Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ سرکاری توجہ کی منتظر …!!

$
0
0

شتر مرغ زمانہ قدیم کے ان پرندوں میں سے ہے جنہوں نے اپنی نسل کو محفوظ رکھا ہوا ہے، اس کا اصل وطن افریقہ اور عرب کے ریگستان ہیں مگر اب یہ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور ایشیاء کے بعض ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان تمام ممالک کے شتر مرغ رنگ اور قد کے حوالے سے تھوڑا سا فرق رکھتے ہیں، شتر مرغ کا قد چھ سے آٹھ فٹ تک ہوتا ہے، اس کی لمبائی میں نمایاں حصہ اس کی گردن اور ٹانگوں کا ہوتا ہے، یہ اپنی قامت اور چال ڈھال سے اونٹ کی طرح ہوتا ہے، اس کے باوجود یہ پردار پرندہ ہے۔

یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کی چھ سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر سائوتھ افریقہ، بیلجئم اور آسڑیلیا کی نسل کے شتر مرغ پالے جاتے ہیں، ’’بلیک آسٹرچ‘‘ نام کی یہ نسل شتر مرغ کی بہترین نسل شمار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کا رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، شتر مرغ کا گوشت بھی اپنی طبی افادیت اور غذائیت کی وجہ سے مرغوب غذائوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے اس سلسلے میں نوجوانوں کی رغبت اور پسندیدگی خاص اہمیت کی حامل ہے، تاہم ابھی پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔

اگر اس کاروبار کو حکومتی توجہ مل جائے تو پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں شتر مرغ کی افزائش یا بریڈنگ کا نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے پاکستان میں یہ کاروبار بہت مہنگا تصور کیا جاتا ہے، اسی حساب سے شتر مرغ کا گوشت بھی بہت زیادہ مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جو فارمرز یہ کاروبار کر رہے ہیں وہ جنوبی افریقہ، بیلجیم اور آسڑیلیا سے پرندے منگواتے ہیں ایک ماہ کا پرندہ پندرہ ہزار سے سترہ ہزار روپے میں فارم تک پہنچتا ہے بعض صورتوں میں اس سے کم قیمت پر بھی پرندہ دستیاب ہو جاتا ہے، جب ایک پرندہ تیار ہو جاتا ہے تو اس پر خوراک، ادویہ اور دیگر اخراجات ملا کر قریباً 50000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔

شتر مرغ کی بریڈنگ سے ایک مکمل شتر مرغ تیار ہونے کے مراحل پر بات کی جائے تو بہت سی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں، بریڈر انڈے سے شتر مرغ کا بچہ نکلنے کے بعد کچھ دن اسے اپنے پاس رکھتا ہے، اس کے بعد اسے درآمد کنندگان کے ذریعے فارمر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، فارمر کے حوالے کیے جانے کے وقت شتر مرغ کا بچہ عموماً 20 دن کا ہوتا ہے جسے درآمد کنندگان ایک ماہ کا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ فارمر کے حوالے کئے جانے کے وقت شتر مرغ کا وزن ایک کلو سے بھی کم ہوتا ہے۔ شتر مرغ کو فارمز میں مرغی کی طرح ہی پالا جاتا ہے۔

انہیں صرف ابتدائی تین ماہ انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد یہ سخت جان پرندے موسمی اثرات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ شتر مرغ کو فارم میں باڑ لگا کر احاطے میں رکھا جاتا ہے، اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہر گند بلا بھی کھانے لگتے ہیں۔ شتر مرغ کو ابتدائی تین ماہ اس لیے زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہی تین ماہ کے دوران ان پر بیماریوں کے حملے کے خدشات زیادہ ہوتے اور انہی ایام میں وزن بڑھنے سے ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، تین ماہ کے بعد شتر مرغ کا وزن 10 سے 12 کلوگرام تک ہو جاتا ہے۔

ابتدائی تین ماہ میں یہ پرندے بڑی تیزی سے وزن بڑھاتے ہیں، اس لیے ان میں وزن آجانے کے بعد ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، ابتدائی تین ماہ میں انہیں زیادہ معتدل فضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ شتر مرغ کے فارمز عموماً کھلے اور وسیع بنائے جاتے ہیں کیونکہ ایک پرندے کو قریباً ایک مرلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فارمز میں انہیں شیڈ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی یہ پرندے زیادہ تر سائے میں بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتے، گرمی اور سردی کی راتوں میں بھی باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کے چھوٹے پرندوں کو بڑے پرندوں سے الگ رکھا جاتا ہے، چھوٹے پرندوں کو 24 گھنٹے ایک نگران کی ضرورت ہے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک ماہر آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے مسائل اور نفسیات کو پیشہ ورانہ طور پر سمجھتا ہو‘ شتر مرغ ایک سال میں مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے۔

تیار ہوجانے کے بعد اس کا عمومی وزن 80 سے 100 کلو ہوتا ہے، بہتر دیکھ بھال اور خوراک کی وجہ سے اس کا وزن 120 یا 130 کلو بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یوں بھی شتر مرغ کی طرف دیکھتے ہی جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے، وہ شتر مرغ کے پائوں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے پائوں کھر نما ہوتے ہیں‘ کہا جاتا ہے شتر مرغ کے چار پیروں میں سے دو ختم ہو چکے ہیں اور دو باقی ہیں‘ یہ اپنے لمبے اور تیز ناخن سے کسی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔

اگر اسے گھیر لیا جائے تو یہ اپنے تیز اور نوکیلے ناخنوں سے مقابلہ کرتا ہے۔ شتر مرغ ہر وقت چوکنا رہتا ہے، اس کی گردن اس کے لئے ریڈار کا کام کرتی ہے جسے یہ ہر وقت گھماتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص طاقت کے حامل ہوتے ہیں جو اس وزنی پرندے کو سہار کے رکھتے ہیں۔ شتر مرغ کی خوراک‘ عادات اور مزاج پر بات کی جائے تو ان کی عادات دیسی مرغیوں کی طرح ہوتی ہیں‘ ویسے تو شتر مرغ کے لئے آسٹرچ فوڈ خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے جو فارمرز کو رفاہ یونیورسٹی سے دستیاب ہوتی ہے۔

عمومی طور پر شتر مرغ برسیم مکئی اور لوسن شوق سے کھاتے ہیں، لوسن ان کی شاہانہ خوراک ہے، برسیم اور لوسن ان کو جتنا مرضی کھلا دیا جائے یہ شوق سے کھاتے ہیں‘ سردیوں میں انہیں پالک بھی کھلائی جاتا ہے کیونکہ وہ گرم ہوتی ہے۔ ایک شتر مرغ کی روزانہ خوراک اڑھائی کلو سبزہ اور اڑھائی کلو آسٹرچ فوڈ ہوتی ہے۔ شتر مرغ نر اور مادہ زیادہ تر ساتھ ساتھ رہتے ہیں‘ باڑے میں نر اپنی مادہ کے قریب قریب رہتا ہے جو اپنی مادہ کا خیال بھی کرتا ہے اور دفاع بھی، کمزور پرندے کو دیگر پرندے بری طرح مارتے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کو دیگر جانوروں کی نسبت پالنا زیادہ آسان ہوتا ہے‘ یہ گند اور فضلہ بھی زیادہ نہیں کرتے۔

جنوبی پنجاب اور پاکستان کے دیگر شہروں میں شتر مرغ فارمنگ کا تو ایک کلچر بن چکا ہے، بہت سے فارمرز نہ صرف پیشہ ورانہ انداز میں شتر مرغ کی فارمنگ کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کے فارمرز سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں اور ان کے تجربات سے استفادہ بھی کر رہے ہیں، اب پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کے حوالے سے اصل مسئلہ صرف شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ اور کھپت کا رہ گیا ہے۔گورنمنٹ کے اداروں کی طرف سے ہر شہر میں آسٹرچ میٹ شاپس بن جائیں تو اس کی مارکیٹنگ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں کاروباری لوگوں کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے‘ آسٹرچ میٹ کی ملتان اور جنوبی پنجاب میں کوئی مارکیٹ نہیں ہے، بڑے بڑے ہوٹلز کی بھی ابھی اس طرف توجہ نہیں ہے‘ کچھ چھوٹے ہوٹلز پر ضرور شتر مرغ کا گوشت کڑاہی اور باربی کیو کی صورت فروخت ہو رہا ہے‘ ان ہوٹل مالکان نے اپنے طور پر شتر مرغ کے گوشت کی دستیابی کی تشہیر بھی کی ہے‘ بڑے ہوٹلز کا ابھی اس طرف رجحان اس لئے نہیں ہے کہ گورنمنٹ نے اس کی مارکیٹنگ پر کوئی توجہ نہیں دی‘ جب تک گورنمنٹ اس طرف توجہ نہیں کرے گی کچھ بھی نہیں ہوگا۔ شتر مرغ فارمرز اپنے طور پر ہی گوشت کی فروخت کرتے ہیں، وہ بھی ڈیمانڈ کی صورت میں اگر 40 کلو سے زائد گوشت کی ڈیمانڈ ہو تو پرندہ ذبح کرا لیا جاتا ہے۔

شتر مرغ کا گوشت

شتر مرغ کے گوشت میں آئرن بہت زیادہ ہوتا ہے، دوسرا یہ مٹن اور بیف سے ذائقے اور غذائیت میں بہت بہتر ہوتا ہے، یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک سعودی عرب، ایران اور ترکی میں اس کے گوشت کی بہت زیادہ مانگ ہے، ایک امریکن ریسرچ کے مطابق امراض قلب شوگر اور بلڈ پریشر کے لیے شتر مرغ کا گوشت بہت زیادہ مفید ہے، دل، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگر ماہانہ 5 سے 6 کلو گوشت باقاعدگی سے کھائیں تو ان کی صحت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کولیسٹرول لیول بھی کم ہو سکتا ہے۔ شتر مرغ کی چربی کا تیل مختلف ادویہ میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ شتر مرغ کو اونٹ کی طرح ہی ذبح کیا جاتا ہے جس طرح اونٹ کو گردن پر تین مقامات سے ذبح کیا جاتا ہے شتر مرغ کو بھی اسی طرح ذبح کیا جاتا ہے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ کے حوالے سے گورنمنٹ کی پالیسی نہایت سست ہے، سست اس طرح سے ہے کہ نہ تو سرکار نے شتر مرغ کو ذبح کرنے کے لیے کوئی سلاٹر ہائوس بنایا ہے نہ ہی گوشت کی سپلائی اور کھپت کے لیے سیل پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔

گورنمنٹ کی طرف سے فارمرز کو نہ تو کوئی امداد مل رہی ہے نہ ہی تعاون کیا جا رہا ہے، گوشت کی فروخت کے حوالے سے فارمرز اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں حکومت کو چاہیے شتر مرغ کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے اشتہاری مہم شروع کرے جیسے اونٹنی کے دودھ کی مارکیٹنگ کی گئی ہے، اس اشتہاری مہم میں شتر مرغ کے گوشت کی افادیت، طبی خصائص کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ یوں لوگوں میں تجسس پیدا ہو گا اور وہ ضرور ایک بار شتر مرغ کے گوشت کو آزمائیں گے، اس سلسلے میں ڈاکٹرز اور علماء کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں شتر مرغ کے گوشت سے عدم رغبت کی ایک وجہ حلال حرام کا تصور بھی ہے۔

اگر ڈاکٹر اور علماء لوگوں کو اس کے بارے میں معلومات دیں تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ شتر مرغ حلال پرندوں میں شامل ہے جس طرح تمام حلال پرندوں کے دو پوٹ ہوتے ہیں شتر مرغ کے بھی دو پوٹ ہوتے ہیں۔ 100 کلو کے پرندے میں سے 60 کلو گوشت نکل آتا ہے۔ شتر مرغ کی کھال بھی خاصی قیمتی ہوتی ہے‘ لیکن پاکستان میں ابھی شتر مرغ کی کھال کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے‘ باہر کے ملکوں میں ضرور اس کی ڈیمانڈ ہے لیکن باہر بھیجنے کے لئے پورا کنٹینر چاہئے‘ شتر مرغ کی کھال 30 ہزار سے زائد میں فروخت ہو سکتی ہے۔

ویسے شتر مرغ کی کھال پر پاکستان میں بھی کام ہورہا ہے کراچی کی ایک فیکٹری جو لیدر کی اشیاء بناتی ہے وہ آسٹرچ لیدر کے شوز اور ہینڈ بیگ بنانے میں دلچٖسپی رکھتی ہے‘ شتر مرغ کے پر ویسٹ میں چلے جاتے ہیں لیکن اس کے ناخن اور چربی بھی فروخت ہوتی ہے‘ شتر مرغ کا گوشت اس وقت مارکیٹ میں 1500 روپے سے 2000 روپے تک فروخت ہو رہا ہے گوشت کے ساتھ ساتھ شتر مرغ کے پائے بھی کھائے جاتے ہیں جو بکرے کے پائے سے بھی زیادہ مقوی ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق شتر مرغ کے پائے شوگر کے مریضوں کے لئے بہت زیادہ مفید ہیں۔ ایک شتر مرغ سے دو کلو کے قریب کلیجی بھی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت زیادہ تر کڑاہی اور باربی کیو میں استعمال کیا جاتا ہے۔

شتر مرغ کی بیماریاں اور علاج
جب پاکستان میں یہ کاروبار شروع ہوا تو فارمرز کو اس حوالے سے نہ تو زیادہ معلومات تھیں نہ ہی کسی نے ہوم ورک کر رکھا تھا کچھ عرصہ پہلے تک محکمہ لائیوسٹاک کی طرف سے بہتر سہولیات مل رہی تھیں، مقررہ دنوں میں لائیوسٹاک کا عملہ آتا اور پرندوں کی ویکسی نیشن کر جاتا تھا، اگر ان پر کوئی بیماری کا حملہ ہو جاتا تو ڈاکٹر کو خصوصی طور پر بلا لیا جاتا تھا جب سے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق اس محکمہ سے الگ ہوئے ہیں اب ڈاکٹرز آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں یہ پرندے رانی کھیت کی بیماری کا شکار ہوئے، ہم نے لائیو سٹاک والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ شتر مرغ کو یہ بیماری متاثر نہیں کرتی، اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف فارمز پر پرندے مرنا شروع ہو گئے۔

پھر فارمرز نے ایران کے ایک ماہر آسٹرچ فارمر سے رابطہ کیا، اس نے پرندوں کی ویڈیو منگوائی اور اسے دیکھ کر کہا کہ ان پرندوں کو سو فیصد رانی کھیت کی بیماری ہے پھر ان کی ویکسی نیشن کی، پانی میں ملا کر ادویہ دی گئیں اس دن کے بعد سے کوئی پرندہ بیمار نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو محکمہ لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز نے فارمرز کو ویکسی نیشن کے حوالے سے مس گائیڈ کیا اور مختلف ادویہ دی گئیں ایک پرندے کی دوائی کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے تھی جس سے اخراجات بہت بڑھ گئے پرندے مرنے سے الگ نقصان ہوا بعد ازاں اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق نے بھی اس بات کو ایڈمٹ کیا کہ شتر مرغ کی ویکسی نیشن کے حوالے سے امپورٹرز اور لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز کی طرف سے مجھے بھی غلط بریفنگ دی گئی کہ ان پرندوں کو رانی کھیت کا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔

شتر مرغ فارمنگ کے مسائل
پاکستان میں شتر مرغ کی بڑے پیمانے پر بریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پرندے بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتے ہیں، اس سلسلے میں پہلے درآمد کنندگان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ بتانا پڑتی ہے۔ پرندے زیادہ تر بیلجئم، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے منگوائے جاتے ہیں۔ ایک ماہ کا پرندہ سترہ ہزار روپے کا پڑتا ہے، پرندوں کی عمر کے حوالے سے بھی فارمرز کو مس گائیڈ کیا جاتا ہے۔ ملتان میں آسٹرچ فارمنگ کا آغاز کرنے و الے فارمر ذیشان خواجہ نے ہمیں بتایا کہ ایکسپورٹرز فارمرز سے بالکل بھی تعاون نہیں کرتے، جب میں نے دوسری بار پرندوں کے لیے بکنگ کرائی تو ایک ہفتہ بعد ڈیلیوری کا کہا گیا لیکن پرندے آنے میں 8 ماہ لگ گئے، 8مہینے بعد بھی میں نے اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق سے رابطہ کیا تو دوسرے دن ہی سپلائی مل گئی۔

ذیشان خواجہ نے بتایا کہ پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی فارمرز کو اس کا صحیح طور پر منافع بھی نہیں مل رہا، کھپت ٹھیک ہو جائے تو منافع ہو سکتا ہے، جو بھی نیا فارمر یہ کاروبار شروع کرتا ہے، اسے پہلے فلاک میں نقصان ہی ہوتا ہے اس میں بھی زیادہ تر سرکاری محکموں کی غفلت شامل ہوتی ہے۔ پہلے حکومت شتر مرغ فارمرز کو 10 ہزار روپے فی پرندہ خوراک کی مد میں سبسڈی دے رہی تھی جس سے فارمرز کچھ سہولت میں تھے۔

پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن رواں سال کے ابتداء میں تشکیل پائی اور بوریوالہ سے تعلق رکھنے والے فارمر رانا خالد اس کے صدر منتخب ہوئے، شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر رانا خالد نے بتایا کہ نئی حکومت نے ابھی تک شتر مرغ فارمنگ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، ہم نے اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے اور سیکرٹری لائیو سٹاک سے بھی مسائل کے حل کے لیے ملاقات کی تاہم ابھی تک اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، حکومت پہلے فارمرز کو جو سبسڈی دے رہی تھی اس کی ادائی بھی تعطل کا شکار ہے، فارمرز کو یہ سبسڈی تین اقساط کی صورت میں دی جاتی ہے، سیکرٹری لائیو سٹاک کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ نہیں ہے کہ فارمرز کو سبسڈی کی ادائی کی جائے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے طور پر سعودی عرب کی پارٹیز سے معاہدہ کر رہے ہیں تاکہ اپنے پرندے وہاں بیچ سکیں۔ ابھی گوشت کی پیکنگ کے کچھ مسائل ہیں۔

اگر یہ مسائل حل ہو گئے تو جلد سعودی عرب کو سپلائی دی جائیگی۔ رانا خالد نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں شتر مرغ کی فارمنگ ہو رہی ہے بہت سے نوجوان اس کاروبار کی طرف آئے ہیں جنہوں نے بہت مہنگا چوزہ خریدا لیکن شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے سب پریشان ہیں۔ پنجاب میں درآمد کنندگان کی مناپلی بھی فارمرز کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جو اکثر فارمرز کو بی کلاس چوزہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت مہنگا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے اسے بیرونی ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے اگر پاکستان میں شتر مرغ کی نیچرل پراسس سے بریڈنگ ہونا شروع ہو جائے تو اس کاروبار میں بہت بہتری آسکتی ہے۔

The post پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ سرکاری توجہ کی منتظر …!! appeared first on ایکسپریس اردو.


انتخابات2018ء کئی اعتبار سے تاریخی ثابت ہوئے

$
0
0

بیرونی دنیا پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو اس لئے اہم سمجھتی ہے کہ20کروڑ آبادی کا حامل یہ ملک سب سے زیادہ آبادی والے مسلم ممالک میں سے ایک ہے، نیوکلیئر بھارت کا حریف ہے جبکہ دنیا کی ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک ہے اور جس میں ابھرنے اور ایک طاقت بننے کی بے پناہ صلاحیت اور مواقع ہیں۔ جس ملک میں یہ سب عنوانات اکٹھے ہو جائیں، وہ  پوری دنیا بالخصوص اقوام مغرب کے لئے غیراہم نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتوں کے لئے یہاں حکومتیں بننا اور بگڑنا نہایت اہم ہوتاہے، وہ  پاکستان میں ہونے والے تمام سیاسی اور معاشی واقعات  پر خصوصی نظر رکھتی ہیں۔

اکیسویں صدی اس اعتبار سے خاصی مبارک ثابت ہوئی کہ2002ء کے بعد ہر برسراقتدار جماعت نے اپنی مدت اقتدار پوری کی، اس کے بعد عام انتخابات اپنے وقت پر منعقد ہوئے، تاہم ایک حکمران جماعت دوسری مدت کے لئے منتخب نہ ہو سکی اور اگلی حکمران جماعت نے پرامن ماحول میں باگ ڈور سنبھالی تاہم یہ دلچسپ حقائق ہیں کہ اولاً : اکیسویں صدی میں پاکستان میں کوئی بھی جماعت اگلی مدت کے لئے حکمران نہ بن سکی۔

ثانیاً :گزشتہ ہرمدت اقتدار کے دوران میں حکمرانی ایک جماعت کی رہی تاہم  وزیراعظم ایک نہ رہا۔ سن 2002ء سے 2008ء تک مسلم لیگ ق برسراقتدار رہی لیکن ان پانچ برسوں کے دوران پہلیمیرظفراللہ خان جمالی، پھر چودھری شجاعت حسین اور پھر شوکت عزیز وزرائے اعظم رہے،2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی برسراقتدار رہی، اس کے پہلے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی تھے پھر راجہ پرویزاشرف یہ ذمہ داری اداکرتے رہے۔ 2013ء سے2018ء تک اقتدار مسلم لیگ ن ہی کا رہا لیکن پہلے میاں محمد نوازشریف اور پھر شاہدخاقان عباسی وزیراعظم رہے۔ یوسف رضاگیلانی اور میاں محمد نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلوں کا شکار ہوئے ، کہا جاتا ہے کہ میرظفراللہ خان جمالی کو اُس وقت کے صدرجنرل پرویزمشرف نے استعفیٰ دینے کو کہا تھا، نتیجتاً چودھری شجاعت حسین عبوری مدت کے لئے وزیراعظم بنے۔

یوسف رضاگیلانی کو توہین عدالت کرنے کے جرم میں رکن پارلیمان اور وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہل کیاگیا جبکہ میاں محمد نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور چھپانے کے جرم میں۔ سپریم کورٹ نے موخرالذکر کو نااہل قراردیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے انتخابات2013ء کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی میں نہیں بتایا کہ وہ دبئی میں ایک کمپنی کے ملازم بھی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو کو حکم دیا کہ وہ میاں نوازشریف، ان کے بچوں اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر مقدمہ چلائے۔

میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد حکمران جماعت نے باقی مدت کے لئے شاہدخاقان عباسی کو وزیراعظم مقررکیا۔ انھوں نے یکم اگست 2017ء کو یہ منصب سنبھالا اور 31 مئی 2018ء تک یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ اپنے قیام ہی سے پاکستان میں سول، ملٹری کشمکش دیکھنے کو ملی۔ اگرچہ یہ تیسرا موقع تھا کہ ایک سویلین حکومت انتخابات کے بروقت انعقاد کا ماحول بنا رہی تھی، تاہم ملک کی مجموعی سیاست پر مسلم لیگ ن اور فوج کے درمیان شدید تناؤ دیکھنے کو مل رہاتھا۔ مسلم لیگ ن کے ذمہ داران اور کارکنان شکوہ کناں تھے کہ انھیں ہرانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔

دھونس دھمکی کے ذریعے ان کے لوگوں کو پارٹی چھوڑنے اور تحریک انصاف کی حمایت کرنے کو کہا جا رہا ہے، ان کے مطابق ملک کی طاقتور ترین سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگی کارکنوںکے خلاف کریک ڈاؤن کرا رہی ہے، قریباً 17000 رہنماؤں اور کارکنوں پر مقدمات قائم ہوئے۔ دوسری طرف میڈیا کے بعض اداروں کی طرف سے شکایات سامنے آئیں کہ انھیں سنسرشپ کا سامنا ہے جبکہ بعض حلقے انتخابات میں عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کے متحرک ہونے پر تشویش ظاہر کرتے رہے۔ پاکستا ن میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارے ’انسانی حقوق کمیشن‘ نے عام انتخابات کو ’گندے ترین‘، ’مہنگے ترین‘،  ’پولارائزڈ الیکشن‘ اور ’بکواس الیکشن‘ قراردیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ الیکشن میں انجیئنرنگ کرائی جا رہی ہے۔

