Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4663 articles
Browse latest View live

ہارٹ اٹیک سے ناکارہ دل کے لیے انقلابی علاج کی طرف پیش رفت

$
0
0

یہ اٹھارہ مہینے پہلے کی بات ہے جب کیرول گیڈا کو زبردست ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔اس کے نتیجے میں اس کے دل کی کام کرنے کی صلاحیت صرف بیس فیصد رہ گئی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ اسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پریشانی ہوتی تھی۔بعض اوقات تو کسی سے بات کرتے ہوئے اس کا سانس پھول جاتا تھا۔کیرول گیڈا برطانیہ کے ان ساڑھے سات لاکھ افراد میں سے ایک ہے جنہیں ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے۔ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب دل بیمار ہو اور مناسب انداز سے خون کو پمپ کرنے میں ناکام ہوجائے۔

اگر چہ اس بیماری کا علاج موجود ہے لیکن دل کو جو نقصان ہوتا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں۔تاہم اس کی کچھ امید دکھائی دی ہے۔ یہ امید دل کے لیے ’’جین تھیریپی‘‘ سے جاگی ہے۔مسز گیڈا کا تعلق ایسکس سے ہے اوروہ ان دوسو مریضوں میں سے ایک ہیں ، جنہیں بیمار دل کے علاج کے لیے جین تھیریپی کے تجربات میں شامل کیا گیا ہے۔اس تھیریپی کے ذریعے ان کے دل میں ایسا جینیاتی مواد شامل کیا جائے گا جو ہارٹ اٹیک سے بے کار ہوچکے ان کے دل کے خلیات کو صحت مند بناکر دل کے فعل کو درست کرے گا۔

امپیریل کالج لندن کے محققین کے مطابق جن افراد کو ہارٹ اٹیک ہوچکا ہو ان میں ایک پروٹین SERCA2a کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ رائل برامپٹن ہسپتال لندن جہاں پر مسز گیڈا کا علاج ہورہا ہے ان دو برطانوی مراکز میں سے ایک ہے جہاں پر مذکورہ بالا بین الاقوامی اسٹڈی ہورہی ہے جبکہ دوسرا گلاسگو میں واقع گولڈن جوبلی نیشنل ہسپتال ہے۔

تجربات میں شامل ہونے سے پہلے مسز گیڈا کی بیس لائن کی پیمائش کی گئی تاکہ اس کی فٹنس کا پتہ چل سکے۔وہ ہسپتال کے تیس میٹر لمبے برآمدے میں چھ منٹ تک چلتی رہی۔ اس نے اس دوران جتنا فاصلہ طے کیا اس کو محققین کی جانب سے نوٹ کیا گیا۔اس کے دل کی کارکردگی کو بھی ریکارڈ کیا گیا۔

رائل برامپٹن ہسپتال میں جین تھیریپی اس کے NIHR بائیومیڈیکل ریسرچ یونٹ میں فراہم کی جاتی ہے جو کہ لوکل اینستھیزیا کے تحت کورونیری اینجیوگرام کے ذریعے دی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق محققین نے مذکورہ جین کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایک وائرس کے اندر چھپا دیا ہے جو کہ دل کے پٹھوں سے چپک جاتا ہے تاہم یہ مکمل طور پر بے ضرر وائرس ہے۔یہ وائرس ’’ٹروجن ہارس‘‘ والا کام کرتا ہے اور خاموشی سے اضافی ڈی این اے کو دل کے خلیات کے نیوکلئیس میں پہنچا دیتا ہے۔

امید یہ ہے کہ جین دل کے خلیات کو متحرک کرے گا کہ وہ مزید SERCA2a پروٹین یعنی جین تیار کریں اور دل کے پٹھوں کو ہونے والے نقصان کی مرمت کریں۔تحقیق کے سلسلے میں نصف شرکاء کو جین تھیریپی دی جائے گی جبکہ نصف شرکاء کو محض’’میٹھی گولی‘‘ دی جائے گی۔ مسز گیڈا کہتی ہیں کہ وہ تجربات میں شامل کیے جانے پرخوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتی کہ انہیں جین تھیریپی دی جائے گی یا میٹھی گولی ، لیکن تجربات میں شامل ہونا ہی ان کے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے تین بیٹے ہیں اور ان کی دل کی بیماری خاصی حد تک جینیاتی ہے لہٰذا تجربات میں شامل ہونے سے ان کے خاندان کو مستقبل میں فائدہ ہوسکتا ہے۔

ان تجربات کا نام CUPID2 رکھا گیا ہے اور اس کے لیے سرمایہ امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی Celladon فراہم کررہی ہے اور اس کے نتائج تین سال تک سامنے آجائیں گے۔برٹش ہارٹ فائونڈیشن کے محقق اور رائل برامپٹن ہسپتال میں کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر الیگزینڈر لیون کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی یہ طریقہ علاج کامیابی سے بہت دور ہے تاہم تجربات کے حوالے سے بہت جوش پایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا میں کچھ مریضوں کو جین تھیریپی دی جاچکی ہے اور بظاہر وہ بہت اچھے نتائج دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اہم بات یہ ہے کہ ابتدائی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طریقہ علاج محفوظ ہے لیکن اس بارے میں یقینی طورپر کوئی بات کرنے سے پہلے ابھی بڑے پیمانے پر اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ان تجربات سے ایک موثر علاج مل جاتا ہے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ ڈیوڈ پامر جس کا تعلق نارفوک سے ہے ، برطانیہ میں اس علاج کی سہولت حاصل کرنے والا پہلا مریض ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے دل کا بایاں حصہ بڑا ہوچکا ہے اور اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن ہر وقت بے ترتیب رہتی ہے اور وہ نقاہت اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔پامر بتاتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ فریج کھولتے ہوئے اس کے اندر گرپڑا ۔ وہ زخمی نہیں ہوا لیکن اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ ڈاکٹروں کے مطابق پامر کی دل کی بیماری بہت پرانی ہے اس لیے ہارٹ ٹرانسپلانٹ اس کے لیے موزوں نہیں۔جین تھیریپی اس کے لیے بہت موزوں ہوگی۔


مخلوق خدا کی خدمت ہی انسانیت کی معراج ہے

$
0
0

صاحب زادہ محمد حلیم کا مختصر تعارف:

معروف سماجی کارکن، ترقی پسند صحافی اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے چیئرمین صاحب زادہ محمد حلیم یکم ستمبر 1969ء کو پشاور کے نواحی علاقے ماشو گگر بڈھ بیر میں پیدا ہوئے۔ زمین دار گھرانے اور صاحب زادگان فیملی سے تعلق رکھنے والے صاحب زادہ محمد حلیم نے پرائمری ایجوکیشن اپنے گاؤں، میٹرک نمبر ون سٹی پشاور اور گریجویشن پشاور یونی ورسٹی سے کی، اے این پی سے خاندانی تعلق ہونے کی بناء پر زمانہ طالب علمی ہی میں ڈی ایس ایف کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن خیبرپختون خوا کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، 1990ء میں’’ ندائے جہاں‘‘ کے نام سے ماہانہ میگزین کا اجراء کیا یہ سلسلہ 1998ء تک جاری رہا، اسی دوران 1992ء میں ’’نیشنل ڈیلی‘‘ کا اجراء کیا، ’’پکار‘‘ میگزین میں بھی کافی عرصہ تک لکھتے رہے۔ 1998ء میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی چلے گئے جہاں پرنٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے منسلک رہے، 2001ء میں وطن واپس آئے، زمانۂ طالب علمی ہی سے خون عطیہ کرنا شروع کیا، اس وقت وہ الخدمت فاؤنڈیشن، اتفاق کڈنی سنٹر اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے تعاون سے پاکستان چیریٹی کونسل کے صوبائی چیئرمین بھی ہیں۔

’’اسے زہر دے دو، مارڈالو اسے، میں اس زندہ لاش کو لے کر کہاں کہاں اور کس کس کے در پر لیے پھروں گی، آخر کب تک یہ لاش مجھ سے چمٹی رہے گی؟ اگر تم لوگ اسے خون نہیں دے سکتے تو خدارا اسے زہر دے دو، اب مجھ میں مزید سکت باقی نہیں رہی، بہت تھک چکی ہوں میں۔‘‘ یہ سارا منظر ابھی ابھی میرے دل و دماغ کے کینوس پر نہ صرف محفوظ ہوا تھا، بل کہ کانٹے کی طرح چبھ بھی رہا تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا اور جن متعلقہ افراد سے مجسم مایوسی کی پیکر وہ خاتون مکالمہ کر رہی تھیں ان سے مخاطب ہو کر بول اٹھا کہ آخر اس خاتون کی داد رسی کیوں نہیں کی جاتی؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی ہیڈ آفس سے مزید رجسٹریشن نہ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے، اس لیے ہم مجبور ہیں اور اس خاتون کی ننھی منی معصوم سی بیٹی کو خون فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ 2002ء کا ذکر ہے اور میں اس ادارے کو باقاعدگی سے خون اور نقد امداد ڈونیٹ کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے ادارے کے کراچی آفس سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہی، لیکن وہاں اس مسئلے کے حوالے سے ایک بندہ دوسرے اور دوسرا تیسرے کی طرف فٹ بال کی طرح مجھے پھینک رہا تھا۔ جب کچھ نہ بنا تو کسی نے کہا کہ اگر تم اتنے خدا ترس بنے پھرتے ہو تو خود اس قسم کا ادارہ کیوں نہیں کھولتے۔ اسی اثناء میں نے 25 ہزار روپے وہاں ڈونیٹ کیے اور واپسی کی راہ لی۔

گھر آتے ہوئے غیرمحسوس طریقے سے یہ سارا ماجرا مجھے بے چین کیے جارہا تھا۔ انہی دنوں چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا شکیل درانی کے ہاں دعوت پر جانا ہوا، جہاں موجود لوگوں سے اس سلسلے میں بات چھیڑدی کہ سرکاری سطح پر خون کے امراض میں مبتلا بچوں کے لیے ایک ادارہ قائم ہونا چاہیے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر اس قسم کے ادارے کا قیام مشکل ہے۔ اس تقریب میں موجود ایک ڈاکٹرصاحب نے حامی بھر لی کہ چلو ابھی سے ابتدا کرلیتے ہیں، لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ اس مقصد کے لیے سردست 70 لاکھ روپے درکار تھے، جو ہمارے لیے مشکل اور ایک کٹھن مرحلہ تھا، لیکن

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

2003ء میں اس وقت کے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شیر زادہ، سیکریٹری سیفران اور موجودہ ایم این اے گل زار خان نے اس چھوٹے سے قافلے کے لیے زاد راہ اور ہمت باندھنے کی بندھن نبھائی اور یوں 2003ء ہی میں یہ قافلہ اس وقت کے گورنر سید افتخار حسین شاہ کی سرکردگی میں افتتاح کی منزل تک جا پہنچا، جب کہ انہی کی درخواست پر دسمبر 2004ء میں کوہاٹ میں فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی برانچ کھولی گئی اور چل سوچل کے مصداق اسی ماہ دو کروڑ روپے کی لاگت سے سوات کے شہر مینگورہ میں ایک اور شاخ کھولی جائے گی۔

یہ کہانی ہے معروف و سماجی کارکن، صحافی اور فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہاسپٹل اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن سروسز کے چیئرمین صاحب زادہ محمد حلیم کے ادارے فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہاسپٹل اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن سروسز کی۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں خون کے مہلک امراض میں مبتلا بچوں کو زندگی کی سانسیں دینے، سماجی خدمات اور ذاتی زندگی کے حوالے سے صاحب زادہ محمد حلیم کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس : سماجی خدمت کا جذبہ کیسے پیدا ہوا اور اس کے پیچھے کیا عوامل اور محرکات تھے؟

صاحب زادہ محمد حلیم : شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنے آس پاس، اڑوس پڑوس میں لاچار، بے بس اور سسکتی زندگیوں کو دیکھتا تو ایک ہیجانی سی کیفیت دامن گیر رہتی، پہلے پہل گلی محلے میں چھوٹی موٹی خدمات میں پیش پیش رہا، لیکن جب فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا تو فاطمید فاؤنڈیشن کو باقاعدہ خون عطیہ کرتا اور ساتھ اپنی پاکٹ منی سے کچھ بچا کر اپنے حصے کی مقدور بھر سعی کرتا رہا اور دوسرے ساتھیوں کوبھی اس ضمن میں ترغیب دلاتا رہا، حتیٰ کہ چند دوستوں کو مجھ سے چڑ بھی ہو گئی کہ تم بڑے پھنے خان اور سخی بنے پھرتے ہو۔ تم ہی یہ خدمت گاری کے کام کرتے رہو ہمیں معاف ہی رکھنا۔

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ ایک واقعے نے میری زندگی ہی بدل ڈالی جو میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہی کہہ لیں جس نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، وہ مذکورہ خاتون کا واقعہ تھا، جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہی سے ارادہ کر لیا کہ اب کچھ نہ کچھ دکھا کے رہوں گا اور پھر چل سو چل یہ سارا کچھ آپ سب کے سامنے ہے۔

ایکسپریس: ادارہ کب اور کیسے قائم کیا؟

صاحب زادہ محمد حلیم: فرنٹیئر فاؤنڈیشن ویلفیئر ہسپتال اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن کا قیام 2003ء میں اس وقت عمل میں لایا گیا جب خیبر پختون خوا میں سرکاری و پرائیویٹ سطح پر تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے نو تشخیص شدہ مریض بچوں کی رجسٹریشن اور مستقل بنیادوں پر صاف اور صحت مند خون کی فراہمی کا کوئی انتظام موجود نہ تھا۔ اس ادارے نے 14 جولائی 2003ء سے باقاعدہ سروسز کا آغاز کیا۔ فاؤنڈیشن نے جلد ہی صوبے کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے مریض بچوں کے لیے 30 ستمبر 2004ء کو لیاقت میموریل ہسپتال میں فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی کوہاٹ برانچ بھی قائم کر دی۔

ایکسپریس: کتنی تعداد میں مریض بچے اب تک رجسٹرڈ ہو چکے ہیں؟

صاحب زادہ محمد حلیم: پشاور اور کوہاٹ مراکز میں خیبر پختون خوا، قبائلی علاقہ جات، اٹک، راول پنڈی، اسلام آباد اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زاید مریض بچے رجسٹرڈ ہیں، ادارہ ان بچوں کو بہترین سہولیات اور خون و اجزائے خون بالکل مفت فراہم کرنے کے علاوہ خیبر پختون خوا کے سرکاری و غیرسرکاری ہسپتالوں میں ایمرجینسی کی صورت میں آنے والے مریضوں کو بھی مکمل اسکرین شدہ خون اور اجزائے خون بلامعاوضہ فراہم کرتا ہے، چوں کہ تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کے ایک مریض بچے کے علاج پر سالانہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو غریب والدین کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیے ادارہ رجسٹرڈ مریضوں کو علاج و معالجے اور خون کی فراہمی کی وہ تمام سہولیات بالکل مفت فراہم کرتا ہے جن پر لاکھوں روپے ماہانہ اخراجات اٹھتے ہیں۔

ایکسپریس: تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کیا ہیں اور کیا شادی سے قبل ان کے ٹیسٹ لازمی ہونے چاہییں؟

صاحب زادہ محمد حلیم : تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے، جس کی وجہ سے بچے کے جسم میں پیدائشی طور پر خون کے سُرخ ذرات یعنی آر بی سی نہیں بنتے۔ اس لیے ایسے مریض بچے کو زندگی کی بقاء کے لیے ہر پندرہ سے بیس دن بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا علاج بی ایم ٹی ہے جس پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 8 فی صد تھیلیسیمیا مائینر کے کیریئر ہیں۔ بدقسمتی سے ان افراد کو پتا ہی نہیں کہ وہ تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا میں 40 ہزار کے قریب تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 6 فی صد اضافہ ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں تھیلیسیمیا میجر کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ کم آگاہی، خاندان میں شادیاں خصوصاً کزن میرج اور شادی سے قبل BH الیکٹرو فورسز ٹیسٹ نہ کروانا ہے۔

اسی طرح ہیموفیلیا بھی ایک موروثی مرض ہے جو خون Factor VIII اور Factor IX کی کمی سے لاحق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلاحیت کم پڑ جاتی ہے، جب کہ زخم لگنے یا جسم میں اندرونی چوٹ سے خون بہتا چلا جاتا ہے، جسے روکنے کے لیے خصوصی انجکشن اور متبادل خون (FFP) WBC کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان مہلک امراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان کی وجہ اور تدارک سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے، ان امراض کی بنیادی وجوہات میں خاندان میں بار بار شادیاں یعنی فرسٹ کزن میرج ہیں جس میں عموماً مائینر + مائینر کے باعث میجر تھیلیسیمیا جنم لیتا ہے جس کے تدارک کے لیے مؤثر قانون سازی کر کے اسکول میں داخلے کے وقت سرٹیفکیٹ میں دو لائنوں کا اضافہ کر کے یہ نشان دہی اور تصدیق لازمی قرار دی جائے کہ فلاں بچے یا بچی کو خون کے مہلک امراض لاحق ہیں یا نہیں، یعنی داخلے کے وقت مذکورہ ٹیسٹ لازمی ہونے چاہییں، سرٹیفکیٹ میں بلڈ گروپ اور ایکسٹورل فورسز کا اضافہ ضرور کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس: ادارے کی روز مرہ خدمات کے بارے میں بتائیں؟

صاحب زادہ محمد حلیم: فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی پشاور برانچ میں روزانہ 60 سے 70 اور کوہاٹ برانچ میں روزانہ 20 سے 30 مریض بچوں کو خون اور اجزائے خون کی مفت فراہمی یقینی بنا رہے ہیں، جب کہ ادارے کی جانب سے مریض کے جسم میں فولاد کی مقدار نارمل رکھنے کے لیے ڈسفرال انجکشن بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض بچوں اور ان کے لواحقین کو کھانا وغیرہ بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فاؤنڈیشن کی لیبارٹری جدید ترین مشینوں سے آراستہ ہے، عطیات میں اکٹھے کیے جانے والے خون کا تجزیہ جس میں HIV/AIDS، ہیپاٹائٹس، ملیریا اور سوزاک کے ٹیسٹ شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق جدید کمپیوٹرائزڈ ڈائیلاسز مشین پر جانچ کی جاتی ہے۔ اسی طرح محدود وسائل کے باوجود فرنٹیئر فاؤنڈیشن نے فلاحی تنظیم ’’للسائل و المحروم‘‘ کے اشتراک سے صوبہ بھر کے دور دراز علاقوں میں عوام کی سہولت کے لیے مفت میڈیکل کیمپ لگائے، تاکہ جن علاقوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے وہاں بسنے والے بیمار اور ضرورت مند مریضوں کو علاج اور ادویات مہیا کی جا سکیں ان کیمپوں کے ذریعے ہزاروں افراد کا مفت معائنہ کیا گیا اور ادویات فراہم کرنے کے علاوہ موبائل لیبارٹری کے ذریعے ہیپاٹائٹس کے ہزاروں مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا گیا، انہیں بروقت علاج اور احتیاط سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔

ایکسپریس: کیا انتقالِ خون ہی اس بیماری کا واحد علاج ہے یا جدید تحقیق کی روشنی میں دیگر ذرائع علاج بھی اس ضمن میں قابل عمل ہیں؟

صاحب زادہ محمد حلیم : چوں کہ بار بار خون چڑھانے سے اگر ایک طرف متاثرہ مریض کی زندگی کو طوالت دینے کی جستجو کی جاتی ہے تو دوسری طرف بدن میں آئرن کی مقدار بڑھنے سے جگر، گردے اور دیگر اعضاء شدید متاثر ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے، جب کہ اس مقدار کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈس فرال انجکش لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بی ایم ٹی بھی ذریعہ علاج ہے، یعنی بون میرو ٹرانسپلانٹیشن، لیکن یہاں میچنگ کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں، البتہ انڈیا میں نسبتاً زیادہ اور اٹلی میں 95 فی صد تک یہ طریقۂ علاج کام یاب رہتا ہے۔ پاکستان میں اس طریقۂ علاج پر 20 لاکھ روپے خرچہ، انڈیا میں 25 لاکھ جب کہ اٹلی میں اس پر ایک لاکھ ڈالر تک خرچ اٹھتا ہے، میں یہاں یہ بھی بتاتا چلو کہ مصر اور ایران میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا تھا، لیکن وہاں موثر قانون سازی کے ذریعے اس پر مکمل کنٹرول پا لیا گیا ہے۔ یعنی خاندان میں شادیوں کے رواج کی حوصلہ شکنی کے ساتھ شادی سے قبل HB ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے، جب کہ مؤثر تدارکی اقدامات کے باعث اب 12 یا 13 سال کی عمر میں ان بچوں کی اموات کو کنٹرول کرکے طوالت دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انگلینڈ کے 70 سالہ شخص کی مثال دی جا سکتی ہے جو دادا نانا بھی بن چکا ہے، مانسہرہ کی ایک لڑکی اب میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہے، یعنی اب کہا جا سکتا ہے کہ خون کے امراض میں مبتلا افراد کی زندگی اوسطاً 35,30 سال تک طویل ہو سکتی ہے، یعنی اب جدید تیکنیک کی مدد سے اموات کی شرح پر قابو پانا ممکن رہا۔

ایکسپریس: حکومتی سطح پر یا انٹرنیشنل ڈونر کی جانب سے اس مرض پر قابو پانے یا متاثرہ مریضوں کی کسی بھی قسم کی مدد سے آپ مطمئن ہیں؟

صاحب زادہ محمد حلیم: میں نے ذاتی طور پر یو ایس ایڈ، ایشین ڈیویلپمینٹ بینک، یو این ایچ سی آر اور دیگر ڈونر ایجنسیز کے ساتھ رابطے کیے ہیں، لیکن سب بے سود، ان کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں ملا، اسی طرح حکومتی سطح پر سوائے مایوسی کے کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہاں البتہ پچھلی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کی ذاتی کوششوں اور دل چسپی پر میں بہت ممنون اور شکرگزار ہوں جنہوں نے پرسنل کیپیسٹی میں ڈھائی کروڑ روپے کے آلات، تین ایمبولینس اور سالانہ گرانٹ کی فراہمی میں ہماری مدد کی۔ اس ضمن میں سی ایم سیکرٹریٹ میں ایک کمیٹی نے خفیہ طور پر ہماری کارکردگی کی نگرانی کی اور وزیراعلیٰ کو (او کے) رپورٹ دی، جب کہ ایم ایم اے دور حکومت میں ان کے وزیر صرف یہاں فوٹو سیشن کے لیے تشریف لاتے۔ اس کے ساتھ عام لوگ اور مخیر حضرات خون عطیہ کرنے، نقد اور آلات کی شکل میں بھرپور امداد کر کے متاثرہ بچوں کی سانسوں کو رواں دواں رکھنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت ادارے کے ماہانہ اخراجات 20 لاکھ روپے بنتے ہیں، جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ فرنٹیئر فاؤنڈیشن ایک رجسٹرڈ فلاحی ادارہ ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت خون کے عطیات، زکوٰۃ، خیرات، صدقات، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے جمع کی جانے والی رقوم سے زکوٰۃ کے 99 فی صد مستحق مریضوں کے خون اور اجرائے خون کی منتقلی کا کام مفت انجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے ادارے پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 9 سال تک بغیر کسی حکومتی یا انٹرنیشنل ڈونر کی امداد کے ہمارا ادارہ انسانیت کی خدمت کررہا ہے لیکن کبھی ہمارے ارادے متزلزل نہیں ہوئے، اس لیے دکھی انسانیت کا درد رکھنے والوں اور مخیر حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت آکر سسکتے، تڑپتے بچوں کی سانسوں اور آہوں کو دیکھیں، محسوس کریں اور ان کی تکلیف کا اندازہ کریں، کیوں کہ یہ آپ کی امداد کے حقیقی مستحق ہیں، خون کے عطیے کے علاوہ عطیات بذریعہ چیک، زکوٰۃ، خیرات، فطرانہ، صدقہ، خصوصی عطیے آلات اور قربانی کی کھالوں کی شکل میں دی جا سکتی ہیں، کسی بچے کے ماہانہ علاج کا خرچہ اٹھایا جا سکتا ہے، آپ بلڈ بیگ، بلڈ ٹرانسفیوژن کٹس، لیبارٹری کے آلات، ڈس فرال انجکشن عطیہ میں دے سکتے ہیں جب کہ ایک رضا کار کی حیثیت سے خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے کیمپ لگا سکتے ہیں، فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے تقریبات وغیرہ کا انعقاد کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے انسانی جسم پر کوئی اثر پڑتا ہے؟

صاحب زادہ محمد حلیم: یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان، افغانستان اور انڈیا کو تھیلیسیمیا بیلٹ کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں خاندانی شادیوں کی روایات کے باعث یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے لیے قابل افسوس اور خطرناک بات یہی ہے کہ خیبر پختون خوا اس حوالے سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے اس حوالے سے ہمارا فرض بھی بنتا ہے کہ اپنے صوبے میں مہلک مرض پرجتنا جلد قابو پایا جاسکے اتنا ہی یہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا، جب کہ اس مقصد کے لیے خون کی زیادہ مقدار میں ضرورت بھی پڑتی ہے، میں یہ بتایا چلوں کہ خون عطیہ کرنے سے انسانی صحت پر منفی نہیں بل کہ مثبت اثرات پڑتے ہیں ایک انسانی جسم میں عموماً 6 ہزار سی سی خون موجود ہوتا ہے اور انسانی جسم 4 یا 5 ہزار تک سی سی خون استعمال کرتا ہے، لہٰذا ایک ہزار سی سی زاید خون ہمارے جسم میں موجود ہوتا ہے۔ اس طرح ایک بیگ خون عطیہ کرنے سے 3 انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ میں یہ فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا ادارہ اب تک بڑے سرکاری ہسپتالوں کو ایمرجنسی اور میٹرنٹی کی صورت میں 22 ہزار خون بیگز عطیہ کر چکا ہے۔

ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ محدود وسائل میں خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور مزید بہتری کے لیے آپ کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں؟

صاحب زادہ محمد حلیم: جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہم محدود وسائل یا عطیات پر دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، ہماری پشاور برانچ میں کل عملے کی تعداد 38، کوہاٹ میں 14 اور اب مینگورہ برانچ کے لیے 8 افراد ہائیر کئے گئے ہیں ان سب کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپے خرچ اٹھتا ہے۔ اس لیے حکومتی سرپرستی انتہائی ناگریز ہے۔ اس کے علاوہ اگر حکومت ہمیں ادارے کے لیے 5 یا 6 کنال اراضی دینے سمیت سالانہ گرانٹ میں اضافہ کرتی ہے اور ساتھ ہی بلڈ بیگز، اسکرینگ کٹس اور دیگر آلات کی صورت میں مدد کرتی ہے، تو ہم بہتر انداز میں خون کے مرض میں مبتلا بچوں کی بہتر طور پر خدمت کر سکیں گے اور ان کی زندگی کی سانسوں کو رواں دواں رکھ سکنے میں معاون ہو سکیں گے۔

اٹھائیس سالہ ذکیہ ہاشم عزم وحوصلے کا مجسم پیکر:

زندگی سے پیار کرنے والی، ہر سانس کو پھول کی مہک سمجھ کر ہرکلی سے انتہائی محبت وشفقت سے پیش آنے والی خون کے مرض میں مبتلا اٹھائیس سالہ ذکیہ ہاشم حوصلے، عزم، جذبے سے سرشار اور مہروفا کی مجسم پیکر جب خون کے امراض میں مبتلا ان کلیوں کی خدمت میں دیوانہ وار کبھی ایک کی طرف اور کبھی دوسری کی جانب لپکتی ہے، تو رواں سانسوں پر اعتبار اور بھی زیادہ پختہ ہوجاتا ہے اور انسانیت پر پیار آنے لگتا ہے۔ باڑہ کے علاقے تیراہ سے تعلق رکھنے والی میٹرک تک تعلیم پانے والی ذکیہ ہاشم کہتی ہیں، کہ دوردراز علاقے میں رہائش اور آگہی نہ ہونے کے باعث میری بیماری شدیدتر ہوگئی تھی لیکن یہاں آنے کے بعد میری حالی بتدریج بہتر ہونے لگی اور پھر خون کے امراض میں مبتلا بچوں کی خدمت کو زندگی کا مشن بنانے کے اس ادارے میں بطور نرس اپنی خدمات پیش کردیں اور عرصہ آٹھ سال سے اسی جذبے اور لگن خدمات انجام دے رہی ہوں، میری والدین سے گزارش ہے کہ ان کے جو بچے اس مرض میں مبتلا ہیں ان کو بروقت علاج معالجے کے لیے متعلقہ اداروں میں انتقال خون کے لیے لائیں اور ساتھ کوشش کریں کہ وہ ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ خوشی دیں۔

پینگولن ، ایک نایاب، دلچسپ اور بے ضرر جانور

$
0
0

چند ماہ قبل اخبارات میں ایک خبر اور تصویر شائع ہوئی جو حیران کن بھی تھی اور دلچسپ بھی۔خبر کچھ یوں تھی:

’’سندھ میں لوگوں نے ایک خطرناک بلا کو ہلاک کردیا ۔‘‘

خبر کے مطابق ایک شہری کے گھر سے ایک ’’خوفناک بلا‘‘ برآمد ہوئی جسے لوگوں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔خبرکے ساتھ اس ’’بلا‘‘ کی تصاویر شائع ہوئی تھیں جبکہ دوسری تصویر میں ایک مولوی بلا کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا لے جارہا تھا اور تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ ’’بلا کی لاش کو تھانے لے جانے کے لیے رکشے میں ڈالا جارہا ہے۔‘‘

خبر اور تصاویر مضحکہ خیز تھیں۔حیرت اور افسوس کا امر یہ ہے کہ جس شے کو ’’بلا‘‘ کہا جارہا تھا ، وہ ایک نایاب نسل کا جانور ’’پینگولن‘‘ ہے جو ایک بے ضرر اور معصوم جانور ہے اور محض کیڑے مکوڑے اور جڑی بوٹیاں کھاتا ہے۔ اپنی ساخت اور عادات کے اعتبار سے یہ جانور قدرت کی تخلیق کا شاندار اور دلچسپ شاہکار ہے جس کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جن کی نسل خطرے میں ہے۔لیکن پاکستان میںلوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس نایاب جانور کو بلا سمجھ کر ہلاک کردیتے ہیں۔ یہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں ۔ اس سے قبل بھی پاکستان کے کئی شہروں میں اس ’’بلا‘‘ کو ہلاک کرنے کے واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ آج جب گھر گھر میں ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ ، ’’اینیمل پلینٹ‘‘ اور ’’ڈسکوری‘‘ جیسے چینل چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں جن میں دنیا بھر کے جانوروں اور دیگر جانداروں کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور ان کی نسل کو بچانے کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے، وہیں پاکستان کے عام لوگوں میں جہالت اس قدر سرایت کی ہوئی ہے کہ وہ عدم آگاہی کے اس قسم کے مضحکہ خیز مظاہرے کررہے ہیں۔سندھ میں لوگوں نے اسی نایاب نسل کے جانور پینگولن کو ہلاک کردیا تھا۔حالانکہ اگر عوام میں زرا سی بھی آگاہی ہوتی تو اس جانور کو زندہ پکڑ کر کسی تحقیقی ادارے یا چڑیا گھر کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔پینگولن کیا ہے اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے، آئیے ذیل میں آپ کو اس کے بارے میں کچھ معلومات دیتے ہیں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ کس قدر نایاب خصوصیات کا حامل ہے اور کس طرح اس کی نسل خطرے میں ہے:

