا، وہ کیسے بابا! پگلے وہ ایسے کہ رب کا حکم ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ، تو جو لوگ یہ کھانے پینے کا کام کرتے ہیں اگر وہ  محبت سے یہ کام کریں، مناسب پیسے لیں اور جس کے پاس نہیں ہیں انہیں رعایت دیں تو یہ کام رب کی خوش نودی کا باعث ہے، سمجھے تم!

وہ باکمال انسان تھے، چلیے ہم آگے بھی چلیں گے لیکن دیکھیے مجھے بابا احمد علی یاد آگئے، زندگی تو روانی کا نام ہے، جمود کا شکار زندگی بھی کوئی جینا ہے کیا، ٹھہرا ہوا تعفن زدہ جوہڑ، جو مخلوق کے لیے آزار ہے۔ ہر پل نیا امتحان ہے زندگی اور اسے خوش اسلوبی سے نبھانے کو کہتے ہیں جینا۔ سچ ہی تو کہا ہے بابے اقبال نے: اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔

میں احمد علی کو بابا ہی کہتا تھا، لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں پانی بھرا کرتے تھے، میں سناتا ہوں ان کی کتھا!

احمد علی کے والد منشی تھے۔ احمد علی نے دینی تعلیم حاصل کی تھی، وہ بھی بس واجبی سی۔ ان کے والد کی اتنی آمدنی تھی کہ گزارا اچھا ہوتا تھا۔ لوگوں میں خلوص تھا، ہم دردی تھی اور سب سے بڑھ کر انسانیت تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کھائے گا کہاں سے؟ لائے گا کہاں سے؟ بڑے بوڑھے اپنے دھندوں سے لگے رہتے اور لڑکے بالے کھیل کود میں۔ بیس برس کے نوجوانوں کو بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ابھی سے ان پر کیا بوجھ ڈالیں، ان کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ لڑکے ٹولیوں کی شکل میں کھیت کھلیانوں میں گھومتے پھرتے، بستی بستی سیر سپاٹا کرتے، کٹھ پتلی کا تماشا دیکھ کر قہقہے برساتے اور زندگی کا لطف دوبالا ہوتا رہتا۔

تہواروں پر میلے لگتے اور پھر وہاں مقابلے ہوتے، ڈھول تاشے بجتے اور زندگی بلا کسی خوف و اندیشے کے گزرتی چلی جاتی۔ زندگی نام تھا زندہ دلی کا، بہار کا، ایسی بہار جسے خزاں کا خوف نہیں تھا، ایک کے غم میں دوسرے ایسے شریک ہوتے کہ وہ اپنا غم بھول جاتا اور شادیوں کے گیت مہینوں تک گائے جاتے۔ کسی ایک گھر کی میت گاؤں بھر کی میت تھی اور شادی گاؤں بھر کے لیے نوید مسرت۔ سب کچھ سانجھا تھا۔ خوشی بھی غم بھی، عیش بھی، تنگ دستی بھی۔ کیا خوب صورت اور سنہرا دور تھا۔

احمد علی گھنٹوں اپنی کہانی سناتے اور یوں لگتا جیسے وہ خود کو وہیں پاتے ہیں۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی اور چاروں اور رقص کرنے لگتی اور پھر وہ محبت سے میرا ہاتھ تھام لیتے اور کہتے بیٹا! تمہیں کیا کیا سناؤں، زندگی کے پچھتّر سالوں کی کہانی سنانے کے لیے مہینوں درکار ہیں اور تمہیں تو بہت کام ہیں۔ نوجوانوں پر انہیں بہت ترس آتا اور وہ کہتے ان بے چاروں کی تو زندگی اجیرن ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ خود کو مفلسی میں گھرا پاتے ہیں، کھیت نہ کھلیان کہ جہاں جاکر وہ کھیل سکیں، جھیلیں نہ نہریں، وہ کیا کریں، کہاں جائیں اور پھر بھی وہ بدنام ہیں۔ صبح جاگتے ہی کام پر دوڑتے ہیں، بسوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ کیا زندگی ہے ان کی، مجھے ان معصوموں پر بہت ترس آتا ہے۔ کتنی دکھ بھری زندگی ہے، یہ تو بس بوڑھے ہی پیدا ہوتے ہیں، قہقہے، شرارتیں، شوخیاں، نہ امنگ۔

احمد علی نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دنیا کے نقشے پر ابھرتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے:

بیٹا مجھے وہ زمانہ بہت خوب یاد ہے۔ ایک دن گاؤں میں جھگڑا ہوگیا پھر گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا، ہندو اور مسلم میں۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ پھر جھگڑا ہوگیا۔ وجہ تھی پاکستان۔ اور پھر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرے دو بھائی اس دن مارے گئے۔ پاکستان بن گیا تھا اور ہمارے گاؤں کے مسلمانوں نے ہجرت کی تیاری شروع کردی تھی۔ شیطان ننگا ناچنے لگا اور ایک کالی رات میں ہم پر حملہ ہوگیا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ مجھے تم بزدل کہوگے، کہہ لو۔ میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔ کچھ پتا نہیں ماں باپ، بہنوں اور بھائی کا کیا ہوا؟

ساری رات بھاگ بھاگ کر میری حالت خراب ہوگئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ندی نالے، کھیت کھلیان مرگھٹ بن گئے تھے۔ جسے جتنی کمینگی اور درندگی کا موقع ملا وہ کر گزرا۔ میں قافلوں کے ساتھ لاہور پہنچنے میں کام یاب ہوگیا، افسردہ اور اکیلا۔ لاہور میں کیمپ لگے ہوئے تھے، کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے، میرے تو کوئی آگے پیچھے رہا نہیں تھا۔ گم صم بیٹھا رہتا یا سڑکوں پر گھومتا۔ کھانا کہیں نہ کہیں سے مل جاتا۔

مجھے کوئی کام آتا تھا نہ کاج۔ لاڈ پیار میں پلا بڑھا تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور وہ بھی سر چڑھا۔ لیکن کچھ تو کرنا تھا۔ میں کئی مرتبہ راوی گیا اور سوچتا رہا جب کوئی نہیں بچا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں۔ پھر آواز آتی اگر مرنا ہی تھا تو وہیں گاؤں میں سب کے ساتھ مرجاتے، اتنی مصیبتوں اور تکلیفوں سے یہاں تک پہنچنے کی کیا ضرورت تھی۔ بس یہ سن کر میں اپنے ارادے سے باز آجاتا۔ پھر ایک سیٹھ کے پاس کام کرنے لگا۔ کچھ پیسے جمع کیے اور ٹھیلے پر بچوں کی چیزیں فروخت کرنا شروع کیں۔ کیمپ کے لوگوں سے دوستی تو ہو ہی گئی تھی۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔

ایک دن ایک بڑے صاحب نے مجھے کہا تمہیں شادی تو کرنا ہی ہے تو اب کرڈالو۔ میں نے انکار کردیا کہ میں کہاں رکھوں گا اور کیسے کھلاؤں گا۔ انہوں نے حوصلہ بڑھایا اور پھر کیمپ ہی میں ایک ایسی لڑکی سے جس کا کوئی نہیں بچا تھا میری شادی کرادی گئی۔ میں کچھ عرصے ان صاحب کے گھر مقیم رہا اور پھر کراچی آگیا۔ کیوں؟ بس ویسے ہی، کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ کراچی میں اس وقت مہاجرین پہنچ رہے تھے۔ مقامی لوگ خیال بھی رکھتے تھے۔ مجھے بھی کہا گیا کہ کلیم بھرو لیکن میری غیرت نہیں مانی، کیا قربانیوں کے بدلے گھر لے لوں۔ میرے ہاتھ پاؤں میں دم تھا، کچھ رقم تھی۔

میں نے کھوکھا لگالیا، گزارہ اچھا تھا، ہم دو افراد تھے۔ پھر نہ جانے کیوں وہ کھوکھا بیچ دیا اور کباڑی کا کام کرنے لگا۔ اسے چھوڑ کر مزدوری کی۔ وزن اٹھایا، کہیں چین نہیں آیا تو لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر پانی بھرنے لگا۔ اب تو پانی کی سہولت گھر گھر ہے۔ اس وقت بہت تنگی تھی، بس اب تک یہی کیے جارہا ہوں۔

احمد علی جنہیں میں بابا کہا کرتا تھا، یہاں تک پہنچ کر خاموش ہوجاتے۔ لیکن ان کی اصل کہانی تو مجھے معلوم تھی۔ اﷲ نے انہیں چار بچیوں سے نوازا تھا۔ میں نے ان جیسا خود دار انسان نہیں دیکھا۔ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں مقیم تھے۔ سارا دن گھروں اور دکانوں میں پانی بھرتے، سردی ہو یا گرمی ان کے معمول میں کبھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ خاموش طبع تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت تنگی میں اپنا گزارا کرتے ہیں۔ سعادت مند بچیوں کا نصیبا جاگا اور وہ اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ بچیوں کی رخصتی میں جتنی مشکلات انہیں پیش آئیں وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن ان کی ہمت اور خودداری کو کوئی شکست نہیں دے سکا۔

ان کی اہلیہ کمال کی صابر اور شاکر خاتون تھیں۔ ایک دن میں ان کے گھر پہنچا تو وہ سخت بیمار تھیں، اور بابا کام پر گئے ہوئے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا۔ کہنے لگیں: بیٹا اب وقت قریب ہے، کسی دوا سے نہیں ٹلے گا۔ تم میرے پاس بیٹھو، تم سناؤ کیسے ہو؟ میری ضد پر دوائیں کھانے لگیں مگر وہ سچ کہتی تھیں، وقت کو کون ٹال سکا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔ ایک رات وہ چپ چاپ اپنے رب کے پاس جاپہنچیں۔ بابا تنہا ہوگئے تھے لیکن معمولات میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ کسی کو اپنی بپتا نہیں سناتے تھے۔ کبھی دست سوال دراز نہیں کیا، ہمیشہ شکر کرتے اور اپنے رب کے شکر گزار رہتے۔ وہ ایک مطمئن روح تھے۔ اپنے رب سے لو لگائے ہوئے۔

گھر کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا ٹرنک، دو چارپائیاں، ایک گھڑا، ایک ٹھیلا، جس پر پانی کی ٹنکی بندھی ہوئی تھی۔ بابا تنہا ہوگئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا تھا نہیں۔ پھر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خود ہی اسٹور سے دوا لے کر کھالیا کرتے۔ میرے اصرار پر ایک ڈاکٹر سے علاج کرانا شروع کیا وہ بھی اس شرط پر کہ دوائیں خود خریدیں گے۔ دوائیں خریدنے کے لیے کام کرتے اور یوں مرض بڑھتا رہتا۔ آرام تو انہیں چُھو کر نہیں گزرا تھا۔ آخر کار میں نے اپنا پرانا حربہ ضد استعمال کیا اور ان سے بہ ظاہر ناراض ہوگیا۔

دو دن بعد انھوں نے ہار مان لی۔ مجھے آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے کی سعادت ملی، وہ گھنٹوں اپنی داستان سنایا کرتے۔ خوش اور مطمئن۔ اور پھر وہ گھڑی آن پہنچی جب سب اپنے رب کے حضور پیش کردیے جاتے ہیں۔ دسمبر کی ایک سرد رات میں وہ راہی ملک عدم ہوئے۔کیا بات تھی بابا احمد علی کی۔ طمع، حرص، لالچ، خود غرضی سے پاک۔ وہ واقعی بے مثال انسان تھے، گدڑی کا لعل!بزرگ بابا نے صد فی سچ بتایا تھا: چلو بیٹا رب کا حکم ہے کہ اس کا فضل تلاش کرو، محنت کرو، اکل حلال کے لیے تگ و دو کرو، یہ اکل حلال رب کے قرب کی بنیادی شرط ہے۔ لیجیے یہ بابا بلھے شاہ بھی تشریف لے آئے:

حج وی کیتی جاندے او

لہو وی پیتی جاندے او

کھا کے مال غریباں دا

بھج مسیتے جاندے او

پھٹ دلاں دے سیندے نئیں

ٹوپیاں سیتی جاندے او

چُھری نہ پھیری نفساں تے

دْنبے کٹ دے جاندے او

دل دے پاک حجرے دے وچ

بھری پلیتی جاندے او

فرض بھلائے بیٹھے او

نفلاں نیتی جاندے او

دسّو ناں کجھ بلّھے شاہ

اے کی کیتی جاندے او

اے کی کیتی جاندے او

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

ناکارہ گاڑیاں شہر کے باہر ترتیب سے رکھ دی جاتی ہیں

$
0
0

گزشتہ سے پیوستہ

اسامہ کا نام سن کر سچی بات ہے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹیلی فون نہ کروانے کا غم فراموش کر بیٹھا، مگر بقول اس کے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی بات پر میں نے سوچا واقعی اسے پاکستان میں دریافت کیا گیا تھا یا پاکستان پر ٹھونسا گیا تھا یا پھر پاکستان کے ساتھ ڈراما کیا گیا تھا؟

مگر اقوام عالم یہ ڈراما دیکھ کر ابھی تک ششدر ہیں کہ اتنا جدید مواصلاتی نظام ہونے کے باوجود سپرپاور امریکا کو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ ’’تجارتی پلازوں‘‘ کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوئی طیارہ ان کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرف محو پرواز ہے! مگر ان کو یہ علم ضرور تھا کہ انہوں نے یہودی ساتھیوں کو نائن الیون سے ٹھیک ایک روز قبل ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے کیسے نکالنا ہے! دنیا اس تضاد کو دیکھ کر حیران ہے۔

ہم ’’رائی یو کائی یو‘‘ نامی جس جزیرے پر مقیم تھے وہ 26ڈگری شمال اور 127 ڈگری انتہائی مشرقی خط استوا پر واقع ہے۔ یہ جزیرہ مستطیل نما ہے جو 1206 کلومیٹر طویل ہے۔ جزیرے کے درمیان کہیں کہیں چوڑائی ایک کلو میٹر سے بھی کم رہ جاتی ہے، جہاں کھڑے ہوکر جزیرے کے پار سمندر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس جزیرے کی کُل آبادی 13 لاکھ ہے اور ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں1083 افراد رہتے ہیں۔ یہاں کا درجۂ حرارت، رات کی تاریکی اور ہوا میں نمی کی مقدار ایسی ہے کہ یہاں گنے کے پودوں پر پھول بہ آسانی لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر ایئرپورٹ بھی ہے جہاں سے بین الاقوامی پروازیں آجا سکتی ہیں۔ اس جزیرے پر پہنچنے کے لیے واحد راستہ ہوائی جہاز کا ہے، دوسرا آپشن بحری جہاز ہے، مگر لوگ اسے کم ہی ترجیح دیتے ہیں۔

اس جزیرے پر واقع نیہا ایئرپورٹ پر طیاروں کے آنے اور جانے کا خوب صورت نظارہ کسی خواب سے کم نہیں۔ جیٹ طیاروں کو اڑانے والے ایسے مشاق پائلٹس ہیں کہ ایئرپورٹ پر اترتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جہاز سمندر پر لینڈ کرنے والا ہے اور پرواز کے اڑتے وقت یوں لگتا ہے جیسے سمندر کے پانیوں سے ہی آسمان کی جانب پرواز ہورہی ہے۔ دونوں صورتوں میں پہلی دفعہ آنے والے مسافر بہرحال خوف کا شکار رہتے ہیں۔ نیہا ایئرپورٹ کی بیرونی حدود جو سمندر سے متصل ہے کو لینڈ اسکیپنگ کے ذریعے بڑی خوب صورتی کے ساتھ ایسے سجایا گیا ہے کہ جیسے بچوں کے کھلونے جیسا کوئی رنگین ڈبا سمندر کے بیچوں بیچ رکھ دیا گیا ہو۔

رائی یو کائی یو جزیرہ میدانی اور پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑ سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ 503 میٹر تک بلند ہیں۔ اس اونچائی پر خوب صورت وادی ہے، جسے یونے ہا ماؤنٹ کہا جاتا ہے۔ جزیرے کے اردگرد ہر جگہ ’’بیچ‘‘ واقع ہونے کے باعث جس جگہ چاہیں ہوٹل بنالیں۔ یہی چیز جزیرے کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ سیاح یہاں آکر بور نہیں ہوتے۔ جہاں مسافت سے تھک گئے، گاڑی روک لی اور پاس ہی بنے ہوٹل میں چلے گئے۔ جزیرے کی بعض جگہوں پر پہاڑ اتنی اونچے چلے گئے ہیں کہ جزیرے کی ایک کلو میٹر کی چوڑائی پر جانے کے لیے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے، تب جا کر ’’یو‘‘ ٹرن آتا ہے اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ ہی واپس آنے میں لگتا ہے۔

میرا قیام جزیرے کے اوکی ناوہ شہر کے ریزان سی پارک ہاٹل میں تھا جو فائیو اسٹار تھا۔ یہ علاقہ ’’ٹنچا بے‘‘ کہلاتا ہے۔ نہایت پُرفضا مقام ہے۔ ہوٹل کے کمروں کے حصول میں کرائے کی مد میں ایک خاص طرح کی مضحکہ خیزی نظر آئی، ایک کمرے کا کرایہ ایک رات کے لیے 8ہزار روپے ہے، جب کہ اس سے ملحق کمرے کا کرایہ 10 ہزار روپے تھا۔ میں اس ہوٹل میں دون دن تک اس ٹوہ میں لگا رہا کہ دونوں کمرے ساتھ ساتھ ہیں، پھر ان کے کرائے میں 2 ہزار روپے کا فرق کیوں ہے؟ حالانکہ دونوں کمروں میں سہولیات ایک جیسی ہی ہیں۔ آخر یہ عقدہ کھلا کہ جس کمرے کی بالکونی میں سورج کی روشنی براہ راست آتی ہے وہ 2ہزار روپے مہنگا تھا۔ روشنی کے حصول کے لیے جاپان میں سیاح 2 ہزار اضافی کرائے پر راضی ہوجاتے ہیں، تاکہ سورج کی تمازت سے ان کے جسم محروم نہ رہیں، اور جو ارزاں کرائے پر کمرہ لیتے ہیں وہ سورج کی تمازت کے لیے سمندر کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔

یہاں بیچ کی رونقیں صبح 11 بجے شروع ہو جاتی ہیں جو شام 4 بجے تک جاری رہتی ہیں۔ یہاں آکر لوگ بوٹنگ کرتے، نہاتے اور ٹیوب نما پہیوں میں گھس کر تیرتے رہتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں تو آرام کی غرض سے دنیا مافیہا سے بے خبر ہوکر منہ پر ٹوپی رکھے پلاسٹک کے بنے دیوانوں پر لیٹ کر سورج کی کرنوں کی نیم گرم تمازت سے اپنے ننگے جسموں کو ٹکور دینے کی غرض سے کھلے آسمان تلے سستاتے رہتے ہیں۔

جاپان میں جہاں جہاں تک ہماری رسائی ہوسکی ہمیں گلیاں، سڑکیں اور بازار ایسے صاف ستھرے ملے کہ کہیں کوئی مکھی بھی بھنبھناتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ صفائی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں کا کوئی ٹائر بھی گرد آلود نظر نہیں آیا۔ نئی سے نئی گاڑیاں اتنی وافر تعداد میں تھیں کہ جتنے ہمارے ہاں موٹر سائیکلیں نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں جاپان گاڑیاں بنانے کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یہاں ناکارہ گاڑیاں شہر کے باہر ترتیب سے رکھ دی جاتی ہیں جنہیں پھر لوہا پگھلانے والے شعبے کے کارکن اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو دوبارہ پگھلا کر گاڑیوں کے کَل پرزے بنانے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔

گاڑیوں کی صنعت پر راج کرنے کے باوجود لازمی نہیں کہ ہر جاپانی کے پاس گاڑی لازمی ہوتی ہو۔ یہاں وہ جاپانی گاڑی خریدنے کا اہل ہوتا ہے جس کے گھر کے باہر پارکنگ کی جگہ ہو، بغیر پارکنگ والے گھر کا مالک گاڑی نہیں خرید سکتا اور نہ ہی وہ گاڑی گلی میں پارک کرسکتا ہے۔ گویا گاڑی خریدنے کے لیے پہلے پارکنگ کی جگہ خریدنا پڑتی ہے تب جا کر گاڑی کے ملکیتی کاغذات ملتے ہیں۔

ورکشاپ میں سب سے زیادہ گپ شپ برازیل کے ڈاکٹر ڈینی لو ایڈوآرڈو کرسی سے رہی۔ یہ 28 سالہ نوجوان شوگرکین بریڈر تھا، جس کے علم، فراست، طرز تخاطب، اعتماد اور طرز ادائیگی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کے لیکچر کے بعد میں اسے بریک ٹائم میں ملا، ہیلو ہائے کے بعد میں نے اپنی جیب سے 500جاپانی ین نکالا اور اسے تھماتے ہوئے کہا،’’ونڈر فُل لیکچر‘‘ یہ میری طرف سے آپ کے لیے ایوارڈ ہے۔ ڈاکٹر کرسی نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کا بھی لیکچر شان دار تھا۔ مجھے آپ کے لیکچر سے اعتماد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کے پاکستان میں گنے پر بہت عمدہ تحقیق ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کرسی ، 500 جاپانی ین کا نوٹ میرے کوٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے بولا کہ آپ کا میرے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ونڈر فل لیکچر، یہی میرا ایوارڈ ہے۔ میں دوبارہ گویا ہوا،’’ڈاکٹر کرسی! ابھی ورکشاپ میں لیکچر دینے والے آدھے لوگ باقی ہیں، اگر میرے بس میں ہو تو آپ کو اس ورکشاپ کا سب سے بڑا ایوارڈ دوں، بلکہ میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات کہتا ہوں کہ اسی طرح اگر آپ محنت کرتے رہیں تو گنے کی فیلڈ میں خدمات پر آپ کو دنیا کا نوبیل انعام بھی مل سکتا ہے۔ آپ کا انداز تخاطب اور لیکچر کے مواد پر آپ کی گرفت، مستقبل میں آپ کو ڈاکٹر نارمن بورلاگ بھی بنا سکتے ہیں۔ جانتے ہیں ڈاکٹر بورلاگ کون تھا!‘‘

’’جی نام سُنا سُنا لگتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر کرسی دھیرے سے بولا۔

’’اس کا تعلق میکسیکو سے تھا۔ ساری زندگی بھوک اور افلاس کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اور بھوکے شکم میں روٹی ڈالنے کے لیے گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے گزری۔ وہ پاک و ہند میں سبزانقلاب کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔‘‘ پھر میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ کی شخصیت میں مستقبل کا ڈاکٹر بورلاگ چھپا ہوا نظر آرہا ہے۔ میری ایک بات ضرور یاد رکھنا کہ چاہے کچھ ہوجائے ساری عمر گنے کی فصل نہ چھوڑنا۔ میری طرف دیکھو،20 سال گندم کی فصل پر تحقیق کرتا رہا اور جب اس فصل میں مہارت حاصل کرلی تو سرکاری ملازمت میں ترقی ملنے پر مجھے گنے کی فیلڈ میں بھیج دیا گیا۔

ہمارے پاکستان میں کئی سائنس دانوں کی 20/25 سال کی نوکری کے بعد جب ترقی ہوئی اور انہیں دوسری فصل جائن کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سرکاری ملازمت ہی چھوڑ گئے۔ نقصان کس کا ہوا؟ تحقیق کا، لیکن میں نے نوکری نہیں چھوڑی۔ شروع شروع میں ایک آدھ سال دلبرداشتہ بھی ہو ا کہ کہاں 3/4 فٹ کی گندم کی فصل اور کہاں 17/18فٹ کی گنے کی فصل۔ ان دونوں فصلوں کا آپس میں موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن میں نے تحقیق نہ چھوڑی اور ہمت بھی نہ ہاری۔ ڈاکٹر کرسی! آپ کے اندر موجود اعتماد کی خوبی کا کچھ عنصر مجھ میں بھی موجود ہے، اسی کو تھامے آج میں پاکستان کی طرف سے اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘

’’ڈاکٹر اعجاز!آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کی باتوں نے میرے اندر کے سوئے ہوئے شوگرکین بریڈر کو بیدار کر دیا ہے۔ گنے کی تحقیق کے ساتھ آپ کی یہ محبت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔‘‘

ورکشاپ کا آخری روز تھا اور فائنل سیشن جاری تھا۔ اس سیشن میں دو ایوارڈ تقسیم ہونا تھے۔ ایک ایوارڈ تو کنفرم تھا کہ وہ میزبان ملک کو ہی جانا ہے، یعنی کسی جاپانی کو دیا جائے گا اور دوسرا ایوارڈ ورکشاپ میں شریک25 ممالک کے شریک 113 سائنس دانوں میں سے کسی ایک کو ملنا تھا۔ یہ اس عالمی ورکشاپ کا انتہائی اہم لمحہ تھا۔ ورکشاپ کے منتظمین اعلان کر رہے تھے،’’میزبان ملک میں سے سب سے اچھا لیکچر دینے اور ورکشاپ کو کام یاب بنانے کے لیے اپنا دن رات ایک کرنے والے جس سائنس داں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔۔۔ (ہال میں موجود تمام جاپانیوں کے کان کھڑے ہوگئے ) اس کا نام ہے مسٹر یو شی فی تراجیمی ۔۔۔۔ہال تالیوں سے گونج اٹھا، جن میں جاپانیوں کی تالیوں کی گونج نمایاں تھی، اور جاپان کے شریک 40سائنسدانوں میں سے یہ ایوارڈ اس سائنس داں کو ملا تھا جس نے ورکشاپ کی کام یابی کے لیے واقعی اپنا دن رات ایک کیا تھا اور پاکستان میں رہ کر میں نے اپنی رجسٹریشن، ہوٹل بکنگ، ایئرفلائیٹ اور پروگرام کی تفصیلات فراہم کرنے میں یو شی فی تراجیمی میرے رابطے میں رہا تھا اور میزبان ملک کی طرف سے واقعی اسے ٹھیک ایوارڈ دیا گیا تھا۔

اب بہترین سائنس داں کا ایوارڈ کا اعلان ورکشاپ کا آخری ایونٹ تھا۔ اس کے بعد ورکشاپ کے اختتام کا اعلان ہونا تھا۔ پاکستان کی طرف سے میں اکلوتا ہی اس ورکشاپ میں شامل تھا، جب کہ امریکا، آسٹریلیا، فلپائن، انڈونیشیا، برازیل، تائیوان، تھائی لینڈ، انڈیا اور ارجنٹائن کی طرف سے دس دس سائنس داں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ سبھی پُرجوش تھے کہ دیکھیں کس سائنس داں کو ایوارڈ ملتا ہے۔ لوگوں کی نظریں امریکا اور فرانس کے سائنس دانوں پر تھیں۔

اعلان ہوا کہ ISSCT کی منعقدہ جاپان ورکشاپ کے بہترین سائنس داں کا ایوارڈ جو مبلغ 500 امریکی ڈالر پر مشتمل ہے، دیا جاتا ہے برازیل کے ڈاکٹر ڈینی لو کرسی کو! ہال تالیوں سے گونج اٹھا، کیوںکہ یہ ایوارڈ بھی مستحق ترین سائنسدان کو ملا تھا ورکشاپ کے تمام شرکاء اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر ڈینی لو کرسی کو داد و تحسین دینے لگے۔ ڈاکٹر ڈینی لو کرسی ایوارڈ تھامے سیدھا میری طرف آگیا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا اورکہنے لگا،’’ڈاکٹر تبسم! آپ کو میری اہلیت اور ایوارڈ ملنے کے متعلق کیسے علم ہوگیا؟

مجھے ایوارڈ سے زیادہ خوشی اب آپ سے مل کر ہو رہی ہے۔ میں ابھی تک حیران ہوں، آپ کے دیے گئے لیکچر سے تو میں نے خوداعتمادی کے انداز سیکھے ہیں کہ کاش میں آپ جیسا بولتا، مگر آپ کی مجھے ایوارڈ ملنے کی پیش گوئی نے مجھے زیادہ ششدر کردیا ہے۔‘‘ ورکشاپ کے اختتام پر تقریباً سبھی سائنس داں ہمارے اردگرد کھڑے ہوگئے تھے کہ ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر کرسی ایک پاکستانی سے کیا باتیں کر رہا ہے۔ ڈاکٹر کرسی کی باتیں سن کر وہ مجھے محبت سے دیکھنے لگے اور مجھ سے بھی ہاتھ ملائے جا رہے تھے۔

میں نے ڈاکٹر کرسی کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’اب میں آپ کے متعلق ایک اور پیش گوئی کرنے لگا ہوں،

’’وہ کیا؟‘‘

’’ ہم دونوں مل کر دنیائے گنا کے لیے ایک کام نہ کریں!‘‘

’’وہ کیا‘‘ وہ مزید حیران ہوتے ہوئے بولا اور ارد گرد کے کھڑے سا ئنس داں بھی متجسسانہ نظروں سے ہم کو دیکھنے لگے۔

’’ ہم دونوں مل کر ایک کتاب لکھتے ہیں کہ دنیائے گنا کے 10 بڑے ممالک میں گنے کی ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے، جس سے مستفید ہوکر غریب ممالک نہ صرف اپنے اپنے ممالک میں گنے کی ترقی ممکن بناسکیں گے بلکہ اس میں دنیا بھر کے اسکالروں، سائنس دانوں اور ماہرین گنا کے لیے بھی مواد بطور ریفرنس شامل کیا جائے گا۔‘‘

’’مگر ہم کتاب کیسے لکھیں گے۔ میں تو قلم کار نہیں ہوں۔‘‘ کرسی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر میں گویا ہوا:

’’تمہیں اس بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں ہوں ناں ۔۔۔جس جس جگہ کتاب لکھتے وقت کوئی مشکل پیش آئے گی، میں تم سے رابطہ کرلوں گا۔ ایک لمحے کے لیے سوچو کتاب کے ٹائٹل پر برازیل کے حوالے سے تمہارا نام اور پاکستان کے تناظر میں اس ناچیز کا نام رقم ہو گا تو کیسا لگے گا۔‘‘

ڈاکٹر کرسی کی آنکھوں میں اس لمحہ خوشی کے آنسو تھے۔ وہ مجھ سے گلے مل کر کہنے لگا،’’آپ نے پہلے میرے اندر کے سائنسدان کو تحریک دی کہ چاہے کچھ ہوجائے گنے کی فصل نہیں چھوڑنی۔ اتنے ماہر اور تجربہ کار سائنسدانوں کی موجودگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے 500 امریکی ڈالر کا ایوارڈ ملے گا۔ ڈاکٹر اعجاز اگر آپ کا ساتھ رہا تو میں گنے کی فیلڈ کا ڈاکٹر بورلاگ بھی بنوں گا۔ آپ نے میرے اندر کے لکھاری کو بھی بیدار کر دیا ہے ۔۔۔ہم کتاب ضرور لکھیں گے۔‘‘

ورکشاپ سے واپسی پر پاکستان آنے کے لیے میرے ہوائی سفر میں تبدیلی تھی۔ نیہا ایئرپورٹ سے ٹوکیو کی بجائے مجھے اوساکا ایئرپورٹ اترنا تھا۔ پھر یہاں سے براستہ بنکاک لاہور آنا تھا ، مگر اوساکا پہنچ کر معلوم ہوا کہ جس فلائیٹ سے مجھے بنکاک جانا تھا۔ وہ میرے اوساکا پہنچنے سے 2 گھنٹے پہلے ہی اڑان بھرچکی ہے۔ حالانکہ شیڈول کے مطابق بین الاقوامی پرواز میں سوار ہونے کے لیے 3 گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچ چکا تھا۔ اس صورت حال سے پریشانی لاحق ہوگئی کہ اب کیا کروں۔ میرے پاس تھائی ایئرلائنز کا ٹکٹ تھا، چنانچہ میں تھائی ایئر لائنز کی انتظامیہ کی طرف بھاگا اور انہیں بتایا کہ دیکھیں میں سرکاری ملازم ہوں مجھے تو آج ہر حال میں براستہ بنکاک لاہور پہنچنا تھا اور یہاں آکر پتا چلا کہ میرے فلائیٹ چلی گئی ہے۔ میری تو ایکس پاکستان کی رخصت بھی آج ختم ہونے کو ہے میری تو نوکری کا مسئلہ ہے۔

تھائی ایئر لائنز کی انتظامیہ نے میری تمام سفری دستاویزات دیکھیں، انہیں اپنی غلطی محسوس ہوئی۔ ایئرلائنز کے کاؤنٹر پر موجود اہل کار نے مجھ سے کہا،’’ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔ آپ کی فلائیٹ شیڈول سے 2 گھنٹے پہلے چلی گئی۔ یہی فلائیٹ اب کل صبح 10  بجے یہاں سے روانہ ہوگی ، جو براستہ ہانگ کانگ جائے گی اور بنکاک سے ہوتے ہوئے آپ اپنے وطن پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ایک بار پھر ہم آپ سے معذرت کے طلبگار ہیں۔‘‘

’’ مگر میرا تو یہاں اوساکا میں کوئی جاننے والا نہیں ہے، تو کیا مجھے رات ایئرپورٹ ہی رہنا پڑے گا۔‘‘

’’نہ نہ، آپ پریشان نہ ہوں، ہم نے اس کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔ ہم آپ کو رہنے کے لیے بہترین ہوٹل دیں گے، رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی ساتھ ہے اور ہوٹل تک جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے تک ٹرانسپورٹ بھی ملے گی۔‘‘

تھائی ایئر لائنز کی اتنی ڈھیر ساری پیش کش کو سامنے پا کر سچی بات ہے اپنی فلائیٹ کے اڑ جانے کا افسوس جاتا رہا۔ ایئرلائنز کی انتظامیہ نے جاپان کی بہترین لیموزین گاڑی پر مجھے اوساکا شہر کے کوکو ہوٹل پہنچا دیا۔

ابھی شام کے چار بجے تھے اور تھکاوٹ بھی زوروں پر تھی مگر خیال آیا کہ کوکو ہوٹل تو شہر کے بیچوں بیچ ہے اور کل صبح یہاں سے نکل جانا ہے، کیوں نہ اوساکا شہر کی گلیاں، بازار دیکھ لیے جائیں۔ فوراً نیچے ہوٹل کی انتظامیہ کے پاس آیا اور ان سے کہا،’’جناب! میں حادثاتی طور پر اوساکا شہر آگیا ہوں کیا میں شہر گھومنے جا سکتا ہوں؟

’’جی ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو فلائیٹ میں تبدیلی کی وجہ سے اچانک یہاں ٹھہرنا پڑا ہے۔ آپ ضرور شہر میں گھومیں مگر یہ ہوٹل کا نقشہ اپنے پاس ضرور رکھ لیں اگر راستہ بھول جائیں تو یہ آپ کی راہنمائی کرے گا، مگر ایک بات یاد رکھیں کہ ابھی چار بجے ہیں اور رات کا کھانا رات 7بجے شروع ہو کر 8 بجے تک جاری رہے گا۔ اس دوران اگر آپ ہوٹل پہنچ گئے تو کھانا مل جائے گا۔ ورنہ بھوکا ہی رہنے پڑے گا۔ ویسے ہمارا ہوٹل ساری رات کھلا رہتا ہے۔ آپ آرام سے شہر کا نظارہ کریں۔‘‘

