Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

عسکریت ’’پسند‘‘ بیٹیاں

$
0
0

کینیا میں نوجوانوں کو درپیش بے روزگاری ایک ایسا بم ہے جو مسلسل ٹِک ٹِک کررہا ہے اور کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس ملک کی تین تہائی آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے اور بے روزگاری کی شرح11فیصد۔

یونیسف کے مطابق یہاں کی46 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے یعنی وہ بمشکل ماہانہ آٹھ ہزار روپے پاکستانی کے برابرکماتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو علاج معالجہ کی ضرورت پوری ہو جائے، تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے، پینے کا صاف پانی میسر آ جائے اورسینی ٹیشن  کی سہولت نصیب ہو تو وہ اسے عیاشی سمجھتے ہیں۔ صحت کی صورت حال یہ ہے کہ ہر ایک ہزار بچوں میں سے74بچے پانچ برس سے کم عمر ہی میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہرسال 18.5فیصد لوگ اسہال جیسے امراض میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں، 15.56 فیصد ایڈز، 8.62 فیصد سانس لینے کی نالی، خوراک کی نالی اور پھیپھڑوں کے انفیکشنز اور3.69 فیصد تپ دق کا شکار ہوکر مرتے ہیں۔

کینیا کے دیگر شہروں اور علاقوں کا عالم کیا ہوگا، اس کے بارے میں سوچنے سے پہلے دارالحکومت ’نیروبی‘ کا احوال جان لیجئے جہاں بعض علاقوں میں انسانی زندگی انسانوں کی زندگی کہلانے کے لائق نہیں، آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان بھی اس سے اچھی اور صاف زندگی بسر کرتا تھا۔ مثلاً اس کے بعض علاقے ٹوٹی پھوٹی چادروں سے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل  ہوتے ہیں، جہاں آبادی کے عین درمیان میں بل کھاتی ہوئی ریلوے لائن کوڑے کے ڈھیروں کے درمیان میں پھنسی ہوئی نظرآتی ہے جبکہ  اس کے دونوں اطراف میںچھوٹی بڑی دکانوں کا طویل بازار۔ اس کیچڑ سے بھرے بازار کی ہر دکان پھٹے ہوئے کپڑوں، چادروں، پلاسٹک کی شیٹوں اور لوہے کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں۔ اس سب ٹوٹے پھوٹے کے درمیان میں کینیا کے عام لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔

جب کسی معاشرے میں غربت اور بے روزگاری کا کینیا جیسا عالم ہو تو وہاں نوجوان مثبت کی بجائے منفیت کی طرف جلد مائل ہوتے ہیں۔ صومالیہ کی عسکریت پسند تنظیم ’الشباب‘ نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا،گزشتہ ایک عشرہ کے دوران میں ہزاروں غریب اور بے گھر نوجوانوں کو  اپنے ہاں بھرتی کر لیا۔ یہ خواتین ہی تھیں جو چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان پستی رہیں، انھیں بھی  بے روزگاری نے سب سے زیادہ متاثرکیا۔ ’الشباب‘ کے لئے خواتین کی بھرتی زیادہ سودمند ثابت ہوئی کیونکہ سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی توجہ خواتین کی طرف کم ہی جاتی ہے۔ ایک ریڈیو پروگرام کے ڈی جے ’رابرٹ روبو اوشولا‘ کے مطابق خواتین کو انٹیلی جنس کے لئے، معلومات اکٹھی کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ رابرٹ عسکریت کی راہ ترک کرکے واپس آنے والوں کو اچھی زندگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے شبانہ روز جدوجہد کر رہا ہے۔ اس کا بھی یہی خیال ہے کہ سب سے زیادہ  غریب اور بے گھر نوجوان ہی ’الشباب‘ میں بھرتی ہو رہے ہیں۔

’الشباب‘ صومالیہ میں قائم ہونے والا ایک عسکری گروہ ہے۔کینیا کی دفاعی فوج نے سن 2011ء میں صومالیہ میں آپریشنز کرنا شروع کئے تاکہ ’الشباب‘ کے سرحد پار حملے روکے جائیں۔ ’الشباب‘ 2006ء میں قائم ہوئی۔2014ء میں الشباب کے جنگجوؤں کی تعداد چارہزار سے چھ ہزار تھی لیکن 2017ء میں ان کی تعداد سات سے نوہزار تک بتائی گئی۔ اس کے زیادہ تر لوگ سلفی العقیدہ ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے بعض مبصرین اس کے ڈانڈے سعودی عرب سے ملاتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق اریٹیریا خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئے الشباب کو اسلحہ اور عسکری تربیت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ا قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اریٹیریا کی حکومت ایک طویل عرصہ تک ’الشباب‘ کے لوگوں کو 80 ہزار ڈالرز ماہانہ کے برابر رقم فراہم کرتی رہی۔ یہ رقم کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم اریٹیرین سفارت خانے کے ذریعے تقسیم ہوتی رہی۔ کینیا کے سرکاری حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ الشباب کو مالی وسائل فراہم کرنے والوں میں یمن، شام، ایران اور قطر کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ اگریہ سب الزامات سچ تسلیم کر لئے جائیں تو اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ انھوں نے اس علاقے کی غربت سے فائدہ اٹھایا۔

ایک عرصہ تک ’الشباب‘ کے ساتھ سرگرم رہنے والی خاتون ’فاطمہ‘ کہتی ہیں: ’’اگر میں بے روزگار نہ ہوتی، پُرسکون زندگی بسرکر رہی ہوتی، میری میز پر کھانے کا سامان موجود ہوتا، میری بنیادی ضروریات پوری ہوتیں تو میں کیوں الشباب میں بھرتی ہونے کا  سوچتی!‘‘ فاطمہ کا شمار کینیا کی اُن پہلی خواتین میں ہوتا ہے جو ’الشباب‘ میں بھرتی ہوئیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’’میں سترہ برس کی تھی جب میں اس فرد سے ملی جو بعدازاں میرا شوہر بنا۔ میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک بارپھر  سکول میں پڑھنے کا موقع دے گا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرتا ہے۔ بعدازاں جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ ’الشباب‘ کا جنگجو ہے تو میں سمجھی کہ میری زندگی تباہ ہوگئی۔ اگرچہ اس کا جھوٹ مجھ پر کھل چکا تھا لیکن اب میں واپس نہیں جا سکتی تھی۔ میرے پاس کہیں اورجانے کا کوئی موقع نہیں تھا چنانچہ میں نے اس کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اس کے ساتھ تین برس گزارے،کم ازکم یہاں مجھے کھانا مل جاتا تھا، وہ اپنی یہ ذمہ داری پوری کرتا تھا‘‘۔

’میں وہاں تین برس رہی۔کم ازکم مجھے وہاں کھانے کو کچھ مل جاتا تھا، وہ کھانا فراہم کرتے تھے۔ پھر مجھے لیڈر بننے کا موقع دیاگیا۔ وہ مجھے اہل سمجھتے تھے۔ خواتین بالخصوص صومالی خواتین کو سزا دینے کا معاملہ ہوتا تو انھیں میرے حوالے کیا جاتا۔ ان میں سے بعض خواتین کھانا پکانے یا پھر مردوں کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتی تھیں۔ ہم اُن کی بعض مردوں کے ساتھ شادی کردیتے تھے، اگر وہ ان کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے انکار کرتیں تو قتل کر دی جاتی تھیں‘۔

فاطمہ نے بتایا کہ  میں بھی مخصوص علاقے میں جاتی، حالات کا جائزہ لیتی اور معلومات اکٹھی کرتی تھی، مثلاً وہاں پولیس افسران کی کتنی تعداد موجود ہے یا وہاں سیکورٹی کتنی سخت ہے۔ میں کینیا واپسی پر کیوں مجبور ہوئی؟ یہ ایک حملہ تھا جس کی منصوبہ بندی ہوئی تھی، اس میں خودکش بمباروں کو استعمال کیا جانا تھا۔ میں وہاں اپنے شوہر کے مرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ جہاں حملہ کیا جانا تھا، جب میں نے وہ جگہ دیکھی تو وہاں بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ان کی مائیں بھی تھیں۔ میرے لئے ناممکن تھا کہ میں ایسی جگہ پر حملہ کرنے میں شریک ہوتی چنانچہ میں نے فرار ہونے کا ارادہ کرلیا۔

فاطمہ کہتی ہے: ’ایک روز میرا شوہر صومالیہ ہی میں لڑائی کے دوران لاپتہ ہوگیا، ممکن ہے کہ وہ کینیائی فوج کے ہاتھوں مارا گیا ہو، بہرحال وہ کبھی واپس نہ آیا۔ پھر وہاں مردوں نے میری بے حرمتی شروع کردی۔ میں کبھی ایک کے ہاں ہوتی، کبھی دوسرے کے ہاں۔ پھر میں تھک گئی اور مجھیاپنی ماں، اپنے گھر اور اپنے بہن بھائی یاد آنے لگے۔ چنانچہ میں نے لڑائی کے دن کا انتظارشروع کردیا۔ ہم نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ میں نے اپنی گن تھامی، میں نے کچھ گولیاں اور چھوٹے بم اپنے ساتھ لئے۔ میں نے جنگل کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ ایک نوجوان نے میرے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ پھر اس نے مجھے پکار کر پوچھا کہ تم فرارہو رہی ہو؟ میں نے اسے گولیوں سے چھلنی کیا اور وہاں چھوڑ کر آگے نکل کھڑی ہوئی اورکینیا واپس پہنچ کر دم لیا۔ یاد رہے کہ فاطمہ کا شمار کینیا کی ان پہلی خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے ’الشباب‘ سے وابستگی اختیار کی، یہ 2006ء کی بات ہے جب یہ عسکری گروہ قائم ہوا تھا۔

فاطمہ کینیا واپس آکر متعدد این جی اوز کے ساتھ  کمیونٹی موبلائزر کے طور پر کام کرنے لگی، وہ دو بچوں کی پرورش کر رہی ہے جن کے والدین انھیں چھوڑ کر’الشباب‘ سے  وابستہ ہوچکے ہیں۔ والدین کی غیرموجودگی میں بچوں نے سکول جانا چھوڑدیا، اب انھیں صرف ایک وقت کھانے کو کچھ ملتا تھا، فرش پر سوتے تھے اور بڑوں کی طرح کام پر جاتے تھے تاکہ وہ اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کرسکیں۔ پھر جب فاطمہ ان کے ساتھ رہنے لگی تو ان کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے فاطمہ کو ماں کی حیثیت  دی، انھوں نے سکول بھی جانا شروع کردیا، میں بعض اوقات سوچتی ہوں کہ اگر میں یہاں نہ ہوتی، ان کی پرورش کا ذمہ نہ اٹھاتی، کون ان بچوں کو سنبھالتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے مجھے جینے کا دوسرا موقع فراہم کیا ہے، چنانچہ مجھے اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور یہ کام جاری رکھنا چاہئے۔ فاطمہ جب  واپس آئی تو اسے مختلف خواتین نے مشورہ دیا کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر میں جاؤ، انھیں اپنی کہانی سناؤ اور رجسٹریشن کراؤ۔ انھوں نے کہا کہ وہاں کونسلنگ سیشنز کراؤ۔ دوسری طرف فاطمہ اپنا میڈیکل چیک اپ کے لئے ایک ہسپتال میں پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ اُسے ایچ آئی وی کا انفیکشن ہوچکا ہے۔

اب ایک دوسری خاتون ’ہدایہ سعید‘ کی کہانی بھی پڑھ لیجئے،  اس کے چہرے پر نظر پڑتی ہے تو  یوں لگتا ہے کہ وہ زندگی میں کبھی مسکرائی ہی نہیں۔ وہ بتاتی ہے:

’’یہ ہفتہ کا دن تھا جب میں نے آخری بار اپنے بچے کو دیکھا، وہ شام کو گھر واپس نہ پہنچا، پھر اتوار گزرگیا اور پیر بھی، میں اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی، اس کی عمر چودہ برس تھی، میں اسے تلاش نہ کرسکی۔ دو برس بعد اس کی  فون کالز آنا شروع ہوگئیں، وہ صومالیہ میں تھا۔ یوں ہم باہم رابطے میں رہے۔ میں نے اُس سے کہا کہ اگر تمھیں وہاں کوئی مسئلہ  ہے تو واپس آجاؤ۔ ہم تمھیں واپس لانے کے لئے پیسے کا انتظام کرلیں گے۔ اس نے مجھے کہا کہ اگر وہ گھر واپس آیا تو وہ مرجائے گا‘‘۔

دراصل واپس آنے والے ’الشباب‘ کے انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اگر وہ ’الشباب‘ سے بچ جائیں توکینیا کے ’اینٹی ٹیرر پولیس یونٹ‘ کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ پھرہدایہ کو 26 دسمبر 2014ء کو ایک نامعلوم فون کال موصول ہوئی، جس میں مجھے بتایاگیا کہ تمھارا بیٹا مارا گیا ہے، وہ موغادیشو میں ہیلن بیس کیمپ (صومالیہ) حملے میں ایک روز پہلے مارا گیا ہے۔ وہ خودکش بمبار کے طور پر اس حملے میں شریک تھا۔

ہدایہ کہتی ہے: ’’جب میں نے اپنے بیٹے کی ہلاکت کی خبر سنی تو دوماہ  تک کچھ کھا پی نہ سکی۔ پھر میرا ایک ادارے کے ساتھ رابطہ ہوا، انھوں نے مجھے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا طریقہ سکھایا، کوئی بھی چیزآپ کو غمگین کر رہی ہو، اسے ایک کاغذ پر لکھو اور پھر اسے جلادو۔ اس تدبیر نے میری مدد کی اور مجھے قوت بخشی۔ علاقے میں میرا بیٹا پہلا لڑکا تھا جو لاپتہ ہوا، اب ہرکوئی مجھے بُرا سمجھتا تھا، مجھے کوئی عام انسان سمجھنے کو تیار نہیں تھا پھر جو کچھ میرے گھر میں ہوا، ایسا ہی ایک دوسرے گھر میں ہوا، پھر تیسرے گھر میں ہوا، پھر بہت سے گھروں کے پیارے مارے گئے‘‘۔ ان کے گھر والوں کو  ہدایہ جیسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کینیا میں ایسے بہت سے گھرانے ہیں جن کے بچے لاپتہ ہیں۔ جب مجھے احساس ہوا کہ یہ المیہ ہرگھرانے کو متاثر کر رہی ہے تو میں نے ایسی ماؤں  کو جمع کیا، پھر ہم نے میٹنگز شروع کر دیں، ایک دوسرے کا دکھ سنا اور ایشوز پر گفتگو شروع کردی‘‘۔

اب ہدایہ ’انیشی ایٹو فار پریونشن اینڈ کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریم ازم ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، یہ خالصتاً مقامی تنظیمیں ہیں، جو معاشرے میں شعور پیدا کر رہی ہیں کہ’’ایمان داری، محبت اور سچ کے حق میں، ناانصافی، جھوٹ اور لالچ کے خلاف آواز بلند کرنے سے خوفزدہ نہ ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’انصاف یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہونا چاہئے۔‘‘ ہدایہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس گروپ کے ساتھ تعاون شروع کیا۔ حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے، اگر وہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے ، کوئی بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر  نہ جائے۔ غربت، حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گی، وہ اس مسئلہ پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ حکومت جو رقوم این جی اوز کو انتہا پسندی اور تشدد سے نمٹنے کے لئے دیتی ہے، وہ رقوم ہم خواتین کو فراہم کرے جو گراس روٹ لیول پر کام کررہی ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہم ہی اس مسئلے سے مکمل طور پر باخبر ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اس کی جڑیں کہاں کہاں موجود ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ یہ مسئلہ بڑے ہوٹلوں میں بڑی بڑی رقوم خرچ کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ نچلی سطح پر خرچ کرنے سے ہوگا جہاں یہ مسئلہ بھڑکتی آگ کی صورت میں موجود ہے۔

ہدایہ کہتی ہے کہ جب کوئی عسکریت کی راہ چھوڑ کر واپس آئے تو اسے زندگی گزارنے کا دوسرا موقع ملنا چاہئے۔ جب سے پولیس نے واپس آنے والوں کو قتل، اغوا کرنا اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹانا شروع کیا ہے، یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوچکا ہے۔ حالانکہ واپس آنے والوں سے کہنا چاہئے کہ خبردار! جو دوبارہ یہ راستہ اختیار کیا ، انھیں تبدیل ہونے کے لئے وقت دینا چاہئے۔ ایک ماںکا کہنا تھا کہ بچے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میرے بچے کو گرفتارکیاگیا، پھر رہاکردیا گیا صرف اس لئے کہ  اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ اسے تبدیل ہونے کا موقع نہیں دیاگیا۔ ممکن ہے کہ آپ کو موقع دیاجائے لیکن تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ملتی ۔ مثلاً ٹیکسی ڈرائیورعلی بھی صومالیہ میں رہا لیکن جب وہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر واپس آیا تو وہ گھر سے باہر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ نجانے کب اسے کمر یا کنپٹی پر گولی مار دی جائے۔

تیسری کہانی  آمنہ کی ہے، وہ بھی ’الشباب‘ کے ساتھ وابستہ رہی۔  وہ بتاتی ہے: ’’میرے والدین کا انتقال ہوا تو میری شادی ہوگئی، پہلے میرے دوجڑواں بچے ہوئے، اس کے بعد ایک اور بچہ ہوا تو زندگی مشکل ہوگئی۔ میرا شوہر بے روزگار تھا، اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ  وہ کب ’الشباب‘ سے منسلک ہوا۔ بعدازاں اس نے مجھے بھی بلالیا۔ میں وہاں کیوں گئی؟ سبب صرف ایک تھا کہ میں اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی۔ اس نے مجھے تنظیم کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا، اس کے الفاظ میرے اندر اترتے چلے گئے، اب میں بھی اپنے مذہب کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی تاہم اس کے باوجود یہاں کے حالات مجھے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ بچوں کو اپنی ماں کے ساتھ ہونا چاہئے تھا، وہ میرے پاس نہیں تھے۔ میں 2016ء کا سارا سال صومالیہ میں رہی۔ میں جب بھی بچوں سے بات کرتی تھی تو وہ رونا شروع کردیتے تھے۔ یہ چیزمجھے بہت افسوسناک لگتی تھی۔ چنانچہ اب میں نے اپنی ساس کے ذریعے ہی بچوں سے بات کرنا شروع کر دی۔

آمنہ نے بتایا کہ وہ  فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ ’’کیمپ کے کمانڈر نے مجھے کہا کہ اگرتم واپس گھر جانا چاہتی ہو تو اس کے لئے میرے پاس رہنا ہوگا۔ وہ مجھ سے ’’معاشقہ‘‘ چاہتا تھا۔ اب میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ میں اس کے پاس دو دن تک رہی، پھر اُس نے مجھے رہاکر دیا۔ حالانکہ زنا الشباب کے قوانین کے مطابق سخت سزا والا جرم ہے۔ میں اپنے شوہر کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ میں ایسا کرنے والی ہوں، اسے صورت حال کو سمجھنا چاہئے اور بھڑکنا نہیں چاہئے کیونکہ میں یہ کام اپنے بچوں کی خاطر کروں گی۔کم ازکم اس طرح انھیں (بچوں کو)  والدین میں سے کوئی ایک تو مل جائے گا۔ جب میں واپس آئی تو سب سے پہلے اپنے بچوں کے پاس پہنچی‘‘۔

ایک کہانی محمد کی بھی ہے، وہ بھی الشباب میں سرگرم رہا لیکن اب عسکریت کی راہ چھوڑ کر واپس آ چکا ہے۔ وہ بتاتا ہے: ’’میں اُن اولین لوگوں میں سے ہوں جو اِس عسکری گروہ سے الگ ہوئے چنانچہ تنظیم مجھ پر زیادہ ذمہ داری عائد کرتی تھی، میں تخریبی ذہن کا نہیں تھا لیکن مسئلہ بے روزگاری ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی ہے۔ اب روزگار تلاش کرنا بہت کٹھن کام ہے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’الشباب‘ میں رہے ہیں تو پھر وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ پولیس بھی ان کے دفترمیں آئے گی۔ اگر پولیس نہ آئی تو ’الشباب‘ والے ضرور آئیں گے‘‘۔ محمد کہتا ہے: ’’ضروری ہے کہ پولیس نوجوانوں کو ہراساں کرنے سے بازآ جائے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع نہیں ہیں تو دوسری طرف مذکورہ بالا مسائل ہیں پھر لوگوں کے پاس عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ اگر میں صومالیہ جاؤں تو مجھے رہنے کے لئے کرایہ نہیں دینا پڑے گا، مجھے مفت میں کھانا ملے گا اور تربیت بھی ملے گی۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں کہ صومالیہ ہی جانا چاہئے، پھر جب آپ وہاں مارے جاتے ہیں تو وہ آپ کو جنگل میں کہیں دفن کر دیتے ہیں، اسی لباس کے ساتھ جوآپ نے پہنا ہوتا ہے۔ وہ قبرکھودتے ہیں، آپ کو اس میں رکھتے ہیں ، یوں آپ کی کہانی ختم ہوجاتی ہے‘‘۔

گزشتہ چند برسوں سے حملوں میں دہشت گرد خواتین براہ راست ملوث ہونے لگیں۔ ’الشباب‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عورتوں کی بھرتی کرتی ہے کیونکہ خواتین پر کم ہی شک کیا جاتا ہے، برقعہ کی وجہ سے ان کی شناخت ظاہر نہیں ہوتی، یوں وہ بہ آسانی مرد حملہ آوروں تک اسلحہ پہنچا سکتی ہیں۔ جو خواتین پہلے گھروں میں کھانا پکاتی تھیں، بچوں کی پرورش کرتی تھیں، اب انھیں انٹیلی جنس، معلومات جمع کرنے اور جاسوسی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

’الشباب‘ مردوں، عورتوں کے علاوہ بچوں کو بھی جنگ کا ایندھن بنانے کے لئے بھرتی کر رہی ہے۔ ستمبر2017ء سے ’الشباب‘ نے مختلف علاقوں میں اعلان کیا کہ لوگ انھیں سینکڑوں کی تعداد میں بچے فراہم کریں جو تنظیم کے لئے لڑائی کا حصہ بنیں بصورت دیگر برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔  یاد رہے کہ ان میں سے بعض بچوں کی عمر آٹھ سال بھی ہوتی ہے۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق ’’حالیہ مہینوں کے دوران میں سینکڑوں بچے ’الشباب‘ کی جبری بھرتی کا شکار ہوئے۔ تاہم ایسے بچے جو اپنے گھروں میں غربت اور افلاس مسلسل دیکھتے ہیں، گھر سے بے گھر ہوکر شب وروز گزارتے ہیں، وہ  بھی ’الشباب‘ کے بھرتی کرنے والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

صومالیہ سے واپس آنے والوں کو ایک طرف ’الشباب‘ کی طرف سے ’سزا‘ کا دھڑکا لگا رہتا ہے، دوسری طرف اینٹی ٹیرر پولیس یونٹ (اے ٹی پی یو) والے بھی انھیں ہراساں کرتے ہیں، وہ بعض لوگوں کو ماورائے عدالت قتل بھی کردیتے ہیں تاہم حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران میں کینیا میں ’الشباب‘ کا نظریہ پھیلانے میں خواتین کی بڑی تعداد نے سرگرم کردار اداکیا ہے جبکہ یہ خواتین ہی ہیں جنھوں نے پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے، لوگوں کو اس سے بچانے کی مہمات میں اہم کردار اداکیا ہے۔ ان خواتین میں ہدایہ بھی شامل ہے، اس کا خیال ہے: ’’جب کوئی فرد عسکریت پسندی چھوڑ کر واپس آتا ہے تو اسے ایک موقع ملنا چاہئے اور مثبت زندگی گزارنے میں اس کی مدد کرنی چاہئے، کیونکہ جب سے پولیس نے انھیں قتل کرنے، انھیں اغوا کرنے اور ان کا صفایا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو حالات زیادہ سنگین ہوچکے ہیں‘‘۔  وہ کہتی ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد موجود مسلمانوں سے بات کرنی چاہئے، اپنے بچوں سے گفتگو کرنی چاہئے۔ اگر ہمارے بچے گھر چھوڑ بھی جائیں، تب بھی ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ ہم تبدیلی کی سفیر ہیں۔ ہمیں بچوں کو گھر چھوڑنے سے روکنا ہے اور انھیں تحفظ بھی فراہم کرنا ہے۔ ہدایہ کا کہنا ہے کہ کینیائی حکومت نے انتہا پسندی کو سنجیدگی سے لیا ہے، تاہم گراس روٹ لیول پر سابق جنگجوؤں کو اچھے شہری بنانے کے لئے  اور مستقبل میں معاشرے کے لوگوں کو  اس سے بچانے کے لئے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہدایہ کہتی ہیں کہ حکومت این جی اوز کو انتہاپسندی اور تشدد سے نمٹنے کے لئے پیسہ فراہم کر رہی ہے حالانکہ اسے یہ پیسہ ہم جیسی خواتین کو دینا چاہئے جو گراس روٹ لیول پر کام کر رہی ہیںکیونکہ ہم اس ایشو کو زیادہ بہتر سمجھتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ  اس کی جڑیں کہاں ہیں اور ہم یہ بھی بخوبی جانتی ہیں کہ ہمیں اسے کیسے ختم کرنا ہے۔ حکومت کو بڑے ہوٹلوں میں پروگرامات پرخرچ کرنے کی ضرورت نہیں ، وہ اس سے کم رقم ان جگہوں پر فراہم کرے جہاں یہ ایشو گرم ہے۔

کینیا میں عسکریت کی راہ سے واپس آنے والوں کو معاشرے کا مفیدکردار بنانے کی مہم تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مثلاً ایک ریڈیو پروگرام کا آر جے’رابرٹ‘ ’روبو‘ اوچول‘  ایسے جنگجوؤں کی مالی مدد کرتا ہے جب عسکریت کی راہ ترک کرکے واپس کینیا آنا چاہتے ہیں، پھر انھیں پاؤں پر کھڑا اور ایک اچھی زندگی گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عسکریت کی راہ ترک کرنے والوں کو زیادہ بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ متاثرہ ماؤں کے ساتھ مل کر ایسی سرگرمیاں ترتیب دے رہا ہے جو نوجوانوں کو مثبت راہوں کے مسافر بناتی ہیں۔ بعض نوجوان ایسے گیت لکھ رہے ہیں اور ایسی موسیقی ترتیب دے رہے ہیں جو ایک طرف حکومت کی توجہ اس کی ذمہ داریوں کی طرف مبذول کراتی ہے تو دوسری طرف تمام تر ناانصافیوں اور ظلم کا مقابلہ کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔

ان گیتوں میں دہائی دی جاتی ہے کہ ’ہم ہرطرف گولیوں کی آوازیں سن رہے ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔جونوجوان خودکش بمبار ہے، وہ کم علم ہے، اس کی حالت ایسے ہے جیسے کوئی کوما میں ہو‘۔

مائیں گیت گاتی ہیں: ’ہمیں تنہا چھوڑ دو، مت قتل کرو، ہمارے بچوں کو مت قتل کرو، ہم ان کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، ہم ان سے پیار کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کی زندگی میں بہتری لانا چاہتے ہیں، آپ انھیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟

کینیا میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے انہی گیتوں، نظموں، روایتی رقص اور اپنی دیگر روایات کے ذریعے یہ پیغام عام کر رہی ہے، مائیں اس کام کو پسند کر رہی ہیں، اساتذہ بھی تعریف کر رہے ہیں، معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے ان نوجوانوں کو خوب  پذیرائی مل رہی ہے تاہم  ان نوجوانوں کو بہت زیادہ خطرات کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً ایک نوجوان بلال نے گارسیہ حملے کے بعد147 کے عنوان سے ایک گیت لکھا اور گایا۔ یہ اُن 147 لوگوں کی یاد میں تھا جو اس خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم اب  بلال یہ گیت لکھ اور گا کراپنی جان بچاتے پھرتا ہے، چھپتا پھرتا ہے، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے، فون کالز کے ذریعے اسے جان سے ماردینے کی دھمکیاں ملیں، کہاگیا کہ تمہیں تو سزا ضرور ملے گی۔ یہ گیت گانے کے بعد اس نے مزید گلوکاری کا خیال ہی ترک کردیا۔ وہ اپنے گیت میں کہتا ہے:

ایک ہی راستہ، بس! ایک ہی راستہ

جب میں کسی چیز سے محروم ہوتا ہوں تو میں اس سے کہیں زیادہ حاصل کرلیتا ہوں

میرے کندھے پر موجود فرشتے مجھے آگے بڑھنے کا کہتے ہیں

ابا کہتے ہیں کہ کام کرو، برائی سے دور رہو۔

ابا کو معلوم ہے کہ میں خواب دیکھنے والا ہوں اور گلوکاری میری تمنا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

میں اس میٹھی موسیقی کی آواز کو مزید اونچا کروں گا

میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے پر مشکل کا شکار ہوا

٭… فاطمہ اب دو کام کرتی ہے، ایک: ہئیرڈریسر کے طور پر کام کررہی ہے، دوسرا: موٹرسائیکل پر سواریوں کو ان کی منزل مقصود پر پہنچاتی ہے۔

ہدایہ امید کی روشنی معاشرے میں بانٹ رہی ہے، لوگوں کو عسکریت پسندی کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔

آمنہ اپنے تین بچوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر والے مسلسل اس کی نگرانی کر رہے ہیں، جب تک اس کی زندگی مکمل طور پر بحال نہیں ہوتی، وہ ان کی نگرانی میں رہے گی۔

اورمحمد بھی معاشرے میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے، وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کررہا ہے۔

لوگوں کو عسکریت سے محفوظ رکھنے کے لئے پورے ملک میں کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو فنون لطیفہ میں مشغول کرکے بہترین نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔

عسکریت کو خیرباد کہہ کر واپس پلٹنے والی کینیا کی بیٹیوں کی کہانیاں دنیا کے دیگر معاشروں کو بہت سے اسباق فراہم کرتی ہیں، مثلاً نوجوانوں کو عسکریت کی طرف مجبور کرنے والے ان کے حکمران ہیں جو پوری قوم کے وسائل چوستے ہیں لیکن اپنی قوم کو بھوکا، ننگا اور گھر سے بے گھر ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جب اس قوم کے بیٹے کسی عسکریت پسند گروہ کے ہتھے چڑھتے ہیں، بعدازاں انھیں غلطی کا احساس ہوتا ہے، وہ واپس پلٹتے ہیں تو انھیں گولیوں سے بھون دیاجاتا ہے۔ شاید! ان حکمرانوں کو ڈر محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ سابقہ عسکریت پسند یقیناً عسکریت پسند نہیں رہیں گے تاہم وہ قوم کے وسائل ہڑپ کرنے، نوجوانوں کو عسکریت کی طرف مجبور کرنے والے حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے برہنہ شمشیر ثابت ہوں گے۔

The post عسکریت ’’پسند‘‘ بیٹیاں appeared first on ایکسپریس اردو.


تعلیم یافتہ اور باشعور عورت

$
0
0

کسی بھی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے مرد اور عورت دونوں کا کردار اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر مرد کی کام یابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عورت کو مرد کا نصف بہتر بتایا جاتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب اس نصف بہتر کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکے اور انفرادی اور اجتماعی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

تعلیم و تربیت کا فقدان ہو تو سماج کا یہ نصف بہتر فکر اور شعور سے محروم  رہ جائے گا، اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ اگر ہم زندگی کے مختلف شعبوں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ خواتین بعض شعبوں پر اس قدر حاوی ہیں کہ ان کی اہمیت کو کسی شکل میں بھی کم کرنے سے عورت کی گود میں پروان چڑھنے والی نسل تدبیر اور خود اعتمادی سے محروم ہو جائے گی۔ اسی لیے اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک عورت کو تعلیم دینا خاندان سنوارنے کے مترادف ہے۔ عورت ایک فرد نہیں بلکہ ایک مکتب ہے جو دراصل معاشرہ کو ابتدائی تنظیمی جوہر سے روشناس کرتا ہے۔

عورت ناظم بھی ہے اور مجاہد بھی ہو سکتی ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح دنیا کی مختلف اقوام میں ترقی اور اجتماعی سطح پر انقلابی تبدیلیوں کے پیچھے نہ صرف عورت کسی نہ کسی طرح موجود رہی ہے بلکہ اس نے کئی محاذوں پر قائدانہ صلاحیتوں کو بھی منوایا ہے۔ گھر گرہستی سے جنگ کے میدان تک، تعلیم سے عدالت تک، شفا خانوں میں مسیحائی سے لے کر سائنس کے میدان میں ایجادات تک تاریخ اس کے کردار اور کارناموں سے مزین ہے۔ آج بھی اگر ایک پڑھی لکھی اور باشعور ماں کے ہاتھوں اس کی اولاد خصوصاً لڑکی کی تعلیم اور تربیت ہو تو وہ آگے چل کر ایک کارآمد اور مہذب شہری بننے کے ساتھ ساتھ قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، ضروری نہیں کہ بہت اونچے، کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہنے سے لڑکی کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔ یہ ایک عمومی سوچ ہے، لیکن اگر حالات پلٹا کھائیں تو عرش سے فرش پر آنے میں دیر ہی کہاں لگتی ہے۔ ایسے میں ایک پڑھی لکھی لڑکی اور پُراعتماد لڑکی یقیناً حالات کا مقابلہ کرسکتی ہے اور اپنا اور اپنے کنبے کو سہارا دے سکتی ہے۔ وہ اپنی ڈگریوں اور اہلیت کی بنیاد پر باعزت نوکری حاصل کرسکتی ہے جب کہ ماں کی جانب سے اچھی تربیت اور تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اعتماد اسے مضبوط اور توانا رکھے گا۔ اس کے برعکس ایک ان پڑھ لڑکی ایسی افتاد سے گھبرا جائے گی اور اپنے کنبے کو سنبھالنے سے قاصر ہو گی۔

عورت کی تعلیم کا یہ سلسلہ صرف چند روایتی مضامین میں ڈگریوں کے حصول تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ کوئی ہنر بھی سیکھ سکتی ہیں اور گھروں میں رہ کر بھی اپنی مالی ضروریات پوری کرسکتی ہیں۔

ہمارے سماج میں کچھ پڑھے لکھے گھرانوں کی سوچ بھی اب تک نہیں بدلی ہے اور وہ لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لڑکیوں سے نہ تو نوکری کروانی ہے نہ ہی ان کی کمائی کھانی ہے، کیوں کہ وہ ’غیرت مند‘ ہیں۔ اس دور میں یہ باتیں عجیب یہ نہیں بلکہ افسوس ناک بھی ہیں۔ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ بیٹی آپ کے گھر میں رہے تو ہمیشہ آپ کے آگے اپنی ضروریات کے لیے ہاتھ پھیلاتی رہے اور باقی زندگی اپنے خاوند کے آگے؟

سوال کمائی یا نوکری کا نہیں یہاں! سوال انھیں مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا ہے۔

کیا خواتین صرف ہانڈی چولھا کرنے اور ہر ایک کی خدمت کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہیں؟ یہ درست ہے کہ گھر اور ہانڈی چولھا عورت سنبھالتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی زندگی کا صرف یہی ایک مقصد ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہ کرے۔ وہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے اگر اس قابل ہے کہ اپنی خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ اپنی ضرورت کے لیے، اپنے رجحان اور تعلیمی قابلیت کے مطابق کوئی کام کرسکے تو اسے پابند کرنا کہاں کی دانش ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت مڈل کلاس یا غریب لوگوں کی ہے اور یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جب کہ منہگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ کسی وجہ سے عورت اپنے باپ کے سائے یا شوہر کی رفاقت سے محروم ہو جاتی ہے تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی ہے۔ اگر وہ سمجھ دار اور تعلیم یافتہ ہو گی تو اپنے بھائیوں یا سسرالی عزیزوں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود ہمّت کرکے اپنی ضروریات پوری کرسکے گی۔

یاد رکھیے!  جس قوم کی بیٹی علم کے زیور سے آراستہ ہو گی وہ کبھی کشکول لے کر اغیار کے در پر نہیں جائے گی۔

The post تعلیم یافتہ اور باشعور عورت appeared first on ایکسپریس اردو.