پینگولن (اس کو ’’چیونٹی خورا‘‘ اور ٹرینگیلنگ بھی کہا جاتا ہے) فولی ڈوٹا سلسلے کا ایک ممالیہ جانور ہے ۔اس کا تعلق جانوروں کے خاندان ’’مانی ڈائی‘‘ سے ہے جس میں آٹھ قسم کی نسلیں پائی جاتی ہیں۔اس کی کئی قسمیں ایسی بھی ہیں جو کرئہ ارض سے مکمل طورپر ختم ہوچکی ہیں۔ پینگولن ایک ایسا جانور ہے جس کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے ہوتے ہیں اور یہ اس قسم کے چھلکے رکھنے والا واحد ممالیہ جانور ہے۔پینگولن عام طورپر افریقہ اور ایشیا کے استوائی خطوں میں پایا جاتا ہے۔اس کا نام اسے مالے کے لفظ ’’پینگولنگ ‘‘ سے ملا ہے جس کا مطلب ہے کوئی ایسی چیز جو اپنے آپ کو لپیٹ سکتی ہے۔

جسمانی طور پر پینگولن کی شکل ایسی ہوتی ہے جیسے کسی بہت بڑے نیولے کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے نکل آئے ہوں۔ پینگولن جب پیدا ہوتا ہے تواس کے جسم پر یہ چھلکے بہت نرم ہوتے ہیں لیکن بڑا ہونے پر یہ پتھر کی طرح سخت ہوجاتے ہیں ۔یہ چھلکے ایک مادے ‘‘کیراٹن‘‘ سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مادہ ہے جس سے ہماری انگلیوں کے ناخن بنتے ہیں۔ اس کے جسم پر موجود چھلکے بے وجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔خطرہ محسوس ہونے پر یہ جانور اپنے جسم کو لپیٹ کر ایک گولا سا بن جاتا ہے جس کے اوپر اس کے پتھریلے چھلکوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔یہ چھلکے ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہوجاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ اس کا جسم زرہ بکتر میں چھپ گیا ہو۔یہ چھلکے تیز دھار بھی ہوتے ہیں اور یوں اضافی دفاع کا کام کرتے ہیں۔اگر پینگولن کا سامنا کسی گوشت خور شکاری جانور سے ہو اوروہ فرارکی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ فوری طور پر خود کو ’’پتھر کے گولے‘‘ میں تبدیل کرلیتا ہے اور یوں اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

پینگولن کے اگلے پائوں خاصے لمبے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چلنے کے لیے یہ زیادہ استعمال نہیں ہوتے۔چلنے کے لیے یہ زیادہ تر پچھلے پائوں استعمال کرتا ہے۔مجموعی طورپر اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں جن کے پنجوں میں تیزدھار ناخن ہوتے ہیں۔ ان ناخنوں کے ذریعے یہ زمین کو کھودتے ہیں اور ان میں سے کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں نکالتے ہیں۔اس کی زبان خاصی لمبی اور پتلی ہوتی ہے جو اس کے پیٹ میں معدے تک جاتی ہے۔ بڑے پینگولن تو سولہ انچ تک اپنی زبان کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس طریقے سے یہ دور سے ہی کیڑے مکوڑوں کو پکڑ لیتے ہیں۔

پینگولن کی انوکھی خصوصیات:

پینگولن ایک nocturnal جانور ہے۔ بائیولوجی کی اصطلاح میں یہ ایسے جانوروں کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر رات کو ہی باہر نکلتے ہیں اور اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔چمگادڑ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ان کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ رات کے وقت بھی پتہ چلالیتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے کہاں پر ہیں۔بعض پینگولن، جیسے لمبی دم والے پینگولن ہیں ، یہ دن کو بھی متحرک ہوسکتے ہیں تاہم ان کی زیادہ تر اقسام دن کو اپنے بلوں میں گولا بن کر آرام کرتی ہے اور رات کو ہی باہر نکلنا پسند کرتی ہے۔

اس انوکھے جانور کی کچھ اقسام کھوکھلے درختوں میں بھی رہتی ہیں جبکہ زمین پر رہنے والی اقسام خرگوشوں کی طرح زمین میں سرنگیں کھود کر رہنا پسند کرتی ہے جن کی گہرائی ساڑھے تین میٹر تک ہوسکتی ہے۔پینگولن اچھے تیراک بھی ہوتے ہیں اور پانی سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان کے منہ میں دانت نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ چبانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے بجائے یہ زمین کو کھود کر یا حشرات کے بلوں میں اپنی لمبی زبان ڈال کر ان کیڑوں مکوڑوں کو وہیں سے اچک لیتے ہیں اور سیدھے اپنے پیٹ میں لے جاتے ہیں۔پینگولن کے سینے پر مخصوص غدود ہوتے ہیں جن سے ایک لیس دار مادہ نکلتا ہے۔ یہ اس لیس دار مادے کو وقفے وقفے سے اپنی زبان پر لگاتے ہیں جس سے کیڑ ے اور چیونٹیاں وغیرہ ان کی زبان سے چپک جاتے ہیں۔

پینگولن کی کچھ اقسام ، جیسے درختوں پررہنے والے پینگولن ، کی دم بہت مضبوط اور لچک دار ہوتی ہے اور ان کے ذریعے یہ درختوں کی شاخوں سے لٹک جاتے ہیں اور ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جانے کے لیے اپنے ہاتھ پیروں کے ساتھ ساتھ دم کو بھی برابر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ درختوں کے سوراخوں میں موجود کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔

ان جانوروں میں حمل چار سے پانچ ماہ تک چلتا ہے ۔ افریقی مادہ پینگولن عام طور پر ایک ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ ان کی ایشیائی نسل ایک وقت میں ایک سے لیکر تین تک بچے دے سکتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کا وزن اسی گرام سے لیکر چار سو پچاس گرام تک ہوسکتا ہے جبکہ ان کے چھلکے ابتدا میں بہت نرم ہوتے ہیں۔چھوٹے بچے اپنی ماں کی دم کے ساتھ لٹک جاتے ہیں جبکہ ان کی بلوں میں رہنے والی اقسام میں بچے ایک سے چار ہفتے تک بل میں ہی رہتے ہیں۔لگ بھگ دوسال تک بچے جنسی لحاظ سے بالغ ہوجاتے ہیں۔

پینگولن کو درپیش خطرات:

پینگولن کی نسل شدید خطرات سے دوچار ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔افریقہ کے مختلف حصوں میں پینگولن کو شکار کیا جاتا اور کھایا جاتا ہے اور ان کاگوشت بہت سے لوگوں کے لیے مرغوب ہوتا ہے۔ چین کے بہت سے علاقوں میں اس کی بہت مانگ ہے کیونکہ وہاں پر اس کا گوشت بہت لذیذ اور مقوی سمجھا جاتا ہے جبکہ بہت سے چینی پینگولن کے چھلکوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ جنگلات کے ختم ہونے کی وجہ سے بھی ان کی نسل ختم ہورہی ہے بالخصوص بڑے پینگولن تو تیزی سے ناپید ہورہے ہیں۔نومبر 2010 میں پینگولن کو زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی اس فہرست میں شامل کیا گیا جو ان جانوروں پر مشتمل ہے جن کی نسل جینیاتی طورپر بہت انوکھی ہے اور وہ خطرے سے دوچار ممالیہ جانوروں میں سے ایک ہیں۔

ظالمانہ سلوک:

اگرچہ پینگولن کی نسل کو بچانے کے لیے اس کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی غیرقانونی تجارت جاری ہے کیونکہ ایشیا کے کئی ملکوں میں اس کے گوشت اور چھلکوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ اعصابی قوت بڑھاتے ہیں اور کینسر یا دمہ کے علاج میں موثر ہیں۔ماضی میں کئی واقعات میں غیرقانونی سمگلنگ کی زد میں آنے والے پینگولن اور ان کے گوشت کو قبضے میں لیا جاجکا ہے۔2013 میں ایک واقعے میں پینگولن کے دس ہزار کلوگرام گوشت سے لدی ایک چینی کشتی کو قبضے میں لیا گیا تھا جو کہ فلپائن سے آرہی تھی۔

برطانوی اخبار گارڈین نے ایک چینی سائنسی رسالے کی وساطت سے ایک چینی شیف کا انٹرویو شائع کیا جس نے بتایا کہ پینگولن کو کس طرح ہلاک کرکے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔گوانگ ڈونگ سے تعلق رکھنے والے اس شیف نے بتایا کہ جانور کو زندہ حالت میں پنجروں میں رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ گاہک کی جانب سے آرڈر موصول ہوتا ہے۔آرڈر موصول ہونے کے بعد ہتھوڑے سے پینگولن کو بے ہوش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد گلا کاٹ کر خون نکالا جاتا ہے۔ جانور کو آہستہ آہستہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے ابالا جاتا ہے اور اس کے چھلکے اتارے جاتے ہیں۔پھر اس کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے مختلف ڈشیں تیار کی جاتی ہیں۔اس کے بچوں کو تو سالم پکایا جاتا ہے۔عام طور گاہک اس کا خون تک ساتھ لے جاتے ہیں۔

’’پراجیکٹ پینگولن ‘‘

رشجا کوٹا لارسن کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ پینگولن کے بارے میں نہیں جانتے۔ وہ ایک تنظیم پراجیکٹ پینگولن کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں جو اس انوکھے جانور کی نسل کو بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت شرمیلا اور صرف رات کو نکلنے والا جانور ہے۔یہ بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔سائنس دان اعتراف کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس جانور سے متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔اس کی زمہ دار حکومتیں اور این جی اوز بھی ہیں۔

نیپال میں چینی پینگولن پر سٹڈی کرنے والی امبیکا کھاٹی واڑا کا کہنا تھا کہ جانوروں کو بچانے کے لیے زیادہ توجہ بڑے ممالیہ جانوروں جیسے ہاتھیوں اور گینڈوں پر دی جاتی ہے اور چھوٹے ممالیہ جانوروں اور مشکل سے دکھائی دینے والے پینگولن جیسے جانوروں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جانور کی نسل تیزی سے ناپید ہورہی ہے۔

ظفر کا سفر وسیلۂ ظفر

$
0
0

ایک دن صبح نیند سے اٹھا اور جوتی پہنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ جوتی جوتی پر چڑھی ہوئی ہے۔ایک دم ماتھا ٹھنکا کہ ہو نہ ہو یہ کسی سفر کا شگون ہے۔

پرانی کہاوت ہے کہ (سسرال میں) روٹھی ہوئی بیٹھی تھی کہ، میکے سے سندیسہ آگیا۔ اب تو سندیسے نہیں آتے، موبائل بجتے ہیں۔ خیر میں روٹھا ووٹھا تو نہیں تھا، لیکن فون آگیا کہ آپ کا ٹکٹ ای میل کے ذریعہ بھیجا ہے، آنے کی تیاری پکڑیں۔ پھر کیا ہوا کہ بغل میں جوتی دبائی اور رخت سفر باندھنے کی تیاری شروع کردی۔ یہ پچھلے سال فروری کے مہینے کی بات ہے۔ اتفاق سے اس سال کراچی میں بھی کڑاکے کی سردی تھی۔ سوچا کہ وہاں تو سردی بڑی کڑاکے کی ہوگی، کہ قلفی جم جائے گی۔ یہ کراچی کی سردی تو وہاں کی سردی کی عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ کچھ سیانوں نے بھی سمجھایا کہ بھلے مانس! وہاں سردی میں باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے، گھر میں ہی مقید بیٹھے رہوگے وغیرہ، لیکن چوں کہ سفر سر پر سوار ہو چکا تھا، اس لیے برق رفتاری سے تیاری پکڑی اور 15 فروری کی آدھی رات کو عازم ایرپورٹ ہوئے۔

سردی ایسی تھی کہ بیٹے نے کہا، بابا گھر واپس چلیں، لیکن ہم تھے کہ عزم مصمم سے بھی بہت بڑا عزم کیے ہوئے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے، جانا ہے۔ پہلے تو سوچا کہ یہاں سے ایک عدد انگیٹھی ساتھ لے جائیں، کیوںکہ وہاں گھروں میں انگیٹھیاں رکھنے کا رواج نہیں ہے۔ پھر خیال آیا کہ ہونا ہو وہاں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو اور ہیٹر کبھی چلتے ہوں، کبھی نہیں، لیکن دوسرے لمحے اپنے اُس خیال کو دل سے جھٹک دیا۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ پتا نہیں ہوائی جہاز میں انگیٹھی لے جانے کی اجازت ملے یا نہ ملے، کہیں انگیٹھی بھی دہشت گردی کے آلات یا ہتھیاروں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ اس خیال سے سوچا کہ وہاں پہنچ کر ایرپورٹ سے نکلتے ہی انگیٹھی خرید کے، پھر گھر کو چلیں گے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر اس سال پہلی اپریل کو سفر کو سدھارے۔

پچھلے سال چوں کہ سفر ابوظہبی کی ایرلائین سے تھا، اس لیے جہاز 4 گھنٹے وہاں رکا اور اس کے بعد 14 گھنٹے میں بخیریت پہنچ گئے۔ راستے میں انہوں نے ہمارے آرام، مشروبات، کھانے وغیرہ کا جوگا خیال رکھا، دیگر لوازمات، مثلاً ٹوتھ برش وغیرہ بھی پیش کیے۔ یہ بات میں نہیں لکھتا، لیکن لکھ رہا ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سال ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی لاجواب پرواز میں سفر کرکے باکمال لوگوں میں شامل ہوجائیں اور اور اپنے اوپر لگی ہوئی اس تہمت سے چھٹکارا حاصل کریں کہ ہم محب وطن نہیں ہیں۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے وہ لوازمات تو درکنار، پانی پلانے میں بھی ایسا رویہ رکھا، جیسے کوئی احسان کر رہے ہوں۔ بہر حال یہ تہ جملۂ معترضہ تھا۔

آمدم برسرِمطلب۔ ایرپورٹ سے گھر تک دیکھا کہ راستے میں جو بھی درخت تھے، ان پر ایک بھی پتا نہیں تھا، بلکہ ان پر سوکھی لکڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ بس ان کے تنے ان کے درخت ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ سردیوں اور سرو کے موسم میں ان کی یہ صورت ہوتی ہے، لیکن جوں ہی بہار کا موسم شروع ہوگا تو آپ ان پر پتے، پھول اور میوہ جات لگے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کیا یہ وہی سوکھی لکڑیوں کے تنے ہیں جو اب اتنے ہرے بھرے ہو گئے ہیں! میں اس بات پر متذبذب تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، لیکن مجھے ایک دم یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم لوگ خاک میں مل جاؤگے، تو تمہیں دوبارہ زندہ کروںگا، تو اس ذات اقدس کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ جب سے دنیا آباد ہوئی ہے، تب سے ان درختوں میں پھر سے جان ڈالتا رہا ہے اور یہ کام ہر سال باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے۔

مشہور مفروضہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کا مزاج معلوم کرنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کو دیکھو اور اگر اقتصادی حالت معلوم کرنی ہو تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھو۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ ہمارے ہاں ٹریفک تو دور کی بات ہے، 66 سالوں ابھی تک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے والی قوم بھی نہیں بن سکے۔ ٹریفک کا سرخ سگنل توڑنا یا یک طرفہ ٹریفک کو توڑ کر اپنا راستہ نکالنا یا تیز رفتاری یا درمیاں سے سڑک پار کرنا تو ہماری مردانگی کی نشانی ہے۔ ہماری اس ہپڑدپڑ کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور اس دوران گاڑیوں کے انجن رواں دواں ہوتے ہیں اور اگر کسی ایک سال کا بھی حساب کیا جائے، تو اس تیل کی قیمت اربوں روپیہ بنتی ہے، اور ہماری قوم کا اس تیل کی درآمد کرتے کرتے تیل نکل جاتا ہے۔

ہمارا اسٹاک ایکسچینج ایک دم اوپر چڑھ جاتا ہے اور دوسرے دن دھڑام سے نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ ان دو دنوں عوامل کی وجوہات معلوم نہیں ہوتیں، جب کہ مہذب دنیا کے لوگ ہر جگہ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، سرخ سگنل پر رکتے ہیں، یک طرفہ ٹریفک توڑ کر راستہ نہیں نکالتے ہیں، نہ ہی تیز رفتاری کرتے ہیں اور ہمیشہ زیبرا کراسنگ سے راستہ پار کرتے ہیں، بلکہ اگر آپ کو راستہ پار کرنا ہے تو فٹ پاتھ پر لگے ہوئے کھمبے پر لگے ہوئے بٹن کو دبائیں تو آپ بڑی آسانی سے سڑک پار کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے حادثات کم ہوتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ وہاں حادثات بلکل نہیں ہوتے، لیکن کم ہوتے ہیں۔

ٹورنٹو، اقتصادی طور پر کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کا صدر مقام ہے، بل کہ اسی طرح جیسے ہمارا کراچی ہے۔ یہ ایک پرانا اور گنجان شہر ہے، بالکل کراچی کے صدر کی طرح، لیکن وہاں کبھی کبھار تو ٹریفک جام ہوتا ہے، لیکن ہمارے صدر کی طرح روزانہ نہیں۔ لیکن کوئی بھی اپنی لائن توڑ کر آپ کی گاڑی کے عین سامنے نہیں آکر کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں بسیں، کاریں، بجلی پر چلنے والی ٹرام، ٹرک اور بڑے بڑے ٹرالر (جیسے ہمارے ہاں 40 فٹ چوڑے ٹرالر ہوتے ہیں) آسانی سے چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں کیماڑی سے گاندھی گارڈن اور کینٹ اسٹیشن تک ٹرام چلتی تھی، جس کو بس مافیا نے بند کرادیا۔ پوری دنیا میں ٹرام چلتی ہے اور وہاں بھی ہماری طرح پہلے کھلی باڈی والی اور ڈیزل پر تھی، اور اس کے بعد اس کی صورت بدل کر بس کی طرح کری گئی اور وہ بجلی پر چلنے لگیں۔ ہمارے ہاں بجائے اس کی حالت سدھارنے کے، اس کو جڑ سے ہی ختم کردیا گیا، محض ایک لابی کو خوش کرنے کے لیے، حالاںکہ ٹرام اپنی مقررہ پٹری پر چلتی تھی اور بسوں، کاروں وغیرہ کو اس پٹڑی سے مناسب فاصلے پر چلنا ہوتا تھا۔ اب وہاں تو بسیں بھی اب بیٹری پر چل رہی ہیں۔ ہماری نئی حکومت نے بھی ہمیں بیٹری سے چلنے والی کاروں کا خواب دکھایا ہے۔ پتا نہیں کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔

وہاں سال کے 9مہینے سردی اور 3 مہینے گرمی پڑتی ہے، جس میں کبھی کبھار تو پارہ تقریباً کراچی کے برابر بھی ہو جاتا ہے، لیکن اکثر اس گرمی کے دوران ہلکی ہلکی خنکی بھی ہوتی ہے۔ موٹر سائیکلیں عام طور پر نہیں چلتیں، البتہ گرمی کے موسم میں کچھ لوگ بڑی بڑی موٹر سائیکلوں پر سوار دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے سائلنسر نکلے ہوئے نہیں ہوتے، لیکن چوںکہ وہ بڑی ہوتی ہیں، اس لیے ان کی طرف دھیان ضرور مبذول ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں بڑی بڑی امریکن موٹر سائیکلیںTriumph کے نام سے ہوتی تھیں۔ البتہ چھوٹے چھوٹے اسکوٹر صرف خواتین چلاتی ہیں۔ رکشاؤں کا نام بھی نہیں ہے۔ ہمارے رکشے بغیر سائلنسر کے اور دھواں بکھیرتی ہوئیں، فضا کو معطر کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ کراچی کے ایک پولیس افسر نے ان رکشاؤں کے سائلنسر صحیح کرنے کی ٹھانی تو، سب رکشا والے پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے پہنچ گئے اور ان کے انجن اور ہارن پورے زور سے گھنٹوں بجاتے رہے، جس سے اس پولیس افسر کے ارادے متزلزل ہو گئے۔ رکشا والوں کا کہنا ہے کہ سائلنسر صحیح رکھنے سے تیل زیادہ کھپتا ہے۔

ٹیکسی کی سواری بھی عام ہے۔ یہاں ٹیکسیاں پیلی یا کالی پیلی نہیں ہوتیں۔ کسی بھی کار کو ٹیکسی کے طور پر رجسٹر کراکے، اس کے اوپر ٹیکسی کا بورڈ لگا کر چلائی جا سکتی ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی ٹیکسی چلاتے ہیں اور باہر سے یہاں آنے والے بھی۔ میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوا تو ڈرائیور پاکستانی نکلا۔ معلوم ہوا کہ صاحب موصوف پاکستان میں انکم ٹیکس افسر ہیں، بیگم ان کی ڈاکٹر ہیں، دونوں یہاں آئے ہیں۔ وہ ٹیکسی چلا رہے ہیں، اور بیگم چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے کام یہ ہوتے ہیں کہ جسی ہوٹل میں برتن مانجھنا اور کسی کافی خانے میں گاہکوں کو کافی پیش کرنا وغیرہ۔ پاکستان میں بھی میٹر چل رہا ہے۔ سال کے جاکر حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرکے، تن خواہیں بھی وصول فرماتے ہیں اور سینیارٹی بھی۔ اس طرح ترقیاں بھی پاتے ہیں۔

کچھ لوگ 5 سال کی چھٹی لے کر آتے ہیں، جو کہ انہیں قانونی طور مل جاتی ہیں، بشرطے کہ وہ کسی وزیر یا بیوروکریٹ کے بیٹے، داماد یا منظور نظر ہوں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ جگہ خالی بھی کی جاتی ہے۔ یعنی اس کی جگہ پر کوئی دوسرا آدمی تعینات نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہی ایک دین دار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے تھوڑی سی گستاخی کرکے ان کو یاد دلایا کہ یہ تو سراسر غیراسلامی حرکت ہے، تو انہوں نے جواب دینے سے پہلو تہی فرمائی۔ لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض۔ یہ وہی ڈائیلاگ ہے جو سنتوش کمار نے فلم سرفروش میں صبیحہ خانم سے کہا تھا، جس پر وہ ہمیشہ کے لیے ان کی ہو کر رہ گئیں۔ ایسے لوگ کینیڈا کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ملکوں میں بہت ملتے ہیں۔ ہائے امریکا! کینیڈا تمھاری گود میں پناہ لینے کے لیے ہم نے کیا کیا نہیں کیا۔

کینیڈا میں تیل تو نکلتا ہے، لیکن ان کے پاس اپنی ریفائنری نہیں ہے۔ تیل پائپوں کے ذریعے امریکا بھیجا جاتا ہے، وہاں سے صاف ہوکر آتا ہے۔ بین الاقوامی قیمت پر بکتا ہے، بل کہ امریکا سے بھی منہگا۔

کینیڈا میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر چھوٹے چھوٹے شہر ہیں، جہاں ہر چیز بڑے شہروں کی قیمتوں پر دست یاب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو بڑے شہروں میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال، مشہور فوڈچینز بھی، بڑی بڑی صنعتیں بھی۔ ان شہروں کے نام انگلینڈ کے شہروں والے رکھے گئے ہیں، مثلاً لندن، ملٹن، واٹرلو وغیرہ۔ وہاں مختلف صنعتیں بھی لگائی گئیں ہیں، لیکن ہماری طرح نہیں کہ سب ایک جیسی صنعتیں ایک ہی شہر میں، جیسا کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد ضلع ٹھٹھہ کے گھارو شہر میں صرف کپڑے کے کارخانے لگائے اور اس کو پاکستان کا مانچیسٹر بنانے کی کوشش کی، لیکن آج وہاں ان صنعتوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے اور سوائے چند پولٹری فارموں کے وہاں کچھ نہیں ہے، جس سے لوگوں کو معقول روزگار مہیا ہو۔

آنحضورؐ نے بڑے بڑے شہر بنانے کی جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

کینیڈا کا نظام حکومت بالکل سادہ سا ہے۔ وہ آزاد ملک ہے، لیکن اس نے ابھی تک اپنے آپ کو جمہوریہ ڈکلیئر نہیں کیا ہے۔ اس کے سکے پر ملکہ برطانیہ کی تصویر ہوتی ہے اور شہریت دیتے وقت ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں کھڑا ہے۔ ہم جیسے ملک اس سے امداد لیتے ہیں۔ وہاں کے ایک اخبار میں میں نے پڑھا کہ گذشتہ سالوں میں سندھ میں جو سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی آئی تھی، اس میں انہوں نے سندھ کے دادو ضلع میں 700 گھر بنواکر دینے کی امداد دی تھی۔ وہ گھر بنے یا نہ بنے، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کاغذات میں وہ گھر بن گئے ہوں۔

نظام حکومت بھی سادہ سا ہے۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں۔ گورنر جنرل جو ملکہ کا نمائندہ ہوتا ہے، لیکن جنرل نہیں ہوتا، عام شہری ہوتا ہے، ہمارے غلام محمد یا اسکندر مرزا جیسا نہیں۔ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ۔ کسی صوبائی گورنر کا نام ہم نے نہیں سنا۔ نہ کمشنر، نہ ڈپٹی کمشنر، نہ اسسٹنٹ کمشنر، نہ مختارکار، نہ پٹواری۔ صوبائی اسمبلی کے بعد ٹاؤن، ہماری یونین کونسل کی طرح۔ ٹاؤن کے سربراہ کو میئر کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مسی ساگا ٹاؤن کی میئر ایک تقریباً 100 سالہ خاتون ہیں، جو گذشتہ 20-25 سالوں سے منتخب ہوتی آ رہی ہے۔

یہاں انٹر تک تعلیم مفت ہے، اپنوں اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کے بچوں کے لیے، چاہے ان کو ابھی تک شہریت ملی ہو یا نہیں۔ البتہ یونیورسٹی کی تعلیم کافی منہگی ہے۔ یہاں کے لوگ اکثر انٹر کے بعد فنی اسکولوں یا کالجوں میں جاتے ہیں، یونیورسٹی میں کم لوگ جاتے ہیں۔ میں اپنی پوتی کی آٹھویں کلاس کی گریجویشن کی تقریب میں گیا۔ کیا اسکول کی عمارت تھی اور وہ اسکول کا آڈیٹوریم تھا۔ نظم و ضبط ایسا کہ سوئی بھی پھینکی جاتی تو اس کی آواز آتی۔ اسکول کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے صوبائی اسمبلی کے رکن کا مراسلہ بھی تھا، جس میں بچوں کو مبارکباد کے ساتھ اس کی راہ نمائی کے کلمات بھی تھے۔ اتفاقاً وہ رکن بھارتی نژاد تھا۔

پچھلے سال ہم نیو یارک گئے تھے، جہاں گرائونڈ زیرو، جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تھا، جو 9-11 میں تباہ ہوگیا، دیکھا۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کے نام کندہ ہیں، جن میں پاکستانی بھی تھے بھارتی بھی اس کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی۔ وہاں آزادی کا مجسمہ بھی دیکھا، جس پر لوگوں کو بذریعہ ایک بہت بڑے کروزر، مفت لے جایا جاتا ہے۔

واشنگٹن سے ہوتے ہوئے، میامی (فلوریڈا) گئے، گاڑی میں۔ بہت مزا آیا کہ درمیاں میں 3-4 ریاستیں آئیں۔ ہر ریاست کے شروع ہونے والی جگہ پر ایک نہایت پر وقار استقبالیہ کمپلیکس بنا ہوا تھا، جہاں سیاحوں کو اپنی ریاست میں آنے پر خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ریاست میں گھومنے والی جگہوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ریاست کے بارے میں کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔ واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس دیکھا، جس کو کینیڈا نے کسی زمانے میں تباہ کردیا تھا اور پھر امریکیوں نے اسے سفید رنگ کرکے دوبارہ آباد کیا اور اسے سفید گھر کا نام دیا۔

میامی سے ہم امریکا کے آخری سِرے تک گئے، جو نقشے میں نظر نہیں آتا۔ وہ سِرا ایک دْم کی طرح ہے، جو میامی سے کی ویسٹ تک صرف تقریباً 100 فٹ چوڑی ایک تنگ سڑک سے جڑا ہوا ہے۔ وہاں سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر ہم نے دور ہی دور سے کیوبا کا نظارہ بھی کیا۔

یہ شہروں سے بازار…….. دنیا کے 10سب سے بڑے شاپنگ مال

$
0
0

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شہروں کی رونق کا اہم ترین حصہ اس کے وہ جگمگاتے بازار ہوتے ہیں جہاں ہردم چہل پہل اور گہماگہمی رہتی ہے۔

درحقیقت بازاروں کی یہ رونق پورے شہر کا تعارف بن جاتی ہے، جہاں نہ صرف دنیا بھر سے لوگ خرید وفروخت کے لیے آتے ہیں بل کہ دنیا بھر کے مشہور زمانہ تجارتی اداروں کی موجودگی ملک کی ترقی اور روزگار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے تعمیرات کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی اور آسانیوں کے باعث اب بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرنا مشکل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر کے بعد اب سڑکوں اور تجارتی علاقوں پر پھیلے ہوئے بازاروں میں ایسی بلند اور وسیع رقبے پر پھیلی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جو اپنی انفرادی حیثیت میں مکمل بازار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر کے مال و اسباب سے سجی یہ عمارتیں ’’ شاپنگ مال‘‘ کہلاتی ہیں۔

زیر نظر تحریر میں دنیا کے دس سب سے بڑے ’’شاپنگ مالز‘‘ کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ شاپنگ مالز کی یہ درجہ بندی وہاں پر ہونے والے خرید وفروخت کے حجم کے بجائے ان کے کاروباری یا تجارتی سرگرمیوں کے لیے مختص ’’فلورز‘‘ یا دکانوں کے مجموعی رقبے کی بنیا د پر کی گئی ہے، جو مالکان کرائے پر دینے کے لیے مختص کرتے ہیں۔ ایسے رقبے کو ’’گراس لیزایبل ایریا‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ ایک مستند عالمی معیار ہے۔ دوسرے معنوں میں عمارت کا وہ تمام حصہ جسے کرائے پر نہ دیا جاسکے وہ گراس لیزایبل ایریا میں شامل نہیں کیا جاتا اور اس فہرست میں بھی شاپنگ مالز کے ایسے تمام رقبہ جات سے صرف نظر کی گئی ہے۔

گراس لیزایبل ایریا

(Gross Leasable Area)

