Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

آئرلینڈ میں دریافت ہونے والی آٹھ سو بچوں کی باقیات کا راز کیا ہے؟

$
0
0

زیرزمین آٹھ سو بچوں کی باقیات کا انکشاف آئرلینڈ کی جدید تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے۔ یوں تو ’’توام بچوں‘‘ کا یہ اسکینڈل گزرے ہوئے چند سال منظر عام پر لا چکے ہیں لیکن اب آئرش حکومت نے اس جگہ کی کھدائی اور فرانزک معائنے کا بھی حکم جاری کردیا ہے۔

آئرلینڈ کے قصبے توام میں چرچ کی نگرانی میں چلنے والے یتیم خانے کے نیچے موجود سترہ چیمبروں سے بڑے پیمانے پر انسانی باقیات کی موجودگی کے امکان پر آئرلینڈ میں کہرام مچ گیا ہے۔ کئی سال گزرنے کے باوجود بھی یہ معاملہ گرم ہے، چرچ کی بالادستی پر مسلسل انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ رواں ہفتے آئرش حکومت نے حقائق منظر عام پر لانے کے لیے اس جگہ کی کھدائی کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

2014 میں یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب ایک مقامی مورخ کیتھرین کورلیس نے یتیم خانے کا وہ ریکارڈ حاصل کیا جس میں796بچوں کی اموات کے سرٹیفیکیٹ موجود تھے، لیکن ان کی قبروں کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ یہاں سے ملنے والی کچھ باقیات کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ ان کی عمریں پینتیس ہفتوں سے لے کر تین سال کے درمیان تھیں، جن میں سے صرف ایک کی تدفین کا ریکارڈ موجود ہے، باقی بچوں کو آخر کہاں اور کیسے ٹھکانے لگایا گیا؟ 2015 میں آئرش حکومت نے نہ صرف اس ضمن میں تحقیقات شروع کردیں کہ ان بچوں کی موت کے بعد لاشیں کہاں گئیں تو ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے کہ یہ مدر اینڈ بے بی ہوم کس قاعدے اور طریقے کے مطابق چلایا جاتا تھا؟

توام کا یہ مدر اینڈ بے بی ہوم 1920میں قائم کیا گیا ۔ یہ ہوم sisters  Bon Secours کے زیر انتظام تھا جو ایک کیتھولک خیراتی ادارہ ہے۔ یہ وہ دور تھا جب آئرلینڈ میں بن نکاحی عورتوں کا ماں بننا ایک ٹیبو تھا۔ ایسی لڑکیوں کو ان کے گھر والے قبول کرنے سے انکار کردیتے اور وہ چار وناچار ان ہومز میں پناہ حاصل کرتیں، جہاں ان کو قیدیوں کی طرح رکھا جاتا۔

1960میں توام کا یہ یتیم خانہ بند کردیا گیا، جس کو بعد میں مسمار کر کے یہاں کھیل کا میدان بنادیا گیا اور دوسری تعمیرات کردی گئیں۔ اس کے قیام کے عرصے میں پینتیس ہزار حاملہ لڑکیوں نے یہاں پناہ حاصل کی، جن کے بطن سے جنم لینے والے اکثر بچے غذائی اور خون کی کمی یا کسی اور بیماری کا شکار ہو کر مر بھی جاتے تھے۔ ان بچوں کو مذہبی روایات کے مطابق باوقار طریقے سے دفن کر نے بجائے Septic Tanks میں ڈال دیا جاتا تھا جہاں کچھ عرصے میں ان کے جسم گل سڑ کے ختم ہوجاتے۔

اس مدر اینڈ بے بی ہوم کی شرم ناک تاریخ صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور دردناک رخ بھی ہے اور وہ ہے یہ کہ یہاں پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ماؤں سے زبردستی الگ کرکے بے اولاد جوڑوں کو گود دے دیا جاتا تھا۔ جے پی روجر، توام کے اسی ہوم میں پیدا ہوئے انہوں نے ماں اور بچوں کو جبراً الگ کرنے کے المیے پر دو کتابیں بھی تحریر کیں، جس درد سے گزر کر وہ جوان ہوئے، اسے جب انہوں نے لفظوں میں ڈھالا تو ہر حساس ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بچوں کو ماؤں سے محروم کردینا یقیناً انسانی اقدار کے خلاف ایک بڑا جرم تھا جو کلیسا کی سرپرستی میں دھڑلے سے کیا جاتا رہا۔

آئرلینڈ کی بچوں کے حقوق کی وزیر کیتھرین زیپون نے اس ایشو کو بہترین طور پر اٹھایا اور پوپ فرانسس سے بھی ملاقات کی۔ کلیسا نے نہ صرف اس معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی بلکہ اس جگہ کی کھدائی کے لیے ڈھائی ملین یورو کی رقم کی پیشکش بھی کی ہے۔ آئرلینڈ حکومت کے مطابق یہ ایک غیرمفاہمانہ اور غیرمشروط تعاون ہے۔

توام کا یتیم خانہ اس قدر وسیع رقبے پر محیط تھا کہ اس کی کھدائی کے لیے چھے سے تیرہ ملین یورو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ چرچ کو اپنی غلطی کے خمیازے کو طور پر کھدائی کا سارا خرچ برداشت کرنا چاہیے تاکہ کھدائی کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو اور اس کے نیچے موجود بچوں کی باقیات کو قابل تکریم طریقے سے دفن کیا جاسکے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے سال کے پہلے ہی مہینے میں یہاں کی کھدائی شروع کر دی جائے گی۔ مورخین کا خیال ہے کہ بہت ممکن ہے کہ کھدائی کے بعد یہاں سے ملنے والی بچوں کی لاشوں کا فرداً فرداً معائنہ، مستقبل میں بہت سے دوسرے رازوں سے بھی پردہ اٹھا دے جن سے ہم اب تک لاعلم ہیں۔

The post آئرلینڈ میں دریافت ہونے والی آٹھ سو بچوں کی باقیات کا راز کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


برازیل انتخابات میں واٹس ایپ بنا جعلی خبروں کا پُلندا

$
0
0

 واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی روایت جڑ پکڑتی جارہی ہے۔

انتخابی مہمات میں امیدواران اب روایتی طریقوں کے بجائے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں سرائیت کرکے کم وقت میں مطلوبہ مقاصد حاصل کر نے میں بھرپور طریقے سے کام یاب ہورہے ہیں۔

دنیا میں تشکیل پاتے اس نئے نظام نے جہاں ٹیکنالوجی کی اہمیت کئی گنا زیادہ بڑھا دی ہے وہیں واٹس ایپ اور فیس بک پر وائرل ہونے والی فیک ویڈیوز پر بھی بحث بڑھتی جا رہی ہے جس میں مخالف کو زیر کرنے کے لیے غیراخلاقی مواد اور منفی پروپیگنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی خبروں کا مرکز برازیل میں رواں ماہ ہونے والے صدراتی انتخابات ہیں، جن میں برازیل کے 147ملین ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، لیکن ا ن انتخابات کی شفافیت پر واٹس ایپ کی فیک ویڈیوز اور پیغامات کے ذریعے اثرانداز ہونے کا ٹھپا لگ چکا ہے، جس سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہو چکا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک کی طرح زرا ذیل میں بھی موبائل کمپنیوں کے سستے اور ان لمیٹڈ پیکجز کی بدولت یہاں واٹس ایپ صارفین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ لوگوں نے اپنی پسند کے بے شمار گروپ جوائن کیے ہوئے ہیں جہاں وہ اپنی پسند کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔

اس وقت برازیل میں واٹس ایپ صارفین کی تعداد 120ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ گویا اطلاعات اور پیغامات کا ایک سیلاب ہے جو ہواؤں کے دوش پر اڑان بھرتا گھر گھر پہنچ رہا ہے۔ برازیل کے حالیہ انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ انتہائی دائیں بازو کے راہ نما ژائر بولسو نارو اور بائیں بازو کے راہ نما فرنانڈو حداد کے درمیان تھا۔ یہ جان کر لوگوں کو یقیناً حیرت ہو گی کہ برازیل میں انتخابات بیلٹ پیپر پر بعد میں اور واٹس ایپ پر پہلے لڑے گئے، یوں حیران کن انتخابی نتائج برآمد ہوئے اور بولسو نارو انتہائی ناپسندیدہ شخصیت ہونے کے باوجود انتخابی دوڑ میں نمایاں طور پر آگے نظر آئے۔ اس کی وجہ ان کا انتخابی ایجنڈا ہرگز نہ تھا ، بلکہ وہ واٹس ایپ پروپیگنڈا تھا جو انہوں نے حداد کی پارٹی کے خلاف جعلی ویڈیوز اور پیغامات کی صورت میں خوب پھیلا کر فتح یاب ہونے کے تمام غیراخلاقی ہتھکنڈے استعمال کیے۔

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بولسو نارو نے واٹس ایپ کا انتہائی ناجائز اور غلط استعمال کیا۔ واٹس ایپ انتظامیہ نے بولسونارو کی انتخابی مہم کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں واٹس ایپ گروپس بلاک بھی کیے لیکن فیک ویڈیوز اور گم راہ کن پروپیگنڈا تو پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتا ہے، سو، بولسو نارو کی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ پیغامات اور ویڈیوز گردش کرتی رہیں، یوں وہ اپنے مقصد میں کام یاب ٹھہرے۔ برازیل میں چار ماہ متواتر یہ ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں ہر گروپ کو روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ایک ہزار ویڈیوز اور پیغامات موصول ہوتے تھے۔ اس دوران واٹس ایپ پر جو مواد شیئر ہوا اس کا 55 فی صد حداد کے خلاف بنائی جانے والی ویڈیوز اور پیغامات پر مشتمل تھا۔ انتخابات سے پہلے چار دنوں میں بائیس لاکھ پیغامات واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائے گئے۔

ٹیکنالوجی کے ثمرات سے بھلا کون واقف نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کی ترقی کا ہی تو اعجاز ہے کہ اب ایسی ڈیوائسز بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جن سے ایک وقت میں، تین لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ واٹس ایپ صارفین تک اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ ڈیوائسز پہلے صرف کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی تھیں مگر اب سیاسی کھلاڑی بھی انہیں ایک اہم مہرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ گھاگ سیاست داں اپنے مقاصد کے تیز تر حصول کے لیے وہ سافٹ ویئرز بھی خریدلیتے ہیں جن کی مدد سے عام شہریوں کو خودکار طریقے سے واٹس ایپ گروپوں میں شامل کر لیا جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے تمام ثمرات بولسونارو کی جماعت نے بھی خوب خوب سمیٹے اور اپنے مخالف فرنانڈو اور حداد کے خلاف انتہائی نازیبا مواد پر مشتمل پیغامات پورے برازیل میں وائرل کر دیے۔ ایک ویڈیو کی مدد سے یوں ذہن سازی کی گئی کہ فرنانڈو حداد اقتدار میں آکر ایک قانون پاس کروانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کی رو سے ہم جنس پرستی برازیل میں عام ہو جائے گی اور مردوں کے لیے بارہ سال کے بچوں سے بھی جنسی تعلق قائم کرنا جائز ہوجائے گا۔

یہ بھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ حداد کی پارٹی نے الیکٹورل مشینوں کے ذریعے دھاندلی کا منظم منصوبہ بنا رکھا ہے۔ حتی کہ ایک ویڈیو میں تو انتہا ہی کر دی گئی، اس میں دکھایا کہ حداد کی جماعت نے اسکول کے بچوں کے لیے خاص طور پر ایسی بوتلیں تیار کروائی ہیں جن کی شکل جنسی عضو کے مشابہہ ہے۔ اس طرح کی بے شمار ویڈیو آن دی ریکارڈ موجود ہیں، جن سے بولسو نارو رائے عامہ کا رُخ حداد کی جماعت کے خلاف موڑ نے میں کام یاب ہو گیا۔ ان ویڈیوز کی تیاری سے ترویج کے تمام عمل میں کئی ملین ڈالرز کا سرمایہ پھونک دیا گیا۔

برازیل کے انتخابات میں ان فیک واٹس ایپ پیغامات کا چرچا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ اندر کی کہانی کیا سامنے آئی مہذب معاشروں میں گویا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ایک نئی بحث کا دہانہ کھل گیا۔ سوالات ذہنوں میں امڈے چلے آرہے ہیں۔ مستقبل میں اگر واٹس ایپ کی فیک ویڈیوز ہی ملکوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی تو اس کا انجام کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے؟ کیا سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اسی طرح ہائی جیک ہوتی رہے گی؟ کیا سوشل میڈیا نئے دور میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟

اس سے قبل انڈیا میں واٹس ایپ پر وائرل ہونے والی فیک ویڈیوز مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نہتے شہریوں کے قتل کا باعث بنیں، جس کے بعد واٹس ایپ، فیس بک نے اپنی ایک ٹیم برصغیر میں ہی تعینات کردی تاکہ ایسی ویڈیوز اور پیغامات اور ان کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ ایک عام صارف واٹس ایپ پیغام ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ بیس دوستوں کو پہنچا سکتا ہے لیکن انڈیا میں ہونے والے پے درپے سانحات کے بعد وہاں یہ حد بیس کے بجائے پانچ مقرر کر دی گئی۔ اب برازیل میں سوشل میڈیا کو ایک گھناؤنی مہم کے لیے استعما ل کیا گیا ہے، جس پر واٹس ایپ، فیس بک انتظامیہ سر جوڑے بیٹھی ہے۔ واٹس ایپ کا منفی استعمال اسے رابطے کے معیاری ذریعے کے بجائے گمراہ کن خبروں کا بلیک باکس بناتا جارہا ہے۔

The post برازیل انتخابات میں واٹس ایپ بنا جعلی خبروں کا پُلندا appeared first on ایکسپریس اردو.

نازی فوجیوں کے عشق میں گرفتار ناروے کی لڑکیوں سے ستر سال بعد معافی طلب

$
0
0

 ناروے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ دوسری جنگ عظیم کے ستر سال بعد حکومتی سطح پر اب کس سے معافی طلب کر رہی ہیں؟ وہ کیوں اتنا شرمندہ ہیں؟ آخر یہ کہانی کیا ہے؟

اب تک تو یہی سنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کی کہانی صرف اور صرف تباہی اور بربادی کے ابواب پر مشتمل ہے لیکن اب یہ جان کر کتنی آنکھیں حیرت سے پھیلیں گی کہ توپوں کی گھن گرج اور بارود کی بو میں ناروے کی لڑکیاں ہر بھیانک انجام سے بے فکر نازی فوجیوں سے اپنے جذبۂ عشق کی تاریخ بھی رقم کر رہی تھیں۔

وہ عشق جو مجسم شکل میں ان لڑکیوں کے پھولے پیٹوں میں سانسیں لے رہا تھا۔ عشق اور محبت کے جذبات جب سر چڑھ جائیں تو انسان واقعی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ محبت کرنے والے جسم تو فنا ہوجاتے ہیں لیکن ان کی داستانیں امر ہو جاتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے ہیبت ناک اور تاریخی معرکے میں اگر کسی نے شکست نہ کھائی تو وہ نازی فوجیوں سے ناروے کی بے شمار لڑکیوں کا یہی عشق تو تھا۔ اسی جذبۂ عشق میں وہ بین الاقوامی سیاست کے گُروں سے یکسر لاتعلق نازی فوجیوں کے کبھی ناروے سے نہ جانے کی دعا کرتی ہوں گی لیکن اس دن کو آنا تھا سو آگیا۔

نازی فوجی رخصت کیا ہوئے ان لڑکیوں کو دشمن فوجیوں سے دل لگانے کے جرم کی سزا بہت بری طرح دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ان لڑکیوں کی تعداد تیس سے پچاس ہزار کے درمیان تھی، جن کو نہ صرف ناروے کی شناخت سے محروم کرکے ’’جرمن لڑکیوں‘‘ کا خطاب دیا گیا، بلکہ ان میں سو جو ملازمت کر رہی تھیں انھیں نوکری سے بھی نکال دیا گیا۔

جھوٹے مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ڈالا گیا اور بالآخر شہریت واپس لے کر جرمنی کی سرحد پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مشتعل ہجوموں نے ان لڑکیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کا سر مونڈا اور سڑکوں پر گھسیٹا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے نازی فوجیوں کے بچوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی امراض کے اسپتالوں کے حوالے کردیا جہاں وہ انتہائی زیادتیوں کا شکار بنائے گئے۔

ناروے کی وزیراعظم نے یہ معذرتی بیان انسانی حقوق کے عالمی معاہدے کی سترہویں سال گرہ کے موقع پر دیا۔ ناروے کی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’’بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک ٹین ایج محبت تھی، بہت سوں کے لیے ایک معصومانہ سا فلرٹ اور بہت سوں کے لیے ان کی پوری زندگی تھی، آج میں ناروے حکومت کی طرف سے اس بے رحمانہ سلوک پر معافی طلب کرتی ہوں۔ ساتھ انہوں نے تسلیم کیا کہ نارویجین حکومت نے بغیر کسی قانون اور اصول کے ان لڑکیوں کو بھیانک سزا دی۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نازیوں کے1935 شروع کیے گئے ایک Lebensborn Program کا مقصد جرمن نسل تیزی سے بڑھانا تھا۔ اس پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں Lebensborn Houses قائم کیے گئے جہاں حاملہ مقامی عورتیں جرمن بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ ناروے میں1941میں یہ گھر بنائے گئے جہاں مقامی لڑکیوں نے نازی فوجیوں کے تقریباً بارہ ہزار بچے پیدا کیے۔ یہ تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ جنگ کے خاتمے پر نازی افواج نے ان Lebonsborn housesکی موجودگی کے سارے ثبوت اپنے ہاتھوں ضایع کر دیے۔ نازی فوجی تو یہاں سے رخصت ہوگئے لیکن ناروے نے ان لڑکیوں کو اپنانے سے انکار کردیا۔ ان بے شمار بے گھر لڑکیوں کے سر پر سویڈن کی حکومت نے ہاتھ رکھا ، یوں وہ ناروے سے ہجرت کرگئیں۔

ناروے کے قانون کے مطابق مقامی لڑکیوں کے نازی فوجیوں سے تعلقات اگرچہ ناجائز نہ تھے لیکن پھر بھی ان ’’جرمن لڑکیوں‘‘ کے ساتھ کسی مجرم کی طرح سلوک کیا گیا۔ آج جنگ کے ستر سال بعد ناروے حکومت کی طرف سے اظہارشرمندگی اور مانگی جانے والی معافی کو سننے کے لیے ان میں سے بے شمار لڑکیاں زندہ نہ ہوں گی، لیکن بچوں تک یہ آواز ضرور پہنچے گی۔ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے مسائل اور تجربات شیئر کرنے کے لیے 2006 میں جرمنی میں جمع ہوئی۔

ان میں کچھ بچے وہ تھے جن پر جوان ہو کر یہ راز آشکار ہوا کہ ان کی پیدائش کسیLebensborn house میں ہوئی تھی، بہت سے بچے اپنی اس شناخت پر شرمندہ تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جن کے لیے ان کے باپ کا نام معلوم نہ ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی ان کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ان کی رگوں میں کسی اعلٰی نسل کا خون گردش کر رہا ہے اور وہ اپنے حال پر مطمئن تھے۔

گو کہ اس المیے کو ستر سال بیت گئے، ارنا سولبرگ کی اس معافی سے اگرچہ اس بڑے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی جو ان عورتوں اور بچوں نے اٹھایا، البتہ اتنا ضرور ہوگا کہ بنیادی انسانی حقوق کے احترام کی اہمیت مزید اجاگر ہوجائے گی۔ اس وقت بھی دنیا کے ہر خطے میں جنگ کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ نامعلوم کتنی لڑکیاں ان شعلوں سے محبت کے دیپ جلا تی ہوں گی اور کتنے فوجی محاذ پر عشق کی گرمی سے دلوں کی ڈھارس باندھتے ہوں گے۔

لیکن دعا ہے کہ اب کی بار جہاں بھی وقت امن کا پیام بر بن کر آئے تو یہ امن مقامی لڑکیوں کے جذبہ محبت کے لیے بھی شجرِ سایہ دار بن جائے اور اس طوفانی جذبے کی جو بھیانک سزا ناروے کی لڑکیوں نے بھگتی وہ اب کسی لڑکی کا مقدر نہ بنے۔

The post نازی فوجیوں کے عشق میں گرفتار ناروے کی لڑکیوں سے ستر سال بعد معافی طلب appeared first on ایکسپریس اردو.

اُلو کو عزت دو

$
0
0

اُلو بنانے والے تو بہت ہیں مگر بعض لوگ اُلو پالتے بھی ہیں، جیسے برطانیہ کے شہر پیٹرزبرگ کے ایک صاحب مارک اسمتھ۔ خبر یہ نہیں کہ انھوں نے الو پال رکھا ہے، خبر تو یہ ہے کہ اس اُلو کی محبت میں وہ دو دن چھت پر ٹنگے رہے۔

دراصل ان کا پالتو اُلو چھت پر چلا گیا تھا اور اس روٹھے یار کو منانے اور واپس لانے کے لیے وہ دو دن تک چھت کے نیچے چھوٹے سے فرش پر بیٹھے کوششیں کرتے رہے۔ آخر دو دن کی محنت کے بعد اُلو نے ان کی سُن لی اور ان کے پاس آگیا۔

یہ خبر جب ہم نے اپنے دوست بابو نئیں کرانچوی کو سُنائی تو جھٹ بولے،’’بھیے! می ں تو بوت پیلے سے کے ریا ہوں، ہمیں الو کی عزت کرنی چئییں، اسی لیے تو یہ گورے ہم سے آگے ہیں، یہ اُلو کی عزت کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں، اس پرندے کی بے عزتی پر تُلے رہتے ہیں، وہ جو ایک شاعر نے الو کی حالت پر، بڑے دکھ سے، شاید یہی کہا تھا ناں۔۔۔ ہمارے ملک میں ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، لیکن کوئی اُسے اُتارنے کو تیار نہیں۔‘‘ ہم نے حیرت سے ان کا منہہ تکتے ہوئے کہا،’’بابو بھائی! شعر یوں ہے:

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے

انجام گلستاں کیا ہوگا

اس میں اُلو کی توصیف اور بے قدری کا پہلو کہاں سے آگیا؟ شاعر نے تو ہر شاخ پر اُلوؤں کے بیٹھنے کی وجہ سے گلستان کے اُجڑ جانے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ہمارا جواب سُن کر مسکرائے اور پچکاری کا فوارہ چھوڑ کر گویا ہوئے،’’بس رینے دو، تم کیا جانو شاعری، بھیے شاعر صاف صاف بول ریا ہے کہ اُلو بے چارے شاخ پر بیٹھے ہیں، کوئی انھیں پوچھ ہی نہیں ریا، بھئی انھیں اتار کر نیچے لاؤ تاکہ گلستاں کا کاروبار چلے۔ می ں تو اُلوؤں کی حمایت میں اس نعرے کے ساتھ مہم چلانے والا ہوں۔۔۔اُلو کو عزت دو۔‘‘

ہم نے ان کی بات سُن کر سَر پیٹ لیا، اور اتنا کہہ کر ان کے پاس سے اُٹھ گئے’’چلیے صاحب! آپ کی خواہش پوری ہوئی۔‘‘

ہمارے ان دوست کا موقف اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم خوامخواہ ہی بے چارے اُلو سے بیر باندھے ہوئے ہیں، حالاں کہ اس پرندے کی تو آنکھیں بھی ہم انسانوں جیسی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔ پھر یہ ہمارے کام بھی کتنا آتا ہے، جیسے خالی گھروں میں بول کے سناٹا مٹاتا ہے، ملکی امور چلانے کے لیے جب چاہو دست یاب ہوتا ہے، جسے اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہو اس کے لیے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی، لیکن اس کے لیے اپنا اُلو ہونا ضروری ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ اور کوئی پرندہ آپ نہیں بناسکتے مگر اُلو بنانا بہت آسان ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ اتنے کارآمد پرندے کو پالنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ اس کے پٹھے بھی پالنے پڑتے ہیں۔

The post اُلو کو عزت دو appeared first on ایکسپریس اردو.

دوسروں کے خرچے پہ اپنا بیاہ

$
0
0

کوئی شادی انوکھے انداز میں کرکے اسے یادگار بناتا ہے تو کوئی نئی زندگی کا آغاز پُرتعیش انداز میں کرکے اسے منفرد کردیتا ہے، لیکن ایک دلہن نے اپنی شادی کو دوسروں پر بوجھ بنا کر انفرادیت عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ خاتون آسٹریلیا کے شہر ملبورن سے تعلق رکھنے والی ایک دلہن ہیں، جنھوں نے دلہا سے کوئی مطالبہ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اپنی شادی میں شرکت کے خواہش مند خواتین و حضرات کو شرائط کی ایک لمبی فہرست دے دی ہے۔ انھوں نے مہمانوں سے کہا ہے کہ ان کی شادی میں شرکت کرنا ہے تو اپنا کھانا اور کیک ساتھ لے کر آئیں اور تقریب میں چمکتے دمکتے ملبوسات پہن کر شریک نہ ہوں۔

اس شادی میں مہمان چمک دار لباس ہی نہیں کوئی بھی ایسا ملبوس زیب تن کرکے شریک نہیں ہوسکتے جو دلہن بی بی کو منظور نہ ہو۔ انھوں نے حکم جاری کیا ہے کہ مہمان آرام دہ لباس پہن کر آئیں، اور جیکٹس اور گاؤن پہن کر آنے پر پابندی عاید کردی ہے۔ ان خاتون نے مہربانی فرماتے ہوئے لباس کا رنگ منتخب کرنے کے معاملے میں تو ٹانگ نہیں اَڑائی لیکن درخواست کی ہے کہ مہمان ایسے رنگ پہن کر آئیں جو اس تقریب کی تھیم ’’سفیداور نقرئی‘‘ سے ہم آہنگ ہو۔ لوگوں کو کیمرا لانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

یہی نہیں، مہمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہزار پاؤنڈ مالیت کی رقم اس تقریب پر خرچ کریں۔ اور صاحب! اگر آپ بھی بدقسمتی سے اس شرطوں بھری شادی میں مدعو ہیں اور موصوفہ کو شادی کا تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اپنا ارادہ منسوخ کردیں، کیوں کہ محترمہ نے ہدایت جاری کی ہے کہ تحفہ دینے کے بہ جائے سوشل میڈیا پر ان کے ہنی مون کے اخراجات کی رقم حاصل کرنے کے لیے بنائے جانے والے پیج کو پیسے بہ طور چندہ دے دیں۔

اسے کہتے ہیں ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ‘‘، یعنی یہ خاتون دوسروں کے خرچے پر اپنا بیاہ رچا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بعض ایسے ’’مہمان نواز‘‘ پائے جاتے ہیں جو مہمان سے بڑی محبت سے پوچھتے ہیں’’کھانا کھا کر آئے ہیں یا جا کر کھائیں گے‘‘، لیکن ان دلہن صاحبہ سا میزبان ہمارے ہاں شاید ہی کوئی ہو، شاید وہ اپنی شادی کو اپنا عرص سمجھ بیٹھی ہیں اور توقع رکھتی ہیں کہ لوگ مہمان نہیں زائرین بن کر آئیں گے۔

یہ شادی پاکستان میں ہوتی تو ممکن ہے محترمہ کو ایسے جاں نثار مہمان مل جاتے جو رکشا ٹیکسی کا کرایہ، لفافہ دینے کا دُکھ، رات سفر کی خواری، کھانے کا طویل انتظار اور اس انتظار کے دوران خالی پیٹ ساتھ بیٹھے لوگوں سے مغزماری کے سارے مسائل جھیلتے ہیں مگر ہر شادی میں بن ٹھن کر پہنچنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ اگر آسٹریلیا میں بھی وہ مخلوق پائی جاتی ہے جسے ’’پرائی شادی میں عبد اللہ دیوانہ‘‘ کہتے ہیں تو ان دلہن صاحبہ کی شادی کام یاب ہوجائے گی، ورنہ خالی ہال میں دلہا دلہن اور اُلو ہی بول رہے ہوں گے۔

The post دوسروں کے خرچے پہ اپنا بیاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بھوت میرا گھوڑی چڑھیا

$
0
0

مشہور پاکستانی گانا ہے:

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مرکے بھی مری جان تجھے چاہوں گا

شاعر نے بہت لمبی چھوڑی، جسے عاشقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی اپنی محبوبہ کو رجھانے کے لیے اس گانے کو اپنا ’’قومی ترانہ‘‘ بنا لیا۔ نازک دل محبوبائیں یہ سُن کر ڈر گئیں کہ ’’مُوا مرنے کے بعد یوں پیار نبھائے گا کہ خواب میں آکر ڈرائے گا۔‘‘ لیکن ایک خاتون ایسی بھی ہیں جنھیں کسی نے مرنے کے بعد چاہا ہی نہیں اپنا رشتہ بھی پیش کردیا۔

یہ خاتون ہیں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ Amethyst Realm, ، جنھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آسٹریلیا کے ایک بھوت نے انہیں شادی کی پیشکش کی اور انہوں نے ہاں بھی کردی ہے۔

ان خاتون نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا ہے کہ نوجوانی سے اب تک وہ کم از کم 20 بھوتوں سے جسمانی تعلق قائم کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کاروباری دورے پر آسٹریلیا گئی تھیں، جہاں ایک مقام کی سیر کے دوران ان کی ملاقات ایک اور ’بھوت‘ سے ہوئی۔ آغاز میں ان کا خیال تھا کہ یہ تعلق سنجیدہ نہیں ہوگا کیوںکہ بھوت ایک ہی جگہ رہنا پسند کرتے ہیں مگر وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب گھر واپسی کی پرواز کے دوران انہوں نے اپنے محبوب ’بھوت‘ کی موجودگی طیارے میں محسوس کی۔ وہ کہتی ہیں،’’مجھے یقین ہی نہیں آیا، مگر اس کے ساتھ میں خوش اور پُرجوش بھی تھی۔‘‘ اب یہ جوڑا اپنے لیے ایک انگوٹھی کا انتخاب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ شادی باقاعدہ تقریب میں کی جائے گی، جہاں یہ بی بی اور بھوت صاحب ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں گے۔

تصویر بتارہی ہے کہ محترمہ خوب صورت ہیں، اب ایسی خوش شکل کا کسی بھوت سے محبت اور اس کی بیوی بن جانا آدمی قبیلے کے لیے صدمہ ہی نہیں یہ کاروکاری کا معاملہ بھی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بھوت کو کارا قرار دے کر مارا نہیں جاسکتا اور خاتون کو کاری ہونے کے الزام میں مارڈالا گیا تو وہ خود بھوتنی بن کر بھوت کے ساتھ ہنسی خوشی روانہ ہوجائیں گی۔ چناںچہ غیرت کے نام پر کچھ کر دکھانے سے بہتر ہے مٹی پاؤ۔ البتہ اتنی دل کش خاتون کے بھوت سے بیاہ کا سُن کر بعض حضرات یہ سوچنے میں حق بہ جانب ہوں گے۔۔۔۔کیا پایا انساں ہوکے۔ پتا نہیں یہ خبر سُن کر بھوتنیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔

ہم نے یہ تو اکثر سُنا کہ لوگ چڑیلوں سے شادی کرلیتے ہیں، اس راز سے اکثر ایسے حضرات کی مائیں پردہ اٹھاتی ہیں کہ ان کے سپوت نے ایک چڑیل سے شادی کی ہے، تاہم کسی خاتون کی بھوت سے شادی کا پہلی بار سُننے میں آیا ہے۔ ہم فکرمند ہیں کہ اگر خربوزوں کی طرح بھوت کو دیکھ کر بھوت نے رنگ پکڑا اور وہ ہماری خواتین سے شادی کرنے لگے تو کنوارے مردوں کا کیا بنے گا، اب ہر ایک تو شیخ رشید صاحب کی طرح بیگم کی جگہ سیاست کا غم پال کر نہیں جی سکتا ناں۔ یہ چلن عام ہوگیا تو شادی بیاہ کے گیت اس طرح کے ہوا کریں گے:

ڈولی سجا کے رکھنا

منہدی لگا کے رکھنا

لینے تجھے او گوری

آئے گا تیرا بُھتنا

دوسری طرف بھوتوں کی بستی میں دلہا بھوت کی بہنیں لہک لہک کے گارہی ہوں گی:

نی بھوت میرا گھوڑی چڑھیا

The post بھوت میرا گھوڑی چڑھیا appeared first on ایکسپریس اردو.

بھائی پٹیل پہ اتنا خرچہ!

$
0
0

جب سیاست داں اقتدار میں آنے کے لیے بڑے بڑے دعوے اور پہاڑ جیسے وعدے کرکے اپنی قوم کو بے وقوف بناتے ہیں اور وعدے نبھا نہیں پاتے، تو اگلے انتخابات سے پہلے کچھ ایسا بنانا ہوتا ہے کہ قوم خوش ہوکر پھر ’’بن‘‘ جائے۔ یہی کچھ مودی سرکار نے کیا ہے۔

بھارتی پردھان منتری نریندر مودی غربت مٹانے اور دیش کو ترقی دینے کے بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے، لیکن مسلمانوں کو مٹانے اور پاکستان کو دھمکیاں دینے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ جب ان سے کچھ نہ بن سکا تو انھوں نے دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بناکے کھڑا کردیا۔

یہ مجسمہ ہے ہندوستان کی تحریک آزادی کے راہ نما اور بھارت کے پہلے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا۔ 182میٹر بلند اس مجسمے کی اونچائی امریکا کے مجسمۂ آزادی سے دُگنی ہے اور اس کی تعمیر پر 430 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ گجرات میں نصب کیے جانے والے اس مجسمے کی خاطر 185گھرانوں کو دربہ در کرکے زمین حاصل کی گئی، جس پر مقامی باشندے احتجاج کررہے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل میں ایسی کیا بات تھی کہ انھیں اس اعزاز سے نوازا گیا؟ امیرخسرو، غالب اور ٹیپوسلطان تو چلیے مسلمان ہونے کی وجہ سے مودی جی کے لیے اس تکریم کے سزاوار نہیں تھے لیکن ہندوستان کے لیے باعث فخر گاندھی جی اور رابندرناتھ ٹیگور کیوں اس عزت افزائی کے قابل نہ سمجھے گئے؟

بات اتنی سی ہے کہ پٹیل صاحب متعصب ہندو اور مسلم دشمن ہونے کی پہچان رکھتے ہیں اور ہندوتوا کے لیے سیاسی علامت ہیں۔ پھر آزادی کے وقت سے کانگریس کی قیادت سنبھالے نہرو خاندان کے مقابل ہندوانتہاپسند بھارتیہ جنتا پارٹی پٹیل کو کھڑا کرکے نہرو خاندان کا سیاسی اثرورسوخ ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ دنوں بعد ہم بھارت کا نیا ’’اتہاس‘‘ پڑھ رہے ہوں جو بتاتا ہو کہ ہندوستان کو تو پٹیل جی نے آزاد کرایا تھا، گاندھی جی تو لاٹھی ٹیکتے ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور نہرو اس موقع پر موجود نہیں تھے۔

یہ معاملہ سیاسی ہی نہیں نظریاتی بھی ہے، گاندھی جی اور پنڈت نہرو عدم تشدد کے قائل تھے، اور ولبھ بھائی پٹیل کی طرح مودی جی ’’ہر دَم تشدد‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ پھر یوں بھی ہے کہ جب سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو کبھی مخالفین کے اور کبھی اپنے گڑے مُردے اکھاڑے جاتے اور کمپنی کی مشہوری کے لیے عوام کو پیش کیے جاتے ہیں۔ مودی جی نے یہ کام گڑے اور کھڑے مُردے سے لیا ہے۔

شاہ جہاں کو اپنی لاڈلی بیگم ممتاز بانو کے لیے تاج محل جیسا مقبرہ بنانے پر دل جلے شاعروں سے ’’ایک قبر پر اتنا خرچہ۔۔۔ایک ہی پیار کا اتنا چرچا‘‘ اور ’’اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق‘‘ جیسی جلی کٹی سُننا پڑی تھیں، تو ممکن ہے مودی جی کو بھی ایسی ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑے اور کہا جائے’’بھائی پٹیل پہ اتنا خرچہ‘‘، اچھا ہوتا کہ اتنا خرچہ کرنے کے بہ جائے وہ عوام کے لیے گورنرہاؤسوں کے دروازے کھول دیتے۔

جنتا اتنے سے بھی سہمت ہوجاتی۔ خیر اب جو ہو گیا سو ہوگیا۔ اب تو اتنے منہگے مجسمے کو جواز دینے کے لیے مودی جی یہی کہہ سکتے ہیں’’مجسمے کی سِری پر بیٹھے ہمارے سینک دورمار عینک لگاکر چینک پیتے ہوئے پاکستان پر کڑی نظر رکھیں گے۔‘‘ دوسرا جواز یہ ہوسکتا ہے کہ ’’پاکستان نے ہمارے دیس میں اگر اُدھم باجی کی، بدماسی کی تو بھیا ہم پٹیل جی کو اُکھاڑ کر اس پر دے ماریں گے۔‘‘

The post بھائی پٹیل پہ اتنا خرچہ! appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت کی سب سے بڑی انویسٹی گیشن ایجنسی سی بی آئی میں کھیلا گیا انوکھا ڈرامہ

$
0
0

یہ 23 اکتوبر کی بات ہے،بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو خبر ملی کہ الوک ورما نے وفاقی سیکرٹری دفاع، سنجے مترا کے نام ایک ٹاپ سیکرٹ خط لکھا ہے۔

خط میں سیکرٹری دفاع سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ فرانس اور بھارت کے مابین ہونے والے 36 رافیل جنگی جہازوں کے معاہدے کی فائلیں سی بی آئی (سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کو فراہم کردیں۔الوک ورما سی بی آئی کے ڈائریکٹر (سربراہ) تھے۔ سنجے مترا نے انہیں مطلوبہ فائلیں بجھوانے کے بجائے یہ خبر وزیراعظم تک پہنچا دی کہ اسے الوک ورما کا ٹاپ سیکرٹ خط ملا ہے۔

یہ یقینی ہے کہ سنجے مترا مملکت بھارت نہیں مودی سرکار کا وفادار کارندہ تھا۔ اگر سیکرٹری دفاع ملک و قوم سے وفادار ہوتا، تو وہ سی بی آئی کو رافیل معاہدے سے متعلق فائلیں فراہم کردیتا۔سی بی آئی بھارت کی سب سے بڑی تحقیقاتی (انوسٹی گیشن) سرکاری ایجنسی ہے۔ اس میں سات ہزار سے زیادہ مردو زن ملازمت کرتے ہیں۔ جب بھی دنیائے جرم و سزا میں کوئی خاص معاملہ جنم لے، تو سی بی آئی ہی اس کی تفتیش کرتی ہے۔

آئین اور حکومت کے مطابق یہ ایک خود مختار سرکاری ادارہ ہے۔دو ہفتے قبل سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، مشہور بھارتی سپریم کورٹ وکیل، پرشانت بھوشن اور ممتاز صحافی ارون سوری نے الوک ورما سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے سربراہ سی بی آئی سے درخواست کی کہ رافیل معاہدے کے سلسلے میں تحقیق و تفتیش کی جائے۔ انہیں یقین ہے کہ اس معاہدے میں مودی سرکار نے کرپشن کی ہے۔

یاد رہے، مودی حکومت نے ستمبر 2016ء میں فرانسیسی کمپنی، داسو ایسوسی ایشن سے چھتیس ملٹی رول جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے مالی امور مودی حکومت نے خفیہ (کلاسیفائیڈ) رکھے ہوئے ہیں۔بھارتی حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے میں مودی سرکار نے مختلف طریقوں سے کرپشن کرکے پیسے کھائے ۔ مثال کے طور پر ہر طیارہ اصل قیمت سے زیادہ مہنگا خریدا گیا۔ نیز معاہدے سے متعلق متفرق ٹھیکے کمیشن لے کر من پسند بھارتی کمپنیوں کو دیئے گئے جن میں کھرب پتی انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ سرفہرست ہے۔ رافیل معاہدے میں ہوئی کرپشن کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جبری رخصتی کا کھیل

سی بی آئی کے سربراہ، الوک ورما نے رافیل معاہدے کی تفتیش کرنے کے لیے بھارتی معززین کی درخواست قبول کرلی۔ اسی درخواست کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے وفاقی سیکرٹری دفاع کے نام خط لکھا کہ سی بی آئی کو رافیل معاہدے سے متعلق کلاسیفائیڈ فائلیں مہیا کی جائیں۔ خط لکھنے کی خبر نے مگر وزیراعظم ہاؤس میں کھلبلی مچادی۔ اسی دن 23 اکتوبر کو رات دو بجے نریندر مودی کے حکم پہ الوک ورما کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ مودی جی کا خیال تھا کہ بھارتی میڈیا اس جبری رخصت کی چھوٹی سی خبر دے کر خاموش ہوجائے گا۔ مگر اس خبر نے سعودی صحافی، جمال خاشقجگی کے قتل کی طرح بھارت میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

مودی حکومت نے الوک ورما کو اس لیے ہٹایا کیونکہ وہ رافیل معاہدے میں کی گئی کرپشن دریافت کرنا چاہتے تھے۔ اس عمل سے عیاں ہے کہ رافیل معاہدہ واقعی کرپشن کی گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔ جب سربراہ سی بی آئی نے اس گندگی کا پردہ چاک کرنا چاہا، تو انہیں زبردستی گھر بھیج دیا گیا۔نریندر مودی کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ وہ عمدہ انتظامی صلاحیتوں (اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں) کے ذریعے قومی افق پر نمایاں ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ہر قسم کی کرپشن سے پاک شخصیت ہیں۔ مگر سانحہ گجرات کے بعد اب رافیل معاہدہ بھارتی وزیراعظم کے بظاہر اجلے دامن پر ایک بڑا سیاہ دھبہ بن چکا۔ یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ پاک صاف بنا بھارتی وزیراعظم بھی لالچ اور ہوس میں مبتلا ہوگیا۔