انسانی حقوق کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لئے سکیورٹی فورسز کو سول اداروں کا مینڈیٹ اور اختیارات دیے جانے پر شدید تحفظات، امیدواروں کو ہراساں کرنے کی خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا  اور کہا کہ تشدد کے متاثرین مخصوص جماعت کے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق سارے قوانین بھی کچھ معتوب پارٹیوں کیلئے ہیں۔

سارے پولیس کے ضابطے بھی معتوب پارٹیوں کیلئے ہیں، ریلی روکنا، بین کرنا یہ بھی صرف معتوب پارٹیوں کیلئے ہے، پسندیدہ لوگوں کو کھلی چھوٹ لیکن مخصوص پارٹیوں کے جلسوں میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔  انسانی حقوق کے کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس حقیقت کا پتہ بھی شاید اصغر خان کے کیس کی طرح کئی دہائیوں بعد چلے گا۔ انتخابی مہم کے دوران  تشدد کے اکادکا واقعات ہوئے تاہم 13جولائی کو تشدد کا بدترین واقعہ ہوا جب کوئٹہ میں ایک ریلی پر خودکش حملہ میں 150 افراد جاں بحق ہوئے۔  اس تناظر میں انتخابات سیکورٹی فورسز کی بھاری تعداد کے ساتھ منعقد ہوئے جس میں صرف پاک فوج کے تین لاکھ 71جوان تھے جبکہ مجموعی طور پر85 ہزار پولنگ سٹیشنز پر متعین حفاظتی اہلکاروں کی تعدادآٹھ لاکھ تھی۔

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا خیال تھا کہ انتخابی نتائج ثابت کریں گے کہ پاکستانی عوام کرپشن میں لتھڑے ہوئے سیاست دانوں سے بے زار ہے جبکہ مسلم لیگ ن پرامید تھی کہ انتخابات میاں نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کو غلط ثابت کردیں گے، پاکستان پیپلزپارٹی جو 2013 کے انتخابات میں ایک صوبے تک محدود ہوکے رہ گئی تھی، بھی بڑی کامیابی کے مسلسل دعوے کرتی رہی۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی خصوصی طور پر صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومت سازی کے لئے پرامید تھا۔ تاہم25 جولائی کی رات انتخابی نتائج تحریک انصاف کے علاوہ باقی تمام جماعتوں کے لئے حیران کن تھے۔ سن 2013ء کے انتخابات میں محض 28 نشستیں جیتنے والی تحریک انصاف نے 112نشستیں جیتیں جبکہ مسلم لیگ ن61 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی2013ء میں اس کی نشستیں 126 تھیں، پیپلزپارٹی نے42 نشستیں جیتیں، 2013ء میں اس کی نشستوں کی تعداد 32 تھی۔  پیپلزپارٹی کا نقصان یہ ہے کہ وہ اب تیسرے درجے کی جماعت بن گئی۔ متحدہ مجلس عمل چوتھے نمبر پر رہی، اس کی نشستوں کی تعداد16تھی۔ اس بار آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیتے۔

گزشتہ 35برسوں سے کراچی پر تن تنہا حکمرانی کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کو اس بار مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا، دیگرتمام جماعتوں نے بھی کھل کر انتخابی جنگ لڑی۔ تحریک انصاف نے کراچی کی 21 نشستوں میں 14سیٹیں جیت لیں۔  ایک اہم واقعہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا اپنے گڑھ لیاری سے ہارنا بھی تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کو بھی 2013ء جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات کا ایک اہم اور حیران کن پہلو تحریک لبیک پاکستان کا بریلوی مکتب فکر کے ووٹ بنک کو اکٹھا کرنا اور اسے اپنا بنانا تھا۔ اگرچہ اس نے سندھ اسمبلی کی محض دو سیٹیں جیتیں تاہم بریلوی مکتب فکر جو ایک طویل عرصہ سے بکھرا ہواتھا، کو اکٹھا کرنا اس کا اہم کارنامہ شمار کیاگیا۔

اس کے امیدواروں نے بہت سے حلقوں میں اوسطاً 10ہزار ووٹ حاصل کئے، بعض امیدواروں نے 42 ہزار تک ووٹ حاصل کئے۔ ان انتخابات میں اہل سنت والجماعت (سابقہ سپاہ صحابہ)، ملی مسلم لیگ (سابقہ لشکرطیبہ) اور  متحدہ قومی موومنٹ سے ٹوٹنے والی جماعت ’پاک سرزمین پارٹی‘ بھی بری طرح ناکام رہی۔  انتخابات کا ایک دلچسپ اور اہم واقعہ تین ہندو امیدواروں کی کامیابی بھی تھی۔ ایک قومی اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی کے ارکان ہیں۔ تینوں کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔

تحریک انصاف کی جیت میں شمالی، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ملنے والی کامیابی نے اہم ترین کردار ادا کیا۔  اسے حکومت سازی کے لئے مجموعی طور پر 137سیٹوں کی ضرورت تھی، آزاد امیدواروں اور دیگرچھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وفاق اور تین صوبوں میں حکومت قائم کرلی گئی۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل نے دھاندلی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ گنتی کے دوران گڑ بڑ کی گئی۔کم ازکم چھ جماعتوں کا کہناتھا کہ ان کے سٹاف کو گنتی کے دوران وہاں سے باہرنکال دیاگیا، حتمی نتائج مرتب کرتے ہوئے بھی ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی۔  بعض میڈیا اداروں کی طرف سے بھی شکایات ملیں کہ صحافیوں کو پولنگ سٹیشنز میں داخل ہونے سے روک دیاگیا، حالانکہ ان کے پاس خصوصی طور پر جاری ہونے والے داخلہ کارڈز بھی تھے۔

انتخابات کو مانیٹر کرنے والے ایک ادارے ’فافین‘ کے مطابق کم ازکم 35 انتخابی حلقوں میںجیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کم تھا۔ ایسا ہو تو عمومی طور پر خیال نتائج تبدیل کئے جانے کی طرف جاتا ہے۔ یاد رہے کہ 2013ء میں بھی 35حلقوں میں یہی صورت حال تھی جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے 35 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا اور 35 پنکچر کی اصطلاح استعمال کی۔ یورپی مبصرین کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ہر ایک کو یکساں مواقع میسر نہ آئے جبکہ آزادی اظہار پر پابندیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔  2013ء میں دھاندلی کا الزام عائد کرنے والے عمران خان نے کہا کہ وہ انتخابی بے ضابطگیوں کی کھلے دل سے تحقیقات کے لئے تیار ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی پر احتجاج تو کیاگیا لیکن مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ کسی نے بھی شدید احتجاج کی طرف جانے کا ارادہ ظاہر نہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے پہلے اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھانے کی بات کی لیکن دیگراپوزیشن جماعتوں نے اس معا ملے میں ساتھ نہ دیا۔

صدارتی انتخاب

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے صدرممنون حسین کی مدت صدارت نوستمبر کو ختم ہونا تھی چنانچہ چارستمبر کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں تحریک انصاف کے رہنما بہ آسانی صدر منتخب ہوگئے۔ وہ پاکستان کے تیرھویں صدرمملکت ہیں۔ انھوں نے 352 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مقابلے میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مولانا فضل الرحمن نے 184جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اعتزازاحسن نے 124ووٹ حاصل کئے۔  اگرچہ مولانا فضل الرحمن  اور دیگراپوزیشن رہنماؤں نے پیپلزپارٹی سے درخواست کی کہ صدارتی انتخاب متحد ہوکر لڑا جائے لیکن پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نہ مانے۔  وہ کیوں راضی نہ ہوئے؟ یہ ایک معمہ ہے تاہم دیگراپوزیشن جماعتیں اس سوال کا جواب دینے کے بجائے معنی خیز مسکراہٹ پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

ضمنی انتخابات

انتخابات 2018ء کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران تحریک انصاف کو بعض حلقوں میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر ہار گئی۔ مثلاً این اے35 بنوں جہاں سے عمران خان نے کامیابی حاصل کی تھی، ضمنی انتخاب میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اکرم خان درانی کے بیٹے  اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار زاہد درانی نے تحریک انصاف کو شکست دی۔ این اے56 کی نشست بھی حکمران جماعت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ اسی طرح لاہور کے حلقے این اے124اور این اے 131بھی مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف سے واپس چھین لئے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج  کی بنیاد پر مسلم لیگ ن نے حکمران جماعت کو طعنہ دیا کہ جولائی 2018ء کے انتخابات میں اس کی کامیابی جعلی تھی ، یہی وجہ ہے کہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

The post انتخابات2018ء کئی اعتبار سے تاریخی ثابت ہوئے appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈالر کی ریکارڈ اُڑان ؛ پاکستان پھر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر

$
0
0

2018میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظرنامے پر کافی ہل چل رہی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی و بیشی کے کھیل نے برآمد کنندگان کو راتوں رات امیر بنا دیا تو اسی کھیل نے کئی درآمد کنندگان کو عرش سے فرش پر پٹخ دیا۔ دوسری جانب حصص بازار میں اتار چڑھاؤ، سیاسی منظرنامے میں لمحمہ بہ لمحہ ہوتی تبدیلی نے بھی سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈبو دیے۔

عالمی بینک کے اعدا وشمار کے مطابق 2018 ء میں پاکستانی کی معاشی نمو میں اضافہ تو جاری رہا لیکن اسے میکرو اکنامکس عدم توازن میں اضافے کا سامنا رہا۔ اس وقت پاکستان کو معاشی نقطۂ نظر سے قلیل مدت میں لاحق درپیش سب سے اہم مسئلہ میکرو اکنامکس استحکام ہے۔ مالی سال 2018ء میں پاکستان کی جی ڈی پی (مجموعی خام پیداوار) میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں صفر اعشاریہ آٹھ فی صد اضافہ ہوا۔ زیادہ تیزی خدماتی اور زراعتی شعبے میں ہونے والی بہتر کارکردگی کی بدولت ہوئی، جب کہ صنعتی شعبے میں سست روی دیکھی گئی۔ کم شرح سود کے ماحول نے نجی شعبے کی ساکھ میں اضافہ کیا جس سے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری ہوئی۔

اگر طلب کی طرف دیکھا جائے تو اس میں نجی شعبے کی کھپت جی ڈی پی کا تقریبا 86 فی صد رہی۔ مالی سال 2018ء میں افراط زر کی شرح 3اعشاریہ 8فی صد رہی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 4 اعشاریہ 2 فی صد تھی، جب کہ مرکزی بینک کا ہدف مالی سال 2018ء میں اسے چھے فی صد سے نیچے رکھنا تھا۔ مالی سال کے آغٖاز میں افراط زر میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہوا اور چوتھی سہہ ماہی میں روپے کی قدر میں کمی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

مالی سال 2018 ء میں جاری کھاتے ( کرنٹ اکاؤنٹ) میں خسارہ جی ڈی پی کا 5اعشاریہ 8 فی صد (اٹھارہ ارب دس کروڑ) رہنے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن تناؤ کا شکار رہا۔ متواتر تین مالی سال تک ہونے والے معاہدوں کی وجہ سے برآمدات میں 12اعشاریہ6 فی صد اضافہ ہوا، لیکن درآمدات میں ہونے والے 14اعشاریہ7 فی صد اضافے کی وجہ سے نتیجہ تجارتی خسارے کی صورت میں رہا۔ حکومت نے درآمدات کی شرح میں کمی کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹیز نافذ کی لیکن پھر بھی ایکسچینج ریٹ میں مجموعی طور پر اٹھارہ فی صد کی کمی ہوئی۔

مالی سال 2018ء کے دوسرے نصف میں طلب کے دباؤ میں کمی کے لیے پالیسی شرح سود میں175بیس پوائنٹ کا اضافہ کیا گیا، لیکن اس کے باجود بین الاقوامی ذخائر ستمبر2018 ء کے آغاز تک 9ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کم ہوگئے۔ کم ہوتے ذخائر کو بڑھانے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز اور کمرشیل اور آفیشل قرضے جاری کرنا شروع کردیے۔ اسی سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے رواں مالی سال کا خسارہ مزید بدترین ہوکر جی ڈی پی کے  6اعشاریہ 6 فی صد تک پہنچ گیا، جو کہ مالی سال کے آغاز پر متعین کیے گئے ہدف سے دو اعشاریہ پانچ فی صد زائد ہے۔

مالیاتی گراوٹ کی اہم وجہ کم آمدن بڑھوتری کے ساتھ متواتر اخراجات میں اضافہ تھا۔ مالی سال 2018ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس آمدنی 14اعشاریہ 3 فی صد اضافے کے ساتھ تین ہزار آٹھ سو بیالیس ارب روپے رہی۔ مالی سال 2018ء میں متوقع شرح غربت میں کمی جاری رہی۔ بین الاقوامی خط غربت کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دو ڈالر نوے سینٹ کی کمی ہوئی۔ اگر انسانی بہبود کے اشاروں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس ضمن میں جنوب ایشیائی خطے میں پاکستان کی کارکردگی سب سے کم رہی خصوصاً تعلیم اور غربت کے شعبے میں۔ اگرچہ اسکول میں رجسٹر ہونے والے بچوں کی شرح میں اضافہ ہوا، لیکن یہ شرح ابھی بھی دیگر جنوب ایشیائی مما لک کے مقابلے میں کم ہے۔ شیر خوار اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں بھی یہی معاملہ ہے۔

حکم رانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود تعلیم، صحت اور تمام معاشی شعبوں میں جنس کی بنیاد پر تفاوت کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا۔ اس پورے خطے میں پاکستان ابھی بھی خواتین کی سب سے کم افرادی قوت رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ حکم رانوں، سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال کی طرح امسال بھی غربت مٹانے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے وعدے کیے گئے جو صرف بیانات کی حد تک ہی محدود رہے۔ غذا کی فراہمی اس سال بھی سب سے اہم معاشی چیلنج رہا اور پانچ سال سے کم عمر کے 45 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار رہے۔ مالی سال 2018ء میں صحت، غذا اور تعلیم کے شعبوں پر جی ڈی پی کا صرف تین فیصد مختص کیا گیا جو کہ آٹے میں نمک برابر اور خطے کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

سماجی شعبے میں بہتری کے لیے تعلیم، صحت جیسے اہم شعبوں کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے سے زیادہ توجہ تعلیم کے معیار پر مرکوز کرنا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہوسکے، جب کہ ماں اور بچے کی غذائیت اور صحت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سال کے آغاز پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی تھی، تادم تحریر ایک ڈالر ایک چالیس پاکستانی روپے کے برابر ہوچکا ہے اور اس میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔

حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کم زور معاشی ترقی اور غربت میں اضافے کی وجہ سے اگلے دو سال پاکستان کی معاشی صورت حال نازک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہو گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بڑھتے ہو ئے خسارے کو پائے دار بنیادوں پر طویل مدتی ترقی کے لیے کم کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے پاکستان کو شرح نمو میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو فروغ دینا ہوگا۔

اس بارے میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر النگانو پتچا موتو کا کہنا ہے کہ ’’سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں اضافے سے زیادہ اور بہتر تنخواہوں والی ملازمتیں پیدا ہوں گی جو کہ مستقبل میں معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے معاشی ترقی کے راستے محدود ہیں۔ پاکستان اس وقت گرتی معیشت کے حصار میں پھنسا ہوا ہے اور آمدن اور خرچ میں حائل وسیع فرق اسے کی معاشی حالت کو اور خراب کر رہا ہے، جب کہ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 9 سال کی کم ترین سطح تین فی صد پر رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے پروگرام سے روپے کی قدر میں تو استحکام پیدا ہوگا لیکن دوسری جانب اس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال2019 ء تا 2023 ء میں منہگائی کی اوسط شرح 7 اعشاریہ 3 فی صد رہے گی، تاہم شرح سود میں اضافے سے منہگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت عالمی ادائیگیوں کے اہم معاشی چیلنج کا سامنا ہے، کیوں کہ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی درآمدات کے لیے ناکافی ہیں۔

٭ معاشی نمو اور سرمایہ کاری، زراعت اور لائیو اسٹاک

پاکستان کی وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو سالوں سے معاشی شرح نمو پانچ فی صد سے اوپر رہی، مالی سال 2018ء میں یہ 5اعشاریہ 79 فی صد تک پہنچ گئی، جو کہ زراعت، صنعت اور خدماتی شعبے میں اضافے کی وجہ سے ہوئی، ان شعبوں میں شرح نمو بالترتیب 3 اعشاریہ 81 فی صد، 5 اعشاریہ 80 فی صد اور 6 اعشاریہ 43 فی صد رہی۔ زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ بڑھوتری3 اعشاریہ81 فی صد ہوئی، جب کہ اس کا ہدف ساڑھے تین فی صد رکھا گیا تھا۔

زراعت کے شعبے میں بڑھوتری کا سہرا کسان پیکج کو جاتا ہے جس کے تحت کسانوں کو زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ہائی برڈ بیج، کھاد اور جڑی بوٹی مار ادویات دی گئیں۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں 3 اعشاریہ 76 فی صد کی نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 2 اعشاریہ 99 فی صد تھی۔ ماہی گیری کے شعبے میں 1اعشاریہ 63 فی صد اور جنگلات کے شعبے میں 7 اعشاریہ 17فی صد بڑھوتری ہوئی۔

٭صنعتی پیداوار اور کان کنی

مالی سال 2018ء کی پہلی سہہ ماہی میں پیداواری شعبے میں 6 اعشاریہ24 فی صد نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 4 اعشاریہ 40 فی صد تھی۔ صنعتوں کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال برقی مصنوعات کی پیداوار میں 38 اعشاریہ 79 فی صد، لوہے اور فولاد کی پیداوار میں 30 اعشاریہ 85 فی صد، آٹو موبائل میں 19 اعشاریہ 73 فی صد، غیر دھاتی معدنیاتی مصنوعات میں 11اعشاریہ87 فی صد، سیمنٹ میں 11اعشاریہ95 فی صد، پیٹرولیم مصنوعات میں 10اعشاریہ 26 فی صد، انجینئرنگ مصنوعات میں 5 اعشاریہ 21 فی صد، فارما سیوٹیکل مصنوعات میں 9 اعشاریہ 44 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ سب سے کم شرح نمو ٹیکسٹائل اور فوڈ بیوریجز اور تمباکو کی مصنوعات پر بالترتیب صفر اعشاریہ47 فی صد اور 2اعشاریہ 33 فی صد رہی۔

گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی وجہ سے اس شعبے میں بڑھوتری کی شرح منفی7 اعشاریہ 69 رہی۔ گذشتہ سال لکڑی کی مصنوعات میں 27  فی صد، فرٹیلائزر میں ساڑھے سات فی صد، چمڑے کی مصنوعات میں آٹھ فی صد اور کان کنی کے شعبے میں صفر اعشاریہ 38 فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ روپے کی قدر کم ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ نہ ہوسکا۔ معاشی ماہرین کی جانب سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی توقع کی جارہی تھی، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران ساڑھے 5 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئیں، جب کہ گذشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں ٹیکسٹائل برآمدات ساڑھے 5 ارب ڈالر ہی ریکارڈ کی گئی تھی۔ جولائی سے نومبر کے دوران کاٹن یارن کی برآمدات 15 فی صد کمی کے بعد 47 کروڑ ڈالر، نٹ ویئر 11 فی صد اضافے سے 1 ارب 21 کروڑ ڈالر، بیڈ ویئر کی برآمدات 2 فی صد اضافے سے 96 کروڑ ڈالر اور گارمنٹس کی برآمدات 1 ارب ڈالر تک محدود رہی۔

 ٭زر اور اُدھار

اس سال زری پالیسی میکرواکنامک ماحول کی جانب مائل رہی۔ جنوری 2018 تک زری پالیسی سب سے کم تاریخی پالیسی ریٹ 5اعشاریہ 75 فی صد پر مستحکم رہی۔ اسی ماہ مرکزی بینک نے تیل اور کموڈیٹیز میں ملکی طلب کے دباؤ کے نتیجے میں متوقع افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے25 بیس پوائنٹس اضافے کے ساتھ چھے فی صد پر کردیا۔ مارچ 2018میں مرکزی بینک نے پالیسی کے اثرات کو دیکھنے کے لیے اسے مزید دو ماہ تک چھے فی صد پر برقرار رکھا۔ اسی ماہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 472 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ اسی سال سی پی آئی انڈیکس (کنزیومر پرائس انڈیکس) سال کی بلند ترین سطح 4 اعشاریہ6 فی صد پر پہنچ گیا، جس سے منہگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سال افراط زر کی اوسط شرح 3اعشاریہ78فی صد رہی۔

سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk

The post ڈالر کی ریکارڈ اُڑان ؛ پاکستان پھر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر appeared first on ایکسپریس اردو.

اضلاع کا قیام، کابینہ نے مطالبات سے بچنے کیلئے کمیٹی بنا دی

$
0
0

پشاور: خیبرپختونخوا کی کابینہ نے نئے اضلاع کے قیام سے متعلق مطالبات سے بچنے کے لیے اس ضمن میں کمیٹی بناتے ہوئے معاملہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر اضلاع کے قیام پر پابندی عائد رہے گی تاہم کابینہ نے اب تک قائم ہونے والے اضلاع کو نہ چھیڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی اپنی ہی گزشتہ حکومت میں صوبہ میں قائم ہونے والے تین نئے اضلاع بچ گئے ہیں جن کا قیام انتظامی کی بجائے سیاسی زیادہ نظر آتا ہے اور اگر پرویزخٹک حکومت کو قدرے مزید وقت مل جاتا تو سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع بھی دو،دوحصوں میں تقسیم ہو چکے ہوتے، تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور معاملہ صرف ضلع کوہستان کو تین اور ضلع چترال کو دوحصوں تک تقسیم کرنے تک ہی محدود رہا۔ ماضی قریب میں اے این پی دور حکومت میں صرف ایک نیا ضلع قائم کیا گیا جو تورغر ہے، ضلع مانسہرہ سے متصل صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقے کالاڈھاکہ کو تورغر کا نام دیتے ہوئے اس وقت ضلع بنایا گیا تھا اور یہ اقدام بنیادی طور پر تحریک صوبہ ہزارہ کو کمزور کرنے کی کڑی تھی۔

اے این پی حکومت کی کوشش تھی کہ کوہستان، بٹ گرام ، شانگلہ اور تورغرکو یکجا کرتے ہوئے صوبہ میں آٹھواں ڈویژن قائم کرے اور اس کے پش پشت اصل سوچ یہ تھی کہ اس طریقے سے صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے باباحیدرزمان مرحوم کی قیادت میں جو تحریک جاری تھی اسے ختم کردیاجائے، بنیادی طور پر ضلع تورغر کا قیام بھی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ کے نام کی تبدیلی کے بعد عمل میں لایا گیا اور اباسین ڈویژن کے قیام کا مطالبہ بھی اس کے بعد ہی منظر عام پر آیا جس کے لیے اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں اور کوششیں بھی ہوئیں اور ڈویژن کے قیام سے قبل ہی ڈویژنل ہیڈکوارٹر کے حوالے سے عوامی نمائندوں میں بحث ومباحثے بھی ہوئے۔ تاہم اباسین ڈویژن کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا اور اے این پی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کرگئی، تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے بھی سیاسی بنیادوں پر پہلے ضلع کوہستان کو اپر اور لوئر کوہستان کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کیا اور پھر پالس کولائی کے نام سے تیسرا ضلع بھی قائم کردیا گیا۔

یہ بجا کہ ضلع کوہستان بڑے اضلاع میں سے تھا تاہم وہاں ایسی بھی صورتحال نہیں تھی کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتا،گزشتہ حکومت ہی میں سوات کو اپر اور لوئر جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تحصیل کلاچی کو الگ ضلع بنانے کے لیے بھی سوچ موجود تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا لیکن اب چونکہ قبائلی علاقہ جات بھی صوبہ میں ضم ہوگئے ہیں اور اس انضمام کی وجہ سے صوبہ میں سات نئے اضلاع بھی شامل ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے صوبائی حکومت پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو پوری توجہ ان نئے اضلاع کی جانب مبذول کرنی پڑرہی ہے اس لیے فوری طور پر نئے اضلاع کے قیام پر پابندی عائد کردی گئی ہے تاہم اگر جنوبی پنجاب الگ صوبہ بنتا ہے تو اس پابندی سے صوبہ ہزارہ کے قیام کی تحریک کی راہ روکنا مشکل ہوگی۔ صوبہ میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کے حوالے سے قانون سازی تھی جو صدرمملکت کی جانب سے آرڈیننس کے اجراء سے ختم ہوگئی ہے اور اب وہاں حلقہ بندیوں اور اعتراضات کا سلسلہ نمٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے ساتھ ہی ضم شدہ علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا جس سے صوبائی اسمبلی میں21 ارکان کا اضافہ ہوجائے گا۔

جمعیت علماء اسلام(ف)اگرچہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے سرگرم نہیں تاہم اپنے طور پر ملین مارچ اور جلسوں کے ذریعے میدان گرم کیے ہوئے ہے جس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں اور یہ دونوں پارٹیاں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کتاب کے نشان کے ساتھ ہی میدان میں اتریں گی کیونکہ اگر یہ دونوں جماعتیں ضم شدہ اضلاع میں منعقد ہونے والے انتخابات میں الگ ،الگ حیثیت سے میدان میں اترتی ہیں تو دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس سے بچنے کے لیے ان کا اتحاد ضروری ہے البتہ ان دونوں جماعتوں کے لیے نشستوں کی تقسیم ایک مرتبہ پھر بڑا مسلہ ہوگا۔اے این پی اگرچہ اس سال باچاخان اور ولی خان کی برسیوں کے موقع پر بڑا جلسہ نہیں کر رہی تاہم وہ دونوں رہنماؤں کی برسیوں کے سلسلے میں پورا ہفتہ منانے جا رہی ہے جس کا بنیادی مقصد اپنے ورکروں کو متحرک کرنا ہے تاکہ ضم شدہ علاقوں میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے ان کے یہ ورکر بھرپور طریقے سے متحرک ہوں اور بات صرف ایک ہفتے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اے این پی انٹرا پارٹی انتخابات کے ساتھ ضم شدہ اضلاع میں جلسوں اور دیگر سرگرمیوں کو بھی بڑھائے گی ۔

The post اضلاع کا قیام، کابینہ نے مطالبات سے بچنے کیلئے کمیٹی بنا دی appeared first on ایکسپریس اردو.