کسی بھی تجارتی عمارت کا وہ رقبہ جو تجارتی سرگرمیوں کے لیے کرائے پر دینے کے لیے مختص کیا جائے اسے ’’گراس لیزایبل ایریا‘‘ کہا جاتا ہے، جو عموماً عمارت کے وسط سے بیرونی دیوار تک مربع فٹ میں ناپا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ معیار 1907سے قائم ’’بلڈنگ اونر اینڈ مینجرز ایسوسی ایشن‘‘ (BOMA)نے ’’امریکن نیشنل اسٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ‘‘(ANSI)کے ساتھ ملکر 1996میں وضع کیا تھا، جو اب دنیا بھر کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے تخلیق کردہ عمارتوں میں رائج ہے۔ امریکا اور کینیڈا میں پیمائش مربع فٹ اور دیگر ممالک میں مربع میٹر میں کی جاتی ہے اور مالکان اسی رقبے کی بنیاد پر تعمیراتی اخراجات کی لاگت فی مربع فٹ یا مربع میٹر میں نکال کر دیگر اخراجات کو شامل کرنے کے بعد کرائے کا تعین کرتے ہیں۔

نیوسائوتھ چائنا مال، چین

(New South China Mall)

مجموعی طور پر چھیانوے لاکھ مربع فٹ پر محیط نیو سائوتھ چائنا مال کا اکہتر لاکھ مربع فٹ رقبہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے وقف ہے اور اسی بنیاد پر ا س شاپنگ مال کو دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال قرار دیاگیا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے مختلف عالمی شہرت کی حامل کمپنیوں کی موجودگی کے باوجود نیو سائوتھ شاپنگ مال کا اٹھانوے فی صد کاروباری علاقہ یا فلورز ابھی تک کاروباری حضرات کی راہ تک رہے ہیں۔ محض دو فی صد رقبے پر آباد یہ شاپنگ مال چین کے جنوب میں واقع سمندر سے متصل صوبے ’’ گونگ ڈانگ‘‘ کے شہر ’’ڈونگ گونگ‘‘ میں واقع ہے۔

صنعتی اہمیت کے حامل اس شہر میں واقع شاپنگ مال کا افتتاح2005میں کیا گیا اپنے افتتاح کے وقت سے ہی یہ وسیع وعریض شاپنگ مال آباد ہونے کا منتظر ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2350 کاروباری جگہوں میں سے صرف47 اسٹورز یا جگہیں ابھی تک آباد ہوسکی ہیں۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے عمارتی اعدادوشمار پر نظر رکھنے والی مشہور فرم ’’ایمپورس‘‘ نے نیوسائوتھ شاپنگ مال کو ’’ ڈیڈ مال‘‘ کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔ کھیتی باڑی کے لیے مختص زمین پر بنائے گئے اس شاپنگ مال کے مالکانہ حقوق ’’ڈونگ گونگ انویسٹمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کمپنی‘‘ کے پاس ہیں۔

محدود تجارتی سرگرمیوں کے برعکس اگر ہم شاپنگ مال کے ڈیزائن پر نظر ڈالیں تو مال کا شمار دنیا کی بہترین تجارتی تعمیرات میں کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ مال کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا جنہیں سات مختلف ثقافتوں یا علاقوں کی مناسبت سے ایمسٹرڈیم، پیرس، روم، وینس، مصر، کیریبین اور کیلی فورنیا سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مال کے درمیان میں پیرس کے مشہور زمانہ ٹاور ’’ قوس النصر‘‘ کی نقل بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح وینس شہر میں واقع ’’سینٹ مارک بیسلکا‘‘ کے ’’ بیل ٹاور‘‘ کی نقل بھی بنائی گئی ہے۔ مال کے اطراف پام کے درخت بھی لگائے گئے ہیں، جن کی تعداد دوسوبیس ہے، جب کہ دو کلومیٹر طویل مصنوعی نہر بھی مال میں تخلیق کی گئی ہے، جس کی کشتیوں میں بیٹھ کر خریدار سیروتفریح کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مال کی بیرونی دیوار کے ساتھ 553میٹر طویل ’’رولر کوسٹر‘‘ کی تفریح بھی فراہم کی گئی ہے۔ ان تمام سہولتوں کے باوجود ماہرین منصوبے کی ناکامی کی بنیادی وجہ ’’ڈونگ گونگ‘‘ شہر میں ہوائی اڈے کی عدم موجودگی اور کسی بڑی شاہراہ کا نیو سائوتھ چائنا مال کے اطراف میں نہ ہونا قرار دیتے ہیں۔

گولڈن ری سورس شاپنگ مال، چین

 (Golden Resources Shopping Mall)

چین کے دارالحکومت بیجنگ کی ’’فورتھ رنگ روڈ‘‘ پر واقع اس شاپنگ مال کا خریداری رقبہ ساٹھ لاکھ مربع فٹ پر محیط ہے، جس میں تقریباً ایک ہزار اسٹورز خریداروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہیں۔ 2004 میں تعمیر ہونے والے اس شاپنگ مال کی چھے منزلیں ہیں، جن میں دنیا بھر کے اہم تجارتی اداروں کے اسٹورز قائم ہیں۔ تاہم دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں واقع ہونے کے باوجود گولڈن ری سورس شاپنگ مال بھی ابھی تک خریداروں کی بھرپور توجہ حاصل نہیں کرسکا ہے۔

’’گریٹ مال آف چائنا‘‘ کے نام سے بھی مشہور اس مال کی ناکامی کی وجہ بتاتے ہوئے مشہور فاربس میگزین کا کہنا ہے کہ ’’غیرملکی خریداروں کے لیے انتہائی گنجان اور بے ہنگم ٹریفک والے علاقے میں واقع اس شاپنگ مال میں پہنچنا خاصا مشکل کام ہے۔‘‘

دل چسپ امر یہ ہے کہ خریداروں کے منتظر اس شاپنگ مال کی پہلی منزل پر واقع ’’اسکیٹنگ رنگ‘‘ اور بچوں کے تفریح سینٹر میں ہر وقت ہجوم رہتا ہے بیس ماہ میں مکمل ہونے والے گولڈن ری سورس شاپنگ مال کے انتظامی معاملات چین کا سرکاری ادارہ ’’نیو یانشا گروپ‘‘ دیکھتا ہے۔ اس گروپ کا تعلق چین کے ’’بیجنگ کیپٹل ٹورازم گروپ‘‘ سے ہے۔ تاہم شاپنگ مال کو عوام الناس میں پسندیدہ بنانے میں یہ گروپ ابھی تک ناکام نظر آتا ہے۔

ایس ایم سٹی نارتھ ، فلپائن

SM City North EDSA

فلپائن کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر ’’کیوزون‘‘ میں واقع ’’ایس ایم سٹی نارتھ EDSA‘‘ شاپنگ مال 1985میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کا رقبہ محض ایک لاکھ بیس ہزار مربع میٹر تھا، جو اب چھے مختلف مواقع پر تعمیر کے بعد چون لاکھ پینتیس ہزار مربع فٹ پر پھیل چکا ہے۔ کیوزن شہر جسے ’’ستاروں کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اسے اس شاپنگ مال کی تعمیر سے جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑے شاپنگ مال کی موجودگی کا اعزاز حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کیوزون کے شہری اس شاپنگ مال کو شہر کے اندر ایک اور شہر قرار دیتے ہیں۔

شاپنگ مال کے مالک زمین کی خریدوفروخت کے کاروبار سے منسلک ارب پتی تاجر اٹھاسی برس کے ’’سر ہنری سے‘‘ ہیں اور ان کی ہی کمپنی ’’ایس ایم پرائم ہولڈنگ‘‘ شاپنگ مال کے تمام انتظامی معاملات کی ذمہ دار ہے تقریباً گیارہ سو اسٹورز اور چارسو کے لگ بھگ کھانے پینے کے ریسٹورنٹ پر مشتمل اس شاپنگ مال میں ایک معیاری سائز کا سوئمنگ پول بھی ہے، جب کہ فلپائن کا پہلا ’’آئی میکس تھیٹر‘‘ بھی اسی شاپنگ مال میں تعمیر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چار وسیع وعریض عمارتوں پر مشتمل ’’ایس ایم سٹی نارتھ EDSA‘‘ شاپنگ مال میں آمدورفت کے لیے عمارتوں کے مابین بیس نشستوں والی ’’رابط ٹرام‘‘ بھی رواں دواں رہتی ہے جس کی مثال دوسرے کسی شاپنگ مال میں نہیں ملتی ۔

اصفہان سٹی سینٹر، ایران

Isfahan City Center

ایران کے تاریخی شہر اصفہان میں واقع یہ شاپنگ مال اکیاون لاکھ مربع فٹ پر واقع ہے، جس میں سات سو پچاس سے زاید اسٹورز اور دکانیں ہیں2012میں تخلیق ہونے والا یہ شاپنگ مال چار مختلف مرحلوں میں مکمل ہوا ہے۔ شاپنگ مال میں فائیو اسٹار ہوٹل سمیت سات جدید تھری ڈی ٹیکنالوجی سے آراستہ سنیما کمپلیکس بھی ہیں، جب کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر، انٹرنیشنل ایگزی بیشن سینٹر اور انٹرنیشنل فنانس ایکس چینج سینٹر بھی تمام تر سہولتوں کے ساتھ موجود ہیں۔

واضح رہے کہ شاپنگ مال میں تعمیر کردہ انٹرنیشنل فنانس سینٹر اصفہان شہر کی سب سے بلند عمارت کا درجہ بھی رکھتی ہے ’’پرسٹیج لینڈ ایران کمپنی‘‘ کا تعمیر کردہ یہ شاپنگ مال اصفہان شہر کی مشہور رنگ روڈ سے متصل ’’واحد دست گردی ہائی وے‘‘ پر تخلیق کیا گیا ہے، جس کے پس منظر میں سوا دو ہزار میٹر بلند پہاڑ ’’کوہ صفہا‘‘ سیاحوں اور خریداروں کو متوجہ کرتا نظر آتا ہے۔ شاپنگ مال سے محض تین سو میٹر کی دوری پر ریلوے اسٹیشن کی موجودگی کے باعث اصفہان سٹی سینٹر ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے۔ اصفہان سٹی سینٹر کی ایک اور خوبی یہاں پر موجود چونتیس ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا۔ امیوزمنٹ پارک بھی ہے جو بچوں اور بڑوں کے لیے تفریح کا اہم ذریعہ ہے۔ انتہائی خوش نما ڈیزائن میں تخلیق کردہ اس سینٹر میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی سہولت بھی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق کرائے پر فراہم کی جانے والی یہ سہولت انتظامی امور چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اول اتاما شاپنگ مال، ملائیشیا

1 Utama Shopping Mall 

ملائیشیا اپنی بلندوبالا عمارتوں کے باعث دنیا بھر میں پہچان رکھتا ہے لیکن ریاست ’’سیلنگور‘‘ کے ضلع ’’پیتا لنگ‘‘ کے تجارتی علاقے ’’بندر اتاما‘‘ میں واقع ’’اول اتاما شاپنگ مال ‘‘بھی ملائیشیا کی شہرت میں اضافے کا باعث بن چکا ہے۔ پچاس لاکھ مربع فٹ پر کاروباری سرگرمیوں سے سجے اس شاپنگ مال کا پہلا حصہ 1995اور دوسرا حصہ 2003 میں تخلیق کیا گیا۔ مال میں لگ بھگ سات سو مختلف کمپنیوں کے اسٹورز ہیں۔

اتاما شاپنگ مال کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ مال کا 98 فی صد حصہ کرائے پر دیا جاچکا ہے اور انتظامیہ کے مطابق یہاں روزانہ ساٹھ سے ستر ہزار خریدار آتے ہیں، جب کہ ہفتے کے اختتام پر یہ تعداد ایک لاکھ سے زاید ہوجاتی ہے۔ سال2006 میں ’’ریٹیل ورلڈ ایکسیلنس‘‘ کی جانب ’’سال کا بہترین شاپنگ کمپلیکس‘‘ کا اعزاز پانے والے اس شاپنگ مال میں سال دو ہزار چھے میں ایک تیس منزلہ آفس ٹاور اور 428کمروں پر مشتمل ہوٹل بھی شامل کیا گیا تھا، جس کے باعث شاپنگ مال کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور اب یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے خریداروں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔

پرشین گلف کمپلیکس، ایران

Persian Gulf Complex

ایران کے جنوب مغرب میں واقع تاریخی شہر ’’شیراز‘‘ جدید اور قدیم روایات کا امین ہے اس شہر میں تعمیر کیا گیا ’’پرشین گلف کمپلیکس‘‘ تقریباً پینتالیس لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے 2006میں تعمیر کے لیے شروع کیا جانے والا یہ شاپنگ کمپلیکس ستمبر2011میں مکمل ہوا کمپلیکس کی تعمیر دبئی سے تعلق رکھنے والے ادارے ’’رائل اسٹار انٹرنیشنل گروپ‘‘ نے کی تھی پرشین گلف کمپلیکس میں ڈھائی ہزار سے زاید دکانیں یا اسٹورز ہیں، جس کے باعث شاپنگ کمپلیکس دکانوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر کے شاپنگ سینٹر میں سرفہرست ہے۔

فارس شاپنگ کمپلیکس کے نام سے بھی معروف اس شاپنگ مال میں 262کمروں پر مشتمل برج فارس ہوٹل، ان ڈور اور آئوٹ ڈور تیراکی کا تالاب، ٹینس کورٹ، کنونشن سینٹر، ہیلی پیڈ، دو امیوزمنٹ پارک، تین منزلہ بلیئرڈ ہال اور 240نشستوں والے چھے سنیما اسکرین اور تھیٹر کمپلیکس کا حصہ ہیں، جب کہ چار منزلیں تقریباً پچپن ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مختص ہیں۔ اس کے علاوہ شاپنگ کمپلیکس کے اندر فرانسیسی ہائپر مارکیٹ ’’کیری فور ‘‘ نے بھی اپنی تمام اشیا کی ورائٹی ایک مکمل شاپنگ مال کی شکل میں رکھی ہے۔ واضح رہے کہ ’’کیری فور‘‘ دنیا کی دوسری سب سے بڑی روزمرہ کی اشیاء فروخت کرنے والی کمپنی ہے۔ اس سہولت کے باعث پرشین گلف کمپلیکس کو خطے میں منفرد شاپنگ مال کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔

سینٹرل ورلڈ، تھائی لینڈ

Central World

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے علاقے ’’پتن وہام‘‘ میں واقع ’’سینٹرل ورلڈ شاپنگ پلازہ اینڈ کمپلیکس‘‘ کو سیاحوں اور خریداروں کی جنت کہا جاتا ہے تقریبا چھیالیس لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ہوا یہ شاپنگ کمپلیکس 1990میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کے بعد اس میں مستقل توسیع کی جاتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ کمپلیکس کے انتظامی معاملات کمپلیکس کے مالکان کی کمپنی ’’سینٹر پاٹانا‘‘ کے ہاتھوں میں ہے جو تھائی لینڈ کا رئیل اسٹیٹ کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ 19مئی 2010 کی سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران آگ لگنے سے متاثر ہونے والے اس شاپنگ مال کا ابتدائی نام ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘ تھا، جسے2005 میں موجودہ نام میں تبدیل کیا گیا۔

انتہائی گنجان آباد علاقے میں واقع ہونے کے باوجود شاپنگ کمپلیکس کئی منفرد سہولتوں سے آراستہ ہے، جس میں سب سے اہم میدان کی شکل کا ’’سینٹر ل ورلڈ اسکوائر‘‘ ہے۔ آٹھ ہزار مربع میٹر پر محیط یہ کھلا میدان اہم ثقافتی سرگرمیوں کے لیے کرائے پر فراہم کیا جاتا ہے، جس میں سب سے اہم سال نو کی تقریب کا انعقاد ہے۔ اس کے علاوہ شاپنگ کمپلیکس کے چاروں جانب چھے رویہ سڑک جسے ’’سینٹر ورلڈ ایونیو‘‘ کہا جاتا ہے۔

شاپنگ کمپلیکس کو شہر کی اہم ترین سڑکوں سے ملانے کا اہم ذریعہ ہے۔ 600 سے زاید وسیع و عریض اسٹور اور دکانوں سے مزین اس شاپنگ کمپلیکس میں ہندوئوں کے دو مندر بھی تعمیر کیے گئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید انتظامیہ نے عوام کو تجارتی سرگرمیوں کے دوران مذہبی سرگرمیوں کو یاد رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

مڈ ویلی میگا مال، ملائیشیا

Mid Valley Megamall

مڈ ویلی میگا مال ملائیشیا کے دارالحکومت اور کاروباری مرکز کوالالمپور میں واقع ہے، جس کا پینتالیس لاکھ مربع فٹ رقبہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے مختص ہے جہاں 430 سے زاید کمپنیوں کے اسٹورز اور دکانیں مصروف کاروبار ہیں۔ 20 نومبر 1999میں افتتاح ہونے والے اس میگا مال کے انتظامی معاملات ملائیشیا کے مشہور تجارتی گروپ ’’آئی جی بی گروپ‘‘ کے ہاتھوں میں ہے۔ مڈ ویلی میگا مال میں اڑتالیس ہزار مربع فٹ پر محیط کنونشن سینٹر اور 646 کمروں پر مشتمل ’’سٹی ٹیل مڈ ویلی‘‘ بزنس ہوٹل بھی تعمیر کیا گیا ہے، جہاں سال بھر بین الااقوامی تجارتی کمپنیوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ میگا مال کے اندر دو سپر مارکیٹ بھی ہیں جہاں ضرورت کی ہر شے دست یاب ہے۔

میگا مال کے ایک حصے میں بچوں کے لیے ونڈر ورلڈ بھی تخلیق کیا گیا ہے، جہاں خریداروں کے بچے آسان نرخ پر تفریح کرسکتے ہیں۔ مڈویلی میگامال کی ایک خوبی اس کا بذریعہ پل دوسرے شاپنگ مال ’’دی گارڈن‘‘ سے منسلک ہونا ہے۔ مڈویلی میگا مال کی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کی جانے یہ سہولت جو ’’بلیو وارڈسڑک‘‘ کے اوپر سے دوسرے شاپنگ مال میں جاتے ہوئے خریداروں کو میسر ہے۔ میگا مال کی مقبولیت کا اہم وجہ قرار دی جاتی ہے۔

استنبول کیواہر شاپنگ اینڈ انٹرٹینمنٹ سینٹر، ترکی

Istanbul Cevahir

براعظم یورپ اور ایشیا میں اپنی سرحدیں پھیلائے رکھنے والا برادر ملک ترکی کا یہ شاپنگ سینٹر بھی رقبے میں ملائیشیا کے مڈویلی میگا مال کے بالکل برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس بڑے شاپنگ مال کی فہرست میں ان دونوں کی درجہ بندی آٹھ پر کی گئی ہے۔ تاہم افتتاح کی تاریخ کے لحاظ سے اسے نواں درجہ دیا جاتا ہے۔ ترکی کے عظیم اور تاریخی شہر استنبول کے ضلع ’’ شیشلی‘‘ میں واقع اس شاپنگ سینٹر کا افتتاح 15 اکتوبر 2005 میں ہوا۔ پینتالیس لاکھ مربع فٹ پر محیط یہ شاپنگ اینڈ انٹرٹینمنٹ سینٹر دنیا بھر سے آئے ہوئے خریداروں کی پسندیدہ جگہ ہے، جہاں ان کا سال بھر رش لگا رہتا ہے۔

بیس منزلوں پر مشتمل اس شاپنگ مال میں 343 اسٹورز ہیں، جب کہ بارہ سنیما، تھیٹر، رولر کوسٹر اور بچوں کے تفریح مقام بھی ہیں۔ واضح رہے کہ شاپنگ مال کے مالکانہ حقوق برطانیہ کے ’’سینٹ مارٹن پراپرٹی گروپ‘‘ کے پاس ہیں، جب کہ انتظامی معاملات مشہور یورپی ادارے ’’جونز لینگ لا سیلا‘‘ کے ہاتھوں میں ہیں ’’استنبول کیواہر شاپنگ مال اینڈ انٹرٹینمنٹ سینٹر‘‘ کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس کی چھت پر دنیا کی دوسری سب سے بڑی گھڑی آویزاں ہے۔ 36 میٹر کے قطر پر محیط اس گھڑی کی سوئیاں تین میٹر طویل ہیں۔

سن وے پیرامڈشاپنگ مال، ملائیشیا

Sunway Pyramid

مصر کا تعارف اہرام مصر ہیں۔ اس تعارف کا ایک اظہار ملائیشیا میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ریاست ’’سیلنگور‘‘ کے تجارتی علاقے ’’سبنگ جایا‘‘ میں اہرام مصر کے انداز میں تراشا ہوا وسیع و عریض شاپنگ مال تخلیق کیا گیا ہے۔ 1997میں پہلے مرحلے اور پھر2007 میں دوسرے مرحلے میں تخلیق کیا گیا۔ یہ شاپنگ مال بیالیس لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔

ماضی میں لے جانے والی قدیم مصری تحریروں سے مزین شاپنگ مال کی اندرونی دیواریں کے درمیان تقریبا آٹھ سو سے زائد وسیع و عریض اسٹورز اور دکانیں موجود ہیں، جہاں دنیا بھر کی اشیاء دست یاب ہیں۔ شاپنگ مال کا سب سے خوب صورت حصہ اس کا داخلی راستہ ہے، جہاں شیر کا ایک بہت بڑا اور اونچا چہرہ تراشا گیا ہے جسے نہ صرف سیاح دیکھنے جوق درجوق آتے ہیں بل کہ شاپنگ مال میں آنے والے خریدار بھی اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔

اسٹیووا: کوڑھیوں کے بچوں کا سچا ہمدرد

$
0
0

21 مارچ 1998ء کو بھارت کے ہاتھوں آسٹریلیوی ٹیم کی کلکتہ ٹیسٹ میں ہارسے مایوس وہ ہوٹل کے کمرے میں واپس لوٹے تو دروازے کے نیچے سے کھسکایا ہوا خط نظرآیا۔

اس مایہ ناز کھلاڑی کا خیال تھا کہ یہ خط آٹوگراف کے کسی متمنی کے طرف سے ہوگایا پھرامداد کے کسی طلبگار کا یا پھرکسی ایسے کا جو چاہتا ہوگا کہ وہ اس کے خاندان کوآسٹریلیا جانے کے لیے اسپانسر کردے۔ خط کا لفافہ چاک ہونے پر سب اندازے باطل نکلے ۔خط کے متن نے دل کے تاروں کو البتہ چھولیااورانھوں نے خود کوفوری جواب دینے پرمجبورپایا۔خط کے ذریعے انھیں کلکتہ فائونڈیشن کی جانب سے جذام کے مرض میں مبتلا افراد کے بچوں کی بحالی کے لیے’’ ادیاں ‘‘کے نام سے قائم سینٹر کادورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی ،جس کووہ قبول کر لیتے ہیں ۔اس سینٹر میں جاکرانھوں نے جانا کہ ڈھائی سولڑکوں کی دیکھ ریکھ ہورہی ہے ، لیکن لڑکی ادھر کوئی نہیں، لڑکوں کو ترجیح دینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے بڑے ہونے پرمتاثرہ خاندان کی کفالت کا بار اٹھاناتھا۔

کلکتہ فائونڈیشن اب یہ چاہ رہی تھی کہ ادیاں میں لڑکیوں کے لیے الگ سے ونگ بنایا جائے، اوراس نیک مقصد کے لیے ہونے والی فنڈریزنگ کے سلسلے میں وہ اسٹیووا سے تعاون کے خواستگار تھے ۔اسٹیوا وا کلکتہ کے مضافاتی علاقے بیرک پور میں پولیس کے حفاظتی حصار میں ادیاں ہوم پہنچے جس کی 1970 میں برطانوی شہری ریورینڈ جیمز سٹیونزنے بنیاد رکھی تھی ۔یہ صاحب آج چالیس برس سے زائد عرصہ گزرنے پربھی تندہی سے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ساماں کررہے ہیں۔ اسٹیو وا نے سینٹر میں بچوں کو ملنے والی سہولیات کا بغورجائزہ تو لیالیکن معاملے کی سنگینی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کی خاطر اس بستی میں جانے کی ٹھانی جہاں پران معصوموں کے مقہور خاندان آباد تھے۔

اس غم کدے میں پہنچے تو جھونپڑی نما خستہ حال مکانوں میں مصیبت کے ماروں کو دیکھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے،جو اس گھٹن زدہ اورتاریک ماحول میںبڑے آزار کے ساتھ زیست کررہے تھے، معاشرے کی دھتکارنے دکھوں اور غموں میں اور بھی اضافہ کردیا تھا۔ اسٹیو وا نے تین بچوں کی ماں سے جس کے ہاتھ پائوں بیماری نے تباہ کردیے تھے پوچھا ’’تم مستقبل میں اپنے لیے کیا دیکھتی ہو؟ ’’اس کا مسکت جواب تھا ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ ایک اور خاتون بڑے شوق سے انھیں وہ کنگھادکھانے لگی، جس سے وہ متاثرہ ہاتھوں کے باوجود اپنی بیٹی کے بال بناتی تھی ۔دکھ درد سے معموراور بھی دل خراش قصے سننے کو ملے۔ اسٹیو وا نے جاناکہ وہ دن جو بچوں کے کھیلنے اور کھانے کے ہوتے ہیں، ان میں یہ گداگری کا ہنرجان رہے ہیں تاکہ جلد از جلد لوگوں کو اپنی مدد کے لیے مائل کرنے کے قابل ہوجائیں۔وہ یہ سن کر کانپ گئے کہ چھوٹی عمر کی بچیوں کو اپنے خاندان کو سپورٹ کرنے کے لیے جسم بیچنا پڑتا ہے۔

اسٹیووانے پولیوکی شکاراس بچی لاکھی کماری کو اسپانسرکیا۔وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ چھ ماہ کی عمر میں پولیو نے بچی کو جس کے ماں باپ دونوں کوڑھی تھے، آلیا۔ادیاں میں وہ پہلے چھ ماہ اداس رہی لیکن یہ کم آمیز بچی رفتہ رفتہ ماحول سے مانوس ہوتی گئی اور پھراس نے موسیقی سیکھی۔رقص کی تربیت لی اورپڑھائی میں بھی متاثرکن کارکردگی دکھائی:

اسٹیو وا نے اپنی خود نوشت “Out of My Comfort Zone”میں لکھا ہے کہ ان کوڑھیوں سے ملنے سے قبل انھوں نے ایسے افراد کو صرف فلموں میں دیکھاتھا یا پھر ان سے متعلق لطیفے سن رکھے تھے، اور وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دنیا میں چودہ ملین افراد اس مرض میں مبتلا ہیں ، جن میں سے چارملین بھارت میں بستے ہیں۔ جذام وہ مرض ہے جو جلد، جھلیوں اور اعصاب پر حملہ آور ہوکر صورت بگاڑ دیتاہے۔مختلف جسمانی اعضابھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ایسے افراد کوبیماری سے بڑھ کر جو بات زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے، وہ لوگوں کا ان سے تنفرہے۔ کوڑھ سے متاثرہ لوگوںکو تباہ حال دیکھ کراسٹیو وا ان کی بچیوں کے لیے لڑکوں کی طرح ونگ کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا تہیہ کرتے ہیں اور کلکتہ فائونڈیشن کے نمائندے کی موجودگی میں لڑکیوں کے لیے ونگ بنانے کے مہم میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔

2003ء میں اسٹیو وا اور ان کی اہلیہ اس خاتون سے جس کے خاندان نے اسے تنہا چھوڑ دیاتھا، ملے تو وہ انسانی توجہ کے لیے اس قدرترسی ہوئی تھی کہ جب دونوں میاں بیوی نے رخصت ہونا چاہا تو اس نے انھیں پکڑ لیا اور اپنے پاس ٹھہرنے پراصرار کرنے لگی:

دورے سے اگلے روز مقامی اخبار میں کوڑھیوں کے ساتھ اسٹیو وا کی تصاویر شائع ہوئیں تو اس کا بھی لوگوں پرمثبت اثر پڑا۔ اسٹیو وا کویقین ہوگیاکہ ادیاں سے ان کا تعلق ایسا نہیں جو تھوڑے عرصے کے لیے ہو بلکہ یہ اٹوٹ بندھن ہوگا۔وہ اب ایسا ذریعہ بننے جارہے تھے، جس کی وجہ سے فنڈ ریزنگ سے متعلق مختلف النوع سرگرمیوں میں تیزی آئے اور بچیوں کے لیے مجوزہ’’ نیویدیتاہائوس ‘‘ پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔اسٹیووا کی پکار پر لوگ امداد کرنے کے لیے گرم جوشی سے آگے آئے، ان کا یہ عمل اسٹیووا کو حیران کرگیا۔چینل نائن نے ادیاں ہوم کے بانی ریورینڈ اسٹیونز کے کردار اور اسٹیو وا کی اس سینٹرکی ترقی کے لیے جاری کام میں شرکت کے بارے میں ڈاکومنٹری دکھائی تو پیغام کا وسیع پیمانے پرابلاغ ہونے سے لوگوں کی بڑی تعداد کواس مسئلے کو سمجھنے میں مدد ملی۔

جذام سے متاثرہ شخص جس کے پاؤں کا برا حال ہے:

جنوری2000 ء میں اسٹیو وانے کوڑھیوں کی بچیوں کے لیے قائم ’’ نیویدیتا ہائوس‘‘ کا افتتاح کیا۔اس موقع پر ادھر موجود بچوں کے جذبے نے انہیں بہت سرشار کیا۔آنے والے دنوں میں یہاں کے صاف ستھرے ماحول نے بچوں کی شخصیت کو نکھار دیا۔ان میں بچگانہ معصومیت کے آثار دکھائی دینے لگے۔زندگی میں پہلی بار انھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہورہا تھا۔ماں باپ کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔وہ اپنے اعضاء پر بندھی مرہم پٹیوں سمیت اپنے جھونپڑوں سے باہر نکل آئے اور اسٹیو وا اور ادیاں کے ورکروں سے بچیوں کے سینٹر میں داخلے پراصرار کرنے لگے۔ان کے ہاں یہ خیال جنم لے چکا تھا کہ ان کے بچے بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں اور وہ اب ان کے لیے بہتر ماحول کے خواہاں ہیں۔ اسٹیووا کا اپنا یہ یقین ہے کہ ایسی آبادیوں میں جہاں غریب لوگ رہتے ہوں وہاں تعلیم ہی وہ سب سے موثرذریعہ ہے، جس سے بچے بہترزندگی کا خواب دیکھ سکتے ہیں،اورتعلیم ہی وہ کنجی ہے، جو والدین کے لیے باعث فخراوران میں توقیرنفس کا احساس جگاسکتی ہے۔

جذام سے متاثرہ خاتون اپنی بچی کے لیے کچھ بُن رہی ہے:

