Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

افغان جگن نے امریکی وزیر دفاع کی چھٹی کرائی

$
0
0

’’مجھے بتاؤ کہ اس نے میرے لیے کیا خدمات انجام دیں؟ افغانستان میں کس قسم کی مفید سرگرمیوں کو جنم دیا؟ جرنیلوں نے جتنی رقم مجھ سے مانگی، میں نے دی، مگر کیا افغانستان میں کامیابی ملی؟ بالکل نہیں۔ یہ کوئی اچھا کام نہیں تھا۔ افغانستان میں اس نے جو کچھ کہا، اسے دیکھ کر میں بالکل خوش نہیں۔ اسی لیے میں نے اس کو نکال دیا، مجھے نتائج چاہئیں۔‘‘

یہ وہ جملے ہیں جو دنیا کی اکلوتی سپرپاور کے سربراہ، صدر ٹرمپ نے 3 جنوری کو نئے سال کے پہلے کابینہ اجلاس میں سبھی وزیروں کے سامنے ادا کیے۔وہ وزیر دفاع، جیمز ماتس کے متعلق بات کررہے تھے جنہوں نے 20 دسمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔تب سننے میں آیا کہ شام سے امریکی فوج کی واپسی کے مسئلے پر دونوں میں تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ صدر اور وزیر دفاع کے مابین اصل تنازع افغان مسئلہ  تھا۔گویا  افغانستان میں چھڑی امریکا کی جنگ ایسے نازک موڑ پہ پہنچ گئی کہ 1980ء کے بعد پہلی بار ایک اہم عہدے پر فائز امریکی شخصیت کو گھر جانا پڑگیا۔بعد ازاں خبر آئی کہ امریکا اور طالبان کے مابین جنگ بندی معاہدہ ہو سکتا ہے۔پچھلے سال تک صدر ٹرمپ طالبان کو نیست ونابود کرنا چاہتے تھے۔ پھر کایا پلٹ ہوئی اور وہ ان سے دوستی کرنے کی سعی کرنے لگے۔جنگ کاپانسہ پلٹنے کی داستان ڈرامائی اور سبق آموز ہے۔

٭٭

جب صدر ٹرمپ خلاف توقع صدارتی الیکشن جیت گئے تو ریپبلکن پارٹی کے نامی گرامی رہنما یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ موصوف کار حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ اسی لیے بزرگ لیڈروں کے اصرار پر صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں ریٹائرڈ جرنیل بھرتی کرلیے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اہم قومی و بین الاقوامی معاملات میں صدر ٹرمپ کو موزوں و مناسب مشورے دیں۔صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری امریکی جنگ ختم کرنا چاہتے تھے۔

ان کا استدلال تھا کہ امریکا ہر سال اربوں ڈالر افغان جنگ پر خرچ کررہا ہے۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی مگر کامیابی کا دور دور تک امکان  نہیں۔ لہٰذا امریکا کو یہ جنگ ختم کردینی چاہیے تاکہ بچنے والے اربوں ڈالر ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوں۔لیکن وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز ماتس، چیف آف سٹاف جنرل جان کیلی، مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ایچ آر میک ماسٹر اور افغانستان میں کمانڈر امریکی فوج ،جنرل نکولسن نے ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کردی۔ ان کی مخالفت تین دلائل پر مبنی تھی۔اول یہ کہ فوج افغانستان سے رخصت ہوئی تو امریکا کی مخالف اسلامی اسلامی تنظیمیں وہاں دوبارہ اپنے گوریلا کیمپ قائم کرسکتی ہیں۔ شدت پسند گروہ پھر فدائین کو عسکری تربیت دے کر امریکی تنصیبات پر حملے کیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ نائن الیون کی طرح سرزمین امریکا پر کوئی خوفناک جانی ومالی حملہ کر ڈالیں۔ امریکی جرنیلوں نے دوسرا استدلال یہ پیش کیا کہ جنگ کومنطقی انجام تک پہنچائے بغیر واپسی بین الاقوامی سطح پر امریکا کی شکست و ہزیمت سمجھی جائے گی۔ یوں امریکی فوج کو ویت نام کے مانند جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تیسری دلیل یہ تھی کہ  امریکا نے کابل میں اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تو وہ آن واحد میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر سکتیہے۔

جنوری 2017ء میں نئی حکومت میں شامل  ریٹائرڈ جرنیلوں کی پتنگ چڑھی ہوئی تھی۔ ٹرمپ کو یقین تھا کہ وہ ان کی مدد سے مسائل حل کرلیں گے۔ اسی لیے ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے کا فیصلہ ملتوی کردیا۔ نئی حکمت عملی کے تحت افغان طالبان اور افغانستان میں مصروف عمل امریکا مخالف دیگر تنظیموں کے خلاف حملے تیز ہوگئے۔ امریکا نے مزید تین ہزار امریکی فوجی افغانستان بھجوا ئے۔ یوں وہاں امریکی فوجیوں کی کل تعداد تقریباً چودہ ہزار ہوگئی۔ لیکن دسمبر 2017ء تک صدر ٹرمپ اور امریکی جنگوں کے مخالف ان کے ساتھیوں کو احساس ہوگیا کہ افغانستان میں جنگ کامیابی کی سمت نہیں بڑھ رہی۔ اس امر نے صدر ٹرمپ کو پریشان کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار سنبھال کر غیر ملکی جنگیں ختم کریں گے۔ لیکن امریکی جرنیل اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔

اب امریکی عوام صدر ٹرمپ سے سوال کرنے لگے  کہ وہ افغانستان سے کب فوج واپس بلارہے ہیں؟دسمبر 2017ء میں امریکی کابینہ کا ایک اجلاس ہوا، تو اس میں صدر ٹرمپ نے اپنے ریٹائرڈ جرنیل مشیروں کو بتایا کہ وہ افغانستان میں ان کی کارکردگی سے خوش نہیں۔افغان طالبان بدستور جنگی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، کئی اضلاع میں ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ اس موقع پر امریکی جرنیلوں نے اپنی کرسیاں بچانے کی خاطر ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں افغان طالبان نے کمین گاہیں بنا رکھی ہیں اور یہ کہ پاکستانی حکمران ٹولے میں شامل بعض عناصر انہیں اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔یہ سراسر الزامات تھے جو امریکی جرنیلوں نے محض اپنے عہدے بچانے کے لیے پاکستان پر لگائے۔ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر انہوں نے اپنے قدیمی دوست کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا۔ پاک فوج کو خصوصاً ان سے ایسی بے وفائی اور دھوکا دہی کی امید نہ تھی۔

اسی کابینہ اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد 1 جنوری 2018ء کو صدر ٹرمپ نے اپنی مشہور زمانہ ٹویٹ کی جس نے پاکستان میں ہلچل مچا دی ۔ انہوں نے لکھا کہ امریکا پچھلے پندرہ سال سے پاکستان کو 33 ارب ڈالر دے چکا مگر ہمیں بدلے میں جھوٹ اور دھوکا ہی ملا۔ وہ (پاکستانی) ان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے دیتے ہیں جنہیں ہم  مار رہے ہیں۔ اب ایسا نہیں چلے گا۔ اس ٹویٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے  پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد ختم یا کم کردی۔ پاکستان نے صدر ٹرمپ کو باور کرایا کہ افغانستان میں جاری امریکی جنگ سے پاکستانی عوام اور پاک افواج ،دونوں کو بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔ حتیٰ کہ پاکستانی معاشرے کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔ صد افسوس کہ ٹرمپ حکومت نے پاکستان کی قربانیاں نظر انداز کردیں اور دیرینہ دوست کو بے سروپا الزامات کا نشانہ بنایا۔ اس ٹویٹ اور ٹرمپ حکومت کے عملی اقدامات نے پاکستان اور امریکا کے تعلق کشیدہ کردیئے۔

2017ء کے وسط ہی سے ٹرمپ حکومت  یہ سعی کرنے لگی  کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو بالادست طاقت بنادے۔ امریکا افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کو وسعت دینا چاہتا تھا تاکہ افغان طالبان کو شکست دی جاسکے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ بھارت افغانستان اور ایران سے تجارتی روابط بڑھانے لگا۔ اس نے خلیجی ممالک سے بھی تعلقات بڑھائے تاکہ پاکستان کو تنہائی کا نشانہ بنایا جاسکے۔ لیکن امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی بھارت کی یہ مہم  کامیاب نہیں ہوسکی۔حتیٰ کہ جب 2019ء کا سورج طلوع ہوا تو چشم فلک نے انوکھا مظاہرہ دیکھا۔ نئے سال کے پہلے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دنیا والوں کو بتایا ’’میں وزیراعظم مودی کا اچھا دوست بن گیا۔ مگر وہ مجھے کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں لائبریری بنائی ہے۔ ٹھیک ہے، لائبریری بنادی۔ مگر ہم وہاں (افغانستان) میں جتنا کچھ خرچ کررہے ہیں اس کے مقابلے میں ان (بھارتی حکومت) کا خرچہ کچھ بھی نہیں۔(اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترداف ہے۔)وہ (مودی) بہت سمارٹ ہے۔ یہ بتا کر چاہتا ہے کہ ہم (امریکا) اس کا شکریہ ادا کریں۔‘‘

وزیراعظم مودی اور بھارتی حکومت کے خلاف ٹرمپ کے تضحیک آمیز جملوں نے بھارت میں سنسنی  پھیلا دی۔ بھارتی میڈیا نے خصوصاً مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ٹرمپ حکومت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے پر  تنقید کا نشانہ بنایا۔صدر ٹرمپ کے جملوں نے سب سے بڑھ کر دنیا والوں پر آشکار کردیا کہ افغانستان میں خصوصاً بھارت کو پاکستان پر بالادستی دلانے کی امریکی کوششیں بری طرح ناکام ہوچکیں۔ بھارتی حکومت افغانستان میں فلاح و بہبود کے کئی منصوبے مکمل کرنے کے باوجود افغان عوام کا دل نہیں جیت سکی۔ وجہ صاف ظاہر ہے… بھارتی حکومت افغانستان پر غاصب امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی ساتھی ہے۔

بھارتی حکمرانوں نے افغانستان میں صرف اس لیے مختلف فلاحی منصوبے شروع کیے تاکہ وہاں پاکستان کا اثرورسوخ  کم کرسکیں۔ مگر بھارتی حکمران ٹولے کی یہ چال بھی کامیاب نہ ہوسکی۔2018ء کے اواخر تک ٹرمپ حکومت کو احساس ہوگیا کہ اگر امریکا باعزت طور پر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے افغان طالبان سے معاہدہ امن کرنا ہوگا۔ اس صورت حال میں امریکی حکمرانوں کو پھر پاکستان یاد آگیا۔ ماضی میں دیرینہ تعلقات کے باعث افغان طالبان کے رہنما اب بھی پاکستان کا کہا سن لیتے ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت دوبارہ پاکستان کی سمت جھکنے اور دوستی کے اشارے دینے لگی۔ اسی قسم کے یوٹرن لینے سے کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتے ہیں اور ان کا کوئی دین ایمان نہیں۔ بہرحال ماضی کی تلخیاں بھلا کر پاکستانی حکومت کوشش کرنے لگی کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔اس ضمن میں پاک فوج بھی بہت متحرک رہی۔اس ساری سعی کا مثبت نتیجہ برامد ہوا۔

صدر ٹرمپ کا مستحسن فیصلہ

دسمبر 2018ء کے اوائل ہی میں صدر ٹرمپ نے افغانستان سے آدھی امریکی فوج بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی وجہ سرزمین افغاناں میں بڑھتے جنگی اخراجات تھے۔ امریکا ہر سال افغان جنگ پر ’’46 ارب ڈالر‘‘ خرچ کررہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ سے کچھ ہی کم ہے۔ اتنا زیادہ سرمایہ لگانے کے باوجود امریکا افغانستان میں کچھ حاصل نہیں کرپایا۔ اسے عسکری کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی افغان عوام امریکا کو اپنا دوست یا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اُدھر امریکی عوام یہ دیکھ کر عاجز آچکے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم فضول افغان جنگ پر خرچ ہورہی ہے۔

اب امریکی عوام شیطان کی آنت کے مانند لمبی ہوتی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔افغانستان سے آدھی امریکی فوج بلانے کا اعلان کر کے صدر ٹرمپ نے مستحسن فیصلہ کیا۔ یوں اندرون و بیرون ملک ان کی تیزی سے گرتی ساکھ  کو کچھ سہارا ملا۔ امریکی وزیر دفاع، جنرل(ر)جیمز ماتس نے مگر اس فیصلے کی مخالفت کردی۔ اہم وجہ یہ ہے کہ امریکی افواج ہر سال حکومت سے ’’سات سو ارب ڈالر‘‘ دفاعی بجٹ کے نام پہ لیتی ہے۔یہ دنیا میں سب سے بڑا جنگی بجٹ ہے۔ظاہر ہے، یہ زرکثیر خرچ کرنے کی خاطر امریکی افواج کو جنگیں بھی درکار ہیں۔جنرل(ر)جیمز ماتس کو امریکی فوج کے جرنیلوں اور بھارتی حکومت کی بھی حمایت حاصل تھی۔حقیقت میں جب وزیراعظم مودی کو صدر ٹرمپ کے فیصلے کی خبر ملی، تو انہوں نے واشنگٹن میں اپنے دوست احباب سے درخواست کی کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج بلانے کے فیصلے کی پرزور مخالفت کریں۔ یوں امریکی دارالحکومت میں فیصلے کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان زبردست لڑائی چھڑگئی۔

یہ عیاں ہے کہ اس خفیہ لڑائی میں فیصلے کے حامی جیت گئے کیونکہ صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری جنگ اب کسی بھی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب جیمز ماتس اپنا موقف نہیں منواسکے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس استعفیٰ نے امریکا بھر میں سنسنی پھیلا دی۔ دراصل امریکی حکومت میں وزیر دفاع کا عہدہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا جب یہ وزیر اپنا عہدہ چھوڑ دے، تو اس کا یہی مطلب ہے کہ صدر سے اختلافات نہایت شدت اختیار کرچکے تھے۔ اب شاید مستقبل میں جیمز ماتس اپنی آپ بیتی میں ان اختلافات کی نوعیت بیان کریں گے۔امریکی میڈیا نے تاہم انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ نے وزیر دفاع کو پیغام دے دیا تھا ، وہ یکم جنوری کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ گویا صدر ٹرمپ نے جیمز ماتس کو برطرف کیا تھا، وزیر دفاع نے پہلے استعفیٰ نہیں دیا۔ جب شکست یقینی ہوگئی، تبھی بادل نخواستہ انھوں  نے اپنی کرسی کو خیرباد کہہ دیا۔

مودی لابی کو شکست

اس سارے ڈرامائی کھیل سے عیاں ہے کہ مودی سرکار کی طاقتور لابی کو بھی واشنگٹن میں منہ کی کھانا پڑی۔ بھارتی لابی کی سرگرمیوں ہی نے صدر ٹرمپ کو بھی ناراض کر ڈالا اور انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں مخصوص انداز میں بھارتی وزیراعظم کا مذاق اڑا دیا۔ صدر ٹرمپ دراصل سرتا پا کاروباری ہی۔ وہ ہر معاملے کو نفع یا نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں۔ افغانستان سے آدھی فوج بلوانے کے اعلان پر انہیں توقع تھی کہ امریکی عوام اس کا خیر مقدم کریں گے۔ یوں عوام میں ان کی مقبولیت بڑھ جاتی اور یہ نفع کا سودا تھا۔ مگر وزیراعظم مودی اس سودے کی ماہیت سمجھ نہ پائے اور دنیا بھر میں بظاہر اپنے دوست، ٹرمپ کے ہاتھوں ذلت کروا بیٹھے۔ بھارت دراصل یہ چاہتا ہے کہ امریکی فوج ہر حال میں افغانستان میں موجود رہے۔ ظاہر ہے، امریکی فوج ہی نے افغان حکومت اور افغان فوج، دونوں کو سہارا دے رکھا ہے۔

اگر امریکا نے عسکری و معاشی لحاظ سے افغان حکومت کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تو وہ چند ماہ بھی نہیں گزار سکتی۔ جلد ہی افغان طالبان کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں افغانستان میں بھارت کے مفادات کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اس نے افغانستان میں اثرورسوخ بڑھانے کی خاطر جو اربوں روپے خرچ کیے ہیں، وہ ضائع جائیں گے۔ اس ناکامی پر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں لازماً بھارتی حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا اور ان کی بھد اڑے گی۔بھارتی حکمرانوں کو یہ بھی خطرہ ہے کہ برسراقتدار آکر افغان طالبان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب فوج سے نبرد آزما مجاہدین کی ہر ممکن مدد کریں گے۔اسی لیے بھارت  خفیہ و عیاں سرگرمیوں سے کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح امریکا اور افغان طالبان کے مابین جنگ بندی اور امن کا معاہدہ نہ ہو پائے۔افغان حکومت کی بھی درپردہ یہی خواہش رہی ہے۔

The post افغان جگن نے امریکی وزیر دفاع کی چھٹی کرائی appeared first on ایکسپریس اردو.


تُو ان زُلفوں کو کٹوا کر جو بھجواتی تو اچھا تھا

$
0
0

ہمیں بال برابر بھی گمان نہیں تھا کہ بال اتنے قیمتی ہیں۔ جب سے یہ پتا چلا ہے کہ پاکستان بال برآمد کرتا ہے اور گذشتہ پانچ سال کے دوران 16لاکھ ڈالر مالیت کے بالر دوسرے ممالک کو فروخت کیے جاچکے ہیں، تو ہمیں رہ رہ کر اپنے نائی پر غصہ آرہا ہے، جو ہم سے پیسوں کا ساتھ بال بھی اینٹھتا رہا ہے۔ اب تک ہم نہ جانے کتنے ہزار روپے کے بال حجام کی دکان پر گنوا چکے ہیں۔

بالوں کی برآمد کا انکشاف وزارت تجارت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفۂ سوالات کیا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان نے گذشتہ پانچ برس کے دوران صرف چین کو پانچ سال میں ایک لاکھ 5 ہزار 461 کلوگرام انسانی بال برآمد کیے، جن کی مالیت 1 لاکھ 32 ہزار ڈالر ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ انسانی بالوں کا استعمال وگز بنانے میں ہوتا ہے۔ پاکستان چین، امریکا اور عرب امارات سمیت کئی ممالک کو بال برآمد کرتا ہے۔

افسوس کے ہم بال کی کھال نہیں نکالتے ورنہ اداکار علاء الدین کے جھمکے والے مشہور مکالمے کی نقالی کرتے ہوئے حجام سے ضرور پوچھتے ’’کہاں جاتے ہیں یہ بال، کون لے جاتا ہے یہ بال، کس کام آتے ہیں یہ بال۔‘‘ اور پھر اس سے تقاضا کرتے کہ بھیے! بال کاٹنے کے پیسے لینے کے بہ جائے بال کٹوانے کے پیسے دو۔

بتائیے بھلا! پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے، حالات بہتر بنانے کے لیے حکومت بے چاری ’’اک پیسہ دے دے ۔۔۔او مائی، او بابا‘‘ گاتی ملکوں ملکوں پھر کر قرضے اور امداد مانگ رہی ہے، اور ہم پاکستانی اپنے سَروں پر بال جیسی قیمتی ’’برآمدی شئے‘‘ اُگائے پھر رہے ہیں۔ ہمیں تو چاہیے کہ من حیث القوم گنجے ہوکر اپنے بال حکومت کے حوالے کردیں۔ اس طرح ہمیں اس بال بال سے بھی نجات مل جائے گی جو قرض میں جکڑا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جب سب ہی گنجے ہوں گے تو قدرت کے ہاتھوں بالوں سے محروم ہوجانے والوں کا احساسِ محرومی خود بہ خود ختم ہوجائے گا، جب وہ دیکھیں گے۔۔۔جس طرف آنکھ اٹھاؤں ’’مِری‘‘ تصویراں ہیں، تو خوشی سے نہال ہوجائیں گے۔

ہمارے شاعروں نے محبوب کے گیسوؤں اور زلفوں کی شان میں اشعار کے ڈھیر لگادیے ہیں، لیکن آج کے محب وطن پاکستانی شاعر کا فرض ہے کہ قینچی لے کر محبوبہ کے بالوں کا ڈھیر لگائے اور تھیلے میں بھر کر قومی خزانے میں جمع کروا آئے۔ مجاز لکھنوی نے کہا تھا، ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

آج خواتین میں جذبۂ حُب الوطنی کے تحت بال کھال تک کٹوادینے کا جذبہ اس طرح کے شعروں سے ابھارا جاسکتا ہے:

ترے ماتھے پہ یہ گیسو بہت ہی خوب ہیں لیکن

تو ان زلفوں کو کٹواکر جو بھجواتی تو اچھا تھا

مردوخواتین اپنے بال کٹوا کٹوا کر وزارت تجارت کے حوالے کرتے رہیں گے تو یوں گنجی مساوات کی صورت میں صنفی مساوات چندیا کی طرح صاف نظر آئے گی۔ خواتین کے ہونے سے یہ سمجھنے میں تو مشکل پیش آئے گی کہ وہ ’’آرہا ہے‘‘ یا ’’آرہی ہے‘‘، ’’جارہا ہے‘‘ یا ’’جارہی ہے‘‘ مگر ان کے آنے جانے کے دورانیے میں بالوں کی بناوٹ اور سجاوٹ جو اضافہ کرتی ہے وہ دور ہوجائے گی، یوں شوہروں اور قوم کا بہت سا قیمتی وقت بچے گا۔

The post تُو ان زُلفوں کو کٹوا کر جو بھجواتی تو اچھا تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

دودھ کی چُرائی، اداکاروں کی دُھلائی

$
0
0

بھارتی ریاست تامل ناڈو میں دودھ فروشوں پر بڑا مشکل وقت ہے ایسی بات نہیں کہ قلت آب کے سبب وہ دودھ میں پانی نہیں ملا پارہے مسئلہ کچھ اور ہے۔

تامل ناڈو کے شیرفروشوں کی تنظیم نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ فلمیں ریلیز ہونے کے موقع پر دودھ چُرانے کی وارداتیں روزبہ روز بڑھتی جارہی ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ بھارت میں دودھ سے دُھلی فلمیں تو بنتی نہیں، بلکہ کپڑوں کی کمی اور گالیوں کی زیادتی میں بھارتی فلمیں جس مقام پر ہیں اسے دیکھتے ہوئے پاکستانی فلمی صنعت کے تو ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر فلم کی ریلیز سے عین پہلے فلمی ستاروں کے پرستار اپنے اپنے من پسند اداکار کے دیوقامت پوسٹروں اور کٹ آؤٹس کو دودھ سے نہلاتے ہیں۔ اگر یہ دودھ خریدا جاتا تو دودھ بیچنے والوں کے وارے نیارے ہوجاتے، لیکن سیانے پرستار دودھ چُراکر ’’دودھوں دھُلانے‘‘ کی رسم ادا کرتے ہیں۔

یہ دودھ چُرانے اور فلمی ستاروں کی بڑی بڑی تصویروں پر بہانے کا یہ سلسلہ بیس سال سے جاری ہے۔ تامل ناڈو کے دودھ کے تاجروں کی تنظیم کے سربراہ ایس اے پانوسامے کے مطابق پرستار فلمی ستاروں کو ’’نیم دیوتا‘‘ مانتے ہیں، چناں چہ جس طرح بُتوں پر دودھ کا چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے، اسی طرح محبوب اداکاروں کی تصویروں کو دودھ کا غسل دیا جاتا ہے۔

دودھ چوری کی وارداتیں صبح کے وقت ہوتی ہیں، جب پیکٹوں میں بند دودھ باڑوں سے ٹرکوں کے ذریعے دکانوں پر پہنچتا ہے، اس دوران جب جہاں موقع ملے فن کاروں کے چاہنے والے فن کاری دکھاتے ہوئے دودھ کے ڈبے اُڑا لیتے ہیں۔

اگرچہ مندر اور پوسٹر دونوں جگہ دودھ بہانے کا چلن یکساں ہے، مگر فرق یہ ہے کہ بتوں پر چڑھاوا اپنی مانگیں منتیں پوری کروانے کے لیے چڑھایا جاتا ہے، اور اداکاروں کی تصویروں پر دودھ ان کی کام یابی کی خاطر بہایا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک اداکار نے اپنے پرستاروں سے درخواست کی ہے کہ ان کی فلم آنے والی ہے، اس لیے ان کے کٹ آؤٹس پر دودھ بہادیا جائے۔ گویا یہ آدھے ادھورے دیوتا اپنی آشاؤں کے پورا ہونے کے لیے پجاریوں کے محتاج ہیں۔

ایک زمانے میں بڑی بوڑھیاں چھوٹوں کو دعا دیتی تھیں ’’دودھوں نہاؤ پوتوں پَلو‘‘ یہ بھارتی پرستار پوسٹروں پر دودھ بہاتے وقت ’’دودھوں نہاؤ فلموں پلو‘‘ کی دعا دیتے ہوں گے۔ جس اداکار کے لیے یہ سارے جتن کیے جاتے ہیں اس کی فلم آنے کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا ہے، فلم نے پردہ پھاڑ کام یابی حاصل کرلی تو فلمی ستارہ پرستاروں کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر اسے اپنی صلاحیت اور محنت کا صلہ سمجھتا ہے، اور اگر فلم پردہ پھاڑ کام یابی کے برعکس ناکام ہوکر پھٹا ہوا دودھ ثابت ہو، تو وہ کہتا ہوگا پرستاروں نے یقیناً دودھ میں مینگنی ملادی۔

افسوس کی بات ہے، بھارت کے فلمی اداکار خاص طور پر سُپراسٹار کروڑوں کماتے ہیں، لیکن اپنی ہی تصویروں پر بہانے کے لیے دودھ خرید کر نہیں دے سکتے، بے چارے پرستاروں کو کیا کیا جتن کرکے دودھ چُرانا پڑتا ہے۔ اور حیرت ہے پرستاروں کی محبت اور عقیدت پر جو ’’چُرائی‘‘ سے ’’دُھلائی‘‘ تک کتنے پاپڑ بیلتے ہیں، پھر ٹکٹ لے کر اپنے محبوب اداکار کی فلم دیکھتے ہیں، تالیاں بجاکر داد دیتے ہیں، اور فلم اور اداکار کو کام یاب کرواکر ہاتھ جُھلاتے سنیما گھر سے نکلتے ہیں، لیکن اپنے گھر دیر سے پہنچتے ہیں، تاکہ بیوی سوچکی ہو اور یہ نہ پوچھ پائے کہ ’’’مُنے کا دودھ لائے؟‘‘

The post دودھ کی چُرائی، اداکاروں کی دُھلائی appeared first on ایکسپریس اردو.

نام ہی میں سب رکھا ہے

$
0
0

کسی کا نام بہ طور فرد ہی اس کی شناخت نہیں ہوتا بلکہ اس کی قومیت، مذہب اور جنس کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ ایک برطانوی خاتون کے ساتھ یہ ستم ہوا ہے کہ ماں باپ نے انھیں ’’جان‘‘ (John) جیسا خالص مردانہ نام عطا کردیا۔ یہ نام خاتون کے دادا کا تھا، جن کی محبت میں والدین نے اپنی بیٹی کو بھی یہی نام دے دیا۔ اب خاتون اپنا نام بدلنا چاہتی ہیںِ، لیکن ان کی والدہ نے یہ کہہ کر انھیں نام بدلنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے کہ ’’تم اپنے دادا کی یاد بھلادینا چاہتی ہو۔‘‘

صنفی مساوات کا نعرہ اپنی جگہ، لیکن یہ لباس اور شانہ بہ شانہ چلنے تک ٹھیک ہے، جہاں تک نام کا تعلق ہے مردوں پر مردانہ اور خواتین پر زنانہ نام ہی سجتا ہے۔ دوسری صورت غلط فہمی ہی جنم دیتی ہے، جیسے اقبال بانو کے گانے سُن کر ہم سوچا کرتے تھے ان ’’صاحب‘‘  نے کیا نسوانی آواز پائی ہے۔ جب ان کے خاتون ہونے کا انکشاف ہوا تو ہم نے یہ کہہ کر خود کو تسلی دی کہ نام بانو ہوگا اور والد کا اقبال، غلط فٹنگ کے نتیجے میں آگے پیچھے ہوگیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ’’نسیم‘‘ یا ’’شمیم‘‘ کی آفس آمد پر ہم نے جھٹ پٹ منہہ دھویا، کنگھی کی اور سارے کام چھوڑ کر ملنے جاپہنچے، ر پر پہنچ کر یہ دل خراش حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ یہ ملاقاتی تلوار سی مونچھوں والے نسیم جَٹ اور چاند سا سَر لیے شمیم گُجر ہیں۔ اس موقع پر ہم نے خود پر تو لعنت بھیجی ہی اُن والدین سے بھی دل ہی دل میں شکایت کرتے رہے جو بچے کی جنس معلوم ہونے سے پہلے ہی نام رکھ لیتے ہیں۔ اب پتا نہیں وہ خود کنفیوز ہوتے ہیں یا دوسروں کو کنفیوز رکھنے کے لیے یہ حرکت فرماتے ہیں۔

’’جان صاحبہ‘‘ کی تو اپنے مردانہ نام سے جان جلتی ہے، لیکن ایسے خواتین وحضرات کی بھی کمی نہیں جو اپنا نام اپنی سماجی حیثیت کے مطابق نہیں پاتے تو اسے انگریزی حروف میں چھپا لیتے ہیں۔ شاعر یہ کام تخلص سے لیتے ہیں۔ شوبز اور ماڈلنگ کے شعبوں کا رُخ کرنے والی خواتین کو اس معاملے میں پوری آزادی حاصل ہے، چناں چہ شبراتن، اللہ رکھی، پھاتاں، نذیراں، جمیلہ، شکیلہ، بانو، ۔۔۔روزی، فیری، سپنا، کاجل، بدلی، جھونکا، مہک، لہک جیسے ناموں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔

بعض والدین بڑی محبت سے اور توقعات کے ساتھ اپنے بچوں کے خوب صورت اور بہت اچھے معنی والے نام رکھتے ہیں، لیکن یہ نام اثر ڈالنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ کئی ’’شریف‘‘ نام کے برعکس نظر آئیں گے، بہت سے ’’رئیس‘‘ بسوں میں دھکے کھاتے دکھائی دیں گے، کتنے ہی ’’نفیس‘‘ میلے کپڑوں میں ملبوس ناک میں انگلی ڈالے ملیں گے۔ ہمارے محلے کے ایک خاندان میں بھائیوں کے نام حَسین، بہادر اور سخی تھے، حَسین آئینہ دیکھنے سے کتراتے اور خواتین انھیں دیکھنے سے گریزاں تھیں، بہادر اس کُتے سے بھی ڈرتے تھے جو اپنی نقاہت کے باعث بِلّی سے بھی خائف رہتا ہے اور سخی کچھ خرچ نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے تھے۔ مگر مجال ہے جو ان میں سے کسی نے اپنا نام بدلنے کا سوچا بھی ہو!

