Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4678 articles
Browse latest View live

مصر میں بد امنی کا راج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

$
0
0

اسلام آباد: مصر کی عبوری حکومت کے حالیہ فیصلوں کے بعد ملک میں جاری بدامنی شدید صورت اختیار کر چکی ہے اور اب واقعی ایسا لگتا ہے کہ مصر کا انقلاب خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔

اب اس بات کی نشان دہی بھی ہو رہی ہے کہ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے فیصلوں  کے نتیجے میں برپا ہونے والا مصر کا یہ انقلاب اپنی پہلے والی حالت کی جانب واپس گام زن ہے اور پچیس جنوری 2013 کو آنے والے اس انقلاب کے ثمرات  بھی ختم ہو رہے ہیں۔ مصر کی عبوری حکومت، جو محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی تھی، اس نے ملک کے سابق آمر حسنی مبارک ، اس کے بیٹوں، احمد شفیق اور حبیب عادلی کو تمام الزامات سے بری کر کے محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات کا آغاز کردیا ہے۔ قاہرہ کی عدالت نے پہلے حبیب عادلی، جمال اور علائی  کو اسٹاک مارکیٹ میں مداخلت کے الزام سے بری قرار دیا اور اس کے بعد احمد شفیق کے ہم راہ ان کے تمام بھائیوں کو مالی بدعنوانی کے الزام سے بھی بری کردیا۔ مصر کی عبوری حکومت نے مظاہروں کا قانون منظور کرلیا ہے، جس کے تحت مظاہروں سے قبل مظاہروں کی جگہ، آغاز اور اختتام کے بارے میں پولیس کو  اطلاع دی جانا ضروری ہوگا۔ دوسری جانب اس قانون کی رو سے امن عامہ میں خلل ڈالنے، راستے بند کرنے اورشہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ عبوری حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار کرنے کی اس قانونی شق کو ایک حربے کے  طور پر استعمال کرسکتی ہے اور یہ ہی کام وہ اخوان المسلمین کے اراکین کو گرفتار کرنے کے لیے انجام دے رہی ہے۔ مصر کے آئین کے مسودے میں بھی مذہبی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے جیسی شقیں شامل کی گئی ہیں۔ آئین کے اس مسودے کے بارے میں چودہ اور پندرہ جنوری 2014 کو ریفرینڈم ہوگا۔ یقیناً یہ آئین بھی حسنی مبارک کے زمانے کے آئین سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔

 photo Egypt_zps93d799e1.jpg

محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات بہت ہی مختصر وقت میں شروع کیے گئے ہیں۔ مصر کی موجودہ حکومت نے اخوان المسلمین کو پہلے کالعدم اور پھر دہشت گرد گروہ قرار دے کر مصر کی سیاست سے اس جماعت کو نکال باہر کرنے کا راستہ ہم وار کر لیا ہے حال آںکہ سنہ دوہزار گیارہ کے اواخر اور سنہ دو ہزار بارہ میں  ہونے  والے تین انتخابات میں اسی جماعت نے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان واقعات سے اس بات کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ مصر کے فوجیوں نے عبوری حکومت کے اصل حامیوں کے انقلاب کو ناکام بنانے اور حسنی مبارک کے سیاسی نظام کو واپس لانے کے لیے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اب مصر کے عوام، خصوصاً طالب علموںاور اخوان المسلمین کے حامی، فوج اور عبوری حکومت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ عبوری حکومت کو برطرف کر کے محمد مرسی کی قانونی حکومت بہ حال کی جائے ۔  دسمبر کے وسط میں جامعۂ الازہر کے طلبہ نے جلوس نکالا، جو مصر کی سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ پر منتج ہوا۔ ملک کی سیکیوریٹی فورسز طلبہ کے ساتھ اپنی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ ہی وجہ کہ اخوان المسلمین کے اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف ملک کے شہریوں اور اخوان المسلمین کے حامیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات مصر میں بدامنی میں شدت کا باعث بن رہے ہیں۔


تجربہ گاہوں سے جو ملا

$
0
0

ایک ایجاد کو کون سی بات عظیم بناتی ہے؟ بعض اوقات یہ اس مشکل کو حل کردیتی ہے جو آپ کے خیال میں ناقابل حل ہوتی ہے۔

فلک بوس عمارات نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکتیں۔ قلم ہوا میں نہیں لکھ سکتا۔ مفلوج افراد چل پھر نہیں سکتے، مگر اب یہ سب کچھ ممکن ہے۔ اور کبھی کبھی کوئی ایجاد آپ کو درپیش اس مسئلے کا قلع قمع کردیتی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہوتا۔ شاید آپ کو کبھی یہ ادراک نہ ہوا ہو کہ آپ ڈونٹ اور کرونٹ ایک ساتھ کھانا چاہتے تھے، یا آپ کو کسی معدوم نسل کے مینڈک کو دوبارہ وجود عطا کرنے کی ضرورت تھی، یا آپ اپنے پورے جسم کو پاس ورڈ میں بدل دینا چاہتے تھے، مگر اب یہ سب کچھ آپ کرسکتے ہیں۔ نئی نئی ایجادات اور اختراعات جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کررہی ہیں وہیں ہم پر وہ گوشے بھی آشکارا کررہی ہیں جن سے ہم ابھی تک نابلد تھے۔

ذیل کی سطور میں ہم 2013ء کی ان ایجادات کا تذکرہ کررہے ہیں، جنھیں ٹائم میگزین نے بہترین کی صف میں شامل کیا۔

1۔ بغیر ڈرائیور کی ( کھلونا) کار

سان فرانسسکو میں قائم کھلونا ساز کمپنی Anki روبوٹک ٹیکنالوجی کو عام کرنے کی متمنی ہے۔ دوسو ڈالر قیمت کی Anki Drive کمپنی کی اسی خواہش کا مظہر ہے۔ یہ دراصل ایک ریسنگ گیم ہے جس میں کھلونا کاریں ازخود حرکت کرسکتی ہیں۔ ان کاروں میں سینسرز نصب ہیں جو کار کے اطراف سے متعلق معلومات یا ڈیٹا آئی فون یا آئی پیڈ کو منتقل کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا کی مدد سے کھلاڑی کار کی رفتار اور پوزیشن کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں Anki ایپ یہ ہدایت دیتی ہے کہ دشمن کاروں کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ اس کے نتیجے میں کار اپنی دشمنوں کے خلاف انسانوں جیسی مہارت سے کام لیتے ہوئے حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے۔

2۔ ’’ گریویٹی‘‘ کا لائٹ باکس

 photo Inventions_zps2dfb53cc.jpg

ڈائریکٹر Alfonso Cuarón کو علم تھا کہ اسے اپنی فلم ’’گریویٹی‘‘ کے لیے سائنس فکشن فلموں کی روایتی تیکنیک سے انحراف کرنا ہوگا، کیوں کہ اس فلم میں آغاز سے اختتام تک خلا کے مناظر دکھائے جانے تھے۔ سنیماٹو گرافر ایمانوئیل لوبیز کی اور بصری تاثرات کے ماہر ٹم ویبر کے ساتھ مل کر اس نے ایک ’’ لائٹ باکس‘‘ بنایا۔ یہ باکس 20 فٹ چوڑا اور 10فٹ اونچا تھا۔ خلا کی منظر کشی کے لیے اس باکس کے اندر 196 پینلز نصب کیے گئے تھے، جن پر 4096 ایل ای ڈی بلب لگائے گئے تھے۔ یہ باکس ایسی شبیہیں بھی پروجیکٹ کرسکتا تھا جنھیں بعدازاں سی جی آئی (Computer-generated imagery ) کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا تھا۔ اکتوبر اور نومبر میں ریلیز کی گئی اس فلم میں دکھائے جانے والے تمام خلائی مناظر ’’ لائٹ باکس‘‘ ہی کے مرہون منت تھے۔

3۔ الکحلی کافی

 photo Inventions1_zpsd65575aa.jpg

پرتگیزی اور ہسپانوی محققین نے سائنسی جریدے ’’ایل ڈبلیو ٹی— فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ میں شایع شدہ اپنی تحقیق میں ایک نئے طرز کے کافی نما مشروب کی ایجاد کا اعلان کیا۔ اپنی تخلیق کو انھوں نے ’’الکحلی کافی‘‘ کا نام دیا۔ سائنس دانوں نے کافی کے استعمال شدہ بیجوں کو پہلے خشک کیا۔ بعدازاں ان کے سفوف کو پون گھنٹے تک پانی میں ابالنے کے بعد اسے چھانا اور پھر اس میں شکر اور خمیر ملادیا۔ سائنس دانوں نے اس آمیزے میں خمیر اٹھنے دیا اور پھر اس میں الکحلی جزو کو طاقت ور کرنے کے لیے اسے گاڑھا کرلیا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو مشروب تیار ہوا اس کا ذائقہ 80 فی صد ووڈکا جیسا تھا۔ محققین کا کہنا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مشروب کا ذائقہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔ تاہم کافی کے بیجوں سے تیار شدہ یہ مشروب پینے کے بعد آپ چاق چوبند نہیں رہ سکیںگے، کیوں کہ خمیر اٹھنے کے عمل کے دوران اس میں سے کیفین کا عنصر غائب ہوجاتا ہے۔

4۔  سونی کا اسمارٹ لینس

 photo Inventions2_zps27e7e435.jpg

بڑ سینسرز، اعلیٰ معیار کے شیشے اور 3.6x آپٹیکل زوم کے ساتھ ساتھ سونی کے DSC-QX100 میں ہائی کوالٹی کے ڈیجیٹل کیمرے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ تاہم اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ کے آئی فون اور اینڈرائیڈ فون سے منسلک ہوسکتا ہے۔ سونی کی ’’ پلے میموریز ایپ‘‘ کی بہ دولت آپ کا فون ’’ویو فائنڈر‘‘ کے طور پر کام کرتا ہے۔ فون سے علیحدہ کرنے پر یہ ریموٹ کنٹرول بن جاتا ہے۔ یہ کیمرا آپ کی جینز کی جیب میں نہیں سماسکتا، مگر اس کے لیے آپ کو کوئی بیگ بھی درکار نہیں ہوگا۔ اس کی قیمت 499 امریکی ڈالر ہے۔

5۔ دی کرونٹ

 photo Inventions3_zpscf6c4033.jpg

مئی 2013ء میں نیویارک کے مشہور شیف ڈومینیک اینسل نے جب ایک نئی ڈش کی فروخت شروع کی تو چند ہی دنوں میں اس کے ریستوراں کے باہر اس ڈش سے لطف اندوز ہونے کے خواہش مندوں کی قطاریں لگنی شروع ہوگئیں۔ ’’دی کرونٹ‘‘ نامی یہ ڈش دراصل پیسٹری جیسی ہوتی ہے جسے سوراخ دار میٹھی پوری (doughnut) کی طرح تلا بھی جاتا ہے۔ اس کے اندر کریم بھری جاتی ہے اور اس کی بالائی سطح پر روغن بھی لگایا جاتا ہے۔  ’’دی کرونٹ‘‘ کی مقبولیت سے متاثر ہوکر دنیا بھر میں اس جیسی مختلف ڈشیں بنائی جارہی ہیں۔ ’’دی کرونٹ‘‘ کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ 5 ڈالر کی ڈش 40 ڈالر میں بھی خرید رہے تھے۔

6۔  مشن آر

 photo Inventions4_zps46874548.jpg

’’ مشن آر‘‘ تیز ترین موٹر سائیکلوں میں نیا اضافہ ہے۔ اس میں 160 ہارس پاور کا انجن نصب ہے جو صرف تین سیکنڈ میں موٹر سائیکل کی رفتار کو صفر سے سو کلومیٹر فی گھنٹہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 240 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ’ری فیولنگ‘ کے بغیر یہ موٹر سائیکل 225 کا فاصلہ طے کرسکتی ہے۔ عام تیزترین موٹرسائیکلوں کے برعکس اس میں سے دھویں کا اخراج صفر ہے۔ عام موٹرسائیکلوں کے دہاڑتے انجنوں کے برعکس اس کا انجن آواز پیدا نہیں کرتا۔ موٹرسائیکل کو کنٹرول کرنے کے لیے اس میں ڈیجیٹل اسکرین پینل دیا گیا ہے۔ یہ سپربائیک پسٹن، کرینک شافٹ، کلچ اور موٹر سائیکل کے دیگر روایتی مکینیکل پارٹس سے محروم ہے۔ یہ تمام خصوصیات ایک ایسی سپربائیک ہی میں ممکن ہوسکتی تھیں جو برقی موٹر سے چلتی ہو۔ آپ اس سپربائیک کی بیٹری کو اپنے گھر پر یا کسی چارچنگ اسٹیشن پر بآسانی چارج کرسکتے ہیں۔

7۔ دی پلس پول

 photo Inventions5_zpsf5ed17c4.jpg

’’ دی پلس پول‘‘ ایک تیرتا ہوا تالاب ہے جسے نیویارک کے آلودہ مشرقی دریا میں ’ چھوڑا ‘ گیا ہے۔ یہ تالاب ایک تیر سے دو شکار کرتا ہے۔ دریا کے آلودہ پانی کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ نیویارک کے باسیوں کو تیراکی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کا منفرد فلٹریشن سسٹم دریا کے پانی کو آلودگی سے پاک کرتا ہے۔ اس تالاب کی شکل جمع کے نشان (+) جیسی ہے۔ اس کے ایک حصے میں تالاب ہے جب کہ بقیہ حصے مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈونگ پنگ وونگ، آرچی لی کوٹس اور جیفری فرینکلن کے ڈیزائن کردہ اس تالاب نے نیویارک کے رہائشیوں کے لیے سو برسوں میں پہلی بار دریا کے صاف و شفاف پانی میں غوطہ لگانا ممکن بنادیا ہے۔ 15ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے تالاب کے لیے سرمایہ ’’کِک اسٹارٹر‘‘ نے فراہم کیا تھا، تاہم ’’ دی پلس پول‘‘ کے منتظمین اسے 2016ء تک دریا کی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم جمع کررہے ہیں۔

8۔ The Oculus Rift

 photo Inventions6_zps6d714b80.jpg

The Oculus Rift ورچوئل ریئلٹی ہیڈسیٹ ہے جسے پہن کر استعمال کنندہ خود کو گیم کے سہہ سطحی ماحول کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ بہتر ہیڈ ٹریکنگ خصوصیات، وسیع حدنگاہ، اور کم قیمت کی بہ دولت یہ آلہ ’’ہوم ورچوئل ریئلٹی‘‘ کو حقیقت بناسکتا ہے۔

9۔ The Edible Password Pill

 photo Inventions7_zpsfec83337.jpg

اگر آپ ہیکنگ سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پیچیدہ پاس ورڈ کو بر قرار رکھنا سب سے اہم ہے۔ تاہم ان پاس ورڈز کو یاد رکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ موٹرولا نے اس مشکل کا حلEdible Password Pill کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ گولی جوکہ ایک انتہائی مختصر چِپ پر مشتمل ہوگی، روزانہ کھائی جائے گی۔ گولی کے اندر موجود چِپ فعال ہونے کے لیے معدے میں تیزاب کا استعمال کرتی ہے۔ فعال ہونے کے بعد یہ 18-bit کے EKG جیسے سگنلز خارج کرتی ہے جنھیں آپ کا فون یا کمپیوٹر شناخت کرسکے گا، یعنی آپ کا جسم ہی پاس ورڈ میں بدل جائے گا۔ اگرچہ اس گولی نے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے عام استعمال کی اجازت کے لیے درکار بیشتر رکاوٹیں عبور کرلی ہیں، مگر پھر بھی اس کی فروخت جلد شروع نہیں ہوسکے گی۔

10۔ غیرمرئی عمارت

 photo Inventions8_zps6c38df25.jpg

جنوبی کوریا کی مجوزہ بلند عمارت The Tower Infinity دنیا کی پہلی عمارت ہوگی جو دن کے اوقات میں چند گھنٹوں کے لیے سب کی نظروں سے ’اوجھل‘ ہوجایا کرے گی۔ اس عمارت کا ڈیزائن جی ڈی ایس آرکیٹیکٹس نے 2008ء میں تیار کیا تھا۔ یہ عمارت ایل ای ڈی ٹیکنالوجی اور اٹھارہ موسمی اثرات سے مامون ہائی ڈیفینیشن کیمروں کا شان دار ملاپ ہوگی۔ یہ کیمرے اس عمارت کے سامنے والے حصے میں نصب کیے جائیں گے اور ایسا سحر پیدا کریں گے کہ کچھ مخصوص مقامات سے دیکھنے والوں کو عمارت نظر نہیں آئے گی۔ تاہم طیاروں اور پرندوں کی ’ نگاہ‘ سے The Tower Infinity اوجھل نہیں ہوسکیں گے۔ 450 میٹر بلند عمارت میں ایک تفریحی کمپلیکس، اور دنیا کی تیسری بلند ترین ’’ آبزرویشن ڈیک‘‘ بھی ہوگی۔

11 ۔ تھری ڈوڈلر

 photo Inventions9_zps1063a5c6.jpg

قلم یوں تو لکھنے کے کام آتا ہے، مگر ’’تھری ڈوڈلر‘‘ ایسا جادوئی قلم ہے جس سے آپ مختلف چیزیں بناسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک تھری ڈی پرنٹر ہے جس کے اندر بھرا ہوا پلاسٹک گرم ہوتا ہے اور پھر ٹھنڈا ہونے پر آپ کی مرضی کے مطابق کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ آپ اس قلم سے میز، کرسی، بالٹی سمیت کچھ بھی بناسکتے ہیں۔ یہ قلم بوسٹن میں قائم کمپنی WobbleWorks سے وابستہ میکسویل بوگیو، پیٹر ڈل ورتھ اور ڈینیئل کی ایجاد ہے۔ یہ قلم ایک سو ڈالر میں آن لائن خریدا جاسکتا ہے۔

12۔ وولوو کا سولر پویلین

 photo Inventions10_zpsbcac772e.jpg

جب سویڈش کار ساز ادارے Volvo نے اپنی V60 ہبرڈ کار کے لیے سائبان تیار کرنے کا چیلنج دیا تو ’’سنتھسس ڈیزائن اینڈ آرکیٹیکچر‘‘ نامی کمپنی نے ایک منفرد لچک دار سولر پینل ڈیزائن کیا جو نہ صرف کار کو چارج کرسکتا تھا بلکہ اسے تہہ کرکے کار کی ڈگی ہی میں رکھا جاسکتا تھا۔ سائبان ابھی آزمائشی مراحل میں ہے۔

13۔ مصنوعی یادیں

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے اسے ’’پروجیکٹ انسیپشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کا مقصد ایک چوہے کو ان افعال پر یقین کرنے پر مجبور کرنا تھا جو اس نے انجام ہی نہیں دیے تھے یا ہوئے ہی نہیں تھے۔ انسان کو ان باتوں یا کاموں پر یقین کرنے پر مجبور کردینے کا خیال، جو اس نے کیے ہی نہ ہوں یا جو وقوع پذیر ہی نہ ہوئے ہوں، لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم  Inception میں پیش کیا گیا تھا۔ سائنس دانوں کے اس منصوبے کی بنیاد بھی یہی فلم بنی تھی۔ بالآخر انھوں نے اس منصوبے کو حقیقت میں بدلنے میں کام یابی حاصل کرلی۔ یادداشت سے متعلق دماغی خلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک چوہے کو تکلیف کے باعث اپنی دائیں ٹانگ کو حرکت دینے پر مجبور کیا جب کہ حقیقت میں اس کی بائیں ٹانگ پر ضرب لگائی گئی تھی۔ ایم آئی ٹی کے محققین کا کہنا تھا۔ ان کی تحقیق انسانوں کے لیے خوش گوار نتائج کی حامل بھی ثابت ہوسکے گی۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر انسان اپنی تکلیف دہ یادداشتوں کو دماغ کے پردے پر سے مٹانے میں کام یاب ہوجائیں۔

14۔ The Amplituhedron

 photo Inventions11_zps9043c790.jpg

پرنسٹن، نیوجرسی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ماہرین طبیعیات نے حال ہی میں ذیلی ایٹمی ذرات کے ٹکراؤ کی پیش گوئی کرنے کے لیے ایک بہت اہم شارٹ کٹ دریافت کرلیا۔ نیا طریقہ ٹکراؤ کے امکانات کو مخروط جیسی ساخت کی صورت میں پیش کرتا ہے، پھر ان مخروطوں کو یکجا کرکے ایک خوب صورت نگینے کی شکل دیتا ہے جسے amplituhedronکہا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ان ذرات کے باہمی تعامل کا اندازہ لگانا بے حد سہل ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں amplituhedron کشش ثقل کوانٹم نظریے کی جانب بھی راہ نمائی کرسکتا ہے، سائنس داں ایک عرصے سے جس کی تلاش میں ہیں۔

15۔ Nest Protect Smoke Alarm

 photo Inventions12_zpscf2658dd.jpg

’’ دی نیسٹ پروٹیکٹ‘‘ دھویں اور کاربن مونو آکسائیڈ کو شناخت اور محسوس کرنے والا جدید ترین آلہ ہے۔ یہ خود کار طور پر گھر میں دھویں یا اس گیس کے اخراج کو محسوس کرلیتا ہے۔ اور اگر اس کے چلّانے کا سبب محض جلتے ہوئے ٹوسٹ سے اٹھنے والا دھواں ہے تو آپ محض ہاتھ ہلا کر بھی اسے خاموش کرسکتے ہیں۔ گھر میں ’’نیسٹ پروٹیکٹ‘‘ کے نصب شدہ تمام یونٹ آپ کے فون اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ جب ان کی بیٹری ختم ہونے لگے تو یہ فون پر میسج کرکے آگاہ کردیتے ہیں۔

16۔ نئی ایٹمی گھڑی

 photo Inventions13_zps3c044067.jpg

وقت کی درست پیمائش کے لیے سائنس داں تاب کاری کے تعدد کو اسٹاپ واچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عام الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ برانگیختہ سیزیم ایٹموں پر مشتمل ایٹمی گھڑی سے وقت کی درست ترین پیمائش کا کام لیتے ہیں۔ تاہم ایٹمی گھڑیوں کے وقت میں ہر دس کروڑ سال کے بعد ایک سیکنڈ کا فرق آجانے کی گنجائش موجود ہے۔ اگست 2013ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین طبیعات نے نئے طرز کی ایٹمی گھڑی متعارف کروائی جو روشنی کے پنجروں یعنی بصری جالیوں میں قید اٹربیم ایٹموں کی پیمائش کرتی ہے۔ یہ گھڑی موجودہ ایٹمی گھڑیوں سے ایک سو گنا زیادہ درستی سے وقت بتانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

17۔ The Gravitylight

 photo Inventions14_zps01a76b54.jpg

’’ ڈیسی واٹ‘‘ نامی کمپنی کے انجنیئروں سے کہا گیا تھا کہ وہ آلودگی پھیلانے والے کیروسین لیمپ کا متبادل تیار کریں تیسری دنیا میں جس کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ انھیں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ متبادل کی قیمت 10ڈالر سے کم ہونی چاہیے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انھوں نے GravityLight  کی صورت میں لالٹین کا متبادل پیش کردیا۔ یہ لائٹ پتھروں، ریت، پانی سے بھرے ہوئے تھیلے یا کسی بھی بھاری شے کے وزن کی صورت میں لگنے والی قوت کے نتیجے میں 25 منٹ تک روشن رہتی ہے۔

18۔  اسپیس شپ ٹو

 photo Inventions15_zps71145541.jpg

برطانوی کمپنی Virgin Galactic کا تیار کردہ خلائی جہاز ’’اسپیس شپ ٹو‘‘ دولت مند مسافروںکو زمین کے مدار میں سیر کی غرض سے لے جانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ خلائی جہاز 2014ء کے اوائل میں مسافروں کو خلا میں لے جانا شروع کردے گا۔ زمین کی کشش ثقل کو شکست دے کر مدار میں پہنچنے اور پھر وہاں سے واپس آکر زمین پر اترنے کے لیے اس میں ایک راکٹ موٹر لگائی گئی ہے۔ خلائی سیر کے خواہش مندوں کو بے وزنی کی کیفیت سے لطف اندوز ہونے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’ اسپیس شپ ٹو‘‘ کے فعال ہونے سے خلائی سیاحت کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور اس شعبے پر قائم حکومتوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوجائے گی۔

19۔ The Gastric-Brooding FROG

 photo Inventions16_zps1f1915f8.jpg

نیوکیسل میں قائم آسٹریلوی یونی ورسٹی کے سائنس داں ایک ایسے مینڈک کے منجمد نسیجوں سے حاصل کردہ ڈی این اے کو کام میں لاتے ہوئے اس کا جنین تیار کرلیا جو 1983ء میں معدوم ہوگیا تھا۔ اس نسل کے مینڈک اپنے منہ سے بچے پیدا کرتے تھے۔ جب نر مینڈک انڈوں کو باہر رکھتے ہوئے انڈوں کو بارآور بنالیتا ہے تو پھر اس کی مادہ انڈوں کو نگل لیتی ہے، اور کچھ وقت کے بعد بچوں کو اُگل دیتی ہے۔ معدوم جانوروں کو پھر سے زندہ کرنے کے اس منصوبے کو Lazarus Project کا نام دیا گیا ہے۔ پروفیسر مائیک آرچر اس کے نگراں ہیں اور اب ان کی نظریں تسمانیہ کے شیر کو زندہ کرنے پر ہیں۔

20۔ اٹلس روبوٹ

 photo Inventions17_zpsdb140ff6.jpg

یہ روبوٹ آلات سے کام لے سکتا ہے، ناہموار جگہوں پر رینگ سکتا ہے، اور کیمروں اور لیزر رینج فائنڈر کے ذریعے اشیاء کے محل وقوع کا پتا لگاسکتا ہے۔  ’’اٹلس روبوٹ‘‘ ناگہانی صورت حال میں رضاکارانہ کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ فی الوقت اس کی آزمائش کی جارہی ہے۔ یہ روبوٹ ’’بوسٹن ڈائنامکس‘‘ نامی کمپنی نے تیار کیا ہے، اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمۂ دفاع نے فراہم کیے تھے۔

21۔ The Argus II

 photo Inventions18_zpsbe98c700.jpg

امریکا کی ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ نے اس آلے کے استعمال کی منظوری دے دی ہے، جو retinitis pigmentosaنامی بینائی کے مرض میں مبتلا افراد کی بینائی جزوی طور پر بحال کرسکتا ہے۔ یہ بیماری آگے چل کر متاثرہ افراد کو اندھے پن سے دوچار کرسکتی ہے۔ Argus II نامی یہ آلہ امپلانٹڈ مصنوعی ریٹینا اور ایک ویڈیو یونٹ سے منسلک چشمے پر مشتمل ہے جو مریضوں کو چیزوں کے ہیولے اورروشنی اور اندھیرے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے۔

22۔ The X-47B drone

 photo Inventions19_zps8e0aaa3c.jpg

ڈرون طیارے MQ-1 Predator کی شان دار پذیرائی کے بعد امریکی نیوی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پائلٹ کے بغیر اڑنے والا مال بردار طیارہ  X-47B تیار کررہی ہے۔ ایک ٹن وزنی پریڈیٹر کے برعکس چار سلنڈر اور 115 ہارس پاور کے انجن کا حامل X-47B 20ٹن وزنی ہے۔ اس میں وہی جیٹ انجن نصب ہے جو اس جسامت کے لڑاکا طیاروں میں ہوتا ہے۔ اس ڈرون میں 4500 پونڈ وزنی ہتھیار لے جانے کی گنجائش ہوگی۔  X-47Bکا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی رینج پائلٹ والے طیاروں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی جس کی وجہ سے امریکا کے طیارہ بردار جہاز سمندر میں محفوظ فاصلے پر لنگرانداز ہوسکیں گے۔

23۔ Waterless Fracking

 photo Inventions20_zps7ebc5fed.jpg

تیل اور گیس حاصل کرنے کی غرض سے مائع کے دباؤ کے ذریعے زیرزمین چٹانوں کو توڑنے کے عمل ( Fracking) پر بحث کا مطلب پانی پر بحث ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چٹانوں کو توڑنے میں مائع کا استعمال زیرزمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے مائع کا استعمال کیے بغیر اس عمل کو ممکن بنایا جائے۔ کینیڈا کی کمپنی GasFrac تیل و گیس کے کنویں کھودنے کے لیے پانی کے بجائے جیلی نما مادّہ ملے ہوئے مائع پیٹرولیم سے کام لیتی ہے۔ یہ جیلی نما مائع بعدازاں بخارات بن کر اڑجاتا ہے جس کی وجہ سے زیرزمین آبی ذخائر کے آلودہ ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

24۔ مصنوعی لبلبہ

 photo Inventions22_zps907c86f6.jpg

مصنوعی لبلبہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے منظور کیا جانے والا وہ پہلا آلہ ہے جو حقیقی لبلبے کی طرح خون میں شکر کی کم ہوتی سطح کو محسوس کرکے ٹائپ وَن ذیابیطس کے لیے انسولین کی فراہمی منقطع کردیتا ہے۔ حالت نیند میں انسولین کا زیادہ مقدار میں اخراج عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ذیابیطس کا مریض کوما میں بھی جاسکتا ہے۔

25۔ ری واک

 photo Inventions21_zps147bac90.jpg

آپ اسے بیرونی ڈھانچا کہیں یا بایونک سوٹ، مفلوج افراد کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ ایک فالج زدہ اسرائیلی سائنس داں کی وضع کردہ یہ ڈیوائس سینسرز پر انحصار کرتی ہے جو صارف کے توازن میں تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے مطابق ڈیوائس کو حرکت دیتے ہیں۔ یورپ میں اس سوٹ کی فروخت شروع ہوچکی ہے جب کہ امریکا میں اس کی اجازت دینے کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جائزہ لے رہی ہے۔

جمہوریت سے جمہوریت تک

$
0
0

پاکستان میں جب بھی انتخابات کی گھڑی آتی ہے، قوم دل تھام کے بیٹھ جاتی ہے،کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات سے خیر کم ہی برآمد ہوئی ہے۔

ہر انتخاب میں ایسا کچھ خاص ضرور ہوا کہ وہ الگ سے اپنی منفرد شناخت رکھتاہے۔اس اعتبار سے پہلے دوعام انتخابات کا معاملہ ہی لیجیے، 1970ء میں جس پارٹی نے اکثریت حاصل کی ، اسے اقتدار منتقل نہ ہوا اورپھرآدھاملک ہاتھ سے چلا گیا۔دوسرے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریتی پارٹی کے روپ میں سامنے آئی، مگراپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگاکر تحریک بپاکی جو ضیاء الحق کے ورود نامسعود پرمنتج ہوئی۔اس تاریخی پس منظر کے باوجود قوم کا ہمیشہ اس بات پریقین رہا کہ انتخابات کے ذریعے سے وجود میں آنے والی حکومتیں ہی ملک کومسائل کے گرداب سے نکال سکتی ہیں اور ملک کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ سال2013ء میں پاکستان میں پہلی بارمنتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات ہونے جارہے تھے،جو اپنی جگہ بڑی اہم بات تھی مگر مکدرسیاسی فضا سے عوام کے ذہنوں میں کہیں یہ شک منڈلا رہا تھا کہ آیا وہ ووٹ کے ذریعے سے اپنے نمائندوں کو منتخب کرپائیں گے یا نہیں۔

طالبان کی دھمکیوں سے انتخابی مہم میں خوف کی چادر تنی رہی، خاص طور سے پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں جودشواری رہی، اسے ان جماعتوں نے پری پول رگنگ سے تعبیرکیا۔اس باب میںپیپلز پارٹی اور اے این پی کا کہنا درست سہی مگران دونوں پارٹیوں نے اگر سلیقے سے حکومت کی ہوتی تو ان کی کارکردگی ہی انتخابی مہم کا کام دے جاتی لیکن مرکز میں پیپلزپارٹی اور خیبرپختونخوا میں اے این پی نے ایسی ’’مثالی‘‘ کارکردگی دکھائی کہ ان کی شکست دیوار پرلکھی نظرآرہی تھی۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی نے اپنی بھڑاس یہ کہہ کرنکالی کہ انتخابات کے ریفری فخرالدین ابراہیم نہیں، حکیم اللہ محسود تھا۔دوسری بات جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں شبہات نے جنم لیا ، وہ علامہ طاہرالقادری کی برسوں بعد’’سیاست نہیں ریاست بچائو ‘‘کے بے معنی اورمبہم نعرے کے ساتھ اچانک وطن واپسی تھی۔موصوف نے آتے ہی نظام بدلنے کا مطالبہ کردیا ۔ نگران حکومت کے لیے عدلیہ اورفوج سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا حکم صادر کیا۔ لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد روانہ ہوئے۔ادھر پہنچ کردھرنا دیا۔

 photo Government_zps858d208a.jpg

 

پارلیمنٹ پردوحرف بھیجے۔ اسمبلیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جو پورا نہ ہونے پروزیراعظم اور وزرا کو خود ہی سابق قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن توڑنے کا بھی مطالبہ کیا ۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین ابراہیم پرجب وہ تنقید کر رہے تھے تو وہ لوگ جن کا حافظہ ٹھیک کام کرتاتھا یا جنھیںتاریخ سے تھوڑی بہت شدبد تھی، وہ اس سوچ میں غلطاں تھے کہ علامہ طاہر القادری کو آج تو انتخابی عمل میں کیڑے نظرآرہے ہیں لیکن جب جنرل پرویزمشرف کے دور میں جسٹس(ر) ارشاد حسن خان نے فراڈ ریفرنڈم اور دھاندلی زدہ انتخابات کرائے تو اس شرمناک کھیل میں وہ پرجوش طریقے سے شریک ہوئے تھے۔مسلم لیگ ق کس طرح وجود میں آئی، سب جانتے ہیں ۔جب قوم کے ساتھ وردی والا صدر مذاق کررہا تھا، تو طاہرالقادری نے چپ سادھے رکھی، اور اب آئین کے تحت پہلی بارایک سویلین حکومت کے مدت پوری کرنے کے بعد منتخب حکومت کو اقتدارمنتقل کرنے کا مرحلہ قریب آیا توانھیں اصلاحات یاد آگئیں۔بہرحال طاہرالقادری نے پیپلزپارٹی کے وفد سے کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا۔

پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی غبارے سے ہوادراصل اپوزیشن جماعتوں کے رائیونڈ میں ہونے والے اجلاس سے نکلی، جس میں سب نے یک زبان ہوکر طاہرالقادری کے ایجنڈے کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ عمران خان نے اس مرحلے پربڑی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور کارکنوں کے دبائو کے باوجود دھرنے میں شرکت سے گریزاں رہے، اس طرح کی سوجھ بوجھ کی توقع ان سے آیندہ بھی رکھی جاسکتی ہے کہ عمران خان کو اگر سیاسی طور پرکچھ مل سکتا ہے تو انتخاب کے ذریعے سے اوراس کے برعکس ان کے اردگرد نظرآنے والی کچھ ہستیوں کو توکسی ایڈونچر کے نتیجے میں ہی منزل مراد مل سکتی ہے، اس لیے ان کی خواہش یہی ہوگی کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے عمران خان کا کندھا استعمال کریں۔ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر نیک نام فخرالدین ابراہیم کے تقرر کو تقریباً سبھی سیاسی جماعتوںنے خوش دلی سے قبول کیا لیکن رفتہ رفتہ ان کے بارے میں کمزورمنتظم کا تاثر زور پکڑتا گیا۔تمام ترشکایات اور اعتراضات کے باوجود سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات کے انعقاد کے لیے یکسو تھیں۔عمران خان جن کے تحفظات سب سے بڑھ کرتھے،ان کا بھی کہنا یہی رہا کہ انتخابات کا التوا تباہی کا باعث بنے گا۔

 photo Government1_zpsc5efd725.jpg

2013ء کے انتخابات سے قبل امیدبندھی کہ شاید تارکین وطن کو ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے مگرسپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود الیکشن کمیشن اس کا انتظام کرنے سے قاصر رہا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پرمشتمل قبائلی علاقوں میں سیاسی بنیاد پرانتخابات ہوئے، اور یہ سب صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دینے کی بنا پرممکن ہوسکا ۔الیکشن سے قبل تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ مرکز میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی  مگر نتائج آئے تو ایسے سب تجزیے غلط نکلے۔مسلم لیگ ن کو مرکز میںواضح اکثریت حاصل ہوئی اور وہ پیپلزپارٹی کی طرح اتحادیوں کے نازنخرے اٹھانے اور بلیک میلنگ سے بچ گئی۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ملی اور شہباز شریف تیسری بار وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس بار سیاسی منظرنامے میں جو نمایاں تبدیلی آئی، وہ تحریک انصاف کا مضبوط سیاسی جماعت کے روپ میں ابھرنا تھا۔ 30اکتوبر2011ء کے مینارپاکستان میں ہونے والا جلسہ وہ حد فاصل ہے، جس کی مدد سے تحریک انصاف کو دو واضح ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