2001ء میں اس نے بچوں کے ساتھ مل کر ہولی کا تہوار منایا۔ انھیں اپنے درمیان پاکر بچے خوشی سے جھوم اٹھے اور اپنے اس محسن پر جو ان کے لیے تحائف لے کر پہنچا تھا،پھولوں کی بارش کردی۔اس سفر میں اسٹیو واکے بھائی اور نامور کرکٹر مارک وا،جسٹن لینگر، بریڈ ہیڈن اورآسٹریلیوی کوچ جان بکانن بھی ہمراہ تھے۔بچوں کے ساتھ آسٹریلیوی کھلاڑیوں نے کرکٹ بھی کھیلی۔اس موقع پربچوں نے کلچرل شو کا اہتمام کیا،جس میں موسیقی اور رقص سے مہمانوں کو محظوظ کیا گیا۔ پندرہ برس قبل وہ ادیاں سے نتھی ہوئے اوراب بھی اس مرکز سے ان کا تعلق قائم دائم ہے، حال ہی میں انھوں نے ادھر کا دورہ کیا اور بچوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیااوران کے ساتھ وقت گزارا۔ یہاں کے بچوں سے ان کا قلبی رشتہ استوار ہے اور وہ ان میںہردل عزیزہیں ۔ بچوںکی اس کرکٹر سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسے پیار اور احترام سے اسٹیو دا کہہ کر پکارتے ہیں۔بنگالی میں احترام کے لیے نام کے ساتھ ’’دا‘‘ کا لفظ برتا جاتاہے۔

وہ خاتون جس کا ٹخنہ ٹوٹ چکا ہے لیکن بقول اسٹیووااس کا جذبہ سلامت ہے:

2004ء میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹیو وا نے طے کیا کہ وہ مستقبل میں فلاحی کاموں میں مصروف رہیں گے ،اس سوچ کے تحت انھوں نے2005ء میں اسٹیو وا فائونڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی مقصد بھی بیمار بچوں کے علاج معالجے پرخصوصی توجہ ہے۔اس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے بھی ادیاں سے تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔فلاحی کاموں میں انھیں اپنی بیوی کا عملی تعاون بھی حاصل ہے۔انسانی فلاح کی سیدھی راہ پرگامزن ہونے کے لیے عظیم مدر ٹریسا ان کی انسپریشن بنیں،جن سے وہ کلکتہ میں مل کر بہت متاثر ہوئے تھے۔نیلسن منڈیلا بھی ان کی آئیڈیل شخصیت ہیں۔

وہ میلبورن کے ایک نوجوان متھیوز سے بھی متاثررہے ہیں، جس کے مختلف نوعیت کے درجنوں آپریشن ہوئے لیکن اس نے حالات کا بڑی جوانمردی سے سامنا کیا۔ وہ جب کرکٹ کے میدان میں زخمی ہوتے تو متھیوزکی تکلیف کو یاد کرکے قوت حاصل کرتے۔ اسٹیوواکا کہنا ہے کہ ان کی زندگی میں کئی ایسے لوگ آئے جن کا اسپورٹس سے تعلق نہیں تھا لیکن وہ ان سے بیحد متاثر ہوئے۔اسٹیوواخود کو ہمہ وقت فلاح کار سمجھتے ہیں اور اس نیک کام کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے کے لیے پرعزم ہیں۔اسٹیو وا اس بات پرشکر گزار ہیں کہ 1998ء میںکلکتہ ٹیسٹ کا فیصلہ چار دن میں ہوگیا اور بچ جانے والے اضافی پانچویں دن انھوں نے ادیاں کی طرف وہ سفر اختیار کیا ،جو ان کی زندگی کارخ بدلنے کا موجب بن گیا۔

’’پاکستانی کرکٹ ٹیم ‘‘تہاڑ جیل میں

$
0
0

جب ہال نے اعجاز بٹ کے ناک کی ہڈی توڑ ڈالی

چھ فٹ دوانچ کے وزلے ہال ایسے خطرناک بولرتھے ، جن کا سامنا کرنے سے بڑے بڑے بیٹسمین گھبراتے۔ گیارہ سالہ بین الاقوامی کرکٹ کیریئرمیں وہ دہشت کی علامت بنے رہے۔1959ء میں وہ پاکستان کے دورے پرآئے تو اپنی برق رفتاری سے پاکستانی بلے بازوں کو پریشان اور شائقین کرکٹ کو حیران کیا۔لاہورمیں باغ جناح کرکٹ گرائونڈ میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میںوہ قہربن کر ٹوٹے۔ان کی گیند سے اعجازبٹ کی جو بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے،ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور قمیص خون سے تربتر ہوگئی۔ اتفاق کی بات ہے، عمران خان جو اس وقت سات برس کے تھے، والدہ کے ساتھ پہلی بار اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے گئے تھے، اعجازبٹ کو زخمی دیکھ کرعمران کا میچ دیکھنے سے جی اچاٹ ہوگیا ۔باغ جناح ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں وزلے ہال نے پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔پندرہ برس کے مشتاق محمد کا یہ پہلا ٹیسٹ تھااور انھیں سامنا وزلے ہال کا کرنا پڑ گیا۔وہ چودہ رنز بناکرہال کی گیند پرہی ایل بی ڈبلیو ہوئے۔

مشتاق محمد کی والدہ جواپنے بیٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اسٹیڈیم بھی جاتی تھیں، ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ وزلے ہال جب مشتاق محمد کو گیند کرانے کے لیے دوڑتے تو وہ دیکھنے لگتیں لیکن جونہی وہ گیند پھینکنے لگتے تو اپنی آنکھوں کے سامنے فوراً کتاب یا اخبار رکھ لیتیں۔ان کا کہنا تھا کہ دیو ہیکل وزلے ہال کے سامنے تو حنیف محمد اور مشتاق محمد بالکل بچے لگتے تھے۔عالمی کرکٹ میں وزلے ہال کی فسطائیت کو جن بیٹسمنوں نے چیلنج کیا ان میں امتیاز احمد نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی دلیری کا اعتراف وزلے ہال نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔48ٹیسٹ میچوں میں192وکٹیں لینے والے اس فاسٹ بولرکو ویسٹ انڈین کرکٹ میں ممتاز مقام حاصل رہا۔آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 1960 ء میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے پہلے ٹائی ٹیسٹ میچ میں انھوں نے نو وکٹیں حاصل کیں اوریادگارآخری اووربھی کرایا۔وزلے ہال کوکرکٹ میں ان کی خدمات کے پیش نظر گذشتہ برس سر کا خطاب دیا گیا۔

ہال کے بال

(ویسٹ انڈیزکے تیز رفتار بائولروزلے ہال کا کھیل دیکھ کر)

سیدضمیرجعفری

شور اٹھا کہ ہال آتا ہے

کھیل کا انتقال آتا ہے

بال پرجب جلال آتاہے

بال سے پہلے حال آتا ہے

ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا

لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے

الاماں اس کی برق رفتاری

بال ہے یا خیال آتا ہے

بال آتا ہے یا نہیں آتا

کچھ مگر لال لال آتا ہے

امتیاز احمد کی ’’گوڈا ٹیک شاٹ‘‘ کا مستنصر کے ناول میں ذکر

پاکستان کے سابق وکٹ کیپرامتیاز احمد کا ادب سے براہ راست تعلق بھی ہے کہ وہ ایک شعری مجموعے’’میرے شعر‘‘کے خالق ہیں، معروف ادیب ابراہیم جلیس نے جس کا پیش لفظ لکھا۔ شوکت تھانوی نے اس کتاب پردلچسپ تبصرہ بھی تحریر کیا جوان کی کتاب’’نمک مرچ‘‘ میں شامل ہے۔شوکت تھانوی کاعلیحدہ سے کرکٹ پربھی ایک نہایت پرلطف مضمون ہے، جس میں انھوں نے امتیاز احمد کے کھیل سے لوگوں کی دلچسپی بھی ظاہرکی ہے۔امتیاز احمد کے جارحانہ طرزبیٹنگ کے باعث لاہور میں تماشائی خاص طور سے ان کی بیٹنگ دیکھنے آتے، اس اعتبار سے غالباً وہ پہلے پاکستانی بیٹسمین ہوں گے، جنھیں ہمcrowd-pullerکہہ سکتے ہیں۔ ممتاز فکشن نگار مستنصر حسین تارڑ کے انعام یافتہ ناول’’راکھ‘‘میں بھی امتیاز احمد کا ذکرآیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ان کی گوڈا ٹیک شاٹ کس قدرمشہور تھی۔ ’’راکھ‘‘ کا وہ ٹکرا جو ہم نقل کرنے جارہے ہیں، اس میں ناول کے کردار مشاہد سے منٹو صاحب کی ملاقات کا بھی احوال ہے۔اب ملاحظہ کریں ’’راکھ‘‘ سے اقتباس:

’’دھوپ ہے تو کیا ہے یار…وائلڈ ویسٹ میں تو اتنی دھوپ ہوتی ہے کہ کسی کائو بوائے کو آج تک سن سٹروک نہیں ہوا… اور اگر ہوتا ہے تو ہو جانے دو زندگی ایک فضول چیز ہے…‘‘

’’ہاں…‘‘ مشاہد نے سر ہلایا کیونکہ وہ بھی کمال کے فلسفہ بیزاری و بوریت سے متاثر ہو رہا تھا۔ ’’زندگی کتنی فضول ہے… آئو یار کرکٹ کھیلیں…‘‘

مینشن کی کچی اور کھڈوں والی گرائونڈ ایک تنور کی طرح تپ رہی تھی اور اس تنور کے درمیان وہ دونوں ٹاس کر رہے تھے کہ بیٹنگ پہلے کون کرے گا۔ یہ خوش بختی مشاہد کے حصے میں آئی اور وہ Manto End پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں پسینے کے دھارے گر رہے تھے اور اسے سامنے اُدھر جدھر کمال اپنا گیند چمکاتا چلا آتا تھا، کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گرمی کی لہروں میں ایک سناٹا اور ایک چپ سی تھی۔ کمال نے ایک لمبا سٹارٹ لیا اور پھر جس وقت اس نے مناسب جانا بازو گھما کر گیند مشاہد کی طرف پھینک دیا۔ مشاہد نے بڑے سٹائل سے گھٹنا ٹیکا اور لیگ کی جانب بیٹ گھما دیا۔ ایک چھناکے کی آواز مینشن کے گرم سناٹے میں تمام کرچیوں کے ساتھ گونجی۔ مشاہد نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اُسی گھٹنا ٹیک پوزیشن میں برقرار رکھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ مینشن کی بالکونیوں میں متعدد لڑکیاں اُسے رشک آمیز نظروں سے تَک رہی ہیں اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اسے جی بھر کے دیکھ لیں۔ ان دنوں امتیاز احمد کا گوڈا ٹیک سٹائل لاہوریوں میں بے حد مقبول تھا۔

گیند کسی قسم کا بھی ہوتا باغ جناح میں کرکٹ کے شائقین ’’گوڈا ٹیک‘‘ کے نعرے لگاتے اور امتیاز احمد ان نعروں کے سحر میں آکر گھٹنا ٹیک کر بلا گھما دیتے۔ اگر گیند بلے کو چھو جاتا تو شاندار لیگ گلانس ہو جاتی ورنہ اکثر ایل بی ڈبلیو ہو کر موصوف ٹھنڈے ٹھنڈے پویلین میں واپس آجاتے۔ ادھر لکشمی مینشن میں بھی یہی سٹائل فالو کیا جاتا تھا۔ گیند اگرچہ آف پر وائڈ جا رہی ہے لیکن بیٹس مین گھٹنا ٹیک کر اسے لیگ پر ہی کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور مشاہد آج بے حد خوش قسمت رہا تھا کہ اس سٹائل میں گیند اس کے بلے کے عین درمیان میں آئی تھی اور زوردار شاٹ کھیلا گیا تھا۔ مینشن کا سناٹا پہلے کی نسبت زیادہ معلوم ہوا تو اسے احساس ہوا کہ کمال بالکل غائب ہے اور وہ کڑکتی دھوپ میں گوڈا ٹیکے سٹائل بنائے تنہا کھڑا ہے اور اسی لمحے ایک کڑکتی ہوئی آواز ادھر سے آئی جدھر گیند گلانس ہوا تھا… اوئے امتیاز احمد کے بچے… مشاہدے کو بے حد دکھ ہوا کہ یہ کون کم عقل اسے امتیاز احمد کے کھاتے میں ڈال رہا ہے اور اس نے گرم زمین پر سے بمشکل اپنا گھٹنا اٹھا کر اُدھر کو ہی دیکھا جدھر سے آواز آئی تھی اور وہاں برآمدے کے دروازے میں منٹو صاحب کھڑے تھے اور اُبل رہے تھے۔

’’اوئے ادھر آ…اِدھر دفع ہو…‘‘ مشاہد لرزتا ہوا اُدھر دفع ہوا تو منٹو صاحب نے جھک کر اس کا کان پکڑ لیا ’’نشانے لگاتا ہے بے ایمان… بیس شیشوں میں سے صرف تین باقی بچے تھے اور تو نے اُن میں سے بھی ایک توڑ دیا… اوئے توبہ کر…‘‘

’’جناب آپ کان چھوڑیں تو میں توبہ کروں…‘‘

منٹو صاحب نے اُسے گھورا اورپھر ان کا موڈ کچھ بدلا ’’آئندہ کرے گا؟‘‘

’’نہیں جی…‘‘  ’’جا پھر دفع ہو جا۔‘‘

مشاہد وہیں کھڑا رہا ۔  ’’جاتا کیوں نہیں؟‘‘  ’’گیند…‘‘

’’نہیں ملے گا گیند…‘‘ منٹو صاحب پھر جلال میں آگئے۔

’’ساڑھے چار روپے کا ہے جی… کرائون کا گیند… تمام بچے چندہ اکٹھا کرکے لائے تھے…‘‘

منٹو فوراً موم ہو گئے۔ اندر گئے اور گیند لے آئے ’’خبردار جو آئندہ…‘‘

باقر صاحب والی گلی میں کمال اُس کا انتظار کر رہا تھا۔

’’ہے ناں زندگی فضول چیز… پہلی گیند پر ہی ٹریجڈی ہو گئی… لیکن شکر ہے کہ گیند واپس مل گیا ورنہ صفیہ آپا…بھئی بہت جابر خاتون ہیں۔ ان کے ہاں کم از کم چھ سات گیندیں ہوں گی ہماری…بچوں کی بددعائیں لے رہی ہیں خواہ مخواہ… منٹو صاحب نائس ہیں یار…‘‘

’’پاکستانی کرکٹ ٹیم ‘‘تہاڑ جیل میں

ممتازکشمیری صحافی افتخار گیلانی کو9جون2002ء کی رات ساڑھے چار بجے پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتارکرکے تہاڑ جیل میں قید کردیا گیا۔اس وقت وہ کشمیر ٹائمزکے دہلی میں بیوروچیف کی حیثیت میں کام کررہے تھے۔ ان پرآئی ایس آئی کو جموں کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی کے بارے میں معلومات دینے کا الزام لگا اور چودہ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ان کی گرفتاری پرصحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھرپور آواز اٹھائی اورسات ماہ گزرنے پرہی بھارتی حکومت کو ان پر عائد الزامات واپس لیناپڑے، جس سے اسے خاصی خفت اٹھانا پڑی۔مشہورزمانہ تہاڑ جیل میں سات ماہ کا گزراعرصہ افتخار گیلانی کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ان سے شرٹ اتروا کرٹوائلٹ صاف کرایا گیااورپھراسی غلیظ شرٹ کو زیب تن کرنے پرمجبورکیا گیا۔افتخار گیلانی نے جیل میں بیتے لمحوں کو تحریری صورت میں محفوظ کیا اور ان کی کتاب ’’My days in Prison ‘‘سامنے آگئی، جس کا پینگوین انڈیا نے ’’ تہاڑ میں میرے شب وروز‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی چھاپا۔یہ غالباً پہلی اردو کتاب تھی، جس کو پینگوین نے چھاپا۔افتخار گیلانی پاکستان کے کئی انگریزی اور اردو اخبارات کے نمائندے رہے ہیں۔

ان دنوں بھی ان کا ایک پاکستانی اردو قومی روزنامے میں کالم تواتر سے شائع ہورہا ہے۔کرکٹ کی اثرانگیزی کا دائرہ دیکھیے ، کہ تہاڑ جیل بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس جیل میں ہر برس قیدیوں کے درمیان کرکٹ ٹورنامنٹ کا ذکر بھی کتاب میں ملتا ہے ۔ افتخارگیلانی لکھتے ہیں:’’ قید تنہائی میں طویل عرصہ گزارنے سے قیدی کئی طرح کے شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ایسے قیدی جنہیں بہت لمبے عرصے کے بعد قید تنہائی سے نکال کر وارڈ کے بھیڑ بھاڑ والے ماحول میں منتقل کیا جاتا ہے، نئے وارڈ میں اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے اور جیل حکام سے واپس قید تنہائی میں رکھنے کی درخواست کرنے لگتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے دو قیدیوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو تین برسوں سے قید تنہائی میں تھے۔ انہیں ان کے اچھے رویے کی وجہ سے ہائی سکیورٹی وارڈ سے عام وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کو جیل نمبر تین کی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑی کے طور پر شامل کیا جانا تھا کیونکہ جیل حکام کو پتہ چل گیا تھا کہ جیل آنے سے پہلے وہ ایک اچھا کرکٹ کھلاڑی تھا۔ ہر سال اکتوبر میں تہاڑ جیل کی مختلف جیلوں کے بیچ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کو تہاڑ اولمپک کہتے ہیں۔

کرکٹ میں عام طور پر جیل نمبر تین کی ٹیم ہی کامیاب ہوتی تھی۔ تاہم پارلیمنٹ پر 13دسمبر کے حملے کے بعد پانچ قیدی کرکٹروں کو ہائی لائٹ بھیج دیا گیا کیوں کہ وہ پاکستانی شہری تھے۔ اس وجہ سے اس ٹیم کو پاکستانی ٹیم بھی کہا جاتا تھا۔ ٹیم کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب اس کا کپتان سات سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگیا۔ ٹیم اب کافی کمزور ہوگئی تھی اور جیل نمبر تین کے حکام کو یہ فکر لاحق تھی کہ اس سال ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے گی اس لیے کرکٹ کھلاڑیوں کی تلاش شروع ہوگئی تھی۔ جس قیدی کو کرکٹ کھیلنے کے لیے ہائی لائٹ سے باہر نکالا گیا تھا عام وارڈ میں پہنچتے ہی اس نے جیل حکام سے درخواست کی کہ اسے فوراً قید تنہائی میں واپس بھیج دیا جائے۔ وہ بے چارہ تین سال کے طویل عرصے کے بعد اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ رہا تھا۔ ساتھی قیدیوں کی بات چیت کا شوروغل اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ راجندر کمار سے رابطہ قائم کیا اور واپس قید تنہائی میں بھیجنے کے لیے اسے 5000روپے کی پیشکش کی لیکن قسمت یہاں بھی دغا دے گئی۔ بدقسمتی سے راجندر کمار بدعنوانی کے اس سمندر میں واحد ایماندار افسرنکلا۔ اس نے رشوت لینے سے انکار کردیا۔‘‘

’’وسیم اکرم ‘‘مظفر نگر میں؟

بھارتی ریاست یوپی کے ضلع مظفر نگر میں گذشتہ دنوں ہونے والے فسادات نے وہاں کی باسیوں کے لیے زندگی کو بہت زیادہ مشکل اور تکلیف دہ بنادیا۔ان فسادات کی برق بیچارے مسلمانوں پرگری اور بہت سوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر امدادی کیمپوں میں رہنا پڑاجہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔چند دن قبل بی بی سی نے کاندھلا کے امدادی کیمپ میں مقیم یاسین سے گفتگو کی، تو اس نے اپنے جو دکھڑے بیان کئے، ان کے بیچ ممتاز پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم کا بھی ذکرنکل آیا۔

شاملی میں لساڑھ گائوں کے مکین یاسین نے بی بی سی کو جو بتایا اس کا کچھ حصہ ہم نقل کرتے ہیں: ’’ہمارا کچھ ہے ہی نہیں، ان کے ہاتھ میں قانون ہے، حکومت ان کی، گائوں ان کا، انھی کی چلے گی۔جب ان کی چلے گی تو اب ہمیں ایسی جگہ بھیج دوجہاں ان کی نہ چلے اور ہم کماکھاسکیں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ تو پاکستانی ہو۔کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک غریب بچے کی گیند اچھی پڑ گئی تو کہتے ہیں کہ تم تو پاکستانی وسیم اکرم بن رہے ہو۔یہ کیا ہے؟ میری بیوی کے پیٹ میں بچہ تھا۔ لات مار کر ختم کردیا۔مجھے یہ بھی نہیں پتاکہ وہ بچی تھی یا بچہ تھا۔میری داڑھی کھینچی گئی۔نوے سال کے ایک ضعیف کو زندہ جلایا۔اسے کیوں ماردیا؟وہ تو چاردن روٹی نہ ملتی تو خود ہی مرجاتا۔‘‘

مووی بدنام ہوئی: بولی وڈ کی متنازعہ فلمیں

$
0
0

دنیا کی ہر فلم انڈسٹری میں ’’کنٹروورسی‘‘ کا لفظ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بولی وڈ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔یہاں بھی کنٹروورسی یعنی متنازعہ ہمیشہ سے ان رہا ہے۔ یہ تنازعہ کسی بھی طرح کا ہوسکتا ہے۔ 

اکثر اوقات بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے شروع ہو کر بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کے درمیان سردجنگ ہو یا پھر ہیروئنز کی آپس کی پیشہ وارانہ جلن، تنازعات انڈسڑی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

اگر یہ کسی فلم کے حوالے سے ہو تو فلم میکر یہ بات سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ اس تنازعے سے اس کی فلم کو غیرمعمولی شہرت ملے گی۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ تنازعات سے بھر پور متنازعہ فلم باکس آفس پر کام یاب ہو یا نہ ہو وہ لوگوں میں ضرور شہرت حاصل کرتی ہے۔ اسی لیے بعض سر پھرے فلم میکر منفرد اور انتہائی بولڈ موضوعات پر فلمیں تخلیق کرکے شہرت کے ساتھ ساتھ تنقید بھی سمیٹتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسی ہی فلموں کا ذکر ہے جنہیں ان کی نمائش سے قبل ہی بھرپور تنازعے کا سامنا کرنا پڑا۔

٭  مدراس کیفے،2013 : جان ابراہیم کی فلم مدراس کیفے کو ریلیز سے پہلے ہی متنازعہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فلم کی کہانی انڈین آرمی اور سری لنکا کے درمیان ہونے والی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ ریلیز سے قبل جب اس فلم کے ٹریلر سامنے آئے اس وقت تامل سیاسی جماعت نام تامیلرnaam tamilarنے اس کے خلاف احتجاج کیا اور فلم کی نمائش رکوانے کے لیے کورٹ میں پیٹشن دائر کی۔ تامل ناڈو صوبے کی حکومت نے فلم کی بابت مکمل تحقیقات کی کہ آیا اس فلم میں سری لنکن تامل آبادی کو منفی تاثر کے ساتھ پیش تو نہیں کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو حکومت اس فلم کے خلاف ایکشن لے گی۔ اس کے لیے ایک خاص شو کا اہتمام کیا گیا اور گورنمنٹ کو اس فلم میں کوئی قابل اعتراض بات محسوس نہ ہوئی اور فلم کو بغیر کاٹ پیٹ کے نمائش کے لے پیش کردیا گیا۔ جان ابراہام نے اس فلم میں انڈین آرمی آفیسر میجر وکرم سنگھ کا رول کیا۔ اپنے اس کردار کے حوالے سے وہ بہت خوش ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ میرے اب تک کیے جان والے کرداروں میں یہ سب سے اچھا رول ہے۔ افسوس نمائش سے قبل ہی مشہور ہونے والی اس فلم کو باکس آفس پر خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔

٭  آندھی، 1975 :  انڈین سیاست کے گرد گھومتی اس فلم کی کہانی گو کہ متنازعہ نہیں تھی لیکن فلم میں ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نجی اور سیاسی زندگی سے متاثر ہو کر جو کہانی دکھائی گئی، اس نے اس فلم کو متنازعہ بنا دیا۔ فلم میں ترکشواری دیوی کا کردار اداکارہ سچترا سین نے کیا تھا یہ کردار ننانوے فی صد اندرا گاندھی سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا۔ جب اندرا گاندھی اقتدار میں تھیں تو اس وقت فلم کو مکمل طور پر ریلیز نہیں کیا گیا تھا اور 1975 میں اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

٭  قصہ کرسی کا، 1977 : اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی کی زندگیوں پر بنائی گئی ایک اور فلم قصہ کرسی کا 1977 میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹرامرت نہاتا خود اس وقت انڈین پارلیمینٹ کے ممبر تھے۔ ملک میں جاری ہنگامی سورتھال میں اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ فلم کے پرنٹس ضبط کرکے انہیں جلا دیا گیا تھا۔

٭  فنا، 2006 : یوں تو ڈائریکٹر اندر کمار کی اس فلم میں کوئی متنازعہ با ت نہیں تھی اور نہ ہی اس فلم کی کہانی کسی سیاست داں یا سیاست پر مبنی تھی، لیکن جب عامر خان اس فلم کی پروموشن کے لیے گجرات گئے اور وہاں نرمدا ڈیم سے متاثر گاؤں والوں کے لیے اپنی دلی تشویش کا اظہار کیا اور اسی حوالے سے اچھے خاصے بیان بھی دیے، تو ان کا یہ اقدام وہاں کی سیاسی جماعتوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے گجرات کے عوام کو عامر خان کے خلاف اکسایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب فنا پور ے بھارت میں نمائش کے کیے پیش کی گئی تو گجرات میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی اور وہاں فلم کے پوسٹر کے ساتھ ساتھ عامر خان کے پوسٹر بھی جلائے گئے۔ گجرات کے عوام کے اس عمل سے عامر خان کی فلم فنا کی ٹاپ رینکنگ پر اچھا خاصا اثر پڑا اور فلم باکس آفس پر وہ دھوم نہ مچا سکی جو ہمیشہ عامر کی فلموں کا ٹرینڈ رہا ہے۔

٭مائی نیم از خان، 2010 : بڑے اسٹار اپنی فلموں کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر کے لیے بھی بہت محنت کرتے ہیں اور ان کی تشہیر ہمیشہ بھر پور ہوتی ہے۔ شاہ رخ خان کی اس فلم کو تنازعات کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب وہ اس فلم کی پروموشن کے لیے امریکہ گئے اور وہاں ایئرپورٹ پر امیگریشن والوں نے شاہ رخ کو صرف ان کے نام اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہراساں کیا۔ شاہ رخ نے ایئر پورٹ پر پہنچنے والی اس ذہنی اذیت کو فلم میں بھی ہائی لائٹ کیا گیا۔ اس فلم کی نمائش عالمی سطح پر کی گئی اور فلم کے ایک گانے ’’مولا‘‘ نے اس کی ٹاپ رینکنگ میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ اسی دوران ایک بار پھر مائی نیم از خان کو کنٹروورسی کا سامنا کرنا پڑا جب شاہ رخ نے بھارت میں ہونے والے آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بیان دیے اور کہا کہ آئی پی ایل نے پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہ کر کے غلط کیا ہے۔ شاہ رخ کے اس بیان کا یہ رد عمل سامنے آیا کہ لوگوں نے غصے کے عالم میں سنیماؤں پر حملے کیے اور فلم کے ساتھ ساتھ شاہ رخ کے پوسٹر بھی جلائے۔

٭بلیک فرائڈے، 2004 : ایس حسین زیدی کی کتاب1993 bombay bombingسے ماخوذ فلم بلیک فرائڈے بنائی گئی ۔ اپنی تکمیل کے دو سال تک اس فلم کی نمائش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ممبئی دھماکوں کے مجرم عدالت میں تھے اور ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ اس لیے عدالت کا فیصلہ آنے تک اس بلیک فرائڈے کی نمائش روک دی گئی تھی۔

٭بینڈت کوئن، 1994 : مشہور ڈاکو پھولن دیوی کی اصل زندگی پر بنائے جانے والی فلم بینڈت کوئن کو بھی اپنی نمائش سے قبل بے پناہ اعتراضات اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بینڈت کوئن کا کا کردار اداکارہ سیما بسواس نے ادا کیا تھا۔ فلم میں شامل غیر معمولی تشدد، عریانیت اور بولڈنیس کی وجہ سے انڈین سنسر بورڈ نے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی، لیکن اس فلم کے ڈائریکٹر شیکھر کپور نے فلم سنسر بورڈ کو مکمل یقین دہانی کرائی کہ ایسا کوئی بھی سین اضافی طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ خود پھولن دیوی نے بھی انہی وجوہات کی بناء پر فلم کی نمائش رکوانے کے لیے عدالت سے حکم امتناعی بھی حاصل کرلیا تھا، لیکن شیکھر فلم کے حوالے سے اس کے تحفظات کو بھی دور کیا۔

٭  sins(گناہ)، 2005 : sins بولی وڈ کی ایک اور انتہائی متنازعہ فلم تھی، جس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ونود پانڈے تھے۔ فلم کی کہانی ایک ایسے کیتھولک پادری کے گرد گھو متی ہے جو ایک نوجوان لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دراصل فلم کی کہانی ایک حقیقی واقعے کو بنیاد بنا کر تخلیق کی گئی۔ 1988میں بھارتی ریاست کیرالہ میں ایک کیتھولک پادری پر ایک لڑکی کو ہراساں کرنے اور اس کو قتل کرنے کا الزام تھا جو اس پادری کی گرفتاری پر سچ ثابت ہوا۔ sinsمیں کیتھولک پادری کا کردار اداکار شاہنی آہوجہ نے کیا تھا۔ اسی لیے جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو پورے انڈیا میں کیتھولک پادریوں کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آیا۔ فلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور اسے سنیماؤں سے اتارنے کی کوشش بھی کی گئی۔

٭فائر، 1996 : فلم میکر دیپامہتہ ہمیشہ بولڈ موضوعات پر فلمیں بناتی آئی ہیں۔1998میں ارتھ، فائر1996اور2005میں واٹر، ان کی ایسی فلمیں تھیں جن پر بہت تنقید کی گئی۔ فلم فائر کی رائٹر اور ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھیِں۔ فائر دراصل عصمت چغتائی کے ایک ناول سے ماخوذ تھی۔ فلم کے اہم کردار شبانہ اعظمی اور نندیتا داس نے ادا کیے۔ اس فلم کا موضوع انتہائی بولڈ تھا۔ اسی لیے نمائش کے فوراً بعد بھارت کے ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے فائر کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

چیتنا، 1970 : چیتنا کے ڈائریکٹر بی آر اشرا تھے اور انہوں نے اس وقت کے مطابق روایت سے ہٹ کر ایک منفرد موضوع پر فلم چیتنا بنائی، جس کی کاسٹ میں شتروگن سنہا، انیل دھنوان اور ریحانہ سلطانہ شامل تھے۔ فلم کا موضوع طوائفوں کی بحالی اور شرفاء کے علاقوں میں ان کی آبادکاری پر مبنی تھا۔ فلم کے بولڈ سین اور ریحانہ سلطانہ کی بے باک اداکاری نے اس فلم کو شہرت دی۔ اسی بولڈ موضوع اور بے باکی نے فلم کو متنازعہ بنادیا۔ فلم بینوں کے سنجیدہ طبقے نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ اسی لیے یہ فلم کوئی خاص کام یابی حاصل نہ کرسکی۔


دفاعِ اومان: ایک قابلِ تقلید داستان

$
0
0

مسقط ‘ کا سرکاری نام ’سلطنت آف عمان‘ہے، پاکستان کے قریبی دوست ملک کاقومی دن ہر سال اٹھارہ نومبرکو منایا جاتا ہے۔