سینیٹ کی نشست پر ضمنی الیکشن، سیاسی جوڑ توڑ شروع

$
0
0

کوئٹہ: بلوچستان میں چودہ جنوری کو سردار اعظم موسیٰ خیل کی وفات سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے  بلوچستان  اسمبلی میں پارلیمانی جماعتوں نے کوئٹہ کے سرد موسم کو گرما دیا ہے اور ان سیاسی جماعتوں نے سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے رابطوں کا آغاز کیا ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی سیاسی پارلیمانی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست پر اپنے سیکرٹری جنرل کو میدان میں اُتارا ہے جبکہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی بڑی پارلیمانی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) اور متحدہ مجلس عمل نے بھی اپنے اپنے اُمیدوار کی کامیابی کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں۔جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بی اے پی کے اُمیدوار منظور کاکڑ کے حق میں اپنا اُمیدوار دستبردار کرکے  بلوچستان عوامی پارٹی کے اُمیدوار کی پوزیشن کو مستحکم کردیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے ضمنی الیکشن میں اس وقت کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آئے گا جب اپوزیشن جماعتیں کوئی مشترکہ اُمیدوار سامنے لائیں گی۔

مخلوط صوبائی حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا اُمیدوار دستبردار کرنے سے قبل اپوزیشن جماعتو ں بی این پی مینگل اور متحدہ مجلس عمل سے بھی رابطے کئے تھے اور ان سے اس نشست پر اپنے اُمیدوار کی حمایت کرنے کی درخواست کی تھی تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ جام کمال نے مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس طلب کرکے باہمی مشاورت کے بعد مخلوط حکومت کا مشترکہ اُمیدوار منظور کاکڑ کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ان کی اتحادی جماعت اے این پی نے بھی اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اپنے سنجیدہ اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲ کو منظور کاکڑ کے حق میں دستبردار کرنے کا اعلان کیا۔

جبکہ اس سے قبل پشتونخواملی عوامی پارٹی نے بھی اپنے اُمیدوار کیلئے اس نشست پر اپوزیشن جماعتوں سے تعاون مانگا تھا۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور جے ڈبلیو پی سے بھی رابطے کئے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعت بی این پی(مینگل) بھی اپنے اُمیدوار کیلئے سنجیدگی سے پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کررہی ہے اور پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے رابطہ کرکے انہیںصدر، وزیراعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات میں غیر مشروط حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹ کے اس الیکشن میں اپنے اُمیدوار کیلئے سپورٹ مانگی ہے۔

اسی طرح بی این پی(مینگل) نے اس طرف بھی اشارہ دیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اُمیدوار اُن کی جماعت سے ہو سکتا ہے؟۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس بات میں اس لئے بھی وزن ہے کہ بی این پی اس سے قبل اپوزیشن لیڈر کے چناؤ میں متحدہ مجلس عمل کے اُمیدوار کی حمایت کر چکی ہے وڈھ،تربت اور کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کی ہے اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی این پی،متحدہ مجلس عمل کو اس نشست پر اپنا مشترکہ اُمیدوار لانے کیلئے قائل کر لے گی۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ  سینیٹ کی اس نشست پر اگر اپوزیشن جماعتیں بھی حکومتی اتحاد کی طرح اپنا مشترکہ اُمیدوار میدان میں لاتی ہیں تو صوبائی مخلوط حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں ون ٹو ون کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس تمام صورتحال میں تحریک انصاف کے ووٹ اور حمایت کی اہمیت بڑھ جائے گی جس کے مذاکرات اس حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی کے ساتھ جاری ہیں تاہم چند روز قبل تحریک انصاف بلوچستان کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر نصیب اﷲ مری کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ ان کی جماعت سینیٹ انتخابات میں اتحادی جماعت بی اے پی کے اُمیدوار کی حمایت کرے گی لیکن بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی جانب سے تحریک انصاف سے سینیٹ کیلئے اپنے اُمیدوار کیلئے ووٹ مانگنے کے بیان نے تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت کو تذبذب کا شکار کردیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی قیادت اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کے فیصلے کے اثرات مرکز اور صوبے کی سیاست پر بھی مستقبل میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے صدر اور بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے پارلیمانی نظام حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے ملک کی بہتری کیلئے صدارتی نظام حکومت کی حمایت کرکے سیاسی حلقوں میں نہ صرف ایک نئی بحث کا آغاز کرادیا ہے بلکہ ان کے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ  وہ پارٹی کے بعض فیصلوں اور اقدامات سے ناراض ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اس بیان میں یہ بات بھی واضح کی ہے کہ یہ انکی ذاتی رائے ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سردار یار محمد رند بلوچستان میں حکومت سازی سے لے کر اب تک پارٹی کے بعض اہم رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ صوبائی معاملات میں مداخلت بعض فیصلوں میں انہیں بائی پاس کرنے اور پارٹی کے بعض فیصلوں اور اقدامات سے نالاں تھے تاہم وہ خاموشی سے اس تمام صورتحال کاجائزہ لے رہے تھے شاید اب انہیں ان کے قریبی ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ خاموش رہنا بہتر نہیں لہٰذا اُنہوں نے چپ کا روزہ توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت نے اپنے چار ماہ کے دور اقتدار میں کارکردگی کے حوالے سے چالیس اقدامات کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں وفاقی حکومت اور چینی حکام سے متعدد ملاقاتوں کے دوران سی پیک منصوبے میں بلوچستان کیلئے خصوصی نو فیصد حصے کا مطالبہ، آٹھویں جے سی سی میٹنگ کیلئے ماہی گیری، معدنیات، صنعتی اور دیگر شعبوں میں معاونت، چیف منسٹر اسپیشل سپورٹ پروگرام برائے امراض کینسر، تھیلیسیمیا، اوپن ہارٹ سرجری کیلئے اقدامات، شعبہ تعلیم اور صحت میں ایمرجنسی  ڈکلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ واٹر ٹاسک فورس کا قیام، خشک سالی سے متعلق امداد کیلئے پچاس کروڑ روپے مختص کرنا، بیس ہزار خالی آسامیوں کیلئے فارمولہ واضح کرنا، خالی آسامیوں پر کاغذات جمع کرانے کیلئے عمر کی حد بڑھا کر43 سال مقرر کرنا،

سرکاری ملازمین کیلئے بلوچستان اسمبلی سے انڈولمنٹ فنڈ بل میں موثر اصلاحات، صوبائی اسمبلی سے گوادر میں یونیورسٹی کیلئے قرار داد کی منظوری منصوبے کیلئے پانچ سو ایکڑ اراضی اور منصوبے پر عملدآمد کیلئے ایک ارب روپے کا اعلان، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو خصوصی اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ تمام اضلاع کیلئے 150ملین اضافی ترقیاتی فنڈز کی منظوری، چھ سو ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کے اجراء کا فیصلہ، تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے بلوچستان لازمی ایجوکیشن سروس بل کی کابینہ سے منظوری، لینڈ ریونیو ترمیمی بل2018ء کی کابینہ سے منظوری، 300 میگا واٹ گوادر کول فیلڈ پاور پلانٹ کی بنیاد، معذور افراد کیلئے اسپیشل ایجوکیشن کالج کوئٹہ کے منصوبے پر عملدرآمد، انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے منصوبے پر عملدرآمد کا اعلان، ایکسائز و ٹیکسیشن محکمے میں نئی رجسٹریشن بک اور نمبر پلیٹ کو متعارف کرانے جیسے فیصلے سمیت محکموں میں کرپشن کے مبینہ کیسز کی نشاندہی اور وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے ذریعے ماضی کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے چھان بین اور اُن میں ہونے والی خورد برد کے کیسز کو منظر عام پر لانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جام کمال کی حکومت نے بلاشبہ چار ماہ کے دوران  بعض اہم فیصلے کئے ہیں لیکن ان فیصلوں اور اقدامات پر عملدرآمد کا معاملہ انتہائی سست روی کا شکار رہا ہے خصوصاً سب سے اہم مسئلہ مختلف صوبائی محکموں میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کا ہے جس پر حکومت کی طرف سے اب تک کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہ آنا تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری جانب صوبائی مخلوط حکومت کی طرف سے مالی بحران کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔

The post سینیٹ کی نشست پر ضمنی الیکشن، سیاسی جوڑ توڑ شروع appeared first on ایکسپریس اردو.

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس، عدالتی فیصلے سے پیپلز پارٹی پر دباؤ میں کمی

$
0
0

 کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جعلی بینک اکاؤنٹس کا کیس نیب کے حوالے کرنے اور اس کیس کی ازسر نو تفتیش کے حکم کے بعد سندھ حکومت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی مہم ازخود غیر موثر ہو گئی ہے اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت کے حوالے سے بیورو کریسی میں پائی جانے والی بے یقینی کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ دوسری طرف سندھ کابینہ نے گریڈ 1 سے 15 تک کی ہزاروں اسامیوں پر بھرتیاں کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی طور پر سندھ میں بہت مفید ثابت ہوگا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر سیاسی حکمت عملی بھی وضع کر رہی ہے۔

گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی اور اس حوالے سے قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مزید کوئی کارروائی کرنے کی بجائے یہ کیس ازسرنو تفتیش کے لیے قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے حوالے کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین  بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا نام نکالنے کا بھی حکم دیا۔ کچھ لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ پرکوئی فوری احکامات جاری کرے گی، جن کی وجہ سے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی بلکہ وزیر اعلی سندھ کا اپنے منصب پر رہنا بھی مشکل ہو جائے گا لیکن ان لوگوں کی یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ بعض حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو سپریم کورٹ کے ان احکامات سے وقتی طور پر ریلیف ملا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سندھ میں حکومت کو گرانے، پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے یا صوبے میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے جو سیاسی دباؤ بڑھایا تھا، وہ دباؤ ازخود ختم ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی مہم کا جواز موجود نہیں رہا ہے۔

قبل ازیں جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے اور بلاول بھٹو، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور سید مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں آنے کے بعد خود پیپلز پارٹی کے حلقوں میں مایوسی اور بے یقینی پیدا ہو گئی تھی اور لوگ ایک دوسرے سے سوال کر نے لگے تھے کہ پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہے اور سندھ حکومت چلے گی یا نہیں؟ وزیر اعلی سندھ سید  مراد علی شاہ کے بارے میں ایک مضبوط وزیر اعلی کا تاثر بھی برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ خاص طور پر سندھ کی بیوروکریسی’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی اپنا رہی تھی اور سندھ حکومت میں معمول کے کام متاثر ہو رہے تھے ۔

مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بے یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے مراد علی شاہ کو ہٹانے کے لیے جو مہم چلائی تھی، وہ نہ صرف اپنا سیاسی جواز کھو چکی ہے بلکہ اس مہم کے دوران سندھ میں اپوزیشن کی تقسیم کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ اب مزید گہرا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ ، حروں کے روحانی پیشوا اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے سربراہ پیر پگارا نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ حکومت کو گرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ منگل کو دوبارہ اپنی پارٹی کے اجلاس میں انہوں نے یہ بات مزید واضح انداز میں کہہ دی ۔ پیر پگارا بوجوہ سید مراد علی شاہ کی کبھی بھی مخالفت نہیں کریں گے ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے بھی سندھ حکومت کے خلاف تحریک انصاف کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا تھا ۔ اب ان دونوں جماعتوں کے مابین مزید فاصلے بڑھنے کا امکان ہے۔ جی ڈی اے بھی اس  معاملے پر تقسیم ہو گئی تھی۔ اب اس میں اور زیادہ اختلافات سامنے آ سکتے ہیں ۔ سید مراد علی شاہ اور ان کی حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔

سندھ کابینہ نے گریڈ ۔1 سے 15 تک ہزاروں اسامیوں پر بھرتی کی منظوری دے دی ہے ۔ سندھ کے بیروزگار نوجوان اب ان اسامیوں کے لیے درخواستیں جمع کرانے ، انٹرویوز اور بھاگ دوڑ میں مصروف ہو جائیں گے ۔ ایک اندازے کے مطابق فوری طور پر 35 ہزار سے زائد اسامیاں پر کی جائیں گی۔ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بڑے پیمانے پر روزگار مہیا کرنے جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ 2017-18 کے بجٹ کے موقع پر خالی اسامیاں پر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس حوالے سے اخباروں میں اشتہارات شائع کر دیئے گئے۔ لاکھوں امیدواروں نے درخواستیں جمع کرائی تھیں لیکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ الیکشن سے پہلے بھرتیاں نہ کی جائیں کیونکہ جن لوگوں کو نوکریاں نہیں ملیں گی ، وہ ناراض ہو جائیں گے ۔ اس سے الیکشن میں امیدواروں کو مسائل کا سامنا ہو گا ۔ اس طرح الیکشن سے پہلے کوئی بھرتیاں نہیں کی گئیں ۔ صرف پولیس میں ضرورت کے مطابق بھرتیاں ہوئیں ۔ اب فوری طور پر 35 ہزار سے زائد اسامیوں پر بھرتیاں ہوں گی ۔ یہ اقدام سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہو گا ۔ لیکن پیپلزپارٹی ان مشکلات سے بھی بے خبر نہیں ہے، جو مستقبل قریب میں پیش ا ٓسکتے ہیں ۔ اس کے لیے سیاسی حکمت عملی پر کام جاری ہے ۔

The post جعلی بینک اکاؤنٹس کیس، عدالتی فیصلے سے پیپلز پارٹی پر دباؤ میں کمی appeared first on ایکسپریس اردو.

دوست ممالک سے مدد لینے کے ساتھ برآمدات بھی بڑھانا ہوں گی

$
0
0

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گذشتہ ساڑھے چار ماہ سے ملکی غیر ملکی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے اور ناقابلِ برداشت تجارتی خسارے سے دو چار زبوں حال معیشت کی بحالی کیلئے کوشاں ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی دوست ممالک نے مشکل کی اس گھڑی میں بھرپور ساتھ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے دوست ممالک کے دوروں کے ثمرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

سعودی عرب کے بعد یو اے ای کے پیکج کا اعلان اور پھر چین کی جانب سے بھی پاکستان کو امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار حکومت اور ریاست کیلئے نوید کی ایک کرن ہے۔ مگر دوست ممالک کے ساتھ ساتھ حکومت کو خود بھی کچھ کرکے دکھانا ہوگا کیونکہ اب تک کی صورتحال سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دو قدم آگے جاتی ہے تو ساتھ ہی دو قدم پیچھے آجاتی ہے اور دوست ممالک کی جانب سے امداد ملنے کے باوجود مسائل کم ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اگرچہ وزیراعظم عمران خان پُرعزم ہیں اور 2019 کو بحالی کا سال بھی قرار دیا ہے مگر اس کیلئے ضروری ہوگا کہ حکومت دوست ممالک سے کئے گئے مالی بندوبست کو ضائع ہونے سے بچائے کیونکہ رواں سہہ ماہی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ اس سہہ ماہی میں بیرونی ادائیگیوں کیلئے بھاری فنڈز دستیاب ہیں تو وہیں بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے نمٹنا بھی اور ترسیلات زر کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ برآمدات کو بڑھانا بھی ایک بڑی آزمائش ہے۔ ابھی سعودی عرب،یو اے ای اور چین و ترکی کے دوروں سے حکومت کو حوصلہ ملا ہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے سے گہرے روابط میں منسلک ہیں دونوں ملکوں کے وفود کی سطح پر مذاکرات میں طے کیا گیا ہے کہ باہمی تجارت بڑھانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کی جائے گی جس سے پاکستان کا بیرونی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو سعودی عرب، یو اے ای، چین، ملائشیاء اور ترکی کے دوروں میں غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور ان دوست ممالک نے آزمائش کی اس گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے جس سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے12 ارب ڈالر کی جس خطیر رقم کی ضرورت تھی اس سے دوست ممالک کی مالی امداد سے کسی حد تک سہولت تو میسر آئی ہے مگر یہ سہولت ایک سال کیلئے ہے اور پھر یہ بھی کہ ملکی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے اور وہ قیادت جو کبھی قرضوں کے خلاف واضح و دوٹوک بیانیہ رکھتی تھی اب وہ بیانیہ یوٹرن کی نذر ہو چکا ہے اور یوں معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت اب تک امور ریاست سمجھ نہیں سکی ہے اور قابلیت و صلاحیت کا فقدان کچھ کر گزرنے کے عزم کی راہ میں رکاوٹ دکھائی دے رہا ہے اور پھر کپتان کی ٹیم بھی ایک پیج پر نہیں ہے۔ ٹیم ممبران کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کنفیوژن کا سبب بن رہے ہیں۔

حال ہی میں یو اے ای کے کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النیہان کے مختصر دورہ پاکستان کے حوالے سے بھی کپتان کی ٹیم میں یکسوئی کا فقدان دیکھنے میں آیا جہاں حکومت کا ترجمان و وزیر اطلاعات سعودی ولی عہد کے پاکستان کے دورے بارے کچھ بیان دے رہا ہے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کچھ اور بیان دے رہے ہیں اور ملکی معیشت و سیاست بارے جو شعلہ بیانی ہو رہی ہے وہ ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہے ، صرف آواز اور انداز کا فرق ہے باتیں وہی ہیں جملے وہی ہیں جو کبھی پاکستان مسلم لیگ(ن) حکومت میں ادا کیاکرتی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے سامنے پیش کیا کرتی تھی، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت سے عوام کی توقعات مختلف تھیں مگر اب وہ توقعات بھی دھیرے دھیرے ختم ہوتی معلوم ہو رہی ہے اور اب سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ عوامی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی حمایت کھو رہی ہے۔

ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ متبادل کے طور پر بین ا لاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نئے پروگرام کے آپشن کو بھی ابھی حکومت نے ختم نہیں کیا ہے اور وہ بھی معاملات ساتھ ساتھ چلائے جا رہے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ پروگرام ابھی فائنل نہیں ہوا لیکن اس سے پہلے ہی ڈالر کی قیمت میں اضافی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکسوں کی شکل میں عوام پر بوجھ پہلے ہی بڑھایا جاچکا ہے جبکہ دوسرے منی بجٹ کی تیاریاں بھی اب حتمی مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہیں اور ترکی سے واپسی پر وزیز خزانہ اسد عمر اجلاس کی صدارت کر چکے ہیں جس میں دوسرے ضمنی بجٹ کے مسودے پر غور کیا جاچکا ہے اور اسے حتمی شکل دینے کیلئے اگلے چند روز میں فسکل پالیسی بورڈ کے اجلاس شروع ہونے جا رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ماہ دوسرے عشرے میں یہ ضمنی بجٹ آجائیگا۔

دوسری جانب ملک کی سیاسی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی ہے حکومت کے خلاف عدم اعتماد اور سیاسی گٹھ جوڑ کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں، حال ہی میں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان بھی اہم ملاقات ہوئی ہے اس کے علاوہ حکومت کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی کے بھتیجے سے منشیات کی برآمدگی اور گرفتاری بھی پی ٹی آئی قیادت کیلئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس وزیر مملکت برائے داخلہ کا اپنا بھتیجا منشیات میں ملوث نکلے تو اس پر سوال تو اٹھیں گے۔

اگرچہ بھتیجے کی گرفتاری کی خبر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شہریار آفریدی اسے بھی اپنے لئے کریڈٹ قرار دے رہے ہیں مگر بطور قوم یہ ایک لمحہ فکریہ بھی ہے وزیر مملکت شہر یار آفریدی کا کہنا ہے کہ وزیر کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو جاتا۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ رواں سال سیاسی لحاظ سے اہم سال ہے اور اس میں بھی سیاسی گرما گرمی عروج پر رہنے کا امکان ہے اور سیاسی حلقوںکا خیال ہے کہ بڑے سیاسی رہنماوں کی گرفتاریوں کا خطرہ فی الوقت ٹل گیا ہے مگر ختم نہیں ہوا ہے اور مستقبل میں مزید گرفتاریوں کے امکانات موجود ہیں۔ البتہ کچھ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت دوسری نسل کے ہاتھوں جانے کے بھی امکانات ہیں اور سیاسی شطرنج کے پُرانے کھلاڑی پس پردہ کردار ادا کریں گے مگر وہیں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں اس سے قومی حکومت کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور پھر سترہ جنوری کے بعد سُپریم کورٹ آف پاکستان میں تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا نوٹیفکیشن بھی ہو چکا ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس انتظار میں ہیں کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی آمد پر حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

The post دوست ممالک سے مدد لینے کے ساتھ برآمدات بھی بڑھانا ہوں گی appeared first on ایکسپریس اردو.

