Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

راستہ کوئی مل ہی جائے گا!

$
0
0

ایک طرف ہم زندگی کے مختلف ادوار کے نشیب و فراز، حالات کی سختیوں، کٹھن مراحل کا سامنا کرتے ہیں تو دوسری جانب اسی کشاکش میں ہمارے خواب اور بعض خواہشات بھی ہمیں مشکلات اور تکلیف سے دوچار کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی بے رنگ اور پھیکی ہے۔

کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور ایسے میں ہم اپنے خیالات اور جذبات میں توازن برقرار نہ رکھ سکیں تو صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے اور ہماری شخصیت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ عدم توازن بھی تو زندگی کا ایک حصّہ ہے، مگر اس طرف فوری توجہ دینے اور مثبت سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے زندگی میں بتدریج بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے خیالات اور جذبات پر قابو رکھتے ہوئے زندگی کو متوازن رکھ سکتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خوشیوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

جب ہم عملی زندگی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں تو اس میں کام یابی اور ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا دل اور دماغ اس ناکامی کو قبول نہیں کر پاتا اور ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے اور گھروں میں رہنے والی عورتوں کی اکثریت اس کا شکار ہے۔ تاہم ان میں بیش تر اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ وہ کیسے ذہنی اور اعصابی تناؤ کے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہیں۔ یاد رکھیے خود آپ کو اپنا خیال رکھنا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ کیسے پُرسکون رہ سکتی ہیں۔ آپ سمجھتی ہیں کہ منفی سوچوں سے کیسے نجات ممکن ہے۔

یہ آپ ہی جانتی ہیں کہ پژمردگی، اداسی اور ذہنی تناؤ کی اصل وجہ کیا ہے۔ آپ کے ماں باپ، بہن بھائی یا شوہر آپ کا مسئلہ سن سکتے ہیں، حوصلہ دے سکتے ہیں اور آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں، مگر اس کیفیت سے خود آپ کو باہر نکلنا ہو گا۔ ڈپریشن ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہماری عدم توجہی کی وجہ سے پیچیدہ اور نہایت اذیت ناک ہو سکتا ہے۔

سب سے پہلے گھر سے بات شروع کرتے ہیں۔ گھر کا ماحول، آپ کے اہلِ خانہ بھی ذہنی دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل اور زندگی کی ناہم واریاں، لوگوں کے رویّے بھی آپ پر برا اثر ڈال سکتے ہیں، مگر سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ فقط آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسائل اور مشکلات کا سامنا آپ کی طرح سبھی کو ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ کئی لوگ آپ سے زیادہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم زندگی اور اپنے اردگرد بسنے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے الگ تھلگ رہنے لگیں۔ ہر وقت کسی سوچ میں گم رہیں اور اداسی کو خود پر طاری کر لیں؟ یہ غلط ہے۔ آپ سمجھ دار ہیں۔ ذرا سوچیں کتنی ہی خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ کتنے ہی لمحے ہیں جو آپ کو مسرت سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ان کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ زندگی کے حُسن کو محسوس کرنا ہے۔

عموماً شادی کے بعد لڑکیاں نئے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتیں اور اکثر سسرالیوں کے رویے، منفی برتاؤ اور روک ٹوک کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ یقیناً ایک مشکل اور کڑا مرحلہ ہے، لیکن کیا مسلسل کڑھنے اور ذہنی دباؤ کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یہ ایک مثبت علامت ہے۔ اب آپ کو سوچنا ہے کہ اس سے کس طرح باہر نکلا جاسکتا ہے۔ شوہر یا ساس اور نند کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اور بعض عادات کی وجہ سے جھگڑے جنم لیتے ہیں۔

ممکن ہے کہ آپ میں کوئی کمی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سسرالی آپ کی عادات سے ناخوش ہوں۔ اس طرف بھی توجہ دیں، کیوں کہ ذہنی دباؤ جب اعصاب پر حاوی ہو جائے تو غوروفکر اور مسئلے کو مل بیٹھ کر سلجھانے اور دوسروں کی باتوں کو مثبت انداز سے سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل، روک ٹوک اور بے جا پابندیاں یقیناً آپ کے لیے بڑا مسئلہ ہوں گی، مگر احساسِ کمتری سے باہر نکلیں اور اس کا حل سوچیں تو کام یابی آپ کا ہاتھ ضرور تھامے گی اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ کہاں غلط ہیں۔

عام مشاہدہ ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے جینے کی امنگ دم توڑنے لگتی ہے اورسب کچھ بے معنی سا لگتا ہے۔ مایوسی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور زندگی میں خالی پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ نیند روٹھ جاتی ہے اور ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب آپ خواب آور ادویہ کے استعمال کی عادی ہو جاتی ہیں، مگر ایسی نوبت ہی کیوں آئے؟ اس کا کوئی اور حل کیوں نہ ڈھونڈیں۔

ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ مالی مسائل بھی ہیں،کم آمدنی میں گزارا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ایسے میں عورت ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ فکرمند رہتی ہے اور سوچوں کی یلغار اسے ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مثبت سوچ اپنائے تو کوئی اچھا اور بہتر حل نکل سکتا ہو، لیکن وہ ایسا نہیں کرتی۔ آپ اپنا طرزِ فکر بدلیں اور کوئی تدبیر کریں تو حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے اگر آپ ایسی کیفیات کا سامنا کر رہی ہیں تو اپنے کسی قریبی عزیز یا سہیلی سے دل کی بات کریں۔ اس سے اپنے جذبات اور احساسات شیئر کریں اور مدد چاہیں۔ خود کو خول میں بند یا تنہا کرلینا کسی طرح درست نہیں۔

گھر کا سخت ماحول، بے جا پابندیاں اور والدین میں جھگڑے بچوں کی شخصیت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ بھی آپ کی طرح ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ شوہر کی بیوی پر بے جا تنقید اور بیوی کا شوہر پر بلاوجہ طنز بھی فیملی میں ذہنی تناؤ اور دوریوں کا سبب بنتا ہے۔ بچیاں اپنی ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ وہ انہیں جلتا کڑھتا اور فکر میں ڈوبا ہوا دیکھتی ہیں تو وہ بھی ڈسٹرب ہوتی ہیں اور اپنے دل و دماغ پر بوجھ محسوس کرتی ہیں جو انہیں بھی ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی اکثریت لگی بندھی زندگی گزارتی ہے۔ روزمرہ کے کام اور ٹیلی ویژن کے سامنے چینل بدلنا ہی ان کی زندگی بن جاتی ہے۔ یاد رکھیے معمولات کی یکسانیت بھی زندگی میں اداسی بھر دیتی ہے۔ یہ بھی پریشانی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ کیوں نہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے خوشیاں کشید کی جائیں اور ڈپریشن کو شکست دی جائے۔ آپ کو روزمرہ کاموں سے چند لمحات اپنے لیے نکالنے ہیں۔ اپنے آپ کو سنوارنے یا کچھ بھی ایسا کرنے میں وقت صَرف کرنا ہے جس سے آپ کو خوشی مل سکے۔

اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ جب چاہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے اندر آتی دھوپ کو محسوس کرسکتی ہیں۔ صبح کچن میں جانے سے پہلے آسمان کو دیکھیں۔ رات کا کھانا ڈائننگ ٹیبل پر سجانے کے بجائے چھت پر دستر خوان بچھا کر کھائیں۔ گھر والوں کی مدد سے یہ آپ سب بہت آسانی سے کر سکتی ہیں۔ ٹھنڈی ہوا اور کھلا آسمان آپ کے لیے تبدیلی کا سبب بنے گا۔ یہ ایک نیا احساس ہو گا جو آپ کو ذہنی تناؤ سے کسی حد تک ضرور دور لے جائے گا۔ ناشتے کی تیاری کے لیے باورچی خانے میں جانے سے پہلے ایک نظر آئینے میں اپنا آپ دیکھیں۔ ابھی آپ کے پاس کچھ وقت ہے تو کیوں نہ آج صبح ہی صبح بالوں کا اسٹائل تبدیل کرلیں۔ گملے یا کیاری میں اگر تازہ پھول مل جائے تو اپنے بالوں میں سجا لیں۔ یہ تبدیلی آپ کو خوشی دے سکتی ہے۔

اسے آپ ہی نہیں گھر کے دیگر افراد بھی محسوس کریں گے اور آپ کو ذہنی دباؤ سے نکلنے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور معمول سے ہٹ کر کام کرنا آپ میں مثبت تبدیلی کا سبب بنے گا۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے اس طرح آگے بڑھتی رہیں تو ڈپیریشن بہت جلد آپ کا پیچھا چھوڑ دے گا اور اس کے بعد آپ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل بھی ہوجائیں گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین بے سبب پریشان رہتی ہیں اور چھوٹے سے مسئلے کو بھی بڑا بنا لیتی ہیں۔ کسی سے مشورہ کرنے اور اپنے دل کی بات بتانے کے بجائے خود ہی نتائج بھی اخذ کر لیتی ہیں اور یہ سب ان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ ہم سب سے زندگی میں کہیں نہ کہیں غلطی ہوتی ہے جس کے بعد ہمیں پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اس پر کڑھنے کے بجائے مزید غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں تو بہتر ہو گا۔

یہ ضروری نہیں کہ کسی خاص موقع پر ہی آپ کوئی کیک بنائیں۔ اگر آپ کو روٹین سے ہٹ کر کام کرنے سے خوشی ملتی ہے تو ضروری نہیں کہ کسی کی برتھ ڈے کا انتظار کریں بلکہ آج کیک بنا لیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کو کسی تقریب میں نہیں جانا اور نہ ہی کوئی مہمان آپ کے ہاں آرہا ہے، مگر شوخ رنگ کا کوئی منہگا ڈریس آج کچھ دیر کے لیے پہن لیں گی تو کیا ہو جائے گا۔ خود کو یقین دلائیں کہ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

اکثر لڑکیاں خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔ رومانس پر مبنی کہانیوں اور ٹیلی ویژن ڈراموں کا کچے اور ناپختہ ذہنوں پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگتی ہیں اور جب ان کا آئیڈیل نہیں ملتا تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ ان پر خصوصی توجہ دیں اور افسردگی اور مایوسی کی علامات دیکھیں تو انہیں بالکل نظر انداز نہ کریں۔ یہ مت سوچیں کہ کچھ دن بعد وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی بل کہ ان سے بات کریں اور ان کے دل کی بات سن کر مسئلے کا حل نکالیں۔

زندگی کے یہ سارے مسائل حل نہیں ہوسکتے، لیکن ہم کوشش کر کے ان کا دباؤ کم اور ان کے بوجھ سے بڑی حد تک باہر نکل سکتے ہیں۔ صبح یا شام کے اوقات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلیں اور کھلی فضا میں کچھ وقت گزاریں۔ اپنے بیڈ روم کی چادر اور پردے خود تبدیل کریں۔ اگر آپ شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہیں تو سر پرائز دینے کی عادت ڈالیں۔

بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور خریدیں جسے دیکھ کر وہ کِھل اٹھیں۔ ماں باپ کی طرح آپ اپنے ساس، سسر کے ساتھ چند لمحے ضرور بیٹھیں۔ ان سے اپنی پریشانی بانٹیں اس طرح ان کے دل میں آپ کی عزت اور آپ سے ہم دردی بڑھ جائے گی۔ یاد رکھیے، ڈپریشن صرف اسی صورت آپ کا پیچھا چھوڑ سکتا ہے جب آپ خود کو اس سے دور رکھیں گی۔

The post راستہ کوئی مل ہی جائے گا! appeared first on ایکسپریس اردو.


جادوگرنیاں؛ حقیقت یافسانہ

$
0
0

جادو کیا ہے؟ یہ سوال یقینا ذہنوں میں ایک تجسس ابھارتا ہے۔ جادو ان چند موضوعات میں سے ایک ہے جس کی حقیقت جاننے کا اشتیاق ہمیشہ سے ہی انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جادو ایک شیطانی علم ہے۔

وہ معاشرے جن میں تعلیم عام نہ ہو، اسی طرح کے توہمات کا شکار رہتے ہیں۔ انسانی فطرت میں حسد و بغض کا جذبہ موجود ہے، جس کی وجہ سے انسان جادو کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے جتن کرتا ہے یا پھر اپنی ناآسودہ خواہشات کی فوری تکمیل کے در پر رہنے کے سبب کسی شارٹ کٹ یا مختصر راستے کی تلاش اسے اس طرح کے قبیح افعال کی طرف مائل کرتی ہے۔

اسی لیے ہمارے دین اسلام نے، جو دین فطرت ہے، ہمیں یہ تاکید کی ہے کہ ہم حسد، جلن اور بغض وغیرہ جیسی برائیوں سے بچیں اور اسلام کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلیں اور صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کیونکہ سب کچھ کرنے کا حقیقی اختیار تو صرف اسی کے پاس ہے۔اس کے باوجود زمانۂ قدیم سے ہی اکثر لوگ جادو کا علم سیکھنے اور جادوگر بننے کی طرف مائل ہوتے رہے جبکہ دوسری طرف مذہبی طبقات ان کے خلاف صف آرا ہوکر اس کے خاتمے اور معاشرے کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔

تاہم اس کشمکش میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں جادو کی روک تھام کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں ظلم و زیادتی اور تشدد کا عنصر شامل ہوگیا اور بظاہر ایک اچھے مقصد کے حصول کے نیک کام میں ذاتی منفعت ومفاد جیسے عوامل نے ایک خاص طبقے کو مذہب کا نام استعمال کرکے اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے اور خود کو دوسروں سے ممتاز ظاہر کرکے اپنے مفادات کے تحفظ جیسے مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن کردیا۔

اس ضمن میں یورپ کی تاریخ کا 15 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک کا زمانہ بطور خاص نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے ’’ارلی ماڈرن یورپ‘‘ (Early Modern Europe) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب ’’مڈل ایجز‘‘ (Middle Ages) کا دور اختتام پذیر جبکہ ’’صنعتی انقلاب‘‘ (Industrial Revolution) کے زمانے کا آغاز ہورہا تھا۔ اسی دور میں یورپ بھر میں بالخصوص اور تمام مغربی دنیا میں بالعموم وسیع پیمانے پر یہ خوف اپنے پنجے گاڑنے لگا کہ معاشرے کو شیطانی قوتوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، جو اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے کوشاں اور پس پردہ اپنے غلبے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

عام تاثر یہ تھا کہ عیسائت خطرے میں ہے اور شیطان اپنی آلہ کار عورتوں یعنی جادوگرنیوں کو اس سلسلے میں بروئے کار لاکر اپنا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ اس بات میں کتنی صداقت تھی تاہم اس دور کا مذہبی طبقہ خم ٹھونک کر اس برائی کے سدباب کیلئے میدان میں کود پڑا اور جن لوگوں پر بھی شیطان کا پیروکار اور جادوگر ہونے کا ذرا سا بھی شبہ ہوا یا اس پر ایسا الزام لگا، اس کو سرسری سماعت کی مذہبی عدالتوں سے سولی دیئے جانے یا آگ میں زندہ جلائے جانے کی سزائیں دی جانے لگیں۔

کئی لوگوں کو سنگسار کیا گیا اور بہت سوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ملزموں کی اکثریت یعنی تقریباً 75 فیصد عورتوں پر مشتمل تھی۔ جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ جادوگرنیاں ہیں اور اپنے جادو کے ذریعے لوگوں کو بیمار یا زخمی کردیتی ہیں۔ مبینہ طور پر وہ یہ عمل اپنی خفیہ میٹنگز جنہیں ’’ویچز سباتھس ’’ (Witches Sabbaths) کہا جاتا تھا، میں سرانجام دیتی تھیں۔

مذہی عدالتوں کے ذریعے جادوگروں کو دی جانے والی سزاؤں کے ڈانڈے یورپ کی تاریخ کی 12 ویں صدی، جسے ’’لیٹ مڈل ایجز‘‘ (Late Middle Ages) کہا جاتا ہے، کے زمانے سے جاملتے ہیں۔ جس میں عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا ’’پوپ انوسینٹ ہشتم‘‘ (Pope Innocent VIII) نے مذہبی راہنماؤں کو جادوگری کے خلاف اقدامات کے لیے پورے اختیارات دیئے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے احکامات صادر کیے تھے۔ 16 ویں تا 17 ویں صدی کے یورپ میں قدامت پسند عیسائی فرقوں اور ’’پروٹیسٹنٹس‘‘ (Protestants) کے درمیان ہونے والی مذہبی فرقہ وارانہ جنگوں کے دوران جادوگری کے سدباب کی کوششیں بھی اپنے عروج کو جاپہنچیں۔ اندازہ ہے کہ 30 تا 60 ہزار افراد جادوگری کے ان مقدمات کی بھینٹ چڑھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 1692ء میں صرف امریکی شہر ’’سلم‘‘ (Salem) میں ہی درجنوں لوگوں کو جادوگر ہونے کے الزام میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے علاوہ قریباً 150 افراد زنداں میں ڈال دیئے گئے۔ امریکی ریاست ’’میساچیوسیٹس‘‘ (Massachusetts) کی تاریخ کے اس سیاہ دور میں جادوگری کے الزام میں محض عورتوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا (جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے) بلکہ بہت سے مردوں کوبھی شیطان کے چیلے قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تاہم اس ظلم کا شکار عموماً عورتیں ہی بنیں، جنہیں چڑیل قرار دے کر سولی پر لٹکا دیا یا زندہ جلا دیا گیا۔

دیگر بہت سے افراد فوری مرنے سے تو بچ گئے لیکن ان کی باقی ماندہ زندگیاں قید خانوں میں ہی گزر گئیں۔ یہاں تک کہ ان کو موت نے اس قید سے رہائی دلائی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بربریت کی زد میں آنے والے صرف انسان ہی نہ تھے بلکہ جانور بھی اس کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ محض چھوٹے چھوٹے بچوں کی اس گواہی اور بیان دینے پر کہ کتوں نے جادو کے زور پر انہیں کپکپانے اور بعدازاں ان کے جسموں کو پتھر کی طرح سخت بنا دینے پر مجبور کردیا تھا، کئی کتوں کو مار دیا گیا۔ یہ وہی الزام تھا جو اکثر لوگ دوسرے انسانوں  پر بھی لگا کر انہیں جادوگر یا جادوگرنی ثابت کرتے تھے۔

ظلم و زیادتی کی انتہا یہ ہے کہ مبینہ جادوگرنی یا وہ لوگ جن پر ملحدانہ عقیدہ رکھنے کا الزام ہوتا تھا، کو ان الزامات کی بنیاد پر سرسری سماعت اور ناکافی ثبوتوں کے باوجود فوراً ہی نظر آتش کردیا جاتا یا سولی پر چڑھا دیا جاتا جبکہ وہ بدنصیب جو اس انجام سے بچ کر قید خانے میں ڈال دیئے جاتے وہ وہیں سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہوجاتے۔

ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کئی ملزموں کو سنگسار کرکے مار دیا گیا۔محققین کے مطابق اس سب ظلم و ستم کا سبب صرف مذہبی انتہا پسندی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے نامساعد حالات کی وجہ سے معاشرے میں پائی جانے والی ذہنی کج روی اور بے چینی، ذاتی دشمنیاں اور ضعیف الاعتقادی جیسے عوامل بھی کارفرما تھے، جو لوگوں کو اس بات پر اکساتے تھے کہ وہ کسی پر جادوگر ہونے کا الزام لگا کر اپنا کسی بھی قسم کا ذاتی، معاشی، معاشرتی یا سماجی غبار اس بیہمانہ طریقے سے نکال کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرسکیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی عورت پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگانے والی زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔ اندازہ ہے کہ وہ لڑکیاں ان عورتوں کی شخصیت سے کسی بھی وجہ سے حسد محسوس کرتی تھیں۔

اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس زمانے میں کیونکہ طب نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور شہروں اور قصبوں میں صفائی ستھرائی کی کمی، گندگی، حفظان صحت کے اصولوں کی عدم پاسداری اور سہولیات کے فقدان کے باعث جنم لینے والی بیماریوں مثلاً تشنج اور چیچک وغیرہ کی کیفیات اور علامات کو کسی جادوگر کی کارستانی قرار دے کر کسی پر بھی اس کا الزام دھر دیا جاتا، حالانکہ الزام کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہوتے تھے اور یوں وہ غریب مارا جاتا۔

البتہ تصویر کا دوسرا یہ رخ بھی مدنظر رہے کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاتا سکتا کہ اس مکروہ الزام کا سامنا کرنے والے تمام افراد ہی بے گناہ ہوتے تھے۔ یقینا ان میں سے کئی درحقیقت شیطان کے پجاری بھی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اعتراف بھی کرلیتے تاہم یہ دوسری بات ہے کہ اعتراف کرنے والے اکثر بے گناہ اس لیے بھی ایسا کرتے تھے تاکہ انہیں کم سزا ملے، کیونکہ اپنے آپ کو گناہ گار نہ ماننے والوں کو ساتھ اور بھی زیادہ تشدد اور مارپیٹ ہوتی تھی اور آخر کار انہیں سزا کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا تھا۔ اکثر واقعات میں اعتراف جرم کرنے والا اپنے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھی ملوث قرار دے کر انہیں بھی پھنسوا دیتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ایسا انتقاماً کرتا یا مجبوراً۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سرکاری طورپر انتظامیہ نے ان جرائم پر 1957ء تک عوام سے معافی نہیں مانگی۔

تاہم ان تمام مظلوموں کو بعدازاں سرکاری سطح پر بے گناہ تسلیم کرکے ناصرف ان کی دوبارہ باعزت تدفین کی گئی بلکہ ان کے لواحقین کو معاوضے بھی ادا کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں انگلستان میں بھی اس پر عمل کیا گیا۔یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ جیسا کہ عام طور پر  خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور کے ساری مذہبی راہنما ان وحشیانہ اقدامات کے ذمہ دار تھے، تو ایسا نہیں ہے۔ ان مذہبی رہنماؤں میں سے چند ایسے بھی تھے جو باقاعدہ صحیح تفتیش کے بغیر ملزموں کو سزا دینے کے خلاف تھے۔

اس طرح کے واقعات میں ستم بالائے ستم یہ بھی ہوتا تھا کہ ضروری نہیں کہ سب ملزموں کو ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلا کر ہی سزا دی گئی ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔ ایک بوڑھے شخص پر جب جادوگر ہونے کا الزام لگایا گیا تو اس نے اپنے جرم کو ماننے سے انکار کیا لیکن اپنی صفائی میں کچھ بھی نہ کہا۔ ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باوجود اس کو مجرم قرار دے دیا گیا اور پتھر مار مار کر سنگسار کردیا گیا۔گو اس دور میں اس الزام کے تحت پھانسی پر لٹکائے جانے والوں، زندہ جلائے جانے والوں یا سنگسار اور قید کیے جانے والوں کی موت کسی المیے سے کم نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سزا پانے والوں کی نسبت ان ملزموں کی تعداد زیادہ ہے  جنہیں معاف کردیا گیا مگر سزا سے بچ جانے والے ان  ملزموں میں بھی ان لوگوں کی اکثریت تھی جو کسی نہ کسی طرح قید خانے سے فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگئے۔

.zeeshanbaig@express.com.pk

The post جادوگرنیاں؛ حقیقت یافسانہ appeared first on ایکسپریس اردو.

دفاع وطن پہ مامور بہادر سپوت شہید طاہر داوڑ کا بہیمانہ قتل

$
0
0

یہ 26 اکتوبر کی دوپہر تھی جب پچاس سالہ طاہر خان داوڑ پشاور سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف۔10میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچے۔وہ ضلع پشاور میں دیہی علاقے(رورل سیکٹر)کے ایس پی تھے۔

یہ بڑا حساس علاقہ ہے کیونکہ وہاں پچھلے دس سال سے پاکستان کی دشمن (جانی پہچانی) خفیہ ایجنسیوں کے کارندے پاکستانی باشندوں کا بہروپ بھر کر گھومتے پھرتے ہیں۔وہ مقامی باشندوں میں گھل مل کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔طاہر داوڑ کی ذمے داری تھی کہ وہ مع عملہ جرائم پیشہ افراد کے علاوہ دشمن ایجنسیوں کے ایجنٹوں پر بھی نظر رکھیں۔

طاہر داوڑ کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا۔وسائل کی کمی کے باوجود علم وادب سے رغبت رکھنے کے باعث اعلی تعلیم پائی۔پشتو ادب میں ایم اے کیا۔شاعری بھی کرتے۔1995ء میں دفاع وطن پر مامور پولیس فورس کا حصہ بن گئے۔

انھیں پشاور میں بہ حیثیت سب انسپکٹر تعینات کیا گیا۔شاعر ہونے کے ناطے وہ ایک حساس اور ہمدرد شخصیت کے مالک تھے۔کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو فوراً اس کی مدد کو دوڑ پڑتے۔مگر قانون توڑنے والوں اور وطن دشمنوں کے لیے وہ برہنہ تلوار کے مانند تھے اور نہایت دلیری سے ان کا قلع قمع کرتے۔ارض پاک سے بڑی محبت تھی۔فرض شناس اور جی دار افسر تھے۔انہی خوبیوں کے باعث ترقی کے مدارج طے کرتے چلے گئے۔

2007ء میں بنوں کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن کے سربراہ تھے کہ ا یک خود کش حملے میں شدید زخمی ہو ئے۔انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور پہنچایا گیا۔فوری علاج کی وجہ سے جان بچ گئی۔2009ء میں پھر ایک بم دہماکے کی زد میں آئے مگر رحیم و کریم اللہ تعالی نے زندگی محفوظ رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب پورے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں شدت پسند عناصر اور دشمن خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ہمارے سیکورٹی اداروں اور پاکستانی قوم کو بے دریغ نشانہ بنائے ہوئے تھے۔اس موقع پر خیبر پختونخوا کی پولیس پوشیدہ دشمنوں کے خلاف پہلی دفاعی لائن بن گئی۔

تب کئی پولیس افسروں اور جوانوں نے ملک وقوم کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔پے در پے شہادتوں کے باوجود پولیس کا عزم وحوصلہ جوان رہا اور وہ دیگر سیکورٹی اداروں کی معیت میں بڑی پامردی سے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمنوں کا مقابلہ کرتی رہی۔اسی بے خوفی،مستقل مزاجی اور بہادری کا نتیجہ ہے کہ ارض پاک کے دشمن زخم چاٹتے فرار ہونے پر مجبور ہو ئے۔ سیکورٹی اداروں کے ہزارہا جوانوں اور افسروں نے اپنا لہو بہا کر سرزمین پاک پہ امن ومحبت کے پھول کھلا دئیے۔

وطن عزیز کے ازلی دشمنوں کی مگر بھرپور کوشش ہے کہ ایٹمی قوت کی حامل اس اسلامی مملکت کو معاشی وعسکری لحاظ سے طاقتور نہ ہونے دیا جائے۔ظاہر ہے،معاشی وعسکری طور پر مضبوط پاکستان خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات پورے کرنے میں رکاوٹ بنے گا۔اسی لیے ان طاقتوں کی سعی ہے کہ خاص طور پر پاکستانی سیکورٹی اداروں کو اندرونی تنازعات اور مسائل میں الجھا کر رکھا جائے تاکہ پاکستان میں انتشار اور بے چینی پیدا ہو سکے۔ایسے دگرگوں حالات میں ملکی وغیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں۔اور پاکستان دشمن طاقتوں کا مقصد ومنشا بھی یہی ہے۔

واقعہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے وزیرستان خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا جس نے ہزارہا باشندوں کو ہجرت کرنے پہ مجبور کر دیا۔طاہر داوڑ اپنے ہم وطنوں کو مسائل میں مبتلا دیکھ کر غمگین ہو جاتے۔ان کی کوشش تھی کہ حکومت مہاجرین کے مسائل حل کرے۔مگر انتظامیہ کا حصہ ہونے کے باعث وہ یہ سچائی بھی جانتے تھے کہ محدود وسائل کی وجہ سے حکومت اور سیکورٹی ادارے تمام لوگوں کی دامے درمے سخنے مدد نہیں کر سکتے۔

وزیرستانی مہاجرین کے ایک گروہ نے دریں اثنا پی ٹی ایم نامی تنظیم بنا لی تاکہ اپنے مسائل اجاگر کر سکیں۔مگر یہ شواہد موجود ہیں کہ اس تنظیم میں دشمن خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ شامل ہو گئے۔پاکستان دشمن طاقتوں کی یہ پرانی ریت ہے کہ جب بھی ارض پاک میں کوئی ریاست سے نالاں تنظیم جنم لے تو وہ اسے اپنے مقاصد پورے کرنے کی خاطر ہائی جیک کرلیتے ہیں۔

مدعا یہ ہے کہ اسے قوت دے کر مملکت کے خلاف ایک اور دشمن پیدا کیا جائے۔ممکن ہے کہ پی ٹی ایم کے بعض لیڈر دشمن طاقتوں کے تنخواہ دار کارندے بن چکے ہوں۔اپنے مسائل پر بات کرتے کرتے یہ لیڈر اچانک پاکستان اور قومی سیکورٹی اداروں کونشانہ بنانے لگے۔وہ بھول گئے کہ ان کے مسائل اپنوں کی خانہ جنگی و غداری کا بھی نتیجہ ہیں۔تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

طاہر داوڑ قدرتاًبے گھری کی تکالیف سہتے غریب وزیرستانی مہاجرین سے ہمدردی رکھتے تھے۔مرحوم کی سعی تھی کہ حکومت ان کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔اگست 2018ء میں انھیں ایس پی مقرر کیا گیا۔اس سے قبل ہی وہ مختلف دیہی علاقوں کے دورے کرنے لگے تھے ۔ان کی بھرپور کوشش تھی کہ عوام اور حکومت مل جل کر مسائل پہ قابو پانے کی جدوجہد کریں۔جب بھی ریاست وحکومت سے نالاں مقامی افراد سے کا واسطہ پڑتا تو وہ بڑے پیار اورتدبر سے ان پر حقیقی صورت حال واضح کرتے۔ انھیں بتاتے کہ پاکستان پر نہایت طاقتور دشمنوں نے یلغار کر رکھی ہے اور سیکورٹی ادارے ہر ممکن کوششوں سے ارض پاک کا دفاع کر رہے ہیں۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ سبھی پاکستانی اپنے اختلافات بھلا کر اتحاد ویک جہتی اپنا لیں ۔اس طرح پاکستان دشمن قوتوں کو شکست دینا آسان ہو جائے گا۔ ارض پاکستان سے الفت رکھنے والا یہ دلیر وزیرستانی سپوت دشمن کی نگاہوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا۔ طاہر داوڑ اپنی متحرک شخصیت اور ان تھک سرگرمیوں کے ذریعے خیبر پختونخوا کے دیہی علاقوں میں مقیم ناخواندہ باشندوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کر رہے تھے۔ان کا طریق عمل پاکستان دشمن پروپیگنڈے کا نہایت کارگر توڑ بن گیا اور اس کے بد اثرات زائل کرنے لگا۔تبھی دشمنان ِپاکستان نے وزیرستان کے اس اعلی پولیس افسر کو اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ علاقہ غیر میں ارض پاک کے خلاف اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔

طاہر داوڑ 26 اکتوبر کواسلام آباد کیوں آئے،یہ امر واضح نہیں۔ بھائی کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی میٹنگ میں شرکت کرنے آئے تھے۔مگر ساتھی پولیس افسر بتاتے ہیں کہ مرحوم نے نجی معاملات کے سلسلے میں مختصر رخصت لی تھی۔بہرحال یہ بات ضرور واضح ہے کہ انھیں اسلام آباد میں حملے یا اغوا کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔اسی لیے وہ محافظ کے بغیر صرف ڈرائیور کے ہمراہ دارالحکومت پہنچے۔شام کو جب اندھیرا چھا گیا تو وہ گھر سے نکلے۔ملازمین کو بتایا کہ وہ سیر کرنے جا رہے ہیں۔افسوس کہ انھیں واپس آنا نصیب نہیں ہوا۔14 نومبر کو خبر ملی کہ ان کی تشدد شدہ لاش افغان صوبے،ننگرہار میں پائی گئی ہے۔شہید کو سروس کارڈ کی مدد سے شناخت کیا گیا۔حیران کن بات یہ کہ اکثر اخباری رپورٹوں میں دعوی کیا گیا ، طاہر داوڑ اغوا ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دعوی کس بنیاد پر ہوا؟کیا کسی عینی شاہد نے انھیں اغوا ہوتے دیکھا؟مگر خبروں میں ایک بھی عینی شاہد کا ذکر موجود نہیں۔طاہر داوڑ تربیت یافتہ پولیس افسر تھے۔وہ ایف بی آئی میں بھی رہے۔ دلیروجری انسان تھے۔انھیں اغوا کرنا بچوں کا کھیل نہیں تھا۔مذید براں وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شدت پسند اور دہشت گرد، دونوں قوتوں سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں لیکن وہ تن تنہا گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔یہ سچائی آشکارا کرتی ہے کہ انھیں پورا یقین تھا، ان کی زندگی وفاقی دارالحکومت میں پوری طرح محفوظ ہے اور اسے کسی قسم کا خطرہ نہیں۔

صورت حال سے عیاں ہے کہ طاہر داوڑ کسی سے ملنے نکلے تھے مگر انھوں نے اس ملاقات کی بابت کسی کو کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ عین ممکن ہے کہ ملاقات کی نوعیت خفیہ ہو۔شاید کوئی شخص انھیں کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے متعلق معلومات دینا چاہتا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوست یا واقف کار سے ملنے گئے اور اس کے ساتھ کہیں روانگی کا پروگرام بن گیا۔

اسی دن رات ساڑھے سات بجے طاہر داوڑ کی اہلیہ کو موبائل پر شوہر کا یہ میسج موصول ہوا تھا کہ وہ اس وقت سرائے عالمگیر،جہلم میں ہیں۔وہ تب وہاں کیا کر رہے تھے؟کیا وہ کسی دوست یا دوستوں کے ساتھ بغرض تفریح وہاں گئے یا کسی خفیہ مشن کے سلسلے میں یہ سفر کیا گیا؟یہ بات تفتیش و تحقیق ہی سے سامنے آئے گی۔ممکن ہے،یہ دوست پی ٹی ایم سے تعلق رکھتے ہوں۔

درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ طاہر داوڑ کو اغوا ضرور کیا گیا مگر ایسے نہیں کہ اچانک ایک کار آئی اور زبردستی انھیں سوار کرا کے رفوچکر ہو گئی…وہ باقاعدہ ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت اغوا ہوئے۔پہلے انھیں کسی ایک دوست یا زیادہ دوستوں کی وساطت سے گھر سے باہر بلایا گیا۔وہ دوست پھر انھیں بہلا پھسلا کر اسلام آباد سے باہر لے گئے۔

جب کوئی ویران مقام آیا تو موقع پاتے ہی انھیں قابو کر لیا گیا۔گویا طاہر داوڑ اپنے اغوا سے مکمل طور پر بے خبر تھے اور کسی بروٹس کے خنجر کا نشانہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے اسلام آباد میں اور شہر سے باہر جاتے ہوئے بھی انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔یاد رہے،پچھلے سال بھارتی خفیہ ایجنسی،را پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل،محمد حبیب کو بھی گہری سازش میں پھنسا کر نیپال لے گئی تھی۔پھر وہاں سے انھیں اغوا کر لیا گیا۔خیال ہے کہ وہ بھارت میں کسی خفیہ سیل میں قید ہیں۔

یہ بات نہایت تعجب خیز اور افسوس ناک ہے کہ جیسے ہی طاہرداوڑ کے اغوا کی خبر عام ہوئی تو بعض خودساختہ دانشوروں نے اپنے ہی سکیورٹی اداروں اور حکومت کے خلاف طوفان سر پر اٹھا لیا۔وہ ان پہ تنقید کرتے واویلا مچانے لگے کہ دعویٰ کیا جاتا ہے،اسلام آباد میں دشمن کا پرندہ پر نہیں مار سکتا، پھر وہاں سے ایک اعلیٰ پولیس افسر کیسے اغوا ہو گیا؟اس اغوا کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دے کر دانشور ان پہ برس پڑے۔یوں جانے انجانے میں یہ نام نہاد دانشور پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔

ان کا تو بنیادی مقصد ہی پاکستانی سکیورٹی اداروں خصوصاً افواج پاکستان اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کرنا اور نااہل قرار دینا ہے۔ طاہر داوڑ کی بہیمانہ شہادت کا ڈرامہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح رچایا گیا کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی نااہلیت ثابت کی جاسکے۔ نام نہاد پاکستانی دانشور اس ڈرامے کو سچ سمجھ کر طوطے کی طرح دشمنوں کی زبان بولتے اپنے ہی دفاعی اداروں کے خلاف بولنے لگے۔

حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ طاہر داوڑ کو شہید کرکے عیار و مکار پاکستان دشمن طاقتوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرلیے۔ اول یہ کہ پاکستان کو ایک تجربے کار،ذہین اور محب وطن پولیس افسر سے محروم کر دیا گیا۔طاہر داوڑ خصوصاً وزیرستان میں ریاست کی توانا آواز تھے۔دوم بعض پاکستانی دانشور کھل کر سکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے لگے۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ریاست نے طاہر داوڑ کو قتل کروایا۔ اس الزام سے ظاہر ہے کہ ملک دشمن عناصر اس قتل سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ طاہر داوڑ ملک دشمن عناصر سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے۔

بلکہ ساری عمر ان کی سعی رہی کہ ان عناصر میں جذبہ حب الوطنی بیدار کیا جائے۔ اس سلسلے میں ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ لہٰذا یہ دلیل انتہائی بودی ہے کہ ریاست نے اپنے ہی ایک دلیر و جری محافظ کو موت کی نیند سلادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ طاہر داوڑ کی شہادت سے پاکستان ایک باہمت اور فرض شناس رکھوالے سے محروم ہوگیا۔ ان کی شہادت سے دفاع وطن کو نقصان پہنچا ۔مگر طاہر داوڑ کے نقش قدم پر چل کر ہی لاکھوں پاکستانی بہادر سپوت دفاع وطن کو مضبوط و توانا رکھیں گے۔

اسی طرح جب علم ہوا کہ طاہر داوڑ افغانستان میں شہید ہو چکے تو پھر جعلی دانشور قومی اداروں پہ زبروتوبیخ کرتے شور مچانے لگے کہ وہ وہاں کیسے پہنچ گئے؟ پھر قومی اداروں پہ بے سروپا الزامات لگائے گئے۔دور جدید کے یہ ابوجہل نہیں سوچتے کہ یوں وہ دشمن کے آلہ کار بن بیٹھتے ہیں۔بے سروپا الزامات سے سیکورٹی اداروں کے عزم وحوصلے کو ضعف پہنچتا ہے اور دفاع وطن پہ مامور جوانوں کی ہمتیں پست ہونے لگتی ہیں۔یہ نادان لوگ نجانے کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیںکہ جیسے امریکا اور میسیکو کی طویل سرحد کے مابین سیکڑوں خلا ہیں،اسی طرح پاک ۔افغان سرحد بھی ایسی کئی گذرگاہیں رکھتی ہے جو بالکل ویران وسنسان ہیں۔وہاں سے سرحد پار کرنا انتہائی آسان ہے۔

پھر امریکا اور میکسیکو کی سرحد کا بیشتر رقبہ میدانی ہے۔جبکہ پاک افغان سرحد تو اونچے نیچے پہاڑوں سے اٹی پڑی ہے۔پاک فوج اب اس سرحد پر باڑ لگا رہی ہے تاکہ پاکستان دشمن عناصر کی آزادانہ آمدورفت روکی جا سکے۔بدقستی سے افغان حکومت اس ضمن میں تعاون نہیں کر رہی جو حیرت انگیز امر ہے۔سوم طاہر داوڑ کو شہید کرکے پشتونوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا اغوا ہوتے ہی سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے بعض لیڈر پشتو زبان میں پروپیگنڈا کرنے لگے کہ طاہر داوڑ کے قتل میں ریاست کا ہاتھ ہے۔

یوں انہوں نے پشتون نوجوانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ ان رہنماؤں کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ دشمن طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار بن چکے جو صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر ممکن مالی و مادی مدد کرنے کی باقاعدہ تاریخ رکھتی ہیں۔ اب ان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ خیبرپختونخواہ میں ایک اور پاکستان دشمن تحریک کا آغاز کردیا جائے۔

چہارم طاہر داوڑ کی شہادت سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔ افغان حکومت نے شہید کی لاش پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا جو بڑی پُراسرار بات ہے۔ اس معاملے پر تنازع بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکا اور بھارت تو یہ شدید تمنا رکھتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ایک دوسرے سے تنازعات میں الجھے رہیں اور وہ اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں۔ جب تک افغانستان میں عوام کی حقیقی حکومت نہیں آتی، پاک افغان امن ایک خواب رہے گا۔ موجود افغان حکومت تو امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔ امریکہ ہی اس کے بیشتر اخراجات برداشت کرتا ہے۔

پنجم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طاہر داوڑ کی شہادت کے پیچھے افغان خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس ملوث ہے۔ دراصل 18 اکتوبر کو طالبان نے قندھار کے پولیس چیف عبدالرزاق کو بم حملے میں مار ڈالا تھا ۔چونکہ طالبان پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں لہٰذا این ڈی ایس نے اپنے پاکستانی ایجنٹوں کی ملی بھگت سے پشاور کے ایس پی طاہر داوڑ کو شہید کردیا۔ یہ وار مگر افغان خفیہ ایجنسی کی بزدلی و مکاری ہی عیاں کرتا ہے۔

طاہر داوڑ ارض پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ ایک عظیم پاکستانی تھے، اپنے دیس کی سرزمین کے دفاع پر مامور اور آخر کار اس پر اپنی جان تک نچھاور کردی۔ شہید کی دلیری، فرض شناسی اور انسان دوستی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان جیسے غیر معمولی سپوتوں کے باعث ہی قومیں مشکلات و مصائب جھیل کر بلند و بالا مرتبہ پاتی ہیں۔

The post دفاع وطن پہ مامور بہادر سپوت شہید طاہر داوڑ کا بہیمانہ قتل appeared first on ایکسپریس اردو.

امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مقدس گوشے

$
0
0

آج سے ہزاروں سال قبل کسی زمانہ میں قبیلہ بنو جرہم کے کچھ لوگ عرب کے مشہور شہر ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں آباد ہوگئے تھے، جن کی اولاد سے آگے چل کر فہر یا نضر بن کنانہ نے جنم لیا ، ان کی اولاد کو ’’قریش‘‘ کہاجاتا ہے ۔

ہمارے نبی حضرت محمدمصطفیﷺ کا تعلق اسی قریش کے قبیلہ سے تھا ۔آپؐ 12؍ربیع الاوّل (20؍ اپریل 571 ء) بمطابق یکم جیٹھ 628 بکرمی ٗپیر کے دن صبح صادق کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے وقت اس دنیا میں تشریف لائے ۔ساتویں دن قربانی ہوئی ، جس میں تمام قریش کو دعوت دی گئی ۔ لوگوں نے پوچھا بچے کا نام کیا رکھا ہے ؟ حضرت عبد المطلب نے جواب دیا ’’محمدؐ!‘‘ کہا گیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے سب مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام اختیار کیوںکیا؟ آپ نے جواب دیا کہ : ’’ میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ بچہؐ دنیا بھر کی ستائش اور تعریف کا شایاں قرار پائے۔‘‘

یَا  رَبِّ  صَلِّ  وَ سَلَّمْ   دَائِماً   أَبَداً

عَليٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلَّھِمٖ

آئیے !اپنے پیارے نبیؐ پاک کی طیب وطاہر زندگی کے مبارک گوشوں پر نظر ڈالنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

٭٭٭

حضورِاقدسﷺ کے

زیر استعمال رہنے والی اشیاء

ہمارے پیارے آقا و سردار حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی تریسٹھ سالہ درخشاں حیات طیبہ کے زمانہ میں جن جانوروں ، ہتھیاروں اور خانگی ساز و سامان کو اپنے استعمال میں لایا ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ:

گھوڑے:

آپؐ کے زیر استعمال رہنے والے دس یا پندرہ گھوڑے تھے جن کے نام یہ ہیں: (۱)’’سکب‘‘یہ وہ گھوڑا ہے جس پر ’’جنگ احد‘‘ میں آپؐ سوار تھے ۔اس گھوڑے کی پیشانی اور تین پاؤں (دو پچھلے اور ایک اگلا بایاں ) سفید تھے ۔ بدن کا رنگ کمیت (عنابی) تھا ،اور اگلے دائیں پاؤں کا رنگ بھی بدن کے رنگ کے مشابہ تھا۔ گھوڑ دوڑ میں آنحضرت ؐ اس پر سوار ہوئے اور یہ آگے نکلا ۔ یہ پہلا گھوڑا تھا جس کے حضورؐ مالک ہوئے تھے۔(۲) ’’مرتجز‘‘اشہب یعنی سفید مائل بہ سیاہی۔ (۳) ’’لحیف‘‘ ربیعہ نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔

(۴)’’لزاز‘‘مقوقس نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۵) ’’ظرب ‘‘ یا ’’طرب‘‘ فردہ جذامی نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۶)’’سبحہ‘‘ یہ گھوڑا آپؐ نے یمن کے سودا گروں سے خریدا تھا ۔ گھوڑ دوڑ میں تین بار اس پر سوار ہوئے اور آگے بڑھے ۔ اس کو دست مبارک سے تھپکتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تیز رفتار اور لمبے قد والا گھوڑا ہے ، سمندر کی طرح بہتا ( چلتا)ہے ۔‘‘ (۷)’’ ورد‘‘ یہ گھوڑا حضرت تمیم داریؓ نے ہدیہ میں بھیجا تھا۔ (۸)’’ ضریس ‘‘ (۹)’’ملاوح ‘‘ (۰۱) ’’…‘‘ دسویں گھوڑے کا نام معلوم نہیں ہوسکا اور اس سے زائد پندرہ تک کی بھی روایتیں ملتی ہیں۔(زاد المعاد : ۱/۱۳۳۱، ۴۳۱)

خچر:

چارخچر تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’دُلدُل‘‘مقوقس نے ہدیہ میں بھیجا تھا ، سفید مائل بہ سیاہی رنگ کا تھا ۔اسلام کے زمانہ میں سب سے پہلے اس خچر پر سواری ہوئی تھی۔ (۲)’’فضہ‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ یا فروہ جذامی نے پیش کیا تھا۔ (۳)’’اَیلیّہ‘‘ مقام ’’ایلہ‘‘ کے بادشاہ نے ہدیہ میں دیا تھا ۔ (۴)’’…‘‘ اس کا نام معلوم نہ ہوسکا ۔ علامہ ابن قیم ؒنے صرف اس کا ذکر کیا ہے اور نام بیان نہیں کیا’’دومۃ الجندل‘‘ کے بادشاہ کا ہدیہ تھا ۔(زاد المعاد :جلد اوّل ص ۴۳۱،سیرۃ الحلبیۃ:جلد ۱/۲۳۴)

گدھے:

دو گدھے تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’یعفور‘‘ یا ’’عفیر‘‘ مقوقس نے ہدیہ کیا تھا ، اس کا رنگ سفید مائل بہ سیاہی تھا ۔ (۲)’’…‘‘ علامہ ابن قیمؒ نے اس کا ذکر کیا ہے لیکن نام بیان نہیں فرمایا ، فروہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔(زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱، سیرۃ الحلبیۃ :جلد ۳ ص۸۹۲ )

اُونٹ:

ایک (۱) اونٹ تھا ، جس پر آپؐ سواری فرمایا کرتے تھے ۔ یہ اونٹ اصل میں ابو جہل کا تھا جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا تھا ، اس کی ناک میں چاندی کا کڑا تھا ۔ حضور پاکؐ نے ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے دن مکہ والوں کے پاس یہ اونٹ بطور ہدیہ کے بھیج دیا تھا۔( زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱، ۵۳۱)

اُونٹنیاں:

بیس یا پینتالیس دودھ دینے والی اور ساز و سامان لے کر چلنے والی اونٹنیاں تھیں ، جو ’’غابہ‘‘ مقام پر چرا کرتی تھیں۔ پینتالیس کی روایت علامہ ابن قیم ؒ کی ہے اور بیس کی روایت صاحب ایام النظرۃ کی ہے۔( ایام النظرۃ و السیرۃ المعطرۃ : جلد اوّل ص۲۱۱، زاد المعاد : جلد اوّل ص۴۳۱)

سانڈنیاں:

تین سانڈنیاں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’قصواء‘‘ جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے وقت یہ آپ کی سواری میں تھی۔ (۲) عضباء (۳)’’ جدعاء ‘‘ بعض علماء نے یہ دونوں نام ایک ہی قرار دیئے ہیں ، جب کہ بعض دوسرے علماء نے یہ تینوں نام ایک ہی سانڈنی کے قرار دیئے ہیں۔( دلائل النبوۃ : ۸/ ۵۵۴)

بکریاں، مرغ اور بلی:

بکرے اور بکریاں ایک سو تھے ۔ ان میں سے (جب کسی کا کوئی بچہ پیدا ہوتا تو)ایک کو ذبح فرمالیتے اور سو سے زائد نہ ہونے دیتے ۔ ان میں سے ایک خاص بکری آپؐ کے دودھ کے لئے مخصوص تھی۔ایک مرغ تھا جس کا رنگ سفید تھا ۔گائے وغیرہ نہیں تھیں ، ایک بلی تھی جو گھر میں رہتی تھی۔( غایۃ السؤل فی سیرۃ الرسول : ۱/۶۵)

تلواریں:

نو یا گیارہ تلواریں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’ماثور‘‘ یہ سب سے پہلی تلوار ہے جو والد ماجد کے ترکہ میں بطور وراثت کے آپ ؐ کو ملی تھی ۔ (۲) ’’ذوالفقار‘‘ بنی الحجاج کی تھی جو جنگ بدر میں ہاتھ لگی تھی ۔ اس تلوار کے متعلق حضور نبی پاکؐ نے ’’جنگ احد‘‘ سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا ، جس کی تعبیر یہ نکالی تھی کہ اس جنگ میں ہمیں ’’شکست‘‘ ہوگی چنانچہ آپؐ کی یہ تعبیر ’’جنگ احد‘‘ میں ہاتھ کے ہاتھ پوری ہوئی ۔

(۳) ’’قلعی‘‘ (۴) ’’تبار‘‘(۵) ’’حتف‘‘ یہ تینوں تلواریں بنی قینقاع کے مال میں سے ملی تھیں (۶) ’’قضیب‘‘ یہ سب سے پہلی تلوار ہے جس کو ’’حمائل‘‘ کے طور پر حضور اکرمؐ نے پہنا تھا ۔ (۷) ’’عضب‘‘ حضرت سعد بن عبادۃؓ نے پیش کی تھی۔ (۸) ’’رسوب‘‘ (۹) ’’مجذم‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے نو (۹) ذکر کی ہیں جب کہ صاحب سبل الہدیٰ و الرشاد نے گیارہ (۱۱) ذکر کی ہیں۔( زار د المعاد: ۱/۰۳۱ ، سبل الہدیٰ والرشادفی سیرۃ خیرالعباد : ۷/۴۶۳)

نیزے:

پانچ نیزے تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱)’’ مثویٰ‘‘ (۲)’’ مثنیٰ‘‘(۳) ’’حربہ‘‘ایک قسم کا چھوٹا نیزہ جس کو ’’نیعہ‘‘ کہا جاتا تھا۔(۴)’’بیضاء‘‘ ایک قسم کا بڑا نیزہ۔(۵) ’’عنزہ‘‘ ایک قسم کا چھوٹا سا نیزہ جسے بقرہ عید میں آگے لے جایا جاتا اور نماز کے وقت سامنے گاڑ کر سترہ بنایا جاتا تھا ، اور کبھی کبھی اس کو لے کر حضور اقدسؐ چلتے بھی تھے۔( زاد المعاد فی ہدی خیر العباد : ۱/۱۳۱)

عصاء(لاٹھیاں):

تین لاٹھیاں مبارک تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’محجن‘‘ موٹھ مڑی ہوئی یہ ایک چھوٹی سی چھڑی جو تقریباً ایک ہاتھ لمبی تھی ٗ اونٹ کی سواری کے وقت نبی پاک ؐ کے پاس رہتی تھی، چلنے اور سوار ہونے میں آپؐ اس سے سہارا لیا کرتے تھے۔(۲) ’’عرجون‘‘ پوری لاٹھی کا آدھا۔ (۳) ’’ممشوق‘‘ شوحط نامی درخت سے بنی ایک پتلی چھڑی۔( المختصر الکبیر فی سیرۃ الرسول : ۱/ ۱۸)

کمانیں، خودیںاور زرہیں:

چھ کمانیں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) شداد‘‘(۲) ’’زدراء‘‘ (۳) روحاء (۴) صفراء ‘‘ (۵) ’’بیضاء‘‘ (۶) کتوم جو جنگ احد میں ٹوٹ گئی تھی۔دو (۲) ترکش تھے ، جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’جمع‘‘ (۲) کافور‘‘۔دو خودیں تھیں جن کے نام یہ ہیں: (۱) ’’موشح ‘‘ اور (۲) ’’ذوالسبوع‘‘ ۔ سات (۷) زرہیں تھیں ، جن کے نام یہ ہیں : (۱) ’’ذات الفضول‘‘ یہ وہی زرہ ہے جو گھر والوں کے کھانے کے لئے تیس (۰۳) صاع یعنی تقریباً اڑھائی من غلہ کے عوض ابو شحم یہودی کے پاس ایک سال رہن رکھی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’جنگ حنین‘‘ میں آنحضرتؐ نے اسے اپنے زیب تن فرمایا تھا۔(۲) ’’ذات الوشاح‘‘ (۳) ’’ذات الحواشی‘‘ (۴) ’’سعدیہ‘‘ (۵) فضّہ‘‘ یہ دونوں زرہیں بنی قینقاع کے مال میں سے ملی تھیں۔(۶) ’’تبرا‘‘ (۷) خریق‘‘۔(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد : ۱/۱۳۱)

کپڑے اور پوشاک وغیرہ:

تین جبے ، دو حبری جامے ، ایک صحاری کرتہ دو صحاری جامے ، ایک یمنی جامہ ، ایک سحول کرتا ، ایک پھول دار یا دھاری دار چادر ، ایک سفید کمبل ،ایک کالا کمبل، ایک لحاف ، تین یا چار عدد ٹوپیاں ، ایک عدد عمامہ اور ایک عددچمڑے کا بستر مبارک تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔دو کپڑے جمعہ کی نماز کے لئے مخصوص رہا کرتے تھے ۔ ان کے علاوہ ایک عدد رومال ، دو عددسادہ موزے تھے جن کو نجاشی بادشاہ نے ہدیہ میں پیش کیا تھا۔

برتن وغیرہ:

لکڑی کا ایک بڑا ’’بادیہ‘‘ تھا جس میں تین جگہ چاندی کی پتریاں لگاکر مضبوط جوڑا گیا تھا۔ ایک پتھر کا ’’بادیہ‘‘ تھا جس سے آپؐ وضوء فرمایا کرتے تھے ۔ پیتل یا کانسی کا ایک ’’کونڈا‘‘ تھا جس میں ’’حنا‘‘ اور ’’وسمہ‘‘ گھولا جاتا ۔ ’’حنا ‘‘کو گرمی کے وقت آپ ؐ اپنے سر مبارک پر لگاتے تھے ۔ ایک شیشہ کا ’’پیالہ‘‘ تھا ۔ ایک پیتل کا بڑا ’’کونڈا‘‘ تھا ۔ ایک اور’’اعزاء‘‘ نامی بڑا کونڈا تھا،جس میں چار کڑے لگے ہوئے تھے ، اس کو چار آدمی اٹھایا کرتے تھے ۔ ایک اور لکڑی کا ’’بادیہ‘‘ تھا جو اندر رکھا رہتا تھا اور ضرورت کے وقت آپؐ اس میں پیشاب فرمالیا کرتے تھے ۔ ایک’’ تھیلہ ‘‘ تھا جس میں آئینہ ، کنگھا ، سرمہ دانی ، قینچی اور مسواک رہتی تھی۔ ایک’’ چارپائی‘‘ تھی جس کے پائے ’’سال ‘‘ (ساکھو) کی لکڑی کے تھے ، اس کو حضرت ا سعدبن زرارۃؓ نے ہدیہ میں پیش کیا تھا۔ایک چاندی کی انگوٹھی تھی جس پر نقش تھا ’’محمدؐ رسول اللہ ‘‘۔

 حضور نبی اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک

امام الانبیاء ،خاتم المرسلین، رحمت کائنات، فخر موجودات،پیارے آقا حضور نبی اکرم ﷺ کی بے مثال حسن صورت ا ور باکمال حلیہ مبارک کچھ اس طرح سے تھا کہ آپؐ کا:

قد مبارک:

’’ قد مبارک‘‘ دیکھنے میں درمیانہ اور نہایت مناسب قسم کا تھا، مگر یہ معجزہ تھا کہ جب آپؐ چند آدمیوں کے ساتھ چلتے تو سب سے اُونچے معلوم ہوتے تھے ۔

سر مبارک:

’’سرمبارک‘‘ کلاں و بزرگ ، سرداری کا تاج اور عقل و تدبر کا حسین پیکر تھا ۔بدن مبارک گٹھا ہوا ،خوب صورت ، سجاوٹ کے ساتھ بھرا ہوا اور خوب صورتی کھپی ہوئی تھی، چنانچہ جتنا کوئی غور کرتا خوب صورتی زیادہ معلوم ہوتی تھی ۔

بدن مبارک:

’’بدن مبارک‘‘ پر بال بہت کم اور چمک بہت زیادہ تھی ۔ سر مبارک کے بال سیاہ ، چمک دار اور کسی قدر گھنگھریالے تھے ، بالوں میں تیل یا مشک جیسی چیزوں کا بھی استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ کچھ عمر کی رسیدگی اور کچھ خوش بو وغیرہ کے استعمال سے بالوں میں کسی قدر ہموار پن سا آگیا تھا ۔

ریش مبارک:

’’ریش مبارک‘‘ گھنی اور بھر پور خوب صورتی لیے ہوئے تھی۔ ریش اور سر مبارک میں گنتی کے چند بال سفید بھی ہوگئے تھے ۔ بعض علماء نے ان کی تعداد بھی بتلائی ہے کہ سر مبارک اور ریش مبارک میں کل 20 بال سفید تھے۔

پیشانی مبارک:

’’پیشانی مبارک‘‘ مقدس، کشادہ اور روشن ، گویا آفتاب کا کنارہ بلکہ حسن و جمال کی سجدہ گاہ تھی۔

بھوئیں مبارک:

’’  بھوئیں مبارک‘‘ گنجان ، دراز اور باریک تھیں، ان کی نازک خمیدگی ’’قوسِ قزح‘‘ کے لئے باعث صد رشک وقابل صد افتخار تھی ، ان دونوں کے درمیان کشیدگی تھی یعنی اقبال اور برکتوں کی کھلی ہوئی دلیل تھی ، نیز ان دونوں بھوؤں کے بیچ میں ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی اور پھڑکتی تھی۔

آنکھیں مبارک:

’’آنکھیں مبارک‘‘بڑی بڑی تھیں ’’موتی چور‘‘ (چمکیلی) جن کے سرخ ڈورے جمال کے ساتھ ساتھ جلال کی شان بھی دوبالا کردیتے تھے ۔ ’’پتلی مبارک‘‘ سیاہ ’’بُھرّہ مبارک‘‘گویا نور کے آبگینے پر ’’سیاہ مخمل‘‘ کی بندگی یا موتی کی آب دار سطح پر’’ رُخِ حور‘‘ کا ’’کالا تل ‘‘۔ ’’پلکیں مبارک‘‘ گنجان ، سیاہ اور تلوار جیسے خُم کے ساتھ دراز تھیں۔

رنگ مبارک:

’’رنگ مبارک ‘‘ سفید تھا ،جس میں سرخی گھپی ہوئی رونق اور چمک تھی ، اس سے آپؐ کا حسن و جمال مزید نکھرجاتا تھا۔(گویا گلابی رنگ کے مالک تھے۔)

رخسار مبارک:

’’رخسار مبارک‘‘ نرم ، ہموار ، پرگوشت اور سرخی مائل تھے۔ایسے معلوم ہوتے تھے گویاچاند پر گلاب کی سرخی چمک رہی ہے۔

ناک مبارک:

’’ناک مبارک‘‘ بلندی مائل مگر زیادہ اُونچا نہ تھا کہ بد نما معلوم ہوتا ہو ، اس پر چمک اور نور کی عجیب اُٹھان تھی کہ پہلے پہل دیکھنے والا اسے اُونچا سمجھتا تھا مگر جب غور سے دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ نور اور چمک کے باعث بلند معلوم ہورہا ہے، ناک مبارک کا بانسا خوب صورتی کے ساتھ اُوپر کی طرف اٹھا ہوا تھا۔

دہن مبارک:

’’دہن (منہ) مبارک‘‘ مناسب طور پر وسیع اور کشادہ ٗ گویا نظافت و نقاطت اور فصاحت و بلاغت کا حسین دیباچہ تھا ۔

دندان مبارک:

’’دندان مبارک‘‘ باریک ، آب دار ،روشن ا و رچمک دار تھے ۔سامنے کے دانت ایک دوسرے سے کسی قدر چھیدے ہوئے تھے ۔ مسکراہٹ کے وقت ایسا معلوم ہوتا کہ اُولوں کی لڑی سے نازک نقاب سرک گیا ہے ۔ گفتگو کے وقت معلوم ہوتا کہ تاروں کی کرنیں ’’دندان مبارک‘‘ سے پھوٹ پھوٹ کر شوخیاں بکھیر رہی ہیں ۔

چہرۂ انور:

’’چہرۂ انور‘‘ چودھویں رات کا چاند ٗ نہیں بلکہ چاند بھی اس سے شرمندہ ۔ اللہ کی قسم ! چاند سے بھی زیادہ پیارہ ’’کتابی‘‘ چہرہ جو کسی قدر گولائی لیے ہوئے عظمت و وجاہت سے بھرا ہوا تھا ۔ خاموشی کے وقت ایسی ہیبت اور عظمت اس سے ٹپکتی تھی کہ دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا تھا ۔ گفتگو کے وقت موتی برستے ، نرم دم گفتگو دل میں گھر کرجاتی اور محبت کا بیج بو دیتی اور یوں محسوس ہونے لگتا جیسے عقیدت و محبت کے آنگن میں موتیوں کی بارش ہورہی ہو۔

گردن مبارک:

’’گردن مبارک‘‘ سانچے میں دھلی ہوئی ایسی صاف اور شفاف کہ مرمر کی صفائی بھی اس کے سامنے شرمانے لگے ایسی سفید کہ چاندی کی سفیدی بھی اس کے سامنے عرق عرق ہونے لگے۔دونوں شانوں کے درمیان ’’مہر نبوت‘‘ جڑی ہوئی تھی۔

سینہ اور شکم مبارک:

’’سینہ مبارک‘‘ یعنی معرفت کا خزانہ چوڑا اور بھرا ہوا تھا ۔ ’’شکم مبارک ٗسینہ مبارک‘‘کے بالکل برابر تھا ،نہ اندر کی طرف کم تھا اور نہ ہی آگے کی طرف بڑھا ہوا تھا ۔ ’’سینہ مبارک‘‘ کے بالائی حصہ (چھاتی) پر کسی قدر بال تھے، باقی سینہ اور شکم بالوں سے بالکل صاف تھے ، البتہ سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی باریک سی ایک دھاری تھی ۔

شانے مبارک:

’’شانے مبارک‘‘ پر گوشت ، بھاری اور ایک دورسرے سے فاصلے پر تھے ۔

کلائیاں مبارک:

’’کلائیاں مبارک‘‘ ایسی دراز اور چوڑی تھیں کہ جیسے شیر کی ہوتی ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ قوی اور مضبوط تھی۔

ہتھیلیاں مبارک:

’’ہتھیلیاں مبارک‘‘ گداز ، پر گوشت ، چوڑی اور ایسی نرم تھیں کہ ریشم اور حریر بھی ان کے سامنے مات کھا جائیں، ان میں ایسی خوش بو مہکتی تھی کہ عطر بھی ان کے سامنے شرمندہ ہوجائے۔

اعضاکے جوڑ:

’’اعضاء کے جوڑ‘‘ اور ان کی ہڈیاں ٗ بڑی ، چوڑی اور انتہائی مضبوط تھیں۔

پاؤں مبارک:

’’پاؤں مبارک‘‘ پر گوشت ، زیبائش کے ساتھ ہموار اور ایسے صاف کہ پانی کے قطرے بھی ان پر ٹھہرنے سے لرزاں تھے۔ ایسے ستھرے تھے کہ اگر بلور کی ان پر نظر پڑجائے تو وہ بھی ان پر سو جان سے قربان ہوجائے ۔ جو مناسب موقع، محل اور وقت پر تیزی سے اٹھتے اور کشادگی و پھرتی اور سنجیدگی و متانت کے ساتھ رکھے جاتے تھے۔

ایڑیاں مبارک:

’’ایڑیوں مبارک‘‘ پر گوشت کم تھا ۔

انگلیاں مبارک:

’’انگلیاں مبارک‘‘ مناسبت کے ساتھ درازی کی خوب صورتی سے آراستہ اور پسندیدگی کا مظہر تھیں۔

مبارک چال:

چلنے میں آپؐ کی رفتار تیز ہوتی ، ’’قدم مبارک‘‘ کسی قدر کشادہ زمین پر آہستہ سے پڑتا ، مگر اس کا اُٹھنا قوت کے ساتھ ہوتا ۔ نہ متکبروں کی سی اکڑ اور نہ ہی پوستیوں جیسی بے جان چال ۔ نگاہ مبارک‘‘ ہمیشہ نیچے زمین کی طرف رہتی ، ایسا معلوم ہوتا گویا ڈھلوان میں اُتر رہے ہیں، یعنی کسی قدر آگے کو جھکے ہوئے چلتے تھے۔

شاعر اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ نے آپؐ کے حلیہ مبارک کی تصویر یوں کھینچی ہے   ؎

وَأَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٌ

وَأَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائٗ

خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ

کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائٗ

ترجمہ:آپؐ سے زیادہ حسین نہ کبھی میری آنکھ نے دیکھااور نہ کسی عورت نے جنا۔ آپؐ جملہ عیوب سے پاک وصاف، گویا اپنی منشاء کے مطابق پیدا کئے گئے۔

حضورِ اقدسﷺ کی مرغوب غذائیں

حضرت ابو عبیدۃ   ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہانڈی پکائی ، چوں کہ آقا ﷺکو ’’دستی‘‘ کا گوشت بہت ز یادہ پسند تھا ، اس لئے میں نے ایک ’’ دستی‘‘ پیش کی ، پھر حضورصلیﷺ نے دوسری طلب فرمائی ، میں نے دوسری پیش کردی ، پھر حضورﷺنے اور طلب فرمائی ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! بکری کی دو ہی’’ دستیاں‘‘ ہوتی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم چپ رہتے تو میں جب تک مانگتا رہتا اس دیگچی سے دستیاں نکلتی رہتیں ۔‘‘ (شمائل ترمذی)

حضرت ابو ہریرۃ ؓ  فرماتے ہیں کہ حضور ﷺکی خدمت میں کہیں سے ’’ گوشت‘‘ آیا ، اس میں سے’’ دستی‘‘ کا گوشت آپﷺکے سامنے پیش ہوا ، حضور ﷺکو’’ دستی‘‘ کا گوشت بہت مرغوب تھا ، اس لئے آپ ﷺنے اسے دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔ایک اور حدیث میں آپﷺکا ارشاد مروی ہے کہ: ’’ گوشت کو دانتوں سے کاٹ کر کھایا کروکہ اس سے ہضم بھی خوب ہوتا ہے اور بدن کو بھی زیادہ موافق آتا ہے۔

حضرت ام سلمہاؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پہلو کا بھنا ہوا گوشت حضور ﷺکی خدمت پیش کیا ، جسے آپ ﷺنے تناول فرمایا ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن حارث ؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے حضور اقدس ﷺکے ساتھ بھنا ہوا گوشت مسجد میں کھایا۔

گوشت کے بارے میں آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ : ’’ گوشت‘‘ اہل دنیا و اہل جنت کی سب غذاؤں کا سردارہے ۔ نیز آپﷺنے  فرمایا کہ : ’’ پشت کا گوشت عمدہ گوشت ہوتا ہے۔ ( ابن ماجہ)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور اقدسﷺکی ایک مرتبہ دعوت کی ، میں بھی حضور ﷺکے ساتھ حاضر ہوا ، اس نے حضور ﷺکی خدمت میں’’جو‘‘ کی روٹی اور’’ کدو گوشت ‘‘کا شوربہ پیش کیا ، میں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپؐ پلیٹ کے سب اطراف سے’’ کدو‘‘ کے ٹکڑے تلاش فرماکر نوش فرمارہے تھے ، چنانچہ اس وقت سے مجھے بھی ’’کدو‘‘ مرغوب ہوگیا ۔

حضرت جابر بن طارق ؓ  کہتے ہیں کہ میں حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو ’’کدو ‘‘کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے جارہے تھے ، میں نے عرض کیا : ’’ اس کا کیا بنے گا،  یارسول اللہﷺ ؟ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ : ’’ اس سے سالن میں اضافہ کیا جائے گا۔‘‘

حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺکو ’’کدو ‘‘ (بہت زیادہ) مرغوب تھا ۔ ( چنانچہ)  ایک مرتبہ حضورﷺکے پاس کھانا آیا یا حضور ﷺکسی دعوت میں تشریف لے گئے (راوی کو اس میں شک ہے) جس میں کدو تھا ، چوں کہ مجھے معلوم تھا کہ حضور ﷺکو یہ مرغوب ہے اس لئے اس کے قتلے ڈھونڈ کر میں حضور ﷺکے سامنے کردیتا تھا۔(شمائل ترمذی)

حضرت عائشہ ؓ ا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺنے ایک مرتبہ فرمایا کہ : ’’سرکہ‘‘ (Vinegar)بھی کیا ہی اچھا سالن ہے۔ (مسلم)نیز مرفوعاً مروی ہے کہ : ’’اے اللہ! ’’سرکہ‘‘ میں برکت ڈال کہ وہ مجھ سے پہلے انبیاء کا سالن تھا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ : ’’جس گھر میں ’’سرکہ‘‘ ہو وہ گھر محتاج نہیں ہے۔‘‘(طب نبوی علامہ ذہبیؒ)

آنحضرتﷺکو ’’ثرید‘‘ (یعنی شوربے میں توڑی ہوئی روٹی ) بہت زیادہ پسند تھی (سنن ابو داؤد) اسے آپؐ تمام کھانوں پر فضیلت دیتے تھے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ  فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ ’’ ثرید‘‘ کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے ۔ (بخاری و مسلم)

حضرت ابو اسید ؓ  کہتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’ زیتون‘‘ کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اور مالش میں بھی ، اس لئے کہ یہ ایک بابرکت درخت کا تیل ہے۔حضرت عمر ؓ  بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ زیتون‘‘ کا تیل کھاؤ اور مالش میں استعمال کرو ، اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی پاک ﷺ’’ ککڑی‘‘(ترsnake cucumber,) تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تناول فرمارہے تھے ۔ (بخاری و مسلم)حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ ’’تربوز‘‘ کو تازہ کھجوروں کے ساتھ نوش فرماتے تھے۔حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس ﷺکو ’’خربوزہ‘‘ اور ’’ کھجور‘‘ اکٹھے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔(شمائل ترمذی)

حضورِ ﷺ مغرب کی نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے ، اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرما لیتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پھر پانی سے روزہ افطار فرمالیا کرتے تھے۔( ابو داؤد)

ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓ  کو ایک ’’ سیب‘‘ عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’ یہ قلب کو تقویت دیتا ہے ، طبیعت کو خوش کرتا ہے اور سینہ کی کرب کو دور کرتا ہے۔‘‘( نسائی)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدسﷺکو پینے کی سب چیزوں میں میٹھی اور ٹھنڈی چیز مرغوب تھی۔ بظاہر تو اس حدیث سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی مراد ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے شہد کا شربت اور کھجوروںکا نبیذ مراد ہو ۔( خصائل نبوی ترجمہ شمائل ترمذی)

حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت خالد بن ولید ؓ  دونوں حضورِ اقدسﷺکے ساتھ (اپنی خالہ) حضرت میمونہ ؓ کے گھر گئے ، حضرت میمونہ ؓ ایک برتن میں دودھ لے کر آئیں ، حضور ﷺنے اس میں سے نوش فرمایا، میں دائیں جانب تھا اور حضرت خالد بن ولید بائیں جانب ، آپ ؐنے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اب پینے کا حق تمہارا ہے ( کہ تم دائیں جانب ہو) اگر تم اپنی خوشی سے حضرت خالد بن ولید کو ترجیح دینا چاہو تو دے سکتے ہو ، میں نے عرض کیا کہ آپ ؐکے جھوٹے پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔حضور ﷺ نے دودھ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ دودھ کے علاوہ مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں جو کھانے اور پینے دونوں کی طرف سے کافی ہوجائے ۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) ایک روایت میں آتاہے رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’گائے کا دودھ شفاء ہے اور اس کا گھی دوا ہے۔‘‘(طب نبوی للذہبی)

حضرت ابو ہریرۃ ؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو ’’پنیر‘‘ کا ٹکڑا نوش فرماتے دیکھا ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ تبوک کے سفر میں آپ ؐکی خدمت میں پنیر لایا گیا آپ نے چاقو منگوایا اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اس کا ٹکڑا کاٹا۔ (ابوداؤد)

حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺنے حضرت صفیہ ؓ کا ولیمہ ’’کھجور‘‘ اور ’’ستو‘‘ سے فرمایا تھا ۔ایک روایت میں’’ حیس‘‘ نامی حلوہ کا ذکر آیا ہے جب کہ ایک دوسری روایت میں ’’پنیر‘‘ کا نام آیا ہے۔(خصائل نبوی )۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ’’حلوہ‘‘ اور ’’شہد‘‘ پسند فرماتے تھے۔‘‘(بخاری)۔ ایک روایت میں آیا ہے رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاکہ : ’’تم پر لازم ہے کہ دو شفاء دینے والی چیزوں کو استعمال کرو ایک ’’شہد‘‘ اور دوسرا ’’قرآن‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ : ’’اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی چیز میں خیر ہوتی تو’’سینگی‘‘ لگوانے اور ’’شہد‘‘ پینے میں ہوتی۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺکو ’’مکھن‘‘ اور’’چھوہارہ‘‘ مرغوب تھا۔ایک اور جگہ مروی ہے کہ آنحضرت ﷺکو انگور اور تربوز پسند تھے۔(طب نبوی علامہ ذہبیؒ)

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’کلونجی‘‘ کا استعمال کیا کروکہ اس میں سوائے موت کے باقی تمام بیماریوں سے شفاء ہے۔‘‘ ایک مرتبہ شاہِ روم نے زنجبیل (ادرک ، سونٹھ) کا ایک بھرا ہوا گھڑا آپ ؐکی خدمت میں ہدیۃً بھیجا ، آپ ؐنے اس کا ایک ایک ٹکڑا سب کو کھانے کے لئے عطاء فرمایا۔( طب نبوی علامہ ذہبیؒؒ)۔ حضرت طلحہ ؓ  فرماتے ہیں کہ : ’’ رسول اللہ ﷺنے مجھے ’’بہی‘ ‘ (Quince) کا ایک دانہ عنایت فرمایا اورارشاد فرمایا کہ : ’’اسے لے لو ! کیوں کہ یہ دل کو راحت پہنچاتا ہے۔‘‘(ابن ماجہ)

The post امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے مقدس گوشے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


وفورِ حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کچھ آئنے ہیں جو حیرت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کسی جتن کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں
ہم ایسے لوگ محبت سے ٹوٹ جاتے ہیں
زمانہ ان کو بہت جلد مار دیتا ہے
جو لوگ اپنی روایت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کئی زمانے کی سختی بھی جھیل لیتے ہیں
کئی وجود حفاظت سے ٹوٹ جاتے ہیں
ہم ایسے لوگوں کو عِشوہ گری نہیں آتی
ہم اک ذرا سی شرارت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کبیرؔ جب سبھی دیواریں خستہ ہو جائیں
تو پھر مکان مرمت سے ٹوٹ جاتے ہیں
(انعام کبیر، کامونکی)

۔۔۔
غزل


رہیں یونہی، ارے، میری بلا سے
یہ سب کھوٹے کھرے، میری بلا سے
میسر جب نہیں سایہ کسی کو
شجر سوکھے، ہرے، میری بلا سے
وہ میرے بعد کرتا ہے سنا ہے
ہوا سے مشورے، میری بلا سے
کسی کی آنکھ میں بس جائیں چاہے
یہ منظر دکھ بھرے میری بلا سے
اسے مجھ سے محبت جب نہیں تو
بھلے جس سے کرے، میری بلا سے
کہا، سب نے کہ مر جائے گی کومل
کہا اس نے، مَرے، میری بلا سے
(کومل جوئیہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

۔۔۔
غزل


افسوس کسی طور بھی دَم بھر نہیں کھلتا
اک در کہ سرِ شامِ معطر نہیں کھلتا
رنگوں میں نہائی ہوئی اک یاد کا چہرہ
کھلتا ہے مگر میری طلب پر نہیں کھلتا
جس کو نہیں الفاظ برتنے کا سلیقہ
اس پر کبھی تخلیق کا جوہر نہیں کھلتا
اے کاش کھلے مجھ پہ ترے کُن کا فسانہ
یہ عالمِ تکوین میں رہ کر نہیں کھلتا
کیوں زنگ بصیرت کے کواڑوں کو لگا ہے؟
کیوں مجھ پہ تری ذات کا منظر نہیں کھلتا
میں ایک تسلسل سے جسے دیکھ رہا ہوں
وہ شخص مرے سامنے آ کر نہیں کھلتا
ہر روز کہاں چجتے ہیں الفاظ کے نوحے
ہر روز شکایات کا دفتر نہیں کھلتا
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ)

۔۔۔
’’ بے سخن دریچوں سے‘‘

یاد ہے
میں نے تم سے کہا تھا مرا ہر سخن تم سے ہے
دیکھ لو!!
چھ مہینوں سے اب تک
کسی نظم کی کوئی ہلکی سی آہٹ بھی دل کے دریچے پہ
دستک نہیں دے سکی ہے
مگر اب میں اس سے زیادہ دعاؤں میں تم کو نہیں مانگ سکتی
خدا اتنا فارغ نہیں ہے
کہ سب چھوڑ کر صرف ہم کو ملانے کی خاطر
زمانے میں ’’کُن‘‘ کی صدائیں لگاتا پھرے
اس کی دنیا میں ہم ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں
( ہاں وہ دنیا… جو ہم نے بنائی تھی اس میں فقط ’’ہم‘‘ ہی تھے)
وقت کا اژدھا میری ٹین ایج کی ساری معصومیت کو نگلنے لگا ہے
خدا اور رحمت کا نقشہ… جو بچپن میں اماں نے کھینچا تھا
یکسر بدلنے لگا ہے
کہیں دور سے پھر تمہاری صدا آرہی ہے
مگر دل یہ کہتا ہے
’’بس اب نہیں… خامشی چاہیے…!!‘‘
(اور تم جانتے ہو، میں دل کی سنوں گی…)
یہ کیا ہے کہ جب آنکھیں موندوں تو رنگ اور منظر
مگر آنکھیں کھولوں تو ہر سو اندھیرا ہے
میں نے تمہیں روشنی فرض کر کے یہ سب دل کی باتیں کہی ہیں
مری بیقراری کسی غیر محسوس سانچے میں دھیرے سے ڈھلنے لگی ہے
مہینوں سے دل کے جزیرے پہ جمتی ہوئی برف آخر پگھلنے لگی ہے
کوئی نظم پھر مجھ میں چلنے لگی ہے…!!
(فریحہ نقوی، لاہور)

۔۔۔
غزل


عکس کتنے بدل رہی ہوں میں
جیسے پانی پہ چل رہی ہو میں
آج الجھن بنی ہوں جس کے لیے
اس کی مشکل کا حل رہی ہوں میں
جس کو صدیاں شمار کرتی ہوں
اس کا بس ایک پل رہی ہوں میں
اے مرے بد گمان تیرے ساتھ
خوش گمانی سے چل رہی میں
اس کہانی سے آج وحشت ہے
جس کا کردار کل رہی ہوں میں
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل


نظر میں جم گیا منظر، ٹرین چلنے لگی
بجائے پٹڑی کے دل پر، ٹرین چلنے لگی
وسل بجی تو بچھڑتے ہوؤں کے چہرے پر
غبارِ رنج گرا کر، ٹرین چلنے لگی
لرزتے پلکوں پہ آنسو چلو نہیں دیکھے
صدائیں سن کے بھی خود سَر، ٹرین چلنے لگی
ہماری آنکھوں کی لالی نے بارہا روکا
اشارہ توڑ کے کیوں کر، ٹرین چلنے لگی
پرانے دوست کی صورت کھڑے تھے میرے ساتھ
اداس سرو و صنوبر، ٹرین چلنے لگی
تلاشِ رزق میں گاؤں سے جانے والوں کو
دیا فریبِ مقدر ٹرین چلنے لگی
جو پچھلی رات کہیں آنکھ لگ گئی جاذبؔ
یقیں کریں مرے اوپر ٹرین چلنے لگی
(اکرم جاذب، منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


کیا اذیت ہے مرد ہونے کی
کوئی بھی جا نہیں ہے رونے کی
دائرہ قید کی علامت ہے
چاہے انگوٹھی پہنو سونے کی
سانس پھونکی گئی بڑا احسان
چابی بھر دی گئی کھلونے کی
ایسی سردی میں شرط چادر ہے
اوڑھنے کی ہو یا بچھونے کی
بوجھ جیسا تھا جس کا تھا مجھے کیا
مجھے اجرت ملی ہے ڈھونے کی
میں جزیرے ڈبونے والا ہوں
خو نہیں کشتیاں ڈبونے کی
(پارس مزاری، بہاولپور)

۔۔۔
’’وقت کی کتھا‘‘
شام بیٹھی ہوئی ہے حجرے میں
رات کہتی ہے کچھ اجالے دو
اور سویرے کا سرد چہرہ ہے
عکس ڈھلتا ہے زرد سورج کا
اک گھنے پیڑ میں نکلتا دن
چھپ رہا ہے سیاہ آنکھوں میں
دور تک روشنی کا نام نہیں
اور وہ دیکھو کہ ایک پگلی نے
طاق میں پھر دیا جلایا ہے
چاند کہتا ہے جھیل میں اترو
اک ذرا دیر ہم نشیں ٹھہرو
مجھ سے باتیں کرو کہ وحشت نے
شہر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں
شب کو ڈھلنے سے روک رکھا ہے
دن نکلنے سے روک رکھا ہے
(سارا خان، راول پنڈی)

۔۔۔
غزل
پھولوں کے سنگ کانٹوں سے بھی یاری کی
ہم نے گلشن میں ایسے گلزاری کی
آدھا حصّہ اس کا قصّہ تھا شاید
اُس نے میری نظم پہ آہ و زاری کی
اپنے دوست کو جاکر سب کچھ بول دیا
ہم نے اپنے دشمن سے غداری کی
ترکِ تعلق واحد حل تھا میری جان
تم نے میرے ساتھ بڑی منہ ماری کی
کچھ لوگوں کا خون بہا تھا سڑکوں پر
تب جاکر تحریک چلی بیداری کی
مصرعے جوڑ کے اپنا ہی غم لکھا ہے
میں نے خود پہ ایک اذّیت طاری کی
شاعر سے کہتے ہیں روگ لگا ہوگا
کوئی وجہ تو ہوتی ہے بے کاری کی
ہنسنے والے اچھا خاصا روئے تھے
بیچ سڑک میں ایسی کیا فن کاری کی؟
اور میاں شہزاد کہاں سے آتے ہو؟
رات گئے مسجد کی چوکیداری کی؟
(شہزاد مہدی، اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
٭٭٭
سوال یہ ہے کہ اس پُرفریب دنیا میں
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں
٭٭٭
فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آ چکے ہو مگر انتظار باقی ہے
٭٭٭
یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں
٭٭٭
یقیں ان کے وعدے پہ لانا پڑے گا
یہ دھوکا تو دانستہ کھانا پڑے گا
٭٭٭
زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا
میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا
٭٭٭
خدا کے نام پہ کیا کیا فریب دیتے ہیں
زمانہ ساز، یہ رہبر بھی، میں بھی، دنیا بھی
٭٭٭
شوق کے ممکنات کو دونوں ہی آزما چکے
تم بھی فریب کھا چکے ہم بھی فریب کھا چکے
٭٭٭
زخم بھی اب حسین لگتے ہیں
تیرے ہاتھوں فریب کھانے پر
٭٭٭
دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر
امکانِ التفات سے ہم کھیلتے رہے
٭٭٭
نگاہِ ناز کی معصومیت ارے توبہ
جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
٭٭٭
جو با خبر تھے وہ دیتے رہے فریب مجھے
ترا پتہ جو ملا ایک بے خبر سے ملا
٭٭٭
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
٭٭٭
کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
٭٭٭
کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
٭٭٭
یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے
ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے
٭٭٭
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
٭٭٭
مجھے تو یہ بھی فریبِ حواس لگتا ہے
وگرنہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ صفحہ کوچۂ سخن، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی email:arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
وہ چیخ چیخ کے کہتا ہے یار آنکھیں کھول
یہ میرے رونے کو بدعت کا نام دے رہا ہے
تو میرے عہد کی، پروردگار، آنکھیں کھول
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو اے جنونِ رہِ ریگ زار، آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خُمار، آنکھیں کھول
یہاں ازل سے اندھیرا ہی مقتدر رہا ہے
سو روشنی کا نہ کر انتظار آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحرؔ
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول
(سبطین ساحر، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


اشک بن کر مری آنکھوں میں یہ آیا ہوا شخص
اس کو دیتا ہے دعائیں، یہ ستایا ہوا شخص
میں نے ماضی کے دریچوں کو مقفل تو کیا
یاد آتا ہے وہ شدت سے بھلایا ہوا شخص
جانے کیسے نظر آجاتا ہے اس دنیا کو
ایک مدت سے مرا دل میں چھپایا ہوا شخص
اشک تھے اس کی ہتھیلی پہ وہی رکھ دیے ہیں
خالی لوٹا نہیں دہلیز پہ آیا ہوا شخص
کتنے چہرے ہیں پسِ چہرہ یہاں لوگوں کے
کس طرح ڈھونڈ کے لاؤں وہ گنوایا ہوا شخص
ٹوٹتے ٹوٹتے اس خواب کی بس راکھ بچی
دیکھتے دیکھتے اک روز پرایا ہوا شخص
چھین کر لے گئے مجھ سے مری پونجی دنیا
کھو دیا میں نے محبت میں کمایا ہوا شخص
(فوزیہ شیخ، فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


وہ اس لیے بھی مری گھات کر نہیں سکتا
کہ دن ہٹا کے کبھی رات کر نہیں سکتا
اے حسن زاد، پری روح، نہ اتنا پاس آ کہ
میں اپنے گھر میں تری بات کر نہیں سکتا
تو دعوی دارِ محبت تو ہے مگر یہ بتا
کہاں لکھا ہے کہ تو ہاتھ کر نہیں سکتا
کچھ اور لوگ بھی پیاسے ہیں میری قربت کے
میں ایک تجھ پہ تو برسات کر نہیں سکتا
سفر طویل ہے، دشوار زندگانی کا
یہ دکھ الگ کہ ترے ساتھ کر نہیں سکتا
(محسن ظفر ستی، کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


تھا خود سے دور کسی دشت میں پڑا ہُوا میں
تجھے ملا تو محبت سے آشنا ہوا میں
نکل پڑا ہوں کسی بے نشان منزل کو
فنا کے دشت میں سائے کو ہانکتا ہوا میں
تمھیں خبر بھی ہے کن جنگلوں میں جا نکلا
تمہارے بارے پرندوں سے پوچھتا ہوا میں
خود اپنے آپ کو رستے میں بھول آیا ہوں
تمہارے نقشِ کفِ پا کو ڈھونڈتا ہوا میں
اسے بچاؤ یہ ساحل پہ چیختی ہوئی وہ
مجھے بچاؤ، یہ دریا میں ڈوبتا ہُوا میں
پھر ایک موڑ پہ آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا
کہ چل پڑا تھا یونہی خواب دیکھتا ہوا میں
وہ لمحہ لمحہ زمانے کی بھیڑ میں بے خود
یہ دورِ حبس کے صدمات جھیلتا ہوا میں
(ذیشان مرتضی، پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


