Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4420 articles
Browse latest View live

دہلی پر بندر راج

$
0
0

لوجی، دہلی میں بندر راج کرنے لگے۔۔۔ ارے نہیں نہیں، ہمارا اشارہ مودی جی کی طرف ہرگز نہیں، ہم اس بے زبان مخلوق کے بارے میں ایسا کیوں کہیں گے!

بات یہ ہے کہ ’’رائٹرز‘‘ کی خبر کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی میں دھماچوکڑی مچاتے بندروں کے گروہ گھروں اور سرکاری دفاتر کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ یہ بندر خو خو کرکے مکانات اور دفاتر میں داخل ہوتے ہیں اور کھانے کی اشیاء اور موبائل فون لے اُڑتے ہیں۔ وہ گھرں میں توڑپھوڑ بھی کرتے اور لوگوں میں خوف پھیلاتے ہیں۔

ان کا راج پارلیمنٹ کے اطراف، ایوان وزیراعظم سے وزارت تجارت اور وزارت دفاع تک اہم ترین وزارتوں کے دفاتر کے اردگرد ہے، ان کی تخریب کاریوں کا نشانہ سرکاری حکام واہل کار اور عوام دونوں بنتے ہیں۔ وہ صرف چھینا جھپٹی ہی نہیں کرتے بلکہ کھڑکیوں کے ذریعے سرکاری عمارات میں گُھس کر فائلیں اور دستاویزات پھاڑ ڈالتے ہیں۔

نوبت یہ آچکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر ارکان کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ کسی بندر کو تنگ نہ کریں، بندروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھیں اور کسی بندریا اور اس کے بچے کے بیچ آنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ جب امریکا کے سابق صدرباراک اوباما نے اپنے دورِصدارت میں بھارت کا دورہ کیا تھا، تو بندروں کو سرکاری علاقے سے دور اور شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے باقاعدہ اہل کار بھرتی کیے گئے تھے، جس سے دہلی میں بندروں کی بڑھتی طاقت اور پھیلتے اثررسوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مزید بُری خبر یہ ہے کہ بھارت میں بندروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بھارت ہندو اکثریتی دیش ہے اور ہندو دھرم میں بندر کو مقدس مقام حاصل ہے، چناں چہ سماج اور حکومت دونوں کا اس معاملے میں رویہ ہے کہ، ’’جو چاہے سزا دے لو، تم اور بھی کُھل کھیلو، پر ہم سے قسم لے لو، کی ہو جو شکایت بھی۔‘‘ اگر بندروں کی جگہ اس سے آدھا اُدھم کشمیریوں، ہندوستانی مسلمانوں یا سکھوں نے مچایا ہوتا تو اب تک انھیں دہشت گرد قرار دے کر خون کی نہریں بہادی گئی ہوتیں، لیکن ڈارون کے نظریے پر کچھ زیادہ ہی یقین رکھنے والے بھارتی ’’تمھیں ہو ماتا پِتا تمھیں ہو‘‘ کہتے ہوئے بندروں کی ہر خطا معاف کردیتے ہیں۔ شکر ہے کہ مسلمان بندر کا گوشت نہیں کھاتے ورنہ بھارت میں گؤ رکھشا کی طرح بندررکھشا کی سیاست بھی ہورہی ہوتی۔

ویسے ہمیں دہلی میں حشر برپا کرتے بندروں کے لچھن ٹھیک لگتے ہیں نہ ان کی نیت۔ ہمیں لگتا ہے کہ جس طرح ہنومان جی نے لنکا ڈھائی تھی، یہ بندر مودی سرکار ڈھانے کے چکر میں ہیں۔ ظاہر ہے بندروں کے مقابلے میں ہم پاکستانیوں کو مودی جی سے ہم دردی ہونی چاہیے کہ وہ انسان ہیں یا کم ازکم لگتے تو ہیں، کیوں کہ ہم نے ان کے بارے میں کبھی نہیں سُنا کہ درختوں پر قلابازیاں کھا رہے ہوں، چناں چہ انھیں انسان سمجھنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ اس لیے ہم مشورہ دیں گے کہ مودی جی! آپ کی ہندوتوا اپنی جگہ، مگر اس سے پہلے کہ بندر آپ کو جلتے توے پر بٹھا دیں، ہوشیار ہوجائیے، آپ کو اصل خطرہ کانگریس اور راہول گاندھی سے نہیں بلکہ بندروں کی اس کالی آندھی سے ہے۔

صاف لگتا ہے کہ یہ بندر بھارت دیش پر قبضے کے لیے دہلی میں جمع ہوئے ہیں اور ایک دن پارلیمنٹ کی عمارت، ایوان وزیراعظم، ایوانِ صدر، وزارتوں کے دفاتر اور فوج کے مراکز پر قابض ہو کر ترنگے کی جگہ اپنی دُم لہرا دیں گے اور انڈیا کا سرکاری نام ’’بندریا‘‘ رکھ دیں گے۔ منطقی طور پر تو ان بندروں کو سنگھ پریوار کا حصہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وہ اپنے پریوار پر ہی وار کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ بندر اقتدار سنبھال کر آپ کو اندر کردیں، آپ ان بندروں کو بندے دا پُتر بنادیں۔ ان کے خلاف آپریشن کرنے میں آپ کی ہندوتوا اور بندر کا مقدس ہونا رکاوٹ بنے گا، یہ مسئلہ بھی چٹکی بجاتے حل ہوسکتا ہے، آپ بس اتنا کریں کہ جنتا سے کہہ دیں یہ وہ بندر نہیں جنھیں ہم پوتر سمجھتے ہیں، بلکہ یہ بندر کے روپ میں آئی ایس آئی کے بھیجے ہوئے گُھس بیٹھیے ہیں۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں، باقی آپ کی مرضی۔

اگر ہمارا اندیشہ صحیح ثابت ہوگیا اور بھارت پر بندر راج قائم ہوگیا تو یہ امکان ضرور ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوجائیں گے اور مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، کیوں کہ یہ بات شاید بندروں کو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجائے کہ بندوں کو بھوکا رکھ کر ہتھیاروں کے ڈھیر لگانا اور بہ زور کشمیر کو اٹوٹ انگ بنائے رکھنے کی ’’بھارت ہَٹ‘‘ نادانی کے سوا کچھ نہیں۔

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post دہلی پر بندر راج appeared first on ایکسپریس اردو.


واہ نواز شریف صاحب! کیا فلمی ڈائیلاگ مارا ہے

$
0
0

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا،’’آپ کا ہنسنا بہت کم ہوگیا ہے، اور آپ کُھل کر بات بھی نہیں کرتے۔‘‘ میاں صاحب نے جواب دیا،’’ہنسنا کیسا، ہم تو کُھل کر رو بھی نہیں سکے۔‘‘

میاں صاحب کا یہ جواب ہماری آنکھیں نم اور نتیجتاً ہمارے گھر میں ٹشوپیپرز کی تعداد کم کرگیا۔ کیا جملہ ہے، اگر کسی فلمی قلم کار کے ہتھے چڑھ گیا ہوتا تو اب تک جوں کا توں یا معمولی سی تبدیلی کے ساتھ کسی فلم کا مشہور مکالمہ بن چکا ہوتا، جیسے: ’’ہنسنا کیسا پارو! میں تو کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ چھپنے کے چکر میں ڈان ہنسنا کیسا کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’کتنے آدمی تھے، سردار دو، وہ دو اور تم تین پھر بھی خالی ہاتھ واپس آگئے۔ تم نے عزت کی وہ واٹ لگائی ہے کہ گبر ہنسنا کیسا کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’انارکلی! سلیم کی محبت تمھیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمھیں جینے نہیں دیں گے‘‘، انارکلی،’’ظلِِ الٰہی! آپ نے ایسی بات کردی کہ میں ہنسنا کیسا کھل کر رو بھی نہیں سکی‘‘،’’موگمبو خوش ہوا، مگر حالات ایسے ہیں کہ ہنسنا کیسا کُھل کر رو بھی نہیں سکا‘‘،’’میں تیرا خون پی جاؤں گا، کیوں کہ تیری وجہ سے ہنسنا کیسا میں کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’ایک بار میں نے کمٹمینٹ کرلی تو میں خود کی بھی نہیں سُنتا۔۔۔مسئلہ بس یہ ہے کہ ہنسنا کیسا میں کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’رشتے میں ہم تمھارے باپ لگتے ہیں۔ نام ہے شہنشاہ، ہماری بس ایک ہی مجبوری ہے کہ ہنسنا کیسا ہم تو کُھل کر رو بھی نہیں سکے۔‘‘،’’ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں، مگر جیتنے تک بے چارہ بازی گر ہنسنا کیسا کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست، اگلے سین تک ہنسنا کیسا میں کُھل کر رو بھی نہیں سکتا۔‘‘،’’میرے کرن ارجن آئیں گے، تب تک ہنسنا کیسا میں کُھل کر رو بھی نہیں سکوں گی۔‘‘،’’پریم نام ہے میرا، پریم چوپڑا، ہنسنا کیسا میں تو کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’خاموش ش ش ش ش۔۔۔۔۔۔اچھا صاب! ہنسنا کیسا میں تو کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ آ ٹیررسٹ۔۔۔البتہ ہنسنا کیسا میں کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘،’’ٹینشن لینے کا نہیں صرف دینے کا۔۔۔۔اَپن کیا ٹینش دے گا بھائی! اپن کا تو وہ حال ہے کہ ہنسنا کیسا کُھل کر رو بھی نہیں سکا۔‘‘

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post واہ نواز شریف صاحب! کیا فلمی ڈائیلاگ مارا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

’کرسمس‘ بڑا دن، خوشیوں بھرا دن

$
0
0

25 دسمبر مسیحی دھرم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جنم دن مانا جاتا ہے اور اس دن کو دنیا بھر کے عیسائی اپنے خاص مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔

دھرتی پر حضرت مسیحؑ کے آنے کی خبر سب سے پہلے نچلے طبقے کے لوگوں کو دی گئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مذہبی رسم کو کرسمس کا نام دیا گیا۔ عیسائیوں کی روایات کے مطابق یسوع مسیحؑ اپنی جوانی میں بڑھئیوں کا کام کرتے تھے اور ان کے اردگرد عام لوگوں کے ساتھ ساتھ گداگروں اور بیماروں کی بھی بھیڑ رہتی تھی۔

ان میں کئی ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے بھی حاضری دیا کرتے تھے۔ مسیحؑ کے ساتھ ان کے خاص شاگرد بھی ہوا کرتے تھے جن کو آج کے دور کا رضا کار بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان رضاکاروں میں زیادہ تر افراد، کسان، مچھیرے اور مزدور پیشہ ہوتے تھے۔ یسوع مسیحؑ نے ٹوٹی ہڈیوں، کوڑھ اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کے ساتھ ساتھ مقروض لوگوں کو بھی انجیل مقدس سے خوشیوں بھرے علاج اور حل بتلائے۔ انہوں نے اپنے ماننے والوں پر مذہبی عبادات کے ساتھ ساتھ انسانوں میں رزق، پیار اور سماجی برابری پر بھی زور دیا ۔ اس حوالے سے ہمیں ایک تحریر شاہ محمد مری کے مضمون ’’مزدک‘‘ میں سے یوں ملتی ہے۔

’’یروشلم کے مسیح نے بھی تو یہی پیغام دیا تھا کہ ’’خدا کاروبار نہیں کرتا، آسمانی بادشاہت میں کوئی شخص منتخب شدہ نہیں ہوگا ۔ نہ کوئی ایسا انتخاب ہوگا۔ خدا تمام مخلوق سے یکساں محبت کرتا ہے۔ جیسے سورج اپنی عنایات کو خاص لوگوں تک محدود نہیں رکھتا، تمام انسان آپس میں بھائی ہیں۔‘‘

یسوع مسیح نے اپنے حواریوں سے یہی تو کہا تھا ’’یہ جو امیر لوگ ہیں ان کا خدا کی بادشاہت میں داخلہ بہت مشکل ہے‘‘ حواری اس بات پر حیران ہوئے۔ یسوع مسیح دوبارہ گویا ہوا: ’’بچو! جو لوگ مال و زر پر بھروسہ کرتے ہیں وہ خدا کی بادشاہت میں بمشکل داخل ہو پائیں گے۔ ایک امیر آدمی کے خدا کی بادشاہت میں داخلے کی بہ نسبت، ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا آسان ہے۔‘‘ (مزدک۔ صفحہ 35۔ شاہ محمد مری)

کرسمس کو باقاعدہ منانے کی رسم سب سے پہلے یورپ میں دکھائی دیتی ہے۔ جہاں دسمبر کی طویل راتوں میں سردی اپنے پورے زوروں پر ہوتی ہے لیکن مسیحؑ کے چاہنے والے تمام رات چراغاں کیے رکھتے تھے۔ جاڑے کے ان دنوں میں چراغاں کے لیے کوئلے اور لکڑی کو ڈھونڈنا ہرگز آسان نہ تھا۔ لیکن ان جلتے بجھتے چراغوں میں اصل لو تو عشق کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیت کا پرچار دھرتی کی کئی دوسری جگہوں تک جا پہنچا ۔ جس کے باعث کرسمس کی رسومات کا دائرہ کار ایک ہفتے سے بڑھ کر دس روز تک ہوگیا ۔

چوتھی صدی عیسوی میں پہلی بار چرچ سے باضابطہ فرمان جاری ہوا کہ وہ تمام ممالک جہاں پر مسیحی برادری حکومت میں ہے ادھر سرکاری طور پر چھٹی کا اعلان کیا جائے۔ روم میں ان چھٹیوں کی بنیاد زراعت کے دیوتا ’’سیٹورن‘‘ کے ساتھ باندھی جاتی ہے۔ ان چھٹیوں کے دوران اکثر اوقات عام افراد یا کسانوں میں سے کسی شخص کو شہر کا حاکم بنادیا جاتا تھا تاکہ ہر طبقے کے لوگ بنا کسی طبقاتی تقسیم کے ان ایام کی خوشیوں کو منا سکیں۔کرسمس کا دن یسوع مسیحؑ سے آج کے روز تک اپنی مختلف اشکال کے ساتھ دنیا کے الگ الگ مقامات پر دکھائی دیتا ہے۔ ’’کرسمس ٹری‘‘ کا رواج بھی انتہائی قدیم ہے۔ اس پر ایک تحریر شاہ محمد مری کی یوں ہے۔

’’روایتیں، کلاسیکل باتیں بڑی مزیدار ہوتی ہیں، کرسمس ٹری کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے کہ جرمن قبیلہ کے لوگ جو گرج (گرند) کے دیوتا کی پوجا کرتے تھے، تھور کو خوش کرنے کے لیے بچوں کو قربان کر دیتے تھے۔ ولفرڈ نامی جرمن، اس فرسودہ رسم کے خلاف تھا۔ ایک مرتبہ تاریک اور سرد رات کو شاہ بلوط کے درخت کے نیچے ایک بچے کو قربان کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ولفرڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ، موسمی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شاہ بلوط کے درخت کے نیچے پہنچ گیا۔ جہاں بوڑھا پروہت مضبوطی سے بندھے ہوئے بچے کے گلے پر چھری رکھ چکا تھا۔

ولفرڈ نے آگے بڑھ کر پروہت کے ہاتھ کو روک دیا اور چھری چھین لی۔ اس اچانک جرأت کے مظاہرے پر لوگ حیران اور خوش ہوئے۔ ولفرڈ اور اس کے ساتھیوں نے تمام لوگوں سے گفتگو کی اور ان کو یسوع مسیحؑ کی نوید دی جسے انہوں نے قبول کیا۔ ولفرڈ نے کلہاڑے کی مدد سے اس درخت کو کاٹنا چاہا تو اچانک آسمانی بجلی گری اور اس درخت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ پھر اس جگہ ایک سرسبز اور شاداب درخت اگا، جس کو ایور گرین کہا جاتا ہے۔ یوں یسوع مسیحؑ کے 732 سال بعد کرسمس ٹری کی روایت نے جنم لیا اور لوگ اس واقعہ کی یاد میں کرسمس ٹری سجانے لگے ۔ یسوع مسیحؑ صرف انسانی حقوق کے علمبردار ہی نہیں بلکہ امن و انصاف اور سلامتی کے علمبردار تھے‘‘ (مزدک صفحہ۔43)

ہندوستان میں کب عیسائی مذہب کے افراد آئے، اس بارے میں نامور مورخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ مسیحؑ کے بعد جب عیسائیت مصر تک جا پہنچی تو اس وقت کچھ عیسائی قبائل ساؤتھ انڈیا میں آن بسے۔ ان کی نسلیں آج بھی ان علاقوں میں ملتی ہیں اور وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے اجداد کا مصری ہونا بتلاتے ہیں۔ یورپی اور یونانی عیسائیوں کا کاروباری سلسلے میں آنا جانا غزنی اور غوری عہد میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ان کے بڑے مذہبی پیشواؤں کا ہندوستان کے دربار میں آنا، عہد اکبری میں نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں سردار خان کی ایک لکھیت ’’نقوش لاہور نمبر (ص۔68 )‘‘ پر اس طرح ہے۔

’’دین و مذہب کے معاملہ میں اکبر کی متجسس طبیعت نے گوا سے رومن کیتھولک مشنریوں کو 1594ء میں اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی۔ اس وقت تک جنوبی ہند میں بھی مدراس اور گوا کے علاوہ کوئی باقاعدہ مسیحی ادارہ موجود نہ تھا اور شمالی ہند تو غیر ملکی عیسائیوں کی آمدورفت سے بالکل خالی تھا مگر 1595ء میں جبکہ اکبر لاہور میں مقیم تھا ۔ 5 مئی مذکورکو تین مسیحی علماء اس شہر میں پہنچے۔ یہ لوگ 3 دسمبر 1594ء کو گوا سے روانہ ہوئے تھے اور اکبری فرمان کے مطابق جس میں ان کی جان اور مال کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔

چھ ماہ کی مدت میں راستہ طے کرکے لاہور پہنچے تھے۔ ان علماء کے یہ نام تھے۔ (1) فادر جیروم زیوئیر (2) فادر عمانوایل پینرو (3) برادر بینیڈکٹ ڈے گوس ۔ رومن کیتھولک مؤرخین کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے ان علماء کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ مشرقی طرز پر ان کی مہمان نوازی اور خاطر و مدارت کی گئی۔ چنانچہ انہوں نے 1597ء میں لاہور میں ایک گرجا تعمیر کیا جس کا خرچ حکومت نے برداشت کیا ۔ جب اس گرجا کی رسم تقدیس ادا کی گئی تو شہنشاہ اکبر کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔ اس لیے لاہور کا گورنر اس رسم میں شریک ہوا ۔ افسوس ہے کہ رومن کیتھولک مؤرخ اس موقع پر لاہور کے گورنر کا نام نہیں لکھتا۔ آگے چل کر مؤرخ یوں رقم طراز ہے کہ اس سال گرجے میں بڑا دن بڑی دھوم دھام سے منایا گیا اور برادر بینیڈکٹ ڈے گوس نے ایک انتہائی خوبصورت چرنی تیار کی۔ جسے اہل شہر بڑی کثرت سے دیکھنے آتے تھے اور ایک مہینہ تک لوگ اس کی زیارت کرتے رہے۔ اس چرنی کے لیے شاہی خاندان کے ایک شہزادے نے بڑی بڑی قندیلیں عطا کی تھیں اور اس دن شاہی خاندان کے افراد نے غرباء کو خیرات تقسیم کی۔ شہزادہ سلیم کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ان مسیحی علماء سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا اور درباری امراء بھی اس گرجے میں آتے تھے۔ لیکن اب اس گرجے کا کوئی نشان باقی نہیں، نہ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کہاں بنا تھا۔ اس کے بعد گوا سے مغل دربار میں مسیحی علماء کی آمدورفت جاری رہی مگر عالمگیر کے زمانہ میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ۔‘‘

عہد حاضر کے کچھ مؤرخین کا یہ خیال ہے کہ عہد اکبری کا وہ چرچ اس جگہ تعمیر ہوا تھا جہاں آج کل ریگل سیکرڈ ہارٹ چرچ ہے۔ لیکن ابھی بھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ شاہی قلعہ لاہور میں آج بھی وہ کمرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بادشاہ اکبر نے مسیحی مذہبی پیشواؤں کو اپنی مذہبی رسومات پوری کرنے کی اجازت دی تھی ۔ اکبر کے بعد مسیحی افراد کی دربار تک رسائی کا سلسلہ قائم رہا۔ 1617ء کو جیمز بادشاہ اول کی پہلی سفارت مغل دربار آئی۔ انگریز سفارت کار طامس راؤ تین برس تک جہانگیر کے دربار میں رہا۔ ان تین برسوں میں شاہی فرمان کے تحت انگریزوں کو سورت میں تجارتی کمپنی اور عمارت کے اردگرد فصیل تعمیر کرنے کی اجازت ملی۔ اسی دور میں انگریزوں نے آگرہ، اجمیر، احمد آباد اور بھرائچ میں اپنی کوٹھیاں تعمیر کیں۔

بادشاہ جیمز کے عہد میں کمپنی کا کاروبار بہت بڑھ گیا کیونکہ جیمز کی جانب سے انہیں بہت سی سہولیات حاصل تھیں۔ اس کے بعد بادشاہ چارلس کا عہد کمپنی کے لیے مشکلات کا وقت تھا کیونکہ بادشاہ کی اپنی شراکت داری ہالینڈ کی ایک کمنی کے ساتھ تھی۔ اس کے بعد چارلس دوئم کے عہد میں یہ کمپنی اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے طور پر ابھری ہندوستان سے بھر پور کمائی کی گئی ۔ چارلس دوئم نے ایک پرتگیزی شہزادی کے ساتھ شادی کی جو اپنے جہیز میں ایک جزیرہ بھی لائی جس کو محض دس پونڈ سالانہ کے لگان پر اٹھا دیا گیا۔ عہد حاضر میں وہ جزیرہ ممبئی کے نام سے معروف ہے۔ 1830ء میں کچھ عیسائی تبلیغی لاہور، عہد رنجیت سنگھ میں آئے، مہاراجہ نے ان کو انتہائی عزت و تکریم دی۔1847ء میں فادر کیفرل نام کا ایک مشتری آگرہ سے لاہور آیا اور ادھر کے مقامی عیسائیوں کے ساتھ مل کر ایک گرجا تعمیر کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گرجا گھر بھی عوام الناس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اس گرجا گھر کی نشاندہی سردار خان نے نقوش لاہور نمبر پر اس طرح کی ہے۔

’’ایک قدیم گرجا گورنمنٹ کالج (GCU) کی پشت پر ہے۔ یہ عمارت اس وقت جمنیزیم کہلاتی ہے۔ اس پر سنہ تعمیر 1858ء تحریر ہے۔ اس عمارت کی طرز تعمیر رومن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ وہی گرجا ہو جو فادر کیفرل نے تعمیر کیا تھا۔‘‘

اس گرجے کو لاہور میں موجود گرجا گھروں میں سب سے قدیم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے پورے زور کے ساتھ ابتدا میں گوا میں دکھائی دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انگریز عہد کے قدیم گرجے ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں مسیحی افراد کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔ ممبئی میں ایک بڑی تعداد میں مسیحی افراد بستے ہیں۔ لیکن ان کی جڑیں بھی گوا سے ملتی ہیں۔ تمام ہندوستان اور خاص کر گوا میں کرسمس کو بڑے ہی پیار سے منایا جاتا ہے۔ یہاں پر کرسمس کے روایتی ٹری کے ساتھ ساتھ کیلے اور آم کے درخت بھی سجائے جاتے ہیں۔

وہ لوگ جو مسیحی نہیں بھی ہوتے اس روز ایک دوسرے کو کرسمس کیک بھیجتے ہیں ۔ یورپ میں آج بھی کرسمس انہی قدیم روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ روایات کس طرح مذاہب کے ساتھ آن ملتی ہیں اس کی مثال امریکہ میں ٹری کھانے کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹری کھانے کی روایت امریکہ میں صدیوں پرانی ہے لیکن آج یہ کرسمس کا کچھ اس طرح کا حصہ ہے کہ اس روز لاکھوں کی تعداد میں ٹری کاٹے اور بیچے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کرسمس ٹری کی تیاری بھی انتہائی خاص ہوتی ہے۔ ہر برس تقریباً تین سے ساڑھے تین کروڑ کرسمس ٹری بکتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں پندرہ پندرہ برس قبل ہی پیشگی ادائیگی کردی جاتی ہے۔ امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے کئی ممالک میں دسمبر کے آخری عشرے میں اشیاء کی قیمتیں کئی گنا کم کردی جاتی ہیں۔ ہندوستان، پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے تارکین وطن اپنے پورے سال کی خریداری انہی دنوں میں کرتے ہیں۔

کرسمس کا ہمارے ادھر کے ادب پر بھی گہرا اثر رہا۔ قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’’آخر شب کے ہمسفر (ص۔54) پر درج ذیل تحریر ملتی ہے۔

’’روزی کرسی کے پیچھے جاکھڑی ہوئی اور جھانک کر پڑھنا چاہا اور دل میں مسکرائی

گڈاولڈ پایا اور ان کے سالانہ کرسمس سرمن

’’کنارے کی نسبت جو ہمارے خداوند یسوع نے اے لوگو تمہارے لیے کیا ۔ اس نے جان کھوئی کہ تم اس کو دوبارہ حاصل کرو۔ گیہوں کا دانہ جو مرنے کے بعد‘‘

قلم کی رفتار تیز ہوگئی ’’وہ جو مسیح پر ایمان لائے، خداوند تیری برکت تیرے بندوں پر ہے۔ وہ روح القدس میں غوطہ دلائے جاویں گے کہ جو ہمارے لیے موا اور مدفون ہوا اور جی اٹھا اور وہ خداوند کا اکلوتا بیٹا، جو ہماری خاطر صلیب پر لٹک گیا۔ اس کا مبارک یوم ولادت منانے ہم آج جمع ہوتے ہیں اور اس خداوند کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس ملک میں امن و امان کی حکومت کے زیر سایہ‘‘

پاکستان میں مسیحی برادری کے افراد پچاس لاکھ سے زائد ہیں۔ تقسیم کے بعد ملک کی ترقی میں ان کا خاص ہاتھ رہا ۔ اس کا ایک انتہائی مختصر ترین جائزہ اس طرح سے ہے کہ پاکستان ایئرفورس کے گیارہ، بری افواج کے پانچ اور نیوی کے ایک آفیسر انتہائی سینئر افسران میں سے تھے۔ پاکستان ایئرفورس کے پہلے چیف کے لیے اشتہارات دنیا بھر کے اخبارات میں دیئے گئے۔ پھر انتہائی سخت اصولوں کے بعد ایئرکموڈور جوزف تھیرن ٹو اووس کو یہ عہدہ دیا گیا جوکہ پولینڈ کے عیسائی تھے۔ ایئرفورس کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستان سپیس کا چیف آرکیٹیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایئرکموڈور نذیر لطیف پاکستان ایئرفورس کی جانب سے ستارہ جرأت حاصل کرچکے ہیں ۔ ایئر وائس مارشل ایرک گورڈن بھی مسیحی دھرم میں سے تھے۔

ونگ کمانڈر مارون لزلی مڈل کارٹ کا نام بین الاقوامی شہرت یافتہ ہے۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بذات خود جنگی جہاز اڑائے۔ انہوں نے اردن کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بھی جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ 1971ء میں ان کا طیارہ انڈیا میں گر گیا۔ پاکستانی فوج کی رسومات کے مطابق ان کا جسد خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹا گیا اور اردن کے بادشاہ کے خصوصی خط کے ساتھ ان کے سر کے نیچے اردن کا پرچم بھی رکھا گیا اور یوں ان کی تدفین ہوئی ۔ ایئرفورس ہی کے سلسلے میں ایم ایم عالم کے ساتھ ہمیشہ سیسل چودھری کا بھی ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے اس جانباز پائلٹ کے نام پر ایک سڑک ریگل سیکرڈ ہارٹ چرچ کے ساتھ ہے جہاں آپ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سکول میں بطور پرنسپل کام کرتے رہے۔

ان کو گورا قبرستان لاہور میں فوج کی خاص سلامیوں کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان کے والد کا نام ایف ای چودھری تھا جو تقسیم سے قبل انتہائی مشہور فوٹو گرافر تھے۔ قائداعظم کی کئی نایاب تصاویر ان ہی کے ہاتھوں کی کھینچی ہوئی تھیں وہ اس وقت چاچا فوٹو گرافر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ سیسل چودھری کے بڑے بھائی کا نام سری آل چودھری تھا جوکہ باٹا کمپنی کے مینجر تھے۔ ان کی بیگم ایس اے چودھری (سینڈرا اکین چودھری) محکمہ سوئی نادرن سے سینئر ایچ آر آفیسر ریٹائر ہوئیں ۔ انہیں انگریزی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنی اور لکھنی نہیں آتی تھی۔ ان کے اکثر ماتحت ان کی میز پر کھڑے ہوکر ان کا مذاق بنا کر چلے جاتے تھے لیکن انہیں کچھ نہ معلوم پڑتا ۔ پھر ان کے ایک ماتحت نواز نے انہیں اردو اور پنجابی سکھائی۔ نواز ابھی تک ان کی خاندانی جائیداد کے معاملات دیکھتے ہیں کیونکہ ریلوے ہیڈکوارٹر لاہور کے قریب سینٹ اینڈریو چرچ کی تعمیر و انتظام میں اس خاندان کا خاصا بڑا ہاتھ رہا ہے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ کے حوالے سے بھی جسٹس کارنیلسن کا نام انتہائی معروف ہے۔ لاہور میں نہر کا ایک انڈر پاس ان کے نام کا ہے۔ ہیوکیچ یولی کا نام بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہے۔ ان کو ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ بچوں ہی کی پڑھائی کے حوالے سے ہلڈا سعید کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی بہت کام کیا۔ انہوں نے ایک مسلمان شخص سے شادی کی۔ کیتھڈرل کینٹ چرچ سکول کے پرنسپل ایس کے داس کا نام بھی تعلیمی خدمات کے حوالے سے انتہائی قابل عزت ہے ۔ ڈاکٹر دلشاد نجم آئی جی پولیس ریٹائر ہوئے ۔ جی ایم سلکس کا نام ادب کے حوالے سے انتہائی معتبر ہے۔ نسرین نجم بھٹی کو پاکستانی امرتا پریتم بھی کہا جاتا ہے۔

ان کی ایک نظم ’’وے توں کیڑا ایں‘‘ اسی طرح زمانے بھر میں معروف ہوئی جس طرح امرتا جی کی ایک نظم ’’اج اکھاں وارث شاہ نوں‘‘ مشہور ہوئی۔ وہ 2015ء میں لاہور ریڈیو سے سینئر پروڈیوسر ریٹائر ہوئیں۔ ان کی شادی زبیر رانا سے ہوئی جو شادی سے قبل مسلمان تھے اور اس شادی کے باعث عیسائی ہوگئے تھے۔ مصوری کے حوالے سے کولن ڈیوڈ انتہائی اعلیٰ درجے کے مصور مانے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ این سی اے کے پروفیسر اعجاز فن مصوری اور سنگیت کے ماہر جانے جاتے تھے۔ میری ایملی گنزو وائلس رومن کیتھولک نن تھیں جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سرکار پاکستان نے انہیں ستارہ قائداعظم سے نوازا۔ ڈاکٹر کیتھرائنا مارتھا رتھ فاؤ کی عظیم انسانی خدمات زمانے بھر کے سامنے رہیں۔ ان ہی کی مانند ڈاکٹر گریڈ روڈ لیمنز کو پاکستانی مدر ٹریسا بھی کہا جاتا ہے۔

ان کی تمام زندگی غریبوں اور بے گھر افراد کی خدمت میں گزری۔ انہیں ستارہ قائداعظم سے نوازا گیا۔ ویلس متھائس پاکستان کی جانب سے پہلے عیسائی کرکٹر تھے۔ انہوں نے 1955-1965ء تک پاکستان کی جانب سے 21 ٹیسٹ میچ کھیلے، وہ سلپ کے انتہائی اعلیٰ فیلڈر بھی تھے۔ ان کے بعد سیالکوٹ سے زاہد فضل بھی 1990ء کی دہائی کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک تھے۔ جیک برٹو اولمپین ہاکی کے کھلاڑی تھے جوکہ رائٹ ہاف کھیلتے تھے۔ ملک کی سیاست میں الیگزنڈر جان ملک، جے سالک، شہباز بھٹی اور مس کویتا مینوئیل کے نام جانے جاتے ہیں۔ سنگیت کے شعبہ میں آئرن پروین، سلیم رضا، اے نیئر (آرتھر نیئر) اور ایس بی جان (سنی بینجمن جان) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ عہد حاضر میں کلاسیکل موسیقی کے حوالے سے استاد پرویز پارس کا نام انتہائی اہم ہے۔ بنگالی فلم اسٹار شبنم بھی مسیحی برادری میں سے تھیں ان کا اصل نام ’’جھربھاسک‘‘ تھا۔ ان کی خدمات پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے سالوں پر محیط ہیں۔ عہد حاضر کے مشہور ٹی وی ایکٹر ڈائریکٹر عاشر عظیم بھی عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں ۔ محکمہ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ سے ونسنٹ پال ڈپٹی چیف اکاؤنٹنٹ اور امتیاز مسیح ایگزیکٹو اکاؤنٹنٹ ریٹائر ہوئے ہیں۔

تاریخ کے صفحات پر جب بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ذکر ہوگا تو وہ تارا مسیح کے بغیر نامکمل مانا جائے گا۔

لاہور اور مسیحی برادری پر ایک بار پھر نگاہ ڈالی جائے تو لاہور کیتھڈرل چرچ کا ذکر ضرور کیا جائے گا جس کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں سردار خان نے اس طرح تحریر کیا تھا۔

’’ریگل سینما کے محاذ میں ٹمپل روڈ اور لارنس روڈ کے چوک پر رومن کیتھولک کیتھڈرل کی فلک بوس عمارت کھڑی ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد 1904ء میں بشپ ڈاکٹر گاڈ فری نے رکھا تھا اور وہی اس کے بانی تھے۔ ڈاکٹر موصوف نے اسی سنہ میں انتقال کیا اور انہیں اس کی تکمیل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ اس گرجا گھر کی عمارت رومن طرز کی ہے۔ اس میں ایک بلند مینار، ایک وسیع گنبد اور چند چھوٹے مینار ہیں۔ بڑے مینار کی بلندی 165 فٹ اور گنبد 120 فٹ بلند ہے۔ یہ گرجا درحقیقت اپنی عظمت و شان کے حوالے سے روسہ کے بعض گرجا گھروں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے ستونوں کے لیے آگرہ سے سنگ سفید منگوایا گیا تھا۔ دروازے اور کھڑکیاں اور نشستیں ساگوان لکڑی کی ہیں۔ تمام گرجا کا طول دو سو فٹ ہے اور تالار کا عرض 68 فٹ اور نعلی تالار کا طول 125 فٹ ہے۔ اس کی کھڑکیوں کے شیشوں پر مسیحی مقدسین کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جنہیں بیلجیئم کے ایک مشہور فن کار نے تیار کیا تھا۔ تالار میں دو بڑے خوش قطع مجسمے رکھے ہیں۔ ایک جناب مسیحؑ کا اور ایک حضرت مریمؑ صدیقہ کا۔

اس عمارت کا نقسہ شیراتی ٹورپ (بیلجیئم) کے ایک میر عمارت نے تیار کیا تھا ۔ غرض یہ عمارت 1907ء میں بن کر مکمل ہوئی۔‘‘

1980ء کی دہائی تک کرسمس کے دن مسیحی برادری کی ایک بڑی تعداد لاہور کے باغات، سینما گھروں اور مال روڈ پر چلتی پھرتی دکھائی دیتی تھی۔ خواتین عموماً سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہوتیں جبکہ مرد حضرات نیوی بلیو اور کالے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ہوتے تھے جبکہ بچے رنگدار لباسوں میں نظر آتے تھے، پرانے لاہور کے اندرونی محلے ’’محلہ نمدگراں‘‘ کے ساتھ ایک کوچہ ،کوچہ بھون شاہ کے نام سے معروف تھا۔ اس کے ساتھ ایک گلی ’’چوہڑیاں دی گلی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جس کے رہائشی کرسمس کے دن اس کو انتہائی پیار سے سجاتے تھے جس میں کرسمس ٹری بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا تھا۔ اس گلی کو دیکھنے کے لیے تمام اندرون لاہور کے رہائشی اپنے بچوںکے ساتھ آیا کرتے تھے۔ اسی محلے کے ایک رہائشی ’’چنی چوہڑا‘‘ سیاست کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ ان کو اپنے وقت کے کئی بڑے سیاسی لیڈران ملنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ عہد حاضر میں گلی کے رہائشی اپنے پرکھوں کے گھر بیچ کر باہر کے علاقوں میں جا رہے ہیں اور یہ گلی پنسار منڈی والوں کا گودام بنتی جا رہی ہے۔

سینتا کلاز کی روایت سویڈن سے اٹھ کر دنیا بھر کے مسیحیوں کا حصہ بن گئی۔ ہندوستان، پاکستان کی کئی دوسری جگہوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی اس کو سینتا بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کرسمس کو بڑا دن کہا جاتا ہے۔ مسیحی برادری کی ان خوشیوں میں مسلمان شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اللہ کا نبی مانتے ہیں ۔ قرآن کریم کے سولہویں پارے میں ایک مکمل سورۃ مبارکہ حضرت مریمؑ کے نام پر ہے جس میں حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔

The post ’کرسمس‘ بڑا دن، خوشیوں بھرا دن appeared first on ایکسپریس اردو.

چونکا دینے والے انکشاف سامنے آ گئے؛ دبئی میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک

$
0
0

یہ 21 اکتوبر کی سہ پہر تھی کہ بھارت کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘(ریسرچ اینڈ اینالائیسز ونگ) کا سربراہ، انیل دھسمنا ہانپتا کانپتا وزیراعظم ہاؤس پہنچا۔ اسے فوراً بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملوایا گیا۔

انیل دھسمنا کافی پریشان معلوم ہوتا تھا۔ نریندر مودی بھی گھبرا سے گئے۔ انیل نے بھارتی وزیراعظم کو بتایا کہ دبئی میں را کا زیر زمین نیٹ ورک منظر عام پر آچکا اور وہ پہلے کی طرح پوشیدہ نہیں رہا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس نیٹ ورک کو طشت ازبام کرنے کی ذمے دار بھارت ہی کی دوسری خفیہ ایجنسی، سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن) ہی نکلی۔را چیف نے پھر وزیراعظم پر زور دیا کہ سی بی آئی کے سربراہ، الوک ورما کو ہٹا دیا جائے۔اسی کی وجہ سے دبئی میں را کا خفیہ نیٹ ورک افشا ہوا ۔تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔

سربراہ سی بی آئی کا عہدہ مضبوط کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے گئے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ اگر سی بی آئی حکومت وقت کے وزراء یا سرکاری افسروں پر لگنے والے الزامات کی چھان بین کرنے لگے، تو وزیراعظم بھی باآسانی اسے ہٹا نہ سکے۔

وزیراعظم ہاؤس میں کھیلا گیا ڈراما

بہرحال نریندر مودی نے اسی وقت سربراہ سی بی آئی، الوک ورما کو وزیراعظم ہاؤس بلوالیا۔ بھارتی وزیراعظم نے پھر الوک ورما کا موقف سنا اگرچہ وہ شدید غصے میں تھے۔مودی نے پھر انہیں کہا کہ وہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے مل لیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے قریب ہی مشیر کا دفتر تھا۔مشیر امور قومی سلامتی بھی الوک ورما سے کافی ناراض نظر آیا۔ اس نے سربراہ سی بی آئی سے کہا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں را کا نیٹ ورک ختم کردیا جس کے سہارے بھارت اس اہم عرب اسلامی ملک میں اپنے روابط بڑھا رہا تھا۔اجیت دوال نے اس معاملے کو ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب را کو نئے سرے سے اپنا زیر زمین نیٹ ورک بنانا پڑے گا۔ دوال نے پھر الوک ورما سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دے دیں۔ ورما کہنے لگے کہ میں اپنے دفتر پہنچ کر بھیج دیتا ہوں۔

الوک ورما دفتر جانے کے بجائے گھر چلے گئے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ بذریعہ ای میل استعفیٰ بھجوا دیں مگر سربراہ سی بی آئی نے تو چپ سادھ لی۔ اگلے دن اجیت دوال نے انہیں موبائل پر فون کیا مگر الوک ورما نے اسے نہ سنا۔ تبھی مشیر امور قومی سلامتی نے وزیراعظم مودی سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ الوک ورما استعفیٰ دینے سے کترا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے انھیں فوراً جبری طور پہ رخصت کرنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح سی بی آئی میں ایک سال سے جاری ہنگامہ خیز ڈراما اپنے انجام کو پہنچا۔

مشرقی پاکستان میں ہائی برڈ جنگ

سی بی آئی، را اور آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) بھارت کی تین سب سے بڑی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ سی بی آئی اور آئی بی اندرون بھارت میں جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ مزید براں سی بی آئی ہر قسم کے جرائم سے متعلق خصوصی اور ہائی پروفائل کیسوں کی تفتیش بھی کرتی ہے۔ یہ افرادی قوت کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہے۔ را بیرون ممالک میں جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں اندرون اور بیرون ملک کافی متحرک رہی ہیں۔ انہوں نے ہی مشرقی پاکستان میں ’’ہائی برڈ جنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اسی جنگ کے ذریعے باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنگالی مسلمانوں میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور ہم وطنوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔

یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ان کا استحصال کررہے ہیں۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کا ماحول بنا دیا گیا۔ اس ہائی برڈ جنگ نے آخر کار 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کا المیّہ جنم دے ڈالا۔مغربی پاکستان میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان، سندھ اور سرحد کے علیحدگی پسندوں کو شہ دیتی اور ہر ممکن مدد کرتی رہیں۔ چنانچہ علیحدگی پسند لیڈروں کی وجہ سے مغربی پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً شورش برپا ہوئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں ہائی برڈ جنگ جاری رہی۔حال ہی میں پاک فوج کے آرمی چیف نے اس جانب اشارہ کیا تھا۔

لالچ و ہوس کا حملہ

اکیسویں صدی میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی اعلیٰ قیادت لالچ و ہوس کا نشانہ بن گئی۔ اب جذبہ حب الوطنی پس پشت چلاگیا اور ذاتی مفادات آگے چلے آئے۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب بھارتی حکومت نے سرمایہ دارانہ پالیسیاں اختیار کیں، تو حکومتی اداروں میں پیسے کی ریل پیل ہونے لگی۔ یہ پیسا ایسی چیز ہے جو مضبوط کردار کے حامل انسانوںکو بھی اپنی خیرہ کن چمک سے اندھا کردیتا ہے۔ چنانچہ کئی بھارتی سیاست داں، سرکاری افسر، صنعت کار، تاجر وغیرہ کرپشن کی دلدل میں پھنسنے لگے۔

اس کرپشن کی داستان نہایت ڈرامائی اور عبرت انگیز ہے۔2005ء میں کانگریس برسراقتدار آگئی۔ اس کے دور حکومت میں کرپشن کا جن خوب پھلا پھولا۔ چنانچہ وزیروں اور افسروں نے کرپشن کے مختلف طریقے اختیار کرکے سرکاری خزانہ لوٹا اور راتوں رات ارب پتی بن بیٹھے۔ جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں نے دیکھا کہ حکمران طبقے کا ہر طاقتور رکن کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے تو وہ کیوں پیچھے رہتے؟ وہ بھی کرپٹ ہوکر مال کمانے لگے۔سی بی آئی، آئی بی اور را کے بھی اعلیٰ افسروں کا بنیادی طریق واردات ملتا جلتا تھا۔ جب بھی کسی جرائم پیشہ آدمی کا کیس ان کے ہاتھ لگتا تو وہ اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنالیتے۔ افسر مجرم کے آگے یہ چارا پھینکتے کہ اگر وہ انہیں معقول رقم کی رشوت دے ڈالے، تو اس پر ہاتھ ہولا رکھا جائے گا۔ مطلب یہ کہ اس کے کیس کی ڈھیلی ڈھالی تفتیش ہوگی تاکہ عدالت اسے رہا کرنے پر مجبور ہوجائے۔

کرپشن کا نیا روپ

یہ طریق واردات بہت کامیاب ثابت ہوا۔ جرائم پیشہ لوگ سی بی آئی اور آئی بی کے افسروں کو منہ مانگی رشوت دیتے اور رہا ہوجاتے۔ جب ایک ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کرپٹ ہوجائیں، تو وہاں عدل و انصاف کی مٹی پلید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، 2005ء سے 2014ء تک بھارت میں قانون کی حکمرانی بہت کمزور رہی اور کئی وزراء، سرکاری افسروں، سیاست دانوں اور صنعت کاروں وغیرہ کے سیکڑوں مالی سیکنڈل سامنے آئے۔

2014ء میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے نریندر مودی کا بنیادی نعرہ یہی تھا کہ وہ برسراقتدار آکر بھارت سے کرپشن ختم کریں گے۔ملک میں گڈ گورننس قائم کی جائے گی اور یہ کہ قانون کی حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگا۔ چونکہ مودی پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا لہٰذا بھارتی عوعام نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اقتدار تک پہنچا دیا۔نریندر مودی نے بے شک ایسے سیاست داںوزیر بنائے جن پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا۔ تاہم وہ مختلف قسم کی کرپشن میں مبتلا ہوگئے… وہ یہ کہ اہم سرکاری و سیاسی عہدوں پر من پسند افراد کا تقرر کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ یہ افراد بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرسکیں۔ یہ دونوں جماعتیں اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا خاص طور پر مودی دور حکومت میں صرف وہی سرکاری افسر ترقی پانے لگا جو درج بالا حکومتی ایجنڈے کے مطابق نظریہ ہندتوا سے متفق ہو۔

اصول پسند افسر رکاوٹ بن گیا

الوک ورما ایک لبرل ذہن رکھنے والے آدمی ہیں۔ وہ مذہبی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر مذہب میں اچھے اور برے لوگ ملتے ہیں۔ لہٰذا انسانوں کی تقسیم کا پیمانہ اچھائی اور برائی ہونا چاہیے۔ تاہم وہ دوران ڈیوٹی صرف پیشہ وارانہ امور پر دھیان دیتے ۔ بھارتی سکیورٹی حلقوں میں انہیں دیانت دار، محنتی اور مخلص پولیس افسر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسی لیے وزیراعظم مودی، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف پر مشتمل کمیٹی نے الوک ورما کو فروری 2017ء میں سی بی آئی کا سربراہ مقرر کیا۔ تب وہ دہلی کے چیف پولیس کمشنر تھے۔

وزیراعظم مودی کو مگر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ الوک ورما نہ صرف اصول و قوانین پر عمل کرنے والے دبنگ سرکاری افسر ہیں بلکہ وہ حکومتی ایجنڈے سے بھی متفق نہیں۔ یعنی وہ بھارت کو ہندو ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے ۔ الوک ورما کی تمنا تھی کہ بھارت اپنا سیکولر تشخص برقرار رکھے اور سرکاری سطح پر کسی مذہب کو دوسرے مذاہب پر فوقیت نہ دے۔صرف میرٹ ایک افسر کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ یہ سوچ مگر نریندر مودی اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے دیگر لیڈروں کو بالکل نہیں بھائی۔

کٹر قوم پرست مقابلے میں

جب الوک ورما نے مودی سرکار کے ایجنڈے پر چلنے سے انکار کردیا تو بھارتی وزیراعظم نے اس دیانت دار سرکاری افسر کو قابو کرنے کی خاطر ایک چال چلی۔ انہوں نے اپنے خاص آدمی، راکیش استھانہ کو سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنادیا۔راکیش استھانہ کٹر ہندو( قوم پرست) پولیس افسر ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت میں کئی مسلمان نوجوان ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر جیلوں میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ راکیش استھانہ ہی ہے جس نے 2002ء میں تفتیش کے ذریعے یہ قرار دیا کہ گودھرا ریلوے اسٹیشن میں مسلمانوں نے منصوبہ بندی سے ہندو یاتریوں کی ریل کو آگ لگائی تھی۔ اسی حادثے کے بعد ریاست گجرات میں ہندو دہشت گردوں نے مسلمانوں کا خوفناک قتل عام کیا تھا۔الوک ورما یہ بھی جانتے تھے کہ راکیش استھانہ کرپٹ افسر ہے۔

وہ جرائم پیشہ افراد کو قانون کی گرفت میں آنے سے بچانے کے لیے بھاری بھرکم رشوت لیتا تھا۔ یہی نہیں، اس کی آشیرباد سے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے شراب بیچنے اور جسم فروشی کے دھندے شروع کررکھے تھے۔ یہ دھندے چلانے والے راکیش استھانہ کو ہر ماہ بھتہ دیتے تھے۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ راکیش استھانہ ایک مذہبی جنونی اور کرپٹ افسر ہے۔ لیکن نریندر مودی کے نزدیک یہ دونوں خامیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں کیونکہ راکیش بھی بھارت کو ہندو ریاست میں بدلنے کا متمنی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ بی جے پی 2019ء میں بھی برسراقتدار آجائے تاکہ بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کا خواب پورا ہوسکے۔راکیش استھانہ کو وزیراعظم کی حمایت حاصل تھی، اس لیے وہ سی بی آئی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے بعض ساتھی افسروں کو بھی ساتھ ملالیا اور وہ الوک ورما کے احکامات کی نفی کرنے لگے۔ اس طرح بھارت کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی میں اعلیٰ ترین سطح پر اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔

رافیل طیاروں کی تحقیقات

بھارت میں ایک سرکاری ادارہ، سنٹرل ویجیلنس کمیشن سرکاری افسروں کی کرپشن کے خلاف تفتیش کرتا ہے۔ الوک ورما نے اس کمیشن کو درخواست دی کہ راکیش استھانہ کی کرپشن کے  خلاف چھان بین کی جائے۔ تاہم وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے دیگر وزراء کے شدید دباؤ کی وجہ سے ویجیلنس کمیشن بھی ان کے منظور نظر، راکیش کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکا۔ اس سے راکیش استھانہ کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے سبھی لیڈر چاہتے تھے کہ لبرل ذہن رکھنے والے الوک ورما کو برطرف کردیا جائے۔

انہوں نے دراصل سی بی آئی کے افسروں کو اسلامی تنظیموں اور مسلمان لیڈروں کے خلاف غیر قانونی اقدامات کرنے سے بھی روک دیا تھا۔ اس پر قوم پرست حکمران طبقہ سربراہ سی بی آئی سے سخت ناراض تھا۔ تاہم وزیراعظم مودی انہیں ہٹانے کے حق میں نہیں تھے۔ وجہ یہ کہ اسکینڈلوں میں گھری مودی حکومت اس طرح ایک اور سیکنڈل کی لپیٹ میں آجاتی۔ وزیراعظم نے ساتھیوں کو بتایا کہ الوک ورما یکم فروری 2019ء کو ریٹائر ہوجائے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ چند ماہ اسے برداشت کرلیا جائے۔

الوک ورما مگر اپنے ہم وطنوں اور دنیا والوں کو بھی دکھانا چاہتے تھے کہ مودی حکومت میں سب کچھ اچھا نہیں اور وہ بھی مختلف خفیہ طریقوں اور چالوں سے کرپشن کررہی ہے۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم مودی نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے، تو بھارت میں ان کی تیاری کا ٹھیکہ اپنے امیر و بااثر سرپرست، انیل امبانی کی کمپنی، ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کو دلوا دیا۔ یہ ٹھیکہ دینے کی خاطر کسی قسم کے ٹینڈر نہیں کھولے گئے۔ستمبر 2018ء میں بھارتی سول سوسائٹی کے اہم لیڈروں نے الوک ورما سے مطالبہ کیا کہ وہ رافیل معاہدے میں مودی حکومت کی کرپشن کے بارے میں تحقیقات کرے۔ سربراہ سی بی آئی نے یہ مطالبہ منظور کرلیا۔ انہوں نے پھر وزارت دفاع کو خط لکھا کہ رافیل ڈیل سے متعلق تمام کلاسیفائیڈ (خفیہ) فائلیں سی بی آئی کو فراہم کردی جائیں۔

الوک ورما کے خلاف چال

اس خط نے مودی حکومت کے ایوانوں میں ہلچل مچادی۔ سی بی آئی اگر رافیل معاہدے کی چھان بین کرتی تو مودی حکومت کی کرپشن سامنے آجاتی۔ یوں 2019ء میں دوبارہ الیکشن جیتنے کا خواب مٹی میں مل جاتا۔ اب وزیراعظم مودی کو احساس ہوا کہ الوک ورما حکومت کے لیے سخت خطرہ بن چکے۔ ان کے حکم پر راکیش استھانہ نے اپنے باس کے خلاف ایک چال چلی۔ اس چال ہی نے مگر الوک ورما کو بروفراختہ کردیا اور انہوں نے ایسا کام کر ڈالا جو پہلے کبھی نہیںہوا تھا۔راکیش استھانہ کی چال یہ تھی کہ اس نے سربراہ سی بی آئی پر یہ الزام لگادیا کہ انہوں نے ستیش سنا سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سی بی آئی اس کے خلاف تفتیش نہ کرے اور ستیش سنا کی جان چھوڑ دے۔ راکیش استھانہ کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ چال چل کر اس نے بھّڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ۔ بلکہ اس چال نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں عرصہ دراز سے جاری کرپشن کا بھانڈا بھی پھوڑ ڈالا۔

بھارت کا مشہور مڈل مین

ستیش سنا حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا سرمایہ کار ہے۔ اس نے چند سال قبل معین اختر قریشی کی کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کی تھی۔ معین اختر قریشی رام پور کا رہائشی ہے۔ اس نے 1993ء میں بھارت سے گوشت بیرون ممالک درآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ 2005ء تک وہ بھارت میں گوشت درآمد کرنے والا سب سے بڑا کاروباری بن گیا۔ اس نے دیگر شعبوں میں بھی کمپنیاں کھولیں اور خوب پیسا کمانے لگا۔معین قریشی مگر قانون پسند شہری ثابت نہیں ہوا۔ وہ ٹیکس چوری کرنے لگا۔ پھر منی لانڈرنگ میں ملوث ہوگیا۔ یعنی اپنا پیسا چوری چھپے بیرون ممالک بجھوانے لگا۔ منی لانڈرنگ بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے بھلا کیونکر چھپی رہتی، لیکن ان کے اعلیٰ افسر یہ جرم روکنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینے لگے۔ ہوا یہ کہ سی بی آئی، آئی بی اور را… تینوں ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر معین قریشی سے ’’نذرانہ‘‘ وصول کرنے لگے تاکہ وہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری جاری رکھ سکے۔ اس طرح قانون کے رکھوالے ہی منہ مانگی رشوت لے کر مجرموں کی پشت پناہی کرنے اور ان کے جرائم سے آنکھیں پھیرنے لگے۔

پیسے کے سہارے معین قریشی نے خاص طور پر سی بی آئی میں بہت اثرورسوخ حاصل کرلیا۔ وہ اس ایلیٹ خفیہ ایجنسی کے دو سربراہوں، اے پی سنگھ (نومبر 2010ء تا نومبر 2012ء) اور رنجیت سنہا (دسمبر 2012ء تا دسمبر 2014ء) کے بہت قریب رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں سربراہوں کے دور میں معین قریشی کرپٹ و جرائم پیشہ افراد اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں کے مابین ’’مڈل مین‘‘ یا دلال بن گیا۔ اگر کوئی خفیہ ایجنسی کسی کرپٹ شخص یا جرائم پیشہ پر ہاتھ ڈالتی، تو وہ اپنی گلوخلاصی کرانے کی خاطر معین اختر قریشی سے بھی رابطہ کرتا۔معین پھر متعلقہ خفیہ ایجنسی کے کسی اعلیٰ افسر سے رابطہ کرتا اور پوچھتا ہے کہ وہ کرپٹ شخص کی جان چھوڑنے کا کتنا معاوضہ لے گا؟ یوں بات چیت شروع ہوجاتی اور معاملہ کسی رقم تک پہنچ کر ہی ختم ہوتا ۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں بہت کم افسر تھے جو روپے کی خیرہ کن چمک سے متاثر نہ ہوئے۔ بیشتر افسر عیش و آرام سے زندگی گزارنا چاہتے تھے لہٰذا ان میں اتنی اخلاقی طاقت نہ تھی کہ وہ گھر آئی لکشمی کو ٹھوکر مار دیتے۔ دنیاوی خواہشات پوری کرنے کی ہوس آخر کار انہیں رشوت لینے پر اکسا دیتی۔

مسلمان ہونے سے پھنس گیا

چونکہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تمام اعلیٰ افسر مل جل کر کرپشن کا دھندا کررہے تھے لہٰذا معین قریشی نے بلا خوف وخطر اپنا کھیل جاری رکھا۔ اس کی مدد سے کئی کرپٹ سیاست داں، تاجر، صنعت کار، سرمایہ کار وغیرہ قانون کی گرفت میں آنے سے بچ گئے۔ انہوں نے حکومت کو تو ٹیکس نہیں دیئے، بس خفیہ ایجنسیوں اور دیگر سرکاری محکموں کے افسروں کو رشوت دے کر اپنا کام چلاتے رہے۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور امیر کرپٹ شخصیات کے مابین معاملہ فٹ کرانے میں دیگر مڈل مین بھی ملوث تھے مگر مسلمان ہونے کی وجہ سے معین قریشی کو زیادہ شہرت ملی۔ خاص طور پر ہندو قوم پرست اس مسلمان کی شہرت اور اثرورسوخ دیکھ کر بہت خار کھاتے تھے۔

یہی وجہ ہے، 2014ء میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر معین قریشی کو ’’فکس‘‘ کردیں گے۔ جب حکومت مل گئی، تو مودی کے حکم پر معین قریشی کے خلاف چھان بین شروع ہوگئی۔ اب ناکردہ جرائم بھی اس کے سر تھوپ دیئے گئے کیونکہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود بھارتی معاشرے میں طاقتور شخصیت بن گیا تھا۔ بہرحال معین قریشی نے نیک راہ چھوڑ کر گناہ کیے تھے اور اب اسے ان کا حساب دینا تھا۔ بھارتی عدالتوں میں اس پر مختلف جرائم کے سلسلے میں مقدمے زیر سماعت ہیں۔معین قریشی سے روابط رکھنے کے باعث ستیش سنا بھی قانون کی گرفت میں آگیا تاہم وہ سی بی آئی کے اعلی افسر،راکیش استھانہ سے آنکڑا جوڑنے میں کامیاب رہا۔ راکیش نے ستیش کو بتایا کہ اگر وہ پانچ کروڑ روپے ادا کردے تو اسے شامل تفتیش نہیں کیا جائے گا۔ چناں چہ ستیش قسطوں میں راکیش کو رشوت کی رقم دینے لگا۔ وہ ستمبر 2018ء تک راکیش کو دو کروڑ روپے ادا کرچکا تھا۔ راکیش کی وجہ سے ہی سی بی آئی اور آئی بی، دونوں نے ستیش سنا کے خلاف ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھا۔

 متحدہ عرب امارات میں نیٹ ورک

مجرم چاہے کتنا ہی چالاک و عیار ہو، وہ ایسی کوئی غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں قانون کے شکنجے میں کسا جاتا ہے۔ راکیش استھانہ سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے الوک ورما پر یہ سنگین الزام لگا دیا کہ انہوں نے ستیش سنا سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ اس الزام سے الوک ورما کی ساری عزت داؤ پر لگ گئی۔ انہوں نے فرض شناسی اور دیانت داری سے کام کرکے جو شہرت کمائی تھی، وہ شدید خطرے میں پڑگئی۔ ظاہر ہے، اس الزام نے الوک ورما کو نہایت طیش دلا دیا۔

الوک ورما کے کارندے ستیش سنا پر نظر رکھے ہوئے تھے۔انھوں نے موقع پاتے ہی اسے پکڑا اور ایک خفیہ مقام پر لے گئے۔ستیش سنا پہ پھر زور دیا گیا کہ وہ سچ بول دے ورنہ زیادہ مسائل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔رہائی کی یقین دہانی پا کر ستیش نے پھر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا۔ تب سی بی آئی کے دیگر اعلیٰ افسر بھی موجود تھے۔ تبھی ستیش نے بتایا کہ وہ راکیش استھانہ کو دو کروڑ بطور رشوت ادا کرچکا۔ ستیش نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 16 اکتوبر کو مزید تین کروڑ روپے منوج پرشاد کو ادا کرنے ہیں۔منوج پرشاد اور سومیش پرشاد را کے سابق اسپیشل سیکرٹری، دیوسر پرشاد کے بیٹے ہیں۔ کئی سال پہلے انہیں را کے انڈر کور ایجنٹ کی حیثیت سے دبئی بھجوایا گیا۔ دونوں بھائیوں کو کثیر سرمایہ دیا گیا تاکہ وہ دبئی میں اپنے کاروبار سیٹ کرسکیں۔ دبئی میں قدم جمانے کے بعد وہ متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ سوسائٹی میں متحرک ہوگئے۔ وہ عرب شیوخ کے اعزاز میں دعوتیں کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ عربوں کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا جاسکے۔ دونوں بھائیوں کی یہ بھی ذمے داری تھی کہ وہ پاکستانیوں کو اپنے دام میں پھانس کر را کا ایجنٹ بنالیں۔

یاد رہے، تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی مملکت، متحدہ عرب امارات کی آبادی تقریباً 94 لاکھ ہے۔ اس میں سے 26 لاکھ بھارتی شہری ہیں۔ 12 لاکھ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اماراتی باشندوں کی تعداد تقریباً 11 لاکھ ہے۔ یہ تینوں ہی آبادی کے سب سے بڑے گروہ ہیں۔را کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کی مدد سے اماراتی حکومت میں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ بڑھالے تاکہ یو اے ای میں بھارت سے مزید باشندے آسکیں جبکہ اماراتی حکومت پاکستانیوں کو کم ملازمتیں دے۔ را کے ایجنٹوں کو منہ توڑ جواب دینے اور ان ان کی مذموم کوششیں ناکام بنانے کی خاطر پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے جوان بھی متحرک ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک میں نئے سرے سے گرم جوشی آئی ہے اور تعلقات بھی بہتر ہوئے۔ پچھلی پاکستانی حکومت کے دوران بعض ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے تعلقات کچھ سرد سے ہوگئے تھے۔

دبئی میں منوج اور سومیش کا طریق واردات یہ تھا کہ وہ شاندار پارٹیاں منعقد کرکے اماراتی حکومت کے اعلیٰ افسروں کو بلاتے تھے۔ ان پارٹیوں میں ہر کسی کی دلچسپیوں کا تمام سامان موجود ہوتا۔ یوں افسروں پر نوازشات کی بارش کرکے دونوں خفیہ را ایجنٹ اپنے جال میں پھنسالیتے۔ بعدازاں ان کے ذریعے مختلف طریقوں سے بھارتی حکومت کے مفادات پورے کیے جاتے اور دوسرے ممالک کے برعکس بھارت کو زیادہ فائدہ ہوجاتا۔

مال پانی وصول کیسے کیا جائے؟

اگست 2018ء میں راکیش استھانہ کو علم ہوا کہ الوک ورما کے آدمی اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جان کر وہ محتاط ہوگیا۔ اس نے پھر رشوت لینا ترک کردی اور سوچنے لگا کہ کرپشن کی رقم وصولنے کا کوئی اور خفیہ و محفوظ طریقہ تلاش کیا جائے۔ اس ضمن میں راکیش نے سمیت کمار گوئل سے بھی مشورہ کیا۔سمیت کمار گوئل اس کا گہرا دوست تھا۔ دونوں ایک ساتھ پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور ان کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ اب وہ را میں جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر کام کررہا تھا۔ گویا وہ را میں تیسرا اعلیٰ ترین افسر تھا۔ موصوف بھی کرپٹ افسروں کی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی کے اس جوائنٹ سیکرٹری نے اپنے دوست کو تجویز دی کہ را ایجنٹ راکیش کی خاطر ’’ٹارگٹوں‘‘ سے ’’مال پانی‘‘ وصول کرکے اسے دے سکتے ہیں۔ یوں راکیش کے آدمی سارے جھنجھٹ سے دور رہتے۔ راکیش کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے ہامی بھرلی۔راکیش نے پھر سمیت کمار کو بتایا کہ اس نے ستیش سنا سے تین کروڑ روپے لینے ہیں۔ یہ رقم ادا کرنے کے بعد راکیش حیدر آبادی بزنس مین کی جان چھوڑ دینے کا وعدہ کرچکا تھا۔ سمیت کمار کو علم تھا کہ سولہ اکتوبر 2018ء کو منوج پرشاد نے دبئی سے دہلی آنا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وجہ یہ کہ سمیت کمار طویل عرصے دبئی میں بھارت کے سفارخانے میں بطور سفارتکار تعینات رہا تھا۔ حقیقت میں وہ دبئی میں را کے زیر زمین نیٹ ورک کا انچارج تھا۔

راکیش استھانہ کے ایجنٹ مگر یہ نہیں جان سکے کہ ستیش سنا الوک ورما کے ایجنٹوں کے ہاتھ لگ چکا۔ یہی نہیں، اس نے نہ صرف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا بلکہ تفتیش سے یہ بھی اگل ڈالا کہ سولہ اکتوبر کی رات دہلی پریس کلب میں اس نے منوج پرشاد سے ملاقات کرنی ہے۔ اسی ملاقات میں شتیش نے منوج کو تین کروڑ روپے ادا کرنے تھے۔چنانچہ طے شدہ وقت کے مطابق منوج اور ستیش دہلی پریس کلب پہنچ گئے۔ وہاں الوک ورما کے آدمی شکار کی تاک میں تھے۔ جیسے ہی نوٹوں سے بھرا بیگ ستیش نے منوج کے حوالے کیا، ان آدمیوں نے اسے پکڑ لیا۔ یوں منوج رنگے ہاتھوں رشوت لیتا پکڑا گیا۔ سی بی آئی میں الوک ورما کے کارندے اسے اپنے خفیہ مرکز میں لے گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ سی بی آئی کے ڈی آئی جی، ایم کے سنہا کی زبانی پڑھیے:’’جب منوج پرشاد ہمارے مرکز پہنچا تو وہ شدید غصے میں تھا۔ اس نے بڑے غرور اور متکبرانہ لہجے میں کہا ،مجھے یہاں کیوں لایا گیا؟ کیا تم لوگ جانتے نہیں کہ میں کون ہوں؟ میرے سمیت کمار گوئل سے قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں میرے بھائی (سومیش) اور سمیت کمار نے شری اجیت دوال (مشیر امور قومی سلامتی) کا ذاتی مسئلہ حل کرایا ہے۔ مجھے فوراً چھوڑ دو ورنہ تم سب لوگوں کی پیٹیاں اتروا دوں گا۔ تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے گرفتار کرلو۔‘‘

جبری رخصتی کا کھیل

منوج پرشاد نے پھر اپنے بھائی، سومیش کو دبئی فون کیا۔ وہ یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا کہ منوج کو سی بی آئی گرفتار کرچکی۔ اس نے پھر سمیت کمار گوئل، اپنے والد اور اپنے سسر، سنیل متل سے رابطہ کیا۔ سنیل متل نئی دہلی کا مشہور وکیل ہے۔ یہ لوگ پھر منوج کو رہا کرانے کی کوششیں کرنے لگے۔ تاہم اس دوران سی بی آئی کے تفتیش کنندہ یہ جاننے میں کامیاب رہے کہ منوج دبئی میں را کا خفیہ ایجنٹ ہے۔ یوں اس کی اصل شخصیت پر پڑا پردہ چاک ہوگیا۔ جلد ہی یہ خبر پھیل گئی کہ منوج اور سومیش کاروباری لوگ نہیں بلکہ دبئی میں را کا زیر زمین نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اسی خبر کے پھیلاؤ نے را چیف، انیل دھسمنا کو چراغ پا کردیا۔ متحدہ عرب امارات جیسے اہم اسلامی ملک میں اپنے ہی ملک کی ایک ایجنسی (سی بی آئی) را کا خفیہ نیٹ ورک دنیا والوں کے سامنے لے آئی تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ اماراتی حکومت نے را نیٹ ورک افشا ہونے پر کس قسم کا ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ اماراتی حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہوگا۔ مزید براں یہ انکشاف بھارت اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات بھی کشیدہ کرسکتا ہے۔

جب منوج پرشاد کورہا کرانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں، تو را چیف وزیراعظم پہنچ گیا۔ تب اس کے اصرار پر وزیراعظم نریندر مودی اور الوک ورما کی ملاقات ہوئی۔ سربراہ سی بی آئی نے اصول و قانون کی راہ ترک سے انکار کردیا۔ نتیجتاً متکبر و مغرور مودی نے انہیں گھر بھجوا دیا۔ یہی نہیں، ان کی نگرانی کرنے کی خاطر آئی بی کے ایجنٹ تعینات کردیئے۔ اگلے دن الوک ورما کے آدمیوں نے انہیں پکڑا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس طرح تینوں بڑی بھارتی خفیہ ایجنسیاں آپس ہی میں گھتم گھتا ہوگئیں۔ الوک ورما نے اپنی جبری رخصتی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔

وزیراعظم مودی نے پھر نظریہ ہندوتوا کے پرستار ایک پولیس افسر، منیم ناگیشواڑہ راؤ کو سی بی آئی کا عارضی سربراہ بنادیا۔ اس نے چارج سنبھالتے ہی الوک ورما کے سبھی ساتھی بشمول ڈی آئی جی ایم کے سنہا دور دراز مقامات پر بھجوا دیئے۔ اس غیر قانونی تقرری کے خلاف سبھی افسروں نے سپریم کورٹ میں مقدمے دائر کررکھے ہیں۔ مودی نے ابتداً راکیش استھانہ کو بھی رخصت پر بھیج دیا تھا لیکن چند ہفتے بعد اسے پھر سی بی آئی میں تعینات کردیا گیا۔ یہ یقینی ہے کہ اگر بی جے پی الیکشن 2019ء جیت گئی تو راکیش ہی کو سربراہ سی بی آئی بنایا جائے گا۔

آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش

راکیش استھانہ کرپٹ ہونے کے باوجود نظریہ ہندتوا کا عاشق ہونے کی وجہ سے مودی اور صدر بی جے پی، امیت شاہ کی آنکھوں کا تارا ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے ہی راکیش کی کرپشن کے خلاف جاری تحقیقات بھی ختم کردی گئیں۔ اس سلسلے میں مختلف حربے اختیار کیے گئے۔ ایک حربے میں تو پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا بھی سہارا لیا گیا۔اس معاملے کا قصّہ یہ ہے کہ اٹھارہ سال قبل گجرات کے دو بھائیوں نے سٹرلنگ بائیوٹیک نامی ادویہ ساز کمپنی قائم کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ پھلنے پھولنے لگی مگر بھائی ٹیکس چور بن بیٹھے۔ یہی نہیں، بینکوں سے قرضے لے کر رقم باہر بھجوانے لگے۔ جب وہ قانون کے شکنجے میں آئے، تو انہوں نے راکیش استھانہ کو کروڑوں روپے رشوت دی تاکہ سی بی آئی ان کے خلاف تحقیقات نہ کرسکے۔ 2014ء میں یہ بات منظر عام پر آگئی کہ راکیش استھانہ نے کرپٹ بھائیوں سے بھاری رشوت لی ہے۔

اب بھارت کی ایک اور خفیہ ایجنسی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ راکیش استھانہ کے خلاف تفتیش کرنے لگی۔ یہ خفیہ ایجنسی مالی معاملات کے سلسلے میں چھان بین کرتی ہے۔ ایجنسی کے ڈی ایس پی راجیشور سنگھ کو راکیش استھانہ کا کیس دیا گیا۔یہ بھی قانون پسند سرکاری افسر ہے۔ جب مودی حکومت برسراقتدار آئی، تو اسے کہا گیا کہ وہ راکیش استھانہ کا کرپشن سیکنڈل ختم کردے۔ یعنی یہ رپورٹ دے کہ راکیش نے رشوت نہیں لی۔ مگر راجیشور سنگھ نے انکار کردیا۔ اس پر مودی تاؤ میں آگئے کیونکہ یہ سیکنڈل راکیش کا کیریئر ختم کرسکتا تھا۔

راجیشور سنگھ کو پھر سبق سکھانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا۔ منصوبے کے مطابق دبئی میں تعینات را کے سینئر افسر، راہول سری واشا نے ایک ٹاپ سیکرٹ رپورٹ سیکرٹری خزانہ، ہنس مکھ ادتیہ اور سربراہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو بھجوائی ۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ راجیشور دبئی آکر ایسے پاکستانیوں سے ملاقاتیں کرتا ہے جن پر شبہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ اسی لیے راہول نے اسے ’’قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے سفارش کی کہ اسے ملازمت سے نکال دیا جائے۔اس ٹاپ سیکرٹ رپورٹ کی بنیاد پر راجیشور سنگھ کو ملازمت سے نکالا تو نہیں گیا تاہم راکیش استھانہ کاکیس اس سے لے کر من پسند افسر کو دے دیا گیا۔ اس نے چند ہی ہفتوں میںراکیش استھانہ کو کرپشن سیکنڈل سے بری الذمہ قرار دے ڈالا۔

حرف آخر

بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین جاری کھینچا تانی کا یہ سارا حیران کن واقعہ عیاں کرتا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے مذموم مفادات کی خاطر اپنی ہی ایجنسیوں کے دفاتر کو سیاسی رسہ کشی کا مرکز بنا دیا۔اب ان میں افسروں کی خصوصیات پیشہ ورانہ تجربہ،ذہانت اور محنت نہیں بلکہ ترقی کے لیے سب سے بڑی خوبی یہ بن چکی کہ افسر نظریہ ہندوتوا پر عمل کرتا ہے یا نہیں!یہ روش بھارتی خفیہ اداروں کو کمزور وتباہ کر سکتی ہے۔جبکہ پاکستان اور چین کی حریف خفیہ ایجنسیاں ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں گی۔قابل ذکر بات یہ کہ اب محض ہندو قوم پسندی کا نعرہ لگانے سے مودی سرکار اگلے الیکشن نہیں جیت سکتی۔اسی لیے تین ریاستوں کے حالیہ الیکشن میں وہ وہاں حکومتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔نریندر مودی شاید فراموش کر بیٹھے کہ نفرت اور انتقام کی سلگائی آگ خود انسان کو بھی بھسم کر دیتی ہے۔

The post چونکا دینے والے انکشاف سامنے آ گئے؛ دبئی میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک appeared first on ایکسپریس اردو.

بدلتے حالات سے ہم آہنگی میں چین اپنی مثال آپ ہے

$
0
0

قسط نمبر (10)

ہمارا ذریعہ معاش ہمیں چین لے آیا۔ یہاں آنے سے پہلے اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہاں تو کیمونسٹ نظامِ حکومت ہے اور ہم ٹھہرے سرمایہ دارانہ نظام کے امین ملک کے شہری۔ کیسے نبھے گی ہماری۔ اس گو مگو کی حالت میں ہم چین پہنچے لیکن جیسے جیسے ہم پر چین آشکار ہوتا گیا ویسے ویسے ہم ان کی اختراعات کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ کمیونسٹ نظام حکومت کے متعلق سنی اور پڑھی باتوں نے ہمارا جو ذہن بنایا تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ سب باتیں تحلیل ہوتی گئیں اور ہم اس بات کے قائل ہوگئے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے نظام کو ڈھالتی ہیں اور ان میں اصلاحات کرتی ہیں۔ اور چین اس کی بڑی روشن مثال ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بر عکس کمیونزم یا سوشلزم میں معیشت پر مکمل حکومتی اختیار ہوتا ہے۔ نجی ملکیت اور کاروبارکا کوئی تصور نہیں۔انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے محاسن وعیوب کے حوالے سے علمی و ادبی حلقوں میں بہت بحث ہوا کرتی تھی۔اس وقت روس اور امریکہ میں سرد جنگ عروج پر تھی اور دونوں ممالک اپنے اپنے حامیوںکی ہر طرح مدد کیا کرتے تھے۔ پاکستان میںتو کمیونسٹوں کو ُسرخے بھی کہا جاتا تھا۔دونوں ممالک کی مسابقت و مخاصمت کے اسی دور میں بہت سے پاکستانی نوجوان سرکاری خرچ پر روس گئے ، وہاں قیام بھی کیا اور پڑھائی بھی کی۔کچھ وہیں رہے اور کچھ لوٹ آئے۔روس اس دور میں کمیونسٹ بلاک کا بلا شرکت غیرے رہبرو رہنما تھااو ر دنیا بھر میں کمیونسٹ فلسفے یا اشتراکی تحاریک کی مدد و حمایت کیا کرتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب چین میں بھی کمیونسٹ پارٹی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔اس کو بھی روس کی اعانت حاصل رہی ہے۔ انیس سو انچاس میں جب عوامی جمہوریہ چین کا قیام ہوا تو کمیونسٹ پارٹی نے کاروبار مملکت و ریاست کو چلانے کے لیے اشتراکی فلسفے کو ہی بنیادی اہمیت دی۔چین کے قیام کے وقت کمیونسٹ پارٹی کی لیڈرشپ کا مقصد ایک جدید، طاقتور، موثر، سوشلسٹ قوم بنانا تھا۔اور اس مقصد کے حصول کو اگر معاشی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا تو پھر چین کو صنعت کاری، شہریوں کے معیار ِزندگی میں بہتری، آمدنی میں فرق کو کم کرنا اور جدید اسلحہ سازی کو فروغ دینا تھا۔چین کے قیام کے بعد چونکہ اشتراکی فلسفہ کلیدی قرارپایا تو اس لیے چین میں چین کی آزادی سے پہلے موجود تمام سرمایہ دارانہ کمپنیوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا تھا۔

انیس سوپچاس سے انیس سو اٹھتر تک چین کا معاشی نظام ایک بینک People’s Bank of Chinaتک ہی محدود رہا۔ یہ بینک مرکزی حکومت کے تحت اور وزارت خزانہ کی نگرانی میںکام کرتا تھا۔یہی بینک سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ماؤ زے تنگ جب تک حیات تھے تو اس وقت تک چین روایتی اشتراکی فلسفے کی سختی سے پیرو ی کرتا رہا۔نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ معاشی سرگرمیوں او ر زرعی پیداوار پر مکمل طور پر حکومت کا کنٹرول تھا۔

شہریوں کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اشیائے صرف اور دیگرضروری اشیاء ملا کرتی تھیں۔معیشت کے اس اشتراکی بندوبست کے تحت چین کو زرعی پیداوار میں کمی اور قحط کی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر اب صورتحال بالکل بدل چُکی ہے۔کہاں وہ دور کہ شہریوں پر خوراک و لباس کے معاملات میں راشن بندی یا کوٹے کی پابندی تھی کہاں یہ دورکہ جا بجا ہوٹلز، ریستوران ، غیر ملکی فوڈ آوٹ لیٹس، اور لباس کی نت نئی تراش خراش اور چینی مرد و زن جدید فیشن کے پہناوے پہنے گھومتے نظر آئے۔ یہ کایا کیسے پلٹی ؟۔ اس کی داستان ہمیں سی آر آئی اردو سروس کے سینئر ساتھی اور چین کی تاریخ سے واقف لیو شیاؤ ہوئی نے ایک روز سی آر آئی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کرسنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ ا نیس سو اٹھتر میں چین میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔

اس اصلاحاتی عمل کے قائد تنگ شیاؤ پھنگ(Deng Xiaoping) تھے۔انہوں نے چین کی اس وقت کی اشتراکی مارکیٹ میں مارکیٹ پرنسپل (Market Principle) متعارف کروا دیا۔انیس سو ستر کے اواخر اور اسی کی دہائی کی ابتداء میں اصلاحات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔اس مرحلے میں زرعی شعبے، غیر ملکی سرمایہ کاری اور کاروبار شروع کرنے کے لیے درکار اجازت کے حوالے سے اصلاحاتی عمل شروع کیا گیا۔مگر اس پہلے مرحلے میں زیادہ ترصنعت حکومت کے زیر تصرف رہی۔دوسرا مرحلہ انیس سو اسی کے اواخر اورانیس سو نوے کے اوائل میں شروع میں ہوا۔ اس دوران نجکاری کا فروغ، ریاستی ملکیتی اداروں کو کنڑیکٹ پر دینے اورپرائس کنڑول کو ختم کیا گیا ۔ نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے گئے اور نجی سیکٹر میں اضافہ ہوا۔ اس سے غربت کا خاتمہ اور آمدنی میں اضافہ ہوا۔

لیو شیاؤ ہوئی اس روز بڑے خوشگوار موڈ میں تھے اور چائے پیتے ہوئے انہوں نے اپنے ملک کی ترقی کے سفر کو بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ بتایا۔ چائے پیتے ہوئے وہ رکے، کیفے ٹیریا کے درو دیوار پر ایک نگاہ ڈالی ، کیفے ٹیر یا میں موجود نوجوان چینیوں کی وضع قطع، لباس، اندازِ گفتگو سے عیاں خوشحالی کی جانب میری توجہ دلائی اور پھر سے سلسلہ تکلم جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں اصلاحات کا عمل انیس سوا ٹھتر سے انیس سو چوراسی تک ہوا۔ اس میں سب سے پہلے ہاؤ س ہولڈ ریسپانسبلٹی سسٹم Household Responsibility Systemکا آغاز کیا گیا۔ Household Responsibility System کی شروعات کاسلسلہ بھی دلچسپ ہے۔ چین میں زمین کی نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی نظام زراعت میں بھی لاگو تھا۔ جہاں کسان اجتماعی طور پر کاشت کاری کیا کرتے تھے۔

نامناسب زرعی پالیسیوں اور حکومتی عدم توجہی کے باعث چین کو انیس سو پچاس کے اواخر اور انیس سو ساٹھ کے آغاز میں زرعی شعبے میں شدید مشکلات اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔اس صورتحال میں چین کے علاقے Chengdu کے ایک گاؤں کے مکینوں نے انیس سو ساٹھ کے شروع میں حکومتِ وقت کی پالیسی کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اجتماعی کاشتکاری  People’s Communesکے بجائے Household Farming شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔کمیون کی زمین کو ہر فیملی میں برابر برابر تقسیم کر دیا گیا اور ہرفیملی اپنے حصے میں آنے والی زمین کو کاشت کرنے کی ذمہ دار تھی اورجب فصل تیار ہو جاتی تو ہر فیملی اپنے حصے کا ریاستی کوٹہ دینے کی پابند تھی۔

اس سسٹم میں جو فائدہ تھا وہ یہ تھا کہ ریاستی کوٹہ دے دینے کے بعد جو فصل بچ جاتی وہ اس فیملی کی ہوتی جو اسے مارکیٹ میں فروخت کر کے زیادہ پیسے کما سکتی تھی۔ اس سسٹم کی اطلاع بیجنگ کی مرکزی حکومت تک انیس سو باسٹھ میں پہنچ گئی۔حکومت نے فوری طور پر اس کے خاتمے کی ہدایات دیں اور پرانا نظام جاری رکھنے کو کہا ۔گاؤں کے لوگوں نے حکومتی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔بعد میں یہی نظام انیس سو ستر کے اواخر میں دوبارہ اُبھرا۔ جب اسHousehold Farming سسٹم کی اطلاع تنگ شیاؤ پھنگ تک پہنچی تھی تو انہوں نے اس میں بڑی دلچسپی لی تھی۔تنگ شیاؤ پھنگ کے قریبی ساتھیوں نے انہوئی Anhui اور سیچوان ( (Sichuan  میںg  Household Farminکے آزمائشی تجربات کیے۔جب تنگ شیاؤ پھنگ نے اصلاحات کا عمل شروع کیا تو انہوں نے انیس سو اناسی میں پارٹی کے کچھ رہنماؤ ں کی مخالفت کے باوجود اسg   Household Farminکو پورے چین میں نافذکر دیا۔ انہوں نے صوبائی رہنماؤں کو اپنی اپنی حدود میں اس سسٹم کو شروع کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اگرچہ زمین اب بھی ریاست کی ملکیت ہی تھی مگر خاندانوں کو کاشت کاری کے لیے پندرہ سال کی لیز پر زمین دے دی گئی۔

انہیں ریاستی کوٹہ پورا کرنا تھا۔ اضافی فصل ان کی ہو جانی تھی۔ بعد ازاں لیز کی مدت میں اضافہ کردیا گیا اور انیس سو ترانوے میں اس کی مدت پندرہ سال سے بڑھا کر بیس سال کر دی گئی۔ دو ہزار تین میں اس کو بڑھا کر تیس سال کردیا گیا۔Household Responsibility Systemنے بہت تیزی سے فروغ پایا۔انیس سو چوراسی تک چوبیس ملین گھرانے اس سسٹم میں شامل ہو گئے۔ایک دہائی میں ہی کسانوں کی آمدنی محض 47 ڈالر سے بڑھ کر105 ڈالر تک پہنچ گئی۔اسی کی دہائی میں زرعی پیداوار میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ مخصوص زرعی پیداوار کی بھی شروعات ہوئی۔ نقد آور فصلوں  Cash Crops اور لائیو سٹاک بھی اسی دہائی میں شروع ہوئی۔اس سسٹم نے کسانوں کی مالی حالت کو بدل کر رکھ دیا۔یہ سسٹم روایتی سخت اشتراکی نظریے کی بجائے زیادہ آزادانہ تھا ۔

اس کواپنانے سے چین کی ترقی کے دور کا آغاز ہوا ۔ لیو شیاؤ ہوئی کی اس روز گفتگو سے چین کی ترقی کے شروعاتی سفر کا علم ہوا تو زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میںچین کی ترقی اور اصلاحاتی عمل کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اس شوق کی تکمیل ہوئی بھی تو ایک ہوٹل میں۔ ایک چھٹی والے روز ایک پاکستانی  ہوٹل کارخ کیا وہاں کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جووہاں پیٹ پوجا کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر طالب علم تھے جو بیجنگ اور چین کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ انہی میں سے ایک نوجوان عبدالعزیز تھے جوکہ بیجنگ کے قریب واقع شہر تیانجن سے آئے تھے۔

جہاں وہ بزنس اور معاشیات کے طالب علم تھے۔ عبدالعزیز کے آباؤ اجداد کا تعلق سوات سے تھا مگر وہ ایک طویل عرصے سے خاندان سمیت کراچی میں مقیم تھے۔  ان سے اس وقت اور بعدازاں بھی بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے بتایاکہ انہیں دوران تعلیم چین میں معیشت کے بندوبست میں بتدریج آنے والی تبدیلی کے متعلق بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے۔انہوں نے چین میں نجی کاروبار اور نجکاری کے عمل کے بارے میں بتایاکہ زرعی شعبے میں ہونے والی اصلاحات سے انیس سو پچھتّر اور پچاسی کے درمیان معیشت کے دوسرے شعبوں کی نجکاری کی راہ ہموار ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کی بڑھوتری کے لیے اربن انڈسٹر ی میں Double Pricing دہری قیمت سسٹم لا گو کیا گیا۔

ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اداروں کو اپنی پیداوار Planned Quotaسے بڑھ کر بیچنے کی اجازت دی گئی۔ اور تیار مصنوعات کو Planned اور مارکیٹ پرائس Market Price کے تحت فروخت کیا گیا تا کہ شہریوں کو اشیاء کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انیس سو اسی ہی میں Industrial Responsibility System شروع ہوا۔ اس نظام کے تحت ریاستی ملکیت میں کاروبار کرنے والے کاروباری اداروں میں بہتری آئی۔ افراد یا گروپس کو کاروبار کو کنڑیکٹ پر لینے کی اجازت دی گئی۔اور پہلی مرتبہ نجی کاروبارکی بھی اجازت دی گئی۔قیمتوں میں لچک بڑھ گئی اور اس سے Service Sector (خدمات کا شعبہ) میں اضافہ ہوا۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا آغاز ہوا۔ خصوصی اکنامک زونز قائم کیے گئے۔

یہی زون چین کی معیشت میں ترقی کا انجن ثابت ہوئے ۔ انیس سو چوراسی سے لیکر انیس سو ترانوے تک کے عرصے میں نجی کاروبار پر حکومتی اختیار اور مداخلت کم ہونا شروع ہوئی۔ محدو د پیمانے پر ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار کی نجکاری کا عمل شروع ہوا۔ ان اصلاحات سے قابل قدر ترقی ہوئی۔ ریاستی کنٹرول کو ڈی سنٹرلائز کر دیا گیا۔ معیشت کے فروغ اور ریاستی اداروں کی نجکاری کو صوبائی رہنماؤ ں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ٹاؤن شپ اور ویلج انٹر پرائزز  Township and Village Enterprises (جس میں مقامی گھریلو سطح کی صنعت کو ترقی دی گئی ) نے آہستہ آہستہ مارکیٹ شیئر لینا شروع کر دیا۔انیس سو ترانوے سے دو ہزار پانچ تک کے عرصے میں بڑے پیمانے پر نجکاری کاعمل شروع ہوا۔ اس عرصے میں ریاستی ملکیت میں چلنے والے اداروں کی تعداد میں 48% کمی ہوئی۔اسی دور میں محصولات، تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا گیا اور غیر ضروری ضوابط کو بھی ختم کر دیا گیا۔ بینکنگ سسٹم میں بھی اصلاحات لائی گئیں۔ اسی دور میں چین نے WTO میں شمولیت اختیار کر لی۔ان اصلاحات کے نتیجے میں چین کی ترقی میں بے حد اضافہ ہوا۔

چین کی ترقی کی داستان کا ایک حصہ ہمیں چین کی چھنگ چھنگ یونیورسٹی Chongqing University     کے سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی سکالر اویس علی نے بھی سنایا ۔ ان سے ہماری ملاقات ریڈیو کے ایک پروگرام کے سلسلے میں ہوئی ۔ بے حد شائستہ اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے اویس علی معیشت کے اسرار و رموز سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں ۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر وابستہ اویس علی سے گفتگو ہوئی تو وہ ادب و تاریخ کے دلدادہ نکلے۔ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھے شخص کی ادب شناسی پر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اویس علی نے بتایا کہ چین کی معیشت کی ساخت کو بدلنے میں بنیادی کردار اصلاحاتی عمل کے دوران 80 کی دہائی میںخصوصی اقتصادی زونز کا قیام تھا۔ چین کے رہنما تنگ شیاؤ پھنگ نے ان زونز کے قیام کی منظوری دی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے موجودہ صدر شی جن پھنگ کے والد Xi Zhongxun نے بھی ان اقتصادی زونز کے قیام کی حمایت کی تھی۔ابتداء میں چار اکنامک زونز بنائے گئے۔ یہ زونز  Shantou, Xiamen, Zhuhai, and Shenzhen. میں بنائے گئے۔یہ چاروں زونز صوبہ فوجیان Fujian اور گوان تنگ Guangdong  میں واقع تھے اور ان کے مقامات کا تعین بہت سوچ سمجھ کر اور ایک حکمت عملی کے تحت کیا گیا تھا۔ یہ مکاؤ اور ہانگ کانگ جیسے خوشحا ل علاقوں اور چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔

(Shantouاور Xiamen,چین کے علاقے تائیوان کے قریب تھے۔جبکہ Zhuhai  مکاؤ اورShenzhen ہانگ کانگ کے قریب تھے)ان مقامات کا انتخاب اس اُمید کے ساتھ ہوا تھا کہ قریب ہی واقع علاقوں میں ہونے والی سرمایہ کاری ان خصوصی اقتصادی زونز کا بھی رخ کرے گی۔ چینی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے بہت سی مراعات دیں۔ان کو ٹیکسز میں کمی اور چھوٹ دی گئی۔ ابتداء میں یہ عام سے ماہی گیری کے لیے مشہور قصبے تھے۔حکومت نے یہاں انفراسٹرکچر کو بہتر کیا۔ سڑکوں کی تعمیر کی، سیوریج سسٹم اور ٹرانسپورٹ کے نظا م کو بہتر کیا۔رہائشی عمارات، حکومتی دفاتر اور تجارتی عمارات کو بنایا گیا۔ان سب تعمیراتی ڈھانچے پر ایک کثیر رقم صرف ہوئی۔راقم کو Shenzhen دیکھنے اور اس شہر میں چند روز گزارنے کا دو مرتبہ اتفاق ہوا ہے۔

پہلی مرتبہ دو ہزار سات میں جب ہم انٹرنیشنل یو تھ فیسیٹول میں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئے۔ ہم ساحل سمندر پر واقع ایک ہوٹل میں کم و بیش دس دن تک مقیم رہے۔ وہاں ہمارے ساتھ Shenzhen  یونیورسٹی کے شعبہ انگلش میں پڑھنے والی ایک طالبہ Zoey بطور مترجم منسلک ہوئیں۔ جبکہ دوسرے مترجم Ellen بیجنگ سے آئے تھے۔دونوں نوجوان طالب علم تھے۔ان دونوں نے جتنی محنت ، لگن ، ذمہ داری ، توجہ سے اپنا کام کیا اس سے ہمیں اس وقت ہی چین کی ترقی کی وجہ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ دو ہزار سترہ میں راقم کو ایک مرتبہ پھر اس شہر جانے کا موقع ملا تو کافی کوششوں کے بعد Zoey سے بھی رابطہ ہو گیا۔دو ہزار سات کی طالبہ دس سال بعد ایک ورکنگ وویمن اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور بینکنگ سیکٹر سے وابستہ تھیں۔ان سے ملاقات دلچسپ رہی اور یقین نہ آیا کہ دس سال بعد دو مختلف ممالک کے شہریوں کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔

Shenzhen  ایک جدید صنعتی شہر ہے جہاں بیجنگ کے برعکس آپ کو سائن بورڈز چینی کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ہانگ کانگ کی قربت کا اثر ہے۔یہاں سے ہانگ کانگ کے لیے بسیں اور سمندر کے راستے فیر ی بھی چلتی ہے۔بعض بچے تو          Shenzhen  سے ہانگ کانگ پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس شہر میں بہت سبزہ ہے۔یہاں موسم بیجنگ کے مقابلے میں قدرے گرم ہوتا ہے۔اس کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ محض چا ر دہائیاں قبل یہ ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔اب یہ بلندو بالا اورکثیر المنزلہ عمارات پر مشتمل ایک جدید شہر ہے۔ ان زونز کے علاوہ انیس سو چوراسی میں مزید چودہ شہروں اور قصبوں کوسپیشل اکنامک زون بنایا گیا۔ان زونز کے علاوہ چین کے دریاؤ ں یانگزی ، مِن اور پرل کے ساتھ ساتھ کے علاقے کو اسپیشل ڈیولپمنٹ زونز بنایا گیا۔ نوے کی دہائی کے آغا ز میں شنگھائی میں تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے Pudong New Area کا افتتاح کیا گیا۔

ماہرین کے مطابق چین میں تنگ شیاؤ پھنگ کی زیر قیادت اصلاحات سے چین کی ترقی میں اضافہ ہوا۔1987-2013 کے درمیان چین کی معیشت میں سالانہ اضافہ 9.5% سے 11.5% ہوا۔چین کا جی ڈی پی دس گنا بڑھ گیا۔زرعی شعبے میں اصلاحات سے پیداوار میں سالانہ اضافہ 8.2% ہوا ۔ اصلاحات سے قبل یہ شرح 2.7% تھی۔خوراک کی قیمتوں میں   50% کمی ہوئی۔سبزیوں، گوشت کی پیداوار اور زرعی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ چین جو کسی دور میں قحط کا شکار تھا اس نے خوراک کو برآمد کرنا شروع کردیا۔

چین میں اصلاحات سے صنعتی شعبے کو ہونے والے فوائد سے ہمیں آگاہی ریڈیو کے ایک پروگرام کی تیاری کے دوران ہوئی۔ یہ پروگرام چین میں اصلاحات و کھلے پن کے چالیس سال مکمل ہونے کے حوالے سے تھا۔ اس پروگرام کی تیاری کے لیے دستیاب مواد کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اصلاحات کے ثمرات صنعتی شعبے نے بھی سمیٹے۔ اصلاحات سے پہلے چین کی انڈسڑی میں جمو د کی سی صورتحال تھی۔ اصلاحات سے قبل معیار اور پیداوار میں اضافے کے لیے Incentive بہت کم تھے۔ رفتہ رفتہ نجی کاروبار سے بہتری آتی چلی گئی۔انیس سواٹھتر میں چین کی صنعت نہ ہونے کے برابر تھی مگراب چین سٹیل، پائپس ، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل ، کنکریٹ، کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت، سمارٹ ایکوپمینٹ، الیکٹریکل مصنوعات اور کنزیو آئٹمز وغیرہ میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔انیس سو اسی میں انڈسڑیل فرمز کی تعداد 3,77,300 تھی جبکہ نوے کی دہائی میں یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ گئی تھی۔ چین میں دو ہزار چار کے   Economic Census کے مطابق 1.33 ملین مینو فیکچرنگ فرمز تھیں۔

اس Census میں پانچ ملین سالانہ سے کم سیل والی فرمز شامل نہیں تھیں۔ ٹریڈ اینڈ فارن انویسٹمینٹ میں بھی بہت سی سہولیات دی گئیں۔ ٹیرف کو 56% سے کم کر کے 15% کر دیا گیا۔دو ہزار ایک تک صرف 9% درآمدات کے لیے لائسنس اور درآمدی کوٹا درکار تھا۔ بینکنگ، انشورنس، ٹیلی کمیونیکیشنز سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔انیس سو نوے میں فنانشل سیکٹر کو بھی اوپن کر دیا گیا اور اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے دی گئی۔فنانشل سیکٹر کو اوپن کرنے سے چین میں انیس سو نوے میں شنگھائی سٹاک ایکسچینج بنی، انیس سو اکانوے میں Shenzhen سٹاک ایکسچینج قائم ہوئی اور انیس سو بانوے میں چائنہ سیکورٹی ریگولیڑی کمیشن بنا جوکہ ہمارے ہاں کے سٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی طرح کا ادارہ ہے۔انیس سو ترانوے میں چین نے کمپنی لاء Compny Law  بنایا اور جولائی انیس سو چورانوے میں چین نے اس پر عملدرآمد شروع کیا۔چین میں جب اصلاحات کا عمل شروع ہوا تو یہ ہمہ گیر تھا۔جس شعبے میں اصلاحات کی گئیں تو اس سے منسلک یا متعلقہ اداروں میں بھی ضروری ترامیم کی گئیں۔ انیس سو نوے میں جب فنانشل سیکٹر کو اوپن کیا گیا اور بینکنگ سیکٹر میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تو چین کے بینکنگ سیکٹر میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات ہوئیں۔