نیٹ سرفنگ؛ صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں

$
0
0

اگر ایک عام جائزہ لیا جائے تو گھروں میں رہنے والی خواتین زیادہ تر ویب  سرفنگ اور اسکرولنگ میں مگن ہوتی ہیں۔ آن لائن گیم کھیلنا یا سوشل میڈیا پر سرگرم رہنا ان کا واحد مشغلہ ہوتا ہے جس سے وقت تو گزر جاتا ہے، مگر کیا یہ سرگرمی کسی طرح مالی فائدے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ یہ ویب سرفنگ صارف کی معلومات میں اضافہ کررہی ہے اور کیا کوئی اس کے ذریعے ہنر یا تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں سوچنا ہو گاکہ یہ سب وقت کے ضیاع کے ساتھ ہمیں سست اور کاہل بھی بنا رہا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ دل چسپی اور مشاغل کی غرض سے  انٹرنیٹ سرفنگ  کے لیے وقت مخصوص کریں یا کم از کم اسے اپنے اہم ترین کاموں اور معمولات پر اثر انداز تو نہ ہونے دیں۔

موبائل، اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ آج  ہر ایک کے لیے لازمی ہو گیا ہے اور اگر اس کا استعمال گھریلو اور روزمرہ کی زندگی متاثر کیے بغیر جاری ہے تو کوئی حرج نہیں۔ غور کریں کہ کسی طرح یہ سرگرمیاں آپ کو معاشی طور پر بھی مستحکم کرسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔

گیم کھیلنا اور انٹرنیٹ پر مختلف سرگرمیاں انجام دینا کچھ وقت کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن گھنٹوں اسی میں ضایع کردینا ظاہر ہے کسی طرح بھی مناسب نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برقی آلات خصوصاً اسکرین کے آگے گھنٹوں بیٹھے رہنے سے نہ صرف ہماری آنکھوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ یہ دیگر جسمانی مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اگر آپ آن لائن رہ کر گھریلو کام کاج کے متعلق کارآمد باتیں، کوکنگ، بیکنگ، میک اپ، فیشن اور ہیئر اسٹائل یا سلائی کڑھائی وغیرہ کی کلاسز لے رہی ہیں، یا یوٹیوب اور گوگل کے ذریعے مفید معلومات حاصل کررہی ہیں تو اس کا یقیناً فائدہ ہو گا، لیکن اس کے لیے کوئی وقت مقرر کریں۔ گھر میں کھڑکی کے شیشے پر کوئی بدنما دھبا، یا ماربل اور ٹائلز پر پیلے دھبے خوب رگڑ کر صاف کرنے کے باوجود بھی نہیں جاتے اور اسی طرح کچن کیبنٹ کی صفائی وغیرہ جیسے معاملات کا حل آپ کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پر مل سکتا ہے۔ یہ یقیناً ایک کارآمد اور مفید سرگرمی ثابت ہو گا۔ اس کے ساتھ فرنیچر کی دیکھ بھال، مختلف اشیا کی تیاری اور نقش و نگار بنانے کی تراکیب ہوں یا آپ کا سلائی میشن سے متعلق مسائل کا حل آپ گو گل اور دیگر سرچ انجن کو استعمال کرتے ہوئے آسانی سے حاصل کرسکتی ہیں۔ مائیں اکثر و بیشتر اپنے بچوں کی غذا، صحت اور بیماریوں کے متعلق پریشان نظر آتی ہیں۔ آپ اگر نیٹ سرفنگ کرتی ہیں تو اب اس حوالے سے اہم اور مفید معلومات بھی حاصل کر سکتی ہیں۔

تاہم ہر ٹوٹکا اور نسخہ آزمانے کے لیے نہیں ہوتا۔ خصوصاً بیماریوں اور انسانی صحت سے متعلق مکمل معلومات اور تصدیق کے بغیر عمل ہرگز نہ کریں۔ انٹرنیٹ پر موجود سیکڑوں ویڈیوز اور مضامین آپ کی راہ نمائی کرسکتے ہیں۔ بعض ٹوٹکے اور تراکیب ایسی بھی ہوتی ہیں جو اکثر آپ کے کچن میں موجود اشیاء اور دیگر سامان کی مدد سے ہی کارگر ثابت ہوتی ہیں اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کا ایک استعمال یہ بھی ہے۔ اگر آپ پکنک کا پروگرام بنا رہی ہیں تو تفریحی مقام کا انتخاب یا نئے تفریحی پوائنٹ کی معلومات آپ ایک پل میں گوگل سے لے سکتی ہیں اور اس کے بعد فیصلہ کر کے جانے کی تیاری کرسکتی ہیں۔

بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے گوگل سے رجوع نہ کیا جائے، آج کے دور میں ایسا ممکن ہی نہیں۔ پہلے کے دور میں ہمیں کئی کئی کتابیں کھنگالنی پڑتی تھیں، یا پھر کسی اچھے استاد اور ٹیوٹر سے رابطہ کرنا پڑتا تھا، لیکن آج ریاضی کی مشکلات ہوں یا کیمسٹری اور فزکس کی گتھیاں ہوں، ہر چیز ہماری انگلیوں کی پوروں کے فاصلے پر ہے، اپنے بچوں کی پڑھائی کی مشکلات کا حل آپ گوگل سے معلوم کر سکتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے گیمز بھی آپ کو کھیل ہی کھیل میں انگریزی، سائنس اور حساب کے مضامین میں طاق بنا سکتے ہیں۔ ضرورت فقط آپ کے شوق اور طلب کی ہے۔

میک اپ، ہیئر اسٹائل، فیشل اور ہیئر اینڈ اسکن ٹپس کا تو یو ٹیوب خزانہ ہے۔آپ اگر میک اپ وغیرہ کرنے میں تھوڑی بہت شد بد رکھتی ہیں، تو یو ٹیوب میک اپ اینڈ ہیر اسٹائلز ویڈیوز آپ کو اس فن میں ماہر بنا سکتی ہیں۔اسے نہ صرف آپ خود پر آزما سکتی ہیں بلکہ اسے ذریعۂ معاش کے طور پر بھی اپنایا جاسکتا ہے۔

مختصر یہ کہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع نہ کریں بلکہ اسے کارآمد بناتے ہوئے زندگی میں فعال کردار ادا کریں۔

The post نیٹ سرفنگ؛ صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

نوبیل انعام یافتہ سیاہ فام خاتون

$
0
0

یہ ایک قدامت پرست معاشرے کی ایسی عورت کی کہانی ہے جس نے اپنے نظریے اور فکر سے اپنے ملک کے لوگوں کی حالت بدلنے کی ٹھانی اور اس کے لیے اپنے عزم و ارادے اور جدوجہد سے دنیا کو متأثر کیا۔ یہ کینیا جیسے ترقی پزیر ملک میں پیدا ہونے والی عورت کی کہانی ہے جس کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔  ان کا نام Wangari maathai ہے جو پہلی افریقی خاتون ہیں جنھیں کینیا میں جمہوریت، قیامِ امن اور ماحولیات کے شعبے میں کوششیں کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

Wangari maathai نے شعور کی حدوں کو چھوا تو دیکھا کہ غربت عوام کو بدحال اور مقروض کیے جارہی ہے۔ بھوک  طرح طرح کے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے بھی محروم ہے۔ جب لوگ اپنا پیٹ ہی نہ بھر سکیں تو وہ کس طرح سیاسی نظام کی خرابیوں اور ماحولیات کے حوالے سے سنگین مسائل کی طرف توجہ دے سکیں گے یا اس سلسلے میں شعور اور آگاہی رکھیں گے۔ کینیا خشک سالی اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال تھا۔  Wangari maathai نے 1970میں ماحولیات کو تحفظ دینے اور اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے گرین بیلٹ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور ملک میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔

وہ یکم اپریل 1940 کو پیدا ہوئیں۔ وہ کم سن تھیں جب ان کے والد ایک سفید فام کی زرعی زمین پر کام کرنے لگے اور ان کی وجہ سے انھیں مختلف حیات اور قدرتی مناظر کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور یوں ان کی دل چسپی فطرت میں بڑھتی چلی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ان میں قدرتی ماحول کے تحفظ کا شعور بھی پیدا ہوا۔

گیارہ سال کی عمر میں انھیں کیتھولک بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا۔ اس دور میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کینیا میں جدوجہد جاری تھی۔ اس عرصے میں نوعمر لڑکی نے بہت کچھ دیکھا۔ لڑائیاں، جھڑپیں اور فساد کے دوران وہ بورڈنگ اسکول میں  ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہیں۔ وہ بہت ذہین تھیں۔ ان کا تعلیمی کیریر شان دار رہا۔ 1960میں انھیں اسکالر شپ مل گئی اور یوں امریکا جانے کا موقع ملا جہاں سے انھوں نے بائیولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ چوں کہ حیات اور زندگی کی مختلف شکلیں ان کا پسندیدہ موضوع رہا، اسی لیے انھوں نے تعلیمی میدان میں بائیولوجی کا انتخاب کیا۔ بعد میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر کے نیروبی(کینیا) لوٹ آئیں۔ یہ 1969کی بات ہے اور یوں وہ مشرقی افریقا کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون کے طور پر بھی پہچانی گئیں۔

شان دار تعلیمی ریکارڈ اور باصلاحیت ہونے کی وجہ سے نیروبی یونیورسٹی میں انھیں سینیر پوزیشن پر تقرری دی گئی اور یہاں انھوں نے خواتین اسٹاف کے حقوق کے لیے مہم چلا کر خود کو منوایا۔ امریکا میں قیام اور تعلیم کے دوران ان کی فکری اور نظریاتی تربیت بھی ہوئی اور وہ عورتوں سے متعلق مختلف تحریکوں سے متأثر ہوئیں۔ 1970کی دہائی کے وسط میں  کینیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے تباہ کن اثرات (خشک سالی اور زلزلے) نے انھیں تشویش میں مبتلا کردیا۔ ان کا خیال تھاکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا کر ملک کے بہت سے سماجی اور اقتصادی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

والدین نے ان کی شادی کردی اور 1974 میں ان کے شوہر سیاسی میدان میں کام یاب ہو کر ایم پی بنے۔ Wangari maathai نے اپنے شوہر کی مدد سے عوام کی حالت بدلنے اور اپنے شریکِ حیات کے سیاسی وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کا فیصلہ کیا اور میدانِ عمل میں اتریں۔ اسی عرصے میں انھوں نے پہلی مرتبہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کی غرض سے پودے لگانے کی تحریک چلائی، لیکن مالی دشواریوں نے راستہ روک لیا۔ تاہم ان کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں اور 1976میں یو این کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا تو انھوں نے ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو اٹھایا اور شجر کاری کے لیے آواز بلند کی۔ اس کے بعد انھیں کینیا بھر میں پودے لگانے کی مہم کی سربراہی کا موقع ملا جو ان کی بڑی کام یابی تھی۔ اس مہم کے بعد ان کی تنظیم افریقا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک توانا اور مؤثر آواز بن گئی۔

1980 کے اوائل میں وہ نیشنل کونسل آف وویمن (کینیا) کی چیئر پرسن منتخب ہوئیں اور 1987 تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔ ان کی سرپرستی میں کونسل نے ماحولیاتی مسائل پر خوب کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں کی فلاح و بہبود اور کینیا کے باشندوں کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہیں۔ اس حوالے سے اس خاتون کی شہرت اب افریقا بھر میں پھیل چکی تھی۔ ایک موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’میں خود نہیں جانتی کہ میں سب کا اتنا زیادہ خیال کیوں رکھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میرے اندر کوئی ہے جو مجھے بتاتا ہے کہ وہاں مسئلہ ہے اور میں اس کے حل کے لیے کوشش کرتی ہوں۔‘‘

1990اور 1992میں وہ کینیا کی سیاسی صورتِ حال میں دل چسپی لیتی نظر آئیں۔ انھوں نے حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملی کے خلاف احتجاج کیا اور ملک میں حقیقی جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہو گئیں۔ اس محاذ پر انھیں کئی تکالیف اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ بھوک ہرتال پر بھی رہیں اور ہر غلط فیصلے اور ناجائز کام پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔ وہ عوام اور ملک کے بنیادی مسائل کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے افریقا میں پہچانی جارہی تھیں اور ان کی کوششوں نے انھیں بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت فراہم کر دی تھی۔ 2002 میں وہ ایک جماعت کی امیدوار کے طور پر کھڑی ہوئیں اور اگلے برس یعنی 2003 میں قدرتی وسائل اور ماحولیات کے حوالے سے اہم ترین عہدے پر فائز ہوئیں۔ 2004 میں Wangari maathai  کو ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے سلسلے میں کاوشوں اور کینیا میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جمہوریت کی حمایت اور اس کے لیے عملی طور پر کوششیں کرنے پر نوبیل پرائز سے نوازا گیا۔ ہر محاذ پر ڈٹ جانے اور بے خوفی سے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی یہ باہمت خاتون کینسر جیسی مہلک بیماری کے آگے ہار گئی۔2011 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔

The post نوبیل انعام یافتہ سیاہ فام خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.

شکوے شکایات اور مایوسی سے پیچھا چھڑائیں

$
0
0

یہی ہمیں زندگی اور اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ شاہ راہ حیات پر وہی لوگ مطمئن اور مسرور نظر آتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر ناخوش اور ہر ایک سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔

عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خواتین افسردہ اور زندگی سے بیزار ہی نہیں ہوتیں بلکہ وہ کبھی مہنگائی کا رونا روتی ہیں تو کبھی بچوں سے نالاں نظر آتی ہیں، کبھی ساس سسر کی شکایتیں کرتی ہیں تو کبھی گھریلو کام کاج ان کی ناخوشی کی وجہ ہوتا ہے۔ الغرض ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کو عورتیں سوچتی ہیں اور افسردہ اور ناخوش رہتی ہیں۔ کئی خواتین کو تمام مادی آسائشیں میسر ہونے کے باوجود دل میں حقیقی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن وہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حقیقی خوشی کا تعلق شکر خداوندی اور اس کے باعث پیدا ہونے والے قلبی اطمینان سے ہے۔

مثال کے طور پر کئی عورتیں چھوٹے بچوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے پریشان رہتی ہیں اور روز ہی مار پیٹ بھی کرتی ہوں گی۔ اگر وہ لمحہ بھر بھی سوچیں تو ان پر کُھلے گا کہ زندگی کے تمام رنگ انہی بچوں کے دَم سے تو ہیں۔ کیا آپ نے کوئی بے اولاد جوڑا نہیں دیکھا؟ ان کا دکھ محسوس  کریں، تب شاید آپ کو اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، ضد اور فرمائشیں اور ان کا آپس میں لڑنا اتنا برا نہیں لگے گا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور ایک حد میں رہ کر کسی بات پر مار پیٹ بھی ضروری ہے، مگر سوچیے کیا ہر وقت بچوں کی شکایت کرنا اور ان سے نالاں رہنا ناشکری نہیں ہے۔

بعض خواتین کو قیمتی ملبوسات، بڑی گاڑی اور دیگر آسائشیں متاثر کرتی ہیں، لیکن اپنے مالی حالات کی وجہ سے وہ یہ سب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور ہر وقت اپنی قسمت کو کوستی ہیں اور ناخوش رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے اور شوہر سے دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر وہ خود کو میسر اور موجود سہولیات اور ضرورت پوری ہو جانے پر غور کریں اور اس کا شکر بجا لائیں تو کوفت اور ہر وقت کی بے چینی اور اصطراب سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سوچیں بے شمار لوگوں کو یہ بھی میسر نہیں جو خدا نے آپ کو دے رکھا ہے۔

مہنگائی بھی خواتین کے مزاج پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی وغیرہ کے بلوں اور دوسرے اخراجات پر خاصی رقم ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوچا جائے کہ یہ تمام چیزیں آپ ہی کے استعمال میں تو ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اسی طرح کسی تقریب اور موقع کی مناسبت سے تحفے تحائف اور سلامی وغیرہ دینا گراں گزرتا ہے۔ یہ سوچیں کہ اگر یہ عزیز و اقارب یا احباب زندگی میں نہ ہوتے تو آپ کے دکھ سکھ میں کون شریک ہوتا، کس سے بات کرتیں اور کسے اپنے دل کا حال سناتیں۔

آپ کی زندگی کتنی بے رونق ہوتی۔ یہ احباب ایک نعمت ہیں۔ آپ اکثر ان سے مشورہ کرتی ہیں، اپنے گھر کے مسائل کا ذکر کرتی ہیں اور دل ہلکا کر لیتی ہیں۔ اسی طرح کسی گھریلو جھگڑے کے دوران جب حالات بہت کڑے ہوں تو ثالثی اور صلح صفائی کے لیے بھی اپنے ہی آگے بڑھتے ہیں اور آپ کی زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ الغرض وہ معاملات جن کو ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیاں سمجھتے ہیں۔ انہی میں اگر خوشیاں تلاش کی جائیں تو کسی قدر بہتر اور متوازن زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

بسا اوقات ہمیں مختلف مواقع پر رویے بھی ناخوش رکھتے ہیں۔ درج ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو رویے میں بہتری کے ساتھ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور بہت سی خوشیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

 منفی سوچ:

کسی بھی معاملے کا تاریک پہلو دیکھنے اور ہر بات پر منفی انداز سے سوچنے والی خواتین عموماً ناخوش رہتی ہیں۔ زندگی میں بہتری کے لیے مثبت سوچ کو اپنانا ازحد ضروری ہے۔

ماضی میں رہنا:

ماضی میں ہونے والے تلخ واقعات کی یاد ہمیشہ ناخوش رکھتی ہے۔ حال میں جینا انسان کو خوش رکھتا ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کو ماضی کے ناخوش گوار واقعات یاد نہیں آتے، بلکہ خوش مزاجی اور حال میں جینے کی عادت آپ کو مطمئن اور مسرور رکھتی ہے۔

دوسروں سے موازنہ

تقریبات میں یا سوشل ویب سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر دیکھ کر اکثر خواتین احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں یا وہ اسے اپنی محرومیوں اور مسائل پر کڑھنے کی بنیاد بنا لیتی ہیں۔ اپنی ذات، شخصیت یا حالات کا دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے سے بہتر حالات میں جینے والے کو دعا دیں۔ اس کی کام یابی پر خوشی کا اظہار کریں اور ہمیشہ اپنے رب کی شکرِگزار رہیں۔ اس طرح آپ اپنے اندر ایک قسم کی توانائی اور مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔

 حادثاتی اور اختیار سے باہر معاملات پر کڑھنا:

ٹریفک جام، کوئی معمولی یا بڑا حادثہ، کسی بھی قسم کے نقصان، اشیاء کی بڑھتی قیمتیں یا لوگوں کے رویے وغیرہ یہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جن کے متعلق مسلسل سوچنا آپ کی تکلیف ہی بڑھائے گا اور یہ ایسے معاملات ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں یا آپ ان پر قابو نہیں پا سکتیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ زمینی حقائق پر نظر رکھیں۔ کسی بھی معاملے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس پر کڑھنے کے بجائے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ آپ کے سوچنے اور فکر مند رہنے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ خود کو ہلکان نہ کیا جائے اور خوش رہا جائے۔

احساسِ کم تری:

بیشتر خواتین اپنے ظاہری سراپے، رنگ روپ کا دیگر خواتین سے موازنہ کرتی ہیں۔ اکثریت کو اپنی ذات میں کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی ہے۔ مثلاً سانولی رنگت کی خاتون گورا ہونا چاہتی ہیں۔ چھوٹا قد ہو تو اس پر کڑھتی ہیں جب کہ کوئی بھی عورت چاہے وہ کسی بھی رنگ روپ کی مالک ہو اگر پُراعتماد اور بااخلاق ہو تو اسے سب اہمیت دیتے ہیں اور وہ باوقار اور منفرد  سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور سب کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام مادی آسائشوں کے باوجود اور اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود خواتین ناخوش ہوتی ہیں اور اس کی کوئی وجہ نہیں جان پاتیں۔ روح میں ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ اس جمود کو توڑنے اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ عبادت اور انسانیت کی فلاح اور لوگوں کی خدمت کے کام ہیں۔ کسی کو اچھا مشورہ دینا، کسی بیمار کی عیادت کرنا، غریب کی مالی مدد کرنا، کسی یتیم بچے کی کفالت جیسے بے شمار کام سچی خوشی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنا، رشتے داروں سے ملنا یقیناً خوشی اور اطمینان کا وہ احساس عطا کریں گے جن کا الفاظ میں بیان ممکن ہی نہیں۔

The post شکوے شکایات اور مایوسی سے پیچھا چھڑائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم چاند پر سبز باغ لگائیں گے

$
0
0

چین نے چاند پر چپاس۔۔۔معاف کیجیے گا کپاس بونے کا دعویٰ کیا ہے جسے ہمارے دوست چاچا چپڑقنات المعروف ’’میں نہ مانوں‘‘ نے مسترد کردیا ہے۔ چاچا چپڑقنات اس سے پہلے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے تاریخی واقعے کو ’’ابے بکواس کر ریے ہیں‘‘ کہہ کر رد کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے،’’جو جَنے چاند پر پاؤں دھرنے کی گپ مار ریے ہیں ون سے ذرا یہ تو پوچھیو کہ بھیے وہ کون سا چاند تھا، عید کا، چودھویں کا۔ میں کؤں عید کے چاند کے تو دونوں طرف نوکیں نکلی ہوتی ہیں تو پاؤں دھرا تو دھرا کیسے، اور چودھویں کا چاند ہوئے پورا گول، اس پر پیر رکھتے ہی بندہ پھسل جاوے۔۔۔سچ کیریا ہوں، ہانک رہے ہیں بس۔‘‘ چاند پر کپاس اُگانے کی خبر سُن کر پہلے تو وہ کھی کھی کھی کرکے دیر تک ہنستے رہے، پھر بولے،’’میں نہ مانوں، اور مانوں تو کیسے مانوں، بھیے بچپن سے سُنتے آئے ہیں چاند پر ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ چلارہی ہے۔

اب وہ کوئی اُلو کا چرخا تھوڑی چلارہی ہے، ظاہر ہے کچھ کات رہی ہوگی۔ اب پتا چلا کہ وہ کپاس کی پُھٹی سے دھاگے بناتی رہتی ہے۔ میں کؤں اتی سی بات نہیں سمجھتے، چاند پر کپاس ہمیشہ سے اُگ رہی ہے اسی لیے تو بڑھیا کو چرخے کے لیے کپاس مل رہی ہے۔ ان چینیوں نے دوربین لگا کر چاند پر اُگی کپاس تاڑ لی اور چھوڑ دی کہ یہ ہم نے اُگائی ہے، چھوڑو کہیں کے۔‘‘

چاچاچَپڑ قنات کی ڈھٹائی اور دلیل، جو انھیں ہر معقول آدمی کے سامنے ذلیل کردیتی ہے، اپنی جگہ، لیکن ہمیں نہ صرف چینیوں کے دعوے پر یقین ہے بلکہ ہم اس محیرالعقول کارنامے پر چین کی سائنسی صلاحیت کے پہلے سے زیادہ قائل ہوگئے ہیں۔ لیکن بھیا پاکستان پاکستان ہے، چینی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم تو ترقی کے معاملے میں چین پر ہر روز بازی لے جاتے ہیں۔ چین نے چاند پر کپاس اُگادی ہم تو زمین پر پورے کے پورے چاند ’’اُگائے‘‘ اور آبادی بڑھائے جارہے ہیں۔ چاندوں کی اس فصل کے باعث ہر گھر میں اپنے کئی کئی چاند ہیں، آنکھ کے تارے ان کے علاوہ ہیں۔ ترقی کا یہ سفر آگے بھی بڑھے گا۔

چینیوں نے تو چاند پر فقط کپاس کی فصل اُگائی ہے، اب حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق 2022 سے پہلے پاکستان کا پہلا خلائی مشن خلاء میں بھیجا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا ہوگا۔ یہ مشن نہ صرف خلاء میں جائے گا بلکہ چاند پر بھی نزول فرمائے گا اور چین کے کپاس کے کھیت کے ساتھ والی زمین پر سبزباغ اُگائے گا، اس طرح سبز باغ اُگانے میں ہمارے حکم رانوں کو جو مہارت حاصل ہے وہ چاند پر کام آئے گی اور ہماری عزت بڑھائے گی۔

ہماری ہوائی قلعے تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی یقیناً کرشمے دکھائے گی اور ہم خلاء میں خلائی قلعے بناکر کائنات میں اپنے دشمنوں کے قلع قمع کا سامان کرلیں گے، بس ہمارے دعوؤں کی قلعی نہ کُھلے اور ہمارے خلائی مشن خالی خولی مشن ثابت نہ ہوں۔

The post ہم چاند پر سبز باغ لگائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ نسخہ نہیں چلنے کا

$
0
0

ویسے تو بعض اوقات بھولنا اتنا مشکل ہوتا ہے اور یادیں اس قیامت کی کہ شاعر کو کہنا پڑتا ہے، یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔۔۔

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا، لیکن یہ معاملہ کوئی اور ہے، جہاں تک عام معاملات کا تعلق ہے تو کہنا پڑتا ہے ’’یاد رکھنا عذاب ہے یارب۔۔۔کردے تو تیز حافظہ میرا۔‘‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کو کم زوریادداشت کا مسئلہ درپیش ہے، یہ مسئلہ سنگین تر تب ہوجاتا ہے جب بیگم دھنیا منگائیں اور آپ پودینہ لے آئیں، پھر دماغ کی وہ دُھنائی ہوتی ہے کہ ذرا سا پودینا مشکل کردیتا ہے جینا۔ شادی شدہ حضرات کے لیے اپنی شادی کی تاریخ اور بیگم کا یوم ولادت بہ سعادت یاد رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے موت کو یاد رکھنا، اگر یہ تاریخیں موقع پر یاد نہ رہیں تو موت سر پر منڈلانے اور خود کو یاد دلانے لگتی ہے اور بندہ کہہ اٹھتا ہے۔۔۔یادِ ’’شادی‘‘ عذاب ہے یارب۔‘‘

کم زور یادداشت کے ہاتھوں زِچ افراد کے لیے اب ماہرین نے ایک ایسا نسخہ پیش کیا ہے جس سے انھیں یقیناً افاقہ ہوگا۔ ایک خبر کے مطابق کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھولنے کے مسئلے کا یہ حل نکالا ہے کہ اس عارضے کا شکار اس بات، سبق یا شئے کی تصویر بنائیں جسے بھول جاتے ہیں یا بھولنے کا اندیشہ ہے۔ گویا یہ تصویر آپ کے دماغ سے یاد بن کر چپک جائے گی۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی مصور تو نہیں ہوتا، جیسے ہم۔۔۔ہم نے جب بھی اپنی تصویر بنائی دیکھنے والوں نے یہ کہہ کر داد دی ’’کارٹون بنانے کی اچھی کوشش ہے، محنت کرکے آپ اچھے کارٹونسٹ بن سکتے ہیں۔‘‘ ایک بار ہم نے مونالیزا کو تصویر کرنا چاہا تو وہ موئے غلیظہ وجود میں آیا ہم کسی کو منہہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اب ہم جیسے لوگوں نے اس نسخے پر عمل کیا تو ہوگا یوں کہ بیگم کہیں گی’’سُنیے! ذرا ایک کلو آلو اور ایک پاؤ دہی لے آئیں، مُنے کے پیمپر ختم ہوگئے ہیں، لیتے آئیے گا، اور ہاں، فرخندہ باجی کے گھر چلے جائیے گا، ان سے کہیے گا وہ والا جوڑا دے دیں جو انھوں نے سلیم بھائی کی سالی کی نند کی مایوں میں پہنا تھا۔ ان سے کہیے گا کچھ دن بعد واپس کردوں گی۔ گلی کے کونے پر جو موچی بیٹھا ہے ناں اسے میں نے سینڈل بننے کو دیے تھے، وہ بھی لیتے آئیے گا۔ جلدی آئیے گا، مجھے کھانا پکانا ہے۔‘‘

اب بتائیے، کوئی موپساں، لیونارڈو، صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی بھی یاد رکھنے کے لیے اتنے کم وقت میں آلو، دہی، پیپمر، فرخندہ باجی، سلیم بھائی، ان کی سالی، سالی کی نند، جوڑے، موچی اور سینڈل کی تصویریں بناسکتا ہے۔ ہمارے جیسا ’’چترکار‘‘ جو آرٹ کے نمونے بنائے گا ان میں فرخندہ باجی آلو ہوجائیں گی، سلیم بھائی سینڈل کی صورت لے لیں گے، پیمپر کی عکس دہی کی تصویر ہوگا، دہی موچی کی شکل میں نمودار ہوگا اور موچی کا چہرہ قرطاس پر پیمپر بن کر اُبھرے گا۔ یہ تصویریں ذہن میں چسپاں ہوکر مزید ستم ڈھائیں گی۔ سبزی کی دکان پر جاکر پیمپر مانگے جائیں گے، میڈیکل اسٹور سے دہی طلب کیا جائے گا، فرخندہ باجی سے مخاطب ہوکر کہا جائے گا،’’سلیم بھائی! سینڈل کی مرمت ہوگئی ہے تو دے دو‘‘ اور سینڈل ’’سے‘‘ مرمت کے بعد دماغ میں بنی ساری تصویریں یوں گُڈمُڈ ہوجائیں گی کہ موچی کے پاس جاکر فرمائش ہوگی،’’فرخندہ باجی دے دو، کچھ دن بعد واپس کردیں گے۔‘‘

ہم جیسے عام بھلکڑوں کے لیے یہ نسخہ کارآمد ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے، مگر سیاست دانوں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ انھیں اپنے وعدے یاد رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو عوام کی تصویر بنانا ہوگی، کاغذ پر غربت کا نقشہ کھینچنا ہوگا، منہگائی کو تصویر کرنا ہوگا۔ اصل دشواری تب پیش آئے گی جب وہ غیرت، خودداری، دیانت اور جرأت کے وعدے یاد رکھنے کے لیے تصویر بنانے بیٹھیں گے، بہت سوچنے کے بعد بھی جب تصویر نہیں بن پائے گی تو کاغذ پر کچھ لکیریں کھینچیں گے، اور پھر کاغذ پر دو ہی تصویریں نظر آئیں گے کوڑے کے ڈبے اور یوٹرن کی۔

The post یہ نسخہ نہیں چلنے کا appeared first on ایکسپریس اردو.

بات سُنی نہیں گئی

$
0
0

ایسے تو بہت سے ہیں جو سُنی ان سُنی کردیتے ہیں، سُن کر نہیں دیتے اور ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں، لیکن ان کا یہ عمل کسی امتیاز کے بغیر ہوتا ہے، اس کے برعکس چین کی ایک خاتون کے ساتھ عجیب مسئلہ ہوا ہے کہ وہ خواتین کی آواز تو سُن پارہی ہیں لیکن مَردوں کی آواز سُننے سے محروم ہوگئی ہیں۔ ان کے ساتھ یہ مسئلہ پیدائشی نہیں، وہ ایک صبح سوکر اُٹھیں تو اس کیفیت کا شکار تھیں۔

ہم تحریک نسواں (feminism) کی علم برداروں کو مشورہ دیں گے کہ ان چینی خاتون کو فوری طور پر اپنی تحریک کی علامت بنالیں اور انھیں عورتوں کی ’’قومی ہیروئن‘‘ قرار دے دیں۔ بھئی ایسی خاتون پوری دنیائے نسوانیت اور تاریخ خواتین میں کہاں ملے گی جو مردوں کی ذرا نہ سُنتی ہو۔

تحریک نسواں کی بی بیاں ڈاکٹروں سے اس کیفیت کے اسباب معلوم کرکے اسے عورتوں میں چھوت کی بیماری کی طرح پھیلا بھی سکتی ہیں، جس کے بعد بیویاں شوہروں کی سُننے سے یکسر بے خوف وبے پروا ہوکر انھیں کھری کھری سُنایا کریں گی اور شوہر بے چارے بے بسی سے سُنا کریں گے۔ یوں شوہر حضرات کے سارے حکم، ہدایات اور فرمائشیں خودکلامی بن کر رہ جائیں گی۔ آزادیٔ نسواں کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

قدرت بھی کبھی کبھی کتنی ناانصافی کرتی ہے، جس کیفیت کی ضرورت ہر مرد کو ہے وہ ایک خاتون کو عطا کردی۔ اگر یہ کیفیت مردوں پر طاری ہوجائے تو ان کی زندگی آسان ہوجائے، جینے کا سامان ہوجائے، ہلکا پھلکا کان ہوجائے۔ بیویاں سُناتی رہیں اور شوہر بیٹھے مسکراتے رہیں، ’’کہاں جا رہے ہیں‘‘،’’کہاں سے آرہے ہیں‘‘، ’’کیوں‘‘، ’’کیا‘‘، ’’کیسے‘‘، ’’کون‘‘۔۔۔۔جیسے سارے ’’کاف‘‘ کان سے دور رہیں، تو اس ’’کان کَنی‘‘ سے نجات پاکر کان بہت کچھ سُننے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ ہوگیا تو ’’سُنیے‘‘ اور ’’اجی سُنتے ہو‘‘ جیسے حکم ناموں کے ابتدائیے تاریخ کا حصہ اور ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔ یہی نہیں اندرون خانہ کے ساتھ مرد بیرون خانہ ہونے والی بے عزتی سے بھی بچ جائیں گے، یعنی بے عزتی ہوگی تو مگر وہ سُن نہیں پائیں گے، گویا اپنے مُنہ پر بھی پیٹھ پیچھے بُرائی ہوگی۔

جب بھی نسوانی آواز کی سماعت سے محروم ہوجانے والی کوئی صاحب کسی خاتون کو بڑی محبت سے دیکھ کر ان کی تعریف اور اپنے جذبات کا اظہار کریں گے، اور جواب میں وہ ارشاد فرمائیں گی’’آپ کتنے چھچھورے ہیں‘‘،’’شرم نہیں آتی‘‘،’’گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں‘‘،’’اُتاروں جوتی؟‘‘ وغیرہ وغیرہ تو یہ گالی گفتار کانوں سے نہیں گزرے گی اس لیے طبیعت پر گراں بھی نہیں گزرے گی۔ چناں چہ خواتین کی آواز سُننے سے محروم ہونے کی ’’صلاحیت‘‘ بے خوفی، ڈھٹائی اور بے غیرتی میں روزافزوں اضافے کا سبب بنے گی۔ البتہ کسی دھول دھپے کی عادی بی بی نے عین کان کے پاس ہاتھ بجادیا تو عورتیں اور مرد کیا مُردوں کی آوازیں بھی سُنائی دینے لگیں گی۔

اگرچہ ڈاکٹروں میں مذکورہ چینی خاتون کی بیماری شاذ کے زمرے میں آتی ہے اور پوری دنیا میں صرف تین ہزار افراد اس کا شکار ہوئے ہیں، لیکن ہم اس رائے سے متفق نہیں۔ اس نوعیت کی بیماری لاتعداد لوگوں کو لاحق ہے، تاہم ضروری نہیں کہ وہ مرد یا عورت میں سے کسی کی آواز نہ سُن پائیں۔ ہر ایک کی کیفیت کی اپنی اپنی نوعیت ہے، طاقت ور کم زور کی نہیں سُن پاتے، حکم راں عوام کی نہیں سُنتے، کم علم اہل علم کی نہیں سُنتے، اہل علم ایک دوسرے کی نہیں سُنتے۔۔۔۔۔اسی عام عارضے کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا:

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی

The post بات سُنی نہیں گئی appeared first on ایکسپریس اردو.


