Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

اگر عمران خان ناکام ہوا تو مارشل لا لگے گا یا ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی!

$
0
0

وہاں بے شمار کالے کوٹ والے جمع تھے، شعلہ بیاں وکیل راہ نما علی احمد کُرد کی آمد متوقع تھی۔۔۔ دبی دبی سی آوازیں تھیں کہ اگر وہ آگئے، تو عدلیہ پر برسیں گے، بڑی ’گرما گرمی‘ ہو جائے گی۔۔۔ مگر وہ شریک نہ ہوئے، البتہ سینئر وکیل خورشید رضوی، ممتاز صحافی مجاہد بریلوی، پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما وقار مہدی، راشد ربانی اور مسرور احسن اس تقریب میں موجود تھے، ’پاک سرزمین پارٹی‘ کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون اور وائس چیئرمین انیس ایڈووکیٹ بھی تھے، ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی سینٹیر نسرین جلیل بھی دکھائی دیں، لندن میں مقیم لیاری کے سیاسی راہ بر حبیب جان تو پیش پیش تھے، منچ سے پکار کر اگلی نشستوں پر آنے کے لیے کہا تو کیا دیکھتا ہوں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے چیئرمین آفاق احمد بھی موجود ہیں۔۔۔ یہ ممتاز قانون داں بیرسٹر صبغت اللہ قادری کی ’یادداشتوں‘ کی تقریب رونمائی تھی۔

بیرسٹر صبغت اللہ قادری کو ہمارے سیاسی حلقوں میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، وہ اُن دنوں لندن سے کراچی آئے ہوئے تھے۔۔۔ تقریب برخاست ہوئی تو مشترکہ تصویر کے واسطے سیاسی زعما کو اوپر بلایا گیا، نسرین جلیل نے انکار کر دیا۔۔۔! رشید جمال نے اُن کے پاس جا کر بہتیری کوشش کی، مجاہد بریلوی نے بھی بہت منایا، لیکن وہ قائل نہ ہوئیں اور تیزی سے باہر نکل گئیں۔ ہم تتّر بتّر ہوتے حاضرین کے جُھرمٹ سے یہ منظر بغور دیکھ رہے تھے، سو اُن کے پاس جا کر پوچھا کہ ’تصویر کیوں نہ بنوائی آپ نے؟‘ تو وہ اپنے خاص انداز میں بولیں ’’ارے، کیا تصویر بنوانا، ان لوگوں کے ساتھ۔۔۔!‘‘ اور پھر جلدی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

پھر ہم نے بیرسٹر صبغت اللہ قادری سے وقت لیا اور ماضی سے لے کر حال تک بہت ساری باتیں کر ڈالیں۔ بریگئیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کی طرح انہیں بھی ہم پر یہ ’اعتراض‘ ہوا کہ ’’آپ بڑے ’ڈیفیکلٹ‘ سوال کر رہے ہیں۔۔۔!‘‘

وہ ملک کے ابتدائی واقعات کے شاہد ہیں، بتاتے ہیں کہ پہلے دستور کی منظوری کے بعد 23 مارچ 1956ء ملک کا ’یوم جمہوریہ‘ قرار پایا، تو اس دن نہ کوئی سلامی وغیرہ نہ ہوتی تھی۔ متوقع عام انتخابات سے پہلے غلام محمد نے مقنّنہ تحلیل کی، جسے جسٹس منیر نے درست قرار دیا، کیوں کہ آئین نہیں بنا تھا، 1935ء کا ایکٹ نافذ تھا اور ہم ملکہ کی کالونی تھے، تکنیکی طور پر ہم اس فیصلے کو درست کہہ سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر نہیں، انہیں اس کی مختلف تشریح کرنا چاہیے تھی۔

بیر سٹر صبغت اللہ 1961ء میں کراچی سے لندن چلیگئے، وہاں انہوں نے ’’پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ فعال کی، اسی توسط سے بنگالی طلبہ سے تعلق ہوا، شیخ مجیب الرحمن، ظہیر الدین اور حسین شہید سہروردی وغیرہ سے ملاقات رہی، بنگلا دیش کے سابق نائب وزیراعظم اور ’بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی‘ کے راہ نما مودود احمد اور سابق وزیر قانون امیر السلام سمیت آج کے بنگلادیش کے بہت سے سیاست داں اُن کے دوست ہوئے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ  بھی ہمارے جیسے محب وطن تھے۔۔۔ کہتے ہیں ’میں نے اُن میں اور مغربی پاکستان کے جاگیردار طبقے میں بہت فرق دیکھا۔ یہاں کے سیاست دان نون ، ٹوانے وغیرہ جاگیردار تھے، بنگال میں ایسا نہ تھا۔‘

مشرقی پاکستان کی علاحدگی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے ’مکتی باہنی‘ کی مدد کی، جس کا نریندر مودی اعتراف کرتا ہے۔ حریف تو فائدہ اٹھاتا ہے، جیسے کمیونزم کا حامی نہ ہونے کے باوجود روس میں ’زار‘ کی حکومت گرانے میں جرمنی نے معاونت کی۔ وہ شیخ مجیب جو ’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ کا جنرل سیکرٹری تھا، اور ’لے کے رہیں گے پاکستان‘ کے نعرے لگاتا تھا، آخر کیوں وہ پاکستان مخالف ہوا؟ قائداعظم کو پتا نہیں کس نے مشورہ دیا کہ بنگلا زبان نہیں ہوگی، اس پر انہوں نے احتجاج کیا۔‘

بنگال کی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے زبان کا ذکر چھیڑ دیا تو ہم نے لقمہ دیا کہ ’’ریاستی زبان کے لیے اردو کہی، لیکن صوبائی زبان کا تو حق دیا؟‘‘ وہ بولے کہ انہوں نے انگریزی میں کہا بنگالیوں سے۔۔۔ انہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں، انہیں غلط مشورہ دیا گیا۔ ’نیشنل‘ یا ’اسٹیٹ‘ لینگویج کہہ دیں، صوبائی کچھ نہیں ہوتا۔ فن لینڈ میں فرانسیسی کے ساتھ آٹھ فی صد سوئیڈش لوگوں کی زبان بھی ’قومی‘ ہے، سوئٹزر لینڈ میں جرمن اور اطالوی سمیت تین قومی زبانیں ہیں۔‘‘

’’آپ نے تو ابھی خود ذکر بھی کیا کہ یہ تو ہمارا ’دو قومی نظریہ‘ تھا۔‘‘ ہمیں کچھ ابہام محسوس ہوا۔ وہ بولے کہ ڈھاکا میں صرف ایک ہی زبان تھی، وہاں کوئی اردو نہیں بولتا تھا! ان کے ہیرو رابندر ناتھ ٹیگور اور نذر الاسلام جیسے بنگلا کے شاعر تھے، بنگالی اردو کے برعکس دائیں کے بہ جائے بائیں طرف سے لکھی جاتی ہے۔

’’آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہمارے لیے بنگلا اجنبی تھی، بالکل ایسے ہی اُن کے لیے اردو اجنبی تھی؟‘‘ ہمیں اچنبھا ہوا، وہ بولے: ’’بالکل، اردو اجنبی تھی، سوائے پڑھے لکھے طبقے کے، لیکن یہاں لاہور میں تو پورا ’اردو بازار‘ تھا۔‘‘ ’’اردو چوک تو بنگال میں بھی ہے؟‘‘ ہمیں دفعتاً یاد آیا، وہ بولے کہ ’’وہ تو بعد میں بنا، لاہور میں پہلے ہی اقبال اور پھر فیض اردو کے شاعر تھے اور لوگ علی گڑھ پڑھنے بھی جاتے تھے، بنگال سے نہیں جاتے تھے۔‘‘

’’آپ اسے قائداعظم کی غلطی شمار کریں گے؟‘‘ اس سوال پر وہ بولے ’’بالکل! انسان خطا کا پتلا ہے، سوائے انبیا کے ہر ایک سے غلطی ہو سکتی ہے! قائد تو خود مان چکے کہ کانگریس میں رہنا غلطی تھی، اب اگر قائد نے اردو کہہ دی تھی، تو گولی نہیں چلنا چاہیے تھی۔ 1952ء میں جن طلبہ پر گولی چلائی، وہ بنگلادیش نہیں مانگ رہے تھے، وہ تو اردو کے ساتھ پاکستان کی ہی قومی زبان بنگلا بنانے کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔‘‘

’’بنگالی کے بعد پھر دوسری زبانوں کا ’قومی زبان‘ قرار دینے کا مطالبہ ہوتا؟‘‘ ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ بنگالی ہمارے ملک کا 56 فی صد تھے، ان کی زبان ہونا چاہیے تھی، باقی زبانوں میں یہاں صرف سندھی ہی تحریری زبان تھی۔

ہم نے پوچھا کہ کیا 1952ء کے اسی واقعے سے ہی علیحدگی شروع ہوئی، تو انہوں نے اتفاق کیا۔ ہم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو 1956ء میں تو دو قومی زبانیں بنا دی گئی تھیں؟ وہ بولے کہ اس پر وہ خوش تھے، لیکن ایوب خان نے پاکستان بنانے والے حسین سہروردی کو نا اہل کر دیا!  ون یونٹ بنا کر اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت کی برابری کی، پھر بھٹو نے تم ادھر اور ہم ادھر! کہہ کر بنگال کو الگ تھلگ کر دیا، پھر جو ہوا سب سامنے ہے، احساس محرومی کے باعث غصے میں ہوتے ہیں۔۔۔ دشمن کو موقع ملا، جو کراچی میں ہوا الطاف حسین صاحب۔۔۔‘‘ وہ رکے، پھر بولے کہ ’’را کود گئی بیچ میں!‘‘

اچانک روئے سخن بدلا، تو ہم نے نقب لگائی: ’’کیا آپ الطاف حسین پر ’را‘ والے الزامات درست سمجھتے ہیں؟‘‘ وہ بولے ’مجھے نہیں معلوم، لیکن جو حالات پیدا کیے، اس میں ہندوستان نے کوشش تو کی ہوگی۔۔۔ اب مجھے نہیں پتا کہ وہ کام یاب ہوا یا نہیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم دشمن کو مواقع ہی کیوں دیتے ہیں؟‘

’’گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر الطاف حسین اس میں ملوث ہیں، تو ریاست کی غلطیوں کی وجہ سے ایسا موقع پیدا ہوا؟‘‘ ہم نے وضاحت چاہی تو وہ بولے ’’بالکل! الطاف حسین پر ’جناح پور‘ بنانے کا الزام تھا، میں سمجھتا ہوں درست نہ تھا، پھر حکومت نے خود ہی غلط مانا، پھر وہی الطاف حسین ہندوستان جا کر کہتا ہے کہ پاکستان بنانا ہمارے اجداد کی غلطی تھی! ہمارے خلاف ظلم ہوتے ہیں، آیندہ اگر ہوں تو آپ ہمیں پناہ دیں! یہ کب کہہ رہا ہے، جب یہاں فوجی حکومت تھی۔ یہاں کوئی کارروائی نہیں ہوتی، بلکہ بڑا نوازا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کو فوج  نہیں بتاتی کہ وہ غدار تھا۔۔۔؟ اب اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں۔ یہی کہ جب ضرورت پڑے تو ہمارا آدمی، ورنہ ’غدار‘!‘‘

ہم نے لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کا پوچھا، تو وہ بولے میں قانون دان ہوں، مجھ سے کوئی مشورہ مانگتا ہے، تو پیشہ ورانہ اور انسانی ہم دردی کے طور پر اسے مشورہ دیتا ہوں۔ 12 مئی 2007ء کے واقعے کے بعد میں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے بہت غلط کیا، لیکن الطاف حسین کی بیگم کی علاحدگی کے معاملے میں، میں نے بھی قانونی مشورے دیے، رحمن ملک بھی اُن کے معاون تھے۔ ’منی لانڈرنگ‘ کے حوالے سے تب بیرسٹر فروغ نسیم بڑے ٹھاٹھ سے وہاں جاتے تھے، آج وہ ہمارے وزیر قانون ہیں!

ہماری گفتگو میں ’ایم کیو ایم‘ کا موضوع چل نکلا، بیرسٹر صبغت اللہ نے ذکر کیا کہ کل اُن کی ’پی ایس پی‘ کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مصطفیٰ کمال سے کہا کہ مشترکہ ذمہ داریاں تقسیم نہیں ہوتیں۔ اس شہر میں بوری بند لاشیں ملیں۔۔۔ مہاجر نے مہاجر کو قتل کیا، ایک منٹ میں ہڑتال ہوتی تھی، اب ساری ذمے داری صرف الطاف حسین پر۔۔۔؟ اگر وہ یہ سب کہتا تھا تو اسے عملی جامہ کون پہناتا تھا؟ یہی سب لوگ تھے!

’’پھر کیا کہا انہوں نے؟‘‘ ہم نے کریدا تو بیرسٹر صاحب گویا ہوئے ’وہ بولے کہ ہاں، مگر ہم مرنے سے پہلے اس کی تلافی چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ تلافی ایسے نہیں ہوتی! مصطفیٰ کمال کے بقول دبئی میں ایم کیو ایم کے راہ نما محمد انور نے رحمن ملک کی موجودگی میں یہ مانا کہ ہم نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس جا کر ’را‘ کی فنڈنگ کا اعتراف کیا ہے، میں نے کہا آپ کو تو اسی وقت غدار کہہ کر ایم کیو ایم سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔۔۔! رحمن ملک تو وزیر داخلہ تھے، آپ کو چاہیے تھا انہیں بھی شرم دلاتے، جو کچھ الطاف حسین نے کیا، اگر وہ غلط کیا تو مشترکہ ذمہ داریاں تقسیم نہیں کی جا سکتیں!‘‘

الطاف حسین سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی پر اُن کی رائے لینا چاہی تو وہ بولے کہ ’پاکستان انصاف کے لیے بنا تھا، یہ اس لیے تو نہیں بنا کہ یہاں شوگر مل لگیں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو۔ ایک لوہا بنانے والے کی بڑی صنعت بن جائے، چند خاندان حکومت کریں۔‘

’’آپ اس کارروائی کو غلط سمجھتے ہیں؟‘‘ ہمیں اُن کے جواب میں اپنا سوال گُم ہوتا ہوا لگا تو ہم نے پھر دُہرایا۔ وہ بولے کہ ’’پاکستان میں قانون کی حکم رانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔ یہاں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انصاف قائم ہونا چاہیے۔‘‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا موضوع چھِڑا، وہ بولے کہ ’’مجھے اس کے ثبوت نہیں معلوم، لیکن یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اگر یہ غلط بھی ہے تو اتنی بڑی غلطی نہیں، جو ’نظریہ ضرورت{‘ سے اب تک ہوتی آئی ہیں۔۔۔ جسٹس شوکت کو پھانسی نہیں دی، یہاں تو بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔‘‘

ایک جج کی بے دخلی پر ہمارا ذہن 2007ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بے دخلی اور ان کے لیے چلنے والی ’عدلیہ تحریک‘ کی طرف گیا، وہ بولے کہ ’یہ تحریک بالکل ٹھیک چلی، ایک آمر یا حاکم جج کو نہیں نکال سکتا، لیکن عدالت عظمیٰ نکال سکتی ہے۔‘

پرویز مشرف نے بھی تو ان کے خلاف ایک ریفرنس ہی بھیجا تھا؟ ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ انہوں نے چیف جسٹس کو معطل بھی کیا تھا، لیکن جسٹس شوکت صدیقی کو تو آخری وقت تک عہدے پر برقرار رکھا گیا۔ انگلستان میں جب کسی جج کو نکالنے کا ذمہ دونوں ایوان ’ہاؤس آف لارڈ‘ اور ’ہاؤس آف کامن‘ کا مشترکہ ہے، جب کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس حوالے سے ’سپریم جوڈیشل کونسل ‘ کام کرتی ہے۔‘

’جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے بعد عدلیہ کتنی بہتر ہوئی؟‘ ہمارے استفسار پر انہوں نے یوں اطمینان ظاہر کیا: ’’بہت بہتر ہوئی، پہلی بار انصاف کی خاطر آصف زرداری اور ن لیگ کے بارے میں ’اسٹینڈ‘ لیا گیا ہے، عدلیہ کو ڈرنا نیں چاہیے اور کوئی بھی توہین عدالت کرتا ہے، تو وہ آئین کی اہانت کرتا ہے، اسے پکڑیں، چاہے کوئی بھی ہو!‘‘

وہ موجود عدلیہ کے کردار سے مطمئن ہیں، کہتے ہیں کہ کسی قدر انصاف ہو رہا ہے، لیکن ڈیم وغیرہ سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ یا ظلم وزیادتی ہے، تو قانون کہتا ہے کہ از خود نوٹس لے کر مقدمہ سنیں۔‘

’’جیسے اسپتالوں کے دوے کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر چھاپے مارتے ہیں؟‘‘ ہم نے جاننا چاہا۔

’’اسے آپ ’چھاپا‘ کہہ رہے ہیں!‘‘ انہوں نے شاید یہ لفظ ناپسند کیا، پھر بولے کہ ’’وہ تو تب جاتے ہیں، جب انہیں شکایت ملے، یہ اگرچہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ جاتے ہیں، اگر نہ جاتے، تو ایک آدمی جس پر کرپشن کا الزام ہے، وہ ٹھاٹھ سے ایک جیل کی جگہ اسپتال میں بیٹھا ’محفل سرور‘ لگا رہا ہے، وہ ریمانڈ پر ہے، یہ تو عدالتی عمل داری کی توہین ہے، عدالت کو حق ہے، کہ ایسی اطلاعات ملیں، تو حقیقت جانے، اگرچہ اس کے لیے بنیادی طور پر پولیس کو بھیجنا چاہیے۔‘‘

موجودہ احتساب کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے، ’پی پی پی‘ میں کوڑے کھانے والے جیالے بھی ہیں، انہیں تو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ کل تک معمولی ’اسٹیٹ ایجنٹ‘ آج اتنے ’’بڑے‘‘ ہیں کہ انہیں سونے کا تاج پہنایا جا رہا ہے، بے گناہی ثابت ہو جائے تو بے شک پہناؤ۔ دنیا میں کسی پر بھی الزام لگتا ہے، تو اسے معطل کر دیا جاتا ہے۔۔۔‘‘

’’افتخار چوہدری کے خلاف بھی تو الزام تھا، لیکن آپ اُن کی معطلی کو غلط کہہ رہے ہیں؟‘‘ ہمیں اچانک تھوڑی دیر پہلے انہی کی بات یاد آگئی، وہ بولے کہ ’’انہیں تو الزام لگانے والا ہی معطل کر رہا تھا۔‘‘

’نواز شریف کو جس بنیاد پر نااہل کیا گیا، اُسے عاصمہ جہانگیر ودیگر نے ’کم زور فیصلہ‘ قرار دیا؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’دنیا کے کسی بھی مقدمے کے بارے میں ماہر قوانین کا اختلاف رائے کا مطلب کسی فیصلے کا صحیح یا غلط ہونا نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر ایسا ہو، جو دنیا غلط ہے، جیسے  بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ ایسے ثبوت پر ہوا، جس میں قاتل نے یہ کہا کہ میں نے قتل بھٹو کے کہنے پر کیا؟ اسے کہا گیا کہ تمہیں پھانسی نہیں ہوگی۔ اگر نواز شریف کی نااہلی پر کوئی غیر جانب دار وکیل کچھ کہے، تو پھر بات کی جا سکتی ہے۔‘

’’اگر احتساب تحریک انصاف کے ساتھ ہو تو اسے چھوٹ مل جاتی ہے؟‘‘ ہم نے ایک عام اعتراض ان کے روبرو کیا تو وہ بولے ’کم سے کم ایک چور کے خلاف تو کارروائی ہور ہی ہے۔‘ آج انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آمریت سے زیادہ کڑی پابندیوں کا ذکر ہوا، تو بیرسٹر صبغت قادری بولے کہ عدالت میں اس کی شکایت کریں!

’میثاق جمہوریت‘ کے حوالے سے بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے بتایا کہ بے نظیر چاہتی تھیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک سمجھوتا کریں، تاکہ غیر جمہوری قوتیں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ بے نظیر نے کہا تھا کہ حکومت میں آئیں گے تو ایک آئینی عدالت بنائیں گے، اس پر کچھ نہیں ہوا۔

’’وہ تو دنیا میں ہی نہیں رہیں؟‘‘ ہم نے کہا تو وہ بولے ’’لیکن بات تو یہ بھی ہے کہ میثاق جمہوریت کے بعد آپ نے ’این آر او‘ لے لیا! یہاں ’ری کنسی لیئشن‘ (Reconciliation) پر زور رہا ’’ٹرتھ اینڈ ری کنسی لیئشن‘‘ پر نہیں! آپ گناہ تسلیم کیے بغیر مصالحت کر ہی نہیں سکتے، معافی اور اعتراف کے بغیر تو اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔‘‘

’’پہلی غلطی کہاں ہوئی؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔

’’جہاں این آر او کیا!‘‘ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا، پھر بولے ’’انہیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ یہاں ’بھٹو‘ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کمال دیکھیے، ذوالفقار بھٹو کے بعد بے نظیر کی حکومت آئی، کچھ نہیں کیا! مرتضیٰ کو بے نظیر کے دور میں مارا، اس کے قاتل کا پتا نہ چلا! بے نظیر کے قتل کے بعد آصف زرداری کی حکومت آئی، کچھ نہیں کیا، اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں، میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ پرویز مشرف کا ایک فارمولا تھا ’مائنس ون‘۔ بے نظیر کو ہٹا دو، باقی پیپلزپارٹی ٹھیک ہے!‘‘

بیرسٹر صبغت بتاتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی کے بعد پی پی کے بہت سے راہ نما لندن میں ان کے ہاں رہے، انہوں نے بلامعاوضہ ان کی سیاسی پناہ میں مدد کی۔ ہم نے پوچھا کہ یہ سنا ہے کہ آپ 2007ء میں بے نظیر کے ساتھ یہاں آرہے تھے، آپ کو خبر ہوگئی کہ ’کچھ ہونے والا ہے؟‘ وہ بولے کہ ’’اگر پتا ہوتا تو بی بی کو نہ بتاتا! ماجرا یہ تھا کہ مجھے یقین نہ تھا کہ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لیے کہیں گی، اس لیے ایک محفل میں مذاقاً یہ کہہ دیا کہ بھئی، گڑ بڑ ہو سکتی ہے، اس لیے میں تو ساتھ نہیں جا رہا! میں نے دراصل یہ کہنے سے گریز کیا تھا کہ شاید بے نظیر مجھے ساتھ چلنے کے لیے نہ کہیں۔ مجھے ایسی خبر نہیں، بلکہ خدشہ تھا، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ بھٹو خاندان کو اس ملک میں حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ ذوالفقار بھٹو نے جنرل ایوب کے خلاف تحریک چلائی اور آج یہ سوچ ہے کہ اگر بھٹو نہ ہوتا تو آج بھی یہاں کسی ایوب، یحییٰ، ضیا یا مشرف کی حکومت ہوتی!‘‘

نواز لیگ پر کسی بھی عتاب سے وہ انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ان پر تو کبھی ظلم ہوا ہی نہیں!‘‘

پھر بولے کہ آج یہ ایوانوں میں پڑھتے ہیں کہ ’’حکم راں ہوگئے کمینے لوگ!‘‘ جب جالب نے یہ کہا تب یہی لوگ حاکم تھے!

’’پرویز مشرف نے تو ان پر ظلم کیا؟‘‘ ہم نے انہیں ٹٹولا تو وہ بولے کہ ’’کون سا ظلم کیا؟ انہوں نے تو جیل سے نکل کر سعودی عرب میں پناہ لے لی، ٹھاٹ سے وہاں ایک اور فیکٹری بنائی، کاروبار جاری رکھا۔ یہ ظلم ہے؟ آج بھی ان کا وزیر خزانہ ملک سے باہر نکل گیا ہے!‘‘

’’بدترین جمہوریت بھی کسی بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ بیرسٹر صبغت اللہ اس خیال کی پرزور نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بدترین سے کوئی چیز بہتر ہو ہی نہیں سکتی! اس جملے میں ہی تضاد ہے۔ جمہوریت یا تو ہوگی یا نہیں ہوگی، یہ بدترین نہیں ہو سکتی۔ آمریت ہو یا کچھ بھی، ملک کی حفاظت، انصاف اور قانون کی حکم رانی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں حقیقتاً آمریت نہیں، بلکہ ’اجتماعی آمریت‘ قائم ہوئی۔ سیاست دان آمروں سے مل جاتے ہیں، آمر چلا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آمر برا ہے، یہ تو مذاق ہے!

بیرسٹر صبغت اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ذوالفقارعلی بھٹو سے لندن میں ’پی پی پی‘ کی مخالفت کی تھی، کیوں کہ میں مقامی سیاست کا قائل ہوں۔ ملک میں بہتری کا راستہ پوچھا تو بیرسٹر صبغت بولے ’ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہمارے اداروں اور فوج کے جرنیلوں نے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے بڑا نقصان پہنچایا، تمام تر الزامات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ آج فوج بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘

’موجودہ سیاسی نظام سے پر امید ہیں؟‘ اس سوال پر وہ بولے کہ ’’پاکستان اس وقت دوراہے پر ہے۔۔۔!‘‘

’’یہ بات تو کب سے کہی جا رہی ہے!‘‘ ہم نے جب ایک روایتی سا جملہ سنا، تو رہا نہ گیا، وہ بولے ’’دنیا جانتی ہے عمران خان بدعنوان نہیں، لیکن اب اس کی اہلیت اور ایمان داری کا ٹیسٹ ہے، عمران خان نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگایا ہے، اس کی عزت ہے، یہ ناکام ہوا تو پھر مارشل لا لگے گا یا پھر ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی۔‘‘

آپ نے کہا تھا کہ ’خلائی مخلوق‘ اگر ایک فی صد انصاف کرتی ہے، تو میں اس کا ساتھ دوں گا؟ ہم نے کتاب کی تقریب رونمائی میں کہا گیا ان کا جملہ پکڑا تو وہ بولے ’’کوئی بھی انصاف کرے!‘‘

’’بے انصافی کے راستے سے بھی۔۔۔؟‘‘ ہم حیران ہوئے کہ ہمیں ابو الکلام آزاد کی وہ بات یاد آئی تھی کہ کوئی لاکھ انصاف کر لے، لیکن اگر بے انصافی کے راستے سے آیا ہے تو کبھی برحق نہیں کہہ سکتے۔۔۔ وہ بولے کہ ’’کسی بھی راستے سے ہو، انصاف ہو! ایک آدمی بھوک سے مر رہا ہو تو شرعاً اسے بچانے کے لیے ’سور‘ بھی کھلا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے! سوویت یونین دوسری عظیم طاقت تھا، اس کے پاس پاکستان سے 100 گنا زیادہ بم تھے، لیکن اس کے ’ایٹم بم اُسے نہ بچا سکے، آپ کا ایٹم بم بھی آپ کی معیشت کو نہیں بچا سکتا۔‘‘

’’بٹوارے کے وقت خیال تھا کہ دونوں ملکوں میں ویزا نہیں ہوگا!‘‘

بیرسٹر صبغت اللہ قادری 23 اپریل 1937ء کو بدایوں (یوپی) کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی دو بہنیں اور چھے بھائی ہیں، ان کا نمبر دوسرا ہے، کہتے ہیں کہ میرے والد فراست اللہ قادری ایک بڑے عالم تھے۔ ہم بنیادی طور پر تحریک پاکستان کا دفاع کر رہے تھے، ہمارے ذہن میں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے ایک مثالی حکومت ہوگا، میرے کافی رشتے دار پاکستان آگئے، لیکن والد یہاں آنے کے لیے تیار نہ تھے، ان لوگوں کا اور قائداعظم سمیت دیگر کا بھی یہ خیال تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی ویزا نہیں ہوگا۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا، صرف بنگال، پنجاب اور سندھ کے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ 1950ء میں وہاں حالات خراب ہوئے تو یہاں آنا پڑا۔ وہاں ایک دو معزز افراد کا قتل بھی ہوا تھا۔

اس وقت یہاں آنے پر ’پرمٹ‘ لگ چکا تھا، ہم جالندھر کیمپ میں ٹھیرے اور پھر فوج کی نگرانی میں واہگہ آئے۔ کہتے ہیں کہ عجیب سی بات تھی اس وقت ’مہاجر‘ لفظ ایجاد ہو چکا تھا، ’مہاجر ٹیکس‘ بھی تھا۔ ہجرت کرنے والوں کو سندھ جانے کو کہا جاتا۔ ہم سے بھی پوچھا گیا کہ آپ کراچی جانا چاہیں گے، ہم نے کہا ہمارے رشتے دار لاہور میں رہتے ہیں، ہم یہیں ٹھیریں گے، تو کیمپ کی انتظامیہ نے کہا کہ ’لاہور میں گنجائش نہیں!‘ یوں ہم چند ہفتے بعد شکار پور آگئے، ایک ڈیڑھ ماہ بعد کراچی منتقل ہوگئے، یہاں بڑی مشکلات تھیں، لوگوں نے پرانی نمائش کے قریب جھونپڑیاں ڈالی ہوئی تھیں۔ ہم میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ) کے قریب گنجان جگہ ایک بلڈنگ میں رشتے دار کے ہاں رہے۔ پھر بہار کالونی کے ایک کمرے میں نانی، دادی، والدین اور بہن بھائیوں سمیت درجن بھر افراد رہے، جب کہ بدایوں میں خاصا وسیع اور آرام دہ گھر تھا۔

جنوری 1951ء میں نویں جماعت پاس کر کے یہاں آیا، لیکن یہاں داخلہ نہ ملا، اس کی تگ ودو میں وہ ’ہائی اسکول فیڈریشن‘ میں شامل ہوئے، پھر پنجاب میں میٹرک کا امتحان دیا۔ کچھ عرصے بعد پیر الٰہی بخش کالونی میں ہم نے ایک بڑا کمرا لیا، جس کے باہر کے چبوترے پر چولھا لگایا گیا تھا، ساتھ ایک باتھ روم بھی تھا۔ وہ شام کے اسکول میں پڑھتے، گزر بسر والدہ کے زیورات پر تھی، پھر میں چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا، تو پانچ چھے روپے ماہانہ آمدن ہو جاتی۔

جیل سے چُھوٹا تو پتا چلا کہ جامعہ کراچی نے نکال دیا ہے!