تحریک انصاف کے ہزاروں فعال کارکنوں کیلئے سیاسی عہدے دستیاب

$
0
0

 لاہور: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 2 دہائیاں گزر جانے کے باوجود تحریک انصاف کو ایک منظم، فعال اور موثر سیاسی جماعت بنانے کا اپنا خواب پورا نہیں کر پائے ہیں، مجموعی طور پر آج بھی تحریک انصاف سیاسی جماعت کی بجائے وار لارڈز کا کنسورشیم معلوم ہوتی ہے جبکہ حکومت بننے کے بعد تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال پر ترس آنے لگا ہے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کا والی وارث ہی کوئی نہیں ہے۔

وفاق اور صوبوں میں حکومت بنے چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن تحریک انصاف کی تنظیمی بہتری اور توسیع کیلئے کوئی قابل ذکر اقدامات دکھائی نہیں دیئے بلکہ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن خود کو پہلے سے زیادہ بے بس اور تنہا محسوس کر رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ارباب اقتدار کی اپنے تنظیمی ساتھیوں سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے مایوسی صرف تحریک انصاف کے اندر نہیں ہے بلکہ وہ لکھاری، فنکار، کاروباری اور دیگر عوامی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو الیکشن سے قبل برسوں تک بنا کسی لالچ اور مطالبہ کے دل و جان کے ساتھ عمران خان کی حمایت میں از خود مہم چلاتے تھے آج وہ بھی سخت مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی تحریک انصاف کے ٹائیگر پہلے کی طرح چیختے چنگھاڑتے اودھم مچاتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ گلی محلوں میں الیکشن سے قبل ہمہ وقت متحرک رہنے والے حقیقی کارکن بھی گوشہ تنہائی میں چلے گئے ہیں کیونکہ جب ان کے کہنے پر معمولی سے معمولی سرکاری کام بھی نہیں ہونا اور مقامی ایم پی اے اور وزیر نے ملاقات کا وقت بھی نہیں دینا تو وہ کس طرح سے لوگوں کا سامنا کریں، صورتحال کی سنگینی اس لئے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ شدید معاشی بحران، کاروباری مندے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام میں تحریک انصاف کے خلاف شدید غم وغصہ بھر دیا ہے جس کا سامنا کرنا موجودہ صورتحال میں تو تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کے بس میں نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو سیاسی حلقوں کو امید تھی کہ اب تحریک انصاف اپنی تنظیمی صورتحال کو بہتر بنانے اور پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے خصوصی توجہ دے گی لیکن اب تک ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا ہے۔

تحریک انصاف کے نئے سیکرٹری جنرل ارشد داد کو بھی اپنے کارکنوں اور رہنماوں کی توقعات اور مایوسیوں کا بخوبی علم ہوگا لیکن ارشد داد کو ملک بھر کے کارکنوں اور رہنماوں کیلئے اپنی دستیابی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، ارشد داد کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارنے سے دور دراز علاقوں کے رہنما اور کارکن اپنی تنہائی کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔

عمران خان کو یہ ادراک ہونا چاہئے کہ وہ بہت ہی نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ انہیں حکومت ’’دی‘‘ گئی ہے انہوں نے خود حاصل نہیں کی ہے، دینے والوں نے ’’کنٹرولنگ ٹولز‘‘ کے تحت کمزور حکومت دی ورنہ بقول اپوزیشن جماعتوں کے جنہوں نے تحریک انصاف کو 60 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں’’ارینج‘‘ کر کے دی ہیں وہ چاہتے تو 15/20 نشستیں مزید دلوا کر مضبوط حکومت بنوا سکتے تھے لیکن دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ عمران خان کے بارے ’’انہیں‘‘ یہ یقین نہیں ہے کہ کپتان ہمیشہ ’’ان کنٹرول‘‘ رہے گا۔ ایک تھیوری یہ بھی پیش کی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اگر اپنا کوئی سیٹ اپ لانا ہے تو اس کیلئے پہلے ایک باری عمران خان کو دینا ضروری تھا کیونکہ نواز شریف اور آصف زرداری سے مایوس عوام کی اکثریت کو عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں اگر عمران خان کو حکومت دیئے بغیر کوئی سیٹ اپ لایا جاتا تو اسے عوام مسترد کر دیتے لہذا عمران خان کو ایک کمزور حکومت دی گئی اور خود عمران خان نے ایک متنازع اور کم استعداد رکھنے والے افراد پر مشتمل وفاقی و صوبائی کابینہ بنا کر اپنے مسائل میں اضافہ کیا۔

اس وقت وفاقی وزراء کی اکثریت نظام حکومت چلانے اور اپنی وزارتوں میں انقلابی تبدیلیاں لا کر عوام میں حکومت کی ساکھ بہتر بنانے کی بجائے صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ساتھ محاذ آرائی اور بیان بازی پر تمام وقت اور توانائیاں خرچ کر رہی ہے۔ عوام کو بھی معلوم ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف نیب کیسز میں بہت کچھ حقیقت ہے لہذا حکومت کو اب اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام میں تحریک انصاف کو ان دونوں جماعتوں سے بہتر ثابت کرنے پر توجہ دینا چاہیے لیکن فی الوقت تو یہ صورتحال ہے کہ تحریک انصاف حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کی وجہ سے عوام کی اکثریت ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ مایوس اور خوفزدہ تحریک انصاف سے ہے۔ مایوسی کے اس گہرے تاثر کو توڑنے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت کو سب سے پہلے خود اپنے کارکنوں اور رہنماوں کی مایوسی کو ختم کرنا ہوگا ۔

کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے صرف پنجاب کے اندر مختلف سرکاری محکموں اور اداروں میں ہزاروں سیاسی تعیناتیاں کررکھی تھیں جو آج بھی برقرار ہیں، تحریک انصاف کی قیادت نے اس حوالے سے رپورٹس بھی تیار کروائی ہیں جبکہ ایک تنظیمی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو پنجاب بھر میں ایسے متحرک رہنماوں اور کارکنوں کی فہرستیں تیار کر رہی ہے جنہیں الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملا تھا اور اب انہیں محکموں اور اداروں میں تعینات کیا جائے گا۔کارپوریشن کمیٹیاں، مارکیٹ کمیٹیاں، زکوۃ کمیٹیاں، امن کمیٹیاں، پرائس کنٹرول کمیٹی، سی پی ایل سی، اتھارٹیز وغیرہ ایسے محکمے اورا دارے ہیں جہاں تحریک انصاف کے کارکنوں کو اکاموڈیٹ کیا جائے گا۔

اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت اور بالخصوص ارشد داد کی سربراہی میں قائم کمیٹی پر مزید ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شفافیت اور میرٹ کے ساتھ اپنی سفارشات تیار کریں، اقربا پروری، دھڑے بندی اور پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کے بہترین مفاد میں لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس بارے بھی غور کرنا چاہیے کہ بہت سے ایسے ٹکٹ ہولڈرز ہیں جو مختلف شعبوں میں حکومت کیلئے بہترین خدمات سر انجام دے سکتے ہیں ، انہیں بھی سرکاری محکموں اور اداروں میں تعینات کرنا چاہئے جبکہ ابھی تک تحریک انصاف کی خواتین رہنماوں اور کارکنوں کو بری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے، ان تعیناتیوں میں خواتین کا قابل ذکر شیئرہونا چاہئے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ جو ’’کارنامہ‘‘ خواتین کی مخصوص نشستوں کی تیاری کے وقت انجام پایا تھا ویسا دوبارہ نہ ہونے پائے۔ معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب میں تحریک انصاف کے ریجنل صدور ختم کر کے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ صدور بنانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پنجاب کی سطح پر ایک صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری ہوگا۔ یہ عمدہ فیصلہ ہے اور اس سے بہت سے شکوے شکایات بھی ختم ہو جائیں گے بالخصوص عمر ڈار کو سنٹرل پنجاب کا صدر بنائے جانے پر تحریک انصاف کے اندر جو ری ایکشن دیکھنے میں آیا تھا اس کے پیش نظر مجوزہ نظام زیادہ بہتر ہوگا،عمرڈار کو گوجرانوالہ ڈویژن کا صدر بنایا جائے تو سنٹرل پنجاب کے دیگر رہنماوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔اب مزید کسی تاخیر کے بغیر تحریک انصاف کی تنظیمی صورتحال کو بہتر اور فعال بنانے پر توجہ دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔

The post تحریک انصاف کے ہزاروں فعال کارکنوں کیلئے سیاسی عہدے دستیاب appeared first on ایکسپریس اردو.


تھیلیسیمیا، شادی سے پہلے ٹیسٹ ضروری ہے ؟

$
0
0

اللہ تعالیٰ نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے افزائش نسل کا نظام قائم کیا ہے اور تمام جاندار مخلوقات کے جوڑے پیدا فرمائے۔ ہر جاندار کی خصوصیات اس میں موجود جینیاتی مواد پر منحصر ہوتی ہیں جس طرح رنگ اور نسل والدین سے منتقل ہونے والی ایک خصوصیت ہے، اسی طرح کبھی کبھار والدین سے کچھ خاص جینیاتی نقائص بھی منتقل ہوتے ہیں۔ کروموسوم وہ موروثی مواد ہے جو دونوں والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ کروموسوم پر موجود جین اس موروثی نظام کا خصوصی کوڈ سسٹم ہے۔ ہر بچے کا آدھا جینیاتی مواد ماں سے اور آدھا باپ سے منتقل ہوتا ہے۔ یہ جینیاتی مواد مستقبل میں بہت سی بیماریوں سے بچاؤ یا پھر ممکنہ شکار کے لئے پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا خون کی ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق منتقل ہونے والے جینیاتی مواد پر منحصر ہے۔

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے ناکارہ ہوتے ہیں اور بننے کے فوراً بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انسانی جسم میں خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ خون کے خلیے کے ٹوٹنے سے بننے والا مواد جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور توڑ پھوڑ جن اعضا میں واقع ہوتی ہے ان پر شدید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ بیماری ناقص مورثی مواد پر منحصر ہے لہذا جسم میں بننے والا نیا خون بھی پہلے کی طرح ناقص ہوتا ہے۔ زندگی کے پہلے سال میں ہی عموماً خون کی کمی شدت اختیار کر لیتی ہے اور خون لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیاکے 5000 نئے مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2015 ء میں پاکستان میں 16800 مریضوں کی موت تھیلیسیمیا کی وجہ سے واقع ہوئی۔ تھیلیسیمیا کے جین اگر دونوں والدین سے بچے میں منتقل ہوں تو بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہوتا ہے اور اگر بچے میں تھیلیسیمیا کے جین صرف والدین سے کسی ایک سے منتقل ہو تو یہ مرض اگلی نسلوں میں ظاہر ہوتا ہے تاہم یہ بچہ نارمل یا تقریباً نارمل زندگی گزارتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اس لیے بہت زیادہ چانس ہے کہ دو ایسے افراد کی شادی ہوجائے جن دونوں میں تھیلیسیمیا کا جین چھپی ہوئی حالت میں موجود ہو۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر دونوں والدین سے بچے میں تھیلیسیمیا کا جین منتقل ہو جائے تو بچہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہو گا اور یہ موروثی بیماری ساری زندگی اس بچے کے ساتھ ساتھ رہے گی۔

اگر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کرا لیا جائے تو پہلے ہی سے اندازہ ہو گا کہ مستقبل میں ان والدین کے بچوں میں تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہونے کا امکان ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا جین موجود ہو اور شادی ہو تو پھر جب ماں امید سے ہو تو شروع میں ٹیسٹ سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہو تو شروع میں بچے کو پیدائش سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام کا فتویٰ موجود ہے کہ شروع کے کچھ دنوں میں ایسے سائنسی علوم کی بنیاد پر حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تاہم یہ مسئلہ علما کے ساتھ انفرادی طور پر ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں تقریباً ہر جوڑے کو شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی نے پچھلے دور حکومت میں بل پاس کیا تھا کہ ہر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔ کم از کم ایسے خاندان جن میں ایک بچہ تھیلیسیمیا سے پیدا ہوا ہو ان میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ بہت ہی ضروری ہے۔ اگرچہ تمام بیماریاں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ہی ہوتی ہیں تاہم انسان کو علم بھی اللہ نے انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے سکھایا ہے اور موجود علم سے فائدہ حاصل نہ کرنا بھی نعمتوں سے ناشکری ہے۔ اللہ ہم سب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔

The post تھیلیسیمیا، شادی سے پہلے ٹیسٹ ضروری ہے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

صرف دو ماہ میں بالوں کے سب مسائل حل ہوسکتے ہیں

$
0
0

کچھ شک نہیں کہ فی زمانہ بالوں کے مسائل خواتین اور مرد حضرات میں شدت اختیار کر چکے ہیں۔ قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا،بے رونقی،دو شاخہ اور جھڑنے کا عمل اس قدر شدید ہے کہ مرد حضرات وخواتین کوشش کے باوجود بھی ان مسائل سے پیچھا چھڑانے میں ناکام ہیں۔

ہمارے بال ہماری خوبصورت شخصیت کا ایک بنیادی اور لازمی حصہ ہیں۔یہ بھی دیگر جسمانی اعضا ء کی طر ح ہماری بھرپور توجہ،بہتر غذا اور سازگار ماحول کا تقاضا کرتے ہیں۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ آج بھی ایسے افراد جو روزانہ دو بار نہاتے ہیں،بالوں میں تیل لگاتے اور انہیں گرد وغبار سے محفوظ رکھتے ہیں، ان کے بال دوسروں کی نسبت محفوظ ہیں۔ہمارے بالوں کی سادہ سی مثال پودے کی ہے۔ایک ہی طرح کی زمین میں لگے پودے نگہداشت،آب و ہوا اور خوراک کے فرق سے مختلف حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔

جن پودوں کو بر وقت پانی،کھاد اور عمدہ نگہداشت میسر آتی ہے وہ دوسروں کی نسبت محفوظ،مضبوط ،شاداب اور توانا ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس ویسی ہی زمین میں لگے پودے مناسب خوراک،ماحول اور بہتر نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے کمزور،مرجھائے ہوئے اوربے جان سے دکھائی دیتے ہیں۔یہی معاملہ ہمارے بالوں سے پیش آتا ہے۔بالوں کی سیاہ رنگت قائم رکھنے کے لیے فولاد کی مخصوص مقدار کا ہماری خوراک میں شامل ہونا لازمی ہے۔بالوں کی مضبوطی کے لیے کیراٹینین اور میلا نین جیسے عناصر کی مقدار کا جسم میں پورا ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

بالوں کی بڑھوتری کے لیے سلفر،زنک،آئیوڈین اور کلورین وغیرہ کی مطلوبہ مقداروں کا ہمارے خون میں پایا جانا بھی لازمی ہے۔ان سب سے زیادہ اہم آکسیجن کی وافر مقدار کا خون میں ہونا اور سر کی طرف دوران خون کی روانی کا متناسب ہونا بھی بالوں کی حفاظت،نشو ونما اور مضبوطی کے لیے ضروری مانا جاتا ہے۔اب آپ خود غور فرما لیں کہ ہماری خوراک کس قدر متوازن ہے؟کیا کبھی ہم نے اپنی خوراک لیتے وقت اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھا ہے؟ہماری کھانے پینے کی روٹین تو بس پیٹ بھرنا،لذت حاصل کرنا اور مزے کا حصول رہ گیا ہے۔بالوں کے ہر طرح کے مسائل سے بچنے کا واحد حل معیاری،عمدہ،متوازن اور غذائیت سے بھرپور غذا کھانے میں پوشیدہ ہے۔آج سے ہی اپنی غذا کو جانچئے،مفید اور مضر کے فرق کو سمجھئے اور بھلے تھوڑا کھائے لیکن عمدہ اور معیاری خوراک کا انتخاب کیجئے۔

کیلشیم،میگنیشم،کلورین،زنک،سلفر،کاپر اور فولادی غذائی اجزاء بکثرت استعمال کریں۔دودھ،مکھن، دہی، دیسی گھی،پالک، مچھلی، انڈہ، لہسن،بند گوبھی، کیلا، آلو، شکر قندی،ادرک، مرچ سیاہ، انگور، سیب، انار،لوبیہ، سیاہ و سفید چنے ،جو کا دلیہ، گاجر، مسمی،مربہ ہرڈ، مربہ آملہ،مربہ بہی ،مغز بادام،مغز اخروٹ،سونف اور اسی طرح کے دوسرے پھل اور سبزیاں وافر مقدار میں استعمال کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ دو تین مہینوں میں ہی نہ صرف بالوں کے مسائل حل ہونا شروع ہو گئے ہیں بلکہ کئی ایک دیگر عوارض بھی آپ کا پیچھا چھوڑ جائیں گے۔

علاج کے سلسلے میں ایسے تمام افراد جن کے بال خشکی اور سکری کی وجہ سے  دوشاخہ ہو کر بے رونق ہوئے جارہے ہوں تو وہ درج ذیل گھریلو ترکیب آزماکر خشکی اور سکری سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔برگ حنا100 گرام،خشک آملے100 گرام،کلونجی 100 گرام  اور دال ماش 300  گرام باریک پیس کر 2 سے 3 چمچ دہی میں ملا کر بالوں پر جڑوں تک لیپ کریں۔

2 گھنٹے لگے رہنے کے بعد بال دھو ڈالیں۔اسی طرح ایسے افراد جن کے بال قبل از وقت سفید ی کی طرف مائل اور جھڑرہے ہیں وہ درج ذیل تیلوں کے مرکب کا استعمال کریں۔ناریل کا تیل 250 ملی لیٹر،بادا م روغن250ملی لیٹر،روغن ارنڈ  250 ملی لیٹر اور روغن با بونہ 250 ملی لیٹر لے کر ان کے برابر وزن سرسوں کا تیل شامل کر لیں۔دس دن اس تیل مرکب کودھوپ میں رکھیں اور وقفے وقفے سے ہلاتے رہیں۔دس دن کے بعد بال دھو کر سر میں یہ تیل لگا کر انگلی کے پوروں سے مسلسل 15 منٹ مساج کریں۔دھیان رہے جب میٹا بولزم سست یا خراب ہو تو بھی استعمال کی جانے والی غذا ہضم ہو کر جزو بدن نہیں بن پاتی ،یوں غذائی قلت کے نتیجے میں بھی بالوں کے مسائل پریشان کرنے لگتے ہیں۔

میٹا بولزم کی درستگی اور نظام ہضم کی اصلاح کے لیے زیرہ سفید، سونف اور الائچی خرد کا قہوہ دن میں ایک بار ضرور استعمال کریں۔ صبح نہار منہ تقریباََ نصف گھنٹہ تیز قدموں کی سیر اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنا لیں۔ حسد، بغل، بخض،غصہ،نفرت ،مایوسی، منفی انداز فکراور تکبر جیسے قبیح جذبات بھی دماغی صلاحیتوں کو مانند کر کے بالوں کے مسائل کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثبت سوچیں،امید، حوصلہ، رواداری، برداشت،محبت،عاجزی اور ایثار کے جذبات سے ذہنی و قلبی آسودگی حاصل ہوتی ہے ۔یقین مانیں ذہنی و قلبی آسودگی ہی تمام مسائل کا واحد اور بہترین حل ہے۔ ہماری معروضات پر عمل پیرا ہو کر دیکھیں بفضلِ خدا بہت جلد بالوں کے موروثی مسائل چھوڑ کر باقی سب سے نجات میسر آئے گی۔

The post صرف دو ماہ میں بالوں کے سب مسائل حل ہوسکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

رسول اکرمؐ کا حُسن سلوک

$
0
0

انسان اپنے عزیزوں، رشتے داروں، تعلق داروں اور دوست احباب سے تو حُسن سلوک کرتا ہے، مگر اپنے کسی مخالف اور جانیں دشمن سے تو شاید ہی کوئی حسن سلوک کرے۔ مگر جن کا ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں اور جن کی غلامی پر ہم کو ناز ہے، وہ ہمارے پیارے نبی پاک صاحب لولاک اﷲ کے محبوب کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا حسن سلوک مخالفین اور ظالم دشمنوں تک کے لیے بھی اس قدر وسیع اور عام ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں آپؐ کے محاسن اور کمالات اور عفو عام اور حسن سلوک کے چند ایمان افروز واقعات قارئین کی نذر ہیں۔

ایک بار ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا، آپؐ نے مذہب اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ عدل و انصاف پر زور دیتے ہوئے آپؐ نے قرآن کریم کی یہ تعلیم پیش فرمائی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی سے کام لو، ہمیشہ عدل و انصاف کو قائم کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور پاک ﷺ نے مشرکین مکہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ حضور کے پاس پہنچے گا تو اسے واپس کیا جائے گا اور اگر کوئی مسلمان مدینہ سے واپس مکہ چلا جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کو اس وجہ سے سخت ناگوار تھی کہ بہت سے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کو مکہ میں دُکھ دیے جاتے تھے اور وہ مجبور تھے کہ مکہ سے ہجرت کرکے حضور پاک ﷺ کے پاس مدینہ آجائیں، ایسے ہی لوگوں میں ابوجندلؓ اور سہیلؓ بھی شامل تھے، جن کو مکہ میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سخت تکالیف دی جاتی تھیں، وہ مدینہ آگئے تھے۔ حضور پاک ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے دشمن قوم سے بھی معاہدہ کی اس حد تک پابندی کی کہ ابوجندلؓ کو واپس مکہ بھجوا دیا، حالاں کہ انہیں وہاں سخت  اذیتیں دی جاتی تھیں۔ فتح خیبر کے موقع پر مفتوح یہودیوں نے درخواست کی ہمیں یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے، ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کر دیا کریں گے۔

حضور پاک ﷺ نے ان کی درخواست کو بھی قبول فرما لیا، مگر افسوس یہودیوں نے اس احسان کے باوجود حضور پاک ﷺ سے یہ سلوک کیا کہ ایک یہودی عورت نے حضور پاک ﷺ کو زہر ملا گوشت کھلا کر شہید کرنے کی کوشش کی۔ حضور پاک ﷺ کو جب اس خوف ناک سازش کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے اس کو طلب فرمایا تو اس نے اقرار کیا کہ بے شک میری نیّت آپؐ کو قتل کرنا تھی۔ آپؐ نے فرمایا مگر اﷲ کی منشاء نہ تھی کہ تیری آرزو پوری ہوجائے۔ صحابہؓ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپؐ نے منع فرما دیا۔ حضور پاکؐ نے جب اس سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے آمادہ کیا تو اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپؐ کی لڑائی ہوئی تھی، میرے دل میں آیا کہ آپؐ کو زہر دے دیتی ہوں، اگر واقعی آپؐ نبی ہوئے تو بچ جائیں گے۔

رسول پاک ﷺ نے جب اس کی یہ بات سنی تو اسے معاف فرما دیا۔ جان لیوا دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک یقینا عفو کی روشن مثال ہے جو تاریخ میں کہیں اور نہیں مل سکتی۔جنگ خیبر میں سرکار دوعالم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا ایک اور عجیب اور ایمان افروز واقعہ بھی پایا جاتا ہے۔ ابھی محاصرہ جاری تھا کہ ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا، مسلمان ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا: یا رسول اﷲ ﷺ! اب میں ان لوگوں کے پاس تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اس یہودی رئیس کی امانت ہیں، اب میں کیا کروں ؟ سرکار ﷺ نے فرمایا: بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف پھیر دو اور ان کو پیچھے سے ہانک دو، اﷲ خود ان کو مالک کے پاس پہنچا دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس چلی گئیں، جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔

اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کس قدر امانت و دیانت کے اصولوں پر عمل فرمایا کرتے تھے۔ کیا آج کل کے نام نہاد مہذب زمانے میں بھی اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ دشمن کے جانور ہاتھ آجائیں اور پھر انہیں واپس لوٹا دیا جائے۔آپ ﷺ جنگ میں مشغول تھے، دشمنوں نے مسلمانوں کی صفوں میں کچھ بدنظمی پائی اور ایک اعرابی تلوار سونت کر آپؐ کے سر پر آگیا اور کہنے لگا: یامحمد ﷺ تمہیں کون بچا سکتا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا، اﷲ! یہ سن کر اس پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی، آپؐ نے فورا اسے اٹھا لیا اور فرمایا: اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ کافر بولا آپؐ نے مجھے اسیر کر لیا، اب دوسرے قید کرنے والوں سے بہتر سلوک مجھ سے کیجیے۔

آپؐ نے اسے معاف کرکے رہا فرما دیا۔ جب وہ اپنے لوگوں میں واپس آیا تو کہنے لگا: میں اس وقت دنیا کے سب سے عظیم آدمی کے پاس سے آرہا ہوں۔ جس کسی نے حضور ﷺ کو آزار پہنچایا اگرچہ آپؐ ذی مقدرت تھے تاہم آپ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ آپؐ سب سے زیادہ حلیم اور معاف کرنے والے تھے باوجود مقدرت دوسروں پر ہمیشہ رحم فرماتے۔ایک موقع پر ایک یہودی نے حضور اکرم ﷺ سے قرض کی ادائی میں سختی کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور حضور پاک ﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر بل دیا، آپ سرکار ﷺ کی رگیں ابھر آئیں، حضرت عمر ؓ اس موقع پر موجود تھے وہ یہ صورت حال دیکھ کر بے قابو ہوگئے، انہوں نے بڑی سختی سے یہودی کو ڈانٹا اور کہا! او خبیث  اگر سرکار ﷺ نہ ہوتے تو میں تیرا سر توڑ دیتا۔ یہ سن کر رحمت عالم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو نرمی سے فرمایا عمر! تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اس سے نرمی سے سمجھاتے، کیوں کہ ابھی اس کے قرض کی ادائی کی میعاد میں تین دن باقی ہیں، اور تمہیں مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ قرض وقت پر ادا کرو۔

اس کے بعد حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ تم میری طرف سے اس کا قرض بے باق کر دو اور بیس صاع کھجور مزید اپنی طرف سے اس سخت کلامی کے تاوان کے طور پر اسے ادا کرو۔ یہ رحمت دوعالم ﷺ کا کردار ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے دشمنوں سے معاملہ فرمایا۔کعب بن زبیر جو عرب کا مشہور شاعر تھا اور ہمیشہ سرکار دوعالم ﷺ اور اسلام کی مخالفت میں شعر کہہ کر لوگوں کو اشتعال دلایا کرتا تھا اس کے دل کو اﷲ نے بدل دیا اسے بھی آپؐ نے معاف فرما دیا۔ وہ آپ ﷺ کی مدح میں ایک مشہور قصیدہ لے کر حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔

غزوہ بنو مصطلق میں رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی سلول نے سرکار دوعالم ﷺ کی شان میں گستاخی کا یہ فقرہ کہا کہ مدینہ جا کر میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں سب سے زیادہ ذلیل شخص کو مدینہ سے نکلوا دوں گا ( نعوذباﷲ)۔ ایسی گستاخی پر صحابہ کرامؓ نے چاہا کہ اسے قتل کر دیا جائے کیوں کہ یہ گستاخ رسول ﷺ ہے۔ مگر حضور پاک ﷺ نے انہیں اس سزا کی اجازت نہیں دی۔ گستاخی کے اس فقرے کا جب اس کے مخلص بیٹے کو علم ہوا تو اس نے حضور ﷺ سے اپنے گستاخ باپ کو خود قتل کر دینے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے اسے بھی منع کیا اور فرمایا کہ ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے اس کے باوجود غیرت مند بیٹے نے مدینہ میں داخل ہونے سے قبل اپنے باپ کو گھوڑے سے اتار لیا اور اس سے جب تک یہ کہلوایا کہ وہ خود مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل ہے اور محمد ﷺ سب سے زیادہ معزز ہیں، اس کو چھوڑا نہیں۔ یہی عبداﷲ بن ابی سلول جب فوت ہوا تو اس کے مخلص بیٹے نے حضور پاک ﷺ سے جنازہ پڑھنے کی درخواست فرمائی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جنازہ پڑھ دیتا ہوں۔

یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدا پاک نے قرآن میں منافق کا جنازہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر آپ ستّر بار بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں تو پھر بھی اﷲ ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سراپا رحمت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کے لیے اکہتّر بار مغفرت کی دعا کروں گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے نبی پاک ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور آپس میں پیار و رواداری و محبت بھائی چارہ قائم کریں۔

اﷲ اپنے محبوب پاکؐ کے صدقے ہماری اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

 

The post رسول اکرمؐ کا حُسن سلوک appeared first on ایکسپریس اردو.