اوساکا شہر کی صاف ستھری سڑکیں، دیدہ زیب فلک بوس عمارات، خوب صورت میٹرو اسٹیشن اور اس پر چلنے والی ٹرین، جو شہر کے چاروں طرف گھومتی ہے اور مسافروں کو نہایت ارزاں ٹکٹ پر شہر کے چاروں طرف پہنچاتی ہے، اس ٹرین کی ایک خوبی یہ ہے کہ کرایہ ایک ہی رہتا ہے چاہے آپ 2 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں یا 50کلومیٹر سفر کریں۔ نہایت سبک رفتا ٹرین ہے ، کوئی ٹکٹ چیک کرنے والا نہیں ہے، ٹرین پر کوئی پہلے چڑھنے کی کوشش نہیں کرتا، دھکم پیل کہیں نظر نہیں آئی۔ اوساکا شہر کے بچوں سے لے کر بڑوں تک جس سے بھی راستہ پوچھا ، سبھی نے خوش دلی سے راہنمائی کی، بلکہ ایک جاپانی ادھیڑ عمر خاتون سے اچانک مڈبھیڑ ہوگئی تو اس نے شاپنگ پلازہ میں میری خریداری میں اس قدر دل چسپی لی کہ اپنی شاپنگ چھوڑ کر میرے بیوی بچوں کی اشیاء کی خریداری کرنے تک کوئی گھنٹہ بھر میرے ساتھ رہی، تاکہ اجنبی سمجھ کر کوئی دکان دار مجھ سے زیادہ پیسے نہ اینٹھ لے ، جس پر میں اس خاتون کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔

شاپنگ پلازہ سے باہر نکلا تو مغرب ہوچلی تھی، افراتفری میں ادھر ادھر گھوم کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر لاحاصل۔ اپنے ہوٹل پہنچنے کی جلدی تھی، کیوںکہ رات 8 بجے کھانا ختم ہو جانا تھا۔ کھانا تو کہیں بھی کھا سکتا تھا مگر اصل مسئلہ ہوٹل پہنچنے کا تھا کہ کسی طرح جلدازجلد پہنچا جائے۔ دل میں آیا کہ افراتفری میں ہوٹل ڈھونڈنے کاکوئی فائدہ نہیں، نیا شہر ہے نئے راستے ہیں ایک دفعہ پھرنے سے ازبر نہیں ہوتے ، بہتر ہے کہ کسی سے راہنمائی لے لی جائے۔ آس پاس کوئی نہ تھا مگر دور ایک جاپانی جوڑا گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کی عمریں 35 کے لگ بھگ ہوں گی۔ ایک بچہ میاں نے گود میں اٹھا رکھا تھا۔ فوراً بھاگتے ہوئے ان کا پاس گیا، اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کا نقشہ سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اس ہوٹل تک پہنچنے میں راہنمائی کردیں۔ میری بے چینی کو دیکھتے ہوئے ان دونوں کو مجھ پر ترس آگیا اور وہ میرے ساتھ ہولیے۔ کبھی ادھر لے کے جاتے اور کبھی ادھر۔ سچی بات ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی اس ادھیڑ عمر خاتون کی طرح اپنا آپ بھول گئے تھے جو شاپنگ پلازہ میں اپنی شاپنگ بھول کر میرے ساتھ رہی تھی۔

جاپانی قوم شاید دنیا کی سب سے زیادہ پرامن رہنے والی قوم ہے، جو کسی کی تکلیف کو رفع کرنے میں اپنا آپ نہ صرف بھول بیٹھتی ہے بلکہ اس میں اپنی راحت بھی محسوس کرتی ہے۔ مجھے اپنے پورے جاپانی ٹور میں ہر جاپانی سے مل کر ایسے ہی محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے پیار کرنے والی دنیا کی ہمدرد ترین قوم ہے۔ بہرحال یہ میاں بیوی اور بچہ اب میرے ساتھ تھے میری راہنمائی کے لیے، اور میرا راستہ بھولنے کا غم فی الحال کافور ہوچکا تھا۔ جاپان میں بنی جانے والی فلک بوس عمارتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سامنے والی بلڈنگ کے عقب میں اگر جانا ہو تو اوپر سے 2کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اس کے پاس پہنچا جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہو رہا تھا، راستے میں باتیں بھی ہو رہی تھیں اور آپس میں تعارف بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ جاپانی میاں بیوی جو دونوں آٹو انجینئر تھے کے دل میں میرے لئے اپنائیت شاید اس لیے زیادہ بڑھ گئی تھی کہ انہیں یہ پتا چلا کہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں اور لیکچر دینے کے لیے جاپان آیا تھا۔ شوہر کا نام یاشو میما تھا اور بیوی یاشو میما تھی۔ یاشو نے دو سال کا بچہ اپنی گود میں اٹھا رکھا تھا جب کہ ہوٹل کا نقشہ بیگم یاشو کے پاس تھا۔ دونوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مجھ سے بھی ہم کلام تھے۔ ایک جگہ رک کر کہنے لگے،’’ڈاکٹر تبسم! یہ ہوٹل تو نہیں۔‘‘

میرے چہرے پر چھائی فکرمندی دیکھ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ کوئی ایک گھنٹہ تک وہ میرے ساتھ اوساکا کی گلیوں میں گھومتے رہے۔ وہ خود اوساکا کے مضافاتی علاقے سے شاپنگ کرنے کے لیے اوساکا آئے تھے۔ میں کہاں ان کے درمیان آگیا تھا۔ خواہ مخواہ ان کے وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا۔ مجھے فکرمند، پریشانی میں مبتلا اور ہوٹل جلدی پہنچنے کی غرض سے میرے چہرے پر چھائی اداسی کو بھانپتے ہوئے بیگم یاشو کہنے لگیں،’’آپ فکر مند نہ ہوں، اگر آپ کا قیام دو تین دن ادھر ہوتا تو ہمیں آپ کو اپنے ساتھ گھر لے جانا تھا۔ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہم آپ کو آپ کی منزل پر پہنچا کر جائیں گے۔ ہم جاپانی لوگوں کی سرشت میں یہ چیز شامل ہے کہ ہم کام ادھورا نہیں چھوڑتے۔‘‘

ان میاں بیوی کی طرف سے ملنے والا دلاسا میرے دل میں جاپانیوں کی قدرومنزلت بڑھاگیا۔ چلتے چلتے دونوں میاں بیوی ایک جگہ رک گئے۔ پوچھنے لگے کہ یہ ہوٹل تو نہیں ہے؟ میں نے پوچھا کہ اس ہوٹل کا فرنٹ والا حصہ کدھر ہے۔ وہ دونوں مجھے اوپر سے گھما کر اس ہوٹل کے سامنے لے آئے ۔ میں یک دم خوشی سے بول اٹھا کہ جی ہاں یہی میرا ہوٹل ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ وہ دیکھیں سامنے کوکو ہوٹل لکھا ہوا ہے۔ اب میں بڑھ چڑھ کے ہوٹل کی نشانیاں بتانے لگا تھا اور وہ خوشی اور طمانیت سے نہال ہونے لگے۔ اس سمے مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ ہم تینوں ایک عرصہ سے ایک دوسرے سے واقف ہوں اور تینوں کا باہم جدا ہونے کو دل بھی نہ چاہ رہا ہو۔

میں نے اپنی پاکٹ سے کچھ کرنسی نکالی اور ان کے بیٹے کو تھمانا چاہی مگر ان دونوں نے شکریے کے ساتھ مجھے واپس کردی۔ میں نے کھانے کی پیشکش کی مگر وہ کہنے لگے کہ آپ مسافر ہیں اور آپ کے پاس اگر زاد راہ کم پڑ گیا ہو تو ہم سے لے لیں ۔۔۔ میں نے شکریہ ادا کیا جس پر مسٹر یاشو میما الوداع ہونے کے لیے مجھ سے گلے ملے۔ میں نے بھی گرمجوشی سے بھرپور معانقہ کیا۔ پھر بچے کے گال تھپتھپائے تو بیگم یاشو بھی الوداعی معانقے کے لئے اپنے بازو اٹھائے ہوئے میری طرف بڑھیں مگر میرے قدم فوراََ رک گئے۔

وہ یک دم ساکت ہو گئیں، ان کا چہرہ ایسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کی من پسند چیز چھین لی ہو۔ ان کا شوہر مجھے حیرت سے تکنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ڈاکٹر تبسم نے میری بیوی کو معانقہ کیوں نہیں کرنے دیا۔ بیگم باشو کہنے لگیں کہ ڈاکٹر تبسم! یہ میری خواہش ہے کہ میں آپ سے معانقہ کروں۔ راستے میں آپ سے کی جانے والی باتیں تو مجھے پاکستان بھی جانے پر مجبور کر رہی ہیں کہ میں آپ جیسے چہرے کو ملنے آپ کے دیس پاکستان آؤں مگر آپ تو یہاں جاپان میں مجھے اپنے گلے ہی نہیں لگنے دے رہے۔

میاں بولا کہ ہم اپنے مہمانوں کو ایسے ہی رخصت کرتے ہیں گلے لگ کر۔ بیوی اپنے میاں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی، کسی کے گلے لگنے میں حرج ہی کیا ہے اور وہ بھی اگر مہمان ہو۔ میں چند لمحے ساکت رہا پھر مسٹر یاشو کی طرف ایک قدم بڑھا اور دھیرے دھیرے کہنے لگا کہ بھٹکے ہوئے راہی کو منزل تک پہنچانے والے میرے راہنماؤ، اگر آپ دونوں اس بات پر رضامند ہیں اور خاص کر مسز یاشو کی بھی یہی خواہش ہے کہ میں گلے لگوں، مگر میرے مذہب اسلام نے مجھے روک رکھا ہے کہ ہم لوگ کسی غیرمحرم عورت کے سینے سے نہ لگیں۔ اسی میں بھلائی ہے۔

مسز یاشو فوراً بولیں مگر میرے مذہب نے ہمیں یہ تلقین کر رکھی ہے کہ اگر کبھی کسی کو الوداع کرنے کا موقع آئے تو اپنے مہمانوں کو گرم جوشی سے رخصت کرو، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ میں اپنے جاپانی میزبانوں کی دلیلیں سن کر، اس لمحے دل سے شکست تسلیم کرنے لگا اور بول اٹھا۔۔۔ ٹھیک ہے اگر آپ کی یہی بھلائی ہے اور دونوں کی خواہش بھی یہی ہے تو میں آپ کی ضرور خواہش کروں گا اور مسزیاشو کے جسم کی حرارت محسوس کروں گو۔ جس پر وہ خوشی سے سرشار ہوگئیں۔ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ مسز یاشو کے قدموں پر رکھ کر اس کے بدن کے لمس کو ہاتھوں کے ذریعے چوما اور اپنے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔

drijaztabassum07@gmail.com

The post ناکارہ گاڑیاں شہر کے باہر ترتیب سے رکھ دی جاتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

پولیس کا ’’اندرونی پولیس مقابلہ‘‘

$
0
0

پولیس میں من مانی تبدیلیوں کا تو ہمیشہ سے سُنتے آئے ہیں مگر یہ خبر نہ تھی کہ من مانی مَنوں کے حساب سے بڑھ چکی ہے اور اب سپاہیوں سے بچوں کے ڈائپر بھی تبدیل کروائے جارہے ہیں!

’’ایکسپریس‘‘ کراچی میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق سندھ پولیس کے ایک ایس پی صاحب کے بنگلے پر تعینات کانسٹیبل نے ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کے نام درخواست تحریر کی ہے جس میں بتایا گیا ہے وہ سیکیورٹی زون میں تعینات تھا، یہاں سے اس کا تبادلہ بدین بھیجے جانے والے ایس پی کے ساتھ بطور اردلی کردیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ بنگلے پر تعیناتی کے دوران ایس پی کی اہلیہ نے انتہائی درشت رویہ اپنایا ہوا ہے اور وہ دیگر گھریلو کام کاج کے علاوہ بچوں کے ڈائپر تک تبدیل کرواتی ہیں۔

اس سلسلے میں جب صدائے احتجاج بلند کی تو بیگم صاحبہ نے کوارٹر گارڈ کروادیا جب کہ ایک مرتبہ بہ طور سزا ڈنڈ بھی لگوائے، جس کی ویڈیو بناکر انھوں نے اپنے احباب کو بھیجی۔ اس نے الزام لگایا کہ دیگر پولیس اہل کاروں کے ساتھ بھی بیگم صاحبہ کا یہی رویہ ہے۔

ویسے تو ہم جنتا کو اس معاملے میں بولنے کا حق نہیں کیوں کہ یہ محکمۂ پولیس کا اندرونی ’’پولیس مقابلہ‘‘ ہے، مگر کیا کریں ہمیں اپنی پولیس سے پیار بہت ہے، اس لیے پولیس والوں کے معاملات سے خود کو لاتعلق بھی نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے خیال میں اس شاکی سپاہی نے بیگم صاحبہ کی نیت سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ بچوں کے ڈائپر تبدیل کرواکر دراصل وہ پولیس اہل کاروں کو معاشرے کی گند صاف کرنے کی تربیت دے رہی ہیں۔ ساتھ یہ بھی سکھا رہی ہیں کہ جس طرح گندا ڈائپر اتار کر صاف ڈائپر پہنا دیا جاتا ہے، اسی طرح ایک سمجھ دار پولیس والا تفتیش کے دوران مختلف حربوں سے کسی بھی دہشت گرد، ڈاکو اور قاتل کا گندا ڈائپر یوں تبدیل کرتا ہے کہ وہ صاف ستھرا ہوکر عدالت کے کٹہرے اور سزا سے صاف بچ نکلتا ہے۔

ظاہر ہے پولیس کوئی پیار کرنے والی پھپھو یا خالہ تو ہے نہیں کہ مفت میں ڈائپر تبدیل کردے، وہ تو پیشہ ور آیا کی طرح اس کام کی وصولی کرتی ہے۔ البتہ جب معاملہ پیٹی بند بھائیوں کا ہو تو غلاظت میں لتھڑے ڈائپر بدلنے کی خدمت بلامعاوضہ انجام دی جاتی ہے، کیوں کہ ’’یہی تو ہے وہ اپناپن۔‘‘ ڈائپر کی تبدیلیوں کا یہ عمل ہم سانحۂ ساہیوال اور راؤ انوار کے کیس میں دیکھ سکتے ہیں۔

ایک زمانے میں محکمۂ پولیس کا یہ نغمہ ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوا کرتا تھا، ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔‘‘ ممکن ہے ایس پی صاحب کی اہلیہ نے یہ نغمہ سُن کر فرض کرلیا ہو کہ ان کی ہر غرض پوری کرنا بھی پولیس کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ تو پولیس والوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک کے عام شہریوں کو یہ نغمہ سُن کر ہنسی تو آئی یقین نہیں آیا، اور محکمے نے خود شرمندہ ہوکر یہ نغمہ چلانا چھوڑ دیا، ورنہ کسی کی بھی بیگم پولیس والوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہوئے پُکار لیتی،’’اے بھیا! مُنا رو رہا ہے، ذرا چُپ تو کرادو، جیسے گواہوں کو چُپ کرادیتے ہو۔‘‘

کبھی موبائل میں آرام کرتے پولیس اہل کاروں کے پاس آکر خاتون ان کی طرف سو کا نوٹ بڑھاتیں، جو وہ حسب عادت فوراً پکڑ لیتے، پھر خاتون کہتیں،’’بھائی! جلدی سے ایک کلو، پاؤ ٹماٹر، اور دھنیا پودینہ لے آؤ۔‘‘ کسی تھانے میں کوئی خاتون گود میں بچہ لیے وارد ہوتیں اور بچے کو ایس ایچ او کی گود میں ڈال کر کہتیں ’’ماموں پاچھ بیتھو، تنگ نہیں کرنا ماموں کو‘‘ پھر ہَکّابکّا ایس ایچ او کی طرف دیکھ کر فرماتیں’’بس دو تین گھنٹے اپنا فرض نبھائیے، میں شاپنگ کرکے آتی ہوں۔ اور ہاں، اسے بھوک لگے تو یہ فیڈر ہے، دودھ پلادیجیے گا۔‘‘

’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ کا نغمہ تو اب ماضی ہوا، البتہ کچھ عرصہ قبل محکمۂ پولیس کا ایک اشتہار لوگوں کو بتاتا تھا،’’پولیس کی وردی میں بھی انسان ہوتا ہے‘‘، ضروری ہے کہ اس حقیقت سے پولیس افسران اور ان کی بیگمات کو بھی آگاہ کردیا جائے، ورنہ سندھ کی پوری پولیس فورس کے ہاتھوں میں ڈائپر اور وائپر ہوں گے، اور عوام مزید اپنے حال پر چھوڑ دیے جائیں گے۔

usman.jamai@express.com.pk

 

The post پولیس کا ’’اندرونی پولیس مقابلہ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

زبان خلق سے شرافت کی زبان تک مٹتی زبانیں

$
0
0

اقوام متحدہ نے دنیا کے مختلف خطوں کے قدیم ترین باشندوں (Indigenous peoples) کی زبانوں کے مٹنے کا نوحہ پڑھتے ہوئے 2019 کو ’’قدیم باشندوں کی زبانوں کا سال‘‘ قرار دیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق قدیم باشندوں کی دو ہزار چھے سو اسی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور ان میں سے بہت سی مٹنے کے قریب ہیں۔

اقوام متحدہ سے گزارش ہے کہ وہ ان زبانوں میں پاکستان کی کچھ زبانیں بھی شامل کرلے اور ان کے بچاؤ اور بازیافت کے لیے اقدامات کرے۔ وہ زبانیں یہ ہیں:

سیاست میں تمیز کی زبان:

یہ زبان مجبوری میں ہی سہی بولی ضرور جاتی تھی۔ سیاست داں اپنے بدترین مخالفوں کو بھی اسی زبان میں مخاطب کرتے تھے۔ لیکن ایک نئی بولی ’’اوئے زبان‘‘ کے آنے کے بعد تمیز کی زبان ہر زبان سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ اس زبان سے زیادہ تو خمیرہ گاؤزبان استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈراموں میں مہذب زبان:

کبھی ٹی وی ڈراموں میں ہر لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا جاتا تھا، اب لکھنے والے ہفتے میں اتنی قسطیں لکھنی ہوتی ہیں کہ اس کے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اُسے بس ریٹنگ کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔ اُسے یہ کلیہ معلوم ہے کہ جتنی کُھلی ڈُلی زبان استعمال ہوگی اُتنی ہی کُھل کے ریٹنگ آئے گی، پھر چینل کُھلے دل اور کھلے ہاتھ سے اُسے پیسے دے گا۔ اس چکر میں وہ کُھل کھیلتا ہے۔ اس کھیل میں مہذب زبان ہار چکی ہے اور ’’جاؤ ہم نہیں کھیل رہے‘‘ کہہ کر میدان چھوڑگئی ہے۔

میڈیا پر صحافتی زبان:

اس زبان کے الفاظ غیرجانب داری، نفاست، تہذیب اور شائستگی لیے ہوتے ہیں، جن سے بہت سے اینکرز کا کچھ لینا دینا نہیں، ان کا لین دین کسی اور زبان کا تقاضا کرتا ہے۔ سو وہ جو زبان بولتے ہیں اسے آفتی زبان، قیامتی زبان، ملامتی زبان اور حجامتی زبان تو کہا جاسکتا ہے، مگر یہ صحافتی زبان ہرگز نہیں۔

شرافت کی زبان:

یہ زبان صرف کم زوروں اور مجبوروں ہی میں رائج ہے۔ اسے بولنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ یہ سُنی جاتی ہے نہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کے مقابل طاقت کی زبان آجائے تو یہ بے زبان ہوجاتی ہے، اور غلطی سے کچھ کہہ دے تو لمبی زبان کہہ کر کاٹ دی جاتی ہے۔

زبانِ خلق:

ایک زمانے میں یہ نجی محفلوں، دیواروں اور عوامی بیت الخلاؤں میں وجود رکھتی تھی، آج کل سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنے کے کام آتی ہے۔ خاصی قدیم ہے، اس لیے گھر کے بڑے بوڑھوں کی طرح اس کا احترام تو بہت کیا جاتا ہے، مگر بڑے بوڑھوں ہی کی طرح سٹھیایا ہوا سمجھ کر اس سُنا اور سمجھا نہیں جاتا۔ اس زبان کے بولنے کی بھی ایک حد ہے، یہ حد پار کرنے پر زبان خلق بولنے والے کا حلق بند کیا جاسکتا ہے، اور اسے ’’خالق‘‘ کے پاس بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

زبانِِ یار:

یہ عرف عام میں محبوب کی زبان کہلاتی ہے۔ کبھی یہ زبان شاعروں کو یوں متاثر کرتی تھی کہ وہ بول اُٹھتے تھے:

عجب لہجہ ہے اُس کی گفتگو کا

غزل جیسی زباں وہ بولتا ہے

کسی کو محبوب کے کلام میں وہ مٹھاس ملی کے اُس نے کہا:

مِصری کرے نبات تِرے لب کے روبرو

کیا کہیے کس قدر تِرا شیریں کلام ہے

اس خوش کلامی کے باعث ہی شاعر پہروں محبوب کے پاس رہنا چاہتا تھا، ورنہ ’’قصائی بھائی کس کے، کھایا پیا کھسکے۔‘‘ چناں چہ وزیرآغا نے کہا:

وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اُس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

محبوب کی یہ زبان ماضی کا قصہ ہوئی۔ اب یہ بس سُنی سُنائی باتیں ہیں، اسی لیے احمدفراز نے کہا ’’سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔‘‘ اس مصرعے کی تشریح یہ ہوئی کہ ۔۔۔کسی سے سُنا ہے کہ دور کہیں محبوباؤں میں سے ایک نمونہ بچا ہے جس کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔

فی زمانہ محبوباؤں کی زبان کا یہ حال ہے کہ ’’سُنا ہے باتوں سے اُس کی ببول جھڑتے ہیں۔‘‘ بھارتی فلموں کی بھاشا اور انگریزی بولنے کی آشا مل کر جو گفتگو تخلیق کرتی ہیں اُس میں ’’گفت‘‘ کم ہی ہوتی ہے، یہ بولی ’’شِٹ۔۔۔شونو میں تمھیں برتھ ڈے وش کرنا بھول گئی‘‘،’’تمھارے پیار نے تو میرے دِل کی واٹ لگادی ہے‘‘،’’جانو! تم کسی اور کے ہوئے تو ٹھوک دوں گی‘‘۔۔۔جیسے جملوں سے شروع ہوتی ہے اور تہذیب واخلاق کو ساتھ لیے ختم ہوتی ہے۔

اگر ہماری یہ مٹتی ہوئی زبانیں بچ جائیں تو ہم کہہ سکیں گے ہم بھی منہہ میں زبان رکھتے ہیں، ورنہ خاموشی ہی ہمارا پردہ رکھ پائے گی۔

usman.jamai@express.com.pk

 

The post زبان خلق سے شرافت کی زبان تک مٹتی زبانیں appeared first on ایکسپریس اردو.

فیس بُک ہے مجبوری۔۔۔ کیسے ہو دوری

$
0
0

ہمارے ایک دوست نے اپنے صاحب زادے کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ ان کی نوجوانی کے زمانے میں فیس بُک نہیں تھی، صاحب زادے نے چونک کر اینڈرائڈ فون سے نظریں ہٹائیں اور کچھ دیر والد کو حیرت سے تکتے رہے، جس کے بعد انھوں نے دو باتیں کیں’’ابو! آپ نے داڑھی کب رکھی؟ دراصل بہت دنوں بعد آپ کی شکل دیکھی ہے۔‘‘

اس سوال کے بعد بولے،’’اچھا، آپ کے دور میں فیس بُک نہیں تھی، تب تو بڑی فراغت ہوگی، کچھ کرلیتے۔‘‘ یہ سُن کر موصوف کا فیس ریڈبُک ہوگیا، پھر انھوں نے بیٹے اور فیس بک کی شان میں جو کچھ کہا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ فیس بک لوگوں کی زندگی میں یوں شامل ہوئی ہے کہ فیس بک ہی رہ گئی ہے زندگی کہیں دور نکل گئی ہے، چناں چہ زندگی کو واپس لانے کے لیے فیس بک سے نکلنا ضروری ہے۔ یہ ہم نہیں محققین کہہ رہے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے مشترکہ تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک صارفین اس وقت زیادہ خوش، زندگی سے مطمئن اور ذہنی بے چینی، ڈپریشن یا تنہائی سے کسی حد تک محفوظ ہوتے ہیں جب وہ ایک ماہ کے لیے اس سوشل نیٹ ورک سے دوری اختیار کرلیں۔

اور واپسی کے بعد ان تمام فوائد کے لیے فیس بک کا استعمال پہلے کے مقابلے میں کم کرنا بھی ضروری ہے۔

محققین کچھ کہیں، مگر فیس بک ایسی مجبوری اور کم زوری بن چکی ہے جس سے دوری اسے استعمال کرنے والوں کو گوارا نہیں۔ بہت سے خواتین وحضرات تو صرف اس لیے باہر جاکر کچھ کھاتے ہیں تاکہ فیس بک پر اس کھانے کی تصویر شیئر کرکے یہ ثابت کریں کہ ان کے لیے اچھا کھانا زندگی کا اہم ترین موقع ہے۔ بیمار محض اس لیے پڑتے ہیں کہ ایف بی پر اپنی بیماری کی اطلاع دے سکیں۔ سو جیسے ہی چھینک آتی ہے، طبعیت کی ناسازی کی خبر کے ساتھ دعائے صحت کی درخواست پوسٹ کردی جاتی ہے۔ محلے کے سابق کونسلر سے بھی کہیں ملاقات ہوجائے تو اس سے چپک کر سیلفی بنوائی اور فیس بُک پر لگائی جاتی ہے۔

یہ سب ’’حرکات‘‘ اتنے لوگ اور اس قدر تواتر سے کرتے ہیں کہ کمنٹ کرنے والا کچھ نیا کہنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے گِنے چُنے کمنٹ کرکے جان چُھڑاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کاپی پیسٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات غلطی سے بیماری کی پوسٹ پر ’’ماشاء اللہ‘‘ کے کمنٹ آجاتے ہیں، انتقال کی اطلاع پر ’’مبارک ہو‘‘ لکھ دیا جاتا ہے اور شادی کی سال گرہ  کا اسٹیٹس ’’اللہ صبرِ جمیل عطا کرے‘‘ کا تبصرہ وصول کرتا ہے۔

اس کے علاوہ فیس بُک۔۔۔ شوہر کی حرکات وسکنات پر نظر رکھنے، رشتے داروں کی پوسٹ لائک نہ کرکے ان سے کسی تقریب میں سیدھے منہہ بات نہ کرنے کا انتقام لینے، جسے شادی میں نہ بلانا ہو اسے کارڈ ان باکس میں دے کر ٹرخانے، علامہ اقبال، فیض اور فراز کی شاعری کا بیڑا غرق کرنے، پوسٹوں کے ذریعے اپنی بات بھونڈے طریقے سے دوسروں تک پہنچانے۔۔۔اور نہ جانے کس کس کام آتی ہے، تو اس سے دوری کتنی ہی ضروری ہو مگر محققین کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

usman.jamai@express.com.pk

The post فیس بُک ہے مجبوری۔۔۔ کیسے ہو دوری appeared first on ایکسپریس اردو.

قرآن گارڈن

$
0
0

برصغیرپاک وہند میں مدارس کی اہمیت مسلمہ ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔

انہی مدارس نے یہاں کے معاشرے کو وہ عالم وفاضل شخصیات دی ہیں جن کی بدولت یہاں علم ونور کی شمعیں فروزاں ہوئیں اور جن کی بدولت آج علم ودانش کے سرچشمے ہر سو پھوٹ رہے ہیں، لیکن بدقسمی سے عرصے سے ایک سازش کے تحت ان درس گاہوں پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور یہ دلیل بھی گھڑی جارہی ہے کہ ان مدارس کا نصاب یا نظام موجودہ دورسے مطابقت نہیں رکھتا، کیوں کہ اب دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے اور ستاروں پرکمند ڈالی جارہی ہے جب کہ ان مدارس کا نصاب فرسودہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی۔

یہ دلیل پیش کرنے والوں کی شاید اپنی منطق ہوگی لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان مدارس کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا جب کہ حکومتی سطح پر بھی ان کو لائق توجہ نہیں جانا گیا اور یہ اپنی مدد آپ کے تحت علم کے دیے جلاتے رہے ہیں۔ یہ ملک کے طول وعرض میں بغیر کسی حکومتی سرپرستی وامداد کے مفت علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

ان مدارس نے ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم کا حصول غریب کے بچے کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے میں معاشرے کو ایک صالح اور مہذب شہری دینا ان مدارس کا اولین وطیرہ اور ذمہ داری ٹھہری۔ ایسا ہی تجلیوں اور فیوض کا مرکز ضلع نوشہرہ کے علاقے جلوزئی میں بھی نور کا پیام بر بنا ہوا ہے، لیکن اس کی ایک اور خاص خوبی اس کو دیگر مدارس سے ممتاز کرتی ہے اور وہ ہے ’’قرآن باغ۔‘‘

خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے معروف چراٹ روڈ پر واقع جامعہ عثمانیہ نامی مدرسے کا باغ دیکھنے میں تو ایک عام سا باغ لگتا ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا باغ ہے، جس میں صرف ان 21 اقسام کے پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں، جن کے نام قرآن مجیدفرقان حمید میں مذکور ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا جب کہ دنیا میں اس نوعیت کا تیسرا باغ ہے جہاں صرف وہ پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں، جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے، اگر دیکھا جائے تو اسلام کی نظر میں زراعت اور باغات کی سرسبز وشادابی کی اہمیت اور قدر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں بھی قرآن حکیم میں اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں پر غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے وہیں نظام زراعت وباغبانی کو غوروفکر کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو بہترین صدقہ قراردیا ہے۔ قرآن میں بہت سے نباتات کا ذکر بھی موجود ہے۔ جامعہ عثمانیہ پشاور جو ایک معروف دینی درس گاہ نے قرآن میں ذکر کردہ ان نباتات پر مشتمل باغ لگاکر ایک منفرد اور قابل داد کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس درس گاہ کے بانی مفتی غلام الرحمان وسعت علم ونظر کے حامل عالم دین ہیں، چناں چہ ان کی کاوشوں سے جامعہ عثمانیہ پشاور نے قرآنک گارڈن اور عجائب گھر قائم کرکے یہ ثابت کردیا کہ سائنس سے بے اعتنائی کا الزام لگا کر دینی مدارس کو حرف تنقید بنانا درست نہیں۔

جامعہ عثمانیہ جلوزئی میں بنائے جانے والے منفرد قرآنک گارڈن کا افتتاح 21اگست2009 کو اس وقت کے پشاور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات نے کیا۔ پاکستان کی سرزمین پر اپنی نوعیت کا منفرد باغ جامعہ عثمانیہ پشاور کے نیوکیمپس گلشن عمر چراٹ روڈ میں چارکنال سے زائد رقبے پر لگایا گیا۔ تاہم منتظمین کے مطابق ضرورت پڑنے پر اس رقبے میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس قرآن باغ میں وہ 21 پودے اور درخت اُگائے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آیا ہے۔

ہر پودے اور درخت کے ساتھ اس کا قرآنی، عربی، انگریزی، اردو، پشتو اور نباتاتی نام ٹیبل کی شکل میں نصب کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ سمیت یہاں آنے والے لوگ اس کے بارے میں بہتر انداز میں معلومات حاصل کرسکیں، ساتھ ہی قرآن کریم کی متعلقہ آیت ساتھ لگے تختہ پر کندہ ہے۔ یہ بھی درج ہے کہ یہ آیت قران کے کس پارے اور کس سورت میں ہے۔

اس انوکھے باغ کا داخلی دروازہ اینٹوں سے بنایا گیا ہے، جس پر نظر پڑتے ہی سحرانگیز کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی آنکھوں سے روح تک سکون اور اطمینان اُترنے لگتا ہے۔

مدرسے کی انتظامیہ کے ایک رُکن نے بتایا کہ موجودہ دور میں جہاں ماحولیاتی تبدیلیاں بڑا مسئلہ ہے وہیں درخت لگانے سے بڑا کوئی صدقہ نہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک طرف اگر درخت سایہ اور پھل دیتے ہیں تو دوسری جانب گردوغبار اور ماحولیاتی آلودگی سے بھی ماحول کو صاف رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ باغ کے منتظمین کے مطابق اس باغ کا مقصد لوگوں میں ان پودوں کی افادیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ان میں جذبہ ابھارا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہم اس تصور کو بھی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں جس کے مطابق مدارس کے طلباء ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔

اس باغ میں موجود پودوں پر مدرسے کے ایم فل (مدرسہ نظام میں ایم فل عام ایم فل سے مختلف ہوتا ہے ) کے طلباء 20سے لے کر 80صفحات تک مقالے لکھتے ہیں۔ چند پودوں پر لکھے ہوئے مقالے دکھاتے ہوئے منتظم نے بتایا کہ اس باغ کے انتظام وانصرام اور ان پودوں پر تحقیق کے لیے ایک الگ بورڈ قائم کیا گیا ہے جس کے ارکان میں پشاور یونی ورسٹی اور پشاور کی زرعی یونی ورسٹی کے اساتذہ شامل ہیں۔ باغ کے پودوں پر اب تک درجنوں مقالے لکھے گئے ہیں ، مقالے لکھنے کے بعد ان کا درست طریقے سے زرعی یونی ورسٹی کی زیرنگرانی دفاع کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ پشاور کے کسی مدرسے میں طلباء کو اس طرح کی مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا گیا ہے جس سے ان کی تحقیق کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ باغ کے لیے الگ سے ملازمین وغیرہ نہیں رکھے گئے ہیں بلکہ مدرسے کے طلباء ہی اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہی ان طلبہ کے لیے ایک مفید اور بہترین سرگرمی بھی ہے۔ ان کے مطابق طلباء میں پودوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کے بعد انہیں کچھ پودے گھروں میں لگانے کے لیے بھی دیے جاتے ہیں اور یہی ہمارا بنیادی مقصد بھی ہے کہ مدرسے کے طلباء اور معاشرے کو پودوں کی افادیت کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔

قرآنک گارڈن کے انتظام وانصرام کے لیے باقاعدہ طور پر پندرہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو اس کی دیکھ بھال سمیت ہر قسم کے امور کی انجام ہی پر مامور رہتی ہے۔ علاوہ ازیں اس باغ کی تیاری ونگہداشت کے لیے جامعہ عثمانیہ کے منتظمین کو یونی ورسٹی آف پشاور کے شعبہ باٹنی کا تعاون بھی حاصل ہے۔