چِڑ؛ دلچسپ موضوع پر شگفتہ تحریر

$
0
0

ہماری بچپن، لڑکپن میں کچھ لوگوں کی چڑیں ہوا کرتی تھیں۔ اب شاذ ہی کسی کی سننے میں آتی ہے۔ کسی کی چڑ گلاب جامن ہوتی تو کوئی بینگن سے چڑتا۔ کوئی جلیبی کہہ دینے پر بل کھاتا تو کوئی بھنڈی کہہ دینے پر بھناجاتا۔

لوگ ضروریات زندگی میں شامل بہت معمولی اور بے ضرر اشیا کا محض نام لے لینے سے کیوں چڑ جاتے ہیں اور بسا اوقات، انتہائی شدید رد عمل کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ پھر اب سے تیس چالیس برس پہلے یہ مرض کیوں عام ہوا کرتا تھا۔ اب اس میں کمی کیوں آئی؟ ان سوالوں کے جواب کی تلاش سے دل چسپ اور معلومات افزا حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے چند واقعات ملاحظہ کیجیے۔

ہمارے محلے میں ایک بزرگوار تھے۔ ٹماٹر کہہ دینے پر آپ سے باہر ہوجاتے۔ پتھر ڈھیلا جو ہاتھ آتا کہنے والے کو پھینک مارتے، یہ دیکھے بنا کہ کہنے والا تو رفو چکر ہوچکا ان کا نشانہ کوئی اور بن سکتا ہے۔ سن رسیدہ اور پیروں کے کسی مستقل عارضے میں مبتلا تھے لاٹھی کے سہارے مشکل سے چل پاتے مگر بعض اوقات اس قدر جذباتی ہوجاتے کہ اپنی معذوری بھی یاد نہ رہتی ’’ٹماٹر‘‘ کہنے والے کا لاٹھی چھوڑ کر تعاقب کرنے کی کوشش کرتے اور نتیجتاً زمین بوس، پھر ان کی حالت دیدنی ہوتی۔ انتہا یہ کہ موصوف مسجد میں ہیں اور باہر سے کسی نے صدا لگادی تو وہاں بھی اول فول بکنے لگتے۔

لونڈوں لپاڑوں کو کوئی کیسے اور کہاں تک روک سکتا ہے۔ امام صاحب اور انتظامیہ نے ان کے مسجد میں داخلے پر ہی پابندی لگادی۔ پھیری لگاکر سبزی فروخت کرنے والے صدا لگاتے تو ٹماٹر کہنے سے پہلے محتاط نظریں چاروں اطراف ڈال لیتے اور پورا اطمینان ہوجانے پر ہی ٹماٹر کہتے۔ موصوف کی موجودگی میں ’’ٹماٹر‘‘ گول ہی کر جاتے، کبھی چوک ہوجاتی مگر فوراً ہی خیال بھی آجاتا تو ’’ٹما‘‘ پر سکتہ اختیار کرتے اور موصوف کی عدم موجودگی کا یقین ہونے پر ’’ٹر‘‘ بھی کہہ دیتے۔

کہیں جو آمنا سامنا ہوتا تو سبزی فروشوں کی سہمی نظریں موصوف پر اور موصوف کی شک بھری نگاہیں ان پر لگی رہتیں۔ بعض ایسے مستقل چھیڑنے والے تھے جنھیں دور سے دیکھ کر ہی وہ پتھر، ڈھیلے اٹھالیتے اور گزر زیادہ چھیڑ چھاڑ والے علاقوں سے ہوتا تو دو چار ڈھیلے کرتے جیبوں میں ڈال کر چلتے اور منتظر نگاہوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو تکارتے کہ کب وہ چھیڑیں اور کب یہ اپنے اسلحے کا ذخیرہ استعمال میں لائیں۔

ایک اور بزرگوار کی چڑ ’’کریلا‘‘ تھی۔ موصوف ہر صبح ناشتے کا سامان خود لایا کرتے تھے۔ ایک دن محلے کے شریر لڑکوں نے ایک کریلا ڈوری سے باندھ کر ان کے دروازے کی چوکھٹ سے لٹکادیا۔ حسب معمول صبح گھر سے نکلے تو دروازے کے عین درمیان جھولتا کریلا منہ یا یوں کہہ لیجیے کہ منہ کریلے سے ٹکرایا۔ گڑبڑا کر پیچھے ہٹے۔ کریلے کی جگہ سانپ بھی ہوتا تو شاید وہ حالت نہ ہوتی جو ہوئی۔ ہولناک چیخ ماری اور پلٹ کر گھر کے اندر کی طرف بھاگے۔ ہاتھ میں پکڑی دودھ کی بالٹی کہیں، سر پر دھری میلی جیکٹ ٹوپی کہیں۔ اہل خانہ بھی گھبراگئے، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، گلی محلے کے لوگ بھی دریافت حال کو دوڑے اور دروازے پر جھولتا کریلا دیکھ کر ہی ان میں سے اکثر معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔

بعض کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کچھ نے شرارت کرنے والوں پر ناراضی کا اظہار کیا، اس دوران اہل خانہ میں سے بھی لوگ باہر آئے اور کریلا جھولتا دیکھ کر جن آرا کا اظہار فرمایا کریلا باندھنے والوں کے علاوہ بھی کسی کا ان سے متفق ہونا ممکن نہ تھا۔ بعد ازاں گھر کے ایک بھیدی ہی نے بتایا تھا کہ کریلا لٹکانے کی واردات کا شکار ہونے کے بعد موصوف کے حواس قدرے بحال ہوئے تو انھوں نے فوراً غسل خانے کا رخ کیا اور چہرے کے اس حصے پر صابن کی آدھی بٹی گھس ڈالی جس سے کریلا ٹکرایا تھا۔

ایک اور صاحب کہ جن کی پرچون کی دکان تھی، ان کی چڑ ’’زردہ‘‘ تھی کسی دعوت میں جانے سے پہلے پوچھ لیتے ’’وہ‘‘ تو نہیں ہوگا اور اگر کوئی ’’وہ‘‘ کی تعریف طلب کرتا تو اس سے ناراض ہوجاتے اور پھر ہرگز اس کی دعوت میں نہ جاتے خواہ کیسا ہی قریبی عزیز ہوتا اور کیسی ہی اہم تقریب، ایک روز دکان پر ایک نوجوان آیا اور چار آنے کا ’’زردہ‘‘ طلب کیا یہ لوگ نئے نئے محلے میں آئے تھے۔ دکان دار نے نوجوان کو کڑی نگاہ سے دیکھا اور بولے ’’میاں! جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں محلے میں آئے ہوئے۔ ابھی سے پر پرزے نکالنے لگے۔ ماں باپ نے کوئی تمیز تہذیب نہیں سکھائی۔ چھوٹے بڑوں کے ادب آداب کا نہیں بتایا؟

نوجوان پریشان … جی!… میں نے کیا کیا ہے جو آپ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ کررہے ہیں؟‘‘

’’دو منٹ میں پتا چل جائے گا، کیا کیا ہے، کیا نہیں کیا …یہ (محلے کا نام لے کر) بڑے بڑے سیدھے ہوجاتے ہیں یہاں آکر سمجھے! دکاندار کا مزاج سخت برہم تھا۔

’’آ…آپ… یقین کیجیے… میں نہیں سمجھا کہ آپ …‘‘ نوجوان نے پریشان لہجے میں کچھ کہنا چاہا جو دکاندار نے بات کاٹ دی اور زیادہ جارحانہ انداز میں کہا:

’’اے! بس… رہنے دے … میں سب جانتا ہوں، تیرا کن بچوں گفتگو میں اٹھنا بیٹھنا ہے … وہ خود تو مارے جائیں گے … ساتھ تجھ جیسے بھی لپیٹ میں آئیں گے مفت میں …‘‘

اس دوران کئی لوگ موقع پر جمع ہوگئے تھے۔ کسی نے معاملہ دریافت کیا تو نوجوان نے کہا ’’پتا نہیں کیوں ناراض ہورہے ہیں۔ میں تو زردہ‘‘ خبردار جو کچھ بکواس کی۔ جان سے ماردوں گا۔ دکاندار نے چیخ کر کہا اور ساتھ ہی آدھ پاؤ کا باٹ اٹھاکر نوجوان کے کھینچ مارا جو اس کے سینے پر پڑا۔ نوجوان ’’اوع‘‘ کی آواز نکال کر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔ خاصی چوٹ آئی تھی۔ موقع پر موجود لوگوں تو دکاندار پر لعن طعن کی ہی، اس کے گھر والوں نے بھی اچھی درگت بنائی تھی مگر انھوں نے چڑ نہ چھوڑی۔

ایک اور حضرت تھے بے چارے نیم پاگل۔ بکا کہے جاتے تھے۔ آگے پیچھے کوئی تھا نہیں، مانگ تانگ کے گزارا چلتا تھا۔ ان کی چڑ تھی ’’بکا روٹی چور‘‘ ادھر کسی نے بکا روٹی چور پکارا ادھر وہ جہاں تھے وہیں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ کچھ دیر مچلنے تڑپنے کے بعد اٹھتے اور کہنے والے پر اگر وہ بھاگ گیا ہے تب بھی اس جانب جدھر سے اس نے آواز لگائی تھی پتھروں کی بارش کردیتے۔ مگر جی اس پر بھی ہلکا نہ ہوتا۔ عالم جنون میں کوئی پختہ جگہ تلاش کرتے جو عموماً سڑک ہی ہوتی اور اس پر سردے دے مارتے حتیٰ کہ خون بہہ نکلتا، تب انھیں قرار آجاتا۔ اول اول تو سڑک سے ٹکرانے پر سر پھٹ جاتا تھا۔ برسوں کی مشق سے ایسا مضبوط ہوگیا کہ پوری قوت صرف کرنے پر بھی سلامت رہتا۔ سڑک پر کیا گزرتی، یہ سڑک جانے۔

یہ چڑ اور چڑوالوں کی یاد ہمیں یوں آئی تھی کہ ایک روز ہم اپنے فیملی قسائی سے گوشت خرید رہے تھے کہ اچانک اس نے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے آواز لگائی ’’اے او تربوج کدھر کو!؟…‘‘

ہم نے پلٹ کر دیکھا تو ایک مدفوق سا شخص دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا ’’آرہا ہوں۔ ککڑی کی اولاد … آرہا ہوں۔ صبر رکھ‘‘ اس شخص نے جواب دیا تو ہمیں حیرت ہوئی۔ یہ شخص کسی طرف سے بھی تربوز نہیں تھا۔ تربوز کی پھانک کہا جاتا تو درست ہوتا۔ ہم نے قسائی سے یہی بات کہی تو وہ ہنس کر بولا: بھائی میاں! یہ پہلے واکعی میں تربوج تھا۔ گول مٹول، اِتی بڑی توند یہ گول گول کلائیاں، بس (گہری سانس) سوگر کھاگئی اس کو۔‘‘ ’’اور یہ ککڑی کی اولاد؟‘‘

’’ارے وہ!‘‘ قسائی نے چھپنی سے ہنسی کے ساتھ کہا ’’جب ہم لوگ اسے تربوج کہہ ویںتھے تو او وی ہمیں کچھ نہ کچھ کیوے تھا۔ جیسے مجھے ککڑی اور یہ سوکھی مرچی‘‘ قسائی کا اشارہ تیزی سے چاپڑ چلاتے محنتی سے شخص کی طرف تھا۔ جو ہمارا ہی قیمہ بنارہا تھا۔ بوٹیاں پہلے ہی بن چکی تھیں۔ قیمہ بھی بن گیا تو ہم تھیلا سنبھال کر وہاں سے چل دیے۔ گھر کے قریب پہنچے تو دروازے پر ایک لاٹ صاحب ٹائپ کے شخص کو کھڑا پایا۔ شکل جانی پہچانی سی لگی اور پھر دل خوشی سے کھل اٹھا۔ وہ ہمارا لنگوٹیا مناف تھا جسے ہم پیار سے منفی کہا کرتے تھے۔

منفی، نفسیات کا ڈاکٹر اور طویل عرصے سے آئرلینڈ میں مقیم تھا۔ ہم والہانہ ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ یہ جان کر تو خوشی کئی چند ہوگئی کہ وہ ایک روز ہمارے گھر قیام کے پروگرام کے ساتھ وارد ہوا تھا۔ حسن اتفاق کہ اگلے روز ہماری چھٹی بھی تھی خوب باتیں ہوئیں۔ پرانی یادوں کا تذکرہ کبھی ہمارے مشترکہ قہقہوں سے فضا کو گرما دیتا تو کبھی دلوں کو اداس کرجاتا۔ دونوں کا اپنا اپنا حسن، اپنا اپنا مزا تھا۔ کہتے ہیں ماضی خواہ کتنا ہی تلخ ہو اس کی یادیں اور باتیں ہمیشہ میٹی لگتی ہیں۔

باتوں کے دوران چڑ اور چڑنے چڑانے والوں کا تذکرہ بھی نکلا ہم نے سوال اٹھایا ’’آخر کیا وجہ ہے کہ انتہائی بے ضرر اور معمولی چیزیں لوگوں کی چڑ بن جاتی ہیں۔ ان کا محض نام لے لینے بلکہ اشارۃً، کنایۃً بھی توجہ مبذول کرانے سے جاہل جہلا تورہے ایک طرف اچھے بھلے معقول، سمجھ دار اور شائستہ انسان بھی پھٹ پڑتے ہیں۔ معقولیت کے دائرے سے نا معقولیت کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں، اپنا مقام و مرتبہ یاد رہتا ہے نہ عزت و وقار کا پاس۔‘‘ ’’منفی‘‘ کا جواب تھا : بلا شبہ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے اور اس پر نفسیات کے اساتذہ نے بحث بھی کی ہے۔

تاہم اس حوالے سے ہمارے (ماہرین نفسیات کے) پاس شکایات نہ آنے کے برابر آتی ہیں کیوںکہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی معاشرے میں عوام کی سطح پر اسے کوئی بیمار سمجھاہی نہیں جاتا۔ ’’منفی‘‘ کا کہنا تھا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص جس چیز سے چڑ رہا ہو اس سے اس کی کوئی تلخ تکلیف دہ یا نا خوش گوار یاد وابستہ ہو جو ابتدا میں اس کے لیے کوئی اہمیت بھی نہ رکھتی ہو مگر لوگوں کے علم میں آجائے ان کی طرف سے تکلیف دینے کی نیت سے نہ سہی۔ چھیڑچھاڑ یا ہنسی مذاق کے طور پر ہی اس کی بار بار موقع بے موقع تکرار اس کے لیے ایک ذہنی ضرب کی حیثیت اختیار کر گئی ہو اور بالآخر وہ لمحہ آجائے جب ایک بالکل عام سا لفظ اس شخص کے لیے ایک دھماکا خیز چیز بن جائے جب کہ معاشی و معاشرتی حیثیت، تعلیمی مرتبہ، شخصیت کی کمزوری، دیگر ذہنی و نفسیاتی الجھنیں اور پریشانیاں خاندان اور ماحول کا پس منظر سمیت متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔‘‘

’’مگر بیان کردہ اسباب و علل تو پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ وسیع اور شدید نظر آتے ہیں یہ چڑنے والوں کی تعداد کم کیوں ہوگئی؟ کیا اب اس میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟‘‘ ہمارا استفسار تھا۔

منفی نے کہا ’’پینتیس، چالیس برس پہلے کے مقابلے میں آج ابلاغ کے ذریعے بہت زیادہ اور متنوع ہوگئے ہیں تعلیم و تعلم، فکر و نظر کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ پھر کسب معاش کی بھاگ دوڑ بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ اب نہ چڑانے والوں کے پاس چڑانے کا وقت ہے اور نہ چڑنے والوں کے پاس چڑنے کا۔ ٹی وی، کیبل، انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگ فارغ وقت بھی اب گھروں ہی میں گزارتے ہیں نہ پہلے جیسا ملنا جلنا ہے نہ بیٹکھیں ہیں نہ چوپالیں۔ دیوار سے دیوار جڑی ہونے کے باوجود ہفتوں پندرہیوں میں کہیں ملاقات ہوتی ہے وہ بھی علیک سلیک تک محدود۔ جب لوگ ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں تو کمزوریوں، خامیوں، عادات و خصائل سے بھی واقف نہیں ہوںگے۔ چڑیں بنیں تو کیسے۔ پھر شعور کی بالیدگی اور پختگی نے بھی فرق ڈالا ہے اب لوگ ایسی باتوں کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی نامناسب سمجھتے ہیں۔

اور جہاں تک کھانے پینے کی اشیا سے چڑنے کی بات ہے تو اس کی وجہ صاف ہے کوئی چیز کسی صاحب کو پسند نہ ہو اور دوست احباب یا گھر والے انھیں چھیڑنے کے لیے بار بار ان کے سامنے اسی چیز کا ذکر کریں یا وہ چیز ان کے سامنے لائی جاتی رہے تو ایک وقت آئے گا جب وہ صاحب اس سے چڑنے لگیںگے اس معاملے میں ذاتی انا تکبر اور احساس برتری کا بھی اہم کردار ہوسکتا ہے‘‘ منفی نے اس حوالے سے اور بھی باتیں کیں، بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی مگر سبب بیان سے رہ گیا چلیے وہ ذیل میں بیان کیے گئے واقعے سے خود سمجھ لیجیے۔

1978 کی بات ہے ہم ایک روزنامہ سے وابستہ تھے ایک روز دفتر کے سٹی روم میں جہاں رپورٹر بھی بیٹھا کرتے تھے چڑ اور چڑنے کا تذکرہ نکل آیا۔ ایک صاحب کا کہنا تھا بھئی ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اچھا یا برا محسوس کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے ہر انسان کو کوئی چیز یا بات اچھی لگتی ہے، کوئی بری، ان میں بھی کوئی زیادہ کوئی کم، جو چیز بری لگے انسان اس کو نا پسند کرتا ہے۔ بہت بری لگتی ہو تو اس کی ناپسندیدگی بھی زیادہ ہوتی ہے اور اگر وہی چیز بار بار اس کے سامنے آئے وہ اس سے جتنا جان چھڑائے اتنی ہی وہ اس کی جان کو آئے تو اس کا منفی رد عمل بھی شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی شدید ترین رد عمل کا نام ’’چڑ‘‘ ہے۔

’’اماں چھوڑو بھی۔ فضول باتیں کرتے ہو‘‘ ایک صاحب (نام فرض کرلیجے وارثی) بولے ’’سچی بات یہ ہے کہ چڑوڑ کچھ نہیں ہوتی یہ جو چڑنے والے ہوتے ہیں ناں ڈراما کرتے ہیں، ڈراما، لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے، ورنہ تو ہمیں بھی بہت سی چیزیں ناپسند ہیں۔ ہماری تو کوئی چڑ نہیں ہے۔

’’اچھا‘‘، سامنے بیٹھے نوجوان رپورٹر کی آنکھوں میں شرارت بھری چمک ابھری ’’آپ کی کوئی چڑ نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں، میری کوئی چڑ وڑ نہیں ہے۔ باؤلا تھوڑی ہوں میں۔‘‘ وارثی صاحب نے جواب دیا۔ لہجے میں تکبر تھا بس اس کے بعد تو ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ نوجوان رپورٹر نے سامنے بیٹھے ساتھی رپورٹر کو مخاطب کیا:

’’ارے کچھ سنا تم نے، یہ وارثی صاحب کیا کہہ رہے ہیں‘‘

’’نہیں تو! کیا کہہ رہے ہیں‘‘

’’کہتے ہیں، ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا! بھئی کمال ہے‘‘

’’کیا کہا!‘‘ اسی وقت دروازے کے قریب کھڑے ایک اور رپورٹر نے چونکنے کی اداکاری کی کس کی چڑ نہیں ہے…‘‘

اس کا سوال ابھی تشنہ جواب تھا کہ سٹی ایڈیٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے، کسی نے کہا بھئی صاحب بھی آگئے۔

’’ہائیں، آگئے کیا مطلب، کیا پہلی بار آئے ہیں‘‘ شگفتہ مزاج سٹی ایڈیٹر صاحب نے برملا کہا:

’’آپ تو پہلی بار نہیں آئے مگر ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جو آپ پہلی بار سنیں گے‘‘

’’اچھا!‘‘ سٹی ایڈیٹر صاحب نے کرسی سنبھالتے ہوئے پرشوق لہجے میں پوچھا ’’وہ کیا‘‘

’’یہ اپنے وارثی صاحب ہیں ناں!‘‘ رپورٹر نے وارثی صاحب کی نظر بچاکر ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا:

’’تو یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو چالیس پینتالیس برس سے اس دھرتی اور سال بھر سے یہاں، ہماری چھاتی پر مونگ دل رہے ہیں۔‘‘ سٹی ایڈیٹر صاحب نے رپورٹر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تبصرہ فرمادیا۔

’’افوہ! آپ پوری بات تو سنیں‘‘ رپورٹر نے قدرے جھنجھلا کر دوبارہ آنکھ دبائی ’’وارثی صاحب کی کوئی چڑ نہیں ہے، یہ بات خود انھوں نے ہمیں ابھی بتائی ہے۔‘‘

’’ہائیں … چڑ نہیں ہے … یہ کیا چکر ہے وارثی!

’’ارے کچھ نہیں صاحب … بچے ہیں، ایک بات ہوگئی اسی کو رٹے جارہے ہیں۔‘‘ اسی وقت ایک رپورٹر ایک ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ دروازے پر نمودار ہوا جو اکثر ایک تنظیم کی پریس ریلیز لایا کرتا تھا۔ رپورٹر کا ایک ہاتھ اس شخص کے کاندھے پر تھا دوسرے سے وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رازدارانہ انداز میں مگر خاصی بلند آواز سے بولا ’’چاچا انھیں پہچانتے ہو!‘‘

نہیں تو! چاچا نے دانت نکالے، ویسے ایک آدھ بار دیکھا ہے یہیں‘‘

’’یہ ہمارے بڑے محترم ساتھی وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا جی!‘‘ بڑی اچھی بات ہے چاچا نے بدستور دانت نکالتے ہوئے کہا اور پریس ریلیز قریب رکھے بکس میں ڈال کر کمرے سے نکل گئے۔

دوسرے رپورٹر نے کمرے کے سامنے سے گزرتے ایک کارکن کو آواز دی جو کچھ ہی روز پہلے ادارے سے وابستہ ہوا تھا۔ وہ قریب آیا تو وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’تم انھیں تو نہیں جانتے ہوںگے ابھی۔‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ رپورٹر نے کہا ’’یہ وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے۔‘‘

وہ دفتر سے باہر کا کوئی شخص تھا اسے بھی روکا گیا۔

’’جی فرمائیے‘‘، اس نے استعجاب سے پوچھا:

’’دیکھو! یہ ہمارے بہت محترم ساتھی وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے‘‘

’’اچھا!‘‘ اس نے الجھی الجھی نظروں سے مخاطب کو دیکھا اور جانے لگا۔

’’ہمیں پتا تھا تمہیں یقین نہیں آئے گا۔ چلو تم خود ہی پوچھ لو!‘‘

اس شخص کی آنکھوں میں حیرت تھی اور انداز میں جھجک

’’ارے پوچھ لو، پوچھ لو، ناراض تھوڑی ہوںگے کیوں وارثی صاحب!‘‘

بات بلکہ ’’واردات‘‘ اب وارثی صاحب کی سمجھ میں آنے لگی تھی چہرے پر رنگ سے آ جارہے تھے۔ انھوں نے ایک خشمگیں نگاہ اس شخص پر ڈالی اور دہاڑے:

’’آ:پ کا کام ہوگیا اب تشریف لے جائیے، یا میری بلائیں لینے کا ارادہ ہے جناب کا۔‘‘ وہ شخص تیزی سے نکل بھاگا۔

اس دوران اور رپورٹر جن کے ساتھ اب بعض دیگر نوجوان کارکن بھی شامل ہوگئے تھے‘ دیگر شعبوں سے لوگوں کو لاتے اور انہیں بتاتے رہے کہ ’’یہ وارثی صاحب ہیں اور ان کی کوئی چڑ نہیں ہے۔‘‘ سٹی روم کے آگے اچھا خاصا ہجوم جمع ہوگیا تھا، کارکن مسکراتی نظروں سے وارثی صاحب کو دیکھتے ہوئے آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے۔

وارثی صاحب کی حالت اب دیکھنے والی تھی۔ چہرہ سرخ ہوگیا تھا، نتھنے پھول پچک رہے تھے۔ پیشانی پر سلوٹیں گہری ہوتی جارہی تھیں اور آنکھوں سے گویا شرارے پھوٹ رہے تھے۔

راہ داری کے ایک سرے پر پونچھا لگاتا خاکروب اب سٹی روم کے دروازے تک آپہنچا تھا، اسے بھی آواز دی گئی۔

’’ تو انہیں جانتا ہے ناں!…‘‘ وارثی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا گیا۔

’’ ہاں جی، کیوں نہیں…‘‘ وارثی صاحب ہیں… بڑے اچھے آدمی ہیں…‘‘ اس نے بانچھیں پھیلائیں۔

’’مگر ان کی اصل خوبی کا تجھے پتا نہیں ہوگا۔ ہمیں بھی آج ہی معلوم ہوئی ہے۔‘‘

’’اچھا!… وہ کیا بھلا؟…‘‘ خاکروب نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

’’ان کی کوئی چڑ نہیں ہے!…‘‘

وارثی صاحب میں اب ضبط کا یارانہ نہ رہا تھا۔ پوری قوت سے چیخے ’’ابے چوپ‘‘ خاکروب سہم کر رہ گیا۔

’’یہ کیا ذلالت لگائی ہے تم لوگوں نے … بہت دیر سے برداشت کررہا ہوں…‘‘

’’مگر ہوا کیا وارثی صاحب!…‘‘ ایک رپورٹر نے کمال معصومیت سے پوچھا۔

’’میرا سر ہوا ہے!…‘‘ انہوں نے بھنّا کر جواب دیا اور تنتناتے ہوئے ایڈیٹر صاحب کے کمرے میں جاگھسے۔

’’دیکھیے صاحب! ان لوگوں کو سمجھالیجیے، ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ اب تک صرف آپ کے لحاظ میں خاموش ہوں۔‘‘

ایڈیٹر صاحب کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ سر اٹھا کر تشویشی نظروں سے انہیں دیکھا اور سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وارثی صاحب بیٹھ گئے تو انہوں نے کہا:

’’ہاںو اب آرام سے بتائیے کیا بات ہے…‘‘ اور وارثی صاحب کی زبانی پورا احوال سن کر بولے:

’’تو بھئی اس میں اس قدر غضب ناک ہونے کی کیا بات ہے، جب آپ خود کہتے ہیں آپ کی کوئی چڑ نہیں ہے تو…‘‘

’’صاحب… یعنی آپ بھی !…‘‘ وارثی صاحب چلاّ اٹھے… ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھے اور کمرے سے نکل گئے۔’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔‘‘ یہ ان کا آخری جملہ تھا جو دفتر کے درو دیوار نے سنا۔ بعدازاں انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوادیا تھا۔n

The post چِڑ؛ دلچسپ موضوع پر شگفتہ تحریر appeared first on ایکسپریس اردو.

انگریزوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب

$
0
0

دور جدید میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ معاشی یا عسکری طور پر طاقتور ممالک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ملکوں کو انگریز (English people) نے آباد کیا جو بڑی مغربی نسلوں میں شمار ہونے والی نسل ہے۔

آج یہ انگریز اور دیگر مغربی نسلیں جمہوریت، سچائی اور انسانی حقوق کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان کا ماضی داغ دار بلکہ چشم کشا ہے۔ یہ ماضی آشکارا کرتا ہے کہ انگریز اور دوسری مغربی اقوام مثلاً جرمن، ولندیزی، ہسپانوی، فرانسیسی، پرتگالی وغیرہ، ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک کے وسائل لوٹ کر ہی امیر ہوئیں۔ اسی دولت کی مدد سے یورپی ممالک میں ترقی ہوئی اور وہاں خوشحالی کا دور شروع ہوا۔

کل کے چورآج ہیرو بن گئے

گویا آج یورپی اقوام ہر لحاظ سے ترقی کی معراج پر ہیں، تو اس کا باعث غریب ممالک سے لوٹا گیا مال و دولت بھی ہے۔ حقیقت میں مغربی ممالک چور ڈاکو ہیں جنہوں نے غریب ملکوں کے وسائل پر ڈاکا مارا اور خود کو امیر کبیر بنالیا۔اب امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر مغربی ممالک غریب ایشیائی و افریقی ملکوں کو اس طرح امداد دیتے ہیں جیسے ان پر کوئی احسان کررہے ہوں۔ سچ یہ ہے کہ مغربی ملکوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک سے کئی ’’ہزار کھرب روپے‘‘ مالیت کا مال و سامان لوٹا۔ ان کی امداد تو لوٹے گئے مال کا عشر عشیر بھی نہیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ آج پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک میں بہت سے لوگ انگریزوں، جرمنوں، فرانسیسیوں وغیرہ سے ذہنی طور پر مرعوب ہیں۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت تج کر ان کی زبان بولنے اور طور طریقے اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایسے افراد کو خصوصاً مغربی اقوام کی تاریخ کا آئینہ دکھانا چاہیے تاکہ ان پر اپنے آقاؤں کی اصلیت کھل سکے۔اُدھر بھارت میں مودی سرکار مملکت کے چپے چپے سے اسلامی دور حکمرانی کے آثار مٹانے پر کمربستہ ہے۔ شہروں سے لے کر عام بس سٹاپوں تک، جس جگہ کا نام اسلامی ہے اسے تبدیل کیا جارہا ہے۔ نصاب سے مسلم حکمرانوں کا تذکرہ ختم ہوچکا اور انہیں ’’لٹیرا‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ گویا قدامت پسند ہندو حکومت نے آن واحد میں ہندوستان میں مسلمانوں کے آٹھ سو سال دور حکومت کو بدی وشر کا منبع قرار دے ڈالا۔ دوسری طرف نریندر مودی امریکا و برطانیہ سے دوستی کرنے کی لیے ان کے قدموں میں بچھے بچھے جاتے ہیں۔

وہ ذہنی طور پر گوروں سے اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ انہیں دیوتا سمان سمجھ بیٹھے۔بھارت میں مگر ایسے غیر جانبدار اور سنجیدہ و متین دانشور و مورخ موجود ہیں جو دنیا کے حاکم بنے بیٹھے گوروں کی تلخ اصلیت اور داغ دار ماضی سے واقف ہیں۔ کہتے ہیں کہ سچ کو سات پردوں کے پیچھے بھی چھپایا جائے تو وہ سدا چھپا نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے انگریزوں نے ہندوستانیوں، ولندیزیوں نے انڈونیشی قوم، ہسپانیوں نے باشندگان لاطینی امریکا اور امریکیوں نے ریڈ انڈینوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور سنگدلانہ سلوک کیا، اس پر مورخین کئی کتب لکھ چکے۔ چونکہ بین الاقوامی میڈیا انہی مغربی اقوام کے قبضے میں ہے، لہٰذا یہ چشم کشا کتب زیادہ نمایاں نہیں ہوپاتیں۔ یوں عام لوگ مغربی اقوام کا بھیانک ماضی نہیں دیکھ پاتے اور اس پر پردہ پڑا رہتا ہے۔

سچائی سامنے آ گئی

2015ء میں بھارت کے دانشور اور سیاست داں، ششی تھرور نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھارتی طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے ان پر افشا کیا کہ درست آج مغربی اقوام علم (سائنس و ٹیکنالوجی) میں زبردست ترقی کرنے سے دنیا کی حکمران بن گئی ہیں، لیکن ان کا ماضی کچھ شاندار، تابناک اور قابل مثال نہیں۔ انہوں نے پھر آشکارا کیا کہ انگریز تقریباً دو سو برس تک ہندوستان کے حکمران رہے۔ اس دوران وہ ہندوستان سے کھربوں روپے لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔

اسی سرمائے کے ذریعے برطانیہ میں صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ہندوستان کی دولت استعمال کرتے ہوئے گوروں کا پسماندہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ششی تھرور کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کو بہت شہرت ملی۔ یوں بھارت کی نئی نسل آگاہ ہوئی کہ دور حاضر میں ترقی یافتہ اور مہذب بنے بیٹھے انگریزوں کے اجداد لٹیرے تھے جنہوں نے بیرون ممالک ڈاکے ڈالے، مال و سامان سمیٹ کر اپنے وطن لائے اور امیر کبیر بن گئے۔ گویا آج مغربی اقوام دنیاوی لحاظ سے ترقی کی جس معراج پر ہیں، یہ اعلیٰ مقام انہیں محنت و جانفشانی نہیں دوسرے ممالک میں لوٹ مار کرنے سے ملا۔ انہوں نے ذہانت و فراست کو نیکی نہیں بدی کے کام کرتے ہوئے استعمال کیا۔

یہ واضح رہے کہ علمی تخلیق کے لحاظ سے بھی دور جدید کی مغربی اقوام کا کوئی خاص کردار نہیں۔ ماضی میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد یونان، چین، مصر اور ہندوستان میں رکھی گئی۔ ان ممالک میں جن علوم نے جنم لیا، مسلمان عرب سائنس دانوں اور فلاسفہ نے انہیں سنوارا اور بہتر بنایا۔ بارہویں صدی عیسوی کے بعد عربوں کے وضع کردہ علوم یورپ پہنچے اور یورپی سائنس داں ان سے استفادہ کرنے لگے۔ اس طرح مغربی اقوام قدیم تہذیبوں اور عربوں کے تخلیق کردہ علوم کی خوشہ چیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کو مزید بہتر بنایا اور یوں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوگیا۔قوم پرست ہندو مورخین اپنی کتب میں مسلم حکمرانوں کے کارنامے بیان نہیں کرتے جو انہوں نے ہندوستان میں انجام دیئے۔

مثال کے طور پر شیرشاہ سوری نے اس مملکت میں سڑکوں کا جال بچھایا، مالیہ نظام تشکیل دیا اور سکہ رائج کیا۔ مغلوں نے ہندوستان کو اپنے زمانے کی سپرپاور بنادیا۔ مغل حکمران بے تعصب تھے اور انہوں نے بت پرستوں (ہندوؤں) کو بھی اپنی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے جو کچھ کمایا، وہ اسی مملکت کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا۔ قطب الدین ایبک (دور حکومت 1206ء تا 1210ء) کے بعد ہندوستان میں جتنے بھی مسلم حکمران آئے، ان کی ساری زندگی اسی ملک میں گزری۔ وہ جیسے تیسے ہندوستان کو ترقی دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کی تدابیر اختیار کرتے رہے۔

ہر برائی کا سہارا

انگریز پہلے پہل تجارت کی غرض سے ہندوستان پہنچے۔ 1612ء میں مغل بادشاہ، شہنشاہ جہانگیر نے انگریزوں کو سورت بندرگاہ (ریاست گجرات) میں تجارتی مرکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ 1647ء تک انگریز ہندوستانی ساحلوں کے مختلف مقامات پر ’’تئیس‘‘ تجارتی مراکز قائم کرچکے تھے۔ وہ ہندوستان سے سوت، نیل، پوٹاشیم نائٹریٹ اور چائے خریدتے، بیرون ممالک مہنگے داموں فروخت کرتے اور خوب منافع کماتے۔ تب ہندوستان اور برطانیہ کے مابین ساری تجارت پر برطانوی کمپنی، ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ تھا۔1670ء میں برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیرون ممالک جنگ کرکے نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ گویا برطانوی حکومت کے لیے یہ کمپنی کرائے کا فوجی بن گئی۔

کمپنی کی فوج نے سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں سے مقابلہ کیا۔ تب تک برطانوی موجد جدید اسلحہ تیار کرنے لگے تھے۔ جدید اسلحے کے باعث ہی کمپنی کی فوج بیشتر جنگوں میں فتح یاب رہی۔ رفتہ رفتہ اس نے بنگال کے ساحلی علاقوں پر قدم جمالیے۔اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں نے ہندوستان میں یہ وتیرہ اپنایا کہ وہ مختلف والیان ریاستوں کو سازش کے ذریعے ایک دوسرے سے لڑانے لگے۔ طریق واردات یہ تھا کہ انگریز ریاستی حکومت کے کسی وزیر، مشیر یا درباری کو خرید لیتے۔ یوں وہ ان کا تنخواہ دار ایجنٹ بن جاتا۔ یہ کارندہ پھر دربار میں دشمن کے خلاف پروپیگنڈا کرتا اور جھوٹی خبریں پھیلاتا۔ اس طرح ریاستی نواب یا راجا بدظن ہوکر دشمن پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیتا۔ اُدھر دشمن راجا کے دربار میں بھی انگریزوں کے کارندے شرانگیزی کررہے ہوتے۔ یوں معاملات اتنے بگڑتے کہ آخر کار جنگ کی نوبت پہنچ جاتی۔