چین میں بینکنگ سیکٹر کی ترقی و پیش رفت ہمیں Zoey کی زبانی پتہ چلیں انہوں نے بینکنگ سیکٹر کے ارتقائی عمل کی بابت بتایا کہ انیس سو پچاس سے لیکر انیس سو اٹھتر تک چین میں ایک ہی بینک    Peoples Bank of China تھا۔یہ سنٹرل بینک اور کمرشل بینک کے طور پر کام کرتا تھا۔ انیس سو ستر کے اواخر میں اس بینک کے کمرشل بینکنگ بزنس کو تین بڑے سرکاری بینکس میں تقسیم کر دیا گیا۔ Bank of China کو فارن ٹریڈ اور سرمایہ کاری کے امور سونپ دیے گئے۔ Peoples Construction Bank of China کی ذمہ داریاں فکسڈ انویسٹمینٹ کے حوالے سے ٹرانزکشن ہو گئیں۔Agricultural Bank of China کو دیہی علاقوں میں کاروبار ی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسی طرح کچھ بینکنگ امور Industrial and Commercial Bank of China اور  The Bank of Communications  میں بانٹ دیے گئے۔اب تو ان بینکس کے علاوہ کئی ریجنل بینک بھی چین میں سرگرم عمل ہیں۔اس کے علاوہ انیس سو چورانوے میں چینی حکومت نے مزید بینکس بنائے ۔ ان میں Agricultural Development Bank of China, China Development Bank, Export-Import Bank of China شامل ہیں۔ یہ پالیسی ساز بینک ہیں۔ ان میں کسی حد تک عوام کی ملکیت ہے۔ مگر ہیں یہ سرکاری بینک ۔

ہمیں چین کے بانی ماؤ زے تنگ کے ایک قریبی ساتھی اور چین کے ایک اہم رہنما چھن یون کی سوانح حیات کو چینی سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کام میں اردو سروس کی آپریشنل سربراہ ای فینگ( طاہرہ) اور لیو شیاؤ ہوئی نے ہماری مدد کی۔ اس آب بیتی کے ترجمے سے معلو م ہوا کہ چین کا پہلا پنج سالہ منصوبہ چھن یون کی رہنمائی و سرپرستی میں بنایا گیا تھا اور اس کے لیے انہوں نے روس کا دورہ بھی کیا تھا۔ چین کا پہلا پنچ سالہ منصوبہ 1953-1957 تک تھا۔ یہ اولین منصوبہ تھا ۔ اس کے خدو خال سوویت یونین کے معاشی ماڈل کے مطابق تھے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت 694 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی پروجیکٹس لگائے جانے تھے جن میں سے 156  سوویت یونین کی مدد سے تکمیل پانے تھے۔اس پنج سالہ منصوبہ بندی کے تمام اہداف کامیابی سے مکمل کیے گئے۔595 بڑے اور درمیانے درجے کے صنعتی یونٹس کا قیام اور ان سے پیداواری عمل بھی شروع ہو گیا۔ دوسرے پنج سالہ منصوبہ بندی میں ہیوی انڈسٹری کو فروغ دیا گیا۔

انڈسٹری، زراعت، دست کاری، ٹرانسپورٹیشن، سائنسی ترقی، قومی دفاع کی مضبو طی اور شہریوں کے معیار زندگی کی بلندی اہداف میں شامل تھی۔ ہر پنج سالہ منصوبہ بندی میں نئے اہداف کا تعین کیا جاتا رہا اس وقت تیرھویں پنج سالہ منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ اس کے تحت متعین کردہ اہداف میںروایتی ہیوی انڈسٹری کی بجائے جدید انفراسٹرکچر ، اختراعات پر مبنی ترقی، شہروں اور دیہی علاقوں میں وسائل کے مناسب استعمال سے فرق کو کم کرنا، ماحولیاتی انڈسٹری کو فروغ دینا، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ، زیادہ بین الاقوامی باہمی تعاون، چینی شہریوں کی معاشی ثمرات کی شیئرنگ کی حوصلہ افزائی، صحت کے حوالے سے تشکیل شدہ ہیلتھ ایکشن پلان پر عملدرآمد اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانے درجے کی خوشحال سوسائٹی کا قیام شامل ہے۔ اس کے علاوہ (   “Made in China 2025’چین ساختہ 2025 کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اس کا نعرہ ہے “Everyone is an entrepreneur, creativity of the masses” ۔ اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔ اب ایک بچے کی بجائے دو کی اجازت دے دی گئی ہے۔

چین کی معاشی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ بیجنگ میں نت نئے ماڈلز کی کاریںسڑکو ں پر رواں دواں نظر آتی ہیں۔ ٹریفک کو کنڑول کرنے کے لیے طاق اورجفت نمبرز کا نظام لاگو ہے۔ا س کے تحت ہفتے میں بعض دنوں میں طاق رجسٹریشن نمبر کی حامل گاڑیوں اور بعض مر تبہ جفت نمبرز کی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ لوگوں نے دو دو یا اس سے بھی زیادہ گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ بیجنگ میں دس سال سے زائد پرانی گاڑی کو چلانے کی اجازت نہیں ہے۔

ہمارے ہاں صرف بڑے بڑے صنعت کاروں، جاگیرداروں یا اراکین پارلیمینٹ کے پاس پائی جانے والی گاڑیاں وہاں عام گلی محلوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ وہاں آئی فون کے جدید ترین ماڈل عام شہریوں کے پا س موجود ہیں۔ آئی فون کی اس قدر بہتات ہے کہ سی آر آئی میں صفائی پر مامور عملے کے پاس بھی آئی فونز ہیں۔ ایک اور مشاہدہ ہوا کہ چین میں عمومی طورپر تنخواہیں کم ہیں۔ وہاں ایوریج تنخواہ تین یا چار ہزار یوان کے قریب ہے ۔مگر اس قلیل تنخواہ کے باوجود عام چینی شہری سیاحت کے لیے چین سے باہر کا رخ کرتا ہے۔وہاں کے شہری چھٹیاں منانے جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا وغیرہ جاتے ہیں۔یہ ملک تو ان کے لیے ایسے ہیں جیسے کوئی پاکستان میں لاہورمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے۔ اس کے علاوہ چینی شہری امریکہ، یورپی ممالک، آسڑیلیا بھی چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ اور یہ چھٹیاں شاید ہفتہ یا دس دن ہوتی ہیں۔ بہت سے چینی طلباء امریکہ اور یورپ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔

معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ کچھ قباحتیں بھی چینی معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔جن میں معاشی بد عنوانی اور اختیارات کاناجائز استعمال اہم ہیں۔ جس کی روک تھام کے لئے چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انھوں نے کرپشن میں ملوث تمام اعلیٰ اہلکاروں،سول سرونٹس، اعلی فوجی عہدیداروں ، پارٹی رہنماؤ ں کے خلاف بلا تخصیص کاروائی کی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے  Tigers and Flies کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ Tigers سے مراد اعلیٰ سطح کے انتظامی عہدیدار اور Flies سے مراد نچلے درجے کے اہلکار ہیں۔ کرپشن کے خلاف کاروائی کے لیے پہلے ہی کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ایک باڈی

Central Commission for Discipline Inspection (CCDI) کے نام سے موجود تھی۔ جوکہ کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں کاروائی کیاکرتی تھی۔مگر صدر شی جن پھنگ نے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک نیا ادارہThe National Supervision Commission (NSC) قائم کردیا۔ یہ State Supervisory Commission کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس ادارے کو کرپشن کے خاتمے کے لیے کئی طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ صدر شی کے احکامات پر ملک بھر میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ ان میں Zhou  Yongkang جو کہ سیکرٹری آف سینٹرل پولیٹیکل اینڈ لیگل کمیشن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آئل سیکٹر کے انچارج اور Sichuan صوبے کے پارٹی چیف رہے ہیں۔ Sun Zhengcai ، سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی چھنگ چھنگ، Yu Caihou وائس چیئر مین سنٹرل ملٹری کمیشن ، Guo Boxiong  اور Ling Jihua ڈائریکٹر آف دی جنرل آفس دی سی پی سی جیسے سینیئر اہلکار شامل ہیں۔ ان اعلی سطحی آفیشلز کے علاوہ بھی چین بھر میں کئی اہلکاروں کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔

کرپشن کے خلاف کاروائی کر کے چین کے صدر چین کی معاشی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین نے دنیا میں سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کے تصور کو متعارف کروایا ہے۔

چین کے صدر شی جن پھنگ کے دو خواب ہیں ۔ ان کو  “Two 100″ کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ دو ہزار اکیس میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔صدر شی کا خواب ہے کہ دو ہزار اکیس تک چین ایک درمیانے درجے کا خوشحال ملک بن جائے ۔دو ہزار انچاس میں چین کے قیام کو سو سال پورے ہو جائیں گے۔اس موقع پر وہ چین کو ایک جدید اور مکمل خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔                              (جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ

The post بدلتے حالات سے ہم آہنگی میں چین اپنی مثال آپ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

کرسی کے فائدے
ابن انشا


’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کرسی ہے۔‘‘
’’اس کے کیا فائدے ہیں؟‘‘
’’اس کے بڑے فائدے ہیں۔‘‘
’’اس پر بیٹھ کر قوم کی بے لوث خدمت اچھی طرح کی جاسکتی ہے۔‘‘
اس کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے تو جب لوگوں میں قومی خدمت کا جذبہ زور مارتا ہے تووہ کرسی کے لیے لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کرسیاں اٹھاکر پھینکتے ہیں۔

۔۔۔

’’تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا‘‘
مرسلہ: واحد مسرت، مکا چوک ، کراچی
تم نے کہا تھا کہ تمہیں ہائیڈ این سیک (Hide and Seek) کھیلنا بہت پسند ہے، اور وہ بھی میرے ساتھ۔ کتنا اچھا لگتا تھا ناں تمہیں۔ میرا تلاش کرنا، پریشان ہونا۔ تمہیں آواز دینا۔

وہ دسمبر کا مہینہ تھا، درد کا، سردی کا موسم تھا، یا خزاں کا، بس اتنا یاد ہے کہ بچھڑنے کا موسم تھا، پتوں کا درختوں سے اور میرا تم سے۔۔۔ پتا نہیں درد کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ موسم اور مہینے سب مکس ہوگئے ہیں، خزاں بھی کتنی خراب ہوتی ہے، سڑکوں پر زرد اور درد، دونوں بکھیر دیتی ہے۔

سال کے آخری مہینے میں تمہاری یاد بھی اخیر کردیتی ہے، وہ عجیب دہشت زدہ دوپہر تھی، سڑک پر پتے بکھرے تھے اور ان پر ہم کھڑے تھے، تم نے کہا تھا، تمہیں چپس کھانا ہیں، اور وہ بھی کیچپ کے ذائقے کی، اچھی خاصی مل تو رہی تھی، جہاں ہم کھڑے تھے، کیا ہوا جو اس کے پاس کیچپ نہ تھا، مجھے سامنے بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔

کبھی سوچوں تو لگتا ہے، جیسے تمہیں سب پتا تھا، جان بوجھ کر بھیجا ہوگا مجھے، کچھ منٹوں کا ہی تو فاصلہ رہا ہوگا، جب میں تمہیں سنہری سوٹ میں کھڑا کرکے گیا تھا، کتنے خوش تھے نا ہم دونوں، آفت سے پہلے، سکون اپنے عروج پر ہوتا ہے۔

واپسی پر عجیب سی ہالی ووڈ موویز جیسا منظر، میرا منتظر تھا، چیتھڑے لوتھڑے، درد زدہ دیواریں، گری ہوئی گاڑیاں، مڑی ہوئی موٹر سائیکلیں، اور سب سے بڑھ کر بکھرئی ہوئی تم اور پھٹا ہوا میں۔ باقی سب بھول گیا بس اتنا یاد ہے کہ ایک ’شہادت کی انگلی‘ تھی جو جسم سے جدا ہونے کے بعد بیچ سڑک پر پڑی تھی، تابڑ توڑ تڑپ رہی تھی۔

نفرت کی جنگ میں نقصان ہمیشہ محبت کرنے والوں کا ہی کیوں ہوتا ہے؟

یونیورسٹی کی بس میں، تم بلاوجہ لڑکوں سے لڑ پڑی تھیں کہ تمہیں ساتھ بیٹھنا ہے، سب کہتے تھے، تم بہت بولڈ ہو، کتنی بولڈ ہو؟ بھلا یہ مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا کہ میرے مذاق ہمیں امر کردیا جائے، ایک ساتھ دفن کردیا جائے پر مجھ سے ہی الجھ پڑی تھی۔

شرم کرو، ہم مسلمان ہیں، اور مسلمان اپنے مُردوں کو عزت سے علاحدہ علاحدہ دفن کرتے ہیں، تو پھر اب انہوں نے تمہاری اجتماعی قبر کیوں بنادی ہے؟ نامحرموں کے ساتھ۔ میرے ساتھ دفن ہونا، باعث شرمندگی تھا، اور اب جو تم بے شمار لوگوں کے ساتھ آرام کرکے مجھے بے آرام کر رہی ہو۔ اب میں کس سے الجھوں؟

سال نو کی آمد ہے، ساری دنیا میں خوشیوں خواہشوں خوابوں کے پھوڑ پھوڑے جا رہے ہیں اور ایک میں ہوں کہ دسمبر کی اس یخ بستہ دھند زدہ آدھی رات کو میاں میر دربار سے ملحق مسجد کی یخ بستہ ٹھنڈی تازہ دھلی سنگ مرمر کی سیڑھیوں پر بیٹھا سامنے پڑے سوئے ہوئے قبرستان کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں یہاں تو خوشیوں کی عمر اتنی سی ہے، پلٹو تو حادثہ آپ کا حلق پکڑ لیتا ہے

اچھا سنو، Enough is Enough ، بس بہت ہوگئی، ہائیڈنگ کہ اب میں سِیک کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔

نئے سال کے نئے سورج کے ساتھ واپس آجائو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا!

(’ابنارمل کی ڈائری‘ از صابر چوہدری سے لیا گیا)

۔۔۔

امی کی سال گرہ!
مبشر علی زیدی

امی کو اپنی سال گرہ کا دن معلوم نہیں تھا۔ شادی کے بعد بابا نے اُن کا شناختی کارڈ بنوایا، تو یکم جنوری تاریخ مقرر کر دی۔

ہر بچہ اپنی ماں کی کائنات کا مرکز ہوتا ہے۔ ہر ماں اپنے بچے کی کائنات کا مرکز ہوتی ہے۔

میں بچپن میں یہی سمجھتا تھا کہ نیا سال اس لیے یکم جنوری کو شروع ہوتا ہے کہ وہ امی کی سال گرہ کا دن ہے۔ اگر امی کی سال گرہ کی تاریخ کوئی اور ہوتی تو سال اسی دن شروع ہوتا۔

دراصل ہر شخص کا سال اس دن شروع ہوتا ہے جس دن اس کی ماں اسے جنم دیتی ہے۔ ہمارا سال اس دن شروع ہوتا تھا، جس دن امی نے جنم لیا تھا۔

ہم اپنے چھوٹے سے گھر میں امی کی سادہ سی سال گرہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک کیک لے آتے۔ کبھی کچھ پھول۔ میں کمانے لگا تو کبھی کوئی چھوٹا سا تحفہ۔

رات کے 12 بجتے، امی کی آنکھیں چمکتیں اور آسمان پر انار پھوٹنے لگتے۔ امی مسکراتیں اور پوری دنیا رنگوں میں نہا جاتی۔

امی کیک کاٹتیں تو پورا وجود مٹھاس سے بھر جاتا۔ امی مجھے گلے سے لگاتیں تو پوری کائنات رقص کرنے لگتی۔

ایسے مناتا تھا میں نیا سال اور ایسے مناتا تھا امی کی سال گرہ۔۔۔!

امی کو جدا ہوئے سات سال ہوگئے۔

نیا سال تو اب بھی یکم جنوری کو آتا ہے، لیکن نہ رنگ مسکراتے ہیں، نہ روشنی رقص کرتی ہے۔

پھولوں کی دکان سے کچھ گلاب ضرور خرید لیتا ہوں۔۔۔
امی کی قبر پر بچھا دیتا ہوں۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
’’قدر دان‘‘
رضوان طاہر مبین

’’دراصل تمہیں ابھی تک کوئی قدر کرنے والا ہی نہیں ملا۔۔۔!‘‘
ثمر جب بے وفائی کا شکوہ کرتا تو میں اُسے کہتا۔
’’جب تمہارے خلوص کا قدر دان ملے گا تو دیکھنا کتنی محبت ملے گی۔۔۔‘‘
پھر وہ ایک ’واردات قلبی‘ سے گزرے اور خوب شاد ہوئے، مگر کچھ دن بعد پھر وہی تنہائی مقدر ہو گئی، میں نے پھر وہی بات دُہرائی تو بولے:
’’نہیں، وہ تو بہت قدر دان تھی۔۔۔!‘‘
’’پھر کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ میں حیران ہوا۔
’’وہ بولی تم بہت مخلص ہو، میں اتنے خلوص کی مستحق نہیں!‘‘
ثمر نے اَشک بار آنکھوں کے ساتھ بتایا۔

۔۔۔

جب غلط ہی ہونا ہوتا ہے۔۔۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

اگر بحرانی کیفیت میں آدمی کے پاس دو راستے ہوں تو اکثر لوگ غلط کا انتخاب کریں گے۔ اگر کسی کا آغاز اچھا ہو تو اس امکان کو رد نہ کیجیے کہ اس کا انجام برا ہوسکتا ہے۔ جس کام کا آغاز بد ہو اس کا انجام بدترین ہوگا۔ آپ کی دی ہوئی وہ کتاب کبھی واپس نہیں آتی جسے آپ بطور خاص اپنے ریکارڈ رکھنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ کے گھر میں کوئی پرانی یا بے کار چیز بہت عرصے سے پڑی ہوئی ہے تو آپ اسے پھینک دیتے ہیں، کسی کو دے دیتے ہیں یا اونے پونے داموں بیچ دیتے ہیں پھر جیسے ہی وہ چیز گھر سے نکلتی ہے اس کے اگلے دن آپ کو اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ آپ بازار سے کوئی چیز ( کپڑا، گھڑی ، کیمرا وغیرہ) بہت بھائو تول کر کے خریدتے ہیں۔ آپ دکان چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں تو قریب کی کسی دکان میں اسی برانڈ کی وہی چیز کم قیمت پر دست یاب ہوگی۔ آپ کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں کہ میں نے دو دکانیں اور کیوں نہ دیکھ لیں، لیکن اگر آپ دو دکانیں اور دیکھ لیتے تو وہ چیز ان کے بعد کسی دکان پر سستی ملتی۔

چند سال قبل ہمیں براستہ دبئی لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاز کراچی میں تاخیر کا شکار ہوگیا جب وہ دیر سے دبئی پہنچا تو لندن کی رابطہ پرواز وقت پر نکل چکی تھی کیوں کہ ’مرفی‘ کا قانون ہے ’’آپ جس جہاز میں سفر کررہے ہیں اگر وہ لیٹ ہے تو وہ جہاز جس سے آپ کو آگے سفر جاری رکھنا ہے وقت پر روانہ ہوجائے گا۔‘‘ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم محفل میں کسی سے بحث کرتے ہیں تو تمام قائل کردینے والے اور بر محل نکات ہمارے ذہن میں اس وقت آتے ہیں جب بحث ختم ہوجاتی ہے اور ہم لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

۔۔۔

گڑیا
کاشف شمیم صدیقی

اَن گنت رت جگوں میں مانگی دعاؤں۔۔۔ منتوں اور مرادوں کے بعد رب تعالیٰ نے بانو اور برکت کی خالی جھولی بھری تھی، اور گڑیا رحمت بن کر ان کے گھر میں جگ مگا اٹھی تھی۔ وہی تو تھی، برکت او ر بانو کی جینے کی وجہ۔ سو دونوں اپنی ننھی سی گڑیا کی ہر آرزو کو پورا کرنے کے لیے خوب محنت مزدوری کی اور خود کو بھی بھُلا بیٹھے!

ایک دن اعصابوں کو ’شل‘ کر دینے والی زندگی سے کچھ وقت ملا ، تو وہ ساحلِ سمندر پر آگئے۔

’’اولاد کا ساتھ ماں ، باپ کے لیے کتنا اطمینان بخش ہوتا ہے ناں‘‘

گیلی ریت پر چلتے ، بانو نے کہا۔

’’ہاں۔۔۔‘‘برکت نے اثبات میں سر ہلایا ’’اور بچوں کے اچھے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کی تکلیفوں کو جھیلنے کی ہمت آہی جاتی ہے۔‘‘

’’خدا سب کو اولاد کی نعمت سے نوازے اور ان کی خوشیاں دکھائے‘‘ بانو بے خودی میں بولی۔

’’آمین!‘‘ برکت نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔

اگلی صبح وہ مزدوری پر تھا کہ عقب سے پڑوسی فضلو کی آوازیں کانوں سے ٹکرائیں

’’برکت۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ گڑیا۔۔۔‘‘ وہ ہونق تھا۔

’’کیا۔۔۔ کیا ہوا گڑیا کو؟‘‘ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

’’گڑیا کی سانس۔۔۔ سانس رُک رہی ہیں اس کی۔۔۔ چلو، جلدی چلو!‘‘

اور برکت دیوانہ وار اسے لے کر اسپتال دوڑا۔

’’جینا ہو گا۔۔۔ مرنا ہو گا، دھرنا ہوگا۔ دھرنا ہو گا!‘‘

انہی آوازوں کے شور میں بانو ، برکت ، فضلو اور محلے کے کچھ اور لوگ ’گڑیا‘ کو لے کر اسپتال میں داخل ہو ہی رہے تھے

’’میں معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ مجبوری ہے۔۔۔ابھی تو سب بند ہے!

آپ اسے دوسرے اسپتال لے جائیں۔۔۔‘‘ سب نے ہاتھ کھڑے کردیے۔

اُس نے بہتیری التجا کی، لیکن بے سود، وہ دوسرے اسپتال لپکے، لیکن آزمائشوں کے سفر پر نکلی زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا!

گڑیا نے جس گود میں لوری سنی اسی گہوارے میں دم دیا!

محلے کی ہر دل غم زدہ، ہر آنکھ اشکب بار تھی، ایسے میں فضلو اس کے پاس آیا تھا ’’برکت، برکت میرے بھائی‘‘ اس نے برکت کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور بولا

’’یہاں کہیں جگہ نہیں مل رہی۔۔۔ ایک دور کے قبرستان میں بات تو ہوئی، لیکن وہ۔۔ وہ بہت زیادہ پیسے مانگ رہے ہیں ‘‘

’’برکت ہمیں۔۔۔ہمیں گڑیا کو۔۔۔ گڑیا کو گھر کے آنگن میں ہی دفنانا ہوگا۔‘‘

دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر ز ور سے بھینچ لیا تھا ،، زخم جسم نہیں ، روح پر لگا تھا!

برکت دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا،، پھر آنگن کی اُسی کچی زمین پر، جہاں رنگ برنگے پھو لوں نے کھِلنا تھا ،، جہاں خوشبوؤں نے فضاؤں میں بکھرنا تھا ،، وہاں ننھی گڑیا کے معصوم وجود کو آہوں اور سسکیوں میں دفنا دیا گیا تھا۔

’’ہم آپ کی تقدیر بدلنے نکلے ہیں، ہم آپ کو نوکریاں دے رہے ہیں، روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں، 24 گھنٹے کام کرنے والے اسپتال بنا رہے ہیں، اب کوئی بچہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرے گا۔۔۔

آپ کا ایک ووٹ بدل دے گا آپ کی قسمت!‘‘

باہر ایک ’جلسے‘ کی بلند آوازیں گڑیا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں۔۔۔!

۔۔۔

’صدر‘ بے قدر!
امر جلیل
میں نے کبھی شہ سواری کی ہے اور نہ کبھی میدان جنگ کا رخ کیا ہے، پھر بھی میں گرپڑتا ہوں، پچھلے دنوں صدر میں گھومتے ہوئے گر پڑا تھا۔ ایک شخص نے مسکراتے ہوئے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے مجھے کھینچ کر پیروں پر کھڑا کرتے ہوئے کہا
’’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں۔‘‘
وہ وجیہہ قسم کا نوجوان تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا
’’بیٹے میں کسی گھوڑے پر سوار نہیں تھا اور یہ جگہ جنگ کا میدان نہیں ہے۔ یہ صدر ہے ۔ صدر بے قدر۔‘‘
میں نے کہا ’’ایک زمانہ تھا کہ سانولی سلونی اینگلو انڈین اور گوری چٹی پارسی لڑکیاں خوب بن سنور کر صدر میں ٹہلنے اور خریداری کرنے آتی تھیں، اچھے اچھے من چلوں کی دال نہیں گلتی تھے، تب صدر کو صدر بے قدر کہتے تھے۔‘‘

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


میں اپنے عشق میں پیہم زوال دیکھتا ہوں
جو تیرے چاہنے والوں کا حال دیکھتا ہوں
میں اِس لیے بھی نہیں دیکھتا ہوں آئینہ
وہاں جو چہرہ ہے اس پر جلال دیکھتا ہوں
بدل گئی ہے سماعت مری بصارت سے
میں خواب سنتاہوں لیکن خیال دیکھتا ہوں
کہا ہے تُو نے کہ تیری مثال کوئی نہیں
مگر میں نُور میں تیری مثال دیکھتا ہوں
میں چاہتاہوں کہ خود خاک پر اتر آؤں
جب آسماں سے زمیں کا جمال دیکھتا ہوں
میں ہونٹ دیکھتا ہوں پھول دیکھنے کے بعد
تو تیرے دستِ ہنر کا کمال دیکھتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی بات کر نہیں پاتا
جب اس فقیر کی آنکھوں کو لال دیکھتا ہوں
بصد خلوص نصیحت کو سنتا رہتا ہوں
پھر اپنے ہاتھ سے مَیں اپنا گال دیکھتا ہوں
جو درد سہتے ہیں لیکن خموش رہتے ہیں
اب ایسے لوگ بڑے خال خال دیکھتا ہوں
(ادریس آزاد، خوشاب)

۔۔۔
غزل


گھر میں وحشت ہو تو احباب نہیں آتے ہیں
نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں
کیوں سرِ بزم مرا نام پکارا تم نے؟
تم کو محفل کے بھی آداب نہیں آتے ہیں؟
اے مری آنکھ میں یوں پھول اْگاتے ہوئے شخص!
سوچ بنجر ہو تو سیلاب نہیں آتے ہیں
سرخ موسم ہو تو رونق سی لگی رہتی ہے
زرد موسم ہو تو احباب نہیں آتے ہیں
اتنا خوش فہم نہ ہو چھوڑ کے جانے والے!
اب مجھے سچ میں ترے خواب نہیں آتے ہیں
پہلے آتے تھے مجھے روز ڈبونے آغرؔ
آج مرنا ہے تو گرداب نہیں آتے ہیں
(آغر ندیم سحر، لاہور)

۔۔۔
’’راکھ‘‘


سوچ رہی ہوں
ارمانوں کے پنجرے سے
پنچھی کو آزاد کروں میں
دل کے بہلانے کو میں نے
گھر کے گلدانوں میں کب سے
مردہ خواب سجا رکھے ہیں
کمرے کو کچھ صاف کروں میں
صندل کی لکڑی کے نیچے
دھیرے دھیرے چِلاتی
اک آس رکھی ہے
اک کونے میں
جیتی مرتی خواہش کی
اِک سانس پڑی ہے
جانے کتنے برسوں کی
آتش دان میں راکھ پڑی ہے
(سارا خان، راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے
جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے
ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا
ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے
تری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے
مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے
پھر ایک عمر سزا کاٹنی پڑی مجھ کو
نظر ملائی تھی سورج سے لمحہ بھر میں نے
سخن وری بھی تو اک انت ذمہ داری ہے
میں سوچتی ہوں لیا کیوں یہ دردِ سَر میں نے
بھگت رہی ہوں نئی زندگی کا خمیازہ
کہ اپنے ہاتھوں سے کاٹے ہیں اپنے پَر میں نے
میرے لیے تو وہ سایہ بھی دھوپ تھا بلقیسؔ
تلاش جس کو کیا تھا شجر شجر میں نے
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
’’دُکھ کسی اور کا ہو سکتا ہے!!‘‘


تُو مِری رنج بیانی پہ نہ رنجیدہ ہو
میرا دکھ اور کسی کا بھی تو ہو سکتا ہے
میں کہ حساس طبیعت کا سخن ور، شاعر
جذب کرتا ہوں کئی رنج زدہ لوگوں کے رنج
اور انہیں صفحۂ قرطاس پہ لے آتا ہوں
میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنا کوئی دکھ
شاملِ شعر و سخن ہو نہیں پائے لیکن ۔۔۔
ایک سی شکل محبت کی بھی ہوسکتی ہے
دکھ کسی دکھ کے مماثل بھی تو ہو سکتا ہے
تُو مری رنج بیانی پہ نہ رنجیدہ ہو
میرا دکھ اور کسی کا بھی تو ہوسکتا ہے!
(پارس مزاری، بہاولپور)

۔۔۔
غزل


جذبوں سے تہی دامن یہ جسم کبھی مت ہو
دل ہے تو محبّت ہو آنکھیں ہیں تو حیرت ہو
اک آدھ ٹھکانہ ہو ہم ہجر کے ماروں کا
اس شہر کی وسعت میں اک گوشہ عزلت ہو
ہر روز بدلتی ہے خواہش دلِ وحشی کی
کیسے ہو بھلا ممکن ہم کو تری عادت ہو
ہر بات کے ویسے بھی دو پہلو تو ہوتے ہیں
اب یہ بھی تو ممکن ہے ان کو بھی محبّت ہو
ہم لوگ تو سانسوں کی گنتی کیے جاتے ہیں
ہم کو تو برابر ہے جلوت ہو کہ خلوت ہو
کچھ گردشِ دوراں کی اب ہم سے نہیں بنتی
کچھ دل بھی یہ کہتا ہے تھوڑی سی تو وحشت ہو
یہ زخمِ محبّت ہے کیا رونا اسے پا کر
جب چارہ نہیں ممکن لب پر کیوں شکایت ہو
(مبشر متین، لاہور)

۔۔۔
غزل


عشق کچھ حوصلہ بڑھا میرا
ضبط کا اشک مت گرا میرا
اب مری ملکیت کے کیا کہنے؟
میں خدا کا ہوں اور خدا، میرا
ایک حساس آدمی ہوں میں
تھوڑا نازک ہے مسئلہ میرا
کیا محبت مجھے بھی کرنی ہے؟
سلسلہ قیس سے ملا میرا
برگِ صحرا عزیز ہے مجھ کو
اور پانی سے ہے گلہ میرا
مجھ کو کچھ اور ہی بنا ڈالا
کوزہ گر تھا وہ حادثہ میرا
گُل نہیں، خار چومتا ہوں میں
مختلف ہے یہ فلسفہ میرا
شاعری کی مٹھاس ہے مجھ میں
اور اردو ہے ذائقہ میرا
(سردارفہد، ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل


اترے ہیں کچھ عذاب دسمبر کے بعد بھی
موسم رہا خراب دسمبر کے بعد بھی
کاٹی جو فصلِ عشق خسارا ہوا مجھے
میں نے کیا حساب دسمبر کے بعد بھی
پلکیں بچھائے بیٹھے رہے رہگزر میں ہم
آئے نہ تم جناب دسمبر کے بعد بھی
ویسے تو لکھ چکا ہوں میں ہر قصۂ الم
لکھا ہے ایک باب دسمبر کے بعد بھی
کھائی تھی جنوری میں قسم چھوڑ دوں گا میں
چھوڑی نہیں شراب دسمبر کے بعد بھی
آنکھوں میں نقشِ قیس کی لیلیٰ کا عکس تھا
صحرا بنا سراب دسمبر کے بعد بھی
فرقت کی آگ اس طرح بھڑکی کہ میرا دل
جل کر ہوا کباب دسمبر کے بعد بھی
حالت جو دل کی آپ کے جانے کے بعد تھی
ویسی ہی ہے جناب دسمبر کے بعد بھی
بھجوائے تھے جو آپ نے شہبازؔ کے لیے
تازہ ہیں وہ گلاب دسمبر کے بعد بھی
(شہباز ناصر، ملتان)

۔۔۔
غزل


جو سولی کے مقدر میں رکھے تھے
ہم ایسے بدنصیبوں کے گلے تھے
ہمارا وقت پورا ہو رہا تھا
کسی کے منہ پہ بارہ بج رہے تھے
اذیت لطف دینے لگ گئی تھی
کہ ناخن سے کلائی کاٹتے تھے
زمیں سونا اگلنے لگ پڑی تھی
مرے ہاتھوں کے چھالے بڑھ رہے تھے
شہنشہ جب ستم ڈھانے پہ آیا
خدا چپ تھا، مگر ہم تو لڑے تھے
کوئی سندر پجارن مر گئی تھی
تبھی تو دیوتا روئے ہوئے تھے
کوئی تختی نہیں تھی شہر بھر میں
کہ چوراہوں پہ بس مردے گڑے تھے
(حسیب الحسن، خوشاب)

۔۔۔
غزل


زندہ ہونے کا حق ادا کر دے
میرا ہو جا یہ معجزہ کر دے
میں تجھے دیکھ ہی نہیں پایا
اپنی آنکھیں مجھے عطا کر دے
وصل ہو ، ہجر ہو، یا تنہائی
جو بھی کرنا ہے فیصلہ کر دے
اک حسینہ جو قید ہے دل میں
کہہ رہی ہے مجھے رہا کر دے
میں بھروسا کروں سماعت پر
اپنی آواز جا بجا کر دے
یار میرا علاج لے آیا
تُو مرے زخم لا دوا کر دے
درد پہ درد دے رہا ہے مجھے
میں نے بولا بھی تھا، بتا کر دے
(ایاز علی حاوی، اٹک)

۔۔۔
غزل


یہ جو باتیں ہیں پسِ شعر و سخن میرے دوست
تیری ان باتوں سے جلتا ہے بدن میرے دوست
آپ کے بعد تو ویرانے کا ویرانہ ہے
آپ کے دم سے تھا آباد چمن میرے دوست
کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اس فیصلے میں
شاید اپنا بھی نہ ہو پائے ملن میرے دوست
وہ مرا ہو کے کسی اور کی تقدیر بنا
دل سے جاتی ہی نہیں ہے یہ چبھن میرے دوست
اہلِ دنیا کے مقدر میں تو جاگیریں ہیں
اور حمزہؔ کے لیے حرفِ سخن میرے دوست
(امیر حمزہ سلفی، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


اس کو دنیا اسی کو دین کیا
عین انصاف کے قرین کیا
وہ کہے گا یقین ہے مجھ پر
میں کہوں گی ترا یقین کیا
دل میں گھر کرلیا محبت نے
اور مجھے اس قدر حسین کیا
کند ذہنوں کو اپنی برکت سے
عشق نے کس قدر ذہین کیا
صبر کا رکھ لیا بھرم ہم نے
اور نم جذبِ آستین کیا
(حنا عنبرین، لیہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

قرآن کریم میں رسول اکرمﷺکا عالی مقام
تالیف: مولانا مفتی عبدالرحمان کوثر مدنی
قیمت: 410 روپے
صفحات: 256
ناشر: زمزم پبلشرز، کراچی

حضور سرور دو عالمﷺ کی جتنی شان بیان کی جائے کم ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان قرآن مجید میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کی ہے، اور آپﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمانا اپنا احسان عظیم قرار دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مفتی صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں قرآن کے حوالے سے آپﷺ کی شان بیان کی ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے’’ یہ رسول ہیں ہم نے فضیلت دی ان میں بعض کو بعض پر، ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا، اور بعض کو درجات کے اعتبار سے بلند فرمایا‘‘۔ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ’’ تلک‘‘اسم اشارہ ہے، اس کا مشار الیہ المرسلین ہے یعنی یہ پیغمبر جن کا ذکر ابھی ابھی ہوا ان کو ہم نے آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت دی، کہ بعض کو ایسی منقبت سے متصف فرما دیا جو بعض دوسروں میں نہیں تھیں۔

صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں ’’ بعضھم ‘‘ سے سرور دو عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ مراد ہیں، اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ کو وہ خواص علمیہ و عملیہ عطا فرمائے کہ زبانیں ان کو پوری طرح ذکر کرنے سے قاصر ہیں، آپﷺ رحمۃ للعالمین ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام ؑ کو آپﷺ پر ایمان لانے اور نصرت کرنے کا عہد لیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا،آنحضرت ﷺ کو مقام محمود عطا کیا جائے گا، شب معراج میں حضورﷺ کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا۔ مفتی صاحب نے اسی طرح آپ کی شان میں قرآن پاک سے سو سے زائد حوالہ جات جمع کر دیئے ہیں اور ساتھ میں تفسیر اور احادیث بھی بیان کی ہیں۔ مجلدکتاب آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے، ہر مسلمان کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

خوشبوئے طیبہ
شاعر:عبدالقیوم
قیمت:400 روپے
صفحات: 256
ناشر: رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راولپنڈی

حضور نبی کریم ﷺ کی شان اتنی بلند ہے کہ آپ کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ عبدالقیوم نے آپﷺ سے اپنی محبت اور عقیدت کا اؓظہار بڑی سادگی سے کیا ہے۔ ریاض ندیم نیازی کہتے ہیں ’’ خوشبوئے طیبہ عبدالقیوم نظر کے قلم کا وہ شاہکار ہے جس میں سیرت پاک کی روشن کرنوں سے جمال و نور کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

ان کے اشعار میں آپﷺ کی سیرت عظمیٰ کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ‘‘ عبد القیوم اس سے قبل بھی ایک کتاب محسن ملت چوہدری محمد علی کے عنوان سے تصنیف فرما چکے ہیں۔ تاہم نعت کا ادبی اصناف میں بہت اعلیٰ مقام ہے اس لئے قلم اٹھاتے ہوئے استاد شعراء سے ضرور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، خاص طور پر املاء کی غلطیوں سے بچنا چاہیے، بہرحال شاعر کی اچھی کاوش ہے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
مصنف: منیر احمد منیر
قیمت: 600 روپے
صفحات: 256

بھٹو دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل کی خواہش اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دعوت کے باوجود مولانا مودودی نے یہ کہہ کر اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا کہ ’’ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ شیخ مجیب الرحمان جس نے غداری کر کے ملک توڑا، وہ وہاں بیٹھا ہو اور میرے سامنے بنگلہ دیش کو منظور کرنے کی قرار داد پیش کی جائے۔‘‘اس حقیقت کا افشا مکتبہ آتش فشاں 78ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاوؤن، لاہور کی شائع کردہ منیر احمد منیر کی تالیف ’’ ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ میں کیا گیا ہے۔ امریکہ میں مولانا کے ایک میزبان ڈاکٹر مقبول احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا ’’ ہم ملاقاتیوں کو منع کر دیتے تھے کہ مولانا سے مشرقی پاکستان کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے کیونکہ اس پر وہ دکھی ہو جاتے تھے۔‘‘ مولانا کے ایک بیٹے محمد فاروق مودودی کہتے ہیں ’’ ایسٹ پاکستان کے سانحہ کا ان کی صحت اور اعصاب پر شدید منفی اثر ہوا، بلکہ ان کی صحت ٹوٹی ہی اس کے بعد تھی‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب میں مولانا کی 80 سے زائد نادر تصاویر، مولانا کی شاعری، ان کے شجرہ نسب اور بعض دستاویزات کے علاوہ مولانا مودودی، جوش ملیح آبادی، راجا غضنفر علی، مولانا کوثر نیازی، مولانا کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودی، بیگم مولانا مودودی، مولانا کے چھ کے چھ بیٹوں، ان کے بھتیجے ابو محمود مودودی وغیرہ کے انٹرویوز کے علاوہ 1938ء میں مولانا کا علامہ اقبال پر لکھا ہوا مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب کے مولف کے ساتھ انٹرویو میں مولانا نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی قائد اعظم کے ساتھ نہ کبھی ملاقات ہوئی اور نہ ہی خط و کتابت۔ تاہم انھوں نے قائد اعظم کو دیکھا ضرور تھا، اسمبلی ڈبیٹس کے موقع پر میں انھیں سننے چلا جاتا تھا۔

مولانا کوثر نیازی نے کہا: میں ریکارڈ درست کرنا چاہتا ہوں، یہ کہنا کہ مولانا یا جماعت اسلامی کو امریکی امداد ملتی تھی، یہ غلط ہے۔ البتہ بعض مسلمان حکومتوں مثلاً سعودی عرب اور بعض عرب ملکوں سے انھیں امداد ملی ہے۔ مولانا کے صاحبزادوں اور بیگم صاحبہ نے اچھا کیا مولانا کو گھر میں دفن کیا۔ اگر وہ منصورہ میں دفن ہوتے تو دوسرا ربوہ پیدا ہو جاتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں مولانا کوثر نیازی کہتے ہیں ۔ بھٹو صاحب نے کئی مرحلوں پر جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دینے کے متعلق سوچا۔ تاہم مولانا کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد مولانا بھٹو صاحب کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی نے اپنے انٹرویو میں مولانا کے بچپن کی شرارتوں ، ذہنی رجحانات ، اولین تحریروں، صحافیانہ زندگی ، خاندانی اور گھریلو طرز حیات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس سے مولانا کے شخصی ارتقا کا کھوج اور کئی ٹھوس معلومات اور واقعات کا پتا چلتا ہے۔ منیر منیر احمد نے مولانا مودودی کی شخصیت کے بہت سے چھپے گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے، قارئین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔

 مثالی ریاست
مصنف: ارسطو
ترجمہ:امجد محمود
قیمت: 1200 روپے
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور

گھر، معاشرے،گاؤں، شہر اور ریاست کا تانا بانا کیسے بنا جاتا ہے اس حوالے سے قدیم دانشوروں نے بڑی طویل بحثیں کی ہیں، ارسطو کا شمار بھی انھی مدبرین میں ہوتا ہے جو فرد، اس کے رہن سہن، اختیارات ، رویوں اور آزادی وغیرہ پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ قبل مسیح کے یونانی مفکرین کا باوا آدم سقراط تھا، ارسطو بھی اسی لڑی کا ایک موتی ہے۔ وہ کافی سالوں تک افلاطون کے تعلیمی ادارے میں پڑھاتا رہا۔ اس نے انسان کو غوروفکر پر مائل کرنے کے لئے متعدد کتابیں لکھیں جس نے معاشرے پر زبردست اثرات مرتب کئے، سکندر اعظم بھی دو سال تک اس کا شاگرد رہا، تاہم اس پر روشنی نہیں ڈالی گئی کہ اس نے اسے دوسال کیا پڑھایا مگر سکندر اعظم کی کامیابیاں خود گواہ ہیں کہ اس کے عظیم استاد نے اسے کیا تعلیم دی ہو گی۔

زیر تبصرہ کتاب میں ارسطو نے مثالی ریاست کا خاکہ اس دور اور نظریات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ آج کے دور میں اس کا مختلف انداز میں تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ قبل مسیح کے زمانے میں اتنی گہری اور دور رس فکر رکھنا اس کے عظیم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر حصے میں مختلف عنوانات کے تحت متعدد ابواب لکھے گئے ہیں جس سے موضوع کے پھیلاؤ کو سمیٹنے میں مدد ملتی ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے جس سے انھیں سیاست کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی کے ساتھ ساتھ وسعت نظر بھی عطا ہو گی ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

 زوال دی گھڑی
 شاعر: فخرزمان
 صفحات: 160
 قیمت: 400 / روپے
 ناشر: کلاسیک ، مال روڈ ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب معروف ادیب، شاعر و دانش ور فخرزمان کی منتخب پنجابی شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ شاعری آزاد نظموں پر مشتمل ہے لیکن ذائقہ بدلنے کے لیے چند غزلیں بھی شامل کر لی گئی ہیں۔’’ زوال دی گھڑی ‘‘ شعری مجموعے کا نام ہے لیکن پورے مجموعے میں اس نام سے الگ سے کوئی نظم نہیں ہے یوں سمجھئے کہ بیشتر نظمیں اسی عنوان کے گرد ہی گھومتی ہیں۔

مجموعے میں شامل سب نظمیں اور غزلیں شاعر کی ترقی پسندانہ سوچ کی مظہر اور انسانی رویوں اور سماجی صورت حال کی آئینہ دار ہیں۔ فخر زمان نے اپنی منتخب پنجابی شاعری میں انگریزی کے الفاظ بھی حسب ضرورت و حسب موقع استعمال کیے ہیں۔ یہ الفاظ اس خوبصورتی کے ساتھ مصرعوں میں فٹ کئے ہیں کہ لگتا ہے کسی جوہری نے انگوٹھی میں نگینہ جڑ دیا ہے۔ آزاد نظمیں عمومی طور پر باآسانی ’’ ہضم ‘‘ نہیں ہوتیں لیکن ان نظموں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک خاص ردھم موجود ہے جس کی وجہ سے انہیں پڑھ کر قاری کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ حظ اٹھاتا ہے۔ اس سے پہلے فخرزمان کی اردو شاعری پر مبنی مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے اور عوام الناس میں اسے پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اب یہ پنجابی مجموعہ بھی یقینی طور پر پسند کیا جائے گا۔

’’سا سا‘‘اور مریضانہ تہذیبی نرگسیت

ادبی مجالس اور حلقہ احباب و رفقائے کار میں ڈاکٹر محمد شیراز دستی کی وجہ شہرت ان کی تدریسِ انگریزی زبان و ادب، ترجمہ نگاری اور لسانیات رہی ہے، جن سے متعلق ان کی تین کتابیں Hour of Decline،’’مغل سرائے‘‘ اور ’’نسلوں نے سزا پائی‘‘ کے عنوانات سے منظر عام پر آکر قارئین سے داد پا چکی ہیں، تاہم ان کا نو تصنیف ناول’’ساسا ‘‘ایک مکمل تخلیقی تجربہ ہے، جو اس لحاظ سے توجہ کا طالب ہے کہ وہ ایک انگریزی مدرس کے قلم سے تحریر کردہ ایک اردو ناول ہے۔

ناول کے پیشگی تعارف کے طور پر پہلے دو ابواب اس سے قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آبادکے ادبی جریدے ’’ثبات ‘‘میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ 52 ابواب اور تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ناول کی کتابی شکل عکس پبلی کیشنز، لاہور کے توسط سے منصہ شہود پر آئی ہے، جس کے سادہ سے سرورق پر نہ صرف مستنصر حسین تارڑ، محترمہ خالدہ حسین، جناب حمید شاہد، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد جیسے اکابرینِ زبان و ادب کی آرا دی گئی ہیں بلکہ ناول کے اندرونی صفحات پر بہ طور پیش لفظ عصر ِ حاضر کے معروف دانش ور اور نقاد ڈاکٹر ناصرعباس نیر کا تبصرہ بھی موجود ہے ۔

ناول کا عنوان’’ساسا‘‘انفرادیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ بھی ہے۔ یہ متن کے اعتبار سے ایک طوطانما پرندے کا نام ہے، جس کا ذکر ہمیں صرف چند ابواب ہی میں ملتا ہے البتہ اس کردار کی مدد سے ناول نگار نے جس فکر کو نمایاں اور جس تضاد کو ابھارنے کی سعی کی ہے، اس کی بازگشت’ساسا ‘ کی عدم موجودگی کے باجود بھی پورے ناول میں سنائی دیتی ہے اور یہی مصنف کا بنیادی قضیہ بھی ہے، جو ان کے ناول کے انتساب سے بھی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے، جسے وہ ’’ساسا‘‘ہی کے ثنوی جوڑے’’سادہ‘‘ سے منسوب کرتے ہیں ۔

ناول کی کہانی ڈیرہ غازی خان کے علاقے کاٹھ گڑھ سے شروع ہوتی ہے اور پھر امریکہ سے ہوتی ہوئی کاٹھ گڑھ ہی پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔ بادی النظر میں ناول کا موضوع تلاش محبت کے پردے میں محبت، محب اور محبوب کی مثلث معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے مہ کامل کا سراغ پانے کی سعی ہے جو گھٹتا اور بڑھتا تو ہے لیکن اپنے پورے جمال یعنی چودھویں کے چاند کی صورت کبھی منکشف نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اس کے مظاہر جا بجا دکھائی دیتے یا محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس صورت حال سے مرکزی کردار سلیم میں ایک عجیب بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آتی ہے جو ناول کے تمام صفحات میں اْسے ملنے والی آسودگیوں کے باوجود، قائم و دائم ہے۔ لیکن بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ناول کا خمیر اپنی دھرتی کی بو باس سے اٹھنے کے ساتھ ساتھ کسی قدر ذاتی اور حقیقی تجربات و واقعات پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔

ناول کے ہر باب میں چاہے وہ ’اینا ‘سے متعلق ہو یا ’جینی‘ اور ’منزہ‘سے، رومانویت کے ساتھ ساتھ نائن الیون کے بعد کے عالمی سیاسی حالات کی ایک لہر بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے جو زیریں لہر ہرگز نہیں بلکہ اکثر و بیش تر سیاسی حالات و واقعات اصل موضوع پر غالب آ جاتے ہیں۔ان دونوں موضوعات کا امتزاج ناول میں مشرق و مغرب کا تفاوت، مادیت پرستی، حقیقت پسندی، عالم گیریت، اتحاد بین الثقافت،آفاقیت، انسان دوستی، تیسری دنیا کے مسائل ، سپر طاقتوں کی خوش حالی، خوش گمانی، تعصب اور دائرے کے مرکز اور اس کے حاشیے پر موجود افراد یا ممالک جیسے ذیلی موضوعات کو داخل کر دیتا ہے۔ مرکزی کردار کی تنہائی، احساس جرم، خوف،اذیت، اصلیت، شناخت اور پہچان کے مسائل، تصادم، یہ دنیا وہ دنیا اور مابعد الطبیعیاتی فضا وجودیت کے وہ عناصر ہیں جو جا بجا سر اْبھارتے ہیں اور اپنی معنویت کو واضح کر جاتے ہیں۔ وہ مسلسل آشوب ِذات اوراذیت ناک کرب کا شکار نظر آتا ہے۔

اسے نہ صرف دیارِ غیر میں اپنی تہذیبی شناخت کے کھو جانے کا شدید غم ہے بل کہ اس امر کا بھی احساس ہے کہ اس کی ذات کا کوئی حصہ کٹ کر اْس دیس میں رہ گیا ہے، جسے وہ محبت کی تلاش میں پیچھے چھوڑ آیا ہے، حالاں کہ اس کی اصل محبت وہیں ہے۔ چناں چہ وہ پہلی دنیا میں رہتے ہوئے بھی مسلسل تیسری دنیا میں سانس لیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تیسری دنیا کو درپیش اقتصادی اور معاشی بدحالی اور بد نظمی ہے، جو غربت، افلاس، بھوک، پیاس اور جہالت سے نمٹتے اور اس پر مغربی طاقتوں کے استحصال اور ان کی استعماریت میں اْبھرتے یا زندگی کی بقا کی دوڑ میں شامل ہوتے معاشروں کے لیے سدِ سکندری کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ وہ رکاوٹ ہے جو سپر طاقتوں کی اجتماعی یا مریضانہ تہذیبی نرگسیت کی بدولت اقوام عالم میں کشیدگی اور تصادم کو جنم دے کر انسانی برادری کی اجتماعی نشو ونما کا راستہ روکے کھڑی ہے اور اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

ناول کی منظر نگاری،خواہ وہ سماجی ہو یا مادی، خوب اور مناسب ہے۔ کمال مہارت سے مناظر کو یکے بعد دیگرے کینوس پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے ناول میں تر و تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منظر نگاری میں بھی ناول کے متاثر کن حصے وہی ہیں جن میں کاٹھ گڑھ کی زندگی، وہاں کی معاشرت، رہن سہن، طبقاتی نظام، سیاست، معصومیت، سادگی اور الہڑ پن کے دل کش اور جیتے جاگتے مرقعے پیش کیے گئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی ’’ساسا‘‘ کو عہد حاضر کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپر طاقتوں کی مریضانہ تہذیبی نرگسیت کا اظہار کہا جا سکتا ہے، جس میں فرسودہ اور کمزور روایات کو بدلنے کی خواہش ناول نگار کو بت تراش سے بت شکن بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔

(تبصرہ نگار: بی بی امینہ ،اسلام آباد)

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


انٹارکٹیکا پر قبضے کی جنگ

$
0
0

براعظم انٹارکٹیکا کی تو گویا دنیا ہی اور ہے۔ اِدھر پوری دنیا اپنے پیدا کردہ مسائل سے سر پھوڑ رہی ہے، اُدھر انٹارکٹیکا کے دہوہیکل برفانی اور آدم بے زار تودے بڑے غرور سے ایستادہ ہیں۔

برف کے یہ دیوہیکل پہاڑ اور آنکھیں خیرہ کردینے والا قدرتی حسن ہی صرف انٹارکٹیکا کو دیگر براعظموں میں ممتاز نہیں کرتا بلکہ یہاں پائی جانے والی نایاب جانوروں کی نسلیں اور اور ان گنت قدرتی وسائل کے بڑے بڑے ذخائر بھی دنیا کی توجہ یہاں سے ہٹنے نہیں دیتے، لیکن کیا کیجیے کہ چھے براعظموں کے رہنے والے اپنے گمبھیر مسائل کے باوجود اس پرسکون جگہ کا ماحول تباہ کرنے اور ان برفانی تودوں کا غرور خاک میں ملانے کے لیے انگڑائی لے چکے ہیں۔

انٹارکٹیکا دنیا کا واحد براعظم ہے جہاں حکومت نامی کسی شے کا وجود نہیں۔ ’’سیکریٹریٹ آف انٹارکٹیکا ٹریٹی‘‘ کے نام سے ایک دفتر البتہ یہاں موجود ہے۔ یہ مختلف ممالک کا ایک مشترکہ گروپ ہے، جس کا کام انٹارکٹیکا میں سائنسی تحقیقات کے نام پر براجمان ممالک کے معاملات کا جائزہ لینا ہے۔ انٹارکٹیکا، براعظم آسٹریلیا سے دوگنے رقبے پر محیط ہے۔ سونا، ہیرے، کوئلے اور کاپر سے لے کر تیل اور گیس کی قدرتی سوغاتیں یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ دنیا کے 53 ممالک یہاں سالوں سے امن اور سائنسی تحقیقات کے میدان میں مشترکہ کام کر رہے ہیں۔

مختلف ملکوں کا یہ اتحاد بظاہر تو ایک آئیڈیل صورت حال ہے لیکن اندرونی کہانی بڑی کرب ناک ہے۔ ایک آزاد اور خوش حال براعظم پر قبضے کی یہ کہانی جس پر آج لوگ کان دھرنے کو تیار نہیں، کئی دہائیوں بعد بطور تاریخ نصابوں میں شامل کی جائے گی۔ بہتر ہے کہ اس بات کو اس وقت بھی تسلیم کرلیا جائے کہ انٹارکٹیکا کے زمینی وسائل پر قبضے کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ جلد ہی انٹارکٹیکا معاہدے کی دھجیاں بکھرتے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی۔

سرد جنگ کے گہرے بادلوں کے سائے میں یہ معاہدہ1959 میں طے پایا تھا، جس کی رُو سے اس براعظم کو کسی بھی فوجی کارروائی اور نیوکلیائی اسلحے سے پاک رکھا جائے گا اور یہاں کسی قسم کی کان کنی نہیں کی جائے گی تاکہ اس خطے کے قدرتی وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے اولین اور اصل اراکین بارہ ممالک تھے، جن میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، بیلجیئم، چلی، فرانس، جاپان، نیوزی لینڈ، ناروے، روس، ساؤتھ افریقا، یو کے اور امریکا شامل تھے۔ یہ ممالک اس بات پر بھی متفق ہوئے تھے کہ 2048 تک کوئی ملک یہاں ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں کرے گا۔

اس معاہدے میں بعد میں برازیل، چین اور آئس لینڈ سمیت بے شمار ممالک شامل ہوگئے یوں یہ تعداد بارہ سے 53تک جا پہنچی۔ انٹارکٹیکا میں قدم جمانے کی خواہش مند اقوام کی حرص بھری نگاہیں یہاں کے وسائل پر ایسی جمی ہوئی تھیں کہ انہوں نے بلا چوں و چرا اس معاہدے کی پابندیوں کو قبول کر کے ڈیرہ ڈال لیا ، لیکن اب انہیں اس معاہدے کی پابندیاں بری طرح کَھل رہی ہیں اور 2048 تک کا انتظار ان کے لیے سوہانِ روح بنتا جا رہا ہے ۔ انٹارکٹیکا معاہدے کی دھجیاں اڑانے کے لیے بڑی طاقتوں کی بے چینی چھپائے نہیں چھپ رہی۔ تیزی سے جنم لیتی ماحولیاتی تبدیلیاں اور آرکٹک کی تیزی سے پگھلتی ہوئی برف نے وہاں شپنگ روٹس کا راستہ کیا کھولا ، یوں لگا جیسے سب کی لاٹری نکل آئی ہو۔

بے پناہ قدرتی وسائل پر شب خون مارنے کے دیرینہ خواب کی تعبیر انہیں قریب نظر آنے لگی ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انٹارکٹیکا کس کے حصے میں آئے گا ؟ کیا اس پر قبضہ کرنا کسی کے لیے بھی آسان ہوگا؟ اس کی قیمت کس کس کو چُکانی پڑے گی؟ کیوں کہ فی الحال اس مذموم ارادے کی تکمیل میں ہر ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑا ہے، جس سے نت نئے جیوپولیٹکل مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ہر کوئی یہاں قبضے کا متمنی بھی ہے اور دوسرے ملک کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور بھی ہے۔ بظاہر شیروشکر ہوکر امن کے لیے کام کرنے والے دراصل ایک دوسرے کو منہہ کے بل گرتا دیکھنے کے منتظر ہیں، جس کی وجہ سے سفید برف کے تودوں پر جنگ کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

براعظم انٹارکٹیکا میں تازہ اور شفاف پانی کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، تیل، گیس اور ہیروں کے ذخائر سونے پہ سہاگہ ہیں، اسی لیے سب نے اس براعظم سے معاشی مفادات وابستہ کر لیے ہیں جس سے انٹارکٹیکا ٹریٹی کی ناؤ ڈول رہی ہے۔ 1980تک صرف تیرہ ممالک کو اختیار حاصل تھا کہ وہ اس معاہدے کے فیصلے میں شامل ہوسکیں لیکن اب یہ تعداد انتیس تک جا پہنچی ہے۔ فن لینڈ سے پیرو اور انڈیا سے بیلجیئم تک مختلف اقوام اس معاہدے کا حصہ ہیں جن کے 75 سے زائد تحقیقاتی مراکز یہاں قائم ہوچکے ہیں۔ ان سب ممالک میں چین وہ ملک ہے جس نے یہاں سب سے زیادہ تحقیقاتی مراکز تعمیر کیے ہیں، جب کی اس کی شمولیت کا سال 1983ہے۔ یہ امر ناقابلِ تردید ہے کہ سائنسی تحقیق اور قیامِ امن کی آڑ میں سب کا اصل ہدف براعظم انٹارکٹیکا کے وسائل ہیں، جس دن کسی ایک نے بھی ان وسائل کو کھود نکالنے کی کوشش کی وہ دن اس خوب صورت جگہ کے لیے ایک خونی دن ہوگا۔

اتنی بڑی تعداد میں ممالک کی یہاں موجودگی نے دنیا پر اس براعظم کی اہمیت کو مزید اجاگر کردیا ہے اور اب یہ حقیقت آشکار ہوتی جا رہی ہے کہ بہت جلد یہ خطہ کرۂ ارض اور انسانیت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس براعظم میں سیاحوں کی آمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال کی نسبت اس سال یہاں آنے والے سیاح تعداد میں سترہ فی صد زیادہ تھے۔ سیاحت کو مزید فروغ دینے کے لیے یہاں بیس سمندری جہاز تیاری کے مراحل میں ہیں جب کہ تینتیس جہاز اس مقصد کے لیے پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں۔ مختلف ممالک سے یہاں آنے والے سیاح اس سفر پر دس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔ یہاں آنا سیاحوں کے لیے کسی ایڈونچر سے کم نہیں، لیکن انٹارکٹیکا میں سیاحت کا شعبہ بڑی حد تک بدانتظامی کا شکار ہے۔

رواں سال آنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق چین سے تھا۔ بیجنگ دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ Polar great power کے منصوبے کو چین بہت تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے ۔ یہاں تعمیر ہونے والے چین کے نئے تحقیقی مرکز کو دیگر ممالک انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تغیرات اور اثرات پر تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ہی چین کا یہاں بتدریج تعمیراتی کام کو آگے بڑھانا انتہائی متنازعہ معاملہ بنتا جارہا ہے، کیوں کہ یہ انٹارکٹیکا پروٹوکول کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کو سزا دینے کا کوئی طریقہ پروٹوکول میں موجود نہیں جو اس معاہدے کا ایک منفی اور کم زور پہلو اور ایک بڑی خامی ہے۔ براعظم پر چینی سرمایہ کاری کا مقصد صرف وسائل پر قبضہ کرنا ہی نہیں بلکہ اس خطے کی اسٹریٹجک اہمیت بھی ہے، جس کے پیشِ نظر وہ یہاں اپنی تمام طاقت جھونک رہا ہے۔ قطبِ جنوبی کے پاس گراؤنڈ اسٹیشن ہونے کی وجہ سے چین کے عالمی سیٹیلائٹ نیوی گیشن نظام کی درستی میں تیزی آرہی ہے۔

انٹارکٹیکا میں اس وقت دراصل تین بڑی طاقتوں کے درمیان قبضے کی سرد جنگ جاری ہے اور وہ ہیں چین، امریکا اور روس۔ جی ہاں وہی تین ممالک جن کے ذاتی مفادات اور باہمی چپقلشوں نے خشکی و تری سب جگہ عام انسان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور اب برف سے ڈھکے کوہ ساروں کا سکون اور ان کی تہہ میں چھپے وسائل بھی ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہے ہیں۔ برفیلے پانیوں میں جنگ کے بادل ہلکورے لے رہے ہیں۔ یہاں تعمیر ہونے والے انفرا اسٹرکچر پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب انٹارکٹیکا معاہدے کے تحت عائد کردہ پابندیاں غیراہم اور ملکی مفادات اہم ہوجائیں گے۔ ماہرین کے اندازوں سے کہیں پہلے اس خطے میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔

کیپ ٹاؤن میں پانی کے سنگین بحران سے کون واقف نہیں؟ اس کمی پر قابو پانے کے لیے ماہرین نے تجویز دی کہ انٹارکٹیکا سے برف کا ایک بڑا تودہ یہاں لاکر نصب کر دیا جائے۔ ماہرین کی تجویز تھی کہ اگر انٹارکٹیکا سے ایک بڑا تودہ لایا جاتا ہے تو وہ ایک سال تک یہاں پانی کی قلت بڑی حد تک دور کر سکتا ہے۔ اس سے روزانہ ڈیڑھ سو ملین لیٹر تازہ پانی حاصل کیا جاسکے گا، جس سے کیپ ٹاؤن کے تیس بڑے علاقے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ لیکن انٹارکٹیکا سے برف کے بڑے تودے کو ساؤتھ افریقا لانا جان جوکھم کا کام ہے۔ اس کے لیے سو ملین ڈالر کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے جو بلاشبہہ ایک بڑی رقم ہے۔ برف کو پگھلنے سے بچانے کے لیے اسے Textile Insulation skirt میں لپیٹ کر لایا جائے گا اور اس کو کیپ ٹاؤن پہنچنے میں تین ماہ کی مدت درکار ہوگی۔

لیکن سوال پھر گھوم کر وہیں آجاتا ہے کہ اگر برف کے تودے دنیا کے دیگر ممالک تک پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے لے جائے جانے لگے تو انٹارکٹیکا معاہدے کا کیا بنے گا؟ اور اگر انسانیت کی فلاح کے لیے اس معاہدے کو پسِ پشت ڈال بھی دیا جائے تو ان تودوں کی نقل و حمل پر جتنی بھاری لاگت آئے گی، کیا اس سے غریب اور پسماندہ ممالک کے غریب اور بلکتے شہری فائدہ اٹھا سکیں گے یا اس بہتی گنگا میں صرف امیر اور خوش حال ممالک ہی ہاتھ دھوئیں گے؟ کیا اتنا قیمتی آبی ذخیرہ صرف ترقی یافتہ ممالک میں تقسیم ہوجائے گا؟ سائنسی تحقیقات اور امن کے نام پر براجمان اقوام کیا ان وسائل سے دنیا بھر میں غربت کے خاتمے پر کوئی ریسرچ کر رہی ہیں یا ان کا واحد مقصد ان وسائل پر قبضہ کرکے اپنی طاقت کا سکہ بٹھانا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب یقیناً مایوس کن ہے۔ اگر یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے منصوبوں کی ابتدا ہوتی ہے تو تمام طاقت ور ممالک آپس میں برسرِپیکار ہوجائیں گے، اور برف سے ڈھکی سفیدزمین کا رنگ سرخ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

صرف پانی اور زمینی وسائل ہی نہیں بلکہ روس اور چین کی نظریں تو براعظم انٹارکٹیکا میں پائے جانے والے جانوروں کی خوب صورت اور نایاب نسلوں پر بھی جمی ہوئی ہیں۔ انتہائی سرد اور برفیلے موسم میں خود کو زندہ اور محفوظ رکھنے والے جانوروں کے حیاتیاتی جانچ کے بعد ان کی ادویات سازی کے شعبے میں ضرورت اور اہمیت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، لیکن اس قدرتی جائیداد کا مالک کون بنے گا یہ سوال ان حکومتوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ جب کہ عام افراد کے لیے پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

رواں سال اکتوبر میں چین نے انٹارکٹیکا پر پہلا مستقل ہوائی اڈا بنانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ برف سے ڈھکی سڑکوں پر رن وے بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ انٹارکٹیکا میں چین کا پینتیسواں منصوبہ ہے۔ اس سے قبل اپنی پچیسویں مہم میں چین نے یہاں فکسڈ ونگ جہازوں کی آمدورفت کے لیے چار کلومیٹر لمبا اور پچاس میٹر چوڑا رن وے قائم کیا تھا۔ جس کے بعد وہ امریکا، روس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی صف میں شامل ہوگیا جن کی پہلے سے ہی انٹارکٹیکا میں ایئرفیلڈز تھیں۔ اب ہوائی اڈے کی تعمیر سے انتظامی اختیارات کا چین کے لیے اپنے قبضے میں کرنا آسان ہو جائے گا اور چینی سائنس دانوں کو لاجسٹک سپورٹ بھی بھرپور طریقے سے فراہم کی جاسکے گی۔ سفر کا دورانیہ کم ہو جائے گا اور چھوٹے طیاروں کے ساتھ بڑے طیاروں کی بھی ساؤتھ پول میں آمد ممکن ہوجائے گی۔

یہ سچ ہے کہ گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ انسانی کارگزاریاں ہیں۔ جس سے خود انسان نے اپنے لیے مسائل کا انبار کھڑا کر لیا ہے۔ انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے سے اب سب نے اپنا رُخ اس طرف موڑ کر بقا کا ایک راستہ تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن قرائن بتاتے ہیںکہ اس براعظم پر قبضے کی جنگ بالکل آسان نہ ہوگی۔ یہ جگہ سب کے لیے ہاٹ سپاٹ بن چکی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2030 تک اس براعظم کا ایک بڑا حصہ برف سے محروم ہوجائے گا، اسی لیے سب کی دوڑیں اس طرف لگی ہوئی ہیں۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ نفسانفسی کے دور اور وسائل کی اس جنگ میں انٹارکٹیکا کے تحفظ کا معاہدہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ دنیا میں موجود قدرتی گیس کے وسائل کا تیس فی صد انٹار کٹیکا میں ہے۔ تیل کے ذخائر بھی حیران کن حد تک وافر مقدار میں موجود ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ان بے صبری اقوام میں سے کوئی بھی یہاں کان کنی کی ابتدا کر دے۔ اگر ایسا ہوا تو تمام مہذب اقوام جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹ پڑیں گی اور سفید برف سے ڈھکے یہ پہاڑ انسانی درندگی کا تماشا دیکھیں گے۔

انٹارکٹیکا سے برف برآمد کرنے کا منصوبہ

متحدہ عرب امارات پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے انٹارکٹیکا کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ منصوبے کے مطابق ساؤتھ پول سے برف کے تودے لاکر یہاں نصب کیے جائیں گے۔  2022 کی پہلی سہ ماہی میں اس منصوبے کے ابتدائی مرحلے کے طور پر ایک ویب سائٹ لانچ کی جائے گی جس میں اس پلان کے بہترین نتائج کو اجاگر کرنے کے لیے مہمات چلائی جائیں گی۔ اس کے لیے حکومت نے پانچ سے چھے کروڑ ڈالر کا ابتدائی تخمینہ لگایا ہے۔ یو اے ای کمپنی اس منصوبے کی تکمیل کے لیے کمربستہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تودوں کی نقل وحمل کے خرچ میں بھی کمی آئے اور ان کے پگھلنے کی شرح کو بھی کم سے کم کیا جاسکے۔ 2017 میں یو اے ای حکومت نے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ منصوبہ اسی خواہش کی ایک کڑی ہے۔

ساتواں براعظم اور پاکستان

انٹارکٹیکا معاہدے میں شامل ممالک کو  دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک  Consultative members اور دوسرے Non Consultative members  ہیں۔  پہلے درجے میں شامل ممالک  کے پاس یہاں کے معاملات میں فیصلے کے اختیارات ہیں اور وہ  معاہدے کے تحت ہونے والی میٹنگ میں شرکت کے اہل ہیں، جب کہ دوسرے درجے میں شامل ممالک کو میٹنگ میں شرکت کی دعوت تو دی جاتی ہے لیکن وہ کسی بھی فیصلے میں شامل نہیں کیے جاتے۔ پاکستان کا شمار انٹارکٹیکا معاہدے میں شامل دوسرے درجے کے ممالک میں ہوتا ہے۔

یوں تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نیوی نے انٹارکٹک پراوگرام لانچ کردیا تھا، اور وہاں دو پولر اسٹیشن قائم کیے تھے جن میں سے ایک جناح انٹارکٹک اسٹیشن اور دوسرا  پور ریسرچ سیل ہے، لیکن کم زور معاشی حالت کی وجہ سے پاکستان انٹارکٹیکا ٹریٹی میں کوئی بھی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ برفانی براعظم میں قائم پاکستانی تحقیقی مرکز نے اب تک کیا پیش رفت کی اور کتنا پاکستانی عملہ وہاں موجود ہے؟ اس بارے میں بھی کسی قسم کی کوئی معلومات دستیاب نہیں، جب کہ پڑوسی ملک انڈیا اب تک انٹارکٹیکا میں تین ریسرچ اسٹیشن قائم کر چکاہے۔

انٹارکٹیکا پر پہلا قدم رکھنے کی سال گرہ  پر ہر سال بھارتی میڈیا اس بارے میں جائزے اور رپورٹیں پیش کرتا ہے اور سال بھر میںوہاں ہونے والی بھارتی پیش قدمی کو موضوع بنایاجاتا ہے۔ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد تو اس بات سے ہی لاعلم ہے کہ پاکستان نے انٹارکٹیکا پر قدم رکھا بھی ہے یا نہیں؟ نیز پاکستانی تحقیقی مراکز وہاں کیا کر رہے ہیں اور پاکستان کا مستقبل انٹارکٹیکا میں کیا ہے؟  ان میں سے کسی سوال کا جواب کسی حکومت کے پاس نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان دوسرے ممالک کی دوڑ میں انٹارکٹیکا تک پہنچ تو گیا لیکن دوسری اقوام کے درمیان خود کو منوانا کیسے ہے اور ترقی کا سفر کس طرح طے کرنا ہے، ایسی کسی منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جارہی۔

The post انٹارکٹیکا پر قبضے کی جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اکتوبر تا دسمبر 2018ء )

$
0
0

بھارتی کسانوں کا احتجاج

2 اکتوبر کو نئی دہلی میں بھارت بھر سے آئے کسانوں نے مودی سرکار کی پالیسیوں کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔  بھارتی کسان طویل خشک سالی سے نبرد آزما ہیں۔ جو خوش قسمت فصل اگانے میں کامیاب ہوجائیں، انہیں منڈی میں اس کی مطلوبہ قیمت نہیں ملتی۔ اسی لیے بھارتی کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اجناس کی قیمتیں بڑھائے تاکہ انہیں معقول آمدن ہوسکے۔ مودی سرکار دلاسے دے کر بھارتی کسانوں کا احتجاج ختم کرادیتی ہے مگر ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے، بھارتی کسان مودی حکومت سے عاجز آچکے۔

جمال خشوگی کا ڈرامائی قتل

یہ 2 اکتوبر کی دوپہر تھی جب جلاوطن بااثر سعودی صحافی،جمال خشوگی استنبول میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے میں داخل ہوئے۔ وہ وہاں اپنی نئی شادی کے سلسلے میں درکار دستاویزات لینے آئے تھے۔ تاہم انھیں زندہ واپس آنا نصیب نہ ہوا۔جمال خشوگی واشگٹن پوسٹ سمیت مختلف مشہور عالمی اخبارات میں مضامین لکھتے تھے جن میں بالعموم سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے۔ ترک اینٹلی جنس نے دعویٰ کیا کہ سعودی حکومت کے بھیجے گئے ایک خصوصی اسکواڈ نے سفارت خانے میں انھیں ہلاک کر ڈالا۔ بعد ازاں یہ دعویٰ درست ثابت ہوا۔ ترک حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ خشوگی کے قتل کا حکم ولی عہد شہزادہ محمد نے دیا تھا۔ یہ واقعہ قتل جس عجیب طریقے سے انجام پایا، اس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی شہرت ملی۔ سعودی حکومت مجبور ہوگئی کہ وہ بیک فٹ پر جاکر اپنا دفاع کرے۔ اس کا دعوے ہے کہ بعض خود سر سعودی اہلکاروں نے خشوگی کو مار ڈالا۔ بہرحال اس واقعے کے بعد کئی مغربی کمپنیوں نے سعودیہ سے تعلقات منقطع کردیے۔ نیز بعض ممالک نے بھی روابط کم کر ڈالے۔

سابق وزیراعلٰی پنجاب گرفتار

5 اکتوبر کی دوپہر نیب (قومی احتساب بیورو) لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب، شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔ ان پر الزام ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم، لاہور کے سلسلے میں انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ میاں صاحب تادم تحریر زیر حراست ہیں اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

این جی اوز غیرملکی جاسوس نکلیں

پاکستانی حکومت نے بروز 7 اکتوبر اٹھارہ بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو حکم دیا کہ وہ پاکستان سے رخصت ہوجائیں۔ سیکیوریٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق یہ سبھی تنظیمیں قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ خاص طور پر فاٹا میں انہیں سیکیوریٹی فورسز کی نقل و حرکت نوٹ کرتے اور مذہبی منافرت پھیلاتے ہوئے پایا گیا۔ ان این جی اوز میں سے نو کا تعلق امریکا اور تین کا برطانیہ سے تعلق تھا۔

آئی ایم ایف… ہم آگئے!

پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو حسب روایت اعلان کیا کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ اسے بھرنے کے لیے حکومت نے 8 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ آئی ایم ایف سے رجوع کررہی ہے۔ پاکستان اس عالمی مالیاتی ادارے سے دس ارب ڈالر لینا چاہتا تھا۔ تاہم امریکا کے زیراثر ادارے نے قرضہ دینے کی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں، جن کے باعث پاکستانی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے ہوئے کترا رہی ہے۔

وہ گیا ڈالر!

حکومت پاکستان نے جیسے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی خبر دی، اس کا سب سے زیادہ اثر ڈالر پر پڑا۔ چناںچہ 9 اکتوبر کو ایک ہی دن میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کا ریٹ پونے تیرہ روپے بڑھ گیا۔ ماضی میں کبھی میاں ڈالر نے اتنی پھرتی نہیں دکھائی تھی۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کم رکھی تھی۔ جب یہ مصنوعی بند ہٹائے گئے، تو ڈالر کو چھلانگیں مارنا ہی تھیں۔ بہرحال 9 اکتوبر سے تاحال ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان ہے۔

پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر

10 اکتوبر کو حکومت وقت نے ایک نیا سرکاری ادارہ، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ ادارہ اگلے پانچ سال میں غریب اور کم آمدن رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرے گا۔ حکومت کو امید ہے کہ گھروں کی تعمیر سے صنعت و تجارت کا پہیہ گھومے گا اور لاکھوں افراد کو روزگار میسر آئے گا۔

سنیئر ترین جج برطرف

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنیئر ترین جج تھے۔ اکیس جولائی کو انہوں نے راولپنڈی بار میں ایک تقریر کی۔ تقریر میں انہوں نے سیکیوریٹی اداروں کے خلاف متنازع باتیں کہہ ڈالیں۔ اس پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس بھیج دیا گیا۔ 11 اکتوبر کو سپریم جوڈیشنل کونسل کی سفارش پر وزارت قانون و انصاف نے جسٹس شوکت عزیز کی برطرفی کا حکم نامہ جاری کردیا۔

پاکستان میں ضمنی الیکشن

تیرہ اکتوبر کو قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کی تئیس نشستوں پر ضمنی الیکشن منعقد ہوا۔ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی تین نشستیں اور صوبائی اسمبلیوں کی کئی سیٹوں سے محروم ہوگئی۔ اس پر حکمران جماعت کو خاصا بڑا دھچکا لگا۔

قاتل اپنے انجام کو پہنچا

چار جنوری 2018ء کو قصور کی رہائشی، معصوم چھے سالہ زینب انصاری قرآن پاک پڑھنے استانی جی کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں عمران نامی سفاک و ظالم نوجوان نے اسے اغوا کرلیا۔ عمران نے اپنی ہوس مٹا کر بچی کو قتل کر ڈالا۔ یہ خوف ناک جرم مگر چھپا نہ رہ سکا اور 23 جنوری کو عمران قانون کی آہنی گرفت میں آگیا۔ عمران پر انسداد دہشت گردی کی عدالت مقدمہ چلا۔ عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی۔ 17 اکتوبر کی صبح اس منحوس انسان کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یہ مقدمہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ کارروائی تیزی سے انجام پائی اور یوں زینب کے بدنصیب والدین کو جلد انصاف مل گیا۔

افغان طالبان کا بڑا حملہ

اٹھارہ اکتوبر کو قندھار، افغانستان میں واقع گورنرہاؤس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں افغانستان میں امریکی افواج کا کمانڈر، جنرل سکاٹ ملر بھی شریک تھا۔ دیگر افراد میں گورنر قندھار زلمی ویسا، قندھار پولیس چیف عبدالرزاق اچکزئی اور افغان خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس کے مقامی چیف، عبدالمومن حسین خیل شامل تھے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد جب میزبان امریکی جنرل کو چھوڑنے ہیلی کاپٹر کی طرف جارہے تھے، تو ایک باڈی گاڈ نے ان پر فائرنگ کردی۔ یہ باڈی گارڈ افغان طالبان سے جاملا تھا۔ اس کا نشانہ امریکی جرنیل تھا۔ تاہم وہ بچ گیا جب کہ گورنر قندھار، پولیس چیف اور این ڈی ایس کا مقامی سربراہ گولیوں کی زد میں آکر مارے گئے۔ یہ افغان طالبان کا بڑا حملہ تھا جس نے کابل کے سرکاری ایوانوں میں ہلچل مچادی۔

امریکا و روس کا عسکری معاہدہ ختم

دسمبر 1987ء میں امریکا نے تب کے سوویت یونین (اور پھر روس سے بھی) ’’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘‘ (The Intermediate-Range Nuclear Forces Treaty) نامی معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد امریکا اور روس، دونوں نے 500 کلو میٹر سے لے کر 5500 کلو میٹر تک کی مار رکھنے والے اپنے ایٹمی اور غیرایٹمی میزائل تلف کردیے تھے۔ اس معاہدے کو امن و محبت کی جیت قرار دیا گیا۔ امریکا نے 2008ء میں روسی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے ایس ایس سی۔8 نامی کروز میزائل کا تجربہ کرکے درج بالا معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جب کہ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکا پولینڈ اور رومانیہ میں ٹام ہاک میزائل لانچ کرنے والے اڈے بناکر معاہدے سے منحرف ہوا۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے، تو اس معاملے میں ان کی روسی صدر پیوٹن سے اختلافات بڑھ گئے۔ آخر 20 اکتوبر کو ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ امریکا انٹرنیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی سے نکل جائے گا۔

دورۂ سعودی عرب کام یاب

جب عمران خان نے حکومت سنبھالی، تو وہ مالی مسائل میں پھنسے ہوئے تھے۔ تب دوست ممالک سے مالی مدد لینے کی خاطر انہوں نے بیرونی دورے کیے۔ وہ سعودی عرب بھی گئے ۔ سعودی حکومت نے وزیراعظم کو مایوس نہ کیا۔ 23 اکتوبر کو اعلان ہوا کہ سعودیہ پاکستان کو چھے ارب ڈالر کا پیکیج دے گا۔

بھارتی فوج وحشی ہوگئی

مقبوضہ کشمیر میں کئی ماہ سے بھارتی سیکیوریٹی فورسز اور کشمیری عوام کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔ بھارتی فوج اس دوران کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کرچکی۔ نیز بہت سے کشمیری لڑکے، لڑکیاں آنکھوں میں چھرے لگنے سے اپنی بینائی کھوبیٹھے۔ لیکن بھارتی فوج کا بڑھتا ظلم و ستم مقبوضہ کشمیر میں شمع آزادی کے شعلوں کو مزید بھڑکارہا ہے۔ 25 اکتوبر کو ظالم بھارتی فوجیوں نے سات کشمیری شہید کردیے۔

شنیڈ کونر کا قبول اسلام

1990ء میں آئرلینڈ کل گلوکارہ، شنیڈ کونر نے ایک انگریزی گانا ’’نتھنگ کمپیئرز ٹو یو‘‘ گاکر عالمی شہرت پائی تھی۔ 26 اکتوبر کو شنیڈ نے اعلان کیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔  اس کا نیا نام ’’شہدا ڈیوٹ‘‘ رکھا گیا۔

اعظم سواتی کیسں

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی، اعظم سواتی کا اسلام آبا د میں فارم ہاؤس ہے۔ 26 اکتوبر کو فارم ہاؤس کے ملازم پڑوسیوں سے لڑبیٹھے۔ تاہم پولیس نے پڑوسیوں کے خلاف کارروائی نہ کی، تو اعظم سواتی کے دباؤ پر آئی جی اسلام آباد کو تبدیل کردیا گیا۔ تب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاپہنچا۔ وہاں دوران مقدمہ افشا ہوا کہ وفاقی وزیر نے فارم ہاؤس سے منسلک زمین پر غیرقانونی قبضہ کررکھا ہے۔ اس اسیکنڈل کی وجہ سے اعظم سواتی کو مستعفی ہونا پڑا تاکہ وہ قانون کا سامنا کرسکیں۔

چیف جسٹس کی برہمی

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 27 اکتوبر کو کراچی میں ملیر جیل کا اچانک دورہ کیا۔ وہاں انکشاف ہوا کہ سزائے موت کے مجرم شاہ رخ جتوئی کو بی کلاس دی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے جیل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کردیا۔ نیز حکم دیا کہ شاہ رخ کو ڈیتھ سیل منتقل کیا جائے۔ پاکستان میں بااثر و طاقت ور کھلے عام قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس چلن کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ تبھی وطن عزیز میں قانون کی حکم رانی قائم ہوگی۔

وزراء پر پابندی عائد

27 اکتوبر ہی کو وزیراعظم عمران خان نے حکم جاری کیا کہ وفاقی وزراء سال میں صرف تین بار سرکاری خرچ پر بیرونی دورے کریں گے۔ نیز تمام سفر پی آئی اے پر کیے جائیں گے۔ وزیر ان دوروں میں ذاتی عملہ نہیں لے جاسکتے۔ وزیرخارجہ اور وزیر تجارت اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ مزید براں یہ حکم بھی دیا گیا کہ گریڈ 21 تک کے سرکاری افسر اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔

عمان کا اسرائیل سے دوستانہ

26 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم، نیتن یاہو نے اسلامی عرب ملک عمان کا دورہ کیا اور شاہ قابوس سے ملاقات کی۔ 28 اکتوبر کو عمانی وزیرخارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک اسرائیل کو تسلیم کرسکتا ہے۔ اس اعلان پر فلسطینی اور عرب عوام نے اظہار ناراضگی کیا۔

مودی جی کی سبکی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دورۂ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے ’’جھپی‘‘ ڈال کرخاصی شہرت پائی تھی۔ مودی اس طرح دنیا والوں کو باور کرانا چاہتے تھے کہ بھارت اکلوتی سپرپاور کا چہیتا بن چکا، مگر 28 اکتوبر کو ٹرمپ کے ایک اعلان نے بھارتی خوش فہمی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ ہوا یہ کہ نریندر مودی نے بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹرمپ کو مہمان خصوصی بننے کی دعوت دی تھی۔ تاہم امریکی صدر نے یہ دعوت ٹھکرا کے مودی کی سبکی کرڈالی۔

آسیہ بی بی کی رہائی

سپریم کورٹ نے 30 اکتوبر کو توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کردیا۔ بعدازاں حکومت نے نظرثانی کی اپیل دائر کردی۔ آسیہ بی بی کو نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی زندگی کو شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔

چین سے اہم معاہدے

یکم نومبر کو وزیراعظم پاکستان، عمران خان چار دن کے لیے چین پہنچے۔ اس موقع پر انہوں نے چینی صدر سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ چین نے پاکستان کو مالی مسائل سے نکالنے کے لیے پیکیج بھی دیا۔ تاہم اس کی تفصیل چینی حکومت کی درخواست پر پوشیدہ رکھی گئی۔

مولانا سمیع الحق کا پُراسرار قتل

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو 2 نومبر کو راولپنڈی میں واقع ان کے گھر میں نامعلوم شخص نے چُھریوں کے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا۔ ان کے قتل کا معاملہ اب تک پُراسرار ہے اور قاتل کا پتا نہیں چل سکا ہے۔

’’پناہ گزین اور مہاجر نہ آئیں‘‘

یورپی ممالک اور امریکا کی حکومتیں پناہ گزینوں اور مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے سخت قوانین بنارہی ہیں۔ 2 نومبر کو امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی روایتی سنگ دلی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جو پناہ گزین سرحدی پولیس پر پتھراؤ کریں گے، انہیں گولی مار دی جائے گی۔ اس ظالمانہ بیان پر انسانی حقوق کی امریکی تنظیموں نے صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

بیت المقدس میں برازیلی سفارت خانہ

2 نومبر کو برازیل کے نو منتخب صدر، جائیر بولسونارو نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل میں برازیلی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیں گے۔

امریکا کے ڈرامائی وسط مدتی انتخابات

6 نومبر کو امریکا میں سینیٹ کی 35 اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی 435 نشستوں پر الیکشن ہوا۔ نیز 39 ریاستوں میں گورنر کا الیکشن بھی لڑا گیا۔ حکم راں جماعت، ری پبلکن پارٹی نے سینیٹ الیکشن تو جیت لیا کہ اس کی دو نشستیں بڑھ گئیں لیکن وہ ایوان نمائندگان اور گورنروں کا الیکشن ہار گئی۔ امریکا کے اس وسط مدتی الیکشن سے قبل ایوان نمائندگان میں بھی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی اکثریت تھی۔ مگر الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی نے 40 نشستیں زیادہ جیت کر امریکی قومی اسمبلی میں حکم راں جماعت کی برتری ختم کردی۔ نیز ڈیموکریٹک امیدوار سات مزید ریاستوں کے گورنر بننے میں کام یاب رہے۔

 منی لانڈرنگ کے پیسے کی تفصلات مل گئیں

12 نومبر کو وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ دس ممالک سے سات سو ارب روپے کی تفصیل مل گئی ہے۔ یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان سے ان ممالک کو بھجوائی گئی تھی۔ تفتیش کے دوران پانچ ہزار سے زائد جعلی اکاؤنٹس بھی ملے جو رقم چوری چھپے باہر بھجواتے ہوئے استعمال ہوئے۔

پہلے نابینا سول جج

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلے نابینا جج، سلیم یوسف نے 15نومبر کو اپنی ذمہ داری انجام دینا شروع کردی۔ انہیں جوڈیشنل کمپلیکس راولپنڈی میں تعینات کیا گیا ہے۔

یوٹرن کا ہنگامہ

وزیراعظم عمران خان نے 16نومبر کو کالم نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیڈر کو حالات کے مطابق یوٹرن لینا پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے نپولین اور ہٹلر کی مثالیں بھی دیں۔ حزب اختلاف نے یوٹرن کی حمایت کرنے پر وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پیلی واسکٹ والوں کا احتجاج

فرانس میں پیلی واسکٹ والوں کی تحریک ایک سیاسی مہم ہے۔ یہ تحریک17نومبر سے پورے فرانس میں پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور منہگائی کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کی خاطر احتجاج کے لیے شروع ہوئی۔ یہ احتجاج رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور تاحال جاری ہے۔

کراچی سرکلر ریلوے

17نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم دے دیا۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ کو حکم دیا گیا کہ وہ راستے میں آنے والی تجاوزات کا خاتمہ کردے۔

ٹرمپ کا افسوس ناک بیان

امریکی صدر ٹرمپ نے 18 نومبر کو فاکس نیوز ٹی وی سے انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستان نے امریکا کے لیے کچھ نہیں کیا۔ امریکا کئی سال پاکستان کو 1.3 ارب ڈالر کی امداد دیتا رہا مگر پاکستانی حکم رانوں نے اسامہ کو چھپائے رکھا ۔ وہ (افغان) دہشت گردوں کو بھی پناہ گاہیں فراہم کرتے رہے۔ ان الزامات کا وزیراعظم عمران خان نے عمدہ جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اسامہ کی رہائش گاہ سے ناواقف تھی۔ امریکا بھی دس سال بعد نہایت بھاگ دوڑ کے بعد اس سے واقف ہوسکا۔ مگر امریکا نے پھر پاکستان پر اعتماد نہیں کیا اور اسامہ کے خلاف چوری چھپے آپریشن انجام دے ڈالا۔

طالبان کی پوزیشن مضبوط

18 نومبر ہی کو امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف‘ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کینیڈا میں ایک سکیورٹی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ افغانستان میں طالبان مضبوط پوزیشن حاصل کرچکے۔ سترہ سالہ جنگ میں امریکا انہیں شکست نہیں دے سکا۔ لہٰذا طالبان سے امن مذاکرات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

حوثی باغیوں کی پیشکش

19 نومبر کو یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کو جنگ بندی کی پیش کش کردی۔  یہ جنگ مارچ 2015ء سے جاری ہے جس کے دوران ہزار ہا شہری ہلاک ہوچکے۔ جنگ بندی کے سلسلے میں فریقین کی بات چیت جاری ہے۔

کرتار پور راہ داری

22 نومبر کو بھارتی حکومت نے کرتارپور راہداری قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ اس منصوبے کے تحت پاک بھارت سرحد پر سڑک تعمیر کی جائے گی تاکہ سکھ یا تری گردوارہ دربار صاحب تک بغیر ویزہ آسکیں۔ 26 نومبر کو بھارتی حکومت اور 28نومبر کو حکومت پاکستان نے کرتار پور راہداری کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی تحلیل

مقبوضہ کشمیر کے گورنر‘ ستیاپال ملک نے 20 نومبر کو ریاستی اسمبلی تحلیل کر دی۔ یوں ظالم بھارتی حکم رانوں نے مسلمانوں کشمیر پر ایک بار پھر گورنر راج نافذ کردیا۔

چینی قونصلیٹ پر حملہ

23 نومبر کو کراچی میں دہشت گردوں نے چینی قونصل خانے پر حملہ کردیا۔ سیکیوریٹی فورسز نے حملہ ناکام بناتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جن کا تعلق بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) سے بتایا گیا۔ اس واقعے میں  دو پولیس اہل کار اسسٹنٹ سب انسپکٹر اشرف داؤد اور کانسٹیبل محمد عامر شہید ہوگئے جب کہ قونصل خانے آنے والے باپ بیٹا نیاز محمد اور ظاہر شاہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بغاوت کے مقدمے

یکم دسمبر کو وفاقی وزیراطلاعات‘ فواد چودھری نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی اور دیگر راہ نماؤں کے خلاف ریاست سے بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ یہ سبھی راہ نما چند روز قبل گرفتار کئے گئے تھے۔

چین اور امریکا کی تجارتی جنگ

2018ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑدی۔ وہ چین سے آنے والے سامان پر نت نئے ٹیکس لگانے لگے۔ انہوں نے پھر دھمکی دی کہ یکم جنوری 2019ء سے چین کے دو سو ارب ڈالر درآمدات پر ٹیرف دس فی صد سے بڑھا کر پچیس فی صد کردیا جائے گا۔ 2 دسمبر کو جی 20 کے اجلاس میںامریکی اور چینی صدر کی ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی۔ اس میں طے پایا کہ امریکا تین ماہ تک ٹیرف میں اضافہ موخر کر دے گا۔

لارجر بینچ قائم

4 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی چھان بین کرنے کے لیے ایک بڑا بینچ قائم کردیا۔ اس میں چیف جسٹس سمیت پانچ جج شامل ہیں۔ 5 دسمبر سے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہو چکا۔

نام نہاد سیکولر بھارت

30 نومبر کو بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بیان دیا تھا کہ اگر پاکستان بھارت سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند ہے، تو پہلے اسے سیکولر بننا پڑے گا۔ 7دسمبر کو اس بیان کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور نے کہا ’’بھارت پہلے خود تو سیکولر بن جائے پھر ہمیں بھاشن دے۔ بابری مسجد کے ساتھ کیا ہوا‘ سب کو علم ہے۔ بھارتی آرمی چیف کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو کیسا بننا چاہیے۔‘‘

گناہ ٹیکس

حکومت پاکستان نے 9 دسمبر کو اعلان کیا کہ وہ سگریٹ اور مشروبات پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ تجویز کے مطابق سگریٹ کے پیکٹ پر دس روپے جب کہ مشروب کی بوتل پر ایک روپیہ گناہ ٹیکس موصول کیا جائے گا۔

امریکا نے گھٹنے ٹیک دیے

11دسمبر کے دن امریکی حکومت نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کردیا۔ تاہم یہ قدم اٹھانے پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا۔ چناںچہ اگلے ہی دن امریکی حکومت نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پاکستان کو بلیک لسٹ سے نکال دیا۔

شہباز شریف چیئرمین پی اے سی

13دسمبر کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ حکومت اور اپوزیشن نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن دور کے آڈٹ کرنے کی خاطر ایک ذیلی کمیٹی بنے گی جس کا سربراہ حکومتی رکن ہوگا۔ اس سے قبل حکم راں جماعت شہبازشریف کو اس کمیٹی کی سربراہی دینے سے صاف انکار کرچکی تھی۔

کام کرو نہیں تو گھر جاؤ!