مدارس کے حوالے سے یقیناً یہ ایک بہترین کاوش ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اس کاوش اور نظریے کو فروغ حاصل ہو۔ اس کاوش کا سہرا جامعہ عثمانیہ کے مہتمم مفتی غلام الرحمان کے سر ہے، جنہوں نے طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عصری تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں قدم رکھ کر دینی اور عصری علوم کے حسین امتزاج کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس باغ کے ذریعے نہ صرف مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا جواب دیا جارہا ہے بلکہ اس کاوش سے تعلیم وتربیت کے علاوہ ماحول دوست پیغام بھی دیا جارہا ہے۔ ظاہری اور باطنی آلودگیوں کا ازالہ مدارس کا ہدف ثابت ہوگا۔ مذکورہ اقدام دینی مدارس کی جانب سے ایک مثبت پیغام کی تحریک ہے اور دیگر مدارس میں بھی اس قسم کی ہم نصابی سرگرمیاں فروغ پائیں گی،

دینی مدارس میں اس منفرد منصوبے کے اہداف ومقاصد کے بارے میں جب منتظمین سے پوچھا گیا تو جامعہ کے مہتمم مفتی غلام الرحمان نے بتایا کہ اس منفرد اور مثبت اقدام سے معاشرے کو یہ پیغام ملے گا کہ شجر کاری صرف سماجی ضرورت نہیں بلکہ عبادت کا ایک ذریعہ بھی ہے، جب کہ اسلام میں اس کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے کہ وہ عادات کو عبادات سے بدل دیتا ہے۔ قرآنک گارڈن کے حوالے سے معاشرہ میں یہ شعور پیدا ہوگا کہ اپنے ماحول اور زمین کو سرسبز وشاداب رکھنا صرف اخلاقی اور معاشرتی نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عثمانیہ ویلفیئر ٹرسٹ جامعہ عثمانیہ کے طلبہ کا رفاعی ادارہ ہے جو ہمہ وقت جامعہ کی چار دیواری کے اندر تعلیمی سرگرمیاں متاثر کیے بغیر طلبہ کو جملہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے مصروف عمل رہتا ہے۔

اس کے ساتھ قدرتی آفات کے مواقع پر بیرون جامعہ بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیتا ہے، اپنی مدد آپ کے تحت خدمت خلق کے جذبے کو اجاگر کرنے اور تعلیمی، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے ماحول تشکیل دینا، انسانی تمدنی ماحول کی نظافت اور تزئین و آرائش کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا، وبائی امراض، غربت اور جہالت کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا، طلبہ کے لیے کتب کی فراہمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کی سعی کرنا، صاف پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا، نوجوانوں میں مذہبی، علمی ، ادبی ، شہری اور معاشرتی شعور و آگہی کے فروغ کے لیے تگ ودو کرنا، غریب اور مستحق لوگوں کی کفالت کرنا اس ٹرسٹ کے منشور کا حصہ ہے۔

جامعہ کے ناظم تعلیمات مولاناحسین احمد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس باغ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے دل ودماغ میں باغ بانی وشجرکاری کی اہمیت اجاگر ہوگی اور وہ اس کام کو ضرورت سے بڑھ کر عبادت سمجھ کر سرانجام دیں گے۔ یہ باغ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی عصری اور دینی تعلیمی اداروں کے درمیان ربط وتعلق کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ گویا یہ عصری اور دینی اداروں کے درمیان حائل خلیج کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ باغ دیگر دینی مدارس کو بھی تحقیق اور شجر کاری کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔

جامعہ عثمانیہ کے میڈیا انچارج مفتی سراج الحسن نے کہا کہ یہ ایک تحقیقی پراجیکٹ ہے۔ یہاں باغ بانی کا ذوق رکھنے والوں کے تحقیقی ذوق کی قرآن وحدیث کی روشنی میں آب یاری ہوگی۔ حکومت ہر سال آگاہی شجرکاری مہم پر اشتہارات اور سیمینارز کی صورت میں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن نتیجہ صفر ہے، لیکن ہم نے بہت ہی کم خرچ کرکے مختصر مدت میں ایک منفرد باغ لگا کردینی مدارس کے متعلق منفی سوچ رکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے۔ امید ہے کہ جامعہ عثمانیہ پشاور نے جو مثبت قدم اٹھایا ہے وہ پودوں کا تحفظ، تحقیق اور تعلیم کے لیے عوام کی بیداری اور شراکت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

آرٹ اینڈ فوڈ فیسٹیول کا انعقاد

جامعہ عثمانیہ میں پہلی مرتبہ طلبہ کے لیے آرٹ اینڈ فوڈ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں دینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، اس دوروزہ نمائش میں مختلف علاقوں کے سترہ کے قریب اسٹالز لگائے گئے تھے۔ ہر سٹال پر متعلقہ ضلع یا علاقے کی کوئی تاریخی عمارت اس علاقے کا مظہر بنی ہوئی تھی اور ثقافت، لباس اور طورطریقوں کی عکاسی ایسے انداز میں کی گئی کہ دیکھتے ہی معلوم ہوجاتا کہ اس علاقے کا کلچر کیا ہے۔ ہر اسٹال پر ایک سے دو طلبہ گائیڈ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے نظر آئے اور ہر آنے والے مہمان کو پورے اسٹال کا دورہ کرانے کے ساتھ انہیں وہاں رکھے گئے مختلف تاریخی ماڈلز، دینی کتب، مقامی ثقافت اور طلبہ کی جانب سے سجائی گئی اشیاء کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہے۔

نمائش میں طلبہ کی جانب سے مقامی کھیلوں کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اسٹالوں پر پرانے زمانے کے ہتھیاروں کے نمونے بھی رکھے گئے تھے۔ فیسٹیول میں مختلف علاقوں کی مشہور سوغاتیں، خشک میوہ جات، ثقافتی ملبوسات اور پرانے زمانے میں بادشاہوں کے زیراستعمال نادر اشیاء بھی نظر آئیں۔ نمائش کے اختتام پر جرگہ کے موضوع پر ایک اسٹیج ڈراما بھی پیش کیا گیا اور طلبہ کی جانب سے مزاحیہ اور اصلاح پر مبنی خاکے پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ بعض طلبہ کی جانب سے مزاحیہ شعروشاعری بھی کی گئی۔ اس دو روزہ نمائش میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے وہ تمام سرگرمیاں موجود تھیں جو کسی بھی یونی ورسٹی یا کالج کے پروگراموں کا حصہ ہوتی ہیں۔

جامعہ عثمانیہ کے تعلیمی و تحقیقی شعبہ جات

1، درس نظامی شعبہ بنین: وفاق المدارس کے منظورکردہ نصاب کے مطابق درجہ اولیٰ سے دورہ حدیث تک مکمل درس نظامی۔

2، تخصص فی الحدیث: اس شعبے میں جامعہ عثمانیہ اور دیگر جامعات کے ممتاز و باصلاحیت فضلاء کو علوم حدیث میں ایک سالہ کورس کرایا جاتا ہے۔

3،شعبہ تخصص فی الفقہ الاسلامی و الافتاء: اس شعبے میں جامعہ عثمانیہ اور دیگر جامعات کے ممتاز و باصلاحیت فضلاء کو دو سالہ مفتی کورس کرایا جاتا ہے اور اہم فقہی موضوعات پر ان سے مقالات لکھوائے جاتے ہیں ۔

4،تحفیظ القرآن الکریم: اس شعبے میں بچوں کو قرآن کریم حفظ کرایا جاتا ہے۔

5، درس نظامی شعبہ بنات: وفاق المدارس کے منظورکردہ نصاب میں کچھ اضافوں کے ساتھ دورہ حدیث تک 6سالہ نصاب۔

6، تجوید : درجہ اولیٰ تا رابعہ کے طلبہ کے لیے تجوید بہ روایت حفص

7،دارالقرآن: غیررہائشی طلبہ کو حفظ کرایا جاتا ہے۔

8، عثمانیہ چلڈرن اکیڈمی: جامعہ کے زیرانتظام عصری تعلیمی ادارہ، جہاں سے طلبہ کو پشاور بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کرایا جاتا ہے۔

9، عثمانیہ ویلفیئر ٹرسٹ: جامعہ کا رفاہی ادارہ جو قدرتی آفات کے مواقع پر بیرون جامعہ بھی قابل قدر خدمات انجام دیتا ہے ۔

10، مکتبہ عثمانیہ: ہزاروں دینی و عصری کتب اور مراجع پر مشتمل قیمتی علمی ذخیرہ ۔

11، شعبہ تعلیم اللغات: درجہ اولیٰ سے رابعہ تک نیز تخصص و تدریب کے طلبہ کو عربی اور انگریزی زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔

12،دارالافتاء: عوام الناس کو روز مرہ کے ہر طرح کے پیش آمدہ مسائل میں شرعی راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔

13، مجلس فقہی: جید مفتیان کرام پر مشتمل بورڈ جو عصر حاضر کے اہم پیچیدہ مسائل پر غور و خوض اور تحقیق کے بعد مسائل کا شرعی حل نکالتا ہے ۔

14، ماہنامہ العصر: جامعہ کا ترجمان رسالہ جو ہر ماہ نہایت مفید اور تحقیقی مضامین کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔

15، العصر اکیڈمی: ادارہ اشاعت کتب۔

16، شعبہ کمپیوٹر: شعبہ کمپیوٹر میں جامعہ کے شعبہ تعلیمات، مالیات اور لائبریری کو کمپیوٹرائزڈ کرکے ان کا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔

17، متحف عثمانی: تاریخی، ثقافتی اور تعلیمی عجائب گھر۔

The post قرآن گارڈن appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

کھیتوں میں فصل سوکھنا

محمد عتیق، شیخوپورہ

خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے کھیتوں کا جائزہ لے رہا ہوں اور  اپنے ہمسائیوں کی فصل دیکھ کر سوچتا  ہوں  کہ ان کا کھیت سرسوں سے لدا پڑا  ہے جبکہ اس سال اچھی کھاد استعمال کرنے کے باوجود میری فصل اتنی کم کیوں ہے اور واقعتاً میرا  لگا  ہوا سرسوں کافی سوکھا ہوا اور کم نمو یافتہ ہوتا  ہے جس کو دیکھ کہ میں بہت رنجیدہ ہوتا  ہوں اور ڈیرے کی طرف چل پڑتا ہوں۔

تعبیر :۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم سے واسطہ پڑ سکتا  ہے۔کاروباری معاملات میں بھی کسی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا  ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ہر جمعرات حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کریں ۔

سر کے بال کٹنا

طیبہ نورین، سرگودھا

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں اور کہیں جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہو رہی ہوں، ساتھ ہی دل میں یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ میں نے بہت دیر کر دی ہے۔ جب بال بنانے کے لئے میں اپنی چوٹی کھولتی ہوں تو وہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں آ جاتی ہے جس کو دیکھ کہ میں چیخنے لگ جاتی ہوں کہ کس نے میرے سارے بال کاٹ دئیے۔ اسی شور میں میری آنکھ کھل گئی اور میں نے  فوراً  اٹھ کر اپنے بال چیک کئے کیونکہ اتنا مضبوط تصور تھا ان کے کٹنے کا ۔

تعبیر :۔ خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی ناگہانی آفت یا پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ خاص طور پہ گھریلو معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔گھریلو معاملات کو کبھی حد سے بڑھنے نہ دیں۔ خاص طور پر اپنے میاں کے ساتھ غیر ضروری  بحث سے گریز کریں۔ بلکہ ان کو جو بھی کھانے یا پینے کو دیں اس پہ ایک مرتبہ یا ودود اور ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کے پھونک مار دیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

درخت پر چڑھنا

سعدیہ کوثر، لاہور

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کالج کے ٹرپ کے ساتھ کہیں گئی ہوئی ہوں اور وہاں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کے درخت پہ چڑھنے کا مقابلہ کرتی ہوں کہ کون جلدی درخت پہ چڑھتا  ہے۔ ہم تین دوستیں تیزی سے درخت پہ چڑھتی ہیں ۔ میں سب سے پہلے اوپر مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہوں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کہ خوشی پہ دلیل کرتا ہے۔ اس کا تعلق تعلیمی معاملات اور گھریلو دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

بھنا ہوا گوشت کھانا

مطلوب علی خاور، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں دعوت پہ گیا ہوا ہوں اور وہاں پہ ہم کو ایک تھال میں انتہائی لذیز بھنا ہوا گوشت ملتا ہے۔ ہم سب جیسے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اس پر  پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر نیت سیر نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیں تو میں نے زندگی میں کبھی اتنا لذیذ کھانا نہیں کھایا۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے آپ کو مال و دولت عطا کریں گے۔ مال و وسائل میں اضافے سے رزق میں بھی برکت ہو گی اور اس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور حسب توفیق صدقہ وخیرات کیا کریں۔

زنگ آلود چھری

جواد علی خان، لاہور

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں بقر عید کے لئے جانور قربان کرنے کے لئے چھری لا کر رکھتا ہوں اور باقی کی چیزیں بھی اکٹھی کر کے قربانی کے لئے کام شروع کرتا ہوں مگر کیا دیکھتا ہوں کہ میری چھری بہت زنگ آلود ہوتی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ سبزی تک کاٹ سکے، جانور کاٹنا تو ناممکن  سی بات تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت رنجیدہ و پریشان ہوتا ہوں اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا جاتا ہوں ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اب اس کا تعلق گھریلو، تعلیمی یا کاروباری دنیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ آپ چلتے پھرتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد  کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ ممکن ہو سکے تو روزانہ حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں یا مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں ۔

مشروب پینا

رقیہ بی بی، نواب شاہ

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی کے گھر آئی ہوئی ہوں ، بظاہر کسی جاننے والے کا نہیں لگتا ، مگر وہاں کافی رشتے دار موجود ہوتے ہیں۔ میں ایک کمرے میں بیٹھی اپنی کچھ کزنز سے باتیں کر رہی ہوتی ہوں کہ جانے کیوں اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے لگ جاتی ہوں ۔ ایک کمرے میں ٹیبل پر کچھ گلاس پڑے ہوتے ہیں اور ساتھ مختلف قسم کے مشروبات، میں پانی کی بوتل اٹھا کر ایک انتہائی نازک اور صصفا گلاس میں مشروب ڈال کر پیتی ہوں۔ جس سے مجھے فرحت و تازگی کا احساس ہوتا ہے جیسے  عام طور پر مشروبات پینے کے بعد  محسوس ہوتا ہے ۔ اس کے بعد مجھے کچھ خاص یاد نہیں کہ پھر کیا ہوا۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظا ہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے عمر میں برکت اور بیماری سے شفاء ہو گی، جس سے گھر میں آرام و سکون ملے گا، رزق میں اضافہ ہو گا جس سے یقینی طور پر کاروبار میں بھی برکت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ مال و نعمت میں اضافہ فرمائیں گے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اورکثرت سے یاشکور پڑھا کریں۔ کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔

کتاب کا مطالعہ کرنا

نادیہ علی، راولپنڈی

خواب: میں  نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی ہوں۔ میری سٹڈی ٹیبل پر جہاں میں اپنی کتابیں رکھتی ہوں وہاں میری بہن کی بھی کچھ کتب پڑی ہوتی ہیں۔ میں ایسے ہی ایک کتاب اٹھا کر اس کا مطالعہ شروع کردیتی ہوں۔ اس میں کافی دلچسپ باتیں لکھی ہوتی ہیں، خاص طور پر مذہبی، صوفیانہ  اور روحانی موضوعات لکھے ہوتے ہیں۔ میں مزے سے اس کو پڑھتی ہوں اور دل میں سوچتی ہوں کہ آپی سے کہوں گی کہ اس طرح کی اور کتابیں بھی لے کر آئیں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا اور اس علم سے آپ فائدہ بھی اٹھائیں گے۔  برے کاموں سے پرہیز ہو گا اور نیکی کی طرف آپ کا ذہن رہے گا ۔ علم کی روشنی سے راہ نجات ہو گی۔ اس نور سے آپ خود کو اور دنیا کو روشن کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت  سے یا علیم کا وردکیا کریں ۔

امی کے ساتھ شاپنگ

بسم اللہ بی بی، قصور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اور میری امی شاپنگ کرنے گئی ہوئی ہیں اور پارکنگ میں ایک افغانی قالین بیچ رہا  ہے ۔ وہ قالین  زبردستی ہم کو بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میری امی تو ذوق و شوق سے اس سے بھاؤ تاؤ کرنے لگی ہوتی ہیں، مگر مجھے بہت کوفت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس بھاؤ تاؤ کے دوران ایک نیا قالین کھلنے پر مجھے بھی پسند آجاتا ہے۔ میں بھی بھاؤ تاؤ کرنے لگ جاتی ہوں اور آخرکار ہم اپنی من چاہی قیمت پر اس کو خرید لیتے ہیں۔ پھر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور میں امی کے ساتھ اس بارے بحث کرتی گھر آجاتی ہوں ۔

تعبیر :۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کاروبار یا ملازمت میں ترقی ہو گی ۔ اس طرح کاروبار میں ایک مخلص یا ایماندار ساتھی بھی مل سکتا ہے۔ گھریلو معاملات میں بھی آرام  و سکون ہو گا۔ مال و وسائل میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاشکور یا عزیز کا ورد بھی کیا کریں۔

بزرگ تحفہ دیتے ہیں

عمران عالم، فیصل آباد

خواب:۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں اپنی جٹھانی کے گھر دعوت پر ہوں اور میرے علاوہ میرے والدین بھی اس دعوت میں مدعو ہیں اور ہم سب کھانے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ اسی دوران ایک مہمان کی آمد ہوتی ہے اور میں بھی سب کے ساتھ ان بزرگ کے احترام میں باہر نکل کر کھڑی ہو جاتی ہوں۔ وہ بزرگ میری چٹھانی کے کوئی ملنے والے ہوتے ہیں۔ چائے کے بعد میں ان کو الوداعیہ کلمات ادا کر رہی ہوتی ہوں تو وہ مجھے ایک باکس تحفے میں دیتے ہیں۔ میں گھر آکر اس کو کھولتی ہوں تو اس میں ایک قرآن پاک اور آب زم زم ہوتا ہے۔ میں آب زم زم پی لیتی ہوں اور قرآن کی تلاوت شروع کردیتی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔آپ کا خواب سعد ہے اور اس بات پر دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو دین کی سمجھ بوجھ عطاء ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں با ترجمہ تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیا کریں۔ کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کردیا کریں ۔

ہرے رنگ کے سانپ

سویرا خان، پشاور

خواب:۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی جنگل میں ہوں۔ جہاں ہر طرف ہرے بھرے درخت اور سبزہ ہے۔ میرے پیچھے ہرے رنگ کے سانپ بھاگ رہے ہیں۔ میں ان سے آگے بھاگ رہی ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اس وقت اتنا وقت نہیں تھا کہ میں تعبیر معلوم کرتی۔ کبھی کبھار یہ خواب یاد آجاتا ہے تو پریشان ہو جاتی ہوں۔

تعبیر:۔ آپ کے خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کی تمام پریشانیوں کا خاتمہ تو ہو چکا ہے۔ اب آپ اپنی پوری توجہ پڑھائی پر دیں۔ مگر صدقہ لازمی حسب توفیق دیتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک کامیاب ڈاکٹر بنائے، آمین۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو یاحیی یا قیوم کا ورد کرتی رہا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


مسائل سے نمٹنے کی فراست اور بصیرت درکار ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں

$
0
0

پاکستان میں اگر برسراقتدار حکومت کو اندازہ ہو جائے کہ اگلا دور ان کا نہیں ہے تو وہ آنے والی حکومت کی رہ میں وہ کانٹے بو جاتے ہیں کہ جنہیں چنتے چنتے ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔

بیرونی و اندرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کا شیڈول ایسا بنایا جاتا ہے جو آنے والی حکومت کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ا س کی اچھی خاصی مشق ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے یہی دونوں پارٹیاں باری باری برسراقتدار آتی رہی ہیں ۔ چنانچہ انہیں قرضوں اور سود کی ادائیگی کے شیڈول کا بھی اندازہ ہوتا تھا اور دوسرے معاشی، اقتصادی اور مالیات کے مسائل کا بھی ادراک ہوتا تھا ۔

مزید قرض لے کر پچھلے قرض کی ایک آدھ قسط اور سود کی ادائیگی کی جاتی تھی، کسی طریقے سے اپنا دور گزارنے کی کوشش کی جاتی تھی سارا بوجھ آنے والی حکومت کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ چونکہ تحریک انصاف کی حکومت پہلی دفعہ مرکز میں برسراقتدار آئی اسے اندازہ نہیں تھا کہ خزانے کی صورتحال کیا ہے، قرضوں اور سود کی ادائیگی کی رقم اور شیڈول کیا ہے ، اصل تجارتی خسارہ کتنا ہے ، برسراقتدار آتے ہی جب انہیں اصل صورتحال کا علم ہوا اور اس بات کااندازہ ہوا کہ تجارتی خسارہ تقریباً بیس ارب ڈالر یعنی 28 کھرب روپے ہے تو نئی حکومت چکرا بھی گئی اور بوکھلا بھی گئی۔

اس بات کا یہی اندازہ ہوا کہ ہر ماہ قرضوں، سود اور درآمدات کیلئے تقریباً 15 ارب ڈالر باہر چلا جائے گا، جبکہ برآمدات کی مد میں تقریباً 1.65ارب ڈالر ماہانہ کے حساب سے آئیں گے، تارکین وطن سے آنے والی ترسیلات زر کو بھی شامل کیا جائے تو بھی 12ارب ڈالر سالانہ کی مزید ضرورت ہو گی ۔ جبکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر صرف 13ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف کی حکومت کا بوکھلا جانا قدرتی امر تھا ۔ انھوں نے وہی کیا جو اس موقع پر ممکن تھا کہ دوست ممالک سے قرضہ اور امداد حاصل کی جائے، آئی ایم ایف کا تعاون حاصل کیا جائے چنانچہ تمام آپشنز پر کام شروع کیا گیا۔

قریبی دوست ممالک نے امید کی کرن تو دکھائی ہے کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے دو ارب ڈالر دے دیئے ہیں مزید ایک ارب ڈالر اگلے ماہ مل جائیں گے۔ ترکی، چین، یو اے ای اور قطر سے بھی ڈالر ملنے کی امید ہے، ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے بھی معاملات طے پا جائیں ۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاؤں ٹکنے کی امید ہو گی ۔

فی الحال عوام مہنگائی کے طوفان اور بنیادی سہولتوں کی نایابی پر پریشان ہیں۔ تحریک انصاف نے پچاس لاکھ مکانات اور ایک کروڑ نئی نوکریوں کا وعدہ کیا تھا ۔ جبکہ بلڈنگ میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے نجی شعبے میں ہونے والی تعمیرات بھی تعطل کا شکار ہیں ۔ بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے بے روزگاری میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے مگر تجارتی خسارے کی وجہ سے ہر سال 10سے 12ارب ڈالر کا حصول ناممکن سا ہے، پھر قرضوں کے سود میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا کہنا ہے کہ روز 2 ارب روپے قرضے اور سود کی ادائیگیوں میں خرچ کئے جا رہے ہیں ۔ سٹیٹ بنک کے مطابق پہلے 6 ماہ کا تجارتی خسارہ 12ارب 55 کروڑ ڈالر ہوا ہے یعنی 18کھرب روپے سے زیادہ اب اتنی بڑی رقم کا حصول ماورائے عقل بات ہے۔

پاکستان پر اتنے زیادہ قرضے کا بوجھ ماضی کی حکومتوں کی نا اہلی اور مفاد پرستی تھی ۔ انتخابی سیاست میں حکومتیں صرف اپنے پانچ سال پورے کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ قلیل المیعاد منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔ حکومتوں نے دیرپا بنیادوں پر کام کرنے کی بجائے بیرونی و اندرونی قرضوں کے ذریعے وہ منصوبے بنائے جو نظر آتے ہیں ۔ مثلاً سڑکوں، پلوں، اورنج ٹرین، میٹرو بس اور موٹروے جیسے مہنگے منصوبے بنائے گئے، تیل کے متبادل ذرائع پر غور نہیں کیا گیا ۔

ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک بیرونی قرضوں کی زیادہ رقم غیر پیداواری یونٹوں پر خرچ کی گئی ۔ قرضہ دینے والوں عالمی اداروں نے بھی اس وقت اپنی آنکھیں بند رکھیں اور پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ماضی کی حکومت نے کرپشن کی بھی حدیں توڑ دیں اور کھربوں روپے باہر کے بنکوں میں جمع کروا دیئے۔ اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے مزید بھگتنا پڑے گا ۔

پاکستان اس وقت اس قدر معاشی نا ہمواری کا شکار ہے کہ فوری طور پر کسی معجزے کی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔ تحریک انصاف کی حکومت کو تمام حقائق عوام کے سامنے لانے چاہئیں، عوام کو بتانا چاہیے کہ سالانہ اتنے کھرب روپے کا نقصان ہے، وقتی پالیسیوں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے مگر دیرپا پالیسیاں بھی فوری طور پر شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

گوادر پورٹ کو فوراً آپریشنل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ موجودہ حکومت گوادر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں مؤثر کردار ادا کرے ،گوادر کو دبئی کی طرز کا انٹرنیشنل اوپن سٹی بنا دیا جائے۔ سی پیک کے اطراف صنعتی زون بنانے کی رفتار تیز کی جائے ۔ ان صنعتی زونز کے اطراف نئی بستیاں بسائی جائیں اور ان بستیوں میں بھی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ اگر گوادر پورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہو گئی اور روس، وسط ایشیا کی ریاستوں سمیت دوسرے ممالک کو پاکستان کی راہداری حاصل ہو گئی تو پاکستان کو راہداری کی مد میں تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع ہے اس رقم میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس منصوبے کی تکمیل میں امریکہ اور یورپ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ اگر روس، وسط ایشیا کی ریاستوں اور دوسرے ممالک کو پاکستان کی راہداری حاصل ہو جائے تو عالمی تجارتی کلچر ایک دم بدل جائے گا۔

روس اور امریکہ میں جاری سرد جنگ میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، امریکہ افغانستان میں کبھی بھی ایسا امن معاہدہ نہیں ہونے دے گا کہ جس کی وجہ سے روس کو افغانستان سے گزر کر گوادر پورٹ پہنچنے کا موقع ملے۔ افغانستان میں امریکہ، نیٹو اور ایساف ممالک کی موجودگی کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ ملک پاکستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کے درمیان موجود ہے۔ گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے افغانستان کا راستہ استعمال کرنا ضروری ہے مگر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک یہاں موجود ہیں اور وہ اس وقت تک موجود رہیں گے کہ جب تک معاملہ ان کے بس سے باہر نہ ہو جائے۔ چین کا عالمی سیاست میں اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، ادھر روس بھی ازسر نو مضبوط ہو رہا ہے۔

نظر تو یہی آتا ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی گرفت افغانستان میں کمزور ہو گی۔ مگر موجودہ حکومت کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اندرون ممالک سی پیک، گوادر پورٹ اور گوادر شہر کا بنیادی ڈھانچہ جلد از جلد مکمل کرے ۔ ایک دفعہ بنیادی ڈھانچہ اور صنعتی شہر مکمل ہو جائیں تو خارجی محاذ سے نپٹنا آسان ہو جائے گا۔ حکومت کی ساری توجہ سی پیک کی تکمیل کی جانب ہونی چاہیے۔

چین اور روس سمیت وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات میں مزید اضافہ بھی ہونا چاہیے اور یہ تعلقات باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس وقت چین، پاکستان، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین مضبوط رشتے استوار ہونا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس راہ میں امریکہ اور یورپ کی سازشوں اور دشمنی کے خطرات بھی موجود ہیں، وہ بھارت اور پاکستان کے کئی دوست مسلم ممالک کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں مگر تدبر اور خاص بصیرت کے ساتھ ان معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں معدنیات کے ذخائر کی انتہا ہے، ان معدنیات کو فوری طور پر نکالنے کی حکمت عملی بنائی جائے، سروے کیلئے چین اور روس کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے، اگر معدنیات کو نکالا جائے تو صرف تین سال بعد پاکستان کی تجارت میں توازن پیدا ہو جائے گا ۔ پاکستان میں سیاحتی اور پہاڑی مقامات کی فراوانی ہے مگر امن و امان کی صورتحال اور دیگر عوامل کی وجہ سے بیرونی سیاحوں کی آمد مکمل طور پر بند ہے، ان مقامات میں بنیادی سہولتیں عام کی جائیں، دشوار گزار راستوں کو آسان بنایا جائے۔ روز مرہ کے استعمال کی قیمتیں مناسب رکھی جائیں اور ان علاقوں میں پاکستانی مصنوعات کی فروخت کی مؤثر منصوبہ بندی کی جائے ۔ ہر علاقے کی دستکاری کی مناسب مارکیٹنگ کی جائے۔

اس وقت پاکستانی ایکسپورٹ کا دارومدار بھی خام مال کی امپورٹ سے مشروط ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے اب یہ خام مال بھی مہنگے داموں امپورٹ ہو رہا ہے اس کا اثر آنے  والے وقت میں پڑے گا کہ جب ہم عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی کمزور پوزیشن میں ہوں گے اور پاکستانی تیار مصنوعات کے ریٹ دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہوں گے۔ اس کا سد باب بھی بہت ضروری ہے ۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاروں، برآمد کنندگان اور تاجروں کو ٹیکسوں میں کیا چھوٹ دی جا سکتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہاں پیداوار دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہرین کی رائے لی جائے کہ زراعت اور جانوروں کی افزائش میں کس طرح اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت عوام بجلی اور گیس کے بحران سے پریشان ہے، کمزور قومی خزانے کی وجہ سے حکومت آئی پی پی پیز سے زیادہ بجلی خریدنے سے گریزاں ہے بلکہ حکومت کی کوشش ہے کہ گردشی قرضے میں مزید اضافہ نہ ہو، بجلی پیدا کرنے کیلئے فرنس آئل اور پٹرول کے استعمال میں بھی بچت کی جائے تاکہ کچھ تو زرمبادلہ بچ سکے۔ مگر عوام کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گیس تو پاکستان سے ہی نکلتی ہے، ایل این جی درآمد کرنے کی بجائے گیس کے مزید ذخائر تلاش کیے اور ستعمال کیے جائیں ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ جس مشکل کا سامنا ہے وہ سابقہ حکومتوں کے وہ وفادار بیوروکریٹس ہیں کہ جن کی ساری وفاداری ریاست کی بجائے حکومت سے تھی، یہ افراد حکومت سے بھی ہٹ کر خاندانوں کے وفادار بن گئے ۔ اگر ان بیوروکریٹس کی ذاتی قابلیت اور لیاقت دیکھی جائے تو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی اصل خوبی خاندانوں سے وفاداری ہے۔ ان کی ساری توانائیاں ریاست کی بجائے برسر اقتدار خاندانوں کو فائدہ پہنچانے میں صرف ہوئی ہیں ۔ اب بھی یہی لوگ بیوروکریسی میں موجود ہیں، تحریک انصاف انہی افراد کے ساتھ حکومت چلانے پر مجبور ہے۔

تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا نعرہ تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں گے، ہر پاکستانی اس کا خواہشمند بھی تھا مگر پارلیمنٹ میں مؤثر قانون سازی کی ابھی تک ٹھوس کوشش نہیں کی گئی ، اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی قانون سازی میں کامیاب ہو گئی تو عوام کو کسی حد تک امید اور سکون حاصل ہو جائے گا ۔

ملکی سیاست اور بیورو کریسی میں اہل اور قابل افراد کے آگے آنے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ملکی ایجنسیوں کی خدمات سے یہ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے ۔ مخالفین تحریک انصاف کو طنزاً ’’تبدیلی سرکار‘‘بھی کہتے ہیں، حکومت ملک میں انتشار کے خوف کی وجہ سے سخت ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے مگر حالات اور بھی دگرگوں ہو سکتے ہیں، عوام ایک دفعہ مکمل مایوسی اور نا امیدی کے عالم میں چلے گئے تو قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اور تبدیلی کیلئے سازگار حالات بنانے کیلئے مزید انتظار ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو یہ ’’ایڈ وانٹیج‘‘ بھی حاصل ہے کہ ابھی تک انہیں تعلیم یافتہ عوام کی حمایت حاصل ہے، پڑھا لکھا طبقہ آج بھی تحریک انصاف کے پیچھے کھڑا ہے حکومت کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، حکومت کے سخت اقدامات کے نتیجے میں انہیں ملک کے مخالف طبقے کی زیادہ حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

عوام کے سامنے ملکی صورتحال رکھنا اشد ضروری ہے، انہیں تمام معاملات سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے، غیر ملکی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ ہم ہمیشہ غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار بن کر زندگی گزار سکتے ہیں ۔

عوام کو موجودہ حکومت سے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ اب بھی غریب اور مڈل کلاس پر ہے، جو لوگ محلوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں ان سے ذرائع آمدنی کا اب بھی نہیں پوچھا جا رہا ۔ موجودہ حکومت نے ناجائز قبضوں کے خلاف مہم شروع کی تو وہ بھی رسمی سی کاروائی محسوس ہو رہی ہے وگرنہ اس وقت بھی ہزاروں شہری جائیداد اور خود حکومت اپنی املاک سے محروم ہے ۔ ہر قبضہ گروپ کو سیاسی راہنماؤں کی سر پرستی حاصل رہی ہے اب بھی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت ڈالر ریٹ کے معاملے میں ’’ٹریپ‘‘ ہوئی ہے جس کی وجہ سے ساری معیشت لرز کر رہ گئی ہے حکومت کو جلد بازی میں یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا ، کئی دوسرے حل تھے جن پر توجہ نہیں دی گئی کچھ عرصہ دباؤ برداشت کرنے کی ضرورت تھی، ڈالر مہنگا ہونے کے نقصانات فائدے کی نسبت زیادہ ہیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت کی ساری توجہ اس وقت عوام کو معاشی ریلیف، انصاف اور بنیادی سہولتوںکی فراہمی کی جانب ہونی چاہیے وگرنہ پاکستان کے بد خواہ ممالک پاکستانی عوام کی بدحالی کا مستقبل میں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار خاصی سست ہو چکی ہے، اس کی بڑی وجہ معاشی مسائل کو قرار دیا جا رہا ہے، مگر مناسب اور مؤثر منصوبہ بندی سے ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے، اگر سرکاری زمینوں سے قبضہ چھڑوا لیا جائے اور انہیں فروخت کر دیا جائے تو اتنی رقم حاصل ہو سکتی ہے کہ ملک میں ہر جگہ ترقیاتی منصوبوں کی بہتات نظر آسکتی ہیں۔

پر دیکھا جائے تو مسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں، مؤثر حکمت عملی کا فقدان ہے، حکومتی ٹیم نئے انداز میں کام کرنے میں فی الحال کامیاب نہیں ہے شاید بیوروکریٹس پر انحصار زیادہ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ٹیم بیوروکریٹس کو واضح حکمت عملی دینے میں اور کام لینے میں ناکام رہی ہے ۔ اگر روائتی طور طریقے ہی اپنانے تھے تو ’’نیا پاکستان‘‘ کیسے بنے گا۔

تحریک انصاف سے عوام نے جو امیدیں قائم تھیں وہ آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ بنیادی سہولتوں، تعلیم، علاج، خوراک، بجلی، گیسں، پانی اور انصاف کے حصول میں عوام کو پہلی سی دشواریوں کا سامنا ہے، موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو 1122ریسکیو جیسی سروس شروع کی گئی، ہسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ دیہی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔

دیہی علاقوں میں اسکولوں اور طبی مراکز قائم کرنا اشد ضروری ہے۔ آمدورفت کیلئے پختہ سڑکوں کی تعمیر بھی ضروری ہے، پولیس کلچر میں تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ بری شہرت کے افسران اور ملازمین کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے، اس کے لئے نئی قانون سازی بھی کرنی پڑے تو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ بدعنوان، نااہل، سازشی اور شخصیات کے وفادار سرکاری افسران اور ملازمین سے اگر چھٹکارہ پا لیا جائے تو نئی نسل کے لئے سرکاری نوکریوں کے دروازے کھل جائیں گے ۔

پاکستان میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی ناقدری بھی اسی لئے ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کو اپنا روشن مستقبل نظر نہیں آتا ۔ اب نظام کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے کہ ’’فالتو‘‘ میٹریل ضائع کرکے کارآمد’’اشیا‘‘ کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت مسائل تو موجود ہیں مگر اتنے گھمبیر نہیں کہ ان کا حل ہی موجود نہ ہو ۔

The post مسائل سے نمٹنے کی فراست اور بصیرت درکار ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل

میں چاہتا ہوں محبت میں معجزہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں مگر کوئی مسئلہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں خدا پر یقین ہو میرا

میں چاہتا ہوں زمیں پر کوئی خدا بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو

میں چاہتا ہوں کہانی میں کچھ نیا بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں قبیلے میں نام ہو میرا

میں چاہتا ہوں قبیلے سے واسطہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں جدائی کا موڑ آجائے

میں چاہتا ہوں محبت میں راستہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص ٹوٹ کر آئے

میں چاہتا ہوں مرے پاس مشورہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں تمھیں بات بات پر ٹوکوں

میں چاہتا ہوں تمھاری کوئی سزا بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں مری جان بھی چلی جائے

میں چاہتا ہوں مرے ساتھ حادثہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں ترے نام ایک نظم کہوں

میں چاہتا ہوں ترا اس میں تذکرہ بھی نہ ہو

میں چاہتا ہوں کہ شہزادؔ آ ملے مجھ سے

میں چاہتا ہوں وہ لڑکا بجھا بجھا بھی نہ ہو

(شہزاد مہدی، اسکردو، گلگت بلتستان)

غزل

آنکھوں میں کیا چبھتا ہے یہ

مجھ کو آنسو لگتا ہے یہ

تکیے پر اک کانچ کا  ٹکڑا

شاید ٹوٹا سپنا ہے یہ

کیسی دستک دروازے پر

تیز ہوا کا جھونکا ہے یہ

اس نے دل پر ہاتھ رکھا تھا

اس دن ہی سے بہکا ہے یہ

مجھ کو تم ہو جان سے پیارے

اب وہ کس کو لکھتا ہے یہ

(ہاشم امن، لاہور)

غزل

سو میں نے اس کو بھی چوما ہوا ہے

جو پتھر عرش سے آیا ہوا ہے

ذرا ڈھلکا ہوا لگتا تھا پہلے

شجر جڑ سے مگر اکھڑا ہوا ہے

خوشی سے ہجر جس نے کاٹنا تھا

اُسی نے نبض کو کاٹا ہوا ہے

چُھپا کر درد بنیادوں میں  ہم نے

مکان اُس پر ہی اُٹھوایا  ہوا ہے

اگرچہ قصبے ویراں ہو رہے ہیں

مگر کیوں  شہر گھبرایا ہوا ہے

(عرفان حاشر، لاہور)

’’محبت‘‘

وہ کہتا ہے۔۔۔

محبت بس ہے خاموشی

میں کہتی ہوں

محبت اب بھی میرے کان میں کرتی ہے سرگوشی

وہ کہتا ہے

محبت دل میں ہونا ہی ضروری ہے

میں کہتی ہوں

نہیں اظہار کرنا بھی ضروری ہے

وہ کہتا ہے

محبت میں جدائی ہی مقدر ہے

میں کہتی ہوں

مقدر خود بنائے جو وہی ہوتا سکندر ہے

وہ کہتا ہے

محبت ازل سے کارِ اذیت ہے

میں کہتی ہوں

کہ سب پہ مہرباں ہونا محبت کی طبیعت ہے

وہ کہتا ہے

محبت آنکھ سے بہتا ہوا غم ہے

میں کہتی ہوں

محبت ہر طرف کھلتی ہوئی کلیوں کا موسم ہے

وہ کہتا ہے

محبت تو ہمیشہ درد دیتی ہے

میں کہتی ہوں

محبت جھولیاں بَھر بَھر دعائیں بھی تو لیتی ہے!!!