اکسٹھ سالہ الوک کمار ورما بھارتی پولیس کے حلقوں میں دیانت دار اور بااصول افسر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ جہاں بھی تعینات ہوئے، جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف سرگرم رہے۔ نیز انہوں نے عوام اور پولیس کا تال میل بڑھانے کی خاطر کئی پروگرام بھی متعارف کرائے۔ انہیں فروری 2017ء میں سی بی آئی کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ واضح رہے، وزیراعظم بھارت، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا قائد اور چیف جسٹس سپریم کورٹ پر مشتمل کمیٹی نئے سی بی آئی ڈائریکٹر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس امر سے عیاں ہے کہ یہ ایک نہایت اہم عہدہ ہے۔

یہ سچائی بھارتی حزب اختلاف سامنے لائی کہ سربراہ سی بی آئی کو اسی لیے ہٹایا گیا تاکہ وہ رافیل معاہدے میں ہوئی کرپشن طشت ازبام نہ کرسکیں۔ مودی حکومت نے عوام کو تو یہ بتایا کہ سی بی آئی میں جاری خانہ جنگی روکنے کے لیے الوک ورما کو جبری رخصت پر بھیجا گیا۔ اس خانہ جنگی کی داستان بھی حیرت انگیز اور چشم کشا ہے۔

ایک کرپٹ سی بی آئی افسر

نریندر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، ان کی بھر پور کوشش رہی ہے کہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں قوم پرست افسر تعینات کیے جائیں… ایسے افسر جو بھارت کو ہندو مملکت بنانے کے نظریے سے متفق ہوں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چار برس میں عدلیہ، پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے لے کر تعلیم، صحت وغیرہ کے محکموں تک تمام کلیدی عہدوں پر نظریہ ہندتوا پر عمل پیرا افسر تعینات کیے جاچکے۔

الوک ورما نے مگر ہندو قوم پرست جماعتوں کے ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مودی سرکار پر واضح کیا کہ اگر اس نے کوئی کرپٹ یا غلط کام انجام دیا تو سی بی آئی مجرموں کو نہیں چھوڑے گی چاہے وہ کتنے ہی بااثر اور طاقتور ہوں۔ یہ دھمکی نریندر مودی کو پسند نہ آئی، وہ تو سرکاری افسروں سے ’’جی حضور‘‘ سننے کے عادی ہوچکے تھے۔ پھر سی بی آئی سب سے بڑی قومی تحقیقاتی ایجنسی تھی، اس کا سربراہ تو ان کی مٹھی میں ہونا چاہیے تھا۔

بھارتی وزیراعظم کو محسوس ہوگیا کہ مستقبل میں الوک ورما ان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے الوک ورما کی طاقت و حیثیت کم کرنے کی خاطر مودی سرکار نے اپنے خاص کارندے، راکیش استھانہ کو جولائی 2017ء میں سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنا دیا۔ گویا راکیش اب ایجنسی میں الوک ورما کا نائب بن گیا۔راکیش استھانہ کے حالات زندگی بڑے سبق آموز ہیں۔ یہ عیاں کرتے ہیںکہ جب کسی سرکاری افسر کو سیاسی حکمرانوں کی آشیرباد اور سرپرستی مل جائے، تو پھر وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرکے ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔

اکسٹھ سالہ راکیش استھانہ تعلیم مکمل کرکے پولیس میں بھرتی ہوا۔ اس کی پہلی تعیناتی ریاست گجرات میں ہوئی۔ بعدازاں وہ پٹنہ (ریاست بہار) میں ایس پی بنایا گیا۔ جب وزیراعلیٰ بہار، لالو پرشاد کے خلاف فوڈ سکینڈل سامنے آیا تو راکیش استھانہ ہی نے ان سے تفتیش کی تھی۔اس کیس سے اسے بہ حیثیت ایماندار پولیس افسر شہرت ملی۔مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ وہ جلد ہی لالچ و ہوس کی آغوش میں جا بیٹھا۔1997ء میں راکیش استھانہ کو واپس گجرات بھیج دیا گیا۔ 2000ء میں بی جے پی کے رہنما، ایل کے ایڈوانی نے گجرات کا دورہ کیا۔ اس کی سکیورٹی کا ذمے دار راکیش تھا۔ اس دورے کے دوران ایڈوانی اور راکیش دوست بن گئے۔ راکیش نے اسے بتایا کہ وہ قوم پرست رہنما، ولبھ بھائی پٹیل کا پرستار ہے اور یہ کہ بھارت کو ہندو مملکت میں ڈھل جانا چاہیے۔

ظاہر ہے، ایڈوانی اس سرکاری افسر کے خیالات سن کر خوش ہوئے اور اسے اپنا آدمی سمجھنے لگے۔ایڈوانی نے پھر وزیراعلیٰ گجرات، نریندر مودی سے راکیش کا تعارف کرایا اور مشورہ دیا کہ اسے اہم ذمے داری سونپی جائے۔ مودی نے ہامی بھرلی۔ راکیش سے اہم کام لینے کا موقع جلد ہی آپہنچا۔27 فروری 2002ء کو گودھرا (گجرات) کے ریلوے اسٹیشن پر کار سیوکوں اور مقامی مسلمانوں کے مابین جھگڑا ہوگیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کارسیوک مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ ان کی اشتعال انگیزی کے باعث ہی جھگڑے نے جنم لیا اور وہ بڑھتا چلاگیا۔ ہنگامے میں کسی نے کارسیوکوں (شری رام کے پرستاروں) کی بوگیوں کو تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ نتیجتاً انسٹھ کارسیوک جل کر چل بسے۔

نریندر مودی کا ناپاک منصوبہ

اس افسوس ناک واقعے کے بعد پورے گجرات میں ہندو مسلم فساد ہونے لگا۔ سابق اعلیٰ سرکاری افسروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے حکم پر فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی تاکہ وہ نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرسکیں۔ غیر جانب دار بھارتی تنظیموں کا دعوی ہے کہ دو ماہ تک جاری رہنے والے فسادات میں فسادیوں نے کم از کم دو ہزار مسلمان شہید کر دیئے۔ نیز مسلمانوں کے کاروبار تباہ کردیئے گئے۔

گودھرا ریلوے اسٹیشن میں بوگیوں میں آگ لگنے سے متعلق مقامی پولیس نے ابتدائی تفتیشی رپورٹ مرتب کی، اس میں کہیں یہ ذکر نہیں تھا کہ ریل میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آگ لگائی گئی۔ مگر نریندر مودی کی خواہش تھی کہ خوفناک ہندو مسلم فساد کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا جائے… وہ ایسے کہ گودھرا کے مسلمانوں نے ٹرین کی بوگیوں کو آگ لگانے کا منصوبہ پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔اب نریندر مودی ایسے پولیس افسر کو تلاش کرنے لگا جو اس کے بھیانک منصوبے کو عملی جامہ پہناسکے۔ اس کی نظر یں راکیش استھانہ پر ٹک گئیں۔ یہ قوم پرست بھگت اس کی امیدوں پر پورا اترتا تھا۔ چناں چہ حکومت گجرات نے بوگیوں میں آگ لگنے کے واقعہ کی تفتیش کے لیے جو خصوصی پولیس ٹیم بنائی، اس کا سربراہ راکیش استھانہ کو بنایا گیا۔ موصوف نے اپنے شاطرآقا کے گھناؤنے منصوبے کو کامیابی سے عملی جامہ پہنادیا۔

اس خصوصی ٹیم نے ’’افشا‘‘ کیا کہ گودھرا کے مسلمانوں کے ایک گروہ نے کارسیوکوں کی بوگیاں جلانے کا منصوبہ بنارکھا تھا۔ اس گروہ کا سردار مقامی سماجی رہنما، مولانا عمر جی کو قرار دیا گیا۔ پولیس ٹیم کے مطابق گروہ میں ایک سو سے زائد مسلمان شامل تھے۔حقیقت یہ تھی کہ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر کارسیوکوں کی اشتعال انگیزی کے باعث ہندو مسلم فساد ہوا اور اس دوران کسی وجہ سے بوگیوں میں آگ لگ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کارسیوکوں نے بوگیوں میں مٹی کے تیل والے چولہے رکھے ہوئے تھے۔ انہی چولہوں کی وجہ سے آگ لگی۔ لیکن نریندر مودی نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر مسلمانان گودھرا پر سازش سے یہ دھر دیا کہ وہ پہلے ہی بوگیاں جلانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے۔ اس سازش کو راکیش استھانہ نے عملی شکل دی۔

چناں چہ عدالتوں میں مولانا عمرجی اور دیگر بے گناہ ’’94‘‘ مسلمانوں پر مقدمہ چلنے گا۔ 2011ء میں خصوصی عدالت نے 63 مسلمان بے گناہ قرار دے کے رہا کردیئے جن میں مولانا عمر جی بھی شامل تھے۔ مگر باقی مسلمان مجرم قرار پائے۔ ان میں سے گیارہ کو پھانسی اور بیس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔2017ء میں گجرات ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزاؤں کو عمر قید میں بدل دیا۔ گویا راکیش استھانہ نے اتنی عیاری و مکاری سے مسلمانان گودھرا خلاف کیس بنایا کہ انھیں عدالت سے رہا کرانا مشکل مرحلہ بن گیا۔راکیش نے سیکڑوں مسلم گھرانوں کی زندگیاں برباد کر ڈالیں جبکہ سانحہ گجرات کے دیگر کیسوں میں اصل ہندو دہشت گردوں اور غنڈوں میں کسی ایک کو بھی پھانسی یا عمر قید کی سزا نہیں سنائی گئی۔ گویا بھارتی عدالتیں بھی مسلم اقلیت کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہیں بلکہ انہوں نے ایک طرح سے عدل و انصاف کا قتل کر ڈالا۔

سندسیارا برادران کی داستان جرم

جب راکیش استھانہ نے کامیابی سے نریندر مودی کی سازش کو تکمیل تک پہنچایا، تو اسے بطور انعام ریاست کے تیسرے بڑے شہر، وڈورا کا پولیس کمشنر بنادیا گیا۔ وہ پھر دوسرے بڑے شہر سورت کا بھی کمشنر رہا۔ اسی تعیناتی کے دوران وہ وڈورا کے صنعت کار بھائیوں، نتین سندسیارا اور چیتن سندیسارا کا بھی دوست بن گیا۔ان دونوں بھائیوں نے اکیسویں صدی کے اوائل میں ایک ادویہ ساز کمپنی، سٹرلنگ بائیوٹیک کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی چل پڑی اور انہیں خوب آمدن ہونے لگی۔ اس آمدن کے سہارے انہوں نے مختلف شعبوں میں مزید کمپنیاں قائم کرلیں اور یوں ان کا ’’اسٹرلنگ گروپ‘‘ وجود میں آگیا۔

یہ دونوں بھائی اپنی ترقی و کامیابی پہ خدا کا شکر کرنے کے بجائے لالچ اور ہوس کا شکار بن گئے۔ لالچ نے انہیں جرم کی دنیا میں دھکیل دیا۔ ان بھائیوں نے اپنی دولت میں اضافے کے لیے انوکھا طریق واردات ڈھونڈ نکالا۔ وہ یہ تھا کہ دونوں بھائی کمپنیوں کے حسابات میں ہیرپھیر کرکے دکھانے لگے کہ وہ خوب منافع میں جارہی ہیں۔ اس دھوکے بازی کی بدولت انہیں بینکوں سے بھاری بھرکم قرضے مل جاتے۔نیتن اور چیتن نے پھر بھارت اور بیرون ممالک میں بے نامی اور شیل کمپنیاں کھول لیں۔

بینکوں سے حاصل کردہ رقم ان کمپنیوں کے ذریعے بیرون ممالک بجھوادی جاتی۔ گویا دونوں بھائیوں نے منی لانڈرنگ کا طریق کار ایجاد کرلیا۔دونوں عیار بھائی کئی سال بھارتی بینکوں سے قرض لے کر انہیں لوٹتے رہے۔ انہوں نے بینک افسروں کو منہ مانگی رشوت دی تاکہ وہ قرضوں کی واپسی کا تقاضا نہ کریں۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ افسروں کو بھی خاموش رہنے کے لیے بھاری رقم دی جاتی رہی۔ مقصد یہ تھا کہ وہ سندیسارا بھائیوں کے جرائم سے پردہ پوشی کیے رکھیں۔ انہی کرپٹ پولیس افسروں میں راکیش استھانہ بھی شامل تھا۔

نومبر 2016ء میں راکیش کی بیٹی کا بیاہ وڈورا میں بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ شادی کی تقریب شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں منعقدہوئی جو دراصل سابقہ ریاستی بادشاہ کا شاہی محل تھا۔ اس بیاہ پر بلا مبالغہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ تبھی یہ سوال سامنے آیا کہ کیا راکیش اپنی محدود تنخواہ میں ایسے شاہانہ انداز میں بیٹی کی شادی کراسکتا ہے؟ جب یہ سوال عام ہوا، تو راکیش نے یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ’’بیاہ کا سارا خرچہ میرے دوستوں نے برداشت کیا ہے۔‘‘ ان دوستوں میں سندیسارا بھائی بھی شامل تھے۔مجرم چاہے کتنے ہی شاطر ہوں، وہ ایک دن قانون کے پھندے میں ضرور پھنس جاتے ہیں۔ سندیسارا برادران کی لوٹ مار بھی آخر اگست 2017ء میں افشا ہوگئی۔ دراصل جب بینکوں کے سربراہوں نے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرایا، تو کئی برس سے جاری بھائیوں کے فراڈ کا پتا چل گیا۔ تب انکشاف ہوا کہ دونوں بھائی مختلف بھارتی بینکوں سے تقریباً ’’آٹھ ہزار کروڑ روپے‘‘ کی خطیر رقم قرضوں کی صورت لوٹ چکے۔

بینک سربراہوں نے سی بی آئی سے درخواست کی کہ سندیسارا بھائیوں کو گرفتار کرلیا جائے۔ لیکن دونوں بھائی حیرت انگیز طور پر سی بی آئی کو چکمہ دے کر بیرون ملک فرار ہوگئے۔ آج وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ نائجیریا میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غیر ملکی اکاؤنٹس میں بھارتی بینکوں سے لوٹا گیا مال ان کی دسترس میں ہے۔ بھارت اور نائیجیریا مجرموں کی حوالگی کا بین الاقوامی ماہدہ نہیں رکھتے، اس لیے سی بی آئی یا کوئی بھی بھارتی سرکاری ادارہ سندیسارا بھائیوں پر ہاتھوں نہیں ڈال سکتا۔

بھارتی حزب اختلاف کے مطابق بھارتی بینکوں کے مہا مجرم، سندیسارا برادران کو راکیش استھانہ نے فرار کرایا۔ دراصل 2014ء میں جب مودی نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے راکیش کو نئی دہلی بلوایاا اور اسے سی بی آئی کا سینئر ڈائریکٹر بنا دیا۔ چناں چہ جب اسے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خبر ملی کہ سندیسارا بھائی کے جرائم کا بھانڈا پھوٹ چکا، تو اس نے اپنے محسنوں تک یہ اطلاع پہنچا دی۔ دونوں بھائی راتوں رات بھارت سے فرار ہوگئے۔

تین کروڑ بیاسی لاکھ روپے کی رشوت

راکیش استھانہ نریندر مودی اور صدر بی جے پی، امیت شاہ دونوں کا چہیتا ہے۔ اسی لیے کوئی حکومتی عہدے دار جرأت نہیں کرتا کہ وہ راکیش کے خلاف بول سکے۔ جب الوک ورما نے مودی حکومت کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کیا، تو انہیں نیچا دکھانے کی خاطر راکیش کو سامنے لانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔مودی حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے راکیش کو سی بی آئی کا اسپیشل ڈائریکٹر بنا دیا۔اب وہ ایک طرح سے ادارے میں نمبر ٹو بن بیٹھا۔منصوبے کے مطابق وہ من پسند فیصلے کرنے لگا۔ دیگر ملازمین کی مدد سے اس نے کوشش کی کہ الوک ورما کے زیادہ سے زیادہ اختیارات اسے حاصل ہو جائیں۔ یوں سی بی آئی میں اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔

صورتحال نے الوک ورما کو تاؤ دلایا اور انہوں نے بھی راکیش اور نریندر مودی کومنہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا۔2018ء کے اوائل میں بھارتی میڈیا نے یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا کہ سندیسارا بھائیوں کے دفتر سے محکمہ انکم ٹیکس کو ایک ڈائری ملی تھی۔ اس ڈائری میں بھائیوں نے ان سرکاری افسروں کے نام درج ہیں جنہیں وہ وقتاً فوقتاً رقومات (بطور رشوت) فراہم کرتے رہے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے رہیں۔ سرکاری افسروں میں راکیش استھانہ کا نام بھی شامل تھا۔

ڈائری کی رو سے اسے مختلف ادوار میں لاکھوں روپے دیئے گئے۔ مجموعی رقم تین کروڑ بیاسی لاکھ روپے بنتی ہے۔یہ ایک خوفناک انکشاف تھا کہ سی بی آئی کا خصوصی ڈائریکٹر، راکیش بدنام زمانہ سندیسارا بھائیوں سے رقومات لیتا رہا ہے۔ مگر یہ انکشاف بھارتی حکومت اور نہ ہی سی بی آئی میں زلزلہ لاسکا۔ وجہ یہ کہ مودی حکومت کے شدید دباؤ پر بھارتی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا نے یہ خبر دبادی۔ چند مقامی اخبارات ہی نے راکیش استھانہ کے خلاف چھوٹی سی خبر شائع کی۔

راکیش استھانہ کو یقین تھا کہ الوک ورما نے بھارتی میڈیا تک یہ خبر پہنچائی کہ وہ سندیسارا بھائیوں سے بھاری رقم وصول کرچکا۔ چناں چہ وہ انتقام کی آگ میں جلنے لگا۔ اب وہ کھل کر الوک ورما کے سامنے آگیا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے بھی اسے شہ دی۔ اسی شہ کے باعث جولائی 2018ء میں راکیش نے سی بی آئی میں من پسند لوگ بھرتی کرلیے۔ تب الوک ورما بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ وہ واپس آئے، تو بھرتیوں پر سخت اعتراض کیا۔ اس امر نے دونوں افسروں کی ٹسل شدید کردی۔ایک طرف بااصول اور دیانت دار سربراہ سی بی آئی الوک ورما تھا۔ دوسری سمت کرپٹ راکیش استھانہ جو جرائم پیشہ لوگوں سے بھاری رقم وصول کرکے انہیں قانون کا شکار ہونے سے بچاتا تھا۔ گویا یہ لڑائی نیکی اور بدی کی جنگ بن گئی۔

راحت فتح علی خان کی فیس

اگست 2018ء میں راکیش نے اپنے باس پر سب سے خطرناک وار کیا۔ اس نے بھارتی کابینہ کے نام ایک خط میں خبر دی کہ الوک ورما نے معین اختر قریشی کے ایک کاروباری ساتھی، ستیش سنایا سے دو کروڑ روپے کی رشوت لی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ معین قریشی اور ستیش سنایا کو سی بی آئی گرفتار کرنے سے باز رہے اور وہ بدستور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہیں۔معین اختر قریشی کی داستان بھی سبق آموزہے۔ معین کا تعلق کان پور شہر کے کھاتے پیتے قصائی گھرانے سے ہے۔ اس نے ڈیرہ دون کے ڈان سکول اور سینٹ اسٹیفن کالج (دہلی) سے تعلیم پائی۔ 1993ء میں رام پور شہر میں چھوٹا سا مذبح خانہ کھول کر وہ گوشت ایکسپورٹ کرنے لگا۔ یہ کاروبار چمک اٹھا اور معین نے اتر پردیش ریاست کے مختلف علاقوں میں مذبح خانے کھول لیے۔

2008ء تک وہ بھارت میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا کاروباری بن گیا۔دولت جمع ہوئی، تو معین قریشی گوشت ایکسپورٹ کرنے کے علاوہ دیگر کاروبار بھی کرنے لگا۔ اس نے رفتہ رفتہ ’’25‘‘ کمپنیاں کھول لیں۔ اس کی بیٹی ایک فیشن اسٹور چلاتی ہے۔ معین قریشی مگر قناعت پسند اور بااصول کاروباری نہیں رہ سکا۔ لالچ اور ہوس نے اسے بھی جرائم اور شر کی دنیا میں دکھیل دیا۔معین قریشی ٹیکس چوری کرنے لگا تاکہ اپنی دولت میں اضافہ کرسکے۔ پھر اس نے شیل یا جعلی کمپنیاں کھولیں اور ان کے ذریعے اس کی دولت ٖغیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل ہونے لگی۔ اپنی غیر قانونی اور ناجائز سرگرمیوں کی پردہ پوشی کے لیے اس نے سرکاری افسروں کو بھاری رشوت دی۔ اترپردیش کے سیاست دانوں کو بھی قیمتی تحائف دیئے گئے۔ اس طرح معین قریشی بااثر شخصیات کو ساتھ ملا کر اپنی دولت میں ناجائز اضافہ کرتا رہا۔

2011ء میں مگر ایک پاکستانی گلوکار کے باعث معین قریشی قانون کی نظروں میں آگیا۔ ہوا یہ کہ بیٹی کی شادی تھی۔ اس میں موسیقی کی محفل منعقد کرنے کے لیے معین نے راحت فتح علی خان کو پاکستان سے بلوالیا۔ جب راحت واپس وطن جارہے تھے، نئی دہلی ایئرپورٹ پر ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے انہیں روک لیا۔وجہ یہ تھی کہ راحت فتح علی خان کے پاس سے 56 لاکھ بھارتی روپیہ برآمد ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ رقم معین قریشی نے بطور فیس ادا کی ہے۔ اس واقعے کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو نیز محکمہ انکم ٹیکس کے اہل کار بھی معین قریشی پر نظر رکھنے لگے۔ دیکھا گیا کہ اس کی آمدن کتنی ہے اور وہ کتنے ٹیکس ادا کرتا ہے۔

فروری 2014ء تک معلوم ہوگیا کہ معین قریشی ٹیکس چور ہے اور وہ اربوں روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتا۔ نیز وہ منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے باہر بھجوا چکا۔ چناں چہ اسی مہینے حکومتی اداروں نے معین قریشی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور اہم ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ریکارڈ کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ بھارت کی سب سے بڑی انوسٹی گیشن ایجنسی اعلی ترین سطح پر کرپشن کا گڑھ بن چکی۔ پتا چلا کہ سی بی آئی کے دو سابق سربراہ بھاری رشوت لے کر معین قریشی اور اس کے کاروبار کو تحفظ دیتے رہے تاکہ وہ من مانی کرسکے۔ یوں انہوں نے قانون کو مذاق بناکر رکھ دیا۔

سی بی آئی کے کرپٹ سربراہ

اے پی سنگھ 2010ء تا 2012ء سی بی آئی کا ڈائریکٹر رہا۔ اس دوران اے پی سنگھ اور معین قریشی برابر رابطے میں رہے۔ سی بی آئی کے کئی کاموں کا ٹھیکہ معین کی کمپنیوں کو دیا گیا۔ ظاہر ہے، بدلے میں اے پی سنگھ کو معقول کمیشن ملتا ہوگا۔ پچھلے سال اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی۔ نیز اے پی سنگھ یونین پبلک سروس کمیشن کا رکن تھا۔ اسے اس عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔2012ء میں رنجیت سنہا سی بی آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ معین قریشی نے بھاری رشوت اور قیمتی تحفے تحائف دے کر اسے بھی اپنے جال میں پھنسالیا۔ ریکارڈ کی رو سے دونوں کے مابین ستر سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔ میل جول اتنا بڑھ گیا کہ معین قریشی ڈائریکٹر سی بی آئی کو رشوت دے کر اپنے دوستوں کے کام بھی کرانے لگا۔اے پی سنگھ رنجیت سنہا، دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے معین قریشی سے ایک پائی وصول نہیں کی مگر ان کے دامن گندگی سے داغ دار ہوچکے۔ اسی دوران تفتیش سے معین قریشی کے ایک کاروباری ساتھی، ستیش سنایا کا نام سامنے آگیا۔

پہلے بتایا گیا کہ ستیش سنایا اگست 2018ء میں نمایاں ہوا جب راکیش استھانہ نے اپنے باس، الوک ورما پر الزام لگایا کہ اس نے ستیش سے دو کروڑ روپے رشوت لی ہے۔ جواب میں سی بی آئی ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ راکیش نے ستیش کو استعمال کیا ہے۔ راکیش نے ستیش کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے الوک ورما کے خلاف بیان نہ دیا، تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔الوک ورما نے پھر دعویٰ کیا کہ درحقیقت ستیش سے دو کروڑ روپے بطور رشوت راکیشن استھانہ نے لیے ہیں۔ اس دعویٰ کی بنیاد ستیش کا وہ بیان تھا جو الوک ورما اور دیگر سی بی آئی افسران کے سامنے لیا گیا۔ ستیش کے مطابق یہ رقم سی بی آئی میں راکیش کے دست راست، ڈی ایس پی دیوندر کمار کی وساطت سے لی گئی۔

22 اکتوبر کے دن سی بی آئی کی ٹیم نے دیوندر کمار کو گرفتار کرلیا۔ ابھی اس سے صحیح طرح تفتیش شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ 23 اکتوبر کی رات نریندر مودی نے الوک ورما اور راکیش استھانہ، دونوں کو کام کرنے سے روک دیا۔الوک ورما نے اپنی جبری رخصتی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کررکھا ہے، مگر ان کی کامیابی کا امکان کم ہی ہے۔ وجہ یہ کہ پچھلے چار برس کے دوران مودی حکومت نے تقریباً ہر ادارے میں نظریہ ہندوتوا سے اتفاق رکھنے والے قوم پرست افسر داخل کردیئے ہیں۔ لہٰذا یہ اہل کار سیکولر اور غیر جانبدار افسروں کو کام نہیں کرنے دیتے۔ خصوصاً اگر وہ حکومت کے خلاف عمل کریں تو انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔

سی بی آئی میں کھیلے گئے ڈرامے سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کی سب سے بڑی انوسٹی گیشن ایجنسی کو سوفیصد حد تک اپنا مطیع اور وفادار بنالیا ہے۔ اب یہ ایجنسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے اور انہیں خوفزدہ کرنے میں کام آئے گی۔ خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کو سی بی آئی سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔وجہ یہ کہ مودی نے ایک مسلم دشمن افسر،منیم ناگیشوارہ راؤ کو سی بی آئی کے معاملات سونپ دئیے ہیں۔یہ مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے۔ممکن ہے کہ اب جس بھارتی رہنما نے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر آواز بلند کی، سی بی آئی جلد یا بدیر اسے جعلی مقدمے میں پھنسا دے ۔ صد افسوس کہ بھارت میں عدلیہ سے لے کر تحقیقاتی ایجنسیوں تک، سبھی سرکاری ادارے مسلم عوام کا سہارا بننے کے بجائے عدل و انصاف کو قتل کرنے کا ذریعہ بن چکے۔ان اداروں کو تباہ و برباد کرکے مودی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔

پاک خفیہ اداروں کی برتری کا راز

بھارتی حکمران پاک افواج خصوصاً پاکستان کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بھارت میں ایک پٹاخہ بھی پھوٹے، تو وہ اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کو قرار دیتے ہیں۔ مگر شاطر بھارتی حکمران سے دیکھنے میں ناکام رہے کہ ان کی اپنی ایلیٹ ترین خفیہ ایجنسی، سی بی آئی کرپشن اور خانہ جنگی کا نشانہ بن چکی۔دراصل مودی حکومت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ سی بی آئی کو اپنی باندی بنالے۔ ایجنسی ہر جائز و ناجائز معاملے میں حکومت کے اشاروں پر عمل کرے۔

جب الوک ورما نے مودی حکومت کا غلام بننے سے انکار کیا، تو انہیں زبردستی گھر بھجوادیا گیا۔سی آئی بی میں کھیلا ڈرامہ کئی راز افشا کرگیا۔ مثلاً یہ کہ بھارتی خفیہ اداروں میں اعلیٰ ترین سطح پر فائز عہدے دار جرائم پیشہ لوگوں کے جرم اور گناہ پردوں تلے چھپانے کی خاطر بھاری رشوت لیتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ اینٹلی جنس ادارے مودی حکومت کے آلہ کار بن چکے۔ تاہم یہ راز بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں کم ہی نمایاں ہوئے۔ وجہ ظاہر ہے۔ بھارتی میڈیا بین الاقوامی سطح پر اپنے اینٹلی جنس اداروں کو بدنام اور ذلیل و خوار نہیں کرانا چاہتا۔سی بی آئی کی حالیہ خانہ جنگی کے بارے میں بھی ابتداً بھارتی میڈیا نے خبریں دیں پھر پُراسرار طور پہ خاموشی چھا گئی۔

سی بی آئی، آئی بی اور را بھارت کی نمایاں ترین خفیہ ایجنسیاں ہیں مگر ان کا پاکستانی خفیہ اداروں سے موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فلاں خفیہ ادارے کے افسر کرپشن میں ملوث ہیں۔ جبکہ حقائق سے عیاں ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ اہل کار راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کرپشن کی دلدل میں جاپھنسے ہیں۔

پاکستانی خفیہ اداروں کے افسر و اہل کار جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں۔یہ خوبی انھیں کرپشن کرنے اور لالچ وہوس کے چنگل میں پھنسنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ ملک و قوم کو تحفظ دینے اور دفاع کرنے میں وہ جانیں تک قربان کردیتے ہیں۔ یہی زبردست جوش و جذبہ دیکھ کر پاکستان کے دشمن خصوصاً آئی ایس آئی سے خوف کھاتے اور اسے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ تاہم پاکستانی قوم یکجہتی اور افواج سے محبت کی بدولت ہمیشہ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیتی ہے۔

The post بھارت کی سب سے بڑی انویسٹی گیشن ایجنسی سی بی آئی میں کھیلا گیا انوکھا ڈرامہ appeared first on ایکسپریس اردو.


لیاقت علی نے کہا ’’کس کی مجال ہے کہ ہم سے دلّی لے سکے؟ جب دلّی ملے گا تو علی گڑھ خودبخود ہمارے پاس آجائے گا‘‘

$
0
0

بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن سے ’انٹرویو‘ کے دوران ہر وقت یہ دھڑکا رہتا ہے کہ ان کی زندگی کا فلاں گوشہ یا فلاں موضوع تشنہ نہ رہ جائے۔۔۔ جیسا کہ بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی۔ پہلے انہوں نے کوچۂ صحافت میں اپنی کام یابی کا عَلم بلند کیا، پھر گھر کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے فوج سے وابستہ ہوئے، اور پھر مارچ 1967ء سے نومبر 1973ء تک پاکستانی فوج کی ترجمانی کا اہم فریضہ بھی انجام دیا۔

ان کی فوج سے وابستگی کا زمانہ بھی ہماری تاریخ کا اہم ترین حصہ رہا، وہ بہت سے رازوں اور المیوں کے امین ہوئے۔۔۔ فوج سے سبک دوشی کے بعد انہوں نے دوبارہ ’صحافت‘ کی سمت نگاہ کی، اب کے اُن کے سیاسی ودفاعی تجزیے میں وہ گیرائی اور گہرائی سما چکی تھی، جو ہمارے ہاں ذرا کم ہی پائی جاتی ہے، اس کے ساتھ ادب سے لگاؤ، ہجرت اور یہاں مہاجروں کی صورت حال پر گہری نظر انہیں سب سے زیادہ ممتاز بنا دیتی ہے۔

اس کے باوجود وہ بالکل ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ وہ فوجی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔! ہم اُن سے طے کیے گئے مقررہ وقت پر ان کے دولت کدے پر پہنچے اور دستک دی تو ہمارے لیے کواڑ کھولنے والے اُن کے خادم نے بھی پابندی وقت پر اظہار مسرت کیا۔۔۔ ہم ان کے کمرے میں پہنچے، جہاں ایک کونے میں وہ میز کرسی پر مصروف تھے ، میز پر ایک ’برقی مشعل‘ ان کے سامنے کے حصے کی تاریکی پر فاتح تھی۔۔۔ ہمیں دیکھ کر وہ اپنی مسند سے اٹھے اور قریب ہی رکھے صوفے پر براجمان ہوئے اور یوں ہماری تفصیلی بیٹھک کا آغاز ہوا۔

اپنی گفتگو کا آغاز میں ہی انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ ڈیڑھ، دو سال سے دنیا میں ہوں بھی اور نہیں بھی، میں نے بالکل قطع تعلق تو نہیں کیا، لیکن اب میری مصروفیت صرف گھر اور ’سندھ کلب‘ تک محدود ہیں، میرا تعلق صرف کتابوں اور مضامین سے ہے۔ ان دنوں میں اپنی ایک کتاب ’آرمی اینڈ جہاد‘ لکھ رہا ہوں، جو غالباً میری آخری تصنیف ہے، جس میں میرا کہنا یہ ہے کہ ایک تنخواہ دار پیشہ ور سپاہی کی حیثیت قطعی وہ نہیں ہوتی، جو ایک مجاہد کی ہوتی ہے، اسے آپ مجاہد کہہ تو سکتے ہیں، لیکن مجاہد کی کوئی وردی اور نظم وضبط نہیں ہوتا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہر جماعت کا سربراہ جہاد کا اعلان نہیں کر سکتا، یہ استحقاق اسلام کی رو سے صرف سربراہ مملکت کا ہے۔ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کی جنگ میں قبائلی شامل ہوئے۔ مولانا مودودی نے کہا کہ یہ جہاد نہیں! انہوں نے اپنے اس موقف پر کبھی کوئی سمجھوتا بھی نہ کیا۔

بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ ’1948ء کی جنگ میں قبائلیوں نے بیٖڑس غرق کیا، وہ بارہ مولا تک پہنچ گئے، وہاں سے سری نگر ایئرپورٹ تین چار میل دور تھا۔ وہاں جا کر انہوں نے لوٹ مار شروع کر دی، اگر وہ ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیتے، تو ہندوستان کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا، ہندوستان نے جہازوں پر ہی اپنی فوج بھیجی۔

بریگیڈیر عبدالرحمٰن صدیقی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے فوج بھیجنے سے منع کر دیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ جنرل گریسی نے یہ کہا تھا کہ ’میں یہ نہیں کر سکتا‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوج کا مشترکہ ہیڈ کوارٹر نئی دلی میں ہوتا تھا، جہاں ہماری فوج کی نقل وحرکت دونوں افواج کے سپریم کمانڈر کو بتائی جاتی تھی اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔

بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی نے ہجرت اور قیام پاکستان کو بہت قریب سے دیکھا، اس لیے یہ موضوع ہمارے سوال نامے میں سرفہرست تھا، ہم نے پوچھا کہ ’بٹوارے کے ہنگام میں دلّی میں کیا گزری؟‘ وہ بولے کہ پانچ ستمبر 1947ء کو فتح پوری مسجد میں بم پھٹا، تو دلی میں کرفیو لگ گیا اور لوگ قلعہ بند ہو گئے! ہمارے محلے میں امن تھا، اس لیے ہم اپنے گھروں میں رہے۔ ’ڈان‘ کے مدیر اور لیاقت علی خان اس خوش فہمی میں تھے کہ بٹوارے کے بعد ’ڈان‘ اخبار بہ یک وقت دلی اور کراچی سے شایع ہو گا، لیکن چھے ستمبر 1947ء کو ’ڈان‘ کے دفتر کو آگ لگا دی گئی اور وہاں اخبار بند ہو گیا۔ میں نے اس پر ایک پوری کتاب ’اسموک ود آؤٹ فائر‘ (Smoke without fire) لکھی، کیوں کہ آگ بھڑکتی ہے، تو دھواں نہیں ہوتا، لیکن جب سلگتی ہے، تو پھر دھواں ہوتا ہے اور اس وقت بھی دھواں اور اندھیرا تھا!

تقسیم انتخابات کا نتیجہ تھی، ہم نے اس چناؤ کے ماحول کو کھوجا، اور پوچھا کہ کیا یہ پتا تھا کہ دلی پاکستان میں شامل ہوگا یا نہیں؟ کہتے ہیں ’’تین جون 1947ء کو جب اعلان ہو گیا، تو سب کو پتا چل گیا تھا کہ دلی پاکستان میں شامل نہیں ہوگا! یہ تقسیم 1948ء میں ہونا تھی، لیکن اسے 1947ء کر دیا گیا۔ ہمیں وہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جناح صاحب بیمار تھے، اس لیے وہ جلدی میں تھے۔ اگر بٹوارا 1948ء میں ہوتا، تو شاید اتنی قتل وغارت گری نہ ہوتی۔‘‘

بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی نے بتایا کہ یہ لگ بھگ 1944ء کی بات ہے، جب لیاقت علی ’اینگلو عربک کالج‘ آئے، تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے جو پاکستان مانگا ہے، اس میں علی گڑھ تو ہے نہیں، تو وہ کہنے لگے ’میاں تم سمجھے نہیں، دراصل دلی تو ہم لیں گے، کسی کی کیا مجال ہے کہ کوئی دلی ہم سے لے سکے، ہم نے علی گڑھ کا نام نہیں دیا، وہ اس لیے کہ جب دلی ہمارے پاس ہوگا، تو ’علی گڑھ‘ تو خود بخود ہمارے پاس آجائے گا۔ ان کے کم وبیش یہی الفاظ تھے۔ یہ بات ان کے ذہن میں تھی کہ دلّی تو شامل ہوگا، کیوں کہ ہماری ساری چیزیں تو یہیں ہیں۔

بریگیڈیر عبدالرحمن نے ’اینگلو عربک کالج‘ سے بی اے کیا، کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان وہاں کی گورننگ باڈی کے چیئرمین تھے اور میں یونین کا سیکریٹری تھا، اس حیثیت سے ہماری ملاقاتیں رہیں، وہ کہتے کہ ’ان شا اللہ پاکستان بننے والا ہے، اور وہاں تم لوگوں کا بہت بڑا مستقبل ہے، وہاں زیادہ دلی والے ہی کام کریں گے۔‘ یہ ان کی معصومیت تھی، کسی کو خبر نہ تھی کہ سندھی، پنجابی اور پٹھان کیا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں لیاقت علی خان جیسا شریف النفس اور جاں نثار آدمی نہیں دیکھا۔ دلّی میں پاکستان کا ’ہائی کمیشن‘ ان کے گھر میں ہی قائم ہے۔ ہندوستانی روپوں میں شاید اس کی قیمت 20، 30 کروڑ تو ہوگی، وہ انہوں نے یوں ہی پاکستان کے سفارت خانے کے لیے دے دیا۔

بریگیڈیر صاحب قائد اعظم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’جناح صاحب کسی کی بات سنتے تھے اور نہ اپنی بات سمجھا سکتے تھے۔ سمجھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے آپ کو سمجھنا پڑتا تھا، بھئی اگر پاکستان اچھا ہے، تو کیوں اچھا ہے؟ اس کا جواب نہیں دیں گے وہ، شٹ اپ کر دیں گے، مگر اللہ تعالی نے انہیں اتنی وجاہت اور رعب دیا تھا کہ آپ ان سے نگاہ ملا کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ تقسیم سے قبل حسین شہید سہروردی اور ابوالہاشم خان، (سیکریٹری جنرل مسلم لیگ) سمیت تین شخصیات نے جناح صاحب سے کہا کہ متحدہ بنگال کی باتیں ہو رہی ہیں، جس پر جناح نے کہا کہ ’مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایک شرط ہے کہ وہ ہندوستان کا حصہ نہیں بنے گا۔‘ اب یہ کیسے ہو سکتا تھا!