مسلمان حکم راں کے اوصاف 

$
0
0

نیک اور عادل حکم راں اپنے ملک کو عدل اور انصاف سے بھر دیتا ہے۔ وہی حکم ران عدل و انصاف قائم کرسکتا ہے جو خود عادل ہو، نیک ہو، اس کے دل میں اﷲ کا ڈر ہو۔ عادل حکم ران کی اﷲ کے ہاں بہت قدر و منزلت ہے اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ عادل حکم ران قیامت کے دن اﷲ کے سائے میں ہوگا، جس دن کسی کو سایہ نہیں ملے گا۔

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: سات قسم کے افراد قیامت کے دن اﷲ کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک امام عادل ہے جو قیامت کے دن اﷲ کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوں گے، جو کہ اپنی حکومت اور گھر میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ اگر حکم ران نیکی اور تقوی کے مطابق حکومت کرتا اور عدل قائم رکھتا ہے تو اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال کیا جاتا ہے اور دفاع ہوتا ہے، اگر وہ تقوی اور عدل سے حکومت کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کے لیے عذاب ہے۔

نیک حکم ران قوموں اور ملکوں کے لیے خیر اور برکت کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اﷲ قوموں، ملکوں اور خطوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتے ہیں۔ جیسا کہ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی، اس لیے کہ اﷲ کے ہاں اس کی قدر و منزلت اور عزت ہوتی ہے۔ اسلام میں حکم رانی کا منصب جاہ و حشمت اور حصول منفعت کا باعث نہیں، بل کہ کانٹوں کی سیج اور بھاری ذمے داری ہے۔ اسلام نے حکم ران پر کچھ ذمے داریاں عاید کی ہیں، جنہیں پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے اس کے ذمے رعایا کے حقوق ہیں جو اس نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔

اسلام نے مسلمان حکم ران پر جو ذمے داریاں عاید کی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

مسلمان حکم ران کی پہلی ذمے داری حق اور عدل کا قیام ہے۔ لوگوں کے تنازعات اور معاملات انصاف کے ساتھ نمٹانا، اﷲ کی شریعت کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کے مطابق حدود کا نفاذ کرنا۔ رسول ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: اﷲ حاکم یا قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب حکم ران ظلم کرتا ہے تو اﷲ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا اور پھر اﷲ اس کے معاملات سے بَری ہوجاتا ہے۔

ابوذر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوذر تم ایک کم زور آدمی ہو اور یہ عہدے قیامت کے دن حسرت و ندامت کا سبب ہوں گے، سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جو ذمے داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کردیں۔ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا وہ سرکاری عہدوں سے بچا کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے مامون کے کہنے کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں لیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی منصور کی حکومت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے اکابر ہیں۔

عوف بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے عہدے کا آغاز ملامت، پھر ندامت، تیسرا درجہ قیامت کے دن عذاب کا ہے۔ الّا یہ کہ عدل کیا جائے۔ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ جس شخص کو بندوں پر حکم ران مقرر فرما دے، چاہے لوگ کم ہوں یا زیادہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا کہ ان میں اﷲ کے احکام نافذ کیے یا نہیں ؟ یہاں تک کہ گھر والوں کے بارے میں بھی (یہی) سوال کیا جائے گا۔

انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اﷲ ہر اس آدمی سے جسے کسی کا نگہبان و حکم ران مقرر کیا گیا یہ سوال کرے گا کہ اپنے ماتحتوں کا تحفظ کیا یا نہیں ؟ یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔

ابوامامہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں جو بھی آدمی دس یا ان سے زیادہ آدمیوں کا امیر بنتا ہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن میں باندھا گیا ہوگا یا اس کی نیکی اسے چھڑالے گی یا اس کا گناہ اس کو باندھ دے گا۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکم ران کو ہوگا۔

مسلمان حکم ران کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کے اور عوام کے درمیان رکاوٹیں اور پردے حائل نہ ہوں بل کہ حکم ران کے دروازے ہر وقت عوام کے لیے کھلے رہیں۔ عمرو بن مرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے جو بھی امام، حکم ران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے دروازے بند رکھتا ہے اﷲ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔

رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنا دے اور وہ ان کی ضروریات و شکایات سننے کے بہ جائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے، اﷲ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے اﷲ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اور مساکین کے لیے اپنے دروازے بند کردے اﷲ اس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ ہمارے لیے رسول اﷲ ﷺ کی ذات گرامی اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ اﷲ کے رسول تھے اور حکم راں بھی تھے۔ آپؐ خود عوام کے حالات کا جائزہ لیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں جاتے اور عام لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ ایک عورت نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا، مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بھی گلی کے ایک طرف بیٹھ جاؤ میں بات کرلیتا ہوں۔ اس نے ایسا ہی کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بات سنی جو اس کی ضرورت تھی وہ پوری کی۔

مسلمان حکم ران کی تیسری ذمے داری عوام کے فائدے کے امور سرانجام دینا، ان سے نرمی و شفقت کرنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا، اور جو جس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرنا ہے۔

یہ بات اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار اور اپنی ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔ امام اپنے عوام کے لیے، آدمی اپنے گھر کے لیے اور نوکر مالک کے مال کے لیے جواب دہ ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: اے اﷲ جو شخص میری امت میں سے کسی معاملے کا نگہبان بنے اور وہ امت پر سختی کرے تُو بھی اس پر سختی کر اور جو حکم ران نرمی کرے اے اﷲ تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کر۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: جو بھی شخص مسلمانوں کا حکم ران بنتا ہے ان کے لیے کوشش نہیں کرتا، خیر خواہی نہیں کرتا، وہ جنّت کی خوش بُو نہیں پائے گا حالاں کہ وہ خوش بُو سو سال کی مسافت تک آتی ہے۔

مسلمان حکم ران کی پانچویں ذمے داری مسلمانوں کے مال کا تحفظ اور عمالِ حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔

اس ذمے داری کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا کہ تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ امام ذمے دار ہے اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا، آدمی اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ عورت اپنے گھر میں ذمے دار ہے اور اس کے لیے جواب دہ ہے۔ ہر شخص ذمے دار ہے اور ذمے داری کے لیے جواب دہ ہے۔

مسلمان حکم ران کی ساتویں ذمے داری ملک کی حفاظت، دیار اسلام کا دفاع، مال و جان کا تحفظ اور امت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنا ہے۔

انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم  سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ والے رات کے وقت کسی آواز کو سن کر گھبرا گئے اور آواز کی سمت چل پڑے تو آگے سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پہلے جاکر آواز کا سبب معلوم کرچکے تھے۔ آپؐ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تھے اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے سب سے بہادر انسان تھے اور اپنی رعایا کا خیال رکھتے تھے۔ لوگ سوئے ہوتے تو آپؐ ان کی حفاظت و نگہبانی کیا کرتے تھے۔

دعا ہے کہ اﷲ ہمارے حکم رانوں کو بھی ان اوصاف سے متصف فرما دے۔ آمین ثم آمین

The post مسلمان حکم راں کے اوصاف  appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 27

حکیم بابا کے گھر میں رہتے ہوئے مجھے سال بھر سے زاید گزر چکا تھا اور اس دوران مجھے لمحہ بھر بھی اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔ میرے کھانے پینے سے لے کر لباس تک ہر طرح کا خیال رکھا گیا۔ سب سے بڑھ کر حکیم بابا کے روپ میں ایک شفیق باپ اور اس سے زیادہ ایک کامل استاد میرے ساتھ تھا۔ ماں جی میں ممتا کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اور بہنیں میرے لیے پیار اور ایثار میں گندھی ہوئی تھیں۔

میمونہ سخت گیر تھیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ جیون دشوار ہوجائے، مجھے کہنا چاہیے کہ ان کی سختی میں بھی ایک چھوٹے بھائی کے لیے خلوص و پیار کے ساتھ شفقت اور میری بہتری شامل تھی، ہاں انہوں نے مجھ پر کڑی نظر ضرور رکھی تھی، کئی مرتبہ ڈانٹا بھی اور ایک مرتبہ ہاتھ بھی استعمال کیا، اور انہیں ایسا کرنے کا حق تھا کہ وہ بڑی تھیں اور ان کی ذمے داری تھی کہ وہ مجھے اس کا احساس دلائیں کہ میں خودسر نہیں ہوں، مجھے کوئی روکنا والا ہے۔

قدسیہ جسے ہم سب پیار سے قدسی کہتے تھے، اور وہ واقعی قدسی کہلانے کی مستحق بھی تھیں، یوں کہنا چاہیے کہ وہ اسم بامسمی تھیں اور انہیں قدسی کہلانا زیبا تھا، بہت کم گو، سنجیدہ، متین اور ایثار کیش لیکن سب سے زیادہ خیال انہوں نے ہی میرا رکھا۔ قدسی کی ایک سہیلی کلثوم تھی، پڑوس میں ہی رہتی تھی، نہ جانے وہ قدسی کی سہیلی کیوں تھی، اس لیے کہ دونوں میں کوئی ایک بھی قدر مشترک نہیں تھی، قدسی جتنی کم گو تھی کلثوم دوسری انتہا پر تھی، حد سے زیادہ باتونی، چنچل اور شوخ۔ اس نے مجھ سے بے تکلف ہونے کے بہت جتن کیے تھے، لیکن ۔۔۔۔۔۔!

ایک دن دوپہر کو میں اپنے کمرے میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ وہ آکر میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ تم مجھے چھوڑ کر باہر تو نہیں چلے جاؤ گے؟ اس کا سوال عجیب تھا یا مجھے ایسا لگا تو میں نے کہا: کیا پتا کہاں کہاں جانا ہے مجھے۔ نہیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ اس کی عجیب سی خواہش پر میں نے صرف اتنا کہا: میرا خیال دل سے نکال دو، میں نہیں جانتا کہ مجھے کہاں کہاں بھٹکنا ہے۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور رونے لگی بس اسی لمحے میمونہ اندر داخل ہوئی۔ میمونہ کو دیکھتے ہی اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

حیرت تھی میمونہ نے کچھ نہیں کہا اور کمرے سے واپس چلی گئیں۔ دوسرے ہی لمحے کلثوم بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے جانے کے بعد میمونہ پھر کمرے میں داخل ہوئی، میں ان کے سوالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں: کیا باتیں ہورہی تھیں تو میں نے انہیں تفصیل بتائی۔ ہاں میں جانتی ہوں تمہیں بھی اور کلثوم کو بھی۔ میں تو سمجھا تھا کہ وہ اب مجھے ڈانٹیں گی اور نہ جانے کیا کچھ کہیں گی لیکن انہوں نے تو بات ہی ختم کردی تھی۔

پھر وہ کہنے لگیں: دیکھو اس عمر میں انسان بہت جذباتی ہوتا ہے اور غلط سمت میں چل پڑتا ہے، میں کلثوم کو جانتی ہوں وہ بہت جذباتی ہے اور اس لیے بھی اس کے گھر میں کوئی بھائی نہیں ہے، پھر جس لڑکے سے اس کی نسبت طے ہوئی تھی وہ بھی انگلینڈ چلا گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے کلثوم سے شادی کرنے سے انکار کردیا تو وہ اس لیے بھی کہ کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہے، اسے غلط مت سمجھنا وہ اچھی لڑکی ہے، شوخ ہے باتیں بھی بہت کرتی ہے اور اچھا ہی ہے کہ وہ یہ سب کرکے پرسکون رہے، میں اسی لیے اسے روکتی ٹوکتی نہیں ہوں، میں جانتی تھی کہ وہ ایک دن تم سے یہ ضرور کہے گی۔

انسان سہاروں کی تلاش میں رہتا ہے اور ایسا فطری بھی ہے، لیکن اب تمہاری ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے کہ تم اسے اس جذباتی کیفیت سے نکالو اور اسے سیدھی سمت دکھاؤ۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئیں تو میں نے کہا: میں کیا کرسکتا ہوں، میں تو خود بھی ایسا ہوں۔ تو انہوں نے کہا: دیکھو انسان ہی انسان کے کام آتا ہے، اس سے ہنس کر بات کرو اور اسے اس کا احساس دلاؤ کہ ہم سب اس کے ساتھ ہیں لیکن اسے کوئی ایسا خواب مت دکھانا کہ وہ مزید بکھر جائے۔

مجھے کچھ سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن میں نے اچھا جی کہہ کر بات ختم کردی۔ زندگی کے معمولات وہی تھے، کلثوم بھی ویسی ہی تھی، کب باز آیا ہے بندہ بشر اپنی عادات سے، وہی باتونی، وہی شوخی لیکن اس نے بھی مجھے بھائی کہنا شروع کردیا تھا۔ اکثر وہ ضد کرتی کہ جب وہ شام سے پہلے پانی بھرنے جاتی ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ چلا کروں اور میں نے کئی مرتبہ اس کی ضد مانی بھی اور ان سب کے ساتھ پنگھٹ پر گیا تھا، پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ کلثوم کا رشتہ آگیا تھا اور اس کی نسبت طے ہوگئی تھی، اور پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب وہ اپنے پیا سنگ انگلینڈ جانے کے لیے ہم سے رخصت لینے آئی، ہاں تب میں نے اسے کہا تھا کہ میں تو یہیں ہوں اور تم ہمیں چھوڑ کر جارہی ہو۔ نہیں میں آپ سب کے ساتھ ہی ہوں، بس جانا ہے، مجبوری ہے، کہتے ہوئے اس کے آنسو بہہ نکلے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اب چار بچوں کی ماں اور مجھ سے رابطے میں ہے، شادی کے بعد بھی اس سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس نے میرا سگے بھائی سے زیادہ خیال اور احترام کیا ہے۔

ایک دن بابا نے کچھ اشیاء خریدنے کے لیے مجھے کلر سیداں جانے کا حکم دیا، میں نے ان سے اجازت لی کہ میں وہاں جس بابا جی سے ملا تھا ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بہ خوشی اجازت دے دی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس زمانے میں صرف ایک ہی بس چلتی تھی جو صبح چوہا خالصہ سے کلر سیداں آتی اور وہی پھر شام کو واپس چوہا خالصہ جاتی تھی، بابا نے مجھے اس بس میں سوار کراتے ہوئے کچھ ہدایات دیں اور کہا پریشان مت ہونا رب تعالی ہے تمہارے ساتھ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں تو بالکل بھی پریشان نہیں تھا بل کہ خوش تھا کہ وہاں جارہا ہوں کچھ خریداری کروں گا اور ان بابا جی سے بھی ملوں گا، خیر میں دوپہر سے پہلے ہی کلر سیداں پہنچ گیا تھا۔ میں نے لسٹ کے مطابق خریداری کی اور پھر اسی ہوٹل پہنچ گیا۔

جہاں مجھے وہ ہوٹل والے بابا ملے تھے اور میں نے ایک رات ان کے ہاں بسر کی تھی۔ بابا ہوٹل پر موجود تھے، وہ مجھے دور سے آتا دیکھ کر دیوانہ وار میری طرف دوڑے۔ اوہ میرا پتر آگیا جی، بسم اﷲ، کیسا ہے تُو، سب خیر ہی لگتی ہے، واہ جی آج تو قمیض شلوار میں بہت سوہنا لگ رہا ہے میرا پتر۔ جی بابا جی سب خیر ہے، بہت مزے میں ہے زندگی، میں نے انہیں پوری تفصیل بتائی تو انہوں نے کہا پتر جی تم جن کی بات کر رہے ہو، انہیں تو سب جانتے ہیں، بہت نصیب والے ہو تم تو، وہ تو بہت نیک بزرگ ہیں، بہت اﷲ والے ہیں وہ تو، واہ جی واہ تم تو بہت ہی خوش نصیب ہو۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پہلے جب میں نے ان سے جانے کا کہا تھا تب انہوں نے ان کے متعلق کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگے او پتر جی تم نے تو مجھے چوہا خالصہ میں رکنے کا نہیں کہا تھا، تمہیں تو میں نے میرگالہ مگرال کا بتایا تھا۔ مجھے اچانک یاد آگیا کہ انہوں نے یہی کہا تھا، لیکن میں چوہا خالصہ میں رک گیا تھا اور حکیم بابا سے میری ملاقات ہوگئی تھی۔

میں نے ان سے ماں جی کی خیریت معلوم کی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کی طرف چلنے لگے، او پُتّر! اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ بہت نہال ہوگی، وہ تو ہر وقت تیرا پوچھتی رہتی ہے کہ نہ جانے کیسا ہوگا، کہاں ہوگا، میں تو اسے کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوگا ٹھیک ہی ہوگا لیکن پُتّر یہ ماں بھی ماں ہی ہوتی ہے، کسی پل اسے قرار نہیں آتا، ماں کو تو قرار اس وقت آتا ہے جب اس کا بیٹا اس کی نگاہوں کے سامنے ہو اور اس کے سارے کام وہ خود اپنے ہاتھ سے کرے۔ بابا بالکل صد فی صد سچ کہہ رہے تھے، بالکل ایسا ہی ہے، مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔

میں بے عقل و فہم ہوں اور ہوں تو کیا کروں، بس ایسا ہی ہوں میں، کچھ جانتا ہی نہیں، میں کسر نفسی سے کام نہیں لے رہا، بالکل نہیں، کسر نفسی کیا بَلا ہے، میں کیا جانوں گنوار، مجھے اگر کچھ معلوم ہو تو اس کا ڈھنڈورا پیٹ دوں، لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں، ورنہ میرے شر سے کوئی کیسے بچ پاتا۔ لیکن جناب یہ جو مائیں ہیں ناں، مجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی انہیں جانتا ہو، جی رب تعالی نے اتنی ساری مائیں جو دی ہیں مجھے، واہ جی واہ، مجھے پالنا کوئی آسان نہیں تھا بل کہ اب تک میں ایسا ہی ہوں۔

مجھے یاد ہے جب میری ایک ماں نے کہا تھا: ساری دنیا کے بچے پالنا بہت آسان ہے، لیکن تجھے پالنا بہت مشکل ہے بیٹا، اور پھر بہت ہنسیں اور کہا: اسی لیے تو اﷲ نے تجھے اتنی ساری مائیں دی ہیں، ایک ماں کے بس کا تُو کہاں۔ تو ہم گھر پہنچے تو ماں مجھ سے لپٹ گئیں اور پھر وہی سوالات۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بہت مزے میں ہوں شفیق حکیم بابا ہیں، پیار کا مجسم ماں ہے اور ایثار کیش بہنیں بھی۔ بہت خوش ہوئیں وہ، دوپہر کا کھانا ہم سب نے وہیں کھایا، ان کا اصرار تھا کہ میں ایک دن ہی کے لیے ان کے پاس رک جاؤں لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اس کی اجازت نہیں لی اگلی مرتبہ میں اجازت لوں گا اور پھر ان کے ہاں قیام کروں گا۔ میں نے ان سے رخصت لی اور بابا مجھے واپسی کے لیے بس میں سوار کرانے آئے۔

بس اپنے وقت پر روانہ ہوئی، لیکن ابھی نصف فاصلہ ہی طے ہوا ہوگا کہ بس خراب ہوگئی، میں نے آپ کو اس سے پہلے بھی بتایا تھا کہ بس کیا تھی بس ایک کھٹارا تھی، جس کی ہر چُول ڈھیلی ہی نہیں اپنی جگہ سے بھی ہلی ہوئی تھی، اسے بس کہنا تو بس کی توہین تھی۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر خود ہی اسے ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے تھے اور وقت گزارتا جارہا تھا۔ مجھے مغرب تک پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن اب تو ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ عصر کا وقت بھی تیزی سے گزر رہا تھا اور بس، بے بس ہوگئی تھی۔ مسافر اس بس کی صحت یابی کی دعائیں کر رہے تھے اور آخر مالک نے ان کی دعائیں قبول فرمائیں اور بس ہچکیاں لیتے ہوئے چلنے لگی، ایسا لگ رہا تھا جیسے انسانوں سے التجا کر رہی ہو کہ اے اشرف انسانوں مجھ پر رحم کرو، اور اس حالت میں تو مجھ پر رحم کرو۔ اپنی منزل پر مسافر اترنے لگے اور جب میں چوہا خالصہ پہنچا تو رات کے قریباً دس بج رہے تھے۔

بس مجھے اتار کر واپس چلی گئی اور میں وہاں تنہا رہ گیا۔ اندھیرا تھا، دور دور تک کھیت اور درخت اور ساتھ ہی بہتا ہوا پانی۔ میں کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا، اس لیے کہ میں راستے کا تعین نہیں کرپا رہا تھا۔ یوں سمجھیے کہ میں گم راہ ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو میں کھڑا رہا اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، اس وقت تک مجھے بابا حضور نے یہ نہیں سکھایا تھا کہ اندھیرے میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے اور انسان کبھی راستہ گم کردے تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے۔