لاہور جلسے سے پہلے والی تحریک انصاف اور بعد والی تحریک انصاف۔ عمران خان نے سب سے زیادہ توجہ پنجاب پرمرکوز کی،کہ وہ جانتے تھے کہ جو پارٹی یہاں اکثریت حاصل کرے گی وہی مرکز میں حکومت بناسکے گی۔ انتخابی مہم میں وہ شریف برادران پرسب سے زیادہ گرجے برسے۔ادھر مسلم لیگ ن کو بھی تحریک انصاف سے خطرہ محسوس ہوا تواس نے بھی اپنے سیاسی بچائو کے لیے پنجاب میں حکومتی اور سیاسی سطح پر تیزی سے کچھ اقدامات کئے تاکہ تحریک انصاف کے سیل رواں کو روکا جا سکے۔عمران خان کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کلین سویپ کرے گی مگر انتخابات کے نتائج نے ان کی امیدوں پرپانی پھیردیا۔پنجاب میں جہاں تحریک انصاف نے سب سے بڑھ کر زور لگایا وہ قومی وصوبائی اسمبلی کی بہت کم نشستیںحاصل کرپائی۔ تحریک انصاف کا سونامی اگرصحیح معنوں میں کہیں آیا تو وہ خیبرپختونخوا ہے، جہاں اس نے سیاسی اعتبارسے اے این پی کو ملیامیٹ کر دیا، جمعیت علمائے اسلام (ف)کو بھی سیاسی طور پرنقصان سے دوچار کیا۔تحریک انصاف خیر پختونخوا میں اکثریتی پارٹی کے طور پرسامنے آئی اور اسے صوبائی حکومت بنانے کاموقع مل گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کوشش توبہتیری کی کہ مسلم لیگ ن کو ساتھ ملاکرتحریک انصاف کو حکومت بنانے سے روکا جائے مگرمسلم لیگ نے خود کوان سے متفق نہ پایا اور اکثریتی پارٹی کی حکومت بننے دی۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس عمل میں اصول پسندی سے بڑھ کرمسلم لیگ ن کی یہ سوچ کارفرما تھی کہ گورنس کے اعتبار سے انتہائی پیچیدہ صورتحال کے حامل صوبے میں تحریک انصاف ٹھیک طریقے سے حکومت نہیں چلاسکے گی ، اوراس ناکامی کوپنجاب میں بھی تحریک انصاف کے خلاف دلیل کے طور پراستعمال کیا جاسکے گا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے بہترسیاسی پیش رفت بلوچستان میںہوئی جہاںکسی سردار کے بجائے اس بار مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتاہے کہ وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجودقوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنانے پررضامند ہوئی اور گورنر کا عہدہ بھی قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے فرد کو دیا۔سندھ کی سیاسی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ قائم علی شاہ پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔فرق پڑا تو صرف اتنا کہ اس بارسندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیوایم شریک اقتدارنہیں۔

 photo Government2_zps6fa505be.jpg

انتخابات کے نتائج پرزیادہ ترسیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔طرفہ تماشایہ کہ جیتنے والے بھی سراپااحتجاج اور ہارنے والے بھی۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے پنجاب میں گڑبڑ کا الزام لگایا۔آصف علی زرداری اور عمران خان  نے پنجاب میں اپنی ہار کی ذمہ داری ریٹرنگ افسروں پرڈال دی۔ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حریف جماعتوں نے دھاندلی کی بات کی تو کراچی میںتحریک انصاف اورجماعت اسلامی نے ایم کیوایم کو دھاندلی پرمورد الزام ٹھہرایا۔مولانا فضل الرحمٰن نے خیبر پختونخوا کے بعض حلقوں میں نتائج کو مشکوک قراردیا۔بلوچستان میں بھی بعض حلقوں میں بے قاعدگیوں کی خبریں گرم رہیں، یعنی ملک کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا ، جہاں دھاندلی کے الزامات نہ لگائے گئے ہوں۔ایک صوبے کی فاتح پارٹی نے دوسرے صوبے میں اپنی ہارکو دھاندلی کا شاخسانہ قراردیا۔سب جماعتوں کے شکوے شکایتیں اپنی جگہ لیکن پیپلزپارٹی کا ردعمل سب سے زیادہ حیران کن تھا، جس کا الیکشن کمیشن کی تشکیل اور نگران حکومتوں کے قیام میں کردار سب سے بڑھ کرتھا، اس لیے اگرانتخابی عمل منصفانہ نہیں تھا تو اس کی بڑی حد تک تو وہ خود ذمہ دار تھی۔

؎پیپلزپارٹی کی پنجاب میں ہار کوسراسر اس کے حکومتی اعمال کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ سب جماعتوں نے احتجاج کے باوجود نتائج کو مجموعی طور پرقبول کرلیا لیکن بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بہرحال ایسے انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے، جس پر فریقین اعتماد کرسکیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات کے نتائج پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے عوام نے شعوری، خیبرپختونخوا کے عوام نے جذباتی،سندھ کے عوام نے روایتی جبکہ بلوچستان کے عوام نے ملا جلا ووٹ دیا۔اس بیان پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے سخت ردعمل کا اظہارکیا ، کہ ان کے خیال میں عوامی مینڈیٹ کو اس طرح کے خانوں میں بانٹنا مستحسن بات نہیں۔ اس بارانتخابی عمل کا ایک روشن پہلوماضی کے مقابلے میں ٹرن آئوٹ میں کئی گنا اضافہ بھی ہے، اس بارٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد رہا، جو پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ ہے۔

انتخابی عمل کی اہمیت کو مسلح افواج اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہہ دل سے تسلیم کیا۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کاالیکشن کے بعد یہ کہنا کہ دہشت گردی کے خطرات کے باوجود قوم نے ووٹ ڈال کرگمراہ کن اقلیت کوشکست دی، مثبت سوچ کی غمازی کرتا ہے، تو دوسری طرف چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ تبدیلی ووٹ سے آتی ہے اور جمہوریت کے سواملک میں کسی نظام کی گنجائش نہیں۔ عوام، سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کاجمہوریت کے حق میں اتفاق رائے ملک کے لیے نیک شگون قراردیا جاسکتاہے ۔ جمہوریت ہی سے اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور کوئی دوسرا نظام اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔سیاسی نظام میںجو خامیاں ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے کوششیں ضرورہونی چاہییں لیکن ایسا اسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب نظام چلتا رہے، اگر یہ ڈھے جائے گا توپھرتباہی کے سوا کچھ بھی ہمارا مقدرنہیں۔ان نقالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا، جو حیلے بہانوں سے ملک کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے درپے ہیں۔

2013ء کی بہترین تصاویر

$
0
0

ورلڈ پریس فوٹو آرگنائزیشن گزشتہ56سالوں سے سال کی بہترین صحافتی اور دستاویزی تصاویر کا انتخاب کررہی ہے۔

سال2013ء کی بہترین تصاویر کے انتخاب کے لیے بھی دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 19ماہرین پر مشتمل جیوری نے دنیا کے 124 ممالک سے تعلق رکھنے والے 5666 فوٹوگرافروں کی بھیجی ہوئی ایک لاکھ سے زائد تصاویر میں سے بہترین تصاویر کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصاویر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ ہمارے اس انتخاب میں نیشنل جیوگرافک کے لیے کام کرنے والے فری لانسرز اور سونی تصویری مقابلہ میں شامل تصاویر بھی شامل ہیں۔

سال، سوال

$
0
0

آئو دیکھیں

گزرے ہوئے لمحوں میں جاکر

دیواروں پر روز اترتی دھوپ بچھا کر

جتنے اندھیرے صحن میں اترے

آئے تھے جو شام کے سائے

سارے آنکھوں میں پھیلا کر

وقت کے کاغذ پر تحریر ہوئے منظر یہ جو ابھی

نظروں میں لاکر

پل سب تولیں

خود سے پوچھیں

یہ جو ابھی چھو کر گزری ہیں صبحیں شامیں

تین سو پینسٹھ دنوں میں پھیلے بارہ گھیرے

ان میں

پچھلے سال کی نسبت

کچھ بارود ہوا میں کم تھا؟

بہت سڑکوں اور گلیوں میں

خون کا دھارا کچھ مدھم تھا

چیخیں، آہیں اور کراہیں

پہلا سا شورِ ماتم تھا؟

جلتی بھڑکی بھوک گھٹی کچھ

سوچوں میں کوئی لَوجا گی یا

لگے رہے طاقوں پر جالے؟

کہیں چراغ ہوا کوئی روشن

بھرے ذرا ابھی آس کے پیالے

آئو دیکھیں

آئو سوچیں

کیلنڈر تبدیل ہوا یا سمے بھی بدلا؟

عدم تشدد اور مثالی قیادت کی علامت نیلسن منڈیلا دنیا چھوڑ گئے

 photo Centre_zps3b5bf70c.jpg

ملالہ یوسف زئی کو سال بھر تواتر سے ملنے والے اعزازات نے ہر پاکستانی کا فخر سے اونچا کردیا 

  photo Centre1_zps09076c43.jpg

بھارت میں نئی سیاسی جماعت ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی حیران کُن کامیابی

 photo Centre2_zps148b0c41.jpg

 برما میں مسلم اقلیت بدترین مظالم کا نشانہ بنتی رہی

 photo Centre3_zps1d9c4f6a.jpg

   شام میں خانہ جنگی پوری شدت کے ساتھ جاری رہی

 photo Centre4_zps0831b54e.jpg

   پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آئی 

 photo Centre5_zps164a08a7.jpg

  مہنگائی بڑھتی اور غریب پاکستانیوں کا خون پیتی رہی  

 photo Centre6_zpsbbd2f2ab.jpg

 زلزلے نے بلوچستان میں تباہی مچا دی 

 photo Centre7_zps847884c8.jpg

 طالبان نے ڈیرہ اسماعیل جیل توڑ کر اپنے ساتھیوں سمیت 200 زیادہ قیدیوں کو رہا کرالیا 

 photo Centre8_zpsadd90096.jpg

 مذہبی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے سانحات رونما ہوتے رہے 

 photo Centre9_zpsed038189.jpg

 بلوچستان سلگتا رہا، لاپتا افراد کا معاملہ زور پکڑ گیا

 photo Centre10_zps028bf2cd.jpg

 ڈرون حملوں کے خلاف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے دھرنا دے کر نیٹو سپلائی روک دی 

 photo Centre11_zpsba5b5a6f.jpg

 امریکی ڈرون کی یورش پاکسانی حدود میں، ہنگو کو نشانہ بنایا گیا 

 photo Centre12_zpsef536ddb.jpg

 پاکستان میں پہلی بار کسی آمر کو اسیری اور مقدمات کا سامنا 

 photo Centre13_zpsfa260908.jpg

 سکندر نامی تنہا شخص نے ملک کے دارالحکومت کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا 

 photo Centre14_zps51b09f0d.jpg

 پاک فوج کے نئے سربراہ، جنرل راحیل شریف 

 photo Centre15_zps10c10c9f.jpg

 ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ، دو عالمی حریف تعلقات کے نئے سفر پر 

 photo Centre16_zps21df0732.jpg

موسم سرما کے حرارت بخش پہناوے

$
0
0

موسم سرما کی مناسبت سے فیشن کے تقاضوں کوپوراکرتے ملبوسات خواتین کی توجہ کا مرکزبنے ہوئے ہیں۔

ہمارے معروف ڈیزائنراس سلسلہ میں شب و روز اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھا رہے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں توزرق برق ملبوسات کا استعمال ہوتا ہی ہے لیکن کالج اور یونیورسٹیوں میں ہونے والی تقریبات کیلئے بھی اب خاص ملبوسات تیارکئے جاتے ہیں۔

معروف ڈیزائنرحنا بٹ نے موسم سرما کی مناسبت سے جمپرتیارکئے ہیں جبکہ سردی سے بچائو کیلئے ان کے ساتھ مختلف رنگوں کے گائون رکھے ہیں جو خواتین کی شخصیت کو پروقار بناتے ہیں۔ اس وقت ہلکے اورشوخ رنگوں میں بنے جمپربہت مقبول ہیں اوریہ شخصیت کو پُرکشش بھی بناتے ہیں۔

’’ایکسپریس میگزین‘‘ کیلئے ہونے والے شوٹ میں ماڈل عروج ملک اسی طرح کے پہنائوں کی عکاسی کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریبات میں اب نوجوان لڑکیاں اس طرز کے پہنائوں کو ترجیح دیتی ہیں۔

شوبزکی دنیا کے اتارچڑھاؤ

$
0
0

وقت کی رفتار کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جووقت کی قدر کرتے اوراس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

جولوگ وقت کے ساتھ نہیں چلتے وہ زندگی کی دوڑمیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سال 2013ء اختتام پذیر ہو گیا۔ سب کچھ اتنی تیزی سے ماضی کا حصہ بنا ہے کہ سب کچھ کل کی بات لگتی ہے۔ گزشتہ برس کے استقبال کیلئے دنیا بھر میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا، خصوصی پروگرام رات بھرچلتے رہے، مگر اب سال 2013ء کا بھی اختتام ہوچکا ہے اور 2014ء کا سورج طلوع ہوگیا ہے۔ اگر ہم گزرے سال 2013ء پر نظر ڈالیں تواس دوران ان گنت خوشگواراور ناخوشگوارواقعات رونما ہوئے۔ ماضی کے تمام برسوں کی طرح 2013ء میں بھی لوگوں کوبہت سی خوشیاں ملیں اوربہت سے غم بھی۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح پاکستان کی شوبز انڈسٹری کیلئے بھی سال 2013ء مختلف حوالوں سے ہمیشہ یادگاررہے گا کیونکہ اس کے تمام شعبوں میں مختلف ناقابل فراموش واقعات رونما ہوئے۔ بہت سے لیجنڈ فنکار اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے توبہت سے فنکاروں کے ہاں نئے مہمان کی آمد ہوئی۔ کسی نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا تو کسی کے سفر کا انجام طلاق کی صورت میں ہوا۔ بہت سے فنکاروں نے اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے پاک سرزمین کا نام دیارغیر میں روشن کیا توبہت سے فنکاراعلیٰ سول اعزاز کے حقدارٹہرے۔

سال 2013ء میں پاکستان کی 7 پنجابی ، 4 اردواور 15پشتوفلمیں جبکہ بالی وڈ کی 49 فلمیں ریلیزہوئیں ۔ ان میں ’’عشق خدا‘‘ ، ’’بھولا اشتہاری‘‘ ، ’’نوٹینشن‘‘ ، ’’سپرگرل‘‘ ، ’’لباس ‘‘ ، ’’شرابی ‘‘ چار اردو ’’ میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ ، ’’چنبیلی‘‘ ، ’’ زندہ بھاگ‘‘ اور ’’وار‘‘ شامل ہیں۔ ’’میں ہوں شاہد آفریدی ‘‘ ، ’’چنبیلی ‘‘ ، ’’زندہ بھاگ‘‘ اور ’’وار‘‘ کے باکس آفس پر اچھے رسپانس نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کی امیدیں پیدا ہوگئیں۔ خاص طور پر ’’وار‘‘ جو بلال لاشاری کی ڈائریکشن میں بننے والی بین الاقوامی معیار کی فلم تھی اس نے ملک بھرکے سینماؤں میں ریکارڈ بزنس کیا۔

پندرہ پشتو فلموںمیں ’’لواسٹوری‘‘ ، ’’ مینہ کور‘‘، ’’منافق‘‘ ، ’’سرکار‘‘ ، ’’زما ارمان‘‘ ، ’’ لوفر‘‘ ، ’’ بنگی لالیا‘‘ ، ’’ شرط‘‘ ، ’’ قربانی‘‘ ، ’’ ضدی پختون‘‘ ، ’’ آخری گولئے‘‘، ’’ باڈی گارڈ‘‘ ، ’’ پخاورے بدمعاش‘‘ ، ’’ شیر خان‘‘ اور ’’مست ملنگ‘‘ شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ 49 بھارتی فلمیں جن میں ’’ ٹیبل21‘‘،’’متروکی بجلی کا منڈولا‘‘، ’’ریس ٹو‘‘، ’’سپیشل 26‘‘،’’اے بی سی ڈی اینی باڈی ڈانس’’، ’’جنتا بھائی کی لواسٹوری‘‘، ’’مرڈر 3‘‘،’’ضلع غازی آباد‘‘،’’آئی می اور میں‘‘ ،’’ بلڈی عشق‘‘، ’’صاحب ، بیوی ، گینگسٹر ریٹرن‘‘،’’ تھری جی‘‘،’’جولی ایل ایل بی‘‘، ’’آتما‘‘، ’’ہمت والا‘‘، ’’چشم بدود‘‘، ’’کمانڈو‘‘ِ،’’ایک تھی ڈائن‘‘، ’’عاشقی ٹو‘‘، ’’شوٹ ایٹ واڈالا‘‘، ’’گو گوا گون‘‘، ’’اورنگزیب‘‘، ’’یہ جوانی ہے دیوانی‘‘، ’’یملا پگلا دیوانہ ٹو‘‘، س’’فقرے‘‘، ’’رانجھنا‘‘، ’’شارٹ کٹ رومیو‘‘، ’’گھن چکر‘‘، ’’لیٹرا‘‘ ، ’’پولیس گری‘‘، ’’رمیا وستا ویا‘‘، ’’بجاتے رہو‘‘، ’’چنائی ایکسپریس‘‘ ،’’ ونس اپان اے ٹائم ان ممبئی دوبارہ‘‘، ’’مدراس کیفے‘‘، ’’ستیاگرہ‘‘، ’’زنجیر‘‘، ’’شدھ دیسی رومانس‘‘، ’’جان ڈے‘‘، ’’پھٹا پوسٹر نکلا ہیرو‘‘ ،’’بے شرم‘‘، ’’باس‘‘، ’’کرش تھری‘‘ ، ’’گوری تیرے پیار میں‘‘ ، ’’سنگھ صاحب دی گریٹ‘‘ ،’’ رام لیلا‘‘، ’’دھوم تھری‘‘ اور دو بھارتی پنجابی فلمیں ’’جٹ اینڈ جیولٹ ٹو‘‘ اور ’’پاجی ان پرابلم ‘‘ بھی پہلی مرتبہ پاکستانی سینماؤں کی زینت بنیں ۔

سال 2013ء فلمی حلقوں میں اس حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اس سال بہت سے نئے لوگوں نے انڈسٹری میں قدم رکھا جن میں پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر اورفنکار بھی شامل ہیں جن کی نہ صرف فلمیں سپرہٹ رہیں بلکہ ان فلموں کی کامیابی نے مزید لوگوں کیلئے بھی راستے کھول دیئے۔ دوسری جانب ملک کے مختلف شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ نئے سینماگھر بھی بننا شروع ہو گئے۔ بین الاقوامی معیار کی چند فلموں نے توپاکستان فلم انڈسٹری کوتوانا کردیا ۔

ان فلموں کی کامیابی کے بعد نہ صرف کارپوریٹ سیکٹر نے فلموں میں 50 کروڑ کی سرمایہ کاری کی بلکہ ان کے علاوہ بھی 20 سے زائد لوگوں کی فلمیں زیر تکمیل ہیں، جو آئندہ برس سینما گھروں میںنمائش کیلئے پیش کی جائیں گی اوران میں ٹی وی کے نامور فنکار اور ڈائریکٹر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے۔ اس کے علاوہ لولی وڈ کی روایتی فلم سازی نہایت سست رہی لیکن بیان بازیوں میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر سب کوپیچھے چھوڑدیا۔ کسی نے امپورٹ قوانین کے تحت پاکستان میں نما ئش کیلئے پیش کی جانیوالی فلموں کو ذمہ دار ٹہرایا توکسی نے جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کا سہارا لے لیا مگرعملی طور پر انہوں نے کچھ نہ کرنے کی جوقسم برسوں قبل اٹھا رکھی تھی اس پرقائم رہے۔

حکومت پنجاب نے فلم سنسر بورڈ کو فعال کرتے ہوئے ماضی کی معروف اداکارہ زیبا بیگم کو چیئرپرسن بنانے کے ساتھ ساتھ بورڈ کے پانچ ممبران کا اعلان بھی کیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے اہم لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔ کمیٹی میں شامل اراکین نے متعدد بار میٹنگز کیں لیکن ہمیشہ کی طرح کوئی مثبت حل سامنے نہیں آسکا۔ البتہ سال کااختتام سینماانڈسٹری اور شائقین کیلئے کوئی اچھی خبرلے کرنہیں آیا کیونکہ نومبرمیں بھارتی فلموں کی پاکستان میں غیرقانونی نمائش کیخلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائرکی گئی جس پر عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ سمگل شدہ فلموں کی نمائش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پرمرکزی فلم سنسربورڈ کے چیئرمین نے عدالت میں ہونیوالی سرزنش سے بچنے کیلئے جہاں امپورٹ قوانین کے تحت آنیوالی فلموں کوسنسرسرٹیفیکٹ جاری کرنا بند کردیئے وہیں ایک پاکستانی فلم کوبھی سنسرسرٹیفیکٹ جاری نہ کیا۔ دوسری طرف اس فیصلے کے بعد فلم اورسینما انڈسٹری میں کشمکش بڑھ گئی۔

لیلیٰ ، ثنا ، مدیحہ شاہ اورنرما سمیت متعدد فنکاروں کی سال بھرمیں ایک بھی فلم ریلیزنہیں ہوئی۔ مذکورہ اداکاراؤں نے نجی چینلز پرپیش کئے جانے والے مارننگ شوزمیں ’’ انٹریاں‘‘ کرکے اپنا کیرئیرمحفوظ کئے رکھا۔ اداکارہ نرگس ‘ دیداراورحنا شاہین نے شوبزسے مکمل طورپرکنارہ کشی اختیارکرلی جبکہ دیدارکی شادی بھی اسی سال ہوئی۔ اداکارہ جگن کاظم نے دوسری شادی کرلی۔

ہمیشہ متنازعہ خبروں کی زینت بننے والی اداکارہ وینا ملک نے امریکہ اوردبئی میںمختلف کاروبار کرنے والے کروڑپتی اسد بشیر سے دبئی میں نکاح کرلیا۔ اس بارخوشی کی بات یہ ہے کہ اپنے نکاح کی تصاویر اوراس حوالے سے خبربھی ویناملک نے خود ہی میڈیا کوفراہم کی ہے جس کے بعد ایک بات توطے ہے کہ وہ اس کی تردید نہیں کرسکیں گی۔ سُپرماڈل مہرین سید، صوفیا خان، حنا ترین، علی سفینا سمیت دیگرنے ازدواجی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ پاکستان کے سپرسٹارعلی ظفربالی وڈ میں چھائے رہے۔

ایک طرف توان کی اداکاری کوزبردست رسپانس ملا تودوسری جانب ان کے میوزک کنسرٹس میں بھی نوجوانوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی میگزین کی ایک سروے رپورٹ کے دوران بالی وڈ کے دوسال سے فاتح اداکارہریتک روشن کے مقابلے علی ظفرکوزیادہ ووٹ ملے اورانہیں 2013ء کا پرکشش ترین اداکار ہونے کا اعزازبھی ملا۔ پاکستانی اداکارہ سارہ لورین کی بھارتی فلم میں بہترین اداکاری کے بعد بالی وڈ کے دروازے ان کیلئے کھل گئے۔

اب وہ مزید تین فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے ساتھ پاکستان میں بھی ایک فلم میں اداکاری کرنے کیلئے جلد ہی کراچی پہنچیں گی۔ اسی طرح عمائمہ ملک کی پہلی بالی وڈ فلم کی عکسبندی مکمل ہوچکی ہے لیکن ان کے ساتھی اداکارسنجے دت کے جیل جانے کی وجہ سے فلم کی ریلیزنگ میں کچھ تاخیر کی گئی ہے۔

پاکستانی گلوکارراحت فتح علی خاں اورعاطف اسلم کا بالی وڈ فلموں میں راج قائم رہا۔ دونوں گلوکاروں کے گیت بالی وڈ میں فلموں سال بھرسنائی دیتے رہے اوراس کی وجہ سے بالی وڈ کے متعدد پلے بیک سنگرزاورموسیقاروں نے پراپیگنڈہ بھی کیا، لیکن ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی

۔پاکستانی اداکارہ میرا نے والدہ کے نام پر ہسپتال بنانے کا اعلان کرتے ہوئے فنڈز ریزنگ مہم کا آغاز کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کی تعمیر تک کسی فلم میں کام نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ مراکش سے تعلق رکھنے والی حسینہ وائم عمار دھامنی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور مستقبل میں مزید دو فلموں میں کام کرنے کا معاہدہ بھی کر لیا۔

ناہید اختر کی گلوکاری کے شعبے میں واپسی محض اعلان ثابت ہوئی کیونکہ دو تقریبات میں شرکت کے بعد وہ پھر منظر عام سے غائب ہوگئیں۔ گلوکارہ راحت فتح علی خان کی ڈانسر فلک سے شادی کی خبر بین الاقوامی میڈیا میں چھائی رہی تاہم انہوں نے اس کی بھرپور انداز میں تردید کر دی۔ عاطف اسلم نے ماضی کی قریبی دوست سارہ بھروانہ سے شادی کرلی۔ سارہ چودھری ‘ببرک شاہ اور احسن خان کے گھر بیٹے اور نصیبو لعل کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔

کنول نے سیاست میں آنے کے باعث شوبزسے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دوسری طرف بھارت کے معروف فنکار سال بھرمختلف ایونٹس میں شرکت کیلئے پاکستان آتے رہے۔ ان میں اداکار نصیرالدین شاہ، شتروگھن سنہا، نیہا دھوپیا‘ کیلاش کھیر‘ رضا مراد، رتنا پھاٹک شاہ، میکا سنگھ‘ سکھبیر سنگھ‘ جوہی چاولہ ‘ نندیتا داس‘ سریکھا بھردواج‘ وشال بھردواج ، ہنس راج ہنس، گرومیت سنگھ گوکھی ، آر بی سنگھ اور گلزار شامل ہیں جنہوں نے مختلف پروگراموں اور تقریبات میں شرکت کی ۔

ان معروف فنکاروں کا بھارت واپسی پر یہی کہنا تھا کہ یہاں سے یادگارلمحات لے کر واپس جارہے ہیں۔ لیکن بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے پرمتعدد فنکاروں کوبھارت جانے سے روک دیا گیا جبکہ بھارت میں مدیحہ گوہر‘ جاوید بشیر، نسیم وکی اور علی مظفر سمیت دیگرکو دھمکیاں دی گئیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارعدنان سمیع خان کو بھی اس حوالے سے خاصی پریشانی کاسامنا رہا۔ عدالت کی طرف سے ان کے خلاف سامنے آنیوالے فیصلوں پردنیا بھرمیں تنقیدبھی کی گئی لیکن بھارتی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ مختلف فنکاروں کو اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا گیا جن میں خالد عباس ڈار، بہاربیگم، سید نور اور شاہدہ منی بھی شامل ہیں۔

گلوکارہ قرۃ العین بلوچ ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہونے پر میدان سے آؤٹ ہوگئیں۔ اس سال وفات پانے والے افراد میں ڈائریکٹر علی عباس جٹ‘ اداکارہ آسیہ‘ تھیٹر کے رائٹہ وڈائریکٹر افتخار حیدر‘ نغمہ نگار ریاض الرحمن ساغر‘ نشیلا‘ خاور عباس‘ شامل خاں کے والد اور ماضی کے اداکار جہانگیر خان جنہوں نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ’’چن وے‘‘ میں کام کیا ۔ اداکارہ انجمن کے شوہر مبین ملک کو عیدالفطر کے دن قتل کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ گلوکارہ زبیدہ خانم اور ریشماں کی موت کا صدمہ بھی شوبز انڈسٹری کوبرداشت کرنا پڑا۔ پی ٹی وی کی مقبول ترین ڈرامہ سیریز ’’اندھیرا اجالا‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والے اداکار عابد بٹ بھی انتقال کرگئے جو گزشتہ 20 سالوں سے تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے۔ اس کے علاوہ ہدایتکار شہزاد رفیق کی فلم ’’محبتاں سچیاں‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل ماریہ خاں کم عمری میں ہی انتقال کرگئیں۔ بلال قریشی اور عروسہ قریشی سے منگنی جبکہ بابر خان اور ثنا خاں ، صنم بلوچ اور عبداللہ فرحت، حنا ترین علی سفینا ، ریجا علی اورمحمد عرفان کی شادی بھی اس سال کی اہم خبرتھیں۔

سال 2013ء شوبز کی بہت سی عظیم فنکار ہم سے جدا ہو گئے۔ سال رواں کے ماہ جنوری کی 19تاریخ کو معروف پلے بیک سنگر مہناز کا انتقال ہوگیا ،فلمی گلوکارہ زبیدہ خانم کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے 78برس کی عمر میں 19اکتوبر کو وفات پائی۔ گلوکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے ہنر بھی آزمائے۔ تیسرا بڑا نام فوک گلوکارہ ریشماں کا ہے جنہوں نے اپنی گائیکی کے ذریعے پاکستان اور بھارت سمیت پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا تھا یہ عظیم گلوکارہ 3نومبر کو 66 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئیں ۔ حکومت نے ان کی فنی خدمات پر ستارہ امیتاز سے بھی نوازا تھا ۔نغمہ نگار اور صحافی ریاض الرحمان ساغر کی فلمی دنیا اور گیت نگاری کے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ، وہ یکم جون کو 72سال کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ پی ٹی وی کے شہرہ آفاق شو ’’کسوٹی‘‘ کے میزبان قریش پور 15اگست کو 81 برس کی عمر میں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ پنجابی فلموں کی معروف اداکارہ آسیہ 9مارچ 2013 ء کو کینیڈا میں انتقال کرگئیں۔

وہ عمر کی 65بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ اظہار کاظمی ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار اور براڈ کاسٹر تھے۔وہ 30مارچ 2013 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ منظورنیازی کا انتقال 9اپریل کو ہوا۔ وہ نعت، قوالی اور صوفیانہ کلام گانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انہوں ’بلبل دکن‘ کا خطاب دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 93سال تھی۔ صفیہ رانی ریڈیو ، ٹی وی اور اسٹیج پر اداکاری کا ایک معروف نام تھا۔

وہ رواں سال 25اپریل کواس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ریڈیو ، ٹی وی ، فلم اور سٹیج کے مزاحیہ اداکار نشیلا اسی سال 23جون کو دنیا سے رخصت ہوئے ۔ 3اگست کو معروف صداکار حسن شہید مرزا، یکم ستمبر کو اداکار منظور مگسی، 13ستمبر کو فلمی ہیرو انور حسین ،23ستمبر کو اداکار جہانگیرخان اور28نومبر کو اداکارعابد بٹ کا انتقال ہوا۔

٭٭٭
بالی وڈ کے معروف ستارے شاہ رخ خان، عامرخان اور سلمان خان کے علاوہ رنبیرکپور، کترینہ کیف اور دیپکاپڈکون گزشتہ برسوں کی طرح چھائے رہے۔ مذکورہ فنکاروں کی ریلیز ہونیوالی فلموں نے ریکارڈ بزنس کرتے ہوئے بہت سے ایوارڈز اپنے نام کئے۔ سال بھر میں شاہ رخ اورسلمان کی فلموں کے زبردست بزنس کے ریکارڈز کوعامر خان کی فلم نے توڑتے ہوئے پہلے دو دنوں میں بھارت کی تاریخ کا سب سے زیادہ بزنس کرنے کا ریکارڈ اپنے نام کیا جبکہ رنبیرکپوراوردیپکاپڈوکون کی فلموں کو بھی زبردست رسپانس ملا۔

سال 2013ء میں جہاں جوڑے بنے وہیں کہیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔ جن میں اداکارہ نور کی تیسرے شوہر عون چودھری سے علیحدگی ہوگئی ۔ گلوکارہ عینی خالد کے شوہرملک نوید اعوان نے علیحدگی کے بعد ان پر کروڑوں روپے کا سامان چوری کا پرچہ درج کرادیا جس کے بعد وہ منظر عام سے غائب ہوچکی ہیں۔

اداکارہ لیلی کی موجودگی میں ان کے بھائی عمر پر شاپنگ مال سے چوری کرنے کا سیکنڈل خبروں کی زینت بنا ۔ بعدازاں معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ اداکارہ صلہ حسین اپنے شوہر اسلم پھلروان سے طلاق لے کر علیحدہ ہوگئیں۔ گلوکارہ نصیبولعل کے ہاں بیٹی اور نوراں لعل کے بیٹا پیدا ہوا ۔اداکار ببرک شاہ اور احسن خان کو بھی خدا نے بیٹا دیا ۔

اداکارہ سارہ چودھری بھی بچے کی ماںبن گئیں ۔ وینا ملک کا صوفیہ مرزا کے سابق شوہر عمر فاروق کے ساتھ شادی کا سیکنڈل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ۔ گلوکارہ شمسہ کنول کی دس برس بعد شوبز میں واپسی ہوئی ۔ معروف لوک گلوکار شوکت علی کو پنجاب انسٹیٹوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کی طرف سے پرائیڈ آف پنجاب سے نوازا گیا ۔فاسٹ باؤلرمحمد آصف نے بھارتی فلم ’’انڈیا میں لاہور‘‘ میں کام کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس فلم کیلئے پہلی مرتبہ بالی وڈ سے تعلق رکھنے والے ہدایتکار، فلمساز اورنغمہ نگارپرمشتمل تین رکنی ٹیم لاہور آئی جنہوں نے یہاں نوجوان فنکاروں کے آڈیشن لئے۔

اسی دوران محمد آصف کا بھی انتخاب کیاگیا تھا۔ اس موقع پرمحمد آصف کا کہناتھا کہ وہ اداکاری کے شعبے میں بھی بہترین فنکارانہ صلاحیتوںکا مظاہرہ کریں گے۔ اداکار شان کا بالی وڈ ہدایتکار مہیش بھٹ کے ساتھ فلم ’’ارتھ‘‘ کا ری میک بنانے کے لئے بھارتی رائٹر شگفتہ رفیقی کو پاکستان بلایا تھا مگر معاملات طے نہ ہونے وہ واپس چلی گئیں۔پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع کی بطور اداکارہ ’’ریلیکٹ فنڈامینٹلسٹ ‘‘ بین الاقوامی سطح پر ریلیز ہوئی اس کے علاوہ بھارتی فلم ’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ اور پاکستانی فلم’’وار‘‘ میں بھی جلوہ گر ہوئیں۔
٭٭٭
ہالی وڈ باکس آفس
ہالی وڈ میں رواں سال بڑے بجٹ کی فلموں کے لئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا اور لمبے چوڑے خرچے والی فلمیں باکس آفس پر بس اوسط بزنس کر پائیں لیکن، کم بجٹ فلموں نے زبردست بزنس کیا اور فلم ٹریڈ کو مشکلات کا شکار ہونے سے بچا لیا۔ پچاس ملین ڈالرز کے کم بجٹ سے بنائی گئی ’اینکر مین 2۔ دی لیجنڈ کنٹی نیو‘ نے باکس آفس پر رش لے کر ایک طرف تو اسٹوڈیو مالکان میں خوشی کی لہر دوڑا دی، تو دوسری جانب، یہ امید بھی پیدا کردی ہے کہ سال 2013 ء بھی پچھلے سال کی طرح چھوٹی بجٹ کی فلموں کے لئے خوش قسمت و درخشاں ہے۔سال 2013کی شروعات ہالی وڈ کی فلموں کے لئے کچھ زیادہ زوردار نہیں تھی۔ ’آئرن مین 3‘ اور ’ڈسپی کیبل می ٹو‘جیسی فلموں کا بزنس امریکا اور کینیڈا میں پچھلے سال کے مقابلے میں 0.3فیصد کم رہا۔ لیکن، اگست سے ریلیز ہونے والی فلموں ’دی بٹلر‘ اور’کیپٹن فلپس‘ جیسی فلموں نے باکس آفس کی مندی کو 55ملین ڈالرز کما کر تیزی میں بدل ڈالا۔ ان دونوں فلموں کی ٹکٹوں کی سیل 100ملین ڈالرز فی فلم سے زیادہ رہی۔

بعد میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی ’وی آر دی ملرز‘ اورجے کاس پریزینٹس۔ بیڈ گرینڈ پا۔ نے بھی باکس آفس پر ریکارڈ کمائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ تھیٹرچین اے ایم سی انٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹو جیررڈو لوپزکے مطابق ’گریوٹی‘مقامی تھیٹرز میں صرف 50سے70ملین ڈالرز ہی کما پائی حالانکہ کہ یہ ایک اچھی فلم تھی۔سینڈرا بلکاک اور جارج کلونی اسٹاررگریوٹی کی پروموشن اور پبلسٹی دیکھتے ہوئے پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ فلم امریکا اور کینیڈا میں 253ملین ڈالرز کا بزنس کرے گی۔تقریبا 100ملین ڈالرز کی لاگت سے بنی فلم کا سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں نمبر چھٹا رہا۔ بگ بجٹ ایکشن فلمیں مثلاً ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ اور ’اسٹار ٹریک ان ٹو ڈارک نیس‘ مقامی تھیٹرز میں کمائی کے حوالے سے سرفہرست رہیں۔ دونوں فلمیں مجموعی طور پر 160ملین ڈالرز کی لاگت سے تیار کی گئی تھیں۔