(علیزے راجپوت، منڈی بہاؤ الدین)

غزل

گلی سے گزروں تو اس پر بھی دھیان پڑتا ہے

وہ جس کا گھر مرے رستے میں آن پڑتا ہے

اب اس سے آگے کوئی شخص بھی نہیں رہتا

اب اس سے آگے تو خالی مکان پڑتا ہے

میں روز شب کا اکیلے عذاب سہتا ہوں

بدن پہ روز ہی تازہ نشان پڑتا ہے

ہماری راہ میں دیوار اب نہیں پڑتی

ہماری راہ میں اب آسمان پڑتا ہے

اس آئنے میں ترا عکس مستقل ہے حیاتؔ

وہ آئنہ جو مرے درمیان پڑتا ہے

(دانش حیات، کراچی)

’’آواز‘‘

اے مرے رقص کے تکمیلی مراحل کی وجہ

اے مرے اذنِ اسیری کے تکلف کے سبب

غیر کو کس لیے آواز دیے جاتے ہو؟

یہ بھی تو بات مری ذات کی تقسیم کی ہے

یہ بھی ہے ظرف مرا، روز بلانے والا

ایک جانب جو مسلسل سکوت چھایا ہے

یہ مری ادھ جلی شمع کی بدولت ہی ہے

یہ مرا نام، تری ’’نہ‘‘ کی بدولت ہی ہے

نقص تو ہو گا، میں اندر سے تو خالی ہی ہوں

یہ جو جلوے تری نسبت سے سجا رکھے ہیں

تو نے پھیرا ہے مجھے، میں تو سوالی ہی ہوں

ہاں جو خالی ہے مرا کاسہ، تری خاص عطا

تیرے کاسے میں کوئی ایک بھی سِکہ دے تو

یہ بھی ممکن ہے تگ و دو مری مدھم ہو لے

یہ بھی ممکن ہے مری چاہ کی آتش کم ہو

یہ مری چاہ تری ’’نہ‘‘ کی بدولت ہی ہے

میں تو چوکھٹ سے لگا ہوں، سو یہیں رہنا ہے

میں نے اِک پَل بھی ترے پاس سے جانا ہی نہیں

غیر نے مجھ سے زیادہ تو نبھانا بھی نہیں

اے مرے رقص کے تکمیلی مراحل کی وجہ

غیر کو کس لیے آواز دیے جاتے ہو؟؟؟

(وجاہت باقی، اسلام آباد)

غزل

عشق اپنا شعار تھا، نہ رہا

خود پہ جو اختیار تھا، نہ رہا

گفتگو آپ سے میں کیا کرتا

جو کبھی اعتبار تھا ، نہ رہا

ہجر کی رات کٹ گئی یارو!

دل مرا سو گوار تھا، نہ رہا

اس لیے مے کی اب ضرورت ہے

پیار کا جو خمار تھا، نہ رہا

اپنے رستے جدا ہوئے جب سے

وہ جو دل میں قرار تھا، نہ رہا

عادتاً اب شراب پیتا ہوں

جو غموں کا شمار تھا، نہ رہا

آج غم کی گرفت میں ہے شفیؔ

ایک دل غمگسار تھا ، نہ رہا

(ملک شفقت اللہ شفی، جھنگ)

غزل

یاد کے آنے تک سناٹا ہوتا ہے۔۔۔

آ جائے تو خوب تماشا ہوتا ہے

رستے سارے ایک طرف ہی جاتے ہیں

ایک طرف ہی سارا پہرا ہوتا ہے

ایک طرف ہی آنکھیں تکتی رہتی ہیں

ایک طرف ہی منظر اچھا ہوتا ہے

نیم کی چھاؤں دھوپ میں کیسی ہوتی ہے؟

ٹھنڈا چشمہ پیاس میں کیسا ہوتا ہے؟

صحرا میں خاموشی بین نہیں کرتی

شہروں میں آواز کا پرسا ہوتا ہے

میں جب چھت پر بادل دیکھنے آتا ہوں

ایک پرندہ دھوپ میں بیٹھا ہوتا ہے

ہم نے تو بچپن سے بس یہ بات سنی

دریا سے نیزے کا رشتہ ہوتا ہے

(کامران نفیس، کراچی)

غزل

اتنا ہے مجھے یاد کہ ساون کی جھڑی تھی

اک شوخ سے جس وقت مری آنکھ لڑی تھی

کیا پوچھتے ہو پہلی ملاقات کا موسم

وہ پہلی ملاقات قیامت کی گھڑی تھی

تپتی ہوئی آنکھوں میں سلگتے رہے آنسو

پیروں میں ترے ہجر کی زنجیر پڑی تھی

تنہائی کے عالم میں تڑپ کر جو گیا مر

مخلوقِ خدا اس کے جنازے میں بڑی تھی

اک عمر سے جس شکل کو میں ڈھونڈ رہا ہوں

وہ شکل مری ذات کی گم گشتہ کڑی تھی

تھا اوج پہ ذاکرؔ کے مقدر کا ستارہ

جب سامنے آنکھوں کو جھکائے وہ کھڑی تھی

(ذاکر حسین خان، شور کوٹ، جھنگ)

غزل

جامِ خم دار کا مزہ لیں گے

لب و رخسار کا مزہ لیں گے

پھول رخسار  پر ہے آ کے لگا

مخملیں مار کا مزہ لیں گے

کچھ نہیں ہم خریدنے والے

حسنِ بازار کا مزہ لیں گے

دردِ تنہائی ہے حویلی میں

در و دیوار کا مزہ لیں گے

اک ملاقات اور خدا حافظ

آخری بار کا مزہ لیں گے

(مکرم حسین زمزم، گوجرانوالہ)

غزل

آج سیرِ گلشن میں ساتھ ایسا ہم دَم ہے

پھول جس پہ نازاں ہیں اور نثار شبنم ہے

دے رہے ہو قطرہ تم تشنگی بجھانے کو

جب کہ اک سمندر بھی لمس کا مجھے کم ہے

وہ بدن ہے گویا چاند اور گل کا آمیزہ

دونوں ہیں نمایاں پر اک میں دوسرا ضم ہے

آج پھر سہولت ہے مجھ کو دیدِ جاناں کی

اور مرے دماغ و دل میں وہی تصادم ہے

اک حسیں کی یادوں کے ابر رات بھر برسے

کشتِ دل ذرا دیکھو آج پھر ہوئی نم ہے

کس قدر مقدر کی یہ ستم ظریفی ہے

میں یہاں کراچی اور جان میری جہلم ہے

(قمر آسی، کراچی)

غزل

ہماری بانہوں میں آنے والا تو مَر گیا تھا

یہ بات سنتے ہی شہر سارا تو ڈر گیا تھا

وہ جانتا تھا میں قسمیں کھانے کے ہوں مخالف

اسی لیے تو وہ قسمیں کھا کے مُکر گیا تھا

وہ جس بشر کو فقیر دیتا تھا بددعائیں

وہ شخص میں تھا جو ریزہ ریزہ بکھر گیا تھا

کچھ اس لیے بھی اکیلے ملنے میں مسئلہ تھا

میں اپنے اندر ہوس کی گونجوں سے بھر گیا تھا

اداس کھڑکی  قریبی کمرے سے لگ کے رو دی

کہ اس کے مالک کا سایہ کمرے میں مَر گیا تھا

ہوس، کفن، درد، وحشتیں سب پتا تھا لیکن

وہ عشق جیسی قضا سے ملنے مگر گیا تھا

(فراز حیدر نین، ڈیرہ غازی خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

پیپلزپارٹی کے ساتھ جو ضیا الحق نہ کر سکا، وہ آصف زرداری نے کر دیا، بیرسٹر کمال اظفر

$
0
0

ہماری سیاست میں علمیت وقابلیت، شائستگی، عاجزی اور انکساری جیسی خصوصیات اب ذرا خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ لیکن اگر کسی شخصیت میں آپ کو یہ سارے خواص یک جا محسوس ہوں، تو کم سے کم اُس لمحے آپ خود کو خوش نصیب سمجھنے میں حق بہ جانب ہیں۔۔۔اور آج کی ملاقات کچھ اسی کا بیان ہے۔۔۔

آج کل اُن کے منظر عام سے ذرا دور رہنے کے سبب اُن تک رسائی میں ہمیں کافی کھوج لگانا پڑی، لیکن اُن کا پتا معلوم ہوتے ہی یہ رسائی سہل تر ہوئی۔۔۔ اور ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے، جب ہم اُن کی رہایش کے قریب کچھ بھٹکے، تو وہ شان بے نیازی سے خود ہی اپنی گاڑی دوڑائے آن موجود ہوئے۔۔۔ جب ہم اُن کے دولت کدے پہنچے تو یہ بھی نہیں تھا کہ کوئی ڈرائیور یا مددگار موجود نہ ہو۔۔۔ لیکن یہ اُن کی ادائے مہمان نوازی تھی۔۔۔ چند لمحوں میں ہم اُن کی ’مہمان گاہ‘ میں تھے، جہاں کی دیواریں مختلف دستاویزات اور تصاویر کے ذریعے تاریخ کہتی محسوس ہوتی تھیں۔۔۔ لیکن ہم نے یہ کتھا اپنے میزبان کی زبانی سننا تھی۔۔۔ یہ بیرسٹر کمال اظفر ہیں۔۔۔

’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔‘ رسمی کلمات کے بعد گفتگو جب ماضی کے واقعات کو منظر کرنے لگی۔۔۔ تو اسے اپنے دیگر سوالات تلے روندنے کا جبر ہم سے تو بہت دیر تک نہ ہوسکا۔۔۔ چناں چہ ہم گاہے بگاہے ٹکڑے لگا کر اپنی تشنگی دور کرتے رہے۔۔۔ یہ گفتار گنگا جمنا اور تاریخ و تہذیب، سیاست اور برصغیر کے بٹوارے جیسے موڑ کاٹتے ہوئے آگے تک چلی آئی، اور پھر اس میں باقاعدہ ذکر ہوا ذوالفقار علی بھٹو کا۔۔۔

وہ بولے کہ سب سے پہلے 3 مارچ 1947ء کو کانگریس نے پنجاب کی تقسیم کی قرارداد پیش کی۔ موہن داس گاندھی تقسیم کے سخت خلاف تھے، جب کہ نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے بٹوارے کی حمایت کی۔ اس اجلاس میں ابوالکلام آزاد اور گاندھی غیرحاضر تھے۔ گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے نہرو اور پٹیل کو خط لکھا کہ آپ نے ایسی فرقہ ورانہ تقسیم کی قرار داد سے تو خود پاکستان کی بنیاد رکھ دی! پٹیل نے انہیں جواب دیا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ ’’پاکستان باقی رہے گا۔۔۔!‘‘ کمال اظفر کہتے ہیںکہ نہرو کی نظریں دریائے ستلج اور بیاس پر تھی، اسی لیے 1949ء میں ہی انہوں نے ستلج پر بھاکرا نگر ڈیم بنا دیا۔

بیرسٹر کمال پاکستان بچانے میں ذوالفقار بھٹو کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جان دے دی، جوہری توانائی کا حصول اُن کی وجہ قتل بنا۔ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے انہیں دھمکی دی تھی۔‘

’’تو ہمارا اتنا بڑا ادارہ اس سازش میں ملوث ہوگیا؟‘‘ ہماری یہ حیرانی بے ساختہ تھی۔ وہ بولے 1964ء میں منیر احمد خان ’انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی‘ (ویانا) میں تھے، بطور وزیر خارجہ بھٹو وہاں گئے، تو منیر احمد خان سے ملے، انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں جوہری توانائی کا انسٹی ٹیوٹ بن گیا ہے اور وہ 10 سال میں ایٹم بم بنا سکیں گے، بھٹو نے جنرل ایوب خان کو اس پر کام کا مشورہ دیا، جو انہوں نے ’منہگا‘ کہہ کر رد کردیا۔ جب انہیں اقتدار ملا، تو انہوں نے منیر کو براہ راست ملتان کے جلسے میں بلایا اور اعلان کیا کہ ’ہمیں گھاس بھی کھانا پڑی تو کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے اور میں منیر احمد خان کو ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کا چیئرمین مقرر کر رہا ہوں۔۔۔!‘ جلسے کے بعد بات ہوئی کہ آپ نے بنا کچھ کہے سنے جلسے میں اعلان کردیا؟ تو بھٹو نے منیر احمد خان سے کہا ’مجھے پتا ہے کہ آپ کی بیوی آسٹرین ہے، اگر میں پہلے کہتا تو ہوسکتا ہے، آپ کہتے میں اپنی بیگم سے پوچھ لوں۔۔۔ اب آپ جواب دیں پاکستان کے عوام کو۔۔۔!‘ خیر پھر ہنری کسنجر نے ہمارا ری پراسسنگ پلانٹ منسوخ کیا، لیکن ہم نے دوسرا کہوٹہ والا شروع کر دیا۔ منیر احمد خان کہتے ہیں کہ میرے سامنے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ہم تمہیں خوف ناک مثال بنادیں گے  (Make an horrible example of you) کمال اظفر کہتے ہیں کہ اس سازش میں ضیا الحق ملوث تھے، انہوں نے اردن میں فلسطینیوں کو مارا، پھر ان کی افغان حکمت عملی کے ثمرات ہم اب تک بھگت رہے۔ ہم نے تو کراچی میں ’کلاشنکوف‘ کا نام ہی نہیں سنا تھا۔ یہاں روسی سفیر ’کے جی بی‘ کا تھا، اس نے الٰہی بخش سومرو سے کہا تھا کہ ہم یہاں اتنے ہتھیار چھوڑ کر جا رہے ہیں، کہ آپ 50 سال تک امن سے نہیں رہ سکیں گے، پھر امریکی اسلحہ اس کے علاوہ تھا۔

جنرل ایوب خان کی کابینہ کے حوالے سے کمال اظفر بتاتے ہیں کہ اس میں دوگروپ تھے، ایک وزیرخزانہ محمد شعیب کا، جو 1965ء کی جنگ کا مخالف تھا، دوسرا بھٹو کا، جو جنگ کا حامی تھا۔ 1966ء میں جب ذوالفقار بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفا دیا، توکمال اظفر کے والد نے انہیں چائے پر بلایا اور کہا کہ آپ کا بہت مستقبل ہے۔

کمال اظفر بتاتے ہیں کہ وہ 1969ء میں جب آئوٹ لک اخبار میں لکھ رہے تھے، تب حفیظ پیرزادہ کے ہم راہ پہلی بار ذوالفقار بھٹو سے ملے، انہوں نے دوبارہ ملاقات کی خواہش کی۔ جس کے لیے بعد میں وہ حفیظ پیرزادہ سے کہتے رہے، لیکن حفیظ ٹالتے رہے، کمال اظفر کا خیال ہے کہ حفیظ کی تعلیم اُن سے کم تھی اور وہ اُن سے حسد رکھتے تھے، کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے حلقے میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ہی نہ دیا تاکہ میں نہ جیت سکوں، شاہ راہ قائدین پر میرے انتخابی جلسے میں بھی انہوں نے بھٹو کو روکنے کی کوشش کی کہ نہ جائیں، خطرہ ہے۔

خاندانی مراسم کے سبب کمال اظفر چند ماہ ’مسلم لیگ‘ (کونسل) میں بھی رہے، جس کے صدر ممتاز دولتانہ نے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا تو وہ بہت متفکر ہوئے کیوں کہ وہ خود کو بائیں بازو کا سوشلسٹ کہتے ہیں۔ اسی عرصے میں لاہور سے آتے ہوئے جہاز پر ذوالفقار بھٹو دوبارہ ملے، انہوں نے کہا ’تم تو لیفٹسٹ ہو، وہاں کیا کر رہے ہو؟‘ ساتھ ہی ملاقات نہ ہونے کا شکوہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ حفیظ کبھی لے کر نہیں آئے، پھر انہوں نے یونس سعید کو میرے پاس بھیجا۔ یوں کمال اظفر 1970ء میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔

ذوالفقار بھٹو کے ساتھ ایک سال بطور ’نجی معتمد اعزازی‘ کے طور پر کام کرنے کو وہ اپنی سب سے بڑی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’1970ء کے انتخابات کی فتح سے منتقلی اقتدار تک ساری خط وکتابت میرے سپرد رہی، پھر وزیر اور دو دفعہ سینیٹر اور ایک مرتبہ گورنر رہا، لیکن وہ سب سے زیادہ قیمتی دور تھا۔‘

کمال اظفر کہتے ہیں کہ میں انتخابات نہیں لڑنا چاہتا تھا، لیکن بھٹو صاحب نے بنا درخواست دیے، مجھے ٹکٹ دینے کی ہدایت کی اور پوچھا کہ کہاں سے انتخاب لڑیں گے، تو انہوں نے اپنی رہائش (امیر خسرو روڈ، کراچی) کا حلقہ چُنا، جو برنس روڈ تک دراز تھا، یہاں کے سابق رکن اسمبلی حسن شیخ (مسلم لیگ) بھی چنائو کے دن جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ مولانا ظفر انصاری کے حق میں بیٹھ گئے، یوں وہ فتح یاب نہ ہو سکے۔

سوشلسٹ ہونے کے تعلق سے گفتگو میں ذکر ہوا کہ بائیں بازو والے تو جلد ہی پیپلزپارٹی کو چھوڑ گئے؟ تو وہ بولے کہ ’میں میں کمیونسٹ نہیں، سوئیڈن میں رہا ہوں، تو مجھ پر وہاں کی سماجی جمہوریت کا اثر ہے، وہاں پیدائش سے موت تک ریاست بنیادی ضروریات کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہ ادارے قومیاتے نہیں، بلکہ اپنے ارب پتیوں پر 50 فی صد ٹیکس عائد کرتے ہیں، وہ دولت کے بہ جائے آمدن تقسیم کرتے ہیں۔ 80 فی صد کاروبار نجی ہیں۔ یہ ’سوشل ڈیموکریسی‘ دراصل ’اسکینڈے نیوین سوشلزم‘ ہے۔‘

مشہور بیورو کریٹ الطاف گوہر کے حوالے سے بیرسٹر کمال بتاتے ہیں کہ اُن کے لیے یہ مشہور تھا کہ ان سے زیادہ چالاک ہو تو وہ پاگل ہوتا ہے! جب جنرل یحییٰ نے الطاف گوہر کو نکالا تو وہ ’ڈان‘ اخبار کے مدیر بن گئے۔ بھٹو نے جب تقریر میں کہا کہ ہمالیہ روئے گا، تو الطاف گوہر نے اداریہ لکھا کہ ’پہاڑ نہیں روتے!‘ جس پر بھٹو نے انہیں جیل میں ڈال دیا، ان کی کسی بنگالی محبوبہ کے خطوط ہائی کورٹ میں دکھائے گئے، پھر معافی ہوگئی، تو ان کے بھائی تجمل حسین کو ملائیشیا میں سفیر بنایا اور الطاف کو روٹی پلانٹ دے دیا۔

بھٹو کے زوال میں ہنری کسنجر کی دھمکی کے ساتھ قومیائے جانے کی شدید حکمت عملی کو قرار دیتے ہوئے کمال اظفر کہتے ہیں کہ کاٹن، چاول اور گندم کی ہزاروں صنعتیں اس متوسط طبقے کی بھی تھیں، جنہوں نے جاگیرداروں کے خلاف پیپلزپارٹی کی حمایت کی، وہ جہاں رہتے تھے وہیں چکی بھی لگی ہوئی تھی، اسے قومیانے سے وہ بہت پریشان ہوئے۔ پنجاب فلور مل کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اُن کے پاس جو پیسے رہ گئے تھے، وہ انہوں نے حکومت مخالف اتحاد ’پی این اے‘ کو دے کر کہا کہ بھٹو کو نکالو۔ وہ ڈر گئے کہ کل ہماری سائیکل لے لیں اور ہمارا پلاٹ کینسل کر دیں گے، جب کہ پیپلزپارٹی کے منشور میں بڑی فیکٹریوں کو قومیانے کا ذکر تھا، نچلے درجے تک ادارے قومیانے کی تجویز الطاف گوہر نے دی۔۔۔!

اس معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے بیرسٹر کمال اظفر نے کہا جلیل  صاحب نے تیل کمپنی ’شیل‘ کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے ’پی ایس او‘ بنائی، وہ قومیالی گئی۔ انہیں پرنسپل سیکریٹری نے بتایا تھا کہ قومیائے جانے کی یہ پالیسی الطاف گوہر نے دی، پھر جلیل صاحب نے الطاف گوہر سے بھی پوچھا، انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو کہا ’آپ نے کیسے اتنی احمقانہ تجویز دے دی؟ تو الطاف گوہر بولے کہ انہیں (بھٹو) باہر کرنے کے لیے یہی ایک راستہ تھا (That was the Only way to get him out)

یہاں پہنچ کر کمال اظفر تاسف سے ٹھیر جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ’17 جولائی 1976ء کو یہ ہوتا ہے اور صرف ایک سال میں وہ باہر ہو جاتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو ہم بہت مضبوط تھے۔‘

بیرسٹر کمال اظفر ذوالفقار بھٹو کے مقدمے میں پیروی کرنے والے وکلا میں بھی شامل رہے، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’بھٹو کی پہلی ضمانت بھی ہم نے کرائی۔۔۔ اس میں حفیظ پیرزادہ اور یحییٰ بختیار نہیں تھے۔‘ پیپلزپارٹی سے دوریوں کے باب میں کمال اظفر نے بتایا کہ ایک معتدل گروپ مصطفیٰ جتوئی اور ایک جارح گروپ حفیظ پیرزادہ کا تھا۔ وہ معتدل گروہ میں تھے، جو کہتا تھا کہ حالات ایسے نہیں کہ فوج کو جا کر دھمکی دی جائے۔

کمال اظفر نے انکشاف کیا کہ کراچی میں انہیں یاسرعرفات کی فلسطینی آزادی کی تنظیم (پی ایل او) نے پیغام دیا کہ ہم انہیں ملک سے باہر نکلوانے کا انتظام کر سکتے ہیں، لیکن طریقۂ کار نہیں بتایا۔ انہوں نے یہ بات بھٹو صاحب تک پہنچائی، جس پر انہوں نے کہا کہ I am prepared to listen to that voice to leave the country

کمال اظفر کہتے ہیں کہ ’جلاوطنی میں جانا کوئی بری بات نہیں ہے، لینن بھی تو بہت بڑا آدمی تھا، وہ فروری 1917ء میں واپس آئے، تو انہیں کہا گیا کہ آپ خطرے میں ہیں، تو وہ فن لینڈ چلے گئے، پھر جب اکتوبر میں دوسرا انقلاب آیا تو وہ وطن واپس آئے، اسی طرح خمینی بھی پہلے ملک چھوڑ کر گئے۔‘

وہ تصادم کی حکمت عملی کو غیرعقل مندانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے نظیر نے تب ہی مجھے واپس بلایا۔ ہم نے براہ راست پوچھا کہ ’آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھٹو کو بھی جلاوطن ہو جانا چاہیے تھا؟‘ تو وہ بولے:

’’بالکل۔۔۔! آج اُن کی عمر 90 سال ہوتی اور ان کا سایہ ہم پر اور ملک پر ہوتا۔‘‘

’اس کے بعد آپ ’نیشنل پیپلزپارٹی‘ میں چلے گئے؟‘ ہم نے اُن کی سیاسی وابستگی کو ٹٹولا۔ وہ بولے کہ ’ہم مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ نکالے گئے، معطل ہوئے کہ ہم جتوئی کے ساتھ مل کر ضیا الحق سے ذوالفقار بھٹو کے لیے محفوظ راستے کی بات کر رہے تھے، پھر جتوئی صاحب نے ’’ناراض پی پی‘‘ بنائی تو ہم اس میں چلے گئے۔

’بھٹو صاحب نے ہی معطل کیا آپ کو؟‘ ہم نے انہیں کھوجا۔ وہ بولے ’انہوں نے نہیں، بیگم بھٹو سے حفیظ پیرزادہ نے معطل کرایا، کوئی نوٹس نہیں دیا۔ ہم نے ’نیشنل پیپلز پارٹی‘ بنائی، پھر 1990ء میں بے نظیر نے مجھے واپس بلایا اور ’پالیسی پلاننگ کمیٹی‘ کی سربراہی دی، پھر ہم نے پیپلزپارٹی کے دو منشور لکھے۔ 1993ء کا منشور ’نیو سوشل کانٹریکٹ‘ جس میں ضلعی حکومت کا نظام تھا اور پھر 2007ء میں ’تھری ای‘ Education, Energy & Employment (تعلیم، توانائی اور روزگار) وہ کہتے ہیں کہ ’’مجھ سے بی بی نے کہا کہ روٹی کپڑا مکان تو ہماری منزل ہے، لیکن یہ کس طرح حاصل ہوگا۔ جس پر میں نے سوچ بچار کر کے یہ راستہ بتایا۔‘‘

بیرسٹر کمال اظفر نے اس امر کی تصدیق کی کہ پرویزمشرف نے 2001ء میں انہی کا مرتب کیا گیا ضلعی نظام لاگو کیا۔ عطیہ عنایت اللہ نے اُن سے باقاعدہ وہ مسودہ لیا، لیکن اس میں سے انہوں نے ’ڈی سی‘ کو حذف کردیا۔

’’پھر تو بڑی عجیب سی بات ہے، کہ پیپلزپارٹی نے ہی وہ نظام نافذ نہیں کیا؟‘‘ ہم نے اپنے تعجب کا اظہار کیا، تو وہ بولے کہ پرویزمشرف نے بھی اسے مستقل طور پر نافذ نہیں کیا اور پیپلزپارٹی تو اب تو وفاق کی جماعت ہی نہیں۔ یہ پیپلزپارٹی زرداری والی۔۔۔ یہ تو کرپشن ہے۔۔۔ میں نے تو کبھی ان کے ساتھ چائے نہیں پی۔‘‘

ان کے لہجے میں تلخی گھل گئی، ہم نے یاد دلایا کہ ’’آپ وکیل نہیں رہے ان کے۔۔۔؟‘‘ وہ بولے کہ ’’این آر او میں ان کی جانب سے پیش ہوا، تو اس کی انہوں نے مجھے فیس ادا کی۔ انہوں نے فیس دی، تو میں ان کے لیے گیا۔‘‘

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے عہد میں بیرسٹر کمال کے بیان ’جی ایچ کیو پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں دیکھنا چاہتا‘ کا ذکر ہوا کہ پھر وہ واپس لے لیا گیا؟ وہ بولے ’میرا بیان تو صحیح تھا، وہ آفیشل کہا گیا تھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نہیں۔‘

’’لیکن آپ یوسف گیلانی کے مشیر بھی تو رہے؟‘‘ ہم نے انہیں ٹٹولا۔ وہ بولے کہ ’’مشیر تو صرف سیلاب کے وقت محدود دورانیے کے لیے رہا، پھر اس کے بعد فوراً مستعفی ہو گیا۔‘‘

’’گویا بے نظیر کے بعد آپ پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں ہیں؟‘‘ ہم نے منطقی انداز میں ایک سوال ان کی جانب سرکایا، تو یہ انہیں کچھ ناگوار سا گزرا، بولے کہ ’’کیا مطلب ہے حصہ نہیں ہوں۔۔۔! اصلی پیپلزپارٹی تو ہم ہیں، ہم کسی اور جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ اور آپ لکھ سکتے ہیں کہ جو پیپلزپارٹی کے ساتھ ضیا الحق نہیں کرسکا، وہ آصف زرداری نے کر دیا۔ پارٹی تباہ کر دی!‘‘

ہم نے پوچھا کہ ’آپ نے یا انہوں نے کبھی قریب ہونے کی کوشش بھی نہیں کی؟‘ وہ بولے کہ ’’وہ جانتے ہیں، میری آفیشل رپورٹ موجود ہے، مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بارے میں کہ یہ ملوث ہیں۔۔۔!‘‘

’مرتضیٰ بھٹو کا قتل تو آپ کی عہد گورنری میں ہوا؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’’ہاں میں جانتا تھا، تب ہی میں نے استعفا دے دیا تھا، جسے بے نظیر نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ ’نہیں آپ کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔‘ پھر تو اسکینڈل ہو جاتا ناں۔‘‘

’’آپ کی یہ بات ’آن دی ریکارڈ‘ ہے؟‘‘ ہم نے تصدیق چاہی تو وہ بولے ’’ بالکل، اسی وجہ سے میں نے وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ کو برطرف کیا، کیوں کہ وہ اس میں فریق تھے۔ اسی دن یہ تین لوگ ملے تھے، زرداری، عبداللہ شاہ اور واجد درانی۔‘‘

’’کراچی میں ایک ماہ میں ساڑھے تین، چار سو افراد قتل ہوجاتے تھے؟‘‘ ہمارے خیال میں 1995ء کا شورش زدہ شہر گھوم گیا۔۔۔ وہ بولے کہ ’’یہاں حالات دگرگوں تھے، این ڈی خان وغیرہ سے ایم کیو ایم کی بات چیت چل رہی تھیں، ایم کیو ایم کے اجمل دہلوی اور قاضی خالد وغیرہ میرے پاس آئے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مفاہمت ہوجائے۔ میں نے بے نظیر کو بتایا، تو انہوں نے تائید کی، لیکن وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ نے اس کی مخالفت کی، انہوں نے تو ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی کو جیل میں ڈالا ہوا تھا۔ ہماری عبداللہ شاہ کے اس طور سے شدید اختلاف تھا۔‘‘

اس دور میں نصیر اللہ باہر نے بھی تو ’’مقابلوں‘‘ میں قتل کیے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ وہ تو وفاقی وزیرداخلہ تھے۔ ’’الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کو تو عبداللہ شاہ نے مروایا، کیوں کہ ان کے بھائی مارے گئے تھے۔‘‘

بیرسٹر کمال اظفر کے سسر ایس ایس جعفری ان بیوروکریٹس میں شامل تھے، جو جنرل یحییٰ خان کے عتاب کا شکار ہوئے، پھر بیرسٹر صاحب کی شادی کی تقاریب بھی بہت چرچا میں رہیں، ہم نے اس حوالے سے بھی کچھ گفتگو چاہی، تو وہ ٹال گئے بولے کہ ’فقیری میں ہماری زندگی گزری، کوئی بیرونی اکائونٹ اور بینک بیلنس نہیں۔‘ وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ سے بہت زیادتی کی تھی، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ ہے، بالکل درست ہے۔

دادا ڈپٹی انسپکٹر اسکولز اور والد ’انڈین سول سروس‘ میں رہے

’’یوپی کا نام ہمالیہ سے نشیب میں ہونے کے سبب ’اترپردیش‘ رکھا گیا، پہلے اس کا نام ’یونائیٹڈ پرونسز آف آگرہ اینڈ اودھ‘ تھا۔۔۔ آگرہ سے جمنا گزرتا ہے اور الہ آباد میں جمنا، دریائے گنگا سے مل جاتا ہے۔‘‘

یہ بیرسٹر کمال اظفر گزرے دنوں پر ایک سماں سا باندھ رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ نہرو خاندان کا تعلق الہ آباد سے تھا، یہیں صوبے کی سب سے بڑی ہائی کورٹ ہے۔ 1921ء میں یوپی کا دارالحکومت الہ آباد سے لکھنئو منتقل ہوگیا، وہاں الہ آباد کے برعکس تعلق دار تھے، جیسے راجا محمود آباد اور راجا جہاں گیر آباد وغیرہ۔ قائد لکھنئو میں راجا محمودآباد کے ہاں ٹھیرتے تھے۔ والد نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا، مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوئے۔ الہ آباد یونیورسٹی یوپی کی پہلی جامعہ تھی، علی گڑھ کا الحاق بھی یہیں سے تھا۔

بیرسٹر کمال اظفر نے بتایا کہ وہ 29 فروری 1940ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے مغل سرائے (یوپی، ضلع چنڈولی) میں پیدا ہوئے، اُن کے دیگر بھائیوں کی پیدائش (ننھیال) لکھنئو کی ہے۔ دادا الہ آباد کے تھے، وہ یوپی کے ڈپٹی انسپکٹر اسکولز رہے، ان کا عرصہ ملازمت 1890ء تا 1921ء رہا۔ وہ روحانی سلسلے چشتیہ سے ہیں، ہم تینوں بھائیوں کی پیشی بھی اجمیر کی ہے۔

والد ’انڈین سول سروس‘ (آئی سی ایس) میں تھے۔ اس وقت آئی سی ایس میں زیادہ تر ہندوستانی مسلمان الہ آباد یونیورسٹی سے ہی آئے، جن میں غفران فاروقی، کریم فضلی، سعید جعفری، ابو الحسن قریشی، ایک مسلمان بورڈنگ ہائوس تھا۔ انگریز ’انڈین سول سروس‘ میں آنے والوں کو دوسرے صوبوں میں تعینات کرتے تھے، پنجاب کے عزیز احمد کو مدراس، این ایم خان کو پنجاب سے بنگال میں، ہاشم رضا کی پوسٹنگ سندھ میں کی گئی، کیوں کہ 1934ء میں سندھ کو صوبہ بنایا جا رہا تھا اور یہاں کوئی ’آئی سی ایس‘ نہ تھا۔ ژوب گیا تو وہاں دیکھا اے جی (ایجنٹ آف گورنر جنرل) کے ناموں میں کوئی ’مینن‘ تھا، پتا چلا وہ بھارتی سفارت کار شیو شنکر مینن کے والد ہیں، انہیں مدراس سے بلوچستان میں تعین کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے والد کو سنبھل پور (اڑیسہ) میں تعینات کیا گیا، پھر ہم وہیں رہے، صرف شادی اور تہواروں پر یوپی جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سرکاری افسران کو ہندوستان یا پاکستان کا اختیار تھا، والد کو ترقی کی پیش کش ہوئی کہ نہ جائیں، لیکن ہمارے ہاں تحریک پاکستان کا اثر تھا، اس لیے ہم یہاں آئے۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں ادارت بھی کی اور صدارت بھی!