وزیراعظم عمران خان نے 15دسمبر کو پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کابینہ کے وزراء کو خبردار کیا کہ جو کام نہیں کرے گا، اسے گھر جانا پڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ کام میں رکاوٹ بننے والے سرکاری افسر بھی ہٹا دیے جائیں گے۔

دوہری شہریت والے سرکاری افسر

15دسمبر کو سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو احکامات جاری کیے کہ وہ دوہری شہریت رکھنے والے سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کریں۔ نیز پارلیمنٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔

بھارتی فوج کی سیدھی فائرنگ

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں 15 دسمبر کو بھارتی فوجیوں نے احتجاج کرتے کشمیریوں پر گولیاں چلاکر دس کشمیری شہید اور درجنوں زخمی کردیے۔ اس دل دوز واقعے کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیز وادی میں ہڑتال کی گئی۔

سری لنکا میں کھیلا گیا سیاسی ڈراما

16 دسمبر کے دن سری لنکا کے صدر، مائتری بالاسری سینا نے رانیل وکرما سنگھا کو دوبارہ مملکت کا وزیراعظم مقرر کردیا۔ یوں تقریباً ڈیرھ ماہ سے جاری سیاسی ہنگامہ انجام کو پہنچا۔26 اکتوبر کو صدر نے رانیل وکرما سنگھا کو برطرف کرکے مہندا راجا پاکسا کو وزیراعظم بنا دیا تھا۔ تاہم نئے وزیراعظم پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ تب 16نومبر کو صدر نے پارلیمنٹ تحلیل کردی، مگر سپریم کورٹ نے اس اقدام کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا۔ اس لیے صدر کو دوبارہ رانیل وکرما سنگھا کو وزارت عظمی کے عہدے پر تعینات کرنا پڑا۔

شام سے امریکا کی واپسی

امریکی صدر ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اچانک شام سے اپنی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے سبھی کو متحّیر کردیا۔ انھوں نے کہا کہ شام میں داعش کو شکست ہوچکی، یوں امریکی فوج کے قیام کا مقصد پورا ہو گیا، لہٰذا اب اسے واپس آ جانا چاہیے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے یہ ٹوئیٹ بھی کیا:’’کیا امریکا مشرق وسطی میں تھانے دار بننا چاہتا ہے؟ وہ (پچھلے کئی برس سے) اس پر اربوں ڈالر خرچ کرچکا، امریکیوں کی جانیں بھی گئیں مگر بدلے میں امریکا کو کیا ملا؟ ہم دوسروں کی زندگیاں بناتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں مگر ہمیں ستائش کے دو بول بھی نہیں ملتے۔ کیا ہم سدا وہاں (مشرق وسطی میں) رہنا چاہتے ہیں؟

بلوچستان میں خشک سالی

19 دسمبر کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے انکشاف کیا کہ صوبے کے بیس اضلاع کو شدید قحط اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ بہت سے علاقوں میں باغات اور کھیت سوکھ چکے اور ایک لاکھ سے زائد گھرانے بھوک پیاس سے نبردآزما ہیں۔صوبائی حکومت نے وفاق سے اپیل کی ہے کہ متاثرین کی امداد کے لیے اس سے تعاون کیا جائے۔

افغانستان سے بھی انخلا

امریکی میڈیا نے 20 دسمبر کو خبر دی کہ صدر ٹرمپ نے حکم دے دیا ہے کہ افغانستان سے سات ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں۔ واضح رہے، افغانستان میں چودہ ہزار امریکی فوجی قیام پذیر ہیں۔ مگر وہ میدان جنگ میں سرگرم عمل نہیں بلکہ افغان فوج کو لڑنے کی تربیت دیتے اور الیکٹرونک وارفیئر انجام دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ بیرون ممالک جاری امریکی جنگوں کے مخالف ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح امریکی ڈالر اور امریکیوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ لیکن امریکی ماہرین عسکریات شام کی طرح افغانستان سے بھی امریکی فوج کے انخلا پر حیران پریشان ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی فوج کی عدم موجودگی میں طالبان کو طاقت ور ہونے کا موقع ملے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ القاعدہ کی نئی قیادت پھل پھول کر امریکا پر دوسرا نائن الیون حملہ کر ڈالے۔

 متحدہ عرب امارات کا مالی تحفہ

21 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کرے گی۔ یہ رقم ملنے سے مملکت کے ذخائر ڈالر مل جائیں گے اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ اماراتی حکومت نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کر کے دیرینہ دوست ہونے کا ثبوت دیا۔

امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن

22 دسمبر کی رات سے امریکی حکومت جزوی طور پر شٹ ڈاؤن کا نشانہ بن گئی۔ اس کی وجہ صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹس کے مابین سرحدی دیوار کی تعمیر کا تنازعہ ہے۔ شٹ ڈاؤن سے کئی سرکاری محمکوں میں کام بند ہوگیا، کیوںکہ ان کے فنڈز امریکی پارلیمنٹ میں منظوری کے منتظر تھے۔ نئے بجٹ میں صدر ٹرمپ سرحدی دیوار بنانے کی خاطر پانچ ارب ڈالر مختص کرنا چاہتے تھے، مگر اس منصوبے کو اپوزیشن نے منظور نہیں کیا۔ اسی لیے نیا بجٹ منظور کرنے کے سلسلے میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا۔

انڈونیشیا میں خوف ناک سونامی

23 دسمبر کی رات انڈونیشیا کے علاقے، آبنائے سندا میں ایک آتش فشاں پھٹ گیا۔ اس سے زلزلے نے جنم لیا تو سمندر میں سونامی لہریں پیدا ہو گئیں۔ ان کئی فٹ لہروں نے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ تادم تحریر انڈونیشیا میں دو سو بائیس افراد ہلاک ہوچکے اور کئی گم شدہ ہیں۔ درجنوں عمارتیں اور گھر بھی تباہ ہوگئے۔

نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا

24دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور ڈیڑھ ارب روپے جُرمانے کی سزا سُنادی، جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کردیا گیا۔

The post ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اکتوبر تا دسمبر 2018ء ) appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جولائی تا ستمبر 2018ء )

$
0
0

کینیڈا میں بدترین ہیٹ ویو

5 جولائی کو کینیڈا میں کئی دہائیوں کا ریکارڈ توڑ دینے والی گرمی کی شدید لہر کے باعث 33 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ گرمی کی شدید لہر کینیڈا کے جنوبی صوبے کیوبک میں آئی، جہاں درجۂ حرارت 35 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا۔

لیتھونیا کے لیے عالمی تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کی ممبرشپ

5 جولائی کو عالمی تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی نے لیتھونیا کو تنظیم کی رکنیت سے نوازا۔ بحیرۂ بالٹک پر واقع اس ملک کی معیشت بہتر ہونے پر لیتھونیا کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔

6 جولائی کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو 10سال قید، ایک ارب 29 کروڑ روپے جرمانہ، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7سال قید، 32 کروڑ روپے جرمانہ جب کہ داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قیدبامشقت کی سزا سنائی۔ احتساب عدالت کی جانب سے 173صفحات پر مشتمل فیصلہ میں شریک ملزم حسین اور حسن نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے شریف فیملی کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ یہ سزائیں فرد جرم میں شامل نیب آرڈیننس کی شق 9اے 5 کے تحت آمدن سے زائد اور بے نامی دار کے نام پر جائیداد بنانے پر سنائی گئیں۔ ملزمان سزا پوری کرنے کے بعد 10 سال تک کوئی سرکاری عہدہ رکھنے یا الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں رہے۔

عدالت نے مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے والد کے جرم میں معاونت کی ہے۔ فیصلے کے متن میں کہا گیا کہ نوازشریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے بچوں کو رقم نہیں دی، حسن نواز کے انٹرویو کے مطابق بھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ان کے زیر استعمال رہے، عام طور پر بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 1993ء سے 1996ء تک کے عرصے کے دوران آف شور کمپنیز نیلسن اور نیسکول کے ذریعے خریدے گئے اور 2006ء سے قبل نواز شریف ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر رہے، مذکورہ دونوں کمپنیوں کی ملکیت اسی سال مریم نواز اور اس کے بھائیوں کو منتقل کی گئی۔ اس فیصلے کو سنانے کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ اسے ایک ہی روز میں 5 بار موخر کیا گیا یعنی 11 بجے کے بجائے مختلف وقت بتاتے ہوئے اس فیصلے کو شام ساڑھے 4 بجے سنایا گیا، جس کی وجہ رجسٹرار احتساب عدالت کی جانب سے فیصلے کی فوٹو کاپیوں میں تاخیر کو قرار دیا گیا۔

اس فیصلے کی وجہ سے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر عام انتخابات میں حصہ نہ لے سکے، کیوں کہ انہیں 10سال کے لئے نااہل کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو نے سپریم کورٹ کے 28جولائی 2017ء کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں میاں نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) محمد صفدر، حسن اور حسین نواز کے خلاف 8 ستمبر 2017ء کو عبوری ریفرنس دائر کیا، جس کی پہلی سماعت 14 ستمبر 2017ء کو ہوئی اور مجموعی طور پر 107سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ 3 جولائی کو محفوظ کیا گیا، اس دوران 78 بار نواز شریف جبکہ 80 بار مریم نواز عدالت پیش ہوئیں۔

ایتھوپیا اور اریٹیریا کے 20سالہ تنازعات حل

9 جولائی کو ایتھوپیا اور اریٹیریا نے باضابط طور پر اپنے 20 سالہ سرحدی تنازعات کے خاتمے کا اعلان کیا۔ ایتھوپیا اور اریٹیریا کے مابین 6 مئی 1998ء سے سرحدی تنازعات چل رہے تھے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ یکم مارچ 1999ء کو ایک موقع پر ایتھوپیا نے اریٹیریا پر فتح کا بھی اعلان کیا، تاہم یہ دعویٰ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ بعدازاں دونوں ممالک کی بالغ نظری اور دوست ممالک کی مداخلت سے 6 جولائی 2018ء کو دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا، جس کے بعد ان کے درمیان سفارتی تعلقات بھی بحال ہوگئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں خودکش دھماکا

10 جولائی کو پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں اے این پی کے امیدوار و معروف سیاست داں بشیر بلور مرحوم کے بیٹے ہارون بلور سمیت 22 افراد شہید جب کہ درجنوں شدید زخمی ہوگئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق خود کش حملہ آور کا نشانہ ہارون بلور تھے، دھماکے میں 10کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔

غار میں پھنسے تھائی فٹبالر

10 جولائی کو غار میں 18روز سے پھنسے تھائی فٹبالر بچوں کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ 11 سے 16 سال کی عمر کے 12 بچے اور ان کے 25 سالہ کوچ 23 جون کو لاپتا ہوگئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ وہ شمالی صوبے چیانگ رائی کے غاروں میں داخل ہوئے تھے لیکن اچانک بارش کے سبب وہیں پھنس کر رہ گئے۔ لاپتا ہونے کے نو دن بعد دو جولائی کی شام دو برطانوی غوطہ خور بچوں تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے جنہیں وہ غار کے دہانے سے تقریبا چار کلو میٹر کے فاصلے پر چٹان پر بیٹھے ملے تھے۔

نیٹو کا سربراہی اجلاس

11اور12جولائی کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس میں نیٹو کے تمام رکن ممالک نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیٹو کے فوجی بجٹ اور افغانستان میں نیٹو کی فوجی موجودگی کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا گیا۔

مستونگ خودکش دھماکے میں 131 افراد شہید

13 جولائی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے دری نگڑھ میں بلوچستان عوام پارٹی کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی و سابق وزیراعلٰی بلوچستان اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی کے قافلے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 131افراد جاں بحق جب کہ ڈیڑھ سو زخمی ہوگئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں 16 سے 20کلو گرام دھماکاخیز مواد استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف اسی روز دوسرا دھماکا خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں ہوا، جس میں دو بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق جب کہ 4 پولیس اہل کاروں اور 2 خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے۔ حملہ آوروں کا نشانہ سابق وزیراعلی اکرم خان درانی تھے، جو اپنے انتخابی جلسہ میں شرکت کے بعد کارکنوں کے ہمراہ قافلہ کی شکل میں جا رہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے کھڑی موٹرسائیکل میں نصب بم دھماکا سے پھٹ گیا۔ واضح رہے کہ اکرم خان درانی پر ہونے والا یہ پانچواں حملہ تھا۔

یورپی یونین اور جاپان کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ

17جولائی کو یورپی یونین اور جاپان کے مابین ایک غیرمعمولی آزاد تجارتی معاہدہ ہوا۔ حکام کے مطابق اس اہم تجارتی ڈیل کے نتیجے میں دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک وجود میں آئے گا۔ معاہدہ میں وعدہ کیا گیا ہے کہ جاپان اور یورپی یونین ایک دوسرے کی برآمدات پر 99 فی صد تک وہ محصولات ختم کردیں گے، جن کی دونوں کے مابین موجودہ سالانہ مالیت قریب ایک بلین یورو بنتی ہے۔ جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے اس ڈیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیش رفت دنیا پر واضح کرتی ہے کہ جاپان اور یورپی یونین اپنے غیرمتزلزل عزم کے باعث آزاد تجارت کے چیمپئن بن چکے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب دنیا میں تجارتی شعبے میں اقتصادی تحفظ پسندی کی سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس معاہدہ سے یورپی یونین اور جاپان کے 6 سو ملین شہری فائدہ اٹھا سکیں گے جب کہ اس تجارتی بلاک کی مجموعی اقتصادی پیداوار دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار یا جی ڈی پی کے قریب ایک تہائی کے برابر ہو گی۔

یونان کے جنگلات میں آتشزدگی

24 جولائی کو یونان کے ساحلی علاقوں سے متصل جنگلات میں ملکی تاریخ کی بدترین آتشزدگی کے باعث 91 افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی اور کئی لاپتا ہوگئے۔ آتشزدگی سے سیکڑوں عمارتیں اور گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔

عام انتخابات 2018ء

ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات 25جولائی 2018ء کو منعقد ہوئے، جن میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ساڑھے 10 کروڑ سے زائد ووٹرز نے ان انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ قومی اسمبلی کی کل 272 میں سے 270 اور صوبائی اسمبلیوں کی 577 نشستوں پر تقریباً ساڑھے 15ہزار امیدواروں نے الیکشن لڑا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے 116، ن لیگ 64 جب کہ پیپلزپارٹی نے 43 نشستیں حاصل کیں۔

اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کی بات کی جائے تو پنجاب میں 295 نشستوں پر الیکشن ہوا، جس میں سے ن لیگ نے 129 جب کہ پی ٹی آئی نے 123 سیٹوں پر کامیابی سمیٹی۔ سندھ اسمبلی کے 129 حلقوں کے نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی ایک بار پھر سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر لوٹی، جس نے صوبائی اسمبلی کی 76 سیٹوں پر ہاتھ صاف کیا۔

خیبرپختونخوا میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا، جہاں تاریخ میں پہلی بار عوام نے تحریک انصاف کو دوسری باری دی، یہاں تحریک انصاف نے کل 97 میں سے 66 نشستوں پر کامیابی کا جھنڈا گاڑا۔ آبادی کے اعتبار سے ملک کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کی بات کی جائے تو یہاں صوبائی اسمبلی کی 50 نشستوں میں بلوچستان عوامی پارٹی نے سب سے زیادہ 15، تحریک انصاف نے چار، ن لیگ نے ایک، متحدہ مجلس عمل نے 9 اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 51.85 فی صد رہا۔ یوں ہی پنجاب میں 55.09، سندھ 48.11، خیبرپختونخوا 45.52 جبکہ بلوچستان میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 44.79 فیصد رہا۔ انتخابی نتائج کے بعد وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف، سندھ میں پیپلزپارٹی جب کہ خیبرپختونخوا میں بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔

کوئٹہ خود کش دھماکا

ملکی کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین دن بھی بدقسمتی نے اس قوم کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ عام انتخابات کے روز کوئٹہ میں تعمیر نو کمپلیکس میں قائم پولنگ اسٹیشن میں خودکش دھماکا ہوا، جس نے 32 افراد کی زندگی چھین لی جب کہ 84 زخمیوں کو عمر بھر کا روگ دے دیا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور نے پولنگ سٹیشن کے اندر گھسنے کی کوشش کی تاہم ناکامی پر اس نے پولنگ سٹیشن کے باہر ہی خود کو اڑا لیا۔ دھماکے میں 6 سے 8کلوگرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

مریخ پر پانی کی جھیل دریافت

25 جولائی کو ’’سائنس‘‘ نامی امریکی جریدے میں اطالوی سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ مریخ پر پانی کی جھیل موجود ہے، جو تقریباً 20 کلومیٹر طویل اور مریخ کے قطب جنوبی پر جمی برف کے ڈیڑھ کلومیٹر نیچے موجود ہے۔ محققین کو امید ہے کہ وہ اب سرخ سیارے پر زندگی کی موجودگی کے بارے میں سوالات کے جواب تلاش کرسکیں گے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی سے اب وہاں جانے یا رہنے والے خلانوردوں کو کسی حد تک آسانی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی خلائی ادارہ ’’ناسا‘‘ 2030ء میں اپنا انسان بردار خلائی مشن مریخ پر اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

مکمل چاند گرہن

27 جولائی اور 28 جولائی کی درمیانی شب پاکستان سمیت دنیا بھر میں صدی کا طویل ترین چاند گرہن دیکھا گیا، جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 43 منٹ تھا۔ ماہرین کے مطابق ایک مکمل گرہن کو ابتدا سے اختتام تک پہنچنے میں تقریبا 4 گھنٹے لگتے ہیں۔

’’ایپل‘‘ بحیثیت نمبر ون ڈیجیٹل الیکٹرانک کمپنی

2 اگست کو معروف زمانہ ڈیجیٹل الیکٹرانک کمپنی ایپل (Apple) کی مارکیٹ ویلیو ایک ٹریلین (ایک کھرب) ڈالر تک پہنچ گئی، جس کے بعد اسے سب سے بڑی امریکی پبلک کمپنی بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ کمپنی کے شیئرز میں سب سے زیادہ اضافہ اس وقت شروع ہوا جب کمپنی کو جون کی سہ ماہی میں امید سے زیادہ منافع ہوا اور اس نے اپنے 20 ارب ڈالر کے شیئرز خود خرید لیے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس اپیل کا منافع 229 ارب ڈالر تھا، جس نے اسے سب سے زیادہ منافع والی پبلک کمپنی بنا دیا تھا۔

ایران پر امریکی پابندیاں دوبارہ نافذ

7 اگست کو امریکا نے ایران پر پابندیوں کو نئے سرے سے بحال کردیا، جن کے مطابق پہلے مرحلے میں امریکی بینک نوٹس، کار اور کارپٹ انڈسٹری تک ایرانی رسائی کو پابند کیا جائے گا، ان پابندیوں کا نفاذ اسی روز سے شروع ہو گیا جب کہ دوسرا فیز 5نومبر سے قابل عمل ہو گا، جس میں ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی لگائی جائے گی۔

بھارتی ریاست کیرالہ میں صدی کا بدترین سیلاب

بھارتی ریاست کیرالہ میں 10سے 20 اگست تک جاری رہنے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث ساڑھے 3 سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ سیلاب اور بارش نے 100سالہ ریکارڈ توڑدیا۔ کیرالا میں سوا 3 لاکھ متاثرین کو کیمپوں میں رکھا گیا۔

بحیرۂ کیسپیئن کی قانونی حیثیت کا تاریخی معاہدہ

12 اگست کو روس، ایران، قزاقستان، آذربائیجان اور ترکمانستان کے مابین 20 سال پرانا بحیرہ کیسپیئن تنازع حل ہوگیا، پانچوں ممالک نے اس سمندر کی قانونی حیثیت کے تاریخی معاہدے پر دستخط کردیے۔ قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف کے مطابق اس اتفاق رائے تک پہنچنا ایک مشکل کام تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی بحیرہ کیسپیئن میں موجود قدرتی ذخائر کے حوالے سے 5 ممالک میں تنازع پیدا ہو گیا تھا۔

پُل گر گیا

14اگست کو اٹلی کے شمالی شہرگینوا میں پل گرنے سے 35 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ کئی گاڑیاں ملبے تلے دب گئیں۔ رپورٹ کے مطابق پل گرنے سے اے ٹین موٹروے کا سو میٹر کا حصہ بھ تباہ ہو گیا اور 3سو فٹ کا گڑھا پڑگیا۔

پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم کی تقریب حلف برادری

18 اگست کو وطن عزیز کے گیارہویں عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ملک کے 22ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے ایوان صدر میں منعقدہ پروقار تقریب میں نومنتخب وزیراعظم سے حلف لیا۔

ایشین گیمز

18اگست کو انڈونیشیا میں ایشین گیمز کے 18ویں میلے کا افتتاح ہوا، جس میں 45ایشیائی ممالک کے 18 ہزار ایتھلیٹس اور آفیشلز نے شرکت کی۔

آسٹریلوی وزیراعظم کا انتخاب

24 اگست کو آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بل کہ جبری استعفے کے بعد حکم راں جماعت نے اسکاٹ موریسن کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کیا۔ آسٹریلیا میں گذشتہ چند سال کے دوران سیاسی عدم استحکام کے باعث کوئی وزیراعظم اپنی 3 سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکا اور ٹرن بل 10 سال کے دوران آسٹریلیا کے چوتھے وزیراعظم ہیں، جنھیں اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے عہدے سے ہٹایا گیا۔ وزارت عظمیٰ کے لیے وزیرخزانہ اسکاٹ موریسن اور سابق کابینہ کے وزیر پیٹرڈٹن کے درمیان مقابلہ ہوا اور انٹرنل پولنگ کے ذریعے نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ خفیہ رائے شماری کے ذریعے نئے وزیراعظم کے لیے 45 اراکین اسمبلی نے اسکاٹ موریسن کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 40 ووٹ پیٹر ڈٹن کو ملے۔

برازیل کے 2سو سال پرانے میوزیم میں آتشزدگی

2ستمبر کو برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں قائم 2 سو سال قدیم قومی عجائب گھر میں آگ بھڑک اٹھی، جس نے ساری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قومی عجائب گھر میں قدیم نوادرات کی 2 کروڑ اشیاء شامل تھیں۔ برازیلی صدر مائیکل ٹیمر نے اس واقعے کو برازیل کا افسوس ناک دن قرار دیا۔ واضح رہے کہ یہ میوزیم کبھی پرتگال کے شاہی خاندان کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا اور رواں سال کی ابتداء میں اس کی تعمیر کا 2سو سالہ جشن منایا گیا تھا۔

صدارتی انتخابات

4 ستمبر کو پاکستان کا 13واں صدارتی الیکشن ہوا، جس میں تحریک انصاف کی طرف سے عارف علوی، ن لیگ اور ہم خیال جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمن جب کہ پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن نے حصہ لیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مجموعی طور پر 430 ارکان نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ ڈالے گئے ووٹوں کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی نے 212، ن لیگ و اتحادی جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمن نے 131 اور پیپلزپارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن نے 881 ووٹ حاصل کیے جب کہ 6 ووٹ مسترد کر دیے گئے۔

سندھ اسمبلی میں 163 میں سے 158 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا، جن میں سے اعزاز احسن کو 39، عارف علوی کو22، مولانا فضل الرحمن کو ایک ووٹ ملا۔ بلوچستان اسمبلی کے 61 میں سے 60 ارکان نے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیا اور نتائج کے مطابق یہاں سے عارف علوی نے 45، مولانا فضل الرحمن نے 15جبکہ اعتزاز احسن کوئی ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں 112 ارکان میں سے 111 نے ووٹ کاسٹ کیا، جن میں سے عارف علوی کو 41، مولانا فضل الرحمن کو 26 اور اعتزاز احسن کو 5 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ 2 ووٹ مسترد ہوئے۔ پنجاب اسمبلی میں 354 میں سے 351 ارکان نے ووٹ کاسٹ کئے، جن میں سے 18ووٹ مسترد ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی میں سے مجموعی طور پر عارف علوی نے 186، مولانا فضل الرحمن نے 141 جب کہ اعتزاز احسن نے صرف 6 ووٹ حاصل کئے۔ یوں مجموعی طور پر تحریک انصاف کے عارف علوی نے 353، ن لیگ و حمایتی جماعتوں کے مولانا فضل الرحمن نے 185 جب کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن نے 124 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے۔

بھارت میں ہم جنسی پرستی قانونی قرار

6 ستمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرست طبقے کی حامی تنظیموں اور افراد کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا۔ پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس فیصلے کی نقول تمام تھانوں اور پولیس چوکیوں میں بھی تقسیم کی جائیں تاکہ وہ ہم جنس پرستوں کے حقوق پامال کرنے سے باز رہیں۔ دوسری طرف بھارتی حکومت پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 377کے مطابق مردانہ ہم جنس پرستی کا ارتکاب ثابت ہو جانے پر 10سال قید بامشقت تک کی سزا رکھی گئی تھی، کیوں کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے۔

شمالی کوریا میں شدید سیلاب

شمالی کوریا میں شدید سیلاب کے باعث 76افراد ہلاک جب کہ 80 سے زائد لاپتا ہوگئے، جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ شمالی اور جنوبی ہوانگھائی صوبوں میں شدید بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے کی وجہ سے 8 سو سے زائد عمارتوں کو نقصان پہنچا جب کہ ہزاروں لوگ گھروں سے بے گھر ہو گئے۔

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی سزا معطل

19ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزائیں معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔

کشتی الٹنے سے 228 افراد ہلاک

20 ستمبر کو وکٹوریہ جھیل میں ایم وی نییرے نامی کشتی الٹنے سے 228 مسافر ہلاک ہو گئے۔ یہ کشتی اوکیریوے اور یوکارا کے جزائر کے درمیان میں سفر کر رہی تھی۔ اس ضمن میں سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کشتی کے الٹنے کے وقت اس میں 400 سے زائد افراد سوار تھے، جو اس کی گنجائش سے چار گنا زیادہ تھے۔ واقعے کے وقت مسافر کی ریکارڈنگ کرنے والا آلہ ناکارہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے مسافروں کی درست تعداد کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ تنزانیہ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کم از کم 228 لوگ کشتی الٹنے کے نتیجے میں مارے گئے، تاہم مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے، کیوں کہ کئی مسافر تاحال لاپتا ہیں۔

ایران میں فوجی پریڈ پر حملہ

ایران کے صوبہ اہواز میں ہفتہ دفاع کے دوران 22 ستمبر کو فوجی پریڈ پر 4دہشت گردوں کے حملہ میں فوجیوں سمیت 29 افراد جاں بحق جب کہ خواتین اور بچوں سمیت 70سے زائد زخمی ہو گئے۔ فورسز کی جوابی کارروائی میں چاروں حملہ آور مارے گئے۔ ایرانی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایرانی فورس ’’پاسداران انقلاب‘‘ کے 12 اہل کار، ایک صحافی اور خواتین شامل تھیں۔ دوسری جانب جمہوری عرب تحریک نامی ایک تنظیم اور داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ فوجی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے اسٹیج کے پیچھے سے فوجیوں پر فائرنگ کی تو بھگدڑ مچ گئی۔ فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان تقریباً 10 منٹ تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ایران نے اس حملے کا الزام سعودی عرب پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ غیرملکی عسکریت پسندوں نے کیا، جنہیں سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی، جب کہ دوسری طرف سعودی عرب نے اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حملے کے بعد ایران نے عراق کے ساتھ اپنے دو سرحدی راستے بھی بند کر دیے۔

انڈونیشیا میں زلزلہ

28 ستمبر کو انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی اور شہر پالو میں آنے والے زلزلہ کے بعد سونامی کی وجہ سے مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، 44 سو شدید زخمی، ہزاروں لاپتا جب کہ 68ہزار گھر تباہ ہوئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 7.5 پائی گئی، جو زیرزمین 10کلومیٹر گہرائی میں تھا۔

The post ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جولائی تا ستمبر 2018ء ) appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اپریل تا جون 2018ء )

$
0
0

روس دنیا کے لیے خطرہ؟

روس کی جانب سے جدید بین البراعظمی بیلیسٹک میزائل کا تجربہ کیے جانے کے بعد مہلک ترین ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے ایک ایسی بحث چھڑی جس میں زمین کے مستقبل پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔ یکم اپریل کو اس حوالے سے میڈیا میں خبروں کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکی حکام کے بیانات اور مبصرین کا کہنا تھا کہ ایک روسی ایجنٹ کو برطانیہ میں اعصابی گیس کا نشانہ بنانے کے عمل میں روس کے ملوث ہونے کے حوالے سے چلنے والی مہم اور پھر سفارت کاروں کی بے دخلی بھی خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کرنے کا سبب بنے گی۔ واضح رہے کہ روسی صدر پیوٹن نے امریکا کے صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد سب سے زیادہ خطرناک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

بھارتی فوج کے جعلی پولیس مقابلے

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے مختلف کارروائیوں میں 17نوجوانوں کو شہید کردیا جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اپریل کی پہلی تاریخ کو خبر آئی کہ شوپیاں اور اسلام آباد (اننت ناگ ) کے اضلاع میں محاصروں اور سرچ آپریشن کرنے کے ساتھ بھارتی فوج نے مظاہرین اور جنازوں کے شرکا پر بھی فائرنگ کی۔ اسی روز قابض فورسز نے وادی میں 4 گھروں کو مسمار کردیا۔

مدرسے پر فضائیہ کا حملہ

افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں ایک مدرسے پر فضائیہ کی بم باری کے نتیجے میں بچوں سمیت 60 سے زائد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ دو اپریل کی خبر کے مطابق افغان حکام نے دعویٰ کیا کہ حملے میں 15 طالبان جنگجو بھی مارے گئے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق حملے میں 150 کے قریب شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے اور ہاشمی مدرسے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہاں دستار بندی کی تقریب جاری تھی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ تقریب میں طالبان کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا اور جاں بحق ہونے والوں میں متعدد بچے شامل ہیں، افغان نیوز ایجنسی کے مطابق مدرسے میں حفظ اور ناظرہ مکمل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی کی تقریب جاری تھی۔ دوسری جانب پولیس کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ افغان فضائیہ نے دشت ارچی ضلع میں طالبان کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے حملے میں شہری ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ بمباری میں 7 تاجک اور دو پاکستانی شہریوں سمیت 15 باغی مارے گئے۔

کالا دھن سفید کرنے کے لیے آرڈیننس کا اجرا

ایمنسٹی اسکیم کا شور، اس کے حق اور مخالفت میں دلائل دینے کا سلسلہ اور مباحث اس وقت شروع ہوئے جب اپریل کی آٹھ تاریخ کو صدر مملکت نے اس کا اعلان کیا۔ اعلان کے مطابق انکم ٹیکس ریٹس اور پراپرٹی ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ملکی و غیر ملکی اثاثوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے 4 آرڈیننس جاری کیے گئے ہیں۔ کہا گیا کہ اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور یہ اسکیم 30 جون 2018ء تک کارآمد رہے گی۔

رفقا نے راستہ بدل لیا

مسلم لیگ ن کی قیادت کی مشکلات صرف جائیدادوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات اور جواب دہی تک محدود نہ رہی بلکہ نو اپریل کو میاں نوازشریف کے متعدد تنظیمی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ یہ دس پارلیمنٹرینز تھے، جن میں جنوبی پنجاب سے 6 قومی اور دو رکنِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، ان کے ساتھ آزاد رکن نصراللہ دریشک نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ مذکورہ ارکان نے ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ‘‘ کے نام سے اتحاد پر متفق ہوئے۔ شیخوپورہ سے بھی 2 ارکانِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی چھوڑی۔

سعودی عرب کینز کے فلمی میلے میں

اسی روز سعودی عرب میں تیل کی سرکاری کمپنی آرامکو کے فرانسیسی کمپنیوں سے 10 ارب ڈالر کے 8 معاہدوں پر دستخط کرنے کی خبر بھی ملی۔ سعودی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نے بتایا کہ یہ معاہدے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ فرانس کے دوران ہونے والے بڑے معاہدوں میں سے ہیں، جب کہ سعودی عرب اپنے ملک میں نیشنل اوپیرا اور آرکسٹر کے قیام کے لیے فرانسیسی ماہرین سے خدمات حاصل کرے گا، اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط کردیے گئے، معاہدے کے تحت سعودی عرب اپنی لوک موسیقی اور شوز کو فروغ دے گا، سعودی ولی عہد اور فرانسیسی صدر نے ملاقات کے بعد مشترکہ حکمت عملی سے متعلق اسٹریٹجک دستاویز جاری کرنے پر اتفاق کیا ۔ چند ماہ کے دوران سعودیہ کی موجودہ قیادت کے اہم اور تاریخی نوعیت کے فیصلوں کا بہت چرچا رہا ۔ اسی روز یہ بھی معلوم ہوا کہ سعودی عرب کینز فلم فیسٹیول میں پہلی بار شریک ہوگا جس میں 9 مختصر فلمیں بھی شامل ہوں گی جسے ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا۔

بھرتیوں کی ممانعت، ترقیاتی کام بند

11 اپریل کو عام انتخابات کے پیش نظر سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی عائد کردی جب کہ الیکشن کمیشن نے ترقیاتی اسکیموں پر عمل درآمد بھی روکنے کا حکم دیا۔ انہی دنوں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے لیے ناموں پر غور کرنے کے لیے اجلاس اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی دیکھنے میں آیا۔

امریکی میزائل آرہے ہیں!!

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے روس کو براہِ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’روس تیار ہوجائے، نئے اور جدید امریکی میزائل آرہے ہیں۔ 11 تاریخ کو روس کو خبردار کیا گیا کہ شام میں کیمیائی حملے پر روس بھی امریکا کے ردِعمل کے لیے تیار رہے، امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’روس نے شام کی جانب داغے گئے میزائلوں کو گرانے کا عزم کیا ہوا ہے، تو وہ تیار ہوجائے کیوں کہ امریکا کے میزائل آرہے ہیں جو پہلے سے مزید بہتر ہیں۔‘ دوسری جانب روسی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ امریکا دھمکیوں سے باز رہے، روس پوری طرح تیار ہے۔ دریں اثناء شام کی صورت حال کی وجہ سے تیل کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ماہرین کے مطابق یہ دسمبر 2014 کے بعد سب سے زیادہ قیمت تھی۔

اجازت لینا ہوگی!

پی آئی اے کے اہم ترین انتظامی عہدوں کے حوالے سے من مانی اور اقرباپروری کی خبریں تو آتی ہی رہی ہیں، لیکن اس ادارے کی نجکاری، کرپشن کی تحقیقات اور من مانیوں کا راستہ روکنے کے لیے عدالت تک بات پہنچی تو ایک فیصلے میں 2008 سے 2018 تک کے منیجنگ ڈائریکٹرز کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔ 12 تاریخ کو سپریم کورٹ نے ایسے عہدے داروں کی روانگی عدالتی اجازت سے مشروط کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پی آئی اے کو برباد کرنے والوں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ چیف جسٹس نے حکومت کو نجکاری سے قبل عدالت کو اعتماد میں لینے کا حکم جاری کیا۔

ماڈل ٹاؤن، خسارہ اور اتحادیوں کے حملے

سپریم کورٹ نے ماڈل ٹاؤن کیس کی روزانہ سماعت اور باقرنجفی رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا نے کا اور ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ریلویز کا مکمل آڈٹ کرانے اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سیکریٹری ریلوے کو تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیا۔ 14 اپریل کو جہاں ملکی ذرایع ابلاغ میں یہ خبر نشر ہوئی، وہیں دنیا کی نظریں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شام میں مشترکہ کارروائی کی خبر پر بھی ٹکی رہیں۔ اتحادیوں کی جانب سے شامی فوجی تنصیبات اور کیمیائی حملوں کے مبینہ مراکز سمیت متعدد مقامات پر 100سے زائد میزائل داغے گئے اور تمام اپنے ہدف پر لگے جب کہ شام اور روس کے مطابق شامی دفاعی فضائی نظام نے 70 کے قریب میزائلوں کو فضا میں تباہ کردیا۔

لٹیروں کو پکڑیں، سیکیوریٹی نہ دیں!

قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے آمدن سے زائد اثاثوں، کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر سابق صدر پرویزمشرف، وفاقی وزیر اکرم درانی، ق لیگی راہ نما مونس الٰہی سمیت متعدد افراد کے خلاف انکوائری کی منظوری دے دی۔ بیس اپریل کو قومی احتساب بیورو کے اجلاس میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا جائزہ لیتے ہوئے درجنوں بااثر افراد کے خلاف مقدمات کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کی گئی۔

سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں کو غیرمتعلقہ افراد سے سیکیوریٹی 24 گھنٹے میں واپس لینے کی ہدایت کردی۔ مریم نواز نے عدالتی احکامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا مائی لارڈ! دہشت گردی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے اور اس پر کاری ضرب لگانے والے وزیراعظم کی سیکیوریٹی چھین لیں، خدانخواستہ کچھ ہوا تو ذمہ دار صرف آپ ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر پنجاب بھر سے 1856 شخصیات سے سیکیوریٹی واپس لے کر چار ہزار سے زائد اہل کاروں کو بلالیا گیا، جب کہ سابق وزرائے اعظم، سیاسی شخصیات کی سیکیوریٹی کا تعین بھی ہوگیا۔

ووٹروں پر قیامت ٹوٹ پڑی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قائم ووٹر رجسٹریشن سینٹر کے باہر خود کش دھماکے کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 57 افراد جاں بحق اور 119 کے قریب زخمی ہوگئے۔ 20 تاریخ کے اس دھماکے سے قبل بھی غزنی میں ضلعی حکومت کے کمپاؤنڈ پر طالبان کے حملے میں ضلعی گورنر اور پولیس اہل کاروں سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

شادی کی تقریب سے جنازے اٹھے

22 تاریخ کو یمن میں شادی کی تقریب پر فضائی حملے میں 20 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاع آئی۔ یہ یمن کے شمالی صوبے حجاح کا علاقہ تھا جسے بنی قیس کہا جاتا ہے۔ اس کارروائی کا الزام حوثی باغیوں نے سعودی فوجی اتحاد پر لگایا اور یہ بتایا کہ اس حملے میں باغیوں کا مرکزی لیڈر اور گورنر صالح الصمد بھی جان سے گئے۔

واٹر چارٹر پر اتفاق اور دھماکے

پاکستان کی پہلی آبی پالیسی کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی۔ 24 اپریل کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جس میں پہلی آبی پالیسی اور پاکستان واٹر چارٹر کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔ مشترکہ مفادات کونسل کا 37 واں اجلاس وزیراعظم آفس میں منعقد ہوا جس میں قومی آبی پالیسی پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی نے چارٹر پر دستخط کیے۔

اسی روز یہ خبر بھی آئی کہ کوئٹہ میں یکے بعد دیگر تین خودکش دھماکوں میں چھے پولیس اہل کار شہید جب کہ آٹھ پولیس اور پانچ ایف سی جوان زخمی ہوگئے ہیں۔ دو حملہ آوروں کو مار دیا گیا۔ یہ حملہ مغربی بائی پاس کے نزدیک ایک چیک پوسٹ پر کیا گیا تھا۔ اس واقعے میں 13سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔

اور وہ نااہل نہ رہے!!

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کی نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ یوں ان کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا راستہ بن گیا۔ 26 تاریخ کے اس حکم سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اقامہ کیس میں انہیں نااہل قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن عثمان ڈار کی درخواست پر دیا گیا تھا جو 2013 کے انتخابات میں خواجہ آصف کے ہاتھوں شکست کھا چکے تھے۔

دنیا بھر میں 26 تاریخ کو شمالی اور جنوبی کوریا کے سربراہوں کے درمیان ہونے ملاقات کا بھی چرچا رہا۔ عالمی میڈیا میں اس ملاقات کو بہت اہمیت دی گئی جب کہ امریکا نے دونوں ممالک میں رابطے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملاقات مستقبل میں پائیدار امن کے لیے معاون ثابت ہو گی۔

نائجیریا میں خودکش دھماکے

مئی کے آغاز پر نائجیریا میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا۔ یکم مئی کو ملک کے ایک قصبے موبی میں مسجد اور مارکیٹ میں خودکش دھماکوں میں 73 افراد شہید اور 68 زخمی ہو گئے۔ دنیا بھر میں اس واقعے کی مذمت کی گئی جب کہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

طوفان نے 125 انسانوں کی زندگی چھین لی

بھارتی ریاستوں اترپردیش اور راجستھان میں شدید طوفانِ باد و باراں کئی انسانوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ دو مئی سے موسم کے تیور بدلے نظر آرہے تھے اور پھر 125 سے زائد انسان اس ناگہانی آفت کی نذر ہوگئے۔ 70 سے زائد افراد اتر پردیش میں اور دیگر راجستھان کے مختلف علاقوں میں ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ اتر پردیش کا ضلع آگرہ ہے اور اس میں ہلاک شدگان کی تعداد 43 بتائی گئی۔ اس کے بعد راجستھان کا ضلع الور تھا جہاں ہلاکتوں کی تعداد 36 سامنے آئی۔

صارف سے ٹیکس کٹوتی کیوں؟

پاکستان کے عوام نے 2 مئی کو یہ خبر سنی کہ چیف جسٹس نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیا ہے اور استفسار کیا ہے کہ موبائل فون کارڈ پر کون کون سے ٹیکس لاگو ہوتے ہیں، یہ کٹوتیاں کس قانون کے تحت کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر جیسے تبصروں کا طوفان آگیا اور لوگوں کو اس کیس کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار رہا۔

گولی اور ایکسیڈنٹ

اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال نارووال کے علاقے میں کارنر میٹنگ سے فارغ ہوئے تھے کہ ان پر ایک شخص نے گولی چلا دی۔ 6 مئی کو ان کے شدید زخمی ہونے کی خبر آئی۔ وفاقی وزیر مسیحی برادری سے خطاب کر رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ معلوم ہوا کہ حملہ آور کا نام عابد ہے اور وہ ایک قریبی گاؤں کا رہائشی ہے۔ احسن اقبال کے بازو پر لگنے والی گولی اسے چیرتے ہوئے ان کے پیٹ میں گھس گئی جسے آپریشن کر کے نکالا گیا۔

ایک اور خبر وہ واقعہ بنا جس میں 7 اپریل کو امریکی ملٹری اتاشی نے اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو کے قریب سگنل توڑا اور موٹرسائیکل سوار دو افراد کو کچل دیا۔ اس حادثے میں عتیق بیگ نامی نوجوان موقع پر جاں بحق اور اس کا کزن شدید زخمی ہوگیا جب کہ پولیس نے سفارتی استثنیٰ کے باعث کرنل جوزف کو جانے کی اجازت دے دی۔

آہنی جنگلا، سرحد محفوظ

پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ کی تنصیب کے کام کا افتتاح ہوا۔ سات مئی کو آرمی چیف نے اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 270 کلو میٹر طویل آہنی باڑ کی تنصیب کا کام ضلع کوئٹہ کے سرحدی علاقے پنجپائی سے شروع کیا گیا۔ اس باڑ کی تنصیب کا مقصد دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنا اور قانونی نقل و حمل کو آسان بنانا ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف نے کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا۔

ثبوت دیں ورنہ قوم سے معافی مانگیں!

سابق وزیراعظم نوازشریف ایک مرتبہ پھر نیب سے الجھے اور دونوں جانب سے الزامات سامنے آئے۔ مئی کی 10 تاریخ کو نوازشریف نے منی لانڈرنگ سے متعلق نیب کے نوٹس پر کہا کہ چیئرمین نیب چوبیس گھنٹوں میں الزام کے ثبوت دیں ورنہ استعفیٰ دے کر گھر جائیں۔ ثابت ہوگیا ہے کہ ادارے کے سربراہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر میری کردارکشی اور میڈیا ٹرائل کر رہے ہیں، اب الزام ہے کہ نوازشریف نے پانچ ارب ڈالر کی بھاری رقم ملک سے باہر بھیجی اور یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجی گئی، یہ مضحکہ خیز الزامات ناقابل برداشت ہیں۔ اس پر چیئرمین نیب کی جانب سے کہا گیا کہ کوئی نوٹس میری طرف سے ذاتی دعوت نامہ نہیں ہوتا، احتساب کرنا جرم ہے تو یہ جرم ہوتا رہے گا۔

جیسے کو تیسا

پاکستانی حکومت نے 11 مئی کو امریکا کی جانب سے اپنے سفارتی عملے پر پابندیوں کا جواب یوں دیا کہ پاکستانی ایئرپورٹس پر امریکی سفارت خانے کے سامان کی ترسیل کو ویانا کنونشن کے مطابق دیکھا جائے گا۔ امریکی سفارت کار اپنی نقل و حمل سے پہلے متعلقہ حکام سے اجازت لیں گے۔ مزید کہا گیا کہ وہ ذاتی یا کرائے پر لی گئی گاڑیوں پر کالا شیشہ نہیں لگا سکیں گے جب کہ زیراستعمال گاڑیوں پر اصلی نمبر پلیٹ لگانا لازمی ہو گا اور ان سفارت کاروں کو بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر فون سمز جاری نہیں کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ امریکا نے پاکستان کے سفارتی عملے پر پابندیوں کے تحت سفارت خانے سے 25 میل کے فاصلے سے باہر جانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ لازمی قرار دیا تھا۔

خستہ حال پُل اور بے رحم دریا

ایک دل دہلا دینے والا منظر تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ایک افسوس ناک خبر سامنے آئی۔ 13 مئی کو میڈیا پر وادی نیلم میں کنڈل شاہی پل ٹوٹنے کی خبر نشر ہوئی۔ بتایا گیا کہ اس پُل پر حادثے کے وقت موجود 25 سے زائد سیاح دریا میں ڈوب گئے جن میں چار کو بچانے کی کوشش کام یاب رہی جب کہ دیگر افراد دریا کی بے رحم موجوں کے آگے جان کی بازی ہار گئے۔

ایک اور بیان، نیا ہنگامہ

اسی تاریخ کو میاں نوازشریف کے ممبئی حملوں سے متعلق ایک پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ سابق وزیراعظم کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے جو خبریں سامنے آئیں ان کے مطابق نوازشریف کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے پیچھے کالعدم تنظیمیں تھیں جن کو ایسی اجازت کیوں دی گئی۔ اس پر وفاقی کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں بیان کو قطعی طور پر غلط،گم راہ کن اور ٹھوس حقائق کے منافی قرار دیا گیا۔ اس ہنگامی اجلاس میں وفاقی وزراء، مشیر قومی سلامتی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور ڈی جی آئی ایس آئی، اور اعلیٰ سول و عسکری حکام بھی شریک تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اگلے چند دنوں تک خاص طور پر حکم راں جماعت کی قیادت کی جانب سے وضاحتوں کے علاوہ قائد کے دفاع میں بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ تاہم اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کی جانب سے اس پر سخت ردعمل سامنے آیا اور وضاحتوں کو مسترد کرتے ہوئے مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں۔

امریکا اپنی کر گزرا

دنیا بھر میں میڈیا کی نظریں بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب پر تھیں جو کئی نہتے فلسطینیوں کی زندگیاں بھی ہڑپ کرگئی۔ امریکی سفارت خانہ کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے خلاف احتجاجی ریلی پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی اور 58 فلسطینی شہید ہوگئے۔ 14 مئی کو اس موقع پر اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر طاقت کا بدترین اور وحشیانہ استعمال کیا۔ اس موقع پر 2700 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی آئی۔

اصغرخان کیس میں پیش رفت

سولہ مئی کو اصغرخان کیس میں اہم پیشرفت کی خبر سامنے آئی۔ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز میں تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے چند روز قبل کیس کے فیصلے کی روشنی میں کارروائی کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہ پیش رفت سامنے آئی۔

فاٹا کے انضمام کی توثیق

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی توثیق کردی گئی۔ 18 تاریخ کو یہ خبر میڈیا کے ذریعے عام ہوئی۔

کتابیں لہو رنگ ہوگئیں

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سانتافی کے ہائی اسکول میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 9 طالب علموں اور ایک استاد سمیت 10 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ دس لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔ 19 مئی کو ملنے والی خبر کے مطابق اسی واقعے میں پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔ سبیکا کا تعلق کراچی سے تھا۔ 17 سالہ سبیکا اسکالر شپ پروگرام کے تحت امریکا پڑھنے گئی تھیں۔

عام انتخابات کا اعلان ہوا

26 مئی کو اس وقت کے صدر ممنون حسین نے اعلان کیا کہ عام انتخابات پچیس جولائی کو ہوں گے۔

اسد درانی کی کتاب کا چرچا

28 مئی کو پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ اسد درانی کو ان کی کتاب کے مندرجات سے متعلق وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا اور اب کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا ہے جس کی سربراہی حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کریں گے۔

نگراں وزیراعظم کا نام سامنے آیا

اسی روز ذرایع ابلاغ نے خبر دی کہ حکومت اور اپوزیشن نے سابق چیف جسٹس (ر) ناصر الملک کو نگراں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نام زد کردیا ہے۔ اس خبر پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سبھی اس پر متفق نظر آئے۔ اس سے قبل حکم راں اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان چند ملاقاتیں بے نتیجہ ثابت ہوئی تھیں۔

قومی اسمبلی تحلیل

مئی کے مہینے کے آخری دن یہ خبر بھی ملی کہ قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول جاری کرتے ہوئے امیدواروں کو کاغذات نام زدگی جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

نگراں وزیر اعظم کی حلف برداری

ملک میں نگراں حکومت کا قیام عمل میں آیا اور یکم جون کو خبر آئی کہ ناصرالملک نے نگراں وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔

خواجہ آصف اہل ہیں!

اسی روز ایک اور اہم خبر یہ تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ن لیگ کے راہ نما خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

فلسطینی نرس جان سے گئی

اسرائیلی فوج نے فلسطینی نرس کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ یکم جون کو اطلاعات کے مطابق نرس غزہ کی سرحد پر زخمی مظاہرین کو طبی امداد فراہم کر رہی تھی جس پر اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کردی۔ دنیا بھر میں اس واقعے کی مذمت کی گئی جب کہ فلسطینوں کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

آپ ٹیکس نہیں لے سکتے!!