11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر کہ ’مذہب کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا‘ اس حوالے سے بریگیڈیر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ’خدا کرے کہ وہ یہ تقریر نہ کرتے! آپ اس سے تو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں کہ آپ آزاد ہیں اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔ تو کیا ہندوستان میں ہمیں یہ آزادی نہیں تھی؟ وہاں تو ہماری مساجد تھیں۔۔۔! انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا، انہوں نے پاکستان کو محدود کر دیا، اگر یہی مقصد تھا، تو اس کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کی ضرورت تو نہ تھی۔

ہم نے بریگیڈیر صاحب سے پوچھا ’تو کیا انہیں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہیے تھا؟‘ تو وہ بولے کہ ’اُن کے ذہن میں تو اسلامی نظام کا کوئی تصور تھا ہی نہیں، بلکہ لکھنؤ کے ایک راہ نما نے جب یہ کہا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی، تو انہوں نے ڈانٹ دیا تھا۔‘ ہم نے کہا پھر انہیں کیا کہنا چاہیے تھا، تو وہ کہنے لگے ’مجھ میں نہ اتنی ہمت ہے اور نہ اتنی اہلیت کہ یہ کہوں کہ کیا کہنا چاہیے تھا، بس وہ یہ تقریر نہ کرتے تو اچھا تھا۔‘ ہم نے یہ خیال ان کے سامنے رکھا کہ اس تقریر سے اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا ہوا!‘ جس پر وہ بولے کہ ’’کہاں پیدا ہوا، وہ تو سب یہاں سے جا رہے تھے! جنوری 1948ء میں گرومندر کراچی میں مہاجرین کا مقامی افراد سے تنازع ہوا تھا، تو جناح نے مہاجروں کو بہت ڈانٹا کہ آپ مہاجر ہیں اور یہاں سندھ حکومت کے مہمان ہیں۔ شروع سے ہی مہاجروں اور سندھیوں کے تعلقات کی نوعیت اچھی نہیں تھی۔ سندھ اسمبلی میں 1943ء میں جی ایم سید نے پاکستان کی قرارداد منظور کرائی، مگر پھر وہ پکے سندھی ہو گئے تھے اور آخر وقت تک رہے۔‘‘

بریگیڈیر صدیقی کا خیال ہے کہ کہ گاندھی اور جناح دونوں ہی متنازع تھے، گاندھی کام یاب ہو گئے جناح نہیں ہوئے، ہم نے اُن کے اس خیال کی وجہ جاننا چاہی تو وہ بولے کہ ’وہ اس طرح کہ ہمیں جتنا حصہ ملنا چاہیے تھا، وہ نہیں ملا۔ جانی و مالی نقصان بھی مسلمانوں کا زیادہ ہوا۔ پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی تو خود جناح صاحب کے بہت سخت مخالف ہو گئے۔ وہ یہاں آکر واپس چلے گئے کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے!‘‘

بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی 1965ء کی جنگ میں سیال کوٹ کے محاذ پر آبزرور کے طور پر رہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے وہاں ’فخرہند‘ (رجمنٹ) کا قیمہ بنتے دیکھا۔ یہ رجمنٹ ہندوستان کی بکتر بند فوج کا فخر تھی، اس حوالے سے وہ گویا ہوتے ہیں کہ 1965ء میں ہمارے کشمیر میں آپریشن جبرا الٹر کے کمانڈر جنرل اختر ملک تھے، انہوں نے جولائی 1965ء میں مری میں ایک میٹنگ میں اپنا پلان پیش کیا۔ یہ مری سے لے کر مظفرآباد تک تھا۔ اس میں سپریم کمانڈر ایوب خان، جنرل موسیٰ اور دیگر جرنیل بھی تھے۔ ایوب خان نے ساری توجہ شمال کی طرف دینے اور جنوبی حصے کو نظرانداز پر جنرل اختر سے سوال کیا تھا۔ میں وہاں نہ تھا، لیکن میرے ایک لیفٹننٹ کرنل دوست وہاں تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ ایوب خان کا مشاہدہ بہت اچھا تھا، جنرل ایوب کے سوال پر اختر ملک پریشان ہو گئے تھے، کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ لڑائی وہیں تک رہے گی۔ وہ گوریلا طرز کے آپریشن کی توقع کر رہے تھے، لیکن اس کے لیے کے تو تربیت یافتہ گروپ تیار کرنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ تصور کر لیا کہ کشمیر کے عوام ان کا ساتھ دیں گے، مگر ہوا اس کے برعکس۔

بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی کا ماننا ہے کہ ’’1965ء کی جنگ جیتی جا سکتی تھی، لیکن جیتی نہ جا سکی، 1971ء کی جنگ سے گریز کیا جانا چاہیے تھا، جو ہم نے ہار دی۔‘‘ ہم نے کہا 1971ء کی جنگ تو ہم پر مسلط ہو گئی تھی، تو وہ بولے کہ وہ تو آپ نے مسلط کی۔ ہم نے پوچھا کہ ’1965ء کی جنگ ہم کیسے ہارے؟‘ تو وہ بولے کہ اس کے جو مقاصد تھے وہ حاصل نہ کر سکے۔ تاشقند میں ہندوستان کی ہر بات قبول کرلی گئی، بھارتی وزیراعظم شاستری سے ایوب خان نے کہا کہ کچھ ہمارے لیے بھی کر دیں۔ اس نے انکار کر دیا کہا کہ میں تو پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوں۔

بریگیڈیر صاحب کہتے ہیں کہ 1971ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا، تو میں ’پرنسپل اسپوکس مین‘ تھا، مجھے بہت دکھ ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کی کوئی منصوبہ تھا ہی نہیں! جنرل یحییٰ خان بہت اچھے آدمی تھے، لیکن ضروری نہیں کہ اچھا آدمی اچھی بات بھی کرے۔ میں جنرل یحییٰ کی بہت عزت واحترام کرتا ہوں، مگر جو کام ان کی موجودگی میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس دوران وہ اپنے ہوش میں نہ تھے، صورت حال یہ تھی کہ 16 دسمبر 1971ء کسی کو بھی نہ پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے، خدا کرے اب ایسا دن کبھی نہ آئے۔ اس دن مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق چار بجے ہم نے ہتھیار ڈال دیے اور اس کی پوری داستان بھارتی جنرل جیکب (Jacob) نے اپنی کتاب میں لکھی ہے، جنرل جیکب نے لکھا ہے کہ شکست خورہ نیازی کس طرح بھارتی کمانڈر سے پنجابی میں مذاق کر رہے تھے، اس کی عادت تھی ایسی۔

ڈھاکا سے واپسی کے حوالے سے بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی کہتے کہ ’’ستمبر 1971ء میں واپسی سے پہلے جب میں جنرل نیازی اور دیگر کو خدا حافظ کہنے گیا، تو صورت حال یہ تھی کہ ہمارے جوان خندقیں کھود کر احکامات کے منتظر تھے، مگر احکامات آتے نہیں تھے۔ جنرل نیازی مجھ سے اور جنرل یعقوب سے کہا کرتے تھے کہ دیکھو بچو! یہ جنگ تمہارا کام نہیں ہے، تم پڑھے لکھے لوگ ہو، اپنا کام کرتے رہو اور تم دیکھنا میں جاؤں گا ہندوستان۔ وہ ہندوستان ضرور گیا، مگر قیدی کی حیثیت سے!‘‘ ہم نے پوچھا کہ 1971ء میں کیا ہیڈ کوارٹر بھی لاعلم تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ وہ بولے کہ ’’خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری!‘‘

بریگیڈیر عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ سے منسلک تھا، اس دوران مجھے کمیشنڈ آفر ہوئی، تو انکار کردیا کیوں کہ ’غدر‘ کے دوران انگریز فوج کے مظالم کی وجہ سے میرے گھر میں فوج کا بہت برا تاثر قائم تھا۔‘ تاہم اپنے مدیر کے مشورے سے جولائی 1950ء میں وہ فوج کا حصہ بن گئے۔

11 سال لاہور میں رہے، پھر 1959ء میں وہ ’انٹر سروسز‘ پنڈی چلے گئے۔ اُن کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا، 11 سال کپتان رہے، پھر ’فضائیہ‘ میں جگہ خالی ہوئی، تو وہاں ’اسکوارڈن لیڈر‘ کے طور پر چلے گئے، 1961ء تا 1963ء وہاں رہے، پھر واپس آرمی میں بطور میجر آگئے۔ ایئرمارشل اصغر خان کے تحت کام کرنے کے حوالے سے بریگیڈیر عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ وہ بہت ایمان دار تھے اور غلطی پر سخت بازپرس کرتے۔ جب وہ سیاست میں آئے، تو میں بھی ریٹائر ہو چکا تھا، ان کی سیاسی جماعت ’تحریک استقلال‘ کا ناقد ہونے کے باوجود ان سے آخر تک بہت اچھا تعلق رہا۔ بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو کا فوجیوں سے انداز تخاطب بہت استہزائیہ ہوتا تھا، جیسے ہم کوئی ہندوستانی ہوں۔ میری ساری زندگی میں سب کچھ فوج کا ہے، میں فوج کے علاوہ کچھ ہوں ہی نہیں! 1973ء میں، میں قبل ازوقت ریٹائر ہو گیا، عموماً ایسے موقع پر پنشن نہیں ملتی، لیکن مجھے ملی، ریٹائر ہونے کے بعد کراچی آگیا، اسی مکان میں رہا جہاں آج ہوں۔

انہوں نے فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد 1975ء میں ایک عالم گیر ’ڈیفنس جرنل‘ نکالا، جو 22 برس جاری رہا۔ اس کا نصب العین (Motto)’مائنڈ از دی الٹرنیٹ ویپن‘ (Mind is the alternate weapon) اور ’ویلفیئر نو وار افیئر‘ (Welfare no war affair) تھے۔ اس جریدے کے اجرا کے موقع پر اعلیٰ جرنیلوں نے اپنی نیک تمناؤں کے پیغامات بھی دیے۔ کہتے ہیں کہ اس جرنل میں انہوں نے پوری آزادی سے کام کیا، اچھا ردعمل ملا۔

’’1947‘‘ء میں میری پہلی خبر ہی صفحۂ اول پر شایع ہوئی‘‘
بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی1947 ء تا 1950ء پشاور میں انگریزی اخبار ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ (The Civil & Military Gazette) کے خصوصی کو رسپانڈنٹ رہے۔ ابتدائی دنوں میں ہی صحافتی ذمے داریوں کی ادائی کرتے ہوئے وہ کشمیر جانے والی ٹیم میں شامل ہوئے، کہتے ہیں کہ ’یہاں ہماری فوج کی لڑائی ہو رہی تھی۔ میں 16 نومبر 1947ء کی رات بریگیڈیر اکبر سے ان کے ہیڈ کوارٹر پر ملا، ان کا انٹرویو کیا۔ میری انگریزی اچھی تھی، لیکن پیرا گرافنگ کے حوالے سے اے کے قریشی نے میری راہ نمائی کی اور دوسرے دن ہی میری پہلی خبر ہی صفحہ اول پر چھپی، یوں بہت بڑا بریک تھرو ملا۔ بہ حیثیت ایک نوآمیز جنگی نامہ نگار کے میری ایک بڑی کام یابی تھی۔ ساتھ ہی جنگی امور سے پیشہ وارانہ زندگی کا کام یاب آغاز تھا۔‘

وہ اس اخبار کے حوالے سے اپنے تجربات یوں دریافت کرتے ہیں کہ میں تین سال اس اخبار میں رہا اور اس دوران میں نے بہت خرافات کیں، کوئی اور ہوتا تو شاید مجھے نکال دیتا، کہتے ہیں کہ ’سول ملٹری گزٹ‘ کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی اور اسے ایک خبر چھاپنے پر تین ماہ کے لیے بند کردیا گیا۔ ہماری تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ 16 اخبارات نے کسی اخبار کے خلاف مشترکہ اداریہ چھاپا، کیوں کہ یہ ان اخبارات کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا تھا اور وہ گویا تاک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انگریز تھے اور صحیح رپورٹنگ کرتے تھے۔ اس کے مدیر کی شرافت دیکھیں کہ اس نے مجھ سے کہا کہ ہمارا لاہور ایڈیشن بند ہوا ہے، ہم کراچی ایڈیشن تو چھاپتے رہیں گے اور تمہیں تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے دیتے رہیں گے۔

اب تک سات تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں
بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کی اب تک سات تصانیف منصۂ شہود پہ آچکی ہیں۔ انہوں نے ’جنگ‘ میں 10سال بہ عنوان ’عسکری تجزیہ‘ کالم لکھے، جو ’فوج اور سیاست‘ کے عنوان سے شایع ہوئے، دیگر تصانیف میں ’’تقسیم ہند اور بہادر شاہ ظفر کی واپسی‘‘، ’’پاک وہند تعلق یا تصادم ‘‘ اور ’’مہاجر، پچاس سالہ سفر کی داستان‘‘ شامل ہیں۔ تین انگریزی کتب میں ایسٹ پاکستان، دی اینڈ گیم (East Pakistan, The end game)، اسموک ود آئوٹ فائر (Smoke Without Fire) اور ’پارٹیشن اینڈ دی میکنگ آف دی مہاجر مائنڈ سیٹ‘ (Partition and the making of the Mohajir mindset) شامل ہیں۔ بریگیڈیر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اسموک ود آئوٹ فائر (Smoke Without Fire) میں اپنے بچپن کی ساری باتیں ایمان داری سے لکھ دی ہیں۔

اس سے زیادہ کی میری حیثیت نہیں، اس کتاب کی اشاعت اول دلّی میں ہوئی، بعد میں یہ کراچی سے بھی شایع ہوئی۔ میری پروفیسر احمد علی سے بہت اچھی دوستی تھی، دلّی پر ان کی کتاب ’ٹوئیلائٹ اِن دلّی‘ (Twilight in Delhi) سے اچھی کتاب نہ لکھی گئی اور نہ شاید لکھی جا سکے۔ ان کی کتاب دلّی کے ایک محلے اور ایک خاندان کا احاطہ کرتی ہے، جب کہ میری کتاب میں پوری دلّی آتی ہے، کہ ہمارا محلہ بَلّی ماران کے نکڑ سے دیکھیں، تو ایک طرف فتح پوری مسجد تھی اور دوسری طرف قلعہ معلیٰ تھا۔‘ بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ خدمت (1969ء)، تمغہ دفاع پاکستان (1965ء)، ریپبلک میڈل (1956ء) اور وار میڈل (1971ء) سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

مئی 1965ء میں ’رن کَچھ‘ میں جنگ کا آغاز ہوگیا
بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ میں نے ’دی سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ (The Civil & Military Gazette) کے نمائندے کی حیثیت سے کشمیر کی جنگ کور کی۔ اپریل 1949ء کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل کے تحت کشمیر میں رسمی طور پر جنگ بندی ہوئی، یوں ’سیز فائر لائن‘ کی حد بندی بھی ہو گئی، اقوام متحدہ کی تمام تر کوششیں فریقین یعنی ہندوستان پاکستان دونوں کی رضا مندی کے مطابق کشمیری جنگ کا حتمی فیصلہ ایک استصواب کے ذریعے ہوا، مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور جنگ بندی کے باوجود کنٹرول لائن پر چھوٹی اور بڑی جنگیں ہوتی رہیں اور سلامتی کائونسل کی کوششوں کے باجود ہندوستان رائے شماری سے روگردانی کرتا رہا اور دونوں ممالک کے مابین فاصلے اور کشیدگی بڑھتی رہی۔ 1950ء کی نصف دہائی میں ’رن کَچھ‘ کے صحرائے عظیم میں چھوٹی موٹی جنگیں ہوتی رہیں اور اس طرح حالات ایسے بگڑے کہ مئی 1965ء میں ’رن کَچھ‘ میں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا۔

گو کہ جنگ بہت محدود تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرلی، 1965ء کی جنگ عملاً صرف 17 روز رہی، مگر اسے ہندوستان پاکستان کے مابین ایک دائمی کشیدگی اور جنگی صورت حال کی شکل اختیار کرلی۔ یہ جنگ باقاعدہ طور پر 23، 22 ستمبر 1965ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی شمولیت کے بعد ختم ہوگئی، 10جنوری 1966ء کو تاشقند میں روس کی پیش قدمی اور تجویز پر ہندوستان اور پاکستان کے مابین ’امن کانفرنس‘ ہوئی۔ پاکستان کی نمائندگی فیلڈ مارشل ایوب خان جب کہ ہندوستان کی قیادت لال بہادر شاستری کر رہے تھے۔ یہ کانفرنس دو تین روز بعد ’معاہدہ تاشقند‘ پر منتج ہوئی، مگر کشمیر کا مسئلہ جہاں کا تہاں رہا۔ عملی جنگ میں میرا ذاتی تجربہ مئی 1965ء میں ہوا۔ اس وقت پاکستان کی افواج انتہائی کام یابی سے ہندوستان کی فوج سے نبرد آزما تھیں اور انہوں نے تیکنیکی اہمیت کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ’رن آف کچھ‘ کا محاذ پاکستان کی فوجی کام یابی کا گواہ تھا، مگر اس کی حربی اہمیت انتہائی محدود تھی، جسے ہرگز فیصلہ کُن نہیں کہا جا سکتا، بہر حال ’کَچھ‘ کا محاذ پھیلتے پھیلتے کشمیر تک پہنچ گیا اور 31 جولائی کو پاکستان کی آرمی حرکت میں آگئی اور پیدل فوج کے ساتھ ساتھ توپ خانے اور بکتر بند دستوں کے ساتھ پیش قدمی کرنا شروع کردی۔

یکم ستمبر 1965ء کو عین جنگ کے دوران مجھے ’چَھم‘ جانے کا حکم ملا، میں بہ ذریعہ ہوائی جہاز L-19 سے پہلے کھاریاں پہنچا اور وہاں سے بہ ذریعہ جیپ جلال پور جٹان پہنچ گیا، جہاں بارہویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر ملک 7 ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل یحییٰ کان کو ’چھَم‘ کی جنگ اور کمال حوالے کر رہے تھے میں دونوں کمانڈروں کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر جنرل یحییٰ کے احکامات کے مطابق بہ ذریعہ جیپ آگے والی 9 انفینٹری بٹالین کے ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوا۔ ایک رات اور دو دن گزارنے کے بعد میں راول پنڈی آگیا، عین ہنگامی جنگ میں جو کچھ میں نے دیکھا اور سیکھا میری اصلی فوجی زنگی کا اہم ترین تجربہ ہے۔

ہر چند1965کی جنگ ہماری کارکردگی ہم سے کہیں زیادہ مسلح اور طاقت وَر ہندوستانی فوج کے مقابلے میں بے مثال تھی مگر ہم جنگ کے اختتام پر تقریباً وہیں کھڑے رہے جہاں جنگ سے پہلے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ہم 1965ء کی جنگ سے وہ کچھ حاصل نہ کرسکے ، جس کی ہمیں پوری توقع تھی اور ہم حاصل بھی کرسکتے تھے۔ لہٰذا لیفٹننٹ جنرل محمود احمد نے اپنی کتاب Victory of Ilusion (فریبِ فتح) کا عنوان استعمال کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی وہ واحد کتاب ہے، جس میں کمپنی اور اور بٹالین سے لے کر بریگیڈ ڈویژن تک کے آپریشن کا مکمل احوال موجود ہے۔

بڑے بھائی عثمان صدیقی بھی صحافی رہے!
بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی اپنے بچپن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں تین چار برس کا تھا، دادی میرا بہت خیال کیا کرتی تھیں، اُن کے باورچی خانے میں ہنڈیا پکاتے ہوئے میں کبھی وہاں آجاتا تو وہ کہتیں ’’پھر آگیا تو شیطان! اچھا میں دیکھتی ہوں۔‘‘ پھر ہنڈیا ٹٹولتیں کہ کوئی بوٹی گَلی ہوئی ہوتی، تو وہ نکال کر دیتیں کہ جائو کونے میں بیٹھ کر ٹھنڈی کرکے کھالو! ہماری برادری (پنجابی سوداگرانِ دہلی) میں روایت تھی کہ گھر میں چاہے کتنے ہی ملازمین ہوں، مگر کھانا ’خاتون خانہ‘ ہی پکاتی تھیں۔ ہم نے پوچھا آپ کے دادا اور دادی نے آخری مغلیہ دور دیکھا ہوگا، ان سے اس زمانے کی دلی کا کوئی تذکرہ سننے کا اتفاق ہوا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ دیکھا ہوگا،تب میں بہت چھوٹا تھا، پھر اس زمانے میں اس طرح بزرگوں سے بات بھی نہیں کی جاتی تھی، جب میں بڑا ہوا، تو ان کی یادداشت ایسی نہ تھی کہ کچھ بتاتے۔

بریگیڈیر عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ وہ اپنی والدہ کی پسند سے 1959ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، ایک بیٹا ڈاکٹر مسعود الرحمن ریاض میں ہے۔ دوسرے ڈاکٹر ضیا الرحمن پی ایچ ڈی ’ناسا‘ میں تھے، وہاں ایک سڑک کے حادثے میں انتقال ہو گیا۔ چھوٹا بیٹا انیس الرحمن کراچی میں ساتھ رہتا ہے۔ بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بڑے بھائی عثمان صدیقی 1968ء میں اہل خانہ کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئے، جہاں فروری 2018ء میں اُن کا انتقال ہوا، اگر وہ کچھ دن حیات رہتے تو عمر کے 100 برس مکمل کر لیتے۔ وہ پاکستان میں صحافت کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے سینٹ اسٹیفن کالج (St. Stephen college) سے ایم اے کیا، اس کے فوراً بعد وہ ’اورینٹ پریس‘ چلے گئے، یہ مسلمانوں کی واحد ایجنسی تھی، جو حیدرآباد دکن کے ایک صاحب کی تھی۔ اس کے بعد وہ مختلف ایجنسیوں میں کام کرتے رہے، میر خلیل الرحمن، فخر ماتری اور الطاف حسین وغیرہ کے ساتھ رہے، پھر یہاں لکھنے لکھانے کا کام کرتے رہے لندن کے ہفت روزہ ’رائونڈ ٹیبل‘ کے لیے بھی لکھا۔

بے نظیر نے ’کارگل‘ کی مہم جوئی مسترد کر دی تھی!
1998ء کے کارگل کے محاذ کے حوالے سے بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی کا کہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے ’کارگل‘ کے ذریعے بہت غلط کھیل کھیلا، ہندوستان سے ہمارے اتنے اچھے تعلقات ہو رہے تھے۔ جب فروری 1998ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر وہاں آئے اور مینار پاکستان پر تقریر کی، میں بھی وہاں تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے یہ منصوبہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ان کے سامنے بھی پیش کیا، جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔ پرویزمشرف کو جوں ہی موقع ملا، انہوں نے کارگل کی پہاڑی چوٹیاں پکڑ لیں، مگر آگے جانے کے بعد پیچھے ’لائن آف کمیونکیشن‘ نہ تھی، جس کی وجہ سے بہت مشکلات ہوئیں، ہمارے سپاہی آگے تو جا رہے ہیں مگر ان کے لیے کچھ کھانے پینے کو نہ تھا۔ نیچے سے اوپر جانے کے لیے کم از کم ایک رات کے لیے آرام کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ آکسیجن کم ہونے کے سبب سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اوپر والوں کو تو برتری ہوتی ہے، اس لیے انہوں نے دھڑا دھڑ سات، آٹھ سو ہندوستانی فوجی مار دیے۔ نیچے والوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے گھر میں سرکاری نوکری اور تجارت گالی تھا!
بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی نے اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ چھے ستمبر 1924ء کو دلّی میں پیدا ہوئے، اُن کا تعلق ’پنجابی سوداگران دلّی‘ کے ایک بڑے خاندان سے ہے، اُن کے پردادا قطب الدین کو مرزا غالب نے اپنا دوست لکھا ہے۔ میرے والد شیخ محمد صدیق ایڈووکیٹ ایک کام یاب ’سول لائر‘ تھے اور لاہور ہائی کورٹ میں ہوتے تھے۔ دلی ہر چند کہ دارالحکومت تھا، لیکن وہاں صرف ’اسمال کورٹ‘ تھی، ہائی کورٹ لاہور میں ہی تھی، وہاں پولیس بھی پنجاب کی تھی۔ 1934ء میں والد 42 سال کی عمر میں دق کے سبب انتقال کرگئے، دو سال علیل رہے، اس دوران بہت پریشانی رہی۔ ہمارے گھر میں تو سرکاری نوکری اور تجارت گالی تھی۔ ہم کرایہ خوری کرتے تھے، یہ جائیداد چوں کہ وقف الاولاد تھی اس لیے تقسیم در تقسیم کے بعد اس کی محدود آمدن میں ہمارا گزارا مشکل تھا۔

والد کے انتقال کے وقت میں 10 سال سے بھی کم عمر تھا۔ ہم اردو کے قاعدے سے پہلے بغدادی قاعدہ پڑھ لیتے تھے۔ ایک استانی جی کے ہاں پڑھنے جاتے تھے، سبق کے دوران اگر کوئی شاگرد اتنی سی بھی غلطی کرتا تو فوراً ان کی چھڑی حرکت میں آتی تھی۔ میں 11 برس کی عمر تک اسکول نہیں گیا، ہمیں گھر میں ٹیوشن پڑھانے ماسٹر آتے تھے، جس سے میری انگریزی اچھی ہوگئی تھی۔ دادا کے چھوٹے بھائی حاجی عبدالغنی کو تعلیم کا بہت شوق تھا، وہ مجھے 1935ء میں ’اینگلو عربک اسکول‘ لے گئے، جہاں ٹیسٹ کے بعد پانچویں جماعت میں داخلہ ملا، 1941ء میں میٹرک کے بعد ’اینگلو عربک کالج‘ کے طالب علم ہوگیا، بی اے کیا، یہاں ایم اے کے لیے ’تاریخ‘ کا شعبہ نہ تھا، اس لیے ’سینٹ اسٹیفن کالج‘ (St. Stephen college) سے 1947ء میں ’تاریخ‘ میں ماسٹرز کیا۔

صحافت کا آغاز، ماسٹرز اور بٹوارے کا ہنگام ایک ہی برس ہوا
بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی بتاتے ہیں کہ اپریل 1947ء میں ’ایم اے‘ کا نتیجہ آیا، جس کے بعد ایک دن بنا فون کیے ’ڈان‘ کے مدیر الطاف حسین کے گھر چلا گیا، وہ لودھی روڈ پر ایک فلیٹ میں رہتے تھے، جہاں ان سے ملاقات ہوئی، میں اُن کی آنکھوں کی مخصوص چمک اور ان کی پراعتماد چال کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور پھر میں جون 1947ء میں ’ڈان‘ دلّی کا حصہ بن گیا۔ 9 اکتوبر 1947ء کو بہ ذریعہ ہوائی جہاز دلّی سے لاہور آگیا، یہاں میں بہت مشکلات کا سامنا تھا، مگر جب آپ کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ کچھ نہ کچھ اسباب پیدا کردیتا ہے۔

میں ملازمت کی توقع لیے ’پاکستان ٹائمز‘ گیا، جہاں سے انکار ہو گیا۔ پھر ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ میں قسمت آزمائی، تو کام یاب ہوا۔ یہ اس وقت ہندوستان کے قدیم ترین انگریزی اخباروں میں سے تھا، اور نوزائیدہ ’پاکستان ٹائمز سے زیادہ طاقت وَر تھا، میں اس کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے پشاور چلا گیا۔ مجھے رپورٹنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا، لیکن انہوں نے میری بنیادی تنخواہ 200 روپے مقرر کی، اور الائونسز ملا کر یہ تنخواہ 340 روپے بن جاتی، جو پہلی تاریخ کو اکائونٹ میں آجایا کرتی تھی۔ اس وقت پاکستان میں 150 روپے ماہانہ تنخواہ والا خوش قسمت سمجھا جاتا تھا۔

’’یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ نئے ملک کی زبان اردو ہوگی!‘‘
قائداعظم کے بارے میں بریگیڈیر صاحب نے بتایا کہ ’مجھے انہیں ایک بار قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پشاور میں اپریل 1948ء میں وہ ڈھاکا سے واپسی پر 10دن وہاں رہے تھے۔ وہاں پشاور کلب میں ان کے اعزاز میں پارٹی ہوئی تھی، میں ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کی طرف سے وہاں نمائندہ تھا۔ میں نے بھی دیگر اخباری نمائندوں کے ساتھ ان سے مصافحہ کیا۔ وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے، اُن کے چہرے پر وہ تاثرات نہیں تھے، جو ایک ملک بنانے والے یا کام یاب آدمی کے ہوتے ہیں۔

اس وقت وہ بہت ٹوٹ چکے تھے۔‘ ہم نے اس کی وجہ پوچھی، تو بریگیڈیر صاحب نے کہا ’ایک تو اتنا بڑا فساد ہوا، لاکھوں افراد مارے گئے، پھر یہاں آکر لسانی رنگ دیکھے! بنگالیوں نے ہمیں تنگ نہیں کیا، مگر جناح نے سب سے بڑی اور ایک بنیادی غلطی کی کہ گورنر جنرل کے طور پر ڈھاکا جا کر کہا کہ ’ریاستی زبان اردو ہوگی، جب کہ بنگالی بہت رئیس زبان ہے۔‘ ہم نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی ’قومی زبان‘ کے لیے یہ کہا تھا اور اہل بنگال کو اختیار دیا تھا کہ وہ چاہیں تو اس کے ساتھ اپنی کوئی ایک صوبائی زبان بھی رکھ سکتے ہیں، جس پر بریگیڈیر عبدالرحمن نے کہا کہ انہوں نے لفظ قومی نہیں بلکہ ’ریاستی‘ کہا، اور صوبائی سطح کی زبان کے لیے یہ کہا ہوگا، مگر اُن کی جو بات پکڑی گئی، وہ یہی تھی کہ ’اردو، اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی!‘

ہم نے کہا کہ اردو کے حوالے سے تحریک پاکستان کے دوران ہی تذکرہ ہوا تھا کہ ’اردو ہی ہماری زبان ہے‘ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’تحریک پاکستان کے دوران کوئی اتنی تفصیل میں نہیں گیا، بس یہ تھا کہ ہمیں پاکستان چاہیے، اتنے بھولے تھے ہم لوگ۔۔۔!‘‘ ہم نے پوچھا کہ بٹوارے سے پہلے کیا اردو سے متعلق ذہن واضح نہیں تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ ’بالکل واضح تھا، مگر یہ تھا کہ کون ہے جو ہم سے اردو کو الگ کر سکتا ہے، لیکن نئے ملک کی زبان اردو ہوگی، یہ بات فرض کر لی گئی تھی۔‘

’ایم کیو ایم پر تنقید کردی، تو سوچا اب تو میں مارا جائوں گا!‘
بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی نے پاکستان میں ’مہاجر‘ شناخت کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’میں مہاجر تھا اور مہاجر ہوں! میں وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آیا۔‘ ہم نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو ہجرت کرنے والے پاکستانی ہو گئے؟ تو بولے پاکستانی تو ہیں، اب پٹھان یا پنجابی کیا پاکستانی نہیں؟ کیا انہوں نے خود کو پٹھان یا پنجابی کہنا چھوڑ دیا۔ ہم نے یہاں پیدا ہونے والوں کا شناخت کے طور پر خود کو ’مہاجر‘ کہنے کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں پیدا ہونے والوں کو خود کو ’مہاجر‘ نہیں کہنا چاہیے۔

بریگیڈیر عبدالرحمن صدیقی کی لندن میں تین دفعہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ملاقات ہوئی، جسے وہ بہت اچھا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہوں نے مجھے بہت عزت دی اور میری باتوں کو بہت توجہ سے سنا۔‘ اس ملاقات کے حوالے سے بریگیڈیر عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ’میں اُن سے یہی کہتا رہا کہ دیکھو! اس طرح کام نہیں چلے گا کہ تمہارا تعلق کسی بھی لحاظ سے ملک توڑنے سے بتایا جائے۔ آخری ملاقات 1993ء سے 1995ء کے درمیان ہوئی۔ میں کبھی سیاست دانوں سے ملنے کا قائل ہی نہیں، کوئی دوست ہو تو الگ بات ہے۔

بریگیڈیر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ الطاف حسین سنتا بہت تھا، مگر کرتا وہی تھا جو اس کی مرضی ہوتی۔ میرے خیال میں الطاف حسین ملک کے خلاف نہیں تھا، ہم نے اسے ٹھیک طریقے سے ڈیل (Deal) نہیں کیا۔ 1992ء میں میرا دوست ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ لفٹیننٹ جاوید ناصر تھا، میں نے اس سے کہا ’تمہاری اسٹرٹیجی بہت اچھی تھی کہ دبایا جائے، مگر تمہاری تیکنیک ٹھیک نہ تھی، کہ تم نے ایک ہی دن میں رینجرز کی گاڑیاں بھی دے دیں اور آفاق اور عامر سے پریس کانفرنس بھی کرادی۔‘

بریگیڈیر صدیقی کا خیال ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ کو مثبت انداز میں برقرار رہنا چاہیے۔ انہوں نے بہت غلطیاں کیں، جیسے بھتا خوری وغیرہ۔ میں نے ایک مرتبہ ٹی وی پروگرام میں کہہ دیا کہ ’’بھئی یہ ایم کیوایم والوں نے کیا طریقہ اختیار کیا ہے کہ کسی گھر میں کوئی شادی ہو رہی ہوتی ہے تو کہہ جاتے ہیں کہ دو دیگیں پہنچا دینا!‘‘ بعد میں، میں نے سوچا کہ ’عبدالرحمن صاحب، آپ نے کیا کہہ دیا آپ تو مارے جائیں گے۔‘

The post لیاقت علی نے کہا ’’کس کی مجال ہے کہ ہم سے دلّی لے سکے؟ جب دلّی ملے گا تو علی گڑھ خودبخود ہمارے پاس آجائے گا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

اسلحے کی تجارت اور امن کا خواب

$
0
0

آج کا سب سے بڑا مسئلہ امن ہے۔

یہ حقیقت دنیا کی ترقی یافتہ اقوام سے لے کر پس ماندہ ممالک تک سبھی نے تسلیم کرلی ہے کہ اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتامی برسوں میں کسی بھی تفریق اور امتیاز کے بغیر اس پورے کرۂ ارض کی سب سے بڑی ضرورت امن ہے۔ یہ تو نہیں کہا جارہا اور کہا بھی نہیں جانا چاہیے، اس لیے کہ اس رائے سے خوف اور مایوسی کا احساس بڑے پیمانے پر پھیلنے کا اندیشہ ہے، تاہم سچ یہی ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی اسی ماحول میں جی رہی ہے، جسے حالتِ جنگ کہا جاتا ہے۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے اور دوسری طرف ایک اور عجیب و غریب بات ہے۔ وہ یہ کہ جنگ تو ہمیشہ دو فریقین کے درمیان ہوتی ہے اور کسی مسئلے، بنیاد یا جواز پر، لیکن اس وقت جو لوگ اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں، اُن میں بہت بڑی اکثریت ان کی ہے جو بے چارے نہ تو اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی انھیں یہ معلوم ہے کہ آخر انھیں کیوں اس جنگ میں جھونک دیا گیا ہے۔

دہشت گرد حملے، بم دھماکے، اچانک اور بے جواز فائرنگ اسی حالتِ جنگ کے وہ مظاہر ہیں جن کا تجربہ آئے دن کہیں نہ کہیں انسانی آبادی کو ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور عراق تو براہِ راست دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، اس لیے کہ وہ اُن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان ملکوں میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ یا تو دہشت گردوں کے اقدامات کا نتیجہ ہے یا پھر مدافعت کا اظہار۔ چناںچہ ان علاقوں میں بار بار جنگ کے حالات کا نقشہ ابھرتا رہتا ہے۔ بہرحال ان ملکوں کے لیے تو یہ بقا کی جنگ ہے۔

تاہم ایران، مصر، شام، یمن اور قطر جیسے ممالک بھی وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی عنوان سے ان شعلوں کی لپیٹ میں آتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ گزشتہ چند ماہ میں برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور امریکا میں بھی دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے رہے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس آگ کی لپٹیں کہاں کہاں تک اور کس کس انداز سے پہنچ رہی ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے لے کر پس ماندہ علاقوں تک اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب بارود کی بو اور تیزابی دھویں کے یہ بادل، یک بہ یک کہیں بھی بھڑک اٹھنے والی یہ آگ، انسانی وجود کو چیتھڑوں میں بدل ڈالنے والے دھماکے مستقل طور پر انسانیت کا مقدر ہوکر رہ گئے ہیں؟

اس سوال کا جواب مشکل ہے، خاصا مشکل اور بہت اعصاب شکن بھی۔ مشکل اس لیے ہے کہ یہ صرف امن کی آرزو کا سوال نہیں ہے، بلکہ یہ تو اس عہد کی فطرت کی کھوج کا معاملہ ہے۔ اسی فطرت کی کھوج کہ جو اس کرۂ ارض پر انسانیت کے آئندہ کی صورت گری کررہی ہے۔ چناںچہ اس ایک سوال کے جواب کی تلاش کے لیے آپ کو بہت سے معاملات کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے عوامل کے دیرپا اور وسیع ہوتے ہوئے دائرۂ اثر پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی۔ دنیا میں امن کا مسئلہ جتنا گمبھیر ہے، اس کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ آج دہشت گردی کے پس منظر میں مختلف محرکات اور متنوع قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے اور سولہ یا اٹھارہ سال کا کوئی نوجوان بم باندھ کر نہ صرف خود کو اڑا لیتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ ساتھ کتنی ہی دوسری بے گناہ اور قیمتی انسانی جانوں کو بھی تلف کردیتا ہے تو اس مسئلے کی تحقیقات کا دائرہ صرف اس حد تک نہیں ہوسکتا کہ یہ نوجوان کون تھا، کہاں کا رہنے والا تھا، یہاں کب اور کیسے پہنچا تھا اور جس جگہ، یعنی جن لوگوں کے درمیان اس نے یہ کارروائی کی ہے، ان سے اس کی کیا دشمنی تھی؟ دہشت گردی کے اس منظرنامے میں رونما ہونے والے اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تفتیش کے لیے اس نوع کے سوالات تو بہت سادہ ہیں، اتنے کہ ان کا جاننا اور نہ جاننا دونوں برابر ہیں۔ اس لیے کہ یہ نوجوان جو اپنی جان تک نچھاور کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اُس پورے نظام کا ایک بہت چھوٹا سا، بہت ادنیٰ سا پرزہ ہے جو ایسے واقعات کی منصوبہ بندی کرتا اور ان کو رو بہ عمل لانے کے لیے انتظام کرتا ہے۔

ایسے کسی بھی واقعے میں بم باندھ کر پھٹنے والے نوجوان برین واش کیے جانے کے بعد ایک سیدھے سادے سے روبوٹ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پرانے لوگوں نے کٹھ پتلی کا تماشا دیکھا ہوگا۔ پردے کے آگے کٹھ پتلیاں تماشا کرتی تھیں، لیکن اُن کو ہلانے، حرکت دینے والے ہاتھ پردے کے پیچھے ہوتے تھے۔ یہ ہاتھ ڈور ہلاتے اور کٹھ پتلیاں تماشا دکھانے لگتیں۔ اسی طرح آج ریموٹ کنٹرول سے یہی کام لیا جاتا ہے اور یہ ریموٹ کسی اور ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بم باندھنے والا نوجوان ایک روبوٹ کی طرح ہوتا ہے۔ اُسے جو کمانڈ دے دی جاتی ہے، وہ اس کو پورا کرتا ہے۔

غور طلب اور تفتیش کے لائق مسئلہ یہ ہے کہ بھلا انسانی وجود کس طرح ایک مشین میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اُس کی اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کس طرح معطل ہوجاتی ہیں کہ پھر وہ سب کچھ میکانکی انداز میں کرتا چلا جاتا ہے؟ یہ سوال یقیناً خود غور طلب ہے اور اس کی وضاحت مختلف تجزیات کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس میں معاشرتی رویے، معاشی حالات، مذہبی بیانیہ اور سماجی حقائق جیسے بہت سے معاملات کو سامنے رکھ کر ایک بہتر جائزہ مرتب کیا جاسکتا ہے اور ان حالات کے عقب میں کارفرما بنیادی محرکات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

گزشتہ دنوں افغانستان میں ہونے والی ایک دہشت گرد کارروائی نے اس خطے میں امن کے مسائل اور ان پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ایک بار پھر سنجیدہ اور غور طلب سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ واقعہ قندھار میں ہوا ہے۔ اس حملے میں اعلیٰ سرکاری اور قومی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس حملے کا ایک مرکزی ہدف، یعنی افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر تو اس حملے میں بال بال بچ گیا، لیکن این ڈی ایس انٹیلی جنس سروس کے مقامی کمانڈر، صوبہ قندھار کے گورنر اور قندھار پولیس کے سربراہ جیسے اعلیٰ سرکاری افراد مار دیے گئے۔ اس واقعے کی ذمے داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں حملے کے لیے قندھار پولیس کے سربراہ عبدالرزاق اور امریکی کمانڈر اسکاٹ ملر کو ہدف بنایا گیا تھا۔

گویا اس حملے میں طالبان کو پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی کہ اس کا ایک اہم ہدف بچ گیا، لیکن دوسرا بنیادی ہدف، یعنی پولیس سربراہ عبدالرزاق مارا گیا۔ قندھار کے پولیس سربراہ کی ایک بے حد متحرک اور نہایت سخت گیر، بلکہ سفاک افسر کی حیثیت سے شہرت تھی جو باغیوں کا جانی دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ طالبان نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور بڑی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتار کر انھوں نے افغانستان حکومت اور امریکا دونوں کو پوری قوت سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔

طالبان کی طرف سے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ دو دن بعد پارلیمانی انتخاب ہونے والا تھا۔ ظاہر ہے، یہ حملہ اس انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی جو یقینا کامیاب رہی اور اس کے بعد انتخاب کی صورتِ حال تبدیل ہوگئی تھی۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس سے پہلے امریکا اور طالبان کی اعلیٰ کمان کے مابین مذاکرات کی بات چل رہی تھی، اور طرفین اس نکتے پر متفق نظر آتے تھے کہ مستقبل کے لیے امن کی فضا کو ممکن بنایا جائے۔

اس واقعے کے بعد امن مذاکرات میں پیش رفت کی فوری توقع یقینا بے سود ہوگی۔ طالبان نے جس طرح اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے، اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُن کے لیے اپنے وجود کا احساس دلانا اور اپنی طاقت کا اظہار کرنا، مذاکرات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس حملے میں انھوں نے جو ہدف حاصل کیا ہے، وہ افغانستان کی سیاسی حکومت اور انٹیلی جنس سروس کو ہی یہ باور کرانے کے لیے نہیں، بلکہ خود امریکا کو بھی یہ پیغام دینے کے لیے کافی ہے کہ برسوں کی جنگ اور ابھی وہاں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود افغانستان اس وقت تک بھی طالبان کے اثر سے مکمل طور پر نہیں نکلا ہے۔