بیرسٹر کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ یہاں ’ری ہیبلیٹیشن کمیشنر‘ ہاشم رضا کالج میں میرے والد محمد اظفر سے جونیئر تھے۔ انہوں نے ابا جان سے ’دعویٰ‘ (Claim) داخل کرنے کے لیے کہا تو والد نے منع کر دیا کہ ہم اس لیے تو نہیں آئے تھے۔۔۔ والد یہاں ڈپٹی سیکریٹری فنانس بن کے آئے، پھر چیف سیکریٹری اور الیکشن کمیشن کے سیکریٹری رہے۔ ہم کافی عرصے لاہور میں رہے، تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور کی ہے، پھر ڈھاکا اور راول پنڈی میں بھی رہے۔ گذشتہ 50 سال سے ہم کراچی میں ہیں۔ کراچی میں کمال اظفر سینٹ پیٹرکس اسکول میں تھے، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں رہے، کہتے ہیں کہ یہاں ایک ’رول آف آنر‘ ہوتا ہے۔ یہ میں نے ریکارڈ چار حاصل کیے۔ تینوں مضامین فلسفہ، انگریزی اور معاشیات میں اول آیا۔ ’راوی‘ میگزین کا مدیر بھی رہا، اور اس کے بعد طلبہ یونین کے صدر کا چنائو بھی جیتا۔ 18 سال کی عمر میں باہر چلا گیا، آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا، بیرسٹری کی، دو سال سوئیڈن میں قیام رہا۔ 1963ء میں وطن لوٹا، اسی برس والد محمد اظفر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔

’انڈس ویلی‘ اردو اور صوفیانہ سلسلہ۔۔۔

بیرسٹر کمال اظفر نے بتایا کہ اِن دنوں وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جس میں اُن کا مقالہ ہے کہ پاکستان کو جوڑنے والے تین عناصر کلیدی ہیں: انڈس ویلی، اردو اور صوفیانہ سلسلہ! اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’انڈس ویلی تہذیب ‘ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر آئی ایچ قریشی نے ’شارٹ ہسٹری آف پاکستان‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ پہلے ’ست سندھ‘ (سات سندھ) کہلاتے تھے، یہ پانچ نہیں سات دریا ہیں، جو چاروں صوبوں کو جوڑتے ہیں۔ پنجاب تو دریائے سندھ کے مشرقی دریائوں پر ہے، دوسری طرف دریائے سندھ کے مغرب میں بھی تو دریائے کابل اور ژوب گومل دریا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نظام آب پاشی ہے۔

اردو زبان کے حوالے سے کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہمارے ٹی وی نے اردو کو بہت فروغ دیا۔ ایک مرتبہ ہم نیپال گئے، وہاں سب خواتین ساڑھیاں پہنی ہوئی تھیں، دوسری بار گئے تو نصف خواتین کو شلوار قمیص میں پایا، پتا چلا کہ وہاں پاکستان کا ٹی وی بہت مقبول ہے، اس لیے وہ ہمارے ڈراموں سے متاثر ہیں۔ بیسویں صدی میں اردو کے دونوں بڑے شاعر اقبال اور فیض لاہور کے ہیں۔ یہ صورت حال 1857ء سے شروع ہو گئی تھی، جب دلی میں بہت قتل عام ہوا۔۔۔ وہاں مولوی باقر کو انگریزوں نے پھانسی دی، جس کے بعد ان کے بیٹے محمد حسین آزاد گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو پڑھاتے تھے، اقبال بھی اس زمانے میں وہاں زیر تعلیم رہے، ممکن ہے اقبال کو انہوں نے بھی پڑھایا ہو۔‘‘

جب کمال اظفر اردو کو ’متحدہ عنصر‘ کہہ رہے تھے تو ہمارا ذہن مشرقی پاکستان کی طرف گیا، جس پر وہ بولے: ’جناح ماڈل مین تھے، وہ بھٹو جیسی اردو بول لیتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ قوم کی بنیاد زبان پر ہوتی ہے، مشرقی پاکستان اسی بنیاد پر الگ ہوا، جب وہاں اردو کا اعلان کیا گیا، تو احتجاج ہوا، لیکن سامنے جناح تھے، اس لیے وہ پی گئے۔‘

کمال اظفر کا خیال ہے کہ پاکستان بننے سے مشرقی بنگال کا فائدہ ہوا، ورنہ انگریز تو انہیں کبھی الگ نہیں کرتے۔ وہاں شروع سے ہی اردو کی مخالفت ہوئی، لیکن جناح صاحب کی بات بھی ٹھیک تھی کہ اگر ایک رہنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ایک زبان رکھنا پڑے گی۔ جمیل جالبی صاحب کی کتاب پڑھیے، یہاں مسلمانوں کی زبان تو تھی ہی اردو، دکن، گجرات اور ڈھاکے میں ہر جگہ اردو تھی۔ ڈھاکا نواب فیملی میں بھی سب اردو میں بات کرتے تھے۔ شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تو یہ تک کہا کہ ’یہ منحوس زبان (بنگالی) ہمارے ہاں تو نہیں بولی جاتی۔‘

صوفیانہ سلسلے کو تیسرا ’متحدہ عنصر‘ قرار دیتے ہوئے بیرسٹر کمال کہتے ہیں کہ اس پر ڈاکٹر ایس ایم اکرام کی تین کتابیں ہیں، آپ برا نہ مانیں، ہمارے ہاں اسلام (سوائے سندھ کے) براستہ وسطی ایشیا آیا۔ پنجاب میں اقبال اور سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی رومی سے متاثر ہیں، وارث شاہ پر بھی وہی اثر ہے۔ آج کل ہم دوبارہ مثنوی مولانا روم پڑھ رہے ہیں، جس میں انسانیت کا درس ہے۔ رومی کی کتب اس وقت مغرب میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔

بیرسٹر کمال اظفر کا خیال ہے کہ اقبال کو لوگ سمجھتے نہیں، آج انہیں اسٹیبلشمنٹ نے اپنا لیا ہے، وہ دراصل شاعر نہیں، انقلابی تھے۔ اُن کے جناح کے نام خطوط ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بڑے مسائل غربت اور بھوک کے ہیں، جناح نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ صوفیانہ سلسلے کی ہمارے ہاں ثقافتی اہمیت ہے۔ ’والی آف سوات‘ اخوند نقش بندی سلسلے کے تھے، داتا صاحب بھی اسی سلسلے کے تھے۔

’’چچا! ہمیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔۔۔‘‘

بیرسٹر کمال اظفر کہتے ہیں کہ ہم کراچی کو اپنا گھر محسوس کرتے ہیں، یہاں جو اپنائیت محسوس کرتے ہیں وہ ہندوستان میں نہیں! اردو کو جو مقام پاکستان میں ملا ہے، تحریک پاکستان میں اس کا بہت بڑا کردار تھا، بقول جمیل جالبی کے، کہ برصغیر میں اردو اسلام کی علامت تھی۔ آج ہمارے کزنز کے بچے وہاں اردو پڑھنا نہیں جانتے! بڑے ابا (تایا) کی بیٹی کی شادی جامع مسجد سے 200 گز کے فاصلے پر غالب کے محلے مٹیا محل میں ہوئی۔ ایک مرتبہ وہاں ملنے گئے، وہاں غالب کے شعر کا ذکر نکلا، دیوان منگایا گیا، میرے پاس چشمہ نہ تھا اس لیے ان سے کہا کہ آپ پڑھ دیں، تو انہوں نے کہا ’’چچا ہمیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔۔۔!‘‘

ہم نے پوچھا کہ آپ نے ہندوستان میں جو اجنبیت محسوس کی، کیا یہ احساس بٹوارے سے پہلے بھی تھا؟ تو وہ بولے کہ اس وقت ایسا نہیں تھا، مجھے یاد ہے، وہاں انگریزی میڈیم اسکول تھا، ہم اردو تو پڑھتے تھے، لیکن ہندی لازمی تھی۔ اسی طرح جب ہم یوپی جاتے، تو وہاں 1937ء میں کانگریس نے ہندی لازمی کرائی ہوئی تھی تو وہاں سب کو ہندی سیکھنا پڑی۔

کمال اظفر نے بتایا کہ اُن کے والد محمد اظفر ریٹائرمنٹ کے بعد ’اردو لغت بورڈ‘ کے صدر بھی رہے۔ ایک مرتبہ جمیل الدین عالی کے گھر پر عصمت چغتائی مدعو تھیں، انہوں نے اختر حسین رائے پوری سے کہا کہ آپ تو ترقی پسند تحریک میں تھے، تو پھر کیوں الگ ہوئے، تو انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ 1936ء میں کانگریس نے یہ قرار داد پاس کی کہ ہندی دیو ناگری رسم الخط میں ہندوستان کی قومی زبان ہوگی! سینیٹ میں اردو کا ذکر کرتے ہوئے کمال اظفر کہتے ہیں کہ 1975ء میں جب وہ پہلی بار رکن بنے تو وہاں تین چوتھائی تقاریر انگریزی میں ہوتی تھیں، مولانا شاہ احمد نورانی اور قائد حزب اختلاف خواجہ سرور (خواجہ آصف کے والد) کے سوا کوئی اردو میں بات نہیں کرتا تھا، لیکن 1995ء میں یہ صورت حال بالکل الٹ دیکھی کہ صرف معاشی یا خارجہ امور پر اظہار خیال ہو تو انگریزی اختیار کی جاتی۔

اردو میں عدالتی فیصلوں میں وقت لگے گا

کمال اظفر کہتے ہیں کہ یہاں 190سال انگریزوں کی حکومت رہی، ہمارا قانونی ڈھانچا انگریزی میں ہے، لیکن عدالتوں میں بحث ساری اردو میں ہوتی ہے، لیکن فیصلہ انگریزی میں لکھوایا جاتا ہے، بس حفیظ پیرزادہ، خالد انور وغیرہ اور کسی حد تک ہم بھی انگریزی میں بات کرتے، لیکن جب آپ کو کوئی نکتہ مل جائے تو پھر اردو میں آجاتے ہیں۔‘ اردو میں فیصلوں کے حوالے سے کمال اظفر کہتے ہیں کہ اس میں ابھی وقت لگے گا۔ اردو اور انگریزی میں کوئی تکرار نہیں۔ یہ ہماری سیاست، پارلیمان اور عدالتوں کی زبان تو ہے۔ جمیل جالبی کے بقول اردو کا جنم پنجاب میں ہوا، وہاں ڈسٹرکٹ کورٹ تک دعویٰ جواب دعویٰ اور ایف آئی آر تک سب اردو میں ہے۔ اس سے پہلے یہاں عدالتوں سمیت ہندوستان بھر میں فارسی زبان رائج تھی۔ شروع میں انگریزوں نے بھی فارسی میں خط وکتابت کی۔ میں نے خود بلوچ سرداروں کے نام انگریزوں کے فارسی خطوط دیکھے۔ یہاں انگریزی نے کسی حد تک فارسی کی جگہ لی ہے۔ اب انگریز سلطنت میں نہ سہی، لیکن انگریزی زبان پر سورج غروب نہیں ہوتا! اطالوی اور فرانسیسی کی طرح اردو کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے۔ آج بلوچستان میں پشتون اور بروہی آپس میں اردو میں ہی بات کرتا ہے۔

1972ء میں لیاقت آباد میں فائرنگ ہوئی تو صوبائی وزارت سے مستعفی ہوگیا

بیرسٹر کمال اظفر کے خاندان میں سیاست کا سلسلہ بڑے ابا (تایا) محمد اطہر ایڈووکیٹ سے شروع ہوا، وہ 1937ء میں مسلم لیگ سے یوپی اسمبلی کے رکن بنے۔ ’جناح پیپرز‘ میں ان کے خطوط بھی شامل ہیں، لیکن وہ پاکستان نہیں آئے! ہم نے پوچھا اس کی وجہ؟ تو وہ بولے کہ ’’میں نے پوچھا تھا اُن سے کہ آپ کو کیا فائدہ ہوا، بولے کہ ہم نے اپنے لیے تو نہیں کیا تھا، ہم نے سوچا ہماری تہذیب تو باقی رہ جائے گی۔۔۔!‘‘

’’یہاں تہذیب رہ جائے گی! لیکن یہاں آنے والوں کو تو یہیں کے رنگ ڈھنگ اپنانے کے لیے کہا جاتا ہے؟‘‘ ہم نے سوال کیا، تو وہ بولے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہم اگر سندھی زبان کا احترام کریں گے، تو وہ اردو کا زیادہ احترام کریں گے۔ ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، اردو شناخت ہے، ٹھیک ہے، لیکن سندھی ایک مکمل زبان ہے، اس میں 10، 12 اخبار ہیں، پنجابی، پشتو اور بلوچی کا کائی اخبار نہیں۔ چینلوں اور فلموں کی زبان سے ریونیو ریکارڈ سے ایف آئی آر تک سندھی میں ہیں۔ سندھی لینگویج آف لٹریسی رہی ہے، باقی زبانیں کبھی نہیں رہیں۔

جب ممتاز بھٹو سے میرا اختلاف ہوا تو میں مستعفی ہوگیا، کیوں کہ آئین میں لکھا ہے کہ صوبائی زبان اضافی طور پر بنائی جا سکتی ہے اور مدنی صاحب نے کہا اگر یہ تشریح ہے تو ہمیں اس لینگویج بل پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ممتاز بھٹو نہ مانے۔ میں نے ذوالفقار بھٹو سے کہا کہ دیکھیے ایسا نہ کریں، ورنہ آگ لگ جائے گی۔

جب بیرسٹر کمال نے ’زبان کے بل‘ کا ذکر کیا تو ہم نے پوچھا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ 1972ء کا یہ ’بل‘ آپ نے لکھا تھا؟ تو وہ بولے کہ میں نے تو اس کے مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اردو کے ساتھ۔۔۔‘ کہ یہ آئین میں بھی ہے اور یہ منوا بھی لیا تھا، لیکن بعد میں ممتاز بھٹو نے رفیع رضا سے کہہ کر یہ نکلوا دیا۔ رئیس امروہی، جمیل الدین عالی وغیرہ مجھ سے ملنے بھی آئے اور کہا کہ مسئلہ ہو جائے گا۔ پھر انہوں نے قطعہ ’’اردو کا جنازہ‘‘ بھی لکھ دیا۔

کمال اظفر کہتے ہیں کہ پی پی کی پارلیمانی میٹنگ میں سید سعید حسن نے بھی اعتراض کیا، میری اسمبلی کی تقریر ریکارڈ پر ہے۔ جب 1972ء میں لیاقت آباد میں فائرنگ ہوئی، تو میں نے استعفا دے دیا۔ بھٹو نے کہا اب تو تمہاری ضرورت ہے، ممتاز بھٹو نے میرا صوبائی وزارت سے استعفا منظور کر لیا۔ پھر بھٹو صاحب نے کمیٹی بنائی، جس میں آئی ایچ قریشی اور معراج خالد بھی تھے، اور پھر وہی باتیں تسلیم کیں جو ہم پہلے کہہ رہے تھے کہ اردو اور سندھی دونوں زبانیں ہوں گی۔

میں نے بھٹو سے کہا کہ لوگوں کو مہاجر ہونے کا احساس اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے پیروں کے نیچے زمین اپنی نہیں، اب بھی ایسی کالونیاں ہیں، جنہیں وہاں رہنے کا حق نہیں، آپ انہیں احساس ملکیت دلائیں۔ انہوں نے کہا رپورٹ بنائو، پھر ہماری رپورٹ پر چھے سے نو روپے گز کے حساب سے ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی)، ملیر، گلبہار (گولی مار)، اورنگی ٹائون، بلدیہ ٹائون، دہلی کالونی، محمود آباد، لانڈھی، اعظم بستی، منظور کالونی، وغیرہ لیز کرائیں اور انہیں پانی اور بجلی کی سہولتیں دلائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس بھٹو کا دستخط شدہ تحریر ’’وی مسٹ وِن اوور دی مہاجرز!‘‘ آج بھی موجود ہے۔

کمال اظفر کے بقول صوبائی وزارت کے بعد بھٹو نے ہمیں پیپلزپارٹی کراچی کا صدر بنایا، پھر انہوں نے شہر بھر میں پیپلزپارٹی کو مضبوط کیا، کہتے ہیں ’اگر 1979ء میں ضیا الحق نے خانم گوہر اعجاز اور دیگر کو گرفتار نہ کرایا ہوتا تو ہمارے عبدالخالق اللہ والا میئر کراچی بن جاتے۔‘ کمال اظفر سمجھتے ہیں کہ زبان کے مسئلے کی بنا پر پیپلزپارٹی کے کراچی مخالف جماعت ہونے کا تاثر بن گیا، ورنہ کراچی میں جتنی ترقی بھٹو کے دور میں ہوئی وہ کسی اور کے دور میں نہیں ہوئی۔

 

The post پیپلزپارٹی کے ساتھ جو ضیا الحق نہ کر سکا، وہ آصف زرداری نے کر دیا، بیرسٹر کمال اظفر appeared first on ایکسپریس اردو.

’جاوید میاں داد‘ کبھی رقیب، کبھی دلدار

$
0
0

کرکٹ ہو یا ہاکی اور فٹ ہال‘ ان کھیلوں کے میدانوں میں صرف کھیل ہی نہیں ہوتا بلکہ دلچسپ و عجیب حادثات اور واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔

کبھی دوستی جنم لیتی ہے اور کبھی دشمنی!آپس میں  رشتے جڑتے ہیں‘ تو ٹوٹتے بھی ہیں۔ غرض جب میدان میں حریف ٹیموں کے پُرجوش کھلاڑی پوری قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں‘ تو کئی کرشمے بھی جنم لیتے ہیں۔ ایک ایسا ہی کرشمہ مشہور آسٹریلوی کرکٹر، آئن چیپل اور پاکستانی لیجنڈری کھلاڑی جاوید میاں داد کی دوستی بھی ہے۔آئن چیپل نے دسمبر 1964ء میں اپنا پہلا ٹیسٹ پاکستان کے خلاف کھیلا تھا۔ وہ ایک جارحانہ اور جنگجو مزاج رکھنے والے کھلاڑی تھے۔

1970ء تا1975ء آسٹریلوی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اسی دوران ان کی زیر قیادت آسٹریلوی ٹیم میں ’’سلیجنگ‘‘ (Sledging)کے رجحان نے جنم لیا۔جب ایک کھلاڑی تنہا یا دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر بیٹنگ کرتے حریف پر طنزیہ جملے کسے‘ اسے اشتعال دلانے کی کوشش کرے تاکہ وہ غلطی کر کے آؤٹ ہو جائے‘ تو یہ سرگرمی ’سلیجنگ‘‘ کہلاتی ہے۔ بحیثیت کپتان آئن چیپل نے اس سرگرمی کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم میں پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے ‘ کئی مواقع پر ان کی مخالف کھلاڑیوں سے تو تکار اور منہ ماری بھی ہوئی۔ چناںچہ آئن چیپل لڑاکا کھلاڑی کے طور پر مشہورہو گئے۔

آئن چیپل اور جاوید میاں داد کا پہلا ٹاکرا دسمبر 1976ء میں ہوا جب پاکستانی ٹیم تین ٹیسٹ کھیلنے آسٹریلیا پہنچی۔ اسی سیریز کے دوران دنیائے کرکٹ کے دو عظیم کھلاڑی ایک دوسرے سے آشنا ہوئے۔ قربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں جارحانہ مزاج رکھتے اور شرارتیں کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ چند سال قبل آئن چیپل نے اپنے ایک مضمون میں لیجنڈری پاکستانی کرکٹر سے اپنے تعلقات پہ بڑے دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی تھی۔ یہ مضمون مشہور رسالے’’ دی کرکٹ منتھلی‘‘میں شائع ہوا تھا۔ اسی مضمون سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

اگر جاوید میاں داد آپ کی ٹیم میں شامل ہیں‘ تو انہیں روایتی ہیرو سمجھئے جو جیت کی خاطر جان بھی دے سکتا ہے۔ اگر مخالف ٹیم میں ہیں‘ تو میں انہیں ناپسندیدہ ہی کہوں گا۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ د وسروں کو اشتعال انگیز اذیت دینے والے چھوٹے سے شیطان تھے۔میں بچپن میں اپنی والدہ کو بہت تنگ کرتا اور ان کے صبر کا امتحان لیتا تھا۔ شرارتوں سے ان کی ناک میں دم کر دیتا۔ ایک بار پریشان ہو کر انہوںنے مجھے ’’aggrannoying little devil‘‘ کا خطاب دیا۔ یہ اصطلاح دو انگریزی حروف aggravating  (اشتعال انگیزی) اور annoying(اذیت ناک) کے ملاپ سے وجود میں آئی۔ اگر آپ جاوید کے حریف ہوں‘ تو یہی قرار دیں گے کہ یہ اصطلاح ان پر فٹ بیٹھتی ہے۔

1978ء میں پہلی بار آسٹریلیا میں کیری پیکر سیریز منعقد ہوئی تب جاوید بھی عالمی الیون کی ٹیم کا حصہ بنے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میدان میں ان سے دو دو ہاتھ ہوئے۔ جب بھی میں چوکا یا چھکا مارتا‘ تو ہ بڑی مایوسی سے فضا میں ہاتھ بلند کر لیتے جیسے انہیں بڑا افسوس ہو۔ یہ رویّہ مجھے ناگوار گذرتا اور میں کچھ طیش میں آ جاتا۔جب جاوید بیٹنگ کرنے آئے‘ تو تب بھی اپنی حرکتوں سے حریف کھلاڑیوں کو اشتعال دلانے لگے۔ ان کا خاص ہتھیار کریز سے نکل کر باہر آنا تھا۔ اس طرح وہ فلیڈر کو اکساتے تھے کہ وہ گینڈ وکٹوں پر دے مارے۔ جب نشانہ چوکتا‘ تو جاوید تیزی سے نیا رن لے لیتے ۔جب گیند فیلڈر کے ہاتھ میں آ جاتی تب بھی وہ کریز سے باہر کھڑے رہتے۔ اس وقت ان کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ مچل رہی ہوتی۔تب وہ ایک شرارتی اور چنچل لڑکے دکھائی دیتے۔

میں نے شروع میں یہ سوچ کر جاوید کی نٹ کھٹ حرکتیں نظر انداز کر دیں کہ یہ میدان میں نیا آیا  شیخی خورا ہے۔ جلد ہی تیز رفتار بالر اس کی ساری شیخی نکال دیں گے۔ لیکن ایک واقعے نے میرا زاویہ نظر تبدیل کر ڈالا۔ہوا یہ کہ میں ایک میچ میں بیٹنگ کر رہا تھا۔ جاوید میرے نو فٹ پیچھے اسکوائر لیگ پر کھڑے تھے۔ میںنے گیند روکی اور  رن لینے بھاگ کھڑا ہوا۔ مجھے علم تھا کہ جاوید خاصی دور ہیں اور وہ جلد گیند تک نہیں پہنچ سکتے ۔ مگر وہ تو چیتے کی سی تیری سے گیند کی سمت جھپٹے۔ یہ دیکھ کر میرا ساتھی چیخ اٹھا اور مجھے واپس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ہانپتا کانپتا کریز پر پہنچنے میں کامیاب رہا ورنہ جاوید نے مجھے آؤٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اس سبق آموز واقعے نے مجھے احساس دلایا کہ جاوید کراچی کا بانکا نہیں بلکہ لڑاکا حریف ہے۔ یہ بظاہر لا ابالی سا نوجوان درحقیقت سوچ بچار کرنے والا کھلاڑی ہے۔ وہ ہر لمحے بلے باز کو آؤٹ کرنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے۔ اس احساس کے بعد میرے لیے جاوید ایک نٹ کھٹ، بے وقوف سا نوجوان نہیں بلکہ ذہین وفطین کھلاڑی بن گیا… ایسا کھلاڑی جو میدان میں اور باہر بھی اپنی شوخ باتوں اور شرارتوں سے سبھی کو محظوظ کرتا تھا۔

پاکستانی ٹیم نے مارچ اور اپریل 1979ء کے مہینے آسٹریلیا میں گزارے ۔ تب بھی جاوید نے اپنے چٹکلوں سے آسٹریلوی ٹیم کا ناک میں دم کیے رکھا۔ دوسرا ٹیسٹ میلبورن میں کھیلا گیا۔ دوران میچ ہمارے بلے باز‘ روڈنی ہوگ نے ایک شاٹ کھیلی۔ گیند پوائنٹ پر کھڑے جاوید کی طرف گئی اور ان سے چند قدم دور رک گئی۔روڈنی یہی سمجھا کہ گیند ’ڈیڈ‘‘ ہو چکی ۔ چنانچہ وہ کریز سے نکل کر پچ پر آئی مٹی بلے سے صاف کرنے  لگا۔ اُدھر جاوید نے اچانک گیند اٹھائی‘ لپک کر وکٹوں کے قریب پہنچا‘ بیلز اڑائیں اور رن آؤٹ کی اپیل کر دی۔ امپائرنے  اپیل پر روڈنی کو آؤٹ دے دیا۔ وہ بہت جھنجھلایا۔ اسے اتنا غصّہ آیا کہ ٹھوکر مار کر وکٹیں گرا دیں۔

مشتاق محمد پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ انہوں نے روڈنی ہوگ کو شدید غصے میں دیکھا‘ تو اس کے قریب آئے اور اسے دوبارہ کھیلنے کی دعوت دی۔ مگر امپائر مک ہاروے اپنے کیرئر کے پہلے ٹیسٹ کی امپائرنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ چناںچہ روڈنی کو پویلین واپس جانا پڑا۔اس واقعے کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی یہی سمجھنے لگے کہ جاوید میں اسپورٹس مین شپ کم ہی پائی جاتی ہے۔ تاہم کئی برس بعد مجھے عمران خان کی آپ بیتی’’ All round view ‘‘پڑھنے کا موقع ملا۔  کتاب کے مطالعے سے مجھ پر منکشف ہوا کہ جاوید میاں داد کی چالوں اور شرارتوں کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا۔ عمران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’جب میرے ساتھی میدان میں غیر روایتی طریقوں کی مدد سے مخالف کھلاڑی کو آؤٹ کر تے تو میں لطف اٹھاتا۔ دراصل جاوید سمیت بہت سے پاکستانی کھلاڑی گلیوں میں کھیلی جانے والی کرکٹ کی پیداوار ہیں۔ اس ’’اسٹریٹ کرکٹ‘ میں مخالف کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کی خاطر ہر ممکن حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً فیلڈر بلے بازسے کہتا ہے کہ اس کی جیب سے کوئی چیز گری ہے۔ وہ جب پچ پر  وہ چیز اٹھانے جائے تو پیچھے سے اس کی بیلز اڑا دی جاتی ہیں۔‘‘

یہ بات پڑھ کر میں بھی بہت محظوظ ہوا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جاوید کے علاوہ بھی کراچی میں بہت سے ”aggrannoying” ننھے شیطان پائے جاتے ہیں۔

1981ء میں آسٹریلوی قوم کے نزدیک جاوید میاں داد سے ’’جرم‘‘ سرزد ہوگیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے آسٹریلویوں کے گھر ہی میں ان کے ایسے دیوتا سے پنگا لے لیا جسے وہ دیوانہ وار پوجتے تھے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نومبر 1981ء میں تین ٹیسٹ کھیلنے آسٹریلیا پہنچی۔ اس کے کپتان جاوید میاں داد بن چکے تھے۔ پہلا ٹیسٹ 13 تا 17 نومبر پرتھ میں کھیلا گیا۔ دوسری اننگ میں جب جاوید کھیلنے آئے، تو میچ میں آسٹریلیا کا پلہ بھاری تھا۔ 99 رن پر پاکستان کی چار وکٹیں گرچکی تھیں۔ آسٹریلوی تیز رفتار بالر، ڈینس للی، جیف تھامس اور یارڈلے نہایت برق رفتاری سے گیندیں پھینک رہے تھے۔

اس وقت خاص طور پر ڈینس للی کا پورے آسٹریلیا میں طوطی بول رہا تھا۔ وہ اپنی جازب نظر شخصیت اور تیز رفتار بالنگ کے باعث آسٹریلوی عوام کے راج دلارے بن چکے تھے۔ جاوید نے اسی راجا کا دنگا کرادیا۔ہوا یہ کہ جاوید میدان میں آئے، تو للی پوری قوت سے انہیں گیندیں کرانے لگے۔ مقصد یہی تھاکہ پاکستانی کپتان آئوٹ ہوجائے۔ لیکن جاوید چٹان کی طرح کریز پر جمے رہے۔ انہوں نے آسٹریلوی بالر کی ہر کوشش ناکام بنادی۔ ناکامی کے پسینے نے للی کو تائو دلایا۔ اس نے جاوید کو آئوٹ کرنا اپنی انا کا مسئلہ بنالیا۔

ایک بار للی جاوید کے سامنے آگیا اور ان کا راستہ روک لیا۔ یوں وہ جاوید کو طیش دلانا چاہتا تھا۔ للی اپنے پلان میں کامیاب رہا اور جاوید غصّے میں آگئے۔ انہوں نے بلا اٹھا کر للی کو مارنا چاہا تو وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گیا۔ دونوں کھلاڑیوں کے اس مقابلے کو بہرحال دنیا بھر میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔امپائر ٹونی کارٹر دونوں غصیلے کھلاڑیوں کے درمیان آگئے اور ان کا بیچ بچائو کرادیا۔ اس واقعے کے بعد سبھی پر افشا ہوا کہ جاوید میاں داد ان کھلاڑیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے جو میدان میں حریفوں سے پنگے لینے کے شوقین ہوں۔جاوید کی دلیری اور بے خوفی 1987ء میں بھی نمایاں ہوئی۔ اسی سال عالمی کرکٹ کونسل نے یہ نیا قانون بنا یا کہ جو شارٹ پچ بال بلے باز کے کاندھوں سے اوپر ہوئی، اسے نو بار قرار دیا جائے گا۔ جاوید اس قانون کے ناقد بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون فاسٹ بالروں کی موت ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ جاوید ایسے حالات میں درج بالا قانون کے مخالف بنے جب عمران خان، کپیل دیو، کورٹنی والش، پیٹرک پیٹرسن، روی رتنا نئکے، وسیم اکرم، راجر بنی، ڈیرک پرنگل اور کریگ مکڈرموٹ جیسے تیز رفتار بالر موجود تھے۔ دراصل جاوید کو شارٹ پچ گیندیں کھیلنے ہی میں مزہ آتا تھا۔جاوید نے اپنی شرارتوں سے بھارتی لیجنڈ، سنیل گواسکر کو بھی نہیں بخشا۔ گواسکر جب پاکستان کے خلاف کھیلتے، تو ان کی ایک عادت اکثر دیکھنے کو ملتی۔ وہ یہ کہ بلے بازی کرتے ہوئے جب گیند ان کے قریب رکتی، تو وہ جھکتے، کریز کے اردگرد سے کچھ اٹھاتے اور پھر پھینک دیتے۔کئی سال بعد ایک بار میں نے گواسکر سے پوچھا کہ وہ کریز پر سے کیا اٹھاتے تھے؟ وہ کہنے لگے’’میں کریز کے قریب اگی گھاس اکھیڑتا تھا اور پھر وہیں ڈال دیتا۔‘‘ یوں شاید وہ پاکستانی فاسٹ بالروں کی برق رفتار گیندوں کا اثر کم کرنا چاہتے تھے۔

گواسکر کی عادت مگر شرارتی جاوید کی نگاہوں میں آگئی۔ چناچہ جب بھی وہ بیٹنگ کرتے اور کبھی گیند ان کے قریب رک جاتی تو جاوید آواز لگاتے ’’چلو، چلو، گیند اٹھائو بڈھے۔‘‘

میرے ممدوح کی شرارتوں اور شریر جملوں سے بعض حریف کھلاڑی لطف اٹھاتے، تو کچھ برا بھی مناتے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ جاوید نے اپنی خدا داد صلاحیتوں، محنت اور مستقل مزاجی سے ثابت کردیا کہ وہ دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک ہے۔جاوید کے سفید دامن پر مگر ایک دھبہ بھی ہے، یہ کہ وہ بہ حیثیت کپتان ٹیم کو متحد نہیں رکھ سکے۔ کبھی کھلاڑیوں نے ان کے زیر قیادت کھیلنے سے انکار کیا۔ کبھی کرکٹ بورڈ نے انہیں فارغ کر ڈالا۔ کبھی وہ خود مستعفی ہوگئے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کھلاڑی کے طور پر جاوید ہمیشہ جیت کی خاطر جان لڑا دیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں ایک جارحانہ حریف ہوں اور فخر مند پاکستانی۔‘‘

ایک روزہ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم نے جاوید میاں داد کی قیادت میں بہرحال کئی یادگار مقابلے جیتے۔جاوید کی سعی ہوتی تھی کہ وہ دشمن کے جبڑوں سے جیت کوکھینچ لائیں۔جب پاکستان کا بار کندھوں پر نہ ہوتا تو جاوید پھر اپنے آپ اور دوسروں کو محظوظ کرنے کے لیے پھلجھڑیاں چھوڑنے لگتے۔ 1992ء کا عالمی کپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا۔ تب پاکستان اور بھارت بھی ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ دوران میچ بھارتی وکٹ کیپر، کرن مورے اچھل اچھل کر جاوید کے خلاف اپیلیں کرتا رہا۔ آخر جاوید سے رہا نہ گیا، انہوں نے پھر جس مزاحیہ انداز میں اچھل کے کرن مورے کی نقل اتاری اسے دیکھتے ہوئے آج بھی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

عالمی کپ 1996ء کا کوارٹر فائنل پاکستان اور بھارت کے مابین بنگلور میں کھیلا گیا۔ جب تک جاوید آئوٹ نہیں ہوئے، سبھی بھارتی شہریوں کے سانس سینے میں اٹکے رہے۔ دراصل دس سال قبل جاوید نے نہایت غیر معمولی انداز میں چھکا لگا کر بھارت کو یقینی جیت سے محروم کردیا تھا۔ اسی لیے بھارتی عوام کو خطرہ تھا کہ وہ پھر کوئی کرشمہ نہ دکھا دیں۔جاوید دیر تک مقابلہ کرتے رہے مگر پاکستان کو جتوا نہیں سکے اور وہ عالمی کپ سے باہر ہوگیا۔ لاہور میں فائنل سے قبل کوریج کے لیے دنیا بھر سے آئے لوگوں کو انھوں نے ایک دعوت دی۔ اس میں انہوں نے بھارتی مارک مسکرہناس (Mark Mascarenhas) کو خراج تحسین پیش کیا جس نے ٹیلی ویژن کے ذریعے بھارت میں کرکٹ کو مقبول ترین کھیل بنادیا تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ جاوید یقیناً فخر مند پاکستانی ہے مگر وہ دل کھول کر لوگوں کی تعریف کرتا ہے، چاہے وہ بھارتی ہی ہوں۔

رفتہ رفتہ مجھ پر یہ بھی افشا ہوا کہ جاوید نہ صرف ایک بہترین کھلاڑی ہے بلکہ اس کے ساتھ وقت بھی پُر لطف گزرتا ہے۔ وہ بااعتماد دوست ہے… اس aggrannoying چھوٹے شیطان کے تاثر سے بالکل مختلف جو ان  سے پہلی بار  مل کر مجھے محسوس ہوا تھا۔

The post ’جاوید میاں داد‘ کبھی رقیب، کبھی دلدار appeared first on ایکسپریس اردو.

