Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

’اسپیس سیٹیلائٹ‘ غریب ملک ایتھوپیا کی عیاشی

$
0
0

یہ بات تواب دنیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ ایتھوپیا افریقا کا غریب ترین ملک ہے لیکن یہ جان کر آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ وہ اس مفلسی میں بھی سال بھر کے اندر اندر خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔

اس بڑے منصوبے کی تکمیل کے لیے چین اس کا مددگار ہے۔ چین کی افریقا میں مستحکم پوزیشن اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ افریقا میں نہ صرف معاشی میدان کا بے تاج بادشاہ ہے بلکہ سمندر، دریا اور خلا سب تیزی سے مسخر کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس نے مضبوط عالمی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ صحراؤں کی ہواؤں سے لے کر سفید برف سے ڈھکے نیلے پانیوں تک چین کی رسائی اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن ایتھوپیا جیسے غریب ملک کے لیے خلاء میں جانا ایک ایسی عیاشی ہے جس کی قیمت غریب ایتھوپین عوام جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔

ایتھوپیا کے چوالیس فی صد باشندے خطِ غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غربت میں جتنا ہاتھ قدرتی آفات کا ہے اس سے کہیں زیادہ خود انسانی غفلتوں کا بھی ہے۔ صنعتی اور سائنسی ترقی کے حیرت انگیز دور میں یہاں کے اسی فی صد لوگوں کا پیشہ اب بھی زراعت ہی ہے۔ بنیادی انفرااسٹرکچر کے نہ ہونے کے باعث ایتھوپیا کے کسان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کے پاس جدید آلات تک موجود نہیں۔ پے درپے آنے والے قحط نے ان کی زندگیوں کا عذاب مزید بڑھا دیا ہے۔ یوں ایک ایسا معاشرہ جس میں معاشی، طبی اور تعلیمی ضروریات منہ پھاڑے کھڑی ہوں وہاں آنکھیں بند کرکے خلا کی طرف دوڑ لگا دینا بھلا کہاں کی دانش مندی ہے؟

صرف غربت اور قدرتی آفات ہی نہیں بلکہ جنگوں نے بھی ایتھوپیا کو بدحالی کے گڑھے میں اوندھے منہ گرا رکھا ہے۔ بیس سال سے اریٹیریا کے ساتھ ایتھوپیا حالتِ جنگ میں رہا۔ رواں ماہ امن کے ایک معاہدے کے تحت یہ جنگ رک تو چکی لیکن اس کے منفی اثرات سے خلا میں پہنچ کر بھی فرار ممکن نہیں۔ دورانِ جنگ ایتھوپیا اقوام متحدہ کی عائدکردہ پابندیوں کی مسلسل زد میں رہ کر مزید بدحال ہوگیا۔ اس جنگ میں دونوں طرف کے ہزاروں سپاہی اور ایک لاکھ عام افراد جان سے گئے اور نہ جانے کتنے بلین ڈالر اسلحے کی خرید میں جھونک دیے گئے۔ ماہرین نے پہلی جنگ عظیم کی طرح اس جنگ کو بھی ایک بلاجواز جنگ قرار دیا لیکن برا انسانی خون سے پیاس بجھانے والے ان چنگیزیوں کا جنہیں کسی جواز کی ضرورت پڑتی بھی کب ہے؟

جیسے اریٹیریا سے جنگ لڑتے وقت بھی ایتھوپیا کو اندازہ نہ تھا کہ اس نے بلاجواز اپنی لٹیا آپ ڈبو لی ہے، اسی طرح اب بھی اس کو یہ اندازہ نہیں کہ اس وقت ایتھوپیا کی اصل ضرورت ہے کیا؟ انفرااسٹرکچر کی بحالی اور عوام کی بنیادی ضروریات سے سر پھوڑنا اہم ہے یا پھر خلا سر کرنا؟ لیکن جناب شوق کا کوئی مول نہیں۔ اس بلاجواز شوق کو بڑھاوا دینے والا چین ہے، جو اس خلائی سفر میں ایتھوپیا کے ساتھ نہیں بلکہ اس سے دو قدم آگے کھڑا ہے اور اس کے پیچھے چلنے والی ایتھوپین حکومت کی نظروں سے اپنے عوام کی ضرورتیں اور ان کی بے بسی یکسر اوجھل ہو چکی ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق اس سیٹیلائٹ پر کل خرچ آٹھ ملین ڈالر آیا ہے جس میں سے چھے ملین ڈالر چین نے فراہم کیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بڑی سرمایہ کاری کے بعد چین نے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس سیٹیلائٹ کو چینی سرزمین سے ہی لانچ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ، جس سے روگردانی کی مجال ایتھوپیا حکومت میں کہاں؟ ’’جس کا کھاؤ اسی کا گاؤ‘‘ کی عالمی پالیسی پر ایتھوپیا دھڑلے سے عمل پیرا ہے۔

ایتھوپیا کے وزیر اسپیس سائنس اور ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ سیٹیلائٹ لانچ چین سے ہوگا لیکن اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ایتھوپیا میں ہوگا۔ چلیے جناب! چین نے اتنی مہربانی بھی کی تو یہ بڑی بات ہے لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اس کنٹرول سینٹر میں چینی ہی کام کریں گے یا ایتھوپین عوام کو بھی کوئی حق سونپا جائے گا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ سیٹیلائٹ کی تیاری میں چینی انجنیئرز کے ساتھ ایتھوپیا کے بھی بیس انجنیئرز کام کر رہے ہیں، یعنی چین اس بار اپنی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے کے موڈ میں ہے۔

چین جو افریقا میں سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کر چکا ہے اب یہاں خلائی سیکٹر کو بھی فتح کرنا چاہتا ہے۔ جنوری میں چین نے نائیجیریا کو ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر سیٹیلائٹ مشن کے لیے دیے اور یہ شرط رکھی کہ نائیجیریا اس رقم سے صرف چین کے بنے ہوئے دو سیٹیلائٹ خریدے گا۔ یوں چین کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اور نائیجیریا چین کی مہربانی سے اگلے دو سال میں خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ گھانا، جنوبی افریقا، نائیجیریا، مصر، مراکش، الجزائر، انگولا اور کینیا وہ افریقی ممالک ہیں جو پہلے ہی خلا میں سیٹیلائٹ بھیج چکے ہیں۔

ایتھوپیا کے سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سیٹیلائٹ ان کی معاشی ترقی میں نہایت معاون ثابت ہوگا اور اس سے غریب خطوں کی تصاویر لینا اور قدرتی آفات کی پیش گوئی کرنا آسان ہو جائے گا۔ بجا، لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو افریقی ممالک خلاء کی طرف سفر کر چکے ان کے حالات میں کیا کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے؟ کیا ان کی معاشی حالت واضح طور پر بدل سکی؟ کیا وہ معاشی میدان میں غیروں کے تسلط سے آزاد ہوئے؟ کیا قدرتی آفات کی وقت سے کہیں پہلے پیش گوئی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ممکنہ نقصانات کا ازالہ کرنے کی تیاریاں کیں؟ ان سب سوالات کے جواب یقیناً نفی میں ہیں۔

بھارت افریقی ممالک سے قدرے بہتر معاشی حالت میں ہے لیکن اس کے اسپیس پروگرام کو بھی اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب دیس کی سڑکوں پر غربت کا برہنہ رقص ہو رہا ہو، ملک کے آدھے سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں ، عوام کی مفلسی کا حال یہ ہو کہ وہ بیت الخلا کی سہولت سے بھی محروم ہوں، ایسے میں خلاء تک پہنچنے کے لیے ملکی سرمایہ جھونکنا اور بیرونی قرضوں تلے پہلے سے بدحال لوگوں کو اَور دبا دینا صرف بے وقوفی ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے ساتھ بے ایمانی بھی ہے۔ اسپیس پروگرام کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور غریب ممالک کے تو بس کی بات ہی نہیں کہ وہ تنہا اتنے بڑے مشن کو سرانجام دیں۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ چین افریقا کو جتنا فائدہ پہنچا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ خود اٹھا رہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اسپیس ٹیکنالوجی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے لیکن یہ ذرا آگے کا قدم ہے۔ پہلا قدم زمین پر بسنے والوں کے لیے امن کا قیام، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ، ضرورتوں کا ادراک اور انہیں حل کرنے کی جامع منصوبہ بندی کرنا ہے۔ پہلا قدم اٹھائے بنا اگر خلاء کی باتیں ہوں گی، تو وہ قبل از وقت ہوں گی اور آخرکار خلاء سر کر کے بھی مسائل جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے، جیسے افریقا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہوا ہے۔

The post ’اسپیس سیٹیلائٹ‘ غریب ملک ایتھوپیا کی عیاشی appeared first on ایکسپریس اردو.


چین کے بڑے خوابوں کے بڑے پُل

$
0
0

میر تقی میر فرماتے ہیں کہ
 خام رہتا ہے آدمی گھر میں، پختہ کاری کے تئیں سفر ہے شرط

آج میر زندہ ہوتے تو انہیں اپنے شعر پر ضرور نظرِثانی کرنی پڑتی کیوں کہ اب سفر نہ تو جھمیلوں سے عبارت ہے اور نہ ایسا دشوار کہ اس سے خام آدمی پختہ ہوسکے۔ اب چین کو ہی دیکھ لیجیے، جہاں تعمیر ہونے والے دنیا کے سب سے طویل پُل کے بعد اب گھنٹوں کا راستہ سمٹ کر منٹوں کا رہ گیا ہے۔

گویا جدید دور میں سفر کی وہ مدت ہی باقی نہ رہی جو بقول میر پختہ کاری کا ایک بڑا سبب تھی۔ خیر دل کے ایک تنہا گوشے میں تصور کی دنیا آباد کیے ان شاعروں کی تو بات چھوڑیے، بات کرتے ہیں چین کی جو حقیقت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو مات دینے کے لیے بے چین ہے۔ پوری دنیا میں بڑے بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے ذریعے اگر کوئی نہایت سرعت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پارہا ہے تو وہ چین ہے۔ اکتوبر میں یہاں پچپن کلومیٹر طویل پُل افتتاح کے بعد باقاعدہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس پُل کی تعمیر سے ہانگ کانگ اور زوہائی کا درمیانی راستہ تین گھنٹوں سے سمٹ کر تیس منٹ کا رہ گیا ہے۔

چین نے اس پُل کی تعمیر سے خطے میں اپنی طاقت میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔ 1.4بلین آبادی کا حامل چین اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ زوہائی چین کے ان نو بڑے شہروں میں سے ہے جن کی صنعتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ چین کے صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے، جس کی آبادی  68ملین ہے اور جی ڈی پی 1.69ٹریلین ڈالر ہے جو چین کے کُل جی ڈی پی کا چودہ فی صد بنتا ہے۔ گوانگ ڈوانگ صوبے سے ہانگ کانگ اور مکاؤ تک اشیاء کی ترسیل اور آمدورفت کے لیے زوہائی ایک گیٹ وے ہے۔

چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کا بزنس ٹرپ ، عزیز و اقارب سے ملاقات ، شاپنگ اور جوا کھیلنے کے لیے ہانگ کانگ کثرت سے آنا جانا لگا رہتا ہے۔ مکاؤ میں بھی بڑے پیمانے پر کیسینو ہیں جہاں پورے چین سے لوگ جوا کھیلنے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹیکسوں کی انتہائی کم شرح اور سرحدی نرم پابندیوں کی وجہ سے چینی باشندے ہامگ کانگ سے غیر ملکی سامان خرید کر چین لے آتے ہیں۔ اس پوری صورت حال میں دیکھا جائے تو زوہائی، مکاؤ اور ہانگ کانگ پُل چینیوں کے لیے ایک بڑا تحفہ ہے۔ اس کا افتتاح چینی صدر ژی جن پنگ نے کیا اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے تمام انجنیئزز کو سراہا۔

اس پُل کی سب سے پہلی تجویز 1980میں ہانگ کانگ کے ایک بزنس مینGorden wu Ying Sheung نے دی تھی جو پرل ڈیلٹا پر جدید ٹرانسپورٹ سسٹم کا حامی تھا، لیکن اس تجویز کو ہانگ کانگ میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے رد کردیا ۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اس طرح ہانگ کانگ کمیونسٹ چین سے قریب ہو جائے گا ، یوں یہ منصوبہ سیاسی خدشات کی نذر ہوگیا۔2003میں اس منصوبے کے لیے دوبارہ آواز چین سے بلند ہوئی اور اپنے مضبوط ارادوں کی تکمیل کرتے ہوئے چین نے2009میں اس پُل کی تعمیر شروع کردی۔ اس کی تعمیر کا ابتدائی تخمینہ9.7بلین امریکی ڈالر لگایا گیا تھا لیکن اختتام تک آتے آتے اس منصوبے پر بیس بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہو چکی تھی۔

گہرے نیلے سمندر کے اوپر پوری شان سے ایستادہ پچپن کلومیٹر طویل اس پُل کی طوالت سنگاپور کے مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے۔ یہ سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج کی نسبت بیس گنا زیادہ طویل ہے۔ اس پُل کی تعمیر میں چار لاکھ بیس ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اسٹیل کی اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے ساٹھ ایفل ٹاورز تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ یہ پُل زلزلوں اور طوفانوں کو برداشت کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے اوپری ٹاورز ڈولفن کی شکل کے بنائے گئے ہیں کیوں کہ یہ دریا کا وہ مقام تھا جہاں بڑی تعداد میں سفید ڈولفن موجود تھیں جو اس پُل کی تعمیر کے بعد اپنا علاقہ چھوڑ کر ہجرت اختیار کرگئیں۔ ماحولیاتی سائنس دانوں کے خیال میں سفید ڈولفن کی یہ ہجرت ان کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

ہانگ کانگ کے باشندوں کو اس پُل پر سے گزرنے کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہے جس کو فراہم کرنے کا چینی معیار بہت کڑا ہے۔ وہ معیار یہ ہے کہ اس پُل کو گزرگاہ بنانے والوں کے لیے لازمی ہے کہ یا تو وہ سیاسی قبیلے سے تعلق رکتے ہوں یا چینی صوبے گوانگ ڈونگ میں رفاہِ عامہ کی کسی سرگرمی سے منسلک ہوں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور پیدل چلنے والوں کو اس پُل پر سے گزرنے کی اجازت نہیں۔ سب سے قابلِ ذکر بات یہ کہ یہاں ہر چند گز کے فاصلے پر لگے کیمرے نہ صرف گاڑیوں کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرتے ہیں بلکہ حادثات سے تحفظ کے لیے ایسا جدید مانیٹرنگ سسٹم بھی موجود ہے جس میں ڈرائیورز کا بلڈ پریشر مستقل چیک کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ایسی گاڑیوں کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے جن کے ڈرائیورز تین بار سے زائد جماہی لے چکے ہوں۔

اس انوکھے اور خوب صورت پُل کی تیاری کے تمام مراحل نہایت صبرآزما اور مشکل ترین تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق پُل کی تعمیر کے دوران نو مزدور جاں بحق ہوئے جب کہ کنکریٹ ٹیسٹ کی رپورٹ میں دھاندلی کے جرم میں تین ٹیکنیشینز جیل بھیج دیے گئے۔ ہانگ کانگ میڈیا کا کہنا ہے کہ نو مزدور تو پُل کے اس حصے کی تعمیر میں ہلاک ہوئے جو چین کی طرف تھا جب کہ ہانگ کانگ کی طرف پُل کے حصے کی تعمیر کے دوران اٹھارہ مزدور ہلاک اور چھے سو زخمی ہوئے۔

اس پُل کی تعمیر سے جہاں چینی باشندے بے حد خوش ہیں وہیں ہانگ کانگ میں اس حوالے سے شدید تحفظات اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ نقاد کہتے ہیں یہ پُل چین کے لیے ایک سفید ہاتھی ہے اور ان منصوبوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے چین دنیا پر حکم رانی کرنا چاہتا ہے۔ ہانگ کانگ کے رہائیشیوں کے خیال میں چین اس پُل کے ذریعے ہانگ کانگ کی خودمختاری خطرے میں ڈال چکا ہے اور جلد ہی اسے بہ آسانی کنٹرول کرلے گا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پُل ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں کا بدترین استعمال ہے اور اس کا ہانگ کانگ کے عام باشندوں کو کوئی فائدہ بھی نہیں۔ گویا ہانگ کانگ کے عوام کے لیے یہ ایک سیاسی پُل اور ایک ایسا منصوبہ ہے جس کی لوگوں کو قطعاً ضرورت ہی نہ تھی۔

چین کو ان باتوں کی ہر گز کوئی پروا نہیں بلکہ اس وقت اس کی توجہ دریائے یانگز پر نئے تعمیر ہونے والے ڈبل ڈیکر برج پر ہے۔ یہ بھی دنیا کا سب سے طویل ڈبل ڈیکر پُل ہو گا۔ جس کا ابتدائی تخمینہ آٹھ بلین یان لگایا گیا ہے۔ اس پُل کی چوڑائی دو سو اکیس میٹر ہے۔ جس کے دونوں حصوں میں 49اسٹیل کے بیم استعمال کیے جارہے ہیں جن کا وزن ایک ہزار ٹن ہے۔ یہ بھی بلاشبہہ چین کا ایک شاہ کار کارنامہ ثابت ہوگا اور اگلے سال اکتوبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

بظاہر تو چین کی برج پالیسی سے اس کے معاشی مفادات وابستہ ہیں لیکن ان پلوں کے نیچے جنم لیتے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پلوں کی سیاست میں چین دنیا میں تنہا نہیں بلکہ روس بھی آگے آگے ہے۔ رواں سال روس نے کریمیا تک انیس ہزار میٹر طویل پُل کا افتتاح کیا جس پر یوکرین میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اگر یہ پل دوستی اور محبت کا پیام لائیں تو ان سے اچھا منصوبہ اور کیا ہو سکتا ہے ورنہ ہونی کو آج تک بھلا کون روک سکا ہے؟

The post چین کے بڑے خوابوں کے بڑے پُل appeared first on ایکسپریس اردو.

تجاوزات کے پیچھے چپھی کراچی کی تاریخ

$
0
0

تجاوزات کے باعث شہر قائد کی شاہ راہیں، سڑکیں تنگ، بازار اور گلیاں  چلنے اور چھوٹی گاڑیوں تک کے گزرنے کے قابل نہ رہی تھیں۔ فٹ پاتھ پر پتھارے اور بعض جگہ پختہ دکانیں تعمیر کر دی گئیں جس سے ایک طرف شہریوں کو پیدل چلنے میں دشواری کا سامنا تھا اور دوسری جانب یہ غیر قانونی اور ناجائز تعمیرات ٹریفک جام کا سبب بن رہی تھیں۔

شہری تنظیموں اور میڈیا نے بارہا متعلقہ اداروں کو اس طرف متوجہ کیا، مگر کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ یہ تجاوزات جہاں شہریوں کے لیے وبال اور مسئلہ بنی ہوئی تھیں، وہیں کراچی کی تاریخی حیثیت پر بدنما دھبا اور اس اہم تجارتی مرکز کی قابلِ ذکر عمارات اور مقامات کے لیے شدید خطرہ بن چکی تھیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر آج شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے اور اس کا آغاز شہر کے مرکزی اور پُرہجوم علاقے صدر میں واقع ایمپریس مارکیٹ سے ہوا ہے۔ یہ تاریخی عمارت 1899ء میں قائم ہوئی اور شہرِ قائد کا ایک خوب صورت نقش، تاریخی حوالہ اور یادگار ہے جس کے اطراف موجود تجاوزات کو مسمار کر کے گویا اس عمارت کو وا گزار کرا لیا گیا۔

انتظامیہ نے سیکیورٹی اہل کاروں کی موجودگی میں ایمپریس مارکیٹ  کے اطراف اور اندر موجود سیکڑوں غیرقانونی دکانوں اور تعمیرات کو ڈھا دیا۔ اگرچہ یہ عمارت متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے نہایت مخدوش ہوچکی ہے، مگر ’گوتھک‘ طرزِ تعمیر کا یہ دل کش نمونہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے اور ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی ہے۔ برطانوی دور کی اس عمارت کے لیے جگہ کا چناؤ اس دور میں برطانوی افسروں کی سہولت کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ  اس عمارت سے  سندھ کلب، کراچی جم خانہ، فیریئر ہال، فلیگ اسٹاف ہاؤس اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں بہت قریب ہیں اور اکثر عمارتوں کے درمیان فاصلہ چند قدم کا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کا سنگِ بنیاد  1884میں اس وقت کے بمبئی  کے گورنر جیمز فرگوسن نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر میں جودھ پوری لال پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد اسی مقام پر بغاوت کرنے کے جُرم میں کئی ہندوستانی سپاہیوں کو توپ سے اڑایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ چند باغیوں کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس میدان (جہاں اب ایمپریس مارکیٹ واقع ہے) میں گڑھا کھود کر  پھینک دی گئی تھیں۔ اس وقت یہ علاقہ  فوجیوں کی پریڈ کے لیے مختص تھا، لیکن جب لوگوں نے اس مقام پر برطانوی راج کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی یاد میں اس جگہ اکٹھے ہوکر پھولوںکی پتیاں نچھاور کرنا شروع کیا تو انتظامیہ نے اس جگہ پر شہدا کی یادگارِ بننے کے خوف سے یہاں کوئن وکٹوریہ، ایمپریس آف انڈیا کے نام پر  مارکیٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔  ابتدا میں صرف انگریزوں کو ہی اس عمارت میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔

تاہم بعد میں اس پابندی کو ختم کردیا گیا۔ ایمپریس مارکیٹ کا ڈیزائن برطانوی ماہر تعمیرات  جیمز اسٹراچین نے بنایا تھا، جو بنیادی طور پر ریلوے انجینیئر تھے۔ ایمپریس مارکیٹ کی عمارت کے وسط میں ایک بڑا صحن رکھا گیا جس کا رقبہ 100 فٹ ضرب 130 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چار گیلریاں تھیں جن میں سے ہر ایک 46 فٹ چوڑی تھی۔ تکمیل کے وقت اس مارکیٹ میں کل 280 دکانوں کی گنجائش تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دکانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ تجاوزات کے خاتمے کے بعد کراچی کے اولڈ ایریا میں قائم کئی دوسری عمارتیں بھی اب نمایاں ہو گئی ہیں اور اگر انتظامیہ ملبہ ہٹانے کے بعد ان عمارتوں کی صفائی ستھرائی، اور تزئین و آرائش کی طرف توجہ دے گی تو یقینا وہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ اس شہر کی شناخت بنیں گی۔

قیام پاکستان سے قبل کی ان عمارتوں میں سے کئی ایک سے ڈیڑھ صدی پُرانی ہیں۔ شہر کا مرکز کہلائے جانے والے علاقے  ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سے متصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں قدیم اور برطانوی دور کی یادگار ہیں اور تعمیر کا شاہکار بھی۔ اس زمانے کی عمارتوں کی وجہ سے ہی یہ علاقہ اولڈ ایریا کہلاتا ہے۔ تقسیم سے قبل کی ان عمارتوں کی خوب صورتی کو دیوہیکل سائن بورڈوں اور غیرقانونی تعمیرات نے ماند کردیا تھا، لیکن آپریشن کے بعد ہر عمارت اپنے قیام اور وجود کی داستان اور بیتے ہوئے برسوں کی کہانی سنا رہی ہے۔

برنس روڈ پر 1942سے قائم ایک عمارت کتنے ہی سانحات، واقعات کی شاہد رہی، لیکن پھر اسے کسی کباب فروش نے اپنے سائن بورڈ تلے دبا دیا۔ برطانوی دور کی یادگار اس عمارت کو زمانے کے سرد و گرم نے نقصان تو پہنچایا لیکن اس کا فن تعمیر آج بھی اپنی کہانی سناتا ہے۔ کراچی کی مشہور فوڈ اسٹریٹ  پر واقع سائن بورڈ ہٹنے کے  بعد ایک اور قدیم عمارت ظاہر ہوئی۔

اس علاقے میں مبارک منزل کے نام سے موجود ایک عمارت 1950 کی یادگار ہے۔ تاہم اس کا سنِ تعمیر اب دھندلا چکا ہے۔ اس عمارت کا  نام بھی طویل عرصے تک  لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ گرچہ یہ عمارت کافی مخدوش ہوچکی ہے لیکن ایک پتھر پر کندہ اس کا نام اب تک اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ صدر کے علاقے میں بھگوان نیوا کے  نام سے قائم اس عمارت کو 1941 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس عمارت کے صدر دروازے پر موجود نام کئی دہائیوں تک ایک سائن بورڈ کے پیچھے چھپا رہا جو آپریشن کے بعد سامنے آیا۔ بوسیدہ اور خستہ حال یہ عمارتیں آج بھی اپنے طرزِ تعمیر کا منفرد نمونہ اور ہنرمندوں کے کمال و اختراع کا ثبوت ہیں۔

ایک نظر ادھر بھی
کراچی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی سے جہاں ایک طرف شہر اپنی حقیقی خوب صورتی کی طرف واپس لوٹا ہے تو دوسری جانب خصوصاً ایمپریس مارکیٹ، برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ اور لائٹ ہاؤس پر کئی دکانوں کو مسمار کیے جانے سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بعض حلقوں نے اس آپریشن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ برنس روڈ، صدر اور دیگر کئی علاقوں میں رہائشی عمارتوں میں قائم دکانوں، تجاوازت کو کسی حکمت عملی کے بغیر گرایا اور مسمار کیا جارہا ہے۔

اگر آپریشن کسی موثر حکمت عملی کے تحت کیا جاتا تو شاید ان ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم نہ ہوتا۔ اسی طرح کراچی کا اولڈ سٹی ایریا شہریوں کی ضروریات اور کاروباری افراد کے معاش کے حوالے سے بہت اہم خیال کیا جاتا ہے جہاں اب ملبے تلے کئی گھرانوں کا روزگار بھی دب کر دم توڑ گیا ہے۔

The post تجاوزات کے پیچھے چپھی کراچی کی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.

’گوردوارہ کرتارپور‘ سکھ برادری کا مقدس استھان

$
0
0

چند ماہ پہلے جب پاکستان کے آرمی چیف نے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات میں کرتارپور اورگورداس پورکے درمیان چندکلومیٹرکا کوریڈورکھولنے کی بات کی تو بھارت سمیت دنیا بھرکے سکھوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی تھی۔

بیرون ملک مقیم بہت سے سکھ اس مقام کی یاتراکرنے چاہتے تھے، سردار گورویندرسنگھ بھی کینیڈا سے شری دربارصاحب کرتارپور کے درشن کرنے یہاں آئے تھے، مجھے ان کی میزبانی کرنی تھی اوران کے ساتھ کرتارپور جاناتھا، گورویندر سنگھ میرے ایک بھارتی صحافی دوست کے بھائی ہیں جو کئی برسوں سے کینیڈا میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں۔

میں نے لاہورائیرپورٹ پرسردارگورویندرسنگھ اورانکی اہلیہ کا استقبال کیا، سردارصاحب اپنی اہلیہ کو ہنی مون پر پاکستان میں سکھوں کے مقدس استھانوں کے درشن کروانے لیکرآئے تھے اوران کی اہلیہ جو پہلی بار پاکستان آئی تھیں انہیں سب سے زیادہ کرتارپوردیکھنے کا شوق تھا۔

پہلے ہم لاہور میں واقع گوردوارہ ڈیرہ صاحب گئے جہاں انہوں نے ماتھا ٹیکا اور سکھوں کے پانچویں گوروارجن دیوجی کے شہیدی استھان پر حاضری دی اور پھر یہاں سے ہم کرتار پور نارووال کی طرف روانہ ہوگئے، لاہور سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کا سفر طے کرکے ہم نارووال پہنچ گئے، یہ گرودوارہ شکرگڑھ کو جانے والی سڑک پر نارووال کے قصبے کے باہر واقع ہے، بھارتی سرحد یہاں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، دوپہر ایک بجے کے قریب ہم کرتارپور پہنچ گئے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈکے ڈپٹی سیکرٹری شرائنز برادرعمران گوندل نے ہمارے بارے میں وہاں پہلے ہی بتادیا تھا،کرتارپور کے میدانی علاقوں میں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، سرسبز میدانوں اور ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ ساتھ ہم بابا گرونانک دیوجی کی آخری آرام گاہ میں داخل ہو رہے تھے۔

گزشتہ دو برسوں میں یہاں کافی کارسیوا ہوئی ہے، گوردوارے کے اطراف میں چاردیواری کے ساتھ ساتھ سکیورٹی پوسٹیں بنائی گئی ہیں جبکہ اندرکافی درخت اور باغیچے بھی سجائے گئے ہیں، مرکزی دروازے سے داخل ہونے کے بعد جب ہم گوردوارے کے قریب پہنچے تو بائیں جانب کنواں صاحب ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سے گورونانک دیوجی کھیتوں کوپانی دیتے تھے، متروکہ وقف املاک بورڈ اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے اس جگہ کو بحال کیا ہے اورکنویں میں آج بھی پانی موجود ہے تاہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ اب پانی نکالنے کے لئے بیل استعمال نہیں ہوتے بلکہ موٹرکی مدد سے پرانی طرزکی کپیوں کے ساتھ پانی نکالاجاتا ہے، اس کے ساتھ ایک چبوترے پر بم نصب ہے ، خیال کیا جاتا ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارتی ائیرفورس کی طرف سے پھینکا گیا تھا، لیکن وہ پھٹ نہیں سکا تھا، مرکزی داخلی راستے کے باہر جس جگہ یہ بم گرا تھا، اس سے کچھ فاصلے پر ایک چوکی نصب ہے،اس جگہ ایک تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ ’واہے گروجی کا معجزہ‘۔ واہے کا لفظ سکھوں میں اعلٰی ترین ہستی کے معنوں میں بولاجاتا ہے۔

جب ہم گوردوارے کے مرکزی صحن کے قریب پہنچے تو سامنے بنے کمروں کے برآمدے میں گوردوارے کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نظرآگئے، انہوں نے ہمارا استقبال کیا، حال احوال کے بعد چائے پی گئی اور پھر میں مہمانوں کو گوردوارہ کے اندر لے گیا، داخلی دروازے کے ساتھ ہی پلاسٹک کی ٹوپیاں اور رومالے رکھے گئے ہیں تاکہ گوردوارہ صاحب کے اندر جاتے ہوئے سرکو ڈھانپ لیا جائے، گوردوارہ کے اندر ننگے سر جانا گناہ سمجھا جاتا ہے، پانی کے حوض میں پاؤں دھوکر ہم اندرداخل ہوگئے، ہمارے بالکل سامنے گورونانک دیوجی کی قبر ہے جبکہ بائیں جانب سمادھی بنی ہے۔

یہاں آنیوالے پہلے قبر پرحاضری دیتے اور پھر سمادھ میں ماتھا ٹیکتے ہیں، یہاں چند اورلوگ بھی آئے ہوئے تھے تاہم وہ سب مقامی ہی تھے، پھر ہم گوردوارے کے اوپر والے حصے پر گئے، یہاں سے اطراف میں دور دورتک دیکھا جا سکتا ہے، ہمارے ایک جانب سرسبزلہلہاتے کھیت تودوسری طرف دریائے راوی کا خشک پاٹ، جھاڑیاں اور درخت تھے۔ میں نے درختوں کے ایک جھنڈکی جانب اشارہ کرتے ہوئے گورویندرسنگھ اوران کی اہلیہ کو بتایا کہ اس مقام کے دوسری جانب ڈیرہ بابا نانک ہے، جہاں بھارت کی طرف سے درشن پوائنٹ بنایا گیا ہے، وہ دونوں کافی کوشش کرتے رہے کہ انہیں درشن پوائنٹ کے کوئی آثار نظرآجائیں لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔

گوردوارے کے نگہبان اورگرنتھی سردارگوبند سنگھ نے ہمیں اس گوردوارے کے اتہاس اورتاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ کرتارپور گرداسپور کا حصہ تھا، یہ سرحد پر واقع قصبوں میں سے ایک تھا، جسے تین جون کے پلان کے تحت پاکستان کو دیا جانا تھا، لیکن ریڈکلف کے طے شدہ تقسیم کے نقشے کے ذریعے اسے چھین لیا گیا، تقسیم کی لکیر نے ناصرف ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک سے دور کردیا، جو کئی دہائیوں سے یہاں آتے ہیں بلکہ دربار صاحب کو ڈیرہ بابانانک سے بھی منقسم کردیا گیا۔

گوبند سنگھ نے بتایا کہ کرتار پور وہ سرزمین ہے جہاں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے، وہ ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے، محبت اور اپنے فلسفے کی تبلیغ کے لئے انہوں نے پوری دنیا کا سفر کیا، انہوں نے سکھ دھرم کی بنیاد رکھی جو بنیادی طور پر تین ستونوں پر استوار ہے، خدا کی بندگی کرو، خدا کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں، دوسرا اپنے ہاتھ سے محنت کر کے روزی کماؤ اور تیسرا اس روزی میں دوسروں کو بھی شریک کرو۔ سکھوں کے گوردوارے میں مسلمان، ہندو، عیسائی غرض ہر شخص داخل ہو سکتا ہے، ان سب کو لنگرخانے سے لنگر ملتا ہے، بعض گوردواروں میں رہائش کا انتظام بھی ہے۔