اپنی اسیری کا احوال بتاتے ہوئے بیرسٹر صبغت کہتے ہیں کہ مارشل لا کے بعد 14 اکتوبر 1958ء کو مغربی پاکستان سے جو دو گرفتاریاں ہوئیں، وہ ہم دو طلبہ تھے، میں اور محمد شفیع۔ مجھے ’ہاری موومنٹ‘ میں ملوث قرار دے کر چھے ماہ جیل میں رکھا، حالاں کہ میں نے زندگی میں ’ہاری‘ دیکھا تک نہ تھا، میں تو کبھی کراچی سے نہیں نکلا تھا۔ اسیری میں سندھی قوم پرست راہ نما جی ایم سید کی صحبت میسر ہوئی۔ میں جامعہ کراچی میں کیمسٹری میں بی ایس سی آنرز کر رہا تھا، رہائی کے بعد جامعہ گیا، تو پتا چلا کہ وہاں سے نکال دیا گیا ہے، پھر ’سندھ یونیورسٹی‘ (جام شورو) چلا گیا، وہاں بھی استثنیٰ نہیں ملا۔ حیدرآباد میں رسول بخش تالپور کے گھر میں ٹھیرا، اسی اثنا میں ریڈیو پاکستان (حیدر آباد) کے پروڈیوسر علی حسن مل گئے، جو کراچی میں ’این ایس ایف‘ میں ساجھے دار تھے، ان کی وساطت سے وہاں حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی اور اداکار محمد علی سے ملا، ان کے گھر میں بھی ٹھیرا، بعد میں محمد علی کو شہرت ملی۔ رسول بخش تالپور کے بطور گورنر کردار کا ذکر ہوا تو بولے کہ وہ بعد کی بات ہے، میرے ساتھ جتنا وقت رہے، تو بہت اچھی طرح رہے۔

بہن کے ناگہانی حادثے نے لندن پہنچا دیا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری جامعہ کراچی کے بعد جامعہ سندھ میں بھی تعلیم مکمل نہ کر سکے، ہوا یوں کہ 1961ء میں برطانیہ میں مقیم ان کی بہن کے گھر میں آگ لگ گئی، ڈاکٹروں نے والدین کو بلوا لیا اور ہم سب لندن چلے گئے، روانگی ’ماری پور‘ سے امریکی ایئر لائن کے جیٹ طیارے میں ہوئی، ’ایس ایس پی‘ سی آئی ڈی اکرم شیخ نے مجھے روکنے کے لیے فون کیا تھا، لیکن میں نکل چکا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ بہن جاں بر نہ ہو سکیں، میں لندن میں رہنا نہیں چاہتا تھا، لیکن باقی اہل خانہ کی وجہ سے وہاں رہنا پڑا۔‘ اس طرح وہ ’پاکستان‘ میں صرف 11 برس ہی رہ سکے! لیکن یہاں سے تعلق قائم رہا۔ وہ بتاتے ہیں والدین مجھے سائنس دان بنانا چاہتے تھے، حادثات سے ’بیرسٹر‘ بن گیا۔ میں ایوب خان کے زمانے میں 15 برس یہاں نہ آ سکا، اس کے بعد ہر سال چکر لگتا ہے۔

وہاں سائنس میں داخلہ نہیں مل سکتا تھا اور ’بار‘ میں بھی ڈگری کے بغیر جانا ممکن نہ تھا، لیکن میں نے اپنے حالات بتائے کہ میں وہاں گرفتار رہا ہوں، تب چھوٹ ملی، پھر بیرسٹری کی اور پھر پہلے مسلمان اور ایشیائی بیرسٹر قرار پائے جسے 1989ء میں ملکہ برطانیہ سے ’کیوسی‘ (Queen’s Counsel) کا اعزاز ملا۔ اُن کی شادی فن لینڈ میں ہوئی، اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ شریک حیات سے بائیں بازو کی تحریک کے دوران ملاقات ہوئی تھی۔ اُن کے دو بچے ہیںِ، بیٹا ’صاحب کتاب‘ اور بیرسٹر ہارورڈ اور کیمبرج سے فارغ التحصیل ہے، جب کہ صاحب زادی نے ماسٹرز کیا ہے۔

’دو قومی نظریہ‘ دراصل ’یوپی‘ اور بہار میں ہی تھا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری 1947ء کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں مسلمان طلبہ کی لازمی زبان اردو ہوتی تھی، جب کہ ’ثانوی زبان‘ ہندی، جسے ہم بس سرسری سا پڑھتے، اسی طرح ہندو لڑکے ہندی لازمی پڑھتے۔ قائداعظم نے جس دو قومی نظریے کا ذکر فرمایا، وہ ’یوپی‘ اور بہار وغیرہ میں ہی نظر آتا ہے۔۔۔ پنجاب میں سب لوگ ایک جیسے تھے، سکھ تو گوشت بھی کھا لیتے تھے، نام جانے بغیر آپ مذہب نہیں بتا سکتے تھے۔‘ ہم نے پگڑی اور داڑھی کے فرق کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ اس سے صرف سکھ کا پتا چلتا، سندھ اور سرحد (پختونخوا) میں بھی 90 فی صد ثقافت ایک تھی۔ دوسری طرف ’یوپی‘ میں لوگ کرتا، پاجاما اور شیروانی، جب کہ ہندو دھوتی پہنتے، جواہر لعل نہرو بھی جیکٹ پہنتے تھے۔‘

ہم نے کہا ’’نہرو نے تو شیروانی بھی پہنی!‘‘ تو وہ بولے کہ ہندوؤں میں بس اونچا طبقہ ہی شیروانی پہنتا تھا، ورنہ عمومی طور پر لباس سے لے کر زبان تک، سب مسلمانوں سے الگ تھا، زبان کو آپ ہندوستانی کہہ لیں، جس کے لکھنے میں فرق، ہمارے ناموں سے لے کر کھانا پینا سب مختلف۔ ’ہندو پانی‘ اور ’مسلم پانی‘ یہ سب وہیں ہی تو تھا۔ ہم نے پوچھا کہ ’آپ نے وہاں ہندو پانی اور مسلم پانی دیکھا؟‘ تو انہوں نے تصدیق کی کہ ’میں عیسائی مشنری اسکول میں تھا، لیکن وہاں بھی ہندو لڑکوں کو الگ پانی دیا جاتا تھا۔‘

’آپ کہتے ہیں کہ ’دو قومی نظریہ‘ اصل یوپی اور بہار میں تھا، وہ تو آئے نہیں پاکستان میں؟‘‘ ہم نے استفسار کیا، تو وہ بولے کہ پاکستان پورے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا، ہندوستان میں مسلمان کے نماز، روزے کو کوئی خطرہ نہ تھا، آج بھی دلی کی ’جامع مسجد‘ پہلے جتنی ہی بھری ہوئی ہوتی ہے۔ رہا گائے کاٹنے کا مسئلہ، تو وہ کوئی لازمی فریضہ نہیں۔ یہ ملک مساوات محمدی کے لیے بنا تاکہ دنیا کو دکھا سکے کہ یہ رسول اللہ کے اصولوں پر چلنے والی ریاست ہے۔‘

بیرسٹر صبغت اللہ قادری ’دو قومی نظریے‘ کے حوالے سے یہ بھی مانتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر قومیں نہیں ہوتیں، ورنہ تو صومالیہ بھی تو مسلمان ملک ہے۔ قائد اعظم نے کبھی ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ اللہ‘ کا نعرہ نہیں لگایا۔ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ پوری کائنات کا ہی یہ مطلب ہے کہ اللہ ایک ہے، پھر اگر کوئی یہ نعرہ لگاتا ہے تو ساتھ ’محمد الرسول اللہ‘ کہنے میں کیا قباحت ہے؟‘

ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے عرصۂ معطلی کی تنخواہ لینے سے انکار کیا!

جامعہ کراچی میں فلسفے کے سابق استاد اور ایم کیو ایم (لندن گروپ) کے انچارج ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے حوالے سے بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے کہا کہ ’’وہ بڑے ’باکردار باصلاحیت شخص تھے، انہیں میں عرصہ دراز سے جانتا تھا، ضیا الحق نے انہیں جامعہ کراچی سے برطرف کیا، بے نظیر وزیراعظم بنیں، تو معطلی کے عرصے کی تنخواہیں دی گئیں، تو انہوں نے یہ لینے سے انکار کیا! انہوں نے پیپلزپارٹی کو مشورے دیے، لیکن جب دیکھا کہ غلط فیصلے ہو رہے ہیں، تو الگ ہو گئے۔ اس عمر میں شاید انہوں نے سمجھا کہ ’ایم کیو ایم‘ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور انہیں بڑا عجیب سا دل کا دورہ پڑا تھا، کہ وہ اپنی گاڑی میں جا کہاں رہے تھے، چل پڑے دوسری طرف۔۔۔ میلوں دور۔۔۔!‘‘’اُن کا الطاف حسین کے ساتھ چلنا غلط فیصلہ تھا؟‘ ہم نے براہ راست پوچھا تو وہ بولے کہ ’’نہیں، وہ اصول کے آدمی تھے، انہیں میرا خیال ہے، اس عمر میں انہیں ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا، لیکن میں کون ہوتا ہوں انہیں یہ کہنے والا!‘‘

سرکار نے ’این ایس ایف‘ بنائی تو کالعدم ’ڈی ایس ایف‘ نے اس میں شامل ہو کر تصرف کرلیا!

بیرسٹر صبغت اللہ قادری کی سیاسی زندگی کا آغاز ’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ڈی ایس ایف) سے ہوا، وہ 1953ء کی طلبہ تحریک کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ کسی نے مشتاق گورمانی کی گاڑی جلا دی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا طلبہ نے جلائی؟ تو وہ بولے کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ طلبہ نے نہیں، بلکہ ان کے ساتھ شامل لوگ اس کے مرتکب ہوئے۔

’مشتاق گورمانی سے نفرت کی وجہ کیا ان کا نام لیاقت علی کے قتل میں لیا جانا تھا؟‘ ہم نے ذہن میں آنے والا سوال ظاہر کر دیا، تو وہ بولے کہ ’’ہو سکتا ہے، دراصل تب وہ وزیر داخلہ تھے، جن کے حکم پر طلبہ کا راستہ روکا گیا تھا! جب طلبہ پر گولیاں چلیں، تو وہ کوئی ’عَلم بغاوت‘ بلند نہیں کر رہے تھے، بلکہ ’وزیراعظم ہاؤس‘ جا کر اپنے مطالبات پیش کرنا چاہتے تھے، لیکن روکا گیا اور گولیاں چلیں! ابھی پاکستان بنے چھے سال ہوئے تھے اور یہاں مسلمان، مسلمان پر گولیاں چلا رہا تھا۔ اس واقعے نے طلبہ تحریک کو اور ابھارا، ’ڈی ایس ایف‘ اور مضبوط ہوئی، ہم یونین کا چناؤ بھی جیتے۔‘‘بیرسٹر صبغت اللہ قادری کہتے ہیں کہ حکومت نے ہم پر فائرنگ کے اس واقعے کو ’کمیونسٹ خطرہ‘ دکھا کر امریکی امداد حاصل کی۔ ہ

م نے پوچھا کہ ’’گویا یہاں سے داخلی واقعات کو بنیاد بنا کر بیرونی امداد لینے کا سلسلہ شروع ہوا؟‘‘ وہ بولے جی ہاں، اس کے بعد ’اے پی ایس او‘ (آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن)‘ کا ملک گیر کنونشن ہوا، تو ’کمیونسٹ پارٹی‘ اور ’ڈی ایس ایف‘ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یہ 1954ء تھا، جب مارشل لا بھی نہیں لگا تھا، حکومت نے ’ڈی ایس ایف‘ کا خلا پُر رکنے کے لیے ’این ایس ایف‘ بنائی۔ یہ مقبول نہ ہوئی، لیکن جب ’ڈی ایس ایف‘ کی ساری قیادت گرفتار ہو گئی، تو سارے کارکنان نے لائحہ عمل طے کیا۔ ہم ’این ایس ایف‘ میں شامل ہوئے اور اپنی اکثریت سے دوسروں کو باہر نکال کیا اور ’این ایس ایف‘ پر تصرف کر لیا، یوں ’این ایس ایف‘ نے ہی ’ڈی ایس ایف‘ کی جگہ لے لی۔ کہتے ہیں کہ این ایس ایف ’ڈی ایس ایف‘ سے زیادہ ’ملٹنٹ‘ تھی۔ ’این ایس ایف‘ سوئس وار پر کھڑی ہوئی، یونین جیک جلائے، امریکا مخالف جدوجہد کی، آگے بڑھ کر سیاسی تحریکیں چلائیں، ورنہ پہلے ہماری تحریک صرف طلبہ کے مسائل تک محدود رہتی تھی۔ اسی دور میں، میں پہلی بار جامعہ کراچی کی یونین کا جنرل سیکریٹری منتخب ہوا۔

The post اگر عمران خان ناکام ہوا تو مارشل لا لگے گا یا ’خلائی مخلوق‘ کوئی نیا نظام تلاش کرے گی! appeared first on ایکسپریس اردو.


ایجادات ؛ خلا کی اوج سے سمندر کی کھوج تک دنیا بھر میں سال گذشتہ میں ہونی والی چند اہم ایجادات

$
0
0

ہر گزرا سال کچھ نئی کہانیاں، کچھ یادیں، کچھ خوشی اور کچھ غم کی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ جس طرح ہر فرد ہر نئے سال کے آغاز پر نئے اہداف طے کرتا ہے، نئی کام یابیوں کے لیے دعا گو ہوتا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ٹیکنالوجی کے ماہرین، اور سائنس دانوں کے ذہن میں نئے سال کے لیے کچھ نئی ایجادات ہوتی ہیں، جن کی بنا پر وہ انسانیت کی خدمت کرسکیں۔ اور ان جیسے لوگوں کی بدولت ہی ہر سال دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں کسی نئی ایجاد کی بدولت کوئی سہولت پیدا ہوجاتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں سال گزشتہ میں ہونے والی کچھ ایسی ہی ایجادات کا ذکر ہے جس نے ایک عام آدمی سے لے کر خلانوردوں تک لیے اپنے دروازے وا کر دیے ہیں۔

٭تھری ڈی میٹل پرنٹنگ

سہہ جہتی پرنٹنگ کا استعمال گذشتہ ایک دہائی میں کافی عام ہوچکا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی سے صرف پلاسٹک کی اشیاء پرنٹ کی جاسکتی تھی۔ دھاتی پرزوں کو پرنٹر کی مدد سے اس کی حقیقی شکل میں ڈھالنا اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کئی سال سے ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکا کی لارنس لیور مور نیشنل لیبارٹری کے محققین نے ایسے سہہ جہتی پرنٹر کی تخلیق پر کام شروع کیا جو روایتی طریقوں کے برعکس زیادہ تعداد اور زیادہ مضبوط اسٹین لیس اسٹیل کے پارٹس بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس بابت محققین کا کہنا ہے کہ دھاتی پرزوں کو مطلوبہ شکل میں ڈھالنے کے روایتی طریقوں میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے ، ہم گزشتہ تین سالوں سے دھاتی تھری ڈی پرنٹر کی تخلیق میں لگے ہوئے تھے۔

گذشتہ سال لارنس لیور نیشنل دھاتی اشیاء کو پرنٹ کرنے والا پرنٹر نمائش میں پیش کیا، جب کہ اس سے قبل دھاتی پرزے اور دیگر اشیا بنانے والی امریکی کمپنی  Markforged کے بانی گریک مارک نے بوسٹن میں دھاتی پرزوں کی سہہ جہتی پرنٹنگ کے لیے ایک چھوٹے سے اسٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی، اور چند ماہ کی محنت کے بعد دسمبر 2017 میں انہوں نے دنیا کا پہلا تھری ڈی میٹل پرنٹر مارکیٹ میں پیش کردیا۔ 2018 میں بوسٹن کے ہی ایک اور اسٹارٹ اپ ’ڈیسک ٹاپ میٹل‘ نے بھی اپنا پہلا پروٹوٹائپ دھاتی پرنٹر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس پرنٹر کو خصوصی طور پر بڑا دھاتی سامان بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو کہ روایتی دھاتی سامان بنانے والے طریقوں سے سو گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔

٭ مصنوعی جنین (ایمبریوز)

کائنات کی تخلیق سے بنی نوع انسان کی کھوج لگانے کی فطری جبلت نے اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیا، کبھی وہ کائنات کے سربستہ راز کھوجنے کے لیے خلاؤں کا سفر طے کرتا ہے، تو کبھی سمندروں کی تہہ میں جاکر کچھ نہ کچھ تلاشتا رہتا ہے۔ اسی جبلت کے تحت انسان نے کلوننگ جیسے تجربے کیے ہیں تو کبھی وہ انسانی جسم کے سب سے پیچیدہ نظام ڈی این اے میں ترمیم کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ انسانی کی سیلانی فطرت نے ’کرائے کی کوکھ‘ جیسے طریقے کو بھی جنم دیا، جو اب ایک منظم کاروبار بن کے لاکھوں خواتین کو ماں بننے کے لطیف احساس اور اس درد سے محروم کر رہا ہے جس کے بعد اولاد کی شکل میں ملنے والی نعمت ہر عورت کو راحت دیتی ہے۔ ’کرائے کی کوکھ ‘ کی لیے عورت کے بارآور انڈے اور مرد کا مادۂ منویہ ضروری ہوتا ہے، لیکن برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج، یونیورسٹی آف مشی گن اور راک فیلر یونیورسٹی کے محققین نے تولیدی عمل کے لیے اس ضرورت کو بھی ختم کردیا ہے۔

اس تحقیق کی سربراہ اور یونیورسٹی آف کیمبرج کی ماہر حیاتیات اور اسٹیم سیل Magdelena Zernicka­-Goetz کا دنیائے طب میں ہونے والی اس نئی جدت کی بابت کہنا ہے کہ ’اس مقصد کے لیے ہم نے انڈے اور مادہ منویہ کو استعمال کیے بنا صرف ایک اسٹیم سیل سے ایک نئی زندگی کی تخلیق کا کام یاب تجربہ کیا، یہ اسٹیم سیل ایک دوسرے چوہے کے جنین سے لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الوقت یہ ’مصنوعی جنین ‘ لیباریٹری میں بڑھوتری کر رہا ہے، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی ہم ممالیہ جان داروں میں بار آور انڈے کے بنا بچے کی پیدائش کے اہل ہوں گے۔ اگلے مرحلے میں ہم انسانی اسٹیم سیل کی مدد سے مصنوعی جنین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔

٭مصنوعی ذہانت سے لیس مائیکرواسکوپ روبوٹ

پینے کے صاف پانی کی قلت ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق 2025ء تک دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پانی کی قلت سے متاثر ہوسکتی ہے۔ صاف پانی کے کم ہوتے ذخائر کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی آئی ٹی کمپنی آئی بی ایم نے مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے خودمختار روبوٹکس کیمرے ایجاد کیے ہیں جو نکاسی آب کی تنگ سے تنگ لائین میں جا کر اس کی صفائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’فائیو فار فائیو‘ نامی یہ کیمرے مصنوعی ذہانت کی بنا پر پانی میں شامل آلودہ اجسام، کیمیکل، پلاسٹک کی شناخت اور ان کے درست مقام کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے درجۂ حرارت سے بھی آگاہ کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں آئی بی ایم کے نائب صدر اور لیب ڈائریکٹر جیف ویلسر کا کہنا ہے کہ ان جدید کیمروں کی مدد سے دنیا بھر میں پانی کی آلودگی کے سدباب میں کافی پیش رفت ہوگی۔

٭ مریخ پر کام یاب لینڈنگ

چاند پر قدم رکھنے کے بعد سے دنیا بھر کے خلانوردوں کی اولین ترجیح سرخ سیارے (مریخ) کو تسخیر کرنا تھا۔ اس عظیم مشن کے لیے کئی تجربات کیے گئے، لیکن 2018کے آخری چند ماہ اس مشن کے لیے بہت اچھے رہے اور ناسا کی جانب سے بھیجا گیا روبوٹ ’ان سائٹ ‘ (انٹریئر ایکپلوریشن یوزنگ سیسمک انویسٹی گیشنز گیوڈیسے اینڈ ہیٹ ٹرانسپورٹ )کام یابی کے ساتھ مریخ پر اتر گیا۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے منتظم اعلیٰ جمیز براڈسٹائن کا کہنا ہے کہ یہ خلائی تحقیق کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان سائٹ نے زمین سے بارہ ہزار تین سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے مریخ کے ہموار مقام الیسیئم پلینیشا پر لینڈ کیا جو کہ سیارے کی سطع مرتفع کے قریب ہے۔ ناسا کے مطابق اس مقام کو سرخ سیارے کی سب سے بڑی پارکنگ کہا جاتا ہے۔

ان سائٹ نے مریخ پر اترنے کے چند منٹ بعد ہی سرخ سیارے کے قدرتی مناظر کی دھندلی اور پہلی تصویر زمین پر ارسال کی جو کہ خلائی گاڑی کے اندر نصب کیمرے سے لی گئی تھی۔ جمیز کے مطابق انسائٹ کے سیارے پر لینڈ کرنے کی وجہ سے اڑنے والی گرد کے نتیجے میں پہلی تصویر زیادہ واضح نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریخ پر خلائی گاڑیوں کی لینڈنگ کے ماضی کے تجربات کی وجہ سے ان سائٹ کے حوالے سے تشویش پائی جارہی تھی کیوںکہ یہ 2012 کے بعد مریخ پر اترنے والا پہلا روبوٹ تھا۔ لینڈ کرتے وقت انسائٹ نے ہر مرحلے کی تفصیلات زمین پر بھیجیں۔ اس کی رفتار کے بارے میں جیمز کا کہنا ہے کہ ان سائٹ کو مریخ کے انتہائی سرد موسم میں اپنی بقا کے لیے اپنے سولر پینلز کھولنے کے لیے مکمل طور پر توانائی پیدا کرنے والے نظام کو چلانا ہوگا۔ ماضی کے برعکس اس بار سرخ سیارے پر بھیجے جانے والے روبوٹ انسائٹ کے ساتھ بریف کیس سائز کے دو مصنوعی سیارے بھی مریخ بھیجے گئے ہیں۔

انسائٹ کو رواں سال امریکی ریاست کیلے فورنیا کے ہوائی اڈے سے مریخ کے سفر پر بھیجا گیا تھا۔ اِن سائٹ نے جس جگہ لینڈ کیا ہے وہ مریخ کے شمال میں موجود میدانی علاقے اور جنوب میں واقع سطح مرتفع کے درمیان کی سطح پر گیل کریٹر کے نزدیک ہے، جہاں ناسا کا خلائی جہازلینڈ روور کیوروسٹی بھی تحقیق میں مصروف ہے۔ انسائٹ کو اپنے آلات کی مکمل تنصیب میں دو ماہ کا عرصہ لگے گا، یہ سب سے پہلے اپنا ایک بازو انتہائی احتیاط کے ساتھ سیسمو میٹرز کو سیارے کی سطح پر رکھے گا جس سے سطح کے نیچے موجود تہہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں گی۔ انسائٹ سرخ سیارے کے ارضیاتی طور پر فعال ہونے کی جانچ بھی کرے گا۔ اس مقصد کے لیے انسائٹ پر ایچ پی 3 نام کا ایک آلہ نصب کیا گیا ہے ۔ یہ روبوٹ اس بات کی بھی تحقیق کرے گا کہ آیا مریخ کا اندرونی ڈھانچا زمین کے اندرونی ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں، اور سرخ سیارے کے اندرونی ڈھانچے سے کتنی توانائی خارج کی جارہی ہے۔

٭ سینسنگ سٹی

گوگل کی ذیلی کمپنی الفا بیٹ نے کینیڈین شہر ٹورنٹو کے مضافات میں ایک ایسا ڈیجیٹل شہر بسانے کے پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے، جہاں بسنے والے اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے مستفید ہو سکیں گے۔ امریکی شہر نیویارک میں واقع الفا بییٹ کی سائیڈ واک لیب میں کینیڈین حکومت کے اشتراک سے اس ہائی ٹیک منصوبے Quayside پر کام کیا جا رہا ہے ۔ دنیا کے پہلے ڈیجیٹل سینسنگ شہر کے منصوبے کی سربراہی کرنے والے سائنس داں رٹ اگر والا کا کہنا ہے کہ اس پورے شہر کو جدید سینسرز سے آراستہ کیا جائے گا جو ہر لمحے ، لوگوں کی سرگرمیوں سے لے کر ہوا اور شور کی آلودگی تک کو مانیٹر کریں گی۔ تمام گاڑیاں خود مختار اور یکساں طور پر سب کے لیے ہوں گی۔ ڈاک کی ترسیل سے گھر کے کام کاج تک کے افعال روبوٹ سر انجام دیں گے۔ پورے شہر میں پھیلے سینسرز اور جدید تیکنیکی آلات کی بدولت سینسنگ سٹی میں رہنے والا ہر فرد جب، جس وقت چاہے اپنی مطلوبہ خدمت گھر بیٹھے حاصل کر سکے گا۔

 ٭شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا جہاز

طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے گزشتہ سال اگست میں Zephyr S HAPS کے نام سے شمسی توانائی سے چلنے والا جہاز کی کام یاب پرواز کی۔ اس جہاز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ شمسی توانائی سے چلنے والے دیگر جہازوں کے برعکس رات میں بھی سفر کرسکتا ہے۔ امریکی ریاست ایری زونا سے اڑان بھرنے والے اس جہاز نے آزمائشی پرواز میں ستر ہزار فٹ بلندی تک ہموار پرواز کی ۔ سورج کی روشنی سے چلنے سے والے اس جہاز کے پروں کا پھیلاؤ 82فٹ ہے جس پر 165پاؤنڈ وزنی سولر پینلز لگائے گئیں ہیں۔ بوئنگ کے ترجمان کے مطابق جدید پاور منیجمنٹ سسٹم کی بدولت یہ خراب موسم میں بھی بیٹری کو گرم ہونے سے محفوظ رکھتا ہے جس سے اس کی چارجنگ زیادہ دیر تک چلتی ہے۔

٭ انسانی جذبات کی پہچان کرنے والا روبوٹ

’’ہیلو، میرا نام پیپر ہے۔ میں ایک انسانی روبوٹ ہوں۔ میری عمر چار سال ہے۔ میں آپ کو اشیاء اور دیگر خدمات کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرسکتی ہوں۔‘‘ یہ بات کسی انسان نے نہیں بلکہ سڈنی کی یونیورسٹی میں ہونے والی آئیڈیاز 2018میں پیش کیے گئے دنیا کے پہلے انسانی جذبات کی شناخت کرنے والے روبوٹ ’پیپر‘ نے کی۔ اس روبوٹ کے موجد ڈاکٹر عمر مبین اور منیب احمد کے مطابق انسانی جذبات کو سمجھ کر اس کے مطابق رد عمل دینے والے اس روبوٹ کی تیاری کا مقصد انسانوں اور روبوٹ کے درمیان روابط کو بہتر بنانا اور اس ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پیپر‘ ایک عام انسان کی طرح دوسرے انسانوں کی طرح بات چیت کرنے، چلنے پھرنے اور لوگوں کے جذبات کے مطابق رد عمل ظاہر کرنے کی اہل ہے ۔

اس وقت جنوبی کوریا، جاپان کے علاوہ انسانی جذبات کی پہچان کرنے والے روبوٹ کی تیاری میں آسٹریلیا میں بھی کافی کام کیا جا رہا ہے۔ پیپر کو ہوائی اڈے، بینک، شاپنگ سینٹرز اور دیگر ایسے مقامات پر کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں پبلک ڈیلنگ ضروری ہو۔

The post ایجادات ؛ خلا کی اوج سے سمندر کی کھوج تک دنیا بھر میں سال گذشتہ میں ہونی والی چند اہم ایجادات appeared first on ایکسپریس اردو.