بہ ہر حال بات شروع ہوئی تھی ’’جان‘‘ صاحبہ سے، ان کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ اپنا نام اردو اور پاکستانی لب ولہجے میں لینا شروع کردیں تو ان کا مسئلہ چٹکی بجاتے میں حل ہوجائے گا، اور اگر وہ پاکستان آجاتی ہیں تب تو اپنے نام پر فخر محسوس کرنے لگیں گی، کیوں کہ یہاں وہ خود کو ایک بار ’’جان‘‘ کہہ کر متعارف کرائیں گی، اور سُننے والا سو بار انھیں جان کہہ کر مخاطب کرے گا۔

The post نام ہی میں سب رکھا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

مزید کن کن غلطیوں کا امکان ہے

$
0
0

عرصہ پہلے ہم نے ایک تحریر میں جیہ بہادری کی جگہ جیہ پرادا کو امیتابھ بچن کی اہلیہ قرار دے دیا تھا، خیر گزری کہ جیہ بچن اس تحریر سے ناآشنا رہیں، ورنہ امیتابھ بچن کا بچنا محال ہوجاتا، اور ’’اب تک تو تھی صرف ریکھا، یہ میں نے اور کیا دیکھا! کیا چکر ہے؟‘‘ کے سوال کی وضاحت کرنا ان کے لیے دوبھر ہوجاتا۔ پھر بچن پریوار میں جو کچھ ہوتا آخرکار ہمارے ذریعے کی جانے والی آئی ایس آئی کی کارستانی قرار پاتا۔ بتانے کا مطلب یہ تھا کہ ہم صحافی کبھی کبھی بڑی دل چسپ غلطیاں اور حماقتیں کر جاتے ہیں۔

ایسی ہی خطاامریکا کے فیشن میگزین ’’ووگ‘‘ نے بھی کی ہے۔ ’’ووگ‘‘ نے اپنے فروری کے شمارے میں لیبیائی نژاد امریکی صحافی اور سماجی کارکن نور تگوری کی خدمات کے عوض انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہا، مگر ان کے بہ جائے پاکستانی اداکارہ اور ماڈل نور بخاری کا تعارف شایع کرتے ہوئے ان کی ستائش کرڈالی۔ امریکی میڈیا نے دوسری بار نورتگوری کے ساتھ اس طرح کا ’’مذاق‘‘ کیا ہے، اس سے پہلے ایک دہشت گرد کی بیوی نورسلمان کی گرفتاری پر اس کی جگہ نورتگوری کی تصویر چھاپ دی گئی تھی۔ اس طرح کی غلطیاں عموماً ’’اوئے کوئی گَل نئیں‘‘ مزاج کے لوگوں کے گوگل پر انحصار سے جنم لیتی ہیں۔ چلیے اس معاملے کو ہم پاکستانی صحافت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لگتا یہ ہے کہ اس مزاج کے کسی صحافی سے ایڈیٹر نے کہا ہوگا ’’میاں! نور تگوری پر ایک رائٹ اپ لکھ دو‘‘ مسئلہ یہ ہے کہ سنیئر صحافی یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے جونیئر کے سامنے کوئی نام لیں تو وہ شش وپنج میں پڑجائے اور جھجکتے ہوئے پوچھے ’’یہ کون ہے؟‘‘ اور تفصیل بتانے سے پہلے سنیئرصحافی جونیئر کی بے علمی اور بے خبری کی خوب خبر لے۔ دوسری طرف ’’اوئے کوئی گل نئیں‘‘ والے بہت سے جونیئر صحافیوں کا یہ حال ہے کہ جون ایلیا کو وہ ہالی وڈ کا اداکار سمجھتے ہیں، نسیم حجازی کا نام لیا جائے تو پوچھیں گے ’’کون تھیں یہ خاتون؟‘‘ اور ان سے عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کا نام پوچھا جائے تو پورے یقین سے فرمائیں گے ’’شاہد خاقان عباسی۔‘‘ اب نورتگوری پر لکھنے کی ہدایت پانے والے صحافی کو نور تو یاد رہا تگوری بھول گیا، اسے گوگل پر جو بھی پہلی نور ملی اس پر لکھ مارا۔ ممکن تھا کہ نورتگوری کی تصویر کے نیچے شہنشاہ نورالدین جہاں گیر، ملکہ نورجہاں، گلوکارہ نورجہاں میں سے کسی کا تعارف تاریخ وفات کے ساتھ شایع کردیا جاتا، خیریت رہی کہ اس صحافی کی نظر اداکارہ نور ہی پر جاکر رُک گئی۔

’’ووگ‘‘ نے اس سہو پر دونوں متاثرہ خواتین سے معذرت کرلی ہے، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ امریکی میڈیا ایسی غلطیاں دہراتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ بھارتی اداکار عمران خان کا تعارف ’’بہت اچھے اداکار ہیں، جیسا بھی اسکرپٹ ہو اس کے مطابق کردار میں ڈھل جاتے ہیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ چھاپ دیا جائے۔ آصف زرداری کی شبیہہ بھارتی ہدایت کار اور فلم ساز کے آصف کی کہانی کے ساتھ شایع ہو۔ دونوں شخصیات کو گَڈمَڈ کرتے ہوئے لکھا ہو ’’انھوں نے فلم مغل اعظم بنائی، جس کی شوٹنگ کے لیے بڑی تعداد میں گھوڑے اور سِرے محل خریدا۔‘‘ نوازشریف کی تصویر کے نیچے اداکارہ بابرہ شریف کے فلمی کیریر کے عروج وزوال کا قصہ درج ہو۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے امریکی میڈیا گوگل سے زیادہ عقل کا استعمال کرے۔

The post مزید کن کن غلطیوں کا امکان ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ مفید مصنوعات جو 2019ء میں عام دستیاب ہونگی

$
0
0

سال گزشتہ بہت سی فائدہ مند ایجادات کی وجہ سے کافی اہم رہا۔ تاہم حسب روایت یہ مصنوعات شروع شروع میں مہنگی ہونے کے سبب عام لوگوں کی دسترس سے باہر تھیں مگر شنید ہے کہ اس سال یہ بازاروں میں عام دستیاب ہوں گی اور لوگوں کی زندگیاں آسان اور آرام دہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہوئیں نظر آئیں گیں۔

1۔ بلیڈ 720 ڈرون :

یوں تو ہم پاکستانی ’’ڈرونز‘‘ سے بہت عرصے سے واقف ہیں لیکن فوجی مقاصد سے ہٹ کر استعمال ہونے والے چھوٹے ڈرونز، جو فوٹوگرافی اور دوسرے کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ہم  نے اکثر ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ پر بھی دیکھے ہیں۔  بلیڈ 720 ڈرون وائی فائی نیٹ ورک کے ذریعے موبائل فوں کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور اس طرح آپ کو ہر چیز اور ہر منظر بعینہٖ ویسے ہی دکھائی دے گا جیسے ڈرون کو دکھائی دے رہا ہو گا۔ اس ڈرون کا ریموٹ کنٹرول آئی فون یا اینڈرائڈ سمارٹ فون میں انسٹال شدہ ایپ میں دیا گیا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے آپ ڈرون سے مختلف کرتب بھی کروا سکتے ہیں مثلاً قلابازیاں لگوانا اور ڈرون کو اچانک  360 ڈگری پے موڑنا۔ اس ڈرون سے اتاری گئیں خوبصورت تصاویر آپ اپنے دوستوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر بھی کر سکتے ہیں۔

2 ۔ وائی فائی بوسٹ :

کیا آپ اپنے انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے پریشان ہیں اور انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھنے کے دوران بار بار سامنے آنے والے ’’بفرنگ ویل‘‘ کے نظر آنے سے آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے ؟ تو اس مسئلے کا حل ہے ’’وائی فائی بوسٹ‘‘ ۔ اس انقلاب آفریں ایجاد سے آپ انٹرنیٹ کی اس تیزرفتار کا مزہ لیں گے جس کا آپ کو آج تک تجربہ نہیں ہوا ہو گا۔ یہ آپ کے پاس موجود وائی فائی کی انٹرنیٹ کی سپیڈ کو بڑھا کر  300 Mbps کے ریٹ تک لے جائے گا اور یوں آپ پرسکون طریقے سے ویڈیوز سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

3 ۔ الٹرا واچ ـ Z :

مکمل کاربن فائبر سے بنے فریم اور جدید ترین ’’گوریلا گلاس (شیشے)‘‘ کی سکرین والی یہ گھڑی ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے بالکل محفوظ ہے اور سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ اس کا بیٹری ٹائم اتنا زیادہ ہے کہ یوں سمجھیں کے بس آپ کو زندگی میں اسے شائد ایک ہی بار چارج کرنا پڑے۔ اس کی بیٹری ایک بار چارج کرنے پر تقریباً  33 ماہ کا وقت نکالتی ہے۔ آئی فون کے آپریٹنگ سسٹم اور اینڈرائڈ موبائلز سے منسلک یہ گھڑی واقعی ایک حیرت انگیز چیز ہے۔

4 ۔ الٹرا موسکینیٹر (مچھر مار):

بدلتے موسموں اور خاص طور پر موسم برسات میں مچھروں کی بہتات بجائے خود ایک بڑی مصیبت ہے اوپر سے پچھلے کچھ برسوں سے ڈینگی کا عذاب۔ مچھر گھر کے کمرون، صحنوں، لان اور باہر کھلے میدانوں غرض ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں اور ہماری زندگیاں اجیرن کر دیتے ہیں۔ ان مچھروں سے نجات کے نت نئے طریقے مختلف مصنوعات کی شکل مٰن دکانوں میں دستیاب ہیں۔ لیکن کیا وہ سب کارآمد بھی ہیں ؟ اب ان مچھروں کا ایک موئثر علاج ’’الٹرا موسکینیٹر‘‘ کی صورت میں دستیاب ہے۔ یہ ’’یوایس بی ـ چارج ایبل‘‘ آلہ  ’’فوٹوٹیکسِس ویولینتھ‘‘ (phototaxis wavelenghts) استعمال کر کے مچھروں کو موت کی جانب کھنچ لیتا ہے۔  الٹرا موسکینیٹر ایک مرتبہ چارج کرنے کے بعد کئی گھنٹوں  تک کام کرتا رہتا ہے۔

5 ۔ کیش پروٹیکٹر :

اگر کبھی خدا نخواستہ آپ اپنا پرس کھو بیٹھیں تو ظاہر ہے کہ بہت پریشانی ہوتی ہے۔ انسان ایسی حالت میں بدحواس ہو جاتا ہے اور بے ساختہ اپنی جیبیں الٹتا پلٹتا ہے، اپنے گھر اور دفتر یا کام کی جگہ پے اسے تلاش کرتا ہے، ذہن پر زور ڈالتا ہے کہ وہ کہاں کہاں گیا تھا شاید وہیں کہیں پرس بھول گیا ہو۔ غرض اسے ڈھونڈنے کی خوب کوشش کرتا ہے۔ اب پرس کوئی موبائل فون تو ہے نہیں کہ جس کو گم ہونے کی صورت میں فوراً ٹریک کر لیا جائے۔ لیکن ٹہریئے ! اب ’’کیش پروٹیکٹر‘‘ نامی یہ بٹوہ آپ کا یہ مسئلہ بھی حل کر دے گا کیونکہ گم ہو جانے پر یہ بالکل اسی طرح ٹریک کیا جا سکتا ہے جیسے آپ کی موبائل ڈیوائسیز ٹریک ہو جاتی ہیں۔ کیش پروٹیکٹر ایک تحفہ ہے۔ چمڑے سے بنا یہ خوبصورت بٹوہ ’’بلیو ٹوتھ‘‘ کے ذریعے آپ کے موبائل سے منسلک ہو جاتا ہے۔ اس میں  دو طرفہ الارم اور ایک ٹریکر بھی لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بآسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

6 ۔ ائر کول :

آج کل ساری دنیا میں گلوبل وارمنگ کا بہت غلغلہ ہے اور یہ کوئی ایسا غلط اندیشہ بھی نہیں کہ ہماری یہ خوبصورت زمین بتدریج گرم سے گرم تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ پچھلی گرمیوں نے یہ حقیقت یقیناً آپ پے بھی منکشف کر دی ہو گی۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ حضرت انسان کی ترقی کرنے کی بے لگام خواہشات نے اس کرہء ارض کے قدرتی نظام کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، جس کاخمیازہ ہمیں پلوشن اور درجہء حرارت بڑھنے کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے اور اگر اس کے سدباب کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو نتیجہ بہت خراب نکل سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس مسئلے کے باعث مستقبل میں تعمیرات کے دوران سب سے بڑا چیلنج عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے کی منصوبہ بندی کے متعلق ہو گا کیونکہ موجودہ طرز تعمیر میں اب یہ گنجائش نہیں کہ وہ گرمیوں میں ماحول کو مزید ٹھنڈا رکھ سکیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی نے چھوٹا سا ایک ائر کولر بنایا ہے جسے ’’ائر کول‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ائر کولر بڑے بڑے ائرکنڈیشنز کا متبادل ہے۔ یہ ائر کولر ان لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو ناصرف مہنگے مہنگے ائرکنڈیشنز نہیں خرید سکتے بلکہ ان میں بجلی کے بھاری بھرکم بل دینے کی اسطاعت بھی نہیں ہے۔ ائر کول کو محض پانی سے بھریں اور ’’یوایس بی‘‘ پورٹ میں لگا کے اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوں۔

7 ۔ آٹوگارڈ :

دنیا میں شائد بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو یہ بات دیانتداری سے کہہ سکیں کہ وہ ذہنی طور پر کسی بھی حادثے یا ایکسیڈینٹ کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چونکہ حادثے ایک حقیقت ہیں اس لیے عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان ان سے بچنے کے لیے پہلے سے تیار رہے۔ آٹوگارڈ ایک ایسی ہی چیز ہے جسے ساری دنیا میں حادثوں کے ہزاروں امدادی کارکن استعمال کرتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس میں موجود  9 آلات واوزار کسی بھی حادثے یا مشکل صورتحال سے نکالنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان  میں ایک سولر پینل، بیٹری، فلش لائٹ، بیلٹ کٹر، مضبوط شیشے کو توڑنے کے لیے چھوٹی مگر موئثر کلہاڑی، ہتھوڑا، لائٹ، مقناطیس اور ایک قطب نما شامل ہیں۔ ان سب چیزوں کو نہایت اچھے طریقے سے ایک کیس میں پیک کیا گیا ہے تاکہ آسانی سے کہیں بھی ساتھ لے جایا جاسکے۔

8 ۔ بیک ہیرو :

آج کل ہر دوسرے تیسرے شخص کو کمر درد کا مسئلہ درپیش ہے، جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس سے نجات کا طریقہ بس یہی خیال کیا جاتا ہے کہ دردکش ادویات کھایئں جائیں۔ یہ ادویات وقتی طور پر تو آفاقہ دیتی ہیں لیکن یہ اس مسئلے کا مستقل علاج نہیں۔ دوسری طرف کسی فزیوتھراپسٹ کے پاس جانا بہت مہنگا سودا اور ایک طویل المدتی عمل  ہے۔ اس تمام صورتحال میں ’’بیک ہیرو‘‘ کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ یہ کمردرد کا انتہائی سادہ اور سستا علاج ہے۔ یہ انسانی جسم کی پوزیشن کو درست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کام میں منہمک ہونے کے دوران مسلسل ایک ہی حالت میں بیٹھا رہے اور وہ جسمانی پوزیشن آرام دہ بھی نہ ہو تو یہ چیز کمردرد کا باعث بن جاتی ہے۔ بلیک ہیرو پٹھوں کے کھچاؤ کو  10 منٹ کے اندر اندر ریلیکس کر کے سکون پہنچاتا ہے۔

9  ۔ کار ڈوک :

ہر انسان کا ذہنی رجحان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات ضروری نہیں کہ سب لوگوں کا دماغ مکینیکل ہی ہو۔ جن افراد کے پاس کاریں ہیں ان کو اکثروبیشتر چھوٹی موٹی خرابیوں کو ٹھیک کروانے کے لیے مکینیکوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے، جو ان معمولی کاموں کے بھی اچھے خاصے پیسے لے لیتے ہیں۔ ’’کار ڈوک‘‘ کاروں کی   3 ہزار سے زائد خرابیوں کو تشخیص کرنے والا آلہ ہے۔ یہ آلہ یکم جنوری  2006ء کے بعد بننے والی تمام OBD2-compliant کے لیے کارآمد ہے۔ اس کو آئی فون اور انڈروائڈ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ناصرف چھوٹی موٹی خرابیوں کو خود ٹھیک کر کے بہت سے پیسے بچائے جانا ممکن ہے بلکہ مکینیکوں کی دروغ گوئی سے زیادہ پیسے کمانے کے حربوں کو بھی کامیابی سے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

10 ۔ کلین بوٹ :

گھروں کی صفائی ستھرائی ایک بہت ہی مشقت طلب کام ہے۔ ہماری خواتین تقریباً روز ہی اس دقت سے نبردآزما ہوتی ہیں۔ جھاڑو اور صفائی والے برش سے لے کر ویکیوم کلینر تک مختلف آلات اس ظمن میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب تو مارکیٹ میں ویکیوم کلینگ روبوٹس بھی دستیاب ہیں لیکن اتنے مہنگے روبوٹس خریدنے کی استطاعت ہر کسی میں تو نہیں ہوتی نا۔ اسی لیے ’’کلین بوٹ‘‘ تیار کیا گیا ہے جو بہت معیاری بھی ہے اور سب کی قوت خرید میں بھی۔ اس کو استعمال کرنا بھی کوئی مشکل نہیں، بس اس میں  2 عام والی AAA بیٹریاں ڈالیں اور اسے آن کر کے فرش پے رکھ دیں۔ اب آپ کا کام ختم۔ یہ خود ہی صفائی شروع کر دے گا اور یہ اپنی ’’شیپ‘‘ (shape) کی وجہ سے ان جگہوں پر بھی گھس کر آسانی سے  صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جہاں کی صفائی نسبتاً مشکل ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں لگا ہوا ریڈار سسٹم اس کو راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے بھی آگاہ رکھتا ہے۔

11 ۔ ڈے سائٹ :

شائد آپ کو یقین نہ آئے کہ  40 فیصد سے زائد کار ایکسیڈینٹ رات کے وقت ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سامنے سے آنے والی ٹریفک کی لائٹس آنکھوں پر پڑنے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور ایک لمحے کے لیے انسان اندھا ہو کر رہ جاتا ہے اور مسلسل اس عمل سے گزرنے کے دوران حادثے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ’’ڈے سائٹ‘‘ چشمے مقبول ہو رہے ہیں۔  یہ ہلکے پھلکے UV400 (الٹرا وائلٹ) چشمے غیرمنعکس ہیں اور سامنے سے آنکھوں پر پڑنے والی ہیڈلائٹس کی تیز روشنی کو مدہم کر دیتے ہیں۔ ہوں ہمیں سامنے کی ہر چیز اور منظر واضح نظر آنے لگتا ہے اور حادثے کا امکان انتہائی کم ہو جاتا ہے۔ ان چشموں کا شیشہ خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، ویسے یہ دیکھنے میں عام چشموں جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

12 ۔ ہیٹ بڈی :

سردیوں میں یہ چھوٹا سا آلہ بڑے کام کی چیز ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں کے لیے جہاں شدید سردی پڑتی ہو اور اس سے بچنے کے لیے سہولیات مثلاً گیس یا کوئلہ اور جلانے کی لکڑیاں وغیرہ  ناکافی ہوں۔ ’’ہیٹ بڈی‘‘ نامی یہ آلہ ایک مکمل اور موئثر ہیٹنگ سسٹم ہے جو صرف  350 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔ اس کو کسی بھی ساکٹ میں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ 27 مکعب میٹر جگہ کو اچھی خاصی حرارت فراہم کر کے گرم کر دیتا ہے۔

13 ۔ سیکو کیم :

حفاظتی نقطہء نظر سے آج کل ساری دنیا میں سیکیورٹی کیمرے لگانے کا رواج عام ہے۔ یہ کیمرے دکانوں، دفاتر، کمرشل پلازوں کے علاوہ دہشت گردی اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے اب گلی محلوں اور شاہراؤں پر بھی نصب کیے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ انہیں اپنے گھروں میں لگوا کر گھر کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ کیمرے لگوانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ایسی جگہ لگائے جائیںجہاں کسی کا دھیان نہ جائے اور وہ کسی کو نظر نہ آئیں۔’’سیکو کیم‘‘ اسی نظریئے کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ لائٹ بلب کی شکل کا ہے اور بلب ہی کی طرح روشنی دینے کے ساتھ ساتھ کیمرے کا کام بھی کرتا ہے۔اس کو اپنے موبائل فون یا ٹیبلٹ کے ساتھ منسلک کر کے اس کمرے یا جگہ کی لائیو ویڈیو دیکھی اور ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔

14 ۔ سلیپ کول :

گرمیاں یوں تو ہر سال ہی ہم پے قیامت ڈھاتی ہیں مگر جیسا کہ اوپر ذکر آچکا پچھلے چند برسوں سے تو خاص طور پر ان کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گرمیوں میں انسان کو نا دن کو چین آتا ہے اور نا رات کو نیند آتی ہے۔ اوپر سے اگر بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی عروج پے ہو تومرے کو مارے شاہ مدار والی صورتحال ہو جاتی ہے اور انسان کی جان پر بن آتی ہے۔ تاہم اب ’’سلیپ کول‘‘ کے ذریعے آپ کم از کم  سکون سے سو سکتے ہیں۔ اس کو آپ اپنے تکیے پر رکھ کر  استعمال کریں اور ٹھنڈی ٹھنڈی آرام دہ نیند کے مزے لیں۔ اس کو فرج میں رکھ کر ٹھنڈا یا گرم پانی میں ڈال کے گرم بھی کیا جا سکتا ہے اور جسم میں کہیں بھی درد ہو تو وہاں کی ٹکور کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

15 ۔ تھرمو کئیر :

کون یہ سوچ سکتا تھا کہ  2000 ہزار برس پرانی چینی دوا، جوڑوں کے درد کے مسئلے سے نجات دینے میں اس قدر فائدہ مند ثابت ہو گی۔ تھرمو کئیر نامی یہ انقلابی پروڈکٹ قدیم ادویات اور جدید مٹیریل کا امتزاج ہونے کی وجہ سے بہت کارآمد ہے۔ اس کو جوڑوں پر پہن لینے سے درد میں میں آفاقہ محسوس ہوتا ہے۔ اس میں پیدا ہونے والی مقناطیسی لہریں ناصرف درد کا قلع قمہ کرنے میں اکثیر کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ جسم کے دوران خون کو بہتر بنانے اور غذا کو جز بدن بنا کر طاقت باہم پہنچانے کا کام بھی بحسن خوبی سرانجام دیتی ہے۔

16 ۔ ایکو H2O :

پانی زندگی ہے۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے باکفایت استعمال کی موئثر منصوبہ بندی نا ہونے کے سبب ہماری زمین سے پینے کا صاف پانی تیزی سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں تو بطور خاص پانی کی صورتحال خطرے کے نشان کو عبور کرتی نظر آ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق  2025ء تک پاکستان پانی کی انتہائی شدید قلت کے والے ممالک میں شامل ہو کر سنگین بحران  کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کے بہت سے عوامل میں سے ایک تو ہمارا نئے ڈیمز نا بنانا اور دوسرے لوگوں کو پانی کے استعمال کے بارے میں کفایت شعاری کی آگاہی نا ہونا بھی شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو پانی کے ضیائع کے طریقوں کے بارے میں معلومات دیں جائیں اور اس ظمن میں قانون سازی کر کے اس پر سختی کے ساتھ عملدرامد بھی کروایا جائے۔ ایکو H2O پانی کو ضائع ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اپنے اوپر بنی ہوئی چوڑیوں کی مدد سے آسانی کے ساتھ کسی بھی عام ٹونٹی میں فٹ ہو جاتا ہے اور ہوا میں موجود آکسیجن کو پانی میں مکس کر کے پانی کا پریشر بڑھا دیتا ہے۔ اس طرح پانی کے استعمال میں  75 فیصد تک کی بچت کرنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ آلہ ایک بہت ہی مفید چیز ہے۔ اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں لگا ہوا مخصوص ٹائمر، ٹونٹی کو  5 سیکنڈز بعد خودبخود بند کر دیتا ہے۔

17 ۔ میجیک گرل :

یوں تو پوری دنیا ہی میں باربی کیو کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے لیکن ہم پاکستانی تو خاص طور پر اس کے رسیا ہیں۔  مگر باربی کیو بنانا کافی محنت طلب کام ہے۔ خصوصاً کھا پی چکنے کے بعد اس میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً انگیٹھی وغیرہ کی  صفائی بہت وقت مانگتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر لوگ باربی کیو بنانے کا پروگرام ہی موئخر کر دیتے ہیں۔ کیا ہی مزا ہو کہ اگر یہ سب محنت کیے بغیر ہی باربی کیو کا لطف اٹھایا جا سکے۔ جی ہاں! اب یہ ’’میجک گرل‘‘ کی بدولت ممکن  ہے، جو دیکھنے میں بھی انتہائی دیدہ زیب ہے اور کام بھی بہت اعلٰی کرتا ہے۔ یہ چینی مٹی، تانبے اور ٹائٹینیم نامی دھات سے بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس پر چکنائی کی تہہ نہیں جمتی۔ اب آپ باہر جا کر کھانے کی بجائے گھر بیٹھے باربی کیو کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور وہ بھی کسی صفائی کے جھنجھٹ کا تردد کیے بغیر۔ مزے کی بات ہے نا ؟

18 ۔ چارج بوسٹ :

آج کل جس کو بھی دیکھیں وہ اپنے موبائل فون میں گم ہے۔ یہ ایک جدید اور کارآمد ذریعہء مواصلات تو ہے یہ مگر انٹرنیٹ کے استعمال نے اس کو بیک وقت معلومات اور تفریح فراہم کرنے والا ایک خوبصورت امتزاج بھی عطا کر دیا۔ اس کے ذریعے اب ساری دنیا آپ کی مٹھی میں سمٹ آئی ہے۔  چاہیں تو اپنے پیاروں کو ویڈیو کال کریں اور چاہیں تو اخبار پڑھیں، ٹی وی دیکھیں، کتابیں پڑھیں، گیم کھیلیں یا فلمیں دیکھیں۔ لیکن موبائل فون کے اس قدر استعمال میں قباحت یہ ہے کہ اس کی بیٹری جلد جواب دے جاتی ہے اور بار بار چارج کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے سخت کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ فون چارجنگ کو وقت انسان اس کے ساتھ بندھا بیٹھا رہتا ہے۔ اب اس کا حل ’’چارج بوسٹ‘‘ کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ یہ وائر لیس چارجر، موبائل کو ناصرف تیزی سے اور کم وقت میں چارج کر دیتا ہے بلکہ آپ کو یہ سہولت  بھی دیتا ہے کہ آپ بجلی کے ساکٹ سے دور بیٹھ کر اپنے فون کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ چارج بھی کر سکتے ہیں۔

 ذیشان  محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post وہ مفید مصنوعات جو 2019ء میں عام دستیاب ہونگی appeared first on ایکسپریس اردو.

’پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا‘

$
0
0

 مظفر آباد / آزاد کشمیر:  بیرونی ممالک کے طالب علموں کے لیے تحریک آزادی کشمیر کا مطالعہ شاید تحقیق کا ایک دلچسپ موضوع ہو لیکن ہم کشمیریوں کے لیے یہ ایک حساس موضوع ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سات عشرے گزر چکے ہیں یعنی دو نسلوں کا زمانہ گزرگیا۔ اب ایک تیسری نسل کو زندگی کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ مستقبل کی قیادت(یعنی نسلِ نو) کو تحریک آزادی کشمیر کے تاریخی نشیب و فراز سے آگاہ ہونے اور اس تحریک کے اتار چڑھاؤ کو تجزیہ کی سان پر چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک بات پر بالکل ذہن صاف رکھنا اشد ضروری ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ دراصل خود پاکستان اور اہل پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔

قائداعظم کے فرمان کے مطابق’’کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے ‘‘ اور ایک قوم کے لیے اس سے بڑی غفلت کی بات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ اس کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہو ؟ مسئلہ کشمیر کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اس معاملے میں پاکستان کی حیثیت محض ایک تماشائی کی نہیں بلکہ ایک بنیادی فریق کی ہے۔کشمیر کا سب سے پہلا قانونی رشتہ پاکستان سے قائم ہوا۔ آزادی کے حصول کے ساتھ 14اگست1947ء کو ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے درمیان ایک عبوری معاہدہ ہوا۔ 14اگست1947؁ء کو کشمیر میں تمام محکموں کے دفاتر پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے۔ اس انتظام پر ہندوستان کی فوج کشی سے ضرب پڑی اور تنازعہ کشمیر نے جنم لیا ۔

جس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کی افواج میں سرزمین کشمیر پر جنگ ہوئی۔ بالآخر اقوام متحدہ نے ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں استصوابِ رائے کروانے کے وعدے پر جنگ بندی کرائی ۔ جنگ بندی کی یہ قرارداد (Resolution 47 of 1948) بلجیم،چین ،کولمبیا ،کینیڈا ،برطانیہ اور امریکہ نے مشترکہ طور پر پیش کی اور پاکستان و ہندوستان نے اسے منظور کر لیا ۔ اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر کے چار فریق ہیں ۔ پاکستان، ہندوستان، اقوام متحدہ اور اہم ترین فریق خود جموں وکشمیر کے عوام ۔کشمیر کے بارے میں ہندوستان جن تضاد بیانیوں کا شکار ہے۔

ان پر پروفیسرلیمب نے اپنی دو تحقیقی کتابوں میں ناقابل تردید دستاویزات اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی افواج 26اکتوبر1947ء کو کشمیر پہنچ چکی تھیں، جبکہ مہاراجہ سے زبردستی جو دستخط حاصل کیے گئے وہ 27اکتوبر سے پہلے حاصل کرنا ناممکن تھا۔ جس دستاویز کو الحاق کی دستاویز کہا جاتا ہے، وہ محض ایک ’پرفارما‘ ہے۔ پروفیسرلیمب کا دعویٰ ہے کہ آج تک کسی بین الااقوامی فورم پر اصل دستخط شدہ دستاویز کو پیش نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کے مشہور صحافی آنجہانی کلدیپ نئیر کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے وزرائے اعظم لال قلعہ کی بلندیوں سے آواز لگاتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور پھر پاکستان کو تحریر کرتے ہیں کہ بھارت کشمیر کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے۔

جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔کوئی حاکمیت اعلیٰ رکھنے والا ملک اپنے کسی علاقے کی حیثیت کے بارے میں یہ بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ اس علاقے کو متنازعہ تسلیم کرتا ہو۔ایک اور محقق ’اے جی نورانی‘ لکھتے ہیں کہ نہرو نے لیاقت علی خان سے اپنی خط و کتابت میں مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی مسئلہ تسلیم کیااور لوک سبھا میں اعلان کیا کہ اس مسئلے کا حل استصواب رائے ہے۔ ’جے پرکاش نارائن‘ کا ایک خط جو 23جون1966ء کو اندراگاندھی کو لکھا گیا اور جسے ایک ہندوستانی دانشور ایم جے اکبر نے اپنی کتاب (Kashmir Behind the vale) میں نقل کیا ہے، کے مطابق ’’کشمیر پر ہندوستان محض طاقت کے بل بوتے پر قابض ہے۔

ہم سیکولرازم کی بات کرتے ہیں لیکن ہندو قوم پرستی کو موقع دیتے ہیں کہ ہمیں مجبور کرے کہ تشدد کے ذریعے اُس کا تسلط قائم ہو۔ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اوراس لیے نہیں کہ پاکستان اسے ہم سے چھین لینا چاہتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں کے عوام کے دلوں میں گہری بے چینی اور بے اطمینانی ہے‘‘۔ یہ خط 53برس پہلے لکھا گیا اور آج 2019؁ء میں بھی کشمیری اسی بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر منظور عالم جو کشمیر یونیورسٹی سری نگر کے وائس چانسلر رہے، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ 1987ء کے انتخابات کے بعد کشمیر کے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ آج کشمیر، ہندوستان سے مکمل اجنبیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اگرچہ کشمیر کو مالی معاملات میں خاص حیثیت حاصل ہے لیکن اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑ سکا۔

کشمیر کے مسلمان آج صرف کشمیر کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ پاکستان کے تحفظ اور اس کی تکمیل کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ وہ ہماری نسلوں کی بقاکی جنگ لڑرہے ہیں۔ بھارت تحریک مزاحمت کو طاقت سے کچلنے میں ناکام ہونے کے بعد جس حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، اُس میں پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے غیر متعلق کرنا اور اس کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے الزامات لگانا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر پاکستان کو Isolate (الگ تھلگ) کرنا، تحریک مزاحمت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنا، تحریک جہاد اور سیاسی محاذ میں تصادم اور بے اعتمادی پیدا کرنا بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ جہادی تحریک کے اندر تک سرنگ لگانا، بھارت کے چنگل سے آزادی کی تحریک کو خود مختاری اورعلاقائی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم اور منتقلی سے الجھانے کے ڈرامے رچانا شامل ہیں۔ جیسا 1950، 1952 اور 1953میں کیا گیااور جس کا حشر جموں وکشمیر کے عوام نے گزشتہ 72برسوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

کشمیر کو تقسیم کرنا ہندوستان کی اولین پالیسی ہے، کبھی وہ مسلم اکثریت کی کشمیر کی وادی ڈوڈہ، پونچھ، راجوری اور کارگل کو ایک علاقہ قراردیتا ہے اور جموں کو دوسرا اور کبھی لیہ (لداخ) کوتیسرا علاقہ قرار دے رہا ہے۔کنٹرول لائن کو معمولی ردوبدل کے ساتھ بین الا اقوامی سرحد بنانا اور اس طرح کشمیر کی تقسیم درتقسیم کے ذریعے اس مسئلے کو دفن کرنا اس کے اس ایجنڈے میں شامل ہے۔مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور مستقبل کے خطرات و امکانات کی تفہیم کے لیے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اصل مسئلہ جموں وکشمیر کی ریاست کے مستقبل اور اس کی مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی اٹوٹ انگ کی رٹ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جسے اقوا م متحدہ، یورپی یونین اور اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) سب نے متنازعہ تسلیم کیا ہوا ہے۔

خود بھارت نے ماضی میں اسے تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازعہ تسلیم کروایا ہے۔کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم بہت شروع سے اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ تھے۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں 26دسمبر1938ء کو فرمایا کہ ’’میں کانگریس سے پوچھتا ہوں کہ وہ کشمیر میں کیا کررہی ہے؟‘‘ 1944؁ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے قائداعظم نے کشمیر کے بارے میں فرمایا ’’مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں، اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندوستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں‘‘۔1947؁ء میں قائداعظم نے بھارتی گورنر جنرل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا ’’ہم قبائلیوں پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ وہ کشمیر کو خالی کر دیں۔ مسلمانان کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی مددکی ہے‘‘۔

قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’’کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جزو ہے، وہیں پرسیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے‘‘ ۔کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کو ان کے معالج ڈاکٹر الہی بخش نے یوں بیان کیاکہ بقول قائد ’’کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے اورکوئی خوددار ملک و قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے رکھ دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے کیوں کہ یہ تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کاجزو ہے‘‘۔ تحریک آزادی کشمیر مختلف مراحل سے گزری ہے اور اس میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں لیکن یہ چنگاری کبھی سرد نہیں ہوئی۔ بقول علامہ اقبال :

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند

اکیسویں صدی کے آغازکے ساتھ ہی جہاں مسلم دنیا 11ستمبر2001ء کے منفی اثرات کا شکار ہوئی، وہیں اس کے اثرات تحریک مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد پر بھی پڑے اور اس میں امریکہ، اسرائیل، روس اور بھارت نے خصوصی کردار اداکیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں نے بھی اس میں کچھ کم حصہ نہیں ڈالا۔ اب کشمیر کے حالات ایک تاریخی موڑ پر آ گئے ہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور وہ کسی کا انتظار نہیں کرے گی کیونکہ کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ سُنا دیا ہے۔ جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں، وہیں ابھی سازشوں، رام راجی اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا  بھی پورا امکان ہے۔

میں بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی 8جولائی2010ء کی اشاعت کے ایک مضمونCalm Kashmirکی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا چلوں، جس میں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے جنگجو حلیفوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کے حل کا جو نسخہ پیش کیا گیا ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ الفاظ یہ ہیں ’’پاکستان افضل خان کی شیطانی پالیسی پر چل رہا ہے، اس کا جواب وہی ہے جو شیوا جی نے دیا تھا ‘‘۔ یہ اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جب مرہٹہ سردار شیوا جی نے اورنگ زیب عالمگیر کے سپہ سالار افضل خان کو امن مذاکرات کے لیے بلا کر قتل کر دیا تھا۔ وہ جو صرف امن کی بات کرتے ہیں انھیں اس تاریخی واقعے کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔

کشمیر کے اہم سیاسی اور انسانی مسئلے کے بارے میں پاکستانی میڈیا وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو ہندوستانی میڈیا کرتا ہے۔ یہی صورت حال ہمارے سفارت خانوں کی ہے۔ مغرب کے ایوانوں میں بھارت اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کر رہا ہے اور ہم اپنے سچ کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر متو کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں کشمیر میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ پیسے کا مسئلہ نہیں، ہم کئی عشروں سے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کررہے ہیں۔کبھی کشمیریوں کو خریدنے کے لیے، کبھی ان کو تقسیم کرنے کے لیے۔ یہ منصفانہ انتخابات کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ کشمیریوں کی ایک ایسی نسل تک پہنچنے کا مسئلہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا بھوت ہے اورجس کی نمائندہ، اس کی افواج ہیں‘‘۔

مجھے نیو یارک ٹائمز کی نامہ نگار، برمنگھم یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے الفاظ یاد آتے ہیں جس نے کہا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب 9فروری2013ء کو تہاڑ جیل میں افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ عارفہ غنی کہتی ہے کہ ’’جب مقبول بٹ (شہید)کو پھانسی دی گئی تو میں پیدا نہیں ہوئی تھی، جب میں نے اس کے بارے میں کچھ پڑھا تو پھر وہ ہمارا ہیرو ہو گیا۔ افضل گورو کی پھانسی کے بعد میں جس طرح محسوس کر رہی ہوں اس طرح کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ مگر ہم اپنے بڑوں کی طرح کبھی ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ ہم زیادہ ذہانت سے رد عمل دیں گے‘‘۔ لیکن یہ تاریخ کا جبر ہے یا نئی نسل کی بدترین مایوسی کہ کشمیری قوم نے 2013ء سے 2016ء تک ایک بار پھر گولی کے مقابلے میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا اور یہ تحریک برہان مظفر وانی(شہید) کی صورت میں ایک نئے انداز میں ہمارے سامنے آئی۔

جنہوں نے سوشل میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا تھا۔ زندہ برہان وانی کے مقابلے میں شہید برہان وانی ہندوستان کے لیے زیادہ مضر ثابت ہوئے، جن کی شہادت نے آج 2016ء اور 2017ء میں کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔افضل گورو اور برہان وانی کی شہادتیں اس حقیقت کو سامنے لائیں کہ کشمیر کی تحریک، کشمیریوں کی اپنی ہے اور بھارت کا یہ پروپیگنڈہ بالکل بے بنیاد ہے کہ کشمیر کے اندر چلنے والی تحریک، پاکستان کی Planted ہے۔ہم نے ماضی میں مذاکرات کے تمام مراحل کو سنا، دیکھا اور پڑھا۔ مذاکرات کے نام پر بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے وقت لیا ہے اور اس وقت کو کشمیریوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیز فائر اورمذاکرات کا فائدہ بھارت نے اس صورت میں اٹھایاکہ خط متارکہ پر باڑ لگا دی۔ یہ با ت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں بہر حال مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہیں دکھانی چاہیے۔ اگر ہمارا موقف مبنی بر حق ہے (اور یقیناً ہے) اور بین الا اقوامی قانون، اقوام متحدہ کی قراردادیں، اقوام متحدہ اور غیر وابستہ تحریک کاچارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے اورسب سے بڑھ کر جموں وکشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے، تو ہمارے کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے ؟

کشمیر کا مسئلہ زمین کا تنازعہ نہیں، یہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیں اندرونی طور پر مضبوط پاکستان ہی مدد پہنچا سکتا ہے۔ اقبال نے شاید اسی کی طرح اشارہ کیا ہے کہ

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اُمت مسلمہ آج جن حالات سے دوچار ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ امت مسلمہ، پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت کے لیے آج کے حالات میں اورخصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے پس منظر میں اقبال کا پیغام یہ ہے کہ

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب

ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں اورتعلیمی اداروں کی سطح پر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ خاص طور پر 11اکتوبر2018ء کو منان بشیر وانی، پی ایچ ڈی سکالر، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی شہادت نے تو یہ ثابت کر دیا ہے کہ مستقبل میں کشمیر کی تحریک کا مرکز بہت تیزی کے ساتھ جامعات بنتی چلی جا رہی ہیں۔ جامعات میں نئی نسل کو مسئلہ کشمیر سے متعارف کروانا، اُن کو یہ باور کروانا کہ یہ دور سوشل میڈیاکا ہے اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے بیرونی دنیا میں اپنے روابط کو مربوط بنائیں اور انصاف کو سمجھنے والے افراد، گروہ اور اقوام کو یہ بات باور کروانے کی اپنی سی کوشش کریں کہ اقوام متحدہ کے حل طلب مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے جوکہ ایک اصولی مسئلہ ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کو پہلے اپنے آپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر اور پاکستان دو الگ وجود نہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کا کوئی بھی کشمیری مخالف نہیں لیکن یہ تعلقات، کشمیریوں کے خون کی بنیاد پر استوار نہیں ہونے چاہیں۔ ہندوستان سے تجارت ضرورکیجیے لیکن توازن کو نظرمیں رکھ کر۔

پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا

خبرِ آمدِ ایامِ بہاراں لے کر

The post ’پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹریفک جام۔۔۔۔رُکی ہوئی زندگی، ٹھہرے ہوئے کام

$
0
0

ٹریفک جام ایک ایسا عالم گیر مسئلہ ہے جس کا سامنا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک یکساں طور پر کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد اگلی دو دہائیوں میں دگنی ہوجائے گی۔ ٹریفک کے اس بہاؤ کو رواں رکھنے کے لیے ٹریفک لائٹس، روڈز اور دوسرے انفرا اسٹرکچر کی بھی ضرورت پیش آئے گی۔

ٹریفک جام نے ہماری تیزرفتار اور ماڈرن زندگی کو مرجھا کر رکھ دیا ہے، لیکن ہم اس اہم مسئلے کو فرسودہ طریقوں سے حل کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ ہم سب ایک ہی روایتی طریقے سے سفر کرتے ہیں جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ ہمارا ٹریفک مینیجمنٹ کا نظام بھی ٹریفک جام کے اس مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد میں لگا ہو ا ہے۔ خراب موسم، بیک وقت کئی ٹریفک لائٹس کا کام کرنا اور ان جیسے دیگر عوام گاڑیوں کی روانی میں تعطل پیدا کرتے ہیں۔ چند سال پہلے ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2040 تک دنیا بھر میں چلنے والی کاروں کی تعداد دگنی ہوجائے گی، یعنی دو ارب تک پہنچ جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹریفک جام کا مسئلہ صرف زمین پر چلنے والی گاڑیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہوا میں پرواز کرنے والے جہازوں کے لیے بھی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2015 تک دنیا میں چلنے والی کاروں کی تعداد ایک ارب دس کروڑ تھی، جو کہ 2025 تک بڑھ کر ڈیڑھ ارب اور 2040 تک بڑھ کر دو ارب تک پہنچ جائے گی۔ 2015 تک دنیا بھر میں چلنے والے ٹرکوں کی تعداد37کروڑ 70لاکھ تھی جو2025میں بڑھ کر50کروڑ7لاکھ اور2040 تک بڑھ کر 79 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے جہاں سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس مسئلے کی وجہ سے دنیا بھر میں انفرا اسٹرکچر کی دیکھ بھال، نئی موٹر ویز، ذیلی سڑکوں کی تعمیر میں اربوں روپے کے اخراجات بھی ہورہے ہیں۔ جب کہ ان گاڑیوں میں جلنے والے ایندھن کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں ٹریفک جام کے مسائل پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہے۔ اس حوالے سے ٹرانسپورٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل ایٹیلیجنس ) عطا کردی جائے تو اس سے نہ صرف سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹریفک جام کے تدارک کے لیے سب کی نظریں سیلف ڈرائیونگ وہیکلز (بنا ڈرائیور چلنے والی گاڑیاں) پر ٹکی ہوئی ہیں، اگرچہ بہت سی سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں ٹریفک جام کے مرض میں اکسیر ہیں، کیوں کہ یہ روبوٹکس گاڑیاں انسانی ڈرائیوروں کی نسبت کسی تذبذب کا شکار ہوئے بنا تیزی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن اگر ہم آج سے آغاز کریں تو تب بھی ان گاڑیوں کے ہماری سڑکوں پر مثبت اثرات مرتب ہونے میں بھی کم از کم دو دہائیاں درکار ہیں۔

اس دوران شہری پلاننگ کے منصوبہ سازوں اور ہائی وے حکام کو ٹریفک جام کے حل کے لیے انسانی، نیم خود مختار اور خود مختار روبوٹکس ڈرائیورز کے پیچیدہ اشتراک سے ایک حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک جام کے حل میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی کی ایک کمپنی Siemens Mobility  نے آزمائشی طور پر ایک مانیٹرنگ نظام تیار کیا ہے جو ٹریفک کیمروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت استعمال کرتا ہے۔ یہ ٹریفک کیمرے خود کار طریقے سے گاڑیوں کی شناخت کرکے اس کی معلومات واپس مرکزی کنٹرول سینٹر بھیج دیتے ہیں، جہاں یہ نظام ایک الگوریتھم کی مدد سے سڑک پر ٹریفک کے دباؤ کا اندازاً لگا کر روڈ کی حقیقی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ٹریفک لائٹس کے نظام میں تبدیلی کرتا ہے۔

اس سارے طریقۂ کار میں سڑک کے انفرااسٹرکچر، موبائل فونز کی مدد سے کار اور ان کے ڈرائیورز کی معلومات پر مشتمل بہت زیادہ ڈیٹا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر موجود لاکھوں کیمروں کی قطاریں اور تارکول کے نیچے چھپے دھاتی پھندے گزرنے والی گاڑیوں سے پیدا ہونے والے معمولی کرنٹ سے ٹریفک کی صورت حال کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات اس سسٹم کی مدد سے ٹریفک کی فوری اپ ڈیٹس بھی بھیج سکتے ہیں۔ اس میں سے کچھ مانیٹرنگ ٹیکنالوجیز ساٹھ کی دہائی سے استعمال میں ہیں، جب کہ ٹریفک کو ٹریک کرنے اور نمبر پلیٹ پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں کا استعمال حال ہی میں ہوا ہے، لیکن اصل بات حاصل ہونے والی تمام معلومات کے موثر استعمال کی ہے۔

یونیورسٹی آف مشی گن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر  Gabor Orosz کا اس بابت کہنا ہے کہ ’ہم سر آئزیک نیوٹن کے دور سے ریاضیاتی ماڈلز بنا کر دنیا کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر ہمارے پاس ڈیٹا (معلومات) ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اس میں سے کوئی نتیجہ اخذ کرکے ٹریفک رواں رکھنے میں استعمال کریں۔‘ اس کام کے لیے ہمیں مصنوعی ذہانت درکار ہوگی، کیوںکہ آرٹیفیشل انٹیلجنس بڑی مقدار میں حاصل ہونے والی معلومات کا مشاہدہ کرنے اور اس کے ذریعے ہمارے شہروں میں ٹریفک پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے۔

لندن کےThe Alan Turing انسٹی ٹیوٹ اور ٹویوٹا موبیلیٹی فاؤنڈیشن کے محققین نے حال ہی میں ایک مشترکہ پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت ٹریفک مینیجمنٹ کے نظام کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے زیادہ متحرک اور موثر بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ ٹویوٹا موبیلیٹی فاؤنڈیشن کے ہیڈآف ریسرچ اینڈ انوویشن ویلیم شیرنکوف کا کہنا ہے کہ ہم سیمیولیشن (سیمولیشن طبعی پروسیس یا آبجیکٹ کی پروگرام کے ذریعے ایک نقل جوکمپیوٹر کے لیے حساب کتابی طریقے سے ڈیٹا کا جواب دینے اور ایسے حالات میں بدلنے کا باعث بنتا ہے) استعمال کرتے ہوئے اپنے الگوریتھم کی مدد سے ٹریفک میں تبدیلی کے دوران پیش آنے والے مسائل کی پیمائش کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ پراجیکٹ تجرباتی مراحل میں ہے اور جلد ہی اس نظام کو حقیقی دنیا پر لاگو کردیا جائے گا۔ مشینوں کا گہرائی میں مطالعہ کرکے ہم ممکنہ ٹریفک جام کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت میں بہتری لاسکتے ہیں۔ اگر ہم قریب ترین پیش گوئی کرنے میں کام یاب رہے تو پھر ٹریفک سگنل کو ٹریفک کے بہاؤ کے مطابق خود کار طریقے سے کھولا اور بند کیا جاسکے گا۔

امریکی شہر پٹس برگ کی  Carnegie Mellon یونیورسٹی کے روبوٹکس انسٹی ٹیوٹ کے محققین بھی2012 سے اسی تصور پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے ٹریفک کو کنٹرول کرنے والا مصنوعی ذہانت سے لیس ایک سسٹم ریپڈفلو ٹیک نامی کمپنی کی مدد سے پٹس برگ میں لگایا ہے۔ ان کیSurtrac ٹیکنالوجی اس وقت پٹس برگ کے 50 انٹرسیکشنزپر استعمال ہورہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس نظام کی بدولت شہر کے چوراہوں پر انتظار کا وقت 40 فی صد تک کم ہوچکا ہے، جب کہ سفر کے دورانیے میں 25 فی صد اور گاڑیوں سے کاربن ڈائی کے اخراج میں20 فی صد تک کی کمی ہوچکی ہے۔

ریپڈ فلو ٹیک کے چیف ایگزیکٹوGriffin Schultz  کا کہنا ہے کہ یہ نظام سڑک اور چوراہے پر موجود گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والے افراد کو خودمختار طریقے سے شناخت کرکے ان کی ویڈیوز کو استعمال کرتا ہے۔ یہ نظام حاصل ہونے والی معلومات کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے لمحہ بہ لمحہ استعمال کرتے ہوئے ٹریفک لائٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ Surtracخودکار طریقے سے فیصلہ کرتے ہوئے دوسرے چوراہوں پر بھی معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ گریفین کا کہنا ہے کہ موبائل فونز اور وائر لیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سڑک پر موجود گاڑیاں اس نظام سے اور زیادہ مربوط ہوجاتی ہیں، جس سے ہمارے نظام کو اور زیادہ معلومات ملتی ہے۔ Surtrac سے منسلک ہونے والی گاڑیاں اپنی رفتار، ڈرائیور کے رویے اور یہاں تک کہ اطراف میں موجود انفرا اسٹرکچر میں کسی ممکنہ کوتاہی کے بارے میں معلومات کے تبادلے کی اہل ہیں۔ گریفین نے بتایا کہ اس وقت ہم تجرباتی مراحل پر Surtracکو محدود علاقے میں استعمال کررہے ہیں تاہم مستقبل میں ہم اس کا لامحدود استعمال کر سکیں گے۔

سیمینز موبیلیٹی انٹیلی جینٹ ٹریفک سسٹم کے سربراہ Markus Schlitt کا کہنا ہے کہ ہم دنیا بھر کے شہروں اور میونسپلٹیز کے ساتھ ٹریفک جام کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، کیوں کہ مصنوعی ذہانت کے بنا مستقبل میں نظام ٹریفک بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا جس کے لیے ہمیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے لیس نظام کی ضرورت ہے جو کہ حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے ٹریفک کا بہاؤ برقرار رکھ سکے۔ جس کے نتیجے میں سفر کا دورانیہ اور مضر گیسوں کا اخراج بھی کم سے کم ہوگا۔ ہم جرمن شہر ہیگن میں ٹریفک لائٹس کو کنٹرول کرنے اور چوراہوں پر انتظار کے وقت میں کمی کے لیے مصنوعی ذہانت کا تجرباتی استعمال کر رہے ہیں۔

اس تجرباتی استعمال سے پیدا ہونے والے نتائج بہت خوش گوار ہیں کیوں کہ اس سے انتظار کے وقت میں 47 فی صد تک کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلجنس کے اس نظام سے صرف گاڑی رکھنے والے ہی مستفید نہیں ہورہے بلکہ سیمینز موبیلیٹی پرتگال کے شہر لزبن ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے 14سو الیکٹرک موٹر سائیکلز کے بیڑے کو بھی آپریٹ کر رہی ہے، اور ہر 140بائیکس سے حاصل ہونے والی معلومات کو ہم مشین لرننگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ٹریفک جام میں کمی ہوئی ہے بلکہ یہ ماحول کے لیے مفید ہے۔ ٹریفک جام کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے لندن کنگز کالج کے پروفیسر اور ٹریفک مانیٹرنگ کمپنی Worldsensing کے بانی رکن Mischa Dohlerکمبوڈیا کے شہر بگوٹا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی مد د سے ہم پہلے ہی روڈ سگنلز اور کسی حادثے کی صورت میں ٹریفک کا بہاؤ میں کم کرنے اور آنے والی ٹریفک کا رخ موڑنے کے لیے بہتر نتائج حاصل کرچکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے ہم ٹریفک جام اور سے متعلقہ دیگر مسائل کے حل کے لیے مزید بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم ابتدا میں لوگوں کو یہ بات سمجھانا تھوڑا مشکل ہوگا کہ انہیں راستہ تبدیل کرنے کا کیوں کہا جا رہا ہے۔

دوسری جانب برطانوی حکومت کی جانب سے ٹریفک جام سے نمٹنے کے لیے ملٹن کیینز کے علاقے میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ٹریفک سگنلز کو کنٹرول کرنے والی کمپنی  Vivacity Labs کے عہدے دار مارک نکلوسن کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر اسمارٹ ٹیکنالوجیز کی تنصیب سے ٹریفک جام سے تحفظ بہت زیادہ آسان ہوجائے گا۔ نئی ٹیکنالوجیز کے بہت سے دیگر فوائد میں سے ایک سب سے بڑا فائدہ ’کم خرچ‘ ہے، کیو ں کہ نہ اس میں بھاری بھرکم مہنگے آلات نصب کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس نظام کو چلانے کے لیے بہت زیادہ افرادی قوت درکار ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل یہ خودمختار نظام سڑ ک استعمال کرنے والے سائیکل سوار، کار سوار، بسوں اور دیگر اقسام کی گاڑیوں میں تمیز کرنے کے اہل ہیں، جس سے ایک طرف تو حادثات کی شرح میں کمی ہوگی دوسری طرف ٹریفک کا بہاؤ میں روانی اور مضر گیسوں کا اخراج کم ہوجائے گا، جب کہ اس نظام کی بدولت پارکنگ کرنا بھی نسبتاً زیادہ آسان ہوجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ’ٹریفک کے نظام کو زیادہ سے زیادہ خودمختار کرکے انسانوں کے لیے سہولت پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم ہوا میں آلودگی کی سطح کو کم سے کم رکھنے کے بھی خواہش مند ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہم نے تجرباتی بنیادوں پر ملٹن کینیز پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت ہم نے شہر کے اہم چوراہوں پر 411 اسمارٹ ٹریفک کیمرے نصب کیے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ہم نے پورے شہر میں اینٹیلی جنس کیمرے لگائے ہوئے ہیں جو تمام اقسام کی گاڑیوں اور سڑک استعمال کرنے والوں کو شناخت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کیمروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کس روڈ پر کس وقت ٹریفک زیادہ ہوتا ہے، اور لوگ زیادہ تر کس جگہ پارکنگ کرنا پسند کرتے ہیں، ان تمام معلومات سے ہمیں شہری منصوبہ بندی میں بھی مدد ملے گی۔ ان کیمروں میں لگے سینسرز نہ صرف روڈ استعمال کرنے والوں کی درجہ بندی کرتے ہیں بلکہ ایک جنکشن سے دوسرے جنکشن تک کے درمیانی فاصلے کی بھی براہ راست تصویر کنٹرول سینٹر کو بھیجتے ہیں۔

یہ نظام 89فی صد درستی کے ساتھ ٹریفک کی صورت حال سے15منٹ پیشگی اطلاع کر دیتا ہے۔ نکولسن کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ نظام نہ صرف لوگوں کو پارکنگ کے لیے دست یاب جگہ کی معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ یہ ملٹن کینیز شہر میں مستقبل سے مربوط خودمختار ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی کا سنگ بنیاد بھی ہے۔

سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk

The post ٹریفک جام۔۔۔۔رُکی ہوئی زندگی، ٹھہرے ہوئے کام appeared first on ایکسپریس اردو.