حسنِ دل کش کے مضافات میں رہنے والے
ہم کہ بے وجہ فسادات میں رہنے والے
دیکھ ٹِپ ٹِپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے
کتنے خوش ہیں میاں برسات میں رہنے والے
ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے
اتنے مانوس ہیں تاریکیِ شب سے یارو
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے
آنکھ جو دیکھتی ہے، سچ ہو، ضروری تو نہیں
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے
پیار سے توبہ کی، آزاد ہوئے، صدقہ دیا
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے
(محمد مبشر میو، سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل


دستکیں رات بھر کوئی دیتا رہا
تیز طوفان میں کون در کھولتا
دور اپنوں سے پردیس میں، اجنبی
سارا دن عید خود سے ہی ملتا رہا
زلف ناگن کہو، آنکھ تھی مے کدہ
کوئی ڈستا رہا، کوئی پیتا رہا
شاہ کے سامنے سر سبھی جھک گے
ایک باغی کا سر زینتِ دار تھا
زندگی بھی ہے زنجیر ہی کی طرح
توڑ کر خود بخود کون ہو گا رہا
(انور ندیم علوی، نواب شاہ)

۔۔۔

غزل


تیری یادوں کا سلسلہ ہوتا
ساتھ میرے بھی قافلہ ہوتا
میرے جتنا قریب آتا تُو
یار اتنا ہی فاصلہ ہوتا
اْس کی یادیں اسی کو دے دیتا
دوسری بار گر ملا ہوتا
واپسی پر مجھے جو مل جاتا
میرے لب پہ بھی نہ گلہ ہوتا
تُو وفا میں جو ٹاپ کرتا اگر
عشق مکتب میں داخلہ ہوتا
(عمران اختر القادری، لاہور)

۔۔۔
’’ماہ رُو‘‘


تو دریچوں سے آتی ہوئی روشنی
ماہ رو
تیری نظمیں سوالات کرتی ہوئیں
رنگ بھرتی ہوئیں
تیری آواز میری سماعت میں رس گھولتی
جیسے بربط کوئی گود میں رکھ کے فطرت میں کھویا ہوا
گیت گاتے ہوئے
اور بھٹکے ہوئے ان پرندوں کو رستہ دکھاتے ہوئے
شام کے بعد خیموں میں جلتا دیا
تو حقیقت کوئی
ڈھونڈنے میں جسے اک زمانہ لگے
تیرا احساس آنکھوں میں خوابوں کا جھرمٹ
جنہیں دیکھ کر ایک مردہ بدن سانس لینے لگے
تو سمندر ہے
جس کے لیے سارے بھٹکے ہوئے دریا
اپنے کناروں سے باہر تری جستجو میں رواں
ایک حیرت کدہ
تیرا چہرہ وہ چہرہ
جسے دیکھ کر
کتنی صدیوں سے لپٹے ہوئے گرد سے آئنے صاف ہونے لگے
ساز بجنے لگے
وجد میں قافلے
راہ بھولے ہوئے سارے ملنے لگیں
جن کو تو مل گیا
خود سے ملنے لگے
رقص کرنے لگے
ماہ رو
(ماہ رخ علی ماہی، کراچی)

۔۔۔

’’وہ سُندر آفریں لڑکی‘‘
اترتے بادلوں کے جھنڈ میں تنہا کھڑی لڑکی
حسیں خوابوں میں کھوئی، مسکرا کرآنکھ اٹھاتی ہے
سویرا ہے! اندھیرا ہے! بھلا کیا ہے!
سہیلی مسکراتی ہے
وہ سمجھی ہے کہ بادل آفیت کا سائباں ٹھہرے
وہ سمجھی ہے کہ بادل ہیں تو راحت ہے
مگر اس نے نہیں دیکھا
اُڑے بادل کی نُکر کا کنارا کتنا کالا ہے
وہاں قسمت کی بڑھیا منتظر ہے
کب چھوئے گڑیا!!
حسیں بادل کی صورت پر سہیلی مسکراتی ہے
اڑے بادل کے ٹکڑوں کو ذرہ سا گدگداتی ہے
سہیلی مسکراتی ہے
تو سب جانب اُڑے پنچھی یکایک لوٹ آتے ہیں
سہیلی کیا ہوا جگنو!!!!
کہاں سے کھینچ لائے ہو اندھیرا اس قدر گہرا!
وہ جگنو صفت سی لڑکی بہت مغموم بیٹھی ہے
کہ بادل کو چھوا کیوں کر!
وہ قسمت کی کڑی بڑھیا سمیٹے جائے ہے بادل
سراسر بڑبڑاتی ہے۔۔۔ بڑی آئی
بڑی آئی۔۔۔ چلو بھاگو۔۔۔ بڑی آئی
یہاں پر سُکھ نہیں ممکن۔۔۔۔ چلو بھاگو
محبت سے بھرے بادل یکایک زہر بھرتے ہیں
برستی ہے سیاہ بارش کہ رستہ پھر نہیں دکھتا
وہ سندر آفریں لڑکی گری کالے سمندر میں
کہ پھر وہ مل نہیں پائی
نہ اُس کی آہ ہی آئی
وہ سُندر آفریں لڑکی
(فائزہ صابری نوا، لاہور)

۔۔۔

جب سے اک شخص میرے دھیان میں ہے
کتنی خوش بُو مرے مکان میں ہے
٭٭٭
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوش بُو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
٭٭٭
محبت ایک خوش بُو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
٭٭٭
اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں
ہم کو خوش بُو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے
٭٭٭
وہ تو خوش بُو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوش بُو کا سفر جاری ہے
٭٭٭
ایک خوش بُو سی ابھرتی ہے نفس سے میرے
ہو نہ ہو آج کوئی آن بسا ہے مجھ میں
٭٭٭
حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب
پھول خوش بُو سے خفا ہو جیسے
٭٭٭
پھول کی خوش بُو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
٭٭٭
میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا
اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوش بُو لے جا
٭٭٭
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوش بُو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
٭٭٭
خوابوں کی طرح آنا خوش بُو کی طرح جانا
ممکن ہی نہیں لگتا اے دوست تجھے پانا
٭٭٭
جو یادِ یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوش بُو کشید کر لی ہے
٭٭٭
خوش بُو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
٭٭٭
رنگ خوش بُو اور موسم کا بہانا ہو گیا
اپنی ہی تصویر میں چہرہ پرانا ہو گیا

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔صفحہ کوچۂ سخن ، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچیemail:arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

 عذابِ آگہی
مصنف… میاں افتخاراحمد
قیمت…500 روپے
ناشر:المجاہد پبلیشرز، ایم بلاک ٹرسٹ پلازہ ، جی ٹی روڈ گوجرانوالہ

زیرنظرکتاب مصنف کی یادداشتیں ہیں، وہ پاکستان ناروے کلچرل فورم کے تاحیات صدر ہیں، بچپن پھالیہ منڈی بہاؤالدین میں گزرا، بعدازاں راولپنڈی منتقل ہوئے، زیادہ تر یادداشتوں کا تعلق انہی علاقوں سے ہے۔ ان کے دوستوں، کلاس فیلوز کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں اہم ترین مناصب پر فائز رہی۔ بعض فوجی جرنیل بنے،  بعض وائس چانسلر، بعض ججز، بعض نامور سیاست دان۔ ان دوستوں کی دوستی پر انھیں بہت فخر محسوس ہوتاہے۔ مصنف نے اپنی یادداشتوں میں انہی دوستوں کا دل کھول کر تذکرہ کیا۔ مثلاً سابق وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید کے بارے میں لکھتے ہیں:’ پرویزرشید سے میری بہت گہری ہم آہنگی رہی، میں ہمیشہ سے جنرل ایوب خان صدرپاکستان کا حامی تھا اور پرویزرشید ذوالفقارعلی بھٹو کا حامی تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی جوائن کرلوں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھ پر دوسرا دباؤ کرنل حبیب کے بیٹے اقبال حبیب کاتھا کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو راولپنڈی میں ہمیشہ کرنل حبیب کے گھر میں قیام کیاکرتے تھے۔ اقبال حبیب بھی روزمیرے گھر پہنچ جاتے تھے کہ میں بھٹو کی پارٹی جوائن کرلوں۔ ان دو قریبی دوستوں اور ساتھیوں کے بے حد اصرار کے باوجود میں نے جنرل ایوب کی پارٹی نہیں چھوڑی‘۔کتاب میں جابجا مصنف نے اپنی ماضی کی تصاویر شائع کی ہیں جبکہ اپنے دوستوں کی تصاویر شامل کرکے بھی ان پر فخر کیاہے۔

 سرگزشتِ جامعہ عثمانیہ
مصنف…بدر شکیب
قیمت…500
ناشر… مظہر شکیب، امین ہائٹس، 147،
 سی پی برار سوسائٹی، کراچی

دکن کے آخری حکم راں میر عثمان علی خاں کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جو اپنے دور میں دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ میر عثمان علی خاں کو تعلیم سے خاص دل چسپی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور میں بجٹ کا 11 فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا تھا اور علمی و تحقیقی کاموں میں علما اور اساتذہ کو نظام کی خصوصی توجہ اور مالی اعانت حاصل ہوتی تھی۔

اسی ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ علم و ادب اور تعلیم کے شعبوں کے ساتھ خاص طور پر اردو زبان کے فروغ اور تحقیقی کاموں کے لیے1917ء میں نظامِ دکن نے اس جامعہ کے قیام کا فرمان جاری کیا جس میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کا نام جامعہ عثمانیہ قرار پایا جس کے قیام کا ایک مقصد اردو کی ترویج اور فروغ کے ساتھ طلبا کے اخلاق کی درستی اور مختلف علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام تھا۔ ہر درجہ میں انگریزی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی تاکہ طلبا جدید علوم سے بھی بہرہ مند ہوسکیں۔ جامعہ میں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ قائم کرنے کے بعد نصابِ تعلیم مرتب کیا گیا اور تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ اس دور میں ہندوستان کی پہلی عظیم الشان درس گاہ تھی جس کے سائے تلے اردو زبان نے ترقی کا سفر اور طلبا نے تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، مگر سقوط کے بعد ہندوستانی حکومت نے سب کچھ برباد کر دیا۔

قارئین، پیشِ نظر کتاب نئی نہیں بلکہ یہ بدر شکیب(مرحوم) کی علمی اور تحقیقی کاوش کا نیا ایڈیشن ہے۔ یہ کتاب ایک اہم اور مستند دستاویز کے طور پر آنے والی نسلوں کو اپنے سنہری ماضی اور خصوصاً جامعہ عثمانیہ اور نظامِ دکن کے اردو کو ذریعۂ تعلیم بناتے ہوئے علم و تحقیق کے میدان میں شان دار کارناموں کی یاد دلاتی رہے گی۔ بدر شکیب حیدرآباد دکن کے چند معروف قلم کاروں میں سے ایک ہیں اور جامعہ ان کی مادرِ علمی رہی ہے۔ اس کتاب کے مختلف ابواب پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ نہایت وقیع اور بیش قیمت مخزن ہے جس کا مواد نہایت عرق ریزی اور محنت کا متقاضی تھا اور مصنف کے عزم و استقلال نے اسے سرگزشت کی صورت ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ ایڈیشن مرحوم مصنف کے صاحب زادے مظہر شکیب کی خواہش و کوشش کا نتیجہ ہے۔

مشتاق احمد یوسفی
کچھ یادیں، کچھ باتیں
مرتب… امرشاہد
قیمت…1500 روپے
ناشر… بک کارنر، جہلم

جناب مشتاق احمد یوسفی عصرحاضر کے عظیم ترین قلم کار، مزاح ہی کے نہیں اردونثر کے بھی بڑے آدمی اور اردو ادب کے لئے باعث امتیاز ہیں، بقول افتخارعارف’’ ایک ایسے زمانے میں جب پطرس بخاری، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، ابن انشا اور محمد خالداختر جیسے بڑے مزاحیہ نگار موجود ہوں، اپنا قد وقامت نکالنا بہت مشکل ہے‘‘ لیکن جناب یوسفی کھڑے ہوئے اور پورے قد سے کھڑے ہوئے حتیٰ کہ ایک پورا عہد ترتیب دیا جو ایک سمندرہے،آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سمندر کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ انہی کے بارے میں ابن انشا نے کہاتھا:’’ اگرمزاحی ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کانام ہے‘‘، چنانچہ ڈاکٹرظہیر فتح پوری نے کہا کہ ہم اردومزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ اور شفیق الرحمن نے کہا: ’’ یہ کہنے کو جی چاہتاہے کہ ہم سب بڑے باکمال ہیں لیکن مشتاق احمد یوسفی کی طرح کوئی نہیں لکھ سکتا‘‘۔

جناب امرشاہد نے زیرنظرکتاب کی صورت میں اس پورے عہد کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں:

’’مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف شدہ کتابوں اور خود ان کی تحریروں کے دوران ان کی شخصیت کی جو تصویر فکروذہن کے پردے پر ابھری تو لگا کہ ان بکھری یادوں، خاکوں اور باتوں کو ایک کوزے میں بند کردیاجائے۔ اس دوران یوسفی صاحب کے ایسے گوشے سامنے آئے جنھوں نے عقیدت کے جذبات کو شدت سے ابھارا، ہمت اور استقلال کو تقویت بخشی، کئی اعتبار سے یوسفی صاحب کو ہرچھوٹی بڑی محفل میں بے تحاشہ سراہا گیا۔ اس مجموعے کی ترتیب کا کام آج سے کئی سال پہلے اس تحریک کے ساتھ کہ ’’ہمیں اپنے ہیروز کی قدر ان کی زندگی میں ہی کرنا چاہئے‘‘ شروع کردیاگیاتھا مگرتکمیل وفات کے بعد ہوگی، اس کا قطعی اندازہ نہ تھا لہذا پھر اس کام کی رفتار کو بڑھاتے ہوئے ایک ہفتے میں کتاب کو سمیٹ دیاگیا‘‘۔

’’اس مجموعہ میں یوسفی صاحب کے ارادت مندوں ، رفقائے کار اور برصغیر کے ممتاز اہل قلم کے مضامین شامل ہیں۔پہلا حصہ زندگی نامہ پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹراشفاق احمد ورک نے کمال مہارت سے یوسفی صاحب کی اپنی کتابوں سے خودنوشت کو مرتب کیاہے جبکہ پہلی جامع سوانح حیات لکھنے کا اعزاز طارق حبیب کے سر ہے جو اسی باب کا حصہ ہے۔دوسرے حصے میں یوسفی صاحب کی زندگی میں لکھے گئے خاکے ومضامین شامل کئے گئے ہیں۔ تیسرا حصہ اہل قلم کے لکھے گئے تعزیتی ریفرنس، یادیں اور منظوم خراج عقیدت پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے میں مشتاق احمد یوسفی کی جملہ تصنیفات پر عظیم ادبا کے تاثرات سمیٹے گئے ہیں۔ پانچویں حصے میں یوسفی صاحب کی پانچوں کتابوں کا انتہائی دشوار انتخاب کیاگیا ہے جو کہ کسی طور پر بھی مکمل کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتا۔ آخری اور چھٹے حصے میں ملاقاتیوں کی گفتگواور انٹرویوز کو تلاشِِ بِسیار سے حاصل کیاگیاجبکہ بعض کو ٹرانسکرائب کرنے کی بھی نوبت آئی‘‘۔

جس طرح مبشرعلی زیدی نے کہا :’ بڑے ادیب مرتے نہیں، بس لکھنا چھوڑ دیتے ہیں‘، ہم بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جناب مشتاق احمد یوسفی کے عہد کا یہ دوسرا دور شروع ہواہے، اور جناب امرشاہد کی  یہ بھاری بھرکم کتاب اس نئے دور کا ابتدائیہ ہے۔ ’بک کارنر‘ نے پونے چھ سو صفحات کی کتاب کو جس قدرخوبصورت اندازمیں شائع کیا، لائق صدتحسین ہے۔ تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

جب اندر سکوت ہو تو باہر کا شور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا

$
0
0

قسط نمبر 23

بابا! آپ نے بتایا نہیں کہ آپ ان کتّوں سے کیا کہہ رہے تھے، وہ تو بالکل خاموش تھے، ان کی آواز مجھے تو سنائی نہیں دے رہی تھی، میں نے بابا سے پھر دریافت کیا۔ جی بیٹا! تمہیں ان کا جواب سنائی نہیں دیا، دیکھو پہلے زبان سیکھنا پڑتی ہے ناں، اب تمہیں کوئی زبان نہ آتی ہو، تو تم کیسے اس زبان کو سمجھ سکتے ہو؟ پہلے تو زبان سیکھنا پڑتی ہے۔ بابا نے شاید مجھے خاموش کرانا چاہا۔ لیکن بابا! انسان کو کوئی زبان سمجھ میں نہ بھی آئے تو آواز تو آتی ہی ہے ناں، لیکن وہ سب تو خاموش تھے۔ میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔ ہاں یہ تو تم درست کہہ رہے ہو، لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ خاموشی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔

کیا مطلب بابا؟ میں نے پوچھا۔ یہی کہ پہلے خاموشی کی زبان سیکھو اور پھر سمجھو تو تمہیں بھی خاموشی کی زبان سمجھ میں آنے لگے گی، پھر کوئی خاموش بھی رہے تو تم اس کی بات سمجھ جاؤ گے۔ شاید بابا نے پھر مجھے ٹالنا چاہا۔ لیکن کیسے بابا۔۔۔۔؟ وہ خاموش تھے کہ اچانک مجھے اپنی ایک رضائی ماں یاد آئی۔ یہ مائیں بھی ہر جگہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں، ہر جگہ موجود، بس تعلق ضروری ہے، وہ ہر جگہ آپ کا ہاتھ تھامے رہیں گی۔ ہاں نظر نہ بھی آئیں تب بھی۔ اس لیے کہ دیکھنے کے لیے آنکھوں سے زیادہ بینائی کی ضرورت ہے ناں، مجھے بہت مشکل ہوگی لیکن میں آپ کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کیسی تھیں۔

میں ایک دیہاتی ہوں۔ آباواجداد بھی دیہاتی تھے، تھے کیا اب بھی ہیں۔ یہ دوسری بات کہ پڑھ لکھ گئے ہیں، نئی نسل کے لوگ تو بیرون ملک جاکر بھی پڑھ آئے، شہروں میں بھی آبسے ہیں، کچھ لوگ جدید طرز زندگی بھی گزارنے لگے ہیں، لیکن اندر سے وہی دیہاتی، اور دیہاتی بھی ایسے ویسے نہیں، کوہستانی۔ بلند و بالا کوہساروں کا سینہ چِِیر کر اپنا راستہ نکالنے والے۔ میں نے بہت درخت اُگتے ہوئے دیکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے میری رضاعی ماں نے گاؤں میں اخروٹ کے کچھ درخت لگائے تھے۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا، وہ ہم سب سے زیادہ ان اخروٹ کے درختوں سے پیار کرتی تھیں۔ میں کئی مرتبہ ان کے ساتھ ان درختوں سے ملنے گیا ہوں۔ صبح سویرے اس وقت بھی جب پہاڑوں نے برف کی سفید چادر اوڑھی ہوئی ہوتی تھی، بدن میں لہو کو جما دینے والی سردی میں بھی وہ درختوں سے ملنے جاتی تھیں۔ ان کا دن درختوں سے ملاقات سے شروع ہوکر مغرب سے ذرا پہلے انہیں الوداع کہنے پر ختم ہوتا تھا۔ میں دیکھتا تھا، وہ کس محبت سے ان کے تنوں پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ انھیں پانی دیتی تھیں، اور تو اور میں نے انھیں ان بے زبان درختوں سے باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ وہ جب پشتو میں ان سے کہا کرتیں: ’’ میں آگئی ہوں۔ رات کیسی گزری؟ اوہو، بہت سردی تھی ناں۔ ہاں ہاں پھر کیا کِیا تم نے۔ اچھا! چلو بہت اچھا کیا۔ ابھی تم چھوٹے ہو۔ جب بڑے ہوجاؤ گے تب یہ سردی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ میں ہوں ناں میرے بچو! میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘

پھر وہ مجھے آواز دیتیں: زمَا گُلا ( میرے پُھول) جلدی کرو۔ پانی کی بالٹی لاؤ، انھیں پیاس لگی ہے۔ میں پانی سے بھری بالٹی ان کے قریب رکھ دیتا اور پھر وہ اپنے ہاتھوں کا پیالہ بناکر انھیں پانی دیتیں۔ وہ انھیں ڈانٹتی بھی تھیں، تم بہت نکمّے ہو، دیکھو تمہارا بھائی کتنا صحت مند ہے اور تم! کیا کروگے آگے! اپنا خیال رکھا کرو، نہیں تو میں تمہیں ٹھیک کردوں گی۔

انھیں پانی پلا کر ان کے گرے ہوئی سوکھے پتے جھاڑو سے صاف کرکے پھر وہ انھیں کہتیں: ’’ میں اب جارہی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ دوپہر میں آؤں گی۔ خدائے پہ امان۔ (خدا کی حفاظت میں رہو)

ایک دن واپس گھر لوٹتے ہوئے جب میں نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہی نہیں ایک توانائی بھی ملتی تھی، سچ کہوں تو اب بھی ملتی ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ ہمیشہ رہے گی، تو میں نے پوچھا: ماں، آپ ان سے کیوں باتیں کرتی ہیں، یہ سنتے ہیں کیا۔۔۔۔ ؟

وہ بہت ہنسیں اور بولیں: کیوں، تمہیں ان کی آواز نہیں سنائی دیتی ۔۔۔۔ ؟

میں نے کہا: نہیں تو، مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیتا۔

وہ پھر ہنسیں اور کہنے لگیں: تمہارے دل کے کان بند ہیں ناں، اس لیے تمہیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔کیا دل کے کان بھی ہوتے ہیں ماں ؟ میں نے ان سے دریافت کیا۔

وہ پھر ہنسیں اور بولیں: ہاں، کیوں نہیں ہوتے گُلا، دل کی تو آنکھیں بھی ہوتی ہیں، دل تو بات بھی کرتا ہے۔ اور پھر مجھے ان کا غصہ یاد آجاتا، میں بہت زیادہ شرارتی تھا، تھا کیا اس عمر میں بھی ہوں، شرارتی، تو میں خود کو رعایت دے رہا ہوں، خیر جب میں ان کی بات نہیں سنتا تھا تو وہ کہتیں: میری یہ بات دل کے کانوں سے سن لے۔

ماں دل کی بات کیسے سن سکتے ہیں ۔۔۔۔ ؟

تب وہ بہت سنجیدہ ہوجاتیں اور پھر میں سنتا: ’’ ہاں یہ تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ وابستگی سے پیدا ہوتی ہے، جس سے تمہارا تعلق جتنا گہرا ہوگا اس کی ہر بات بغیر کہے بھی تم تک پہنچے گی۔ اسے زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح میرا ان درختوں سے تعلق ہے۔ گُلا تجھے پتا ہے میں انھیں اپنے بچوں کی طرح چاہتی ہوں، جیسے تمہیں۔ میں ان کا خیال اسی طرح رکھتی ہوں جس طرح اپنے بچوں کا رکھتی ہوں بل کہ ان سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ بچے تو گھر میں ہوتے ہیں اور یہ بے چارے سردی میں، گرمی میں، دھوپ میں باہر کھڑے رہتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، ورنہ میں انھیں کپڑے بھی بناکر دوں، یہ میرے بیٹے ہیں اور بیٹے کسے پیارے نہیں ہوتے۔ یہ بے زبان نہیں ہیں، یہ بے حس نہیں ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں، بُرا مانتے ہیں۔ روٹھ جاتے ہیں۔ تُونے دیکھا نہیں، کتنے ہی درخت ایسے ہوتے ہیں اگر تم ان کی دیکھ بھال نہ کرو تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ درخت کا سوکھنا ان کا روٹھنا ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بہت لاڈ پیار مانگتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈلے بچے کی طرح۔‘‘

اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا، آیا تو خیر اب بھی کچھ نہیں ہے، سوچتا تھا میری ماں پاگل ہے، بھولی ہے، سادہ ہے۔ میں مسکراتا، ایسی عورت جس نے کبھی کسی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی، کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ ایک دیہاتی عورت۔ پتا نہیں کیسی کیسی باتیں کرتی تھیں۔ کیسے بتاؤں کیا تھیں وہ، میں پرلے درجے کا بے وقوف، احمق گاؤدی اور جاہل انہیں بس ایک دیہاتی سمجھتا تھا، یہ تو کرم ہوا کہ پھر مجھ پر کھلا کہ کیا ہیں وہ، سرخ و سفید بڑی سی کالی چادر میں لپٹی ہوئیں، بڑی بڑی روشن آنکھیں، میں نے اپنی ماؤں سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا، اور میری وہ ماں تو ایسی تھی کہ جنّت کی حوریں انہیں دیکھتی ہوں گی اور اپنے آپ پر شرمندہ ہوتی ہوں گی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ایسا ہی ہے۔ مجھے وہ دن بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب میں نے ماں سے ضد کی تھی کہ مجھے بھی ان کی آواز سننا ہے، تب ماں نے کہا تھا، گُلا ابھی تم بہت چھوٹے ہو، جب وقت آئے گا تب تم بھی ان کی بولی سمجھنے لگو گے۔

میں عُجلت کا مارا ضد کرنے لگا تو انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا حکم دیا تھا، ماں کے حکم کے بعد کیا کِیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نادان اب تک اپنے بھیتر کی بات نہیں سن سکا اور اگر سن سکا تو سمجھ نہیں سکا اور اگر سمجھ سکا تو ۔۔۔۔۔۔۔ بس دھاک کے تین پات، وہی اثر کرے نہ کرے سُن تو لے میری فریاد، رہنے دیتے ہیں اسے، بس یہی کافی ہے کہ وہ میری ماں اور میں اپنی تمام شرارتوں اور احمقانہ حرکتوں کے باوجود ان کا سب سے زیادہ چہیتا بیٹا ہوں، اتنا کہ صرف میری تصویر ان کے کمرے میں اب تک موجود ہے، جس پر وہ ہر روز سرخ گلاب کے پُھولوں کا ہار خود پُرو کر ڈالا کرتی تھیں، دنیا سے رخصتی کے بعد وہ پھول اب تک اسی طرح مجھ پاگل کی تصویر اور میرے عیوب کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔ رب سائیں نے انہیں بہت اعلی مقام عطا فرمایا تھا، یقینا وہ میری ماں سے بہت خوش تھا، کیوں نہ ہوتا کہ وہ ان کا مصوّر اور خالق تھا۔ میری ماں وہاں منتقل ضرور ہوگئیں جہاں ہم سب نے منتقل ہوجانا ہے، لیکن وہ امر تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ چلیے واپس ہولیں کہ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے، کسی پل بھی میں اسے نہیں بھولتا، کیسے بُھول جاؤں جب مجھے اطلاع ملی، ماں بیمار ہوگئی ہے، بہت بیمار۔ میں گاؤں پہنچا اور سیدھا ماں کی چارپائی پر جاکر دم لیا۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں: تُو آگیا، اتنی سردی میں!

نہیں ماں، کوئی سردی نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کو کیا ہوا۔۔۔۔ ؟۔ کچھ بھی نہیں، بس ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے۔

میرے رضائی بھائی اکا خان نے مداخلت کی: اتنی برف باری میں بھی یہ اتنی دور اخروٹ کے درختوں کے پاس جاتی ہیں۔ لاکھ سمجھایا پَر نہیں سمجھتیں، تم ہی انھیں سمجھاؤ۔ تم سے بہت محبت کرتی ہیں، ہم سب سے زیادہ۔ تم ضد کروگے تو مان جائیں گی۔

میں نے ماں کو دیکھا۔ میری آنکھیں برس پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھیں: کیا ہوا تجھے مجھے بتا۔ کچھ نہیں ماں! کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی۔ پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا جیسے ماں کی روانگی ہے۔ میں خاموش تھا۔ آدمی چُپ بھی رہے تو آنکھیں بول پڑتی ہیں۔ گاؤں آئے ہوئے وہ میرا پانچواں دن تھا۔ اتنی بیماری میں بھی میں انھیں درختوں کے پاس لے کر جاتا رہا۔ میں نے انھیں منع نہیں کیا۔ ایک دن اکا خان کہنے لگا: پہلے اکیلی تھیں، اب دونوں ہیں، کوئی انھیں نہیں سمجھا سکتا، بالکل پاگل ہیں یہ۔ سنو خانے تم اپنا خیال بھی رکھنا، یہ شہر نہیں ہے، برف باری میں بیمار ہوجاؤ گے۔

آخر وہ الم ناک گھڑی آپہنچی۔ علی الصبح جب میں اور ماں درختوں سے مل کر واپس آرہے تھے، میں ماں کو سہارا دے کر لارہا تھا، ان کا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا۔ نقاہت سے ان کا چلنا دُوبھر ہوگیا تو وہ بولیں: گُلا تھوڑی دیر آرام کرلیں پھر چلتے ہیں۔

میں نے کہا: ہاں، ہاں، کیوں نہیں ماں، بالکل۔ہم دونوں ایک بڑی سی چٹان پر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا ان کی نگاہیں انہی اخروٹ کے درختوں کی سمت لگی ہوئی تھیں۔

ایک بات کہوں، وہ بولیں۔

ہاں ماں! بالکل کہو، کیا بات ہے۔دیکھ، لگتا ہے وقتِ آخر آگیا ہے۔

ماں، یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔ ؟ میں تڑپ اٹھا، کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟

کچھ نہیں گُلا۔ بس دانہ پانی پورا ہوگیا۔ لیکن سُن، میں مر جاؤں تو ان درختوں کے درمیان مجھے دفن کردینا۔

میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میں گم صم بیٹھا رہا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ مجھ سے تو یہ ساری بات لکھی بھی نہیں جاتی۔ دوپہر تک ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی پھر آخری بات انھوں نے کی: میرے بے زبان بچوں کا خیال رکھنا، ورنہ قیامت میں تم سب کے گریبان پکڑلوں گی، سمجھے۔

ایک پٹھان عورت کی آخری دھمکی۔ ہاں ماں، ضرور رکھیں گے۔

اور مجھے ان درختوں کے درمیان قبر چاہیے۔

اکا خان بولا: ماں کیوں۔۔۔۔ ؟

اس لیے کہ بیٹوں کے درمیان ماں محفوظ ہوتی ہے۔

اخروٹ کے وہ درخت ان کی زندگی ہی میں پھل دینے لگے تھے۔ میرے حصے کے پھل کراچی پہنچتے تھے، اب بھی پہنچتے ہیں۔ میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں، سب سے پہلے وہیں جاتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جب تک درخت زندہ ہیں میری ماں زندہ رہے گی۔ میں نے کئی مرتبہ ان کی آواز سنی ہے جیسے کہہ رہی ہوں، دیکھو زندگی میں تم نے خدمت کی۔ یہ مرنے کے بعد بھی میری خدمت کررہے ہیں۔ کبھی اکیلا نہیں رہنے دیتے۔

میں اور بابا خاموشی سے چلتے رہے۔ جب اندر سکوت ہو تو باہر کا شور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہاں شہنائی بھی اور بہت کچھ بھی۔ میں سکوت کہہ رہا ہوں، ویرانی نہیں۔ اوپر اﷲ جی اور نیچے ہم دونوں اور خاموش۔ شاید رات کا نصف پہر بیت چکا تھا اور ہم رواں تھے، بابا کا حال تو وہ جانیں، میں بالکل خالی الذہن ہوگیا تھا، کچھ سوچ بھی نہیں رہا تھا بس ان کے سنگ سحرزدہ چلا جارہا تھا، ایسے جیسے انہوں نے مجھ پر کوئی منتر پھونک دیا ہو اور میری آواز بند ہوگئی ہو۔

پھر میں نے بابا کو ایک جنگلی جھاڑی کے پاس رکتے دیکھا۔ وہ اس جھاڑی سے کہہ رہے تھے: اﷲ نے تمہیں اتنا نافع بنایا ہے، اس پہر میں آپ کے سکوت میں مداخلت کی معافی چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو آپ کے دو پتّے لے سکتا ہوں۔۔۔۔۔ ؟ میں نے یہ سنا لیکن خاموشی اختیار کی، کچھ دیر کے بعد انہوں نے شکریہ کہتے ہوئے اس کے دو پتے توڑ لیے۔ ایک پتّا تو انہوں نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور کہنے لگے لو بیٹا منہ کھولو میں ایسا ہی کیا تو انہوں نے دوسرا میرے منہ میں ڈال دیا، دیکھو اسے چبانا نہیں، یہ خود ہی گُھل جائے گا۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ میں نے عجیب سی خوشی محسوس کی، ایسا لگ رہا تھا جیسے سب میرے سنگ جھوم رہے ہیں، گا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، اور پھر میں خود بھی رقص کرنے لگا، بہت دیر ہوگئی تھی اور بابا مجھے دیکھ رہے تھے، پھر شاید میں گر گیا تھا، لیکن تھکن نہیں تھی ایک توانائی مجھ میں بھر گئی تھی۔

لیکن میں خلاف توقع خاموش تھا، نہ جانے کیوں۔ ہم پھر سے چلنے لگے اور ایک جگہ ایک چھوٹی سے چہار دیواری نظر آئی، تھوڑی دیر تک بابا میرا ہاتھ تھامے رہے اور پھر اس میں داخل ہوگئے۔ اندر چار لوگوں کے بیچ میں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے، میں ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لیے کہ انہوں نے کالی چادروں سے خود کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا۔ بابا نے بلند آواز سے انہیں سلام کیا، ان میں سے ایک نے جواب دیا اور ساتھ ہی میں نے سنا۔ اسے بھی ساتھ لائے ہو۔۔۔۔۔ ؟ جی اس کی اجازت لے لی تھی، بابا نے جواب دیا۔ پھر ہم ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے، لیکن وہی خاموشی۔ کچھ دیر بعد پھر انہی کی آواز گونجی، ہاں اجازت ہے۔ اور بابا میرا ہاتھ پکڑے الٹے قدموں اس چہار دیواری سے باہر نکل آئے۔ دیکھو بیٹا اب ہمیں تیزی سے چلنا ہوگا اس لیے کہ فجر تک ہمیں گھر پہنچنا ہے ناں۔ ہم دونوں تیزی سے چلنے لگے۔ تم بالکل ہی خاموش ہوگئے کچھ بول ہی نہیں رہے، اچانک بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔

کیا بولوں بابا، جب بولتا ہوں تو ڈانٹ پڑتی ہے، کوئی سوال کروں تو جواب نہیں ملتا تو بس اب خاموش رہوں گا، میں نے کہا۔ اچھا تو تم جلد سیکھ گئے خاموش رہنا، مجھے تو ایسا نہیں لگتا، تم سوچ تو رہے ہو لیکن بول نہیں رہے، بابا کی اس بات سے میں چونکا۔ تو کیا سوچ رہا ہوں میں، بابا کے سامنے میرا سوال تھا۔ دیکھا میں سچ کہہ رہا تھا ناں کہ تم کچھ سوچ رہے ہو۔ پتا نہیں بابا، مجھے الجھن ہونے لگی تھی۔ پھر بابا نے کہا: جب تک تم اپنے اندر خاموش رہنے، سہنے اور سہارنے کی خوبی پیدا نہیں کرلیتے، کچھ نہیں سمجھ سکتے، کچھ نہیں سیکھ سکتے، بہت ضروری ہے خاموشی، اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہے تو خود سے دریافت کرو، اپنے سوال کا جواب اپنے اندر سے لینے کی کوشش کرو، خاموشی سے غور کرنا سیکھو، رونا بھی ہو خاموشی اختیار کرو۔ بابا مجھے سمجھا رہے تھے اور میں خاموشی سے سُن رہا تھا۔ اب کچھ تو بولو بیٹا، اتنی خاموشی کا بھی نہیں کہا میں نے۔ کچھ سمجھ نہیں سکتا میں بابا، ایسے ہی رہوں گا میں، صبر ہے مجھ میں نہ سکت۔ خاموشی طویل ہوگئی تھی لیکن پھر اچانک مجھ پر کھلا، دیکھیے شاید آپ سمجھ سکیں۔

اگر ہو گفت گُو کرنے کی خواہش

مزا دیتا ہے سنّاٹا بھی کیسا

The post جب اندر سکوت ہو تو باہر کا شور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا appeared first on ایکسپریس اردو.


اقبال؛ حرفِ نعت اور تشکیلِ افکار

$
0
0

واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری کے بحرِ ناپیداکنار میں اقبال کی مثال ایک جزیرے کی سی ہے۔ وہ اس بحر کا حصہ ہے، لیکن اس میں گم نہیں، بلکہ اس سے الگ اپنی ایک قائم بالذات شناخت رکھتا ہے۔ اس بحر میں سربرآوردہ موجیں امڈتی رہی ہیں، لیکن یہ جزیرہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ اس کے رنگ اور موسم سب اس کے اپنے ہیں اور الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔

سمندر کی موجوں کا اپنا اپنا خروش اور اپنی اپنی گونج ہے اور اس جزیرے کی ہواؤں کا اپنا ایک آہنگ۔ سمندر کی لہروں کے دامن میں ہیرے موتی ہیں تو اس جزیرے کی مٹی میں اپنے پوشیدہ خزانے۔ یوں تو یہ دونوں باہم مربوط ہیں، لیکن دونوں کی الگ ہستی ہے اور جداگانہ شناخت۔

اہم بات یہ ہے کہ ہماری تنقید نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور تسلیم کیا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن زاویہ ہائے نگاہ، جیسے موضوعات اور جن تناظرات میں کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا گیا ہے، بلاشبہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کا نہیں ہوا۔ یقینا اس کا سبب اقبال کے حرفِ سخن اور اس کے معجزۂ فن کی نمود ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود آج بھی اگر کوئی اک ذرا توجہ سے شعروفکرِ اقبال پر نگاہ ڈالے تو اُسے کچھ ایسے نکات بہرحال فراہم ہوجاتے ہیں جو اس کی تفہیم کے نئے پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ اس میں کہیں عصرِحاضر کے افکار و نظریات سیاق فراہم کرتے ہیں تو کہیں تہذیب و تمدن کے تصورات۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری اور افکار آج بھی اپنے مطالعے کا جواز رکھتے ہیں۔

یوں تو اسے سخنِ اقبال کی بلند اقبالی ہی کہا جائے گا کہ مختلف الخیال افراد اپنے اپنے زاویہ ہائے نگاہ سے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد نہ صرف شاد کام رہتے ہیں، بلکہ اپنے فکروخیال کے ذیل میں انھیں یہاں سے حوالے اور مثالیں بھی میسر آجاتی ہیں۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں، وہ اہلِ مذہب ہوں یا انقلابی، قوم پرست ہوں یا سماجی و معاشی مساوات کے داعی، تہذیب کے خوگر ہوں یا آزادیِ انساں کا نعرہ لگانے والے، فطرت پسند ہوں یا خودی کے پرستار، فلسفہ و حکمت کے جویا ہوں یا لطفِ زبان و بیاں کے رسیا— اقبال کے یہاں سبھی کو تسکین و طمانیت کا سامان حسبِ مراد میسر آجاتا ہے۔

تاہم اگر شمس الرحمن فاروقی اس صورتِ حال سے نالاں ہیں کہ اس طرح اقبال کو افکار کے سانچوں میں بانٹ کر پڑھنا زیادتی ہے تو ٹھیک ہے، وہ اقبال کا لفظیاتی اور عروضی نظام پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنا شوق پورا کرلیں۔ آزاد ذہن کے ساتھ ادب پڑھنے والے لوگ آخر نقادوں یا اُن کی تنقید کی انگلی پکڑ کر چلنے کے پابند تو نہیں ہوسکتے۔ ویسے تو اقبال کو اُن کے افکار کے تناظر میں پڑھنے کی شکایت سلیم احمد نے بھی کی تھی اور کہا تھا کہ افکار کی اہمیت کو اس درجہ بڑھا دیا گیا ہے کہ شاعر (یعنی اُن کے بہ قول اصل) اقبال کہیں دب کر رہ گیا ہے۔

ناقدینِ اقبال پر سلیم احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے اعتراضات اپنی جگہ۔ ظاہر ہے، یہ اعتراضات ان سب لوگوں کے مقالات و تجزیات اور ان سے حاصل شدہ تأثرات اور نتائج کے حوالے سے کیے گئے ہیں جو غیرضروری طور پر اقبال کے افکار پر مرکوز ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف و محض اقبال کے یہاں سے فلسفہ برآمد کرنے یا اُس سے فلسفے کے نکات اور دلائل و براہین اخذ کرنے کو اصل کام سمجھ لیتے ہیں۔

حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ کسی بھی بڑے شاعر کا متوازن اور جامع مطالعہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس کے افکار و خیالات کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کے ساتھ اُس کی طرزِاحساس، تشبیہاتی و استعاراتی علائم، فنی اوصاف اور جمالیاتی خواص کو بھی تہ بہ تہ کھولنے اور پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام ذرا دقت طلب ہے اور اُس وقت ہوسکتا ہے جب نقاد اُس مرکز و محور تک پہنچنے کی جستجو کرے جہاں سے زیرِمطالعہ شاعر کا نظامِ فکر و احساس تحریک حاصل کرتا اور نمو پاتا ہے۔

دِقّت اپنی جگہ، لیکن کسی فن کار کے بنیادی داعیے اور مرکزی مسئلے کو اس کے فن کارانہ اظہار کی اعلیٰ ترین سطح پر سمجھنے کے لیے یہی طریقہ سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ فکر و احساس کا مرکز ہی اصل میں وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر فلسفے کے دقیق مسائل بھی جمالیاتی پیرائے میں اس طرح بیان ہوتے ہیں کہ فکرِ محسوس کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ کام دقت طلب اس لیے ہوتا ہے کہ اِس میں فن کار کی کلّیتِ کار کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

بڑے فن کار کا تخلیقی عمل یا فنی نگارخانہ اصل میں ایک طلسم کدے جیسا ہوتا ہے اور اس کی کلید یا اسمِ اعظم اُس کا مرکزی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس طلسم کدے میں داخل تو کہیں سے بھی ہوسکتے ہیں، فکر و فلسفے کے راستے، طرزِاحساس یا اسلوب کی راہ سے، تشبیہات، استعارات یا علامات کے دروازے سے، اور اگر ایک بار داخل ہوجائیں تو اِس کے بعد سیرِگلگشتِ مصلیٰ کا لطف بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ فن کار کا فکری اور جمالیاتی طلسم پوری طرح کھلتا انھی لوگوں پر ہے جنھیں اس کا اسمِ اعظم حاصل ہوجائے۔

اب مثال کے طور پر اقبال ہی کو سامنے رکھ لیجیے۔ یہاں نظریات ہیں، افکار ہیں، زمان و مکاں، تہذیب و تمدن، بقا و ارتقا، انہدام و زوال کے تصورات ہیں، تشبیہات و استعارات کا ایک وسیع نگارخانہ ہے، اسلوبیات اور لفظیات کا نظام ہے، لہجہ ہے، انداز ہے، تیور ہیں— غرضے کہ وہ سب کچھ ہے جو ایک بڑے شاعر کے یہاں ملتا ہے یا اس کی اثرآفرینی اور فسوں کاری کو قائم کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں مختلف پڑھنے والوں پر اپنے اپنے انداز اور تناسب سے اثر کرتی ہیں۔

کوئی فکر و فلسفہ کی داد دیتا ہے تو کوئی زبان و بیاں کی، کوئی لہجے کا قتیل ہوتا ہے تو کوئی گھن گرج پر فریفتہ۔ تاہم اگر آپ نتیجہ مجموعی صورت میں دیکھنا چاہیں تو بس وہ یہ نکلتا ہے کہ پڑھنے یا سننے والا اقبال کا قائل ہے۔ چناںچہ اقبال کی شاعری کا سب سے نمایاں وصف یہ نکلا کہ وہ قائل کرلیتی ہے، یا چلیے یوں کہہ لیجیے کہ اپنے اثر میں لے آتی ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں اقبال پوری اردو شاعری میں سب سے آگے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ میرؔ اور غالبؔ سے بھی۔