سال کی کامیاب ترین فلموں پر نظر ڈالی جائے تو ’ٹائم وارنر انک‘ کو فلم کریٹکس اور آڈینز نے خلا اور بے وزنی کے مشکل سبجیکٹ کو اچھی طرح پیش کرنے کی وجہ سے پسند کیا اور فلمی شائقین نے مہنگے ٹکٹ خرید کر آئی میکس اورتھری ڈی میں فلم دیکھی۔’دی بٹلر‘ کی شاندار کامیابی میں بڑا ہاتھ اوپیرا ونفری کی مقبولیت کا رہا جبکہ ’کیپٹن فلپس‘ میں ٹام ہینکس کی جاندار اداکاری نے نہ صرف باکس آفس پر جادو دکھایا بلکہ فلم کو آسکر ایوارڈز جیتنے کے لئے مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز سے بات چیت میں ٹریڈ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور بڑے بجٹ کے ملے جلے رجحان سے بنائی گئی فلموں نے ہالی وڈ کو ایک نیا ’بوسٹ‘ دیا اور ان فلموں کی مجموعی کمائی نے پچھلے سال کا 10.8بلین ڈالرز کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔سو ملین ڈالرز سے کچھ ہی زیادہ بجٹ کی فلم ’وولف آف وال اسٹریٹ‘ نے صرف اچھا بزنس ہی نہیں کیا، بلکہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو آسکر کی دوڑ میں شامل بھی کروا دیا۔
٭٭٭
ہالی وڈ
انجلینا جولی فلموں میں کتنے ہی خطرناک اسٹنٹ کرتی دکھائی کیوں نہ دیں، حقیقی زندگی میں بہت نرم دل ہیں اور امدادی و فلاحی کاموں میں سب سے آگے رہتی ہیں۔ انجلینا کی انہی فلاحی سرگرمیوں کے اعتراف میں انہیں ’اعزازی آسکر ایوارڈ‘ سے نوازا گیا ہے۔ ہالی وڈ میں ہونے والی گورنرز ایوارڈ کی شاندار او ر چکاچوند تقریب میں دنیا بھر کے مہاجرین اور انسانیت کے لئے خدمات انجام دینے پر ہالی وڈ کی سپر ہیروئن 38 برس کی انجلینا جولی کو ایوارڈ دیا گیا ۔

اس موقع پر انہوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی پہلی فلم ’ان دا لینڈ آف بلڈ اینڈ ہنی‘ کی بوسنیا اور سربیا سے تعلق رکھنے والی کاسٹ سے تعارف بھی کروایا۔انجلینا اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے رفیوجیز کی سفیر ہیں اور 40 سے زیادہ فیلڈ مشنز مکمل کر چکی ہیں۔ ان میں حال ہی میں شام میں خانہ جنگی سے متاثر ین کی امداد کا مشن بھی شامل ہے۔

٭ شور، شرابے، موج اور مستی سے بھرپور رنگا رنگ ’ایم ٹی وی ایوارڈز میلہ‘ ’کوئین آف پاپ ‘‘ ملی سائرس نے اپنی جاندار پرفارمنس سے اپنے نام کیا ۔

٭کنٹری پاپ میوزک کی نامور گلوکارہ، ٹیلر سوفٹ نے امریکن میوزک ایوارڈز‘ کا اعلیٰ ترین تمغہ جیت لیا ۔

٭وینزویلا کی گیبریلا اسلر نے حسینہ کائنات ’’مس یونیورس‘‘ کا مقابلہ جیت لیا ہے۔ 25 سالہ گیبریلا کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں مس یونیورس کا تاج پہنایا گیا۔وہ پیشے کے اعتبار سے وینزویلا کے ایک ٹی وی چینلر پر اناؤنسر ہیں۔انھیں مقابلے میں شریک 86 حسیناؤں میں سے منتخب کیا گیا ۔

٭ بھارتی نژاد امریکی شہری نینا ڈیولوری نے ’مس امریکہ‘ کا خطاب اپنے نام کرلیا ہے۔ امریکی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی 53 حسینائیں ان کے مقابلے میں تھیں۔ لیکن، نینا نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور مس امریکہ کا تاج اپنے سر پر سجالیا۔ نینا یہ ٹائٹل جیتنے والی پہلی بھارتی نژاد ہیں۔

٭برطانوی گلوکارہ ایڈلے کو شاہی اعزاز سے نوازا گیا۔ انہیں برطانوی شہزادے چارلس نے شاہی اعزاز سے نوازتے ہوئے ان کی گراں قدرخدمات کوشاندارالفاظ میںخراج تحسین بھی پیش کیا۔

٭ہالی وڈکی معروف فلم سیریز ’’فاسٹ اینڈ فیورس‘‘ کے مرکزی اداکارپال واکر کارحادثے میں ہلاک ہوگئے۔ ان کی ہلاکت سے دنیا بھر میں ان کے پرستاروں افسردہ دکھائی دیئے۔ ان کی وفات کوہالی وڈ کے لئے ایک بہت بڑانقصان قراردیا گیاتھا۔

 

٭آسکر ایوارڈ یافتہ فنکارہ جون فونٹین امریکی شہر کیلفورنیا میں 15دسمبر 2013 ء کو 96 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

٭ برطانوی اداکار، پیٹر اوٹول 81 برس کی عمر میں 14دسمبر 2013ء کو انتقال کرگئے۔

اپنی زندگی کی ڈور اپنے ہی ہاتھوں کاٹتے امریکی

$
0
0

ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں ہمارے ہاں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں پر معاشی خوشحالی کی بدولت خوشیوں کا راج ہوگا ، ہر فرد خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہو گا، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امریکا جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے اسے عموماً ہر حوالے سے رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔

نیویارک ، واشنگٹن ، کیلی فورنیا وغیرہ ایسی امریکی ریاستیں ہیں جنھیں میڈیا کے ذریعے ایسے پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے کہ امریکا کے عوام ’’سپر نیشن‘‘ ہیں، جبکہ ترقی پذیر  اور پسماندہ ممالک کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے وہاں کے عوام ہر قسم کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہوں گے، اس لئے دنیا کی ہر برائی اور خامی ان میں پائی جاتی ہو گی اور ان کے لئے یہ دنیا جہنم سے کم نہیں ہو گی اور وہ اس دنیا سے جلد از جلد نجات پانا چاہتے ہوں گے ، مگر حیران کن پہلو  یہ ہے کہ تمام تر مادی خوشحالی کے باوجود امریکی شہریوں میں خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کے باوجود ان کے شہری پر مسرت زندگی نہیں گزار رہے اور بالآخر بہت سے مایوس ہو کر اپنی زندگی کی ڈور خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

امریکا میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لئے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں ۔ نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن نیٹ ورک انھی اداروں میں سے ایک ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہو جانے والے یا ذہنی دباؤ کا شکار افراد کو فون پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اس کے ملک بھر میں 161کال سنٹر ہیں، انھی میں سے  نیویارک سٹی کے کال سنٹر میں ایک فون ایسا بھی ہے جسے برج فون کہتے ہیں کیونکہ  یہ نیویارک کے گیارہ پلوں پر لگائے ہیلپ کال بوتھ سے منسلک  ہے۔ یوں تو اس فون کی گھنٹی کبھی کبھار ہی بجتی ہے مگر جب بجتی  ہے تو 24/7لائف نیٹ ہاٹ لائن میں بیٹھے آپریٹرز کے لئے اس کی آواز ایک دھماکے سے کم نہیں ہوتی  کیونکہ اس کے بجنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پھر کوئی امریکی خودکشی کے لئے شہر کے کسی پل پر پہنچ چکا ہے۔ آپریٹر کو اس فون کال پر فوری امداد فراہم کرنا ہوتی ہے کیونکہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لئے پل پر پہنچ جانے والا کسی بھی وقت کچھ کر سکتا ہے۔

2005ء سے امریکا میں خود کشیوں کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2009ء میں پہلی مرتبہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اس حد تک اضافہ ہو اکہ ان کی تعداد موٹر سائیکل حادثات میں مرنے والوں سے بھی بڑھ گئی۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق 2010ء میں 38ہزار 3سو سے زائد امریکیوں نے خود کشی کی۔ 1999ء سے  2010ء تک پینتیس سے پینسٹھ سال تک کی عمر کے امریکیوں میں خود کشی کرنے کے رجحان کی شرح میں  28.4فیصد اضافہ ہوا۔ مردوں میں یہ شرح پچاس فیصد تک رہی۔ بہت سے محققین کا خیال ہے کہ بہت سی ایسی خود کشیاں بھی ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اس لئے خود کشیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔

خود کشیوں میں اس خوفناک اضافے کو دیکھتے ہوئے امریکا میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ خودکشی کے رجحان میں کمی کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں۔گزشتہ پندرہ سال میں امریکی پبلک پالیسی اور وفاقی فنڈ کا بڑا حصہ عوام میں ذہنی صحت کے معیار کو بہتر بنانے اور ڈپریشن اور خوفزدگی کی کیفیت میں کمی کے لئے کی جانے والی کوششوں پر صرف کیا جا رہا ہے۔ مگر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ عوام کی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ  اس سے خودکشی کا رجحان رکھنے والوں کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ اگر ایسا فرد رابطہ نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائے گا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان رکھنے کی آخری سطح پر پہنچ جانے والے افراد کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

نیشنل سو سائیڈ پریوینشن لائف لائن کے ڈائریکٹر جان ڈراپر کا کہنا ہے کہ ہماری یہ کبھی بھی خواہش نہیں رہی کہ زیادہ سے زیادہ افراد مایوس ہو کر ہم سے رابطہ کریں بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں ایسے افراد موجود ہی نہ ہوں، مگر جب کوئی مایوس فرد رابطہ کرتا ہے تو ہم اس کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں ، اگر امریکا میں دماغی صحت کے نظام کو مکمل طور پر بہتر کرنا ہے تو اس کے لئے صرف فون پر مدد کرنا نہیں بلکہ ایک جامع حکمت عملی درکا ر ہو گی جس کے لئے بہت زیادہ فنڈز کی ضرورت ہو گی۔

نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن نیٹ ورک کا ہیڈ آفس نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں واقع ہے جہاں پر پورے نیٹ ورک کے ذریعے موصول ہونے والی کالز کا علم ہوتا رہتا ہے، اس دفتر میں تین شفٹوں میں پچاس سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ لائف لائن کال سنٹرز میں کام کرنے والے افراد ماہر نفسیات ہوتے ہیں ، گویا ان کال سنٹرز میں کوئی عام آپریٹر کام نہیں کر سکتا کیونکہ انھوں نے مایوسی میں ڈوبے افراد کی مفید مشوروں کے ذریعے مدد کرنا ہوتی ہے اور اگر کوئی فرد مایوسی کی آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہو اور خو د کشی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے فوری مدد بھیجی جاتی ہے۔ بطور آپریٹر کام کرنے والے ماہرین کو چند سوال پوچھنے پر فوری پتہ چل جاتا ہے کہ مدد کے لئے فون کرنے والا کس ذہنی کیفیت سے دوچار ہے۔

نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن کے ہیڈ آفس میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ شام کے بعد اتنی زیادہ کالز آتی ہیں کہ بہت سے افراد کو کافی دیر تک     انتظار کرنا پڑتا ہے حالانکہ مایوس ذہنی کیفیت سے گزرنے والے فرد کی کال فوری سنی جانی چاہیے کیونکہ ایسا فرد کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ادارہ ایسے لوگوں پر فوکس کرتا ہے جو تنہائی یا ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مگر ان میں ابھی خودکشی کا رجحان پیدا نہیں ہوا ہوتا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ خود کشی  کی کوشش کرنے والوں کو بھی ہر ممکن مدد بہم پہنچاتا ہے مگر اس کی مدد اس وقت تک ہی ہوتی ہے جب تک وہ ان سے رابطے میں ہوتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق امریکا میں 80 لاکھ افراد خود کشی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ، جبکہ ان میں سے گیارہ لاکھ افراد مدد کے لئے کال سنٹرز پر رابطہ کرتے ہیں ۔ اس صورتحال کے حوالے سے ادارے کے ڈائریکٹر ڈراپر کا کہنا ہے کہ  یہ تو اچھی بات ہے کہ گیارہ لاکھ افراد ہم سے رابطہ کر کے خود کو بچانا چاہتے ہیں،اس کا کہنا ہے اس سال بارہ لاکھ افراد کی طرف سے فون کال کئے جانے کی توقع ہے، یہ ایک طرح سے ادارے کی کامیابی بھی ہے کہ لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔

امریکا میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا جائزہ لینے کے لئے بنائے گئے ادارے امریکی ایسو سی ایشن آف سو سائیڈ یالوجی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر لینا برمن کا کہنا ہے کہ لائف نیٹ کا قیام بہت اچھا ہے اس سے مایوس افراد کو ایک فون کال کرنے پر ایسی صورتحال سے نکلنے میں مدد ملتی ہے جس سے وہ نکل نہیں پا رہے ہوتے، اس لئے یہ انسداد خود کشی کے لئے اچھا قدم ہے۔

بہت سے  تنقید نگاروں جن میں ڈی جے جیف بھی شامل ہیں  کا کہنا ہے کہ خود کشی کو روکنے کے لئے قومی سطح پر جن پروگراموں کی اشتہار بازی کی جاتی ہے یہ سب حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈز کو غلط سمت میں لگانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام ایسے لوگوں کے لئے ہیں جو ذہنی امراض جیسے ڈپریشن ، خوف کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو درحقیقت خود کشی کرنے کا رجحان رکھتے ہیں ان تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ڈی جے جیف 1980ء کی دہائی میں اپنی بہن کے شیز و فرینیا کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد خود بھی مینٹل النس پالیسی آرگنائزیشن کے نام سے  کونسلنگ کا ایک ادارہ چلا رہے ہیں، یہ ادارہ ڈپریشن کا شکار افراد کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹنگ اور اشتہار بازی پر پیشہ ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے جبکہ یہ جانتے ہیں کہ کہاں پر فوکس کرنا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق ضعف ذہن کی بیماری میں مبتلا 90فیصد امریکی اکثر دوسری ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ، اس کی وجہ نسل در نسل بیماریوں کا منتقل ہونا اور گھر میں پرتشدد ماحول کا ہونا بھی ہے۔ تاہم ایسے افراد جو خود کشی کی سطح تک پہنچ چکے ہوتے ہیں انھیں آسانی  سے فوکس نہیں کیا جا سکتا ۔

ایس اے ایم ایچ ایس اے (SAMHSA ) خود کشی میں کمی کے لئے کام کرنے والا حکومتی ادارہ ہے۔ اس کے تحت دماغی صحت کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس سے لاکھوں امریکی مستفید ہو ئے ہیں، تاہم گزشتہ دو سالوں میں اس ادارے کی طرف سے حکومت کو فنڈز کے لئے کی جانے والی اپیلوں میں کمی ہوئی ہے۔ 2014ء کے لئے ایس اے ایم ایچ ایس اے کی طرف سے پچاس ملین ڈالر کی درخواست کی گئی جو 2012ء کی نسبت آٹھ ملین ڈالر کم ہے ۔ اس ادارے کی طرف سے لائف لائن کو سالانہ  3.7ملین ڈالر فنڈ دیئے جاتے ہیں ۔ اس سال ایس اے ایم ایچ ایس اے امریکیوں میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی کے لئے چلائے جانے والے پروگرام کی بہتری اور چیکنگ کے لئے دوملین ڈالر مزید خرچ کرے گا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ شہری اس سے کس حد تک مستفید ہو  رہے ہیں۔  ادارے کی انسداد خود کشی برانچ کے ایکٹنگ چیف رچرڈ میکون کا کہنا ہے کہ ہماری پالیسی تو یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے افراد پر فوکس کیا جائے جن کی زندگی زیادہ خطرے میں ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کو شش کی جاتی ہے کہ ایسے پروگرام بنائے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ ان کی ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکے۔

دی گڈ بی ہیوئر گیم (the good behaviour game ) اس ادارے کے تحت چلایا جانے والا ایک پروگرام ہے جس میں لوگوں کے رویے میں پیدا ہونے والے مسائل کی ابتدائی سٹیج پر تشخیص کی جاتی ہے، اس پروگرام پر پانچ سالوں میں گیارہ ملین ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں، اس سلسلے میں خاص طور پر نوجوانوں کو زیر غور لایا جاتا ہے۔

امریکی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود  ابھی تک سائنسی بنیادوں پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مینٹل ہیلتھ کی بہتری کے لئے شروع کئے جانے والے ان پروگراموں کے کیا نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ ایک میگزین سائیکاٹرک سروسز میں شائع ہونے والی 2009 ء کی ایک تحقیق کے مطابق 1987ء سے 2007ء تک200سے زائد ایسے پبلیکیشنز سامنے آئے جن کا مقصد عوام میں خود کشی کے رجحان میں کمی کے لئے شعور پیدا کرنا تھا اور انھوں نے عوام میں رسائی بھی حاصل کی تاہم اس حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے عوام میں مینٹل ہیلتھ کی بہتری میں اضافہ یا خود کشی کم ہونے کے رجحان میں کتنی کمی ہوئی ۔ ایک میگزین کے مطابق انسداد خود کشی کے حوالے سے لگائے جانے والے اشتہاری بورڈز کے نوجوانوں پر منفی اثرات بھی مرتب ہو ئے ہیں، نوجوان ان اشتہارات کو پڑھ کر مزید مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور مدد کے لئے فون کرنے کی بجائے خود کو مزید تنہا کر لیتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی میں ایس اے ایم ایچ ایس اے کے تعاون سے ایک تحقیق کی گئی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہیلپ سنٹر فون کرنے والوں میں خودکشی کا رجحان کتنا کم ہوا  ، یہ تحقیق  2007ء سے 2012ء کے درمیانی عرصہ پر مشتمل تھی، اس کے مطابق  ہیلپ سنٹر  پر بارہ فیصد فون کرنے والوں کا کہنا تھا کہ فون کے بعد ان میں خود کشی کا رجحان ختم ہو گیا جبکہ پچاس فیصد کا کہنا تھا کہ انھوں  نے اس کے بعد کونسلرز سے رابطہ کیا اور اپنا علاج کرایا۔ ایک اندازے کے مطابق انسداد خود کشی، تشہیری مہموں، مینٹل ہیلتھ کے پروگراموں اور دیگر اقدامات پر امریکی حکومت کے 35ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود پریشان کن پہلو یہ ہے کہ  امریکا میں خود کشیوں میںکمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے ۔ نیشنل سوسائیڈ پری وینشن لائف لائن کے ڈائریکٹر کے مطابق اس سال پہلے سے ایک لاکھ زیادہ فون کالز آنے کی توقع ہے، یہ اس حوالے سے خوش آئند بھی ہے کہ لوگ مدد کے لئے رابطہ کر رہے ہیں مگر افسوسناک بھی کہ لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے جو خود کشی میں اضافے کے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔


عام لوگ : مگر بہت خاص

$
0
0

ذرائع ابلاغ کا معتبر نشریاتی ادارہ CNN سن دو ہزار سات سے انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں ’’سی این این ہیروز‘‘ ایوارڈ تقسیم کررہا ہے۔

یہ ایوارڈ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے تن تنہا انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنی علاقائی کمیونٹی پر انحصار کرتے ہوئے اسے وسیع مشن میں تبدیل کردیا۔ ایسے بے غرض اور بے لوث افراد کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عام لوگوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں ’’سال دو ہزار تیرہ کا ہیرو ایوارڈ ’’حاصل کرنے والی شخصیت ’’ڈیل بیاٹے‘ اور دیگر چار اہم چار شخصیات کے کارناموں اور خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے، جنہیں ’’سی این این ہیروز‘‘ کا درجہ دیا گیا۔

٭ڈیل بیاٹے (Dale Beatty)
جنگیں انسانیت کے ماتھے پر داغ کی طرح ہوتی ہیں۔ آباد بستیوں کو تہس نہس کردینے والی یہ جنگیں نہ صرف ان میں شریک کتنے ہی افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کردیتی ہیں، بل کہ انفرادی طور پر ایسے حادثات اور سانحوں کا باعث بھی بنتی ہیں جن کے اثرات ساری عمر رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حادثے کے شکار ’’ڈیل بیاٹے‘‘ بھی ہوئے تھے۔ امریکی فوج کی جانب سے شمالی عراق میں خدمات انجام دیتے ہوئے ڈیل بیاٹے کی دونوں ٹانگیں ایک بارودی سرنگ کے پھٹنے سے گھٹنے کے نیچے سے ریزہ ریزہ ہوگئی تھیں۔ ڈیل بیاٹے کو محاذ جنگ سے واپس ریاست شمالی کیرولینا میں ان کے آبائی علاقے ’اسٹیٹس ویلی‘ میں بھیج دیا گیا۔ ایک چاق و چوبند شخص یکایک وہیل چیر کا محتاج ہوگیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے اپنے آبائی گھر کی تعمیر میں مصروف ہوگیا۔ مصنوعی ٹانگوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کام میں مصروفیت کے دوران ان کے آبائی علاقے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ڈیل بیاٹے اس ناگہانی آفت کا شکار ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ مستعد ہوگئے ہیں۔

ڈیل بیاٹے کے اس رویے نے اردگرد کے لوگوں کو ترغیب دی کے وہ ان کا ہاتھ بٹائیں دوست احباب کے اس رویے کے ردعمل میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو صرف اپنے گھر کی تعمیر تک محدود نہیں رکھے گا، بل کہ اب اس کی زندگی کا مقصد ان تمام افراد کے لیے گھروں کی فراہمی تھا جو جنگوں کے دوران حادثے کا شکار ہونے کے باعث مالی طور پر بدحال تھے یا پھر خود کو محدود کرچکے تھے۔ اس کام میں ان کا ساتھ نیشنل گارڈ سے تعلق رکھنے والے ان کے دوست ’’جان گلینا‘‘ نے دیا جو کہ پیشے کے لحاظ سے ماہرتعمیرات تھے، لیکن بطوررضا کار ڈرائیور شمالی عراق میں خدمات انجام دے چکے تھے اور جس حادثے میں ڈیل بیاٹے کی دنوں ٹانگوں کے پرخچے اڑ گئے تھے، جان گلینا اس گاڑی کو چلارہے تھے اور سخت دماغی چوٹ کا شکار ہوئے تھے۔

سن دو ہزار آٹھ میں دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی جمع شدہ رقوم اور امدادی رقوم کو ایسے گھروں کی تعمیر میں استعمال کریں گے، جن میں بہ آسانی وہیل چیئر کو حرکت دی جاسکے انہوں نے اپنے اس پروجیکٹ کا نام ’’پرپل ہارٹ ہوم‘‘ رکھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت ویتنام کی جنگ سے لے کر حالیہ دنوں میں جنگ سے متاثرین کے لیے خصوصی گھروں کی تعمیر شامل ہے جو دوران جنگ کسی بھی حادثے کے باعث معذور ہوچکے ہیں اور وہیل چیئر کے محتاج ہیں۔

ڈیل بیاٹے کی جانب سے معذوری کے باوجود تن تنہا شروع کیا جا نے والا یہ پروجیکٹ اب سو سے زاید فوجی معذوروں کے لیے گھر تعمیر کرچکا ہے۔ گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں ڈیل بیاٹے کو عطیوں اور رضاکار ہنرمندوں کی مدد حاصل ہے۔ ڈیل بیاٹے کے عزم اور تنہا ایک عظیم کاوش کے اعتراف میں سی این این نے انہیں سن دو ہزار تیرہ کا بہترین سی این این ہیرو قرار دیا ہے۔

٭چاڈ پری جریکا
چاڈ پری جریکا ایک ایسے شخص کا نام ہے جس نے امریکا کے دریا مسی سپی اور اس کے آبی راستوں کی صفائی کا تن تنہا بیڑا اٹھایا پندرہ برس قبل ابتدا میں تنہا کام شروع کرنے والے چاڈ پری جریکا کے ساتھ آج ستر ہزار رضا کاروں کی ٹیم ہے، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دریا کی صفائی کے دوران سڑسٹھ ہزار سے زاید گاڑیوں کے ٹائر، دو سو اٹھارہ واشنگ مشینیں، انیس ٹریکٹر، بارہ باتھ ٹب، چار پیانو اور ایک ہزار کے قریب ریفریجریٹر نکالے ہیں۔ امریکی ریاست الیانوائس کے علاقے ’’مولائن‘‘ میں پروان چڑھنے والے اڑتیس سالہ چاڈ پری جریکا جس مقام پر رہائش پذیر تھے دریائے مسی سپی اس کے ساتھ بہتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انہیں قدرتی طور بچپن ہی سے دریا میں بہتے کچرے کو دیکھ کر کوفت ہوتی تھی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دریا کی صفائی کے حوالے سے سب سے پہلے خود کو پھر مقامی آبادی کو راضی کیا۔ اگر چہ اس دوران انہیں ’’دریا کا کچرا چننے والا‘‘ پکارا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آج وہ نہ صرف اپنے کام پر فخر کرتے ہیں بل کہ مقامی لوگ بھی چاڈ پری جریکا کے شانہ بشانہ ہیں۔ واضح رہے کہ چاڈ پری جریکا اب یہ کام ایک غیرمنافع بخش تنظیم ’’لیونگ لینڈز اینڈ واٹرز‘‘ کے پلیٹ فارم سے کررہے ہیں اور اس دوران وہ دریا کی صفائی کے ساتھ ساتھ دریا کے اطراف میں دس لاکھ سے زاید درخت بھی لگا چکے ہیں اور مقامی لوگوں میں دریا میں صفائی کا شعور پیدا کرنے کے لیے مذاکرے اور سیمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔

٭ڈاکٹرجارج بیولی
کیمرون کا شمار براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے یہاں ہر پانچ میں سے دو فرد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار ر ہے ہیں۔ ایسے ماحول میں طبی سہولیات کا فقدان حیرت ناک امر نہیں ہے، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جب جارج بیولی نے ارادہ باندھا تو وہ اکیلے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایک رضا کاروں کی ایک بھرپور ٹیم تیار ہوگئی۔

سن دو ہزار دو میں جب ان کے والد طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث کسمپرسی میں انتقال کرگئے تو جارج بیولی نے سوچا کے وہ خود ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کریں گے اور پھر گاؤں گاؤں میں جاکر مریضوں کا علاج کریں گے۔

چناں چہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے مقامی کالج سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر ہفتے کی شام وہ گھر سے اپنی تیس رکنی ٹیم کے ساتھ جس میں مختلف علاقوں کے میڈیکل کے طالب علم بھی ہوتے ہیں، خطرناک جنگل اور دریا کے کنارے پر واقع دیہات میں نکل جاتے ہیں، جہاں مریض ان کا شدت سے انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جارج بیولی اب تک بتیس ہزار مریضوں کا ان کے علاقوں میں جاکر علاج کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پانچ ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہے۔ وہاں ڈاکٹر جارج بیولی جیسے افراد کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خود مریضوں کے پاس چل کر جاتے ہیں اور انہیں صحت جیسی نعمت قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

٭رابن ایمونس
اڑتیس سالہ رابن ایمونس اپنے بھائی کی دماغی بیماری کے باعث ایک ایسے مشن پر چل پڑیں جس کی مثال خال خال ملتی ہے رابن کے مطابق ان کا چھوٹا بھائی جو کہ ایک دماغی اور نفسیاتی بیماری شیزوفرینیا کا شکار تھا جب ہر ممکن علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہوسکا تو رابن ایمونس اسے دماغی اسپتال سے اپنے گھر لے آئیں اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جب وہ اپنے بیمار بھائی کو کھانے کے لیے تازہ پھل یا سبزی دیتی ہیں تو اس دوران میں ا ن کے بھائی کے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔

اس تبدیلی نے رابن کی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا کردی رابن کا خیال تھا کہ ا ن کا علاقہ ’’شارلوٹ‘‘ جو سیاہ فام غریب افراد پر مشتمل تھا اور جہاں لگ بھگ ’’ستر ہزار‘‘ افراد غربت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ لوگ مہینوں تازہ پھل یا سبزیاں کھانے سے محروم رہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقے میں بیماریوں کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے۔

چناں چہ رابن نے اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں مختلف پھل اور سبزیاں اگانے کا فیصلہ کیا اور جب ان کی اگائی گئی چھوٹی سی فصل تیار ہوگئی، تو انہوں نے یہ تمام سبزیاں اور پھل غریب عوام میں بانٹ دیں۔ رابن کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے علاقے کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے رابن کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور آج رابن اور ان کے دو سو کے قریب رضاکار ساتھی نو ایکڑ رقبے پر تازہ سبزیاں اور پھل اگاتے ہیں اور ابتدا سے اب تک چھبیس ہزار ٹن تازہ سبزیاں اور پھل عوام میں بانٹ چکے ہیں۔

پینتالیس سالہ رابن ایمونس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ اور ان کی تنظیم Sow Much Good نہ صرف عوام میں صحت بانٹ رہے ہیں، بلکہ بیماریوں کے خلاف قدرتی طریقوں سے مزاحمت کا شعور بھی پیدا کررہی ہیں۔

٭ ایسٹیلا پیفرام
ریاست فلوریڈا کے علاقے پام بیج سے تعلق رکھنے والی ’’ایسٹیلا پیفرام‘‘ ایک اسکول ٹیچر تھیں۔ ایسٹیلا پیفرام جب ریٹائر ہوئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بچے کمپیوٹر کی تعلیم کمپیوٹر نہ ہونے کے باعث حاصل نہیں کرپاتے ہیں، وہ انہیں کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جاکر دیں گی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں سے ایک بس خریدی۔ اس میں سترہ کمپیوٹر رکھے انہیں تیز تر سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے جوڑا اور تعلیم کے سفر پر جانکلیں ایسٹیلا اس وقت تک سیکڑوں بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم ان کے علاقوں میں جاکر ہفتہ واری بنیادوں پر فراہم کرچکی ہیں اور ہاں اسٹیلا پیفرام کی جانب سے خالصتاً علمی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی اس کمپیوٹر تعلیم کے دوران فیس بک کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے۔ چھہتر سالہ ایسٹیلا پیفرام کی جانب سے تن تنہا شروع کیے جانے والے اس منصوبے کی پذیرائی کرتے ہوئے سی این این نے انہیں سن دو ہزار تیرہ کا سی این این ہیرو قرار دیا ہے۔

کتنے قدم اور آگے بڑھی دنیا

$
0
0

انسانی معاشرے اور سائنس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی ہی معاشرتی ارتقا کی کلید ہے۔

اس میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ روز افزوں ہونے والی دریافتوں، ایجادات، اختراعات اور پیش رفت کی بہ دولت سائنس برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے اور اسی مناسبت سے معاشرے پر اس کے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔

2013ء میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ جہاں قدرت کے کئی سربستہ راز انسان پر منکشف ہوئے، وہیں اس نے ان گنت ایجادات و اختراعات بھی کیں۔ گذشتہ برس جہان سائنس میں ہونے والی اہم سرگرمیوں کا اجمالی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔

٭خلا، فلکیات
خلائے بسیط اور اس میں چھپے ہوئے اجرام فلکی ہمیشہ سے انسان کی دل چسپی کا محور رہے ہیں۔ اپنے فطری تجسس سے مجبور ہوکر انسان نے خلا کی بیکراں وسعتوں میں پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی جستجو کی، نتیجتاً اسرار کائنات اس پر کھلتے چلے گئے، مگر اب بھی بہت کچھ اس کی نگاہوں سے اوجھل اور اس کے ادراک سے ماورا ہے، جسے جاننے کے لیے وہ مسلسل کوشاں ہے۔ پچھلے برسوں میں مختلف ٹیکنالوجیز میں ہونے والی اہم پیش رفت اور جدید ترین آلات کے وجود میں آنے کے بعد خلائی تسخیر کا عمل تیز تر ہوگیا ہے۔ 2013ء میں ماہرین فلکیات نے کئی سیارے، سیارچے اور ستارے دریافت کیے۔ سائنس داں برسوں سے زمین سے مشابہہ سیارہ دریافت کرنے کی تگ ودو کر رہے ہیں۔

دراصل انھیں زمین کے علاوہ کسی سیارے پر زندگی کی تلاش ہے، اور زندگی کا وجود ہماری زمین جیسے کسی سیارے پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ زمین سے کسی حد تک مشابہ اب تک کئی سیارے دریافت ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ گذشتہ برس بھی جاری رہا۔ کیپلر خلائی رصد گاہ سے وابستہ ماہرین فلکیات نے KOI-172.02نامی سیارے کی دریافت کا اعلان کیا۔ نظام شمسی سے باہر ایک ستارے کے گرد محور گردش یہ سیارہ طبعی خصوصیات میں زمین سے کافی حد تک مشابہ ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس ستارے کا اپنے سورج سے فاصلہ کم و بیش اتنا ہی تھا، جتنے فاصلے پر سورج سے ہماری زمین ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سیارے پر حیات کی موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی ہرٹفرڈ شائر یونی ورسٹی کے محققین نے بھی زمین سے مشابہ تین سیارے دریافت کرنے کا اعلان کیا جو ایک ہی ستارے کے گرد محور گردش تھے۔

امریکی ماہرین فلکیات نے اعلان کیا کہ انھوں نے نظام شمسی کی حدود سے باہر سات نئے سیارچے دریافت کیے ہیں۔ ان سیارچوں کا سراغ ٹیکساس میں قائم میکڈونلڈ رصدگاہ میں نصب جدید ترین آلات کی مدد سے لگایا گیا۔

زمین سے مشابہ سیاروں کی دریافت میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ناسا کے مطابق اس کے سائنس دانوں نے Kepler-62e، Kepler-62f اور Kepler-69c نامی سیارے دریافت کیے جو اپنے اپنے ستاروں کے گرد مدار میں گردش کررہے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ان سیاروں سے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا ظاہر کررہا ہے کہ ان پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔ ناسا ہی کی جانب سے نظام شمسی سے باہر سب سے چھوٹے سیارے کی دریافت کا اعلان سامنے آیا۔ یہ سیارہ لگ بھگ زمین کے چاند جتنا بڑا ہے۔

نئے سیاروں کے وجود سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرین فلکیات نے گنجان ترین کہکشاں کا بھی سراغ لگایا۔ چار نوری سال کے فاصلے پر موجود اس کہکشاں میں ستاروں کی تعداد 10000سے زاید ہے۔ گذشتہ برس نظام شمسی کے سابق رکن پلوٹو کے دو مزید چاند دریافت ہوئے جنھیں Styx اور Kerberos کا نام دیا گیا۔ اس دریافت کے بعد پلوٹو کے پانچ چاند ہوگئے۔ زمین کے مدار میں موجود ہبل دوربین نے نظام شمسی کے بعید ترین سیارے نیپچون کا چودھواں چاند دریافت کیا۔

سیاروں، ستاروں اور سیارچوں کی دریافت کے علاوہ بھی خلا اور فلکیات کے شعبے میں کئی اہم واقعات ہوئے اور اہم سرگرمیاں انجام پائیں۔ گذشتہ برس ناسا کے زحل کے مدار میں موجود خلائی تحقیقی جہاز Cassini نے زمین اور چاند کی تصاویر ارسال کیں۔ ارضی تاریخ میں یہ تیسرا موقع تھا جب کسی دوسرے سیارے کے مدار سے زمین کی تصویر کھینچی گئی ہو۔ ماہرین فلکیات NuSTAR نامی مصنوعی سیارے کی مدد سے پہلی بار بلند ترین کمیت ( supermassive) کے حامل بلیک ہول کے گھومنے کی رفتار ناپنے میں کام یاب ہوئے جوکہ روشنی کی رفتار کے تقریباً مساوی تھی۔ سائنس دانوں نے زمین کے گرد تیسری تاب کار پٹی ( radiation belt ) بھی دریافت کی۔

99942 Apophis نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ماہرین فلکیات کئی برس سے یہ خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ 2036ء میں یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے گا، تاہم گذشتہ برس کیے جانے والے مشاہدات کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سیارچے کے راستے میں زمین رکاوٹ نہیں بنے گی، اور یہ اس سے ٹکرائے بغیر کافی فاصلے سے گزر جائے گا۔

 photo 28_zpse4fb08ce.jpg

زمین کے علاوہ جس سیارے پر سائنس دانوں کو حیات کے وجود کی قوی امید ہے، وہ سیارہ مریخ ہے۔ اس سیارے کے مدار اور اس کی سطح پر ناسا کے کئی خلائی تحقیقی جہاز سرگرم عمل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک Curiosityہے۔ گذشتہ برس اس خلائی جہاز نے ایسے شواہد دریافت کیے، جن کے تجزیے سے اندازہ ہوتا تھا کہ مریخ پر کبھی خلوی زندگی کے لیے حالات سازگار تھے۔ Curiosity کو مریخ کی مٹی میں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، آکسیجن، سلفر ڈائی اکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کلورومیتھین اور ڈائی کلورومیتھین جیسے عناصر دریافت کیے۔