کیا آپ کا بچہ شرمندگی سے بچنے کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے؟

$
0
0

مشہور سوئس سائیکاٹرسٹ اور سائیکواینالسٹ، اینالاٹیکل سائیکالوجی کے بانی کارل جنگ نے کہاتھا: ’’شرم روح کو کھاجانے والا جذبہ ہے۔‘‘

متین صاحب بہت جلدی میں تھے انہیں آفس سے دیر ہو رہی تھی اور گلی کے کونے والی دکان سے سودا پکڑ کر گھر دینا بھی ضروری تھا۔ اسی جلدی میں تیز تیز چلتے ہوئے وہ سامنے پڑے پتھر سے ٹکرا کر نیچے گر پڑے۔ انھوں نے ایک دم کھڑے ہوکر کپڑے جھاڑتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، جب انھیں یقین ہوگیا کہ کسی نے انہیں گرتے ہوئے نہیں دیکھا تو ان کی گرنے کی75 فی صد تکلیف ختم ہوگئی حالانکہ ان کا گھٹنا اور کہنی بُری طرح چھل گئی تھی۔ گویا جسمانی چوٹ سے زیادہ ان کے لئے یہ پریشان کن بات تھی کہ کسی کو پتا نہ چل جائے کہ وہ گرے ہیں۔ یہ احساس شرم یا خفت ہم سب ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیڑھ سے تین سال کی عمر کے دوران جب بچوں میں اپنے وجود کا شعور پیدا ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی احساس شرم بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ بچے یہ نہیں پسند کرتے کہ وہ دوسروں کی نظروں میں کمتر ہوں یا کوئی انہیں شرمندہ کرے۔

ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس شرمندگی میں بچوں کا دماغ بند ہوجاتا ہے، سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ گویا ایک ایسا بچہ جسے ڈسلیکسیا ہو یعنی لفظوں کا اندھا پن یا لفظ واضح نظر نہ آنا، ان کو نہ پڑھ سکنے کی شرمندگی ضرب ہوکر بہت ساری شرمندگیوں کا ایک طوفان لاتی ہے جس سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح ایک ہنستاکھیلتا بچہ شرمندگی کی وجہ سے دبو، افسردہ اور احساس کمتری کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈونالڈ ناتھنسن مشہور ماہر نفسیات، جیفرسن یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے انسانی رویوں اور جذبات پر بہت تجزیاتی کام کیا ہے۔ ان کی بچوں کے اندر جذبات اور خصوصاً احساسِ شرم پر بہت گہری تحقیق ہے۔ ان کی وجہ شہرت ان کا مشہور نظریہ’’ کمپاس آف شیم‘‘ ہے جس میں شرم کے چار ردعوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ڈاکٹر ڈونالڈ کا اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بچہ جسے الفاظ پڑھنا مشکل ہوں جب وہ کلاس کے سامنے پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ میں پڑھ نہیں پا رہا ہوں تو پہلا شرم کا حملہ اس پر یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک کام جو مجھ سے کئے جانے کی توقع تھی میں وہ نہیں کر پا رہا ہوں۔ دوسرا یہ کہ میں پبلک میں یعنی کلاس کے سامنے ہوں، اور پھر یہ احساس شرم ضرب ہوکر بہت پھیل جاتا ہے۔ جب یہ خیال آتا ہے کہ میں اپنے کلاس فیلوز سے کمتر ہوں اور وہ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر اسی بچے کو تنہائی میں بہت محبت سے والدین، استاد، یا ٹیوشن پڑھانے والا پڑھنے کا کہے گا تو اس کو شرم کا اتنا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور اس کے سیکھنے کا زیادہ امکان ہے۔

بہت سے بچوں سے ایک سروے میں پوچھا گیا کہ آپ استاد کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے جواب یہ تھے:

نرمی سے پیش آنے والا، جو ہمیں پڑھانا چاہتا ہو، زیادہ وقت دے، ہوم ورک ختم کرنے کے لئے آہستہ بولے، کلاس کے سامنے غلطیاں نہ نکالے، میری امی کو میری شکایت نہ لگائے، جیسے میں پڑھنا چاہتا ہوں ویسے پڑھائے، کلاس کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرے، میری گندی لکھائی کو نظر انداز کردے۔

ان میں سے اکثر جوابات میں ایک بات مشترک ہے ’’احساس شرم‘‘ گویا بچے غلطی نکالنے پر شکایت لگنے اور سزا ملنے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔ احساس شرمندگی اگر بڑوں کے لئے تکلیف دہ ہوسکتا ہے تو بچوں کے لئے کہیں زیادہ ذلت کا باعث بن سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرمندگیاں بڑے بڑے ذہنی مسائل پیدا کردیتی ہیں۔ ذہنی مسائل کے حامل بچوں کا تو شرمندہ ہونا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ کلاس میں سبق نہ سنا سکنا، کھیلنے کے لئے رد کئے جانا، جلدی کام نہ کر سکنا، بات صحیح نہ سننا اور غلط جواب دے دینا ، بغیرسوچے کچھ ایسا کہہ دینا جو نامناسب ہو۔ شرمندگی کا بوجھ نارمل اور ذہین بچوں کے لئے بھی اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شاید اسی بوجھ کو محسوس کرتے ہوئے جرمن مصنف ’اینڈریاز ایسکابا‘ نے کہا تھا کہ ’’شرم ایک زخم ہوتا ہے جو نہ تو دکھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ بھر پاتاہے‘‘۔

ڈارون نے کہا تھا کہ شرمندگی ایک احساس ہے جس میں انسان کے سوچنے کی صلاحیت دھندلاجاتی ہے۔ جبکہ سارتر کا کہنا ہے کہ شرمندہ ہونا میرے لئے ایک اندرونی ہیمرج ہوتا جب میں شرمندگی کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے لوگوں کی ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شرمندگی کس قدر ناخوشگوار تجربہ ہے۔ بچوں کا شرمندہ ہونا بڑوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھی جاسکتی ہے کہ بیس کلو وزن ایک چالیس سالہ شخص کو اٹھانے کا کہا جائے تو وہ آرام سے اٹھا لے گا جبکہ اتنا ہی وزن ایک دس سالہ لڑکے کو اٹھانے کو کہا جائے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ اسی طرح احساس شرمندگی بچوں کے لئے بہت تکلیف دہ مسئلہ ہوتا ہے جس کا اکثر بڑوں کو ادراک نہیں ہوتا۔ بڑے اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ یہ تو بچہ ہے اسے کیا کھیل میں یا سو کر یا اگلے دن بھول جائے گا لیکن یہ محض ایک خیال ہے شرمندگی بچوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی ہے۔

آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے کینیڈین ٹی وی نے نوجوانوں کے مسائل پر ایک ڈاکومنٹری تیار کی تھی، اس میں ایک پاکستانی لڑکے کی خود کشی کا بھی ذکر تھا جو دوسرے بچوں کے کسی مذاق پر اپارٹمنٹ بلڈنگ سے کود کر چھلانگ لگا لیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں شرمندگی کی وجہ سے اپنے والدین سے نظریں نہیں ملا سکوں گا۔ اسی نوعیت کا واقعہ اگر کسی بڑے لڑکے یا آدمی کے ساتھ پیش آتا تو وہ اس کا سامنا کرتا اور اپنی جان نہ لیتا۔ بچے دوسرے بچوں کے سامنے اپنی عزت اور بھرم قائم رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں اس کا اندازہ ڈاکٹر ’لیوائے کے‘ کے بیان کردہ ان دو سچے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ’’ میں بہت ساری جگہوں پر لیکچر دینے اور ورکشاپس کے سلسلے میں جاتا رہتا ہوں۔ ریاست میساچیوسٹ کے کمیونٹی کالج میں ایک لیکچر کے آخر میں ایک نوجوان لڑکا مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے کچھ بات چیت کرنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ وقت دیجئے۔ ہم نے ایک ٹائم طے کرلیا اور وہ ایک ہفتے بعد مجھ سے ملنے آگیا۔ میرا نام ڈینیل (یا دانیال) ہے، میں کمیونٹی کالج کا طلب علم ہوں، میں نے پڑھائی میں بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے، ایک ایک کلاس میں کئی کئی سال لگا کر کالج تک پہنچا ہوں اور اپنے مستقبل کے لئے آپ سے مشورہ اور مدد چاہتا ہوں۔ مشورہ تو میں نے اسے دیدیا لیکن جو اپنے بچپن کی کہانی اس نے سنائی وہ والدین اور اساتذہ کے لئے سننا ضروری ہے۔

’’ میں کیپ کاڈ میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ میرا والد لابسٹرز پکڑنے اور بیچنے کا کام کرتا تھا ۔ وہ قصبے کا سب سے محنتی آدمی تھا۔ صبح سے رات تک بغیر رکے کام کرنے والا جو اپنے کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ اور ان تھک تھا۔ میری ماں گھریلو عورت تھی جو سارا دن مشین کی طرح کام کرتی گھر کے سارے کام ختم کرنے کے بعد میرے باپ کے آنے پر بغیر کسی شکایت یا تھکن کے کھانا میز پر لگا دیتی ، میرے گھر میں کسی کے کام نہ کرنے کو بہانہ سازی اور کاہلی سمجھا جاتا تھا جس کی جو ڈیوٹی تھی اسے وہ پوری کرنا ہے اور بس۔

میں پہلی کلاس میں داخل ہوا تو مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا، دوسرے بچے کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے، کہانیوں کی باتیں کرتے، وہ کتاب اٹھاتے تو لفظ ان کے لئے بولنے لگتے اور میرے لیے وہی الفاظ ٹیڑھی میڑھی لائنیں، دائرے اور دھبے ہوتے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آتی کہ لفظ کہاں ہیں جو ان کو نظر آتے ہیں۔ جب میں سترہ سال کا ہوا تو مجھے سمجھ آئی کہ مجھے ڈسلیکسیا ( پڑھنے میں مشکل پیش آنا) ہے لیکن اس وقت جب میں چھ سال کا تھا تو مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ میں اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کر رہا۔ اکتوبر کے درمیان میں( امریکا اور کینیڈا میں سکول ستمبر میں شروع ہوتے ہیں) میرے نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے میری استانی نے مجھ سے چڑنا شروع کردیا اور اکتوبر کے آخر تک بچوں نے میرا مذاق بنانا شروع کردیا۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اب وہ وقت دور نہیں جب میرے والدین کو پتا لگ جائے گا کہ میں پڑھ نہیں رہا۔ اس بات سے میں بہت خوفزدہ تھا، بہت زیادہ خوفزدہ۔ لیکن میں ایک سمجھدار لڑکا تھا ، میں نے کلاس کے سب بچوں پر غور کیا تو مجھے پتا چلا کہ ایک اور لڑکا بھی ایسا ہے جو پڑھ نہیں سکتا لیکن اس کا کوئی مذاق نہیں اڑاتا تھا اس لئے کہ وہ بہرا تھا۔ حتیٰ کہ ٹیچر بھی اسے کچھ نہیں کہتی تھی۔ وہ سننے کا آلہ لگاتا تھا چونکہ اس کی سماعت خراب تھی اس لئے کوئی اس سے یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔

چنانچہ میرے چھ سالہ دماغ نے مسئلے کا یہ حل سوچا کہ سب کو یقین دلا دوں کہ میں بہرا ہوں۔ اگر سب کو یقین ہو جائے گا کہ میں سن نہیں سکتا تو کوئی مجھے نہ پڑھنے پر تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے ایک ایک بندے کو اپنے بہرے ہونے کا یقین دلانے کی مہم کا آغاز کردیا۔ کلاس میں ٹیچر کے بلانے پر میں جواب نہ دیتا یہاں تک کہ وہ آکر میرے کندھے کو ہلاتی۔ میں کہتا کیا ہوا؟ وہ کہتی میں تمھیں بلا رہی تھی۔ میں کہتا’’میں نے سنا نہیں‘‘۔ میں نے اپنی ٹریننگ کرلی کہ پرشور آوازوں پر توجہ نہ دوں۔ کسی بڑے شور پر سب بچے بھاگ کر کلاس سے باہر جاتے تو میں ایسے بیٹھا رہتا جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ آدھی چھٹی کے بعد گھنٹی بجنے پر سب بچے واپس کلاس میں چلے جاتے، میں جم میں رہ جاتا حتیٰ کہ پرنسپل مجھے کہتا کہ ڈینیل! گھنٹی نہیں سنی؟ کلاس میں جاؤ، میں کہتا مجھے نہیں سنی۔ گھر میں ڈنر پر میری والدہ مجھے آوازیں دیتی کہ ڈینیل! ذرا نمک دانی تو پکڑا دو، میں سنی ان سنی کر دیتا، وہ میرا کندھا ہلاتی اور کہتی: ڈینی! میں نے تم سے نمک مانگا ہے، ’’میں نے سنا نہیں امی‘‘: میں جواب دیتا۔ جب ہم گھر سے باہر کھیل رہے ہوتے تو میرا باپ گھر واپس آنے کے لئے آوازیں دیتا، میں باہر ہی رہتا، یہاں تک کہ میرا باپ باہر آکر مجھے اندر لے جاتا اور کہتا: ڈینی! میں دس منٹ سے تمھیں آوازیں دے رہا تھا، میں کہتا:’’میں نے نہیں سنا ڈیڈ‘‘۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے والدین گھر پر نہیں تھے ، جب مجھے ان کی گاڑی کی آواز آئی تو میں نے ٹی وی کی آواز بہت اونچی کر کے بہت پاس جاکر ایسا ظاہر کیا کہ بڑی مشکل سے سن رہا ہوں۔ میرے والدین مجھے قصبے کے کانوں کے ڈاکٹرز کے پاس لے جاتے رہے جب وہ آلات لگا کر مجھے پوچھتے کہ سنائی دے رہا ہے؟ تو میں کہتا کہ نہیں، حالانکہ مجھے سن رہا ہوتا۔ یہاں تک کہ سب کو یقین ہوگیا کہ میں سن نہیں سکتا۔ حالات بالکل ٹھیک جارہے تھے کہ جون کا مہینہ آگیا۔

میں نے کہا کہ جون میں کیا ہوا ڈینیل؟ اگرچہ یہ سترہ سال پرانی بات تھی پھر بھی اس کی رنگت پیلی پڑ گئی، اس نے کالر سیدھا کیا، کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا:’’میں کبھی نہیں بھول سکتا‘‘۔ جون میں پہلی کلاس کے آخری دن میرے والدین میرے سامنے بیٹھ کر کہنے لگے: ’’ڈینی! ہم تمھارے نہ سن سکنے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، تمھاری سماعت میں کوئی خرابی ہے۔ ہم نے تمھیں قصبے کے ہر ڈاکٹر کو چیک کروایا ہے۔ کسی کو تمھارا مسئلہ سمجھ نہیں آیا۔ اب ہم نے تمھاری اپوانٹمنٹ بوسٹن کے بچوں کے اسپتال میں بنوائی ہے۔ تم وہاں اگلے ہفتے جاؤ گے اور چار دن تین رات وہاں رہو گے۔ وہ تمہارے کان کا آپریشن کریں گے اور ٹانسل نکالیں گے۔‘‘

ایک چھے سال کے بچے کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے شرمندگی سے بچنے کے لئے کان کا آپریشن کروا لیا۔ اس عمر میں جب بچے کے لیے ایک معمولی سا ٹیکہ لگوانا بھی قیامت سے گزرنا ہوتا ہے۔ گویا شرمندہ ہونا بچوں کے لئے ناقابل برداشت ذہنی اذیت ہوتی ہے جو عمر بھر ان کی یاد میں تازہ رہتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مڈ ویسٹ میں ایک جگہ لیکچر کے لئے مدعو تھا۔ آڈیٹوریم لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے وہاں یہ کان کے آپریشن والا واقعہ سنایا۔ اس پورے واقعے کے دوران بائیں طرف کی تیسری لائن میں بیٹھا تقریباً پچیس سالہ لڑکا مسلسل خاموش ہچکیوں سے رو رہا تھا، اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپایا ہوا تھا اور کبھی آگے ہوتا کبھی پیچھے ، کسی کا دھیان اس کی طرف نہیں تھا کیونکہ سب لوگ میری طرف متوجہ تھے اور میں چونکہ سٹیج پر کھڑا تھا اس لئے اس کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ مانا کہ کہانی بہت پر اثر تھی پھر بھی مجھے اس نوجوان کے اس طرح بے آواز رونے پر حیرت ہو رہی تھی۔ لوگ بے خبر تھے لیکن میں جان گیا تھا لڑکا سخت ذہنی اذیت میں ہے۔

جونہی میرا لیکچر ختم ہوا، وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا:’’کیا میں آپ کے کچھ منٹ لے سکتا ہوں۔ میں نے کہا:’’ہاں لیکن تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ ابھی ابھی آپ نے جو کان کے آپریشن والے چھوٹے لڑکے کی کہانی سنائی ہے، اس نے مجھے وہ دن یاد کروا دیے ہیں جن کو میں تقریباً بھول چکا تھا۔ کیا میں آپ کو کچھ بتاسکتا ہوں؟ میں نے کہا ہاں ضرور۔ چنانچہ ہم بیٹھ گئے اور اس نے کہنا شروع کیا:’’میرا باپ مجھے اس وقت چھوڑ گیا تھا جب میں تیسری کلاس میں تھا۔ ایک صبح میں اُٹھا سیڑھیاں اتر کر نیچے گیا تو وہ اپنا سامان باندھ کر جاچکا تھا گھر والوں کو چھوڑ کر۔ اب جب میں پچیس سال پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔ وہ ایک ظالم شخص تھا، میری ماں کے لئے، میرے اور میرے بھائیوں کے لئے انتہا سے زیادہ بے حس اور ظالم تھا۔ اس کا ہمیں چھوڑ کر جانا ہمارے لئے زندگی کی سب سے اچھی بات تھی۔ اب سترہ سال بعد مجھے نہیں علم کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اور نہ مجھے اس کی پرواہ ہے۔

میں اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اور پہلی کلاس سے ہی میرا باپ مجھے مارا کرتا تھا۔ وہ مجھے مارا کرتا تھا کیونکہ اسے مارنا اچھا لگتا تھا۔ مجھے مارنے کے لئے اسے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہم کچن ٹیبل پر بیٹھے ہوتے وہ گھوم کر مجھ تک پہنچتا اور میرے منہ پر تھپڑ لگاتا۔ وہ ضرورت سے زیادہ ظالم تھا اور مجھے بلا کسی قصور کے مارا کرتا تھا۔ عام طور پر جب وہ مجھے کچن یا ڈرائنگ روم میں مارتا تو میں اس سے بچنے کے لئے بھاگتا اور کہیں چھپ جاتا اور تب تک چھپا رہتا جب تک کہ وہ سو نہ جاتا۔ لیکن جب مجھ سے کوئی غلطی ہوجاتی تو مجھے ’’غسل خانہ مار‘‘ پڑتی۔ یہ نام میرے بھائیوں نے رکھا تھا اس مار کا۔ ’’غسل خانہ مار‘‘ کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ میرا باپ مجھے پکڑ کر غسل خانے میں لے جاتا اور پیچھے سے دروازہ بند کردیتا، اور مجھے اس وقت تک مارتا جب تک کہ وہ مار مار کر خود نہ تھک جاتا۔ غسل خانہ مار کا یہ نقصان تھا کہ اس میں کہیں کوئی چھپنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، اگر الماری کے پیچھے چھپتا تو وہاں سے پکڑا جاتا، ٹوائلٹ کے پیچھے، یہاں تک کے شاور کے ساتھ لٹکنے کی کوشش بھی بیکار جاتی۔ تو یہ غسل خانہ مار تب پڑتی جب مجھ سے کوئی نقصان یا غلطی ہوجاتی۔

پہلی کلاس میں مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا، میں بالکل بھی پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔اور اس بات کی مجھے حد سے زیادہ شرمندگی تھی۔ ہمارے سکول میں ان دنوں بچوں کو پڑھنا سکھانے کا جو طریقہ تھا وہ اس طرح تھا کہ ضلعی سطح پر ایک ماہر استانی ہر دوسری جمعرات کو سکول بلائی جاتی اور سارے فرسٹ گریڈ کے بچے جنھیں پڑھنا نہیں آتا تھا ان کو کلاس میں باہر نکال سامنے کھڑا کیا جاتا اور ساری کلاس کے سامنے بہ آواز بلند پڑھنے کا کہا جاتا۔ میرے لئے یہ اس قدر ذلت آمیز اور شرمناک ہوتا تھا کہ میں ہر دوسری جمعرات کو ’’مس ڈونووین‘‘ (ریڈنگ سپیشلسٹ) کے آنے سے پہلے لڑکوں کے واش روم جاتا اور اپنی نظر کی عینک اتارتا اور اس کو اتنے زور سے مروڑتا کہ وہ ٹوٹ جائے ، یا ایک شیشہ توڑ لیتا یا ویسے شیشہ باہر نکال لیتا۔ جب مس ڈونو وین آتی تو میں اس کے پاس جا کر اپنے ٹوٹی ہوئی عینک دکھا کر کہتا کہ ’’ مس ڈونووین! میں آج نہیں پڑھ سکوں گا کیونکہ میری عینک ٹوٹ گئی ہے۔ اور میں نے ایسا ہر جمعرات پورا ایک سال کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ جب میں گھر جاؤں گا تو میرا باپ میری ٹوٹی ہوئی عینک دیکھ کر مجھے غسل خانہ مار مارے گا۔

ان دو کہانیوں کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی بچہ شرمندگی سے بچنے کے لئے بہت مشکلات سے گزر رہا ہوگا، بہانوں کی دیوار کے پیچھے یا ڈھٹائی کا لبادہ اوڑھ کر۔ اس پر اعتبار کرکے اسے اعتبار دے کر اس کی زندگی کو آسان کردیں۔ پڑھنا نہ آنا کوئی ایسا جرم نہیں کہ زندگی سزا بنادی جائے، ہاں! محبت اور توجہ سے بغیر شرمندگی کے چابک مارے ذلیل کئے پڑھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے بد تمیز، لڑاکا، شرارتی کہلوانا پسند کر لیتے ہیں لیکن نالائق کہلوانا ان کے لئے زیادہ شرمناک ہوتا ہے۔ ان کی شرارتوں، آوارہ گردیوں، بے جا لڑائی جھگڑے اور ڈھٹائی والے رویے کے پیچھے پڑھنے میں مشکل پیش آنا بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

zraouf1@hotmail.com

The post کیا آپ کا بچہ شرمندگی سے بچنے کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

جو ’طعام مستاں‘ میں نہ رہا اس کی نماز جنازہ ۔۔۔؟

مشتاق احمد یوسفی

شان الحق حقی صاحب سے میری نیازمندی کی مدت 47 سال سے کچھ اوپر بنتی ہے، جس زمانے میں تعارف ہوا، میں پیر الٰہی بخش کالونی (کراچی) کے ایک دو کمرے والے مکان میں رہتا تھا، جسے میں گھر اور جمشید کوارٹر، عامل کالونی اور ناظم آباد میں رہنے والے ’’کوارٹرز‘‘ کہہ کر ہمیں اپنی اقامتی اوقات یاد دلاتے تھے۔ کرایہ 35 روپے ماہ وار جو گھریلو بجٹ پر گراں گزرتا تھا۔ اسی غریب وادیب پرور کالونی میں معروف مارکسسٹ نقاد پروفیسر ممتاز حسین رہتے تھے، جو اسے بورژوا بستی قرار دیتے تھے۔

خلق خدا کی اس بستی نے کیسے کیسے صاحبان کمال اور نابغہ روزگار شخصیات کو پناہ دی ہے۔ دو تین ہوں تو گنواؤں، کہکشاں اتر آئی تھی۔ آرزو لکھنوی، آرٹسٹ شاکر علی، شاہد احمد دہلوی، محمد حسن عسکری، جمیل جالبی، عزیز حامد مدنی، نقی محمد خان، محمود علی خان جامعی، فاطمہ ثریا بجیا، زہرا نگاہ، انور مقصود، آرزو لکھنوی نے تو ایک صاحب کی مساوی شراکت میں ایک ریستوراں بھی بس اسٹینڈ کے پاس کھولا جس کا نام ’’طعامستان‘‘ رکھا۔ مساوی شرکت سے ہماری مراد ہے کہ ایک پارٹنر نے سو فی صد سرمایہ لگایا اور دوسرے نے اسے سو فی صد ٹھکانے لگایا۔۔۔!

پڑوسیوں کا خیال ہے کہ ریستوراں کا دِوالہ گاہکوں نے نکالا! وہ اس طرح کہ ہمہ وقت شاعروں، بے گھر ادیبوں اور بے روزگار دانش وَروں کا جماؤ بلکہ پڑاؤ رہتا جو ایک کڑک چائے کا آرڈر دے کر چار گھنٹے ادبی وآفاقی مسائل اور خرخشوں پر گھمسان کی غٹا غٹی کرتے۔ مرزا اسے طعامستان کے بہ جائے ’طعامِ مستان‘ کہتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستاں سے کراچی وارد ہونے والا مہاجر دانش وَر جو اس قرنطینۂ کاملاں میں نہیں رہا، اس کی نماز جنازہ جائز ہیں، سوائے شان الحق حقی کے جو جیکب لائن کے ایک سرکاری کوارٹر میں سکونت پذیر تھے۔ وہی نقشہ تھا مگر زیادہ آباد اور بارونق۔

ہم تو جب بھی گئے ایک کمرے میں کبوتروں کے بے تاب جوڑے اور بچے دیکھے اور دوسرے میں کتابیں، مہمان اور مہمانوں کے ملاقاتی۔ ہم کسی کی نجی زندگی کے بارے میں جاسوسانہ ٹوہ لگانے میں وقت ضایع نہیں کرتے۔ لہٰذا کبھی یہ نہ سوچا کہ گھر میں گھر والے کہاں فروکش ہیں۔ ویسے کچا صحن بہ ظاہر دس چار پائیوں کے برابر تھا۔ بیگم رشید احمد صدیقی پہلے پہل اسی کوارٹر میں (مہمان) دیکھا۔ اس بھرے پُرے گھر میں کبوتروں کی ریل پیل تو دیکھی، لیکن چھتری کہیں نظر نہ آئی۔ یہ سوچ کر ہم آج بھی مرعوب ہونے کی حد تک حیران ہوتے ہیں کہ حقی صاحب کو چھتری گرداں کبوتر پالنے انہیں سدھانے اور بھولے بھٹکے کبوتروں کو بام سے زیر دام لانے کا ہنر، لغوی اور علامتی ہر دو اعتبار سے خوب آتا ہے! ادب میں بھی وہ کسی اور کی چھتر چھاؤں یا خود اپنی چھتری کے قائل یا محتاج نہیں رہے۔

ہاں کوئی کبوتر خود ہی ان کے آنگن میں یاشانے پر آن بیٹھے اور غٹرغوں کرنے لگے تو وہ اُسے تالی بجا کے یا ہُش کہہ کر اڑانے سے تو رہے۔ ان کا تعلق کبھی بھی کسی گروپ یا مخصوص ادبی حلقے سے نہیں رہا۔ ہر کام تنہا کیا۔ ہر منزل اپنے ہی دم قدم سے تنہا سر کی۔ مختلف شعبوں میں اہم مناصب اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ کیریئر کا بیش تر حصہ اطلاعات ونشریات کے شعبے اور ڈائرکٹوریٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز میں گزرا۔ ایک رسالے کے مدیر بھی رہے۔ پاکستان ٹیلی وژن میں جرنل مینجر سیلز اور اس کے بعد ایک معروف ایڈروٹائزنگ ایجنسی میں بہ حیثیت مشیر کام کیا، جو کام کیا پوری تندہی اور جاں فشانی سے کیا، کام یابی اور نیک نامی کے سا تھا کیا۔

’تُو‘ نہیں ’تُم‘۔۔۔

حکیم خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی

لال قلعہ کی تمیز اور بات چیت اور شاہ جہاںآباد کی تمیز اور بات چیت میں بڑا فرق تھا۔ ایک بیاہ کی محفل میں لال قلعہ کی بیگمیں شاہ جہاں آباد کے اندر شریک ہوئیں، محل کی انگنائی میں ایک ’چوکہ‘ پر شاہ جہاں آباد کی لڑکیاں جن کی عمر پانچ چھے سال سے زیادہ نہ تھی، دس پانچ بیٹھی آپس میں کھیل رہی تھیں، ان ہی میں ایک قلعہ کی رہنے والی شاہ زادی بھی بیٹھی تھیں، جن کی عمر بھی شہر والی لڑکیوں سے زیادہ نہ تھی۔ شہر والی لڑکیاں تُو کہہ کر ایک دوسرے سے بولتی تھیں اور قلعہ والی لڑکی کو نہیں بھاتا تھا۔ وہ ان کی باتوں سے گھبرا گئی تو توتلی بولی میں کہنے لگیں ’’بیگم ’تُو‘ نہیں کہتے ’تُم‘ کہتے ہیں۔‘‘ مگر نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے، اُن کے کہنے کا کسی نے خیال نہ کیا تو انہوں نے اپنے بڑے سے کہا ’’تم مجھے گود میں اٹھا کر لے چلو، یہ ’تُو پکار‘ مجھ سے نہیں سُنی جاتی۔‘‘

(کتاب ’’لال قلعے کی ایک جھلک‘‘ سے چُنا گیا)

استاد محترم۔۔۔!