افغانستان میں رونما ہونے والے تازہ واقعے کی نوعیت بے شک ذرا الگ ہے، اس لیے کہ اس میں اعلیٰ ترین سطح کی شخصیات کو ہدف بنایا گیا ہے، لیکن ایسے واقعات جن میں ان سے کم درجے کی شخصیات یا عوام کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سے لے کر پاکستان اور عراق جیسے ممالک میں وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ دنیا کی اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا مستقبل قریب میں دنیا میں قیامِ امن کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا سیدھا، صاف اور مختصر سا جواب ہے، نہیں۔ یہ جواب بہت سے لوگوں کے لیے افسوس ناک اور مایوس کن تو ضرور ہوسکتا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ اس وقت دنیا میں امن و امان کا نقشہ اسی حقیقتِ حال کو پیش کرتا ہے۔ قیامِ امن کی خواہش یا ایک محفوظ دنیا کا خواب اپنی جگہ اور اس سے بھی انکار نہیں کہ یہ ہمیشہ سے انسان کی سب سے بڑی آرزو اور اس کے لیے نہایت قیمتی چیز رہی ہے، لیکن اس دور میں ارضی حقائق اس خواب اور اس آرزو کی کھلے لفظوں میں نفی کررہے ہیں۔

اگر آپ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مطالعہ کریں تو اُس کے ساتویں باب میں آپ کو اُن اقدامات کی تفصیل ملے گی جو اس کرۂ ارض پر امن قائم یا بحال کرنے اور دنیا کو انسانوں کے لیے ایک محفوظ قیام گاہ بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ نے اپنے لیے طے کیے ہیں۔ ظاہر ہے، ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش اور ضروری اقدام پر غور بھی ضرور کیا جاتا ہوگا۔ اس کے باوجود ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یہ دنیا پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتی چلی جارہی ہے اور امن کے لیے اس دنیا کی مقتدر اقوام کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔

آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک نہیں متعدد وجوہ ہوں گی، لیکن اگر بنیادی وجہ کو سمجھ لیا جائے تو سارا مسئلہ صاف صاف سامنے آجاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سیکیوریٹی کونسل کے جو پانچ مستقل ممبر ممالک ہیں، وہ سب کے سب اسلحے کی تجارت کرتے ہیں اور دنیا بھر میں اسلحے کی جو خرید و فروخت ہوتی ہے، اس میں ان پانچ ملکوں کا مجموعی حصہ تقریباً 70 فی صد ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اس صورتِ حال میں امن کی کوششیں کیا معنی رکھتی ہیں۔

اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا جو اسلحہ بیچ رہا ہے، اُس کی مقدار روس کے مقابلے میں 58 فی صد زیادہ ہے۔ دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ حال ہی میں ہندوستان نے روس کے ساتھ اسلحے کی خریداری کا ایک معاہدہ کیا ہے جس کی مالیت پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر ہے۔ اس رقم کے عوض ہندوستان روس سے ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم خرید رہا ہے۔

ہندوستان نے اپنے دفاعی اخراجات میں 2012-16ء کے مقابلے میں 43 فی صد اضافہ کیا ہے۔ اب اُس کے اسلحے کے اخراجات اس خطے میں اپنے فریقین (پاکستان اور چین) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اس ایک مثال کو سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اس خطے میں امن کے امکانات حقیقت میں کس قدر باقی رہ جاتے ہیں۔ اسلحے کا کوئی بھی خریدار کیا اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ اس کا مقصد دراصل اپنی تباہ کن طاقت کا اظہار ہے۔ جب اس مقدار میں اسلحہ دست یاب ہوگا تو فریق یا باہمی تناؤ رکھنے والے ممالک کے مابین کوئی بڑی براہِ راست جنگ نہ بھی ہو، لیکن اتنا تو بہرحال طے ہے کہ جھڑپیں اور دفاعی پیش قدمی یا اسٹریٹجک اسٹرائیک کے نام پر ہونے والی جارحیت اُن کے خطے میں امن کے امکان کو لازماً اور مسلسل کم سے کم تر کرتی رہے گی۔

اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک امریکا سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی ریاستیں ان میں سرِفہرست ہیں۔ بات صرف جنگی اسلحے کی بھی نہیں ہے۔ چھوٹے اسلحے کی خریداری بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ صرف امریکا سے ہر سال 85 ارب ڈالر کا چھوٹا اسلحہ دنیا کو فروخت کیا جاتا ہے۔ چین نے اپنی معیشت کے نہایت تیز پھیلاؤ کے بل بوتے پر اب دنیا میں اور خصوصاً تجارتی منڈی میں اپنی حیثیت بہت بلند کرلی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف طرح کی سرمایہ کاری کے ذریعے بھی وہ اقوامِ عالم میں مقتدر حیثیت میں ابھرا ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ 2013-17ء کے عرصے میں اس نے اپنے دفاعی اخراجات میں 38 فی صد اضافہ کیا ہے اور اب امریکا کے بعد وہ دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کا اتنا بڑا دفاعی بجٹ ہے۔

اسلحے کی اس بھرمار کا تماشا یوں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ پاکستان، عراق، افغانستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی اب تک اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکا، لیکن اس کے باوجود ان ملکوں کی حکومتیں بڑھ چڑھ کر اسلحہ خریدتی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان ملکوں کے عوام کو بھی عام استعمال کا چھوٹا اسلحہ بھی بہت آسانی اور فراوانی سے مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شام، یمن اور جنوبی سوڈان میں بھی جو سول وار کے حالات دکھائی دیتے ہیں، ان کا سبب اسلحے کی آسانی اور بہتات کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

اسلحے سے دنیا کو پاک کرنے کے اعلانات ہوتے ہیں، ایس اے ایل ٹی I اور II کے معاہدے تیار کیے جاتے ہیں اور اُن پر دستخط بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح 2014ء میں اسلحے کی تجارت کا بھی ایک معاہدہ تیار کیا گیا تھا، جس کا مقصد اس امر کا جائزہ لینا اور اس کے لیے اقدامات کرنا تھا کہ دیکھا جائے کہاں، کتنا اور کس مقصد کے لیے اسلحہ لیا جارہا ہے۔ یہ سب باتیں اچھی تو بہت ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کی سب صرف اور صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ عملی سطح پر ان کے کوئی اثرات اب تک دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔ اسلحے کی اس تجارتی ریل پیل اور اندھی دوڑ میں ذرا خود سوچ لیجیے کہ دنیا میں امن کا خواب بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ مقتدر ممالک جو بڑھ چڑھ کر دنیا میں اسلحہ فروخت کرتے ہیں، امن کے خواب بھی دراصل دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں وہی بوتے ہیں۔ امن کے خواب کی بڑھتی ہوئی یہی خواہش اصل میں اسلحے کے کاروبار کی افزائش کا ذریعہ بن رہی ہے۔

The post اسلحے کی تجارت اور امن کا خواب appeared first on ایکسپریس اردو.

لندن فسادات

$
0
0

چار اگست دو ہزار گیارہ، لندن کے علاقے ٹوٹنم میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام ’مارک ڈگن‘ کی موت کا معاملہ سامنے آیا اورعلاقے میں حالات کشیدہ ہوگئے۔

اگلا دن معاملات مزید بگڑے، پولیس پر حملوں کے واقعات سامنے آئے، کشیدگی سیاہ فام اکثریت کے مزیدعلاقوں تک پھیل گئی۔ پھر چھ اگست، لندن بلکہ انگلینڈ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا۔’لندن فسادات‘ کے نام سے پہچانے جانے والا یہ دن عجیب و غریب قسم کی انارکی لے کر آیا جو مارک ڈگن کے مرنے پر ہونے والے احتجاج سے کہیںزیادہ تھی۔ اس دن لندن کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے شاپنگ مالز، ہائی اسٹریٹ پر واقع دکانوں پر منظم قسم کے حملے کئے گئے، ظاہر ہے کہ اس کا مقصد باقاعدہ لوٹ مار کرنا تھا۔

بدقسمتی سے اس میں سب سے زیادہ نوجوان شامل تھے۔ لندن میں لوٹ مار کے واقعات ہونے کی دیر تھی کہ انگلینڈ کے دیگر بڑے شہروں جن میں برمنگھم، مانچسٹر، برسٹل، ڈربی، لیسٹر ، ناٹنگھم اور لیور پول شامل تھے، میں بھی فسادات کی آڑ میں بڑے شاپنگ سینٹرز کی شاپس پر باقاعدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے منظم حملے کئے، توڑ پھوڑ اور جی بھرکر لوٹ مار بھی کی گئی، ان حملوں کو جو لندن طرز کے تھے ’’کاپی کیٹ‘‘ کا نام دیا۔

یہ سلسلہ چھ سے گیارہ اگست تک جاری رہا۔ایک کے بعد دوسرے شہر میں ہونے والے یہ ہنگامے کسی سیاہ فام کی موت کا احتجاج نہیں بلکہ منظم لوٹ مار کی مہم بن گئے۔ ابتدائی فسادات کے دوران پانچ لوگ جان سے گئے اور سولہ سے زائد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ہونے والے نقصانات اور لوٹ مار  کا تخمینہ دو سو ملین پاؤنڈز سے زائد لگایا گیا۔ ان ہنگاموں کے دوران ایک سو چھیاسی پولیس افسران اور تین کمیونٹی پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ پانچ اگست سے دس اگست کی شام تک تین ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

ایک ہزار سے زائد پر مختلف جرائم پر مبنی کریمنل چارجز لگائے گئے۔ یادرہے کہ صرف لندن میں رپورٹ ہونے والے فسادات کے واقعات تین ہزار چارسو سے زائد تھے۔ انہی واقعات میں تشدد کے وہ واقعات بھی شامل تھے جن کے نتیجے میں پانچ لوگ ہلاک اور سولہ سے زائد زخمی ہوئے۔ یکم ستمبر کو سرکاری اعدادوشمارجو وزارت انصاف نے شائع کیے،کے مطابق ساڑھے پندرہ سوافراد کو فساد کے الزام کے ساتھ کورٹ میں پیش کیا گیا جن میں سے ایک ہزار سے زائد کا تعلق لندن سیتھا۔ ایک سو نوے مانچسٹر، ایک سو بتیس ویسٹ مڈلینڈ ، دو سو چونتیس ناٹنگھم اور دیگر علاقوں سے۔

فسادات، گرفتاریوں میں ٹیکنالوجی اور  سوشل میڈیا کا کردار

فسادات کے بارے میں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے لندن فسادات اور پھر دوسرے شہروں میں ہونے والے ’کاپی کیٹ‘ فسادات میں اہم کردار ادا کیا جن میں فون، ویب سائٹس جیسے فلکر، گوگل میپ سے جمع ہونے کی جگہ کی نشاندہی ، بلیک بیری میسینجر ز، فیس بک وغیرہ کا استعمال شامل تھا۔ بلیک بیری میسینجر کو باقاعدہ لوٹ مار کی وارداتوںکی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ٹوئیٹر کو میسیجز کو تیزرفتاری سے پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

بعدازاں یہی سارے جدید ذرائع ان مجرمان کو پکڑنے میں بھی کام آئے اور ان کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال ہوئے۔ فسادات پر قابو پانے کے بعد پندرہ اگست کو ایک منظم آپریشن شروع کیا گیا، اس دوران بڑی ٹیلی فون کمپنیز سے ان سارے فون کا ڈیٹا منگوایا گیا جو فسادات کی جگہ پر آن تھے۔ سوشل میڈیا پر خصوصاً فیس بک پر جن لوگوں (خصوصاً نوجوانوں) نے لوٹ مار کرتے اور برنڈاڈ سامان لوٹ کر ان کے ساتھ اپنی تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کیں تھیں انہیں بھی ٹریس کرکے اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ بلیک بیری میسینجرز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی جبکہ الیکٹرانک میڈیاسے فوٹیج حاصل کرکے فسادات میں ملوث لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا۔ ان سب جدید ذرائع کے علاوہ سی سی ٹی وی اور شاپنگ مالز اور شاپس کے کیمروں کے ذریعے بھی لوگوں کی شناخت کرنے کا کام کیا گیا۔ اس طرح ہزاروں لوگ نیٹ میں آئے اور گرفتار ہوئے۔

حکومت اور عدلیہ کا کردار

وسیع  پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں کو ہینڈل کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے حوالے سے صرف پولیس نے کردار نہیںکیا بلکہ عدالتوں میں ججز نے اپنی چھٹیاں منسوخ کیں اور رات رات بھر کام کرکے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھا۔ ایک مہذب ملک کے لئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوں  کو اس طرح مجرمانہ کاروائیاں کرتے دیکھنا ایک امتحان سے کم نہ تھا۔ بعض قوانین بھی ایسے تھے کہ جن کے تحت گرفتار شدگان کو مخصوص وقت تک عدالت میں پیش کرنا لازمی تھا۔ اس حوالے سے حکومت نے ججز کو نارمل گائیڈ لائنز کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ صورتحال کے مطابق سخت سزاؤں پر غور کرنے کی درخواست کی۔ حکومت، اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے میں ہم آواز  اور قانون کی بالادستی اور سزاؤں کی حامی تھیں۔

اس ضمن بچوں کے عالمی قوانین کو بھی نظر انداز کرکے ایک بارہ سالہ بچے کو سزا سنائی گئی جو ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ اس ضمن میں عالمی بچوں کے حقوق کے اداروں اور تنظیموں کی تنقید کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ ایک عورت کو صرف اس لئے سزا دی گئی کہ اُس نے لوٹ مار کے ذریعے حاصل کئے گئے کپڑے وصول کئے۔ فسادات کے چند ماہ بعد پچیس اپریل دو ہزار بارہ کو کورٹ آف اپیل نے ایک نوجوان کو لوئر کورٹ سے چوری ، لوٹ مار اور فسادات کے مقدمہ میں ملنے والی چار سال کی سزا  بڑھا کر سات سال کردی۔

پریس کا کردار

دنیا بھر کے میڈیا نے فسادات کی کوریج کی اور قومی میڈیا نے ان فسادات کو 1995ء کے بریکسٹن فسادات کے بعد بدترین فسادات قرار دیا۔ برطانیہ کے روزنامہ ’سن‘ نے اسے شرمناک قرار دیا کہ 2012ء کے اولمپکس سے سال پہلے یہ سب برطانیہ میں ہوا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں برطانیہ کی ساکھ پرسوالیہ نشان اٹھا۔ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا کہ اس صورتحال میں اس اکثریت کو جو قانون کی پابند ہے کو تحفظ دینا چاہئے اور اس طرح کے فساد کرنے والے کو سخت سزا دے کر قانون کے احترام کا سبق سکھانا چاہیے۔

میڈیا پر پولیس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا جو بارہ گھنٹے تک لندن میں لوٹ مار کو روک نہ سکی۔ لوگوں نے تنقید کی کہ کم از کچھ روایتی طریقوں سے فسادات کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا جیسے واٹر کینن وغیرہ جو سینئر افسران کے فیصلے کی وجہ سے استعمال نہ ہوسکے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان ہوا۔ ان سارے ہنگاموں میں اقلیتی کمیونٹی نے اپنی عبادت گاہوں کی خود حفاظت کی تاکہ شر پسند عناصر موقع کا فائدہ اٹھا کر کسی اور قسم کے فسادات شروع نہ کردیں ساتھ ہی کمیونٹی کے لوگوں نے مل کر اپنے علاقے میں لوٹ مار کرنے والوں کو روکنے اور بھاگنے پر بھی مجبور کیا۔ برمنگھم میں تین  پاکستانی نوجوان اس موقع پر اپنے پڑوسی کو بچاتے ہوئے  ’ہٹ اور رن ‘ کا شکار ہوکر جان گنوا بیٹھے۔ اس واقعے پر پورے برطانیہ میں ان کا سوگ منایا گیا اور سرکاری سطح پر انھیں اس قربانی پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان فسادات کے اعدادوشمار جیسے جیسے سامنے آتے گئے، واضح ہوتا گیا کہ فسادات میں شامل 41 فیصد سفید فام، 39 فیصد سیاہ فام، 12 فیصد مکسڈ گروپ ، 6 فیصد ایشین اور دو فیصد دیگر گروپس تھے۔ اس میں سیاہ فام گینگ اور ریپ کلچر نے دوسرے گروپس پر گہرے  اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاون عناصر

معاملہ انہی گرفتاریوں اور سزاؤں پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ ان فسادات کے بعد طویل عرصہ تک ان فسادات کے عوامل پر غور کیا جاتا رہا۔ جس میں سماجی اور معاشی معاملات کو بھی دیکھا گیا۔ یہ اقعات میڈیا اور اکیڈمک مباحث کا حصہ بنے رہے۔جن سماجی و معاشی عوامل پر غور کیا گیا ان میں بے روزگاری، حکومت کی طرف سے دئیے جانے والے الاؤنسز میں کمی، اس کے علاوہ سوشل میڈیا، گینگ کلچر اور جرائم کے مواقع ملنا شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کی ایک سلیکٹ کمیٹی نے پولیس رسپانس کے حوالے سے بھی انکوائری کمیٹی بنائی تاکہ خامیوں کا اندازہ لگایا جاسکے۔ بہت سے پبلک سروس میسجز کیے گئے جن میں عوام سے رائے لی گئی اور ان فسادات کے عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ ’لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پالیٹیکل سائنس‘ کے تحت ایک اسٹڈی پروجیکٹ ‘‘ Reading the Riots’’ کے ذریعے  فسادات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ ان ساری کوشش سے جو عوامل سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں:

سرفہرست عوامل میں  سوشل ایکسکلیوزن/ سماجی اخراج کو سرفہرست رکھا گیا کہ یہ لوگ خود کو معاشرے کے ساتھ مربوط نہیں کرسکے۔ اس میں ایک طرف امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ، بے روزگاری اور معاشی ناہمواری وغیرہ کو قرار دیا گیا تو دوسری طرف اسے ایک ایسی نوجوان نسل سمجھا گیا جو ایک الگ ہی دنیا میں رہتی ہے اور خود کو معاشرے کی مین سٹریم سے جوڑنے سے قاصر  رہتی ہے اور اکثر ترقی یافتہ قوم میں ایسا ایک گروپ ہوتا ہے۔ بروکن فیملی یا میل رول ماڈل کا سامنے نہ ہونا بھی اس قسم کے گینگسٹر کلچر اور کرمینل سوچ کی ایک وجہ قرار دیا گیا۔ دو ہزار آٹھ کی عالمی کساد بازاری کے اثرات سے نمٹنے والی معیشت میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کو بھی ایک وجہ سمجھا گیا جس کی وجہ سے حکومتی ویلفئیر بجٹ میں کٹوتی اور اس کا براہ راست لوگوں پر پڑنے والا اثر تھا جس علاقے سے یہ فساد شروع ہوئے اسے لندن میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح والا علاقہ سمجھاجاتاہے۔

ایک اور اسٹڈی کے مطابق اس میں ایک فیکٹر جرم یا فساد ایک فن یا تھرل کے طور پر کرنے والے بھی شامل تھے جن میں معاشی طور ہر خوشحال فیملیز کے بچے بھی شامل تھے۔گینگسٹر کلچر کا فروغ اور نوجوانوں میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ایک وجہ سمجھی گئی۔ ایک اور وجہ کرائم کرنے کا رجحان اور لالچ قرار دی گئی جو موقع ملتے ہی حاوی ہوکر اس طرح کے فساد اور لوٹ مار کی وجہ بنی۔ ایک اور  وجہ عموماً اس طرح کے کرائم کیسز میں کم سزا یا  نرم سزاؤں کا ہونا قرار پایا جو لوگوں کو جرم کرنے سے روکنے میں ناکام رہیں۔ یونیورسٹی آف لیسٹر نے ’’میڈیا اور فسادات، کال فار ایکشن‘‘ کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں اس واقعے کے حوالے سے میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا گیا اور فساد سے متاثرہ کمیونٹی اور میڈیا کے درمیان بہتر تعلقات پر بات کی گئی۔

ہمارے لئے سبق

آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مہذب ممالک جہاں قانون کی حکمرانی ہے وہاں  قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے، قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے جتھوں کو عام قوانین سے ہٹ کر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔  وہاں چیزوں کو، واقعات کو سرسری نہیں لیا جاتا بلکہ مسئلے کی بنیادوں کوسمجھے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف سرویز اور اسٹڈیز سے عوامل کو سمجھا جاتا ہے  اور پھر ان عوامل کو مد نظر رکھ کر پالیسیز بنائی جاتی ہیں اور ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی لانگ ٹرم پلاننگ کی جاتی ہے۔ اس تحریر کے تناظر میں اگر پاکستان میں  حالیہ  اور گزشتہ برس ہونے والے دھرنوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات اور ان کی طرف سے  پبلک پراپرٹیز کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو اس مسئلے کے دو ہی حل ہیں:

قانون کی حکمرانی کے لئے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں لاکر عدالتی نظام کے تحت سزائیں دی جائیں۔ ساتھ ہی ان عناصر کو اس شر پسندی کی طرف اکسانے والے اسباب و عوامل کا مستقل سد باب بھی کیا جائے۔ ان کے پیروکاروںکو معاشرے کا بہتر طور پر حصہ بنانے اور ایک مفید شہری بنانے کے لئے لانگ ٹرم پالیسیز بھی بنائی جائیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ کیا ہے؟ اکسانے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ اس طرح ان تمام عوامل کو زیر بحث لایا جائے جو ان لوگوں کو تشدد اور جرم پر بہ آسانی مائل کرتے ہیں، اس کے سد باب کے لئے منصوبہ بندی اور لانگ ٹرم پلاننگ کی جائے۔

ان تمام پرتشدد کاروائی میں ملوث ہونے والوں کی یہ ذہنی کیفیت کسی ایک دن کے واقعے کی دین نہیں ہوتی۔  آسیہ رہائی  کے علاوہ  بھی ہمارے ہاں کوئی  واقعہ ہوتا، اس کا یہی ردعمل آنا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے ان سب کو کسی ایک واقعے سے لنک  نہیں کیا جاسکتا ہے۔  اس کے پیچھے کئی برسوں کی ذہنی تربیت کا دخل ہوتا ہے۔ اس لئے جرم کی سزا کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور نفسیاتی بہتری کا اہتمام کیا جائے۔ ان کے معاشی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ کر ان کو کم کیا جائے، جس میں تعلیم کی کمی، بے روزگاری ، معاشی ناہمواری اور آگے بڑھنے کے مواقع کی کم فراہمی ہے۔ جب تک حکومت اس ضمن میں جدید طریقوں، میڈیا، ریسرچ اسٹڈیز، دانشوروں اور عوامی سروے/ رائے کی مدد سے حقیقی عوامل کو سامنے لانے اور انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ مذہبی بلیک میلنگ کا یہ عفریت قابو سے باہر ہوتا چلا جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے نیشنل ایکشن پلان پر سب سیاسی جماعتوں کو نظرثانی کرنے کی دعوت دی جائے، اب خصوصی طور پر بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی پر فوکس کیا جائے اور اس پر ایک مرتبہ پھر پورے عزم و ارادے سے کم کیا جائے۔ سماجی اخراج کے فیکٹر کو خصوصی طور پر دیکھا جائے کہ ایسا کیوں ہے اور ان سب کو معاشرے کا مثبت حصہ کیسے بنایا جائے۔ یہ کسی صوبے کا مسئلہ نہیں کسی زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اس پر ساری سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ بہتر تعلیم، مذہبی تعلیم میں شدت پسندی کے پہلو کا جائزہ اور اس کا خاتمہ ، معاشی حالات کی بہتری اور روزگار کے بہتر مواقع کی فراہمی میں اضافہ کے ذریعے ہی لانگ ٹرم میں اس مسئلے کا خاتمہ ممکن ہے۔

The post لندن فسادات appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

روزہ افطار کرنا
 محمود نیازی، لاہور

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک ساحل سمندر پہ ہوں اور ادھر روزہ افطار کر رہا ہوں، وہاں میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ ہیں، جب اذان مغرب ہوتی ہے تو سب دعا مانگتے ہیں۔ آس پاس کے ایریا میں ایک بہت خوبصورت سی روشنی پھیلی ہوتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کیلئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔

ہوا میں اڑنا
 امجد علی ،گجرات

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنی چھت پہ کھڑا ساتھ رہنے والے دوست سے باتیں کر رہا ہوں اور ہم دونوں آسمان کا پیارا سا رنگ دیکھ کہ کافی خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ میرا دوست مجھے کہتا ہے کہ ہم پیرا گلائیڈنگ کرتے ہیں۔ میں اس بات پر اپنے دوست کو کہتا ہوں کہ میں تو کافی دفعہ آسمان کی سیر کر چکا ہوں۔ یہ کہ میں بازو پھیلاتا ہوں اور اوپر کی طرف ایک پرندے کی طرح اڑنا شروع کر دیتا ہوں ۔ میرا دوست اس پر کافی حیران ہوتا ہے مگر مجھے بہت مزہ آ رہا ہوتا ہے۔ میں کافی دیر تک ایسے ہی ہوا میں تیرتا ہوں، پھر اذان کی آواز سن کے اتر آتا ہوں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔

ہرن تحفے میں ملنا
شمیم بیگ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے ماموں کے گھر رہنے گیا ہوا ہوں اور ان کے ساتھ ان کی دوکان پر موجود ہوں۔ وہاں ان کے ساتھ ان کے دوست کے فارم پر جاتا ہوں۔ ان کے پاس ادہر کافی جانور و پرندے ہوتے ہیں۔ مجھے وہ ایک ہرن کا بچہ تحفتاً دیتے ہیں جس کو پا کر میں بہت خوش ہوتا ہوں۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں۔

لومڑی حملہ کرتی ہے
 احمد سلمان، لاہور

خواب :۔ یہ خواب میرے ابو نے دیکھا کہ ہم سب کسی پہاڑی مقام پر گئے ہوئے ہیں۔ وہاں ہم سب شکار کے لئے جنگل میں جاتے ہیں تو ایک لومڑی سامنے سے آ جاتی ہے اور تیزی سے بڑھ کے میرے بھیا کے پاوں پر کاٹ لیتی ہے۔ ابو اپنی بندوق سے فوراً اس کو مار دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم سب اس کو گھسیٹ کر ریسٹ ہاوس لے آتے ہیں اور سب آ کر اس کو دیکھتے ہیں۔

تعبیر: ۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

شیر کا جھپٹنا
 صوفی غلام مصطفیٰ، لاہور

خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے بچوں کو لے کر چڑیا گھر گیا ہوں ۔ گھومتے ہوئے ہم شیر کے پنجرے کے پاس جاتے ہیں تو کچھ نوجوان اس کو تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پہ شیر غضب کا شکار ہوا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیسے وہ دروازہ کھول کر باہر کی طرف لپکتا ہے۔ سب لوگ چیخیں مارتے ہوئے ادھر ادھر بھاگتے ہیں۔ میں بھی بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں مگر شیر میری طرف لپکتا ہے اور مجھ پہ چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔

تعبیر:۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

 قرآن کی تلاوت کرنا
خزیفہ علی، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے ماموں عمرہ کر کے آئے ہیں اور سارے گھر والوں کے لئے خوب تحائف لے کے آئے ہیں۔ مجھے جو تحفہ ملتا ہے اس میں ایک بہت خوبصورت قرآن پاک نکلتا ہے جو کہ بہت خوبصورت انداز میں پرنٹ ہوا ہوتا ہے۔ میں اسی وقت اس کی تلاوت شروع کر دیتا ہوں ۔ اور اس کے بعد مسجد اپنے ساتھ لے جاتا ہوں کہ وہاں بھی نمازیوں کو سناوں گا۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

 دوست کا تحفہ بھیجنا
صالحہ نبی بخش، وہاڑی

خواب : میں نے دیکھا کہ میری ایک دوست نے ہم کو اپنے فارم کے خالص چقندر تحفہ میں بھیجے ہیں جو کہ بہت ہی خوبصورت ٹوکری میں پیک ہیں۔ میری امی بھی یہ تحفہ دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہیں اور ٹوکری میں سے نکال نکال کر ر کھتی جاتی ہیں اور تعریف کرتی چلی جاتی ہیں۔ اسی دوران میری چچی بھی کچن میں آ جاتی ہیں ان کو بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوشی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے لئے بھی کچھ الگ سے نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی۔ جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

بھیدوں بھری دنیا

$
0
0

عام طور پر جب دنیا میں موجود ایسے عجوبوں کا ذکر ہو جن کی ابھی تک کوئی قابل قبول تشریح سامنے نہ آسکی ہو تو ذہن میں زیادہ تر برمودا ٹرائی اینگل یا مصر کے اہراموں کا تصور ہی ابھرتا ہے لیکن یہ عجائبات تو محض ایک نمونہ ہیں۔

نہ جانے ایسے کتنے ہی معمے ہماری اس زمین پر موجود ہیں جو آج کے ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کے عروج کے زمانے میں بھی ہماری ذہانت کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’بوجھو تو جانیں‘‘۔ ان میں سے کچھ تو قدرت کے چھپائے ہوئے بھید ہیں جبکہ چند قدیم انسانی تہذیبوں کے وہ راز ہیں جو بے حد کاوشوں کے باوجود جدید انسانوں کے لیے سربستہ ہی ہیں اور ان پر منکشف نہیں ہوپائے۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم سہی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حضرت انسان نے اس ضمن میںہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ انسان ابھی بھی ان کی اصل جاننے کی کھوج میں لگا ہوا ہے۔

-1 ’’اینٹی کیتھرا میکانزم‘‘  (Antikythera Mechanism)

ایک تباہ شدہ قدیم یونانی بحری جہاز سے ملنے والا ’’اینٹی کیتھرا میکانزم‘‘ نامی یہ آلہ 17 مئی 1902ء کو دریافت ہوا۔ یہ تقریباً 2000 سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ آلہ دنیا کا پہلا کمپیوٹر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ آج کی جدید گھڑیوں کے ڈائل سے مشابہہ ہے اور اس میں انھیں کی طرح گراریاں لگی ہوئیں ہیں۔  اس آلے کے ذریعے سورج کی نقل و حرکت کا حساب کتاب لگا کر وقت کا درست اندازہ قائم کرنا ممکن تھا۔ اس آلے کی مدد سے ناصرف سورج بلکہ چاند اور پانچ دیگر سیاروں کی گردش کا بھی حساب لگایا جاسکتا تھا اور اسی طرح اس میں ایک کیلنڈر بھی مرتب کیا گیا تھا۔

نیز یہ چاند کی گردش کے ساتھ ساتھ چاند گرہن کے اوقات کے تعین میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس کے ذریعے دھائیوں پہلے اجرام فلکی کا پیشگی حساب کتاب صحیح صحیح ظاہر کیا جانا بھی ممکن تھا۔ یہ اولمپکس گیمز کے چار سال سائیکل کے حساب لگانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔اس کا گیئرنما نظام اس کے کثیر المقاصد استعمال کو آسان بناتا تھا۔ یہ آلہ اتنی مستند معلومات فراہم کرتا تھا کہ اس کی ایجاد کے اگلے ایک ہزار سال تک اس سے زیادہ بہتر آلہ نہیں بنایا جاسکا۔ اس بنا پر اس کے متعلق یہ نظریات بھی گردش میں آئے کہ یہ انسانوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ کسی خلائی مخلوق کی دین ہے تاہم بیشتر محققین اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ البتہ وہ اس بات پر حیران ضرور ہیں کہ قدیم یونانیوں نے آخر کس طرح یہ آلہ بنایا کہ جو اپنے دور کی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے کی چیز تھا ۔

-2 ’’وونیچ مینیوسکرپٹ‘‘ (Voynich Monuscript)

چند صفحات پر مشتمل یہ عجیب و غریب تحریر آج سے 600 سال پہلے وسطیٰ یورپ میں لکھی گئی لیکن محققین یہ بتانے سے ابھی تک قاصر ہیں کہ اس تحریر کا کیا مطلب ہے بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ کون سی زبان کی تحریر ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں اپنی طرز کا واحد نمونہ ہی دستیاب ہے جس کے حروف کی مثال کسی بھی زبان کے حروف تہجی کے ساتھ نہیں ملتی اور بظاہر یہ حروف لایعنی اور بھدے سے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریر کے 240 صفحات ملے ہیں جبکہ خیال ہے کہ کچھ اوراق ابھی گمشدہ ہی ہیں۔ ان صفحات پر اشاراتی نشانوں کی زبان میں کچھ تحریر ہے اور بعض جگہوں پر ڈائیاگرام بھی بنے ہوئے ہیں۔

محققین ہر سال اس کے نت نئے ترجمے شائع کرتے رہتے ہیں مگر اب تک کوئی ترجمہ بھی ذہنوں کو مطمئن نہیں کرسکا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ اس دور کی ادویات کے بارے میں جدید معلومات پر مشتمل تحریر ہے لیکن اس میں دی گئیں جڑی بوٹیوں اور پودوں کی تصاویر سے ان کو پہچانا نہ جاسکا کہ یہ پودے اور جڑی بوٹیاں کون سی ہیں۔ حال ہی میں جب یہ تحریر کمپیوٹر میں ڈال کر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے اس کو جانچنے کی کوشش کی گئی تو کمپیوٹر نے اسے ایک ایسی تحریر قرار دیا جو عبرانی زبان کے خفیہ کوڈ ورڈز میں لکھی گئی تھی۔ گو بہت سے محققین قبل ازیں یہی نظریہ پیش کرچکے ہیں لیکن یہ تمام تر تحقیقیں اس تحریر کا صرف 80 فیصد حصہ ہی عبرانی زبان کے حروف تہجی سے ملا پائیں اور اس کے باوجود بھی جو تحریر سامنے آئی وہ بے معنی اور بے ربط جملوں پر مشتمل تھی۔

-3 ’’پتھریلے مرتبانوں کا میدان‘‘ (Plain of Jars)

انڈونیشیا کے قریب و جوار میں واقع جنوب مشرقی ایشیا کا وہ واحد ملک جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور جس کو کوئی سمندر نہیں لگتا، وہ ’’لاؤ پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک‘‘ ہے جسے عرف عام میں ’’لاؤس‘‘ (Laos) کہتے ہیں۔ ’’لاؤس‘‘ کے پہاڑی سلسلے ’’امیڈ ماؤنٹینس‘‘ (Amid Mountains) کے درمیان واقع ہموار میدان دیوہیکل پتھریلے مرتبانوں سے اٹا پڑا ہے جن میں سے چند تو دس فٹ تک بھی اونچے ہیں۔ یہ پتھریلے مرتبان گزشتہ 2500 سال سے اس جگہ موجود ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ وہاں کیسے آئے؟ کون لایا یا ان کو کس نے بنایا اور ان کا مصرف کیا ہے؟ ان مرتبانوں کے پاس سے ملنے والی انسانی ہڈیوں کی بنا پر ماہرین بس یہ اندازہ ہی لگاسکے ہیں کہ شاید یہ مردوں کو دفن کرنے کے کام آتے ہوں گے یا پھر گھروں میں اپنی آخری آرام گاہ میں تدفین کے لیے پہنچائے جانے کی منتظر میتوں کے عارضی مدفن کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہوں۔

دوسری جانب مقامی افراد ان مرتبانوں کے بارے میں اپنی ہی ایک قدیم روایتی سی داستان سناتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مرتبان دراصل ان کی دوست ماورائی قوتوں اور جنات کے شراب پینے کے جام ہیں اور جب بھی ان مقامی قبائل کو ان جنات کی مدد سے اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ جنات اس خوشی میں یہاں جشن فتح کی تقریبات کا اہتمام کرتے اور ان دیوہیکل مرتبانوں میں شراب پی کر فتح کا جشن مناتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں امریکہ اور ویت نام جنگ کے دور میں امریکی فضائیہ کی طرف سے برسائے جانے والے بہت سے ایسے بم ابھی تک بھی بکھرے پڑے ہیں جو کسی وجہ سے پھٹ نہیں سکے۔ اسی لیے حکومت نے پتھریلے مرتبانوں والے ان 60 میدانوں میں سے صرف  7میدان ہی  سیاحوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچاجاسکے۔

-4 ’’رومن ڈوڈیکا ہیڈرونس‘‘ (Roman Dodecahedrons)

کیا یہ چیز کوئی ہتھیار ہے یا کھلونا ؟ یا پھر اس کی کوئی مذہبی حیثیت ہے؟ کچھ ماہرین کے نزدیک یہ شاید نجومیوں کے استعمال کا کوئی آلہ ہے کیونکہ اس کے بارہ رخ یا پہلو ہیں اور ہر رخ کے بیچ میں سوراخ ہے جبکہ درمیان سے یہ کھوکھلا ہے۔ اس کے بارہ رخ شاید بارہ برجوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ پتھروں یا کانسی سے بنائے جانے والی یہ چیز قریباً سترہ اٹھارہ سو سال پرانی ہے اور ابھی تک اس کا مصرف نامعلوم ہے۔ مختلف علاقوں سے ملنے والے اس عجوبے کا سائز ڈیڑھ سے سوا چار انچ تک ناپا گیا ہے۔ اکثر پرانی تجوریوں میں ملنے کے باعث خیال ہے کہ اس دور میں یہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز تصور کی جاتی تھی۔

-5  ’’نازکا لائنز‘‘ (Nazca Lines)

’’ناز کالائنز‘‘ زمین پر کھود کر بنائی گئی ان اشکال کو کہتے ہیں جو براعظم جنوبی امریکہ کے مغرب میں واقع ملک ’’پیرو‘‘ (Peru) میں موجود ہیں۔ یہ پرندوں، جانوروں، انسانوں اور جیومیٹری کی اشکال اور شبیہوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں کچھ تو 1200 فٹ تک طویل ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ شبیہیں ڈھائی ہزار سال قبل اس علاقے میں پنپنے والی ’’نازکا‘‘ تہذیب کے لوگوں نے بنائی تھیں۔ تاہم ان کوبنانے کے مقصد کے بارے میں ماہرین کی آراء مختلف ہیں جوبظاہر ابھی تک ٹھوس حقائق تک پہنچنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئیں۔ ان اشکال کو زمین کے اوپری ہلکی رنگ دار چٹانوں میں لکیریں کھود کر زمین کی نچلی سطح کی گہرے رنگ والی چٹانوں کے رنگ نمایاں کرکے اجاگر کیا گیا ہے۔

ان کی دریافت کے ابتدائی دور سے ہی ان کو بنانے کے مقاصد کا کھوج لگانے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں اور مختلف نظریات سامنے آئے، جن میں سے ایک نظریہ یہ تھا کہ یہ خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں کو زمین پر بحفاظت اترنے کے لیے راہنمائی فراہم کرنے اور علاقے کی نشاندہی کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ یہ علم نجوم کے حوالے سے بنائی گئی  ہیں یا ان کا تعلق فلکی اجرام کی گردش کے نظام الاوقات سے ہے۔  یہ تھا کہ یہ مذہبی علامتیں ہیں اور ان کے ذریعے دیوتاؤں سے مدد مانگی جاتی تھی۔

-6 ’’پاراکس کینڈیلابرا‘‘ (Paracas Candelabra)

یہ شبیہہ بھی ’’پیرو‘‘ (Peru) کی خلیج ’’پسکوبے‘‘ (Pisco Bay) کے جزیرہ نما علاقے کے ساحلوں پر کھو دی گئی ہے۔ اس کو ’’کینڈیلابرا آف دی اینڈیز‘‘ (Candelabra of the Andes بھی کہتے ہیں۔ گو یہ ’’نازکا لائنز‘‘ (Nazca Lines) کے مقابلے میں قدرے چھوٹی ہے تاہم یہ بھی انہیں کی طرح زمین میں 2 فٹ گہری لکیریں کھود کر بنائی گئی ہے اور تقریباً 595 فٹ طویل ہے۔ یہ شبیہہ ’’پاراکس‘‘ (Paracas) تہذیب سے منسوب ہے، جن کا زمانہ 200 قبل از مسیح کے لگ بھگ کا ہے۔

آرٹ کے اس نمونے کو بنانے کا مقصد بھی تاحال نامعلوم ہی ہے۔ مختلف ماہرین کا اس بارے میں الگ الگ نظریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بحری جہاز کے عملے کو سمندر میں 12 میل دور سے ہی دکھائی د ے جائے اور انھیں اندازہ ہو جائے کہ ساحل  آنے والاہے۔ کچھ محققین کے نزدیک یہ ’’ویرا کوچا‘‘ (Viracocha) نام دیوتا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنائی گئی جو ’’انکا‘‘ (Inca) تہذیب میں تخلیق کا دیوتا مانا جاتا ہے، جبکہ چند ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ کہ یہ اس خطے میں پائے جانے والے ایک پودے کی شبیہہ ہے جس سے نشہ آور اشیا تیار کی جاتی تھیں۔

-7 ’’تھونس ہراکلیون‘‘ (Thonis Heracleion)

2700 برس پہلے یہ مصری بندرگاہ یعنی ’’تھونس ہراکلیون‘‘ بحر روم میں داخلے کا دروازہ سمجھی جاتی تھی، پھر گردش دوران میں یہ اہم شہر وقت کے دھندلکوں میں گم ہوگیا۔ ہزاروں سال بیت گئے اور بالآخر 2000ء میں غوطہ خوروں کے ایک گروہ کو سمندر میں اچانک کچھ قدیم دور کی چیزیں ملیں۔ مزید کھوج لگانے پر انہوں نے مصر کے ساحلوں کے قریب زیر سمندر دفن شدہ یہ پورا شہر دریافت کرلیا۔ یہ ایک مکمل شہر تھا جس میں پل تھے، 16 فٹ اونچے مجسّمے اس میں استعادہ تھے، جانور کی شکل والے پتھر کے تابوت جن میں ممیاں موجود تھیں۔ غرض دیگر بہت سے ایسے ہی قدیم عجائبات اس شہر میں موجود تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ حیران تھے کہ آخر کیسے ایک پورے کا پورا شہر سمندر برد ہوگیا۔ ان کا اندازہ ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں بیک وقت آنے والے سونامی، زلزلے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے اس جگہ کی مٹی پگھل کر دلدل میں تبدیل ہوگی اور اگلے 700 سال میں آہستہ آہستہ یہ پورا شہر مکمل طور پر زمین میں دھنس گیا اور اس علاقے میں سمندر در آیا۔

-8 ’’لائنر اے‘‘ (Linear A)

یونان کے جزیرے ’’کیریٹ‘‘ (Crete) اور آس پاس کے جزائر میں پنپنے والی قدیم تہذیب ’’منیوان‘‘ (Minoan) کے زیر اثر فروغ پانے والے دو طرز تحریر ’’لائنرA‘‘ اور ’’لائنرB‘‘ الگ الگ ہونے کے باوجود آپس میں ملتے جلتے ہیں مگر ماہرین ’’لائنر A‘‘ کے نام سے پہچانے جانے والی طرز تحریر کے متعلق ابھی بھی تذبذب کا شکر ہیں۔ یہ طرز تحریر 1800 تا 1450 قبل از مسیح میں رائج تھا۔ یونانی زبان کی بنیاد پر استوار ’’لائنرB‘‘ کو تو 1952ء میں سمجھ لیا گیا، جو حروف کی بجائے زیادہ تر نشانات پر مشتمل ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود ’’لائنرA‘‘ کے طرز تحریر کو ماہرین ابھی تک سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طرز تحریر مذہبی تحریروں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور صرف مذہبی راہنما ہی اس کو پڑھ سکتے تھے۔

-9 ’’ڈاگو‘‘ (Dogu)

چکنی مٹی سے بنے انسانوں اور جانوروں کی شکلوں سے ملتے جلتے 10 تا 30 سینٹی میٹر اونچے یہ مجسّمے جاپان میں 14000 سے لے کر 400 سال قبل از مسیح میں بنائے جاتے تھے۔ یہ زمانہ جاپان کی تاریخ میں ’’جومون‘‘  (Jomon) دور کہلاتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے تقریباً 18000 مجسّمے دریافت کیے ہیں۔ مگر بات وہی ہے کہ ان کو بنانے کا مقصد ابھی تک سمجھ سے باہر ہے۔ ماہرین کا ایک طبقہ ان کو محض کھلونے قرار دیتا ہے جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ کوئی مذہبی اہمیت رکھتے تھے۔ تاہم اصل بات ابھی تک صیغۂ راز میں ہی ہے۔

-10 ’’سکسے ہیوامن‘‘ (Sacsay Huaman)

ایک مرتبہ پھر براعظم جنوبی امریکہ کے ملک ’’پیرو‘‘ (Peru) کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی ’’انکا‘‘ (Inca) تہذیب اور اس کے عجائبات کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ ’’پیرو‘‘ کے مشہور شہر ’’کسکا‘‘ (Cusca) میں پتھروں کے چوکور ٹکڑوں سے بنا ہوا وسیع و عریض عمارتی ڈھانچہ بھی انہیں عجائبات میں سے ایک ہے جس کے بنانے کی وجہ سے ماہرین تاحال لاعلم ہیں۔ اس کی دریافت پر ماہرین آثار قدیمہ کا خیال تھا کہ شاید یہ کوئی قلعہ ہے لیکن بعد میں انہوں نے چند شواہد کی بنا پر اندازہ لگایا کہ یہ جگہ تقریبات منعقد کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

وجہ استعمال چاہے کچھ بھی رہی ہو مگر یہ بات ماننے کی ہے کہ اس کا طرز تعمیر حیران کن ہے۔ کیونکہ ان پتھروں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ کاٹ کر انتہائی مضبوطی سے ایک دوسرے پر جما جما کر یہ تعمیر کی گئی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے کوئی مسالحہ (یعنی سیمنٹ کی طرح کی کوئی چیز وغیرہ) بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ پتھر بہت آرام سے ایک دوسرے پر جمے ہوئے ہیں لیکن ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے تعمیر کرنے والوں نے کوئی خاص ڈیزائن تخلیق کرنے کے لیے مختلف شکلوں کے پتھر کاٹے اور ان سے اس کا یہ ڈیزائن بنایا۔ یاد رہے کہ اس دور کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے 100 ٹن تک وزن کے پتھروں کو اوپر اٹھانااور اس طرح ایک دوسرے پر جما کر کوئی چیز تعمیر کرنا بجائے خود ایک معمہ ہے کہ اس دور میں یہ کام کیسے سرانجام دیا گیا ہوگا ؟ کیونکہ یہ تعمیر 9 ویں سے لے کر 13 ویں صدی کے دوران کی گئی۔ اسی لیے ’’سکسے ہیوامن‘‘ ایک قدیم اور تاریخی اسرار اور عجوبہ ہے۔

ذیشان محمد بیگ
zeeshan.baig@express.com.pk

The post بھیدوں بھری دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.