2013ء میں سطح ارض پر سے کئی خلائی مشن لانچ کیے گئے۔ چاند کے اطراف کی انتہائی لطیف فضا پر تحقیق کے لیے گذشتہ برس ناسا نے The Lunar Atmosphere and Dust Environment Explorer ( LADEE) نامی اسپیس کرافٹ خلا میں روانہ کیا۔ 2013 ء میں ایران نے خلا میں ایک بندر کو پہنچایا اور اس جانور کی زمین پر بہ حفاظت واپسی بھی ہوئی۔

ایران کی اس ’مہم جوئی‘ کو مستقبل میں خلابازوں پر مشتمل مشن روانہ کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھا گیا۔ گذشتہ برس امریکا کے ایک اور حریف ملک شمالی کوریا نے بھی مصنوعی سیارہ کام یابی سے خلا میں پہنچایا۔ جاپانی خلائی ایجنسی ’’جاپان ایرواسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی ( JAXA) نے Epsilon نامی راکٹ ارضی مدار کی جانب روانہ کیا جو نسبتاً مختصر جسامت اور کم لاگت والی لانچ وہیکلز کے استعمال کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

 photo 27_zps1526ed11.jpg

2013ء میں بھارت نے مریخ کی جانب خلائی جہاز ’’منگلیان‘‘ روانہ کیا۔ اس مشن کی روانگی نے بھارت کی خلائی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ خلائی جہازوں کی لانچ کی دوڑ میں چین بھی دیگر ممالک سے پیچھے نہیں رہا۔ اس کا خلائی جہاز Chang’e 3 کام یابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا۔ Chang’e 3 کی کام یاب لینڈنگ کے بعد چین، امریکا اور روس کے بعد چاند پر خلائی جہاز اتارنے والا تیسرا ملک بن گیا۔ خلا کی وسعتوں میں جھانکنے کے لیے یورپی اسپیس ایجنسی نے خلائی دوربین’’Gaia‘‘ زمین کے مدار میں پہنچائی۔

٭طب، جینیات، خُلوی سائنس
انسان کو لاحق ہونے والے مختلف امراض بالخصوص لاعلاج امراض کا علاج دریافت کرنے کے لیے کوششیں گذشتہ برس بھی زوروں پر رہیں۔ اس ضمن میں کئی اہم پیش رفت بھی ہوئیں۔ برطانوی محققین نے چوہے کے جسم میں ضیائی حساسیت رکھنے والے خلیے داخل کرکے اندھے پن کا کام یابی سے علاج کیا۔ یہ طریقۂ علاج آزمائشی مراحل میں ہے۔ محققین نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں یہ طریقۂ علاج پردۂ چشم کے ورم کی بہ دولت نابینا پن کا شکار ہوجانے والے انسانوں پر استعمال کیا جاسکے گا۔

سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم روشنی کا ایسا ’’دھارا ‘‘یا بیم بنانے میں کام یابی حاصل کرلی، جس کے زیراثر خلیات اپنی مرضی سے حرکت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ریسرچ ٹیم کا کہنا تھا کہ ادویہ سازی اور خردحیاتیات کے شعبوں میں اس ایجاد کے وسیع اطلاقات سامنے آئیں گے۔

بولیویا کے سائنس دانوں نے اسٹیم سیلز کی مدد سے اسٹروک کا شکار چوہوں کے دماغی فعل کو مکمل طور پر بحال کردیا۔ اس تیکنیک سے اسٹروک کا شکار مریضوں کے مزید بہتر علاج میں مدد ملے گی۔

کیلی فورنیا کے تحقیق کاروں نے جینیاتی انجنیئرنگ کے ذریعے چوہوں میں خون کے عمررسیدہ خلیوں کو پھر سے شباب عطا کردیا، جس کے نتیجے میں ان کا جسمانی مناعتی نظام (امیون سسٹم) مضبوط تر ہوگیا۔ اگلے مرحلے میں اس تیکنیک کو انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ اگر یہ طریقہ کام یاب رہا تو پھر عمر رسیدہ افراد مؤثر انداز سے امراض کے خلاف مزاحمت کرسکیں گے۔

رعشہ ایک لاعلاج بیماری ہے۔ سائنس داں برسوں سے اسے شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی محققین نے اہم پیش رفت کی۔ انھوں نے ایک نئی مالیکیولی تھراپی وضع کی جس کے ذریعے دماغ تک ادویہ مؤثر انداز سے پہنچائی جاسکتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج سے رعشے سمیت دماغ سے تعلق رکھنے والی دیگر بیماریوں کے امراض میں بھی مدد ملے گی۔

امریکا کے قومی ادارہ برائے صحت نے ’’ہیومن کنیکٹوم پروجیکٹ‘‘ کے تحت انسانی دماغ کے بے حد تفصیلی اسکین جاری کیے۔ یہ پہلا موقع تھا جب انسانی دماغ کے اتنے تفصیلی اسکین منظر عام پر آئے ہوں۔ ان اسکین کی مدد سے نیورو سائنٹسٹ دماغ کی پیچیدگیوں کا زیادہ درستی کے ساتھ مطالعہ کرسکیں گے، اور اس سے انھیں دماغی امراض کے اسباب جاننے میں بھی مدد ملے گی۔

اپنے طرز کی اولین سرجری کے دوران محققین اور معالجین نے ایک زخمی مریخ کی کھوپڑی کا 75فی صد حصہ تھری ڈی پرنٹڈ پولیمر امپلانٹ سے بدل دیا،جس سے مستقل میں تباہ شدہ ہڈیوں کی جگہ پر ضرورت کے مطابق بنائے گئے امپلانٹس لگائے جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔ سرطان کی تشخیص کے ضمن میں ایک نئی تیکنیک بھی وضع کی گئی جس کے تحت سرطان سے متاثرہ خلیوں میں پروٹین کی شناخت کرنا مزید آسان ہوگیا۔

٭الیکٹرونکس، خود کار گاڑیاں، کمپیوٹنگ
الیکٹرونکس ان شعبوں میں سے ایک ہے جن میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے باعث برق رفتاری سے تغیرات رونما ہورہے ہیں۔ آئے روز نت نئے الیکٹرانی آلات پیش کیے جارہے ہیں، اور پیش رفت بھی ہورہی ہیں۔ 2013ء بھی اس حوالے سے اہم سال رہا۔ اس برس نئے طرز کے کئی آلات بنائے گئے۔ ایل جی الیکٹرانکس نے دنیا کا پہلا OLED ٹیلی ویژن عام فروخت کے لیے پیش کیا۔ OLED اسکرینز عام ایل سی ڈی اور پلازما اسکرینز کی نسبت زیادہ واضح تصویر دکھاتی ہیں۔

ہدایت کار جیمز کیمرون کی فلم ’’اوتار‘‘ نے تھری ڈی فلموں کو خاص و عام میں مقبول بنادیا تھا۔ اس فلم کی ریلیز کے کچھ ہی عرصے بعد پہلا تھری ڈی ٹیلی ویژن بنالیا گیا تھا۔ تھری ڈی فلموں سے لطف اندوز ہونے کے لیے خاص قسم کی عینک پہنی جاتی ہے۔ تھری ڈی ٹیلی ویژن پر پروگرام دیکھنے کے لیے بھی یہ عینک درکار ہوتی ہے۔

تاہم 2013ء میں سائنس دانوں نے ایسی ویڈیو اسکرین ایجاد کرلی، جس پر تھری ڈی شبیہیں دیکھنے کے لیے کسی عینک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امریکی انجنیئروں نے کیڑوں کی مرکب آنکھ سے مشابہہ کئی عدسوں کا حامل ڈیجیٹل کیمرا تخلیق کیا۔ اس کیمرے سے کھینچی گئی تصاویر انتہائی واضح ہوتی ہیں۔

اسی طرح مائیکروسوفٹ نے تھری ڈی ٹچ اسکرین تیار کی جس میں نصب سینسرز اور ایک خودکار بازو کے ذریعے ایک فرد اسکرین پر نظر آنے والی اشیاء کو چھو سکتا ہے۔
نت نئی ایجادات کے ساتھ الیکٹرونکس میں تحقیق کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یورپی محققین نے مالیکیولی نینووائرز تخلیق کیں جو اطراف موجود مقناطیسی میدان کے لیے بے انتہا حساسیت رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ایصالیت میں تبدیلی کے لیے حقیقی مقناطیسی مواد درکار نہیں ہوتا۔ ہجرتی پرندے بھی سفر کے لیے یہی تیکنیک اختیار کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایجاد ان ہی پرندوں سے متاثر ہوکر کی گئی۔ الیکٹرونکس کے میدان میں اس ایجاد کے ان گنت استعمالات سامنے آسکتے ہیں۔

کاروں کو ڈرائیور کی ’محتاجی‘ سے نجات دلانے کے لیے کئی برسوں سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ سائنس داں اس سمت میں خاصی پیش رفت کرچکے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب سڑکوں پر گاڑیاں بھی اپنی مرضی سے دوڑ رہی ہوں گی۔ گذشتہ برس ٹویوٹا نے ایک ایسی خود کار گاڑی پیش کی جو اپنے گردوپیش کو محسوس کرکے ردعمل ظاہر کرنے، ڈرائیور پر ’نظر‘ رکھنے اور دیگر گاڑیوں سے رابطہ کرنے کی اہل تھی۔ اسی طرح اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے انجنیئروں نے مینوئل سے بہ آسانی سیلف ڈرائیونگ موڈ پر منتقل ہوجانے والی کار بنالی۔

حالیہ چند عشروں کے دوران جس ٹیکنالوجی نے معاشرے کو یکسر بدل ڈالا وہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی ہے۔ ماضی کی طرح 2013ء میں بھی اس شعبے میں ایجادات و اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ برطانیہ اور کینیڈا کے ماہرین نے کاغذ جیسا مہین اور لچک دار ٹیبلیٹ کمپیوٹر تخلیق کرلیا۔

کم ترین گنجائش میں زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر ڈیٹا محفوظ کرنا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیٹا کی تیزترین منتقلی پر تحقیق کا سلسلہ بھی شب و روز جاری رہا۔ جاپانی آئی ٹی کمپنی این ای سی اور امریکی کورننگ ان کارپوریشن نے ملٹی کور فائبر آپٹک کیبل تخلیق جو فی سیکنڈ ایک پیٹا بائٹ ڈیٹا کی ترسیل کرسکتی ہے۔ یورپین مالیکیولر بایولوجی لیبارٹری سے وابستہ سائنس دانوں نے مصنوعی ڈی این اے میں ڈیجیٹل معلومات ذخیرہ کرنے میں کام یابی حاصل کی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ڈی این اے میں معلومات ذخیرہ کرنے کی بے حد صلاحیت ہوتی ہے۔ ماہرین نے ڈی این اے کی ایک لڑی میں ولیم شیکسپیئر کی تمام نظمیں محفوظ کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں مصنوعی ڈی این اے روایتی ہارڈ ڈرائیوز کلاؤڈ اسٹوریج کا نعم البدل ثابت ہوں گے۔

٭تھری ڈی پرنٹنگ
کمپیوٹر کی طرح اب تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی بھی عام ہوچکی ہے۔ اس کا استعمال تقریباً ہر شعبے میں کیا جارہا ہے۔ اب ایسے تھری ڈی پرنٹر بھی بنائے جاچکے ہیں جن کچھ برسوں پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 2013ء میں ماہرین تعمیرات نے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ عمارت کی تعمیر کے لیے تیاریاں شروع کردیں۔ اس عمارت کی تیاری میں صنعتی پیمانے پر تیارکردہ تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا انتہائی مضبوط ماربل استعمال کیا جائے گا۔ اس منفرد عمارت کی تعمیر رواں برس ہی مکمل ہوجائے گی۔

اسکاٹ لینڈ کی ہیروئٹ۔ واٹ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے زندہ اسٹیم سیلز پیدا کرنے والا تھری ڈی پرنٹر تیار کرلیا۔ اس پرنٹر کی تخلیق سے مستقبل میں حسب ضرورت مکمل اعضا ’ پرنٹ‘ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ امریکی سائنس دانوں نے انسانی بافتیں پرنٹ کرنے والا تھری ڈی پرنٹر بھی بنالیا۔ امریکی اور جاپانی سائنس دانوں نے، الگ الگ ایسے تھری ڈی پرنٹرز تخلیق کرلیے جو مختلف ذائقوں کے کھانے پرنٹ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح راکٹ کے انجن اور کار سے لے کر خردبینی بیٹریوں تک مختلف اشیاء بنانے والے تھری ڈی پرنٹرز بھی وجود میں آگئے۔

٭گلوبل وارمنگ
بڑھتا ہوا عالمی درجۂ حرارت (گلوبل وارمنگ) اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرات کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں زیربحث ہیں۔ 2013 ء میں بھی اس حوالے سے مختلف تحقیق سامنے آتی رہیں۔

سائبیریا کے برفانی غاروں سے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان غاروں میں مقید کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی کثیر مقدار آزاد ہوکر فضا میں شامل ہوسکتی ہے۔ ایک اور تحقیق میں کہا گیا کہ موسمی تغیرات شمالی انٹارکٹیکا میں فضائی اضطراب ( air turbulence) کی شدت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں جو مسافر طیاروں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ ایک اور ریسرچ میں بتایا گیا کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔

گذشتہ برس چین نے اعلان کیا کہ وہ 2016ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی حد مقرر کردے گا۔ چین کا یہ اعلان گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کرنے میں بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ چین کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی وہ اہم گیس ہے جو عالمی حدت میں اضافہ کررہی ہے۔

ایک تحقیق میں امریکا کے جنگلوں میں گاہے بگاہے آگ بھڑک اٹھنے کے واقعات کا سبب بھی گلوبل وارمنگ کو قرار دیا گیا۔

٭روبوٹکس
روبوٹکس یا روبوٹ سازی وہ شعبہ ہے، جس کا دائرۂ کار تیزی سے وسعت اختیار کررہا ہے۔ ماضی میں روبوٹوں سے محض چند ہی کام لیے جاتے تھے، مگر اب ان کا استعمال بہت متنوع ہوچکا ہے۔ ان خود کار مشینوں کی افادیت بڑھانے کے لیے ماہرین شب و روز مصروف کار رہے۔ گذشتہ برس کئی نئے طرز کے روبوٹ تخلیق کیے گئے اور روبوٹکس میں پیش رفت بھی ہوئیں۔ روبوٹکس کے ماہرین نے ایک آن لائن ڈیٹا بیس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ پلیٹ فارم لانچ کیا جس تک دنیا بھر میں کہیں بھی موجود روبوٹ رسائی حاصل کرسکیں گے، اس سے انھیں ناشناسا چیزوں اور اجسام کی شناخت کرنے اور مختلف کاموں کی انجام دہی میں مدد ملے گی۔

ایک برطانوی انجنیئر نے قوی الجثہ جھینگر نما روبوٹ تیار کیا، جس میں ڈرائیور کے بیٹھنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس روبوٹ سے کان کنی اور سمندری تحقیق کے منصوبوں میں کام لیا جائے گا۔ کمپیوٹر ساز ادارے آئی بی ایم نے دورافتادہ علاقوں میں پیچیدہ منصوبوں پر کام کرنے والے انجنیئروں کی معاونت کے لیے telepresence اور augmented reality جیسی ٹیکنالوجیز کا حامل روبوٹ تخلیق کیا۔

کیسا تھا گیا سال پاکستان کے لیے : بیتے برس معیشت اور سیاست کا چلن کیا رہا؟ دہشت گردی بڑھی یا گھٹی؟

$
0
0

اسلام آ باد: 2013 اپنی اچھی بُری تلخ اور شیریں یادوں کے ساتھ بیت گیا۔ اس امر کا جائزہ لینے کے لیے کہ پچھلے سال پاکستان کی سیاست اور معیشت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور یہ سال ہمارے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے کیسا رہا، ہم نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

 احسن اقبال (وفاقی وزیر پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ)
یہ سال پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس سال بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک جمہوری حکومت کا قیام انتہائی اچھے انداز میں عمل میں آیا۔ اس جماعت نے اقتدار حاصل کیا، جس کے لیڈر کو ایک آمر نے معزول کرکے جلاوطن کردیا تھا، لیکن اس جماعت کی جڑیں عوام میں موجود تھیں، عوام نے آمر کے اس اقدام کو ووٹ کی طاقت سے مسترد کر دیا اور اس سال اس جماعت کے حق میں فیصلہ دیا۔ انتخابات کے بعد وطنِ عزیز کی تاریخ میں پرامن انتقالِ اقتدارکا ایسا عمل وقوع پذیر ہوا کہ ایک مثال قائم ہو گئی۔

اس سال قوم کو قومی اسمبلی کا نیا اسپیکر ملا، صدر کی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس سال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں پاک فوج کے سربراہ کی تبدیلی عمل میں آئی۔ اس سارے سیاسی عمل سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوا جس سے معیشت میں بھی بہتری آئی۔ یہ سارے کام انتہائی دانش مندی سے انجام پائے، عوام کو کسی لمحے محسوس نہیں ہوا کہ جمہوریت اپنی پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔ اس سال بنیادی جمہوریت یعنی بلدیاتی الیکشن کا اعلان بھی ہوا، جس سے اقتدار نچلی سطح کو منتقل ہوگا۔ ملک کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں جا رہی ہیں۔ اس عمل سے جمہوری عمل مزید استحکام حاصل کرے گا۔ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عوام ایک سیاسی عمل کی تیاریوں میں مصروف نئے سال میں داخل ہوئے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا عمل 2013 میں شروع ہوا، جو نئے سال میں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ اس سال میں جمہوری کلچر کو فروغ حاصل ہوا جو وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا سنہرا باب ثابت ہو گا۔

اسد عمر ( مرکزی راہ نما تحریکِ انصاف، رکن قومی اسمبلی)
2013 کو ہم ملکی معیشت کے لیے بدتر سال قرار دے سکتے ہیں۔ غیرملکی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال حکومت سرمایہ داروں، صنعت کاروں، تاجروں کے ہاتھوں میں رہی، جنہوں نے نہ جانے کیوں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ میں کسی جماعت یا شخصیت پر کوئی الزام نہیں لگاتا کہ اس کلچر نے پہلے ہی ہمارے سیاسی منظر کو مکدر کررکھا ہے۔ صرف یہ گزارش کروں گا کہ جب تک اقتدار عوام کے ہاتھوں میں نہیں آئے گا، بہتری کے آثار پیدا ہونا مشکل ہوں گے۔ سال گذشتہ میں سیاسی حوالے سے پاکستانی عوام سے بہت سی کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔ اس سال کو ہم سیاسی حوالے سے مثالی قرار نہیں دے سکتے۔

بہ ظاہر 2013 میں سیاست کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دی مگر ایسا بھی نہیں کہ سیاست کے میدان میں پورے سال جمود رہا ہو۔ اس سال اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں زندہ رہیں گی۔ ان تبدیلیوں کے مستقبل میں گہرے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اس سال سیاسی حوالے سے قوم کو بہت کچھ ملا، نیا وزیراعظم، نئی کابینہ؛ یہ سب کچھ اسی سال سال وقوع پذیر ہوا۔ اس سال یہ بھی واضح ہوا کہ ہم ابھی تک الیکشن کا صاف شفاف عمل تشکیل نہیں دے سکے۔ اس سال سیاسی عمل پورے زور شور سے جاری رہا لیکن اس سارے سیاسی عمل میں ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کا کوئی بڑا مسئلہ حل نہیں ہوا، بل کہ پہلے سے موجود مسائل پہلے کی نسبت زیادہ گمبھیر ہو گئے، ہم لوڈ شیڈنگ کی مثال دے سکتے ہیں۔

مثالی سیاسی منظر نامہ ایسا بننا چاہیے کہ عوام کو جمہوریت کے اچھے ثمرات اپنی عملی زندگی میں محسوس ہوں۔ ان کی زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ مسائل حل ہوتے دکھائی دیں۔ اس سے جمہوری نظام کو تقویت ملے گی۔ عوام کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے گا لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ ہم جمہوری عمل کو کم زور کر رہے ہیں، جو کسی صورت بھی مفید عمل نہیں ہے۔

ایئرمارشل (ریٹائرڈ) شہزادچوہدری (دانش ور، تجزیہ کار)
خطے میں گذشتہ 30 سال سے عدم اعتماد کی فضا موجود ہے۔ اگر افغانستان، پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرے گا اور پاکستان، افغانستان میں دہشت گردی کی اجازت دے گا تو دونوں ملک اس آگ سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔

ڈاکٹر سعادت اسد (دانش ور)
اگر ہم بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی خوں ریزی، بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ کو الگ پیرائے میں اور طالبان ایشو کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھ کر دیکھیں تو ہمار ے سامنے ایک ہی سچائی اُبھر کر آئے گی کہ اس ایشو پر بات 2013 یا 2012 یا 2011 کی ہے ہی نہیں کیوںکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے لے کر آج تک جتنے بھی سال بیتے، اُن تمام میں دہشت گردی اور دہشت گرد چاہے، افغانستان میں ہوں یا پاکستان میں، پہلے سے زیادہ طاقت اور تعداد میں اُبھرکر سامنے آتے رہے ہیں، اس لیے بہ حیثیت کریمینالوجسٹ میری رائے پہلے دن سے یہی ہے کہ حکومت اور فوج جب تک اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کر کے اُس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، اُس وقت تک کسی بھی مسلمان ملک کے ماحول میں یہ جنگ جیتنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔

کریمینالوجی میں جرم، جرم کی درست تشخیص اور اُس کے بہترین حل کی بات ہوتی ہے اور میں اس جنگ کے پہلے دن سے ہی کہتا آرہا ہوں کہ اس مخصوص طالبان مائینڈ سیٹ سے جنگ میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر ہم امریکی عینک سے ہی ہر سچائی تلاش کرتے رہے تو طالبان ہمیں صرف اور صرف دہشت گرد ہی نظر آتے رہیں گے، لیکن ہمارے حکم ران ایک ناکام دہائی کے بعد صرف ایک بار اس بات کو پاکستان اور افغانستان کے اکثر سے زیادہ مسلمانوں کی عینک سے بھی دیکھنے کی زحمت گوارہ کرلیں تو ہمیں طالبان دہشت گرد نہیں بل کہ قرآن، حدیث و سنت کی پیروی کرنے والے ایسے نظریاتی لوگ لگیں گے۔

جنہیں پسند کرنے والے ہمارے سیاست دانوں، علما اور دانش وروں میں بھی موجود ہیں اور کھل کر طالبان کے نظریات کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں، جس کے باعث یہ جنگ ختم ہونے کے بہ جائے پھیلتی جا رہی ہے۔ جب تک ہماری حکومت بھی اس سچائی کو تسلیم نہیں کرے گی کہ ایسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ مسئلے کا حل کبھی جنگ کے میدان میں یا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں ہو سکتا، بل کہ اس مسئلے کا حل ان نظریاتی لوگوں کے دیکھنے، سوچنے، پرکھنے کے ڈھنگ اور اُن کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کے بعد ہی شروع ہو سکتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حکومت نے ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی۔

اگر دہشت گردی سے نمٹنے کا حل مشرق کی جانب ہے تو حکومت مغرب کی جانب مُنہ اٹھائے دوڑ رہی ہے، جب ہی تو سات ہی ماہ میں قوم مایوسی کی انتہا کو چھو نے رہی ہے۔

افغانستان میں اسی مائنڈ سیٹ کو ڈیل کرنے کے لیے امریکا اور نیٹو ممالک کے وسائل کیا کم تھے، کیا ہماری حکومت کسی بھی طرح اُن سے زیاد ہ وسائل استعمال کر سکتی ہے؟ اس لیے میں پھر اپنی اُسی تشخیص پر زور دوں گا اور آپ کی وساطت سے حکومت سے کہوں گا کہ یہ وہ جنگ ہے جو ہم نے بندوق کی گولی سے نہیں، قوم کے ذہن میں بیٹھ کر لڑنی ہے، دلیل کی طاقت اور سوچ کی درستی سے جیتنی ہے، کوئی اور طریقہ ممکن نہیں۔

بریگیڈیئر(ر) اسد منیر(عسکری ماہر)
دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے واقعات اور حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر مشرقی پنجاب میں کوئی واقعہ ہو تو اس سے مغربی پنجاب پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسی طرح ایران میں کوئی واقعہ رونما ہو تو اس کے اثرات بلوچستان پر مرتب نہیں ہوں گے۔

لیکن جب کابل، قندھار یا جلال آباد میں کوئی واقعہ رونما ہو تو اس سے پاکستان کے مختلف شہر براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کا اس حوالے سے بھی جائزہ لینا چاہیے۔

پروفیسر امجد ملک (ماہراقتصادیات و تعلیم)
2013 بہ ظاہر وطن عزیز کے لیے بنیادی تبدیلیوں کا سال کہلائے گا مگر یہ تبدیلیاں صرف چہروں کی تبدیلیاں تھیں۔ وطن عزیز کا مقدر اور غریب عوام جو کل آبادی کا 80 فی صد ہیں کی قسمت تبدیل نہ ہو سکی اور ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق یہ سال اہل وطن کے لیے ہر لحاظ سے بدتر رہا۔ یہ اشاریے( Indicators) بزبان خود معاشی تباہی کی داستان سنا رہے ہیں:

پاکستان کے بیرونی قرضے 70 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو کہ مکمل معاشی غلامی کے مترادف ہے۔
اندرونی قرضہ جات یعنی نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی 2013 میں تقریباً 600 ارب رہی جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
افراطِ زر نے پچھلے کئی سال کے ریکارڈ توڑ دیے معاشی نظریات کے مطابق اگر افراط زر کی شرح دو ہندسوں تک پہنچ جائے تو وہ معاشی ترقی کے لیے ایک انجن کا کام کرنے کی بجائے معاشی افراتفری اور بحران کا پتا دیتی ہے۔ 2013 میں غیرجانب دار معاشی تجزیات کے مطابق افراطِ زر 20 فی صد رہی۔

زرمبادلہ کے ذخائر 2002 کے بعد کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور کمرشیل بینکوں کے کل ذخائر 2013 کے آخر میں تقریباً 8 ارب ڈالر تھے جو پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں کبھی 15 ارب ڈالر سے کم نہیں ہوئے تھے۔

2013 غیرملکی سرمایہ کاری کے لحاظ سے انتہائی مایوس کن رہا۔ خالص بیرونی سرمایہ کاری منفی رہی، نئی بیرونی سرمایہ کاری نہ صرف نہیں ہوئی بل کہ پرانے سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ بنگلہ دیش اور ملیشیا منتقل کیا۔
غربت کی سطح سے نیچے آبادی کی شرح 60 فی صد سے بڑھ کر 70 فی صد ہو گئی۔ چوں کہ بنیادی معاشی ضروریات بجلی، گیس، پٹرول کی عدم دست یابی اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور غربت کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

کراچی : بابر علی
محترمہ نسرین جلیل (سینیٹر متحدہ قومی موومنٹ)
معاشی لحاظ سے2013 پاکستان کے لیے سود مند نہیں رہا اور اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس سال پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس کا اثر ملک کی معیشت پر بھی پڑا، جب کہ سرکلر ڈیبٹ کی مد میں 500 بلین روپے کی ادائیگی سے بھی ملکی معیشت بے حد متاثر ہوئی، اور آج سرکلر ڈیبٹ اس رقم سےنصف سے زاید ہوچکا ہے، جتنا آج سے چار ماہ پہلے ادا کیا گیا تھا۔ قدرتی گیس کی نعمت کو بطور سی این جی استعمال کرنے سے بھی ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے قدرتی گیس کو صنعتیں چلانے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے اس قدم سے ایک عام پاکستانی کی پر فی کس آمدنی میں اضافہ اور ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔

نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک اہم سبب طبقۂ اشرافیہ کا ٹیکس نیٹ میں نہ ہونا ہے پر تعیش زندگی گزارنے والے تقریباً 29 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں، جب کہ ستر فیصد پارلیمینٹیرین بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ زراعت کا شعبہ معیشت کا 22 فیصد ہے لیکن معیشت کے لیے اس کی اعانت2 فی صد سے بھی کم ہے۔ بجٹ خسارے میں جانے کی ایک وجہ آمدنی سے زیادہ حکومتی اخراجات ہیں۔

2013میں پاکستان کو مختلف نوعیت کے فرقہ ورانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے یہی تاثر پیدا ہو ا کہ پاکستان فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہو رہا ہے۔ اور یہ بات اس وقت کچھ حد تک درست بھی محسوس ہوئی جب یوم عاشورہ پر راولپنڈی میں مدرسے پر ہونے والے حملے کے بعد تشدد کی لہر ملک کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ مختلف فرقوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا سیاسی اور مذہبی راہ نمائوں کی ذمے داری ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اورقائد تحریک الطاف حسین کئی سالوں سے سندھ بھر میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ سال دونوں بڑے فرقوں پر اہدافی حملے کیے گئے ہیں لیکن عوام کی بڑی تعداد کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قایم ہے۔

گذشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک اہم وجہ لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، ہتھیار مافیا، طالبان اور وہ مجرمان ہیں جن کی پشت پناہی سیاسی تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ طالبان سے جنگ پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی جنگ ہے درحقیقت یہ پاکستان کی سلامتی کا سوال ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہے۔ طالبان کی حامی جماعتوں نے انہیں پاکستان میں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ وہ ان کی دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں پر اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں اور ان سب عوامل کی وجہ سے پاکستان اس جنگ میں بہت متاثر ہورہا ہے۔

سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے 2013پاکستان کے لیے تبدیلیوں کا سال رہا لیکن انگریزی میں ایک کہاوت ہے ’’مور تھنگس چینج دی مور دے ری مین دی سیم‘‘
(more things change the more they Remain the same) اور یہ کہاوت پاکستان پر پوری اترتی ہے۔ 2013 میں عام انتخابات، چیف جسٹس آف پاکستان، صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کی تبدیلی ہوئی لیکن اس سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسے ابھی بھی افراط زر (منہگائی) کا سامنا ہے۔ بے روز گاری بڑھتی جارہی ہے، ملک کو توانائی اور گیس کے بحران کا سامنا ہے، فیکڑیاں بند ہو رہی ہیں، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے اور ریاستی ادارے نقصان میں چل رہے ہیں جس سے معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اور ان تما م مسائل کی جڑجاگیردارانہ نظام اور جاگیردارانہ سوچ ہے۔

پروفیسر سحر انصاری(دانش ور، شاعر اور ادیب)
سال گذشتہ کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری کا کہنا ہے کہ معاشی لحاظ سے 2013پاکستان کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا، کیوں کہ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے عالمی منڈیوں میں ہماری ساکھ خراب ہوئی تو دوسری جانب اس کا سب سے بڑا اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑا۔ تاہم گذشتہ تین ماہ میں معاشی حالات میں بہتری آرہی ہے جب کہ اس بات کے لیے اپوزیشن بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے نئے کرنسی نوٹ چھاپنے پر پابندی لگوائی ورنہ افراط ِ زر مزید بڑھ چکا ہوتا۔ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے برسر اقتدار اور اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعتوں کا مثبت سوچنا ضروری ہے۔ فرقہ واریت اور مذہبی ہم آہنگی کے لحاظ سے 2013 بہت برا رہا، کیوں کہ اِس سال کئی بڑی بڑی شخصیات فرقہ واریت کی نذر ہوگئیں جو کہ نہایت افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشت گردی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت اور ناقابل بر داشت ہے، کیوں کہ اس میں صرف اور صرف معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور اسے کم ہونا چاہیے۔

جمہوریت بد ترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ اور یقیناً پاکستان میں جمہوریت کا فروغ ایک اچھا قدم ہے اور ہر حکومت اپنے اکثریتی علاقے کی فلاح کے لیے کام کرتی ہے جس طرح پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کے لیے ’’کم قیمت مکانات کی تعمیر‘‘،’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ اور جامعات قایم کیں تو یہی کام نواز حکومت اپنے صوبے کے لیے کر رہی ہے۔ لیکن نئے وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کی بات کی جائے تو عام آدمی اب بھی مشکل میں ہے، ’’بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ‘‘، ’’ٹریفک جام‘‘ اور ’’سی این جی‘‘ کی بندش نے عام آدمی کی زندگی عذاب میں کر رکھی ہے۔

ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی (ماہرِ معیشت)
2013معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے ایک ناکام سال ثابت ہوا۔ اس سال کچھ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں، جن سے یہی لگتا ہے کہ 2014بھی معاشی لحاظ سے ناکام سال ثابت ہوگا۔ نواز حکومت کا محور تھا کہ امریکا سے سفارش کروا کر آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ حاصل کریں اور اس کی آڑ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح، بجلی ، گیس اور پیٹرول کے نر خ بڑھا دیں اور روپے کی قدر گرادیں، طاقت ور طبقوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو بے تحاشا مراعات کے ساتھ لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کریں۔

نواز حکومت کو امریکا سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کو ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘،’’کیری لوگر بل‘‘ کے تحت ادائیگی کرے لیکن ا س کے بجائے انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ اسی سال ’’بزنس یوتھ لون اسکیم‘‘ کا اجرا کیا گیا ہے جو کہ ناکام ثابت ہوگا اور اس اسکیم سے بینکوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا گا۔ تاہم پاکستان کو ’’جی ایس ٹی پلس‘‘ ملک کا اسٹیٹس ملنا ایک اچھا قدم ہے لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے جس انتخابی منشور پر الیکشن جیتا تھا اس کو مکمل طور پر پس و پشت ڈال دیا گیا ہے۔

لاہور: رانا نسیم
رسول بخش رئیس
2013ء کو سیاسی اعتبار سے ملک کے لیے ایک اچھا اور مثبت سال قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں گذشتہ برس سیاست کے میدان میں تین حوالوں سے مثبت پیش رفت ہوئی جو قابل ستائش تھی۔ ایک تو ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حقیقی جمہوری حکومت اور پارلیمان نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ دوسرا عام انتخابات ہوئے جس میں دستور کے مطابق ایک سیاسی جماعت (جو حکومت میں تھی یعنی پیپلزپارٹی) نے اقتدار دوسری سیاسی جماعت (ن لیگ جو اس وقت اپوزیشن میں تھی) کے حوالے کیا۔ جمہوریت کے لئے یہ اتنا اچھا اقدام ہے کہ آئندہ اگر دو یا تین مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے (یعنی دستور کے مطابق اقتدار کی منتقلی) تو مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔

سالِ گذشتہ میں سیاسی حوالے سے تیسرا قابل ستائش پہلو یہ رہا کہ جمہوری لوگ یعنی سیاسی پارٹیاں نہایت دبائو میں تھیں، کیوں کہ کچھ لوگ جو ہمیشہ سے فوج کو اقتدار میں لانے کے حمایتی تھے، ان کی شدید خواہش تھی اب کی بار بھی کسی طرح جمہوریت پر شب خون مارا جائے، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے مزاحمت کی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ اس تعاون سے جمہوریت کی جڑیں کاٹنے والے ناکام رہے۔ دہشت گردی کے لحاظ 2013ء بہ نسبت 10،11اور2012ء خصوصاً آخری 6ماہ کچھ بہتر گزرا، یعنی حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے میں جزوی کام یابی حاصل ہوئی۔ اس ضمن میں تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو کافی اہمیت حاصل ہے، گو کہ طالبان سے مذاکرات تو نہ ہو سکے لیکن ایک سمت کا تعین ضرور ہوا۔ طالبان کے 30 سے زائد گروپ ہیں جو ایک ہی لیبل استعمال کرتے ہیں۔

حکیم اللہ محسود اللہ کو پیارے ہوئے جس سے طالبان کو بڑا دھچکا لگا۔ اب جو تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ ہیں مولوی فضل اﷲ ان پر تمام قبائل کا اعتماد نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ فسادات میں تیزی آئی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کم زور ضرور ہوئے لیکن وطن عزیز خطرات سے باہر نہیں نکل سکا، جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف ہماری پالیسی کی ناکامی ہے۔ پچھلے سال ملکی معیشت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی لیکن، ایسا ضرور محسوس ہوا کہ بحالی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد بحال ہوتا ہوا نظر آیا لیکن اصلاحات نہ ہوسکیں۔ حکومت معاشی بہتری کے لیے کوئی بڑے فیصلے بھی نہ کر پائی۔ مثلاً ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا جا سکا، جس کے باعث حکومت کے پاس پیسہ نہیں اور ترقیاتی کاموں کے لئے ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ حاصل کرنا پڑا۔ مہنگائی بھی بڑھی لیکن ایسے نہیں جیسے ایران یا دیگر ممالک میں بڑھی۔ تو اقتصادی لحاظ سے حکومت بحالی کے راستے پر چلی نہیں لیکن اس کی تیاری ضرور کی گئیں۔

ڈاکٹرسلمان شاہ (ماہر معیشت، سابق وفاقی وزیرِخزانہ)
گذشتہ برس انتہائی اہمیت کا حامل رہا، کیوں کہ اس میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ جمہوری حکومت، صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور تحریک طالبان کا سربراہ تبدیل ہوا مگر ان سب تبدیلیوں کے باوجود فیصلہ سازی میں جمود دکھائی دیا۔ ملکی ترقی کے لیے جن مقاصد کا حصول ضروری تھا وہ حاصل تو کیا ہونا تھا، ہم ان کے اندر موجود ابہام ہی کو ختم نہ کر سکے۔ الیکشن کا میدان ضرور سجا لیکن ماضی کی طرح اس پر انگلیاں ہی اٹھتی رہیں۔ سیاست کو ذاتی مفادات سے بالاتر کرنے کے رجحان میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور جب تک ہم اس مقصد کے حصول میں پوری طرح سے کام یاب نہیں ہوتے ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہے اور پھر اس کے برے اثرات نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا۔