عابد میر

پروفیسر صاحب ریٹائر ہوئے تو پتا چلا کہ ریٹائر منٹ سے کہیں بڑا عذاب تو ’جی پی فنڈ‘ اور پنشن کی وصولی ہے۔ اے جی آفس کے چکروں نے انہیں اس قدر نڈھال کر دیا کہ جی چاہا بھاڑ میں جائیں پیسے، آدمی کتنی ذلت برداشت کرے! حالاں کہ اس بھاگ دوڑ میں وہ خوب مٹھیاں گرم کر چکے تھے، مگر فائل تھی کہ چیونٹی کی رفتار سے سرکتی تھی۔ ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل تک پہنچتی تو کبھی ٹیبل والا صاحب بیمار، کبھی اُس ٹیبل والا حج پر گیا ہوا ہے، تو کبھی اِس ٹیبل والے کی دادی وفات فرما گئیں۔۔۔

خدا خدا کر کے اور جانے کتنی مٹھیاں گرم کر کے فائل ڈائریکٹر صاحب کے ٹیبل پر پہنچی اور اگلے ہی روز ڈائریکٹر صاحب کا تبادلہ ہو گیا، پروفیسر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اب جانے کب نیا صاحب آئے اور جانے کیسے مزاج والا آئے۔۔۔پروفیسر صاحب کی قسمت نے اب کے مگر اُن کا ساتھ دیا اور جلد ہی نئے ڈائریکٹر نے چارج سنبھال لیا۔ انہوں نے جو نام پتا معلوم کروایا تو کھِل اٹھے کہ یہ صاحب تو کسی زمانے میں اُن کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ اب تو یقین ہو چلا کہ کام ہو ہی جائے گا۔۔۔کچھ روز خود صاحب سے ملنے پہنچ گئے۔ کارڈ اندر بھجوایا تو صاحب نے فوراً بلوا لیا۔ کھڑے ہو کر استقبال کیا، حال احوال ہوا، بات کی بات میں چائے بسکٹ آگئے۔

پروفیسر صاحب نے جوں ہی مدعا بیان کیا، صاحب ایک دم بول پڑے: ’’سر جی آپ کی فائل میرے پاس آچکی ہے، میں دیکھ چکا ہوں، تو کیا دے رہے ہیں آپ؟‘‘

پروفیسر صاحب بھونچکا ہو کر رہ گئے، جیسے کچھ سمجھے نہ ہوں۔۔۔ ’’میں تو لینے۔۔۔‘‘

’’وہ تو آپ کی چیز ہے، مل جائے گی سر، پر انتا کچھ جمع کرلیا آپ نے کچھ تو زکوۃ نکلنی چاہیے نا!‘‘

’’بیٹا، میں تمہارا استاد ہوں، میں نے پڑھایا ہے تمہیں!‘‘

’’جی بالکل استاد محترم! مجھے اچھی طرح یاد ہے، پر شاید آپ بھول گئے ہیں کہ آپ ہر برس پاس ہونے کی لازمی شرف کے طور پر چار ہزار روپے میں اپنے نوٹس ہمیں فروخت کرتے تھے، صرف پانچ سو روپے کم ہونے پر آپ نے جسے نوٹس دینے سے انکار کردیا تھا، میں آپ کا وہی شاگرد عزیز ہوں!‘‘

(کتاب ’’سرخ حاشیوں‘‘ سے لیا گیا)

صد لفظی کتھا

محویّت

رضوان طاہر مبین

اُس کا فون آیا اور ثمر کھو سا گیا۔۔۔

دوسری طرف سے ثمر میں محو ہونے کے قصے شروع ہوئے کہ کس طرح اُس کا دھیان ثمر میں رہتا ہے۔

’’دفتر سے نکل رہا ہوں۔۔۔!‘‘

’موبائل‘ کان سے لگائے ثمر نے بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ کہا۔

’’تمہیں تو کبھی میرا خیال نہیں آتا، تم کیا جانو محویّت۔۔۔!‘‘

دوسری طرف سے شکایت ہوئی۔

’’ٹھیرو، میں دفتر واپس جا رہا ہوں!‘‘ ثمر بولا۔

’’آگیا ہوگا کوئی کام یاد۔۔۔!‘‘ دوسری طرف آواز درشت ہوگئی۔

’’میرا موبائل جیب میں نہیں، شاید وہیں بھول گیا۔۔۔!‘‘

ثمر نے دفتر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔

کچھ ادبی موتی۔۔۔

مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

٭ ’’ہر شخص کو اس بات کا علم ضرور ہوتا ہے کہ ’’دوسرے لوگوں کو اپنی زندگیاں کس طرح بسر کرنی چاہئیں!‘‘

٭دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟

’’وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے خاص لمحے میں، اپنے ساتھ ہونے والے واقعات پر کنٹرول نہیں رکھتے اور ہماری زندگیوں پر قسمت کا کنٹرول ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘

٭’’پراسرار قوت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’یہ ایک ایسی قوت ہوتی ہے، جو بظاہر منفی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ دکھاتی ہے کہ تم اپنی تقدیر کو کس طرح جانو۔ یہ تمہارے جذبے اور ارادے کو مستحکم کرتی ہے، کیوں کہ اس کرہ ارض پر یہی سچائی سب سے بڑی ہے، تم جو بھی ہو، یا تم جو بھی کرتے ہو، تمہیں واقعی کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہش کائنات کی روح میں پیدا ہوتی ہے۔ زمین پر یہی تمہارا مشن ہے۔‘‘

٭ کائنات کی روح کی غذا لوگوں کی خوشیاں ہیں اور ناخوشیاں، حسد اور جلن بھی۔ کسی کی تقدیر کو ماننا ہی آدمی کی حقیقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سب چیزیں ایک ہی ہیں’’اور جب تم کوئی چیز حاصل کرنا چاہتے ہو تو پوری کائنات اس چیز کے حصول میں تمہاری مددگار ہے۔‘‘

(پاؤلو کوہلو کے مشہور ناول ’’الکیمسٹ ‘‘ سے کچھ اقتباسات)

’’میں تو کہوں گا۔۔۔!‘‘

اس ہفتے ہم اپنے عنوان کے لغوی معنی پر زیادہ توجہ دیے ہوئے ہیں، اس لیے آج ہم واقعتاً ’’خانہ پُری‘‘ ہی کریں گے، لیکن دھیان رہے کہ اس میں ’خانہ‘ ہمارا ہے تو ’پُر‘ بھی ہم ہی کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس کے سارے لفظ ہمارے ہی قلم سے نکلے ہوئے ہیں، بہ الفاظ دیگر ’’ہماری اور کوئی ’’شاخ‘‘ نہیں۔۔۔!‘‘ (لیکن جڑیں البتہ تھوڑی بہت ہیں، الحمدللہ) اور ان واقعات سے مماثلت قطعی اتفاقی نہیں ہوگی، اس لیے تمام قارئین ان واقعات کی کہیں نہ کہیں اور بھی مماثلت ضرور تلاش کریں، ورنہ بہتر ہے کہ نہ پڑھیں۔۔۔ ہم نے یہ سب شروع میں اس لیے واضح کردیا کہ ’سند رہ وے اور بہ وقت ضرورت ’کام‘ آوے۔۔۔‘

٭٭٭

ہوا یوں کہ ہمارے ایک ادب دوست مگر خاصے اینٹی اسٹبلشمنٹ مزاج صاحب نے ہم سے پوچھا کہ اُن کی ایک ’پسند‘ نے طویل وقت اُن کا ’اپنا‘ رہنے کے بعد اچانک کسی اور کو پسند کرلیا ہے۔۔۔ اور اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اپنی عَن قریب ہونے والی شادی کا دعوت نامہ بھی چسپاں کر دیا ہے، ذرا بتاؤ تو سہی، اس پر کیا تبصرہ کروں؟ ہم نے کہا کہ آپ وہاں محسن بھوپالی کا یہ شعر لکھ دیں؎

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

’منزل‘ انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

٭٭٭

چارے اور گھاس کا ایک بیوپاری پالتو بھیڑ بکریوں پر گہری نظر رکھتا تھا۔ مجال ہے کوئی ایک تنکا گھاس بھی یوں ہی کسی بھیڑ یا بکرے کے پیٹ میں چلا جائے۔۔۔ ایک دن کیا ہوا ایک تیز رفتار ٹرک بے قابو ہوکر اس کی بند دکان کے شٹر سے ٹکرایا تو شٹر ٹوٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے پالتو بکروں کا ریوڑ دکان کے چارے اور گھاس پر آن موجود ہوا۔۔۔ ہماری نظر بے ساختہ شٹر کے اوپر پڑی، جہاں اس نے لکھوایا ہوا تھا ’’واللہ خیر الرازقین‘ (اور اللہ بہتر رزق دینے والا ہے)

٭٭٭

وفاداری بدل لینے والے ایک سیاست داں نے اپنی پرانی سیاسی جماعت کو پھر سے حاکم ہوتے، دیکھا تو ’سابق قائد‘ کو اپنی ’’مجبوریوں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ’واپسی‘ کا ایک طویل جذباتی سندیس میں یہ شعر لکھا؎

تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے

ملنا بھی پڑ گیا تو خوشی سے نہیں ملے!

اُن کے قائد مان تو گئے، لیکن اگلے روز ’واپسی‘ کی پریس کانفرنس میں وہ کہہ رہے تھے ؎

وہ کہیں بھی گیا ’لوٹا‘ تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

٭٭٭

کچھ دن پہلے یورپ سے کراچی آئے ہوئے احباب وہاں کی انصاف پسندی کے گُن گا رہے تھے، جب انہوں نے کہا کہ دیکھیے آج ہمارے لندن میں بھی میئر (صادق خان) یہاں کا بنا ہے۔ میں نے کہا اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ ہمارا میئر بھی تو ’لندن‘ کا ہی ہے یہاں۔۔۔ حساب برابر! اور محفل زعفران زار ہوگئی۔

٭٭٭

٭اگر آج آپ کو اپنا پچھلا خیال یا فعل حماقت لگے، تو گھبرائیں نہیں، بلکہ یہ جان لیں کہ آپ کا شعور بڑھ رہا ہے۔ (یہ مذاق کی بات نہیں!)

٭خواب جاگتی آنکھوں کے ہوں تو سونے نہیں دیتے اور سوتی آنکھوں کے ہوں تو پھر اٹھنے نہیں دیتے۔۔۔ (تجربہ ہے یہ!)

٭بعض لوگوں کو دیکھ کر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ شاید انہیں مٹی سے نہیں بلکہ پتھر سے بنایا گیا ہے۔ (اس کا تعلق عقل کے پتھر سے نہیں)

٭جب اُس نے کہا کہ سنو کل سردی کی پہلی بارش تھی، تو میں نے یاد دلایا کہ سردی کی تو نہیں البتہ سرد لہجوں کی ضرور پہلی بارش تھی۔۔۔!

٭کبھی زندگی میں بھی کسی کو اپنا کندھا فراہم کردیا کریں اجر اس کا بھی بہت۔۔۔!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

قطبی اور شمالی میدان اب سرد اور منجمد نہیں رہیں گے

$
0
0

حال ہی میں ہماری دنیا کے قطب شمالی کے دو اہم مقامات کے اعداد و شمار کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہاں کی چند ایک surface layersیا بالائی سطحوں کی تہیں اب موسم کے اعتبار سے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہیں کہ نہ تو یہ سردی کے باعث جمتی ہیں اور نہ ہی نہایت یا یخ بستہ سرد رہتی ہیں۔

اگر ماحولیات اور موسم کی تبدیلی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ permafrost یا زیر سطحی زمین جو مستقل طور پر منجمد رہتی ہے، اس کے باعث کرۂ ارض پر ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ جائے گا جو موسم اور آب و ہوا میں نہایت تیز اور شدید تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ روس اور سائبیریا کے تحقیقی مطالعے سے بھی یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ ان علاقوں میں شمالی الاسکا اور روس کے کچھ علاقے مستقبل میں سرد اور منجمد نہیں ہوا کریں گے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کا موسم معتدل ہونے لگے اور جس کے باعث یہ علاقے اپنے روایتی برفانی حسن سے محروم ہوجائیں اور یہاں کی روایتی سردی کے باعث یہاں جانے والے سیاح ان ملکوں اور ان علاقوں کی سیاحت کرنا بند یا کم کردیں۔

اس حوالے سے 16جنوری 2019کو Nature Communications نامی ایک عالمی میگزین میں جو تحقیقی مطالعہ شائع ہوا ہے، اس کے نتیجے میں اس انکشاف کی بھی توثیق ہوئی ہے کہ دنیا کے بیش تر علاقوں میں پرما فراسٹ کی سطحیں نہایت تیزی کے ساتھ پگھل رہی ہیں اور ان کی وجہ سے روایتی برف اور دائمی سردی یا ٹھنڈک غائب ہونے لگی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2007اور 2016کے درمیان پرما فراسٹ کا درجۂ حرارت عالمی سطح پر 0.29?±?0.12 تک بڑھ چکا ہے جس میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت سائبیریا کے مختلف علاقوں میں بڑھا ہے اور یہ کم و بیش 0.93?°C تک جا پہنچا ہے جو خاصا قابل غور ہے۔ اس کے علاوہ سرد بر اعظم انٹارکٹیکا میں بھی اہم وارمنگ یا گرمی مشاہدہ کی گئی ہے جہاں ہمیشہ سے دائمی سردی اور برف کا راج تھا، وہاں اب صورت حال خاصی بدل چکی ہے جب کہ پہاڑی خطوں میں یہ چیز کم رہی اور وہاں کا درجۂ حرارت اس کے مقابلے میں اچھا خاصا کم تھا۔

قطبی یا شمالی میدانوں کے اکثر خطوں میں زمینی درجۂ حرارت اس لیے بھی بہت زیادہ بڑھ چکا ہے ، کیوں کہ وہاں بڑھتے ہوئے اوسط ہوائی درجۂ حرارت میں بھی اضافہ ہوا تھا، جب کہ کچھ علاقوں میں برف کی موٹائی یا thickness میں اضافے کی وجہ زیرزمین گرمی کو قرار دیا گیا جو اس ساری صورت حال کے باعث اندر ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی تھی۔

شمالی سائبیریا میں Cherskiy, RussiaNikita Zimov طلبہ کو ماحولیاتی فیلڈ ورک پڑھا رہا تھا جب وہ ایک ایسے اہم سراغ پر پہنچ کر الجھ گیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ منجمد زمین توقع اور امید سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ Sergey Zimov وہ عالمی سائنسی سائنس داں ہے جو شمال مشرقی سائنس اسٹیشن کے پاس تعینات ہے اور وہ پرمافراسٹ لیولز کی پیمائش کرتا تھا جس کی بنیاد Cherskiy, Russia میں دریائے کولیما کے ساتھ ساتھ رکھی گئی تھی۔ Zimov اپنے والد Sergey Zimov کی طرح متعدد برس ایک ریسرچ اسٹیشن قائم کرنے میں بھی فرائض ادا کرچکا ہے اور یہ اسٹیشن روسی مشرق بعید میں آب و ہوا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی پر نظر رکھتا ہے اور اس ضمن میں ماہرین کو اعداد و شمار فراہم کرتا ہے اور نئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا پتا چلاتا ہے، اس لیے جب طلبہ و طالبات نے یہاں کی سطح کا تحقیقی مطالعہ کیا اور کائی جیسی مٹی کے جنگلات کے نمونے بھی حاصل کیے اور پہاڑی خطوں کی زمین کا مطالعہ بھی کیا جو وہاں قطبی گھیرے سے کوئی دو سو میل دور واقع تھا تو انہیں یہ خیال ہوا کہ یہاں بعض معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور کوئی نہ کوئی اہم ارضیاتی تبدیلی آسکتی ہے اور آنے والی ہے۔

اپریل میں اس نے ورکرز کی ایک ٹیم وہاں ہیوی ڈرلنگ کرنے کے لیے بھیجی جنھوں نے مٹی میں چند فٹ کی گہرائی تک ڈرلنگ کی تو اس کے بعد انہیں انہیں گاڑھی اور چکنی مٹی کے جو نمونے ملے، ان کا مطالعہ کرنے کے بعد Zimov  نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ اس کے خیال میں تو یہ جگہ منجمد ہونی چاہیے تھی، مگر اب چیرسکی اور اس کی برادری کے تین ہزار افراد جو دریائے کولیما کے کنارے کنارے آباد ہیں، اور اس وقت یہ مقام کرۂ ارض پر سب سے سرد ترین مقام ہے، یہاں تو موسم بہار کے اواخر میں بھی زیر زمین سطح ٹھوس اور منجمد ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ موسم اس خطے کا صدیوں سے مزاج تھا جس میں تبدیلی نہایت حیران کن ہے۔

قطب شمالی کے خطے میں ہر موسم سرما میں زمینی مٹی کی اوپری سطح (چند انچ یا چند فیٹ تک) بہت زرخیز ہے جو اسے بالکل منجمد کردیتی ہے، مگر موسم گرما شروع ہوتے ہی دوبارہ سب کچھ پگھلنے لگتا ہے۔ زمین کی متحرک اور فعال تہہ کے نیچے جو سیکڑوں فیٹ کی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یہ منجمد یا فروزن زمین ہوتی ہے جس کو ہم permafrost کہتے ہیں، یہ وہ سطح ہے جو ہزاروں برس سے مستقل طور پر منجمد رہتی چلی آرہی ہے۔

لیکن Zimovs کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسے خطے میں جہاں درجۂ حرارت صفر فارن ہائیٹ سے 40 درجے تک ہوسکتا ہے، وہاں اس سال بہت زبردست برف پیدا ہوئی اور یہ اتنی بڑی مقدار میں تھی کہ اس برف نے پورے خطے کو کسی کمبل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی وجہ سے فالتو یا زائد گرمی اندر زمین میں ہی پھنس کر یا قید ہوکر رہ گئی، گویا اس گرمی کو زمین کی پنہائیوں نے اپنے اندر قید کرلیا۔ ایسا اس سال بہت زیادہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہیں30 انچ کی گہرائی تک مختلف سیکشن ملے جن کی تفصیل کچھ یوں تھی:

پہلی سطح وہ مٹی تھی جو پیچیدہ طور پر کرسمس سے پہلے ہی جم گئی تھی، جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ وہ مٹی تھی جو پورے موسم سرما کے دوران تھوڑی سی مرطوب اور دلدلی تھی۔ اور اس کے بعد وہ مٹی تھی جو اب تک کے ریکارڈ کے مطابق پہلی بار ایسا ہو کہ انتہائی قطبی یا شمالی پرمافراسٹ موسم سرما میں منجمد نہیں ہوئی تھی۔

اس حوالے سے ایک قطبی سائنس داں میکس ہومز کہتا ہے:

’’یہ نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ Nikita Zimov کا فوٹو گرافر ووڈز ہومز جو میسوچیسٹس میں کام کرتا ہے، اس نے پرمافراسٹ کی جھیل میں میتھین گیس کی وجہ سے بلبلے بنتے دیکھے تھے جو ان سب کے لیے ایک ناقابل یقین منظر تھا اور اس بات کا بین ثبوت تھا کہ یہاں دوسری گیسیں داخل ہورہی ہیں اور جن کی وجہ سے یہ بلبلے فروغ پارہے ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا بیان اور اس حوالے سے ہونے والے انکشاف سے یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری بحث کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں منجمد برف جو نہ جانے کب سے یعنی نامعلوم وقتوں سے جمی چلی آرہی ہے، وہ اب کچھ ایسی ارضیاتی تبدیلیوں کے باعث پگھلاؤ کی طرف آگئی ہے جو اپنے روایتی حسن سے محروم ہونے لگی ہے اور جس کی وجہ سے ان علاقوں کی تہذیب و ثقافت میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔

اس ساری بحث کے بعد ہمارے ماہرین اور سائنس داں حضرات نے ایک پریشان کن سوال بھی اٹھادیا ہے، وہ یہ کہ کیا قطب شمالی کے سرد ترین خطوں میں پرمافراسٹ کا پگھلا ہوا مادہ ان متوقع دہائیوں سے کہیں پہلے پگھلنا شروع ہوگیا تھا؟ اور کیا یہ سارا کام کاربن سے خوب مالامال خطوں میں بہت بڑی تعداد میں ہوا تھا؟ اور کیا اس سارے سائنسی اور ارضیاتی عمل کے باعث گرین ہاؤس گیسیں بھی تیزی سے خارج ہونا شروع ہوئی تھیں اور ان کی تیز ریلیز کے باعث ہمارے کرۂ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریکارڈ کے مطابق ہماری دنیا کے گذشتہ چار برس گرم ترین گزرے ہیں جن میں 2018 گرم ترین تھا اور قطب جنوبی و شمالی بھی مسلسل گرم ہوتے چلے جارہے ہیں، یہاں تک کہ قطبی گھیرے یا آرکٹک سرکل کے 300میل کے احاطے میں واقع ناروے میں گذشتہ سال جولائی میں درجۂ حرارت 90 فارن ہائیٹ تک جا پہنچا تھا۔ اگر ہمارے کرۂ ارض پر واقع پرمافراسٹ کی قابل ذکر مقدار قبل از وقت اور تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی تو یہ صورت حال ہمارے کرۂ ارض کے لیے نہایت سنگین نتائج کاباعث نہ ہوجائے۔

اس ساری صورت حال پر شمالی ایری زونا یونی ورسٹی کے پرما فراسٹ ایکسپرٹ Ted Schuur کا کہنا ہے کہ پرما فراسٹ کی انوکھی اور حیرت انگیز دنیا میں یہ انکشاف نہایت حیران کن ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس طرح تو ہماری زمین پر اور ہمارے کرۂ ہوائی میں کاربن بڑی مقدار میں پھیلنے لگے گی جس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔

شمالی نصف کرے کی زمین کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ ایسا ہے جو سارا کا سارا پرما فراسٹ پر واقع ہے۔ اس کی پھنسی ہوئی یا قید منجمد مٹی اور نباتات پورے atmosphere میں پائی جانے والی کاربن سے تعداد میں لگ بھگ دگنی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ فوسل فیول یا رکازی ایندھن کے جلنے سے زمین گرم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے منجمد علاقے بھی پگھلنے لگتے ہیں اور اسی باعث  microbes یا جرثومے بھی مدفون نامیاتی مادوں کو استعمال یا consume کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ جاتا ہے اور میتھین گیس کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو ہماری دنیا کے لیے گرین ہاؤس گیس اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح ضروری ہے۔

ٹنڈرا کی گھاس اس مقام پر جہاں دریائے کولیما بحر منجمد شمالی سے ملتا ہے، اپنی نمی یا موائسچر کے پگھلاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے۔ پھر نئی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ آرکٹک الاسکا اور روس میں بعض زمینیں ایسی ہیں جو آنے والے وقتوں میں بالکل بھی منجمد نہیں ہوں گی۔ گویا یہاں سے سردی اور برف کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ تو کیا ہم نے اس ساری صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی ہے؟ کیا ہم اپنے کرۂ ارض سے مٹتی ہوئی برف اور یخ بستہ سردیوں کے متبادل کے طور پر کچھ نیا تلاش کررہے ہیں؟ ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس داں انہی سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں مسلسل مصروف ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب قدرتی عوامل ہیں اور ان کی ڈوریں قدرت نے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہماری زمین پر کیا کیا بدلے گا اور کیسی کیسی حیران کن تبدیلیاں آئیں گی، ان سب کے جوابات آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔

The post قطبی اور شمالی میدان اب سرد اور منجمد نہیں رہیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہوٹل کے منیجر نے کہا ’’آپ دہشت گرد ہیں‘‘

$
0
0

جاپان کے شہر ’’اوکی ناوا‘‘ میں پرفیکچوئل اگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے زیراہتمام گنے کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی آف شوگر کین ٹیکنالوجسٹ (ISSCT) کے تحت 6 روزہ ورکشاپ کا پہلا دن تھا، جہاں دنیا بھر سے آئے 113 گنے کے چوٹی کے ماہرین اور سائنس داں او کی ناوا انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (OIST) کے خوب صورت آڈیٹوریم میں بیٹھے افتتاحیہ سیشن میں پہلے اسپیکر کو سننے میں محو تھے جو دنیا میں گنے کی پیداوار کے ممکنہ مسائل اور ان کے حل کے موضوع پر حاضرین سے مخاطب تھا۔

چوںکہ یہ ورکشاپ کا پہلا دن تھا لہٰذا ہال میں بیٹھا ہر شخص ایک دوسرے سے بے خبر، ناآشنا اور اجنبی تھا اور سب ایک دوسرے سے لاتعلق اسپیکر کو سننے میں محو تھے۔ میں آڈیٹوریم کی پچھلی نشستوں پر تھا اور تمام شرکاء پر بہ آسانی میری نظر تھی جو جوش و خروش سے بیک وقت سننے اور لکھنے میں مصروف تھے۔ دیکھ تو میں بھی اسپیکر کو رہا تھا مگر میں اندر ہی اندر سے کسی ادھیڑبن میں مصروف تھا۔ اپنے آپ سے الجھ رہا تھا، کیوںکہ میرا پاکستان سے جاپان آنے کا و احد مقصد6روزہ مذکورہ بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت تھی اور بس ۔۔۔ اور یہی ایک بات میری الجھن کا سبب تھی۔

اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے اجازت اور پروانۂ راہداری بھی محکمۂ زراعت حکومت پنجاب نے مجھے بخوشی تھما دیا تھا۔ فنڈز کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا جسے شوگر کین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، حکومت پنجاب نے بطور فنڈنگ ایجنسی کے اسپانسر کر رکھا تھا۔ لوگ تو خوشی خوشی بیرون ملک جاتے ہیں اور وہ بھی سرکار کے خرچے پر، تاکہ سیرسپاٹے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے مگر 23 گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو ، اور ٹوکیو سے پھر چار گھنٹے کے جیٹ طیارے کے سفر کے بعد جاپان کے انتہائی شمال کی جانب واقع جزیرے اوکی ناوا میں اترنے کی مجھے کوئی خاص خوشی محسوس نہ ہو رہی تھی۔

پہلا لیکچر جاری تھا مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ میرا ذہن کہاں اٹک سا گیا ہے۔ مجھے اسپانسر کرنے والی ایجنسی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ڈاکٹر شاہد افغان میرے پہلو میں بیٹھے تھے جن کے ہمراہ فیصل آباد سے جاپان میں اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے آیا تھا اور تقریباً ہم عصر ہونے کے ناتے جنہوں نے میرا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھا تھا کہ اعجاز پہلی دفعہ جاپان جا رہا ہے اسے کوئی تکلیف نہ ہو، مگر نہ جانے کیوں ان کی موجودگی بھی میری پریشانی کم کرنے کا سبب نہ بن رہی تھی۔

چائے کے وقفے کے دوران کوئی 90 فے صد شرکاء ایک دوسرے سے لاتعلق نظر آئے، کیوںکہ افتتاحیہ تقریب میں باقاعد ہ تعارفی سیشن نہ ہونے کے سبب ہر کوئی ایک دوسرے سے نابلد اور سہماسہما سا تھا، حالانکہ اتنے بڑے عالمی فورم میں پہلا سیشن کون کس ملک سے ہے جیسے تعارف پر مبنی ہوا کرتا ہے، جو یہاں نہ ہوسکا۔ کوئی 20 منٹ کے بعد عالمی ورکشاپ دوبارہ شروع ہو گئی جو دوپہر کے کھانے تک جاری رہی۔ اس دوران میرے اپنے ادھیڑبن میں مبتلا ہونے کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ بڑھتا بھی رہا۔ میں نے خود سے کہا، مسٹر اعجاز تبسم ۔۔۔ تم نے جاپان آکر بہت بڑی غلطی کی ہے ، اپنے بچوں سے دور بھی ہو، اپنے سرکاری امور بھی ادھورے چھوڑے اور خواہ مخواہ حکومت کا پیسہ بھی برباد کیا ۔۔۔۔ تم کوئی پتوکی تو نہیں آئے اور نہ ہی راولپنڈی کسی سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے گئے ہو، تم تو آدھے جہان کا سفر طے کر کے جاپان آئے ہو، جہاں آنے کے لیے ڈھیر سارا روپیہ چاہیے ہوتا ہے، تب جاکر بندہ ٹوکیو پہنچتا ہے اور تم تو ٹوکیو سے بھی دور مستطیل نما جزیرے میں جاپان کے آخری سر ے پر ہو، جہاں تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، ہانگ کانگ، چین جیسے سب ممالک ادھر ادھر ہوجاتے ہیں، اور جہاں تک پہنچنے کے لیے کوریا بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ تم نے اتنی دور آکر حکومت پنجاب کا پیسہ ضائع کردیا ہے جو غریبوں پر استعمال ہونا تھا، جس سے سڑک بننا تھی، جو بے گناہی میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین پر خرچ ہونا تھا۔ اور تم ہو کہ ڈھیر سارے سرکاری خرچے پر صرف ورکشاپ میں شرکت کے لیے جاپان آگئے ہو۔

اسی پشیمانی کے باعث میری آنکھوں کے کونے بھیگنے کو تھے۔ سنا ہے کہ ماں کی یاد میں یا دھرتی ماں کی یاد میں بہنے والے آنسوؤں کو پونچھنا نہیں چاہیے، انہیں گالوں میں اندر تک جذب ہوتے رہنے دینا چاہیے، کیوںکہ ان سے بڑھ کر آج تک کوئی عقیدت ایجاد نہ ہوسکی۔ لیکچر سننے کے دوران ڈاکٹر شاہد افغان لیکچر دینے والے پر اکا دکا سوالوں پر میری ہاں میں ہاں ملانے کی کوشش کرتے بھی تھے مگر ہال میں اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنا چہرہ ان کی جانب نہ کرتا تھا مبادیٰ کہیں میرے آنسوؤں کو دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں کہ تجھے پاکستان میں بچے تو یاد نہیں آرہے !

اس سمے سوچ اس جانب بھی رہی کہ سرکاری دفاتر میں10 دن کا عرصہ کتنا قلیل عرصہ ہو گا جب کسی کو کہا جائے کہ تمھیں بیرون ملک سفر پر روانہ ہونا ہے پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے رخت سفر باندھ لو، چنانچہ سرکاری دستاویزات کی تیاری اور پھر اس کی منظوری میں ایک ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بہ آسانی لگ جاتا ہے ویزہ پراسس الگ ایک مرحلہ ہوتا ہے کم از کم ایک ماہ اسے بھی درکار ہوتا ہے ، جب کہ ادھر جاپان جانے کے لیے۔

میرے پاس صرف 10/12 دن تھے ، پہلے میں نے سوچا کہ یہ سب مذاق ہے، میں بھلا کس کھیت کی مولی ہوں جو مجھے اتنی اہمیت دی جائے اور اوپر سے میرا کون سا چاچا ماما کسی سرکاری عہدے پر فائز ہے جس کی سفارش پر جاپان کے لیے میری نامزدگی ہو گئی ہے، اور دفتر میں تو پہلے ہی بے شمار لابیاں ہوتی ہیں، میں بذات خود کسی بھی لابی سے منسلک نہیں ہوں اور نہ ہی کسی برادری سے زندگی بھر مجھے کبھی کوئی شغف رہا ہے، میں تو فقط تحقیق سے منسلک ہوں اور یہی میری برادری ہے، اور ہاں اگر میں کسی برادری کی بیساکھی کا سہارا لیتا تو آج میں UNO کی کسی اہم سیٹ پر براجمان ہوتا اور اس سمے مجھے میرا حال واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی دور میں معراج خالد یا غلام حیدر وائیں کا تھا، نہ تین میں اور نہ تیرا میں تھے اور نہ ہی کسی پارٹی کے سربراہ تھے مگر پھر بھی قدرت نے ان کو وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے سیٹ پر لابٹھایا تھا ۔۔۔میرا جاپان کے لئے منتخب ہونا اور پھر جاپان آجانا، اس لمحے مجھے کسی طور بھی قدرت کی خود پر نوازش سے کم نہیں لگ رہا تھا، ویسی ہی نوازش جیسی قدرت نے معراج خالد یا غلام حیدر وائیں پر کی تھی۔

آڈیٹوریم کے نیم تاریک ماحول میں سب کی طرح میری آنکھیں بھی مقالہ پڑھنے والوں پر تھیں مگر میرا ذہن سوچ رہا تھا کہ تجھے حکومت پنجاب محکمہ زراعت کا وقت اور پیسہ دونوں برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیکریٹریٹ محکمہ زراعت حکومت پنجاب لاہور کے بڑوں کی شفقت کا سبب تھا کہ میں جاپان میں پہلے دو دن مسلسل بے چین رہا، کیوںکہ گنے کی اس عالمی کانفرنس میں اپلائی کرنے کے مختصر سے وقت میں جاپان میں منعقدہ ISSCT کی سالانہ ورکشاپ میں نہ تو سرکاری طور پر میرا نام شامل ہو سکا تھا اور نہ ہی پروگرام کی فہرست میں نام درج تھا۔ لیکچر دینا تو دور کی بات ہے میرا تو نام بھی کسی abstract یا پوسٹر پریزینٹیشن میں درج نہیں تھا۔

جی میں آیا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ تم فیصل آباد میں ہی ٹیلی ویژن پر کسی CNN کا پروگرام دیکھ لیتے ۔۔۔ جہاں آئے دن جاپان کے بارے میں آڈیو وڈیوز چلتی رہتی ہیں۔ بہرحال اس لمحے خیال آیا کہ چلو کھانے کے وقفے میں انتظامیہ سے بات کرتا ہوں مگر ڈاکٹر شاہد افغان اس سے قبل مجھ سے کہہ چکے تھے کہ اس عالمی کانفرنس میں ہر چیز دو ماہ قبل فائنل ہو جاتی ہے، اب کچھ نہیں ہوسکتا، اور بات کرنے سے کہیں خواہ مخواہ کی سبکی ہی نہ ہو جائے ، اس لمحے سچی بات ہے کہ ڈاکٹر افغان کی بات نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا تھا اور میں اپنے آپ میں بڑ بڑ کرتا رہا کہ کیا میں حکومت پنجاب کا پیسہ خرچ کر کے یہاں صرف سیر کرنے کے لیے آیا ہوں!