گوردوارہ کے صحن میں ایک قبر ہے، جبکہ عمارت کے اندر ایک سمادھی ہے۔ ان دونوں کا تعلق باباگرونانک سے ہے۔ ان کے متعلق سکھوں میں ایک روایت ہے جو گوردوارہ میں ایک بورڈ پر درج ہے، اس بورڈ پر لکھا ہے’’ بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گورو اور مسلمان اپنا بزرگ (پیر) مانتے تھے، 22 ستمبر 1539 کو جب بابا جی اس دنیا سے پردہ کر گئے تونانک نام لیوا سنگتیں اور مسلمان بھائی آپس میں جھگڑنے لگے کہ ہم بابا جی کے جسم کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں گے، اس جھگڑے کے فیصلے کے لئے کسی درویش کے کہنے پر بابا جی کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسم کی بجائے پھول موجود تھے۔ فیصلے کے مطابق چادر اور پھولوں کو برابر دو حصوں میں بانٹ لیا گیا اور اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق مسلمان بھائیوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کر کے مزار صاحب بنا دیا اور سکھوں نے چادر پھولوں کو سکار کر کے سمادھ استھان بنا دی ۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں اور یہاں دونوں مذاہب کے لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔

بعض روایات کے مطابق دریائے راوی میں آنے والے سیلاب نے ان دونوں نشانیوں کو مٹا دیا تھا، کرتار پور کے گردوارے کی موجودہ عمارت کی تعمیر مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی تھی، یہ جگہ پاکستان اوربھارت کے بارڈر سے محض چار کلومیٹر دور پاکستانی ضلع نارووال میں دریائے راوی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔1995 میں پاکستانی حکومت نے اس گوردوارے کی کارسیواکروائی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

بارڈر کی بھارتی سائیڈ پر ڈیرہ بابا نانک ہے جو کہ سرحد کے ڈیڑھ کلو میٹر کے اندر بھارتی ضلع گورداس پور میں واقع ہے۔ وہاں پر ایک اونچے ٹیلے پر چند دور بینیں لگا کر اس طرف کے سکھوں کی اشک شوئی کی ناکام کوشش کی گئی۔اب اس مقام پر سکھوں کی کثیر تعداد اپنی اس انتہائی مقدس جگہ کے درشن کرنے روز آتی ہے۔

سکھ قوم آئندہ برس نومبر میں بابا گرو نانک جی کا 550 واں جنم دن منانے کی تیاریاں کر رہی ہے ، جس کو وہ پرکاش پورب کہتے ہیں۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو بھارتی سابقہ کرکٹر اور حالیہ ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو جو بھارت میں سے ہر طرح کی مخالفت جھیل کر،اپنے دوست وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شامل ہونے کے لئے پاکستان آئے تھے تواس وقت آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے انہیں گلے لگایا اور انہیں کرتار پور کا کوریڈور کھولنے کی خوشخبری دی تھی، مگر اس وقت ایسا نہ ہو سکا۔ کیونکہ بھارتی حکومت کا رویہ سب سے بڑی رکاوٹ تھا، حالانکہ بھارتی ریاست پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے بھی وزیرخارجہ سشما سوراج سے درخواست کی تھی کہ وہ کرتار پور کوریڈور پر پاکستان سے بات کریں۔

امریندر سنگھ نے سشما سوراج کو خط لکھا کہ مرکزی حکومت بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہونے سے قبل کرتار پور کوریڈور کھولنے کیلئے پاکستان سے بات چیت کا آغاز کرے۔ انہوں نے خط میں ریاستی اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے سشما سوراج سے درخواست کی کہ فوری طور پر بلا کسی رکاوٹ کے اس سرحدی راستے کو کھولنے کے سلسلے میں اقدامات کریں لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا تھا۔

برسوں سے سکھوں کا یہ مطالبہ ہے کہ بھارتی سرحد سے گوردوارہ کرتار پور صاحب تک ایک کوریڈور بنائے، جہاں سکھ یاتری ویزے کے بغیر آ سکیں۔ سکھ سیاسی قیادت بھی اس کے لئے جدوجہد کرتی رہی، مگر اس معاملے میں بھارتی فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارتی فوجی قیادت کی دلیل ہے کہ گوروداسپور میں بھارتی فوجی چھاؤ نی ہے، جبکہ اس کے قریبی ضلع پٹھانکوٹ میں اسلحہ کا سب سے بڑا ڈپو ہے۔ اس کے علاوہ پٹھانکوٹ میں ایئرفورس کی متعدد بڑی تنصیبات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سکھوں کو بھارتی سرحد سے کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ کرتار پور تک رسائی دی جاتی ہے تو اس سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت نے اس سلسلے میں متعدد کوششیں کیں مگر بھارتی فوج اس سلسلے میں کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہ ہوئی۔

2004 میں ونود کھنہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنے تو انہوں نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو کوریڈور کے منصوبے کی تجویز پیش کی، مگر فوج نے اس کی مخالفت کی ۔ سکھ اس سلسلے میں آواز اٹھاتے رہے ۔ 2 مئی 2017 کو پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ نے اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے کوریڈور کے منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس وفد کی قیادت سابق وزیرمملکت ششی تھرور کر رہے تھے۔ تجویز پیش کی گئی کہ درشن کے لئے چار اعلیٰ درجے کی دوربینیں نصب کر دی جائیں اور ان کے ذریعے گورودوارہ صاحب کا درشن کیا جائے۔ یہ معاملات سالہا سال تک یوں ہی چلتے رہے۔مگر اب پاکستان اور بھارت کی حکومت کی طرف سے کرتارپور کوریڈور کی تعمیر کی منظوری کے بعد سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے جس کا تمام ترکریڈٹ وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے تاہم اب بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ بھارتی فوج کی طرف سے کوئی ایسی رکاوٹ ڈال دی جائے اور سکھوں کا کوریڈور کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

مہمانوں کو گوردوارے سے باہر اس مقام پر بھی لے جایا گیا جہاں پاکستان کی طرف سے کوریڈورکی تعمیرکے لیے ماضی میں کام شروع کیا گیا تھا، ہم نے دریائے راوی کا ایک حصہ، جسے اب نالہ بئی کا نام دیا گیا ہے،کو ایک کشتی کے ذریعے عبورکیا، اس سے آگے سڑک کی تعمیرکے لئے ڈالے گئے پتھر اور اطراف میں جھاڑیاں تھیں، گورویندر سنگھ کی اہلیہ کو اس ویرانے میں ڈرلگ رہا تھا اس لئے ہم زیادہ آگے جانے کی بجائے واپس لوٹ آئے۔ یہاں بھینسیں چرانے والے ایک چرواہے نے بتایا کہ دریائے راوی کے دوسری جانب بھارتی سرحد ہے، دریا کا زیادہ حصہ خشک ہو چکا ہے تاہم درمیان میں اب بھی دریا بہتا ہے، اس کے علاوہ اس علاقے میں سرکنڈا بڑی تیزی سے اگتا ہے۔ رینجرز کے جوان اس کو کاٹتے رہتے ہیں، تاکہ بھارتی سرحد سے درشن کرنے والوں کو سہولت ہو ۔ اس علاقے میں ایک روایت مشہور ہے کہ 20 سال بعد دریائے راوی عقیدت کے طور پر سلام کرنے کے لئے گورودوارہ صاحب تک آتا ہے۔

اس علاقے میں بہت زیادہ سانپ ہیں اور یہ سانپ بھی اکثر سلامی کے لئے آتے ہیں۔ چند سال پہلے اس علاقے میں ایک بہت بڑا اژدھا بھی دیکھا گیا۔ گورودوارہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات وہ خود سانپوں کو اٹھا کر دربار صاحب کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ درشن کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں ۔ سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی اس گورودوارے میں عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔

دریائے راوی کے کنارے سے ہم گوردوارے لوٹ آئے یہاں ایک بار پھرسردارگوبند سنگھ نے میزبانی کی ، انہوں نے لنگرخانے میں لنگرکروایا ، لنگر میں دال ،چاول ، سبزی ، روٹیاں، اچار اورسلاد تھا۔ کھانے کے بعد ہمیں سٹیل کے گلاسوں میں گرماگرم چائے دی گئی اور ہم گوروکا لنگرچکھنے کے بعد لاہورکی طرف روانہ ہو گئے ۔

The post ’گوردوارہ کرتارپور‘ سکھ برادری کا مقدس استھان appeared first on ایکسپریس اردو.

یونیورسل ہیلتھ کوریج ۔۔۔ ہنوزدلّی دور اَست

$
0
0

’’اللہ پاک آپ کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے‘‘ یہ دعا یقیناً انسانیت کے ناطے دنیا کے ہر کونے میں ایک دوسرے کو دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں تو اس دعا کی ضرورت دوچند ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں عوام کی اکثریت کے لئے بیماری کا علاج نام ہے، عدم مساوات کا، معاشی بوجھ کا، سفارش کا، رشوت کا، تذلیل اور عطائیت کے شکار ہونے کا۔ کیونکہ ملک میں صحت کی سہولیات کی دستیابی، معیار اور ان سے استفادہ کرنے کے حوالے سے جغرافیائی، معاشی، سماجی اور پالیسی کی سطح پر موجود تفاوت عدم مساوات کی بہت سی کہانیاں رقم کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ ہرفرد کے صحت کے انسانی حق میں شامل ہے کہ جب بھی ضرورت ہو تو اُسے ہسپتال، کلینک، ادویات اور ڈاکٹر کی معاشی طور پر قابلِ دسترس اور قابلِ بھروسہ خدمات تک رسائی اور دستیابی برابری کی بنیاد پر حاصل ہو ۔ لیکن وطن عزیز میں یہ حق فی الحال’’ہنوزدلّی دور اَست ‘‘کے مترادف ہے ۔ یعنی یونیورسل ہیلتھ کوریج (صحت کی سہولیات کا عالمگیر احاطہ) کی صورت میں اس حق پر ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔کیونکہ پائیدار ترقی کے صحت سے متعلق اہداف میں شامل یونیورسل ہیلتھ کوریج کے سروس کوریج انڈکس کے مطابق پاکستان دنیا کے 183 ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) میں 40 کے اسکور کے ساتھ 162 ویں نمبر پر ہے۔

عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی ٹریکنگ یو نیورسل ہیلتھ کوریج 2017 گلوبل مانیٹرنگ نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اس انڈکس میں ا سکور جنوبی ایشیاء کے اسکور 53 اور افریقہ کے اسکور46 سے بھی کم ہے۔ جبکہ دنیا کا اجتماعی اسکور 64 ہے۔ اور کوئی بھی ملک اس انڈکس میں صد فیصد اسکور حاصل نہیں کر پایا۔ کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کی آدھی آبادی کو صحت کی ضروری خدمات (essential health services)کی مکمل کوریج حاصل نہیں ہے۔

جبکہ10 کروڑ افراد صحت کی دیکھ بھال (Health Care) کے لئے اپنی جیب سے ادائیگی کرنے کی وجہ سے انتہائی غربت میں دھنسے ہوئے ہیں ۔ اور80 کروڑ افراد اپنے گھریلو بجٹ کا 10فیصد صحت کی دیکھ بھال پر خرچ کرتے ہیں۔ اس لئے ان جیسے مسائل کی طرف دنیا بھرکی توجہ مبذول کرانے کے لئے اِمسال 12 دسمبر کو دنیا بھر میں یونیورسل ہیلتھ کوریج کا پہلا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے جس کے لئے ’’ یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے لئے متحد: اب اجتماعی عمل کا وقت ہے‘‘ کے عنوان کا انتخاب کیا گیا ہے۔

یو نیورسل ہیلتھ کوریج سے مراد تمام انفرادیوں اور کمیونٹیز کو درکار صحت کی خدمات معاشی مشکلات کا شکار ہوئے بغیر برابری کی بنیاد پر حاصل ہوں جس میں صحت کے فروغ سے لیکر بیماریوں کی روک تھام، علاج، بحالی اور دیکھ بھال کی ضروری اور معیاری خدمات شامل ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ یو نیورسل ہیلتھ کوریج سے قطعاً مراد صحت کی تمام سہولیات کی مفت فراہمی نہیں۔ کیونکہ کوئی بھی ملک مستقل بنیادوں پر یہ خدمات مفت فراہم نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے تحت ا فراد پر صحت کی خدمات حاصل کرنے کے نتیجے میں پڑنے والے معاشی بوجھ کو کم سے کم کرتے ہوئے اِسے لوگوں کی معاشی پہنچ میں لایا جاتا ہے۔

یہ لوگوں پر صحت کی خدمات کی اپنی جیب سے ادائیگیوں کے مضمرات کو کم کرتا ہے۔ اور اُنکے غربت کے شکار ہونے کے خطرے میں کمی لاتا ہے۔ کیونکہ غیر متوقع بیماریاں افراد کو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرنے پر مجبور کردیتی ہیں یا اُنھیں اپنے تمام اثاثے فروخت کرنے یا پھر قرض لینے کا باعث بنتی ہیں۔ جس سے اُن کا اور اُن کے بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ صرف مالیات کے بارے میں ہی نہیں۔ بلکہ یونیورسل ہیلتھ کوریج سے عدم مساوات کی خلیج میں بھی کمی آتی ہے۔

اس کے تحت بلا تفریق صحت کی دیکھ بھال کی ضروری اورمعیاری خدمات کے ساتھ ساتھ محفوظ، موثر ، معیاری اور معاشی طور پر قابل دسترس ضروری ادویات اور ویکسینز تک سب کی رسائی کو یقینی بنایا جاتاہے۔ یوں یونیورسل ہیلتھ کوریج اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت صحت مند زندگی کو یقینی بنانے، تخفیف غربت اور سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کی کسی بھی کو شش کا ایک اہم عنصر ہے جس کے لئے اقوام متحدہ کے صحت سے متعلق پائیدار ترقیاتی گولز(جس کا نمبر 3 ہے)کا ہدف 3.8 یونیورسل ہیلتھ کوریج کے حوالے سے مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے دو انڈیکیٹرز ہیں۔ پہلا 3.8.1 صحت کی ضروری خدمات کی کوریج کے بارے میں ہے۔ جبکہ دوسرا 3.8.2 ملک کی آبادی کے اُس حصہ کے بارے میں ہے جو صحت پر بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ یعنی پہلا انڈیکیٹر یونیورسل ہیلتھ کوریج کی آبادی کی کوریج کے پہلو پر مشتمل ہے تو دوسرا یونیورسل ہیلتھ کوریج کے معاشی تحفظ کے پہلو پر مبنی ہے۔

یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ان انڈیکیٹرز کے حوالے سے ممالک کی کار کردگی کی مانیٹرنگ دوپیمانوں کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ اول: آبادی کا تناسب جسے صحت کی ضروری اور معیاری خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ دوم: آبادی کا تناسب جو صحت پر بہت زیادہ گھریلو آمدن خرچ کرتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس حوالے سے ممالک میں صحت کی خدمات کی سطح اور ان کی کوریج میں برابری کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے صحت کی 16 ضروری خدمات پر مبنی 4 کیٹگریز کو بطور انڈیکیٹرز استعمال کرتا ہے۔ پہلی کیٹگری تولیدی صحت، ماؤں، نوزائیدہ اور دیگر بچوں کے بارے میں ہے۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی، حمل اور زچگی کے دوران دیکھ بھال، بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس اور نمونیا کے بارے میں صحت مند رویہ شامل ہیں۔

دوسری کیٹگری متعدی امراض سے متعلق ہے۔ اس میں تپ دق کا علاج، ایچ آئی وی کا علاج، ہیپاٹائٹیس کا علاج، ملیریا کی روک تھام کے لئے بستروں کے اوپر کیڑوں سے محفوظ رکھنے والی جالی کا استعمال اور موزوں حفظانِ صحت (سینی ٹیشن)شامل ہیں۔ تیسری کیٹگری غیر متعدی امراض پر مشتمل ہے جس کے انڈیکیٹرز میں بلڈ پریشر بڑھنے کی روک تھام اور علاج، خون میں شکر کی مقدار بڑھنے کی روک تھام اور علاج، رحم کے نچلے حصہ کے کینسر کی سکریننگ اور تمباکو نوشی سے پرہیز شامل ہیں۔ اسی طرح چوتھی اور آخری کیٹگری خدمات کی صلاحیت اور رسائی کے بارے میں ہے ۔اس میں بنیادی ہسپتال تک رسائی، صحت کے عملے کی گنجانیت ، ضروری ادویات تک رسائی اور صحت کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق صحت کی حفاظت جیسے انڈیکیٹرز کا استعمال کیا گیا ہے۔

ان انڈیکیٹرز کی مدد سے کسی بھی ملک کی یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے سلسلے میں احاطہ شدہ (Covered) آبادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے تناظر میں ان انڈیکیٹرز کا جائزہ لیں توصورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی ٹریکنگ یو نیورسل ہیلتھ کوریج 2017 گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ میں پاکستان کے جن جن انڈیکیٹرز کے اعدادوشمار دستیاب ہیں اُن کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی طلب کو جدید طریقوں سے پورا کرنے کی شرح 49 فیصد ہے۔

یوں پاکستان دنیا کے 183 ممالک میں (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں)134 ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح حمل کے دوران خواتین کے چار بار چیک اپ کے حوالے سے 37 فیصد شرح کے ساتھ ہم دنیا بھر میں 174 ویں نمبر پر ہیں۔ جبکہ بچوں کو خناق، تشنج اور کالی کھانسی کی تیسری خوراک دینے کے حوالے سے درجہ بندی میں وطن عزیز 72 فیصد شرح کے ساتھ 162 ویں نمبر پر ہے۔ بچوں کے نمونیا کی دیکھ بھال پر مبنی رویئے کے حوالے سے پاکستان64 فیصد شرح کے ساتھ دنیا بھر میں 125 ویں نمبر پر ہے۔

تپ دق کے موثر علاج کے تناظر میں ملک کی صورتحال 59 فیصد شرح کے ساتھ اُسے 100 ویں نمبر پر براجمان کئے ہوئے ہے۔ ایچ آئی وی کے علاج کی 5 فیصد شرح کے ساتھ ارض پاک دنیا میں دوسرے کم تر نمبر یعنی 183 ممالک میں 182 ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ موزوں سینی ٹیشن کی حامل 58 فیصد آبادی کی شرح ہمیں دنیا بھر میں 128 ویں نمبر کی حقدار بنا رہی ہے۔ نارمل بلڈ پریشر کی حامل 70 فیصد آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا میں 166ویں نمبر پر موجود ہے۔

نہار منہ خون میں شکر کی اوسط مقدار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ تمباکو نوشی نہ کرنے والی 80 فیصد آبادی کے ساتھ ہم اقوام عالم میں 96 ویں نمبر پر ہیں۔ علاوہ ازیں دس ہزار افراد کے لئے دستیاب ہسپتال کے6 بستروں کی تعداد کے ساتھ ہم دنیا بھر میں 166 ویں، ایک ہزار آبادی کے لئے ڈاکٹرز کی 0.8 (صفر عشاریہ آٹھ) تعداد کے ساتھ 107 ویں، ایک لاکھ نفوس کے لئے 0.3 (صفر عشاریہ تین) ماہر نفسیات کے ہمراہ 131 ویں اور ایک لاکھ لوگوں کے لئے 1.3 سرجنز کی تعداد کے ساتھ دنیا بھر میں ہماری 136 ویں پوزیشن بنتی ہے۔ جبکہ صحت کے بین الاقوامی قوانین کی بنیادی صلاحیت کے انڈکس کے43 اسکور کے ساتھ پاکستان 166 ویں نمبر پر ہے۔

اسی طرح پائیدار ترقی کے ہدف3.8.2 جو کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج کے معاشی تحفظ کے پہلو سے متعلق ہے۔ اس تناظر میں ہم اگر صحت پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے ملک کی صورتحال کا جائزہ لیں تو امریکی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایولوایشن کی فنانسنگ گلوبل ہیلتھ2016، ڈیولپمنٹ اسیسٹنس پبلک اینڈ پرائیویٹ سپینڈنگ فار دی پیرسوٹ آف یونیورسل ہیلتھ کوریج نامی رپورٹ کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق صحت پر جی ڈی پی کا تناسب خرچ کرنے کے حوالے سے2014 میں پاکستان2.7 فیصد کے ساتھ دنیا کے 184 ممالک میں 177 ویں نمبر پر تھا۔جبکہ صحت پر ہونے والے کل اخراجات میں لوگوں کی جیب سے ہونے والی ادائیگیوں پر مشتمل تناسب کے حوالے سے دنیا بھر کی درجہ بندی میں ہم 55.4 فیصد کے ساتھ 15 ویں نمبر پر تھے۔

یہ اعدادوشمار اس بات کی واضح عکاسی کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صحت پر دنیا کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی کا بہت کم تناسب خرچ کیا جاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پاکستانیوں کو صحت کی خدمات کے حصول کے لئے زیادہ تر اپنی جیب سے ہی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ جس سے ایس ڈی پی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 4 سے6 فیصد آبادی غربت کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہے۔کیونکہ اُنھیں صحت کی سہولیات کے حصول کیلئے اپنی گھریلو آمدن کا نمایاں حصہ صرف کرنا پڑتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے باعث پاکستان کی پائیدار ترقی کے یو نیورسل ہیلتھ کوریج پر مبنی ہدف کے حصول کی رفتار جمود کا شکار یا مطلوبہ رفتار سے 50 فیصد سے بھی کم رفتارکی حامل ہے۔ یہ کہنا ہے ایس ڈی جے انڈکس اینڈ ڈیش بورڈ رپورٹ2018 کا۔ سیسٹین ایبل ڈیولپمنٹ سلوشن نیٹ ورک کی یہ رپورٹ دنیا بھر کے ممالک کی پائیدار ترقی کے سلسلے میں کارکردگی کے جائزہ پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی گو لز کے2018 کے انڈکس میں 54.9 فیصد اسکور کے ساتھ دنیا کے156 ممالک میں 126 ویں پوزیشن پر ہے۔

صحت کی عالمگیر کوریج ،صحت کی خدمات کے احاطہ(کوریج) کی وسعت ، مالی تحفظ اور زیادہ وسائل کی دستیابی سے متعلق ہے۔ صحت کی سہولیات کی کوریج میں وسعت دراصل صحت کی سہولیات کے انفراسٹرکچر اور طبی عملے میں اضافہ اور انکی دستیابی کے مرہون ہے۔ اس وقت پاکستان میں اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 کے مطابق پبلک سیکٹر میں موجود صحت کی سہولیات ( ہسپتال، ڈسپنسریز، دیہی مراکز صحت، ٹی بی سینٹرز، بنیادی مراکز صحت اور زچہ بچہ کی صحت کے مراکز ) کی کل تعداد 14261 ہے۔ اور ایک صحت کی سہولت ملک میں اوسطً 14570 افراد کو خدمات فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ ایک طبی سہولت اوسطً 55 مربع کلومیٹر رقبہ کو کور کرتی ہے۔

اسی طرح رجسٹرڈ طبی عملے (ڈاکٹرز، نرسز، مڈوائفس اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز) کی مجموعی تعداد 368244 ہے۔ جو اوسطً فی کس 564 افراد کو صحت کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ملک میں ایک ڈاکٹر اوسطً 999 جبکہ ایک نرس 2002 افراد کی طبی ضروریات کو پوری کر رہے ہیں۔ اور اگر ہم رقبہ کے تناظر میں طبی عملہ کی موجودگی کی صورتحال کو دیکھیں تو ملک کے 2.3 مربع کلومیٹر میں اوسطً ایک ہیلتھ پروفیشنل موجود ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت ملک کے پبلک

سیکٹر کی تمام طرح کی طبی سہولیات میں موجود بستر وں کی تعداد 126019 ہے۔ اورملک کے اوسطً1649 افراد کے لئے طبی سہولت کا ایک بستر موجود ہے۔ اور جغرافیائی اعتبار سے ملک کے 6.3 مربع کلومیٹر رقبہ میں رہنے والے افراد کے لئے اوسطً ایک بستر دستیاب ہے۔

اسی طرح جب ہم یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے دوسرے پہلو یعنی مالی تحفظ اور زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کے تناظر میں ملکی صورتحال کا جائزہ لیں تواس پہلو کی وضاحت وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ نیشنل ہیلتھ اکاؤنٹس پاکستان2015-16 کے اعدادوشمارسے یوں ہوتی ہے کہ 2015-16 میں ملک میں جی ڈی پی کا 3.1 فیصد صحت پر خرچ کیا گیا جس کی مالیت 908 ارب روپے تھی۔ جبکہ بنیادی اور زندگی بچانے والی خدمات کے لئے عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ درکار حد جی ڈی پی کا 6 فیصد حصہ ہے۔

اسی طرح مذکورہ مالی سال کے دوران ملک میں فی کس صحت کے شعبے میں ہونے والے اخراجات کی مالیت 45 ڈالر رہی۔اس کے برعکس سری لنکا میں اخراجات کی یہ مالیت 127 ڈالر اور بھارت میں 75 ڈالر فی کس تھی۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کی کم آمدن کے حامل ممالک کے لئے متعین کردہ یہ حد 86 ڈالر فی کس ہے۔ اسی طرح ملک میں 2015-16 میں ہونے والے صحت کے شعبے کے کل اخراجات کا 58 فیصد لوگوں کی جیب سے ہونے والی ادائیگیوں پر مشتمل تھا۔

جن کی مالیت 523 ارب روپے تھی۔اور یہ ملک میں صحت کے شعبے میں ہونے والے نجی سیکٹر کے کل اخراجات کا 91 فیصد تھے۔ یوں پاکستان کی اکثریت کو صحت کی سہولیات کی ادائیگیاں جیب سے ہی کرنی پڑتی ہیں جو اُن کے لئے نا گہانی اضافی معاشی بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔ اس حوالے سے انٹرنیشنل جرنل آف ایڈوانس ریسرچ اینڈ پبلیکیشن میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر ’’ہیلتھ کیئر سسٹم آف پاکستان‘‘ کے مطابق ملک میں27 فیصد آبادی صحت کی مکمل دیکھ بھال کی کوریج سے مستفید ہوتی ہے جس میں زیادہ تر سرکاری اور عسکری ملازمین شامل ہیں۔

جبکہ73 فیصد کو اس سلسلے میں اپنی جیب سے ہی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اور ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک میں ذاتی جیب سے صحت کی خدمات کے لئے کئے گئے اخراجات کا50 فیصد ادویات کی ادائیگیوں کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کی بہتری کے لئے حکومتی سطح پر وزیر اعظم کا پروگرام برائے صحت ایک نمایاں قدم ہے۔ یہ سماجی تحفظ کا ایک ایسا پروگرام ہے جس کے تحت پنجاب ، بلوچستان اور فاٹا کے3.2 ملین ایسے خاندانوں کو جو دو ڈالر سے کم آمدن کی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں دو مرحلوں میں سالانہ 3 لاکھ روپے فی خاندان کے حساب سے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں علاج کی بلامعاوضہ سہولت ہیلتھ کارڈز کے ذریعے فراہم کی جائیں گی۔

صحت پر اخراجات کے حوالے سے ہم نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے درکار حد کی تو وضاحت کردی۔ اسی طرح اگر ہم صحت کی سہولیات کی درکار تعداد کے حوالے سے بین الا قوامی اسٹینڈرڈز کا جائزہ لیں۔ تو ورلڈ بینک کے مطابق ایک ہزار کی آبادی کے لئے ہسپتال کے 5 بستر ہونے چاہئیں۔ اس حوالے سے ملکی صورتحال کافی فکر انگیز ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی پاکستان اسٹیٹیکل ائیر بک 2016 کے اعدادوشمار کے مطابق مذکورہ سال ملک میں موجود پبلک سیکٹرکے 1201 ہسپتالوں میں موجود بستر وں کی کل تعداد 104740 تھی ۔ یوں 2016 میں ملک کی فی ہزار آبادی کے لئے دستیاب بستر کی اوسطً تعداد محض 0.54 (صفر عشاریہ چوون) بنتی تھی۔ جبکہ پانچ بستر فی ہزار افراد کے اسٹینڈرڈ کے تحت ملک کو مذکورہ سال کی کل آبادی (195400000) کیلئے ہسپتال کے بستروں کی درکار مجموعی تعداد 977000 بنتی ہے۔

یوں ہم درکار بستروں کی تعداد کے حوالے سے 89 فیصد کمی کا شکار ہیں۔ اور ہمارے پاس درکار بستروں کا صرف11 فیصد موجود ہے۔ اس کے علاوہ صحت کی عالمگیر کوریج کے حوالے سے ممالک کی کارکردگی جانچنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے جن انڈیکیٹرز کی نشاندہی کی ہے (جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے) ان کو حاصل کرنے کے لئے درکار صحت کے عملے کی کم از کم تعداد کی بھی ڈبلیو ایچ او کی گلوبل اسٹریٹیجی آن ہیومن ریسورسز فار ہیلتھ ورک فورس 2030 نامی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحت کے بارے میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ایک ہزار کی آبادی کے لئے 4.45 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس پر مبنی ہیلتھ پروفیشنلز کی تعداد کو ضروری قرار دیا ہے۔

پاکستان میں اس وقت اکنامک سروے2017-18 کے مطابق رجسٹرڈ ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی مجموعی تعداد 349844 ہے۔ اور اگر ہم اس تعداد کا ملک کی موجودہ آبادی 22کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 5 سو سے موازنہ کریں تو اس وقت ملک میں فی ہزار آبادی کے لئے موجود ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی اوسطً تعداد محض 1.68 ہے۔ جبکہ ہمیں ایک ہزار افراد کے لئے 4.45 کے حساب سے پوری ملکی آبادی کے واسطے 924597ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی ضرورت ہے۔ یوں ہم اس وقت ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی درکار تعداد کی 62 فیصد کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس درکار تعداد کے مقابلے میں صرف 38 فیصد صحت کا عملہ موجود ہے۔

اگر ہم صوبوں کی سطح پر اس صورتحال کا جائزہ لیں تو پنجاب ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس 2017 ، ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف سندھ 2017 ، ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف خیبر پختونخوا 2017 اور ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2014-15 نامی رپورٹس کے اعداد وشمار کا تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہسپتال کے پانچ بستر فی ہزار آبادی کے بین الاقوامی معیار کے تناظر میں سب سے تشویشناک صورتحال سندھ کی ہے جہاں یکم جنوری2016 تک فی ہزار آبادی کے لئے سرکاری ہسپتالوں کے موجود بسترکی اوسط تعداد محض صفرعشاریہ چھبیس (0.26) بنتی تھی جس کے بعد بلوچستان کی صورتحال ہے جہاں یہ تعداد صفر عشاریہ انتالیس (0.39 ) تھی۔

پنجاب میں مذکورہ تاریخ تک ایک ہزار آبادی کے لئے پبلک ہسپتالوں میں دستیاب بستر کی اوسط تعداد صفر عشاریہ پینتالیس (0.45) تھی۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ اوسط صفر عشاریہ اُنسٹھ (0.59) تھی۔ یوں اگر ہم سرکاری ہسپتالوں میں پانچ بستر فی ہزار آبادی کے حوالے سے درکار بستروں کی تعداد کا جائزہ لیں تو پنجاب کو سب سے زیادہ بستروں کی ضرورت ہے۔ صوبے کی یکم جنوری2016 تک کی آبادی کے لئے مجموعی طور پر506955 بستروں کی ضرورت تھی۔ سندھ کو 243386 ، خیبر پختونخوا کو 145630 اور بلوچستان کو 53700 بستر درکار تھے۔ اس طرح صوبوں میں دستیاب اور درکار بستروں کی تعدادکا موازنہ کیا جائے تو طلب اور رسد کا جوفرق بنتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اگر صرف سرکاری ہسپتالوں کو ہی مدنظر رکھا جائے تو پھر سندھ کو اپنی آبادی کے لئے درکار بستروں کی تعداد میں 95 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ بلوچستان 92 فیصد کمی کا شکار ہے۔ پنجاب کو 91 اور خیبر پختونخوا کو 88 فیصد کمی درپیش ہے۔

اسی طرح پائیدار ترقی کے یونیورسل ہیلتھ کوریج کے اہداف کے حصول کے لئے ڈبلیو ایچ او نے ایک ہزار کی آبادی کے لئے 4.45 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس پر مبنی ہیلتھ پروفیشنلز کی جس تعداد کو ضروری قرار دیا ہے اُس کا اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیں تومذکورہ بالا سرکاری رپورٹس کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق سندھ میں فی ہزار آبادی کے لئے موجود ان ہیلتھ پروفیشنل کی یکم جنوری2016 کو اوسط تعداد صفر عشاریہ بائیس (0.22) بنتی تھی جو پورے ملک میں سب سے کم ہے۔

دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں یہ تعداد اوسطً صفر عشاریہ تیس (0.30 ) ہے۔ بلوچستان میں صفر عشاریہ چوالیس (0.44 ) اور پنجاب میں 31دسمبر 2016ء تک پورے ملک سے بہتر تعداد یعنی1.35 تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب ہی کو سب سے زیادہ طبی عملے کی بھی ضرورت ہے۔ صوبے کی مذکورہ تاریخ تک کی آبادی کے لئے فی ہزار افرادکے حساب سے مجموعی طور پر 458407 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی ضرورت تھی۔ دوسری نمایاں ضرورت سندھ کو تھی جہاں یکم جنوری 2016 ء تک کی آبادی کے لئے216613 ہیلتھ پروفیشنلزدرکار تھے۔ خیبر پختونخوا کو 129610 اور بلوچستان کو 47793 کی تعداد پر مبنی طبی عملہ کی ضرورت تھی۔ جبکہ ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی موجود تعداد اور انکی ضرورت کے تناظر میں صورتحال کچھ یوں بنتی ہے۔ سندھ کو 95 فیصد ، خیبر پختونخوا کو 93 ، بلوچستان کو 90 اور پنجاب کو 70 فیصد ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی درکار تعداد کی کمی کا سامنا ہے۔

یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضہ کر رہی ہے کہ بے شک ہم رب العالمین کے حضور ملک کے تمام افراد خصوصاً سفید پوش اور غریب طبقے کے بیماریوں سے محفوظ رہنے کی دعا ضرور کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج سے متعلقہ پائیدار ترقی کے اہداف کو بھی پورا کیا جائے تاکہ دعا اور دوا دونوں ملکر اپنا اثر دکھائیں۔

The post یونیورسل ہیلتھ کوریج ۔۔۔ ہنوزدلّی دور اَست appeared first on ایکسپریس اردو.

