Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4666 articles
Browse latest View live

شیلندر۔۔۔۔بولی وڈ کا معروف نغمہ نگار

$
0
0

شیلندر بلاشبہہ بولی وڈ کے وہ معروف نغمہ نگار ہیں جنہوں نے اس فلم انڈسٹری کو بے شمار لازوال گیت دیے جو آج بھی دنیا بھر میں شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں ایک خاص قسم کی کشش، ایک دھیما پن اور ایک ایسا لوچ تھا جس کی کیفیت کو سننے والے ہی بیان کرسکتے ہیں۔

شیلندر کا پورا نام شیلندر کیسری لال  تھا اور شیلندر ان کا تخلص تھا، مگر انہیں اصل شہرت ان کے اسی نام سے ملی تھی۔ وہ 30اگست 1916کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور صرف 52 سال کی عمر میں 14 دسمبر 1968 کو انتقال کرگئے۔

نغمہ نگار شیلندر، موسیقار شنکر جے کشن اور فلم ساز اور اداکار راج کپور کی ٹیم نے بہت کام ایک ساتھ کیا اور اس ٹیم نے اس دور کے بولی وڈ میں دھوم مچادی تھی۔ شیلندر نے 1950اور1960کے عشروں میں متعدد معروف ہندی فلموں کے گیت لکھے جنہیں لازوال شہرت ملی۔

اس دور میں شیلندر ریاست بہار کے ضلع آرا میں رہتے تھے اور وہاں سے وہ ایک دم ابھرے۔ اس زمانے میں اسی ریاست میں فلم ’’تیسری قسم‘‘ کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی۔

کیریئر:

شیلندر نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک عام محنت کش کی حیثیت سے کیا۔ وہ انڈین ریلویز میں بطور ویلڈر کام کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی ملازمت محکمۂ ریلوے میں تھی، اس لیے ملازمت کے سلسلے میں وہ اکثر سفر میں بھی رہتے تھے۔ اسی دوران 1947ء میں وہ ممبئی پہنچ گئے۔ انہی دنوں انہوں نے شاعری بھی شروع کردی تھی۔

سب سے پہلے فلم ساز راج کپور نے شیلندر میں چھپے ہوئے جوہر کو بھانپا، یہ اس وقت کی بات ہے جب شیلندر ایک مشاعرے میں اپنی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ پڑھ رہے تھے۔ راج کپور کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی معمولی شاعر نہیں، آگے چل کر یہ بہت نام کمائے گا۔ چناں چہ انہوں نے شیلندر کو ان کے لکھے ہوئے گیت خریدنے کی پیشکش کی۔ وہ ان گیتوں کو اپنی فلم ’’آگ‘‘ (1948) میں استعمال کرنا چاہتے تھے، مگر اس موقع پر نہ جانے شیلندر کو کیا ہوا کہ انہوں نے راج کپور کی یہ پیشکش مسترد کردی۔ اس کی بظاہر کوئی معقول وجہ بھی نہیں تھی، مگر بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے راج کپور سے خود رابطہ کیا اور ان کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔

اس کی اصل وجہ یہ بھی ہوئی کہ اسی دوران شیلندر کی بیوی بیمار ہوگئیں جن کے علاج کے لیے پیسے کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت راج کپور پوری کرسکتے تھے۔ اس وقت راج کپور اپنی فلم ’’برسات‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے اور اس فلم کے دو گیت ابھی تک لکھے بھی نہیں گئے تھے۔ یہ بات 1949کی ہے۔ چناں چہ شیلندر نے وہ دونوں گیت ’’پتلی کمر‘‘ اور ’’برسات میں ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم‘‘ لکھ دیے اور اس دور میں ان کا معاوضہ 500 روپے وصول کیا۔ فلم ’’برسات‘‘ کے میوزک ڈائریکٹر شنکر جے کشن تھے۔ پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا اور راج کپور، شیلندر اور شنکر جے کشن کی ٹیم نے ایسے ایسے ہٹ گیت دیے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔ پھر 1951ء میں فلم ’’آوارہ‘‘ بنی جس کا گیت ’’آوارہ ہوں، کیا گردش میں ہوں آسمان کا تارا ہوں‘‘ اس قدر مشہور ہوا کہ اس نے ہندوستان سے باہر ہندوستانی فلم کے سب سے مقبول گیت کا درجہ حاصل کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب میوزک ڈائریکٹرز کو فلمی دنیا میں بڑا مقام حاصل تھا اور وہی فلم سازوں سے نغمہ نگاروں کو متعارف کراتے تھے۔ یعنی گیت نگاروں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی، انہیں موسیقاروں کی سفارش پر کام ملتا تھا۔ ایک بار شنکر جے کشن نے شیلندر سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں بولی وڈ کے دیگر فلم سازوں اور فلم ساز اداروں سے متعارف کرائیں گے تاکہ انہیں مزید کام مل سکے، مگر انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا۔ اس پر شیلندر کا دل تو ٹوٹا مگر انہوں نے اپنی زبان سے کوئی شکوہ نہ کیا بلکہ شنکر جے کشن کو ایک رقعہ بھیجا جس میں صرف یہ لائنیں لکھی تھیں:

’’چھوٹی سی یہ دنیا، پہچانے راستے ہیں، کہیں تو ملو گے، پھر پوچھیں گے حال‘‘

یہ رقعہ جب شنکر جے کشن کو ملا تو وہ اس میں چھپے ہوئے پوشیدہ پیغام کو سمجھ گئے۔ انہوں نے شیلندر سے معذرت کی اور مذکورہ بالا چند سطروں کو موسیقی کی دھن میں کچھ اس انداز سے ڈھالا کہ وہ اپنے دور کا ایک بہت مقبول گیت ثابت ہوا۔ یہ گیت فلم ’’رنگولی‘‘ میں شامل کرلیا گیا تھا جو 1962میں بنی تھی۔ اس فلم میں نغمہ نگار کے لیے فلم ساز راجندر سنگھ بیدی کے ذہن میں مجروح سلطان پوری کا نام تھا۔ تاہم شنکر جے کشن نے کے پرزور اصرار پر فلم ساز راجندر سنگھ بیدی نے شیلندر کو سائن کرلیا۔

شنکر جے کشن کے علاوہ نغمہ نگار شیلندر نے بولی وڈ کے دیگر معروف اور مقبول موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا جن میں سلل چوہدری (مدھومتی) سچن دیو برمن (گائیڈ، بندنی اور کالا بازار) اور روی شنکر (انورادھا)

اسی طرح شیلندر نے راج کپور کے علاوہ دیگر معروف فلم سازوں کے ساتھ بھی کام کیا جن میں بمل رائے (دو بیگھے زمین، مدھومتی، بندنی) اور دیوآنند (گائیڈ اور کالا بازار) شامل ہیں۔

٭زندگی کے آخری ایام:

1960کے عشرے کے وسط میں شیلندر نے فلم ’’تیسری قسم‘‘ (1966) کی تیاری میں بھاری سرمایہ کاری کرڈالی جس نے بیسٹ فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ جیت لیا۔ تاہم تجارتی بنیادوں پر یہ فلم ناکام ثابت ہوئی۔ یہ کوئی معمولی خسارہ نہیں تھا۔ شیلندر نے اس فلم پر اپنی ساری جمع پونجی لگادی تھی اور فلم چل نہیں سکی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا ٹینشن تھا جس کی وجہ سے شیلندر بیمار ہوگئے۔ پھر انہوں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے کثرت سے شراب نوشی شروع کردی۔ بیماری، شراب اور ذہنی دبائو ان سب نے مل کر شیلندر کو موت کے منہ میں پہنچادیا اور دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

شیلندر کا بیٹا شیلے شیلندر بھی نغمہ نگار بنا۔ شیلندر کے ہم عصر حسرت جے پوری نے ایک بار ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا تھا:

’’شیلندر انڈین فلم انڈسٹری کے بہترین نغمہ نگار تھے۔ انڈسٹری کو ان جیسا نغمہ نگار اب کبھی نہیں ملے گا۔‘‘

شیلندر کے کچھ مقبول گیتوں کے مکھڑے:

٭ ’’آوارہوں، یا گردش میں ہوں آسمان کا تارا ہوں‘‘ فلم آوارہ

٭ ’’رمیا وستا ویا، میں نے دل تجھ کو دیا‘‘ فلم شری 420

٭ ’’مڑ مڑ کے نہ دیکھ‘‘ فلم شری 420

٭ ’’میرا جوتا ہے جاپانی‘‘ فلم شری 420

٭ ’’آج پھر جینے کی تمنا ہے‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’گاتا رہے میرا دل‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’پیا تو سے نیناں لاگے رے‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’کیا سے کیا ہوگیا‘‘ فلم گائیڈ

٭ ’’ہر دل جو پیار کرے گا‘‘ فلم سنگم

٭ ’’دوست دوست نہ رہا‘‘ فلم سنگم

٭ ’’سب کچھ سیکھا ہم نے‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’کسی کی مسکراہٹوں پہ ہو نثار‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’دل کی نظر سے‘‘ فلم اناڑی

٭ ’’کھویا کھویا چاند‘‘ فلم کالا بازار

٭ ’’پیار ہوا اقرار ہوا‘‘ شری 420

٭ ’’عجیب داستاں ہے یہ‘‘ فلم دل اپنا اور پریت پرائی

شیلندر نے 1949سے 1966کے دوران اپنے عروج کا زمانہ گزارا اور اس مدت میں انہوں نے شہرت بھی حاصل کی اور دولت بھی، مگر بعد میں فلم ’’تیسری قسم‘‘ کی ناکامی نے انہیں دوسرے جہان میں پہنچادیا۔


جانے کیا ہوگا اس میں؟؟؟

$
0
0

کسی بھی فلم کا نام یا ٹائٹل اس لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے کہ اس سے فلم کی اسٹوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یا یوں سمجھ لیں کی فلم کا نام وہ آئینہ ہے، جس کے دوسری طرف فلم کی کہانی نظر آتی ہے۔اس لیے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر فلم کے نام کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔

زبان زد عام ہو جانے والی فلموں کے نام اکثر و بیشتر ہٹ فلموں کے ہی ہوتے ہیں، اس لیے فلم ساز مختصر نام رکھنے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، جیسے کہ کرش، چنائے ایکسپریس، دبنگ، تھری ایڈیٹس، چک دے، ریڈی، گول مال وغیرہ۔ لیکن اب فلم ساز یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ان کی فلم کا نام نہ صرف مختصر ہو بلکہ ایسا انوکھا بھی ہو کہ پہلے کسی نے نہ سنا ہو اور نہ کسی اور فلم کا نام ہو۔ ذیل میں بولی وڈ کی آنے والی چند ایسی ہی فلموں کے ناموں کا ذکر ہے جنہیں سن کر ہی حیرت کا جھٹکا لگتا ہے:

ایکشن جیکسن

سائوتھ کے ایکٹر اور ڈائریکٹر پربھو دیوا نے بولی وڈ میں دبنگ، روڈی راٹھور، وانٹڈ جیسی ہٹ فلمیں دے کر خود کو ایک کام یاب ڈائریکٹر ثابت کیا ہے۔ اسی لیے ممبئی میں اب ان کے پا س کام کی کمی نہیں ہے۔ یہ بھی اپنی فلم کا مختصر نام رکھنے میں مشہور ہیں، لیکن اس بار ان کی آنے والی فلم کا نام نہ صرف مختصر ہے، بلکہ اوروں سے ہٹ کر بھی ہے۔ ان کی اگلی فلم کا نام ایکشن جیکسن ہے، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ ایک مکمل ایکشن فلم ہے۔ جیکسن کا ٹائٹل رول اجے دیو گن کر رہے ہیں۔ پربھو دیوا اداکار اجے دیوگن کو اپنے لیے لکی اسٹار مانتے ہیں اور اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ کام اجے کے ساتھ ہی کریں۔ 1988میں ہالی ووڈ میں ایکشن جیکسن کے نام سے فلم بن چکی ہے۔ اسی لیے بہت ممکن ہے کہ پربھودیوا نے یہ نام اسی فلم کا چرایا ہو۔

ریمبو راج کمار

پر بھو دیوا کی ایک اور فلم جس کا نام کسی ہالی ووڈ سے مماثلت تو نہیں رکھتا لیکن اتنا انوکھا اور منفرد ضرور ہے کہ لوگ صرف نام کی وجہ سے ہی سنیما ہالز کا رخ کر سکتے ہیں۔ ریمبو راج کمار جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مکمل طور پر مزاحیہ فلم ہوگی۔ اس کی کاسٹ میں شاہد کپور اور سوناکشی سنہا شامل ہیں۔ شاہد فلم کا ٹائٹل رول کر رہے ہیں اور سوناکشی کے ساتھ یہ ان کی پہلی فلم ہے۔ آن اسکرین ان دونوں کی جوڑی کیسی رہتی ہے یہ فلم کی ریلیز کے بعد ہی پتا چلے گا۔

بلٹ راجا

بولی وڈ کی ایک اور مضحکہ خیز فلم کا مضحکہ خیز نام ہے، بلٹ راجا، اور جیسا کہ نام ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک کرائم ایکشن فلم ہو گی۔ اس کی کاسٹ میں سیف علی خان اور سوناکشی سنہا شامل ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ٹگمانشوڈھولیا اس سے پہلے حاصل، صاحب بیوی اور گینگسٹر اور پان سنگھ تو مار جیسی سنجیدہ موضوعات کی فلمیں بنا چکے ہیں۔ مذکورہ تمام فلمیں کم بجٹ کی فلمیں تھی، لیکن بلٹ راجا ہائی بجٹ کی فلم ہے اور ظاہر ہے کہ کاسٹ بھی اے کلاس ہی ہے۔ اس لیے ڈھولیا اپنی دیگر فلموں کی نسبت اس پر بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں۔

مکی وائرس

مکی وائرس ایک کم بجٹ کی فلم ہے جسے اوسط درجے کی کام یابی حاصل ہوئی۔ فلم کے ڈائریکٹر سوربھا ورما ہیں جن کے کریڈٹ پر ابھی تک کوئی خاص فلم نہیں اور اب تک جو فلمیں وہ بنا چکے ہیں ان کا نام بھی عام لوگوں میں سے کم ہی کو معلوم ہوگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی اس فلم کا نام اتنا انوکھا اور منفرد رکھا کہ اگر مکی وائرس بھی ان کی گذشتہ فلموں کی طرح ناکام ہوجائے، تب بھی صرف نام کی وجہ سے ہی لوگ اس فلم کو یاد رکھ سکیں۔ مکی وائرس کی کاسٹ میں مینش پال، ایلی ایورام، منیش چوہدری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایک مزاحیہ فلم ہے، جس کی کہانی ایک کمپیوٹر ہیکر کے گرد گھومتی ہے۔

جان ڈے

ایک اور حیرت انگیز نام سے مزین فلم جان ڈے۔ فلم کے نام ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کی کہانی ایک شخص کے گرد ہی گھومتی ہے۔ جان ڈے کے ڈائریکٹراشیش ہورسولومون ہیں، جب کہ اس کی کاسٹ میں نصیرالدین شاہ، رندیپ ہودا اور ویپن شرما شامل ہیں۔ فلم کی کہانی ایک بینک مینجر کے گرد گھومتی ہے۔ فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فلم میں نصیرالدین شاہ نے شان دار پرفارمینس دی ہے۔

مہدی حسن نے ساتھ گانے کی فرمائش کی تو گویا کائنات مٹھی میں آگئی

$
0
0

’’ہوا‘‘ سے ’’خوش بُو لٹانے‘‘ کا تقاضا اور پھر ’’اُس‘‘ کا پتا جاننے پر اصرار کرنے والے حسن جہانگیر سے کون واقف نہیں۔

قارئین! اس سطر میں جس گیت کا اشارہ ہے، وہ یقیناً اس وقت آپ کے لبوں پر ہو گا۔

ہوا ہوا! اے ہوا، خوش بُو لٹا دے

میں اس سے ملوں گا، اک بار ملا دے

یار ملا دے، دل دار ملا دے۔۔۔

80 کی دہائی میں اپنی خوب صورت آواز اور منفرد انداز کی بدولت حسن جہانگیر نے سبھی کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ ان کی شہرت راتوں رات سات سمندر پار پہنچ گئی۔ جب اپنے ایک گیت میں انہوں نے ’’یاروں‘‘ کو ’’شادی نہ کرنے‘‘ کا مشورہ دیا اور سُر، ساز کے ساتھ اپنی خوب صورت آواز میں اس کی وجہ بتائی تو پرستاروں کو جیسے یقین ہو گیا کہ وہی ان کے سچّے اور مخلص دوست ہیں۔ اس گانے کے بول آپ کے ذہن میں بھی تازہ ہو گئے ہوں گے۔

شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤ گے ساری لائف۔۔۔

جی ہاں! یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

حسن جہانگیر کے البم ریکارڈ تعداد میں خریدے گئے۔ عوام میں بے پناہ مقبول حسن جہانگیر مہاراجہ آف گوالیار، مدر آف سندیا کے مہمانِ خصوصی بننے کے ساتھ چین، بنگلا دیش، موزمبیق کے سربراہوں کی دعوت پر ان کے ہاں اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے قیام کرچکے ہیں۔

’’بھلا نہ سکے‘‘ کے ذیل میں حسن جہانگیر کی باتیں قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

غزل گائیکی کے بے تاج بادشاہ مہدی حسن سے جڑی اپنی ایک یاد انہوں نے کچھ اس طرح بیان کی:

یہ ڈھائی برس پرانی بات ہے۔ خان صاحب کو اپنے ایک ہاتھ میں تکلیف محسوس ہوئی تو ہم نے معروف آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر محمد علی شاہ سے ان کے معائنے کا وقت لیا۔ انہیں ناظم آباد لے جانا تھا اور یہ ذمے داری میں نے نبھائی۔ وہ میری کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے جب کہ پچھلی نشست پر ان کے شاگرد فیصل ندیم موجود تھے۔ ہم اسپتال پہنچے، وہاں سے واپسی پر ہمارے درمیان موسیقی، آواز اور انداز پر گفت گو ہونے لگی اور میں نے ایک گانے کا ذکر کردیا، جس کا اثر ایسا تھا کہ خان صاحب آب دیدہ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر میں نے باتوں کا رخ بدل دیا۔ فیصل ندیم نے بھی ماحول تبدیل کرنے کی غرض سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں اور اسی دوران خان صاحب سے پوچھاکہ ہندوستان میں لوگ حسن جہانگیر کے بارے میں آپ سے کیا کہتے ہیں؟ اس پر وہ مسکرائے اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے:

’’ہندوستانی تمہاری آواز، گانوں اور انداز کے دیوانے ہیں۔ وہاں میرے ملاقاتی پوچھتے ہیں، کیا حسن جہانگیر آپ کا بیٹا ہے؟ تمہارا گانا ’’ہوا ہوا‘‘ تو سبھی کو یاد ہے، وہ اسے گاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات ہر فن کار کی طرح حسن جہانگیر کے لیے بھی خوشی کا باعث تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خوشی معمولی اور شاید غیر اہم بھی ہو گئی۔ وہ لمحہ ہی ایسا تھا۔ اس کے آگے سب کچھ بے معنی لگ رہا تھا۔ شہنشاہِ غزل نے ان سے کہا۔

’’تم ’ہوا ہوا‘ کا ری مکس بناؤ، کچھ اس طرح کہ میں بھی اس میں اپنی آواز ملا سکوں۔‘‘

حسن جہانگیر کے لیے اُن کا یہ کہنا دنیا کے ہر اعزاز سے بڑھ کر تھا۔ آج بھی وہ اسی مسرت اور خوشی کے احساس سے سرشار ہیں، جو پہلی مرتبہ انہیں محسوس ہوئی تھی۔

اس بابت حسن جہانگیر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’اس وقت یوں لگا جیسے کائنات میری مٹھی میں ہے۔ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔

اپنی یاد پٹاری سے ایک اور خوش گوار واقعہ انہوں نے کچھ اس طرح بیان کیا:

یہ کم و بیش تیس برس پرانی بات ہے۔ اُن دنوں میں خود کو منوانے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا اور گائیکی کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کا خواہش مند تھا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور اسے ایک بڑی درس گاہ تصور کیا جاتا تھا۔ میں اسٹیج کے ذریعے ابتدائی دنوں میں ہی سب کو اپنی جانب متوجہ کر چکا تھا اور ریڈیو پاکستان پر پروگرام ’بزمِ طلباء‘ میں پرفارم کر کے اپنی جگہ بنالی تھی۔ ایک دن ریڈیو پر احمد رشدی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ اُن جیسا بڑا گائیک مجھے پہچاننے لگا تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو رک گئے اور کہا کہ آج رات کو یہاں ایک تقریب ہے، تم ضرور آنا اور پرفارم بھی کرنا۔ اُن کی بات میں کیسے ٹال سکتا تھا، فوراً ہامی بھر لی۔ ان کا مجھ سے مخاطب ہونا اور پروگرام میں گانے کی دعوت دینا میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ خیر، یہ کہہ کر وہ اپنی بائیک کی طرف بڑھے، لیکن چند قدم چلنے کے بعد اچانک پلٹے اور کہا:

’اب تم کہاں جاؤ گے؟ میں گلبرگ جارہا ہوں، میرے ساتھ چلو۔‘ ان دنوں میں میری رہائش بھی گلبرگ میں تھی۔ میری خوشی کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ فوراً ان کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ شاید یہ کسی کے لیے اتنی اہم اور قابلِ ذکر بات نہ ہو، لیکن وہ میری زندگی کا بیش قیمت اور یادگار دن تھا، جب نے میں رشدی صاحب کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل پر سفر کیا۔

حسن جہانگیر نے معروف اداکار معین اختر سے جڑی ایک یاد ہم سے یوں بیان کی:

مجھے معین بھائی کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان کے ساتھ کئی پروگرام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم کئی مرتبہ انٹرنیشنل ٹور پر ایک ساتھ گئے۔ ایک مرتبہ معین بھائی کو جاپان جانا تھا۔ میں متعدد مرتبہ وہاں جا چکا تھا اور سفارت خانے کو مطلوب دستاویزات، وہاں کے مختلف معاملات اور مسائل سے خوب واقف تھا۔ میں نے نہ صرف معین بھائی کے تمام سفری معاملات نمٹائے بلکہ سفارت خانے میں ان کا ضامن بھی بنا۔ میں نے اُن کے ضامن کی حیثیت سے اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر اور دوسری معلومات سفارت خانے کو فراہم کیں۔ یہ سب میری زندگی کی خوش گوار یادیں ہیں۔ سب مجھے جادوگر کہتے تھے۔ اس کی وجہ میرا ہر قسم کے معاملات نمٹانے میں آگے آگے رہنا ہے۔ معین بھائی بھی مجھے جادوگر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

بولی وڈ کی مقبول ترین اداکارہ مادھوری ڈکشٹ سے حسن جہانگیر کی پہلی ملاقات بھی خوب رہی۔ وہ بتاتے ہیں:

ایک مرتبہ انڈیا میں پرفارم کرنے گیا۔ وہاں سیٹ پر کسی نے آکر بتایا کہ مادھوری ڈکشٹ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اسے محض اتفاق کہہ لیں کہ میں ان سے واقف نہ تھا۔ مجھے تو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مادھوری ہندوستانی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ ہیں ۔ وہ بہت محبت سے ملیں اور مجھ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے، میری آواز اور اندازِ گائیکی کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ میرے گانے بہت شوق سے سنتی ہیں اور میری گائیکی کے البمز ہر وقت اپنی کار میں رکھتی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن یوں مجھ سے ملنے آئیں اور مجھے سراہا۔

وہ محاذ جنگ پر شہید ہونا چاہتا تھا، سینیٹ کے غریب ملازم نے ہیرے کا بُندہ واپس کردیا

$
0
0

رزینہ عالم معروف ماہرتعلیم ہیں، خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت پر ان کا خاصا کام ریکارڈ پر ہے۔

آج کل ان کی کتاب ’’سنو پیاری بیٹی!‘‘ خواتین کے حلقوں میں بہت مقبول ہے۔ لگ بھگ دو درجن اداروں، جن میں سینیٹ کی مجالسِ قائمہ بھی شامل ہیں، کی رکن اور متعدد کی چیئرپرسن رہیں، متعدد یونی ورسٹیوں کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں۔ مسلم لیگ نون کی لٹریسی کمیٹی کی کنوینر اور پارٹی کی مینی فیسٹو کمیٹی کی رکن ہیں۔ 1966میں جامعۂ کراچی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ اپنی زندگی کا ایک یادگار واقعہ شیئر کرتی ہیں:

ایسے بہت سے واقعات ہیں جو میرے دل ودماغ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ طویل مدت گزرنے پر بھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے۔ میری شادی کو تقریباً دو سال گزرے تھے، میں اپنے میاں کے ساتھ کھاریاں میں مقیم تھی۔ یہ 1971 کی جنگ کا زمانہ تھا۔ محاذ سے زخمی فوجی گاڑیوں کے ذریعے کھاریاں سی ایم ایچ لائے جاتے تھے۔ میں اپنے ایک سال کے بیٹے کو گھر چھوڑ کر سی ایم ایچ اسپتال میں نرسوں کی مدد کے لیے چلی جاتی تھی۔ ایک دن حسب روایت اسپتال گئی، ایک نرس ایک زخمی فوجی کی مرہم پٹی میں مصروف تھی، مجھے دیکھا تو بلا لیا۔ میں زخمی سپاہی کے زخم روئی سے صاف کرنے میں مصروف ہو گئی۔ میں کام میں منہمک تھی کہ ناگاہ اس جوان کے چہرے پر میری نظر پڑی، میں نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے، مجھے خیال آیا کہ درد کی شدت سے رو رہا ہوگا، تاہم رہا نہ گیا میں نے پوچھا کہ کیا ایسا ہی ہے؟ تو اس کڑیل جوان نے جواب دے کر حیرت زدہ کردیا۔ اس نے کہا،’’میں زخموں کی تکلیف سے نہیں بل کہ زخمی ہونے پر رو رہا ہوں، میری شدید خواہش تھی کہ میں قوم و ملک کے لیے شہید ہوجائوں مگر میں زخمی ہو گیا، افسوس اب تن درست ہونے پر بھی موقع شاید ہی ملے، میرے شہید ہونے کا موقع جاتا رہا۔‘‘

ہوا یوں کہ محاذ پر دشمن کی توپ کا گولہ اس کے بالکل قریب ہی پھٹا، جس سے اس کے جسم کا 80 فی صد حصہ جھلس گیا تھا۔ میں اس کا جذبۂ شہادت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ میں نے اپنی باتوں سے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل روتا رہا حتیٰ کہ ہچکیاں لینے لگا۔ میری حیرت میں اضافہ بھی ہو رہا تھا اور دل میں ایک ان جانی خوشی بھی اُبل رہی تھی کہ ہماری مائیں کیسے کیسے سپوت جنم دے رہی ہیں جو ملک و قوم پر نثار ہونے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ سب مائوں کی تربیت کا اثر ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو ایسے اعلیٰ و ارفع جذبے سے سرشار کرکے میدان جنگ میں بھیجتی ہیں، وہ ان کے دل میں یہ بات راسخ کردیتی ہیں کہ ملک و قوم کے لیے قربان ہونا اعلیٰ درجے پر فائز ہونا ہے۔ میں کچھ دیگر مصروفیات کی وجہ سے اسپتال نہ جا سکی لیکن جب گئی اور اس کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جوان خالق حقیقی سے جا ملا ہے، بہت صدمہ ہوا۔ میں اس کے گھر کا پتا لے کر اس کے گائوں پہنچ گئی۔ وہاں اور بہت سی حیرتوں سے دوچار ہوئی۔ اس کی بیوی حقیقت میں مجسمۂ صبر و رضا تھی، میرے اظہارافسوس پر گویا ہوئی، ’’مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی بیوہ ہوں۔‘‘

میں نے دیکھا ایک آنسو بھی اس کی آنکھ سے نہیں ٹپکا، اس کے بچے بھی قابل فخر ضبط کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس نے اپنے بچے کو اشارہ کیا کہ وہ مرغی ذبح کروا لائے۔ یہ مرغی ان کا کل اثاثہ دکھائی دے رہی تھی، جس کے انڈے وہ بیوہ فروخت کرتی تھی۔ وہ خاتون پہلے ہی ہماری بہت خدمت کر چکی تھی، میرے روکنے کے باوجود بچہ مرغی ذبح کروانے چلا گیا۔ اس لمحے میرے دل میں آیا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان غریبوں کو کتنا بڑا دل دیا ہے۔ وہ اپنا واحد اثاثہ بھی مہمان نوازی کی نذر کر رہی تھی۔اس جنگ میں میرے دیور بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کی میت میرے گھر آئی تھی۔ میت آنے پر صبرو تحمل کا جو مظاہرہ میں نے اپنے گھر میں دیکھا وہ بھی یادگار ہے۔ میری ساس نے بھی بڑے مثالی صبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ دو ایسے واقعات ہیں جو چار دہائیاں گزرنے پر بھی میرے دل و دماغ میں تر و تازہ ہیں، مجھے آج بھی وہ جوان شہادت کی خواہش میں بلک بلک کر روتا دکھائی د یتا ہے، اس کی مجسمۂ صبر و رضا بیوہ کا تفاخر سے دمکتا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔

زمانۂ طالب علمی کا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی میرے دماغ میں تازہ ہے۔ میں لاہور کالج میں زیرتعلیم تھی۔ وہاں میری ایک بہت گہری دوست تھی، جو اپنے رویے سے ظاہر کرتی تھی، کہ وہ میری بہت مخلص دوست ہے۔ اکٹھے وقت گزرتا، خوب گپ شپ ہوتی۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ بی اے فائنل کا امتحان آ گیا، ہم دونوں دوست امتحان دینے کالج پہنچیں، ہال کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں واش روم آیا، تو میں نے جیومیٹری باکس جس میں میرے دو پین تھے۔ اپنی دوست کو پکڑا دیا، واپس آ کر وہ جیومیٹری باکس اسی طرح اس نے میرے حوالے کردیا، جب پرچہ شروع ہوا تو میں نے پین نکال کر لکھنا چاہا، مگر میں حیران رہ گئی کہ پین کی نب ٹوٹی ہوئی ہے۔ میں نے دوسرا پین نکالا، وہ ویسا ہی تھا، یعنی اس کی نب بھی ٹوٹی ہوئی تھی، مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ بہ ہرحال ایک نگران نے مجھے پین دیا کہ میں پرچہ حل کروں۔ پرچہ ختم ہونے کے بعد میں اسی واش روم میں گئی تو مجھے سیاہی کے نشانات ملے۔ یہاں میری دوست نے میرے پین کی نب توڑی تھی، مجھے اب بھی حیرت ہے کہ اتنی محبت کرنے والی دوست نے یہ میرے ساتھ کیا کیا۔ یہ کام اس نے کس جذبے کے زیرِاثر کیا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا، کیوں کہ اِس واقعے کے بعد کبھی اُس سے ملاقات نہ ہوسکی۔

میں سینیٹر تھی، سینٹ کا اجلاس جاری تھا۔ میں نے کانوں میں جو بُندے پہنے ہوئے تھے، ان میں ہیرے جڑے ہوئے تھے، جس سے وہ بہت قیمتی ہو گئے تھے۔ دوران اجلاس مجھے احساس ہوا، میرے ایک کان سے بُندہ غائب ہے، اِدھر اُدھر دیکھا کہیں نہ ملا۔ مجھے بہت تشویش ہوئی کہ اتنا بڑا نقصان ہو گیا۔ مجھ پر مایوسی چھانے لگی، کہ اب وہ نہیں ملے گا۔ اگلے دن میں اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی کہ سینیٹ کا ایک کلاس فور کا ملازم آیا اور اس نے ٹشو پیپر میں لپٹا بندہ میرے حوالے کیا۔ مجھے بے حد حیرانگی ہوئی کہ یہ غریب ملازم کس قدر ایمان کی دولت سے مالا مال ہے۔ میں نے اسے انعام دینے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا، کہ میں نے کون سی بہادری کی ہے، یہ آپ کی امانت تھی وہ میں نے واپس کردی۔

ان واقعات سے میں سوچتی ہوں کہ اﷲ پاک جن لوگوں کو دنیا کی دولت سے کم نوازتا ہے۔ ان کو ایمان کی دولت سے خوب نوازتا ہے۔ اصل متاع تو ایمان کی دولت ہے۔ اس دنیا میں ہم لوگ بہت تھوڑے وقت کے لیے ہیں۔ ہمیں رب کائنات کے حضور پیش ہونا ہے۔ جب ہم اﷲ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو یہ لوگ کس طرح سرخ روہوں گے۔