اسی طریقہ واردات سے انگریزوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ دونوں ریاستی حکومتوں کی افواج آپس میں لڑمر کر کمزور ہوجاتیں۔ تب انگریز فوج زیادہ کمزور ریاست پر حملہ کرتی اور اس کے علاقے پر آسانی سے قبضہ کرلیتی۔ یوں انگریز آہستہ آہستہ سرزمین ہندوستان پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ کامیابی پانے کی خاطر انگریزوں نے جھوٹ، مکاری، دھوکے بازی… غرض ہر برائی کا سہارا لیا اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ انتہائی حیرت ہے کہ آج وہ خود کو کیونکر دیانت دار اور اصول پسند قرار دیتے ہیں؟

انگریز کو غدار مل گئے

ہندوستان میں زر اور زمین ہتھیانے کے لیے انگریزوں نے جو چالیں چلی، وہ ان کا شرمناک کردار آشکارا کرتی ہیں۔ صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ 1756ء میں نواب سراج الدولہ نیم خود مختار ریاست بنگال کا حکمران بن گئے۔ تب بنگال ہندوستان کی امیر ترین ریاست تھی۔ مغل حکومت کو پچاس فیصد آمدن اسی ریاست سے ہوتی تھی۔ بنگال ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ٹیکسٹائل اور جہاز سازی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ علاقے کے لوگ ریشم، سوتی ملبوسات، اسٹیل، پوٹاشیم نائٹیریٹ اور زرعی و صنعتی سامان برآمد کرکے خوب کماتے تھے۔

بنگال میں مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر انگریزوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ اس علاقے پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے۔ چناں چہ انہوں نے کلکتہ میں اپنے قلعوں کی توسیع شروع کردی اور اپنی سپاہ کی تعداد بھی بڑھا دی۔ نواب سراج الدولہ انگریزوں کو خود غرض اور مطلب پرست سمجھتے تھے۔ انھیں انگریزوں کی ناجائز توسیعات پسند نہ آئیں۔ انھوں نے کمپنی کے کارپردازوں کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں اضافہ نہ کریں۔ لیکن انگریز تو بنگال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے وہ کیوں اپنے مراکز تک محدود رہتے؟

جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، تو نواب سراج الدولہ نے کلکتہ پہ حملہ کیا اور انگریزوں کے قلعے اپنے قبضے میں لے لیے۔ نواب کے افسروں نے قیدی انگریزوں کو قلعہ فورٹ ولیم کے تہہ خانے میں قید کردیا۔ وہاں دم گھٹ جانے سے کئی انگریز مرگئے۔

یہ ایک غلط اقدام تھا جو نواب سراج الدولہ کو بے خبر رکھ کر اٹھایا گیا۔ تاہم اسی سانحے کو بنیاد بناکر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضے کا پلان بنالیا۔کلکتہ میں امیر چند نامی ایک بااثر بنیا مقیم تھا۔ وہ نہایت چالاک اور چرب زبان تھا۔ انگریزوں نے اسے اپنا  کارندہ بنایا اور یہ ذمے داری سونپی کہ وہ ترغیب و تحریض کی مدد سے نواب بنگال کے کسی طاقتور درباری کو ان کا ایجنٹ بنادے۔ امیر چند اپنے تعلقات کی وجہ سے جانتا تھا کہ نواب کی فوج کا ایک کمانڈر، میر جعفر حکمران بننے کی تمنا دل میں چھپائے ہوئے ہے۔ امیر چند نے میر جعفر سے ملاقاتیں کیں اور اسے انگریزوں کا ایجنٹ بننے پر راضی کرلیا۔

جب نواب کی فوج کا اہم کمانڈر انگریزوں سے آملا، تو وہ جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ منصوبہ یہ تھا کہ دوران جنگ میر جعفر اپنی سپاہ کے ساتھ علیحدہ ہوجائے گا۔ چناں چہ 23 جون 1757ء کو پلاسی کے مقام پر کمپنی اور نواب بنگال کی افواج کے مابین مقابلہ ہوا۔ توپوں کی کثرت اور میر جعفر کی غداری کے باعث انگریز فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے پھر اپنی کٹھ پتلی، میر جعفر کو تخت بنگال پر بٹھادیا۔جنگ پلاسی کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ جنگ سے تھوڑی دیر قبل امیر چند کمپنی کی فوج کے کمانڈر، کرنل رابرٹ کلائیو سے ملا۔ اس نے کلائیو سے کہا ’’میں یہ تحریری معاہدہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعد از جنگ نواب کے خزانے سے مجھے تیس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ یہ میری خدمات کا نذرانہ ہوگا۔

اگر یہ تحریری معاہدہ نہیں ہوا تو میں ابھی جاکر نواب سراج الدولہ کو خبر دیتا ہوں کہ میر جعفر کمپنی سے ساز باز کرچکا۔‘‘چالاک بنیے نے اپنی طرف سے شہ چال چلی تھی مگر اسے علم نہ تھا کہ عیاری و مکاری میں انگریز اس کے باپ ہیں۔ رابرٹ کلائیو نے تحریری معاہدہ کرنے کی ہامی بھرلی۔ مگر اس نے دو معاہدے تیار کرائے… نقلی معاہدے میں تو اس بات کا ذکر تھا کہ بعداز جنگ امیر چند کو تیس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ لیکن اصل معاہدے میں یہ بات گول کردی گئی۔جب جنگ ختم ہوئی اور میر جعفر تخت نشین ہوچکا، تو امیر چند معاہدہ لیے خوشی خوشی رابرٹ کلائیو کے پاس پہنچا۔ تب انگریز کرنل نے بنیے پر افشا کیا کہ اس کے ساتھ کیسا دھوکا ہوا ہے۔ کلائیو نے امیرچند سے کہا کہ وہ یہاں سے نو دو گیارہ ہوجائے اور پھر اپنی شکل نہ دکھائے۔ بنگالیوں کا یہ غدار غربت و عسرت کی حالت میں کسمپرسی کی موت مرا۔ اسی طرح دوسرے مہا غدار، میر جعفر کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ جب وہ فوت ہوا، تو جنازے میں قریبی رشتے داروں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ آج بھی مرشد آباد میں میر جعفر کے محل کا بچا کھچا دروازہ ’’نمک حرام کی ڈیوڑھی‘‘ کہلاتا ہے۔

ٹیکسوں کا بوجھ ہندوستانیوں پر

انگریز اب میر جعفر سے ’’خراج‘‘ وصول کرنے لگے۔ یوں ہندوستان میں گوروں کی لوٹ مار کے دور کا آغاز ہوگیا۔ میر جعفر اپنے آقاؤں کی مانگیں پوری کرتا رہا۔ جب خزانہ خالی ہوگیا، تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو انگریز کمپنی کا غلام بن چکا۔ اس نے پھر انگریزوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے ولندیزی فوج سے مدد لی۔ 1759ء میں لڑائی ہوئی جو انگریز فوج نے جیت لی۔انگریزوں نے اب میرجعفر کے داماد میر قاسم کو تخت بنگال پر بٹھایا۔ لیکن وہ بھی جلد لالچی آقاؤں سے تنگ آگیا۔ اس نے پھر مغل بادشاہ، شاہ عالم دوم اور تاجدار اودھ، شجاع الدولہ سے مدد مانگی۔ 1764ء میں تینوں مسلم حکمرانوں کی افواج نے بکسر (بہار) کے مقام پر کمپنی کی فوج سے مقابلہ کیا۔ تاہم اتحاد و یک جہتی کے فقدان کی وجہ سے شکست کھائی۔

اس فتح کے بعد انگریزوں نے بنگال کا نظم و نسق سنبھال لیا۔باشندگان بنگال پر یہ نئے ولایتی حاکم عذاب بن کر نازل ہوئے۔ انہوں نے غریب عوام کے ناتواں کاندھوں پر بھی نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا۔ یہی نہیں، وہ بنگال کی اشیا سستے داموں خرید لیتے اور پھر بیرون ملک لے کر انہیں مہنگے دام فروخت کرتے۔ اس طرح بنگال کی تجارت پر انگریز اجارہ دار بن بیٹھے۔جنگ بکسر کے بعد کمپنی کی فوج نے اگلے پچاس برس میں ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ان علاقوں میں کمپنی کے باج گزار مقامی حکمران حکومت کرنے لگے۔ بظاہر اقتدار مقامی حکمرانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر ہر ریاست کی معیشت کے مالک انگریز ہی تھے۔ ریاست کی بیشتر آمدن انگریزوں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی اور ریاستی حکمران کے پاس بس اتنی رقم بچتی کہ وہ اپنے آرام و آسائش کے مصارف برداشت کرلے۔ بیچارے عوام مجبور تھے کہ انہیں جو روکھی سوکھی میسر ہے، اسی سے پیٹ بھریں۔یہ درست ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کا نظم و نسق سنبھال کر سڑکیں، پل اور نہریں بنائیں۔

ہسپتال و سکول کھولے۔ بیورو کریسی کی بنیاد رکھی۔ لیکن بظاہر یہ تمام ترقیاتی منصوبے اس لیے انجام پائے تاکہ انگریز اپنے کام پورے کرسکیں یعنی ان کے مفادات کی تکمیل ہوسکے۔ مثال کے طور پر سڑکیں اسی واسطے بنائیں تاکہ مال ایک سے دوسری جگہ پہنچانا آسان ہوجائے۔ بیورو کریسی اس لیے قائم کی گئی تاکہ انگریز کو احکامات پر من و عن عمل کرنے والے دیسی ملازم مل جائیں۔ غرض یہ جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ انگریز شاہی میں ہندوستان نے ترقی کی، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ برطانوی حکومت ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود چاہتی تھی۔ اصل مطمع نظر یہ تھا کہ ہندوستان میں آسانی سے لوٹ مار کے لیے وسائل میسر آجائیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس طریقے سے ہندوستانی عوام کا بھی کچھ بھلا ہوگیا۔نواب سراج الدولہ ایک نوجوان اور عوام دوست حکمران تھے۔

انہوں نے اپنے عوام پر بس اتنے ہی ٹیکس لگائے تھے کہ وہ بہ سہولت کسی تکلیف کے بغیر ادا کرسکیں۔ مگر انگریزوں نے ہندوستان کے امیر ترین صوبے کی حکومت سنبھال کر عوام پر تین گنا زیادہ ٹیکس ٹھونس دیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالی عوام کے لیے کھانے پینے کی خاطر بھی کچھ نہ رہا۔اس دوران بنگال میں قحط پڑگیا۔ اجناس کی قیمتیں کئی گنا زیادہ بڑھ گئیں۔ اب غریب عوام کب تک پانی اور جڑی بوٹیوں پر گزارا کرتے؟ رفتہ رفتہ وہ دم توڑنے لگے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ 1770ء تک بنگال میں بھوک و پیاس کی وجہ سے تیس لاکھ باشندے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی موت کے ذمے دار انگریز بھی ہیں۔ انہوں نے غریب بنگالی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے نہیں ادھ موا کر ڈالا اور جب قحط کی قدرتی آفت آئی تو وہ اسے سہہ نہ پائے۔

لوٹ مار کا طریقہ ٔ واردات

1770ء کے بعد ہی برطانیہ میں صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں انگریز سیاہ فام غلاموں کی تجارت میں بھی بہت متحرک تھے۔ اس تجارت کے دوران بھی ظالم انگریزوں نے افریقی باشندوں پر جو بھیانک ظلم و ستم توڑے، ان کی بابت پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انگریز سیر الیون،گھانا، آئیوری کوسٹ اور دیگر افریقی نو آبادیوں سے سیاہ فام باشندے بطور غلام بحری جہازوں میں برطانیہ، امریکا اور مغربی ممالک تک لاتے تھے۔ (تب تک امریکا انگریزوں کی کالونی بن چکا تھا) بحری جہازوں میں غلاموں کے بازوؤں اور ٹانگوں کو زنجیروں سے باندھا جاتا۔ اکثر غلام ایک دوسرے پر لاد دیئے جاتے۔ سمندری سفر کے دوران مصائب کی وجہ سے اکثر سیاہ فام چل بستے۔ ان کی لاشیں سمندر برد کردی جاتیں۔اب انگریزوں کو ہندوستان سے سرمایہ اور خام مال ملنے لگا۔ یوں انگریز حکومت کے لیے ممکن ہوگیا کہ صنعتی دور کو بھر پور طریقے سے شروع کرسکے۔ ہندوستان میں عیار و مکار انگریزوں نے انوکھا طریقہ واردات اختیار کیا۔

وہ پہلے عوام پر بھاری ٹیکس لگا کر ان سے روپیہ وصول کرتے۔ اس روپے سے پھر ہندوستانی عوام سے ان کا مال اونے پونے داموں پر خریدا جاتا۔ انگریز یہ مال پھر مغربی ممالک تک لے جاکر منہ مانگی قیمتوں پر فروخت کرتے۔ اس طرح انگریز ہندوستانی عوام کو ٹھگ کر ان سے نقدی وصول کرتے، پھر اسی رقم سے ان کا مال خریدتے اور وہ بیرون ممالک کی منڈیوں میں فروخت کردیتے۔ گویا انگریز کسی قسم کی سرمایہ کاری کیے بغیر، ایک پائی بھی لگائے بنا بھاری منافع کمانے لگے۔ اسی منافع کی بدولت انگریز اس قابل ہوئے کہ برطانیہ میں صنعتی دور کو بھرپور طور پر جاری رکھ سکیں۔

اس صنعتی دور نے پھر برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو تو ترقی یافتہ بنادیا لیکن انگریزوں نے ہندوستان اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک کو لوٹ کر اپنے آپ کو خوشحال بنایا، وہ غربت جہالت اور پسماندگی کا نشانہ بن گئے۔ انگریز قوم نے ہندوستان اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں جو ڈاکا ڈالا اور جو لوٹ مار کی، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔انگریزوں نے ہندوستانی عوام سے لوٹ مار کا اپنا مکارانہ نظام 1947ء تک جاری رکھا۔ انگریز جانتے تھے کہ اگر ہندوستانی عوام کو علم ہوا کہ ان کا پیسا انہی سے خام مال خریدنے میں استعمال ہورہا ہے، تو وہ بغاوت کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انگریزوں نے اپنی ٹھگی کا نظام ہندوستانیوں سے پوشیدہ رکھنے کی خاطر ایک اور حیلہ اختیار کرلیا۔وہ یہ تھا کہ انگریز حکومت ہندوستانی عوام سے ٹیکسوں کا روپیہ وصول کرتی۔ یہ روپیہ پھر اپنے ایجنٹوں کو دے دیا جاتا۔ یہ انگریز ایجنٹ پھر تاجر کا بہروپ بدل کر ہندوستانی باشندوں سے مختلف مال خریدتے۔ اس مال میں اسٹیل، مصالحہ جات، ملبوسات، اجناس وغیرہ غرض ہر شے شامل تھی۔

بھارتی ماہرین میدان میں

گویا مکار انگریزوں نے ٹیکس لینے والے اور ہندوستانیوں سے مال خریدنے والے ہم وطنوں کو بظاہر ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ رکھا۔ لیکن اندر سے سرکاری انگریز اور تاجر انگریز لوٹ مار کے ایک ہی نظام کا حصہ تھے۔ ان دونوں اداروں کو اس لیے الگ الگ رکھا گیا تاکہ ہندوستانی عوام کبھی نہ جان سکیں کہ انہیں کس طرح لوٹا جارہا ہے۔ انگریز حکمران کیونکر ان سے فراڈ کررہے ہیں۔2015ء میں ششی تھرور نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں جو تقریر کی تھی، بعدازاں اس کی بنیاد پر ایک انگریزی کتاب’’An Era of Darkness: The British Empire in India. ‘‘ بھی تحریر کی۔ کتاب میں انہوں نے تفصیل سے ہندوستان میں انگریزوں کی دھوکہ بازی اور فراڈ کا ذکر کیا۔ ششی تھرور مگر ماہر معاشیات نہیں تھے۔

اس لیے گورا شاہی کی لوٹ مار کے اعدادو شمار بیان نہیں کرسکے۔ البتہ انہوں نے یہ ضرور لکھا کہ انگریز جتنا روپیہ اور خام مال ہندوستان سے لوٹ کر لے گئے، اس کی مالیت کئی ہزار ارب روپے بنتی ہے۔حال ہی میں بھارت کی مشہور معاہر معاشیات، پروفیسر اتسا پٹنائاک کی کتاب’’Dispossession, Deprivation, and Development ‘‘شائع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے پہلی بار اعدادو شمار دے کر منکشف کیا کہ انگریز ہندوستان میں اپنے تقریباً دو سو سالہ اقتدار میں کتنی مالیت کی دولت لے اڑے اور ہندوستانیوں کے حق پر ڈاکا ڈال دیا۔پروفیسر اتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت سے منسلک انگریز کم از کم 9.2 ٹریلین پونڈ مالیت کا سرمایہ اور خام مال ہندوستان سے اپنے دیس میں لے گئے۔ چونکہ دو سوسالہ اقتدار کے دوران پونڈ اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 4.8 ڈالر فی پونڈ تھا لہٰذا امریکی ڈالر میں یہ 9.2 ٹریلین پونڈ 44.6 ٹریلین ڈالر بنتے ہیں۔ یقیناً یہ محیر العقول اور دماغ گھما دینے والی رقم ہے۔44.6 ٹریلین ڈالر کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ماہ جون 2018ء میں ن لیگی حکومت نے پاکستان کا جو بجٹ کیا تھا، اس کی کل مالیت امریکی ڈالر کے حساب سے 55 ارب ڈالر تھی۔ جبکہ ایک ٹریلین ڈالر ایک ہزار ارب ڈالر پر مشتمل ہوتے ہیں۔

برطانیہ آج ایک بڑی معاشی قوت ہے۔ وہ ہر سال تین ٹریلین ڈالر کا قومی بجٹ پیش کرتا ہے۔گویا انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے دو سو سالہ اقتدار کے دوران یہاں کے عوام کو تقریباً 45 ٹریلین ڈالر کے سرمائے سے محروم کردیا۔ اسی محرومی کے باعث ہندوستان میں غربت کا دور دورہ ہوگیا۔ مگر انگریز کئی ٹریلین ڈالر پاکر دولت مند اور باثروت بن گئے۔کچھ عرصہ قبل پروفیسر اتسا پٹنائک نے ایک تقریب میں حاضرین کے مختلف سوالات کے جواب دیئے۔ ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

سوال: آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ انگریز یہاں سے تقریباً 45 ٹریلین ڈالر لے اڑے۔ اگر اس رقم کا بیشتر حصہ ہندوستان پر خرچ ہوتا، تو یہاں معاشی و معاشرتی طور پر کیا فرق پڑتا؟

جواب: تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ پورے نو آبادیاتی دور کے دوران ہندوستان سے ہر سال کثیر سرمایہ براہ راست لندن جاتا رہا۔ اس باعث ہندوستان اپنی ترقی کے لیے درکار مشینری اور ٹیکنالوجی درآمد نہیں کرسکا کیونکہ بیشتر ملکی آمدن تو انگریز آقا ہڑپ کرجاتے تھے۔ یہی وجہ ہے، جن ایشیائی ممالک پر انگریز یا کسی مغربی قوم کا قبضہ نہیں تھا، مثلاً جاپان وہ تو ترقی کرگئے لیکن مغربی اقوام کے زیر اثر ممالک پس ماندہ رہے۔ظاہر ہے، اگر ہندوستان کی آمدن اسی ملک کا انفراسٹرکچر اور یہاں کے باشندوں کی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوتی، تو برصغیر پاک و ہند آج کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال خطّہ ہوتا۔ ہندوستانیوں کی فی کس آمدن بڑھ جاتی۔ یوں انہیں تعلیم اور صحت کی سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا۔ہندوستان سے مگر دولت انگریز لوٹ کر اپنے وطن پہنچاتے رہے۔ اس باعث انگریز دور حکومت میں عام لوگوں کی حالت بدتر رہی۔ وہ بھوک اور بیماریوں کے ہاتھوں کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے رہے۔ آپ کو یہ جان کرصدمہ پہنچے گا کہ 1911ء میں ہر ہندوستانی کی متوقع عمر صرف ’’بائیس سال‘‘ تھی۔

جب انگریزوں کے قدم ہندوستان میں پہنچے تو عام ہندوستانی کو اجناس آسانی سے دستیاب تھیں۔ پھل اور سبزیاں بھی زیادہ مہنگی نہیں تھیں۔ گویا عوام کو خوراک کی خاطر زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی۔ لیکن انگریز شاہی نے اجناس پر بھاری ٹیکس لگادیئے۔ نیز اجناس برآمد بھی کرنے لگے۔ اسی لیے ہندوستان میں اجناس قلت کے باعث مہنگی ہوگئیں۔اعدادو شمار کے مطابق جب مغل بادشاہ ہندوستان پر حکومت کررہے تھے، تو ہر ہندوستانی دو تا ڈھائی سو کلو کے مابین اجناس استعمال کرتا تھا۔ لیکن جب انگریز 1947ء میں ہندوستان سے رخصت ہوئے، تو یہ عدد ’’137 کلو‘‘ تک پہنچ چکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہندوستان آزاد ہوا، تو انگریز اسے بری طرح نچوڑ کر نیم مردہ بناچکے تھے۔ انسانی تاریخ میں کسی اور ملک کا ایسا خوفناک استحصال نہیں کیا گیا۔

سوال: ہندوستان کو مال و دولت سے محروم کرنے کی خاطر کیسا نظام وضع کیا گیا؟ یہ بھی بتائیے کہ ہندوستانی عوام نے اس کی مخالفت کیوں نہ کی؟

جواب: جب بھی کوئی غیر ملکی طاقت ایک ملک پر قبضہ کرے، تو وہ وہاں کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ تھوپ دیتی ہے۔ یہ دیکھیے کہ ہندوستان کا اقتدار سنبھال کر ہر ضلع پر انگریزوں نے جو حاکم مقرر کیا، اس کا نام ہی ’’کلکٹر‘‘ (جمع کنندہ) تھا۔ یہ کلکٹر اپنے ضلع میں کارندوں کی مدد سے ہر ہندوستانی سے مختلف ٹیکس وصول کرتا۔اگر کلکٹر اور اس کے کارندے ہی ہندوستانی عوام سے ان کا مال خریدنے لگتے تو عام آدمی یقیناً سوچتا ’’دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘ اسی لیے انگریز حکومت نے یہ خاص اہتمام کیا کہ ٹیکس اکٹھے کرنے والے کارندے ہندوستانی عوام سے کوئی مال نہ خریدیں۔ یہ کام انگریز تاجروں کے بھیس میں مختلف ایجنٹ انجام دیتے۔ چناں چہ عام ہندوستانی انگریز کی چالاکی جان نہ سکا اور اپنی معصومیت کے باعث دو سو سال تک گوروں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔

معاشیات داں ہونے کی حیثیت سے میں جانتی ہوں کہ منڈی بڑی پُراسرار جگہ ہے۔ وہاں اصل رشتے کبھی منظر عام پر نہیں آپاتے۔ انگریز ہندوستانی عوام سے جو رقم بطور ٹیکس لیتے اسی سے ان کا خام مال خرید لیتے۔ یوں انگریزوں کو مال مفت مل جاتا۔ اس ظالمانہ اور نامنصفانہ نظام سے صرف انگریزوں کے بعض مقامی ایجنٹوں یعنی دلالوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ دلال مقامی افراد سے مال خرید کر انگریزوں کو فراہم کرتے تھے۔ ہندوستان کے اولیّں کاروباری گروپوں کی بنیاد انہی مقامی لوگوں نے رکھی جو انگریزوں کے لیے دلالی کرتے تھے۔ ان کی آمدن پر کوئی انکم ٹیکس بھی نہ تھا۔ یہ ٹیکس تو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ان پر لگا۔

سوال: ہندوستان سے جو دولت لوٹی گئی، اس کا کیا بنا؟

جواب: نو آبادیوں میں لوٹ مار ہی سے تو مغرب میں سرمایہ دار و جود میں آئے۔ اگر مغربی استعمار جنم نہ لیتا تو آج سرمایہ داری بھی عنقا ہوتی۔ انگریزوں نے ہندوستان سے جو دولت لوٹی، اسی کے ذریعے برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا میں ریلوے، سڑکیں اور کارخانے تعمیر کیے گئے۔ یہی نہیں، برطانیہ نے جب بھی جنگ کی، تو جنگی اخراجات کا بار بھی ہندوستانی معیشت پر ڈال دیا گیا۔ اس چلن نے ہندوستان کو مقروض مملکت بنا ڈالا۔

سوال: اٹھارہویں صدی کے مقابلے میں اب دنیا بہت تبدیل ہوچکی۔ اب چین ایشیا اور افریقا میں جارہا ہے۔ بعض اوقات اسے چینی استعمار کہا جاتا ہے۔ کیا یہ درست اصطلاح ہے؟

جواب: ایشیائی اور افریقی ممالک میں جانے والے چینی یا بھارتی باشندوں کو استعماری ایجنٹ کہنا درست نہیں۔ یہ مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ماضی میں مغربی طاقتوں نے ایشیائی اور افریقی ممالک میں جو ظلم و ستم کیے ہیں، انہیں پوشیدہ رکھا جاسکے۔چینی اور بھارتی بیرون ممالک جا کر صرف کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی ضمن میں وہ مقامی افراد اور حکومتوں سے باقاعدہ معاہدے کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیاں سے یہ ممالک ترقی کریں اور وہاں کے باشندے غربت، جہالت اور بیماری سے نجات پالیں۔حیرت انگیز بات یہ کہ ہندوستان میں انگریزوں نے لوٹ مار کا جو نظام رائج کیے رکھا،آج بھارتی اور پاکستانی نصابی کتب میں بھی ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریز نے برصغیر پاک وہند کو جس بے دردی سے لوٹا ،اس کے طریقۂ واردات سے نوجوان بھارتی اور پاکستانی نسلیں ضرور آگاہ ہونی چاہیں۔

سوال:بھارتی حکومت کے برطانیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔مگر مودی سرکار خصوصاً مغل حکمرانوں کو بدنام کر رہی ہے۔آپ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں؟

جواب:مغل بھی بیرون ملک سے آئے تھے۔لیکن یہ تاریخی سچائی ہے کہ افغانوں اور مغلوں کی اولاد ہندوستان میں رچ بس گئی۔انھوں نے ہندوستانی عوام پر ٹیکس لگائے مگر وہ قابل برداشت تھے۔پھر ٹیکسوں سے انھیں جو رقم ملی،وہ ہندوستان کی تعمیر وترقی پر ہی صرف ہوئی۔چناں چہ مغل حکمرانوں اور برطانوی استعمار کو ایک صف میں برابر کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔مغلوں نے انگریز کی طرح ہندوستان کی دولت نہیں لوٹی،مقامی لوگوں کو دھوکا دے کر خام مال نہیں خریدا اور یہ مال بیرون ممالک نہیں بھجوایا۔

سوال:آپ معاشیات داں ہوتے ہوئے تاریخ سے دلچسپی رکھتی ہیں۔آپ کے خیال میں موجودہ برطانوی حکومت کو ہندوستان سے لوٹی گئی واپس کرنی چاہیے؟

جواب:برطانیہ ہی نہیں جس مغربی قوت نے جن جن غریب ملکوں میں رقم یا خام مال کی صورت ڈاکا ڈالا ،ان سب کو حساب دینا چاہیے۔آج کی بیشتر سپر پاورز غریب ممالک میں لوٹ مار کے ذریعے ہی طاقتور بنیں۔نوآبادیوں کے وسائل ہتھیا کر ہی آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک جدید سرمایہ دارانہ دنیا وجود میں آئی۔یہ ضروری ہے کہ مغربی ممالک غریب ملکوں کی ترقی وخوشحالی کے لیے ان کو ہر سال معقول رقم فراہم کریں تاکہ ماضی میں انھوں نے جو خوفناک جرائم کیے ہیں،ان کا کچھ تو ازالہ ہو سکے۔

مغرب کے راز فاش کرتی مورخ


پروفیسر اتسا پٹنائک بھارت میں پیدا ہوئیں۔آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سمرویل کالج سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔اعلی تعلیم مکمل کر کے 1973 ء میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی سے منسلک ہو گئیں۔وہاں 2010 ء تک ہزارہا طلباء وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔آپ کئی کتب اور مقالہ جات کی مصنفہ ہیں۔ان تحریروں کا موضوع معاشیات،زراعت،تاریخ اور معاشرتی علوم ہیں۔آپ مارکسی تاریخ وفلسفہ کی ممتاز ماہر معاشیات سمجھی جاتی ہیں۔

The post انگریزوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا میں انقلاب لاتی دریافتیں

$
0
0

پچھلے سال دنیا بھر میں طبی ماہرین نت نئی سائنس سے منسلک ایجادات سامنے لاتے رہے تاکہ انسان کو صحت وتندرستی کی دولت عطا کر سکیں۔

کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ طاقتور شخص وہ ہے جو مشکلات و مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی دوسروں کی مدد کرنے کے لیے وقت نکال لے۔ غرض انسان کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کرنے پر بڑا اجر ملتا ہے۔ ذیل میں گزشتہ برس کی منفرد اور انسان دوست طبی ایجادات کا تذکرہ پیش ہے۔

مفلوج لوگ چل پھر سکیں گے

امریکا کی یونیورسٹی آف لاؤزویل سے منسلک کنٹکی سپائنل کورڈ انجری ریسرچ سینٹر(Kentucky Spinal Cord Injury Research Center) کے ماہرین نے ایک منفرد آلہ ایجاد کیا ہے۔ یہ مفلوج مرد و زن کو حرکت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال کسی حادثے کا نشانہ بن کر ہزارہا انسان مفلوج ہوجاتے ہیں۔ حادثے میں عموماً ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ اپنے افعال انجام دینے کے قابل نہیں رہتی۔یاد رہے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی ہی انسانی اعصابی نظام کے بنیادی حصے ہیں۔ اس نظام میں نیورونز (خلیوں) کے ذریعے دماغ سبھی جسمانی اعضاء کو حرکت کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈی خراب ہوجائے تو بعض جسمانی اعضا مثلاً بازو یا ٹانگ تک دماغی احکامات نہیں پہنچ پاتے۔ لہٰذا وہ بے جان ہوجاتے ہیں۔

امریکی ماہرین کا ایجاد کردہ آلہ ریڑھ کی ہڈی میں اس جگہ کے قریب نصب کیا جاتا ہے جہاں اسے ضرب لگی ہو۔ آلے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اس جگہ کے بے جان اعصاب میں بجلی دوڑا کر انہیں متحرک کردیتا ہے۔ یوں وہ پھر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ دماغ سے آنے والے احکامات کو سمجھ کر ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکیں۔ یہ آلہ بیٹری سے چلتا ہے جو مریض کے پیٹ میں لگائی جاتی ہے۔

اسی انقلاب انگیز آلے کی بدولت امریکا میں بستر پر پڑے  پانچ مفلوج مردوزن کو نئی زندگی مل گئی۔ اب وہ پھر چلنا پھرنا سیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کو یقین ہے کہ کئی ماہ کی مشق ریڑھ کی ہڈی کے متاثرہ اعصاب کو تندرست کرسکتی ہے۔ یوں پھر انہیں چلنے پھرنے کے لیے آلے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ آلہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے جو ریڑھ کی ہڈی خراب ہونے سے حرکت نہیں کرسکتے۔ گو آلہ تجرباتی مراحل میں ہے مگر اگلے برس تک مارکیٹ میں آسکتا ہے۔ تب آلے کے استعمال سے معذور بھی اس قابل ہوجائیں گے کہ چل پھر کر اپنے کام کاج تو کرسکیں۔

ماں بننے کی آرزو پوری

برازیل کی رہائشی ماریا جب چھوٹی تھی تو ایک مرض کے باعث اس کی بچہ دانی میں انفیکشن پیدا ہوگیا۔ اس کی جان بچانے کے لیے بچہ دانی نکالنا پڑی۔ یوں وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی۔ جب ماریا جوان ہوئی اور اسے حقیقت کا علم ہوا تو وہ اداس رہنے لگی۔ وہ اکثر اپنے رب سے پوچھتی کہ آپ نے مجھے ماں بننے کی ایک عظیم نعمت سے کیوں محروم کردیا؟ آخر رحمت خداوندی جوش میں آئی اورماریا کے بچہ پیدا ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی۔

2013ء میں سویڈن کے سائنس دانوں نے خواتین میں بچہ دانی ٹرانسپلانٹ کرنے کا طریق کار ایجاد کرلیا۔ اس طریق کار میں ایک خاتون سے بچہ دانی لے کر اس عورت کے شکم میں نصب کی جاتی ہے جس کی بچہ دانی نہ ہو یا خراب ہو۔ اس انقلابی کام کی بدولت اب تک 39 خواتین کے ہاں بچے پیدا ہوچکے۔ یوں بچہ دانی کی ٹرانسپلانٹیشن نے ماؤں کی سونی کوکھ ہری کردی۔

ماریا برازیلی شہر ساؤ پاؤلو کی رہائشی تھی۔ ستمبر 2016ء میں وہاں کے یونیورسٹی ہاسپٹل میں ایک چالیس سالہ خاتون چل بسی۔ اس نے اپنے تمام جسمانی اعضا دان کردیئے تھے۔ تبھی یونیورسٹی ہاسپٹل سے وابستہ ڈاکٹر ڈینی ایجزن برگ نے فیصلہ کیا کہ مردہ عورت کی بچہ دانی ماریا کے شکم میں لگادی جائے۔  ٹرانسپلانٹیشن کا یہ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہا۔اس آپریشن میں بچہ دانی کی تمام شریانیں، نسیں اور دیگر اشیا ماریا کے بدن سے منسلک کردی گئیں۔ پھر روزانہ ماریا کا طبی معائنہ ہونے لگا۔ خدا کی قدرت کہ 32 سالہ ماریا کے جسم نے یہ نیا جسمانی عضو قبول کرلیا۔ چھ ماہ بعد اسے پیریڈ آنے لگے۔ 2018ء کے اوائل میں وہ حاملہ ہوگئی۔

4 دسمبر 2018ء کو ماریا نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اسے دیکھ کر ماں خوشی سے نہال ہوگئی اور اپنے خدا کا شکر بجا لائی۔ یہ دنیا میں پہلا واقعہ ہے کہ ایک مردہ خاتون کی بچہ دانی کا زندہ عورت میں ٹرانسپلانٹیشن کا عمل کامیاب رہا اور نتیجے میں ایک صحت مند بچے نے جنم لیا۔اس وقت دنیا میں لاکھوں خواتین بچہ دانی کی کسی نہ کسی خرابی کے باعث ماں بننے کی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے امید کی نئی کرن جنم لے چکی۔وہ یہ کہ جو خواتین مرنے کے بعد بچہ دانی دان کرجائیں وہ پھر زندہ عورتوں کے لیے ماں بننے کا سپنا پورا کرسکیں گی۔

کینسر کا انقلابی علاج

سرطان یا کینسر ان گنے چنے موذی امراض میں سے ایک ہے جن کا علاج جدید طبی سائنس دریافت نہیں کرسکی۔ تاہم انسان اس بیماری کو قابو کرنے کی خاطر مسلسل تحقیق و تجربات میں مصروف ہے۔ اب امریکی ماہرین کی شبانہ روز محنت و ذہانت کے سبب امید کی ایک کرن جنم لے چکی۔