جی جی کسی اور وقت پر ہم اس پر بھی بات کرلیں گے۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں کھڑا تھا کہ دُور ایک کھیت سے اچانک ایک سایہ نمودار ہوا، پلک جھپکتے ہی وہ میرے سامنے تھا، بالکل خاموش، کچھ زیادہ ہی درازقد ایک سیاہ چادر میں لپٹا ہوا، اس نے بغیر کچھ کہے سنے میرا سامان سے بھرا ہوا بیگ اٹھایا اور ایک طرف چلنے لگا، میں اس کے پیچھے چلتے ہوئے سوچنے لگا کہ یہ کون ہے آخر، لیکن میں طے کرچکا تھا کہ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

مجھے حیرت نے اس وقت گھیرا جب مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میرے چلنے کی چاپ تو آرہی تھی لیکن وہ بالکل ہی بے آواز تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ زمین پر نہیں چل رہا لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا کہ میرا خیال صرف گمان تھا یا یقین، حق الالیقین اور عین الایقین کی منزل تو بہت بعد میں آتی ہے ناں جی۔ اسٹاپ سے گھر زیادہ دور نہیں تھا، اس نے گھر کے سامنے میرا بیگ رکھا اور تیزی سے غائب ہوگیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے دروازہ کھولا، لیکن حیرت ہے وہ کوئی سوال کیے بغیر ہی میرا بیگ اٹھا کر اندر چلے گئے۔ ماں نے مجھے بہت پیار کیا، بہنوں نے بس اتنا پوچھا سارا سامان مل گیا تھا تو میں اثبات میں سر ہلایا۔ بابا جی کھانا کھا چکے تھے لیکن ماں اور بہنیں میرا انتظار کر رہی تھیں، ہم نے کھانا کھایا اور آرام کرنے لیٹ گیا۔ ماں جی نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور میں منتظر تھا کہ وہ مجھ سے اتنی دیر سے آنے کی وجوہات معلوم کریں گی، لیکن وہ تو خاموش تھیں۔ آخر میرا صبر جواب دے گیا۔

ماں جی مجھے دیر ہوگئی آپ پریشان تو نہیں ہوگئی تھیں، میں نے ماں جی کو پوچھنے پر اکسایا۔ نہیں بیٹا میں کیوں پریشان ہوتی، تمہارے بابا نے بتا دیا تھا کہ تمہیں آنے میں دیر ہوجائے گی، جو وقت انہوں نے بتایا تھا تم اس وقت اپنے گھر پہنچ گئے۔ ماں جی کے اس انکشاف نے تو مجھے مزید الجھا دیا تھا، میں نے سوچنا شروع کیا تو مجھے یاد آیا کہ صبح مجھے رخصت کرتے وقت بابا نے کہا تھا: پریشان مت ہونا رب تعالٰی ہے تمہارے ساتھ۔ اس کے ساتھ ہی میں جان پایا کہ جو کچھ ہوا بابا وہ پہلے سے ہی جانتے تھے۔ لیکن کیسے ۔۔۔۔۔۔ ؟ سوالات کی آندھی میرے اندر چلنے لگی اور میں تنکے کی طرح اس میں بھٹکنے لگا۔ کیسے ممکن ہے یہ، اگر یہ ہونا ہی تھا تو انہوں نے پہلے سے مجھے کیوں نہیں بتایا، انہوں نے گھر والوں کو کیسے بتا دیا کہ میں دیر سے گھر لوٹوں گا، ماں جی اور بہنیں کیسے ان کی ہر بات پر کامل یقین رکھتی ہیں اور کیوں سوال نہیں کرتیں، وہ سایہ کون تھا، کیا وہ میرے انتظار میں خود کھڑا ہوگیا تھا یا اسے بابا نے حکم دیا تھا کہ وہ مجھے امان کے ساتھ گھر تک پہنچائے، وہ بابا سے ملے بنا ہی کیسے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔۔۔!

اوہو! یہ کیا یاد آگیا اِس وقت

دیکھا ہی نہ ہو جس نے کبھی خاک سے آگے

کیا اُس کو نظر آئے گا افلاک سے آگے

(جاری ہے)

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

الوداع …. جیفری لینگ لینڈز (2019-1917)

$
0
0

50 ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں اپنی فوجی ملازمت کے اختتام کے بعد جب میجر (ر) جیفری لینگ لینڈز نے ایچی سن کالج میں تدریس کا آغاز کیا تو کوئی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ تعلیمی محاذ پر ہمیشہ ڈٹے رہیں گے۔ ان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آئے جب وہ تمام ترعزت اور اعزازات کے ساتھ برطانیہ واپس جا سکتے تھے لیکن ایک سچے سپاہی کی طرح انہوں نے خود کو تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دیا۔ انہیں اپنے شاگردوں سے بے پناہ محبت اور احترام ملا جس کے وہ بلاشبہ سب سے زیادہ مستحق تھے۔ اسی محبت نے انہیں وہ عہد نبھانے میں مدد دی، جس کا اظہار وہ اپنے پسندیدہ شاعر رابرٹ فراسٹ کی شاعری سے کرتے تھے: ’’جنگل خوبصورت، گہرا اور بڑا ہے۔ مگر مجھے اپنے وعدوں کا پاس کرنا ہے۔ اورسونے سے پہلے مجھے بہت دور تک جانا ہے، اور سونے سے پہلے مجھے بہت دورتک جانا ہے۔‘‘

ایک بڑے انسان کی طرح جیفری لینگ لینڈز اپنی بے لوث خدمات اور کارناموں کا ذکر نہایت عاجزی سے کرتے اور اس کا کریڈٹ عام لوگوں کو دیتے۔ چترال میں اپنے تعلیمی ادارے کی کامیابی سے متعلق وہ کہتے، ’’اس کا کریڈٹ وہاں کے لوگوں کو جاتا ہے، جنہوں نے مجھے اور میرے تعلیمی ادارے کو بہت پیار دیا۔ اس کامیابی میں ان کے اس جذبے کا بھی دخل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکیں۔‘‘ انہوں نے سکول چلانے کے لیے ٹرسٹ قائم کیا، صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کر کے اس کے لیے فنڈز حاصل کیے۔

وہ شاگردوں کو بھی اپنے تعلیمی ادارے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا کہتے۔ اس طرح انہوں نے سکول اور کالج کے لیے نئی عمارت تعمیر کرائی اور 80 طلبہ سے شروع ہونے والے سکول میں طلبہ کی تعداد 900 تک چلی گئی۔ سادہ زندگی بسرکرنے والے جیفری لینگ لینڈز سکول سے بہت معمولی تنخواہ لیتے اور اس میں سے بھی بڑا حصہ وہ غریب طلبا و طالبات اور نادار لوگوں کی مدد میں خرچ کر دیتے۔ وہ خود بسوں میں سفر کرتے اور بچت کر کے حکومت سے ملنے والے پیسے سکول کے ٹرسٹ میں جمع کرا دیتے۔

نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا جیفری لینگ لینڈز کا شوق اور مشن تھا۔ حساب اور الجبرا ان کے پسندیدہ مضامین تھے۔ برطانیہ کے بجائے پاکستان میں تدریس کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’’برطانیہ کی نسبت یہاں پاکستان میں پڑھانا کہیں زیادہ سودمند اور فائدہ بخش معلوم ہوتا ہے۔ یہاں استاد کو احترام دیا جاتا ہے اور یہ اہم ترین بات ہے۔ میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تسکین کا باعث نہیں کہ آپ ایک استاد ہیں اور طالب علموں کو اپنے زیرتربیت اچھے شہری بنا رہے ہیں۔ ‘‘ وہ معاشرے میں پیدا ہونے والے اس رجحان سے نالاں تھے جس میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی فکر میں ہے، جبکہ ان کے نزدیک اصل اہمیت اس بات کی تھی کہ ہم ایسی سوچ پیدا کریں کہ کم پیسے والے لوگوں کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ جی ڈی لینگ لینڈز کہتے تھے، ’’پاکستان میں ہر فرد دوسرے پر تنقید کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

اس وجہ سے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ ماحول کو بہتر بنانے لیے اچھا بننے اور اچھا کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ اپنی زندگی میں اس اصول پر سختی سے کاربند رہے اور ہمیشہ ان کی کوشش رہی کہ دوسروں کے لیے کچھ کریں اور ان کو اچھے ناموں سے یاد کریں۔ ان کے زیر تربیت رہنے والے فوجی جوان آگے چل کر افواج پاکستان کے بہترین افسر بنے، ان کے کئی شاگرد وزیراعظم، صدر پاکستان سمیت مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن پر وہ فخر کرتے تھے۔ ایک استاد کی حیثیت سے انہیں اپنے سب شاگرد بہت عزیز تھے اور وہ سب کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے۔ کوئی بھی شاگرد ملاقات کے لیے آ جاتا تو وہ بہت خوشی سے ملتے۔ چترال میں وہ اپنے کم وسیلہ شاگردوں کی مالی مدد بھی کرتے، کوئی ایسا شاگرد انہیں ملنے آ جاتا تو جاتے ہوئے تحفے کے طور پر کچھ پیسے ضرور دیتے۔

2 جنوری 2019ء کو انتقال کرنے والے میجر (ر) جیفری لیگ لینڈز نے 101 برس کی طویل عمر پائی۔ ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان میں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز اور دیگر اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی زندگی اور جدوجہد پر نظر دوڑائی جائے تو اس سے سادگی، مقصد سے لگاؤ، ڈسپلن، بے خوفی اور استقامت کا درس ملتا ہے۔ وہ بیک وقت ایک سچے سپاہی اور معلم تھے۔ تعلیم کا فروغ ان کا مشن تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حکومت جی ڈی پی کا زیادہ سے زیادہ حصہ تعلیم پر صرف کرے۔ انہوں نے اپنے سکول کا ماٹو ایک انگریزی کہاوت کے مطابق یہ رکھا کہ ’’بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔‘‘

اور اسی جستجو میں انہوں نے اپنی پوری زندگی کام جاری رکھا۔ دلیری کا یہ عالم تھا کہ غیر ملکی شہریوں کے لیے مشکل ترین حالات میں بھی انہوں نے شمالی وزیرستان اور چترال جیسے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دیں اور وہاں سے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنا مستقبل ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ساتھ نتھی کر لیا تھا۔ شادی نہ کرنے کی وجہ بھی وہ یہ بتاتے: ’’میں خواہ کسی انگریز خاتون سے شادی کرتا یا پاکستانی سے، شادی کے اگلے ہی روز اس کا پہلا سوال یہی ہوتا کہ ہم انگلینڈ کب جا رہے ہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ میں نے اپنے لیے پاکستان کو چن لیا تھا۔‘‘ پاکستان سے ان کی محبت اتنی گہری تھی کہ اسی دھرتی کی مٹی میں دفن ہوئے، جسے وہ ہمیشہ کے لیے اپنا چکے تھے۔

جیفری لینگ لینڈز 21 اکتوبر 1917ء کو یارک شائر برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے جڑواں بھائی سے 10منٹ بڑے جبکہ ان کی بہن ٹھیک ایک سال بعد پیدا ہوئی۔ ان کے والد 1918ء میں انفلوئنزا کی اس وباء کا شکار ہو گئے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

والدہ کینسر کی مریضہ تھیں، اس کے باوجود ملازمت کر کے بچوں کی پرورش کی۔ دادا نے بھی دوبارہ ملازمت کی۔ والدہ چھ سال بعد کینسر کے باعث انتقال کر گئیں۔ علاقے کے کچھ لوگوں نے چندہ جمع کر کے انہیں اچھے پبلک اسکول میں داخلہ دلوایا۔ 1932ء میں دادا بھی کرسمس سے ایک دن پہلے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ہائر اسکول سرٹیفیکیٹ کے حصول کے بعد مالی مسائل کے باعث کالج میں داخلہ لینا ناممکن ہو گیا تو انہوں نے پانچ پائونڈ ماہانہ پر Croydon کے کومبل ہل پریپ اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی بیرک بیک کالج میں بی ایس سی کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا۔ برطانیہ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوا تو فوج میں بھرتی ہو گئے۔ تین سال تک بطور سارجنٹ خدمات انجام دینے کے بعد 1944ء میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔

میجر جیفری لینگ لینڈز نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ایک سالہ کنٹریکٹ پر پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینے کا فیصلہ کیا، جس کی بعدازاں مزید پانچ سال کے لیے توسیع کر دی گئی۔ اس دوران انہوں نے افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کرنے والے جوانوں کی بڑی محنت سے تربیت کی۔ ملازمت کے اختتام پر وہ برطانیہ واپس جا کر کسی تعلیمی ادارے میں پڑھانا چاہتے تھے، کیونکہ فوج میں آنے سے پہلے بھی وہ تدریس سے وابستہ تھے۔ تاہم پاک فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کی پیشکش پر انہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور 1954ء میں ایچی سن کالج میں تدریس کا آغاز کر دیا۔

25 سال ایچی سن میں خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے رزمک کیڈٹ کالج شمالی وزیرستان میں پڑھانے کا فیصلہ چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس مشکل امتحان میں بھی سرخرو ہوئے۔ ایک مرتبہ مقامی قبائل نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے انہیں چند دن کے لیے اغوا بھی کیا۔ 1979ء سے 1989ء تک وہ رزمک کالج سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد وہ چترال کے ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر وہاں چلے گئے اور سایورج پبلک سکول کا انتظام سنبھال کر انتہائی کم فیس میں علاقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کی۔ اس کو بعدازاں لینگ لینڈز سکول اینڈ کالج کا نام دیا گیا۔ اس تعلیمی ادارے میں وہ 96 برس کی عمر تک خدمات انجام دیتے رہے، پھر اس ادارے کا انتظام موجودہ خاتون پرنسپل کیری سوچو فیلڈ کے سپرد کرکے وہ ایچی سن کالج لاہور آ گئے، جہاں انہوں نے زندگی کے آخری برس گزارے۔

The post الوداع …. جیفری لینگ لینڈز (2019-1917) appeared first on ایکسپریس اردو.

قادر خان بھی فلم نگری کی روایتی بے حسی سے نہ بچ پائے

$
0
0

’’اپن بہت فیمس آدمی ہے، بڑے بڑے پیپر میں اپن کا چھوٹا چھوٹا فوٹو چھپتا ہے‘‘، ’’تیرے باپ نے چالیس سال بمبئی پر حکومت کی ہے، اس کھلونے(بندوق) کے بل پر نہیں اپنے دم پر‘‘ دو ہندی فلموں کو یہ وہ ڈائیلاگ ہیں، جن کو لکھنے والا انہیں حقیقی زندگی میں بھی سچ ثابت کر گیا۔ ایک زمانہ اُس عظیم فنکار، اداکار، ہدایت کار اور فلم نویس سے شناسا ہے۔

جس نے تنگ دستی، گمنامی اور محرومیوں میں آنکھ ضرور کھولی لیکن عمر بھر کے لئے انہیں اپنی زندگی کی مجبوری نہیں بنایا۔ محنت، لگن اور خالصتاً اپنے دم پر اس نے دنیا میں اپنا وہ مقام بنایا کہ جس کی شائد ہر کوئی تمنا کرتا ہے۔ جی ہاں! وہ شخص ہے قادر خان، ایک بھارتی و کینیڈین مسلمان، جس کی زندگی کی صبح (22 اکتوبر 1937ء) افغانستان میں ہوئی اور بھارت میں پورا دن گزارنے کے بعد کینیڈا میں شام (31 دسمبر 2018ء) ہو گئی۔

قادر خان کے والد کا نام عبد الرحمان تھا، جو قندھار سے تعلق رکھتے تھے جبکہ والدہ اقبال بیگم برطانوی ہند کے پشین (بلوچستان) سے تعلق رکھتی تھیں۔ پشتون کے کاکڑ قبیلہ کی نسل سے تعلق رکھنے والے خان نے علاقائی میونسپل اسکول اسماعیل یوسف کالج میں داخلہ لیا اور اس کے بعد انسٹی ٹیوشن آف انجیئنرنگ، بھارت سے ماسٹر ڈپلوما ان انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ 1970ء تا 1975ء انہوں نے جنوبی ممبئی کے مضافاتی علاقے میں واقع ایم ایچ سابو صدیق کالج آف انجینئرنگ ، بائکلا میں تدریسی خدمت انجام دی، جہاں وہ سول انجینئرنگ پڑھاتے تھے۔ سنجیدہ مزاح کے استاد قادر خان کے تین بیٹے ہیں۔

قادر خان کے شوبز کیرئیر کی بات کی جائے تو ایم ایچ سابو صدیق کالج آف انجینئرنگ، بائکلا کے سالانہ جلسہ میں ایک ناٹک پلے کرتے ہوئے دلیپ کمار کی نظر ان پر پڑی تو انھوں نے خان کو اگلی فلم کے لئے سائن کرلیا۔ شروع میں وہ تھیٹر کے لئے ڈرامے لکھا کرتے تھے اور اسی دوران انہیں فلم ’’جوانی دیوانی‘‘ کے لئے اسکرپٹ لکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم کے وہ شریک لکھاری تھے، تاہم 250 سے زائد فلموں کے لئے مکالمے لکھنے والے لکھاری کی پہلی بڑی فلم ’’روٹی‘‘ تھی۔ راجیش کھنہ کے کہنے پر معروف ڈائریکٹر و پروڈیوسر منموہن ڈیسائی نے انہیں فلم روٹی (1974ء) کے لئے کہانی لکھنے کا ٹاسک دیا۔ بہترین کہانی لکھنے پر قادر خان کو ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کی پہلی بڑی رقم حاصل ہوئی۔

جس کے بعد انھوں نے راجیش کھنہ کے لئے کئی فلموں کے مکالمے لکھے، جن میں مہاچور، چیلا بابو، دھرم کانٹا، ففٹی ففٹی، نیا قدم، ماسٹرجی اور نصیحت شامل ہیں اور یہ سب فلمیں باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئیں۔ دیگر فلمیں جن کو انھوں نے لکھا اور یا لکھنے میں مدد کی اور ان میں جیتیندر نے اداکاری کی، ان میں ہمت والا، جانی دوست، سرفروش، جسٹس چودھری، فرض اور قانون، جیو اور جینے دو، تحفہ، قیدی اور حیثیت شامل تھیں۔ بطور منظر نویس انھوں نے منموہن ڈیسائی اور پرکاش مہرا کے لئے ان فلموں میں کام کیا جن میں امیتابھ بچن نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور امیتابھ بچن کے علاوہ خان ہی ایسے انسان تھے جنہوں نے منموہن کے حریف کیمپ میں بھی ساتھ ساتھ کام کیا۔ ڈیسائی کے ساتھ انھوں نے دھرم ویر، گنگا جمنا سرسوتی، قلی، دیش پریمی، سہاگ، پرورش اور امر اکبر انتھونی جبکہ پرکاش مہرا کے ساتھ جوالامکھی، شرابی، لاوارث اور مقدر کا سکندر کے لئے کام کیا۔ امیتابھ بچن کی دیگر فلمیں جن کو قادر کے قلم نے الفاظ کا جادو بخشا وہ مسٹر نٹورلال، خون پسینہ، دو اور دو پانچ، ستے پہ ستا، انقلاب، گرفتار، ہم اور اگنی پت ہیں۔

راجیش کھنہ، جتیندر، فیروز خان، امیتابھ بچن، انیل کپور، شکتی کپور، جونی لیور اور گووندا جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ ان کی جوڑی بے مثال رہی۔ اس کے علاوہ انہوں نے دلیپ کمار، امریش پوری، پریم چوپڑہ، انوپم کھیراور پریش راول کے ساتھ کئی فلموں میں اداکاری کی۔ متنوع صلاحیتوں سے مالا مال اداکار نے فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کئے، جن میں کہیں وہ باپ، چچا، بھائی بنے تو کبھی انہیں منفی و مزاحیہ کردار نبھانے پڑے۔ 3 سو سے زائد اردو و ہندی فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھانے والے خان کے فلمی سفر کا آغاز فلم داغ سے ہوا، جس میں راجیش کھنہ مرکزی کردار میں تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ایک وکیل کا کردار ادا کیا۔

جسے نہ صرف شائقین بلکہ ناقدین کی طرف سے بھی بے حد پسند کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے دل والا، گونج، عمر قید، مکتی، چور سپاہی، مقدر کا سکندر اور مسٹر نٹور لال وغیرہ میں کچھ چھوٹے کردار بھی کئے، مگر ان کو زیادہ شہرت ان فلموں سے ملی جس میں راجیش کھنہ مرکزی کردار میں تھے، جیسے مہا چور، چھیلا بابو، ففٹی ففٹی، مقصد، نیا قدم اور نصیحت وغیرہ۔ قادر خان نے فلم پرورش، دھن دولت، لوٹ مار، قربانی، بلندی، میری آواز سنو، صنم تیری قسم، نصیب اور نوکر بیوی جیسی فلموں (1976ء تا 1982ء) میں بطور ولن اداکاری کی۔

1988ء میں کچھ ایسی فلمیں لکھی گئیں، جن میں قادر خان مرکزی کردار میں تھے، جیسے جیسی کرنی ویسی بھرنی، بیوی ہو تو ایسی، گھر ہو تو ایسا، ہم ہیں کمال کے، باپ نمبری بیٹا دس نمبری وغیرہ۔ بطور مزاحیہ اداکار انہوں نے ہمت والا اور آج کا دور سے فلمی سفر کا آغاز کیا، جس کے بعد انھوں نے مزاحیہ فلموں میں بڑے کردار نبھائے، ان فلموں میں سکہ، کشن کنہیا، ہم، گھر پریوار، بول رادھا بول، اور پھر نوے کی دہائی میں آنکھیں، تقدیروالا، میں کھلاڑی تو اناڑی، دولہے راجہ، قلی نمبر 1، ساجن چلے سسرال، سوریہ ونشم، جدائی، آنٹی نمبر 1، گھروالی باہر والی، ہیرو ہندوستانی، صرف تم، اناڑی نمبر ون وغیرہ شامل ہیں۔

2000ء کے عشرے میں بھی انھوں نے متعدد فلموں میں کام کیا، جن میں انکھیوں سے گولی مارے، چلو عشق لڑائیں، سنو سسرجی، یہ ہے جلوہ، اور مجھ سے شادی کروگی شامل ہیں۔ 2001ء میں انھوں نے اپنا خود کا ایک مزاحیہ ٹی وی سلسلہ شروع کیا جس کا نام ’’ہنسنا مت‘‘ تھا۔ ہندی فلم و سینما کے لئے بہترین خدمات سرانجام دینے والے ہر دلعزیز فنکار کو 2013ء میں ساہتیہ شیرومنی اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی طرح ایفمی (امریکن فیڈریشن آف مسلم فرام انڈیا) نے بھارت میں مسلمانوں کے حق میں کام کرنے کے لئے ان کو عزت بخشی۔ بہترین ڈائیلاگ پر قادر خان کو تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ 9 بار بہترین کامیڈین کے لئے نامزد کیا گیا۔

بلاشبہ شوبز انڈسٹری یہاں کام کرنے والوں کے لئے ایک گھر یا خاندان کا درجہ رکھتی ہے، لیکن مفاد پرستی، چڑھتے سورج کو سلام اور رشتوں سے بے اعتنائی جیسے محرکات نے اس گھر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ اس نگری میںکسی بھی وجہ سے رک جانے یا پیچھے رہ جانے والوں کی طرف کوئی جلد مڑ کر بھی نہیں دیکھتا، ایسا ہی کچھ عظیم فنکار قادر خان کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ اپنی فیملی اور بیماری کے باعث بالی وڈ سے دور کینیڈا منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزارا، لیکن اس دوران بالی وڈ سے منسلک ایسے فنکاروں نے بھی قادر خان کی خبر گیری نہ کی، جو ان کی وجہ سے سپر سٹار بنے۔