اب اگر بات اقبال کا قائل یا قتیل ہونے پر ہی ختم ہوجاتی ہے تو یہ الگ معاملہ ہے، لیکن اگر کوئی ان کے افکار و تصورات، اسلوب و آہنگ اور مزاج و احساس کو اس طرح سمجھنا چاہتا ہے کہ اُن کے تخلیقی عمل کی کنہ تک پہنچے اور اُن کے فکری نظام اور جمالیاتی تجربے کو تہ در تہ کھول کر دیکھ سکے تو اسے لامحالہ اُس مرکز تک پہنچنا ہوگا جہاں سے یہ اکھوا پھوٹتا اور سخنِ اقبال میں رنگ و نور کی شعاعوں کی صورت ظہور کرتا ہے۔

اقبال کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہوئے اُن کے فکر و فن کی ایک جہت قدرے اختصاص کے ساتھ روشن نظر آتی ہے، اور وہ ہے اُن کی نعت گوئی۔ چوںکہ بیشتر ناقدینِ اقبال اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن کے افکار و خیالات کے دوسرے نکات کو موضوعِ گفتگو بناتے رہے ہیں، اس لیے اقبال کے شاعرانہ مقام و مرتبے کے تعین میں اس جہت پر عام طور سے توجہ ہی نہیں دی گئی۔ یہی سبب ہے کہ اگر کچھ ناقدین نے اس حوالے سے کلامِ اقبال پر نگاہ ڈالی اور جائزہ لیا تو ان میں بھی زیادہ تر لوگ وہ ہیں جنھوں نے اسے اُن کے عشقِ رسول ا کا حاصل گردانا اور عقیدتِ محض کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اقبال کی شاعری میں راہ پانے اور بیان ہونے والے افکار و تصورات کو نعت کے فکری اور اسلوبیاتی زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔

معدودے چند اہلِ نظر نے اقبال کے یہاں نعت کو صنفی سطح پر اور فنی خصوصیات کے ساتھ دیکھا ہے، اور اُس کے جمالیاتی پہلوؤں اور ادبی محاسن کے بارے میں اظہارِخیال کیا ہے۔ ویسے اقبال کے بہت سے ناقدین جن میں بڑے بڑے ثقہ لوگ بھی شامل ہیں، کلامِ اقبال کی اس جہت کو درخورِاعتنا ہی نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ افکارِاقبال کی تعبیر و تشریح کے باب میں آپ کو مشرق و مغرب کے کتنے ہی فلسفیوں، تاریخ دانوں اور سماجی مفکرین کے حوالے قدم قدم پر ملتے ہیں، لیکن اگر نہیں ملتا تو اِس نکتے پر غور و خوض کا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ سخنِ اقبال میں راہ پانے والے افکار و تصورات اجزا کی صورت میں یہاں وہاں سے ماخوذ ہیں یا کوئی ایک منبع ہے جس کی کرنوں نے اقبال کے افکار و آثار کی عمارت کے ہر گوشے کو منور کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اگر مختلف افراد کے تصورات و خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا ایک نظامِ افکار ترتیب دیا ہے تو بھی یہ اپنی جگہ ایک بڑی بات ہے، لیکن اگر یہ ساری روشنی ایک ہی مرکز سے حاصل کی گئی ہے جس سے اس کا پورا ایوانِ فکر جگمگا اٹھا ہے تو یہ اُس سے بھی کہیں بڑا اور اہم کام ہے۔ اس صورت میں اقبال کی جامع تفہیم کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس منبع و ماخذ کو دیکھا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اقبال کے یہاں یہ تجلی کس طرح ظہور کرتی ہے۔

جیسا کہ عرض کیا، بالعموم فکرِاقبال کا مطالعہ جن اساسی نکات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اُن میں نعت گوئی شامل ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، اِس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ مطالعۂ اقبال کے لیے یہ قرینہ توجہ طلب محسوس نہیں کیا ہوگا، ورنہ اتنے بڑے اور اہم ناقدین و شارحینِ کلامِ اقبال اپنے موضوع کی اس جہت سے بھلا کیوں کر صرفِ نظر کرسکتے تھے۔ تاہم اس امر کا فیصلہ بہتر طور سے اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم براہِ راست شعرِ اقبال سے رجوع کریں اور دیکھیں کہ وہ اس باب میں کس نوع کی شہادتیں پیش کرتا ہے۔

ہماری یہ طالب علمانہ تفتیش کسی گہری چھان پھٹک اور بہت باریک بینی کا مطالبہ بھی نہیں کرتی۔ محض ایک طائرانہ نگاہ ہمیں اس معاملے کو سمجھنے کا موقع فراہم کردیتی ہے، اور ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کے افکار و تصورات کی تشکیل و تعمیر میں جس جوہر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، وہ رسالت مآب ا کی سیرت و کردار ہے۔ اقبال نے فکر و احساس کی ہر سطح پر اس کا نہایت گہرا اثر قبول کیا ہے۔ چناں چہ اقبال کے فکر و فن کا مرکزی دھارا اسی اثر کی قوت سے متعین ہوتا ہے۔

تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال کے فکری سانچے میں برقی رو کی طرح دوڑنے والے اس احساس نے ان کے یہاں مجرد تصور کے طور پر راہ نہیں پائی۔ اس کے برعکس یہ اُن کے یہاں ایک زندہ تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال نے اس تجربے کو ایک طرف تو اس کی تاریخی، تہذیبی اور سماجی جہت سے دیکھا اور دوسری طرف ایک ایسے مابعدالطبیعیاتی تناظر میں جہاں کونیاتی امور ظہور کرتے ہیں اور کائناتی سطح پر تغیر و تبدل کا نقشہ ترتیب پاتا ہے۔

اقبال کے یہاں اس کا اظہار اُن کے اوّلین مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ سے ہی سامنے آنے لگتا ہے۔ ویسے تو اِس مجموعے میں ہمیں کم و بیش اُن سارے افکار و تصورات کے نقوش مل جاتے ہیں جو بعد ازاں فکرِاقبال کے نام سے موسوم ہوئے، لیکن یہ افکار و تصورات پہلے مجموعے میں محض ابتدائی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں بھی اقبال کے یہاں عشقِ رسولؐ اور آپؐ کی سیرت و کردار کے اثر کا اظہار جس پختگی اور وارفتگی سے اور جس درجہ بلند فکری سطح پر ہوتا ہے، اس میں حقیقتِ محمدیہ کا شعور بھی کارفرما ہے، اور یہ شعور اپنے کونیاتی مضمرات کے ساتھ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا ایک شعر دیکھ لیجیے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے

اس نظم کے مطالعے کے دوران آپ غور کیجیے تو وہاں نعت کا ماحول ہے اور نہ ہی وہ فضا ملتی ہے جس میں آپ ا کی سیرت کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہو، بس ایک شعر آتا ہے، اور اس کے بعد موضوع یا سلسلۂ فکر و خیال یکسر بدل جاتا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ ہم آنحضرتؐ سے ایک مسلمان کے حقیقی رشتے کی نوعیت اور اُس کے ذاتی و اجتماعی زندگی پر اثرات کا وہ منظرنامہ ابھرتا ہوا دیکھتے ہیں جو دراصل ایک یگانۂ روزگار تہذیب کے نقوش روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ اقبال کے یہاں رسمی نعت کا کوئی قرینہ ہمیں نہیں ملتا، لیکن نظم کے مسلسل چار بند اسی موضوع سے تعلق رکھتے ہیں، اور پھر اس شعر پر یہ نظم پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شعر اپنے معنی کی وسعت اور گہرائی کا اظہار جس سیاق میں کرتا ہے، اس کو مابعد الطبیعیاتی رموز و علائم کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ خیر، اس موضوع پر آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں ہمارے سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ کم و بیش وہ سب اہم فکری عناصر جو کلامِ اقبال کی جداگانہ شناخت قائم کرتے ہیں اور ان کے خیالات و تصورات کی صورت گری کرتے ہیں، وہ اپنے بلیغ ترین بیانیے کے کسی نہ کسی مرحلے پر یا تو نعتِ رسولِ کریم ا کا کوئی پیرایہ اختیار کرلیتے ہیں یا پھر وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر یا نعت کا کوئی شعر آکر اس حقیقت کو واضح کردیتا ہے کہ فکرِاقبال کا یہ منظرنامہ کس ماخذ سے رنگ و نور اخذ کررہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے دوسرے شعرا جو اپنا ایک فکری تناظر رکھتے ہیں، ان کے برخلاف اقبال کے یہاں مابعدالطبیعیاتی افکار کا دائرہ بھی نعتیہ اسلوب کی وجہ سے مجرد نہیں رہتا، محسوس بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

The post اقبال؛ حرفِ نعت اور تشکیلِ افکار appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کے قومی پارکس

$
0
0

 قدرت نے ملکِ پاکستان کو بیش بہا نعمتوں، قدرتی وسائل اور خوب صورتی سے نوازا ہے۔ لیکن ہم ایک قوم کے طور پر بہت بے قدرے ثابت ہوئے ہیں کہ اِن نعمتوں کی قدر نہ کر سکے۔ بجائے اس کے، کہ ان سے فائدہ اْٹھائیں ہم ہمیشہ انہیں ضائع کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے طول و عرض میں حیاتیاتی تنوع کے باعث ہزارہا اقسام کے درخت، جنگلی جانور، آبی حیات، پرندے اور پودے پائے جاتے ہیں۔ یہاں چوںکہ برفانی، صحرائی، میدانی، پہاڑی، جنگلی، خشک اور سطح مرتفع، غرض ہر قسم کا حیاتیاتی نظام پایا جاتا ہے، اس لیے ان کی حفاظت اور افزائش اور بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ اس غرض سے پاکستان کے طول وعرض میں جنگلی حیات، نباتات اور وسائل کے تحفظ کے لیے چند محفوظ علاقے یعنی ”نیشنل پارکس” بنائے گئے ہیں۔ یہ وہ بچوں کے پارک نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ جانوروں کے پارک ہیں۔

نیشنل پارک یا قومی باغ، کسی بھی ملک میں وہ مضافاتی علاقہ ہوتا ہے جسے حکومت ایک محفوظ مقام قرار دے کر وہاں ہر قسم کی ماحول دشمن کارروائیاں ممنوع قرار دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ محفوظ علاقہ (جنگلی، پہاڑی، برفانی یا صحرائی) ہوتا ہے جہاں ہم حیاتی تنوع کے خزانے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر نہ صرف ہر قسم کے جانوروں کا شکار کرنا اور نباتات کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا ممنوع ہوتا ہے بلکہ یہاں کم یاب اور معدوم ہونے والے جانوروں کو قدرتی ماحول میں رکھ کر ان کی  افزائش بھی کی جاتی ہے۔ یوں یہ ”قومی باغ” کسی بھی قوم کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک  میں کُل 29 نیشنل پارک (20 حکومتی جب کہ 9 نجی تحویل میں ہیں) ہیں جن میں 10 بڑے اور 19 چھوٹے پارک شامل ہیں جو کُل رقبے کا تقریباً 3 فی صد ہیں۔ ان میں 7 پارک آزاد جموں و کشمیر میں، 6 گلگت بلتستان، 6 خیبر پختونخواہ، 6 پنجاب، 2 بلوچستان اور ایک ایک سندھ اور وفاقی دارالحکومت  اسلام آباد میں واقع ہے۔ عوامی سطح پر جنگلی حیات کے تحفظ کی آگاہی میں اضافے کے سبب 10 نیشنل پارکس 1993 سے 2005 کے درمیان میں قائم کیے گئے۔ کسی بھی نیشنل پارک کے لیے کم سے کم علاقہ 4 کلومیٹر تک ہونا ضروری ہوتا ہے اور 4 کلومیٹر رقبے کا ایک ایسا پارک ہمارے پاکستان میں بھی ہے، یہ آزاد کشمیر میں واقع تولی پیر نیشنل پارک ہے۔

چلیں پاکستان کے مختلف قومی باغات/پارکس کے بارے میں جانتے ہیں۔

1۔ خُنجراب نیشنل پارک:

گلگت بلتستان کی وادیٔ ہنزہ میں واقع خُنجراب نیشنل پارک پاکستان کا 3 بڑا اور دنیا کے چند بلند ترین پارکس میں سے ایک ہے۔ یہ نیشنل پارک گلگت سے 269 کلومیٹر شمال مشرق میں دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو تیرہ 226913 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے جس میں وادیٔ خنجراب اور شِمشال شامل ہیں۔ اس علاقے کو اپریل 1979ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ”مارکو پولو شیپ” کی حفاظت کے لیے نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ یہ پورا نیشنل پارک چوںکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند (3200 میٹر سے لے کر 600 میٹر تک ) ہے، اس لیے سال کے بیشتر مہینوں میں پورا پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پورا علاقہ وسیع وعریض گلیشئرز اور برفانی جھیلوں سے اٹا پڑا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک کے علاقے میں سبزہ بہت کم ہے۔

اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دینے کا بنیاد ی مقصد یہ تھا کہ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانوروں، بالخصوص بھیڑوں کی ایک نایاب نسل ”مارکو پولو شیپ” کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے، کیوںکہ یہ جانور پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ مارکو پولو شیپ کے علاوہ یہاں برفانی تیندوے، لومڑی، سُنہری عقاب، چکور، بھورا بگلا، اُلو، بھیڑیے، برفانی ریچھ، ہمالیائی بکروں، بھورے ریچھوں اور سنہرے چوہوں کی بھی متعدد اقسام موجود ہیں۔ شاہراہِ قراقرم کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاحوں کی یہاں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ شکار پر پابندی کی وجہ سے آپ کو بہت سے جانور قراقرم ہائی وے پر چلتے پھرتے بھی نظر آئیں گے۔

2۔ ہِنگول نیشنل پارک:

ساحلِ مکران کے ساتھ پھیلا ہِنگول نیشنل پارک بلوچستان اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو چھے لاکھ انیس ہزار تینتالیس (619043) ہیکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک اس وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔  ہندوؤں کا ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔ اس پارک کو چلانے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1Marine Range

2 Aghor Range

3 Inland Range

یہ پارک طبعی طور پر چٹانوں، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ میدانوں وغیرہ میں بٹا ہوا ہے۔ ہنگول ندی، نیشنل پاک سے ہوکر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدو جزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور ہزاروں دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔اس پارک کے جنگلی حیوانات میں پہاڑی بکرا، اڑیال، چنکارہ، جنگلی بلی، بِجّو، لمبے کان والا خارپُشت، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا اور نیولا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، باز، چیل، مرغابی، سنہری شِکرا، کرگس، ترن، چہا، شاہین وغیرہ شامل ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگرمچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ کے علاوہ کئی اور سمندری حیوانات جیسے کچھوا اور انواع و اقسام کی مچھلیاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیزیپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہنگول نیشنل پارک وہ واحد پارک ہے جہاں گیس اور مٹی خارج کرتے دلدلی آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقامات ”ساحلِ کْند ملیر” اور ”اُمید کی شہزادی” بھی یہاں واقع ہیں۔ دل کش چٹانوں کا مرکز یہ پارک واقعی ایک خوب صورت جگہ ہے جسے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

3۔ لال سوہانرا نیشنل پارک:

ضلع بہاولپور میں واقع لال سوہانرا نیشنل پارک جنوبی ایشیا  کے سب سے بڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1972 سے قائم شُدہ پنجاب کے اِس سب سے بڑے پارک کو اقوامِ متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسکو نے ایک ”حیاتی محفوظ ذخیرہ” قرار دیا ہے۔ اس پارک کی سب سے بڑی خصوصیت یہاں کے مختلف ماحولیاتی نظام ہیں جن میں جنگلی، صحرائی اور دلدلی نظام شامل ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم پارک ہے۔

بہاولپور سے 37 کلومیٹر مشرق میں واقع یہ جگہ صحرائی اور جنگلی حیاتی نظام کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ کُل 51،368 ہیکٹر رقبے میں سے 20،974 ہیکٹرز پر چراگاہیں اور سبزہ، 40،942 ہیکٹرز پر صحرا جب کہ 4،780 ایکڑ رقبہ جھیلوں اور تالابوں پر مشتمل ہے۔ ڈیزرٹ برانچ کینال اس پارک کے بیچوں بیچ گزرتی ہے۔ اسی پارک میں قدیم دریائے ہاکڑہ کی خُشک گزرگاہ بھی ملتی ہے۔  لال سوہانرہ پارک میں پائی جانے والی جنگلی حیات میں جنگلی بلی، چیتے، شیر، خرگوش، ہرن، تلور، بارہ سنگھا، مانیٹرچھپکلی، وائپرسانپ، کوبرا، چوہے اور خارپشت شامل ہیں۔ پرندوں میں  مرغابی، کونج، عقاب، مصری گِدھ، شِکرا، اُلو اور طوطے پائے جاتے ہیں۔ پارک کے بیچ موجود ”جھیل پتیسر” پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے جہاں ہر سال سردیوں میں 10 سے 30 ہزار بطخیں پائی جاتی ہیں۔ پارک کی سب سے بڑی کَشِش یہاں موجود جنگلی گینڈوں کی جوڑی ہے جو نیپال نے پاکستان کو تحفے میں دی تھی۔  حکومتِ پنجاب اس پارک کو بین الاقوامی طرز کے سفاری پارک میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔

4۔ چِترال گول نیشنل پارک:

خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال کے علاقوں کیلاش اور وادیٔ گول پر مشتمل یہ پارک 1984 میں دریائے چترال کے قریب بنایا گیا۔ اس کا کُل رقبہ 7750 ہیکٹر ہے۔ یہ چترال سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہاں کئی برفانی گلیشیئر موجود ہیں۔ ہندوکش کی چوٹیوں میں گھرا یہ پارک مارخور بکروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سائیبیرین بکرا، اود بلاؤ، بھیڑیے، لال لومڑ، ابابیل، کالے ریچھ اور لداخی اڑیال (شاپو) بھی پائے جاتے ہیں۔

اس پارک کی زمین حکومتِ پاکستان اور مہترِ چترال کے وارثوں کے بیچ ابھی تک متنازعہ ہے۔ یہ پارک پاکستان کے سرد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔

5۔ کیرتھر نیشنل پارک:

پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک صوبہ سندھ میں واقع واحد پارک ہے، جو تقریباً 3000 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہے۔ سندھ و بلوچستان کی سرحد پر واقع کوہِ کیرتھر اور صوبہ سندھ کے جنوب مغربی اضلاع جامشورو اور کراچی تک پھیلا یہ پارک 1974 میں قائم کیا گیا۔ یہ پاکستان کا وہ پہلا پارک تھا جسے اقوامِ متحدہ نے اپنی نیشنل پارک لسٹ میں شامل کیا۔

کیرتھر نیشنل پارک پاکستان میں تیندوؤں کا بڑا مسکن ہے۔ یہاں گیدڑ، لومڑی، جنگلی بلی، پہاڑی بکرا، بارہ سنگھا، خارپُشت، پہاڑی چھپکلی، مورخور اور چنکارا سمیت کئی پرندوں کی بھی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔

حَب ڈیم، کوہِ تراش، تونگ کے قدیم مقبرے اور رانی کوٹ کا مشہور قلعہ اسی پارک کی حدود میں واقع ہیں۔

6۔ دیوسائی نیشنل پارک:

دنیا کی بلند ترین سطحِ مرتفع اور نایاب بھورے ریچھوں کے مسکن، دیوسائی میں واقع دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13،500 فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔ 1993 میں قائم ہونے والا یہ پارک  بلتستان کی وادیٔ استور، خرمنگ اور اسکردو کے درمیان میں واقع ہے اور 3000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

اس پارک کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں۔ اس نوع کے ریچھ دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ اس خطے کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کُل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گزرتے۔

بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان میں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے، کیوں کہ ایک روایت کے مطابق ”دیوسایہ نامی” ایک دیو کا یہ مسکن ہے اسی نسبت سے اسے دیوسائی کہتے ہیں، جب کہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے”بھئیر سر” یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔

اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوب صورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور (گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کردیا۔ یہ ریچھ سال کے چھے مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے، اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ باہر پہاڑوں پر جب برف پگھلتی ہے تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل کا جانور) تبتی بھیڑیا، لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، یاک، ہمالیائی مشک ہرن، برفانی مرغ، لداخی اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں سُنہری باز، گِدھ، داڑھی والا عقاب اور شِکرا قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 جڑی بوٹیاں مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے۔ کالاپانی اور شیوسر جھیل یہاں کی مشہور جگہیں ہیں۔ یہ پارک دنیا کی خوب صورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے جس پر کئی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔

7۔ چِلتن ہزارگنجی نیشنل پارک:

ہزار گنجی نیشنل پارک بلوچستان کے ضلع مستونگ میں کوئٹہ سے 20 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک انتہائی خوب صورت پارک ہے۔ اس کا رقبہ 32,500ایکڑ ہے اور سطح سمندر سے 2021 سے 3264 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ اسے 1980ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا۔ یہ پارک قدرتی پہاڑی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں مغرب میں چلتن اور مشرق میں ہزار گنجی کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس پارک میں ایک بہترین عجائب گھر دیکھنے کے لائق ہے۔

ہزار گنجی کا مطلب ”ہزار خزانوں والی جگہ” ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں پہاڑوں کی تہہ میں ہزاروں خزانے دفن ہیں، اس تاثر کی وجہ اس کا مختلف تاریخی افواج اور بلوچ قبائل کی گزرگاہ ہونا ہے۔ ابتدا میں اس پارک کے قیام کا مقصد چلتن جنگلی بکری اور مارخور کی نسل کو بچانا تھا جو 1200 سے کم ہو کر 1970ء میں صرف 200 رہ گئے تھے۔ اب ان کی تعداد دوبارہ 800 سے تجاوز کرچکی ہے۔ سلیمان مارخور یہاں کا خاص جانور ہے جو کوہِ سلیمان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندوستانی بھیڑیا، تیندوا، جنگلی بلی، لومڑی، صحرائی خرگوش، سانپ، چھپکلیاں، تلور، چکچکی، اُلو، گِدھ، کوئل، ہدہد، چکور، نَحل خور، نَوا اور مختلف قسم کے دوسرے پرندے پائے جاتے ہیں۔

8۔ مچھیارہ نیشنل پارک:

مچھیارہ نیشنل پارک آزاد کشمیر کی دل کش وادیٔ نیلم میں واقع ہے، جسے 1996 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ یہ پارک ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں کبک یا دراج (ایشیائی تیتر کی نسل) کی افزائشِ کی جاتی ہے۔ یہاں پایا جانے والا سُرخ گردن اور سیاہ و سفید پروں کا مالک، ”مغربی دراج” دنیا میں پائے جانے والے تیتروں کی شان دار نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نسل آج کل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس پارک میں صنوبر کے درختوں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جو یہاں کے پرندوں کی آماج گاہ ہے۔

یہ پارک آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 35 کلومیٹر دور دریائے نیلم کے دائیں کنارے واقع ہے۔ اس کی دوسری جانب خیبرپختونخواہ کی وادیٔ کاغان ہے۔ مچھیارہ نیشنل پارک کا کُل رقبہ 13،532 ہیکٹر ہے۔ یہ نیشنل پارک مغربی ہمالیائی جنگلات پر مشتمل ہے، جو 200 عالمی ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے۔ یہاں سالانہ اوسطاً 6۔327 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔

9۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک:

کوہِ ہمالیہ کی جنوبی پہاڑیوں کے دامن میں واقع مارگلہ ہل نیشنل پارک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس پارک میں شکر پڑیاں پارک، دامنِ کوہ، پیر سوہاوہ اور راول جھیل جیسے سیاحتی مقامات بھی شامل ہیں۔  1980 میں بنایا جانے والا یہ پارک قریباً 17،386 ہیکٹر رقبے پر واقع ہے۔ مارگلہ ہل نیشنل پارک چینی اور ہمالیائی جانوروں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ پارک چیتوں، ہرنوں، جنگلی سور، سنہری گیدڑ، مور خور، لومڑی، تلور، بندر، سانپ، چمگادڑوں اور پرندوں کے لیے ایک محفوظ علاقہ ہے۔

10۔ لولوسردودی پتسراور سیف الملوک نیشنل پارک:

خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ کی وادی کاغان میں واقع اس پارک کو 2003 میں قائم کیا گیا۔ وادیٔ کاغان کی مشہورِ زمانہ جھیلیں دودی پت سر اور لُولُوسر اسی پارک کا حِصہ ہیں۔ اس کے قریب ہی سیف الملوک نیشنل پارک واقع ہے۔ مشترکہ طور پر دونوں پارک 88،000 ہیکٹر رقبے پر محیط ہیں۔ برفانی تیندوے، کالا ریچھ، برفانی تلور اور مارموٹ یہاں کی اہم جنگلی حیات ہیں۔

11۔ تولی پیر نیشنل پارک:

آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل راولا کوٹ میں واقع تولی پیر نیشنل پارک، پارک کم اور ہِل اسٹیشن زیادہ لگتا ہے جس کی بلندی 8800 فٹ ہے۔تولی پیر ایک ہل اسٹیشن ہے جس کا نام ایک بزرگ کے نام پر ہے، جن کے مزار کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ تحصیل راولاکوٹ کا بلند ترین مقام ہے اور تین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے۔ یہاں سے عباس پور، باغ اور دریائے پونچھ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

12۔ ایوبیہ نیشنل پارک:

ایوبیہ نیشنل پارک مَری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں واقع ہے۔ سابق صدرِ پاکستان ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور ایوبیہ کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔ اس کا پرانا نام گھوڑا ڈھاکہ ہے اور یہ پارک 3312 ہیکٹر پر مشتمل ہے۔ایوبیہ نیشنل پارک، پاکستان میں معتدل اور مرطوب ہمالیائی جنگلات کے نایاب ذخیرے کا ایک بڑا مسکن ہے۔ پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر واقع صنوبر کے درخت دل کش منظر پیش کرتے ہیں۔ پارک میں کئی اقسام کے پرندے جیسا کہ سنہری عقاب، جنگلی کبوتر، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں جب کہ جانوروں میں کالا ریچھ، لال گلہری، مشک بلاؤ، جنگلی کشمیری لومڑی اور لگڑبگڑ پائے جاتے ہیں۔ یہاں آپ سیکڑوں کی تعداد میں بندروں کو اچھل کود کرتا بھی دیکھ سکتے ہیں۔

میرنجانی پہاڑ اور ٹھنڈیانی جیسی سیرگاہوں اور سرسبز علاقوں کہ علاوہ یہاں ایک چیر لفٹ بھی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ پاکستان میں یہ اپنی طرز کی پہلی تفریحی سرگرمی تھی۔

13۔ وسطی قراقرم نیشنل پارک:

وسطی قراقرم نیشنل پارک پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں واقع رقبے کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا حفاظتی علاقہ (کچھ اسے سب سے بڑا نیشنل پارک بھی کہتے ہیں) ہے جو 10،557 مربع کلومیٹر پر مُحیط ہے۔ ابھی تک اس کی مکمل اور باقاعدہ حدود کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ یہ دنیا کا سب سے بلند نیشنل پارک بھی ہے۔ اس پاک میں قطبین کے بعد گلیشیئرز کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں جب کہ انواع و اقسام کے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔1993 میں بنایا جانے والا یہ پارک اپنے اندر بالتورو، بیافو اور ہسپار جیسے عظیم الشان گلیشیئرز سنبھالے ہوئے ہے، جب کہ دنیا کی عظیم چوٹیاں کے ٹو، گیشربروم 1، گیشربروم 2 اور براڈ پیک بھی اسی پارک کا حصہ ہیں۔ اس پارک کے دو حصے ہیں۔ ایک میں گلیشیئر اور بلند چوٹیاں شامل ہیں جہاں عام لوگوں کی رسائی بہت مشکل ہے۔ دوسرے حِصے میں انسانی آبادیاں اور نسبتاً کم بلند علاقے شامل ہیں۔ وسطی قراقرم نیشنل پارک کی جنگلی حیات میں مارخور، پہاڑی بکرا، اُڑیال، مارکوپولو، جنگلی خرگوش، پہاڑی نیولا، مارٹن، بھورا ریچھ، ترکستانی سیاہ گوش۔ کالا ریچھ، لومڑی، تبتی بھیڑیا اور برفانی چیتا شامل ہیں۔ پرندوں میں سُنہری چڑیا، پہاڑی طوطے، گدھ اور متفرق کم یاب پرندے شامل ہیں۔

14۔ چِنجی نیشنل پارک:

1986 میں بنایا جانے والا چِنجی نیشنل پارک چکوال کی تحصیل تلہ گنگ میں واقع ہے۔ پوٹھوہار کے علاقہ میں واقع یہ پارک 6،095 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ اسلام آباد سے 130 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ پارک ”کوہِ نمک” کے قریب واقع ہے۔ سنگ ریگ، آتشی مٹی اور نمک کی چٹانوں پر مشتمل اس علاقے کو دریائے سوآں سیراب کرتا ہے۔ چنجی نیشنل پارک کی آب و ہوا خشک ہے اور یہاں اْڑیال کی نایاب نسل پائی جاتی ہے۔ یہ ان خوش قسمت پارکوں میں سے ہے جو مشہور ادارے ”بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظِ قدرت” کے کنٹرول میں ہیں۔

15۔ بروغِل نیشنل پارک:

پاک افغان سرحد کے انتہائی قریب واقع بروغل نیشنل پارک خیبرپختونخواہ کے ضلع چترال میں واقع ہے۔ 2010 میں بنایا گیا یہ پارک تقریباً 124،964 ہیکٹرز پر پھیلا ہے۔ وادیٔ بروغل پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہے جس سے آگے واخان کی پٹی شروع ہوجاتی ہے۔ تمام خِطہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے جو سردیوں میں برف سے منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہاں انسانی آبادی بہت کم ہے۔ پاکستان کی دوسری بُلند، دل کش اور حسین کرومبر جھیل اسی علاقے میں واقع ہے جو کیمپنگ کے لیے شان دار جگہ ہے۔ یہاں آپ کو یاکس اور اڑٰال کثرت سے نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ کوہِ پامیر اور سائبیریا سے آنے والے پرندوں کا مسکن بھی ہے۔

16۔ شندور ہندروپ نیشنل پارک:

گلگت بلتستان کے ضلع غزر میں واقع شندور ہندروپ نیشنل پارک 2012 میں گلگت بلتستان و خیبر پختونخواہ کی سرحد پر بنایا گیا۔ 3،132 ہیکٹرز پر پھیلا یہ پارک ہر سال پاکستان کے مشہور تہوار ”شندور پولو فیسٹیول” کی میزبانی بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ درہ شندور بھی یہیں واقع ہے۔

17۔ کالا چٹا نیشنل پارک:

ضلع اٹک میں مشہور کالا چٹا کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے 2009 میں نیشنل پارک قرار دے دیا گیا۔ یہ اسلام آباد سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ کالا چٹا کی پہاڑیاں سطحِ مرتفع پوٹھوہار کا حصہ ہیں جو ضلع اٹک کے شمال میں واقع ہیں۔ شمالی پہاڑیوں کو ”چِٹا پتھر” جب کہ جنوبی حصوں کو ”کالا پتھر” کہا جاتا ہے۔ یہاں کی جنگلی حیات میں تیندوے، چنکارے، ہرن، تیتر اور خارپشت شامل ہیں۔

18۔ پنجال مستان نیشنل پارک:

پنجال مستان نیشنل پارک آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سطح سمندر سے 8500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 300 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے اپریل تک یہ پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پنجال مستان نیشنل پارک، کوہِ پیرپنجال کے منفرد حیاتیاتی نظام کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔ بندر، تیندوے، جنگلی سؤر، لومڑی اور مختلف اقسام کے پرندے یہاں پائے جاتے ہیں۔

19۔ گوریز(مشک ڈیئر) نیشنل پارک:

بالائی وادیٔ نیلم میں واقع گوریز نیشنل پارک 2009 میں قائم ہوا۔ 52،815 ہیکٹر پر محیط یہ پارک تاؤبٹ سے آگے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ واقع ہے۔ان کے علاوہ شیخ بودین نیشنل پارک (ڈیرہ اسمٰعیل خان) ، گھاموٹ نیشنل پارک (وادء نیلم)، کرومبرنیشنل پارک (غزر)، پونچھ مہاسیرنیشنل پارک (کوٹلی، میرپور، پونچھ)، مری کوٹلی ستیاں، کہوٹہ نیشنل پارک (راولپنڈی)، دیوا وٹالا نیشنل پارک (بھمبر آزاد کشمیر)، کے ٹونیشنل پارک (گلگت بلتستان) اور ایوب نیشنل پارک (راولپنڈی) شامل ہیں۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان پارکس میں سے چند ایک ہی ہیں جو عالمی ادارے ”بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظِ قدرت” کی فہرست میں شامل ہیں۔ پاکستان میں جنگلات اور جنگلی حیات معدومی کا شکار ہیں۔ ان کی حفاظت ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے جس میں حکومت کے ساتھ عوام کو بھی برابر حِصہ ڈالنا ہو گا۔

The post پاکستان کے قومی پارکس appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کی سرحدیں اور اِن پر جنم لیتے مسائل

$
0
0

دنیا کی تاریخ تحریری طور پر حروف تہجی کے ایجاد ہو نے کے بعد تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے لکھی جانے لگی اور یوں ہماری تاریخ ساڑھے تین ہزار سال ہی تسلیم کی جاتی مگر جہاں تک انسانی تہذیب وتمدن کا تعلق ہے تو اِس کے لیے پہلے قدیم مذاہب اور ادیان کی جانب دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اُس وقت بھی وجود رکھتے تھے جب بظاہر حروف تہجی وجود میں نہیں آئے تھے یا ایجاد نہیں ہوئے تھے۔

اِس اعتبار سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یا تو یہ مذہبی کتابیں تحریری شکل میں موجود تھیں یا اگر اُس وقت حروف تہجی ایجا د نہیں ہو ئے تھے تو لوگ ان مذہبی احکامات کو یاد کر لیا کرتے تھے اور یہ یاد داشتیں نسل در نسل، پشت در پشت، سینہ بہ سینہ چلتی تھیں کیونکہ جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے تو ہمارے پاکستان میں بولی جانے والی بلوچی ، پنجابی ، پشتو ، سندھی ، زبانیں بھی پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم ہیں۔ عربی ، سنسکرت اور عبرانی زبانوں کو زیادہ قدیم اور بہت سی زبانوں کی ماں تسلیم کیا جاتا ہے، یوں نسلوں قوموں کی زبانوں ان کی تہذیب وتمدن اور ثقافت کی بنیادوں پر ہی ان کے ملکوں کا تعین ہوتا رہا، اسی اعتبار سے دنیا میں ہزاروں برسوں سے ملکوں اور ان کے رقبے کے لحاظ سے سرحدوں کا سراغ ملتا ہے۔

انسانی تہذیب وتمدن کی قدامت کے ثبوت ہمیں آثار قدیمہ سے بھی ملتے ہیں جن پر انسان نے بہت تحقیق کی ہے اور یہ تحقیقا ت ابھی جاری ہیں۔ انسان کب اور کیسے نسلوں میں اور پھر قوموں میں تقسیم ہوا اس اعتبار سے بہت سے مفروضے اور کہیں کہیں نظریات بھی مل جاتے ہیں مگر یہ ابھی تک تحقیق کی بنیاد پر تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ یہاں تک تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس دنیا میں بہت سی انسانی نسلیں ایسے فنا ہو گئیں کہ اب اُن کا نام و نشان بھی نہیں ملتا، البتہ اِس وقت دنیا میںتین نسلیں ساڑھے سات ارب انسانی آبادی پر مشتمل ہیں اور ہر نسل کی آبادی ایک ارب سے کچھ زیادہ ہے۔

ان تین نسلوں میں سامی ،آریا اور منگول شامل ہیں۔ البتہ بیشتر ماہرین ایک قدیم نسل دراوڑ کو بھی مانتے ہیں جو مجموعی طور پر بکھری ہوئی اور شائد پوری دنیا میں دو ڈھائی کروڑ ہو اور ان میں سے بھی بیشتر کا ملاپ آریا ، منگول اور سامی نسلوں سے ہو چکا ہے ، یوں وہ دنیا جو 1492 میںکولمبس کی جانب سے امریکہ کے دریافت ہونے سے قبل کی تھی اس میں قبل از تاریخ بھی ممالک مو جود تھے اور ان کی قومیں اپنے تمدن، تہذیبوں ، اور ثقافتوں کے ساتھ موجود تھیں، ان ملکوں کے رقبے اپنی سرحدوں کی بنیادوں پر تسلیم کئے جاتے تھے، مگر یہ سرحدیں قوموں کی اجتماعی بنیاد وں پر تھیں انفرادی بنیادوں پر نہیں تھیں یعنی اکثر یت ایک قوم کی ہوتی تھی۔ ہاں یہ ضر ور تھا کہ اگر کوئی فاتح کسی ملک پر قبضہ کر لیتا تو یہ غیرفطری طور پر اس کا ملک کہلاتا تھا، البتہ کسی فرد کو کسی دوسرے ملک جانے کے لیے کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہو تی تھی۔

دنیا میں سب سے پہلے باقاعدہ اور پیمائش کی بنیادوں پر کسی ملک کی سرحد کے تعین کا ثبوت دیوارِ چین کے طور پر ملتا ہے ، اس وقت اس کی لمبائی 21196 کلو میٹر بتائی جاتی ہے، یہ چین کی شمالی سرحد پر ہے، اِس کی اوسطا بلندی 6 سے 7 میٹر ہے اور بلند ترین مقامات پر یہ دیوار14 میٹر تک بلند ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار بادشاہ کین شی ہونگ’’ Qin Shi Huang ‘‘ کے زمانے220 تا 207 قبل مسیح تعمیر ہونا شروع ہوئی اور منگ سلطنت 1368 ء تا 1644 تک مکمل ہوئی۔

روایت یہ ہے کہ دیوار مکمل ہونے پر تیس ہزار میل لمبی تھی، یہ دیوار شمال سے تاتاریوں اور منگولوں کے حملوں کے دفاع کے لیے بنوائی گئی تھی لیکن ایک وجہ بھی تھی کہ چین نے ریشم دریافت کیا تھا اور پھر یہاں نہایت خوبصورت ریشمی کپڑے تیار کئے جاتے تھے پوری دنیا کے بادشاہ اور رئیس ریشمی کپڑا پہننا اپنی شان سمجھتے تھے اور چین نے یہ دیوار اس لیے بھی تعمیر کی تھی کی وہ ریشم کے راز کو چین سے باہر نہیں جانے دینا چاہتے تھے ۔ چینیوں نے اس دیوار پر چوکیاں بھی قائم کی تھیں اور یہاں چین سے باہر جانے والے ہر شخص کی تلاشی لی جاتی تھی، لیکن آخر کار یورپ کے دو پادری اپنے عصا کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس میں ریشم کے کیڑے بھر کر لے گئے ۔

یورپ میں ملکوں کی سرحدوں کا تعین رومیوں کے دور حکومت 309 ء سے 337ء کے درمیان ہوا، اوردنیا میں پہلی مرتبہ پاسپورٹ کا اجرا ہو، اتحریک احیائے علوم “Renaissance Period” کے دور میں یورپی ملکوں میں نئی حکومتوں کے قیام سے فرقہ وارانہ اور قومی تعصبا ت اور ان میں ثقافتی شناخت کے مسائل بھی ابھر ے نیدر لینڈ اور اسپین وغیرہ سے پونے دو لاکھ کے قریب پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو نکال دیا گیا اسی طرح یہودیوں کا انخلا بھی ہوا۔ 17ویں صدی عیسوی میں یورپ میں صنعتی ترقی کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

جان لاک جیسے مفکر ین اور پھر آدم سمتھ جیسے ماہرین معاشیات نے آزادانہ تجارت اور انفرادی قوت کے نظریات کو متعا رف کروایا، اس طرح ملکوں کی سرحدیں لیبر یعنی افرادی قوت کے لیے کھول دی گئیں اور مغربی ممالک میں تارکین وطن کی آمد ورفت روک ٹوک سے آزاد ہو گئی۔ 1815 ء میں نیپولین کی جنگوں کی وجہ سے بیروز گاری بڑھ گئی تو برطانیہ نے تارکین وطن کی مدد کی مگر 19 ویں صدی میں صورتحال یورپ میں آبادیوں کے اعتبار سے مختلف ہو نے لگی۔ 1847 میں ہنگری اور جرمن ریاستوں سے مہاجرین کی بڑی تعداد نے دیگر یورپی ممالک کو اپنی سرحدیں بند کرنے پر مجبور کردیا۔ پھرجنگِ عظیم اول کے فوراً بعد 1920 میں بھی لاکھوں مہاجرین پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے بعد جنگ عظیم دوئم تک پوری دنیا میں نوآبادیاتی نظام رائج رہا اور جب جنگ عظیم دوئم ختم ہوئی اور1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا تو ایک جانب یورپ میں بھی ملکوں کی سرحدوں کاتعین ہونے لگا۔

دوسری جانب پوری دنیا سے مرحلہ وار نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ شروع ہوا تو پہلی دہائی میں پاکستان، بھارت ، اسرائیل، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے ملکوں کی سرحدوں کا تعین کرکے اقوام متحدہ کے تحت بھی ان کو تسلیم کیا گیا، پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا یہ ملک 3 جون 1947 کے اعلان اور 18 جولائی 1947کے قانون آزادیِ ہند اور برِصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آیا تھا اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم ریڈکلف ایورڈ کے نتیجے میں عمل میں آئی جس میں مسلم اکثریت کی مشرقی پنجاب کی تحصیلی ںگورداسپور، فیروزپور، زیرہ پر ناانصافی کی گئی اور یہ بھارت کو دے دی گئیں۔

اس کے بعد پاکستان کی سرحدیں تشکیل پائیں اورکشمیر کا مسئلہ بھی ابھرا تو مہاراجہ ہری سنگھ کو نہرو نے دباؤ میں لاکر کشمیر کا الحاق بھارت سے کروا یا اور ریڈکلف ایوارڈ کے تحت مشرقی پنجاب میں جو مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دئیے گئے تھے وہاں سے پٹھان کوٹ سے ایک راستہ کشمیر کے لیے دے دیا گیا اور اس کے بعد کشمیر پر1947-48 میں بھار ت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہو ئی اور جو حصہ پاکستان نے حاصل کیا وہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے اور جو بھارت کے پاس رہا وہ مقبوضہ کشمیر ہے اس جنگ پر بھارتی وزیر اعظم خود اقوام متحد ہ کی سکیو رٹی کونسل میں گئے اور کشمیر میں حقِ خود اختیاری کی بنیاد پر کشمیریوں کو کشمیر پاکستان یا بھارت میں شامل کرنے کے فیصلے پر اتفاق کرنے پرجنگ بندی لائن قائم کردی گئی اور یہی لائن 1965 کی جنگ کے بعد رہی اور معاہدہ تاشقند کے بعد دونوں ملکوں کی فوجیں 1965 کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آگئیں پھر جب 1971 کی جنگ کے بعد شملہ معاہد ہوا تو یہی سیز فائر لائن ’’جنگ بندی لائن ‘‘ لائن آف کنٹرول ہو گئی۔

اس وقت بھارت کے ساتھ انٹرنیشنل بارڈر سندھ اور پنجاب پر 2100 کلو میٹر ہے اور ساتھ ہی سیالکورٹ اور بھارتی مقبوضہ کشمیر پر سرحد ورکنگ باؤنڈری202 کلو میٹر ہے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کنٹرول لائن کی لمبائی 861.560 کلو میٹر ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد مشرق میں واقع ہے جب کہ ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول قدرے شمال میں ہے۔ شمال ہی میں کشمیر اور ہمارے گلگت کے ساتھ پاکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے اس سرحد کی لمبائی تقریباً 600 کلو میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے پاکستان کی بلند ترین سرحد ہے، یہاں لداخ اورکشمیر سے ملحقہ ایک علاقے پر چین نے 1959 کے نقشے میں تقریباً 5000 مربع کلومیٹر چین کا علاقہ ظاہر کیا اس پر صدر ایوب خان نے لیٹر لکھا مگر اس وقت چین نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اس وقت چین اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو رہے تھے اور روس چین تعلقات میں دراڑیں آرہی تھیں۔