ہوا یہ کہ پچھلے سال انکشاف ہوا، اڑتالیس سالہ جوڈی پرکنز جگر کے کینسرمیں مبتلا ہے۔ یہ کینسر اس کے سینے تک بھی پھیل رہا ہے۔ جوڈی لاس اینجلس کی رہائشی تھی۔ وہ فوراً اپنا علاج کرانے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ (The National Cancer Institute)واقع ریاست میری لینڈ پہنچ گئی۔ یہ کینسر پر تحقیق و تجربے کرنے والا عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے۔

ادارے میں ڈاکٹر سٹیون نبرگ بحیثیت چیف سرجن کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا طریق علاج جوڈی پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس طریقے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کینسر کے ہر مریض پر انفرادی طور پر برتا جاتا ہے۔ یعنی مریض کے مرض کی ماہیت اور کیفیت جان کر پھر ایسا طریق علاج اختیار کیا جاتا ہے جو اسے تندرست کردے۔ اسی لیے ماہرین کے نزدیک یہ دنیا کا سب سے زیادہ ذاتی (پرسنلائز) طریق علاج ہے۔

اس طریق علاج کے آغاز میں طبی سائنس داں کینسر کی وجہ سے جسمانی مامون نظام (immune system) میں جنم لینے والی تبدیلیاں دریافت کرتے ہیں۔ جب جوڈی کے مامون نظام کا جائزہ لیا گیا، تو کل 62 جنیاتی تبدیلیاں افشا ہوئیں۔ ان میں سے چار تبدیلیاں مریضہ کے جسم میں کینسر پھیلا رہی تھیں۔

یاد رہے، انسان کا مامون نظام جسم میں داخل ہونے والے دشمن جراثیم، وائرسوں اور دیگر مضر صحت مادوں کو مار ڈالتا ہے۔اس نظام میں خون کے سفید خلیے (White blood cell)فوج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی بیماری کا جرثومہ یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہو، تو یہی فوج اس پر حملہ کرکے اسے مار ڈالتی ہے۔ مگر بعض بیماریوں کے جرثومے یا وائرس زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ چنانچہ سفید خلیے انہیں مارنے میں ناکام رہتے ہیں۔ انہی بیماریوں میں کینسر اور ایڈز نمایاں ہیں۔اب جوڈی پرکنز کا علاج کرتے ہوئے اگلے مرحلے میں ماہرین طب نے یہ جائزہ لیا کہ اس کے جسم میں کون سے سفید خلیے اتنے طاقتور ہیں کہ وہ پھیلتے کینسر کے مضر صحت خلیوں کو ختم کرسکیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے طاقتور سفید خلیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ماہرین نے پھر جوڈی کے جسم سے یہ طاقتور سفید خلیے نکال لیے اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کرنے لگے۔ جب سفید خلیوں کی تعداد نوے ارب تک پہنچ گئی تو انہیں جوڈی کے بدن میں داخل کردیا گیا۔ ساتھ ہی مریضہ کو ایسی ادویہ دی گئیں جن کے ذریعے جوڈی کا مامون نظام کھل کر کینسری خلیوں پر حملہ کر دے۔

جوڈی کے بدن میں طاقتور سفید خلیوں کی کثرت نے حیرت انگیز کام کر دکھایا۔ انہوں نے چند ہی دنوں میں تمام کینسری خلیے مار ڈالے۔ یوں کرشمہ ظہور پذیر ہوا اور موت کے منہ میں جاتی جوڈی کو نئی زندگی مل گئی۔ وہ اس پر اپنے رب اور ان سائنسدانوں کی شکر گزار ہے جن کے نئے طریق علاج کی بدولت اسے حیات نو مل گئی۔

ڈاکٹر سٹیون اور نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے دیگر طبی سائنس داں اب کینسر کا علاج کرنے والے اپنے نئے طریق کار کو تحقیق و تجربات سے مزید بہتر بنارہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اس طریقے سے کینسر کی تمام اقسام کا علاج ممکن ہے۔ تاہم دیگر مریضوں پر آزمانے سے قبل وہ اپنے ایجاد کردہ علاجی طریق کار کی مزید جانچ پرکھ چاہتے ہیں۔

یہ طریق کار اگر کینسر کی بیشتر اقسام میں بھی کارگر ثابت ہوا، تو یہ نیا انقلاب ہوگا۔ تب انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج کرسکے۔ ایک طبی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً پونے دو کروڑ مردوزن کینسر کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ہر سال یہ مرض تین لاکھ پاکستانیوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔

جین ایڈیٹنگ کا متنازع طریق کار

27 نومبر 2018ء کو ہانگ کانگ میں انسانی جینوم ایڈیٹنگ (Human Genome Editing)پر ایک بین الاقوامی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں چین کے سائنس داں اور پروفیسر، ہی جیان کوئی نے ایک انکشاف کرکے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ پروفیسر ہی نے بتایا کہ انہوں نے دو نوزائیدہ بچوں کی جین ایڈیٹنگ کی ہے۔ یعنی پروفیسر موصوف نے بچوں کے جین میں تبدیلی کر ڈالی۔ یہ دنیا کے پہلے بچے ہیں جنہیں جین ایڈیٹنگ کے متنازع عمل سے گزارا گیا۔

پروگرام کا آغاز 2017ء کے اواخر میں ہوا۔ تب پروفیسر ہی اپنی یونیورسٹی (ساؤتھرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، شینزین) عارضی طور پر چھوڑ کر شینزین ہارمونک کیئر وومنز اینڈ چلڈرنز نامی ہسپتال میں کام کررہے تھے۔ اسی ہسپتال  میں ایک ایڈز زدہ مرد اور عورت پروفیسر سے ملے جو لاولد تھے۔ انہوں نے پروفیسر ہی سے درخواست کی کہ انہیں منصوعی طریقے سے بچہ پیدا کردیا جائے۔وہ اپنی اولاد پیدا کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ان کے اصرار پر یہ درخواست قبول کرلی گئی۔

پروفیسر ہی نے پھر دونوں سے تولیدی خلیے لیے اور انہیں لیبارٹری میں بارآور کیا۔ اس سے دو لاقحے (Zygote) تیار ہوگئے۔ پروفیسر نے پھر جین ایڈیٹنگ کی ایک جدید ترین ٹیکنالوجی’’CRISPR-Cas9‘‘ کے ذریعے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کر ڈالی۔ یاد رہے، ڈی این اے میں موجود ہزاہا جین ہی ساری وراثتی خصوصیات مثلاً بالوں کا رنگ،اعضا کی بناوٹ وغیرہ رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات ماں باپ سے بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔پروفیسر ہی نے جین ایڈیٹنگ کرتے ہوئے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے سے ’’CCR5 ‘‘ نامی جین ختم کردیا۔ ماہرین طب تحقیق سے جان چکے ہیں کہ اسی سی سی آر فائیو جین کی مدد سے ایڈز مرض انسانی جسم کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ پروفیسر ہی نے یہ جین ایڈیٹنگ اسی لیے کی تاکہ جنم لینے والے دونوں بچے ایڈز جیسی موذی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔یہ بیماری انھیں باپ کی طرف سے منتقل ہو سکتی تھی۔دونوں لاقحے پھر ماں کی بچہ دانی میں رکھ دئیے گئے۔

27 نومبر 2018ء کو پروفیسر ہی نے اعلان کیا کہ دونوں بچیاں پیدا ہوچکیں اور وہ صحت مند ہیں۔ مگر بچیوں  پر کی گئی جین ایڈیٹنگ نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کردیا۔ وجہ یہ  کہ اس سائنسی طریق کار سے خطرات بھی وابستہ ہیں۔بظاہر یہ معاملہ  عیاں کرتا ہے کہ پروفیسر ہی کی نیت نیک تھی۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ ایڈز زدہ باپ کی دونوں بچیاں ایک  خطرناک مرض سے محفوظ رہیں۔ اسی لیے پروفیسر نے ایڈز پھلنے پھولنے میں مدد دینے والا جین ہی ان کے جسم سے ختم کردیا۔گویا چینی پروفیسر نے ایک مثبت کام انجام دیا

مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ممکن ہے’’CCR5 ‘‘  نامی جین بڑھتے بچوں میں کسی جسمانی فعل میں مددگار بنتا ہو۔ گویا اس کی عدم موجودگی سے بھی دونوں بچیاں کسی عجیب و غریب عارضے یا معذوری کا شکار ہوسکتی ہیں۔ سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود انسانی جسم میں پائے جانے والے ہزارہا جین پر مکمل تحقیق نہیں کرسکی۔ اسی لیے امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بچوں پر جین ایڈیٹنگ کرنے پر پابندی عائد ہے۔

پروفیسر ہی کے تجربے سے عیاں ہے کہ انہیں چین میں دوران تجربہ کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔لیکن جب مغربی ماہرین نے پروفیسر ہی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، تو چینی حکومت نے انہیں نظر بند کردیا۔ شاید چینی حکومت یہ جائزہ لینے لگی کہ پروفیسر ہی کی تحقیق و تجربات کسی قسم کے مضر اثرات تو نہیں رکھتے۔

نظریاتی و اصولی طورپر یہ دلیل جین ایڈیٹنگ کے حق میں جاتی ہے کہ انسانی جسم میں جتنے بھی جین بیماریوں اور طبی خلل پیدا کرنے میں معاون بنتے ہیں، انہیں ختم کردینا چاہیے۔ اس طرح آنے والی انسانی نسلیں زیادہ صحت مند اور بیماریوں سے پاک ہوں گی۔ لیکن کوئی بھی جین ختم کرنے سے قبل اس کے پورے مکینزم کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔

یہ ممکن ہے کہ بہت سے جین انسانی جسم میں صحت افزا افعال پیدا کرنے میں حصہ ڈالتے ہوں۔ تب ان کی عدم موجودگی نئے مسائل کھڑے کردے گی۔ اسی لیے انسان کے بدن میں پائے جانے والے تمام جین پر پہلے گیرائی و گہرائی میں تحقیق ہونی چاہیے۔ ماہرین کے مطابق ان کی تعداد انیس بیس ہزار کے درمیان ہے۔ یہ تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی جین ایڈیٹنگ کی افادیت مسلمہ طور پر سامنے آئے گی۔ تب یہ دنیائے طب میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔

The post دنیا میں انقلاب لاتی دریافتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جنگ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیتی

$
0
0

اقوام متحدہ کی جانب سے سال میں کئی عالمی دن منائے جاتے ہیں جو کسی عالمی مسئلے یا واقعے کی اہمیت کو پوری دنیا میں اجاگر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر انسانی شعور کو اس اعتبار سے بیدارکیا جاتا ہے مگر 8 اور9 مئی دودن عالمی سطح پر ایسے ہیں جو دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی جانوں سے جانے والوں کی یاد میں اور ان کی قربانیاں تسلیم کرنے کے لیے منائے جاتے ہیں اور اس کے لیے یہ فیصلہ جنگ عظیم کے خاتمے کے59 سال بعد 22 نومبر 2004 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 59- 26 میں کیا اور کہا گیا کہ آٹھ مئی 1945 کو جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کی نازی فوجوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کو تسلیم کیا تھا، جنگ عظیم دوئم میں پانچ سے سات کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس وقت دنیا کی کل آبادی 2 ارب 30 کروڑ تھی اس آبادی میں سے تقریباً 3% افراد یعنی ہر 33 افراد میں سے ایک انسان جان سے گیا تھا۔

مرنے والوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد تعداد مردوں کی تھی۔ ہلاک ہونے والے ان سات کروڑ انسانوں میں دو کروڑ روسی، ایک کروڑ چینیوں کے علاوہ 38 لاکھ ہندوستانی بھی شامل تھے، جب کہ سابق سوویت یونین کی جانب سے جو دو کروڑ افراد ہلاک ہو ئے تھے ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے تیس فیصد کا تعلق سنٹرل ایشیا کی ریاستوں سے تھا جو 1990 میں آزاد ہوئیں، ان میں آذربائیجان ، ازبکستان،کرغیزستان، ترکمانستان، تاجکستان اور قازقستان شامل ہیں۔ جرمنی کے ہلاک ہونے والے فوجیوں اور سویلین کی مجموعی تعداد 42 لاکھ اور ہلاک ہونے والے کل جاپانی23 لاکھ تھے۔ اسی طرح ہلاک ہونے والے برطانوی اور فرانسیسی بھی تناسب کے لحاظ سے جرمنوں اور جاپا نیوں سے کہیں کم تھے۔

یورپ میں ہلاک ہونے والوں میں کسی ایک قوم اور نسل سے تعلق رکھنے والوں میں سب سے بڑی تعداد یہویوں کی تھی جو 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں نو سال پہلے ایل جے، فورمین نے یوں تبصرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے وقت 1939 میںجب دنیا کی مجموعی آبادی دو ارب 35 کروڑ تھی اس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تھی یوں دوسری جنگ عظیم میں اس وقت دنیا بھر میں کل یہودی آبادی کا 35.3% ایڈ ولف ہٹلر نے ہلاک کردیا۔ 2009 میں دنیا کی کل آبادی چھ ارب 70 کروڑ تھی اور ان 70 برسوں میں اس مجموعی آبادی میں 300 فیصد اضافہ ہوا تھا جب کہ یہودی مجموعی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ تھی۔ فور مین کے مطابق اگر 60 لاکھ یہودی ہلاک نہ کئے جاتے تو 2009 میں دنیا میں ان کی کل تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ ہوتی۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے 59 سال بعد 2004 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو کیوں خیال آیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہلاک ہونے والوں کو یاد رکھا جائے اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد مغربی یورپ ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا اور جاپان اس جنگ کی دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کر چکے تھے بلکہ سرد جنگ میں یہ سب ہی سابق سوویت یونین کے خلاف متحد تھے پھر نائن الیون کے تین برس بعد ہی دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کے اندیشوں میں مبتلا ہوگئی اور 2004 ء سے آج چودہ برس بعد یہ بہت اچھی طرح واضح ہوگیا ہے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کی طرح آئندہ کی کوئی بڑی جنگ یورپ خصوصاً مغربی یورپ کی بجائے ایشیا میں ہو گی اور بدقستمی یہ ہے کہ آج دنیا کے سب سے زیادہ تباہ کن غیر ایٹمی ہتھیار ہمار ے علاقے میں استعمال ہو رہے ہیں۔

گذشتہ سال افغانستان میں مدر آف آل بمبز کے استعمال پر پوپ فارنسس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ ماں محبت اور امن کی علامت ہے ایسے مقدس لفظ کو ایسے بھیانک ہتھیارکے لیے استعمال کرنا درست نہیں ۔ ایک جانب تو یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب ہمارے علاقے میں امن کی فضا تیزی سے جنگ کے بادلوں میں تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستا ن ، ایران ، افغانستان، بھارت جیسے آپس کے ہمسایہ ممالک جو سارک ،ایکو،کے علاوہ شنگھائی ،اور بریکس جیسی علاقائی تنظیموں کے رکن بھی ہیں ان کے تعلقات تنازعات کی حدت کے سبب اس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں اور یہ صورت اس وقت رونما ہو رہی ہے، جیسے کہ کسی بہتر زرعی فصل کے پکنے کے بعد کھلیان کو چند دنوں کے لیے دھوپ میں رکھا جائے اور اس کے قریب چنگاریاں اٹھنے لگیں، اگرچہ ابھی یہ ماحول کی بہتری ہے کہ ہوا تیز نہیں ہے لیکن یہ مہلت ہے بہتر ہے کہ پہلے ہی قریب کی چنگاریوں کو بجھا دیا جا ئے تو پھر ہوا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔

8 اور9 مئی کو جب اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہو نے والوں کو یاد کیا جا رہا تھا تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت غیر منقسم ہندوستان کے 38 لاکھ افراد جنگ کی بھینٹ چڑھے تھے۔ سنٹرل ایشیا سمیت روس کے دو کروڑ اور چین کے ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس جنگ سے مغربی یورپ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور جاپان سب نے سبق سیکھا مگر ہم جو اب ماضی کے مقابلے میں ترقی بھی کرچکے ہیں، اب چین ، روس ، بھارت اور پاکستان جو نہ صرف ایٹمی قوتیں ہیں بلکہ اب اقتصادی اعتبار سے ایران ، افغانستان ، سنٹرل ایشیا، سمیت دنیا کی آدھی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہاں دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں ، جنگ کے بارے میں غفلت کا شکار ہیں۔ یہی ممالک اور ان کے عوام اب دنیا کی تقدیر بننے والے ہیں لیکن اگر ہم نے غلطیوں کا ارتکاب کیا تو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ہمارے اندازوں کی حدوں سے بالا ہیں اس لیے ہمیں سات سمندر پار کے ثالثوں کی بجائے آپس میں ہی معاملات طے کرنے چاہئیں اور اس موقع پر پاکستان،ایران اور افغانستان کو پہلے مرحلے میں اور دوسرے مرحلے میں ان تینوں ملکوں سمیت سنٹرل ایشیا کے ملکوں کے ساتھ چین ، بھا رت اور روس کی شمولیت کے ساتھ وسیع اور پائیدار بنیادوں پر معاملات طے کر لینے چاہئیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے کے ملکوں میں پراکسی وار جاری ہے، الزامات اور پروپیگنڈا اس طرح کی جنگ کے وہ ہتھیار ہیں جن کو روکنے کے لیے بہت ہی خلوص اور جذبہ امن کے ساتھ باہمی اعتماد کو بحال کرتے ہوئے ماہرانہ ڈپلومیسی کی ضروت ہوتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان ممالک کو آپس میں دھونس اور دھمکیوں سے اجتناب کرنا ہوگا، یہاں ان ملکوں اور ان کی لیڈر شپ کو یہ بنیادی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ تو درست ہے کہ جنگ کوئی ایک ملک یا ایک فر یق شروع کرتا ہے مگر بعد میں جنگ کو روکنا یا ختم کرنا پھر ایک فریق یا ایک ملک کے اختیار میں نہیں ہوتا اور یہاں اس تلخ حقیقت کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگیں اگرچہ ہماری نہیں تھیں لیکن مرنے والوں میں اکثریت ہماری تھی اور اب اگر خدانخوستہ ہم خود جنگ چھیڑتے ہیں تو ۔۔ اس سے آگے کے سوالات ان ملکوں کے رہنماؤں کے سوچنے کے ہیں ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کو بھی 1990 میں ختم کردیا گیا اور اگر خاتمہ کو ہم تسلیم نہ بھی کریں تو کم ازکم یہ تو مانیں گے کہ اب دیوار برلن نہیں رہی اور مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ملک ہو گئے، سابق سوویت یونین کی بجائے اب روس ہے اور روس کی بھی بہت سی ریاستیں نہ صرف اب آزاد ملکوں کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ مشرقی یورپ سے اشراکیت کے خاتمے کے بعد اور یورپی یونین میں توسیع کے ساتھ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک یورپی یونین میں شامل ہو چکے ہیں جس کی ایک کرنسی ہے، اب ویزہ اور پاسپورٹ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ ہمارے ہاں بشمول تین جنگوں کے 71 برس گزر نے کے بعد اب بھی ہم دو ہمسائے ایٹمی قوت بننے کے باوجود ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان 71 برسوں سے اپنے جنگی اخرجات میں اضا فہ کرتے رہے ہیں، حالانکہ جب کشمیر پر پہلی جنگ شروع ہوئی تھی تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود اقوام متحد ہ کی سکیورٹی کونسل میں کشمیر کے مسئلے کو لے گئے تھے اور اس بات پر پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔

بھارتی وزراء اعظم اب تک اس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ ہم نے بھارت اور پاکستان کی صورت میں سیاسی آزادی حاصل کی مگر جنگوں اور اسلحہ کی خریداری اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے ہم اقتصادی نوآبادیات کے شکنجے میں دبتے ہی جا رہے ہیں۔11 نومبر 2018 ء کو پہلی جنگ عظیم میں شریک ممالک نے اس کے سو سال بعد اس کی یاد کو منایا، اور اس پر ایک بار پھر یہ تجزیہ کیا کہ جنگ عظیم کے بعد فرانس کے محل وارسائی میں ہونے والے معاہدے میں بڑی غلطیاں تھیں، لیکن افسوس کہیں یہ نہیں کیا گیا کہ 1990 میں سرد جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ ، روس، بھارت اور دنیا کی دیگر قوتوں اور ملکوںسے کتنی غلطیاں ہوئیں اور اب 28 سال گزرنے کے بعد ان غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرنے کی کو ئی کوشش کی گئی؟

The post جنگ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیتی appeared first on ایکسپریس اردو.

شمالی کوریا کی خفیہ دولت کا راز آشکار ہوگیا

$
0
0

شمالی کوریا کانام سنتے ہی ایک ایسی قوم کا تصور ابھرتا ہے جو عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث ِاس بھری پُری دنیا میں تنہا شب و روز گزار رہی ہے، اگرچہ شمالی کوریا کی معیشت دنیا کی کمزورترین معیشتوں میں شمار ہوتی ہے تاہم حیرت انگیزطور پر اُسے ان پابندیوں کی چنداں فکر بھی نہیں ہے، حالانکہ روز بہ روز پابندیوں کا شکنجہ سخت سے سخت تر ہورہاہے۔

اقوام متحدہ کے بعض ماہرین کا کہناہے کہ شمالی کوریا کے معاشی اطمینان کا راز اسلحہ اور قدرتی معدنیات کی خفیہ تجارت ہے، اس اعتبار سے پابندیاں لاحاصل  ثابت ہورہی ہیں بلکہ اُلٹ نتائج دے رہی ہیں، اس لئے  شمالی کوریا کو نیوکلئیرپروگرام آگے بڑھانے سے روکنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شمالی کوریا اسلحہ اور قدرتی معدنیات ہی کی تجارت کرکے اپنی ضروریات کی رقم جمع کررہاہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرا خفیہ راستہ اختیار کرکے نہ صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کررہاہے بلکہ اپنے ملک کے نیوکلیائی پروگرام، سائنس اور تعلیم سمیت دیگرکئی شعبوں کے اخراجات پورے کررہاہے۔

یہ خفیہ راستہ کون سا ہے؟ آئیے! تین افراد کے کام اور باتوں سے اس کا پتہ چلاتے ہیں۔ یہ تینوں افراد جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں رہتے ہیں، یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد سے 50کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔گزشتہ چند برسوں سے سیول کا شمار دنیا کے امیرترین شہروں میں ہونے لگاہے، یہ شمالی کوریائی حکومت کے باغیوں کی جائے پناہ بھی ہے۔ ان تین افراد میں سے ایک فرد کو کچھ عرصہ پہلے چین میں بھیجا گیا، دوسرے کو کویت کی ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرنیکے لئے جبکہ تیسریکو سنگاپور کے ایک بنک میں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران میں ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے ڈیڑھ لاکھ  افراد کو بیرون ملک بھیجاگیا تاکہ وہ حکمران کِم خاندان کے لئے رقم کمائیں۔

معروف ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘  نے ایک اسی موضوع پر ایک ڈاکومنٹری فلم جاری کی جس میں ایسے مرد و خواتین کو دکھایاگیا جو اربوں ڈالرز شمالی کوریا بھجواتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ سطح کے سابق افسر بھی شامل ہیں اور عام کارکن بھی، وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کی فیکٹریوں اور کنسٹرکشن سائٹس پر بے پناہ مشقت کررہے ہیں، وہ اپنی تنخواہوں کا بیشتر حصہ شمالی کوریا براہ راست بھجواتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو مزید رقم بھیجنے سے انکارکرچکے یعنی غدار بن چکے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ بیرون ملک کام کرنے والے شمالی کورین کی رقوم براہ راست کِم خاندان کے بنک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہے، جہاں سے یہ رقم نیوکلئیر میزائل پروگرام سمیت دیگرشعبوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس ساری خفیہ دولت کی آمدورفت کا حساب کتاب کرنے کے لئے ایک الگ دفترقائم کیاگیا جسے’’ آفس39 ‘‘کہاجاتاہے۔ شمالی کوریا کے سابق سربراہ کم جانگ دوم نے آفس 39 قائم کیا جو بیرونی دنیا میں ہزاروں کمپنیوں اور فیکٹریوں کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے، ملک کے جی ڈی پی کا آدھا حصہ یہی آفس فراہم کرتاہے۔

آئیے! سب سے پہلے شمالی کوریا کے ایک سابق اعلیٰ افسر کا تذکرہ کرتے ہیں جسے شمالی کوریا سے چین بھیجا گیا لیکن وہ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد  اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر بھاگا اور ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے سیول میں ایک نئی شناخت اور نئے نام سے میونسپل میوزیم میں جزوقتی ملازمت کرنے لگا۔ اس میوزیم میںایک سیکشن ایسا بھی ہے جہاں شمالی کوریا کے رہنے والوں کی زندگی کو دکھایاجاتاہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ریاست کی ایک سیکورٹی ایجنسی میں ملازمت سے کیا۔آپ اس ایجنسی کو شمالی کوریا کی ’سی آئی اے‘ کہہ سکتے ہیں۔میں اس کے فنانشل ڈیپارٹمنٹ میں تھا، جلد ہی حکام کی نظروں میں آگیا۔ وہ میری صلاحیت اور اہلیت کی تعریف کرتے تھے،چنانچہ مجھے’آفس 39‘ میں بھرتی کرلیاگیا۔

یہ ایک غیرمعمولی اقدام تھا۔ میں نئے آفس میں سب سے کم عمرتھا یعنی صرف25 برس عمر کا۔ آفس39ہزاروں کمپنیوں اور فیکٹریوں  کی تمام تر معاشی سرگرمیوں کا اہتمام کرتاتھا، اس کا ایک ہی مقصدتھا کہ بیرون ملک سے زیادہ سے زیادہ دولت شمالی کوریا میں لائی جائے۔ اس آفس میں کسی کو خبرنہیں کہ بیرون ملک مقیم کسی ورکر کو کتنی تنخواہ ملتی ہے، اس طرح کے سوالات کے جوابات اس لئے نہیں مل سکتے کہ ایک خاص طریقے سے باقاعدگی سے ریکارڈ ضائع کردیاجاتاہے۔ اس آفس میں کام کرنے والے ان امور پر کسی سے بات نہیں کرسکتے، اگر وہ  اس ’جرم‘ کے مرتکب ہوئے تو انھیں پھانسی دیدی جاتی ہے۔

حکمران خاندان کو جو رقم دی جاتی ہے وہ ’ لم ٹو‘ جیسے مزدور فراہم کرتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ ماہ سے کویت کی ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کیسے دن رات کام کررہا ہے تاہم اسے کئی ماہ تک ایک پیسہ معاوضہ نہیں ملا۔ اس کی تنخواہ براہ راست پیانگ یانگ(شمالی کوریا کا دارالحکومت) بھیجی جاتی ہے۔ ’لم ٹو‘ نے ان دنوں کا ذکر کیا جب اسے کویت بھیجاجارہاتھا: ’’میں وہاں جانا چاہتاتھا یا نہیں، ایسا کوئی سوال ہی نہیں تھا، مجھے بہرصورت وہاںجاناتھا۔ احکامات آنے کے بعد مجھے تیاری کے لئے اتنی ہی مہلت ملی جتنا وقت میں کھانا کھانے میں لگاتاہوں۔

ہمارا لیڈر کم ال سنگ1994ء میں انتقال کرگیا، ایک سال بعد، مئی 1995ء میں ، پیانگ یانگ میں عام لوگوں کو فوڈ راشن کارڈ ملنا بند ہوگئے۔ لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ دراصل یہ پہلا موقع تھا جب راشن کارڈ جاری ہونابندہوئے تھے۔ اس وقت میری دوسال کی بیٹی تھی،  وطن سے باہر جانے کے لئے آپ کا شادی شدہ ہوناضروری ہے اور بچے بھی۔ اگرآپ کے بچے نہیں ہیں تو آپ بیرون ملک نہیں جاسکتے۔(کویت میں)میری تنخواہ 120امریکی ڈالر(ساڑھے سولہ ہزار روپے پاکستانی سے کچھ زائد) مقرر کی گئی ، مجھے چھ ماہ تک اسی تنخواہ کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔ دوماہ گزرگئے لیکن مجھے کوئی تنخواہ نہ ملی، میں نے انتظامیہ سے پوچھا کہ  مجھے تنخواہ کیوں نہیں مل رہی؟ انھوں نے مجھے بتایا کہ ابھی تک ہمیں پارٹی کی طرف سے آپ کو تنخواہ دینے کا نہیں کہاگیا۔ شمالی کوریا میں پارٹی کا مطلب ہوتاہے: کم  جانگ ال یعنی ہمارا کمانڈران چیف۔ جب ہم یہ بات سنتے تھے تو کوئیفرد احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ یہاں سینکڑوں ملازمین تھے لیکن سب کے سب خاموش۔ بس! ہمیں اپنے نیندوں سے لڑتے بھڑتے دن رات کام کرناتھا۔ میں نے پانچ ماہ تک اسی اندازمیں بغیر تنخواہ کے کام کیا۔ تب میرے اندر باغیانہ سوچ پنپنے لگی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئیں۔

کِم خاندان کے ایک تیسرے باغی ’کم کوانگ جن‘  کو2000ء کے اوائل میں سنگاپور بھیجاگیا، اس نے’نارتھ ایسٹ ایشیا بنک‘ میں ملازمت کرکے ملک کے لئے کروڑوں ڈالرز کمائے۔سن2003ء میں شمالی کوریائی حکومت کو شک ہوا کہ کم کوانگ جن نے ملک کے معاشی راز کسی کے سامنے افشا کردئیے ہیں  نتیجتاً وہ بھاگ کر ’سیول‘ پہنچ گیا، آج کل وہ جنوبی کوریا کی ایک سیکورٹی ایجنسی میں کام کررہاہے۔ اس کا کہناہے کہ ہمارا اصل مقصد بیرون ملک رہ کر دولت اکٹھی کرناتھا اور یہ  غیرملکی دولت کا کاروبار مکمل طور پرخفیہ ہوتاہے، یہ سب نقدی کی صورت میں ملک کے سربراہ کے حوالے کی جاتی ہے۔ اس دولت کو کہاں خرچ کرناہے، اس کا فیصلہ وہی کرتاہے۔

غیرملکی دولت کمانے والے ورکرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے،50ہزار روس میں کام کررہے ہیں اور پچاس ہزار ہی چین میں جبکہ باقی دنیا کے باقی ممالک میں مزدوری کررہے ہیں۔ ان کی تنخواہ کے 70 فیصد سے 80فیصد حصے کی کٹوتی ہوجاتی ہے  جو براہ راست شمالی کوریا میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کو بھیجی جاتی ہے۔ یہ رقم ماہانہ 15ملین ڈالرز بنتی ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ (چاہے باپ ہو یا بیٹا) کے ملنے والی دولت میں گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔

ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا بیرون ملک  اپنے ورکرز کے خون پسینے کی کمائی سے 500ملین ڈالرز سالانہ حاصل کرتاہے۔اگرکسی ملک میں شمالی کوریائی لڑکیاں رقص و موسیقی اور گانے کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں تو اس کی آمدن بھی شمالی کوریا کے خفیہ فنڈ میں جمع ہوتی ہے، اسی طرح کئی ممالک میں شمالی کوریائی لڑکیاں زیورات اور پینٹنگزبھی  فروخت کرکے خفیہ فنڈ میں اضافہ کرتی ہیں۔ شمالی کوریائی ورکروں کو پوری تنخواہ اس لئے نہیں دی جاتی کہ وہ واپس اپنے ملک میں جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ ظاہر ہے کہ  انھیں ملنے والی انتہائی قلیل تنخواہ  کا کچھ  حصہ شمالی کوریا میں اپنے گھر والوں کے لئے بھی بھیجنا ہوتا ہے جبکہ اپنے ذاتی اخراجات بھی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد شمالی کوریا تک سفر کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔

آفس 39کی کہانی کا آغاز 1974ء  میں ہوا جب شمالی کوریا نے اپنے ورکرز کو بیرون ملک بھیجنا شروع کیاتھا، آہستہ آہستہ خفیہ طور پر فنانشل کمپنیاں قائم ہونے لگیں۔ یہ سب کمپنیاں دولت آفس39 کی طرف بھیجتی ہیں۔ مشرقی یورپ، جنوبی ایشیا اور افریقہ کے جن ممالک میں شمالی کوریا نے دوطرفہ معاہدے کئے ہوئے ہیں، میں  پولینڈ، یوکرائن ، ازبکستان اور منگولیا بھی شامل ہیں۔  یہاں بڑے پیمانے پر شمالی کوریائی ورکرز موجود ہیں۔ منگولیا 70برس سے زائد عرصہ تک کمیونسٹ ملک رہاہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہاں سرمایہ دارانہ نظام پنپنے لگا اورمنگولیائی دارالحکومت’ اولان باتور‘ میں بلندوبالا عمارتیں سراٹھانے لگیں، ان کے ٹھیکے چینی کمپنیوں نے حاصل کئے جنھوں نے یہاں کام کرنے کے لئے منگولیائی مزدوروں کے بجائے شمالی کوریا کے لوگوں کو بلایا۔

پیانگ یانگ والے دن رات یہاں کے کام کی نگرانی کرتے ہیں۔ شمالی کوریائی ورکرز راتیں بھی یہاں پر گزارتے ہیں، یہاں پر ہی کھاتے، پیتے اور سوتے ہیں۔ انھیں سائٹ سے اِدھر اُدھر جانے کی اجازت نہیں۔ صرف ذاتی خریداری کے لئے بازار تک جاسکتے ہیں۔ وہ بازار اکیلے نہیں جاسکتے بلکہ گروہوں کی صورت میں جاتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی نگرانی کرسکیں۔ ورکرز کو بیماری کی صورت میں مخصوص طبی مرکز میں جانا ہوتاہے جہاں موجود ڈاکٹرز کو کسی صحافی سے بات  کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب ان سے کچھ پوچھا جائے تو وہ ہاتھ کے اشارے سے سوال نہ پوچھنے کو کہتے ہیں یا پھر ان کے اشارے کے مطلب ہوتاہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔

شمالی کوریا کی حکومت یہ سب جبری اقدامات اپنے ملک کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لئے اس لئے مجبور ہے کہ ملک کو ایک طویل عرصہ سے معاشی پابندیوں کا سامنا ہے، عمومی طور پر سمجھاجاتاہے کہ یہ پابندیاں نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی پاداش میں عائد کی گئی ہیں۔ سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رے کے سانگ سے پوچھا گیا کہ کیا اقوام متحدہ کی پابندیوں سے جان چھڑانے کے لئے نیوکلیائی پروگرام ترک کردینا بہتر نہیں ہے؟ اس نے کہا کہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے تاریخ کا جائزہ لیناضروری ہوگا۔28جون1950ء کو امریکا نے ہم پر جنگ مسلط کی، تین دن بعد اس نے شمالی کوریا سے تمام تر برآمدات پر پابندی عائد کردی۔ اسی سال دسمبر میں امریکا نے ہمیں ایک ایسا دشمن قراردیدیا جس سے کسی قسم کی تجارت نہیں کی جاسکتی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے پاس نیوکلیائی ہتھیارنہیں تھے۔ امریکا ہمیں اقتصادی طور پر محبوس کرناچاہتاتھا۔ جب ہم نیوکلیائی ہتھیاروں سے امریکا پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہوں گے، تب ہم اقتصادی طور پرآزادی حاصل کریں گے۔ اب امریکا ہمیں اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں سے خوفزدہ نہیں کرسکتا، اب تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

دنیا بھر سے نہایت چالاکی سے دولت اکٹھی کرکے جہاں شمالی کوریا میں بلندوبالا عمارتوں کا سٹرکچر کھڑا ہورہاہے، تعلیم اور سائنس کے میدانوں میں ترقی کا پہیہ زیادہ تیز رفتاری سے چلایاجارہاہے، اس کے علاوہ صنعتیں پہلے سے زیادہ تیزی سے پیداوار دے رہی ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے لئے خام مال بھی درآمد کرنے کے بجائے ازخود تیار کیاجارہاہے، ملک میں عوام کی تفریح کے لئے بھی مختلف تدابیر وضع کی جارہی ہیں، مقصود جبر کا تاثر ختم کرنا اور ایک کھلے معاشرے کی تصویر پیش کرنا ہے۔

The post شمالی کوریا کی خفیہ دولت کا راز آشکار ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