قادر خان کے بیٹے سرفراز اس بے حسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بالی وڈ کے فنکاروں پر برس پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’خود کو میرے والد کا بیٹا کہنے والے گووندا نے آج تک انہیں بیماری کے باوجود ایک فون تک نہیں کیا۔‘‘ عظیم اداکار بالی وڈ کی بنیادوں میں سے ایک تھے، انہوں نے ہندی فلم انڈسٹری کو اس کے اعلی مقام تک پہنچایا لیکن ایسی شخصیت کا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور دوسرے ملک میں انتقال قابل غور امر ہے۔‘‘ اسی طرح شکتی کپور وہ اداکار ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی قادر خان کے ساتھ جوڑی بالی وڈ میں سب سے زیادہ ایک ساتھ کام کرنے والی جوڑیوں میں سب سے اوپر ہے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا نصف حصہ قادر خان کے ساتھ گزارا، اس جوڑی نے ایک سو سے زائد فلموں میں اکٹھے کام کیا۔

عظیم فنکار کے تنہائی کا شکار ہونے اور بیرون ملک انتقال پر شکتی کپور بھی پھٹ پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آج وہ لوگ کیسے قادر خان کے مرنے کا سوگ منا سکتے ہیں، جنہوں نے بھارت سے جانے کے بعد ان کی کوئی خبر ہی نہیں لی۔ قادر خان گزشتہ ایک عشرے سے فلم انڈسٹری سے دور اور مشکلات سے دوچار تھے، لیکن اس دوران کسی نے ان کا حال نہیں پوچھا، انہیں کیوں اتنا تنہا کر دیا گیا؟‘‘

دینی و علمی پہلو
اداکار، ہدایت کار اور لکھاری کے علاوہ مرحوم قادر خان کے دینی و علمی پہلو کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی وہ اس اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے کہ شوبز کی چکا چوند میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ایک علم دوست مذہبی شخصیت تھے۔ اقبالؒ، منٹو، غالب اور مشتاق احمد یوسفی جیسے عظیم لوگوں کو انہوں نے نہ صرف پڑھا بلکہ عملی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔

وہ نہ صرف اردو، ہندی، انگریز بلکہ پشتو زبان کے علاوہ کافی حد تک فارسی اور عربی زبان بھی جانتے تھے۔ 2000ء کے اوائل میں وہ اردو، ہندی اور عربی زبان سیکھنے کے لئے ایک اکیڈمی بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ زبان و بیاں کے حوالے سے وہ بہت حساس تھے، اس لئے وہ آخری وقت تک ہندی فلموں پر اس حوالے سے تنقید کرتے رہے کہ آج کے آرٹسٹ زبان و بیان کے بجائے صرف ظاہری چمک دمک پر توجہ دیتے ہیں۔ مرحوم نے قرآن پاک کی ہر قدیم و جدید تفسیر پڑھ رکھی تھی، انہوں نے تجوید، ناظرہ اور تفسیر کے مدرسے بنائے اور ایک اسلامی سنٹر بھی قائم کیا۔ انہوں نے بھارت اور امارات میں قرآن پاک کے 15 زبانوں میں تراجم اور تفسیری حاشیوں پر کام بھی کیا۔

’’وہ عظیم فنکار، استاد، سکالر اور باپ جیسے تھے‘‘ سیاسی و فلمی شخصیات کا خراج تحسین
قادر خان وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے، جن کے انتقال پر صرف ان کے مداح ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’’سینئر اداکار اور اسکرپٹ رائٹر قادر خان کی موت کے بارے میں سن کر گہرا دکھ ہوا، ان کی ہمہ جہت صلاحیت، مزاحیہ اور منفی کرداروں کے علاوہ ایک لکھاری کے طور پر ان کی کئی فلمیں آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔‘‘ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا کہ ’’قادر خان جی نے اپنی بے مثال اداکارانہ صلاحیت سے سنیما کو مالامال کیا۔‘‘

عظیم اداکار امیتابھ بچن نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ’’قادر خان کے انتقال کی خبر انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن ہے۔‘‘ انوپم کھیر کے مطابق قادر خان کو ایک عمدہ فنکار کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔‘‘ رشی کپور نے کہا کہ ’’بہت لمبا رشتہ تھا آپ کا ہم سب کپور کے ساتھ، بہت کام کیا، بہت سیکھا آپ سے، آپ کو جنت نصیب ہو۔‘‘ روینہ ٹنڈن نے کہا کہ ’’وہ نہ صرف ایک بہترین فنکار بلکہ بہت بڑے سکالر بھی تھے اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ایسا امتزاج ملنا نہایت مشکل ہے۔‘‘ معروف فنکار گووندا کا کہنا ہے کہ ’’مرحوم قادر خان صرف میرے استاد ہی نہیں بلکہ باپ جیسے تھے، وہ ایسی شخصیت تھے کہ جس نے بھی ان کے ساتھ کام کیا، وہ سپر سٹار بن گیا۔‘‘

The post قادر خان بھی فلم نگری کی روایتی بے حسی سے نہ بچ پائے appeared first on ایکسپریس اردو.


خبر کے اِدھر اُدھر ؛ روبوٹ کے پردے میں انسان نکلتا ہے

$
0
0

قومی تعصب اور تفاخر جب احساس کمتری سے ناتا جوڑلیں تو عجیب تماشے ہوتے ہیں، ایسا ہی ایک تماشا روس میں ہوا۔ روس کے سرکاری ٹیلی ویژن ’’روسیا ٹوئنٹی فور نیوز چینل‘‘ نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں روس کی ترقی کا ڈھول پیٹنے کے لیے اپنی نشریات میں ایک مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ پیش کیا تھا، مگر ڈھول کا پول کُھل گیا اور پتا چلا کہ روبوٹ کے لبادے میں گوشت پوست کا ایک انسان چُھپا تھا۔

روسی چینل کا دعویٰ تھا کہ یہ روبوٹ گاتا ہے، ناچتا ہے۔ جب اس روبوٹ کی نمائش کی گئی تو اسے دیکھنے والوں خاص طور پر صحافیوں نے محسوس کیا کہ اس کی حرکات وسکنات انسانوں ہیں، بعد میں یہ حقیقت سامنے آگئی کے بورس نامی یہ روبوٹ انسان ہی ہے، جس نے روبوٹ کا کاسٹیوم پہنا ہوا ہے۔ ’’بھاجیسی ئی بورس ‘‘ کی جب رونمائی کی گئی تو انھوں نے اظہارِخیال بھی کیا اور فرمانے لگے،’’میری ریاضی اچھی ہے، لیکن اب میں آرٹ اور موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ گویا یہ روبوٹ صاحب خواہشات بھی رکھتے تھے۔

وہ تو بھانڈا بہت جلدی پھوٹ گیا، ورنہ ’’بورس جی‘‘ کو روس کی روبوٹک ٹیکنالوجی کا شاہ کار بنانے کے لیے جانے اور کیا کچھ کیا جاتا۔ ابھی تو موصوف میں آرٹسٹ اور موسیقار بننے کی خواہش جاتی تھی، اگلے مرحلے میں ’’روسی روبوٹک ٹیکنالوجی‘‘ اتنی ترقی کرجاتی کہ بروس میں سارے انسانی جذبات، احساسات، خیالات، تصورات، لوازمات معہ تمام تر خرافات منتقل کردیے جاتے۔ پھر اپنی کسی نمائش کے موقع پر وہ چھنگلیا اُٹھا کر کہتے،’’بس ابھی کے ابھی آیا۔‘‘ کچھ دنوں بعد موصوف پر کسی خاتون روبوٹ کو ہراساں کرنے کے الزام کی خبر آتی، جس سے ان میں مزید انسانی خواہشات کی بیداری کا پتا چلتا، جس کے بعد وہ کسی محترمہ سے محبت کا اظہار کردیتے، اگر اُن محترمہ کو بیوہ ہونے کی آرزو ہوتی تو یہ کہہ کر منع کردیتیں کہ ’’ارے تم تو مرکے نہ دوگے، پھر میں کس کے لیے چوڑیاں توڑوں گی۔‘‘ یقیناً کوئی نہ کوئی خاتون ان کا مشینی ہاتھ تھام ہی لیتیں، اب روسی ٹیکنالوجی میں نیا انقلاب آتا اور دنیا بھر کے ٹی وی چینل چیخ رہے ہوتے روسی روبوٹ باپ بن گیا۔ خیر ہوئی کہ پہلے سین ہی میں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔

ہر ایک ملک کی اپنی اپنی کہانی ہے، روس میں روبوٹ کی پوشاک میں آدم زاد چھپا ہوا تھا اور پاکستان میں بہت سے روبوٹ انسان کی کھال پہنے ہوئے ہیں۔ یہ چرم انسانی میں چُھپے روبوٹ سیاسی جماعتوں اور الیکٹرانک میڈیا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، جو وہی کچھ بولتے اور کرتے ہیں جو ان کے پروگرام میں فیڈ کردیا جاتا ہے۔ جانے ان کی کھال کب اُتر ے گی۔

The post خبر کے اِدھر اُدھر ؛ روبوٹ کے پردے میں انسان نکلتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

خبر کے اِدھر اُدھر ؛ میاں بِکتا ہے۔۔۔ بولو خریدو گی!

$
0
0

صحیح بات ہے بھئی ’’ہر چیز یہاں پر بِکتی ہے، بولو جی تم کیا کیا خریدو گے۔‘‘ خیر چیزیں تو بکتی ہی ہیں، لیکن ایک محترمہ نے شوہر جیسے ناچیز کو بھی بیچنے کے لیے پیش کردیا۔

جرمنی کے شہر ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے گذشتہ دنوں خریدوفروخت کی سائٹ ’’ای بے‘‘ پر اپنے خاوند کو ’’استعمال شدہ شوہر برائے فروخت‘‘ کی سُرخی کے ساتھ نیلام کرنے لے آئیں۔ انھوں نے نیلامی کی شروعات 18یورو سے کی، کیوں یہ اٹھارہ موصوفہ کے لیے خوش قسمتی کا عدد ہے۔Dorte L کے فرضی نام سے اپنے میاں جی کو بیچنے کا اشتہار دینے والی ان خاتون کا کہنا ہے کہ اپنے شوہر کے منفی طرزعمل سے وہ تنگ آچکی ہیں اور اب انھیں یقین آگیا ہے کہ وہ دونوں مزید ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اپنے اشتہار میں یہ شوہرفروش بی بی لکھتی ہیں،’’پیاری خواتین! جو (شوہر خریدنے میں) دل چسپی رکھتی ہیں، میں اپنے شوہر کو دینا پسند کروں گی۔ میں قیمت پر گفت وشنید کے لیے بہ خوشی آمادہ ہوں۔ براہ مہربانی مجھے اپنے سوالات میل کے ذریعے بھیجیے۔‘‘ خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے اشتہار پر ردعمل تو آیا، لیکن کوئی سنجیدہ پیشکش موصول نہیں ہوئی۔

آخرکار ان محترمہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے اس اشتہار کو محض برائے تفریح قرار دے دیا۔

ہمارے خیال میں ان خاتون نے تفریح نہیں کی بلکہ واقعتاً اپنی شوہر کو نیلام کردینا چاہتی تھیں، لیکن ’’مال‘‘ کے دام اچھے نہیں لگے، اس لیے ارادہ منسوخ کردیا۔ اور بھئی مال بکے بھی کیسے جب بیچنے والا خود اُس کی بُرائی کر رہا ہو۔ خاتون کو چاہیے تھا کہ اس متن کا اشتہار دیتیں،’’میرے پاس ایک عدد خوب صورت، خوب سیرت، وفادار، سلیقہ مند، سعادت مند، منہ بند، اچھی ذات کا شوہر موجود ہے، جسے میں فروخت کرنا چاہتی ہوں، حالات کی مجبوری ہے، بیچنا بہت ضروری ہے۔ معاشی حالات سے مجبور نہ ہوتی تو اتنی اچھی نسل کا شوہر کبھی نہ بیچتی۔ جس بہن کو بھی ضرورت ہو نیلامی میں شریک ہوکر بولی لگائے، جس کی بھی بولی سب سے زیادہ ہوئی میں اپنے شوہر کو ’بولی بولی چھو‘ کہہ کر اس کے پیچھے بھیج دوں گی۔‘‘

اس اشتہار کے بعد دیکھتیں کیسی شان دار نیلامی ہوتی اور کتنی بھاری بولیاں لگتیں۔

ان خاتون نے تو خیر استعمال شدہ کار کی طرح استعمال شدہ شوہرِ نام دار کا سودا کھرا نہ ہونے پر اپنی اس کوشش کو مذاق قرار دے دیا، لیکن ان کی یہ حرکت بہت سی بیویوں کو ’’پُرانا بیچ کر نیا لینے‘‘ کا آئیڈیا دے گئی۔ اب ہوگا یہ کہ کسی خاتون نے پڑوسن سے اپنے شوہر کی ذرا بُرائی کی تو فوراً مشورہ آئے گا،’’اے بہن۔۔۔۔اُٹھا کر بیچ دو باہر گلی میں۔‘‘

یہ چلن عام ہوگیا تو تقریبات میں خواتین ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوں گی،’’یہ آپ کے شوہر ہیں، کتنے کے لیے؟‘‘ جواب آئے گا،’’جمعہ بازار سے لیا ہے۔ وہ بیس مانگ رہی تھی، میں نے کہا نئی بھی، پندرہ میں دینا ہے تو دو، سولہ میں لے کر آگئی۔‘‘ کہیں دو سہلیاں ملیں گی تو ایک استفسار کرے گے، ’’ارے تمھارے میاں کہاں ہیں؟‘‘ دوسری منہہ بنا کر کہے گی’’ارے قسطوں میں لیے تھے، قسط نہیں جمع کراسکی، آخر شوہر کو واپس جمع کرانا پڑا۔‘‘ اس کاروبار میں ہوگا یہ کہ جس بیوی کا جتنا شریف پتی وہ اُتنی ہی لکھ پتی ہوجائے گی۔

The post خبر کے اِدھر اُدھر ؛ میاں بِکتا ہے۔۔۔ بولو خریدو گی! appeared first on ایکسپریس اردو.

خبر کے اِدھر اُدھر ؛ گلاب جامن۔۔۔ قومی مٹھائی

$
0
0

قومی زبان، قومی ترانہ، قومی کھیل، قومی، جانور، قومی پرندے، قومی پھول کے بعد اب پاکستان کی قومی مٹھائی بھی طے پاگئی اور حکومت نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے گلاب جامن کو پاکستان کی قومی مٹھائی قرار دے دیا۔

گلاب جامن وہ واحد مٹھائی ہے جس کا نام ایک پھول اور دوسرے پھل، یعنی گلاب اور جامن، کا ملاکر بنایا گیا ہے، لیکن اس میں گلاب شامل ہوتا ہے نہ جامن، اس سے گلاب کی خوش بو آتی ہے، نہ یہ جامن کا ذائقہ دیتی ہے، نہ یہ شاخوں پر اُگتی ہے نہ درختوں پر لٹکتی ہے، بلکہ مٹھائی کی دکان پر ملتی ہے وہ بھی اتنی منہگی کہ آدمی دام پوچھنے کے بعد دکان سے نکتی دانے یا نمک پارے لے آتا ہے، اور گھر آکر گلاب جامن کی فرمائش کرنے والی جان من کے غصے سے گلاب کی طرح سُرخ ہوجانے والے چہرے کا سامنا کرتا ہے۔ ہم باوجود کوشش کے گلاب جامن کی وجہِ تسمیہ معلوم نہیں کرسکے، یوں بھی نام میں کیا رکھا ہے، گلاب جامن کا نام خیرالنساء یا بی بی برکت رکھ دیا جائے تب بھی اس کی شیرینی ویسی ہی رہے گی۔

گلاب جامن ہماری بھی پسندیدہ ترین مٹھائی ہے، لیکن ہمارے خیال میں قومی مٹھائی کا اعزاز پانے کی مستحق کچھ دوسری مٹھائیاں تھیں، جیسے جلیبی۔۔۔ جو ہماری سیاست کی عکاس ہے، ریوڑی۔۔۔۔جو اندھا اپنوں اپنوں میں بانٹتا ہے، لڈو۔۔۔۔جو ہر سیاست داں اور حکم راں کے اعلانات سُن کر عام پاکستانی کے دل میں پھوٹتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی ایک مٹھائی کو قومی قرار دینے کی ضرورت ہی کیا تھی، ہر میٹھا ہماری قومی مٹھائی ہے بلکہ قومی غذا ہے کیوں کہ ہم من حیث القوم میٹھامیٹھا ہَپ ہَپ کڑوا کڑوا تھو تھو کے قائل ہیں۔

The post خبر کے اِدھر اُدھر ؛ گلاب جامن۔۔۔ قومی مٹھائی appeared first on ایکسپریس اردو.

خبر کے اِدھر اُدھر ؛ ڈونلڈ ٹرمپی ۔۔۔۔ کیڑا

$
0
0

بڑے لوگوں کے نام پر شہر بسائے جاتے ہیں، ان سے سڑکیں اور عمارتیں منسوب کی جاتی ہیں، اداروں کو ان سے نسبت دی جاتی ہے، مگر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ میں منسوب ہونے کے لیے ایک کیڑا آیا ہے۔ نہیں نہیں دماغ کا معروف کیڑا نہیں، یہ زیرزمین خشکی اور تَری دونوں پر رہنے والی ایک کیڑے نما مخلوق ہے، جسے حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے اور اسے ’’ڈرموفس ڈونلڈ ٹرمپی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اینویرو بلڈ نامی کمپنی نے اس مخلوق کو یہ نام دینے کے لیے ایک موسمیاتی گروپ رین فورسٹ کو 25 ہزار ڈالر دیے ہیں۔ اس کیڑے کو خبر بھی نہیں کہ اسے نام دینے کے لیے کتنی بھاری رقم ادا کی گئی ہے۔

اینویرو بلڈ کے شریک بانی ایڈن بیل کا کہنا ہے کہ اس مخلوق کا نام ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر اس لیے رکھا گیا ہے کیوںکہ یہ کیڑا ریت میں منہ چھپا کر خود کو اردگرد کے حقائق سے روپوش سمجھتا ہے اور امریکی صدر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے سائنسی حقائق سے گریز کے لیے یہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

بے چارے کیڑے کو خبر ہی نہیں کہ اسے کیا نام دے دیا گیا ہے، اگر اس سے پوچھ لیا جاتا کہ میاں کیڑے تمھارا نام کیا ہے؟ تو شاید وہ یہ تو کہہ دیتا ’’تم کوئی اچھا سا رکھ دو اپنے دیوانے کا نام‘‘ مگر یہ کبھی نہ چاہتا کہ اسے کسی ’’دیوانے کا نام‘‘ دے دیا جائے۔ البتہ اگر اس کی سوچ یہ ہوتی کہ ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ تو یقیناً اسے یہ ’’بدنام وری‘‘ بُری نہ لگتی۔

ویسے اگر رویوں کی بنیاد پر بہت سی مخلوقات کو مختلف حکم رانوں اور سیاست دانوں کے نام دیے جاسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ مخلوق نودریافت شدہ ہونے کی وجہ سے بے نام ہو، کسی معروف مخلوق کو موزوں ترین نام دینے میں کیا حرج ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اپنے ٹرمپ صاحب سے جانے کتنی مخلوقات منسوب ہوجائیں، جیسے شترمُرغ، جو خطرہ دیکھ کر ریت میں سَر چُھپا لیتا ہے، کَٹ کھنا بیل بھی اس اعزاز کا مستحق ہے، لڑاکا مُرغے کے لیے تو یہ نام مناسب ترین ہے۔ یوں ہوجائے تو ٹرمپ صاحب بڑے فخر سے ان جانوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے:

تو مجھے اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشی

تو زمانے میں مِرے نام سے بدنام تو ہے

اور بھی بہت سے ایسے حکم راں اور سیاست داں ہیں جن سے کسی مخلوق کو نسبت دی جاسکتی ہے۔ مثلاً کسی کا نام چالاک لومڑی کو مل سکتا ہے تو کسی کا آستین کے سانپ کو، کسی سے کَوا منسوب ہوسکتا ہے تو کسی سے طوطاچشمی کرنے والا طوطا، ایسے بھی ہیں جن کی پہچان سرکس کے شیر کو عطا ہوسکتی ہے، اور ایسے بھی جن کی شناخت مداری کے بندر کے حصے میں آسکتی ہے۔

جس طرح ایک بے نام کیڑے کو امریکی صدر کا نام دیا گیا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں بھی نودریات شدہ اموال اور بے نام جائیدادوں کے لیے بھی نام کی تلاش جاری ہے، جو دراصل ’’باپ کے نام‘‘ کی کھوج ہے، جس دن بھی ان بے ناموں کو ولدیت اور نام مل گیا، اس دن بڑے بڑے نام ور نام نہاد زردار سے بدنام زمانہ لوٹ مار کے ماہر قرار پائیں گے۔

The post خبر کے اِدھر اُدھر ؛ ڈونلڈ ٹرمپی ۔۔۔۔ کیڑا appeared first on ایکسپریس اردو.