میں چاہتا تھا کہ پاکستان میں گنے کی اقسام کی تیاری کی تحقیق بارے میں گنے کے ماہرین کو علم ہو کہ پاکستان میں گنے کی نئی قسم کیسے تیار ہوتی ہے اور اگر کوئی کمی و بیشی ہو تو عالمی ماہرین کی مشاورت سے اس کی نوک پلک سنوار دی جائے۔ میری نظر میں پاکستانی گنے کی قسم کی تحقیق بارے مشاورت کا اس سے بہتر اور نادر موقع کہیں اور نہیں مل سکتا، اگر پاکستانی ماہرین گنا کسی دوسرے ملک میں جاکر بات چیت کریں تو وہاں صرف دو ممالک کے ماہرین ہی باہم مشاورت کریں گے اور اگر کسی دوسرے ملک کی گنے کی ٹیم پاکستان میں آئے تو تب بھی دو ممالک کے ماہرین ہی گنے کی ترقی و تحقیق بارے بات چیت کریں گے، مگر دنیا بھر کے ماہرین گنا کا ایک چھت تلے بیٹھنا اور پھر پاکستان میں زیادہ پیداوار کی حامل گنے کی اقسام کی تحقیق وتیاری پر عالمی ماہرین گنا کی بات چیت پاکستانی تحقیق کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔

میری خواہش تھی کہ گنے کے اس عالمی فورم میں میری موجودگی پاکستان کے وقار میں اضافے کا موجب بنے، گنے سے وابستہ نمائندہ ممالک کے ماہرین اس بات سے باخبر ہوںکہ قدرت نے گنے کے تناظر میں سورج کی روشنی، رات کی تاریکی، ہوا میں نمی اور گنے کی ضرورت کے مطابق مطلوبہ درجۂ حرارت کی جو نوازشیں آپ لوگوں پر کی ہیں ہم ان سے محروم تو ہیں مگر گنے کی زیادہ پیداوار کے حصول اور گنے کی فصل میں پیداواری تیکنیک سے متعلق کی جانے والی انسانی کاوشوں کے سبب پاکستانی قوم کسی سے پیچھے نہیں رہے گی۔

چائے کے وقفے میں ISSCT کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین بدالو کی جانب میرے قدم اٹھ گئے، جنہوں نے سب سے پہلے اسٹیج پر آکر اپنے خوب صورت الفاظ میں ورکشاپ کی افتتاحیہ تقریب کا آغاز کیا تھا، اگرچہ وہ انگریزی زبان میں بات کر رہے تھے ، مگر ان کے الفاظ کا چناؤ، طرز ادائیگی، باڈی لینگویج اور آنکھوں کی چمک و جھپکنے کے انداز میں ایک خاص آہنگ دکھائی دیا ، ان سے سلام و دعا کی وطن پاک کا بتایا تو مسکرا تے ہوئے “میں بھی مسلمان ہوں” کہہ کر انہوں نے بھرپور معانقہ کیا۔ ان کے گلے ملنے کے انداز سے کم از کم یہ ضرور ہوا کہ میری بے چینی قدرے کم ہوگئی۔

جب میں نے ان سے اجازت لی کہ میں گنے پر لکھی جانے والی اپنی کتاب پیش کروں تو ’’وائے ناٹ‘‘ کہتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھے۔ یہ کتاب پاکستان میں گنے کی تحقیق اور اس کی اقسام کی پیداوار کے تناظر میں کسان کی مالی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر مبنی ہے، جسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب میں نے کہا کہ سر! میرا نام نہیں ہے پروگرام کی لسٹ میں، میں یہاں اپنا ریسرچ پیپر پڑھنا چاہتا ہوں، تو کہنے لگے، جی ہاں مجھے معلوم ہے۔ یہ لسٹ کوئی 2 ماہ قبل فائنل ہوجاتی ہے، جس میں Abstracts ، پروگرام، ہوٹل میں قیام اور ایجنڈا شامل ہوتا ہے، لہٰذا اب بہت مشکل ہے پھر اندر کی بات کہنے لگے کہ یہاں پر تو میں بھی آپ ہی کی طرح مہمان ہوں۔ میرا تعلق ماریشس سے ہے، مگر آپ ایسا کریں کہ یہاں کی مقامی قیادت سے بات کرلیں اور جاپان سوسائٹی آف شوگرکین ٹیکنالوجسٹس آپ کی اس سلسلے میں ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گی۔

ISSCT کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین بدالو نے عالمی فورم سے خطاب کے لیے اگرچہ انکار کردیا تھا، مگر گنجائش کا ایک راستہ بہرطور ضرور دکھایا تھا اور پھر ان کے انکار میں مجھے کسی قسم کی حوصلہ شکنی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا تھا، جس کو محسوس کر کے پاکستان کی طرف سے میں اس عالمی فورم میں مخاطب ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کا ارادہ چھوڑ دیتا مگر مجھے تحریک ضرور ملی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قدرت نے مجھے مقامی قیادت یعنی جاپانیوں کے ظرف کو براہ راست پرکھنے اور ایک مکالمے کا نادر موقع ضرور فراہم کردیا تھا۔

عالمی فورم سے خطاب کی نئی تحریک لیے کھانے کے وقفے ہی میں بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے جاپان سوسائٹی آف شوگرکین ٹیکنالوجسٹ ( JSSCT ) کے سربراہ کو ڈھونڈنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام ڈاکٹر شین ہے، جو ادارے کے سربراہ اور اس عالمی فورم کے انچارج بھی ہیں، ہیلو ہائے کے لیے لوگوں سے پوچھتا ہوا جب میں ڈاکٹر شین کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر وہ مسکرا اٹھے۔ ڈاکٹر شین کو دیکھ کر سچی بات ہے حیرانی، تذبذب، اور پریشانی کی تمام کیفیات میرے چہر ے پر امڈ پڑیں، مجھے نہیں اندازہ تھا کہ ایک معمولی اور واجبی سا بندہ اس ادارے کا سربراہ بھی ہوسکتا ہے۔

جونہی میں جاپان کے نیہا ایئرپورٹ پر امیگریشن کے تمام مراحل طے کرکے ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو واجبی سے کپڑوں میں ملبوس ایک دھان پان سا اور مفلوک الحال چہرہ نظر آیا، جسے دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ایک طویل عرصہ سے بھوکا ہو اور ایک روٹی کے حصول میں کبھی کبھار ایئرپورٹ پر بطور پورٹر کے چند سکے کما کر گزر بسر کرتا ہو ، مگر اس وقت اس نے اپنے ہاتھ میں ایک کتبہ اٹھا رکھا تھا جس پر ISSCT/OKINAWA  رقم تھا 23 گھنٹے کی مسافت کے بعد اپنی منزل ISSCT/OKINAWA کے الفاظ کی اپنائیت کے پیش نظر ہمارے قدم سیدھے اس کی جانب اٹھ گئے۔ سلام دعا کے بعد اس مفلوک الحال شخص نے ہمارے نہ نہ کرنے کے باوجود ہمارا سامان خود اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر گاڑی میں رکھا، گاڑی ایسی تھی کہ جیسے ابھی ابھی شو روم سے لائی گئی ہو، گاڑی میں بیٹھے تو وہی مفلوک الحال شخص ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔ گاڑی جاپان کی سڑکوں پر سبک رفتا ری سے ایسے چل رہی تھی کہ جیسے وہ سڑک پر نہیں بلکہ شیشے پر چل رہی ہو۔

شہر نیہا کی صاف ستھری سڑکیں، اور جن پر کوئی اسپیڈ بریکر بھی نظر نہ آیا۔ رات 10 بجے کا پہر تھا ٹریفک کا رش نہ ہونے کے باوجود ٹریفک سگنل پر گاڑی رک جاتی، حالاںکہ اردگرد کی سڑکوں پر کوئی بھی گاڑی نہ تھی، اس کے باوجود ٹریفک سگنل پر گاڑی کا رک جانا، مجھ میں اپنے پاکستان کے بارے میں کئی قسم کے سوالات جنم دینے کا سبب بن گیا، اور میں یہاں جاپان میں ڈرائیور کو بھی کہہ نہ سکا کہ بھائی صاحب! چوک میں کوئی بھی گاڑی نہیں ہے لہٰذا آپ چوک کراس کرلیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بحیثیت پاکستانی ہم سب قوانین پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں، مگر انتظامیہ اور عوام دونوں کی آپس میں ملی بھگت سے ایک کہتی ہے کہ تنخواہ تو مل ہی جانی ہے محنت کرنے کا کیا فائدہ، جبکہ دوسرے کا مؤقف ہے کہ ٹریفک سگنل کو چھوڑو یار، سنتری کی مٹھی گرم کردیں گے، وقت بچے گا چلو اشارہ کاٹ دو، مگر یہاں جاپان میں قوانین کی مضبوطی کو دیکھ کر میں خود اس ڈرائیور سے نہ کہہ سکا کہ اشارہ کاٹ دو۔

کوئی 20 منٹ کی مسافت کے بعد اوکی ناوا شہر کے بیچوں بیچ ایک خوب صورت ہوٹل پر گاڑی رک گئی، ڈرائیور جلدی سے گاڑی کی ڈگی کی جانب آیا اور جلدی سے میرے سامان کو تھاما، میرے پس و پیش کرنے کے باوجود ہوٹل کے اندر سامان اٹھا کر میرے کمرے تک لے آیا۔ مفلوک الحال شخص کو ٹپ کی صورت پیسے دینے چاہے مگر سوائے شرمندہ ہونے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ دھان پان سا یہ مفلوک الحال شخص اب میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ تھے ڈاکٹر شین، جن کی زیرنگرانی ISSCT کا سالانہ فنکشن انعقاد پذیر تھا اور جو جاپان سوسائٹی آف شوگر کین ٹیکنالوجسٹ( JSSCT) کے سربراہ بھی تھے۔

انہیں دیکھ کر سچی بات ہے میں چکرا سا گیا کہ اتنی بڑی شخصیت جو اس عالمی پروگرام کی منتظم بھی ہے، مجھ ناچیز کے استقبال کے لیے نہ صرف ایئرپورٹ تک آگئی تھی بلکہ ہوٹل میں میرے سامان تک کو بھی اٹھاتی رہی تھی۔ میں اند ر سے کچا سا ہو چلا تھا اور دل بھی پھیکا سا ہو گیا تھا کہ ہمارے پاکستان میں تو ایسا ہونا کسی عجوبے سے کم نہیں، بلکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی ادارے کا سربراہ کسی جونیئر کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ تک آ پہنچے گا، مگر یہاں جاپان میں ایک ادارہ کا سربراہ مجھ جیسے معمولی سے شخص کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ شاید یہ میرے ساتھ ایسا تھا یا سب کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی برتاؤ کیا ہوگا، کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہرحال ڈاکٹر شین تقریباً واجبی سے کپڑے پہنے میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے، میں ابھی اپنی بات کا سرا پکڑنے ہی والا تھا کہ کہنے لگے ڈاکٹر اعجاز، کیسے ہیں، بور تونہیں ہو رہے، دل تو لگ گیا ہے ناں جاپان میں، کوئی مسئلہ تو نہیں ہے یہاں، اگر کوئی مسئلہ ہو تو ضرور شیئر کریں۔

’’سر!۔۔۔وہ وہ ۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں بولیں ۔۔۔۔ پاکستان تو یاد نہیں آرہا‘‘

’’نہیں سر‘‘

(میں ہچکچارہا تھا کہ یہ میرا لیکچر رکھنے اور اپنے پروگرام میں تبدیلی کرنے کا کہنے پر وہ کہیں برا نہ مان جائیں۔ دل نے حوصلہ دیا کہ ادھر ڈاکٹر شین کے پاس تو چار بندے کھڑے ہیں لہٰذا لیکچر کی اجازت نہ ملنے پر تو ان چار بندوں کے سامنے میری سبکی ہو گی جب کہ لیکچر کی اجازت ملنے پر پاکستان میں گنے کے تحقیقی پروگرام میں اگر کوئی کمی و بیشی ہوئی تو دنیا بھر کے عالمی ماہرین کی توجہ اور مشاورت سے میرے وطن میں گنے کے تحقیقی پروگرام کو چار چاند لگ سکتے ہیں)

’’پھر کیا بات ہے ‘‘

’’جی میں پاکستان سے ہوں‘‘ (میں نہیں چاہ رہا تھا کہ ان پر حقیقت بیان کردوں اور یہ کہہ دوں کہ میں اس پروگرام میں تاخیر سے شامل ہوا ہوں۔ اس سے بھی میرے وطن کی حرمت پر آنچ آسکتی ہے کہ دیر سے کیوں شامل ہوئے ہو، اس لیے فوراً بول اٹھا)

’’میرا نام پروگرام کی فہرست میں شامل ہو نے سے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں گنے کے تحقیقی پروگرام کو اگر یہاں پیش نہ کیا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہو گا کہ میں پاکستان سے جاپان گیا تھا اور فقط سیر کر کے واپس آگیا۔ ایسے میں میرا ضمیر ساری عمر ملامت کرتا رہے گا۔‘‘

ڈاکٹر شین نے مجھے حیرت سے دیکھا اور بولے، ’’مسٹر تبسم! مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ گنے کے تحقیقی پروگرام سے تو تم کو محبت ہوگی، مگر اپنے وطن پر عقیدت کا رنگ تم پر کچھ زیادہ غالب دکھائی دے رہا ہے۔ وطن سے تمھارے پیار کا یہ انداز ہمیں اچھا لگا ہے، چلو ہم دیکھتے ہیں۔‘‘

’’جی بہت شکریہ‘‘

ماہرین گنا کی عالمی ورکشاپ سے لیکچر کی صورت میرے مخاطب ہونے کی خواہش کے پیش نظر ڈاکٹر شین کی نیم رضا مندی میری سوچوں کو تقویت دینے کا سبب بن گئی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی روزشام 4 بجے ڈاکٹر شین کا پیغام موصول ہوگیا کہ کل بروز منگل 12بج کر 20 منٹ پر گنے کی بریڈنگ کے سیشن میں آپ کا لیکچر رکھ لیا گیا ہے۔ آپ کا موضوع ہو گا ’’پاکستان میں گنے کی نئی قسم کی تیاری کا تحقیقی پروگرام۔‘‘

پیغام سن کر مجھے ایسے لگا جیسے میرے تنِ مردہ میں جان ڈال دی گئی ہو، جیسے میں دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں، جیسے مجھے جاپان آنے کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔حکومت پاکستان کے مجھ پر پیسہ خرچ کرنے کا جیسے جواز مل گیا ہو۔ میں ساری رات سو نہ سکا اور اپنے لیکچرکے مواد کی کانٹ چھانٹ کرتارہا۔

اگلے دن دنیائے گنا کے سب سے بزرگ، زیرک سائنس داں اور ویسٹ انڈیز کے 75سالہ معروف پلانٹ بریڈر ڈاکٹر انتھونی کینڈی بریڈنگ سیشن کی صدارت فرما رہے تھے۔ کہنے لگے ۔۔۔ اب میں پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم کو دعوت اظہار دیتا ہوں کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور اپنا مقالہ پیش کریں۔ صدرنشیں کی جانب سے اپنے نام کی اناؤنسمنٹ پر میرے بدن کا رواں رواں رقص کرنے لگا جبکہ میری آنکھوں کے کونے خوشی سے بھیگنے کو تھے کہ آج تجھے کتنا بڑا اعزاز مل رہا ہے۔ میں اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے باوقار انداز سے چلتا ہوا اسٹیج پر آگیا اور حاضرین سے مخاطب ہوا۔

اللہ عز وجل کی حمد و ثناء کے دوران لوگوں پر نظر ڈالی تو تو ان کے چہروں پر یک دم حیرت طاری تھی کہ یہ کیا پڑھ رہا ہے، میں حیران تھا مقالہ پڑھنے والوں کے چند ابتدائی لمحوں کو حاضرین بطور خاص غور سے اور جوش و خروش سے سنتے ہیں، ان کی شستہ انگریزی، لب و لہجہ اور آواز کے زیر و بم کو دیکھتے ہیں۔ اس ورکشاپ میں یہ تقریب پچھلے دو روز سے جاری تھی مگر اس سمے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ موقع کی مناسبت سے میں نے تلاوت مختصر کردی اور انگریزی میں بولنے لگا۔

میں نے کہا، دوستو! اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں گنے کا تحقیقی پروگرام آپ لوگوں کے تحقیقی پروگرام کے سامنے ابھی طفل مکتب ہے یا ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہے تو یہ بات بے جا نہ ہو گی۔ رات کی تاریکی، ہوا میں نمی اور درجۂ حرارت کی وہ مقدار جو گنے کے پودوں پر پھول لانے کا سبب بنتی ہے اور جو آپ لوگوں کے ہاں وافر مقدار میں موجود ہے، وہ مقدار پاکستان میں سرے سے دست یاب ہی نہیں ہے اور نئی قسم کی تیاری میں پھول ہی اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ محکمہ زراعت حکومت پنجاب اسی برس ایسا سسٹم بنا رہا ہے جس کے تحت روشنی، تاریکی، ہوا میں نمی اور درجۂ حرارت جیسے مصنوعی عوامل کے ذریعے گنے کے پودے پر پھول اگائے جا سکیں گے جس سے گنے کی نئی اقسام اپنی تیاری کے مراحل تیزی سے طے کرے گی اور اس وقت میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جب پاکستان گنے کی اقسام اور پیداوار کے تناظر میں آپ لوگوں کا سرخیل ہو گا۔

میں نے تیکنیکی تفصیلات بتائے ہوئے کہا، پاکستان میں اس وقت گنے کی اوسط پیداوار 560 من فی ایکڑ ہے، جب کہ ہمارے صوبہ پنجاب کی 630 من فی ایکڑ ہے، اور دنیا کی اوسط پیداوار 710من فی ایکڑ ہے، مگر آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ہمارے کسان اپنی استعداد سے بڑھ کے گنے کے کھیت میں کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مقابلے میں ہمارے کسان ضلع راجن پور سے گنے کی اوسط پیداوار930من فی ایکڑ حاصل کر چکے ہیں (ہال تالیوں سے گونج اٹھا) میں پھر گویا ہوا کہ وہ وقت دور نہیں جب ہم گنے کی فصل میں دنیا کے نمبر ون ملک کہلائیں گے۔ اس سمے لوگ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ میرا لیکچر کوئی 20 منٹ جاری رہا۔ سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا، جس میں عالمی ماہرینِ گنا پاکستان میں جاری گنے کی تحقیق سے خاصے مطمئن دکھائی دیے اور مجھے اپنی تجاویز سے بھی نوازا۔

جاپان میں ابھی میرا پہلا ہی دن تھا کہ میں کمرے میں سامان رکھ کر استقبالیہ میں آگیا اور ہوٹل کے منیجر سے کہا کہ مجھے اپنے گھر ٹیلی فون پر بات کروادیں۔ اس نے ٹیلی فون کا رسیور اٹھایا اور کہا، کہاں بات کرنا ہے؟ میں نے کہا میری پاکستان بات کروا دیں ابھی میں فیصل آباد کا لفظ بولنے ہی والا تھا کہ اس نے رسیور فوراً کریڈل پر رکھ دیا اور بولا ہم پاکستان بات نہیں کروا سکتے۔میرا شش وپنج میں مبتلا ہونا فطری امر تھا۔ میں نے کہا کیوں جناب! کیا بات ہے ، مہنگی کال ہوگی؟ اسے آپ میرے بل میں نہ ڈالیں، میں ابھی پیسے دے دیتا ہوں۔ صرف آدھے منٹ کے لیے آپ میرے بچوں سے میری بات کروادیں ۔۔۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں خیریت سے جاپان پہنچ گیا ہوں۔ مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ میرے گھر اینڈرائیڈ موبائل نہیں تھا جو میں واٹس اپ پر بات کرلیتا، لہٰذا مجبور تھا۔ پوچھ ہی لیا، جناب! کیا وجہ ہے، آپ میری بات کیوں نہیں کروانا چاہتے؟

منیجر کہنے لگا، کوئی اور ملک ہوتا تو بات کروا دینی تھی ، مگر پاکستان کے لیے سوری۔

میرے پاک وطن کی اتنی بڑی بے حرمتی۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکی۔ میں پھٹ پڑنے کو تھا۔ اس چیز کا بھی مجھے بخوبی ادراک تھا کہ میں دیارغیر میں ہوں، ایک ہلکی سی ناشائستہ حرکت مجھے میری خفت کا سبب بن سکتی تھی۔ میں نے کہا، ’’جناب! پاکستان کے لیے سوری کیوں؟ ذرا ہم پاکستانیوں کو بھی علم ہو کہ آپ کے ٹیلی فون کے ذریعے ہم پاکستان میں بات کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘

’’آپ دہشت گرد ہیں۔ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان قوم پچھلی دو دہائیوں سے دنیا بھر میں دہشت گرد کے طور پر متعارف ہوئی ہے۔ اچھی بھلی پُرامن دنیا کو مسلمانوں نے ہلاکر رکھ دیا اور پاکستان اس دہشت گردی کا سرخیل ہے۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہا تھا۔ اپنے وطن کی بے عزتی پر آخر میں پھٹ پڑا۔

’’بھائی صاحب! آپ کی بات میں وزن نہیں، اگر کوئی ثبوت ہے تو ضرور شیئر کریں۔ ورنہ الزام تو ہر کسی پر لگایا جا سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی قوم تو خود دہشت گردی کی زد پر رہی ہے۔ کراچی ہو یا کوئٹہ، پاکستان کو پُرامن خطہ بنانے کے لیے ہمارے 80ہزار شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اور تو اور آرمی پبلک اسکول پشاور کے 125بچوں کو تو دنیا فراموش کر ہی نہیں سکتی، جنہیں پلک جھپکتے میں بارود کی نذر کر دیا گیا۔ ہاں انڈیا کا حاضر سروس آرمی آفیسر کلبھوشن یادیو کا جیتا جاگتا معاملہ تو اب دنیا کے سامنے ہے، جسے پاک آرمی نے کوئٹہ سے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور جس کا اعترافی بیان دنیا میں انڈیا کو منہ چھپائے پھرنے پر مجبور کررہا ہے۔‘‘

ہوٹل منیجر میرے قریب آیا اور دھیرے سے کہنے لگا،’’لوگ بعد از وقوعہ اثرات after effects  کی طرف نہیں دیکھتے کہ بارش سے سارا شہر کیوں ڈوب گیا ہے۔ دنیا تو اس جانب آنکھیں کھولے کھڑی رہتی ہے کہ انہوں نے بارش کے پانی کو ڈرین آؤٹ کرنے کے لیے پیش بندی کیوں نہیں کی! ترقی یافتہ ممالک میں مریض اگر مرجائے تو ڈاکٹرز کا پینل مہینہ بھر نہیں سوتا کہ مریض کے علاج میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔ اسی طرح پاکستانی قوم نے دہشت گردی پھیلانے میں خود پیش پیش رہی ہے مگر دہشت گردی کی پیش بندی نہیں کر سکی۔‘‘

’’مسٹر منیجر! میں تو حیران ہوں کہ آپ ہمیں ہی کہہ رہے ہیں کہ پیش بندی کیوں نہیں کی۔ ہم اس کی پیش بندی کیسے کرتے؟‘‘

’’بھئی میں کہہ رہا ہوں کہ دہشت گردی پھیلانے کا سبب تو آپ بنے ہیں ناں۔ آپ دہشت گردی کے بانی ہیں۔‘‘

میں تھوڑا سا درشت ہو گیا ’’وہ کیسے۔‘‘

’’ وہ ایسے کہ ساری دنیا جسے ڈھونڈ رہی تھی وہ بندہ نکلا تو پاکستان سے ہی ناں۔ ایبٹ آباد سے۔ اسامہ بن لادن کے سرچ آپریشن کا نظارہ اپنے ملک میں بیٹھ کر امریکا نے ایسے ہی کیا تھا جیسے چاند پر انسان کے پہلا قدم رکھنے پر امریکیوں نے کیا تھا۔‘‘

(جاری ہے)

drijaztabassum07@gmail.com

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد سے وابستہ سنیئر سائنس داں ہیں۔ گندم، اور جو کی فصلوں پر تحقیق کرنے کے بعد ترقی ملنے پر اب ادارہ تحقیقات کماد، میں گنے کی نئی اقسام پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے 4 ہزار آرٹیکلز اور 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پچھلے دنوں جاپان میں گنے کے موضوع پر منعقدہ عالمی ورکشاپ میں ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم نے پاکستان کی طرف سے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے سرکاری طور پر شرکت کی۔ انھوں نے اپنے اس دورے کے مشاہدات اور محسوسات کو مضمون میں صورت میں قلم بند کیا ہو، جو قارئین کی نذر ہے۔

The post ہوٹل کے منیجر نے کہا ’’آپ دہشت گرد ہیں‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

جب جدوجہد آزادی ٔ کشمیر کا آغاز ہوا

$
0
0

بدقسمتی سے جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست ڈوگرا حکمران خاندان اور اِن کے قرابت داروں کے ظلم و استبداد کا شکار چلی آرہی تھی۔

16 مارچ 1846ء کو انگریزوں نے یہ ریاست لوگوں سمیت ہندو ڈوگرا گلاب سنگھ کو فروخت کر دی تھی۔ حکمران ہندو خاندان نے ریاست کا انتظام سنبھالتے ہی اپنی مسلمان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست پر ہندوؤں کی اجارہ داری قائم کرنے کے اقدامات شروع کر دیئے۔

مسلمانوں پر سرکاری ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس پابندی کی خلاف ورزی پر سزائے موت کا قانون نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر ظالمانہ ٹیکس عائد کر دیئے گئے جس کے باعث ان کی معاشی حالت دگرگوں ہو گئی۔ ان حالات میں قدرتی طور پر ریاست کے عوام نے اپنی امیدیں برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے رہنماؤں سے وابستہ کر لیں۔

1931ء میں مسجد شہید کرنے اور ہندو سپاہی کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی پر حریت پسند عبدالقدیر کی دلیرانہ تقریریں اور ان تقریروں کی پاداش میں ان کی گرفتاری نے کشمیر کی سیاسی سمت کا تعین کر دیا تھا۔ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرا فوج نے اُن مسلم نوجوانوں پر گولی چلا دی جو جیل کے سامنے اس لیے مظاہرہ کر رہے تھے کہ عبدالقدیر پر مقدمہ جیل کی بجائے کھلی عدالت میں چلایا جائے۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں 27 نوجوان شہید ہو گئے اور یوں کشمیر میں ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہے۔

جب برصغیر کی تقسیم کے اصول طے کیے گئے تو کشمیر کے مسلمان اس بات پر مطمئن تھے کہ مسلم اکثریت کے باعث کشمیر لازماً پاکستان ہی کا حصہ بنے گا لیکن جب بھارت کی کانگریسی قیادت اور انگریز حکام کی ملی بھگت سے کشمیر میں سازشوں کا بازار گرم ہوا تو کشمیر کے طول و عرض میں مایوسی پھیل گئی۔

کشمیر کے بھارت کے ساتھ جعلی الحاق کا ڈرامہ رچائے جانے کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے مسلمان، ڈوگرا راج کے جبر سے نکل کر بھارتی فوج کے استبداد کا شکار ہو گئے۔ اُن کی آزمائش ختم ہونے کے بجائے بڑھ گئی اور تب سے اب تک کشمیری نسل در نسل اپنی آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔

ان صفحات کے ذریعے ہم اپنے قارئین کے لیے کچھ ایسی نایاب تصاویر پیش کر رہے ہیں جن کا تعلق جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے ابتدائی دنوں کے ساتھ ہے۔ یہ تصاویر لاہور کے فوٹوگرافر میاں عزیز احمد ایزنک مرحوم نے بنائی تھیں۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کو ٹریور جانز کولیکشن، انڈیا آفس لائبریری اور برٹش میوزیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ انہیں ان خدمات پر گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ ادارہ ایکسپریس ان تصاویر کی فراہمی کے لیے مرحوم کے بیٹے میاں رفیق احمد ایزنک کا شکر گزار ہے۔

بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ آزادیٔ کشمیر کے اولین مجاہدوں میں ایک خاتون زونا بی بی مجاہدبھی شامل ہیں جنہوں نے درگاہ حضرت بلؒ کے سبزہ زار سے نعرہ حریت بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا ’’کشمیر کے عوام چاہتے ہیں کہ ڈوگرا راج کا خاتمہ ہو۔‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈوگرا راج کے خلاف ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک جاری تھی اور سری نگر کے طول و عرض میں ایک خاموش، پرامن انقلاب انگڑائی لے رہا تھا۔ زونا بی بی کشمیر میں استصواب رائے کی جدوجہد میں خواتین کی قیادت کر رہی تھیں۔

زونا بی بی مجاہد کا گھرانہ سری نگر میں پتھر مسجد کے علاقہ میں آباد تھا۔ یہیں پر نیشنل کانفرنس کا ہیڈ کوارٹر مجاہد منزل بھی واقع ہے۔ ’’گو ڈوگرا گو‘‘ تحریک کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

کہتے ہیں کہ جب زونا بی بی درگاہ میں خواتین سے خطاب کیا کرتی تھیں تو کہا کرتیں ’’اپنی عصمت اور شرافت پر سمجھوتے کیے بغیر ریاستی جبر کا مقابلہ کرو۔‘‘ اس عظیم خاتون کو جدوجہد کے راستے میں ایسے مصائب جھیلنا پڑے جن کا تصور ہی انسان کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔

ریاستی جبر سے مجبور ہو کر زونا بی بی کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی جبکہ ان کے اپنے خاندان والوں نے بھی ان سے قطع تعلق کر لیا اور سب بڑا دُکھ یہ کہ ان کا اکلوتا بیٹا بھارتی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ یہاں زونا بی بی مجاہد کی زندگی کی چند جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔

The post جب جدوجہد آزادی ٔ کشمیر کا آغاز ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارتی کاریاں اور بے کاری

$
0
0

بھارت اپنی سرکاری سیاہ کاریوں کے ساتھ جن دیگر کاریوں سے پہچانا جاتا ہے ان میں سیاست دانوں کی ریاکاری، بولی وڈ کی اداکاری، گھر گھر بنتی ترکاری اور سرمایہ داروں کی غریبوں کے لیے کارِندارد سرمایہ کاری سرفہرست ہیں، اس فہرست میں اب بے کاری کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

ایک خبر یہ انکشاف کرتی ہے کہ پڑوسی دیش میں گذشتہ سال بے کاری یا بے روزگاری میں 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار ایک حکومتی سروے میں سامنے آئے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی جن دعوؤں کے ساتھ راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے ان میں لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ بھی شامل تھا، مگر وہ دلاسے، دھمکیاں، دھوکا اور چنوتیاں دیتے رہے، روزگار نہ دے پائے۔ اب اس برس اپریل تا مئی انتخابات ہونے کو ہیں، اور مودی جی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی پریشان ہیں کہ جنتا کو کیا منہہ دکھائیں گے۔

دوسری طرف جنتا کا کہنا ہے کہ مہاشے مودی! آپ کوئی سا بھی منہہ دکھائیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے، ہم نے جب آپ کا موجودہ منہہ گوارا کرلیا تو ہمیں کسی اور منہہ پر کیا اعتراض ہوگا! آپ اپنے منہہ پر ریتھک روشن، رنبیرکپور، کترینہ کیف، کرینہ کپور یا سنی لیون کا منہہ لگالیں تو اس سے آپ منہہ دکھانے کے قابل ضرور ہوجائیں گے لیکن چناؤ کے سمے ہم پھر بھی آپ کو منہہ نہیں لگائیں گے، اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ منہہ دکھانے کے بہ جائے اس منہہ سے جو کہا ہے وہ کردکھائیں۔

جنتا کچھ بھی کہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مودی سرکار صرف دو ماہ میں بے روزگاری کیسے کم کرسکتی ہے، بے روزگاری کوئی بھارتی مسلمان تو ہے نہیں کہ جب چاہا فسادات کرائے اور کم کردیے، نہ یہ بولی وڈ کی ہیروئنوں کا لباس ہے جو پانچ منٹ کے گانے میں کم ہوتے ہوتے اتنا کم ہوجاتا ہے کہ ’’اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔‘‘ اب کریں تو کیا کریں؟مودی جی جیسے بھی ہیں، ہیں تو ہمارے ہم سائے ملک کے وزیراعظم ناں، اس لیے ہم سے ان کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ ہم نے سوچا انھیں ایک مشورہ دے دیں جس پر عمل کرکے وہ اپنے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں کمی لاسکتے اور اپنے ووٹ بڑھاسکتے ہیں۔ سو مشورہ پیش ہے:

کبھی یہ تصور پایا جاتا تھا کہ دنیا گائے کے سینگوں پر قائم ہے، یہ تصور غلط سہی مگر یہ حقیقت ہے کہ مودی جی اور ان کی بی جے پی کی سیاست گائے کی کمر پر کھڑی ہے اور سہارے کے لیے اس کی دُم پکڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی اپنی گؤ رکشا کی سیاست کو روزگار کی سہولت کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر گائے کی رکشا کے لیے دو بے روزگار نوجوان بھرتی کرلیے جائیں۔ ایک دن بھر گاؤ کی رکشا کرے دوسرا رات بھر۔ ان سرکاری اہل کاروں کے لیے ’’بچھڑے‘‘ کا نام مناسب رہے گا۔

ہم دوسرے کے معاملے میں سر زیادہ کیوں کھپائیں، یہ سوچ کر ہم نے بس سرسری سی تحقیق کی تو پتا چلا کہ بھارت میں 7 کروڑ 67 لاکھ گؤماتائیں ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ گائیں اپنے الگ ملک یا الگ صوبے کا مطالبہ کر سکتی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ جب ہم اپنا دودھ بیچ کر ایک پورے ملک کی معیشت چلاسکتی ہیں تو اے بھارتیو! تمھیں اپنے کاروبار میں ’’دودھ شریک‘‘ کیوں بنائیں۔ ہوسکتا ہے بھارتی گایوں کے دماغ میں یہ خیال آیا ہو، لیکن کسی عقل مند بیل نے انھیں سمجھایا ہو،’’پگلا گئی ہو کیا! جب بھارت میں مذہبی اقلیتوں سے زیادہ مزے کر رہی ہو تو الگ ملک لینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

بہ ہرحال یہ گایوں کا معاملہ ہے جو چاہے فیصلہ کریں۔ ہم تو بس اتنا کہہ رہے تھے کہ ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ گؤماتاؤں کی رکشا کے لیے لگ بھگ پندرہ کروڑ بے روزگاروں کو ملازمت دینے سے ملک میں بے کاری کا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے گا۔ یقیناً بھارتی سرکار اس مشورے پر عمل کرے گی اور اتنا شان دار آئیڈیا دینے پر ہمیں ’’پاکستانی گُڈ گائے‘‘ قرار دے گی۔

The post بھارتی کاریاں اور بے کاری appeared first on ایکسپریس اردو.

تم محبت بھی ہو سواری بھی

$
0
0

محبت ہوجائے تو انسان آسمان پر اُڑنے لگتا ہے، اسی لیے وہ عاشق جو محبوبہ کی فرمائش پر شرارے کیا چھوارے لانے کی بھی سکت نہیں رکھتے چاند تارے توڑ لانے کے دعوے کر بیٹھتے ہیں۔

شاید مَردوں کی انھی ہوائی باتوں سے متنفر ہوکر ایک خاتون نے ہوائی جہاز سے محبت کرلی ہے، انھوں نے یہ سوچا ہوگا کہ چکنی چپڑی باتوں سے آسمان پر چڑھادینے والوں سے بہتر ہے اس سے پیار کیا جائے جو حقیقتاً محو پرواز کرسکے۔

یہ خاتون ہیں جرمنی کے شہر برلن سے تعلق رکھنے والی Michele Kobke۔ مِچل کا کہنا ہے کہ انھوں نے پانچ سال قبل بوئنگ 737-800 کو دیکھا، جسے دیکھ کر مِچل کا دل مَچل گیا اور انھیں اس سے پہلی ہی نظر میں پیار ہوگیا۔ انھوں نے اس طیارے کو اپنا بوائے فرینڈ قرار دے دیا ہے اور وہ ہر رات اپنے ’’محبوب‘‘ کے چھوٹے سے ماڈل کے ساتھ سوتی ہیں۔ وہ اس جہاز سے شادی کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔

مچل صاحبہ جب بھی اپنے محبوب کو فضا میں پرواز کرتے دیکھتی ہوں گی، بشیربدر کا یہ شعر ان کی زبان پر آجاتا ہوگا:

اُتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے

تمھیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے

کبھی سوزِدل ان کی زبان پر قتیل شفائی کا یہ شعر لے آتا ہوگا:

آخری ہچکی ’’تِری سیٹوں‘‘ پہ آئے

موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں

لالہ مادھو رام جوہر کا یہ شعر تو ذرا سی ترمیم کے ساتھ ان کے حسب حال ہے، جو محبوب کی بے پروائی پر جلے دل کے ساتھ وہ اکثر پڑھتی ہوں گی:

اِس نے پِھر کر بھی نہ دیکھا، میں اسے دیکھا کیا

دے دیا دل ’’ایک اُڑتے‘‘ کو، یہ میں نے کیا کیا

اگر خود مچل صاحبہ شاعری شروع کردیں تو محبوب کے بارے میں ان کے شعر کمال کے ہوں گے۔ اردو شاعروں نے تو محبوب کی زلفوں کے اُڑنے کو شعروں میں باندھا ہے، ان محترمہ کے شعروں میں پورے کا پورا محبوب اُڑتا دکھائی دے گا۔ وہ کچھ مشہور شعروں میں ردوبدل کرکے اس طرح کے شعر کہیں گی:

اک تجھ کو دیکھنے کے لیے بزم میں مجھے

اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

(فنا نظامی کانپوری)

اک تجھ پہ بیٹھنے کے لیے مجھ کو، بزم میں

اوروں کے ساتھ مصلحتاً بیٹھنا پڑا

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں

(فراق گورکھپوری)

تم ہو محبوب بھی سواری بھی

تم پہ بیٹھوں کہ تم سے بات کروں

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے

جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

(شیخ ابراہیم ذوق)

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے

آتا ہے بھرا، وہ کبھی تنہا نہیں آتا

اُس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت

ترِک محبت کرنے والو تم تنہا رہ جاؤ گے

(احمد فراز)

اُس کا کیا ہے تم نہ سہی تو بیٹھنے والے اور بہت

ترکِ فلائٹ کرنے والو تم تنہا رہ جاؤ گے

بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر

چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں

(احمد فراز)

بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر

چلو جہاز ایئرپورٹ چل کے دیکھتے ہیں

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

(پروین شاکر)

وہ کبھی بھی اُڑا اُترا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مِرے ہرجائی کی

سُنا ہے کانوں کے کچے بہت ہو تم سو ہم

تمھارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

(امجد اسلام امجد)

سُنا ہے کانوں کے کچے بہت ہو تم سو ہم

ہوائی اڈے پہ سب سے بنا کے رکھتے ہیں

مچل بی بی محبت تک رہتیں تو ٹھیک تھا، مگر وہ اپنے محبوب طیارے سے شادی کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہ اپنے محبوب کے ماڈل ہی کو دلہا بنانے پر اکتفا کریں گے، یا اصل جہاز کی زوجہ بننے کی خواہش مند ہیں، اگر ایسا ہے تو اتنا ’’وسیع وعریض‘‘ شوہر رکھیں گی کہاں؟ ہماری دعا ہے کہ ان کی آرزو پوری ہو، لیکن ہمیں پتا ہے کہ محبوب جب شوہر بنے گا تو مچل بی بی کی فضا میں پرواز کرتی محبت زمین پر لینڈ کرجائے گی، جس کے ساتھ ہر خوبی بھی آسمان سے اٹھا کر زمین پر دے ماری جائے گی۔ پھر ہوگا یہ کہ جب بوئنگ میاں لینڈ کریں گے تو بیگم صاحبہ چھوٹتے ہی طعنہ دیں گی۔۔۔۔’’سُنیے! آپ اتنے عرصے سے اُڑ رہے ہیں مگر اب تک اُڑنا نہ آیا، ٹیڑھے ٹیڑھے اُڑ رہے تھے۔‘‘

 

The post تم محبت بھی ہو سواری بھی appeared first on ایکسپریس اردو.


’’غریب کرکٹروں‘‘ کے مسائل حل ہونے کو ہیں

$
0
0

وزیراعظم عمران خان سمیت اڑتالیس قومی کرکٹ ٹیم کے سابق اڑتالیس کھلاڑیوں کو مبارک ہو کہ ان کی پینشن میں اضافے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

یہ خوش خبری لیے خبر بتاتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سمیت سابق 48 کرکٹرز کی پنشن میں 20 فی صد تک اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ نے بڑھتی ہوئی منہگائی اور کافی عرصے سے پنشن میں اضافہ نہ کیے جانے کے سبب سابق کرکٹرز کی پنشن بڑھانے کی ٹھانی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے کزن ماجد خان کی پنشن میں بھی اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد انہیں ماہانہ 48ہزار روپے موصول ہوں گے جب کہ اعجاز بٹ اور شفقت رانا کو ماہانہ 42ہزار روپے ملیں گے۔ پی سی بی نے سابق 48 ٹیسٹ کرکٹرز کے لیے تقریباً 20لاکھ روپے کی رقم مختص کی ہے اور اس اعتبار سے ایک سابق کرکٹر کو اوسطاً کم و بیش 40 ہزار روپے ملیں گے۔

پینشن سے فائدہ اُٹھانے والے کرکٹروں کو پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی کا احسان ماننا چاہیے جنھوں نے گرانی میں کرکٹروں کی مالی پریشانی کا خیال کیا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد تبدیلی لانے کے وعدوں کا آغاز جن اقدامات سے کیا ان میں مانی صاحب کی تقرری بھی تھی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ احسان صاحب نے یہ فیصلہ خان صاحب کا احسان مانتے ہوئے کیا ہے اس لیے اب انھیں احسان مانی کی جگہ احسان مانا کہا جائے۔ بھلا اتنا بڑا احسان صرف اڑتالیس ہزار روپے بہ طور پینشن دے کر کیسے اُتارا جاسکتا ہے؟

خان صاحب کوئی ’’گُل خان‘‘ یا ’’اللہ دِتا نیازی‘‘ جیسے کچے گھر میں رہنے والے عام آدمی تو ہیں نہیں کہ جنھیں ماہانہ اڑتالیس ہزار ملنے لگیں تو ان کے ہزار مسئلے حل ہوجائیں۔ بنی گالہ کے تین سو کینال اور پانچ مرلے پر پھیلے عمران خان کے ’’غریب خانے‘‘ میں تو مچھر مار اسپرے اور چوہا مار دوا چھڑکنے کے لیے بھی یہ رقم ناکافی ہوگی۔ بہ ہر حال یہ رقم اتنی تو ہے کہ وہ اپنی مشہورِزمانہ سوراخ والی قمیص درزی سے رفو کرالیں۔

جہاں تک باقی سابق ٹیسٹ کرکٹرز کا تعلق ہے خان صاحب کی طرح پینشن اور اس میں اضافہ ان کے لیے بھی ناگزیر تھا۔ ہم یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہے ہیں کہ اس منہگائی میں بے چارے کرکٹرز کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا۔ ریٹائرمینٹ کے بعد تو بوکیز بھی انھیں بے فیض سمجھ کر فیض یاب ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ لے دے کے یہی رہ جاتا ہے کہ انگریزی اچھی ہے تو کمنٹری کرلو، ورنہ اشتہارات سے اخراجات پورے کرو، کرکٹ اکیڈمی بناکر بچوں کو میچ ہارنے کے طریقے سکھاؤ، یہ بھی نہ ہو تو بیٹے کے بیاہ کے لیے کسی ’’بھائی‘‘ کی بیٹی ڈھونڈو۔۔۔۔کیا کریں بھئی۔۔۔روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔

ان حالات میں پی سی بی کی پینشن سابق کرکٹروں کی کسی قدر اشک شوئی ضرور کرے گی، جب وہ کمنٹری کرکے، اشتہارات میں جلوہ افروز ہوکر اور اپنی کرکٹ اکیڈمی میں تربیت دے کر گھر واپس آئیں گے اور چارپائی پر بیٹھ کر کھانا مانگیں گے، تو ہفتے میں ایک دو بار تو انھیں پلیٹ میں گائے اور مرغی کا گوشت میسر آہی جائے گا، ساتھ زیادہ دودھ کی چائے بھی مل جائے گی، بچوں کی فیس ادا کرنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا، مکان کا کرایہ بھی وقت پر ادا کر پائیں گے، اور کچھ پیسے بچ گئے تو کمیٹی ڈال کر بچی کے جہیز اور بچے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کچھ پیسے جمع ہوجائیں گے۔ پھر پینشن یافتہ کرکٹر آنکھوں میں تشکر کے آنسو لیے احسان مانی صاحب کی شان میں یک زبان ہوکر گائیں گے۔۔۔ترا احسان ہے ترا احسان۔

The post ’’غریب کرکٹروں‘‘ کے مسائل حل ہونے کو ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل

نہ گرے کہیں نہ ہرے ہوئے کئی سال سے

یونہی خشک پات جڑے رہے تری ڈال سے

کوئی لمس تھا جو سراپا آنکھ بنا رہا

کوئی پھول جھانکتا رہ گیا کسی شال سے

تری کائنات سے کچھ زیادہ طلب نہیں

فقط ایک موتی ہی موتیوں بھرے تھال سے

تُو وہ ساحرہ کہ طلسم تیرا عروج پر

میں وہ آگ ہوں جو بجھے گی تیرے زوال سے

ترے موسموں کے تغیّرات عجیب ہیں

میں قبا بنانے لگا ہوں پیڑ کی چھال سے

(پارس مزاری، بہاولپور)

غزل

بے مہر مقدر کا ستارہ نہیں ہوتا

ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ہوتا

پلکوں پہ  سجا رکھنا غمِ یار کے موتی

ویران سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا

پیارا تو ہمیں ہوتا ہے ہر دوست ہمارا

ہر دوست مگر جان سے پیارا نہیں ہوتا

کھو جاتے ہیں اشکوں کی روانی میں یوں منظر

دیدوں سے پلک تک بھی نظارا نہیں ہوتا

اے حسن! تغافل سے بھی کچھ کام لیا کر

اب مہر و مروت سے گزارا نہیں ہوتا

لگ جاتی نظر تجھ کو زمانے کی اے سدرہؔ

ماں نے ترا صدقہ جو اتارا نہیں ہوتا

(سدرہ ایاز، کراچی)

غزل

لا کر سجا دیے  ہیں سبھی غم دکان پر

ڈالے ہیں بوجھ اس طرح اک نو جوان پر

اس فاختہ کا دکھ میں بتاؤں تو کیا بھلا

آنکھیں ہیں جس کی آنکھیں ارے اک کمان پر

شاہین چُھو کے آتا ہے جب آسمان کو

آتا ہے رشک مجھ کو بھی ایسی اڑان پر

ہجر و فراق میرے مقدر میں کر کے تم

ڈھاتے ہو ظلم ننھی  سی ہاں ننھی جان پر

کیسے بیان دیں گے مرے حق میں چند لوگ

چھالے پڑے ہوئے ہیں سبھی کی زبان پر

وہ عہد اس نے توڑ دیا  پل میں ہی سحرؔ

پیوست جس کی میخیں تھی دل اور جان پر

(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)

غزل

مری آنکھوں کو جاناں خون کے آنسو رلاتا ہے

وہ تیرا روٹھ جانا جب بھی مجھ کو یاد آتا ہے

نہیں وہ دیکھتا تک بھی مجھے جب سامنے ہو تو

محبت بھی اسے مجھ سے ہے وہ لیکن چھپاتا ہے

مری سانسیں یہ بے ترتیب سی پھر ہونے لگتی ہیں

زبانِ غیر پر جب بھی تمھارا ذکر آتا ہے

اسے تسکین ملتی ہے مرے دل کو دکھانے سے

وہ آنسو دیکھ کر آنکھوں میں میری مسکراتا ہے

جسے  صورت گوارا بھی نہیں تھی دیکھنا میری

اسدؔ کیوں آج میت پر مری آنسو بہاتا ہے

(زین اسد ساغر، شیخو پورہ)

غزل

ہوتا ہی نہیں دل کا یہ آزار مکمل

میں ہو گئی ہوں آپ سے بیزار مکمل

یہ عشق کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا

کر دیتا ہے انسان کو مسمار مکمل

پہلے تو بہانے سے مجھے ٹالتا تھا وہ

اور آج کیا میں نے بھی انکار مکمل

مشروب مجھے لاکھ بھلے اور پلا دو

بن چائے کے ہوتی نہیں افطار مکمل

یہ زندگی بھی ایک عجب مسئلہ ہے دوست

چلتے رہو پھر بھی نہ ہو رفتار مکمل

محسوس یہ ہوتا ہے تری آنکھوں سے اقراء

تو خواب سے ہو پائی نہ بیدار مکمل

(اقرا عافیہ ٹانک، پاکستان)

غزل

کاغذ کب تک دھیان میں رکھا جائے گا

آخر کوڑے دان میں رکھا جائے گا

آنکھوں کی اس بار رہائی ممکن ہے

خوابوں کو زندان میں رکھا جائے گا

سب کو دل کے کمرے تک کب لائیں گے

کچھ لوگوں کو لان میں رکھا جائے گا

جس کو چاہے ہونٹ اٹھا کر لے جائیں

لفظوں کو میدان میں رکھا جائے گا

باتوں سے جب پیٹ کا کمرا بھر جائے

تو پھر ان کو کان میں رکھا جائے گا

ہم کب قبر کی مٹی کے ہاتھ آئیں گے

ہم کو تو دیوان میں رکھا جائے گا

(عزم الحسنین عزمی، ڈوڈے، گجرات)

غزل

مسلسل  آہ  اور  زاری  ہوئی ہے

شبِ ہجراں بہت بھاری ہوئی ہے

رہو تم عمر بھر خوشیوں کے سائے

دعا دل سے مرے جاری ہوئی ہے

قضا نزدیک آکر کیا کرے گی؟

کسی پر زندگی واری ہوئی ہے

میں تم کو جیت لوں ممکن نہیں ہے

تمہی پر زندگی ہاری ہوئی ہے

فقط اتنا کہ میں’’ہوں‘‘ اور تم ’’تھے‘‘

کہانی یوں مری ساری ہوئی ہے

وہ جب سے کہہ گئے اچھی غزل ہے

کمال اشعار سے یاری ہوئی ہے

(مبشر آخوندی، اسکردو)

’’میں امرِتا ہوں‘‘

میرے پریتم

میں امرِتا ہوں

تمہاری چاہت میں ایسی پاگل

تمہاری سگریٹ کے سارے ٹوٹے

لبوں سے اپنے لگا کے پیتی

ہر ایک کش میں

تمہاری سانسیں

میں اپنی سانسوں میں

پی کے جیتی۔۔۔!

مگر تم ایسے کہ پوری سگریٹ

جلا کے پیتے

اسے جلاتے، اسے بجھاتے

بجھا کے پیتے

کبھی نہ سوچا کہ میری خاطر

تم ایک سگریٹ بچا کے پیتے۔۔۔۔!

میں جانتی ہوں

تم میرے شاعر نہیں تھے پریتم

میں امرِتا ہوں

مگر تم ساحر نہیں تھے پریتم

(ناہید اختر بلوچ، ڈیرہ اسماعیل خان)

غزل

ہم ہیں قصور وار دہائی نہ دے سکے

دامن  پہ ان  کے داغ دکھائی نہ دے سکے

اپنی ضرورتوں کے لیے مانگتے گئے

لینے کا وقت آیا تو پائی نہ دے سکے

شکوہ کیا ہے ساتھویں ننّی پری نے یہ

بہنیں تو آپ دیتے ہیں بھائی نہ دے سکے

مجبوریاں بھی ان کی ہماری طرح کی ہیں

بے مول  چارہ گر  بھی دوائی نہ دے سکے

صیاد اب کی بار مجھے ایسا چاہیے

جو دل میں قید کر لے رہائی نہ دے سکے

بدبخت اس سے کوئی زیادہ نہیں یہاں

جو اپنی ماں کو اپنی کمائی نہ دے سکے

حارثؔ یہ سوچ کھوکھلا کرتی ہے دم بدم

بھائی کو دیکھ حوصلہ بھائی نہ دے سکے

(حارث انعام، نوشہرہ)

غزل

چندا بولا پچھلی رات

آجا پیارے چرخہ کات

ایک خیال کا دولہا ہے

پیچھے لفظوں کی بارات

دل کا کھیل، مقابل جاں

ہنس کر میں نے کھائی مات

اک دوجے کو دیں الزام

شاید یوں بدلیں حالات!

آج ملا ایسے کوئی۔۔۔

جیسے بن بادل برسات

خوشیاں بھی یوں ملتی ہیں

جیسے نازل ہوں آفات

(صبیح الدین شعیبی، کراچی)

غزل

کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی

اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی

ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے

ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی

زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں

مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی

اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے

اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی

ان جھیلوں میں پریاں روز اترتی ہیں

آنکھوں میں تالاب نہیں ہوتے بھائی

سوچیں ہیں جو دوڑ دوڑ کے تھکتی ہیں

تھکے ہوئے اعصاب نہیں ہوتے بھائی

(مستحسن جامی، خوشاب)

غزل

آپ کی یاد نے ستایا ہے

دل گداگر سا بن کے آیا ہے

راستے بھولتے نہیں وہ مجھے

جن میں اس شوخ کو گنوایا ہے

مطمئن کر سکا نہ کوئی جواب

آپ نے کیوں مجھے بھلایا ہے

بھری دنیا میں ڈھونڈ دیکھا ہے

یہاں ہر شخص ہی پرایا ہے

دل کے بدلے میں جس کو پایا تھا

جان دے کر اسے منایا ہے

ہجر کا کیا بتاؤں میں احمدؔ

عمر بھر ہی مجھے رلایا ہے

(احمد نیازی، لاہور)

غزل

وجہ یہ بھی بچھڑنے کی بنی تھی

ہماری خاندانی دشمنی تھی

اسے چھوڑا نہیں جاتا ہے باہر

خبر یہ آخری میں نے سنی تھی

اندھیروں میں دکھاتی تھی وہ رستہ

وہ لڑکی چاندنی تھی، روشنی تھی

جب آنکھیں کھولتی تھی چوم کر لَب

ان آنکھوں کی چمک بھی دیدنی تھی

میں جس شب گھر نہیں لوٹا تھا حمزہؔ

عجب سی گاؤں میں اک سنسنی تھی

(حمزہ سواتی، مانسہرہ)

’’شہرِ دل‘‘

مگر اے دل۔۔۔

مگر اے شہرِ دل

تُو کیوں فصیلِ درد سے

باہر نہیں آتا

بتا مجھ کو

تری یہ خستہ حالی کیوں نہیں جاتی

تجھے جتنا سنواروں

تیری ویرانی نہیں جاتی

مگر اے دل۔۔۔

مگر اے شہرِ دل

(سارہ خان، راولپنڈی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

آئینہ، پُراسرار روایتوں کے آئینے میں

$
0
0

جب سے انسانی تاریخ رقم کی جانے لگی ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے عکس سے مسحور ہوتا چلا آرہا ہے اور آئینوں سے ہمیشہ ہی سے ایک عجیب قسم کی پراسراریت وابستہ رہی ہے۔

آئینے کی ایجاد سے پہلے انسان اپنا عکس دیکھنے کے لیے پانی کے تالابوں یا پانی سے بھرے ہوئے برتن کا سہارا لیتا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئینے کی ابتدائی شکل تھی۔ آج کل آئینے المونیم کے پاؤڈر سے بنتے ہیں لیکن قدیم مصری اپنے آئینے تانبے کو پالش کر کے بناتے تھے۔ تانبہ ان کی ایک دیوی’’ ہیتھور‘‘ سے منصوب تھام، جسے حسن، محبت، جنس، تولید اور جادو کی دیوی سمجھا جاتا تھا۔

لگ بھگ 6000 قبل از مسیح میں پالش کیا ہوا شیشہ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اس سے پہلے شروع شروع میں آتش فشانی پتھروں کے ٹکڑوں کو چمکا کر ان سے آئینے کا کام لیا جاتا تھا۔ ایزٹک تہذیب میں ایک قسم کے سیاہ پتھر کو چمکا کر اس سے آئینہ بنایا جاتا تھا اور ان کا عقیدہ تھا کہ اس کا تعلق ان کے ایک دیوتا ’’تیزکاٹلیپوکا‘‘ سے ہے۔ یہ دیوتا رات، وقت اور آبائی یادداشت کا دیوتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ آئینے اِس دنیا اور اْس دنیا کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔

آئینے بنانے کے لیے ایک خاص پتھر جس کا نام ’’آکسیڈین‘‘ ہے، زیادہ کارآمد تھا کیونکہ اس میں قدرتی طور پر چمک پائی جاتی ہے۔ چمکدار ’’آکسیڈین‘‘ کے یہ آئینے موجودہ ترکی کے شہر ’’اناطولیہ‘‘ سے دریافت ہوئے ہیں۔ کسی دور میں صاحبِ ثروت خاندان اپنی دولت وامارت کی نمائش کرنے کے لیے گھروں میں وینس کے بنے ہوئے بڑے بڑے آئینے نصب کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں آئینے بہت مہنگے ہوا کرتے تھے اس لیے ان سے گھر آئے مہمانوں پر امیر صاحبِ خانہ کا اچھا خاصہ رُعب پڑتا تھا۔

آئینہ صرف چہرہ دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ صدیوں سے دوسرے مختلف مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے وقت تک کیونکہ ریڈار ایجاد نہیں ہوا تھا اس لیے جنگ میں دشمن کے ہوائی جہازوں کی آمد کا ان کی آوازوں کے ذریعے پتہ چلانے کے لیے پتھروں سے بنے ’’صوتی آئینے‘‘ ریڈار کے طور پر استعمال ہوئے جو آواز کی لہروں کو منعکس کرتے تھے اور یوں یہ صوتی آئینے ریڈار کا کام سرانجام دیتے تھے۔ یہ آئینے پیالہ نما ہوتے تھے اور زمین پر عمودی انداز میں کھڑے کر دیئے جاتے۔ ان کو ’’اکوسٹک‘‘ (Acoustic) یعنی صوتی آئینے کہا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے چاند پر بھی خاص ترتیب سے آئینے نصب کیے گئے ہیں جو لیرز اور زمین پر لگی ٹیلی اسکوپس کی مدد سے زمین اور چاند کے درمیانی فاصلے کی پیمائش کے کام آتے ہیں۔ یہ فاصلہ چونکہ چاند کے زمین کے گرد بیضوی مدار کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لیے یہ انتظام ضروری تھا تاکہ اس بدلتے فاصلے کی صحیح صحیح پیمائش ریکارڈ کی جا سکے۔ قدیم چین میں آئینے چاند کی توانائی کو مقید کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے دعویٰ کیا کہ جو کوئی ان کے آئینے میں دیکھتا ہے وہ ان کے اندر کی خصوصیات جان لیتے ہیں۔ روایت کے مطابق اپنے آئینے کی اسی خصوصیت کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آئینے مادے کو بھی بالکل اس طرح منعکس کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ وہ روشنی کا انعکاس کرتے ہیں۔ یہ ’’ایٹامک مررز‘‘ (Atomic Mirrors) کہلاتے ہیں۔ یہ خاص آئینے مقناطیسی میدان کو استعمال کرتے ہوئے ’’نیوٹرل آئٹمز‘‘ (Neutral Atomis) کو منعکس جبکہ ’’سلو آئٹمز‘‘ (Slow Atomis) کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ’’ایٹامک بیم‘‘ (Atomic Beam) کو کسی ایک نقطے پر مرکوز بھی کر سکتے ہیں۔ آئینے کیونکہ روشنی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ ٹیلی سکوپس اور دیگر سائنسی آلات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