بدامنی کے باعث ملک میں سرمایہ کار نہیں آیا تو سرمایہ کاری ختم ہوتی چلی گئی۔ ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا لگا اور یوں ہم دنیا سے کٹتے جا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے جیسے الزامات کے باعث دنیا ایک طرف اور ہم دوسری طرف کھڑے ہیں، جو کسی طور بھی درست نہیں کیوں کہ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے بہت خطرناک ہے۔

دنیا سے تنہائی کا تاثر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں باور کروائیں کہ ہم دہشت گرد ہیں نہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ہیں۔ پاکستان کا معاشی مفاد اور امن افغانستان سے جڑا ہے اور دنیا بھر کی نظریں افغانستان پر جمی ہیں۔ امریکہ اور یورپ افغان نیشنل آرمی بنانے جا رہے ہیں۔ افغانستان کو سینٹرل زون بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس سارے عمل میں پاکستان کو گیٹ وے کا کردار ادا کرنا ہے۔

پاکستان اس عمل میں اگر کلیدی کردار ادا کرے گا تو اس سے ہمارے ہاں امن ہو گا اور نتیجتاً معاشی بہتری آئے گی، اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ گذشتہ برس امن اور معیشت کے حوالے سے پاکستان کے لیے کسی طور بھی بہتر نہیں تھا کیوں کہ ریاست کی رٹ کو بار بار چیلینج کیا گیا، جس کے باعث نہ صرف پاکستانی مارے گئے بلکہ معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا۔

جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرینس پلس (جی پی ایس) کا درجہ پانا گو کہ ملکی معیشت میں بہتری کی طرف اہم قدم ہے، لیکن اس سہولت سے ہم تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب ہماری انڈسٹری چلے گی۔ پھر جی پی ایس پلس تو سال گذشتہ کے اواخر میں ملا لیکن مجموعی طور پر سارا سال معیشت دبائو کا ہی شکار رہی۔ نوٹ چھاپنا مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ معیشت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ منہگائی، بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ نے عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا۔

مفتی محمد یونس(عالم دین)
پہلے تو ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا نظام حکومت ہے کیا؟ کیوں کہ اسلامی نقطہ نظر سے پاکستان میں قائم نظام حکومت پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں۔ اور پھر جو جمہوری نظام ہم نے اپنا رکھا ہے، اس میں متعدد چیزیں قابل اصلاح ہیں کیوںکہ آئین پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مذہبی حلقے اس نظام کے خلاف نہیں لیکن ہم اس میں بہتری کے متمنی ضرور ہیں۔ گذشتہ برس اقتدار کی پُرامن منتقلی ضرور ہوئی، لیکن چہرے نہیں بدلے، ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ شاید اس بار یہ اپنی اصلاح کریں۔ کہا جا رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے لیکن میرے نزدیک یہ کوئی خوبی نہیں کیوں کہ جب ساری برائیاں اور کم زوریاں موجود رہیں، ان میں کچھ بھی بہتری نہ آرہی ہو تو پھر پانچ سال چھوڑیں کوئی سو سال بھی پورے کر لے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تعلیم، عدل و انصاف اور امن کے حوالے سے گذشتہ برس بھی ویسا ہی گزرا جیسے پہلے وقت گزر رہا تھا۔ پچھلے سال بدامنی اور دہشت گردی کی لہر برقرار رہی اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، تاہم طالبان سے مذاکرات کے اعلانات کیے گئے لیکن اس میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو کوئی اچھی امید کی جا سکتی ہے، وگرنہ یونہی قوم مرتی رہے گی۔

ہاں اس کے علاوہ پولیس کی نااہلی کے باعث اسٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھنے کو ملا، چوروں اور ڈاکوئوں نے دن اور رات کی تمیز ہی ختم کر دی۔ راہ چلتے شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے اور کوئی مجرموں کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔

معیشت کی بہتری کے لیے سب سے بنیادی چیز اچھی منصوبہ بندی اور سادگی کا فروغ ہے، لیکن افسوس! کہ ہمارے حکمران اس صفت اور صلاحیت سے محروم ہیں۔ جی ایس پی پلس کے درجے کا حصول درست مگر چند جزوی اقدامات سے معیشت میں کوئی بڑی تبدیلی یا بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور ہماری معیشت کا دارو مدار ہی زراعت پر ہے لیکن سرکاری سطح پر کسان کو سہولیات دینے کے بجائے مزید تنگ کیا گیا۔

پانی کی فراہمی و تقسیم کے مسائل، منہگی بجلی، ڈیزل، کھاد اور بیج نے کسان اور نتیجتاً شعبہ زراعت کو بے انتہا متاثر کیا۔ سالِ گذشتہ قومی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر خاص توجہ نہیں دی گئی، جس کے باعث وطن عزیز کے معاشی حالات دن بہ دن ابتری کی جانب گام زن ہیں۔ افراط زر اور منہگائی نے مجموعی طور پر شہریوں کی زندگی اجیرن کیے رکھی۔

کوئٹہ، عارف محمود
تصاویر: بنارس خان
محمد عثمان خان کاکڑ
(صوبائی صدر پشتونخواملی عوامی پارٹی بلوچستان)
2013ء دوسرے سالوں کی نسبت بہتر تھا۔ اس حوالے سے کہ انتقال اقتدار عدلیہ، فوج کے سربراہوں اور وزیراعظم کی پرامن اور جمہوری ماحول میں رخصتی ہوئی۔ مئی میں عوام نے انتخابات میں ووٹ کا استعمال کیا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کیا۔42سال کے عرصے کے بعد بلوچستان میں بہترین صوبائی حکومت بنی۔ پرانے لوگ چلے گئے نئے لوگ آئے۔ گزرے سال میں صوبائی حکومت کو یہ اعزاز بھی ملا کہ پورے ملک میں سب سے پہلے شفاف انداز میں بلدیاتی انتخابات کرائے، جس کی شفافیت کی تصدیق نہ صرف میڈیا بلکہ دولت مشترکہ نے بھی کی اور صوبے کی ایک کروڑ آبادی بھی اس کی گواہ ہے۔

2013ء امن وامان کے حوالے سے ایک بہتر سال تھا گذشتہ سالوں کی نسبت اس میں دہشت گردی اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اور دوسرے جرائم50 سے 60 فی صد کم ہوئے۔ معاشی لحاظ سے یہ بدترین سال تھا مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے۔ تیل گیس بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھے ان سب کے اپنے اپنے اسباب ہیں وہ یہ ہے کہ بجٹ کا زیادہ حصہ فوج وزراء بیوروکریسی پر خرچ ہوتا ہے اور بڑی رقم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ اس میں خود ساختہ منہگائی بھی شامل ہے۔

امیر لوگ صنعت کار اور تاجر ٹیکس نہیں دیتے یہ بھی معاشی بدحالی کی وجہ ہے۔ قوموں کے درمیان معاشی مساوات نہیں ہے۔ جہاں تک مذہبی رواداری کی بات ہے تو سال 2013ء میں مذہبی رواداری بہت کم رہی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے مذاہب کے درمیان کشمکش کو بڑھایا۔ اس میں ریاست کا بھی کردار ہوتا ہے۔ فرقہ وارانہ نفرتیں نہیں ہونی چاہییں۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں سردی کا 30سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور کم سے کم درجۂ حرارت منفی18تک گرگیا ہے۔ گیس فراہمی کے حوالے سے سال 2013ء بدترین سال رہا شدید سردی میں بچوں خواتین بوڑھوں کی کیا حالت ہوگی بجلی کی فراہمی کے حوالے سے بھی رجحان اچھا نہیں رہا۔ لوڈ شیڈنگ وہی رہی اس میں کمی بیشی نہیں ہوئی۔ مرکزی حکومت کی گیس اور بجلی کے حوالے سے ساری توجہ پنجاب پر ہے جو واقعتاً امتیازی سلوک ہے۔

عبدالمتین اخونزادہ (امیرجماعت اسلامی بلوچستان)
سیاسی حوالے سے قوم کو جو امید تھی کہ 2013ء تبدیلی کا سال ثابت ہوگا، وہ پوری نہیں ہوئی۔ البتہ مقررہ وقت پر الیکشن ہوئے پیپلزپارٹی نے بہانے کرتے ہوئے وقت گزار دیا، لیکن ہم الیکشن کا خیر مقدم کرتے ہیں انتخابات شفاف کرانا، الیکشن کمیشن کا کام تھا، لیکن 2013ء میں یہ کام نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہمارے یہاں الیکشن کرانے کا فرسودہ نظام رائج ہے، جو جاگیرداروں وڈیروں کو تحفظ دینے کا نام ہے، اس سے قوم کو جس تبدیلی کی امید تھی وہ پوری نہیں ہوسکی۔ الیکشن کے رزلٹ اس طرح آئے کہ فیئر نہیں ہوسکے۔ مجموعی طور پر ہم جون سے دسمبر تک مصنوعی قیادت میں چلے گئے۔ حکومت نے کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا خود کو دہشت گردی کی جنگ سے الگ نہیں کیا۔

وزیراعظم میاں نواز شریف چھے مہینوں میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاسکے۔ مسائل روایتی طور پر تو حل نہیں ہوسکتے حکومت اب تک کوئی کام یابی حاصل نہیں کرسکی حکومت کو معاشی طور پر بھی کوئی پذیرائی نہیں مل سکی۔

ہمارا تصور ہے کہ کرپشن جو بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے وہ ختم کی جائے بڑے لوگ اگر چاہیں تو سیاسی قیادت بہتر طور پر کام کرسکتی ہے۔ میاں نواز شریف نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو فالو کیا جس سے منہگائی بڑے پیمانے پر پھیلی۔ ہمارا خیال تھا کہ میاں نواز شریف کو پہلے بھی حکومتیں کرنے کا تجربہ ہے، لیکن وہ کوئی ایسا کام نہیں کرسکے۔ ان کا نعرہ تھا کہ صنعت کاروں کو تحفظ دیں گے، نوجوانوں کو روزگار دیں گے لیکن یہ نوجوانوں کو سودی کاروبار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

یہ روزگار کے مواقع پیدا نہیں کرسکے، ٹیکس وصولی میں بھی بہتری نہیں آئی۔ سال 2013ء کی پہلی ششماہی میں کہیں بہتری نظر نہیں آئی یہ بجلی کا بحران مصنوعی طریقے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مذہبی رواداری کی بات ہے تو ملک میں فرقہ واریت بڑھ رہی ہے بالخصوص کوئٹہ، خیبرپختونخوا، شمالی علاقہ جات اور نومبر میں سانحۂ راولپنڈی یہ خطرات کی نشان دہی ہے اور یہ عملاً استعماری منصوبہ ہے، جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مرحوم قاضی حسین احمد نے نئے عزم کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل کی تنظیم نو کی نومبر2013ء میں اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام دانش وروں نے شرکت کی تھی اور ان خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پرزوردیا تھا۔

ولی محمد، بلوچستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر)
سال2013ء میں پاکستان میں معیشت کے حوالے سے کوئی بہتری نظر نہیں آئی، دہشت گردی، بے روزگاری کرپشن کی وجہ سے معیشت کا پہیا جام ہوچکا ہے۔ توانائی نہ ہونے سے فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ ڈالر90روپے سے110روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں15سے25 فی صد بڑھ گئی ہیں۔30 لاکھ بڑے لوگ ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں جن میں زمیندار اور وڈیرے بھی شامل ہیں، لیکن ان پر ٹیکس لاگو نہیں کیا گیا۔

یورپ اور امریکا میں لوگوں سے ٹیکس لے کر غریب عوام پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ٹیکس کی مد میں ساڑھے تین ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ قرضے بڑھ رہے ہیں حکومت نوٹ چھاپ رہی ہے کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی۔2013ء مایوسیوں کا سال رہا جس میں غریب سے غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا گیا ریلوے، اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے بڑے ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ حکومت کو ایسی پالیسی واضع کرنی چاہیے جو بھی حکومت آتی ہے قرضے لیتی ہے قرضوں پر معاشی حالت نہیں چل سکتی جو قرضے لیتے ہیں تو انہیں مناسب جگہ پر خرچ کرنا چاہیے۔ بلوچستان سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے یہاں پر اغوا برائے تاوان بڑا کاروبار بن گیا ہے۔

پشاور: نوید جان
انجنئیرامیر مقام
(وزیراعظم کے مشیراورمسلم لیگ (ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر)
2013ء جمہوریت کی مضبوط کے تسلسل کاسال رہا، کیوں کہ اس برس اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا، چیف جسٹس اور آرمی چیف کی تبدیلی کا عمل آئینی اور جمہوری انداز میں مکمل ہوا جو یقیناً پاکستان کی تاریخ میں ایک بہترین اضافہ ہے، ساتھ ہی جب نوازشریف کی قیادت میں نئی حکومت بنی تو عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا گیا جس کے لیے سرتوڑ کوشش کی بھی گئیں اور جاری بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ گذشتہ برس بہت سے چیلینجز کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں دہشت گردی، لا اینڈ آرڈر کی صورت حال، مہنگائی اور بے روزگاری سرفہرست تھے لیکن ٹھوس اقدامات کی بدولت صورت حال میں واضح فرق دکھائی دیا ہے، جب کہ پاور سیکٹر میں انقلابی اقدامات کیے گئے۔

پہلی فرصت میں 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا گیا جس سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی واقع ہوئی، اسی طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور دیگر منصوبوں کے لیے امداد دینے پر آمادہ ہوئے، اس سے قبل مذکورہ ادارے امداد دینے سے انکاری تھے۔ 2013ء میں یہ اہم پیش رفت ہوئی اسی طرح سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کوششیں تیز ہوئیں اس ضمن میں چین کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے گوادر تک ریلوے ٹریک اور سڑک بنانے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی سطح کو 111روپے کی سطح سے کم کرکے 104 روپے تک لایا گیا، جس سے منہگائی میں واضح کمی ہو گی اس تناظر میں منہگائی 8 فی صد رہنے تک امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

میاں خلیق الرحمان خٹک
(تحریکِ انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختون خوا اور پارلیمانی سیکرٹری برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپیمنٹ)
گذشتہ برس خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کو اقتدار ایسے وقت میں ملا جب حالات انتہائی کٹھن اور صبر آزما تھے، دہشت گردی کا عفریت سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ روزانہ 800 ارب روپے کی کرپشن نے اداروں کو دیوالیہ ہونے کے قریب کردیا تھا، منہگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا دور دورہ تھا لیکن سہ فریقی اتحاد کی حکومت نے چند ہی ماہ میں ایسے انقلابی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے کہ کرپشن میں واضح کمی دیکھنے کو ملی جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ دال ہے، دوسری جانب صوبے میں تقرریوں اور تبادلوں کو میرٹ کی بنیاد پر کرانے کی مثال قائم کر دی، کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب شروع کردیا، جب کہ زیادہ تر کرپٹ کو گھر بھیج دیا گیا۔

عوام کو سرکاری محکموں اور اداروں تک رسائی کے لیے آرڈیننس تیار کیا، شکایات کے فوری ازالے کے لیے سی ایم ہاؤس میں الگ سے شکایات سیل قائم کیا، حکومتی اخراجات میں کمی گئی، بلدیاتی انتخابات کے لیے بلدیاتی نظام میں ترامیم کی گئیں، علاوہ ازیں قیام امن کے لیے عمران خان کی قیادت میں مذاکرات پر زور دیا گیا، جس کے لیے عملی اقدامات کیے گئے، ڈرون حملے بند کرانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیٹو سپلائی کی بندش کی گئی اسی طرح امن و امان کے قیام کے لیے پولیس کی لازوال قربانیوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے کا اعلان کیا گیا۔

لائق زادہ لائق(شاعر، ادیب، ڈراما نگار اور نقاد)
2013ء میں بہت سے واقعات دلوں کو دہلانے والے رونما ہوئے جب کہ خیبر پختون خوا کو تو جیسے افتادوں نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ گذشتہ سال کو اگر مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو ہر شعبۂ زندگی میں جمود اور مایوسیوں کے سائے منڈلاتے رہے، وہ شعبہ چاہے معیشت سے تعلق رکھتا ہو، امن و امان سے اس کا تعلق ہو، شوبز سے وابستہ سرگرمیاں ہوں، ادب اور شعر و شاعری کا حوالہ ہو سب میں کچھ نہ کچھ تشنہ لبی دامن گیر رہی۔ یوں لگتا ہے کہ جس مقصد کے لیے مملکت خداداد کا وجود قائم ہوا تھا سب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ تخلیق کار خصوصاً شاعر معاشرے کے نباض ہوتے ہیں تو اس ضمن میں گزرا برس بھی اس حوالے سے مایوس کن رہا، کیوں کہ حب الوطنی اور معاشرے کی حقیقی عکاسی کی بجائے ایسے اشعار کہے گئے کہ ان کا پختون روایات سے دور کا بھی وابستہ نہیں۔

 

 photo 24_zps77f14021.jpg

ایسی شاعری گیتوں کی شکل میں نہ گھر میں سننے کے قابل ہے اور نہ بسوں میں اس کو کوئی سنجیدہ شخص سن سکتا ہے، کیوں کہ ایسی شاعری شاعرانہ آداب اور اسلوب سے عاری ہوتی ہے۔ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا کہ یہ بازاری شاعری ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی شاعری معاشرہ بناتی نہیں بل کہ بگاڑ دیتی ہے اور پچھلے برس اس قسم کی شاعری کا زور رہا۔ تاہم کبھی بھی ناامیدی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہے اگر گذشتہ برس مایوسی کے بادل منڈلاتے رہے تو اس میں کہیں نہ کہیں سورج کی کرنیں بھی جلوہ گر ہوتی رہیں یعنی اچھے کام بھی ہوئے جو حوصلہ افزا ہیں۔

مولانا خلیل احمد(عالم دین)
2013ء بحیثیت مجموعی اور بطور خاص امن و امان کے حوالے سے زیادہ امید افزا نہیں رہا، کیوں کہ اس برس چند ایسے واقعات رونما ہوئے جس پر خون کے آنسو رویا جا سکتا ہے، کیوں کہ خودکش دھماکوں کا تسلسل جاری رہا، بے گناہ شہریوں کی موت کے پروانے ڈرون حملوں کے ذریعے آتے رہے۔ دوسری طرف اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور ذاتی دشمنیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا، جس سے عوام خوف کے سائے میں جیتے رہے اور کبھی سکھ اور چین نہیں رہا۔

لیکن میں سمجھتا ہوں اور یہ اٹل حقیقت بھی ہے کہ جب تک ہم منتشر رہیں گے یک جان نہیں ہوں گے تو اغیار اور طاقوتی قوتیں ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہیں گی اور ہم یوں کم زور ہوتے جائیں گے، لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی ہماری کام یابی و کامرانی ہے، جب تک ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے ہم یوں ہی دوسروں کے زیرنگیں اور دست نگر رہیں گے۔ اس لیے ہمیں ذاتی طور پر اور بحیثیت مسلمان قوم اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق زندگی گزارنی ہو گی۔

حاجی حلیم جان(صدر انجمن مرکزی تاجران خیبرپختون خوا)
پچھلا برس تو پورے خیبر پختون خوا کے عوام کے لیے مایوس کن تو تھا ہی لیکن سب سے زیادہ کاروباری طبقہ متاثر ہوا، کیوں کہ بدامنی، لاقانونیت اور بھتاخوری کے باعث زیادہ تر سرمایہ کار اپنا سرمایہ دبئی اور دیگر خلیجی ممالک منتقل کرچکے ہیں۔ دوسرے درجے کے سرمایہ کار اسلام آباد اور لاہور اپنا سرمایہ بمعہ اہل و عیال منتقل کر چکے ہیں، جب کہ تیسرے درجے اور کم زور تاجر یہاں ناگفتہ بہ حالات میں کسمپرسی کی حالت میں اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بدامنی کے باعث پورے صوبے کی معیشت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ نکال چکی ہے، جب کہ آپ کو آئے دن دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہیں۔

کسی سے بھتا وصول کیا جارہا ہے، کسی کو اغوا کر کے تاوان وصول کیا جارہا ہے، کسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے، تو ایسے میں یہاں کاروباری سرگرمیاں کیسے فروغ پائیں گی اور کس طرح معیشت بہتری کی جانب گام زن ہو گی۔ خیبر پختون خوا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز صوبائی دارالحکومت پشاور کے سب سے بڑے کاروباری مرکز قصہ خوانی بازار میں اگر 13 خودکش دھماکے ہوتے ہوں تو آپ خود ہی بتائیں کہ یہاں سرمایہ کاری کون کرے گا اور کاروباری سرگرمیاں کس طرح پروان چڑھیں گی، ایسی صورت حال میں تو بس ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ امن کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کے ساتھ کاروباری طبقے کو تحفظ فراہم کرنے سمیت تاجروں کو خصوصی مراعات دی جائیں اور ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے۔

فاروق شیخ : اپنی شخصیت کی طرح خوب صورت اداکاری کرنے والا فن کار دنیا چھوڑگیا

$
0
0

ہندوستانی آرٹ سنیما کے قدآور اداکاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو فاروق شیخ کا نام یقینی طور پر اس میں شامل ہوگا۔

فاروق نے اس زمانے میں متوازی سنیما میں نام پیدا کیا جب اس فلم نگر میں نصیرالدین شاہ، اوم پوری اور کلبھوشن جیسے اداکاروں کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اس اداکار نے روایتی کمرشیل فلموں میں بھی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے مگر اس کی شناخت آرٹ فلمیں ہی رہیں۔

فاروق کی اداکاری میں ایک طرح کا ٹھہراؤ نمایاں تھا، جو انھیں آرٹ فلموں کے لیے موزوں بناتا تھا۔ ان کا فلمی کیریر دو ادوار پر مشتمل تھا۔ 1977ء سے لے کر 1989ء تک ان کی توجہ کا مرکز آرٹ فلمیں ہی رہیں۔ بعدازاں انھوں نے کمرشیل فلموں میں بھی اداکاری کا آغاز کیا۔ 1990ء کے عشرے میں وہ چند فلموں میں نظر آئے۔ پھر ایک طویل وقفے کے بعد 2008ء میں انھوں نے فلموں سے دوبارہ ناتا جوڑا۔

کمرشیل سنیما پر وہ کام یاب نہیں رہے جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے تھے۔ 2002ء میں انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’کمرشیل سنیما پر میں کبھی اتنا مقبول نہیں رہا۔ لوگ مجھے پہچانتے ہیں، میری جانب دیکھ کر مسکراتے ہیں اور ہاتھ ہلاتے ہیں، مگر مجھے کبھی کسی حسینہ کی طرف سے خون سے لکھے گئے عاشقانہ خطوط نہیں ملے۔ راجیش کھنّا اپنے عروج کے دنوں میں جب باہر نکلتے تھے تو ٹریفک رک جاتا تھا۔ ایسی پذیرائی نہ ملنے کا قلق مجھے کبھی نہیں رہا، مگر یہ بات ضرور افسردہ کردیتی ہے کہ جیسا کام میں کرنا چاہتا تھا ویسا نہ کرسکا۔‘‘

آرٹ فلموں میں اداکاری کے آغاز پر فاروق شیخ کو ستیہ جیت رائے، مظفرعلی، رشی کیش مکھرجی اور کیتن مہتا جیسے کہنہ مشق ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان ہدایت کاروں نے ان کے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اداکاری کا آغاز فاروق نے تھیٹر سے کیا تھا، پھر وہ آرٹ فلموں کی طرف آئے، مگر انھوں نے خود کو اسٹیج اور سلوراسکرین ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ٹیلی ویژن پر بھی اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔  فاروق شیخ نے 1948ء میں بھارتی ریاست گجرات کے ضلع سورت کے شہر امرولی کے ایک مسلمان گھرانے میں جنم لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک زمین دار گھرانا تھا مگر ان کے والد مصطفیٰ شیخ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔

پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ کھاتے پیتے خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر انھیں تمام سہولتیں حاصل رہیں۔ انھوں نے اسکول اور پھر کالج کی تعلیم ممبئی میں رہتے ہوئے حاصل کی۔ اور پھر والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سدھارتھ کالج آف لا ء میں داخلہ لے لیا۔ ان کے والد ایک کام یاب وکیل تھے، اسی لیے ابتدائی طور پر فاروق نے بھی وکالت ہی کو بہ طور پیشہ اپنانے کا سوچا، مگر یہ شعبہ ان کے مزاج سے لگّا نہیں کھاتا تھا۔ اس کے برعکس ان کا رجحان اداکاری کی جانب تھا۔ کالج کے زمانے میں وہ باقاعدگی سے اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیتے تھے، چناں چہ انھوں نے وکالت کو خیرباد کہا اور اداکاری سے ناتا جوڑ لیا، اگرچہ وہ اس وقت لا ء کالج ہی میں زیرتعلیم تھے۔

اداکاری کا آغاز انھوں نے ’’انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن‘‘ (آئی پی ٹی اے) کے تحت ہونے والے اسٹیج ڈراموں سے کیا۔ آئی پی ٹی اے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسٹیج اداکاروں کی تنظیم تھی۔ اس عرصے کے دوران انھیں ساگر سرحدی جیسے معروف ہدایت کاروں کی ہدایات میں بنائے جانے والے ڈراموں میں مختلف کرداروں کی ادائیگی کا موقع ملا۔ جلد ہی ان کا شمار اسٹیج کے باصلاحیت نوجوان اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ 1973ء میں جب کہ فاروق لاء  کالج ہی میں زیرتعلیم تھے، ڈائریکٹر ایم ایس ستھیو ان کے پاس پہنچے اور انھیں ’’گرم ہوا‘‘ میں ایک اہم معاون کردار ادا کرنے کی پیش کش کی۔ بہ طور ہدایت کار ستھیو کی بھی یہ اولین فلم تھی۔ ’’گرم ہوا‘‘ میں ایک مسلم گھرانے کی کہانی دکھائی گئی تھی جو تقسیم کے بعد اس مخمصے میں مبتلا ہوتا ہے کہ پاکستان ہجرت کی جائے یا ہندوستان ہی میں رہا جائے۔ ’’ گرم ہوا‘‘ ہندی آرٹ سنیما میں نئے طرز کی فلموں کا آغاز سمجھی جاتی ہے۔ پہلی فلم میں سکندر مرزا کا کردار ادا کرنے پر انھیں ساڑھے سات سو روپے معاوضہ ملا تھا۔

فاروق شیخ کی وجۂ شہرت اگرچہ آرٹ فلمیں ہیں مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں ابتدائی شناخت ریڈیو سے ملی تھی۔ ریڈیو پر وہ ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ پھر جب دوردرشن پر ’’یووا درشن‘‘ اور ’’ینگ ورلڈ‘‘ جیسے پروگراموں کی میزبانی فاروق کے حصے میں آئی تو ان کا نام گھر گھر لیا جانے لگا۔ اس دوران وہ آرٹ فلموں میں بھی اداکاری کررہے تھے۔ ان کی اگلی اہم فلم ’’ گمن‘‘ تھی۔ مرکزی اداکاری کی حیثیت سے یہ فاروق کی پہلی فلم بھی تھی۔ ’’ گمن‘‘ میں فاروق نے بدایوں سے روزگار کے سلسلے میں بمبئی آئے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور کا کردار ادا کیا تھا جو اپنی بیوی سے ملنے کے لیے واپس جانا چاہتا ہے، مگر اتنے پیسے نہیں بچاسکتا کہ گھر جاسکے۔ ’’گمن‘‘ میں خوب صورت اداکاری نے فاروق کا کیریر مستحکم کیا، اور انھیں مرکزی کرداروں کی پیش کشیں ہونے لگیں۔

تاہم طوالت سے زیادہ ان کی نظر کردار کی موزونیت اور اہمیت پر ہوتی تھی، اسی لیے وہ آنے والی فلموں میں مختلف کرداروں میں نظر آئے۔ انھوں نے ستیہ جیت رائے کی ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ ( 1977ء) کے علاوہ ’’ نوری‘‘ ( 1979ء)، ’’ چشم بددور‘‘ ( 1981ء)، ’’ امراؤ جان‘‘ ( 1981ء)، ’’ بازار‘‘ ( 1982ء)، ’’ ساتھ ساتھ‘‘ (1982ء)، ’’ رنگ برنگی‘‘(1983ء)، ’’ کسی سے نہ کہنا‘‘ ( 1983ء) اور ’’ بیوی ہو تو ایسی‘‘ (1988ء) میں یادگار کردار ادا کیے۔ ’’کتھا‘‘(1983ء) میں انھوں نے منفی کردار میں بھی اپنی صلاحیتیں منوائیں۔

اپنے کیریئر میں انھوں نے آرٹ فلموں کی کم وبیش تمام معروف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ہدایت کار ساگر سرحدی کی فلم ’’لوری‘‘، کلپنا لجمی کی ’’ایک پل‘‘ اور مظفر علی کی ’’انجمن‘‘ میں شبانہ اعظمی ان کی ہیروئن بنی تھیں، مگر دیپتی نول کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مقبول ہوئی۔ فلم بین ’’چشم بددور‘‘، ’’کتھا‘‘، ’’ساتھ ساتھ‘‘، ’’کسی سے نہ کہنا‘‘، ’’رنگ برنگی‘‘، ’’ٹیل می او خدا‘‘ اور ’’لسن….. امایا‘‘ میں اس جوڑی کی پرفارمینس سے محظوظ ہوئے۔ فاروق نے شبانہ اعظمی کے ساتھ بھی کئی فلمیں کیں جن میں ہدایت کار ساگر سرحدی کی ’’لوری‘‘، کلپنا لجمی کی ’’ایک پل‘‘ اور مظفر علی کی ’’ انجمن‘‘ شامل ہیں۔

1990ء کی دہائی میں فاروق شیخ نے بہت کم فلموں میں اداکاری کی۔ شاید اس کی وجہ چھوٹی اسکرین پر ان کی بڑھتی ہوئی مصروفیت تھی۔ اگرچہ 1980ء کے عشرے میں بھی انھوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں رول کیے تھے مگر بیسویں صدی کے اواخر میں وہ مِنی اسکرین پر بہت زیادہ مصروف ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے مختلف چینلز کے متعدد ڈاما سیریلز میں مختلف النوع کردار ادا کیے۔ ٹیلی ویژن کے ناظرین میں وہ اداکار کے ساتھ ساتھ بہ طور میزبان بھی بہت مقبول تھے۔ وہ طویل عرصے تک مختلف شوز کی میزبانی کرتے رہے۔ ان کا شو ’’جینا اسی کا نام ہے‘‘ دیکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا جس میں وہ بولی وڈ کے فن کاروں سے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ اس دوران اسٹیج سے ان کا ناتا نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ ’’تمھاری امرتا‘‘ جیسے اسٹیج ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔ اس ڈرامے میں شبانہ اعظمی ان کی ہیروئن تھیں۔ یہ ڈراما بارہ سال تک پیش کیا جاتا رہا تھا۔

2008ء مین فلم ’’ساس بہو اور سین سکس‘‘ سے سلور اسکرین پر ان کی واپسی ہوئی۔ 2009ء میں انھوں نے فلم ’’لاہور‘‘ میں شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا، جس کے اعتراف میں انھیں بہترین معاون اداکار کے نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ’’کلب 60‘‘ ان کی آخری فلم تھی جسے چند روز قبل نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ باکس آفس پر یہ فلم کام یاب قرار دی جاچکی ہے۔

فاروق شیخ نے اپنے اسٹیج ڈراموں کی ساتھی روپا سے شادی کی تھی جس سے ان کی ایک بیٹی ثناء ہے۔ گذشتہ دسمبر کے آخری ہفتے میں یہ خاندان دبئی میں تھا جہاں فاروق کو دل کا دورہ پڑا جو اس باصلاحیت اداکار کو پرستاروں سے جدا کرگیا۔ مگریہ اداکار اپنے مداحوں کے دلوں میں اور اپنی فلموں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

کنٹرول لائن پر فائربندی سے متعلق بھارتی آرمی چیف کا بیان حقائق کے برعکس ہے، پاک فوج

$
0
0

راولپنڈی: پاک فوج نے بھارتی آرمی چیف کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی سے متعلق بیان کو حقائق سے منافی اور افسوسناک قرار دے دیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والی  ملاقات کے بعد لائن آف کنٹرول کی صورتحال بہتر ہوئی، ترجمان کا کہنا تھا کہ  بھارتی آرمی چیف کا بیان حقائق کے برعکس اور قابل افسوس ہے اور اس قسم کے بیانات سے کسی کو فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی آرمی چیف نے الزام لگایا تھا کہ کنٹرول لائن پر ہمیشہ پاکستان کی جانب سے پہل ہوتی اور جواب میں بھارتی فوج کارروائی کرتی ہے۔

کراچی میں فائرنگ اور دیگر پرتشدد واقعات میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت مزید5 افراد جاں بحق

$
0
0

کراچی:  شہر قائد میں پولیس اور رینجرز کی تابڑ توڑ کارروائیوں کے باوجود ٹارگٹ کلر جہاں چاہتے ہیں بے گناہ شہریوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کردیتے ہیں ، آج بھی مختلف علاقوں میں فارنگ اور دیگر پرتشدد واقعات میں 2 پولیس اہلاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے ساتھ ہی گزشتہ دو روز میں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہریوں کی تعددا 18 ہوگئی ہے۔    

ایکسپریس نیوز کے مطابق   سائٹ میں ہینو پاک چورنگی پر ایک کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ نیو کراچی میں شفیق موڑ کے قریب موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے تیمویہ پولیس اسٹیشن کی موبائل پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں گاڑی میں بیٹھے 2 اہلکار جاں بحق اور 2 زخمی ہو گئے، جاں بحق اور زخمی ہ اہلکاروں کو فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں زخإیوں کو بطی امداد فراہم کی جارہی ہے، جاں بحق اہلکاروں کی شناخت ہیڈ کانسٹیبل جاوید اور کانسٹیبل عارف کے نام سے ہوئی ہے۔

دوسری جانب کارسار کے قریب فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا اس کے علاوہ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے رشید آباد میں ایک نامعلوم خاتون کی لاش برآمد ہوئی ہے، دونوں افراد  کی تاحال شناخت نہیں ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تھے۔

ایسا تھا وہ۔۔۔۔۔

$
0
0

وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ یہ مثال شہید ایس پی سی آئی ڈی چوہدری محمد اسلم خان پر پوری اترتی ہے کیوں کہ 1984میں کراچی پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کی حیثیت سے بھرتی ہونے والے محمد اسلم خان کے ساتھ ٹریننگ کرنے والے اہل کار افسران اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے ساتھ رہنے والا یہ ہنس مکھ نوجوان ایک دن نہ صرف سندھ پولیس بل کہ پورے پاکستان کا ایک درخشاں ستارہ بن کر ابھرے گا۔

تربیت مکمل کرنے کے بعد چوہدری اسلم کو کراچی کے متعدد تھانوں میں تعینات کیا گیا، لیکن اس پر عزم نوجوان کی منزل کچھ اور ہی تھی۔ اس میں ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے کی ہمت تھی۔ اسلم خان کو بہادری اور حوصلہ دکھانے کا موقع اُس وقت ملا جب وفاق نے سندھ میں آپریشن کا آغاز کیا۔ کراچی آپریشن نے چوہدری اسلم خان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا اور انہوں اس آپریشن میں بھرپور حصہ لے کر اپنے افسران کو اپنی صلاحیتیں، عزم اور بہادری دکھا دی۔

دیکھا جائے تو چوہدری اسلم کی ترقی کا سفر 1992کے آپریشن کے بعد ہی شروع ہوتا ہے انہوں نے جرائم پیشہ عناصر کے دلوں میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ آپریشن چاہے طالبان کے خلاف ہو یا لیاری گینگ وار کے خلاف انہوں نے ہر موقع پر اپنی بہادری کا سکہ جمایا۔ خطرناک سے خطرناک آپریشن میں بھی وہ ہمیشہ کلف لگے بے داغ سفید کرتا شلوار پہنے اور ایک ہاتھ میں اپنے پسندیدہ پستول 9MMتھامے سگریٹ کے کش لگاتے نظر آئے۔ کراچی پولیس اور خصوصاً اپنے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کے لیے وہ ایک رول ماڈل تھے، اُن کی بہادری دوسرے پولیس افسران اور اہل کاروں کے لیے باعث فخر تھی۔ جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسندوں کے خلاف ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’پاکستان پولیس میڈل‘‘،’’قائداعظم پولیس میڈل‘‘، اور گذشتہ سال تئیس مارچ کو صدر پاکستان (سابق) کی جانب سے ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ بدقسمتی سے طالبان نے ہم سے ہمارا ایک قیمتی اثاثہ چھین لیا ہے۔ چوہدری محمد اسلم خان کی پیشہ ورانہ زندگی خطرات سے کھیلتے گزری، جس میں کئی ڈرامائی موڑ آئے۔ پولیس کے لی جرأت کی مثال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کے لیے خوف کی علامت بن جانے والے اس آفیسر کی یادیں ان کے ساتھیوں کے دلوں میں محفوظ ہیں۔ اس حوالے سے چوہدری اسلم خان کے قریبی دوستوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے افسران سے کی جانے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

 photo Chaudhryaslam_zpsfd9975c5.jpg

٭ان کی دلیری یاد آتی ہے

علی رضا ( ڈی ایس پی، سی آئی ڈی)