چین کی ہوش رُبا ترقی کا راز چینی زبان پر مکمل انحصار ہے

$
0
0

قسط نمبر : 5

’’ ـ زبانِ یارمن چینی و من چینی نمی دانم‘‘ اس ضرب المثل کی حقیقت اُس وقت ہم پر عیاں ہوئی جب نئے نئے چین پہنچے اور چینی لوگوں سے ہم کلامی کی ضرورت پیش آئی۔ حالت یہ تھی کہ ہم چینی زبان سے نا آشنا اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت کو انگلش سے نا بلد پایا۔ یوں ہماری گفتگو ابتداء میںنی ہاو اور ہیلو ہائے سے آگے نہ بڑھی۔ویسے چین جا کر جو سب سے پہلا لفظ سیکھا وہ ’’نی ہاو‘‘ ہی تھا جس کامطلب السلام علیکم سے ملتا جلتا ہے۔

جب ہم مارکیٹ میں جاکر چینی دکانداروں کو نی ہاو بولتے تو وہ بہت خوش ہوتے مگر ان کی یہ خوشی لمحاتی ثابت ہوتی کیونکہ جب وہ مزید گفتگو چینی میں جاری رکھنا چاہتے تو ہم خاموش ہوجاتے۔ چین میں معیشت و معاشرت کے ضوابط، سائنس و ٹیکنالوجی کے اسرار ورموز، پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی ہدایات، بینکنگ کے معاملات ، دفتری و عدالتی امور ، عوامی سہولیات سے استفادے کے حوالے سے معلومات سبھی کچھ چینی زبان میں ہے۔ چین کی تمام ترترقی ان کی اپنی زبان کی مرہونِ منت ہے۔

چینی زبان کے مختلف لہجے ہیں جو کہ چین بھر میں بولے جاتے ہیں۔شمالی چین اور جنوبی چین میں بولی جانے والی چینی میں بڑا واضح فرق ہے۔جنوبی چین میںبولی جانے والی زبان کینٹونیز (Cantonese) کہلاتی ہے۔انیس سوتیس سے چین میں جو سرکاری زبان رائج ہے اس کو مندرین (Mandarin) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک اور نام پُوتنگخواہ (Putonghua)بھی ہے جس کا مطلب کامن سپیچ یا عام گفتگو ہے۔ویسے تو چینی زبان کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے مگر ہم اس میں بیسوی صدی میں ہونے والی ارتقائی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کریںگے۔

لسانی ماہرین نے چینی زبان کولہجے کے اعتبار سے سات سے دس گروپس میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سب سے بڑا لہجہ مندرین (Mandarin) ہے ۔ اس کے بعد وُو(Wu)، من (Min) یو ای (Yue)گن(Gan)، شیانگ (Xiang) اور ہکا (Hakka)ہیں۔ اگر دیکھا جائے کہ کو نسا لہجہ یا ڈائیلیکٹ کہاں کہاں اور کتنے لوگ بولتے ہیں تو سب سے بڑا لہجہ یا ڈائیلیکٹ مندرین (Mandarin)ہے جو کہ چین کے پورے شمال اور جنوب مغرب میں بولا جاتا ہے اس کو بولنے والی آبادی کا تناسب 71.5فیصد ہے ۔اس کے علاوہ چین کے مختلف علاقوں اور شہروں کے مقامی لہجے بھی ہیں۔ چینی زبان کی ایک نمایاں اور امتیازی خاصیت اس کی چار ٹونزTones) ہیں۔اس کی جانکاری کا سبب بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ہم اپنی دیسی عادات سے مجبور دودھ، دہی کی تلاش میں تھے۔

اُردو سروس کی ایک چینی ساتھی وانگ (اُردو نام مسرت) سے دودھ اور دہی کے چینی الفاظ سیکھے اور سٹور پر جا پہنچے لیکن دکاندار کو ہماری بات پلے نہ پڑی۔  بعد میں دفتر آکر اس تجربے کو چینی ساتھیوں سے شیئر کیا تو پہلے تو وہ مسکرائے اور بتایا کہ چینی زبان کی چار ٹونز ہوتی ہیں۔ ایک فلیٹ (Flat)، ایک رائزنگ (Rising) ، ایک فالنگ اور رائزنگ (FallingandRising)اور ایک فالنگ (Falling)ہے۔ ایک چینی شہری ہی دوسرے چینی شہری کے الفاظ کے اتار چڑھاو سے تبدیل ہونے والا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔تب ہمیں معلوم ہوا کہ دکاندار ہماری بات سمجھنے سے اس لیے قاصر تھا کہ ہماری چینی الفاظ کی ادائیگی درست نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ ہمارا مدعا سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

چینی زبان کے کچھ تیکنیکی پہلووں کی گرہ ڈاکڑ ظفر حسین کے گھر کھلیں۔ڈاکٹر ظفر حسین ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور چین میں مقیم ہیں اور اُس وقت پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے گھر کھانے پر بلا لیا۔وطن سے دور پاکستانی کھانے اور وہ بھی گھر میں روایتی انداز سے تیارکردہ ۔کھانے کالطف ہی دو بالا ہو گیا ۔ ان کے گھر جا کر یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی پاکستانی فیمیلیز بھی بیجینگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز تھیں۔کھانے کے دوران چینی معاشرے اور زبان کا موضوع چھڑگیا تو معلو م ہوا کہ ڈاکٹر ظفر حسین کی اہلیہ بشری ظفر چینی زبان میں گریجویشن کی ڈگری کی حامل ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا “چینی زبان کے کیریکٹرز میں Strokes بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

بنیادی   Strokes آٹھ ہیں۔دراصل دو یا اس سے زیادہ Strokes جو کہ باہمی طور پر جڑے ہوتے ہیںاور ایک مجموعے یا سیٹ کی صو رت میں ہوتے ہیںان کی کل تعداد 29 ہے اور 39 قسم کے مختلف Strokes سے چینی کیریکٹرز تشکیل پاتے ہیں۔چینی کیریکٹرز کو لکھنے کے کچھ متفقہ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو چین میں صدیوں سے اپنایا جا رہا ہے اور ان میں سڑوکس کی ترتیب نمایاں اور بڑی واضح ہوتی ہے۔چینی کیریکٹرز کو چارا اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم شیانگ شنگ (Xiangxings) ہے ۔ اس کا مطلب تصاویر کے ذریعے چینی کیریکٹرز کا اظہار ہے۔اس طرح کی علامات ان اشیاء کی خصوصیت سے ملاپ رکھتی ہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا میں موجود اشیاء کا عکس ہوتی ہیں۔مثلاً کھیت،سورج اور پہاڑ کی چینی زبان میں علامات ۔ شیانگ شنگ اصولوں کی بنیاد پر چینی علامتوں یا کیریکٹرز کے پہلے یا ابتدائی سیٹ کو ترتیب دیا گیا ہے۔ دوسری قسم ذی شی (ZhiShi) علامات جو ازخود وضاحت والی ہوتی ہیں۔

تصویری علامتوں یا کیریکٹرز کے برعکس وہ کسی بھی چیز کی جسمانی ساخت سے مطابق نہیں رکھتیں تاہم ان میں کچھ اشارے موجود ہوتے ہیں مثلاً اوپر یا نیچے کی طرف کا اشارہ یا علامت۔ تیسری قسم ہوئی ای (Huiyi) علامات یا کیریکٹرز میں باہمی ربط قائم کرنے والے مجموعے ہوتے ہیں۔یہ زیادہ تر دو یا اس سے زیادہ کیریکٹرز یکجا کرکے کسی چیز کا مطلب سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چوتھی قسم شنگ شینگ (Xingsheng) کیریکٹرز ہیں جن کو تصویر اور صوت والے کیریکٹرز بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح کے کیریکٹرز میں کم از کم دو علامات جڑی ہوتی ہیں۔ایک علامت کا مطلب اظہار ہوتا ہے جب کہ دوسری سے مراد آواز ہوتی ہے۔چینی زبان کے زیادہ تر کیریکٹرز شنگ شینگ (Xingsheng) ہیں۔‘‘

بشری ظفر کے گیا ن سے فیض یاب ہوئے تو چینی زبان میں دلچسپی اور بڑھ گئی۔ایسے ہی ایک روز بیجینگ کی سب وے میں سفر کرتے ایک غیر ملکی کو چینی زبان میں روانی سے فون پر گفتگو کرتے سنا۔ چہرے مہرے سے ایشیائی دکھائی دیے تو سوچا کہ بات کر ہی لی جائے۔ ان کو اپنا ہم وطن پا کر خوشی دو با لا ہوگئی۔ پوچھا حضرت اس قدر روانی سے چینی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا۔ فرمانے لگے کہ چین میں آٹھ سالوں سے مقیم ہوں اورچینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے(HSK) کا اعلی ترین لیول سکس (Six) پاس کیا ہوا ہے۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ ہم بہت مرعوب ہوئے اورا ن سے چینی زبان سیکھنے کے متعلق بہت سوالات کیے۔ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں اونچا بولنے، دھیما بولنے اورتیز بولنے سے مفہوم بدل جاتا ہے۔ ان کی یہ بات سن کر ہمیں اپنی دودھ، دہی والی غلطی یا د آگئی۔ ان سے باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ ان کا سٹاپ آگیا اور وہ اترنے کی تیاری کرنے لگے۔

اس وقت مجھے احسا س ہوا کہ چینی زبان کی باتوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے اس چیز کا احساس ہی نہ رہا کہ ان کا نام پوچھ لیتے۔تو جب وہ اترنے لگے تو ان سے ان کا نام پوچھا اور جلدی سے وی چیٹ شیئر کیا تو یوں اظہر سعیدخان سے آئندہ ملاقات کے وعدے پر یہ گفتگو تمام ہوئی۔چینی زبان کی انہی ٹونز کی وجہ سے ہی چین میں نئے آنے والے غیر ملکیوں کے لیے ابتدا ء میں چین کے دو صوبوں Shanxi اور Shaanxi کے ناموں میں فرق و امتیاز برتنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔

دونوں صوبوں کا تلفظ اور ادائیگی بظاہر ایک سی دکھائی دیتی ہے مگر چینی شہری ان دوصوبوں کے ناموں کے درمیان فرق ان کے نام بولتے وقت مخصوص ٹون کا استعمال کر کے با آسانی کرلیتے ہیں۔اسی طرح کا کچھ معاملہ چین کے ایک صوبے اور اسی صوبے کے ایک شہر کے نام کے درمیان ہے جس میں ابتدائی سطح پر فرق روا رکھنا بظاہر  غیر ملکیوں کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔چین کے ایک صوبے کا نام Guandong ہے جبکہ اسی صوبے کے ایک شہر کا نام Dongguan ہے۔اب یہ دونوں نام بظاہر ملتے جلتے ہیں۔مگر چینی شہری ان میں با آسانی تمیز کر سکتے ہیں۔ ہمارا چینی زبان سے استوار ہونے والا الفت کا رشتہ اپنے رنگ دکھا رہا تھااور ہم ہر روز کچھ نہ کچھ اس کے متعلق پڑھتے رہتے یا دوستوں سے پوچھتے رہتے۔ اسی تناظر میں چینی زبان پر ایک ریڈیو پروگرام کی تیاری کے دوران اس زبان کے حوالے سے جو معلومات اکٹھی کیں ۔ وہ بھی کافی دلچسپ ہیں۔

چینی زبان کو سادہ بنانے اور پورے ملک میں اس کو یکساں سطح پر اختیار کرنے اور اس کے نفاذ کی کوششیںعوامی جمہوریہ چین کے قیام کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئیں تھیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے ابتداء ہی سے مینڈرین کو قومی زبان بنانے کے متعلق سوچ رہی تھی تاکہ شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا جاسکے۔انیس سو پچپن میں کمیونسٹ پارٹی نے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میٹنگ کا مقصدمینڈرین کی بنیاد پر ایک Alphabetic سسٹم ترتیب دینا تھا۔چین کے وزیراعظم چو این لائی نے چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو اس کام کے لیے نامزد کیا۔ چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بنیادی طور پر ماہرِمعیشت تھے مگر انہیں لسانیات اور لسانی امور سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ چین کے اعلی سطح کے معاشی اداروں سے وابستہ رہے اور ایک چینی معاشی ادارے کے امریکہ میںنما ئندے کے طور پر تین سال تک کام کرتے رہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد وہ چین واپس آئے اور شنگھائی کی ایک یونیورسٹی میں معیشت پڑھانے لگے۔

ان کی چین کے وزیراعظم سے شناسائی چھانگ چھنگ میں قیام کے دوران ہوئی۔چھانگ چھانگ ایک زمانے میں چین کا جنگی دارالحکومت تھا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب جاپان نے چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے چین پر حملہ کیا۔ اس دورمیں چو این لائی کمیونسٹ پارٹی کے ایک نمایاں رہنما تھے اور وہ دانشوروں ، ادیبوں اور پڑھے لکھے افراد سے باقاعدگی سے بات چیت کیا کرتے تھے۔انہی دانشوروں میں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) بھی شامل تھے جو کہ چھانگ چھنگ میںایک معاشی ادارے سے وابستہ تھے مگر باقاعدگی سے ان دانشوروں کی نشستوں میں شریک ہوتے تھے اور لسانی امور میں اپنے شوق کی وجہ سے چواین لائی کی نظروں میں آ گئے۔بعد میں جب چو این لائی وزیراعظم بنے تو انہیں چو یوگوانگ (Zhou Youguang) اپنی لسانی شوق کی وجہ سے یاد تھے۔

اس لیے انہوں نے اِن کو ایک قومی زبان کو تشکیل دینے کے لیے نامزد کیا۔ نامزدگی کے بعدانہوں نے بہت عذر تراشے کہ میں تو ماہرِ معیشت ہوں مگر چونکہ وزیراعظم ان کی لسانی امور میں مہارت اور ان کے شوق کو جانتے تھے اس لیے ان کی ایک نہ چلی اور انہوں نے ان کو اس کام کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ یہ ایک فیصلہ چین میں بہت دوررس نتائج کی بنیاد ثابت ہوا۔چو یوگوانگ (Zhou Youguang) کو چین میں فادر آف پِھنین(Father of Pinyin) کو بھی کہا جاتا ہے۔لسانی امور کی نزاکتوں اور تیکنیکی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کو وقتی طور پر نظرا نداز کرتے ہوئے عام آدمی کی تفہیم کے لیے سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے پِھنین (Romanized Spelling System) ہے۔اس سسٹم نے چین کی قدیم زبان کو جدید عہد سے ملادیا۔ پِھنین سسٹم کی ایجادسے پہلے یہ ایک عمومی مسئلہ تھا کہ چینی زبان کے کیریکٹرز براہ راست آواز سے ہم آہنگ نہیں تھے۔

پِھنین کے Phonetic Alphabetسسٹم سے الفاظ کو گفتگو سے ہم آہنگ کرنے میںآسانی ہوئی۔اس سے چین کی شرحِ خواندگی میں نمایا ں اضافہ ہوا اور چینی زبان میں آسانی پیداہوئی۔کہا جاتا ہے کہ انیس سو پچاس میں چین کی شرحِ خواندگی آٹھ فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر نوے فیصد سے زائد ہے۔اسی سسٹم کی وجہ سے Pekingکو Beijing  کہا جانے لگا۔ چین کا جنگی دور کا دارالحکومت Chungkingتبدیل ہو کر Chongqing کہلایا جانے لگا اور چین کے بانی رہنما کا نام  MaoTse Tung سے تبدیل ہو کرong Mao Zed لکھا جانے لگا۔

چو یوگوانگ اوران کے ساتھیوں کو یہ سسٹم بنانے میں تین سال کا عرصہ لگا۔چین میں گیارہ فروری انیس سو اٹھاون کو اس سسٹم کو اپنایا گیا اور International Organization For Standardization نے انیس سو بیاسی میں اس کو اختیار کیااقوامِ متحدہ نے اس کو انیس سو چھیاسی میں اپنایا۔ اسی سسٹم سے نابینا افراد کو پڑھنے میں آسانی پیدا ہوئی اور ان کے لیے بریل(Braille)بنی۔ اب چین کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو ابتداء سے ہی پِھنین پڑھائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ چینی کیریکٹرز بھی پڑھتے ہیں۔چین میں سمارٹ فونز اور دیگر سمارٹ گیجٹس میں یہی پھنین استعمال ہوتی ہے۔ موبائل فون پر ٹیکسٹ پیغامات لکھنے اور بھیجنے، ای میلز، انٹر نیٹ اورسوشل میڈیا پر بلاگز لکھنے کے لیے یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ترقی کی وجہ سے چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں نمایا ں اضافہ ہو اہے۔

چین میں قیام کے دوران بہت سے غیر ملکی طلباء سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان میں اپنے ہم وطن بھی تھے اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ اکثر سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ طلباء کی ایک کثیر تعداد چینی زبان پڑھنے اور سیکھنے یہاں آئی ہوئی ہے۔ چینی زبان سیکھنے والے ایک پاکستانی طالب علم فہد بقا سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ چین میں انگلش زبان میں مہارت کے امتحان IELTS اور TEFL کی مانند ایک ٹیسٹ HSK (Hanyu Shuiping Kaoshi) ہے جو کہ غیر ملکیوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ لیتا ہے۔

اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم چینی شہریوں کی چینی زبان میں مہارت کا جائزہ بھی اسی ٹیسٹ سے لیاجاتا ہے۔ اس کے ایک سے لیکر چھ تک لیولز ہیں۔ ہر لیول پر مہارت کا معیار مختلف ہے۔  یہ لیولز چینی حروف تہی کی پہچان اور اِن کے استعمال سے لے کر چینی زبان میں ہر طرح کی معلومات کو سمجھ کر زبانی اور تحریری اظہار خیال کی صلاحیت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر لیول کے کل تین سو مارکس ہوتے ہیں۔ جبکہ پاس کرنے کے لیے ایک سو اسی مارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔یوں ساٹھ فیصد نمبر حاصل کرنے والا کامیاب قرار پاتا ہے۔ اس امتحان میں بھی Listening, Reading, Writing,  Speaking  کے مراحل ہوتے ہیں۔ اس کا ہر ماہ ٹیسٹ ہوتا ہے ۔ یوںسال میں بارہ مرتبہ اس کا انعقاد ہوتا ہے۔طالب علم دو ہفتوں کے بعد آن لائن اپنا رزلٹ چیک کر سکتا ہے اور چالیس دن بعد اس کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔اس ٹیسٹ کا دورانیہ ایک گھنٹہ تیس منٹ ہوتا ہے۔ٹیسٹ کی ایکسپا ئری کا دورانیہ دو سال ہے۔سی آر آئی میں کام کرنے والے ایک چینی ساتھی لی ہانگ   (Li Hong) کے مطابق چینی زبان کے کیریکٹرز کے تعداد اسی ہزار سے زائد ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ تعداد 91251 ہے۔ روزمرہ استعمال میں آنے والے الفاظ کی تعداد 3500 ہے۔

چین میں ہائی سکول( ہمارے ہاں کا میڑک سمجھ لیں) کے طلباء کے لیے 3500-4000 کیریکٹرز کا مطالعہ ضروری ہے۔جبکہ 5000-6000 کیریکٹرز یونیورسٹی طلباء کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔چینی زبان کو سیکھنے والے غیر ملکیوں کی چینی زبان کے کیریکٹرز کی ووکیبلری عمومی طور پر 6000-7000 تک محدود ہوتی ہے۔ کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ ، بیجینگ میں زیر تعلیم ایک پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر ظفر حسین نے بتایا کہ ان کی جامعہ کی ایک چینی خاتون ٹیچر چین (Chen) جن کا انگلش نام Julia  ہے وہ واشنگٹن یونیورسٹی اور دیگر غیر ملکی اداروں اور جامعات میں چینی زبان پڑھاتی رہی ہیں۔ان کا شمار چین کے صف اول کے اساتذہ میں ہوتا ہے انہیں بیس ہزار چائینز کیریکٹرز آتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی کیریکٹرز کا علم مخصوص شعبہ جات کے حوالے سے تبدیل ہوتار ہتا ہے۔چینی شعراء اور ادیب زیادہ کیریکٹر ز جانتے ہوتے ہیں۔عمومی طور پر پڑھے لکھے افراد کو بارہ ہزار تک کیریکٹرز آتے ہیں۔ایچ ایس کے ٹیسٹ کا انعقاد Hanban کرتا ہے جوکہ چین کی وزارتِ تعلیم کا ایک ادارہ ہے۔ ایچ ایس کے کے سپیکنگ (Speaking) ٹیسٹ بھی منعقد ہوتے ہیں۔اس کے بھی تین لیولز ہیں۔ پرائمری، انٹر میڈیٹ لیول اور ایڈوانسڈ لیول ۔

چین اپنی زبان کی ترویج وترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات اپنا رہا ہے۔چین میں نہ صرف مختلف تعلیمی ادارے، دیگر حکومتی اداے چینی زبان کی تعلیم کے حصول کے لیے سکالرشپس فراہم کرتے ہیں بلکہ چین کے نشریاتی اداروں میں بھی اس حوالے سے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اردو سروس نے چینی زبان کی اشاعت کے حوالے سے کتابیں بھی شائع کروائی ہوئی ہیں۔

ان میں اردو کی مدد سے چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ چینی زبان سکھانے کا ایک پروگرام سی آر آئی کی تامل سروس سے بھی ہفتے میں پانچ دن پیش کیا جاتا ہے۔ ہندی سروس سے بھی ـ چینی بھاشا سیکھیں کے نام سے روزانہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی اور پشتو سروس سے بھی اسی نوعیت کے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ چین کی ایک نیوز ایپ چائنہ پلس(China Plus) پر چینی زبان سیکھنے کے حوالے سے پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔چین دنیا بھر سے طالب علموں کو چینی زبان سیکھنے کے لیے سکالرشپس فراہم کرتا ہے ۔چین کے دارالحکومت بیجینگ میں موجود ایک یو نیورسٹی بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing

Language andCultre University) چین بھر میں چینی زبان کی تدریس کے حوالے سے ایک معروف جامعہ ہے۔ اس جامعہ کو 1962میںچین کے وزیراعظم چو این لائی کی رہنمائی میںقائم کیا گیا تھا۔1964میں اس کو بیجینگ لینگوئج انسٹیوٹ کا نام دیا گیا جبکہ انیس سو چھیانوے میں اس کو اس کا موجودہ نام دیا گیا۔اسی کو منی یونائیٹیڈ نیشنز (Mini United Nations)بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا بھر سے طالب علم یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان سے بھی طلباء کاایک گروپ بھی یہاں چینی زبان سیکھنے کے لیے موجود ہے ۔

اسے پنجاب کے سابق وزیراعلی کے ایک پروگرام کے تحت یہاں بھیجا گیا تھا۔کل پانچ سو طلباء کو اس پروگرام کے تحت بھیجا جانا ہے۔ پہلا گروپ چھیاسٹھ طلباء و طالبات پر مشتمل تھا۔ اس میں پنجاب بھر سے اور گلگت بلتستان سے بھی کچھ طلباء شامل تھے۔ یہ دو سال تک چینی زبان پڑھتے رہے اور ان کو چینی زبان کا ایک ڈپلومہ دیا گیا ہے۔ ان طلباء کے آنے جانے کا ہوائی ٹکٹ، وہاں قیام وطعام،ٹیوشن فیس، کتابوں اور دیگر تعلیمی اخراجات سب کے سب مفت تھے۔اس کے علاوہ ان طلباء کو ماہانہ اٹھائیس سو یوان وظیفہ بھی دیا جاتارہا۔ان کو چینی زبان میں مہارت کا ایچ ایس کے فائیو لیول کا امتحان بھی پاس کرنا ہوگا۔پہلا گروپ بیجینگ میں ہی رہا جبکہ بعد میں آنے والے طلباء کو چین کے مختلف شہروں شنگھائی، ووہان، چھینگ تاو، انر منگولیا اور چین کے صوبے حہ بے (Hebei)کے دارالحکومت شی جیاز ہوانگ  (Shijiazhuangمیں واقع مختلف جامعات میں بھیجا گیا۔

چین میں بیجینگ لینگوئج اینڈ کلچر یونیورسٹی (Beijing Language and Culture University) کے علاوہ بھی چین کی کم وبیش ہر جامعہ میں چینی زبان سکھانے کا باقاعدہ اہتمام بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نجی اداروں کی جانب سے اور آن لائن بھی چینی زبان کی تدریس کی سہولیات موجود ہیں۔جامعات کے ذریعے چینی زبان کی تدریس کے علاوہ دنیا بھر میں چین کا ایک ادارہ کنفیوشس سینٹر بھی چینی زبان و ثقافت کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہا ہے۔چین کا کنفیوشس سینٹر دنیا کے دیگر ممالک کی اپنی زبان وثقافت کے فروغ کے اداروں کی طرح کام کررہا ہے۔ اس کا قیام دو ہزار چار میں ہوا۔دنیا بھر میں اس کے تحت ادارے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کنفیوشس سینٹر نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کراچی یونیورسٹی میں قائم ہے۔جب ہم نے چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس کو اگست دوہز ار پندرہ میں جوائن کیا تو اس وقت ہمارا تعارف چن شیانگ (Chen Xiang) جن کا پاکستانی نام شاہین ہے سے بھی ہوا کہ وہ اردو سروس کے ایک سینئر ساتھی تھے اور ہمارے استقبالیہ کھانے کی دعوت میں شریک بھی ہوئے تھے۔بعد میں وہ دفتر آتے اورخاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ۔ بعدازاں وہ جنوری 2016ء میں سی آر آئی کنفیوشس کلاس روم پاکستان کے ڈائریکٹر تعینات کر دیئے گئے۔

ایک پاکستانی پوسٹ ڈاک (Post Doc)ڈاکٹر شاہد حسین ان دنوں چین کے ایک شہر نانجنگ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھار ہے ہیں۔ ان کا بنیادی شعبہ فزکس ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسین نے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاک چین ہی سے کی مگر انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں مہارت حاصل کرنے پر بھی محنت کی جس کی وجہ سے انہیں کئی بہتر مواقع میسر آئے۔ ڈاکٹر شاہد حسین کو دورانِ تعلیم بہترین ریسرچ کا ایک چینی حکومتی ایوارڈ بھی ملا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی یونیورسٹی میں ان کی جاب کے وقت ان کی تعلیمی کارکردگی اور چینی حکومتی ایوارڈ کے باوجود ان کی چینی زبان میں مہارت نے بڑی مدد کی۔جاب کے انٹرویو کے وقت ان کی چینی زبان میں چینی طلباء کو پڑھانے کی صلاحیت بہت کام آئی۔

اس کے علاوہ ان کاکہنا تھا کہ چینی زبان آنے کی وجہ سے انہیں سائنس وٹیکنالوجی کے فورمز، ایکسپوز، تعلیمی کانفرنسز، سیمینارز اورماہرین کے ساتھ با ت چیت میں کوئی دقت پیش نہیں آتی اور انہیں چین میں اس طرح کے فورمز میں جانے یا ان کے ادارے کی جانب ان کو ان میں نامزد کیے جانے کے حوالے سے کبھی تامل نہیں ہوا۔ ایک او ر نوجوان پاکستانی پی ایچ ڈی ڈاکٹر محمد سعید (Animal Nutritionsit) Northwest Agriculture and Forestry University سے وابستہ ہیں اور چین کے شہر یانگ لنگ میں ہوتے ہیںاور پولٹری کی ریسرچ سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بھی چینی زبان میں مہارت کا امتحان ایچ ایس کے فور پاس کیا ہوا ہے۔

ان کا بھی کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران لیب میں ٹیکنیکل اشیاء کے بہتر استعمال،اپنے چینی اساتذہ اور لیب میٹس کے ساتھ بہتر کمیونیکیشن میں انہیں چینی زبان کی وجہ سے بہت آسانی ہوئی۔ بیجینگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی (Beijing Foreign Studies University) بیجینگ میںاردو کی تدریس سے وابستہ اور چینی زبان میں ماہر ایک پاکستانی خاتون بشریٰ ظفر بھی ہیں ۔جن کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ چین کے صدر شی جن پھنگ سے ان کی بالمشافہ ملاقات ہے۔چین کے صدر سے ان کو ملاقات کے لیے منتخب کیے جانے کی بنیادی اور اہم وجہ ان کی چینی زبان میںمہارت تھی۔ یہ ملاقات بیجینگ کے گریٹ ہال میں دو ہزار بارہ میں ہوئی تھی جب وہ پہلی مر تبہ صدر منتخب ہوئے تھے ۔

صدر شی جن پھنگ سے ملاقات کے لیے چین میں مقیم مختلف ممالک کے دس فارن ایکسپرٹس کو منتخب کیا گیا تھا۔ان دس ایکسپرٹس میں بشری ظفر واحد پاکستانی تھیں۔ملاقات کا مقصد غیرملکیوں کے خیالات اور رائے جاننا،چین کی اصلاحات وپالیسیوں سے انہیں آگاہ کرنا،اور غیرملکیوں کو درپیش مشکلات اور ان کے کام کے حوالے سے موجود سہولیات اور شعبہ جاتی ترقی وپیش رفت کا جائزہ لینا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں ان کی سلیکشن میںدیگر عوامل کے علاوہ ان کی چینی زبان میں مہارت ہی ان کی بطور اردو ٹیچر کے سلیکشن میں کام آئی۔ایک مرتبہ بیجینگ میں ہونے والی ایک سماجی تقریب میںایک طویل القامت نوجوان کو دیکھا۔ جو پہلی نظر میںسپینش لگا۔وہ بہت روانی سے چینی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ گمان گزرا کہ شاید انہوں نے چینی زبان باقاعدہ پڑھی اور سیکھی ہو گی اور کسی یورپی ادارے کے یہاں نمائندہ ہو ںگے۔مگر یہ سارا ابتدائی تاثر اس وقت ختم ہو گیا جب تھوڑی دیر بعد وہی صاحب ایک پاکستانی دوست سے اردو میں گفتگو فرمانے لگے۔

بہت حیرت ہوئی ۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر سید سدا حسین شاہ ہیں۔ چین سے ہی ڈاکٹری پڑھے ہوئے ہیں۔گز شتہ بائیس سال چین ہی کے شہر شینیانگ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی شریک حیات چینی ہیں اور ان کا ایک تیرہ سال کا بیٹا بھی ہے۔ تب ان کی روانی سے چینی زبان بولنے کی سمجھ آئی۔پاکستانیوں کی چینی زبان میں مہارت کا ذکر آیا ہے تو بتا تا چلوں کے ایک پاکستانی نوجوان اظہر سعید خان کے بقول Shenyang Chemical University اور Nort East University of Lioning میں غیر ملکی طلباء کو چینی زبان پڑھانے پر مامور چینی اساتذہ کے بقول چینی زبان جلد ، اچھے تلفظ اور ادائیگی کے ساتھ سیکھنے میں روس اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخواہ سے تعلق رکھنے والے طلباء نمایاں ہیں۔

(جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ

The post چین کی ہوش رُبا ترقی کا راز چینی زبان پر مکمل انحصار ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہوا کا دروازہ۔۔۔ گوادر۔۔۔ اور اُمید کی شہزادی

$
0
0

وسط ستمبر1992 کی صبح کراچی اس اعتبار سے زیادہ خوشگوار نہیں تھا کہ مجھے خلاف معمول اُس روز رات چار بجے تک جاگنا پڑا، بعض لوگ اِسے علی الصبح بھی کہتے ہیں۔

صدر کراچی میں، میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا اس کے بلمقابل ہی پی آئی اے کا ایک آفس تھا۔ میں نے کمرے کی بالکونی سے نیچے دیکھا تو پی آئی اے کی ایک قدرے نئی ویگن میں نصف درجن ائیر ہوسٹسز اور فلائٹ اسٹیورٹ بیٹھے تھے۔ ویگن بالکل تیار تھی ایک ایئر ہوسٹس مزید آئی اور اس کے بیٹھتے ہی ویگن چل دی، اسی لمحے ہوٹل کے منیجر کا فون آیا کہ ائیر پورٹ جانے کے لیے گاڑی میں سامان لوڈ کروا دیا ہے اور آپ کا انتظار ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم ایئر پورٹ پر تھے۔

گوادر جانے کے لیے بورڈنگ کارڈ لیا اور آگے بڑھا۔ فوکر طیارے میں یہ ہمارا پہلا سفر تھا، 44 نشستوں پر مشتمل یہ طیارہ غالبا اُس وقت اپنی طبعی عمر جو کمپنی نے اس کے لیے تیاری کے بعد دی تھی وہ کچھ برس پہلے ہی پوری کر چکا تھا ،اس میں دو ایئر ہو سٹس وہی تھیں جو ہمارے ہوٹل کے سامنے سے ویگن میں سوار ہو ئیں تھیں، ہمارے نشست پہ بیٹھنے کے آدھے گھنٹے بعد جہاز کے دروازے بند ہو گئے اور جہاز دھیرے سے  چلتا،ٹیکسی،کرتا رن وے پر سیدھا ہوااور پھر سارے انجن پوری قوت سے گرجے تو پورے جہاز پر جیسے یک دم لرزا طاری ہوگیا، اس کی حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے ملیریا بخار میں مریض کی ہوتی ہے۔ پھر ایک جھٹکے سے جہاز رن وے پر دوڑکر اڑا اور پھر دائیں بائیں لرزتافضا میں بلند ہوتا چلا گیا۔

کراچی شہر کی بلند و بالا عمارتوں پر دس منٹ پرواز کرنے کے بعد جہاز پاکستان کے ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحل پر بالکل ساحل یعنی سمندر کی لہروں اور ریتلے کناروں پر پرواز کر رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے ہو ئے مسافر سے بات چیت شروع ہوئی تو پتا چلا کہ یہ جہاز جسے ہم عام طیاروں سے کمتر سمجھ رہے تھے درحقیقت انٹرنیشنل پرواز پر ہے اور یہ گوادر میں کچھ دیر رکنے کے بعد سلطنت عمان ’’مسقط ‘‘ جائے گا۔ نیچے بحیرہِ عرب کا نیلا پانی اور اس کے پہلو میں ہمارا سنہرا ریتلا ساحل چل رہا تھا جس پر ایک دو مقامات پر منگروز کے درختوں پر مشتمل زمرد کی طرح چمکتے سبز دھبے سے نظر آئے، کوئی ایک گھنٹے بعد ایئر ہوسٹس کی آواز گونجی کہ گوادر کے ایئر پورٹ پر زیادہ دھند ہے۔

اس لیے جہاز کچھ دیر بعد پسنی ا یئر پورٹ پر لینڈ کر ے گا اور دھند کے کم ہونے پر ہم گوادر جائیں گے اور پھر جلد ہی جہاز نیچی پرواز کرتے ہو ئے رن وے پر اترا۔ میری حیرت زدہ نظروں کو دیکھتے ہو ئے ساتھ بیٹھے ہو ئے مسافر نے بتایا کہ پہلے گوادر کا رن وے بھی کچا تھا اور جب بارش ہوتی تو پروازیں بند ہو جاتی تھیں اب گوادر، تربت وغیر ہ کے ایئر پورٹ پختہ کر دیئے گئے ہیں ۔کوئی بیس منٹ بعد پی آئی اے کے طیارے نے پھر پرواز بھری اور ہم گوادر کے ننھے منے ائیر پورٹ پر اتر گئے۔

اس کے بعد 1995ء تک گوادر،کراچی،کو ئٹہ یا پھر کوئٹہ، تربت،گوادر سفر کرنے کا اتفاق ہوتا رہا اس دوران ایک بار براستہ سڑک کراچی اور پھر ایک دفعہ گوادر، تربت ،کو ئٹہ بھی گئے پھر سمندر میں بھی ایک دو روز تک رہنے کااتفاق ہوا ۔ 1995ء میں میرا تبادلہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ ہو گیا۔ ان ساڑھے تین برسوں میں ، میں نے ڈسٹر کٹ گوادر اور یہاں کے لوگوں کے درمیان رہ کر دیکھا، ہمارے ہاں خصوصاً مکران میں اساتذہ کا بہت احترام ہے۔

گوادرکو ضلع کا درجہ یکم جولائی 1977 کو ملا، اس کی چار تحصیلیں گوادر،جیوانی اورماڑا اور پسنی ہیں جن کی 13 یونین کو نسلیں ہیں۔ بلوچستان کے پاس ہمارے ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں سے 770 کلو میٹر سے زیادہ ساحل ہے، جس میں سے 170 کلو میٹر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے پاس ہے اور باقی 600 کلومیٹر ساحل ضلع گوادر کے پاس ہے۔