جے یو آئی (ف) کا ملک بھر میں ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان

$
0
0

پشاور: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کو یکجا کرنے کے حوالے سے اپنے طور پر کوششیں کیں تاہم ان کی یہ کوششیں رنگ نہ لاسکیں جس کی وجہ سے وہ دونوں جماعتوں سے مایوس ہوگئے ہیں۔ تاہم دونوں جماعتوں سے مایوسی کے باوجود انہوں نے اپنے طور پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جس کے لیے انہوں نے 27 جنوری کوڈی آئی خان کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، ملین مارچ کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک یہ بنیادی طور پر جے یوآئی ہی کے شو تھے جس میں متحدہ مجلس عمل میں شامل دیگر پارٹیاں شریک نہیں رہیں تاہم اب نہ صرف مولانا فضل الرحمٰن نے ملک کے مختلف شہروں میں ملین مارچ منعقد کرنے کا سلسلہ آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے تو ساتھ ہی ان میں ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی شریک کرنے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ جے یوآئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے اپنے طور پر جلسوں اور مختلف تقاریب کے انعقاد سے ایم ایم اے کے ٹوٹنے کا تاثر پیدا ہو رہا تھا۔

ایم ایم اے کو متحرک کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جے یوآئی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے گی۔ تاہم قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے جمیعت علماء اسلام (ف) تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی جس کی وجہ پارٹی میں پایا جانے والا اختلاف ہے تاہم اکثریت کی رائے یہی ہے کہ جے یوآئی کو قبائلی اضلاع کے مذکورہ انتخابات سے باہر رہنے کی بجائے الیکشن کے لیے میدان میں اترنا چاہیے۔

مذکورہ گروپ کی رائے ہے کہ اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی تو اس سے نہ صرف ایم ایم اے کو دھچکہ لگے گا اور ایم ایم اے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا کیونکہ جماعت اسلامی تو ہر صورت ان اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لے گی، ساتھ ہی جے یوآئی کو یہ نقصان ہوگا کہ اس کا جو ووٹ بنک قبائلی اضلاع میں موجود ہے وہ دیگر پارٹیوں کی طرف منتقل ہو سکتا ہے جو جے یوآئی کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ہوگا جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ رائے بھی پیش کی گئی ہے کہ اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تو اسی سال صوبہ کے دیگر حصوں کی طرح ان قبائلی اضلاع میں کیونکر حصہ لے پائے گی؟

یقینی طور پر جے یوآئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مذکورہ اکثریتی گروپ کی جو رائے سامنے آئی ہے وہ زمینی حقائق کے مطابق ہے اس لیے ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی ایسی غلطی نہیں کریں گے کہ وہ میدان کسی اور کے لیے خالی چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ وہی مولانا فضل الرحمٰن ہیں جو جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے باوجود2008 ء کے عام انتخابات کے بائیکاٹ پر بھی راضی نہیں ہوئے تھے تاہم انہوں نے معاملات کوترتیب سے چلانے کے لیے بال اپنی پارٹی کی قبائلی تنظیم کے کورٹ میں پھینک دی ہے تاکہ وہ سفارش کریں کہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے اور ان کی رائے کو شرف قبولیت بخشا جائے گا۔

جماعت اسلامی کی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تنہا پرواز کی باتیں بھی اسی وجہ سے ہیں کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو خدشہ ہے کہ کہیں جے یوآئی مذکورہ انتخابات سے لاتعلقی ہی نہ اختیار کر لے اور اس لاتعلقی میں انھیں بھی شامل ہونے کا نہ کہاجائے،جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کی یہ خواہش رہی ہے کہ انھیں اپنے انتخابی نشان ترازو کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے تاکہ انھیں اپنی قوت بازو کا پتا چل سکے۔

تاہم اگر جے یوآئی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اس صورت میں امکان یہی ہے کہ جماعت اسلامی اس کے ساتھ ہی میدان میں اترے گی تاہم اس کے لیے جماعت اسلامی صرف باجوڑ پر ہی اکتفاء نہیں کرے گی بلکہ دیگر قبائلی اضلاع میں بھی بھرپور حصہ مانگے گی اور اگر جے یوآئی ، ایم ایم اے کوبہتر انداز میں چلانا اور اسی پلیٹ فارم سے قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اسے دل بڑا کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو کیک میں سے زیادہ حصہ دینا ہوگا تاکہ معاملات ٹریک پر رہیں۔

اور صرف مذہبی جماعتوں ہی میں قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے ہلچل نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت نے جس طریقے سے قبائلی اضلاع کو فوکس کر رکھا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی وزیر یا مشیر عازم قبائلی اضلاع ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی اصل کہانی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی کا حصول ہی نظر آتی ہے۔

چونکہ قبائلی اضلاع میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور تحریک انصاف جو اس وقت مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے وہ ہر صورت یہی چاہے گی کہ قبائلی اضلاع سے بھی انھیں ہی اکثریت ملے تاکہ ان کی پوزیشن مزید مستحکم بھی ہو سکے اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ان کے لیے مسائل بھی نہ بنیں،گو کہ خیبرپخونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کو پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور قبائلی اضلاع سے اگر اپوزیشن اکثریتی نشستیں جیت بھی لے تو اس سے پی ٹی آئی کی حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم اس سے قطع نظر پی ٹی آئی کی یہی کوشش ہوگی کہ مستقبل کے 145 رکنی ایوان میں بھی اسے دوتہائی اکثریت حاصل رہے۔

The post جے یو آئی (ف) کا ملک بھر میں ملین مارچ منعقد کرنے کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.

سینٹ ضمنی الیکشن؛ بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی کامیاب

$
0
0

 اسلام آباد: بلوچستان سے سردار اعظم خان موسیٰ کی وفات سے خالی ہونے والی سینٹ کی نشست بلوچستان عوامی پارٹی نے جیت لی اس نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ اُمیدوار منظور احمد کاکڑ تھے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار بی این پی کے غلام نبی مری میدان میں تھے۔65 کے ایوان میں63 ووٹ کاسٹ ہوئے (ن) لیگ کے نواب ثناء اﷲ زہری اور پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند نے ووٹ کاسٹ نہیں کئے۔

منظور احمد کاکڑ38 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ بی این پی کے غلام نبی مری کے حق میں23 ووٹ آئے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سردارحنیف موسیٰ خیل کو ایک ووٹ پڑا جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو65 کے ایوان میں 40 ارکان کی واضح اکثریت حاصل ہے نو منتخب سینیٹر منظور احمد کاکڑ کو پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے پورے کے پورے ووٹ ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت بھی بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور ان میں کسی قسم کا ختلاف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقے منظور احمد کاکڑ کی کامیابی کو وزیراعلیٰ جام کمال کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

ان حلقوں کے مطابق سینٹ کی اس نشست پر ضمنی انتخاب کے دوران یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض پارلیمانی ارکان وزیراعلیٰ جام کمال سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور اندرونی طور پر سیون کا ایک گروپ تشکیل پا چکا ہے جو کہ سینٹ کے اس ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کے مشترکہ اُمیدوار کو ووٹ نہیں دے گا؟ اور یہ افواہیں گشت کر رہی تھیں کہ بی اے پی کو اپنا اُمیدوار کامیاب کرانے میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔

اگر اس ضمنی الیکشن میں بی اے پی اپنا اُمیدوار کامیاب نہ کرا سکی تو مستقبل قریب میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے؟ لیکن یہ تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں منظور کاکڑ کی کامیابی سے دم توڑ گئیںجبکہ اس سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے نہ صرف پارٹی کے پارلیمانی گروپ بلکہ اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کئے اور انہیں ایک پیج پر رکھا یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی اتحادی جماعت اے این پی کے مضبوط اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲ کو بھی بی اے پی کے اُمیدوار منظور احمد کاکڑ کے حق میں دستبردار کروا کر ایک سیاسی اسکور کیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ضمنی انتخاب کے دوران بعض پارلیمانی جماعتوں نے سیاسی طور پر فائدہ حاصل کیا اور بعض نے سیاسی نقصان اُٹھایا ہے، خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی جو کہ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہے اور بلوچستان میں وہ اقتدار میں اہم اتحادی جماعت تصور کی جاتی ہے۔

سینٹ کے ضمنی انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی نے ایک سنجیدہ اور مضبوط سیاسی اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲکو ٹکٹ جاری کیا جو ایک قدآور سیاسی شخصیت کے مالک ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتیں ڈاکٹر عنایت اﷲ جیسی قد آور سیاسی شخصیات کو عزت و احترام دیتے ہوئے بلا مقابلہ منتخب کرتیں اور ایک اچھا اور مثبت پیغام بلوچستان سے ملک بھر کیلئے جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی کشمکش کی صورتحال میں انہیں دستبردار کروادیا گیا۔ جبکہ اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل نے سینٹ کے ضمنی الیکشن میں مرکز میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے تعاون اور حمایت نہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حمایت کے حوالے سے غور و خوص کیلئے ہنگامی سطح پر پارٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی این پی مینگل وفاق میں تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو جائے یقیناً ایسی صورت میں ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر ایک نئی بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر نے ایک ٹوئٹ کیا جس میں اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان جو کہ پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں کی حکومتی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ جام کمال بحیثیت وزیراعلیٰ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن پارٹی کی طرف توجہ نہیں دے پا رہے اس لئے انہیں پارٹی عہدے سے الگ ہو کر یہ ذمہ داری کسی اور کو دے دینی چاہیے۔اُن کے اس ٹوئٹ پر پارٹی کارکنوں نے مثبت ردعمل دیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی بعض پارٹی کارکن اور عہدیداران اُلجھ بھی پڑے۔ اخبارات میں بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ تنقید اور جواب شکوہ نے پارٹی کی اندرونی کہانی کو کھول کر رکھ دیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک طرف پارٹی کے اندر معاملات سنگین ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی بعض ارکان کے اُن سے گلے شکوے بڑھتے جا رہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ سینٹ کے ضمنی الیکشن میں دیکھنے میں آیا گو کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے فوری طور پر حالات پر قابو تو پا لیا ہے لیکن بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال وقتی ہے کیونکہ سینٹ کے ضمنی الیکشن کے بعد تبدیل ہوتا سیاسی ماحول اور اپوزیشن جماعت بی این پی مینگل کے سیاسی فیصلے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

The post سینٹ ضمنی الیکشن؛ بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی کامیاب appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن رہنماؤں کی شدید تنقید

$
0
0

 اسلام آباد: نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے نئے چیلنجز نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

اب اسے مکافات عمل کہیں یا سیاسی شطرنج کی بچھائی جانیوالی چال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور قیادت دونوں کے لئے وہی صورتحال ڈیویلپ ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو اس سے پہلے ان کی سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور ان کی قیادت کو درپیش تھی۔

ایک جانب حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کی ناکامی کا بیانیہ عوام میں تقویت پکڑ رہا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی سینئر قیادت اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ کپتان کی ٹیم کے اہم ممبران کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور کپتان کی بہن علیمہ خان کا معاملہ عدالت کے اندر اور عوامی عدالت میں موضوع بحث ہے اور عدالت میں اس معاملہ بارے اہم پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ اگرچہ بعض سیاسی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو جاتا ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔

جس میں انکے پارٹی رہنماوں یا خود وزیراعظم کی بہن کے خلاف جاری تحقیقات کے حوالے سے اثر ورسوخ یادباؤ کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے، مگر ناقدین کی جانب سے اس پر بھی حاشیہ آرائی کی جا رہی ہے اورکپتان و اس کی ٹیم پر اقربا پروری، اداروں میں مداخلت جیسے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما لیاقت جتوئی کا نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود بیرون ملک جانے کے حوالے سے بھی حکومت پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔

سُپریم کورٹ کی جانب سے اومنی کیس میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت بند گلی میں جاتی دکھائی دے رہی ہے اور اگلے چھ ماہ حکومت کیلئے انتہائی اہم ہیں اگر ان چھ ماہ میں کچھ ڈلیور نہ کر سکی تواس کے نتائج اچھے نہیں ہوںگے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت ناکام ہوتی ہے تو یہ پورے جمہوری سیٹ اپ کیلئے بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہوگا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن احتیاط سے کام لے رہی ہے اور تمام تر کمزوریوں کے باوجود حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک و احتجاج سے اجتناب کئے ہوئے ہے اور پارلیمنٹ کے اندر لڑائی لڑنے کو ترجیح دے رہی ہے اور پارلیمنٹ میں حکومت کو شدید ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے۔

اب فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملہ پر بھی حکومت ایک آزمائش سے دوچار ہے اور شائد یہی وہ صورتحال ہے جس کا ادراک کرنے کیلئے ناصحین کی جانب سے حکومت پر زوردیا جا رہا تھا کیونکہ حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر آئین سازی کر سکے اب فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملہ پر اپوزیشن کو رام کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماوں کو ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کے حلقوں سے اس معاملہ میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کی آوازیں آرہی ہیں اور ابھی تک ن لیگ کی جانب سے بھی حمایت کے واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک کی یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملہ پر مخالفت کے موقف پر قائم رہیں گی یا حکومت کی حمایت پر آمادہ ہونگی اور جس ڈیل کی باتیں وزیر ریلوے شیخ رشید کر رہے ہیں کیا اس میں کوئی صداقت ہے یا ن لیگ کے دور حکومت میں کی جانیوالی پیشگوئیوں کی مانند طوطا فال کی حیثیت رکھتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر وزیر اعظم عمران خان نے منگل کو ایک بار پھر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کو دہرایا ہے اور اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات میں کہا کہ پارلیمنٹ کو کسی کی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نے اپوزیشن کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔ یہی نہیں بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہرسال پارلیمنٹ پر ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا واک آؤٹ ظاہرکرتا ہے انہیں صرف یہی کام آتا ہے، اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ دباؤ کے حربے ہیں تاکہ این آراو لیا جا سکے جس کے ردعمل میں قائد حزب اختلاف و مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے وزیراعظم کا اپوزیشن پر این آر او سے متعلق الزام مسترد کردیا ہے۔

قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے چیمبر میں ان کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو، خورشید شاہ، نوید قمر اور شیری رحمان، ایم ایم اے کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود، مولانا واسع، اے این پی کے امیرحیدرہوتی جبکہ رانا تنویر، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، سینیٹر پرویز رشید شریک ہوئے۔ اس اہم اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال، فوجی عدالتوں میں توسیع، نیب کی کارروائیوں اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوا، تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال سے بہت سے سوالات ضرور جنم لے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کے بارے میںکھُل کر حمایت کرنے والے اب ٹریک بدل رہے ہیں بہت سے تو ٹریک بدل چکے ہیں اور جتنی شدت سے پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کی حمایت میں بولا کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ اب کپتان اور اسکی ٹیم پر تنقیدکے تیر چلارہے ہیں اور پھر سے ملک میں صدارتی نظام،آئین کی معطلی، سندھ میں جوڑ توڑ، جمہوریت کی بساط لپیٹنے سمیت طرح طرح کی افواہوں پر مبنی بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔

حکومت کے بارے میں یہ بیانیہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ کپتان کی جانب سے کمزور اور امیچور ٹیم کا انتخاب ہے اورکپتان کی ٹیم آپسی اختلافات کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہم و قومی اور داخلی و خارجی معاملات پر کپتان کی ٹیم کے سینئر ممبران کے بیانات میں تضاد دیکھنے میں آتا ہے اور پھر کپتان کی ٹیم کی صلاحیتوں پر بھی اب سوال اٹھائے جا رہے ہیں اگرچہ پانچ ماہ قبل عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی سربراہی میں اقتدار سنبھالنے والی اس حکومت کو ماضی کی غلط کاریوں یا فیصلوں کا بوجھ بھی ورثہ میں ملا ہے اور یہ ترکہ صرف برے سیاسی نظام ، جمہوریت پر گرتے ہوئے اعتماد اور سول ملٹری تعلقات کی دگرگوں صورت حال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان میں سر فہرست معاشی مسائل ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ، دوست ملکوں کی مدد کے باوجود کم ہونے میں نہیں آرہا۔

نیا پاکستان تعمیر کرنے والی حکومت ایک کروڑ نوجوانوں کو روز گار اور پچاس لاکھ غریبوں کو گھر فراہم کرنا چاہتی ہے اور وزیر اعظم عمران خان ملک کو دنیا بھر میں عزت و احترام دلوانا چاہتے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ خیرات پر چلنے والے ملک کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتے اس کے باوجود حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے عمران خان کو خالی خزانہ بھرنے اور معیشت کے انجماد کو توڑنے کیلئے دوست ملکوں سے مالی امداد مانگنا پڑی ہے۔

نئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عالمی مالیاتی ادارے سے پیکیج نہیں لے گی کیوں کہ اس طرح ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات سے براہ راست غریب آدمی متاثر ہوگا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز منی بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ عندیہ دیاہے کہ حکومت فوری طور سے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کا ارادہ نہیں رکھتی اور وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ اعلان اس بات کی عکاس کرتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی بصیر ت افروز اور دیانت دار قیادت میں پاکستانی حکومت نے دوست ملکوں سے مراعات اور مالی امداد لے کر معاشی بحران پر قابو پا لیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی دراصل آئی ایم ایف کی بجائے متبادل ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس دعوے کے ساتھ ہی جب آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لینے کے آپشن کو مستقل طور سے رد کرنیکی بجائے، ہر تھوڑے وقفے کے بعد اسے مؤخر کرنے کی بات کی جاتی ہے تو شبہات اور بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ متعدد اقتصادی ماہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس قسم کی بے یقینی ملکی معیشت کیلئے مناسب نہیں ہے کیوں کہ اس طرح نئی سرمایہ کاری اور معاشی تحرک کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔

سیاسی فرنٹ پر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے تاحیات قائد میاں نوازشریف اور انکے خاندان کے خلاف مقدمات بارے بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ نیا سال مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کیلئے خوش آئند ثابت ہو رہا ہے ایون فیلڈ کیس میں نیب کی جانب سے سُپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر اپیلیں بھی مسترد کردی گئی ہیں جو یقیناً میاں نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کیلئے ایک بڑا ریلیف ہے، اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ 21 جنوری کو نیب کی اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ عدالت میں ایک ہی دن نیب اور نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت ہوگی۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پہلے ہی سماعت کے لیے مقرر ہو چکی ہے۔

The post تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن رہنماؤں کی شدید تنقید appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھ حکومت کے خلاف سیاسی مہم میں دوبارہ تیزی آ گئی

$
0
0

 کراچی: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ حکومت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی سیاسی جماعتوں کی جو مہم سست پڑگئی تھی، اب اس میں دوبارہ تیزی آرہی ہے کیونکہ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے حکم کی اپنی توضیح کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت 20 افراد کے نام اس ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں وفاقی وزارت داخلہ نے جاری کی تھی۔

اس ای سی ایل میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری، سید مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام شامل ہیں، جن کے بارے میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملوث ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اتحادیوں کی سندھ حکومت کے خلاف مہم کیا رخ اختیار کرتی ہے کیونکہ اس مہم پر بعض ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی معاملات بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بعض اہم واقعات رونما ہوئے، جو سندھ حکومت کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے امریکی قونصل جنرل جو این ویگنر نے بلاول ہاؤس کراچی میں ملاقات کی۔ حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے صدر پیر پگارا کی زیر صدارت گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے دو روز بعد پیر پگارا نے خان گڑھ ضلع گھوٹکی جا کر جی ڈی اے کے رہنما سردار علی گوہر خان مہر سے ملاقات کی۔ حالانکہ سردار علی گوہر خان مہر دو دن قبل جی ڈی اے کے اجلاس میں بھی موجود تھے۔

سندھ اسمبلی نے صوبے میں جاری گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف اتفاق رائے سے مذمتی قرارداد منظور کر لی۔ یہ سارے واقعات وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد رونما ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے نئی صورت حال میں سندھ کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ 25 جنوری کو سندھ کا دورہ کر سکتے ہیں جبکہ ان کے دورے کی تیاری کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری 15اور 16جنوری کو سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔

امریکی قونصل جنرل جو این ویگنر کی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے، جب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو مقدمات میں جکڑنے کی پوری منصوبہ بندی کرلی ہے اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی گرفتاریوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ امریکی سفارت کاروں نے بلاول بھٹو زرداری سے ان معاملات پر ضرور بات کی ہوگی۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس ملاقات میں افغانستان کی صورت حال پر بھی بات ہوئی ہوگی کیونکہ امریکہ 17 سال بعد وہاں سے فوجی انخلاء کر رہا ہے۔ اسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ پاکستان کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت درکار ہے۔ پیپلز پارٹی افغان مسئلے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی تجویز پر اپنے تحفظات رکھتی ہے۔ اس ملاقات کے اثرات کچھ دنوں کے بعد ظاہر ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف پیر پگارا کی زیر صدارت جی ڈی اے کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس وفاقی کابینہ کی طرف سے پیپلز پارٹی کے بعض قائدین کے نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کے فیصلہ کے بعد ہوا۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن ایک بار پھر سرگرم ہوگئی ہے لیکن اس اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ تحریک انصاف اور جی ڈی اے کی دیگر جماعتیں مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر پگارا کو سید مراد علی شاہ کے خاندان سے ایک خاص نسبت ہے۔ اجلاس میں اگرچہ سرور علی گوہر خان مہر نے شرکت کی تھی لیکن پیر پگارا دو دن بعد ان سے ملنے خان گڑھ چلے گئے۔

شاید پیر پگارا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سندھ میں تبدیلی کی صورت میں سردار علی گوہر خان مہر وزیراعلیٰ کے لیے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سید مراد علی شاہ کی حکومت کو گرانے میں تحریک انصاف اور دیگر اتحادی خود کوشش کریں۔ پیر پگارا اس کوشش کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ساتھ رہیں گے۔ سردار علی گوہر خان مہر کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن کی ان کوششوں کے دوران سندھ اسمبلی نے گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف وفاقی حکومت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ یہ وفاقی حکومت کے لیے لمحہ فکر ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان سندھ کے دورے میں کیا کرتے ہیں۔ یہ ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔ جی ڈی اے نے انہیں کہا ہے کہ وہ خان گڑھ میں سردار علی گوہر خان مہر کی رہائش گاہ پر وزیراعظم سے ملاقات کریں گے۔ سندھ حکومت کے خلاف اس مہم کے باوجود وفاقی حکومت کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ خصوصاً فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے نوڈیرو میں ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی، جس میں فوجی عدالتوں کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ افغانستان کا مسئلہ اور دیگر خارجی اور داخلی مسائل بھی ہیں۔ ان کے پیش نظر وفاقی حکومت سندھ حکومت کے خلاف کہاں تک جاسکتی ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

The post سندھ حکومت کے خلاف سیاسی مہم میں دوبارہ تیزی آ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

سردارعثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کی صلح سے سازشی ٹولہ پریشان

$
0
0

 لاہور: عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تو سب سے بڑا سوال پنجاب کی وزارت اعلی کے حوالے سے ذہنوں میں تھا کیونکہ یہ تو واضح تھا کہ عمران خان ہی وزیر اعظم ہوں گے لیکن ملک کے سب سے بڑے اور اہم ترین صوبے میں،جہاں مسلسل 10 سال تک شہباز شریف جیسے فعال اور متحرک وزیر اعلی نے کام کیا ہو وہاں تحریک انصاف کے وزیر اعلی کا انتخاب ہر ایک کیلئے دلچسپی اور سسپنس کاباعث تھا۔

25  جولائی کی شب انتخابات کے عمومی نتائج سامنے آنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سب سے بڑا اور ہارٹ فیورٹ نام عبدالعلیم خان کا سامنے آیا بالخصوص جب جہانگیر ترین کے ہمراہ عبدالعلیم خان نے پنجاب میں حکومت سازی کیلئے نمبر گیم پوری کرنے کے مشن کا آغاز کیا تو تمام سیاسی و عوامی حلقوں کو یقین ہو چلا تھا کہ پنجاب کے آئندہ وزیر اعلی عبدالعلیم خان ہوں گے،اس تاثر کو فوقیت اور مضبوطی اس لئے بھی ملی کیونکہ تحریک انصاف کی دھڑے بندی میں علیم خان کے مخالف گروپ کے رہنما شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور نے بھی ان کی وزارت اعلی کیلئے حمایت کا اعلان کردیا تھا۔

تین، چار روز تک عبدالعلیم خان کا’’اکلوتا‘‘ نام ہی ہر جانب چھایا رہا لیکن پھر اچانک’’غیر مرئی‘‘ کھیل شروع کرتے ہوئے نیب کو علیم خان کے خلاف متحرک کردیا گیا،گزشتہ ڈیڑھ دو برس میں نیب کی جانب سے کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی کی رفتار کا جائزہ لیں تو نیب نے اتنی سپیڈ تو نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے خلاف نہیں پکڑی جتنا کہ جولائی اور اگست 2018 کے دوران عبدالعلیم خان کے خلاف دکھائی دی، یوں معلوم ہوتا تھا کہ نیب کو ماسوائے عبدالعلیم خان کو طلب کرنے کے، مزید کسی کیس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، عبدالعلیم خان کا یہ موقف کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ کچھ’’اپنوں‘‘ اور ’’غیروں‘‘ نے وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر کرنے کیلئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اس وقت نیب نوٹسز کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کا نام بھی علیم خان کا راستہ روکے جانے والوں میں سامنے آیا تو وہیں پارٹی کے اندر شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اسد عمر، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، نعیم الحق، شیریں مزاری سمیت مخصوص گروپ نے بھی جلتی پر خوب تیل ڈالا۔ دلچسپ امر یہ کہ جیسے ہی عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سردار عثمان بزدار کے نام کا اعلان کیا تو نیب کی عبدالعلیم خان کے خلاف تمام پھرتیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ پنجاب میں 10برس تک میاں شہباز شریف کی مضبوط حکومت قائم رہی ہے۔ شریف برادران کے خلاف عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ بہت منتقم مزاج ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

عبدالعلیم خان کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے تقریباً 8 برس سے زائد وقت ہو چکا ہے،اس دوران انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے مقابلہ میں تحریک انصاف کو تنظیمی طور پر مضبوط حریف کے طور پر سامنے لانے میں غیر معمولی کام کیا اور اس کے بعد این اے 122 کے تاریخ ساز ضمنی الیکشن میں عبدالعلیم خان نے مسلم لیگ(ن) کو ناکوں چنے چبوا دیئے، یہ ضمنی الیکشن ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی معرکہ قرار پا چکا ہے اور اس الیکشن میں ن لیگ اس قدر خوفزدہ ہو گئی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کو پوری حکومتی طاقت اور وسائل کے ساتھ این اے 122 کے سیاسی اکھاڑے میں اترنا پڑا لیکن اس سب کے باوجود عبدالعلیم خان وہ الیکشن جیت گئے تھے لیکن ووٹوں کی منتقلی کی جادوئی چھڑی سے سردار ایاز صادق کو 1600 ووٹوں سے فاتح قرار دلایا گیا۔

عبدالعلیم خان کی ان تمام ’’گستاخیوں‘‘ کے بعد جس قدر ن لیگ کو ان پر غصہ تھا اگر علیم خان کے خلاف شکایات میں ایک فیصد بھی سچائی ہوتی تو شریف برادران نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور اینٹی کرپشن کے ذریعے علیم خان کو نشان عبرت بنا دیتے لیکن دس برس میں ن لیگ ماسوائے بیان بازی کے علیم خان کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکی۔ سردار عثمان بزدار وزیر اعلی بنے تو اینٹی علیم خان گروپ نے انہیں ڈرانا شروع کردیا کہ کسی بھی وقت عبدالعلیم خان آپ کیلئے ’’خطرہ‘‘ بن سکتا ہے، اینٹی گروپ نے عثمان بزدار کے کانوں میں منافقت اور سازش کا بھرپور زہر اگلا جس کی وجہ سے چار ماہ تک سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے اور خلیج حائل رہی۔

عمران خان ہمیشہ سے عبدالعلیم خان کے ورکنگ سٹائل کو پسند کرتے ہیں اسی لئے پنجاب میں امور حکومت میں علیم خان کا گزشتہ چار ماہ کے دوران اہم کردار رہا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کو بلا کر ان سے کہا ہے کہ پنجاب میں ملکر چلیں اور تحریک انصاف کی حکومت کو کامیاب بنائیں، عمران خان نے سردار عثمان بزدار کو بھی کہا کہ وہ سنی سنائی باتوں پر کان مت دھریں اور علیم خان کے ساتھ ملکر کام کریں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے عثمان بزدار اور علیم خان ایک ساتھ دیکھے جا رہے ہیں اور اجلاسوں میں بھی ان کے درمیان خوشگوار تعلقات کی چمک دمک دیکھی جا سکتی ہے۔ سردار عثمان بزدار کو اب یہ خوف دل سے نکال دینا چاہیے کہ کوئی ان کی جگہ وزیر اعلی آ سکتا ہے، عمران خان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اب یقین کیا جا سکتا ہے کہ جب تک تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت ہے وزیر اعلی کے عہدے پر تبدیلی نہیں آئے گی لہٰذا اب خوف اور عدم تحفظ کے خول سے باہر نکل کر سردار عثمان بزدار کو بھرپور طریقہ سے کام کرنا چاہیے، عبدالعلیم خان کی صورت میں انہیں بہترین ساتھی میسر ہے اور اب نئے تعلقات بننے کے بعد ایکدوسرے پر اعتماد اور یقین کو بڑھا کر دونوں شخصیات عمران خان اور عوام کیلئے بہت فائدہ مند نتائج فراہم کر سکتی ہیں۔

The post سردارعثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کی صلح سے سازشی ٹولہ پریشان appeared first on ایکسپریس اردو.