انسانیت کے وہ ہیرو جو انسان نہیں

$
0
0

انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ خلا کو تسخیر کرے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے دن رات محنت کی اور آج انسان اس قابل ہوچکا ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں جھانک کر سیاہ مگر جگمگاتی کائنات کی گتھیاں سلجھا سکے۔

انسان کی اس کام یابی کے پیچھے جہاں لازوال محنت شامل ہے، تو دوسری طرف اس تحقیق اور جستجو کے سفر میں اس کے کچھ ایسے بھی ساتھی رہے ہیں، جن کی اہمیت اور خدمات سے سائنس داں تو واقف ہیں لیکن عام فرد ان جاں نثار ساتھیوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ ہم میں سے بیشتر کو علم ہے کہ خلا میں پہنچنے والا پہلا انسان روس کا خلا باز یوری گاگرین تھا، چاند پر پہلا قدم امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے رکھا، روس کا اسپوتنک اول پہلا مصنوعی سیارچہ تھا، اسی قسم کی دیگر اہم معلومات کا ہمیں علم ہے۔ تاہم یہ کام یابیاں حاصل کرنے سے قبل تجربات کی طویل داستان ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان صبر آزما اور تحیر میں ڈوبی داستانوں میں انسانوں کے رفیق کچھ ایسے جانور تھے جو خلا کی ان دیکھی دنیا کی جانب کھلنے والے دروازے کی اولین سیڑھی بنے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

بحیثیت انسان اپنی تمام تر ذہانت، لیاقت، فراست اور تحقیق کے باوجود سائنس داں سمندر کی گہرائیوں اور کائنات کی وسعتوں میں داخل ہونے سے قبل نامعلوم خطرات اور غیریقینی حالات کا سامنا کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ لاتعداد اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سلجھانے کے باوجود غیریقینی خطرات کی گھنٹیاں انہیں ہردم سنائی دیتی ہیں۔ ایسے مبہم اور غیرمتوقع حالات کا سامنا کرنے کے لیے سائنس دانوں کی پٹاری میں ہمیشہ جانوروں اور حشرات کی دنیا بسی رہتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ایسے ہی کچھ اہم اور زبردست جانوروں اور حشرات الارض کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں جو خلا کی تسخیر میں انسانوں کے معاون اور مددگار رہے:

1940کی دہائی

جا بہ جا بھنبھناتی چھوٹی چھوٹی مکھیاں گذشتہ سو سال سے علم حیاتیات کی تحقیق کا اہم حصہ رہی ہیں اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسانی جسم میں پائی جانے والی پچھتر فی صد بیماریوں کے جین مکھیوں کے جینیاتی نظام سے مشابہہ ہیں بالخصوص پھلوں پر منڈلاتی ان مکھیوں کے اعصابی نظام کے جین انسانی دماغ کے جینز سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ صرف تعداد کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے خلا میں بھیجنے کے لیے مکھی سے ابتدا کی اس حوالے سے امریکا نے بیس فروری انیس سو سینتالیس کو نیومیکسیکو سے ’’وی دوئم‘‘ نام کا راکٹ خلا میں بھیجا ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تحقیقات کے لیے بھیجے جانے والے اس مشن میں راکٹ کے کیپسول نما مخصوص حصے میں زندہ مکھیاں رکھی گئیں۔ بنیادی طور پر اس تحقیق کا مدعا بلندی پر جاتے ہوئے تاب کاری کے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ یہ راکٹ ایک سو نوکلومیٹر کی بلندی پر محض تین منٹ اور دس سیکنڈ میں جاپہنچا۔ حیرت انگیز طور پر جب راکٹ سے جُڑا ہوا کیپسول پیرا شوٹ کی مدد سے واپس زمین پر آیا تو مکھیاں زندہ پائی گئیں اور اس طرح اس راکٹ میں بھیجی گئی مکھیاں ز مین کے ماحول سے باہر بیرونی فضا کے قریب باہر جاکر زندہ واپس آنے والی پہلی جان دار قرار پائیں۔

بعدازاں دو سال بعد چودہ جون انیس انچاس کو خلائی مشن البرٹ کے تحت ’’رہسیس‘‘ نسل کا بندر ’’البرٹ دوئم‘‘ کام یابی سے خلا میں داخل ہوا۔ اگرچہ اس تجربے سے ایک سال قبل البرٹ اول نامی بندر کو خلا کی جانب ’’وی دوئم‘‘ راکٹ کی مدد سے روانہ کیا گیا تھا، تاہم وہ تریسٹھ کلومیٹر کی بلندی پر دم گھٹنے کے باعث جاں بحق ہوگیا تھا۔ البتہ البرٹ دوئم ایک سو چونتیس کلومیٹر کی بلندی تک جانے والا پہلا جان دار تھا۔ تاہم بدقسمتی سے اپنے سفر کی واپسی کے دوران کیپسول کا پیراشوٹ درست طریقے سے نہ کھلنے کے باعث البرٹ دوئم بھی جاں بحق ہوگیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ مشن بھی خلا کی جانب سفر کے دوران تاب کاری کے اثرات جاننے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس مشن کے دوران البرٹ دوئم کے جسم میں لگائے گئے سینسر اور دیگر آلات نے انتہائی اہم اور مفید معلومات فراہم کی تھیں۔ واضح رہے کہ انیس سو چالیس سے انیس سو پچاس کے عشرے کے دوران متعدد بندر خلائی پروازوں کے ذریعے خلا میں روانہ کیے گئے۔ تاہم اس تعداد میں سے دو تہائی بندر خلائی تحقیق کی پُرخطر وادی میں موت کی نیند سوگئے۔

1950 کی دہائی

انیس سو چالیس کی دہائی میں کیے جانے تجربات کی روشنی میں خلائی سائنس دانوں نے خلا میں روانہ ہونے کے لیے مزید بہتر آلات بنانے اور سفری طریقے اپنانے شروع کردیے۔ تاہم ابھی بھی انسان اس قابل نہیں ہوا تھا کہ وہ خود کو خلا میں لے جانے کے تجربات کی بھٹی میں جھونک دے۔ چناں چہ جانوروں پر تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سلسلے میں اکتیس اگست انیس سو پچاس کو امریکا نے ’’وی دوئم‘‘ راکٹ کے ذریعے ایک چوہے کو خلا میں بھیجا۔ اس تجربے کے نتائج کی روشنی میں اس دہائی میں کئی مرتبہ چوہوں کو خلا میں روانہ کیا گیا۔ اسی طر ح بائیس جولائی انیس سو اکیاون میں روس کے خلائی جہاز R-1 IIIA-1 میں کتوں کے ایک جوڑے ’’تیسیگن‘‘ اور ’’ڈیزک ‘‘ (Tsygan and Dezik) کو خلا میں بھیجا گیا۔ تاہم اس خلائی پرواز نے زمین کے مدار میں گردش نہیں کی البتہ ان دونوں کتوں کو کسی بھی جان دار کے خلا میں سب سے بلندی تک جانے کا اس وقت تک منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ دوران سفر اور تجربہ یہ دونوں کتے زندہ پائے گئے تھے۔ تاہم واپسی کے سفر میں ایک کتا جانبر نہ ہوسکا۔ اس دہائی کا سب سے اہم تجربہ تین نومبر انیس سو ستاون کو کیا گیا، جب روس کے مشہور خلائی مشن اسپوتنک دوئم کے ذریعے ’’لائیکا‘‘ (Laika) نام کی کتیا کو خلا میں بھیجا گیا۔ لائیکا کی خلا میں روانگی اس لحاظ سے یادگار ہے کہ وہ پہلا جان دار جسم تھا جو زمین کی فضائی حدود سے باہر نکل کر خلا میں زمین کے نچلے زمینی مدار میں پہنچا اور مدار میں بے وزنی کی حالت میں گردش کرتے ہوئے جان دار جسم پر پڑنے والے مختلف اثرات سے سائنس دانوں کو روشناس کرایا۔

بدقسمتی سے لائیکا مدار کے گرد چکر پورا کرنے سے قبل اس سفر کے دوران ہلاک ہوگئی تھی۔ تاہم بے وزنی کی کیفیت اور بے پناہ رفتار میں جان داروں کے جسم پر کائناتی شعاعیں، شمسی شعاعیں اور دیگر جسمانی ردعمل کے بارے میں جمع شدہ ڈیٹا سے سائنس دانوں کے لیے تجربات اور معلومات کی نئی دنیا وا کر گئی۔ یاد رہے کہ لائیکا سے منسوب ایک یادگار ماسکو کے خلائی تحقیقی مرکز میں قائم کی گئی ہے اور بہت سے ممالک نے اس سے منسوب یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیے ہیں، جب کہ ناسا کی جانب سے مریخ کی سطح پر موجود ایک حصے کو بھی لائیکا سے منسوب کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ماسکو کے گلی کوچوں میں پلنے والے تین کتوں کو اس مشن کے لئے چنا گیا تھا جن میں لائیکا کے علاوہ ’’ مشکا‘‘ اور ’’البینا ‘‘ شامل تھے بعدازاں دیگر خلائی مشنز پر مشکا اور البینا بھی خلا میں بھیجے گئے۔

تیرہ دسمبر انیس سو اٹھاون بھی خلائی تحقیق کا ایک اہم موڑ ہے، جب امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع خلائی مرکز ’’کیپ کیناورل‘‘ سے ’’جیوپیٹرIRBM اے ایم تیرہ‘‘ نام کا درمیانے درجے کا بلاسٹک میزائل خلا میں روانہ کیا گیا۔ اس میزائل کی بالائی نوک میں بنے کیبن میں پچیس سے پینتیس سینٹی میٹر طویل مختصر جسامت کا ’’اسکوئرل نسل کا بندر‘‘ بھیجا گیا، جس کا نام ’’گورڈو ‘‘ تھا۔ یہ بندر دورانِ سفر حرارت کی شدت کے باعث جانبر نہ ہوسکا۔ تاہم اپنی موت سے قبل ٹیلی میٹری ڈیٹا سے پتا چلا کہ سفر کے دوران گورڈو نے نہ صرف دس درجے تک ثقلی کشش کو برداشت کیا، بل کہ وہ آٹھ منٹ تک بے وزنی کی کیفیت میں بھی زندہ رہا اور اپنے واپسی کے سفر میں اس نے دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو اپنے جسم پر برداشت کیا۔ اس دوران اس کے جسم پر زمین کی نسبت چالیس درجے ثقلی کشش کا دبائو بھی تھا۔ گورڈ کی خدمات بھی خلائی تسخیر کے عمل میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، کیوںکہ اس تجربے کے بعد ہی سائنس داں انسان کو خلا میں بھیجنے کے حوالے سے یکسو ہوئے۔

مذکورہ تجربے کے تناظر میں جیوپیٹر سلسلے کا دوسرا میزائل اے ایم اٹھارہ اٹھائیس مئی انیس سو انسٹھ کو فلوریڈا سے روانہ کیا گیا۔ اس بار مشن کے مسافر دو مادہ بندر ’’ایبل اور بیکر‘‘ (Able and Baker) تھے ’’مس ایبل‘‘ کا ’’رہسیس‘‘ نسل اور مس بیکر کا ’’اسکوئرل نسل‘‘ سے تعلق تھا۔ یہ دنوں بندر خلائی راکٹ کی ابتدائی نوک میں بنے کیبن میں بٹھائے گئے تھے۔ ان دونوں نے پانچ سو اناسی کلومیٹر کی بلندی تک فضا میں سفر کیا۔ اس دوران ان کے جسم پر زمین کی نسبت اڑتیس گنا زاید ثقلی کشش کا دبائو رہا نو منٹ تک وہ بے وزنی کی کیفیت میں رہے، جب کہ اپنی سولہ منٹ کی پرواز میں دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار تک جا پہنچے۔ اس تجربے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام تر ناقابل برداشت حالات کے باوجود یہ دونوں مادہ بندر کرۂ ارض پر زندہ پہنچے جو اپنی نوعیت کا اولین واقعہ تھا۔ اگر چہ بندریا مس ایبل چار دن بعد بیماری کے ہاتھوں مرگئی۔ تاہم مس بیکر اس واقعے کے تقریباً ستائیس سال بعد انتیس نومبر انیس چوراسی کو طبعی موت مری۔

اس واقعے کے فوری بعد جولائی انیس سو انسٹھ ہی کو روس نے اپنے ’’R2‘‘ مشن کو فضا میں روانہ کیا جس نے دوسوبارہ کلومیٹر بلندی تک فضا میں سفر کیا۔ اس سفر میں اس کے مسافر دو کتے اور ’’مارفیوزا‘‘ (Marfusa) نام کا خرگوش تھا۔ مارفیوزا فضا میں سفر کرنے والا پہلا خرگوش تھا۔ واضح رہے کہ چارہزار چارسو پونڈ وزن کا حامل یہ خلائی مشن اس وقت تک کا وزن کے لحاظ سے سب سے بھاری بھرکم مشن تھا، جس کے مسافر بہ حفاظت زمین پر پہنچے۔ اس تجربے کے بعد انیس ستمبر انیس انسٹھ کو جیوپیٹر خلائی مشن کے اے ایم تیئس خلائی پرواز پر دو مینڈک اور بارہ عدد مادہ چوہے روانہ کیے گئے۔ تاہم بدقسمتی سے یہ راکٹ فضا ہی میں پھٹ کر تباہ ہوگیا۔

1960 کی دہائی

خلائی سفر اور تجربات کی دنیا میں انیس سو ساٹھ کی دہائی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس دہائی کی ابتدا ہی میں بارہ اپریل انیس سو اکسٹھ کو سوویت یونین کا خلانورد ’’یوری گاگرین‘‘ وہ پہلا انسان قرار پایا جو خلا میں گیا اور اس نے پہلی مرتبہ خلا کے گر د زمین کے مدار کا چکر مکمل کیا۔ تاہم اس کام یابی سے قبل خلائی سائنس دانوں نے جانوروں پر خلا میں تجربات کرتے ہوئے انیس اگست انیس سو ساٹھ میں اسپوتنک پنجم کو خلا کی جانب روانہ کیا اس خلائی پرواز میں ’’بیلیکا ‘‘ اور ’’اسٹریلیکا‘‘ (Belka and Strelka) نام کے دو کتے عازم سفر ہوئے یہ دونوں کتے نہ صرف خلا میں گئے بلکہ انہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگایا اور سب سے اہم بات یہ ہے لائیکا نام کی کتیا کے برعکس یہ دونوں مدار میں چکر لگانے کے بعد زندہ زمین پر پہنچے۔ اس طرح ان دونوں کتوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے زمین کے مدارکا چکر پورا کیا اور زمین پر زندہ پہنچے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسٹریلیکا نے اپنے مشن کے چار ماہ بعد بچے بھی جنے، جن میں سے ایک ’’پِلّا‘‘ روسی صدر نکتیا خروشیف نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیٹی کیرولین کینیڈی کو تحفے میں دیا اور آج اسٹریلیکا کتیا کی نسل کے متعدد کتے موجود ہیں۔

اکتیس جنوری انیس سو اکسٹھ خلائی تحقیق کا وہ اہم تاریخ ساز دن ہے جب انسان اس بات کو جاننے کے قابل ہوا کہ خلا میں بے وزنی کے دوران وہ مخصوص طریقے سے اپنے جسم اور اعضاء کو حرکت دے سکتا ہے۔ یہ زبردست جان کاری چپمینزی نسل کے ایک ذہین بندر ’’ہام ‘‘ (Ham) کے ذریعے حاصل ہوئی۔ ’’ہام‘‘ کو مرکزی خلائی مشن کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا اور یہ پہلا موقع تھا جب کسی جاندار نے خلائی کیپسول میں رہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے خلائی پرواز میں موجود ’’لیور‘‘ کو حرکت دی اس مقصد کے لیے ہام کو زمین پر خاص طریقے سے تربیت دی گئی تھی۔ ہام کے ٹرینر نے تیز چمکتی ہوئی سبز لائٹ روشن ہونے پر ہام کو لیور کو حرکت دینے کا پابند کیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہام کے پائوں کے تلوے میں ہلکی نوعیت کا کرنٹ لگایا جاتا تھا۔ یہ عمل متعدد بار کرنے کے بعد ہام نے کرنٹ کے خوف سے سبز لائٹ روشن ہوتے ہی لیور کو حرکت دینی شروع کردی۔ لیور کو کام یابی سے حرکت دینے پر ہام کو انعام کی صورت میں کیلا دیا جاتا تھا۔

بعدازاں جب ہام خلا میں پہنچا اور دوران تجربہ لیور دبانے کے لیے سبز لائٹ روشن کی گئی، تو ہام نے فوراً لیور کو حرکت دی۔ اس طرح پہلی مرتبہ انسان یہ بات جاننے کے قابل ہوا کہ خلائی سفر کے دوران جسمانی اعضاء کو حرکت دینا ممکن ہے اور انسان خلائی جہاز میں بے وزنی کی کیفیت میں مختلف کام سرانجام دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہام اس واقعے کے بعد مزید سترہ برس زندہ رہا۔ ’’چاپ چاپ چینگ‘‘ کی عرفیت سے معروف ہام نے مجموعی طور پر چھبیس برس عمر پائی۔ کیمرون کے جنگل سے پکڑے گئے دیگر چالیس چمپینزیوں میں شامل ہام کا نام ’’ہولو مین ایرواسپیس میڈیکل سینٹر‘‘ کے ابتدائی حروف سے اخذ کرکے رکھا گیا تھا۔ اس سینٹر میں ہام نے خلائی سفر کی تربیت حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ ہام کی زندگی پر متعدد فلمیں بنائی جاچکی ہیں اور ہولومین ایرواسپیس میڈیکل سینٹر میں ہام کی یادگار بھی قائم ہے۔

ہام کے اس یادگار کارنامے کے تین ماہ بعد پانچ مئی انیس سو اکسٹھ کو امریکا کے خلا نورد ’’ایلن شپارڈ‘‘ امریکا کے اولین اور مجموعی طور پر دوسرے شخص قرار پائے جنہوں نے خلا میں سفر کیا۔ واضح رہے کہ ہام نے زمین کے مدار کے گرد چکر نہیں لگایا تھا، بل کہ خلا میں رہتے ہوئے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ اس تجربے سے قبل جتنے بھی جان دار خلا یا مدار میں بھیجے جاتے تھے یا تو وہ بے ہوش ہوتے تھے یا پھر انہیں اس طرح باندھ دیا جاتا تھا کہ وہ حرکت نہ کرسکیں۔

ہام ہی کی طرح، مگر زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنے اعضاء کو حرکت د ے کر ہدایات پر عمل کرنے کا منفرد کارنامہ جس جانور نے پہلی مرتبہ انجام دیا وہ بھی ایک نہایت ذہین چمپینزی تھا، جس کا نام ’’اینوز ‘‘(Enos) تھا۔ اینوز نے یہ کارنامہ انتیس نومبر انیس سو اکسٹھ کو انجام دیا۔ اس سے قبل نومارچ انیس سواکسٹھ کو سوویت یونین نے اپنے خلائی مشن اسپوتنک نہم کے ذریعے ’’شیارانوشکا‘‘ نام کے کتے کے ساتھ پہلی مرتبہ مادہ چوہے، مینڈک اور حشرات کو خلا میں روانہ کیا اور ان پر متعدد تجربات کیے۔ اس سفر میں شیارانوشکا کتے کے ہم راہ پہلی مرتبہ ایک مصنوعی انسانی جسم کی نقل (مجسمہ) کی صورت میں نقلی خلانورد ’’ایوان آئیونچ‘‘ نے بھی سفر کیا تھا۔ اپنے اس سفر کے بعد بھی ایوان آئیونچ نے متعدد تجرباتی خلائی سفر کیے جن کے دوران اس کے ہم سفر ہمیشہ جانور ہی رہے۔

بائیس فروری انیس سو اکسٹھ کو خلائی تحقیق میں فرانس بھی اس طرح داخل ہوا کہ اس نے پہلی مرتبہ خلا میں ایک چوہا، جس کا نام ’’ہیکٹر‘‘ تھا خلا میں روانہ کیا، اس کے بعد اگلے برس اکتوبر میں مزید دو چوہے بھی روانہ کیے۔ اس تجربے کے بعد اٹھارہ اکتوبر انیس سو تریسٹھ کو فرانس نے خلا میں بِلّی بھیجنے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کے لیے ’’فلیکس‘‘ نام کا ایک بِلّا منتخب کیا گیا۔ تاہم فلیکس کی قسمت میں خلا کا سفر نہیں تھا۔ وہ دوران تربیت فرار ہوگیا۔ فلیکس کے فرار کے بعد ’’فیلی کیٹی‘‘ (Felicette) نام کی ایک بلی منتخب کی گئی، جس نے خلا میں سفر کرنے والی پہلی بلی ہونیکا اعزاز حاصل کیا۔ اگرچہ فیلی کیٹی نے زمین کے مدار میں چکر نہیں لگائے تاہم اس نے زمین سے خلا کی جانب ایک سو تیس میل کی بلندی تک سفر کیا۔ یہ سفر پندرہ منٹ پر مشتمل تھا۔ اس دوران اس کے جسم سے منسلک مزید ترقی یافتہ آلات نے خلا میں سفر کے دوران جسم پر پڑنے والے مختلف اثرات کے بارے میں نہایت اہم معلومات جمع کی تھیں۔ فیلی کیٹی کو خلا میں لے جانے والا خلائی راکٹ الجزائر میں واقع صحرائے صحارا کے فرانسیسی خلائی مرکز سے مائل بہ پرواز ہوا تھا۔ اس خلائی سفر کے تناظر میں فیلی کیٹی کی تصویر والے ڈاک ٹکٹ بھی مختلف ممالک نے شائع کیے تھے۔

فرانس ہی کی جانب سے انیس سو چھیاسٹھ میں دو بندر بھی خلا میں بھیجے گئے تھے۔ اسی عرصے میں انیس سو چونسٹھ اور انیس سو پینسٹھ میں چین نے دو چوہے اور انیس سو چھیاسٹھ میں دو کتے خلا میں روانہ کیے تھے۔ چین کی جانب سے خلائی دوڑ میں داخل ہونے کی یہ پہلی منزل تھی۔ بائیس فروری انیس سو چھیاسٹھ ہی کو روس کے خلائی پروگرام ’’فوسخود‘‘ کے تحت خلائی مشن ’’کاسموس 110‘‘ روانہ کیا گیا۔ اس خلائی مشن کے مسافر دو کتے ’’وٹروک‘‘ اور ’’یوگوللاک‘‘ تھے۔ حیاتیاتی تحقیقات کے حوالے سے ترتیب دیے گئے اس مشن کے دوران ان دونوں خلاباز کتوں نے بائیس دن خلا میں گزارے، جو کہ آج بھی خلا باز کتوں کے حوالے سے خلا میں سب سے طویل قیام کا ریکارڈ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کو بھی یہ ریکارڈ توڑنے میں سات سال کا عرصہ لگا، جب انیس سو تہتر میں ’’اسکائی لیب دوئم‘‘ کے تین خلا بازوں نے اٹھائیس یوم تک خلا میں قیام کیا۔

اسی نوعیت کا ایک حیاتیاتی خلائی تحقیق کا پروگرام (بائیوسٹلائٹ) امریکا نے انیس سو چھیاسٹھ اور انیس سو سڑسٹھ میں روانہ کیا۔ اس مشن میں مکھیاں، کیڑے، حشرات اور بیکٹریا کے علاوہ مینڈکوں کے انڈے شامل تھے۔ انیس سو سڑسٹھ ہی میں ارجنٹائن کے ’’کورڈوبا ملٹری بیس‘‘ سے ’’اورین دوئم‘‘ خلائی راکٹ روانہ کیا گیا۔ اس راکٹ کے مسافر بردار کیپسول کا مسافر ’’بیلی سائیرو‘‘ نام کا چوہا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ خلائی راکٹ اورین دوئم نے خلا میں کتنی بلندی تک سفر کیا۔ اگلے برس چودہ ستمبر انیس سو اڑسٹھ کو روس نے خلا میں اولین ’’کچھوا‘‘ عازم سفر کیا۔ ہارس فیلڈ نام اور نسل کے اس روسی کچھوے کے ہم راہ مکھیاں اور دیگر حشرات بھی تجربات کے لیے روا نہ کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ انیس سو پچاس سے انیس سو ساٹھ کی دہائی تک سابق سوویت یونین نے مجموعی لحاظ سے ستاون کتے خلا یا مدار میں بھیجے، جس میں سے بیشتر نے دوبار سے زاید سفر کیا۔ انیس سو انہتر ہی میں امریکا نے ’’بونی‘‘ نام کا ایک بندر خلا میں بھیجا، جب کہ اسی سال تئیس دسمبر کو ارجنٹائن نے ’’آپریشن نویداد‘‘ کے ذریعے کائی نسل کے بندر ’’جان‘‘ کو خلا میں روانہ کیا۔ ’’کانوپس راکٹ دوئم‘‘ میں سوار اس بندر نے خلا میں بیاسی کلومیٹر کی بلندی تک سفر کیا اور بحفاظت واپس آیا۔

1970 کی دہائی

انیس سو ستر کی دہائی میں خلائی تحقیق میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پہلی مرتبہ دوران خلا سفر میں بے وزنی کی کیفیت میں انسانی اعضاء کی حرکات و سکنات اور سننے کے عمل میں خلل پڑجانے والے بیماری یا رکاوٹ کو سمجھے کے لیے تجربات کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے نو نومبرانیس سو ستر میں ناسا نے مشن روانہ کیا، جس میں دو مینڈکوں کو خلا میں بھیجا گیا ’’بل فراگ‘‘ نسل کے ان مینڈکوں پر کیے جانے والے تجربات کے نتائج نے انسانوں کے خلائی سفر میں سہولیات کا نیا باب کھولا۔ یہ مشن ’’آربٹنگ فراگ اوتولتھ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اگلے برس سولہ اپریل انیس سو بہتر کو اپالو سولہ خلائی مشن کے ذریعے ’’نیما ٹوڈ‘‘ (کیچوے اور اسی اصناف کے دیگر کیڑے) اور دیگر حشرات نے خلا کا سفر کیا۔ یاد رہے کہ نیماٹوڈ کیچوے میں موجود جینز کی تعداد انسان کے جینز (پچیس ہزار) سے تھوڑی ہے کم ہے، جب کہ اپالو سترہ کے ذریعے چھوٹی سے جسامت پر مشتمل پانچ ’’پاکٹ چوہوں‘‘ پر بھی کام یابی سے تجربات کیے گئے۔

انیس سو تہتر میں انسان بردار مشن اسکائی لیب سوئم میں دو مادہ گھریلو مکڑیاں بھی ہم سفر تھیں۔ ’’ارابیلا‘‘ اور ’’انیتا‘‘ نام کی ان مکڑیوں نے خلا میں بے وزنی کی کیفیت میں جالابن کر حیرت انگیز نتائج فراہم کیے۔ اسی مشن کے ساتھ خلا میں پہلی مرتبہ مچھلی بھی بھیجی گئی۔ یہ مچھلی چھوٹی مگر سخت جان نسل ’’ممی چوگ‘‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ اس دوران سابق سوویت یونین کی جانب سے سترہ نومبر انیس سو پچھتر کو ’’سوئیز بیس مشن‘‘ کے ساتھ کچھوؤں کا ایک جوڑا خلا میں نوے دن بہ حفاظت گزار کر آیا، جب کہ اگلے برس بائیس جون کو ’’سالیوت خلائی مشن پنجم‘‘ کے ذریعے سوویت یونین نے مزید کچھوے اور پہلی مرتبہ ’’زیبرا ڈائنو‘‘ نسل کی مچھلی بھی خلا میں روانہ کی۔

1980 کی دہائی

انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت یونین نے بائیون فلائٹ اسپیس مشن کے ذریعے آٹھ بندر خلا میں روانہ کئے جب کہ انیس سو پچاسی میں امریکہ نے اسپیس لیب سوئم مشن کی اسپیش شٹل کے ہمراہ چوبیس نر چوہوں کو خلا میں بھیجا اور نہایت فائدہ مند تجربات کئے اسی برس سوویت یونین کے بائیون ہفتم مشن کے ذریعے پہلی مرتبہ خلا میں ’’ریگ ماہی‘‘ نام کا سرد خون والا رینگنے والا جانور خلا میں بھیجا گیا۔ واضح رہے کہ ریگ ماہی بیک وقت پانی اور خشکی میں رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دیکھنے میں چھپکلی سے مماثلت رکھتا ہے اور ان رینگنے والے جانوروں میں شامل ہے جو اپنے اعضاء دوبارہ اُگانے ’’بازافزائش‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خلائی مشن کے دوران ریگ ماہی کی دونوں اگلی ٹانگیں کاٹ کر ان کے دوبارہ اُگنے کا تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے نے خلا میں زخموں کے بھرنے کے حوالے سے نہایت سود مند نتائج فراہم کیے۔

1990 کی دہائی

یہ دہائی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس دہائی میں جاپان نے اپنا اولین جانور بردار خلائی مشنز روانہ کیا۔ جاپان نے یہ کارنامہ انیس سو پچانوے میں انجام دیا۔ جاپان کے مشن کا نام اسپیس فلائر یونٹ تھا۔ اس مشن کے دوران جاپان نے ریگ ماہی کی مختلف قسمیں خلا میں بھیجی گئی تھیں۔ اس سے قبل انیس سو نوے کے دسمبر کے مہینے میں جاپان کے صحافی ’’تھوآریو اکیما‘‘ نے خلائی اسٹیشن میر کی جانب سفر کیا۔ اس سفر میں انہوں نے میر خلائی اسٹیشن کے حوالے درختوں پر رہنے والے جاپانی مینڈک حوالے کیے۔ انیس سو نوے کی دہائی ہی میں ناسا کے ماہرین نے اسپیس شٹل کے ذریعے خلائی مرکز میں بہت سے حشرات ٹڈے، جھینگر، گھونگے، پتنگے سمیت چاول کے دانے جتنی مچھلیاں’’مکاڈا‘‘، شریمپ فش، جیلی فش، سورڈ فش، سمندری خارپشت اور چھڑی جیسی شکل والے لمبوترے عصا حشرات و دیگر مختصر جسامت کے آبی جان داروں پر تجربات کیے۔

2000 تا حال

خلا میں متواترساٹھ سال تک کیے جانے والے ان تجربات کے باوجود سن دوہزار کی دہائی میں بھی جانوروں اور حشرات پر تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ سن دوہزار تین میں کولمبیا شٹل کے ذریعے پہلی مرتبہ ریشم کے کیڑوں کو خلا میں بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ پھر مکڑیوں کے ساتھ چیونٹیوں، لکڑی خور مکھی، پسو، چیچڑی اور دیگر حشرات خلا میں تجربات کی غرض سے بھیجے گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب اسپیس شٹل کولمبیا سن دوہزار تین میں اپنے واپسی کے سفر میں دھماکے سے تباہ ہوگئی اور اس کی تقریباً ہر شے جل کر خاکستر ہوگئی، تو اس کے باوجود آگ سے محفوظ ایک کنٹینر میں موجود ’’سی ایلی گنز‘‘ نامی ’’نیما ٹوڈ‘‘ (کیچوے اور اسی اصناف کے دیگر کیڑے) زندہ حالت میں پائے گئے۔ اس حیرت انگیز واقعے نے سائنس دانوں کو خلا بازوں کے لئے حفاظتی تدابیر کے حوالے سے نئے زاویے فراہم کیے۔

سن دو ہزار چھے میں امریکا کے ’’بگیلو ائیر اسپیس مشن‘‘ کے تحت جینیسس اول اور دوہزار سات میں جینیسس دوئم خلا میں تجربات کی غرض سے روانہ کیا گیا۔ ان دونوں مشنز میں بھی مختلف قسموں کے کیڑے مکوڑے سمیت مڈغاسکر کے شور مچانے والے لال بیگ اور جنوبی امریکا کے ہموار پشت والے بچھو بھی شامل تھے، جب کہ دو ہزار سات میں ستمبر کے مہینے میں یورپیئن اسپیس ایجنسی نے ’’فوٹون ایم تھری‘‘ کے نام سے خلا میں مشن روانہ کیا۔ اس مشن کی سب سے اہم کام یابی عام انسانی آنکھ سے نہ نظر آنے والے انتہائی مختصر جسامت مگر بلا کے سخت جان جاندار ’’واٹر بئیر‘‘ (ٹریڈیگیٹرز) پر تجربات تھے۔ واضح رہے کہ آٹھ ٹانگوں والا واٹر بیئر اپنے حیاتیاتی نظام کو مفلوج کرکے کئی سال تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہے اور انتہائی سرد (منفی دوسو تہتر سینٹی گریڈ) اور انتہائی گرم (ایک سو اکیاون سینٹی گریڈ) دونوں حالتوں میں بھی زندہ رہتا ہے۔  تجربات کی غرض سے تین ہزار کی تعداد میں خلا میں جانے والے یہ واٹر بئیرز دس دن تک کھلی خلا میں بغیر کسی امداد ی سامان کے اپنے قدرتی نظام کی مدد سے زندہ رہے تھے، جسے ماہرین ایک انتہائی محیرالعقول واقعہ قرار دے رہے ہیں۔