’اسکول‘ کس بلا کا نام ہے!

$
0
0

اگر آپ سندھ میں بستے ہیں اور آپ کا بچہ روز صبح پڑھنے جاتا ہے، تو یہ سوچ کر خوش نہ ہوں کہ وہ اسکول ہی جاتا ہے، دراصل اب تک ہماری پیاری صوبائی حکومت نے یہ طے ہی نہیں کیا تھا کہ اسکول کس چُڑیا کا نام ہے۔

’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ایک خبر انکشاف کرتی ہے کہ حکومت سندھ کے محکمۂ تعلیم کے ایک اجلاس میں، جو صوبائی وزیرتعلیم سید سردار علی شاہ کی زیرصدارت منعقد ہوا، محکموں کے مختلف شعبوں کی تشکیل نو اور اساتذہ کی تربیت کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ پہلی مرتبہ تعلیمی پالیسی میں لفظ اسکول کی تعریف بھی متعین کی جائے گی، تاکہ متعلقہ بجٹ سمیت تمام وسائل کا اس تعین کے مطابق استعمال کیا جاسکے۔

ہمیں افسوس ہے کہ اب تک حکومت سندھ کو اسکولوں کی زبوں حالی کے معاملے میں خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سندھ کے بھولے بھالے حکم رانوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ اسکول کس بلا کا نام ہے، تو پھر اسکول بنانا، چلانا، بحال کرنا ان کے لیے کیسے ممکن تھا۔ کسی سیانے نے کہہ دیا ’’اسکول وہ ہوتا ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے‘‘، اب کون سا گھر ہے جس میں کچھ نہ کچھ تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ طبعیات کا یہ طے شدہ اصول بتانا بھی تو تعلیم ہی ہے کہ میاں مُنے! تمھیں پتا ہے، بھٹو زندہ ہے۔ ریاضی میں اوزان کا یہ تسلیم شدہ قاعدہ سمجھانا بھی تدریس ہے کہ ’’اک زرداری سب پر بھاری۔‘‘ جب یہ تعریف طے پاگئی تو اسکول کے نام پر جاری ہونے والی رقوم کا گھروں پر خرچ ہونا ان کا صحیح مصرف قرار پایا۔ ظاہر ہے اتنا زر تو ہے نہیں کہ ہر گھر فیض یاب ہوسکے، نہ ہی زر، بھٹو ہے جو بلاامتیاز ہر گھر سے نکلے، لہٰذا کچھ گھر ہی اسکول کی تعریف پر پورے اُترے۔

یوں تو ہم جیسے طلبہ کاپی پر انڈے اور ہاتھوں پر ڈنڈے جن کا نصیب رہا ہو، اور جو اتنی بار مُرغے بنے ہوں کہ انھیں لڑکیوں کے بہ جائے مرغیاں بھانے لگی ہوں اور وہ دنیا کو اُلٹا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہوں، ہرگز اسکول کی تعریف پر آمادہ نہ ہوں گے، لیکن ہمارا معاملہ ذرا الگ ہے، ہم قومی مفاد کی راہ میں ذاتی تجربات کو حائل نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے صوبائی حکومت کا وقت بچانے کی خاطر ہم اسکول کی مختصر سی تعریف پیش کیے دیتے ہیں۔ سرکار! اسکول اُس چار دیواری کا نام ہے جہاں مقررہ اوقات میں بچے پڑھتے اور اساتذہ انھیں پڑھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غریب کے بچے بھی انسان کے بچے ہوتے ہیں، چاہے دشمن ہی کے بچے کیوں نہ ہوں جنھیں پڑھانا لازمی ہے، کیوں کہ یہ انسان کے بچے ہیں چناں چہ ان کے لیے اسکول میں پینے کے صاف پانی اور بیت الخلاء کا انتظام ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ کرسی میزیں، بلیک بورڈ، چاک اور دیگر کئی اشیاء اسکول کے لوازمات میں شامل ہیں۔

یہ تعریف ہم نے اس لیے بھی پیش کی کہ ڈر ہے کسی اور قسم کی تعریف متعین نہ کرلی جائے جیسے:

کسی خالی زمین پر اسکول کا زنگ آلودہ بورڈ لگا ہو تو وہ بھی اسکول ہے، کیوں کہ اس پلاٹ کو دیکھ کر بچوں کو پتا چلتا ہے کہ خالی زمین کیسی ہوتی ہے، یوں ان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بورڈ پر لگا اسکول کا نام پڑھ لے تو سمجھو پڑھانے کا مقصد پورا ہوا۔

کوئی ویران، اُجڑی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی عمارت بھی اسکول سمجھی جائے گی، کیوں کہ اسے دیکھ کر بچوں کیا بڑوں کو بھی عبرت ہوگی کہ بابا! ہر چیز فانی ہے۔ عبرت میں تعلیم بھی آجاتی ہے اور تربیت بھی۔

عمارت کے باہر اسکول کا بورڈ لگا ہو اور اندر پوری عمارت کسی وڈیرے کی اوطاق بنی ہو تو اسے بھی اسکول قرار دیا جائے۔ اوطاق میں ہونے والی باتوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اسکول میں بنی اوطاق اور اوطاق میں ہونے والے فیصلے انھیں یہ سبق پڑھانے کے لیے کافی ہیں کہ پڑھائی میں کچھ نہیں رکھا، طاقت اور پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

اسکول کے نام پر بنائی جانے والی کسی عمارت میں گائے، بھینسیں اور بکریاں بندھی ہوں تو اس عمارت کو اسکول سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان مویشیوں کو دیکھ کر غریب بچے ان کے بارے میں جانیں گے اور ان میں اُمنگ پیدا ہوگی کہ ترقی کرکے کم ازکم کسی وڈیرے کے مویشی کا درجہ پالیں۔ دوسرے اس طرح انھیں انسانیت کا سبق ملے گا اور ان میں قربانی کا جذبہ بیدار ہوگا، کیوں کہ وہ سوچیں گے انسانیت کی معراج یہی ہے کہ جانوروں کے آرام پر بچوں کی تعلیم قربان کردی جائے۔

اگرچہ ہم نے اسکول کی تعریف متعین کردی ہے، لیکن کوئی ہرج نہیں اگر دی گئی ان دیگر تعریفوں کو ملاکر اسکول کی ’’تعریفات‘‘ طے کرلی جائیں، اس طرح دستاویزات میں اسکولوں کی تعداد بڑھانے میں مدد ملے گی اور صوبے میں تعلیم فروغ پاتی صاف نظر آئے گی۔

usman.jamai@express.com.pk

The post ’اسکول‘ کس بلا کا نام ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے مفت سامع بلامعاوضہ مشیر

$
0
0

’’اوسان رینٹل‘‘ جاپان میں فراہم کی جانے والی ایک سروس ہے، جس کے ذریعے آپ قیمت ادا کرکے ایک اَدھیڑ عمر شخص کا وقت اور توجہ خرید سکتے ہیں، جو آپ کی ساری باتیں، مسائل اور مشکلات کان لگا کر پوری محویت سے سُنے گا اور آپ کو مشورے بھی دے گا۔ جاپانی میں ’’اوسان‘‘ کا مطلب ہے انکل، یعنی اس سروس کا مطلب ہوا ’’کرائے کے انکل۔‘‘

پاکستان میں یہ سہولت مفت دست یاب ہے۔ یہاں ایسی آنٹیوں اور انکلوں کی کمی نہیں جو آپ کے خالصتاً نجی مسائل سُننے اور ان کا حل پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہاں ’’مِرے ہسبینڈ مجھے پیار نہیں کرتے‘‘ سے ’’اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا‘‘ تک کوئی بھی مسئلہ کسی سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے، جو پورے ذوق وشوق سے پوری بات سُنے گا بلکہ حسب توفیق مشورے بھی دے گا۔

ہمارے ہاں دوسرے کے نجی معاملات کی کھوج، اس کے مسائل جاننے کی طلب، اور انھیں حل کرنے کا شوق افراط سے پایا جاتا ہے۔ یہ شوق حد سے بڑھ جائے تو پیشہ بن جاتا ہے اور دیواروں پر ’’چھوٹو رام بنگالی، جس کے کالے جادو کا کاٹا پانی نہ مانگے‘‘،’’پروفیسر گوگو، جن کے ایک عمل سے پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں‘‘ اور ’’ماہر امراضِ پوشیدہ ڈاکٹر بے شرم بے ہودہ‘‘ کے اشتہارات ہر مسئلے کا فوری حل پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جاپانی ’’کرائے کے انکل‘‘ کی طرح ان کی مدد کی قیمت چُکانی پڑتی ہے اور اکثر بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ وہ کرائے کے انکل ہیں جو سائل کو بیچ کھاتے ہیں۔

جہاں تک مفت مسائل سُننے اور مشورہ دینے والوں کا تعلق ہے وہ گلی محلے، چوک، نکڑ، دکان، دفتر، محفل، بس اور ٹرین۔۔۔ہر جگہ دست یاب ہیں۔ یہ جب آپ سے پوچھیں ’’سب خیریت ہے؟‘‘ تو اس کا بین السطور مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ تم خیریت سے تو نہیں ہو، اگر خیریت سے ہو تو ہمارے کس کام کے۔

اگر اس سوال کے جواب میں آپ نے کمر کے درد، پیٹ کے مروڑ یا نزلے زکام جیسا کوئی طبی مسئلہ بتا دیا تو یہ آپ کو نسخے اور ڈاکٹروں کے نام پتے بتابتا کر سر درد میں مبتلا کردیں گے۔ یہ مفت سامع اور بلامعاوضہ مشیر اگر پڑوس کی خالہ ہیں تو ہمسائی خاتون سے شوہر کے اعمال، ساس نندوں کے افعال اور کوائف سُسرال کُریدکُرید کر یوں معلوم کرتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ برآمد ہو ہی جاتا ہے، اگر نہ ہو تو یہ خود کوئی مسئلہ پیدا کردیتی ہیں پھر اس کا حل تجویز کرتی ہیں۔

آپ کے اردگرد ایسے لوگ بھی یقیناً ہوں گے جن کا کام بن مانگے مشورہ دینا بلکہ تھوپنا ہوتا ہے’’آپ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی دوسری نوکری کیوں نہیں کرلیتے؟‘‘،’’ارے ملازمت چھوڑ کر کاروبار کریں‘‘،’’ارے اس کاروبار میں کیا رکھا ہے، یہ کاروبار کریں، اس میں بڑا منافع ہے‘‘،’’کار خرید لیں‘‘، ’’یہ کار بیچ کر وہ کار لے لیں‘‘۔۔۔۔ ہونا یہ چاہیے کہ مسئلوں کا حل بتانے اور مشورے دینے والوں سے حل اور مشورہ سُننے کے سروس چارجز وصول کیے جائیں، یقین مانیے یہ خواتین وحضرات مسئلے حل کرنے اور مشورے دینے کے ہوکے میں یوں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیسے دے کر بھی مشورہ دیں گے۔ پھر یہ ہوا کرے گا کہ کوئی صاحب آپ سے آکر کہیں گے ’’ایک مشورہ دینا ہے، سُننے کے کتنے لیں گے‘‘، اُس وقت آپ کا جواب ہوگا ’’پانچ منٹ سُننے کے پانچ سو روپے‘‘، وہ سَر کھجاکر لجاجت سے کہیں گے،’’زیادہ نہیں ہیں۔۔۔‘‘ یہ سُن کر آپ جونہی آگے بڑھنے لگیں گے وہ پانچ سو کا نوٹ آپ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہیں گے’’ارے ناراض کیوں ہوتے ہیں، چلیے ٹھیک ہے جو آپ کی مرضی، تو پھر سُنیے۔۔۔۔۔‘‘

usman.jamai@express.com.pk

 

The post ہمارے مفت سامع بلامعاوضہ مشیر appeared first on ایکسپریس اردو.

پوچھے بِنا موہے پیدا نہ کیجو

$
0
0

’’اب کے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘‘ تو سُنا تھا لیکن اب یہ نیا مطالبہ سامنے آنے کو ہے کہ ’’پوچھے بنا موہے پیدا نہ کیجو۔‘‘

اس مطالبے کی شروعات بھارت کے ستائیس سالہ نوجوان رافیل سموئل نے اس اعلان کے ساتھ کردی ہے کہ وہ اپنے والدین پر مقدمہ کر رہا ہے کیوںکہ اس کی رائے لیے بغیر اسے دنیا میں لایا گیا، اس لیے رافیل کے والدین کو اسے زندگی گزارنے کے لیے رقم ادا کرنی چاہیے۔ رافیل نے کہا ہے کہ ’’میں بھارت سمیت دنیا بھر میں ہر شخص کو یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سمجھے کہ اس پر اپنے والدین کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔‘‘

اگر رافیل میاں واقعی اپنے والدین پر مقدمہ کردیتے ہیں اور جیت جاتے ہیں تو انھیں تو مالی فائدہ ہوگا، لیکن اس طرح دنیا بھر میں ماں باپ بننے کے آرزومند خواتین وحضرات یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کل کلاں کو ایسے ہی کسی مقدمے میں پھنسنے سے بہتر ہے آج ہی ممکنہ اولاد سے پوچھ لو کہ میاں، بی بی! کیا آپ ہمارے ہاں تولد ہونا پسند فرمائیں گے؟ اگر واقعتاً پیدا ہونے کے لیے مرضی معلوم کرنے کا کوئی طریقہ دریافت ہوگیا تو عجیب منظر ہوگا۔ لوگ اس طرح کی درخواستیں لکھ رہے ہوں گے،’’فدوی کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے۔ کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ جس شہر میں مقیم ہے وہاں نلکوں سے ہَوا یا مٹی مِلا ہُوا پانی آتا ہے۔ درخواست گزار ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر اچھلتی بسوں اور تھرکتے چنگچیوں میں دھکے کھاتا دفتر جاتا ہے۔ جب گھر میں پورا دن بجلی ہو تو حیران ہوتا اور خوشی مناتا ہے، ورنہ تو مسلسل غم سے ناتا ہے۔ اس درخواست کا مقصود آپ سے یہ رائے لینا ہے کہ اگر آپ نے پیدا ہونے کا ارادہ کرلیا ہے اور دنیا میں آنے کی ٹھان لی ہے تو کیا آپ فدوی کے گھر کو اپنی ولادت کا اعزاز بخشنا پسند فرمائیں گے؟

وضاحت: فدوی کے مالی حالات کا سُن کر اس غلط فہمی کا شکار مت ہوئیے گا کہ آپ کی ولادت کے جملہ اُمور دائی پھاتاں یا دائی بشیرن کے سپرد کیے جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اس مقصد کے لیے فدوی نے اپنا ایک گُردہ اور آپ کی ممکنہ ومجوزہ والدہ کے زیور بیچ کر ایک بڑے نجی اسپتال میں بُکنگ کروادی ہے۔

درخواست گزار

باپ بننے کا خواست گار

نورالدین دلدار‘‘

اس درخواست کا جواب ان الفاظ میں آئے گا:

’’او ہو، صاف لگ رہا ہے پاکستان سے ہو، اور وہ بھی اچھے خاصے غریب، دیکھو بھئی، پہلے پیدا گیری کرو، پھر کچھ پیدا کرنے کے خواب دیکھو اور شوق سے نورنظر لخت جگر پیدا کرو۔ اول تو فی الحال ہمارا دنیا میں وارد ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک ارادہ تھا۔ بِل گیٹس کو درخواست بھیجی تھی کہ ہم آپ کے ہاں پیدا ہونا چاہتے ہیں، ہوجائیں؟ جواب آیا، ’میرے پاس پہلے ہی ایسی پندرہ بیس لاکھ درخواستیں آئی ہوئی ہیں، اگر میں نے تمھیں اپنے گھر ولادت کی اجازت دے بھی دی تو تمھارا نمبر کہیں آخر میں ہوگا، پھر کہتے پھروگے۔۔۔میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی۔ میاں! میرے پاس ماں ہے، کا ڈائیلاگ بس فلموں تک ہے، یہاں ماں بھی اُسی اولاد کے پاس ہوتی ہے جس کے پاس مال ہو۔ مجھے معاف رکھو کہیں اور پیدا ہوجاؤ۔‘ اس جواب نے ہمیں ایسا دل برداشتہ کیا کہ ہم نے پیدا ہونے کا ارادہ ہی ملتوی کردیا۔ ویسے بھی ہمیں پیدا ہونا ہوا تو پاکستان کے عام آدمی کے ہاں ہرگز تولد نہیں ہوں گے۔ ہمیں پتا ہے وہاں ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ پیدا ہوتے ہی عربی یا فارسی لغت سے کوئی مشکل سا لفظ نکال کر اسے ہمارا نام بنادیا جائے گا۔ بڑے ہوکر اس کے معنی معلوم کریں گے تو پتا چلے گا ’اُلو کی دُم‘ یا ’بیل کی پونچھ‘ جیسا کوئی مطلب ہے۔ دودھ کے لیے یا کسی تکلیف میں روئیں گے تو عجیب فضول سے منہہ بنا کر اور واہیات سی آوازیں نکال کر مزید رُلایا جائے گا۔ پھپھو کی اولاد کی اُترن پہنائی جائے گی اور میرا شہزادہ کہا جائے گا۔ نیند نہیں آرہی ہوگی مگر کسی ’بھئو‘ کے آنے کا ڈراوا دے کر سُلانے کی ناکام کوشش کی جائے گی۔ ہم اپنی زبان میں لاکھ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ ارے جاہلو! کوئی بھئو ووؤ نہیں ہوتا، مگر کوئی سمجھے گا ہی نہیں۔ تین چار سال کے ہوں گے کہ بھاری بستہ لاد کر ہمیں ہماری عمر سے بھی کم تنخواہ والی ٹیچروں کے حوالے کردیا جائے گا۔ نہیں بھئی، ہم یہیں ٹھیک ہیں۔ کراچی کی ڈیفینس سوسائٹی یا لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے درخواست آئی تو پاکستان میں پیدا ہونے کا سوچیں گے۔‘‘

usman.jamai@express.com.pk

The post پوچھے بِنا موہے پیدا نہ کیجو appeared first on ایکسپریس اردو.


خوابوں کی تعبیر

$
0
0

چھت پر صبح کی نماز پڑھنا

منزہ بیگم ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کی چھت پر ہوں اور نماز پڑھ کے اوپر ہی چل رہی ہوں جیسے واک کرنے کے لئے ہم پھرتے ہیں۔ چلتے چلتے دن کی روشنی نمودار ہونے لگتی ہے اور سورج طلوع ہونے لگتا ہے۔ مجھے یہ نظارہ بہت اچھا لگتا ہے اور میں ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی چلی جاتی ہوں ۔ جب سورج اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ میری آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں تو میں پیچھے ہٹ جاتی ہوں۔ اس کے بعد مجھے نہیں یاد، شائد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پر مستحکم ہوں گے۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں۔

جنگل میں جانور کا حملہ

رمیہ علی،لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اکیلی پتہ نہیں کہاں چلی جا رہی ہوں ۔ رات کا وقت ہے اور کافی اندھیرا سا ہے بلکہ یوں سمجھیں جیسے جنگل سا ہے۔ اچانک سامنے سے ایک جانور مجھ پر حملہ کرنے کے لئے میری طرف چھلانگ لگاتا ہے اور میں خوفزدہ ہو کہ وہیں پتھر بن جاتی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے مگر بہت دیر تک خوف کا شکار رہتی ہوں ۔ پلیز مجھے بتائیے کہ اس کی کیا تعبیر ہے ۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

چھت پر سانپ

صوفیہ بشیر، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی ہوں اور وہاں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر والی منزل کی طرف جا رہی ہوں۔ اچانک میری نظر اوپر کی طرف جاتی ہے وہاں مجھے ایک بہت بڑا کالے رنگ کا سانپ دکھائی دیتا ہے جو چھت سے چمٹا ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو جاتی ہوں کیونکہ تنگ سی سڑھیوں میں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر گر جائے گا ۔ اس کے بعد مجھے نہیں یاد کہ وہ گرا یا نہیں اور میں نے کیا کیا ۔ شائد میری آنکھ کھل گئی ہو ۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں، مگر یہ جو حصہ مجھے یاد ہے وہ اسی خوفناک سانپ والا یاد ہے۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

قرآن مجید کی تلاوت کرنا

حمید رضا علی، اسلام آباد

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی مجمعے یا جلسے نما جگہ پر ہوں اور پتہ نہیں شائد کسی کے کہنے پر یا خود ہی وہاں لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر قرآن پاک کی سورت کی تلاوت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ وجہ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیوں ادھر کھڑا ہو کر تلاوت کر رہا ہوتا ہوں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ خاموشی سے سن رہے ہوتے ہیں ۔ جب میں تلاوت ختم کر کے اسٹیج سے نیچے اترتا ہوں تو وہاں ایک بزرگ بارعب سے چہرے والے مجھے گلے لگا کہ بہت پیار کرتے ہیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلوو کاروباری معاملات میں دشمن پر فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

گھر کے لان میں پھول

صالحہ نیاز، شیخوپورہ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر کے چھوٹے سے لان میں کھڑی اپنے پودوں کو دیکھ رہی ہوتی ہوں ۔ اور حیران ہو رہی ہوتی ہوں کہ اس وقت سردی کے موسم میں خزاں ہر طرف ہے مگر میرا باغ انتہائی گرین اور رنگ برنگے پودوں و پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ کہ ایسے خوش شکل پھول ہوتے ہیں کہ میں وہاں کھڑی یہ سوچ رہی ہوتی ہوں کہ یہ تو میں نے نہیں خریدے، یہ میرے باغ میں کیسے آ گئے۔ ان پر کافی تتلیاں بھی آ کر بیٹھی ہوتی ہیں ۔ غرض بالکل بہار کا سا سماں ہوتا ہے۔ جبکہ آج کل سردی کی وجہ سے سب جانتے ہیں کہ کہیں بھی ہریالی نہیں ہے ۔ برائے کرم مجھے اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر :اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پر بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

فوت شدہ افراد کو شادی میں دیکھنا

انیسہ انصاری، سکھر

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی شادی میں گئی ہوئی ہوں۔ وہاں کافی چمک دمک والا ماحول ہوتا ہے جیسے عام طور پر ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔ وہیں مجھے عورتوں کے گروپ میں انتہائی خوش و خرم اپنی کچھ رشتے دار نظر آتی ہیں جو انتقال کر چکی ہیں ۔ وہ بھی انتہائی زرق برق لباس پہنے مٹھائی کے ڈبے لئے موجود ہوتی ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں بتا دیجئے کہ یہ کیسی شادی تھی جس میں سب مرے ہوئے ہی لوگ تھے ۔

تعبیر : آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں ۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

چشمے سے پانی پینا

ملیحہ طور، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ کہیں چھٹیاں منانے جا رہی ہوں۔ ہم لوگ راستے میں تھکاوٹ اتارنے کے لئے رکتے ہیں۔ اچانک میری نظر پہاڑی کی ایک سائیڈ پر پڑتی ہے جہاں سے ایک پتلی سی نالی آ رہی ہوتی ہے۔ آگے بڑھنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ آگے ایک زبردست سا چشمہ ہوتا ہے۔ ہم سب پیاس سے بے حال ہوتے ہیں تو پانی دیکھ کہ خوشی سے آگے آ کر اس کو پیتے ہیں، منہ دھوتے ہیں ۔ وہ پانی بہت ہی میٹھا اور مزے دار ہوتا ہے۔ ہم سب پی کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس ویرانے میں ہم کو پانی ملا ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

 زبردستی شادی پر لے جانا

راجہ بشیر، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں ایک شادی پر ہوں جو کہ ہمارے کسی رشتے دار کی ہے۔ جہاں میں جانا نہیں چاہتا مگر میری بیوی زبردستی مجھے لے جاتی ہے۔ وہاں جانے سے پہلے ہمارے گھر میں بہت لڑائی ہوتی ہے۔ جب ہم لڑ جھگڑ کر شادی پر پہنچتے ہیں تو مجھے یہ دیکھ کے بہت حیرت ہوتی ہے کہ دلہن اور دولہا ہمارے وہ رشتے دار ہوتے ہیں جن کا آج سے کئی سال پہلے انتقال ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ بہت خوش نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوھر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے۔ جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں۔

درخت لگانا

منصورہ سلیم، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں، دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ہے۔ اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں ۔

تعبیر: ۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے کسی خوشخبری کے ملنے پہ دلیل کرتا ہے۔ کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی بھی امید ہے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ خواب اچھا ہے اس میں بالکل بھی گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔

بیل گم ہو جاتا ہے

حرا پروین، لاہور

خواب : میرے ابو نے خواب میں دیکھا کہ ہم ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک باد دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں ہے۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا ۔

تعبیر: یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسے پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد استغفار کثرت سے پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔

قرآن کی آیات لکھنا

الماس خان،گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے ہیں۔ یہاں میری نانی کے رشتے داروں کے ہاں ہماری دعوت ہوتی ہے جس میں مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات کو لکھتا ہوں۔ سب لوگ یہ دیکھ کہ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا۔ یہاں پہ موجود لوگ مجھ سے اصرار کرتے ہیں کہ میں ان کو بھی کچھ لکھ کے دوں اور میں خوشی خوشی ان سب کے لئے فرمائشیں نوٹ کرنے لگ جاتا ہوں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں ۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

رشتہ دار کا بکری بھیجنا

امین دلاور،لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے کسی رشتے دار نے ہمارے لئے تحفتاً ایک بہت صحت مند بکری بھیجی ہے، میری بیوی اس کو دیکھ کے بہت ناراض ہو رہی ہے کہ ہم کہاں رکھیں گے اور اس سے تو بہتر ہے کہ بیچ دیا جائے۔ مگر مجھے وہ بہت پسند آتی ہے اور میں سختی سے کہتا ہوں کہ نہیں میں خود اس کی دیکھ بھال کر لوں گا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ھے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا ۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

لذیذ پکوان کھانا

رحیم الدین علی، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی جگہ پہ موجود ہوں اور ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں ۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

آم کھانا

وقار الحق، اسلام آباد

خواب ؛ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے آم توڑ کر کھا رہا ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کر دیتا ہوں، وہ سب بھی بہت مزے لے لے کر کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی زندگی میں کوئی خوشخبری آنے والی ہے ۔ آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابند ی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

بس میں سفر کرنا

مرتضٰٰی منصور، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں بس میں کہیں جا رہا ہوں، راستے میں اچانک بس خراب ہونے پر دوسری سواریوں کے ساتھ میں بھی وقت گزارنے کو ٹہلتا ہوا کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہوں ۔ وہاں کچھ آدمی بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں ۔ سلام دعا کے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں جو کہ میں قبول کر لیتا ہوں کھانا ہوتا تو سادہ ہے مگر بے حد لذیذ جس کا ذائقہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ھم کو یہ نعمت دی۔ وہ خوشی، سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ، کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

نئے گھر میں گندگی

مہرین علی، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ ہم نیا گھر لیتے ہیں اور خوشی خوشی سب رشتے داروں کو دکھانے کے لئے لے کر جاتے ہیں ۔ سب کو ہی بہت پسند آتا ہے مگر میری نند کے چہرے پہ وہ خوشی نہیں ہوتی جو وہ اظہار کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں میرے میاں اپنے بھائی کو سارا گھر دکھا کے لاتے ہیں تو میری نظر ان کے پاوں پہ پڑتی ہے جہاں انسانی گندگی لگی ہوتی ہے اور شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔ میں پیچھے دیکھتی ہوں تو سارے سفید فرش پہ جا بجا گندگی کے نشان پڑے ہوتے ہیں۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے ۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں ۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں۔ ہو سکے تو حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

خشک میوہ جات خریدنا

عمران یوسف،لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں موسم کے لحاظ سے خشک میوہ جات خریدنے اپنے دوست کے ساتھ بازار آتا ہوں اور ہم دونوں مختلف چیزیں خریدتے ہیں۔ میں زیادہ تر اخروٹ لیتا ہوں ۔ گھر آ کے جب ہم ان کو کھانے لگتے ہیں تو وہ سب انتہائی کڑوے ہوتے ہیں جن کو کھانا ناممکن ہوتا ہے۔ میں ایک کے بعد ایک توڑتا چلا جاتا ہوں مگر کوئی ایک بھی ٹھیک نہیں نکلتا سب کے سب انتہائی کڑوے ہوتے ہیں۔

تعبیر: یہ خواب مالی معاملات میں پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے۔کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ صدقہ و خیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں۔

گندے اور خراب دانت

زوھیب رب نواز، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کالج جانے کے لئے تیار ہو رہا ہوں، اچانک میری نظر اپنے دانتوں پر پڑتی ہے جو کہ بہت گندے اور خراب نظر آ رہے ہوتے ہیں ۔ میں یہ دیکھ کر کافی پریشان ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مجھے فوراً کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر دانت چیک کرانے چاہئیں، اس کے بعد مجھے یاد نہیں۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری آ جائے جس کی وجہ سے آپ پریشان ہو سکتے ہیں ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ محفل مراقبہ میں بھی دعا کرا دی جائے گی ۔

سانپ کاٹ لیتا ہے

لبنٰی سعید، شاہ کوٹ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے صحن میں صفائی کر رہی ہوں ۔ وہاں جو کونے میں درخت ہے اس کے نیچے دھوتے ہوئے اچانک کوئی چیز میرے اوپر گرتی ہے جس سے میں ایک دم بہت خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ دیکھتی ہوں تو وہ ایک پتلا سا کالا سانپ ہوتا ہے جو میری طرف لپکتا ہے۔ میں تیزی سے جھاڑو اس کی طرف پھینکتی ہوں مگر وہ اس کو لگتا نہیں اور وہ تیزی سے میری طرف لپکتا ہے اور میری ٹانگ پہ اچھل کے کاٹ لیتا ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا جس سے آپ کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حفیظ یا اللہ کا ورد کیا کریں ۔کوشش کریں کہ کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔ صبح بعد از فجر اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ 101 مرتبہ نصرمن اللہ و فتح قریب پڑھ کر اللہ تعالی سے دعا کریں کہ آپ کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل

میں آدمی فضول ہوں، حیرت کی بات ہے

لیکن اسے قبول ہوں، حیرت کی بات ہے

خوش ہوں تمہارے ساتھ میں تھوڑا بہت مگر

تھوڑا بہت ملول ہوں، حیرت کی بات ہے

یعنی کہ آسمان سے  نسبت نہیں مجھے

یعنی زمیں کی دھول ہوں، حیرت کی بات ہے

جس آدمی کی یاد نے سب کچھ بھلا دیا

اس آدمی کی بھول ہوں، حیرت کی بات ہے

تہذیب یافتہ مجھے توصیفؔ نے کہا

جاہل ہوں، بے اصول ہوں، حیرت کی بات ہے

(توصیف یوسف اشعر،گوجرانوالہ)

غزل

ہجر کی آنچ پہ ڈھالی رات

لمبی، گہری، کالی رات

پہلے نیند کا سندیسہ تھی

اب ہے نیند سے خالی رات

دن تو تنہا کٹ جاتا ہے

پَر نہیں کٹتی، سالی رات

جانے کان غلط سنتے ہیں

یا دیتی ہے گالی رات

تم نے شام میں آنا تھا

تم نے پھر کر ڈالی رات

شاید مجھ کو کھا جائے گی

ہجر کے صدموں والی رات

(محمد احمد لنگاہ، عارف والا، پنجاب)

غزل

آ زلف میں گوندھوں میں تری، رنگ دھنک کے

ماتھے پہ سجا دوں میں ستارے یہ فلک کے

عارض پہ ترے آ کہ ملوں برگِ گلابی

ہوں لوگ تمنائی، تری ایک جھلک کے

چہرہ نہ دوپٹّے میں چھپا اور قریب آ

تابع ہیں مرے لب، ترے ماتھے کی تلک کے

پا زیب میں بھر دوں میں دل اپنے کی دھڑکن

آ مجھ میں سما، روح سے تُو اپنی چھلک کے

اے روپ کی رانی! ترا اشکوں سے ہے کیا کام

یاسینؔ چُنے موتی تری بھیگی پلک کے

(ایم یاسین آرزو، لاہور)

غزل

کانپ اٹھا فرش، گریبانِ عزادار کُھلا!!