علی رضا کا شمار مرحوم چوہدری اسلم خان کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ علی رضا چوہدری اسلم کی ٹیم کا حصہ تھے اور انہوں نے چوہدری اسلم کے ساتھ متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا۔ سندھ پولیس کے اس مایہ ناز افسر کی شہادت نے ڈی ایس پی علی رضا کو نہ صرف ایک مہربان افسر بل کہ ایک ایسے انسان سے بھی محروم کردیا جسے وہ اپنا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔

اس حوالے سے علی رضا کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم ہمارے لیے سگے بھائیوں کی طرح تھے۔ وہ ہم سب کے ہمدرد تھے۔ ایسا لگتا ہے جیسا ہمارا افسر نہیں بھائی شہید ہوا ہے۔ ان کی ہر بات ہی بہت یاد آتی ہے۔ ان کی دلیری یاد آتی ہے۔ وہ ایک دلیر آدمی تھے۔ جبھی ان پر چھپ کر حملہ کیا گیا۔ ورنہ حملہ آور روڈ پر آکر لڑتے۔ انہوں نے ڈھائی سال پہلے ہی کہا تھا کہ مجھ سے روڈ پر آکر لڑو لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ ان جیسے بہادر لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔

٭ وہ ہر ایک کے سر پر سایہ تھا

رستم نواز (ڈی ایس پی)

ڈی ایس پی رستم نواز کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم شہید میرا بیج میٹ تھا۔ 1984میں ہم ایک ساتھ بھرتی ہوئے ایک ساتھ ٹریننگ اور پیشہ ورانہ کورسز کیے۔ چوہدری اسلم جیسا بہادر اور دلیر شخص میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، اُس نے اے ایس آئی کے طور پر بھی بہت کارنامے سر انجام دیے، سب انسپیکٹر کی حیثیت سے بھی بہت کارنامے سر انجام دیے، غرض کہ اے ایس آئی سے لے کر موجودہ عہدے تک اس کے اتنے کارنامے ہیں کہ اگر میں انہیں بیان کرنے بیٹھوں تو پورا دن گزر جائے، لیکن اس کے کارنامے ختم نہ ہوں۔ وہ ایک پرسنالٹی تھا اور جب تک یہ دنیا قایم ہے اس کا نام زندہ رہے گا۔ وہ شہید ہے اور شہید مرتے نہیں ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہوگا، سن رہا ہوگا۔ وہ ہر پولیس افسر، سپاہی، عام آدمی کے سر پر ایک سایہ تھا۔ سب کو پتا تھا کہ اسے کوئی مسئلہ ہوگا اور وہ چوہدری اسلم کے پاس جائے گا تو وہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور وہ اُن سب کے مسئلے حل کرتا بھی تھا۔ اﷲ اُس کی مغفرت کرے اور اس کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا کرے اور اُن کی حفاظت کرے۔ ڈی ایس پی رستم نواز کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس اور کراچی پولیس ایک بہترین فورس ہے، مرحوم چوہدری اسلم نے بڑے بڑے کیس حل کیے اُن کے قتل میں ملوث کچھ ملزمان پکڑے گئے ہیں اور کچھ مزید پکڑے جائیں گے لیکن ہمیں دکھ صرف اس بات کا ہے کہ اب چوہدری اسلم ہم میں نہیں ہے۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ پولیس میں اس کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ وہ ایک بہترین دوست، مہربان افسر اور ہر کسی کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنے والا شخص تھا۔ چوہدری اسلم شہید تا حیات ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

 photo Chaudhryaslam2_zps98734c9a.jpg

٭بہترین دوست چلا گیا

محمد زبیر(ڈی ایس پی، کورٹ پولیس)

چوہدری اسلم شہید میرا بیج میٹ تھا۔ ایک ہی دن ہماری سروس کی شروعات ہوئی ۔ ہم دونوں نے کافی وقت اکٹھے گزارا کیوںکہ ہم ایک ہی بیرک میں ساتھ رہتے تھے، ساتھ ٹریننگ کرتے تھے۔ اُس کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے شاید وہ کبھی نہ بھر سکے اُس کی کمی ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہادری کے ساتھ خداداد صلاحیتیں بھی دی تھیں اسے جو بھی مشکل سے مشکل ٹاسک دیا گیا وہ اس نے بہت اچھے طریقے سے سر انجام دیا۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستوں کی طرح رہا۔ اُس کی شہادت نے کراچی پولیس کو ایک بہادر افسر اور ہمیں ایک بہترین دوست سے محروم کر دیا ہے۔

٭ہر آپریشن میں سب سے آگے

ایم اعظم دُرانی (ایس ڈی پی او گلبرگ)

ایم اعظم دُرانی کا شمار بھی چوہدری اسلم شہید کے دیرینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ساتھ کراچی سے بھرتی ہوئے۔ چوہدری اسلم کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے ایم اعظم دُرانی کا کہنا ہے کہ وہ فلاحی کام کرنے والے انسان تھے۔ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہنا، لوگوں کے کام آنا ان کی عادت تھی۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ اُن پر متعدد بار بار حملے ہوئے، لیکن ہر حملے کے بعد بجائے ڈرنے کے اُن کا حوصلہ اور بلند ہو جاتا تھا۔ وہ ہر آپریشن میں بنا بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے، جس پر ہم اُن سے کہتے بھی تھے کہ کچھ زیادہ نہیں لیکن کم از کم بلٹ پروف جیکٹ پہن لیا کرو، لیکن وُہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے ایک ہی بات کہتے تھے،’’موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ جس دن آنی ہوگی تو اس دن آکر رہے گی۔ موت کو کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں روک سکتی۔‘‘ ان کا ہر آپریشن بہت ہائی لیول کا ہوتا تھا اور ہمیں یقین ہوتا تھا کہ وہ (چوہدری اسلم ) اس آپریشن کو کام یابی سے مکمل کر کے ہی لوٹیں گے۔ وہ بڑے سے بڑے آپریشن کو بھی بہت نارمل لیتے تھے۔

ہم سب ان سے کہتے تھے کہ اپنے گھر والوں کو ملک سے باہر منتقل کردو اور خود بھی احتیاط کیا کرو، لیکن اُنھیں کبھی بھی موت سے خوف محسوس نہیں ہوا۔

٭ان کی چڑ۔۔۔اپنے نام سے مارے جانے والے چھاپے

سرور کمانڈو (انسپیکٹر)

انسپیکٹر سرور کمانڈو کے چوہدری اسلم خان شہید کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ انہوں نے چوہدری اسلم کے شانہ بہ شانہ متعدد کارروائیوں میں حصہ لیا۔ چوہدری اسلم کی شہادت نے اُن کے گھر والوں کے بعد جن افراد کو سب سے زیادہ رنجیدہ کیا ہے اُن میں سے ایک قابل ذکر نام سرور کمانڈو کا بھی ہے۔ چوہدری اسلم کے بارے میں سرور کمانڈو کا کہنا ہے کہ وہ دل کے کُھلے اور بہت ہی شفیق انسان تھے۔ جہاں تک تعلق ہے اُن کے ساتھ کیے گئے آپریشن کی تو وہ خطرناک سے خطرناک آپریشن میں بھی آگے آگے ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی سروس کے دوران پیش آنے والے مسائل کا سامنا بہت خندہ پیشانی سے کیا۔ میں نے انہیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمیشہ بہت پرسکون دیکھا۔ انہیں بس ایک بات سے بہت چِڑ ہوتی تھی اور وہ بات یہ تھی کہ بہت سے لوگ میرے اور اسلم صاحب کے نام سے چھاپے مارتے تھے۔ یہ بات انہیں پریشان کرتی تھی اور وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں اور سرور کمانڈو بھی تو اپنے نام سے چھاپا مارتے ہیں ہم کسی دوسرے کے نام نہیں لیتے تو پھر وہ خوف کی وجہ سے ہر چھاپے میں ہمارا نام کیوں استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے اُن کی بہادری کی تو اُس میں اُن (چوہدری اسلم) کا کوئی ثانی نہیں ہے اور آج سے پانچ سال پہلے بھی اسی طرح سفید کلف لگے کرتا شلوار میں ملبوس ہوکر آپریشن میں حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ موت کی آنکھوں میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا۔ میں خطرناک ترین آپریشن کے دوران بھی انہیں ڈرتے یا خوف محسوس کرتے نہیں دیکھا۔ ان جیسا جری اور بہادر شخص کراچی پولیس کا اثاثہ تھا، لیکن دہشت گردوں نے اُسے ہم سے چھین لیا۔

 photo Chaudhryaslam3_zps9327aa35.jpg

٭آپریشن کے دوران موٹرسائیکل پر سفر

حسن کشمیری (دیرینہ دوست)

شدت غم سے نڈھال اور بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ چوہدری اسلم شہید کے دیرینہ ساتھی حسن کشمیری نے بتایا کہ میرا اور اس ساتھ 23سال پر محیط تھا۔ میں نے اُس جیسا باہمت اور بہادر انسان آج تک نہیں دیکھا۔ اُس کی بہادری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ 1992کے آپریشن کے بعد جب وہ معطل تھا تو میرے ساتھ اِسی شہر کراچی میں موٹر سائیکل گھوما کرتا تھا اور میرے خیال میں اُس وقت اُس کی حفاظت کے لیے بکتر بند گاڑی بھی ناکافی ہوتی، لیکن وہ دلیری کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومتا تھا۔ میں اُسے کبھی موت سے خوف زدہ ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ حقیقت میں شیر تھا شیر۔ وہ بہت بلند حوصلہ تھا۔ وہ تو اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتا تھا۔ جب اُس کے گھر کو دھماکے سے اڑا گیا تو سب سے پہلے امدادی کارروائی کرنے والا وہ خود تھا۔ اُس وقت بھی وہ پہلے سے زیادہ بلند حوصلہ تھا اس کا حوصلہ چٹانوں سے زیادہ مضبوط تھا۔ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد وہ اور بہادر ہوگیا تھا اور اپنے ہی گھر کے باہر بم دھماکے سے بننے والے گڑھے کی طرف اشارہ کرکے اس نے کہا تھا،’’یہاں، اسی گڑھے میں سب کو دفن کروں گا۔‘‘ اس سے زیادہ بہادری اور حوصلے کی بات کیا ہوگی۔

اُس کی ہر بات یاد آتی ہے اتنا پُرخلوص، نرم دل کے جب اُس سے ذاتی طور پر ملو تو کہیں سے پولیس افسر لگتا ہی نہیں تھا۔ میں تو کچھی گرائونڈ گل بہار میں ہونے والی کھلی کچہری میں اُس لڑکے کی ماں کو چوہدری اسلم کی تعریف کرتے دیکھا جس کے جوان بیٹا اُس (چوہدری اسلم) کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اِس سے زیادہ میں اُس شخص کی کیا تعریف کروں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں اُس سے پوچھا کہ اتنے حفاظتی اقدامات کیوں تم تو آزادی کے ساتھ گھومتے تھے ہمارے ساتھ چبوترے پر بیٹھ جاتے تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’حسن بھائی اُس وقت گولیوں والوں سے مقابلہ تھا ۔اب بم ہے بم۔‘‘

چوہدری اسلم نے تھوڑے عرصے پہلے بتایا کہ مجھے (چوہدری اسلم) شاہد اﷲ شاہد (طالبان ترجمان) نے فون کیا مجھے دوسرے لوگوں کے بھی فون آتے ہیں۔ کہ باز آجائو، وہ بھی ہمارے ہیں تم بھی ہمارے ہوں لیکن میں نے انہیں کہ دیا کہ فرض کے آگے کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے اُس بندے (چوہدری اسلم) کے اچھے اور بُرے دن دونوں دیکھے میں نے اُس کا وہ وقت بھی دیکھا۔ جب وہ معطل تھا اور سب نے اُس سے آنکھیں پھیر لی تھی لیکن وہ بہت بہادر اور نڈر آدمی تھا وہ حقیقت میں شیروں کی طرح بہادری سے جیا۔

وہ جیل میں رہا لیکن اُسے اس بات پر بھی فخر تھا وہ کہتا تھا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ باعزت بری ہوا۔ میں نے اُسے گلبہار کی گلیوں میں موٹر سائیکل پر گھومتے دیکھا۔

میں اُسے احتیاط کرنے کا کہتا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ موت کو کوئی نہیں ٹال سکتا ہے ہر آپریشن میں وہ سب آگے ہوتا تھا۔

ہر آپریشن میں وہ سب آگے لڑتا تھا میں اُسے احتیاط کا کہتا تو اُس کا جواب یہی ہوتا تھا،’’اگر کمانڈر بہادری سے لڑے تو سپاہی بھی جواںمردی سے لڑتے ہیں۔‘‘ اُس کی بیوی بھی بہادر خاتون ہے اور وہ اپنے فرزندوں کو بھی اپنے شوہر کی طرح بہادر بنائے گی۔

 photo Chaudhryaslam4_zpsfc5b301c.jpg

حملوں کی زد میں زندگی

سی آئی ڈی انتہا پسندی سیل کے سر براہ چوہدری محمد اسلم خان پر اس سے قبل بھی حملے کیے گئے تھے۔ اِن پر پہلا حملہ 4جنوری2006 میں گزری کے علاقے پنجاب چورنگی پر ہوا دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک اے ایس آئی عارف شہید ہوگیا تھا۔ تاہم چوہدری اسلم اور ان کے دیگر ساتھی اس حملے میں محفوظ رہے۔

ان پر دوسرا حملہ19ستمبر2011کو درخشاں تھانے کی حدود میں واقع اِن کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اس حملے میں دھماکا خیز مواد سے بھری ڈبل کیبن گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں چوہدری اسلم اور اِن کے اہل خانہ معجزانہ طور محفوظ رہے۔ اس حملے میں ان (چوہدری محمد اسلم) کا بنگلہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا، جب کہ اطراف کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں ایک معصوم بچے اور تین پولیس اہل کاروں سمیت 8افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

20جولائی2013 کو عیسیٰ نگری کے علاقے میں چوہدری محمد اسلم خان کے کانوائے کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ اس کوشش میں کام یاب نہیں ہوسکے اور میونسپل کمشنر متانت علی کی گاڑی اس حملے کی زد میں آکر تباہ ہوگئی تھی۔ چوہدری محمد اسلم خان پر چوتھا حملہ عیسی نگری کی حدود میں لیاری ایکسپریس وے پر کیا گیا۔ اس حملے میں وہ اپنے دو محافظوں سمیت جاں بحق ہوگئے۔ دھماکے نتیجے میں اُن کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے کے بعد لیاری ایکسپریس وے کی حفاظتی ریلنگ کا تقریباً6فٹ لمبا اور4فٹ چوڑا بلاک ٹوٹ کر نیچے جا گرا اور سڑک پر 20 فٹ لمبا دراڑیں پڑگئیں۔ جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے والی ڈسپوزایبل اسکواڈ کی ٹیم کے مطابق دھماکے میں 25سے 30کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا اور اس بم کو یونی ڈائریکشن پر رکھا گیا تھا جس کا مقصد اپنے ہدف کو سو فیصد نشانہ بنانا ہوتا ہے، جب کہ دہشت گردوں نے اس ریموٹ کنٹرول بم میں بال بیرنگ بھی استعمال کیے۔

دوسری جانب جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سی آئی ڈی افسر راجہ عمر خطاب اسے خود کش حملہ قرار دیتے رہے، جب کہ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی ٹیم نے اس دھماکے کو بارود سے بھری ہائی روف کے ٹکرانے کا نتیجہ قرار دیا۔ اس حوالے سے ایس آئی یو کے افسران کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات اس لیے زیادہ ہیں کہ جائے وقوعہ سے ہائی روف کے کچھ پرزے بھی ملے ہیں۔ تاہم تادم تحریر تحقیقاتی ٹیمیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہیں۔ چوہدری اسلم اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے اہل کاروں کو مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ سپر د خاک کردیا گیا ہے۔ اُن کی نماز جنازہ میں پاک فوج کے اسٹیشن کمانڈر، وزیراعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہ نمائوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ وزیراعظم نوازشریف نے چوہدری اسلم خان پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ایسے حملے دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے چوہدری اسلم پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے اور انہوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جان دی، انہوں نے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ وہ شہید افسر کے اہل خانہ کا ہر ممکن خیال رکھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے چوہدری اسلم کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں دہشت گردی کی کارروائیاں سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

 photo Chaudhryaslam1_zpsbf3b4f2a.jpg

طالبان نے ذمے داری قبول کرلی

کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے ایس پی چوہدری محمد اسلم خان پر حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی نے قبول کرلی ہے۔ طالبان ترجمان سجاب مہمند کا کہنا ہے کہ ہم کام یاب حملہ کرکے پولیس کی جانب سے مارے گئے متعدد طالبان کی موت کا بدلہ لیا ہے۔ چوہدری اسلم نے ہمارے کئی ساتھیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ اور متعدد کو قتل کیا، جس کی بنا پر وہ ہماری ہٹ لسٹ پر تھے۔

مجرموں کے لیے دہشت کی علامت

طالبان حملے میں شہید ہونے والے ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم جرائم پیشہ افراد کے لیے دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔31نومبر1984کو اے ایس آئی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والے چوہدری اسلم خان نے 1992میں کراچی میں ہونے والے آپریشن کے دوران ان کائونٹر اسپیشلسٹ کی حیثیت سے شہرت پائی۔ لیاری گینگ وار کے سر غنہ عبدالرحمان بلوچ کی ہلاکت ، اور انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان کی گرفتاری بھی چوہدری اسلم کے ہاتھوں ہوئی۔ ویسپا اسکوٹر سے سی آئی ڈی کے ہیڈ کوارٹر میں پراڈو پر آنے والے چوہدری اسلم نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ ان کا تعلق خیبر پختون خواہ کی تحصیل مانسہرہ سے تھا۔ انہوں نے کراچی کے متعدد تھانوں میں بطور ایس ایچ او خدمات سر انجام دیں۔ 1992سے چوہدری اسلم کا عروج شروع ہوا اور اس آپریشن میں انہیں’’ان کائونٹر اسپیشلسٹ ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ ان پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی لگے ۔

2007 میں چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم پر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث اہم ملزم معشوق بروہی کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا اور ان سمیت 53پولیس افسران اور اہل کاروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جن میں عرفان بہادر، سرور کمانڈو، ناصر الحسن (شہید) کا نام قابل ذکر ہے۔2010میں انہیں سی آئی ڈی کے سربراہ کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ اسلم خان نے لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ کی حیثیت سے لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف متعدد کارروائیاں بھی کیں، جس پر لیاری گینگ وار کے موجودہ سربراہ عذیر جان بلوچ نے بھی قتل کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ چوہدری اسلم خان کا نام طالبان اور انتہاپسندوں کے لیے بھی دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور شہادت والے دن ہی انہوں نے منگھو پیر میں ہونے والے پولیس مقابلے میں تین شدت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔


چن شوچیو…ایک منفرد سبزی فروش

$
0
0

یہ تائیوان کے شہر ’’تائی تنگ‘‘ سے محلقہ قصبے کی ایک مارکیٹ کا منظر ہے، رات ہوچکی ہے، مارکیٹ کی تمام دکانیں بند ہیں، دکاندار سارا دن کے بزنس کے بعد آرام دہ نیند کے حصول کی خاطر گھروں کو سدھار چکے ہیں، مارکیٹ کی بتیاں گل ہوچکی ہیں اور اندھیرا بڑھ رہا ہے، اندھیرے سے نبرد آزما سبزیوں کے ایک سٹال پر رکھا ایک لیمپ روشنی پھیلانے کی جدوجہد میں مصروف ہے، سٹال کی مالکہ ’’چن شوچیو‘‘ خاموشی سے سر جھکائے سبزیاں چھانٹنے میں مگن ہے۔

معاشرے کے لئے چن شو چیو کا کردار کسی طرح بھی اس روشن لیمپ سے کم نہیں۔ لیمپ اندھیرے میں روشنی پھیلانے کا سبب ہے جبکہ چن شو چیو غربت کے اندھیروں میں ڈوبی بے کس انسانیت کے چہرے پر خوشیوں کی روشنی بکھیرنے کی سعی کرتی ہیں۔چن شو چیو کی عمر تقریباً 60 برس ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چن شو چیو ایک لگی بندھی روٹین کے تحت زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ ہر روز علی الصبح 3 بجے اٹھتی ہیں اور ہلکا سا ناشتا کرنے کے بعد سبزیوں کی ہول سیل مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں جہاں ان کا سٹال موجود ہے۔ رات گئے تک وہ اپنے سٹال پر کام کرتی رہتی ہیں۔ برسوں کی انتھک محنت نے ان کے ہاتھوں کی انگلیوں میں خم ڈال دیئے ہیں جبکہ ان کے پائوں بھی اپنی اصل ہئیت کھوبیٹھے ہیں۔ چونکہ وہ صبح مارکیٹ سب سے پہلے پہنچتی ہیں اور مارکیٹ سے نکلنے والی آخری فرد بھی وہی ہوتی ہیں تو مارکیٹ کے دیگر دکانداروں نے انہیں بطور عزت و محبت ’’مارکیٹ مینیجر‘‘ کا خطاب دیا ہوا ہے۔

سبزیوں کا یہ سٹال ’’چن شو چیو‘‘ کو اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے جو انہیں بے حد عزیز ہے۔ ان کی دنیا سبزیوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ چن شو چیو بہت ہی کم منافع پر سبزیاں فروخت کرتی ہیں مگر اس کے با وجود وہ اب تک تقریباً ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر مختلف ضرورت مند اداروں اور افراد کو عطیہ کرچکی ہیں۔ ان اداروں میں سکول، یتیم خانے اور غریب افراد کی ایک لمبی فہرست شامل ہے۔ اتنی کم آمدنی اور اتنا زیادہ عطیہ، دکھی انسانیت کیلئے چن شو چیو کی اس بے پایاں اور بے لوث محبت نے انہیں عالمی سطح پر پذیرائی بخشی ہے۔ چن شو چیو اس مقولے کی جیتی جاگتی تصویر ہیں کہ ’’محنت اتنی خاموشی سے کرو کے تمہاری کامیابی شور مچادے‘‘۔ فوربز میگزین نے مارچ کے شمارے میںچن شو چیو کو ان 48 مخیر افراد کی فہرست میں شمار کیا کہ جو انسانیت کی بھلائی کیلئے مصروف عمل ہیں۔ ایک ماہ بعد ہی ٹائمز میگزین نے انھیں 100 مؤثر ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ ان کا نام ”Heroes of Philanthropy” کی کیٹگری میں شامل کیا گیا۔ تائیوان سے ہی تعلق رکھنے والے آسکر انعام یافتہ ڈائریکٹر لی اینگ نے ذاتی طور پر ان کے یہ الفاظ تحریر کیے کہ ’’دولت اس وقت ہی اپنی قدر پاتی ہے کہ جب یہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے استعمال کی جائے، میرے خیال میں دولت کا صحیح اور اصل مقصد یہی ہے‘‘۔

 photo Chenshu-chu_zps00c6ecae.jpg

عالمی سطح پر پذیرائی اور اس قدر عزت و تکریم حاصل ہونے کے باوجودچن شو چیو کو صرف اپنے سبزیوں کے سٹال کی ہی فکر لاحق رہتی ہے۔ اگر صدر ماینگ جیو اور وزیر خارجہ انہیں ذاتی طور پر ملاقات کیلئے مدعو کرکے نیویارک جانے پر آمادہ نہ کرتے تو شاید وہ ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے نیویارک بھی نہ جاتیں کیونکہ چن شو چیو کے مطابق ’’میں نے کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی میں یہ کام کسی ایوارڈ وغیرہ کو جیتنے کیلئے کرتی ہوں‘‘۔ پاسپورٹ بنوانے اور ویزہ لگوانے کے عمل کے دوران بھی انہیں یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ ان کی سبزیاں خریدنے والے گاہکوں کا کیا بنے گا۔ چن شو چیو، تائی تنگ میں مدد اور اعانت کی ایک علامت بن چکی ہیں۔ مقامی ارباب اختیار نے ان کے اسٹال کو پھولوں سے سجا رکھا ہے اور اس پر پوسٹر بھی آویزاں کئے ہوئے ہیں جن پر ’’تائی تنگ کا فخر‘‘ اور ’’مدد و ہمدری کی قابل تقلید مثال‘‘ جیسے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ لوگ ان کے سٹال پر ان کے ساتھ تصویریں بنوانے آتے ہیں اور انہیں انتہائی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر اس انتہائی توجہ اورعزت نے انہیں مفرور نہیں بنایا بلکہ انہیں مزید عجزو انکساری سے معمور کردیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا اور یہ کام تو جو بھی کرنا چاہے بآسانی کرسکتا ہے۔ میرے علاوہ بھی بے شمار مخیر انسان ہیں، بس ہم ان سے واقف نہیں ہیں۔ میں پیسے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ جب میں دوسروں کی مدد کی غرض سے پیسہ عطیہ کرتی ہوں تو یہ عمل مجھے خوشیوں سے روشناس کرواتا ہے اور میں رات کو پُرسکون نیند سوتی ہوں کیونکہ غریبوں کی مدد کرنے کاجذبہ ہی ایک ایسا محرک ہے جو میٹھی نیند سلاتا ہے۔‘‘

چن شو چیو کی زندگی پر ایک مصنف یونگ لی لیو نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کوچن شو چیو کی آپ بیتی گردانا جاتا ہے۔ یونگ لی نے تقریباً چھ ماہ چن شو چیو کے خیالات سے استفادہ کے بعد ”Chen,Shu-Chu-Extraordinary Generosity” کے نام سے ان کی آپ بیتی کو کتابی شکل دی۔ چن شو چیو 1950ء میں پیدا ہوئیں۔ ابھی انہوں نے پرائمری تک ہی تعلیم مکمل کی تھی کہ ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ ہوا یوں کے ان کی والدہ کو زچگی کے مسائل ہوئے تو انہیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ مگر ان کو طبی امداد دینے سے قبل چن شو چیو کے خاندان کو ہسپتال کو ہیلتھ انشورنس کی مد میں 160 امریکی ڈالر ادا کرنے تھے۔ غربت کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ چن شو چیو نے اپنے والد کو محلہ داروں اور رشتہ داروں وغیرہ سے امداد کی اپیل کرتے دیکھا مگر دیر ہوچکی تھی اورچن شو چیو کی والدہ اس دنیا کو خیر باد کہہ گئیں۔ چن شو چیو چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں اس لیے ذمہ داریاں نبھانے کیلئے انہیں اپنے بچپن اور تعلیم کو الوداع کہنا پڑا اور انہوں نے اپنے والد کے ساتھ سبزیوں کے سٹال پر ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔ جب چن شو چیو 18 برس کی ہوئی تو ان کے بھائی کو ایک مرض لاحق ہوگیا جس کا علاج تقریباً ایک سال تک جاری رہا اور خاندان کی جمع پونجی علاج معالجہ پر خرچ ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ بہتر علاج کیلئے بھائی کو ’’تائیوان نیشنل یونیورسٹی ہسپتال‘‘ منتقل کردیا جائے، مگر یہاں پھر غربت آڑے آئی کہ ہسپتال کے اخراجات کیسے ادا کیے جائیں۔ پیسہ جمع کرنے کیلئے کوششیں شروع کی گئیں مگر یہاں بھی قسمت نے یاوری نہ کی اورچن شو چیو کا بھائی بھی خاندان کو روتا دھوتا چھوڑ کر چل بسا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا ایک اور بھائی ٹریفک حاثہ میں لقمہ اجل بن گیا اورچن شو چیو کی دنیا ایک دفعہ پھر غم کے اندھیروں میں ڈوب گئی۔

 photo Chenshu-chu1_zps480c276b.jpg

چن شو چیو نے ہمت نہ ہاری اورعہد کیا کہ جب بھی وہ اس قابل ہوئی تو غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے گی اور اس نیک اور کٹھن کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ جب چن شو چیو کے والد بھی وفات پاگئے تو انہوں نے اپنی جمع شدہ پونجی یعنی 32140 امریکی ڈالر ’’فوشو گوانگ شون مونیسٹری‘‘ کو عطیہ کردیئے۔ 2000ء میں چن شوچیو نے ’’رین آئی پرائمری سکول‘‘ میں غریب طلبہ اور بچوں کی امداد کیلئے ’’ایمرجنسی ریلیف فنڈ‘‘ قائم کیا اور تقریباً 33000 امریکی ڈالر عطیہ کیے۔ 2001ء میں سکول انتظامیہ کی طرف سے سکول میں لائبریری بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کا تعمیراتی تخمینہ تقریباً 4 سے 5 ملین تائیوان ڈالر لگایا گیا۔ جب سکول کے نمائندے عطیہ حاصل کرنے کی غرض سے چن شوچیو کے پاس پہنچے اور ان سے 50 ہزار تائیوان ڈالر کی مدد چاہی تو وہ یہ سن کر ہکے بکے رہ گئے کہ جب چن شوچیو نے پورے پراجیکٹ کو فنڈ کرنے کا عندیہ دیا۔ سکول والوں کو یقین نہ آیا مگر مئی 2005ء کو چن شوچیو کی مدد سے یہ 20 منزلہ عظیم الشان لائبریری پایہ تکمیل کو پہنچ گئی جس کا نام بھی ’’چن شوچیو لائبریری‘‘ رکھا گیا ۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل تک چن شو چیو نے 4.5 ملین تائیوان ڈالر عطیہ کیے اور اسی عطیہ کی وجہ سے لائبریری کی تکمیل ممکن ہوسکی۔ مگر ذہن میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ صرف ایک سبزی فروش خاتون اتنی بڑی رقم کیسے عطیہ کرسکتی ہے۔ چن شو چیو کہتی ہیں کہ ’’صرف اتنا ہی خرچ کرو جتنی ضرورت ہے، فضول خرچی سے پرہیز کرو تو آپ بے شمار پیسہ جمع کرسکتے ہو۔ میں اپنی روزانہ کی بچت گھر میں موجود تین ڈبوں میں باقاعدگی سے جمع کرتی ہوں اور آہستہ آہستہ بہت پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا کام ہے جو ہر کوئی کرسکتا ہے‘‘۔

دراصل چن شو چیو انتہائی سادہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ انہیں کسی قسم کا کوئی بھی دنیاوی لالچ نہیں ہے۔ انہیں صرف دو وقت کا سادہ کھانا اور سونے کیلئے جگہ درکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر چیز کو لگژری گردانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میرا کام ہی میرا مشلغہ اور خوشی ہے۔ میں اپنے کام سے عشق کرتی ہوں اور اگر ایسا نہ ہو تو میں سولہ سولہ گھنٹے کام کر ہی نہیں سکتی۔ ایوارڈ ملنے کے بعد بھی میری زندگی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ بزنس بھی پہلے کی طرح ہی چل رہا ہے‘‘۔ ایوارڈ ملنے کے بعد بے شمار فلم کمرشل بنانے والوں اور فنانشل منیجرز نے ان کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں جبکہ بے شمار دیگر افراد نے رقم عطیہ کرنے کا عندیہ دیا مگرچن شو چیو نے سب کو ملائمت سے انکار کردیا ۔ وہ کہتی ہیں ’’کسی سے ادھار لیے ہوئے پیسے کو واپس کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ کسی کے احسان کا قرض اتارنا بہت مشکل۔ میرا زندگی گزار نے کا فلسفہ بہت سیدھا اور سادہ ہے۔ اگر کوئی کام انجام دے کر آپ فکر مند اور پریشان ہوتے ہیں تو یقینا آپ نے کوئی غلط کام کیا ہے اور اگر آپ کو خوشی حاصل ہوتی ہے تو پھر آپ نے صحیح اور درست سمت قدم بڑھایا ہے۔ اگر آپ پر نکتہ چینی کی جاتی ہے تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ میں نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کررہی ہوں، مطمئن ہوں اور جب تک کرتی رہوں گی پرسکون رہوںگی۔ مجھے کسی اور چیز کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی تمنا۔ ‘‘

چن شو چیو کچھ ادھورے سپنے بھی ساتھ لیے پھرتی ہیں۔ جب وہ 20 برس کی تھیں تو قسمت کا حال بتانے والے ایک شخص نے ان کا ہاتھ دیکھ کر نوید دی تھی کہ شادی کے بعد وہ تین بیٹیوں کی ماں بنیں گی۔ بعدازاں جب چن شو چیو نے پیسے جمع کئے اور ایک گھر خریدا تو اس میں لڑکوں کے لیے تین کمرے بنوائے اور ان کی تزئین و آرائش کی کیونکہ ایک ’’ہیپی فیملی‘‘ ان کا خواب تھا ، مگر یہ خواب بھی پورا نہ ہوسکا۔ چن شوچیو کے علاوہ ان کمروں میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، وہ کہتی ہیں ’’ان کمروں میں میرے ادھورے خوابوں کی کرچیاں بکھری ہوئی ہیں‘‘۔ مگر وہ اس دکھ پر بھی قابو پاچکی ہیں اوردوسروں کی مدد اوراعانت کرکے دعائیں اور خوشیاں سمیٹ رہی ہیں۔ تائیوان کے صدر ماینگ جیو کا چن شو چیو کے متعلق کہنا ہے کہ ’’چن شو چیو کی کہانی بہت دل کو چھو لینے والی ہے۔ سارے تائیوان کو ان پر فخر ہے۔ انہوں نے تمام دنیا کو با ور کروایا ہے کہ تائیوانی لوگوں کے دل بہت بڑے ہیں۔‘‘

چلتی پھرتی آرٹ گیلریاں

$
0
0

ملک بھر میں ساڑھے 7 لاکھ بیڈ فورڈ ٹرک اور بسیں سڑکوں پر رواں دواں ہیں جن سے تقریباً 11 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔برطانوی ساختہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانے ٹرک اور بسیں اب تک ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان ٹرکوں پر ہمارے دست کاروں کی گل کاری دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بن گئی ہے۔ 

1986ء کے بعد بیڈ فورڈ کی درآمد بند ہوگئی تھی تاہم پاکستانی کاریگر اور مستری تا حال ان پرانے ٹرکوں اور بسوں کو سڑکوں پر دوڑانے میں کام یاب رہے ہیں۔ 5برس قبل سٹینڈرڈ کوالٹی کے نام پر کئی کمپنیوں نے بیڈ فورڈ گاڑیوں کے پرمٹ منسوخ کردیئے جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹرز کو ڈیڑھ سے 2 ارب روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق نئی گاڑیوں کو کمپنیوں میں رجسٹرڈ کرانے کیلئے بھی لاکھوں درکار ہیں۔ جس کے باعث خاص طور پر آئل ٹینکرز کی صنعت مالی بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔

بیڈ فورڈ راکٹ ٹرکوں کی منفرد اور دیدہ زیب باڈیاں بنانے والے پاکستانی دستکاروں اور ہنر مندوں کو عالمی شہرت دلوانے میں کئی افراد نے کلیدی کردار ادا کیا لیکن ان میں نمایاں پاکستانی وزیر دفاع کی اہلیہ انجم رانا کا بھی اہم کردار ہے جن کی کاوشوں سے پسماندہ کاریگروں کا فن دنیا بھر میں قبائلی ٹرک آرٹ کے نام سے تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ چند برس سے کئی یورپی ممالک میں آرٹ اکیڈمیز اور دیگر فنی ادارے اپنے طالب علموں کو اس قبائلی آرٹ کی باقاعدہ تربیت بھی دے رہے ہیں۔ قبائلی ٹرک آرٹ کے فروغ کیلئے انجم رانا کی کاوشوں کا اعتراف یونیسیکو نے بھی کیا اور انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ٹرکوں کو سجانے کا شوق صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارت، منیلا، انگلینڈ، جاپان اور امریکا سمیت کئی ملکوں میں ٹرک آرٹ کے الگ الگ انداز مقبول ہیں اور ترقی کرتی دنیا میں اب ٹرکوں کو جدید پینا فلکس اور دیگر کمپیوٹر گرافکس کی مدد سے بھی سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔

 photo Truckart_zpsf08fe70b.jpg

پاکستان کے مختلف شہروں میں بیڈ فورڈ ٹرک کو ان کی ساخت کے لحاظ سے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ بیڈ فورڈ کے علاوہ اس کے مقبول ترین ناموں میں راکٹ ٹرک، راکٹ بس، ڈگ ڈگ اور راکٹ ٹرلو شامل ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں درآمد کئے جانیوالے بیڈ فورڈ ٹرک انجن میں لگے ہینڈل سے سٹارٹ کئے جاتے تھے جنکی قیمت 65 ہزار روپے تھی۔ 1971ء میں جدید بیڈ فورڈ ٹرک درآمد کئے جانے لگے جنہیں JT ماڈل کہا جاتا تھا۔ ان کی قیمت ایک لاکھ 10 ہزار روپے تھی۔ 1986ء میں آخری بار بیڈ فورڈ ٹرک درآمد کئے گئے تھے جس کے بعد جدید جاپانی گاڑیوں نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں جگہ بنالی۔ گزرتے وقت کے ساتھ جدید سے جدید ترین گاڑیاں پاکستانی ٹرانسپورٹ کا حصہ بنتی گئیں تاہم 26 برس پرانے بیڈ فورڈ ٹرکوں کی اہمیت و افادیت کم نہیں ہوئی۔ گلگت، بلتستان کے بعض علاقوں میں بیڈ فورڈ ٹرک کو ڈگ ڈگ کہا جاتا ہے۔ لاہور بادامی باغ بس سٹاپ سے براستہ گجرات وادی کشمیر کے علاقے چوکی سماہنی تک چلنے والی بیڈ فورڈ ٹرک کی آلٹریشن سے بنائی گئی بس ’’راکٹ ٹرلو‘‘ کہلاتی ہے جو اس روٹ کے علاوہ پاکستان کے کئی پہاڑی علاقوں میں بھی سڑکوں پر رواں دواں ہیں جبکہ پہاڑی علاقوں میں سامان کی ترسیل کیلئے بھی بیڈ فورڈ ٹرکوں کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔

 photo Truckart1_zps9a57d973.jpg

 