ہر گھر سے مُنا نکلے گا، تم کتنے مُنے چھپاؤگی

$
0
0

ایران میں ایک گائناکولوجسٹ خاتون کو اس الزام کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے کہ وہ غیرملکی عناصر کے لیے جاسوسی کررہی تھیں اورایرانی آبادی کو ’قصداً کم‘ کر کے ظاہر کررہی تھیں۔

مہمنت حسینی نامی ان خاتون کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی آف میلبورن سے وابستہ ہیں اور اسکول آف پاپولیشن اینڈ گلوبل ہیلتھ کے لیے کام کررہی تھیں۔ اس الزام کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کے لیے کام کرنے والے متعدد سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ ’’ان جاسوسوں نے ایران دشمن عناصر کو آبادی سے متعلق حساس معلومات فراہم کیں اور اعداد وشمار میں ردوبدل کیا تاکہ ’ثقافتی اور سماجی حملہ‘ ہو سکے۔‘‘

ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کوئی ملک، دشمنی کی بنا پر سازش کے تحت کسی ریاست کی آبادی کم دکھانے کی کوشش کیوں کرے گا؟ اور آبادی سے متعلق حساس معلومات کیا ہوتی ہیں؟ ممکن ہے ان خاتون نے ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ کے علامہ اقبال کے طنز کو بھانپتے ہوئے مردم شماری گننے کے بہ جائے تول کر کی ہو، جس کے بعد انھوں نے ایران کی آبادی کی بابت اپنی رپورٹ میں لکھا ہوگا ۔۔۔بڑی مشکل سے ’’ہوتے ہیں‘‘ چمن میں دیدہ ور پیدا۔‘‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ’’مردم شماری‘‘ کی اصطلاح میں ’’مردم‘‘ کا غلط مفہوم لیتے ہوئے صرف مَردوں کو شمار کیا ہو اور سوچا ہو خانم شماری بعد میں کرلوں گی۔

اب اتنی سی بات پر انھیں گرفتار کرلینا کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت اس الزام کی تردید ان الفاظ میں کر سکتی تھی’’خانم مہمنت! یہ ہماری آبادی ہے تمھاری عمر نہیں کہ تم چھپالو۔ ہر گھر سے مُنّا نکلے گا تم کتنے مُنّے چھپاؤ گی۔‘‘

اس سے بھی بات نہ بنتی تو ’’دشمن ممالک‘‘ کے تہران میں واقع سفارت خانوں اور سفیروں کی رہائش گاہوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف قطاردرقطار زچہ خانے قائم کردیے جاتے، جن پر لاؤڈاسپیکر لگاکر ان کا رخ سفارت خانوں اور سفیروں کے گھروں کی طرف کردیا جاتا، وہ دن رات ’’اوں آں اوں آں‘‘ کی آوازیں سُنتے تو انھیں خود یقین آجاتا کہ ایران کی آبادی تو شب وروز بڑھ رہی ہے۔

اگر ایرانی حکام آبادی کم ہونے کے تاثر کو بیرونی سازش سمجھتے ہیں، تو انھیں چاہیے تھا کہ گرفتاریاں کرنے کے بہ جائے پاکستان کے وفاقی ادارہ برائے شماریات کی مدد لیتے اور پاکستان سے مردم شماری کا عملہ منگوا کر من مانی مردم شماری کروالیتے۔

ایرانیوں کو شاید علم نہیں کہ ہمارا مردم شماری سے متعلق افسران اور عملہ اگر مردم بے زاری پر اُتر آئیں تو پوری کی پوری آبادی کھاجاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے، اور اگر ان پر افرادی قوت بڑھانے کا جُنون سوار ہوجائے تو ایک ہی فرد کو کئی کئی بار گن جائیں، مثال کے طور پر اکیلے ’’بابوبھائی‘‘ میں سے وہ اس طرح کئی افراد برآمد کرسکتے ہیں، ۔۔۔بنے میاں کے بیٹے بابو بھائی، شبن خالہ کے صاحب زادے بابو بھائی، شبراتن کے شوہر بابو بھائی، مُنی کے ابا بابو بھائی، چُنو کے پاپا بابو بھائی، پپو کے ڈیڈی بابو بھائی، لُڈن کے ابو بابوبھائی، نتیجہ ایک ہی گھر میں کُل مِلا کے آٹھ بابو بھائی۔

The post ہر گھر سے مُنا نکلے گا، تم کتنے مُنے چھپاؤگی appeared first on ایکسپریس اردو.

لوگ سَر کھاتے ہیں۔۔۔۔ وہ بال کھاتی ہیں

$
0
0

بال کی کھال نکالنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ایک خاتون بال کھال سمیت کھاتی رہی ہیں۔برطانوی اخبار ’’انڈیپنڈینٹ‘‘ کی خبر کے مطابق ان38 سالہ برطانوی خاتون کا آپریشن کرکے ان کے معدے سے 15سینٹی میٹر طوالت کے بالوں کا گچھا نکالا گیا ہے۔

بال ’’تناول‘‘ کرنے کی وجہ سے وہ مختلف طبی مسائل کا شکار ہوگئی تھیں اور انھوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد انھیں آپریشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔یہ خاتون، جن کا نام مخفی رکھا گیا ہے، دراصل ایک ایسے نادر عارضے کا شکار ہیں جس کے طبی تاریخ میں اب تک صرف 88 کیس سامنے آئے ہیں۔

اس عارضے میں مبتلا افراد میں اپنیبال توڑنے اور بعض اوقات انھیں کھانے کی خواہش پوری شدت سے جنم لے لیتی ہے۔ ہم نے سر کھانے والے تو بہت دیکھے اور بُھگتے ہیں، لیکن ’’بال خوری‘‘ کا پہلی بار سُنا ہے۔

اگرچہ خبر کے مطابق طبی تاریخ میں بال کھانے کے عارضے کے بس اٹھاسی کیسز ہی سامنے آئے ہیں، لیکن ہم اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے بال کھانے کا عارضہ نادر ہے، لیکن دوسرے کے بال ہڑپ کرلینے کی بیماری تو بہت عام ہے۔

اس بیماری کی شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں، جن کا شکار ان کے شوہر بنتے ہیں، کیوں کہ یہ شکار ’’شیرنی‘‘ کی کچھار میں ہوتا ہے، اس لیے بڑا زوردار اور پائے دار ہوتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شوہر حضرات کے بال کم ہوتے ہوتے غائب ہوجاتے ہیں، اور ایسے غائب ہوتے ہیں کہ بیوی کے معدے سے بھی برآمد نہیں کیے جاسکتے۔ وہ بے چارے پھر عمر بھر گنج کا رنج لیے جیتے ہیں۔

’’چندا‘‘ کی عطا کی ہوئی اس چندیا پر خوب مال خرچ کرنے کے باوجود پھر بال نہیں اُگتے۔ کاش طبی ماہرین اور محققین اس عام بال خوری کے عارضے کا کوئی علاج دریافت کرلیں، ورنہ یہ عارضہ بڑھتا گیا تو مرد جاتی کے سر پر بال ملنا محال ہوجائے گا۔

The post لوگ سَر کھاتے ہیں۔۔۔۔ وہ بال کھاتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

تھامس صاحب بکری بن گئے

$
0
0

ایک صاحب ہیںThomas Thwaites، برطانیہ کے باسی اور پیشے کے اعتبار سے ڈیزائنر، مگر وہ فیشن ڈیزائنریا انٹریئرڈیزائنر وغیرہ نہیں، بل کہ گھریلو استعمال کے آلات کو نئی شکل دیتے ہیں۔

جب اپنے روزوشب سے تھامس صاحب کی طبعیت اوبھ گئی، تو انھوں نے شدید بے زاری کی حالت میں ایک فیصلہ کیا، اور فیصلہ یہ تھا کہ ’’میں بکری بن کر کچھ دن گزاروں گا۔‘‘ بی بی سی ریڈیو 4 کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اپنے اس تجربے کو اُکتاہٹ کے باعث ہونے والے ذہنی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ وہ اپنے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں وہ سوچا کرتے تھے کہ ’’اگر میں بِلی ہوتا تو مجھے اسکول نہ جانا پڑتا۔‘‘ یعنی موصوف کا مزاج بچپن سے ’’جَنورانہ‘‘ ہے۔

اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چونتیس سالہ تھامس نے ایک خصوصی ملبوس تیار کروایا، جس کی مدد سے وہ چاروں ہاتھ پیروں سے چلنے کے قابل ہوسکے۔ بکری کے مزاج، نفسیات، ضروریاتغرض یہ کہ اس جانور سے متعلق تمام تر معاملات پر تحقیق کرنے کے بعد موصوف کوہِ الپس کے ایک چرواہے سے ملے اور اس سے درخواست کی کہ انھیں اپنے ریوڑ میں شامل کرلے۔ آخرکار وہ بکریوں کے ساتھ انھیں کی طرح دن گزارتے اور چرتے رہے۔

تھامس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بکری بننے سے پہلے انھوں نے ہاتھی بننے کا سوچا تھا، لیکن پھر انھوں نے اپنے خواب کا حجم کم کردیا اور ہاتھی کے بہ جائے بکری بننے پر اکتفا کیا۔ ان کے ارادے کی پختگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوری طرح بکری بننے کے لیے انھوں نے مصنوعی کُھر بھی بنوا کر لگوائے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی مدد سے انھوں نے اپنے معدے کو بھی گھاس کھانے کے قابل بنالیا۔ بکریوں میں ان جیسا بن کر تین دن گزارنے کے بعد تھامس صاحب دوبارہ انسان بن چکے ہیں۔

تھامس صاحب بچپن میں بلی بننا چاہتے تھے، زندگی کی یکسانیت سے بے زار ہوئے تو ہاتھی بننے کا سوچا، اور آخرکار بکری بن گئے۔ ہمارے خیال میں یہ اس لیے ہوا کہ بکری بننا سب سے زیادہ آسان ہے، ذرا سا خوف بھی کسی کو بکری بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ انھوں نے بکری بننے کے لیے بلاوجہ کشٹ جھیلے، بکری بننے کے لیے تو صرف منمنا دینا ہی بہت ہے۔ تھامس صاحب جسے اپنا کارنامہ سمجھ رہے ہیں وہ تو بہت سے لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ دو پیروں پر چلتے ہوئے بھی ایک ہی دن میں کئی کئی جانوروں کے روپ دھار لیتے ہیں، اور اس ’’روپ دھارن‘‘ کے پیچھے بے زاری اور اکتاہٹ نہیں صرف ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی صاحب باہر شیر ہوتے ہیں، تو گھر میں داخل ہوتے ہی بکری بن جاتے ہیں، بعض حضرات گھر میں دہاڑتے اور باہر منمناتے ہیں۔

ایسے بھی ہیں جو کام پڑے تو بلی بن کر میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہیں، اور کام نکلتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ان کی بھی کمی نہیں جو پہلے بھیڑیا بنتے ہیں، پھر بھیڑ کی کھالپہن کر سامنے آتے ہیں، کچھ حضرات اونٹ بن جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر سب سوچتے رہتے ہیں کہ جانے اب یہ کس کروٹ بیٹھں گے، اور سفید ہاتھی بن جانے اورگرگٹ بن کر رنگ بدلنے والے تو بے شمار ہیں۔

تھامس صاحب تو صرف تین روز تک بکری بنے رہے، لیکن جن کا تذکرہ ہم نے کیا ہے وہ عمر بھر حالات کے مطابق کوئی نہ کوئی جانور بنے رہتے ہیں۔بننا ہی تھا تو تھامس بھیا زندگی بھر کے لیے بکری بن جاتے، گھر، کپڑے، نوکری سمیتہر انسانی ضرورت سے بے نیاز ہوکر ریوڑوں کے ساتھ چرتے رہتے، انھیں یوں بکری بنے خوش باش زندگی کرتے دیکھ کر معاشی حالات کے ستائے کتنے ہی انسانوں کو بکری بننے کی ترغیب ہوتی اور وہ ’’یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی‘‘ کہتے ہوئے تھامس صاحب کے ریوڑ میں شامل ہوجاتے۔

The post تھامس صاحب بکری بن گئے appeared first on ایکسپریس اردو.


بھارت کی ’’فوراً‘‘ پالیسی

$
0
0

پاکستان نے کرتارپور راہ داری کیا کھولی بھارتی سرکار کا منہہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

پاکستان کے اس اقدام نے سِکھ برادری کو خوش کیا مگر بھارتی حکم رانوں کا سْکھ چھین لیا۔ یہ معاملہ چھچھوندر بن کر ان کے گلے میں اَٹک گیا۔ مشکل یہ آپڑی کہ کرتارپورکوریڈور کْھلنے سے روکیں تو ’’سردار‘‘ دہلی سرکار کا ناطقہ بند کردیں گے، اور یہ سرحد کھولنے کا مطلب ہے یہ تسلیم کرلینا کہ پاکستان بھارت سے دوستی کی خواہش رکھتا ہے، اور پھر اسلام آباد سے تعلقات اچھے کرنے کے سفر کا آغاز کرنا پڑے گا۔

آخر چاروناچار مودی جی کی حکومت کو پاکستان کے ڈالے ہوئے چارے پر منہہ مارنا ہی پڑا۔ اب تو یہ حیرت اور پریشانی سے کُھلا منہہ بدمزہ بھی ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا، جس کے جو منہہ میں آیا بکنا شروع ہوگیا۔

کرتارپور راہ داری کے عین افتتاح کے موقع پر وزیرخارجہ سُشما سوراج کو ذرا لاج آئی تو اس پاکستانی اقدام کو تاریخی قرار دے دیا، لیکن اگلے ہی پَل بالک ہَٹ، تریا ہَٹ اور راج ہٹ کی جیسی بھارتیہ ہَٹ پر آگئیں اور فرمانے لگیں،’’کرتارپورراہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ اب پاکستان سے دوطرفہ مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔‘‘ راہ داری کھولنے کی پاکستانی رواداری کا اُن پر کوئی اثر نہیں پڑا، مزید فرماتی ہیں،’’جب تک پاکستان بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں بند نہیں کرتا بھارت پاکستان سے بات چیت نہیں کرے گا اور نہ ہی سارک کانفرنس میں شرکت کرے گا۔‘‘

سشماسوراج کا منہہ بند ہوا تو بھارتی فوج کے سربراہ بَپِّن راوت کی زبان چل پڑی۔ انھوں نے کہا ’’اگر پاکستان کو بھارت سے تعلقات بہتر بنانا ہیں تو اسے اسلامی ملک کی جگہ ایک سیکولر ملک بننا پڑے گا۔ اگر وہ ہماری طرح سیکولر ہونا پسند کریں تو ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘‘

اس بیان سے لگتا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی رے، اور اب وہ صرف سیکولر ممالک ہی سے بہتر تعلقات استوار کرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارتی آرمی چیف سعودی عرب اور ایران سے بھی وہی مطالبہ کریں گے جو پاکستان سے کیا ہے! جواب میں سعودی حکام اپنی سرزمین پر کھاتے کماتے اور پیسہ بھارت پہنچاتے بھارتیوں سے کہیں گے ’’دفع فی الارض۔‘‘ اسی طرح ایران بھی بھارت سے اپنے تجارتی معاہدے جہنم رسید کردے گا۔

نتیجے میں سعودی عرب سے لاکھوں بھارتی اپنے دیش سُدھاریں گے اور رو رو کر مودی اور بپن صاحب سے کہیں گے’’تم سُدھر جاتے تو ہمیں دیش نہ سدھارنا پڑتا‘‘، اُدھر ایران سے تجارت کا نقصان بھارت ماتا کا بہی کھاتا خراب کردے گا۔ چناں چہ یہ ’’پیشکش‘‘ صرف پاکستان کے لیے ہے۔ آپ اسے صرف پاکستان کے لیے بھارت کی ’’فوراً پالیسی‘‘ کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ پاکستان کی طرف سے دوستی کے لیے مثبت سوچ اور اقدام کا فوری اور گھبراہٹ میں یہی جواب دیا جاسکتا تھا۔

واضح رہے کہ بپن بھیا نے پاکستان کے سیکولر ہونے کا حکم صادر نہیں فرمایا، بلکہ ’’ہمارے جیسا سیکولر‘‘ ہونے کی ہدایت جاری کی ہے۔ یعنی ایسی سیکولر مملکت جہاں ’’ہندوتوا‘‘ کے توے پر بیٹھے نریندر مودی پردھان منتری کے سنگھاسن پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں، جہاں گائے کی رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو نہیں بخشا جاتا، جس مملکت میں دھرم کے نام پر قتل عام کرنے والا پھانسی گھاٹ لے جائے جانے کے بہ جائے ایوانِ وزیراعظم کا مکین بنادیا جاتا ہے۔ نہیں بھیا جو دل کو ستائے، جلائے دُکھائے، ایسے ’’سکولر‘‘ سے ہم باز آئے۔

اپنی سرکاری تصویر میں کراچی کی ’’ڈبلیو گیارہ‘‘ اور خیبرپختون خوا کے کسی ٹرک کی طرح تمغوں کی رنگ برنگی پٹیوں سے سجے بھارتی سیناپتی بپن راوت صاحب کی بیان بازیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا دیش جیسا سیکولر ہے ویسا ہی جمہوری بھی ہے، وہ ایک ایسی جمہوریت ہے جہاں خارجہ پالیسی سیناپتی راوت بیان کرتا ہے، تو غالباً بھارت کے دفاعی امور پر بولی وڈ کی اداکارہ کنگنارناوت حکمت عملی پیش کرتی ہوں گی۔ بہ ہر حال یہ پڑوسی ملک کا اندرونی معاملہ ہے جس میں دخل اندازی ہمیں گُھس بیٹھیا قرار دلواسکتی ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ بپن بھیا ہمارے ملک کے معاملے میں بہت اندر تک گْھس آئے ہیں۔ دراصل شوق تو انھیں گولے داغنے کا ہے، مگر جانتے ہیں کہ ایسا کرنے پر ’’آتے ہیں جواب آخر‘‘ اس لیے بپن اپنا بچپن کا یہ شوق بیان داغ کر پورا کرتے ہیں۔

گذشتہ دنوں انھوں نے پاکستان کو دھمکایا تھا، اور بس گرج کر برسے بغیر گگن سے غائب ہوگئے تھے، وہ کشمیر میں ڈرون حملے کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اور ایک بیان میں مشرقی پنجاب میں سکھوں کے خلاف کارروائی کا ڈراوا دے کر وضاحتیں پیش کرتے رہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ بپن راوت کا مسئلہ کیا ہے، شاید وہ نام کے تھوڑا بہت ہم قافیہ ہونے کے باعث خود کو ’’بچن‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں اور فلمی ڈائیلاگ مارتے رہتے ہیں، ہوسکتا ہے انھوں نے سنی دیول کی فلمیں دیکھ کر ان کا اثر کچھ زیادہ ہی قبول کرلیا ہو، اگر ایسا ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے ہی دیس کی ایک اور ’’پروڈکٹ‘‘ سنی لیون کی فلمیں دیکھیں، تاکہ مزاج میں کچھ نرمی پیدا ہو، البتہ ان فلموں کی بے شرمی سے دور رہیں وہ تو ان میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر وہ ایسے بیانات توجہ کا مرکز بننے کے لیے دیتے ہیں تو بلاوجہ اپنی توانائی ضایع کر رہے ہیں، انھیں مرکزنگاہ بنائے رکھنے کے لیے ان کی مخصوص ٹوپی ہی کافی ہے۔

یہ ٹیڑھی پُرانے زمانے کا شکاریوں والی ٹوپی پہن کر تو ’’وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے۔‘‘ یہ ٹوپی اتنی نمایاں ہے کہ ہم نے سُنا ہے چاند سے دیوارچین کے بعد زمین کی دکھائی دینے والی دوسرے شئے یہی ہے۔ آپ اس ٹوپی کو غور سے دیکھیں، صاف لگتا ہے کہ ٹوپی سے نکل کر بپن صاحب کے چہرے اور ٹھوڑی کو جکڑی ہوئی پٹی کا مقصد یہ ہے کہ ان کا منہہ بند رہے یا ضرورت سے زیادہ نہ کُھل پائے۔ اب یہ بپن جی کا کمال ہے کہ اس ٹوپی اور پٹی میں جکڑے منہہ سے بھی وہ اتنا کچھ بول لیتے ہیں۔ آخر میں ہمارا بپن راوت جی کو مشورہ ہے ہماری چِنتا چھوڑ کر اور ہمارے ملک کو بھارت جیسا سیکولر بنانے کی خواہش بھول کر اپنے بھارت کو ویسا سیکولر بنائیں جیسا ایک سیکولر ملک ہونا چاہیے۔n

The post بھارت کی ’’فوراً‘‘ پالیسی appeared first on ایکسپریس اردو.

اکیسویں صدی کا عجوبہ مشین کو انسان کا روپ دیتی سائنس

$
0
0

عامر نے جب دنیا میں قدم رکھا‘ تو وہ خوب رو اور چلبلا بچہ تھا۔ جب بھی چمک دمک والی کوئی چیز دیکھتا تو بے اختیار اس کی جانب لپکتا۔ ایک دن رات کو بجلی گئی تو پتا چلا کہ یو پی ایس خراب ہو چکا۔

ماں نے موم بتی جلا دی اور عامر کو قریب بٹھا کر سبزی کاٹنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر کسی کام سے باورچی خانے گئی۔اِدھر منچلے عامر نے آو دیکھا نہ تاؤ‘ موم بتی کا شعلہ پکڑنے ہاتھ بڑھا دیئے۔ چیخ سن کر پریشان ماں بھاگی آئی‘ تو دیکھا کہ ننھا بیٹا گرم موم سے اپنی انگلیاں جلا بیٹھاہے۔ وہ دھاڑیں مارکر رو رہا تھا۔

جسم انسانی کا بادشاہ

یہ واقعہ یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا…زندگی میں پیش آنے والے تجربات ‘ واقعات اور حالات اسے تلخ و شیریں حقائق سے آشنا کراتے ہیں۔ مثال کے طور پر عامر کو علم نہیں تھا کہ آگ ہاتھ جلا دیتی ہے۔ اسی لیے وہ اس کی جانب لپکا۔ لیکن اس تلخ تجربے نے اسے سکھا دیا کہ آگ ایک خطرناک شے ہے اور اسے ہاتھ سے نہیں پکڑنا چاہئے۔ جوں جوںعامر دوران زندگی مزید تجربات حاصل کرے گا‘ اس کا شعور اور ذہانت بھی بڑھتی جائے گی۔ اس سچائی سے آشکار ہے کہ انسان کا دماغ (یا ذہن) بھی مسلسل ارتقا پذیر ہے۔

ذرا ایک لاکھ سال پہلے کی دنیا تصور میں لائیے ۔ تب انسان نیم برہنہ رہتا تھا۔پتوں سے تن ڈھکتا۔ پیٹ بھرنے کی جستجو اور زندہ رہنا ہی مقصدِ زندگی تھا۔ پھر آگ اور پہیے کی دریافت نے اسے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ وہ کھیتی باڑی کرنے اور بستیاں بسانے لگا۔ یوںانسانی تہذیب و ثقافت کا آغاز ہوا۔ انسان کی یہ پوری محیر العقول ترقی دراصل اس کے دماغ ،نظام اعصاب اور حسیات (بصارت ‘ سماعت‘ لامسہ‘ سونگھنا‘ چکھنا‘ درد‘ سردی گرمی محسوس کرنا‘ توازن برقرار رکھنا وغیرہ) کی مرہون منت ہے۔ دماغ انسان سمیت ہر جاندار میں پائی جانے والی جسمانی و ذہنی سلطنت کا بادشاہ ہے کیونکہ وہی اعصابی نظام اور تمام حسّیات کنٹرول کرتا ہے۔

نیورل نیٹ ورک کا کمال

دلچسپ بات یہ کہ سائنس و ٹکنالوجی کی شاندار ترقی کے باوجودانسان اپنے دماغ کی مادی ہیئت سو فیصد حد تک نہیں جان سکا۔ بہر حال جدید سائنس نے ہمیں یہ ضرور بتا دیا کہ انسانی دماغ تقریباً ایک سو ارب مختلف اقسام کے خلیوں کا مجموعہ ہے جو ’’نیورون‘‘(Neurons) کہلاتے ہیں۔انسانی دماغ کا ہر نیورن دراصل ایک منی کمپیوٹر ہے۔ یہ اپنے طور پر وہ کام بھی بخوبی انجام دیتا ہے جو اسے تفویض کیا جائے۔ مثلاً انسان کو بتانا کہ آگ اس کی جلد جلا رہی ہے۔انسان کا پورا اعصابی نظام انہی نیورونوں پر مشتمل ہے۔ ہر نیورن اپنے ننھے منے کئی بازوئوں کی مدد سے دیگر نیورونوں کے بازؤں سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ نیورون کیمیائی یا برقی (الیکٹر یکل ) اشاروں (سگنلوں ) کی مدد سے ایک دوسرے سے تعلق و رابطہ رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ نے دیکھا کہ چائے مناتے ہوئے اچانک کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ آنکھ کے نیورون یہ منظر دیکھ کر حادثے کی خبر دماغ تک پہنچائیں گے۔ اب دماغ فیصلہ کرے گا کہ ہاتھوں اور پانی کی مدد سے آگ بجھائی جائے۔ ایک دوسرے سے جڑے نیورونوں میں یہ ساری پیغام رسانی برقی اشاروں کے ذریعے نہایت تیزی سے ہوتی ہے۔ نیورونوں کا یہ باہمی نظام اصطلاح میں ’’نیورل نیٹ ورک‘‘(Neural Network) کہلاتا ہے۔

انسانی دماغ میں ایک ارب منی کمپوٹر کے مانند نیورونوں کا نیٹ ورک ہی اعصابی نظام سمیت انسانی جسم کو رواں دواں رکھنے والا’’سپر کمپیوٹر‘‘ تشکیل دیتا ہے۔ گویا ہمارا دماغ ایک ارب ’’کور پروسیسر‘‘(Core Processor) رکھتا ہے۔ انہی کور پروسیسروں نے انسانی دماغ کو نہایت طاقتور شے بنا ڈالا ہے… ایسی شے جس سے مماثلت رکھنے والی چیز انسان سر توڑ کوشش کے باوجود(فی الحال) نہیں بنا پایا۔

سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام

اس وقت امریکی کمپنی‘ آئی بی ایم کا تیار کردہ سمٹ(Summit ) دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر صرف ایک سکینڈ میں 200پیٹا فلاپس (petaflops) یعنی دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یقیناً انسانی دماغ اتنی محیر العقول تیزی سے پیمائش نہیں کر سکتا، اس کی رفتار زیادہ سے زیادہ ایک سیکنڈ میں چند ٹریلین پیمائش کرنا ہو گی۔

اس کے باوجود یہ تیز ترین سپر کمپیوٹر بھی انسان کا غلام ہے… کیونکہ انسان ہی اسے حکم دیتے ہیں کہ اس نے کون سی پیمائشیں کرنا ہیں یا کس نوعیت کا کام انجام دینا ہے۔ گویا صرف ایک سیکنڈ میں دو لاکھ ٹریلین پیمائشیں کرنے والی یہ حیرت انگیز مشین از خود ایک پیمائش بھی نہیں کر سکتی۔ معنی یہ کہ ایک سیکنڈ کی عمر رکھنے والے انسانی بچے کا دماغ بھی سمٹ سپر کمپیوٹر سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ وہ بچہ ہوتے ہوئے بھی بہر حال ازخود کئی کام کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہاتھ ہلانا‘ رونا‘ ماں کو د یکھنا وغیرہ۔

خود مختار ہونے کے علاوہ ملٹی ٹاسک(Multitask) ہونا بھی انسانی دماغ کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ دماغ کی وجہ سے ہی انسان بیک وقت کئی کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کپڑوں میں آگ لگے‘ تو انسان اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ پاؤں ہلا کر اپنا بچاؤ کرتا اور چیخیں مارتا ہے۔ حقیقتاً خطرے کی حالت میں انسان کی خفیہ حسّیں بھی بیدار ہو جاتی ہے جنہیں مجموعی طور پہ ’’چھٹی حس‘‘ کا نام دیا جا چکا ۔

سپر کمپیوٹر سمٹ ملٹی ٹاسک مشین نہیں… وہ ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے ۔ درست کہ سمٹ اپنا کام حیرت انگیز رفتار سے انجام دے گا، انسانی دماغ اتنی تیزی نہیں دکھا سکتا۔ مگر سمٹ بیک وقت کئی کام کرنے سے قاصر ہے۔ ملٹی ٹاسک ہونا بھی انسانی دماغ کو زیادہ طاقتور اور منفرد بنا ڈالتا ہے۔ گویا انسانی دماغ کا سپر کمپیوٹر سمٹ سے زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مشین ہے۔ اسی لیے سائنس داں ابھی تک اسے مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے۔

سمٹ سپر کمپیوٹر کو تیس مختلف کام کرنے کی خاطر بنایا گیا ۔ مطلب یہ کہ اس میں تیس سافٹ ویئر موجود ہیں۔ جب بھی تیس کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا مقصود ہو‘ تو اس کے متعلقہ سافٹ ویئر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھر سافٹ ویئر میں جو ریاضیاتی ہدایات (algorithms)دی گی ہیں‘ سمٹ ان کے مطابق اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اگر اس مشین سے اکتیسواں کام کرانا ہے تو اس میں نیا سافٹ ویئر یا پروگرام انسٹال کرنا ہو گا۔یاد رہے، ہر سافٹ وئیر مختلف ریاضیاتی ہدایات کا مجموعہ ہوتا ہے۔یہ ہدایات اعداد،الفاظ، اعراب اورگرافکس وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔کمپیوٹر انہی ہدایات کے مطابق اسکرین پہ متن(ٹیکسٹ) یا تصویریں وغیرہ پیش کر دیتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تاریخ

دنیا میں بیشتر کمپیوٹر سمٹ سپر کمپیوٹر کے مانند کام کرتے ہیں۔ یعنی ان میں مخصوص سافٹ ویئر موجود ہیں۔ چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہر کمپیوٹر مشین اپنی سافٹ ویئرکے احکامت پر عمل کرتی ہے۔ لیکن اب ایک انقلاب کی آمد آمد ہے… سائنس داں ایسی مشینیں ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انسانی دماغ کے مانند از خو د فیصلے کر سکیں۔ گویا وہ مشین کو ظاہری کے علاوہ ذہنی طور پر بھی انسان کا روپ دینا چاہتے ہیں۔ یہ انقلابی اور تاریخ ساز قدم ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (Artificial intelligence)کے ایک خصوصی شعبے کی مدد سے اٹھایا جارہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا نظریہ اس بنیاد پر استوار ہے کہ انسان کی طرح مشین بھی ذہین و فطین ہو سکتی ہے لہذا وہ مختلف کام انجام دینے کے قابل ہے۔ یہ نظریہ قدیم یونانی‘ہندوستانی اور چینی فلسفیوں نے پیش کیا۔ پہیے کی دریافت کے بعد انسان مشینیں ایجاد کرنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر یونانی موجد‘ ارشمیدس نے ڈھائی ہزار سال پہلے ’’ارشیمدس پیچ ‘‘ ایجاد کیا۔ اس مشین کی مدد سے گڑھوں میں موجود پانی بالائی جگہوں پر پہنچانا ممکن ہے۔دو ہزار سال پہلے ہیرو اسکندروی نامی ماہر ریاضی اور انجینئر گزرا ہے۔ یہ شاید پہلا موجد ہے جس نے ازخود حرکت کرتی مشینیں ایجاد کیں مثلاً بھاپ انجن، چکی اور آٹومیٹک دروازے۔

جب مسلم سائنس دانوں کا ظہور ہوا تو انہوں نے چینی، یونانی اور ہندوستانی ماہرین کی تخلیق کردہ سائنس و ٹیکنالوجی کو آگے بڑھایا۔ الخوازمی نے الجبرا کی بنیاد رکھی۔ مشہور مسلم موجد، الجزری نے کئی حیرت انگیز ایجادات دنیا والوں کے سامنے پیش کیں۔ الجزری اپنی ’’ہاتھی گھڑی‘‘(Elephant clock) کے باعث مشہور ہیں۔ یہ شاید پہلی مشین ہے جس میں ایک مشینی آدمی سنج (تھالی نما ساز) بجا کر ایک گھنٹہ پورا ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ نیز ایک مشینی چڑیا نمودار ہوکر بولتی ۔

سترہویں صدی میں یورپی فلسفیوں مثلاً گونفریڈ لائیبنز، تھامس ہوبز اور رینے دیکارت نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ریاضی و الجبرا کی مدد سے مصنوعی ذہانت کو جنم دینا ممکن ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر بیسویں صدی میں ’’ریاضیاتی منطق‘‘ (Mathematical logic) وجود میں آئی۔ یہ علم ریاضی کی ایک شاخ ہے۔ ریاضیاتی منطق ہی نے وہ نظریاتی اور عملی بنیادیں فراہم کیں جن کے ذریعے کمپیوٹر اور روبوٹ بنائے گئے۔

شاخوں میں تقسیم

دوسری جنگ عظیم کے بعد مصنوعی ذہانت کا شعبہ دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک شاخ میں سافٹ ویئرز کے ذریعے چلنے والے کمپیوٹر، روبوٹ اور دیگر مشینیں ایجاد ہونے لگیں۔ یہ مصنوعی ذہانت کی ’’پروگرامڈ اقسام‘‘ ہیں۔ اس شاخ سے منسلک ماہرین ایسے سافٹ ویئر پروگرام ایجاد کرتے ہیں جو مشین کو ہر قدم پر معین ریاضیاتی ہدایات دے سکیں۔ ان ہدایات کے بغیر کمپیوٹر یا مشین کوئی کام نہیں کرسکتی۔

دوسری شاخ سے منسلک سائنس داں کوشش کرنے لگے کہ وہ ایسی مشینیں تیار کرلیں جو سافٹ ویئرز کے علاوہ انسان کے مانند مصنوعی دماغ بھی رکھتی ہوں۔ یعنی وہ ریاضیاتی ہدایات کی مدد سے ’’ازخود‘‘ بھی سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیتیں حاصل کرلیں۔ یہی صلاحیتیں ایک انسان کو مشین سے برتر قوت بناتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی اس شاخ کو ’’مشین لرننگ‘‘(Machine learning) کا نام دیا گیا یعنی مشین کو تعلیم وتربیت دینے کا طریق کار!