اس کام یابی کے بعد 2009 میں ناسا کے ’’ایس ٹی ایس ایک سو انتیس مشن‘‘ کے ذریعے عالمی خلائی مرکز میں ’’مونارک‘‘ اور ’’لیڈی پینٹڈڈ‘‘ نسل کی تتلیوں پر بھی خلا میں تجربات کیے گئے ہیں۔ تین فروری دوہزار دس کو ایران وہ اب تک کا آخری ملک ہے جس نے خلا میں کوئی جانور روانہ کیا ہے۔ انقلاب ایران کی اکتیسویں سال گرہ کے موقع پرحکومت ایران نے ’’کاوشگر سوئم مشن‘‘ کے ہم راہ ایک چوہا دو کچھوے اور کچھ کیچوے خلا میں روانہ کیے، جو کام یاب تجربات کے بعد کام یابی سے زمین پر واپس آچکے ہیں۔ مئی دوہزار گیارہ میں خلائی شٹل ’’اینڈایور‘‘کے ذریعے دو مکڑیاں ’’گلیڈیز‘‘ اور ’’ایزمیرلڈا‘‘ اور کچھ مکھیوں کو بے وزنی کی حالت میں ان کے رویوں پر تجربات کی غرض سے خلا میں روانہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر دوہزار بارہ کو عالمی خلائی مرکز میں روسی خلائی مشن ’’سوئویز ٹی ایم اے‘‘ کے ذریعے بتیس کی تعداد میں میکاڈا مچھلیاں پہنچائی گئی ہیں، جن پر تجربات کیے جارہے ہیں۔ یہ اب تک کا آخری مشن ہے جس میں انسان کے علاوہ کسی جاندار کو خلا میں بھیجا گیا ہے۔ یاد رہے کہ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اٹھائیس جنوری دوہزار تیرہ کو ایران نے ’’پیش گام راکٹ‘‘ کے ذریعے ستر میل کی بلندی پر خلا میں رہسیس نسل کے بندر روانہ کیے ہیں۔ تاہم ایران کی جانب سے ایسے کسی مشن کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

خلائی مدار کیا ہیں؟

دنیا میں سات ممالک ایسے ہیں جنہوں نے خلا ئی تحقیق اور تسخیر کے عمل میں جانوروں کو بھیج کر مفید تجربات کیے ہیں۔ ان ممالک میں سابق سوویت یونین، امریکا، فرانس، چین، جاپان، ارجنٹائن اور ایران شامل ہیں۔ ان ممالک کے خلائی مشن یا تجربہ گاہیں۔ زمین کے گرد خلا میں قائم تین مداروں میں سرگرم عمل رہی ہیں۔ ان مداروں یا آربٹس میں زمین سے قریب ترین مدار کو ’’نچلا زمینی مدار‘‘ یا ’’لو ارتھ آربٹ‘‘ (LOW) کہا جاتا ہے۔ اس کی اونچائی سطح سمندر سے دوہزار کلومیٹر بلندی تک ہوتی ہے۔ دوسرا مدار ’’وسط زمینی مدار‘‘ ہے جسے ’’میڈیم ارتھ آربٹ ‘‘ (MEO) کہتے ہیں اور اس کا دائرہ عمل خلا میں دوہزار کلومیٹر بلندی سے شروع ہو کر پینتیس ہزار سات سو چھیاسی کلومیٹر بلندی تک ہوتا ہے اور بیشتر گلوبل پوز یشننگ سسٹم سے لیس مصنوعی سیارچے اس مدار میں گردش کرتے ہیں۔ تیسرا مدار ’’ارض جامد مدار‘‘ یا ’’جیو اسٹیشنری آربٹ‘‘(GEO) کہلاتا ہے۔ اس کی گردش اور زمین کی محوری گردش یکساں ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بیشتر نشریاتی آلات سے لیس مصنوعی سیارچے ارض جامد مدار میں گردش کرتے ہیں۔

عبایا: روایت اور جدت کا حسین امتزاج

$
0
0

مشرق وسطی کی ثقافت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ وہاں کے پہناوے، موسیقی، رقص اور رسموں میں جہاں عرب کا خوبصورت کلچر دکھائی دیتا ہے وہیں موجودہ دور کی جدت کے باوجود ان علاقوں میں عبایا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

عبایا کا ٹرینڈ اب پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوچکا ہے۔ ہمارے ملک کی معروف ڈیزائنر خوش طباع نے اس سلسلہ میں سیاہ، کریم، گرے، براؤن اور دیگر رنگوں میں عبایا کی منفر ورائٹی تیار کی ہے جو خواتین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ مختلف رنگوں کے ڈیزائن اور پھر کیلی گرافی، موتی اور دیگر انداز سے عبایا کو سجایا جاتا ہے۔

’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کیلئے ہونے والے فوٹو شوٹ میں ڈال سارہ چوہدری عبایا کی خوبصورت ڈیزائن متعارف کروارہی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ عبایا کے ساتھ ہلکی پھلکی جیولری بھی شخصیت کو پُر کشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اب تقریبات میں عبایا کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

آرمی سول تعلقات حکومتی پالیسی پر منحصر ہیں، حمید گل

$
0
0

لاہور: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم نواز شریف نے مورل اتھارٹی بڑھا لی تو پھر ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے آرمی سول تعلقات حکومتی پالیسی پر منحصر ہیں۔

لاپتہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی ہے اورمیںنے ذاتی طورپر ہمیشہ ان کے موقف کی تائید کی ہے۔ ایکسپریس نیوزکے پروگرام کل تک میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ملافضل اللہ زیادہ طاقتورنہیں ہے۔نئے آرمی چیف کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے کیونکہ فوج یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ ہم سول قیادت کی بات مانیں گے لیکن جہاں پر فوج کے معاملات پر کوئی بات ہوگی وہ اپنا موقف پیش کریں گے۔اب فیصلے تو سول حکومت نے ہی کرنے ہیں۔

اگرافغانستان کا امریکا کے جانے کے بعد نقشہ بدل جاتا ہے تو حالات پاکستان کیلیے بہتر ہوسکتے ہیں۔پرویزمشرف نے بہت سی غلطیاں کیں انھوں نے اپنی کتاب میں بھی اعتراف کیا کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو تحقیقات کیلیے امریکا کے حوالے کیا ۔مجھے لاپتہ افراد سے ہمدردی ہے اور میں واحد فوجی ہوں جو ان کے احتجاج کیمپس میں بھی جاتا ہوں ۔بلوچستان کے حالات کی خرابی کی وجہ حکومت ہے کیونکہ وہاں پر کچھ کلیئر نہیں ہے۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج کو خصوصی اختیارات دیے ہوئے ہیں اسی طرح امریکا نے وارآن ٹیررپر اپنے قوانین تبدل کرلیے اور نئی قانون سازی کرلی ۔

زیرسمندر انٹرنیٹ

$
0
0

نیویارک میں یونیورسٹی آف بفلو سے منسلک تحقیق داں زیر سمندر انٹرنیٹ نیٹ ورک کی تیاریوں میں مصروف ہیں جسے انھوں نے ’’’ڈیپ سی انٹرنیٹ‘‘ کا نام دیا ہے۔

اگر زیر سمندر انٹرنیٹ کا تجربہ کام یاب ہو گیا تو اس سے نہ صرف سونامی کی پیشگی اطلاع ملنا ممکن ہو جائے گا بلکہ ساحل سے کچھ فاصلے پر قدرتی گیس اور تیل کی کھدائی اور ان کی دیکھ بھال وغیرہ کے کاموں میں بھی آسانی ہو جائے گی۔

اس پروجیکٹ سے منسلک محقق توماسو میلوڈیا کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہہ میں موجود وائی فائی انٹرنیٹ نیٹ ورک نہ صرف ہمیں بروقت ڈیٹا جمع کرنے میں مدد دے گا بلکہ یہ معلومات اسمارٹ فون اور کمپیوٹر پر بھی دست یاب ہو سکیں گی۔ خاص طور پر اس وقت جب سونامی وغیرہ آنے کا اندیشہ ہو۔

زیر سمندر انٹرنیٹ کے نظام کی آزمائش حال ہی میں دریائے ایری میںکی گئی۔ توماسو میلوڈیا اور ان کے ساتھی محققین نے سمندر میں چالیس پاؤنڈ وزنی دو سینسرز لگائے، لیپ ٹاپ پر کمانڈ ٹائپ کی اور چند ہی سیکنڈز میں انٹرنیٹ نے کام کرنا شروع کر دیا۔

توماسو میلوڈیا کا کہنا ہے کہ زیرسمندر انٹرنیٹ کو بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے ہم مچھلیوں اور سمندری مخلوق کی مانیٹرنگ کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں تاکہ آبی مخلوق کو سمندری ٹریفک اور دیگر خطرات سے بچایا جا سکے، اس کے علاوہ بھی انٹرنیٹ سے بہت کچھ کرنا ممکن ہوگا۔


سب آئیڈیاز چُرائے ہوئے

$
0
0

شو بز کی دنیا میں چربہ سازی کا آغاز کب ہوا؟ اس کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کیا جاسکتا، البتہ اسی کی دہائی میں جب وی سی آر کی وبا پھیلی تب انڈین فلمیں دیکھ کر لو گوں کو پتا چلا کہ ان میں سے اکثروبیشتر فلمیں یا ان کے موضوعات غیرملکی فلموں سے مستعار لیے جاتے رہے ہیں۔

اُس وقت کیوں کہ کمیونیکیشن کے ذرائع کم تھے، اس لیے زیادہ چھان بین بھی نہیں ہوپاتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ انگلی کی ایک کلک سے ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ کون، کس کو۔ کہاں اور کیا کاپی کر رہا ہے۔ بھارت فلموں کی چربہ سازی کے علاوہ غیرملکی شوز اور ڈراموں کے آئیڈیاز کو بھی ہو بہو کاپی کر رہا ہے۔ انڈین ٹی وی کے مقبول ترین شوز جو غیرملکی پروگرامز کی نقل ہیں وہ یہ ہیں:

٭بگ باس۔۔۔۔ big brother
انڈین ٹی وی کا اس وقت سب سے سپر ہٹ شو بگ باس ہے، جو اس وقت دکھائے جانے والے تمام شوز میں سب سے زیادہ دیکھا اور پسند کیا جا رہا ہے۔ شو کے ہوسٹ سلمان خان بڑی کام یابی سے اسے چلا رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن آڈینس کی ایک بڑی تعداد کا یہ کہنا ہے کہ بگ باس صرف سلمان خان کی وجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

ایک خاص طریقے کے تحت شو میں شرکت کرنے والی شخصیات کو منتخب کیا جاتا ہے اور پھر انہیں ایک بہت بڑے گھر میں دنیا سے کٹ کر ایک مخصوص وقت تک رہنا پڑتا ہے۔ یہاں ان سب کے مابین دل چسپ نوک جھونک بھی ہوتی ہے اور سنجیدہ نوعیت کی سنگین لڑائیاں بھی، جو اس شو کی ریٹنگ بڑھانے میں مدد کرتی ہیں۔ انڈین ٹیلی و یثزن کا یہ ہٹ شو دراصل اوریجنل شو بگ برادر کی مکمل طور پر کاپی ہے۔ اس سلسلے کا پہلا پرگرام 1999میں ہالینڈ (Netherland) سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا اور دیکھتے دیکھتے یہ شو اتنا مقبول ہوگیا کہ دنیا کے کئی ممالک کی ٹیلی ویژن فرنچائز نے اس کے مختلف ورژن تیار کیے۔

٭جھلک دکھلاجا۔۔۔۔۔Dancing with stars
جھلک دکھلاجا انڈین ٹی وی کا وہ کام یاب اور مقبول شو ہے جس کے ہر سیزن کا انتظار آڈینس کو بے چینی سے رہتا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی ویور شپ کی سب سے اہم وجہ شو کے جج ہیں، جن کا تعلق فلم انڈسٹری سے ہوتا ہے۔ گذشتہ کچھ شوز میں کرن جوہر اور ریمو کے ساتھ بولی وڈ کی خوب صورت اداکارہ مادھوری ڈکشٹ نے ججز کے فرائض انجام دیے تھے۔ مادھوری کی شو میں شرکت اس کی پبلسٹی میں ایم کردار ادا کرتی ہے۔

اس ڈانس مقابلے میں حصہ لینے والے شرکاء کا تعلق بھی شوبز ہی سے ہوتا ہے جو ججز کے سامنے اپنے رقص کے جوہر اس طرح دکھاتے ہیں کہ شو کے فائنل تک ان کی رسائی ہوسکے۔ انڈین ٹی وی کا یہ مقبول ترین شو دراصل ڈانسنگ ودھ اسٹارز سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔ ڈانسنگ ودھ اسٹارزنامی یہ شو اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں دکھایا جا رہا ہے۔ ڈانس سیریز کا یہ پروگرام دراصل برطانوی ٹی وی کے ایک شوStrictly Come Dancingکی نقل ہے۔ یہ شو بی بی سی کے تحت ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ اس شو کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2006 اور2007میںدنیا کے سترہ ممالک میں یہ ٹاپ ٹین پرگرام کی فہرست میں شامل رہا۔

٭انڈیا گوٹ ٹیلنٹ۔۔۔۔America’s Got Talent
انڈیا گوٹ ٹیلنٹ نامی یہ پروگرام بھی ایک کام یاب شو ہے۔ اس میں شامل ججز کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے شوبز سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن حصہ لینے والے شرکاء کا شمار عام لوگوں میں ہوتا ہے۔ پورے انڈیا سے مختلف لوگوں کو ہر فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ ہر عمر اور طبقے کو اس میں شامل ہونے کا موقع دیا جاتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

فائنل تک پہنچنے اور نمبر ون آنے والی ٹیم کے لیے انعام کے طور پر بھاری رقم دی جاتی ہے۔ انڈین ٹی وی کا یہ پروگرام بھی دراصل امریکن ٹی وی کے ایک شو امریکا گوٹ ٹیلنٹ کی مکمل طور پر کاپی ہے۔ امریکا ٹی وی کا یہ شو این بی سی نیٹ ورک اور گلوبل ٹی وی کے اشتراک سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس ٹیلنٹ شو میں اداکاری، گلوکاری، میوزیشن، کامیڈین، ڈانسرز اور ہر قسم کے ٹیلنٹ کو پیش کیا جاتا ہے، جس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ جیتنے والی ٹیم کو انعام کے طور پر ایک ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔ اس شو کی پہلی سیریز جون 2006 میں ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی۔

٭کون بنے گا کروڑ پتی۔۔۔۔۔Who wants to be a millionaire?
انڈین ٹی وی کا ایک اور مقبول پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی ہے، جس کے میزبان امیتابھ بچن ہیں۔ ذہنی آزمائش کا یہ شو ایک بہت بڑی رقم جو کے انعام کے طور پر ملتی ہے۔ ناظرین کے لیے کشش کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے اس میں شرکت کرنے والے افراد سالوں فون کے ذریعے اپنی قسمت بار بار آزماتے رہتے ہیں کہ جانے ان کا نمبر کب آئے؟ پروگرام میں ہوسٹ کے طور پر امیتابھ بچن ہی کو ہمیشہ منتخب کیا جاتا ہے، کیوںکہ عوام کی اکثریت کا کہنا ہے۔

اس شو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ خاص طور پر ان کے الفاظ ’’لاک کر دیا جائے‘‘ اب زبان زد عام ہو چکے ہیں ۔ کون بنے گا کروڑ پتی برطانوی ٹی وی کے شو ہو وانٹس ٹو بی آمیلینر کی ہوبہو نقل ہے۔ برطانوی ٹی وی کا یہ پروگرام 1998شروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنا کام یاب شو بن گیا کہ دیگر کئی ممالک میں اس جیسے پروگرام بنائے جانے لگے۔

٭سچ کا سامنا۔۔۔۔Moment of truth
انڈین ٹی وی کا یہ شو سنجیدہ حلقوں میں خاصا پسند کیا گیا تھا، کیوں کہ اس کا اسکرپٹ ہی ہر با ر گمبھیر ہوتا تھا۔ معاشرے کے سرکردہ لوگ ہو ں یا پھر عام انسان ان پر لگے الزامات کی پوری طرح سے تحقیق کا اور چھان بین کرکے ان لوگو ں اور گواہوں کے طور پر دوسرے شرکاء کو بھی دعوت دی جاتی تھی۔ اس شو میں اداکاروں، کھلاڑیوں اور سیاست دانوں سے لے کر ایک عام انسان تک کو شامل کیا جاتا تھا۔

یہ پروگرام کینیڈین ٹی وی سیریز موومنٹ آف ٹرتھ سے کاپی کیا گیا تھا جو 1964.,1965 میں کینیڈا سے سی بی سی ٹیلی ویژن سے آن ائیر ہو ا تھا۔

٭اس جنگل سے مجھے بچاؤ۔۔۔(I am celebrity … Get me out of here)
انڈین ٹی وی کا یہ شو بھی برطانوی ٹی وی شو آئی ایم آسیلیبرٹی کی مکمل طور سے کاپی کیا گیا تھا۔ اس کا پہلا شو برطانوی ٹی وی سے 2002 میں ٹیلی کاسٹ ہوا تھا۔ اس شو میں ٹی وی اور فلم کی بارہ نام ور شخصیات کو چند ہفتے جنگل میں گزارنا ہوتے تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام تھا، جسے لوگوں نے پسند کیا اور انڈین ٹی وی نے اسے کاپی کیا۔

٭انڈین آئیڈل۔۔۔۔امریکن آئیڈل
امریکن رئیلٹی شو کا انڈین ورژن، انڈین آئی ڈول ایک انتہائی دل چسپ اور سسپنس سے بھرپور شو ہے۔ گلو کاری میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے پورے انڈیا سے لوگ اس میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے ججز بھی وہ افراد ہوتے ہیں جو موسیقی کے میدان میں مکمل طور پر مہارت رکھتے ہیں۔

اصل پروگرام امریکن آئیڈل، جو 19 پروڈکشن کی پیشکش ہے، کا آغاز گیارہ جون 2002 کو فوکس ٹیلی ویژن سے ہوا۔ امریکا کی تاریخ میں اب تک دکھائے جانے والے شوز میں سب سے کام یاب شو امریکن آئیڈل ہی ہے۔

٭کیا آپ پانچویں پاس سے تیز ہیں؟۔۔۔ Are you smarter then 5th grader
اسٹار پلس سے آن ایئر ہونے والا یہ پروگرام بھی ایک کینیڈاٹی وی کے شو آر یو اسمارٹر دین ففتھ گریڈ سے نقل کیا گیا تھا۔ اور اس کے ہوسٹ کے لیے شاہ رخ خان کا نام تجویز کیا گیا تھا، کیوںکہ اکثر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جس طرح امیتابھ کی وجہ سے کون بنے گا کوڑ پتی ایک ہٹ شو ثابت ہو رہا ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کی موجودگی سے کیا آپ پانچویں پاس سے تیز ہیں بھی کام یاب ہو گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کنگ خان کی اچھی پرفارمینس کے باوجود یہ پروگرام ناظرین پر اپنا کوئی خاص تاثر قائم نہ کر پایا اور وقت سے پہلے ہی اسے ختم کرنا پڑا۔ اس کا اصل شو ستائیس فروری 2007کو فوکس براڈ کاسٹ کمپنی کے تحت یونائیٹڈ اسٹیٹ اور کینیڈا سے ٹیلی کاسٹ ہوا۔ امریکا اور کینیڈا میں یہ انتہائی مقبول شو ثابت ہو تھا۔

٭جسی جیسی کوئی نہیں۔۔۔۔Ugly Betty
سو نی ٹی وی سے دکھایا جا نے والا یہ ڈراما اپنی مختلف کہانی اور اچھی اداکاری کے باعث ہٹ ہوا تھا۔ اس کی کہانی ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو انتہائی معمولی شکل وصورت کی حامل لیکن دل کی بہت اچھی ہے۔ جسی کا رول مونا سنگھ نے ادا کیا تھا اور اسی کردار نے اسے مقبولیت عطا کی تھی۔ جسی جیسی کوئی نہیں دراصل امریکن کامیڈی ڈراما سیریز ugly bettyسے متاثر ہو کر بنا یا گیا تھا۔ یہ سیریز اٹھائیس ستمبر2006کو شروع ہوا تھا اور اس کا اختتام چودہ اپریل 2010 کو ہو ا تھا۔

نادرسیاہ گینڈا: معدومیت سے دوچار

$
0
0

ایک سیاہ اور بھاری بھرکم نادر گینڈے کو الٹا کرکے اس کے ٹخنوں سے مضبوط رسیاں باندھی گئیں۔

اس کے بعد اسے سیکڑوں فیٹ فضا میں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے بلند کیا گیا اور اسی لٹکی ہوئی حالت میں محفوظ مقام پر پہنچادیا گیا۔ یہ پڑھ کر شاید آپ کو ایسا لگے جیسے یہ کسی طلسماتی کہانی کا منظر ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ آپ نے اوپر پڑھا، وہ بالکل سچ ہے۔ یہ منظر جنوبی افریقا کے ایک خطے KwaZulu-Natal کا ہے اور وہاں بلیک رہینو رینج ایکسپینشن نامی پراجیکٹ بڑی مستعدی کے ساتھ سیاہ گینڈے کی نسل کو بچانے اور کرۂ ارض پر اس کا وجود برقرار رکھنے کے لیے کام کررہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سیاہ نادر گینڈے کی نسل دنیا سے تیزی سے مٹ رہی ہے۔ ویسے بھی اس کا شوقیہ شکار کرنے والے اور اس کے سینگ کی خاطر اس کی جان لینے والے پوچرز نے اس جانور کو معدومیت تک پہنچادیا ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اس کی نسل کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ مگر آج بھی دنیا میں گینڈے سے محبت کرنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ یہ حسین، خوب صورت اور نادر جانور صفحۂ ہستی سے نہ مٹے جسے کسی زمانے میں زمین کا زیور کہا جاتا تھا اور یہ کرۂ ارض پر بڑی شان اور فخر کے ساتھ مٹرگشت کیا کرتا تھا۔ یہ کام بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کررہا ہے اور اس نے دنیا میں موجود سیاہ گینڈے کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ نادر سیاہ گینڈے کو اس طرح ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضا میں لٹکا کر لے جانے پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہو مگر گینڈے کو اس طرح لے جانا بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے منتظمین کی مجبوری تھی۔ انہوں نے زمینی راستے سے اسے لے جانا مناسب نہ سمجھا، انہیں اندیشہ تھا کہ اس طرح لے جانے سے سیاہ گینڈے کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے کیوں کہ سیاہ گینڈے کو لے جانے سے پہلے بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا تھا اور اس کا اثر جلد ختم ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گینڈا اپنی منتقلی کے عمل کے دوران راستے میںکہیں بھی ہوش میں آسکتا تھا، جس سے متعدد مسائل کھڑے ہوسکتے تھے۔ دوسری جانب ہیلی کاپٹر سیاہ نادر گینڈے کو تیزی سے مطلوبہ مقام تک منتقل کرسکتا تھا۔ اس لیے اس ذریعے کو زیادہ بہتر اور محفوظ سمجھا گیا۔

نادر سیاہ گینڈے کی نسل تو ویسے بھی ختم ہونے جارہی ہے، مگر ماہرین اسے بچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بھی بیان کیا کہ اس ضمن میں بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ دل و جان سے اس کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے۔ بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ جنوبی افریقا کا ایک ایسا ادارہ ہے، جو اس ملک میں قدرتی وسائل کے ساتھ جانوروں بالخصوص ایسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے، جن کے دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ منڈلارہا ہے اور اس وقت ان کا سب سے بڑی توجہ سیاہ گینڈے پر ہے جو کسی بھی وقت دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹنے کو ہے۔

یہ ادارہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے طور پر ہنگامی اقدامات کررہا ہے۔ اس نے اب تک 139نادر سیاہ گینڈے اسی انداز سے محفوظ مقامات تک منتقل کیے ہیں اور یہ 140واں سیاہ گینڈا تھا، جسے پوچرز اور دشمنوں سے بچاکر محفوظ کرلیا گیا۔ یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب مغربی سیاہ گینڈے کو معدوم قرار دے دیا گیا۔ واضح رہے کہ مغربی سیاہ گینڈا، عام سیاہ گینڈے کی ایک ذیلی نسل ہے۔ اس مغربی سیاہ گینڈے کو آخری بار 2006میں دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کو معدوم قرار دینے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ منتقلی کا یہ عمل مشرقی جنوبی افریقا کے KwaZulu-Natal ریجن میں ہوا۔

اس حوالے سے پراجیکٹ لیڈر ڈاکٹر جیکوئس فلیمنڈ نے کہا:’’اس سے پہلے ہم نے نہایت مشکل اور ناہموار راستوں پر لاری کے ذریعے گینڈوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا تھا۔ کئی بار ہم نے نیٹ یا جال کے ذریعے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل کیا۔ لیکن بعد میں ہم نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ سب سے بہتر اور محفوظ ثابت ہوا۔ میں جانوروں کا ماہر ہوں اور مجھے اختیار ہے کہ جو طریقہ زیادہ بہتر سمجھوں، وہی اختیار کروں۔

اس طریقے میں ایک تو گینڈے کی منتقلی کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ انجام پاسکتا تھا اور دوسرے یہ اس جانور کے لیے بے ضرر بھی تھا۔ اور ان تمام آپریشنز کے دوران ہم ہمیشہ اس کی سلامتی اور تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہم نے ان تمام گینڈوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا، انہوں نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ آزاد ہونے کے فوراً بعد اطمینان سے کھانا شروع کردیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان گینڈوں کو اس طریقے نے نہ پریشان کیا اور نہ وہ مشتعل ہوئے۔‘‘

ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھاری جانوروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا یہ سلسلہ نمیبیا میں شروع ہوا تھا۔ اس طریقے میں عام طور سے گینڈوں کی منتقلی میں دس منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے اور ناقابل رسائی مقامات سے ان کی محفوظ مقامات تک منتقلی نہایت آسانی سے ہوجاتی ہے۔

بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے تحت ایک کام اور بھی سرگرمی سے کیا جارہا ہے۔ وہ یہ کہ اس پراجیکٹ کے ورکر سیاہ گینڈے کو تحفظ دینے کے لیے اس کے سینگ کو ایک برقی آری سے کاٹ دیتے ہیں۔
اس کے بعد بغیر سینگ کے گینڈے میں پوچرز یعنی اس کا غیر قانونی شکار کرنے والوں کو کوئی دل چسپی نہیں رہتی، کیوں کہ انہیں صرف اس کے سینگ سے مطلب ہوتا ہے جسے وہ منہگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ یہ سینگ مردانہ طاقت کی مختلف دواؤں کی تیاری میں کام آتا ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں اس سینگ کے خریدار موجود ہیں، لیکن ویت نام، چین، تمام افریقی ملکوں کے علاوہ دیگر براعظموں کے ملکوں میں اس کی غیرقانونی تجارت عروج پر ہے۔ اس لیے بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ اس جانور کو مکمل تحفظ دینے اور خاص طور سے اس کا غیرقانونی شکار کرنے والوں (پوچرز) سے بچانے کے لیے اسے سینگ سے محروم کردیتا ہے۔
جنوبی افریقا کے KwaZulu-Natal نامی مقام پر واقع جنگل سیاہ گینڈے کا گھر ہیں جہاں مذکورہ پراجیکٹ کے عہدے داروں نے اس سیاہ گینڈے کے تحفظ کے لیے اس کے جسم میں ریڈیو ٹرانسمیٹر بھی نصب کردیے ہیں، تاکہ کسی خطرے کی صورت میں اس کی مدد کو پہنچا جاسکے اور اسے شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔

بلیک رہینو رینج ایکسپینشن نامی اس پراجیکٹ کو شروع ہوئے دس سال ہوچکے ہیں، جس کا مقصد گینڈے کی نسل کو تحفظ دے کر اسے زیادہ وسیع جگہ اور بڑے بڑے میدان فراہم کرنا ہے، جہاں اس کی افزائش نسل ممکن ہو۔ افزائش نسل کے لیے ایسے متعدد مقامات منتخب کیے گئے ہیں، جن میں سے سات مقاماتKwaZulu-Natal میں اور دو مزید شمال میں Limpopo کے مقام پر واقع ہیں۔

1960کے عشرے میں پورے افریقا میں ایک تخمینے کے مطابق 65,000 سیاہ گینڈے موجود تھے، مگر ان کے غیرقانونی شکار کی وجہ سے 1990کے عشرے میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 2000 تک رہ گئی۔ باقی تمام سیاہ گینڈے اپنے قیمتی سینگ کی خاطر وحشی انسانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ مذکورہ ادارے کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کے دیگر اداروں کی کوششوں کے بعد اب یہ تعداد دگنی ہوکر لگ بھگ 4000تک جاپہنچی ہے، لیکن پوچنگ اب بھی ان کی سلامتی اور بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کی صورت میں ان کے سروں پر مسلسل موجود ہے۔

اب تک سیاہ نادر گینڈے کے 40کے لگ بھگ بچے ان مقامات پر پیدا ہوچکے ہیں، جو بلیک رہینو رینج ایکسپینشن پراجیکٹ کے زیراہتمام چل رہے ہیں۔ یہ لوگ بڑی تیزی اور مستعدی کے ساتھ سیاہ گینڈے کی پہرے داری کرتے ہیں اور اس پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک160,000 ہیکٹیئر محفوظ مقامات پر صرف تین سیاہ گینڈوں کا غیر قانونی شکار ہوسکا ہے۔

اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد سیاہ گینڈے کی نسل کو تحفظ دیتے ہوئے آنے والے وقت میں اس کی نسل کو بڑھانا ہے۔ اس قیمتی اور شان دار جانور کو غیرقانونی شکار اور مفاد پرست عناصر کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات اور آلات کی ضرورت ہوگی جن کی مدد سے پوچرز یعنی اس کا غیرقانونی شکار کرنے والوں سے نمٹا جاسکے۔ گینڈے کو تحفظ دینے والا یہ ادارہ ہیلی کاپٹر کا کرایہ گھنٹوں کے حساب سے ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب جانوروں کے ڈاکٹر بیمار اور مشتعل گینڈے کو چیک کرنے اور اس کا علاج کرنے کے لیے جنگل میں اس کی مخصوص آبادی تک جاتے ہیں تو انہیں لانے اور لے جانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر منگوانا پڑتا ہے اور اس کا کرایہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گینڈوں کی فضائی نگرانی کے لیے بھی رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر Flamand نے مزید کہا:’’ہم تو اپنے جنگلوں اور میدانوں سے تو ان گینڈوں کو رخصت کرکے محفوظ مقامات تک بھیج دیتے ہیں، مگر پھر ان مقامات کے نگرانوں پر سارا دباؤ آجاتا ہے کہ وہ ان کی افزائش نسل کے لیے فوری اقدامات کریں تاکہ ساری دنیا یہ دیکھ سکے کہ اب نہ صرف سیاہ گینڈا محفوظ ہے بلکہ اس کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے جس کے باعث اس کو معدومیت کا کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا:’’گینڈے کو تحفظ فراہم کرنے کے دو طریقے ہیں: پہلا یہ ہے کہ گینڈوں کو محفوظ رکھا جائے جو موجودہ حالات میں ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس جانور کی زیادہ سے زیادہ افزائش نسل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں۔ اپنے اس پراجیکٹ کے ذریعے ہم دونوں طریقے اختیار کررہے ہیں اور کام یابی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔‘‘

World War Z : زندہ لاشوں کی عالمی جنگ

$
0
0

“World War Z” ہالی وڈ کی ایک فلم ہے جس میں ایک ایسے زمانے کی منظر کشی کی گئی ہے جب ایک نامعلوم وائرس پھیلنے سے پوری دنیا زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکی ہے اور دنیا بھر میں پھیلی نسل انسانی خطرے میں پڑچکی ہے۔