چین میں ملنے والی محبت زندگی کے قیمتی سرمائے کی طرح ہمیشہ ساتھ رہے گی

$
0
0

(آخری قسط)

ہر سفر کو ختم ہونا ہوتا ہے۔ منزلیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اور مسافر آتے جاتے رہتے ہیں۔ سی آر آئی میں گزرے شب و روز کو بھی ایک روز ختم ہونا تھا اور وہ مرحلہ قریب آگیا تھا۔ چین میں قیام کا ہمارا تیسرا سال شروع ہوا تو ہر روز یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ اب واپسی کا مرحلہ قریب ہے۔

ہلکی ہلکی اداسی نے اثر دکھا نا شروع کر دیا۔ پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب پاکستان واپسی کے لیے ٹکٹ بک کرایا۔ اس کے بعد ہر گذرتے دن کے ساتھ ماضی کی یادوں کے نقوش زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرنے لگے۔ ابتدائی دنوں میں ہمارے سماج سے مختلف ہر مزاج اور روایت کی جانب کشش اور ہمارا چینی زبان سیکھنے کا نیا نیا شوق بھی عروج پر تھا۔ جب اپنے پیش رو احباب کو دکانداروں سے رواںچینی زبان میں گفتگوکرتے سنتے تو حیرت ہوتی۔ تین سال گزارنے کے بعد ہمیں بھی روزمرہ چینی کے کچھ الفاظ آ ہی گئے تھے اور ہم بھی کہیں آنے جانے یا خریداری کے لیے ضروری چینی بول ہی لیتے تھے۔

رفتہ رفتہ سی آر آئی میں کام کرنے والے غیر ملکی احباب سے تعارف وآشنائی کا سلسلہ شروع ہوا۔سب سے پہلے جنوبی ایشیائی فارن ایکسپرٹس سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ وجہ یہ تھی کہ ایک ہی فلور پر سب کے دفاتر تھے ۔ صبح صبح سی آرآئی جانا اور پھر تمام دفتری وقت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں گزار دینا اور شام کو واپس آکر کھانا تیارکرنے کے لوازمات میںمصروف ہو جانا۔ وہاں دورانِ کام غیر ضروری سرگرمیوں میں وقت گزاری کو معیوب اور ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ یادوں کے کیا کیا دریچے وا ہو رہے ہیں ۔

بیجنگ میںہماری پہلی سماجی مصروفیت پاکستان کے سفارت خانے میں یومِ آزادی کی تقریب میںشمولیت کل کی بات لگتی ہے ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ملک سے باہر یوم آزادی منا رہے تھے۔ اس روز وطن سے دوری کا احساس بہت شدت سے ہوا۔ پاکستان میں تو ہر جگہ سبز جھنڈیاں اور پرچم نظر آتے ہیں لیکن یہاں سڑکیں اور عمارات قومی پرچم سے خالی تھیں۔ صرف پاکستان کے سفارتخانے میں تقریب منعقد ہوئی اور وہاں بہت سے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ پاکستان ایمبیسی کالج کے طلباء و طالبات نے ملی نغمے گاکر وطن سے محبت کی یاد کو گرمایا۔ جشنِ آزادی کی تقریب کے بعد دوسری سماجی تقریب بیجنگ میں مسلم ایسوسی ایشن کی جانب سے عیدالاضحی کے موقع پر ایک دعوت میں شرکت تھی۔ اس دعوت میں ہمیں سی آر آئی کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔

اس روز سی آرآئی میں کام کرنے والے مسلم مرد و خواتین صحافیوں سے تعارف ہوا۔ بیجنگ میں مختلف شعبوں میں کام کرنیوالے مختلف مسلمان ممالک کے شہریوں سے بھی ملاقا ت ہوئی۔ یوں دیار غیر میں مذہب کی وجہ سے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ مذہب کاذکر آیا تو بیجنگ میں پہلی مرتبہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا منظر بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ پہلی مرتبہ جب ہم نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے لگے توہمارے پیش رو ساتھیوں عبدالمجید بلوچ اوررئیس سلیم نے بتایا کہ ہم بس میںجائیں گے ۔ ہم حیران ہوئے کہ بس میں۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد کافی فاصلے پر تھی ۔ بس میں جاتے ہوئے تقریباً پینتالیس منٹ لگ جاتے تھے۔ بہرحال ہم بس میں مسجد کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں مختلف مقاما ت سے گزرتے ہوئے ہم مسجد تک پہنچ گئے۔

ہم پاکستان میں موجود مساجد کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے تو جب ہم مسجد کے سٹاپ ’مُوشی کو نین لی‘ پر اترے تو ہمیں اطراف میں کسی مسجد کے آثار نظر نہ آئے ۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر ہمیں ہمارا مقصود دکھائی نہ دیا۔ ہم اپنے ساتھیوں کی معیت میں چل دیے۔ سٹاپ پر سے اتر کر چند قدم کے فاصلے پر ہمارے ساتھی ایک کمیونٹی (ہمارے ہاں کا محلہ سمجھ لیں)میں داخل ہوگئے۔ آگے چل کر ہم داہنی جانب مڑے اور گھروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک قدرے اونچائی کی جانب جاتی سڑک کی طرف ہو لیے۔ اسی اونچائی پر مسجد واقع تھی۔ تو یہ بیجنگ میں کسی بھی مسجد سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔

جمعہ کا دن تھا اور مسجد کے آس پاس مکمل خاموشی کا راج تھا۔ مسجد کے اطراف میں موجود کھلی جگہ سے گزرتے ہوئے مسجد کے مرکزی ہال کی جانب رخ کیا۔مرکزی ہال سے بائیں جانب وضو و طہارت کے لیے الگ سے انتظام موجود تھا۔ہمیں بیجنگ میں مختلف مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔تمام مساجد میں وضو و طہار ت کے لیے مرکزی ہال سے الگ انتطامات تھے۔ ہمارے ہاں مساجد میں عموماً وضو کی سہولت مرکزی ہال کے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے۔ وہاں وضو کرکے باقاعدہ چل کر مرکزی ہال میں آنا پڑتا ہے۔ بعض مساجد میں وضو والی جگہ پر نہانے کا بھی انتظام ہے۔ وہاں کئی بار مشاہدہ ہوا کہ مقامی چینی مسلمان جمعہ کے روز وہیں غسل کرتے ہیں۔

وضو کرکے مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو امام صاحب کی تقریر جاری تھی۔ ہمیں سمجھ نہ آئی کیونکہ یہ چینی زبان میں تھی۔اما م صاحب نے تقریر ختم کی اور خطبے کے لیے منبر پر تشریف لے گئے۔ ہماری طرح دو مختصر خطبے دیے درمیان میں وقفہ دیا۔ چینی لہجے میں عربی سن کر بہت اچھا لگا۔ نمازِ جمعہ کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ بعض افریقی مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس کے علاوہ وہاں مقامی چینی مسلمان بھی موجود تھے۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد جو سلسلہ وہاں شروع ہوا وہ ہمارے لیے نیا تھا۔ وہاں کچھ یوں ہوا کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دعا معمول کے مطابق ہوئی اور لوگ بقیہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ جب نماز مکمل ہو جاتی ہے تو پھر اما م صاحب بلند آواز میں کچھ ذکر اذکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرلیتے ہیں۔

وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نماز مکمل ہونے کے بعد امام صاحب نے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی ۔ ہم سمجھے کہ دعا کا وقت شروع ہو چکا۔ انہوں نے کچھ مختصر آیات پڑھیں ۔جونہی انہوں نے آیات پڑھنا بند کیں تو ساتھ ہی ایک اور شخص نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔اس کے بعد ایک اور اس کے بعد پھر ایک اور نے یہی کچھ کیا۔ہم نے دیکھا کہ وہاں چینی مقامی مسلمان باری باری قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے اجتماعی طور پر ۔ خیر تقریباً دس لوگوں نے تلاوت کی ہو گی ۔اس کے بعد امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ بلندکیے۔یوں ہمارا پہلا جمعہ باضابطہ طور پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ہمارے لیے یہ تجربہ نیا تھا۔ مگر ’مُوشی کو نین لی‘ کی مسجد میں یہ یقیناً معمول کی بات تھی۔ خیر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی لوگ نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر امام صاحب سے ملاقا ت کر رہے تھے۔

ہم نے بھی بڑے شوق سے امام صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کے ساتھ تصویر بنوائی۔ امام صاحب کو جب ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔امام صاحب نے پینٹ کے اوپر ایک لمبا سے کرتہ پہنا ہوا تھا اور سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ یوں دیار غیر میں پہلا جمعہ پڑھنے کا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ بس میں واپسی پر کچھ افریقی مسلمان بھی سوار تھے جو کہ سی آر آئی اترے یوں ان سے بھی تعارف ہوا۔ ’مُوشی کو نین لی‘ کی مسجد بیجنگ کے مضافات میں واقع ہے ۔ اس لیے وہاں خاموشی کا راج نظر آیا۔ مگر بیجنگ شہر میںواقع نیوجئے ، ہائیدیان، موشی ڈی ، چھاؤیانگ کی مساجد پر رونق اور کمرشل ایریاز کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ نیوجئے کی مسجد تو بیجنگ کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ وہاں نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے جانا ہوا تھا۔

نمازِ عید کی ادائیگی کے موقع پر وہاں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی عملہ تعینات ہوتا ہے۔ مسجد میں داخلے سے پہلے واک تھرو گیٹ نصب ہوتا ہے۔ نیو جئے کی مسجد میں نمازِ عید اور جمعہ کے اجتماعات بہت بڑے ہوتے ہیں بالخصوص نمازِ عید کااجتماع تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں نماز پڑھنے آتی ہیں۔ وہاں نہ صرف چینی مسلمان بلکہ بیجنگ میں مقیم غیر ملکی مسلمان بھی آتے ہیں۔ عید کی نماز کے بعد وہاں پاکستانی ، عرب، ملائیشین، انڈونیشین، افریقن، یورپین، ترکش اور دیگر قومیتوں کے مسلمان ملتے ہیں تو مذہب کی عالمگیریت کا احساس ہوتا ہے۔ عید کے موقع پر مسلمانو ں کی اکثریت ا پنے اپنے مخصوص علاقائی لباس میں ملبوس نظر آتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر جانور بھی وہیں مسجد کے احاطے میں ذبح کیے جاتے ہیں۔

نیوجئے کے علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں ہر طرف حلال فوڈ بآسانی دستیاب ہے۔ مسجد سے باہر نکلیں اور پہلے چوراہے سے دائیں ہاتھ مڑیں تو بائیں طرف تمام دکانیں مسلمان قصابوں کی ہیں جہاں سے تازہ گوشت ملتا ہے۔ وہیں پر ایک سٹور ہے جہاں سے قر آن پاک،جائے نماز، ٹوپیاں، خواتین کے سکارف اور عبایہ وغیرہ ملتے ہیں۔واپس چوراہے کی جانب آئیں تو یہاں سے بالکل سیدھا دونوں طرف دکانیں ہیں جہاں سے کھانے پینے کی مختلف اشیاء ملتی ہیں۔ چین میں ایک بات مشہور ہے کہ اگرگوشت کھانا ہے تو یہ صرف مسلم ہوٹل ہی سے اچھا ملے گا ۔

ہمارے مشاہدے کے مطابق یہ بات درست بھی ہے۔نیو جئے مسجد کے پاس دکانوں سے گوشت کے تکے، گوشت سے بنی دیگر ڈشز بکثرت ملتی ہیں۔اس مخصوص دکان سے تلوں والے تکے سیخوں کے حساب سے نہیں بلکہ تول کر ملتے ہیں اور یہ بہت ہی لذیز ہوتے ہیں ۔بیکری آئٹمز ، دہی،نان اور دیگر اشیاء بھی وہاں دستیاب ہیں۔ وہیں ہیدیان کی اس مسجد کے علاوہ بھی سی آر آئی کے نزدیک ایک اور مسجد کی موجودگی کا بھی علم ہوا اور اس سے ہمیں ہمارے مصر سے تعلق رکھنے والے دوست صلاح نے متعارف کروایا۔ ایک روز ہم نے صلاح سے پوچھ لیا کہ آپ جمعہ کی نماز کے لیے کہاں جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی مُشی ڈی میں واقع ایک مسجد میں جاتے ہیں۔ تو ہم نے بھی ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اگلے جمعہ ہم ان کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ یہ مسجد سی آر آئی کے دفتر کے نزدیک ترین تھی۔

سب وے لائن نمبر ایک پر ہی اس کا اسٹیشن تھا اور اسٹیشن سے نکل کر دس پندرہ منٹ کی دوری پر مسجد تھی۔ یہ مسجد بھی بازار کے قریب مگر ایک گلی میں تھی۔ دور سے دیکھنے پر نہیں لگتا تھا کہ یہاں مسجد ہو گی۔ یہ بھی بہت پرانی مسجد ہے مگر یہاں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے سی آر آئی کے تمام عرب دوست یہیں نماز پڑھتے تھے۔اس کے بعد سے ہم نے بھی یہیں نماز پڑھنا شروع کر دی اور جب تک ہمارا قیام بیجنگ میں رہا جمعہ ہم نے یہیں پڑھا۔ عرب دوستوں کے ساتھ روانہ ہوتے اور انہی کے ساتھ واپس آتے۔ عرب دوستوں نے اپنی متعلقہ سروس سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے خصوصی اجازت لے رکھی تھی۔ اور وہ پوری دیانتداری سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے فوراً بعد دفتر کا رخ کیا کرتے تھے۔ عرب دوست ایک تو مہمان نواز بہت تھے اور دوسرا ان کی دین سے وابستگی بھی مثالی تھی۔ جب موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے عبدا لرحمن سے ہماری پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو ہمیں روایتی عرب مہمان نوازی کا صحیح اندازہ ہوا ۔

انہوں نے ہمیں کھانا کھائے بغیر جانے نہ دیا۔ عبدالرحمن نے فوری طور پر چکن والے چاول بنائے اوروہ اتنے لذیذ تھے کہ آج تک اس کاذائقہ یاد ہے۔اس کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے ملک کا روایتی قہوہ پلایا جوکہ چھوٹے چھوٹے پیالوں میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ وقتا فوقتا ہمیں قہوہ پلاتے رہتے تھے۔ دین سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز میں، بلال اور عبدالرحمن کھانا کھانے مسلم ہوٹل گئے۔ اس وقت سردی کاآغاز ہو چکا تھااورعصر کے بعد ہوا میں خنکی ہو جاتی تھی۔ مغرب کا وقت ہوا تو عبدالرحمن نے باہر فٹ پاتھ پر نماز مغرب پڑھی۔ جس کو دیکھ کر چینی لوگ بہت حیران ہوئے اسی طرح ایک روز بلا ل کے ساتھ بیجنگ کے ایک علاقے ’ووداخو‘ میں واقع مشہور پاکستانی ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے نماز مغرب کا وقت آن پہنچا۔ قریب کسی مسجد کے نہ ہونے کہ وجہ سے بلا ل نے وہیں سڑک کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ موجود گھاس پر نماز پڑھی۔ بلال کو اس جگہ پر نماز پڑھتا دیکھ کر بہت سے چینی حیران ہوئے ۔

سی آر آئی میں کام کرنے کے دوران کئی دوست بنے جن کا تعلق اردو سروس سے نہیں تھا۔ ان میں روسی سروس سے تعلق رکھنے والے لی بھی ہیں ۔ طویل قامت اور کم گو ’لی‘ بیڈ مینٹن کھیلنے کے شوقین تھے۔ ان کے ساتھ بیجنگ میں واقع مختلف بیڈمنٹن کلبز میں جا کر کھیلنے کا موقع ملا۔ وہاں اور چینی دوستوں سے ملاقات ہوئی جو سی آر آئی سے وابستہ نہیں تھے۔لی بعد میں صحت کے مسائل کی وجہ سے بیڈمنٹن نہ کھیل پائے مگر ہم ہر ویک اینڈ پر کھیلنے جاتے رہے۔وہیں بیڈمنٹن کھیلنے والے LiuHua سے بھی ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔

پیشے کے اعتبارسے انجنیئر LiuHua بہت ملنسار اورمتحرک تھے۔ وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے بیڈ منٹن کھیلنے آتے تھے اور پوری ذمہ داری سے بیڈ منٹن کورٹ پیشگی بک کرواتے تھے۔بیجنگ میں جگہ جگہ بیڈ منٹن کورٹس ہیں جہاں شہری رقم کی ادائیگی کے عوض اپنی سہولت کے مطابق ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے یا اس سے زائد کے لیے بھی بکنگ کرواتے ہیں۔ بعد میں LiuHua پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے ہر ہفتے کھیل جاری نہ رکھ سکے مگر ہم بیڈمنٹن کھیلنے جاتے رہے ۔ وہیں بیڈ منٹن کورٹ میں ہمارے کھیل کے ساتھی بنے Zhao Zentao   ۔ یہ بھی انجینئر تھے اورانتہائی پرجوش انداز میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ ان کا چینی دوستوں پر مشتمل ایک اپنا گروپ تھا جو ہر ہفتے دو گھنٹوں کے لیے بیڈ منٹن کھیلتے تھے۔انہوں نے ہمیں اپنے گروپ میں شامل کیا یوں ہم واحد غیر ملکی بن گئے جو چینی شہریوں کے گروپ میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ رفتہ رفتہZhao Zentao سے ملاقاتیں بڑھتی رہیں اور کھیل کے علاوہ دیگر موضوعا ت پر بھی ہماری بات چیت ہوتی رہتی۔ Zhao Zentao کا گھر بھی سی آر آئی کے دفتر کے قریب ہی تھا۔ ایک روز وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور اپنے اہلِ خانہ سے ملوایا۔ ان کے والدین ، بیگم اور بچوںسے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے والد میں روایتی مشرقی والد والی شفقت موجود تھی۔

ان کی والدہ بھی بہت شفیق اور محبت کرنے والی تھیں ۔ جب ہم ان کے گھر گئے تو ان کے والد نے کھانا بنایا۔ ان کے گھر جا کر علم ہواکہ وہاں بھی والدین کی خواہش اورترجیح اپنی اولادکو ڈاکٹر یا انجئینر بنانا ہوتی ہے۔ اوران کے والد ہمارے ہاں موجود طور طریقوں کے مطابق اپنے پوتے اور پوتی کو سکول سے لاتے ،لے جاتے تھے۔  Zentao Zhao بذاتِ خود انجنیئر تھے اوران کے بڑے بھائی اسپشلسٹ ڈاکٹر تھے جو کہ جنوبی چین کے ایک ہسپتال میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ا ن کے والدین باری باری کبھی ایک بیٹے کے پاس ٹھہرتے تو کبھی دوسرے کے پاس۔  Zentao Zhao کوایک روز ہم پاکستانی کھانے سے روشناس کروانے کے لیے فیملی کے ہمراہ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ لے گئے۔

وہاں ا نہیں بریانی، چکن کڑاہی، کباب کھلائے۔ ساتھ میں لسی بھی پیش کی۔ تمام پاکستانی کھانے انہیں پسند آئے مگر لسی انہیں بہت بھائی۔ ہم نے انہیں لسی کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بتایا۔کھانا کھانے کے بعد Zhao Zentao ہمیں اپنے ایک چینی دوست کے گھر لے گئے ۔وہ دوست ریاضی کے پروفیسر تھے۔وہاں پر ان کے ساتھ بڑی گپ شپ رہی۔ ا ن کے گھر میں پھل اور چینی چائے سے تواضع کی گئی۔Zhao Zentao سے بڑی میل ملاقاتیں رہیں وہ توآخر ی دنوں میں ہمیں معلو م ہوا کہ موصوف پولیس آفیسر ہیں ۔ اتنا عرصہ ان سے تعلق رہا مگر انہوںنے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ Zhao Zentao کوجب ہم نے بتایا کہ ہم یہاں سے واپس جانے والے ہیں تو وہ ادا س ہوئے اور کہنے لگے کہ اب تو کھیل اور بات چیت میں لطف آنے لگا تھا کہ آپ کے کُوچ کا وقت آگیا۔بہر حال انہوں نے ہمارے لیے ایک الوداعی دعوت کا اہتمام بھی کیا۔ الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آرآئی کے دیگر دوستوں نے بھی شروع کیا۔ان میں پشتو سروس سے وابستہ افغانستان کے فارن ایکسپرٹ جان روان زازائی نے اپنے گھر میں کھانے کی دعوت کی۔انہوں نے روایتی پشتون مہمان نوازی سے کام لیتے ہوئے ہمارے لیے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔ جس میں کابلی پلاؤ بھی شامل تھا۔

اس الوداعی ملاقات کے علاوہ بھی وہاں قیام کے دوران جان روان زازائی نے کئی مرتبہ ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ جان روان زازائی کے علاوہ پشتو سروس کے افغان دوستوں نقیب اللہ مل اور خالد وردگ نے بھی مہمان نوازی کی روایت کو خوب نبھایا اور کئی بار ہمیں افغان ڈشز کھلائیں۔ افغانستان اور پاکستان کے پڑوسی ملک ایران سے تعلق رکھنے والے فارسی سروس میں کام کرنے والے مجتبیٰ پویا سے آشنائی لمحوں میں انسیت اور اپنائیت میں ڈھل گئی۔ وہ بہت صاحب مطالعہ، ادب سے لگاؤ رکھنے والے اور دانش ور تھے۔ان کے ساتھ بیجنگ کی شاہراہوں پر پیدل چلتے ہوئے مختلف بین الاقوامی نظریات،مذہبی تشریحات، سیاسی تحاریک کے پس منظر اور عالمی سیاست کے نشیب وفراز پر بات چیت رہی۔مجتبیٰ پویا اردو سے محبت کرنے والے شخص ہیںاور انہیںاردو رسم الخط بے حد پسند ہے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ اردو سکھیں اور اس کے لیے وہ انٹرنیٹ سے بھی مدد لیتے رہتے ہیں۔ان کے ساتھ بھی مختلف پاکستانی ہوٹلز پر جانے کاموقع ملا۔ ان دوستوں کے علاوہ عرب دوست کہاں اپنی فیاضی اور سخاوت پر حرف آنے دینا پسند کرتے ہیں۔ سوڈان سے تعلق رکھنے والے اُسامہ اور بلال، الجزائر کے لطفی، مصر کے صلاح ابوزید نے بھی خوب دستر خوان سجائے اورہمیں عرب ڈشز سے متعارف کروایا۔

اردو سروس کے ساتھ ہی واقع تامل سروس کا دفتر ہے ۔ وہاں کام کرنے والے تامل فارن ایکسپرٹ Pandarinathan کے ساتھ دفتر آتے جاتے گپ شپ رہتی۔ انہیں بھی ادب اور کتب کے مطالعے کا شوق تھا۔جو ہمارے درمیان وجہ دوستی رہا۔Pandarinathan یوگا کے ماہر تھے اور اکثر اپنے فلیٹ میں یا کسی پارک میں یوگا کے آسن کرتے رہتے۔ انہوں نے بھی اپنے فلیٹ پر ہمارے لیے ایک الوداعی چائے پارٹی کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آر آئی کی حدود سے باہر بھی شروع ہوا۔

کئی پاکستانی احبا ب نے دعوت کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے سفارت خانے کے آفیسر علی صابر کیانی نے بھی سفارتی علاقے میں واقع ایک معروف ہوٹل میں دعوت کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ ہماری پاکستان واپسی کی تیاریاں بھی جاری تھیں اور دفتر میں بھی اپنے کاموں کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ تین سال ایک جگہ گزارنے کی وجہ سے یہاں موجود ہر شے سے ایک اُنسیت سی ہو گئی تھی۔اب انہیں چھوڑتے ہوئے ایک غم کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ دفتر میں ہماری نشست کے برابر میں اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی بھی بیٹھا کرتے تھے۔ان سے تین سالوں کے دوران ایک خصوصی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ لیو صاحب انتہائی وضع دار اور نظم و ضبط کے پابند تھے۔ دیانتدار اور معاملات میں شفافیت کے قائل۔ حسا س دل کے مالک لیو صاحب مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت تھی ۔

لیو صاحب قیلولہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ جب ان کی ڈیوٹی بعداز دوپہر شفٹ میں ہوتی تو وہ ڈیوٹی پر آنے والے پاکستانی ایکسپرٹس کو ہدایت کیا کرتے کہ حاضری لگا کر چلے جائیں اور ٹھیک دو بجے تشریف لائیں۔ لیو شیاؤ ہوئی سنجیدہ مزاج کے مالک تھے اور انتہائی ذمہ داری سے کام کیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ فطرت سے بھی بے حد پیار کرتے تھے ۔ان کی نشست کی دا ہنی جانب کا منظر بہت دلفریب اور مسحور کن تھا۔ جب کبھی ان کا من کام سے آرام کرنے کو چاہتاتو وہ دائیں جانب نگاہ ڈالتے ، سامنے بلندو بالا پہاڑ اور تاحد نگاہ پھیلا سبزہ ان کی روح کو معطر اور دل کو شاد اور دماغ کو تروتازہ کر دیتا اور یہی ان کو کام کرنے کے لیے مہمیز دیتا۔ لیو صاحب بظاہر دیکھنے میں گردو پیش سے بے نیاز ، اپنے کام سے کام رکھنے والے اور زیادہ میل ملا پ والے نہیں لگتے مگر جوں جوں ان سے واسطہ پڑا تو ان کی شخصیت کھلتی چلی گئی۔ ان میں اپنائیت، انس ، محبت، ہمدردی ، ذمہ داری کے مسحور کن رنگ ابھرتے جواپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ لیو صاحب زندگی کو احتیاط اور اعتدال سے گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔

بدلتے موسم کا پتہ ان کے لباس اورسراپے سے عیاں ہوتا ہے۔ اگر لیو صاحب چھتری لے آئیں تو سمجھ لیں کہ آج بارش برسے گی اور بادل گرجیں گے۔ اگر ماسک پہن رکھا ہے تو پھر آلودگی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔لیو صاحب کے دفتری معمولات سے وقت کا تعین بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ صبح کی ڈیوٹی صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتی اور لیو صاحب ہمیشہ وقت سے پہلے موجود ہوتے اور صبح کی شفٹ میں آنے والے احباب کے لیے خبریں ایڈٹنگ کی منتظر ہوتیں۔ سہ پہر سوا چار بجے دفترسے اپنی چیزیں سمیٹنے کا عمل دفتر سے رخصت ہونے کا اشارہ ہوتا ۔اگر جناب لیو صاحب دوپہر کے وقت میں محو استراحت ہیں تو سمجھ لیںکہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں اور ان کے آرام میں مخل ہونے کی ضرورت نہیں۔دفتر میں ان کے معمولات کو گھڑی سے ملائیں تو وقت کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔وضع دار اور مادیت پرستی سے گریز پا لیو شیاؤ ہوئی کسی بودھ بھکشو کی مانند تیاگ لینے کے خواہشمند ہیں۔

اردو سروس کے دیگر ساتھی بھی انتہائی ذمہ دار، محنتی تھے اور پیشہ ورانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے تھے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملا۔ ہمارے بیجنگ میں قیام کا عرصہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ انہی دنوں سی آر آئی کی اردو سروس نے چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کے انتہائی قریبی ساتھی ’چھن یون‘ کی سوانح حیات کو چینی زبان سے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کے لئے چین میں پاکستانی کمیونٹی کے بے شمارلوگ موجود تھے۔ لیکن اس کام میں موجود ایک مشکل اسے تکینکی طور پیچیدہ کئے ہوئے تھی۔

سی آر آئی کو ایک ایسے ماہر کی تلاش تھی جو اس قابل ہو کہ کتاب کے چینی مسودے کو پڑھنے والے چینی ماہر کے زبانی بتائے گئے اردو مفہوم کو سیاق و سباق کے پس منظرمیں رہتے ہوئے کتابی شکل میں ڈھالے۔ ایک ایسا ماہر درکار تھا جو اردو زبان پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ انٹرویو کے فن میں بھی مہارت رکھتا ہو اور ضرورت کے مطابق زبانی طور پر مفہوم بیان کرنے والے چینی ماہر سے سوالات کر کے مزید معلومات حاصل کر سکے تاکہ کتاب کے لفظی ترجمہ کی بجائے مفہوم کا ترجمہ ہوسکے۔ یہ تکنیکی مشکل اس کام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ سی آر آئی اردو سروس کی انتظامیہ کی یہ تلاش بالٓاخر ہم پر ٹھہری۔ اور اللہ پاک نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ اپنے قیام کے آخری ایام میں یہ علمی کام سرانجام دے سکوں۔ اور یوں’’ ایک چینی انقلابی کی کہانی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب ہوکر مارکیٹ میں آگئی۔ اس علمی کام کی وجہ سے ہمار ا سی آر آئی انتظامیہ سے پیشہ ورانہ تعلق دوستانہ شکل اختیار کر گیا۔ جس کے اظہار کے طور پر سی آر آئی کی جانب سے باضابطہ طور پر ہمار ے لیے ایک پرتکلف الوداعی ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔

عام چینی شہریوں کو جب ہم پاکستان سے اپنے تعلق کا بتاتے تو وہ خوشی کا اظہار کرتے۔ بیجنگ میں قیام کے دوران ایک مرتبہ ہمیںدانتوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال جانا پڑا۔ چین میں طویل عرصے سے مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ہمیں اپنے چینی دوست ڈاکٹر کی جانب ریفر کردیا۔ انہوں نے بھی دوستی کی لاج رکھی اور ہمارا مکمل علاج بالکل مفت کیا۔ بلکہ جب ہم پہلی مرتبہ اس ہسپتال گئے تو متعلقہ سب وے اسٹیشن سے باہر نکل کر ہم نے ہسپتال کا پتہ ایک نوجوان سے معلوم کیا۔ جب اس نوجوان کو معلوم ہوا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو انہوں نے ایک آٹو رکشہ کو روکا اور ڈرائیور کو ہماری منزل کا پتہ بتایا اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس کو کرائے کی ادائیگی بھی کردی۔ یہ ان کی پاکستان سے محبت کا عملی اظہار تھا۔اس طرح کے کئی واقعات ہیں جہاں عام چینی شہریوں نے پاکستان سے اپنی اپنائیت کا اظہار کیا۔ چین سے رخصتی کا وقت قریب آرہا تھااور ہم دفتری و انتظامی معاملات میں دستاویزی لوازمات پورے کر رہے تھے۔

انہی انتظامات میں ہماری رہائش گاہ کے معاملات کی ذمہ دار Annie نے بھی کچھ ہدایات دیں۔ وہ بھی بہت ہنس مکھ اورتعاون کرنے والی تھیں۔انہوں نے بھی فلیٹ چھوڑنے اور اس عمل سے وابستہ دیگرضروری دستاویزی کارروائی میں بھر پور تعاون کیا۔ روزانگی کے دن صبح سویرے ہمارے سی آر آئی کے دوست ہمیں رخصت کرنے فلیٹ پرآئے۔اردو سروس کی ڈائریکٹر میڈم مہوش بنفس نفیس رخصت کرنے کے لیے تشریف لائیں۔ فلیٹ سے ائرپورٹ تک چھوڑنے کے لیے ہمیں سی آرآئی کی جانب سے گاڑی فراہم کی گئی۔ائرپورٹ پر چیک ان کیا ، بورڈنگ کارڈ لیا اور ویٹنگ لاؤنج کا رخ کیا۔ اس روز بیجنگ میں شدید بارش ہوئی اور موسم کی وجہ سے پرواز تاخیر کا بھی شکار ہوئی۔بالآخر ائرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے روانگی کا اعلان ہوا اور ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ واپسی کے اس سفر میں چین میں قیام کی یادیں بھی ہماری ہمسفر تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ  ان تین برسوں میں نہ صرف پہناوے اور معمولاتِ خور و نوش میں تبدیلی اور بدلتے مزاجوں کا مشاہدہ کیا بلکہ قلب و روح میں آنے والے تغیرات چین میں قیام کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ

The post چین میں ملنے والی محبت زندگی کے قیمتی سرمائے کی طرح ہمیشہ ساتھ رہے گی appeared first on ایکسپریس اردو.

شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری

$
0
0

کتاب بہترین دوست اور تنہائی کی ساتھی ہے۔ انسان اور کتاب کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب و تمدن کا سفر ہے۔

کتاب ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر زمانے میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی نہیں رہتی یعنی اندازتکلم تبدیل ہوجاتا ہے۔

ایک فلسفی کا کہنا ہے کہ: ’’اچھی کتاب مثالی دوست اور سچا ساتھی ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے۔‘‘ ایک عالم کے مطابق کتابوں کا پیار ہی انسانوں کو اپنے خالق کے پاس پہنچانے والا جہاز ہے۔ مشہور فلسفی سقراط کہتا ہے: ’’جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں ہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔‘‘ کتابوں کے مطالعے سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ کسی بھی ملک کے عروج اور زوال کے اسباب اس ملک کے نوجوان ہوتے ہیں، نوجوانوں کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا، اس ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ کتابوں کا نوجوانوں اور طلبا سے گہرا تعلق ہے۔ کتاب اور طالب علم جیسے روح اور جسم ہوتے ہیں۔ کتاب منبع علم اور مصور علم ہے۔ کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے۔

غوروفکر انسان کو حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسان کو طمانیت، شعور و آگہی اور وجدان کے خزینے عطا کرتی ہے۔ کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور وسعت سے نوازتی ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے ابتدا میں ہی اپنا تعارف ’’الکتاب‘‘ کے طور پر کروایا۔ ہمارا تو پہلا استعارہ ہی ’’اقراء‘‘ ہے۔ بے شمار حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس میں یہ حکمت ہے کہ کتاب سے تعلق اور ربط پیدا کرنے کے لیے اللہ نے اپنے کلام کا نام ’’الکتاب‘‘ رکھا۔ کتاب کا اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

سائنسی انقلاب برپا ہوچکا ہے اور انٹرنیٹ کی تیزرفتار نے فاصلے سمیٹ دیے ہیں۔ پوری دنیا اب انگلیوں کے اشاروں پر ہوتی ہے اور ہر طرح کی معلومات کا خزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ کتاب کے ساتھ ساتھ لائبریری (کتب خانہ) کی بھی اہمیت مسلمہ ہے۔ زندہ قوموں کا شعار، بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکا میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریریوں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔ لائبریری کا ہونا ایک لازمی فطری امر ہے۔

اس کے بغیر تعلیم کا مقصد اور تدریس کا نظام ادھورا اور نامکمل رہتا ہے۔ کتب خانے اساتذہ اور نوجوان طلبا کے لیے اہم اور ناگزیر ہیں، یہاں اساتذہ علم میں نئی نئی تحقیقات سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور طلبا بھی اپنی نصابی اور ہم نصابی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اہل علم کسی بھی ملک میں پائے جانے والے کتب خانوں کو اس ملک کی ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ کتب خانوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسان کی تہذیب ہے۔ تہذیب کے آغاز سے ہی انسان نے ہر دور میں حاصل ہونے والے علم کا ریکارڈ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کتب خانوں کی تاریخ کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب انسان کے پاس لکھنے کے لیے کاغذ قلم نہ تھا اور وہ مٹی کی تختیوں، چمڑے اور ہڈیوں پر تحریر کو محفوظ کرتا تھا۔ جب انسان نے لکھنا پڑھنا شروع کیا تو لکھنے پڑھنے کی چیزوں کو بھی اس نے حفاظت سے رکھنے کی کوشش کی۔ انسان کی اسی کوشش نے کتب خانوں کو جنم دیا۔ کتاب اور کتب خانے کی مدد سے ہم ان عظیم شخصیات سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں جن کے اقوال زریں ہماری زندگی کی قیادت کرتے ہیں۔

لائبریری وہ عمارت ہے جس میں قارئین کے لیے کتابی و غیرکتابی مواد منظم طور پر مہیا کیا جائے۔ چوںکہ اس کا مقصد محفوظ شدہ معلومات کی تحصیل، حفاظت، ترتیب، تنظیم اور اسے جویان علم کی رسائل کے قابل بنانا ہے۔ لائبریری میں عام کتابوں کے علاوہ اخبار اور رسائل و جرائد بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ اساتذہ اور نوجوان طلبا تازہ ترین معلومات حاصل کرسکیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ لائبریری علم کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔

سرمئی شاموں اور ٹھنڈی ہواؤں کے شہر حیدرآباد کے پرفضا مقام پر قائم ’’شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری‘‘ کا کلیدی کردار ہے، نوجوان طلبا اور طالبات دور دراز سے صبح سے ہی علم کے حصول کے لیے یہاں اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں۔ یہ طلبا اور طالبات بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے قطار میں لگ کر اندر داخل ہوتے ہیں اور اپنی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ لائبریری رانی باغ اور سندھ میوزیم کے قریب واقع ہے، بالمقابل قاسم آباد حیدرآباد۔ اس لائبریری کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ سندھ اسمبلی نے 30-01-1951 کو ایک قرارداد پاس کی کہ صوبائی پبلک لائبریری حیدرآباد میں قائم کی جائے۔

اس وقت جگہ کی دقت کی وجہ سے اس پبلک لائبریری کو این جے وی (NJV) ہائی اسکول کراچی میں اکتوبر 1961 میں قائم کیا گیا۔ ایک سال کے وقفے کے بعد 1962 میں اس لائبریری کو گورنمنٹ مسلم کالج حیدرآباد کے ہال میں منتقل کردیا گیا۔ 1965 میں سندھ میوزیم حیدرآباد کے احاطے میں اس لائبریری کی اپنی بلڈنگ تعمیر ہوئی اور اس وقت کی سندھ صوبائی لائبریری کو یہاں منتقل کردیا گیا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ مرحوم کی زوجہ خدیجہ صاحبہ نے جولائی 1971 میں ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی تمام کتابیں، فرنیچر اور ذاتی استعمال کی اشیا اس وقت کی صوبائی پبلک لائبریری کے لیے محکمہ تعلیم حکومت سندھ کو بطور عطیہ دے دیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ فخر سندھ ماہر تعلیم، ماہر سندھیات، ماہرلسانیات، محقق، معلم اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔

آپ کی علمی و ادبی خدمات اور کاوشوں کے صلے میں برطانوی حکومت ہند نے آپ کو شمس العلما کے خطاب سے نوازا تھا۔ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور فارسی تواریخ چچ نامہ اور تاریخ معصومی کی ترتیب ہے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور انگریزی میں 28 کتابیں یادگار چھوڑیں۔ وہ آخری عمر تک علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ مئی 1986 میں محکمۂ تعلیم سندھ کی تقسیم کے بعد تمام عوامی لائبریریاں نیا معرض وجود ہونے والے محکمہ ثقافت سندھ میں منتقل ہوگئیں۔ جب سے یہ لائبریری محکمۂ ثقافت حکومت سندھ کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس وقت کے محکمہ ثقافت حکومت سندھ کے بانی سیکریٹری عبدالحمید آخوند کی ذاتی کاوشوں سے سندھ گورنمنٹ صوبائی پبلک لائبریری کا نام تبدیل کرکے شمس العلما ڈاکٹر محمد عمر بن داؤد پوتہ لائبریری رکھ دیا گیا۔

عبدالحمید آخوند سیکریٹری محکمۂ ثقافت سندھ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کے نواسے تھے۔ آپ کی محکمہ ثقافت کے لیے کی جانے والی خدمات قابل تحسین ہیں۔ یہ لائبریری کافی عرصہ سندھ میوزیم حیدرآباد کی بلڈنگ میں قائم رہی۔ موجودہ نئی عمارت کا افتتاح سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ نے 17 مئی 1996 کو کیا۔ موجودہ شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری نہایت دل کش اور خوب صورت ہے۔ اس کے مین داخلی دروازہ کے باہر خوب صورت سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اجرک جیسے ٹائلز لگائے گئے ہیں۔ یہ ٹائلز اور ڈیزائن سندھ کی عکاسی ظاہر کرتے ہیں۔

لائبریری کے چاروں طرف سبزہ زار ہے اور ایک بڑا باغ ہے یہاں طلبا کی بڑی تعداد لائبریری کے اندر نشست نہ ملنے کی صورت میں اپنی پڑھائی میں مشغول نظر آتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کا جنون ان نوجوانوں کو سندھ کے دوردراز کے علاقوں دیہات سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے لے کر آتا ہے۔ اندرون سندھ سے بہت بڑی تعداد میں نوجوان طلبا اور طالبات صبح ہی صبح اپنی نشست کے حصول کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ جب لائبریری کا دروازہ کھلتا ہے تو طلبا بہت تیزرفتار میں اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے دوڑتے ہیں اور جو طالب علم کام یاب ہوجائے وہ لائبریری کے اندر اپنی نشست پر براجمان ہوجاتا ہے اور باقی بچ جانے والے طلبا پارک اور لائبریری کی لابی میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور کام یاب ہونے کے لیے اپنی کتابوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔

اس لائبریری کے اوقات صبح 9 سے رات9 بجے تک ہیں۔ یہ سندھ کی تیسری سب سے بڑی لائبریری ہے۔ شمس العلما عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر سجاد مرزا نے بتایا کہ یہاں کتابوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے، تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی کتابیں یہاں موجود ہیں۔ اورینٹل سیکشن میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں کتب موجود ہیں۔ یہاں روزانہ تقریباً ایک ہزار کے قریب طلبا اور طالبات مطالعہ کرنے آتے ہیں۔ یہ لائبریری کئی مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔ داخلی راستے سے داخل ہوتے ہی سب سے پہلے بائیں ہاتھ پر چلڈرن سیکشن ہے، جہاں بچوں سے متعلق مختلف رنگ برنگی کتابیں موجود ہیں۔ بچوں کے ساتھ خواتین بھی یہاں مطالعہ کرتی ہیں۔ چلڈرن سیکشن بنانے کا مقصد بچوں میں کتابوں سے رغبت پیدا کرنا اور علمی صلاحیتوں کو ابھارنا ہے۔ دائیں ہاتھ پر شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کے نام سے منسوب سیکشن ہے۔ یہاں ان کی کتابیں، فرنیچر اور دیگر سندھی ادب اور شاعری پر مبنی کتابیں موجود ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے لنکن کارنر سیکشن ہے۔ اس لنکن کارنر کا افتتاح امریکا کے سفیر ڈوڈمین Michale Dodman اور وزیراعلیٰ سندھ سابقہ معاون خصوصی برائے کلچر اور ٹورازم محترمہ شرمیلا فاروقی نے کیا۔

یہ سیکشن امریکا کے سابق صدر ابراہم لنکن جوکہ امریکا کے 16ویں صدر تھے، سے موسوم ہے۔ لنکن کارنر پاکستانیوں کا امریکا سے رابطے کا ذریعہ ہے۔ لنکن کارنر امریکی سفارتخانہ اور منتخب پاکستانی اداروں کے درمیان شراکت دار ہے۔ جامعات، پبلک لائبریریز اور ثقافتی سینٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں لوگ انٹرنیٹ، انگریزی زبان کی پریکٹس اور مختلف طریقوں سے امریکا کے متعلق جان سکتے ہیں۔ لنکن کارنر کتابوں، رسائل اور مختلف ذرائع سے امریکا کے متعلق تازہ اور موجودہ معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ سیکھنے اور علمی مباحثے کے لیے آرام دہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ امریکا سے متعلق معلوماتی ویب سائٹس، ای لائبریری امریکا تک مفت وائی فائی انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی ممکن بناتا ہے۔

لنکن کارنر میں ایک لنکن کارنر کوآرڈی نیٹر موجود ہوتا ہے، دونوں زبانوں کا ماہر یہ کوآرڈی نیٹر آنے والے افراد کو امریکی معلومات سے متعلق دل چسپی پر ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ امریکن حکومت نے ڈیجیٹل اور کتابیں لائبریری کو عطیہ دیا۔ لنکن کارنر سیکشن کے ساتھ ہی اندر کی جانب گرلز سیکشن ہے، یہاں پر صرف خواتین اور طالبات مطالعہ کرتی ہیں۔ تقریباً 50 سے 60 خواتین کے بیٹھنے کی نشست موجود ہیں۔ خواتین کے پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ چند قدموں کے فاصلے پر CSS سیکشن ہے، یہاں مستقبل کے بیوروکریٹس تعلیم میں مشغول نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کا یہ جوش اور ولولہ دیدنی ہے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن اسلام آباد CSS کمیشن کے ذریعے سرکاری ملازمین کی میرٹ پر بھرتی کرتا ہے، اس کمیشن کا کام ایک مخصوص اہلیت کے نوجوانوں کی چھانٹی کرنا ہے تاکہ حکومت پاکستان کو اچھے سرکاری ملازم مل سکیں۔ CSS کمیشن پاس کرنے کے بعد مختلف سرکاری محکموں میں کم ازکم سترہ 17 گریڈ کی نوکری ملتی ہے۔ یہ لائبریری نہ جانے کتنے بیورو کریٹس بنا چکی ہے۔

شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری سے دانشور، مدبر، سیاست داں، اسکالرز اور سرکاری محکموں کے اعلیٰ افسران اسی لائبریری کی کتابوں سے مستفید ہوتے رہے اور آج معاشرے میں ان کا اعلیٰ مقام ہے جن میں قابل ذکر نام رسول بخش پلیجو، ایاز پلیجو، تاج جویو، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، حسین بخش تھیبو، ڈی آئی جی خادم رند، آئی جی سندھ آفتاب پٹھان، ممتاز مرزا، اسماعیل شیخ، ادریس جتوئی اور ایسے بے شمار ناموں کی طویل فہرست ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں عام قاری سے لے کر اسکالرز، ادیب، دانشور، ریسرچر آتے ہیں اور کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔

یہاں اسٹیک سیکشن (Book Bank) Stack Section موجود ہے، یہاں سائنس، فکشن، معلومات عامہ، تاریخ، اسلامی تاریخ اور آئی ٹی وغیرہ تمام موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔ کتاب طالب علم کو جاری کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے۔ دو ریڈنگ ہال ہیں۔ ریڈنگ ہال نمبر 1 اور ریڈنگ ہال نمبر 2۔ ان دونوں ہالوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ طلبا کا یہاں انداز مطالعہ زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ دنیا عام دنیا سے بالکل مختلف ہے، انھیں صرف اور صرف اپنے مستقبل کی فکر ہے اور اپنے خوابوں کی تکمیل حاصل کرنے کے لیے اپنی نفسانی خواہشوں کو مار کر کتابوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ ریڈنگ ہال میں کیٹلاگ موجود ہے، اس کی مدد سے کتابیں ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔

کیٹلاگ کتب خانہ کی کلیدی حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے استعمال ہی سے کتب خانہ کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ کیٹلاگ سے مراد لائبریری میں موجود ہر قسم کی ایسی باقاعدہ فہرست جس میں مواد کے کوائف، مندرجات کو ایک مخصوص نظام کے تحت ترتیب سے بیان اور مرتب کیا جائے جس کی مدد سے قارئین مواد کو دیکھے بغیر کیٹلاگ کارڈ کو دیکھ کر ہی اپنے مطلوبہ مواد کے بارے میں جان سکیں۔ ریڈنگ ہال سے چند قدموں کے فاصلے پر انٹرنیٹ کیفے ہے، یہاں دس کمپیوٹر انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں۔ طلبا انٹرنیٹ کی مدد سے اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ بالائی منزل پر نیوز پیپر سیکشن ہے یہاں ایک وقت میں تمام اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات اور رسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ نوجوان حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور روزگار کے لیے اسامیوں کے اشتہارات دیکھتے ہیں۔

قارئین محترم! یہ ہے شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری کا آنکھوں دیکھا احوال، لائبریری کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ لائبریری میں فرنیچر، کتب کی تعداد میں مزید اضافہ لازمی ہے۔ صاف پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بجلی کے نظام کو درست کیا جائے اور لائبریری کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کیا جائے۔ لائبریری کا ماحول خوش گوار ہونا چاہیے تاکہ طلبا سکون سے اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دے سکیں۔

The post شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

خانہ پری
”اردو بازار سے پہلے اردو کا جنازہ!“

ہم کئی دن سے کلیجہ تھام کے بیٹھے تھے کہ کراچی میں تجاوزات کے نام پر مچی توڑ پھوڑ پر کچھ لکھیں، مگر نہ لکھ پائے، پھر جب ’شہر قائد‘ میں لگے ’مسماری دنگل‘ میں اگلے ’شکار‘ کے واسطے نام پکارا گیا: ”اردو بازار!“

تو بہت سے درد مند شہریوں کی طرح ہماری برداشت بھی جاتی رہی شہر کے ایک دل جلے نے تو دانت پیس کر یہ کہہ دیا ’گرائیں گے کیوں نہیں، دو سال پہلے ’اردو والوں‘ کے دفاتر ناجائز کہہ کر گرا دیے، تو اب یہ تو ہونا ہی تھا، اس بازار کا نام جو ”اردو“ پر ہے!‘ ابھی ہم اس ’پہلو‘ پر غور ہی کر رہے تھے کہ اچانک ایک دوسرا جملہ ہمارے کان میں پڑا ’ارے، اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کے ساتھ ’بازار‘ کا لاحقہ تو سیدھی سیدھی ’غداری‘ ہے، اب بھلا کوئی اپنی ’قومی زبان‘ کے ساتھ بازار جیسا بازاری لفظ بھی لگاتا ہے؟ کتنی بڑی سازش ہے یہ، جلدی گرا دینا چاہیے اِسے!“

اسی اثنا میں ہماری نظر ’تحفظ اردو بازار ‘ کے لیے ایک احتجاج کی تصویر پر اٹک کر رہ گئی، لکھا تھا کہ ”آج کے دور میں جتنے بھی اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، سیاست دان، فوجی جوان، وکلا، صحافی اور جسٹس صاحبان ہیں، انہوں نے کبھی نہ کبھی اسی مارکیٹ کے ذریعے فیض حاصل کیا ہے اور آج اس ”مادرے کتاب“ کو یتیم کیا جا رہا ہے!“

لیجیے ہم ابھی اس تحریر کے مختصر اور پراثر ہونے پر واہ واہ کرنے کو ہی تھے کہ ”مادرے کتاب“ نے اس واہ کو ’آہ‘ میں بدل دیا۔ یہ شکر ہے کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی پر ”میں بے بس ہوں!“ کی تکرار کرنے والے میئر کراچی وسیم اختر نے مداخلت کی اور ’اردو بازار‘ فی الحال تو بچ گیا لیکن اردو بازار سے پہلے اردو بازار میں اردو کا ہی جنازہ ضرور نکل گیا! اب ظاہر ہے یہ ٹھیرے ’کتاب فروش‘ اور انہیں اپنے اور ’کتاب خواں‘ میں واضح فرق کو تو خلط ملط نہیں کرنا تھا نا، سو اس بینر کے ذریعے اسی ’فرق‘ کو اجاگر کیا گیا شاید! ابھی کچھ دن پہلے اسی اردو بازار میں ’غیر قانونی اشاعت کتب‘ کے خلاف احتجاجی بینر آویزاں تھا، جس پر درج تھا کہ ایسی کتب پر ”بینڈ“ لگا دیا جائے! بھئی انگریزی نہیں آتی، تو ارود بازار میں توکم ازکم اپنی اردو بول لو! یہاں بین (Ban) کے بہ جائے ’پابندی‘ جیسا عام فہم لفظ بھی لکھا جا سکتا تھا۔ رہی انگریزی کی بات تو گزشتہ دنوں ہندوستان میں اردو کے مشہور ’جشن ریختہ‘ میں اردو سے اظہار محبت تک انگریزی میں کیا گیا، {{“I Love Urdu”جس سے ہمیں وہ شعر یاد آگیا

اردو کو مٹا دیں گے ہم ایک روز جہاں سے

ظالم نے تو یہ بات بھی اردو میں کہی ہے

یعنی اردو سے نفرت اردو میں اور محبت انگریزی میں! بھئی سچ پوچھیے تو ہمیں تو یہ اردو کی ہی بد نصیبی لگتی ہے کہ ہمارے دیس میں اردو میں لکھ کر شہرت کمانے والے اور اردو کے نام کی روٹیاں توڑنے والوں نے بھی عمریں گزار دیں، لیکن اردو کو اپنے دل میں جگہ دینے سے گریز کیا!

۔۔۔
صد لفظی کتھا
’’سہولت‘‘
’’شہروں میں بہت سا وقت سفر کی نذر ہوتا ہے۔
اس لیے دنیا بھر میں دوران سفر بے شمار سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘
امر نے اخبار پڑھتے ہوئے ثمر کو دیکھا، پھر بولا:
’’اب گاڑی ان کے لیے ان کا گھر، بینک، دفتر اور کلاس روم سب کچھ ہے۔۔۔!‘‘
یکایک ثمر کے ذہن کے پردے پر کئی پروفیسر، علما، ڈاکٹر، صحافی، دانش وَروں اور عام شہریوں کے عکس گزرتے چلے گئے۔۔۔ وہ بولا:
’’لیکن ہمارے ہاں گاڑیاں اس کے علاوہ بھی تو کچھ ہیں!‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ امر نے استفسار کیا۔
’’ہماری گاڑیاں مقتل ہیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


دیوار نے جو آپ کو رستہ نہیں دیا
کیا آپ نے ہمارا حوالہ نہیں دیا؟
یہ ہجر میں نے اپنے ہی ہاتھوں کمایا ہے
میں نے تمہارے وصل کا صدقہ نہیں دیا
میں گر رہا ہوں چاند پہ، اوپر زمین ہے
تم نے اچھالا ہے مجھے، دھکا نہیں دیا
یادوں کی دھوپ زندگی کی شام تک رہی
اس ہجر نامی پیڑ نے سایہ نہیں دیا
ہم نے حقوقِ زن کی تو باتیں ہزار کیں
بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا
پنکھے سے لٹکی لاش یہی چیختی رہی
شوہر نے بس طلاق دی، بچہ نہیں دیا
چڑیا پروں بغیر بنانی پڑی فہدؔ
کوزہ گروں نے تھوڑا سا گارا نہیں دیا
(سردارفہد، ایبٹ آباد)

۔۔۔
’’جگاؤ نہیں اب‘‘
جگاؤ نہیں اب!
سبھی بکھرے خوابوں کو دھوکا دیے
اب پری سو رہی ہے
تماشہ لگائے یہ خوابوں کا جھرمٹ کھڑا ہے
وہ دربان دیکھو
جھروکے سے آنے کو بیتاب ہے
اور شکایت لگانے کو الفاظ کی حاضری ہے۔
اسے کوس کر کیا ملے گا…بتاؤ؟
عدالت میں جاؤ
رہائی دلاؤ
کسی ٹمٹماتے ستارے سے لو مانگ لاؤ
کسی شام ہی سے دعا لیتے آؤ
اسے مت ستاؤ۔۔۔
بڑی مشکلوں سے خلاصی ملی ہے
اداسی کے ہاتھوں میں آ تو گئی تھی
مگر کھینچ لائی ہے میّت کو اپنی
کہاں بین خوابوں کے وہ سن سکے گی
اسے مت جگاؤ!
مجھے یہ بتاؤ
وہ جب سالہا سال خوابوں کو روتی رہی
تم کہاں تھے؟؟؟
(ردا فاطمہ، ساہیوال)

۔۔۔
غزل


زبانیں گُنگ کر دیتا ہے باتیں چھین لیتا ہے
وہ اپنی شان سے لاکھوں ہی شانیں چھین لیتا ہے
مسافر دیکھ کر اُس کو بھٹک جاتے ہیں رستے سے
تھکن کی منزلیں دے کر وہ راہیں چھین لیتا ہے
مری بستی کے دل والو! ذرا اس شخص سے بچنا
وہ آنکھیں ڈال کر آنکھوں میں، آنکھیں چھین لیتا ہے
چَلا کر تیر نینوں کا مرے جذبات کی رَو پر
غزل کہنے سے پہلے ہی ردیفیں چھین لیتا ہے
بچھا دیتے ہیں گُل بھی نِکہتیں اُس شوخ داماں پر
کہ وہ گلشن میں پُھولوں کی رِدائیں چھین لیتا ہے
وہ اک بَھرپُور پیکر ہے، مسیحائی کا اے لوگو!
گلے مِل کر بدن کی سب بلائیں چھین لیتا ہے
عجیب انداز ہے شہزادؔ اس کے بات کرنے کا
وہ اپنی گفتگو میں سب زبانیں چھین لیتا ہے
(شاہد انور شہزاد، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


ہم خانہ بدوشوں کو سہولت ہے مرے دوست
ہر شہر میں مل جاتے ہیں دو چار نئے دوست
دیکھا ہی نہیں میری طرف اس نے دوبارہ
میں کہتا رہا دوست، مرے دوست، مرے دوست
یہ دریا تری سمت نہ مڑ جائے کسی دن
کیا دیکھتا رہتا ہے کنارے پہ کھڑے دوست
یہ آنکھ کسی رنگ میں ڈھلتی ہی نہیں تھی
دیکھا ہی نہیں تُو نے کبھی پہلے مجھے دوست
وہ شخص حسیں اتنا زیادہ تھا کہ مت پوچھ
تصویر بناتے ہوئے تصویر ہوئے دوست
(نذر حسین ناز، اسلام باد)

۔۔۔
غزل


ایک غم درویش کا جو صاحبِ آلام تھا
نام ور نہ ہو سکا کہ ہجر کا ہنگام تھا
جن کی جنبش کر گئی دو نیم میرا تن بدن
ان لبوں کی پھونک سے ہی زخم کو آرام تھا
شمس تیرے شہر میں کل بک گئیں تاریکیاں
وحشتوں کی جنس تھی اور بزدلی کا دام تھا
شہرتوں نے کردیا یوں کھوکھلا کہ آخرش
زندگی تھی نام میرے، میں برائے نام تھا
گھر میں گھس کے مارنا معمول ہے ہر روز کا
رہگزر پر جو ہوا وہ حادثہ بھی عام تھا
ہم کو ساگرؔ ہر سراں پر الفتیں روتی ملیں
اس ڈگر پر ہر کوئی میری طرح ناکام تھا
(ساگر حضور پوری، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


کیسے کیسے کمال دیکھے ہیں
گدڑیوں میں بھی لعل دیکھے ہیں
اب نمٹ لوں گا تجھ سے مستقبل
میں نے ماضی و حال دیکھے ہیں
آئینے کی طرح ان آنکھوں نے
آدمی بے مثال دیکھے ہیں
ہم نے اشعار میں سسکتے ہوئے
شاعروں کے خیال دیکھے ہیں
وہ حسیں تر ہے اور اس کی رضاؔؔ
تہہ میں ہم نے ابال دیکھے ہیں
(مہر علی رضا، امین پور بنگلہ)

۔۔۔
غزل


کچھ سال اپنے آپ میں کھونے کا غم کیا
باقی تمام عمر نہ ہونے کا غم کیا
چاروں طرف سے ہو گیا گھیرا جو تنگ پھر
لگ کر بدن سے روح نے سونے کا غم کیا
میں ہنس پڑا جو وقت سے پہلے ہی ایک لاش
دفنائی اور ہم نے یوں کھونے کا غم کیا
حاکم کا حکم تھا اسے مسمار کر دیا
لڑکی نے اک مکان کے کونے کا غم کیا
میں ڈھونڈنے لگا تھا سمندر میں اپنی لاش
لوگوں نے پیچھے میرے نہ ہونے کا غم کیا
(سیف ریاض، کراچی)

۔۔۔
غزل
زمانہ مائلِ جور و جفا ابھی تک ہے
مرے لبوں پہ ترا مدعا ابھی تک ہے
کبھی جلایا تھا بامِ طلب پہ اِک چراغ
مرے خلاف جہاں کی ہَوا ابھی تک ہے
وہ ایک لمحہ جو اُترا تھا تیری فرقت کا
ستم شعار سکوں آزما ابھی تک ہے
درِ قُبول پہ تالے پڑے زمانہ ہُوا
اُٹھا ہُوا مرا دستِ دُعا ابھی تک ہے
اگرچہ لاکھ یہاں آندھیوں سے حشر اُٹھا
ہتھیلیوں پہ وہ جلتا دیا ابھی تک ہے
بس ایک بار پکارا تھا اُس کو میں نے نبیل ؔ
فضا میں گُونجتی میری صدا ابھی تک ہے
(ڈاکٹر نبیل احمد نبیل، لاہور)

۔۔۔
’’نویدِ سالِ نو‘‘


ڈوب گیا ہے دور افق پر
سالِ گذشتہ کا یہ سورج
یہ پیغام سناتا سب کو
وقت کا دریا کب تھمتا ہے
سب کچھ ماضی بن جاتا ہے
سالِ نو کی امیدوں میں
گِھر سا گیا ہوں، سوچ رہا ہوں
گزرے برس جو کھیل ہوا ہے
حرص کا جو بازار سجا ہے
بھوک بڑھی، افلاس بڑھا ہے
جھوٹ کا دھندہ خوب چلا ہے
خلقِ خدا کے نام پہ کیا کیا
رنگ برنگ اسٹیج سجے ہیں
شہرِ سیاست کی گلیوں میں
جھوٹے وعدے خوب بِکے ہیں
دہلیزِ سالِ نو پر اب
دل کی لگن احباب بچائے
اپنے اپنے خواب بچائے
اور جذبوں کی تاپ چھپائے
پھر کتنے مسرور کھڑے ہیں
کتنی امیدوں سے سارے
آئندہ کو دیکھ رہے ہیں
مالک! قائم ان کی مسرت
مالک! ان کے خواب سلامت
یوں ہی رکھنا تا بہ قیامت!!!
(ڈاکٹر اعظم شاہد، منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


جنگ بندی پہ جو تو روبہ عمل ہو جائے
بات سے مسئلہ ممکن ہے کہ حل ہو جائے
یعنی اس دنیا میں ہر چیز ہے تیری محتاج
تو اگر چاہے تو کیچڑ میں کنول ہو جائے
شاہ زادی تری اک چشمِ عنایت کے طفیل
عین ممکن ہے کھنڈر تاج محل ہو جائے
دیکھ فرقت میں تری ایک ادھورا سا شخص
دوسرے عشق میں شاید کہ سپھل ہو جائے
تُو جو دیکھے تو محبت پہ لکھوں نظم کوئی
تو اگر چھو لے مجھے تجھ پہ غزل ہو جائے
(ذیشان مرتضیٰ، پہاڑ پور)

۔۔۔
غزل


کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی
کسی کے ہجر میں آنکھیں بھگو رہا ہوں ابھی
بہت سے نقص مصور نے دور کرنے ہیں
تجھے پتا ہے میں تخلیق ہو رہا ہوں ابھی
وہی جگہ کہ جہاں نقشِ پائے جاناں تھے
اسی کی خاک سے آنکھوں کو دھو رہا ہوں ابھی
لگے گی عمر شجر کو شجر بنانے میں
مگر میں بیج محبت کا بو رہا ہوں ابھی
کسی نے قرض اٹھایا تھا میرے آبا میں
اسی کے بوجھ سے مقروض ہو رہا ہوں ابھی
بہت سے خواب ادھورے ہیں میری آنکھوں میں
پرانے سال کے خوابوں میں سو رہا ہوں ابھی
(اکرام افضل، مٹھیال، اٹک)

۔۔۔
غزل


طبیعت اپنی بازاری نہ کرنا
مَفاسِد سے کبھی یاری نہ کرنا
امیرِ شہر کی صحبت میں رہ کر
غریبوں کی دل آزاری نہ کرنا
بنایا جن حَسیں جذبوں نے گلشن
انھیں جذبوں سے غدّاری نہ کرنا
ہمارے پھُول سے نازک دِلوں میں
تعّصب کی شجرکاری نہ کرنا
لبادہ اوڑھ کر پِیرِ حَرمَ کا
تقدّس، وقفِ عیّاری نہ کرنا
غلط سوچوں کے بہکاوے میں آکر
وطن میں تم ستم کاری نہ کرنا
فراست کا عَلَم ہاتھوں میں لے کر
جہالت کی طرف داری نہ کرنا
جو چاہو عُمر میں اپنی درازی
غموں سے زندگی بھاری نہ کرنا
(ایس۔ مُغنی حیدر، کراچی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘ 
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

بدگمانی زہرِ قاتل

$
0
0

ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، جس کو ظن بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر دُور سے دُھواں اُٹھتا دیکھ کر آگ کی موجودی کا خیال آنا، یہ گمان ہی ہے۔ بنیادی طور پر گمان یعنی ظن کی دو قسمیں ہیں: حسن ظن یعنی اچھا گمان اور سُوئے ظن یعنی بُرا گمان، جسے بدگمانی بھی کہتے ہیں۔

بدگمانی کے متعلق ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے، مفہوم : ’’ اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو، بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بعض گمانوں کو گناہ قرار دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام فخرالدین رازیؒ لکھتے ہیں: ’’ کیوں کہ کسی شخص کا کام دیکھنے میں تو بُرا لگتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، کیوں کہ ممکن ہے کہ کرنے والا اُسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا ہی غلطی پر ہو۔‘‘

احادیث مبارکہ میں بھی بدگمانی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلٰہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’بدگمانی سے بچو، بے شک بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔‘‘ ایک اور موقع پر خاتم المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان کا خون، مال اور اس سے بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔‘‘ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے، مفہوم: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی سے بُرا گمان رکھا، بے شک اس نے اپنے رب عزوجل سے بُرا گمان رکھا۔‘‘

علامہ اسمٰعیل حقیؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ گمان کی طرف اس وقت تک پیش رفت نہ کی جائے جب تک کہ مظنون (یعنی جس کے بارے میں دِل میں گمان آئے) کے بارے میں غور و فکر نہ کرلیا جائے، چناں چہ اگر مظنون نیک ہے تو اس پر معمولی وہم کی وجہ سے بدگمانی نہ کی جائے بل کہ احتیاط برتی جائے اور تم اس وقت تک کسی کے ساتھ بدگمانی نہ کرو جب تک کہ تمہارے لیے حسن ظن رکھنا ممکن ہو، رہا فساق کا معاملہ تو ان کے ساتھ ایسی بدگمانی رکھنا جائز ہے جو ان کے افعال سے ظاہر ہو۔ اسی طرح اُمور معاش یعنی دُنیاوی معاملات اور معاش کے مہمات میں بدگمانی کرنا جائز بل کہ ان اُمور میں بدگمانی موجب سلامتی ہے۔‘‘ البتہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بُرا گمان رکھنا ممنوع (حرام) ہے۔ جس طرح کہ کوئی یہ گمان رکھے کہ اﷲ عزوجل مجھے رزق نہیں دے گا یا میری حفاظت نہیں فرمائے گا یا میری مدد نہیں کرے گا‘ وغیرہ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فرمان نصیحت ہے: ’’ اپنے بھائی کی زبان سے نکلنے والے کلمات کے بارے میں بدگمانی مت کرو جب تک کہ تم اُسے بھلائی پر محمول کرسکتے ہو۔‘‘

کسی کے ظاہری لباس کی سادگی دیکھ کر اسے حقیر نہیں جاننا چاہیے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ گدڑی کا لعل ہو۔ جیسا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ وآلٰہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت سے بوسیدہ کپڑوں والے ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر اﷲ عزوجل کی قسم کھالیں تو اﷲ عزوجل ان کی قسم پوری فرماتا ہے۔‘‘

حافظ ابونعیم اصفہانیؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت سیدنا بکر بن عبداﷲ ؒجب کسی بوڑھے آدمی کو دیکھتے تو فرماتے: یہ مجھ سے بہتر ہے اور مجھ سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا شرف رکھتا ہے اور جب کسی جوان کو دیکھتے تو فرماتے: یہ مجھ سے بہتر ہے کیوں کہ میرے گناہ اس سے کہیں زیادہ ہیں اور فرماتے: اے بھائیو! تم پر ایسے امر کا اختیار کرنا لازم ہے کہ جس میں تم درست ہو تو اجر و ثواب کے حق دار ٹھہرو اور اگر تم خطا پر ہو تو گنہ گار نہ ہو اور ہر ایسے کام سے بچو کہ اگر تم اس میں درست ہو تو تمہیں اجر نہ ملے اور اگر تم اس میں خطا کے مرتکب ہوجاؤ تو گناہ گار قرار پاؤ۔‘‘ ان سے پوچھا گیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’لوگوں سے بدگمانی رکھنا۔ کیوں کہ اگر تمہارا گمان درست ثابت ہوا تو بھی تمہیں اس پر اجر و ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر گمان غلط ثابت ہوا تو گنہ گار ٹھہرو گے۔‘‘

حضرت سیدنا مکحول دمشقیؒ فرماتے ہیں: جب تم کسی کو روتا ہوا دیکھو تو تم بھی رونے لگو اور اسے ریاکاری نہ سمجھو، میں نے ایک دفعہ کسی شخص کے بارے میں یہ خیال کیا تو میں ایک سال تک رونے سے محروم رہا۔

ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلٰہ وسلم مسجد میں (معتکف) تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں‘ وہ اپنے کمروں کو چلی گئیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدتنا صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ’’ ٹھہرو میں بھی (تھوڑی دیر بعد) تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ چلے تو دو انصاری صحابہؓ ملے جو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر آگے بڑھ گئے‘ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو بلا کر ارشاد فرمایا: ’’یہ (میری زوجہ) صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کی: سبحان اﷲ! یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے تو میں نے خوف محسوس کیا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈا ل دے۔‘‘

شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے کاموں سے بچا جائے جو کسی کو بدگمانی میں مبتلا کرسکتے ہوں۔ علماء و مقتدا ہستیوں کو تو بہ طور خاص ہر اُس کام سے بچنا چاہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے بدظن ہوجائیں اگرچہ اس کام میں ان کے لیے خلاصی کی راہ موجود ہو، کیوں کہ بدظن ہونے کی صورت میں لوگ ان کے علم سے نفع نہیں اُٹھا پائیں گے۔‘‘

The post بدگمانی زہرِ قاتل appeared first on ایکسپریس اردو.