عام بیڈ فورڈ گاڑیوں میں 5 گئیر ہوتے ہیں جن میں سے 4 آگے اور ایک ریورس گئیر ہوتا ہے جبکہ راکٹ ٹرلو میں پاکستانی مستری تبدیلی (آلٹریشن) کر کے 6 روسی گئیر لگاتے ہیں جن میں 5 گئیر آگے کے اور چھٹا گئیر ریورس کا ہوتا ہے اس گاڑی کے انجن میں متعدد پارٹس دوسری گاڑیوں کے بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس آلٹریشن اور مقامی تیار کردہ بس باڈی کی وجہ سے کشمیر اور حویلیاں میں اسے راکٹ ٹرلو کا لقب دے دیا گیا ہے۔ 1986ء سے بیڈ فورڈ ٹرک چلانے والے رفیق کا کہنا ہے کہ جس دور میں بیڈ فورڈ پاکستان کی سڑکوں پر چلنا شروع ہوئے اس زمانے میں ان سے زیادہ تیز گاڑی کوئی اور نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس تیز رفتاری کے باعث بیڈ فورڈ ٹرکوں پر لڑاکا طیاروں اور خلائی راکٹ کی تصاویر پینٹ کی جانے لگیں جس کے بعد گاڑی کے نام سے واقف لوگوں نے اسے ’’راکٹ ٹرک‘‘ کا نام دیدیا۔ یوں اب تک بیڈ فورڈ ٹرک راکٹ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی لحاظ سے بیڈ فورڈ بسوں کو بھی راکٹ بس کہا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ برطانیہ میں جہاں مقامی واکس ہال کمپنی بیڈ فورڈ ٹرک تیار کرتی ہے وہاں 39 سال قبل بیڈ فورڈ ٹرک چلانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاہم کمپنی کی جانب سے 1986ء تک بیڈ فورڈ ٹرک بنا کر بیرون ملک فروخت کئے جاتے رہے۔

واکس ہال کمپنی نے JO سے J6 تک بیڈ فورڈ کے 7 اقسام کے ٹرک بنائے۔ پاکستان اور بھارت میں بیڈ فورڈ کے J5 اور J6 ماڈلز نے مقبولیت حاصل کی۔ لوڈنگ کیلئے استعمال کئے جانیوالے ٹرکوں کو بھی ان کی ساخت کے لحاظ سے الگ الگ نام دیئے گئے ہیں جن میں بیڈ فورڈ، لوڈنگ راکٹ، پھٹہ باڈی، کنٹینری باڈی، تیل راکٹ اور چھوٹا لوکل کے نام سے مشہور ہیں۔ 1990ء سے قبل ٹرانسپورٹ کے تقریباً ہر شعبے میں راکٹ ٹرکوں کی اجارہ داری قائم تھی۔ تاہم ان کی درآمد رکنے اور ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہیوی گاڑیوں کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے جاپانی گاڑیاں بڑی تعداد میں درآمد کی جانے لگیں جس کے باعث راکٹ ٹراکوں کی تعداد میں کمی ہوگئی۔ 5 برس قبل تک ملک بھر میں تیل کمپنیوں سے پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل پر لگ بھگ 10 سے 12 ہزار راکٹ آئل ٹینکر مامور تھے۔ تاہم اب بھی بیڈ فورڈ راکٹ ٹرک پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل، کیمیکلز کی ترسیل اور مسافر گاڑیوں کے طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ جن کی بدولت ٹرک ڈیلرز، مکینک، ویلڈرز، اسپیئر پارٹس سیلرز، کباڑیوں، لکڑی فروشوں، کار پینٹرز، پینٹرز، آرٹسٹوں، الیکٹریشنز، ٹرک مالکان، ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔ کئی نئی نویلی دلہن کی صورت سجے سجائے راکٹ اور دیگر اقسام کے ٹرکوں کی تیاری کا سب سے اعلیٰ کام ڈیرہ غازی خان میں کیا جاتا ہے جبکہ حویلیاں، پشاور اور بنوں میں بھی بڑی تعداد میں ٹرک اور بسیں تیار کی جاتی ہیں۔

 photo Truckart3_zps26488660.jpg

پاکستان میں چلنے والے ٹرکوں پر انتہائی خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر چلتی پھرتی پینٹنگز لگتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرک آرٹ کی یہ روایت 1920ء کی دہائی سے چلی آرہی ہے اور خیبرپختونخوا کو اس فن کی پیدائش کا مرکز مانا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خوبصورت فن اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اس آرٹ سے وابستہ افراد کو کام کی تلاش میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی کئی روز کے بعد کام کرنا نصیب ہوتا ہے۔ ٹرک آرٹ سے وابستہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے گل خان کا کہنا ہے کہ اب یہ کام ان کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اب زیادہ تر ٹریلرز باربرداری کا کام کرنے لگے ہیں، جن میں سامان کنٹینرز کے ذریعے جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس میں زیادہ سجاوٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیورز اور مالکان کو بم حملوں اور اغوا برائے تاوان کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گل خان اپنے متعدد صارفین سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ٹرک آرٹ کے ماہر کے مطابق بل، کرایہ اور دیگر اخراجات پورے نہیں کر پا رہا، میرے پاس کام نہیں تو یہ خرچے کیسے پورے کروں۔

میرے بچوں کو پیسوں کی ضرورت ہے مگر میں انہیں دینے میں ناکام ہوچکا ہوں۔ ان کے مطابق ٹرک کی سجاوٹ میں 10 سے 15 روز لگتے ہیں جس پر 4 ہزار سے 40 ہزار روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں گل محمد بہت زیادہ مصروف رہتے تھے اور ان کی روزانہ کی آمدنی ہی 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان تھی۔ ٹرک کے مالکان گاڑیوں کی سجاوٹ کیلئے گل خان کے فارغ ہونے کا انتظار ہفتوں ہنسی خوشی کرتے تھے۔ ہر ٹرک آرٹسٹ ایک خاص تصویر کا ماہر ہوتا ہے، گل خان کی یہ خاص تصویر وائٹ ہارس ہے جس میں پر لگے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر، پہاڑیاں، پھولوں کے ڈیزائن اور دیگر تصاویر وغیرہ بنانے میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے۔ گل خان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دو ہزار سے زائد ٹرکوں کو رنگ چکے ہیں، تاہم انتہاپسندی بڑھنے سے انہیں اپنے کام کی تیکنیک تبدیل کرنا پڑی ہے۔

 photo Truckart4_zps5068e1aa.jpg

ان کا کہنا ہے کہ مجھے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر خوشی ہوتی تھی، مگر اب ایسا نہیں کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہوتا ہے، اب میں خطاطی کرنا پسند کرتا ہوں، جبکہ مجھے پہاڑی مناظر، شاہراہوں اور درختوں کی تصاویر بنا کر بھی مزہ آتا ہے۔ میرے جیسے فنکار انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بناکر کافی رقم کمالیتے ہیں، مگر میں ان تصاویر کو بنانا اب گناہ سمجھتا ہوں۔ گل خان کے مطابق اکثر ٹرک مالکان کا کہنا ہے کہ آخر اپنی رقم کیوں کسی ایسے گھوڑے کی تصویر پر خرچ کروں جس کے سر پر خاتون کا چہرہ لگا ہو اور اس کے پرنکلے ہوئے ہوں؟ ہم نے تو حقیقی زندگی میں ایسی مخلوقات کبھی نہیں دیکھیں، جبکہ اب میرے موبائل فون میں میرے بچوں کی تصاویر موجود ہیں، اس لئے اب ٹرک پر ان کی تصاویر بنوانا بھی بے کار ہے۔ ایک آرٹسٹ کو ٹرک سجانے کیلئے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں، کوئی ٹرک مالک ہفتوں تک اپنی آمدنی کے ذریعے کو محض سجاوٹ کیلئے روکنے کا بار نہیں اٹھا سکتا۔ زیادہ تر ٹرک آرٹسٹوں نے اس فن کی باضابطہ تربیت حاصل نہیں کی، تاہم ڈیرہ کے گل خان اب تک ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو اس فن کی تعلیم دے چکے ہیں۔

 photo Truckart5_zps9e10d315.jpg

گل خان کا کہنا ہے کہ حکومت گلوکاروں اور مصوروں کو ایوارڈز دیتی ہے مگر وہ ٹرک آرٹسٹوں کونظرانداز کردیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنے بچوں کو اس شعبے میں نہ لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو کبھی اس پیشے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا، کیونکہ اب اس فن کا مستقبل تاریک ہے۔ ہمیں کم سے کم رقم پر کام کرنا پڑتا ہے، شدید گرمی ہو یا سردی ہمیں کھلے آسمان تلے کام کرنا پڑتا ہے، اگر حکومت نے اس فن کی سرپرستی نہ کی تو آئندہ 10 سے 12 برس کے دوران یہ دم توڑ دے گا۔

ادھر پاکستا ن کی بسوں اور ٹرکوں پر بنائے جانے والے نقش ونگار نے اب بین الاقوامی موٹر سائیکل ساز کمپنیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ نیو یارک کے ایک موٹر شو میں ایسی بائیکس پیش کی گئیں جن پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رنگین نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ شہزور ٹرک کی مانند سجی سنوری ان بایئکس پرکی گئی رنگین ڈیزائنگ میں مختلف فکشن اورویڈگیم کے کردار نمایاں تھے۔

 photo Truckart6_zps340023a3.jpg

ٹرک آرٹ کو فروغ دینے کیلئے مختلف ممالک میں نمائشوں کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کا ہنستا مسکراتا اور رنگا رنگ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے پاکستان کے عالمی شہریت یافتہ ٹرک آرٹ کی دلچسپ نمائش لیوٹن میں سٹاک ووڈ ڈسکوری سینٹر پر شاندار رنگوں اور کامیابی کے ماحول میںہوئی۔ موروں، عقابوں، پھولوں اور قدرتی مناظر کی رنگا رنگ پینٹنگز سے مزین ایک بیڈفورڈ ٹرک سٹاک ووڈ ڈسکوری سینٹر میں لیوٹن میلہ کی دلچسپی کا محور رہا۔ پاکستانی فنکار حیدر علی اور برٹش فوک ویگن آرٹسٹ روری کاکس ہل کی قیادت میں 20 نوجوان برطانوی اور پاکستانی نژاد فنکاروں نے بیڈفورڈ ٹرک کی پینٹنگ اور اسے آراستہ کرنے میں حصہ لیا۔ نوجوانوں کی ایک 12رکنی ٹیم نے ٹرک آرٹ سیکھنے کیلئے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔

ٹرک باڈی میکرز کا کام ملک کا فخر ہے فرانس، اٹلی، جاپان سمیت تمام ممالک کے سیاح خصوصی طور پر ان ٹرکوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن یہ کام کرنے والوں کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا کہ اس کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے کر باقی صنعتوں کی طرح مراعات دی جائیں۔ جن شہروں میں یہ فن پروان چڑھا اور وہاں بڑے بڑے استاد اب بھی قیام پذیر ہیں ان کی مکمل سرپرستی کی جائے اور اس فن کو ترویج دینے کیلئے مالی وسائل فراہم کئے جائیں۔

وہ سات سال تک پیدل سفر کرے گا

$
0
0

اہل مغرب کی تخلیقی اور تحقیقی رو ح پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک مثال ہے۔وہ جستجو ، تلاش اور جدوجہد کا سفر ہمیشہ جاری رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج اس جہان رنگ و بو پر انہی کا سکہ چلتا ہے۔ 

۔اہل مغرب سے تحقیق و جستجو کا سبق سیکھ کر باقی دنیا کے انسان بھی ایسی کامیابی حاصل کرسکتے ہیںلیکن اس کے لیے انہیں قدامت کی تاریکیوں کو الوداع کہہ کر تحقیق و تخلیق کی روح کو اختیار کرنا ہوگا۔پال سالوپک بھی مغرب کا ایک ایسا ہی سپوت ہے جس کے اندر تخلیق اور تحقیق کی روح پوری طرح بیدار ہے اور اسے بے چین کیے ہوئے ہے۔

پال سالوپک پلٹزر انعام یافتہ صحافی ہے۔ وہ 2016 میں ایک کتاب لکھے گا۔وہ سات سال تک دنیا کا پیدل سفر کرے گا اور اس سفر کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تجربات اس کتاب میں بیان کرے گا۔اس نے کتاب کا نام ’’آئوٹ آف ایڈن‘‘ رکھا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’عدن سے اخراج‘‘ ہے اور یہ حضرت آدم کے جنت سے نکالے جانے کی جانب اشارہ ہے۔ یہ کتاب عالمی اشاعتی ادارہ رینڈم ہائوس شائع کرے گا۔ سالوپک کا یہ سفر کوئی عام پیدل سفر نہیں بلکہ اس کے دوران وہ دنیا کے ان راستوں پر چل کر اپنی منزل پر پہنچے گا جن پر گذشتہ ساٹھ ہزار سال کے دوران قدیم زمانے کے انسانوں نے سفر کیا تھا اور ان راستوں پر چلتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل گئے تھے۔وہ اس سفر کا آغاز افریقہ کے مشہور لیکن غریب ترین ملک ایتھوپیا (حبشہ) سے کرچکا ہے جسے قدیم انسانوں کی اولین آبادی قرار دیا جاتا ہے۔

 photo Paulsalopek_zpsc0e6865c.jpg

اس کے سفر کی تفصیل کچھ یوں ہے: 2013 میں ایتھوپیا سے اپنے سفر کا آغاز کرکے وہ مختلف افریقی و ایشیائی ملکوں جبوتی ، اریٹیریا ، یمن اور سعودی عرب سے گذرتا ہوا اسرائیل پہنچے گا ۔ اس کے بعد وہ منزلیں مارتا ہوا 2013 کے اختتام تک اردن پہنچ جائے گا۔ 2014 تک وہ تاجکستان پہنچ جائے گا اور 2015 میں دھرم شالہ انڈیا پہنچے گا۔دھرم شالہ سے چلتا ہوا وہ 2016 میں چینی صوبے یونان پہنچے گا جو کہ برما کے ساتھ واقع ہے۔وہاں سے وہ چین کے وسیع وعریض ملک سے گذرتا ہوا 2017 کے لگ بھگ روس پہنچ جائے گا۔ روس کے وسیع میدانوں اور سلسلہ کوہ سے گذر کر 2018 میں وہ کشتی کے ذریعے برفانی براعظم الاسکا پہنچے گا اور 2019 میں نیومیکسیکو کے شہر کولمبس پہنچ جائے گا اور اسی سال وہاں سے اپنی آخری منزل چلی کے شہر ٹیرا ڈیل فیوگو پہنچے گا۔

پال سالوپک کا یہ سفر اکیس ہزار میل فاصلے پر مشتمل ہوگا۔اس سفر میں وہ چار براعظموں سے گذرے گا۔ہومو سیپی این یعنی ابتدائی انسان نے بھی ساٹھ ہزار سال قبل دنیا کو اسی طرح دریافت کرنا شروع کیا تھا اور قافلوں اور گروہوں کی شکل میں انہی راستوں پر چل کر دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہوئے تھے۔سالوپک نے اپنے سفر کا روٹ تازہ ترین فاسلز کے نمونوں اور جینیاتی دریافتوں کو استعمال کرکے طے کیا ہے۔ اس کے سفر کا ریکارڈ باقاعدگی کے ساتھ عالمی سائنسی و تحقیقی جریدے ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ کی ویب سائٹ بعنوان outofedenwalk.nationalgeographic.com. پر پیش کیا جارہا ہے۔اس کے اس الف لیلوی سفر کا ابتدائی بیان ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ میگزین نے ٹائٹل سٹوری کے طورپر شائع کیا ہے جو کچھ یوں ہے:

میں ٹھوکریں کھاتا ، گرتا پڑتا اور بچتا سنبھلتا آگے بڑھ رہا ہوں۔ میں چلتا جارہا ہوں۔میں روزانہ اس طرح چلتا جارہا ہوں۔اگلے سات سال تک میں یوں ہی چلتا رہوں گا۔میں اس سفر کے دوران چار آباد براعظموں سے گذروں گا جو کہ لگ بھگ پوری دنیا ہے۔

 photo Paulsalopek1_zps82c99177.jpg

میں ایک سفر پر ہوں۔ یہ سفر نہیں بلکہ ایک تصوراتی خیال ہے۔ایک کہانی ہے۔ایک دیومالا ہے۔ شاید ایک بے وقوفی بھی۔ میں بھوتوں کے تعاقب میں ہوں۔میں نے جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے وہ انسانیت کا گہوارہ ہے ۔ اسے مشرقی افریقہ کی عظیم وادی کہا جاتا ہے۔میں ان نقوش پا پر چل رہا ہوں جن پر ساٹھ ہزار سال پہلے ہمارے آباواجداد نے سفر کرکے دنیا کو دریافت کیا تھا۔ہم ان قدیم انسانوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔لیکن فاسلز سے ملنے والے شواہد اور جینو گرافی کے ذریعے میں اس روٹ کو متعین کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں جو کہ قدیم انسانوں کے سفرکا راستہ تھا۔

آپ پوچھیں گے کہ میں یہ سفر پیدل کیوں کررہا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ایک انسان کی رفتار کے ساتھ سفر کروں جو کہ تین میل فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔اس دوران جب چاہوں اپنی رفتار کو کم کردوں۔کچھ سوچوں ۔ کچھ لکھوں۔واقعات کو بیان کروں۔تیزرفتار مصنوعی سفر کے دوران جو بہت کچھ دیکھنے سے رہ جاتا ہے، اس کو دیکھوں۔میں اسی طرح چلتا ہوں جس طرح سب چلتے ہیں ۔ میں یاد رکھنے کے لیے چلتا ہوں۔

ایتھوپیا میں جو صحرا ہے۔ وہ انسان کا قدیم ترین راستہ ہے جسے اس نے اپنی ہجرت کے لیے استعمال کیا۔لوگ آج بھی اس صحرا میں سفرکرتے ہیں۔وہ بھوکے ، غریب ، موسم کے مارے اور جنگ سے بھاگتے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں کوئی ایک ارب انسان ہجرت کے راستوں پر چل رہے ہیں۔ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اجتماعی ہجرت کے زمانے میں جی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ہمیشہ کی طرح آخری منزل تاحال دکھائی نہیں دے رہی۔جبوتی شہر میں افریقی مہاجرین کوڑے کرکٹ سے اٹے ساحل پر کھڑے اپنے موبائل ہوا میں لہرا رہے ہیں اور ہمسایہ ملک صومالیہ سے سگنل پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔میں نے انہیں بڑبڑاتے ہوئے سنا: اوسلو ، میلبورن ، مینیسوٹا۔

 photo Paulsalopek2_zpsc859d9bc.jpg

ہیرتو بوری ، ایتھوپیا میں

اب ہم ایتھوپیا کے صحرائی قصبے ہیرتو بوری میں ہیں جو کہ ملک کے ایفاری خطے میں واقع ہے۔

’’آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘ ایک ایفاری باشندے نے پوچھا۔

’’شمال میں جبوتی کی طرف۔۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ اب میں چلی کے شہر ٹیراڈیل فیوگو کا نام تو نہیں لے سکتا کیونکہ چلی یہاں سے بہت دور ہے۔۔۔۔۔بہت دور۔۔۔۔

’’آپ کا دماغ تو نہیں خراب۔۔۔۔‘‘ ایفاری باشندے نے کہا۔

اس کے جواب میں میرا ایتھوپین گائیڈ محمد علامہ حسن ہنسنے لگا۔ وہ ہمارے چھوٹے سے قافلے جو کہ ہم لوگوں اور دو اونٹوں پر مشتمل ہے ، کی رہنمائی کررہا ہے۔وہ کئی بار میرا مذاق اڑا چکا ہے۔اس کے نزدیک میرا سفر ایک مذاق دکھائی دیتا ہے۔بھلا کوئی سات سال تک پیدل بھی چل سکتا ہے۔بھلا اتنا طویل سفر اوراس کے دوران آنے والی تکالیف ، تنہائی ، بے یقینی ، خوف ، تھکاوٹ اور بیماری کو کون برداشت کرسکتا ہے۔وہ میرے سفر کے خیال کا باتوں باتوں میں ٹھٹھہ اڑائے جارہا تھا۔جس بے ڈھنگے انداز میں ایتھوپیا سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا ، اس کو دیکھتے ہوئے اس کا مذاق اڑانا بنتا بھی تھا۔ لیکن بہرحال۔۔۔۔۔

اگلی صبح فجر کے وقت میں جاگا تو ہم گرد سے اٹے ہوئے تھے۔یہ علاقہ علامہ کا گائوں بھی تھا۔میں ، علامہ اور وہاں پر موجود دیگر جانورگرد میں چھپ چکے تھے۔ وہاں اور بہت سے مویشی موجود تھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اونٹ نہیں تھے۔میں نے اس سفر کے لیے جو اونٹ کرائے پر حاصل کیے تھے ، وہ اور ان کے دو خانہ بدوش اونٹ بان محمد اداحس اور قادر یاری بھی غائب تھے۔وہ کہیں دکھائی نہ دیے تو ہم وہیں مٹی میں بیٹھ گئے اور ان کاانتظار کرنے لگے۔سورج نکل آیا اور دھیرے دھیرے گرم ہونے لگا۔مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔مشرق میں وادی کے پار ہمارا پہلا سرحدی علاقہ جبوتی کا بارڈر تھا۔جبوتی کے بارے میں آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ہر سال ایک انچ کے تین چوتھائی کے برابر پیچھے کھسک رہا ہے اور یہ وہ رفتار ہے جس کے ساتھ جزیرہ نما عرب ، افریقہ سے دور ہٹ رہا تھا۔

 photo Paulsalopek3_zps0fc5b04d.jpg

’’کیا تمہارا دماغ خراب ہے؟‘‘

’’نہیں؟‘‘۔۔۔۔’’ہاں؟‘‘۔۔۔۔’’شاید؟‘‘

ایفار کی تکون شمال مشرقی افریقہ کا وہ خطہ ہے جو پانی سے محروم چاند کا خطہ دکھائی دیتا ہے۔یہاں کا درجہ حرارت ایک سو بیس فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ نمک کی چٹانیں اس قدر چمک دار ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔تاہم آج یہاں پر بارش ہوئی ہے۔علامہ اور میرے پاس واٹر پروف ٹینٹ موجود نہیں۔ہمارے پاس ایتھوپیا کا ایک جھنڈا ہے جسے علامہ نے اپنے جسم کے ساتھ لپیٹ رکھا ہے۔ہمیں دو اونٹ مل گئے ہیں جنہیں ہم نے کرائے پر لے لیا ہے۔

بارہ تیرہ میل کا سفر کرنے کے بعد علامہ واپس جانے کی بات کررہا ہے۔اصل میں وہ پیدل چلنے کے لیے امریکہ کے بنے جوتے لانا بھول گیا ہے۔وہ فلیش لائٹ ، ہیٹ اور سیل فون بھی بھول آیا ہے۔چنانچہ اس نے ایک گاڑی پر لفٹ لی اور واپس اپنے گائوں یہ چیزیں لینے چلا گیا۔اب وہ واپس پہنچ چکا ہے۔وہ کبھی ہنس رہا ہے اور کبھی منہ بسور رہا ہے۔

یہ غائب دماغی کوئی انوکھی چیز نہیں۔ اس قسم کے بڑے پیدل سفر پر جاتے ہوئے ہر چیز کو یاد رکھنا ممکن نہیں۔میں خود بھی کچھ چیزیں بھول گیا تھا جیسے کہ نائلون کا تھیلا۔یہی وجہ ہے کہ اب میں ہوائی جہاز میں استعمال کیے جانے والے سامان کا بیگ استعمال کررہا ہوں جسے میں نے اونٹ پر لٹکا رکھا ہے۔

یہ ’’مڈل اواش ریسرچ پراجیکٹ ‘‘ کے سائنس دان تھے جنہوں نے مجھے اس سفر کا آغاز ایتھوپیا کے اس علاقے یعنی ہیرٹو بوری سے کرنے کامشورہ دیا تھا۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے انسانوں کی قدیم ترین باقیات ملیں جنہوں نے اس خطے کو انسان کی قدیم ترین آبادی ثابت کیا۔ان میں انسانوں کی قدیم ترین نسل ’’ہوموسیپی این اڈالٹو‘‘ بھی تھے جو کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال پہلے دنیا میں موجود تھے جن کی جدید ترین شکل آج کا انسان ہے۔میرا گائیڈ علامہ بھی ان سائنس دانوں کے ساتھ کام کرچکا ہے اور فاسلز کی تلاش میں ان کا بہت مددگار رہا ہے۔ علامہ کا تعلق خانہ بدوشوں کے ایک ایسے قبیلے سے ہے جس کے جنگجو بہت جی دار رہے ہیں۔علامہ تین زبانیں بول سکتا ہے جن میں ایفار ، امہارک اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی شامل ہے جو کہ اس نے مڈل اواش پراجیکٹ کے سائنس دانوں کے ساتھ کام کے دوران سیکھی۔وہ انگریزی کے کچھ الفاظ جیسے ’’وائو‘‘، ’’کریزی مین‘‘ اور ’’جیزز‘‘ تواتر سے بولتا ہے۔مجھے وہ مذاق میں ’’گورا گدھا‘‘ کہتا ہے تو میں اسے ’’کالا گدھا‘‘ کہتا ہوں۔

 photo Paulsalopek4_zps972cddcc.jpg

ڈالی فاگی ، ایتھوپیا

اب ہم ڈالی فاگی کے علاقے میں ہیں۔ یہ بھی ایتھوپیا کا علاقہ ہے۔اس خطے میں پانی سونے کی طرح قیمتی ہے۔اس میں حیرانی کی بات نہیں۔یہ دنیا کا گرم ترین صحرا ہے۔ اس علاقے میں تین دن کے سفر کے بعد ہمیں صرف ایک مرتبہ معجزاتی طورپر پانی کا گڑھا دکھائی دیا جس سے ہم نے اپنے اونٹوں کی پیاس بجھائی۔لیکن صرف ایک دن بعد ہمیں پانی کا ایک اور تالاب دکھائی دیا۔یہ نخلستان تھا جو ڈالی فاگی گائوں میں واقع تھا۔

یہ گائوں ایتھوپیا ، جبوتی اور اریٹیریا کے سنگم پر واقع ہے اور 1920 کی دہائی تک اس علاقے کا نقشہ تک نہیں بنا تھا۔صدیوں تک اس علاقے کے ایفار باشندوں نے یہاں حکومت کی اور بیرونی حملوں کی بے جگری کے ساتھ مزاحمت کی۔یہ آج بھی مسلح رہتے ہیں۔ایک تیزدھار خنجر اور کلاشنکوف رائفل ان کے محبوب ہتھیار ہیں لیکن ساتھ ہی ایک موبائل فون بھی ہروقت اپنے پاس رکھتے ہیں۔ڈالی فاگی گائوں میں ایک پاور پلانٹ پر کام کرنے والے سرکاری اہلکار ملوکان ایالو کے بقول موبائل فون ان لوگوں کو طاقت دیتا ہے۔اس کے ذریعے بکروں کے بیوپاریوں سے رابطہ کرسکتے ہیں اور کاروبار کرسکتے ہیں۔

ڈالی فاگی کا ڈیزل سے چلنے والا پاور پلانٹ روزانہ چھ گھنٹے بجلی فراہم کرتا ہے۔ایالو یہاں پرخانہ بدوشوں کے موبائل فونز کی بیٹریاں بھی چارج کرتا ہے اور اس کے لیے چند سینٹ قیمت وصول کرتا ہے۔پیر کے دن جب مارکیٹیں دوبارہ کھلتی ہیں تو اس کے دفتر کے باہر موبائل فون چارج کرانے کے لیے آنے والوں کا رش لگا ہوتا ہے۔ان کی جیبوں میں دوردراز کے رشتے داروں کے موبائل فون بھرے ہوتے ہیں جن کو وہ چارج کرانے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔یہ خانہ بدوش لوگ موبائل فون کے بری طرح عادی ہوچکے ہیں۔

تلالاک دریا کے قریب

جوتے جدید شناخت کا اہم ترین نشان بن چکے ہیں۔آج لوگوں کے پیروں میں موجود جوتوں کو دیکھ کر ان کے رتبے کا اندزہ لگالیا جاتا ہے۔لیکن ایتھوپیا کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر تمام مرد ، عورتیں اور بچے ہر موقع پر ایک ہی قسم کی پلاسٹک کی چپل پہنتے ہیں۔ چمڑے اور دیگر سامان سے بنے فیشن ایبل جوتوں کی ورائٹی کا یہاں کوئی تصور نہیں۔یہاں پر سستے جوتے سب کے لیے عام ہوچکے ہیں۔یہ ٹھنڈے ہیں اور ان میں ہوا آسانی سے آتی جاتی ہے۔ یہ ری سائیکل ہوسکتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور واقعہ ہوا۔ہمارے پہلے کرائے والے اونٹ اور اونٹ بان محمد اداحس اور قادر یاری ہمیں یہاں پر آن ملے۔ یہاں کی روایت کے مطابق نہ ہم نے ان سے کچھ پوچھا اور نہ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ اتنے دن کہاں رہے۔وہ بہت تاخیر سے آئے تھے لیکن اب ہمارے ساتھ تھے۔انہوں نے بھی پیروں میں وہی پلاسٹ کے چپل پہن رکھے تھے۔اگلے روز علامہ زمین پر بنے چپل کے نشان کو غور سے دیکھنے لگا۔

’’لاد ہووینی ہمارا انتظار کررہا ہوگا۔‘‘ وہ چپل کے نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔لاد ڈالی فاگی میں تھا۔

 photo Paulsalopek5_zps49a7f3e4.jpg

ایتھوپیا میں ہادار کے قریب

ہم وارنسو کی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ میں اور علامہ سخت گرمی میں بیس میل کاسفر کرچکے ہیں۔آثار قدیمہ کے مقام کا معائنہ کرنے کے لیے ہم اپنے اونٹوں سے الگ ہوگئے۔گونا نامی یہ مقام وہ جگہ ہے کہ جہاں سے چھبیس لاکھ سال پرانے انسانی اوزار دریافت ہوچکے ہیں۔لیکن اس وقت ہمیں ایک اور فکر لاحق ہے۔ہماری پانی کی بوتلیں خالی ہوچکی ہیں۔ہمیں شدید پیاس لگی ہوئی ہے۔سورج سر پر ہے۔یہاں پر پیاس لگنے کی صورت میں لازمی ہے کہ آپ چلتے رہیں۔چلتے رہنے کی صورت میں امکان ہے کہ کوئی آپ کومل جائے گا۔اگر آپ کہیں کسی درخت کے سائے میں رک گئے تو سمجھیں مارے گئے کیونکہ کوئی آپ کو ڈھونڈ نہیں سکے گا۔چنانچہ ہم بھی چلتے رہے ۔ آخرکار ہمیں بکریوں کے ممیانے کی آوازیں سنائی دیں۔ہم مسکرائے۔ اب ہم سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔بکریوں کا مطلب ہے کہ وہاں لوگ موجود ہیں۔

یہاں ہماری میزبان دو ایفاری عورتیں ہیں جو ایک پہاڑی پرموجود ہیں۔وہاں آٹھ بچے جنہوں نے چیتھڑوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے ، بھی کھیل رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک انتہائی بوڑھی عورت ہے جسے اپنی عمر کا بھی علم نہیں۔اس کا نام حسنہ ہے اوروہ کوئی شے بْن رہی ہے۔بوڑھی عورت نے ہمیں قریب آنے کو کہا۔ان عورتوں نے ہمیں پانی پلایا اور کچھ جنگلی بیریاں کھلائیں۔ہمیں کچھ توانائی ملی۔ حسنہ اس وقت ہمیں اپنی ماں معلوم ہورہی ہے۔اس کی شفقت بھری آواز سے میری آنکھ لگ گئی۔

آج سے ساٹھ ہزار سال پہلے جب ہمارے آبائو اجداد افریقہ سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلے تو ان کا سامنا اپنے جیسے نیم انسانوں سے ہوا۔یہ انسانوں کی مختلف قسمیں تھیں جیسے ہومو نینڈر تھل، ہومو فلوریسائنس اور ڈینی سووانز وغیرہ، یا اور کئی قسم کے انسان جو ہمارے جیسے بالکل نہ تھے۔

ڈبٹی ، ایتھوپیا

شمال اور پھر مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے ہم نے صحرا کو الوداع کہا۔اب ہمارے پائوں نے جدید انسان کی ایک نشانی کو چھولیا ہے۔یہ اسفالٹ سے بنی سڑک ہے۔

یہ سڑک جبوتی ایتھوپیا روڈ کہلاتی ہے۔اس پر سے بھاری ٹرک گذر رہے ہیں۔ہم چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کے قریب سے گذرتے رہے۔ گرد اور ڈیزل کا دھواں ، شراب خانے ، دکانیں ، ٹھیلے۔اصل میں یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے مصنوعی طورپر سیراب کرکے گنے کی فصل لگائی گئی ہے۔یہ لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے شروع کیا جانے والا بھارت اور ایتھوپیا کا مشترکہ منصوبہ ہے۔یہاں شوگر ملیں ہیں اور ان ملوں کی وجہ سے یہ علاقہ باقی علاقے سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔یہاں پر جلد پچاس ہزار کے قریب مزدور کام کررہے ہوں گے۔ اواش دریا سے پانی نکال کر یہاں پر گنے کی فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔اس منصوبے کی وجہ سے ایتھوپیا چینی پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن سکتا ہے۔یہ ایتھوپیا کے لیے بہت اچھا ہے۔اس سے ملک کا غیرملکی امداد پر انحصار کم ہوگا۔

لیکن اس منصوبے کی وجہ سے ایک مسئلہ نے بھی جنم لیا ہے۔گنے کی فصلیں کاشت کرنے کے لیے علاقے کو تحویل میں لینے کے بعد کمپنی وہاں پر رہنے والوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جب اقتصادی ترقی ہوتی ہے تو اس میں کچھ لوگ جیتتے اور کچھ ہارتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔علاقے کے لوگوں اور کمپنی میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور دونوں طرف سے خون بہتا ہے۔بہرحال ڈبٹی ایک ابھرتا ہوا علاقہ ہے۔ایتھوپیائی لوگ تیزی سے یہاں آرہے ہیں اور اپنے ساتھ نئی امیدیں ، ذائقے ، عزائم ، آوازیں ، ایک نیامستقبل او ر ایک نئی تاریخ بھی لارہے ہیں۔تبدیلی اسی کا نام ہے۔