یہ فلم اسی نام کے ایک ناول سے ماخوذ ہے۔اس ناول کا مصنف میکس بروکس ہے۔ مبصرین کے مطابق زندہ لاشوں (zombies)کے تصور پر لکھے جانے والے بہت سے زومبی ناولوں اور کہانیوں کی طرح یہ ناول بھی عالمی سیاست اور حالات بالخصوص تیسری دنیا میں تیزی سے بگڑتے ہوئے سماجی حالات پر ایک طنز ہے۔ اس ناول کی زبردست کامیابی کے بعد اسے فلم کی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔ اس فلم کا نام “World War-1″ اور “World War-2″ یعنی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے وزن پر رکھا گیا ہے لیکن اس میں انسانوں کے بجائے زندہ لاشوں کی عالمی جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔

ناول اور فلم کی کہانی کا لب لباب دنیا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات اور وسائل کی کمی کے باعث ان کے درمیان پیدا ہونے والی جنگ وجدل کی صورت حال ہے۔مبصرین کے مطابق ہالی وڈ کی زومبی فلمیں دنیا بھر بالخصوص تیسری دنیا کے تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کا ایک تمثیلی منظرنامہ پیش کرتی ہیں۔دنیا میں بڑھتا ہوا کنزیومر ازم ، ناقابل حل مسائل کی بھرمار اور بالخصوص تیسری دنیا میں کثرت آبادی، جہالت، غربت، بیروزگاری اور بیماری کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے ، وہ مبالغہ آرائی کی شکل میں زومبی فلموں میں پیش کی جاتی ہے۔

زومبی فلموں میں جس طرح زندہ لاشیں ایک دوسرے کو نوچتی بھنبھوڑتی دکھائی دیتی ہیں، اسی طرح دنیا میں انسانوں کی بھیڑ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہی ہے۔ کرپشن ، قتل وغارت ، فسادات ، قحط اور بیماری کے مارے انسانوں کی نقشہ کشی کے لیے زومبی یعنی زندہ لاشوں کی فلموں کو استعمال کیاجاتا ہے۔ 2013 میں ریلیز ہونے والی World War Z بھی دنیا بھر کے انسانوں کو زندہ لاشوں میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھاتی ہے اور اس میں کسی مذہب ، نسل اور خطے سے قطع نظر تمام انسانوں کو پیش کیاگیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ اور ایشیا سے لیکر افریقہ تک انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دیگر صحت مند انسانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔

ناول World War Z جب شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا تو ہالی وڈ کے سپرسٹار بریڈ پٹ کی کمپنی ’’پلان بی‘‘ نے 2007 میں اس ناول کے حقوق خریدلیے تاکہ اس پر فلم بنائی جاسکے۔فلم کا مرکزی کردار بھی بریڈ پٹ ہی کررہے ہیں فلم کی ہدایت کاری کے لییمارک فارسٹر سے رابطہ کیا گیاتاہم 2009 میں میتھیو کارناہان سے رابطہ کیاگیا اور اسے فلم کا سکرپٹ نئے سرے سے لکھنے کو کہا گیا جس کے بعد 2011 میں جاکر کہیں فلم کی عکاسی کا کام شروع ہوسکا۔

فلم کی شوٹنگ مالٹا ، گلاسگو اور بڈاپسٹ سمیت دنیا کے کئی شہروں میں ہوئی۔فلم کی ریلیز کی تاریخ 2012 رکھی گئی تاہم پروڈکشن اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ لیٹ ہوتی رہی۔ اس کے بعد فلم میں مزید خرابیاں سامنے آئیں اور عملہ دوبارہ بڈاپسٹ پہنچا اور بہت سے مناظر کی دوبارہ شوٹنگ کی گئی۔ اس کے بعد پھر تاخیر ہوئی اور فلم کے تیسرے ایکٹ کی تحریر کے لیے ڈامن لنڈے لوف کی خدمات حاصل کی گئیںتاہم وہ بھی مقررہ وقت میں سکرپٹ مکمل نہ کرسکا اور اس کے لیے رائٹر ڈریو گوڈرڈ کو لیا گیا اور یوں اکتوبر 2012 میں دوبارہ شوٹنگ ہوئی۔ اس طرح فلم جون 2013  میں ریلیز ہوسکی۔

فلم کا پریمیئر دوجون 2013 کو لندن میں ہوا اور اس کے بعد یہ ان فلموں میں شامل ہوئی جن سے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آغاز ہوا۔اکیس جون کو فلم امریکہ میں ریلیز کی گئی ۔ فلم پر 190 ملین ڈالر (19 کروڑ ڈالر)کی لاگت آئی لیکن اس نے ریکارڈ 540 ملین ڈالر(54 کروڑ ڈالر) کمائے۔ فلموں کو فنی لحاظ سے بھی بہت معیاری قرار دیا گیا اور اس کے لیے مثبت تجزیے سامنے آئے۔فلم کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اگلا سیکوئیل تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو بعدازاں فلمسازی کے دوران مشکلات کے باعث منسوخ کردیا گیا لیکن اب یہ دوبارہ تیاری کے مراحل میں ہے۔فلم کی کہانی بہت دلچسپ ہے اوراس میں پوری دنیا کی منظر کشی کی گئی ہے۔

فلم کا مرکزی کردار اقوام متحدہ کا سابق ملازم گیری لین (بریڈ پٹ) ہے۔ فلم کا افتتاحی منظر کچھ یوں ہے کہ گیری، اس کی بیوی کیرن اور دو بیٹیاں فلاڈیلفیا کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیںجب اچانک شہر پر زندہ لاشیں حملہ کردیتی ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک افراتفری پھیل جاتی ہے اور گیری لین اور اس کی فیملی نیوجرسی کے شہر نیوآرک کی طرف فرار ہونے لگتے ہیں اور وہاں ایک اپارٹمنٹ میںچھپ جاتے ہیں۔ اس گھر میں ایک جوڑا اور ان کا نوجوان لڑکا ٹومی رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھیری اومٹونی جو کہ گیری کا ایک پرانا دوست ہے، ان کی مدد کے لیے ایک ہیلی کاپٹر بھیجتا ہے جو گیری کے خاندان اور ٹومی کو وہاں سے نکال لیتا ہے۔

انہیں بحراوقیانوس میں واقع امریکی بحریہ کے ایک جہاز میں سوارکرادیا جاتا ہے جس میں سائنس دان اور فوجی افسران دنیا بھر میں پھیلی اس بیماری کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہے ہیں جس سے لوگ زندہ لاشوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ایک ڈاکٹر اینڈریو بتاتا ہے کہ بیماری کی وجہ ایک وائرس ہے جو دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ وائرس کے خلاف ویکسین تبھی تیار کی جاسکتی ہے جب وائرس کے ماخذ کا پتہ چل جائے ۔گیری ہچکچاہٹ کے ساتھ اس بات پر تیار ہوجاتا ہے کہ وہ بیماری کا ماخذ جاننے کے لیے ڈاکٹر اینڈریو کی مدد کرے گا کیونکہ اسے دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اسے اور اس کے بیوی بچوں کو جہاز پر سے اتار دیا جائے گا۔

گیری اور ڈاکٹر اینڈریو جنوبی کوریا میں واقع امریکی فوج اڈے کیمپ ہمفریز پہنچتے ہیں جہاں پہنچتے ہی زندہ لاشیں ان پر حملہ کردیتی ہیں۔وہ واپس جہاز پر سوار ہونے کے لیے بھاگتے ہیںتاہم ڈاکٹر اینڈریو کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ گرپڑتا ہے۔ زندہ لاشوں کے ہاتھوں مرنے کے خوف سے وہ خود پر گولی چلا کر اپنے آپ کو مارڈالتا ہے۔کیپٹن سپیک کی قیادت میں باقی فوجی گیری کوبچالیتے ہیں۔گیری کو پتہ چلتا ہے کہ فوجی اڈے پر موجود ڈاکٹر نے یہ بیماری متعارف کرائی ہے جسے ایک فوجی جلا کر ختم کردیتا ہے تاہم وہ خود بھی زخمی ہوکر اس وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔انہیں پتہ چلتا ہے کہ وائرس ایک عالمگیر وبا بن چکا ہے اور دنیا بھر کے انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ایک قیامت کا ماحول برپا ہوچکا ہے۔

فوجی اڈے پر سی آئی اے کا ایک سابق کارکن قید ہے جو گیری کو بتاتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یروشلم (بیت المقدس) میں ایک سیف زون بنایا ہوا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اسرائیلی ایجنسی بیماری کے بارے میں باخبر تھی اور اس نے پہلے ہی یہ سیف زون بنالیا تھا۔وہ اسے کہتا ہے کہ وہ اسرائیل جائے اور بیماری کے ماخذ کے بارے میں معلوم کر ے۔گیری اور اس کی ٹیم موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر ہوائی جہاز کی طرف بھاگتی ہے لیکن زندہ لاشیں ان پر حملہ کردیتی ہیں اور کئی فوجیوں کو ہلاک کردیتی ہیں۔ ان کے حملے میں کیپٹن سپیک وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے اور خودکشی کرلیتا ہے۔گیری اور اس کے ساتھی ہوائی جہاز پر فرار ہوجاتے ہیں۔

بیت المقدس میں گیری کی ملاقات اسرائیلی موساد کے سربراہ جرگن وارم برن سے ہوتی ہے جو اسے بتاتا ہے کہ کئی ماہ قبل انہوں نے بھارتی فوج کی جانب سے بھیجے جانے والے ایک خفیہ پیغام کے بارے میں پتہ چلایا تھا جس میں بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی ’’زندہ لاشوں‘‘سے جنگ کررہے ہیں۔اس پر اسرائیل نے بیت المقدس کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار تعمیر کرلی تھی اور اپنی زیادہ تر آبادی کو اس دیوار کے حصار میں لاکر محفوظ کرلیا تھا۔وہ اسے یہ دیوار دکھاتا ہے جو بہت موٹی اور مضبوط ہے۔دیوار کے اگلی طرف لاکھوں انسان زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہاں پر گیری دیکھتا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ مختلف گروہوں میں جمع ہوکر اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں مشغول ہیں کہ خدا انہیں اس آفت سے بچائے۔

لوگوں کی عبادت کا شور اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ دیوار کے پار موجود زندہ لاشوں کو ان کی خبر ہوجاتی ہے اور وہ دیوہیکل دیوار کو پھلانگ کر اندر آنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یوں لاکھوں کی تعداد میں زندہ لاشیں یروشلم میں داخل ہوجاتی ہے اور صحت مند لوگوں کو شکار کرنے لگتی ہیں۔ جرگن اسرائیلی فوجیوں کو گیری کو ہوائی جہاز میں بٹھانے کا حکم دیتا ہے۔راستے میں گیری دیکھتا ہے کہ زندہ لاشیں ایک بیماربوڑھے شخص اور ایک دبلے پتلے لڑکے پر حملہ نہیں کررہیں۔ کچھ ہی دیر بعد گیری کے ساتھ موجود ایک خاتون اسرائیل فوجی ’’سیگن‘‘ کو ایک زندہ لاش زخمی کردیتی ہے اور اس کے بازو پر کاٹ لیتی ہے ۔ گیری فوری طورپر اس کا متاثرہ ہاتھ کاٹ دیتا ہے تاکہ انفیکشن اس کے پورے جسم میں پھیل کر اسے زندہ لاش میں نہ تبدیل کردے۔گیری اور سیگن ایک کمرشل ہوائی جہاز میں سوار ہوکر وہاں سے فرار ہوجاتے ہیں جبکہ زندہ لاشیں پورے اسرائیل میں پھیل جاتی ہیں۔

گیری ، تھیری سے رابطہ کرتا ہے اور ہوائی جہاز کو ویلز میں واقع عالمی ادارہ صحت کے ایک دفتر کی طرف موڑ لیا جاتا ہے۔جہاز ہوا میں ہی ہوتا ہے کہ اس میں چھپی ہوئی ایک زندہ لاش مسافروں پر حملہ کردیتی ہے۔ جہاز میں بہت سے مسافر زندہ لاشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس پر گیری ان پر دستی بم سے حملہ کردیتا ہے اور یوں عین منزل کے قریب جہاز کریش ہوجاتا ہے۔گیری اور سیگن زخمی ہوجاتے ہیں۔وہ عالمی ادارہ صحت کے دفتر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔گیری بے ہوش ہوجاتا ہے اور تین دن بعد ہوش میں آتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ دفتر کے عملے کو زندہ لاشوں کے بارے میں اپنے مشاہدات کے بارے میں بتاتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس نے مشاہدہ کیا ہے کہ زندہ لاشیں زخمی اور بیمار افراد پر حملہ نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان کے وائرس کو پھیلانے کے لیے موزوں ’’میزبان‘‘ نہیں ہوتے۔

گیری مشورہ دیتا ہے کہ اس مشاہدے کی تصدیق کے لیے وہاں پرموجود کسی شخص کو جان بوجھ کر وائرس سے متاثرکیا جائے لیکن وائرس کی شیشیاں جس جگہ پر رکھی ہیں وہاں پہلے ہی زندہ لاشیں گھوم رہی ہیں۔گیری ، سیگن اور ایک سرکردہ ڈاکٹر شیشیاں حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں لیکن راستے میں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔گیری اس جگہ پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں شیشیاں رکھی ہیں جبکہ سیگن اور ڈاکٹر واپس مرکزی عمارت میں چلے جاتے ہیں۔زندہ لاشیں گیری کوگھیر لیتی ہیں لیکن وہ اپنے جسم میں وائرس کو انجیکٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اوراس کے بعد زندہ لاشیں اسے کچھ نہیں کہتیں اور یوں اس کے مشاہدے اور نظریے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔وہ جب واپس عملے میں پہنچتا ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔اس طرح وہ وائرس کا علاج ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

زومبی کیا ہے؟
اس قسم کی فلموں میں دکھائی جانے والی زندہ لاشوں کو انگریزی میں ’’زومبی‘‘ کہا جاتا ہے۔زومبی کا تصور لٹریچر میں کہاں سے آیا؟ سینہ بہ سینہ کہانیوں کے مطابق افریقہ کے قدیم قبائل میں جادو کے ذریعے مردہ انسانوں کو زندہ کردیا جاتا تھا اور اس کے بعد ان زندہ مردوں یا undead کو جادوگر اپنی مرضی سے استعمال کرتا تھا۔

اس طرح مغربی افریقہ کے ایک عقیدے کے مطابق جادو کے ذریعے مردہ لوگوں کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔ اس جادو کو ’’ووڈو‘‘کہا جاتا ہے۔ اس طرح زندہ کیے جانے والے مردے اس ساحر کے کنٹرول میں آجاتے ہیں جو ان کو زندہ کرتا ہے۔انگریزی میں زومبی کا تصور انہی افریقی ماخذات سے آیا۔ ان پر لاتعداد کہانیاں لکھی جاچکی اور فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔

اسلام یا سیکولرازم : ترکی کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہوگا؟

$
0
0

90برس قبل ایشیا اور یورپ کے مشترکہ ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کو مصطفی کمال اتا ترک کی شکل میں ایک نجات دہندہ ملا۔

مرحوم نے مذہب کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہوئے اس سے نجات اور سیکولرازم کا تریاق دے کر مرد بیمار کے معالجے کی ایک کوشش کی۔ انہی خیالات کی بناء پرانہوں نے ملک کو سیکولر پہچان دینے کے لیے ایسے فیصلے بھی کردیے جس کی جرأت ماضی کی بادشاہتوں میں کسی حاکم وقت کو بھی نہیں ہو پائی تھی۔

مصطفی کمال نے جب ’ مردِ بیمار‘ کے معالجے کے لیے اسلامی اقدار پرنشتر زنی کی تواس وقت ملک کثیرالقومی ریاست تھا۔ ترک، آذر، ازبک، البانوی، تاتاری، چیچن، جارجین، آرمینین،بوسنیائی، کرد، عرب، تاجک ، بلغارین ، یونانی، قبرصی، ایشیائی اور یورپی قوموں کا ایک ملغوبہ تھا۔ترکوں کے بابائے اعظم نے ان تمام اقوام کو ایک خاندان میں ڈھالنے کا خواب دیکھا، جس کے لیے انھیں صرف سیکولر نظام حکومت ہی پہلا اور آخری حل نظرآیا۔1923ء میں جب انہوں نے ری پبلیکن پارٹی کی حکومت قائم کی انہیں اندازہ ہوا کہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے اس کثیرالقومی چربے کویکجا کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

چونکہ مذکورہ تمام اقوام خلافت عثمانیہ کے دور سے ترکی کے سماجی دھارے کا حصہ بن چکی تھیں اس لیے سیکولر نظام ان سب کے لیے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ مصطفی کمال اتاترک کا سیکولرازم اپنی تمام ترجدت سامانیوں کے علی الرغم جمہوری استبدادیت بن کر رہ گیا۔ ملک میں بسنے والے عیسائیوں اور دیگراہلِ مذاہب نے بھی کمالی سیکولرازم کوآمرانہ نظام حکومت قرار دے کر اس کے خلاف تحریکیں شروع کردیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اتاترک نے نہ صرف اسلامی اقدار پر پابندی عائد کردی تھی بلکہ اس جمہوری استبدادیت کی زد عیسائیوں اور دیگر اہلِ مذاہب کی مذہبی آزادی پربھی پڑ رہی تھی۔

مصطفی کمال کی قائم کردہ ریپبلکن پارٹی 1950ء تک ریاست کے سیاہ سفید کی مالک تھی۔ جوطبقے خلافت عثمانیہ کے دور میں خلیفہ کے فیصلوں سے تنگ تھے، اب وہ ری پبلیلکن پارٹی سے بھی نالاں ہونے لگے تھے۔ خود پارٹی کے اندر ایک بھونچال تھا، نتیجہ پارٹی کی پھوٹ کی صورت میں نکلا۔ پارٹی کے ایک زیرک رہ نما عدنان مندریس نے بغاوت کرتے ہوئے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرلی۔ عدنان مندریس کی بغاوت اتا ترک کے نافذ کردہ نظام حکومت کی مربوط کڑی کا وہ پہلا دانہ تھا جس کے بعد آج تک اس میں سے دانے مسلسل گر رہے ہیں۔

جدید ترکی بہت بدل چکا ہے۔ جہاں اب مذہب اور سیکولر نظام میں فیصلہ کن جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ترکی کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ملک ایک مذہبی ریاست کی جانب بڑھ رہا ہے؟ کیاترکوںکی خوئے خلافت اور جہاں بانی ایک مرتبہ پھر سے جاگ رہی ہے؟ یا یہ سب وقتی سیاسی تبدیلی ہے اور ترکی کی متحدہ اقوام کمالی فلسفے کو دل جان سے لگائے رکھیں گی؟ یہ سوالات ان دنوں ترک لٹریچر کا حصہ ہیں۔ انہی موضوعات پر کتب شائع ہو رہی ہیں اور طلباء ان پر تعلیمی مقالے لکھ رہے ہیں۔

مصرکی جامعہ الازھر سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے جرمن مستشرق ڈاکٹر رائر ہیرمن (Raier Hermann) کی تازہ کتاب’’ترکی سول سٹیٹ سے مذہبی ریاست تک‘‘ میں ترکی کے سیاسی مستقبل کے خدوخال کے بارے میں تقریباً انہی سوالات کے جوابات کے ساتھ ایسے تہلکہ خیز تجزیات اور حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’مصطفی کمال اتاترک نے سیاست اور سماج کو مذہب سے الگ کرنے کا ایک ایسا نامعقول اقدام کیا جس کے نتائج توقع کے برعکس نکلے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ترکی میں موجود اقوام کو سیکولرازم کے ذریعے اپنا’’سسرالی‘‘ خاندان بنا لیں گے مگر ان کے وضع کردہ نظام کو اس وقت کاری ضرب لگی جب ان کی اپنی جماعت’ری پبلیکن‘ کے اندر سے کمالی نظام کے خلاف آواز اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ توانا آواز سابق مصلوب وزیراعظم علی عدنان ارتکین مندریس تھے ،جنہوں نے مصطفی کمال کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔

تاہم کمال مذہب کو سیاست کی افیون قرار دینے والے اتا ترک ریاستی معاملات میں فوجی سیاست کی ایسی لت ڈال چکے تھے کہ اب فوج کے منہ کو لگی سیاست کسی طورپر چھٹ نہیں رہی تھی۔ فوج کسی قیمت پر کمالی سیکولرنظام میں تبدیلی کی روادار نہیں تھی۔ فوج کے خیال میں مندریس کی بغاوت کے بعد ان کی سیاست میں کی گئی اصلاحات مذہب کو سیاست میں لانے کی کوشش تھی ۔ اس کی سزا کے طورپر1960ء میں فوج نے ایک بڑی غلطی کرتے ہوئے مندریس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ آج اگر فو ج کو سیاست سے بے دخل کردیا گیا ہے تو اس میں ایک بڑا کردار خود فوج کے ماضی کا بھی ہے‘‘۔

سترہ سال تک استنبول میں رہنے والے جرمن مصنف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ عدنان مندریس کی پھانسی ترک سیاسی نظام میں تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا۔ چونکہ وہ اپنے دور میں اتاترک کی اسلامی روایات پر عائد بہت سی پابندیوں کو کالعدم قرار دے کرانہیں کسی حد تک آئینی تحفظ بھی دلا چکے تھے، اس لیے فوج کو ان تمام تبدیلیوں کوبیک جنبش قلم ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ فوج نے انہیں پھانسی پرلٹکا تو دیا مگرمندریس کے اقدامات نے اسلام پسند حلقوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کے نتیجے میں ملک کے دانشور طبقے کے ترجمان پروفیسر نجم الدین اربکان نے 1969ء میں نظام پارٹی کی داغ بیل ڈال کرسیاسی تالاب میں ایک نیا ارتعاش پیدا کردیا۔

پروفیسر اربکان کی جماعت مذہبی بنیادوں پرقائم کی گئی تھی، اس لیے فوج کے لیے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ فوجی حکومت نے نظام پارٹی پرپابندی عائد کردی۔ فوج نے ایک دوسری بڑی غلطی ملک کے ایک ہردلعزیز مبلغ سعید نورسی کو ملک بدر کرکے کی۔ اسلام سے کسی حد تک لگاؤ رکھنے والے طبقات کے لیے علامہ نورسی کی ملک بدری ناقابل برداشت ثابت ہوئی، اس کے رد عمل میں پروفیسر اربکان کی سیاست مضبوط ہونے لگی۔ آج جوکچھ ترکی کی سیاست میں دیکھا جا رہا ہے وہ فوج کی انہی غلطیوں کا ایک رد عمل ہے۔ جب تک فوج اپنی ڈھٹائی اور من مانی پر تلی رہی مصطفی کمال کا نافذ کردہ سیکولر نظام بھی معاشی ترقی کا موجب نہ بن سکا، جب عوام کو اپنی مرضی کے مطابق سیاست کے اہل لوگوں کو منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو معاشی ترقی چوکڑیاں بھرتی آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال سے صاف لگ رہا ہے کہ کمالی فلسفے کے تحت بنائی گئی سیکولرزم کی معجون اب زائد المیعاد ہوچکی ہے‘‘۔

ایک مصری محقق محمد صادق اسماعیل کی کتاب’’اتا ترک سے اردگان تک…ترکی کا سیاسی تجربہ‘‘ میں بھی ملک میں آنے والے پے درپے سیاسی انقلابات اور مستقبل کے سیاسی نقشہ راہ پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے مصنف کاماننا ہے کہ ’’ترک عوام پاپائے اعظم کمال اتا ترک کے نظام کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ان کی باقیات حتیٰ کہ فوج بھی اب بخوبی سمجھ چکی ہے کہ ریاست کا مستقبل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘‘۔

اسماعیل صادق کتاب کے باب نمبر پانچ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بات بہت سے ترکوں کے لیے ناگوار ہو کہ ترکی ایک مذہبی ریاست بننے جا رہا ہے، لیکن یہ امر ایک مسلمہ حقیقت کا روپ دھارچکاہے۔ عدنان مندریس کے بعد سیکولرطبقات کو سیاسی میدان میں سوائے شکست کے کچھ نہیں ملا‘‘۔ سیاسی تبدیلیوں کے محرکات کے بعد انہوں نے موجودہ حکمران جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ کے اقدامات اور اس کے دور میں ہونے والی ترقی کا سیکولر دور کے ساتھ ایک تقابل کیا ہے۔

تقابلی جائزے میں وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ کمال اتا ترک ملک کو ترقی کے بام عروج تک پہنچانے کا خواب دیکھ رہے تھے، صرف اسی مقصد کے لیے انہوں نے ملک کو مذہبی سیاست سے آزاد کرنے کی ٹھانی، لیکن مرحوم کے جانشین حتیٰ کہ ان کا اپنا نافذ کردہ نظام پوری طرح ناکام رہا۔ ملک کی معاشی ترقی کا وہ خواب اسلام پسندوں نے شرمندہ تعبیر کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ترکی کو ایک طاقتور ریاست بنانے کی صلاحیت صرف ان میں ہے۔ ان کے سیکولرسیاسی حریف اپنے اندر ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسماعیل صادق افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اچھا ہوتا کہ سیکولر جماعتیں بالخصوص کمالی نظام کے پیروکار اپنے اندرسیاسی بالغ نظری کے ساتھ کوئی طیب اردگان پیدا کرسکتے‘‘۔

ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اسماعیل صادق کا تجزیہ ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان اور صدرعبداللہ گل کی جسٹس پارٹی تھوڑی سی مزید وسعت نظرپیدا کرے تو وہ آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ اگر جسٹس پارٹی پارلیمان میں دو تہائی اکثریتی جماعت بن گئی تو فوج اور سیکولر طبقات کے لیے یہ بری خبر ہوگی۔ خدشہ ہے کہ فوج ایک مرتبہ پھر اپنے دانت تیز کرنا شروع کردے گی کیونکہ فوج ترکی کو ایک کمزور معاشی ملک کے طورپر گوارا کرسکتی ہے مگر مذہبی ریاست چاہے وہ کتنی ہی معاشی طورپر مضبوط ہو قابل قبول نہیں ہوگی۔

العربیہ ٹی وی چینل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ترک پارلیمنٹ میں اسلامی قوانین کی منظوری اور غیراسلامی دفعات کے خاتمے کے لیے جو لچک آج دیکھی جا رہی ہے پچھلے نوے سال میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔
اس لچک کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوے سال کے بعد ترک پارلیمنٹ مشرف بہ حجاب ہوئی ہے۔ 1999ء میں فضیلت پارٹی کی مروہ قاؤجی حجاب اوڑھ کرایوان میں آئیں تو اس وقت کے وزیراعظم بلند ایجوت نے انہیں نہ صرف پارلیمنٹ سے نکال دیا بلکہ ملک بدر بھی کردیا گیا۔ جس کے بعد مروہ امریکا چلی گئیں۔

آج بھی وہی پارلیمنٹ ہے لیکن ری پبلیکن پارٹی نے خواتین ارکان کے سکارف اوڑھنے پر رسمی احتجاج ضرور کیا ہے لیکن انہوں نے بھی مان لیا ہے کہ حالات تیزی سے حکمران جماعت کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔ فوج اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے کہ اب پارلیمنٹ ملک کا ایک مضبوط اور بالادست ادارہ ہے وہ اپنی حدوں میں رہتے ہوئے خود کو دفاع تک محدود رکھے گی۔ تاہم فوج میں ایسے عناصرموجود ہیں جو بیرونی اشاروں اور نادیدہ قوتوں کی مدد سے انتشار پھیلا سکتے ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ترکی کو طیب اردگان اور عبداللہ گل جیسے لوگوں کے ہاتھوں ایک مذہبی ریاست بنتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔

اسلام پسند قابل اعتماد کیوں؟
کتاب ’’اتا ترک سے اردوگان تک‘‘ کے مصنف آخر میں اعتراف کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی، خارجہ اور دفاع کی تین بڑی پالیسیوں میں جو کامیابی جسٹس پارٹی اور وزیراعظم طیب اردوگان کو ملی ہے وہ عوام کے اعتماد کا نتیجہ ہے لیکن قوم نے جسٹس پارٹی پر اعتماد اس لیے کیا کہ اردگان اور ان کے ساتھیوں نے انتخابی مہمات میں جو نعرے لگائے تھے ان سے بڑھ کر وہ عوامی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ انہوں نے ترکی کا عالمی اور علاقائی سفارتی وسیاسی کردار بحال کیا۔

گوکہ یورپی یونین کی رکنیت تو نہیں مل سکی مگر یورپ کے سوئٹرزلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں ملک کو کھڑا کردیا۔ تیسری کامیابی دفاعی میدان میں ہوئی ۔ سیکولر نظام کے باوجود ترک عوام دلی طورپر فلسطینیوں سے بے حد ہمدردی اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ جسٹس پارٹی نے عوام کے اسرائیل مخالف جذبات سے بھی بھرپور استفادہ کیا ۔اسلام پسندوں نے اسرائیل اور فلسطینی ’’فیکٹر‘‘ بارے عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے دفاعی پالیسی میں جوہری تبدیلیاں کی ہیں۔ اسرائیل اور یورپ سمیت تمام ملکوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں برابری کی سطح پربات کا ڈھنگ اختیار کرکے عوام کو مزید حوصلہ دیا ہے۔

جہاں تک معاشی ترقی کا معاملہ ہے تو اس میدان میں بھی اسلام پسندوں نے معجزاتی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ 2005ء سے قبل ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کا سالانہ حجم صرف ایک ارب ڈالر تھا جو جسٹس پارٹی کی حکومت بننے کے صرف ایک سال میں نو ارب ڈالر اور دوسرے برس 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ 2005ء میں ترکی میں کام کرنے والی غیرملکی سرمایہ کار کمپنیوں کی کل تعداد 1200تھی لیکن 2006ء میں یہ تعداد 15000سے تجاوز کرگئی، ان میں نصف فرمیں یورپی یونین کی تھیں۔

جسٹس پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں ترکی کے جی ڈی پی کا حجم تاریخ میں پہلی مرتبہ 400 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ جس کے بعد انتہائی مختصر عرصے میں یہ مرد بیمار یورپ کے امیر ترین ملکوں سوئٹرزلینڈ، سویڈن اور بیلجیم کے مدمقابل آن کھڑا ہوا۔ یوں ترکی یورپ کی چھٹی بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ جرمنی اور ترکی دونوں پڑوسی ہونے کے اعتبار سے ایک دوسرے کی درآمدات وبرآمدات کی بڑی مارکیٹیں ہیں لیکن سابقہ حکومتوں کے دور میں دونوں ملکوں میں صرف دس سے پندرہ کروڑ ڈالرکا سامان درآمدات کی مد میں بھیجا جاتا تھا، جسٹس پارٹی کے پہلے دور حکومت میں دو طرفہ تجارت کا حجم 9.1 ارب یورو کی نفسیاتی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ

$
0
0

اسلام آباد: ایران اور عالمی طاقتوں نے 24 نومبرکی صبح تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے حوالے سے جس معاہدے پر اتفاق کیا ہے، اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے ۔

معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر قدغن لگے گی لیکن اس کے بدلے میں ایران پر عاید پابندیوں میں نرمی بھی ہو گی۔ عالمی طاقتوں میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین شامل تھے۔ ایران کے ساتھ چار روز سے زیادہ جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اتوار کی صبح تمت بالخیر اس معاہدے پر ہوئی۔ یہ معاہدہ سوئیزرلینڈ کے شہر جینیوا میں طے پایا۔

معاہدے کے مطابق ایران اعلیٰ افزودہ یورینیئم کی تیاری روک دے گا۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ایران یورینیئم کی افزودگی پانچ فی صد کی سطح تک محدود رکھے گا جب کہ اس کے بدلے میں اس پر عاید عالمی پابندیوں میں قدرے نرمی کر دی جائے گی۔ اس نرمی سے ایران کو کئی قریباً سات بلین کے قریب فائدہ ہوگا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کے بعد غیرملکی بینکوں میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے ایران کو واپس ہو جائیں گے اور دھاتوں، پیٹروکیمیکل اور ہوائی جہازوں کے پروزوں کے شعبے میں بھی اس کے ساتھ دوبارہ تجارت شروع ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایران کو یورینیئم کی افزودگی کے حساس کام پر پیش رفت سے روکا جاسکے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید امریکا ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کردی جائے گی جس سے ایرانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں مدد ملے گی۔