گوادر کا شہر اور بندر گاہ ’’ڈیپ سی پورٹ ‘‘ بحیرہ عرب پر خلیج فارس اور اومان کے نزدیک واقع ہے۔ اس کے مشرق میں ضلع لسبیلہ اور کراچی، مغرب میں ایران ہے، شمال میں آواران، تر بت ہیں، جنوب میں سمندر ہے، گوادر شہرکے تین اطراف میں سمندر ہے، یہ ایک ہتھوڑے کی طرح ہے جس پر دستے سے آگے ہتھوڑے کا حصہ کوہ باتیل نامی پہاڑ ہے، یہ پہاڑ یا پہاڑی پانچ یا سات سو فٹ بلند ہے اور اُ وپر کی سطح میدان کی طرح با لکل ہموار ہے، یہ تقریباً ایک کلومیٹر چوڑی اور تقریباً تین کلومیٹر لمبی ہے اور یہاں ہی ملک کی سب سے خوبصورت سنگہار ہاو سنگ اسکیم ہے جو1990 میں شروع کی گئی تھی۔

1998 کی مردم شماری کے مطابق ضلع گوادر کی کل آبادی 185498 تھی جو 2017 کی مردم شماری کے مطابق 263514 ہو گئی جس زمانے میں، میں یہاں تعینات تھا تو گوادر شہر کی آبادی ریکارڈ کے مطابق تو چالیس ہزار کے قریب تھی لیکن زیادہ تر مقامی لوگ مسقط ’’اومان‘‘ اور دبئی میں رہتے تھے اور کو ئی بیس ہزار افراد ہی شہر گوادر میں مستقل رہتے تھے، اب سنا ہے کہ اس شہر کی آبادی 80 ہزار سے کچھ زیادہ ہو چکی ہے،ڈسٹرکٹ میں آج بھی مقامی افراد کا سب سے بڑا روز گار ماہی گیری ہے، یہاں پچاس ہزار سے زیادہ افراد ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں جن کے پاس سات ہزار کے قریب کشتیاں ، لانچیں ہیں، یہاں ہوت،گچکی،کودا، میرز،کلمتی، دشتی اور رند بلوچ قبائل ہیں۔

گوادر بحیرہ عرب پر اہم اسٹرٹیجک پوزیشن پر واقع ہے۔ اس کے بالکل نزدیک ایرانی بلوچستان کی بندر گاہ چابہار واقع ہے، یہ بندر گاہ ویسے تو 1983 میں کھولی گئی مگر یہاں گذشتہ سات آٹھ سال سے بھارت نے گیارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے اس پورٹ کو افغانستان،بھارت اور ایران کی تجارت کے لیے گوادر کے مقابلے میں تعمیر کیا ہے اور مزید کام جاری ہے۔

گوادر ڈیپ سی پورٹ کے مقابلے میں ان کی کوشش بھی یہی ہے کہ پھر اسی روٹ سے آگے ایران سے ترکی، آذربائیجان اور افغانستان سے ترکمانستان، تاجکستان ،ازبکستان اور اس سے آگے روس پہنچا جائے، مگر یہ گوادر ڈیپ پورٹ کے مقابلے میں سب کے لیے کہیں زیادہ مہنگا سودا ہے، تجارتی، اقتصا دی اور مالیاتی اعتبار سے بھی اور دفاعی لحاظ سے بھی۔گوادر دنیا کی اُن چند بندرگاہو ں میں سے ہے جو قدرتی طور پر بہت گہری ہیں اور یہاں سمندر کے کنارے بندر گاہ کی برتھوں کے قریب تہہ سے با ر بار ریت ہٹا نے کی ضرورت نہیں پڑتی گوادر کی بندر گاہ پر ساحل کے ساتھ ہی چٹانی تہہ کے ساتھ سمندر بہت گہرا ہے۔

یوں یہاں بڑے سے بڑا بحری جہاز سمندر کے کنارے برتھوں ’’یعنی ٹرین کے پلیٹ فارم جیسی جگہ ‘‘ پر بہت سہولت سے کھڑا ہوتا ہے جہاں بڑی بڑی کرینیں نصب ہیں جو بڑے بڑے کنٹینروں کو اٹھا کر جہازوں میں رکھتی اور اتارتی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں گوادر کے قریب ایرانی بلو چستان کے ساحل پر قائم چابہار نامی بندر گاہ گوادر کی طرح قدرتی اور ڈیپ سی پورٹ نہیں ہے، یوں یہاں جہاز و ں پر سامان چڑھانے اور اتارنے کے لیے مشکلات ہیں اور کہیں زیادہ اخراجات ہیں۔ چابہار کی بندر گاہ پر ساحل یعنی سمندر کے کنارے پر بڑے جہاز نہیں آسکتے کہ سمندر یہاں گہرا نہیں ہے اس لیے یہاں سے کشتیاںاور چھوٹے جہاز دور گہرے سمندر میں ٹھہرے ہو ئے بڑے بحری جہازوں سے سامان اتارتے اور چڑھاتے ہیں اور ساحل پر لاتے اور لے جاتے ہیں۔

پھر یہاں سے افغانستان اندرون ایران اور سنٹرل ایشیا کے ممالک تک فاصلہ پاکستان اٖفغانستان ، ایران کے راستے کے مقابلے میں طویل ہے اور جہاں تک تعلق بھارت کا ہے تو خشکی سے بھارت کی سرحدیںایرا ن، افغانستان یا سنٹرل ایشیا سے نہیں ملتیں اور بحرہند میں اسے یہاں آنے کے لیے ممبئی سے بحیرہ عرب سے ہی آنا ہوتا ہے جو پھر ایک طویل مرحلہ ہے مگر بھارت،ایران،افغانستان اسٹرٹیجک اعتبار سے چابہار کو اہمیت دیتے ہیں لیکن اسٹرٹیجک لحاظ سے بھی گوادر چابہار کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر محل وقوع رکھتا ہے چونکہ ایران بھارت بھی افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے اور یہاں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اس لیے ایران میںجہاں شروع ہی سے شاہراہیں معیاری ہیں وہاں چابہار سے تہران شاہراہ بہتر ہے ۔

گوادر کے سامنے چند سوکلومیٹر یعنی چند گھنٹوں کی بحری مسافت اور صرف 45 منٹ کی فضائی مسافت کے بعد سلطنتِ اومان ’’مسقط‘‘ ہے اس کے ساحل کے سمندر کو خلیجِ اومان کہتے ہیں جو شروع ہی سے بہت اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جب 1492 میں اسپین سے کولمبس ہندوستان کا نیا بحری راستہ تلاش کرتے ہوئے امریکہ دریافت کر بیٹھا تو اسی زمانے میں پرتگال کا واسکو ڈی گاما راس امیدا کا چکر لگاتا ہوا ہندوستان پہنچا تو اس کے لیے مسقط اور گوادر اہم تھا۔ سلطنت اومان پر پرتگیزوں کا قبضہ 1507 سے 1650 تک یعنی 143سال تک رہا۔

اس دوران گوادر کے ساحل سے اسماعیل بلوچ اور بعد میں میر حمل ہوت اور کلمتی نامی بلوچ سردار کی جانب سے پرتگیزوں کے خلاف جنگ کی گئی۔ بلو چستان کے دانشور محقق پروفیسر عزیز بگٹی اپنی کتاب ’’ بلوچستان شخصیات کے آئینہ میں‘‘ لکھتے ہیں کہ میر حمل بلوچ ہوت قبیلے کا نوجوان سردار تھا جس نے ایک چھوٹا سا بحری بیڑا بنا کر پسنی، جیوانی اور گوادر کی بندر گاہوں کے قریب سولہویں صدی کے آغاز میں پرتگیزوں کے خلاف دفاعی جنگ لڑی۔ برصغیر میں ملک کے لیے دشمن سے سمندر میں لڑنے والی غالباً یہ واحد شخصیت تھی ۔

انگریزوں نے گزیٹیرر میں بھی ا س کا ذکر ایک پرتگالی مورخ Manuel de Faria Y Souza کے حوالے کے ساتھ کیا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ کی شخصیات کے بارے میں تو ہمارے نصا ب میں بہت کچھ شامل ہے مگر اس شہید کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں جس نے سمندر میں بحری بیڑا بنا کر باقاعدہ ایک مضبوط پرتگیزی بحریہ کا مقابلہ کیا۔ سمندر میں 1552 میں ترک خلافت کی فوجوں نے اومان کو پرتگیز وں سے آزاد کروایا۔

1737ء تک ترکوں کا قبضہ رہا اس کے بعد ایران کا اثر رہا مگر یہاں مقامی طور پر اومانی حکمران اب بااختیار تھے۔ 1783ء میں جب تاریخ کے اہم دور میں بلوچستان آزاد اور خودمختار تھا اور نصرالدین نوری یہاں کا حکمران تھا جس نے احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ اپنے لشکر کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کیا تھا اس کے اُس زمانے میں سلطنت اومان کے سا تھ اچھے تعلقات تھے۔ اُ س زمانے میں 1783 میں گوادر کا علاقے اومان کے حکمران سلطان تیمور کے پاس گیا اور گوادر میں اومانی گورنر کی تعیناتی شروع ہوئی۔

مسقط سلطنت اومان گوادراور دیگر علاقوںعرب امارات پر انیسو یں صدی سے انگریزوں کا غلبہ رہا۔ فرانس اٹھارویں صدی کے بالکل آخر میں نپولین کی کمانڈ میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ نپولین جلد ساری دنیا کو فتح کر لے گا۔ 1799 میں مصر میں خشکی پر لڑائی میں نپولین نے بحیثیت کمانڈر انگریزوں کو شکست دی مگر برطانیہ کی زبردست بحریہ نے اسے سمند ری جنگ میں شکست دی، یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اسی زمانے سے روس گوادر کے ساحل پر گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ دنیا میں رقبے کے لحاظ سے اس سب سے بڑے ملک کے پاس سارا سال موجیں مارتا سمندر نہیں۔ یوں 1801 میں روس کے بادشاہ زار پال نے نپولین کو پیغام دیا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے تو وہ یہاں سے یعنی سنٹرل ایشیا افغانستان بلوچستان سے ہوتا ہوا آگے بڑھے گا اور یوں ہندوستان کے علاقوں سے انگریز کے قبضے کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اس کا اشارہ یہی تھا کہ وہ یہاں گوادر کے ساحل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ پھر1807 میں نپولین کی زار سے ملاقات ہوئی اور ان کے درمیان ٹلسٹ کے معاہدے کے تحت دوستی کا پیمان بھی ہوا، مگر تاریخ میں قدرت کے فیصلے عجیب ہو تے ہیں، یہی نپولین جون 1812 میں روس پر حملہ آور ہوا، ستمبر میں نپولین نے ماسکو پر قبضہ کر لیا لیکن روسیوں نے شہر کو آگ لگا دی اور اپنے وسیع  ترین رقبے کے ملک میں پیچھے ہٹ گئے۔ اس جنگ کو روسی Patriotic War یعنی جنگِ حب الوطنی کہتے ہیں اور روسی فوج کی بجائے بھوک اور سردی سے فرانسیسی فوج شکست کھا گئی۔ نپولین کی 380000 فوج میں سے صرف 22 ہزارفوجی زندہ بچ سکے۔

ایران ’’چابہار‘‘ کے بعد جنوب مغرب میں خلیج فارس میں سامنے عرب امارات ہیں اور یہاں یہ سمندری آبی گزرگاہ بہت تنگ ہوتی ہے، یہ آبنائے ہرمز اور انگریزی میں ہرمز واٹر وے کہلاتی ہے۔ ایران اور عرب امارات کے درمیان گوادر کے قریب واقع اس آبی گذرگاہ میں اگر دو بحری آئل ٹینکر ڈبو دیئے جائیں تو مشرق وسطیٰ ، افریقہ سے فار ایسٹ تک تمام ممالک کے تیل کی سپلائی بند ہو جائے، جہاں ایران اور بھارت نے گوادر ڈیپ سی پورٹ کو اپنے مفادات کے زیادہ حق میں نہیں سمجھا بلکہ بھارت نے تو اس کا اعلانیہ اظہار بھی کیا اسی اعتبار سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ گوادر سے اقتصادی تجارتی لحاظ سے دوبئی ابوظہبی بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں اس لیے عرب امارات بھی شائد خوش نہیں کہ گوادر کی بندر گاہ فعال ہو، اس حوالے سے بہرحال کو ئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر اب علاقے میں صورتحال بدل رہی ہے لیکن عرب امارات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ 1971-72 تک عرب امارات کے معاملات کو برطانیہ دیکھا کرتا تھا پھر یہ خود مختاراورآزاد ہوگئیں۔

ابوظہبی جس کی آبادی 1678000 ہے، رقبہ 6734 مربع کلو میٹر ہے، یہ 2 دسمبر 1971 کو عرب امارات میں شامل ہوا، عجمان کی آبادی 258000 رقبہ 259 مربع کلو میٹر، دوبئی کی آبادی 252715 رقبہ 3885 مربع کلو میٹر، الفجیر کی آبادی 127000 رقبہ 1165مربع کلومیٹر، شارجہ کی آبادی 678000 رقبہ 2590 مربع کلومیٹر، اُم القوان آبادی 68000 رقبہ 777  مربع کلومیٹر جب کہ راس الخیمہ کی آبادی 205000 اور رقبہ 1684 مربع کلومیٹر ہے، یہ ریاست عرب امارات میں 10 فروری 1972 میں شامل ہو ئی۔ عرب امارات کے پہلے صدر شیخ زید سلطان بن النہیان ہوئے۔ یہ وہ دور ہے جب دسمبر1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور بھٹو پہلے صدر اور پھر وزیر اعظم ہو گئے تھے،اُس وقت مڈل ایسٹ میں لبنان کا بیروت جو پہلے یہاں کا پیرس کہلاتا تھا اس کی روشنیاں 1967 کی عرب اسرئیل جنگ اور پھر اس کے بعد 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بالکل ماند پڑگئیں۔ 1974ء لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اُس وقت اہم اقدامات کئے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عرب جہاں اسرائیل کے حمایتی ممالک خصوصاً امریکہ مغربی یورپ پر دباؤ پڑا تو ساتھ ہی عرب ملکوں اور نوآزاد عرب امارات کی آمدنیوں میں بھی بہت اضافہ ہوا اور اُس وقت خصوصا دوبئی، ابوظہبی اور دیگر ریا ستوں میںتیز رفتار تعمیر و ترقی ہوئی اور اس میں بھی پاکستا ن کا اہم کردار تھا پھر جہاں تک تعلق سلطنت اومان کا ہے تو 1920 میں برطانیہ اور سلطنت اومان کے درمیان معاہدہ Treaty of Seed طے ہوا جس میں سلطان کی اومان کے اندرونی معاملا ت میں خود مختاری کو تسلیم کرلیا گیا اور یہ صورتحال 1970 تک جاری رہی اور پھر بیرونی معاملات میں بھی سلطنت کو خودمختاری مل گئی۔

اسی سال سلطان کے خلاف مسلح بغاوت ہوئی جس کے بعد سلطان کے بیٹے اور ولی عہد سلطان قابوس اقتدار کے مالک ہوگئے، سلطنت اومان کی مالی حیثیت 1964 تک خستہ تھی اس کے بعد یہاں بہت سے مقامات سے اعلیٰ معیار کے تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہو ئے، لیکن اس سے چھ سال قبل 8 ستمبر 1958 میں پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے  اقتدار کے آخری دنوں میں سلطنت اومان سے گوادر کا علاقہ 3.3  ملین ڈالر میں خریدا گیا۔

واضح رہے یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رقم کا ایک بڑا حصہ پرنس کریم آغا خان نے ادا کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سودے کے وقت نواب اکبر خان بگٹی وزیر مملکت امور دفاع تھے اور بلو چستان سے تعلق تھا یوں اِن کا کردار بھی اہم تھا 1863 سے1879 تک گوادر میں ہندوستان کے گورنر جنرل کااسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ تعینات ہوا کرتا تھا اور ٹیلی گراف آفس قائم تھا، گوادر کی خرید کے موقع پر اومان کے سلطان نے خریداری کے معاہدے میں دو اہم نکات رکھے تھے، پہلا یہ کہ بلوچستان کے علاقے سے مسقط ،اومان کے لیے فوجیوں کی بھرتی جاری رہے گی یہی وجہ ہے کہ اومانی فوج میں بلوچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، دوسرے گوادر کے وسائل کو ترقی دی جائے گی ۔

گوادر کے مقامی افراد کی دو شہریتیں ہیں ان کے پاس پاکستانی شہر یت بھی ہے اور مسقط اومان کی شہریت بھی ہے۔  گوادر کی خریداری کے بعد اومان کی آبادی4424760 ہے اور رقبہ 309500 مربع کلو میٹر ہے۔  اگرچہ گوادر کی فروخت سے سلطنت اومان کا رقبہ کم ہوا مگر نہ صرف آبادی بڑھی ہے بلکہ اس آبادی کا بہت بڑا حصہ گوادر اور مکران کے بلوچوں کا ہے۔

گوادر کی خریداری کے تقریباً ایک مہینے بعد صدر جنرل ایوب خان اقتدار میں آئے، یہ اکتوبر1958 تھا جب جمہوریت رخصت ہو گئی۔ اس زمانے میں ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت اور افغانستان میں ظاہر شاہ بادشاہ تھے۔ البتہ سرد جنگ عروج پر تھی اور پاکستان امریکہ اور برطانیہ کا قریبی ساتھی اور اتحادی تھا جبکہ بھارت کی دوستی کیمو نسٹ چین اور سوویت یونین سے تھی۔ اب جہاں تک گوادر کا تعلق ہے تو اس کا تحقیقی بنیادوں پر سروے گوادر کی خریداری سے پہلے امریکہ نے کیا تھا،گوادر پر اگر اُس وقت بندر گاہ تعمیر کردی جاتی تو کراچی کی آبادی آج ڈھائی کروڑ نہ ہوتی اور اسی وقت سے پاکستان کو ایک متبادل بندرگاہ کی سہولت حاصل ہو جاتی لیکن شائد اُس وقت تک افغا نستان کی بفر زون اسٹیٹ کی حیثیت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی تمام ویٹو پاور قوتیں تسلیم کرتی تھیں۔

1801ء میں جب روس کے بادشاہ زار پال نے نپولین سے گوادر کی بندر گاہ کے لیے رابطہ کیا تھا تو ہندوستان کے تمام علاقوں پر اگرچہ برطانیہ کی حکومت نہیں تھی مگر برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت تھا اور نہ صرف ہندوستان میں وہ واحد نوآبایاتی قوت بن چکا تھا بلکہ دو بڑی نوآبادیاتی قوتوں پرتگال اور فرانس کو کئی محاذوں پر شکست دے چکا تھا، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ1801 کے بعد نئی اور انیسویں صدی جہاں اُس کی نوآبادیات کی وسعت کے ساتھ شروع ہوئی تھی وہاں اس صدی کے آخر سے اس کی نوآبادیات میں کبھی نہ ڈوبنے والا سورج دنیا کو اس نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے تاریخ کی بڑی تباہیوں و بربادیوں کی نوید دے رہا تھا۔

روس ساحل بلو چستان کے گرم پانیوں تک آنا چاہتا تھا اور برطانیہ اپنی سونے کی چڑیا کی حفا ظت کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ انگر یز کو تاریخ نے بتا دیا تھا کہ برصغیر میں زیادہ تر حملے سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں نے کئے اور ہندوستان کے مقامی حکمرانوں نے ان حملہ آوروں کو روکنے کی کو شش اپنے ملک کے میدانی علاقے پنجا ب کے پانی پت کے میدان میں کی اور عموماً ناکام رہے۔ 1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ میں انگریز نے یہ کوشش کی کہ وہ خود افغانستان کو فتح کر کے وہاں اپنی پہلی دفاعی لائن قائم کرے، یوں انگریز نے اُس وقت پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی مدد سے افغانستان کو فتح کر لیا۔

رنجیت سنگھ نے انگریزوں کی خاطر طورخم سے افغانستان پر حملہ تو کیا تھا مگر 22000 برطانو  ی انڈین فوج کو پنجاب سے گزرنے کی انگریزوں کی درخواست کو اپنی اسی فوجی مدد سے ٹال گیا تھا، اس لیے انگریزوں نے کراچی میں اپنی فوجوں کو ترتیب دینے کے بعد بلوچستان درہ بولان وادیِ کوئٹہ سے ہوتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان سے فارغ ہوتے ہی بلو چستان پر قبضہ کرلیا۔ رنجیت سنگھ کی فوجیں کابل کو انگریز کے حوالے کرنے کے بعد واپس ہو گئیں تو انگریز نے بھی چار سال بعد یہی کیا کہ بارہ ہزارفوج کوکابل میں چھوڑ کر باقی فوج کو واپس ہندوستان لے آیا اور پھر 1842 کے موسم سرما میں افغانیوں نے اس فوج کا مکمل خاتمہ کردیا اور صرف ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ بتا سکے کہ انگریزوں کی فوج کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔

اس کے ساتھ ہی روس جو پہلے واجبی طور پر سنٹرل ایشیا کی مسلم ریا ستوں پر حق حاکمیت رکھتا تھا اس نے تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان، ترکمنستان، آزر بائیجان وغیرہ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور افغانستان ازخود بلوچستان اور سنٹرل ایشیا کے درمیان بفراسٹیٹ بن گیا۔ 1878ء تک انگریز پنجاب بلوچستان سمیت پورے برصغیر پر اپنی حکومت مستحکم کر چکا تھا بلکہ 1857ء کی  جنگ آزادی کے بعد سے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے براہ راست تاجِ برطانیہ کی حکومت تھی، ریلوے لائنیںبچھائی گئیں تھیں، دفاع اور فوجی سپلائی کا موثر نظام ترتیب دیا جا چکا تھا اور 1878 میں تو کوئٹہ کا شہر بھی تعمیر کر کے یہاں بہت بڑی فوجی چھاؤنی بنادی گئی تھی۔ جب 1878ء میں دوسری برطانوی افغان جنگ ہوئی۔

اس جنگ میں برطانیہ نے یہاں اپنی حمایتی حکومت قائم کرکے افغان بادشاہت اور حکومت کو داخلی طور پر خود مختاری دی مگر ایک بڑی رقم سبسڈی کے طور پر دے کر امور خارجہ اور دفاع کو اپنے پاس رکھا، یوں اگرچہ افغان حکومت انگریزوں کی برتری کو قبول کر بیٹھی تھی مگر افغانستان میں برطانوی فوج نہیں تھی۔ یوں اُس وقت بھی افغانستان کی حیثیت بفر اسٹیٹ ہی کی تھی باوجود اس کے کہ ترکوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بہت دباؤ رہا مگر پہلی جنگ عظیم میں افغانستان بالکل غیر جانبدار رہا اس جنگ سے ایک سال قبل روس میں لینن اور اسٹالن کمیو نسٹ انقلاب لے آئے اور جنگ سے باہر نکل آئے تو اِسی وقت امریکہ بھی ترکوں اور جرمنی کے خلا ف اتحادیوں میںشامل ہو گیا۔ 1914 سے جاری جنگ عظیم اول 1918 میں ختم ہو گئی تو 1919 میں جب افغانستان میں غازی امان اللہ خان باشاہ تھے تو امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا خونی واقعہ پیش آیا اور اس کے چند دن بعد تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی جس میں انگریزوں  نے کابل پر بمباری بھی کی۔

اِس جنگ میں جزوی طور پر افغانستان کو فتح ہوئی اور اس کے بعد افغانستان کے بادشاہ غا زی امان اللہ نے انگریز وں کی سبسڈی کو مسترد کر کے افغانستان کی دفاعی اور خارجی پالیسیو ں کو آزاد کر وا لیا، اور افغانستان مختصر عرصے کے لیے سہی مگر مکمل غیرجانبدار،آزاد اور بفر اسٹیٹ رہا مگر یہ مدت بہت ہی کم رہی اور انگر یزوں نے سازش کے ذریعے غازی امان اللہ خان کو اقتدار سے بے دخل کروا کر دوبارہ افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ قائم کر لیا اس کی ایک بڑی وجہ سوویت یونین میں اشتراکی اور لادینی حکومت کا قیام بھی تھا۔

قیام پاکستان کے بعد اگرچہ بادشاہ ظاہر شاہ نے کافی حد تک افغانستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھا مگر پاکستان کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان سے اُن کے تنازعات رہے۔ یہ بھی اطلاعات تھیں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی سازش میں افغانستان ملوث تھا اور اُن کا قاتل سید اکبر افغانستان سے آیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تینوں پاک بھارت جنگوں میں افغانستان نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔

یوں ایک جانب عالمی معاملات میں افغانستان کبھی امریکہ کے ساتھ ہوتا اور کبھی روس کے ساتھ لیکن افغانستان کی سرزمین کے استعمال کے حوالے سے افغانستان دونوں طاقتوںکی منشا کے مطابق غیر جانبدار ہی رہا۔ یوں تیسری برطانوی افغان جنگ 1919ء کے بعد برطانیہ یا امریکہ نے بھی کبھی افغانستان کی سر زمین پر فوجیں اتارنے کی کوشش نہیں کی۔

افغانستان میں وزیراعظم سردار محمد داؤد نے جولائی 1973ء میں شاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا جنہوں نے اقتدار میں بطور صدر آتے ہی پختونستان کا پروپیگنڈا زیادہ شدت سے شروع کیا، جون 1976ء میں وزیر اعظم بھٹو نے افغانستان کا دورہ کیا اور جواباً صدر داؤد نے اگست 1976ء میں پاکستان کا دورہ کیا اس کے فوراً بعد پاکستا ن، ایران اور افغانستان میں بہت اہم اور تاریخی تبدیلیاں سامنے آئیں۔ 1977 میں مارشل لاء کے ساتھ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا، 1979 میں ایران میں انقلاب آ گیا اور امریکن پویس مین شہنشاہ ایران رخصت ہو گئے، اور پھر اسی سال 1979ء میں افغانستان میں روسی فوجیںداخل ہو گئیں۔

1941 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ روسی فوجیں کسی ملک میں داخل ہوئیں تھیں، اس کے بعد افغانستان میں خونی واقعات شروع ہو گئے اور افغان صدور نور محمد تراکئی، حفیظ اللہ امین اورببرک کارمل قتل ہوئے، 14 اپریل 1988 کو جنیوا میں چار طاقتی معاہدہ ہوا۔ افغانستان، پاکستان، روس اور امریکہ کے وزارء  نے دستخط کئے اور روسی فوجوں کی واپسی شروع ہو ئی۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا دیوار برلن ٹوٹ گئی۔ سوویت یونین بکھر گئی اور وارسا معاہدہ گروپ کے ممالک سے بھی اشتراکیت رخصت ہو گئی۔  امریکہ اور یورپی ممالک نے سوویت یونین کو افغانستان کے راستے گوادر تک پہنچنے کی یہ سزا دی ، لیکن اس کے بعد بھی افغانستان میں امن سکون نہیں آیا کہ اس ملک کی حیثیت  بفر اسٹیٹ کی نہیں رہی ہے، مگر اس دوران چین نے زیادہ تیز رفتاری سے اقتصادی، معاشی ترقی کی۔ نائن الیون گیارہ ستمبر 2001 کے واقعہ کے بعد جہاں امریکہ اور نیٹو ممالک نے افغانستان میں فوجیں پہنچا دیں۔

پاکستان میں اس سانحہ کے ایک سال بعد ہی گوادر ڈیپ سی منصوبے پر چین کے تعاون سے 20 مارچ 2002 میں کا م شروع ہوا، 2002 سے2007 تک 653 کلومیٹر کراچی تک کوسٹل ہائی وے تعمیر ہوئی، 820 کلومیٹر موٹروے براستہ گوادر،تربت ہوشاب ،آواران،خضدار، رتو ڈیرو تعمیر ہوئی ، 2003 میں گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی جس نے 2007 سے آئندہ طویل مدت کی تعمیرات کا پروگرام بنایا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 4300 ایکڑ یعنی 17 مربع کلومیٹر گرین کورڈ ایریا لیا ہے، جہاںسات ارب پچاس کروڑ روپے کی لا گت سے 6000 ایکڑ رقبے پر عالمی معیار کا ایک بڑا ائیرپورٹ تعمیر کیا جائے گا۔ اس وقت روس تو نہیں البتہ چین گوادر ڈیپ سی پورٹ پہنچ گیا ہے۔

1958 میں گوادر کی خریداری سے آج 2018 تک اب 60 سال ہو چکے ہیں، ڈیپ سی فعال لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں دنیا کی طاقیتں 219 سال اپنے مفادات کے لیے فکر مند رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ جس کے تحت بلوچستان کے عوام کو اس کا حقیقی فائد ہ حاصل ہو بلکہ دنیا کی بڑی قوتیں باہمی مفادات کے تحت سب کے فائدے کی سوچیں اور پنجہ آزمائی کی بجائے مصافحے کی کوئی مستقل صورت نکالیں۔

واضح رہے کہ گوا بلوچی کے دو الفاظ سے بنی ترکیب ہے،گوادر کے معنی ہوا کے ہیں اور، در،دروازے کو کہتے ہیں یہاں ساحل پر ہوا اکثر مقامات پر بہت تیزچلتی ہے اور ساحل پر جہاں جہاں پہاڑیاں ہیں ان کو مسلسل اور تیز چلنے والی ہوا نے کاٹ کر عجیب عجیب شکلیں دے دی ہیں جن میں سے ایک کو ’’پرنسس آف ہوپ‘‘ یعنی امید کی شہزادی کہا جاتا ہے۔ ہوا کی رگڑ نے پہاڑی ٹیلے کو تراش تراش کرایک خاتون کے مجسّمے میں تبدیل کرد یا ہے جس کا چہرہ سمندر کی جانب ہے۔ یہ بلوچستان جیسے پسماندہ اور غریب مگر وسائل سے مالا مال صوبے کے عوام کی امیدوں، تمناؤں اور آرزوں کی عکاس امید کی شہزادی صدیوں سے کھڑی امن، خوشحالی اور ترقی کی منتظر ہے جو یہاں رہنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور اطمینان بخش دے۔

The post ہوا کا دروازہ۔۔۔ گوادر۔۔۔ اور اُمید کی شہزادی appeared first on ایکسپریس اردو.


بھرے پیٹ کے بھوکے بچے

$
0
0

پستہ قد، دبلے پتلے،کم وزن اور سست بچے۔ یہ ہے تصویر ہمارے مستقبل کی۔ بات ذرا تلخ ہے لیکن ہے حقیقت ۔ کیونکہ ہم جو کچھ اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں اس سے ان کے پیٹ تو شاید بھر رہے ہوں لیکن ان کے جسم اچھی غذائیت کے بھوکے ہیں۔

اس بھوک کو ماہرین مخفی بھوک (Hidden Hunger) کا نام دیتے ہیں ۔ یعنی خوراک میں غذائی اجزاء کا عدم توازن جو ناصرف بچوں کی جسمانی و دماغی صحت اور نشوونما کو متاثر کرتا ہے بلکہ خواتین خصوصاً حاملہ اور دودھ پلانے والی مائوں کی غذائی (Nutritional) ضروریات کو بھی پورا نہیں کرتا۔ نتیجتاً ہماری بنیاد (بچے ) اور اُن کی معمار (مائیں) دونوں کی اکثریت کمزور صحت کا شکار ہے۔

مخفی بھوک (Hidden Hunger) دراصل قلیل مغزی کمی (Micronutrient deficiency) کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے جسم کو اگرچہ ان مائیکرو نیوٹرینٹس کی تواتر کے ساتھ بہت تھوڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ غذائی اجزا دراصل ایک جادو کی چھڑی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ مختلف خامرے(enzymes) ، ہارمونز اور دیگر ایسے اجزاء بنائے جو مناسب صحت اور نشوونما کے لئے ضروری ہیں۔ حمل کے پہلے دن سے لے کر بچے کی دوسری سالگرہ تک کے تقریباً 1000 دن غذائیت اور جسمانی و دماغی نشوونما کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔ اگر ان ایک ہزار دنوں میں حاملہ اور بچے کو متوازن اور غذائیت بخش خوراک ملے تو بچوں کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما بھی بھرپور ہوتی ہے اور بچے بیماری کا بھی کم شکار ہوتے ہیں ۔

ان ہزار دنوں میںمائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی یا غیر موجودگی کے مضر اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ ان ہزار دنوں میں صحیح متوازن غذا سے ہم ہر سال دس لاکھ جانیں بچا سکتے ہیں اور بڑی حد تک بیماریوں سے بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر پیدا ہونے والے بچے کا یہ حق ہے کہ جب وہ پیدا ہو تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل صحت مند ہو ۔ اْسے پیدائش کے فوراً بعد سے دوسال تک ماں کا دودھ میسر ہو ۔ حفاظتی ٹیکے بروقت لگوائے جائیں۔ کھیلنے اور سیکھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں ۔ معیاری اور مکمل تعلیم فراہم کی جائے ۔ اْسے تحفظ دیا جائے۔ ان تمام حقوق کی ادائیگی مشروط ہے زچہ اور بچہ کو متوازن خوراک کی فراہمی سے۔ کیونکہ غذائی قلت، قلیل مغزی یا مخفی بھوک بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر مبنی معیارِ زندگی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ان قلیل مغزی (Micronutrients) میںآیوڈین، حیاتین الف (Vitamin A)، فولاد (Iron) جست (Zinc) اور حیاتین د (Vitamin D) دنیا بھر میں عوامی صحت کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ماہرین کے مطابق آیوڈین کی کمی نئے پیدا ہونے والے بچوں کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو کم کر دیتی ہے اور گھینگا یعنی گلے کی غدود ( Thyroid)کے بڑھنے کا باعث بنتی ہے ۔ اسی طرح فولاد کی کمی سے خون، سیکھنے اور جاننے کی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ حمل اور زچگی کے دوران زچہ کی اموات کے خطرے میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔

اس کے علاوہ قبل از وقت پیدائش یعنی پری میچور ڈلیوری کی وجہ بنتی ہے۔ انسانی جسم میں توانائی اور طاقت کی کمی کا باعث بنتی ہے جس کا نتیجہ سستی اور تھکاوٹ کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ جبکہ وٹامن اے کی کمی بینائی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ کمی اندھے پن کا باعث بنتی ہے۔ کئی طرح کی شدید بیماریوں کا شکار ہونے کی وجہ بنتی ہے۔ اور اسکول جانے کی عمر سے قبل کے بچوں میں عام طور پر دست، اسہال اور خسرہ جیسی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے۔ حاملہ خواتین میں رات کا اندھا پن اور اموات کے خطرے میں اضافہ کر دیتی ہے۔

علاوہ ازیں زنک کی کمی کی وجہ سے انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس تشنگی کی وجہ سے عمر کے حساب سے قد نہیں بڑھتا۔ اور تواتر کے ساتھ مختلف انفیکشنز کا شکار ہونا اس کا ایک نمایاں خراج ہے۔ اسی طرح وٹامن ڈی کی کمی کا تعلق بچوں اور بالغوں میں کئی طرح کی بیماریوں کے لاحق ہونے سے پایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا وٹامن ہے جو ہمارے جسم کے درست طور پر کام کرنے کے لئے جسم کے ہر خلیے کو درکار ہوتا ہے۔

غذا سے حاصل ہونے والے کیلشیم کو جذب کرنے کے لئے وٹامن ڈی کی سطح کا نارمل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ کیلشیم دانتوں اور ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لئے عین لازمی ہے اور یہ نظام عصبی کے لئے بھی اہم ہے۔ جسم کے مدافعتی نظام کے درست طور پر کام کرنے کے لئے وٹامن ڈی کا مناسب مقدار میں ہونا اہم ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح ماں کے برابر ہوتی ہے۔ لہذا اگر دوران حمل ماں کے جسم میں وٹامن ڈی کم رہا ہو تو اس کا بچہ بھی وٹامن ڈی کی کمی لئے پیدا ہوگا۔ وٹامن ڈی کی شدید کمی کا شکار بچوں کو سوکھے پن کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے ۔ چونکہ ہڈیاں نارمل طریقے سے نہیں بن پاتیں بچے کا قد چھوٹا اور ٹانگیں مڑی ہو سکتی ہیں۔ بعض دفعہ خون میں کیلشیم کی سطح بہت کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بچے کو دورے پڑسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی زیادہ کمی کی صورت میں بچوں اور بڑوں دونوں میں پٹھوں کی کمزوری اور دکھن واقع ہو سکتی ہے۔

مخفی بھوک (Hidden Hunger) یعنی مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی کے اثرات بچپن سے لڑکپن اور نوجوانی سے بڑھاپے تک انسان کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ یہ پیدائش کے وقت بچوں کی کم وزنی کا باعث بنتی ہے۔ شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ کا موجب ٹھہرتی ہے۔ یہ چھوٹے بچوں کی دماغی نشوونما کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ بڑے بچوںکا قد ان کی عمر کے اعتبار سے نہیں بڑھتا اور ان کی دماغی صلاحیتوں میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ تواتر سے انفیکشن کا شکار رہتے ہیں۔ جلدی تھک جاتے ہیں۔ سیکھنے کی صلاحیتوں میںدشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ اور شرح اموات میں اضافہ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ نوبالغوں کے قد ان کی عمر کے حساب سے کم رہ جاتا ہے۔ دماغی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔

تھکاوٹ اور سستی کا شکار رہتے ہیں۔ کھیل کود میں زیادہ حصہ نہیں لے پاتے۔ انفیکشنز میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار رہتے ہیں۔ ناقص غذائیت کی وجہ سے ہمہ وقت بیماریوں میں گھرے رہنے والے بالغوں کی معاشی پیداواری صلاحیتیں متا ثر ہوتی ہیں جو ان کی کمزور معاشی اور سماجی حیثیت کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ حاملہ خواتین کی اموات کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یا وہ مختلف پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔ بڑھاپے میں ہڈیوں کا بھر بھرا پن اور دماغی و جسمانی کمزوری ان مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی کا شاخسانہ ہے۔

اس کے علاوہ بزرگی کے ایام میں قلیل مغزی کمی کی وجہ سے پہلے سے کمزور مدافعتی نظام کمزور تر ہو جاتا ہے جو شرح اموات میں اضافہ کا محرک بنتا ہے۔ غرض یہ مخفی بھوک انسانی صحت پر اپنے منفی اثرات ڈالنے کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کمی ایف اے او کے مطابق دنیا کو ہر سال 1.4سے2.1 ٹریلین ڈالر سالانہ معاشی پیداواری نقصان پہنچانے کا محرک بنتی ہے۔ کیونکہ یہ دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔

قلیل مغزی کمی (Micronutrient deficiency)کی وجہ سے پیدائش کے وقت بچے کم وزنی کا شکار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اُن کی مائیں قبل از حمل خصوصاً دورانِ حمل ایسی خوراک کا استعمال نہیں کرتیں یا اُن کو ایسی خوراک نہیں دی جاتی جو اُن کی غذائی ضروریات کو پورا کرے۔ تاکہ اُن کے شکم میں پلنے والے وجود کی مکمل نشوو نما ہوسکے۔ لہذا خواتین جو پہلے ہی خون کی کمی کا شکار ہو تی ہیں۔ حمل کے دوران خون کی مزید کمی میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

اس حوالے سے ورلڈ بینک کے اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی 51.3 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کی گرفت میں ہیں اور یہ دنیا بھر میں 22 ویں سب سے زیادہ شرح ہے جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن، کمزور اور مختلف بیماریوں کے حصار میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی مائوںکے ہاں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

پاکستان کے تناظر میں اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ عالمی ادارہ اطفال کے ان اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے جن کے مطابق ملک میں پیدا ہونے والے 32 فیصد بچوں کا وزن پیدائش کے وقت اڑھائی کلو گرام سے کم ہوتا ہے۔ یعنی وہ کم وزنی کا شکار ہوتے ہیں ۔اور یہ دنیا بھر میں دوسری سب سے زیادہ تشویشناک شرح ہے۔ جبکہ 28 دن کی عمر سے کم کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات (Neonatal mortality rate ) 46 فی ہزار ہے جو دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ سنگین شرح ہے۔

ایک تو پہلے ہی خون کی کمی اور اُس پر دورانِ حمل اور بعد از حمل متوازن غذائیت کی حامل خوراک کا فقدان مائوں کی اکثریت کو اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ بچے کو پیدائش کے فوراً بعد اور بعد ازاں چھ ماہ تک اُسے صرف اور صرف اپنا دودھ ہی پلا سکیں۔ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2017 اس حوالے سے ملکی صورتحال کو یوں واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ماں کے دودھ پلانے کی شرح صرف 18 فیصد ہے جو دنیا بھر میں پانچویں سب سے کم تر شرح ہے۔

اسی طرح چھ ماہ تک بچے کو صرف اور صرف ماںکے دودھ پلانے کی شرح 37.7  فیصد اور دو سال کی عمر تک بچے کو ماں کا دودھ دینے کا تناسب 56.1 فیصد ہے۔ ماں کا دودھ نوزائیدہ بچوں کی صحت مند نشوو نما کے لیے بہترین اور مکمل غذا ہے۔ اس میں وہ تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار اور تناسب سے موجود ہوتے ہیں جو بچے کی جسمانی اور دماغی نشوونما کے لئے درکار ہیں۔ ماں کا دودھ بچے کو مختلف بیماریوں اور الرجی سے محفوظ رکھتا ہے اور اس میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ یوں اس نعمت خداوندی سے محرومی بچوں کی جسمانی اور دماغی نشوونما کو متاثرکرنے کے علاوہ ان کی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت کو کم کر دیتی ہے جس سے اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور سونے پہ سہاگہ بچوںکو ماں کے دودھ کے علاوہ دی جانے والی زیادہ ترخوارک مائیکرو نیوٹرینٹس سے مبرا ہوتی ہے جو صورتحال کو زیادہ سنگین بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات (Infant mortality rate ) 64 فی ہزار کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں11 ویں نمبر پر ہے۔