آج جن حالات سے ہمارا وطن ِ عزیز گزر رہا ہے، ماضی میں عمان کو بھی ان سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں روس اور دنیا کے کئی کمیونسٹ ممالک نے (جنوبی) یمن کے راستے تربیت یافتہ تخریب کاروں کو اس ملک میں بھیجنا شروع کیا۔ عمان نے دہشت گردی کے طوفان کا کیسے مقابلہ کیااور دشمن کے مذموم عزائم کو کس طرح شکست دی،یہ ایک دلچسپ داستان ہے جس سے ہم بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے مسقط سے کئی طرح کے رشتے ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہمارے صوبے بلوچستان کا ایک اہم حصہ( جس میں گوادر کی بندرگاہ بھی شامل تھی) ایک طویل عرصے تک سلطنت آف عمان کے قبضے میںرہا۔ ہندو گوادر میں اچھی خاصی تعداد میں آباد تھے تجارت پر اْن کا مکمل کنٹرول تھا ، پاکستان بننے کے بعد بھی وہ یہاں رہے ، ہندوستان سے بلاروک ٹوک کشتیاں بھر بھر کے افراد اور سامان یہاں آتا رہتا تھا۔ پاکستان کو ایسی اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارت اس اہم بندرگاہ کو ہتھیانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔اللہ کا شکر ہے ہمارے اس وقت کے کارپردازوں نے وقت پر فیصلہ کیا،اوردس لاکھ پاؤنڈ دے کر اپنی زمین 1958ء میں مسقط سے واپس لے لی۔

گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد بھی بلوچ عمانی فوج میں بھرتی ہوتے رہے،بلوچیوں کے لیے روزگار کا مسئلہ تھا اور مسقط کو لڑنے کے لئے افراد کمی کا سامنا تھا۔ وقتاً فوقتاًفوجی بھرتی کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔آپ بلوچستان میں غربت کا اندازہ کریں کہ صرف پیٹ کی خاطر وہ اپنی جانیں قربان کے لیے تیار تھے، جب کہ تنخواہیں بھی کوئی خاص نہیں تھیں۔ وہاں بلوچوں کی کافی تعداد فوج میں موجود تھی،خاص طور پر شورش زدہ علاقوں میں ۔بلوچ خاندان جن کو وہاں کی شہریت مل چکی ہے اْن کو ’البلوشی‘ کہا جاتا ہے۔
٭٭٭
ہماری قسمت میں مسقط کا دانہ پانی لکھا تھا تو ہم نے دسمبر 1974ء میں مسقط آرمی کی اکاؤنٹس برانچ میں شمولیت کے لیے درخواست دے ڈالی،جو فوراً ہی منظور ہوگئی ، منظوری کی وجہ مسقط جاکر معلوم ہوئی۔ آخر 9 مئی 1975ء کی رات ہم مسقط ائیر پورٹ پر جا اترے۔مسقط(مسقط ایک شہر کا نام بھی ہے،جو ملک کا دارالحکومت ہے) فوج کا ہیڈ کوارٹر ،ایک پرانی چھوٹی سی تاریخی عمارت بیت الفلج میں تھا ( بہت خوبصورت وسیع اور نیا ہیڈ کوارٹر ’الرسیل‘ کے مقام پر زیر تعمیر تھا، 1980ء میں میری ٹرانسفر ہوگئی تھی اور میں چھ سال اس ہیڈ کوارٹر میں رہا)۔ اگلے دن ہم نے بیت الفلج میں اپنے پہنچنے کی اطلاع دی ۔ ہیڈ کوارٹر میں کچھ پاکستانی (زیادہ تر پنجابی) اور انگریز نظر آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میری تقرری صلالہ میں مقیم ’کے جے‘ یونٹ میں ہوئی ہے۔

ہم نے جب سب کاغذات حاصل کرلیے۔ تو اس وقت تک وہاں دفتر بند ہونے کا وقت ہوگیا تھا،ایک پاکستانی نے میس میں کھانے کی دعوت دی جو ہم نے قبول کرلی،کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد ہمارے مہربانوں سے جو باتیں معلوم ہوئیں وہ بہت دلچسپ تھیں ۔ ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو ظفار(Dhofar )کے میدان جنگ(war zone ) میں بھیجا جارہا ہے،آپ کو اس لیے بلایا گیا ہے کہ آپ جس کی سیٹ پر جارہے ہیں وہ ایک چیک پوسٹ پر فوجیوں میں تنخواہیں تقسیم کرنے گیا تھا وہاں دشمن نے حملہ کردیا ،اس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور بعد میں اْس کی موت واقع ہوگئی۔ دوسرے صاحب بولے اگر ظفار( مسقط کے جنوبی صوبے کا نام ہے۔

ظفار کو عربی میں ’دفار‘ بولتے ہیں ،اور دفار کے رہنے والے دفاری کہلاتے ہیں) میں آپ نے دو ہفتے گزار لیے تو آپ ظفار میڈل کے مستحق ہوجائیں گے۔ ایک اور صاحب نے اْن کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ دو ہفتے پورے ہوں ،اگر آپ خدانخواستہ دشمن کی کسی کارروائی کے نتیجے میں دو ہفتے مکمل ہونے سے قبل ہلاک ہوجاتے ہیں تب بھی میڈل آپ کا حق ہے ،وہ آپ کے ورثاء کو پہنچا دیا جائے گا۔ ایک اور صاحب نے خوشخبری سنائی کہ آپ کو وار زون میں رہنے کی وجہ سے ایک خصوصی الاؤنس ملے گا۔

ایک صاحب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس یونٹ میں مجھے بھیجا رہا ہے یہ ایک بلوچ رجمنٹ ہے۔وہاں آپ کو سب پاکستانی بلوچ نظر آئیں گے۔صرف چند بڑے آفیسر انگریز ہیں۔ صلالہ میں موسم بہت خوش گوار ہوتا ہے،جبکہ مسقط کی گرمی سے تو کہتے ہیں شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ مسقط کی گرمی کے حوالے سے ایک صاحب نے دلچسپ لطیفہ سنایا: لطیفہ کچھ یوں تھا کہ جہنم میں کچھ لوگ کمبل اوڑھے ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کے ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے،کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں،انہوں نے کہا ہم مسقط سے آرہے ہیں۔پوچھنے والوں نے کہا’ مسقط کا نام سن کر سمجھ آگیا ہے کہ آپ نے کمبل کیوں اوڑھے ہوئے ہیں‘۔

اب وہ سب میری طرف دیکھ رہے تھے کہ میں کیا کہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کی باتیں سن کر میںبے حد خوش اور مطمئن ہوں،اور وہ اس لیے کہ وہاں اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ رہنا ہے، موسم بھی وہاں خوشگوار ہے، وہاں جانے سے فوجی میڈل ملے گا، وار زون کا الاؤنس دیا جائے گا۔ ایک صاحب نے مجھے یاد دلایا کہ وہاں جنگ جاری ہے اور اس میں مرنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ میں نے کہا ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے موت کے بارے میں سوچنا ہمارا سر درد ہے ہی نہیں،یہ فرشتہ ٔ موت کا مسئلہ ہے،کب مرنا ہے،کہاں مرنا ہے،کیسے مرنا ہے ۔جس کا کام وہی جانے ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔

اگلے دن مسقط ائیر پورٹ پر صلالہ کی فلائیٹ پر روانہ کرنے کے لیے آئے ہوئے فوجی سارجنٹ نے میری ملاقات دو آدمیوں سے کروائی اور بتایا کہ یہ دونوں بھی آپ کی یونٹ KJ (الکتیبہ الجنوبیہ)میں جارہے ہیں۔ وہ دونوں وہاں فوجی کیمپ کے میسوں میں ویٹر تھے۔ اْن میں سے ایک بہت شیطان تھا ،اْس کا نام دین محمد تھا لیکن حقیقت میں وہ عیسائی تھا۔ دین محمد بھی مجھ کو ڈراؤنے قصے سناتا رہا۔ اْس نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل دشمن کے گولے ہمارے کیمپ کے قریب آکر گرے تھے۔ ہر وقت آدمی ڈرا سہما رہتا ہے ۔

ہم صلالہ کے ائیر پورٹ پر اترے ، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔میں موسم سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ دین محمد نے میری توجہ دو جنگی طیار وں کی طرف مبذول کرائی اور بتایا کہ دشمن ایک منٹ ان کو آرام سے ٹکنے نہیں دیتا۔یہ جہاز دشمن کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔یہ سامنے جو پہاڑ (جبل )نظر آرہے ہیں ، ان میں’ جبالی‘ رہتے ہیں ، یہ بڑی ٹیڑھی نسل ہے،یہ سلطان سے بھی مفادات حاصل کر رہے ہیں اور دشمن سے بھی دوستی نباہ رہے ہیں۔ ان پہاڑوں میں دشمن بھرا پڑا ہے، ان پہاڑوں میں سینکڑوں غاریں ہیں ، جن میں دشمن نے اسلحہ کے ڈپو اور پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ برسات میں کئی کئی فٹ اونچی خود رو گھاس پیدا ہوجاتی ہے جس میں دو قدم پر موجود فرد نظر نہیںآتا۔ خدا خیر ہی رکھے ہم تو بس ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں۔

ایک گاڑی ہم لوگوں کو یونٹ لے جانے کے لیے آئی ہوئی تھی۔گاڑی میں ایک فوجی کلرک محمد صالح بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اْس نے بتایا کہ وہ بلوچی ہے اور کے جے میں ہی کام کرتا ہے۔ راستے میں اس نے بہت سی دلچسپ باتیں بتائیں۔ اْس نے کہا کہ جس کیمپ میں ہم جارہے ہیں،وہ ’ کے جے‘ کاکیمپ بننے سے قبل دفار فورس(Dhofar Force) کا ہیڈ کوارٹر ہواکرتا تھا،اْس میں صرف دفار یوں کو بھرتی کیا جاتا تھا ،اْس کا کمانڈنگ آفیسر ایک

دفار کی بغاوت کے عرصہ میں برطانوی پراپیگنڈہ اپنے عروج پر تھا۔ یہ بالکل ایسی ہی صورت حال تھی جیسے افغانستان میں سوویت پاکستانی تھا، اْس کے ساتھ اور بھی کچھ پاکستانی افسر یہاں ہوتے تھے۔ آپ کی جس عمارت میں رہائش ہوگی یہ قبل ازیں پاکستانی لفٹیننٹ اور کیپٹن رینک کے افسروں کی رہائش گاہ تھی،اب تو نیا آفیسر میس بن چکا ہے۔میں نے پوچھا کہ اب دفار فورس کا نیا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟ وہ ہنسا اور اس نے بتایا ،میں کیمپ میں داخل ہوتے ہی آپ کو وہ جگہ دکھاؤں گا جہاں ۱۹۶۶ء میں موجودہ سلطان قابوس کے والد، جو اس وقت سربراہ مملکت تھے،اور جن کا نام سلطان سعید بن تیمور تھا ، پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

سلطان کیمپ میں پاکستانی کمانڈنگ آفیسر کے ساتھ دس پندرہ سپاہیوں کی طرف سے گارڈ آف آنر کا معائنہ کر رہا تھا کہ ایک دفاری نے سلطان پر فائر کرنے کے لیے بندوق سیدھی کرلی،وقت بہت کم تھا،پاکستانی کمانڈنگ آفیسر نے سلطان کو نیچے گرادیا اور اس کے اوپر لیٹ گیا،سلطان بچ گیا،کمانڈنگ آفیسر کو گولیاں لگیں،لیکن کیونکہ گولی چلانے والا حواس باختہ ہوچکا تھا ،اس نے وہاں سے بھاگنے میں ہی خیر جانی، اس کے کچھ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بھاگ گئے۔ اس کے بعد ’دفار فورس‘ کو ختم کردیا گیا۔ دفاریوں کو راضی اور خوش کرنے کے لیے سلطان نے بہت جتن کیے ،یہاں تک کے اْس نے شادی بھی ایک ’دفارن‘ سے کرلی تھی ،سلطان سعید گورا تھا،دفارن کالی تھی،موجودہ سلطان اپنی والدہ کی طرح کالا ہے،اس سے دفاری بہت خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ دفار پر ایک دفاری حکومت کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کیا دفاری اور جبالی علیحدہ علیحدہ نسلیں ہیں یا ایک ہی نسل کے دو نام ہیں۔ محمد صالح نے بتایا کہ میدانی علاقے میں رہنے والے دفاری کہلاتے ہیں ان کے نقوش افریقیوں سے ملتے ہیں ،جبالی تو عرب ہیں اور صدیوں سے یہیں رہنے والے ہیں۔

اسی دوران ہم ام المعارف( Umm al Ghwarif) پہنچ چکے تھے،ہماری گاڑی اس فوجی کیمپ کے اندر چلی گئی۔ محمد صالح نے بتایا کہ ایک آدمی نے یہاں سے کے جے جانا ہے ،یہ سپاہی اسے ابھی بلا کر لے آتا ہے ہم ادھر ہی گپ شپ کرتے ہیں۔

محمد صالح نے بتایا ام المعارف بڑی منحوس جگہ ہے،کیمپ میں آئیں تو وحشت ہوتی ہے۔جب پچھلے سلطان کا دور تھا یہاں بدنام زمانہ nvestigation Centre Iہوتاتھا،سلطان کے فوجی پہاڑوں پر جاتے تھے وہاں جو نوجوان نظر آتا تھا اسے پکڑ کر یہاں لے آیا جاتا تھا،اْس سے دشمن کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا،اْس کے بیان میں ذرا سا بھی جھول ہوتا تو پھر سنٹر والے تشدد سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ کئی لوگ کئی کئی سال یہاں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند پڑے رہتے تھے۔ اس سنٹر نے حکومت کو فائدہ کم پہنچایا اور حکومت کے خلاف نفرت میں زیادہ اضافہ کیا۔گم شدہ افراد کے لواحقین کی یہ جرأت بھی نہ ہوتی تھی کہ وہ کسی سے پوچھ سکیں کہ ہمارے نوجوان کدھر قید ہیں،زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ سلطان قابوس تخت پر کب بیٹھا تھا۔ اْس نے ہنستے ہوئے بتایا جب انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ سلطان سعید کو ہٹا دیا جائے کیونکہ وہ دقیانوسی خیالات کا مالک تھا، ۲۳ جولائی ۱۹۷۰ء کو انگریزوں کی سرکردگی میں سلطان سعید کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت کی گئی،ایک دو گولیاں مار کر زخمی کیا گیا،ہائے بے چارگی، زخمی ہونے کے بعد بیچارا مدد کے لیے انگریزوں کو پکارنے پر مجبور تھا، وہ فوراً پہنچ گئے اور کہا کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹے قابوس کے حق میں دست بردار ہوجائیں۔وہ فوراً دست بردار ہوگیا۔ پھر انہوں نے سلطان کو ہوائی جہاز میں لٹایا اور انگلینڈ لے گئے ،وہاں سے وہ ۱۹۷۲ء میں خاموشی سے اگلے جہان کوچ کر گیا۔‘‘ وہ نوجوان جس نے ہمارے ساتھ کے جے جانا تھا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا ،اور بات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔

’’سلطان قابوس برطانیہ کے ،مشہور فوجی ادارے سنیدھرسٹ میں پڑھتا رہا ہے۔ وہ واقعی جدید خیالات کا مالک ہے ،اْس کے آتے ہی راتوں رات ایک سماجی انقلاب آگیا۔ اْس نے فوری طور پر پہاڑو ں سے تمام فوج واپس بلالی، تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔دوسری طرف اس نے فوج کو مضبوط کرنا شروع کیا، شہنشاہ ایران سے معاہدہ کیا کہ یمن سے اسلحے سے بھرے اونٹوں کے جو قافلے چلے آرہے ہیں اْن کو روکنے میں مدد دے،اقوام متحدہ سے مدد حاصل کی،بلوچی بڑی تعداد میں بھرتی کیے،باقاعدہ بلوچ رجمنٹیں بنائیں ،جن میں سے ایک میں آپ جارہے ہیں۔‘‘

آخر ہم ’کے جے‘ کے کیمپ میں داخل ہوئے ،محمد صالح نے مجھے بتایا کہ دائیں طرف جو یہ چبوترہ ہے اس جگہ پہلے سلطان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ چار پانچ منٹ بعد ہم سارجنٹ میس پہنچ گئے، ڈرائیور نے سارجنٹ میس کے احاطے میں مجھے اتار دیا ،میس کے پنجابی سٹاف نے خوش آمدید کہا،کچھ دیر بعد یونٹ کے سارجنٹ میجر غلام محمد صاحب تشریف لے آئے ۔ وہ چکوال کے رہنے والے تھے،بہت محبت سے پیش آئے۔ میرے بغیر پوچھے ہی انہوں نے فرمایا کہ آپ بالکل صحیح وقت پر تشریف لائے ہیں۔ ا ٓپ سے قبل جو صاحب یہاں اکاؤنٹس سے متعلقہ تھے ،اْن کے ساتھ جو ٹریجڈی ہوئی اس کے بعد فیصلہ ہوا ہے کہ آئندہ ہر یونٹ کا فوجی آفیسر خود تنخواہ تقسیم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ دشمن کے بم اس کیمپ کے باہر تک آکر گرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا یہ بات ہے تو درست لیکن ہے دو تین سال قبل کی۔ اس وقت یہ پوزیشن ہے کہ وادی صلالہ میں حکومت کا مکمل کنٹرول ہے ،صلالہ کے ساتھ جو یہ پہاڑ آپ دیکھ رہے ہیں اس پر بھی حالات کافی حد تک درست ہوچکے ہیں ،اس وقت بھی دشمن کے اکّا دکّا ایجنٹ تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔کہیں مائین(mine) دبا جائیں گے،کبھی فوجیوں کو اکیلا دکیلا دیکھ کر مار ڈالیں گے۔آج کل زیادہ لڑائی یمن کے قریبی علاقہ تک محدود ہے۔ میں نے غلام محمد کو بتایا کہ مجھے تو یہ بات پہلے معلوم نہیں تھی کہ یہاں کی فوج کسی لڑائی میں الجھی ہوئی ہے۔یہ بھی مسقط آکر معلوم ہوا کہ میں نے وار زون میں جا نا ہے۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ کس قسم کی لڑائی ہے،کون کون لڑ رہا ہے اور کتنے عرصے سے یہ جنگ جاری ہے۔ کسی نے مسقط میں مجھ سے یہ بھی کہا کہ یہ بنگالیوں کی طرح کی لڑائی ہے ،جس طرح وہ مشرقی پاکستان کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔

مسقط کے پڑوسی ملک یمن میں آج سے کئی سال قبل روس نے کمیونسٹوں کے ذریعے حکومت کے خلاف بغاوت کا چکر چلایا۔ یمن کی حکومت کی حمایت سعودی عرب کر رہا تھا جبکہ کمیونسٹوں کو مصر کے ذریعے اسلحہ اور مالی امداد مل رہی تھی۔ یورش کافی بڑھی ،آخر ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک شمالی یمن اور دوسرا جنوبی یمن کہلایا۔ جنوبی یمن نے دعویٰ کیا کہ ظفار کے علاقے پر مسقط نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ، ہمارا یہ علاقہ ہم کو واپس دے دیا جائے ورنہ ہم بزور طاقت اس پر قبضہ کر لیں گے۔ اْس زمانے میں مسقط کے معاشی حالات بہت خراب تھے ،پیٹرول دریافت ہوگیا تھا لیکن ابھی زمین سے نکالنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ غربت بہت زیادہ تھی ۔ حالات ایسے تھے کہ کمیونسٹوں کو آسانی سے مقامی لوگوں کا تعاون مل جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جنوبی یمن اور یہاں ظفار کے لوگوں کا ماضی میں کاروبار کے لیے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بہت رہا ،دونوں طرف کی زبان،رسوم،لباس، حتیٰ کے اْن کے قبائل بھی ایک ہی تھے۔
٭٭٭
کمیونسٹوں کے ساتھ یہ جنگ برطانوی فوجیوں کی سرکردگی میں لڑی جارہی تھی۔ ہماری یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر اور دیگر تمام اہم افسران انگریز ہی تھے ، سپاہیوں سے رابطہ کے لیے بلوچ رجمنٹوں میں کچھ بلوچ افسر ،اور عرب یونٹوں میں عربی افسر بھی ہوتے تھے۔ ہمار ے کئی اکاؤنٹس آفیسر انگریز رہے،بعد میں ایک بلوچی افسر نے یہ کام سنبھال لیا تھا۔ ایک انگریز افسر جس کا نام جم ہاکنز تھا وہ کتابیں اور رسالے پڑھنے کا بہت شوقین تھا۔ میں کبھی کبھار اس سے کتابوں یا مصنفین کے حوالے سے بات کرتا رہتا تھا ۔ اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ مجھے اپنی کئی کتابیں پڑھنے کے بعد دے دیتا تھا۔ اْس کی دی ہوئی کئی کتابیں ابھی تک میرے پاس موجود ہیں۔ غالباً 1977ء کے آغاز میں وہ انگلینڈ چھٹی گیا ۔ جب چھٹی گزار کر واپس دفتر میں آیا تو ایک لفافے میں بند کتاب میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب جب انگلینڈمیں میں نے بک اسٹال پر دیکھی تو ایک کاپی خرید لی ،دکان سے باہر نکل آیااور اپنی کار میں بیٹھ گیا تو نجانے ایک دم کیوں تمہارا خیال آیا،دوبارہ دکان میں گیا اور ایک کتاب تمہارے لیے بھی خرید لی، جم ہاکنز کی وہ نشانی آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔

Ranulph Fiennes ایک انگریز تھا،جو مسقط آرمی میں بطور آفیسر کام کرتا رہا ،یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اْس نے مسقط کی کمیونسٹوں کے ساتھ اس جنگ کا احوال تفصیل سے اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’جہاں فوجی قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں‘(Where Soldiers Fear To Tread ) میں تحریر کیا ہے۔ کتاب میں تفصیل سے جنگ کے پورے حالات درج ہیں ،اور بتایا گیا ہے کہ دشمن کے پیچھے روس ،پوری کمیونسٹ دنیا،مصر اور یمن کھڑے تھے۔۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۷ء تک دفار لبریشن فرنٹ ہلکی پھلکی کارروائیاں کرتا رہا۔ ۱۹۶۵ء میں پہلی دفعہ سلطان کی باقاعدہ فوج فرنٹ والوں کو قابو کرنے کے لیے حرکت میں آئی۔ ۱۹۶۷ء کے بعد کمیونسٹوں نے ڈی ایل ایف(DLF) پر قبضہ کرلیا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ متحد ہوکر میدان میں آگئے۔ دفار کے پہاڑوں میں کمیونسٹ ملکوں کے فوجی باقاعدہ وردی پہن کر لڑتے رہے۔پروگرام کے مطابق یمن میں بیٹھے کمیونسٹوں کا پہلا نشانہ دفار اور دوسرا مسقط بننا تھا اْس کے بعد متحدہ عرب امارات،بحرین اور پھر کویت ٹارگٹ تھا۔ لیکن اللہ کو ایسا منظور نہ تھا یہ بیچارے دفار میں ہی پھنس کر رہ گئے۔ کتاب میں دہشت گردوں کے مظالم کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔ لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے راستوں میں پھینک دینا، لاشوں کو جلانا ، لوگوں کو سگریٹوں سے داغنا، معمولی شک پر گولی مارکر زخمی کردینا،لوگوںکو غائب کردینا۔ مصنف نے ایک فقرے میں عمان کی موجودہ صورت حال بیان کردی ہے:Oman is poor yet rich, old yet new(عمان غریب ہونے کے باوجود امیر ہے،پرانا ہونے کے باجود جدید ہے)
٭٭٭
عمان میں کئی سال تخریب کاری کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس کے ساتھ ملک کے بعض علاقوں میں باقاعدہ فوجی لڑائیاں لڑی گئیں۔کئی قبیلوں کو انہوں نے آزادی کے خواب دکھائے۔ دوسری اہم ہے کہ وہاں جو میدان ِ جنگ تھا وہ ہمارے بلوچستان یا افغانستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے جیسا تھا ۔ وہاں بھی اسی طرح غریبی اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ حالات بھی ایک جیسے،علاقہ بھی ایک جیسا۔

آئیے دیکھتے ہیں انہوں نے حالات کی اصلاح کرنے کے لیے کیا طریقہ ٔ کار اختیار کیا ۔ انہوں نے سب سے پہلے دشمن سے اْن کا نعرہ لے لیا ،حکومت عمان نے اعلان کیا کہ ہر شہری کو روٹی،کپڑا، مکان دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔ ہر شہری کا مفت علاج، ہر بچے کے لیے مفت تعلیم،ہر شہری کے گھر تک کچی یا پکی سڑک۔حکومت نے یہ سہولتیں عوام کو مہیا کیں ،لیکن ان سہولتوں نے عوام کو سرکاری اداروں سے باندھ دیا۔ مثلاً شعبہ طب ہے ،اْس نے تمام عمانیوں کا ڈیٹا تیار کر لیا۔ ہر آدمی کا نام پتہ ،کام ہر چیز اْس کے ریکارڈ میں آگئی۔ بچوں کی تعلیم کے ذریعے سرکاری عملہ ہر علاقے میں پہنچ گیا۔ہر آدمی اپنے نزدیکی تھانے میں رجسٹر ڈ ہے۔ اْس کو کسی قسم کی مدد چاہیے ،اْس نے نزدیکی تھانے میں رپورٹ کرنا ہے۔ تمام ملک میں سڑکوں کا جال پھیلا دیا گیا۔ بینک کھولے گئے ،انہیں کہا گیا کہ آپ لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے ،کار خریدنے کے لیے قرضے دیں ،مقصد یہ تھاکہ عوام ایک منظم زندگی کے عادی ہوں۔ ہر گھر تک سڑک پہنچانے کا پہلا مقصد تو عوام کو آنے جانے کی سہولت دینا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہونا چاہیے جو حکومت کی نظر میں نہ ہو۔جوانوں کے لیے تمام ملک میں جم کلب بنائے گئے،ہر قسم کے کھیلوں ،خاص طور پر فٹ بال کے کھیل کے لیے ہر آبادی کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ تمام بوڑھوں، معذوروں ، ناداروں کا ڈیٹا جمع کیا گیا اْن کو ماہوار وظیفہ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔

ایک اور بہت اہم قدم یہ تھا کہ حکومت نے ملک کے کم آباد علاقوں میں جگہ جگہ مکان بناکر لوگوں میں تقسیم کرنے شروع کردیئے ،نظریہ یہ تھا کہ جب ایک آدمی کو مکان مل جاتا ہے تو وہ مکان کے ساتھ بندھ جاتا ہے ،وہ پھر کسی قسم کی شرارت یا تخریب کاری میں ملوث نہیں ہوسکتا ۔ مکان اس شرط پر دیا جاتا تھا کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ آپ کے علاقے میں کوئی بھی شخص قدم رکھے تو آپ نے نزدیکی تھانے کو مطلع کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح فاصلے فاصلے پر مکان بناکر لوگوں کو دے دیئے گئے،اس فیصلے نے کسی غیر آدمی کا علاقے میں گھسنا کافی حد تک مشکل کردیا۔

ملک میں زراعت کو ترقی دی گئی ،زراعت کے لیے پانی چاہیے، ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ ہے جس کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے گئے۔ دو دو تین تین فٹ چوڑی پانی کی پختہ نالیاں بنائی گئیں۔ زمین میں پانی کا لیول بلند کرنے کے لیے،کبھی کبھار ہونے والی بارش کا پانی سمندر میں جانے سے روکنے کا بندوبست کیا گیا۔ مسقط میں جہاں جہاں جو چیز پیدا ہوسکتی ہے اْس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہر ممکن تدبیر کی گئی۔خاص طور پر ملک میں جہاں کجھور پیدا ہوسکتی ہے وہاں کجھور کے باغات بڑھانے کے لیے مدد کی گئی۔ صلالہ اور کچھ علاقوں میں ناریل پیدا ہوتا ہے ،اْس کے نئے نئے باغات لگائے گئے۔ مسقط کا بہت بڑا ساحل ہے ،لوگوں کو مچھلی پکڑنے،اْس کو منڈی تک پہنچانے ،قیمتیں مناسب رکھنے، غرض ہر طرح مچھیروں کی مدد کی گئی۔ سچ ہے کہ لوگوں کے لیے روزگار پیدا کردیا جائے تو وہ پرامن ہوجاتے ہیں۔

٭٭٭
بلوچستان،اور قبائلی علاقوں کے حالات بہت حد تک وہاں کے حالات سے ملتے ہیں ،ہم اْن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں،ہم کو ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔یہاں ایک اہم بات یہ بھی یادکرانے کی ضرورت ہے کہ مسقط میں جنگ ختم ہوچکی ہے ،اب وہاں بلوچیوں کی ضرورت کم ہی رہ گئی ہے،اْن کی بڑی تعداد وطن واپس آچکی ہے ،حکومت کا فرض ہے کہ اْن کو ملازمت مہیا کرے ورنہ ملازمتیں فراہم کرنے والے بہت ہیں۔

1962ء میں دفار کے ایک ناراض قبائلی رہنما مسالم بن نفل نے دفار لبریشن فرنٹ (DLF) کے نام سے تنظیم قائم کی۔ بوریمی نخلستان کی ملکیت کے تنازع پر سعودی عرب اور اومان میں کشیدگی تھی، لہٰذا اس علیحدگی پسند گروپ کو گاڑیاں اور اسلحہ سعودی عرب نے فراہم کیا۔ اسی برس دسمبر میں بن نفل کی گوریلا فورس نے صلالہ کے مقام پرقائم برطانوی ائیر فورس بیس اور تیل کی صنعت میں زیراستعمال گاڑیوں پر گھات لگا کر حملے کیے لیکن جلد ہی سعودی عرب نے ان کارروائیوں کو روک کر ان جنگجوئوں کو مزید گوریلا تربیت کیلئے عراق بھجوا دیا۔ 1964ء میں گوریلا فورس نے دوبارہ کارروائیوں کا آغاز کیا اور تیل کی تنصیبات اور سرکاری املاک کو نشانہ بنانے لگے۔

اومان کے سلطان سعد بن تیمور کا تمام تر انحصار دخار میں امن و امان کی ذمہ دار دخار فورس پر تھا جو صرف 60 افراد پر مشتمل تھی۔ 1966ء میں اسی فورس کے کچھ لوگوں نے سلطان کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ سلطان نے اپنے برطانوی مشیروں کے مشورے کے برعکس دخار کی آبادی کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی جس کے تباہ کن نتائج سامنے آئے اور حکومت کے خلاف بغاوت نے مزید زور پکڑا۔ آغاز ہی میں یمن اور عدن کی بائیں بازو کی تحریکیں دخار کی بغاوت کا ساتھ دے رہی تھیں۔