عالمی امریکن کونسل کے صدر ماجد رفیع زادِہ نے العربیہ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے تک پہنچنے میں متعدد عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں اول یہ کہ اوباما انتظامیہ، ایران کے جوہری تنازع سے نمٹنے کے لیے متبادلات پر غور کرنے کو تیار نہیں تھی اور وہ ایران کے خلاف فوجی آپشن کو بھی بروئے کار لانے پر غور کر ہی تھی۔

معاہدے کو گزشتہ ایک دہائی سے جاری تنازع کے حل کے لیے عالمی سطح پر پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے جو تاحال عبوری معاہدہ ہے۔ معاشی تناظر میں عالمی منڈیوں پر اس معاہدے کے فوری اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں دو ڈالر فی بیرل کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان اور آسٹریلیا کے بازار حصص میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ ایران اور مغربی ممالک اعتماد سازی کے لیے کیا کیااقدامات کریں گے۔ مغربی طاقتوں کا ہدف تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکا جائے جب کہ ایران کا موقف تھا کہ اس کے یورینیئم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان موجود اس مسئلے کا جلد حل چاہتے ہیں۔ ان کے عہدہ سنبھالتے ہی عالمی طاقتوں نے تہران کے جوہری تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز تر کر دیا تھا۔

ایران جوہری معاہدہ، عالمی رہ نماؤں کا خیرمقدم، اسرائیل کی سیخ پائی
عالمی رہ نماؤں اور زیادہ تر ممالک کی جانب سے اس معاہدے کو دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب ایک قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے تاہم اسرائیل کی طرف سے اس پر بھی تنقید سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی رہ نماؤں کے مطابق اس معاہدے میں اس بات کی گارنٹی نہیں کہ ایران مستقبل میں ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ عالمی رہ نماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے ’’آج امریکا نے اپنے قریبی اتحادیوں اور پارٹنرز کے ساتھ مل کر ان تحفظات کے جامع حل کی جانب پہلا اہم قدم بڑھایا ہے، جو اسلامک ری پبلک آف ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہیں۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ان الفاظ میں معاہدے کی تعریف کرتے ہیں ’’یہ پہلا قدم ہے اور میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ایران دراصل اس پروگرام کو، جہاں یہ آج ہے، وہاں سے رول بیک کرے گا۔ معاہدہ پروگرام کے عمل درآمد کے وقت کو بڑھائے گا، یہ سب کچھ اس معاہدے کے بغیر ممکن نہ ہوتا، یہ خطے میں ہمارے پارٹنرز کو محفوظ بنائے گا اور (سب سے بڑھ کر) یہ اسرائیل کو محفوظ بنائے گا۔‘‘ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو تلملا رہے ہیں ’’جو کچھ گزشتہ شب جینیوا میں حاصل کیا گیا، وہ تاریخی معاہدہ نہیں ہے (بل کہ) ایک تاریخی غلطی ہے۔

آج دنیا کہیں زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے کیوں کہ دنیا کی خطرناک ترین حکومت نے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار کے حصول کی جانب ایک اہم قدم بڑھا رکھا ہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر خارجہ اویگدر لیبرمن کے الفاظ تو کچھ اور ہیں البتہ تاثر بہت مختلف نہیں ’’یہ معاہدہ ایران کی عظیم ترین سفارتی فتح ہے، جس نے یورینیئم کو افزودہ کرنے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرا لیا ہے۔‘‘ جب کہ ایرانی صدر حسن روحانی فرماتے ہیں ’’یہ معاہدہ تمام علاقائی ممالک اور عالمی امن کے لیے فائدہ مند ہے، مذاکراتی ٹیموں کی تعمیری بات چیت اور ان تھک کوششوں نے نئے افق دکھائے ہیں۔‘‘ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اس معاہدے کے لیے تمام فریقوں کو خراج پیش کرتے ہیں ’’کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا، ہر ایک کی فتح ہوئی ہے، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ نیک نیتی کے ساتھ تعاون کرے گا۔‘‘ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی امکانات کے پیشِ نظر خوش گمانی کا اظہار کرتے ہیں ’’یہ معاہدہ بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی بہ حالی میں معاون ہوگا اور مشرق وْسطیٰ میں امن اور استحکام کا ضامن ہوگا۔‘‘ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ بھی معاہدے کو ان الفاظ میں سراہتے ہیں ’’یہ معاہدہ پوری دنیا کے لیے اچھا ہے، بہ شمول مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ایران کے اپنے عوام کے۔‘‘ فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس کا کہنا ہے۔

’’یہ سمجھوتہ ایران کے سویلین جوہری توانائی کے حق کی تصدیق کرتا ہے مگر اس کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی نفی کرتا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے ایک طرح سے خبردار کرتے ہیں ’’ہمیں آئندہ مہینوں کو باہمی اعتماد کی فضاء قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس معاہدے کو شفاف اور قابلِ تصدیق انداز سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ جرمنی ’پی فائیو پلس وَن‘ گروپ کا حصہ ہے جس میں اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ’’یہ مشرقِ وسطیٰ کے عوام اور اقوام کے لیے تاریخی موقع ہے۔‘‘

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے وضاحت کی ’’یہ عبوری معاہدہ مستقبل میں مزید بہتری کے لیے حالات ساز گار کرے گا۔ صدر روحانی کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ایرانی مذاکرات کاروں کو دیگر ممالک کے بے جا مطالبات کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔‘‘

اسرائیل کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کی امریکی کوشش
امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے واشنگٹن اور یروشلم حکومتوں کے تعلقات پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ یہ بات انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے تناظر میں کہی جس میں انہوں نے اس معاہدے کو ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اوباما نے معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات بھی کی۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس ٹیلی فونک گفت گو سے متعلق ایک بیان بھی جاری کیا جس کے مطابق اوباما نے زور دیا کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوطی سے قائم رکھے گا۔ اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایران کے ارادوں پر اسرائی لا شک کچھ جائز بھی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق اوباما نے تصدیق کی کہ وہ جامع حل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی کوششوں کے تناظر میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان مشاورت کا عمل فوری طور پر شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔‘‘

معاہدے کے خدوخال
ٌایران، یورینیم کی پانچ فی صد سے زیادہ افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک ٌافزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔
ٌ آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا۔

ٌ جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی۔
ٌ ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
ٌ قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عاید کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔

ٌ ایران کی تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی، جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا، اس کے بدلے امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اسے محدود اور عارضی ریلیف فراہم کریں گے لیکن تیل کی برآمد، بینکاری اور معاشیات پر تعزیرات برقرار رہیں گے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ چھے ماہ کے لیے ابتدائی معاہدہ ہے، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو بڑی حد تک محدود کرنا، اس کی یورینیئم افزودہ کرنے کی صلاحیت اور افزودہ یورینیئم کی موجودہ کھیپ، جوہری آلات کی تعداد اور صلاحیتوں کے علاوہ ہتھیاروں کے درجے والی پلوٹینیئم پیدا کرنے کی ایرانی صلاحیت سمیت دیگر اشد ضروری معاملات پر تحفظات دور کرنے کا آغاز شامل ہے۔ واشنگٹن نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت ایران نے جو وعدے کیے ہیں، ان سے ایران کے جوہری پروگرام کی شفافیت بڑھے گی اور اس کی زیادہ قریب سے نگرانی ہوسکے گی۔

معاہدے کا جو مرکزی نکتہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد ایران پر کسی حد تک پابندیاں نرم کی جائیں گی مگر ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے کی پاس داری کررہا ہے ورنہ پابندیاں پھر سے لاگو کردی جائیں گی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کی جانے والی ’فیکٹ شیٹ‘ کے مطابق ایران، پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی فروخت اور قیمتی دھاتوں کی تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کر سکے گا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں ایران کو سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ تیل اور پیٹروکیمیکلز کی فروخت سے حاصل ہونے والے چار ارب بیس کروڑ ڈالر ایران کو صرف اسی صورت میں اقساط میں دیے جائیں گے جب وہ معاہدے کی پاس داری کرتا رہے گا۔

امریکی ٹی وی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دونوں کا ایک ہی مقصد ہے اور ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے حوالے سے یہ معاہدہ پہلا قدم ہے ’’اس معاہدے کے باعث مزید مذاکرات ہوں گے اور ہم مزید سخت شرائط رکھیں گے تاکہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار نہ کر سکے اور اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے اور اسرائیل زیادہ محفوظ ہو گا۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ کانگریس اس معاہدے کے فوائد کو دیکھے گی اور ایران کے خلاف مزید پابندیاں عاید کرنے سے گریز کرے گی جب کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں سے ابتدائی سمجھوتے کو جلد از جلد جامع جوہری معاہدے کی شکل دینے کی کوشش کرے گا۔

ایران میں عوامی جوش و خروش
ایران میں مذاکرات کاروں کی واپسی پر جشن منایا جا رہا ہے اور ایرانی پرچم اور پھول لیے ہجوم نے تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کا استقبال کیا اور انہیں ’’امن کا سفیر‘‘ کہ کر پکارا، لوگوں نے نعرے لگائے، جن میں جنگ، پابندیوں، جھکنے اور توہین کے خلاف نعرے شامل تھے۔

ایران آمد کے بعد ہوائی اڈے پر سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران اس معاہدے کے لیے ضروری اقدامات کے لیے تیار ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’’ہم جو اقدامات کریں گے، وہ اعتماد سازی کے لیے ہوں گے اور انہیں فوری طور پر واپس لیا جاسکتا ہے لیکن یقیناً ہمیں امید ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں ایران میں اتنے بڑے پیمانے پر عوامی دل چسپی کی ایک وجہ اس کے نتیجے میں پابندیوں کا بہ تدریج خاتمہ بھی ہے۔

پاکستان کا موقف
پاکستان نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر تہران اور دنیا کی چھے بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’اہم پیش رفت‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں، میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دیتا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تصادم کی صورت میں ہمارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں قانون ساز اور تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ اس معاہدے سے خطے اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کی امید بندھی ہے۔ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد ایران اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ۔

جس سے آئندہ سال کے اواخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی، ’’جان کیری نے دو باتیں اچھی کی ہیں کہ 2003 میں ایرانی پیش کش کو ضائع کیا گیا جب ان کے پاس 164 سنٹری فیوجز تھے، اب 19 ہزار ہیں اور دوسرے یہ کہ انہوں نے پوچھا کہ اگر معاہدہ نہ کیا جائے تو جنگ کے علاوہ اس کا متبادل کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے مخالفین ’’انتہا پسندانہ‘‘ سوچ رکھتے ہیں، میرے خیال میں ہر ایک کو اپنے نظریاتی تعصبات سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا کہ اس سے علاقائی امن کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں۔‘‘

امریکا، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے وزارئے خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے جینیوا میں طویل مذکرات کے بعد اتوار کو اعلان کیا کہ تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے وہ ابتدائی معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔ دفاعی اور خارجہ امور کے ماہر حسن عسکری رضوی ایران امریکا تعلقات اور عالمی طاقتوں سے اس معاہدے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں ’’اگر یہ تعلقات کشیدہ رہتے ہیں تو ایک تو ایران، پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ غالباً امریکا پاکستان کی سرزمین استعمال کر کے ایران کے خلاف کارروائی کر سکے گا، دوسرا مسئلہ امریکا کی مخالفت کی وجہ سے ایرانی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی الجھا ہوا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نفاذ پر اسلام آباد کو موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ واشگٹن سے کہے کہ اربوں ڈالر کے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق اپنی مخالفت ترک کرے۔ ایران، شام میں بشارالاسد حکومت کی حمایت کرتا ہے اور پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی کام یابی اور معاہدے پر اتفاق کے بعد تہران اور دمشق کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جارحیت کے امکانات میں کمی بھی ممکن ہے۔ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے کہا ’’ایران اب نئے معاہدے کے بعد 5 فی صد تک یورینیئم افزودہ کر سکے گا، اب وہ اس سے صرف بجلی ہی بنا سکے گا، ایران کے عالمی طاقتوں سے معاہدے کے بعد اسرائیل کی ’’تکلیف‘‘ ختم ہو جائے گی، اسے ایرانی ایٹمی ہتھیاروں سے خوف تھا، ایران ایٹمی ری ایکٹر سے بجلی بناتا رہے تو اس پر اسرائیل کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

موجودہ معاہدے کے بعد ایران ایٹمی اسلحہ نہیں بنا سکے گا۔ ایران نے چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ یورینیئم افزدہ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے اپنا جوہری پروگرام عملاً ختم کر دیا ہے۔ اگر یورینیئم کی افزودگی نہیں ہو گی تو پھر ایٹمی ہتھیار بنا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان نے جو بھی ہتھیار بنائے ہیں، وہ خطرات کو سامنے رکھ کر بنائے ہیں۔ پاکستان اقتصادی طاقت بنے گا لیکن اس نے ہتھیاروں کے حوالے سے کبھی ورلڈ پاور بننے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کو علم ہے کہ اسے کہاں سے، کہاں تک خطرہ ہے۔ ایران کا عالمی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی توانائی کے حوالے سے خاصا مشکل معاہدہ ہے، آئندہ چھے ماہ میں ایران یورینیئم کے تمام ذخائر تلف کر دے گا اور یورینیئم کی افزودگی بھی نہیں کرے گا تو پھر ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اگر ایران کو یورینیئم افزدہ کرنے کی سرے سے اجازت ہی نہیں تو پھر پاور پروگرام بھی ختم ہو گیا۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ توازن اس بنیاد پر منحصر ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام کس نوعیت کا ہے، ہم نے جو بھی ہتھیار بنائے ہیں وہ خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے، ہم نے کبھی کوشش نہیں کہ 4000 یا 5000 کلو میٹر رینج کے میزائل بنائیں اور ان کو ٹیسٹ کر دکھائیں تاکہ ہمارا دنیا میں کوئی سٹیٹس بن جائے کہ ہم ورلڈ پاور ہیں، ہم نے ورلڈ پاور بننے کی کوشش کبھی ہتھیاروں کے بل پر نہیں کی، ہم چاہیں گے کہ ہم اقتصادی طاقت بنیں، ہم نے ہتھیاروں کے لحاظ سے اپنا پروگرام اس حد تک محدود رکھا ہے کہ جو ہماری ضروریات ہیں اور جو ہمیں خطرہ ہے وہ ہمارے علم میں ہے کہ کہاں تک ہے اور کہاں سے ہے۔‘‘

ایران ‘جوہری حق’ پر سمجھوتہ نہیں کرے گا
ایران کے سپریم رہ نما خامنائی نے کہا کہ وہ ایرانی مذاکرات کاروں کے لیے “سرخ لکیر” کا تعین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ان کا ملک جوہری توانائی کے حق سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوگا‘‘۔ آیت اللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا نیا دور جینیوا میں ہورہا تھا۔ مذاکرات کے آغاز سے چند گھنٹے قبل تہران میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم رہ نما نے کہا کہ وہ ایرانی مذاکرات کاروں کے لیے “سرخ لکیر” کا تعین کر رہے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران تمام ممالک بہ شمول امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ معاہدے میں تاخیر کی وجہ ایران کا یہ دعویٰ تھا کہ اسے یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے جب کہ امریکا کے بہ قول یہ دعویٰ غلط تھا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا کہ معاہدے میں اس قسم کی کوئی بات شامل نہیں ہے ’’پہلے مرحلے میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایران کو یرینیئم کی افزودگی کا حق حاصل ہے، اس بارے میں کسی بھی طرح کا کیا جانے والا تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ معاہدے میں شامل نہیں۔‘‘ ایک پریس کانفرنس میں ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے افزودگی پر بڑی گرم جوشی سے بات کی لیکن ان کی باتوں سے ظاہر تھا کہ معاہدے میں ایران کے پروگرام کو تسلیم کیا گیا، نہ کہ اس کے حق کو۔ ظریف کا کہنا تھا کہ ’’ متعدد بار، کم از کم دو مرتبہ واضح انداز میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ایران کے پاس افزودگی کا پروگرام ہوگا اور ہمارا ماننا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے، جس پر ہم عمل کر رہے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس حق کا احترام کیا جائے۔‘‘

امریکا کے پاس موجود معاہدے کے خلاصے کے مطابق، ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے موجود افزودہ یورینیئم کے ذخیرے کو تلف کرے گا، یورینیئم کی کم سطح کی افزودگی کو روکے گا، یورینیئم کو افزودہ کرنے کے لیے سنٹری فیوجز کی تعمیر، تنصیب اور استعمال روکے گا اور پلوٹونیئم پیدا کرنے والے نئے ری ایکٹرکی تعمیر منجمد کر دے گا۔ خلاصے میں کہا گیا کہ ایران نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کی بھرپور اجازت دے گا تاہم ایران کے تیل کی برآمدات اور اس کے معاشی شعبے پر عاید پابندیاں بہ دستور برقرار رہیں گی۔

ماضی کی سپر طاقت کا موقف
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ اس سمجھوتے سے کسی کی شکست نہیں ہوئی بل کہ یہ سب کی جیت ہے جب کہ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ معاہدے سے عالمی جوہری پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور مشرق وسطٰی میں امن و استحکام کا تحفظ ہوگا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لارؤف نے تہران کے جوہری پروگرام پر ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے معاہدے کو سراہا ہے اور زور دیا ہے کہ یہ تمام فریقین کے مفاد میں ہوگا۔ معاہدہ عالمی جوہری توانائی ادارے آئی اے ای اے کی جانب سے وسیع پیمانے پر معائنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے مشرق وسطٰی میں انتہائی درکار اعتماد کو فروغ ملے گا اور جوہری پھیلاؤ کے خدشات کم ہوں گے۔ انہوں نے روسی صحافیوں کو بتایا کہ اب آئی اے ای اے کی جانب سے متعین کردہ حقائق سے ادھر اْدھر ہونا انتہائی مشکل ہوگا۔

روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر قائل ہیں کہ ایران اچھے یقین کے ساتھ ادارے کے ساتھ تعاون کرے گا۔ آئندہ چھے ماہ میں ہونے والے مذاکرات ایران کو پرامن جوہری سرگرمیوں کے لیے درکار پیرا میٹرز کا تعین کریں گے، بالخصوص جوہری پاور اسٹیشنز کے لیے ایندھن کی پیداوار، تحقیقی ری ایکٹرز اور میڈیکل اور دیگر انسانی ضروریات کے لیے آئیسو ٹوپس پیدا کرنے والے ری ایکٹرز کی پیداوار شامل ہے۔ سرگئی لاروف نے اس عرصے کے دوران مغرب کی جانب سے عاید پابندیوں میں نرمی کے فیصلے کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان یک طرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا یک طرفہ پابندیوں کو ہٹا کر ایران پر دباؤ میں کمی کا آغاز درست ہے۔ لاروف نے ایران کے نئے صدر حسن روحانی کے سنجیدہ ارادوں کی تعریف کی، جن کے نتیجے میں معاہدہ ممکن ہوا ہے۔

لاروف کا کہنا تھا کہ ایران میں نئے صدر کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی ہم نے اس معاملے کے حل سے متعلق خواہش کے اعلانات سنے، جن نے سنجیدہ بنیادیں رکھی گئیں۔ وزارت خارجہ نے اپنے غیر معمولی ٹویٹ میں کہا کہ پی فائیو پلس ون اور ایران نے یہ (کارنامہ) کر دیا، اس نے معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا نے اپنے موقع کو نہیں گنوایا۔ چین نے بھی ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر پابندیوں میں نرمی کے بدلے روکنے کے حوالے سے طے پانے والے اہم معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تہران کے ساتھ معاہدے سے مشرق وسطٰی میں امن اور استحکام میں مدد ملے گی۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدر آمد کی راہ ہموار ہو گئی؟
معاہدے کے اگلے دن پیر کو پاکستان ایران کے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی ایران پہنچ گئے۔ وہ ایرانی حکام سے ملاقاتیں کر کے معاہدے کی ڈیڈ لائن میں توسیع اور گیس کی قیمت پر نظرثانی کے حوالے سے بات چیت کرناچاہتے تھے۔ ماہرین کے مطابق معاہدے کے بعد ایران پر سے عالمی پابندیاں ہٹنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے، جس سے خطے کے دیگر معاملات پر جہاں مثبت اثرات مرتب ہوں گے، وہاں ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے سے پاک ایران گیس پائپ لائین منصوبے پر عمل در آمد کی راہ بھی ہم وار ہوجائے گی جو کہ پاکستان کے لیے ایک خوش آئند بات ہو گی۔

پیر کو مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز کی زیر قیادت ایران روانہ ہونے والے وفد میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔ اس حوالے سے حکومتی ذرائع پر امید تھے کہ وزیر پٹرولیم کا دورہ کام یاب ثابت ہو گا اور ایرانی حکومت معاہدے پر عمل در آمد کی آخری تاریخ میں توسیع کے ساتھ ساتھ گیس کے نرخوں پر بھی نظر ثانی کے لیے تیار ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستان 31دسمبر 2013 سے ایران سے گیس خریدنے کا پابند ہے بہ صورت دیگر حکومت پاکستان کو یکم جنوری 2014 سے 30لاکھ ڈالر یومیہ جرمانہ حکومت ایران کو ادا کرنا ہو گا۔

بدلی رُت، انداز بھی بدلے

$
0
0

موسم سرما اپنی خنکیوں کے ساتھ تیزی سے ہواؤں میں گھل رہا ہے۔

بڑھتی سردی ہماری زندگی میں تبدیلیاں لارہی ہے، جس میں سب سے اہم لباس کی تبدیلی ہے۔ سرما کے ملبوسات میں جیکٹس اور کیپ بھی شامل ہیں۔ مختلف رنگوں کی خوش نما جیکٹس اور دیدہ زیب کیپس جسم و جاں کو سرد ہواؤں اور فضا کے برفیلے تیوروں سے تو بچاتی ہی ہیں، ساتھ ہی یہ شخصیت کو دل کش روپ بھی عطا کرتی ہیں۔ انھیں پہننے سے شخصیت جاذبِ نظر ہوتی ہے اور اسے ماڈرن لُک بھی ملتا ہے۔ تو کیوں نہ سرد رُت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی شخصیت کو جیٹ اور کیپ کے ساتھ ایک نیا اور خوب صورت انداز دیا جائے۔

بُک شیلف

$
0
0

’’اجراء‘‘ (ادبی جریدہ)
مدیر: احسن سلیم،ملنے کا پتا: 1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی،صفحات: 576،قیمت: 400 روپے

زیر تبصرہ پرچہ سہ ماہی اجرا کا پندرھواں شمارہ ہے، جس کے دو پہلو قابل ذکر ہیں۔ پہلا؛ تسلسل۔ اور دوسرا؛ منشور کی اشاعت۔ واضح رہے کہ اجرا کے پلیٹ فورم سے ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ کی تحریک شروع کی گئی تھی، جس سے متعلق گذشتہ شماروں میں مضامین بھی شایع ہوئے، اور اداریوں میں بھی اِس کا تذکرہ آیا، مگر چھے نکات پر مشتمل منشور کی اشاعت کے بعد، اب علمی و ادبی حلقے اِس تحریک کی ضرورت اور تقاضوں پر بہتر انداز میں بحث کر سکیں گے۔ اداریے میں احسن سلیم نے ادیب کی ذمے داری، موجودہ مسائل اور عصری تقاضوں پر بات کی ہے۔

گذشتہ چند شماروں کے مانند پرچے کے سرپرست، شاہین نیازی اِس بار بھی غیرحاضر ہیں۔ ’’گفتگو‘‘ کے زیر عنوان شایع ہونے والے اُن کے مضمون کی اب کمی محسوس ہونے لگی ہے۔تخلیقات پر نظر ڈالی جائے، تو شعری حصہ متوازن دکھائی دیتا ہے۔ نظموں کی تعداد 23 ہے۔ غزلیں 45 ہیں۔ سینیرز کے ساتھ نئے شعرا کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ایک حصہ نثری نظموں کے لیے مختص ہے۔ افسانوں کی کُل تعداد 21 ہے۔

کچھ تحریریں قابل ذکر ہیں۔ مثلاً ذکی احمد نے اپنے مضمون میں خدا کے ریاضیاتی تصور کو موضوع بنایا ہے۔ اردو افسانے کے نسوانی لحن پر مرزا حامد بیگ کا مضمون ہے۔ ڈاکٹر ممتازاحمد خان نے مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’صفر سے ایک تک‘‘ اور احسن سلیم کی طویل نظم ’’ست رنگی آنکھیں‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ پروفیسر سلیم بیگ نے بابو رفیق ریواڑوی کے فن پر قلم اٹھایا ہے۔
اسد محمد خان نے پولینڈ کے شاعر، تادیوش روسے وچ کی نظموں کا ترجمہ کیا ہے، جب کہ عاصم بٹ نے بورخیس کے افسانوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔مجموعی طور پر یہ پرچہ قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔ اشاعت کا تسلسل خوش آیند ہے، البتہ تخلیقات کے انتخاب کے معاملے میں بہتری کا امکان موجود ہے، خصوصاً منشور کی اشاعت کے بعد اِس کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔ پرچے میں اشتہارات کی کمی تھوڑی پریشان کن ہے۔

’’عبارت‘‘ (ادبی جریدہ)
مدیر: ڈاکٹر مسرور احمد زئی،صفحات: 432،قیمت: 200 روپے،ناشر: ادارہ انوار ادب، حیدرآباد

کسی بھی زبان کے ادب کی حیات میں ادبی جراید کی اشاعتِ مسلسل کلیدی کردار ادا کرتی ہے کہ اُن کے وسیلے ادب میں تجربات کا امکان پیدا ہوتا ہے، نئے لکھاریوں کی آمد ہوتی ہے، جدید اسلوب متعارف ہوتے ہیں۔

خوش قسمتی سے گذشتہ برسوں میں اردو کے ادبی جراید کی اشاعت میں تیزی آئی ہے۔ حیدرآباد سے نکلنے والا سہ ماہی عبارت بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، جو گذشتہ کئی برس سے شایع ہورہا ہے۔گذشتہ دنوں عبارت کا سال نامہ شایع ہوا، جس کے اداریے میں مستقبل قریب میں اقبال، فیض اور فراز نمبر لانے کا اعلان کیا گیا ہے، جو خوش آیند ہے۔

مندرجات پر نظر ڈالی جائے، تو پروفیسر مختار الدین احمد کے مضمون ’’آٹھویں صدی ہجری کا ایک نام وَر عرب مصنف‘‘ سے سامنا ہوتا ہے، جو صلاح الدین الصفدی سے متعلق ہے۔

’’امیر مینائی کی لغت نویسی اور اصول لغت نویسی ‘‘ پر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے قلم اٹھایا ہے۔ سلسلہ ’’منہاج تنقید‘‘ میں سات مضامین شامل ہیں۔ خاکوں کے لیے مختص حصے میں چار تخلیقات ہیں، جو پروفیسر انوار احمد زئی کے قلم سے نکلی ہیں۔ گوشہ، صابر بدر جعفری سے متعلق ہے، جس میں ان کے فن و شخصیت کی مختلف جہتوں پر مضامین ہیں۔ پرچے میں تین افسانے شامل ہیں۔ شعری حصے میں توازن دکھائی دیتا ہے۔ کاغذ، چھپائی اور قیمت مناسب ہے۔ مجموعی طور پر اِس پرچے میں پڑھنے کے لیے لائق خاصا مواد ہے۔

تناظر (سماجی، ادبی جریدہ)
مدیر: ایم۔خالد فیاض،رابطہ: معرفت آئیڈیل بک سینٹر، ڈاکٹر سرور والی گلی، ریلوے روڈ، گجرات،صفحات: 544،قیمت: 500

ایک جانب بے قیمتی کا المیہ اور مطالعے کا گھٹتا رجحان، دوسری جانب تناظر جیسے ادبی جراید، جن کی آمد سے ادبی منظر پر چھائے غیریقینی کے دبیز بادلوں میں ایک چھوٹا سا شگاف پیدا ہوتا ہے۔ اور کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے۔

گجرات سے نکلنے والے اس پرچے کا مواد معیاری بھی ہے، اور دل چسپ بھی۔ سرورق اِسے ادبی کے ساتھ ایک سماجی جریدہ بھی قرار دیتا ہے، اور مواد اس کی دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے۔ پہلا حصہ سماجی علوم سے متعلق ہے۔ سلسلہ ’’عالمی ادب‘‘ میں تخلیقات بھی ہیں، اور مضامین بھی۔ پابلو نیرودا، جیمز جوائس، موپاساں اور ہوزے سارا ماگو کی تخلیقات اِس حصے کا قد بڑھاتی ہیں۔2012 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازے جانے والے ناول نگار مُویان کا تعارف اور ایک افسانے کا ترجمہ بھی شامل ہے۔

معروف افریقی ادیب، چنوا اچپسے کے فن سے متعلق ایک حصہ مختص ہے۔ ساتھ ہی منٹو اور میرا جی کے فن کو بھی مطالعے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک سلسلہ ’’آپ کے خیال میں‘‘ کے زیرعنوان ہے، جس مین اکیسویں صدی میں اردو ادب کو درپیش چیلینجز کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پڑھنے کے لائق مضامین کے بعد اگر توجہ تخلیقات کی جانب مرکوز کریں، تو نو افسانہ نگاروں، دس نظم گو شعرا اور چودہ غزل گو شعرا سے ملاقات ہوتی ہے۔ سینیرز اور نئے تخلیق کاروں، دونوں کا کلام شامل ہے۔

مجموعی طور پر تناظر ایک مثبت کوشش ہے، جس کے لیے مدیر، ایم۔ خالد فیاض اور ان کی ٹیم داد کی مستحق ہے۔ پرچے کا سرورق بامعنی، طباعت معیاری ہے۔ بس، ایک معاملہ پریشان کن ہے۔ پرچے میں کوئی اشتہار نہیں، جس سے اِس کی زندگی سے متعلق اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔

’’مشین گردی‘‘ (افسانے)
افسانہ نگار: آغا گل،ناشر: ظفر اکیڈمی، کراچی،صفحات: 158،قیمت: 160روپے

اِس کتاب کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ آغا گل کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اِس بلوچستانی فکشن نگار کے ہاں حقیقت نگاری اور کاٹ دار مزاح کا امتزاج، زمین سے جُڑے قصّوں میں نہ صرف پختگی، بلکہ خاص نوع کی سہولت کے ساتھ رچ بس گیا ہے۔

آغا گل بلوچستان کی معاشرت، وہاں کے مسائل کو ’’بلوچستاتی اردو‘‘ میں (جس کی واضح ترین جھلک ہمیں اُن کے ناول ’’بابو‘‘ میں دکھائی دی) گوندھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ بین الاقوامی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔

آغا گل نے ایک بار کہا تھا؛ انسان کو مرنا ہی ہے، تو افسانہ لکھتے ہوئے مرے! تو وہ مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اور وہ ہی کچھ لکھ رہے ہیں، جو لکھنا چاہتے ہیں۔

اب توجہ کتاب پر مرکوز کرتے ہیں۔ یہ مجموعہ چودہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب ممتاز مترجم اور دانش وَر، ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نام ہے۔ حسین شاہد، دیپک بُدکی اور نوید حیدر ہاشمی کے مضامین کتاب میں شامل ہیں۔ بیک فلیپ پر شاعر علی شاعر کی رائے درج ہے۔ آخر میں فرہنگ دی ہوئی ہے، جس میں ناول میں برتے جانے والے ان الفاظ کا ترجمہ دیا گیا ہے، جو اردو پڑھنے والوں کے لیے اجنبی ہیں۔

آغا گل کے دیگر افسانوی مجموعوں کی طرح یہ مجموعہ بھی بلوچستان کے زرخیز خطے، وہاں کی زندگی اور زندگی کا جُزو بن چکے مسائل کے اطراف گھومتا ہے۔ ہر افسانے کا محور بلوچستان ہے، اور ہر افسانے میں آغا گل خود دکھائی دیتے ہیں، مگر اِن عوامل سے افسانوں میں یک سانیت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہی عوامل قاری کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ آغا گل کا گُتھا ہوا، پختہ اسلوب ان کی پہچان ہے، جو اس کتاب میں بھی اپنے عروج پر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آغا گل کو بلوچستانی ادیب کے بجائے ایک اردو تخلیق کار کے طور پر زیر بحث لایا جائے۔

ہند میں اردو (ساتویں صدی سے)
مصنف: محمد احمد سبزواری،پبلشر:Beyond Time پبلی کیشن، کراچی،
صفحات: 228،قیمت: 350روپے