سپریم کورٹ کے فیصلے نے موبائل فون صارفین کو خوشی سے نہال کردیا۔ 8 جون کو یہ خبر ملی کہ موبائل فونز کے کارڈ پر ٹیکسز معطل کردیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں موبائل فون پر اضافی ٹیکس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جس پر یہ فیصلہ سامنے آیا۔

روس کی ادلب پر بم باری

شام پر روسی بم باری کے نتیجے میں 44 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ 8 جون کو یہ کارروائی ادلب میں باغیوں کے ٹھکانے پر کی گئی۔

جب انہوں نے ہاتھ ملایا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے راہ نما کم جونگ کی ملاقات اسی روز ہوئی۔ دونوں نے مصافحہ کیا۔ میڈیا کے مطابق دونوں راہ نماؤں میں 38 منٹ تک علیحدگی میں بات چیت جاری رہی۔ تاہم امریکا کی جانب سے پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر بحال ہوگیا

اسی تاریخ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر، نیویارک کو سولہ برس بعد دوبارہ کھولنے کی خبر بھی میڈیا پر نشر ہوئی۔ 11 ستمبر 2001 کو دہشت گردوں نے اس عمارت سے طیارہ ٹکرا کر اسے تباہ کر دیا تھا۔ دنیا بھر میں اس واقعے کو نائن الیون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ملا فضل اللہ پر ڈرون حملہ

15 جون کو افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کی اور بتایا کہ 13 جون کو امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ مارے گئے۔ امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں ایک اطلاع پر یہ کارروائی کی تھی۔

یہ سال مشتاق احمد یوسفی کو ساتھ لے گیا

اردو کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کئی عشرے تک مسکراہٹیں بانٹنے کے بعد 20  جون کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کا شمار اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے نثرنگاروں میں ہوتا تھا۔

The post ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اپریل تا جون 2018ء ) appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جنوری تا مارچ 2018ء)

$
0
0

2018ء کی چوکھٹ پر یہ صفحات آپ کی نظروں کے سامنے ہیں۔ گردش ایام کی کتاب میں  ایک اور باب رقم ہوا۔ آئیے اس باب میں چلیں، جس کے ہر پَنّے پر کتنے ہی واقعات، سانحات، حادثات بکھرے ہیں، جنھیں سمیٹ کر ہم نے اس ’’سال نامے‘‘ کی صورت گری کی ہے۔

’’تو مجھ سے اور میں تجھ سے بڑا۔۔۔‘‘

2018ء کے پہلے روز ہی شمالی کوریا کے راہ نما کم ال جونگ نے لاابالی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کو جوہری حملے کی دھمکی دے ڈالی، ان کے یہ الفاظ زبان زد عام ہوئے کہ ’ایٹمی حملے کا بٹن میری میز پر ہے!‘ دوسری طرف امریکی صدر بھی اب ڈونلڈ ٹرمپ تھے، وہ کم ہیں کیا کسی سے۔۔۔ جواباً انہوں نے کم ال جونگ کے الفاظ لوٹائے اور اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا بٹن تو کام بھی کرتا ہے۔۔۔!‘‘ دو طرفہ دھمکیوں سے دنیا پر یہ آشکار ہو گیا کہ دنیا کے حکم راں اب کیسے غیر سنجیدہ اور مدہوش لوگ ہو گئے ہیں، جس سے عالمی امن اب شدید خطرے میں ہے۔

شہادتِ بابری مسجد کے ملزم کا 100 مساجد بنانے کا اعلان

2جنوری کو ہندوستان میں ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا، جب بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ایک ملزم بلبیر سنگھ نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت جیسے گھناؤنے فعل کے ازالے اور کفارے کے واسطے 100 مساجد بھی تعمیر کریں گے۔ بلیر سنگھ سے محمد عامر بننے والے یہ صاحب ماضی میں ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ (آر ایس ایس) جیسی انتہا پسند تنظیم سے وابستہ رہے، جو بٹوارے سے قبل 1925ء میں معرض وجود میں آئی اور بٹوارے کے بعد ’بی جے پی‘ نے میدان سیاست میں اس کے شدت پسند نظریے کو پروان چڑھایا۔

امن دشمنوں سے نمٹنے کا ’’حربہ‘‘ کام یاب ہوا

3جنوری کو شمالی بحریہ عرب میں پاکستانی بحریہ نے ایک کروز میزائل ’’حربہ‘‘ کا کام یاب تجربہ کیا، جو سطح آب سے سطح آب پر مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی اینٹی شپ اور زمینی حملے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔ یوں پاکستانی فوج کا امن دشمنوں سے نمٹنے کا ایک ’’حربہ‘‘ کام یابی سے ہم کنار ہوا۔

بدلے بدلے سے امریکی ’سرکار‘ لگنے لگے۔۔۔

پاک امریکا ناتوں کی تاریخ میں کہاں ’سیٹو‘ اور ’سینٹو‘ جیسے بندھن دکھائی دیتے ہیں، آگے چل کر 2001ء کے بعد یہ انتہا ’نان نیٹو اتحادی‘ کی بلندی پر دکھائی دینے لگتی ہے، اور کہاں اب ’پہلے جیسی بات نہ رہی‘ کے مصداق یہ خبر کہ امریکا نے پاکستان سے سیکیوریٹی تعاون معطل کرتے ہوئے 4 جنوری کو 225 ملین ڈالر کی سیکیوریٹی معاونت روکنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے قبل یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر  33ارب ڈالر دینے کے بدلے دھوکا دہی کا الزام لگایا اور کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، جس پر اسلام آباد میں امریکی سفیر کو طلب کر کے شدید احتجاج بھی کیا گیا۔

’’ڈونلڈ ٹرمپ نفسیاتی ہیں۔۔۔!‘‘

یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ 5 جنوری کو مائیکل وولف کی کتاب ’’فائر اینڈ فیوری‘ ان سائڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگ انہیں احمق سمجھتے ہیں۔ انہیں ذہنی مفلوج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جوہری بم کے بٹنوں سے کھیلتے رہتے ہیں۔ اب یہ بات چوں کہ قریبی لوگوں کی ہے، اس لیے ہمیں اس بات سے کوئی علاقہ نہیں، ہم نے ٹرمپ سے تو کیا کبھی کسی حاکم سے قربت کا دعویٰ نہ کیا، بلکہ ہم تو اہل حَکم سے فاصلہ بڑھا لینے والوں میں سے ہیں۔ خیر اگر یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ سے دور کے لوگوں سے متعلق ہوتی تو واللہ ہم اس کی تصدیق کرنے والوں میں سب سے پہلے اپنا نام درج کراتے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکلا نے اس کتاب کو جھوٹ کا پلندہ کہا، ٹرمپ نے مصنف کی جانب سے اپنی ذہنی صحت پر شک کرنے کے حوالے سے کہا کہ ’مائیکل وولف فراڈ اور اس کی کتاب افسانہ ہے!‘

بہرحال اس کتاب میں کتنا سچ ہے اس کا فیصلہ تو اس کتاب سے زیادہ اُن کے بیانات اور فیصلے ہی زیادہ بہتر طریقے سے کر رہے ہیں۔

لالو پرشاد یادیو ’چارے کیس‘ میں لاچار ہوئے!

اپنے بے ساختہ اور عوامی انداز کے باعث مشہور بھارت کے مشہور سیاست دان، ریلوے کے سابق وزیر اور سابق وزیراعلیٰ بہار لالو پرشاد یادیو ’چارہ اسکینڈل‘ میں دوشی پائے گئے اور چھے جنوری کو عدالت نے انہیں دھوکا دہی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ساڑھے تین سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ عائد کر دیا۔ ہم نے لالو پرشاد کے اس ’چارے‘ کو کھوجا کہ مبادا اپنے ریلوے کی وزارت کے زمانے میں کہیں ریل گاڑی کی بوگیاں تو ’گدھوں‘ سے تو نہیں کھچوا رہے تھے اور پھر ان کے چارے کے نام پر مال بٹور لیا ہو، لیکن ہمیں پتا یہ چلا کہ دراصل 1996ء میں اپنی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں انہوں نے بھینسوں کے چارے کے نام پر 9 ارب روپے بٹورے ہیں۔۔۔! یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شکایت کس نے کی، اب بھینسیں تو شکایت کرنے سے رہیں کہ ہمیں دیا گیا چارہ دراصل لالو پرشاد ’’کھا‘‘ رہے ہیں، بہرحال یہ بھینسیں یقیناً سرکاری ہی ہوں گی، ہماری وزیراعظم ہاؤس کی آٹھ سرکاری بھینسیں تو کبھی کی نیلام بھی ہو چکی ہیں، اِسے کہہ سکتے ہیں ’نہ رہے گا بانس اور نہ رہے گی بانسری!‘

سرفراز شاہ قتل میں ملوث رینجرز اہل کاروں کی سزائیں معاف

6 جنوری کو صدر مملکت ممنون حسین نے 8 جون 2011ء کو کراچی میں ایک نوجوان سرفراز شاہ کو سرعام گولیاں مارنے والے رینجرز کے اہل کاروں کی سزائیں معاف کر دیں۔ ان اہل کاروں میں ایک اہل کار شاہد ظفر کو عدالت نے پھانسی دینے کا حکم دیا تھا، جب کہ پانچ سب انسپکٹر بہاالرحمن، لانس نائک لیاقت علی، سپاہی محمد طارق، منٹھار علی، افضل خان اور پارک کے چوکی دار کو عمر قید کی سزا دی تھی، جو صدر مملکت نے مجرمان کے اہل خانہ کی درخواست پر معاف کر دیں۔

بلوچستان: ایک اسمبلی میں تیسرا وزیراعلیٰ۔۔۔

9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی نے ایک بار پھر ’تبدیلی‘ کا ذائقہ چکھا۔ ہوا یوں کہ اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی اُس وقت کے وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری مستعفی ہوگئے، دوسری طرف اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی جب اراکین ابھی نکلے بھی نہ تھے، تب عمارت سے 300 میٹر کی دوری پر ایک خودکُش دھماکا ہوا، جس میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت چھے افراد شہید ہونے کا افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا۔ بلوچستان اسمبلی کی اس جوڑ توڑ کے نتیجے میں 13 جنوری کو عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلیٰ بلوچستان بنے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ثنا اللہ زہری سے پہلے عبدالمالک بلوچ بھی اسی اسمبلی سے وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔ یوں پانچ سال کے دوران ایک ہی منتخب اسمبلی نے ایک، دو نہیں تین وزرائے اعلیٰ کو خدمت کا ’موقع‘ دیا!

قصور میں ننھی زینب کا قتل اور لوگوں کا غم وغصہ

10جنوری کو قصور میں ایک ہفتے قبل اغوا ہونے والی آٹھ سالہ بچی زینب کے قتل کے بعد لوگوں نے شدید احتجاج کیا، جن پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوگئے، جس سے علاقے میں شدید کشیدگی پھیل گئی، جس کے بعد چیف جسٹس نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا اور آرمی چیف نے کہا کہ فوج قاتلوں کی گرفتاری میں مدد کرے۔ مقدمے کی تفتیش کے لیے ایک ’جے آئی ٹی‘ بھی بنا دی گئی۔  11کو ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر مشتعل افراد نے حملے کیے۔ 14جنوری کو اس واقعے کی فوٹیج منظرعام پر آئی، 23 جنوری کو اس معصوم بچی کا قاتل عمران گرفتار ہوا، اور مقدمے کے بعد 17 فروری کو قصور واقعے میں ملوث ملزم عمران علی کو چار بار سزائے موت سنا دی گئی اور 17 اکتوبر 2018ء کو اسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

بڑی عدالتوں کا دائرہ ’فاٹا‘ تک بڑھانے کا بل منظور ہوا

12جنوری کو قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پشاور کا دائرہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ’فاٹا‘ تک بڑھانے کا بل منظور ہوا، جس کی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مخالفت کی، جب کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اس بل کی پرزور تائید کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان مکمل ہوا، انضمام کا مرحلہ جلد مکمل کیا جائے۔

چیف جسٹس نے مقدمات تین ماہ میں نمٹانے کا حکم دیا

13جنوری کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتوں میں اصلاح کی جانب توجہ دیتے ہوئے ججوں کو ہدایت کی کہ وہ مقدمات ایک سے تین ماہ میں نمٹائیں، انہوں نے کہا کہ عدالتوں پر سے لوگوں کی بے اعتباری ختم ہونا چاہیے، یہاں آٹھ سال بعد پتا چلتا ہے کہ مقدمہ جھوٹا تھا۔ جیل میں گزاری گئی ایک رات بھی مصیبت سے کم نہیں ہوتی۔

کسی بھی اسرائیلی وزیراعظم کی پہلی بھارت یاترا۔۔۔!

جولائی 2017ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے، تو 14 جنوری 2018ء کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی بھارت پہنچنے والے پہلے اسرائیلی وزیراعظم بن گئے۔ یہ موقع دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ربع صدی مکمل ہونے کے موقع پر تھا۔ دوسری طرف یہ ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ 10 فروری کو فلسطین پہنچے تو مودی فرمائے کہ آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں، ’’مشکل حالات‘‘ میں بھی فلسطین بھارتی کی دوستی قائم رہی۔ محمود عباس سے ملاقات میں گل ہائے عقیدت بکھیرے اور کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ بات چیت کے ذریعے ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست بنے۔ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ فلسطین تھا۔ وہ اردن کے راستے فلسطین پہنچے۔ اس پر ہم یہی کہیں گے کہ ’’سفارت کاری‘‘ اور کسے کہتے ہیں بھلا۔ ’رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی!‘

ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت طبعی قرار

23 جنوری کو سامنے آنے والی کیمیائی رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ’لندن گروپ‘ کی رابطہ کمیٹی کے انچارج ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی موت کو طبعی قرار دے دیا گیا۔ جامعہ کراچی میں شعبۂ فلسفہ کے سابق استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف 14 جنوری کو کراچی میں ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ میں اپنی ہی گاڑی میں پراسرار طور پر مردہ پائے گئے تھے۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف بھی کئی ماہ حراست میں رہنے کے بعد 18 اپریل 2017ء کو رہا ہوئے تھے۔ ان کی موت کے بعد ایم کیو ایم (لندن) سے وابستہ کوئی راہ نما سرگرم نہیں رہا۔

خبردار، اب کوئی ’’سیاہ کار‘‘ نہ ملے!

15 جنوری کو یہ ’نادر شاہی‘ حکم ترکمانستان کے صدر قربان بردی محدوف نے دیا، اور اُن کا اشارہ کسی ’پاپی‘ کی طرف ہرگز نہ تھا، بلکہ کالی گاڑیوں کی طرف تھا، کیوں کہ موصوف کو سیاہ رنگ پسند نہیں۔۔۔ اُن کی یہ ادا بتلاتی ہے کہ لاکھ آپ، اپنے حاکموں کو ’صدر‘ جیسا جمہوری درجہ دے لیں، لیکن اُن کی یہ ’خُو‘ خالصتاً بادشاہی ہے۔۔۔ اور دربانوں کا تو حکم ہے کہ وہ شاہوں کے ہر حکم کو بجالائیں، سو اُن کی چاق وچوبند پولیس نے بھی سڑکوں اور شاہ راہوں سے کالی رنگت کی گاڑیاں اپنی تحویل میں لینا شروع کردیں۔ بھئی ہمیں تو اس میں بھی سرکاری فتور لگتا ہے، جس کی آڑ لے کر گاڑیاں ضبط کی گئیں، ورنہ ہمارے یہاں تو کالے رنگ سے لے کر ’کالے دہن‘ کو گورا اور سفید کرنے کے ایک سے بڑھ کر ایک نسخے رواں ہیں، ہمی سے پوچھ لیا ہوتا تو ہم بتا دیتے کوئی اچھا سا چونا جو ان گاڑیوں پر تھوپ دیا جاتا تو ان کی ’سیاہی‘ چھپ جاتی۔ ارے اگر بے ادبی نہ ہوتی ناں، تو ہم بتاتے کہ اب تو ’کالے کرتوت‘ مٹانے اور بھلانے کی بھی ’تراکیب‘ بڑے دھڑلے سے استعمال کی جارہی ہیں۔

ایسا خودکُش حملہ، جس میں ’بم بار‘ نہیں ’پھٹا‘!

16جنوری کو کراچی میں ’پولیس مقابلوں‘ میں ملزمان کو ہلاک کرنے کے لیے سب سے معروف نام ’ایس ایس پی‘ ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا کہ اُن پر ایک عدد ’خودکُش‘ حملہ ہوا ہے، جس میں جوابی فائرنگ میں دو حملہ آور ہلاک کردیے گئے، انہوں نے تفصیلات میں بتایا کہ ایک حملہ آور ان کی بکتر بند سے ٹکرا کر پھٹا، جس کی جوابی فائرنگ میں دو دہشت گردوں کو ہلا ک کردیا گیا۔ گویا انہی کے الفاظ کے مطابق وہ پھٹنے کے باوجود بھی ’زندہ‘ رہا اور پھر ’’جوابی‘‘ فائرنگ سے مارا گیا۔ اس واقعے کے حوالے سے ’سی ٹی ڈی‘ سول لائن کے افسر راجا عمر خطاب نے بھی حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ انہوں نے یہ پہلا خودکُش حملہ دیکھا ہے، جس میں ’بم بار‘ پھٹا نہیں، بلکہ جھلسا ہوا تھا۔

لاہور میں حزب اختلاف کا ’مظاہرۂ اختلاف‘!

17جنوری کو مال روڈ لاہور پر اُس وقت کی منتشر حزب اختلاف طاقت کا مظاہرہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ عوامی تحریک، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ق لیگ، سنی تحریک، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور ’پی ایس پی‘ سمیت دو درجن کے قریب جماعتیں اس احتجاج میں شریک ہوئیں، لیکن اس موقع پر بھی دو بڑی جماعتوں کے سربراہ اور حزب اختلاف کے مرکزی راہ نما آصف زرداری اور عمران خان بھی منچ پر یک جا نہ ہو سکے، دونوں نے جدا جدا تقاریر کیں اور چلتے بنے۔

نصرت غنی برطانیہ کی پہلی مسلمان وزیر بنیں

18جنوری کو ایک پاکستانی نژاد خاتون نصرت غنی برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر مقرر ہوگئیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ کا قلم دان دیا گیا۔ نصرت غنی کے والدین کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، جو کئی دہائیوں قبل نقل مکانی کرکے برطانیہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ انہوں نے وہیں برمنگھم میں 1972ء میں آنکھ کھولی۔ نصرت غنی کا سیاسی سفر 2013ء میں شروع ہوا۔ وہ سیاست دان کے علاوہ صحافتی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتی رہی ہیں۔

کراچی میں نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل ہوا

18جنوری کو کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ’فکس اٹ‘ وغیرہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا، 13جنوری کو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ کو ’ایس ایس پی‘ ملیر راؤ انوار نے طالبان کا دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیا تھا، اسی واقعے کے بعد ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ تیزی سے قومی منظرنامے پر نمایاں ہوئی۔ راؤ انوار نے الزام لگایا کہ نقیب 2004ء تا 2009ء طالبان کے بیت اللہ کا گن مین رہا، اس نے جعلی شناختی کارڈ بنوایا، 2009ء میں پاک فوج پر حملہ کر کے متعدد فوجیوں کی جان لی۔ 19 جنوری کو نقیب کے حوالے سے ملک گیر مظاہرے ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ 20 جنوری کو راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا اور چھے اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری 21مارچ کو عدالت میں پیشی کے موقع پر عمل میں آئی۔

کھوکھراپار موناباؤ ’ریلوے لنک‘ میں تین برس کی توسیع

30جنوری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان مونا باؤ اور کھوکھراپار کے درمیان ریلوے لنک میں مزید تین سال کی توسیعی معاہدے پر دستخط کردیے گئے ہیں۔ یہ معاہدہ 2006ء میں ہوا تھا، جس میں 1965ء میں تباہ ہونے والی پٹریاں 44 برس بعد بحال کی گئی تھیں۔ دونوں ممالک میں لاہور اور دلی کے علاوہ جودھ پور سے کراچی تک بھی ریلوے رابطہ ہے، جو موناباؤ اور کھوکھراپار سے گزرتا ہے، لیکن دوسری طرف دل چسپ امر یہ ہے کہ کراچی میں بھارتی قونصل خانہ جنوری 1995ء سے بند ہے، اس لیے سندھ اور کراچی سے ہندوستان جانے والوں کے لیے یہ سفری سہولت ایک مذاق کے مترادف ہے، کیوں کہ انہیں ویزے کے حصول کے لیے اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔

نہال ہاشمی کو توہین عدالت کی سزا ہوئی

یکم فروری کو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے ایک مقدمے میں ایک ماہ قید، 50 ہزار روپے جرمانہ اور پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ نہال ہاشمی نے 28 مئی 2017ء کو ایک تقریر کی تھی جس کا 31 مئی 2017ء کو نوٹس لیا گیا تھا، لیکن وہ اس کے بعد بھی کئی مواقع پر اپنی شعلہ بیانی کے اظہار کرتے رہے۔

’متحدہ قومی موومنٹ‘ میں ’مائنس ٹو‘ ہوگیا۔۔۔!

5فروری کو ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی مقامی قیادت میں شدید پھوٹ پڑگئی، سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ دینے کے معاملے پر اختلافات اتنے بڑھے کہ بہادرآباد کے عارضی مرکز میں رابطہ کمیٹی نے اجلاس بلا کر کامران ٹیسوری کی رکنیت معطل کردی، جب کہ کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اپنی رہائش ’پی آئی بی‘ پہنچ گئے، جس کے بعد انہیں منانے کی کوششیں ناکام ہوئیں اور 11 فروری کو رابطہ کمیٹی نے اپنے کنوینر فاروق ستار کو برخاست کر دیا، مرکزی اراکین نسرین جلیل، ڈاکٹر خالد مقبول، کنور نوید اور عامر خان نے کہا کہ ہم نہایت تکلیف کے ساتھ یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف فاروق ستار نے بھی رابطہ کمیٹی ’تحلیل‘ کردی اور کہا کہ آج ’ایم کیو ایم حقیقی ٹو‘ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو 23 اگست 2016ء کو بانی الطاف حسین سے لاتعلقی المعروف ’مائنس ون‘ کے بعد ’مائنس ٹو‘ قرار دیا۔ 12فروری کو فاروق ستار نے قانونی چارہ جوئی شروع کی، 18 فروری کو فاروق ستار نے باغی اراکین کو اپنے تئیں خارج کرا کے خود کو متحدہ کا کنوینر منتخب کرالیا، جسے بہادر آباد نے مسترد کیا۔ 2 مارچ کو سینٹ کے چناؤ پر دونوں دھڑے مل گئے اور وجہ نزاع کامران ٹیسوری کو بھی امیدوار بنا دیا گیا، لیکن پھر 18 مارچ کو دونوں گروہوں نے الگ الگ تاسیسی جلسے کیے، 26 مارچ کو الیکشن کمیشن نے فاروق ستار کی جگہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر قرار دے دیا۔ 28 مارچ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، جس پر فیصلہ معطل کردیا گیا اور فاروق ستار بحال ہو گئے۔ پھر عام انتخابات سے قبل دونوں ’ضم‘ ہوئے، مگر خدشوں کے عین مطابق فاروق ستار ایک بار پھر تنظیم سے الگ ہوئے، اب صورت حال یہ ہے کہ انہیں باقاعدہ ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے بھی خارج کردیا گیا ہے۔

خالدہ ضیا پانچ سال کے لیے اندر ہوگئیں!

8 فروری کو سابق بنگلادیشی وزیراعظم خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزام میں پانچ سال قید سنا دی گئی، جس پر ان کی جماعت ’بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی‘ کے مشتعل کارکنان نے شدید ردعمل دیا اور پرتشدد واقعات پیش آئے۔ اُن پر یتیم خانے کے لیے بنائے گئے فنڈ میں غبن اور بدعنوانی کا الزام ہے۔ خالدہ ضیا اس سزا کے نتیجے میں بنگلادیش کے آیندہ عام انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گی۔ عدالتی فیصلے میں خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمن سمیت پانچ افراد کو 10 برس قید کی سزا سنائی گئی۔

شاہ اردن کی 11 برس بعد پاکستان آمد

8 فروری کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم 11 سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان تشریف لائے، اس دوران انہوں نے اُس وقت صدر ممنون کے علاوہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی ملاقاتیں کیں، دونوں سربراہان نے باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور امریکا کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کیا۔

عمران خان پھر رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے

دوسری شادی کی طرح عمران خان کی تیسری شادی کی بھی پہلے نہایت شدومد سے افواہیں سنائی دیں، جو پچھلی بار کی طرح اس بار بھی کچھ دن کے بعد 18 فروری کو ’جھوٹی افواہ‘ یعنی سچی خبر بن گئیں۔ یوں قوم کے سامنے تصدیق کردی گئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بشریٰ مانیکا کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ہیں۔

ایک اور ’’نااہلی‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو!

21فروری نوازشریف وزارت عظمیٰ کے بعد اپنی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دے دیے گئے، اس سے قبل 28 جولائی 2017ء کو انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنا پڑا تھا۔ اب ن لیگ کی سربراہی سے الگ کیا تو ان کے کیے گئے فیصلے بھی کالعدم قرار پائے، جس کے نتیجے میں بطور سربراہ ن لیگ نوازشریف کے دستخط سے جاری سینیٹ کے ٹکٹ بھی مسترد کر دیے گئے یوں نواز لیگ کے امیدوار سینیٹ کے چناؤ میں ’آزاد‘ قرار پائے۔ 27 فروری کو نوازشریف کو ن لیگ کا تاحیات قائد منتخب کیا، جب کہ شہباز صدر منتخب ہوئے۔

’ایوان بالا‘ کا چناؤ ’’ن‘‘ کی برتری اور ’پی ایس پی‘ کا نقب!

3مارچ کو سینیٹ کے انتخابات میں ’ن لیگ‘ کے 15، پیپلزپارٹی کے 12، تحریک انصاف کے چھے اور متحدہ کے صرف ایک امیدوار فروغ نسیم کام یاب ہو سکے۔ ایم کیو ایم کے اختلافات اور ’پی ایس پی‘ میں جانے والے منحرف ارکان کے ووٹوں سے فنکشنل لیگ کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ سندھ مظفر حسین شاہ رکن سینیٹ منتخب ہوگئے، انہوں نے باقاعدہ ’پی ایس پی ‘ کے مرکز جاکر ووٹ دینے پر ان سے اظہار تشکر کیا۔ ابتدا میں ’پی ایس پی‘ اخلاقاً یہ موقف جتا رہی تھی کہ اس کا حصہ بننے والے اراکین اسمبلی کی رکنیت چھوڑ کر آرہے ہیں، لیکن دفعتاً یہ سلسلہ رک گیا اور متحدہ کے ٹکٹ پر جیتنے والے ’پی ایس پی‘ کے 8 اراکین نے سینیٹ کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے اسمبلی میں حاضری لگائی اور اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ سینیٹ کے اس چناؤ سے ایک دن قبل 2 مارچ کو سربراہ پاک سرزمین پارٹی مصطفیٰ کمال نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگلا وزیراعلیٰ سندھ ’پی ایس پی‘ کا ہوگا، لیکن بدقسمتی سے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں اُن کا ایک رکن بھی نہ جیت سکا۔

الطاف حسین اور ان کے خاندان کے نام ہٹانے کا فیصلہ

8مارچ کو سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اور ان کے خاندان سے منسوب کراچی کی مختلف سڑکوں، عمارتوں اور دیگر تنصیبات کے نام بدلنے کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ کراچی میں مجموعی طور پر ایسے 62 مقامات ہیں، اجلاس میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وزیر داخلہ سہیل انور سیال کور کمانڈر کراچی شاہد بیگ مرزا، ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید اور آئی جی پولیس وغیرہ شریک ہوئے۔

’’جاؤ عزت سے مر جاؤ!‘‘  بھارتی عدالت نے فیصلہ دیا

9مارچ کو بھارتی عدالت عظمیٰ نے عزت سے مرنے کا حق تسلیم کرتے ہوئے ایسے مریضوں کو مرنے کی اجازت دے دی، جن کی صحت یابی کی کوئی امید نہ ہو۔ ’’آسان موت‘‘ کی اس اجازت کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ انسانوں کو ’عظمت سے مرنے‘ کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے، ایسے مریض وصیت کر سکتے ہیں کہ اگر وہ ایسے کوما میں چلے جائیں، جس کا علاج ممکن نہ ہو تو پھر انہیں مصنوعی طریقے سے زندہ رکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔

قومی سیاست میں جوتے چَل پڑے ۔۔۔

11مارچ کو لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف پر ایک طالب علم کی جانب سے ان کی جانب جوتا اچھال دیا گیا۔ اس وقت قومی منظرنامے پر انتخابی موسم کی آمد آمد تھی، اس لیے تمام سیاسی قائدین اپنے جلسوں میں شریک جوتے والے ’مخالفین‘ سے محتاط ہونے لگے۔ ایسی تقاریب کے حاضرین اور ان کے سامان پر کڑی نظر رکھی جانے لگی، اور ہر ایک کے منچ کے قریب آنے پر نگرانی بھی ہونے لگی۔ اس کے باوجود دو دن بعد ہی 13مارچ کو گجرات میں تحریک انصاف کے ایک جلسے میں عمران خان پر بھی جوتا پھینکا گیا جو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تحریک انصاف کے مرکزی راہ نما علیم خان کو جا لگا۔

شیری رحمٰن پہلی خاتون قائد حزب اختلاف بنیں

22مارچ کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سنیئر رکن اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰن سینیٹ کی پہلی خاتون قائد حزب اختلاف مقرر ہوئیں، تحریک انصاف اور ساری حزب اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلوں گی۔ اس سے قبل 12 مارچ کو پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے اتحاد سے صادق سنجرانی چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے، ن لیگ کے راجا ظفرالحق اور عثمان کاکڑ سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے سرخرو نہ ہو سکے۔

قابض اسرائیلی فوجی کو تھپڑ رسید کرنے والی عہد تمیمی کو سزا

22مارچ کو اسرائیلی فوجی کو ایک عدد چانٹا رسید کرنے والی فلسطینی لڑکی عہد تمیمی کو آٹھ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس کی ویڈیو اس کی والدہ نے بنائی تھی، جس کے بعد ان کی والدہ پر بھی اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ دو جنوری کو ہی عہد تمیمی پر ’فرد جرم‘ عائد کر دی گئی۔ عہد تمیمی نے مغربی کنارے میں واقع گاؤں نبی صالح میں اپنے گھر سے باہر نہ نکلنے پر قابض اسرائیلی فوجی اہل کار کو تھپڑ دے مارا تھا۔ اُن کے اس ’جرم‘ میں انہیں 20 دسمبر 2017ء کو گرفتار کرلیا گیا۔ وہ 29 جولائی 2018ء کو اپنی اسیری کاٹ کر رہا ہوئیں اور آج وہ فلسطینی نوجوانوں میں جدوجہد، مزاحمت اور حریت پسندی کا ایک نیا استعارہ بن چکی ہیں۔

پہلی بار بھارتی حکام نے پاکستانی پریڈ دیکھی!

23مارچ کو پاکستان اور بھارت کی 70 سالہ تاریخ کا ایسا انقلاب رقم ہوا کہ جسے کبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ ہوا یوں کہ اس دن یوم پاکستان کی فوجی پریڈ میں پہلی بار بھارتی عسکری اہل کاروں اور سفارتی حکام نے باقاعدہ شرکت کی۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارتی حکام کو یہ دعوت بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دی تھی، جسے مثبت ردعمل دیتے ہوئے قبول کیا گیا۔

فسادات میں ابوالکلام آزاد کا مجسمہ منہدم ہوا

27مارچ کو مغربی بنگال میں پرتشدد واقعات میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ صورت حال ہندوؤں کے مذہبی تہوار کے موقع پر پیش آئی، جس میں شرپسندوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کا مجسمہ بھی منہدم کردیا۔ وزیراعلیٰ بنگال ممتا بنرجی نے شرپسندوں کی جانب سے مسلح ریلی نکالے جانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دینا ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔ اس واقعے کا مقدمہ ’بی جے پی‘ بنگال کے صدر دلیپ گھوش کے خلاف درج کیا گیا۔ دوسری طرف ریاست گجرات میں ’بی جے پی‘ کی حکومت نے نومبر میں متعصب کانگریسی راہ نما ولبھ بھائی پٹیل کا بلند مجسمہ نصب کیا۔

نوبیل انعام لینے کے بعد ملالہ کی آمد

29مارچ کو نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد ملالہ یوسف زئی پہلی بار پاکستان آئیں، جہاں سرکاری سطح پر اُن کا زبردست خیر مقدم کیا گیا۔ اس دوران وہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے آبائی علاقے سوات بھی گئیں، جہاں انہوں نے اپنے رشتے داروں سے ملاقات بھی کی اور کیڈٹ کالج کا دورہ بھی کیا۔

The post ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جنوری تا مارچ 2018ء) appeared first on ایکسپریس اردو.

لاہور میوزیم لائبریری، پہلی جنگ عظیم کا حصہ بننے والے فوجیوں کا امین

$
0
0

میوزیم کی ریفرنس اور ریسرچ لائبریری میں پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والے برطانوی فوج کے سپاہیوں کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے، کس ضلع سے کتنے سپاہی برطانوی فوج کا حصہ تھے اوران کا تعلق کس مذہب اور ذات سے تھا یہ سب تفصیلات ہاتھ سے لکھی ہوئی ان 100 سال پرانی ڈائریوں میں محفوظ ہیں۔

جولائی 1914 سے نومبر 1918 تک لڑی جانے والی پہلی جنگ میں غیر منقسم ہندوستان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجیوں نے بھی حصہ لیا تھا، جن میں سے 74 ہزار187 سپاہی مارے گئے جب کہ 69 ہزار214 فوجی زندہ واپس لوٹے تھے۔ اس جنگ میں مشرقی اورمغربی پنجاب کے کن اضلاع سے کتنے سپاہیوں نے حصہ لیا، یہ تمام تفصیلات لاہورمیوزیم اینڈریسرچ لائبریری میں رکھی گئی ڈائریوں میں درج ہیں۔

لائبریری میں برطانوی فوج کے کرنل کمانڈنٹس کی ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائریاں محفوظ ہیں، مشرقی اورمغربی پنجاب کے 20 اضلاع کے فوجیوں کا ریکارڈ 34 جلدوں پر مشتمل ہے، لائبریری کے سینئر لائبریرین بشیر احمد بھٹی کے مطابق اس جنگ میں سب سے زیادہ 9 ہزار704 سپاہیوں کا تعلق لدھیانہ اس کے بعد 5627 سپاہیوں کا تعلق لاہور جب کہ 4 ہزار716 سپاہیوں کا تعلق اٹک سے تھا۔
لائبریری میں اٹک اور لدھیانہ کے فوجیوں کی تفصیلات کی 3،3 جلدیں ہیں، اس کے علاوہ حسار، ہشیارپور، جہلم، جالندھر، کانگرہ، شاہ پور، لاہور، گورگن اور روہتک کے سپاہیوں کے ریکارڈ کی 2،2 جلدیں جب کہ امرتسر، فیروزپور، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، ملتان، کرنال، راولپنڈی، اور گورداسپور کی ایک ایک جلد ہیں۔

اس حوالے سے کام کرنیوالے پاک فوج کے میجر ریٹائرڈ ارشد پرویزنے بتایا کہ اس ریکارڈکی بدولت ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ موجودہ پاکستان کے کس ضلع سے کتنے سپاہیوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا، انہوں نے بتایا کہ 1914 سے 1918 تک کے اس ریکارڈکے مطابق جنگ عظیم اول میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنیوالے جن تین سپاہیوں کو سب سے پہلے برطانیہ کا سب سے اعلی ایوارڈ وکٹوریہ کراس دیا گیا ان میں تین کا تعلق موجودہ پاکستان سے تھا، ان میں سب سے پہلے صوبیعدارخدادداخان تھے جن کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا، اس کے بعد دوسرے میربخت خان بلوچ رجمنٹ اور شاہ احمد خان گوجرخان کے تھے جنہوں نے فرانس اوربیلجیم میں لڑی جانیوالی جنگ میں حصہ لیاانہوں نے مزیدبتایا کہ اس ریکارڈکی وجہ سے ہی سپاہیوں کو پنشن مل سکی اورجان بحق ہونیوالوں کے ورثا کومعاوضے مل سکے تھے، وکٹوریہ کراس لینے والوں کو ایک ایک مربے زمین عطا کی گئی۔

سینئرلائبریرین بشیراحمد بھٹی نے بتایا کہ یہ ریکارڈملٹری سائنس کے طالب علموں کے لیے یہ ریکارڈایک انمول خزانہ ہے، اس میں مسلمان ، سکھ ، ہندو، عیسائی اوردیگرمذاہب کے لوگ شامل تھے،واضع رہے کہ بھارت ایک عرصہ تک یواین اوسے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ اس جنگ میں لڑنے والے تمام سپاہیوں اورافسروں کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا اوران کا معاوضہ بھی اسے ہی ملنا چاہیے تاہم اس ریکارڈکی دستیابی کے بعد پاکستان یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ جواضلاع آج پاکستان کا حصہ ہیں یہاں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کا معاوضہ اوراعزازات پاکستان کو ملنے چاہیے تھے۔

The post لاہور میوزیم لائبریری، پہلی جنگ عظیم کا حصہ بننے والے فوجیوں کا امین appeared first on ایکسپریس اردو.

شاہی قلعے کی سرنگیں اورتہہ خانے برسوں بعد بھی عوام کی آنکھوں سے اوجھل

$
0
0

 لاہور: شاہی قلعہ میں خفیہ سرنگوں اور تہہ خانوں کا ایک جال بچھا ہے اور ان کے بارے کئی افسانوی قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں لیکن یہ پوشیدہ آثار برسوں بعد بھی عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نے ایسی ہی دو سرنگیں اور بارود خانہ تلاش کیا ہے جس کی بحالی کا کام جاری ہے۔

لاہور کا تاریخی شاہی قلعہ اپنے دامن میں کئی خفیہ آثار چھپائے ہوئے ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آرہے ہیں، لاہور والڈسٹی اتھارٹی نے حال ہی میں یہاں خفیہ سرنگوں کا ایک سلسلہ دریافت کیا ہے، سرنگوں کا یہ سلسلہ شاہی قلعہ کے اندر تک ہی محدود ہیں، ان خفیہ سرنگوں اور تہہ خانوں سے منسوب قصے کہانیوں کی حقیقت جاننے کے لئے یہاں آنے والے سیاح بیتاب ہیں۔

مقامی یونیورسٹی کی ایک طالبہ ماہم نے کہا کہ انہیں جب سے ان سرنگوں اور تہہ خانوں سے معلوم ہوا ہے وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہیں کہ یہ سرنگیں کتنی طویل تھیں اور کہاں جاتی تھیں ، ایک دوسری طالبہ خدیجہ نے بتایا کہ وہ لاہور کی رہائشی ہیں اورانہوں نے ان سرنگوں بارے سن رکھا ہے کہ یہاں سے کئی سرنگیں شالامار باغ اوردلی تک جاتی تھیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک سرنگ قلعہ سے مقبرہ جہانگیر تک جاتی تھی ، مغل شہزادے اور شہزادیاں ان سرنگوں کو آمدورفت کے لئے استعمال کرتے تھے۔

تاہم ماہرآثار قدیمہ راشد مخدوم کہتے ہیں کہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں، انہوں نے بتایا کہ لاہورکا یہ شاہی قلعہ اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ آج تک اس کا بہت کم حصہ عوام کے لئے کھولا جاسکا ہے، قلعہ کا بڑاحصہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود بھی پوشیدہ ہے، انہیں ابھی تک کسی ایسی سرنگ کے آثارنہیں ملے جو قلعہ سے باہر کسی دوسرے علاقے میں جاتی تھی اب تک جو سرنگیں دریافت ہوئی ہیں وہ سب قلعہ کے اندر ہی ختم ہوجاتی ہیں ، انہوں نے تہہ خانوں کے حوالے سے بتایا کہ ممکن ہے جس دورمیں یہ قلعہ تعمیرہوا اس وقت یہ تہہ خانے نہ ہوں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں تبدیلیاں آتی رہیں ، سکھ اور برطانوی دور میں یہاں کافی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے کچھ حصے سطح زمین سے بلند ہوگئے اور یہ کمرے زمین دوز ہوتے گئے۔

خفیہ سرنگوں کے علاوہ یہاں کھدائی کے دوران برطانوی دورکا بارود خانہ بھی سامنے آیا تھا ، یہاں لکھی تحریرکے مطابق یہ حصہ 1857 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے بارود خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اب لاہور والڈ سٹی اتھارٹی اس حصے کی بحالی میں مصروف ہے تاکہ اسے سیاحوں کے لئے کھولا جاسکے، ماہرین کے مطابق وہ ان خفیہ سرنگوں اور تہہ خانوں کے جال کوتلاش کرنا چاہتی ہے اور یہ کھوج لگائی جارہی ہے کہ انہیں کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، کئی برسوں کی کھوج اور کھدائی سے بہت کم سرنگیں اور تہہ خانے دریافت ہوسکے اور ان تک رسائی ممکن ہوسکی ہے۔

The post شاہی قلعے کی سرنگیں اورتہہ خانے برسوں بعد بھی عوام کی آنکھوں سے اوجھل appeared first on ایکسپریس اردو.


وہ جو ہم سے بچھڑ گئے

$
0
0

اسٹیفن ہاکنگ Stephen Hawking (سائنسدان) ’’اسٹیفن ہاکنگ‘‘ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعیات تھے۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔

وہ 8 جنوری1942 کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہوئے۔وہ ایک ایسے سائنس داں تھے جولوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتے تھے بلکہ ایسی معلومات فراہم کرتے تھے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہول، نظریاتی کونیات کے میدان میں ہے۔ ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھے۔ ظاہری طور پر انتہائی ذہین ہونے کے باوجود بھی اْن کے اساتذہ کو یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ لیکن پھر 1962ء میں ایک انقلاب آیا، جب انھوں نے آکسفورڈ سے سند حاصل کی۔

1966ء میں جب وہ 21 برس کے تھے تو پہلی دفعہ انھوں نے ایک پیچیدہ دماغی بیماری کی علامات کو محسوس کیا۔۔ یہ بیماری ’’موٹر نیوران‘‘ کہلاتی ہے ،جس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج اور معذور ہو جاتا ہے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ اس ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو اس خبر نے ان پر بجلی گرا دی ۔ اس بیماری نے اْنھیں رفتہ رفتہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر وہیل چیئر تک محدود کر دیا۔ تاہم بیماری کے اس جھٹکے کے بعد انھوں نے باقی ماندہ زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے کمر ہمت کس لی اور پھر زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کیا۔

ہاکنگ نے جس مشکل ترین کام کا انتخاب کیا وہ آئن سٹائن کے پیچیدہ ترین نظریہ اضافت پر غور کرناتھا۔ اْنھوں نے بیماری کی حالت میں ایک بڑے کام کو چْنا۔اس کام نے جہاں اْنھیں موت کے خوف سے کسی حد تک دْور رکھا وہیں دوسری طرف اس کام میں بنی نوع انسان کی بھلائی کے پہلوبھی سامنے آئے۔  1970ء کی دہائی کے شروع میں ہی انھوں نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شائع کروانا شروع کیا جس میں انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں “وحدانیت ” اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

1974ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ابھی تک ان کا سب سے شاندار کام ہے۔ ان کی بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ نتیجتاً انھوں نے عام لوگ کی طرح زندگی کے دوسرے کام بھی کیے، مثلاًشادی اور وہ تین بچوں کے باپ بن گئے۔اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد انھوں نے چار سال بعد دوسری شادی کر لی۔ لیکن اپنی اس بیوی کو بھی انھوں نے 2006ء میں طلاق دینے کے لیے دستاویز جمع کروا دیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہو گئے تھے اور دنیا سے ان کا رابطہ محض آنکھوں کے اشاروں سے رہتا۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ مقالات لکھتے اور لیکچروں دیتے۔1990ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا توان کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے وقت کے سفر سے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک “نظریہ تحفظ تقویم” پیش کیا ہے تاکہ “تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے “۔

ان کی ایک کتاب وقت کی مختصر تاریخ یعنی  (A Brief History of Time)ایک شہرئہ آفاق کتاب ہے جسے انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کتاب نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیاتھا۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلگی کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔

کیمبرج کے کمپیوٹر سائنسدانوں نے ہاکنگ کیلئے یہ ’’ٹاکنگ‘‘ کمپیوٹر بنایا تھا۔ کمپیوٹر اْس کی وہیل چیئر پر لگا دیا گیا تھا۔ جو اْس کی پلکوں کی زبان کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ پلکیں ایک خاص زاویے میں ہلتی تھیں۔ اورلفظوں کی شکل اختیار کرتے تھے۔ وہ لفظ کمپیوٹر کی اسکرین پر ٹائپ ہوجاتے تھے اور بعدمیں ا سپیکر کے ذریعے سنے اور سنائے جانے لگتے تھے۔ سٹیفن ہاکنگ نے آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ دْنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں۔جس کے بعد کرہء ارض سے نسل انسانی ختم ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانوں کو اپنی بقا کیلئے کسی دوسرے سیارے پر نقل مکانی کرنا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ہم نے اپنے سیارے کو موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتے درجہ حرارت، قطبی برفانی خطوں میں کمی، جنگلات اور جانوروں کے خاتمے جیسے تباہ کن تحائف دیئے ہیں اور ہم تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسٹیفن نے90ء کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کیا تھا کہ مایوس اور نااْمید لوگوں کو زندگی کی خوبصورتیوں کے بارے میں لیکچر دے کر اْن کے عزم اور حوصلے کو بڑھاتا رہا۔وہ انہیں اپنی معذوری کی مثال دے کر عزم اور حوصلے کو مستحکم بنانے کیلئے کہتے تھے۔ یہ عظیم ماہر فلکیات، طبعیات دان اور ریاضی دان 14مارچ 2018ء بروز بدھ 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

جون پاؤل سٹیور (Jon Paul Steuer):’’جون‘‘ ایک امریکی اداکار و موسیقار تھے۔ وہ 27 مارچ 1984ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی شہرت کا آغاز مشہور زمانہ انگریزی فلم ’’سٹار ٹریک‘‘ (Star Trek) میں ’’الیگزینڈر روزہنکو‘‘ (Alexander Rozhenko) کا کردار ادا کرنے سے ہوا۔ ان کا انتقال 1 جنوری 2018ء کو 34 برس کی عمر میں ہوا۔

علی اکبر معین فر:’’معین فر‘‘ مئی 1928ء میں تہران میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ایرانی سیاست دان تھے۔ انقلاب ایران کے بعد بننے والی پہلی حکومت میں انہوں نے وزیر تیل کا قلمدان سنبھالا۔ بعدازاں وہ 1980-84ء ایران کی پارلیمنٹ رکن بھی رہے۔ ان کا انتقال 2 جنوری 2018ء کو ہوا۔

زبیدہ طارق ( زبیدہ آپا):4 اپریل 1945ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والی زبیدہ طارق، جو عرف عام میں زبیدہ آپا کہلاتی تھیں، ایک ماہر پکوان تھیں اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی کھانے پکانے کی ماہر تھیں جو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچی۔ ان کے گھریلو ٹوٹکے بھی بے انتہا مقبول ہوئے۔ وہ اپنی اسی مقبولیت کی وجہ سے متعدد ٹی وی چینلز کے کھانا پکانے کے پروگراموں میں ہر دلعزیز میزبان کے طور پر شریک ہوتی رہیں۔ قیام پاکستان پر وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئیں تھیں اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئیں۔ ان کی 5 بہنیں اور 4 بھائی تھے۔ جو تمام کے تمام بعدازاں فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں میں نامور ہوئے۔ 1966ء میں ان کی شادی اپنے کزن طارق مقصود سے ہوئی۔ ان کے دو بچے ہیں۔

ابتدائی طور پر جب ان کے شوہر اپنے گھر پر تقریبات کا انعقاد کرتے تو ان میں زبیدہ آپا کے پکائے ہوئے کھانے مہمانوں کو اتنے پسند آتے کہ ایسی ہی ایک تقریب میں شامل ایک مہمان جو ایک مشہور گھی اور کوکنگ آئل بنانے والی کمپنی کی فوڈ ایڈوائزری سروس سے تعلق رکھتے تھے، نے ان کی اس صلاحیت سے متاثر ہوکر انہیں اپنی کمپنی میں ملازمت کی پیشکش کی۔ اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں زبیدہ آپا شہرت کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئیں۔ ان کا انتقال 4 جنوری 2018ء کو ہوا۔

منتظر بابا:منظر بابا پشتو زبان کے ہر دلعزیز شاعر تھے جو 1950ء میں پیدا ہوئے اور 5جنوری 2018ء کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے۔

جون ینگ (John Young):جون ینگ امریکی خلا نورد تھے جو 24 ستمبر 1930ء کو کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 1972ء میں خلائی جہاز اپالو 16 کے کمانڈر کی حیثیت سے چاند پر چہل قدمی کرنے والے 9 ویں شخص تھے۔ اس کے علاوہ یہ اعزاز بھی انھیں حاصل ہے کہ وہ خلا نورد کے طور پر سب سے طویل عرصہ تک خدمات سرانجام دیتے رہے اور اپنے کیریئر میں 6 مرتبہ خلائی مشنز پر گئے۔ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے بطور پائلٹ اور کمانڈر 4 مختلف طرح کے خلائی جہاز اڑائے۔ ان کی وفات 5 جنوری 2018ء کو ہوئی۔

اصغر خان (سیاستدان):ایئرمارشل (ر) اصغر خان 17 جنوری 1921ء کو جموں کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ایک فوجی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھی فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1941میں رائل انڈین ایئرفورس میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے ایشیاء کے محاذ پر ایئرفورس کے کمانڈنگ آفیسر کے طور پر لڑائی میں حصہ لیا۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا اور 1959ء میں محض 36 سال کی عمر میں پاکستان ایئرفورس کے سربراہ کا منصب سنبھال لیا۔

وہ اس وقت کے کم عمر ترین ایئرفورس سربراہ تھے۔وہ PIA کے سربراہ بھی رہے اور اس قومی ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی جماعت تحریک استقلال کی بنیاد رکھی۔ 1970ء سے 1990ء کی دہائی تک ان کا پاکستان کی قومی سیاست میں کلیدی کردار رہا۔ اسی دوران انہوں نے پاکستانی سیاست کے حوالے سے متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے ان کا سپریم کورٹ میں دائر کردہ مقدمہ اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ بعدازاں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا۔ ان کے چار بچے تھے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ ان کا انتقال 97 برس کی عمر میں 5جنوری 2018ء کو ہوا۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔

رسا چغتائی (شاعر)1928ء میں پیدا ہونے والے مرزا محتشم علی بیگ، رسا چغتائی کے تخلص سے پاکستان کے شعری افق پر نمودار ہوئے اور بام عروج کو پہنچے۔ وہ اپنے شعری مجموعوں ’’زنجیر ہمسائیگی‘‘ اور ’’تیرے آنے کا انتظار رہا‘‘ کی صورت ادبی اور شعری ذوق رکھنے والوں کے دلوں میں تادیر زندہ رہیں گے۔ ان کا انتقال 5 جنوری 2018ء کو ہوا۔

اشفاق احمد(سائنسدان):ڈاکٹر اشفاق احمد پاکستانی ایٹمی سائنسدان تھے۔ وہ 3نومبر 1930ء کو گرداسپور میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدانوں میں شامل تھے۔ اپنے میدان میں انہوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ 18 جنوری 2018ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

قاضی واجد (اداکار):قاضی واجد 26 مئی 1930ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1965ء میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام سے کیا۔ 25 برس تک وہ ریڈیو سے وابستہ رہے۔ 1967ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی ڈراموں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ان کا فنی سفر 47 سالوں پر محیط تھا۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ سٹیج اور فلموں میں بھی کام کیا۔ وہ ایک ورسٹائل فنکار تھے۔ انہیں ٹی وی ڈرامہ ’’خدا کی بستی‘‘ سے بے پناہ شہرت ملی۔ انہوں نے متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ 1988ء میں انہیں ڈرامہ ’’ہوا کی بیٹی‘‘ میں بہترین پرفارمنس پر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ بھی ملا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں خدا کی بستی، ہوا کی بیٹی، دھوپ کنارے اور تنہائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ وہ 11 فروری 2018ء کو کراچی میں 87 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

عاصمہ جہانگیر (وکیل رہنماو سماجی کارکن)عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ انسانی حقوق کی علمبردار وکیل اور ایک مشہور سماجی کارکن تھیں۔ انہوں نے وکلاء تحریک میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ 1980ء کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ مقدمے کی وجہ سے انہوں نے بہت شہرت پائی۔ عاصمہ جیلانی کیس کے  نام سے مشہور یہ مقدمہ بعد میں بھی مختلف مقدمات میں نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ 1983ء میں مارشل لاء کے خلاف چلنے والی تحریک ’’ایم آر ڈی‘‘ (MRD) میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 1986ء میں وہ جنیوا چلی  گئیں اور وہاں دو سال تک بچوں کے حقوق کی تنظیم ’’ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل‘‘ کی وائس چیئرپرسن رہیں۔

وطن واپسی کے بعد 1987ء میں وہ انسانی حقوق کی تنظیم کی شریک بانی کے طور پر ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ کی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں اور 1993ء میں اس کی چیئرپرسن منتخب ہوگئیں۔ نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کے موقع پر انہیں ایک بار پھر گھر میں نظر بند کردیا گیا کیونکہ وہ وکلاء کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔ بعدازاں انہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ انسانی حقوق اور وکلاء کی متعدد بین الاقومی تنظیموں اور اداروں اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی نمائندہ اور شریک سربراہ رہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز وغیرہ کے علاوہ نشان امتیاز بھی شامل ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں۔ ان کا انتقال 11 فروری 2018ء کو ہوا۔

سری دیوی:13 اگست 1963ء کو پیدا ہونے والی سری دیوی ہندوستان کی فلمی دنیا کی صف اول کی ہیروئن رہیں۔ ان کی بہت ساری فلمیں 1980-90 کی دہائیوں میں شہرت کے ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کو کئی ایواڈز ملے جن میں ہندوستان کا چوتھا بڑا سول ایوارڈ ’’پدما شری‘‘ بھی شامل ہے۔ ان پر پکچرائز ہونے والے گانے آج بھی مشہور ہیں۔ 24 فروری 2018ء کو ان کا انتقال ہوا۔

محمد عاشق (سائیکلسٹ):17 مارچ 1935ء کو پیدا ہونے والے محمد عاشق ایک سائکلسٹ تھے جنہوں نے 1960ء اور 1964ء کے سمر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اپنا کیریئر ایک باکسر کے طور پر شروع کیا تھا۔ ایک مقابلے میں جب انہیں کافی چوٹیں آئیں تو انہوں نے باکسنگ کو خیرباد کہہ کر سائیکلنگ شروع کردی۔ ان کی وفات 11 مارچ 2018ء کو ہوئی۔

ونی منڈیلا (Winnie Mandela):ولی منڈیلا، جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا کی اہلیہ تھیں۔ وہ 26 ستمبر 1936ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کی 38 سالہ ازدواجی زندگی میں سے 27 سال ان کے شوہر نیلسن منڈیلا جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے۔ ونی نے یہ تمام عرصہ بہت ہمت و حوصلے سے گزارا اور اپنے شوہر کے مشن کو آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ ان کی وفات 2 اپریل 2018ء کو ہوئی۔

بار برا بش:8 جون 1925ء کو پیدا ہونے والی بابر برابش، امریکہ کے 41 ویں صدر جارج بش سینٹر کی اہلیہ اور امریکہ کی سابق خاتون اول تھیں۔ ان کے بیٹے بش جونیئر بعد میں دو مرتبہ امریکہ کے صدر رہے۔ ان کی ازدواجی زندگی 73 برس پر محیط تھی جو کسی بھی امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کے مقابلے میں طویل ترین ہے۔ ان کا ایک اور بیٹا ’’جیب بش‘‘ امریکی ریاست ’’فلوریڈا‘‘ کا گورنر بھی رہا۔ 17 اپریل 2018ء کو ان کا انتقال 92 برس کی عمر میں ہوا۔

مدیحہ گوہر (اداکارہ):مدیحہ گوہر 21 ستمبر 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نویس، سماجی تھیٹر کی ڈائریکٹر اور سماجی کارکن بھی تھیں۔ 1983ء میں انہوں نے ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کے نام سے معاشرتی اور سماجی ڈراموں کو سٹیج کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا تھیٹر گلیوں، محلوں اور دیگر عوامی مقامات پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔ پاکستان کے علاوہ انہوں نے ’’اجوکا تھیٹر‘‘ کے زیر اہتمام یورپ اور ایشیاء کے دیگر ممالک میں بھی ڈرامے سٹیج کیے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ انہوں نے انگریزی ادب کے علاوہ یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر سائنسز میں بھی ماسٹرز کیا۔ وطن واپسی پر وہ لاہور میں سکونت پذیر ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے تھیٹر ڈراموں کے ذریعے ناصرف مختلف سماجی اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی بلکہ تھیٹر کی کلاسک روایات کو بھی زندہ کیا۔ انہیں اپنے کام کے سلسلے میں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کا انتقال 25 اپریل 2018ء کو لاہور میں 61 برس کی عمر میں ہوا۔

جمشید مارکر (سفارتکار):سابق سفارتکار جمشید مارکر حیدر آباد دکن میں 24 نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک پارسی گھرانے سے تھا اور ان کے والد ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم ہندوستان اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پائی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے رائل انڈین نیوی میں بطور ایک رضاکار خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں وہ اپنے ایک اور خاندانی کاروبار یعنی جہاز رانی سے بھی کچھ عرصے تک منسلک رہے۔ 1950ء کی دہائی میں وہ ریڈیو پر کرکٹ میچوں کی کمنٹری بھی کرتے رہے اور خاصی شہرت حاصل کی۔

اپریل 1965ء میں انہوں نے اپنے شاندار سفارتی کیریئر کا آغاز کیا اور انہیں گھانا میں پاکستان کا ہائی کمشنر لگایا گیا۔ بعد میں وہ ایک درجن کے قریب اہم ترین ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔ ان کا سفارتی کیریئر لگ بھگ 3 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ 1986ء میں انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا جہاں انہوں نے ملک و قوم کی ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کردیا۔ انہیں متعدد اعزازات جیسے ہلال امتیازودیگر سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی حکومتوں میں وہ کئی سربراہوں اور وزراء اعظم کے اعتماد کے حامل رہے اور اپنی سفارتی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کا انتقال 95 برس کی عمر میں 21 جون 2018ء کو کراچی میں ہوا۔

(1 جون مککین John Mccain (امریکی سینیٹر): ’جون مککین‘ ایک انسان دوست شخص تھے۔ ان کی شخصیت کا امریکہ کی سیاست پر گہرا اثر پڑا۔ وہ 29 اگست 1936ء کو پیدا ہوئے۔ وہ نیوی میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 1982ء میں پارلیمنٹ کے ممبر اور 1986ء میں سینیٹر بنے۔ 2000ء کے عشرے میں وہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے دو بار امریکہ کے صدارتی امیدوار نامزد کیے گئے۔ ان کا انتقال 25 اگست 2018ء کو ہوا۔

بیگم کلثوم نواز (سابق خاتون اول):سابق وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز 29 مارچ 1950ء کو لاہور میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز اور بعدازاں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ وہ برصغیر و ہند کے مشہور پہلوان رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ اپریل 1971ء میں نواز شریف کے ساتھ ان کی شادی ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ 1990-93ء، 1997-99ء، 2013-17ء میں 3 مرتبہ پاکستان کی خاتون اول بنیں۔1999ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد جب نواز شریف قید میں تھے تو بیگم کلثوم نواز نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھالی اور احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ وہ 2017ء کے ضمنی انتخابات میں لاہور سے قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں تاہم اپنی بیماری کے سبب رکنیت کا حلف نہ اٹھاسکیں۔ 11 ستمبر 2018ء کو وہ اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔

سٹین لی Stan Lee (مصنف):28 دسمبر 1922ء کو پیدا ہونے والے ’’سٹین لی‘‘ ایک لکھاری اور پبلشر تھے۔ ان کا سب سے مشہور کام ’’سپارئڈمین‘‘ (Spider Man) کے کردار کی تخلیق تھی۔ اس کے علاوہ معروف فلمی کرداروں ’’فنٹاسٹک فور‘‘ (Fantastic Four) کے خالق بھی وہی تھے، جنہوں نے بہت شہرت سمیٹی۔ ان کے والد روم سے امریکہ ہجرت کرکے آئے تھے اور زیادہ تر بے روزگار رہے۔ ’’سٹین لی‘‘ نے اپنی ابتدائی زندگی میں بے انتہا غربت دیکھی اور اپنا کیریئر بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ ان کی وفات 12 نومبر 2018ء کو ہوئی۔

فہمیدہ ریاض (شاعرہ):فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946ء کو ہندوستان کے شہر میرٹھ میں ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ایک ممتاز ماہر تعلیم تھے جنہوں نے صوبہ سندھ میں جدید نظام تعلیم کے خدوخال بنانے اور اسے ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ فہمیدہ ریاض کو اردو اور سندھی کے علاوہ فارسی زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر وابستہ ہوگئیں۔ وہ شادی کے بعد کچھ عرصہ انگلستان میں بھی رہیں جہاں انہیں بی بی سی اردو ریڈیو میں کام کرنے کا موقع ملا۔ نیز انگلستان سے ہی انہوں نے فلم بندی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ان کی پہلی شادی سے ایک بیٹی جبکہ دوسری شادی سے دو بچے ہیں۔

جنرل ضیاء کے دور میں ان کے میگزین ’’آواز‘‘ میں شائع ہونے والے جمہوریت اور لبرل ازم پر مبنی مضامین کی وجہ سے انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں نامساعد حالات کی وجہ سے وہ بھارت چلی گئیں اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ 7 سالہ جلاوطنی کے بعد وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمی کے دور میں وطن واپس آئیں۔ وہ ایک ترقی پسند شاعرہ اور ادیبہ، سماجی کارکن، انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔ انہوں نے پہلی بار مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ شاعری اور فکشن کی15 کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ 13 برس کی عمر میں ان کی پہلی نظم احمد ندیم قاسمی کے مشہور جریدے ’’فنون‘‘ میں شائع ہوئی جو ایک بڑا اعزاز تھا۔ 22 برس کی عمر میں ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ انہیں ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سمیت بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال 21 نومبر 2018ء کو 72 برس کی عمر میں ہوا۔

الطاف فاطمہ (ادیبہ):پاکستان کی نامور ناول نگار، افسانہ نگار، مترجم اور معلمہ الطاف فاطمہ 1929ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئیں۔ یہاں پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں اردو کی استاد مقرر ہوئیں اور اسی کالج سے شعبۂ اردو کی سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں لاہور کے مؤقر ادبی جریدے ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ بعدازاں ان کے افسانے ملک کے دیگر معروف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان کی شخصیت پر لکھنؤ کی تہذیبی روایات کا گہرا اثر تھا۔ ان کے افسانوں اور ناولوں سمیت دوسری تصنیفات و تراجم کی تعداد تقریباً 10 ہے۔ الطاف فاطمہ نے ہمیشہ فن کی گہرائی میں ڈوب کر لکھا۔ سقوط ڈھاکہ پر ان کا ناول ’’چلتا مسافر‘‘ دس برس میں مکمل ہوا۔ ان کے ایک اور ناول ’’دستک نہ دو‘‘ پر مبنی پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریز اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے نشر ہونے کے دوران سڑکیں سنسان ہوجاتیں اور لوگ ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے۔ الطاف فاطمہ 29 نومبر 2018ء کو ہم سے بچھڑ گئیں۔

جارج بش سینئر (سابق امریکی صدر):امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ڈبلیو بش سینئر 12 جون 1924ء کو پیدا ہوئے اور 30 نومبر 2018ء کو انتقال کرگئے ۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں نیوی میں پائلٹ، کانگریس کے رکن، CIA کے ڈائریکٹر، چین میں امریکہ کے سفیر اور دوبار امریکہ کے نائب صدر رہے۔ وہ 1989ء سے 1993ء تک امریکہ کے صدر کے طور پر کام کرنے رہے۔ ان ہی کے دور میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔ بعد میں ان کے بیٹے جارج بش جونیئر بھی امریکہ کے دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔

علی اعجاز (اداکار):پاکستانی فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار علی اعجاز  18دسمبر 2018ء کو لاہور میں 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ وہ 1941 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔1964 میں لاہور سے ٹی وی کا آغاز ہوا تو اطہر شاہ خان (جیدی) کا لکھا ہوا سلسلے وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ لائیو پیش کیا جانے لگا جس کے تین مرکزی کرداروں میں ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ علی اعجاز نے فلموں میں کچھ چھوٹے موٹے کردار تو ادا کیے تھے مگر ان کو فلموں میں جانے کا اصل موقع عارف وقار کے پیش کردہ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ کے بعد ملا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام کی فلم 1980 میں ریلیز ہوئی جس کے بعد انھیں فلموں کی آفرز ملنا شروع ہو گئیں۔ 1980 کی دہائی میں اداکار ننھا (خاور رفیع) کے ساتھ ان کی جوڑی فلمی ناظرین میں بہت مقبول رہی۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ عطا الحق قاسمی کے لکھے ہوئے مزاحیہ کھیل خواجہ اینڈ سنز میں ان کا کردار آج بھی پاکستان ٹیلیویڑن کے ناظرین کے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہے۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post وہ جو ہم سے بچھڑ گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

چینی سیاسی نظام میرٹ اور جوابدہی کے اصولوں پر استوار ہے

$
0
0

(قسط نمبر (11)
سیاست اور تشہیر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تشہیری سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف سطح کے انتخابات کے موقع پر تواشتہار بازی لازمی ہوتی ہے۔پاکستان میں تو انتخابات کے موقع پر ہونے والی سرگرمیوں کا سب کو علم ہے۔ مگر چین میں ہمیں نہ تو دیواروں پر سیاسی نعرے نظر آئے اور نہ ہی سیاسی جماعتو ں کی وال چاکنگ، چوراہے کسی بھی سیاسی شخصیت کی تصویر سے محروم تھے۔

بیجنگ میں رہتے ہوئے ، سب وے سٹیشن یا مختلف سب ویزمیں سفر کرتے ہوئے،پبلک ٹرانسپورٹ میں گھومتے ہوئے، مختلف بازاروں، مارکیٹس ، محلوں ، کمیونٹیز میں واک کرتے ہوئے کہیں بھی کسی سیاسی شخصیت کی تصویر نظر نہ آئی ۔ ہمارے ہاں تو سیاسی قیادت یا ان سے وابستہ افرا د اپنی خودنمائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہاں تک کہ مختلف تاجر تنظیموں یا بازار کی سطح کے انتخاب کے موقع پربھی بڑے سائز کی تصاویر کا کلچر عام ہے۔ لاہور سے راولپنڈی کی جانب جی ٹی روڈ سے سفر کریں تو وقفے وقفے سے مختلف سیاسی و عوامی شخصیات کی تصاویر راستے میںنظرآتی ہیں (اب شاید عدالتی ممانعت ان پرلاگو ہے) مگر چین میں یہ کلچر نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے بہت انوکھا اور حیران کُن تھا اور ہمیں تجسس تھا کہ چین میں کیسا سیاسی نظام رائج ہے اور لوگ یہاں سیاسی سرگرمیوں میں کیسے حصہ لیتے ہیں اور یہاں پر ایک ہی سیاسی جماعت ہے یا ایک سے زائد جماعتیں ہیں۔ اس کے متعلق ہمیں معلومات ایک روز ہماری اردو سروس کی ایک ساتھی Du Jianing جن کا اردو نام تبسم ہے نے فراہم کیں۔

Jianing Du کا تعلق بیجنگ سے ہے اور وہ بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی (Peking University) کی گریجویٹ ہیں جسے چین کی Oxford یونیورسٹی کادرجہ حاصل ہے۔ Du Jianing کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے جو کہ چین میں اصلاحات سے ملنے والے ثمرات سمیٹ رہی ہے۔اسی کی دہائی میں چین میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اقدامات کئے گئے اور ون چائلڈ پالیسی کا اطلاق ہوا۔ اس وقت چین کے اربن علاقوں میں رہائش پزیر نوجوانوں کی اکثریت اکلوتی ہے۔ خاندانی سطح پر بہن بھائیوں سے محروم اکلوتوں کی یہ نسل معاشی ثمرات کی اکیلی ہی وارث ہے۔ Du Jianing کی نسل اور عہد سے تعلق رکھنے والے نوجوان چینی مرد و زن کو بالعموم اپنے اپنے خاندان کے چھ افراد کی جانب سے معاشی امداد ملی ہے۔

ان میں دادا ، دادی ،نانا نانی اور اپنے والدین شامل ہیں۔ چونکہ اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچے اکیلے تھے اس لیے یہی بچے خاندان بھر کی آنکھ کا تارا تھے۔ یہ نسل صحیح معنوں میںایک جدید، خوشحال، ترقی یافتہ چین کی عکاس ہے۔ایک روز دفترمیں پاکستان کے سیاسی حالات پر بات چیت ہورہی تھی تو میں نےing Du Jian (تبسم) سے چین کے سیاسی بندوبست کے متعلق پوچھ لیا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ بتا کر حیران کیا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ بھی دیگر سیاسی جماعتیں ہیں۔ ہم ان کی اس بات پر فوری طور پر یقین کو تیار نہ ہوئے اس کی وجہ ہمارا اپنا مشاہدہ تھا۔ ہماری اس بے یقینی کو دور کرنے اور اپنی بات کی تصدیق کے لیے انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نام بھی بتائے ۔ nig Du Jian (تبسم) نے بتایا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے علاوہ سیاسی سرگرمیاں سرا نجام دینے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت ریوولوشنری کمیٹی آف دی چائینز کومن تانگ (Revolutionary Committee of the Chinese Kuomintang) ہے۔اس کے ممبران کی تعداد 81000 کے لگ بھگ ہے۔

اس کے علاوہ چین کے شہر چھونگ چھنگ میں چالیس کی دہائی میں قائم ہونے والی چائنہ ڈیموکرٹیک لیگ (China Democratic League) بھی ہے ۔اس پارٹی میں زیادہ تر ادب، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ اس کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ اکیاسی ہزارہے۔ جیوسن سوسائٹی (Jiusan Society) بھی سیاسی نوعیت کی سرگرمیاں سرا نجام دیتی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ نمایاں اور ممتاز افراد اس کے رکن ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد ہے۔ انیس سو پینتالیس میں قائم ہونے والی چائنہ ڈیموکرٹیک نیشنل کنسڑکشن ایسوسی ایشن (China Democratic National Construction Association) کا شمار بھی چین کی پرانی سیاسی پار ٹی میں ہوتا ہے۔ اس پارٹی میں زیادہ تر کاروباری افراد شامل ہیں۔ اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ آٹھ ہزار ہے۔ شنگھائی میں تشکیل پانے والی چائنہ ایسوسی ایشن فار پروموٹنگ ڈیموکریسی (China Association for Promoting Democracy) بھی ایک الگ سیاسی شناخت رکھتی ہے ۔ اس پارٹی میں زیادہ تر ثقافت،تعلیم اور اشاعت سے متعلق سینیئرلوگ شامل ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔

چائینز پیزنٹس اینڈ ورکررز ڈیموکرٹیک پارٹی ،(Chinese Peasant’s and Worker’s Democratic Party) بھی اپنا سیاسی وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ چین کے شعبہ طب سے وابستہ نمایاں افراد اس پارٹی سے وابستہ ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ننانوے ہزار سے زائد ہے۔ بیرون ملک سے واپس آنے والے چین کے متوسط اور بالائی طبقے کے لیے پسندیدہ سیاسی پڑائو چائنہ چی گانگ پارٹی (China Zhi Gong Party) ہے۔اس کے ممبران کی تعداد اٹھائیس ہزار سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ تائیوان ڈیموکرٹیک سیلف گورنمنٹ لیگ (Taiwan Democratic Self-Government Leuague) نامی پارٹی بھی سیاسی منظر نامے پر موجود ہے۔ یہ دو ہزار ایک سو سے زائد ممبران پر مشتمل ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ ان تمام محب وطن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہترین جمہوری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔چین کے آئین میںدرج حقوق کے مطابق ان جماعتوں کو اپنی سیاسی سرگرمیاں رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چین کی سوشلسٹ تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ چین میں مختلف سطح کی عوامی کانگریسوںمیں ان کے مندوبین منتخب ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے بہت سے ارکان مختلف ریاستی اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر بھی فائز ہیں یہ جان کر ہم بہت حیران ہوئے کہ چین میں اتنی سیاسی جماعتیں اپنا وجود رکھے ہوئے ہیں۔ Du Jianing کے ساتھ ہماری بات چیت جاری تھی کہ ہماری اردو سروس کی ایک اور ساتھی Wang Qianting جن کا اردو نام مسرت ہے وہ بھی ہمارے ساتھ آ شامل ہوئیں۔ Wang Qianting پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر چکی ہیںا ور پاکستان کے سیاسی حالات و شخصیات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں سیاست سے خاصی دلچسپی ہے اور وہ سی پی سی کی ممبر بھی ہیں۔ نہایت شائستہ اورمہذب لہجے میں گفتگو کرنے اور ہر دم مسکرانے والی Wang Qianting نے بتایا کہ چین میں مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے میں توآپ کو معلوم ہو ہی گیا مگر چین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ ہے جو کہ حکمران جماعت ہے۔ بیرونی دنیا میں چین کو ’ون پارٹی‘ یا یک جماعتی نظام حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے قیام اوراس کے تاریخی پس منظر کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایاکہ یہ پارٹی انیس سو اکیس میں قائم ہوئی ۔ پارٹی کی پہلی کانگریس کے انعقاد کے وقت اس کے ارکان کی تعداد ستر (70) تھی۔ اس وقت چین میں سیاسی جدوجہد کا عمل جاری تھا اور مختلف جماعتیں اس میںشریک تھیں ۔ کمیونسٹ پارٹی کی متحدہ قیادت میں چین میں انقلاب کی جدوجہد بھی تیز ہوگئی۔اور کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

انیس سو ستائیس میں اس کے ارکان کی تعداد ستاون ہزار نو سو تک جا پہنچی۔ جدوجہد کے دوران اس کو مختلف اندورنی شورشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسی عمل کے دوران کمیونسٹ پارٹی نے مشہور لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں چین میں پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا۔ Wang Qianting نے بتایا کہ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں زُن ای (Zunyi) شہر وہی اہمیت حاصل ہے جو لاہور کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے باعث حاصل ہے۔ چین میں جاری لانگ مارچ کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ایک کانفرنس زُن ای (Zunyi) میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں لانگ مارچ کے حوالے سے حکمت عملی کاجائزہ لیا گیا اور ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ حکمت عملی میں تبدیلی کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی جدوجہد میں فتوحات ملناشرو ع ہوئیں ۔ آج کا موجودہ چین زُن ای کانفرنس اور اس میں کیے گیے فیصلوںکا نتیجہ ہے۔

ہمیں ایک صحافتی وفدکے ہمراہ اس شہر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اُس عمارت کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں یہ تاریخ ساز اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ چین کے روایتی طرز تعمیر کی حامل دو منزلہ عمارت ہے۔ اجلاس میں شریک بیس رہنمائوں کی تصاویر، ان کے زیر استعمال فرنیچر، ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں اور ان سے وابستہ دیگراشیاء کو یہاں محفوظ رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ یہاں ایک میوزیم بھی ہے جہاں اُن بیس رہنمائو ں کے مجسمے نصب ہیں۔اس کے علاوہ چینی لانگ مارچ کی جدوجہد کے مختلف مراحل، اس کے لیے اپنائے گئے راستے کا نقشہ، لانگ مارچ کے دوران استعمال ہونے والا اسلحہ ، روزمرہ استعمال کی اشیاء کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

یہاں پروفیشنل گائیڈز کی موجودگی اس میوزیم کے دورے کو بہت یاد گار بناتی ہے ۔ جب ہم نے اس میوزیم کا دورہ کیا تھا تو ایک نوعمر طالب علم انتہائی جوش اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سیاحوں کو لانگ مارچ کی جدوجہد سے آگاہ کر رہا تھا۔ہمار ے دورے کے اختتام پر ہمیں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جس میں جدید تھری ڈی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے بیس رکنی اجلاس میں شریک رہنمائوں کے درمیان ہونے والے تبادلہ خیال کو پیش کیا گیا ۔ اس فلم کو دیکھنا ایک بہت ہی مسحور کن تجربہ تھا۔اس کے علاوہ زن ای ہی میں واقع ایک گائوں گوبا Gouba جس کو Red Army Village کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اعلی رہنمائوں نے اپنی جدوجہد کے دوران یہاں قیام کیا تھا اورکئی اہم نوعیت کے سیاسی و انتظامی فیصلے کیے تھے۔

 

اس گائوں میں رہنمائوں کے زیر استعمال کمروں کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔یہاں ایک دکان ہے جہاں پر مختلف قسم کے سووینیئرز، ٹوپیاں، لالٹینز، مائوزے تنگ کی تصاویر اور پارٹی کا لڑیچر دستیا ب ہے۔ اس گائوں میں ایک بزرگ چینی شہری سے بھی ملاقات ہوئی جو لانگ مارچ کی جدوجہد کے وقت بارہ،تیرہ برس کے تھے۔ تب انہیں اپنے بزرگوں اور گائوں کے لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ یہاں کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ صوبہ گوئچو میں موجود ان دونوں مقاما ت پر چینی شہری بڑی تعداد میں آتے ہیں اور اپنے رہنمائوں کی سیاسی جدوجہد ، ان کی سادہ طرز زندگی، جدوجہد کے دوران عام دیہاتی گھروں میں قیام وطعام کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی قیادت کے خلوص، وژن کے معترف ہوتے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کا رُکن بننے کے لیے ایک بالغ شہری جس کی عمر اٹھارہ سال ہے باضابطہ طور پر درخواست دیتا ہے۔ پارٹی ممبر بننے کے لیے تعلیمی و پیشہ ورانہ قابلیت کا بھی ایک کوٹہ ہوتا ہے۔ درخواست کی منظوری ملنے کی صور ت میں پارٹی ممبر بننے والا ایک حلف اُٹھاتا ہے۔پارٹی ممبر ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے پروبیشن پر ہوتا ہے۔ اس دوران نہ تووہ ووٹ دے سکتا ہے اورنہ ہی کسی الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد وہ ووٹ دینے اور الیکشن میں امیدوار بننے کا اہل ہوتا ہے۔ پارٹی ممبران کی تربیت کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔پارٹی کے قواعد کے مطابق ایک ممبر کو پارٹی کا وفادار، نظم وضبط کا پابند رہنا پڑتا ہے۔پارٹی ممبر پارٹی میٹنگز میں شریک ہو سکتا ہے۔ متعلقہ پارٹی دستاویزات پڑھ سکتا ہے۔ پارٹی کے اندر ہونے والے بحث مباحثوں میں شرکت کر سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی زیربحث مسئلے پر اپنی رائے کا کُھل کر اظہار کر سکتا ہے اور کسی بھی پارٹی پالیسی یا پارٹی ممبر پر منطقی تنقید بھی کرسکتا ہے یہاں تک کہ کسی بھی سینئر رہنما سے بھی اختلافِ رائے کر سکتا ہے۔

پارٹی ممبران کے لیے سوشلسٹ افکار و خیالات کے حوالے سے تربیتی نشستوں کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین موجود ہیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ چونکہ چین کی حکمران جماعت ہے اس ناطے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی لیے پارٹی میں مختلف سطح پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے پارٹی ممبران کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے پارٹی سکول بھی موجود ہیں ۔ ان پارٹی سکولوں کا احوال ہمیں گوئچو کے صحافتی دورے کے دوران Ran Hao (رین ہائو) نے بتایا ۔نوجوان Ran Hao (رین ہائو) کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی سنٹرل کمیٹی کے پارٹی سکول کے شعبہ سائنٹفک سوشلز م سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔

وہ زیادہ تر سوشلزم کی ترویج اور قومی گورننس کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سنڑل پارٹی سکول اعلی تعلیمی ادارہ ہے۔جہاں پر سینئر اور درمیانے درجے کے ممتاز پارٹی رہنمائوں کو تربیت دی جاتی ہے اورمارکسزم کے نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔سی پی سی کی سنڑل کمیٹی کے براہ راست زیر کنٹرول یہ پارٹی سکول مارکسزم کے مطالعے اور اس کے پھیلائو ، مائو زے تنگ افکار (Mao Zedong Thought)، چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم کی تھیوریز اور پارٹی سپرٹ کے فروغ کا بہت اہم مرکز ہے۔پارٹی سکول تربیت کے ساتھ ساتھ فلسفے کی تحقیق کا بھی ایک مرکز ہے۔

صحافتی دور ے کے دوران مختلف مقامات کادورہ کرتے ہوئے Ran Hao (رین ہائو) کے ساتھ کافی وقت گزرا۔ متعلقہ مقام تک پہنچنے اور وہاں سے واپسی کے درمیانی وقت میں ہم دونوں کے درمیان کافی گپ شپ رہی۔Ran Hao (رین ہائو) روانی سے انگلش بولتے ہیں سو ہم نے بھی ان سے چینی حکومتی نظام کے متعلق کئی سوالات پوچھ ڈالے۔ Ran Hao (رین ہائو) نے بتایا کہ چین میں حکومتی نظام میں ہر سطح پر عوام کی مختلف انداز میں شمولیت ہے۔عام چینی شہری سیاسی مشاورت اور جمہوری نظام کے ذریعے سیاسی امور میں شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ جمہوری مشاورت کا نظا م شہریوں کی الیکشن کے ذریعے یا عوامی اجتماعی مباحثوں میں شمولیت کے ذریعے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو یقینی بناتا ہے۔

دیہی علاقوں میں رہنے والے ہر تین سال بعد اپنے لیڈرکا انتخاب ووٹ کے ذریعے سادہ اکثریت سے کرتے ہیںا ور وہ افراد جو اربن ایریاز میں رہائش پذیر ہیںوہ اپنے اپنے اضلاع میں مسائل کے حل کے لیے منعقدہ مشاورتی عمل کے ذریعے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہیں۔اسی طرح چین کی چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس ( Chinese Peoples Political Consultative Conference) کے لیے نمائندوں کا چنائو بھی کیا جاتا ہے۔ سی پی پی سی سی میں مختلف سیاسی جماعتوں ، تنظیموں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ سی پی پی سی سی قومی سطح کی پالیسیاں بناتی ہے۔Ran Hao (رین ہائو) نے مغربی تصورجمہوریت اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلز م کو دو الگ اور مختلف تصورات قرار دیا۔ چین میں پارٹی سکول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کی کئی نامور شخصیات جن میں موجودہ صدر شی جن پھنگ اور سابق صدر ہوجن تائو کے علاوہ کئی مرکزی رہنما شامل ہیں وہ پارٹی سکول کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

ہم اکثر چھٹی کے روز کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتے تھے۔ ایک روز ہم بیجنگ کی یونیورسٹی آف جیو سائنسز میں اپنے دوست آفتاب عالم کے پاس تھے کہ وہاں کچھ اور پاکستانی احباب بھی آگئے۔ آفتاب عالم یونیورسٹی میں جیو سائنسز کے ایک شعبے میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور پاکستان کے ایک اہم ادارے سے وابستہ بھی ہیں۔دیارِ غیر میں جب پاکستانی ایک صحافی کے گرد اکٹھے ہو جا ئیں تو پھر سیاست پر بات نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ اُن دنوں پاکستان میں الیکشن مہم بھی زوروں پر تھی۔ سو وہاں بھی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے مختلف طلباء اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں دلائل دینے لگے۔ باتوں باتوں میں بحث کارخ چین میں قانون سازوں اور قانون سازی کے معاملات تک جا پہنچا۔ بحث میں شریک طلباء کی اکثریت اس خیال کی حامی تھی کہ ہمارے ملک میں عوامی اہمیت کے مسائل اور ان پر قانون سازی سے متعلق مسائل قانون سازوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہیں۔ جبکہ چین میں قانون ساز عوامی اہمیت کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہیں۔

وہیں محفل میں پاکستان کے ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ظفر حسین بھی موجود تھے جو کہ چین کی ایک یونیورسٹی سے ابلاغِ عامہ کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور گزشتہ پانچ برس سے چین میں مقیم ہیں۔ انہوں نے چین کے سیاسی نظام اور اس میں عوام کی شمولیت کے متعلق بتایا کہ چین میں سب سے بڑا ریاستی ادارہ نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) ہے۔یہ قانون وآئین ساز ادار ہ ہے۔یہ پاکستان کی قومی اسمبلی، امریکہ کے ایوانِ نمائندگان اور برطانوی دارالعوام کی مانند ہے۔این پی سی کے ممبران کا انتخاب پانچ سال کے لیے کیا جاتا ہے۔اور اس کے ممبران کو ڈیپٹیز Deputies کہا جاتا ہے۔ اس میں چین کے مختلف صوبوں، ریجنز، میونسپیلیٹیز ،خو د اختیار علاقوں اور آرمڈ فورسز کی نمائندگی ہوتی ہے۔ یہ چین کے صدر اور وزیراعظم کا انتخاب کرتی ہے۔پیپلز سپریم کورٹ کے صدر، سپریم پیپلز پروکیوریٹوریٹ کے پروکیوریٹر جنرل کا انتخاب، خصوصی ریجنز کے قیام اور نظام کی منظوری بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔

اس کے علاوہ آئین یا قانون میں ترمیم کی منظوری بھی این پی سی ہی میں دی جا سکتی ہے۔ انیس سو اسی میں چین میں صدارتی عہدے کے حوالے سے دو ٹرمز کی پابندی متعارف کروائی گئی مگر رواں برس این پی سی کے اجلاس میں اس پابندی کاخاتمہ کر دیا گیا۔ این پی سی کا سالانہ اجلاس ہر سال مارچ میں ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں چین کا وزیراعظم سالانہ ورک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ این پی سی میں ہی چین کے اعلی انتطامی عہدوں پر تقرر کی منظوری دی جاتی ہے۔ چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین کا انتخاب، بجٹ ، قومی اقتصادی اور سماجی ترقی کے منصوبوںکا جائزہ اور ان کی منظوری دینا، فوجداری، دیوانی معاملات، ریاستی اداروں اور دیگر معاملات سے متعلق معاملات کے متعلق بنیادی قوانین وضع اور ان میں ترمیم کرنا بھی این پی سی کے دائرہ کار میں ہے۔

این پی سی ممبران مختلف مسائل اور ان کے حل کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ این پی سی کی سٹینڈنگ کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ سٹینڈنگ کمیٹیاں این پی سی کا مستقل ادارہ ہیں۔ اس کے ارکان کا انتخاب ہر کانگریس کے پہلے اجلاس میں ہوتا ہے۔یہ کانگریس کو جوابدہ ہوتی ہے اور کام کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی ایک چیئر مین، وائس چیئر مینز، سیکرٹری جنرل اور دیگر اراکین پر مشتمل ہے۔ این پی سی میں مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات کو بطور ممبر نامزد کیا جاتا ہے ۔ موجودہ این پی سی کے ممبران کی تعداد لگ بھگ تین ہزار کے قریب ہے۔ ان ممبران کو مختلف تہہ در تہہ (Multi-Tiered)نمائندگی کے نظام کے تحت متعلقہ پروونشل پیپلز اسمبلییز منتخب کرتی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر حسین کی گفتگو کے تسلسل کو کھانے کے اعلان نے توڑا ۔ سب احباب صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی دوست شاہ نواز اریسر کے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں موجود کھانے میں روایتی سندھی بریانی اور مٹر قیمہ نے پاکستان کی یاد تازہ کردی۔ ڈاکٹر ظفر حسین نے چائے کی نشت پر گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ چین کے سیاسی نظام میں چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی بھی بہت اہمیت ہے۔ یہ چین میں اعلی سطح کی سیاسی مشاورتی باڈی ہے۔اس کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔ ا س میں مختلف سماجی امور پر مشاورت ہوتی ہے۔ چین کی این پی سی اور سی پی پی سی سی کا اجلاس مارچ میں ہوتا ہے ۔ اس کو Two Sessions کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ان سیشنز میں شریک افراد کسی نہ کسی سیاسی سرگرمی اور طریقہ کار کے تحت منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس بارے میں Du Jianing (تبسم) نے بتایا کہ چین میں مرکزی اور مقامی سطح پر عوامی کانگریس (Peoples Congress) کی تعداد پانچ ہے۔ ان تمام کانگریسز کو جمہوری طریقہ کار کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔Du Jianing (تبسم)نے چین میں ووٹ ڈالنے کے عمل کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چین کے اٹھارہ سال اور زائد عمر کے تما م شہریوں کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔ اس آئینی حق میں کوئی نسلی یا لسانی پس منظر، جنس ، پیشہ، مذہبی عقیدہ یا تعلیمی معیار رکاوٹ نہیں ہے۔اضلاع میں غیر منقسم شہروں، میونسپل اضلاع، کائونٹیز،خود اختیارکائونٹیز، ٹائون شپس، اقلیتی نسلی ٹائونشپس اور ٹائونزکی پیپلز کانگریسز کے ڈیپٹیز کا انتخاب براہ راست ان کے حلقہ انتخاب کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ نیشنل پیپلز کانگریس اور صوبوں، خود اختیار ریجنز، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول میں میونسپیلیٹیز،اضلاع میں منقسم شہروں اور خوداختیار پریفیکچرز کی پیپلز کانگریسز کے لیے ڈیپٹیز کا انتخاب ان سے نچلے درجے کی پیپلز کانگریسز کرتی ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں یا عوامی تنظیمیں یا تو مشترکہ طور پر یا الگ الگ امیدواروں کو بطورڈیپٹیز نامزد کر سکتی ہیں۔

براہ راست انتخاب کی صورت میں ایک امیدوار کو دس رائے دہندگان کی جانب سے جبکہ بالواسطہ انتخاب کی صورت میںدس ڈیپٹیز (Deputies) کی جانب سے نامزدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔براہ راست یا بالواسطہ انتخاب دونوں صورتوں میں امیدواروں کی تعداد کو متعلقہ پُرکی جانے والے نشستوں سے زیادہ ہونا چاہیے۔براہ راست انتخاب کی صورت میں یہ تعداد سو کے مقابلے میں ایک تہائی جبکہ بالواسطہ چنائو کی صورت میں بیس سے پچاس فیصد زیادہ ہونی چاہیے۔انتخابی عمل کو مسابقتی ہوناچا ہیے۔رائے دہندگان کسی بھی امیدوار کے حق یا مخالفت میں ووٹ دے سکتے ہیں یا انتخابی عمل سے غیرحاضر رہ سکتے ہیں۔براہ راست انتخاب کی صورت میںایک الیکشن ضلع میں انتخابات کے Valid ہونے کے لیے اہل ووٹرز کی تعداد میں سے نصف کاووٹ ڈالنا ضروری ہے۔اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار منتخب ہوجاتے ہیں۔بالواسطہ انتخاب کی صورت میں وہ امیدوار جو ووٹ کے اہل ڈیپٹیز کے اکثریتی ووٹ حاصل کرلیتے ہیں وہ کامیا ب قرار پاتے ہیں۔

چین کے انتخابی عمل اورانتظامی ڈھانچے کے متعلق کچھ مزید معلومات ہمارے ساتھ ایک پاکستانی ڈاکٹر محمو د حسین نے شیئر کیں۔ ان سے ہماری ملاقات بیجنگ کے ایک ویزہ آفس میں ہوئی تھی۔ اپنی باری کے انتظارمیں بیٹھے بیٹھے ان سے گپ شپ شروع ہو گئی تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹرمحمود حسین نے چین کے صوبے جی لین (Jilin) کے شہر چھانگ چھن (Changchun) میں واقع Jilin University of China کے سکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز سے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔انہوں نے چین کے انتظامی ڈھانچے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ چین میں صوبے، خود اختیار علاقے ، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول کے تحت میونسپیلیٹیز،خود اختیار پریفیکچرز، کائونٹیاں ، شہر ، قصبے اور دیگر انتظامی یونٹس ہیں۔ہر سطح پر عوامی کانگریس ہوتی ہے۔ ہر سطح پر ہونے والے انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کے عمل کی نگرانی کرنے والی کمیٹی تمام طریقہ کار کی نگرانی کرتی ہے اور کسی بھی نوعیت کی بے ضابطگی پر نظر رکھتی ہے اور اس کا تدارک بھی کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبوں، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول کے تحت میونسپیلیٹیز اور اضلاع میں منقسم شہروں میں عوامی کانگریس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے جبکہ دیگر جگہوں پرموجود عوامی کانگریس کی میعاد تین سال ہے۔ مختلف سطحوں کی مقامی عوامی کانگریس اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں آئین و قانون کے نفاذ کو یقینی بناتے ہیں۔ اقتصادی ترقی اور عوامی سہولت کے منصوبوں کی منظوری دیتی ہیں اور ثقافتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ کاونٹی یا ا س سے بالاتر سطح پر مقامی عوامی کانگریس کی مجلس ِ قائمہ (Standing Comittee) ایک مستقل ادارے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مقامی عوامی حکومتیں، اپنی سطح کی مقامی عوامی کانگریسوںاور اپنے سے بالائی سطح کے ریاستی اداروں کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ یہ چین کی ریاستی کونسل کی نگرانی میں کام کرتی ہیں اور زیر انتظام علاقوں میں شہری امور، خاندانی منصوبہ بندی سمیت تمام انتظامی امور سرا نجام دیتی ہیں۔ مختلف نوعیت کے انتظامی اہلکاروں کا تقرر، ان کی تربیت و برطرفی بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔

چین میں مرکزی سطح پر تمام انتطامی نوعیت کے فیصلے اور اقدامات ریاستی کونسل سرا نجام دیتی ہے۔ اسے ہمارے ہاں کی وفاقی کابینہ کے مساوی سمجھ لیں۔اس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے ۔ یہ این پی سی کو جوابدہ ہوتی ہے۔اس میں وزیراعظم کے علاوہ نائب وزرائے اعظم،ریاستی کونسلرز، وزارتوں کے انچارج وزراء،مختلف کمیشنز کے انچارج وزراء، آڈیٹر جنرل اور سیکرٹری جنرل شامل ہوتے ہیں۔ ریاستی کونسل قانون اور متعلقہ ضوابط کے مطابق انتظامی فیصلے اور اقدامات کرتی ہے۔ یہ این پی سی یا اس کی سٹینڈنگ کمیٹی کو مختلف امور کے حوالے سے تجاویز بھی دیتی ہے۔ غرضیکہ جو اختیارات ہمارے ہاں کی وفاقی کابینہ کے پاس ہیں وہی اختیارات ریاستی کونسل کو بھی حاصل ہیں۔ چین کے سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی خوبی میرٹ ہے۔ گائوں کی سطح پر منتخب ہونے والا اہلکار اپنی محنت ،لگن اور کارکردگی کی بنیاد پر اس سیاسی بندوبست کے اگلے درجے یا مراحل تک پہنچ جاتا ہے۔اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی اس کو بتدریج کاونٹی، ضلعی،صوبائی اور قومی سطح کے پالیسی ساز اداروں میںمنتخب کیا جاتا ہے۔

چین کے سیاسی بندوبست میں چین کے چھپن نسلی گروہوں کی ہر سطح پر نمائندگی اور موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ چین میں انتظامی ڈھانچہ دارالحکومت سے لیکر کسی دور افتادہ گائوں تک بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہا ہے۔ہر جگہ اور ہر سطح پر جواہدہی کا نظام موجود ہے۔کہیں بھی ریاستی و انتظامی اہلکار اپنے متعین فرائض سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم سے ایک ارب سے زائد شہری مستفید ہو ر ہے ہیں۔روس اور دیگر کمیونسٹ ممالک میں تو یہ نظام عوامی خواہشات و تقاضوں کا ادارک نہ کر سکا مگر چین کے حکمرانوں کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے بدلتے رجحانات کے ساتھ اپنے نظام میں تبدیلیاں کیں اورچین کو ایک جدید سوشلسٹ ملک بنا دیا جہاں شہری رائے دہی اورفیصلہ سازی کے عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔چین میں ہر شہری کو سسٹم پر مکمل اعتماد ہے۔ ملک کے تمام نسلی و لسانی گروہ باہمی طور پر ایک سیاسی وحدت ہیں ۔ یہی چین کے نظام کی خوبی ہے کہ یہاں کوئی اپنے آپ کو مرکزی دھارے سے الگ اور حکمرانوں کو اجنبی نہیں سمجھتا۔ (جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ

The post چینی سیاسی نظام میرٹ اور جوابدہی کے اصولوں پر استوار ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی ۔۔

$
0
0

1960ء کی دہائی کی بات ہے کہ کوئٹہ کی ریلوے گارڈ کالونی کی باونڈر ی وال جنوب میں لوگوں نے اس لیے توڑ رکھی تھی کہ یہاں سے ارباب کرم خان روڈ پر واقع گور نمنٹ کلی شخاں سکول کا راستہ مختصر یعنی شارٹ کٹ ہو جاتا تھا اور ہمیں بھی اس سکول میں داخل کروا دیا گیا۔

اسکول میں کلی شیخاں (جواس وقت ایک گاؤں تھا) اور گرد ونواح کے بچے بھی پڑھتے تھے لیکن زیادہ تعداد میں بچے بچیاں ریلوے کالونی کی ہوا کرتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس وقت گورنمنٹ بوائز پرائمری سکولوں میں جہاں گرلز پرائمر ی سکولوں کی سہولت نہیں تھی وہا ں بچے بچیاں ساتھ پڑھا کرتے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ بچیوں کا تناسب عموما سات یا آٹھ فیصد ہی ہوتا تھا اور ان کو کلاس میں پہلی قطار میں ٹیچر کے سامنے بٹھایا جاتا تھا۔ آج یہ سکول نہ صرف ہائی سکول ہے جس میں طلبا کی تعدار ہزار سے زیادہ ہے بلکہ ساتھ ہی سینکڑوں کی تعداد میں ٹیچر یہاں ایلیمنٹر ی کالج میں ٹریننگ بھی کرتے ہیں، مگر جب ہم بچپن میں یہاں پڑھتے تھے تو اس سکول کے ساتھ اگرچہ اس وقت بھی ٹیچر ٹریننگ سکول تھا اور اس کے نزدیک ان ٹریننگ کرنے والے ٹیچرز کا ہاسٹل بھی تھا مگر اس وقت اس سکول کی صرف سامنے والی دیوار تھی جس میں دو گیٹ بھی تھے اور باقی تین اطراف میں کوئی دیوار نہیں تھی۔