1950ء کے بعد مشین لرننگ کے سائنس داں مصنوعی دماغ بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ بیس سال بعد آخر کار انہوں نے انسانی دماغ کے نیورل نیٹ ورک کی طرح ریاضیاتی ہدایات کی مدد سے ’’مصنوعی نیورل نیٹ ورک‘‘(Artificial neural network) ایجاد کرلیا۔ اس مصنوعی نیورل نیٹ ورک میں ہر ریاضیاتی ہدایت جسے اصطلاح میں یونٹ (Unit) کہتے ہیں،’’مصنوعی نیورون‘‘ کہلانے لگی۔

ڈیپ لرننگ کا جنم

سائنس داں شروع میں ایسے مصنوعی نیورل نیٹ ورک ہی تیار کرسکے جن میں چند لاکھ مصنوعی نیورون موجود تھے۔ لیکن جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی نے ترقی کی، ماہرین کو زیادہ پیچیدہاور بڑے مصنوعی نیورل نیٹ ورک بنانے کی خاطر نئے آلات اور وسائل مل گئے۔ ان نیٹ ورکوں میں بھی انسانی دماغ کی طرح تمام مصنوعی نیورون ایک دوسرے سے تعلق و رابطہ رکھتے ہیں۔ ان کے مابین بجلی کے ذریعے برقی پیغام رسانی ہوتی ہے۔

اکیسویں صدی میں جب سپرکپیوٹر وجود میں آئے، تو ان کی مدد سے شعبہ مشین لرننگ کے تکنیکی(ٹیکنیکل) مسائل تیزی سے حل ہونے لگے۔ اسی دوران مشین لرننگ کی ایک شاخ ’’ڈیپ لرننگ‘‘ (Deep learning) وجود میں آگئی۔ اسی شاخ سے منسلک سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین اب ایسی مشینیں بنارہے ہیں جو انسانی بچے کی طرح ماحول سے تجربات اور واقعات کے ذریعے نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا، جب بچہ دنیا میں آنکھیں کھولے، تو وہ تجرباتِ زندگی، حالات، واقعات اور ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اسی نمونے کی بنیاد پر ڈیپ لرننگ کے ماہرین بھی انسان نما مشین بنارہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انسانی بچے کو تو قدرت سیکھنے اور نشوونما دینے کے مواقع فراہم کرتی ہے، مشین کو انسان پھلنا پھولنا، سوچنا سمجھنا اور ترقی کرنا سکھائے گا۔

انسان نما مشین کا مصنوعی دماغ زیادہ پیچیدہ اور وسیع نیورل نیٹ ورک رکھتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں مصنوعی نیورنوں کی کئی تہیں موجود ہوتی ہیں۔ اس طرح کم رقبے میں زیادہ نیورون رکھنا ممکن ہوگیا۔یہ یاد رہے کہ جتنے زیادہ مصنوعی نیورون ہوں ، مشین کا مصنوعی دماغ اتنا ہی زیادہ طاقتور بن جائے گا۔اس ڈیپ (مصنوعی) نیورل نیٹ ورک کی تجربہ گاہ ڈیٹا ہے…عظیم الشان ڈیٹا جو انسان اسے فراہم کرتا ہے۔ یہی ڈیٹا انسان نما مشین کو نت نئی باتیں سکھانے اور بتانے کا بنیادی ذریعہ بن چکا۔

ڈیٹا کا عجوبہ

دس پندرہ سال پہلے تک انسان تصاویر و متن کی صورت کم ہی ڈیٹا رکھتا تھا۔ لیکن انٹرنیٹ کی زبردست ترقی کے باعث اب انسان کئی ہزار کھرب میگا بائٹ ڈیٹا تک رسائی رکھتا ہے۔ ڈیٹا کی اسی بے پناہ بڑھوتری نے ماہرین ڈیپ سائنس کو یہ سنہرا موقع عطا کیا کہ وہ انسانی دماغ کی طرح سوچنے سمجھنے والا مصنوعی دماغ ایجاد کرنے کی جدوجہد کرسکیں۔سائنس دانوں نے جب مصنوعی نیورنز کا نیٹ ورک (مصنوعی دماغ) تیار کرلیا، تو انہوں نے اس کے ساتھ حرکت کرنے، دیکھنے، سننے اور محسوس کرانے والے حساس آلات (سینسر) نصب کردیئے۔

یوں اس مصنوعی دماغ کو بیشتر انسانی حسیں بھی عطا کر ڈالیں۔ اس نیٹ ورک کو آخر میں ڈیٹا فراہم کیا جانے لگا۔مثال کے طور پر مصنوعی نیورنز کے اس نیٹ ورک کو بلی کی پہچان کروانی ہے۔ چناں چہ نیٹ ورک کوبلی کی ہزارہا تصاویر دی جاتی ہیں۔ نیٹ ورک کے مصنوعی نیورونوں کو ان تصاویر کی مدد سے مختلف جانوروں میں بلی کو شناخت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ جب وہ یہ عمل سیکھ جائیں، تب مصنوعی دماغ ’’ازخود‘‘ مختلف حیوانوں میں کھڑی بلی شناخت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔عام کمپیوٹر میں تو انسان ہی حیوانوں میں سے بلی شناخت کرتا ہے۔

معنی یہ کہ مصنوعی دماغ کے نیورون نیم خود مختار ہیں۔ وہ ایک دفعہ کوئی نئی بات سیکھنے کے بعد تجربات اور واقعات کی مدد سے اس نئی بات سے مختلف ذیلی اور متعلق باتیںخود بخود سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ازخود سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نے ڈیپ نیورل نیٹ ورکس پر مشتمل انسان جیسے مصنوعی دماغ کو اکیسویں صدی کا محیر العقول عجوبہ بنادیا ہے۔

گویا یہ مصنوعی دماغ مشین کو اس قابل بناسکتا ہے کہ وہ دنیا کو ’’دیکھ‘‘ سکے، انسان کی باتیں سمجھ لے اور خود بھی مناسب جواب دے ڈالے۔ تاہم مشین کا یہ مصنوعی دماغ ترکیب و ہئیت اور کارکردگی میں ابھی چند ماہ کے نوزائیدہ انسانی بچے جیسا ہے۔ ابھی اسے کارکردگی اور قوت میں انسان کا دماغ جیسا بنتے ہوئے کئی عشرے لگ جائیں گے۔ سائنس کی رو سے انسانی دماغ بھی ہزاروں لاکھوں سال کے عرصے میں ارتقا پذیر ہوا ہے، تبھی وہ کئی حسّیات سے مالا مال ایک بہترین قدرتی سپرکمپیوٹر بن سکا۔

مصنوعی دماغ کے نظام

یہ ارتقا پذیر مصنوعی دماغ کئی نظاموں پر مشتمل ہے۔ان میں سے درج ذیل ذیلی نظام اہمیت رکھتے ہیں:

٭…آواز کی شناخت کا خود کار نظام(Automatic speech recognition) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ مختلف آوازوں کو شناخت کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آواز انسان کی ہے یا شیر کی۔
٭… چہرے کی شناخت(face tracking) :یہ نظام مصنوعی دماغ کو انسانوں اور حیوانوں کے چہرے پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔
٭… قدرتی بولی پروسیسنگ(Natural language processing):یہ نظام مصنوعی دماغ کو بولنا سکھاتا ہے۔ اسی ذیلی نظام میں نت نئے الفاظ ذخیرہ ہوتے رہتے ہیں۔
٭… جذبات کی شناخت(emotion recognition) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ انسان یا حیوان کے جذبات سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان حیران ہے یا پریشان، خوش ہے یا غمگین۔
٭… مشینی حرکات(robotics) :اس نظام کی مدد سے مصنوعی دماغ مشین کی حرکات و سکنات کنٹرول کرسکتا ہے۔ مثلاً یہ مصنوعی دماغ کسی مشین یا روبوٹ میں نصب کیا جائے، تو اسی ذیلی نظام کی مدد سے وہ روبوٹ کے بازو اور ٹانگوں کو حرکت دے سکے سگا۔

ابھی دلی دور ہے

جیسا کہ بتایا گیا، ڈیپ لرننگ مشین کی بنیاد پر بننے والا مصنوعی دماغ اور اس کے سبھی ذیلی نظام ابھی ارتقا پذیر ہیں۔ ماہرین مسلسل اس پورے ڈھانچے کو بہتر سے بہتر بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کررہے ہیں۔ ابھی یہ نشوونما پذیر ہے اور پانچ سالہ بچے کے دماغ کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔مثال کے طور پر ایک چار پانچ سالہ بچہ فوراً اپنی پالتو بلی کو پہچان لیتا ہے۔

اسے یہ بھی بہت جلد معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں بلی پڑوسیوں کی ہے لیکن مصنوعی دماغ کے لیے ابھی پالتو بلی کی شناخت کرنا ہی بڑا مسئلہ ہے۔پہلے مصنوعی دماغ کی ہارڈ ڈسک میں اس بلی کی ہزارہا تصاویر رکھی جائیں گی۔ یہ تصاویر مختلف زاویوں سے کھنچی ہوں گی تاکہ پالتو بلی کا ہر زاویہ واضح ہو جائے۔ مثلاً اس کی مونچھیں، پلکیں، ناک، ہونٹ وغیرہ۔ ان تصاویر کی اسکیننگ کرکے مصنوعی دماغ پالتو بلی کا ہیولا اپنے نیورون نیٹ ورک میں محفوظ کرلے گا۔ یوں جب بھی وہ بلی اس کے سامنے آئی، وہ بتاسکے گا کہ یہ پالتو ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ انسان ساختہ مصنوعی دماغ ابھی ارتقا پذیر ہے۔ لہٰذا پالتو بلی کی دو تین مونچھیں کاٹ دی جائیں یا اس کے جسم پر کیچڑ لگ جائے تو مصنوعی دماغ اسے پہچاننے سے انکار کردے گا۔ یعنی وہ اسے بلی تو ضرور قرار دے گا مگر پالتو نہیں۔ پالتو بلی کی ظاہری ہئیت میں تھوڑی سی بنیادی تبدیلی بھی مصنوعی دماغ کو کنفیوز و پریشان کردے گی۔

ایک پانچ سالہ بچے کا دماغ مگر جلد ہی جان لیتا ہے کہ یہ اسی کی پالتو بلی ہے، بس اس کے جسم پر کیچڑ لگ چکا یا مونچھیں کٹنے سے وہ کچھ عجیب لگ رہی ہے۔ہے وہ اپنی پالتو بلی ہی۔ ماہرین اس کوشش میں ہیں کہ مصنوعی دماغ کا نیورول نیٹ ورک بھی ازخود پالتو بلی کی ہیئت میں آنے والی تبدیلیاں ’’ازخود‘‘ اور خودکار طریقے سے سمجھ سکے۔ وہ جان لے کہ یہ پالتو بلی ہی ہے، بس اس کی ظاہری ہئیت میں کچھ تبدیلیاں جنم لے چکی۔

ماضی میں کمپیوٹر بہت سست رفتار تھے۔ اب ان کی پروسیسر طاقت یا کام کی رفتار بہت بڑھ چکی۔ پھر پروسیسر چھوٹے بھی ہوگئے۔ اس لیے مصنوعی ذہانت کی دونوں شاخوں، شعبہ سافٹ ویئر اور شعبہ مشین لرننگ میں زبردست ترقی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ ترقی بنی نوع انسان کے لیے فوائد رکھتی ہے، نقصان بھی اور نت نئے چیلنج بھی! یہ بہرحال طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کا جن بوتل سے باہر آچکا اور اب اسے واپس بند کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

فوائد اور نقصان

مصنوعی ذہانت کی ترقی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو سستی افرادی قوت میسر آئے گی۔ فرض کیجیے، آپ کو گھر کی صفائی کے لیے ماسی درکار ہے۔ لہٰذا ایسا روبوٹ بنائیے جسے صفائی کا طریقہ سافٹ ویئرز اور مشین لرننگ کے طریقوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا دیجیے۔ لیجیے آپ کو چوبیس گھنٹے دستیاب رہنے والی ماسی مل گئی۔ جاپان، امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں ایسے ماسی نما ہزارہا روبوٹ گھریلو صفائی کرنے لگے ہیں۔

غرض اب کوئی ایک معین کام انجام دینے کی خاطر مشین یا روبوٹ بنانا ممکن ہوچکا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث مزید آسانیاں جنم لے رہی ہیں لیکن مشین کی اس ترقی نے کئی انسانی پیشوں کا مستقبل خطرے میں بھی ڈال دیا۔ ظاہر ہے کسی پیشے میں روبوٹ یا مشینیں گھس آئیں تو اس سے وابستہ کئی انسانوں کا روزگار تو ختم ہوجائے گا۔ انہیں پھر نیا پیشہ ڈھونڈنا پڑے گا تاکہ کماکر اپنا اور بچوںکا پیٹ بھرسکیں۔

انسان جیسی ذہانت رکھنے والی مشین کا سامنے آنا مگر ابھی کئی عشرے دور کی بات ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی دماغ دراصل ہمارے بدن میں ایک نہایت پیچیدہ ’’اعصابی نظام‘‘ (Nervous system) کا حصہ ہے۔ ریڑھ کی ہڈی اور پورے انسانی بدن میں پھیلی اعصابی نسیں اس نظام کی دو اور بنیادی جزو ہیں۔اس کے علاوہ خود دماغ سینکڑوں ذیلی نظام اور حصے رکھتا ہے۔ سائنس دانوں کو انسان جیسی ذہین و فطین مشین تیار کرنی ہے، تو انہیں پورے اعصابی نظام کی نقل بنانا ہوگی۔ تبھی صحیح معنوں میں انسان نما مشین وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن سائنس و ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں کہ وہ انسان کے اعصابی نظام کی نقل ایجاد کر لے۔ البتہ اسے تیار کرنے کی کوششیں ضرور ہورہی ہیں۔

صوفیہ …نسوانی روبوٹ

قابل ذکر بات یہ کہ شعبہ سافٹ ویئر اور شعبہ لرننگ کے ملاپ و ادغام سے ماہرین نت نئی مشینیں یا روبوٹ ایجاد کرنے لگے ہیں۔ یہ نئے روبوٹ پروگرامڈ روبوٹوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ صوفیا(Sophia) بھی ایک ایسا ہی روبوٹ ہے جو مصنوعی ذہانت کی دونوں شاخوں کی مدد سے بنایا گیا۔ یہ روبوٹ اعضا کو حرکت دینے، سننے اور بولنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ بعض انسانی جذبات بھی عیاں کرتا ہے جیسے مسکرانا، سنجیدہ ہونا، غور کرنا۔

صوفیا کا مرکزی اعصابی نظام ڈیپ (مصنوعی) نیورل نیٹ ورک ، سافٹ ویئرز اور حساس آلات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے اسے نسوانی انسان کی شکل دی گئی۔ پھر آنکھوں میں کیمرے، کانوں میں آلہ سماعت، حلق میں مائیکروفون اور مختلف اعضا حرکت میں لانے والے آلات نصب کیے گئے۔ پھر مصنوعی نیورل نیٹ ورک فٹ کرکے اس میں تمام آلات کو ہدایات دینے والے سافٹ ویئر بھرے گئے۔ آخر میں ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی کی مدد سے تمام سافٹ ویئرز اور آلات کو مربوط و منسلک کردیا گیا۔ یوں انسان کی طرح سننے، دیکھنے اور بولنے چالنے والے روبوٹ نے جنم لے لیا۔
لیکن صوفیا بنیادی طور پر احساسات و جذبات سے عاری مشین ہے۔

اس میں پہلے سے متعین جوابات دینے والا سافٹ ویئر موجود ہے۔ جب صوفیا کوئی سوال سنے، تو اس کا مصنوعی نیورل نیٹ ورک یا مصنوعی دماغ جوابات والے سافٹ ویئر سے رابطہ کرتا اور اسے کنگھالتا ہے کہ موزوں جواب کون سا ہونا چاہیے۔ جب موزوں جواب مل جائے، تو مصنوعی دماغ کے حکم پر مائیکرو فون اسے بول دیتا ہے۔ یہ جواب سوفیصد درست نہ ہو تب بھی سوال سے نسبت ضرور رکھتا ہے۔حقائق سے مگر عیاں ہے کہ صوفیا میں متعین ریاضیاتی ہدایات (سافٹ ویئرز کی صورت) موجود ہیں۔ وہ از خود کوئی جواب تخلیق نہیں کرسکتی۔ ہاں، ڈیپ لرننگ کے باعث اس میں یہ صلاحیت ضرور پیدا ہو گئی کہ وہ سینکڑوں جوابات میں سے موزوں جواب ڈھونڈ سکے۔

نئی باتیں تخلیق کرنے والا نیٹ ورک

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا انسان ایسی مشین تخلیق کرسکتا ہے جو اسی کے مانند ذہانت ہی نہیں احساسات و جذبات بھی رکھتی ہو؟ وہ خیر اور شر کے مابین تمیز کرلے؟ جب بھی انسان سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے ذہانت و جذبات رکھنے والی اپنی نقل بنانے میں کامیاب ہوا تو اُسے اعلیٰ تخلیق کار کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔۔

2014ء میں ڈیپ لرننگ کے مشہور امریکی ماہر، آئن گڈ فیلو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحقیق و تجربات کرتے ہوئے مصنوعی نیورونوں کا ایک نیا نیٹ ورک ایجاد کیا جو ’’جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک‘‘(Generative adversarial network) کہلاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا مصنوعی نیٹ ورک ہے جو ازخود بھی نئی باتیں تخلیق کرسکتا ہے۔ گویا اس کا طریق کار انسانی دماغ سے مماثلت رکھتا ہے۔

فرض کیجیے، آپ باغ میں گئے اور وہاں آپ نے ایک خوبصورت چڑیا دیکھی۔ پھر آپ آنکھیں بند کرلیجیے۔ اب آپ اس چڑیا کے متعلق ایسی باتیں بھی سوچ سکتے ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتیں۔ مثلاً یہ کہ یہ چڑیا شاید پریوں کے دیس سے آئی ہے۔ یا یہ کوئی پری ہوگی۔ممکن ہے کسی جن نے اس چڑیا کا بھیس بدل رکھا ہو۔غرض ہمارا دماغ اس چڑیا کے متعلق نت نئے تصّورات اور خیالات جنم دینے کا اہل ہے۔ اسی لیے بعض سائنس داں دماغ کو چھوٹا سا خالق قرار دیتے ہیں جو ہر قسم کا خیال تخلیق کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔

اب انسان کے بنائے جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک بھی ایسے نمونے تخلیق کرنے کے قابل ہوچکے جو پہلے وجود نہیں رکھتے تھے۔ ان نیٹ ورکس کو عام طور پر ہزارہا تصاویر کا ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ نیٹ ورک کا مصنوعی دماغ (نیورل نیٹ ورک) پھر اس ڈیٹا کی مدد سے تصویروں کے نت نئے نمونے اپنی مرضی سے تخلیق کرتا ہے ۔ مثلاً آپ نے نیٹ ورک کو کاروں کی سینکڑوں تصاویر فراہم کردیں۔ نیٹ ورک کاروں کا تجزیہ کرکے ان کے ایسے نمونے تیار کردے گا جو پہلے وجود ہی نہیں رکھتے تھے…اور یہ نمونے حقیقی کاروں جیسے ہی ہوتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل فرانس میں جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک میں مختلف عالمی شہرت یافتہ مصوروں کی پندرہ ہزار تصاویر اپ لوڈ کی گئیں۔ ان تصاویر کو جانچ پرکھ کر نیٹ ورک نے ’’اپنی‘‘ ایک تصویر تخلیق کرلی جس کو ’’ایڈمنڈ دی بیلامی‘‘(Edmond de Belamy) کا نام دیا گیا۔ اس تصویر کو شہرت تب ملی جب نیلامی کے مشہور ادارے، کرسٹی نے اسے نیلام کرنے کا اعلان کیا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کی گئی یہ پہلی تصویر چار لاکھ بتیس ہزار پانچ سو ڈالر (پانچ کروڑ روپے سے زیادہ رقم) میں فروخت ہوئی۔

آئن گڈ فیلو اور اس کے ساتھی اب اپنے بنائے مصنوعی نیورل نیٹ ورک نظام کو مزید بہتر بنارہے ہیں۔ یہ نیٹ ورک دراصل دو نیٹ ورکوں پر مشتمل ہے۔ دونوں مل جل کر نت نئے نمونے تخلیق کرتے اورایک دوسرے کے ممدو معاون بنتے ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں جینیر یٹو ایڈورسیریل نیٹ ورک کی مدد سے انٹریئر اور انڈسٹریل کے نت نئے ڈیزائن، جوتوں اور بیگس کے نئے نمونے اور کمپیوٹر گیمز کے نئے مناظر تخلیق کیے جارہے ہیں۔

ڈیپ لرننگ کا ایک عملی مظہر گوگل کمپنی کا بنایا الفاگو کمپیوٹر سافٹ ویئر (AlphaGo system)بھی ہے۔ یہ کمپیوٹر پروگرام مشہور جاپانی کھیل، گو کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ کھیل شطرنج اور ڈرافٹ سے ملتا جلتا ہے۔ الفا گو اب تک اس کھیل کے کئی نامی گرامی کھلاڑیوں کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما چکا۔

الفاگو کے ڈیٹا میں گو کھیل کی تیس لاکھ سے زائد چالیں محفوظ ہیں۔ یہ مصنوعی نیورونوں والے نیٹ ورک کے ذریعے کام کرتا ہے۔ اس کمپیوٹر پروگرام نے شروع میں انسانوں اور پھر دیگر کمپیوٹروں سے مقابلہ کیا۔ جب وہ گو کھیلنے میں طاق ہوگیا، تو اس کے مقابلے ماہر کھلاڑیوں سے کرائے گئے۔ جب یہ پروگرام معین عرصے تک کوئی چال نہ چل سکے، تو ہار مانتے ہوئے بند ہوجاتا ہے۔دنیا کی ابھرتی قوت، چین میں ہزارہا سائنس داں اور موجد شعبہ مصنوعی ذہانت میں کام کررہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں چینی سائنس داں امریکی و یورپی موجدوں سے آگے ہیں۔ گویا مستقبل میں چین مصنوعی ذہانت سے متعلق نت نئی ایجادات کا مرکز بن جائے گا۔یہ سچائی حال ہی میں عیاں ہوئی جب چین کی ممتاز خبررساں ایجنسی،شینہوا (Xinhua) نے دو انوکھے نیوز ریڈر متعارف کرائے۔ یہ دونوں مصنوعی نیورونز کا نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ بولنے چالنے اور چہرے کی حرکات و سکنات میں انسان سے ملتے جلتے ہیں۔ ان مشینی نیوز ریڈروں کا فائدہ یہ ہے کہ نیوز ایجنسی اب چوبیس گھنٹے ان کے ذریعے خبریں نشر کرسکتی ہے۔

حرف آخر

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ مصنوعی ذہانت کے دونوں شعبوں(سافٹ ویئر اور مشین لرننگ)سے منسلک سائنس داں اب ایسی مشینیں اور روبوٹ ایجاد کرنے لگے ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں انسان کے مددگار بن سکتے ہیں۔خاص طور پر مستقبل میں شعبہ طب میں ان کی مدد سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کرنا ایک آسان عمل بن سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے کو ترقی دینے میں پاکستان سمیت کسی اسلامی ملک کا کوئی نمایاں کردار نہیں۔ دراصل بیشتر اسلامی ممالک میں حکمران طبقہ کرسی بچانے اور ذاتی خواہشات پوری کرنے میں محو ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ نہیں دیتا‘ مصنوعی ذہانت تو دور کی چیز ہے۔ افسوس‘ علم سے دوری امت مسلمہ کو مغرب کی غلام بنا رہی ہے۔

انسانی تاریخ مگر افشا کرتی ہے کہ منفی سوچ رکھنے والے انسان ٹیکنالوجی کو شرانگیز سرگرمیوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں اور روبوٹ بھی نت نئے ہتھیاروں کی صورت ڈھالے جا سکتے ہیں۔دور جدید کے دانشور مصنوعی ذہانت کے اسی پہلو سے خوفزدہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر انسان نے اپنے جیسے دماغ رکھنے والی مشینیں تیار کر لیں تو وہ مستقبل میں کسی بھی وجہ سے بغاوت کر کے بنی نوع انسان کو اپنا غلام بنا سکتی ہیں۔تب تک وہ مشین ہونے کے ناتے جسمانی و دماغی طور پر انسان سے زیادہ طاقتور اور ذہین ہو جائیں گی۔

The post اکیسویں صدی کا عجوبہ مشین کو انسان کا روپ دیتی سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.

خبردار! آپ کو جرمانہ ہو سکتا ہے

$
0
0

مہذب معاشرے وجود میں آنے کے بعد انسان نے شہری زندگی کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے قوانین کا اجراء کیا تاکہ نظم و نقص کو برقرار رکھا جاسکے اور کوئی بھی کسی دوسرے کا حق غصب کرنے اور اس کو قوت و اختیار کے زور پر ایذاء پہنچانے سے گریز کرے اور کوئی اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اس کو قانون کے شکنجے میں لاکر سماجی انصاف کی راہ ہموار کی جائے تاکہ امن و سکون میسر رہے، لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا عجیب و غریب واقعات اور جگہوں سے بھری ہوئی ہے جواس کو متنوع شکل میں مزین کرکے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں کچھ ایسے رسوم و رواج اور قوانین بھی پائے جانے ہیں جو شاہد دیکھنے، سننے یا پڑھنے میں تو غیر معمولی نظر آئیں مگر یقینا ان کو ان کی افادیت ہی کی بدولت ان کو لاگو کیا گیا ہے۔ اگر آپ دنیا کی سیر کا پروگرام بنا رہے ہیں تو ان قوانین کو مدنظر رکھیں تاکہ نادانستگی میں ان کی خلاف ورزی کے باعث آپ کے سفری تخمینے آپ کے اندازے سے زیادہ اور آپ کے اخراجات آپ کی بساط سے باہر نہ ہوجائیں۔

-1 اٹلی کے نہری شاہراؤں کے سبب شہرت رکھنے والے مشہور شہر ’’وینس‘‘ (Venice) کی سیاحت کے دوران اگر آپ چہل قدمی کرتے کرتے کچھ تھکن محسوس کررہے ہیں اور چند لمحے کسی تفریحی مقام پر بیٹھ کر سستانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہرگز یہ خیال دل میں نہ لائیے کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں پولیس، مقامی قوانین کی رو سے آپ کو پکڑ کر 588 ڈالرز کا جرمانہ کرنے کی مجاز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر سیاحوں کی بے تحاشہ آمد کے باعث بہت زیادہ پرہجوم ہوگیا ہے اور سرکاری حکام شدت کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ قانون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ رش والی جگہوں کو رکاوٹوں سے بچایا اور رواں دواں رکھا جا سکے۔ اگر آپ کا تھوڑی دیر آرام کرنے کا موڈ ہو تو بہتر ہے کہ کسی کیفے یا ریسٹورینٹ وغیرہ کا رخ کریں اور چائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔

-2 جیسا کہ امریکیوں پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی بے حد مصروف زندگی کی وجہ سے کھانا پینا بھی چلتے پھرتے ہی کھا لیتے ہیں، تو اگر آپ اٹلی ہی کے ایک اور معروف سیاحتی شہر ’’فلورنس‘‘ (Florence) میں موجود ہیں تو برائے مہربانی امریکیوں کی اس عادت کو دوہرانے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’فلورنس‘‘ کی گلیوں میں مخصوص کیے گئے مقامات پر سرعام کھانا پینا جرم ہے اور اس کا جرمانہ 570 ڈالرز ہے۔اس جرمانے سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ مہذب انسانوں کی طرح کسی کیفے یا ریسٹورینٹ میں آرام سے بیٹھ کر کھانا تناول کریں۔

-3 ہر وقت سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے رہنے والے ہالینڈ کے شہر ’’ایمسٹرڈیم‘‘ (Amsterdam) کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے کہ وہاں کی گلیاں اور بازار لوگوں کے ہجوم سے چھلکتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہاں یہ قانون لاگو ہے کہ اگر کسی گلی کے شروع میں آویزاں ٹریفک لائٹ کی طرز کی لگی ہوئی بتیوں میں سے سرخ رنگ کی بتی روشن ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس گلی میں رش کی وجہ سے فی الحال داخلہ ممنوع ہے تاہم سبز بتی کا مطلب داخلے کی اجازت اور نارنجی کا مطلب ہے کہ آپ اپنے رسک پر اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی مخصوص جرمانہ تو متعین نہیں لیکن موقع پر موجود پولیس اپنی صوابدید پر کوئی بھی جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ ان جگہوں یعنی عوامی مقامات پر نشے کی حالت میں آنے پر 109 ڈالرز جبکہ گندگی پھیلانے پر 160 ڈالرز کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے محتاط رہیے۔

-4 بحر روم میں واقع دوسرا بڑا جزیرہ، اٹلی کا ’’سارڈینیا‘‘ (Sardinia) ہے جو ایک معروف تفریحی مقام ہے اور سیاح یہاں پر بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب ساحل سمندر پر جائیں تو وہاں سے سیپیاں، گھونگے، خوبصورت پتھر اور یہاں تک کہ تھوڑی سی ریت بھی نشانی کے طور پر گھر لے آتے ہیں۔ مگر خیال رہے کہ ’’سارڈینیا‘‘ میں آپ ایسا سوچیے گا بھی نہیں کیوں کہ اگر آپ ایسا کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو یہ نشانیاں مہنگی پڑجائیں گی۔ ’’سارڈینیا‘‘ کے ساحل سے ریت یا ایسی ہی دیگر چیزیں اکٹھی کرنے پر 580 تا 3,482 ڈالرز تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے جو ظاہر ہے کہ آپ کی تفریحی بجٹ کو تہہ و بالا کردے گا۔

-5 ’’کورن وال‘‘ (Cornwall) انگلستان کا ایک ساحلی شہر ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کی زیادہ تعداد کا مقصد اس کے ایک ساحل ’’کریکنگٹن‘‘ (Crackington) کا دورہ کرنا ہوتا ہے جو ’’پارش‘‘ (Parish) نامی گرجا کے ایک راہب ’’سینٹ گینز‘‘ (St. Gennys) سے منسوب ہے اور سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے۔ سیاح یہاں کسی چیز کو بھی نہیں چھیڑتے کیونکہ یہاں سے پتھروں کا ہٹانا، سمندری پانی سے ساحلی کٹاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہاں باقاعدہ نوٹس بورڈز کے ذریعے لوگوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ یہاں سے پتھر نہ سمیٹیں۔ اس عمل کا جرمانہ 1,283 ڈالر ہے۔ ایک سیاح جو یہاں سے چند پتھر اکٹھے کر کے واپس اپنے گھر جاچکا تھا، کو تلاش کرکے اس جرم میں سینکڑوں میل کی دوری پر واقع اس کے گھر سے ساحلی پتھر واپس لاکر ساحل پر ڈالنے کی سزا بھی مل چکی ہے۔