20 نومبر 1962 میں چین و بھارت میں اسی علا قے میں سرحد ی جنگ ہوئی جس میں چین کو فتح حاصل ہوئی۔ پاکستان اور چین کے درمیان لداخ اور کشمیر کے اس علاقے پر مذاکرات ہوئے اور پھر چینی وزیر خارجہ چن ای ChenYi اور پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 2 مار چ 1963 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت شما لی کشمیر اور لداخ میں5180 مربع کلو میٹر کا علاقہ استائی چین پاکستان نے چین کے حوالے کردیا۔ اس کی دو اہم وجوہات تھیں ایک یہ کہ اس علاقے کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ چین اور بھارت جو 1959 تک ایک دوسرے کے قریبی دوست تھے ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے اور یہ اسٹرٹیجی کے لحاظ سے پاکستان کے حق میں تھا کہ یہاں اس علاقے سے چین بھارت پر کاری وار کرنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں آگیا، چونکہ اب چین پاکستان کے درمیان کو ئی تنازعہ نہیں رہا تھا اس لئے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط اور اسٹریٹجک بنیادوں پر آگے بڑھنے لگے۔

یہی وہ دور ہے جب دونوں ملکوں کی تجارت کو فرو غ دینے کے لئے شاہراہِ قراقرم تعمیر کی گئی جو دنیا کی بلند ترین شا ہراہوں میں سے ایک اہم شاہراہ ہے۔ شمال میں افغانستان سے سرحد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کی لمبائی 2611.560 کلومیٹر ہے اس سرحد پر کچھ پر افغانستان کے اعتراضات ہیںکہ 1893 میں برطانوی سیکرٹری ڈیورنڈ نے یہ لائن بنائی تھی جو اُسی کے نام سے منسوب ہوئی، خیبر پختونخوا پر یہ سرحد دنیا کے بلند پہاڑوں پر ہے۔ مغرب میں پاکستان کی سرحد ایران سے ملتی ہے جو 909 کلو میٹر اور بعض جگہ 959 کلومیٹر لکھی گئی ہے اِس سرحد کا تعین تاریخی اعتبار سے انگریزوں کے عہد سے شروع ہوا۔ 1871ء میں انگریز اے جی جی سر رابرٹ سنڈ ے من نے خان آف قلات کی مشاورت سے ایران سے سرحد کے تعین کی بات چیت شروع کی، بعد میں1905 میں ایران اور برطانو ی حکام نے خان آف قلات سے مشاورت کے بعد یہ سرحد طے کی اور پھر یہی سرحد پاکستان کے قیام کے بعد بھی طے پائی، البتہ ایوب خان کے آتے ہی سرحد 1958-59میں ایک مرتبہ پھر تفتان پر آگئی۔

پہلے یہ ایرانی ٹاؤن میر جاوا پر تھی اور اُس وقت میر جاوا پاکستانی علاقہ کہلاتا تھا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزوں نے یہاں کوئٹہ، سپیذنڈ، مستونگ ،نوشکی، دالبندین، چاغی، تفتان سے ہوتے ہوئے آج کے ایرانیسرحدی علاقے میر جاوا ٹاون اور اس سے آگے ایرانی بلوچستان و سیستان کے پہلے شہر زاہدان تک ریلوے لائن بچھائی تھی اور زاہدان ریلو ے اسٹیشن تک ریلوے کا تمام عملہ 1978 تک پاکستان ریلوے کوئٹہ ڈویژن کا ہوا کرتا تھا۔ اب ریلوے پاکستان کی سرحد تفتان تک ہے اور اسی سرحد پر پاکستان کا آخری ٹاون ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی سرحد ڈسٹرکٹ گوادر کے اعتبار سے ستمبر 1958 تک سلطنت اومان سے ملتی تھی کیوںکہ گوادر کا علاقہ سلطنتِ اومان مسقط کے پاس تھا مگر یہ ساحلی علاقہ وزیراعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے اقتدار کے آخری دنوں میں 33 ملین ڈالر کے عوض خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا گیا ، یوں جنوب میں اب پاکستان کی سرحد خشکی سے کسی ملک سے نہیں ملتی۔

افغانستان کا اعتراض ڈیورنڈ لائن کے لحاظ سے ہے ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے اعتبار سے کنٹرول لائن عالمی سطح پر جموں وکشمیر کے متنازعہ علاقے کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم سے قبل کشمیر کو باہر کی دنیا سے ملانے والے چھ راستے آج کے پاکستانی علاقے ہی سے گزرتے تھے مگر اب بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے پٹھان کوٹ کے قریب سے راستہ فراہم کیا ہے اسی طرح کھوکھرا پار سندھ اور پنجاب امرتسر کے راستوں سے ٹرنیوں ریلو ے ٹریک اور بذریعہ سڑک آج بھی راستہ موجود ہے اور امرتسر لاہور کا یہ راستہ محدود پیمانے پر آمد ورفت کے لیے اب بھی استعما ل ہوتا ہے لیکن آزادی کے بعد سے خشکی کے لحاظ سے سب سے زیادہ آمدورفت پاکستان ایران سرحد سے رہی ہے۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ آزادی کے بعد ایران کا پاکستان وہ ہمسایہ ملک ہے جس سے پاکستان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یوں ابتدا سے ان دونوں کی دوستی اور تعلقات گہرے اور مضبوط ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ایران اور پاکستان امریکی اتحاد کے قریب رہے اور سیٹو، سینٹو کے معاہد وں میں بھی شامل رہے۔ پاکستان، ایران، ترکی کے درمیان علاقائی ترقی برائے تعاون RCD معاہدہ ہوا اور اسی بنیاد پر پاکستان ایران اور ترکی تک جانے والی شاہراہ اب بھی آر سی ڈی شاہراہ کہلاتی ہے، اب یہ تنظیم ایکو’’اکنا مک کوآپریشن آرگنائزیشن‘‘ کہلاتی ہے اور اس میں اب دیگر علاقائی ممالک بھی شامل ہیں، پاک ایران سرحد سے ہی غیرملکیوں کی اکثریت براستہ سڑک یورپ اور مشرق وسطیٰ جاتی ہے، اسی راستے سے ایران اور ترکی سے تجارتی سامان پاکستان آتااور جاتا ہے۔

افغانستان کو پاکستان نے کراچی کی بندرگاہ سے راہداری دے رکھی ہے اور یہاں سے افغان تجارت پوری دنیا سے ہو تی ہے۔ پاکستان کی سرحدیں قیام پاکستان کے بعد اتنی حساس نہیں تھیں یہاں تک کہ آزادی کے بعد اگرچہ بھارت سے جنگ بھی ہوئی لیکن مشرقی پاکستان میں جہا ں مغربی بھارتی بنگال او ر مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال دونوں میں سرحدوں پر سختیاں نہیں تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالیوں کا تناسب اٹھارہ فیصد تھا اور یوں یہاں پر بھارتی اور پاکستانی علاقوں میں آنے جانے کے لیے اگرچہ پاسپورٹ کی پابندی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔

اسی طرح مغربی پاکستان میں اگر چہ سرحدوں پر1951 کے سٹیزن ایکٹ کے نفاذ اور مہاجرین کی آمد پر پابندی کی قدرے سختی تھی لیکن اُس وقت جب بھارت میں گندم کی قلت تھی تو پاکستانی علاقوں سے گندم کی اسمگلنگ ہوتی تھی اور بھارت سے گائے اور بیل ہانک کر یہاں بھجوائے جائے جاتے تھے، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں اطراف میں پشتون کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں اور 1980 تک جب تک سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک خانہ بدوشوں کے علاوہ عام لوگوں کی آمدورفت میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی، مگر 1980 کے بعد سے رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے گئے اور یہ حالات نہ صرف مقامی طور پر خراب ہوئے بلکہ عالمی سطح پر بھی مسائل پیدا ہونے لگے ۔

جس کی وجہ سے پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران، چین اور دیگر ممالک سرحدوں پر خاردار باڑ یا دیواریں قائم کر چکے ہیں اور جہاں نہیں ہیں وہا ں ہو رہی ہیں، یہاں اس کی ایک بڑی وجہ پوری دنیا میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور اس جنگ کے دوران ابہام کی صورتحال پوری دنیا کی طرح ہمارے علاقے میں بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ لیکن یہاں معاملات آج کے زمانے میںکلائمیٹ چینج، ماحولیا تی آلودگی، پانی کے وسائل کے حوالے سے بھی ہیں،کیونکہ باوجود دیواروں اور باڑ لگانے کے مثلًا اگر بھارت یا پاکستان اپنی 202 کلو میٹر ورکنگ باونڈری اور 2100 کلو میٹر انٹر نیشنل بارڈر پر فی کلو میٹر تین، تین ٹیوب ویل نصب کردیتا ہے یا ایسی ہی صورتحال افغان یا ایران سرحد پر ہوتی ہے تو ایسے مسئلے کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ فضائی آلودگی جو دنیا بھر کے بڑے صنعتی ممالک کی وجہ سے آج ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستان دنیا میں فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے پہلے ممالک میں شامل ہے اور خود یہ فضائی آلودگی پیدا کرنے والے ملکو ں کی فہرست میں کہیں پیچھے ہے۔

پاکستان فضائی آلود گی کے اعتبار سے بھارت ،ایران اور افغانستان سے بھی متاثر ہو رہا ہے اگر چہ اس کا ہمسایہ ملک چین دنیا کی ایک بڑی صنعتی قوت ہے مگر ہماری سرحد کے درمیان کوہ ہمالہ کے پہاڑی سلسلے حائل ہیں اور ان دونوں ملکوں کے درمیان پانی اور ہوا کے مستقل روٹ ، راستے یا گذرگاہیں نہیں ہیں لیکن بھارت سے نہ صرف ہمارے بڑے دریا آتے ہیں بلکہ مون سو ن کی ہوائیں بھی بارشوں کے ساتھ بھارت کے خلیج بنگال سے آتی ہیں پھر موسم سرما میں اب جو فوگ اور سموگ پنجاب اور سندھ کے لیے ایک بہت بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن گیا ہے یہ بھی دہلی سے لے کر ہماری سرحد کے اندر تک اثر کر رہا ہے۔ بھارت، چین اور امریکہ معدنی کو ئلے سے بجلی پیدا کرنے والے دنیا کے بڑ ے ملک ہیں اور بھارت کے ہمسائے اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں بھارتی مشرقی پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد بقیہ گھاس پھوس کو ہزاروں کلومیٹر رقبوں پر آگ لگا دی جاتی ہے اور اس سے لاہور سیالکوٹ سمیت ہمارے پنجاب کے کئی شہر فوگ اور سموگ میں شدت آنے کے باعث بری طرح متا ثر ہوتے ہیں۔ ایران کے دشت لوط سے اٹھنے والی مٹیالی ہواؤں سے اب گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے پاکستانی بلوچستان اگست اور ستمبر کے مہینوں میں بہت متاثر ہو رہا ہے۔

ایرانی علاقے دشت لوط میں جولائی اگست میں درجہ حرارت 60 درجے سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اُس وقت یہاں سے زوردار بگولے اٹھتے ہیں اور یہاں دشتَ لوط کی نہایت باریک پوڈر نما مٹی فضا میں بیس سے پچیس ہزار فٹ تک بلند ہو جاتی ہے جو پھر دھیمی ہوا سے ایک دو دن کے سفر کے بعد پاکستانی علاقے میں داخل ہو جاتی ہے۔ پندہ بیس برس قبل تک یہ پاک ایران سرحد کے قریب تک ہی پھیل کر دھیمے انداز میں زمین کی طرف آتی تھی کیو نکہ یہ علاقے کم آباد یا غیر آباد ہیں اس لیے اس جانب نہ تو، توجہ ہوتی تھی اور نہ ہی اس سے کو ئی قابل ِ ذکر نقصان ہوتا تھا۔ اب یہ اکثر کوئٹہ اور سبی بلکہ جیکب آباد تک آجاتی ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ کی فلائٹیں بھی معطل ہوجاتی ہیں۔

اس کے سب سے زیادہ مضر اثرات فصلوں خصوصا پھلوں کے باغات پر مرتب ہو ئے ہیں کیو نکہ یہ باریک مٹی بہت دھمیے انداز میں تین تین چار چار دن متواتر بلندی سے نیچے گرتی ہے اور درختوں کے پتوں پر جم جاتی اس کے اثرات اس لیے بھی زیادہ مضر ہوتے جا رہے ہیں کہ بلو چستان کئی برسوں سے مسلسل شدید اور جزوی خشک سالی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے، ورنہ برسوں پہلے یہ معمول تھا کہ وادی کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں موسم گرما میں ہفتہ یا آٹھ دس روز بعد بارش ہو جاتی تھی اس سال یعنی 2018 ء میں فروری سے اکتوبر تک بارش نہیں ہوئی ہے اور یہ پیش گوئی ہے کہ بارش دسمبر تک نہیں ہو گی، سابق صوبائی حکومت نے روسی ماہرین سے یہاں مصنوعی بارش برسانے کی تکنیک کے حصول کے لیے بھی بات چیت کی تھی کیونکہ 1997 تا 2002-03 بلوچستان تاریخ کی بدترین سات سالہ خشک سالی کا شکار رہا تھا اور اب پھر ماہر ین کہہ رہے ہیں کہ صوبہ خشک سالی کا شکار ہو رہا ہے۔

بلوچستان ملک کے کل رقبے کا تقریباً 44% ہے اور ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں سے 777 کلومیٹر ساحل بلوچستان کے پاس ہے، یہا ں پاکستان کے قدرتی ماحول اور موسموں پر اس کے اثرات بہت نمایاں ہیں یہاں دو ہوائیں بہت اہم ہیں اور یہ موسم سرما میں زیاد ہ اہم ہو جاتی ہیں، ایک ہوا ملک کے جنوب میں خلیج فارس سے چلتی ہے جو ملک کے بیشتر حصوں میں موسم سر ما کی بارشوں اور برفباری کی وجہ بنتی ہے اس کو گرد باد بھی کہتے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ جس طرح مون سون کی ہواؤں اور بارشوں، اور پھر اس کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کے زمانے میں سمندر میں جہاں مون سون کی بارشوں کا پانی گر تا ہے تو وہاں سمندر سے مچھلیاں الٹے رخ دریاؤں کے پانیوں پر چڑھ کر سینکڑوں میل مختلف سمت میں سفر کرتی ہیں اور پھر موسم کے بدلنے پر ان مچھلیوں کے بچے واپس سمندروں میں آتے ہیں، اسی طرح سردیوں کے آغاز پر ہجرت کر جانے والے پرندے ہجرت کر جاتے ہیں اور موسم بہار میں واپس آتے ہیں۔

ہمارے علاقے میں یہ پرندے شمال میں افغانستان، سنٹرل ایشیا کے ممالک کے پا ر سائبیریا سے موسم سرما کے آغاز پر رخصت ہو جاتے اور معتدل اور کم سرد علاقوں سے موسمِ بہار پر اپنے بچوں کے ساتھ واپس ہو تے ہیں، یوں اسی سائبیریا سے موسم سرما میں جنوب میں بحیرہ عرب پر ہمارے ساحل تک سے بھی ایک ماحولیاتی تعلق ہے کہ جب خلیج فارس سے موسم سرما کی بارشوں کے بادل وقفے وقفے سے آتے ہیں تو ان کا مزاج مون سون کی بارشوں کے مقابلے میں بہت دھیما اور مستقل ہوتا ہے یہ بارشیں بلوچستان جیسے بارانی علاقوں گرم مقامات پر صرف بارش کی صورت ہوتی ہیں تو سرد علاقوں میں جو مقامات سطح سمندر سے ساڑھے تین ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہیں وہاں برفباری ہو سکتی یا ہوتی ہے۔ بلو چستان میں یہ بلندی دس ہزار فٹ تک ہے اور یہاں ماضی قریب میں پانی کے ذخائر زیرِ زمین کہیں زیادہ تھے جو اب کم ہوگئے ہیں۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر بارانی علاقوں کے علاوہ ایران افغانستان اور دیگر علاقائی ملکوں میں بھی اسی موسم سرما کے بارشوں کے نظام کے تحت بارشیں اور برفباری بھی ہوتی ہے۔

اس بارش کے قطرے باریک ہوتے ہیں اور متواتراور اکثر دو دو تین تین دن بارش اور برف باری ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد سائبیریا سے ایک سرد ترین ہوا چلتی ہے جو وسطی ایشیا اور افغانستان میں سائبیر یا کی ہوا کہلاتی ہے یہ جب بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ آتی ہے تو قندھاری ہوا کہلاتی ہے اور کراچی سمیت دیگر علاقو ں میں کوئٹہ کی ہوا کہلاتی ہے،اس ہوا کے چلنے سے ایک تو یہ ہوتا ہے خلیج فارس سے آنے والے بادل اُڑ جاتے ہیں اور آسمان صاف ہو جاتا ہے مگر جو بارش کا پانی اور خصوصاً برف کی صورت میں ہوتا ہے زمین اور پہاڑوں پر ہوتا ہے وہ شدید سردی سے جم جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ نیچے زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ یوں موسمِ سرما میں بارشوں اور سائبیریا کی ہوا کا یہ سلسلہ نومبر سے مارچ تک وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے مگر اب موسمیاتی تبدیلوں ’’کلائمیٹ چینج ‘‘ کی وجہ سے علاقے کا یہ ہزاروں برس کا قدیم نظام بری طرح متاثر ہوا ہے ایک جانب تو سرما کی بارشوں کے اعتبار سے گذشتہ چالیس سا ل کے مقابلے میں ان میں 50% کمی واقع ہوئی ہے تو ساتھ ہی سردی میں کمی اور گرمی میں اضافہ ہوا اور اب درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

اب ان حالات کی وجہ سے گذشتہ صرف 40 برسوں میں اس نظام کے تحت جاری رہنے والے صدیوں پرانے چشمے یا تو خشک ہو گئے ہیں یا ان میں پانی کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ بہت سی بارانی اور نیم بارانی ندیوںاور دریاؤںکی صورتحال یہی ہے بلکہ بعض دریاؤں کی صورتحال یہ ہے کہ وہ گندے پانی کے نالوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ سرحدوں کے حوالے سے بھی یہ مسائل اہم ہیں۔ اس وقت ایرانی اور افغا ن سرحدی علاقوں میں بہت سی بارانی ندیاں اور دریا ہیں جو ان سرحدوں کے آرپار ہوتے سرحد سے آتے اور جاتے ہیں اور اب جب کہ آبادیوں میںتیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ پانی کے تنازعات بھی ابھر رہے ہیں اس لیے ہمیں اب اِن تمام مسائل کو مدِنظر رکھ کر بھی سرحدوں اور ان کے پار کے معاملات کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے، اور اس کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک اور علاقائی تنظیموں یعنی سارک اور ایکو کے پلیٹ فارموں سے سرحد وں کے حوالے سے ان مسائل کو حل بھی کرنا ہے اور مستقل بنیادوں پر روکنا بھی ہے۔

The post پاکستان کی سرحدیں اور اِن پر جنم لیتے مسائل appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی تاریخ میں پہلی بار 80 کروڑ انسان غربت کے چنگل سے آزاد

$
0
0

’’سورہا تھا کہ خواب میں دیکھا، زندگی بڑی خوبصورت ہے۔بیدار ہوا تو پایا ،زندگی ذمے داری(ڈیوٹی) ہے۔‘‘
(چینی فلسفی،کنفیوشس)

٭٭

مشرقی چین کے صوبے انہوئی میں شیاؤ گانگ (Xiaogang) نامی گاؤں واقع ہے۔ وہاں چاروں طرف سرسبز ،لہلہاتے گھیت دکھائی دیتے ہیں جن کے درمیان مرغی و بطخ خانے بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں چین کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔آج سے ٹھیک چالیس سال قبل اسی گاؤں کے دیہاتیوں نے ایسے انقلابی منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا جو چین میں غربت کے خاتمے کی قومی تحریک جنم دینے کا سبب بن گیا۔ اس منصوبے کی داستان دلچسپ، حیرت انگیز اور خاص طور پہ پاکستانی حکمرانوںکے لیے سبق آموز ہے جو چینی ماڈل کا مطالعہ کر کے وطن عزیز سے بھی غربت کا عفریت ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

شیاؤ گانگ میں اٹھارہ گھرانے آباد تھے۔ ان گھرانوں کے سربراہ کھیتوں میں کام کرتے۔ یہ کھیت چینی حکومت کی ملکیت تھے۔ جب بھی فصل تیار ہوتی، چینی حکومت کے کارندے اسے لینے پہنچ جاتے۔ وہی کارندے ہر گھر میں افراد خانہ کی تعداد کے لحاظ سے ہر دوسرے تیسرے ماہ خوراک بھی تقسیم کرتے۔ اجتماعی کاشت کاری کے اس معاشی نظام میں خرابی یہ تھی کہ اگر کوئی کسان کام چور اور مکار ہوتا، تو اسے بھی اتنی ہی خوراک ملتی جو محنتی اور دیانت داری سے کام کرنے والے کاشتکار کو ملتی۔ یہی وجہ ہے، سبھی کسان طوعاً کراہاً ہی سرکاری کھیتوں میں کام کرتے، ان میں زیادہ سے زیادہ اناج اگانے اور ترقی کرنے کا کوئی جوش و جذبہ جنم نہ لیتا۔

نئے منصوبے کی تلاش

بدقسمتی سے 1958ء کے بعد صوبہ انہوئی قحط کا نشانہ بن گیا۔ اس قدرتی آفت نے کھیتی باڑی کرنا بہت مشکل بنا دیا۔ اب فصل بہت کم مقدار میں تیار ہوتی۔ نتیجتاً حکومتی کارندے بھی انہیں کم خوراک دینے لگے۔ یہ خوراک بس اتنی ہوتی کہ جسم اور جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔شیاؤ گانگ میں کاشت کاروں کا سربراہ یان جنگ چانگ(Yen Jingchang) نامی کسان تھا۔ وہ گاؤں پر مسلط غربت سے بہت تنگ آگیا۔ عموماً مہینے کے آخری ہفتے ہر گھر میں سرکار کی دی گئی خوراک ختم ہوجاتی۔ تب وہ جڑی بوٹیاں، پودے، حتیٰ کے مینڈک اور چھپکلیاں ابال کر کھاتے اور پیٹ بھرتے۔ یان جنگ سوچنے لگا کہ اس غربت سے کیونکر چھٹکارا پایا جائے؟ وہ ایسی تدبیر کی تلاش میں تھا جو انہیں کم از کم بھوک سے تو نجات دلا دے۔سوچ بچار کے بعد آخر یان جنگ چانگ ایک منصوبہ تیار کرنے میں کامیاب رہا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سرکاری کھیتوں کی زمین کا رقبہ اٹھارہ کسانوں میں برابر تقسیم کردیا جائے۔ وہ کسان پھر اپنے اپنے کھیت میں محنت کریں اور اپنی فصل اگائیں۔ جب فصل تیار ہو، تو وہ حکومت کو مقرر کردہ حصہ دے دیں۔ اگر فصل بچ گئی، تو وہ اس کے مالک تصّور کیے جائیں گے۔ گویا یان جنگ چانگ نے ایک نیا معاشی پروگرام تخلیق کرلیا۔

چین پر کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ اسی کے احکامات پر پورے ملک میں کسان سرکاری کھیتوں میں کام کرتے۔ وہ کہیں بھی ایک انچ زمین کے مالک نہ تھے۔ کھیتوں کی ساری پیداوار حکومت لے لیتی، کسانوں کو مقرر کردہ غذا فراہم کی جاتی۔ گزر بسر میں مدد دینے والا یہ اجتماعی کاشکاری کا نظام خوبیاں رکھتا تھا اور خامیاں بھی! بڑی خامی یہی تھی کہ اگر کوئی کسان ناکام و نکمّا ہوتا اور بہت کم کام کاج کرتا تب بھی وہ اپنا حصّہِ خوراک پانے میں کامیاب رہتا۔ یوں بغیر محنت کیے اسے کرنی کا پھل مل جاتا۔

شیاؤ گانگ کے اٹھارہ کسان تو پھر بھوک و ناتوانی کا بھی شکار تھے۔ ان میں کھیتی باڑی کرنے کی ہمت پیدا کرنے کے لیے ایسے تحرک کی ضرورت تھی جو انھیں خوب فائدہ پہنچاسکے۔ یان جنگ کا منصوبہ اسی قسم کا تحرک رکھتا تھا۔اگر وہ خوب محنت کرتے ،زیادہ فصل اگاتے تو زائد پیداوار کے مالک بن سکتے تھے۔ لہٰذا اواخر 1977ء میں اس نے اپنا منصوبہ سترہ کسانوں کے سامنے رکھ دیا۔شروع میں انہوں نے اپنے لیڈر کو دیوانہ قرار دیا کیونکہ منصوبہ کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ اجتماعی کاشت کاری کی نفی کرتا تھا۔ کسانوں کو یقین تھا کہ اگر مقامی رہنماؤںکو اسی کی بھنک بھی پڑی، تو انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ بعید نہیں تھا کہ منصوبے کے خالق (یان جنگ چانک) کو پھانسی دے دی جاتی۔

محنت رنگ لائی

یان جنگ کا مگر اصرار تھا کہ اگر اہل گاؤں بھوک اور غربت سے نجات چاہتے ہیں تو یہ منصوبہ اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہیں۔ آخر سترہ کسان غور و فکر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ محنت کرکے اپنی زمین پر زیادہ فصل اگالیں تو ان کو زیادہ خوراک میسّر آئے گی۔ اس طرح نہ صرف بھوک کا خاتمہ ہوگا بلکہ فصل بیچ کر وہ زائد رقم بھی کماسکتے تھے۔منصوبے کے فوائد دیکھ کر سترہ کسانوں نے اسے اپنالینے کی ہامی بھرلی۔ گاؤں کے سب سے بڑے مکان میں سبھی چینی کاشت کار جمع ہوئے۔ وہاں یان جنگ چنگ نے منصوبے سے متعلق معاہدہ لکھا جس پر سبھی نے دستخط کیے۔ ایک شق یہ تھی کہ اگر حکومت کو معاہدے کا علم ہوا اور کسی کسان کو گرفتار کرلیا گیا، تو سبھی گاؤں والے اس کے اہل خانہ کی خبر گیری کریں گے۔

اس طرح گاؤں میں واقع سرکاری کھیتوں کی زمین اٹھارہ کسانوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ اب چشم فلک نے عجیب منظر دیکھا۔ بعض کسان چھ سات بجے کام پر آتے تھے، اب وہ چار بجے ہی اپنے کھیت میں پہنچ کر بڑی تندہی و لگن سے کام کرنے لگتے۔ اب زیادہ فصل اگانا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔یہ منصوبہ واقعی انقلاب انگیز ثابت ہوا۔ پچھلے پانچ برس سے گاؤں میں سالانہ پندرہ ہزار کلو اجناس پیدا ہورہی تھیں۔ اس سال کاشت کاروں نے نوے ہزار کلو اجناس پیدا کر ڈالیں۔ سبھی کسانوں نے مقررہ وزن کی اجناس حکومت کو دیں اور باقی فصل اپنے پاس رکھ لی۔ یوں یان جنگ چانگ کے منصوبے نے نہ صرف انہیں بھوک سے نجات دلائی بلکہ وافر اجناس کا مالک بھی بنادیا۔

یہ تو مثبت تبدیلی ہے

تاہم 1978ء کے موسم بہار میں اردگرد کے دیہات والے جان گئے کہ شیاؤ گانگ والوں نے اس بار اپنے اپنے کھیت میں فصل اگائی ہے۔ اس طریق کار کو کئی لوگوں نے ’’سوشلزم کا قتل‘‘ قرار دیا۔بعض دیہاتی ان سے حسد بھی کرنے لگے کیونکہ اہل گاؤں کے پاس اب وافر اجناس موجود تھیں۔ حاسدوں نے کمیونسٹ پارٹی کے علاقائی ناظم، وانگ یزہاؤ کو ساری داستان سنائی اور اسے شیاؤ گانگ والوں کے خلاف خوب بھڑکایا۔

گاؤں کے اٹھارہ کسانوں کی خوش قسمتی کہ وانگ یزہاؤ ایک ہمدرد اور مدبر رہنما تھا۔ اس نے کوئی ناروا قدم اٹھانے سے پہلے یان جانگ چنگ کو بلوا لیا۔ یان نے اسے ساری داستان سنائی اور اپنے منصوبے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ وانگ یزہاؤ کو احساس ہوا کہ منصوبے کی بدولت اہل زیاؤ گینگ فائدے میں رہے اور انہیں بھوک و غربت سے نجات مل گئی۔ یہ تو ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی تھی۔ وانگ نے پھر یان جنگ کو تین سال تک منصوبہ اپنانے کی اجازت دے دی۔ شرط یہ تھی کہ گاؤں والے منصوبے کی تفصیل دوسروں سے خفیہ رکھیں۔

1978ء تک چین میں قومی سطح پر بھی انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ اب ایک زمانے میں ماؤ حکومت کا معتوب رہنما، ڈینگ زیاؤ پنگ چین میں سب سے طاقتور لیڈر بن کر ابھر رہا تھا۔ یہ نیا لیڈر چین میں معاشی اصلاحات چاہتا تھا تاکہ ملک و قوم ترقی کے سفر پر گامزن ہوسکے۔وانگ یزہاؤ بھی اپنے نئے لیڈر کی طرح معاشرے میں تبدیلی لانے کا خواہاں تھا۔ اسے یان جنگ چنگ کا منصوبہ پسند آیا کیونکہ اس کی بدولت گاؤں والے کئی گنا زیادہ فصل اگانے میں کامیاب رہے تھے۔ اپنی ملکیتی فصل زیادہ سے زیادہ کرنے کی چاہ نے انہیں خوب محنت کرنے پر اکسا دیا اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہ تھا۔

وانگ نے منصوبے کی تفصیل کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر بھجوا دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کا ڈینگ زیاؤ پنگ نے بھی مطالعہ کیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ یہی منصوبہ دیکھ کر نئے چینی صدر کو خیال آیا کہ چین میں سب سے پہلے زرعی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا جائے۔اس کے پہلے مرحلے میں بتدریج اجتماعی کاشت کاری کا نظام ختم کردیا گیا۔ چینی حکومت نے لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین کسانوں کو مناسب دام پر فروخت کردی۔ مزید براں بہت سے بڑے جاگیرداروں کی زمینیں بھی کسانوں میں بانٹ دی گئیں۔ اس طرح چند ہی برس میں چین میں اجناس ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ پیدا ہونے لگیں اور وہاں زرعی انقلاب آگیا۔

بارش کا پہلا قطرہ

زمین کا مالک بننے کے بعد پورے چین میں کسانوں نے محنت مشقت کی، زیادہ فصل اگائی اوریوں بھوک و غربت سے نجات دلانے والے راستے پر قدم رکھ دیئے۔ اس سہانے و دلربا سفر میں قدرتی طور پر شیاؤ گانگ کے دلیر کسان سب سے آگے تھے۔ ایک انقلابی منصوبہ اپنا کر وہ خوشحال ہونے لگے۔ ایک ہی سال میں ان کی فی کس آمدن 22 یو آن سے بڑھ کر 400 یو آن تک پہنچ گئی۔آنے والے برسوں میں شیاؤگانگ سمیت کئی دیہات کے باشندوں نے پختہ گھر تعمیر کرلیے۔ ٹی وی اور فریج کی سہولیات سے بھی وہ مستفید ہونے لگے۔ کئی کسانوں نے اپنی غیر مزروعہ زمین پر بطخ خانے کھول لیے۔ یوں آمدن بڑھانے کا ایک اور ذریعہ سامنے آگیا۔ آج کئی دیہی علاقوں میں فیکٹریاں بھی کھل چکیں جو نوجوان چینیوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کررہی ہیں۔

شیاؤ گانگ میں آج ایک عجائب گھر تعمیر ہوچکا ہے۔ اس میں وہ معاہدہ نمایاں جگہ رکھا ہے جو یان جنگ چنگ نے سترہ کسانوں کی معیت میں چوری چھپے لکھا تھا۔ یہ معاہدہ پھر ایک جگہ چھپا دیا گیا تھا تاکہ وہ حکومتی کارندوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ مگر اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال کر چینی کسانوں نے جس منصوبے کو اپنایا وہ چین میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے کا سبب بن گیا۔یہ زرعی اصلاحات دراصل چین کو مستقبل میں معاشی و سیاسی سپرپاور بنانے کی خاطر بارش کے پہلے قطرے کے مانند ثابت ہوئیں۔ ان کے بعد حکومت چین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات کا مربوط و منضبط پروگرام متعارف کرایا۔ ان وسیع و عریض اور جامع اصلاحی پروگراموں کے سبب چین خصوصاً معاشی و معاشرتی طور پر تیزی سے ترقی کرنے لگا۔

انسانی عزم کی شاندار مثال

اصلاحات کے زبردست پھیلاؤ کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چالیس برس میں تقریباً ’’اسّی کروڑ‘‘ چینی غربت سے نجات پاچکے ۔ یہ انسانی تاریخ کا نہایت حیران کن اور ڈرامائی واقعہ ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں چالیس برس بہت کم مدت ہوتی ہے۔ مگر چینی حکمران اسی مختصر عرصے میں اپنے اسّی کروڑ باشندوں کو غربت و بھوک کے بھیانک چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب رہے۔ یہ انسانی عزم و ہمت کی شاندار مثال ہے جس نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا…کسی ایک وجہ کو  اس شاندار کامیابی کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ان وجوہات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا ئے تو چند نمایاں وجوہ ضرور سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ نئی چینی حکومت نے صحیح معنوں میں خواص نہیں عوام کی خواہشات اور امنگوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ۔1978ء میں ڈینگ زیاؤ پنک نے اپنی ایک عوامی تقریر میں عوام کو مخاطب کر کے کہا تھا:

’’میں دریا میں راستہ ڈھونڈ رہا ہوں… مجھے پتھروں کی تلاش ہے جن پہ پاؤں رکھ سکوں۔‘‘

چینی صدر نے یہ کہہ کر عوام کو ابھارا کہ وہ آگے آئیں اور ایسی تجاویز ومشورے دیں جو مملکت کو نہ صرف معاشی بحران سے نکالیں بلکہ اسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیں۔یہی وجہ ہے جب شیاؤ گانگ اور دیگر دیہات کے باشندوں نے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے کھیت میں کام کرنا چاہتے ہیں‘ تو نئی حکومت نے ان کا مطالبہ قبول کر لیا… حالانکہ یہ خواہش سوشلزم کے نظریات سے متصادم تھی۔ تاہم حکمرانوں نے نظریاتی شدت پسندی ترک کر کے عوامی خواہشات و امیدوں کو پورا کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا۔ممتاز چینی فلسفی کنفیوشس نے کیا خوب کہا ہے:’’جس ملک میں حکمران اہل وایماندار ہوں،وہاں غربت ہونا ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔جس ملک کے حکمران نااہل اور کرپٹ ہوں،وہاں دولت کی فراوانی شرمندگی و ذلت ہے۔‘‘

دوم چینی حکمرانوں نے یہ ’’عزم‘‘ کرلیا کہ وہ اپنے عوام کو غربت و بھوک سے نجات دلائیں گے۔ وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے تاکہ اقوام عالم میں فخر کے ساتھ رہ سکیں۔ اسی لیے وہ ’’مستقل مزاجی‘‘ سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر توانائیاں صرف کرتے رہے۔ انہوں نے افسر شاہی کو بھی سیدھا کردیا اور اسے ابھارا کہ وہ بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہوجائے۔ اس طرح محض چالیس برس میں وہ چینی دنیا کی سپرپاور بن گئے جنہیں دنیا والے حقارت و نفرت سے افیونچی کہتے تھے۔ چین میں ترقی و خوشحالی کا انقلاب عوام دوست،دیانت دار،محنتی حکمرانوں، خاتمہِ غربت کے مصمم عزم اور حکومت کی مستقل مزاجی کے باعث رونما ہوا۔

ماضی کے آئینے میں

چین کی تاریخ بڑی رنگا رنگ اور دلچسپ ہے۔ ماضی میں وہ تہذیبی ‘ ثقافتی اور سائنسی سرگرمیوں کا بین الاقوامی مرکز رہا۔ چینی ماہرین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے علم و فن کے نقوش ثبت کیے۔ تاہم مختلف ادوار میں یہ ملک شدید خانہ جنگیوں کا نشانہ بھی بنا رہا۔ ان کی وجہ سے چینی معیشت و معاشرے کو سخت نقصان پہنچتا ۔آخری خانہ جنگی 1937ء تا1949ء قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے مابین ہوئی جس نے چین کو تباہ کر دیا۔ یہ لڑائی ماؤزے تنگ کی زیر قیادت کمیونسٹ جیت گئے اور انہوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ تب چین میں غربت کا دور دورہ تھا اور بیشتر چینی کاشت کاری سے روزگار کماتے۔ تجارت و صنعت محدود پیمانے پر جاری تھی۔ماؤ حکومت نے مملکت کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بھاری صنعتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ توانائی‘ ایوی ایشن‘ ٹیلی کام ‘ تعمیرات وغیرہ کے شعبوں میں نئے کارخانے قائم ہوئے۔ یہ بھی حکومت کی ملکیت تھے۔ یہ کارخانے کھلنے سے ہزار ہا چینیوںکو روز گار ملا۔ اسی دوران اجتماعی کاشت کاری کا نظام بھی نافذ کر دیا گیا ۔ یوں معیشت کا پہیہ چل پڑا۔اس زرعی و صنعتی نظام کا حصہ بن کر لاکھوں چینیوں کو ملازمتیں ملیں اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔

تاہم نظام کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ اس میں ترقی کے مواقع کم تھے۔ ایک نکمے اور کام چور کو بھی اتنی ہی تنخواہ ملتی جو ایک لائق فائق اور باصلاحیت ملازم پاتا تھا۔ کوئی مادی فائدہ نہ ہونے سے کسی انسان کو یہ تحریک نہ ملتی کہ وہ اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے کچھ انوکھا اور منفرد کارنامہ انجام دے ۔ استثنیٰ کو چھوڑ کر بیشتر چینی ملازمین بس اپنی ڈیوٹی پوری کر دینے کو کافی سمجھتے ۔ زراعت ‘ صنعت اور تجارت کو سو فیصد سرکاری کنٹرول میں رکھنے سے عمدہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور چینی حکومت اپنے بیشتر شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے میں ناکام رہی۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں غربت اور بھوک کا دور دورہ رہا۔ اسی ناکامی نے حکمران کمیونسٹ پارٹی میں شامل رہنماؤں کے ایک دھڑے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ سوشلزم اور سرمایہ داری کے امتزاج سے چین میں ایک نیا معاشی نظام رائج کیا جائے۔ ڈینگ زیاؤ پنگ انہی رہنماؤں کے قائدتھے۔

نظریاتی جنگ کا آغاز

ڈینگ زیاؤ پنگ کی زیر قیادت نیا معاشی نظام رائج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے کمیونسٹ پارٹی میں شامل قدامت پسند لیڈروں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان لیڈروں کا استدلال تھا کہ سرمایہ دارانہ اصول و نظریے اپنا لینے سے چینی معاشرہ مادہ پرستی کا شکار ہو سکتا ہے۔ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کا مقابلہ جنم لے گا۔ اور یہ صورت حال انہیں ناجائز عمل اپنا لینے پر اکسا سکتی ہے۔ مسابقت کے اس ماحول میں کمزور اور کم صلاحیتوں والے انسان ترقی نہیں کر پائیں گے اور ان کا کوئی پُرسان حال نہ ہو گا۔ غرض رہنماؤں نے مادہ پرستی کے نظریات کو اخلاقیات کی تباہی کا نسخہ قرار دیا۔

ڈینگ زیاؤ پنگ اور ان کے حامی رہنماؤں کا کہنا تھا ’’کوئی بھی نظریہ… چاہے وہ سیاسی ‘ معاشی‘ معاشرتی‘ ثقافتی اور عمرانی ہو‘ سو فیصد حد تک خوبیاں نہیں رکھتا۔ ہمارا مطمع نظر یہ ہے کہ چینی عوام غربت جہالت‘ بھوک اور بیماری سے نجات پالیں ۔ چونکہ پچھلے تیس سال سے چین میں رائج سیاسی و معاشی نظام چینی عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکا‘ ان کی حالت زار تبدیل نہیں کر سکا لہٰذا اسے اوور ہالنگ اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں تبدیلی کی خواہش مند نئی حکومت معاشرے میں سست رفتاری سے سیاسی ،معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں لائی۔ اس نے یہ کوشش نہیں کی کہ یک لخت اور فوری طور پر تبدیلیوں کا اپنا پروگرام عوام و خواص پر ٹھونس دیا جا ئے۔ یہ ایک مثبت اقدام تھا۔ بتدریج تبدیلیاں متعارف کروانے سے عوام کو خود یہ سوچنے سمجھنے کا موقع ملا کہ نظام میں کسی قسم کی خرابیوں سے چھٹکارا پانے کا موقع آ پہنچا ہے۔زراعت کے بعد چینی حکومت نے صنعت و تجارت کے شعبوں میں بھی اصلاحات متعارف کرائیں۔ ملکی و غیر ملکی باشندوں کو سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی۔ کاروبار کرنا آسان بنایا اور معیشت پر عائد بے جا سرکاری پابندیاں ختم کر دیں۔ قیمتوں پر کنٹرول بھی کم کر دیا تاکہ مارکیٹ میں ہر شے کی قیمت رسد و طلب کے حساب سے خود بخود طے ہو سکے۔(تاہم ذخیرہ اندوزی کا سختی سے سدباب کیا گیا)۔

نئے ماڈل کی تشکیل

چینی نئے معاشی ماڈل کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس پر نیچے سے اوپر کی جانب عمل درآمد ہوا۔ یعنی پہلے یونین کونسلوں کی سطح پر اسے عمل میں لایا گیا۔اس طرح حکومت عوام سے فیڈ بیک لے کر معاشی نظام میں تبدیلیاں لاتی رہی۔ اس عملی نمونے سے افسر شاہی سے لے کمیونسٹ پارٹی تک میں جو خرابیاں درآئی تھیں‘ انہیں دور کرنے میں مدد ملی۔چین کا یہ معاشی ماڈل عیاں کرتا ہے کہ پہلے نئی حکومت نے ترقی و خوشحالی کی راہ میں حائل سرکاری پابندیاں ہٹا لیں اور معیشت کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا۔ معیشت آزاد کرنے کے بعد پھر گڈ گورننس (یا اچھا انتظام ) قائم کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ گویا نئے چینی معاشی ماڈل میں گڈ گورننس کے باعث مملکت میں ترقی وخوشحالی نے جنم نہیں لیا۔ بلکہ پہلے معیشت کو آزادی دی گئی‘ اسے مارکیٹ کی قوتوں کے مطابق چلنے دیا۔ پھر اس کو اصول و قانون کے دائرہ کار میں لانے کی سعی ہونے لگی تاکہ ترقی و خوشحالی مربوط طریقے سے انجام پا سکے۔ یہ چینی معاشی ماڈل کی نمایاں خصوصیت ہے۔

چین میں غربت ختم کرنے والا یہ معاشی ماڈل اسی لیے بھی کامیاب ہوا کہ وہاں یک جماعتی طرز حکومت رائج ہے۔ یہ سیاسی نظام بھی خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ خصوصاً ایک ترقی پذیر مملکت میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی کثرت سے اقتدار پانے کی خاطر آپس میں جو کھینچا تانی ہوئی ہے‘ وہ یک جماعتی طرز حکومت میں عنقا دکھائی دیتی ہے۔ اس کھینچا تانی کے باعث عموماً برسراقتدار سیاسی پارٹی کی بیشتر توانائی اپنی حکومت بچانے پر مرکوز رہتی ہے اور وہ خصوصاً معیشت سدھارنے کے لیے طویل المعیاد پالیسیاں اور منصوبے نہیں بنا پاتی۔ اسی اعجوبے کی ایک مثال ہمارا ملک پاکستان بھی ہے۔