جبکہ ملک میں ہر سال 4 لاکھ 24 ہزار بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی اس دارِفانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور بچوں کی اموات کی یہ دنیا بھر میں تیسری بڑی تعداد ہے۔ اگر ہم ملک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات (Under-5 mortality rate ) کا جائزہ لیں تو یہ 79 فی ہزار ہے جو دنیا بھر میں 20 ویں سب سے زیادہ شرح ہے۔ اسی طرح عالمی ادارہ خوراک یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 77 ہزار بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف اُن میں یا اُن کی مائوں کی ناقص غذائیت ہوتی ہے۔ جبکہ ملک میں سالانہ بچوںکے دست، اسہال اور سانس کے انفیکشن کے90 ملین کیسز ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ بچوں کو ماں کو دودھ پلانے کی کم شرح اور زنک کی کمی ہے۔

قلیل مغزی کمی (Micronutrient deficiency)کا شکار بچے نہ صرف جسمانی لحاظ سے پست رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا دماغ جاننے اور سیکھنے کی مکمل صلاحیت حاصل نہیں کر پاتا۔ اس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہیں خصوصاً اسکول میں سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ یوں دوسرے صحت مند بچوں کی نسبت ایسے بچے ترقی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کمزور مدافعتی نظام کے حامل ہوتے ہیں۔آسانی سے بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان میں مزید غذائی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

اور جب یہ صورتحال شدید ہو تو موت کے امکان کے زیادہ شکار رہتے ہیں ۔ یا جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو کم کماتے ہیں اور سماجی میل ملاپ میں رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے تازہ ترین اعدادوشمار ملکی بچوں کی غذائی صحت کا جو منظر نامہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ بہت تو جہ طلب ہے۔ کیونکہ اس وقت ہمارے 38 فیصد بچے جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے اپنی عمر کے اعتبار سے پستہ قد (Stunting) ہیں ۔ یعنی ایک تہائی یا یوں کہیں کہ ہر تین میں سے ایک بچہ۔ اسی طرح 7 فیصد بچے جن کی عمر 5 سال سے کم ہے ان کا وزن اپنے قد کے حوالے سے کم (Wasting) ہے۔ جبکہ اسی ایج گروپ کے حامل 23 فیصد یعنی ایک چوتھائی بچے اپنی عمر کے حساب سے کم وزنی (Underweight) کا شکار ہیں۔

بچوں کی اس غذائی صحت (Nutritional Health) کی صورتحال کے پس منظرمیں موجود بہت سے محرکات میں سے ایک بنیادی محرک مائوں اور بچوں کے استعمال میں آنے والی خوراک میں ما ئیکرو نیوٹرینٹس کا عدم توازن ہے جس کی عکاسی 2011 میں ہونے والے قومی غذائیت سروے کے اعدادوشمار یوںکر رہے ہیں کہ ملک کی 37 فیصد حاملہ اور26.8 فیصد غیر حاملہ خواتین فولاد کی کمی کا شکار ہیں۔ جبکہ46 فیصد حاملہ اور42.1 فیصد غیر حاملہ خواتین وٹامن اے کی کمی میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح47.6 فیصد اور41.3 فیصد حاملہ اور غیر حاملہ خواتین زنک اور68.9 فیصد اور 66.8 فیصد بالترتیب وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں 51 فیصد حاملہ اور 50.4 فیصد غیر حاملہ خواتین خون کی کمی میں گرفتار ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں میں ما ئیکرو نیوٹرینٹس کی کمی کے حوالے سے اعدادوشمار بھی کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ سروے کے مطابق پاکستان کے پانچ سال سے کم عمر کے 61.9 فیصد بچے خون کی کمی کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ خون کی کمی کا شکار بچوں کا تعلق سندھ سے ہے جہاں72.5 فیصد خون کی کمی میں مبتلا ہیں۔ 60.3 فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے، 56.8 فیصد کے ساتھ بلوچستان تیسرے، 47.3 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا چوتھے اور 46 فیصد کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پانچویں نمبر پر ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان میں یہ شرح 41 فیصد ہے۔ فولاد (آئرن) کی کمی کے حوالے سے سروے جو حقائق بتاتا ہے اُس کے مطابق ملک کے43.8 فیصد بچوں میں اس کی کمی ہے۔ پنجاب 48.6 فیصد کی شرح کے ساتھ ملک بھر میں سرفہرست ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کے43.5 ، سندھ کے 40.6 ، گلگت بلتستان کے36.2 ، بلوچستان کے32.5 فیصد اور خیبر پختونخوا کے26.4 فیصد بچے فولاد کی کمی کا شکار ہیں ۔ وٹامن اے کی زیادہ اور درمیانے درجہ کی کمی کے حامل بچوں کا تناسب ملکی سطح پر 54 فیصد ہے۔ بلوچستان کے73.5 فیصد، گلگت بلتستان کے71.8 فیصد، خیبر پختونخوا کے68.5 فیصد، سندھ کے53.3، پنجاب کے51 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر کے 43.8 فیصد بچوں میں وٹامن اے کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے پانچ سال سے کم عمر بچوں کا 39.2 فیصد زنک کی کمی کے حصار میں ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کے47.2 فیصد، خیبر پختونخوا کے 45.4، بلوچستان کے39.5 ، سندھ کے 38.6 ، پنجاب کے38.4 اورگلگت بلتستان کے32.6 فیصد بچے زنک کی کمی کا شکار ہیں۔ وٹامن ڈی کی زیادہ اور درمیانے درجہ کی کمی بھی پریشان کن صورتحال لئے ہوئے ہے۔ قومی غذائیت سروے کے مطابق ملک کے 58.1 فیصد بچے اس کمی کے زیر اثر ہیں۔ گلگت بلتستان میں صورتحال پورے ملک میں سب سے زیادہ سنگین ہے جہاں 68.9 فیصد بچے اس حیاتین کی کمی رکھتے ہیں۔آزاد جموں و کشمیر کے65.8 فیصد، پنجاب کے58.2 ، سندھ کے 58 فیصد ، بلوچستان کے57.9 فیصد اور خیبر پختونخوا کے54.4 فیصد بچے وٹامن ڈی کی کمی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

کم غذائیت والی خوراک، غربت،خوراک کی تیاری اوراس کو محفوظ کرنے کے غیر موزوں طریقے، کھانے کے اطوار،انسانی بیماریاں، جسم کی وٹامنز (حیاتین) اور منرلز (نمکیات)کو جذب کرنے کی کم صلاحیت ، زند گی کے مخصوص مراحل جیسا کے خواتین کو دورانِ حمل اور دودھ پلانے کے ایام میں اور شیر خوار بچوں کو قلیل مغزی کی زیادہ ضرورت ۔ یہ وہ محرکات ہیںجومخفی بھوک کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری روزمرہ کی بنیادی خوراک جو کہ مکئی، گندم یا چاول پر مبنی ہے۔ لوگوں کو توانائی تو فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ضروری وٹامنز اور منرلز کی انسانی جسم کو درکار مقدار کے مقابلے میں کم مقداردے پاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ مخفی بھوک کا شکار ہوتے ہیں۔ لوگ کیا کھاتے ہیں اس پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً غربت ، قیمتیں، والدین کا دبائو، کلچر کی ترجیحات، زمینی، ماحولیاتی اور موسمی عوامل وغیرہ ۔ یہ سب وجوہات یا ان میں سے چند ایک۔ لوگوں کے کھانے کی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔

مخفی بھوک کا شکار یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ متوازن اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی کیا اہمیت ہے۔ کیونکہ ان میںاکثر معاشی طور پر اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ غذائیت کی حامل خوارک ان کی دسترس میں ہو ۔ خاص کر جانوروں سے حاصل خوراک( گوشت، انڈے ، مچھلی اور ڈیری) پھل اور سبزیاں وغیرہ ۔ اس کے علاوہ جب خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے تو صارفین کی اکثریت بنیادی خوراک کا استعمال شروع کر دیتی ہے۔ اور وہ ایسی خوراک کا استعمال کم کر دیتے ہیں جو غذائیت کی حامل ہو۔ پاکستان کے تناظر میں اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کے68 فیصد گھرانے اتنی معاشی سکت ہی نہیں رکھتے کہ وہ غذائیت کے اعتبار سے موزوں خوراک کھا سکیں۔

اور پانچ فیصد گھرانے تو انسانی جسم کو درکار توانائی کی کم سے کم مقدار کے حامل کھانے کی بھی دسترس نہیں رکھتے۔ نومبر2017 میں عالمی ادارہ خوراک کی جاری شدہ رپورٹ ’’ فِل دی نیوٹرینٹ گیپ پاکستان‘‘ کے یہ اعداد وشمار یقیناً تشویشناک حالات کی عکاسی کر رہے ہیں۔ لیکن صوبائی سطح پر تو یہ صورتحال مزید دوچند ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے تو 80 فیصد گھرانے ہی متوزن غذائیت کی حامل خوراک کی خریداری کی طاقت نہیں رکھتے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کے 67 فیصد فی کس، پنجاب کے 60 اور اسلام آباد کے32 فیصد گھرانوں کی پہنچ سے غذائیت بھری خوراک باہر ہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارے صرف 3 فیصد ایک سال تک کی عمر کے بچے (Infants) اور بڑے بچے (Young Children) موزوں اور غذائی تنوع (Diverse Diet ) کی حامل خوراک لیتے ہیں ۔

جن معاشروں میں مخفی بھوک اپنے قدم جما لیتی ہے۔ وہاں یہ لوگوں کو معاشرے کا کار آمد شہری بننے نہیںدیتی۔ یہ ممالک کو ناقص غذائیت (Malnutrition) کمزور صحت اور پیداوار کی کمی میں جکڑ لیتی ہے جس سے غربت میں اضافہ اور معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ اور افراد اپنی معاشی صلاحیتوں کا ادراک ہی نہیں کر پاتے۔ پاکستان کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ سکیلنگ اَپ نیوٹریشن (سن)، وزارتِ منصوبہ بندی و اصلاحات حکومتِ پاکستان اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق ملک کو ناقص غذائیت کے باعث ہر سال 7.6 ارب ڈالر یعنی ملک کی 3 فیصد جی ڈی پی کے برابر نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ نقصان پیداوار میں کمی، صحت پر آنے والے اخراجات اور کام کرنے والوں کی کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ یوں اس تمام تر صورتحال کے ساتھ پاکستان گلوبل ہیڈن ہنگر انڈیکس میں 63 ویں نمبر پر ہے( یہ انڈکس امریکہ کی پبلک لائبریری آف سائنس کے سائنٹیفک ریسرچ جرنل میں چھپنے والے تحقیقی مقالہ ’’ دی گلوبل ہیڈن ہنگر انڈیسیز اینڈ میپس: این ایڈوکیسی ٹول فار ایکشن‘‘ میں دنیا کے 149ممالک کے اعدادوشمار کی مدد سے تیار کیا گیا ہے) ۔

ناقص غذائیت کثیر الجہت پہلوئوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اسے کثیر الجہت پہلوئوں کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ مثلاً حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو موزوں غذاء کی فراہمی، زندگی کے پہلے دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلانے کا خصوصی اہتمام، بچپن میں متوازن اور متنوع خوراک کی فراہمی، حفاظتی ٹیکے، صحت مندانہ ماحول (جس میں بنیادی صحت، صاف پانی، صفائی ستھرائی اور موزوں سینی ٹیشن کی سہولیات کی د ستیابی شامل ہے ) اس کے ساتھ ساتھ کھیل کود کے مواقعوں کی فراہمی اور ان سب کے ہمرا ہ غذائیت کے بحران میں کمی کے لئے اہداف کا تعین وغیرہ۔ یہ وہ مختلف جہتیں ہیں جس پر کام کر کے ناقص غذائیت کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ذکر ہوا غذائیت کے بحران پر قابو پانے کے اہداف کا تو عالمی ادارہ صحت نے 2025 تک ماں اور بچہ کی غذائیت کے حوالے سے جن گلوبل ٹارگٹس کا تعین کیا ہے اُس کے مطابق عمر کے حساب سے پستہ قد بچوں کی تعداد میں 40 فیصد کمی کرنا ۔ تولیدی عمر کی حامل خواتین میں خون کی کمی میں50 فیصد کمی۔ پیدائش کے وقت کم وزن بچوں میں30 فیصد کمی، زائد وزن بچوں کی شرح میں اضافہ نہ ہونے دینا، بچے کو شروع کے چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانے کی شرح کو50 فیصد تک لانا اور قد کے حوالے سے وزن میں کمی کا شکار بچوں کی شرح کو 5 فیصد سے کم کر کے برقرار رکھنا شامل ہیں۔ جبکہ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے گولز کا ٹارگٹ نمبر2 جو بھوک کے خاتمہ سے متعلق ہے۔اور اس کا ٹارگٹ 2.2 ہر طرح کی ناقص غذائیت کے خاتمے اور2025 تک غذائیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ٹارگٹ کے حصول کے بارے میں ہے۔ پاکستان نے اس ٹارگٹ یعنی 2.2 کے لئے اپنے جو اہداف مقرر کئے ہیں۔

ان کیمطابق عمر کے حساب سے قد کی کمی کا شکار بچوں کی شرح کا 21.9 فیصد تک لاناجبکہ بچوں میں قد کے اعتبار سے وزن میں کمی کی شرح کو7.5 فیصد اور کم وزن بچوں کے تناسب کو کم کر کے10 فیصد تک لانا شامل ہے۔ غذائیت کا شعبہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں نمایاں اہمیت کاحامل ہے اور یہ ایس ڈی جیز کے تما م 17 اہداف سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک ہے ۔ کیونکہ کہیں غذائیت میں بہتری پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا باعث بنتی ہے تو کہیں پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول غذائیت میں بہتری کا پیش خیمہ بن رہے ہیں یعنی یہ دونوں باہم منحصر ہیں۔

دنیا بھر خصوصاً ترقی پذیر ممالک روایتی خوراک سے پراسس فوڈ کی جانب بڑھ رہے ہیں جو توانائی سے بھرپور اور قلیل مغزی(مائیکرو نیوٹرینٹس) سے عاری خوراک اور ڈرنکس ہیں۔ یہ غذائی ارتقاء (Nutrition Transition) بہت سے ممالک پر ناقص غذائیت کے تہرے بوجھ کا باعث بن رہا ہے یعنی غذائی کمی، قلیل مغزی کی کمی اور موٹاپا۔ اس صورتحال کی شدت کو کم کرنے کے لئے ماہرین اُیسے طریقوں پر کام کر رہے ہیں۔ جن سے مخفی بھوک کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔

اس حوالے سے چار بنیادی طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اول متنوع خوراک(Diversifying Diets) ۔ متنوع خوراک کی اہمیت کو موثر طریقوں سے اجاگر کرنے کے لئے خوراک کی بنیاد بننے والی حکمت عملیوں (جیسا کہ گھریلو کاشت کاری، شیر خوار اور بڑے بچوں کو بہتر طریقے سے خوراک کھلانے اور خوراک کی تیاری اور اسے محفوظ کرنا تا کہ غذائیت کو قائم رکھا جاسکے) کے بارے میں لوگوں کو شعور دینا۔ دوم، تجارتی خوراک میں غذائی اجزاء کی شمولیت (Fortifing Commercial Foods) ۔ بنیادی خوراک کی پروسیسنگ کے دوران اس میں قلیل مغزی اجزاء کو شامل کرنا جس سے صارف کو تجویز شدہ مائیکرو نیوٹرینٹس کی مقدار حاصل ہوتی ہے۔

فورٹیفیکیشن کی کئی مثالیں ہیں جن میں آیوڈین ملا نمک ۔ فولاد اور زنک ملا آٹا، خوردنی تیل اور چینی میں وٹامن اے کی شمولیت وغیرہ ہے۔ سوم، بائیو فورٹیفیکیشن ۔ یہ ایک نئی اختراع ہے جس میں روایتی فصلوں میں روایتی یا جینیاتی طور پر مائیکرو نیوٹرینٹس کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ چہارم ، سپلیمنٹ ، اس کی واضح مثال ہمارے ہاں وٹامن اے کے قطرے ہیں جو بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے علاوہ اضافی طور پر بطور سپلیمنٹ دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کی بینائی متاثر نہ ہو ۔

غذائی کمی کی اگرچہ ایک بڑی وجہ غربت ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ عام آدمی کی غذا اور غذائیت کے بارے میں لاعلمی بھی ہے۔ اکثر افراد کو یہ علم نہیں کہ صحیح اور متوازن غذا کیا ہوتی ہے، کون کون سی غذا ہمیں کیا غذائی اجزاء مہیا کرتی ہے۔ غذائی کمی کو دور کرنے کے لیے کونسی اور کتنی خوراک لینی چاہیے اور کس طرح کی چیزوں سے ہمیں پرہیز کرنے چاہیے۔

اس لاعلمی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی روایات رواج پا گئی ہیں جو اس غذائی کمی کی وبا ء کو پھیلنے میں مدد دے رہی ہیں۔ بچوںکو ماں کا دودھ نہ دینا اور ڈبے کے دودھ کے استعمال کا بڑھتا ہوا فیشن، 6 ماہ کی عمر سے بچوں کو اضافی خوراک نہ دینا یا مناسب مقدار یا اجزاء کے مطابق نہ دینا، چپس، سلانٹی، کولڈ ڈرنک، انرجی ڈرنکس، بیکری کی چیزیں برگر، شوارمہ اور پیزہ کا بڑھتا ہوا استعمال ، حاملہ کی مناسب خوراک کے بارے میں لاعلمی ، سرد اور گرم خوراک کا تصور ، بچوں کو بر وقت حفاظتی ٹیکے نہ لگوانا ۔ غرض ایک طویل فہرست ہے ہم انفرادیوں کی لاپرواہیوں کی ۔ ڈاکٹر رمیزہ کلیم جو کہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ پریونٹیو پیڈزکی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں اُن کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو غذا اور غذائیت کے بارے میں مفید معلومات فراہم کی جائیں اور ان میں اپنی صحت کا خود خیال رکھنے کا شعور بیدار کیا جائے۔

اس تناظر میں سب سے پہلا کام جو کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ ماں بچے کو دو سال تک اپنا دودھ پلائے۔ دو سال کی عمر تک ماں کا دودھ پلانے سے بچے کی نشوونما بہتر ہوتی ہے اور وہ صحت مند اور مضبوط ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ غذا، تحفظ اور صحت کی ابتدا ہے۔ اس میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جو بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ ماں کے دودھ کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ اشرف المخلوقات کے لیے خد اکاخاص تحفہ ہے۔ یہ قدرت کا ہیلتھ پلان ہے جو انسان کو نہ صرف بچپن بلکہ لڑکپن، جوانی اوربڑھاپے کی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔ دودھ پلانے والی مائوں میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہمیں یہ شعور اور رہنمائی عام کرنے کی ضرورت ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد سے ایک گھنٹے کے اندر اندر بچے کو ماں کا دودھ شروع کروا دیا جائے۔

پیدائش کے ابتدائی گھنٹے میں بچہ زیادہ چست اور ہوشیار ہوتا ہے اور آسانی سے ماں کا دودھ لے سکتا ہے۔ بچے کے چوسنے کے عمل سے دودھ زیادہ بنتا ہے۔ ماں کا پہلا دودھ (کلوسٹرم) لحمیات، حیاتین اور مدافعتی اجزاء سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے۔ یہ بچے کا پہلا حفاظتی ٹیکہ ہے جو بچے کو مختلف بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اسے لازماً بچے کو دینا چاہئے۔ ماں کا دودھ شروع کروانے سے پہلے کسی قسم کی خوراک، گھٹی نہ دی جائے۔ اور چھ ماہ کی عمر تک بچوں کو صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے۔

اس کے علاوہ کوئی بھی مائع یا ٹھوس چیز قطعاً نہ دی جائے حتی کہ پانی بھی نہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پانی بچے کے لیے ضروری ہے خاص کر گرمیوں میں، مگر یہ بالکل ضروری نہیں کیونکہ ماں کے دودھ میں 87% پانی ہوتا ہے جو اسکی پانی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔اکثر مائیں صرف اس تصورسے کہ ان کا دودھ بچے کے لیے کافی نہیں ہے اوپری دودھ دینا شروع کر دیتی ہیں اوپری دودھ (جانور یا ڈبے کا) بالکل نہ دیا جائے کیونکہ ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اگر دوسرا دودھ شروع کروا دیا جائے تو بچہ الجھائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اوپری دودھ کے بعد بچہ ماں کا دودھ کم پیئے گا جس سے ماں کا دودھ اور کم ہو جائے گا۔ اوپری دودھ میں پانی کی ملاوٹ سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔

جس سے بچے کو دست اور غذائی کمی ہو جاتی ہے۔ دودھ پلانے والی ماں کی خوراک کے حوالے سے ڈاکٹر رمیزہ کلیم کا کہنا ہے کہ ایسی مائوں کو زیادہ خوراک لینی چاہیے۔خوراک بڑھانا دودھ پلانے کے لیے ضروری ہے اس کے علاوہ اضافی خوراک سے روز مرہ کے کام کاج میں آسانی رہتی ہے۔ اور ماں کی غذائی صورتحال درست رہتی ہے۔ چھ ماہ کی عمر کے بعد بچوں کی خوراک کے بارے میں ڈاکٹرصاحبہ نے بتایاکہ جب بچہ چھ ماہ کی عمر کا ہو جائے تو اُسے ماں کے دودھ کے علاوہ اضافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھ ماہ کی عمر سے اضافی خوراک شروع کروانے سے بچہ غذائی کمی سے محفوظ رہتا ہے۔ بچے کو ایسی اضافی خوراک دی جائے جو بچے کو اُس کی ضرورت کے مطابق توانائی، غذائی اجزاء مثلاً لمحیات، نشاستہ،چکنائی، معدنیات اور حیاتین وغیرہ فراہم کرے۔ اور خوراک بچے کو بھوک اور طلب کے مطابق دی جائے اور کھانا دینے کے اوقات اور کھلانے کا طریقہ بچے کی عمر کے مطابق ہو۔

اکثر مائیں اضافی خوراک شروع کرنے میں یا تو دیر کرتی ہیں یا کم خوراک دیتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں بچہ غذائی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کونسی اضافی غذائیں دی جا سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر رمیزہ کلیم نے کافی تفصیل سے دیا۔ انھوں نے کہا کہ بچے کو روزانہ خوراک کے چار گروپ میں سے کچھ نہ کچھ ضرور کھلائیں۔ یہ گروپ نشاستہ والی خوراک(چاول ، گندم ، مکئی، آلو)، حیاتین اور معدنیات والی خوراک(گہرے سبز پتے والی سبزیاں، ٹماٹر ، گاجر ، مالٹے، آم ، پپیتااور دیگر پھل)، لمحیات والی خوراک (مچھلی، دال ، مٹر، دودھ ، دہی، پنیر ، گوشت، مرغی ، انڈہ) اور چکنائی والی خوراک (تیل، گھی، مکھن، چربی ) پر مشتمل ہیں۔صرف ایک گروپ سے اضافی خوراک نہ دی جائے۔ چھوٹے بچوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملی جلی اضافی خوراک کھائیں تاکہ خوراک کے عام اجزاء ایک کھانے میں مہیا ہو جائیں۔ جانوروں سے ملنے والی غذائیں مثلاً گوشت، اعضاء جیسے جگر، دودھ، دہی پنیر انڈے لمحیات، معدنیات ، چکنائی سے بھری غذائیں ہیں۔

جانوروں سے ملنے والی غذائیں بچوں کے لیے اچھی ہوتی ہیں جو انہیں مضبوط اور چست بناتی ہیں۔ جانوروں سے ملنے والی غذا بچوں کو روزانہ دینی چاہیے اور جب بچہ اضافی خوراک کھانا شروع کرتا ہے تو اُسے نئی خوراک کے ذائقے اور ساخت کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اس لئے شروع میں دن میں 2 سے 3 چھوٹے چمچ کھانے کے دیں اور باربار وہی ذائقہ متعارف کروائیں آہستہ آہستہ بچہ اس ذائقہ سے آشنا ہوجائے گا۔ اس دوران تحمل کا مظاہرہ کریں۔ بچہ کی حوصلہ افزائی کریں زبردستی نہ کریں۔ کھانے کے دوران بچے کے ساتھ بات کریں اور اس کی طرف متوجہ رہیں۔ اس طرح بچے آہستہ آہستہ کھانے کی مہارت حاصل کر لیں گے اور زیادہ تنگ بھی نہیں کریں گے۔اکثر مائیں بچوں کی آسانی کے لیے بہت پتلی خوراک دیتی ہے یا بوتل کے ذریعے سے پتلی خوراک دیتی ہیں۔

ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹے بچے کا معدہ بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ آٹھ ماہ کے بچے کے معدے میں ایک وقت میں تقریباً ایک کپ (200 ملی لیٹر ) خوراک سما سکتی ہے۔ پتلی خوراک اور مشروبات اسے جلدی بھر دیتے ہیں لیکن غذائیت پوری نہیں دیتے۔ ایسی غذائیں جو بہت پتلی نہ ہوں جو اتنی گاڑھی ہوں کہ چمچ کے اندر ٹھہرسکیں بچے کو زیادہ توانائی دیتی ہیں۔ آٹھ ماہ کی عمر تک خوراک کو مسل کر کھلائیں۔ کُتری ہوئی خوراک 9 سے11 ماہ کی عمر میں دی جا سکتی ہے۔

ایک سال کے بعد چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دے سکتے ہیں۔ ماں کو چاہیے کہ خوراک تیار کرنے اور کھلانے سے پہلے اپنے اور بچے کے ہاتھ صابن سے دھو لے ۔ ڈاکٹر رمیزہ کلیم ہیڈ آف پریونٹیو پیڈز ڈیپارٹمنٹ ، فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے مطابق 6 سے 8 ماہ کی عمر کے بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ روزانہ 2  سے 3 کھانے دینے چاہئے۔ اور مقدار دو سے تین چمچ سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے تقریباً آدھا بھرا ہوا پیالہ دیں۔ اسی طرح 9 سے 11ماہ کے بچوں کو3 سے 4 کھانے روزانہ دیں اور ماں کا دودھ دینا بھی جاری رکھیں۔ خوراک کی مقدار آدھا بھرا ہوا پیالہ ہو جبکہ 2 1 سے 23 ماہ تک کی عمر کے اطفال کو یومیہ ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ 3 سے4 بارکھانے کو دیں جس کی مقدار ہر بار تین چوتھائی بھرا ہوا پیالہ ہونی چاہئے۔ اور دو سال تک ماں اپنا دودھ بھی بچے کو پلاتی رہے۔ انھوں نے بتا یا کہ بچوں کو بیماری (بخار اور اسہال )کے دوران زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بیماری کا مقابلہ کر سکیں۔

بیمار بچے کو بھوکا مت رکھیں۔ بلکہ صبر و تحمل سے متواتر تھوڑی تھوڑی مقدار میں خوراک دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ ماں کا دودھ پلاتے رہیں بیمار بچے ماں کا دودھ زیادہ مانگتے ہیں ۔ بیماری کے بعد بچے کو معمول سے ایک خوراک زائد دیں تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی توانائی اور وزن دوبارہ حاصل کر سکے۔ بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بروقت حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرا یا جائے۔ یہ حفاظتی ٹیکے بچوں میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں اور انہیں غذائی کمی سے بچاتے ہیں کیونکہ بار بار بیمار ہونے سے بچے غذائی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غذائی کمی کا شکار بچوں کا علاج ممکن ہے ؟ اس بارے میں ڈاکٹر رمیزہ کلیم کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کا علاج بالکل ممکن ہے اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور کا شعبہ پریونٹیو پیڈز دودھ پلانے والی مائوںکی مشاورت کے ساتھ ساتھ تربیت لیکر غذائی کمی کا شکار بچوںکے علاج معالجے تک کی خدمات مہیا کر رہا ہے۔

انفرادی حماقتیںاپنی جگہ لیکن غذائی دہشت گردی پر قابو پانے میں عدم دلچسپی ( یعنی غیر معیاری خوراک کی پیداوار/ تیاری کی روک تھام میں ناکامی اور خوراک میں ملاوٹ کی جانچ پڑتال کی کمی) خوراک کی قیمتوں میں اضافہ روکنے میں کمزوری، لوگوں میں متوازن غذاء کے استعمال کے بارے میں شعور پیدا کرنے والی قومی مہموں کا فقدان، غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کے علاج معالجہ کی سہولیات کی تشنگی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت متعلقہ اداروں کی کوتاہیوںکی فہرست کو بھی طویل بنا دیتی ہے۔

لہذا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح کے ساتھ ساتھ متعلقہ ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔آئیے اس بار 20 نومبر کو منائے جانے والے بچوں کے عالمی دن پر ہم سب اپنے حصہ کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے کا ازسرِ نوعہد کریں تاکہ ہمارے بچے صحت مند و توانا رہیںاور اپنی پوری جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ملک کی ترقی کا پہیہ بنیں اورمضبوط ہاتھوں سے اس کی باگ ڈور سنبھالیں۔

The post بھرے پیٹ کے بھوکے بچے appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


جل رہا ہے دشت تنہا، بلبلا پانی میں ہے
میری مٹی آگ میں ہے اور ہوا، پانی میں ہے
کر رہے ہیں روشنی دونوں برابر ساتھ میں
چاند تنہا ہی کھڑا ہے اور دیا پانی میں ہے
یہ جہاں اپنی زمین و آسماں کے بیچ میں
بیٹھنا بھی چاہتا ہے اور کھڑا پانی میں ہے
جانے کتنا تھک چکا تھا دوستی کی آڑ میں
ہاتھ چھڑوا کر جو پتہ اب گرا پانی میں ہے
میں نا جانے کن زمینوں پہ تجھے تکتی رہی
اور جا کر اب کُھلا یہ راستہ پانی میں ہے
(فاطمہ مہرو، لاہور)

۔۔۔

’’سنو محبت فضول شے ہے‘‘


وہ آخری بار جب ملی تھی
تو کہہ رہی تھی
سنو! مرا رشتہ ہو رہا ہے
وہ ہنس رہی تھی
بتا رہی تھی کہ اب ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں ہے
سو لوٹ جاؤ
وہ کہہ رہی تھی کہ ہم نے بس ایک کھیل کھیلا
وہ بچپنا تھا
سنو! محبت تو بس ڈراموں میں اچھی لگتی ہے
ہم نے انڈین ڈرامے دیکھے ہیں بچپنے سے
وہاں پہ حاتم کو جیسمیں سے جو پیار تھا نا
وہیں سے یہ سب فضول باتیں ہمارے ذہنوں میں آ گئی ہیں
سنو! محبت فضول شے ہے
وہ ہنس رہی تھی
بتا رہی تھی کہ اس کا رشتہ بڑے گھرانے میں ہو رہا ہے
میں خامشی سے تمام باتوں کو سن رہا تھا
تمام باتیں مجھے پرائی سی لگ رہی تھیں
وہ ہنس رہی تھی
’’سنو مرا رشتہ ہو رہا ہے‘‘
میں نوٹ کرتا رہا کہ اس کی نظر زمیں پر ٹکی ہوئی ہے
مسلسل آدھا یا پون گھنٹہ
وہ ہنس رہی تھی
اچانک اس نے مری طرف جب نظر اٹھائی
تو پچھلے گھنٹے کے ضبط پر پانی پھر چکا تھا
وہ رو پڑی اور
مجھے گلے سے لگا کے بولی
سنو مرا رشتہ ہو رہا ہے
مگر جو باتیں میں ایک گھنٹے سے کہہ رہی تھی
وہ بھول جانا
سنو! محبت ہی زندگی ہے
(احسن سلیمان، تتہ پانی، آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل
کوئی تیر سینے پہ کھانا نہیں ہے
مجھے پیار کرکے جتانا نہیں ہے
نگاہیں ملا کر نگاہیں چرا کر
مجھے اپنی سانسیں دبانا نہیں ہے
وطن کی محبت میں مجھ کو دوانے
کسی طور بھی ڈگمگانا نہیں ہے
تمہاری گلی میں جو دل پر لگے ہیں
کوئی زخم بھی اب بھلانا نہیں ہے
ہماری محبت کو ٹھکرانے والے
تمہاری محبت میں آنا نہیں ہے
ارے میر و غالب کی غزلیں سنا کر
کبھی بھی کسی کو رلانا نہیں ہے
کبھی دل جلا کر کبھی غم بھلا کر
کبھی آئنہ کو دکھانا نہیں ہے
(نور اقبال، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


بے دل سے دل کی کہہ پانا ممکن ہے
یعنی چوٹ نئی اب کھانا ممکن ہے
پیروں میں ساجن کی بیڑی ڈالی ہے
ایسی قید میں عمر گنوانا ممکن ہے
تب ہی شامیں گھر کو واپس جاتی ہیں
راتوں سے رشتے بن پانا ممکن ہے
تم خواہش کی حد میں گھٹ بھی سکتے ہو
ویسے حد سے باہر جانا ممکن ہے
فطرت سے تنگ آکر، میں بھی روتا ہوں
مجھ میں دردوں کا للچانا ممکن ہے
عشق کہیں مشکل سے نہ دوچار رہے
یوں بھی اس کا جی بہلانا ممکن ہے
گرد پڑی ہے بالوں پر ان شاموں کی
گو سورج کو شرم دلانا ممکن ہے
چاند کو اب آداب سکھانے لازم ہیں
اور زمیں پر ٹاٹ لگانا ممکن ہے
یوں تو بنجر پن ہے طاری کاغذ پر
لفظوں کی اک فصل اگانا ممکن ہے
اس دنیا کی ریت سمجھنا مشکل ہے
سمجھ نہیں ہے، پر سمجھانا ممکن ہے
وقت کے ہاتھوں کتنے تخت گئے باقی
تم سے بدو کا مٹ جانا، ممکن ہے
(وجاہت باقی، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


سبز باغ اور مت دکھا مجھ کو
آخری فیصلہ سنا مجھ کو
یہ نہ ہو ہاتھ سے نکل جاؤں
یار اتنا بھی مت اٹھا مجھ کو
اپنی جوڑی بھلی لگے نہ لگے
تو ذرا پاس تو بِٹھا مجھ کو
میں تو سمجھا تھا کھیل ہے کوئی
عشق نے دھو کے رکھ دیا مجھ کو
(فراز موسم، کہوٹہ)

۔۔۔
غزل

زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
وہ چیخ چیخ کہ کہتا ہے یار آنکھیں کھول
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو اے جنونِ رہِ ریگ زار، آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خمار، آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحر
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول
(سبطین ساحر، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل


میں کس طرح سے دیکھتا اس کو شباب میں
آیا وہ جب بھی سامنے آیا نقاب میں
ڈرتا ہوں، اس لیے نہیں لکھتا ہوں اس کو خط
انکار ہی نہ کر دے مجھے وہ جواب میں
یہ سلسلہ وصال کا رکتا نہیں کبھی
وہ مہربان آتا ہی رہتا ہے خواب میں
کتنے مزے سے جی رہے تھے دونوں ایک ساتھ
اور پھر کہیں سے آ گئی ہڈی کباب میں
کرتے ہیں اس کا تذکرہ خود کو جلاتے ہیں
حیدرؔ عجیب لطف ہے ایسے عذاب میں
(ذکا حیدر ہرل، سرگودھا)

۔۔۔
’’مردے چوری ہو جاتے ہیں‘‘


رات کے پچھلے پہر میں جب، میں
نیند کی وادی گھومنے نکلا
میں نے دیکھا!
میرے ذہن کے قبرستاں میں
دبے ہوئے وہ خواب کہ جو کچھ عرصہ پہلے
ہجر وبا کی ضد میں آ کر،
اپنی جان گنوا بیٹھے تھے
ان کی قبریں کھلی ہوئی ہیں
میں نے دیکھا!
ایک حسن زادی آکر وہ
مردہ خواب چرا لیتی ہے
قبریں خالی رہ جاتی ہیں
’’مردے چوری ہو جاتے ہیں‘‘
(اویس ویسی، زیارت معصوم ایبٹ آباد)

۔۔۔

غزل

وہ مجھے حکمتِ تسخیرِ جہاں دیتا ہے
اور مہلت میں فقط عمر نہاں دیتا ہے
دشت میں اس نے اٹھا دی ہیں کئی دیواریں
گھر مرا چھین کے جو مجھ کو مکاں دیتا ہے
ہجر کے پیڑ کو اب آگ لگا دی میں نے
دھوپ دیتا تھا کبھی آج دھواں دیتا ہے
لوٹ لیتا ہے سکوں کاسۂ دل سے پیارے
عشق خوشیوں کے بھکاری کو فغاں دیتا ہے
حسن تاجر ہے وہ بازار محبت کا فہدؔ
نوٹ لیتا ہے یقیں کے تو گماں دیتا ہے
(سردار فہد، ۔۔۔۔)

۔۔۔

فاصلہ

بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
٭٭٭
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
٭٭٭
دوری ہوئی تو اس کے قریں اور ہم ہوئے
یہ کیسے فاصلے تھے جو بڑھنے سے کم ہوئے
٭٭٭
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
٭٭٭
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
٭٭٭
حد بندیِ خزاں سے حصار بہار تک
جاں رقص کر سکے تو کوئی فاصلہ نہیں
٭٭٭
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
٭٭٭
فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا
٭٭٭
مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں
درمیاں کے فاصلے کا طے سفر کیسے کریں
٭٭٭
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
٭٭٭
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
٭٭٭
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
٭٭٭
محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
٭٭٭
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا
٭٭٭
قریب آؤ تو شاید سمجھ میں آ جائے
کہ فاصلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
٭٭٭
اسے خبر ہے کہ انجام وصل کیا ہوگا
وہ قربتوں کی تپش فاصلے میں رکھتی ہے
٭٭٭
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے
٭٭٭
اب تیرے میرے بیچ ذرا فاصلہ بھی ہو
ہم لوگ جب ملیں تو کوئی دوسرا بھی ہو
٭٭٭
حدود وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیم
کہ تُو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے
٭٭٭
پہلے ہم نے گھر بنا کر فاصلے پیدا کیے
پھر اٹھا دیں اور دیواریں گھروں کے درمیاں
٭٭٭
ہم نے ہزار فاصلے جی کر تمام شب
اک مختصر سی رات کو مدت بنا دیا
٭٭٭
سیکڑوں پُل بنے فاصلے بھی مٹے
آدمی آدمی سے جدا ہی رہا

آپ کا صفحہ
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘ ، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
email:arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا ۔۔۔!