کم کھانا طویل، صحت مند زندگی کا راز

$
0
0

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر آپ لمبی زندگی جینا چاہتے ہیں تو جان بوجھ کر کم کھانا شروع کردیں۔

کیونکہ کم خوراکی سیبڑھتی عمرکے جسم پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ آسٹریلیا کی ’نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی‘ کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کم کھانا صحت مند اور لمبی زندگی گزارنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرح جسمانی نظام مسلسل مرمت ہوتا رہتا ہے خاص طور پر کم حراروں پر مشتمل خوراک طویل اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔

تحقیقی مطالعے کی سربراہ، ماہر حیاتیات ڈاکٹر مارگو ایڈلر کہتی ہیں کہ کم کھانا جسم کے خلیات کو نقصان دہ تباہی اور کینسر کے خطرے سے بچاتا ہے اور صحت مند بڑھاپے کا سبب بنتا ہے۔ ممکن ہے کہ خوراک کی مقدار میں کمی کا خیال بہت سے لوگوں کو اچھا نہ لگے لیکن، ان کی تحقیق کا نتیجہ آگے چل کر اینٹی ایجنگ ادویات بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خوراک کی مقدار میں کمی سے خلیات کی ری سائیکلنگ کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور جسم کے مرمت کا منظم عمل بھی زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے جس سے انسان کی طویل اور صحت مند زندگی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ایڈلر کا کہنا ہے کہ ارتقائی ایام میں خوراک کی کمی کے باعث جانوروں کو پیدائش کے عمل کے دوران اسی طریقے سے مدد ملتی تھی اور ان کا جسم قدرتی ری سائیکلنگ کے تحت خلیات میں ذخیرہ شدہ غزائی اجزاء  کو دوبارہ استعمال کرتا تھا۔ انسانی صحت کے نقطہ نظر سے ممکن ہے کہ توسیع عمر صرف غذائی پابندی کا ایک ضمنی اثر ہو لیکن خلیات کے ری سائیکلنگ کے نظام اور اس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے جس میں لمبی اور طویل زندگی کا راز پوشیدہ ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  اوٹافوجیautophagy کے نامی عمل اچانک کسی وجہ سے ماں کی نال سے غذائی اجزا کی فراہمی سے محروم ہونے والے نوزائیدہ بچوں کی بقا کے لیے اس وقت بہت ضروری ہوتا ہے جب وہ دودھ پینے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس بیچ کے عرصے میں بچے اپنے ہی خلیات میں ذخیرہ شدہ غذائیت سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

’جنرنل بائیو ایسیس‘ میں وہ لکھتی ہیں کہ عام طور پریہ نظریہ ارتقائی دور میں قحط کے دوران بقا کی حد تک قابل قبول سمجھا جاتا ہے جبکہ تجربہ گاہ میں ایسے شواہد حاصل ہو چکے ہیں کہ غذائی پابندی توسیع عمر میں مددگار ہے جبکہ سائنسدان بہت عرصے سے یہ بات جانتے ہیں کہ انتہائی محدود خوراک کھانے سے کینسر میں کمی آسکتی ہے اور ذیابیطس کے مریضوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

ایسے لوگ جو محدود حراروں والی غذا کے ساتھ ورزش کرتے ہیں وہ ہائی بلد پریشر، ذیا بیطس، کولیسٹرول اور دل کی شرح کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ عوامل دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ لیکن، کم خوراکی کے ضمنی اثرات میں ڈپریشن ، چکر آنا یا ہڈیوں کی کمزوری کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔

سال 2012کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کم حراروں والی غذا عمر بڑھنے کی رفتار کو سست بنادیتی ہیاسی طرح ایک اور مطالعے کے نتیجے میں کہا گیا ہے کہ 20 سے 30 فیصد لمبی زندگی جینے کے لیے خوراک کی مقدار کا 40 فیصد کم کرنا ضروری ہے۔

The post کم کھانا طویل، صحت مند زندگی کا راز appeared first on ایکسپریس اردو.


زیادہ پیدل چلنے والے تادیر زندہ رہتے ہیں

$
0
0

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ زیادہ پیدل چلتے ہیں وہ ان لوگوں کی نسبت زیادہ لمبی زندگی پاتے ہیں جو کم پیدل چلتے ہیں۔

دل کے امراض سے متعلق ایک امریکی ادارہ تجویز کرتا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنٹے پیدل چلنا چاہیئے۔ اس سے قبل کی جانے والی تحقیقوں میں یہ امر سامنے آیا تھا کہ ہفتے میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ پیدل چل کر یا مختلف ورزشوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر مزید فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پال ولیمز اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے جو ریاست کیلی فورنیا میں لورنس برکلے نیشنل لیبارٹری سے منسلک ہیں اور کہتے ہیں’ایک اہم سوال یہ ہے کہ کتنا پیدل چلنا صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟‘ اس جواب کے لیے پال ولیمز نے 1998 سے لے کر 2001 تک 35 سے 55 برس کی عمر کے 42,000 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ان تمام افراد نے پیدل چلنے کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ پیدل چلنے والے ان افراد نے اپنی روز مرہ زندگی، صحت اور خوراک کی عادتوں کے بارے میں سوالات کے جوابات دئیے۔

ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں 23 فیصد افراد نے روزانہ پیدل چلنے کی روٹین کو نہیں اپنایا جبکہ 16فیصد نے ہفتے میں ڈھائی گھنٹے پیدل چلنے کی روٹین کو اپنایا جبکہ بقیہ افراد نے اس سے بھی زیادہ جسمانی ورزش کی۔ تحقیق کے مطابق ساڑھے نو سالوں میں تحقیق میں حصہ لینے والے 2,448 لوگ ہلاک ہوئے جو کہ کل تعداد کا 6 فیصد بنتا ہے۔ تحقیق میں شامل ان افراد میں جنہوں نے ہفتے میں ڈھائی گھنٹے تک پیدل چلنے کی روٹین کو اپنایا، موت کی شرح 30 فیصد کم تھی۔

تحقیق میں شامل جن لوگوں نے زیادہ پیدل چلنے کی روٹین اپنائی، ان میں فالج، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے امکانات کئی گنا کم ہو گئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیدل چلنے کے بہت فوائد ہیں اور انسان روزانہ پیدل چلنے کی عادت اپنا کر صحت کے بہت سے مسائل کو درست کر سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیدل چلنے والے نہ صرف زیادہ صحتمند رہتے ہیں بلکہ زیادہ چست بھی رہتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ایسے معمر حضرات جو اپنے روز مرہ معمول میں روزانہ کئی گھنٹے پیدل چلتے ہیں، اْن میں فالج کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے ایسے ساتھی جنہوں نے پیدل چلنے کو اپنے معمول کا حصہ نہیں بنایا، اْن میں فالج کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بہت سے تحقیق کرنے والوں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ فالج اور پیدل چلنے کی رفتار اور فاصلے کے درمیان کیا ربط ہے۔ انگلستان کی یونیورسٹی کالج، لندن سے تعلق رکھنے والی باربرا جے جیفریز نے بتایا کہ، ’فالج ایک خطرناک مرض ہے اور موت یا انسان کے معذور ہو جانے کا ایک بڑا سبب ہے۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے طریقے ڈھونڈے جائیں جن سے فالج کو دور رکھا جائے۔ خاص طور پر ان بڑی عمر کے افراد کے لیے جن کا فالج میں مبتلا ہونے کا امکان ہے‘۔

باربرا جے جیفریز اور ان کے ساتھیوں نے ان تحقیقی جائزوں کے ڈیٹا کا مطالعہ کیا جو کئی دہائیاں قبل شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کا آغاز 1978ء میں کیا گیا اور یہ 1980ء  تک جاری رہی۔ جبکہ 1998ء  سے 2000ء  تک جب یہ حضرات اپنی عمر میں 60ء  اور 70 کے پیٹے میں تھے، ایک بار پھر ان کی صحت کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کا تعین کیا گیا کہ انہوں نے اپنے روزانہ کے معمول میں ورزش کو کتنی جگہ دی ہے۔

اس تحقیق میں 2,995 مردوں نے حصہ لیا جنہیں اْس وقت (جب سروے کیا گیا) تک دل کی کوئی بیماری یا فالج کا حملہ نہیں ہوا تھا جبکہ تحقیق کرنے والوںنے11 سال بعد دوبارہ ان سے رابطہ کرکے ان کی صحت کا حال نوٹ کیا۔جب 11 سال بعد فالو اپ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جو مرد زیادہ دیر تک پیدل چلتے ہیں، ان میں فالج کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

ایک اورِحیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ وہ مرد جو روزانہ تین گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک پیدل چلتے ہیں ان میں فالج میں مبتلا ہونے کا رسک ان لوگوں کی نسبت دو تہائی کم تھا جو بہت کم پیدل چلتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان جوانی میں متحرک رہے تو بڑھاپے میں بھی چاق و چوبند اور صحتمند رہتا ہے اور اس پر زیادہ بیماریاں حملہ آور نہیں ہوتیں۔ سٹاک ہوم میں 60 برس سے زیادہ عمر کے تقریباً 3,900 مردوں اور عورتوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جوانی میں متحرک رہنے والے لوگ بڑھاپے میں بھی چاق و چوبند رہتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ صحت کے لیے جتنا اچھا متحرک رہنا ہے اتنا ہی بیٹھے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ایلن ایکبوم بیک کہتی ہیں کہ یہ بات تو ہمیں 60 برس سے معلوم ہے کہ ورزش کرنا یا پیدل چلنا اور دوڑنا ہمارے دل کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن ایلن یہ بھی کہتی ہیں کہ ماضی میں کی جانے والی تحقیقوں میں صرف ورزش کرنے کی ہی بات کی جاتی تھی اور اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا تھا کہ روزمرہ امور میں دیگر سرگرمیوں سے بھی دل کو مضبوط و توانا رکھا جا سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اگر انسان روزانہ ورزش کرے بھی تو باقی کے پورے دن کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا وہ پورا دن کرسی پر بیٹھا رہا یا پھر کسی ایسی سرگرمی کا حصہ لیا جس میں انسانی جسم کو کچھ کرنے کا موقع ملے۔ جیسا کہ باغبانی، گاڑی کی صفائی ستھرائی، مچھلی کا شکار وغیرہ وغیرہ۔

تحقیق میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ وہ افراد جو روزمرہ کی بنیاد پر زیادہ متحرک تھے اور اس بات کے قطع ِ نظر کہ وہ ورزش کرتے تھے یا نہیں، ان کا وزن نارمل تھا اور ان کا کولیسٹرول لیول بھی ٹھیک تھا۔تحقیق کا حصہ بننے والے افراد کی روزمرہ زندگی کا جائزہ ساڑھے بارہ سال تک لیا گیا۔ اس دوران تقریباً 500 افراد کو زندگی میں پہلی مرتبہ دل کا دورہ یا فالج کا حملہ ہوا۔ ان میں سے 400 لوگ ایسی کسی بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے ورزش نہیں کی، ان میں دل کی بیماریوں کے زیادہ امکانات پائے گئے۔

ماہرین کے مطابق جب انسان بیٹھا ہوتا ہے تو اس کے مسلز سکڑتے نہیں جس کی وجہ سے خون کا دباؤ کم ہو جاتا ہے اور انسانی جسم بہت سے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا جس میں خون سے گلوکوز جذب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسم اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ متحرک رہے اور بڑی عمر میں صحت کا دارومدار بہت حد تک ان عوامل میں ہے کہ انسان اپنی جوانی میں کتنا سرگرم اور متحرک رہتا ہے۔

The post زیادہ پیدل چلنے والے تادیر زندہ رہتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

امّت ِ مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل

$
0
0

بہ حیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اسلام دینِ کامل ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات وہ نسخۂ کیمیا ہیں، جن سے مردہ دلوں کو حیات ِجاوداں نصیب ہوئی اور پستیوں میں گری ہوئی انسانیت کو جینے کا شعور اور عروج ملا۔ رسول اﷲ ﷺ کا خطبۂ حجۃ الوداع یقینا منشور انسانیت ہے جس میں آپؐ نے ظلم کے تمام ضابطے، رسومات اور طبقاتی تفریق کو ختم کرکے عدل و انصاف، مساوات، امن اور انسانیت کو بنیادی حقوق عطا فرمائے۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ’’ جاہلیت کی تمام اقدار آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے ایمان کی بنیاد پر سب مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا اور تاریخ انسانی میں منفرد مواخات مدینہ قائم فرما کر ایثار اور قربانی کی لازوال داستانیں رقم فرمائیں۔ قرآن پاک میں اﷲ کریم نے آپ ﷺ کو نعمت قرار دیتے ہوئے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے اور تفرقے سے بچنے کا حکم دیا ہے، مفہوم: ’’اور اﷲ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اﷲ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اﷲ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔‘‘ (سورہ العمران )

فرقہ واریت زمانۂ جاہلیت کی ہو یا موجودہ دور کی، اﷲ کریم نے امام الانبیاء ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں اس سے نجات کا سامان رکھا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اہل ایمان کی اس انداز سے تربیت فرمائی تھی کہ وہ آپس میں ریشم کی طرح نرم اور دشمن کے مقابلے میں فولادی تھے، اس صفت کو قرآن پاک میں بھی اﷲ کریم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ ‘‘ گویا پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ان کے دکھ درد سانجھے ہیں۔

نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تم ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کے کسی ایک عضو میں بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اس کے شریک حال ہو جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری، مسلم ) گویا مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے فاصلوں کو یکسر ختم کرکے امت واحدہ کے تصور میں سب کو یک جان کردیا۔

اسی کی عملی صورت خلفائے راشدین کے ادوار میں بہ درجہ اتم نظر آتی ہے۔ ال غرض رسول اﷲ ﷺ نے 23 سال محنت کے بعد معاشرے میں پھیلی طبقاتی تفریق، ذہنی انحطاط اور فکری جمود کو یکسر ختم کرکے ایک خوب صورت معاشرے، عالم گیر برادری اور ہمہ گیر اخوت کو تشکیل فرمایا۔ احترام انسانیت، امن و امان اور قوانین کی پاس داری کو رواج دے کر انسانی مال، جان، عزت اور آبرو کو تحفظ فراہم کیا۔ جس کے حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’جو کسی کو قتل کرے، جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، اور جو شخص کسی کی جان بچا لے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچا لی۔‘‘ (المائدہ) جب کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (النساء)

ہر انسان کو جینے کا حق حاصل ہے۔ معاشرے میں بڑا مرتبہ اسے حاصل ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’ تم میں سب سے زیادہ اﷲ کا وہ شخص محبوب ہے جو سب سے زیادہ متقی، پرہیزگار اور محتاط ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے معاشرتی برائیوں زنا، چوری، عصمت دری، جھوٹ، غیبت، بغض و عداوت کی بیخ کنی فرما کر پاکیزگی کو رواج عطا فرمایا۔ جب کہ سود، قمار، جوا اور سٹے بازی کا خاتمہ کرکے انسانیت کو پاکیزہ ذرائع آمدن اور نظام معیشت عطا کیا۔ تعلیم کو فروغ دے کر جہالت کے اندھیروں کو رفع کیا۔ انسانوں کے مختلف طبقات کے حقوق اور فرائض سے آگاہی دے کر جہاں بانی عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرہ عفت و عصمت میں اس انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ اﷲ کریم نے قرآن پاک میں ان کے کردار اور اعزاز کو ہمیشہ کے لیے محفوظ اور معیار بنایا۔

رسول امین، خاتم المرسلین اور پیغمبر اسلام ﷺ کا اسوۂ حسنہ زندگی کے تمام شعبوں کو جامع ہے اور مزید یہ کہ اﷲ کریم نے اسے محفوظ بنانے کے علاوہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کے ذریعے دین اسلام اپنے کمال، انسانی ضروریات کی تکمیل اور قیامت تک راہ نمائی کی صلاحیت قرآن پاک کے اس ارشاد کی روشنی میں حاصل کر چکا ہے، مفہوم: ’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کردیا۔‘‘ (المائدہ) جب تک مسلمانوں نے اﷲ کے فرمان کے مطابق: ’’اور رسول ﷺ تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اُس سے رُک جاؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بے شک اﷲ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر) جب تک امت مسلمہ اس اصول پر قائم رہی، غلبہ اور استحکام اس کا مقدر رہا لیکن جب سے اسوۂ رسول اﷲ ﷺ کو ہم نے پس پشت ڈالا اس وقت سے مغلوبیت، محکومیت اور غلامی نے ہمارے در پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

زوال اور پستی کے موجودہ دور میں مسلم حکم ران اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے مغرب اور اغیار کی طرف دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے مسائل حل ہونے کے بہ جائے ان مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ آسمانی حقائق اس سے یک سر مختلف ہیں۔ وحی الہی ہمیں گنبد خضریٰ کے مکین کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا رشتہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے جتنا مضبوط ہوگا، ہمارے لیے زندگی میں اسی قدر آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ہمارے مسائل حل ہوں گے اور غلبہ و استحکام اور فتح ہمارا مقدر ہوگی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی اور انفرادی طور پر صرف اور صرف رسول اﷲ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر اس دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں۔

The post امّت ِ مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل appeared first on ایکسپریس اردو.

مال، صحت اور سکون

$
0
0

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صرف اپنے در کا محتاج بنائے اور لوگوں کی محتاجی سے بچائے۔ اﷲ تعالیٰ سے بہترین زندگی اور آخرت کی دعا مانگنی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے مال، صحت اور سکون بہت بڑی نعمتیں ہیں۔

جس کو اﷲ کی نعمتیں میسر ہوں، اسے چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے تاکہ اﷲ تعالیٰ ان میں مزید اضافہ اور برکتیں عطا فرماتے رہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسلام کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے یا اسلام کی غلط تشریحات کا اثر کہ ہم اﷲ کی بعض نعمتوں کے بارے منفی سوچ رکھتے ہیں، مثلاً ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتاہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو وہ دنیا دار ہے اور جس کے پاس نہ ہو وہ دین دار ہے، حالاں کہ مطلقا ً یہ تقسیم درست نہیں۔ بل کہ اگر مال و دولت کے ساتھ دل میں خوف خدا موجود ہے تو یہی مال و دولت اس کے حق میں اﷲ کی رحمت بن جاتا ہے جس سے وہ بہت سے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے قابل ہوتا ہے اور اﷲ کو راضی کرکے دنیا و آخرت میں کام یاب ہوتا ہے تو ایسا مال دنیا نہیں بل کہ دین ہے۔

اگر مال و دولت کی کثرت نہیں بل کہ معمولی مقدار میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ عبادات میں رکاوٹ بنتا ہے تو یہ دنیا ہے۔ جس کی احادیث مبارکہ میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ گویا مال کا دار و مدار عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ عملی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق ہے تو مال کی کثرت باعث رحمت ہے اور اگر عملی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہے تو مال کی قلت بھی باعث عذاب ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے مال و دولت بُری چیز نہیں اور متّقی کے لیے مال و دولت سے بڑھ کر صحت و تن درستی زیادہ اچھی چیز ہے اور دل کی خوشی (سکون و چین) بھی اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ (مسند احمد )

مال و دولت کے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکھنی چاہییں۔

٭ مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرایع آمدن سے بچیں، جیسا کہ فراڈ ، دھوکا، سود، جھوٹ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقے۔ یاد رکھیں مال تو ناجائز اور حرام ذرایع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اﷲ کی نافرمانی کی وجہ سے اُس کی ناراضی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں، لڑائی جھگڑے، بے چینی و بے سکونی، افسردگی اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے۔ حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کے ہوتے ہوئے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اﷲ انہیں قبول نہیں فرماتے۔

٭ مال کے ساتھ جن حقوق اﷲ کا تعلق ہے ان کو بروقت ضرور ادا کریں۔ واجبی صدقات جیسا کہ زکوٰۃ، قربانی، عشر، صدقہ فطر وغیرہ ہیں، ان کو اپنے وقت پر خوشی کے ساتھ ادا کریں۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے حقوق ادا نہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادا نہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہوجائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔

٭ مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائی بروقت کریں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ والدین، بہن بھائی، قریبی رشتے دار، ہمسائے اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم، اﷲ کی خوش نودی اور رضا کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے۔

٭ مال کو فضول خرچی سے بچائیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا گناہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نام و نمود اور شہرت کے حصول کے لیے مال کو ضایع کیا جاتا ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غم کا دونوں میں فضول خرچی دیکھنے کو ملتی ہے، خصوصاً شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ضرورت سے زاید اتنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ حالاں کہ اسلام ہمیں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ غیر شرعی رسوم و رواج اور باہمی تفاخر نے ہمارے پورے معاشرے کو بُری طرح اجاڑ ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں مسلسل بے سکونی اور غیر اطمینانی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور یہ اس وقت تک نہیں تھمے گی جب تک اعتدال کو اپنا نہیں لیا جائے گا۔

مال کے بعد صحت کا درجہ ہے کہ خوف خدا رکھنے والے انسان کے لیے مال سے بھی بڑھ کر صحت و تن درستی زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ صحت کے دنوں میں جس سکون و اطمینان کے ساتھ کام کیے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ بیماری کے دنوں میں انسان ویسے کام نہیں کر سکتا۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی ادائی میں صحت کو بہت دخل ہے۔ متقی شخص کو مال سے زیادہ اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے ایسی غذائیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہوں، جو جسم میں بیماریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں ان کے بہ جائے سادہ اور اچھی غذا کا استعمال کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ چست اور تن کو درست رکھنے کے لیے ورزش کرنا چاہیے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ صحت اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صحت کا شکر یہی ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی سے دور رہے اور اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے احکامات پر عمل کرنے میں لگائے۔ لیکن ہماری کوتاہی ہے کہ ہم صحت کو اپنا کمال سمجھ کر اﷲ کی نافرمانی میں لگ جاتے ہیں۔

دل دماغ کا پر سکون ہونا بھی اﷲ کی ایک نعمت ہے۔ دنیاوی تفکرات، رنج و غم، حزن و ملال، افسردگی اور الجھنوں سے محفوظ ہونا بھی نعمت ہے جو ہر انسان کو نصیب نہیں بل کہ یہ نعمت اسے ملتی ہے جو اﷲ کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہر شخص پرسکون رہنا چاہتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سکون و اطمینان کے حصول کا وہ طریقہ نہیں اپناتا جو اﷲ کریم نے مقرر فرمایا ہے یعنی ذکر اﷲ۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت ، عافیت و تن درستی اور سکون و اطمینان جیسی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور فقر و تنگ دستی، بیماریوں اور پریشانیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین

The post مال، صحت اور سکون appeared first on ایکسپریس اردو.

صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ امریکی پالیسی ہے

$
0
0

تعارف :

محمد سعید شیخ اپنی انسان دوستی، جذبۂ خدمت اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا میں خاص مقام اور شہرت رکھتے ہیں۔ گذشتہ بیس سال کے دوران وہ امریکا ہی نہیں پاکستان میں بھی قدرتی آفات کے متاثرین کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔

امریکی عوام کے لیے بلاامتیاز سماجی خدمات انجام دینے پر انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’پریزیڈینٹ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ  2018‘ بھی دیا گیا۔ سعید شیخ کو یہ ایوارڈ ایک پروقار تقریب میں صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے سابق امریکی صدر جارج بش جونیئر نے پیش کیا۔ صدارتی ایوارڈہرمشکل گھڑی میں رضاکارانہ طور پر غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے نمایاں افراد کو دیا جاتا ہے۔ ایوارڈتقریب میں جارج بش جونیئر نے سعید شیخ کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ایوارڈ کے ساتھ وصول ہونے والے تہنیتی خط میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بھی سیعد شیخ کے امریکی عوام کے لیے کیے گئے فلاحی کاموں کو سراہتے ہوئے زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ان سے اظہارتشکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی عظیم خدمات سے مصیبت زدہ افراد کی امداد کرکے امریکی جذبۂ حب الوطنی کی حقیقی عکاسی کی ہے۔جس سے نہ صرف امریکی عوام کے تعاون اور اعتماد کے رشتوںکو استحکام ملا ہے بلکہ دورحاضر کے بعض عظیم چیلینجوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملی ہے۔

یاد رہے کہ محمد سعیدشیخ نے پاکستان میں سیلاب، تھر میں قحط کی صورت حال، بلوچستان میں زلزلے اور اوکلوہاما میں طوفان کے موقع پر35 تنظیموں کے اشتراک سے ایک مشترکہ امدادی فنڈ قائم کیا تھا، جس کے تحت 10ہزار سے زائد افراد کے لیے 3لاکھ ڈالر جمع کیے گئے تھے۔ محمد سعید شیخ اس وقت ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹیز ایسوسی ایشن کے صدر  کے عہدے پر فائز ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں گذشتہ دنوںپاکستان کا دورہ کیا۔ محمد سعید شیخ کے ساتھ کی گئی گفت گو کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

محمد سعید شیخ: حیدرآباد میری جائے پیدائش ہے، جہاں میں نے گریجویشن تک تعلیم مکمل کی۔ 1980 میں ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم جے سی ای (جونیئر چیمبر انٹر نیشنل) سے وابستہ ہوا۔ اس تنظیم کا ایک مقصد نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کرنا ہے۔ یہ این جی او نوجوانوں کی تربیت اور ڈیولپمنٹ پاکستان اور بیرون ممالک مختلف ورک شاپ کا انعقاد کراتی ہے۔ 1982 مجھے سندھ کی نمائندگی کرنے کے لیے نیشنل یوتھ ڈیولپمنٹ بورڈ کی رکنیت دی گی، اس وقت میں اس این جی او میں سندھ کی نمائندگی کرنے والا پہلا پاکستانی تھا۔

1992میں مجھے جے سی آئی پاکستان چیپٹر کا صدر بنا دیا گیا۔بعد ازاں مجھے مزید تعلیم کے لیے امریکا جانے کا موقع ملا۔ امریکا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے پاکستان امریکا چیمبر آف کامرس میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے میں نے 2005 میں پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی، لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہروں کے ایوان صنعت اور تجارت کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہمارے ساتھ ایک میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ سائن کیا۔ ہم نے امریکا میں پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ہیوسٹن میں ’جیم اینڈ جیولری‘ نمائش کے انعقاد کے لیے کافی کام کیا، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے اپنے مسائل کی وجہ سے وہ نمائش نہیں ہوسکی۔

ایکسپریس: ایک کام یاب کاروباری شخصیت کو کیسے محروم طبقات خصوصاً اپنے ہم وطنوں کی خدمت کا خیال آیا۔ فلاحی کاموں کی طرف مائل ہونے کی وجہ آپ کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بنا یا کسی سے متاثر ہو کر یہ کام شروع کیا؟

محمد سعید شیخ: اسی کے عشرے میں سندھ کے طالب علموں کے پاس دو ہی راستے ہوتے تھے کہ یا تو وہ کسی سیاسی تنظیم کا حصہ بن جائیں یا کسی سماجی یا فلاحی کام کرنے والی تنظیم میں شامل ہوجائیں۔ دل میں کہیں فلاحی خدمت کا جذبہ موجود تھا تبھی غیر سرکاری تنظیم جونیئر چیمبر انٹرنیشنل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، یہ میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا، جس نے میرے اندر موجود انسانوں کی خدمت کے جذبے کو مہمیز کیا، مجھے اپنے پراجیکٹس پر محنت کی بدولت ترقی ملی کی، امریکی کانگریس نے میرے  فلاحی کاموں کو سراہا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے کراچی چیمبر آف کامرس کے لیے کوامریکا کے سب سے بڑے چیمبر آف کامرس سے منسلک کیا۔

ایکسپریس: ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی ایسوسی ایشن کے تحت آپ نے صحرائے تھر اور کراچی کے کچھ علاقوں میں واٹر فلٹر پلانٹ لگائے ہیں، کیا آپ کا دائرہ کار صرف سندھ تک ہی محدود ہے یا آپ اپنے فلاحی کاموں کو پاکستان کے دیگر شہروں تک وسعت دیں گے؟

محمد سعید شیخ : سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ’ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی ایسوسی ایشن‘ کیا ہے۔ سسٹر سٹی ایسوسی ایشن کا تصور سب سے پہلے 1950میں امریکی صدر آئزن ہاور نے پیش کیا۔ سسٹر سٹی ایسوسی ایشن بنانے کا مقصد ایک ملک کی شہری حکومت کا کسی دوسرے ملک کی شہری حکومت کے ساتھ آفیشل تعلق قائم کرنا تھا، جس کے تحت دونوں شہروں کے درمیان تعلیم، صحت، تجارت، فلاحی کاموں اور ثقافت کو فروغ دیا جاسکے۔ اس وقت ہیوسٹن کے 18سسٹر سٹیز ہیں، جن میں سے پانچ شہروں کراچی، استنبول، باکو، ابوظبی اور بصرہ کا تعلق اسلامی ممالک سے ہے، جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، بنگلادیشن اور افغانستان کے کسی بھی شہر کو سسٹر سٹی کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ کراچی کو سسٹر سٹی بنانے کے لیے ہمیں دو سال جدوجہد کرنی پڑی۔