-6 آج کل ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے بے وقت موسمیاتی تغیر و تبدل سے لے کر دیگر دوسرے بہت سے معاملات انسانوں کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس عفریت سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر بہت سی کوششیں جاری و ساری ہیں جن میں سے ایک گندگی کے پھیلاؤ کو روکنا بھی شامل ہے۔ ’’ہانگ کانگ‘‘ کا نام تو تقریباً سب نے ہی سن رکھا ہے۔ وہاں بھی سیاحوں کی کافی زیادہ آمدورفت رہتی ہے۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے وہاں گندگی پھیلانے پر 1500 ڈالرز جرمانہ عائد کررکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جرمانہ محض برگر کا ایک ’’ریپر‘‘ (Wrapper) سڑک پر پھینکنے پر بھی لگ جاتا ہے اور آپ یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتے کہ آپ کو مقامی زبان نہیں آتی اس لیے آپ نے کہیں بھی ایسا نوٹس نہیں پڑھا کیونکہ وہاں کی انتظامیہ نے اسی لیے جگہ جگہ اشارتی نشانات کے ذریعے بھی اس قانون کے بارے میں ہدایات چسپاں کی ہوئی ہیں۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی زمین کو آلائشوں سے پاک کرنے کے نیک کام میں ان لوگوں کا ہاتھ بٹائیں جو یہ عظیم مقصد عملی طور پر لے کر چل رہے ہیں۔

-7 کچھ لوگ یا اقوام اپنے رسوم و رواج پر سختی سے کار بند رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ کسی حد تک اچھی بات بھی ہے۔ انگریزوں کا شمار بھی انہیں قدامت پند قوموں میں کیا جاتا ہے۔ تاہم بدلتی دنیا کے کچھ نہ کچھ رنگ ایسے معاشروں میں بھی سرایت کر ہی جاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ زیادہ تر امریکی اپنی مصروف زندگی کی وجہ سے کھانا بھی چلتے پھرتے ہی کھاتے ہیں تاکہ وقت کی بچت ہوجائے۔ گو یہ عادت صحت کے لحاظ سے کافی خراب ہے۔ اب دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح فاسٹ فوڈ کے متوالے انگلستان میں بھی دوران ڈرائیونگ مشروبات اور فاسٹ فوڈ اشیاء کا استعمال کرنے لگے ہیں جس کی حوصلہ شکنی کے لیے آخر کار حکومت نے ایسا کرنے والے پر 128 ڈالرز کا جرمانہ عائد کردیا ہے اور مزید یہ کہ اگر آپ پر تین بار یہ جرمانہ لگ جائے تو پھر آپ کو زیادہ بڑی سزا کا سامنا بھی کرا پڑھ سکتا ہے۔

-8 لمبی اور کشادہ شاہراہوں پر تیز ڈرائیونگ کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس طرح ناصرف ایندھن کم خرچ ہوتا ہے اور فاصلے گھٹ جاتے ہیں بلکہ سفر کی تھکاوٹ بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں مختلف ممالک اپنے عوام کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے موٹر ویز کا جال بچھائی ہیں۔ جرمنی میں ان سڑکوں کو ’’آٹو باہن‘‘ (Autobahn) کہتے ہیں۔ جن پر سفر کرنے والوں کے لیے رفتار کی حد 81 میل تک ہے بلکہ کئی کھلے علاقوں سے گزرتے ہوئے رفتار کی کوئی بھی قانونی حد مقرر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اسی سڑکوں پر تیز رفتار ٹریفک کے بہاؤ کے تسلسل کو بلا رکاوٹ یقینی بنانے کے لیے چند خصوصی قوانین بھی بنائے جاتے ہیں۔ اگر آپ جرمنی کی سیر سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو خیال رہے کہ آپ کی گاڑی کا ایندھن ختم نہ ہونے پائے کیونکہ اس صورت میں آپ باقی لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بن جائیں گے۔ جس پر آپ کو 34 ڈالرز جرمانے کے طور پر بھرنے پڑیں گے۔ اس لیے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنی گاڑی کا ایندھن والا ٹینک اچھی طرح چیک کرلیں۔

-9 گالیاں دینا تو کسی بھی موقع یا جگہ پر معیوب ہی سمجھا جاتا ہے اور مہذب معاشروں میں گالیاں دینے والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایسی عادات بد سے بچنے کے لیے بہت سی نصیحتیں بھی کی جاتی ہیں لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت، باتوں سے نہیں مانتے‘‘ تو اسی محاورے کے مصداق آسٹریلیا کے شہر ’’سڈنی‘‘ میں عوامی مقامات پر گالیاں دینے پر 500 ڈالرز تک کا جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ ’’سڈنی‘‘ میں گھومتے پھرتے اگر آپ کو یہ احساس ہو کہ کوئی آدھ میل پیچھے آپ ایک غلط موڑ مڑ جانے کی وجہ سے اپنا راستہ کھوچکے ہیں یا کسی پرہجوم جگہ پر آپ اپنے بٹوے سے محروم ہوچکے ہیں، جس میں زاد راہ کے علاوہ آپ کے کچھ قیمتی کاغذات بھی موجود تھے تو براۂ کرم زیر لب بھی گالی دینے سے گریز کریں ورنہ اگر کسی پولیس والے نے سن لیا تو آپ کو یہ گالی مہنگی پڑجائے گی۔

-10 اگر کسی کو کہا جائے کہ اس نے دریا میں چھلانگ لگانی ہے اور گیلا بھی نہیں ہونا تو یقینا آپ ایسے شخص کو تعجب سے دیکھیں گے کہ کہیں اس کا دماغی توازن بگڑ تو نہیں گیا۔ مگر امریکی ریاست ’’الاسکا‘‘ جو تقریباً ساری کی ساری برف سے ڈھکی ہوئی ہے اور تو اور وہاں کے قدیم باشندے برف سے بنے ہوئے گھروں، جنہیں ’’ایگلو‘‘ کہتے ہیں، میں رہتے ہیں۔ انہیں سرد موسم سے مقابلہ کرنے اور آپ کو گرم رکھنے کے لیے بہت سے جتن کرنے پڑتے ہیں، جن میں شراب نوشی بھی شامل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’’الاسکا‘‘ میں کسی شراب خانے میں بیٹھ کر شراب نوشی کرنا ممنوع ہے۔ تاہم اس جرم کے انعقاد پر کیا جانے والا جرمانہ ابھی نامعلوم ہے۔ اس قانون کی ضرورت شاید اس لیے محسوس کی گئی تاکہ لوگ شراب خانے کے پر آسائش ماحول میں بیٹھ کر زیادہ پی کر اتنے مدہوش ہی نہ ہوجائیں کہ پھر گھر واپس جانا بھی ان کے لیے ایک کار دشوار ہوجائے اور شراب خانے والوں کی درد سری میں اضافے کا باعث بن جائے۔

-11 آج کل پاکستان میں موسم سرما کی آمد آمد ہے اور گرم مشروبات، خشک میواجات، بھنی ہوئی مچھلی اور باربی کیو سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ عروج کی طرف جارہا ہے۔ مچھلی ویسے بھی غذائیت کے اعتبار سے انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ پر کیا آپ کو معلوم ہے کہ انگلستان میں مچھلیوں کا مشکوک انداز میں شکار اور ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ غیر قانونی ہے۔ 1986ء کے ’’یونائٹڈ کنگڈم سالمن ایکٹ‘‘ کے حصہ سوئم کے سیکشن 32 کے تحت ’’اگر کوئی شخص مچھلیاں شکار کرنے، ساتھ لے کر جانے یا ذخیرہ کرنے میں قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔‘‘ یہ قانون انگلستان کے کاؤنٹی ’’ویلز (Wales) اور ’’سکاٹ لینڈ‘‘ میں لاگو ہے جہاں تازہ پانی کی مچھلیوں اور ’’ٹراؤٹ‘‘ (Trout) وغیرہ جیسی اقسام کی مچھلیوں کی نسل کے تحفظ کے لیے اس قانون کا اجراء کیا گیا۔ اس لیے بہتر ہے کہ انگلستان میں خود مچھلی کا شکار کرکے اسے کھانے کی بجائے کسی مچھلی فروش کی دکان سے خرید لی جائے۔

آپ کو یاد ہی ہو گا کہ ابھی چند برس قبل یوٹیوب پر ایک پاکستانی کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی جو انگلستان میں یہ گا گا کر مچھلی بیچ رہا تھا۔

ون پاؤنڈ فِش۔۔۔

-12 سنگاپور عجیب قوانین کے حوالے سے سب ممالک پر بازی لے گیا کیونکہ وہاں نہ صرف چیونگم چبانے بلکہ ملک میں لانے پر بھی پابندی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ بھائی بھلا چیونگم جیسی بے ضرر چیز نے کیا خطا کردی؟ تاہم اس پر پابندی کا یقینا کوئی نہ کوئی ٹھوس سبب رہا ہوگا۔ سنگاپور میں چیونگم فروخت کرنے پر 100,000 ڈالرز جرمانہ ہے۔ جی ہاں، ایک لاکھ ڈالرز۔ اس لیے سنگاپور جاتے ہوئے اپنی چیونگم یہیں چھوڑ جائیں اور واپس آکر شوق فرمائیں ورنہ لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ یہ قانون وہاں 1992ء میں لاگو کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب لوگ اسے چبا کر پھینک دیتے ہیں تو یہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑی ناصرف گندگی کا باعث بنتی تھی اور بدنما بھی دکھائی دیتی تھی بلکہ لوگوں کے جوتوں کے ساتھ چپک کر مزید غلاظت پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتی تھی اور مہذب معاشرے اس طرح کی چیزوں سے اجتناب ہی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سوچنے بھی کا مقام ہے۔

-13 مکمل سترپوشی مہذب لوگوں کا شعار ہے اور اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے انسان حیوانوں سے افضل ہے۔ تاہم دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایڈونچر یا کسی غلط عقیدے کی وجہ سے درجۂ انسانیت سے نیچے گرجاتے ہیں۔ اچھے معاشرے اس طرح کی برائیوں کے سدباب کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں اور اس ضمن میں جو بھی ضروری اقدامات اٹھانے پڑھیں ان سے دریغ نہیں کرتے۔ سوئٹزرلینڈ پوری دنیا میں سیاحت کے لیے خوبصورت ترین مقام مانا جاتا ہے۔ وہاں دیگر علاقوں کے علاہ اس کے مشہور سلسلے کوہ ’’الپس‘‘ (Alps) پر ’’ہائکنگ‘‘ (Hiking) کرنا بھی بہت سارے لوگوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔ 2011ء میں چند واقعات کے رونما ہونے کے بعد وہاں کی حکومت نے اس مقام پر بے لباس اور عریاں ہونے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خلاف ورزی کی صورت میں 100 ڈالرز جرمانے کا اعلان کیا ہے۔

ظاہر ہے کہ بے لگام آزادی تو کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوجائے۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post خبردار! آپ کو جرمانہ ہو سکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

مُلکوں پر سائبر یلغار کے ذریعے لُوٹ مار

$
0
0

پہلے زمانے میں لوگ پیسے گھروں میں چھپا کر رکھتے تھے، پھر بینک کاری نظام نے لوگوں کو چوری ڈاکے سے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے سرمایہ بینکوں میں رکھنے کی ترغیب دی۔ لیکن اب بینک ڈیجیٹل چوری، جسے عرف عام میں ہیکنگ کہا جاتا ہے، سے نبرد آزما ہیں۔ کچھ عرصے قبل تک اس چوری کا نشانہ عام آدمی ہوتا تھا لیکن اب اس دائرہ کار وسیع ہوکر ریاست تک پہنچ چکا ہے۔

ریاست کی سربراہی میں پرورش پانے والے ان ہیکرز کا مقصد نہ صرف خفیہ معلومات اور سبوتاژ پھیلانا ہے، بلکہ اب یہ ہیکرز ریاست کا مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے دوسرے ملک کے بینکوں سے رقوم چُرا کر اپنے ملک میں منتقل کر رہے ہیں تاکہ ملک میں معاشی بہتری لاسکیں۔

اس بابت انٹرپول اور انسداد سائبر کرائم کے دیگر عالمی اداروں کے ساتھ مل کر سائبر حملوں سے تحفظ فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم گروپ  -آئی بی کے مطابق پہلے کسی ادارے کو جدید اور پیچیدہ مال ویئر (کسی کمپیوٹر نظام میں داخل ہوکر معلومات کی چوری اور متعلقہ کمپیوٹر کو نقصان پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا سافٹ ویئر) کے ذریعے ہیکنگ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، لیکن اب ریاستوں نے ان ہیکرز کو باقاعدہ بھرتی کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

رواں سال اکتوبر میں ماسکو میں ہونے والی سائبر کرائم کانووکیشن 2018 میں اس تنظیم کی جانب سے ایک چشم کشا رپورٹ پیش کی گئی۔ جس کا عنوان ’ہائی ٹیک کرائم ٹرینڈز2018‘ تھا۔ اس رپورٹ میں سائبر کرائم کے نئے رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی گئی کہ آئندہ آنے والے سالوں میں ریاست کے پروردہ ہیکرز کی اولین ترجیحات دوسرے ممالک کے مالیاتی ادارے ہوں گے۔ سائبر کرائم ٹرینڈ پر جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اس وقت ہیکرز کو اپنے مالیاتی مفاد کے لیے حاصل کرنے والے ممالک میں چین، شمالی کوریا اور ایران سر فہرست ہیں۔ جب کہ روس اور یوکرائن کے ریاستی ہیکرز کے چالیس گروپ دیگر ممالک میں متحرک ہیں۔

گذشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والی ایک کانفرنس میں گروپ-  آئی بی کی چیف Ilia Sachkov نے بتایا کہ ’ریاست کے پروردہ ہیکرز کی اولین ترجیح کسی دوسرے ملک کے بینک کاری نظام کو نشانہ بنانا ہوتا ہے، کیوں کہ اس طرح انہیں دو طرح سے فائدہ ملتا ہے اول، ایک بھی کام یاب حملہ نہ صرف اُس ریاست کے بینک کاری نظام کی کسی ایک آرگنائزیشن میں موجود سرمائے کو حملہ آور ریاست کے پاس منتقل کردیتا ہے، دوئم، اس سائبر حملے کے نتیجے میں اُس ملک یا ریاست کا مالیاتی نظام ڈھے جاتا ہے۔

گروپ – آئی بی کی رپورٹ ایسے وقت پر سامنے آئی ہے۔ ریاستی ہیکرز کی توجہ اس وقت زیادہ سے زیادہ پیچیدہ اور جدید مال ویئر کی تحقیق پر ہے تاکہ کسی بھی ریاستی ادارے کی مختلف حفاظتی تہوں کو کام یابی سے تہہ و بالا کیا جاسکے۔ ان ریاستی ہیکرز کا مقصد توانائی، نیوکلیئر، پانی، تجارت، ہوا بازی اور اس جیسے دوسرے منافع بخش شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے انفرااسٹرکچر میں سرایت کرکے پیسے چُرانا اور ان کی جاسوسی کرنا ہے۔ ان گروپس کی جانب سے 2017 کے آخری اور 2018 کے ابتدائی چھے ماہ میں ایشیا پیسیفک خطے میں واقع مختلف ممالک میں متعدد سائبر حملے کیے گئے۔ گذشتہ ایک سال میں اس خطے میں اکیس سے زاید ایسے ہیکرز گروپ متحرک ہوچکے ہیں، جو کہ مجموعی طور پر امریکا اور یورپ کے ہیکرز گروپس سے زیادہ ہیں۔

گروپ – آئی بی کے ماہرین نے جاسوسی کی ایک نئی سمت کی نشان دہی بھی کی ہے جس میں یہ ریاستی ہیکرز دوسرے ملک کے اعلٰی حکام کی گھریلو اور ذاتی برقی ڈیوائس کو ہیک کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں تقریباً ایسے چالیس متحرک گروپس کا احاطہ کیا گیا ہے، تاہم ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان چالیس گروپس کی مالی معاونت ایران، چین، امریکا، شمالی کوریا اور یوکرائن کی حکومتوں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اور معاوضے کے عوض یہ گروپس کسی مخصوص ملک کے معاشی شعبے کو نشانہ بناتے ہیں۔ ’ہائی ٹیک کرائم ٹرینڈز 2018‘ رپورٹ کا بڑا حصہ مالیاتی اداروں کو نقصان پہنچانے والے ریاستی پروردہ ہیکرز کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ ایسا ہی ایک گروپ Silence رواں سال ہی بے نقاب ہوا۔ یہ گروپ گذشتہ کئی سال سے دیگر گروپس ’ Cobalt, Lazarus اورMoneyTakerکے ساتھ دنیا بھر کے بینکوں کے لیے سب سے بڑا سائبر خطرہ بنا ہوا تھا۔ یہ ہیکرز خاموشی سے بینکوں کے مالیاتی نظام میں داخل ہوکر رقوم نکالنے کے اہل ہیں۔

درج بالا چار میں سے تین گروپس کے ارکان روسی زبان بولنے والے ہیں، اور ان کا سب سے بڑا نشانہ بھی روسی بینک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اوسطاً ہر ماہ ایک سے دو روسی بینک کام یاب سائبر حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان ریاستی پرودرہ ہیکرز کی جانب سے ان بینکوں کو اوسطاً ہر ماہ 132روبیل (بیس لاکھ ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گروپ – آئی بی کے ماہرین کے مشاہدے کے مطابق بینکوں کے خلاف اہدافی حملے کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں سوئفٹ پیمنٹ (سوئفٹ انٹرنیشنل پیمنٹ نیٹ ورک، دنیا کا سب سے بڑا معاشی پیغامات کی ترسیل کے نظام کے ذریعے رقوم کی بین الاقوامی منتقلی) نظرثانی کے عرصے میں تین گنا ہوجاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہCobalt  اور Fin7 کے سربراہوں کی گرفتاری کے بعد ان گروپس کے دیگر ارکان نئے ہیکرز گروپس کی تشکیل کا آغاز کرسکتے ہیں، جب کہ کچھ عرصے میں لاطینی امریکا اور ایشیا کے دیگر خطوں میں نئے ریاستی پروردہ ہیکرز کے گروپس کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ان کا سب سے بڑا ہدف بینکاری نظام ہوگا۔

گروپ  -آئی بی کے سائبر سیکیوریٹی ماہرین کے مطابق ریاست کے پروردہ ہیکرز نہ صرف دوسری ریاستوں کے مالیاتی نظام سے رقوم چراتے ہیں بلکہ اس ریاست کے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے صارفین کو بڑی رقوم سے بھی محروم کردیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ ہیکرز رقوم چرانے کے علاوہ ان کارڈز کا ڈیٹا ڈارک ویب سائٹ پر فروخت کے لیے بھی پیش کردیتے ہیں۔ ان ویب سائٹس پر ہر ماہ تقریباً گیارہ لاکھ کریڈٹ کارڈ کم قیمت پر فروخت کے لیے ڈارک ویب کی ’کارڈ شاپس‘ پر فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ ڈارک ویب پر ان کارڈ ز کی مجموعی قدر گذشتہ سال تقریبا 663 ملین ڈالر تھی۔ ان ہیکرز کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں کریڈٹ کارڈز کی ہیکنگ کے لیے ٹروجن اور ویب پشنگ کے جدید طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

رواں سال ویب پشنگ میں بین الاقوامی سطح پر تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پشنگ ویب سائٹس امریکا میں رجسٹرڈ ہیں، جو کہ دنیا بھر میں رجسٹرڈ پشنگ ویب سائٹس کا اسی فی صد ہیں، جب کہ اس فہرست میں فرانس اور جرمنی بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ماہرین کے مطابق کرپٹوکرنسی جسے غیرمرئی کرنسی بھی کہا اور دنیا کی سب سے محفوظ ڈیجیٹل کرنسی سمجھا جاتا رہا ہے، محفوظ ترین سمجھی جاتی ہے، لیکن یہ ڈیجیٹل کرنسی بھی ہیکرز کی دسترس سے دور نہیں رہی، 2017اور 2018 میں کرپٹو کرنسی میں لین دین کرنے والے 14ایکسچینج کو لوٹا گیا۔ ریاستی ہیکنگ میں کرپٹو کرنسی ایکسچینجرز کو مجموعی طور پر882ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان 14میں سے 5 حملے شمالی کوریا کے پروردہ ہیکر گروپ Lazarus کی جانب سے کیے گئے۔ اس حملے کے متاثرین میں اکثریت کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا، جب کہ باقی حملے مختلف ممالک کے پروردہ ہیکرز گروپس Silence، MoneyTakerاورCobalt کی جانب سے کیے گئے۔ بہت سی ریاستیں اب ’اینون‘ (ان کا تفصیلی ذکر الگ باکس میں کیا گیا ہے) کو بھی اپنے مقاصد میں استعمال کر رہی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ایک ملک اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے دوسرے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو اپنے پاس منتقل کرلے گا۔ n

 انٹرنیٹ کے خدائی فوج دار

پاکستان خصوصاً شہر قائد میں لفظ ’نامعلوم‘ بہت اپنا اپنا سا لگتا ہے، کیوں کہ کراچی واسی اس لفظ کو دن میں کم از کم درجنوں بار پڑھتے اور سنتے ہیں۔ نامعلوم کی اصطلاح ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بہت کارآمد ہے۔ صرف ایک لفظ ’نامعلوم‘ اُنہیں کسی بھی جُرم کی تفتیش کے لیے ہونے والی دقت سے نجات دلا دیتا ہے۔ یہ ہماری قوم کا المیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ بکری کی چوری سے دہشت گردی کے لرزہ خیز واقعے تک کوئی بھی واردات ’نامعلوم‘ افراد کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔

چند سال کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کراچی میں ہونے والے قتل، چوری ڈکیتیوں کے ذمے دار بھی یہی ’نامعلوم‘ افراد ہیں، مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں ان دنوں ’نامعلوم‘ کا لفظ کچھ اور ہی معنی دیتا ہے، یہ لفظ سن کر سائبر سیکیوریٹی کے ماہرین کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر فعال گروپ ’نامعلوم‘ دنیا بھر میں موجود ہیکرز اور ہیکٹی وسٹ (کسی فرد کی کمپیوٹر فائلز اور نیٹ ورک تک غیرقانونی طریقے سے حاصل کی گئی معلومات کو سماجی اور سیاسی مقاصد میں استعمال کرنا) پر مشتمل ایسا گروپ ہے جو کہیں بھی کسی بھی وقت حکومتوں، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف انٹرنیٹ پر بھرپور مہم چلا کر اُن کے کمپیوٹر نیٹ ورک کو جام کردیتا ہے۔ بات چاہے پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی ہو یا عراق میں قتل عام کرنے والی دہشت گرد تنظیم داعش کی یا ظلم ڈھانے والی حکومتیں اور تجارتی ادارے ہوں، ہر ظلم کرنے والا اس گروپ کا ہدف ہے۔

اس نامعلوم گروپ کے نامعلوم ہیکرز سوشل میڈیا اکاؤنٹس، حکومتی، مذہبی اور کارپوریٹ ویب سائٹس پر ڈسٹری بیوٹڈ ڈینیئل آف سروس (ہیکرز کی جانب سے کسی بھی کمپیوٹر، نیٹ ورک اور ان سے منسلک تمام کمپیوٹر ز پر موجود معلومات) حملہ کرکے ان کے کمپیوٹرزتک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسے حملے زیادہ تر ہائی پروفائل ویب سرورز (بینک، کریڈٹ کارڈ سے پیسے وصول کرنے والی ویب سائٹس) پر کیے جاتے ہیں، تاہم ان حملوں کے پیچھے انتقام، بلیک میلنگ یا کوئی اور سرگرمی بھی ہوسکتی ہے۔ نامعلوم گروپ 2003 میں ایک انٹرنیٹ فورم 4chan پر وجود میں آیا۔ اس فورم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے کوئی بھی فرد اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے اپنے خیالات، یا کسی بھی اہم معلومات کو تصویری شکل میں اس ویب سائٹ پر پوسٹ کر سکتا ہے۔

ابتدا میں اس آن لائن کمیونٹی کو ذاتی اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، لیکن 2008کے آغاز میں اس فورم میں شامل نامعلوم گروپ کے ارکان نے چرچ آف سائنٹولوجی (1954میں امریکی سائنس فکشن لکھاری ایل رون ہوبرڈ کی جانب سے بنائے گئے نئے مذہبی عقیدے) کی جانب سے ایک نئی مذہبی تحریک کے خلاف پروجیکٹ چینالوجی (Project Chanology) کے نام سے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کیا۔ کسی سربراہ کے بغیر ہر جگہ موجودگی کا دعویٰ کرنے والے انٹرنیٹ پر موجود ’نامعلوم‘ گروپ نے چرچ آف سائنٹولوجی کی ویب سائٹ ’پرانک کالز‘ اور ’بلیک فیکسز‘ پر متواتر سائبر حملے کرکے اسے شدید نقصان پہنچایا۔

نامعلوم گروپ سے تعلق اور اس سے ہم دردی رکھنے والے افراد نہ صرف انٹرنیٹ بل کہ سڑکوں پر بھی اپنے حق میں مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ نامعلوم گروپ کو شہرت موشن پکچرز اور ریکارڈنگ انڈسٹری کی ٹریڈ ایسوسی ایشنز کی جانب سے اینٹی ڈیجیٹل پائریسی مہم کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے ملی۔ بعدازاں اس گروپ نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا کر امریکا، اسرائیل، تیونس، یوگنڈا کی حکومتوں، بچوں کی جسم فروشی کرنے والی ویب سائٹس، کاپی رائٹس کا تحفظ کرنے والے اداروں، داعش اور بوکوحرام جیسی دہشت گرد تنظیموں اور پے پال (برقی کرنسی)، ماسٹر اور ویزہ کارڈ اور سونی جیسے بڑے اداروں تک پھیلا دیا۔ نامعلوم گروپ کے ارکان جنہیں ’اینون‘ بھی کہا جاتا ہے، اعلانیہ طور پر وکی لیکس اور اس کے بانی جولین اسانج اور آکوپائے موومنٹ (دنیا بھر میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کے خلاف وال سڑکوں پر قبضے کی بین الاقوامی تحریک) کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

نامعلوم گروپ سے منسلک گروپس Lulz سیکییوریٹیز اور سیکیوریٹی مخالف آپریشن (اینٹی سیک) نے گذشتہ چند برسوں میں امریکا کے حکومتی اداروں، میڈیا اور ویڈیو گیمز بنانے والی مشہور کمپنیوں، فوجی کنٹریکٹرز، فوجی اور پولیس افسران کو سائبر حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان گروپس نے اپنے صیہونیت مخالف اقدامات کے ذریعے اسرائیل کو انٹرنیٹ کی دنیا سے نکال باہر کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ 2013 میں ہولوکاسٹ کی یاد میں بننے والی ویب سائٹ Yom HaShoah پر حملہ بھی اسی دھمکی کی ایک کڑی تھی۔

نامعلوم گروپ کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، ہالینڈ، اسپین اور ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سائبر حملوں میں ملوث اس نامعلوم گروپ کے درجنوں ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ نامعلوم گروپ کی کارروائیوں پر دنیا بھر میں متضاد آرا ہیں۔ ان کے حامی اینون (نامعلوم گروپ کا رُکن) کو ’فریڈم فائٹر‘ اور ڈیجیٹل ’رابن ہُڈ‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ پر دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ’نامعلوم‘ گروپ‘ کے ناقد انہیں ’سائبر بدمعاش‘ اور ’سائبر دہشت گرد‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ نامعلوم گروپ کی طاقت اور اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ہفت روزے ٹائم نے 2012کے شمارے میں ’نامعلوم‘ کو دنیا کے سو با اثر افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

بات خلیجی ریاستوں میں قائم آمریت کی ہو یا ویٹی کن کی، بینکاری نظام ہو یا فلم اور موسیقی کی کوئی کمپنی، ایف بی آئی ہو یا سی آئی اے، داعش ہو یا کوئی صیہونی دہشت گرد تنظیم، ’نامعلوم‘ گروپ کے خوف نے سب کی آنکھوں سے نیند چُرالی ہے۔ اب تک کی حاصل شدہ معلومات کے مطابق اس گروپ کے قواعد وضوابط زیادہ سخت نہیں، گروپ میں اندرونی اختلافات بھی اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ہدایات کے بجائے تصورات پر کام کرنے والے اس گروپ کے ارکان رنگ و نسل ومذہب کے امتیاز کے بغیر ایک بات پر متفق ہیں۔

یہ سب انٹرنیٹ پر قدغن لگانے اور اسے قابو کرنے کے مخالف ہیں۔ یہ نامعلوم کبھی ڈونلڈ ٹرمپ کو سچ سمجھ کر بولنے کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی یہ عالمی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں۔ کبھی ہیکرز کمیونزم ، تارکین وطن اور سیاہ فاموں کے حق میں کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی یہ اسلام مخالف مواد شایع کرنے اور اسلام کے خلاف ریلیاں نکالنے والوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ اس گروپ کے زیادہ تر اقدامات سینسرشپ نافذ کرنے والے حکومتی اداروں اور کارپوریشنز کے خلاف ہیں۔ اس گروپ میں کوئی کم تر یا برتر نہیں، ان کا کوئی لیڈر نہیں، لیکن عام افراد کے مفادات کو ضرب پہنچنے پر اس گروپ کے کچھ ارکان قانونی طریقے سے احتجاج کرتے ہیں تو کچھ غیرقانونی قدم اٹھاتے ہوئے سائبر حملے اور ہیکنگ کی راہ منتخب کرتے ہیں۔

دنیا کے اس سب سے بااثر اور خفیہ گروپ کا رکن بننے کے لیے کوئی شرائط نہیں ہیں۔ اگر آپ خود کو نامعلوم سمجھتے ہیں، خود کو نامعلوم کہتے ہیں تو پھر آپ بھی اینون ہیں۔ تاہم مرکزی تنظیمی ڈھانچا نہ رکھنے والے اس گروپ کے تین اہم اصول ہیں اول: کسی دوسرے رکن کی شناخت ظاہر نہ کرنا، دوئم: گروپ کے بارے میں کسی غیرمتعلقہ فرد سے بات نہ کرنا، سوئم: ذرایع ابلاغ کو نشانہ نہ بنانا۔ نامعلوم گروپ کی جانب سے کیے جانے والے سائبر حملوں کی روک تھام کے لیے برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، ہالینڈ، اسپین اور ترکی سمیت بیشتر ممالک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، اس سب کے باوجود نامعلوم گروپ کی کارروائیوں کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔ یہ گروپ کبھی بھی، کہیں بھی کسی بھی تنظیم، ادارے یا کمپنی کی کمپیوٹر نیٹ ورک پر حملہ کرکے اسے تہہ و بالا کردیتا ہے۔ آپ انہیں ہیکرز کہیں، سائبر ٹھگ کہیں یا چور، لیکن لوگوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ نامعلوم گروپ ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دنیا بھر میں مذہبی اور نسلی امتیاز، معاشی عدم مساوات کے خلاف اور آزادی اظہار کے لیے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہا ہے۔

 ویب پشنگ

ہیکن کے اس طریقے میں ہیکرز کی جانب سے مختلف لوگوں کو ایک ویب پیچ بھیجا جاتا ہے، جو بہ ظاہر آپ کے سوشل میڈیا اور ای میل پیج کی طرح ہوتاہے، لیکن درحقیقت اس کے پس منظر میں ایک ہیکنگ سافٹ ویئر کام کر رہا ہوتا ہے جو آپ کے لاگ ان کرتے ہی ہیکر کو آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی دے دیتا ہے۔ ہیکرز کی جانب سے اس طریقۂ واردات میں آپ کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ویب پیچ بنایا جاتا ہے، مثال کے طور پر آپ انٹرنیٹ پر موبائل یا کاروں کے بارے میں زیادہ سرچ کرتے ہیں تو آپ کے سامنے ظاہر ہونے والے پشنگ پیج میں آپ کو موبائل یا کار کے بارے میں کوئی پُرکشش پیش کش کرتے ہوئے اس پیچ پر لاگ آن ہونے کا کہا جائے گا۔ لاگ آن ہوتے ہی آپ کے اس اکاؤنٹ کی ساری معلومات چوری ہوجاتی ہیں۔

انفرادی طور پر ہیکنگ سے کس طرح بچا جائے

ہر گزرتے دن کے ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے، لیکن ٹیکنالوجی میں ہونے والی اس جدت سے ہیکرز بھی ہیکنگ کے لیے نت نئے طریقے سامنے لارہے ہیں۔ ہیکر ز اس کام کے لیے پشنگ، مال ویئر، ٹرجنز اور دیگر بہت سے طریقوں سے آپ کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

 کی لاگر اور مال ویئر سافٹ ویئر

انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اکثر آپ کو کوئی ویڈیو، تصویر، موبائل ایپلی کیشن، گیمز، کتاب، یا سافٹ ویئر مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں اینٹی وائرس یا اینٹی مال ویئر سافٹ ویئر انسٹال ہے تو وہ آپ کو انتباہی پیغام دیتا ہے، لیکن عموما مفت کے چکر میں اس پیغام کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ چیز ڈاؤن لوڈ کرلیتے ہیں، جو کہ درحقیقت مال ویئر یا کی لاگر سافٹ ویئر ہوتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر آپ کی ہر سرگرمی اور آپ کی جانب سے دبائے جانے والے ہر بٹن کو اپنے پاس ریکارڈ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب زیادہ تر مالیاتی ادارے آئی ڈی اور پاس ورڈ داخل کرنے کے لیے آن لائن ورچوئل کی بورڈ کا آپشن دیتے ہیں۔

The post مُلکوں پر سائبر یلغار کے ذریعے لُوٹ مار appeared first on ایکسپریس اردو.