مملکت میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہو‘ تو اس کے قائدین نہ صرف پوری توجہ سے معاشی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں بلکہ ان پر عمل بھی ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے‘ ڈینگ زیاؤپنگ کی حکومت نے نیا معاشی ماڈل بناتے وقت جو قومی پالیسیاں وضع کیں‘ ان پر کم و بیش آ ج بھی اسی طرح عمل ہو رہاہے۔ ڈینگ زیاؤ پنگ کے بعد چین میں صرف تین حکمران(جیانگ زیمن‘ ہوجنتاؤ اور شی جن پنگ) برسراقتدار آئے۔ ان تینوں نے نہ صرف نئے معاشی ماڈل کی پالیسیاں برقرار رکھیں بلکہ انہیں بہتر بھی بنایا۔ یہی وجہ ہے‘ چین میں معاشی ترقی و خوشحالی کا سفر آب و تاب سے جاری رہا۔

ایک انوکھا عمل

اصلاحات انجام دیتے ہوئے چینی حکومت نے ایک انوکھا عمل بھی متعارف کرایا۔ اس نمونے کے تحت نچلی سطح پر جب بھی کوئی ذہین‘ با صلاحیت اور ہوشیار نوجوان دکھائی دیتا‘ تو اس کی خصوصی تربیت ہونے لگی۔ ایسے نوجوانوں کو مختلف سرکاری محکموں میں عہدے دیئے جاتے اور کمیونسٹ پارٹی کے متفرق شعبوں میں بھی کام کرایا جاتا۔مقصود یہ تھا کہ نوجوان ہر قسم کے انتظامی کام انجام دینے میں طاق ہو جائیں۔

اس عمل کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چالیس برس کے دوران چین کی افسر شاہی (بیورو کریسی) اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدوں پر باصلاحیت‘ تجربے کار اور اہل افسر تعینات ہو چکے۔ یہ ان تمام انتظامی و سیاسی خوبیوں سے لیس ہیں جو ایک قوم کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن رکھتی ہیں۔ چین کے موجودہ صدر‘ شی جن پنگ بھی اسی انوکھے عمل کی پیداوار ہیں۔ چینی حکومت نے ان کی مخفی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو ابھارا ‘ انہیں نظام چلانے کی خصوصی تربیت دی اور شی جن پنگ مختلف عہدوں پر کام کرتے اور تجربہ پاتے آخر صدر بن گئے۔

ڈینگ زیاؤ پینگ نے مختلف صوبوں میں ’’اسپیشل اکنامک زون‘‘ بنائے جہاں سرمایہ کار افسر شاہی کے سرخ فیتے اور ناروا قانونی پابندیوں سے آزاد ہوکر کاروبار کرسکتے تھے۔ ان علاقوں میں تیزی سے نئے کارخانے کھلے اور کمپنیاں وجود میں آئیں۔ یہ علاقے معاشی ترقی کا انجن بن گئے۔رفتہ رفتہ سرکاری کمپنیاں نجی سرمایہ کاروں کو فروخت کی جانے لگیں۔ حکومت نے تحصیل کی سطح تک حکومتی نمائندوں اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مقامی طور پر تجربات کرسکتے ہیں۔ ملک میں نئی سٹاک مارکیٹیں کھولی گئیں۔ آنے والے برسوں میں ٹیرف کم کیے گئے۔ صنعت و تجارت پر عائد کئی پابندیاں ختم کی گئیں۔ کاروبار کرنا آسان بنانے کی خاطر نئے قوانین تشکیل پائے۔ اصلاحات کے عمل کی وجہ سے مسائل بھی سامنے آئے مگر وہ حکمرانوں کی مستقل مزاجی اور خاتمہ غربت کی نیک نیتی کے باعث آہستہ آہستہ حل ہوتے چلے گئے۔

غربت کے خلاف آخری محاذ

2005ء میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر چین ایشیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔ آج وہ امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ 1950ء میں ایک چینی شہری کی فی کس آمدن چھ سو چودہ ڈالر تھی۔ آج وہ سولہ ہزار ڈالر سے زائد ہوچکی۔2015ء میں موجود چینی صدر، شی پنگ نے اعلان کیا کہ 2020ء تک چین میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2021ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھے ایک سو سال پورے ہوجائیں گے۔ اس صدسالہ سالگرہ کے موقع پر کمیونسٹ لیڈر فخروانبساط سے یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مملکت سے غربت کا خاتمہ کردیا۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی جولائی 1921ء میں دو ماہرین تعلیم اور دانش وروں، چن ڈوشیو (Chen Duxiu) اور لی زراؤ( Li Dazhao) نے قائم کی تھی۔ یہ دونوں رہنما اپنے ساتھیوں کی معیت میں چینی عوام کو شاہی حکومت اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والی مراعات یافتہ اشرافیہ سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ چناں چہ غریب عوام کی حالت بہتر بنانا چینی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے پہلا نصب العین قرار پایا۔ اسی لیے موجودہ چینی حکومت بھر پور کوشش کررہی ہے کہ وہ 2020ء تک مملکت سے غربت ختم کردے تاکہ اندرون و بیرون ملک لوگوں کی نظروں میں سرخرو ہوسکے۔

اعدادو شمار کے مطابق اب بھی چین میں تین کروڑ شہری غربت کی گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاہم ان چینیوں کا معیار زندگی بلند کرنا غربت کے خلاف جنگ میں سب سے مشکل اور دشوار گزار محاذ ہے۔ وجہ یہ کہ ان چینیوں کی اکثریت ذہنی یا جسمانی طور پر معذور، بیمار یا بڑھاپے میں مبتلا ہے۔ یہ چینی ملازمت کرکے خود کما نہیں سکتے لہٰذا ان کی دیکھ بھال حکومت کو کرنا ہوگی۔

غربت کے خلاف جنگ کے اس آخری مگر کٹھن مرحلے میں چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک خصوصی رجسٹر میں تمام غریبوں کا اندراج کیا جائے۔ پھر حکومت ہر غریب کے مسائل انفرادی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ گویا صدیوں قبل آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ میں جس سماجی اور غریب دوست حکومتی نظام کی بنیاد رکھی تھی، چین میں حکومت اسی پر عمل پیرا ہے۔ چینی حکومت کو امید ہے کہ حکومتی مدد سے ہر غریب اپنی غربت سے نجات پالے گا۔

2015ء سے چین کی سالانہ شرح معاشی ترقی کم ہوچکی۔ وہ پھر مختلف معاشی مسائل میں گھر گیا ۔ امریکی صدر ٹرمپ برسراقتدار آیا، تو اس نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ ان مصائب کے باوجود چینی حکومت کی مدد و کوشش سے ہر سال ایک کروڑ چینی غربت کے چنگل سے نکل رہے ہیں جو امید افزا اور خوش کن تبدیلی ہے۔یہ پیش رفت دیکھتے ہوئے یقینی ہے کہ چینی حکومت 2020ء تک اپنے دیس سے غربت کا عفریت ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

انسانی تاریخ کے منفرد لیڈر، نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا ’’کوئی انسان خود بخود غربت میں مبتلا نہیں ہوتا ،اسے بھی دوسرے لوگ غلامی اور اپارتھیڈ کی طرح انسانوں پر مسلط کرتے ہیں۔ انسان دوست لوگوں کے عمل غریبوں کو غربت کی قید سے رہائی دلاسکتے ہیں۔‘‘ پچھلے چالیس برس میں چین کے حکمران طبقے نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ انسان دوست ہے۔ اسی لیے چینی حکمرانوں نے عوام کی بھلائی و ترقی کے لیے پالیسیاں بنائیں اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ حقیقی حکمرانی وہی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرے۔ حکمرانی کا جو بھی ماڈل یہ نصب العین حاصل نہ کرپائے ،وہ ناکام تصور ہوگا۔

The post انسانی تاریخ میں پہلی بار 80 کروڑ انسان غربت کے چنگل سے آزاد appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا کا ڈکٹیٹر صدر اور سی این این

$
0
0

یہ نیوز کانفرنس پورے امریکا اور کیوبا میں براہِ راست دیکھی جارہی تھی۔ دونوں ممالک کے سربراہان صحافیوں کے سوالات کا جواب مسکراہٹ سے دے رہے تھے۔ مائیک سی این این کے رپورٹر کی گرفت میں آیا اور ایک انتہائی حساس معاملے پر چبھتا ہوا سوال ہال میں گونجا، جس پر گردنیں گھومیں اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ رپورٹر نے کیوبا کے صدر راوول کاسترو سے سوال کیا کہ ’’کیوبا میں سیاسی قیدیوں کی وجہ کیا ہے اور آپ ان کو رہا کیوں نہیں کرتے؟‘‘

یہ مارچ 2016کی ایک دوپہر تھی۔ امریکی صدر باراک اوباما کیوبا کے تاریخی دورے کے بعد ہوانا میں کاسترو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا کے اس سوال پر ہال میںسناٹا چھا گیا کیوں کہ 1950کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کسی غیرملکی رپورٹر نے کیوبا کی لیڈر شپ کو براہ راست مخاطب کیا تھا۔ کاسترو لمحے بھر کوجم اکوسٹا کے سوال پر چونکے، پہلو بدلا اور جواب دیا،’’مجھے ان تمام سیاسی قیدیوں کے ناموں کی فہرست لا دیجیے میں انہیں فوراً رہا کر دوں گا۔‘‘ کیوبا کی حکومت آزادیٔ صحافت کے لیے ہمیشہ ہی سے آزار بنی رہی اور زباں بندی کے سارے گر آزماتی رہی ہے۔ اس کے باوجود کسی نے اکو سٹا کے تند سوال پر ان کے ہاتھ سے مائیک چھینا، نہ ان کو باہر کا راستہ دکھا یا اور نہ کاغذات ضبط کیے۔

دو سال بعد اپنی ہی سرزمین امریکا میں جہاں آزادی صحافت اور احترامِ آدمیت کا ڈھول بری طرح پیٹا جاتا ہے جم اکوسٹا ایک سوال پر وائٹ ہاؤس کی چار دیواری میں توہین آمیز سلوک کے حق دار قرار دے دیے گئے، ایسا سلوک ان کے ساتھ کسی غیرملک میں بھی نہ ہوا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ مڈ ٹرم انتخابات کے بعد ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ پریس کے نمائندوں میں سی این این کے رپورٹر جم اکوسٹا بھی شامل تھے۔ جم اکوسٹا وائٹ ہاؤس میں سی این این کے نمائندہ صحافی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ امریکا کی سرحد پر موجود مہاجر قافلوں کو آپ ’’حملہ‘‘ کیوں قرار دیتے ہیں؟ ٹرمپ نے اس سوال پر انہیں جھاڑ دیا اور چلاتے ہوئے کہا ’’ملک مجھے چلانے دو، تم بس سی این این چلاؤ، اگر تم درست سمت میں سی این این چلاتے تو آج اس کی ریٹنگ بہتر ہوتی۔‘‘ ٹرمپ اتنا کہہ کر بھی چپ نہ ہوئے اور غصے میں آپے سے باہر ہوگئے، مزید دھتکارتے ہوئے کہا کہ ’’ تم ایک بدتمیز اور خطرناک آدمی ہو۔‘‘

جم اکوسٹا نے نہایت تحمل سے یہ ٹرمپی جھاڑ سنی اور نتائج کی پروا کیے بنا روس کی تحقیقات کے حوالے سے اگلا سوال داغ دیا۔ اب توٹرمپ پھٹ ہی پڑے اور کہا ’’بس حد ہوگئی، بہت ہو گیا ، مائیک رکھو۔‘‘

اس کے بعد کوسٹا سے مائیک چھین لیا گیا، پھر ان کا پریس کارڈ بھی ضبط کرلیا گیا جو بعد میں اگرچہ سی این این نے عدالت سے رجوع کر کے بحال کروالیا، لیکن یہ پورا واقعہ امریکا میں آزادی صحافت کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوا اور اس سے امریکی جمہوریت کی چولیں ہِل کر رہ گئیں۔ جم اکوسٹا جو واشنگٹن میں پلے بڑھے، جیمز میڈسن یونی ورسٹی سے گریجویٹ کرنے کے بعد مختلف اداروں میں کام کرتے کرتے 2007 میں سی این این کا حصہ بن گئے۔ وہ گذشتہ تین سال سے پریس میں ایک ہائی پروفائل ممبر کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کا باقاعدگی سے وائٹ ہاؤس آنا جانا ہے۔ اس دوران وہ متعدد بار ٹرمپ کی سی این این سے نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ جم اکوسٹا کا رپورٹنگ اسٹائل ABCکے رپورٹر ڈونلڈ سن سے مشابہہ ہے جو رونالڈ ریگن کے دور میں وائٹ ہاؤس میں اے بی سی کا نمائندہ رہا تھا۔ اس نے وائٹ ہاؤس سے وابستہ اپنے سولہ سالوں پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان Hold on , Mr . President تھا۔ اس میں اس نے بتایا کہ وہ امریکی صدر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا تھا، کیوں کہ چبھتے ہوئے سوالات کی وجہ سے اسے سوال کرنے کا بہت کم موقع دیا جاتا تھا۔ وہ بہت فاصلے پر موجود امریکی صدر سے بھی چیخ چیخ کر سوال کرلیتا، جس کے لیے اسے کسی مائیک کی ضرورت نہ تھی۔

موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے تو عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی سے میڈیا سے بیر باندھ لیا تھا۔ پچھلے سال انہوں نے کہا کہ ’’ایک فیک نیوز ٹرافی کا آغاز ہونا چاہیے جو تمام کرپٹ ٹیلی وژن چینلز کو ملنی چاہیے جو امریکی عوام کے پسندیدہ صدر (ان کا اشارہ اپنی طرف تھا) کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ اس بار انہوں نے خاص طور پر سی این این کا نام لیا۔ سی این این اور ٹرمپ کی جنگ اس وقت زیادہ بڑھی جب ٹرمپ نے نومبر2017 میں ایک ٹوئیٹ میں لکھا ’’سی این این جعلی خبروں کا بڑا مرکز ہے۔ یہ دنیا میں ہماری قوم کی بری طرح نمائندگی کرتے ہیں، باہر کی دنیا کو ان کی خبروں میں سچائی نہیں ملتی۔‘‘ اس کے جواب میں سی این این کی طرف سے ٹوئیٹ آیا کہ ’’امریکا کی دنیا میں نمائندگی کا کام سی این این کا نہیں، یہ آپ کا ہے۔ ہمارا کام صرف خبروں کی رپورٹنگ ہے۔”

اس جنگ کا آغاز تو ٹرمپ کی فتح کے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، جب سی این این کے صدر جیف زکر نے صدارت کی افتتاحی تقریب سے پہلے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’سی این این واحد چینل ہے جو بیجنگ، ماسکو، سیؤل، ٹوکیو، پیانگ یانگ، بغداد، تہران اور دمشق میں دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کا نقطۂ نظر دنیا تک پہنچانے کا ایک یہی واحد ذریعہ ہے۔ لہٰذا سی این این کے ساتھ حکومت کا متضاد رویہ ایک بڑی غلطی ہوگا۔‘‘

دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ سی این این سے بہتر برتاؤ ٹرمپ کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بیان دراصل سی این این اور ٹرمپ کی جنگ کی ابتدا تھا۔ ٹرمپ نے سی این این کو صرف متضاد رویوں کے ہی قابل گردانا اور ساتھ ساتھ شکوہ کناں بھی رہے کہ باہر کی دنیا میں ان کو صرف بدنام کیا جارہا ہے۔

جنوری 2017 میں ٹرمپ کی صدارتی افتتاحیہ تقریب سے ٹھیک ایک دن قبل جم اکوسٹا نے ٹرمپ اور روس کے تعلقات کے حوالے سے سوال کیا تو ٹرمپ نے انہیں بری طرح جھڑک دیا اور کہا ’’تم نہیں بلکہ تمہارا ادارہ خطرناک ہے۔‘‘ اس پر اکوسٹا نے کہا ’’آپ ہم پر مسلسل حملے کررہے ہیں، کیا سوال کا حق بھی دیا؟ ہمارے ادارے پر حملے کر رہے ہیں کیا ہمیں کوئی موقع بھی دیا گیا؟‘ اس پر ٹرمپ نے چلاتے ہوئے کہا ’’میں تمہیں سوال کا موقع نہیں دوں گا، تم لوگ جعلی خبریں پھیلاتے ہو۔‘‘

2017 میں ہی ورجینیا میں نیو نازی او ر سفید فاموں کی ایک ریلیUnite the Right نکالی گئی، جس میں مظاہرین کا نعرہ تھا ’’یہودی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔ اس ریلی کی مخالفت میں بھی ایک ریلی نکل رہی تھی، جس پر گاڑی چڑھ دوڑی اور کئی لوگ زخمی اور ایک عورت جاں بحق ہوگئی۔ ٹرمپ نے اس واقعے پر صحافیوں سے کہا ’’دونوں طرف کچھ برے لوگ بھی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ دونوں طرف اچھے لوگ بھی موجود تھے۔‘‘ جم اکوسٹا نے جھٹ جواب دیا ’’سر! نازیوں میں قطعاً اچھے لوگ نہیں تھے۔‘‘ اس جواب پر ٹرمپ اکوسٹا کا منہہ تکتے رہ گئے۔ رواں سال جون میں نارتھ کوریا کے لیڈر کم جونگ اور ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ٹرمپ پریس کے سوالات کا جواب دے رہے تھے کہ اکوسٹا نے اپنے فطری اسٹائل میں ہی کچھ حساس سوالات کرڈالے۔ یہ سوالات ٹرمپ انتظامیہ کو بہت ناگوار گزرے اور 2020کی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کے معین کردہ کیمپین مینیجر بریڈ پارسکل نے کہا ’’اس رپورٹر کے پریس کاغذات فوری طور پر ضبط کر لینے چاہییں۔‘‘ اس دھمکی کا جواب جم اکوسٹا نے ٹوئیٹر کے ذریعے دیتے ہوئے کہا ’’ڈیئر بریڈ! پریس کارڈ ڈکٹیٹر شپ ضبط کرتی ہے، جمہوریت نہیں۔”اور آج چار ماہ بعد امریکا میں ایک سوال کی پاداش میں جم اکوسٹا کے پریس کارڈ کی منسوخی کا معاملہ سوال کر رہا ہے کہ کیا امریکا میں واقعی ڈکٹیٹر شپ آچکی ہے؟

انسٹاگرام کی دنیا میں متحرک سیاسی کھلاڑی

کہتے ہیں ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انسٹاگرام کو ابلاغ کے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں اب سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے کم و بیش ایک سو چالیس سیاست دان اپنے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر متحرک ہیں۔ صرف سیاست داں ہی نہیں، بے شمار خِطّوں میں حکومتی سطح پر بھی انسٹا کا استعمال بہ خوبی کیا جارہا ہے۔ انسٹا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیو کے ذریعے عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کا کام زورشور سے جاری ہے۔ گذشتہ پانچ سال میں یورپ ، مشرقِ وسطی ، لاطینی امریکا اور کئی ایشیائی ممالک میں انسٹا کا سیاسی مصرف پہلے سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔

انسٹا گرام پر سیاسی کھلاڑیوں کی مضبوط گرفت کی وجہ اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے صارفین ہیں، جن کی تعداد چھے سو ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کی تصویری اہمیت اور مقبولیت کے سبب سیاست داں انسٹا کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس حقیقت سے کس کو مفر ہے کہ سیاست دانوں کا اپنے حامیوں اور مداحوں سے براہ راست رابطہ نئے دور کی اہم ضرورت بن چکا ہے، اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہ شاطر کھلاڑی اپنا قیمتی وقت خوشی خوشی انسٹا کے حوالے کر رہے ہیں۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے فالوورز اگرچہ دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں کم ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس وقت انسٹا کی دل چسپ ترین اور مشہور شخصیات میں شامل کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے انسٹا پر ایک نیا ٹرینڈ جاری کیا۔ ایسے وقت میں جب دیگر سیاست داں اپنے نظریے اور سیاسی مصروفیات کو انسٹا پر ڈسکس کر رہے تھے، نجیب اپنی انتہائی نجی زندگی کو اس پلیٹ فارم پر لے آئے۔ وہ نصف ملین سے کچھ زائد فالوورز کو اپنی زندگی کے ان گوشوں میں لے گئے ہیں جو روایتی میڈیا پر کسی خبر کا حصہ نہیں بنتے۔ ن

جیب کے اس ٹرینڈ کی مقبولیت کے بعد ملائیشیا کے دیگر سیاست داں جیسے صدیقی، نورالاضحیٰ، ہنایوہ اور خیری جمال الدین نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انسٹا پر ذاتی پوسٹ آویزاں کرنی شروع کردیں، لیکن جو شہرت نجیب کے حصے میں ہے وہ اب تک کسی اور کے پاس نہیں۔نجیب کے انسٹا پروفائل سے لوگوں کی دل چسپی کی ایک بڑی وجہ ان کے سیاسی کیریئر میں اب تک آنے والا اتار چڑھائو بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی حکومتی منصب پر براجمان نہ ہوکر بھی نظرانداز نہیں کیے جارہے۔ انسٹا پر ملائیشیا کی سیاست کا ہر مسئلہ گھوم پھر کر نجیب کی محفل میں آجاتا ہے، جہاں وہ اپنے فالوورز کے ساتھ اس پر تفصیلی بحث کرتے ہیں اور ہر ایک کی بات کا جواب دیتے ہیں۔

انہوں نے انسٹا پر تصاویر اور اسنیپ شاٹس کے ذریعے مباحثے کا ایک دَر وا کردیا ہے، جہاں شرکت کا اذنِ عام ہے۔ نجیب کے انسٹا اکائونٹ کے ابتدائی دنوں میں پوسٹ ہونے والی تصاویر زیادہ تر سیاسی معاملات کے متعلق تھیں، کیوں کہ ان دنوں وہ وزارتِ عظمی کی ذمہ داریوں تلے دبے ہوئے تھے، لیکن بتدریج انہوں نے اس میں تبدیلی لاتے ہوئے نجی باتیں بھی شیئر کرنا شروع کردیں۔ سیاسی زندگی کے اختتام کے بعد تو انہوں نے اپنے فالوورز کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی کا تصویری البم جاری کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ حربہ کام یاب رہا اور آج مہاتیر سے زیادہ بحث نجیب کی انسٹائی پوسٹوں پر ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ اپنی دوسری بیوی روزماہ (جن کو ایشیا کی دوسری خوب صورت ترین خاتونِ اول کا خطاب بھی دیا گیا تھا) کے حالیہ رشوت اسکینڈل کے دوران بھی وہ انسٹا سے فرار نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کے سامنے کھڑے رہے۔

مئی 2018کے عام انتخابات جیسے نازک دور سے گزرتے ہوئے بھی انہوں نے انسٹا پر اپنا یہی ٹرینڈ جاری رکھا اور اپنی منفرد شخصیت اور نجی زندگی کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ اسی دوران نجیب کے انسٹا پر ان کے ساتھ ساتھ ان کی پالتو بلی ’’ککی‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ نجیب کی ککی سے انتہائی محبت ان کی انسٹا کی پوسٹوں سے جھلکتی رہی۔ لوگوں نے نجیب کی اپنی پالتو بلی سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا کہ ان کے انسٹا اکائونٹ پر اتنی تصاویر تو بیگم روزماہ کی بھی نہیں جتنی ککی کی ہیں۔ نجیب انسٹا پر باقاعدگی سے ککی کے سارے انداز اور شوخیوں اور اس کی اچھل کود کی ویڈیوز ور تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ پچھلے سال تک ککی کا ایک الگ انسٹا گرام اکائونٹ بھی موجود تھا، جو اب بند کردیا گیا ہے۔

ہر سیاست داں کی طرح نجیب کے بھی اگر مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے تو ان کے مخالفین اور ناقدین بھی کم نہیں، جو ان کی انسٹائی پوسٹوں پر اشتعال اور نفرت آمیز رویے کے ساتھ دھاوا بول دیتے ہیں۔ انہوں نے ککی کے الگ انسٹاگرام اکائونٹ پر بھی اس قدر نازیبا باتیں کیں کہ بالآخر اس کا اکائونٹ بند کرنا پڑا۔ نجیب اپنی پوسٹوں پر مخالفین کی اشتعال انگیز باتوں پر بھی تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اور نہ ہی دل برداشتہ ہوکر سوشل میڈیا کا میدان چھوڑتے ہیں۔ یوں انسٹا پر صرف ان کے مداح اور حامی ہی نہیں بلکہ ان کے مخالفین بھی منتظر ہوتے ہیں کہ کب نجیب کی کوئی پوسٹ آئے اور اس پر انہیں بحث یا تنقید کا موقع ملے ۔ غرض نجیب نے انسٹا پر اپنی ایک الگ دنیا بسالی ہے، جس میں وہ بہت مطمئن اور خوش ہیں۔ کبھی اپنے بیٹے کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے، کبھی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے، تو کبھی اپنی ماں کی دعائیں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس دن پولیس نے ان کے گھر چھاپا مار ا اس دن بھی انہوں نے اپنی ماں کے ہاتھ چومتی ہوئی تصویر لگا کر کیپشن لکھا کہ ”مجھے مشکلات میں اپنی ماں سے حوصلہ ملتا ہے۔”

یہ سچ ہے کہ انسٹاگرام کا بہترین اور موثر استعمال کرکے جو سیاست داں رائے عامہ پر اثرانداز ہورہے ہیں ، ان میں نجیب رزاق سرفہرست ہیں۔ نجیب کے ساتھ انسٹا کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والے سیاست دانوں میں نریندر مودی، ڈونلڈ ٹرمپ ، باراک اوباما، بشارالاسد سمیت دیگر بے شمار نام موجود ہیں۔ نجیب کی طرح بشارالاسد نے بھی ایک اسکول میں بچوں کے ساتھ سیلفی لی اور پھر اسے انسٹا پر شیئر کیا۔ اسی طرح چیچنیا کے صدر رمضان کیدرو معائنے کے لیے جب دندان ساز کے پاس گئے تو انہوں نے اس نجی دورے کی تصاویر انسٹا پر اپ لوڈ کر دیں، جنہیں لوگوں نے کافی دل چسپی سے دیکھا۔ ٹرمپ کے اکائونٹ پر ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی جس میں ان کی بیٹی ایوانکا اپنے بیٹے تھیوڈور کے ساتھ وائٹ ہائوس میں کھیل رہی تھی، یہ ویڈیو تقریباً دو ملین انسٹا صارفین نے دیکھی۔ اسی طرح فرانس کے صدر ایمیل میکرون کا کتا ’’نیمو‘‘ بھی ککی کی طرح انسٹا پر ایک سیلیبریٹی بن چکا ہے۔

سماجی میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست دانوں نے اپنے اپنے تیر درست نشانے پر مارے ہیں۔ انسٹا جیسا ایک انتہائی ذاتی پلیٹ فارم جہاں صرف تصویریں بولتی ہیں، وہاں سیاست داں بنا تقریر جھاڑے اور گلا سکھائے لوگوں میں زندہ رہنے کا گُر سیکھ گئے ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ دنیا بھر کے ان معصوم لوگوں کو بھی ہوا ہے جو سیاست دانوں کی تقاریر اور رٹی رٹائی باتوں سے اب بے زار ہو چکے تھے۔ وقت تیزی سے رنگ بدل رہا ہے۔ اب عوام کے خون پسینے کی کمائی سیاسی جلسوں میں ضایع کیے بغیر عوام کے دلوں میں اترا جا سکتا ہے، جس کے لیے بس ایک ٹوئٹر، فیس بک یا انسٹا اکائونٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح صرف سیاسی نظریات ہی نہیں بلکہ قوم اپنے راہ نماؤں کا لائف اسٹائل بھی دیکھ لیتی ہے۔

The post امریکا کا ڈکٹیٹر صدر اور سی این این appeared first on ایکسپریس اردو.

قدیم ہوتانگ طرزِ معاشرت میں پورا محلہ ایک خاندان بن جاتا ہے

$
0
0

 (قسط نمبر سات )

آپ مخصوص عرصہ کے لیے دیارِ غیر میں ہوں توکوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تر وقت گھومنے پھرنے میں گُزرے۔ ہمارے معاملے میں یہ سرگرمی اپنی انتہا پر تھی۔ یہی تحرک بارہا بیجنگ کے قدیم محلوں کی کوچہ نوردی کا باعث ٹھہرا۔ وطن سے دور اپنے ہم وطنوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور اکثر دیار غیر میں ملنے والے ہم وطنوں سے جلد  بے تکلفی ہو جاتی ہے۔

ایسے ہی ایک پاکستانی محمد فرقان علی ہیں۔ تعلق ان کا کراچی سے ہے اور پیشہ تدریس۔ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے یہ معلم بیجنگ کی ایک جامعہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور اپنے اہل  خانہ کے ہمراہ چین میں مقیم ہیں۔ لکھنوی انداز میں انتہائی شستہ اُردو میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا یہی انداز تکلم ہمیں ان کے قریب لے آیا۔ اکثر شہر نوردی میں اُن کی صحبت ہمیں میسر رہتی۔

ایک دن طے پایا کہ چھٹی کے روز بیجنگ کے شہر ممنوع کے قریب واقع  بے ہائے پارک میں ( جہاں اتفاق سے ہم دونوں میں سے پہلے کوئی نہیں گیا تھا) وقت گزارا جائے اور ساتھ ہی بیجنگ کا قدیم علاقہ ہوتانگ (Hutong) بھی دیکھیں۔ ہوتانگ ایک قدیم طرزتعمیر ہے جہاں لوگ ایک مشترکہ کمیونٹی کی صورت میں رہتے تھے۔ سو ایک اتوار ہم دونوں اس پارک میں اکٹھے ہوئے ۔( واضح رہے کہ یہ صرف نام کی حد تک پارک ہے۔ اس کا پارک کے پاکستانی تصور سے کوئی واسطہ نہیں ہے)۔ چینی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو وہاں موجود تھی۔

پارک میں موجود جھیل کے ساتھ ساتھ ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور بارز کی ایک طویل قطار ہے۔ وہیں ہمیں پہلی مرتبہ تین پہیوں والا سائیکل رکشا بھی نظر آیا۔ بڑی تعداد میں غیر ملکی ان سائیکل رکشاؤں میں بیٹھے نظر آئے۔ بارز پر لوگوں کا ہجوم تھا، جہاں کھانے پینے کے ساتھ موسیقی کا انتظام بھی لازم تھا۔ ہر بار میں یا تو سنگر گا رہا تھا یا پھر مختلف آلاتِ موسیقی سے فضا میں سر بکھیرے جار ہے تھے۔ جس کو جو گلوگار، گلوکارہ یا سازینہ اپنی طرف کھینچتا وہ اُس بار کا رخ کر لیتا۔ بارز کی قطار کے ساتھ ساتھ مزید آگے بڑھے تو سامنے نہر کا پُل تھا جولوگوں سے بھراہوا تھا۔ نوجوان چینی لڑکے اور لڑکیا ں خوش گپیاں کرتے ، اسنیکس کھاتے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔انہیں کھاتے دیکھ کر ہمیں بھی بھوک کا احساس ہونے لگا۔ ہم دونوں کی نگاہیں حلال فوڈ کی متلاشی تھیں۔

ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ لذت کام ودہن کے لیے کہاں کا رخ کیا جائے کہ اچانک موسیقی کی مانوس سی آواز کانوں میں پڑی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا گویا کہ تصدیق کر رہے ہو ں کہ واقعی یہ وہی آواز تھی جو ہمارے کانوں نے سنی یا ہمارا کوئی وہم تھا۔ اب موسیقی کی وہ آواز مسلسل آنے لگی اور ہم دونوں نے اپنے کان اس پر دھر لیے یہ آواز پڑوسی ملک کے ایک مشہور گانے کی تھی۔

یہاں ایک بھارتی نغمہ حیرت کی بات تھی۔ تھوڑا آگے بڑھے تو سامنے کی طرف ایک جوس والے کی دکان اور ساتھ ہی کھانے پینے کاایک اسٹال نظر آیا۔ بائیں جانب کھلونوں کی دکان اور کچھ آرائشی اشیاء کی دکانیں تھیں۔ مگر ہمیں کہیں بھی پڑوسی ملک  کے کلچر کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ آخر فرقان علی کی چینی دانی کام آئی اورانہوں نے وہاں موجود دکان داروں سے پوچھا کہ یہ موسیقی کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟ بتایا گیا ’’جہاں آپ کھڑے ہیں وہاں سے چند قدم آگے جائیں اور دائیں ہاتھ کی گلی میں مڑجائیں آپ کو منزل مل جائے گی‘‘۔

سو ہم چل دیے اور دائیں ہاتھ مڑتے ہی پڑوسی ملک کے ایک ریسٹورنٹ کو پا لیا۔ اندر داخل ہوئے تو چینی عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم پریشان ہوگئے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ خیر تھوڑی ہی دیر بعد ہوٹل کے انڈین مینیجر بھی آگئے تو ہمیں تسلی ہوئی۔ خیر ان سے اردو میں حال احوال کیا۔ محمد فرقان علی بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے والدین نے یوپی سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ہمیں بہت تسلی ہوئی کہ چلیں اب کھانے کی فکر ختم ۔ وہاں تمام تر کھانے دستیاب تھے مگر ہم دونوں نے گوشت کھانے سے احتراز برتا حالانکہ ہوٹل کے مینیجر ہمیں ہوٹل کے کچن میں لے گئے اور وہاں کام کرنے والے ایک مسلمان سے بھی ملوایا تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہ گوشت حلال ہے اور اسے ایک مسلمان باورچی نے بنایا ہے۔مگر ہم نے ان سے ادب سے معذرت کرلی۔

ہم نے وہاں دال کھائی اورخوب کھائی اس کے ساتھ ساتھ سبزی اور روایتی چٹنی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ سب سے زیادہ مزہ ہمیں وہاں پاکستانی طرز کی بنی ہوئی روٹی کھا کر آیا۔ کھانے کے بعد سونف والی چائے نے بہت لطف دیا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری اب تک کی اس علاقے کی دریافت یہ انڈین ہوٹل ہے۔ بعد میں بیجنگ میں قیام کے دوران بارہا اس ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔

ہم ہوٹل سے نکلے اور اس کے سامنے والی گلی میں چلنا شروع ہو گئے۔ وہاں پرانواع و اقسام کی دکانیں تھیں۔ہم دکانوں کو دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے آواز آئی شیاو فو(Xiao Fu) اور یہ آواز قدرے بلند تھی ایسے جیسے کسی کو کوئی ہجوم میں پکارے۔ دوبارہ یہی آواز آئی تو محمد فرقان علی ذرا چونکے۔ تیسری بار پھر یہی پکارا گیا تو انہوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو دور سے ایک چینی لڑکی ہاتھ ہلاتی نظر آئی ۔

پہلے پہل تو محمد فرقان علی ذرا شرمائے کیونکہ ایک تو میں ان کے ساتھ تھا۔ دوسرا حضرت باریش تھے پابندِ صوم وصلاۃ اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یوں بھرے بازار میں ایک نوجوان محترمہ انہیں بڑے اعتماد سے بلار ہی تھیں۔ جب انہوں نے اپنی ابتدائی گھبراہٹ پر قابو پالیا تو وہ مسکرا دیے اور بڑے اعتماد کے ساتھ خاتون کی جانب بڑھے اور اس خاتون کا تعارف کروایا کہ یہ محترمہ ان ہی کی جامعہ میں پڑھتی ہیں اس لیے انہوں نے طالب علمانہ بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے انہیں مخاطب کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں مفت میں ایک ٹورسٹ گائیڈ مل گیا ہے اس لیے اب ہم تسلی سے اس علاقے کو دیکھیں گے۔

محترمہ کا نام کانگ دی یوئے جیا (Kong De Yue Jia) تھاانہیں چینی روایات اور کلچر سے بہت دلچسپی تھی ۔ تعلق ان کا  چین کے صوبے ینان (Yunnan) کے شہر کنمنگ (Kunming)سے تھا۔

چینی تو خیر انہیں آتی ہی تھی اس کے ساتھ ساتھ انہیں انگلش، فرنچ اور جاپانی زبانیں بھی آتی تھیں۔انگلش میں مہارت کا سن کر ہمیں خوشی ہوئی کہ چلو سوالات پوچھنے میں آسانی رہے گی۔ اب ہمارا علاقے کو کھوجنے کا سفر ان کی رہنمائی میں شروع ہوا۔ پہلا سوال ان سے علاقے کے متعلق پوچھا کیونکہ ہم دونوں تو صرف پارک کا سن کر ادھر آگئے تھے۔جیا(Jia) نے بتایا کہ یہ بیجنگ کا ایک قدیم علاقہ ہے اور اس کو ہوتانگ (Hutong) کہتے ہیں۔

بیجنگ میں کئی مقامات پر یہ ہوتانگز ہیں۔ جس جگہ ہم موجود ہیں اس کانام نان لوگو شیانگ (Nanluogo Xiang) ہے۔یہ قدیم ترین اور مشہور ہوتانگ ہے۔سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ہوتانگ چین کے شاہی ادوار کا قدیم طرز رہائش ہے ۔ اس کاآغاز یوان سلطنت (Yuan Dynasty) میں ہوا کہ جو کہ بارہ سو چھ سے تیرہ سو اکتالیس تک رہی۔ اس کے بعد مِنگ (Ming) اور چِنگ (Qing) ادوار میں اس میں پھیلاؤ دیکھنے میں آیا۔ چین کے شاہی ادوار میں بادشاہوں نے بیجنگ کو منظم انداز میں بسانے کی منصوبہ بندی کی۔

شہرمیں ایک شاہی دور کے سماجی مراتب کے نظام کے تحت مختلف رہائشی بستیاں آباد کیں۔ مِنگ (Ming) سلطنت میں شہرممنوع (فاربڈن سٹی) کو شہر کا مرکز تسلیم کیا گیا۔ اس کے اطراف میں نئی آبادیاں قائم کی گئیں۔ اسی وقت ہی یہ ہوتانگر وجود میں آنا شروع ہو گئے۔بلند رتبے کے حامل شہریوں کو شہر کے مرکز کے قریب رہنے کی اجازت دی گئی۔امراء کو شاہی محل کے مشرقی اورمغربی اطراف میں رہنے کی اجازت تھی۔

اعلی حکام اور دولت مند تاجروں کے گھرخوبصورت ستونوں او ر باغات سے سجے ہوتے تھے۔ اس طبقے کے آباد کردہ ہوتانگ منظم ، کھلے گھروں اور چاردیواری سے آراستہ باغات سے مزین تھے۔ محل سے دورشمال اورجنوب میں عام آدمی ، ہنرمند اور مزدور رہا کرتے تھے۔ان کے ہوتانگ سادہ اور تنگ ہوا کرتے تھے۔جیا(Jia) نے بتایا کہ بیجنگ میں کئی مقامات پر یہ ہوتانگز ہیں۔ان ہوتانگر کی سیر آپ  پیدل چل کر، بائیک کے ذریعے یا رکشاؤں کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ ان ہو تانگز میں خریداری  کے لیے کئی طرح کے سٹورز اور دکانیں ہیں۔ ہر ہوتانگ اپنی کسی مخصوص پروڈکٹ کے لیے مشہور ہے۔Tobacco Pouch Street سیاحوں کے لیے سووینئیرز اور چین بھر کے مختلف نسلی گروہوں کے مختلف دست کاری کے نمونوں کے لیے مقبول ہے۔

Wudaoying Hutong میں سیاح ہاتھ سے بنے دستکاری کے نمونوں، روایتی چینی کپڑوں کے لیے جاتے ہیں۔ اگر آپ چینی اچار والی سبزیوں کے شائق ہیں تو پھر گولڈ فش ہوتانگ آپ کی منزل ہونی چاہیے۔ چین کے روایتی کھانوں کے لیے تاشیانگ فینگ ہوتانگ کا رخ کیا جا سکتا ہے۔Jinyu Hutong میں پکا ہوا گوشت دستیاب ہوتا ہے۔

بیجنگ کے قدیم محلوں میں گھومتے ہوئے پاکستان کے کئی قدیم اور تاریخی شہروں کے اندرون شہر کے مناظر ذہن میں گھوم جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ شایدآپ لاہور، راولپنڈی یا ملتان کے قدیم محلوں میں چہل قدمی کررہے ہیں۔ وہی قدیم طرزِ تعمیر،تنگ گلیاں،مکانوں کی ملتی چھتیں اور مکینوں کے ملتے دل اورایک منفر د اورجداگانہ سماجی کلچر جو ان محلوں کو جدید آبادیوں سے ممیزو ممتازکرتا ہے۔ ہوتانگز کے ڈھانچے کی نشانی اینٹیں، لکڑی اورٹائلز ہیں مگر یہ تو صرف ظاہری ڈھانچہ ہے مگر اصل دیکھنے والی چیز ان ہوتانگزکا کلچر ہے۔جو کہ وہاں کے مکینوں کے لئے مشترکہ ہے۔یہاں پر ہو سکتا ہے کہ درجنوں ہو تانگز کا ایک ہی داخلی راستہ ہو۔ یہاں پر کچھ بھی نجی نہیں سب کچھ کمیونٹی کا ہے۔سردیوں میں لوگ دھوپ میں اکٹھے بیٹھ کربات چیت کرتے ہیں۔ ہوتانگز کی بعض گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کے اندرون لاہور کی گلیوں کی تنگی کے متعلق کہے گئے جملے کی یاد آتی ہے ’’یہاں بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ مخالف جنس کے آمنے سامنے آنے یا گزرنے کی صورت میں صرف نکاح کی صورت ہی بچتی ہے‘‘ ۔ ایک اور دلچسپ حوالہ یہاں شاہی دربار سے وابستہ ہیجڑوں کے لیے آباد ایک ہوتانگ ہے۔ اس کا سن کر مختلف سلاطین ہند یاد آئے جو کہ شاہی محلات میں بوجوہ مخنثوں کو تعینات کیا کرتے تھے۔

اسی طرح پاکستان میں ہم سنتے ہیں کہ لوگ اپنے شوق کی خاطر میوزیم وغیرہ بنالیتے ہیں۔یہی روایت چین میں بھی ملتی ہے جہاں پربیجنگ میں ایک شہری  چانگ نے اپنے شوق اور ذاتی حیثیت میں Beijing Hutong Zhang Folk Art Museum  بنایا ہوا ہے۔یہ بیجنگ کے روایتی کلچرکی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں دس ہزار سے زائد روایتی دستکاری کے نمونے،کھلونے، پرانی تصاویر اور پوسٹرز ہیں۔اس کے علاوہ ہوتانگز کے ہاتھ سے بنائے گئے ماڈلز ہیں جو کہ انیس سو بیس کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اس میوزیم سے ذرا فاصلے پر لُوگو برج (Lugou Bridge) ہے جو کہ اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جہاں جاپانی افواج نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے چین پر حملہ کیا تھا۔ اس برج کے قریب ہی وان پنگ فورٹریس (Wanping Fortress) ہے۔ یہ قلعہ میوزیم آف دی وار ہے اور چینی عوام کی جاپانی جارحیت کے خلا ف مزاحمت کے حوالے سے قائم کیا گیا ہے۔یہ میوزیم بھی ہمیں ویسے ہی سائیکل پرگھومتے ہی نظر آیا۔ راقم اور سی آر آئی میں کام کرنیوا لے ارجنٹا ئن سے تعلق رکھنے والے فارن ایکسپرٹ دوست موریسیو ایک روز سائیکلنگ کرتے ہوئے بیجنگ کے ضلع فینگ تائے (Fengtai) میں نکل گئے۔

وہاں ہمیں یہ ہوتانگ اور میوزیم نظر آیا۔ان ہوتانگز میں آپ کو ریڑھی بان سبزی فروش بھی نظر آتے ہیں۔کباڑیا بھی ہوتانگز کے مکینوں سے ردی کا مال ردی کے بھاؤ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہیں انسانی بالوں کی خرید و فروخت بھی دیکھنے میں آئی۔ تو یک لخت لاہور میں اپنے گھر کام کرنے والی ماسی کا خیال ذہن میں آگیا جو بالوں کی خرید وفروخت کیا کرتی تھی۔یہاں کے مکین مل کر چین کے مختلف روایتی اور مقبول عام کھیل بھی کھیلتے ہیں۔اب یہ ہوتانگ سیاحوں کے لیے بہت پُرکشش ہیں کیونکہ ان میں چین کے قدیم کلچر کو محفوظ کو کیا گیا ہے۔ لوگ یہاں قیام کرنے آتے ہیں۔ کچھ وقت گزارتے ہیںاورہوتانگ کے مکینوں سے بات چیت کرتے ہیں ان کے تیارکردہ کھانے کھاتے ہیںاوراپنے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے ایک قدیم ماحول کا حصہ تصور کرتے ہیں۔کچھ ہوتانگز میں ہوٹلز بھی بنا دیے گئے ہیں۔یہ ہوٹلز بھی غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں ۔ ان ہوٹلز کے بیرونی ڈھانچے کو تو روایتی انداز میں برقرار رکھا گیا ہے مگر اندر موجود سہولیات جدید ہیں۔ان ہوتانگز میں سیروسیاحت کرتے ایک مرتبہ بنگلہ دیش کا ایک ہوٹل مل گیا۔ مسلم ہوٹل دیکھ کر ایسی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ہوٹل کا عملہ اور مینیجر اردو سمجھتے تھے۔ اور بنگالی لہجے میںاردو بول رہے تھے۔