سکول کی پشت پر ایک بڑا میدان تھا، شمال میں کھیت اور مغرب کی طرف بہتی کاریز تھی اور جنو ب کی جانب چند بڑے کوٹھی نما بنگلے تھے، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پرائمری کے اساتذ ہ کی تنخواہیں بہت کم یعنی صرف ایک سو دس روپے ماہانہ تھیں اور ان میں سے اکثر اساتذہ ریلوے گارڈ کالونی کے بنگلو ں کے سرونٹ کو اٹرز میں دس روپے ماہوار کرائے پر رہتے تھے۔ اس سکول ہی میں ہم نے پہلی مرتبہ امریکہ سے دوستی کا ہاتھ ملاتے دیکھا تھا اور یہ نشان ان گھی اور خشک دودھ کے ڈبوں پر ہوا کرتا تھا جو ہم بچوں کو مفت ملا کرتا، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ امریکہ دوستی میں یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم عام ہو مگر اس سے کہیں زیادہ یہ احساس ہوا کہ ہمارے اساتذہ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں ان کی تمام تر توجہ ہماری تعلیم پر رہتی تھی، یہاں تک کہ ہماری ریلوے گارڈ کالونی کے سرونٹ کو اٹرز میں جو ٹیچر رہتے تھے کوئی بچہ کبھی ان کے پاس چلا جائے اسے مفت پڑھا دیتے تھے، اس لیئے تعلیم کا معیار بہت بہتر تھا اور بلوچستان کے طالب علم لاہور بورڈ اور یونیورسٹی سے امتحانات مقابلے اور میرٹ کی بنیادوں پر پاس ہوا کرتے تھے۔

یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ عام انتخابات کے بعد 1972 میں بلوچستان میں وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی سر براہی میں پہلی صوبا ئی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے یہ کہا کہ اب چونکہ ملک سے ون یونٹ کا خاتمہ ہوچکا ہے اس لیے اس لیے ضروری ہے کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے صوبائی ملازمین واپس اپنے اپنے صو بوں میں جائیں اور اس کے لیے مدت یہ رکھی گئی کہ جو لوگ یہاں 1958 سے پہلے سے ملازم ہیں اُن کو بلوچستان کا مقامی باشندہ تسلیم کیا جائے گا اور وہ بلوچستان ہی میں رہیں گے۔

1972 میں قائم ہونے والی صوبائی حکومت صرف نو مہینوں میں توڑ دی گئی تھی اور اس کے لیئے پہلے شروع ہی سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی کہ جب صوبائی حکومت نے مرحلہ وار پنجاب کو ملازمین واپس لینے کے لیے کہا تو نہ صرف فوری طور پر تمام ملازمین کو واپس لے لیا گیا بلکہ جو یہاں 1958 سے پہلے سے موجود تھے اُن کو بھی واپس لے لیا گیا اور بلوچستان جیسے صوبے کوجو تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبہ بنا تھا یک دم تربیت یافتہ سرکاری ملازمین کی اکثر یت سے محروم کر دیا گیا اور نئی صوبائی حکومت کے لیے نہ صرف ایک چیلنج کھڑا کردیا گیا بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کیا گیا یوں اس وقت تربیت یافتہ ٹیچرز اور ماہرین تعلیم کی ایک بڑی اکثریت بلو چستان سے چلی گئی، اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد راقم نے میٹرک کیا اور اور پرائمری ٹیچرکی حیثیت سے میری پہلی پوسٹنگ کوئٹہ سے تقریبا دوسوکلو میٹر دور گلستان کے قریب افغان سرحد کے ساتھ واقع ایک گاؤں کلی حکیم ’’دولنگی تھانہ ‘‘ کے سنگل ٹیچر گورنمنٹ پرائمری سکول میں ہوئی تھی۔

اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 23 لاکھ تھی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد بھی 23 ہی تھی۔ بلو چستان کے پہلے ڈائریکٹر ایجو کیشن معرف ماہرلیسانیات پروفیسر خلیل صدیقی تھے، ضلع کو ئٹہ پشین کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مرزا نصراللہ ہوا کرتے تھے جو صبح سائیکل پر اپنے دفتر آتے اور سائیکل دفتر کے دروازے کے پاس کھڑی کر دیا کرتے تھے اور پھر کسی بھی وقت نہایت خاموشی سے سائیکل پر اپنی ڈائری لے کر نکل جاتے اور سات آٹھ میل تک کے علاقے میں واقع کسی بھی اسکول میں اچانک پہنچ جاتے، وہ کوئٹہ سے باہر بھی سر پرائز وزٹ کرتے اس کے لیے اُن کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب چمن تک جانا ہوتا تو صبح ٹرین میں لگیج میں اپنی سائیکل بک کرواتے اور ٹکٹ لے کر بیٹھ جاتے، دوپہر ٹرین چمن پہنچتی وہ ریسٹ ہاوس میں چلے جاتے اور وہاں سے صبح سویر ے اپنی سائیکل پر نکلتے اور اچانک کسی سکول میں پہنچ جاتے، یوں اس وقت کا ہزاروں مربع کلو میٹر پر مشتمل ڈسٹرکٹ کوئٹہ پشین میں ہر اسکول کا ٹیچر اس بات سے گھبراتا تھا کہ معلوم نہیں کب مرزا نصراللہ پہنچ جائے۔

یوں جب ہم پرائمری اسکول کے بچے تھے تو ہم نے پورے پانچ برس کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی استاد نے کبھی چھٹی کی ہو اور جب خود پرائمری ٹیچر ہوئے تو پھر مرزا نصراللہ جیسا ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر دیکھا۔ ہما رے ایک بزرگ پروفیسر دوست عبدالخالق ہیں، 1935 کی پیدائش ہے، وہ 1954 میں بلوچستان ضلع چاغی میں امین آباد میں پرائمری ٹیچر تعینات ہوئے ، یہ علاقہ کوئٹہ سے تقربیا چھ سو کلو میٹر ایران سرحد کے قریب واقع صحرائی علاقہ ہے، اس علاقے میں پانی کی سپلائی کے لیے واٹر ٹرین چلتی ہے ،گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے اُس دور میں یہاں سڑکیں پختہ نہیں تھیں، صحرا میں بھٹک جانے کا مطلب اذیت ناک موت ہوتا ہے اور لاش بھی صحرا میں بہت مشکل ہی سے ملتی ہے کیو نکہ ہوا اور آندھیاں بہت تیز ہوتی ہیں جن کی وجہ سے دن اور رات میں ریت کے ٹیلے بنتے اور بگڑتے اور اپنی جگیں بدلتے رہتے ہیں۔ 1955 میں بلو چستان کے اس دور افتادہ علاقے میں بھی پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ صرف 80 روپے ہوا کرتی تھی۔

جس کی ذمہ داری نہ صرف بچوں کو پڑھانا ہوتا بلکہ وہ اسکول کے بعد بھی مفت ہی اپنی قوم کے بچوں کو پڑھاتا تھا اس کے ساتھ محکمہ صحت کی جانب سے اس ٹیچر کو کچھ ادویات دی جاتی تھیں اور عام قسم کی بیماریو ں، وبائی بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کر کے مقامی آبادی کے علاج و معالجے کی ذمہ دارایاں بھی رضاکارانہ جذبے کی بنیاد پر سونپی جاتی تھیں، البتہ محکمہ ڈاک کی جانب سے ماہانہ پانچ روپے معاوضہ ڈاک خصوصاً منی آڈر وغیر ہ کی ذمہ داری لازمی انداز میں عائد ہوتی تھی اور محکمہ موسمیات کی طرف سے بارش کی پیمائش کا ایک آلہ بھی دیا گیا تھا کہ جب اس خشک علاقے میں بارش ہو تو وہ اس دن کی تاریخ اور وقت کے ساتھ بارش کی پیمائش بھی کر کے نوٹ کر لے، اس کا معاوضہ دو روپے ماہانہ یعنی سالانہ صرف 24 روپے ہوتا تھا۔ یہا ں ٹیچر سالانہ ڈھائی مہینوں کی تعطیلات ہی میں کو ئٹہ یا جہاں کہیں ٹیچر کا گھر ہوتا تھا جاتا تھا اور چھٹیوں کے ختم ہوتے ہی اپنے اسکول پہنچ جاتا تھا، لیکن اساتذہ میں یہ اخلاقی اقدار وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتی رہیں، ٹیوشن کی روایت 70 کی دہائی سے زور پکڑنے لگی ۔

بلو چستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے خصوصاً ایف ایس سی کے سالانہ رزلٹ آج بھی ریکارڈ پر ہیںکہ ان میں ہر سال پہلی اور دوسری پو زیشن لینے والے طلبا و طالبات محکمہ تعلیم کے اعلیٰ ترین افسران کے بیٹے بیٹیاں تھے جنہوں نے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں انہی بنیادیوں پر سیٹیں حاصل کیں۔ پھر رفتہ رفتہ صورتحال مزید انحطاط کا شکار ہوئی، نقل عام ہوئی اور امتحانات کے شعبے میں اقربا پروری اورکرپشن نے جڑیں مضبو ط کر لیں اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ برسوں سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں مخصوص اساتذہ ہی پرچے بناتے اور چیک کرتے اور امتحانات میں نگرانی کرتے۔ یہ ضرور ہے کہ دو دو چار چار برس کے وقفوں کے بعد اعلیٰ سطح کے اچھے افسران اور وزرا تعلیم آتے تو اس صورتحال کو بدلنے کی کو ششیں بھی ہوتی رہیں اور کبھی کبھی یہ کامیاب بھی ہوئیں۔

مثلًا 2002-03 بلوچستان بھر میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحا نات سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں ہو ئے اور نقل پر مکمل پابندی رہی تو ان امتحانات میںنتائج صرف گیارہ سے  سولہ فیصد رہے جب کہ اب صورتحال یہ ہے کہ نتائج 90% اور اس سے بھی زیادہ آتے ہیں۔ صوبائی محکمہ تعلیم اور بلوچستان صوبائی اسمبلی کے گذشتہ تیس برسوں کے ریکارڈ پر ہے کہ کئی مرتبہ سینکڑوں گھوسٹ سکولوں اور ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز سے متعلق رپورٹیں سامنے آئیں اور کچھ کاروائیاں بھی ہوئیں لیکن یہ مسائل حل ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتے گئے۔ ہر مالی سال میں صوبائی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے شعبے ہی میں خرچ ہوتا ہے یہ ضرور ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح بلوچستان میں سکولوں،کالجوں، یو نیور سٹیوں کی تعداد مہں اضافہ ہوا ہے اسی طرح طلبا وطالبات اوراساتذہ کی تعداد بھی بڑھی ہے اور یہ رحجان جاری ہے لیکن یہ افسوس ہے کہ درس و تدریس کے تمام شعبوں میں معیار بلند ہونے کی بجائے پست ہوا ہے۔

بلوچستان بدقستمی سے گذشتہ 70 برسوں سے پسماندگی کا شکار ہے یہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43% فیصد ہے مگر آبادی کے اعتبار سے اس کا تناسب صرف 6% ہے اور بنیادی طور پر رقبے اور آبادی کا یہ وسیع فرق ہی اس کی تعمیر وترقی میں مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو یہ غلط منصوبہ بندیوں اور حکمت عملی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے رہے اور بڑھتے اور شدت اختیار کرتے رہے ہیں۔ انگریزوں نے یہاں 1878 کے بعد رفتہ رفتہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور یہ برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں بہت کم اور سست رفتار تھا۔ 1947 میں پورے بلوچستان میں صرف ایک ہائر سیکنڈری سکول، دس ہائی سکول اور اسی تناسب سے مڈل اور پرائمری اسکول تھے جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو تا رہا۔

بلوچستان مینجمنٹ انفار میشن سسٹم کے مطابق بلوچستان میں مالی سال 2018-19 میں سر کاری شعبے میں37 بوائز ہائر سیکنڈری سکول ، 694 بوائز ہائی سکو لز، 836 مڈل سکولزاور بوائز پر ائمری سکولوں کی تعداد 8467 ہے۔ یوں بوائز سکولوں کی کل تعداد 10034 ہے اور لڑ کیوں کے ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعداد 34 ، ہائی سکولوں کی تعداد 360 ، مڈل سکولوں کی تعداد 583 اور گرلز پرائمری سکولوںکی تعداد 3239 ہے یعنی کل گرلز ہائی سکول 4216 ہیںاور لڑکے لڑکیوں کے کل سکول بلوچستان میں 14250 ہیں۔ اب جہاں تک تعلق ٹیچنگ، نان ٹیچنگ اسٹاف اور طلبا وطالبات کی تعداد کا تعلق ہے تو یہ اعداد وشمار 2015-16 کے ہیں اور ان کے مطابق اس وقت اساتذہ اور استانیوں کی تعداد 48559 ہیں اور نان ٹیچینگ اسٹاف کی تعداد 7841 ہے اُس وقت اسکولوں کی کل تعداد 12980 تھی یعنی ایک سے دوبرسوں میں مجموعی تعداد میں 1270 اسکولوں کا اضافہ کیا گیا۔ اس وقت یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے۔

واضح ر ہے کہ بلوچستان میںطلبا وطالبات کا صرف 20% پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتا ہے اس لیے یہ حقیقت ہے کہ اگر بلوچستان نے ترقی کرنی ہے تو وہ اسی صورت میں ہو گی کہ سرکار ی شعبے کے اسکولوں میں اساتذہ کی حاضریاں یقینی ہوں ان کی استعدادکار میں اٖضافہ ہو، اس کے لیے وزیر اعلی جام کمال نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے، انہوں نے بلوچستان میں پہلے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرنے کے بعد ایک مسودہ قانون نافذ کرنے کا آغاز ایک ایکٹ سے کردیا، اس مسودہ قانون میں تعلیم کے شعبے کو ’’ لازمی خدمات یعنی Essential Services ،، قرار دیا گیا ہے اور اس کی مدت فی الحال چھ ماہ ہے اور اس دوران اگر اس کو صوبائی اسمبلی نے منظور کر لیا تو یہ باقاعد ہ ایک قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ لیکن دوسری جانب بلوچستان کے کچھ اساتذہ کی جانب سے اس قانونی مسودے کی مخالفت کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ اصولی طور پر آئین میں دیئے گئے، انسانی بنیادی حقوق کی شقوں 16 ۔17 اور 18 کے خلا ف ہے۔

یعنی یہ قرار داد آزادیِ اظہار اور پر امن جمہوری احتجاج کے حق سے متصادم ہے جب کہ ماہرین آئین کی ان شقوں سے متعلق یہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ حقوق پرامن اور جمہوری ا حتجاج اور سچ اور جائز حقوق کے لیے رکاوٹ نہیں ہیں مگر تعلیمی اداروں کی تالا بندی غیر قانونی طور پر دباؤ دھونس، دھمکی اور توڑ پھوڑ امن وامان کی صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔آزادی اور جمہوری حقوق کے لحاظ سے پرانی روایت ہے کہ آپ کی آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کسی کی ناک شروع ہوتی ہے۔ یہ روایت یوں ہے کہ جب انقلاب فرانس کے موقع پرفرانس کے عوام جشن منا رہے تھے خوشی سے ناچ رہے تھے تو ناچتے ہو ئے ایک شخص کی چھڑی کسی دوسر ے شخص کی ناک پر لگی تو اس نے اعتراض کیا جس پر چھڑی والے نے کہا کہ آزادی ہے اور اس پر اس نے کہا تھا کہ تماری آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ پھر ایک مثال یہ بھی ہے کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے ‘‘ اس کی حقیقی عکاسی جمہوریت اور مقننہ سے ہو تی ہے پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد ہی قانون سازی ہوتا ہے اور قانون سازی اس لیے کی جاتی ہے کہ معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کے لیے قانون کی ضرورت پیش آتی ہے۔

آج سے چالیس پچاس سال پہلے کبھی کسی کو خیال بھی نہیں آیا تھا کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو لازمی خدما ت کا شعبہ قرار دیا جائے۔ جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ڈاکٹر ز، ریلوے کے گارڈ ڈرائیور وغیرہ جن کو ہڑتال کرنے، تالا بندی کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور یہ 24 گھنٹے کے ملازم تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ جب کبھی خدانخواستہ ملک میں ایمر جنسی نافذ ہوتی ہے تو واقعی بنیادی حقوق سلب ہو جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چالیس پچاس برس قبل ہماری اخلاقی اقدار اور روایات اس قدر مضبوط تھی کہ استاد خود ہی اپنی خدمات کو لازمی بلکہ شدید انداز کی لازمی سروس مانتا تھا اُسے احساس تھا کہ ملک و قوم کی تعمیر میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ٹیچر کا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے ویسے تو پورے معاشرے میں قحط الرجال کی کیفیت ہے مگر سب سے زیادہ فکر مند ی یہ ہے کہ یہ قحط الرجال جس سے ختم ہو سکتا ہے وہ شعبہ ہی تعلیم کا ہے جو بری طرح انحطاط پذیر ہے اور اسی لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر جام کمال خان، اُن کی کا بینہ خصوصاً وزیر تعلیم ہا ئر ایجو کشن ظہور احمد بلیدی، مشیر تعلیم برائے ثانوی تعلیم میر محمد خان لہڑی نے یہ مسودہ قانون بنایا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگ زیب حق اور سیکرٹری ثانوی تعلیم طیب لہڑی نے اس قانون کے تحت بلوچستان میں تعلیم کے حقیقی فروغ اور استحکام کو یقینی بنا نے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

۔بلو چستان میں مالی سال2018-19 کے صوبائی بجٹ کا کل حجم 3 کھرب 52 ارب روپے تھا جس کا بڑا غیر ترقیاتی حصہ محکمہ تعلیم کے تقریباً ساٹھ ہزارسے زیادہ ملازمین کی تنخواہوں، تقریباً 55000 سرکار ی محکموںکے ریٹائر ملازمین کی پینشنوںمیں جاتا ہے اور اس مالی سال کے غیر ترقیاتی بجٹ میں43 ارب رو پے سے زیادہ رقم بھی تعلیم کے شعبے میں خرچ کی گئی جس کی کچھ تفصیلات صوبائی محکمہ تعلیم سے حاصل کی گئیں جن کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے سالانہ پی ایس ڈی پی میں 500 ملین رو پے مختص کئے گئے، وزیر اعلیٰ نے 33 ہائی ماڈل سکول بنانے کے لیے 4000 ملین روپے اور بغیر چھتوںکے 1804اسکولوں کی حالت بہتر کرنے کے 5676 ملین روپے خرچ کئے ہیں جب کہ 35000 ٹیچرز کی ٹریننگ کے لیے 605 ملین روپے سے پرفارمنس مینجمنٹ سیل کے قیام کا منصوبہ بنا رکھا ہے، اسی طرح ای ایم آئی ایس میں تحقیق کے لیے 500 ملین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، سکولوں میں بیت الخلا کی تعمیر کے پروجیکٹ پر 1000 ملین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس سال اب تک RTSM کے تحت غیرحاضر اساتذہ سے کٹوتی کی مد میں 71 ملین روپے کی کٹوتی ہوئی ہے۔

اب جہاں تک تعلق تعلیمی مسائل کا ہے تو یہ ایک حقیقت کہ پاکستان تعلیمی اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہے اور یہاں شرح خواندگی صرف 58% ہے جب کہ یہ شرح خواندگی بلو چستان میں مزید کم ہوکر 41% رہ جاتی ہے، اسی طرح پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور اس مجموعی آبادی میں سے سکول جانے کی عمروں کے2 کروڑ 28 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور بلوچستان میں ان بچوں کی تعداد تقریباً 19 لاکھ ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسی آئین کے آرٹٰیکل ’’25 ۔اے ،، کے تحت ہم پر لازمی ہے کہ ہم ہر اس بچے کو جس کی عمر 5 سال سے 16 کے درمیان ہے مفت اور معیاری تعلیم فراہم کریں، اور یہ بھی اہم ہے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، پھر ہمارے دردِ دل رکھنے والے اساتذہ کرام کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ سرکاری ملازمین سرکار کا لازمی اور بنیادی حصہ ہوتے ہیں اور بلو چستان کے کے نہ صرف 19 لاکھ بچے جو سکولوں سے باہر ہیں ہماری اجتماعی قومی ذمہ داری ہیں بلکہ وہ بارہ لاکھ بچے جو اس وقت سرکاری سکولوں میں موجود ہیں۔

اُن کی اپنی اولاد کی طرح ہیں اور انہوں نے جو سروس جو خدمات اپنی معقول تنخواہوں کے عوض فراہم کرنی ہیں اُن کو پوری طرح اور قومی خدمت کے جذبے کے ساتھ ادا کریں، اور ازخود یہ فیصلہ کریں کہ کیا تعلیم کا شعبہ واقعی لازمی خدمت کا شعبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وقت کی پکار ہے جس کو اس صوبائی حکومت نے سنا ہے۔ ماہر ین یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہ قانونی مسودہ کسی طرح بنیادی حقوق سے متصادم نہیں اور ہمارے خیال کے مطابق اگر اساتذہ کے کسی حلقے نے اس کے خلاف مزاحمت کی تو یہ تجویز ہے کہ صوبہ بلوچستان کے تمام 14250 سرکاری سکولوں کے بچوں اور ان کے والدین سے اس پر ریفرنڈم کروا لیا جائے اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے کسی رکن سمیت کسی کو اس قانونی مسودے کی مخالفت کا اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے ریفرنڈم میں سو فیصد فیصلہ اسی قانونی مسودے کے حق میں آئے گا اور یہ ہمارے معاشرے کی تعلیمی ضرورت کی واضح عکاسی ہو گی۔ اور ہونا تو یہ چاہیے کہ اس قانونی مسودے کو باقی تین صوبے بھی اپنے ہاں نافذالعمل کریں تو اس کے مثبت اثرات تھو ڑے ہی عرصے میں سامنے آجائیں گے۔

The post بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی ۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ سال بے مثال تھا ؛ کیا کیا تھا منفرد، کیا کچھ تھا نیا؟

$
0
0

ہم پاکستانیوں کے لیے وقت بدلے نہ بدلے سال ضرور بدل جاتا ہے۔ اکثر ہم وطنوں کے لیے یہ بدلاؤ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سال مزید بڑے ہوجاتے ہیں، دُکھی دل کے ساتھ مگر پوری بتیسی نکال کر شادی کی ایک اور سال گرہ مناتے ہیں، پُرانے گرم کپڑوں اور لحافوں کو سردی میں اور برسوں کے سوتی کپڑے گرمی میں سامنے پاتے ہیں، اور پرانی حالت اور حالات میں نیا سال گزارے جاتے ہیں، عام آدمی کے لیے نیا ہوتا بھی ہے تو بس اتنا کہ کسی کے سر میں سفیدی آگئی تو اس کے لیے یہ ’’خضاب کا سال‘‘ قرار پایا اور کسی کی شادی ہوئی تو کئی برس بعد یہ اسے ’’عذاب کا سال‘‘ کے طور پر یاد آئے گا۔ یعنی بجٹ اور حکومت کی طرح سال بھی عام آدمی کے لیے نہیں آتا اور وہ کچھ نیا نہیں پاتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ نیا ہوا ہی نہ ہو۔ اب اس سال ہی پاکستان میں بہت کچھ نیا ہوا ہے اور یہ برس کئی اعتبار سے منفرد ہے، آئیے دیکھتے ہیں اس برس پاکستان میں کیا کیا نیا اور منفرد ہوا ہے۔

٭بنا نیا پاکستان : بیس سو اٹھارہ میں نیا پاکستان وجود میں آیا۔ چوں کہ پُرانا پاکستان بنانے کا تجربہ تھا، اس لیے نیا پاکستان بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی، بابو بھائی کے بہ قول ’’فَٹ دَھنی‘‘ سے بن گیا۔ یہ اتنی تیزی سے وجود میں آیا ہے کہ قوم کو اب تک نہیں پتا کہ وہ پرانے سے نئے پاکستان میں منتقل ہوچکی ہے۔ چناں چہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں،’’کیا نیاپاکستان بن گیا؟‘‘ جواب ملتا ہے،’’یہاں تو اب تک نہیں بنا، اگلی گلی میں پوچھ لو۔‘‘ خیر جلد سب کو پتا چل جائے گا، کتنا چُھپے گا، کبھی تو سامنے آئے گا۔ برسوں بعد بچے پوچھ رہے ہوں گے،’’ابو ابو، پُرانا پاکستان کیسا تھا؟‘‘ ابو جواب دیں گے، ’’ایسا ہی تھا‘‘ بچے کہیں گے،’’تو نیا کیوں بنایا‘‘، ابو فرمائیں گے’’بس نام بدلا تھا، تاکہ پُرانے پاکستان میں دل لگا رہے۔ ‘‘

٭پَکا اچھوتا پکوان: اس سال ایک نیا پکوان سامنے آیا۔ یہ پکوان برسوں سے پک رہا تھا، لیکن پکائی مکمل اس برس ہوئی اور دیگ سے ڈھکن ہٹا۔ یہ کئی پکوانوں کا ملغوبہ ہے، جن میں سانجھے کی ہنڈیا، کھچڑی، ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر اور وہ دال شامل ہے جس میں کالا ہوتا ہے۔ یہ ہنڈیا بہت چھپا کے پکائی گئی تھی، مگر عشق اور مشک کی طرح اس کی مہک بھی دور دور تک پھیل گئی۔ آخر ’’کھانا کُھل گیا جے ے ے ے‘‘ کی صدا سنائی دی، پھر سب کو یہ پکوان کھانا پڑا۔ کسی نے سیر ہوکر کھایا اور ڈکاریں ماریں، کسی نے کھاکر منہہ بنایا اور بہت سوں کو ہضم ہی نہ ہوپایا۔ حکیموں کا کہنا ہے کہ اس پکوان میں شیر کا گوشت شامل ہے، جو پوری طرح گََل نہیں سکا، اس لیے یہ بہت مقوی ہوگیا ہے، نظام ہاضمہ کو چین سے نہ رہنے دے گا، اُلٹی ہوگی، جس کے ساتھ اُلٹی ہوں گی سب تدبیریں اور بازی اُلٹ جائے گی۔ کوئی بات نہیں، نئی ڈش پکالیں گے، نئی بازی جمالیں گے۔

٭کُھلنے کا سال:اس برس بہت کچھ کُھلا، چناں چہ تاریخ میں اسے کُھلنے کا سال قرار دیا جائے گا۔ ان بارہ مہینوں میں گورنرہاؤس کُھلے، ایوانِ صدر کُھلا، کرتارپوربارڈر کُھلا، نوازشریف بند ہوکر کُھلے، آصف زرداری کا منہہ یوں کُھلا کے سب کے منہہ کھلے کے کھلے رہ گئے، اعظم سواتی کی اراضی پر کُھلی بھینس کیا آئی وہ کُھل کر سامنے آگئے، آئی ایم ایف کا دَر کُھلا، اور سب سے بڑھ کر ’’دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا۔‘‘

٭بند ہونے کا سال:تاریخ میں کُھلنے کی طرح یہ بند ہونے کا سال بھی قرار دیا جائے گا۔ اس برس نوازشریف بند ہوئے، شہبازشریف بند ہوئے، خواجہ برادران بند ہوئے، نوازشریف کی زبان بہت دنوں تک بند رہی، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آرٹی ایس (ریزلٹس ٹرامیشن سسٹم) یوں بند ہوا کہ سب کی زبانیں کُھل گئیں، کراچی میں سی این جی اسٹیشن بند ہوئے، بجلی باربار بند ہوئی، عمران خان پہلے دلہا پھر وزیراعظم کی شیروانی میں بند ہوئے۔

٭نیا فلسفہ: خدا کا شکر کہ ہمیں ایک فلسفی حکم راں میسر آیا، جس نے اب تک کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو ایک نیا فلسفہ ضرور دے دیا، وہ بھی قیادت کے بارے میں۔ اب تک تو ہم سمجھتے تھے کہ:

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز

یہی ہے رخت سفر میرِکارواں کے لیے

یا

’’ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق

جو تجھے حاضروموجود سے بے زار کرے

لیکن اب پتا چلا کہ لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو یوٹرن پر لیے جائے، اور جو ایسا نہ کرے وہ لیڈر ہی نہیں۔ اس تعریف کے مطابق بس ڈرائیور اچھے راہ نما قرار پاتے ہیں، جو سواریاں کم ہونے پر راستے ہی سے یوٹرن لے کر مُڑ جاتے ہیں۔

اگر علامہ اقبال آج ہوتے تو اپنے شعر میں تغیر کرکے کہتے:

ہدف بلند، سخن زوردار اور یوٹرن

یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے

مزید فرماتے:

تو راستے ہی سے یوٹرن لے کے مُڑ مومن

نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

مرزاغالب کہتے:

وہ تو یوٹرن لے کے مُڑ گیا ہے

اب کسے راہ نما کرے کوئی

اس فلسفے کے موجد جناب عمران خان کو فسلفی ہی نہیں سائنس داں بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ پہلے انھوں نے یہ فلسفہ عمل کی تجربہ گاہ میں خوب آزمایا اور جب رنگ چوکھا آیا تو پیش کردیا۔

٭نئے مولانا فضل الرحمٰن: جس طرح کسی دیہاتی کو لوٹنے ہی کے لیے میلہ لگایا گیا تھا، اسی طرح لگتا ہے کہ بیس سو اٹھارہ کے انتخابات کا مقصد محض مولانا کا خون کھولانا تھا۔ اگرچہ وہ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں اس سے بھی تعاون عندیہ دے چکے تھے، مگر انھیں موقع ہی نہیں دیا گیا، ان کی امیدوں کا دیا پھونک مار کر بجھادیا گیا، ارمانوں پر ڈیزل چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ اب وہ نہ اسمبلی میں ہیں نہ حکومت میں، ورنہ اس سے پہلے ان کا فضل ہر اسمبلی اور حکومت کو میسر آتا تھا، لیکن اس مرتبہ انھیں فاضل جانا گیا۔ اس تبدیلی نے ان میں سے ایک نیانویلا فضل الرحمٰن برآمد کیا ہے، پُرانے مولانا جمہوریت کے لیے آئین کے تناظر میں، کچھ بھی ہوجائے اسمبلی اور حکومت سے ایک قدم بھی باہر رکھنے کو تیار نہ ہوتے تھے، لیکن نئے نویلے مولانا نے چناؤ کے فوری بعد جیتنے والوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کے لیے سارے جتن کرلیے بس ’’اسمبلی کی طرف مت جانا، وہاں بھؤ ہے‘‘ کہہ کر ڈرانے اور ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ گانے کی کسر رہ گئی تھی۔

٭نئی ایم کیوایم:ایک زمانے تک کراچی میں بھائی ایم کیوایم کا راج رہا، پھر بھائی کے تاریخی بھاشن کے بعد ان کو ٹاٹا بائے بائے کرکے ڈاکٹرفاروق ستار کی زیرِقیادت پیش ہوئی ڈرامائی ایم کیوایم، پھر یوں سرپھٹول ہوئی کہ یہ جماعت کئی ایم کیوایم میں بٹ گئی، اس سال انتخابات ہوئے تو کئی علاقوں سے گئی ایم کیوایم، اس ساری صورت حال میں جس نے جنم لیا ہے وہ ہے نئی ایم کیوایم۔ یہ والی ایم کیوایم ’’قدم قدم تشدد‘‘ پر نہیں عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے، پُرانی ایم کیوایم سے نظم وضبط کی خلاف ورزی پر کارکن نکالے جاتے تھے، یہ نظم قیادت ضبط کرکے اپنے سربراہ کو فارغ کردیتا ہے، وہ والی ہر الیکشن میں زیادہ ووٹ لے کر پچھلے کا ریکارڈ توڑ دیتی تھی، چاہے اس کے لیے بیلٹ باکس توڑنا پڑے یا کسی کی ہڈیاں، یہ والی اپنے پورے پورے حلقے بھی چھوڑ دیتی ہے۔ یہ نئی ضرور ہے مگر اتنی بھی نئی نہیں کہ حکومت میں شامل نہ ہو، بھئی نُدرت اپنی جگہ، روایت اپنی جگہ۔

٭گِرنے کا سال:گراوٹ بھی اس سال کی ایک اہم خصوصیت رہی۔ سب سے زیادہ گراوٹ کا مظاہرہ روپے نے کیا۔ یہ گِرا، بہت ہی گِرا اور اچانک گِرا۔ وزیراعظم کو بہ قول ان کے روپیہ گِرنے کی خبر میڈیا سے ہوئی۔ یقیناً انھوں نے فوراً اپنی کابینہ کے ارکان سے کہا ہوگا،’’جاکر دیکھو کتنا روپیہ گِرا ہے اور کہاں گِرا ہے۔ فوراً اُٹھا کر قومی خزانے میں جمع کرادو۔‘‘ وہ سمجھے ہوں گے کہ یہ ’’جھمکا گِرا رے بریلی کے بازار میں‘‘ جیسا کوئی معاملہ ہے، خیر انھیں پتا چل گیا کہ جھمکا نہیں روپیہ گرا ہے اور بریلی نہیں کرنسی کے بازار میں، جس پر انھوں نے قوم کے تسلی دی کہ گھبرانا نہیں ہے، مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں۔ بلوچستان میں ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت گرا دی گئی، پھر گرائی گئی حکومت میں شامل وہ ارکان جو زیادہ ہی گِر گئے تھے انھیں اٹھاکر نئی صوبائی حکومت بٹھادی گئی۔ انتخابات کے دنوں میں بعض راہ نماؤں اور امیدواروں نے اپنی تقریروں میں دل بھر کے گِری ہوئی زبان استعمال کی، یہ زبان سُن کر لگتا تھا کہ فقط گرِی ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ کسی گٹر، کوڑے کے ڈھیر یا گندے نالے میں گری تھی، جسے یہ مقررین اٹھاکر لائے اور دھوئے بغیر ہی استعمال کرڈالا، اب اگر زبان دُھل جاتی تو مخالفین کو کیسے دھوتے؟ گنگا اور جمنا میں دُھلی زبان تو آپ نے سُنی ہوگی، اس سال کی انتخابی زبان جوہڑ اور نالی میں دُھلی ہوئی تھی۔

٭جانور چھائے رہے:چین میں ہر سال کسی نہ کسی جانور سے منسوب ہوتا ہے، ہمارا یہ سال کئی جانوروں سے منسوب ہوا، جن میں سرفہرست بھینس ہے۔ کہتے ہیں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ اب یہ لاٹھی والے پر ہے کہ وہ بھینسوں کو ایوان وزیراعظم میں شرفِ رہائش بخشے یا انھیں ہنکاکر بیچ ڈالے۔ لاٹھی والے ہاتھ کی تبدیلی کے ساتھ بھینسوں کی قسمت بھی بدل گئی اور انھیں ایوان وزیراعظم سے دیس نکالا مل گیا، وہ بے چاریاں پی ایم ہاؤس کا چارا چُھٹنے پر کہیں چارہ جوئی بھی نہ کرسکیں اور ’’ہم تو ہیں تورے کھونٹے کی بھینسیں ہانکو جدھر ہنک جائیں رے سکھی بابل مورے‘‘ گاتی رخصت ہوگئیں۔ انھیں نیلامی میں خریدنے والے نے نوازشریف کو بہ طور تحفہ پیش کردیا، گویا ’’آملے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک۔‘‘یوں ایوان وزیراعظم سے باہر کردیے جانے والے سابق وزیراعظم اور بھینسیں پھر یک جا ہوگئیں۔

شاید ان ہی بھینسوں سے ’’بہناپے‘‘ کے سبب ان کی ایک بھینس بہن انتقاماً اعظم سواتی صاحب کی اراضی میں جاگھسی، نتیجتاً اعظم سواتی، جو پہلے آئی جی اسلام آباد کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے وزارت چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے مرغی اور انڈوں سے غربت دور کرنے کا فارمولا پیش کرکے مُرغی کو سب کی توجہ کا مرکز بنادیا، ورنہ اس سے پہلے تو گھر کی مُرغی دال برابر والا معاملہ تھے۔ حکومت کے مخالفین نے کہا۔۔۔۔منحصر ’’مرغی‘‘ پہ ہو جس کی اُمید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے، اور حامیوں نے مرغی میں معاشی امکانات کی ایک دنیا تلاش کرتے ہوئے ارشاد کیا۔۔۔۔یہی نشاں ہے زمانے میں زندہ قوموں کا۔۔۔کہ اُن کی مرُغیاں دیتی ہیں رات دن انڈے۔ نیلامی بھینسوں، اعظمی بھینس اور معیشت افروز مُرغی کے علاوہ ٹی وی چینلوں پر تبصرے اور تجزیے کرتے رٹو طوطوں اورہر شاخ پر بیٹھے اُلوؤں نے بھی اس سال ممتاز رہتے ہوئے یہ برس اپنے نام کیا۔

٭سوالیسال:یہ برس مانگنے کے معاملے میں ہر بیتے سال سے بازی لے گیا، ’’مانگ میری بھر دو‘‘ کو چھوڑ کر ہر طرح کی مانگ کی گئی۔ عوام سے ووٹ مانگے گئے، ڈیموں کے لیے چندہ مانگا گیا، دوسرے ممالک سے امداد مانگی گئی، آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا گیا، عدالتوں میں وکلائے صفائی مہلت مانگتے رہے، منصف مدعی سے ثبوت مانگتے رہے، حکم رانوں کے بہ قول بعض لوگ این آر او مانگتے رہے۔۔۔۔خود حکم راں حکومت پر تنقید کے لیے میڈیا سے چھوٹ اور تاریخ پر تاریخ مانگتے رہے ۔۔۔۔اور غریب عوام حالات سُدھرنے کی دعا، اﷲ کی پناہ اور ایک دوسرے سے مہینے کی آخری تاریخوں میں اُدھار مانگتے رہے۔ اس طرح بیس سو اٹھارہ سال نہیں ’’سوالی‘‘ بن کے گزرا ہے۔

The post یہ سال بے مثال تھا ؛ کیا کیا تھا منفرد، کیا کچھ تھا نیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ کِسے ساتھ لے گیا ہے وقت

$
0
0

اس میں حیرت کیسی کہ جب ایک فلسفی ان لوگوں کو جنہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا اور وہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تلاش کرکے ان پر طنز کا چرکا لگاتے ہیں، ایسے لوگوں کو آئینہ دکھانا کسی عام انسان کے بس میں کہاں کہ یہ تو ایک زیرک فلسفی ہی کرسکتا ہے جو شجر کے ثمر کے ساتھ اس کی جڑوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہو، اور تکریم انسانیت کا ایسا خُوگر جو انہیں آئینہ دکھاتے ہوئے ان کی عزت نفس کو بھی مجروح نہ ہونے دے اور انہیں ایسا آئینہ دکھائے کہ وہ خود بھی اس میں اپنی شکل دیکھ کر پہلے سہم جائیں، پھر خود کو پہچان کر بے اختیار مسکرائیں اور پھر تھوڑی دیر کے بعد بے اختیار ہوکر خود پر جان دار قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجائیں۔

ایسا بھلا طنز تو کوئی بھلا مانس ہی کرسکتا ہے اور وہ بھلا مانس کوئی فلسفی بھی ہو تو کیا کہنے، بس واہ ہی کہنے کو جی کرتا ہے، ورنہ تو یہاں پھکڑ پن کو مزاح کہا جانے لگا ہے لیکن اس فلسفی نے ایسے تمام پھکڑ بازوں کا ہمیشہ کے لیے ناطقہ بند کردیا ہے۔ چلیے تمہیدِطولانی سے گریز کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں کہ آگے ایک ایسے ہی نابغہ روزگار فلسفی کے مزاح پر گفت گو ہوگی، جسے بیس سو اٹھارہ کا سال اپنے ساتھ لے گیا۔

لیکن ساتھیو! ایسا ہوا کہ ایک یوسف زئی پٹھان جب پشاور پہنچا تو لوگوں کے رویے سے اس قدر رنجیدہ ہوا کہ اس نے یوسف زئی کو یوسفی میں بدل دیا۔ ہاں ایسا ہی ہوا، یہ یوسف زئی پٹھان جو یوسفی کہلانے لگا عبدالکریم تھا۔ تفصیل اس اجمال کی ظفر سید نے کچھ اس طرح بتائی: ’’ بیسویں صدی کے اولین عشروں کی بات ہے کہ انڈین شہر جے پور سے عبدالکریم یوسف زئی نامی ایک شخص کسی کام کے سلسلے میں پشاور گیا۔ لیکن جب انھوں نے وہاں اپنا تعارف یوسف زئی پٹھان کے طور پر کروایا تو مقامی لوگ ہنس دیے۔

وجہ یہ تھی کہ عبدالکریم کا خاندان قبائلی علاقہ چھوڑ کر کئی صدیاں قبل ریاست راجستھان میں جا آباد ہوا تھا اور وہ شکل و صورت، زبان، لہجے اور چال ڈھال سے مکمل طور پر مارواڑی روپ میں ڈھل چکے تھے۔ عبدالکریم، جو جے پور کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے، اس واقعے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا نام ہی یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈالا۔ عبد الکریم کے ہاں چار ستمبر 1923 کو ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام مشتاق احمد خان رکھا گیا۔ یہی بچہ آگے چل کر اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثرنگار مشتاق احمد یوسفی کہلایا۔‘‘

مشتاق احمد یوسفی کے والد پہلے مقامی مسلمان تھے جنھوں نے1914ء میں مہاراجہ کالج جے پور سے بی، اے کی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی تھی۔ ابتدائی اور مذہبی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا، جہاں ان کے والد اور دادا نے تعلیمی منازل طے کی تھیں۔ انہوں نے 1942ء میں مہاراجہ کالج سے بی، اے فائنل کے امتحان میں پورے راجستھان اجمیر سینٹرل انڈیا میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ 1945 میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔

1946 میں سول سروس کا امتحان پاس کرکے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہوگئے۔ اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھیں۔ اگلے ہی برس ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا جس کے بعد ان کے خاندان کے افراد پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ یکم جنوری 1950 کو مشتاق احمد یوسفی کھوکھراپار عبور کرکے کراچی آبسے۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے سول سروس کے بہ جائے بینکاری کا شعبہ اپنالیا اور مسلم کمرشل بینک سے منسلک ہوگئے۔ 1974 میں وہ یونائٹیڈ بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979 میں انھوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اور بالآخر 1990 میں ریٹائرڈ ہوکر مستقل کراچی میں مقیم رہے۔ وہ کراچی جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا: ’’ ہم نے تو سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنّم ہے، جہنّم تو بڑا سا کراچی نکلا ‘‘

یوسفی صاحب نے جب ہوش سنبھالا وہ تقسیم برصغیر کا وہ بہت پُرآشوب دور تھا، لوگ غیریقینی صورت حال کا شکار تھے، کرب و اضطراب کے مہیب سائے ہر طرف چھائے ہوئے تھے اور معاشی ناہم واریوں کا ایک طوفان بلاخیز تھا، جس میں سب ہی تنکے کی طرح بہے چلے جارہے تھے۔ اس حوصلہ شکن ماحول میں جہاں نفسانفسی کا عالم تھا اور لوگ مستقبل کے حالات کے بارے میں تشویش اور غیریقینی کا شکار تھے، ان مخدوش حالات میں جب زندگی ذہن و دماغ کو کسی اور پہلو کی طرف سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی۔ ادب و انشاء کی طرف مشتاق یوسفی کا رجحان ان کے شعور میں ادبیت، موزونیت اور فطرت میں تخلیقی صلاحیتوں کا پتا دیتا ہے۔ اس وقت لاہور اور کراچی میں قدآور ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کی ایک کہکشاں آباد تھی۔ ان حالات میں ایک نووارد کے لیے اپنی شناخت قائم کرنا دشوار تھا۔ مگر مشتاق احمد یوسفی نے نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں کے بانکپن کے ذریعے ادب کے خزانے میں قابل قدر اضافہ کیا بلکہ اصناف ادب میں نسبتاً مشکل اور دشوار صنف طنزیہ کو اختیار کرکے جہاں اپنی عظیم شناخت قائم کی وہیں اس فن کو اپنے عروج تک بھی پہنچایا۔

مشتاق احمد یوسفی نے پہلا باقاعدہ مضمون 1955 میں ’’صنفِ لاغر‘‘ کے نام سے لکھا اور جب اپنے زمانے کے مشہور رسالے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجا تو اس کے مدیر مرزا ادیب نے یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ وہ اس کے مرکزی خیال سے متفق نہیں ہیں۔ مشتاق یوسفی اس سے حوصلہ نہ ہارے اور انھوں نے یہی مضمون ترقی پسند رسالے ’’سویرا‘‘ کو بھیج دیا، جس کے مدیر حنیف رامے نے نہ صرف اسے شایع کیا بل کہ مشتاق احمد یوسفی کو مزید لکھنے کی ترغیب بھی دی۔ یہ وہی حنیف رامے ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں بھی شہرت کمائی، اس کے ساتھ ہی حنیف رامے ایک بلند پایہ مصور بھی تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حنیف رامے کا ایک بڑا کارنامہ اردو ادب کو مشتاق یوسفی سے رُوشناس کرانا ہے۔

حنیف رامے ہی کی تحریک پر مشتاق یوسفی نے مختلف رسائل میں مضامین لکھنا شروع کیے جو ’’صنفِ لاغر‘‘ سمیت 1961 میں یوسفی کی پہلی کتاب ’’ چراغ تلے‘‘ کا حصہ بنے۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک اس کے درجنوں ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ ان کی اگلی کتاب کے لیے بھی ان کے مداحوں کو نو سال کا انتظار کرنا پڑا۔ جب ’’ خاکم بدہن‘‘ 1970 میں شایع ہوئی۔ اگلے برس اس کتاب کو اس دور کے سرکردہ ادبی اعزاز آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہی ایوارڈ 1976 میں یوسفی کی تیسری کتاب ’’ زرگزشت‘‘ کو بھی دیا گیا۔ جسے ان کی خودنوشت سرگزشت بھی کہا جاسکتا ہے۔ خود یوسفی نے اسے اپنی ’’ سوانحِ نوعمری‘‘ قرار دیا تھا۔ جب کہ اس کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب یوسفی نے پاکستان آکر بینکاری کے شعبے میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشتاق یوسفی کی چوتھی کتاب جسے کچھ لوگوں نے ناول قرار دیا ’’آبِ گم‘‘ ہے، جو 1989 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد خیال کیا جانے لگا جیسے انہوں نے کچھ لکھنا چھوڑ دیا ہو، لیکن2014 میں اس تاثر کی اس وقت نفی ہوگئی جب مشتاق یوسفی کی پانچویں کتاب ’’شام شعر یاراں‘‘ اہتمام سے شایع ہوئی، جو مختلف ادوار میں لکھے گئے مضامین، خطبات اور تقاریر پر مشتمل ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے تخلیقات کا انبار نہیں لگایا ہے، لیکن ان کے زرنگار قلم سے ادب کی تعمیر و تزئین کا جو کام ہوا ہے وہ تخلیقی فن اور تیکنیکی بیان کے لحاظ سے انتہائی بلند مقام پر ہے، ایسا مقام بلند جس پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گراں قدر تخلیقات پر مشتمل کتابیں جو زیور طبع سے آراستہ ہوئیں وہ صرف پانچ کی تعداد میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شام شعر یاراں کے نام سے منظر عام پر آئیں۔

مشتاق احمد خان یوسفی کی تحریروں میں بلا کی جاذبیت، سلاست، برجستگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ ادیب کا یہ امتیازی وصف ہے کہ روز مرہ کے معمولی واقعات جو عام انسانوں کی نگاہوں سے یکسر اوجھل رہتے ہیں اس کی باریک نگاہ انہیں دیکھ لیتی ہے اور پھر انھیں واقعات میں وہ زندگی کا راز اور پیغام تلاش کرلیتی ہے۔ ان کے مثبت و منفی پہلوؤں سے صحت مند نتائج اخذ کر کے حسین پیرائے میں دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ مشتاق یوسفی کی تمام تحریروں میں یہ فن کارانہ مہارت پوری آب و تاب سے دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے سماج میں جو بے اعتنائیاں پائی جاتی تھیں اس پر انہوں نے اس انداز سے ظریفانہ نشتر چلایا ہے کہ پورا منظرنامہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔

2007 میں 60 برس سے زیادہ کی رفاقت کے بعد ان کی اہلیہ ادریس فاطمہ کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد مشتاق یوسفی ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کی تمام تحریروں میں ان کا ذکر جہاں بھی آیا ہے وہاں یوسفی کے قلم سے محبت اور خلوص ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔

یہ عظیم فلسفی جس نے لطیف پیرائے میں لوگوں کے تضادات بیان کیے تھے، 20 جون 2018 کو 94 سال کی عمر میں لوگوں کو روتا ہوا چھوڑ کر ہنستا ہوا چلا گیا۔n

مشتاق احمد خان یوسفی کے کچھ شاہ کار جُملے

٭ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ ’’کافی‘‘ لگی ہوئی۔

٭ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔

٭ آپ نے بعض میاں بیوی کو ہواخوری کرتے دیکھا ہوگا۔ عورتوں کا انجام ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ’’ہواخور‘‘ رفتہ رفتہ ’’حواخور‘‘ ہوجاتے ہیں۔

٭ معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔

٭ اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔

٭ ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔

٭ جب نورجہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار ’’خصم گیں‘‘ نگاہوں سے دیکھا۔

٭ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے۔

٭ دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

٭ مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔

٭ آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔

٭ مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

٭ امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔

٭ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔

٭ فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے۔

٭ محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکی داری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

٭ مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

٭ آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیوں کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔

٭ یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو، اتنا ہی چمکتی ہے۔

٭آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔

٭ تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں۔

٭ فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہ ہدف ہوتی ہیں۔

٭ جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا۔

٭ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت میں پیوست ہوتی ہیں۔

٭ یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے، جب کہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹا نہ جاسکے۔

The post یہ کِسے ساتھ لے گیا ہے وقت appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4420 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>