کراچی کو سسٹر سٹی بنانے کے بعد ہم نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں امدادی کارروائیاں کیں، نارتھ ناظم آباد اور تھر میں واٹر فلٹریشن پلانٹ تعمیر کیے، جہاں تک پورے پاکستان میں کام کی بات ہے تو بنیادی طور پر یہ تعلق ایک شہر سے دوسرے شہر کے درمیان ہوتا ہے، چوںکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے اور تھر میں پانی کی ضرورت تھی، اس لیے ہم نے انسانی ہم دردی کو مد نظر رکھتے ہوئے عطیات جمع کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیلپنگ ہینڈز کے ساتھ مل کر تھر میں پانی کے کنویں ، اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے پراجیکٹ کیے۔

ایکسپریس: آپ گذشتہ دو دہائیوں سے امریکا میں امدادی اور فلاحی سرگرمیاں سر انجام دے رہے ہیں، کیا آپ سے کبھی رنگ و نسل کی پر امتیاز روا رکھا گیا؟

محمد سعید شیخ: دیکھیے جب بھی وہاں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تب تھوڑا بہت خوف و ہراس پھیلتا ہے اور اکا دکا واقعات رونما بھی ہوتے ہیں، لیکن میں آج بھی یہی کہوں گا کہ دنیا میں امریکا سے اچھی ’مواقع کی سرزمین‘ کہیں اور نہیں۔ میں نے وہاں تعلیم حاصل کی، خود کو معاشی طور پر مستحکم کیا، میرے بچوں نے امریکا کے ممتاز تعلیمی اداروں سے سو فی صد اسکالر شپ پر بلاامتیاز تعلیم حاصل کی، انہیں کبھی قومیت، رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انفرادی طور پر تو سیاہ فام اور سفید فاموں کے درمیان واقعات پیش آتے رہتے ہیں، لیکن اس بنیاد پر کبھی کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں، کہ ایک امیگرینٹ ( تارک وطن) ہوتے ہوئے بھی مجھے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ایکسپریس: آپ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں، ایک امریکی شہری کی حیثیت سے آپ کس صدر کے دور حکومت کو سب سے بہترین سمجھتے ہیں؟

محمد سعید شیخ : اگر معاشی آسودگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بل کلنٹن کا دور حکومت بہت اچھا تھا، اس دور میں امریکا معاشی خوش حالی کے عروج پر تھا، اس کے بعد آنے والے صدور جارج بش جونیئر اور باراک اوباما کا دور بھی امریکا کے لیے اچھا رہا، صدر اوباما کے دور میں تارکین وطن کو بہت سہولیات دی گئیں، اوباما اور کلنٹن کے دور حکومت میں اقلیتیں خود کو بہت محفوظ تصور کرتی تھی اور حکومتی پالیسیوں کو سراہتی بھی تھیں۔

ایکسپریس : موجودہ امریکی صدر کو مسلمانوں خصوصاً پاکستان کا سب سے بڑا مخالف گردانا جاتا ہے، لیکن اسی صدر کی جانب سے آپ کو اعلٰی امریکی ایوارڈ ’ لائف ٹائم اچیومنٹ صدارتی ایوارڈ 2018‘ سے نوازا گیا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

محمد سعید شیخ: میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا کہ امریکا میں نسلی امتیاز نہ ہونے کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں۔ میں نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں اسٹیٹ فنانسر کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، یہ ایک اعلٰی عہدہ ہے۔ ہم نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے لیے دو ملین ڈالر سے زاید فنڈز جمع کیے ، میں ڈیمو کریٹ ہوں، اور صدر ٹرمپ ری پبلیکن، اس کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے مجھے یہ ایوارڈ دیا گیا۔ میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والاپہلا پاکستانی اور پہلا مسلمان ہوں، اور یہ ایوار ڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر آپ ایمان داری سے اپنا کام سر انجام دیں تو پھر آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ایکسپریس: آپ اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں، اور غالباً پہلے پاکستانی ہی ہیں جن کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی اچھے کلمات ادا کیے۔

محمد سعید شیخ : اس بارے میں بس یہی کہوں گا کہ امریکا کی خوب صورتی یہی ہے کہ وہاں کوئی تعصب نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے جو بھی بات کرتے ہیں وہ امریکی پالیسی ہے۔ ان کے بیانات امریکا، وائٹ ہاؤس اور ان کے دورصدارت کی پالیسی کا حصہ ہیں اور ہر امریکی صدر ان پالیسیوں کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ ورنہ اگر صدر ٹرمپ تعصب اور مذہبی مخالفت کو مدنظر رکھتے تو شاید میری جگہ یہ ایوارڈ کسی امریکی یا عیسائی کو دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ایکسپریس: آ پ پاکستان اور امریکا دونوں ممالک میں فلاحی کام کررہے ہیں، اس دوران سب سے زیادہ رکاوٹیں، مشکلات کہاں پیش آتی ہیں؟

محمد سعید شیخ: بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو وہاں ہماری کوششوں پر پانی پھیر دیتے ہیں اور امدادی کام اتنے موثر طریقے سے نہیں ہوپاتا جس طرح ہونا چاہیے۔ جب سندھ میں سیلاب آیا تو ہم نے وہاں سے امدادی سامان کا کنٹینر کراچی بھیجا، لیکن یہاں کسٹم سے تین ماہ تک اسے کلیئر ہی نہیں کیا گیا اور امدادی سامان مستحقین تک بروقت نہیں پہنچ سکا۔ آپ خود  اندازہ لگا لیں کہ کیا حالات ہیں۔ کہہ سُن کر تین ماہ بعد ہمارا کنٹینر بندرگاہ سے کلیئر ہوا اور پھر ہیلپنگ ہینڈز نے اس میں سے خراب ہوجانے والی اشیاء کو نکال کر سامان کی دوبارہ پیکنگ کی اور یوں وہ سامان مستحقین تک پہنچا۔ آپ کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں یہاں ادویات اور بڑے سرجیکل آلات نہیں بھیج سکتے۔ اس سارے کام میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، ہم اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز جمع کرتے ہیں، اس کے علاوہ امریکا میں بڑی بڑی فلاحی تنظیمیں ہیں جنہوں کافی فنڈنگ ملتی ہے، لیکن اس طرح کے مسائل میں امدادی اور فلاحی کاموں میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ وہاں پاکستان امریکا چیمبر آف کامرس کے صدر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، کیا وہاں پاکستانیوں کی کاروباری سرگرمیوں کے فضا سازگار ہے؟

محمد سعید شیخ: امریکا میں رہنے والے پاکستانی تو سکون اور اطمینان کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں اور انہیںکوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن پاکستان اور امریکا کی تجارتی سرگرمیوں میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔دیگر ملکوں کے ساتھ کاروباری مسابقت کی وجہ سے پاکستان کی امریکا برآمدات پر کافی فرق پڑا ہے۔ اَسّی اور نَوّے کی دہائی میں پاکستان امریکا تجارتی تعلقات بہت اچھے تھے، لیکن اب پاکستانی ایکسپورٹرز کو چین، ملائیشیا اور دیگر ممالک کی وجہ سخت مسابقت کا سامنا ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں، اور امریکا مخالف رجحانات بھی تجارتی تعلقات کی بہتری میں حائل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت پاکستانی قیادت سے نالاں ہے کہ جی اتنے ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود انہیں متوقع نتائج نہیں مل سکے۔

پاکستان آنے سے قبل ایک تھینکس گیونگ پارٹی میں میری ملاقات کانگریس کی رکن شیلاجیکسن لی سے ہوئی اور جب انہوں میرے پاکستان جانے کا پتا چلا تو انہوں نے مجھ سے کہا ’محمد! اپنے لوگوں، اپنی لیڈر شپ کو بتاؤ کہ ہم نے ان کے لیے کیا کیا ہے، اگر وہ ہماری رقم واپس نہیں کرسکتے تو کم از کم ہماری اس کاوش کو سراہیں تو سہی۔‘‘ حالاںکہ شیلا جیکسن پاکستان کی بہت بڑی حمایتی ہے ، وہ وہاں رہنے والے ہم پاکستانیوں کی بیک بون ہے۔ امریکا میں رہنے والے پاکستانی ڈیمو کریٹس کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں۔ جب پاکستانیوں کی حمایتی اور اہم عہدے پر فائز رکن کانگریس یہ بات کہہ رہی ہے تو پھر یقیناً کوئی بات ہے جس کی بنیاد پر اس نے یہ کہا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے عوام امریکا کے مخالف ہیں، یہاں امریکا کے خلاف کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں ہیں۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں پاکستان میں تعلیم و صحت جیسے شعبوں میں کن اقدامات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ ہو۔

محمد سعید شیخ : تعلیم، صحت اور پانی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہمارے اس دورۂ پاکستان کے تین مقاصد ہیں، اول، ہم پاکستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہیں کیوں کہ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی اتنے خراب نہیں رہے جتنے اس وقت ہیں، تعلقات کی بہتری میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لابنگ کرکے امریکی سینیٹرز، ارکان کانگریس، فوج اور وائٹ ہاؤس میں موجود اعلیٰ عہدے داروں کی پاکستان کے بارے میں قائم غلط تصور کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان موجود سردمہری کو ختم کرکے ، سیاسی، فوجی اور تجارتی تعلقات میں بہتری لائی جاسکے۔ دوم، ہم نے ہیوسٹن کراچی سسٹر ایسو سی ایشن کے پلیٹ فارم سے امریکا میں تجارتی وفود کو مدعو کیا ہے، ہم امریکا میں پاکستانی ثقافت کے فروغ کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

ہم گذشتہ ایک سال سے میئر کراچی کے ساتھ اس منصوبے پر کام کر رہے تھے، اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسی سال میئر کراچی ایک تجارتی وفد کے ساتھ امریکا کا دورہ کریں گے ، اس کی تاریخ کا اعلان بھی اسی ماہ ہوجائے گا۔ میئر کے دورۂ امریکا کے دوران کراچی بندرگاہ اور اور ہیوسٹن کی بندرگاہ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے جائیں گے اور کراچی چیمبر آف کامرس کا ایک وفد اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ سوم، ہم اور تعلیم صحت کے شعبے میں شہری حکومت کے ساتھ مل کر آئی بی اے کو ایک اسٹوڈینٹ ایکسچینج پروگرام سے منسلک کر رہے ہیں، جس کے تحت دونوں ممالک کے طلبہ ایک ایک سمسٹر امریکا اور پاکستان میں تعلیم حاصل کریں گے۔ ہم جامعہ کراچی کے شعبہ جرنلزم میں بہتری کے لیے ہیوسٹین کراچی ایجوکیشنل کوریڈور کے نام سے ایک منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں ہم نے میئر کراچی سے شہری حکومت کے ماتحت اسپتالوں کے لیے ادویات کے کنٹینر بھجوانے کی بات کی ہے، تاکہ لوگوں کی طبی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ کراچی اور ہیوسٹن پورٹ کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے ایک معاہدہ بھی سائن کیا جائے گا۔

The post صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ امریکی پالیسی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

$
0
0

کسی کی جو عادات، اطوار، افعال، اعمال اور عوارض صرف دوسروں کے لیے پریشانی اور اذیت کا باعث بنتی ہیں ان میں سرفہرست ہیں ’’خَرّاٹے‘‘، جو رات کے سناٹے میں سماعت پر زناٹے دار چانٹے کی طرح لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے ۔۔۔۔ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ ’’سُلائی‘‘ کا۔

ایک برطانوی کمپنی نے اس مسئلے کا حل ’’انسدادِ خراٹا تکیہ‘‘ بنا کر کیا ہے۔ اس تکیہ ساز کمپنی کے مطابق یہ تکیہ سر اور گردن کو اس طرح سہارے گا کہ سونے والا خراٹے لیے بغیر سکون کی نیند سو سکے گا۔

امید ہے کہ یہ تکیہ میاں بیوی کے درمیان خراٹوں کے باعث ہونے والا تنازعہ ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ عموماً مرد خراٹے لے کر اپنی شریک حیات کی نیند کی باربار وفات کا سبب بنتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دن بھر چُپ سادھے شوہر کو نیند ہی میں بولنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ شکوک وشبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ بعض خاوندحضرات خراٹے نہیں لیتے بلکہ دن بھر کی سمع خراشی کا انتقام لیتے ہیں۔ یوں وہ ’’دشمن‘‘ پر شب خون مار کر اس کی نیند کا خون کردیتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ خراٹے باز شوہر کی بیوی۔۔۔۔ہمیں تو آج بھی ’’خَرخَر‘‘ سے اُن کی جاگنا ہوگا۔

یہی قسمت ہماری ہے‘‘ گاکر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے، اور شوہر صاحب صبح اُٹھ کر معصومیت سے پوچھ رہے ہوتے ہیں’’کیوں دور دور ریندے ہو حضور میرے کولوں، میں نوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں۔‘‘ ایک شاعرہ نے اسی دُکھ کا گِلہ یوں کیا تھا، ’’ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا‘‘ دوسرا مصرعہ یقیناً یہ تھا ’’خَرّاٹے تم لو تا بہ سحر، تم کو اس سے کیا‘‘ جسے انھوں نے خانگی لحاظ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’بجتے رہیں ہَواؤں سے دَر تم کو اس سے کیا‘‘ کردیا۔ اب ظاہر ہے ہواؤں سے بجتے در تو بند کرکے چین کی نیند سویا جاسکتا ہے، مگر خراٹے روکنے کے لیے جس پر تکیہ ہو اُس کے منہہ پر تکیہ رکھ دینا دانش مندی نہیں ہوگی۔

ہمارے دوست بابوبھائی کا قول ہے کہ وہ میاں بیوی صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہیں اور ان ہی میں حقیقی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جو رات بھر ایک ہی آہنگ میں خراٹے لیتے ہیں، صحیح معنوں میں وہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ’’یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا۔‘‘ اس قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو جوڑے باہمی ہم آہنگی چاہتے ہیں یا تو ان میں کے شوہر برطانوی کمپنی کا یہ تکیہ لے لیں یا بیویاں خراٹے لینا شروع کردیں۔ ہماری نزدیک دوسرا نسخہ مفت ہے اس لیے اسی پر عمل کرنا مناسب رہے گا، یوں خراٹوں کے ساتھ ازدواجی زندگی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھے گی۔

The post ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا appeared first on ایکسپریس اردو.

دل چُرانے کی ’’رپٹ‘‘ درج کیوں نہ ہو؟

$
0
0

دل چوری ہونے کی شکایت تو بہت پُرانی ہے، لیکن پہلی بار ایک عاشق اس چوری کی رپورٹ درج کرانے اور مسروقہ دل واپس دلوانے کے لیے پولیس اسٹیشن جاپہنچا۔

یہ واقعہ بھارتی شہر ناگ پور میں پیش آیا، جہاں ایک نوجوان اس ’’وقوعے‘‘ کی شکایت لے کر تھانے میں وارد ہوا اور پولیس کو بتایا کہ ایک لڑکی نے اس کا دل چُرالیا ہے، سو پولیس مالِ مسروقہ برآمد کرے۔ پولیس والوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ بھارتی قانون میں کوئی ایسی شق نہیں جس کے تحت یہ مقدمہ درج کیا جاسکے۔

ہمیں اس نوجوان سے پوری ہم دردی ہے، بتائیے بھلا، کتنی ناانصافی ہے، دل جیسی شئے کی چوری قانون کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی! حالاں کہ یہ کوئی معمولی چوری نہیںِ، اس چوری کے بعد جیب اور اکاؤنٹ پر ماری جانے والی ڈکیتیوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ شادی کے بعد ہونے والی لوٹ مار پر بھی ختم نہیں ہوتا۔

پہلے دل چوری کیا جاتا ہے، پھر ملنے کے بہانے اچھے ہوٹلوں میں کھانے، ہر ملاقات پر تحفے لانے، موبائل فون کا بیلنس ڈلوانے، سال گرہ، ویلنٹائن ڈے اور تہواروں پر تحائف کی مَد میں پیسے نکلوانے کا چکر چلتا ہے تو چلے ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد والدین کو گھر لانے پر اصرار کیا جاتا ہے، یوں معاملہ دل چرانے والی کو اپنے گھر لے جانے تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جو بات چوری سے شروع ہوئی تھی وہ پوری سینہ زوری کے ساتھ اغواء برائے تاوان کی واردات بن جاتی ہے، جس میں اغواء کنندہ مغوی کے گھر میں رہتے ہوئے ساری عمر تاوان وصول کرتی ہے۔

اب آپ ہی بتائیے، دل کی چوری جیسے سنگین جُرم کی ’’رَپٹ‘‘ درج ہونی چاہیے یا نہیں؟

تاہم جہاں تک دل پھینک حضرات کا تعلق ہے وہ دل کھوجانے کی شکایت تو درج کراسکتے ہیں چوری کی نہیں۔ اگر پتا بھی ہو کہ گائے کی اوجھڑی کی طرح سینے سے نکال کر پھینکا گیا دل کس نے اٹھایا ہے، تب بھی اسے جُرم قرار دیا جاسکتا ہے نہ برآمدگی کا مطالبہ ممکن ہے، دل اٹھانے والا تو صاف کہہ دے گا ’’ہم نے تو اللہ کی زمین سے پایا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ دل آپ کا ہے، کیا اس پر چیسز نمبر درج ہے؟‘‘

الزام کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے ’’ہم نے ایک عدد دل بقرعید کی آلائش سمجھ کر اٹھایا تھا، جو میونسپلٹی کی کوڑا گاڑی کے حوالے کردیا۔‘‘ لو جی، کرلو جو کرنا۔ مرزاغالب کو بھی ایسے ہی ذہین محبوب کا سامنا تھا، چناں چہ فرماتے ہیں،’’کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا۔‘‘ غالب سے ان کے محبوب نے کہا ہوگا،’’حضرت! اپنا دل سینے میں سنبھال کر رکھیے، اگر کہیں گرگراگیا اور ہمیں مل گیا تو ہم اس کا سالن پکالیں گے یا میڈیکل کالج کے کسی طالب علم کو تجربے کے لیے دے دیں گے، پھر ہم پر چوری کا الزام مت لگائیے گا، نہ روتے رہیے گا کہ۔۔۔۔نہ جانے کہاں دل کھوگیا، بتائے دیتے ہیں۔‘‘ اس انتباہ کے باوجود ہوا یہ کہ:

غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گُم کیا ہوا پایا
اب نہ جانے غالب نے اپنا گم کردہ دل ہانڈی میں پڑا پایا یا کسی طب کے طالب علم کی میز پر دھرا پایا، مگر ان کے بہ قول نتیجہ یہ نکلا کہ:

عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

ناگ پور کے نوجوان اور ماضی کے عاشق اسداللہ خاں کی داستان سے کُل ملا کے یہ سبق ملتا ہے کہ دل نہ چوری ہونے دیا جائے نہ بال اور ناخن سمجھ کر پھینکا جائے، بہت سنبھال کر رکھا جائے، اور آنکھوں کی ہر واردات کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرلیا جائے کہ ہے کہ نہیں ہے۔

The post دل چُرانے کی ’’رپٹ‘‘ درج کیوں نہ ہو؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

جو کچھ نہ بن سکے انھیں ’’پائلٹ‘‘ بنادیا

$
0
0

’’لاجواب سروس بہ کمال لوگ‘‘ کے سلوگن میں ’’لاجواب سروس‘‘ تو خیر ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن ’’بہ کمال لوگ‘‘ سمجھ میں نہیں آتا تھا، اب جاکے سمجھے جب سول ایوی ایشن اتھارٹی نے عدالت عظمیٰ کے تین رُکنی بینچ کے سامنے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کے سات پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی پائی گئیں، جن میں سے پانچ نے میٹرک بھی نہیں کیا ہے۔

چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم کیا جانے والا یہ بینچ قومی ایئرلائن کے پائلٹس اور دیگر اسٹاف کی تعلیمی اسناد کی تصدیق سے متعلق معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔

یہ تو آپ نے بہت سُنا ہوگا کہ ’’جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘ اب ثابت ہوا ہے کہ جو میٹرک نہیں کرتے وہ کرشمہ کر دکھاتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ’’جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنادیا‘‘، اسی طرح نان میٹرک حضرات جو کچھ نہ بن سکے قومی ایئرلائن نے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے انھیں پائلٹ بنادیا۔

ذرا سوچیے، اگر کسی مسافر کو دوران پرواز یہ خبر ملی ہو کہ قومی ایئرلائن کے پائلٹوں میں ایسے بھی ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں، تو اسے آس پاس ہر طرف موت دکھائی دینے لگی ہوگی، اور دل کی وہ حالت ہوئی ہوگی کہ منزل پر پہنچتے ہی بائی پاس کا مرحلہ آگیا ہوگا۔ ایسے کم زور دل خواتین وحضرات اب ہر فضائی سفر سے پہلے دعا مانگیں گے ’’خُدایا! یہ سفر ہمیں راس ہو، کپتان کم ازکم میٹرک پاس ہو۔‘‘

لگتا ہے کہ جعلی اسناد والے اور نان میٹر پائلٹوں سے جہاز اُڑوانے کے کام یاب تجربے کو دنیا بھر کی ایئرلائنز خوشی خوشی اپنائیں گی، یوں انھیں ’’سستے‘‘ اور پرواز کے لیے فوری طور پر تیار کپتان میسر آسکیں گے۔ کسی کو بہ طور کپتان بھرتی کرنے کے لیے اس طرح کے سوالات کیے جائیں گے:

’’بچپن میں کاغذ کے جہاز بنا کے اُڑائے ہیں؟‘‘

’’کبھی رکشہ چلایا ہے؟‘‘

’’چنگچی کتنی بار چلا چکے ہو؟‘‘

’’کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل چلائی ہے؟‘‘

’’ٹرک ڈرائیونگ کا تجربہ ہے؟‘‘

جواب اثبات میں آنے پر نوکری پَکی، اور جہاز کی ’’چابی‘‘ دے کر کہہ دیا جائے گا،’’چَل اُڑ جا رے پنچھی۔‘‘

The post جو کچھ نہ بن سکے انھیں ’’پائلٹ‘‘ بنادیا appeared first on ایکسپریس اردو.


بھارتی ’’ پھینکنالوجی‘‘

$
0
0

لمبی لمبی چھوڑنا تو سُنا تھا، لیکن بھارتی ’’سائنس دانوں‘‘ کے انکشافات سُن کر پتا چلا کہ دور بلکہ بہت دور کی بھی چھوڑی جاتی ہے۔ یہ انکشافات گزشتہ دنوں ہونے والی انڈین سائنس کانگریس میں کیے گئے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے ہندو اساطیری مواد سے ’’ثبوت‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیم سیل تحقیق کو ہزاروں سال قبل بھارت میں دریافت کیا گیا تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندواساطیری داستان ’’مہابھارت‘‘ کے مطابق ایک خاتون کی 100اولادیں تھیں، اب ظاہر ہے یہ سینچری اسٹیم سیل ٹیکنالوجی اور ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی ہی کی مدد سے پوری کی گئی۔

مزید فرمایا ’’رامائن‘‘ میں ایک ایسے راجا کا ذکر آیا ہے جس کے پاس چوبیس اقسام کے ہوائی جہاز تھے اور جس نے آج کے سری لنکا میں ہوائی اَڈوں کا جال بچھایا ہوا تھا۔ ایک اور ’’سائنس داں‘‘ نے آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن کے تصورات کو غلط قرار دیتے ہوئے ارشاد کیا کہ کششِ ثقل کی لہروں کو ’’نریندرا مودی ویوز (Waves)‘‘ کا نام دیا جانا چاہے۔ کانفرنس میں یہ بھی منکشف ہوا کہ وشنو دیوتا گائڈڈ میزائل استعمال کرتے تھے، جسے ’’وشنو چکر‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔

یہ انکشافات پڑھ کر آپ خنداں ہوں، حیران ہوں نہ پریشان، دراصل یہ ’’ہندوتوا سائنس‘‘ ہے جو مودی سرکار کے دور میں متعارف ہوئی ہے۔ خود مودی جی کہہ چکے ہیں کہ کاسمیٹک سرجری سب سے پہلے بھارت میں ہزاروں سال قبل کی گئی۔ یہ کارنامہ گنیش دیوتا کی صورت میں سامنے آیا، جن کے انسانی دھڑ پر ہاتھی کا سر لگایا گیا۔

ہمیں مودی جی اور ان کی ہندوتوا سوچ والے ان سائنس دانوں کے دعوؤں پر کوئی اعتراض نہیں، وہ ان دعوؤں کو شوق سے اپنے تعلیمی نصاب میں بھی شامل کریں اور دنیا کے سامنے سینہ ٹھونک کر کہیں ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ بس ہماری ان سے اتنی ’’بِنتی‘‘ ہے کہ سرکار! ہزاروں سال پُرانی ان ایجادات کو بھارتی ٹیکنالوجی کے بجائے اتنی لمبی لمبی پھینکنے کی وجہ سے اسے ’’بھارتی پھینکنالوجی‘‘ کا نام دیا جائے۔

ہم سوچ رہے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کرلینے والی قوم جس کے ’’کَنے‘‘ ہوائی جہازوں سے لے کر گائڈڈ میزائل تک سب کچھ تھا، وہ مسلمان فاتحین کے ہاتھوں زیر کیسے ہوگئی؟ ہمارے خیال میں ہوا یہ کہ بھارتیوں کے پُرکھے اسٹیم سیل، ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی، ہوائی جہاز، گائڈڈ میزائل اور کاسمیٹک سرجری جیسی ایجادات ہی میں لگے رہے اور تیر کمان، تلوار، نیزے، ڈھال، بندوق اور توپ وغیرہ نہ بنا پائے، چناں چہ ان ہتھیاروں سے مسلح ’’مُسلے‘‘ گُھس بیٹھ کر بھارت پر راج کرنے لگے۔

ممکن ہے یہ ہوا ہو کہ ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی کے ذریعے مائیں سو سو بچے جنم دینے لگی ہوں اور باپ ساری سائنس ٹیکنالوجی بھول کر بچے پالنے میں لگ گئے ہوں، یوں رفتہ رفتہ بھارت اپنی سائنسی ترقی سے محروم ہوگیا۔ کاش بھارتی اسٹیم سیل اور ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی ہی بچ جاتی تو کتنے ہی لوگ کترینہ کیف، کرینہ کپور، پریانکا چوپڑا اور دیپیکا پاڈوکون کی ماتاؤں سے فرمائش کر رہے ہوتے ’’ایسی پندرہ بیس اور ہوسکتی ہیں؟‘‘

The post بھارتی ’’ پھینکنالوجی‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں معیاری علمی تحقیق کا فقدان

$
0
0

ڈاکٹر زاہد یوسف گجرات یونیورسٹی کے سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔

علمی تحقیقی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف رہنا اُن کا امتیازی وصف ہے۔ قلیل عرصہ میں سنٹر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی اعلیٰ تعلیمی کلاسز کا اجراء اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے اسکالرزکی نمایاں تعداد ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے فروغ میں گہری دلچسپی اور عملی کوششوں کا مظہر ہے لیکن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر وہ عموماً ایک شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں تحقیق کا ماحول نہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے ہاں اکثر ریسرچ اسکالرز ڈگری کے حصول کے لئے تحقیق کے نام پر خانہ پری کرتے ہیں جس کی وجہ سے معیاری تحقیق نہیں ہو پاتی اور ڈگری کے حصول کے بعد تو بہت سے محققین اپنے آپ کوتحقیق سے دور ہی رکھتے ہیں جس سے مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔ یوںا سکالرز کی اس طرح کی تحقیق اور طرز عمل سے ہمارے معاشرے کو کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا۔

ڈاکٹر زاہد یوسف کا حقیقت پر مبنی یہ شکوہ کسی المیہ سے کم نہیں۔ آج ہمارے یہاں یونیورسٹیز کی سطح پر ریسرچ کے شعبے میں تن آسانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اکثر طالب علم اور کچھ استاد دونوں ہی محنت کرنے سے تائب نظر آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں کاپی پیسٹ کا کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ سرقہ بازی کو جانچنے کے طریقوں کو اس کمال سے دغا دیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یوں اصل اور نقل کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے اور ایسا صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ بس ڈگری مل جائے۔

سیکھنے اور سمجھنے کا اب اکثر کو شغف نہیں۔ اسی طرح ریسرچ کی تعلیم پر مامور اساتذہ میں سے بھی چند پڑھاتے اور سکھاتے کچھ نہیں بس ان کا اتنا فرمان ہوتا ہے کہ یہ کر لیں۔ کیسے کرلیں؟ اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ یعنی بتانے، سمجھانے اور سکھانے کی بجائے ریسرچ اسکالر کو چڑیا کے اُس بچے کی طرح گھونسلے سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے کہ یہ اُڑنا خود ہی سیکھے گا۔ سو وہ اپنے تئیں جس طرح اور جیسا اڑنا سیکھتا ہے وہ پھرسب کے سامنے ہے۔ لیکن قصور وار شاید طالب علم اور اساتذہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں کیونکہ جب طالب علموں سے بات کریں تو جن جن مسائل کی وہ نشاندہی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ درست ہیں اور جب اساتذہ سے بات کریں تو وہ حق بجانب لگتے ہیں تو پھر اصل قصور وار کون ہے اور بہتری کیسے ممکن ہے؟ یہ سوالات بذاتِ خود تحقیق طلب ہیں لیکن چونکہ ملک میں تحقیق بد قسمتی سے ڈگری اور محکمانہ ترقی سے نتھی ہو چکی ہے اور سوشل ریسرچ کوہم ویسے بھی اتنی اہمیت نہیںدیتے لہذا پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔

یہ جو تمام باتیں اب تک کی گئیں یہ کوئی ذہنی اختراع نہیں بلکہ ملک کی علمی تحقیق کے شعبے کی کارکردگی ان کا اصل محرک ہے۔ایک نظر ملک کی ریسرچ آوٹ پُٹ پر ڈال لیجئے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یو نیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹا بیس برائے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق ’’دنیا بھر میں جامعات کی 20 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے ‘‘۔ اور اقوام متحدہ کے مطابق ’’دنیا میں آبادی کے حوالے سے چھٹا بڑا ملک ہے ‘‘۔اس کے باوجود 2017 ء میں وطن عزیز کے محققین کی 16897 تحقیقی دستاویزات (Research Documents)شائع ہوئیں جو دنیا میں شائع ہونے والی ریسرچ ڈاکومینٹس کا صفر عشاریہ 48 (0.48) فیصد اور جنوبی ایشیاء کی دستا ویز کا 9.77 فیصد ہیں۔

اسپین کی نیشنل ریسرچ کونسل جسے (Consejo Superior de Investigaciones Científicas ) کہا جاتا ہے ۔ اس کے SCImago نامی ریسرچ گروپ جو کہ دنیا بھر کے سائنسی انڈیکیٹرز کی مدد سے تحقیقی اداروں، ریسرچ جرنلز اور تحقیقی دستاویز کی اشاعت کے حوالے سے ممالک کی رینکنگ مرتب کرتا ہے، یہ اعدادوشمار ہماری ریسرچ آئوٹ پُٹ کی واضح عکاسی کر رہے ہیں جس کے مطابق تحقیقی دستاویزات کی اشاعت کے حوالے سے اس گروپ کی ممالک کی مرتب کردہ درجہ بندی میں پاکستان 39 ویں نمبر پر ہے۔ یہ تحقیقی دستاویزات علم پھیلانے کا معتبر ذریعہ ہیں۔ کیونکہ تحقیق کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اشاعت کی جائے جس سے لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ کسی خاص فیلڈ میں کسی خاص موضوع پر کیا کام ہو رہا ہے۔

مثلاً نوبل انعام کے فاتحین اگر اپنا تحقیقی کام شائع نہ کرتے تو ان کے بارے میں کون جانتا؟۔ اسی طرح یہ عمل تحقیق کاروں کی نیٹ ورکنگ کا ایک نمایاںذریعہ بھی ہے جس سے وہ اپنے تصورات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔ یعنی یہ آپ کے نام اور کام کو گردش میں رکھتے ہیں اور آپ کے خیالات اور تحقیق کو مزید بہتر بناتے ہیں۔ اسی طرح تحقیقی کارکردگی، اختراعات اور معاشرے پر ان کے اثرات پر مبنی پیمانے کی روشنی میں تعلیم اور تحقیق سے منسلک دنیا کے 5637 انسٹی ٹیوٹ پر مشتملSCImago کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان اس وقت 35 انسٹی ٹیوٹس کی تعداد کے ساتھ 29 ویں نمبر پر ہے۔

عالمی تعداد کے صفر عشاریہ 62 (0.62) فیصد اور جنوب ایشیا ء کے 10.7 فیصد پر مشتمل پاکستان کے ان انسٹی ٹیوٹس میں سے کوئی بھی عالمی رینکنگ میں پہلے چھ سو نمبر میںاپنی جگہ نہیں بنا پایا۔اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا پہلا انسٹی ٹیوٹ قائد اعظم یو نیورسٹی ہے جو621 ویںنمبر پر فائز ہے۔ اس کے بعد دوسرا پاکستانی انسٹی ٹیوٹ کامسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جو 30 6 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ پاکستان میں تیسرے اور عالمی درجہ بندی میں 649 ویں نمبر پر نیشنل یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد ہے۔ جبکہ پاکستان کا آخری انسٹی ٹیوٹ جو اس درجہ بندی میں شامل ہو پایا ہے وہ اسلامیہ کالج پشاور ہے جو 766 ویں نمبر پر ہے۔

عالمی معیشت میں ایجادات اور اختراعات کی تخلیق اور اس کا پھیلائو ترقی اور خوشحالی کی اساس مانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقی جرائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ تحقیقاتی نتائج کو فروغ دینے کا سب سے موثر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جو محققین، ماہرین اور طالب علموں کو اعلیٰ تحقیقی علم کے اشتراک کا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ان کا اجراء تحقیقی اداروں کے لئے ہمیشہ سے ایک اعزاز رہا ہے۔ اس حوالے سے SCImago کی تحقیقی جرنلز کی رینکنگ 2017 میں ( جو جرنل کے اثرات، اس کا اثر رسوخ یا وقارکو مانپتی ہے اس کے علاوہ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ جرنل میں چھپنے والے مقالات کو کتنا حوالہ جات کے طور پر استعمال کیا گیا ) 34171 جرنلزکوشامل کیا گیا ہے۔

اس رینکنگ میں جو جرنل جتنے شروع کے نمبرز پر ہوگا وہ اُتنا ہی اپنے impact, influence or prestige کے حوالے سے معتبر سمجھا جائے گا۔ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دنیا بھر میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن دنیا کے صفر عشاریہ30 (0.30) اور جنوبی ایشیاء کی 15.6 فیصد تعداد پر مبنی پاکستانی ریسرچ جرنلز میں سے ’’ پلانٹ پیتھالوجی جرنل‘‘ 7616 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی دنیا کے پہلے ساڑھے سات ہزار اعلیٰ تحقیقی جرنلز میںہمارا کوئی جرنل شامل ہی نہیں۔ اس کے بعد 11281 ویں نمبر پر ’’ پاکستان جرنل آف اسٹیٹسٹکس اینڈ آپریشن ریسرچ ‘‘ ہے۔ تیسرے نمبر پر ’’ پاکستان جرنل آف میڈیکل سائینسز ‘‘ ہے جو عالمی درجہ بندی میں 11494 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اس رینکنگ میں شامل ملک کا آخری جرنل ’’ پاکستان جرنل آف سائی پیتھا لوجی‘‘ 33586 ویں نمبر پر ہے۔

تحقیق کے میدان میں اس وقت ہماری کارکردگی اگرچہ حوصلہ افزاء تو نہیں لیکن ماضی سے بہتر ضرور ہے۔ SCImago کی ویب سائیٹ سے حاصل اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 1996 سے2017 تک پاکستان کی شائع شدہ تحقیقی دستاویزات کی تعداد میں 1773 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور یہ 902 سے بڑھ کر16897 ہو چکی ہیں۔ اس اضافہ میں نمایاں تیزی ایچ ای سی کے قیام کے بعدسے دیکھنے میں آئی ۔کیونکہ 1996 تا2002 کے دوران (2002 کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے کام کرنا شروع کیا) یہ اضافہ 69.6 فیصد رہا اور2002-2017 کے دوران 1004 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح 1999 میں ملک کے10 ریسرچ جرنلز عالمی درجہ بندی میں شامل کئے گئے تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر103 ہوچکی ہے۔ یوں مذکورہ عرصہ کے دوران 930 فیصداضافہ ریکارڈ ہوا جس میں ایچ ای سی کے بننے کے بعد نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2009 سے2018 تک انسٹی ٹیوٹس کی عالمی رینکنگ میں شامل ہونے والے پاکستانی اداروں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 35 ہو چکی ہے جو 218 فیصد اضافہ کو ظاہر کر رہی ہے۔

علمی اور دیگر تحقیق میں کسی بھی ملک کی دلچسپی کا اندازہ اس شعبے پر خرچ کئے جانیوالے فنڈز سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے شعبہ پر1.7 ٹریلین ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں اس شعبہ پر ورلڈ بینک کے مطابق جی ڈی پی کا صفر عشاریہ 24 (0.24 ) فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اس تناسب کے ساتھ پاکستان دنیا کے96 ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) میں 79 ویں نمبر پر ہے۔ اس تمام صورتحال کا حاصل تحقیق کے شعبے میں ہماری کمزوری کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے اختراعات اور ایجادات کا ہمارا سفر کم ہی اپنی منزل ِ مقصودتک پہنچ پاتا ہے جس کا کچھ اندازہ ہمارے تحقیق کاروں کے Patents (سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ حقِ اختراع) کے حصول کے رجحان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

Patents عموماً کسی منفرد کام کو سرقہ بازی سے محفوظ رکھنے اور اس کے معاشی اور سماجی فوائد سے موجد کو فیضیاب ہونے کے لئے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور ہمارے تحقیق کار کس قدر منفرد کام کر رہے ہیں؟ اس کا کچھ اندازہ اقوام متحدہ کی اسپشلائزڈ ایجنسی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی آرگنائزیشن کی ورلڈ انٹولیکچوول پراپرٹی انڈیکیٹرز 2018 نامی رپورٹ کے ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2017 میں پاکستان میں رہنے والے پاکستانی شہریت کے حامل ہم وطنوں نے Patent کے حصول کے لئے 193درخواستیں دیں جبکہ مذکورہ سال صرف 10 افراد کو سند ِ حقِ ایجاد یا سندِ حقِ اختراع جاری ہوئیں۔ اور اگر ہم 1883 سے قائم دنیا کے قدیم ترین U.S. PATENT AND TRADEMARK OFFICE کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو 2015 میں مذکورہ آفس کو UTILITY PATENT( جسے سند ِ حقِ ایجاد بھی کہا جاتا ہے) کے لئے پاکستانیوں کی 37 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تعداد دنیا بھر کے ممالک میں 60 ویں نمبر پر تھی جن میں سے 16 کو یہ حق تفویض کیا گیا۔ یوں یہ تعداد بھی دنیا کی 60 ویںدرجہ پر تھی۔

پروفیسرڈاکٹر افتخار احمد بیگ تدریس اور تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں بطور استاد اور منتظم آپ بہت سے تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔اس وقت ایک نجی جامعہ میں پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔17 سے زائد بین الاقوامی کانفرنسزمیں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ 20 کتابوں اور 16 ریسرچ پیپرز کے مصنف ہیں۔16 پی ایچ ڈیزآپ کی سپر ویژن میں مکمل ہو چکی ہیں۔ایک لمبی فہرست ہے انکی تدریسی اور تحقیقی خدمات کی۔ ڈاکٹر صاحب اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کرتے کہ ملک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق کے نام پر اکثر خانہ پری کی جاتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سوشل سائنسز میں یہ مسئلہ ضرور کہیں کہیں پایا جاتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کورس ورک کے دوران اتنی محنت نہیں کروائی جاتی۔

اور دوسرا ہر اسکالر کا ریسرچ میں برابر کا رجحان بھی نہیں ہوتا ہے۔ مزید اساتذہ کے پاس زیادہ کام ہونے کی وجہ سے وہ اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا طالب علم تقاضا کرتے ہیں۔ اور تحقیق کے آخری لمحات میں انسانی ہمدردی کے تحت بعض اوقات اساتذہ طالب علم کے حصولِ ڈگری کو ممکن بنانے کے لئے نرم گوشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اُنھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ریسرچ کی افادیت محسوس نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً ریسرچ میں خانہ پری کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد بیگ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ ا ساتذہ/ ریسرچ سپروائزرز کا رویہ اور طرزعمل بھی طالبعلم / ریسرچ اسکالرز کو تحقیق سے متنفر کر دیتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ استثنائی حالات میں کہیں شاید ایسا ہوتا ہو۔ مگر عمومی طور پر سپروائزر ریسرچ اسکالر کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں اور تحقیق کے عمل کو ہر ممکن طور پر خوشگوار اور آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ملک میں معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے موجود تشنگی کو دور کرنے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ریسرچ جرنلز بے شمار ہیں اور اُن کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ ایچ ای سی جرنلز کی پرکھ کرتے ہوئے بہت اعلیٰ بینچ مارک دیتا ہے اور اُسی پر جرنل کو پرکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جرنل کو ریسرچ پیپر معیاری نہ ملیں تو پھر وہ چھاپے گا کیا؟ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سوچ ہے کہ اچھا پیپر یورپ کے کسی جرنل میں چھپوالیں۔ انٹرنیشنل پبلیکیشن بن جائے گی تو پھر معیاری مواد کہاں سے آئے گا۔ اس لئے اپنے ہاں کے جرائد کی سر پرستی کرنی چاہیئے تاکہ یہاں آسانی سے پیپرز چھپوائے جا سکیں۔

تحقیق نیا علم، نئی مصنوعات اور نئے طریقہ کار پیدا کرتی ہے اور تحقیقی اشاعتیں علم میں شراکت کی عکاس ہوتی ہیں جبکہ PATENT کا حصول تحقیق کے نتیجہ میں ہونے والی ایجاد یا اختراع کی انفرادیت کا مظہر ہے۔ اس لئے اگر ہم تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں اپنے لئے معزز اور با وقار مقام کے خواہاں ہیں تو ہمیںاپنے ہاں تحقیق کے لئے موزوں ماحول کی آبیاری کرنا ہوگی اور اپنی تحقیق کے معیاراور مقدارکو تخلیقی نقطہ نظر سے مضبوط کرنا ہوگا۔آئیے اس حوالے سے24 جنوری کو دنیا بھر میں منائے جانے والے تعلیم کے پہلے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم تحقیق کو صرف سند اور محکمانہ ترقی کے حصول کا ذریعہ نہیں بنائیں گے بلکہ اس تمام عمل کو ملک اور انسانیت کی بہتری کا باعث بنانے اوراس حوالے سے اپنی جامعات کو معیاری تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بنانے میں بطور طالب علم، استاد اور پالیسی ساز اپنا بھر پور کردار ادا کریںگے۔

پی ایچ ڈی اسکالر غنی الرحمان کا انٹرویو
کسی مسئلے میں ماہرین کی آرا کی اہمیت بالکل مسلّمہ ہے۔ لیکن اکثر مسئلے کے شکار افراد کی رائے کو مقدم نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے مسئلہ کی حقیقی نوعیت کا ادراک نہیں ہو پاتا اور اُس کے حل کی کوئی بہترصورت نہیں نکل پاتی۔ اس لئے ملک میں تحقیق کے شعبہ میں موجود مسائل کے بارے میں آگاہی کے لئے ایک پی ایچ ڈی اسکالر(پی ایچ ڈی پراگرام میں زیر تعلیم) غنی الرحمان سے بات چیت کی گئی جس کی تفصیل قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔

سوال :کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں کہ ملک کی جامعات میں ہونے والی تحقیق کے نام پر اکثر خانہ پری کی جاتی ہے؟
جواب :میں اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کرتا۔کیونکہ کچھ جامعات میں اچھی تحقیق بھی ہو رہی ہے جس بنا پر ملک میں کچھ تعلیمی اور تحقیقی ستارے روشن ہیں۔ ہاںایسا ضرور ہے کہ اکثر جامعات ایسی ہیں جہاں ہونے والی تحقیق مسلمّہ بین الاقوامی تحقیقی اصولوں اور معیار کے مطابق نہیں ہے۔ جو بالکل سطحی، غیر موثر، بے جان اور ناقص قسم کی ہوتی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔

سوال :اس خانہ پری کی عمومی وجوہات کیا ہیں؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جامعات اور اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں تحقیق کا منظم اور مربوط نظام موجود نہیں۔ بلکہ ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیمی وسائنسی تحقیق کا ماحول ہی ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحقیق کے اصولوں کے بارے میں ریسرچ اسکالرز کا زاویہ نگاہ ہی صاف نہیں ہوتا۔ بلکہ کئی طالب علم محققین تو تحقیق کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ تیسری بات ریسرچ سپروائزر اپنے زیر نگرانی ریسرچ کے طلباء کو زیادہ وقت نہیں دیتے۔چوتھی بات ہمارا تعلیمی نظام تحقیقی اور تنقیدی طرز فکر نہیں دیتا یہ کچھ نیا سوچنے کچھ نیا کرنے کا درس نہیں دیتا ۔ بلکہ رٹے کے حصار میں طلباء کو جکڑے ہوئے ہے۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ بعض اساتذہ/ ریسرچ سپروائزرز کا رویہ اور طرزعمل طالبعلم /ریسرچ اسکالرز کو تحقیق سے متنفر کر دیتا ہے؟
جواب :یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ بعض اساتذہ اور ریسرچ سپر وائزر کا رویہ اور طرز رہنمائی و تعلّم نامناسب، ناشائستہ اور غیر لچکدار ہوتا ہے۔ اکثر اساتذہ / ریسرچ سپروائزر کے پاس گنجائش سے زیادہ ریسرچ اسکالر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ سپروائزر کا اپنا تدریسی کام بھی زیادہ ہوتا ہے۔ پھر اُن کو تحقیقی مقالہ جات کی نگرانی کے لئے انتہائی نامناسب اور کم فیس دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار معاشرتی روئیے، لسانی ، فرقہ ورانہ اور دیگر تعصبات بھی ریسرچ سپر وائزر کو متاثر کرتے ہیں جس کا اثرطالب علم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یوں کئی ریسرچ اسکالرز ایسے رویوں کا شکار ہوکر اپنا تحقیقی کام ادھورا چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریسرچ سپروائزر کا اپنے زیر نگرانی ریسرچ اسکالرز کے ساتھ رویہ مناسب ، دوستانہ اور برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

سوال : معیاری تحقیق کے لئے جامعات اور ایچ ای سی کی سطح پر کیا اقدامات کئے جائیں؟
جواب :سب سے پہلے ملک میں اعلیٰ پیشہ ورانہ اور علمی تحقیق کا نظام وفاق کی زیر نگرانی صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس ہونا چاہئے اور اعلیٰ ثانوی تعلیم تک کی ذمہ داری صرف صوبوں کے پاس ہو۔ ایچ ای سی کو مزید با اختیار، موثر اور ملک گیر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس کے فنڈز میں کئی گنا اضافہ کی ضرورت ہے۔ ایچ ای سی کو ایسا نظام اور اسکیم متعارف کرانے کی ضرورت ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے تمام ریسرچ اسکالرز کا تحقیقی کام پر اُس کی براہ راست نظر ہو۔ اُن کے کام کا مسلسل جائزہ لیا جائے۔ اس حوالے سے اسکالرز کے لئے کوئی ماہانہ وظیفہ مشروط بنیادوں پر مقرر کیا جائے۔ اور وہ وظیفہ ماہانہ بنیادوں پر تحقیقی کام میں معیار کے مطابق پیش رفت پر ہی دیا جائے۔ تاکہ معاشی مجبوریاں تحقیقی کام میں رکاوٹ نہ ہوں اور محققین کے لئے اُن کے کام میں Incentives بھی ہوں۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں ایچ ای سی ریسرچ سپروائزرز کے لئے ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس اور کورسز کا اہتمام کرے۔ ریسرچ سپر وائزرز کو ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والے سیمینارز، کانفرنسز اور کورسز میں زیادہ سے زیادہ شرکت کا موقع فراہم کریں۔ علاوہ ازیں ریسرچ سپروائزرز کے نگرانی کے کام کا بھی معائنہ کیا جائے اور کوتاہی و غفلت کے مرتکب ریسرچ سپروائزرز کو تحقیقی کام کی نگرانی سے بھی روک دیا جائے تاکہ علمی تحقیق کے معیار پر کوئی بھی سمجھوتہ ممکن نہ رہے۔

سوال: پاکستان میں تحقیق کا ماحول بنانے کے لئے کیا ہنگامی اقدامات ضروری ہیں؟
جواب : میرے خیال میں تحقیق کا ماحول بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات کی بجائے ایک ٹھوس پر مغز اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جو دوررس ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہو کیونکہ تحقیق کے میدان میں بھی آئے روز نت نئی تبدیلیاں اور پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہنگامی اقدامات جتنی جلدی کئے جاتے ہیں اتنی ہی جلدی نظر انداز اور ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں مکمل طور پر ڈیجیٹلائزلائبریریوں کی فی الفور ضرورت ہے۔اس کمی کی وجہ سے ریسرچ اسکالرز کو کسی بھی موضوع پر مواد کے جائزے اور مطالعے کے لئے بین الاقوامی (آن لائن) لائبریریوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان میں سے اکثر لائبریریوں اور ریسرچ اسٹور ہائوسزز تک رسائی کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں علمی تحقیقی کام کو اتنی پذیرائی نہیں ملتی جتنی توجہ کھلاڑیوں، گلوکاروں، سیاستدانوں اور فنکاروں کو ملتی ہے۔ لہذا پاکستان میں تحقیقی وعلمی کام کی اور اُس کے کرنے والوں کی بھی پذیرائی ہونی چاہیے۔ تمام علوم و فنون، سائنس و ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تعلیم میں اعلیٰ سطحی تحقیق کی پذیرائی کے لئے قومی سطح پر سالانہ ایوارڈز دینے کا پروگرام شروع ہونا چاہئے جن کے ساتھ معقول نقد انعامات بھی ہوں تاکہ محققین کے تحقیقی کام کو قومی سطح پر شناخت اور پذیرائی مل سکے۔

سوال : ملک میں ہونے والی تحقیق کا ہمارے معاشرے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو رہا اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب :یہ بات بہت درست ہے اور بہت اہم بھی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی علمی ، سائنسی اور طبی تحقیق سے ہمارے معاشرے پر براہ راست کوئی اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری معاشرتی ترجیحات اور ضروریات کچھ اور ہیں اور تحقیق کا کام کسی اور میدان اور موضوع پر ہو رہا ہوتا ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے یعنی ریسرچ اسکالر نے کسی بین الاقوامی اہمیت کے موضوع یا مسئلے کی بجائے کوئی مقامی/ علاقائی یا ملکی موضوع یا مسئلے کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا لیا تو شائد یہ کم اہم ہوگا یا اس کی کوئی بین الاقوامی اہمیت نہیں بن پائے گی جوکہ نہایت غلط اور نا معقول سوچ ہے۔ ہمارے اسکالرز کو چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مقامی، علاقائی اور ملکی مسائل کو اپنی علمی تحقیق کا موضوع بنائیں۔پوری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں علمی تحقیق کے زیادہ تر موضوعات اُن کے اپنے مقامی ہی ہوتے ہیں۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ہمارے مسائل کا اتنا تذکرہ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کا نصاب ( ماسوائے چند مضامین کے ) غیر ملکی مصنفین و محققین کا تجویز کردہ اور مرتب کردہ ہوتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کا نصاب زیادہ تر یورپی اور امریکی معاشرتی پس منظر میں رہتے ہوئے تیار کیا ہوا ہوتا ہے۔ مثالیں بھی ان معاشروں سے اخذ ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو پڑھ کر ہم واضح طور پر نصاب کی اپنے معاشرے سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ اس نصاب کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمارے تحقیقی کام کا ہمارے معاشرے سے کوئی براہ راست تعلق اور واسطہ نہیں بن پاتا۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ملک میں ہونے والی تحقیق کا معاشرے سے کوئی براہ راست تعلق بنتا بھی ہو تو وہ ہمارے لئے فائدہ مند اس لئے بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا معاشرہ جدید سائنسی طرز فکر، تحقیقی و تنقیدی نقطہ نظر کا حامل نہیں۔ ہم اب بھی فرسودہ سوچ، خیالات و تصورات، توہمات، معاشرتی تعصبات اور ذہنی تنگ نظری کا شکار ہیں۔

کچھ ایسے مسائل اور موضوعات جو ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں لیکن مخصوص معاشرتی، ثقافتی و سیاسی حالات کی وجہ سے ہم اُن پر تحقیق تو دور کی بات ہے۔ کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ مذہب کے غلط تصور اور تشریح نے بھی ہمارے لئے جدید سائنسی و علمی تحقیق کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ حالانکہ اسلام دنیا کا واحد الہامی مذہب ہے جس کی ابتدا ہی اقراء، پڑھ سے ہوئی۔ اور قرآن پاک بار بار ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کی تاکید کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں پولیو کے مرض کے پھیلائو کے حوالے سے کوئی تحقیق سامنے آجائے اور اُس میں پولیو کے مرض کی روک تھام کے لئے سفارشات موجود ہوں تو ہم اُنہیں غیر ملکی ایجنڈا یا سازش تصور کریں گے۔ چھٹی بات، ہم نے ابھی تک اپنے ملک کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر مسائل کی نشاندہی اور اُن کے حل کے لئے تحقیق کے طریقہ کار کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اسی لئے اگر کوئی مفید تحقیقی کام سامنے آبھی جائے تو تب بھی ہمارے اربابِ اختیار اُس کو بروئے کار لاکر معاشرے کے کسی حل طلب مسئلے کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں ۔ اور ایسی علمی کاوشوں کو صرف’’ کتابی باتیں‘‘ کہہ کر سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں۔

سوال: معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے ہم دنیا بھر میں بہت پیچھے ہیں۔ اس تشنگی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ معیاری ریسرچ پیپرز اور معیاری ریسرچ جرنلز کے حوالے سے ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ تحقیقی کام کے معیار کے پیمانوں میں گاہے بگاہے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے ریسرچ اسکالرز کو ان تبدیلیوں کے بارے میں ہمہ وقت آگاہ رہنا چاہئیے۔کمپیوٹر کے استعمال خصوصاً ڈیٹا اکٹھا کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے سافٹ وئیرز سے متعلق آگہی اور ان کا استعمال جاننا ضروری ہے۔ علمی سرقے سے اجتناب کی بہت ضرورت ہے۔ معیاری ریسرچ جرنلز کی اشاعت کے حوالے سے ایچ ای سی کا کردار نہایت اہم ہے۔

چاہے وہ صوبائی ہوں یا وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشنز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جامعات و دیگر اداروں کی طرف سے سہ ماہی بنیادوں پر شائع ہونے والے جرنلز کے معیار کا ہمہ وقت جائزہ لیتے رہیںاور تحقیق کے معیار کے لئے مقرر کردہ بین الاقوامی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ ان جرنلز میں کم ازکم ایک چوتھائی حصہ بیرون ملک اسکالرز کے لئے مختص کیا جائے۔ اور بین الاقوامی اسکالرز کو اپنے ریسرچ پیپرز پاکستانی ریسرچ جرنلز میں شائع کرانے کی طرف راغب کیا جائے۔ اس طرح غیر ملکی اسکالرز کے تحقیقی کام سے ہمارے اسکالرز بھی مستفید ہوں گے اور ہمارے زیادہ ریسرچ جرنلز بیرونِ ملک بھی جانے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ریسرچ جرنلز کے ایڈیٹوریل بورڈ میں عام طور پر نامور ملکی اور غیر ملکی محققین، اساتذہ اور ماہرین کے نام ہوتے ہیں۔ لیکن شاذونادر ہی اُس جرنل کے ایڈیٹوریل بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے تاکہ جرنل کے معیار کا جائزہ لیا جائے اور نئی گائیڈ لائنز مرتب کی جائیں۔ پاکستانی ریسرچ جرنلز کا معیار بلند کرنے کے لئے بین الاقوامی ماہرین کی آراء و خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اور اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ساتھ اشتراک کار کے ذریعے سے بھی ہمارے ریسرچ جرنلز کا معیار بہتر کیا جا سکتا ہے۔

The post پاکستان میں معیاری علمی تحقیق کا فقدان appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

گیند تو نے کیا خطا کی کہ پٹ رہی ہے۔۔۔

امتیاز بانو نظامی کے شوہر مسٹر احمد کھوکھر ٹینس کے بڑے لیڈر ہیں۔ آج کل لاہور میں ٹینس کا بہت بڑا میچ ہورہا ہے جس میں تمام دنیا کے نامی کھلاڑی حصہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ پاکستان کے گورنر جنرل اور گورنر پنجاب بھی آج یہ میچ دیکھنے جائیں گے۔ مجھے بھی احمد کھوکھر صاحب نے ٹینس دیکھنے کے کارڈ بھیجے ہیں۔ پہلے میں توکلی شاہ نظامی کے مکان پر کھانا کھانے گیا۔ اس کے بعد ٹینس میچ دیکھنے گیا۔ میں نئے زمانے کے کسی کھیل سے واقف نہیں ہوں۔

ہاکی، کرکٹ، ٹینس، فٹ بال پر میں نے مضامین تو بہت لکھے ہیں، لیکن ان کھیلوں کی خوبی اور خرابی کو بالکل نہیں جانتا۔ آج مجھے گورنر جنرل کے قریب بیٹھنے کی جگہ دی گئی تھی۔ میرے قریب ایک فلاسفر دوست بیٹھے تھے۔