اس لہجے کو سن کر اپنائیت کا احساس ہوا۔وہاں ہم نے مطمئن ہو کر چکن بھی کھایا۔ یہ ہوٹل ایک ہوتانگ کے اندر قائم کیا گیا تھا۔ یہ کسی امیر درباری اہلکار کی رہائش گا ہ لگ رہی تھی۔ کیونکہ اس میں کمروں کی تعداد زیاد ہ تھی۔ماحول کولائٹس سے خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک بنگلہ دیشی طالب علم اپنے چینی ساتھیوں کے ہمراہ آیا۔ انہیں دیکھ کر ہم چونک پڑے۔ کیونکہ اپنے چینی ساتھیوں کی نسبت وہ بنگلہ دیشی اپنے اندازِ نشست و برخاست اور بول چال سے ایک مخصوص کمیونٹی کو ظاہر کر رہے تھے۔اس کمیونٹی کے کسی فرد کو دیکھتے ہی ہمارے ہاں عموماً تفریح کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ہم انہیں دیکھ کربہت حیران ہوئے کہ موصوف کے انداز و اطوار میں بلا کی نزاکت تھی۔چینی زبان انہیں خوب آتی تھی۔سو ہم نے بھی کچھ وقت مزید ٹھہر کر ان سے  خوب گفتگو کی۔  کبھی کبھار تو یہ گلیاں بقول شاعر گلزار پُر پیچ پیچیدہ دلیلوں سی گلیاں لگتیں ۔ انہی پُر پیچ گلیوں میں چین کے شاہی ادوار کی تاریخ بکھری پڑی تھی۔ چھ سو سالہ قدیم یہ ہوتانگز اب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ا ور ان کی جگہ جدید بلند و بالا عمارات لے رہی ہیں۔ بیجنگ کا ایک مشہور علاقہ سان لی تن (Sanlitun) ہے جہاں غیر ملکی سفارت خانے، شاپنگ پلازے اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ یہاں بہت سی ہوتانگر ہوا کرتی تھیں جن کو گرا کر یہ جدید عمارتیں بنائی گئی ہیں۔

ان ہوتانگز اور ان میں موجود کلچر کو دیکھ کرپاکستان کی یاد آتی ہے کیونکہ بہت سی روایات دونوں معاشروں میں ملتی جلتی ہیں ۔ سب سے پہلے ان مماثلتوں کی ادب میں موجودگی کو جاننے کے لیے بیجنگ میں موجود  اردو زبان کے معروف چینی شاعر Zhang Shi Xuan جن کا اردونام انتخاب عالم ہے سے رجوع کیا۔ انتخاب عالم پاکستان کا کئی مرتبہ دورہ کر چکے ہیںاور یہاں مختلف مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں ۔اس کے علاوہ بیرونِ ملک مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ چین میں اردو زبان کی ترویج اور اردو شاعری کاایک بہت معتبر اور نمایاں نام ہیں۔ چونکہ وہ خود بہت اچھے شاعر ہیں اور ان کے شعری مجموعے شائع بھی ہو چکے ہیں سو ان سے درخواست کی کہ بتائیں کہ چینی اور اردو شاعری میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے ۔ چینی اور اردو شاعری میں کئی اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ اول دونوں زبانوں کی شاعری میں وزن پایا جاتا ہے۔لیکن اس وزن میں فرق ہے۔مثال کے طور پر قدیم چینی صنفِ شاعری سات کیریکٹرز پر مشتمل مصرعوں والی لوئی شی کو لیجیے۔اس میں چینی کیریکٹرز کے آہنگ پائے جاتے ہیں۔ چینی کیریکٹرز کے چار آہنگ ہوتے ہیں۔ان میں سے پہلے اور دوسرے آہنگ کو پھینگ آہنگ کہتے ہیںجبکہ تیسرے اور چوتھے آہنگ کو زے آہنگ کہتے ہیں۔

یہ بدلتے ہیں لیکن مقررہ قوانین کے تحت بدلتے ہیں۔ یعنی اگر پہلے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ پھینگ پھینگ زے زے پھینگ پھینگ زے ہوں تو دوسرے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ زے زے پھینگ پھینگ زے زے پھینگ ہوں گے جبکہ تیسرے مصرعے میں شامل سات کیریکٹرز کے آہنگ زے زے پھینگ پھینگ پھینگ زے زے ہوںگے۔ یعنی ہر شعر میں شامل دو مصرعوں کے پہلے ، دوسرے ، تیسرے، چوتھے، پانچویں اور ساتویں کیریکٹرز کے آہنگ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

اور ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے پہلے چار کیریکٹرز کے آہنگ اور اگلے شعرکے پہلے مصرعے کے پہلے چار کیریکٹرز کے آہنگ ایک جیسے ہیں اور ان دو مصرعوں کے آخری تین کیریکٹرز کے آہنگ باہم متضاد ہیں۔ جب کہ ہر اردو کی غزل، قصیدہ، نعت یا حمد کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں لکھنے پڑتے ہیں۔ دوم دونوں زبانوں کی شاعری میں استعارہ، تشبیہ، علامت، تلمیح وغیر ہ فنی حربے استعمال ہوتے ہیں۔ سوم دونوں زبانوں کی قدیم اصناف سخن میں قافیے باندھے جاتے ہیں۔اور قافیے دو طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی بیشتر اصنافِ سخن میں پہلے شعر کے دونوں مصرعوں اور اس کے بعد ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ باندھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دونوں زبانوں میںایک ہی قسم کی نظم ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میںایک جیسا قافیہ باندھا جاتا ہے اور مختلف اشعارکے قافیے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چہارم دونوں زبانوں کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے اس لیے آسانی سے گائی جاتی ہے۔ پنجم دونوں زبانوں کی جدید شاعری میں آزاد نظم شامل ہے جس میں پابندیاں کم اور افکار نسبتاً نئے ہیں۔

۔ ادب میں پائی جانے والی کچھ مماثلتیں  چانگ جیا  مے  (طاہرہ) نے بھی بیان کیں ۔ وہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سر براہ ہیں انہوں نے بتایا کہ اردو غزل میں استعمال ہونے والی بحریں تقریباً  اسی(80) ہیں ۔چینی شاعری کی چند اصناف  سونگ سی اور یوآن چھو میں بھی اکثر استعمال ہونے والی بحروں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔چانگ جیا مے نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری کی صنف  قطعہ  چینی شاعری کی صنف  جوئے جو سے بہت مشابہ ہے۔ چینی اور اردو شاعری میں تشبیہات ، استعارات اور علامات بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اردو اور چینی دونوں زبانوں کی شاعری میں عشق مختلف مفاہیم کے لیے استعمال ہوا ہے۔  چینی اور اردو زبانوں کے تاریخی ارتقاء کے متعلق چُو یوان  (نسرین ) سربراہ شعبہ اردو بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی  نے کچھ یوں اظہارِ خیال کیا  کہ اردو کا آغاز  برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوا جبکہ چینی زبان میں شاعری کا پہلا مجموعہ آج سے  2500-3000 قبل  وجود میں آیا۔اس لیے دونوںزبانوں کی تاریخ میں فرق ہے۔ چُو یوان  (نسرین ) نے اپنی بات کو بڑھاوا دیتے ہوئے بتایا کہ جدید دور میں دونوں ملکوں کے مصنفین کی توجہ  جدید سماجی مسائل اور خاندانی موضوعات پر ہے ۔ یہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک مماثلت ہے۔

یہ تو پروفیسر انتخاب عالم، چانگ جیا مے، چُو یوان کی علمی وادبی باتیں اور گزارشات تھیںجن سے شاعری و ادب  کے تکنیکی محاسن و اسرار کُھلے مگر چینی معاشرے میں جیتے جاگتے انسان بستے ہیں، ان کے کچھ جذبات و روایات ہیں، جن کی پیروی کرنا وہ بچپن سے ہی سیکھتے چلے آتے ہیں۔ وہ کون سی ایسی روایات و اعمال ہیں جو ہمارے معاشرے سے ملتے جلتے ہیں۔اس بات کوجاننے کی جستجو ہمیں آٹھ سالوں سے چین میں مقیم ڈاکٹر شاہد حسین کے پاس لے گئی جنہوں  نے بتایا کہ چین کے ساوتھ ویسٹ  South West ریجن سے تعلق رکھنے والے افرا د کی عادات پاکستانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اس ریجن میں واقع سیچوان، گوئچواور چھونگ چھنگ میں رہنے والے افراد کھانے پینے کے معاملے میں بہت فراخ دل ہیں۔ دوستانہ رویے کے مالک ہیں، مہمانوں کی بہت آؤ بھگت کرتے ہیں۔

اور بہت ہی مسالے دار اور سپائسیSpicy کھانے کھاتے ہیں۔یہاں کے لوگ چھوٹی والی لال مرچ کھاتے ہیں۔ ہمارے سی آر آئی اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی تو جنوبی چین کی خوبصورتی کے دلداد ہ ہیں چاہے معاملہ نسائی جمال کا ہو یا قدرتی مناظر کا  ، روایات کا حسن ہو یا سماجی و ثقافتی تنوع کی کشش سب کچھ لیو صاحب کو جنوبی چین کا ہی اچھا لگتاہے۔ اگر چین میں رہتے ہوئے پاکستان کے موسم کا لطف لینا ہے تو پھر جنوبی چین کا شہر ہانگچو بہترین مقام ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ کے لوگ ہمارے دارالحکومت اسلام آبا د کی طرح کے ہیں۔اپنے کام سے کام رکھنے والے۔ شنگھائی اور جیانگسوکے لوگ عمومی طور پر خاموش مزاج  ہیں اورسپائسیSpicy  خوراک بالکل بھی نہیں کھاتے، سرکہ کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چاولوں پر بھی سرکہ ڈال کر کھا جاتے ہیں۔ویسے شنگھائی کے لوگوں  میں ایک احساس ِ برتری و تفاخر موجود ہے۔ پورے چین کے لوگ بہت ہی ملنسار اور مددگار ہیں۔

اگر آپ کسی سے راستہ پوچھیں توآپ کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔راقم کو اس حوالے سے دو ذاتی تجربات ہیں۔ ایک دفعہ بیجنگ کی ایک جگہ پر مجھے اکیلا جانا تھا۔ میں مقررہ جگہ پر تو پہنچ گیا مگرمطلوبہ مقام نہیں مل رہا تھا۔ میں نے ایک نوجوان چینی شہری سے منزل کا پوچھا۔ ا س نے اپنے تمام کام چھوڑ کر پہلے تو انٹرنیٹ سے اس پتے کو تلاش کیا۔ پھر مجھے بتایا کہ اس جانب ہے میں ادھر چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہی چینی نوجوان میرے پیچھے آیا تا کہ میری رہنمائی کر سکے۔ اس نے آس پاس سے پوچھا ، فون بھی کیے ، راہگیروں سے بھی تصدیق کی جب اسے مکمل یقین ہو گیا تو اس نے مسکراہٹ کے ساتھ مجھے منزل کی جانب روانہ کر دیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں چینی قوم کے احساس ذمہ داری اور اجنبیوں سے حسن سلوک کو سراہا ۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ میرے ساتھ بیجنگ میںدوسری مرتبہ پیش آیا۔ مجھے ایک ہسپتال جانا تھا۔ اردو سروس کے ایک چینی ساتھی نے پورا نقشہ بنا کردیا اور بتایا کہ کس سب وے سٹیشن سے نکلنا ہے ۔ میں مقررہ جگہ پر پہنچ گیا مگر ہسپتال نظر نہ آیا۔ میں نے ایک نوجوان راہگیر چینی کو چینی زبان میں لکھا ہوا پتہ دکھایا اس نے وہاں سے ایک رکشہ کو روکا اور اس میں مجھے بٹھایا اور کرایہ بھی خود ہی ادا کر دیا۔ میں نے اس کرایے کی ادائیگی کرنے سے بہت روکا مگر وہ نہ مانا ۔ دو منٹ بعد ہی رکشے نے مجھے ہسپتال کے سامنے اتار دیا۔ ہسپتال سب وے سٹیشنز سے بہت قریب تھا مگر اس کے عقبی جانب تھاتو گھوم کر آنا پڑتا تھا۔بعد میں جب بھی اس ہسپتال جانا ہوا تو خود ہی پیدل پہنچ جاتا تھا۔یہ تو چینی شہریوں کی انسان دوستی اور اجنبیوں کی مدد کے واقعات تھے۔

ان کی کئی ایک معاشرتی عادات بھی ہمارے معاشرے سے ملتی جلتی ہیں مثلاً ہمارے ہاں اندرون شہر کے محلو ں میں کبوتر بازی کا رواج ہے، بیجنگ کے قدیم محلوں میں بھی اس کی روایت موجود ہے مگر آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہم بٹیر بڑے شوق سے پالتے ہیںاور بعض افراد تو ان کو ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں وہاں پر بھی کسی دور میں جھینگر کو پکڑنے اور پالنے کا رواج بہت مقبول ہوا کرتا تھا۔ اردو سروس کے ساتھی لیو شیا ؤ ہوئی بتاتے ہیں کہ اپنے بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر وہ بہت جھینگر پکڑا کرتے تھے ۔ اب بھی چین کے بعض علاقے جھینگر کی مارکیٹ کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں پتنگ بازی بہت ہوا کرتی تھی اورموسم بہار کی آمد پر بسنت کاتہوار لوگ بڑے ذوق و شوق اورجوش و خرو ش سے مناتے تھے ۔

وہاں چین میں بھی پتنگ بازی کا رجحان موجود ہے۔ وہاںپتنگ بازی کافیسٹیول منایاجاتا ہے۔ہمارے ہاں تو پتنگ بازی کے حوالے سے پیچ لڑانے، ہوائی فائرنگ اور کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور آسمان اور گھروں کی چھتیں بالترتیب پتنگوں اور لوگوں سے بھری نظر آتی ہیں مگر وہاں یہ منظرقدرے مختلف ہوتا ہے۔ ایک تو وہاں پتنگیں مختلف شکلوں اوررنگ کی ہوتی ہیںاور پیچ لڑانے کی بجائے اونچی پتنگ اڑانے پر توجہ زیادہ مرکوز ہوتی ہے۔جس کی پتنگ جتنی اونچی جاتی ہے اس کو اتنا ہی خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔پتنگیں موسم بہار میں ایک روز کسی کھلے گراونڈ میں یا دریا کے کنارے اڑائی جاتی ہیں۔ خوش قسمتی کا تذ کرہ آیا ہے تو بتا تا چلوں کہ چینی معاشرے میں کچھ توہمات بھی پائے جاتے ہیں۔چینی لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر اس کے استقبال کے لیے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نئے سال کے موقع پر گھر کو صاف رکھنے سے سال خوشیوں والا ہوتا ہے اور اس میں خیروبرکت ہوتی ہے۔ یہ پٹاخے جلا کر بلاؤں کو دور بھگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر عید یا دس محرم الحرام کے موقع پر لوگ قبرستانوں میں جانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اوراپنے مرحوم بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ایسی ہی کچھ روایت چین میں بھی پائی جاتی ہے۔ چین میں ایک فیسٹیول

Qingming Festival ہوتا ہے جس کو Tomb-Sweeping Dayبھی کہتے ہیں۔ اس میں چینی لوگ اپنے مرحومین کی قبروں کی زیارت کو جاتے ہیں۔ وہاں پھول چڑھاتے ہیں، قبروں کی صفائی کرتے ہیں اوران کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق دعاکرتے ہیں۔بعض افراد اس موقع پر نقلی کاغذی کرنسی بھی جلاتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ جتنی زیادہ کرنسی جلائیں گے اتنی رقم واپس آئے گی۔زندگی میں مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صورت میں بدھ مانکس یا بدھوں  کے ٹیمپلز میں موجود راہبوں کے پاس رہنمائی اور سکون کی طلب کے لیے جانے کا معاشرتی چلن بھی وہاں پایا جاتا ہے۔بدھ راہب جھاڑ پھونک بھی کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کے مطابق دم کی ہوئی مختلف نوعیت کی اشیاء بھی لوگوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تعویز گنڈہ  اور دم کا رواج موجود ہے۔

نئے سال کے موقع پر بعض ٹیمپلز پر چینی شہری اپنی اپنی خواہشات کوایک سرخ رنگ کی کاغذی پٹی پر لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے ان کی قبولیت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے ہاں کے منت مانگنے کے مختلف طریقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔راقم کو ایک بار بیجنگ کی لائن ون کے سب وے سٹیشن ای چوان لو  (Yuquanlu)سے شمال کی جانب جاتی سڑک کے سروس روڈ پر ایک حیرت انگیز مشاہدہ ہوا۔ اس سروس روڈ پر کافی ریستوران اور شاپس ہیں۔

وہیں میں نے دیکھا کہ سڑک پرایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک نوجوان خاتون ان کو اپنا ہاتھ دکھا رہی ہیں۔یہ منظر تو ہمارے ہاں کے پامسٹوں کی طرح کا تھا۔میں قریب ہوا اوراپنے موبائل سے ان کی دست شناسی کے اس عمل کی ایک تصویر بنا لی۔ تصویر بنانے کا نوجوان خاتون برا منا گئیں ۔یوں معلوم ہوا کہ چینی معاشرے میں بھی دست شناسی  اور اس پر یقین کی روایت موجودہے اورلوگ اس عمل کی تشہیر پسند نہیں کرتے۔ چینی معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر لوگ بہت خوش ہوتے ہیںکیونکہ وہاں شادی کے تمام تر اخراجات کی ذمہ داری لڑکے کے سپرد ہوتی ہے۔لڑکی صر ف اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہے۔ شادی کے موقع پر ہماری ہی طرح ستاروں کے ملاپ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ چین میں ہر سال  ایک مخصوص جانور سے منسوب ہوتا ہے اور شادی کے موقع پردلہا اوردلہن کی پیدائش کے سال کو مدنظر رکھا جاتا ہے تاکہ ان میں ہم آہنگی رہے ۔ مثال کے طور پر شیر کے سال میںپیدا ہونے والے کی شادی بکری یا خرگوش کے سال میں پیدا ہونے والے سے نہیں کی جاتی کیونکہ یہ دونوں جانور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

 محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ

The post قدیم ہوتانگ طرزِ معاشرت میں پورا محلہ ایک خاندان بن جاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

فنا تو بے کار کو ہے، کارآمد کو کب فنا ہے بیٹا!

$
0
0

قسط نمبر 24

میری مسلسل خاموشی جو سچ یہ ہے کہ مجھ پر بھی گراں اور میری سکت سے باہر تھی، سے بابا بھی اکتا چکے تھے، ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن مجھے ایسا ہی لگا اور وہ اس لیے کہ بابا نے مجھ سے کہا: کچھ تو بولو بیٹا! اگر تم بالکل ہی خاموش ہوگئے تو اتنا طویل فاصلہ کیسے کٹے گا۔ بابا! میں تو آپ کے ساتھ پہلی مرتبہ آیا ہوں، اس سے پہلے آپ کس سے باتیں کرتے تھے؟ بابا مسکرائے اور کہنے لگے: دیکھا میں ٹھیک سمجھ رہا تھا، تم یہی سوچ رہے ہوگے۔

کیا اب میں سوچنا بھی ترک کردوں؟ میرا سوال پھر بابا کے سامنے تھا۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے کسی درخت پر غور کیا ہے؟ بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی میں نے درختوں پر غور کیا ہے کہ وہ درخت ہیں، ان کی چھاؤں ہوتی ہے، ان میں پھل لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے انسان کی زندگی میں بہت سہولتیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن اس وقت درخت ہم دونوں کے درمیان کہاں سے آگیا، میں نے جواب دیا۔ بس اتنا ہی غور کیا تم نے؟

یہ تو عام سی بات ہے اور ہر کسی کا مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے، اسے غور کرنا تو نہیں کہتے۔ بابا نے پھر مجھے الجھن میں ڈال دیا تھا۔ تو مجھے درخت پر کیا غور کرنا چاہیے اور کیوں ؟ میں نے سوال کیا۔ دیکھو بیٹا! درخت اور انسان کا ساتھ ازل سے ہے، اور شاید انسان سے پہلے شجر تھے، وہ اس لیے کہ جب انسان کو تخلیق کرکے جنت مکانی کیا گیا تو وہاں شجر تھے اور انسان کو اجازت دی گئی کہ وہ جو چاہے وہ کھائے، بس ایک شجر کے پاس نہ جائے، تو انسان اور شجر کا ساتھ ازل سے ہے، اس لیے اس شجر پر بہت زیادہ غور کرنے، اس کے افعال و کردار پر بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا تم نے کبھی کسی درخت کو اگر وہ پَھل دار ہے تو اپنا پَھل خود کھاتے دیکھا ہے؟ بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ نہیں بابا میں نے تو نہیں دیکھا، درخت اپنا پھل کیوں کھائے گا، میں نے جواب دیا۔ پھر بابا نے مجھے بتانا شروع کیا: بیٹا اس کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔

دیکھو درخت کی زندگی ایک ننھے سے بِیج سے شروع ہوتی ہے تو بس وہیں سے غور کرنا شروع کرو۔ وہ ننھا سا بیج زمین کے حوالے ہوجاتا بل کہ دفن ہوجاتا ہے، تو سوچو کہ جب وہ دفن ہو جاتا ہے تو اس پر کیا بیتتی ہوگی؟ لیکن وہ خاک میں مل جانے کے باوجود اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے، اپنی تگ و دو جاری رکھتا ہے، اور وہ اس میں کام یاب ہوجاتا اور پھر وہ ننھا سا بیج جو خاک میں مل گیا تھا، زمین کا سینہ چیر کر باہر جھانکنے لگتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ اتنا آسان نہیں ہے جیون، ننھا سا بیج ننھی سی کونپل بن جاتا ہے۔ اب باہر اسے جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سردی گرمی دھوپ چھاؤں برداشت کرتا ہوا اور ہوا کے تھپیڑے سہتا ہوا وہ سر جھکائے کھڑا رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، جیسے جیسے وہ بلند ہوتا ہے ویسے ویسے اس کی جڑیں زمین میں دُور تک پھیلنے لگتی اور اسے سہارا دینے لگتی ہیں اور پھر ایک دن وہ ننھا بیچ توانا شجر بن جاتا ہے، اب اگر وہ پَھل دار ہے تو اس میں بُور آنے لگتا ہے۔ اور پھر ایک دن اس پر پِھل لگ جاتے ہیں لیکن وہ خود اپنے پِھل نہیں کھاتا اور نہ ہی یہ کسی سے کہتا ہے کہ مشکلات میں نے سہی ہیں۔

سرد گرم میں نے برداشت کیا ہے، صبر سے سب کچھ سہنے کے بعد مجھ پر پھل آئے ہیں تو اب ان پر حق بھی میرا ہے، نہیں نہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا کسی سے، کوئی بھی اس کا پھل توڑ سکتا ہے، اس کی چھاؤں میں آرام کرسکتا ہے، اس کی ٹہنی توڑ سکتا ہے، وہ سب کچھ سہتا رہتا ہے اور تو اور وہ مخلوق کے ساتھ رہتا ہے ہر جگہ۔ تم دیکھتے نہیں وہی درخت تمہارا محافظ بن کر کھڑا رہتا ہے، دروازہ بن کر، تمہاری چارپائی بنا تمہیں راحت و آرام پہنچاتا ہے، وہ میز، کرسی، دروازے، کھڑکیاں بنا تمہاری خدمت کرتا ہے۔ یہ جو تم گاڑیاں دیکھتے ہو بیل گاڑی، اونٹ گاڑی، گدھاگاڑی یہ ٹھیلے اور بے شمار جگہوں پر یہ تمہارے لیے اپنا جیون تیاگ دیتا ہے۔

کبھی تم نے غور کیا ہے کہ وہ خود کو مخلوق کے لیے فنا کردیتا ہے، لیکن کیا وہ واقعی فنا ہوجاتا ہے؟ کبھی سوچنا اس پر۔ اور جب انسان مر جاتا ہے تو اسے چوبی تختے پر لٹاکر غسل دیتے ہیں اور پھر لکڑی کی ڈولی میں سوار کرا کے قبر تک چھوڑنے جاتے ہیں۔ تو یہ ہوتا ہے شجر۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کا قبر تک ساتھ دینے والا، بل کہ تم نے تو دیکھا ہی ہے کہ قبرستانوں میں یہ ہر جگہ مُردوں کو بھی سُکھ پہنچاتا رہتا ہے، ان مُردوں کا ساتھ نبھاتا ہے جن کو ان کے اپنے سگے بھی بُھول بھال جاتے ہیں۔ یہ تو میں نے بہت مختصر بتایا ہے اگر تم سوچو تو معلوم کر پاؤ گے کہ شجر انسان کے ساتھ کہاں کہاں کھڑا ہوا ہے۔ سوچنا کبھی کہ ایک ننھا سا بیج خود کو فنا کرکے کہاں کہاں موجود ہوتا ہے، فنا تو بے کار کو ہے کارآمد کو کب فنا ہے بیٹا!

جی بابا! اس طرح تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اب میں اس پر غور کروں گا، لیکن بابا! شجر میں یہ سب کچھ تو قدرت ودیعت کرتی ہے، وہ اس سے انحراف تو نہیں کرسکتا لیکن انسان تو خودسر ہوتا ہے، وہ کیسے یہ سب کچھ کرسکتا ہے جو شجر کرتا ہے۔ میرا سوال سن کر بابا رُک گئے، پھر میری پیٹھ تھپتھپائی اور کہا: واہ بیٹا واہ! یہی سوال میں تم سے سننا چاہتا تھا، اس کا مطلب ہے تم کچھ واقعی سوچنے لگے ہو، تو اب سنو۔ یہ جو آدمی ہے ناں بہت پیچیدہ ہے۔ ایسا سوال جس کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے، یہ ہر پل بدلتا ہے، یہ خدا کی بہت انوکھی مخلوق ہے، پَل میں ولی اور پَل میں شیطان، بل کہ شیطان بھی کبھی اس سے پناہ مانگتا ہے۔

بہت زیادہ الجھی ہوئی گتھی ہے انسان، اسے کچھ امور میں بااختیار بنایا گیا ہے، تو اب یہ انسان پر ہے کہ وہ خود کو کیا بنانا چاہتا ہے، بس خو د ہی جینا چاہتا ہے یا دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے، اگر انسان ان اشجار پر ہی غور کرلے اور ان سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لے تو دنیا ہی جنت نظیر بن جائے، اب دیکھو بیٹا تمہیں قسم ہا قسم کے انسان دکھائی دیں گے، کوئی ان میں انسانوں کے لیے رحمت بنا ہوا ہے اور کسی کا جیون انسانوں کے لیے عذاب بنا ہوا ہے، ہمیں یہ خود طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنا شمار کیسے لوگوں میں کرانا چاہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے افضل قرار دیا ہے تو ہم اپنا یہ شرف کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔

یہ انسان پر ہے کہ وہ کیسا بننا چاہتا ہے، دیکھو بیٹا جو انسان کے لیے نافع ہو بس وہ ہے اشرف، باقی تو بس ننگ ہیں بیٹا، دیکھو جو اشرف ہوگا تو بس عام سا نظر آئے گا، لیکن یہ عام سے نظر آنے والے لوگ بہت خاص ہوتے ہیں، بہت خاص۔ اور رب تعالیٰ کے چہیتے، وہ میرے رب کا انتخاب ہوتے ہیں۔ جب اﷲ جی خوش ہو تو ایسے لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ ورنہ خال خال، لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ انھیں دیکھ کر جینے کو جی چاہتا ہے۔ انھی سے اعتبار انسانیت قائم ہے۔ یقین جِِلا پاتا ہے۔ زندگی ان پر اترائے پھرتی ہے، رحمت باری تعالیٰ ان پر برستی ہے اور نصرت الٰہی ان کے ساتھ ہوتی اور پھر ان کی برکت سے دوسروں کے ساتھ ہوتی ہے۔

رب ان سے راضی ہوتا ہے، اس لیے تو انھیں بہترین کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اپنی مخلوق کی خدمت کا کام ان سے لیتا ہے اور جسے میرا رب پسند فرمالے تو پھر اور کیا چاہیے کہ زندگی اس سے مبارک بن جاتی ہے۔ جس کا نصیبا جاگ جائے جس کی قسمت کا ستارہ چمک جائے، رب اس کی پیشانی کو روشن کر دیتا ہے۔ پھر وہ خلق خدا کے دل میں دھڑکتے ہیں۔ بے کسوں کے دست دعا اور بے آسروں کے لیے رب کی عطا۔ مفلسوں کی ویرانی آنکھوں کی روشنی، ان کے مرجھائے ہوئے چہروں کی رونق، ان کے انگ انگ کی خوشی اور ان کے لبوں کا نغمہ مستانہ، دیکھو بیٹا مالک جس پر کرم کردے وہ اسے اپنے بندوں کی خدمت کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔

وہ نام و نمود سے یکسر مبرا ہوتے ہیں۔ نمائش سے بھلا انھیں کیا کام۔ وہ بس اپنے کام میں جُتے ہوتے ہیں، انسان ہی نہیں ہر مخلوق کے لیے رحمت و عنایت۔ وہ باتیں نہیں کرتے، وہ عجیب ہوتے ہیں۔ خدمت کی دھن پر رقصاں، وہ سر جھکائے ہوئے، رب کے حضور مجسم انکسار، وہ مسکراتے ہیں اور دوسروں کی آہوں کو قہقہوں میں بدلتے ہیں۔ انھیں اپنا کوئی ہوش نہیں ہوتا، ذرا سا بھی نہیں۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ جناب آپ نے تو کمال کردیا تو فوراً اس کی تردید کریں گے اور اگر ان میں سے کچھ سے آپ اصرار کریں تو فقط اتنا کہیں گے جناب ہم تو بس اپنا کام کر رہے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ جس طرح وہ خود عام نہیں ہوتے اسی طرح وہ باتیں بھی عام نہیں کرتے، لگتی عام سی باتیں ہیں لیکن ہوتی نہیں ہیں۔ اﷲ نے انسان کو بنایا ہے اور اسی نے اپنے اس نائب کو اپنی مشین کو ٹھیک رکھنے کا سلیقہ بھی سکھایا ہے۔

کوئی درد میں مبتلا ہو تو وہ اس کے درد کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اداس ہو تو اسے ہنساتے ہیں، وہ خلق خدا کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کسی کی بھی عزت نفس کسی بھی صورت میں پامال نہیں کرتے۔ انسانی خواہشات بھی کتنی عجیب ہیں ناں بیٹا! کیسی کیسی تمنّائیں، خواہشات، آرزوئیں اور نہ جانے کیا کچھ۔ دیکھو یہ جو خودستائی ہے ناں یہ سب سے زیادہ مہلک ہے۔ ہر پَل ہر لمحہ ایک امتحان ہے، تمہیں پرکھنے کا، تمہارے اندر کی نیّتوں کا امتحان۔ ہم بہت نادان ہیں بیٹا، ہم خود کو مخلوق سمجھتے ہوئے بھی اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان سکے۔ چلتی پھرتی تصویریں اپنے مالک کو نہیں پہچان پائیں۔ بندہ بشر اپنے پالنے والے سے بے خبر ہے۔

رب کا ذکر تو بہت کرتا ہے اس پر یقین نہیں رکھتا۔ اپنے دوست کی بات کا تو اعتبار کرتا ہے اور خالق حقیقی کو بُھول جاتا ہے۔ خالق نے کہا ہے میں ہوں رازق۔ بس سن لیتا ہے، رازق تو وہ دفتر کو مانتا ہے، اپنی دکان کو مانتا ہے، اپنے ٹھیلے کو سمجھتا ہے، اپنے کارخانے کو سمجھ بیٹھتا ہے۔ سبب کے بغیر بھی وہ مالک دے سکتا ہے یہ نہیں مانتا اور یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا جہاں کے چرند، پرند، درندے جو ہیں وہ کیسے رزق پاتے ہیں؟ تم کہو گے چیونٹی کی خوراک ہی کتنی ہے، لیکن پھر بتاؤ یہ ہاتھی شیر چیتے کیسے پلتے ہیں۔ دیکھو بیٹا! کبھی اس پر بھی غور کرنا دنیا کی دو مخلوق رزق جمع کرتی ہیں، ایک چیونٹی اور دوسرا انسان۔ باقی مخلوق تو بس توکل کی منزل پر ہے۔

یہ ناشکرا انسان تھوڑی سی تکلیف آجائے تو آہ و زاری کرتا ہے، شُکر تو بہت ہی کم کرتا ہے اور شکوہ شکایت بے پناہ۔ کسی حال میں بھی تو خوش نہیں رہتا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت دانا ہے، بینا ہے لیکن ہے کہاں دانا، کہاں ہے بینا۔ تھڑدلا ہے بہت، بے ہمت اور جلد اکتا جانے والا۔ بندے تو بیٹا! وہ ہیں جو خالق پر ایسے یقین رکھتے ہیں جیسے صبح سورج نکلنے کا، رات کو چاند تاروں کا، ایسا یقین رکھنے والا ہی تو بندہ کہلانے کا مستحق ہے۔ یہ بندہ ہونا کوئی معمولی بات اور اعزاز و سعادت نہیں ہے۔ رب کو خوش رکھنا ہے تو بس بندے بنو، رب نے جو کہہ دیا ہے تو اس پر ایسا یقین رکھو کہ کوئی خدشہ تمہیں نہ ستائے۔ رب نے کہہ دیا تو بس ہوکر رہے گا۔ سورج تو ہوسکتا ہے کل نہ طلوع ہو، وہ بھی تو مخلوق ہے ناں لیکن رب کی بات ہے اٹل، رب کا وعدہ سچا ہے۔

بس وہی ہے کھلانے پلانے والا پالن ہار۔ حرصِ قبیح میں مبتلا ہے انسان، یہ حرص نہیں حرص غلیظ ہے، کتّے میں بہت زیادہ خوبیاں ہیں لیکن کبھی تم اس پر غور اور اس کا مشاہدہ کرو، کبھی موقع ملے تو اس منظر کو دیکھو کہ اُسے کہیں سے سالم مردار گائے مل جائے تو وہ اکیلا ہی اسے چٹ کرنا چاہتا ہے، وہ دوسرے کتّوں کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا اور خود سالم گائے کھا بھی نہیں سکتا۔ باقی سارے اسے تکتے رہتے ہیں، لیکن دیکھو جب کتّے کا پیٹ بھر جائے تو وہ باقی گائے کو کسی دوسرے وقت کے لیے چھپا کر نہیں رکھتا۔ دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ کتا حریص ہے لیکن انسان۔۔۔۔ یہ تو حرص میں کتوں سے بھی بازی لے گیا ہے۔

سب کچھ خود ہی کھانا چاہتا ہے۔ سنبھال سنبھال کے رکھتا ہے باقی سب محروم رہتے ہیں۔ اس انسان نے کوّے سے دوسرے انسان کو بس دفن کرنا ہی سیکھا ہے، کاش یہ کچھ اور بھی اس سے سیکھتا۔ کوّا بھی بہت حریص ہوتا ہے، بہت زیادہ۔ لیکن اس پر غور کرو کہ اسے اگر زمین پر چھوٹا سا بھی کوئی ٹکڑا نظر آجائے تو کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ تم جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ وہ منادی کرتا اور دوسرے کوّؤں کو بلاتا ہے کہ آؤ دیکھو یہ ٹکڑا مل گیا ہے۔ اسے مل بانٹ کے کھائیں اور پھر وہ سب اسے مل بانٹ کے کھاتے ہیں۔ یہ انسان کو کیا ہوگیا ہے بس اکیلے ہی ہر شے پر قابض ہونا چاہتا اور ہر نعمت کو اپنے تصرف میں رکھنا چاہتا ہے۔ حریص بہت حریص۔

بیٹا! کبھی مرغی کو دیکھا ہے تم نے۔ دانہ دنکا چگنے کے بعد پانی پیتے ہوئے، جو دیکھنا چاہیے وہ دیکھتے نہیں ہیں اور جو نہیں دیکھنا چاہیے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔ نافرمانی اور کسے کہتے ہیں۔ بے وقوفی کس بلا کا نام ہے بھلا؟ دیکھو مرغی کو کبھی پانی پیتے ہوئے ہر قطرے پر سر اٹھا کر آسمان تکتی ہے، شُکر بجا لاتی ہے، اپنے رب کا شُکر۔ اور جب سیر ہوجائے تو کٹورے کو اپنا پنجہ مار کر الٹ دیتی ہے دوسرے وقت کے لیے نہیں رکھتی۔ تم سے زیادہ تو مرغی شُکر گزار ہے، وہ اپنے مالک پر توکل کی منزل پر ہے کہ وہ اسے ہر حال میں کھانا بینا ضرور دے گا۔ کیا ہو گیا انسانوں کو، کیوں نہیں سمجھتے، نہ جانے کب سمجھیں گے۔ دیکھو میرے بچے! وقت گزر رہا ہے کوئی اسے نہیں روک سکا، ہاں کوئی بھی نہیں، انسان خسارے میں ہے، پہچانو خود کو، اپنے مالک کو، رحم کرو خود پر اور مخلوق پر بھی۔ حرصِ قبیح کو چھوڑ دو۔ مل بانٹ کے کھانا سیکھو، اکیلے تو تم کبھی سب کچھ نہیں کھا سکتے، سب فتنہ ہے، مال بھی فتنہ، غربت بھی فتنہ، رب کو پہچانو تو بس فلاح پا جاؤ گے۔

پھر میں نے خود کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ بیٹا ہم پہنچ گئے تم تھکے تو نہیں ناں۔

کیا ہم پہنچ گئے میں نے حیرت سے بابا کو دیکھا، میں بابا کی باتوں میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ وقت گزرنے اور راستے کا پتا ہی نہیں چلا، کوئی تھکن نہیں تھی، بل کہ تھکن کے اثار بھی نہیں تھے اور نیند ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بالکل بھی نہیں یوں لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا اور اب میری آنکھ کھلی ہے۔ بیٹا اذان کا وقت ہوگیا ہے اور میں نے اپنے رب کی کبرائی کا آوازہ بلند کیا۔

The post فنا تو بے کار کو ہے، کارآمد کو کب فنا ہے بیٹا! appeared first on ایکسپریس اردو.


ڈی این اے ٹیسٹ نے نسل بدل دی

$
0
0

کہتے ہیں ’’جتنا چھانو گے اتنا ہی کِرکِرا  ہوگا‘‘، برطانیہ کے ایک خاندان کے ساتھ یہی ہوا، جس کے ایک فرد نے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا اور اس چھان پھٹک کا نتیجہ سامنے آنے پر پورا خاندان بدمزہ ہوگیا۔

ہوا یوں کہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان خود کو اطالوی النسل قرار دیتا تھا، اور اس پر فخر کرتا تھا۔ اس خاندان کے ایک صاحب نے نہ جانے کیوں اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروالیا، جس کی رپورٹ نے بتادیا کہ حضور! آپ کا اٹلی یا اطالوی نسل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

موصوف کی بھتیجی نے یہ دُکھ بھری کہانی ٹیوٹر پر شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس انکشاف کے باعث ان کا خاندان شدید صدمے سے دوچار ہے۔ ان خاتون کا کہنا ہے کہ میرے والد اپنے بھائی پر چیخ پڑے ’’تم نے یہ کیوں کیا؟‘‘ اور خاتون کے مطابق یہ صاحب اپنے بھائی پر چیخے بھی اطالوی لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنے اطالوی ہونے کا کتنا یقین تھا۔

نسلوں اور قوموں کی کم تری اور برتری کی سوچ یہ دن دکھاتی ہے۔ یقیناً اس گھرانے کے پُرکھوں میں سے کسی نے اپنی شان بڑھانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا شجرۂ نصب اطالویوں سے جوڑ دیا ہوگا کہ ان کے سماج میں اطالوی ہونا باعث فخر ہوگا اور جس نسل سے وہ تعلق رکھتے ہوں گے اسے ’’نیچ‘‘ شمار کیا جاتا ہوگا۔ جو بھی ہوا ہو لیکن سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب کچھ چُھپانا آسان نہیں رہا۔

ذات اور نسل کا کچھ سے کچھ بنالینے کا تماشا تو ہمارے ملک میں بھی ہوتا رہا ہے۔ تقسیم کے وقت سرحد پار کرتے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہی نہیں بدلے ذات بھی بدل گئی۔ یہاں آلِ زرداری کا علی الاعلان ۔۔۔۔بھٹو ہونا تو سب نے ہی دیکھا ہے۔

خیریت گزری کہ ذات، قبیلہ اور خاندان آن کی آن بدل لینے کی سہولت آصف زرداری صاحب کے بچوں ہی تک محدود رہی، ورنہ یہ سہولت عام ہوجاتی تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہر دوسرا پاکستانی آرائیں ہوجاتا، نوازشریف کی حکومت آتے ہی ملک میں کشمیریوں کی اکثریت ہوجاتی، اور ان دنوں کتنے ہی نیازمند نیازی ہوچکے ہوتے۔ ایسے میں ہمارے ہاں خاندان کی کھوج کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت ہی نہ پڑتی بلکہ حکومت کے جاتے ہی اپنی ذات بدلنے والے راتوں رات اپنی ذات میں واپس آجاتے۔

The post ڈی این اے ٹیسٹ نے نسل بدل دی appeared first on ایکسپریس اردو.