1967ء میں یمن سے برطانوی انخلاء اور عوامی جمہوریہ یمن کے قیام کے بعد خار کے باغیوں کو یمن سے براہ راست مدد ملنا شروع ہو گئی۔ اب یمن میں تربیتی کیمپ اور دیگر سہولتیں اومان کی سرحد کے بالکل قریب فراہم ہو گئیں۔ 1968میں سلطان کی فوج کی ایک بٹالین نے دیفا کے مقام پر باغیوں کے ٹھکانے پر بڑا حملہ کیا جسے باغیوں نے پسپا کر دیا اور اومان کی بہت سی اہم پوزیشنیں باغیوں کے قبضے میں آگئیں۔ اسی برس بائیں بازو کے نظریاتی غلبہ کے زیر اثر دخار لبرشن فرنٹ کا نام تبدیل کرکے پاپولر فرنٹ فار دی لبرشن آف دی آکوپاٹڈ عریبین گلف Popular Front for the OccupiedArabian Gulf رکھ دیا گیا۔ یوں اس تحریک کو سوویت یونین (روس) چین اور جنوبی یمن کی براہ راست اعانت حاصل ہو گئی۔ دوسری جانب اومان کو پاکستان، ایران، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور اُردن کی حمایت حاصل تھی۔

23جولائی1970ء کو ایک پرامن انقلاب کے ذریعے سلطان سعیدبن تیمور کو ہٹاکر اس کا بیٹا قابوس بن سعید برسراقتدار آگیا۔ اس کے آنے سے صورت حال بالکل بدل گئی ۔ آہستہ آہستہ باغی مقامی لوگوں کو مدد اور اعانت کھونے لگے۔19جولائی1972ء کو معرکہ مربت کے نتیجے میں باغیوں کی شکست کاآغاز ہوا اور جنوری1976ء میں بغاوت کا مکمل طورپر خاتمہ کردیاگیا۔مصنف پاکستانی فوج کے شعبہ اکائونٹینسی میں خدمات انجام دیتے رہے۔ انھیںڈیپوٹیشن پر دفار کے محاذپروقت گزارنے کا موقع ملا۔اس دوران انھوں نے اومان کو درپیش اس سنگین صورتحال کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اومان پاکستان کے تعاون سے ان نازک حالات سے کیسے سرخرو ہوا، یہ ساری تفصیل انھوں نے زیرنظرمضمون میں بیان کی ہے جس سے پاکستانی حکام کو بھی روشنی ملے گی جو آج اسی قسم کے نازک حالات سے گزرہاہے۔

بُک شیلف

$
0
0

ابراہیم جلیس، انسان اور قلم کار
مرتبین: ڈاکٹر جمال نقوی، شہریار جلیس
ناشر:ادارہ تزئینِ دانش، کراچی
صفحات:102،قیمت:300 روپے

اردو طنزومزاح نگاری کی تاریخ ابراہیم جلیس کا تذکرہ کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ چالیس کروڑ بھکاری، تکونا دیس، چور بازار، کچھ غمِ جاناں کچھ غم دوراں، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا اور ہنسے اور پھنسے سمیت ان کی تخلیقات انھیں اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ادب کے ساتھ صحافتی جہت بھی ان کا اہم حوالہ ہے۔ بہ طور صحافی انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ زیرتبصرہ کتاب اردو ادب وصحافت کی اس گراں قدر شخصیت کو خراج عقیدت ہے، جسے ابراہیم جلیس کی برسی کے موقع پر شایع کیا گیا۔ یہ کتاب ادب اور صحافت سے متعلق مختلف شخصیات کے ابراہیم جلیس پر لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے۔

ان شخصیات میں علامہ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر جمیل جالبی، امر جلیل، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر سحر انصاری، افضل صدیقی، حمایت علی شاعر، ڈاکٹر جمال نقوی اور دیگر شامل ہیں، جنھوں نے اپنے مضامین میں ابراہیم جلیس کی شخصی خصوصیات اور ان کے فنی محاسن کا احاطہ کیا ہے۔ ان مضامین کے علاوہ اس کتاب میں کی تحریر کا عکس اور ان کی زندگی کی جھلک دکھلاتی مختلف تصاویر بھی شامل ہیں۔

ابراہیم جلیس فن اور شخصیت
مرتبین: پروفیسر مہ جبیں شہریار، طیبہ جلیس، شاہنواز جلیس
ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:224،قیمت:200روپے

زیرتبصرہ کتاب بھی ابراہیم جلیس پر لکھے گئے مضامین اور ان کی کچھ تحریروں کا مجموعہ ہے، جسے ’’شخصیت اور تاثرات‘‘،’’فن اور شخصیت‘‘،’’تبصرہ اور تجزیہ‘‘ اور ’’تحریریں‘‘ کے زیرعنوان مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں ابنِ انشا، شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی، مالک رام، پروفیسرمنظور حسین شور، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حمید کاشمیری اور دیگر اہم قلم کے مضامین شامل ہیں، جنھوں نے اپنی تحریروں میں ابراہیم جلیس کی فنی جہتوں اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ابراہیم جلیس کی آخری تحریر کے علاوہ ان کے افسانے ’’زرد چہرے‘‘،’’آدم خور‘‘ اور ’’ماں‘‘ کے ساتھ ان کی فکاہیہ تحریر ’’آہ وہ پٹائی‘‘ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

M.JINNAH LEADERSHIP PATTERN
مصنف: ڈاکٹر شہلا کاظمی
ناشر: قائداعظم اکادمی، کراچی،صفحات:419 ،قیمت:800روپے

تاریخِ عالم میں قائداعظم محمد علی جناح کو یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ انھوں نے محض سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک نیا ملک قائم کردکھایا۔ ایک ایسا ملک جس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ اگرچہ بہت سے عوامل پاکستان کے قیام کی بنیاد بنے، مگر قائد اعظم کی قیادت اور کاوشوں کو اس ضمن میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

آج جب کہ ہم اُس جرأت مند، بہ اصول، دیانت دار اور صاحب بصیرت قیادت سے محروم ہیں، جس کی خصوصیات کو علامہ اقبال نے اپنے شعر؎نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوزیہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے، میں سمودیا ہے، ایسے میں بانی پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں اور ان کے طرزسیاست کا گہرائی سے جائزہ اور تجزیہ بہت ضروری ہوجاتا ہے، لیکن اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر شہلا کاظمی مبارک باد اور ستائش کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اس اہم موضوع کو چُنا اور تحقیق وجستجو کے دق کردینے والے مراحل سے گزر کر قائداعظم کی قیادت کے اوصاف اور ان کی سیاسی جدوجہد کے خدوخال اور خصوصیات سے ہمیں آگاہی کا موقع فراہم کیا ہے۔

یہ کتاب دراصل ڈاکٹر شہلاکاظمی کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جس پر انھیں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند ملی۔ ڈاکٹر شہلا کاظمی نے اپنے اس مقالے میں بچپن سے وفات تک قائداعظم کی پوری زندگی کا پوری تفصیل سے اور ان عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے جائزہ لیا ہے، جنھیں قائد کی شخصیت خاص طور پر ان کے قائدانہ کردار کی تعمیر میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے مصنفہ نے بابائے قوم کی زندگی کے چند اہم رُخ وہ سامنے لائی ہیں، جن میں نوجوانی کے دور میں ان کی زندگی پر مذہبی اثرات مرتب ہونا، ان کی قیادت میں روایتی اور جدید دونوں طرح کی خصوصیات کا پایا جانا، ان کی راہ نمائی کا منفرد انداز، ان کا اپنے ہم عصر سیاست دانوں سے الگ ہونا، بابائے قوم کی خوش وضعی، روکھا پن کسی کے سامنے نہ جھکنے کی صفت اور اپنے سیاسی کیریر کی ابتدا ہی میں برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہونا، جیسے پہلو شامل ہیں۔

یہ کتاب تحریک پاکستان اور قائداعظم کی حیات اور جدوجہد میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک گراں قدر تصنیف ہے، جسے ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے۔

وجہِ تخلیقِ کائنات


مصنفہ: آسیہ سحر
ناشر: الجلیس پاکستانی بُکس پبلشنگ سروسز،صفحات:400،قیمت:300روپے
محسنِ انسانیت رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں لاتعداد کتابیں لکھی جاچکی ہیں، مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ نبیِ کریم ﷺ کی زندگی اور شخصیت کے اتنے پہلو ہیں اور ان میں اتنی گہرائی اور وسعت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی احاطہ کرنا ممکن نہیں، بس ہم سیرت پاک اور شانِ رسالت کی بابت شعرونثر کی صورت نذرانے پیش کرکے اپنے لیے دنیاوی اور آخروی اجالے اور رحمت کا سامان کرتے ہیں۔

’’وجہِ تخلیقِ کائنات‘‘ بھی نبیِ مکرم ﷺ کی شان و رفعت کے کچھ گوشوں کے بیان پر مبنی کتاب ہے، تاہم مصنفہ نے کچھ دیگر موضوعات کو بھی اپنی تصنیف کا حصہ بنایا ہے۔ اس کتاب کس قدر وسیع موضوعات کو گرفت میں لانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کا اندازہ اس کے ابواب کے عنوانات سے ہوتا ہے، جو یہ ہیں: تخلیقِ کائنات، پیدائش اور پروٹوکول، سرکارِ دو عالم ﷺ کے ذکر کی تعظیم، شانِ مصطفیٰ ﷺ اور قرآنی آیات، معجزاتِ رسول ﷺ، وصال النبی ﷺ، اعترافِ عظمتِ رسول ﷺ، تفکر۔ اس کتاب کا آخری باب ’’تفکر‘‘ مسلمانوں کے علمی ورثے، علاماتِ قیامت جیسے موضوعات کو چھوتا ہوا امت مسلمہ کو اپنے محاسبے کی دعوت دیتا ہے۔

مصنفہ کا طرز تحریر بہت دل کش اور رواں ہے، جو قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ خوب صورت پیرائے میں لکھی گئی یہ کتاب بہت سی ایسی معلومات بھی سامنے لاتی ہے جن سے عام قاری واقف نہیں۔

’’بِٹ کوائن‘‘ غیرمرئی سِکّہ

$
0
0

کسی بھی ملک کی معیشت میں کرنسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی کبھی اناج، نمک، زعفران اور کئی مصالحہ جات کو لین دین کے لیے بطور کرنسی استعمال کیا گیا۔

ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔ مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنی کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘

وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اور اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن چند سال قبل ایک ایسی ورچوئل کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ وجود میں آئی، جس کی مالیت اس وقت دنیا کی سب کرنسیوں سے بہت زیادہ ہے۔

تادم تحریر ایک ’’بٹ کوائن‘‘ کی مالیت 308امریکی ڈالر ہے، جب کہ پاکستان میں ایک بٹ کوائن لینے کے آپ کو تقریباً 33ہزار روپے دینے پڑیں گے، لیکن اس ورچوئل کرنسی کی قیمت نیچے بھی بہت تیزی سے آتی ہے۔

اس غیریقینی صورت حال کے باوجود بٹ کوائن کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف منشیات فروشی، غیرقانونی اسلحے کی تجارت، جوئے کے دھندے میں ملوث اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے لیے یہ کرنسی بہت قابلِ اعتماد سمجھی جا رہی ہے تو دوسری جانب بہت سے مشہور ریستورانوں، کاروباری اداروں اور آن لائن خریدوفروخت اور خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی بٹ کوائن میں پیسوں کا لین دین کر رہے ہیں ، جب کہ چند دن قبل ہی کینیڈا میں دنیا کی پہلی ATM مشین بھی نصب کی گئی ہے، جس کے ذریعے ابتدائی چند دنوں میں ایک لاکھ ڈالر سے زاید مالیت کی ساڑھے تین سو سے زاید ٹرانزیکشن کی جاچکی ہے۔ بٹ کوائن ATM (روبو کوائن) بنانے والی کمپنی کے سی ای او جارڈن کیلی کا کہنا ہے کہ یہ مشین بنانے میں تقریباً 15  ہزار ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ہم دسمبر 2013کے اختتام تک ’’برلن‘‘،’’ٹورنٹو‘‘،’’ہانگ کانگ‘‘،’’لندن‘‘ اور ’’نیویارک ‘‘ سمیت دیگر شہروں میں روبوکوائن نصب کردیں گے۔ اس رپورٹ میں ہم نے بٹ کوائن کی تاریخ اور اس کے کام کرنے کا طریقۂ کار واضح کیا ہے۔

٭ بٹ کوائن کیا ہے؟:  بٹ کوائن رقم کی ادائیگی کے لیے دنیا کا سب سے منفرد ڈیجیٹل کرنسی کا نظام ہے۔ یہ پیسوں کی منتقلی اور وصولی کا دنیا کا پہلا ڈی سینٹرلائزڈ ’’پیر ٹو پیر‘‘ نیٹ ورک ہے، جو استعمال کنندہ کنٹرول کرتا ہے، جس کے لیے اسے کسی سینٹرل اتھارٹی یا مڈل مین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ استعمال کنندہ کے نزدیک بٹ کوائن انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے لیے کیش کی طرح ہے۔

٭بٹ کوائن کس نے ایجاد کیا؟:  بٹ کوائن کو پہلی بار ایک نظریے ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کے تحت استعمال کیا گیا، جسے 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنیcypherpunks(ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography  (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقۂ کار پر مشتمل ہو۔ پہلے بٹ کوائن کی تفصیلات اور اس کے حق میں دلائل 2009 میں ساتوشی ناکاموٹو کی cryptography ملنگ لسٹ میں شایع ہوئے تھے۔ 2010 کے اواخر میں ساتوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا اس پروجیکٹ کو چھوڑدیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی۔ ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔

ساتوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز، ساتوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ساتوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔

٭ بٹ کوائن نیٹ ورک کو کنٹرول کون کرتا ہے؟: بٹ کوائن نیٹ ورک کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس ای میل کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ بٹ کوائن کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، جب کہ ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن وہ بٹ کوائن پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندہ کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بٹ کوائن اسی صورت میں صحیح کام کرتا ہے جب تمام استعمال کنندہ کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔

٭بٹ کوائن کیسے کام کرتا ہے؟: ایک استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر سے بٹ کوائن ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی بٹ کوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے بٹ کوائن بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔لیکن استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو بٹ کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈ ویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام بٹ کوائن بھی دیے جاتے ہیں جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔

کیا لوگ حقیقت میں بٹ کوائن کو بطور ’’رقم ‘‘ استعمال کرتے ہیں؟

دنیا بھر میں بٹ کوائن کے لین دین میں انفرادی اور کاروباری سطح پر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جن میں ریسٹورینٹ، اپارٹمنٹس، لا فرمز، اور آن لائن خدمات فراہم کرنے والی مشہور کمپنیاںNamecheap, WordPress, ، Reddit اور Flattr شامل ہیں۔ بٹ کوائن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ اگست 2013 کے اختتام تک دنیا بھر میں زیرِگردش بٹ کوائنز کی مالیت150 کروڑ1.5 ) بلین (ڈالر سے تجاوز کرچکی تھی،جب کہ روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائنز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

٭بٹ کوائنز سے ادائیگی کا طریقۂ کار: بٹ کوائن سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کر سکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے ) اسکین کرلیں۔

٭بٹ کوائنز کے فوائدپیسے ادا کرنے کی آزادی : بٹ کوائن کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔ یہ طریقۂ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور کسی حد سے مبر ا ہے۔ بٹ کوائن استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتا ہے۔

انتہائی کم فیس: بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal  اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔

مرچنٹس کے لیے کم خطرات: بٹ کوائنز کی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرچنٹ کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور وہ کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔

٭سیکیوریٹی اور کنٹرول: بٹ کوائن کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے بٹ کوائن کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے جب کہ بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگی صارف کی نجی معلومات کے بنا پرکی جاتی ہے۔ بٹ کوائن کو بیک اپ کے طور پر بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔

٭بٹ کوائن کے نقصانات : بٹ کوائن مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کر سکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر نا ممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم بٹ کوائن پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔

بٹ کوائن کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک بٹ کوائن کے بارے میں نہیں جانتے۔ گرچہ دن بہ دن اس کے استعمال کنندہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن یہ تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔

بٹ کوائن کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر بٹ کوائن وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔

بٹ کوائن آن لائن بینکنگ نیٹ ورکس اور کریڈٹ کارڈ ز کی طرح ورچوئل ہے۔ بٹ کوائن کو کرنسی کی دوسری اقسام کی طرح آن لائن شاپنگ اور فزیکل اسٹورز پر خریداری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ اسے منی چینجر سے ایکسینچ کروا کر کاغذی کرنسی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی زیادہ سہل سمجھتے ہیں۔ تاہم بٹ کوائن کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا ابھی بعید از قیاس ہے۔ بٹ کوائن کے کاروبار کو کچھ ملکوں میں غیرقانونی قرار دیا گیا ہے تو کچھ ملکوں میں اس کو قانونی قرار دے کر ’’بٹ کوائن ایکسچینج‘‘ کھولنے کے لیے لائسنس کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے۔

٭بٹ کوائن کیسے بنائے جاتے ہیں؟: نئے بٹ کوائنز ایک ڈی سینٹرالائز پروسیس ’’مائننگ‘‘ سے بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں نیٹ ورک کے لیے خدمات سر انجام والے افراد کو انعام کے طور پر بٹ کوائنز دیے جاتے ہیں۔ ان افراد کو ’’مائنرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مائنرز ٹرانزیکشنز کو پروسیس کرنے اور اسپیشلائزڈ ہارڈ ویئرز استعمال کرتے ہوئے نیٹ ورک کو محفوظ اور ایکسچینج میں نئے بٹ کوائنز کو جمع بھی کرتے ہیں۔

بٹ کوائن پروٹوکول اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ نئے بٹ کوائن ایک فکسڈ ریٹ پر تخلیق ہوتے ہیں، جس نے بٹ کوائن مائننگ کو بہت مسابقت والا کاروبار بنادیا ہے۔ جب زیادہ مائنرزنیٹ ورک میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر انفراد طور پر ہر کسی کا منافع کم ہوجاتا ہے اور کسی ڈویلپر یا مائنر کے پاس منافع میں اضافے کے لیے سسٹم میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سسٹم کے معیار سے مطابقت نہ کرنے والے بٹ کوائن نوڈ کو دنیا بھر میں مسترد کردیا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی قیمت کا انحصار معاشیات کے قانون ’’طلب‘‘ اور ’’رسد‘‘ پر ہے۔ طلب بڑھنے پر بٹ کوائن کی قیمت میں اضافہ اور کم ہونے پر کمی ہوجاتی ہے۔

بٹ کوائن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سسٹم میں صرف21ملین بٹ کوائن ہی تخلیق کیے جاسکیں گے۔ تاہم اس کی کوئی حد نہیں ہوگی کیوںکہ بٹ کوائنز کو 8 ڈیسی مل ( 0.000 000 01 BTC )میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مستقبل میں ضرورت پیش آنے پر اسے مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ایک بار پھر فوجی طاقت بننے کا خواب: جاپان متحرک ہوگیا

$
0
0

دوسری جنگ عظیم تک جاپان ایک بڑی طاقت (معاشی اور فوجی) تھا اور گھمسان کی جنگ کے دوران مختلف ملکوں کو فتح کرتا ہوا تیزی سے آگے کی طرف پیش قدمی کررہا تھا ۔

اس کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نہ صرف امریکا اور برطانیہ بلکہ دیگر تمام سامراجی ملکوں کے لیے بھی خطرہ بن چکی تھی۔خدشہ تھا کہ جلد جاپان برطانیہ سے اس کی سب سے بڑی کالونی یعنی برصغیر کو چھین لے گا لیکن بحرالکاہل میں واقع امریکی عمل داری کے حامل جزیرے ہوائی پر جاپانی حملے کے بعد امریکا بھی جنگ میں کود پڑا اور اس نے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوجاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکر جاپان کی کمر توڑ دی۔ ا س حملے میں نہ صرف لاکھوں بے گناہ جاپانی شہری مارے گئے بلکہ جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ حالیہ تاریخ کا حصہ ہے۔امریکا نے جاپان پرقبضہ کرلیا اور ایک معاہدے کے تحت جاپان کے دفاع کی زمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی۔معاہدے کے تحت جاپان کو قومی فوج یا ہتھیار رکھنے کے حق سے محروم کردیا گیا۔تاہم اسے معاشی میدان میں ترقی کی بھرپور آزادی دی گئی۔جاپانی قوم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور صنعتی اور معاشی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا سے منوالیا۔جاپان اپنی پرامن معاشی اور صنعتی ترقی کے ذریعے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا۔ لیکن اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا اعزاز اس سے چھن چکا ہے اور یہ اعزاز اب چین کے پاس ہے جس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ وہ امریکا سے بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا اعزاز چھین سکتا ہے۔

تاہم وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔جاپانی اب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے معاشی ترقی کرکے دیکھ لیا۔ اب انہیں اپنی فوجی صلاحیت کو بھی دنیا سے منوانا ہوگا اور اپنے لیے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بھرپور فوجی طاقت بننا ہوگا۔جاپان کے موجودہ وزیراعظم شنزو ایبے جاپان میں ابھرنے والی اس سوچ کے موجودہ روح رواں ہیں اوراس حوالے سے وہ بھرپور ’’دائیں بازو‘‘ کی حامل سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اگرچہ جاپانیوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ جنگ و جدل میں پڑنے کے بجائے صرف معاشی طور پر ترقی کرے۔لیکن ایسے جاپانیوں کی بھی کمی نہیں جو عقابی خیالات کے حامل وزیراعظم شنزو ایبے جیسی سوچ ہی رکھتے ہیں۔یعنی جاپان کو ایک ’’نارمل ملک‘‘ بنانے کی سوچ ، ایک ایسا ’’نارمل ملک‘‘ جس کی دوسرے ممالک کی طرح ایک فوج ہو اور اس کے لیے عظیم الشان فوجی ہتھیار بھی۔

جاپان فوجی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اس کادشمن کون ہے؟ آپ کا خیال غلط ہے۔ جاپان کے خیال میں اسے امریکا یا روس سے خطرہ نہیں اور نہ ہی کسی اور مغربی ملک سے اس کو کوئی تنازعہ درپیش ہے۔بلکہ فوجی طاقت بننے کے عزم کے پیچھے جو محرک ہے وہ کوئی اور ملک نہیں ، چین ہے۔جاپان چین کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور بحرالکاہل میں واقع بہت سے جزائر کی ملکیت پر اس کا چین سے تنازعہ ہے۔جاپان کا چین کے ساتھ ’’تاریخی تنازعہ‘‘ بھی ہے۔جاپان سمجھتا ہے کہ اس کے ہمسائے میں شمالی کوریا اور چین ایسے ممالک ہیں جو اس کے وجود کے لیے خطرہ ہیں۔ اس لیے اب اسے اپنے دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کرنے کے بجائے خود کچھ کرنا ہوگا۔اسے اپنی بھرپور فوج ، بحریہ اور فضائیہ تشکیل دینا ہوگی۔جاپان میں فوج نہ رکھنے کے امریکا سے معاہدے کے باوجود اس کے پاس فوج ، بحریہ اور فضائیہ موجود ہے لیکن یہ ’’لو پروفائل‘‘رہتی ہے اور اسے ’’سیلف ڈیفنس فورسز‘‘ (ایس ڈی ایف) کہا جاتا ہے۔

چین اور جاپان کے درمیان حالیہ دنوں میں علاقائی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔دراصل ایسٹ چائنہ سی میں بہت سے ایسے جزائر ہیں جن پر جاپان کی عمل داری ہے لیکن چین ان جزائر کو تاریخی طور پر اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ان جزائر میں ایک ناہا کا جزیرہ بھی ہے جس پر جاپان کی ایک اہم ایئربیس قائم ہے۔ اس ایئربیس کو استعمال کرتے ہوئے جاپانی اکثر فضائی مشقیں کرتے اور چین کو اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جزیرے پر تعینات طیاروں کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ایک جاپانی پائلٹ کے بقول چین اور جاپان میں کشیدگی خاصی بڑھ چکی ہے۔ محو پرواز طیاروں کی ایک باڑھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ طیارے ہمارے فخر کی علامت ہے جو ملک کے دفاع کے لیے سرگرم ہیں۔

گذشتہ اپریل سے جون کے درمیان اس بیس پر 69 جاپانی طیارے تعینات کیے گئے جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران یہاں پر صرف پندرہ طیارے تعینات کیے گئے تھے۔ اس سال ستمبر میں جاپان کی سیلف ڈیفنس فورسز (ایس ڈی ایف) نے پہلی بار تصدیق کی کہ چین نے جاپان کے اوپر ایک ڈرون طیارہ بھیجا تھا۔اس کے علاوہ چین کے بمبار طیارے کی جاپان پر پرواز کی تصدیق کی گئی۔اس کے علاوہ ایک چینی جنگی بحری جہاز کے دو منتازعہ جزائر کے قریب آنے کی تصدیق بھی کی گئی۔ چین کی جانب سے اس قسم کی سرگرمیوں کی وجہ سے جاپانی پائلٹوں میں وطن پرستی کا جذبہ (یا دشمن سے جنگ کا شوق) بڑھ رہا ہے۔

غیر ملکی جریدوں میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق جاپان کئی سالوں سے اپنے اقتصادی زوال اور کم ہوتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسے اب ایک نئے انداز میں اٹھنا چاہیے۔ یہ نیا انداز فوجی طاقت ہے۔اس نئے خیال کے ساتھ جاپان نے مختلف ملکوں کو فوجی امداد اور ٹریننگ دینے کا کام شروع کردیا ہے تاکہ علاقائی اتحاد کو فروغ دیا جائے اور ہمسایہ ملکوں کے دفاع کو مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ تیزی سے ابھرتے ہوئے چین کا مقابلہ کرسکیں۔

جاپان اس سال پہلے ہی عالمی فوجی منظر نامے کے حوالے سے ایک چھوٹا سا سنگ میل عبور کرچکا ہے جب اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار بیرون ملک فوجی سرگرمی کا مظاہرہ کیا یاکسی قوم کو فوجی امداد دی۔ اس نے بیس لاکھ ڈالر کی مدد سے اپنے فوجی انجینئیروں کو کمبوڈیا اور مشرقی تیمور بھیجا تا کہ وہ ان کے فوجیوں کو تربیت دے سکیں۔ بظاہر یہ مدد بحران کی صورت میں امدادی کاموں اور سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے تھی لیکن علامتی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک فوجی امداد تھی۔اس کے علاوہ جاپان نہ صرف بحرالکاہل اور ایشیا کے ملکوں کے ساتھ کئی مشترکہ جنگی مشقیں کرچکا ہے بلکہ اس نے کئی ایسے ملکوں کے باقاعدگی کے ساتھ پورٹ وزٹ بھی شروع کردیے ہیں جو کبھی خوفزدہ ہوا کرتے تھے کہ جاپان کہیں دوبارہ فوجی طاقت نہ بن جائے۔ دراصل اب ان ملکوں کو زیادہ خطرہ جاپان کے بجائے چین سے محسوس ہوتا ہے۔

جاپان کے دفاعی حکام اور مبصرین کا کہنا ہے کہ دیگر ملکوں کے کوسٹ گارڈز کو جدید ٹریننگ اورآلات سے لیس کرنے کے سویلین پروگرام کو تیز کرنے کے بعد جاپان جلد ہی ایک اور سنگ میل عبور کرسکتا ہے جیسے کہ خطے میں فوجی آلات جیسے سی پلینز(سمندری جہاز) اور ڈیزل سے چلنے والی آبدوزوں کی فروخت وغیرہ، جو کہ ان سمندری پانیوں میں ان ملکوں کے بہت کام آسکتی ہیں جہاں چین اپنا علاقائی دعویٰ رکھتا ہے۔

اس طرح کے مختلف اقدامات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ جاپان اپنی پالیسی کو شفٹ کررہا ہے اور امریکا کے ان بارہا کیے جانے والے مطالبات کی مزاحمت کررہا ہے جو کہ انکل سام اسے ایک حقیقی علاقائی طاقت بننے سے روکنے کے لیے کر تا رہا ہے کیونکہ امریکا کو خدشہ ہے کہ اگر جاپان ایسا کرتا رہا تو وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد غیر سرگرم (فوجی طورپر) رہنے کی پالیسی سے دور ہٹ جائے گا۔جاپان ایک ایسے موقع پر ایک علاقائی کھلاڑی بننے کے لیے کوشاں ہے جب امریکا اور چین بھی ایشیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے پوری طرح کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔چین جاپان کے ساتھ کچھ تاریخی تنازعات بھی رکھتا ہے جو کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کی جانب سے چین میں ’’ظالمانہ کارروائیوں‘‘ سے متعلق ہیں۔جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بہت سے ملکوں کو کچلا اور وہاں پر زبردست مظالم ڈھائے جن میں سے ایک ان ممالک کی عورتوں کو اپنے فوجیوں کے لیے داشتاؤں میں تبدیل کرنا بھی شامل تھا۔ چین بھی جاپان کے ہاتھوں کچلے جانے والے ممالک میں شامل تھا اور اس حوالے سے چینیوں میں جاپان سے ایک تاریخی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔

جاپان کی جانب سے فوجی طاقت بننے کے عزائم کے پیچھے اصل محرک اسکے چین کے ساتھ مختلف جزائر کی ملکیت پر تنازعات سرفہرست ہیں۔ یہ جزائر ایسٹ چائنہ سی میں واقع ہیں اور جاپان میں اس بارے میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے کہ جس طرح اس کا ملک زوال کی طرف جارہا ہے اور جس طرح اس کا روایتی محافظ امریکا بھی معاشی بحران میں مبتلا ہے اس کے نتیجے میں جاپان بہت زیادہ غیرمحفوظ ہوتا جارہا ہے۔جاپان کے ایک آفیشل کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دوران جاپان کو جو کرنا تھا وہ صرف امریکا کی پیروی تھا تاہم چین کے حوالے سے جاپان کا معاملہ مختلف ہے۔اس کے لیے جاپان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔

جاپان کی ان سرگرمیوں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی فوج کو مکمل طورپر اس طرح تبدیل کرلے کہ وہ جلد ہی ایک دفاعی فوج سے جارح فوج میں بدل جائے۔ ماضی میں جاپانی عوام سیاست دانوں کی ان کوششوں کی مزاحمت کرچکے ہیں جس کے ذریعے وہ ملک کے آئین ، جس کے تحت جاپان ایک فوجی طور پر غیرسرگرم (pacifist)ملک کہلاتا ہے،کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح ملک پر قرضوں کا جو بوجھ ہے وہ بھی جاپان کے اپنی فوجی طاقت کو توسیع دینے کے عزائم میں رکاوٹ ہے۔

تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ جاپان میں اس وقت جو رویہ پایا جارہا ہے ، اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ ملک اب تبدیل ہورہا ہے کیونکہ چین اپنے فوجی اخراجات کو بڑھانے کی پالیسی پر مسلسل گامزن ہے اور اس عزم پر قائم ہے کہ جن جزائر پر جاپان کادعویٰ ہے ، نہ صرف وہ چین کو واپس ملنے چاہئیں بلکہ ساؤتھ چائنہ سی کے ایک بڑے حصے پر بھی اسی کا حق ہے جو کہ مختلف ساؤتھ ایسٹ ایشین ممالک کے بقول ان کی ملکیت ہیں۔اس سمندر میں دو جزائر ایسے ہیں جن کے حوالے سے چینی چیلنجز کا جاپانی لیڈر کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرچکے ہیں اور آگے بھی اس کا عزم رکھتے ہیں جبکہ اس کے لیے جاپانی عوام بھی اپنے لیڈروں کے ساتھ ہے۔