$
0
0

قسط نمبر 21

کیسے کیسے لوگ ہیں اس رنگا رنگ دنیا میں، مجھے تو بہت ملے ہیں اور ملتے رہتے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا اور ذہنی طور پر تیار بھی تھا کہ مجھ سے میرے متعلق کچھ پوچھا جائے گا، سوالات کیے جائیں گے، پھر ان کے جوابات کا تجزیہ کیا جائے گا، انہیں سچ ،جھوٹ یا مبالغہ آرائی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ لیکن عجب لوگ تھے، ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا، کچھ بھی تو نہیں، کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ میں کون ہوں۔ کیا کسی انسانی سماج میں ایسا ممکن ہے، یقین تو نہیں آتا لیکن میں اپنے تجربے کو کیسے جھٹلاؤں، ایسا ہی ہوا۔

میں خود بھی عجیب ہوں، میں کسی کی بات، کسی کی بھی، کو پرکھے بنا نہیں مانتا، مان ہی نہیں سکتا، ہزار سوالات اٹھاتا ہوں اور وہاں بھی جہاں سوال کرنا جُرم ہے۔ میں اپنے پرتعیش مکان سے بھی سوال اٹھانے کے جُرم میں ہی بے دخل کردیا گیا تھا اور اس جرم کی قیمت بھی میں نے بہ خوشی ادا کی تھی، بل کہ اب تک کر رہا ہوں۔ انہوں نے تو کوئی سوال نہیں کیا اور میرے سوالات نے انہیں ہلکان کیے رکھا۔ لیکن سوچتا ہوں کہ اگر وہ یہ معلوم کرلیتے کہ میں کون ہوں، تو میں انہیں کیسے بتاتا، میں تو خود اس سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا، بل کہ اب تک جاننا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور کیوں آیا ہوں۔

پہلا دن تو بس گپ شپ میں گزر گیا۔ لیکن اس دن سے میں مسجد میں اذان دینے اور صفائی کرنے لگا۔ اب فجر اور عشاء کی نماز بھی مسجد میں باجماعت ادا ہونے لگی تھی۔ چند بوڑھے ہی تھے جو مسجد میں آتے تھے، ان سے حکیم بابا نے بس اتنا کہا: یہ میرا بیٹا ہے، اور وہ بھی عجب لوگ تھے کہ اچھا جی، کہہ کر خاموش ہوگئے۔ کسی پر یقین کا یہ عالم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جو کہے سب بلا چوں چرا اس کی بات مان لیں اور بس تسلیم کرلیں۔ لیکن کیسے ہوتا ہے یہ، کیسے ممکن ہے یہ، انسان تو تجسس میں گُندھا ہوا ہے، شَک اس کی سرشت میں ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی سوال ہی نہ کرے، بحث ہی نہ کرے اور بس تسلیم کرلے۔ کیا اس کے پیچھے اُس شخص کی پوری زندگی ہوتی ہے جو اسے یہ مقام عطا کرتی ہے کہ وہ جو کہے سب اس کی بات پر آمنّا و صدّقنا کہیں۔

عجب ہے یہ معمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے میری غیر موجودی میں حکیم بابا سے معلوم بھی کیا ہو، لیکن میرے سامنے کبھی کسی نے میرے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ مجھے ویسی ہی شفقت ملی جو حکیم بابا کے حقیقی بیٹے کو ملتی، لیکن یہ نسبت کا کرشمہ ہے بس کہ وہ لوگ حکیم بابا پر اعتماد و یقین رکھتے تھے، جو انہوں نے کہا بس مان لیا۔ خود حکیم بابا کی شخصیت بھی غیر معمولی تھی، سرخی مائل سپید رنگت، کشادہ پیشانی، پُرنور چہرہ، روشن اور چمکتی ہوئی آنکھیں، جن میں ذہانت و فراست جھلکتی تھی۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ بتایا گیا ہے مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔

ایسے تھے حکیم بابا، دریا دل، ہم درد، ایثار کیش، ملن سار، خوددار۔ شہرعلمؐ کے در جناب علیؓ نے بتایا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے، اور یہ بھی بتایا کہ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ تو بس حق ہے یہ سچ ہے، آپ خود بھی اس کا مشاہدہ کرلیں۔ حکیم بابا مومن تھے، لقمۂ حلال سے اپنی اور اپنے اہل کی کفالت کرنے والے۔ ان کے آبا و اجداد کشمیری تھے، وہ وہیں سے یہاں آئے تھے، ماں جی ان کی ماموں زاد تھیں، اسی لیے وہ یہاں کے مقامی لوگوں سے یک سر مختلف نظر آتے تھے۔ حکیم بابا کوئی مستند حکیم نہیں تھے، انہوں نے ایک وید کے پاس رہتے ہوئے جڑی بوٹیوں سے علاج کرنا سیکھا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان کے پاس آتے اور شفایاب ہوتے تھے۔

طبیب کے پاس اگر میٹھی زبان ہو اور وہ مریض کے درد کو اپنا درد سمجھے تو شفا مل ہی جاتی ہے۔ بل کہ اگر طبیب اپنے مریض کی بات ہی خندہ پیشانی اور توجہ سے سن لے تو مریض آدھا صحت یاب تو اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اور پھر مومن کی دعا کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔ حکیم بابا کے ساتھ رہتے ہوئے میں بھی کچھ جڑی بوٹیوں کے خواص جان پایا۔ وہ اجلا اور بے داغ لباس پہنتے، مسکراتے ہوئے ہر ایک کی بات توجہ سے سنتے اور پھر اس کے کاندھے پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے: دیکھو پریشان مت ہونا، چھوٹا موٹا مرض تو خدا کی دین ہے، بس اُس سے آس لگاؤ، دوا لو تو بھلے چنگے ہوجاؤ گے، اچھا تو چلو اب مسکراؤ۔ کیا خوب طریقہ علاج تھا اُن کا۔ ماں جی بس قرآن حکیم پڑھی ہوئی تھیں اور مکمل خاتون خانہ تھیں۔

محلے بھر میں وہ ایک شفیق باجی مشہور تھیں اور اکثر خواتین ان سے مشورہ لینے آیا کرتی تھیں۔ ویسے تو جنّت میں نے نہیں دیکھی لیکن اپنی ماؤں کو دیکھتا ہوں تو جان پاتا ہوں کہ جنّت کیسی ہوگی۔ گھر کا ماحول جنّت سے کم نہیں تھا، سب مطمئن، ہنستے مسکراتے، اک دوجے کا خیال رکھنے والے، کیا خوب گھرانا تھا جی۔ مجھے میری بہنوں اور حکیم بابا نے بتایا تھا کہ بس ایک بیٹے کی کمی نے ماں جی کو نڈھال کر رکھا تھا اور وہ اکثر خاموش رہتی تھیں، میرے آنے سے وہ کمی بھی پوری ہوگئی تھی۔ رات کو میرا ہاتھ پکڑ کر سونا ان کا معمول تھا اور پھر تو میں بھی اس کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ مجھے ویسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ ماں جی کو میرا ماں جی کہنا ہی اتنا پسند تھا کہ وہ کسی اور سے باتیں کرتی ہوئی اکثر کہتیں: میرے بیٹے نے کہا ماں جی آپ بہت اچھی ہیں، گفت گُو کیسی بھی اور کسی سے بھی ہورہی ہو، اس میں میرا تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ ماں جی کو سویٹر بُننے میں کمال حاصل تھا اور انہوں نے میری سب بہنوں کو بھی سلائی کڑھائی میں کمال عطا کیا تھا، میرے پاس ان کے شفیق اور محبت بھرے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سویٹر اور ٹوپیاں اب بھی موجود ہیں، اور ان میں ماں جی کی خوش بُو روزِ اوّل کی طرح اب بھی تازہ ہے۔

مجھے یہاں آئے ہوئے نصف ماہ گزر چکا تھا، میں صبح حکیم بابا کے ساتھ ان کے مطب جاتا اور ان کی مدد کرتا، دوپہر کو ہم ساتھ ہی گھر واپس آتے۔ مجھے اس معمے نے پریشان کیا ہوا تھا کہ پورے گاؤں میں مجھے کوئی نوجوان نظر ہی نہیں آتا تھا، کچھ نوجوان نظر آتے تھے وہ بھی کسی اور گاؤں سے کسی کے کام سے آتے اور واپس چلے جاتے تھے، آخر ایسا کیوں تھا، کیوں نہیں تھے نوجوان، کیا یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا، آخر ایسا کیوں تھا، نوجوان لڑکیاں تو یہاں تھیں لیکن لڑکے۔۔۔۔۔۔ ؟

آخر ایک دن میں نے حکیم بابا سے دریافت کر ہی لیا۔ مسکرائے اور کہا: بہت دیر کردی تم نے یہ سوال کرنے میں، حیران تھا کہ تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا، کیسے ہضم کیے رکھا یہ سوال۔ خیر اس گاؤں کا نہیں آس پاس کے قصبوں کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے، یہاں کے اکثر نوجوان یورپ چلے جاتے ہیں جہاں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے یورپ میں جاکر آباد ہوگئے تھے، وہاں بسنے کے بعد بھی وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے جُڑے رہے ہیں، انہوں نے دولت تو کمائی ہے لیکن اپنی اصل شناخت سے دست بردار نہیں ہوئے، اب ان کے بھی وہاں بیٹے بیٹیاں ہیں تو وہ اپنے داماد یہیں سے منتخب کرتے ہیں، اور اپنے لیے بہوئیں بھی۔ وہاں رہنے کے بعد بھی وہ اتنے روشن خیال نہیں ہوئے، اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوجائے تو بس سمجھو وہ یورپ ہی جائے گا، بہت چھوٹی عمر میں رشتے طے کر لیے جاتے ہیں اور پھر جیسے ہی کوئی لڑکا پاسپورٹ بنانے کی عمر کو پہنچتا ہے وہ باہر چلا جاتا ہے، اس لیے تمہیں یہاں کوئی نوجوان نظر نہیں آتا۔ اوہو حکیم بابا تو یہ وجہ ہے۔ لیکن پھر ان کے والدین تو تنہا رہ جاتے ہوں گے، تو بڑھاپے میں وہ کیسے گزارا کرتے ہوں گے، میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔

دیکھو بات تو تمہاری درست ہے، لیکن تنہائی تو نہیں ہے یہاں، سب ایک دوجے کے رشتے دار ہیں، دولت کی کوئی کمی نہیں ہے، ہاں بس بڑھاپا ہے تو اس کا علاج تو کہیں بھی ممکن نہیں ناں، کچھ لوگ اپنے بچوں کے پاس یورپ گئے بھی تھے، لیکن اکتا کر واپس چلے آئے، اس لیے کہ وہاں تو کوئی ان کی باتیں سننے کے لیے فارغ نہیں بیٹھا ہوا ناں، وہاں تو سب کام کرتے ہیں، بیٹا ہر چیز کی ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو انہوں نے بھی اس دولت کی قیمت اپنے بیٹے بیٹیوں سے جدائی سے ادا کی ہے۔ ہاں یہ بات تو ہے، میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ لیکن حکیم بابا آپ نے مجھ سے ابھی کہا تھا کہ آپ اس بات پر حیران تھے کہ میں نے یہ سوال پہلے کیوں نہیں اٹھایا، لیکن بابا آپ نے بل کہ ماں جی اور میری بہنوں نے بھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کیوں آیا ہوں، اور تو اور یہاں کے کسی شخص نے بھی مجھ سے کچھ نہیں دریافت کیا، کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

حکیم بابا پہلے بہت دیر خاموش رہے اور پھر کہا: کیا یہ ضروری ہے کہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیا جائے اور کیا یہ بھی ضروری ہے کہ فوری دیا جائے۔ میں سننا چاہتا ہوں بابا، میں نے کہا۔ تُو کیا کیا سننا چاہتا ہے، کیوں سننا چاہتا ہے، تسلیم کیوں نہیں کرلیتا آخر، کہ تسلیم کرلینے میں ہی عافیت ہے۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے۔

لیکن بابا سوال اٹھانا میری فطرت میں ہے، کسی بھی واقعہ کو بِنا کوئی سوال اٹھائے خاموشی سے بس مان لینا میرے لیے ممکن نہیں، اور پھر یہ بھی کہ سوال غلط ہوسکتا ہے، ضرور ہوسکتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کسی غلط سوال کا کوئی جواب نہ ہو، ایسا کیسے ممکن ہے، میرا سوال پھر ان کے رُو بہ رُو تھا۔ آج بہت دن کے بعد میں اپنے رنگ میں آیا تھا، ماں جی اور میری بہنیں حیرت اور خاموشی سے مجھے دیکھ اور سُن رہی تھیں، اس طرح بات کرتے ہوئے انہوں نے مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ حکیم بابا پھر سے شاید مراقبے میں چلے گئے تھے اور میں ان کے جواب کا منتظر تھا۔ آخر انہوں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: دیکھو کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جواب انسان کو فوری نہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ہی ملتا ہے، اس لیے انسان کو صبر سے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

یہ کیا بات ہوئی بابا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں کوئی سوال نہ کروں، بس خاموشی سے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں، مشکل ہے یہ میرے لیے، میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ دیکھو بیٹا یہ جو لاعلمی ہوتی ہے ناں، یہ بھی رب تعالی کی ایک نعمت ہے، ہر بات کی ٹوہ لینا گناہ ہے، رب تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔ کیا مطلب، یعنی انسان کو لاعلم رہنا چاہیے، اور بابا رب تعالی نے کسی اور کی ٹوہ لینے سے منع فرمایا ہے یہ خود کو ڈھونڈنے، اپنی ٹوہ لینے سے کب منع کیا ہے، مجھے بچپن میں حافظ طاہر درویش نے بتایا تھا کہ کائنات کی ہر شے سمجھ میں آسکتی ہے بہ شرطے آپ اسے جاننا چاہیں، انہوں نے ہی مجھے کہا تھا رب کی باتیں رب سے پوچھو، مجھ سے تو بس میرے متعلق پوچھو۔ بابا پھر خاموش تھے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جانتے ہیں لیکن بتا نہیں رہے۔

دیکھو بیٹا سوال سے سوال پیدا ہوتا ہے، تم درست کہہ رہے ہو کہ ان کا جواب جاننا انسان کی سرشت میں ہے، لیکن ہر شے کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت سے پہلے کچھ معلوم ہوجانا آگ ہے، جو بھڑک جائے تو پھر ٹھنڈی نہیں ہوتی، انسان کو جلائے رکھتی ہے، اسے سولی پر چڑھائے رکھتی ہے تو بس صبر سے جواب کا انتظار کرنے کا کہا گیا ہے، سوچنے سے منع نہیں کیا گیا، عجلت سے منع کیا گیا ہے اور تم بہت زیادہ عجلت کا شکار ہو، تمہیں صبر سے انتظار کرنا ہوگا اس وقت کا جب تمہارے سوالات کے جوابات تمہیں مل جائیں۔ بابا یہ کہہ کر پھر خاموش ہوگئے۔

حکیم بابا میں نے خود کو نہیں بنایا، خالق نے مجھے ایسا بنایا ہے، بے صبرا، آپ نہیں جانتے میں چھوٹا تھا جب میں نے اپنا مکان انہی سوالات کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ پھر میرے ساتھ کیا کیا ہوا، میں زندہ ہوتے ہوئے قبرستان کا ہوگیا، ایک بابا جی نے تو مجھے زندہ ہی قبر کے حوالے کردیا تھا، انہوں نے ہی مجھے حکم دیا کہ میں کسی ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں مجھے کوئی جانتا ہی نہ ہو، آپ مجھے نہیں جانتے بابا، نہیں جانتے آپ، جس آگ کا آپ کہہ رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ میری مٹی اسی آگ میں تپائی گئی ہے، میں کچھ جانتا نہیں ہوں اور جو جانتے ہیں وہ بتاتے نہیں ہیں، عجب زندگی ہے میری، مجھے کچھ بھی تو سمجھ نہیں آتا، بس میں اتنا جان پایا ہوں کہ اوپر رب تعالیٰ ہے اور نیچے میں بے کار، بس اس نے مجھے گود لیا ہوا ہے، میں بس اس سے ہی سب کچھ پوچھتا رہتا ہوں، میں اس سے لڑتا رہتا ہوں لیکن اس نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، اور مجھے یہ بھی یقین ہے، بل کہ یقین کامل کہ وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ۔۔۔۔۔۔۔ بس کرو بیٹا، بس کرو، ہاں میں کچھ نہیں جانتا، بس اب کچھ نہیں بولنا، ہم کسی اور وقت میں یہ باتیں کر لیں گے، بس اب کچھ نہیں بولنا۔ حکیم بابا نے مجھے خاموش ہوجانے کا حکم دیا، میں شاید پھٹ پڑا تھا اور نہ جانے کیا کیا بولے جارہا تھا۔

بہنیں بالکل خاموش تھیں، لیکن ماں جی مجسم حیرت بنی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھیں، پھر میری حالت دیکھ کر وہ بے چین ہوگئیں اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر رونے لگیں، کیا کہہ رہا تھا بیٹا، کیا ہوگیا میرے بیٹے کو، کیسی کیسی باتیں کر رہا تھا تُو میرے بچے۔ مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا، مجھے سب کے سامنے یہ سب کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا، میں ہوں ہی جاہل، جہاں خاموش رہنا تھا، وہیں بول بیٹھا تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا ہے، سمجھایا گیا ہے کہ بات کرنے سے پہلے وقت دیکھوں، سامعین کو دیکھوں، ہر کس و ناکس کے سامنے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے مجھے، خلوت کی باتیں، خلوت میں ہی زیبا ہیں، لیکن مجھ بے عقل کو کبھی سمجھ نہیں آیا، بہت مار بھی کھائی اور نہ جانے کیا کیا، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، اب تو تِیر کمان سے نکل چکا تھا، حکیم بابا کی مجھے کوئی فکر نہیں تھی، لیکن میں نے اپنی معصوم بہنوں اور جنت جیسی ماں جی کو پریشان ہی نہیں آزردہ کردیا تھا، اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، پچھتاوے کے ساتھ ندامت میری آنکھوں سے برسنے لگی۔ کچھ نہیں ہوا ماں جی، بس ویسے ہی کبھی کبھی مجھ پر دورہ پڑجاتا ہے اور مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا، میری باتوں کو نظر انداز کیجیے، مجھے معاف کر دیجیے، بھول جائیے کہ میں نے کچھ کہا بھی تھا۔ ماں جی مجھے دلاسا دیتی رہیں اور پھر مجھے کچھ پتا نہیں چلا، میں سو چکا تھا۔

The post یہ گاؤں صرف بوڑھوں کے لیے مخصوص تھا ۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

دوسری جنگِ عظیم کے دیے زخم آج بھی تازہ

$
0
0

جنگِ عظیم دوم کی ہول ناک تباہی و بربادی کے شعلے تو کب کے سرد پڑ چکے، مادی نقصانات کی بھی بڑی حد تک تلافی کرلی گئی لیکن روح کے گھاؤ اب تک نہ بھر سکے۔

انسانی خون سے بجھائے جانے والے ان شعلوں سے راکھ جھڑ جھڑ کر اب بھی انسانی تاریخ کے پنوں کو آلودہ کر تی ہے اور انسانیت جنگِ عظیم کے مرقد کے سامنے بے بس کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں کی یاد اس وقت جرمنی اور فرانس میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، جہاں ماضی کی طرف ایک بار پھر گردنیں مڑیں اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔

فرانس کے صدر ایمیل میکرون نے گذشتہ ہفتے ایک ایسا بیان دیا کہ پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کی لہر پھیل گئی اور وہ ہر سطح پر ملامت کا نشانہ بنائے گئے۔ میکرون نے دوسری جنگ عظیم میں نازی فوج کے شراکت دار اس وقت کے فرانسیسی صدر مارشل فلپ پیٹن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ درحقیقت پہلی جنگ، عظیم کے بہترین سپاہی اور ہیرو تھے۔ اس بیان پر فرانس میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔

عوام نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں فلپ پیٹن کا نازی افواج کے گھناؤنے مقاصد میں شراکت داری ایک ایسا سنگین جرم تھا جس کو نظرانداز کرکے انہیں پہلی جنگ عظیم کا ہیرو قرار دینا فرانسیسی عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

مارشل فلپ فرانس کا وہ صدر تھا جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی دی گئی۔ یہ مارشل فلپ پہلی جنگ عظیم میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بَل پر ” ورڈن کا شیر” کہلایا گیا۔ اس کی راہ نمائی میں جرمنی اور فرانس کی فوجوں کے درمیان پہلی جنگ عظیم کا سب سے بڑا اور طویل معرکہ ہوا، جس کے اختتام پر ایک لاکھ باسٹھ ہزار فرانسیسی فوجیوں کی لاشوں پر فرانس نے فتح کا تاج اپنے سر سجایا۔ اس جنگ کے بعد فلپ کو فرانس میں ہیرو اور نجات دہندہ سمجھا جانے لگا اور 1934میں فلپ جنگ کا وزیر مقرر کر دیا گیا۔ 1939میں اسے اسپین میں سفیر بنا دیا گیا اور 1940 میں وہ فرانس کا ڈپٹی وزیراعظم بن گیا۔

اسی سال اس نے جرمنی سے عارضی صلح کرتے ہوئے مغربی اور شمالی فرانس سمیت کئی علاقے جرمنی کے قبضے میں دے دیے، خود باقی بچے ہوئے فرانس کا چیف آف اسٹیٹ بن گیا اور تمام فرانسیسی ریاستوں کا مشترکہ نام Vichy France رکھ دیا۔ اس کی حکومت نازیوں کی حامی تھی یوں فلپ کے دور میں فرانس میں یہودیوں کے خلاف قانون سازی کی گئی اور یہودیوں کے قتلِ عام میں نازیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے یہودیوں کو گھروں سے نکال نکال کر گیس چیمبروں میں جھونک دیا گیا۔

دوسری جنگِ عظیم کی آگ بجھتے ہی مارشل فلپ پر غداری کا مقدمہ چلا۔ پہلے اس کو سزائے موت سنائی گئی لیکن پھر اس کی بڑھتی ہوئی عمر اور پہلی جنگِ عظیم میں اس کی خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی قید میں وہ 1951میں اکیاون سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اس کا دور حکومت فرانس کا ایک تاریک دور تھا۔ فرانس کا یہ ماضی اس کے باشندوں کے لیے اب بھی ایک دکھتی رگ ہے جس پر ہاتھ رکھ کر میکرون نے نہ صرف اپنی ساکھ خطرے میں ڈال لی بلکہ ایک آفت کو بھی دعوت دے ڈالی۔

فرانس میں ہٹلر اور اس کی افواج کے خلاف اس قدر نفرت موجود ہے کہ 2015 میں ایک ہائی اسکول ٹیچر کو اس بات پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ اس نے کلاس میں کئی بار ہٹلر کا دفاع کیا تھا۔ ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ ہٹلر ایک اچھا آدمی تھا اس نے فرانس میں موٹر وے بنوائے اور ترقی کا کافی کام کیا۔ وہ تو لیکچر دے کر فارغ ہو گئی لیکن کلاس میں موجود بیس میں سے سترہ طالب علموں نے اس کے خلاف ایک درخواست لکھ کر انتظامیہ کو جمع کروادی۔ اس درخواست کی ایک کاپی والدین کی تنظیم کو بھی بھیج دی گئی۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ وہ ٹیچر اپنے خیالات سمیت اس نوکری سے پہلے معطل اور پھر فارغ کردی گئی۔

فرانس میں نازی فوج کے خلاف نفرت کی اس فضا میں میکرون کو یہ اندازہ توبہ خوبی ہوگا کہ مارشل پیٹن فلپ کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین ان کو بہت منہگا پڑسکتا ہے لیکن نہ جانے وہ کون سی مصلحت تھی جس نے انہیں مارشل فلپ کا دفاع کرنے پر مجبور کردیا، جب کہ کئی بار میکرون فرانس کے انتہائی دائیں بازو حلقوں کی طرف سے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور اس ہفتے بھی پولیس نے چھے لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

بہرحال فرانس کے عوام میکرون کے اس بیان پر بے حد مشتعل ہیں کیوں کہ ان کے سامنے اس وقت سب سے بڑی مثال جرمنی کی ہے جہاں اس وقت بھی چند بچے کھچے نازی فوجیوں پر مقدمے چلا کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جرمنی! جی ہاں جرمنی میں یہ وقت ان نازی فوجیوں کے لیے بہت کڑا ثابت ہو رہا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے ستر سال بعد بھی بدقسمتی سے زندہ ہیں۔ جرمن قانون ساز ادارے ان نازی فوجیوں کی سن رسیدگی کے باوجود انہیں کٹہرے میں کھڑا کر چکے ہیں۔ یہ معاملہ آخر ہے کیا؟ آئیے اس پر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔

ہینرج ہملر جرمنی میں اپنے وقت کا منجھا ہوا سیاست داں، پولیس ایڈمنسٹریٹر اور ملٹری کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ہٹلر کے بعد دوسرا طاقت ور ترین آدمی بھی تھا۔ 1929سے1949تک وہSchutzstaffel  یعنی SSکا سربراہ رہا۔ ایس ایس ابتدا میں دراصل ہٹلر کے ذاتی محافظوں پر مشتمل ایک گروپ تھا لیکن نازی تحریک کی مقبولیت اور کام یابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار اور اثرورسوخ بھی بڑھتا چلا گیا۔ ہملر کی کاوشوں سے یہ تین سو محافظوں پر مشتمل گروہ 1933تک وسیع ہوکر پچاس ہزار تک جا پہنچا۔ چمکتی سیاہ وردیوں والے یہ محافظ 1936تک جرمنی کا نہایت طاقت ور عنصر بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی سرگرمیوں اور دائرے کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچیس لاکھ لوگ اس تنظیم کا حصہ بن گئے، جن کی تربیت فوجی طرز پر کی جانے لگی اور نسل پرستی کا زہر ان کی رگوں میں اتارا جانے لگا۔ دوسری جنگ عظیم میںSS نے ہٹلر کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔

نہ صرف تمام سیاسی مخالفین بلکہ جپسیوں، یہودیوں، پولش حکم رانوں اور کمیونسٹوں سمیت تمام مخالفین پر دھاوا بول دیا۔ اس ہول ناک جنگ کے خاتمے کے بعد SSکو ایک دہشت گرد اور مجرم تنظیم قرار دے دیا گیا۔ نازی فوجیوں پر مقدمے چلے لیکن آٹھ سو سے بھی کم فوجی سزا کے حق دار ٹھہرے۔ ہزاروں فوجیوں نے اپنی شناخت چھپالی۔ وہ دوسرے ملکوں کی طرف فرار ہوگئے اور وہاں کی شہریت لے کر نئی زندگی شروع کردی، جب کہ سیکڑوں فوجی جرمنی میں ہی چھپ گئے۔ اب ستر سال بعد چند زندہ فوجیوں کا کھوج لگا کر ان پر مقدمے چلاتے ہوئے جنگ کے اب تک رستے ہوئے زخموں کو بھرنے کی ایک کوشش کی جارہی ہے۔

1939میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو وہاں ڈیتھ کیمپ بنائے جہاں 1945تک 1.1ملین لوگ مار دیے گئے، ان میں نوے فی صد یہودی تھے۔ جنوری 1945میں یہاں دس ہزار SSگارڈز کام کر رہے تھے۔ پولش ریاست کی طرف سے قائم کیے جانے والے ایک ادارے Institute of National Remembranceنے پچھلے سال دوسو نازی فوجیوں اور گارڈز کی فہرست مرتب کی جو اس وقت زندہ ہیں۔ اس فوجیوں کے بارے میں مکمل تحقیقات کی گئیں کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے، انہوں نے SS میں کتنی مدت کام کیا اور اس محاذ کے علاوہ مزید کہاں کہاں انہوں نے ہٹلر کی فوج کے لیے کام کیا۔ ان دو سو نازی فوجیوں کے ٹرائل کے لیے اب جرمنی میں چیخ پکار مچی ہوئی ہے۔ ان سابق زندہ فوجیوں کا تعلق پولینڈ، روس، امریکا ، جرمنی اور آسٹریا سے ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر رواں سال جون کے مہینے میں جرمنی اور آسٹریا میں 23 نازی فوجیوں پر مقدمہ چلایا گیا، جن کے بارے میں یہ یقین تھا کہ انہوں نے ڈیتھ کیمپوں میں کام کیا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں یہ ایک بڑا ٹرائل تھا۔

امریکا میں رواں سال اگست میں ایک پچانوے سالہ نازی فوجی کی شناخت ہوجانے پر اسے امریکی شہریت سے بے دخل کر کے جرمنی ڈی پورٹ کردیا گیا۔ یہ فوجی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا فرار ہو گیا تھا، جسے 1957میں امریکی شہریت مل گئی، یوں اس نے اپنے سیاہ ماضی پر خوش نما پردہ ڈالا اور زندگی سکون سے گزار دی۔ ضمیر کی چیخوں سے بے چین اس فوجی نے عمر کے آخری حصے میں اعتراف کرڈالا کہ وہ نازی فوج کا گارڈ تھا۔ اس نے بتایا کہ ہٹلر کے خوف سے وہ SSکا حصہ بن تو گیا لیکن قتل عام کا حصہ بننے سے وہ اب بھی انکاری ہے۔ اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے جرمنی کے قانون ساز ادارے تیار نہیں، کیوںکہ تحقیقات کے مطابق اس کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہاں چھے ہزار یہودیوں کا قتل ہوا تھا، یوں اس کا قتل عام سے بچ کر رہنا قطعی ناممکن تھا۔

94سالہ نازی فوجی جان ریبگن بھی اس وقت مقدمے کی کارروائی کا سامنا کر رہا ہے۔ جنگ کے وقت اس کی عمر اکیس سال تھی، لہٰذا اس پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جا رہا ہے ، بہت ممکن ہے کہ اس کو دس سال قید کی سزا سنادی جائے۔ ریبگن کا تعلق جس ڈیتھ کیمپ سے تھا وہ جگہ اس وقت پولینڈ کا حصہ ہے۔ یہاں نہایت بے دردی سے ساٹھ ہزار نفوس کا قتل عام ہوا تھا۔ قیدیوں کے دل میں پیٹرول کے انجکشن گھونپے جاتے۔ انہیں سخت سردی میں برہنہ کرکے، موسم اور بھوک کے حوالے کردیا جاتا، اور وہ اذیت ناک حالت میں جان سے جاتے، اس کے باوجود جو مرکے نہ دیتے ان کا آخری ٹھکانا گیس چیمبر بنایا جاتا۔ جرمن عدالت میں ریبگن کا ٹرائل ہفتے میں دو دن دو گھنٹے کے لیے ہوتا ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے بوڑھے ریبگن کی نقاہت اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہوپاتی۔

پچھلے سال پچانوے سالہ نازی رین ہولڈ ہیننگ فوجی مقدمے کی سماعت کے دوران طبعی موت مرگیا۔ دورانِ کارروائی اس نے اعتراف کیا کہ دوسری جنگِ عظیم کے قتل عام میں وہ سہولت کار کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس کی ڈیوٹی جس ڈیتھ کیمپ میں تھی اس میں پونے دو لاکھ لوگوں کی جان لی گئی۔ ہیننگ نے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران کئی بار روتے ہوئے اپنے جرم کی معافی مانگی اور کہا کہ وہ بہت شرمندہ ہے، اسے معاف کردیا جائے، لیکن وہ معافی کا حق دار نہ تھا۔

قریب تھا کہ اسے سزا سنائی جاتی اور وہ قید میں جان دیتا، اس سے قبل ہی اس کی قدرتی موت کا پروانہ آن پہنچا اور وہ دنیاوی عدالت سے بری ہوگیا۔ یہ محافظ جنگ کے وقت بائیس برس کا تھا اور ان قیدیوں کی حفاظت پر مامور تھا، جنہیں سن 1943 سے 1944ء کے درمیان ہلاک کیا گیا تھا۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ملزم کو وہاں جاری اجتماعی قتل عام کا علم تھا۔ ’اسے یہ بھی خبر تھی کہ ان افراد کو نسل پرستی کی بناء پر قتل کیا جا رہا تھا۔‘ ہیوبرٹ زیکفے ایک اور نازی گارڈ ہے، جسے جرمن عدالت نے قید کی سزا سنا ئی ہے۔ ایس ایس میں شمولیت کے وقت اس کی عمر انیس سال تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اگرچہ وہ پولینڈ میں چار سال قید کی سزا بھگت چکا لیکن اس پر ایک اور ٹرائل کا مطالبہ جرمنی میں زور پکڑتا گیا، یوں اسے چھیانوے برس کی عمر میں دوبارہ عدالت میں کھینچ لیا گیا۔

ان کے علاوہ بھی اس وقت جرمنی کی عدالت میں ایسے کئی مقدمات پر تیزی سے کارروائی جاری ہے۔ امریکا میں موجود یہودیوں کے انسانی حقوق کی تنظیم Simon Wiesenthal Centreنے بھی انتہائی مطلوب دو سو نازی فوجیوں اور محافظوں کی فہرست مرتب کرکے جرمن حکومت کو 2016 میں فراہم کی تھی، جن میں سے ستائیس محافظ اب تک طبعی موت مرچکے ہیں۔ بہت سوں کا سراغ لگایا جاچکا ہے اور باقی کی تلاش کا عمل زورشور سے جاری ہے۔ اس عمل سے بے شک اس بڑے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی جو جنگ میں دنیا نے بھگتا لیکن حضرت انسان اب کی بار شاید ان احمقانہ فیصلوں کو رد کرنے لگے جن کا انجام فقط تباہی اور بربادی ہے۔

نومبر کی انہی خنک شاموں میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے سرد پڑے تھے اور یہی شامیں دوسری جنگِ عظیم کے بھیانک شعلوں کی گواہ بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگوں کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس تاریخی مہینے میں اس تلخ سچائی کا ایک گھونٹ بھر کر یہ اعتراف کرلیا جائے کہ جنگ کا ذمہ دار اصل فلسفہ تو اب تک دنیا کا حاکم بن کر راج کر رہا ہے، جس کو گھول کر پینے والے ایک اور بڑی جنگ کی تیاری کا بگل دھڑلے سے بجا رہے ہیں، ان کا احتساب آخر کب ہوگا؟ کیا ان کے لیے بھی کوئی کٹہرا تیار ہو پائے گا؟

دنیا اس خونی اور قاتل فلسفے کو کب رد کرے گی؟ ساتھ ہی ایک اور اہم سوال یہ کہ دنیا سے مہلک ہتھیاروں کی وہ اسلحہ فیکٹریاں کب بند ہوں گی جن سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دھن میں اس فلسفے کے پیروکار کبھی کہیں جنگ کے سائے بڑھادیتے ہیں تو کہیں شعلوں کو مزید ہوا دیتے ہیں، گویا خود ہی ڈیمانڈ پیدا کرتے ہیں اور خود ہی سپلائی کرتے ہیں۔ ان کا من پسند یہ آتشیں کھیل آخر کب بند ہوگا؟ دوسری جنگِ عظیم کے سارے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیے لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیے کہ اب کبھی انسانی اقدار کی دھجیاں بکھیرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ رہے۔

The post دوسری جنگِ عظیم کے دیے زخم آج بھی تازہ appeared first on ایکسپریس اردو.

عورت یہ بھی کر سکتی ہے!

$
0
0

امینہ، سارا اور عافیہ شاپنگ کے لیے گھر سے نکلی تھیں، گرمی حد سے سوا تھی۔ شاپنگ کے بعد اب وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھیں کہ ایک سنسان سڑک پر گاڑی یک دم دو جھٹکے کھا کر رک گئی۔ عافیہ جو ان سب میں بے حد ڈر پوک واقع ہوئی تھی اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔

’’اب کیا ہوگا‘‘؟ عافیہ نے روہانسے لہجے میں بولی۔

’’اب تم دونوں گاڑی کو دھکا لگاؤگی۔‘‘ امینہ ہنستے ہوئے بولی۔

’’دھکا!!!‘‘ سارا بھی سوچ میں پڑ گئی۔ تب امینہ نے سائیڈ ریک میں سے ٹول باکس نکالا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ اس نے بونٹ کا ڈھکن اٹھایا اور کچھ کرنے لگی۔ دس منٹ بعد وہ پھر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکی تھی۔

’’بیٹری کا وائر شاٹ ہوگیا تھا۔‘‘ امینہ نے انھیں بتایا۔

’’تمھیں یہ سب بھی آتا ہے، یہ تو لڑکوں والے کام ہیں؟‘‘ عافیہ حیرانی سے بولی۔

جی ہاں! میرے بابا نے ڈرائیونگ سکھاتے وقت ہی مجھے یہ بات باور کروا دی تھی کہ گاڑی کا میکنیزم بھی سمجھنا ہو گا، ہلکی پھلکی مرمت اور کم سے کم پنکچر ٹائر تبدیل کرنا تو آنا ہی چاہیے تاکہ کسی بھی ہنگامی موقع پر پریشانی نہ ہو۔

جی قارئین! ہماری اکثریت یوں تو آج بھی عورت کو امورِ خانہ داری کے بعد زیادہ سے زیادہ بیوٹیشن، کسی قسم کا گلاس اور پیپر ورک سیکھنے یا پھر انٹیرئر ڈیزائنر بننے کے قابل ہی سمجھتی ہے یا پھر یہ کہ اگر کوئی عورت گھر میں بوریت محسوس کرے اور اس کے پاس کوئی خاص کام نہ ہو تو خود کو مصروف رکھنے کے لیے اسے باغبانی کا مشغلہ اپنانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ اب ہماری فکر اور رویّوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ آج عورت جہاں گھر بیٹھے مختلف ہنر سیکھ رہی ہے، وہیں مردوں کے شانہ بشانہ کام بھی کر رہی ہے۔

عورت گھر اور دفاتر میں کام کر کے کمانے کے علاوہ سڑکوں پر ٹرک چلاتی اور فضا میں ہوائی جہاز اڑاتی نظر آرہی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب عورت یہ سب کر سکتی ہے تو جب وہ اپنی کار کے انجن کی کوئی خرابی دور کررہی ہو تو اسے حیرت سے کیوں دیکھا جائے؟ کار یا بائیک کا کوئی عام مسئلہ، گھر کا کوئی نلکا یا سوئچ بورڈ تبدیل کرنا، الیکٹرک وائرنگ اور پانی کی موٹر کی ریپئرنگ کا معاملہ تو کیا صرف کوئی مرد ہی اسے ٹھیک کر سکتا ہے۔ اوزار تھام کر کوئی لڑکی کسی مشین کے ساتھ جوجھ رہی تو تعجب کیسا؟

لڑکے رسمی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی ٹھیک کرنا، خراب استری بنانا یا بجلی کا چھوٹا موٹا کام اپنے دوستوں سے یا کسی قریبی دکان پر بیٹھ کر سیکھ ہی لیتے ہیں، مگر لڑکیوں کو زیادہ تر سلائی کڑھائی اور کچن کے معاملات تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کا بنیادی وظیفہ بھی ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مرد بہترین کُک بھی ہیں۔

انہوں نے پکوان سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے بعد نام اور پیسہ بھی کمایا۔ اسی طرح سلائی کڑھائی کا کام ہے جو بنیادی طور پر خواتین کاشعبہ ہے، مگر یہاں بھی مرد ڈریس ڈیزائنر اور ٹیلر کے طور پر جانے مانے جارہے ہیں۔ اسی طرح کوئی لڑکی اوزار سنبھال کر الیکٹرک بورڈ، واشنگ مشین، فریج، گاڑی کا انجن یا پانی کی موٹر ٹھیک کرسکتی ہے اور یہ اس کا شوق اور روزگار بھی بن سکتا ہے۔ بظاہر یہ مشکل لگتا ہے، مگر لڑکی کم از کم اپنے گھر کے کئی کام نمٹا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں ٹیکنیکل تعلیم اور ایسے ہنر سکھانے کے ادارے موجود ہیں جو مشین اور بھاری اوزاروں سے متعلق ہیں۔ میٹرک کے بعد طلبہ و طالبات پولی ٹیکنیک اداروں سے مختلف مدتی کورسز اور ڈپلوما حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ بس شوق اور ہمت کی بات ہے۔ سرکاری اداروں کے علاوہ ہمارے ہاں نجی اداروں میں بھی مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اور  ٹیکنیکل تعلیم دی جاتی ہے۔ انہی اداروں میں مختصر مدتی کورسز میں تین سے چھے ماہ تک کے دورانیے میں ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ان میں آٹھویں پاس بھی داخلہ لے سکتے ہیں۔ فی الوقت ایسے اداروں میں ہمیں لڑکے ہی مختلف ٹریڈ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ لڑکیوں کی اس معاملے میں گھر والوں کی طرف سے حوصلہ شکنی ہے، اور پھر ان کا شوق اور فطری رجحان مختلف ہونا بھی ہے، مگر روایت شکن اور باہمّت خواتین اب ٹرک ڈرائیونگ، بائیک چلانے کے ساتھ گاڑیوں کے انجن باندھنے کا کام بھی کر رہی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ لڑکیاں ویلڈنگ، پلمبرنگ، الیکٹریشن اور موٹر مکینک جیسے شعبوں میں بھی قدم رکھیں اور اپنے شوق اور لگن سے یہ ہنر سیکھیں۔

ٹیکنیکل اداروں کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ سے اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔ آپ آٹومیکینکل، ریفریجریشن، اے سی اور موبائل فون ریپئرنگ کے علاوہ ڈرافٹنگ اور بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔

کراچی کے ایک صاحب کے بارے میں چند ماہ پہلے ایک ٹی وی چینل پر رپورٹ نشر ہوئی تھی جس کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹیوں کو نہ صرف موٹر بائیک چلانا سکھایا بلکہ مختلف ایسے کام بھی سکھائے جو عموماً مردوں سے منسوب ہیں۔ جیسے بجلی کی وائرنگ اور اسی سے متعلق مختلف کام، گاڑی کے انجن کی دیکھ بھال، پانی کی موٹر کی خرابی دور کرنا وغیرہ۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے اپنی بیٹیوں کو پلمبرنگ، الیکٹریشن کا کام سیکھنے کا موقع دیا جب کہ انہی کی ایک بیٹی کو گھر کی سجاوٹ کے ساتھ رنگ ریزی کا شوق تھا اور انہوں نے اسے یہ سیکھنے اور کرنے کا موقع دیا۔

بظاہر یہ سب انوکھا اور عجیب معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً یہ سب ہماری سوچ کا الٹ پھیر ہے۔ غور کریں کہ یہ سارے کام مردوں ہی تک کیوں محدود ہیں اور وہ بھی آج کے دور میں تو آپ کو خود بھی بہت عجیب لگے گا۔ سوچیے اب تو خواتین بم ڈسپوزل اسکواڈ کا بھی حصّہ ہیں اور لوگوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر بارود کو ناکارہ بنانے میں اسکواڈ کے مرد اراکین کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہ سب پہلے تو ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ اب یہ ہماری تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ ممکن ہو گیا ہے۔

یہ ہنر اور چھوٹے موٹے کام سیکھنا صرف شوق کی بات نہیں بلکہ جب مرد کسی وجہ سے گھر میں موجود نہ ہوں، یا بیرونِ شہر اور ملک مقیم ہوں تو معمولی نوعیت کے کاموں کے لیے خواتین کو پریشان نہیں ہونا پڑتا اور اس کی اہمیت آپ پر واضح ہو جاتی ہے۔ ایسے ہنر اور کام جاننے والی خواتین کو کسی کی خوشامد کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی اپنی جیب ہلکی کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنا مسئلہ خود ہی حل کر لیتی ہیں اور اس سے خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔

جی ہاں۔ اب اگر آپ کو راستے میں، کسی سڑک کے کنارے کوئی لڑکی گاڑی کا پنکچر ہو جانے والا ٹائر تبدیل کرتی نظر آئے تو اچنبھے کا شکار نہ ہوں بلکہ یہ سوچیں کہ آپ کے گھر کی خواتین بھی اگر حالات اور مسائل سے نمٹنے اور معمولی نوعیت کے ایسے کام انجام دینے کی عادی ہوں تو آپ گھر میں اپنی غیرموجودگی کے دوران بھی ان کی طرف سے بے فکر اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔

آپ بھی اپنے گھر کی خواتین کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھانے کی طرف توجہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کا ساتھ دیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ اب بھی بہت کچھ ممکن نہیں اور عورت کو اپنی صلاحیتوں، حیثیت اور اہمیت کو منوانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی جبر کا مقابلہ کرنا ہے، مگر مثبت تبدیلی کی خواہش اور تعمیری سوچ کے ساتھ ہر فرد عورتوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو عزت و مقام دے تو یہ سب ممکن ہے۔

The post عورت یہ بھی کر سکتی ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live