چپ سے  ماحول  کی، طوفان کا اظہار کُھلا

کون وارد ہوا بستی میں کہ سب سوداگر

چھوڑ کے آئے ہیں بازار کا بازار کُھلا

سَر کہیں گم ہے، کہیں پیچ الجھتے جائیں

طبع مدہوش  سنبھل!،  حلقۂ دستار کُھلا

خیر ہنسنے سے تمہارے تو ہے دنیا واقف

میرا رونا  بھی کھلا تو پسِ دیوار کُھلا

کیسے چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش ہوگی

راز اس وقت کھلا ہم پہ  کہ جب دار کُھلا

سوز خود چشمِ سیہ کا مجھے بننا ہے ہدف

جائے خالی نہ کسی  طور کوئی  وار کھلا

(حمزہ ہاشمی سوز، لاہور)

غزل

کوئی قیمت لگا ئے سائے کی

ہے یہ دیوار بھی کرائے کی

بجھ گئی ہے پڑے پڑے سگریٹ

چسکیاں لے رہا ہوں چائے کی

کوئی پردہ ہے یا کہ دعوتِ عام

دل کشی دیکھیے عبائے کی

مصنوعی دھوپ ہم پہ پھیلا کر

اجرتیں مانگتے ہیں سائے کی

وہ جو گمنام سے سخن ور ہیں

شاعری کر رہے ہیں پائے کی

رقص و مے کی سجی یہ محفل اور

ساتھ میں ہلکی ہلکی گائیکی

مشورہ آپ سے لیا ہم نے

اور پھر رد سبھی کی رائے کی

اپنے سارے خفا ہیں عارف جی

آپ کو فکر ہے پرائے کی!!!

(عارف نظیر، کراچی)

غزل

مداروں کا یہ کارخانہ فہد جی

مشینیں ہیں کُن کا ترانہ فہد جی

جو جنگل میں سب سے پرانا شجر ہے

وہی ہے مرا آستانہ فہد جی

مسافر نے گٹھڑی پہ لکھا ہوا ہے

نہیں ہے غمِ آشیانہ فہد جی

بچھونا قلندر کا ساری زمیں ہے

ہے سارا فلک شامیانہ فہد جی

خلیفہ زمیں کا بنایا گیا تھا

تبھی کھایا آدم نے دانہ فہد جی

لپیٹے گا چادر وہ شمس و قمر کی

رہیں گے نہ روز و شبانہ فہد جی

مرے سر پہ رکھا ہوا سیب بولا

اگر چُوک جائے نشانہ فہد جی

(سردارفہد، ایبٹ آباد)

غزل

یہ سڑک آر پار کب ہو گی

وصل والی بہار کب ہو گی

کب تلک ایک ایک پَل جینا

زندگی بے شمار کب ہو گی

کیسے برسے گی دید کی شبنم

آرزو بے قرار کب ہو گی

زندگی اک رکھیل ہے جیسے

چاہتوں کا مدار کب ہو گی

یہ محبت ہے آٹھ آنے فقط

ایک، دو، تین، چار کب ہو گی

(وقار احمد، کہوٹہ)

غزل

ہم کو دینے میں غم رہ گئے ہیں

اب تو  مرنے کو  ہم رہ گئے ہیں

اب لہو میں بھی وحشت ہے رقصاں

جھیلنے کو ستم رہ گئے ہیں

جان لیوا ہے یہ کارِ الفت

جانے کتنے یہ دم رہ گئے ہیں

آج زندہ میں مَر کر بھی جو ہوں

تیرے نقشِ قدم رہ گئے ہیں

ہم  تو رسوا  ہوئے  ہیں میاں جی

آپ بس محترم رہ گئے ہیں

کر سکیں حق بیانی جو حمزہؔ

چند اہلِ قلم رہ گئے ہیں

(امیر حمزہ سلفی، اسلام آباد)

غزل

پلٹ جانا کوئی مشکل نہیں تھا

مرا ہی واپسی کا دل نہیں تھا

متاعِ زیست لاحاصل نہیں تھا

ولے پانے کے میں قابل نہیں تھا

وہ چھریاں دھار جس پر ہو رہی تھیں

میرا ہی دل تھا کوئی سل نہیں تھا

مریضِ عشق ہونے تک سنا ہے

ادھوری ذات تھا، کامل نہیں تھا

میں پیاسا تھا مگر ہونٹوں سے محروم

سمندر تھا، مگر ساحل نہیں تھا

نہ دو الزام بھنورے کو علیؔ تم

وہ ہرگز پھول کا قاتل نہیں تھا

(ابو لویزا علی، کراچی)

غزل

بزم میں جام میں شراب میں ہے

مہک بن کر تُو ہی گلاب میں ہے

نین  رقصاں کہ مل گئے نیناں

دل ہے غمگیں کہ رخ حجاب میں ہے

کیوں ستارے ہیں اس طرح روشن

حسن جو آج آب و تاب میں ہے

کون شاعر ہے گر غزل ہے تو

کس مصنف کی تُو کتاب میں ہے

سوچنا تجھ کو روز و شب میرا

ہے گناہوں میں یا ثواب میں ہے

اب سخاوت دکھائیں کیا اس کو

دل جگر جان سب عذاب میں ہے

(سخاوت اکرام، لودھراں)

غزل

دل سے میری چاہت کو ہرگز نہ مٹا رکھنا

آؤں گا میں خوابوں میں خوابوں کو سجا رکھنا

ہر شام یہ عادت ہے نا کامِ  محبت کی

یادوں کی منڈیروں پر کچھ دیپ جلا رکھنا

جاناں کے تصور میں مخمور نگاہوں  کو

اشکوں  کے دیے روشن آنکھوں  کو بجھا رکھنا

ہر شام جدائی  کی محفل کو سجا لینا

بے داد و ستم سہنا احساسِ وفا رکھنا

اس ظلمتِ دوراں کا یہ دادؔ تقاضا ہے

شمعوں کو بجھا دینا اور دل کو جلا رکھنا

(داد بلوچ ، فورٹ منرو)

غزل

محبتوں سے کہانی کی ابتدا کے لیے

مجھے بنایا گیا تھا اسی سزا کے لیے

تمہارے ہجر کی زنجیر میں نہ توڑوں گا

یہ کھڑکی کھولی ہے میں نے تو بس ہوا کے لیے

لکھا ہے خود جسے فطرت نے استعاروں میں

وہ تیرا نام ہے اے دوست ریختہ کے لیے

نگاہِ ناز کی ان شوخیوں کے افسانے

لکھے ہیں میں نے تو لکھے ہیں بس بقا کے لیے

میں اس کے ہونٹ کا وہ تِل بنانے بیٹھا ہوں

مجھے صدا نہ لگائے کوئی خداکے لیے

سمجھ کے بادِ صبا لے گئی خراج اپنا

ندیمؔ پھول کھلے تھے جو دلربا کے لیے

(ندیم ملک، سیٹی کنجروڑ۔ نارووال)

غزل

تڑپ رہی ہے زباں اور تشنگی چُپ ہے

خدا کے گھر میں اندھیرا ہے روشنی چُپ ہے

میں اپنی حسرتِ گمنام پر ہوں رنجیدہ

اداس دل ہے مرا اور ہر خوشی چُپ ہے

پکارتا ہوں جسے مَیں جنوں کی حالت میں

تباہ کرکے مجھے اس کی دوستی چپ ہے

یقیں اداس، نمو خشک، وحشتیں بیدار

فلک خموش، ہوا بند، شام بھی چپ ہے

ہوا چلی بھی تو نفرت کی ہر طرف احمدؔ

وطن میں خار اگے ہیں ہر اک کلی چپ ہے

(احمد حجازی، لیاقت پور)

غزل

حُسن میں آفرین لگتی ہو

قد میں بھی پانچ، تین لگتی ہو

جب پہنتی ہو سرخ رنگ لباس

تب بَلا کی حسین لگتی ہو

لوگ مجھ کو تو تیز کہتے ہیں

تُم بھی کافی ذہین لگتی ہو

مَیں تمھیں بہترین لگتا ہوں

مجھے تم بہترین لگتی ہو

جس نگر ہجر کو زوال نہیں

اُس نگر کی مکین لگتی ہو

سات پردوں میں رہ رہی ہو تم

چرخ کی جانشین لگتی ہو

مَیں محبّت کے میم سا اور تُم

عشقِ اوّل کا شین لگتی ہو

(اسامہ زاہروی، ڈسکہ، سیالکوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

’پاک بحریہ‘ اُبھرتی بحری طاقت

$
0
0

وسط 2011ء کی بات ہے، پاکستان کے اینٹلی جنس اداروں کو یہ چشم کشا خبر ملی کہ بھارت نے عمان کے ساحلی گائوں،راس الحدکے نزدیک ایک ریڈار اسٹیشن قائم کر لیا ہے۔ اسٹیشن کے ذریعے بھارتی افواج اس قابل ہو گئیں کہ بحیرہ عرب میں انجام پائیں پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں اور پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کی نقل وحرکت پہ نظر رکھ سکیں۔

یہ دفاع ِپاکستان کو لاحق ہو جانے والا ایک بڑا خطرہ تھا۔دراصل بھارت 2008 ء میں عمان کے ساتھ جنگی تعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔اسی معاہدے کے باعث عمانی حکومت نے بھارتی افواج کو راس الحد پہ ریڈار لگانے کی اجازت دے دی۔تاہم عمانی حکمران باخبر ہوں گے کہ یہ اسٹیشن ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے، امت میں عدم اتفاق عالم اسلام کے زوال کا اہم سبب بن گیا ہے۔

بہرحال پاک بحریہ اور سبھی پاکستانی عسکری حلقوں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کہ دشمن نہ صرف ہمارے سمندر،بحیرہ عرب تک پہنچ چکا بلکہ وہ وہاں ہونے والی ہماری سرگرمیوں پہ بھی نظر رکھ سکتا ہے۔بدلتے حالات میں یہ ضروری ہو گیا کہ دشمن کی چالیں ناکام بنانے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔یہی وجہ ہے ،2011ء سے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے اعلی دماغ پاک بحریہ کا پہلا نظریہ المعروف بہ ’’میری ٹائم ڈاکٹرائن‘‘تیار کرنے کے لیے تحقیق و محنت کرنے لگے۔ان کی بھرپور کوشش اور جدوجہد حال ہی میں رنگ لے آئی جو ملک وقوم کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔

سمندر کیوں اہم ؟

دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار اور بے پناہ ترقی کے باعث اسلحے اور جنگ کے شعبوں میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ امریکا اور چین میں خصوصاً ایسے نت نئے ’’روبوٹ ہتھیاروں‘‘ پر تحقیق و تجربات جاری ہیں جو مستقبل کی جنگوں میں حصہ لیں گے۔ یوں میدان جنگ میں انسانوں کی موجودگی کم سے کم رہ جائے گی۔ایک جنگ زمین، فضا اور سمندر میں لڑی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ہر بڑا ملک اپنے مضبوط دفاع کی خاطر بری، فضائی اور بحری افواج رکھتا اور انہیں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو ایک ہزار کلو میٹر سے زائد طویل ساحل سمندر کا تحفہ عطا کررکھا ہے۔

اپنے ساحلوں کی حفاظت و دفاع کے لیے پاک بحریہ ہر دم چاق و چوبند رہتی ہے۔سمندر اور دریا بھی اس لیے اہمیت رکھتے ہیںکہ دنیا بھر ’’80 فیصد تجارت‘‘ سمندری و دریائی راستوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تقریباً ایک لاکھ مال بردار بحری جہاز امریکا سے لے کر نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن تک ہر قسم کا سامان پہنچاتے ہیں۔ اسی وسیع و عریض سمندری تجارت نے بین الاقوامی معیشت کو نہ صرف ترقی دی بلکہ اسے سہارا بھی دے رکھا ہے۔ایک بڑامال بردار بحری جہاز چھ سے آٹھ ہزار تک ٹی ای یو (TEU) یعنی ٹوئنٹی فٹ ایکویلینٹ یونٹ لے جاسکتا ہے۔ اگر ٹرین کے ذریعے کہیں اتنا ہی سامان بھجوانا پڑے، تو کم از کم پندرہ ریلیں درکار ہوں گی۔

ہر ریل ایک میل لمبی ہونی چاہیے جس میں اوپر تلے دو کنٹینر لدے ہوں۔ ظاہر ہے، ریلوں کے ذریعے مال بھجوانے پر کثیر سرمایہ خرچ ہوگا۔ پھر زیادہ افرادی قوت درکار ہوگی۔ نیز دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مال بھجوانے پر بہت زیادہ ایندھن بھی لگے گا۔ مگر سمندری تجارت انسان کو ان تمام جھنجھٹوں سے بچالیتی ہے۔ یہ بات انسانی زندگی میں سمندری تجارت کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔

پچھلے تیس برس میں مگر سمندروں میں خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مثلاً کئی اسمگلر اور بین الاقوامی نیٹ ورک سمندری راستوں ہی سے اسلحہ، منشیات، قیمتی سامان حتیٰ کہ انسان تک اسمگل کرتے ہیں۔ سمندروں کے راستے اسمگلنگ بہت بڑا کاروبار بن چکا جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ ہر ملک کی بحری فورسز سمگلروں کے خلاف اقدامات کرتی ہیں۔ نیز بہت سی سرگرمیاں مشترکہ طور پر بھی کی جاتی ہیں۔ کئی برس سے پاک بحریہ بھی انفرادی طور پر اور دیگر بحری فورسیز کے ساتھ مل کر مقامی و عالمی سمندروں میں قانون و معاشرہ دشمن عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ 2004ء سے مختلف ممالک کی بحری افواج ’’کمبائنڈ ٹاسک فورس‘‘ بناکر سمندروں میں اسمگلروں، دہشت گردوں اور دیگر قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں نے کئی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ہمارے جوانوں نے مستعدی و دلیری کے اپنے جوہر دکھلائے۔

انڈوپیسفک ریجن میں گریٹ گیم

2015ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر دنیا کے دو بڑے سمندر…بحر ہند اور بحرالکاہل عالمی معیشت و سیاست میں اہمیت اختیار کرتے چلے گئے۔ بحرہند اس لیے اہم ہے کہ دنیا کے 80 فیصد تیل کی عالمی تجارت اسی سمندر کے مختلف بحری راستوں سے ہوتی ہے۔ یہی نہیں، ہمارے بحیرہ عرب سے متصل خلیج فارس تیل کے بحری جہازوں کی آمدورفت کا بہت بڑا مرکز ہے۔چین اپنا تقریباً سارا تیل بحر ہند یا بحرالکاہل کے راستے منگواتا ہے۔ لہٰذا چین کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اہم مقامات پر اپنے اڈے قائم کرلے تاکہ تیل اور دیگر سامان کی سمندری تجارت بلا روک جاری رہے اور کوئی خطرہ جنم لے تو اسے دور کیا جاسکے۔ اسی سوچ کے تحت چین سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، پاکستان، جبوتی اور صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں تجارتی مراکز قائم کرچکا۔

2015ء کے بعد ہی چین اور پاکستان کے مشترکہ ’’سی پیک منصوبے‘‘ کا آغاز ہوا۔ اسی منصوبے کے تحت 2016ء سے چینی سرکاری کمپنی، چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔بھارت بحرہند میں چین کے تجارتی اڈوں خصوصاً گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چین گوادر کو بطور عسکری بیس بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اسی لیے بھارت بحرہند میں چین کی سرگرمیوں اور سی پیک منصوبے کی مخالفت کرنے لگا۔

اسی دوران امریکا بھی چین کا مخالف بن کر سمندروں کی بالادستی پانے کی خاطر جاری گریٹ گیم میں شامل ہوگیا۔معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ممالک کی خفیہ جنگ نے بحرہند اور بحرالکاہل کے مجموعی علاقے کو بڑا اہم تزویراتی جغرافیائی علاقہ بنادیا جسے عرف عام میں ’’انڈوپیسفک ریجن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ محدود تھا مگر اب عسکری ماہرین کے نزدیک یہ علاقہ براعظم افریقہ کے ساحل سے لے کر براعظم شمالی امریکا کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، اسی علاقے میں دنیا بھر کی 80 فیصد سمندری تجارت ہوتی ہے۔ لہٰذا اب سپرپاورز اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہیں۔ ہر سپرپاور کا نیا قدم مختلف واقعات جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔

انڈوپیسفک ریجن میں دراصل امریکا، چین، بھارت، جاپان، انڈونیشیا، آسٹریلیا، پاکستان، ایران، سعودی عرب، تائیوان، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا جیسے اہم و طاقتور ملکوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا چین کو تجارتی و عسکری لحاظ سے اپنا حریف سمجھتا ہے۔ امریکی جرنیل رفتہ رفتہ یہ نظریہ سامنے لائے کہ مستقبل میں چین امریکا کے عالمی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ جب امریکی قوم پرست رہنما، ڈونالڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے علی الاعلان چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔اس تجارتی جنگ میں فی الوقت تعطل آیا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ امریکی حکومت چینی حکمرانوں سے گفت و شنید کرکے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے۔

مقصد یہ ہے کہ امریکا و چین کی تجارت میں امریکیوں کو جو بھاری خسارہ ہورہا ہے، وہ کم سے کم کیا جاسکے۔ اگر دونوں سپرپاورز کے مابین مذاکرات ناکام رہے، تو خصوصاً انڈوپیسفک ریجن میں چین اور امریکا کی بحری افواج کے مابین تصادم کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔امریکا کی بحری فوج تین لاکھ انتیس ہزار سپاہ پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس 480 جنگی جہاز ہیں۔ دنیا کی اس سب سے بڑی بحری سپاہ میں سے ڈھائی لاکھ فوجی انڈوپیسفک ریجن میں ہی موجود ہیں۔ یہ سپاہ دو سو سے زائد جنگی جہاز رکھتی ہے۔ گویا امریکا کی بحری قوت اسی علاقے میں مرتکز ہے۔

چین کی بحری فوج میں ڈھائی لاکھ سے زائد فوجی شامل ہیں۔ یہ فوج 512 جنگی جہاز رکھتی ہے۔ اس فوج کا بڑا حصہ بھی انڈوپیسفک میں موجود ہے۔ امریکا اور چین کے علاوہ اس علاقے میں بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، شمالی کوریا، پاکستان اور فلپائن بھی مضبوط بحری فوج رکھتے ہیں۔ اس باعث بحری جنگ کے حوالے سے انڈوپیسفک ریجن کو دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس علاقے کی بڑھتی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر ہی پچھلے سال مئی 2018ء میں امریکی حکومت نے اپنی قدیم ترین عسکری کمانڈ… یونائیٹڈ اسٹیٹس پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے یونائٹیڈ اسٹیٹس انڈوپیسفک کمانڈ رکھ دیا تھا۔

یہ نام اس لیے بھی رکھا گیا تاکہ امریکا اور بھارت کی بحری افواج قریب آجائیں اور وہ بحرہند اور بحرالکاہل کے سمندروں میں مشترکہ طور پر مختلف سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ یہی وجہ ہے، دونوں ممالک دو سال قبل ایک اہم معاہدے، لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگرمنٹ (LEMOA) پر دستخط کرچکے تھے۔اسی اہم معاہدے کے ذریعے امریکی بحری فوج کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ بھارتی بندرگاہیں استعمال کرسکتی ہے۔ جبکہ بھارتی بحریہ کو یہ فائدہ ملا کر اسے مشرق وسطیٰ میں ان بندرگاہوں تک رسائی مل گئی جن کا انتظام امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔

بیرون ملک بندرگاہ تک رسائی

ایک مملکت کو کسی غیر ملک کی بندرگاہ تک رسائی مل جائے، تو یوں اسے کئی لحاظ سے فوائد ملتے ہیں۔ مثلاً سمندری تجارت کو رواں دوا ںکھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ دوران سفر ملک کا کوئی بحری جہاز خراب ہوجائے تو اسے بندرگاہ لے کر جلد ٹھیک کرنا ممکن ہے۔ بندرگاہ پر گودام بھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ غرض یہ سہولت بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت اب مختلف ممالک کی بندرگاہیں استعمال کرنے کی خاطر ان سے معاہدے کررہا ہے۔

2014ء میں قوم پرست رہنما نریندر مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھال لیا۔ موصوف اپنی جنگجویانہ فطرت کے  باعث بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان کے زیر قیادت بھارتی بحریہ بھی جارحانہ پالیسیاں بنارہی ہے۔ خاص طور پر اس نے بحرہند بلکہ پورے انڈوپیسفک ریجن میں اپنی سرگرمیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھادیں۔ حتیٰ کہ بحرہند کے کئی جزائر بشمول مارشیس اور سیشلیز میں بھارتی بحریہ جنگی اڈے بھی قائم کرچکی ہے۔

پاکستان میں یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت ہمارے پڑوس، ایران میں بندرگاہ چابہار کا آپریشنل کنٹرول حاصل کرچکا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بھارت عمان کے مقام دقم اور انڈونیشیا کی بندرگا، سبانگ میں بھی اپنے اڈے قائم کرچکا ہے۔ مزید براں عمان کے ساحلی علاقے، راس الحد میں بھارتی بحریہ ایک ریڈار بھی نصب کرچکی۔دقم بحیرہ عرب پر واقع عمان کی بندرگاہ ہے۔ فروری 2018ء میں عمانی حکومت نے بھارتی بحریہ کو اجازت دے دی کہ وہ بندرگاہ کو بطور لاجسٹک و سپورٹ استعمال کرسکتی ہے۔ یوں بھارتی بحریہ کو پاکستانی سمندر، بحیرہ عرب میں ایک عسکری اڈہ مل گیا۔ بھارت دقم میں مختلف تعمیراتی و صنعتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کررہا ہے تاکہ عمان میں اپنا اثرورسوخ بڑھاسکے۔

راس الحد خلیج عمان میں واقع ہے۔ اس کے بالکل سامنے پاکستانی بندرگاہیں، گوادر اور جیوانی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے۔جیسا کہ بتایا گیا، بھارتی بحریہ نے 2011ء سے اس مقام پر ایک ریڈار اسٹیشن بنا رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے جولائی 2018ء میں انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے انڈونیشی حکومت سے درخواست کی کہ بھارتی بحریہ کو سبانگ بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بندرگاہ بھارتی جزائر نکوبار و انڈیمان سے صرف 90 ناٹیکل میل دور ہے۔ بھارت بندرگاہ کی ترقی کے لیے وہاں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔بھارت انڈوپیسفک ریجن میں واقع مختلف ممالک کی بندرگاہوں تک رسائی اسی لیے پارہا ہے کہ نہ صرف اپنی سمندری تجارت کو مضبوط بناسکے بلکہ جنگ کی صورت میں انہیں بطور عسکری اڈے بھی استعمال کرسکے۔

اسی لیے پاکستان بجا طور پر بحرہند میں بھارتی بحریہ کی بڑھتی سرگرمیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جائے گا جب آنے والے برسوں میں گوادر کے راستے باقاعدہ سمندری تجارت شروع ہوگی۔جیسا کہ بتایا گیا، بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی اور چینی بحری افواج کے تصادم کا خدشہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ چین کے حکمرانوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے یہی خدشہ مدنظر رکھ کر پاکستانی بندرگاہ گوادر کو ترقی دی اور وہاں اپنا اڈا قائم کرلیا۔ خدانخواستہ اگر بحرالکاہل میں جنگ چھڑجائے، تو چین گوادر کے راستے مشرق وسطیٰ سے تیل کی سپلائی لائن بحال رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا گوادر بندرگاہ پاکستان اور چین، دونوں کے لیے اہمیت اختیار کرگئی۔

پاک بحریہ کا گشت

اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہر ملک کا حق ہے، لیکن بحرہند میں بھارت کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ اس سمندر میں خود کو بالادست طاقت کے طور پر دکھانا اور منوانا چاہتا ہے۔ پاکستان اس کی چودھراہٹ قبول کرنے کو تیار نہیں، اس لیے بحرہند میں بھارتی حکمران جارحانہ حکمت عملی بنارہے ہیں۔وہ اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو مرعوب و کمزور کرنا چاہتے ہیں۔بھارتی حکمران طبقے نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی حکمرانوں کا مسلسل قبضہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان کی بری، فضائی اور بحری تینوں افواج دشمن کی چالوں پر متواتر نظر رکھیں اور اس کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتی رہیں۔

اسی سوچ و حکمت عملی کے تحت پچھلے سال پاک بحریہ نے بحیرہ عرب اور بحرہند میں ’’ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول‘‘ (Regional Maritime Security Patrol) کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان سمندروں میں دوست ممالک کی بحری افواج سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نیز سمندروں میں گشت کرکے دشمن کو خبردار کیا جائے کہ پاک بحریہ ہر قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کا یہ گشت وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔دلچسپ بات یہ کہ ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول کے تحت گشت کرنے والا  پاک بحریہ کا پہلا جنگی جہاز، پی این ایس سیف عمان کی مسقط بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔یہ پاکستان کی بحری تاریخ میں یادگار موقع او اہم سنگ میل تھا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ وہ وطن عزیز کے سمندروں کی حفاظت اور دفاع کرنے کی خاطر پوری طرح مستعد و تیار ہے۔

بھارت کی ’’ ایٹمی مثلث( بری، بحری، فضائی ایٹمی صلاحیت)

نومبر 2018ء میں بھارتی حکومت نے ایک اور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بحرہند میں بلاسٹک ایٹمی میزائلوں سے لیس بھارتی آبدوز، اریہنت آپریشنل ہوگئی ہے۔یوں بھارت نے ’’ایٹمی مثلث‘‘ (Nuclear triad) کی صلاحیت پالی یعنی بھارتی افواج اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ زمین، فضا اور سمندر… تینوں مقامات سے ایٹمی میزائل اور ایٹم بم چھوڑ سکیں۔تمام ایٹمی ہتھیاروں میں ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز ہی سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زمین ا ور فضا میں ایٹمی ہتھیار دشمن کے ریڈاروں، حساس آلات اور مصنوعی سیاروں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی خاصی حد تک شناخت ہوجاتی ہے۔ نیز دشمن پہلے حملہ کرکے انہیں تباہ بھی کرسکتا ہے۔

ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز کو مگر تہہ سمندر میں شناخت کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ آبدوز بناتے ہوئے اس کی چادروں میں خصوصی مادے اور کیمیکل ملائے جاتے ہیں تاکہ حساس آلات اسے آسانی سے شناخت نہ کرسکیں۔ آبدوز میں پوشیدہ رہنے کی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں۔ چنانچہ یہ آبدوز ’’دوسرا وار‘‘(Second strike) کرنے کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ ایسی آبدوز کئی ماہ زیر آب رہ سکتی ہے۔ نیز نہایت مختصر وقت میں اس سے ایٹمی میزائل چھوڑنا ممکن ہے۔ اسی لیے یہ آبدوز نہایت تباہ کن ہتھیار تصور ہوتا ہے۔

فی الوقت امریکا، روس، چین، بھارت، اسرائیل اور برطانیہ ’’ایٹمی مثلث‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان بھی آبدوز سے چھوڑا جانے والا ایٹمی میزائل ’’بابر سوم ‘‘تیار کرچکا لیکن یہ کروز میزائل ہے جبکہ ایٹمی بلاسٹک میزائل زیادہ موثر اور دور تک مار کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال بابر سوم کی ایجاد سے پاکستان بھی خاصی حد تک ’’ایٹمی تکڑی‘‘ کی صلاحیت حاصل کرچکا۔ خیال ہے کہ یہ میزائل اگوستا آبدوز میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ 450 کلو وزنی ایٹم بم یا روایتی بارود ساڑھے چار سو کلو میٹر دور لے جاسکتا ہے۔

بھارتی میری ٹائم ڈاکٹرائن

بھارت 2004ء میں اپنی پہلی ’’میری ٹائم ڈاکٹرائن‘‘ یا بحری نظریہ سامنے لایا تھا۔ 2007ء اور 2009ء میں نظریاتی قوانین میں رودبدل کیا گیا۔ جب مودی حکومت آئی، تو اکتوبر 2015ء میں بھارتی بحریہ نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لائی جسے ’’بھارتی بحری سکیورٹی حکمت عملی: سمندروں کو محفوظ بنانا‘‘ (Indian Maritime Security Strategy: Ensuring Secure Seas) کا نام دیا گیا۔اس نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن کے تحت بھارت بحرہند، بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں واقع تمام اہم سمندری راستوں اور جزائر کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتا ہے۔ نیز یہ بھی طے کیا گیا کہ انڈوپیسفک ریجن پر بھر پور توجہ دی جائے تاکہ ہر قسم کی سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔

بھارت کا یہ نیا بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن جنگ و جدل کے نظریات بھی سموئے ہوئے ہے۔ بحری ہو، فضائی یا بری، اس قسم کے نظریات تاریخ، عملی تجربات، جنگوں، دستیاب ٹیکنالوجی اور مستقبل ذہن میں رکھ کر تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ نیز جیو پالیٹکس (ارضی سیاست)، خطرات، قومی عزائم بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔دنیا کے تمام بڑے ممالک کی افواج اپنے اپنے عسکری نظریے (ملٹری ڈاکٹرائن) ماہرین کی مدد سے تخلیق کرتی ہیں۔ اس کو پھر مختلف اداروں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ سبھی اداروں میں مصروف کار افسر و نوجوان عسکری نظریات کی غرض و ماہیت جان کو اپنے فرائض بخوبی انجام دیں۔ انہیں علم ہو کہ وہ کون سا کام کیوں اور کیسے کررہے ہیں۔ مزید براں انہی عسکری نظریات کے ذریعے عیاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کی افواج اور باشندے دوران جنگ کس قسم کا ردعمل دکھائیں گے اور لڑائیاں کیسے لڑیں گے۔

یہ مگر یاد رہے کہ ملٹری ڈاکٹرائن اور حکمت عملی کے مابین فرق ہے۔ حکمت عملی کے تحت عملی منصوبہ بنتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ نظریے کے اصول و قوانین پر عمل کیا جاسکے۔گویا ملٹری ڈاکٹرائن حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن عسکری نظریے سے یوں مختلف ہے کہ اس میں سمندروں سے متعلق غیر عسکری معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں۔ بنیادی طور پر میری ٹائم ڈاکٹرائن کے دو حصے ہوتے ہیں…عسکری اور معاشی۔ معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ مملکت کے سمندروں میں کتنی معدنیات اور ایندھن موجود ہے۔ ملک کی بندرگاہوں، سمندری تجارت، جغرافیہ وغیرہ کے معاملات بھی اس حصے میں آتے ہیں جبکہ عسکری حصہ بحریہ، کوسٹ گارڈ اور سمندروں کا دفاع کرنے والے دیگر سیکورٹی اداروں سے متعلق ہوتا ہے۔

سمندروں کی آزادی محفوظ

بھارت جب جارحانہ میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لایا تو یہ ضروری ہوگیا کہ پاک بحریہ بھی اپنی میری ٹائم ڈاکٹرائن پیش کردے تاکہ حال و مستقبل میں درپیش دفاعی چیلنجوں سے حُسنِ تدبر و تدبیر سے نمٹا جاسکے۔ اس ضمن میں زبردست سرگرمی دکھائی گئی اور سال گزشتہ کے آخری مہینے اسے مکمل کرلیا گیا۔11 تا 20 دسمبر2018ء لاہور میں واقع پاکستان نیول وار کالج میں پاک بحریہ کے زیر انتظام ایک سکیورٹی ورکشاپ منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ’’نیلی معیشت: خوشحال پاکستان ‘‘۔ اسی ورکشاپ کے آخری روز پاک بحریہ کی پہلی میری ٹائم ڈاکٹرائن بہ عنوان ’’سمندروں کی آزادی محفوظ بنانا‘‘ (Preserving Freedom of Seas”) پیش کیا گیا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ اس کے افسر و جوان بیدار و مستعد ہیں۔ وہ کبھی ملک و قوم کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پاک بحریہ کی میری ٹائم ڈاکٹرائن پاکستان کے محفوظ و خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔

ہمارے ہاں عسکری حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ وطن عزیز پر بری اور فضائی حملوں کا زیادہ خطرہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں سمندری راستے سے بھی لشکر ہندوستان سے آتے رہے۔ مثال کے طور پر فاتح سندھ، محمد بن قاسم کا مرکزی لشکر سمندر کے راستے ہی آیا تھا۔ بہرحال بھارتی بحریہ بحیرہ عرب میں سرگرم ہوئی تو پاکستانی عسکری حلقوں کو احساس ہوا کہ دشمن ہمارے ساحلی علاقوں تک آپہنچا ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اب جامع بحری نظریہ اور حکمت عملی وضع کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی سوچ کے باعث پاک بحریہ کا پہلا میری ٹائم ڈاکٹرائن معرض وجود میں آیا۔

اس میری ٹائم ڈاکٹرائن میں بحری معیشت اور بحری جنگ، دونوں حصوں کی بابت بھر پور معلومات موجود ہیں۔ یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کے سمندروں کو کئی خطرات درپیش ہیں۔ نیز وہ رہنما خطوط بھی واضح کیے گئے جن پر عمل کرکے پاک بحریہ اور بحری سکیورٹی سے منسلک دیگر ادارے خطرے دور کرسکتے ہیں۔یہ ڈاکٹرائن دس ابواب پر مشتمل ہے۔ شروع کے ابواب میں برصغیر پاک و ہند کی بحری تاریخ بیان ہوئی ہے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد دفاع وطن میں پاک بحریہ کی خدمات کا تذکرہ پڑھ کر قاری جوش و جذبے سے بھرجاتا ہے۔ آخری ابواب میں ان اصول و قوانین کا ذکر ہے جن پر امن و جنگ کی حالت میں پاک بحریہ عمل کرے اور حکمت عملی بنائے گی۔ یقیناً یہ میری ٹائم ڈاکٹرائن پاک بحریہ کو بحرہند میں ابھرتی بحری طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