انھوں نے آہستہ سے کہا کھیل بہت خوب ہو رہا ہے اور کئی ملکوں کے کمالات ظاہر ہورہے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا میں تو گیند سے باتیں کر رہا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں کہ تو نے کیا خطا کی ہے جو تجھے یہ دونوں طرف والے مار رہے ہیں؟ ایک رخ والا تجھ پر اپنا دستہ مارتا ہے اور تجھے ان ہزاروں آدمیوں میں ایک بھی ایسا رحم دل نہیں ملتا جو تجھے مار کھانے سے بچائے۔ حالاں کہ ان لوگوں میں انگریز بھی ہیں، امریکی بھی ہیں اور یورپ اور ایشیا کے اور اسلامی ملکوں کے سب ہی بڑے بڑے آدمی موجود ہیں، مگر حیرت ہے کہ سب تیرے پٹنے اور مار کھانے سے خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ تو وہ گیند جواب دیتی ہے کہ میرے اندر خود بینی اور خود پسندی کی ہوا بھری ہوئی ہے۔ اس واسطے میں سب کی مار کھا رہی ہوں اور ان تماشا دیکھنے والوں کو بتا رہی ہوں کہ ہر وہ چیز اور ہر وہ وجود جس کے اندر خود بینی اور خودپسندی اور خود آرائی کی ہوا بھری ہوئی ہو وہ اسی طرح دنیا میں مار کھاتی ہے اور جگہ جگہ ٹھکرائی جاتی ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا۔

ان فلاسفر صاحب نے میری یہ بات سن کر کہا زندگی میں پہلی دفعہ یہ عجیب و غریب بات میں نے سنی۔ میں نے کہا آپ فلاسفر ہیں کائنات کی ہر چیز کو فلسفیانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کی کسرِ نفسی ہے جو میری بات کو ایک نئی بات خیال کرتے ہیں۔ میں تو اپنی ناواقفیت اور محدود علمیت کی پردہ پوشی کے لیے یہ باتیں بتا رہا ہوں۔ چوں کہ مجھے کھوکھر صاحب نے بڑی ممتاز جگہ بٹھایا ہے اگر وہ مجھ سے کھلاڑیوں کے فن کی نسبت سوال کر بیٹھیں تو مجھے ان کی بیوی امتیاز بانو نظامی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا کیوں کہ امتیاز بانو ہر ایک سے کہتی رہتی ہیں کہ میرے پیر تو نئی دنیا اور پرانی دنیا کی ہر چیز کو اور ہر علم و فن کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ یہاں تو آپ کے سامنے باتیں بنا کر اپنی ناواقفیت کو چھپا لیا، کھوکھر صاحب کے گھر جاکر کہوں گا واہ وا خوب کھیل ہوا۔ میں تم کو اہلِ حیدر آباد کی زبان میں ’’نواب ٹینس نواز جنگ‘‘ خطاب دیتا ہوں۔

( 1950 میں خواجہ حسن نظامی پاکستان آئے اور یہاں سے واپسی پر اپنے سفر اور قیام کا احوال رقم کیا۔ یہ سطور ان کے اسی سفر نامے سے منتخب کی گئی ہیں)

۔۔۔

چُل
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

چوں کہ محاورے کی رو سے حرکت میں برکت ہے اس لیے بہت سے وہ لوگ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا (مثلاً سرکاری ملازمین اور باس ٹائپ کے لوگ) اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں کو مسلسل کسی نہ کسی فضول حرکت میں مصروف رکھ کر مفت میں برکتیں لوٹتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ برکت کے حصول کی غرض سے بیٹھے اپنی ٹانگیں ہلاتے رہتے ہیں، کچھ جسم کو کھجاتے ہیں، کچھ میز پر طلبہ بجاتے ہیں، ناخن چباتے ہیں وغیرہ۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Impulsivity کہتے ہیں۔ اردو لغت میں ایسی بابرکت حرکات کے لیے ایک لفظ ملتا ہے: چُل۔ اسی سے لفظ بنا ’’چُلبل‘‘ یعنی بے کل، بے چین، نچلا نہ بیٹھنے والا۔ حضرت انشا کا محبوب بھی ایسا ہی تھا۔ اس میں کچھ اور پاکیزہ صفات بھی تھیں جن کا ذکر انہوں نے اپنے اس شعر میں کیا:

عشق نے مجھ پر اٹھایا اور تازہ اُشغُلا

لے گیا دل چین اک کچیلا چُلبُل

حضرت سودا نے ’’شیخ‘‘ کی چل پر یہ چوٹ کی تھی:

شیخ کو ذوق اچھلنے سے نہیں مجلس میں

اس بہانے سے مٹاتا ہے وہ اپنی چُل کو

کل جب ایک دیرینہ دوست سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اچانک لائن کٹ گئی، تو ہمیں نہ جانے کیوں بعض احباب کی چُلیں یاد آگئیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جب ان پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ہوا میں اٹھنے والی چیز کو نیچے بھی آنا ہوتا ہے، لہٰذا آپ ان کے قریب بیٹھے ہیں، تو ضرور برداشت کر کے تالی کی آواز پیدا کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا، تو جان لیجیے کہ ان کا ہاتھ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے عارضی طور پر سہی، ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے۔ اس لیے کہ زوردار قہقہے کے دوران فریق ثانی کی آنکھیں عموماً بند ہوتی ہیں۔ ہاتھ کہاں گرنے والا ہے اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔

ہمارے ایک دوست اپنے اٹھنے والے ہاتھ کی نچلی منزل کا تعین پہلے سے خود کر لیتے ہیں یعنی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ران، لہٰذا ہم جب بھی ان کے پاس جاتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں، رانوں پر رکھ کر ’’ارد گرد‘‘ کے رقبے کا دفاع کر لیتے ہیں۔

بعض لوگ دوران گفتگو اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو (عموماً پیشانی، کھوا، ٹھوڑی، گُدی وغیرہ) کو ہلکے ہلکے سہلاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک سینئر اداکار کی چل یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے دوران اپنے دائیں نتھنے کو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے چھیڑتے رہتے ہیں۔

ٹی وی ہی کے ایک اینکر اور سینئر صحافی کی چُل ہے کہ وہ بات کر کے خاموش ہوتے ہیں، تو اپنے چشمے کی ایک کمانی کا سرا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ دانش وَر ٹائپ کے لوگ کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں تو بار بار اپنے دونوں ہاتھ تمیم کے انداز میں پورے چہرے پر پھیر کر اور آنکھیں باہر نکال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کو بولا ہوا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں پوری طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔ کسی کی بات سنتے وقت بعض لوگوں کی گردن کو قرار نہیں رہتا۔ وہ مسلسل اپنے نیچے یا دائیں بائیں حرکت میں رہتی ہے۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے موقف سے متعلق ہے، جب کہ گردن کو دائیں بائیں ہلا کر وہ گویا آپ کے موقف کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ اشاراتی زبان کا کوئی پیٹنٹ اصول نہیں ہے۔ حیدرآباد (دکن) کے احباب انکار میں گردن ہلاتے ہیں، تو آپ مایوس نہ ہوں ان کے انکار کا مطلب اقرار ہوتا ہے۔

( تصنیف’کتنے آدمی تھے؟‘ سے ماخوذ)

۔۔۔

بیزار ہونے کا عرصہ
مرسلہ: سید اظہر علی

نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بیزار ہونے کے لیے بہت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اتنے عرصے میں گلاب کی خوش بو مانوسیت کے باعث باسی باسی سی لگتی ہے، مگر وہی بے ضرر سے کانٹے اب بہت چبھنے لگتے ہیں۔ امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ پچاس فی صد جوڑوں کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔

اس لیے کہ اس اثنا میں وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔ پچاس سال دوستانہ تعلق کا وہی نتیجہ ہوجاتا ہے جس کی تصویر غالب نے مرزا تفتہ کے نام اپنے خط میں کھینچی ہے۔ لکھتے ہیں ’’جسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔‘‘ یوں تو غالب کا ہر قول حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے تاہم مجھے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ تعلقات میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب دونوں فریق خود کو مظلوم زوجہ سمجھ کر اپنا سہاگ اجڑنے کی دعا کرنے لگیں!

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’شامِ شعریاراں‘‘ سے لیا گیا)

۔۔۔

جیل میں مرجائو تو مکھی اور نکل جائو تو۔۔۔
مرسلہ: واحد مسرت، مُکا چوک،لیاقت آباد

الہ آباد کا سینٹرل جیل نینی میں ہے، جہاں جانے کے لیے الہ آباد سے آگے جنی جنکشن پر اترنا ہوتا ہے، ہم لوگ صبح کو وہاں پہنچ کر آٹھ بجے کے قریب سینٹرل جیل میں داخل ہوئے، علی گڑھ جیل کے کپڑے اتار لیے گئے اور کہا گیا کہ یہاں کے کپڑے کچھ دیر میں ملیں گے، اس وقت تک کالے کپڑے پہنو، جن کی کیفیت یہ تھی کہ ان سے زیادہ کثیف غلیظ اور بدبو دار کپڑوں کا تصور انسانی ذہن میں نہیں آسکتا، لیکن قہر درویش بجان درویش وہی کپڑے پہننا پڑے۔ راقم حروف کی نگاہ دور بین نہیں ہے، اس لیے پڑھنے لکھے اوقات کو چھوڑ کر باقی ہر وقت عینک کی ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ علی گڑھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بعد معائنہ عینک لگائے رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن الہ آباد والوں نے اس کو کسی طرح گوارا نہ کیا اور عینک کو داخل دفتر کرکے راقم کی بے دست وپائی کو ایک درجہ اور بڑھا دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد جیلر صاحب نازل ہوئے اور میرے ساتھ کے تمام اخباروں اور کاغذوں کو اپنے سامنے جلوا کر خاکستر کر دیا اور دفتر میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔

دفتر میں مجھ کو غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہو گے، تو بیمار بنا کر اسپتال بھیجے جائوگے اور وہاں مار کر خاک کر دیے جائو گے۔ اس خطاب پُرعتاب کا خاموشی کے سوا اور جواب ہی کیا ہو سکتا تھا، جیلر صاحب نے غالباً یہ تقریر محض دھمکانے کی نیت سے کی ہوگی، کیوں کہ بعد میں ان سے مجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیدیوں کی نسبت جیل خانے میں یہ مشہور مثل بالکل صحیح ہے کہ ’’مر جائیں تو مکھی اور نہ نکل جائیں تو شیر!‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قیدی جیل میں مر جائے، تو وہاں اس واقعے کی اہمیت ایک مکھی کے مر جانے سے زیادہ نہ سمجھی جائے گی، لیکن اگر کوئی قیدی وہاں سے نکل بھاگنے میں کام یاب ہوجائے، تو یہ واقعہ اس قدر اہم شمار کیا جائے گا کہ جتنا ایک شیر کا کٹہرے سے نکل جانا!

(’’مشاہدات زنداں‘‘ از مولانا حسرت موہانی سے چُنا گیا)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
الزام
رضوان طاہر مبین
’’اُس پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام تھا۔۔۔‘‘
ثمر نے بتایا۔
’’دیکھنے میں تو وہ بہت شریف لگتا تھا۔‘‘ میں حیران ہوا۔
’’کہا جاتا ہے کہ اپنے کارندوں سے مار لگواتا تھا۔۔۔‘‘
’’اس کی شکایات کی گئیں، کہ یہ اشتعال پھیلاتا ہے،
تشدد پر اُکساتا ہے۔۔۔!‘‘ ثمر بولا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں متجسس ہوا۔
’’اس کے منہ پر ’چیپی‘ لگا دی گئی!
مگر کچھ دن بعد پھر شکایات ہوئیں کہ ’یہ مار لگاتا ہے۔۔۔!‘ اور وہ پھر ’مجرم‘ قرار پایا۔
’’اب کون سی مار لگائی اس نے۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’چُپ کی مار۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

چینیوں نے نئی تاریخ رقم کر دی ؛ زندگی ۔۔۔۔۔ چاند پرپہنچ گئی

$
0
0

عظیم چینی فلسفی،کنفیوشس کا خوبصورت قول ہے:’’یہ جاننا کہ آپ کیا جانتے ہیں اور کیا کچھ نہیں جانتے،یہی اصل علم ہے۔‘‘

شاید دور حاضر کے چینی حکمران اس قول کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔اسی لیے چاند کے اسرار جاننے کی خاطر انھوں نے پچھلے دنوں ایک منفرد خلائی جہاز بھجوا کر بنی نوع انسان کی تاریخ میں نیا باب رقم کر ڈالا۔یہ کارنامہ دکھلا کے چینیوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کمال مہارت حاصل کر چکے اور اب تاجدار ِدنیا بننے کا منفرد اعزاز پانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

انسان زمانہ قدیم سے کائنات کے اسرار ورموز جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔بنیادی مقصد یہ کھوج لگانا ہے کہ کائنات میں کیا کسی اور مقام پر بھی زندگی موجود ہے؟یہ جاننا اب تو انسان کے لیے زندگی یا موت جیسا کٹھن امتحان بن چکا۔وجہ یہ کہ سائنس دانوں کی رو سے ایک سو کروڑ سال تک سورج کی بڑھتی تپش کرہ ارض پر زندگی کا نام ونشان مٹا سکتی ہے۔تب کرہ ارض پہ رہنا ناممکن ہو گا۔لہذا اس ارضی قیامت سے قبل انسان کو رہنے کے لیے کوئی اور دنیا تلاش کرنا ہو گی۔اگر وہ ناکام رہا تو اس کا نام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

یہی وجہ ہے،امریکا،چین اور یورپی ممالک خلا میں دوربینیں اور جدید آلات سے لیس خلائی جہاز بھیج رہے ہیں۔ زمین پر بھی طاقتور دوربینیں بنائی جا رہی ہیں۔اس ساری سرگرمی کی منزل یہ ہے کہ خلا کی پہنائیوں میں جھانک کر زمین جیسا سیارہ ڈھونڈ لیا جائے۔فی الحال انھیں کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ناکامی کی ایک بڑی وجہ اجرام فلکی کے مابین عظیم الشان فاصلہ موجود ہونا ہے۔مثال کے طور پر کرہ ارض سے قریب ترین بیرونی شے چاند ہے۔یہ زمین سے تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس تک پہنچنے میں موجودہ رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہمارے خلائی جہاز کو تین دن لگ جاتے ہیں۔

سورج کے علاوہ زمین سے قریب ترین ستارہ پروکسیما قنطورس(Proxima Centauri)ہے۔یہ زمین سے 4.25 نوری سال(  light year)دور ہے۔نوری سال فلکیات کی ایک اصطلاح ہے۔ایک نوری سال5.9ٹریلین میل کے برابر ہے۔گویا پروکسیما قنطورس کرہ ارض سے 23.5 ٹریلین میل دور ہے۔اس تک پہنچنے میں مروجہ رفتار سے ایک انسان ساختہ خلائی جہاز کو پچاس ہزار برس لگ جائیں گے۔مطلب یہ کہ جب قریب ترین ستارے تک پہنچتے پہنچتے بھی کئی انسانی نسلیں گزر جائیں گی تو کائنات کے دیگر اجرام فلکی تک کیسے پہنچا جائے ؟کائنات تو کھربوں ستارے اور سیارے وغیرہ رکھتی ہے۔یہ مشکل اسی وقت آسان ہو گی جب انسان کم ازکم روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے خلائی جہاز ایجاد کر لے۔تب تو انسان کائنات میں گھوم پھر کر زندگی تلاش کر سکتا ہے۔

ابھی تو زمین جیسا زندگی آمیز ماحول رکھنے والا سیارہ ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے تہہِ سمندر میں گری سوئی تلاش کی جائے۔چاند چونکہ زمین کے قریب ترین واقع جرم فلکی ہے لہذا سائنس دانوں نے اسے ہی اپنی تحقیق و تجربات کے سلسلے میں تختہ مشق بنا رکھا ہے۔اب ان کی بھرپور سعی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چاند پر انسانی آبادی قائم کر دی جائے۔اس تجربے سے وہ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ زمین سے باہر بیرونی مقامات پر انسانی بستی بسانے میں کس قسم کی رکاوٹیں،مسائل اور مشکلات درپیش آئیں گی۔تین جنوری کو سطح چاند پہ اترنے والا چین کا خلائی جہاز،چانگ ای4 (Chang’e 4) اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے۔

چانگ ای 4 پہ دراصل ایک سات انچ لمبا ،چھ انچ چوڑا اور تین کلو وزنی ڈبا بھی موجود ہے۔یہ عام سا ڈبا نہیں بلکہ اس میں چھوٹی سی دنیا بسا دی گئی ہے۔جی ہاں،یہ ڈبا کرہ ارض جیسا زندگی بخش ماحول رکھتا ہے۔ڈبے کو چاند کے شدید درجہ حرارت اور کم دباؤ والے ماحول سے بچانے کی خاطر خصوصی دھاتوں اور مادوں سے تیار کیا گیا۔ڈبے کی تیاری اتنا مشکل وکٹھن مرحلہ تھا کہ اسے بنانے کے لیے چین کی ’’28‘‘یونیورسٹیوں کے ماہرین کو مشترکہ ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا اور یکجا ہونا پڑا۔

اس ڈبے میں آلو،گوبھی اور سرسوں کے بیج رکھے ہیں۔اور ریشم کے کیڑوں کے انڈے بھی۔گویا چینی سائنس دانوں نے چاند پر حقیقی نباتات اور حیوانیات بھجوا کر منفرد کارنامہ انجام دے ڈالا اور انسانی ذہانت و محنت کی حد کو مزید وسعت دے ڈالی۔اس ڈبے میں مطلوبہ پانی،ہوا اور کھاد بھی موجود ہے جو بیجوں اور انڈوں کی افزائش کے لیے درکار لازمی عناصر ہیں۔اس ننھی منی دنیا کا اندرونی ماحول متوازن رکھنے کی خاطر سائنس دانوں نے اس میں چھوٹا سا ایئرکنڈیشنگ نظام بھی نصب کیا ہے۔یہ نظام شمسی پینلوں سے پیدا شدہ بجلی سے کام کرے گا۔دن میں شمسی پینل خلائی جہاز کی بیٹریاں چارج کریں گے۔رات کو بیٹریاں ڈبے سمیت چانگ ای 4 کے تمام آلات کو بجلی کی سہولت بہم پہنچائیں گی۔

چین کے سائنس دانوں کو یقین ہے کہ وسط اپریل تک بیجوں سے پودے پھوٹ نکلیں گے جبکہ انڈوں سے ریشم کے کیڑوں کا جنم ہو گا۔پودے ضیائی تالیف کے عمل(photosynthesis)سے آکسیجن بنائیں گے۔کیڑے سانس لیتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائڈ گیس پیدا کریں گے۔یوں ڈبے میں ارضی زندگی سے ملتا جلتا ماحول وجود میں آ جائے گا۔ڈبے میں ایک ننھا سا کیمرا اور ٹرانسمیٹر بھی نصب ہے۔ان دونوں آلات کی مدد سے زمین پر بیٹھے سائنس داں ڈبے کے اندر کی ساری صورت حال سے باخبر رہیں گے۔یہ منفرد حیاتیاتی تجربہ کامیاب ثابت ہوا تو خلائی سفر کے شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر اس کامیابی سے چاند پہ انسانی بستی بسانے کا ہمارا دیرینہ خواب پورا ہو سکے گا۔

چین کے حالیہ قمری تجربے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اسے چاند کے ’’تاریک حصّے‘‘(darkside)میں اتارا گیا۔یہ پہلا موقع ہے کہ چاند کے اس حصے پر بذریعہ آلات انسان کے قدم پہنچے۔دراصل زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند کا صرف سامنے والا حصہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔پچھلے حصے کو سائنس داں بھی کبھی نہیں دیکھ پائے۔اسی لیے وہ عوامی اصطلاح میں ’’تاریک حصہ کہلانے لگا۔چاند کے تاریک حصے سے زمین تک براہ راست مواصلاتی رابطہ ہونا ممکن نہیں تھا۔اسی واسطے چین کو اس کی فضا میں پہلے’’ کوکیو‘‘(Queqiao relay satellite)نامی مصنوعی سیارہ بھجوانا پڑا۔اسی سیارے کے ٹرانسمیٹر چانگ ای 4 سے آنے والی وڈیوز،آڈیو اور تصاویر وغیرہ کیچ کر کے زمین کی سمت بھجواتے ہیں۔انھیں پھر خلائی مرکز میں براجمان چینی سائنس داں پکڑ لیتے اور کام میں لاتے ہیں۔

چین کے تاریخ ساز خلائی تجربے کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ چانگ ای 4 کو چاند کے قطب جنوبی پر اتارا گیا۔سائنسی تحقیق اورتجربات سے انسان پہ آشکارا ہو چکا کہ چاند کے قطبین خصوصاً قطب جنوبی میں برف ہو سکتی ہے۔ چانگ ای 4 کے ذریعے سطح قمر پہ گھومنے پھرنے والی گاڑی،یوتو2(Yutu-2 rover)بھی بھجوائی گئی ۔یہ گاڑی چاند کی پتھریلی سطح کا تجزیہ کرنے والے جدید آلات سے لیس ہے۔وہ قطب جنوبی میں برف بھی تلاش کرے گی۔تاریک قمری علاقے میں سطح بھربھری اور نرم ہے۔اسی لیے یوتو2 کے پہیے اس انداز میں بنائے گئے کہ وہ نرم سطح پر آسانی سے چل پھر سکے۔

اگر یوتو2 نے چاند پر برف کے تودے ڈھونڈ نکالے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک اور منفرد لمحہ ہو گا۔ایسی صورت میں یہ ممکن ہو جائے گا کہ انسان چاند پہ آبادی بسا دے۔اس بستی کے مکین برف پگھلا کر پانی حاصل کر سکیں گے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔چاند پہ انسان کا آباد ہونا تاریخی واقعہ ہوگا۔اس کامیابی سے یہ بھی یقینی ہو جائے گا کہ چاند سے دیگر اجرام فلکی کی سمت انسان بردار خلائی جہاز بھجوائے جا سکیں۔یہ یاد رہے کہ ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے،مشتری کے چاند،یورپا پر بھی برف موجود ہونے کی تصدیق ہو چکی۔بلکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس منجمد برف کے نیچے پانی سے لبالب بھرا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔اس پانی میں زندگی کی مختلف اشکال مثلاً جراثیم مل سکتے ہیں۔اگر چاند پہ انسانی آبادی بس جائے تو وہاں سے انسانوں کے لیے یورپا جانا آسان ہو جائے گا۔

مشتری کا یہ چاند صورت شکل میں ہمارے قمر سے ملتا جلتا ہے۔زمین سے تقریباً تریسٹھ کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ایک خلائی جہاز وہاں چھ سال میں پہنچ جائے گا۔یورپا میں نئی انسانی بستی بسا کر پھر بنی نوع انسان کا ٹارگٹ نئے جہاں ہو سکتے ہیں۔چاند پہ بس کر انسان قیمتی معدنیات بھی حاصل کر سکتا ہے۔ماہرین کی تحقیق کے مطابق قمری چٹانوں میں فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز کے ذخائر محفوظ ہیں۔یہ سبھی معدنیات کرہ ارض پر مختلف اہم اشیا بنانے میں کام آتی ہیں۔چین کو خصوصاً انہی معدنیات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی معاشی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھ سکے۔یہی وجہ ہے،اگلے ایک عشرے میں چین چاند پہ اپنی بستی بسانے کی بھرپور کوششیں کرے گا۔

جب 1978ء سے چین میں اصلاحات کا جامع پروگرام شروع ہوا،معاشرے میں دوررس تبدیلیاں آنے لگیں تو پہلے پہل چینی حکمرانوں کی توجہ معیشت کی بحالی،گڈ گورننس اختیار کرنے اور کرپشن کے خاتمے پر مرکوز رہی۔زبردست اصلاحات کی وجہ سے چین ترقی وخوشحالی کی راہ پہ چل نکلا اور سرکاری خزانے میں اربوں ڈالر آنے لگے۔تب چینی حکومت نے چاند پر تحقیق و تجربات کرنے کا فیصلہ کیا۔چناں چہ 2007ء میں چین نے چاند کی سمت اپنا پہلا خلائی جہاز، چانگ ای 1 بھجوایا جس کا مقصد قمری سطح کے مدلل نقشے تیار کرنا تھا۔

یوں چینیوں نے بھی چاند پہ کمند ڈال دی۔اب رواں سال کے آخر میں چانگ ای5 سطح ِقمر پر اترے گا۔اسے اس انداز میں ڈیزائن کیا جا رہا ہے کہ وہ چاند سے دو کلو چٹانی مواد اکھٹا کر کے زمین تک لا سکے۔اگلے برس ایک اور چینی خلائی جہاز،چانگ ای 6 چاند کا سفر کرے گا۔ان تمام قمری اسفار کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ چین چاند پہ اپنی بستی بسانے میں کامیاب ہو جائے۔یوں وہ چاند پہ پائی جانے والی معدنی دولت کا بلا شرکت غیرے مالک بن سکے گا۔اس معدنی دولت کی مالیت کئی ٹریلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ماہرین کی رو سے چاند پر دستیاب سبھی معدنیات میں ہیلیم عنصر کا آئسوٹوپ 3سب سے زیادہ اہم ہے۔

اس آئسوٹوپ یعنی ہیلیم 3کی نمایاں ترین خاصیت یہ ہے کہ وہ غیر تاب کار مادہ ہے۔گویا اس عنصر کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے تو وہ خطرناک تاب کار مادے کو جنم نہیں دے گا۔ہیلیم 3سورج کی شعاعوں میں پایا جاتا ہے۔ان کے ذریعے زمین تک بھی پہنچتا ہے۔مگر زمین کی فضا اور مقناطیسی میدان یہ عنصر تباہ کر ڈالتے ہیں۔اسی لیے کرہ ارض پر بہت کم ہیلیم 3 انسان کو میسر ہے۔تاہم چاند پر فضا ہے اور نہ ہی مقناطیسی میدان، لہٰذا خیال ہے کہ قمری چٹانوں میں دس لاکھ ٹن ہیلیم 3 ذخیرہ ہو سکتا ہے۔دنیا میں بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔فی الوقت کوئلہ،قدرتی گیس، اور آبی توانائی مل کر دنیا والوں کو 78 فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔مگر کوئلہ ماحول دشمن ایندھن ہے۔اسی واسطے انسان اب اس خطرناک ایندھن کا استعمال محدود کرنا چاہتے ہیں۔چناں چہ سائنس دانوں کی سعی ہے کہ ایسا بجلی گھر بنا لیں جس میں ہیلیم 3 کو جلا کر بجلی بنائی جائے۔یہ عنصر تھوڑی مقدار میں کثیر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثال کے طور پر صرف تیس ٹن ہیلیم 3 جل کر اتنی زیادہ بجلی بنائے گا کہ ایک سال تک پورے امریکا کی ضرورت پوری ہو جائے۔

چین کی گاڑی،یو ٹو 2 چاند کی چٹانوں میں ہیلیم 3 بھی تلاش کرے گی۔امید ہے کہ اسے اس ضمن میں قیمتی معلومات حاصل ہوں گی۔تاہم خیال یہی ہے کہ چینی حکومت اس تحقیق کو خفیہ اور اپنے تک رکھے گی۔ظاہر ہے،یہ تحقیق منظرعام پہ لانے سے حریف امریکی ویورپی سائنس داں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔امریکا بھی مگر چین کی دیکھا دیکھی چاند پہ اپنی بستی قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ویسے بھی دونوں عالمی قوتوں کے مابین ہر شعبہ ہائے زندگی میں مقابلہ شروع ہو چکا۔امریکی حکمران ہر صورت خصوصاً سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے رہنا چاہتے ہیں تاکہ خود کو دنیا کی اکلوتی سپرپاور کہلوا سکیں۔لیکن چین بھی امریکا کا بھرپور مقابلہ کر رہا ہے۔

امریکیوں کو بھی فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز وغیرہ کی ضرورت ہے۔کرہ ارض پہ ان دھاتوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اس باعث وہ تیزی سے نایاب ہو رہی ہیں۔چناں چہ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان قمری معدنیات کے حصول کی خاطر نئی جنگ چھڑ سکتی ہے… یہ کہ چاند پہ پہلے کون انسانی بستی بسائے گا۔اس انوکھی دوڑ میں فی الحال امریکا اور چین برابر بھاگ رہے ہیں۔امریکی 2011ء سائنس داں سے چاند پہ جانے کے لیے انسان بردار خلائی جہاز، اورین (orion) تیار کر رہے ہیں۔خیال ہے کہ اگلے پانچ برس میں امریکی بذریعہ اورین چاند پہ پہنچ جائیں گے۔وہ پھر طویل عرصہ وہاں قیام کریں گے۔دوسری سمت چین میں بھی ماہرین ’’چائنیز لارج موڈولر سپیس اسٹیشن‘‘(Chinese large modular space station )کے نام سے ایک دیوہیکل خلائی اسٹیشن تشکیل دے رہے ہیں۔یہ اگلے دو تین برس کے دوران خلا میں بھجوایا جائے گا۔اس کے بعد چین چاند پہ انسان بردار خلائی جہاز بھجوانے کی سعی کر سکتا ہے۔