تارکین وطن کو ان کے حقوق کب ملیں گے؟

$
0
0

برصغیر کی پرانی تاریخ میں جب ہندوستان میں مسلمان نہیں آئے تھے تو اس معاشرے میں ذات پات کی تقسیم پہلے پیشوں کی بنیاد پر ہوئی مگر بعد میںان پیشوںکے اعتبار سے سماج میں عزت اور مراتب بننے سے اور حکمرانی کی طاقت کے لحاظ سے یہ تقسیم سماجی مساوات،عدل کے خلاف ہوتی گئی۔

برہمن معتبر ہوا کہ علم اور مذہب پر اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی،کشتری حکمران اور فوجی بنتے مگر مذہبی لحاظ سے یہ برہمن سے مرتبے میں کم تھے، پھر ویش تھے جو تجارت اور کاروبار کرتے تھے مگر دونوں یعنی برہمن اور کشتری سے درجے میں کم تھے اور آخر میں شودر تھے جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تو تینوں کے مقا بلے زیادہ تھے مگر ان کو بہت کمتر سمجھاجاتا تھا، یہ سب کی خدمت کرتے تھے۔

اس معاشرے میں ویسے تو بہت سی سماجی ناانصافیاں تھیں جن کی وجہ سے سماجی ترقی کا عمل صدیوں تک منجمد رہا لیکن ایک سماجی قانون ایسا بھی تھا جو تمام طبقات کے لئے یکساں تھا اور مجموعی طور پر معاشرتی، تہذیبی ترقی کے لیے غالباً سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ ہندو مت میں ہندوستان سے باہر جانے یا سمندر کا سفر کرنے سے دھرم نشٹ ہوجاتا تھا یہ قانون شائد اس لیے بنایا گیا ہوگا کہ کوئی اس ملک سے اگر باہر جائے گا تو دنیا کے دیگر معاشروں سے متعلق معلومات اور علم لے کر جب واپس ہوگا اور ان خیالات سے معاشرے کو آگاہ کرے گا تواس طرح برہمنوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔

ایک طویل عرصے تک تو اس قانون کی وجہ سے ہندوستان ہر طرح کے بیرونی افکار اور خیالات سے محفوظ رہا مگر پھر یہ ہوا کہ یہاں سے ہندو تو باہر نہیں گئے مگر بیرونی حملہ آور ہندو ستان آنے لگے اور ان لوگوں میں سے ہر آنے والے حملہ آور اور خصوصاً فاتحین اور حکمرانوں نے نہ صرف ہندوستان کے علاقے فتح کئے بلکہ یہاں کے فرسودہ معاشرے کے قدیم اور فرسودہ معاشرتی اور تہذیبی قوانین کو بھی تسخیر کرکے یا تو ان کو ختم کرکے نئے معاشرتی افکار کو متعا رف کروایا، یا پھر ان میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کر دیں اس سلسلے میں آخری اور اہم تبدیلیاں انگریزوں نے کیں یہ تبدیلیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی تھیں اس لیے پورا سماجی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوگیا۔

برطانیہ کے دور اقتدار میں علاقائی، سماجی، سیاسی شعور کی بیداری کے لحاظ سے اہم ترین موڑ پہلی جنگ عظیم تھی جو 1914 سے1918 تک جاری رہی، یہ وہ دور ہے جب ایک جانب بھارت کے عظیم لیڈر کرم چند موہن داس گاندھی ایک نوجوان ایڈوکیٹ کی حیثیت سے ایک برطانوی نوآبادیاتی ملک جنوبی افریقہ میں وکالت کرنے ملک سے باہر گئے تو جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو لاکھوں ہندوستانی برطانوی فوج میں شامل ہوکر دنیا کے مختلف محاذوں پر لڑنے گئے ان میں ہندو، مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے یوں ایک بڑی تعداد میں ہندوستان سے باہر جا کر روزی ، رزق کمانے کا اس خطے کے لوگوں کا یہ پہلا اور بڑ ا تجربہ تھا۔ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم سے قبل ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی یہاں سے مقامی افراد کو بھر تی کر کے اس فوج کے ذریعے جنگیں لڑیں اور افغانستان کے خلاف بھی تین جنگیں لڑیں۔

پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی سپاہی یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے محاذوں پر گئے اور لاکھوں کی تعداد میں ہلاک بھی ہوئے اور بعد میں لاکھوں کی تعداد میں واپس ہندوستان آئے۔ پہلی جنگ عظیم تک انگریزوں نے ہندوستان میں فوجی بھرتی کے لیے جسمانی صحت کا معیار بھی بلند رکھا تھا اور اس فوج میں ہندوستان کے مخصوص علاقوں سے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا تھا کہ ان مخصوص علاقوں کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے بھی مضبو ط تھے اور روایتی لحاظ سے بھی دلیر تھے۔

ان علاقوں میں پنجاب،خصوصاً جہلم ،خیبر پختو نخوا کے لوگ جن میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی شامل تھے جب کہ باقی ہندوستان میں گورکھا، مرہٹوں اور راجپوتوں کو بھرتی کیا جاتا تھا اور جہاںتک فوجی افسروں کا تعلق تھا تو اعلیٰ فوجی افسر تو مکمل طور پر انگریز ہی ہوتے تھے البتہ جونئیر افسروں میں انگریز مقامی طور پر ہندوستان کے مقامی جاگیر داروں کی اولادوں کو منتخب کر لیا کرتے تھے اور یہ تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا مگر پہلی جنگ عظیم میں جب لاکھوں کی تعدا میں فوجی ہلاک ہوئے تو صورتحال بدل گئی۔

اب 1919ء سے ایک جانب تو فوج کی لاکھوں کی تعداد کو فوری طور پر پورا کرنا تھا جو جنگ میں ہلاک ہوگئی تھی تو دوسری جانب ہندوستان میں اس جنگ میں جو لاکھوں فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں اور ان میں سے بہت سوں کی لاشیں بھی نہیں مل سکی تھیں اور اسی طرح لاکھوں فوجی ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے تھے اس کے ردعمل میں اب بھرتی کے لیے ان مخصوص علاقوں میں بھرتی کا ر جحان کم ہوگیا تھا تو ساتھ ہی ان مخصوص علاقوں میں افراد ی قوت بھی کم تھی یعنی جوانوں کی تعداد بھی انگریزوں کی مطلوبہ بھرتی کی تعداد سے بہت کم تھی اس لیے انگریزوں نے جنگ کے فورا بعد بھرتی کے قوانین بھی نرم کردئیے اور فوج کی نوکری کو پرکشش بناتے ہوئے فوجیوں کو پرموشن کے تحت جونیئر اور سینئر افسران تک ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی پالیسی کو متعارف کروایا اور پھر تھوڑے عرصے بعد دوسری جنگ عظیم کے بادل دنیا پر منڈلانے لگے تو فوجی بھرتیاں اور تیز ہوگئیں اور پھر 1939 سے1945تک جاری رہنے والی جنگ کا خاتمہ ہوگیا ۔

امریکہ کے تعاون اور معاونت سے مارشل پلان اور تعمیر نو کے تیزرفتار عمل کے تحت مغربی یورپ اور جاپان میںکام شروع ہوا تو یہاں پہلے آبادی پر کنٹرول کے منصوبے پر عملدر آمد شروع کیا گیا اور دو پر دو یعنی فی خاندان دو بچے کی بنیادوں پر برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک نے اپنی آبادیوں کو منجمد کر دیا اس کی بہتر مثال پاکستان اور برطانیہ کا موازانہ ہے کہ 1951 میں پاکستان کی پہلی مردم شماری کے وقت آج کے پاکستانی علاقے کی مجموعی آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ تھی اور اس وقت برطانیہ کی آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی۔ آج برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ ہے اور ہماری آبادی بیس سے بائیس کروڑ کے درمیان ہے۔

پچاس کی دہائی کے آخر تک ملبے کا ڈھیر بنا یورپ اور جاپان اب دوبارہ تعمیر ہو کر تیز رفتار اقتصادی اور صنعتی ترقی کا آغاز کر رہے تھے اور ہمارے ملک میں جو انگریز ابھی تک ملازمتیں کر رہے تھے ان کی واپسی شروع ہو گئی تھی اور صرف چند مہینوں میں یہ تمام انگریز واپس ہوگئے اور پھر تھوڑے عرصے بعد برطانیہ سمیت پورے یورپ میں تیزرفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت پڑی توانھوں نے ان ملکوں سے افرادی قوت منگوائی جو ان کی نوآبادیاں رہ چکی تھیں مثلًا فرانس نے الجزائر سے اور برطانیہ نے بھارت اور پاکستان سے ہزاروں افراد منگوائے اور شروع میں ان ترقی پذیر ملکوں سے آنے والوں کو نہ صرف عزت اور وقارسے بلوایا بلکہ ان کو معاوضہ بھی اتنا ہی ملنے لگا جتنا ان مغربی ملکوں کے عوام کو ملتا تھا، یوں پہلی بار ہمارے پاکستانی بیرون ملک بغیر فوجی بنے گئے پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد بھارت اور پاکستان سے قانونی طور پر کم اور غیر قانونی طور پر زیادہ لوگ جانے لگے۔

یورپی ممالک نے چشم پوشی یوں کی کہ ایسے غیر قانونی مزدوری کرنے والوں کو کم معاوضہ دیا جانے لگا لیکن یہ ضرور تھا کہ ان کے قوانین پھر بھی بہت حد تک تارکین وطن کے حق میں بہتر تھے اور ایک مقررہ مدت کے بعد یہاں کی قومیت مل جاتی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان آزادی کے فوراً بعد دریاؤں کے پانیوں کی تقسیم کے مسئلے پر تنازعات ابھر ے اور ان کو حل کروانے کے لیے عالمی بنک، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے مصالحت کرائی اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا اور تین مشرقی دریا بھارت اور تین مغربی دریاؤں کے پانیوں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کر لیا گیا اور پاکستان کو پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے دو ڈیمز بنانے کے لیے فنڈز دیئے گئے اور ہما رے ہاں تربیلا اور منگلا دو ڈیمز بنائے گئے۔

منگلا ڈیمز کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا ٹھیکہ ایک برطانوی کمپنی کو دیا گیا اور جب آزاد کشمیر کا چھوٹا سا شہر میر پور ڈیم کی جھیل میں آ گیا اور یہاں سے آبادی جہلم وغیرہ منتقل ہوئی تواس وقت چونکہ برطانیہ کو افرادی قوت کی بھی ضروت تھی اس لیے یہاں سے ہزاروں افراد کو اس کمپنی کے مالک نے برطانیہ بھجوایا اور آج اس وقت برطانیہ میں سب سے بڑی تعداد میرپوریوں کی ہے لیکن 1970 تک ہمارے ہاں سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو لاکھ افراد یورپی ملکوں اور چند ہزار امریکہ اور کینیڈا بھی گئے تھے اور بھر 1970 سے 1972 تک اسکنڈیز نیوی ممالک اور جرمنی وغیرہ، غیرقا نو نی طور پر جانے کا رجحان زیادہ رہا۔ 1971 کی پاک، بھارت جنگ کے بعد 1972 تک پاکستان کو دوبارہ سنبھلنے میں لگے اور 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی اور جب تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیزرفتار تعمیراتی کام شروع ہوئے تو پاکستان سے اس وقت 35 لاکھ افراد خلیجی اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں گئے۔

یہی وہ دور ہے جب پاکستان کو زر مبادلہ کا ایک بڑا مستقل اور مستحکم ذریعہ مل گیا اور حکومت نے پہلی دفعہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایک محکمہ اور بعد میں وزارت بنائی مگر تھو ڑ ے عرصے بعد یہ وزارت اتنی متحرک اور فعال نہیں رہی جتنی یہ اپنے قیام کے وقت تھی اور اس وزارت کو اس لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ وہ بیرون ملک پاکستانی جو گھروں سے دور پردیس میں رہ کر وطن عزیر کے لیے زرمبادلہ بھیجتے ہیں ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔ ستر کی دہائی تک اسلام آباد ،کراچی،لاہور اور فیصل آباد وغیرہ میں سرکای شعبے میں جو بھی ہاؤسنگ اسکیمیں شروع کی گئیں ان میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے 20% کوٹہ اور عام شہریوں کے مقابلے میں 20% رعایتی قیمتوں اور زیادہ آسان قسطوں کی سہولتوں کے ساتھ میسر ہوا کرتا تھا۔

اسی طرح ان کے بچوں کو ملک میں اور بیرون ملک تعلیمی سہولتیں بھی فراہم کی گئی تھیں۔ خصوصاً جن ملکوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں پاکستانی اسکول بنائے گئے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ہم نے صرف ہاتھ ہی نہیں کھینچا بلکہ نظریں بھی پھیر لیں پھر نہ تو ہماری خارجہ پالیسی ایسی رہی کہ ستر کی دہائی کی طرح ہمارے لوگ قدرے عزت اور وقار کے ساتھ بیرون ملک جاتے اور ہمارے سفارت خانے ان کو سہولتیں فراہم کرتے۔ ہم دنیا کے مختلف ملکوںکی جانب سے افرادی قوت کے اعتبار سے مطلوبہ مانگ کو مدنظر رکھ کر حکومتی اداروں کی ضما نت پر اپنے لوگوں کو باہر بھیجتے۔ ہم نے خود ہی اس پورے نظام کو کرپٹ کردیا اور نہ صرف کرپٹ کردیا بلکہ انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کے مکمل رحم و کرم پر چھوڑدیا اور یوں 1980 کی دہائی سے جب پی ٹی وی سے اس موضوع پر مشہور ڈرامہ ’’دوئبی چلو‘‘ پیش کیا گیا تھا۔

اس وقت سے اب تک ہزاروں پاکستانی غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی پاداش میں ہلاک ہوئے اور ہزاروں بیرون ملک پکڑے گئے اور جیلیں کاٹیں اور لاکھوں افراد نے اپنی لاکھوں کی جمع شدہ پونجی لٹا دی اور برباد ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود 5900000 انسٹھ لاکھ پاکستانی ملک سے باہر رہ کر سالانہ اربوں ڈالرز کا قیمتی زرمبادلے وطن عزیز بھیجتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک کے اعداد وشمار کے مطابق مالی سال 2014-15 میں ان بیرون ملک پاکستانیوں نے 18.40 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیجا۔

اس وقت پاکستان دوسرے ملکوںمیں جا کر کام کرنے والوں کے اعتبار سے دنیا کے ٹاپ ٹن ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے جس کی تفصیل یوں ہے۔ پہلے نمبر پر بھارت ہے،1 کروڑ 56 لاکھ بھارتی بیرون ملک کام کر رہے ہیں ، دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جس کے1 کروڑ 23 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں کام کر رہے ہیں، روس ایک کروڑ چھ لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ، چین 95 لاکھ کے ساتھ چوتھے نمبر پر، بنگلہ دیش 72 لاکھ کے ساتھ پانچویں نمبر پر، پاکستان59 لاکھ کے ساتھ چھٹے نمبر پر، یوکرائن کا 58 لاکھ کے ساتھ ساتواں نمبر ہے، فلپائن کا آٹھواں نمبر جس کے 53 لاکھ افراد دوسرے ممالک میں کام کرتے ہیں، نمبر9 ، شام 50 لاکھ اور برطانیہ 49 لاکھ کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔

اب جہاں تک تعلق برطانیہ، روس اور چین کا ہے اور اسی طرح امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، نیدر لینڈ اور دوسرے کئی ممالک ہیں جو اس ٹاپ فہرست میں تو شامل نہیں ہیں مگر ان کے لاکھوں شہری دوسرے ملکوں خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں ہیں وہ مختلف ایسے پروجیکٹوں کے تحت ان ترقی پزیر ملکوں میں مقررہ مدت تک رہتے اور کام کرتے ہیں جب تک ان کے یہ پروجیکٹ تکمیل نہیں پاجاتے، ان کے لیے مالی امداد یا قرضے یہی ترقی یافتہ ممالک فراہم کرتے ہیں اور اس طرح امدادی قرضوں میں دی جانے والی رقوم کا ایک بڑا حصہ وہ ان ماہر اور ٹیکنیکل افراد کی تنخواہوں کی صورت واپس لے جاتے ہیں جب کہ میکسیکو، بھارت ، بنگلہ دیش، پاکستان اور فلپائن ایسے ملک ہیں جن کے شہری دوسرے ملکوں میں جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور زرمبادلہ اپنے ملکوں کو بھیجتے ہیں۔

ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں مگر ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے جب کہ شام جیسے وہ ممالک ہیں جہاں گزشتہ چند برسوں میں انسانی المیوں کے ابھرنے عموماً خانہ جنگیوں کی وجہ سے بڑی تعداد تارکین وطن کی صورت خصوصا مغربی ملکوں میں پناہ گزینوں کی صورت پناہ لیے ہوئے ہے، یوں اب دنیا بھر میں خصوصا ہمارے جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے اپنی سرحدیں پناہ گزینوں اور غیر قانونی طور پر ان ملکوں میں داخل ہونے والوں کے لئے بند کردی ہیں۔

امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں اس اعتبار سے بہت سخت ہیں۔ اگر چہ اس تناظر میں امریکی صدر کی جانب سے کئے گئے ایک فیصلے کو امریکی عدالت نے رد کردیا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اب امریکہ جانا نہایت مشکل ہوگیا ہے اور ساتھ ہی دوسرے یورپی ملکوں میں اب ہماری افرادی قوت کے لیے گنجائش نہیں رہی ہے۔ پھر ایک بڑا مسئلہ دہری شہرت رکھنے والے ان پاکستانیوں کا ہے جن کی تیسری نسل اب برطانیہ سمیت دیگر یورپی ملکوں میں جوان ہو رہی ہے اور ان میں سے بیشتر کے سماجی، ثقافتی اور تہذیبی رشتے اپنے باپ دادا کی طرح آبائی ملک سے مضبوط نہیں، یوں اس تیسر ی نسل سے اب زر مبادلہ کی امیدیں کم ہیں۔

دوسری جانب تیل پیدا کرنے والے خلیجی اور دیگر عرب ممالک میں بھی اب تیز رفتار اقتصادی ، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور اندیشے ہیں کہ اب ان ملکوں سے بھی زرمبادلہ کی آمدنی میں کمی واقع ہو ۔ اس وقت دنیا میں بیرون ملک پاکستانیوں کی صورتحال تعداد کے اعتبار سے یوں ہے۔

سعودی عرب بائیس لاکھ ، عرب امارات 13 لاکھ ، برطانیہ میں 1174983، امریکہ 518769 ،کینیڈا 1555310، کویت 130000، قطر 90000 ،اٹلی85000 ، اومان85000 ، یونان82000 ،بحرین80166 ، فرانس75000 ، جرمنی75000 ، اسپین69481 ، چین 65000 ملائیشیا55851 ، ہانگ کانگ 55 ہزار اورآسٹریلیا 33049 ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب جب آئندہ دو تین برسوں میں دنیا بھر میں اقتصادی، سیاسی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ہم اس نا زک ترین مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے، نہ تو 2017 مارچ میں ہونے والی مردم شماری کے لحاظ سے اور نہ ہی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے اعتبار سے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف 59 لاکھ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ان ملکوں میں جہاں جہاں یہ مقیم ہیں پاکستانی سفارت خانے ان کی بہبود اور ان کے قیام اور روزگار کی بہتری کے لیے کام کریں تو دوسری جانب اب جب کہ مردم شماری کے بعد ان کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر آچکی ہیں ان پاکستانیوں کو بھی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جانا چاہیے تھا مگر یہ نہ ہو سکا۔

اب ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے، بات یہاں تک ختم نہیں ہونے چاہیئے بلکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ صوبوں کے تناسب سے جماعتی بنیادوں پر ان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نشستیں مختص کی جائیں اورکم سے کم بیرون ملک پاکستانیوں کی وفاقی وزارت ان کے کسی منتخب نمائندے کو دی جائے۔ 2018 کے عام انتخابات کے بعد اب تحریک انصاف نے حکومت بنائی ہے اور عمران خان یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے اِن کو چاہیے کہ اب ان بیرون ملک پاکستانیوں کے مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کریں اور یہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے مفادات اور خصوصاً قومی اقتصادیات کا تحفظ ہوگا ۔

The post تارکین وطن کو ان کے حقوق کب ملیں گے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

کَوّے کا سوپ
ابن انشا

کو ے ہیں سب دیکھے بھالے، چونچ بھی کالی پر بھی کالے۔ یہ سب ہی ملکوں میں ہوتے ہیں، سوائے جنوبی افریقا کے اور امریکا کی جنوبی ریاستوں کے۔ وہاں صرف سفید کوے پسند کیے جاتے ہیں اور اور سفید کوے اتفاق سے ہوتے ہی نہیں۔ کوا حلال بھی ہوتا ہے، لیکن صرف آغا تقی کے باغ میں۔ سنا ہے کراچی میں بھی ریڑھیوں پر کوؤں کا سوپ ملتا ہے، لوگ بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ اپنے رنگ کی رعایت سے یہ بلیک مارکیٹ کے دام پاتا ہے، عرف عام میں اسے یہ سوپ مرغی کا کہلاتا ہے۔

۔۔۔

حیا اور بزدلی
حکیم محمد سعید

حیا انسان کا فطری وصف ہے اور بلاشبہہ نہایت بلند اور مستحسن وصف ہے، لیکن شرم و حیا اور بزدلی میں فرق ہے۔ لاریب شرم و حیا ہمیں ناشائستگی سے روکتی ہے۔ بری خواہشات اور منکرات کے ارتکاب سے بھی ہمیں بچاتی ہے۔ انسانیت جن باتوں پر شرم سے سر جھکا لیتی ہے، حیا ہمیں ان تمام باتوں سے بچاتی ہے۔ ان سے بچنا بزدلی نہیں، بلکہ ایسا حیا کے فطری تقاضوں کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لیے یہ مثبت وصف ہے۔ اس کے برعکس بزدلی ایک منفی وصف ہے، یہی وہ بزدلی ہے، جس کی وجہ سے حق بات کہنے سے ہم قاصر رہتے ہیں۔ ہمیں جہاں اپنی جان کا خوف لاحق ہوتا ہے اور اپنے ذاتی دنیاوی مفادات کو ٹھیس لگنے کا ہمیں خطرہ ہوتا ہے، وہاں ہماری زبانیں بزدلی کی وجہ سے گنگ ہو جاتی ہیں، جیسا کہ آج پاکستان میں سیاست و صحافت اور امامت و دولت کی ہر زبان گنگ ہے، آج بد ترین صورت حال یہ ہے کہ ہم میں اظہار حق کی جرأت نہیں ہے۔

یہ حیا نہیں ہے، یہ سراسر بزدلی ہے۔ اسلام اس بزدلی کو منفی طرز عمل قرار دیتا ہے۔ ایک بے حیا اور بے شرم انسان بری اور ناپسندیدہ حرکات کے ارتکاب میں اگر کوئی خوف محسوس نہیں کرتا، تو یہ دلیری اور آزادی نہیں ہے، یہ بے حیائی ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور حد سے بڑھی ہوئی اخلاقی باختگی عام ہوجانے کے باوجود اگر ہم منکرات کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے، تو یہ خاموشی اور گنگ زبانی حیا کی جہ سے نہیں ہے، بلکہ دولت کی حرص، مفادات کی لالچ، جان کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

(کتاب ’آواز اخلاق‘ میں جمع کیے گئے مضامین سے ماخوذ)

۔۔۔

باس زندہ، ذلّت باقی
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

آپ مٹی کی ایک مورتی بنائیں، بن جائے گی۔ آپ اسے ’’باس‘‘ کا نام دیں، اس کی گردن فوراً اکڑ جائے گی۔ حالات کا تیار کردہ باس ایسا ’’پیس‘‘ ہوتا ہے جو منجملہ دیگر خبائث کے اپنی زبان کو آرام اور کانوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے سر میں دماغ کی جگہ بھیجا ہوتا ہے جسے وہ سوچنے کے بہ جائے ماتحتوں کو نوچنے میں لگا دیتا ہے۔

یہ امر ہنوز تحقیق طلب ہے کہ باس جیسی مخلوق کی کھوپڑی میں ہوتا کیا ہے۔ بھیجا بُھس یا بھکسا (سڑا ہوا آٹا)؟ ہم یہ سب کچھ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں، اس لیے کہ سرکار کی نوکری میں ہم 36 سال باس کی تہمت سر پہ لیے پھرے، لیکن چوں کہ ہر باس کا ایک باس ہوتا ہے، اس لیے ماتحتی کی ہزیمت بھی بخوشی برداشت کرتے رہے۔ اگر اپنے باس کے سامنے اپنی خودی کو ایک انچ بھی بلند کرنے کی کوشش کرتے تو ہماری داستان تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔    (تصنیف ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ سے اقتباس)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
وفادار

ثمر کے ابّا کا بڑا رعب ہوتا تھا، اُن کے اشارۂ اَبرو پر سارے بیٹے جان دینے کو تیار رہتے۔

رقیبوں نے بیٹوں کو اُکسایا کہ ’’کاروبار تم چلاتے ہو، اور حکم ابا۔۔۔

سنبھال لو خود سب۔۔۔!‘‘

ایک دن سارے بیٹوں نے باپ کو ’نفسیاتی مریض‘ کہہ کر نکال دیا۔۔۔

اپنی تاویل میں وہ ہر ایک کو باپ کی ’اوٹ پٹانگ‘ حرکات بتاتے۔

باپ کے ساتھ ثمر اکیلا رہ گیا۔

میں نے کہا ’دیکھو، ثمر باپ کا کتنا وفا دار ہے‘ تو ایک بیٹا کان میں بولا:

’’وہ اس لیے وہاں ہے، تاکہ اُن سے ’’نفسیاتی‘‘ حرکتیں کراتا رہے۔۔۔!‘‘

۔۔۔

’’جھوٹا مقدمہ!‘‘
دیوان سنگھ مفتون

دوسرے لوگ تو جیلوں میں جا کر اپنا وقت گزار کر چلے آتے ہیں، مگر میں جب کبھی جیل گیا، انسانی فطرت کے متعلق میں نے ہمیشہ ہی اپنی معلومات میں کافی اضافہ کیا، کیوں کہ وہاں پڑھنے اور سوچنے کے لیے اتنا وقت ملتا ہے کہ جیل سے باہر اس کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔ میں جب شروع شروع میں جیل گیا اور کسی قیدی سے اس کے جرم کے متعلق پوچھا، تو ہر شخص اپنے جرم کو بتاتے ہوئے ہچکچاتا، کیوں کہ انسان چاہے کتنا ہی جرائم پیشہ ہو۔

اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے چوری، دھوکا یا اس قسم کے دوسرے اخلاقی جرائم کا اقرار کرے، چناں چہ جس قیدی سے میں پوچھتا کہ وہ کیا جرم کر کے آیا ہے تو جواب دینے والا قیدی یا تو ٹالنے کی کوشش کرتا یا اپنے جرم کو غلط بتاتا۔ آخر میں نے ایک ترکیب سوچی، جب کبھی کسی سے پوچھتا تو یہ سوال نہ کرتا کہ تم نے کیا جرم کیا تھا؟ اس سے کہتا تمہارے خلاف پولیس نے کس جرم میں جھوٹا مقدمہ بنایا ہے؟ میرے اس سوال کا قیدی کی ذہنیت پر ہم دردی کا سا اثر ہوتا، اور وہ فوراً جواب دیتا۔ زنا بالجبر، چوری، ڈاکا یا دھوکے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ میں سمجھ جاتا کہ یہ حضرت کس جرم میں تشریف لائے ہیں اور کا کریکٹر کیا ہے؟

۔۔۔

 ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کرسکتا
مولانا ابوالکلام آزاد

کرۂ ارض کی سب سے بڑی مغرور طاقت بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،  ایک طاقت جو ہمیں پل بھر کے اندر پاش پاش کر دے سکتی ہے۔ وہ کون ہے؟۔ وہ خود ہم ہیں اور ہماری خوف ناک غفلت ہے، اگر وہ وقت پر نمودار ہو گئی، ہم پر ہمارے سوا کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ ہم ایمان اور استقامت سے مسلح ہو کر اتنے طاقتور ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ارضی گھمنڈ بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، لیکن اگر ہمارے اندر اعتقاد اور عمل کی ادنیٰ سے کمزوری اور خامی بھی پیدا ہو گئی، تو ہم خود آپ ہی اپنے قاتل ہوں گے اور ہم سے بڑھ کر دنیا میں اچانک مٹ جانے والی کوئی چیز بھی نہیں ملے گی۔

ہم کو گورنمنٹ شکست نہیں دے سکتی، پر ہماری غفلت ہمیں پیس ڈالے گی۔ ہم کو فوجیں پامال نہیں کر سکتیں، لیکن ہمارے دل کی کم زوری ہمیں روند ڈالے گی۔ ہمارے دشمن اجسام نہیں ہیں، عقائد اور اعمال ہیں۔ اگر ہمارے اندر ڈر پیدا ہو گیا، شک و شبہ نے جگہ پا لی، ایمان کی مضبوطی اور حق کا یقین ڈگمگا گیا، ہم قربانی سے جی چرانے لگے، ہم نے اپنی روح فریبِ نفس کے حوالہ کر دی، ہمارے صبر اور برداشت میں فتور آ گیا، ہم انتظار سے تھک گئے، طلب گاری سے اکتا گئے، ہم میں نظم نہ رہا، ہم اپنی تحریک کے تمام دلوں اور قدموں کو ایک راہ پر نہ چلا سکے۔

ہم سخت سے سخت مشکلوں اور مصیبتوں میں بھی امن اور انتظام قائم نہ رکھ سکے، ہمارے باہمی ایکے اور یگانگت کے رشتے میں کوئی ایک گرہ بھی پڑ گئی، غرض کہ اگر دل کے یقین اور قدم کے عمل میں ہم پکے اور پورے نہ نکلے، تو پھر ہماری شکست، ہماری نامرادی، ہماری پامالی، ہمارے پس جانے اور ہمارے نابود ہو جانے کے لیے نہ تو گورنمنٹ کی طاقت کی ضرورت ہے، نہ اس کے جبر و تشدد کی۔ ہم خود ہی اپنا گلا کاٹ لیں گے اور پھر صرف ہماری نامرادی کی کہانی دنیا کی عبرت کے لیے باقی رہ جائے گی!

ہماری طاقت بیرونی سامانوں کی نہیں ہے کہ انہیں کھو کر دوبارہ پا لیں گے۔ ہماری ہستی صرف دل اور روح کی سچائیوں اور پاکیوں پر قائم ہے اور وہ ہمیں دنیا کے بازاروں میں نہیں مل سکتیں۔ اگر خزانہ ختم ہو جائے، تو بٹور لیا جا سکتا ہے۔ اگر فوجیں کٹ جائیں تو دوبارہ بنا لی جا سکتی ہیں۔ اگر ہتھیار چھن جائیں تو کارخانوں میں ڈھال لیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارے دل کا ایمان جاتا رہا تو وہ کہاں ملے گا؟ اگر قربانی و حق پرستی کا پاک جذبہ مٹ گیا، تو وہ کس سے مانگا جائے گا؟ اگر ہم نے خدا کا عشق اور ملک و ملت کی شیفتگی کھو دی تو وہ کس کارخانہ میں ڈھالی جائے گی؟

۔۔۔

کم سمجھنا
مولانا وحید الدین خان

زندگی نام ہے ناخوش گواریوں کو خوش گواریوں کے ساتھ قبول کرنے کا۔ تھیوڈور روز ویلٹ Theodore Roosevelt نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا کہ زندگی کا سامنا کرنے کا سب سے زیادہ ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جائے۔ اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں، بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ بھی یہاں زندگی کا موقع پائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے منصوبے کے تحت ہر ایک کو اس کا سامان حیات دے رہا ہے۔ کسی کو ایک چیز، کسی کو دوسری چیز اور کسی کو تیسری چیز۔ ایسی حالت میں آدمی اگر دوسروں کو حقیر یا کم سمجھ لے تو وہ حقیقت پسندانہ نظر سے محروم ہو جائے گا۔ وہ نہ اپنے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکے گا اور نہ دوسروں کے بارے میں۔

تاریخ انسانی میں جو سب سے بڑا جرم کیا گیا ہے، وہ عدم اعتراف ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں خدا کے نیک بندے حق کا پیغام لے کر اٹھے، انہوں نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا، مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ ان کے مخالفین کی اکثریت نے ان کو نظرانداز کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ان سچے انسانوں کو حقیر سمجھ لیا، صرف اس لیے کہ ان کے آس پاس انہیں دنیا کی رونقیں نظر نہ آئیں وہ ان کو تخت عظمت پر بیٹھے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک چھوٹے آدمی کے سامنے کیوں اپنے کو جھکائیں۔

یہی معاملہ قومی رویے کا بھی ہے اگر ہم ایک قوم کو حقیر سمجھ لیں تو اس کے بارے میں ہمارا پورا رویہ غلط ہو کر رہ جائے گا۔ ہم اس قوم کی اچھائیوں کو بھی برائی کے روپ میں دیکھنے لگیں گے۔ ہم اس قوم کی طاقت کا غلط اندازہ کریں گے اور اس سے ایسے مواقع پر غیرضروری طور پر لڑ جائیں گے جہاں بہترین عقل مندی یہ تھی کہ اس سے اعراض کیا جائے۔ دوسروں کو کم سمجھنا بااعتبارنتیجہ خود اپنے آپ کو کم سمجھنا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی نظر میں حقیر ہوکر رہ جائے۔     (تصنیف ’کتاب زندگی‘ سے چُنا گیا)

۔۔۔

لاحاصل محبت
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

کچھ تعلقات کی نوعیت بقول ساحر لدھیانوی ’وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن‘ کے مصداق اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے سے محبت کے خواہاں ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے دونوں کوایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد نہیں ہوتا، صورت حال کچھ یوں بن جاتی ہے، نہ میں تم سے امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم ہمیں دیکھوں غلط اندازوں سے. بھلے پھر وہ کبھی لوٹ آئے اور لاکھ یقین دلائے۔۔۔ لیکن افسوس۔۔۔! چاہے جانے کا احساس ہونے کے باوجود بھی، نا چاہتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اب میں تمہارے لفظوں پر اعتبار نہیں کرسکتا۔ اسے پتا ہے کیا کہتے ہیں؟ لاحاصل محبت !