ڈشوٹو کے قصبے میں پہنچ کر میں نے ایک پولیس سٹیشن پر اپنے لیپ ٹاپ کو ری چارج کیا۔یہاں تمام افسر باہر کے ہیں۔ یہ غیرایفاری ہیں۔تاہم یہ دوستانہ ، پرتجسس اور فراخ دل ہیں۔ انہوںنے مجھے اور علامہ کو چائے بھی پلائی جس میں چینی بہت تیز ہے ۔یہاں پر ایک ٹی وی بھی ہے جس پر حکومتی اشتہار چل رہے ہیں جن میں ایتھوپیا کو ترقی کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ پولیس افسران شوق سے ان اشتہارات کو دیکھ رہے ہیں۔ چائے پینے اور کچھ گپ شپ کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔

 photo Paulsalopek6_zps4a94acd7.jpg

ایتھوپیا جبوتی بارڈر کے قریب

یہاں ہم نے فاطومہ پہاڑی کے دامن میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے نیچے کی جانب چھوٹی سی جمہوریہ جبوتی پھیلی ہوئی ہے۔اس کی زیادہ تر سطح اگرچہ میدانی ہے لیکن یہ ایتھوپیا سے زیادہ گرم اورخشک ہے۔یہاں پر جھیلیں خشک پڑی ہیں۔اگرچہ پہلے جبوتی اور ایتھو پیا ایک ہی ملک تھے لیکن پھر سامراجی طاقتوں نے انہیں الگ کردیا۔یہاں پر میں نے اپنے افریقی گائیڈز علامہ ، ایداحس اور یاری کو خدا حافظ کہا۔ تینوں نے کہا کہ وہ میرے ساتھ آگے جائیں گے۔انہو ں نے خلیج عدن تک میرے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔لیکن یہ ممکن نہیں۔ان میں سے دو کے پاس کسی قسم کے پاسپورٹ یا کاغذات موجود نہیں ہیں جس سے ان کی شناخت ہوسکے۔اگرچہ وہ یہی کہے جارہے ہیں کہ یہ سارا ایفار کا علاقہ ہے۔اس کے علاوہ علامہ بیمار بھی ہے۔چنانچہ بارڈر پر واقع قصبے ہائولی میں ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہہ دیا۔

گذشتہ روز ہم نے اٹھارہ میل کا سفر کیا تھا اور ہمارے پاس راشن بہت کم تھا۔ہر ایک کے لیے نوڈلز کا ایک پیالہ اور چند بسکٹ تھے۔میری شادی کی انگوٹھی جو کبھی ہاتھ میں فٹ تھی ، اب ڈھیلی ہوکر جھول رہی ہے۔ایتھوپیا میں میرا ساتھ دینے والی ساتھی جاچکے ہیں۔میں انہیں یادکررہا ہوں۔

جبوتی میں ارد کوبا کا لاوا دیکھنا

اب میں جبوتی میں ہوں۔ جبوتی میں میرے پیدل سفر کو بیالیس واں دن ہوچکا ہے۔اس روز میں نے راستے میں انسانی لاشیں دیکھی ہیں۔یہ کل سات لاشیں ہیں جو سیاہ لاوے میں اس طرح پڑی ہیں جیسے آسمان سے گری ہوں۔زیادہ تر لاشیں برہنہ ہیں۔دراصل یہ لوگ گرمی سے مرے ہیں اور یقیناً گرمی اتنی شدید ہوگی کہ انہوں نے عالم دیوانگی میں اپنے کپڑے اتار پھینکے ہوں گے۔لاشیں گل سڑ چکی ہیں اور ان کا سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے۔ان میں سے کئی کے اعضا غائب ہیں اور یقیناً یہ جنگلی جانوروں کی کارستانی ہے۔یہ لوگ ایتھوپیا، صومالیہ یا اریٹیریا سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ لیکن مرنے کے بعد اب وہ سب ایک ہوچکے ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو روزگار اور اچھے مستقبل کے لیے خلیج عدن کی طرف جارہے تھے۔عام طور پر یمنی سمگلر ان سے پیسہ لیکر انہیں مختلف خلیجی ملکوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کوشش میں بڑی تعداد میں لوگ بھوک وپیاس اور بیماریوں سے مرجاتے تھے جبکہ کچھ اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہرسال کوئی ایک لاکھ افراد جزیرہ نما عرب کی طرف آنے کی کوشش کرتے تھے۔

’’یہ جرم ہے۔‘‘ حسین محمد حسین نے چلا کر کہا۔’’یہ ذلت ہے!‘‘

حسین جبوتی میں میرا گائیڈ ہے۔وہ شاید غصے میں ہے یا شرمسارہے۔وہ اپنی لاٹھی کو ہوا میں لہرا رہا ہے جو کہ اس کے تلخ جذبات کا اظہار ہے۔ وہ لاشوں سے بہت آگے کی طرف چلا گیا ہے۔میں نے ماتھے پر سے پسینہ صاف کیا اور لاشوں کو غور سے دیکھنے لگا۔

ایک مرتبہ آبادیات کے ایک ماہر نے تخمینہ لگایا تھا کہ کرہ ارض پر آباد انسانوں کی ترانوے فیصد آبادی جو کہ لگ بھگ سو ارب بنتی ہے، ہم سے پہلے ختم ہوچکی ہے۔ہم سے زیادہ تعداد میں انسان ہم سے بہت پہلے مرچکے ہیں۔ ہماری بہت سی شکستیں اور بہت سی فتوحات ہم سے پہلے گذرچکی ہیں۔ہم روزانہ انہیں ماضی کے قبرستانوں میں دفن کرتے رہتے ہیں۔ یہ درست بھی ہے۔اگرچہ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ میں چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے چل رہا ہوں۔یہ مکمل طورپر سچ نہیں۔جب ہم دنیا کی مختلف دریافتوں کو بار بار دریافت کرتے ہیں تو ہمیں پرانی دریافتوں کو فراموش کرنا ہوتا ہے۔چلتے رہنے کے لیے ، قائم رہنے کے لیے اور بیٹھ کر نہ رہنے کے لیے ہمیں فراموشی کا سفر بھی جاری رکھنا ہوتا ہے۔لگتا ہے حسین اس کو جانتا ہے۔وہ پلٹ کر نہیں دیکھتا۔

ایک روز بعد ہم خلیج عدن پہنچ گئے۔

یہ سرمئی پتھروں کا ساحل ہے۔لہریں چاندنی کی طرح جھاگ بکھیر رہی ہیں۔میں اور حسین مصافحہ کرتے ہیں۔ہم ہنستے ہیں۔حسین ایک پیکٹ کھول کر ذخیرہ شدہ کھجوریں نکالتا ہے۔یہ جشن کا سماں ہے۔ہم اس وقت افریقہ کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ میں یہاں تک پہنچ چکا ہوں ۔ ابھی میں نے بہت آگے جانا ہے۔میرے راستے میں بہت سے ملک آئیں گے جیسے بھارت، چین ، ایران اور روس وغیرہ۔ابھی تو پیدل چلتے ہوئے صرف لگ بھگ ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔یہ سفر سات سال تک جاری رہے گا۔(پال سالوپک کے سفر کاریکارڈ نیشنل جیوگرافک کی ویب سائٹ پر باقاعدگی سے پیش کیا جارہا ہے۔

ZALIPIE، پولینڈ کا رنگ برنگا گاؤں

$
0
0

Zalipie پولینڈ کا ایک حسین، صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک گائوں ہے جہاں کے لوگ اپنے مکانوں اور جھونپڑیوں کو سجانے سنوارنے میں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

Zalipie کے رہنے والے روایتی طور پر اس کام میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اپنے گھروں کی آرائش کا انہیں اس حد تک خیال ہوتا ہے کہ یہ اپنے گھر کے باہری راستوں کو بھی سجاتے ہیں اور ان کے کوڑے کرکٹ کے ڈرم بھی بڑے رنگین اور سجے سجائے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے گائوں کو سجانے کا جنون ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں Zalipie کو ایک پینٹڈ ولیج کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پولینڈ کے علاقے Tarnow کے شمال میں جہاں دریائے Dunajec اور دریائے Vistulaکا سنگم ہوتا ہے، وہیں پولینڈ کا یہ حسین ترین اور بے مثال گائوں Zalipieواقع ہے، جو دیکھنے میں تو چھوٹا سا ہے، مگر اپنی آرائش اور سجاوٹ کے باعث یہ دنیا بھر کے سیاحوں کی نظر میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے۔

 photo Zalipie_zps9ec75c36.jpg

یہاں کے لوگ شروع سے ہی خاصے باذوق واقع ہوئے ہیں۔ انہیں طرح طرح کے خوش نما رنگوں سے اپنے گھروں اور پورے علاقے کو سنوارنے کا جنون ہے۔ ان لوگوں کی زمانۂ قدیم سے ہی یہ روایت چلی آرہی ہے کہ یہ دنیا بھر میں سب سے الگ، نمایاں اور منفرد نظر آنے کے خواہش مند رہے ہیں۔ اگر ہم ان کی جھونپڑیوں اور گھروں پر نظر ڈالیں تو پہلی بار میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے سامنے ڈھیروں رنگ برنگ اور سجے سجائے کھلونے رکھے ہیں۔ ہر طرف رنگ ہی رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی بھی جگہ بے رنگ یا بدرنگ نہیں ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر جی خوش ہوجاتا ہے۔

 photo Zalipie1_zps02c9c357.jpg

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں اس خطے میں پرانے طرز کی بھٹیوں اور چمنیوں کی بھرمار تھی۔ ظاہر ہے یہ چیزیں یہاں رہنے والوں کے لیے ضروری بھی تھیں، مگر ان کی وجہ سے اس علاقے کا سارا حسن گویا داغ دار ہورہا تھا۔ چناں چہ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان قدیم طرز کی بھدی اور بے ہنگم چمنیوں اور بھٹیوں کی جگہ نئی اور جدید طرز کی چمنیاں اور بھٹیاں لگوائی جائیں جو دیکھنے میں اچھی لگیں اور علاقہ بھی حسین لگنے لگے۔ اس کے بعد تو اس گائوں Zalipie کے لوگوں میں اپنے علاقے کو سنوارنے اور سجانے کا ایک ایسا جذبہ ابھرا، جس نے انہیں دیوانہ بنادیا اور اس گائوں کا ہر فرد اپنے گھر کو خوب صورت، حسین اور خوش نما بنانے میں لگ گیا۔ اس نے صرف اپنے گھر کے اندر کے حصے کو ہی نہیں سجایا بلکہ بیرونی حصے کی بھی آرائش و زیبائش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس اجتماعی مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا گائوں ہی سجتا چلا گیا۔

 photo Zalipie2_zpsa7040f7b.jpg

Zalipie گائوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہاں کے گھروں کی تمام دیواریں چمنیوں اور بھٹیوں کی وجہ سے سیاہ ہوچکی تھیں۔ انہیں صاف کرنے کے لیے گائوں کی خواتین اور بچیاں آگے آئیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کے کالی دیواروں کو صاف کرکے چمکانے کی کوشش کی، جس کے لیے انہوں نے گھروں کے اندرونی حصوں پر چونے سے تیار کردہ چمک دار گول گول دھبے ڈالے اور سیاہی کو کم کرنے کی کوشش کی۔

 photo Zalipie13_zpscf8c7ee7.jpg

بعد میں انہوں نے ان سفید گول دھبوں کو پھولوں اور پتیوں کی شکلوں میں ڈھال دیا۔ اس کے بعد ان پھول پتیوں کو سفید کے بجائے مختلف رنگوں میں بدل دیا گیا جس سے وہ اور بھی حسین نظر آنے لگے۔ بس اس کے بعد انہوں نے جو شکل اختیار کی، وہ آج تک ہمیں اس گائوں Zalipie میں دکھائی دیتی ہے۔

 photo Zalipie3_zps40f67440.jpg

اس گائوں کی خواتین کو یہ رنگ برنگے پھول پتے اس قدر بھائے کہ انہوں نے یہی رنگین ڈیزائن اپنے گھروں میں رکھے بڑے چولہوں پر بھی کرنے شروع کردیے۔ ان رنگوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ اصل پھولوں اور پتیوں والے رنگ اور امتزاج ان میں بھی دکھائی دیں۔ساتھ ساتھ ان خواتین نے اپنے گھروں میں دیواروں پر ٹنگی ہوئی تصویروں کے نیچے، کھڑکیوں اور دروازوں کے اطراف اسی طرح مختلف رنگوں سے پھولوں اور پتیوں کے ہار بھی پینٹ کردیے جس سے ان قدیم کھڑکیوں اور دروازوں کا حسن مزید نکھر گیا اور کبھی بدنما دکھائی دینے والے گھر خوش نما دکھائی دینے لگے۔ اب تک گھروں کے اندرونی حصے اچھے بنے تھے۔ وقت رفتہ رفتہ گزرتا گیا اور آخرکار ان لوگوں نے گھروں کے بیرونی حصوں کو سجانے اور سنوارنے کا بھی بیڑا اٹھایا۔

 photo Zalipie4_zps5226032b.jpg

ابتدا میں انہوں نے گھروں کے باہر رنگوں سے آڑے ترچھے ڈیزائن بنائے، انہیں گول یا مربعوں سے سجانے کی کوشش کی، رنگوں کے ذریعے زگ زیگ اور ٹیڑھی میڑھی لائنیں بھی بنائیں، چھوٹے اور بڑے نقطے بھی لگائے، غرض گھروں کے بیرونی حصوں کو قابل توجہ بنانے کی پوری کوشش کی۔ ان غریب لوگوں نے اس کے لیے ایسا سادہ مٹیریل استعمال کیا جو ان کے علاقے میں موجود تھا، نہ زیادہ پیسہ خرچ کیا اور نہ باہر سے کوئی سامان منگوایا۔ ان لوگوں نے مقامی طور پر ملنے والی برائون مٹی، چونے اور سیاہ کاربن کے ذریعے یہ رنگ تیار کیے۔ ان لوگوں نے ان رنگوں میں چِپک پیدا کرنے کے لیے ان میں دودھ بھی شامل کیا اور چینی بھی، اس کے ساتھ انڈوں کی سفیدی بھی ان میں ملادی جس سے رنگوں کا گاڑھا آمیزہ تیار ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا، ان دیسی رنگوں سے ہی اہلZalipie نے اپنے گائوں کو سجا اور سنوار کر دنیا کے سامنے پیش کردیا۔

 photo Zalipie5_zpsb8ebb3d6.jpg

رنگ کرنے کا سارا کام عام طور سے گائوں کی عورتیں کرتی ہیں جس کے لیے وہ برش استعمال کرتی ہیں۔ یہ برش گھوڑے کے بالوں، چمڑے یا انسانی بالوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ قدیم برش ہیں مگر چند سال پہلے تک یہی برش Zalipie میں رنگ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔

 photo Zalipie6_zpsc22256db.jpg

Zalipie میں گھروں کو رنگ روغن کرنے اور ان پر نقش و نگار بنانے کا فن بالکل منفرد اور انوکھا ہے مگر آرٹ کی اس قسم کو 1905 تک تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ پھر Krakow کے ایک کلرک نے اپنی کاٹیج کچھ ایسے منفرد انداز سے سجائی اور اس نے اس میں مختلف رنگوں کا استعمال اتنی مہارت سے کیا کہ اسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی، بلکہ وہ دنیا کا پہلا صحافی بھی بن گیا جس نے پہلی بار Zalipie کے اس قدیم آرٹ کو اپنے مضمون کے ذریعے عام لوگوں سے متعارف کرایا۔

 photo Zalipie7_zpsd1475115.jpg

اس کا مذکورہ بالا مضمون ایک مقامی ہفت روزہ Ludمیں شائع ہوا تھا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے Zalipie کے اس منفرد فن کے حوالے سے Krakowکے عجائب گھر میں ایک نمائش بھی ہوئی تھی مگر اس پر نہ تو کسی نے توجہ دی تھی اور نہ ہی لوگوں کو اس فن کے بارے میں پتا چل سکا تھا۔ پھر جنگ عظیم چھڑگئی تو آرٹ کی یہ قدیم صنف غائب ہونی شروع ہوئی، آرٹ کے چاہنے والوں کی وجہ سے یہ ایک بار پھر زندہ ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس فن کو زندہ رکھنے کا سارا کریڈٹ Zalipie والوں کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اس فن کو اپنے گائوں میں بڑی احتیاط سے زندہ و جاوید رکھا ہوا ہے۔

 photo Zalipie8_zps331dadab.jpg

ہائوس پینٹنگ کے حوالے سے مقابلوں کا سلسلہ 1948سے شروع ہوا اور 1965میں اتنی ترقی کرگیا کہ یہ باقاعدہ سالانہ بنیاد پر منعقد ہونے لگا۔ اس فن کا اثر مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ Zalipie کے قرب و جوار میں آباد دیہات اور بستیوں پر بھی پڑا اور انہوں نے بھی اسی طرح اپنے گھروں اور بستیوں کو سجانا سنوارنا شروع کردیا۔ ان لوگوں نے تو یہ بھی کیا کہ اس ایونٹ کے لیے خصوصی طور پر گھر، مکان اور کاٹیج سجانے شروع کیے جنہیں وہ سال بھر رکھتے اور پھر اگلے سال اس کے رنگ، نقش و نگار اور ڈیزائن بدل دیتے ہیں۔

 photo Zalipie9_zps6761732e.jpg

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ Zalipie کو آج بھی اپنے فن میں وہی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے جو زمانۂ قدیم میں تھی۔ اس فن کو زندہ کرنے اور دنیا بھر میں متعارف کرانے میں ایک باصلاحیت مقامی پینٹر  Felicja Curyloکا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ پینٹر 1904میں پیدا ہوا تھا اور1974میں انتقال کرگیا۔ اسی شخص کی وجہ سے آج بھی Zalipie وہ گائوں ہے جہاں سجے سجائے اور رنگین گھروں اور کاٹیجز کی تعداد دیگر دیہات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

 photo Zalipie10_zpsaa1c3ed2.jpg

Zalipie کے علاوہ جن دیہات میں ایسے رنگین گھر اور کاٹیج پائے جاتے ہیں، ان میں Cwikow, Klyz, Kuzie, Niwki, Podlipie  اور Samociceشامل ہیں۔ لیکن ان سبھی دیہات کی پینٹنگZalipie کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔مقامی ماہرین کی صلاحیت صرف دیوار گیر (وال پینٹنگز) تک محدود نہیں ہے، بلکہ اب تو انہوں نے کشیدہ کاری سے بھی اپنی مہارت کا اظہار شروع کردیا ہے اور فرنیچر کے لیے کور اور غلاف، میزپوش اور ایپرن بھی اسی انداز سے تیار کرتے ہیں۔

 photo Zalipie11_zps2246cc18.jpg

یہ آرٹ Zalipian میں کتنا مقبول ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس گائوں کے چرچ کو بھی اسی انداز سے مختلف رنگوں سے سجایا اور سنوارا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گائوں کا اسکول اور دیگر عوامی عمارتوں کو بھی روایتی انداز سے سجایا گیا ہے۔ اس گائوں کی اس قدیم روایت کو زندہ رکھنے کے لیے یہاں کا Tarnów Ethnographic Museum ہر سال The Painted Cottage کے عنوان سے ایک مقابلے کا اہتمام کرتا ہے، جو بلاشبہہ مقامی ہنرمندوں کے لیے روزگار کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ مقابلہ موسم بہار کے بعد منعقد کیا جاتا ہے۔

 photo Zalipie12_zps49e14442.jpg

بُک شیلف

$
0
0

شاعرات

ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم ،صفحات:176،قیمت:200روپے

 photo Shaairaat_zpsb6287235.jpg

جاذب قریشی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہ طور نقاد بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ’’شاعرات‘‘ جاذب قریشی کے ان تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عہد حاضر کی کچھ اردو شاعرات کے بارے میں تحریر کیے۔ ان شاعرات میں ادا جعفری، شاہدہ حسن، صائمہ علی، ریحانہ روحی، رخسانہ صبا، گلنار آفریں، ثروت سلطانہ ثروت، فرزانہ خان، عظمیٰ روحی، ثروت ظفر، حمیرا راحت اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے متعلق معروف ادیبہ اور کالم نویس زاہدہ حنا لکھتی ہیں،’’جاذب صاحب کی تنقید مجھے اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس میں بے ساختگی ہے اور پڑھنے پڑھنے والوں کو بے سبب مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جاذب کی تنقید شاعروں کے ساتھ ان کی شاعری کو سماج کے موجودہ تناظر میں دیکھنے کی ایک ایسی تخلیقی کوشش ہے، جس میں نہ بڑے نکتے قائم کیے گئے ہیں اور نہ وہ جنّاتی زبان استعمال کی گئی ہے جو تنقید کو ناقابل فہم بنادیتی ہے، تاکہ کچھ لوگ اپنی کم علمی احساس سے مجبور ہوکر تعریف کریں۔‘‘

ان تنقیدی مضامین میں جو اس کتاب کا حصہ بنے ہیں، صاحب مضمون نے اپنا موضوع بننے والی شاعرات کے کلام کے فنی محاسن اور خصوصیات کو کمال اختصار کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔

امکان سے آگے

ناشر: بھوپال انٹرنیشنل فورم،صفحات:224،قیمت:300روپے

 photo Imkanseagay_zpse0df6175.jpg

یہ کتاب بھی جناب جاذب قریشی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں انھوں نے مختلف شعراء کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نقاد کے ساتھ خود شاعر ہونے کی حیثیت سے جاذب قریشی نہ صرف شعر کی فنی باریکیوں سے آگاہی رکھتے ہیں بل کہ شاعر کی کیفیات سے بھی بہ خوبی واقف ہیں۔ یوں کسی شعری کاوش یا کسی شاعر کے کلام کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے وہ خار کی حوالوں کے ساتھ صاحب شعر کے اندر کی دنیا پر نظر ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ مضامین پڑھنے والے کو اس شاعر کے سخن کی جہتوں اور پہلوؤں ہی کی بابت جاننے کا موقع فراہم نہیں کرتے بل کہ شاعری خاص طور پر اردو شاعری کے قواعد اور گہرائیوں سے واقفیت بھی دیتے ہیں۔ جن شعراء پر لکھی گئی تحریریں اس کتاب کا حصہ بنی ہیں، ان میں رضی اختر شوق، سلیم کوثر، سرورجاوید، عارف امام، عارف شفیق، لیاقت علی عاصم، محسن اسرار، طارق سبزواری، رازی فاروقی، جنید آزر، ڈاکٹرنثارترابی، اکمل نوید، اخترسعیدی، خالدمعین، اقبال خاور، سلیم فوز، ہاتف عارفی، عرفان مرتضیٰ، عبیدالرحمان عبید، فیاض الدین صائب، حامد علی سید، انورانصاری، منظرعارفی، عین سین مسلم، احسان سہگل، خورشید اقبال حیدر، قمروارثی اور طاہرسلطانی شامل ہیں۔

نور علیٰ نور (مجموعہ حمدو نعت)

شاعر: خورشید احمر،ناشر:جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمد ونعت ریسرچ سینٹر، کراچی

 photo Nooralinoor_zps4f31b065.jpg

بلاشبہہ حمد ونعت ایسی اصناف سخن ہیں جن میں احترام وحرمت اور انسانی بلاغت وفصاحت کی اعلیٰ ترین مثالیں ملتی ہیں۔ اردو ادب میں بھی حمدونعت کوعروج حاصل ہوا۔ جہاں نعت گوئی کے فن میں جدتیں بھی آئی ہیں وہیں اﷲ تعالیٰ اور رسول  ﷺ سے محبت کے انداز اتنے گہرے اور پختہ ہیں کہ اُنھیں کسی پیمانے پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہر دور میں ایسے عشاق کی کمی نہیں رہی جو اپنا تن من دھن اسمِ محمدصلی اﷲعلیہ وسلم پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا سرمایۂ حیات یہی محبت ہے، مگر یہ محبت اپنی معراج کو اُس وقت پہنچتی ہے جب وہ اتباعِ رسول ﷺ کی سعادتوں سے بہرور ہونے کے لیے عملی مظاہرہ کرنے لگیں،  پھر نہ گھر پیارا ہوتا ہے اور نہ سازوسامان۔ ہر محبت، ہر چاہت، ہر خواہش آقائے نامدار  ﷺ کے غلاموں میں شامل ہونے کی خواہش کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے۔ پیغام ِمصطفی ﷺجس مسلمان کے دل میں بس جائے تو پھر وہ یہ پیغام دوسروں کو پہنچانے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔ یہی اتباع، عشقِ محمد  ﷺکی معراج ہے۔

خورشید احمرپختہ کار شاعر وادیب ہیں۔ ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’شہرِچراغاں‘‘ تھا۔ اب دوسرا ’’نورٌ علیٰ نور‘‘ (مجموعہ حمدونعت) میںاﷲ اور رسول ﷺ سے محبت نے آپ کے شعری وجدان کوفنی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔ خورشید احمرکی حمدیہ ونعتیہ شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کے اظہارمیں کس قدر شائستگی اور مہارت کے اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ارض جنت سے مجھے اذن سفر اس نے دیا

کار دنیا کے سمجھنے کا ہنر اس نے دیا

آئینہ اس نے دیا ذوقِ نظر اس نے دیا

دل کو ہر لمحہ تڑپنے کا ہنر اس نے دیا

ان اشعارسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ  اﷲکی تعریف میں ایسے سرشار ہیں کہ اُنھیں اﷲتعالیٰ نے جو انعام و اکرام دیا ہے اُس پر خوش اور نازاں ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اﷲ! تُو نے مجھے ایسا ہنُر دیا ہے کہ میں دنیا کے سارے ہنُر سمجھ سکتا ہوں اور ایسی تڑپ تُونے میرے دل میں ڈال دی ہے، جس کی وساطت سے میں تیری ہی حمدوثنا کرتا ہوں۔ گنبدِ خضرا کے عنوان سے جو نظم ’’نورٌاعلیٰ نور‘‘ کا حصہ ہے، وہ شاعرکی طہارتِ فکر کا آئینہ ہے:

قرار قلب مسلماں ہے اس کا نظارہ

جمال شافع محشر ہے گنبدِخضرا

جہاں سے ملتا ہے دستِ طلب کو جام یقین

اسی یقین کا منظر ہے گنبدِخضرا

خورشید احمرکی حمدونعت پڑھ کر دل کی فضا مسرور ومنور ہوجاتی ہے۔ یہی اُن کے فن کی معراج ہے جو ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ کتاب صوری ومعنوی اعتبار سے بہت دیدہ زیب ہے۔

کراچی کا مسئلہ کیا ہے

مرتب: رشید جمال،ناشر: لوحِ ادب پبلی کیشنز

صفحات: 196’قیمت: 350روپے

 photo Karachi_zps908788b0.jpg

دنیا کے کثیر آبادی والے کم ہی شہر ہوں گے جنھیں جرائم، مافیاز، آبادی کے دباؤ اور ان جیسے دیگر ملتے جلتے مسائل کا سامنا نہ ہو۔ مگر یہ سب مشترکہ کردار ہونے کے باوجود کراچی کی کہانی کچھ الگ ہے۔ اس شہر اپنی ملکیت قرار دینے کی کشمکش اور یہاں ہتھیار بند سیاست نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی وتجارتی مرکز کے مسائل کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس صورت حال کو مجموعی طور پر ’’کراچی کا مسئلہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں اور لاتعداد مضامین تحریر کیے جاچکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس حوالے سے لکھے جانے والے بعض مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب جن شخصیات کی تحریروں اور انٹرویوز پر مشتمل ہے، ان میں الطاف گوہر، حکیم سعید، ڈاکٹرفاروق ستار، اجمل خٹک، میاں محمد طفیل، محمد صلاح الدین، زاہدہ حنا، سردار شیرباز خان مزاری، جسٹس نسیم حسن شاہ، محمود شام، جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، تاج حیدر، آغا مسعود حسین، فہیم الزماں صدیقی، بشیر جان، میاں زاہد حسین، اشرف شاد اور مشتاق لاشاری شامل ہیں۔

سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے مضامین اور انٹرویو قاری کو کراچی میں عشروں سے جاری بدامنی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سمیت اس شہر کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ شہداء

مصنف: اعظم معراج

قیمت:295روپے،ناشر: پیرامائونٹ بکس(پرائیویٹ) لمیٹڈ، کراچی

 photo Parcham_zps911e0723.jpg

زیرنظرکتاب وطن کی مٹی کے لئے جانیں قربان کرنے والے مسیحیوں کی داستانوں کا مجموعہ ہے۔ جہاد کشمیر1948ء ہو یا 1965ء کی پاک وہندجنگ ہو یا پھر1971ء کا معرکہ، 1999ء کی جنگ کارگل ہو یا پھر2003ء سے جاری شورش، مسیحی جانبازوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا ہے ۔ مسیحی جانبازوں نے ثابت کیا کہ وہ بھی اس دھرتی سے اسی طرح عشق کرتے ہیں جس طرح مسلمان۔ ان میں کرنل(ر) ڈبلیو ہربرٹ، بریگیڈئر انتھنی لمب، کرنل(ر) سوشیل کمارٹرلسیلر، کرنل کے ایم رائے، بریگیڈئر ڈینئل آسٹن، کرنل ایل سی راتھ، لیفٹننٹ کرنل(ر) ڈیرک جوزف(تمغہ جرات، تمغہ امتیاز)، میجر رامون (رائے) جوشوا(تمغہ بسالت)، لیفٹیننٹ کرنل فلپ عطارد، کرنل(ر) البرٹ نسیم(ستارہ امتیاز ملڑی)، توپچی نعمت مسیح، بریگیڈئر جاویدحیات خان، میجر جوزف شرف، بریگیڈئر (ر) سائمن سیمسن شرف(ستارہ امتیاز ملٹری)، میجر جنرل(ر) جولین پیٹر، میجر جنرل اسرائیل نوئل کھوکھر، ائیرکموڈور(ر) بلونت کمار داس، ائیروائس مارشل ایرک گودڈون ہال(ستارہ جرات)، ائیرکموڈور نذیر لطیف(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر ولیم ڈیمنڈ ہارنی(ستارہ جرات)، اسکواڈرن لیڈر شہید پیٹرکرسٹی(تمغہ جرات،ستارہ جرات)، ونگ کمانڈر(شہید) مارون لیسلے مڈل کوٹ(بارٹودی ستارہ جرات)، گروپ کیپٹن سیسل چوہدری (ستارہ جرات)، جنگ 1971ء میں مشرقی محاذ کا شہید سیکنڈ لیفٹیننٹ ڈینیل عطارد، کیپٹن مائیکل ولسن شہید، شہیدنواز کوٹ میجر سرمس رائوف(تمغہ بسالت) بھی شامل ہیں۔مصنف کو ان جانبازوں اور دلیروں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے میں خاصی مہم جوئی کرناپڑی۔

یو ڈیم سالا (افسانوں کا مجموعہ)

مصنف۔ نعیم بیگ

ناشر۔ بُک ایج پبلشرزدوسری منزل۔ خورشید بلڈنگ، 10، ایبٹ روڈ، لاہور ,قیمت: 300روپے

 photo YoudamnSala_zpsf758316b.jpg

یہ کتاب سینیر افسانہ نگار نعیم بیگ کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ عالمی معیشت کے جبر اور ہجرت کے دکھ کا شکار نعیم بیگ کی کہانیوں میں زندگی کا بڑا بھیانک چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں تو بقول غالب ہر نفسِ ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے لیکن مسافت کے کرب سے جو زندگی کشید کی جاتی ہے اس کا سچ بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ بہ قول طارق اسمعٰیل ساگر اگر افسانہ زندگی کی ایک قاش، وقت کا ایک لمحہ اور سلسلہ واقعات کی ایک کڑی کو مخصوص تکنیک میں پیش کرنے کے فن کا نام ہے تو نعیم بیگ ایک مکمل کہانی کار ہیں۔ ‘‘ نعیم بیگ کے افسانوں کا اسلوب اور زبان قاری کو چونکاتی ہے اور اسے نئے پن کا احساس دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک نقاد کے بہ قول نعیم بیگ ایک باغی فن کار ہیں اور انہوں نے ایک باغی کی طرح ہی قواعد و ضوابط کے بندھنوں کو توڑ ڈالا ہے۔

نعیم بیگ کو بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کے انتخاب میں کافی محتاط نظر آتے ہیں، لہٰذا ان کے افسانوں کے پلاٹ چست اور درست ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی جھول نہیں نظر نہیں آتا ، کوئی ڈھیلا پن دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے کسی ماہر سنگتراش کی بنائی ہوئی متناسب کایا کی مورتی۔

نعیم بیگ کے زیرتبصرہ افسانوی مجموعے کے عنوان ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کھول کر ہم حیرت کے ایک جہاں کی سیر کرنے والے ہیں۔ ان کے افسانے آغاز ہی سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پھر پڑھنے والا کرداروں کے ساتھ کہانی کا ہم سفر ہوجاتا ہے۔

Criminal Psychology

مصنف: الطاف القدس ایڈووکیٹ

ناشر: سندھیکا اکیڈمی، B 24، نیشنل آٹو پلازہ، مارسٹن روڈ، کراچی

صفحات:224 ،قیمت: 350روپے

 photo Criminalpsychology_zps83c4fe76.jpg

پاکستانی سماج کو اس وقت ہر قسم کے جُرم کا سامنا ہے، اسٹریٹ کرائم سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے شیطانی فعل تک اور بھتا خوری سے دہشت گردی تک جرم کی وہ کون سی نوع ہے جو خوف بنی ہم پر مسلط نہ ہو۔ کسی معاشرے میں جرائم پنپنے کے اسباب میں نفسیاتی محرکات بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، غربت، ناخواندگی اور دیگر عوامل دراصل فرد یا گروہ کی مجرمانہ نفسیات کو تقویت دینے اور مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ اس ضمن میں علمی وفکری سطح پر بھی کام کیا جائے اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق وجستجو کے ذریعے جرم کے ارتکاب کا باعث بننے والے نفسیاتی عوامل سامنے لائے جائیں، لیکن اس طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ ایسے میں مجرمانہ نفسیات کو موضوع بنانے والی یہ کتاب ہمیں خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتی ہے کہ جس ملک میں ٹی چینلوں کے ٹاک شوز سے اہل دانش کے باہمی مکالموں تک ہر جگہ سلگتے ہوئے سوالوں اور معاملات پر سطحی سوچ کا اظہار کیا جارہا ہے، وہاں ایسے خردپرور اور مشکل پسند بھی موجود ہیں جو مسائل کے تہہ میں اترنے کا شوق رکھتے ہیں۔

اس کتاب کے مصنف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ قرطاس وقلم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

Criminal Psychology جرائم کے نفسیاتی پہلو پر بڑی عرق ریزی سے لکھی جانے والی کتاب ہے، جس میں مذہب، فلسفہ اور جدید سائنس کی روشنی میں انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل، انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے منفی اور قانون دشمن خیالات، عدم توازن پر مبنی ذہنی، روحانی، کیمیائی اور جینیاتی تشکیل کے ساتھ خوشی اور ذہنی سکون جیسے موضوعات پر بحث کرتی ہے۔ مصنف نے سائنس اور منطق کے ساتھ مجرمانہ نفسیات سے نجات پانے کے لیے قرآن مجید کی تعلیمات کو بھی بنیاد بنایا ہے۔ یہ کتاب قانون دانوں کے ساتھ جرمیات ونفسیات کے طلبہ اور محققین کے لیے بھی قابل قدر حیثیت کی حامل ہے۔

خدائی خدمت گار تحریک

مصنف: احمد,ترجمہ: قاسم جان،طابع: پختون تھنکرز فورم

صفحات:  511،قیمت: 825

 photo Khudaikhidmatgartehrik_zpsb9a5234f.jpg

انگریز کی بہ طور حکم راں ہندوستان آمد حکم رانوں کی تبدیلی ہی نہ تھی بل کہ مقتدر قوت کی تبدیلی کے ساتھ اہل ہند کو ایک نئی معاشرت، تہذیب اور اجنبی افکار کا بھی سامنا تھا، اس صورت حال نے درۂ خیبر سے خلیجِ بنگال تک پھیلے رنگارنگ مگر قدامت میں یکساں سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ فکری ٹوٹ پھوٹ اور سماجی اکھاڑ پچھاڑ نے اس خطے کو شعروادب اور علم وفکر کی قدآور شخصیات دینے کا باعث بنی اور اسی گمبھیرتا میں آزادی، تبدیلی اور اصلاح کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ’’خدائی خدمت گار‘‘ بھی ایک ایسی ہی تحریک تھی۔ سیاسی تحریکیں اور قیادتیں سماج کی امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرکے مقبولیت پاتی اور اپنے اہداف کا حصول ممکن بناتی ہیں، لیکن اصلاحی تحریکیں اور اصلاح پسند راہ نما بہتے دھارے کے مخالف چلتے اور رجحانات وروایات سے ٹکراتے ہیں۔

خدائی خدمت گار آزادی کے لیے مصروفِ جدوجہد ہونے کے ساتھ اصلاحی تحریک بھی تھی۔ اس تحریک کے بانی خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان نے اس پختون سماج میں عدم تشدد کا نعرہ لگایا جہاں بندوق روایت اور ثقافت کا لازمی جزو تھی۔ اسی طرح وطن کی آزادی کے ساتھ اس تحریک نے اہل وطن میں تعلیم عام کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ یوں خدائی خدمت گار تحریک برصغیر کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں ایک علیحدہ اور روشن باب رکھتی ہے۔ یہ کتاب اس تحریک کے قیام، افکار، جدوجہد اور قربانیوں کی داستان سناتی ہے۔ اصلاً یہ کتاب پشتو میں لکھی گئی، جس کے مصنف اس تحریک کو اپنی زندگی کا ایک حصہ دینے والے احمد کاکا نے تحریر کیا اور یہ ان کے چشم دید واقعات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کو قاسم جان نے سادہ اور رواں زبان میں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ہماری تاریخ کی اس بہت اہم اور منفرد تحریک پر لکھی جانے والی یہ کتاب برصغیر کی تاریخ وسیاست سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو مطالعے کی دعوت دے رہی ہے۔

Viewing all 4678 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>