چین کے صدر،شی جن پنگ اپنی مملکت کو سائنسی وٹکنالوجیکل طور پر مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہتے ہیں۔اسی لیے وہ اقتدار سنبھالتے ہی خلائی تحقیق و تجربات سے متعلق سرکاری و نجی اداروں کو اربوں ڈالر دینے لگے تاکہ چین خلائی سفر کے لیے درکار جدید ترین جہاز اور دیگر سازوسامان تیار کر سکے۔اب چین میں خلائی تحقیق زورشور سے جاری ہے۔خیال ہے کہ اگلے عشرے کے اختتام تک چین چاند پہ انسان بھجوانے والا دنیا کا دوسرا ملک بن جائے گا۔اس کے بعد چینی سائنس داں مریخ سیارے پر انسان بردار جہاز بھیجنے کی کوشش کریں گے۔تاہم ممکن ہے کہ تب تک مصنوعی ذہانت سے مالامال روبوٹ وجود میں آ جائیں…ایسے روبوٹ جو انسانی ذہانت و فراست کے مانند تحقیق و تجربات کرنے کی اہلیت وصلاحیت رکھتے ہوں ۔ان جدید ترین روبوٹوں کو پھر خلائی اسفار میں بھجوانا سبھی کے واسطے ترجیح اول بن جائے گی۔وجہ یہ کہ روبوٹ چوبیس گھنٹے کام کر سکتے ہیں،انھیں آرام و غذا کی ضرورت نہیں ہوتی۔پھر موت بھی ان سے دور رہتی ہے۔ان روبوٹوں کی آمد خلائی تحقیق کے شعبے میں انقلاب لا سکتی ہے۔

The post چینیوں نے نئی تاریخ رقم کر دی ؛ زندگی ۔۔۔۔۔ چاند پرپہنچ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

سی پیک چین میں اُردو سیکھنے کے رجحان میں اضافے کا باعث بن رہا ہے

$
0
0

 (قسط نمبر (13)
داغ دہلوی نے کہا تھا:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

سی آر آئی کی اردو سروس میں کام کرتے ہوئے بارہا یہ خیال آیا کہ ہمارے جو چینی ساتھی اتنی روانی سے اردوبول، لکھ اور پڑھ سکتے ہیں یہ انہوں نے کیسے سیکھی ۔ چین میں کون کون سے ادارے یا جامعات ہیں جہاں اردو کی تدریس کی سہولت موجود ہے۔ ایک روز دفتر میں اردو زبان کے ارتقاء پر بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے اپنے چینی ساتھی لیو شیاؤ ہوئی سے پوچھ لیا کہ انہوں نے اردو کی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے گریجویٹ ہیں ۔

اس جامعہ میں اردو کا شعبہ انیس سو اکاون میںقائم ہوا تھا ۔ اور اب تک برقرار ہے۔ ایک روز اسی یونیورسٹی میں پاکستان کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی تو ہمیں اس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں پر شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) سے بھی ملاقات ہوئی۔۔روانی سے اردو بولنے والی ڈاکٹر  Zhnag Jiamei (طاہرہ) کا اردو زبان سیکھنے اور جاننے کا سفر انیس سو ستانوے میں شروع ہوا جب انہوں نے یہا ں داخلہ لیا۔اس کے بعد انہوں نے یہیں سے گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن اور پھر پی ایچ ڈی کی ۔ یہیں انہوں نے اردو کی تدریس کاآغاز کیا اور اب شعبہ اردو کی سربراہ ہیں۔یوں ایک ہی شعبہ میں وہ طالبہ سے معلمہ بن گئیں۔ انہوں نے چین میں اردو کے فروغ کے بارے میں بتایا کہ اکثر طلباء کو ابتداء میں اردو سیکھنا مشکل لگتا ہے آتی ہیں۔

مگر جوں جوں وہ اس کو پڑھتے اورسمجھتے جاتے ہیں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) کی اردو سے وابستگی کو دو عشروں سے زائد عرصہ بیت چکا ہے اور وہ اب اُردو پر ایک محققہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہو ں نے بتایا کہ چین کی جامعات میں اردو کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تحقیق تو ہو رہی ہے مگر وہ زیادہ موثر نہیں۔ چین میںا ردو پر تحقیق کے عمومی موضوعات اردو ادب، برصغیر کی تاریخ و ثقافت اورمذہب ہیں۔ چین میں اردو کے فروغ کے لیے مزید کیا اقدامات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہاں اردو کی معیاری تعلیم کے لیے پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے اساتذہ کی سلیکشن اور ان کو یہا ں بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہا ں کسی خاص تنظیم کی ضرورت ہے۔

جس کے زیرا ہتمام ہر سال تقریری مقابلے اور مشاعرے منعقد ہوں۔ ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) اردو ، پاکستان کی ثقافت، برصغیر کی تاریخ کے بارے میں باقاعدگی سے مضامین لکھتی ہیں ۔ اصناف ادب میں سے انہیں افسانہ بہت پسند ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میںنو طلباء زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے ایک طالبہ پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ جب انہوں نے ایک چینی طالبہ کا اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کا بتایا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ساتھ تجسس بھی ہوا کہ اس طالبہ سے ملاقات ضرور کی جائے۔اس ملاقات کا اہتما م بھی ڈاکٹر Zhnag Jiamei (طاہرہ) کے توسط سے ہو گیا ۔ یوں ہماری ملاقات

نائلہ Zhou Jia) )  سے ہوئی جو کہ مغل عہد میں چین اور جنوبی ایشیا کے تعلقات کے بارے میں تحقیق کر رہی ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اردو زبان میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی تو کہنے لگیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے مجھے اپنے میجر مضمون کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ آپشنز تھے ۔ جن میں اردو بھی شامل تھی۔ تو میں نے سوچا کہ پاک چین دوستی بہت اہم ہے اور میں پاکستان کے بارے میں جاننا بھی چاہتی ہوں۔ جس کے لیے زبان جاننا ضروری ہے اس لیے میں نے اردو کو منتخب کیا۔ پم نے ان سے پوچھا کہ ایک بالکل اجنبی زبان کو سیکھنا کیسا لگا تو کہنے لگیں کہ شروع میں مشکل ہوئی کیونکہ سپیلنگ، تلفظ اور لہجہ چینی سے کا فی مختلف ہے۔ تھوڑی تھوڑی سیکھنے کے بعد دلچسپی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔اردو زبان کے دلچسپ پہلو کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اردو میں گیت، منظر کشی اور تصورات کے تازہ دم بیانات اور منطق کا اظہار سب سے دلچسپ ہے اور اردو ایک واضح زبا ن ہے۔

چین میںاردو کے مستقبل کے حوالے سے کہنے لگیں کہ چین میں زیادہ سے زیادہ لوگ اردو پڑھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور پاکستانیوں سے اردو میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ بعض پاکستانی فلم اور ڈرامہ دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ صدر شی جن پھنگ کا بیلٹ اینڈ روڈ چین میں کافی مقبول ہے اس وجہ سے چینی لوگ پاکستان کو اچھی طرح سے جاننے کے خواہشمند ہیں۔ چین میں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ نائلہZhou Jia) ) کو پاکستانی مصنفین میں سے خالدہ حسین بہت پسند ہیں ۔ان کے افسانے انہوںنے پڑھے ہوئے ہیں۔ پسندیدگی کی وجہ ان کے اندازِ تحریر کا مردوں سے مختلف ہونا ہے۔اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں مذہب، مغربی نقطہ نظر، اور پاکستان میں مڈل کلاس کے نئے خیالات شامل ہیں ۔

شاعروں میں انہیں فیض احمد فیض پسند ہیں۔ اردو ڈرامہ انار کلی کا کچھ حصہ انہوں نے پڑھا ہوا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کا انہوں نے چینی میں ترجمہ پڑھا ہوا ہے۔جس سے وہ کافی متاثر ہیں۔ چینی جامعات میں اردو میں پی ایچ ڈی کی کلاسز کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ فی الوقت پیکنگ یونیورسٹی اور بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی میں ہی پی ایچ ڈی ممکن ہے۔نائلہ پاکستانی شاعری، پاکستانی سماج کے متعلق ناولز اور افسانوں کا چینی میں ترجمہ کیے جانے کی خواہشمند ہیں تاکہ اس سے چین میں اردو کا فروغ زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔

ہمیں ایک مرتبہ دو ہزار سترہ میں بیجنگ میں واقع بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں یوم اقبال کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں پر اساتذہ اور طلباء سے ملاقات ہوئی ۔اس تقریب میںطلباء نے اردو نغمات بھی پیش کیے۔ چینی طلباء سے مخصوص اردو لہجے میں اردو سننا بہت اچھا لگا۔وہیں ہماری ملاقات اردو جاننے والے ایسے چینی افراد سے بھی ہوئی جو تدریس کے علاوہ دیگر شعبوں سے منسلک تھے۔ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ Zhou Yuan (نسرین) نے اردو کمیونکیشن یونیورسٹی آف چائنہ سے پڑھی اوران کے دو کلاس فیلوز ہمارے ساتھ سی آر آئی اردو سروس میں کام کر رہے تھے۔ یوں تقریب کے بعد ہونے والی گپ شپ میں معمول سے ہٹ کر ہمیں خصوصی توجہ حاصل رہی کیونکہ ہم نے سی آر آئی میں ان کے کلاس فیلوز سے اپنے تعلق کا حق جتایا۔ چین میں بغیر پیشگی وقت لیے ملاقات کرنا ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود انہوں نے نرمی دکھائی اور ہمارے کچھ سوالات کے جوابات دے دیے۔

سب سے پہلے تو ہم نے ان سے شعبہ اردو میں زیر تعلیم طلبا ء کی تعداد کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت بائیس طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہ طلباء کا تیسرا بیچ ہے، اور ہر چار سال بعد طلباء کو یہاں داخلہ دیا جاتا ہے۔ طلباء کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کرانے اور اردو میں ان کی مہارت کی بہتری کے لیے یہاں باقاعدگی سے اردو خطاطی، پاکستان کوئز ، تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں اردو فلموں کی ڈبنگ کے حوالے سے بھی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً پاکستان سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیات کو بھی مختلف موضوعات پر لیکچر کے لیے یہاں مدعو کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ادب پاروں کے چینی میں ترجمہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ستر اور اسی کے عشرے میں کرشن چندر اور علامہ اقبال کا کچھ کام چینی میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسی دور میں چینی شاعری ،لو ک کہانیوںاورناولز کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ مگر اب دونوں ممالک کے ادب کے ترجمے کا کام سست روی کا شکار ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب چونکہ چینی بہت بڑی تعداد میںاردو زبان سیکھ رہے ہیںاس لیے اُمید ہے کہ مستقبل میں ترجمے کا کام بہتر انداز میں ہوگا اور اس میں تیزی آئے گی۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ Zhou Yuan(نسرین ) نے بعد میں اپنے طلباء سے بھی ملوایا ۔ان سے بات چیت بھی بہت مفید رہی اور نوجوان چینی طلبا و طالبات سے اردو سیکھنے اور اس میں مستقبل کے حوالے سے ہونے والی گفتگو بہت دلچسپ رہی۔

ان طلباء سے بات کرتے ہوئے سب سے پہلی خوشگوار حیرت ان کے پاکستانی نام جان کر ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اردو سیکھنے والے چینی طلباء و طالبات کو سب سے پہلے ان کا اردو نام دیا جاتا ہے یہ ایک اچھی روایت ہے کہ جس ملک کی زبان سیکھ رہے ہیں اس زبان میں مستعمل نام بھی آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔تو سب سے پہلے ہماری ملاقات چین کے صوبے جیانگسو سے تعلق رکھنے والی

صدف (Lu Dongxin) سے ہوئی جنہیں اردو سیکھتے ہوئے ڈھائی سال ہو چکے ہیں۔ اردو کی وجہ انتخاب زبانیں جاننے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان۔ چین کی اچھی دوستی اور ہمسایہ ملک ہونا بھی اس کی وجہ ہے ۔  صدف (Lu Dongxin) کو برصغیر کی ثقافت سے خصوصی دلچسپی ہے اورمستقبل میں اس حوالے سے تحقیق کی خواہشمند ہیں تو اس لیے اردو کو میجر مضمون کے طور پر منتخب کیا۔ مستقبل میں اردو جاننے سے جڑے امکانی معاشی فوائد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج کل سی پیک کا بہت چرچا ہے اور چین ، پاک دوستی نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سائنسی و تکنیکی، تعلیم اور ثقافتی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک کو اردو سمجھنے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اردو سیکھ کر روزگار کے زیادہ مواقع حاصل کر سکتی ہیں۔چینی حکومت کی جانب سے انہیں اردو سیکھنے کے لیے پاکستان جانے کا سکالرشپ ملا ہوا ہے۔ پاکستان میں رہ کر ا نہوں نے پاکستانی معاشرت اور ثقافت کے بارے میں براہ راست علم حاصل کیا ۔ پاکستان میں قیام کو انہوں نے خوب انجوائے کیا ۔ یہاں کئی دوست بنائے اور یہاں قیام سے ان کی اردو زبان میں مہارت بہتر ہوئی ۔

چین کے شہر چھینگ تاؤسے تعلق رکھنے والی Zhang YI (عافیہ)بھی ہائی سکول سے گریجویٹ ہو کر کسی زبان کو سیکھنے کی خواہشمند تھیں۔ انہوں نے نے انٹرنیٹ پر کچھ معلومات سرچ کیں اور اردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ تعاون ہو رہا ہے۔ Zhang YI (عافیہ) کے نزدیک اردو سیکھنے کی سب سے بڑی وجہ مستقبل میں اس سے وابستہ روزگارکے مواقع ہیں۔ کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس سے انہیں چین اور پاکستان میں روزگار مل سکتا ہے۔اردو جاننے سے انہیں پاکستانیوں سے بات چیت میں آسانی رہتی ہے۔ اور پاکستانی ثقافت کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ ہونان سے تعلق رکھنے والی Hu Yinuo(عدیلہ) کی کہانی بھی اپنی کلاس فیلوز سے ملتی جلتی تھی ۔

ا نہیں بھی زبان جاننے کا شوق اردو کی جانب لے آیا ۔ ہائی سکول سے گریجویٹ ہونے کے بعدا نہیں کسی بھی زبان کو منتخب کرنا تھا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں پتہ چلا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور چین اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات موجود ہیں اور دونوں ممالک اچھے ہمسایہ ممالک بھی ہیں۔تو انہوں نے اردو کو چن لیا۔ Hu Yinuo(عدیلہ) کو چین، پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر سے ہونے والی تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے فرو غ سے روزگار کے مواقعوں کی دستیابی یقینی لگتی ہے۔ طالبات کو تو اردو سیکھنے سے چین یا پاکستان میں روزگار کے مواقعوں کا امکان نظر آتا ہے مگر چینی مرد طالب علم اردو سیکھ کر ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے امکانات پر بھی نظریںجمائے ہوئے ہیں۔

ایسے ہی چین کے صوبے لیاوننگ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم عمار (Fan Shuheng) ہیں جو کہ مستقبل میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اردو کو اپنے لیے فائدہ مند پاتے ہیں۔انہیں پاکستان کی رنگ برنگی ثقافت بہت بھاتی ہے۔ہنس مُکھ  اورنکلتے ہوئے قد کے مالک عمار شاعرانہ ذوق کے حامل ہیں۔ موسیقی سے کافی لگاؤ ہے۔ پاکستانی بانسری بجا لیتے ہیں او ر پاکستانی گانے بھی گا لیتے ہیں۔ پاکستانی گانے گا کر پاکستانیوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔

جبکہ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چین کے صوبے ہیبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم جنید (Wang Jingjiu) کے لیے اردو ان کے سفارت کار بننے کے خواب میں بہت مدد گار ثابت ہوئی ۔وہ بھی جب ہائی سکول سے گریجویٹ ہوئے تو انہیں معلوم تھا کہ  قریبی ہمسایہ ملک پاکستا ن کی قومی زبا ن اردو ہے اور وہ اردو زبان سیکھ کر چین میں اردو کے متعلق کام کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ انہیں وزارت ِ خارجہ کا امتحان پاس کرنے میں ہوا ۔یونیورسٹی کے دوسرے سال ہی انہوں نے وزارتِ خارجہ کے داخلہ امتحان میں حصہ لیا اور اردو کی بدولت پاس ہو گئے ۔ اس لیے وہ اردو کے بہت مشکور ہیں کیونکہ اردو کی وجہ سے ان کا سفارت کار بننے کا خواب سچ بن گیا۔ جنید (Wang Jingjiu)کو چینی اردو شاعر انتخاب عالم کا پاکستان اور چین کے دوستی کے متعلق لکھا یہ قطعہ بہت پسند ہے۔

روحِ دوستی

پاکستان میں اہلِ چین جب آتے ہیں

اس کے قریہ قریہ کو مہکاتے ہیں

اپنا دل رکھ جاتے ہیں گلدانوں میں

پاکستان کو سینے میں لے جاتے ہیں

جناب انتخاب عالم کی طرح وہ بھی چین اور پاکستان کی دوستی ہمیشہ برقرار رہنے کے لیے دعا گو ہیں ۔ وہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کو آگے بڑھا نے میں اپنی خدمات پیش کرنے کے حوالے سے پرجوش اور پرامید ہیں۔ چین کے صوبہ گانسو سے تعلق رکھنے والے مُوسیٰ (Chen Qiyuan) کو شاعری سے لگاؤ کی وجہ سے اردو پسند ہے۔ ان کے نزدیک اردو شاعری کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کی قریبی ہمسائیگی اور دونوں ممالک کے درمیان گہری پرانی دوستی بھی ان کے اردو سیکھنے کا باعث ہے۔ اردو زبان سیکھنے سے وہ مستقبل میں چین پاک دوستی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔اردو زبان سیکھنے سے انہیں پاکستان کی ثقافت،معاشرت ، سیاست، ادب کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔پاکستان کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہو اہے۔  مُوسیٰ (Chen Qiyuan)کے نزدیک پاکستانی ثقافت کے موجودہ خدوخال میں تاریخ اور مذہب کے اثرات بڑے نمایاں ہیں۔

مُوسیٰ (Chen Qiyuan) کو پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض پسند ہے، وہ اسے سادہ اور باوقار پہناوا قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی لوگوں کے کھانے پینے کی عادات کے حوالے سے ان کا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کی روزمرہ خوراک سادہ ہے لیکن شادی بیاہ اور دعوتوں میں پرتکلف کھانوں کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کی مذکورہ تقریب میں کچھ ایسے چینی احباب سے بھی ملاقات ہوئی جو اردوزبان بخوبی جانتے تھے مگر تدریس سے وابستہ نہیں تھے۔ انہی میں ایک معززمہمان لُو شِی لِن (Lu Shilin) بھی تھے جو پاکستان میں چین کے سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ان کا اردو سیکھنے کاآغاز بہت دلچسپ ہے۔ لُو شِی لِن شنگھائی کی ایک یونیورسٹی میں انگلش زبان سیکھ رہے تھے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی نے وزارتِ تعلیم کو ہدایت کی کہ ملک بھر سے طلباء کو منتخب کیا جائے اور انہیں دیگر زبانیں سکھائی جائیں۔ خوش قسمتی سے یہ بھی ان منتخب طلباء میں شامل ہو گئے جو زبانوں کو سیکھنے کے لیے منتخب ہو ئے ۔ انہیں اردو زبان سیکھنے کے لیے دہلی یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی جانے سے پہلے وہ اردو سے واقف نہیں تھے۔ وزیراعظم چو این لائی کا یہ موقف تھا کہ دنیا میں انگریزی کے علاوہ بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔

ہمارے سفارت کاروں کو دوسری زبانیں بھی آنی چاہییں۔ وزیر اعظم چواین لائی کہتے تھے کہ انگریزی بولنے والے ممالک کے مہمانوں یا سفارت کاروں سے ملاقات کرتے ہوئے توانگریزی مترجم کی ضرورت پڑتی ہے مگر ایسے ممالک جن کی زبان انگریزی نہیں ہے ان سے بات چیت کرتے ہوئے انگریزی کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے انہوں نے وزارتِ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ ایسے طلباء کو منتخب کریں جو کہ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانیں سیکھیں۔ تو وزیراعظم کے احکامات پر وزارتِ تعلیم کے پروگرام کے تحت جناب لُو شِی لِن (Lu Shilin) کو اردو پڑھنے کے لیے دہلی یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ اس وقت برصغیر تقسیم ہو چکا تھا اور ہندوستان اور پاکستان الگ الگ ملکوں کے طور پر وجود پا چکے تھے۔

لُو شِی لِن (Lu Shilin) نے دو سال تک وہاں اردو سیکھی دو سال بعدلُو شِی لِن (Lu Shilin) چین واپس آ گئے۔ اس کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی معاہدہ ہوا اور طلباء کا تبادلہ شروع ہوا تو پھر لُو شِی لِن (Lu Shilin)کو اردو پڑھنے کے پاکستان بھیج دیا گیا۔ دو برس کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پڑھتے رہے گریجویشن مکمل کی۔ اس وقت پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا اور چین کا سفارت خانہ بھی کراچی میں تھا تو انہوں نے کراچی ہی میں چین کے سفارت خانے میں کام شروع کر دیا۔ جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو چینی سفارت خانہ بھی منتقل ہو گیا۔ اس وقت لُو شِی لِن (Lu Shilin) اسلام آباد نہ آئے۔ چین کی حکومت نے کراچی میں اپنا قونصل خانہ بنا لیا۔تو انہوں نے قونصل خانہ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin) قونصل خانہ میں کام کرتے ہوئے بھی اردو سیکھتے تھے۔ وہ کتابیں پڑھتے تھے اورلوگوں سے ملتے تھے۔کراچی میں لُو شِی لِن (Lu Shilin) چار سال رہے ۔چار سال بعد وہ واپس چین آگئے۔ چین واپس پہنچنے پر انہوں نے چین کی وزارتِ خارجہ میں پاکستا ن ڈیسک پر چھ سال تک کام کیا۔ ۔ انیس سو نواسی میں انہیں ایک مرتبہ پھر پولیٹکل قونصلر بنا کر پاکستان بھیج دیا گیا۔

چار سال بعد چین واپس آگئے۔ اس کے بعد وہ تین برس تک چین میں رہے اور انہیں ایک کیربین ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد چینی حکومت نے انہیں سفیر بنا کر پاکستان بھیج دیا۔ انیس سوننانوے سے لیکر دوہزار دو تک وہ پاکستان میں چین کے سفیر رہے۔ دو ہزار دو میں بطور سفارت کار ریٹائر ہو گئے اور اب فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) کے سفارتی کیریر کا نوے فیصد سے زیادہ حصہ پاکستان میں سفارتی فرائض انجام دیتے ہوئے گزرا۔انہوں نے اردو زبان کے متعلق بتایا کہ شروع میں تو انہیں اردو کا علم بھی نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اس کے متعلق کچھ سنا تھا مگر جب انہوں نے اردو سیکھنا شروع کی تو اس میں دلچسپی لینا شروع کی اوراس میں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اساتذہ کا ذکر کیا۔ان کے اساتذہ میں ابواللیث صدیقی ، ڈین شعبہ اردو، ابو خیر کشفی ، فرمان فتح پوری اور جمیل اختر خان شامل تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ ایک اور چینی طالب علم بھی تھے۔

وہ بھی چین کی وزارتِ خارجہ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) کو اردو شاعری بہت پسند ہے۔  میر تقی میر، حالی، مرزا غالب، فیض احمد فیض اور علامہ اقبال کی شاعری پڑھی ہے۔لُو شِی لِن (Lu Shilin) خود بھی اردو میں کبھی کبھار شاعری کرتے ہیں۔ مگر چینی زبان میں شاعرانہ طبع آزمائی قدرے زیادہ کرتے ہیں۔ جب یہ پاکستان میں سفیر تھے تو انہوں نے چین، پاکستان سفارتی تعلقات کی سالگرہ کے سلسلے میں ایک مشاعرے کا بھی اہتمام کیا۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin) اگرچہ سفارت کاری سے سبکدوش ہو چکے ہیں مگر اردو سے ان کا تعلق برقرار ہے۔

وہ اب بھی اردو اخبار پڑھتے ہیں۔ریڈیو پاکستان کے پروگرامز سنتے ہیں۔ سی آر آئی کے اردو پروگرامز بھی سماعت کرتے ہیں اور پاکستانیوں سے اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک کتاب ( ـــ تم اور ہم چین اور پاکستان کی کہانیاں ) شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کو لُو شِی لِن (Lu Shilin)نے مرتب کیا ہے۔ اس کی لانچنگ کے لیے یہ اسلام آباد آئے تھے۔ ان کی خواہش ہے کہ اردو میں جو کتابیں ہیں وہ چینی زبان میںشائع کریں۔ تاکہ چینی لوگ اردو ادب سے واقف ہو جائیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان ثقافتی تبادلہ بھی بہت اہم ہے۔ ان کے نزدیک اردو شاعرانہ زبان ہے اردو شاعری کے لیے بہت موزوں ہے۔ جب انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری پڑھی تو انہیں اردو سے محبت ہو گئی۔ پاکستان میں تعیناتی کے دوران اردو زبان جاننے کی وجہ سے ملنے والی پذیرائی کے بہت سے واقعا ت انہیں یاد ہیں۔ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ چین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پرآیا۔ تو یہ ان کے ساتھ مترجم کے طور پر تعینات ہوئے۔

وفد نے پاکستان کے مختلف شہرو ں کادورہ کیا۔ وفد کے لیڈر جب تقریر کرتے اور یہ ا ن کا ترجمہ کرتے تو لوگ بہت تالیاں بجاتے اور بہت خوش ہوتے۔ وفد کے لیڈر نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی لوگ اتنی تالیاں کیوں بجاتے ہیں اتنے گرم جوش کیوں ہیں۔ میں نے کہاکہ پاکستان کے لوگ بہت دوستانہ ہیں اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ چینی وفد کا اپنا مترجم ہے جو کہ اردو زبان جانتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ تالیاں بجاتے ہیں۔جنرل مشرف جب پاکستان کے صدر تھے تو ان کے ساتھ ان کی بڑی دوستی تھی اور وہ اردو زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔جب جنرل مشرف چین کے دورے پرآئے تو دورے سے پہلے انہوں نے ان کے لیے ایک دعوت کا اہتما م کیا ۔ اس دعوت میں انہوںنے اپناکلام سنایا جس کو انہوں نے سراہا۔

لُو شِی لِن (Lu Shilin) کی پاکستان کے نامور ادیب شوکت صدیقی سے بہت دوستی تھی۔ کراچی میں تعیناتی کے دوران ان کے ہاں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ انہوں نے ان کا ناول خدا کی بستی پڑھا ہوا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس کا چینی میں ترجمہ کرتے مگر اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ پاکستان کے نامور شعراء کے کلام کا چینی زبان میں ترجمہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ پاک چین دوستی کے حوالے سے ان کے کئی مضامین پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چین میں اردو کا مستقبل بہت شاندار ہے۔

چین میں اردو کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ کام ہور ہا ہے۔سی پیک کی وجہ سے اردو زبان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لُو شِی لِن (Lu Shilin)نے معروف چینی شاعر Zhang Shixuan (انتخاب عالم)  کی جانب سے پاکستان کے معروف شاعر فیض احمدفیض کے شعری مجموعہ “نسخہ ہائے وفا” کے چینی ترجمے کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔اس کے علاوہ چین اور پاکستان کی دوستی ، تاریخ ، سفارتی تعلقات کے حوالے سے ان کے کئی مضامین پاکستان کے اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔چینی شاعر Zhang Shixuan (انتخاب عالم) کا شعری مجموعہ ” تازہ صبا” بھی ان دنوں اشاعت کے مراحل میں ہے۔چین میں سی پیک کی وجہ سے اردو کی تدریس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک وقت تھا چین میں اردو کی تدریس معدودے چند جامعات تک محدود تھی مگر اب یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے ۔اب چین میں تیانجن، انرمنگولیا، کن منگ، سیچوان ، صوبہ گوان تنگ، گوانگ چو،شی آن ، شنگھائی، ینان کی جامعات میں اردو کی تدریس کے انتظامات موجود ہیں۔ مزید برآں سی آرآئی اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی بھی اردو شاعری کے منتخب کلام کو چینی میں ترجمہ کر کے چین میں مقبول سماجی رابطوں کی ایپ وی چیٹ پر شیئر کرتے ہیں۔اب تک و ہ اردو کی سو سے زائد غزلوں اور نظموں کا چینی میں ترجمہ کر چکے ہیں۔

یہ کام وہ رضاکارانہ اور اپنے شوق کے تحت کر رہے ہیں۔ اردو سمجھنے والے چینی شہری ان کے کام کی تحسین کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ چینی شہری ان کے چینی ترجمے کی مدد سے اردو شاعری کو سمجھ رہے ہیں اور اردو ادب سے ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ لیو شیاؤ ہوئی کے نزدیک چین میں اردو کے فروغ کے لیے سنجیدہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی فلم چین میں نمائش پزیر ہوئی تو بہت سراہی گئی۔ چین میں قیام کے دوران راقم کو مشاہدہ ہوا کہ پڑوسی ملک کی فلمیں اور ڈرامے چین میں بہت مقبو ل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو چینی زبان میںڈب کر کے چین کی مارکیٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کو چینی میں ترجمہ اور ڈبنگ کے ساتھ چین میں پیش کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو چین میں اردو اور پاکستانی کلچر کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف سی پیک سے ثقافتی شعبے میں حاصل ہونے والے متوقع فوائد کو بھی سمیٹا جا سکے۔

(جاری ہے)

 محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ

The post سی پیک چین میں اُردو سیکھنے کے رجحان میں اضافے کا باعث بن رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>