اچھّے اخلاق کہاں گئے؟

$
0
0

آپ دکان میں کچھ سامان ہاتھوں میں تھامے دیگر گاہکوں کے ساتھ  قطار میں کھڑے ہیں۔آپ کی باری بس آنے والی ہے کہ اچانک بظاہر ایک تعلیم یافتہ اور سلجھا دکھائی دینے والا نوجوان وہاں آدھمکتا ہے۔ وہ سب سے آگے کھڑا ہوکر درشت انداز میں تقاضا کرتا ہے کہ پہلے اسے فارغ کیا جائے۔

آپ پہلے تو حیران ہوتے اور پھر کسی نہ کسی ردعمل کا مظاہر کرتے ہیں جو عام طور پہ منفی ہوتا ہے۔د ور جدید کی روزمرہ زندگی میں ایسے واقعات پیش آنا معمول بن رہا ہے۔ آپ ریلوے اسٹیشن میں ٹکٹ کی لائن میں لگے ہیں، تو کوئی نہ کوئی اجڈ و جاہل اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک قوانین بھی پامال کیے جاتے ہیں اور لوگوں کی پیشانیوں پر شکن تک نہیں آتی جس سے عیاں ہوکہ ان کا ضمیر قانون شکنی پر انہیں ملامت کررہا ہے۔ اسی قسم کے بے شمار واقعات اس لیے دکھائی دیتے ہیں کہ انسانی معاشروں سے اچھے اخلاق، شائستہ ادب و آداب اور پسندیدہ اطوار مٹتے جا رہے ہیں۔

تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہذب انسانی معاشروں کی تخلیق میں اخلاقیات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی لیے اخلاقیات اور مذاہب لازم و ملزوم جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ مذہب نے انسان کو غلط اور صحیح میں فرق سمجھنے کی تربیت دی اور اسے عمدہ اخلاق سے سنوار کر سطح حیوان سے بلند و اعلیٰ مقام پر فائز کردیا۔ اخلاقیات اختیار کرنے کے باعث بھی انسان کو اشرف المخلوقات کہا جانے لگا کیونکہ وہ چاہے تو ایک ذی حس کی فطری منفی صلاحیتیں… وحشی پن، خود غرضی، جلد بازی وغیرہ ترک کرسکتا ہے۔ اخلاق ہی ایک انسان کو حیوانیات کے درجے سے اٹھا کر درجہ انسانیت پر لے جاتے ہیں۔

دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیجیے تو افشا ہوتا ہے کہ دین اسلام سب سے زیادہ اخلاق حسنہ اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس لیے بھی معبوت فرمایا تاکہ آپؐ بنی نوع انسان کو اخلاقیات کی تعلیم و تربیت عطا فرماسکیں۔ یہ حدیث مسلمان کی زندگی میں حسنِ اخلاق کی اہمیت آشکارا کرتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کے سبب ہی ساٹھ ستر برس پہلے تک پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں بالعموم مسلمانوں میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں پائی جاتی تھیں جو روزمرہ زندگی ڈھنگ سے گزارنا سکھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر قناعت، سادگی، جلد بازی سے پرہیز، معاف کردینا، نرمی، صبر، دوسروں کی مدد، احسان اور ایثار کرنا وغیرہ۔معاشرے میں بسنے والے بیشتر افراد کی زندگیوں میں ٹھہراؤ اور سُکون تھا۔لوگ خواہشات کے غلام نہیں تھے اور ان کے پیچھے اندھا دھند نہ بھاگتے۔تمام والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی علم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاقی تعلیم و تربیت سے بھی متصف کریں۔

ماضی میں بھی دنیا کے ہر معاشرے میں اچھے اخلاق سے عاری انسان پائے جاتے تھے۔ دور جدید میں مگر یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ اخلاق حسنہ کا احساس نہ رکھنے والے مردوزن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس خرابی کی اہم وجہ دنیا بھر میں مغربی تہذیب کا پھیلاؤ ہے۔ دراصل زیادہ سے زیادہ مادی اشیا جمع کرنا، صرف اپنا فائدہ مدنظر رکھنا اور آخرت کی زندگی سے انکار مغربی تہذیب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ فلسفہ انسان کو بتاتا ہے کہ اخروی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں لہٰذا دنیا ہی میں خوب مزے لوٹ لو اور جو چاہے کرو۔ مادیت پر استوار اس فلسفے نے اخلاقیات کو نقصان پہنچایا اور بہت سے انسان اچھے اخلاق تج کرمحض دولت کمانے کے چکر میں لگ گئے۔ نت نئی خواہشات اور تمناؤں نے انہیں گھیرلیا۔

ان کی اولاد بھی اسی راہ پر چل نکلی بلکہ وہ تو حسن اخلاق کو فضول شے اور بوجھ سمجھنے لگی۔یہی وجہ ہے،دنیا بھر کے معاشروں میں ایسے بہت سے لڑکے لڑکیاں مل جاتے ہیںجو اچھے اخلاق کی اہمیت ہی سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کسی ناگہانی آفت میں کس قسم کے برتاؤ کا مظاہرہ کیا جائے۔ خلاف توقع صورتحال میں وہ عموماً منفی ردعمل دکھاتے ہیں۔ اخلاق کے زوال سے بھی انسانی معاشروں میں بے چینی، بے اطمینانی اور جلد بازی نے جنم لیا۔ بہت سے نوجوانوں کے لیے زندگی مقابلے کی دوڑ بن چکی جسے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرکے جیتنا چاہتے ہیں۔ اس دوڑ میں اچھے اخلاق کوئی وقعت نہیں رکھتے بلکہ شاید دولت و شہرت پانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے ہی کو دیکھ لیجیے۔ہماری نوجوان نسل میں کئی نوجوان ادب و آداب، اچھے برتاؤ اور حسن اخلاق سے نابلد ہیں۔مگر یہ خرابی جنم لینے میں سراسر ان کا قصور نہیں بلکہ والدین زیادہ بڑے مجرم قرار پاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم دلانے کی خاطر تو دن رات ایک کردیتے ہیں مگر ان کی اخلاقی تربیت نہیں کرپاتے۔ ان کو یہ نہیں سکھاتے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات بہ احسن و خوبی کس طرح برتے جائیں۔ یہ بے توجہی اور کوتاہی انسانی معاشروں کو حیوانی سطح پر اتار رہی ہے۔ تب انسان چاہتے ہوئے بھی اخلاقی خوبیوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔

مثال کے طور پر دکان میں قطار توڑنے والا واقعہ ہی لیجیے۔ بہت سے نوجوان خصوصاً قطار توڑنے والے سے لڑپڑتے ہیں۔ توتکار سے شروع ہوکر نوبت مارکٹائی تک جاپہنچتی ہے۔ بعض اوقات تو اس قسم کے معمولی واقعات سے جنم لینا والا جھگڑا اتنا بڑھتا ہے کہ کوئی انسان اپنی قیمتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ دراصل بُرے عمل کا برا ردعمل بظاہر فطری لگتا ہے لیکن اسی سے جھگڑا بڑھتا ہے۔یہی منفی ردعمل روکنے کے لیے اخلاقیات کا جامع نظام وجود میں آیا۔اس صورتحال میں اچھے اخلاق کی تربیت رکھنے والا انسان فوراً آپے سے باہر نہیں ہوگا۔ غصّہ یا درشتی نہیں دکھائے گا۔ چیخم دھاڑ نہیں کرے گا۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ خاموش رہے اور لائن توڑنے والے کو اپنا کام ختم کرکے جانے دے۔ تاہم اخلاقیات اور نفسیات اس ردعمل کو کمزور اور ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔

دراصل قطار توڑنے والے کی سرزنش نہ ہو، اسے کسی قسم کے احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑے، تو عام طور پر ایسا شخص شیر ہوجاتا ہے۔ اس کو پھر معاشرے کی اخلاقی اقدار توڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ یہ اقدام کرکے ذہنی تسکین بھی حاصل کرنے لگے۔ ایسے افراد پھر اخلاقیات پیروں تلے روندنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں اس حال تک پہنچنے نہ دینے کی خاطر ان کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اخلاقیات کی حد پار کرنے والے کو نرم لہجے میں سمجھائیے کہ وہ ایک بری اور ناپسندیدہ حرکت کررہا ہے۔

اسے بتائیے کہ قطار توڑنے سے وہاں کھڑے سبھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ تادیب و سرزنش کرنے سے عموماً قطار توڑنے والا پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کرتا نیز آئندہ ایسی بدحرکت کرنے سے باز رہتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات انسان ایمرجنسی میں ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قدرتاً اسے جلدی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں اگر اسے قطار میں آگے آنے دیا جائے تو اس کو رحم دلی اور انسانی ہمدردی کا تقاضا سمجھنا چاہیے۔ اسی کو اخلاق حسنہ کہتے ہیں۔

اخلاقیات کے زوال ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان نے اچھی بھلی زندگی مشکل بنادی۔ روزمرہ کام کرتے ہوئے انسان جب بداخلاق افراد سے لین دین کرے، تو اسے کئی باتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی سعی ہوتی ہے کہ اندر کا چنگیز خان جاگ نہ جائے۔ مگر خصوصاً جلد بازی کا عفریت زندگی گزارنا مشکل تر بنارہا ہے۔مثال کے طور پر حالیہ ساہیوال واقعے کو ہی لیجیے۔ یہ جلد بازی کے باعث ہی ظہور پذیر ہوا۔ اگر پولیس والے غور و فکر اور صبر و برداشت کی اخلاقی خوبیوں سے متصّف ہوتے، تو پہلے وہ گاڑی روک کر تسلی سے اس کا جائزہ لیتے اور مسافروں سے پوچھ گچھ کرتے۔ لیکن انہوں نے گاڑی روکی اور پھر انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہوں کو بھی موت کی نیند سلادیا۔

ماضی میں ایک ناخواندہ دیہاتی بھی اخلاقی خوبیوں کی دولت سے مالا مال ہوتا تھا۔ کوئی مسافر گاؤں میں آنکلتا تو سبھی اس کی آؤ بھگت کرتے۔ مہمان زحمت نہیں رحمت سمجھا جاتا۔ کم پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا تھا کہ کیونکر مہذب اور شائستہ رویے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہر کوئی خیال رکھتا کہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شہری اس سلسلے میں زیادہ تردد نہ کرتا بلکہ اپنی کامن سینس یا فطری حسّوں کے مطابق عمل کرتا۔ آج بھی خصوصاً نئی نسل محض فطری اصول اختیار کرکے اپنا اخلاقی کردار سدھار سکتی ہے۔ اس ضمن میں مثالوں کی مدد سے کچھ تجاویز پیش ہیں۔

سینما میں ٹاکرا

فرض کیجیے، آپ سینما میں مز ے سے من پسند فلم دیکھ رہے ہیں۔ اچانک قریب بیٹھا کوئی فرد موبائل پر خاصی بلند آواز میں طویل گفتگو کرنے لگتا یا پھر بار بار آپ کی نشست ہلانے لگتا ہے۔ غرض کوئی فرد ایسی حرکت کرتا ہے کہ فلم دیکھنے کا سارا مزہ کرکرا ہوجائے۔یہ بھی ممکن ہے، آپ کا کوئی پڑوسی رات کے ایسے وقت اونچی آواز میں گانے سننے لگے جب چمگادڑیں بھی محو خواب ہوتی ہیں۔ اس قسم کے عجیب و غریب پڑوسی تقریباً ہر محلے میں پائے جاتے ہیں۔ رات کو جب محلے کے سبھی لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں، وہ تیز ہارن بجا کر اپنی کسی ذہنی خرابی کا ثبوت دیتے ہیں۔

اس قسم کے مواقع پر لوگ عموماً جیسے کو تیسا قسم کا ردعمل ظاہر کرتے ہیںخواہ بعد میں اسے بچکانہ سمجھا جائے۔ مثلاً آپ سینما میں پڑوسی سے اونچا بولنے لگیں گے تاکہ اسے بتاسکیں، یہ رویّہ دوسروں کو کتنا ناگوار گزرتا ہے۔ اس عالم میں بعض لوگ تو اتنی باآواز بلند گفتگو کرتے ہیں کہ لگتا ہے، وہ اپنے ساؤنڈ سسٹم کا ٹیسٹ لے رہے ہوں۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ دوسرے کا جارحانہ اور غیر اخلاقی رویّہ مختلف مردوزن پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ جو انسان خود درشت مزاج رکھنے اور اونچا بولنے والے ہوں، وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں اور نتیجے کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ لیکن جو مردوزن جارحانہ رویہ پسند نہیں کرتے، وہ اپنا غصہ پی جاتے ہیں۔ مگر بعض افراد اس عالم میں بھی ذہنی یا جسمانی دباؤ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

ماہرین نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ ایسی ناگوار صورتحال کا مقابلہ عملی انداز میں اور ہوشیاری سے کیجیے۔ مثال کے طور پر سینما میں ہلہ گلہ کرنے والے نوجوان لڑکے ہیں تو انہیں نظر انداز کرنا بہترین حکمت عملی ہے۔ وجہ یہ کہ آپ جو بھی جواب دیں گے، وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ کئی نوجوان فلم سے لطف اندوز ہونے کے بجائے عوامی مقامات میں ہلہ گلہ کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ تماشا لگاسکیں۔ ایسی ناگوار صورتحال میں سنیما کی انتظامیہ سے شکایت لگانا زیادہ بہتر طریقہ ہے۔اگر سینما میں دو تین افراد یا میاں بیوی ماحول سے بے پروا ہوکر گفتگو کرنے لگیں، تو آپ نرمی سے کہہ سکتے ہیں ’’میں فلم دیکھ رہا ہوں۔ آپ کی گفتگو میرے انہماک میں مخل ہورہی ہے۔‘‘ ممکن ہے کہ جوڑا جواب میں کوئی ناگوار جملہ بول دے۔ مگر عموماً لوگ پیغام سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔

جب کوئی عزیز چمٹ جائے

شادی بیاہ یا خاندانی تقریب میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دور دراز کا کوئی رشتے دار بلکہ پاکستان میں تو اجنبی بھی آپ سے ذاتی نوعیت کے بے سروپا سوالات کرنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ گوانتاناموبے کے انداز میں تفتیش ہونے لگتی ہے۔ ذریعہ معاش، آمدن، اولاد وغیرہ کے متعلق سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ادب و لحاظ کا پاس رکھنے کے باعث آپ مجبوراً سبھی سوالوں کے جواب دیتے ہیں، مگر اندر ہی اندر کوفت بھی ہوتی ہے۔ایسے موقع پر بھی مردوزن مختلف رویّے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ سوال کرنے والے کے منہ پر کہتے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ کچھ مخاطب ہی سے سوال کرنے لگتے اور اس کی ہسٹری کھوج نکالتے ہیں۔ تاہم ماہرین اس حکمت عملی کو بھی کارگر قرار نہیں دیتے۔ان کا کہنا ہے کہ جو شخص آپ سے خوامخواہ قریب ہونے کی کوشش کرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے، تو اس سے ڈیل کرنا ایک خصوصی فن ہے۔ یہ فن زندگی گزارنے کے بعد ہی انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس فن میں پہلے دیکھا جاتا ہے کہ سوال کرنے والا رشتے کے لحاظ سے کتنا قریب ہے۔

پھر یہ کہ اس کی نیت کیا ہے، اچھی یا شیطانی؟ یہ دونوں باتیں مدنظر رکھ کر پھر تفتیش کنندہ کو جوابات دیجیے۔بعض اوقات لوگ ہمارا بھلا چاہتے اور ہمارے لیے فکر مند ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے۔ تاہم جو لوگ سن گن لینے کی خاطر ذاتیات پر اتر آئیں، تو نرم لہجے میں ان کے سوالات کو ٹال دیجئے۔ کچھ افراد دوسروں کو دق کرنے کے لیے ذاتی نوعیت کے سوال پوچھتے ہیں۔ ایسے مردوزن کے ساتھ ڈیل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مخاطب سے ذاتی سوال پوچھیے تاکہ اس کی شخصیت منظر عام پر آسکے۔ ایسی صورتحال میں اپنے جذبات کنٹرول میں رکھیے۔یہ مگر دیکھا گیا ہے کہ خاص طور پر جب کوئی مرد کسی عورت سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرے، تو خاتون کافی مشکل میں گرفتار دکھائی دیتی ہے۔ مرد چکنی چپڑی باتیں کرکے معصوم خواتین کو گھیر لیتے ہیں۔ لہٰذا خاتون کے لیے ضروری ہے کہ جو مرد خواہ مخواہ بے تکلف ہو، وہ اسے منہ نہ لگائے اور فوراً کنارہ کشی اختیار کرلے۔

ذوق سلیم کو ٹھیس پہنچے

آپ سڑک پر جارہے ہیں کہ کسی نے بڑے واہیات انداز میں تھوک دیا۔ یا پھر کوئی صاف ستھری جگہ کو جائے حاجت بناتا نظر آتا ہے۔ یہ منظر بھی خاصا عام ہے کہ مالٹے یا گنڈیاں کھاتے چھلکتے راستے پر بکھیرے جارہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کاروں پر سوار لوگ کھڑکی کھول کر کوڑا کرکٹ سڑک پر پھیکنے سے دریغ نہیں کرتے۔ بازار میں بے حیائی کے منظر بھی دکھائی دیتے ہیں مثلاً  خارش کرنا۔ اس قسم کے منظر شائستہ آداب سے آگاہ انسان کی پاکیزہ فطرت کو قدرتاً زک پہنچاتے ہیں۔

بداخلاق لوگوں کو حرکات دیکھ کر ذوق سلیم رکھنے والے لوگ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ چیخ چلا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ بعض لوگوں کی تو تمنا ہوتی ہے کہ وہ ان کا ٹیٹوا دبا دیں۔ لیکن ظاہر ہے، حقیقت میں وہ ایسا پُرتشدد عمل کبھی انجام نہیں دے سکتے۔ماہرین کی رو سے سڑکوں اور بازاروں میں بداخلاقی کے مظاہرے جنم لینے کی بڑی وجہ جہالت اور غربت ہے۔ یہ عمل کرنے والے لوگ عموماً غریب ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں میں غسل خانہ نہیں ہوتا، سرکاری سکول جائیں، تو وہاں بھی باتھ روم میسر نہیں آتا۔ چناں چہ جگہ جگہ تھوکنا، کہیں بھی فارغ ہوجانا اور بے سوچے سمجھے کوڑا پھینک دینا ان کا طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔

یہ طرز حیات پیدا کرنے میں سارا قصور ان کا نہیں، حکومت بھی تو انہیں صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات مہیا نہیں کرسکی۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر غصہ کرتے ہوئے ہمیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کے طرز زندگی نے انہیں اجڈ و بد اخلاق بنایا ہے۔ اگر انہیں شائستہ آداب کی تربیت دی جائے، ان کو صفائی کی سہولیات میسر آجائیں تو وہ بھی مہذب اور بااخلاق شہری بن سکتے ہیں۔تھوکنے، پاخانہ کرنے اور کوڑا پھیلانے والوں کو دراصل کسی نے بتایا ہی نہیں کہ یہ بری حرکت ہے۔ ان کے ماحول میں ہر کوئی یہ فعل انجام دیتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جہلا کا طرز زندگی بدلنے کی کوششیں نہ کی جائیں۔ اس ضمن میں ماہرین کہتے ہیں کہ سرعام بداخلاقی کے مظاہرے روکنے کی خاطر لوگوں کو اجتماعی کوشش کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر آگاہی مہم چلا کر لوگوں کو اخلاق حسنہ سے شناسا کرایا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ بااخلاق افراد رول ماڈل بنیں اور بداخلاقی کا کوئی عمل ہوتا دیکھیں تو انفرادی نہیں دیگر لوگوں کی مدد سے اسے مذمت کا نشانہ بنائیں۔ یوں عوامی احتجاج بداخلاق لوگوں کو اپنی بری عادات ترک کرنے پر مجبور کردے گا۔

ہائی ٹیک نسل

آپ اپنے کسی دوست، رشتے دار یا بیٹے بیٹی سے ملنے گئے۔ لیکن وہ مسلسل اپنے موبائل فون پر مصروف ہے اور آپ پر توجہ نہیں دیتا۔ جب متوجہ ہو تب بھی اس کا دھیان اپنے فون پر لگا رہتا ہے۔ وہ آپ کی گفتگو توجہ سے نہیں سنتا۔ظاہر ہے، ایسے موقع پر آپ کا دل یہی چاہے گا کہ اس کا فون اٹھا کر دور پھینک دیں۔یا پھر آپ چلا کر کہیں گے ’’ارے بھئی، میں تم سے ملنے آیا ہوں اور تم اپنے موبائل سے لگے ہو۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے دوست یا رشتے دار کی بے مروتی دیکھ کر آپ ناراض ہوجائیں۔ ہر انسان کو روزمرہ زندگی میں ایسے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جو آپ کی بات توجہ سے نہیں سنتے۔ اس رویّے کو بداخلاقی سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہ جاننا مگر ضروری ہے کہ آج کی خصوصاً نئی نسل ’’ہائی ٹیک‘‘ ہوچکی۔ وہ بہت سے اخلاقی آداب کو تکلفات سمجھنے لگی ہے اور ان کی پروا نہیں کرتی۔ مثلاً شکریہ ادا کرنا، کسی غلطی پر معذرت کہنا، خاتون کے لیے دروازہ کھول کر رکھنا وغیرہ۔ مزید براں دور جدید کی تیز رفتار زندگی میں اچھے اخلاق کی تعریف بھی تیزی سے ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ آج جو اخلاقی بات اچھی ہے، وہ کل بری بن جائے۔ڈاکٹرشائستہ وحید لاہور کی ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا خاص موضوع انسانوں پر جدید ٹیکنالوجی کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’آج انسانوں کے اردگرد ٹیکنالوجی چھاچکی اور ان کے رہن سہن کا حصہ بن رہی ہے۔ ایسے ماحول میں انسان سمجھنے لگا ہے کہ ہر شے اس کے استعمال اور سہولت کی خاطر میسّر ہے۔ چناں چہ وہ سوچ سکتا ہے کہ اسے اب دوسرے لوگوں کے جذبات کی پروا نہیں کرنا چاہیے۔ گویا انسانی زندگی میں سائنس و ٹیکنالوجی کا بڑھتا عمل دخل ہمیں غیر جذباتی اور بے حس بنا رہا ہے۔ تاہم یہ نتیجہ قطعی اور منطقی نہیں، وجہ یہ کہ مشینوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی بہت سے انسان دوسروں کے جذبات کی پروا کرتے اور عمدہ اخلاق دکھاتے ہیں۔‘‘

یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ خاص طور پر آج کی نئی نسل کے لیے موبائل اور اور دیگر مشینی آلات کا استعمال طرز زندگی بن چکا۔ اور ضروری نہیں کہ یہ آلات ہی نوجوان کو بداخلاق بنا دیں۔ اس لیے اگر آپ کا کوئی دوست یا بیٹا سکرین میں مشغول ہے، تو اسے اپنی سمت متوجہ کرنے کے لیے جذباتی سہارا لیجہے۔ مثال کے طور پر کہیے ’’تم مجھے بہت یاد آرہے تھے، اس لیے تم سے ملنے چلا آیا۔‘‘ یا پھر یہ کہ’’ تمہارے ساتھ میری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔‘‘کوئی مگر باپ یا ماں ہے اور وہ بچے کو سنبھالتے ہوئے کمپیوٹر پر کام کررہی ہے اور موبائل بھی سنتی ہے تو یوں وہ بچے سے سخت ناانصافی کرے گی۔ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ روزانہ ایک خاص وقت صرف بچوں کے لیے مخصوص کردیں۔ اس وقت وہ کسی قسم کی سکرین کو قریب نہ آنے دیں اور بچوں سے باتیں کریں۔ اس طرح بچوں اور والدین کے مابین قربت جنم لیتی اور محبت بڑھتی ہے۔ گھر میں اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

The post اچھّے اخلاق کہاں گئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

رینگل آئی لینڈ ؛ وولی میمتھ اور قطبی ریچھوں کا جزیرہ

$
0
0

رینگل آئی لینڈ اس انوکھے اور حیرت انگیز جزیرے کا نام ہے جو Arctic Ocean یا بحر منجمد شمالی میں واقع ہے اور یہ روس کے تمام جزائر میں سب سے زیادہ دور افتادہ جزیرہ ہے۔

یہ جزیرہ پوری کی پوری انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر پھیلا ہوا ہے، یہ وہ سرحد ہے جہاں مشرقی اور مغربی نصف کرے آپس میں ملتے ہیں۔ اس مقام پر یہ آتش فشانی، سنگلاخ اور ناہموار جزیرہ واقع ہے جو اہل دنیا کے لیے بہ ظاہر دیکھنے میں کوئی خاص کشش نہیں رکھتا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں درجۂ حرارت بڑی مشکل سے فریزنگ سے اوپر کبھی کبھار ہی جاتا ہے۔ اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کرۂ ارض پر زمین کا انتہائی آخری مقام ہے جس کے بعد یہ سمجھ لیں کہ دنیا کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ وہ حیرت انگیز مقام ہے جہاں کسی دور میں قطبی خطوں میں رہنے والے وولی میمتھ براجمان ہوتے تھے اور بڑے مزے اور ٹھاٹ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ کم و بیش چھے ہزار سال پہلے کی بات ہے جب اس کے یعنی قطبی ریچھ کی نسل کے کزنز یا چچیرے بھائی اس خاص سرزمین سے اچانک ہی غائب ہوگئے تھے۔

رینگل آئی لینڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نہایت سخت اور بے رحم سر زمین ہے جو حیرت انگیز طور پر متنوع ایکو سسٹم کو سپورٹ کرتی ہے یعنی اس مقام پر مختلف اقسام کے جان دار پائے جاتے ہیں جن میں قطبی لومڑیاں، سیل مچھلیاں، والرس، مشکی بیل، lemming یا قطب شمالی کے چوہوں جیسے جانور اور متعدد اقسام کے پرندے شامل ہیں۔ لیکن ان سب میں یہاں سب سے بڑی تعداد میں جو جانور پائے جاتے ہیں، وہ قطبی ریچھ ہیں جنہیں قدیم ماہرین اس خطے کا حسن یا زیور قرار دیتے ہیں۔

اس خطے میں جب یہ قطبی ریچھ بہت بڑی بڑی تعداد میں آوارہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور جب ان کی اتنی کثیر تعداد یہاں دکھائی دے گی تو پھر ان کے چاہنے والے بھی یہاں ضرور آئیں گے یعنی ان پر ریسرچ کرنے والے اور ان کے بارے میں معلومات جمع کرنے والے ماہرین اور سائنس داں، ان حضرات کی رہائش کے لیے یہاں اتنی بڑی تعداد میں کاٹیجز اور کیبن تعمیر کیے گئے ہیں کہ ایک اچھی خاصی بستی آباد ہوگئی ہے جو اس برف زار میں بہت ہی حسین اور خوب صورت دکھائی دیتی ہے۔ ان ماہرین اور سائنس دانوں کے علاوہ اس خطے کی حفاظت کرنے والے رینجرز کے جوان بھی یہاں قیام کرتے ہیں اور ان کے رہنے کے لیے بھی اسی قسم کی بستیاں بسائی گئی ہیں، بے شک! یہاں یہ لوگ عارضی طور پر ہی منتقل ہوتے اور قیام کرتے ہیں، مگر جب تک یہ یہاں رہتے ہیں تو اس علاقے میں رونق سی لگ جاتی ہے اور دیکھنے والوں کو اس جگہ میں ایک خاص کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔

رینجرز اور سائنس دانوں کے قیام کے لیے بنائی گئی یہ عارضی بستیاں جن میں بڑی تعداد میں کیبن اور کاٹیجز بنائے گئے ہیں، ان کی تعمیر میں دھاتی رسیوں، میخوں اور دیگر اشیا کی مدد حاصل کی گئی ہے بڑی خوب صورتی سے تعمیر کی گئی ہیں جن میں ان کی حفاظت کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے، تاکہ وہ یہاں کے سرد اور بے رحم موسم سے محفوظ رہ سکیں۔ ان عارضی رہائش گاہوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو اتنی مضبوطی سے تیار کیا گیا ہے تاکہ ان میں سے قطبی ریچھ بے تکلفی کے ساتھ اندر گھسنے کی جسارت نہ کرسکیں اور بن بلائے مہمانوں کی طرح کسی خطرے کا سبب بننے کی کوشش نہ کرسکیں۔ اسی لیے ہر قسم کے خطرات سے بچنے کے لیے ان کھڑکیوں اور دروازوں پر خطرے کی علامات کے نشانات بھی لگائے گئے ہیں جو لوگوں کو بار بار یہ یاد دلاتی ہیں کہ وہ ان قطبی ریچھوں سے ہوشیار رہیں جو ہمہ وقت ان کی رہائش گاہوں سے باہر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

رینگل آئی لینڈ کی ان عارضی رہائش گاہوں میں قطبی ریچھوں کے حملوں سے بچنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

رینگل آئی لینڈ کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں پورے بحرمنجمد شمالی میں قطبی ریچھوں کے رہنے والے غاروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

اس مقام پر قطبی ریچھ موسم گرما کے اس زمانے میں آتے ہیں جب برف پگھلتی ہے اور ان کا قیام اس جزیرے پر موسم سرما تک رہتا ہے۔ اس کے بعد اس خطے میں اگلا فریزنگ سائیکل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب یہاں پورا خطہ ہی منجمد ہونے لگتا ہے۔

یہ قطبی ریچھ یہاں اس لیے بھی آتے ہیں کہ وہ اس سر زمین پر اپنے بچوں کو جنم دیتے ہیں اور ان کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اگلے موسم سرما کے لیے اور اس موسم کی شدتوں سے تحفظ دینے کے لیے ہر طرح سے تیار کرتے ہیں۔

قطبی ریچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصل میں یہ ایک سمندری یا بحری جانور ہے جو اپنا زیادہ وقت بڑی خوشی سے پانی میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ اس کی سب سے پسندیدہ جگہ سمندری برف والا وہ علاقہ ہے جس کے continental shelf یعنی براعظم کے پانی میں ڈوبے ہوئے کنارے اور Arctic Ocean یعنی بحرمنجمد شمالی کو پوری طرح ڈھک رکھا ہے۔ عام طور سے یہ قطبی ریچھ برفانی چادر کے کناروں پر رہتا ہے تاکہ یہ وہاں رہتے ہوئے بحری بچھڑوں (سیل مچھلی) اور دوسرے آبی جانوروں کا شکار کرسکے۔

لیکن دور ماضی میں یعنی چند عشروں پہلے تک آب و ہوا کی تبدیلی نے ان قطبی ریچھوں کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت خشکی یا زمین پر گزاریں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب برف زیادہ جلدی پگھلنے بھی لگی ہے اور اسی طرح یہ پہلے کے مقابلے میں دیر میں جمتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب برف سے پاک یا برف سے آزاد زمانہ پچھلے دور کے مقابلے میں زیادہ طویل ہوگیا ہے۔

اگر ہم آج کے زمانے کا موازنہ گذشتہ بیس برسوں سے کریں تو معلوم ہوگا کہ آج قطبی ریچھ اپنا اوسط وقت پچھلے دور کے مقابلے میں رینگل آئی لینڈ پر ایک ماہ زیادہ گزارتے ہیں۔

یوں سمجھ لیں کہ رینگل آئی لینڈ پر ہر سال پہنچنے والے قطبی ریچھوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

2017 میں ماہرین اور محققین نے اس جزیرے پر پہنچنے والے قطبی ریچھوں کی تعداد 589 بتائی تھی جو غیرمعمولی طور پر زیادہ بلند تھی جب کہ اس سے پہلے کے زمانوں میں یہ تعداد اوسطاً 200 سے 300 کے درمیان ہوا کرتی تھی۔

٭وولی میمتھ کی آخری پناہ گاہ:

وولی میمتھ کے بارے میں ماہرین کا یہ اندازہ ہے کہ یہ لگ بھگ دس ہزار سال پہلے دنیا سے مٹ گئے تھے جس کی وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا تھا، جب گلیشیئرز پگھلے تو زمین بھی گرم ہوگئی اور ان بھاری بھرکم جان داروں کی دشمن بن گئی۔ پھر ان جان داروں کی بستیاں اور آبادیاں بھی سکڑنے لگیں، ساتھ ہی انسانوں نے ان کا بے تحاشا شکار بھی شروع کردیا ، ان دونوں وجوہ نے مل کر اس عظیم جانور کو صفحۂ ہستی سے مٹاڈالا۔ لیکن بعض دورافتادہ مقامات پر ان کی آبادی پھر بھی موجود رہی جیسے رینگل آئی لینڈ جہاں وولی میمتھ چار ہزار سال قبل تک بھی پائے جاتے تھے۔

یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ اس کی موجودگی کے چند سو برسوں کے دوران یہ جانور انسانوں کے ساتھ موجود رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ چند ایک چیزیں مثلاً کاربن بھی موجود تھی لیکن قبل از تاریخ کے انسان نے بعد میں باقی تمام قدیم آلات کو چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس جزیرے پر وولی میمتھ کے حد سے زیادہ شکار نے آخری بچے کھچے اس شان دار جانور کو معدومیت سے دوچار کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج ہمیں اس رینگل آئی لینڈ کی زمین پر وولی میمتھ کی باقیات دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں ماضی کے اس عظیم جانور کے دانت دکھائی دیتے ہیں تو اس کی ہڈیاں اور ان کے ٹکڑے بھی ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔

٭یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ:

کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے برعکس روس میں قطبی ریچھوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں سوویت یونین نے 1956ء میں اپنے علاقوں میں اس کے شکار پر پابندی لگادی تھی، مگر سوویت یونین کے زوال کے بعد اس کے لیے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی ، اسی لیے یہاں پوچنگ آج بھی ایک بہت بڑا اور قابل توجہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

حالیہ برسوں میں قطبی ریچھوں نے چکوٹا کے ساحلی دیہات میں گھسنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے لیے رہنے کی جگہ یا سمندری برف سکڑنی شروع ہوگئی ہے، مگر ان ریچھوں نے انسانی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے جس کے باعث غیرقانونی شکار کے مواقع بھی بڑھنے لگے ہیں۔

1976 میں سوویت یونین نے رینگل آئی لینڈ اور قریبی ہیرالڈ آئی لینڈز کے ساتھ ساتھ آس پاس کے تمام پانیوں کو state Nature Reserve بنانے کا اعلان کردیا تھا۔

1980 کے عشرے تک رینگل آئی لینڈ پر رینڈیئر کی گلہ بانی ختم ہوچکی تھی، چناں چہ وہاں دو بستیوں یا آبادیوں کو از سر نو قائم کیا گیا جس کے بعد اس جزیرے نے 2004 میں یونیسکو ورلڈ نیچر ہیریٹیج کی حیثیت حاصل کرلی۔ یہ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹس کی ان پانچ سائٹس میں شامل ہے جو آرکٹک سرکل کے اندر واقع ہیں اور یہ رینگل آئی لینڈ وہ واحد سائٹ ہے جو اپنی بحری اقدار کے باعث اس فہرست میں شامل کی گئی ہے۔

رینگل آئی لینڈ دنیا میں بحرالکاہل میں پائی جانے والی والرس کی سب سے بڑی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جس کے ساتھ اس فہرست میں 100,000 دوسرے آبی جانور بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس جزیرے پر چھوٹی چھوٹی چٹانیں اور بہت بڑے بڑے غار بھی شامل ہیں جہاں یہ قطبی ریچھ بڑی شان کے ساتھ رہتے ہیں۔رینگل آئی لینڈ کی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے، لیکن یہاں چھے یا سات رینجرز محافظ ہر وقت موجود رہتے ہیں جو مختلف قسم کی خدمات انجام دیتے ہیں جیسے جنگلی حیات کی ماحولیاتی نگرانی، وہاں موجود کاٹیجز کی نگرانی و دیکھ بھال، سائنسی امور انجام دینے والے گروپس کے ساتھ مل کر کام کرنا، ریسرچ کرنے والے ماہرین اور سیاحوں کے ان گروپس کی مختلف ضروریات پوری کرنا جو اس جزیرے کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

یہ تمام رینجرز یا محافظ ایسی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن میں مضبوط دھات سے بنائی گئی کھڑکیاں لگی ہوتی ہیں جو انہیں قطبی ریچھوں کے حملوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان محافظوں پر ہتھیار رکھنے کی پابندی ہے لیکن وہ فلیئر گنز رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی پیپر اسپریز بھی رکھتے ہیں جو کالی مرچ سے بنا ہوتا ہے۔

اس جزیرے پر جو بھی سہولیات فراہم کی گئی ہیں وہ عہد قدیم کی ہیں اور اسی طرح یہاں کی ہٹس (جھونپڑیوں) اور یہاں پہلے سے موجود چند ایک گاڑیوں کی حالت بھی نہایت خستہ اور ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ ان گھروں اور گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے آلات و اوزاروں کی کٹ بھی یہاں موجود نہیں ہے اور نہ ہی نئے پرزے فراہم کیے گئے ہیں۔

اسی طرح اچھے اور نئے ٹائرز بھی نہیں ہیں جس کے باعث یہاں گاڑیوں کا چلنا بھی ممکن نہیں رہتا اور اسی کی وجہ سے باہمی کمیونی کیشنز بریک ڈاؤنز بھی بہت ہوتے ہیں جس کے باعث یہاں کے لوگوں کو حفاظتی امور میں سنجیدہ چیلنج درپیش رہتے ہیں۔ اس جزیرے میں کمیونی کیشنز کا واحد ذریعہ ریڈیو سگنل ہے جب موسم اور حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تو یہ کام کرتا ہے ورنہ نہیں۔ رینگل آئی لینڈ میں بجلی ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی ایندھن کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

آج رینگل آئی لینڈ دنیا کے ممنوعہ قدرتی ریزروز مین سب سے کم وزٹ کیا جانے والا جزیرہ ہے۔ یہاں آنے کے لیے سیاحوں کو روسی عہدے داروں سے اسپیشل اجازت نامہ لینا پڑتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نہایت دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔

The post رینگل آئی لینڈ ؛ وولی میمتھ اور قطبی ریچھوں کا جزیرہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>