بحریہ کی جنگی تیاریاں

پاک بحریہ بحرہند میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھر پور عسکری تیاریاں کررہی ہے۔ جون 2018ء میں اس نے دو فریگیٹ (جنگی جہاز) خریدنے کے لیے چین کی سرکاری شپ بلڈنگ کارپوریشن سے معاہدہ کیا۔ یہ ٹائپ 054AP فریگیٹ جدید ترین سازوسامان سے لیس ہوں گے۔ پاکستان اسی کمپنی سے ٹائپ 054A فریگیٹ بھی حاصل کررہا ہے۔ یہ جنگی جہاز میزائلوں سے لیس ہوں گے۔

حال ہی میں پاک بحریہ کے زیر اہتمام ’’امن بحری مشقیں 2019ء‘‘ منعقد ہوئیں۔ پاک بحریہ یہ مشقیں 2007ء سے منعقد کررہی ہے۔ ان میں دوست ممالک کی بحری افواج کے دستے بھی شرکت کرتے ہیں۔حالیہ مشقوں میں پہلی بار پاک بحریہ کے نئے نکور ریپلیشمنٹ ٹینکر( replenishment tanker) نے حصہ لیا۔’’ پی این ایس معاون‘‘ (اے 39) نامی یہ ٹینکر سمندروں میں جنگی جہازوں، آبدوزوں اور تجارتی جہازوں کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ ان مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کے جوانوں کو تجربہ حاصل کرنے کا نادر موقع ملا۔

بحیرہ عرب میں پاکستان کی سمندری حدود دو لاکھ نوے ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اب میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل سے اس وسیع و عریض علاقے کا انتظام و انصرام کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس علاقے میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہوسکتے ہیں۔ امریکا کی مشہور تیل کمپنی، ایکسون اطالوی کمپنی، ای این آئی لمیٹڈ کے تعاون سے کراچی کے ساحل سمندر سے 280 کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں تیل کے کنوئیں تلاش کررہی ہے۔

میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس کے تخلیق ہونے سے پاکستان اب اپنے سمندری علاقوں کا کنٹرول بخوبی سنبھال سکتا ہے۔ نیز یہ ڈاکٹرائن بحری دفاع مضبوط کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ اس کے ذریعے پاک بحریہ ایک مضبوط اور طاقتور بحری قوت کی صورت میں سامنے آئے گی۔

مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان

جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی مقبوضہ کشمیر میں ممتاز سماجی تنظیم ہے۔اس کی تازہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ 2018 ء میں بھی خطہِ کشمیر میں بھارتی افواج نے کشمیریوں پہ ظلم وستم ڈھانا جاری رکھا۔اس نے 267 مجاہدین اور 160  شہری بیدردی سے شہید کر دئیے…جن میں تیس بچے بھی شامل تھے۔نیز آنکھوں اور جسم پہ چھرے لگنے سے ہزارہا چھوٹے بڑے کشمیری شدید زخمی ہوئے اور ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ایسا خوفناک ظلم وستم کرہ ارض پہ کہیں اور کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

اس رپورٹ کو مگر بھارت،یورپی ممالک اور امریکا کے کسی اخبار نے شائع نہیں کیا۔کسی ٹی وی نیٹ ورک پہ بیٹھے مبصروں نے تبصرے نہیں کیے۔بس چند نیوزویب سائٹس میں یہ رپورٹ شائع ہو گئی۔لیکن جیسے ہی پلوامہ میں عادل احمد ڈار نے بھارتی فوجیوں سے بھری بس کو نشانہ بنایا،پورے بھارتی ومغربی میڈیا میں جیسے طوفان برپا ہو گیا۔اس واقعے کو ’’ظالمانہ‘‘ اور ’’اندوہناک‘‘کہا گیا۔یہ بھارتی ومغربی میڈیا کی منافقت اور بے حسی کی انتہا ہے۔کیا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری کیڑے مکوڑے ہیں کہ ان کی جانیں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟

بھارتی سیکورٹی فورسیز کئی برس سے نہتے کشمیریوں پہ مظالم ڈھا رہی ہیں۔کشمیری نوجوان پہلے پتھروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔اب وہ بندوق سنبھال چکے۔کشمیر کی نئی نسل اب بھارتی افواج سے برسرپیکار ہے۔مگر بھارتی حکمران یہ سچائی چھپاتے اور پاکستان پہ الزام تھوپ دیتے ہیں کہ اس نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے۔بھارت نواز مغربی میڈیا بھی اپنے شہریوں کو یہ سچ دکھانے کو تیار نہیں کہ کشمیر میں شہری بھارتی ریاست سے نبردآزما ہیں۔وہ طویل غلامی سے تنگ آ چکے اور اب آزادی چاہتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم مودی کچھ عرصے سے دبائو کا شکار تھے۔پہلے انھیں اہم ریاستوں کے الیکشن میں شکست ہوئی۔پھر یہ رپورٹ سامنے آئی کہ ان کے دور حکومت میں بھارتی شہریوں کو کم ملازمتیں ملی ہیں۔گویا لاکھوں بھارتیوں نے انھیں ووٹ دے کر جو خواب دیکھا تھا کہ اب دودھ وشہد کی نہریں بہیں گی،وہ پورا نہیں ہو سکا۔اس صورت حال میں مودی کو آمدہ الیکشن میں اپنی ہار دکھائی دینے لگی۔مگر پلوامہ کے واقعہ نے ان میں نئی روح پھونک دی۔

وجہ یہ کہ بی جے پی اور مودی جی،دونوں نفرت کی سیاست کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔بی جے پی بابری مسجد پر سیاست کرنے سے مقبول ہوئی۔ مودی نے2002ء میں لاشوں پہ سیاست کر کے شہرت پائی۔یہی وجہ ہے،اب وہ پلوامہ کی لاشوں پہ سیاست کر کے الیکشن پہ اثرانداز ہونے کی سعی کریں گے۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں کشمیروں پر حملے ہوئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔

The post ’پاک بحریہ‘ اُبھرتی بحری طاقت appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’جملہ حقوق محفوظ ہیں‘‘ کا ایک منفرد انتباہ!

مرسلہ: فاروق احمد، کراچی

ایک نہایت اچھوتا ’کاپی رائٹ نوٹس‘ جو اردو کے ایک ثقہ ادیب نے دہلی کے موقر روزنامے میں شائع کیا، کچھ اس طرح تھا:

’’پہلے بھی خبردار کیا تھا اور دوبارہ کہے دیتے ہیں کہ جو بھی جملہ حقوق کے معاملے میں ہاتھ ڈالے گا اور اس بابت سرمایہ کاری کرے گا، وہ اپنے نقصان کا بہ نفسِ نفیس ذمے دار ہوگا اور مقدمہ بازی کی لاگت بھی اپنے پلے سے ادا کرے گا۔۔۔ ہم بارہا وارننگ دے چکے ہیں، اس کے باوجود اگر کچھ طالع آزما اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا چاہتے ہیں، تو بہ صدِ شوق کٹوائیے اپنی ٹانگیں۔۔۔ ڈبوایئے اپنی لٹیا۔۔۔ فالتو کا پیسہ ہے، تو جرمانے اور ہرجانے کی مد میں ادا کرنے کے بہ جائے کسی فلاحی رفاہی ادارے میں بانٹ آئیے، ورنہ الف ہو یا ب، سب کا تین پانچ ہو جائے گا۔۔۔ میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے۔۔۔!‘‘

خانہ پُری، آگ کو کھیل ’’پتنگوں‘‘ نے سمجھ رکھا ہے۔۔۔!

ر ۔ ط ۔ م

ہمارے اسی میگزین کے صفحات پر ایک نہایت دل چسپ مضمون ’پتنگوں سے کھینچی جانے والی گاڑیوں‘ پر بھی شامل ہے، جسے پڑھ کر ہمیں تعجب ہوا کہ ماضی میں ایسا عجوبہ بھی ہو چکا۔۔۔!

ویسے صاحب، یہ تو گاڑیاں ہیں، ہمارے ہاں تو کئی حکومتیں تک ’پتنگوں‘ سے کھینچی جا چکی ہیں۔۔۔ اس مضمون کے مطابق ’پتنگ سے گاڑی چلانے و الے ’جارج پوکوک‘ نے اندازہ لگایا تھا کہ پتنگوں میں کسی چیز کو اُٹھانے یا بلند کرنے کی بہت زبردست طاقت ہوتی ہے۔‘

جی بالکل۔۔! ہمیں تو اس ’طاقت‘ کا اچھی طرح تجربہ ہے، یہاں کس طرح بہت سے لوگ ’پتنگ‘ سے بندھے، تو اتنے بلند ہوئے کہ ان کے پیر ہی زمین سے اٹھ گئے۔۔۔! پھر باقی کچھ ’اُٹھ‘ ہی گئے اور کچھ ایسے بھی اٹھے کہ ’بے چارے‘ ملک سے باہر گئے۔۔۔ (پھر بہت سے ’اُٹھ اُٹھ کے واپس بھی آئے) بہت سے یہاں ’اپنوں ‘پر ہی چڑھ دوڑے۔۔۔ ’بے زمینی‘ کے طعنوں سے تنگ بہت سی ’پتنگوں‘ نے ’طیش‘ میں آکر اپنی ہی گلیوں اور محلوں کی ’زمینوں‘ کو ہی ’’اپنا لیا‘‘ (چائنا کٹنگ) شاید ’دو فی صدیہ زمیں داروں‘ کے خلاف اس ’تحریک‘ کا مقصد انہوں نے اپنی ہی ’’دو فی صدیہ‘‘ میں شمولیت کو بنا لیا تھا۔۔۔ اور پھر جب برباد کرنے کو کچھ باقی نہ رہا تو ؎

آگ لگا کے شہر میں، فتنے جگا کے دہر میں

جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ’ہم نہیں!‘

اُس مضمون میں لکھا ہے کہ ’انیسویں صدی میں تجرباتی طور پر پتنگ کی ڈور سے کچھ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو باندھا جاتا، جو آسمان کی گہرائیوں میں جا کر گم ہو جاتے۔‘ گویا ’’چھوٹے پتھروں‘‘ کا ’پتنگ‘ سے جڑ کر گُم ہونے کا قصہ کوئی آج کی بات نہیں۔۔۔ یہاں تو کافی بڑے بڑے ’پتھر‘ بھی تھے، جو ’بوکاٹا‘ کے بعد گرے بھی تو ہمی پر گرے، بولے ’یہ آدمی ہمیں کہاں لے آیا۔۔۔!‘

جیسے جیسے ’’پتنگ گاڑی‘‘ والا ’جارج پوکوک‘ بڑا ہوتا گیا اس کے تجربے اور بھی زیادہ شدید اور خطرناک ہوتے چلے گئے۔‘ جی، بالکل! یہاں بھی اس باب میں تجربات کافی خطرناک ہوئے، پھر اس نے اپنے تجربات میں جو کچھ لکھا، آپ اس کی کوئی دوسری توجیہہ بھی ضرور ڈھونڈیے گا، ورنہ یقین مانیے ساری ’’خانہ پُری‘‘ رائیگاں جائے گی۔۔۔!

اُس نے لکھا کہ ’اس سفر کے لیے بپھری ہوئی ہوائوں کو لگامیں ڈالنا ہوں گی اور انہیں اپنے قابو میں کر کے اپنی پتنگ سے چلنے والی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لیے مہارت اور ہوشیاری کی ضرورت ہوگی۔ جب ہم فضا میں بلند ہوتی پتنگوں کو قابو میں کر کے اپنی منزل پر پہنچنے میں کام یاب ہوں گے، تو ہمیں زبردست خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا۔‘

اب آپ سامنے ہی ہے کہ یہاں بھی ’پتنگ‘ سے چلنے والوں کے لیے بپھری ہوا کو قابو میں نہ کیا جا سکا، تو کیا کیا ہوا۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ کب ’پتنگوں کو قابو میں کر کے ’منزل‘ پہنچا جاتا ہے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ کہ یہاں ’پتنگ باز‘ اور ’منزل‘ ایک دوسرے کا ’تضاد‘ قرار پائے ہیں!

تاریخ بتاتی ہے کہ ’جارج پوکوک‘ کی ’پتنگوں‘ کا تجربہ تو کام یاب نہ ہوا، کیوں کہ ’پتنگ‘ بھلے مضبوط ’ڈور‘ سے بندھی ہو، لیکن بپھری ہوئی ہَوا کو ’قابو‘ میں رکھنا تو اب تک خواب ہی ہے! یہ ہَوا جب منہ زور ہوتی ہے تو ’پکی‘ ڈور ’پتنگ‘ نہیں بچاتی، الٹا ہاتھ ’کٹا‘ کر ڈور سمیت ہی ’اُڑن چھو‘ ہو جاتی ہے۔۔۔!؎

آگ کو کھیل ’’پتنگوں‘‘ نے سمجھ رکھا ہے

سب کو ’انجام‘ کا ڈر ہو یہ ضروری تو نہیں!

’اسرار خودی‘ کتنی بار پڑھی ہے؟

مرسلہ: محمد اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

ایک دفعہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے علامہ اقبال سے دبی ہوئی زبان سے یہ عرض کا کہ ’اسرار‘ اور ’پیام‘ دونوں کتابیں سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن ان سے قطع نظر بھی نہیں کر سکتا، دماغ قاصر سہی، لیکن دل ان کی طرف ضرور مائل ہے۔ یہ سن کر علامہ نے دریافت فرمایا کہ ’’اسرارِ خودی کتنی بار پڑھی ہے؟‘‘

جواب میں کہا ’’جناب والا! ساری کتاب تو نہیں پڑھی صرف پہلا باب پڑھا، لیکن وہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے آگے پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اب رہی دوسری کتاب تو اس کی ساری غزلیں تو پڑھ لی ہیں، لیکن نہ لالہ طور تک رسائی ہوئی نہ نقش فرنگ تک۔‘‘

یہ سن کر علامہ نے فرمایا کہ ’’خوش نویسی یا موسیقی ایک دن میں نہیں آ سکتی تو فلسفیانہ نظمیں ایک دفعہ پڑھنے سے کیسے اور کیوں کر سمجھ میں آ سکتی ہیں؟ الفارابی نے ارسطو کی مابعدالطبیعات کو کئی سال تک پڑھا تھا۔ تم بھی اس کی تقلید کرو اور ان کتابوں کو بار بار پڑھو!‘‘

( پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی کی ’’کلیات شرح اقبال‘‘ سے چُنا گیا)

پانچ گھنٹے دیری سے۔۔۔!

مرسلہ: سترط شاداب، لانڈھی،کراچی

’’روٹھنا تو کوئی تم سے سیکھے دیو۔۔۔

بالکل ویسے کے ویسے ہی ہو۔۔۔!‘‘

’’تم بھی تو بالکل ویسی کی ویسی ہو۔‘‘

’’کیسی۔۔۔؟‘‘

’’گنوار۔۔۔!!‘‘

’’ہاں۔۔۔!! اب تو ہم سب گنوار ہی لگیں گے، لندن سے جو پڑھ کر آئے ہو!

ویسے لندن بہت بڑا شہر ہے نا۔۔۔!‘‘

’’لندن کی بات ہی کچھ اور ہے۔۔۔!

بڑے بڑے لوگ۔۔۔ بڑی بڑی باتیں۔۔۔ بڑی بڑی سڑکیں۔۔۔ بڑی عمارتیں۔۔۔

ٹریفالگر اسکوائر۔۔۔ کبوتر، رانی کا محل۔۔۔ جدھر دیکھو چہل پہل۔۔۔

لندن کے لوگ اپنی ہی دنیا میں مست ہیں۔۔۔!‘‘

’’ایک بات بتائو دیو، لندن کہاں ہے؟‘‘

’’پَچھم میں۔‘‘

’’سورج کہاں ڈوبتا ہے؟‘‘

’’پَچھم میں۔۔۔!!‘‘

’’کیا لندن میں سچ مچ سورج پانچ گھنٹے دیری سے اُگتا ہے۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ وہ تو ہے!‘‘

’’اسی لیے تم سب کچھ اتنی دیری سے سمجھتے ہو۔۔!‘‘n

(’’دیوداس‘‘ میں ’پارو‘ اور ’دیوداس‘ کے کچھ دل چسپ مکالمے)

چاندنی چَٹکی ہوئی ایک رات۔۔۔

قرۃ العین حیدر

رات گہری ہو چکی تھی۔ نیلمبر دت نواب کمن کے جانے کے بعد تھوڑی دیر ڈرائنگ روم میں ٹہلتے رہے، انہوں نے گھومنے والی الماریوں سے ایک کتاب نکال کر اس کی ورق گردانی کی، مگر اس میں بھی ان کا دل نہ لگا۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھا، الماریوں میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ اخباروں کے مجلد فائل، قانون کے رسالے، کمیٹیوں کی رپورٹیں اور قراردادیں۔ ہر طرف مسائل تھے اور مسائل کا حل انہوں نے پا لیا تھا۔

مسائل کا حل انہوں نے پا لیا تھا؟ نیلمبردت کا دم گھٹنے سا لگا۔ ہوا بند تھی اور رات گرم تھی، باہر سڑکوں پر لیمپ مدھم مدھم ٹمٹما رہے تھے۔ دفعتاً عروس البلاد کلکتہ ان کو بے حد خوف ناک معلوم ہوا، وہ گھبرا کر باہر برآمدے میں نکل آئے۔ ایسی ہی راتوں میں دکھی روحوں کی پرواز کی سنسناہٹ سنائی دیتی ہے۔ آنگن میں کیلے اور پام کے پتے ساکن کھڑے تھے۔ پختہ حوض کے کنارے ایک کتا دم ٹانگوں میں سمیٹے سو رہا تھا۔ اگر ان کو آواگون میں یقین ہوتا، تو شاید وہ سوچتے کہ یہ کتا کسی کی دکھی روح ہے، وہ برآمدے سے اتر کر گیندے کے کنارے کنارے ٹہلتے رہے۔ اوپر منو رنجن کے کمرے میں خاموشی چھا چکی تھی۔ کیمپبل میڈیکل اسکول کا لڑکا ابھی تک دریچے میں بیٹھا تھا، وہ بھی ہارمونیم کے پردوں پر سر رکھ کر سو چکا تھا۔ منورنجن کے کمرے سے جو زینہ باغ میں اترتا تھا، اس کی آخری سیڑھی پر بیٹھا کوئی تو رولتا کی نئی انگریزی نظم آہستہ آہستہ پڑھ رہا تھا۔ چاند اب دت ہائوس کے عین اوپر آچکا تھا۔

برآمدے میں لڑکوں کا ایک گروہ تورولتا کی نظم پر سر دھن رہا تھا۔ نیملبر دت مبہوت اس نظم کو سنتے رہے۔ انہوں نے آواز پہچانی، یہ ان کے بیٹے کی آواز تھی۔ منو رنجن اور وہ آہستہ آہستہ رو رہا تھا، وہ جس نے کلکتہ یونیورسٹی کے فلسفے اور منطق کے امتحانات میں سارے ریکارڈ توڑے تھے، جو اگلے ہفتے کیننگ کالج کا پروفیسر ہوکر پردیس جانے والا تھا۔

نیلمبردست مسکرائے۔ مبارک ہیں وہ لوگ انہوں نے اپنے آپ سے کہا، جو محبت کر سکے، خواہ اس میں انہیں ناکامی ہی ہوئی ہو، پھر انہوں نے چاند کو دیکھا، جو تیرتا تیرتا دت ہائوس کے عین مقابل میں آچکا تھا۔ اس کی کرنیں حوض کے پانی میں منعکس تھیں۔ چاند نے ان کو بہت سی کہانیاں سنائیں، وہ پورن ماشی کی رات تھی۔n

(شاہ کار ناول ’آگ کا دریا‘ کی کچھ سطریں)

قلعہ نما ریلوے اسٹیشن

مرسلہ: سید اظہر علی

1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔ ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔ کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔ عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے ، اسے بھی ہٹاکر دور لے جانا پڑا۔n

(رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے انتخاب)

صد لفظی کتھا ’دور اندیش‘

رضوان طاہر مبین

’’یہ ہمارے ملک کا وہ ضلع ہے، جہاں ترقیاتی کاموں کی صورت حال نہایت حوصلہ افزا ہے۔۔۔!‘‘

ثمر نے مجھے آگاہی فراہم کرنے والے انداز میں بتایا۔

پھر اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے وہاں کے کمشنر کی طرف اشارہ کر کے بولا:

’’دیکھو، انہیں موسمیاتی ’تبدیلی‘ کا کس قدر خیال تھا کہ انہوں نے یہاں کئی برس پہلے ہی بہت سارے درخت لگوا دیے۔‘‘

’’شجرکاری کی وجہ موسمیاتی تبدیلی نہ تھی!‘‘ کمشنر نے ٹوکا۔

’’پھر۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مجھے پتا تھا کہ یہاں سوئی گیس کا شدید بحران آنے والا ہے۔۔۔!‘‘

کمشنر نے نہایت آہستگی سے بتایا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیائے شوبز میں منفرد انداز اور آواز کے حامل ہالی وڈ سپر اسٹار ’وین ڈیزل‘

$
0
0

’’جب آپ نیویارک سٹی (امریکا) میں پروان چڑھتے ہیں، تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ شکاری ہیں یا شکار‘‘ یہ مقولہ کسی شاعر، دانش ور یا ادیب کا نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کا ہے، جس کی زندگی کڑی محنت، سختیوں اور بھرپور ایکشن سے عبارت ہے۔

خود پر یقین اور جُہد مسلسل نے اس شخص کو پورے عالم میں پہچان عطا کر دی، جی ہاں! منفرد انداز اور آواز کے حامل اس شخص کو دنیا وین ڈیزل کے نام سے جانتی ہے۔ وین ڈیزل کا حقیقی نام مارک سینکلر جو انہیں والدہ کی نسبت سے دیا گیا۔ 18 جولائی 1967ء کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کی الامیڈا کائونٹی میں پیدا ہونے والے ڈیزل کی ماں ڈیلورا سینکلر علم نجوم کی ماہر تھیں۔

اپنی قومیت کے بارے میں ڈیزل کا کہنا ہے کہ وہ اس اعتبار سے ابہام کا شکار ہیں، کیوں کہ ان کی والدہ انگلش، سکاٹش اور جرمن پس منظر رکھتی تھیں، وہ کبھی اپنے حقیقی والد سے نہیں ملے، تاہم ان کی پرورش سوتیلے باپ ارونگ ایچ وینسیٹ کی چھتر چھایہ میں ہوئی۔ یوں حقیقی باپ کی شفقت اور رہنمائی سے محروم وین کو اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے سینچنا تھا، جس کے لئے انہیں تن تنہا کئی دریا عبور کرنا پڑے۔

جارح مزاج ہیرو کی نجی زندگی کے متعلق بات کی جائے تو اس میں سب سے پہلا نام فلم فاسٹ اینڈ فیوریئس کی ہیروئن مچلے کا آتا ہے، جنہیں وہ پسند کرتے تھے، تاہم بعدازاں یہ تعلق ٹوٹ گیا۔

ڈیزل کی موجودہ لائف پارٹنر میکسیئن ماڈل پالوما جیمنز ہیں، ان کے تین بچے ہیں، جن میں سب سے بڑی بیٹی ہانیا 2008ء میں پیدا ہوئیں، پھربیٹا وینسینٹ سنکلر جبکہ 2015ء میں انہوں نے اپنی تیسری بیٹی کی پیدائش کا اعلان کیا، جس کا نام ڈیزل کے مرحوم دوست پال واکر(فاسٹ اینڈ فیوریئس کے شریک ہیرو) کی نسبت سے پائولین رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ڈیزل، پال واکر کے گزر جانے کے بعد ان کی بیٹی کے کفیل بھی ہیں۔

شوبز کی دنیا میں ڈیزل کی انٹری عمداً نہیں تھی، تاہم 7 برس کی عمر میں انہیں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے انہیں آج دنیا کے چند مقبول ترین اداکاروں میں شامل کر دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنے بھائی اور کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک تھیٹر میں مستی کرتے ہوئے عمارت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پکڑے گئے تو اس کے مالک نے انہیں پولیس کی حراست سے بچانے کے بدلے میں تھیٹر میں کام کرنے کی پیش کش کی، جس کے عوض 20 ڈالر بھی ملنے تھے تو ڈیزل نے فوری طور پر اس آفر کو قبول کرلیا۔ یوں سکول کے بعد وہ تھیٹر میں کام کرنے لگے۔

17سال کی عمر کو پہنچتے انہوں نے نیویارک سٹی کے ہنٹر کالج میں داخلہ لے لیا، جہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملی تو انہوں نے ڈرامہ و فلم کے لئے باقاعدہ لکھنے کی ٹھان لی، اس دوران اپنی پُرکشش جسمانی خدوخال کی وجہ سے وہ نیویارک کے ایک کلب کے بائونسر بن گئے تاکہ اس سے کچھ رقم کمائی جا سکے اور یہی وہ وقت تھا جب وہ مارک سینکلر سے وین ڈیزل بن گئے۔

ہنٹر کالج کو جوائن کئے ابھی انہیں 3 برس ہی بیتے تھے کہ ہالی وڈ میں انٹری کے لئے انہوں نے کالج کو الوداع کہ دیا، لیکن تھیٹر کا تجربہ رکھنے کے باوجود انہیں وہاں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی اور ایک سال کی تگ و دو کے بعد وہ واپس نیویارک سٹی لوٹ آئے، جہاں ان کی والدہ نے وین ڈیزل کو رِک شمٹ کی کتاب ’’Feature Films at used Car Prices‘‘ پڑھنے کو دی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد وین نے اپنا فلمی کیرئیر خود ہی شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنی فلم بنانے کا تہیہ کر لیا۔

1995ء میں انہوں نے صرف 3ہزار ڈالر کی لاگت سے ایک مختصر دورانیہ کی فلم (ملٹی فیشل) بنائی، جو اس قدر کامیاب ثابت ہوئی کہ اس فلم کو کینیس فلم فیسٹیول نے قبولیت کا شرف بخش دیا۔ بعدازاں وین لاس اینجلس چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنی دوسری فلم سٹریز(Strays) کے لئے ٹیلی مارکیٹنگ کے ذریعے 50 ہزار ڈالر جمع کئے۔ یہ فلم بھی کامیاب رہی اور صرف 6 ماہ بعد اسے سن ڈانس فلم فیسٹیول میں شمولیت کا موقع فراہم کر دیا گیا، جہاں اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان فلموں کے بعد ڈیزل کو باقاعدہ طور پر دیگر پروڈیوسرز کی طرف سے آفرز آنے لگیں۔

سب سے پہلے سٹیفن سپیلبرگ نے انہیں اپنی فلم سیونگ پرائیویٹ ریان میں کاسٹ کیا تو 1999ء میں دی آئرن جائینٹ کے ڈائریکٹر نے انہیں مرکزی کردار ادا کرنے کی آفر کر ڈالی، جس کے بعد ڈیزل نے کامیابی کی سیڑھی تھام کر ایسے اوپر چڑھنا شروع کیا کہ پھر نیچے نہیں دیکھا۔ 2016ء میں انہیں ایک سروے میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔

اداکاری کی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ قدرت نے وین کو ایسی آواز عطا کی جو فلم انڈسٹری میں ان کی انفرادیت کا سبب بنی، ان کی آواز صوتی تاثر نے دنیا بھر میں ایسی پہچان بنائی کہ شائقین نہ صرف بغیر دیکھنے ان کی آواز پر انہیں باآسانی پہچان سکتے ہیں بلکہ اس آواز کے شیدائی بھی ہیں۔ اس ضمن میں ڈیزل کا کہنا ہے ’’وہ 15 برس کے تھے، جب انہیں اپنی آواز کی انفرادیت کا احساس ہوا، یہ میرے لئے بہت خوش آئند تھا۔‘‘

عصر حاضر کے ایک کامیاب اداکار، ہدایت کار اور سٹوری رائٹر وین ڈیزل کی زندگی کے اوراق کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک بھولا سبق پھر سے دہرایا جا سکتا ہے کہ محنت، خوداعتمادی، مستقل مزاجی اور مصمم ارادہ کے حامل انسان کے لئے دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔

نامزدگیاں اور اعزازات

منفرد سوچ، آواز اور اداکاری کی حیثیت سے خود کو منوانے والے وین ڈیزل کو اپنے فلمی کیرئیر کے آغاز پر ہی مختلف اعزازات سے نوازے جانا، ان کی کامیابی کی ٹھوس دلیل تصور کی جاتی ہے۔ انہیں مجموعی طور پر 29 بار مختلف اعزازات کے لئے نامزد کیا گیا، تاہم وہ ان میں سے 9 بار ٹرافی اٹھانے میں کامیاب رہے، یعنی ڈیزل کو 9 بار مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ کسی بھی مقابلے کی جیت ہی اہم نہیں ہوتی بلکہ اس میں شمولیت کے لئے اہل قرار پانا بھی کسی کامیابی سے کم نہیں۔ 1999ء میں ایکشن ہیرو کو اپنی چوتھی ہی فلم سیونگ پرائیویٹ ریان ( Saving Private Ryan) پر آن لائن فلم کرٹیکس سوسائٹی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

2002ء میں مشہور زمانہ فلم دی فاسٹ اینڈ فیوریئس کی وجہ سے انہیں بیسٹ آن سکرین ٹیم کے لئے ایم ٹی وی مووی ایوارڈ دیا گیا۔ وین کو تیسرا ایوارڈ 2004ء میں سپائیک ویڈیو گیم کی طرف سے ویڈیو گیم دی کرونیکلز آف رِڈک: اسکیپ فرام بچر بے (The Chronicles of Riddick: Escape from Butcher Bay) کے لئے دیا گیا، پھر 2005ء میں اسی ویڈیو گیم کے لئے ڈیزل کو ویڈیوسوفٹ ویئر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ان کے علاوہ 2011ء میں فاسٹ فائیو فلم کے لئے سینما کون ایوارڈ، 2014ء میں فاسٹ اینڈ فیوریئس 6 کے لئے ایم ٹی وی ایوارڈ، 2015ء میں فاسٹ اینڈ فیوریئس 7 کے لئے ٹین چوائس ایوارڈ، 2016ء میں وین کو فاسٹ اینڈ فیوریئس7 کے لئے پیپلزچوائس کی طرف سے 2 ایوارڈز سے نوازا گیا۔

فلمی کیرئیر…جس میں مقدار نہیں معیار کو ترجیح دی گئی

ہالی وڈ میں وین ڈیزل کی ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے مقدار کے بجائے ہمیشہ معیار کو ترجیح دی اور یہی وجہ ہے کہ 1990ء سے اپنے فلمی کیرئیر کی شروعات کرنے والے معروف اداکار کی فلموں کی کل تعداد ابھی تک صرف 21 بنتی ہے، جن میں انہوں نے کہیں اپنی آواز سے جادو جگایا، ہیرو بنے، مصنف، ڈائریکٹر تو کبھی پروڈیوسر کی صورت میں نہ صرف فلم انڈسٹری کی شان بڑھائی بلکہ شائقین کے دل بھی جیت لئے۔

ڈیزل نے 1990ء میں فلم اویکننگز(Awakenings) سے اپنے کام کی ابتدا کی، جس میں انہیں ایک مختصر کردار دیا گیا، لیکن 1994ء میں انہوں نے خود ہی ایک مختصر دورانیہ کی فلم (ملٹی فیشل) بنا ڈالی، اس فلم کی کہانی سے لے کر پروڈکشن، اداکاری اور ہدایت کاری کے تمام امور ڈیزل نے خود انجام دیئے۔ اس فلم کو ہالی وڈ میں خوب پذیرائی ملی اور اسی سے متاثر ہو کر اس وقت کے معروف فلم میکر سٹیفن سپیلبرگ نے ڈیزل کو اپنی آئندہ آنے والی فلم میں کاسٹ کر لیا۔

1997ء میں وین نے ایک اور شاندار فیچر فلم سٹریز(Strays) بنائی، جسے فلمی حلقوں میں خوب پسند کیا گیا۔ سیونگ پرائیویٹ ریان(Saving Private Ryan)، دی آئرن جائینٹ(The Iron Giant)، بوائلر روم (Boiler Room)، پچ بلیک (Pitch Black) کے بعد 2001ء میں بننے والی ہالی وڈ کی چند مقبول ترین فلموں میں شامل دی فاسٹ اینڈ دی فیوریئس ( The Fast and the Furious) میں مرکزی کردار نبھانے کے بعد تو جیسے ڈیزل کی شہرت کو پُر ہی لگ گئے، اس فلم پر 38 ملین ڈالر خرچا آیا لیکن کمائی کے اس نے کئی ریکارڈ توڑ دیئے، جو ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً سوا دو سو ملین ڈالر ہے، جس کے بعد اب تک اس سیریز کی8 فلمیں آ چکی ہیں اور ہر نیا چیپٹر گزشتہ سے زیادہ کامیاب تصور کیا گیا۔

ایکشن ہیرو کی کامیاب فلموں میں ٹرپل ایکس(XXX)، ریڈیک(Riddick)، گارڈین آف دی گلیکسی(Guardians of the Galaxy)، ایونجر(Avengers) اور دی لاسٹ وچ ہنٹر (The Last Witch Hunter) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان فلموں کے علاوہ اپریل 2019ء میں ایونجر سیریز کی نئی آنے والی فلم میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی آواز کا جادو جگایا ہے، اس کے علاوہ وہ 2020ء میں ریلیز ہونے والی فلم بلڈشوٹ(Bloodshot) کی پوسٹ پروڈکشن کی ذمہ داری بھی انہیں ہی سونپی گئی ہے۔

وین کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فلم میکروں کے علاوہ ویڈیوگیمز بنانے والوں کے لئے بھی ان کی شخصیت ایک خاص سحر رکھتی ہے۔ ان کی آواز اور شخصیت سے متاثر ہو کر اب تک تین ویڈیو گیمز بھی بنائی جا چکی ہیں، جن میں پہلی ویڈیو گیم 2004ء میں دی کرونیکلز آف رِڈک: اسکیپ فرام بچر بے (The Chronicles of Riddick: Escape from Butcher Bay) کے نام سے بنائی گئی، یہ گیم اس اعتبار سے منفرد ہے کہ کسی بھی ہیرو کی شکل اور آواز کے ساتھ بننے والی یہ پہلی ویڈیو گیم تھی۔

اس کے بعد 2009ء میں ڈیزل کی شکل اور آواز کے ساتھ دوسری ویڈیو گیم وہیل مین(Wheelman) بنائی گئی، جس کے بعد 2009ء ہی میں دی کرونیکلز آف رِڈک: اسالٹ آن ڈارک ایتھینا(The Chronicles of Riddick: Assault on Dark Athena) ریلیز کی گئی، یہ سب ایکشن سے بھرپور ویڈیو گیمز ہیں۔

The post دنیائے شوبز میں منفرد انداز اور آواز کے حامل ہالی وڈ سپر اسٹار ’وین ڈیزل‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live