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50 فیصد چین پیدا کرتا ہے

$
0
0

قسطـ: 9

 خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور حیاتِ انسانی کا ایک کثیر حصہ خوراک کے حصول کے لیے تگ ودو میں گزرتا ہے۔خواہ یہ مختلف النوع اجناس کی کاشت کے معاملات ہوں یا پھر کھانے پکانے کا معاملہ ہو ۔چین جا کر ہمارا واسطہ بھی کچھ ایسے ہی معاملات سے پڑا ۔ وہاں جا کر خود کھانا پکانا پڑا حالانکہ اپنے ملک میں کبھی اس کی نوبت نہ آئی تھی۔

ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے پیش رو ساتھی عبد المجیدبلوچ اس فن میںماہر تھے انہوں نے ابتدائی دنوں میں ہمیںخوب پراٹھے اورمختلف قسم کے کھانے کھلائے۔بعدمیں میرے ساتھ جانے والے ساتھی شاہد افراز خان اور طاہر چغتائی نے کھانا پکانے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور ہماری ذمہ داری باہر سے سبزی اور روٹی لانا ٹھہری۔ مقامی سبزی مارکیٹ لاؤ شان پارک کے علاقے میں تھی۔

اس کو ہمارے ہاں کے اتوار بازار کے مساوی سمجھاجا سکتا ہے۔وہاں مختلف سیکشنز ہیں ۔سبزی، پھل کا سیکشن الگ ۔خشک مسالہ جات الگ حصے میں فروخت ہوتے ہیں۔گوشت ایک کورڈ ایریا میں بکتا ہے۔جبکہ وہاں کپڑوں، جوتوں، سینڑی آلات، برتن، اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس مارکیٹ میں صبح سویرے جانا پڑتا تھا کیونکہ دوپہر بارہ بجے اس کی رونق ماند پڑجاتی ہے اور دکاندار اپنا اپنا مال سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ چینی لوگ خریداری کے تمام معاملات علی الصبح نمٹانے کے عادی ہیں۔

لاؤ شان پارک کی اس سبزی مارکیٹ میں چین کے کئی سماجی رنگ نظر آئے۔مارکیٹ میں آپ اپنی مرضی سے کسی بھی پھل یا سبزی کا انتخا ب کر سکتے ہیں اور دکاندار اس کا برا نہیں منائے گا۔ یہ ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔کیونکہ ہمارے ہاں تو اس طرح کا رواج نہیں ہے اور اگر گاہک اپنی مرضی سے کچھ منتخب کرتاہے تو پھر یا تو اس کی اجازت نہیں ملتی یا پھر اس کا نرخ بڑھا دیا جاتا ہے۔

سبزی مارکیٹ میںگھومتے ہوئے کئی اقسام کی تازہ ، صحت بخش سبزیوں اور پھلوں کو دیکھ کر چین کی زراعت کے میدان میں ترقی کا پتہ چلتا ہے۔ وہاں پائی جانے والی سبز مرچ مختلف سائز میں دستیاب ہوتی۔ انتہائی مختصر، درمیانی سطح کی ، طویل اور انتہائی طویل جن کو دیکھ کرحیرت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کئی بے موسمی پھلوں کی وہاں موجودگی ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھاتی کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ ہمارے ہاں تو کولڈ سٹوریجز میں سبزیوں اور پھلوں کو رکھ دیا جاتا ہے بعد میں ان کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

چین کی اتنی بڑی آبادی کے لیے کیا ایسی سہولت ہو گی کہ بے موسمی اجناس ارزاںاور وافر دستیبا ب ہیں۔ اسی دوران ہمیں دفتر کی جانب سے بیجنگ کے شہرممنوعہ کی سیر پر بھیج دیا گیا۔وہاں پہنچے توکئی غیر ملکیوں کو وہاں پایا۔ان میں پاکستانیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔اور اِ ن پاکستانیوں میں مختلف جامعات میں زیر تعلیم طلباء بھی شامل تھے۔خوش قسمتی سے ان میں زرعی شعبے سے وابستہ طلباء بھی تھے۔ یوں ان سے اس سیر کے دوران اور بعد میں بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور ہمارے کئی سوالات کا انہوں نے جواب دیا جس سے ہمیں چین کی زراعت کے شعبے میںترقی کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔اسی روز ہماری ملاقات ہوزان ایگریکلچر یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر محمد اظہر نواز سے ہوئی۔

ان سے بات چیت ہوئی تو چین کی زراعت کے شعبے میں ترقی کا علم ہوا ۔ محمد اظہر نواز نے بتایا کہ چین کی اہم فصلیںچاول، گندم، آلو، مونگ پھلی،چائے کی مختلف اقسام، باجرہ، جو ، کپاس، ٓائل سیڈز، سویا بین ہیں۔انیس سو اٹھتر میں جب زرعی اصلاحات کی گئیں تو اس سے زرعی شعبے میں ترقی کا سفر شروع ہوا ۔ان اصلاحات کے نتیجے میں اس شعبے میں سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سرمایہ کاروں کی دلچسپی اورعلاقے کی زرعی ساخت کے پیش نظر بعض علاقے مخصوص فصلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہو گئے۔شمالی اور وسطی چین میں گندم، سویا بین ، جو اور باجرہ پیدا ہوتا ہے۔

چاول جنوبی چین میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ چین کے ساحلی علاقے برآمدی فصلات کے لیے مشہور ہیں۔چین کا صوبہ شندونگ سبزیوں کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتا ہے ۔یہاں Protected Cultivation بھی ہوتی ہے۔یہاں پیدا ہونے والی سبزیوں کو چین کے دور دراز علاقوں میں بھیجاجاتا ہے۔محمد اظہر نواز کے پاس معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جس کو شیئر کرنے میںانہوں نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ چین کے 35% لوگ ایگریکلچر انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔چین اپنے جی ڈی پی کا2.1% ریسرچ پر خرچ کرتا ہے۔یہ شرح 1.54 ٹریلین یوان یا 296بلین ڈالرز کے مساوی ہے۔

اُس روز ہونے والی مختصر ملاقات میں انہوں نے کچھ چیدہ چیدہ حقائق بتادیے بعد میں بھی ان سے رابطہ رہا۔ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت ان کا انٹرویو بھی کیا تو معلوم ہوا کہ محمداظہر نواز یونیورسٹی آف سرگودہا کے زرعی کالج میں پڑھاتے ہیں اور چین میں Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ویجیٹبل گرافٹنگ (Vegetable Grafting) بہتر، بیماریوں سے محفوظ اور زیادہ پیداوار کے لیے ایک جدید زرعی طریقہ کار ہے، انہوں نے اسی پر کام کیا۔

اس کا طریقہ کار، اس کا استعمال ، یہ سب کچھ انہوں نے چین سے سیکھا۔ آج کل پا کستان آ کر اس کو یہاں عام کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہاں آکر طلباء کو  Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم دی۔ اور تیس سے چالیس طلباء کو  Vegetable Graftingکے لیے تیار کیا ہے۔تربوز کی Grafting میں کامیاب رہے۔اب اس تجربے کو دیگرنوعیت کے زرعی ٹیسٹس سے گزارا جار ہا ہے ۔ کھاد کے زیادہ یا کم استعمال، بیماریوں کے حملے اور مدافعت اور اس سے متعلقہ دیگر نوعیت کے ٹرائل جاری ہیں۔ویجیٹبل گرافٹنگ کے ذریعے بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ کھادوں کی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ مزید برآں پانی کی کمی اور زیادتی،درجہ حرارت کی زیادتی اور کمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ویجیٹبل گرافٹنگ سے سبزیوں کی پیداوار کو بڑھانے اور اس کی پیداوار میں کمی کے عوامل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں تعلیم کے حصول سے پہلے کئی معاملات میں ان کے concepts واضح نہیں تھے۔طلباء کو پڑھاتے ہوئے ان کے پاس جدید تحقیق کی ٹھوس معلومات کا فقدان تھا۔ مگر چین میں تعلیم اور عملی تحقیق کے عملی تجربے سے انہیں پڑھانے میں آسانی ہے ۔چین میں قیام کے دوران ہم نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ وہاں تربوز بہت کھایا جاتا ہے اور یہ کم و بیش سارا سال ہی دستیاب رہتا ہے۔

ہم تویہاں اس کو صر ف گرمیوں میں کھانے کے عادی ہیںاوربالخصوص پنجا ب کے نہری علاقوں میں رہنے والے تو گرمیوں میں نہر کنارے تربوز بیچنے والوں سے ٹھنڈے ٹھنڈے تربوز کھاتے ہیںیا پھر اگر دوست مل کر نہر میں نہائیں تو ایک تربوز ساتھ لے جاتے ہیں تو تربوز بھی ساتھ ساتھ ہی” ـ نہاتا” رہتاہے۔بعد میں اس کو کھا لیاجاتا ہے۔مگر چین میں سخت سردیوں میںتربوز کی دستیابی بہت حیران کن تھی۔ اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے محمد اظہر نواز سے رجوع کیا تو انہوں نے ہمیں یہ بتا کر مزید حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا کا67% تربوز چین اکیلا ہی پیداکرتا ہے۔چین میں یہ روایت ہے کہ ہر تقریب میں سویٹ ڈش کے طور پر تربوز پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ پورا سال وہاں دستیاب رہتا ہے۔اور سخت سردی میں اس کو کھانے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں ویسے ہی مفروضے بنے ہوئے ہیں۔

تربوز کی بات آئی ہے تو بتاتا چلوںکہ چین میں تربوز کی فروخت کا طریقہ کار ہمارے ہاں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ہاں تو گاہک کو پورے کا پورا تربوز ہی خریدنا ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ مگر چین میں یہ ٹکڑوں میں کاٹ کر بھی فروخت کیا جاتا ہے اگر کوئی گاہک پورا تربوز نہیں خریدنا چاہتا تو اس کو کاٹ کر آدھا یا ایک چوتھائی حصہ بھی دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دکاندار تربوز کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر رکھتے ہیں اور ان کو پلاسٹک سے کور کر دیا جاتا ہے تا کہ یہ صا ف اور محفوظ رہیں۔ویسے یہ طریقہ کار اگر پاکستان میں بھی متعارف ہو جائے تو لوگوں کو بہت فائدہ ہو۔چین میںرہتے ہوئے ایک اور مشاہدہ بھی ہوا کہ یہاں پاکستان کے برعکس قابل کاشت رقبہ کم ہے۔ تو اس قدر کم رقبے سے اتنی پیداوار حاصل کرنا اور ملکی ضروریات کو پوراکرنا بڑے کمال کی بات ہے۔

یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا اس کے متعلق چین کی مختلف زرعی جامعات میں زیر تعلیم پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز نے وقتاً فوقتاً بتایا۔ ایسے ہی ایک پی ایچ ڈی سکالر سجاد رضا بھی ہیں جو کہ نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹ یونیورسٹی میں سائل سائنسز  (Soil Sciences)کے شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں۔ سجاد رضا کا تعلق دیپالپور ، اوکاڑہ سے ہے۔ سجار رضا نے بتایا کہ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قابلِ کاشت رقبہ دنیا کا سات فیصد ہے اور یہ دنیا کی بائیس فیصد آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے ا نہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ تصور ہے کہ جتنی زیادہ کھاد ڈالیں گے اتنی ہی پیداوار بڑھے گی۔ایسا ہی نکتہ نظر چین میں بھی پایا جاتا ہے۔۔چین میں دنیا میں سب سے زیادہ کھاد استعمال ہوتی ہے اور اسی تناسب سے اس کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔

سجاد رضا نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی اس حوالے سے لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع 1961-2013 تک پاکستان میں کھا د کے استعمال کو بنایا ہے۔سجادرضا کا بطور ایک زرعی ماہر اور تحقیق کارکہنا ہے کہ پاکستان میں پودا صرف پچیس فیصد(25%) کھاد استعمال کرتا ہے جبکہ پچھتر فیصد(75%) کھاد ضائع ہو جاتی ہے۔چین میںبھی کھاد کے ضیاع کا تناسب ایسا ہی ہے۔اس ضیاع سے دونوں ممالک کے ماحول اور آب و ہوا میں فرق پڑرہا ہے۔کھاد کا زیادہ استعمال ہوا اور پانی کے معیار کو متاثر کر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کا ایک سبب کھادوں کا بے جا اور زیادہ استعمال بھی ہے چین اور پاکستان دونوں کثیر آبادی والے ممالک ہیں۔دونوں پر بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریا ت کو پورا کرنے کا دباؤ ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بے دریغ اور بے جا کھاد کا استعمال کیا جارہا ہے۔

چین میں زرعی ماہرین کسانوں کو کم کھاد کے استعمال کے حوالے سے آگاہی بھی دیتے رہتے ہیں۔بلکہ اب تو چین نے ایک پالیسی بنا دی ہے کہ دو ہزار بیس تک کھاد کے استعمال کی موجودہ شرح کو برقرار رکھا جائے گا۔اس سے زیادہ اس کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔مثال کے طو ر پراگرایک فیملی اس وقت پانچ سو کلو کھاد استعمال کررہی ہے تو اس کو اس شرح سے زیادہ کھاد استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔سجاد رضا کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے چین کے دیہات میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کاکوئی تصور نہیں ہے۔ زرعی زمین حکومت کی جانب سے ایک خاندان کو ملتی ہے اور اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے۔

چین میں زمین کی پیمائش مُو (Mu) کے حساب سے کی جاتی ہے جوکہ تقریباً ایک ایکڑ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ چونکہ چین کے پاس قابلِ کاشت رقبے کی کمی اور آبادی زیادہ ہے تو اس کے لیے وہ نت نئی ریسرچ کررہا ہے اور مختلف قسم کی زرعی اجناس کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے کامیاب تجربات کر رہا ہے۔ ایسے ہی کچھ کامیاب تجربات چین نے ہارٹی کلچر Horticulture کے شعبے میں بھی کیے ہیں ۔ہم ٹھہرے سوشل سائنسز کے طالب علم جو کہ ان ناموں اور ان کے مفاہیم سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے سو اس کے لیے خیبر پختوانخوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسین احمد سے رجوع کیا جو کہ ہارٹی کلچر Horticulture سے وابستہ ہیں اور چین کی ایک زرعی یونیورسٹی سے انہوںنے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر پھل ، پھول اور سبزیوں کے متعلق علم کو ہارٹی کلچر Horticultureکہا جاتا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50% چین میں ہوتاہے اورچین صرف اور صرف 1% بر آمد کرتا ہے اور باقی 49% اپنے پاس رکھ کر اپنی ملکی ضروریات پوری کرتا ہے۔چین سبزیاں تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کمبوڈیا کو برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان میں بھی سی پیک کی وجہ سے سبزیاں درآمد کی جارہی ہیں۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں کھیرے کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ کھیرا ایک ایسی سبزی ہے جو کہ بہت حساس ہے۔ اگر اس کی کاشت کے علاقے میں نمک ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے۔چین نے اس مسئلے پر تحقیق کی ہے اور اس حوالے سے Genetics اور Applied دونوں طرح کی تحقیق کی جار ہی ہے۔ Genetics (Trangenic Plants)میں ایسے

طاقتو ر پودے جو زیادہ نمک کو برداشت کر سکتے ہیں کے جینز کو لے کر اس کو کھیرے کے ساتھ ملا دیا گیا ۔اس سے کھیرے کی قوت برداشت میں اضافہ ہوا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ Applied طریقہ کار میں اس تجربے کو لیب سے باہر آزمایا گیا اور اس کی پلانٹیشن کر کے چیک کیا گیا اور دیکھا گیا کہ کسان کو اس سے کیا فائدہ ہوا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں ان دنوں Hydroponics پر کام جاری ہے۔یہ ایک نیا طریقہ کار ہے جس میں پودے کو زمین کے علاوہ دیگر جگہوں پر اگایا جاتا ہے اور پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔

اس میں پودے کی جڑ نیچے پانی میں رہتی ہے اور اس کو ضروری معدنیات پانی میں حل کر کے دیے جاتے ہیں۔اس میں روایتی مٹی استعمال نہیں ہوتی۔اس طریقہ کار کے تحت پودے کو گھر میں ، کمرے کے اندر ، چھت پر اگا کر اس سے پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔چین کی زرعی شعبے میں تحقیقات کے ریسرچ آرٹیکلز امریکہ ، کینیڈا، جرمنی اور آسٹریلیا کے زرعی مجلوں میں شائع ہوتے ہیں اوراس طرح دنیا کو چین میںہونے والی تحقیق سے آگاہی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ چین میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دو ہزار سترہ سے چین نے اس شعبے میں ریسرچ کے لیے بہت زیادہ فنڈز مختص کئے ہیں۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں ہر طرح کے موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی، زمین کا سیم و تھور والا ہونا، زمین میں پانی کی زیادتی ہو تو فصلوںکی یہ نئی اقسام ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر سائنسی و تحقیقی کام، نئی اقسام کی فصلوںکی تیاری، ان کی کاشت وپیداوار میں چین دنیا بھر میں لیڈنگ رول ادا کر رہا ہے۔ ایک روز بیجنگ کے ایک سیاحتی مقام کی سیرکے دوران ہماری ملاقات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی بیجنگ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر بابر اعجاز سے ہوئی۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بابر اعجاز کپاس کی تحقیق سے وابستہ ہیں ۔ان سے گفتگو زراعت کے امور سے شروع ہوئی اور فنونِ لطیفہ سے ہوتی ہوئی فلسفیانہ امور تک آئی۔ معلوم ہواکہ بابر اعجاز کا ذوقِ جمالیات بہت عمدہ ہے اور شوقیہ فوٹو گرافی بھی کرتے ہیںمگر اپنی ذات کی تشہیر اور خودنمائی سے گریز کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوا کہ زرعی سائنسدان بھی حسا س طبیعت اورگہری مشاہداتی حس کے مالک ہوتے ہیں۔اس پر صرف ادب والوں کا ہی حق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین اور پاکستان کے درمیان کاٹن کے شعبے میں بھی تعاون جاری ہے۔ چین کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ چین کپاس کے جینوم(Genome) کی تحقیق میں پہلے نمبر پر ہے۔چین میں کپاس کی پیداوار دوہزار اٹھارہ اور انیس میں3.38 Million ہیکٹر ہے۔

چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر کپاس کی تحقیق کے لیے ایک لیبارٹری بھی قائم کی ہے۔ یہ لیبارٹری China-Pakistan joint Laboratory for Cotton Biotechnology کے نام سے چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز میں قائم ہے۔اپنی یونیورسٹی کے متعلق بتاتے ہوئے بابر اعجاز نے کہا کہ ان کی جامعہ چین کی قدیم ترین جامعات میں سے ہے اور یہ انیس سو پانچ (1905) میں قا ئم ہو ئی تھی۔مختلف انتظامی و ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی یہ موجودہ شکل میں آئی۔اس کا شمار چین کی کلیدی قومی جامعات میں ہوتا ہے۔یہ جامعہ چین کے ” پروجیکٹ 211 اور “985 میں شامل ہے۔

پروجیکٹ دوسو گیار ہ قومی کلیدی جامعات اور کالجز کے لیے چین کی وزارت تعلیم کی جانب سے انیس سو پچانوے میں شروع کیا گیا تھا۔چین کے اعلیٰ تعلیم کے معیاری اداروں کی تعداد سترہ سو کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے چھ فیصد پروجیکٹ دو سو گیارہ میں شامل ہیں۔ پروجیکٹ نو سو پچاسی کو چین کے صدر جیانگ زیمن نے شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد چین کے اعلی تعلیم کے اداروں کی ترقی اور بہتری تھا۔اس پراجیکٹ میں چین کی انتالیس جامعات شامل ہیں۔ سی آر آئی میںپیشہ ورانہ ذمہ داریاں اداکرتے ہوئے مختلف پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز سے ملاقات رہی اور ان سے بیش قیمت معلومات ملیں۔ چین کے علاقے نارتھ ویسٹ میں گندم ،مکئی ، چاول کاشت کیا جاتا ہے۔چاول کا تذکرہ چھڑا ہے تو یا دآیا کہ چین میں چاول بہت کھایا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں توکہا جاتا ہے کہ زیادہ چاول کھانے سے موٹاپا ہوتا ہے مگر چین میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مگر ایک فرق البتہ یہ ضرور ہے کہ وہاں چاول عمومی طور پر جو کھائے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے چاولوں سے مختلف انداز میں پکے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں اُبلے ہو ئے چاول ہوتے ہیںاور اس کی مقدار بھی ایک کپ ہی استعمال کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں کے ٹوٹا چاولو ں کی مانند ہوتے ہیں اور وہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو چاپ سٹکس سے کھانا آسان ہوتا ہے۔ چائینز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز ، بیجنگ سے وابستہ پاکستان کے شہر بھکر سے تعلق رکھنے والے سید عدیل ظفر چین میں چاولوں کی تحقیق سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چین کی آبادی کا ساٹھ فیصد(60%)چاول کو ایک اہم خوراک کے طور پر کھاتا ہے۔جس کی وجہ سے چین میں چاول کی کھپت بہت زیادہ ہے۔اس لیے سائنسدان اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہائبرڈ فصل کی طرف جا رہے ہیں۔

چین نے دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک ا ہم کردار ادا کیا ہے۔چین نے دنیا بھر میں اولین سپر ہائبرڈ چاول کی کاشت کے تجربات کیے ہیں۔اس طریقہ کار نے روایتی طریقے سے پیدا ہونے والے چاول کی فصل کی پیداوار کو دُگنا کردیا ہے۔ ہائبرڈ چاول کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کی وجہ سے یوان لانگ پھنگ (Yuan Longping)کو فادر آف ہائبرڈ رائس)  (Father of Hybrid Rice کہا جاتا ہے۔ یوان لانگ پھنگ نے اپنی کوشش، لگن، تحقیق اور محنت سے چین کے زرعی شعبے بالخصوص ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں انقلاب بپا کردیا ہے۔

یوان لانگ پھنگ انیس سو تیس میں بیجنگ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ساوتھ ویسٹ ایگریکلچر انسٹیوٹ سے انیس سو ترپن میں گریجویشن کی۔انہوں نے انیس سو ساٹھ میں ہائبرڈ رائس کی کا شت کا خیال اس وقت پیش کیا جب زراعت کے لیے غیر موزوں پالیسیز اور قحط کی وجہ سے چین کو زرعی شعبے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ تب سے انہوں نے اپنی ذات کو چاول کی بہتر پیداوار اور چاول کی تحقیق کے لیے وقف کردیا۔انیس سو چونسٹھ میں انہیں اپنے Hybridization کے تجربے کے لیے ایک نیچرل رائس پلانٹ مل ہی گیا جس کو دیگر اقسام پر برتری حاصل تھی۔

انہوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔انیس سو تہتر میں وہ ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں کامیاب ہوئے۔اس کی پیداوار روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ تھی۔انیس سو اناسی میں ہائبرڈ رائس کی تیکنیک کو امریکہ منتقل کیا گیا اور یہ چین کا پہلا انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹ (حقوقِ املاکِ دانش) کا معاملہ تھا۔اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کے چاول کے کھیتوں میں پچاس فیصد یوان لانگ پھنگ کے ہائبرڈ نسل کی چاولوں کو ہی کاشت کیا جارہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کا ساٹھ فیصد حاصل کیا جا رہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کئی بلین کلوگرام بڑھی ہے۔انیس سو ساٹھ میں ایک مُو (Mu) (چین میںزرعی زمین کی پیمائش کا ایک پیمانہ ) سے چاول کی پیداوار تین سوکلو گرام ہوا کرتی تھی۔ یوان لانگ پھنگ کی کوششوں سے یہ پیداوار اب تین سو من فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ پیداوار 70/80 من ہے ۔ اگر موٹا چاول بھی کاشت کیا جائے تو اس کی پیداوار 100 من تک ہے۔چین میں یہ ڈھائی سو تین سو من تک ہے۔

دنیا بھر کے کئی ممالک میں ہائبرڈ رائس کی کاشت جاری ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی چین سے درآمد شدہ ہائبرڈرائس استعمال ہو رہا ہے۔ایک پاکستانی زرعی سائنسدان نے بتایا کہ انہیں ایک زرعی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملاتو وہاں ایک زرعی ماہر نے چاول کی پیداوارکا حجم ایسا بتایا جو بظاہر ناقابل یقین لگتا تھا۔مگر چونکہ بتانے والے ایک تحقیق کار تھے اس لیے یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔زرعی ماہر نے بتایا کہ آزمائشی بنیادوں پر اس کی کاشت جاری ہے۔یہ آزمائشی کاشت پانچ اور دس ایکڑ پر محیط کھیتوں میں کی جارہی ہے۔اس میں مختلف حکومتی ، نجی ادارے شریک ہیں۔ مختلف زرعی شعبوں میں چین کا پاکستان کے ساتھ تعاون جاری ہے ۔

اس کے علاوہ پاکستان کے زرعی گریجویٹس اعلی تعلیم کے لیے چین کی مختلف زرعی جامعات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی، نانجنگ ایگریکلچر یونیورسٹی، فوجیان ایگریکلچر یونیورسٹی، نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹری یونیورسٹی، لانچو یونیورسٹی ، ہو زانگ ایگریکلچر یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ان طلباء کو چینی حکومت کی جانب سے سکالر شپ دیا جاتا ہے۔یہاں پڑھنے والے پاکستانی طالب علم جدید ٹیکنالوجی، جینیٹک ٹرانسفارمیشن اور نت نئے طریقے سیکھتے ہیںاور اس کو پاکستان میں آکر اپلائی کرتے ہیں۔

پاکستان میں انیس سو ستر تک زرعی تعلیم ، تحقیق اور ایکسٹینشن کے ادارے الگ الگ تھے۔جس کی وجہ سے ان تینوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور کمیونیکیشن کے مسائل رہے۔تعلیم دینے والے اپنے انداز میں تعلیم دیتے رہے۔ تحقیق کار اپنے کام میں مصروف رہے جبکہ ایکسٹینشن والے کسانوں کو آگاہی دیتے رہے۔ چین میں ایسا نہیں ہے وہاںمحمد اظہر نواز کے یونیورسٹی میں چینی استاد باقاعدگی سے فیلڈ کا وزٹ کرتے ہیں اور وہ کسانوں سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔اور انہیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر یا دیگر معلومات فراہم کرتے ہیں۔چین میں زرعی تعلیم، تحقیق اور کسانوں کو آگاہی دینے کا کام ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔چین میں زرعی تحقیق کے لیے حکومت کی جانب سے کثیر فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیںاور دنیا میں بائیو ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ کام چین میں ہی ہورہا ہے ۔

زراعت کا ذکر ہو رہا ہے تو کچھ تذکرہ لائیو سٹاک کا بھی ہوجا ئے۔ چین میں گوشت کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ وہاں پورک کھایا جاتا ہے۔ چین کو Biggest Animal Farming Nation بھی کہا جاتا ہے ۔لوگ شوق سے مختلف اقسام کا گوشت کھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں پائے جانے والی Pigs کی آبادی کا نصف چین میں پایا جاتا ہے۔ ا س جانو ر کے تو باقاعدہ فارمز ہیں جہاں اس کو پالا جاتا ہے ۔ چین میں کسانوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اس جانور کی پرورش سے وابستہ ہے۔ چین کے صوبے سیچوان میں Pigs کی پرورش زیادہ کی جاتی ہے۔

اس کے بعد چھوٹا گوشت ، بڑا گوشت اور چکن کا نمبر آتا ہے۔چین میں گوشت کی مارکیٹ کے علاقے شندونگ Shandong، ہینان Henan، حہ بے   Hebei ، انہوئی Anhui، جیلن Jilin، ہیلینانگجیانگ   Heilongiang ، لیاؤ ننگ Liaoning ، انر منگولیا Inner Mongolia ، گانسو         Gansu شانسیhanxi S  سچوان Sichuan   چھنگ چھنگ Chongqing ، ینان Yunnaan وغیرہ مشہور ہیں۔چین میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے گوشت کی کھپت 111% بڑھ گئی ہے۔

اس کے علاوہ چین میں Sea Food کی تمام اقسام کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔چین میں 4936  اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ چین میں سمندری مچھلی کے علاوہ فارمنگ کے ذریعے بھی فش کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چین میں 37 ملین ٹن سے زائد مچھلی فارمز کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے جوکہ دنیا بھر میں مچھلی کی پیداوار کے 60% سے زائدہے۔ وہاں جھینگے کی فارمنگ بہت زیادہ ہے۔مغربی چین کے دیہی علاقوں میں خانہ بدوش قبائل بھیڑ، بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں۔چین میں سرمایہ کاری ، حکومتی پالیسیوں اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے چین کی لائیو سٹاک پاپولیشن 144 ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔اس کی وجہ سے اس کا معاشی جحم ساٹھ گنا بڑھ گیا ہے۔

قدرت چین کو فطرتی خوبصورتی سے نوازنے میں بہت فیاض ہے۔چین بھر میں سر سبز پہاڑ ، سمندر، دریا ، جھیلیں، ندیاں اورطویل پہاڑی سلسلے ہیں۔چین نے اس سب کے تحفظ کا بھی خوب انتظام کیا ہوا ہے۔یہاں جنگلات کا رقبہ دو سو آٹھ ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے۔چین کی زمین کا 21.63% حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔

جنگلات کا کل حجم پندرہ ہزار ایک سو سینتیس ملین کیوبک میٹرز پر مشتمل ہے۔چین میں انیس سو نوے کی دہائی سے جنگلات کے رقبے،حجم میں اضافہ ہوا ہے۔چین کی اسٹیٹ فاریسٹری ایڈمنسٹریشن کے تحت انیس سو ستر سے نیشنل فاریسٹ انوینٹری کو maintain کیا جا رہا ہے۔ ہر پانچ سال بعد اس انوینٹری کا ازسر نو جائزہ لیا جاتا ہے۔دو ہزارتیرہ کے اختتام تک پانچ ایسے سرویز مکمل ہو چکے ہیں۔سروے میں چار لاکھ پندرہ ہزار مستقل سیمپل پلاٹس اور اٹھائیس لاکھ ،چوالیس ہزار چارسو Remote Sensing Plotsکا جائزہ لیا جاتا ہے۔جائزے میں ان کی مقدار، معیار اور فاریسٹ ریسورس کے سٹرکچر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس سروے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی جاتی ہے۔جنگلات کے اس وسیع حجم کی وجہ سے چین دنیا کی Wood Workshop کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔فرنیچر کی عالمی تجارت کا ایک تہائی حصہ چین کے پاس ہے۔

چین عالمی حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے، بائیوڈائیورسٹی کو محفوظ رکھنے، ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے اور پائیدار معاشی، حیاتیاتی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔                               (جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ،چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس ، بیجنگ

The post دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50 فیصد چین پیدا کرتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


موسم سرما بڑھائے آپ کے کام

$
0
0

’’اف! دانی صبح سے تین بار تمھارے کپڑے تبدیل کیے ہیں، تم نے پھر گیلے کر لیے۔‘‘ ماں کو سخت غصہ تھا۔ اس کا چار سالہ بیٹا جانے کتنی دیر سے واش روم میں گھسا پانی کا کھیل کر رہا تھا۔

’’اوہو! آج تو یخنی بھی بنانی تھی اور سبز چائے کا بھی، میں نے تو کوئی تیاری ہی نہیں کی اور ابھی تو دوسرے کام بھی پڑے ہیں، کیسے کروں گی۔‘‘  خاتونِ خانہ کو کوفت محسوس ہو رہی تھی۔

سرد موسم میں خواتین کو کئی ایسے کام بھی انجام دینا پڑتے ہیں جس میں ان کا خاصا وقت برباد ہو جاتا ہے۔ بچوں کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے اور موسم کے اثرات سے گھر والوں کو بچانے کے انتظامات کے علاوہ کچن میں بھی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ سرما بچوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ نازک اور پھول جیسے بچوں کو نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار بھی ہو سکتا ہے۔ گرم کپڑوں اور لحاف کا انتظام کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے، لیکن سردیوں سے قبل ہی اگر آپ صندوق میں بند گرم کپڑے اور دو چھتی میں رکھے گئے لحاف، کمبل وغیرہ نکال لیں تو اپنا وقت بچا سکتی ہیں۔

سب سے پہلے تو سردی آنے سے پہلے جن چیزوں کی تیاری کرنا ممکن ہو ان پر ایک نظر ڈالیں۔گرم ملبوسات نکالیں اور ایک دو دن کے وقفے سے مشین لگا کر دھولیں۔ لحاف نکال کر دھوپ لگا لیں تاکہ ان میں بسی بو اور جراثیم دور ہوسکیں۔ بچوں کے مفلر، ٹوپیاں اور جیکٹس بھی نکال کر الماری میں سیٹ کر لیں۔ کوٹ ڈرائی کلین کروا لیں تاکہ بوقت ضرورت تقریبات میں استعمال کیے جاسکیں۔

بچے فرش پر گھومتے ہیں تو ٹھنڈے فرش کی وجہ سے بھی وہ بیمار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کمروں میں قالین یا چٹائی بچھا دیں۔ سردی کے موسم میں بار بار پانی گرم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسی لیے گیزر چیک کریں کہیں اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ ہیٹر کو بھی دیکھ لیں تاکہ بعد میں آسانی رہے۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مرد اپنے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر ہوتے ہیں اور یہ کام آپ کو اکیلے ہی انجام دینا ہوتے ہیں۔

اس لیے پہلے ہی سے خود کو تیار رکھیں۔ ٹھنڈی اور سرد ہواؤں کے اثرات سے خود کو اور اپنے پیاروں کو بچانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ گھر میںبچے اور بزرگ اس موسم سے بہت زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے مناسب دیکھ بھال اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔  موسمِ سرما میں صبح کے وقت اٹھنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا، انھیں نہلانا اور ناشتا بنانا یہ سب آسان نہیں ہے۔ اس لیے جرابیں اور جیکٹس سونے سے پہلے نکال کر رکھ دیں تاکہ صبح وقت برباد نہ ہو اور کوفت نہ ہو۔ موسمی بیماریوں کے عام علاج کے لیے باورچی خانے میں شہد، ادرک یا سونٹ رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ دار چینی اور گڑ بھی موجود ہو تو آپ کسی حد تک مطئمن رہ سکتی ہیں۔

بچوں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھیں۔ چکن سوپ موسم سرما کی مقوی غذا ہے اور بہت شوق سے بچے اور بڑے پیتے ہیں۔ اگر گھر والے فوری فرمائش کر دیں تو کیا کریں گی۔ اس لیے چکن کے ساتھ سب ضروری اشیاء منگوا کر رکھ لیں۔ اس طرح آپ کا وقت بھی بچ جائے گا اور پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

The post موسم سرما بڑھائے آپ کے کام appeared first on ایکسپریس اردو.