جاپان کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں بھی اب آئین میں لچک پیدا کرنے کے لیے کھلے عام باتیں کررہی ہیں جس کے تحت آئینی طور پر جاپان کو اپنے دفاعی اتحادیوں کی مدد کی اجازت مل جائے گی (یعنی اگر شمالی کوریا امریکا کے خلاف کوئی میزائل داغے گا تو جاپان اس کو گرادے گا) اور یوں ایک جارح اور دفاعی فوج (جاپان کی) کے درمیان موجود فرق کی لکیر مدھم ہوجائے گی۔علاوہ ازیں جاپان کی دفاعی افواج حال ہی میں عراق اور افغانستان کی جنگ میں بھی امریکا کی مدد کرچکی ہیں جہاں انہوں نے بحر ہند میں اپنے بحری ٹینکر تعینات کیے تھے جن کے ذریعے امریکی جنگی بحری جہازوں کو ایندھن کی سپلائی کی جاتی تھی۔

جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ کوئی ایسی حکمت عملی نہیں رکھتے کہ چین کے ساتھ دوڑ شروع کردی جائے بلکہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک کی مدد کی جائے اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائے جائیں جو جاپان کی طرح ہی چین کی وجہ سے پریشان ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دیگر ممالک کے محض کوسٹ گارڈ کی مدد کرنے سے بھی ان ملکوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ چین کے خطرے کا مقابلہ کرسکیں۔
کایو یونیورسٹی ٹوکیو میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹ ایشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر یوشیدی سویا کہتے ہیں: ’’ہم ایشیا میں دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ چین سے اپنا بچاؤ کرسکیں۔‘‘

اس طرح جاپان کے نائب وزیر دفاع اپنا عزم یوں ظاہر کرتے ہیں:’’ہم جاپان کو مکمل طورپر زوال کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکا جس نے ساتھ ستر سال پہلے جاپان کو اپنی فوج یا ہتھیار نہ رکھنے کا پابند کیا تھا، وہی اب نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے تحت فوجی سرگرمی شروع کرنے کے جاپانی ارادوں کی تائید کررہا ہے۔یہ دراصل امریکا کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ایک طرف ایشیائی ممالک کو فوجی لحاظ سے مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ چین کے خلاف اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکیں اور دوسری طرف خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بھی توسیع دینا چاہتا ہے۔

دوسری طرف چین بھی جاپان کے دوبارہ فوجی طاقت بننے کے عزائم کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے۔چین جو بیسیویں صدی وسط اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے مظالم کا نشانہ بن چکا ہے، اس نے اپنے ردعمل میں خبردار کیا کہ جاپان فوجی طاقت بننے کی کوششوں کے ذریعے دوسری جنگ عظیم سے پیدا ہونے والے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔چند ماہ قبل آسٹریلیا میں ہونے والی ایک دفاعی کانفرنس میں چینی جنرل رین ہائی کوان نے میزبان ملک کو خبردار کیا کہ وہ ایک ایسے ملک کے قریب نہ جائے جو فاشسٹ ہے اور جس نے کبھی آسٹریلوی شہر ڈارون پر بمباری کی تھی۔

دنیا میں خغرافیائی و سیاسی صورت حال جس طرح تبدیل ہورہی ہے ، اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک میں جاپان کے انگڑائی لیتے ملٹری ازم کے حوالے سے تشویش کم ہورہی ہے بالخصوص ان ممالک میں جن کے چین کے ساتھ علاقائی تنازعات چل رہے ہیں جیسے کہ ویت نام اور فلپائن وغیرہ ، جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران گھمسان کی لڑائی ہوئی تھی۔ان ملکوں کے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے ملک جاپان کی کسی بھی قسم کی مدد کا خیرمقدم کریں گے۔

’’ہم دوسری جنگ عظیم کے ڈراؤنے خوابوں کو پہلے ہی ایک طرف رکھ چکے ہیں۔‘‘ منیلا میں واقع فلپائن انسٹی ٹیوٹ فار پیس ، وائلنس اینڈ ٹیررازم ریسرچ کے سیکورٹی ایکسپرٹ رومیل بنلااوئی کہتے ہیں۔’’کیونکہ اب ہمیں چین کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔‘‘

حال ہی میں کئی ایشیائی اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے 22 کوسٹ گارڈز حکام نے تربیت کے لیے ٹوکیو بے میں واقع شاندار جاپانی کوسٹ گارڈ جنگی جہاز میں مشقوں میں حصہ لیا۔انہوں نے انجن روم ، الیکٹرانکس سے لدے پھندے برج اور بیس ملی میٹر کی توپ کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ جنگی جہاز جب بندرگاہ سے روانہ ہوا تو غیرملکی دستے اور جاپانی عملے نے ایک دوسرے کی جانب رخ کیا اور جھکتے ہوئے ایک دوسرے کو سلام کیا۔

’’چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اب امریکا اورآسٹریلیا کے ساتھ ساتھ جاپان بھی ہماری مدد کررہا ہے۔‘‘ تربیتی مشقوں ھمیں حصہ لینے والے فلپائن کوسٹ گارڈ کے آفیسر مارک لم نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔

جاپان اس خطے میں واحد ملک ہے جس کے پاس چین پر نظر رکھنے کے لیے ایک طاقتور بحریہ موجود ہے۔اگرچہ جاپان کے فوجی اخراجات کم ہوتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ فوجی اخراجات کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔جاپان کے جنگی طورپر غیرسرگرم ماضی کے پیش نظر اس کے پاس طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل ، ایٹمی آبدوزیں اور زبردست طاقت کے حامل عظیم الشان طیارہ بردار جہاز موجود نہیں لیکن اس کی ڈیزل سے چلنے والی طاقتور آبدوزیں دنیا اپنی ٹائپ کی بہترین مشینیں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جاپانی بحریہ کے پاس ایسے طاقتور کروز ہیں جو کسی بھی بلاسٹک میزائل کو تباہ کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کے پاس دو بڑے ہیلی کاپٹر بردار بحری جنگی جہاز ہیں جن کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ ایسے فائٹر جیٹ طیاروں کو کیری کرسکیں جو عمودی طورپر ٹیک آف کرسکتے ہیں۔

ملٹری ازم کے حوالے سے جاپان نے 2009 میں پہلا بڑا قدم اس وقت اٹھایا تھا جب اس نے آسٹریلیا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی تھیں۔ امریکا کے علاوہ کسی دوسری قوم کے ساتھ اس کی یہ پہلی مشقیں تھیں۔اس کے بعد سے جاپان جنوب مشرقی ایشیا میں کئی کثیر القومی مشقوں میں شرکت کرچکا ہے جبکہ جون میں اس نے بھارت کے ساتھ بھی پہلی بار مشترکہ مشقیں کی تھیں۔

دوسری جانب بعض مبصرین اور سابق حکام کے بقول جاپان کی ملٹری ابھی خاصی زرا احتیاط سے کام لے رہی ہے اور بظاہر غیرجنگی آپریشنز جیسے بحران کے دوران امداد ، بحری ڈاکہ زنی اور صحت کے شعبے میں امداد دے رہی ہے لیکن یہ امداد بھی اسے دوسرے ممالک کی افواج کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ایک منصوبہ یہ ہے اور جس کے لیے مذاکرات کیے جارہے ہیں کہ اگلے سال سے ویت نام کی نیوی کو میڈیکل کے شعبے میں ٹریننگ دی جائے جس کے ذریعے وہ اس کی حال ہی میں خریدی گئی روسی ساختہ آبدوزوں پر موجود عملے کی طبی امداد کی جاسکے۔ ٹوکیو میں قائم جاپان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز کے محقق ٹٹسو کوٹانی کا کہنا ہے کہ ہماری حکمت عملی ہے کہ ایسا ہارڈ وئیر اور ٹریننگ دی جائے جس کے ذریعے پورے ساؤتھ ایشین سی کے اردگرد منی جاپانی کوسٹ گارڈز اور منی جاپانی سیلف ڈیفنس فورسز قائم ہوجائے۔

علاقائی کوسٹ گارڈز تشکیل دینے کے جاپان کے عشرے پر محیط سویلین ایڈپروگرم کے تحت جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک کی اپنی سب سے بڑی سیکورٹی سے متعلقہ ڈیل کے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جس کے تحت فلپائنی کوسٹ گارڈز کو دس جدید جنگی لانچیں فراہم کی جائیں گی اور جنگی لانچ کی قیمت بارہ ملین ڈالر ہے۔جاپانی حکام کے مطابق وہ اسی قسم کی لانچیں ویت نام کو بھی فراہم کرسکتے ہیں۔جاپان کے سابق وزیردفاع ٹوشیمی کیٹازاوا کے مطابق جاپان اگلے سال سے انڈونیشیا اور ویت نام کے لیے فوجی امداد کو دوگنا کرنے کا منصوبہ بھی بنارہے ہیں جبکہ ویت نام بھی اسے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے جسے ہم آبدوزیں فروخت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان اور ملائشیا کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

’’جاپان اپنی ہمسایوں کی سیکورٹی کی ضروریات کے حوالے سے بے حس رہا ہے۔‘‘ کیٹا زاوا کہتے ہیں۔’’لیکن اب ہم ان کی مدد کرناچاہتے ہیں۔ہم ان میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے لیے ان کی خاصی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘

شنزو ایبے ،جاپان کے عقابی وزیراعظم
جاپان کے عقابی وزیراعظم شنزو ایبے نہ صرف جاپان کی فوجی طاقت بڑھا رہے ہیں بلکہ سیکورٹی کے ایشوز کے حوالے سے ایسے ممالک ، جن میں چین سرفہرست ہے، کے خلاف کھل کر بات کررہے ہیں جن کو وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

ایبے اور ان کی حکمران پارٹی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی(ایل ڈی پی) میں موجود دیگر قدامت پسند عقابی لیڈروں کے لیے اپنی سلامتی کے لیے جاپان کی جنگجو فطرت اسی طرح قائم دائم ہے جس طرح ان میں امن کی روح زندہ و جاوید ہے۔وہ اس کے لیے جاپانی آئین میں ترمیم کا عزم کیے ہوئے ہیں۔جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے تو صاف کہتے ہیں کہ جاپان کی فوجی قوت بیدار کرنے کے لیے آئین میں ترمیم ان کا مشن ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاپان واقعی ایسا کرسکتا ہے اور واقعی ایک عسکری طورپر غیرسرگرم ملک سے سرگرم فوجی ملک بن سکتا ہے۔ملک کا آئین واضح طورپر کہتا ہے کہ جاپان بری ، بحری اور فضائی فوج نہیں رکھ سکتا۔کیا واقعی ایسا ہے؟ جاپان کے پاس تو بری ، بحری اورفضائی تینوں قسم کی فوج موجود ہے۔اس کے پاس سینکڑوں جنگی ہوائی جہاز اور ٹینک ہیں۔اس لیے اب جھوٹ بولنا بند کیا جائے۔جاپان کا آئین اور حقائق دو مختلف چیزیں۔اب ضروری ہے کہ جاپان کا آئین اس طرح تشکیل دیا جائے جس سے وہ حقیقت کی عکاسی کرے۔

جاپانی وزیراعظم کے بقول جاپان کی معاشی ترقی اور فوجی قوت ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اگر ہم جاپان کی حفاظت نہ کرسکے تو معاشی ترقی بھی قائم نہیں رہے گی۔ان کاکہنا ہے کہ جاپان کے خوبصورت سمندر اور اس کے علاقے خطرے میں ہیں اور معاشی زوال کے ان دنوںمیں جاپانی نوجوان نسل مستقبل کے حوالے سے مایوسی کی شکار ہے۔

’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ جاپان کی زمین ، سمندر اور فضاؤں اور جاپانی قوم کی زندگیوں کی حفاظت کروں گا۔‘‘ شنزو ایبے نے اپنا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

یاد رہے کہ گیارہ سالوں کے دوران جاپان نے پہلی بار اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے جو اگرچہ بہت معمولی ہے تاہم یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایبے کی حکومت ملک کی قومی سلامتی کو خاصی اہمیت دے رہی ہے۔اس سال اگست میں جاپانی وزیر دفاع نے دفاعی بجٹ میں تین فیصد اضافے کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی تو یہ گذشتہ بیس سالوں کے دوران فوجی بجٹ میں اضافے کے لیے سب سے بڑی جست ہوگی۔

شام کا ’’بریگیڈ313‘‘

$
0
0

مصر اور تیونس میں برپا ہونے والے انقلابا ت میں شام کا محاذ کئی اعتبار سے مختلف ہےالبتہ لیبیا کی خانہ جنگی اور شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ 

لیبیا میں سخت گیرسلفی عسکری گروپوں اورالقاعدہ کی بغل بچہ تنظیموں نے کرنل قذافی کا بیالیس سالہ شاہانہ اقتدارختم کرانے میں اہم کردار کیا ۔ ملک شام میں جاری بغاوت کے محاذِ جنگ کا نقشہ دیکھا جائے تووہاں بھی ہمیں چپے چپے پرعسکری گروپوں کا ایک جال بچھا دکھائی دیتی ہے۔ یہ عسکری گروپ بشارالاسد کی وفاداری اور ان کی مخالفت دونوں طرف صف آراء ہیں۔

حمایت میں لڑنے والے گروپوں میں لبنان کی حزب اللہ، ایران کی القدس بریگیڈ اور پاسداران انقلاب کے جنگجوؤں کے علاوہ عراق کے کئی شیعہ عسکری گروپ بھی شامل ہیں۔ایران کی مجلس شوریٰ کے ایک رکن جواد کریمی قدوسی کا ماننا ہے کہ ان کے ملک سے سیکڑوں جنگجو گروپ شام میں بشارالاسدکی وفاداری میں لڑ رہے ہیں۔

مخالفت میں لڑنے والے گروپ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی تفصیل ایک طویل کتاب کی متقاضی ہے۔ یہ بات شام کے متعدد باغیوں اور عالمی برادری کے لیے بھی باعث تشویش ہے کہ انقلابیوں کی صفوں میں ایسے گروپ بھی درآئے ہیں جنہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے۔ ان میں سرفہرست القاعدہ کا ذیلی گروپ’’النصرہ محاذ‘‘ اور ’’مملکت اسلامیہ عراق وشام‘‘ جیسے نام نمایاں طورپر لیے جا رہے ہیں۔ان میں تیونس، لیبیا، مصر، خلیجی ممالک ،افریقی ملکوں،مالی، صومالیہ اور مغرب اسلامی کے جنگجو گروپ بھی شامل ہیں جو القاعدہ کی چھتری تلے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سوںکے لیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ لیبیا کے برعکس شام میں تحریک طالبان کی بڑی تعداد بھی باغیوں کی حمایت میں لڑ رہی ہے۔ تحریک طالبان کے کئی رہ نماؤں کے اعترافی اوراقبالی بیانات ریکارڈ پرموجود ہیں جن میںوہ مبینہ طورپرتسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان سے جاکر سیکڑوں کی تعداد میں جنگجو شام کے شہروں دمشق،حمص، ادلب، حلب اور الاذقیہ میںکارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں کی کوریج کرنے والے ایک مقامی صحافی احمد ولی مجیب نے برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کی ایک معتدبہ تعداد شام روانہ ہوچکی ہے۔ ایک قابل ذکر تعداد مزید شام کے’’جہاد‘‘ میں حصہ لینے کے لیے روانگی کے مراحل میں ہے۔شام میں کارروائیاں کرنے کے لیے طالبان نے اپنا ایک خفیہ بریگیڈ قائم کر رکھا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق القاعدہ کی معیت میں لڑنے والے ’’بریگیڈ 313‘‘ میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد بھرتی کیے جاتے ہیں۔

احمد ولی مجیب کے مطابق طالبان کے ایک سرکردہ رہ نما محمد امین کا کہنا ہے کہ شام میں لڑنے والے گروپوں نے طالبان تک معلومات کی رسائی کے لیے بھی ایک سیل قائم کر رکھا ہے۔ اس خفیہ سیل کے ذریعے نہ صرف محاذ جنگ میں موجود طالبان سے روابط رکھے جاتے ہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کی طالبان قیادت کو بھی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔محمد امین نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی باغیوں کی حمایت میں لڑنے کے لیے 12ماہرنشانہ باز اور کمانڈوز ایک ہی وقت میں دمشق پہنچے تھے۔ یہ کمانڈوز نہ صرف خود کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں بلکہ نئے آنے والے جنگجوؤں کوٹریننگ بھی دیتے ہیں۔

طالبان کمانڈر محمد امین نے بتایا کہ افغان جہاد میں حصہ لینے والے ان کے ملکی اورغیرملکی ساتھیوں نے شام کے محاذ جنگ کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد طالبان نہ صرف انفرادی طور بشارالاسد کی حامی ملیشیا کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیںبلکہ دوسرے ہم خیال گروپوں کے ساتھ مل کرمشترکہ آپریشنز میں بھی حصہ لیتے ہیں۔بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ازبک جہادی تنظیم’’تحریک ازبکستان اسلامی‘‘ پاکستان اور افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں سے جنگجو بھرتی کرکے شام کے محاذ پرلے جاتی ہے۔

یہ ازبک جنگجوماضی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ افغانستان پرامریکی یلغار کے بعد انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ امریکی افواج کی طرف موڑلیا تھا، تاہم پاکستان میں ہونے والی کارروائیوں میں اس گروپ کا نام نہیں لیا جاتا۔ قبائل میں یہ تاثر عام ہے کہ اُزبک تحریک جہاد الاسلامی شمالی وزیرستان میں جلال الدین حقانی گروپ کی وفادار ہے، جو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے بجائے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں پرحملوں میں ملوث ہے۔

شام کے محاذ میں ’’بریگیڈ313‘‘ کے بارے میں عرب ذرائع ابلاغ میں بھی رپورٹس آتی رہتی ہیں۔ چند ماہ قبل یہ رپورٹس آئی تھیں کہ اس بریگیڈ نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوب میں’’العبد‘‘ کالونی میں حزب اللہ کے ایک کمپاؤنڈ پرحملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کارروائی میں کم سے کم 67 لبنانی زخمی ہوگئے تھے، جن میں اکثریت حزب اللہ کے کارکنوں کی تھی۔

’’بریگیڈ313‘‘ ہی کے نام سے القاعدہ کا ایک کمانڈو یونٹ پہلے سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر القاعدہ نے اس نام سے کوئی تنظیم قائم کررکھی ہے تو طالبان کو اسی نام سے اپنا خفیہ سیل قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ عرب ذرائع ابلاغ اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک ہی گروپ ہے جوپاکستان ،افغانستان اور شام میں القاعدہ کی زیرنگرانی مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے۔

طالبان کے ایک اور سرکردہ کمانڈر ملاعاصم عمر منظرنے چندماہ قبل انکشاف کیا تھا کہ جو جنگجو عراق کے محاذ پرموجود تھے وہ اب وہاں سے شام کا رخ کر رہے ہیں۔ان کا اگلا پڑاؤ اب شام ہوگا جہاں مجاہدین خلافت اسلامیہ کے لیے میدان میں اتریں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شام کے محاذ میں پاکستان سے جانے والوں میں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ لشکرطیہ، لشکر جھنگوی، الیاس کشمیری کی قائم کردہ حرکت جہاد اسلامی (جس کی قیادت ان دنوں’’شاہ صاحب‘‘ نامی ایک طالب کمانڈر کر رہے ہیں)، کالعدم جیش محمد اور ایران مخالف تنظیم جنداللہ بھی شامل ہیں۔ شام میں یہ تمام جنگجو گروپ ’’بریگیڈ313‘‘ کے پرچم تلے جمع ہیں اور مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ جنداللہ نے پاکستان کے شہر کراچی سے اپنے ہم خیالوں کو بھرتی کرنے کے بعد شام کے محاذ پرپہنچایا ہے۔ لشکر طیبہ اور لشکرجھنگوی جیسے گروپوں نے پاکستان کے صوبہ پنجاب سے جنگجو بھرتی کرنے کے بعد شام کے میدان جنگ میں بھیج رکھے ہیں۔

قطری ٹی وی الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شام میں جنگ کے طول پکڑنے کے بعد القاعدہ نے دنیا بھرمیں موجود اپنے ہم خیالوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شام روانہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع ہونے کے بعد طالبان قیادت نے خود بھی یہ محسوس کیا ہے کہ ان کے جنگجووں کو اب کسی دوسرے محاذ جنگ پر روانہ کردینا چاہیے۔ چنانچہ قریب ترین اور گرم محاذ صرف شام کا ہے ۔ طالبان اب ادھر کا رخ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شام پہنچنے کے لیے طالبان ایران،عراق، خلیجی ریاستوں اور خفیہ بحری راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔

شام۔۔۔ مشرق وسطیٰ کا افغانستان!
شام میں خانہ جنگی جوں جوں طول پکڑتی جا رہی ہے، توں توں اس کے مستقبل کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ شورش کو تقریبا تین سال ہونے کو ہیں لیکن مسئلے کا کوئی پرامن تصفیہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دمشق کے محاذ جنگ کو باریک بینی سے دیکھنے والے ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شام اٖفغانستان بنتا جا رہا ہے جو ایک بدترین خانہ جنگی سے گزرچکا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی جانوں اور گھربار سے محروم ہوگئے تھے۔ چونکہ شام کے محاذ میں بھی اس وقت بشارالاسد کی وفادار سرکاری فوج سے زیادہ خون خرابہ باغی گروپوں کے باعث ہورہا ہے۔ اس لیے مستقبل میں بھی ان باغی گروپوں کا شام کے نئے سیاسی نقشہ راہ میں کردار تسلیم کرنا پڑے گا۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شام اب پہلے کی طرح ایک مستحکم ملک نہیں رہ سکتا۔ اس کا حشر عراق اور افغانستان سے بھی بدتر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پڑوسی ملک عراق میں دس سال تک امریکی افواج امن آشتی کاڈھول پیٹنے کے کھوکھلی دعوؤں کے ساتھ نوری المالکی اور جلال طالبانی جیسے کٹھ پتلیوں کی نحیف ونزارحکومت بنانے کے سوا اور کچھ نہ کرسکیں۔دہشت گردی کی کون سی شکل ہے جو نئے اور ’’جمہوری عراق‘‘ کے تاروپود نہیں بکھیر رہی ۔ مذہبی، گروہی، مسلکی ہرطرح کی لڑائی وہاں ہو رہی ہے۔ عراقی حکومت نے جیلیں بھی بھردی ہیں۔ آئے روز درجنوں مشتبہ جنگجوؤں کو موت کی سزائیں بھی دی جا رہی ہیں، لیکن دہشت گردی اور کشت وخون ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔شام کے حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔بشارالاسد کے جانے کے بعد ملک میں مستحکم حکومت کا خواب دیکھنا سوائے بے وقوفی اور خوش فہمی کے اور کیا ہوسکتا ہے۔مستقبل قریب میں عراق، افغانستان اور شام مسلمان ملکوں کی ایک ایسی تکون بنتی دکھائی دیتی ہے جنہیں حقیقی معنوں میں ناکام ریاستیں قرار دیا جائے گا۔

سفارتی کوششوں میں ناکامی
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے مشغلے کے ساتھ شورش پرقابو پانے کے لیے سفارتی محاذوں پرمساعی شروع ہوئی ہیں مگر یہ سفارتی کوششیں اپنے آغاز ہی سے ناکامی سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔شام کی قومی عبوری کونسل اوراسد حکومت اپنے اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ فریقین کے غیرلچک دار رویے سے ایسے لگ رہا ہے کہ خانہ جنگی طول پکڑسکتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بشارالاسد عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اسد کے حاشیہ نشینوں کا کہنا ہے کہ وہ جنیوا2 میں اقتدار باغیوں کے حوالے کرنے کی غرض سے شرکت نہیں کرسکتے جبکہ باغی کونسل نے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی شرط پر اس اجلاس میں شرکت پرآمادگی کااظہار کیا ہے۔

دوسرے معنوں میں دو سال سے جنیوا 2 اجلاس بلانے کے لیے جاری سفارتی کوششیں بھی کھٹائی میں پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کواقتدار سے ہٹانے کے لیے براہ راست ان سے بات کرنے کے بجائے ایران سے معاملہ طے کرنا ہوگا۔ اس وقت شام کا مسئلہ صرف ایران حل کرسکتا ہے، لیکن باغیوں کو ایران کاحل قابل قبول نہیں ہوگا۔سفارتی محاذوں پر مسئلے کے حل میں ناکامی سے القاعدہ جیسے سخت گیر گروپ خوش ہوں گے کیونکہ امن کی کوششوں میں ناکامی سے القاعدہ کو اپنا اثرو رسوخ بڑھانے اور کارروائیاں تیز کرنے میں مدد ملے گی۔

اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح 1995ء میں افغانستان میں طالبان نے جھاڑو پھیرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کرلی تھی، یہ تجربہ اب شام میں بھی دہرایا جاسکتا ہے، جس کی سرخیل القاعدہ ہوگی۔ شام میں برسرجنگ القاعدہ کو تیونس، لیبیا اور دوسرے عرب ملکوں سے امداد بھی مل رہی ہے۔ یوں سفارتی محاذ پرناکامی القاعدہ کی فتح تصور کی جائے گی۔ اگرملک کو القاعدہ کے شکنجے میں جانے سے روکنا ہے تو فریقین کو کسی بھی فورم پر ہونے والی امن کوششوں میں شامل ہونا پڑے گا۔ بشارالاسد کا جانا تو نوشتہ دیوار ہے لیکن انقلابی کونسل کی ذمہ داری اور حساسیت بڑھتی جا رہی ہے۔اس نازک وقت میںکوئی معمولی سی غیرذمہ داری بھی ملک کو کسی بڑی تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔

ان سفارتی کوششوں کے جلو میں بشارالاسد کے مستقبل کا تعین کرنے اور انہیں محفوظ راستہ دینے کی قیاس آرئیاں بھی زور پکڑنے لگی ہیں۔ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بشارالاسد کو اقتدارسے ہٹانے کے بعد ان کے مستقبل کی حیثیت کا تعین سب سے اہم امر ہے۔’’ جنیوا2‘‘ کے متوقع اجلاس میں بھی اس معاملے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینے کی باتیں بھی کئی ماہ سے جاری ہیں۔ گوکہ ایران اسد حکومت کو بچانے کی پوری کوشش کرے گا ، تاہم باغیوں کے ہاتھوں بشارالاسد نے شکست قبول کرلی تو ان کی ایران کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں ہوسکتی۔بشارالاسد کے اپنے اندازبیان سے یہ نہیں لگتا کہ وہ ملک چھوڑ کرکہیں اورجائیں گے۔اس لئے خدشہ ہے کہ ان کا انجام صدام حسین یا کرنل معمرقذافی جیسا ہوسکتا ہے۔

زندگی آگے بڑھنے کا نام اور جمود موت ہے: نوری نستعلیق کی ایجاد سے خط نستعلیق کی دائمی حفاظت ہوگئی

$
0
0

وہ کون سا لمحہ تھا، جب میں نے اپنا دل جذبۂ تشکر سے لبریز پایا؟
شاید وہ لمحہ، جب ذہن کی راہ داریوں میں گردش کرتے خیال نے مجھے برقیاتی کتابت کے لیے تیار کیا، اور احساسات ’’کی بورڈ‘‘ پر انگلیوں کی حرکت کے وسیلے الفاظ کی شکل اختیار کرنے لگے۔ یا پھر ٹھیک یہ لمحہ، جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں۔ یا پھر میری زندگی میں در آنے والا ہر وہ لمحہ، جو برقیاتی کتابت کے لیے مختص ہوگا!

میری انگلیاں، اِس بیتتے لمحے ’’کی بورڈ‘‘ پر حرکت کر رہی ہیں۔ الفاظ خط نستعلیق میں، کمپیوٹر اسکرین پر ظاہر ہورہے ہیں۔ خط نستعلیق، جسے اردو کا چہرہ قرار دیا جاسکتا، جس سے اردو داں طبقہ محبت کرتا ہے۔
تو وہ کون سے لمحات ہیں، جب ممنونیت میری سماعتوں میں سرگرشیاں کرتی؟

شاید ہر لمحہ!
میرا دل جذبۂ تشکر سے لبریز ہے۔ میں ممنون ہوں، اس انسان کا، جس کی حیران کن ایجاد نے اِس حسین خط کو، جو کاتبوں کا محتاج تھا، وقت کا متقاضی تھا، برقیاتی دنیا سے، کمپیوٹر کی وسیع و عریض کائنات، ہم آہنگ کر دیا۔ مشین پر منتقل کر دیا۔ ورنہ شاید یہ خط مٹ جاتا، اردو بے چہرہ ہوجاتی۔

یہ احمد مرزا جمیل کی کہانی ہے، جنھوں نے برقیات (کمپیوٹر) کے میدان میں، خط نستعلیق میں، الفاظ کو باہم جوڑنے کی انوکھی ترکیب وضع کی۔ کمپیوٹر پر خط نستعلیق کو حقیقت کر دکھایا، جس سے اردو کتابت، طباعت اور خطاطی کی کایا پلٹ گئی۔ اِس بطل جلیل نے اب سے 32 برس قبل یہ کارنامہ انجام دیا۔ واضح رہے کہ اُس وقت مشینوں پر فقط خط نسخ میں اردو لکھی جاتی تھی۔ یہ خط خاصی جگہ گھیرتا تھا۔ اِس عمل کا اثر براہ راست لاگت پر پڑتا۔ ساتھ ہی پڑھت میں بھی دشوار تھا۔ خط نستعلیق قارئین کو زیادہ بھاتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ خط تھا، جس میں وہ اردو پڑھنا چاہتے تھے، مگر اس خط کا پیراہن زیب تن کرنے کے لیے اردو، بیسویں صدی کے اواخر میں بھی، جب مشینوں نے دنیا بدل ڈالی تھی، کاتبوں کی محتاج تھی۔ ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے میں ناکامی کے باعث اس پر معدومیت کا خطرہ منڈلانے لگا تھا۔ پھر منظر میں احمد مرزا جمیل کی آمد ہوئی، اور سب بدل گیا۔ ان کی شب و روز کی محنت کے نتیجے میں خط نستعلیق کو پر لگے۔ برقیاتی کتابت کا آغاز ہوا۔ آگے کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے!