آئینوں کے کچھ ایسے عجیب و غریب اور پراسرار استعمال بھی ہوتے رہے ہیں کہ جن میں سے بعض آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ مثلاً آئینے میں اپنے عکس کو مسلسل تکنے سے فریب نظر کا ایک عجیب جادو اثر تجربہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم عمل ہے جس کو جدید سائنس تحقیق کی سان پر پرکھ رہی ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ عمل یہ ہے کہ ایک اندھیرے کمرے میں آئینے کے سامنے تقریباً 3 فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر 10 منٹ تک اپنے عکس کو گھورا جائے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ اندھیرے کے باوجود آپ اپنے عکس کو دیکھ پا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو اپنا عکس مسخ ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

چند منٹوں بعد آپ کے عکس میں ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی اور وہ ایک مومی تصویر کی صورت اختیار کر جائے گا اور آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ وہ آپ نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ہے جو آئینے میں سے آپ کو گھور رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس تجربے کے دوران آئینے میں کئی دوسرے چہرے، جانور یا عجیب الخلقت عفریت اور بھوت پریت بھی نظر آتے ہیں۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں کہ آئینے روح کا سایہ دکھاتے ہیں، یعنی اس شخص کی اصل شخصیت آئینے میں آ جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں خیال کیا جاتا تھا کہ چڑیلوں اور بھوتوں کا سایہ نہیں ہوتا۔

بچے عام طور پر دو سال کی عمر کو پہنچنے پر آئینے میں اپنے آپ کو پہچاننے لگتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر اپنی شخصیت کے بارے میں درست اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ ایسا ہرگز ضروری نہیں۔ سائنسدان اس کے لیے ایک طریقہ استعمال کرتے ہیں جسے ’’مرر مارک ٹیسٹ‘‘ (Mirror Mark Test) کہتے ہیں۔ اس میں کسی کو آئینے کے سامنے بٹھا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ شخص آئینے میں اپنے عکس کو دیکھنے کے دوران کس طرح کی حرکات و سکنات کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اس کے ردِعمل سے اس کی شخصیت و کردار کے متعلق اندازہ لگایا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوران وہ شخص اگر اپنے تاثرات کو مصنوعی طور پر بنا کر پیش کرے تو بھی اس کا یہ جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ سو اگلی بار آئینہ دیکھتے ہوئے احتیاط سے کام لیں، دیکھیں کہیں کوئی اور تو آپ کی شخصیت کا عکس نہیں دیکھ رہا ؟ اور آپ کا پول کُھل جائے۔

روایتی طور پر مشہور ہے کہ آئینہ عکس کو الٹ دیتا ہے یعنی آئینے میں نظر آنے والے عکس کی داہنی سائیڈ اصل میں آپ کی بائیں اور بائیں سائیڈ دراصل آپ کی دائیں سائیڈ ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ درحقیقت ہوتا یہ ہے کہ آئینے میں دکھائی دینے والا آپ کا عکس کیونکہ آپ کی داہنی سائیڈ کو آئینے میں داہنی طرف ہی اور بائیں سائیڈ کو بائیں طرف ہی دکھا رہا ہوتا ہے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے آئینے نے آپ کے عکس کو الٹ دیا ہے۔ یہ محض فریب نظر ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ البتہ دوسری طرف ایسے آئینے بھی دستیاب ہیں جو عکس کو الٹ سکتے ہیں۔ اگر دو عام آئینوں کو بھی نوے درجے کے زاویئے سے آپس میں جوڑ دیا جائے تو وہ آپ کے عکس کو دائیں، بائیں سائیڈز کے الٹ دکھانے لگیں گے۔

دنیا کا سب سے بڑا قدرتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے خلاء میں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’جنوب مغربی بولیویا‘‘ (South West Bolivia) میں واقع 10,582 کلومیٹرز پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا نمک کا طلسماتی میدان ’’سالارڈی یونی‘‘ (Salar De Uyuni) اس وقت ایک بڑا سا قدرتی آئینہ بن جاتا ہے، جب ہر سال اس پر پانی کی پتلی سی تہہ پھیل جاتی ہے۔

دنیا کے کچھ معاشروں میں آئینے کے بارے میں مختلف دلچسپ اور عجیب و غریب توہمات بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر آئینہ ٹوٹ جائے تو یہ بدقسمتی کی علامت ہے اور سات برس تک بدقسمتی اس گھر کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ رومیوں میں یہ روایت ہزارہا برس سے چلی آرہی ہے۔ البتہ پاکستان میں اس کے الٹ روایت ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ گھر میں آئینے کا ٹوٹنا نیک شگون ہے کیوں کہ اس طرح آپ پر نازل ہونے والی بلا آئینے کو آ گئی ہے۔مشہور یونانی دانشور سقراط نوجوانوں کو آئینہ دیکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ خوبصورت ہیں تو آئینہ دیکھ کر آپ اپنی خوبصورتی کی قدر کریں گے اور اگر آپ بدصورت ہیں تو آپ کوشش کریں گے کہ اپنے علم کے ذریعے اپنے آپ کو نکھاریں۔

ادب اور فلم کے حوالے سے بھی آئینوں کو ہمیشہ زبردست اہمیت حاصل رہی ہے۔ آئینہ نہ صرف حقیقی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے بلکہ تصوراتی دنیا کے دروازے بھی ہم پر وا کرتے ہوئے ہمیں اَن دیکھی دنیاؤں کی سیر کرواتا ہے۔ انگریزی ہارر فلم ’’دی مِرر‘‘ (The Mirror) اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ اکثر دوسرے لوگوں ہی کی طرح اداکار بھی بہت توہم پرست ہوتے ہیں۔ بہت سے اداکار سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی پرفارمنس سے پہلے آئینہ دیکھ رہے ہوں اور پیچھے سے کوئی آ کر ان کا عکس دیکھ لے تو یہ برا شگون ہے۔ آئینوں کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے اندر سارے واقعات ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ مشہور کہانی سنو وائٹ میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اصل سنو وائٹ 18ویں صدی کی ایک جرمن نواب زادی تھی جس کے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ اس کی سوتیلی ماں کو سنو وائٹ کے باپ نے تحفے میں ایک آئینہ دیا۔ یہ آئینہ باتیں بھی کرتا تھا۔ اس علاقے میں مشہور تھا کہ آئینے ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اسی سے یہ کہانی مشہور ہو گئی، جو ظاہر ہے کہ کہانی ہی ہے لیکن اصل آئینہ آج بھی جرمنی کے ایک میوزیم میں موجود ہے۔

اردو زبان میں بھی دیگر زبانوں کی طرح آئینے کو محاوروں میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے ’’آئینہ دکھانا‘‘ وغیرہ۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ اُونچی اُونچی عمارتوں میں لگی لفٹس میں آئینہ کیوں نصب ہوتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں دن بہ دن عمارتوں کی بلندی میں اضافے کے ساتھ کیونکہ سیڑھیوں کا استعمال مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا تھا اور عام لوگ تو رہے ایک طرف، بیمار، معذور اور ضعیف افراد تو خاص طور پر چند منزلوں سے زیادہ اوپر نہیں جا سکتے۔ ایسے میں لفٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ انسانی زندگی کو آسان بنانے والی مفید ایجادات میں لفٹ بھی شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے بہت سے تجربات کیے جاتے رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت لفٹ میں آئینے بھی نصب کیے گئے لیکن یاد رہے کہ یہ آئینے محض میک اپ چیک کرنے کے لیے نہیں لگائے جاتے بلکہ اس تنصیب کی کہانی کچھ اور ہے۔ یہاں وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر لفٹ میں آئینے کیوں لگائے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے کیا راز چھپا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ شروع شروع میں لفٹس میں آئینے نہیں لگائے جاتے تھے۔ ایسے میں لفٹ یں سوار افراد یا تو خلاء میں تکتے رہتے یا بے حس و حرکت کھڑے رہتے اور کیونکہ ان کو وہاں کرنے کا کوئی کام نہیں ہوتا تھا تو ان کے ذہن میں لفٹ گرنے جیسے طرح طرح کے پریشان کن خیالات آتے رہتے، جس سے وہ خوف محسوس کرنے لگتے۔ اسی ڈر و خوف پر قابو پانے کے لیے لفٹ میں آئینہ لگایا جانے لگا۔ اس سے یہ ہوا کہ لفٹ میں سوار افراد بجائے اِدھر اُدھر کے فضول خیالات سوچنے کے، آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے میں مگن ہو جاتے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لفٹ میں سوار لوگ ایک چھوٹے سے ڈبے نما کمرے میں خود کو محصور محسوس کرتے تھے۔ آئینے کی وجہ سے لفٹ کی وسعت زیادہ لگنے کے باعث لوگ اس ذہنی الجھن سے بھی نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آئینے کی یہ حیثیت بھی ہمارے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔

آئینے کی ایجاد کے بعد سے اس نے انسان کو اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا کہ اس کے بارے میں طرح طرح کی روایات نے جنم لے کر اسے پراسراریت کے لبادے اڑا دیئے۔ قدیم یونان میں تیسری صدی قبل مسیح کے دوران ’’تھیسالی‘‘ میں جادوگرنیاں خون سے لتھڑے ہوئے آئینوں کی مدد سے لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتایا کرتی تھیں۔ اسی طرح روم میں بھی آئینوں کے ذریعے ماضی کے بارے میں بتایا جاتا تھا اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کی جاتی تھیں۔ اب بھی کئی لوک کہانیوں میں آئینے کے ایسے ہی استعمال کا ذکر مل جاتا ہے۔ چند لوگوں کا ماننا ہے کہ آئینے کے سامنے سونے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے نزدیک ماحول میں موجود توانائی کا اس معاملے سے گہرا تعلق ہے۔

قدیم چینی نظریئے ’’فنگ شو اے‘‘ جو خلاؤں یں موجود مختلف دنیاؤں کے مابین استوار مادی توانائیوں کی ہم آہنگی پر مبنی ہے، میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ توانائیاں اگر منظم ہوں تو ہماری زندگیوں میں بہتری اور ترقی لاتی ہیں۔ ’’فنگ شو اے‘‘ کے بقول آئینے دو رخی آلات کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے کہ ہم انہیں اپنے کمروں میں کہاں اور کس جگہ نصب کر رہے ہیں۔ اس بات کا تو خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ ایسی جگہ پر نا لگے ہوں جہاں سے ہمارے سونے کی جگہ کا عکس ان میں نظر آئے کیونکہ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسی صورت میں ساری رات ماحول میں موجود توانائی ہمارے جسم اور آئینے کے درمیان ٹکرا ٹکرا کر بیچ میں ہی چکراتی رہے گی اور ہم آرام دہ اور پرسکون نیند سے محروم رہیں گے اور یوں ہمارا اگلا دن خراب گزرے گا۔ اس لیے وہ یہ تجویز کرتا ہے کہ اگر آئینہ ایسی جگہ لگا بھی ہو تو رات کو اسے کسی کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ دینا چاہیے۔

آئینے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں فوت ہو جائے تو اس گھر کے آئینے کسی کپڑے وغیرہ سے اس وقت تک کے لیے ڈھانپ دینے چاہئیں جب تک کہ اس شخص کی میت تدفین کے لیے نا لے جائی جا ئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جائے؟ گو اس روایت کی بنیاد ابھی نامعلوم ہی ہے، تاہم اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ یہودیوں کے مذہب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اگر اس موقع پر آئینوں کو نہ ڈھانپا جائے تو مرنے والے شخص کی روح ان میں قید ہو جاتی ہے اور دوسری دنیا کے سفر پر روانہ نہیں ہو پاتی۔ یہ روایت رومنوں نے شروع کی تھی جو سمجھتے تھے کہ انسانی روح آئینوں میں قید ہو کر رہ جاتی ہے اور اسے اگلے جہان تک جانے کا موقع نصیب نہیں ہوتا۔

کچھ لوگ مرے ہوئے افراد کی ارواح کو حاضر کرنے کے لیے ’’اویجا‘‘ (Ouija) نامی ایک کھیل یا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں چند لوگ ایک لکڑی کی تختی کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی انگلیاں اس تختی پر رکھے ایک اور لکڑی کے ٹکڑے پر رکھ دیتے ہیں، جس کے درمیان میں شیشے کا ایک ٹکڑا لگا ہوتا ہے۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ عالم ارواح سے روحیں اس شیشے کے ذریعے اس دنیا میں آجاتی ہیں اور یوں ان سے رابطہ ہو سکتا ہے۔ اس تختی پر مختلف حروف اور ہندسے لکھے ہوتے ہیں اور اس کو ’’موت کی تختی‘‘ (Board of Death) کہتے ہیں۔ روحیں تختی پر دھرے شیشہ لگے لکڑی کے ٹکڑے میں سے ہماری دنیا میں آکر کمرے میں لگے آئینے میں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہیں۔

آئینے کے سامنے عبادت کرنا بھی کچھ لوگوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب میں آئینے کے سامنے عبادت کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے انسان خود اپنے عکس کی پرستش کر رہا ہو۔

انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد سے آئینوں کے عنوان کے حوالے سے بہت سی گیمز انٹرنیٹ پر کھیلی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک گیم میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اندھیرے میں نو بار ایک مخصوص لفظ دہرانا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شیطان آپ کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اور اگر آپ بھاگنے کی کوشش کریں تو شیطان آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ سارا منظر انٹرنیٹ پر موجود اس گیم میں حصہ لینے والے دوسرے کھلاڑی براہء راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگوں نے اس گیم کو احمقانہ تصور کرتے ہوئے تفریحاً اس کو کھیلا لیکن وہ شیطان کے جال میں پھنس کر مصائب و آلام کا شکار ہو گئے۔ اس بات کے دستاویز ثبوت بھی موجود ہیں کہ کئی افراد اس چکر میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا دماغی توازن خراب ہو جانے پر پاگل ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کے بداثرات ان کے خاندانوں پر بھی پڑے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس طرح کی گیمز سے اجتناب کیا جائے، چاہے آپ ان کو احمقانہ تصور کریں یا ایڈونچر کے شوقین ہی کیوں نا ہوں کیونکہ مذاق مذاق میں بھی اپنی زندگیوں سے کھلواڑ کرنا بہرحال کوئی عقل مندانہ کام نہیں۔

zeeshan.baig@express.com.pk

The post آئینہ، پُراسرار روایتوں کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کے رویّے میں مثبت تبدیلی ممکن ہے!

$
0
0

’’میرا بچہ ہر وقت ناخوش رہتا ہے۔‘‘

’’اس میں اعتماد کی کمی ہے۔‘‘

’’یہ اکثر اداس اور غمگین نظر آتا ہے‘‘

’’بھائی بہنوں سے اس کی بالکل نہیں بنتی، یہ آپس میں لڑتے ہیں۔‘‘

’’ اساتذہ کہتے ہیں یہ پڑھ نہیں سکتا۔‘‘

’’میرابچہ موبائل کو تو چھوڑتا ہی نہیں۔ ہر وقت گیم کھیلتا رہتا ہے۔‘‘

’’بچے جھوٹ بہت بولتے ہیں۔‘‘

اکثر ماؤں کو اپنے بچوں سے یہ شکایات ہوتی ہیں۔ عموماً والدین بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ یا سختی کرکے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماؤں کا ایک ہی شکوہ ہوتا ہے کہ آج کل کے بچے کسی کی نہیں سنتے۔ ایسی تمام ماؤں کی پریشانی دور کرنے میں یہ تحریر کسی حد تک ضرور مدد دے سکتی ہے۔ ذیل میں درج نکات پر عمل کریں تو  آپ بچے میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔

٭ بچہ چڑچڑا ہے اور پُر اعتماد بھی نہیں:

جب والدین یہ محسوس کریں کہ ان کا بچہ چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے اور آپ سمجھیں کہ اس میں اعتماد کی کمی ہے جس کے باعث وہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہو تقریبات وہ ہمیشہ پیچھے رہتا ہے اور لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے تو والدین کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بچہ جب گفتگو کرے تو غور سے سنیں۔ عموماً مائیں کام میں مصروف رہتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ میں نے بچے کی بات سن لی ہے، لیکن حساس بچے اس رویے سے بے حد دکھی ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ماں نے اہمیت نہیں دی اور یہ بات ان کو افسردہ کردیتی ہے۔ بچوں کی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات کو دھیان سے سنیں۔ کیوں کہ آج اگر آپ اس کی چھوٹی سی بات کو نہیں سنیں گے تو کل وہ اپنی زندگی کے بڑے معاملات بھی شاید آپ کو نہ بتائے۔ لہٰذا بچوں کو اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنے دیں اور ان کو اہمیت دیں۔ ہر مثبت عمل پر ان کو سراہیں۔

بچوں کو ہر وقت پڑھائی یا امتحان کا کہہ کر بیزاری میں مبتلا نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے بھاری بوجھ سمجھنے لگیں اور پڑھنا ان کے لیے عذاب بن جائے۔ کھیل کود کا موقع دیں اور اس دوران پڑھائی کی بات نہ کریں۔ کچھ وقت فارغ بھی رہنے دیں۔ چاہے وہ کھیلیں یا اپنے کسی پسندیدہ مشغلے میں وقت صرف کریں۔ روک ٹوک نہ کریں۔ ان پر نظر رکھیں مگر ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ بچے کو محسوس ہو کہ اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اسے آزادانہ اپنا وقت گزارنے دیں۔ اس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ کھانا ساتھ مل کر کھائیں۔ بچے سے دن بھر کی روداد سنیں۔ بچوں سے ہمیشہ مسکراتے ہوئے گفتگو کریں۔ خوش گوار ماحول بچوں کی شخصیت کو پُراعتماد اور انھیں خوش مزاج بناتا ہے۔

٭ اگر بچہ اداس یا غمگین رہتا ہے:

اس صورت حال میں سب سے پہلے اس رویے کے پیچھے جو وجہ ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ خدانخواستہ والدین، خاندان یا کسی عزیز دوست کی موت ہوجائے یا کوئی دوسرا جذباتی صدمہ پہنچے تو بچے ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ پالتو جانور یا پرندے کی موت بھی بسا اوقات بچوں کو کئی دن غمگین رکھتی ہے۔ بچوں کو اس کیفیت سے نکالنا ازحد ضروری ہے کیوں کہ بچے اپنے جذبات اور کیفیات کا اظہار نہیں کرپاتے۔ البتہ ان کی شخصیت میں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثلاً بھول جانا، دماغ حاضر نہ ہونا، توجہ مرکوز نہ کر پانا، بستر گیلا کر دینا وغیرہ۔ تین سے چھے سال کی عمر کے بچوں میں یہ علامات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔

کچھ بچے بات بات پر شدید غصہ اور لڑائی جھگڑا کرنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں ان سے گفتگو بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہم ان سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ محبت کا احساس شخصیت میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے اور غم کے احساس کو مندمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بچوں کو کہانیاں سنانا اور آرٹ میں مشغول رکھنا بھی سود مند ثابت ہوتا ہے۔ بسا اوقات والدین یا کسی قریبی عزیز کی موت کے بعد کوشش کی جاتی ہے کہ بچے کو نہیں بتایا جائے، لیکن حقیقت بہرحال ان کے سامنے آجاتی ہے۔ اس ضمن میں پیار سے نرمی سے شفقت بھرے لہجے میں ان کو آگاہ کرنا بہتر ہے۔ خصوصاً سات سال سے بڑے بچے صورت حال کو سمجھ لیتے ہیں۔

اداس یا خوف زدہ بچے اکثر پیٹ درد کی شکایت کرتے ہیں۔ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کو اس کیفیت سے نجات دلانے کے لیے ایسی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے جو کھیل کود کے ساتھ ذہنی آزمائش اور دل چسپی کا باعث ہوں۔ انھیں ڈرائنگ وغیرہ میں مصروف رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم پیٹ درد کی کوئی طبی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ بچے لڑکپن یا نوجوانی کے دور میں بھی احساسات کے اظہار سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان کو کم زور نہ سمجھا جائے۔ اس ضمن میں ان کو گفتگو کرنے کے لیے آمادہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ احساسات و جذبات کو بیان کرنے سے وہ خود زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو مذہبی تعلیمات اور عبادت کے ساتھ ساتھ یوگا اور ورزش وغیرہ کے ذریعے پرسکون رکھنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔

٭اگر بچے آپس میں لڑتے ہیں:

بچوں کا بہن بھائیوں سے لڑنا جھگڑنا والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کو جب یہ محسوس ہو کہ دوسرے بھائی بہن کی موجودگی میں اس کو والدین کی بھرپور توجہ نہیں مل رہی یا اکلوتے بچے کے لیے بھائی یا بہن کا خاندان میں اضافہ بھی حسد کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ فی زمانہ کھیل کود کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے۔ ورزش یا کھیل کود کرنے والے بچے عموماً پرسکون و مطمئن رہتے ہیں جب کہ جن بچوں کو کھیل کود کے مواقع میسر نہیں ہوتے وہ آپس میں بھائی بہنوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے بچوں کو کھیلنے کا مواقع فراہم کیا جائے اور بچوں کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔ دوسرے بچے کو کسی بچے پر سبقت نہ دیں بلکہ تمام بچوں کو یکساں اہمیت دیں۔

ہر بچے میں موجود خاص ٹیلنٹ اور اس کی کام یابیوں کو سراہیں۔ غصہ کرنے والے بچے سے اس کے غصے کی وجہ پوچھیں اور ان کو سکھائیں کہ غصے کو کس طرح قابو کیا جائے۔ اسی طرح بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ یا شرارتوں پر ان پر برسنے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں اور انھیں سمجھائیں۔ بڑے بچے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اس کو چھوٹے بہن بھائیوں کا ٹیچر یا کسی بھی کام کی صورت میں اس کو انچارج بنا دیں۔ اس طرح وہ خود کو اہم سمجھے گا۔ ساتھ ہی ساتھ والدین کو چاہیے کہ تمام بچوں کے درمیان محبت اور توجہ میں برابری رکھیں کیوں کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں۔ اگر والدین یا اہل خانہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوں تب بھی بچے اس کا بے حد اثر قبول کرتے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں۔

 ٭اگر بچہ پڑھائی میں کم زور ہے:

بچے کی شخصیت ہی نہیں اس کی صلاحیتوں پر بھی والدین کو بھروسا ہونا چاہیے۔ البرٹ آئن اسٹائن کی والدہ کو ان کے استاد کی طرف سے خط ملا تھا کہ وہ پڑھ نہیں سکتا۔ مگر والدہ نے خود پڑھانا شروع کیا اور بچے پر کبھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ خط میں کیا لکھا تھا۔ یہ بچے کی صلاحیتوں پر ایک ماں کا بھروسا تھا۔ جس نے ایک بچے کو البرٹ آئن اسٹائن بنادیا۔ لہٰذا محبت، توجہ اور محنت سے ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

٭ اگر بچہ ہر وقت موبائل پر گیم کھیلنا چاہتا ہے:

اکثر والدین کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ بچے ہر وقت گیم کھیلنا چاہتے ہیں ۔ اس عادت کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچے کزنز، بھائی بہنوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلیں یا والدین بچے کے ساتھ کھیلیں۔ وقت دیں، کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن سے لے کر لوڈو، کیرم تک بے شمار کھیل کھیلے جاسکتے ہیں۔ سب سے بہترین یہ ہے کہ بچے کو پارک لے جائیں۔ صبح سے شام کے دوران کسی بھی وقت بچے کو سبزے کے حسین نظارے سے لطف اندوز ہونے دیں۔ اسکرین کے وقت کو کم کرنے یعنی موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کے استعمال کو کم کرنے کی یہ بہترین تھراپی ہے۔

٭اگر بچے جھوٹ بولتے ہیں:

بچوں کے جھوٹ بولنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بسا اوقات سزا کا خوف، کبھی اپنی برتری قائم رکھنا۔ کبھی اپنی کوئی غلطی چھپانا ہو یا والدین کو جھوٹ اور غلط بیانی کرتا دیکھ کر بچے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ تاہم وجہ کوئی بھی ہو یہ عادت ختم کروانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ بچے کے سامنے ہمیشہ سچ بولیں۔ بچے سے کوئی ایسا وعدہ نہ کریں جو پورا نہ کرسکیں ورنہ وہ سمجھے گا کہ جھوٹ بولا گیا تھا اور سب سے اہم یہ ہے کہ بچے کو ہمیشہ ایسا اعتماد دیں کہ وہ والدین سے کبھی جھوٹ نہ بولے۔ کبھی کچھ نہ چھپائے۔ اس کو یہ یقین ہو کہ سچ بولنے کی صورت میں ہی وہ کام یاب ہو سکتا ہے۔

The post بچوں کے رویّے میں مثبت تبدیلی ممکن ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

اپنا احتساب کیجیے!

$
0
0

ہر انسان ستائش اور اپنی تعریف پسند کرتا ہے اور یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ تاہم مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ ستائش پسند اور جذباتی ہوتی ہیں۔

وہ چاہتی ہیں کہ جس میدان میں قدم رکھیں، ترقی اور کام یابی ان کے قدم چومے۔ کسی محفل میں جائیں تو مرکزِ نگاہ ٹھیریں۔ ان کے کاموں کو سراہا جائے۔ اسی لیے آج کل کی خواتین میرے کپڑے، میرے جوتے، میرا ہیئر کٹ، میرا لائف سٹائل اور میری مصروفیات وغیرہ کا اظہار کر کے دوسروں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کچھ الگ ہیں۔

تاہم یہ صحیح طرز عمل نہیں، بلکہ بعض اوقات ہمارا یہ عمل سامنے والے اور بہت سے لوگوں کے لیے باعث اذیت بن جاتا ہے، لیکن ہم اپنی انا کی تسکین اور خوشی کے لیے اپنے کسی طرزِ عمل اور رویے کی وجہ سے دوسروں کو ہونے والی اذیت کو محسوس نہیں کرتے، بلکہ خود پسندی کے زعم میں مزید آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

حالاں کہ اصل عملی زندگی میں انسان کو اپنے منفی اور مثبت دونوں رجحانات کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ جو لوگ خود اپنا احتساب کرتے ہیں تو  لوگ بھی خود ان کی مثال دیتے ہیں۔ اور خوشی کا باعث تو یہی بات ہوتی ہے کہ آپ اپنی مثال خود نہ دیں بلکہ لوگ آپ کو بہ طور مثال دوسروں کے سامنے پیش کریں۔ اصل کام یابی تو یہی ہے ورنہ خودپسندی کی عادت عموما جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یونان کے ایک مصور نے تصویر بنائی جس میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لگا دیا۔ جو بھی تصویر دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔ مصور نے اپنی تعریف پر تکبر کرنے کے بجائے تصویر میں اپنی غلطی ڈھونڈنا شروع کر دی اور کہا اس کا مطلب ہے کہ میری تصویر میں کچھ خامی رہ گئی ہے، ورنہ چڑیاں آدمی کو بھی اصل ہی سمجھتیں، اور اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔ مصور نے تصویر اتاری اور پہلے سے بہتر تصویر بنائی۔

اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا ،انگور کا خوشہ اس مہارت سے بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں مگر اب چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، وہ آدمی کے ڈر سے تصویر سے دور رہتیں۔ یعنی زندگی میں اپنی تعریف اور ستائش پر خود پسندی کا شکار ہونے کے بجائے اپنے کاموں اور اعمال کا جائزہ لیتے رہنا بہتر ہے۔ یہی مشاہدہ اور خود احتسابی ہمیں ترقی کی معراج پر پہنچا دیتی ہے، اور دوسرے ہماری مثال دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

خواتین زیادہ تر گھر میں وقت گزارتی ہیں جہاں رشتے ناتوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں اپنی رشتے دار عورتوں سے آگے بڑھنے اور ان پر اپنی برتری قائم رکھنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً اپنے کپڑے، ہیئر اسٹائل، جوتوں، پرس وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہیں، اور جب کسی تقریب میں خوب سج کر پہنچتی ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیں اور اس کے لیے وہ خود اپنی زندگی اور اپنی ذات سے متعلق گفتگو کیے جاتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ سب ان کی تعریف کریں جب کہ سادگی میں بھی ایک حسن ہوتا ہے اور ایک کم قیمت لباس بھی قرینے سے پہنا جائے تو نمایاں ہوجاتا ہے، مگر آج کل برانڈ کا جنون اور برتری کی خواہش کے بطن سے جس خود پسندی نے جنم لیا ہے، وہ ہماری شخصیت کو مسخ کر رہی ہے۔

اسی طرح کچھ خواتین کو ذاتیات کے ساتھ ساتھ اپنے ڈرائنگ روم اور کچن کو ڈیکوریٹ کرنے کا بھی انتہا درجہ کا شوق ہوتا ہے۔ وہ اس شوق میں اپنے خاندان خصوصا اپنے شوہر کے لیے مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس شوق کی خاطر وہ اپنا بجٹ بھی مدنظر نہیں رکھتیں۔ پھر وہ اپنے گھر کی دعوتوں میں اپنے ذوق اور شوق کو بیان کرتی ہیں جس سے انہیں وقتی خوشی اور اطمینان تو ضرور مل جاتا ہے لیکن یہ عادت ان کی آئندہ زندگی اور بجٹ پر برا اثر ڈالتی ہے۔

اگر آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ خود پسندی کی عادت کا شکار ہیں اور اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو اس حوالے سے کوشش کی جاسکتی ہے۔ جیسے ہم نے اوپر مصور کے قصے سے سیکھا کہ انسان جتنی بار بھی اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی ذات اور کام میں بہتری آجاتی ہے۔ ماضی کی خرابیوں اور خامیوں سے نجات حاصل کرکے بہتری کا سفر جاری رکھا جائے اور اصل ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو اپنے گھر بار کے لیے وقف کیا جائے تو آپ کی ذات نکھر سکتی ہے۔ جو لوگ خود احتسابی کو اپنا لیتے ہیں وہ ہمیشہ کام یاب ہوتے ہیں۔

دوسروں کی ذات کی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرکے مثبت تبدیلی کے لیے خود کو تیار کریں۔ اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف آپ کو خوشی ملے گی بلکہ آپ دوسروں کے لیے مثال بن جائیں گی۔

 

The post اپنا احتساب کیجیے! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>