عورت کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے

$
0
0

میں ہر گز ’می ٹو‘ کا نعرہ لگانے نہیں آئی، نہ ہی میں یہ راگ الاپنا ہے کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ ہر گز نہیں!

عورت اور مرد ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ جسمانی ساخت، جذباتی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ غرض یہ کہ ان کا مزاج، پسند ناپسند، عادات اور مختلف مواقع پر ردعمل کے اظہار کی حالتیں اور کیفیات  الگ ہیں۔ اور جو یہ الگ ہیں تو پھر ان میں برابری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

برس ہا برس سے حقوقِ نسواں کے لیے بہت سی این جی اوز اور فلاحی بہبود کے ادارے سرگرم رہے ہیں۔ خواتین کو معاشرے میں مقام دلانے اور حقوق دینے کی آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔ یہ ادارے خواتین کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنے کا دعوی کرتے ہیں جہاں وہ آزاد، بااختیار بنیں اور عزت سے اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ خواتین کا عالمی دن قریب آتا ہے تو حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اور متحرک ہو جاتی ہیں۔

ہر چینل پر خواتین کی آزادی کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ان کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن کیا عورت بس یہی چاہتی ہے؟َ سوال یہ پیدا ہپوتا ہے کہ اس وقت جب کہ ہم بیسویں صدی میں کھڑے ہیں کیا ہم خواتین کی ذہنی سطح کو سمجھ سکے ہیں؟

بات یہاں جنس کی نہیں کیوں کہ ایک مرد کسی موقع پر اپنی سوچ، ذہنی سطح کے اعتبار سے کسی عورت کی طرح ردعمل ظاہر کرسکتا ہے اور ایک عورت بھی مرد کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کچھ مردوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ چوڑیاں پہن لو اور کچھ عورتوں کو ’مرد مار‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بات ان جذبات اور احساسات کی ہے جو مرد میں بھی پائے جاسکتے ہیں اور خواتین میں بھی۔

خواتین کی نفسیات سمجھنے کے لیے ان کے کہے گئے لفظوں کے اندر اترنا ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الفاظ جو وہ اپنے منہ سے ادا کر رہی ہوں ان کا وہی مطلب بھی ہو۔ وہ چاہتی ہیں کہ کوئی ہو جو ان کی ان کہی باتوں کو بھی سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہاں ہم ان دس باتوں  کی نشان دہی کررہے ہیں جو اکثر خواتین کہتی ہیں، لیکن ان کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو عموماً لیا جاتا ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ آپ میری باتوں سے اتفاق بھی کریں، مگر انہیں یکسر مسترد بھی نہیں کرسکتے اور یہ نظر انداز کردینے والی باتیں بھی نہیں ہیں۔

’’میں ٹھیک ہوں‘‘

معنی: میں بالکل ٹھیک نہیں ہوں۔ میں چاہتی ہیں کہ جب میں کہوں کہ سب ٹھیک ہے تو کوئی ہو جو میری آنکھوں میں دیکھے اور کہہ سکے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

’’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘

معنی: حقیقتاً مجھے بہت فرق پڑتا ہے لیکن میں آپ کے سامنے اپنے مزید لفظ اب ضایع نہیں کرنا چاہتی کیوں کہ آپ کے اندر وہ صلاحیت ہی نہیں کہ آپ میری بات سمجھ سکیں۔

’’میں نے تمہیں معاف کیا‘‘

معنی: یہ وقتی ہے۔ کوئی اسے اپنے مہلت سمجھ کر اصل بات پر غور کرے۔ درحقیقت جب جب نئی لڑائی ہو گی یہ مسئلہ دوبارہ زیرِبحث آئے گا۔

’’مجھے معاف کردو‘‘

معنی: درحقیقت مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے لیکن میں مزید تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتی اس لیے اس مسئلے کو ختم کرتے ہیں۔

’’آپ فکر نہ کریں۔ میں خود کر لوں گی‘‘

معنی: دس دفعہ کہا تھا کہ یہ کام کردو لیکن نہیں کیا گیا تو اب میں خود کررہی ہوں اور اب کسی کو بیچ میں آنے کی ضرورت نہیں۔

’’مجھے سچ بتا دومیں غصہ نہیں ہوں گی۔‘‘

معنی: وہ سچ بتانا جو میں سننا چاہتی ہوں ورنہ لڑائی ضرور ہوگی۔

’’کیا میں اچھی نہیں لگ رہی؟‘‘

معنی: میں جانتی ہوں کہ میں بہت اچھی لگ رہی ہوں لیکن آپ نے ابھی تک نہیں کہا کہ میں اچھی لگ رہی ہوں۔

’’میں بہت موٹی ہوتی جارہی ہوں‘‘

معنی: میں چاہتی ہوں کہ آپ کہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور میں اب بھی آپ کو خوب صورت لگ رہی ہوں۔

’’جو کرنا چاہتے ہو وہ کرو‘‘

معنی: آپ کو میرا ذہن پڑھنا آنا چاہیے کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں تو اب آپ اس کے حساب سے میری مرضی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کام کریں۔

زنانہ نفسیات کو جاننے کے لیے کہے ہوئے لفظوں سے زیادہ جذبات اور رویوں  کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا گہرا سمندر ہے کہ جہاں سطح پر چاہے جتنا ہی سکون کیوں نہ ہو اندر بلا کا ارتعاش پایا جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ جب خاتون یہ کہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو سمجھ لو کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں؟ یہ تضاد کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ خواتین کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتیں؟ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ خواتین کو بچپن سے ہی منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر مرد دیر سے گھر آئے، سودا وقت پر نہ لے کر آئے، سال گرہ کا دن بھول جائے تو خواتین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ لیکن عموما خواتین کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ بیجا ردعمل ظاہر کر کے صرف ایک بھول کو طول دے کر مسئلہ بنا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار کرنے سے کترانے لگتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسائل اور بعض معاملات کے سبب مزاج میں چڑاچڑا پن آجاتا ہے اور ایسے میں مرد کا اس کی ان کہی بات نہ سمجھنا عورت کو مزید الجھا دیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت بار بار مسئلے کی نشان دہی کر کے اکتا چکی ہوتی ہے۔ جہاں لفظ اپنی تاثیر کھو جائیں تو وہاں خاموشی اپنا کردار ادا کرتی ہے لیکن اس خاموشی کا جواب اگر دوسرے طرف سے بھی خاموشی ہی ہو تو پھر مسئلے حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ  جاتے ہیں۔

ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عورت بھلے مشرق کی ہو یا مغرب کی ستائش اور چاہے جانے کی تمنا اس کے اندر فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے سراہا جائے، اس کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، اسے اہمیت دی جائے۔ اسے کسی لحاظ سے کم تر نہ تصور کیا جائے۔ اب اگر وہ یہ سب بر ملا کہے تو اسے بے جا آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بات تسلیم کی جائے کہ عورت کی ذہنی سطح تک آنے کے لیے اس کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ جب کہے کہ وہ ٹھیک ہے اس کے کہے ہوئے لفظوں پر یقین کرنے کے بجائے اس کی کیفیت کو محسوس کیا جائے۔ نیز یہ کہ مان لیا جائے کہ ایسا ممکن نہیں کہ عورت کو کسی بات سے فرق نہ پڑے۔ فطری طور پر عورت مرد سے زیادہ حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہے تو اگر وہ یہ کہے تو سمجھ جائیں کہ خطرے کی گھٹی بج چکی ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک عورت کو کچھ نہ چاہیے ہو۔ خواہ اس کی وارڈ روب کپڑوں سے کتنی ہی کیوں نہ بھری ہو لیکن وہ توجہ اور پیار کی طلب گار ضرور ہوگی۔

The post عورت کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کلارا بارٹن

$
0
0

مریضوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے نرسنگ کا شعبہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ کلارا بارٹن کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو نرسنگ کی بانی ہیں۔ یہ خاتون نہ صرف دنیا کی اولین نرس تھیں بلکہ انہوں نے امریکی ریڈ کراس کی بنیاد بھی رکھی۔ 25 دسمبر 1821 کو پیدا ہونے والی کلارا کے والد ایک سپاہی تھے۔

کلارا بارٹن تین سال کی تھیں جب اپنے بھائی کے ساتھ اسکول جانے لگیں، تعلیمی میدان میں انہوں نے ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن شرمیلی طبیعت کی وجہ سے اسکول میں صرف ایک ہی دوست بنا سکیں۔ والدین کو بیٹی کی اس عادت کا علم ہوا تو انہوں نے کلارا اس پر توجہ دینے کی ٹھانی۔ والدین نے فیصلہ کیا اور اپنی بیٹی کو ہائی اسکول میں داخل کروایا لیکن یہاں کلارا مزید کم گو اور اپنی ذات میں سمٹ گئیں۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ کلارا ملنے جلنے سے گریز کرنے کے ساتھ اب کھانا بھی نہیں کھاتی تھی۔ یہ جان کر والدین کی پریشانی بڑھ گئی اور انہیں اسکول سے واپس گھر بلا لیا۔

والدین نے اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ایک بیماری تصور کرتے ہوئے اس سے بیٹی کو نجات دلانے کی کوشش کی۔ والدہ نے اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے کلارا کی کزن سے مدد لی اور وقت کے ساتھ نہ صرف کلارا کا شرمیلا پن اور کم گوئی کی عادت ختم ہو گئی بلکہ اس کی صلاحیتیں بھی ظاہر ہونے لگیں۔ کلارا کی اس کزن کے کہنے پر اس کے والدین نے اپنی بیٹی کو اسکول ٹیچر بننے پر قائل کیا۔ اس طرح کلارا بارٹن نے سترہ سال کی عمر میں اس پیشے کا آغاز کیا۔ وہ اس میں گہری دل چسپی لینے لگیں اور انہوں نے ایک مہم چلائی جس کی وجہ سے کام کرنے والوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس نے کلارا بارٹن کا حوصلہ بڑھایا۔

وہ بارہ سال تک کینیڈا اور ویسٹ جارجیا کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتی رہیں۔ 1852 میں کلارا بارٹن نے بارڈن ٹاؤن میں ایسے اسکول کھولنے کا معاہدہ کیا جہاں بچوں کو مفت میں تعلیم دی جاسکے۔ اور یوں نیو جرسی کا پہلا مفت تعلیمی ادارہ قائم ہوا اور بہت کام یاب رہا۔ ایک سال بعد  انہیں پرنسپل کے عہدے سے یہ کہہ کر برطرف کردیا گیا کہ اتنے بڑے عہدے کے لیے عورت موزوں نہیں ہے۔ 1855 میں وہ واشنگٹن چلی گئیں اور ایک ادارے میں بطور کلرک کام کرنے لگیں۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ایک خاتون کو فیڈرل گورنمنٹ میں یہ عہدہ دیا گیا تھا۔

ساتھ ہی کسی مرد ملازم جتنی تنخواہ بھی دی جارہی تھی۔ وہ تین سال تک یہ ملازمت کرتی رہیں، لیکن اس دوران دفتر میں صنفی امتیاز اور مردوں کا ناروا سلوک اور توہین آمیز رویہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ کلارا بارٹن یوں تو دس سال کی عمر میں ہی بیماروں کی خدمت اور تیمار داری کے فرائض انجام دے چکی تھیں، مگر بعد میں یہ ان کا جنون بن گیا۔ جب کلارا بارٹن دس سال کی تھی تو اس کا بھائی چھت سے گر گر شدید زخمی ہوگیا تھا اور وہی اس کی تیمار داری اور خدمت کرتی رہیں۔ انہوں نے کسی اسکول سے باقاعدہ نرسنگ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت نرسنگ کی تعلیم کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور ایسا کوئی ادارہ بھی موجود نہ تھا۔ کلارا نے اپنے بھائی کے زخمی ہونے کے بعد معالج سے سیکھ لیا تھا کہ وہ بھائی کا خیال کیسے رکھ سکتی ہے اور دواؤں کے علاوہ اس کو کھلانا پلانا اور کیا غذائیں دینا ہے۔

امریکا میں سول وار کے زمانے میں وہ وطن کی خدمت کرنا چاہتی تھیں اور اس وقت زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور ان کا خیال رکھنے کی ضرورت پڑی تو کلارا آگے بڑھیں۔ انہوں نے تیمار داری کے ساتھ بھوکوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے اور ان تک ضرورت کا سامان  پہنچانے کا ذمہ اٹھایا۔ انہی دنوں بارٹن نے طبی اشیاء کو محفوظ کرنے اور زخمیوں کی ذہنی حالت اور جذباتی طور پر ان کو سہارا دینے کے بارے میں جانا اور سیکھا۔

یہ وہ دن تھے جب کلارا بارٹن نے اپنی پہچان فوجیوں کے ساتھ کام کر کے بنائی اور اپنی تمام صلاحیتوں کا سپاہیوں کے علاج اور ان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دینے کے لیے استعمال کیا۔

جنگ کے بعد کلارا بارٹن نے فوجیوں کے اہل خانہ کے ہزاروں خط دریافت کیے جنھیں متعلقہ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا کیوں کہ وہ سپاہی یا تو مرچکے تھے یا لاپتا تھے۔ بارٹن نے اس وقت کے صدر لنکن سے رابطہ کیا اور ان سے التجا کی کہ اسے سرکاری طور پر ان تمام خطوط کے جواب دینے کی اجازت دی جائے۔ صدر نے بارٹن کو اس کی اجازت دے دی۔ کلارا بارٹن اور اس کے ساتھیوں نے 41855 خطوط کے جوابات لکھے اور بائیس ہزار سے زیادہ لاپتا سپاہیوں اور دیگر افراد کا کھوج لگایا اور 13000 لوگوں کی تدفین کی۔

کلارا بارٹن کو  1865 سے 66 تک کے جنگ کے تجربات پر اپنے لیکچرز کی وجہ سے ملک بھر میں بہت مقبولیت ملی۔ اسی دوران ان کی ملاقات سوسن بی انتھونی سے ہوئی اور دونوں نے مل کر خواتین اور شہریوں کے حقوق کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 1868میں ناساز طبیعت کی وجہ سے وہ اپنا کام چھوڑ کر یورپ چلی گئیں۔

اس عرصے میں انہوں نیو ورلڈ ریلیف آرگنائزیشن، انٹرنیشنل ریڈ کراس کے ساتھ فرانس اور پرشیا کی جنگ  کے دوران کام کیا۔ جنگ کی شروعات کے وقت انہوں نے ملٹری اسپتال بنانے میں مدد کی ساتھ ہی جنگ کے دوران ریڈ کراس سوسائٹی کے ساتھ مل کر لوگوں کی بھرپور مدد کی۔ جنگ کے خاتمہ پر کلارا بارٹن  کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ اپنے وطن امریکا لوٹیں اور 1881 میں امریکا میں امریکی ریڈ کراس سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کی پہلی صدر قرار پائیں۔ اس بینر تلے وہ قدرتی اور جنگی آفات کے شکار لوگوں کی آخری دم تک مدد کرتی رہیں۔

کلارا بارٹن نے 1904 میں ریڈ کراس سے استعفی دے دیا۔ انہوں نے اس ادارے سے کبھی تنخواہ نہیں لی بلکہ امدادی کاموں میں ذاتی رقم بھی لگا دی۔ 12 اپریل 1912 کو یہ باہمت اور بہادر خاتون اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ زندگی میں بیمار اور محتاج انسانوں کی بھلائی اور خدمت کرنے پر متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والی اس خاتون کے نام پر آج بھی امریکا میں کئی تعلیمی ادارے اور سڑکیں موجود ہیں۔

The post کلارا بارٹن appeared first on ایکسپریس اردو.

راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں

$
0
0

باہمی اختلافات، شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے علاوہ معاشی پریشانی بھی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ اسی طرح بعض شادی شدہ خواتین سسرال میں نامناسب سلوک اور تکلیف دہ رویے کا سامنا کرتے ہوئے اس قدر تنگ آجاتی ہیں کہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔

خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ناچاقیاں جنم لینے لگتی ہیں اور لڑکیاں خلع لینے پر غور کرنے لگتی ہیں۔ گو کہ سماج میں طلاق کو ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود طلاق/ خلع کی شرح میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں عدم برداشت اور حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے لڑکیوں کا اپنے شوہر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلینا بھی شامل ہے۔ خصوصاً لڑکیاں شادی کے بعد ایک ایسی زندگی کے خواب دیکھتی ہیں جو ڈراموں اور فلموں کی حد تک تو سمجھ آتی ہے، لیکن حقیقی زندگی اس سے یکسر مختلف ہے۔

رشتوں کو نبھانے سے لے کر معاملات و فرائض کی احسن انداز میں انجام دہی ہی کام یاب زندگی کی متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ برداشت کا مظاہرہ، تحمل سے کام لینا اور درگزر کرنا بھی ضروری ہے۔ تاہم علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہو یا برداشت اور درگزر سے کام لینا ہو یہ ایک شادی شدہ خاتون ہی زیادہ بہتر سمجھتی ہے، اور اگر حالات بہت بگڑ چکے ہوں تو اپنی عقل اور فہم سے کام لینے کے ساتھ بڑوں کے مشورے سے علیحدگی کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے جس کی شریعت اور قانون نے اجازت بھی دی ہے، لیکن غیرضروری ردعمل ظاہر کرنے کی عادت اور جذباتی ہو کر کوئی بھی فیصلہ کرنا یقیناً ایک اور مسئلے کو جنم دے سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کئی جوڑے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔

لہٰذا ایک خاتون کو بیوی کے ساتھ بہو، بھابھی، دیورانی، جٹھانی، چاچی، ممانی وغیرہ کے سسرالی رشتوں کو بھی نبھانا پڑتا ہے، جس میں نامناسب رویوںٕ کی وجہ سے تلخیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں اور لڑائی جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں، کبھی ساس، نند، دیورانی، جٹھانی کا وجود ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ کبھی اپنے اور سسرالی عزیزوں کے بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں، بڑوں میں تلخیوں اور جھگڑوں کی وجہ بنتی ہیں تو کہیں گھریلو کام کاج پر بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

غرض وجہ کوئی بھی ہو لیکن علیحدگی کے متعلق سوچنے یا طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں۔ کیوں کہ اکثر اوقات علیحدگی کے بعد لاحق ہونے والے مسائل کے آگے اس فیصلے کی وجہ بننے والے جھگڑے اور تلخیاں معمولی معلوم ہوتی ہیں۔ بسا اوقات محض اپنی انا کی جنگ جیت کر عمر بھر کے پچھتاوے مول لینے پڑتے ہیں۔ کسی بھی جذباتی فیصلے سے قبل اگر اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو زندگی بھر کے پچھتاووں سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود سے چند سوال کریں۔

طلاق/خلع لینے کی وجوہات کیا ہیں؟

آپ اس فیصلے کی وجوہات لکھیں یا سوچیں کہ کیا وہ وجوہات اتنی بڑی ہیں کہ اس پیار بھرے رشتے کو اس طرح ختم کردیا جائے۔ عمر بھر کے لیے بچوں کو باپ اور ماں کے درمیان بانٹ دیا جائے یا ان کو ننھیال اور ددھیال کے درمیان جھولتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ عموماً ساس، نندوں، دیورانی، جٹھانی سے ہونے والے جھگڑے یا بچوں کے آپس کے جھگڑے بھی اس فیصلے کی وجہ قرار پاتے ہیں۔ ذرا سوچیں کیا کسی اور کی وجہ سے اپنے شوہر سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جانا چاہیے جب کہ وہ آپ کا بہترین رفیق اور حامی بھی ہو۔ دوسری طرف بعض خواتین کو شوہر کی مصروفیت کا گلہ رہتا ہے۔ اگر یہ معاشی مصروفیات ہیں اور شوہر آپ کی اور اپنے بچوں کی آسائشوں کے لیے، گھریلو اخراجات سے لے کر بچوں کی اسکول کی فیسوں تک تمام بوجھ اٹھا رہا ہے تو کیا اس پر روٹھ کر میکے چلے جانا اور طلاق کا مطالبہ کرنا عقل مندی ہے؟

اکثر خواتین کو یہ شک ہوتا ہے کہ (کچھ خواتین کو یقین بھی ہوتا ہے) کہ شوہر کی دوسری عورتوں سے دوستی یا روابط ہیں۔ اس ضمن میں بیش تر گھرانوں میں جھگڑے طول پکڑ جاتے ہیں اور علیحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کوئی بھی عورت یقیناً یہ سب برداشت نہیں کرے گی، مگر فوری ردعمل دینے اور طلاق کا مطالبہ کرنے سے پہلے سوچیں کہ آپ نے کبھی کچن سے باہر نکل کر اور شاپنگ کے لیے رقم کا مطالبہ کرنے کے علاوہ بھی شوہر پر توجہ دی ہے۔ اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کی فکر کی ہے؟ اپنی شخصیت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ لب و لہجے میں مٹھاس پیدا کریں۔ یاد رکھیں نکاح کے بندھن میں رب کریم نے بہت طاقت رکھی ہے۔ شوہروں سے شکوہ کرنے کے بجائے محبت کے میٹھے بول سے اس کا دل جیت لیں۔ اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔

معاشی خوش حالی نہ رہے تو بھی میاں بیوی کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ حالاں کہ ایسے موقع پر بیوی کو شوہر کا ساتھ دینا چاہیے، اس کی ہمت بندھانے کے علاوہ اگر بیوی تعلیم یافتہ یا ہنر مند ہے تو مالی بوجھ بانٹنے کے لیے تگ دو کرے۔ یہ عمل اس رشتے کو مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر میں بھی بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں۔ اب تو آن لائن بھی کام کرکے پیسے کماسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اپنے بچوں کے جذبات اور ان کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچیں۔ بچوںکی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں۔ علیحدگی کی صورت میں وہ جس ذہنی خلفشار کا شکار ہوںگے، ان کی شخصیت میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوگی اسکول کے دوستوں سے لے کر اپنے کزنز تک وہ سب کے سوالات کا کیا جواب دیںگے۔ چند لمحوں کے لیے بچوں میں شرمندگی اور احساس کمتری کا تصور کریں۔ گھر ٹوٹنے سے بچوں کی شخصیت میں عمر بھر کے لیے خلا رہ جاتا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اگر آپ کی نظر میں علیحدگی ہی آخری حل ہے تو اس کے بعد کے مسائل کا بھی ادراک کرلیں۔

’’میکے میں کیا مسائل پیش آسکتے ہیں‘‘

بسا اوقات خواتین کا میکے روٹھ کر جانے کا مقصد طلاق یا خلع لینا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ محض کچھ دن رہنا چاہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ بعد میں شوہر مناکر لے جائے گا لیکن اس موقع پر اکثر اوقات والدین بیٹی کی شکایت اور رونے دھونے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بیٹی کو گھر میں روک لیتے ہیں۔ ادھر کبھی شوہر اپنی بیوی کے روٹھ کر میکے جانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے اور اسے منانے نہ جائے تو بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ لہٰذا کبھی اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی نہ کریں۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں اگر خلع کے ارادے سے ہی میکے جاتی ہیں تو کیا میکے والے آپ کے فیصلے کی تائید کریںگے؟ میکے میں والدین کے علاوہ بھائی، بھابھیاں، بہنیں وغیرہ کیا آپ کے مستقل قیام سے خوش ہوں گے؟ کیا آپ میکے میں بچوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں یا اپنے ہی رشتوں کے بدلتے تیوروں والے ماحول میں رہ پائیںگی؟ چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے آپ کے میکے آنے پر جس طرح استقبال کیا جاتا ہے وہ جذبہ اور گرم جوشی آپ کی اس طرح آمد پر ہرگز نہیں نظر آئے گی۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ اخراجات سب سے اہم مسئلہ بن جاتے ہیں۔ خلع کے مقدمے سے لے کر بچوں کی حوالگی کے کیس تک خطیر رقم درکار ہوگی۔ خلع کے بعد بھی جہیز کا سامان، نان نفقہ، بچے کس کے پاس رہیںگے۔ یہ تمام معاملات شرعی و قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر طے کیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے یہ سوچیں کہ اگر بچے شوہر کے پاس رہیں تو کیا آپ ان کے بغیر رہ پائیںگی۔ میاں بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کی سزا بچے کیوں بھگتیں؟ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ آپ جذباتی فیصلہ ان کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ اور ان کا اعتماد مجروح کرسکتا ہے۔

بچوں کے تعلیمی اخراجات سے لے کر دیگر اخراجات تک ہر ماہ خاص رقم درکار ہوگی۔ اگر نان نفقہ نہیں ملتا یا ناکافی ہو تو والدین یا بھائی کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ ابتدا میں اکثر والدین خرچہ اٹھانے کی حامی بھرلیتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ ممکن نہیں رہتا اور اخراجات ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اگر خود ملازمت کرنا چاہتی ہیں تو کیا تعلیم یا ہنر سے اتنا کمالیںگی کہ بچوں کا اور اپنا خرچہ اٹھاسکیں۔ عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں۔ آپ نے ان کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے تو سوچیں دوسرا شوہر آپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد شوہر کی چند خوبیوں اور خامیوں پر بھی نظر ڈالیں اور پوری دیانت داری اس کا تجزیہ کریں۔ اگر بہت سے خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہیں تو انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ جھگڑے کی وجوہات سے لے کر اپنی اور اپنے شریکِ حیات خوبیوں اور خامیوں کو مد نظر رکھتے اور علیحدگی کی صورت میں میکے میں ہونے والے مسائل ہوئے کوئی فیصلہ کریں۔

ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیجیے۔ حوصلے اور ہمت سے کام لے کر نئی زندگی کا آغاز کیجیے اور محبت و خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجیے۔

The post راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سربیا میں ’’بچے سو بھی اچھے‘‘

$
0
0

دنیا میں جہاں پاکستان سمیت بہت سے ممالک بڑھتی آبادی سے پریشان ہیںِ، وہیں ایسے ملک بھی ہیں جو گھٹتی آبادی سے خائف ہیں۔ ایسا ہی ایک دیس ہے سربیا۔

اس یورپی ملک میں تلاشِ معاش کے لیے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک ہجرت اور بچوں کی شرح پیدائش کم ہونے کے باعث آبادی میں غیرمعمولی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کے مطابق 2050تک سربیا کی آبادی میں 15 فی صد کمی واقع ہوجائے گی۔ اس وقت بھی سربیا میں شرح ولادت فی خاندان ایک اعشاریہ پانچ ہے، جو یورپ میں سب سے کم ہے۔

اس صورت حال نے سربیا کی حکومت کو ملک کے مستقبل کی بابت خوف زدہ کردیا ہے اور وہ لوگوں خصوصاً نوجوان جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے اُکسا رہی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر سربین حکومت کا کہنا ہے’’بچے سو بھی اچھے۔‘‘ اس سلسلے میں ایک نعرہ دیا گیا ہے ’’بچے پیدا کرو، تاخیر مت کرو‘‘، ایک اور سلوگن کہتا ہے’’بچوں کا رونا سُننے دو۔‘‘ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے حکام نے نہایت کم شرح ولادت والے علاقوں میں جوڑوں کو کم ترین نرخوں پر ایک منزلہ عمارت کے مکان بنا کر دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔

اس تجویز کی بنیاد سربین صدر Aleksandar Vucic کا یہ خیال ہے کہ مکانوں میں فلیٹوں سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں! فروری میں متعلقہ وزارت نے شرح پیدائش بڑھانے کے لیے سلوگنز کا ایک مقابلہ منعقد کرایا، جس میں،’’مام! میں اکیلا رہنا نہیں چاہتا،’’ڈیڈ! مجھے ایک بھائی چاہیے‘‘ اور ’’محبت اور بچے ہماری سب سے پہلی ضرورت ہیں‘‘ کے سلوگن دینے والے بھی فاتحین میں شامل تھے۔ اس ضمن میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت تیسرا اور چوتھا بچہ پیدا کرنے والے والدین کو دس سال تک ماہانہ 30 ہزار دینار (سربین کرنسی) دیے جائیں گے۔

ایک زمانہ تھا کہ ریاست یوگوسلاویا کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی سرب کوسوو اور بوسنیا کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اس قتل عام کو ’’نسلی صفائی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ قدرت سَربوں کا نسلی صفایا کر رہی ہے۔

سربیا کی حکومت شادی شدہ جوڑوں کو آبادی بڑھانے کے لیے جتنی مراعات دینے پر تُلی ہے اور جس طرح التجائیں کر رہی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سربین جوڑے اولاد کی تعداد بڑھانے پر کسی طور آمادہ نہیں۔ ایک ہم پاکستانی ہیں، جو ’’بچے دو ہی اچھے ‘‘ کا مطلب لیتے ہیں کہ ’’بھیا! کم ازکم چھے آٹھ ہوں بچے گے تو اُن میں سے دو اچھے نکلیں گے۔‘‘ اسی طرح ’’کم بچے، خوش حال گھرانا‘‘ کے ’’کم‘‘ کو انگریزی کا Come سمجھا جاتا ہے۔

سربین صدر کا خیال ہے کہ فلیٹ بچوں کا راستہ روکے کھڑے ہیں، اور ایک منزلہ مکانات میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ بچے سوچ سمجھ کر تھوڑی پیدا ہوتے ہیں کہ کہاں پیدا ہونا ہے، نہ اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ میاں! آپ اپنی ولادت کے لیے کسی بنگلے کا انتخاب کریں گے، چھوٹے سے مکان میں پیدا ہونا پسند فرمائیں گے یا فلیٹ میں تولد ہونا چاہیں گے؟ اگر وہ پاکستان کا تفصیلی دورہ کرلیں تو اپنی رائے بدل لیں گے، یہاں بڑی بڑی کوٹھیوں میں زیادہ سے زیادہ دو اچھے بچے ہی روتے ملیں گے، لیکن فلیٹوں سے لخت جگر نورنظر نکلتے دیکھ کر وہ اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیں گے۔

سربیا کی صورت حال دیکھ کر پروین شاکر کے اس مصرعے کو مبنی برحقیقت تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ’’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔‘‘ باقی دنیا کے بچے تو ہونے کے بعد چالاک ہوئے، لیکن سربیا میں تو ہونے سے پہلے ہی چالاک ہیں، اب وہ چالاکی سے کام لیتے ہوئے حکومت کو ترسا رہے ہیں، تڑپا رہے ہیں، رُلارہے ہیں، تاکہ پیدا ہوں تو ان کے خوب نخرے اٹھائے جائیں، وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں اور ان کے والدین کو نوازا جائے۔ شریر کہیں کے۔

محمد عثمان جامعی
usman.jamai@express.com.pk

The post سربیا میں ’’بچے سو بھی اچھے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>