اب ہم سمجھے، اُن کو اِتناغصہ کیوں ہے

$
0
0

بعض لوگوں کے غصہ ناک پر دَھرا رہتا ہے، چناں چہ ذرا سی بات پر ان کے نتھنے پھولنے پچکنے لگتے ہیں۔

اب غصہ کیوں کہ ناک پر دھرا ہوتا ہے اور ناک بے چاری تو معصوم سا چشمہ بہ مشکل سنبھال پاتی ہے، یہ سُتواں عضو اتنا غصہ کیسے روک سکتا ہے، سو غصہ پھسل کر فوراً ہونٹوں پر آجاتا ہے، پھر حماقت سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اکثر ندامت پر ختم ہوتا ہے، مگر اس سب میں غصے سے دہکتی آنکھوں، سُرخ رخساروں، آگ اُگلتے ہونٹوں، گھونسے مارتے ہاتھوں اور لاتیں بنی ٹانگوں کا کچھ بگڑے نہ بگڑے، بے چاری ناک ضرور کٹ جاتی ہے۔ لو جی، وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ (غصے کا) آشیانہ تھا۔

غصے کے باعث ناک کا عبرت ناک انجام اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ یہ ڈھیروں کے حساب سے غصہ آتا کیوں ہے؟ حال ہی میں امریکی محققین نے اس کا سبب نیند میں کمی کو بتایا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا کی آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار نیند کی کمی اور چڑچڑے پن کے درمیان براہ راست تعلق کو دریافت کیا گیا۔ ایسے شواہد پہلے ہی سامنے آچکے ہیں کہ نیند کی کمی ذہنی بے چینی اور اداسی کو بدترین بنادیتی ہے جب کہ خوشی اور جوش و خروش ختم کردیتی ہے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نیند میں صرف دو گھنٹے کمی انسان کو چِِڑچِڑا اور مشتعل مزاج بنادیتی ہے۔

اس تحقیق کی خبر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے غصے سے بھرے حکم راں یاد آگئے، ہم اکثر سوچتے تھے کہ ان میں اتنا غصہ کیوں ہے بھئی؟ اس تحقیق سے پہلے حکم رانوں کی یہ اطلاع نظر سے گزری تھی کہ ’’ہم مصروف تھے‘‘، لیجیے کڑی سے کڑی مل گئی۔ چوں کہ حکم راں دن رات مصروف تھے، اس لیے ان کی نیند پوری نہیں ہورہی ہوگی، بلکہ ہمارے خیال میں مصروفیات اُن کے سر پر یوں سوار تھیں کہ وہ سوتے ہوئے بھی بے چینی کی حالت میں کروٹوں کے یوٹرن لیتے رہے۔

سوچا ہوگا جس طرح لوگ گھوڑے بیچ کے سوتے ہیں، اسی طرح ہم بھینسیں بیچ کے سکون سے سوجائیں گے، لیکن عقل کی طرح مسائل بھی بھینس سے بڑے نکلے، اس لیے سونے کی فرصت کم ہی مل پائی۔ نیند کی کمی غصے کی زیادتی کی شکل میں ظاہر ہوئی، بس پھر کیا تھا مصروف حضرات میں سے کسی نے کسی شہری کو تھپڑ جَِڑ دیا، تو کوئی فون نہ اٹھانے پر پولیس افسر کے پیچھے پڑگیا، اور ایک غصے سے بھرے وزیر اپنی جلالی کیفیت کا مظاہرہ ایوانوں میں کرتے رہے۔

ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت اپنے وزراء کی برہمی کم کرنے کے لیے ان کی نیند پوری کرنے کا سامان کرے۔ اس مقصد کے لیے وزارت سُلائی قائم کی جائے، جس کا وزیر کسی ’’ماتا سمان‘‘ بزرگ خاتون کو مقرر کیا جائے۔ یہ خاتون وزیروں مشیروں کی مصنوعی امی بنی انھیں ٹھیک رات کے نو بجے ’’چلیے، اب آپ سب اچھے بچوں کی طرح سوجائیں‘‘ کہہ کر بستر پر بھیج دیں اور ضرورت ہو تو انھیں لوری دے کر سُلائیں۔ ان وزیروں مشیروں کے لیے یہ لوری مناسب رہے گی، جسے سُنتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھوجائیں گے:

نندیا پری تو جلدی سے آجا

گُڈے کو میرے آکے سُلا جا

تبدیلی کے سپنے دکھا جا

سپنوں میں ڈالر کو گرا جا

روپے میاں کی قدر بڑھا جا

لوگوں کو نوکری پہ لگا جا

لاکھوں گھروں کی بِنا اُٹھا جا

نیا پاکستان بنا جا

اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں اوں

اناں اناں اناں اناں

The post اب ہم سمجھے، اُن کو اِتناغصہ کیوں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

پولیس والی کی گینگسٹر سے شادی۔۔۔ کیا خوب سزا دی

$
0
0

حبیب جالب نے ’’محبت گولیوں سے بو رہے ہو‘‘ کسی اور تناظر میں کہا تھا، لیکن کسی پولیس والی کو اگر ایک دادا گیر (گینگسٹر) سے پیار ہوجائے تو دو گولی چلانے والوں کی اس محبت کو گولیوں سے بوئی گئی محبت کے سِوا کیا کہا جاسکتا ہے۔

یہ فلمی انداز کی پریم کتھا ہے کانسٹیبل پریتی کُماری کی اور اس کہانی نے جنم لیا بھارتی ریاست بہار کے شہر بھاگلپور میں، جہاں خواتین کے پولیس اسٹیشن میں گذشتہ سال تعینات ہونے والی پریتی کماری نے مٹھو شا نامی ایک گینگسٹر سے پریت لگالی، جو ضلع کے مطلوب ترین بدمعاشوں میں سے ایک ہے۔ وہ دونوں چُھپ چُھپ کر ملتے رہے، اور آخر ایک روز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ انھوں نے یہ شادی خفیہ رکھی، مگر عشق اور مُشک چھپائے کہاں چُھپتے ہیں، ویسے قانون اور جُرم کے معاشقے، صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کا منظر پیش کرتے ہیں، لیکن کم ہی پکڑائی میں آتے ہیں۔

یہ پریتی بی بی اور ان کے پَتی کی بدقسمتی تھی کہ نہ صرف ان کا رشتہ چُھپا نہ رہ سکا بلکہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ محترمہ پولیس کی خفیہ معلومات ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ کا پُرانا پاکستانی اشتہار گنگنگاتے ہوئے اپنے شوہر نام دار کے گوشِ گُزار کردیا کرتی تھیں۔ انھوں نے شاید یہ فرض کرلیا تھا کہ پولیس کا فرض ’’آپ‘‘ ہی نہیں ’’پاپ‘‘ کی مدد کرنا بھی ہے، اور جب پاپ کرنے والے ’’آپ‘‘ اپنے ہونے والے بچوں کے باپ بھی ہوں تو یہ فرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ بہ ہر حال، پریتی صاحبہ کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے، اب غالباً اپنی ملازمت کا تجربہ وہ اپنے مٹھو میاں کے کام لارہی ہوں گی۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پریتی صاحبہ کو ملازمت سے کیوں نکالا گیا۔ انھوں نے وہی تو کیا جو قانون کہتا ہے۔ مٹھو میاں پولیس کو مطلوب تھے، تو پریتی کُماری کو بھی مطلوب ہوگئے، قانون اس گینگسٹر کو گرفتار کرنا چاہتا تھا، پریتی بی بی نے انھیں اپنی زلف کا اسیر کرلیا، پولیس چاہتی تھی کہ مختلف وارداتوں کا مرُتکب یہ شخص سزا پائے، ان خاتون نے اُسے عمرقید کی سزا سُنا دی۔

ہمیں یقین ہے کہ پریتی کماری نے مٹھوشا کے متاثرین کا بدلہ لینے اور انھیں سزا دینے کے لیے ہی یہ بیاہ کیا ہے۔ مٹھومیاں کو یہ بات تب سمجھ میں آئے گی جب ہر دوسرے دن ان سے کہا جائے گا،’’سُنیے! آج پولیس مقابلے سے بچ جائیں تو شام کو مجھے امی کے ہاں لے چلیے گا۔‘‘ کبھی فرمائش کی جائے گی’’جی وہ لال لپ اسٹک ختم ہوگئی ہے، ماراماری کے بعد بھاگتے ہوئے تھوڑا سا خون لیتے آئیے گا۔۔۔بھولیے گا مت ورنہ خون پی جاؤں گی۔‘‘

کسی روز فون آئے گا،’’آج واردات سے ذرا جلدی آجائیے گا، مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔‘‘ کبھی سُننے کو مِلے گا،’’اتنی دیر سے کیوں آئے؟ سچ بتائیں کسی کو قتل کرنے، لوٹنے، مارپیٹ کرنے، بَھتّا لینے گئے تھے یا کسی حَرّافہ کے پاس تھے؟‘‘ اس سب کے بعد مٹھومیاں کی سمجھ میں آئے گا کہ قانون کبھی کبھی یوں بھی سزا دیتا ہے۔

The post پولیس والی کی گینگسٹر سے شادی۔۔۔ کیا خوب سزا دی appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈونلڈ ٹرمپ کا چینل

$
0
0

کسی کو بگاڑ کی تصویر دیکھنا ہو تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ لے۔

ایک مشہور مصرعہ ذرا سے ردوبدل کرکے پڑھا جائے تو ان پر پوری طرح چسپاں ہوتا ہے ’’دہن بگڑا تو بگڑا تھا، خبر لیجے زباں بگڑی۔‘‘ اپنی زبان کی طرح وہ ہر ایک سے بگڑے رہتے ہیں، اہلیہ سے میڈیا تک ان کی کسی سے نہیں بنتی۔ حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران سی این این کے مخفف سے مشہور کیبل نیوز نیٹ ورک کے رپورٹر جِم اکوسٹا کے سوال پر برہم ہوگئے۔

سی این این پر تو وہ پہلے ہی غصے میں ہیں اس واقعے کے بعد ان کی خفگی مزید بڑھ گئی ہے، سو انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ سی این این کے مقابلے میں ایک نیا نیوز نیٹ ورک قائم کیا جانا چاہیے جس کا مقصد بیرون ملک دنیا بھر کے ناظرین کے سامنے امریکا کی خبروں اور واقعات کو مناسب صورت میں پیش کرنا ہو۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے مجوزہ چینل کے قیام کا مقصد دنیا میں امریکا کی عظمت کا اظہار قرار دیا ہے۔

ظاہر ہے مجوزہ چینل خبروں اور واقعات کی جو ’’مناسب صورت‘‘ خبر یا تجزیے کی صورت پیش کرے گا وہ کچھ یوں ہوں گی ’’شام میں امریکی بم باری سے ایک دہشت گرد ہلاک۔۔۔اس موقع پر پچاس عام شہری بھی موجود تھے، جو اتفاق سے مارے گئے‘‘،’’افغانستان سے روز بائیس امریکی فوجیوں کی واپسی، وہ وطن واپسی کی خوشی میں شادیٔ مرگ کا شکار ہوکر چل بسے، اس لیے تابوت میں لائے جارہے ہیں‘‘،’’افغانستان سے واپس آنے والے فوجی کسی اور وجہ سے نہیں طالبان کے خلاف امریکا کی فتح کی خوشی کو سہار نہ پانے کے باعث نفسیاتی مریض ہورہے ہیں۔‘‘

ہم ٹرمپ صاحب کی آسانی کے لیے اس مجوزہ ٹی وی چینل کا نام ‘‘ٹیبل نیوز نیٹ ورک‘‘ تجویز کیے دیتے ہیں، کیوں کہ ایک تو یہ صدر ٹرمپ کی ٹیبل سے چلایا جائے گا دوسرے اس پر ’’ٹیبل اسٹوریز‘‘ ہی چلیں گی۔

جانے امریکی صدر کو سی این این سے مقابلے کے لیے کسی نئے چینل کے قیام کا خیال کیوں آیا، صحافت اور صحافیوں کو قابو میں کرنے کے لیے وہ اپنے قریبی دوست شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی پوچھ سکتے تھے کہ ’’پائی جان! تُسی دَسو کی کرنا اے‘‘ جس پر سعودی ولی عہد مسکرا کر جواب دیتے ’’بس ایک دو صحافیوں کو ہمارے سفارت خانے بھیج دو۔‘‘ یوں آزاد اور تنقید کرتی صحافت ٹھکانے لگانے کا کام بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔

ویسے خبروں اور صحافت کو مناسب یا من مانی صورت دینے کے اس سے کہیں زیادہ معقول اور مہذب طریقے بعض ممالک میں رائج ہیں، جنھیں آزمایا جائے تو سی این این کیبل کے ذریعے دیکھے جانے والے ہر ٹی وی پر سویں یا ایک سو دسویں نمبر پر چلا جائے گا، اور ڈھونڈنے والے اُسے ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے چراغِ رُخِ زیبا لے کر، اینکر ٹرمپ صاحب کی سیرت اور صورت کی یوں تعریف کریں گے کہ وہ مدرٹریسا اور ٹام کروز لگنے لگیں گے، تجزیہ کار ان کی حمایت میں یوں گُل فشانی کریں گے اور ان کی ستائش میں ایسے ایسے نُکتے لائیں گے کہ ٹرمپ شرمندہ ہوکر کہہ اٹھیں گے۔۔۔جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔

The post ڈونلڈ ٹرمپ کا چینل appeared first on ایکسپریس اردو.

’کرپشن‘ ملک کی معاشی زبوں حالی کی اصل وجہ

$
0
0

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف الخلوقات بنایا اسے اعلیٰ دماغ اور گویائی عطا کی اور اسے کتاب اور قلم کے ذریعے علم سکھایا، اس کے بعد زمین پر اسی انسان کو نائب اللہ قرار دیا اور آزمائش یہ رکھی کہ بہت سے معاملات میں خودمختار بنا کر ابلیس کے حوالے سے نفس پر قابو رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے حکامات پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا اور ان تمام امور کو سمجھنے کے لیئے انبیا کرام کو کتابوں اور صحیفوں کے ساتھ بھیجا۔ اللہ نے ان کتابوں اور صحیفوں میں یہ بھی واضح کردیا کہ یہ دنیا فانی ہے اور قیامت کے بعد یوم حساب ہوگا۔

مذہبی اور دینی حوالوں کے علاوہ جب ہم  مورخین اور سماجی علوم کے ماہرین کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ انسان کو ایک سماجی جانور قررا دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ رہتا ہے جسے معاشرہ یا سماج کہتے ہیں یعنی انسان تنہا نہیں رہ سکتا۔

بہتر اور شفاف معاشرے کے لیے ہمیشہ سے عدل وانصاف کو لازمی عنصر قرار دیا جا تا ۔ ہماری اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ ظلم کی بنیاد پر تو کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی اور بددیا نتی کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرعون کو کافی وقت ملا اور حضرت موسیٰؑ   نے بارہا اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اوراس دوران یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرعون کو کیوں جلد سزا نہیں دیتا تو روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کہا کہ فرعون اپنے لوگوں سے انصاف کرتا ہے۔

یوں یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی قوم کی مضبوطی اور کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم اور معاشرے کی اخلاقی روایات اور سماجی اقدار عدل و انصاف اور دیا نتد اری کی بنیاد پر مضبوط مستحکم اور پائیدار ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تم کو آزمائیں گے اولاد اور مال سے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اولاد اور مال فتنہ ہے اور اس کے ساتھ ہی بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم سے پہلے بہت سی قومیں اسی بنیاد پر تبا ہ ہوگئیں کہ انہوں نے بے ایمانی، بد دیانتی اور دھوکہ دہی کے کام کئے۔ عدل وانصاف،دیانتد اری، ایمانداری اور نیکی کا تصور برصغیر کے اسلامی معاشرے میں سماجی ،اخلاقی ،اقدار اور روایات سے مضبوطی سے جڑا ہوا اور بہت مستحکم رہا جس کو انگریزوں نے آتے ہی توڑنے کی کوشش کی اور اقتدار کے ایوانوں کی سازشوں میں اس لحاظ سے کامیاب بھی رہے بلکہ آنے والے دنوں میں لارڈ مکالے کی تجاویز اور ہدایات کی بنیاد پر متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے میں داخل کرنے کی کوشش بھی کی، جب کہ خود ِان کے ہاں یہ کوشش شروع سے رہی کہ اپنے معاشرے ، اداروں اور نظام کو کرپشن کے ناسور سے ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے۔

اس کا سب سے بڑا اور تاریخی ثبوت بنگال کا تاریخی معرکہ تھا۔ واضح رہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے یہاں پر قدم جمائے اور جب ذرا مضبوط ہوئے تو ان کی پہلی بڑی جنگ جو پہلی جنگ پلاسی کے نام سے مشہور ہے، انگریز جنرل اور حاکم لارڈ کلائیو اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں کے درمیان ہوئی جس میں پہلے لارڈ کلائیو کو شکست ہوئی تو اس وقت لندن کی اسٹاک ایکسچینج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص کی قیمتیں خطرناک حد تک گر گئیں۔

اس کے بعد لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے وزیر غدار وطن میرجعفر سے ساز باز کرکے اسے نوابی کا لالچ دیکر رشوت دیکر نواب سراج الدولہ سے غداری کرنے پر راضی کر لیا اور پھر 1757 کوجب پلاسی کی دوسری جنگ لڑی گئی تو نواب سراج الدولہ شہید ہوگئے اور لارڈ کلائیو کو فتح ہوئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں نہ صرف لندن کی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں بہت اضافہ ہوا بلکہ انگریزوں کے عروج کا دور یہیں سے شروع ہوا۔ کچھ عرصے بعد برطانیہ کی عدالت نے لارڈ کلائیو کو برطانیہ طلب کرلیا کہ ان پر مقامی نوابوں اور امراء سے رشوت کے طور پر بڑے قیمتی تحائف وصول کرنے کے الزامات عائد ہوئے۔

جب برطانوی ہند کا یہ تاریخی ہیرو برطانیہ پہنچا اور جیوری میں مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی تو اس پر یہ واضح ہوگیا کہ یہ الزمات ثابت ہوجائیں گے اور اس پر بددیانتی اور بے ایمانی پر چند ماہ یا ایک دو سال کی قید ہو جائے گی تو قاعد ے کی رو سے اسے تو یہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا کہ یہ تھوڑی سی سزا بھگت لیتا اور باقی زندگی عیش و عشرت سے گزار دیتا، لیکن برطانیہ کی معاشرتی اخلاقی اقدار اس اعتبار سے بہت مضبوط تھیں، لارڈ کلا ئیو اس الزام کے بعد معاشر  ے میں بے عزتی کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا اس لیے اس نے عدالت کے ممکنہ فیصلے سے قبل ہی اپنے پستول سے خودکشی کرلی۔

یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہند وستان کی مقامی اشرافیہ میں بھی سماجی اور اخلاقی اقدارایسی ہی راسخ ہوتیں جیسی اس وقت برطانیہ میں تھیں تو برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم نہ ہوتی۔ یہ کرپشن اور غداری کا پہلا زخم ہماری تاریخ کے سینے پر نمودار نہ ہوتا کیونکہ اس سے پہلے ہماری تاریخ میں کردار کی پختگی شخصیات کی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ اگرچہ اعلیٰ کردار کی مثالوں سے ہندوستان کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ مثال بلوچستان سے دی جائے۔

بلوچستان میں محمد نصیر خان احمد زئی بلوچ کی شخصیت اس اعتبار سے اہم ہے کہ طویل عرصے بعد انہوں نے بلوچستان کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کروایا۔ وہ 1749 میں پیدا ہوئے اور1794 میں وفات پائی۔ محمد نصیر خان نے احمد شاہ ابدالی کی فوج میں بلوچستان سے اپنے لشکر کے ہمراہ شامل ہو کر ہندوستان میں مرہٹوں کے خلاف جنگ کی اور ان کا زور ہمیشہ کے لیے توڑدیا۔

کہتے ہیں کہ کسی لڑائی   کے دوران کسی بد خواہ نے نصیر خان کی ماں سے کہا کہ نصیر خان نے جنگ میں پیٹھ دکھائی اس پر نصیرخان کی ماں نے جواب دیا، یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو کبھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا، اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ پاکیزہ مائوں کے بیٹے تاریخ میں نام پیدا کرتے ہیں۔ نصیر خان کے بعد 1794 سے 1817 تک ان کے جانشین محمود خان احمد زئی بلوچ قلات کے خان رہے اور ان کے بعد شہید محراب خان احمد زئی بلوچ 1817 سے قلات کے خان بنے اور 1839 میں شہادت پائی۔

بلوچستان کے معروف محقق ،دانشور اور مورخ پروفیسر عز یر محمد بگٹی نے اپنی کتاب ’’بلوچستان شخصیات کے آئینے میں،، میر محراب خان شہید کے بارے میں ان کی بہادری و شجاعت کے اعتبار سے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔  1839 میں جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہاں درہ بولان سے انگریزوں کے لشکر گزرے، یہاں ان پر گوریلا حملے ہوئے۔ جب انگریز فوجیں افغانستان سے فارغ ہوئیں تو اسی دوران انگریز فوج کے گورنر جنرل ہند، لارڈ آک لینڈ نے کہا کہ قلات پر حملہ کیا جائے۔

اس موقع پربریگیڈیئر ولشائر نے حملے سے پہلے میر محراب خان سے رابطہ کرتے ہوئے شرائط اور مراعات پیش کیں کہ اگر وہ بھی انگریزو ں کی اطاعت قبول کر لیں گے تو وہ بدستور نہ صرف قلات کے خان رہیں گے بلکہ ان کے تحفظ کی ذمہ داری بھی انگریز سرکارلے گی۔ اس کا جواب تقریباً وہی تھا جو سلطان فتح علی ٹیپو نے دیا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ میرمحراب خان نے بھی کہا کہ میر ے اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کا حکم یہی ہے کہ غلامی کو قبول نہ کیا جائے۔ پھر وقت نے دیکھا کہ انہوں نے اور ان کے تمام جانبازوں نے جام شہادت نوش کیا۔

اس وقت اگرچہ غداران وطن بھی موجود تھے اور آزادی کے متوالے بھی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام سطح پر یعنی عام لوگوں میں ایمانداری ، دیانتداری، پاکیزگی، سماجی اور اخلاقی اقدار کی بنیادیں پر بہت ہی مضبوط تھیں۔ انگریزوں نے   عام لوگوں اور پورے معاشرے کو کرپٹ کرنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم بحیثیت قوم تو انگریزوں کے غلام تھے لیکن ذہنی اور جذ باتی طور پر غلام نہیں تھے اس لیے آزاد ہوگئے۔ اس آزادی کے لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنمائوں کی قیادت ہمیں میسر تھی۔ اعلیٰ کردار کے لحاظ سے علامہ اقبال کے بہت سے مشہور اشعار ہیں مگر ایک شعر ایسا ہے جس میں  اعلیٰ کردارکے اعتبار سے غالباً دنیا بھر میں اس سے اچھی تعریف ناممکن ہے علا مہ اقبال کا کہنا ہے کہ

قبائے پاک طینت سے ہے گوہر کا وضو

صدف میں آب گہر کے سوا کچھ اورنہیں

وہ کہتے ہیں کہ گہر یعنی موتی اس طرح بنتا ہے کہ جب بارش پڑتی ہے تو سمندر کی تہہ سے لاکھوں کروڑوں سیپیاں ’’صدف ‘‘ سطحِ سمندر پر آجاتے ہیں اور جب میٹھے پانی کی بارش کا کوئی قطرہ کسی صدف میں گرتا ہے تو وہ بارش کے پانی کے اس قطرے کومضبوطی سے بند کرلیتی ہے اور پھر نمکین پانی کے سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے اور ایک طویل عرصے تک یہاں سمندر کی تہہ میں رہنے کے بعد یہی میٹھے پانی کا قطرہ موتی بن جاتا ہے۔

انسانی کردار کے لیے بھی علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اعلیٰ کردارکی صورت بھی ایسی ہی ہے کہ انسان کا کردار اس دنیا کے برے ماحول کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے اور پھر ایک ریاضت کے بعد اس کا کردار موتی بن جا تا ہے۔ اسی طرح قائد اعظم نے  اپنی پوری زندگی کو اعلیٰ کردار کا نمونہ بنایا۔ قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور کتاب ’’شہاب نامہ ،، میں لکھتے ہیں کہ 1937 میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ہوئی تو انہوں نے مسلم مخالف پالیسی اپنائی خصوصاً یو  پی اور سی پی ایسے صوبے تھے جہاںہندو اکثریت 85% اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب15% تھا مگر یہاں کے مسلمان برصغیر کے اعلیٰ تہذ یبی و ثقافتی ورثے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

یوں اس وقت بھی ان صوبوں کی اعلیٰ اور متوسط سطح کی ملازمتو ں میں ان کا تنا سب تقریبا 50% تھا کانگریس نے ان وزار توں کے قیام کے ساتھ ہی سرکاری سطح پر یہ خفیہ کاروائی شروع کی کہ مسلمانوں کو کسی طرح ان اہم سرکاری ملازمتوں سے الگ کیا جائے اوران کی جگہ ہندوں کوتعینات کیا جائے۔

قدرت اللہ شہاب جو اس وقت انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان دے کر نوجوان سول افسر کی حیثیت سے تعینا ت تھے انہوں نے کانگریس کا وہ پالیسی لیٹر دیکھ لیا اور کسی طرح وہ اس خط کو باہر لے آئے اور پھر قائد اعظم سے وقت لے کربہت فخریہ انداز سے کہا کہ میں آپ کے لیے کانگریس کی مسلمانوں کے خلاف سازش کا منصوبہ لایا ہوں اور وہ خط ان کے سامنے رکھا۔ قائد اعظم نے وہ خط دیکھا اور خاموشی سے اسے قدرت اللہ شہاب کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو شہاب تم نے ملازمت شروع کرتے ہوئے یہ عہد کیا تھا کہ تم حکومت کا کوئی راز عیاں نہیں کرو گے اس لیے آئندہ اپنی جانب سے ایمانداری اور دیانتداری کا خیال رکھو جب بھی کوئی بے ایمانی کرتا ہے اور دیانتداری نہیں کرتا تو آخر اس کا انجام برا ہوتا ہے۔

پھر یہی ہوا کانگریس نے جو 1937 کے انتخابات میں مسلم نشستوں پر بھی بھرپور اندازمیں کامیاب ہوئی تھی اپنی اسی بے ایمانی کی وجہ سے 1945-46 کے موسم سرما میں مرکزی اسمبلی کی ایک مسلم نشست بھی حاصل نہ کر سکی اور صوبوں کی سطح پر بھی مشکل سے دس فیصد سے بھی کم نشستیں لے سکی۔ انہی انتخابات کے نتائج کی بنیادوں پر پاکستان کا قیام عمل میں آسکا۔ اس اسلامی ریاست کے ناکام ہونے کی پیش گوئیاں کردی گئیں اور ساتھ ہی کا نگریس اور برطانوی مشترکہ سازشیں سامنے آگئیں۔

پہلے برصغیر کی تقسیم میں ناانصافی کی گئی پھر اثاثوں اور فوجی سازوسامان کی تقسیم کے علاوہ ہندوستان کے مرکزی بنک جس میں کل سرمایہ چار ارب روپے تھا اس کو بھی بھارتی حکومت نے دینے سے انکار کردیا اور جب مہاتما گاندھی نے نہرو سرکار پر زور دیا کہ پاکستان کا حصہ جو اصول کے مطابق  ایک ارب روپے بنتا تھا اسے دے دیا جائے، یوں آخر بہت تاخیر سے ان چار ارب روپے میں سے صرف 20 کروڑ روپے دئیے اور قرضوں کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال دیا۔

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان دشمنوں کی پیش گوئیوں کے مطابق ناکام نہیں ہوا بلکہ بہت ہی کامیاب ہوا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49 جس کا مجموعی حجم 89 کروڑ 57 لاکھ تھا جس کا خسارہ 10 لاکھ تھا یہ بجٹ خود وزیراعظم نے  پیش کیا تھا۔ اس کے بعد دوسرا قومی بجٹ مالی سالی 1949-50 بھی لیاقت علی خان نے پیش کیا جس کا حجم ایک ارب11  کروڑ اٹھائس لاکھ ر وپے تھا اور یہ بجٹ خسارے کا نہیں تھا بلکہ اس میں چھ لاکھ روپے کی بچت تھی، تیسرا بجٹ بھی لیاقت علی کا تھا جس کا حجم ایک ارب 59 کروڑ 85 لاکھ روپے تھا اور خسارے کی بجائے بچت 10  لاکھ روپے تھی۔ مالی سال 1951-52 کے بجٹ کا حجم ایک ارب 58 کروڑ 42 لاکھ تھا اور بچت20 کروڑ 74 لاکھ روپے تھی۔

یہ لیاقت علی خان کی حکومت کا آخر ی قومی بجٹ تھا اس وقت سونے کی قیمت سو روپے تولہ سے کم اور ڈالر دو روپے کا تھا۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی سطح پر قومی کردار بہت مضبوط تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اب اگرچہ عوامی سطح پر کردار کی مضبوطی میں بھی قدرے کمی آئی ہے لیکن اس وقت حلال، حرام کا فرق جذبہ حب الوطنی،خوف خدا اور نبی کریمﷺکی محبت سے بہت زیادہ مضبوطی سے مربوط تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں عوامی سطح پر کردار کی پختگی کو دیکھا، میرے والد مرحوم ریلو  ے گارڈ تھے، ہم کوئٹہ میں جوائنٹ روڈگارڈ کالونی میں رہتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ سفر اور ٹرانسپورٹیشن کے لیے 90% انحصار ریلوے پر کیا جاتا تھا، اس وقت ریلوے میں کرپشن کے بیج بوئے جانے لگے تھے لیکن ابتدائی مراحل میں ماحول عمومی طور پر کرپشن کے لیے سازگار نہیں تھا۔ گارڈ کالونی ہی میں ریلوے کے دوگڈز کلرک قریبی بنگلہ نما مکانوں رہتے تھے۔ اُس وقت اکثر گھرانے کثیر الاولادہوا کرتے تھے ان دونوں میں سے ایک کلرک بہت دیانتدار اور ایماندار تھا اور دوسرا کرپٹ تھا، جو کرپٹ تھا اس کے بھی آٹھ بچے تھے اوران کی ایک بوڑھی بہن تھی جسے ہم سب بچے بلکہ ہم سے بڑے بھی پھوپھی کہتے تھے یعنی وہ جگ پھوپھی تھیں، وہ محلے بھر کے تقریباً پچیس بچے بچیوں کو قرآن پڑھاتی تھیں اور فی بچہ تین روپے ماہانہ معاوضہ لیتی تھیں، بنگلہ نما مکان میں برآمدے کے کونے میں اُن کا ایک الگ کمرہ تھا ۔

وہ رہتی تو اپنے بھائی کے ساتھ تھیں مگر کھانا پینا اور یہاں تک کہ لباس بھی وہ خود اپنی کمائی کا پہنتی تھیں، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کا گڈز کلرک بھائی رشوت لیتا تھا اور وہ حرام کی اس کمائی کو کھانا تو درکنار چکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں، بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس کرپٹ گڈز کلرک کے گھر سے کوئی پکوان آتا تو گھر والے لے تو لیتے مگر اس پلائو،زردے وغیرہ کو پھینک دیتے یا کسی بھکاری کو دے دیتے۔ ان دنوں ایک حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ ایک مشہور صابن بنانے کی کمپنی نے مشہوری کے لیے کسی صابن میں کار کی چابی رکھی اور ان کی انعام میں کار نکلی، پھر جب دس روپے کے پرائز بانڈ حکومت نے جاری کئے تو ان کا بانڈ بھی نکلا تھا جو چند ہزار کا تھا۔ اس وقت ریلوے کالونی کے تمام لوگوں کو بہت حیرت ہوئی مگر اب مجھے اس شخص کی عیاری اور مکاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے گھرانے کا انداز شاہانہ تھا جب کہ دوسرے نیک سیرت گڈز کلرک کا خاندان روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتا تھا۔

یہ نیک سیرت کلرک کسی قسم کا لین دین کئے بغیر ایمانداری سے جس کا حق ہوتا اسے سامان کیلئے ویگن دیتا یا اس کا سامان بک کرتا، اس لیے اس نیک کلرک سے بڑے بڑے سیٹھ اور کاروباری حضرات جھگڑتے، اسے دھمکیاں دیتے لیکن یہ باکردار شخص کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور شائد یہی دبائو تھا کہ وہ گھر میں اور محلے میں بھی عموماً ہر کسی سے غصے سے بات کرتا تھا۔ پھر ایک دن ایک ایسی خبر آئی کہ پورا محلہ ہی سکتے میں آگیا اور وہ اس طرح کہ ریلوے افسر نے اس کے دفتر میں چھاپہ مارا اور گواہوں کے سامنے اس کے میز کی دراز سے 75 روپے اصل رقم سے زیادہ نکلے اور اس پر اس کے سامنے دو صورتیں رکھیں کہ یاتو فوراً استعفیٰ دے دیں ورنہ کیس پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔

اس زمانے میں عزت دار آدمی موت کو پولیس کیس پر ترجیح دیتا تھا، بدنامی اور سزا کے ڈر سے اس نے استعفیٰ دے دیا۔ پورا محلہ جانتا تھا کہ ایمانداری کا انجام بہت ہی غلط ہوا ہے ۔ محلے داروں نے حوصلہ دیا کہ رزق کا وعدہ اللہ پاک نے کیا ہے۔ اس گارڈ کالونی میںآج بھی اِن بنگلہ نما مکانات کے ساتھ ایک کمرے کا سرونٹ کوارٹر بھی ملتا ہے کسی نے انہیں اپنا سرونٹ کوارٹر پیش کیا، کسی نے کہا کہ محلے میںپرچون کی دکان کھول لیں اسی روز شہر کا سب سے بڑا ہندو سیٹھ اس سے ملنے آیا تو وہ نہایت گندی گالیاں دیتے ہوئے اس سیٹھ کی جانب بڑھا، لوگوں نے اسے پکڑا، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اب تم لوگوں کے دل ٹھنڈے ہوگئے۔

بہت چیخنے کے بعد تھک گئے تو وہ ہندو سیٹھ بولا، ہم کو معلوم ہے کہ کن لوگوں نے تمارے خلاف سازش کی ہے ان کو تو بھگوان دیکھے گا مگر میں تم کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ریلوے تم کو ڈھائی سو روپے تنخواہ دیتا تھا ہم تم کو سات سو روپے مہینہ تنخواہ دے گا اور شہر کے درمیان مکان بھی دے گا ہم کو ایماندار آدمی کی ضرورت ہے۔ تین چار سال بعد جب ہم غالبا آٹھویںجماعت میں پڑھ رہے تھے تو ایک ریلوے ایس ٹی عبدالوحید سکھر ریلوے ڈویژن سے تبادلے پر کوئٹہ آئے ان کو تمام لوگ آلو گوشت پکار پکار کرچھیڑتے تھے۔

اس زمانے تک ریلوے میں کرپشن اس حد تک عام ہونے لگی تھی کی ایس ٹی بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں پکڑتے تو اکثر رشوت لیکر چھوڑ دیتے تھے لیکن یہ وحید ایس ٹی اتنے ایماندار تھے کہ ایک بار انہوں اپنی والدہ اور بھائی کو بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑا اور اپنی جیب سے جرمانہ بھرا۔ اگرچہ کرپشن عوامی سطح پر آہستہ آہستہ یوں بڑھی کہ 90% عوام تو کرپٹ نہیں ہیں مگرتلخ حقیقت یہ ہے اب عمومی طور پرکرپشن کو معاشرتی سطح پر برا نہیں سمجھا جاتا۔

غالبا 1996 کی بات ہے کہ میں کوئٹہ کے ایک معروف روزنامے میں اہم حیثیت میں کام کر رہا تھا اس اخبار نے عوامی سطح پر سماجی خدمات کے لیے ایک سروس شروع کر رکھی تھی کہ اگر کسی کا کوئی گم شدہ سامان کوئی چیز کسی کو ملے تو وہ اس اخبار کے دفتر میں جمع کروا دیتا اور اخبار اس سے متعلق مفت اشتہار دیتا اور جس شخص کی گمشدہ چیز ہوتی وہ نشانی بتا کر لے جاتا، ایک روز ایک غریب بلوچ نوجوان ایک موٹا پھولا سا بیگ لایا جس میں ایک چھوٹا سا تا لا لگا ہوا تھا، میں نے بیگ کو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے اندازہ کر لیا کہ اس میں کرنسی نوٹ بھرے ہوئے ہیں۔

میرے ساتھ اخبار کے مینجر کرم حسین جامی تھے، انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں اور کیا کام کرتے ہیں تو اس نے بتا یا کہ وہ سنڈ ے من سول ہسپتال میںکام کرتا ہے، میں نے کہا کہ اس میں کرنسی نوٹ معلوم ہوتے تو وہ بولا لیکن یہ میرے نہیں ہیں، میں لاجواب ہوگیا، دوسرے دن اس گمشدہ بیگ کا اشتہار پڑھ کراُس وقت معروف پارلیمینٹرین ہزار خان بجرانی مرحوم کے بھائی تشریف لائے، بیگ کی نشانیاں بھی بتائیں اور یہ بھی کہا کہ نہ صرف اس بیگ میں لگے تالے کی چابی ان کے پاس ہے بلکہ اِ ن کا شناختی کارڈ بھی اس بیگ میں ہے، جب بیگ کھولا گیا تو اس میں کو یتی ریال، ڈالر اور پاکستانی کرنسی تھی جو اس وقت تین چار لاکھ روپے سے کسی طرح کم نہیں تھی۔

عرصہ گزر گیا ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اس واقعہ کا ذکر اپنے تعمیر نو کالج کے پرنسپل فضل حق میر مرحوم سے کیا تو انہوں نے ایک اور واقعہ برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے سنایا کہ انگریزوں کے دور میں  وائس رائے کی بیگم پہلی بار جب دہلی آئیں تو دہلی کی جامع مسجد دیکھنے گئیں تو ان کے اردگرد اعلیٰ حکام کی ایک فوج تھی اور اس بھیڑ میں وہ اپنا بیگ مسجد کے طاق میں رکھ کر بھول گئیں اور پھر ہجوم میں مسجد سے نکل گئیں۔ جب یہ شاہانہ جلوس تقریبا ایک میل دور گیا ہوگا تو انہیں یاد آیا۔ ادھر جب ملکہ مسجد سے نکلی تھیں تو مسجد کی صفائی کے لئے بہشتی آیا۔اس نے ملکہ کا بیگ دیکھ لیا اور فوراً ہیرے جواہرات سے بھرا بیگ اٹھایا اور اس جلوس کے پیچھے بھاگا۔ بہشتی نے ہجوم کے پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیگ ملکہ کو دکھایا۔

انہوں نے اسے بلوایا، بیگ لیا، تمام زیورات دیکھے اورحیرت سے پوچھا کہ تم نے یہ قیمتی زیورات کیوں واپس کردیے، اس پر اس بہشتی نے جواب دیا کہ میں قیامت کے دن تمارے نبی ؑ کے سامنے اپنے نبیﷺ کو افسردہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ سبحان اللہ یہ تھا کردار، یہ تھی حق و صداقت کی وہ معرفت جو عشق نبیﷺ سے ہم آہنگ تھی اور کسی نہ کسی انداز سے ہماری معاشرتی،اخلاقی اقدارکی پہچان تھی ۔آج جب میں ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو یہ تو ہے کہ ایماندار اب بھی معاشرے میں موجود ہیں مگر اب ان کا تنا سب بہت کم ہو رہا ہے اور ایمانداری،دیانتداری کے اعتبار سے سماجی بنت میں یہ تار بہت کم اور کمزور ہوتے جا رہے ہیں لیکن جن ایماندار لوگو ںکو میں جانتا ہوں وہ غالباً یہ نہیں چاہیں گے کہ میں ان کی ایمانداری بیان کروں مگر میں ان کی دوستی کی سعادت کی بنیاد پر یہ حق رکھتا ہوں۔

ان دوستوں میں ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز ’’ تمغہ امتیاز‘‘ جواب ریٹائرمنٹ کی زندگی لاہور میں گزار رہے ہیں، یہ گورنمٹ سائنس کالج اور بیلہ ڈگری کالج میں ساتھ کام کرتے رہے سائنس کالج کا زمانہ سیاسی بحرانی دور تھا، اکثر طلبہ کلاسو ں کا با ئیکاٹ کرتے لیکن ڈاکٹر نواز پیریڈ لگتے ہی کلاس میں جاتے اور پورا پیریڈ کلاس میں بیٹھتے چاہے کوئی طالب علم آتا یا نہیں، یہ بھی مشہور تھا کہ وہ جو ٹیوشن پڑھاتے تھے اس کی رقم پر بھی انکم ٹیکس جمع کرواتے تھے، ایک ایماندار شخصیت سابق صوبائی سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان ہیں جواب ریٹائر ہوچکے ہیں ۔

وہ جب جہاں جس پوزیشن پر رہے ان کی ایمانداری سے عوام خوش اور کرپٹ افراد بہت ناراض رہے جب وہ صوبائی سیکرٹری خزانہ تھے تو انہوں نے صوبائی حکومت کے ملازمین کو خصوصاً پینشنروں کو ان کی پینشوں میں بہت فائدہ پہنچایا انہوں نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بنک سے صوبے کے اربوں روپے دلوائے، ایک اور نیک اور ایماندار شخصیت ماسٹرمحمد حسن تھے یہ پہلے سنڈیمن ہائی اسکول میں ہمارے ٹیچر تھے بعد میں جب وہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجوکیشن کوئٹہ میں سیکرٹری تعینات ہوئے،اب پروفیسر فضل حق میر مرحوم ستارہ امتیاز کا ذکر ہے کہ ان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف دوست دشمن سبھی کرتے ہیںان کی ایماندری کی برکتوں کا ایک یہ ثبوت ہے کہ انہوں نے تعمیرنو ٹرسٹ جیسے تعلیمی ادارے کی جو عمارتیں تعمیر کروائیں وہ سرکاری عمارتوں کے مقابلے میں دس گنا کم لاگت پر تعمیر ہوئیں اور مضبوطی کے لحاظ سے کئی گنا مضبوط ہیں۔

یہ حوالے اس لیے دیئے کہ عمارت جہاں یاد گار ہوتی ہیں اور وہاں ہمارے ہاں ماضی کے کارناموں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہوتی ہیں، میرے والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کی پُر تکلف دعوت کرتا ہے زبردست قسم کے پکوان سامنے رکھتا ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتا کہ کھانا تو لاجواب ہے مگر اس میں تھوڑا سا زہر غلطی سے گر گیا ہے تو کیا آپ ایسا کھا نا کھا لیں گے؟ یوں جس طرح زہر ملا کھانا کھانے سے انسان مر جاتا ہے اسی طرح حرام کھانے سے روح مر جاتی ہے۔

ایمان ، توحید دلوں سے کوچ کر جا تا ہے، حلال وحرام کے اعتبار سے ہمارا دین ہماری رہنمائی کرتا ہے وہ شراب اور بعض جانوروں کے گوشت اور یہاں تک کہ اللہ اکبر کہے بغیر ذبحہ کئے ہوئے گوشت کا کھانا بھی حرام قرار دیتا ہے مگر اس طرح کے حرام سے فرد یا چند افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن کسی منصب پر فائز کوئی شخص اگر کرپشن کرتا ہے تو اس سے پورا معاشرہ اور بعض اوقات پورا ملک بھی متا ثر ہو سکتا ہے۔ اس وقت قومی اور صوبوں کی سطح پر کرپشن خطرے کے سرخ نشان سے آگے بڑھ رہی ہے جس کا واضح ثبوت ہمارے داخلی و خارجی قرضے ہیں جو ماضی قریب کے مقابلے میں دگنے تگنے ہو رہے ہیں۔

سماجی اور اقتصادی تحقیق کے کئی ادارے یہ بتا چکے ہیں کہ ہمارے ہاں یومیہ کرپشن بھی اب اربوں روپوں میں پہنچ چکی ہے۔ جب ہم سب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ دور عالمی و قومی اعتبار سے اقتصادی و معاشی مسابقت کا ہے یہاں اب سرمایہ کی حیثیت قومی معاشیات کی رگوں میںخون کی طرح ہے اور اگر یہ خون کرپشن کی وجہ سے تیزی سے ضائع ہوتا ہے تو ہم اور ہمارا ملک ہر طرح سے کمزور ہو جائے گا، اگر چہ اس وقت نیب سمیت کچھ ادارے ملک میں کرپشن کے خلاف کا م کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب تک ماضی کی طرح ہمارے معاشرے میں رشوت اور کرپشن کو برا نہیں سمجھا جائے گا اس وقت تک کوئی ایک ادارہ کوئی حکومت اس کا خاتمہ نہیں کر سکے گی۔

آج ایک تلخ حقیقت سہی مگر حقیقت ہے کہ اب ہم سب کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر آئندہ چند برسوں میں کرپشن کے رجحان کو نہیں روکا گیا تو بقول شاعر ’’ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں،، ہم معاشر ے میں کرپشن کی دیمک کی مثال ماحولیاتی آلود گی،کلائمیٹ چینچ اور گلوبل وارمنگ کے فطری قوانین سے بھی دے سکتے ہیں۔

انسانی معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس کی بنیاد پر مالیاتی نظام کو متوازن اور مستحکم رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی سے دوسرے مسائل اور جرائم معاشرے میں جنم لیتے ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے سب سے موثر اعلیٰ اخلاقی اور سماجی قوانین کا استحکام بہت ضروری ہے ہمار ے ہاں اب تک خوش قستمی سے بہت سے علاقوں میں اعلیٰ روایات اور اخلاقی اقدار بہت مضبوط ہیں، مثلًا بلوچستان کے تین ڈسٹرکٹ ایسے ہیں جہاں چوری اور بددیانتی کو معاشرے میں باعث شرم سمجھا جاتا ہے ان اضلاع میں چاغی، زیارت اور گوادر شامل ہیں، یہاں کوئی بھی چوری نہیں کرتا، یوں اور ویسے بھی ہمارے بیس کروڑ عوام میں سے 90% اس پوزیشن ہی میں نہیں ہیں کہ وہ کرپشن کریں اس لیے ہمارے معاشرے کی ساخت اب بھی اتنی بہتر ہے کہ ہم اس میں اپنی ماضی قریب کی ایمانداری اور دیانتداری کی اقدار کو دوبارہ فروغ دے سکتے ہیں۔

The post ’کرپشن‘ ملک کی معاشی زبوں حالی کی اصل وجہ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>