بھولے بسرے طبی ٹوٹکے

$
0
0

انسانوں نے اپنی زندگیوں کو آرام دہ بنانے کی تگ و دو میں مادی ترقی کی بہت سی منازل طے کیں اور جدید ایجادات کے ذریعے بے شمار سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مصنوعی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا استعمال ہو یا تیز ترین ذرائع مواصلات، امراض کی تشخیص اور علاج کیلئے کمپیوٹرائزڈ مشینری ہو یا نت نئی تحقیق کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والی دوائیاں، صنعتی ترقی، موبائل فون، انٹرنیٹ اور موٹر کاروں سے لے کر جیٹ ہوائی جہاز تک، غرض انسان نے اپنے عیش و آرام کیلئے اپنی عقل کو کام میں لاتے ہوئے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے۔ لیکن ترقی کی اس دوڑ میں بہت سی ایسی کارآمد چیزیں یا باتیں بہت پیچھے رہ گئیں کہ جن کی افادیت جسمانی، اخلاقی یا رحانی طور پر مسلمہ تھی۔

چھوٹے بچوں کا رات کو سونے سے پہلے دادا، دادی یا نانا، نانی سے کہانیاں سننا، ناصرف بچوں کیلئے ایک انتہائی دلچسپ، سنسنی خیز اور تجسس سے بھرپور تجربہ ہوتا تھا بلکہ یہ چیز ان کی کردار سازی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ کی کارکردگی کو بڑھانے میں ایسا کردار ادا کرتی تھی کہ جو آئندہ زندگی میں ان کے بہت کام آتی تھی۔ بدقسمتی سے مگر آج کی نسل اس نوعیت کے مواقعوں سے محروم ہے۔

اسی طرح چھوٹے بچوں سے لے کر بڑوں تک میں سے اگر کوئی بیمار پڑجاتا تھا تو خاندان کی بڑی بوڑھیاں عام گھریلو جڑی بوٹیوں کے ٹوٹکوں سے ہی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کردیا کرتیں۔ آج کل تو نزلہ زکام یا پیٹ کی معمولی گڑبڑ کی صورت میں بھی سب ڈاکٹروں کی طرف بھاگتے ہیں اور ان کی بھاری فیسوں کی ادائیگی کے بعد مزید اچھے خاصے پیسے خرچ کر کے دوائیوں کا پلندہ گھر اٹھا لاتے ہیں جو ایک مرض کو ٹھیک کرتیں ہیں تو اپنے سائیڈ ایفیکٹس کے ذریعے دوسرے کئی مسئلے پیدا کردیتی ہیں۔

ہم اچھا برا سمجھے بغیر ہر معاملے میں مغرب کی اندھا دھند تقلید کرنے کے عادی ہیں حالانکہ اب خود یورپ اور امریکہ میں بھی آرگینک فوڈ اور دیسی جڑی بوٹیوں سے بنائی گئیں ادویات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

آج کے مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے کہ عام سی چھوٹی موٹی بیماریوں کیلئے استعمال ہونے والے وہ گھریلو ٹوٹکے آپ کے ساتھ شیئر کریں کہ جو ہمارے بڑے، خاص طور پر بزرگ خواتین ماضی میں کامیابی سے آزماتی اور ان کے ثمرات سے بہرہ مند ہوتی اور دوسروں کو بھی کرتی رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ٹوٹکوں میں استعمال ہونے والی اشیاء ہمارے باورچی خانوں میں عموماً موجود ہی ہوتی ہیں اس لیے ہماری جیب پر کسی اضافی بوجھ کا باعث بھی نہیں بنتیں۔

گلے کے درد کیلئے نمکین پانی کے غرارے

نمک صرف کھانے کے ذرائقے کو لذیذ ہی نہیں بناتا بلکہ اس کے اور بھی بے شمار فوائد ہیں جن میں سے ایک گلے کے درد میں سکون پہنچانا بھی ہے۔ اگر گلا درد کررہا ہو تو نمکین پانی کے غرارے درد کو دور کرنے اور گلے کو آرام پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے تو اس لیے نمکین پانی کے غراروں کے استعمال میں بھی اسی اصول کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ غرارے کرنے کیلئے ایک چائے والا چمچہ آدھے گلاس پانی میں حل کرکے استعمال کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس نمکین پانی کو پینا نہیں ہے بلکہ اس سے صرف غرارے کرنے ہیں۔ دکھتے گلے میں نمکین پانی کے غرارے کافی موثر ثابت ہوتے ہیں لیکن علامات اگر برقرار رہیں تو کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ گلے میں انفکشن ہو۔

متلی اور قے میں ادرک کا استعمال

ادرک سینکڑوں سالوں سے اپنے طبی خواص کی بنا پر مختلف امراض کے علاج کیلئے ادویات میں استعمال کی جاتی ہے، جن میں معدے اور پیٹ کے مسائل بھی شامل ہیں۔ برسوں کے تجربے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ادرک کیموتھراپی، دستوں کے بعد پیدا ہونے والی جسمانی کمزوری اور خواتین میں حمل کی وجہ سے ہونے والی کمزوری سمیت نظام ہاضمہ کو درست رکھنے میں مدد دینے میں بہت موثر ہے۔ گو ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ادرک متلی اور قے کو روکنے میں کردار کیسے ادا کرتی ہے تاہم خیال ہے کہ یہ آنتوں میں پائے جانے والے اس مادے کو مزید بڑھنے سے روکتی ہے جو متلی اور قے کا باعث بنتا ہے۔ ادرک جسم کو فوری طور پر لحمیاتی خامرے تیار کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے جو خوراک ہضم کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

آنکھوں کے نچلے پپوٹوں کی سوجن کیلئے ٹھنڈی چائے کا استعمال

چائے کا استعمال جسم کیلئے ناصرف اندرونی بلکہ بیرونی طور پر بھی بہت مفید سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ آنکھوں کی سوجن وغیرہ کیلئے ’’ٹی بیگز‘‘ (Tea bags) کو استعمال کرنا ایک آزمایا ہوا ٹوٹکا ہے۔ ’’ٹی بیگز‘‘ میں موجود ’’کیفین‘‘ (Caffeine) آنکھوں کے گرد موجود خون کی باریک وریدوں کو سکیڑنے میں مدد دیتی ہے جس کی وجہ سے جلد کی سوجن کم ہوجاتی ہے۔ کم درجہء حرارت بھی آنکھوں کے نیچے ہونے والی سوجن کو کم کرنے کیلئے مفید ہے۔ اس لیے اس مسئلے کے حل کیلئے گیلے ’’ٹی بیگز‘‘ کو تھوڑی دیر فریج میں رکھنے کے بعد آنکھوں پر رکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چائے میں موجود مادہ ’’کیفین‘‘ اگر کسی کریم کی شکل میں جلد پر لگایا جائے یا گیلے ’’ٹی بیگز‘‘ کو ہی جلد پر مسل لیا جائے تو یہ جلد کو سورج کی منفی شعاعوں سے بچانے اور جلد کو کینسر کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

قبض کیلئے آلو بخارے کا استعمال

آلو بخارہ، خاص طور پر خشک آلو بخارہ قبض میں بہت فائدہ مند ہے۔ یہ صدیوں سے اس مرض کے علاج کے طور پر استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کو اپنی غذا میں ریشے دار خوراک اور وافر مائع (پانی، جوس وغیرہ) کا استعمال کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آلو بخارہ قدرتی طور پر ریشے سے بھرپور غذا ہے۔ ایک آلو بخارے میں قریباً 3گرام ریشہ اور صرف 100 حرارے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے آلو بخارہ روزمرہ خوراک میں ریشے کے حصول کا ایک آسان ذریعہ ہے۔

جلدی امراض میں جوکے دلیے سے غسل

یہ بات سننے میں تو نہایت عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ جو کے دلیے، جو کھانے کی ایک بہت مفید چیز ہے، سے نہایا جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ٹوٹکا خارش یا چنبل اور خشک جلد جیسے امراض میں برسوں سے مستعمل ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی کئی طبی ادارے جلدی امراض میں جوکے دلیے سے غسل کرنے کو مفید قرار دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ جوکہ دلیے سے نہانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ دلیا پکا کر اس سے غسل کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو کے خشک دلیے کو نہانے کے گرم پانی میں بھگو دیا جائے اور پھر اس پانی سے غسل کیا جائے۔ اس سے جلد پر ہلکی سی چکناہٹ والی نمی کی تہہ جم جاتی ہے جو جلد کی خشکی کو دور کرتی اور جلدی امراض کیلئے قدرتی دوا کا کام کرتی ہے۔ خیال رہے کہ پانی بہت گرم نہیں بلکہ نیم گرم ہونا چاہیے اور نہانے کے بعد جسم کو تولیے سے رگڑنا نہیں ہے، صرف خشک کرنا ہے۔

مثانے کی نالی کی انفیکشن کیلئے ’’کروندے‘‘ کا جوس

یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا کسی پھل کا رس پی کر جراثیمی انفیکشن کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ جوس پینے کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ زیادہ مائع استعمال کرنے سے پیشاب زیادہ آئے گا جس سے مثانے کی نالی میں موجود انفیکشن کا موجب بننے والے جراثیموں کا جسم سے اخراج ہوجائے گا اور یوں انفیکشن ختم ہوجائے گی۔ نیز پھل کے رس میں موجود تیزابی مادے بھی جراثیموں کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں تاہم بات صرف اتنی نہیں۔ ’’کروندے‘‘ (یہ اچار وغیرہ میں بھی ڈالا جاتا ہے)کا جوس مثانے کے غدودوں کے خلیات کی اندرونی تہوں میں چھپے جراثیموں کو بھی کامیابی سے تہس نہس کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ انسان دوست جراثیموں کیلئے یہ ناصرف بے ضرر بلکہ ان کی تقویت کا باعث ہوتا ہے۔

کھانسی کیلئے شہید کا استعمال

ساری رات تنگ کرنے والی کھانسی، خاص طور پر سردیوں کی راتوں میں ہونے والی خشک کھانسی، بہت بے آرام کرتی ہے۔ اس سلسلے میں شہد کا استعمال بہت ہی زیادہ مفید ہے۔ یہاں تک کہ اکثر ماہرین طب کے نزدیک یہ کھانسی کیلئے استعمال ہونے والی ادویات کی نسبت زیادہ بہتر نتائج کا حامل ہے۔

بے خوابی کیلئے ’’حزام‘‘
(ایک خوشبو دار پودا) کا استعمال

اگر رات کو آپ کو نیند نہیں آتی تو ’’حزام‘‘ نامی پودے کے پھلوں کا تیل آپ کو پرسکون اور آرام دہ نیند کی وایوں میں پہنچانے کیلئے اکثیر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ جسم کو سکون پہنچاتا ہے اور اس کو سونگھنے سے دل کی دھڑکن سست اور خون کا دباؤ (بلڈ پریشر) معمول سے ذرا کم ہوجاتا ہے۔ اس پودے میں موجود دو کیمیکلز میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ مسکن ہونے کی وجہ سے دردکش ہیں۔ تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ جو لوگ سونے سے پہلے اسے سونگھتے ہیں ان کا دماغ پرسکون ہوجاتا ہے اور وہ گہری نیند کے مزے لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس کے تیل کا صرف بیرونی استعمال کرنا ہے یا پھر صرف سونگھنا ہے، اسے پینا نہیں ہے۔

گھکوار کے ذریعے آگ سے جلے کا علاج

گھکوار بہت فائدہ مند پودا ہے۔ یہ بہت سے امراض کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سورج کی ضرر رساں شعاعوں یا آگ سے جلی جلد کا علاج بھی ہے۔ ایک جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 30 فیصد سے زائد جلے ہوئے اعضاء کیلئے استعمال ہونے والی ادویات کی نسبت گھکوار کا استعمال زیادہ فائدہ مند رہا۔ اس میں موجود سوزش کو روکنے والے مادے، متاثرہ حصے کو آرام پہنچانے اور متاثرہ خلیوں کو ٹھیک کرنے میں جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ البتہ اس کے استعمال سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ مریض کو اس سے الرجی تو نہیں۔ علاوہ ازیں بہت زیادہ جل جانے کی صورت میں ڈاکٹر کو دکھانا ہی مفید ہے۔

بواسیر میں ’’پت جھاڑ‘‘ کی جھاڑی کا استعمال

اس جڑی بوٹی کو انگریزی میں ’’وچ ہیزل‘‘ (Witch Hazel) کہتے ہیں۔ یہ نام سننے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی جادوگرنی جنگل میں اپنا جنتر منتر پڑھ رہی ہو۔ اس کا مرکب آرائش حسن کی چیزوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ بواسیر کے علاج میں قدیم زمانوں سے استعمال ہوتی چلی آرہی ہے۔ اس کا نامیاتی مرکب خون کی رگوں کو آرام پہنچاتا اور ان کی سوجن کو کم کرتا ہے۔

دستوں سے ہونے والی کمزوری میں لیموں کا استعمال

لیموں وٹامن سی کا خزانہ ہے اور یہ ہر قسم کی جسمانی کمزوری میں مفید ہے۔ اگر آپ لمبے سفر پے جارہے ہیں تو لیموں ساتھ رکھنا نا بھولیے گا کیونکہ لیموں کا رس سفر کا تھکان اتارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دستوں سے ہونے والی کمزوری کی وجہ سے منہ میں لعاب بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے جس سے معدہ بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور متلی کی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ اسی صورت حال میں لیموں چوسنے سے، اس کے کھٹے ذائقے کے باعث منہ میں خشکی پیدا ہوتی ہے جو لعاب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے جس کے ردعمل میں متلی کی کیفیت میں آرام محسوس ہوتا ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق لیموں کی صرف خوشبو ہی سونگھنا بھی اس ضمن میں بہت فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

زخموں کیلئے پٹرولیم جیلی

پٹرولیم جیلی کے بہت سے استعمال ایسے ہیں جو شاید آج ہم نہیں جانتے لیکن ہمارے بزرگ ان کو نہ صرف جانتے تھے بلکہ ان سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ گو پٹرولیم جیلی کو جلد پہ مسلسل استعمال کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چکناہٹ کی وجہ سے جلد پر کیل مہاسے نکلنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور سورج سے جلی ہوئی جلد پر اسے لگانا مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے تاہم اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو زخم پر لگانے سے زخم ڈھک جاتا ہے اور اس کے خراب ہونے کا ڈر نہیں رہتا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پٹرولیم جیلی عمل جراحی کے بعد زخموں کو جلدی ٹھیک کرنے کا کام بہت عمدگی سے کرتی ہے۔

مچھلی کے تیل کے کیپسول

پہلے زمانے میں مچھلی کے تیل کے کیپسول سردیوں میں عام طور پر ضرور استعمال کیے جاتے تھے کیونکہ یہ سردی سے جسم کو بچانے اور گرمائش پہنچا کر نزلہ زکام وغیرہ جیسی بیماریوں سے انسان کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پرانے دور کے ٹوٹکوں میں ان کو گھٹیا (جوڑوں کے امراض) میں خصوصاً استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے دوسرے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ ’’کاڈ‘‘ (Cod) مچھلی کے جگر سے نکالے گئے تیل کے کیپسول DHA, EPA اومیگا 3 نامی چربیلے تیزاب کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں جو انسانی جسم کیلئے انتہائی فائدہ مند اور دل، دماغ، آنکھوں اور ذہنی صحت کیلئے بہت ضروری بھی ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مچھلی کا تیل انسولین پیدا کرنے والے ہارمونز کی خرابی کو ٹھیک کرنے میں بھی مددگار ہے۔

سانس کی بو دور کرنے کیلئے ملٹھی کا استعمال

ملٹھی قدیم زمانوں سے ہی اپنی شفا بخش خصوصیات کی بدولت بہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اسے لوگ سانس کی بو دور کرنے کیلئے بھی چباتے تھے۔ یہ ان نباتاتی جراثوموں کے خلاف بہت موثر ہے جو دانتوں کو گلاتے اور مسوڑھوں کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل ملٹھی کی انہی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹوٹھ پیسٹ بنانے والی کمپنیاں اسے اپنی ٹوتھ پیسٹوں کے اجزاء میں شامل کررہی ہیں۔ یاد رہے کہ سانسوں کی بدبو اکثر معدے کی خرابی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ملٹھی معدے کے افعال کو بھی درست کرتی ہے اور اس سے ذہنی دباؤ میں بھی آرام ملتا ہے۔

سردرد کیلئے برف کا استعمال

گرمیوں میں ہونے والے سردرد کیلئے یہ پرانا ٹوٹکا کارآمد ثابت ہوسکتا ہے کہ برف کی ٹکڑیوں کو کپڑے میں لپیٹ کر پیشانی اور کنپٹیوں کی ٹکور کی جائے۔ ایک جدید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گردن کے سامنے والے رخ (شہ رگ پر) پر اگر ٹھنڈی پٹیاں رکھی جائیں  تو اس عمل سے آدھے سر کے درد (Migraine) میں بھی کافی افاقہ محسوس ہوتا ہے۔

پیلے دانت چمکانے کیلئے بیکنگ سوڈا

دانتوں کو چمک دمک دینے کیلئے مصنوعی طریقے چھوڑیئے اور قدرتی طریقہ اپنائیے۔ بیکنگ سوڈا اس ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پرانے وقتوں سے لوگ اس کو دانت چمکانے کیلئے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اور اب تو کئی ٹوتھ پیسٹ کمپنیاں بھی یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پیسٹ میں بیکنگ سوڈا شامل ہے۔ اس کا طریقہ استعمال یہ ہے کہ کسی چھوٹے برتن (پلیٹ وغیرہ)میں چٹکی بھر بیکنگ سوڈا لے کر اس میں تھوڑا سا پانی شامل کرکے پیسٹ سا بنالیں اور اس سے پھر دانت صاف کریں۔ بیکنگ سوڈا دانتوں پر جمے میل کچیل کو صاف کرکے دانتوں کو سفید جھک بنا دے گا۔ تاہم اس بات کا دھیان رہے کہ بیکنگ سوڈے کو مسلسل روزانہ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں اس کی تیزابیت دانتوں کے قدرتی ’’انیمل‘‘ (Enamel) اور مسوڑھوں کے نازک ٹشوز کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ذہنی دباؤ سے نجات کیلئے چیونگم کا استعمال

آج کل کے دور میں ہر شخص کسی نہ وجہ سے ذہنی دباؤ اور ’’سٹریس‘‘ (Stress) کا شکار ہے۔ جاپان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دو ہفتوں تک باقاعدگی سے چیونگم چبانے والے افراد میں ذہنی دباؤ کا لیول کم پایا گیا اور ان کا مزاج ناصرف خوشگوار ہوا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا بھی محسوس کیا۔ آسٹریلیا میں کی گئی ایک اور تحقیق میں بہ پتا چلا کہ چیونگم چبانے والے افراد میں ہلکے ذہنی دباؤ میں 16 فیصد جبکہ درمیانے درجے کے ذہنی دباؤ میں 12 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی اور ذہنی دباؤ سے نکالنے والے قدرتی ہارمون کی کارکردگی بھی مزید بہتر ہوئی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چیونگم چبانے سے صرف سانسیں ہی نہیں مہکتیں اور جبڑے ہی مضبوط نہیں ہوتے بلکہ یہ ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

چہرے کی جھریاں دور کرنے کیلئے دودھ کی چھاچھ کا استعمال

اگر آپ انے چہرے کی جھریاں دور کرنے کیلئے نئی نئی مہنگی کریمیں استعمال کرکے تھک چکے ہیں مگر ان سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا تو پھر بزرگوں کا ٹوٹکا آزما کردیکھیں جو آسان و سستا بھی ہے اور اس کا کوئی نقصان بھی نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دودھ کی چھاچھ میں موجود ’’لیکٹک ایسڈ‘‘ (Lactic acid) اور ’’اسکوربک ایسڈ‘‘ (Ascorbic Acid) نامی تیزابی مادے کا امتزاج چہرے کی جھریوں کو صاف کرنے کیلئے آزمودہ ہے۔ دودھ کی چھاچھ کو روئی کے پھائے کی مدد سے چھریوں پر لگائیں اور 20 منٹ بعد دھولیں۔ پھرکمال دیکھیں۔

الرجی کیلئے وٹامن سی

وٹامن سی محض سردیوں میں ہونے والے چھوٹے موٹے امراض میں ہی مفید نہیں بلکہ یہ ایک موثر اور قدرتی الرجی کش دوا بھی ہے۔ ایک تحقیق کے دوران الرجی کا شکار کچھ افراد کو وٹامن سی ناک سے سپرے کے ذریعے اور کچھ کو الرجی کی عام ادویات استعمال کروائیں گئیں۔ عام ادویات استعمال کرنے والے 24فیصد افراد کی نسبت وہ 74 فیصد افراد زیادہ صحت مند پائے گئے جنہوں نے وٹامن سی کا اسپرے استعمال کیا تھا۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2 گرام وٹامن سی روزمرہ کی خوراک کے میں استعمال کرنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

قبض کیلئے السی کا استعمال

ایسا لگتا ہے کہ السی کو قدرت نے صرف قبض کے مرض کے علاج کے طور پر ہی پیدا کیا ہے۔ یہ حل اور نہ حل ہونے والے ریشوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو معدے میں خوراک کی مقدار کو بڑھا کر آنتوں میں سے فضلے کو نکالنے میں مدد کرتی اور انسان دوست جراثیموں کی بڑھوتری میں معاونت کرتی ہے۔ یہ نباتاتی اومیگا 3 کے چکنے تیزابی مادے کا خزانہ ے جو پے خانے کو نرم کرنے اور قبض کو دور کرنے کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کو پسی ہوئی حالت میں 2 تا 3 کھانے والے چمچے روزانہ کے حساب سے استعمال کرنا چاہیے۔

کھانسی کیلئے جنگلی پودینے کی چائے

جنگلی (دیسی) پودینہ سانس کی نالی کو آرام پہنچا کر بلغم کو نکالنے کے خواص کا حامل ہوتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جنگلی پودینے اور جنگلی گلاب یا عشق پیچاں کے پتے باہم ملا کر ان کا جوشاندہ پینا کھانسی کیلئے اکثیر ہے۔ جنگلی پودینے کی چائے بنانے کیلئے اس کے دو بڑے چمچے یا اگر وہ سوکھی ہوئی حالت میں ہے تو ایک بڑا چمچہ پانی کے ایک کپ میں ابال کر چھان لیں اور ایک چمچہ شہد ملا کر پیئیں۔

ہیضے کیلئے بلیک بیری کی چائے

بلیک بیری (سیاہ بیر) بڑی آنت کی جھلی کو چست کرنے کی صلاحیت رکھنے کے سبب قدیم زمانے سے ہی ہیضے کے علاج کے طور پر استعمال ہوتی چلی آرہی ہے۔ اس کی چائے بنانے کیلئے 1 تا 2 بڑے چمچے بلیک بیری یا اس کے خشک پتے ایک سے آدھے کپ پانی میں 10 منٹ تک ابال لیں اور کئی کپ روزانہ کے حساب سے پئیں۔

آنکھوں کی تھکاوٹ اور حلقوں کیلئے کھیرے کا استعمال

کمر کے بل لیٹ کر کھیرے کے گول کٹے ہوئے ٹھنڈے قتلے آنکھوں پر رکھ لیں اور ہر 2 تا 3 منٹ بعد انہیں نئے قتلوں سے تبدیل کرتے رہیں۔ 15 منٹ تک ایسا ہی کریں۔ اس سے آنکھوں کی تھکن دور ہوگئی اور ان کے نیچے پیدا ہونے والے حلقے بھی ختم ہوجائیں گے۔

ہچکیاں روکنے کیلئے چینی کا استعمال

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بچے بڑوں کو بھی کڑوی دوائی کھانی ہو تو وہ اس کے بعد منہ کی کڑواہٹ دور کرنے کیلئے چینی ضرور کھاتے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ چینی بذات خود بھی ایک دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ جی ہاں! ہچکی ایک ایسا معاملہ ہے کہ جو انسان کو پریشان کرکے رکھ دیتا ہے۔ اگر کسی کو ہچکیاں آرہی ہوں تو چینی کا ایک چمچہ انہیں روکنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ ہچکی پردۂ شکم کی تنگی کی وجہ سے آتی ہیں۔ چینی کھانے سے یہ تنگی دور ہوجاتی ہے اور معدے کی وہ تشنجی کیفیت ختم ہوجاتی ہے جو ہچکی آنے کی وجہ بن رہی ہوتی ہے۔

ہاضمے کیلئے سونف کا استعمال

سونف کے بظاہر چھوٹے چھوٹے دکھائی دینے والے یہ دانے ہاضمے کیلئے بہت مفید ہوتے ہیں۔ یہ آنتوں میں سے گیس کے اخراج کیلئے جادو کا سااثر رکھتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد تھوڑی سی سونف چبانے سے ناصرف سانس مہک جاتی ہے بلکہ کھانا ہضم کرنے میں معدہ کی مدد بھی ہوجاتی ہے۔

لیموں کے جوس سے پتھری کا علاج

ہماری غذائی بے احتیاطی اور ناقص پانی و خوراک کے استعمال کے باعث گردے و مثانے کی پتھری کا مسئلہ کافی عام ہے۔ پالک، گندم کی چوکر اور آلو کے چپس میں پایا جانے والا ایک مرکب، جسے ’’اوکسالیٹ‘‘ (Oxalate) کہتے ہیں، گردے اور مثانے میں جاکر جسم میں موجود کیلشیم کے ساتھ مل کر پتھری میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیموں میں موجود ترش ’’سائیٹرک‘‘ (Citric) نامی تیزابی مادہ کیلشیم اور ’’اوکسالیٹ‘‘ کے باہمی ملاپ سے بننے والی پتھریوں کو بننے سے روکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں کم از کم 4 اونس لیموں کا رس پینا، پتھری کے مریض کے علاوہ عام لوگوں کیلئے بھی بہت فائدہ مند ہے۔

بہتر یادداشت کیلئے سیج کا استعمال

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ’’سیج‘‘ نامی خوشبودار جھاڑی کے پتے بڑھاپے میں یادداشت کی کمزوری کو دور کرنے کیلئے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پار کرتا ہے تو اس کو نام یاد رکھنے یا بولتے وقت الفاظ کو بھول جانے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ’’سیج‘‘ کے پتے استعمال کرنا ایک بہترین ٹوٹکا ہوسکتا ہے۔

ہڈیوں کے بھربھرے پن کیلئے سویا کا استعمال

ہڈیوں کے بھربھرے پن کو ’’اوسٹیوپوروسس‘‘ (Osteoporosis) کی بیماری کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر خواتین میں پائی جاتی ہے۔ متعدد تحقیقوں سے یہ بات پتا چلی ہے کہ جو لوگ اپنی خوراک میں ’’سویا‘‘ (Soy) کا استعمال کرتے ہیں ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ گو سائنس دان ابھی تک اس بات کا سراغ نہیں لگا سکے کہ ’’سویا‘‘ میں وہ کیا خاص مرکب موجود ہے جو ہڈیوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ ’’سویا‘‘ کو کسی بھی شکل میں استعمال کیا جائے یہ ہڈیوں کیلئے مفید ہے مثلاً سویا بین، سویا ملک (دودھ) اور سویابین کا تیل وغیرہ وغیرہ۔

دانتوں اور مسوڑھوں کے درد کیلئے لونگ کا تیل

لونگ کا تیل دانت اور مسوڑھوں کے درد اور سوجن میں استعمال کیا جاتا ہے اور بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس میں جراثیموں کو مارنے کی صلاحیت ہے۔ اس کو زیتون کے تیل میں ملا کر دانتوں پر لگانے سے اس کی تیزی اور چبھن محسوس نہیں ہوتی۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post بھولے بسرے طبی ٹوٹکے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>