کسی سو سالہ شخص کی کتاب کا منصۂ شہود پر آنا، اِس بات سے قطع نظر کی کتاب کا موضوع اور معیار کیا ہے، ایک حیران کن کارنامہ ہے۔ اردو میں شاید ہی اِس نوع کی کوئی مثال ملے۔ یہ کارنامہ محمد احمد سبزواری نے انجام دیا ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کتاب کا موضوع بھی انتہائی اہم ہے۔ محمد احمد سبزواری معاشیات اور اقتصادیات کے علوم میں سند تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو میں بینکاری کے مضمون لکھنے والے ابتدائی لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ’’اصطلاحاتِ بینکاری‘‘ پر بھی انھوں نے خاصا کام کیا۔

اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آغاز اور اُس کی قدامت کو تاریخ کے توسط سے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو ادب کی قدامت ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ماضی میں بھی کام ہوا، تاہم اِس کی وسعت اور گہرائی کے باعث تحقیق کی ضرورت ہنوز موجود ہے۔ مصنف نے اِس کتاب کو اردو کے ایک فراموش کردہ گوشے کو اجاگر کرنے کی حقیر کوشش سے تعبیر کی ہے۔

ایک زاویے سے ’’ہند میں اردو‘‘ تاریخی، سیاسی اور سماجی حوالوں سے تحقیقی مواد پر مبنی ایسی دستاویز ہے، جو اردو زبان کی ابتدا، ارتقا اور ادبی صورت میں ڈھلنے تک کے احوال پر بحث کرتی ہے۔ مصنف سے فکری اختلاف ہوسکتا ہے، تحقیقی نقطۂ نگاہ سے سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں، مگر سبزواری صاحب کی یہ کوشش ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ ساتھ ہی یہ کوشش دیگر محققین کو بھی اِس پر قلم اٹھانے کی تحریک دیتی ہے۔کتاب کے ابتدائی ڈیڑھ سو صفحات تحقیقی مواد پر مشتمل ہیں۔ اگلے حصے میں مشاہیر کی مصنف کی شخصیت اور فن سے متعلق آرا شامل ہیں۔ کتاب کا سرورق خوب صورت ہے۔ کاغذ اور چھپائی انتہائی معیاری ہے۔ مصنف اور اُن کے اہل خانہ کی تصاویر بھی کتاب میں شامل ہیں۔

راہداری میں گونجتی نظم
شاعر: فہیم شناس کاظمی،ناشر: دنیازاد پبلی کیشنز، بی 155بلاک 5، گلشن اقبال، کراچی
صفحات:325 ،قیمت:300روپے

سچی شاعری پہلے دل میں خون سے تحریر ہوتی ہے، روح پر سلوٹوں کی صورت نقش ہوتی ہے، ذہن وشعور کے خانوں میں پرورش پاتی ہے، پھر کہیں لفظوں کی صورت لے کر صفحات پر اُترتی ہے، ورنہ مانگے تانگے کے خیالات الفاظ میں بھر اور انھیں تیکنیک کے سانچوں میں جڑ کر بس شاعر ہونے کا اعزاز حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فہیم شناس کاظمی کی نظمیں ان کے اندر کی سچائیوں سے پھوٹی ہیں، سو وہی انفرادیت لیے ہوئے ہیں جو سچی شاعری کا خاصہ ہے۔

’’راہداری میں گونجتی نظم‘‘ فہیم شناس کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ غزل روایت کی امین اور اپنا ایک خاص اسلوب رکھتی ہے۔ لفظوں کے ’’خاندان‘‘ سے تیکنیکی شرائط تک یہ پابندیوں کا ایک نظام ہے۔ اس کے مقابلے میں آزاد نظم شاعر کو آزادی کا وسیع میدان تو دیتی ہے، لیکن اس آزادی کے بدلے میں یہ شاعر سے ندرتِ فکر اور لفظ کو نئے معنی دینے کی مشقت بھی طلب کرتی ہے۔ یہ فکری اچھوتا پن اور نومعنویت شاعر کی زندگی اور ذات کی پیچیدگیوں اور گہرائیوں سے جنم لیتے ہیں۔ فہیم شناس کے زیرتبصرہ مجموعے میں شامل نظمیں صاحب کتاب کی زندگی اور ذات کی پرتوں کی عکاسی کر رہی ہیں۔

ان کی نظموں میں فکری تنوع پایا جاتا ہے، جس سے ان کے خیالات اور تصورات کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ حال کے گلی محلوں ہی میں سانسیں نہیں لیتے بل کہ ماضی کے کوچے اور چوبارے بھی ان کی شعری دنیا کا حصہ ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں حال اور ماضی کو جوڑتے اور حال میں ماضی بازیافت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شعری جہتوں سے متعلق ڈاکٹر رشید امجد رقم طراز ہیں،’’فہیم شناس کاظمی کی شاعری کا فکری کینوس بہت وسیع ہے اور ماضی سے حال تک کا سفر طے کرتا۔۔۔۔مسلم زوال کے کئی موڑوں کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظموں کا مواد برصغیر میں مسلم زوال کی تاریخ کے ساتھ اپنی ادبی روایات خصوصاً داستان کی پُرتحیر دنیا سے جنم لیتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ فہیم شناس کی شاعری کا جامع تعارف کرا رہے ہیں۔

کتاب کا خوب صورت سرورق اپنے اندر ان نظموں کی سی گہرائی لیے ہوئے ہے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ تاہم سرورق پر شاعر کا نام شایع نہیں کیا گیا، جو شاید غلطی کے باعث ہوا ہے۔ اچھا شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ ایک قابل مطالعہ کتاب ہے۔

’’زندہ ہے زندگی‘‘ (شعری مجموعہ)
شاعر: احفاظ الرحمٰن،ناشر: شہرزاد، کراچی،صفحات:302،قیمت:400روپے

وہ کون سے عوامل ہیں، جو کتاب کی۔۔۔ادبی کتاب کی۔۔۔۔ قدر و منزلت اور زندگی کا تعین کرتے ہیں؟

سب سے پہلے تو ادبیت، بلاشبہہ۔ پھر مطالعیت کا عنصر۔ پھر جمالیات۔ البتہ ایک اور کلیدی عُنصر ہے، جس کی اہمیت سانحۂ نو گیارہ کے بعد دوچند ہو گئی ہے۔ اور یہ ہے؛ عصری شعور۔

سچ تو یہ ہے کہ عصری شعور ہی وہ باٹ ہے، جو ترازو کے ایک پلڑے میں ہو، تو دوسرے پلڑے میں رکھی بیش تر کتابیں بے وزن ثابت ہوتی ہیں۔ ’’زندہ ہے زندگی‘‘ رواں برسوں میں شایع ہونے والی اُن گنی چنی کتابوں میں سے ہوگی، جنھیں اِس ترازو میں تولا جاسکتا ہے کہ اِس کے اوراق میں عصری شعور دوڑتا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظمیں ایک حساس دل سے نکلی ہیں۔

معروف شاعر، ادیب اور صحافی، احفاظ الرحمٰن کو بڑے احترام اور محبت کے ساتھ متعارف کروایا جاتا ہے، مگر ایک پہلو کا تذکرہ رہ جاتا ہے۔ میرے نزدیک احفاظ الرحمٰن ایک استاد ہیں۔ میدان صحافت کے کئی شہ سوار خود کو، بڑے فخر کے ساتھ، اُن کا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ اُن کی اصول پسندی اور جہد مسلسل کا تذکرہ کرتے ہوئے میدان صحافت و ادب میں اُنھیں قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔

بلاشبہہ، احفاظ الرحمٰن نے عملی جدوجہد کی۔ اور اِسی جدوجہد، اصول پسندی، حق گوئی اور بے باکی نے اُن کی نظموں کو وہ جہت عطا کی، عہد حاضر جس کا متقاضی ہے۔

میرے نزدیک عصری شعور کی حامل، عہد حاضر کے مسائل کا احاطہ کرتی نظمیں، جو ایک دردمند دل کی پکار ہیں، ’’زندہ ہی زندگی‘‘ کا خاصہ ہیں۔ شاعر نے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات، سام راجی ہتھ کنڈوں، ظلم کی مختلف اشکال کے خلاف جدوجہد اور دیگر سیاسی و سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔

دہشت گردی، سام راجی چالیں، ظلم، سیاسی موقع پرستی؛ کیا یہی وہ مسائل نہیں، جنھوں نے ہمیں آج گھیر رکھا ہے۔ یاسیت اور عدم تحفظ کی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردی ہی وہ عفریت ہے، جس کی پھنکار نے اِس خطۂ زمین کو شہر خموشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاست دانوں کو تو رہنے ہی دیں، المیہ یہ ہے کہ اِس خطے کے شاعر، ادیب، دانش وَر — خوف کے باعث یا مصلحت کی وجہ سے ان مسائل پر قلم اٹھانے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ ظالم کو ظالم قرار دینے میں تامل کیا جاتا ہے۔ مظلوم کو مظلوم گرداننا بھی اب ہمیں گوارا نہیں رہا۔ ہم تو ابہام کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے میں ’’زندگی ہے زندگی‘‘ میں شامل نظمیں ہمیں ابہام کے سحر سے جان چھڑا کر حقیقت کو حقیقت کہنے کا پیغام دیتی ہیں، ظالم کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اُس روشن جدوجہد کو بیان کرتی ہیں، جسے ہمیں بُھلا بیٹھے ہیں۔

کتاب میں احفاظ الرحمٰن کے فن سے متعلق پروفیسر سحر انصاری اور فہمیدہ ریاض کے مضامین شامل ہیں، جن میں اِن نظموں کا گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سو کے قریب نظمیں ہیں، جنھیں موضوع کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچواں حصہ تراجم کے لیے مختص ہے، جس میں ہوزے مارتی، جان لینن اور باب ڈیلن کی امیدپرست شاعری کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ آخری حصے میں ’’میں تو سب سے محبت کرتا ہوں‘‘ کے زیر عنوان ایک منفرد نثر پارہ ہے، جسے نوم چومسکی اور البرٹ مائیکل کے مشہور زمانہ ’’زیڈنیٹ میگرین‘‘ کے Creative Section میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس کتاب کے مقام اور قدر و منزلت کا حتمی فیصلہ تو ناقدین اور قارئین کریں گے، البتہ یہاں احفاظ الرحمٰن کے فن سے متعلق اردو شاعری کی دو اہم شخصیت کی رائے درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، جسے میں اپنے اندرون کے قریب تر پاتا ہوں۔

’’زندہ ہی زندگی‘‘ میں شامل نظموں کو تہ داری کی حامل قرار دینے والے پروفیسر سحر انصاری کے بہ قول،’’احفاظ الرحمٰن نے جس اسلوب کی شاعری کی ہے، وہ خمارِ گندم سے نہیں، بلکہ خمارِ انسانیت سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ایک اور جگہ لکھتے ہیں،’’شاعر کا اول و آخر عنوان یہ ہے کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے، ہر قسم کا استحصال، دہشت گردی اور تخریب کاری نیست و نابود ہوجائے۔‘‘

فہمیدہ ریاض، جنھیں احفاظ الرحمٰن کی شاعری میں فیض احمد فیض اور اختر الایمان کی شعری روایات کا انوکھا امتزاج نظر آیا، اُن کے اوریجنل انداز کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں،’’احفاظ الرحمٰن کے ہاتھ میں ایک طاقت وَر قلم ہے، اور اُن کی پُرنم آنکھوں سے ہمارے ادبی اور صحافتی منظر کا کوئی بھی بدصورت پہلو بچ کر نہیں نکل سکتا۔‘‘

آصف فرخی کے ادارے شہرزاد سے شایع ہونے والی اِس کتاب کا سرورق بامعنی ہے۔ کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری ہے۔ کتاب کی ضخامت اور معیار کے پیش نظر قیمت نہایت مناسب ہوتی ہے۔


خون میں ڈوبے دن

$
0
0

1980ء کی دہائی سے دہشت گردی ایک ایسا آسیب بن چکا ہے، جس پر قابو پانا بہت کٹھن دکھائی دیتا ہے۔

تیسری فوجی آمریت کے زمانے میں جڑ پکڑنے والے اس مسئلے نے جہاں اُس زمانے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر، علامہ عارف الحسینی اور ظہورالحسن بھوپالی جیسے سیاسی راہ نمائوں کو نشانہ بنایا، وہیں اس کے بعد سے اب تک ہزاروں کے حساب سے بے گناہ لوگ بھی موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ اس کا عنوان سیاسی اور فرقہ وارانہ رہے، بعد میں لسانیت کا عنصر بھی در آیا۔ بم دھماکوں کے علاوہ، خودکُش حملوں اور ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے سلسلے نے بھی زور پکڑ لیا۔ سیکڑوں مزید مذہبی، سیاسی اور سماجی راہ نما قتل کیے جاتے رہے، جس کی زد میں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز رکھنے والی بے نظیر بھٹو بھی آگئیں۔ سمے کا دھارا بہتا رہا، مگر دھرتی کے اس مرض کا علاج ممکن نہ ہوسکا۔ بیتتے لمحات میں یہ مسئلہ منہ زور ہوتا گیا۔ معاملہ صرف داخلی تو نہ تھا، سرحدوں سے پرے عالمی سام راج کے کھلواڑ سے ہی یہ مسئلہ شروع ہوا اور ناعاقبت اندیش حاکموں نے جسے مہمیز لگایا، پھر نئی صدی میں کچھ اپنے تراشیدہ بتوں کی مسماری کا وقت آیا تو پھر اسی خطے کو ایندھن بنایا گیا۔ نہ جانے وہ برس کب آئے گا، جب ہم اس کے اختتام پر یہ کہہ سکیں کہ یہ برس خیر کے ساتھ گزر گیا۔۔۔

ذرا ٹھہر کر گزرے برس میں بہنے والے لہو کا جائزہ لیں، تو واضح طور پر مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے مختلف سلسلے نظر آتے ہیں۔ کہیں فرقہ ورایت کے شعلے بھڑکتے رہے، کہیں مذہبی شدت پسند ی کی تلوار سل قلم کرتی رہی اور تو کہیں لسانیت کا عفریت پنجے گاڑے خون پیتا رہا۔

 photo Blood_zpscea3f7ad.jpg

٭آبادیوں پر بم حملے

2013ء میں ہونے والی دہشت گردی میں آبادیوں کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے مختلف واقعات پیش آئے، جن میں سے ایک، ایک واقعے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کے ابتدائی دنوں میں ہی 10جنوری کو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 86 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دہشت گردی کے اس الم ناک واقعے کے بعد مرنے والوں کے لواحقین میتیں لے کر احتجاجاً دھرنے پر بیٹھ گئے، ان کے ساتھ پورے ملک میں شیعہ مکتب فکر کے افراد سڑکوں پر آبیٹھے۔ بعدازاں احتجاج کرنے والوں کے مطالبے پر بلوچستان کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 16 فروری کو کوئٹہ میں ایک بار پھر ہزارہ برادری نشانہ بنی۔ واقعے میں 84 افراد جان سے گئے۔ اس کے بعد اسی سال 30 جون کو ہزارہ برادری تیسری بار نشانہ بنی، جس میں 28 زندگیوں کے چراغ گُل ہوگئے۔ 3 مارچ کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں بھی اسی طرح رہایشی علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 50 افراد لقمہ اجل بنے۔

 photo Blood2_zpse0b9cc6b.jpg

٭خیبرپختونخوا کی عبادت گاہوں میں لہو

گذشتہ کئی برسوں کی طرح 2013ء میں بھی دہشت گردی سے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔ دہشت گردوں نے مساجد اور عبادت گاہیں بخشیں اور نہ بازار خیبر پختونخوا میں 2013ء میں مساجد اور عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 150 لوگوں کی زندگی کے چراغ گُل ہوگئے۔ سال کے آغاز پر ہی 10جنوری کو مینگورہ میں مکی مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 25 نمازی جان سے گئے، سال کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ 22 ستمبر کو پیش آیا، جب پشاور کے کوہاٹی چوک میں واقع گرجے میں دو خوف ناک خودکُش دھماکوں میں 80 سے زاید ہلاکتیں ہوئیں۔ 9 مارچ کو پشاور کے مینا بازار سے ملحقہ محلہ باقر شاہ میں نماز ظہر کے دوران مسجد کو ہدف بنایا گیا، پیش امام سمیت 6 افراد اس افسوس ناک واقعے کی نذر ہوگئے۔ 17 مئی کو مالاکنڈ کے گائوں بازدرہ بالا کی دو مساجد دہشت گردوں کا نشانہ بنیں۔ نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع پر ہونے والے یکے بعد دیگرے دھماکوں میں 20 نمازی جاں بحق ہوگئے اور مساجد بھی شہید ہوگئیں۔ 21 جون کو پشاور کی فیصل کالونی جی ٹی روڈ کی مسجد نشانہ بنی، جس میں پولیس اہلکار سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے۔

 photo Blood_zpscea3f7ad.jpg

٭10غیرملکی سیاحوں کا قتل

دہشت گردوں نے غیرملکی مہمانوں کو بھی نہ بخشا۔ 23 جون کو گلگت بلتستان کے علاقے میں نانگا پربت بیس کیمپ میں نصف شب کو اسکائوٹس کی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے 10غیرملکی سیاح اور ایک پاکستانی گائیڈ کو قتل کردیا۔ ان سیاحوں کا تعلق چین، سلواکیہ، امریکا لتھوانیا اور یوکرین سے تعلق تھا۔

 photo Blood3_zps906e61b1.jpg

٭بلوچستان میں خوں ریزی

فرقہ وارانہ بنیادوں اور غیرملکیوں کے علاوہ لسانی بنیادوں پر بھی دہشت گردی کے کچھ افسوس ناک واقعات پیش آئے، جس میں ہلاکتوں کے اعتبار سے سب سے بڑا واقعہ 6 اگست کو پیش آیا، جب بولان کے علاقے مچھ میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی تین مسافر بسوں کے مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان میں سے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان تمام کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس سے قبل 24 فروری کو گوادر میں حملہ آوروں نے مکران کوسٹل ہائی وے پر کام کرنے والے محنت کشوں کو اسی طرح شناخت کے بعد قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماردی تھیں۔ مقتولین کا تعلق بلوچستان کے ضلع ژوب سے تھا۔ اسی طرح 21 اکتوبر کو ڈیرہ مراد جمالی کے قریب پنڈی سے کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی پر بم سے حملہ کیا گیا، جس میں 7 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔

 photo Blood4_zpsef970a5e.jpg

15جون کو کوئٹہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور کاکڑ اور 14طالبات سمیت 22 ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردوں نے خواتین یونیورسٹی کی بس پر دھماکے کے بعد طبی امداد کے لیے اسپتال جانے والے زخمیوں کی موجودگی میں اسپتال کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ اسی دن زیارت میں قومی ورثہ قرار دی گئی قائد اعظم کی رہایش گاہ کو بھی خاکستر کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔

خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی سیکیوریٹی فورسز نشانے پر رہیں۔ 12 مئی کو آئی جی بلوچستان مشتاق احمد سکھیر پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 5 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 23 مئی کو کوئٹہ میں 13 پولیس اہل کار بم حملے کی نذر ہو گئے۔ 27 جولائی کو گوادر میں کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹ پر حملے میں 10 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 2 اکتوبر کو چمن میں باب دوستی پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 2 افغان فوجی اور ایف سی اہل کار سمیت7 افراد لقمۂ اجل بنے۔ اسی دن زلزلے سے متاثرہ آواران میں امدادی کاموں میں مصروف 2 فوجی ریموٹ کنٹرول حملے کی نذر ہوگئے۔

 photo Blood5_zps24b8bcb5.jpg

٭سب سے بڑا صوبہ بھی پرُامن نہ رہا

ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات کی زد میں رہا۔ جس میں سانحۂ بادامی باغ سب سے افسوس ناک واقعہ ہے۔ 9 مارچ کو مبینہ طور پر توہین رسالت کے ایک واقعے کے نتیجے میں لاہور کے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی میں مشتعل افراد نے ایک گرجے سمیت 170 گھروں کو نذر آتش کر دیا، جس کے خلاف اقلیتی برادری نے سخت احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ23 اگست کو پنجاب کا علاقہ بکھر فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں آگیا، جس میں 11 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 6 دسمبر کو لاہور میں ’’اہلسنت والجماعت‘‘ کے مولانا شمس الرحمن معاویہ اور 15 دسمبر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ ناصر عباس دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔

 photo Blood6_zps2bd21bd8.jpg

٭ کوئٹہ دھماکوں سے لرزتا رہا

دہشت گردی کے دیگر واقعات کا اجمالی جائزہ لیں تو کوئٹہ، خضدار اور چمن میں 9 بم دھماکوں میں 41 سے زاید جانیں گئیں، جن میں سب سے بڑا واقعہ 8 اگست کو اس وقت پیش آیا، جب فائرنگ سے جاں بحق ایس ایچ او سٹی محب اللہ دادی کی نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جا رہی تھی کہ ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل اور دیگر افسران سمیت 30 ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ 30 اکتوبر کو کوئٹہ میں بم دھماکے میں 4 افراد کی زندگیوں کے چراغ بجھے۔ 20نومبر کو کوئٹہ اور خضدار میں یکے بعد دیگرے 5 دھماکے ہوئے جس میں 2 جانیں گئیں۔21نومبر کو کوئٹہ اور چمن کے بم دھماکوں نے 5 افراد کی جانیں لیں۔

٭روشنیوں کے شہر میں خوف کے سائے!

عروس البلاد کراچی کو اگر قومی تاریخ کا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تین عشرے قبل خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں جب دہشت گردی کے شعلے بھڑکے، تو اس کی سب سے زیادہ تپش مجموعی طور پر اس شہر نے محسوس کی اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کی صورت حال گنجلک ہوتی چلی گئی۔ 2013ء میں شہر میں ہونے والے بم دھماکوں میں عام لوگوں کے ساتھ، سیکیوریٹی اہل کار، جج اور صحافی بھی نشانہ بنے۔

 photo Blood7_zps7c8bdacf.jpg

براہ راست انتخابی مہم کو بم حملوں میں نشانہ بنانے کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران یہ دھماکے برنس روڈ، عزیز آباد، قصبہ، لیاری، کورنگی، نارتھ کراچی اور دیگر علاقوں میں پیش آئے۔ اس سے قبل یکم جنوری کو متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے کے شرکا کی واپسی کے دوران عائشہ منزل پر دھماکا ہوا، جس میں 4 افراد جان سے گئے۔

26 جون کو برنس روڈ کے علاقے میں نصب بم کے ذریعے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں6 پولیس اور 2 رینجرز اہل کار ہلاک ہوئے اور جسٹس مقبول باقر بھی زخمی ہو گئے۔

10 جولائی کو کراچی میں گرومندر کے نزدیک ایک خودکُش حملے میں صدر آصف زرداری کے سیکیوریٹی انچارج بلال شیخ ہلاک ہوگئے۔ بلال شیخ اپنی بم پروف گاڑی سے پھل خریدنے کے لیے رکے تھے کہ بمبار نے قریب آکر دھماکا کردیا۔ 7اگست کو لیاری میں بزنجو چوک میں فٹبال میچ کے اختتام پر بم دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے۔ تقریب میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر جاوید ناگوری بھی شریک تھے، جو بال بال بچ گئے۔ شہر کے دیگر اہم دہشت گرد واقعات میں 24جنوری کو کراچی میں قائد آباد بختاور گوٹھ میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں ڈی ایس پی سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے۔

22اگست کو ایک فوجی ٹرک کورنگی میں رینجرز ہیڈکواٹر کے قریب سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بن گیا۔ واقعے میں ایک اہل کار اور ایک راہ گیر لقمہ اجل بنے، جب کہ دس فوجیوں سمیت 19 افراد زخمی ہوئے، بعدازاں مزید دو زخمی فوجی بھی دم توڑ گئے، یوں مجموعی طور پر تین فوجیوں سمیت ہلاکتوں کی تعداد چار ہو گئی۔22 نومبر کو انچولی کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں نجی ٹی وی کے صحافی سمیت 6 افراد جان سے گئے۔

 photo Blood8_zps14db77f1.jpg

٭اہدافی قتل کا جن۔۔۔

روشنیوں کے شہر کراچی میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جب گولیاں نہ چلتی ہوں اور لاشیں نہ گرتی ہوں۔ تصادم اور واقعات سے قطع نظر یہاں ایک جن ہدف بنا کر قتل کرنے کا ہے۔ لوگوں کون اور کیوں قتل کرتا ہے، اس کا پتا کم ہی چل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے حالات میں روزانہ نصف درجن سے زاید ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ ’’نامعلوم‘‘ کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ پولیس کی نفری کے ساتھ 1989ء سے مسلسل موجود رینجرز گاہے بگاہے ’’سرگرم‘‘ ہوتی رہتی ہے۔ ان دنوں بھی شہر میں بہت زیادہ اس کا غلغلہ ہے۔ مگر یہ نشانہ وار قتل اس شہر کا ایسا آسیب معلوم ہوتا ہے، جس سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں لگتا۔ روزانہ اوسطاً درجن بھر سے زاید افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 10 ہزار سے زاید ملزمان کو حراست میں لے رکھا ہے، مگر اہدافی قتل کا جن ان تمام کارروائیوں سے بے نیاز روزانہ اس شہر کی جنتا کے آٹھ، دس سے پندرہ تک کی جانوں کا لہو پی جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بہت سے افسوس ناک واقعات میں باوردی اہلکاروں کی جانب سے سرِعام شہریوں کا خون بھی ہوت رہا۔ اس سال بھی 16 جولائی کو رینجرز کی جانب سے نہ رکنے پر ایک 30 سالہ ٹیکسی ڈارئیور کو گولیاں مار دی گئیں۔

اہدافی قتل سے اراکین اسمبلی بھی نہ بچ سکے۔ متحدہ کے دو اراکین سندھ اسمبلی منظر امام18 جنوری اور ساجد قریشی21 جون کو ان نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انتخابات کے دوران اے این پی کے امیدوار قومی اسمبلی امین صادق بھی نامعلوم گولیوں کی زد میں آئے۔

اگر شہرقائد میں گرتی لاشوں کے صرف چند مہیب ترین دنوں کا احاطہ کریں، تو اس شہر میں 2013ء کے دوران بیتنے والے محض 12 مختلف دنوں میں 152 جانیں ضایع ہوئیں! 13 اگست کو کراچی میں اسماعیلی جماعت خانے اور رہایشی منصوبے پر دستی بموں سے حملے اور دیگر واقعات میں ماں، بیٹا سمیت 8… 27 اگست کو 17، 25 اگست کو 13 ،21 اگست کو 16، 4 ستمبر کو 14، 30 ستمبر کو باپ بیٹوں سمیت17، 2 اکتوبر کو 10، 24 اکتوبر کو 11، 20نومبر کو11، یکم دسمبر کو 10، 3 دسمبر کو 15 اور 14 دسمبر  10زندگیوں کے چراغ گُل کردیے گئے۔

٭بازاروں میں قیامت کے نظارے

دہشت گردوں نے مساجد کے ساتھ بازاروں کو بھی اپنے نشانے پر لیے رکھا۔ بازاروں میں ہونے والی دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 80 کے قریب افراد لقمہ اَجل بنے۔ 8 فروری کو دہشت گردوں نے اورکزئی ایجینسی میں بازار کو خون میں نہلادیا، جس میں 15 ہلاک اور25 زخمی ہوگئے۔ چند دن کے بعد ایک بار پھر اورکرزئی، بنوں اور ہنگو میں خودکُش حملے اور دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 22 افراد نشانہ بنے۔ 29ستمبر کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گاڑی کے ذریعے کیے جانے و الے دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک جب کہ 100 سے زاید زخمی ہوگئے۔

 photo Blood9_zps0c75d09b.jpg

٭مہران میں پیش آئے واقعات

دیگر صوبوں کی طرح صوبہ سندھ کو بھی کچھ دہشت گردیوں کے واقعات کا سامنا رہا۔ ملک کے مختلف علاقوں کی طرح دہشت گردوں نے یہاں بھی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا، جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی امیدوار فخر الاسلام ہلاک ہوئے۔ 13 اگست کو حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں یکے بد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ قومی پرچم فروخت کرنے والے مختلف اسٹالوں پر 3 حملے ہوئے جس میں ایک شخص جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ دادو، نواب شاہ اور لاڑکانہ میں بھی کریکر دھماکے کیے گئے۔

اسی طرح 29 اکتوبر کو حیدرآباد کے علاوہ کوٹری، لاڑکانہ، دادو، نوشہرو فیروز، محراب پور، بدین، خیرپور اور دیگر علاقوں میں سمیت اندرون سندھ یکے بعد دیگرے ہلکی نوعیت کے سلسلہ وار 33 دھماکے ہوئے جن میں ایک شخص کی جان گئی۔ اس کے علاوہ 24 جولائی سکھر کے علاقے بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے دفتر پر خودکُش حملے میں 2 اہل کار اور شہری جاں بحق ہو گئے۔ حملہ آوروں نے دھماکے کے بعد فائرنگ بھی کی، جس میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے۔

٭فورسز پر سب سے زیادہ حملے

خیبر پختونخوا میں پولیس، رینجرز اور فوج پر ہونے والے درجن بھر حملوں میں 50 کے قریب سیکیوریٹی اہل کار اور دیگر لوگ زد میں آکر جان سے گئے۔

12جنوری کو شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں فوجی قافلے پر ریمورٹ کنٹرول حملہ کیا گیا، جس میں 17 فوجی جان سے گئے۔ 23 مارچ کو شمالی وزیرستان میں فوجی چیک پوسٹ پر بارود سے بھرا پانی کا ٹینکر ٹکرا دیا، جس میں افسر سمیت 6 ہلاکتیں ہوئیں۔ 29مارچ کو پشاور میں خودکُش حملے میں ایف سی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ 25مئی کو پشاور میں حملوں میں 6 پولیس اہل کاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے۔

30 جون کو پشاور میں بڈھ بیر کے مقام پر فوجی قافلہ نشانہ بنا، جس سے بھرے بازار میں تباہی پھیل گئی اور 18 ہلاکتیں ہوئیں۔ یکم ستمبر کوشمالی وزیرستان میں 9 سیکیوریٹی اہل کار جان سے گئے۔ 20 اکتوبر کو پشاور میں پولیس ناکے پر فائرنگ سے 2 افسران سمیت 4 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 30اکتوبر کو جنوبی وزیرستان بارودی سرنگ کے دھماکے میں 5 فوجی ہلاک ہوگئے۔ 15 ستمبر کو پاک افغان سرحدی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی دو جوانوں سمیت شہید ہوگئے۔

 photo Blood10_zpsdcf896d1.jpg

٭خوں آشامی کے دیگر واقعات

خیبر پختونخوا میں 2013ء کی دیگر خوں آشام کارروائیوں کا سلسلہ بھی کم نہ رہا۔ شدت پسندوں نے 3 اکتوبر کو ہنگو میں اپنے ایک منحرف کمانڈر ملا نبی حنفی کے مرکز پر خودکُش حملہ کرکے 17 افراد ہلاک کردیے۔ کرم ایجینسی میں جاری انتخابی مہم کے دوران 6 مئی کو جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں دھماکا ہوا، جس میں 18 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف بھی اس کا نشانہ بنی اور 16 اکتوبر کو عید کے روز ڈیرہ اسمعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ہونے والے خودکُش دھماکے میں صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ گنڈا پور سمیت 8 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس کے علاوہ دہشت گردی کے دیگر اہم واقعات میں بھی بہت سی قیمتیں جانیں ضایع ہوئیں۔ 10 جون کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں خاصے دار فورس کی وردی میں ملبوس شدت پسندوں نے نیٹو کنٹینر پر حملہ کیا، جس میں 6 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 27 ستمبر کو پشاور میں چارسدہ روڈ گل بیلہ پر سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکا ہوا، جس میں 2 خواتین سمیت 19 جاں بحق ہوگئے۔ 28 اپریل کو کوہاٹ میں ہونے والے دھماکے میں 5افراد ہلاک ہوئے، جب کہ اسی روز پشاور میں ہونے والے دھماکے نے 3 زندگیوں کے چراغ گُل کردیے۔

ملالہ: عالمی سطح کی کم عمرترین رول ماڈل

$
0
0

آج ہم بُھولے بیٹھے ہیں کہ خوشی بانٹنے سے ہی انسان خوش رہ سکتا ہے اور علم کے دیے روشن کرنے سے ہی علم کی معراج پائی جا سکتی ہے مگر کیا کیا جائے، طالبان کا کہنا ہے کہ صنف نازک علم حاصل نہیں کر سکتی حالاں کہ دین پکار پکار کے یہ کہتا ہے ’’علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔

حدیث نبویؐ ہے’’ علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی جانا پڑے‘‘۔ دین میں اس خود ساختہ اور نئے تضاد  کے پس منظر کی وضاحت کے لیے آج ایک پختون زادی  ملالہ یوسف زئی کا نام عصر حاضر کی معصوم مثال بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختون خوا کا ضلع سوات کبھی ایک ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیّت دی گئی۔ ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام سیدو شریف اسی ضلع میں واقع ہے۔ سوات کو خیبر پختون خوا کے شمالی خطے میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ضلع سنٹرل ایشیا کی تاریخ میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شْہرت حا صل ہوئی تھی، اسے غنی باغ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ضلع کا کْل رقبہ 5337 مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں فی مربع کلو میٹر 295 افراد آباد ہیں۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ کْل قابِل کاشت رقبہ98720 ہیکٹیرز پر مشتمل ہے۔

یہ1997 کے اوائل کی بات ہے، جب اسی ضلع  کے شہر مینگورہ کے ایک باسی ضیاء الدین یوسف زئی کے آنگن میں رحمت خداوندی کی ایک کلی کِھلی۔ ضیاء الدین یوسف زئی بھی چاہتا تھا کہ اس بار اس کے گھر بیٹی پیدا ہو۔ جب اس کے گھر میں بیٹی نے جنم لیا تو اس نے اپنی اس بیٹی کا نام بہت پیار سے ملالے کے نام پر ملالہ رکھا۔  ملالہ یوسف زئی نے زمانۂ طالب علمی میں جب بی بی سی کی ویب سائٹ پرتعلیم کے مسائل پر اپنی ڈائری لکھنا شروع کی تو اس کی تحریروں کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ایک توانا آواز کہا گیا۔ یوں ملالہ یوسف زئی ایک معروف لکھاری تو بن گئی تھی مگر اسے متنازع بھی بنا دیا گیا کیوں کہ اسی عرصہ میں(2009) تحریک طالبان پاکستان  بچیوں کے اسکول بموں سے اڑا رہے تھے اور ملالہ کو دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ اسی اثنا میں جب پاک فوج نے سوات میں کارروائی کی تو علاقے سے طالبان کی اجارہ داری ختم ہو گئی، طالبان کا سپہ سالار فضل اللہ افغانستان فرار ہو گیا، لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کُھل گئے مگر اکتوبر 2012  میں اسکول جاتے ہوئے طالبان نے تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے والی کم عمر ملالہ یوسف زئی کے سر میںدو گولیاں داغ دیں مگر قدرت نے اسے بچا لیا۔  ملالہ یوسف زئی کو انتہائی تشویش ناک حالت میں پشاور اسپتال لایا گیا،  کچھ دنوں بعد اسے مزید بہتر علاج کے لیے راول پنڈی لایا گیا۔ حالت ذرا سنبھلی تو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ملالہ کو ہوائی ایمبولینس کے ذریعے برمنگھم (برطانیہ) بھیج دیا، جہاں ملالہ کو ملکہ الزبتھ اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ سر میں گولی لگنے سے لے کر برطانیہ جانے تک ملالہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکی تھی اور نئی نسل کی کم عمر ترین رول ماڈل بھی۔

 photo Malala_zps64968dd1.jpg

بلا شبہ ملالہ یوسف زئی اس واقعہ سے پہلے بھی ایک ہونہار لڑکی تھی اور اب بھی ہے، جس نے دنیا بھر میں پاکستان کو ایک نئی شناخت دی ہے مگر سوشل میڈیا پر اِس کی ذات کو غلط  رنگ بھی  دیا گیا کہ وہ غیرملکی طاقتوں کے لیے کام کر رہی ہے اور علم دشمنوں نے اِس کی آواز کو دبانے کی ایسی ہی کئی ناکام کوششیں کیں مگر وہ تھی کہ آگے ہی بڑھتی چلی گئی۔ پھر ایک دن تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ’’ ملالہ بچ گئی ہے، اُسے ہم دوبارہ مارنے کی کوشش کریں گے‘‘۔اب یہ پوری قوم کو سوچنا ہو گا کہ اگر ہم پاکستان کو واقعی امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ملالہ کا ساتھ دینا چاہیے یا اس کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے؟

پھر ایک کتاب بھی ملالہ کے نام سے انگریزی زبان میں شائع ہوئی، جس کا نام’’ میں ملالہ ہوں‘‘ ۔ یہ کتاب بھی متنازع ٹھہری، اب تک اس پر بحث ہو رہی ہے۔ امریکا کے صدر اوباما سے ملالہ کی ملاقات، اقوام متحدہ میں خطاب، امن کے نوبل انعام کے لیے نام زدگی اور ناکامی کے علاوہ بہت سی دیگر باتیں ملالہ کی ذات کو اب بھی بحث کا مرکز بنائے رکھتی ہیں۔ ملالہ امن کا نوبل انعام تو نہ جیت پائی مگر اب تک وہ دنیا بھر سے تقریباً 25 ایوارڈ لے چکی ہے۔ نوبل کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ملالہ کا مستقبل روشن ہے، اسے دوبارہ نام زد کیا جا سکتا ہے۔

حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے پر ملالہ یوسف زئی کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات کے لیے نام زد ہوئی ۔ ملالہ کو پاکستان کا پہلا اعزاز برائے امن دیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے ملالہ یوسف زئی پر دستاویزی فلم بنائی۔ ملالہ نے پاکستان کے فوجی جوانوں سے اپیل کی کہ اگر ہمارے فوجی بھائی ہمیں تحفظ فراہم کریں تو ہم لڑکیاں اپنی درس گاہوں کو جا سکتی ہیں۔ 2009 میں ملالہ یوسف زئی کی ملاقات خصوصی طور پر امریکی سفیر ہال بروک سے بھی ہوئی ۔ اکتوبر 2011 میں ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ملالہ یوسف زئی کو بچوں کا امن ایوارڈ دیا ۔ 2 ماہ بعد دسمبر 2011 میں ملالہ یوسف زئی کو ’’یوتھ پیس‘‘ ایوارڈ دیا گیا ۔ جنوری 2012 میں ایک سیکنڈری اسکول کا نام ملالہ کے نام پر رکھا گیا اور اکتوبر 2012 میں ملالہ یوسف زئی کو تمغہ شجاعت دیا گیا۔ فنانشل ٹائمز نے انہیں وومن آف دی 2013قراردیا۔

 photo Malala2_zps4304b197.jpg

میاں نواز شریف اور عمران خان کا کہنا ہے کہ ملالہ نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ گذشتہ برس نوبل امن انعام جیتنے والی یمن کی صحافی توکل کرمان کہتی ہیں کہ  آئندہ برس ملالہ یہ انعام بھی جیت جائے گی۔ اس کے برعکس اس پر حملے کرنے والے اب بھی خوف زدہ ہیں، شاید اس لیے کہ مضبوط اعصاب والی ملالہ اب بھی یہ کہتی ہے کہ تعلیم کے لیے جان دے دوں گی مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

ملالہ صرف پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر بھی نئی نسل کی رول ماڈل بن چکی ہے مگر اس کے با وجود لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ یوسف زئی کے بارے میں منفی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔  یہ بھی کہا جاتا ہے ’’ملالہ اسلام اور پاکستان کی دشمن قوتوں کے آلۂ کار کے طور پر سامنے  آئی ہے، ملالہ یوسف زئی کے ڈرامے میں اُس کا باپ مال بنا رہا ہے ۔ شور مچایا گیا کہ جب ملالہ کو حملے کے بعد اس لیے غیرملک بھیجا گیا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کے والد نے حکومت کو دھمکی دی تھی۔ ’’اسے اگر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں نوکری اور پناہ  نہ دی گئی تو وہ فیملی سمیت لندن میں سیا سی پناہ مانگے گا‘‘ مگر ضیاء الدین یوسف زئی کے اس متنازع بیان کی ملا لہ نے اپنی کتاب میں تردید کر دی ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے حال ہی میں جب بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور سے ملاقات کی تو باتوں باتوں میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس پر بھی شور مچ گیا حال آں کہ اس خواہش کا ایک پس منظر یہ بھی تھا کہ ملالہ جب شہید بے نظیر بھٹو کی طرح دوپٹہ اوڑھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہ رہی تھی کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف قلم اور کتاب کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا، تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے، ایک طالب علم، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب، دنیاکو بدل سکتی ہے۔ پاکستان میں آج اکیسویں صدی میں بھی لڑکیاں تعلیم کا خواب نہیں دیکھ سکتیں کیوںکہ انتہا پسند تعلیم کے ذریعے آنے والی تبدیلی سے ڈرتے ہیں اور مذہب کو اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، انتہا پسند تعلیم اور کتاب سے خو فزدہ ہیں۔ سوچیے کیا وہی سوچ تو نہیں جو شہید بے نظیر بھٹو کی بھی تھی۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پیرس میں ملا لہ کا نفر نس میں شرکت کی تھی۔ سابق صدر زرداری نے کا نفر نس میں کہا تھا کہ کا نفر نس کے انعقاد پر یو نیسکو کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے فرانس کے وزیر اعظم سمیت تمام شرکا کا نفر نس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہی ملک ترقی کر تے ہیں، جہاں تعلیم پر زور دیا جاتا ہے، عوام کی ترقی اور خو ش حالی ہی کسی ملک کے لئے ضروری ہے، اسلام امن کا مذہب ہے اسلام میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے ، ہماری عظیم کتاب قرآن کی ابتداء بھی ا قراء سے ہوتی ہے، یو نیسکو کا نعرہ تعلیم سب کے لیے قابل تعریف ہے، ملا لہ ہماری بہادر بیٹی ہے، ملا لہ یوسف ز ئی نہ صر ف پاکستان کی بیٹی بل کہ پاکستان کو اس کی خدمات پر فخر ہے، ملا لہ پر حملہ تاریکی کی قوتوں نے کیا، ملا لہ نے پاکستانی بچیوں کی تعلیم کے لیے بہت محنت کی، ملا لہ نے سکھا یا کہ شدت پسندی کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ ملا لہ روشن اور ترقی پذیر پاکستان کا مستقبل ہے، پاکستان کی ہر ملا لہ کو اسکول جانے کا حق حاصل ہے، ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی عالمی امداد کی ضرورت ہے۔

نیویارک میں قوا م متحدہ کی جانب سے یو م ِ ملا لہ کے مو قع پر پا کستا ن کی بیٹی کو خراجِ تحسین پیش کر نے کے لیے ’’آ ئی ایم ملا لہ‘‘ کے بولوں پر مشتمل گا نے کی ویڈیو بھی جا ری  ہو چکی ہے ۔ گریمی ایوارڈ وننگ ڈا ئریکٹر کی تیار کر دہ اس ویڈیو میں 3 ابھر تی ہو ئی نو جو ان گلوکاراؤں کے علا وہ دنیا بھر سے 30 گلوکا راؤں کی آوازیں شا مل ہیں، جو اس گا نے کے ذریعے ملا لہ کے عز م کو سلا م پیش کرتی ہیں۔ اس گانے کے فروخت سے جمع ہو نے والی آمدنی ملا لہ یوسف زئی کے قائم کیے گئے خو د مختار فلاحی ادارے ملا لہ فنڈ میں دی جا ئے گی جو دنیا بھر میں تعلیم کے فرو غ کے لیے کا م کر رہا ہے۔

 photo Malala1_zps4c114c66.jpg

ملالئی سے ملالہ تک

ملالہ کا نام ایک بہادر افغان خاتون ملالئی کے نام پر رکھا گیا ۔ ملالئی کون تھی؟ آج سے ٹھیک ایک سو تینتیس سال قبل 27 جولائی 1880 کا واقعہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ صوبے قندھارکے قریب علاقہ میوند کے میدان میں برطانوی فوج کے خلاف پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں بر سر پیکار تھا۔ فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سے گونج رہی تھی، گولے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ دوران جنگ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پختونوں کے حوصلے پست نظرآنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے کہ ایک خوب صورت پختون دوشیزہ ملالئی اچانک جنگ کے میدان میں نمودار ہوئی، اس نے اپنے دوپٹے کو جھنڈا بنا کر لہرایا اور یہ تاریخی پشتو اشعار گائے

’’ میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے‘‘

ملالئی کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جنون جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس سے برطانوی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئی اور پختون جنگِ میوند میں فاتح ٹھہر ے اور ملالئی کے اشعار، اس کا نام اورکارنامہ پختون تاریخ میں جرأت کا ایک نیا باب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گیا۔ ملالئی، میوند کے قریب خیگ نامی گائوں میں ایک گڈریے کے ہاں 1861 میں پیدا ہوئی تھی، جنگ میوند کے موقع پر اس کی عمر 19سال تھی، جس جنگ کو جیتنے کا سہرہ ملا لئی کے سر جاتا ہے، اس میں اس کا باپ اور منگیتر بھی شریک تھے اور ان دونوں نے اس معرکے میں جام شہادت نوش کیا۔ برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالئی کی وجہ سے شکست کھائی اگر وہ میدان جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی، ٹپہ نہ گاتی تو ہم یہ جنگ جیتنے والے ہی تھے۔ 1880میں ملالئی نے اپنے اشعار کے ذریعے جرأت اور جنگ کے خلاف مزاحمت کا نیا باب رقم کیا تھا، آج سوات کی 16سالہ ملالہ پاکستان کے 18کروڑ انسانوں کو جہالت ، نفرت ، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔

ایسے مناتے ہیں وہ نئے سال کی خوشی

$
0
0

دنیا کے بہت سے ممالک میں نئے سال کی آمد کو مختلف اور عجیب طریقے سے منایا جاتا ہے۔

آنے والا سال یقیناً ہر ایک کے لیے خوشیوں، امنگوں اور آرزوئوں سے بھر پور ہو تا ہے، کیوں کہ اگر جانے والا سال غلطیوں، پچھتاوؤں اور مایوسیوں کا سال تھا تو آنے والا سال اس کے بالکل برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ چناںچہ پچھلے سال کی نحوستوں اور مایوسیوں سے بچنے کے لیے سال کی آمد کو دنیا کے کئی ممالک بڑے عجیب وغریب طرح مناتے ہیں۔ براعظم ایشیا میں نئے سال کو دو طرح سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ مختلف ممالک کے علاقائی کیلنڈر کے مطابق ان کے قدیم اور صدیوں سے رائج تہواروں کی طرح منایا جاتا ہے، جب کہ دوسرا طریقہGregorianکیلنڈر کے مطابق ہے۔ ایشیا کے اکثر ممالک میں دونوں طریقوں کو اپنایا جاتا ہے۔ یعنی ایک اپنے دیسی طریقے سے اور دوسرا پوری دنیا کے ساتھ۔

ہانگ کانگ، دبئی، سنگاپور اور شنگھائی نئے سال کی آمد پر کی جانے والی آتش بازی پوری دنیا میں مشہور ہے اور دنیا کے کئی ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ صرف یہ آتش بازی اور آسمان پر کی جانے والی رنگ برنگی روشنیوں کی برسات دیکھنے کے لیے ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ میں وکٹوریہ ہاربر (جس کا موازنہ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر سے کیا جا تا ہے)، سنگا پور میں مرینہ بے اور دبئی کا برج خلیفہ بلڈنگ اس حوالے سے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔

چین میں نئے سال کی آمد کو چینی علم اعداد کے مطابق مختلف جانوروں سے منسوب کیا جاتا ہے، جیسے سانپ، کتا، خنزیر، گھوڑا اور خیالی ڈریگن وغیرہ۔

تھائی لینڈ میں سالِ نو کے تہوار کو Congenerکہا جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر یہاں کے باسی ایک دوسرے پر دل کھول کر پانی پھینکتے ہیں۔ اس کا مقصد نئے سال کی نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور گزرے سال کی ناکامیوں اور غلطیوں کو دھونا ہوتا ہے۔

نئے سال کے موقع پر دنیا کے تقریباً سب ہی ممالک خاص الخاص ڈششز تیار کرتے ہیں اور یہ وہ ڈششز ہوتی ہیں جنہیں صرف نیو ایئرپر یہ تیار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں انتہائی لمبے لمبے نوڈلز سے ایک خاص ڈش Jiao.zi مختلف ریسٹورنٹس اور گھروں میں تیار کی جاتی ہے اور لوگوں کو خاص طور اس کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے پیسے بھی خرچ نہیں کرنا پڑتے۔ نوڈلز سے بنی یہ ڈش جس دوسری چیز کے اشتراک سے بنائی جاتی ہے۔ وہ آنے والے سال کا سمبل ہوتی ہے جیسے کہ اگر انڈوں کے ساتھ اسے بنایا گیا ہے تو یہ پولٹری اور اس سے متعلقہ کام سے تعلق رکھتی ہے یا اگر نوڈلز کو فش کے ساتھ بنایا گیا ہے تو اسے سفر اور پراپرٹی سے جوڑا جاتا ہے۔ جاپان میں بھی نوڈلز سے ایک خاص ڈش Toshi Koshi Soba بنائی جاتی ہے اور اس کی تیاری کئی روز پہلے ہی سے کی جاتی ہے۔ اس ڈش کو بنانے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جا تا ہے کہ نوڈلز ٹوٹنے اور جلنے نہیں چاہییں اگر ایسا ہو جائے تو جاپانی اسے آنے والے سال کی بدقسمتی میں شمار کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کس منفرد طریقے سے یہ تہوار مناتے ہیں وہ واقعی حیران کن ہے۔

 photo Newyear_zps413eda53.jpg

٭جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ کے ایک شہر جے برگ کے رہائشی انوکھے انداز میں نئے سال کی آمد کی خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تیس سے اکتیس دسمبر تک رات بارہ بجے سے پہلے اپنے گھروں میں رکھی یا استعمال کی جانے والی اشیاء کو بذریعہ کھڑکی گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ ان میں ٹی وی سے کر ایل سی ڈی تک سب شامل ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے پرانے سال کی نحوستیں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کا نئے سال کی آمد پر اچھا اثر پڑتا ہے۔

 photo Newyear1_zps13af7c00.jpg

٭کولمبیا

کولمبیا میں جو افراد بیرون ملک سفر یا سیرو سیاحت کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ اس کے لیے نئے سال کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور اکتیس دسمبر کے دن وہ ایک خالی سوٹ کیس کے ساتھ بلاک سے بنے فرش پر لمبی واک کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان مقصد یہ ہو تا ہے کہ نئے سال کی آمد پر وہ جو سفر کرنے جا رہے ہیں وہ ان کے خوش قسمت ثابت ہو۔

 photo Newyear2_zpsac29171c.jpg

٭جاپان

چین کی طرح جاپان میں بھی نیا سال کسی نہ کسی جانور سے منسوب کیا جاتاہے، جس جانور کے نام آنے والا سال ہوتا ہے جاپانی اسی جانور کا ماسک پہنتے ہیں۔ جاپانی علم اعداد کے مطابق 2014 گھوڑے کا سال ہے۔ اسی مناسبت سے جاپان میں لوگ گھوڑے کا خاص بنایا ہوا ماسک پہنیں گے اور یہ ماسک پہن کر اجتماعی طور پر لوگ اپنے اپنے علاقوں کے مندروں یا گرجا گھروں میں جاکر 108مرتبہ گھنٹیاں بجائیں گے۔ ان گھنٹیوں کی آواز اتنی ہم آہنگ ہو گی کہ آنے والا سال جاپانیوں کے اتنا ہی خوش قسمت ہو گا۔

 photo Newyear3_zps23454617.jpg

٭ڈنمارک

ڈنمارک میں لوگ خصوصی طور پر نئے سال کی آمد سے قبل اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کو دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت میں رنگ ڈانس کیا جاتا ہے اور ڈانس کے اختتام پر خصوصی طور پر منگوائی گئی پلیٹوں اور گلاسوں کو ایک دوسرے پر پھینکا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کے رہائشی نئے سال کی آمد کا ایک قدیم تہوار بھی مناتے ہیں۔ اس تہوار کے لیے دوست احباب اور رشتے داروں کے علاوہ ملنے جلنے والے منتخب کردہ کسی ایک فیملی کے گھر پر جمع ہوتے ہیں اور اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجنے سے پانچ منٹ پہلے یہ تمام افراد کرسیوں پر ایک دوسر ے کا ہاتھ پکڑکر کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی گھڑی بارہ کا ہندسہ عبور کرتی ہے، یہ سب افراد ایک ساتھ ہی کرسیوں سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ایسا کرنے کا مقصد بدقسمتی کو پیچھے دھکیلنا اور نئے سال کی خوش قسمتی کو خوش آمدید کہنا ہوتا ہے۔

 photo Newyear4_zps698b8f98.jpg

٭اسپین

اسپین میں نئے سال کی آمد سے پہلے یعنی اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجنے سے پہلے ایک سیکنڈ میں انگور کے بارہ دانے ایک ساتھ کھانے کا دل چسپ رواج ہے۔ انگور کے بارہ دانے سال کے بارہ مہینوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں جو بھی سب سے پہلے بارہ دانے ختم کر لے تو اس کے خیال میں آنے والا سال اس کے لیے خوش قسمت ثابت ہو گا۔

 photo Newyear5_zpsadf7f444.jpg

٭فن لینڈ

فن لینڈ کے رہائشی نئے سال کو اپنے قدیم مذہبی انداز سے مناتے ہیں اور آنے والا سال کیسا ہوگا۔ یہ جاننے کے لیے وہ ایک عجیب طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک پگھلے ہوئے ٹن کو سیدھی شیپ میں ایک خاص قسم کے کیمیکل ملے پانی ڈالا جاتا ہے اور فورا باہر نکال کر دیکھا جاتا ہے کہ اس سیدھے ٹن نے کون سی شکل اختیار کی ہے، مثلاً اگر وہ ٹن کسی جانور کی شکل سے مشابہہ ہے تو اس کا مطلب نیا سال دولت کمانے کا سال ہے۔ اسی طرح اگر جہاز یا کشتی کی شکل ہے تو سیروسیاحت اور اگر رنگ یا ہارٹ شیپ کا ٹن ہے تو اس سے مراد افیئر اور شادی لیا جا تا ہے۔

 photo Newyear6_zpsab40fe15.jpg

٭پناما

یہاں پر نئے سال کے آنے سے کئی دنوں پہلے ہی ملک کے مشہور ومعروف لوگوں کے مجسمے بناکر شہر کی اہم جگہوں جیسے ہوٹلز، ریسٹورنٹس، اہم عمارتوں اور شاہراہوں پر نصب کیے جاتے ہیں۔ اس کا  مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والا سال ہر ایک شخص کے لیے اسی طرح کام یابی، شہرت اور دولت لے کر آئے جس طرح ان لوگوں کو ملی جن کے مجسمے بنائے گئے ہیں۔

 photo Newyear7_zps81f5cd67.jpg

 ٭فلپائن

فلپائن میں دائرے کی شکل کو خوش قسمتی سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی لیے وہاں پر نئے سال کی آمد کے موقع پر اکتیس دسمبر را ت بارہ بجنے سے پہلے بارہ اقسام کے مختلف پھلوں کو قتلوں (یعنی دائرے) کی شکل میں کاٹا جا تا ہے اور نیا سال شروع ہونے سے پہلے تھوڑا تھوڑا ہر پھل  کھایا جا تا ہے۔ فلپائنی اس کو اپنے لیے اور آنے والے سال کے لیے خوش بختی تصور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیس اور اکتیس دسمبر کو فلپائنی قوم پولکا ڈاٹ والے کپڑے پہننا بھی اچھا سمجھتی ہے۔

 photo Newyear8_zpsc73d2f07.jpg

٭بیلاروس

یہاں پر نئے سال کی آمد سے قبل ایک منفرد گیم کھیلا جاتا ہے  اور اس کے لیے تیس اور اکتیس دسمبر کے روز خاندان کی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو ایک گھر میں جمع کیا جاتا ہے اور ان سب کو ایک قطار میں بٹھا کر ان کے سامنے کے سامنے بہت سارے بھٹے (مکئی کے دانے) پھیلادیے جاتے ہیں، جس کے سامنے بھٹا سب سے پہلے پہنچتا ہے تو یہ سمجھا جا تا ہے کہ اس لڑکی شادی نئے سال کے آغاز میں ہی ہو جائے گی۔

٭وسطی اور جنوبی امریکا

وسطی اور جنوبی امریکا کے علاقوں جیسے برازیل، وینزویلا اور بولوویا وغیرہ میں نئے سال کی آمد پر خاص طور پر تیار کیے گئے نیکر یا شارٹس پہننے کا رواج ہے اس لیے سال شروع ہونے سے کئی دنوں پہلے ہی مارکیٹیں اور شاپنگ سینٹرز پر ان کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ یہ شارٹس دو رنگوں لال اور پیلے رنگ سے تیار کیے جاتے ہیں جس میں لال رنگ محبت اور پیلا رنگ دولت کی علامت سمجھا جا تا ہے۔

٭ایسٹونیا

یہاں پر کچھ عرصہ قبل تک نیا سال منانے کا رواج کچھ یوں تھا سال کے پہلے دن خوب کھانا کھایا جاتا تھا، کیوںکہ اس ملک میں میں رائج ایک روایت کے مطابق سال کے پہلے دن جو بھی سات مرتبہ سیر ہو کر کھانا کھائے گا تو سال کے تین سو پینسٹھ دن اس کے لیے دولت، شہرت، کام یابی، خوشی، سکون، شادی اور خوش بختی لے کر آئیں گے۔

تنازعات کا گھن کھیلوں کی بنیادیں کھوکھلی کرتا رہا

$
0
0

مفاد پرستی پر مبنی سیاسی کھیل پاکستان کی منزلوں کے نشان گم کرتے رہے ہیں، سیاست کے منفی رجحانات کی بازگشت اب کھیلوں کی دنیا میں بھی تسلسل کے ساتھ سنائی دینے لگی ہے۔

سپورٹس تنظیموں کی باگ ڈور سنبھالنے کے خواہشمندوں کی کوئی کمی نظر نہیں آتی، ہر کوئی دعویدار ہے کہ موقع دیا جائے تو کھیلوں کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا، دوسری طرف تلخ حقیقت یہ ہے کھلاڑی عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں، توانائی سپورٹس سے زیادہ اختیارات کے لیے کھینچاتانی پر صرف ہو تو نتائج میں بہتری کا خواب کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ 2013ء بھی کھیلوں میں سیاست اور تنازعات کی بد ترین مثالیں چھوڑ کر رخصت ہوا۔

 photo Sports_zps1421a643.jpg

قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھائو

پاکستان کرکٹ بورڈ میں ذکاء اشرف نے خود ساختہ جمہوری عمل کے ذریعے بطور چیئرمین اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی، من پسند ریجنل ایسوسی ایشنز اور اپنے ہی بنائے گورننگ بورڈ کی بدولت انتخاب عدالت میں چیلنج ہونے کے بعد ان پر سابق کا لیبل لگ گیا۔ عبوری چیئرمین نجم سیٹھی بھی عہدہ سنبھالتے ہی زیادہ سے زیادہ اختیارات کے لیے بیتاب ہوگئے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے صرف روزمرہ امور کی انجام دہی کا پابند کرکے 90 روز میں الیکشن کروانے کا حکم دیا لیکن قانونی موشگافیوں سے اقتدار کو طول دینے کے راستے نکالے جاتے رہے، عدالت کی طرف سے معین خان کی بطور چیئرمین سلیکشن کمیٹی تقرری کو کالعدم قرار دیا گیا تو نجم سیٹھی نے انہیں مینجر کی ذمہ داری سونپ کر کچھ ایسے فیصلوں کی بھی آزادی دیدی جو ان کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے تھے۔ ڈیڈلائن گزرنے تک نئے چیئرمین کا انتخاب نہ ہونے پر ان کی کرسی ہلتی نظر آرہی تھی مگر متبادل راستہ تلاش کرتے ہوئے 5 رکنی عبوری کمیٹی بنادی گئی۔ پی سی بی میں سیکرٹری کا تقرر کرنے والی وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ، سابق اور موجودہ چیئرمین سب عدالتوں میں اپنا اپنا موقف درست ثابت کرنے کیلیے سرگرم نظر آئے، کئی ریجنل اور ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنز کے تنازعات بھی عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔

عبوری دور نے ہر مہم ادھوری رکھنے کا جواز فراہم کردیا، بار بار دعووں کے باوجود بورڈ میں ملازمین کی فوج ظفر موج کم نہ کی جاسکی، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے ایک انچ بھی پیش رفت نہ ہوئی، پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ سفید ہاتھی ثابت ہوا۔ نجم سیٹھی نے پیسر محمد عامر کی واپسی اور پی ایس ایل کروانے کے خواب دکھائے جن کے پورا ہونے کی تاحال کوئی امید نظر نہیں آتی، برسوں سے بورڈ کے عہدوں پر قابض چند افراد پر مشتمل کمزور انتظامی ڈھانچے نے ڈومیسٹک سیزن کو مذاق بنا دیا، انتہائی ناقص منصوبہ بندی کرتے ہوئے قائداعظم، پریذیڈنٹ ٹرافی، انڈر 19 کے طویل اور مختصر فارمیٹ کے مقابلے ایک ساتھ شروع کروادیئے جس سے سفارشیوں کی بڑی تعداد کو میدانوں میں اتارنے کا موقع مل گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا بے رونق میلہ تو کئی کرتا دھرتا افراد کو مالی طور پر آسودہ اور شائقین کو رنجیدہ کرتے ہوئے ختم ہوجائے گا، کھیل کے نام نہاد خدمتگاروں کی اختیارات کے لیے جنگ کب ختم ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

 photo Sports7_zps2266e858.jpg

قومی کرکٹ ٹیم نے سال کا آغاز بلند عزائم سے کرتے ہوئے ون ڈے سیریز میں بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا، دو سنچریاں جڑنے والے ناصر جمشید فتح کے ہیرو قرار پائے۔ محمد عرفان نے پہلی بار خود کو مہلک ہتھیار ثابت کیا، جنید خان بھی بھر پور فارم میں نظر آئے، سعید اجمل کا جادو بھی خوب چلا۔ جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فاسٹ اور بائونسی وکٹوں پر پاکستانی بیٹنگ لائن کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، جوہانسبرگ میںمہمان ٹیم اپنی تاریخ کے کم ترین ٹوٹل 49 پر ڈھیر ہوئی، دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی پہلی اننگز میں سنچریاں اور سعید اجمل کی 10 وکٹیں بھی شکست کا رخ موڑنے میں ناکام رہیں، تیسرے میچ میں اننگز سے مات نے پروٹیز کا کلین سویپ مکمل کردیا۔ ٹوئنٹی 20 سیریز میں ایک میچ بارش سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے میں محمد حفیظ الیون کامیاب رہی۔ ون ڈے سیریز پاکستان نے دوبار برابر کرنے کے بعد فیصلہ کن معرکے میں شکست کے بعد 3-2 سے گنوائی، کپتان مصباح الحق کے سوا کسی کی بیٹنگ میں استحکام نظر نہ آیا، کئی مواقع پر بیٹسمینوں نے بولرز کی محنت پر پانی پھیر کر جیتی بازی ہارنے کا ’’کارنامہ‘‘ سرانجام دیا۔ آئرلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں بھی بیٹنگ کی دغا بازی کے باوجود دونوں میچز میں بمشکل کامیابی ملی۔

انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی ڈرائونا خواب ثابت ہوئی۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے میچ میں مصباح الحق 96 ناٹ آئوٹ اور ناصر جمشید 50 کے سوا کوئی ڈبل فیگر میں داخل نہ ہوسکا،171 کا معمولی ہدف ہونے کے باوجود بولرز نے کیریبیئنز کے 8 مہرے کھسکا دیئے لیکن فتح مقدرنہ بن سکی، جنوبی افریقہ نے باآسانی زیر کیا تو بھارت کیخلاف بھی بیٹنگ کی ناکامی لے ڈوبی۔ ٹیم کی وطن واپسی پر آپریشن کلین اپ میں شعیب ملک، عمران فرحت، کامران اکمل کی چھٹی ہوگئی۔ دورہ ویسٹ انڈیز میں پہلا ون ڈے کم بیک کرنے والے شاہد آفریدی کا شو ثابت ہوا، انہوں نے مشکل وقت میں 76 رنز بنانے کے بعد 7 وکٹیں بھی اڑا ئیں، دوسرے میچ میں وکٹ کیپر بیٹسمین کے ڈبل رول کے لیے منتخب عمر اکمل شاندار ففٹی کے باوجود ٹیم کو کامیابی نہ دلاسکے، تیسرا مقابلہ ٹائی ہوا، چوتھے اور پانچویں میں میں فتح کیساتھ پاکستان نے سیریز تو اپنے نام کرلی تاہم بیٹنگ لائن کی تشویش برقرار رہی، زیادہ تر مصباح الحق کے کندھے ہی بوجھ اٹھاتے رہے، احمد شہزاد نے چند اچھی اننگز کھیل کر اپنے اعتماد میں اضافہ کیا۔ ٹوئنٹی 20 میں گرین شرٹس نے کلین سویپ کیا، احمد شہزاد، عمر اکمل اور سپنرز کا کردار اہم رہا۔دورہ زمبابوے نے پاکستان کرکٹ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، میزبان ٹیم نے پہلا ون ڈے 7 وکٹوں سے جیت کر دنیاکو حیران کردیا، مصباح الحق مرد بحران کا کردار ادا کرنے کے باوجود ناکامی کا صدمہ جھیلنے پر مجبور ہوئے، دوسرا ون ڈے محمد حفیظ کی سنچری کی بدولت پاکستان نے جیتا، تیسرے کی فتح میں ایک بار پھر کپتان نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلے ٹیسٹ میں یونس خان ڈبل سنچری اور سعید اجمل کی 11 وکٹوں نے میزبان ٹیم کو آئوٹ کلاس کردیا، تاہم دوسرے میں پاکستان نے ایک اور انہونی کر دکھائی، مہمان ٹیم کے لیے 264 رنز کا ہدف پہاڑ بن گیا، مصباح الحق 79 رنز کی اننگز کے دوران دیگر بیٹسمینوں سے اتنی بھی معاونت نہ حاصل کرسکے کہ 24 رنز کی شکست کو فتح میں بدلنے کا موقع مل جاتا۔

یو اے ای میں پروٹیز کیخلاف پہلے ٹیسٹ میں خرم منظور اور شان مسعود کی نئی اوپننگ جوڑی کے بعد مصباح الحق نے بھی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے پاکستان کو پہلی اننگز میں 193 رنز کی برتری دلائی، صرف 40 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان ٹیم نے 3 وکٹیں صرف 7 رنز پر گنوادیں، مصباح الحق نے ایک انہونی ٹال کر 7 وکٹوں سے فتح دلا دی۔ کسی خوشی فہمی میں مبتلا میزبان ٹیم دوسرے ٹیسٹ میں 99 رنز پر ڈھیر ہوکر اننگز کی شکست سے دوچار ہوئی، پاکستانی بولرز نے آئوٹ آف فارم گریم سمتھ کو ڈبل سنچری بنانے کا موقع فراہم کیا، دوسری اننگز میں اسد شفیق کی سنچری اور مصباح الحق کے 88 رنز بھی کسی کام نہ آسکے، پاکستانی نژاد عمران طاہر 8 وکٹوں کے ساتھ ہیرو بن گئے۔ ون ڈے سیریز میں گرین شرٹس نے سال کا سب سے مایوس کن کھیل پیش کیا، پہلے میچ میں سعید اجمل اور آفریدی نے تباہی پھیلاتے ہوئے جنوبی افریقہ کو 183 پر آئوٹ کیا تو 4 وکٹوں پر 135 رنز بنانے والی میزبان ٹیم ہدف سے ایک رن قبل ہی ہمت ہار گئی، عمران طاہر اور پارنیل درد سر بنے رہے۔ دوسرے مقابلے میں 209 پر ڈھیر ہونے والی بیٹنگ لائن کی ناکامی پر بولرز نے پردہ ڈال کر 66 رنز سے فتح دلادی، محمد عرفان نے اپنی افادیت ثابت کردی، سپنرز نے بھی اپنا کردار خوب نبھایا۔ تیسرے ون ڈے میں کوئی پاکستانی بیٹسمین نصف سنچری سکور نہ کرسکا، چوتھے اور پانچویں میچ میں بھی مصباح الحق اور نئی دریافت کے طور سامنے آنے والے صہیب مقصود کے سوا بیٹنگ کے ستون لڑکھڑاتے اور شکستوں کو گلے لگاتے رہے۔ ٹوئنٹی 20 میں پاکستان ٹیم 100 رنز بھی نہ بنا پائی، دوسرے میں 150 رنز کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکا، آخری 2 ون ڈے میچز کی طرح مختصر فارمیٹ کے مقابلوں میں ڈیل سٹین گن بیٹنگ کو چھلنی کرتی رہی، عمران طاہر نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا۔

بھارت کی طرف سے دورہ جنوبی افریقہ مختصر کئے جانے کے بعد اچانک شیڈول کی جانے والی سیریز میں بارش سے متاثرہ ٹوئنٹی 20 میچ میں پروٹیز 4 رنز سے کامیاب قرار پائے، دوسرے میچ میں 176 رنز بنانے والے گرین شرٹس 6 رنز سے فاتح رہے، محمد حفیظ اور عمر اکمل نے نصف سنچریاں بنائیں۔ ون ڈے سیریز سے قبل مصباح الحق کو ورلڈ کپ 2015تک کپتان مقرر کئے جانے کے فیصلے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا، پہلے میچ میں بولرز نے مشکل وقت میں رنز بناکر ٹوٹل 218 تک پہنچانے کے بعد حریف کو 195 تک محدود بھی کرلیا۔ بلاول بھٹی اور انور علی کے درمیان 8 وکٹ کے لیے 74 رنز کی شراکت اور 5 وکٹوں نے میچ کا نقشہ بدلا اور پاکستان کی تقدیر بھی۔ دوسرے ون ڈے میں احمد شہزاد کی نصف سنچری نے ٹیم کا ٹوٹل 262 تک پہنچایا، جنید خان کے یادگار آخری اوور نے گرین شرٹس کو ایک رن سے فتح دلادی۔ یو اے ای میں انجرڈ ہونے والے محمد عرفان کے بغیر بھی بولنگ اٹیک نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پاکستان کو پروٹیز کا گھرمیں شکار کرنے والی پہلی ٹیم بننے کا اعزاز دلایا، تیسرے ون ڈے میں تجربات پاکستان کو راس نہ آئے، مصباح الحق (79) کے سوا کوئی مزاحمت نہ کرسکا اور جنوبی افریقہ 4 وکٹ سے سرخرو ہوا۔

سری لنکا کے خلاف یو اے ای میں سیریز کے پہلے ٹوئنٹی20میں بیٹنگ لائن نے 145کا ہدف بھی مشکل بنالیا تھا لیکن شاہد آفریدی نے ڈوبتی نائو پار لگادی،دوسرے میچ میں بولرز رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے، آئی لینڈرز نے 211رنز کا پہاڑ کھڑا کیا جو شرجیل خان کی پر اعتماد نصف سنچری کے باوجود عبور نہ کیا جاسکا،ون ڈے سیریز میں ڈیل سٹین فوبیا کا شکار محمد حفیظ کی فارم لوٹ آئی،شرجیل خان اور صہیب مقصود نے روشن مستقبل کی نوید سنائی، شاہد آفریدی کا بیٹ بھی چل پڑا، گرین شرٹس 322رنز بنانے کے باوجود صرف 11رنز سے کامیاب ہوئے، دوسرے میچ میں احمد شہزاد کی سنچری کی بدولت دیا جانے والا 284رنز کا ہدف بھی ناکافی ثابت ہوا، فیصلہ کن لمحات میں کمزور بولنگ کی ناتجربہ کاری سامنے آنے کے بعد پیس بیٹری کو چارج کرنے کیلیے عمر گل کو 10ماہ بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا موقع فراہم کردیا گیا،انہوں نے اپنا انتخاب درست بھی ثابت کیا، تیسرے ون ڈے میں محمد حفیظ سنچری اور احمد شہزاد ففٹی بنانے میں کامیاب ہوئے،گرین شرٹس نے 113رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی۔چوتھے میں عمر گل کی 3 وکٹوں، نائب کپتان کی تیسری سنچری اور احمد شہزاد کی ففٹی نے پاکستان کو سیریز میں 3-1 کی فیصلہ کن برتری دلائی۔

پاکستان کی ڈومیسٹک چمپئن فیصل آباد وولفز ٹوئنٹی 20 چیمپئنز لیگ کے کوالیفائنگ رائونڈسے ہی باہر ہوگئی، پی سی بی نے 5کروڑ روپے وصول کرکے ہر کرکٹر کو صرف 7لاکھ کے قریب رقم کے چیک دیئے تو تنازع کھڑا ہوگیا، آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی شمولیت کیلیے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ ویمنز کرکٹ ٹیم نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا، دورہ انگلینڈ کی ون ڈے سیریز میں میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کو 2-0سے کلین سویپ کیا، ٹوئنٹی20 میں نتیجہ1-1رہا۔ پاکستان نے آئرلینڈ کیخلاف واحد ایک روزہ میچ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹوئنٹی 20میں بھی میدان مارلیا، ثناء میر الیون نے آئی سی سی کوالیفائرز میں شاندار کارکردگی سے ٹوئنٹی20ورلڈ کپ میں نشست پکی کرلی، فائنل بارش کی نذر ہوجانے کے بعد سری لنکا کے ساتھ مشترکہ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

ہاکی کے ساتھ چالاکی

 photo Sports3_zps118d59fb.jpg

قومی ہاکی ٹیم اذلان شاہ کپ میں چھٹے نمبر پر رہی،گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے سے محروم ہوئے، ورلڈ ہاکی لیگ کی سرفہرست 3 ٹیموں میں ہی شامل ہوجاتے تو میگا ایونٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا لیکن کوریا کے ہاتھوں شکست سے حوصلے ایسے پست ہوئے کہ ساتوین پوزیشن کے ساتھ منزل کوسوں دور ہوگئی، ایشیاء کپ جیتنے میں ناکامی کی وجہ سے آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا، 9 اے سیریز میں بھی چوتھی اور آخری پوزیشن ہاتھ آئی، ایشن چیمپئنز ٹرافی میں زیادہ تر ٹیموں نے نوجوان کھلاڑیوں کی آزمائش کو ترجیح دی، پاکستان اعزاز کے دفاع میں سرخرو اور رہی سہی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوگیا، تاہم مستقبل کی امیدیں بھارت میں کھیلے جانے والے جونیئر ورلڈ کپ میں دم توڑگئیں، پاکستان ٹیم گروپ میچز میں صرف مصر کو شکست دینے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پہلے رائونڈ سے ہی باہر ہوگئی۔

ملکی ہاکی کی تقدیر بدلنے میں تو کامیابی نہ ہوئی تاہم عہدیداروں نے اپنی پوزیشنیں ضرور تبدیل کرلیں، کوچ حنیف خان منظر عام سے ہٹائے جانے کے بعد اپوزیشن کی روایتی زبان بولتے نظر آئے، پی ایچ ایف کے سٹیج پر پرانے چہروں کو نئے کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا، ہیڈکوچ اختر رسول نے استعفٰی دیا۔ پی ایچ ایف نے جمہوری انداز میں ہاکی کے ’’خدمت گار‘‘ لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کیں تو عدالتی جنگ کا بھی آغاز ہوا، سابق اولمپئن نوید عالم نے لاہور ہائیکورٹ میں انتخابی عمل کو چیلنج کیا، رکاوٹوں کے باوجود انتخابات کروا کے ایک ٹیم نہ سنبھال سکنے والے اختر رسول کو صدر  اور رانا مجاہد کو سیکرٹری منتخب کرلیا گیا،کئی کلب، ایسوسی ایشنز اور سابق اولمپئنز کی بڑی تعداد انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتی رہی۔

 پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے بکھیڑے

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں متوازی دھڑوں کی لڑائی بھی جگ ہنسائی کا سبب بنتی رہی۔ جنرل (ر) عارف حسن جس الیکشن کے ذریعے صدر منتخب ہوئے اس میں جنرل (ر) اکرم ساہی گروپ بھی شریک تھا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر عارف حسن کے 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے انتخاب کو غلط قرار دیتے ہوئے متوازی باڈی تشکیل دیدی گئی۔اب حکومتی پی او اے کو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی تسلیم نہیں کرتی جبکہ عارف حسن گروپ کو حکومت ماننے کو تیار نہیں، ملک کی مختلف سپورٹس فیڈریشنز بھی خانوں میں بٹ چکیں،کئی اپنی حیثیت منوانے اور دوسروں کو متوازی قرار دینے کیلیے عدالتی فیصلوں کی منتظر ہیں۔ متعدد عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے اظہار دلچسپی صرف عارف حسن گروپ کی پی او اے کے ذریعے ہی جمع کروایا جاسکتا ہے۔ متوازی باڈی اپنے طورپر نام بھجوانے کی کوشش کرتی ہے جسے رد کردیا جاتا ہے، اس تنازع کے نتیجے میں پاکستان کامن ویلتھ گیمز ، اسلامی سالیڈیرٹی گیمز سمیت کئی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کا حق کھو بیٹھا، قومی کھیلوں سمیت مختلف مقابلے بھی الگ الگ کروائے گئے، کھلاڑی اس تذبذب کا شکار رہے کہ بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی جاری رکھنے کیلیے کسی دھڑے میں شامل ہوں، حکومت کی پر اسرار خاموشی کے سبب مستقبل قریب میں بھی تنازع کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔

دیگر کھیلوں کا احوال

پاکستانی فٹبال ٹیم سال 2013 میں کوئی خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، سارک کپ میں گرین شرٹس ابتدائی رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے۔جنوبی ایشیا خطے کی انڈر 16 چیمپئن شپ میں پاکستان اعزاز کے دفاع کی مہم کے دوران ابتدائی مرحلے سے ہی باہر ہوگیا۔ انڈر14 ورلڈ کپ کوالیفائرز میں بھی پاکستانی ٹیم کا مین رائونڈ میں رسائی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ڈومیسٹک چیمپئن کے آرایل ٹیم نے ایشین کلب ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا مگر بدقستمی ترکمانستان کے بلقان ایف سی نے ایک گول سے ہراکر تاریخ رقم کرنے سے محروم کردیا۔ عامر اطلس خان نے ایشین چیمپئن بن کر پاکستان کی سکواش میں حالیہ ناکا میوں کا کسی حد تک ازالہ کیا، فرحان زمان نے پی ایس اے ٹورز مقابلوں کے 2 ٹائٹل اپنے نام کئے لیکن دیگر کوئی ایونٹ پاکستان کیلیے بڑی کامیابی کا پیغام نہ لایا، لندن میں ہونے والے ورلڈ اوپن میں پاکستان کے 2کھلاڑیوں نے حصہ لیا، فرحان محبوب کوالیفائنگ رائونڈ سے ہی باہر ہوگئے، ناصر اقبال کا سفر مین رائونڈ کے ابتدائی مرحلے میں تمام ہوگیا۔ علی شاہ بخاری انڈر19 ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دسمبر 2012ء میں پاکستان کو دوسری بار عالمی سنوکر ٹائٹل کا مالک بنانے والے محمد آصف سال بھر حکومت کی طرف سے اعلان کردہ انعامات کا وعدہ پورا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔

 photo Sports4_zps9a975360.jpg

 

لٹویا میں ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ میں محمد آصف اور عمران شہزاد اور شاہد آفتاب ناک آئوٹ مرحلے میں پیش قدمی جاری نہ رکھ سکے، محمد سجاد کی ہمت سیمی فائنل میں جواب دے گئی۔کبڈی ورلڈ کپ میں اپنے گروپ میں ناقابل شکست پاکستان نے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن بھارتی دیوار نہ گرائی جاسکی، رنرز اپ ٹیم وطن واپس آتے ہی ریفریز پر جانبداری کا الزام عائد کردیا۔ مخالفت کے باوجود پاکستان نے ویمنز ٹیم بھی تیار کی جس نے مختصر تیاری کے باوجود سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، ڈنمارک کے ہاتھوں صرف ایک پوائنٹ کے فرق سے برانز میڈل نہ مل سکا۔پاکستان نے ویسٹ ایشیا بیس بال کپ کی لاہور میں میزبانی کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ بھی جمالیا، قومی ٹیم عالمی رینکنگ میں 20 ویں پوزیشن پر آگئی۔ایشیا پیسفک سپیشل گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 23 گولڈ سمیت 51 میڈلز جیت کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ورلڈ یوتھ سکریبل چیمپئن شپ میں پاکستان کے معز اللہ بیگ نے ٹائٹل پر قبضہ جمایا جبکہ جویریہ مرزا رنر اپ رہیں۔شارجہ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔

ایشز سیریز میں گھر کے شیروں کا راج

 photo Sports6_zps0da8a4ea.jpg

فٹنس مسائل کی ماری آسٹریلوی کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں میزبان بولرز کے عتاب کا شکار ہوکر بیٹنگ ہی بھول گئی،اہم مواقع پر کمزور کھیل نے کینگروز کو شکستوں کی کھائی میں دھکیل دیا، تاہم موسم کی مداخلت نے کلین سویپ سے بچالیا،الیسٹر کک الیون نے 3-0 سے ایشز پر قبضہ جمایا، جوابی سیریز میں کینگروز کا نیا جنم ہوگیا، مائیکل کلارک نے ذاتی پرفارمنس اور شاندار قیادت سے کھلاڑیوں کے رویئے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مائیکل جونسن نے بولرز میں نئی روح پھونک دی، ریان ہیرس، پیٹر سڈل کے ساتھ ناتھن لیون نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خوب ساتھ نبھایا،آسٹریلوی بیٹنگ کا بوجھ مائیکل کلارک اور شین واٹسن کے ساتھ جارحانہ اپروچ رکھنے والے چند نئے چہروں نے بھی اٹھایا، جارج بیلی اور ڈیوڈ وارنز نے حریف پرکاری ضربیں لگائیں، سٹیون سمتھ نے بھی صلاحیتوں سے انصاف کیا، تاہم دونوں روایتی حریفوں کی ملک سے باہر مجموعی کارکردگی کا گراف نیچے گیا۔

ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام

 photo Incidents37_zps7ac47b91.jpg

سچن ٹنڈولکر کے عہد ساز کیریئر کا اختتام بھی سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک تھا،بھارتی ماسٹر بلاسٹر نے24 سال پر محیط کیریئر میں 34000 سے زائد رنز بنائے، سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے میچ بھی کھیلے، انہوں نے 200 واں ٹیسٹ کھیل کر 53.78 کی اوسط51تھری فیگر اننگز سمیت 15921رنز کے ساتھ کھیل کو خیر باد کہا،آسٹریلوی رکی پونٹنگ 51.85 کی ایوریج سے 41سنچریوں سمیت 13378رنز کے ساتھ دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں۔ ون ڈے میں ٹنڈولکر نے 463 میچز میں 18426رنز سکور کئے،اوسط 44.83رہی،49سنچریاں شامل ہیں۔ان کے بعد رکی پونٹنگ نے 375میچ کھیل کر 13704رنز بنائے۔اپنے الوداعی ٹیسٹ میں ہزاروں نمناک آنکھوں کی موجودگی میں رخصتی کے وقت ٹنڈولکر نے بجا طور پر کہا کہ میری زندگی 22 گز کے درمیان 24 سال سے تھوڑا زیادہ مدت پر محیط رہی، یقین کرنا مشکل ہے کہ میرا سفر ختم ہو گیا۔

آئی سی ایوارڈز کا میلہ

سال کے سب سے بڑے آئی سی سی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی پر بھارت نے قبضہ جمایا، بارش زدہ فائنل میچ صرف 20،20 اورز تک محدود رہا جس میں انگلینڈ کی مہم انتہائی کمزور نظر آئی، ورلڈ کپ کے فاتح کپتان دھونی نے دوسرا عالمی اعزاز بھی قوم کی جھولی میں ڈالنے کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا،آئی سی سی ایوارڈز کا میلہ مائیکل کلارک نے لوٹ لیا،آسٹریلوی کپتان نے 2 ڈبل اور 3سنگل سنچریوں سمیت 70.36کی اوسط سے 1559رنز سکور کرتے ہوئے سال کے بہترین اور ٹیسٹ کرکٹر کے ایوارڈز پر قبضہ جمایا،ون ڈے کرکٹ کے بیسٹ بیٹسمین سنگاکارا قرار پائے، عمر گل ٹوئنٹی20پرفارمنس میں بازی لے گئے، انہوں نے سنچورین میں 2.2 اوورز میں جنوبی افریقہ کی 5وکٹیں صرف 6رنز دیکر اڑا دیں تھیں۔

 ٹینس کی دنیا پر نڈال اور سرینا کا راج

 photo Sports1_zps6f7af49b.jpg

عالمی نمبر ون رافیل نڈال انجری مسائل سے نجات کے بعد میدان میں واپس آئے اورچھاگئے، ہسپانوی ٹینس سٹار کو 82 مقابلوں میں سے صرف 7 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے ریکارڈ آٹھویں فرنچ اوپن اور دوسرے یو ایس اوپن سمیت 8 ٹائٹل جیت کر اہم ٹرافیزکی تعداد13کرلی۔ نووک جوکووک نے آسٹریلین اوپن کے اعزاز کا دفاع کیا۔اینڈی مرے نے77 برس میں پہلی بار برطانیہ کو ومبلڈن مینز ٹائٹل کا مالک بنایا۔ راجر فیڈرر کا ستارہ گردش میں رہا، سوئس سٹارکی 2013 میں عالمی نمبر 6 پوزیشن پر تنزلی ہوگئی۔ ویمنز میں سرینا ولیمز کا جادو سر چڑھ کر بولا،33 سالہ امریکی سٹار نے ڈھلتی عمر میں بھی عروج کی طرف سفر جاری رکھا،انہوں نے سال کا اختتام 11 ٹائٹلز کے ساتھ کیا، فرنچ اور یو ایس اوپن کی فتوحات سمیت ان کے گرینڈ سلم کی مجموعی تعداد 17 ہوگئی، انھوں نے سال بھر میں 78 مقابلے جیتے جبکہ صرف 4 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرنچ سٹار ماریون بارٹولی نے ومبلڈن چیمپئن بننے کے بعد حیران کن طور پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، وکٹوریا آذرنیکا نے آسٹریلین اوپن جیت کراپنے اعزاز کا دفاع کیا۔بھارتی سٹار ثانیہ مرزا کی کارکردگی کا گراف تو خاص نیچے رہا، تاہم انہوں نے ماڈلنگ اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

 photo Sports2_zps0763c8a0.jpg

سپین کی فٹبال پر حکمرانی

سپین کی فٹبال پر حکمرانی برقرار رہی، ورلڈ اور یورپین چیمپئن ٹیم نے عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمائے رکھا، سال کے آخر میں جرمنی کا دوسرا اور ارجنٹائن کا تیسرا نمبر رہا، کولمبیا چوتھی، پرتگال پانچویں اور یوروگوئے چھٹی پوزیشن پر براجمان ہے، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور ورلڈ کپ 2014 کا میزبان برازیل بالترتیب ٹاپ 10میں شامل دیگر ٹیمیں ہیں۔ 2011 اور2012 میں سال کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے والے ارجنٹائنی لیونل میسی 2013 میں بھی اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترے۔ جرمن کلب بائرن میونخ نے یورپین کلب چیمپئن بننے کے بعد فیفاکلب ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی اپنے سر پر سجایا، بائرن میونخ کو جرمن لیگ میںناقابل شکست رہنے کا اعزازبھی حاصل ہے۔برازیل کی ورلڈکپ میزبانی کو کئی ناخوشگوار واقعات نے خطرے میں ڈالا لیکن تاحال فیفا کا اعتماد برقرار ہے۔

 photo Sports5_zps2f16ea79.jpg

شام پر موت کی گہری ہوتی رات

$
0
0

شام کی خانہ جنگی کا2011 کے ماہ اپریل سے جاری ہے۔ باغیوں اور حکم ران پارٹی بعث کے درمیان جاری اس لڑائی کو بہارِ عرب کا مآل قرار دیا جاتا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اندرونِ خانہ جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچے اور عورتیں بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ بشارالاسد ملک کے صدر ہیں جو اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ یہ خاندان گزشتہ کئی دہائیوں (1971) سے ملک پر حکم ران ہے اور اب شامی اس خاندان کے افراد کی صورتیں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں، اکثریت کا مطالبہ ہے کہ بشارالاسد کو اب ’’تخت‘‘ سے دست بردار ہو کر کسی اور کو موقع دینا چاہیے تاہم ماضی کا شہزادہ اور آج کا ’’بادشاہ‘‘ اس پر  آمادہ نہیں۔ واضح رہے کہ حافظ الاسد 1971 میں برسرِ اقتدار آئے تھے تاہم ان کی بعث پارٹی 1963 سے ملک پر حکم ران ہے۔ مارچ 2011 میں جب شام میں حکومت کے خلاف بے چینی کا آغاز ہوا تو حکومت نے ہزارہا شہریوں اور طلبا کو گرفتار کیا لیکن جب دیکھا گیا کہ حالات قابو میں نہیں آ رہے تو فوج کی بیرکوں کے پھاٹک کھول دیے اور یوں فوج شہروں شہروں پھیل گئی، اُدھر سے احتجاجیوں نے بھی اسلحہ (جو انہیں مسلسل کہیں سے مل رہا ہے) اٹھالیا اور فوج کے مقابل اتر آئے۔ فوج کے مقابل آنے والوں کو باغی قرار دیا جا رہا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو فوج سے بھگوڑے یا سبک دوش ہیں، شہری رضا کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں شامل ہے جب کہ 2013 میں لبنان میں اساس رکھنے والی حزب اللہ بھی شامی فوج کی حمایت میں در آئی ہے۔ اس کے علاوہ باہر کی دنیا سے بہ قول مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کو روس اور ایران سے اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف باغیوں کو سعودی عرب اور  قطر سے کمک فراہم کی جا رہی ہے۔

 photo Shaam_zps0cd9e0cc.jpg

اطلاعات کے مطابق جولائی 2013 تک شام کا 60 سے 70 فی صد رقبہ باغیوں نے ہتھیا لیا تھا جب کہ آبادی کے 60 سے 70 فی صد پر تاحال شامی حکومت کی فرماں روائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی 2012 کے اواخر کی ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ باغیوں کے گروپ سنی العقیدہ ہیں جو شیعہ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں جب کہ حکومت اور حزب اختلاف (باغی)، دونوں نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ اقوام متحدہ ہی کے مطابق اس خانہ جنگی میں ستمبر 2013 تک سوا لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں اس کے علاوہ دسیوں ہزار افراد سرکاری جیلوں میں قید ہیں، جن پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ مغربی طاقتیں صورت حال کے بگاڑ اور حقوقِ انسانی کی پامالی کی ذمہ دار بعث پارٹی کی حکومت کو قرار دے رہی ہیں جب کہ غیر جانب دار عالمی تنظیمیں دونوں فریقوں کو برابر کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ شامی شہری بڑی تعداد میں ملک چھوڑ چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں جب کہ ملک میں خوراک، دوائوں اور پانی کی شدید قلت ہو گئی ہے، ایک اطلاع کے مطابق معدمہ الشام میں بارہ سو سے زیادہ شہری بھوک اور پیاس کے باعث جاں بحق ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ یہ علاقہ شامی فوج کے محاصرے میں ہے اور اندرونِ شہر کھانے پینے کی اشیا کی رسد ممکن نہیں۔  اس خانہ جنگی میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام بھی حکومتِ شام پر عاید کیا جا رہا ہے جس کی حکومت سختی سے تردید کر رہی ہے اور اس کا جوابی الزام باغیوں پر ہے۔ سال کے آخری ماہ یعنی دسمبر میں باغیوں نے جو ’’آزاد شامی فوج‘‘ کہلاتی ہے، نصرانی اکثریت کے ایک اہم شہر معلولہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، یہ شہر اس سے پہلے بھی باغیوں کے قبضے میں تھا تاہم شامی فوج نے حزب اللہ کی معاونت ہے باغیوں کو مار بھگایا تھا۔  اس شہر میں ایک درجن سے زیادہ ننیں اغوا کی گئی ہیں، مقامی شہری اس کا الزام باغیوں پر عاید کرتے ہیں تاہم باغی اس کی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سرکاری فوج سے ان ننوں کو بچانے کے لیے قریبی شہر یابرود منتقل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یابرود بھی باغیوں کے زیر قبضہ ہے۔

دسمبر کے اوائل میں اسلامی محاذ نامی گروپ نے باب الہوا نامی علاقے پر قبضہ کر لیا جو کہ ترکی کی سرحد سے ملحق ہے۔ اس سے قبل اس پر آزاد شامی فوج (FSA) کا قبضہ تھا، گروپ نے اس علاقے میں موجود امریکی ساز و سامان کے گوداموں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ انہوں نے ایف ایس اے کو امداد کی فراہمی روک دی ہے کیوں کہ خدشہ ہے کہ یہ امداد القائدہ کے ہاتھ لگ سکتی ہے جو اس خانہ جنگی میں کردارادا کرنے کے لیے ملک میں داخل ہو چکی ہے۔ سرکاری فوج نے ایک اور اہم شہر النبق باغیوں کے قبضے سے 10 دسمبر کو ’’آزاد‘‘ کرا لیا جب کہ اس کے نواحات میں باغیوں اور فوج برسرپیکار ہیں۔

 photo Shaam2_zps92cb0bc4.jpg

اگست 2013 میں شام کی اس خانہ جنگی کے دوران سولہ مواقع پر مہلک گیس کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی شکایات عالمی ادارہ کو موصول ہوئیں جن کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ نے ماہرین پر مشتمل تفتیش کاروں کی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم نے نو مقامات کو شواہد مفقود ہونے کی بنا پر نظرانداز کر دیا جب کہ چار مقامات پر ’’سارِن‘‘ نامی ہلاکت خیز گیس استعمال کرنے کے شواہد ملے ہیں۔ گیس کے استعمال کی دونوں فریق تردید کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ نے بھی کسی فریق کو مجرم قرار دینے سے گریز کیا ہے تاہم باغی گروہ سرکار پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے غوطہ شہر پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں اور سرکار نے باغیوں پر خان الاصل پر اس مہلک گیس کے استعمال کا الزام عاید کیا ہے۔ خان الاصل کی  اصل صورتِ حال جاننے کے لیے روسی ٹیم نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور انکشاف کیا کہ اس حملے میں SARIN گیس استعمال کی گئی ہے جو حکومت کے بہ جائے باغیوں کے پاس ہے۔ 9 ستمبر کو ماسکو نے شام پر زورڈالا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار بین  الاقوامی نگرانی میں دے دے کیوں کہ امریکا نے 21 اگست کو جوبار، زمالکہ، عین ترمہ اور ہزہ کے علاقوں پر کیمیائی حملوں کے ردعمل میں دمشق پر حملے کی دھمکی داغ دی تھی۔ اسی خدشے کی ذیل میں 16 ستمبرکو ماسکو اور واشنگٹن نے جنیوا میں اس امر پر اتفاق کیا کہ شامی حکومت سے کیمیائی ہتھیار واپس لے لیے جائیں گے۔

 photo Shaam2_zps92cb0bc4.jpg

دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ اس خانہ جنگی میں تاجک باشندے بھی سرکار کے خلاف اپنا حصہ ڈالنے پہنچ رہے ہیں۔ ماہ مئی میں تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے تسلیم کیا ہے کہ کم و بیش دو سو تاجک شام میں لڑ رہے ہیں۔ ان تاجک جنگ بازوں کی اکثریت طلبا پر مشتمل ہے جو عرب ممالک میں دینی تعلیم حاصل کرنے تاجکستان سے گئے ہیں، اس کے علاوہ ان ممالک میں مزدوری کرنے گئے تاجک بھی شامل ہیں۔ شام کے مفتیٔ اعظم نے اکتوبر میں انکشاف کیا ہے کہ تاجکوں کے علاوہ 360 ترکمان اور اڑھائی سو قازق اور کچھ ازبک بھی حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

بہ ہرحال دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور شام کے شہری دھڑا دھڑ موت کی دہلیز پار کر رہے ہیں، ان میں نہ کسی کو بچوں کی پروا ہے،  نہ عورتوں کی حرمت کا احساس اور نہ بوڑھوں کی عمر کا لحاظ کیا جا رہا ہے۔ آس پاس کی حکومتیں لڑائی کی آگ کو دل کھول کر ہوا دے رہی ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد سوا لاکھ تک دو ماہ پہلے پہنچ گئی تھی اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔

Viewing all 4666 articles
Browse latest View live