اردو کے اس محسن عظیم سے ملاقات کے لیے جب کراچی میں واقع اُن کی رہایش گاہ پر پہنچے، تو اِس 92 سالہ موجد کو حیران کن حد تک ہشاش بشاش اور صحت مند پایا۔ ہم ایک ایسے شخص کے روبرو تھے، جس کی یادداشت لڑکھرانے کی قائل نہیں تھی، جس کی حس مزاح ہنوز جوان تھی۔ گفت گو کا آغاز اُن کے حالاتِ زندگی سے ہوا۔ پھر اُن کے کارنامے پر تفصیلی بات ہوئی۔ اِس بابت وہ کہتے ہیں،’’نوری نستعلیق کی ایجاد سے خط نستعلیق کی دائمی حفاظت ہوگئی۔ اس کی تشکیل اور ترویج تو ترکوں اور ایرانیوں نے کی، اور پھر کتابت اور چھپائی کی دقتوں کی وجہ سے خیرباد بھی کہہ دیا، مگر اِسے زندہ ہم نے رکھا۔‘‘

نہیں۔ ’’ہم‘‘ نے نہیں۔ فقط احمد مرزا جمیل نے۔ بلاشبہہ!
آئیے، اِس نابغۂ روزگار کے دل چسپ اور حیران کن قصّے کا آغاز کرتے ہیں۔

شوق، جو وراثت میں ملاکہانی کا ابتدائیہ
یہ بٹوارے سے کئی برس پہلے کی بات ہے۔ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے، محلہ حویلی اعظم خان میں ایک مغل گھرانا آباد تھا، خوش نویسی جس کی شناخت تھی۔ اِس گھرانے میں 21 فروری 1921 کو ایک بچے کی پیدایش ہوئی، جس کا نام احمد مرزا جمیل رکھا گیا۔ اور یہی بچہ اِس کہانی کا مرکزی کردار ہے۔

جس گھر میں اُنھوں نے آنکھ کھولی، وہاں نقاشی اور خطاطی کے شاہ کار بکھرے تھے۔ اُن کے والد، نور احمد نے اپنے بڑے بھائی، حافظ محمد احمد کے حکم پر، جو جانے مانے خطاط تھے، فن خوش نویسی سیکھا۔ قطعہ نگاری کے ایک بڑے مقابلے میں کام یابی بھی اپنے نام کی، مگر اِس فن کو نور احمد نے بہ طور پیشہ نہیں اپنایا۔ رجحان اُن کا آرٹ کی جانب تھا۔ اسی میں دل چسپی تھی، اِسے ہی کیریر بنایا۔ ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ کے مشہور شربت، روح افزا کا ’’لیبل‘‘ اُن ہی کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ 1922 میں اُنھوں نے لکڑی کا ایک ہینڈ پریس خریدلیا۔ اُسے ’’نور فائن آرٹ لیتھو پریس‘‘ کا نام دیا۔ وہاں پتھر سے لیتھوگرافک چھپائی ہوا کرتی تھی۔ کتابوں کے سرورق تیار ہوتے، رنگین طغرے بنائے جاتے۔ کاروبار دُرست سمت جارہا تھا کہ ہندو شراکت دار کی دغابازی نے سب سبوتاژ کر دیا۔ نور احمد بمبئی کوچ کرنے پر مجبور ہوگئے، جہاں یافت کے لیے انھوں نے خود کو فری لانسر آرٹسٹ اور لیتھو گرافر کے قالب میں ڈھال لیا۔

اِن معنوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نور احمد کی اولاد کو آرٹ میں دل چسپی وراثت میں ملی۔ خدا نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے اُنھیں نوازا تھا۔ احمد مرزا جمیل کا نمبر تیسرا تھا۔

ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’میرے بڑے بھائی، منظور احمد بہت اچھے آرٹسٹ تھے۔ اُنھوں نے قائداعظم کے کئی یادگار پورٹریٹ بنائے۔ قائد اعظم نے اُن کے ایک پورٹریٹ پر دست خط بھی کیے تھے، مگر وہ فن پارہ دہلی کے فسادات میں ضایع ہوگیا۔‘‘

یوں تو ان کے والد بہت حلیم انسان تھے، البتہ اصولوں کے معاملے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ اولاد کو باپ کے مزاج کا پتا تھا، کبھی ایسی حرکت ہی نہیں کی کہ سزا کی نوبت آتی۔ بچپن میں وہ خاصے کھلنڈرے ہوا کرتے تھے۔ کھیلوں میں آگے آگے رہے۔ کرکٹ کھیلی، اسکول کی ٹیم کے کپتان رہے۔ دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔
اور یوں بمبئی کی گلیاں اُن کی پرورش کرتی رہیں۔

گجراتی لازمی، جے جے آرٹ اسکول اور انعامات زمانہ تدریس کا…….
ایک علم وہ ہے، جو نصابی کتب میں چھپا ہوتا ہے اور ایک وہ، جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ آخر الذکر تو باپ سے وراثت میں مل گیا، اول الذکر کے لیے اُنھیں درس گاہوں کا رخ کرنا تھا۔احمد مرزا جمیل کے تعلیمی سفر کا آغاز میونسپل کے اسکول سے ہوا۔ ایک سال کے بعد زکریا مسجد اسکول کا حصہ بن گئے، جہاں قرآن پاک، اردو، انگریزی اور گجراتی کی تعلیم حاصل کی۔

اُس زمانے میں چوتھی پاس کرنے کے لیے گجراتی لازمی تھی۔ پھر سینٹ جوزف ہائی اسکول، بمبئی کا رخ کیا، جہاں سے فورتھ اسٹینڈرڈ (ساتویں جماعت) کا مرحلہ طے کیا۔ اب بمبئی کے مشہور زمانہ، جے جے اسکول آف آرٹ میں داخلہ لے لیا۔ یہ فیصلہ قابل فہم تھا کہ آرٹ کا شوق بہ درجہ اتم موجود تھا۔ دس برس کی عمر سے وہ بمبئی آرٹ سوسائٹی کی نمایشوں میں حصہ لے رہے تھے۔

38ء میں وہ جے جے اسکول کا حصہ بنے، 45ء تک وہاں رہے۔ آخری دو برس فیلو شپ کی۔ زمانۂ طالب علمی میں یوں تو مصوری کے ہر شعبے کا تجربہ کیا، مگر زیادہ رجحان میورل پینٹنگ کی جانب تھا۔ کئی بڑے اعزازات اُسی عرصے میں اپنے نام کیے۔ اُن کی ایک ڈرائنگ نے 1942 میں Dolly Cursetji Mural Decoration مقابلے میں پہلا انعام اپنے نام کیا۔ اگلے برس ہونے والے ’’آل انڈیا آرٹ ان انڈسٹری ایگزی بیشن‘‘ میں اُن کی اکلوتی انٹری تین اعزازات کی حق دار ٹھہری۔ 44ء میں ہونے والے اِسی مقابلے میں ان کی پینٹنگ نے پہلا انعام حاصل کیا۔ الغرض زمانۂ طالب علمی ہی میں خود کو بہ طور آرٹسٹ منوا لیا۔
اب احمد مرزا جمیل نئے میدانوں کا رخ کرنے کے لیے تیار تھے۔

روزے رکھنے والا ہندو اور ’’دیوداس‘‘ کا خالق فلم نگری کی یادیں
وہ خوابوں سی حسین دنیا تھی، پر خواب نہیں تھی۔ حقیقی تھی۔

بمبئی فلم نگری سے ان کا تعلق تراب اسٹوڈیو کے مالک، محمد تراب کے وسیلے قائم ہوا۔ اُنھوں نے احمد مرزا جمیل کا تعارف ’’چوہدری جی‘‘ کے نام سے معروف ایک فلم ڈائریکٹر سے کروایا، جنھوں نے 23 سالہ نوجوان آرٹسٹ کو اپنی فلم کے سیٹ اور ملبوسات ڈیزائن کرنے کی ذمے داری سونپ دی۔

تین ماہ وہ اس کام میں جٹے رہے۔ ایک دن ڈائریکٹر صاحب سے پوچھا: ’’کچھ پیسے ویسے بھی ملیں گے!‘‘ ڈائریکٹر نے منشی کو بلوا کر پچاس روپے تھما دیے۔ یہ پہلا معاوضہ تھا، وہ بھی تین ماہ کا۔ البتہ وہاں بہت کچھ سیکھا۔

اُن ہی دنوں بمبئی کے ایک صاحب، باسودیو پرساد سہنا نے ایک فلم ’’ایران کی ایک رات‘‘ پروڈیوس کرنے کا ارادہ باندھا، تو اُنھیں بہ طور آرٹ ڈائریکٹر کولکتا چلنے کی پیش کش کر دی۔ اُنھوں نے اس انوکھے تجربے سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ آرٹ ڈائریکشن پر دست یاب کتب کا مطالعہ کیا، اور باسو دیو سہنا کے ساتھ کولکتا روانہ ہوگئے۔ وہاں رہایش سہنا صاحب ہی کے بنگلے میں تھی۔ بتاتے ہیں،’’وہ ہندو تھا، مگر میرے ساتھ رمضان کے تیس روزے رکھا کرتا۔ ہم دونوں بغیر سحری کا روزہ رکھتے تھے، اور مغرب کے وقت ساتھ افطاری کرتے۔‘‘

معروف اداکار اور ’’دیوداس‘‘ کے ہدایت کار، پی سی بروا کی ڈائریکشن میں بننے والی ’’ایران کی ایک رات‘‘ کا سیٹ، کاسٹیومز اور پوسٹر ڈایزئن کرنے کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر تھی۔ پی سی بروا کے معیار پر پورا اترنا سہل نہیں تھا، مگر انھوں نے لگن اور محنت سے یہ ممکن کر دکھایا۔ آنے والے عرصے میں چند اور فلموں میں کام کیا۔

پھر کولکتا میں سہنا صاحب اور ان کی بیوی، ساوتری دیوی کے ساتھ فلم پبلی سٹی اسٹوڈیو ’’مووی آرٹس‘‘ کھول لیا۔ فروری 50ء میں جمیل صاحب، بگڑتے حالات سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان چلے آئے۔ یہ اسٹوڈیو اب بھی کولکتا میں موجود ہے۔

خاندان کبھی بمبئی لوٹ نہیں سکا داستانِ ہجرت
بٹوارے کے دن، وہ دن جو کچھ برس بعد اردو فکشن کا اہم ترین موضوع بننے والے تھے، اُنھیں خوب یاد ہیں۔ ہاں، تب ماحول میں تناؤ تیرا کرتا تھا، سناٹے میں خوف کی چاپ سنائی دیتی۔

یہ 1947 کے وسط کا ذکر ہے۔ بہن کی شادی کے سلسلے میں اہل خانہ کے ساتھ احمد مرزا جمیل کا دہلی جانا ہوا، جہاں فسادات پھوٹ پڑے۔ ان کا خاندان بمبئی لوٹ ہی نہیں سکا۔ حالات میں سدھار آنے تک بمبئی کا مکان چند دوستوں کو امانتاً سونپ دیا، جنھوں نے امانت میں خیانت کرنا ضروری خیال کیا، اور مکان پر قبضہ جما لیا۔ کسی نہ کسی طرح وہ تو دہلی سے کولکتا چلے گئے، مگر خاندان دہلی ہی میں رہا۔ بعد میں جب وہ اپنے فن پارے لینے بمبئی پہنچے، تو وہاں کے خرابے میں سب ضایع ہوچکا تھا۔ کچھ نہیں بچا تھا۔ اِس واقعے نے دل توڑ دیا۔ رنگوں سے وہ دور ہوگئے۔ بعد میں جب کبھی کینوس کے سامنے کھڑے ہوئے، وہ ہی منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا۔

حالات کے جبر نے خاندان کو پاکستان کی سمت دھکیل دیا، جو راول پنڈی اور لاہور سے ہوتا ہوا کراچی پہنچا۔ البتہ گھر والوں کی مالی معاونت کے لیے جمیل صاحب کو کولکتا ہی میں ٹھہرنا پڑا۔ کولکتا خود کشیدگی کے چنگل میں پھنس چکا تھا۔ وقت گزرتا رہا، مگر حالات میں سدھار کا کوئی امکان ظاہر نہیں ہوا۔ ہاں، بگاڑ کے نشانات واضح ہوتے گئے۔ مجبوراً تقسیم کے تین برس بعد وہ بھی کراچی چلے آئے۔

’’وکیل گودام لے کر کیا کرے گا؟
پیشہ ورانہ سفر کا جائزہ
نیا ماحول، نئے لوگ، نئی زندگی!
اس نئی دنیا میں معاشی مسئلہ سب سے قوی تھا۔ کراچی پہنچتے ہی اُنھوں نے ملازمت کی تلاش شروع کردی۔ تجربے سے لیس تھے، اِس لیے یہ مرحلہ دشوار ثابت نہیں ہوا۔ جلد ہی ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں، 500 روپے ماہ وار پر بہ طور آرٹ ڈائریکٹر ذمے داریاں سنبھالی۔ اُن ہی دنوں قائداعظم کا وہ شہرۂ آفاق اسکیچ بنایا، جو گذشتہ چھے عشروں سے ری پرنٹ ہورہا ہے۔ اس اسکیچ کو معروف آرٹ کریٹک، مارجری حسین نے شاہ کار قرار دیا تھا۔

ڈیڑھ برس بعد اس ادارے سے الگ ہو کر اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی، جلد ہی جس کا شمار صف اول کی پرنٹنگ کمپنیوں میں ہونے لگا۔

اپنی کمپنی شروع کرنے کا خیال کیوں کر سوجھا؟ یہ سوال اُنھیں ماضی میں لے جاتا ہے، جب کراچی میں ایک ایسی پرنٹنگ مشین کا چرچا تھا، جسے فقط ڈیزائن دینے کی ضرورت ہوتی، بلاک وغیرہ نہیں بنائے جاتے تھے۔ انھوں نے جب اُس کے متعلق سنا، تو خواہش ہوئی کہ یہ مشین دیکھی جائے۔ برنس روڈ پر واقع ایک ادارہ یہ مشین فروخت کر رہا تھا۔ ایک روز دفتر سے اٹھے، اور وہاں پہنچ گئے۔ پتا چلا کہ یہ ’’روٹا پرنٹ مشین‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کی بابت کیے جانے والے دعویٰ سو فی صد درست تو نہیں، مگر اُن میں تھوڑی بہت صداقت ضرور ہے۔ خیال آیا، اُن کے والد اور بھائی کے آرٹ ورک کو مختلف پبلشرز نے چھاپ کر خوب کمایا، کیوں نہ خود یہ کام کیا جائے۔

51ء میں پندرہ ہزار روپے میں انھوں نے یہ مشین خرید لی۔ اب سوال پیدا ہوا کہ اِسے لگایا کہاں جائے۔ کراچی میں اس زمانے میں گھروں وغیرہ کی الاٹمنٹ ہورہی تھی۔ وہ بھی ’’ریفیوجی ری ہیبیلی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ‘‘ پہنچ گئے۔ کہتے ہیں،’’میں ڈائریکٹر سے ملا۔ اس عہدے پر تعینات شخص نہ جانے کتنا کما سکتا تھا، مگر جو صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے، اُن کے کپڑوں میں پیوند لگے تھے۔ ان کی شخصیت کے اس پہلو نے مجھے بہت متاثر کیا۔ خیر، میں نے مدعا بیان کیا۔ گو کوئی خالی پلاٹ نہیں تھا، مگر جب میں نے اپنے چھاپے ہوئے قائد اعظم کے، پوسٹ کارڈسائز کے پینسل اسکیچ پیش کیے، تو وہ چھپائی اور معیار دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور ایک وکیل کے نام الاٹ ہونے والے گودام کو یہ کہتے ہوئے؛’وکیل بھلا گودام لے کر کیا کرے گا؟‘ وہ 16×22 فٹ کی جگہ مجھے سونپ دی۔‘‘

کسٹم ہاؤس کے سامنے، بوہری روڈ پر واقع اس گودام کی کچی دیواروں کو پکا کرنے، زمین کے گڑھے بھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ الیٹ پبلشرز کے پرچے تلے، دو ملازمین کے ساتھ انھوں نے کام شروع کیا۔ جب یہ خبر پھیلی کہ احمد مرزا جمیل نے اپنا پرنٹنگ پریس لگا لیا ہے، تو آرڈرز کا تانتا بندھ گیا۔ چھے ماہ کا کام جمع ہوگیا۔

آنے والے دن مصروفیات سے بھرپور تھے۔ شب و روز ایک کر دیے۔ سولہ سولہ گھنٹے کام کیا۔ کئی برس تک اتوار کی چھٹی نہیں کی۔ دھیرے دھیرے دفتر پھیلنے لگا۔ ملازمین کی تعداد بڑھ کر 150 ہوگئی۔ 61ء میں ان کا ادارہ سائٹ ایریا منتقل ہوگیا۔ آنے والے چند برسوں میں الیٹ پبلشرز لمیٹڈ نے پرنٹنگ کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ بہتوں نے ان کے ادارے میں تربیت حاصل کی، اور بعد میں پاکستان اور بیرون ملک اپنے پریس لگائے۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں خود کو ان جھمیلوں سے الگ کرکے بچوں کو ذمے داری سونپ دی۔

اندیشوں نے گھیر لیا، راتوں کی نیند حرام ہوگئی، جب اردو تاریخ کا اہم ترین واقعہ رونما ہوا
خط نسخ کی برقی مشینوں سے دوستی پرانی تھی، مگر اردو قاری خط نستعلیق کے عشق میں مبتلا تھے، جو ہنوز خود کو مشین سے ہم آہنگ نہیں کرسکا تھا۔ کاتبوں کی جنبش قلم کا محتاج تھا۔ کتابوں کی اشاعت میں برسوں لگ جاتے کہ لازم تھا، پوری کتاب ایک ہی کاتب لکھے۔ تصحیح کی ضرورت پیش آتی، تو پورا صفحہ دوبارہ لکھا جاتا، مگر یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہنے والی تھی۔ تبدیلی کا آغاز ہونے کو تھا۔

جمیل صاحب ایک پبلشر تھے۔ اردو لکھاری اپنی کتابوں کی اشاعت کا ارادہ لیے ان سے ملنے آتے۔ جواب میں وہ کہتے،’’کتابت کروالیں، میں چھاپ دوں گا، مگر کتابت اچھی ہونی چاہیے۔‘‘ کوئی چھے ماہ بعد لوٹتا، کوئی ڈیڑھ سال بعد۔ اور جو کتابت ہوتی، اس سے وہ خود کو مطمئن نہیں پاتے تھے۔

ان ہی دنوں ایک انگریز سے ملاقات ہوئی، جو پرنٹنگ مشین فروخت کیا کرتا تھا۔ اس نے تیکنیکی مسائل کا حل، خط نستعلیق تج کر، ترکوں اور ایرانیوں کی طرح خط نسخ یا رومن اسکرپٹ میں تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ جواب میں اُنھوں نے کہا،’’انگریزوں نے دوسو برس برصغیر پر حکومت کی، جب اُس وقت تم ہمارا خط نہیں بدل سکے، تو اب کیا بدلو گے!‘‘

پرنٹنگ انڈسٹری کی معروف شخصیت، سید مطلوب الحسن اُن کے دیرنیہ دوست تھے۔ دونوں کے درمیان خط نستعلیق کو ’’میکانائز‘‘ کرنے کا مسئلہ زیربحث رہتا۔ ’’فوٹو ٹائپ سیٹنگ مشین‘‘ انھوں نے 62ء میں خریدی تھی، جس کے آٹھ سو خانوں میں فلمیں لگی ہوتیں۔ اِسے ماضی میں اُنھوں نے برقیاتی کتابت کے ارادے سے برتا تھا۔ خط نسخ تو ہاتھ آگیا، مگر خط نستعلیق دور کھڑا مسکراتا رہا۔ اندازہ ہوا کہ فلموں سے کام نہیں بنے گا۔ حروف کے ٹکڑے کرنے کے بجائے الفاظ کے ٹکڑے کیے جائیں۔ کیوں نہ یونٹ بنا دیے جائیں۔ یعنی ’’پر‘‘ لکھنے کے لیے ’’پ‘‘ اور ’’ر‘‘ کو الگ نہ کیا جائے، بلکہ ’’پر‘‘ ہی کا یونٹ بنایا جائے، جو ہر جگہ کام آئے۔ بہ قول اُن کے،’’یہ خیال مجھے قابل عمل لگا۔ جیسے ’فر‘ ایک یونٹ ہے۔ اس کے آغاز میں ’کا‘ لگا دیا جائے، تو ’کافر‘ ہوجا ئے گا۔ آخر میں ’حت‘ لگا دیں، تو ’فرحت‘ ہوجائے گا۔‘‘ دونوں دوست اس کلیے پر متفق تھے، مگر اس کا عملی تجربہ چاند کے سفر سا دشوار تھا۔

نومبر 79ء میں ان کا سنگاپور جانا ہوا، جہاں پرنٹنگ انڈسٹری کی ایک بڑی نمایش ہورہی تھی۔ وہاں مونوٹائپ کارپوریشن کے اسٹال پر رش لگا دیکھا۔ تجسس انھیں اسٹال تک لے گیا۔ پتا چلا کہ چینی زبان کمپوز ہورہی ہے۔ میز پر ’’کی بورڈ‘‘ رکھا ہے، جس میں چھے سات سو بٹن ہیں۔ آپریٹر ایک ایک بٹن دبا رہی ہے، اسکرین پر لفظ ابھر رہے ہیں، جو جُڑ کر ایک شکل اختیار کر لیتے۔

وہ ایک قیمتی لمحہ تھا۔ ایک حوصلہ افزا خیال ذہن میں کوندا۔ بہ قول اُن کے،’’میں نے خود سے کہا؛ چینی میں 80 ہزار کریکٹرز ہیں، جب اُنھوں نے80 ہزار اشکال قابو کرلیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ بس، اﷲ نے احسان کیا۔ جتنے پردے ذہن پر پڑے تھے، اٹھتے گئے۔ مونوٹائپ کارپوریشن کے سیلز مینیجر، مسٹر ڈیرک کارکیٹ وہاں موجود تھے۔ ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ میں نے انھیں کراچی آنے کی دعوت دی۔ انھوں نے جواب دیا؛ ’میں ابھی پاکستان ہی سے آرہا ہوں۔ ہم نے اسی مشین پر مقتدرہ کو ایک سسٹم بنا کر دیا تھا، جسے رد کر دیا گیا، کوئی لینے کو تیار نہیں۔ ہمارا بہت نقصان ہوا۔‘ میں نے یہ کہہ کر انھیں قائل کر لیا کہ اگر ہمارا تجربہ ناکام گیا، تو مالی نقصان میں اکیلا برداشت کروں گا۔‘‘

جوں ہی لندن میں بیٹھے مونوٹائپ کے ڈائریکٹر، مسٹر جان مال نے اپنی رضامندی ظاہر کی، جمیل صاحب اِس منصوبے میں جٹ گئے۔ اردو کے ایک موقر روزنامے کا لاہور سے اجرا ہونے کو تھا۔ جب اخبار کے مالک کو اطلاع ملی کہ خط نستعلیق کو کمپیوٹر پر منتقل کیا جارہا ہے، تو انھوں نے جمیل صاحب سے رابطہ کیا، اور کہا کہ وہ اپنے لاہور کے پرچے کو اِس منصوبے کی تکمیل تک موخر کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی کام میں معاونت کے لیے ایک کاتب ان کی طرف روانہ کردیا۔

پہلے نمونے کی تیاری میں چھے ماہ لگے، جس کے لیے کاتب نے پانچ ملی میٹر کے قلم سے 154 یونٹ لکھے۔ 80ء کے موسم خزاں میں شہر لندن میں ہونے والی نمایش کے دوران مونو ٹائپ نے یہ نمونہ پیش کیا۔ وہاں موجود ایرانیوں اور افغانیوں نے تو بہت پسند کیا، البتہ پاکستانیوں نے شک کا اظہار کیا۔ پاکستان میں بھی ہر دوسرا شخص خط نستعلیق کے برقی مشین سے ہم آہنگ ہونے کے دعوے کو ڈھکوسلا قرار دیتا نظر آیا، مگر جمیل صاحب کو پروا نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ سرنگ کے دہانے پر روشنی ہے۔کراچی لوٹنے کے بعد وہ اس منصوبے میں شریک اپنے رفیق، سید مطلوب الحسن کے ساتھ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین، اشتیاق حسین قریشی سے ملے، اور اپنے چھپے ہوئے نمونے پیش کیے۔ آئیڈیا اشتیاق قریشی کے دل کو لگا۔ انھوں نے اِسے مقتدرہ کے پلیٹ فورم سے پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ساتھ ہی کہا کہ وہ صدر پاکستان سے ملاقات کے لیے جارہے ہیں، یہ نمونہ وہ اُن کے سامنے پیش کریں گے۔

جمیل صاحب کہتے ہیں،’’اشتیاق صاحب دہلی میں جنرل ضیاء الحق کے استاد رہ چکے تھے۔ ضیا الحق ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ صدر صاحب سے اِس منصوبے کے لیے درآمد کی جانے والے پہلی دس مشینوں کی ڈیوٹی ضرور معاف کروالیں۔ دراصل ایک مشین کی قیمت 40 لاکھ تھی، اتنی ہی اس پر ڈیوٹی تھی۔ کُل ملا کر ایک مشین پر 80 لاکھ لاگت آرہی تھی۔ خیر، صدر صاحب نے ان سے پہلا سوال تو یہی کیا کہ اس دعوے میں کوئی جان ہے بھی یا نہیں؟ دراصل اِس سوال کے پیچھے نظام حیدرآباد کی وہ ہی فکر کارفرما تھی کہ خط نستعلیق کو مشین پر منتقل کرنا ممکن نہیں۔ انھوں نے بھی تقسیم سے قبل اس ضمن میں کوششیں کی تھیں، جو ثمر آور ثابت نہیں ہوئیں۔‘‘

حکومت کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد مقتدرہ قومی زبان نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی، جس میں خط نستعلیق کی برقیاتی کتابت میں کام یابی کا اعلان کیا گیا۔ ابتدائی نمونے دیکھ کر وہاں موجود لوگ حیران رہ گئے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اور اس دل کش خط کی کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کی امید بڑھنے لگی۔

چند روز بعد برطانوی ماہرین کے ساتھ لندن میں جمیل صاحب کی میٹنگ ہوئی۔ زیربحث سوال یہ تھا کہ منصوبہ کب تک مکمل ہوسکتا ہے؟

بہ قول اُن کے،’’میٹنگ میں موجود ایک انگریز نے کہا کہ کیلی گرافی میں پونے انچ کے قلم سے یونٹ لکھے جائیں گے، 10×10 انچ کا کاغذ ہوگا۔ کتابت کا مرحلہ آتے آتے پانچ برس لگ جائیں گے۔ پھر ڈیجیٹائزنگ کے ماہر نے کہا؛ ہمارا کام ڈیڑھ سال کا ہے۔ اگر ہم شفٹ بڑھادیں، تو چھے ماہ میں بھی مکمل کرسکتے ہیں۔ میں نہ صرف ایک آرٹسٹ تھا، بلکہ پبلشنگ اور ماس پروڈکشن کا بھی وسیع تجربہ رکھتا تھا۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ ہم بھی چھے ماہ میں منصوبہ مکمل کرلیں گے۔ اس وقت خیال یہی تھا کہ بیس کاتب اکٹھے کروں گا، اور تختیاں لکھوا لوں گا۔ بعد میں خیال آیا کہ بیس کاتب، بیس مختلف اساتذہ کے شاگرد ہوں گے۔ ہر ایک اپنے طرز پر تختی لکھے گا۔ تحریر میں ہم آہنگی نہیں ہوگی۔ ہم نے ایک کاتب کو بلوایا، جس نے ایک دن میں پچاس تختیاں لکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ جب اسے بتایا کہ پونے انچ کے قلم سے 10×10 انچ کے کاغذ پر لکھنا ہے، تو وہ پچاس سے یومیہ پانچ تختیوں پر آگیا۔ کمپیوٹر کی شرائط بتائیں، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔‘‘

امکانات معدوم ہونے لگے۔ اندیشوں نے گھیر لیا۔ راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ کہتے ہیں،’’جنرل ضیاء الحق سے ہماری بات ہوچکی تھی، ملکی اور غیرملکی میڈیا میں اس ایجاد کا تذکرہ آچکا تھا، مگر اب آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود ہوگئے۔ وہ بڑا سخت وقت تھا۔ پھر سید مطلوب الحسن، اﷲ بخشے اُنھیں، کہنے لگے؛ جمیل یہ کام تم خود کرو گے۔ میں نے کہا؛ اﷲ اﷲ کرو۔ میں آرٹسٹ ضرور ہوں، میرے تایا خوش نویس تھے، مگر یہ کام بالکل الگ ہے۔ اس پر انھوں نے کہا؛ پھر تو بڑی سبکی ہوگی، لوگ مذاق اڑائیں گے۔ تو میں نے اﷲ کا نام لے کر وہ کام شروع کیا۔ جتنا تجربہ تھا، سب یک جا کیا۔ رات دن ایک کردیے۔ اس زمانے میں مَیں چھے سات گھنٹے سے زیادہ گھر نہیں آتا تھا۔ گھر والے کہنے لگے تھے کہ بستر بھی آفس ہی میں لگالیں۔ میں نے چھے مہینے میں اٹھارہ ہزار تختیاں لکھ لیں۔ پہلے تختیوں کا نیگٹو بنتا، پھر پوزیٹو تیار ہوتا۔ اس کے لیے میں نے ایک ٹیم بنائی۔ کمپیوٹر ک،م، ن تو نہیں جانتا۔ وہ تو نمبر جانتا ہے۔ تو ہم نے نمبروں کو یونٹ سے ہم آہنگ کیا۔‘‘

تجربہ کام یاب رہا۔ ان اٹھارہ ہزار تختیوں سے تین لاکھ سے زیادہ الفاظ بن سکتے تھے، جو الفاظ اس وقت رہ گئے، وہ مشین پر ٹائپ کرتے ہوئے نسخ میں ظاہر ہوتے، جن کی بعد میں کاتب تصحیح کرلیتے۔ والد، نور احمد کے نام پر اُنھوں نے اِس ایجاد کو ’’نوری نستعلیق‘‘ کا نام دیا۔ اور دنیا کے سامنے پیش کردیا۔

یکم اکتوبر 81ء کو جب لاہور سے اردو کے اُس موقر روزنامے کا اجرا ہوا، تو وہ نوری نستعلیق ہی میں تھا۔ کہتے ہیں،’’ہم نے بغیر کسی آزمایش اور تجربے کے یہ کام کیا۔ اور اﷲ کا کرم ہے کہ اخبار ایک دن بھی کمپوزنگ کی وجہ سے غیرحاضر نہیں ہوا۔‘‘
اردو کتابت اور طباعت کی دنیا میں انقلاب آچکا تھا۔

کون اکڑوں بیٹھ کر کتابت کرے گا؟
نوری نستعلیق کے بعد کی دنیا
وہ ایک عظیم تبدیلی تھی، جس سے مزید حیران کن تبدیلیاں جنم لینے کو تھیں!
جمیل صاحب کی ایجاد نے خط نستعلیق میں نئی روح پھونک دی۔ اردو پرنٹنگ کی دنیا بدل گئی۔ جس مشین کے ذریعے برقی کتابت کا آغاز ہوا تھا، وہ Slave کمپوزنگ مشین کہلاتی تھی۔ ابتدائی دس مشینوں پر صدرپاکستان نے وعدے کے مطابق ڈیوٹی معاف کر دی۔ ایجاد کا چرچا ہوا، تو مختلف ادارے ان سے رابطہ کرنے لگے۔ اخبارات اور کتابوں کی اشاعت کا عمل راتوں رات سہل ہوگیا۔ لاگت بھی گھٹ گئی، اور وقت بھی بچنے لگا۔

کچھ ہی برس گزرے ہوں گے کہ پرسنل کمپیوٹر کی منظر میں آمد ہوئی، جس نے انتہائی مختصر وقت میں مسند اقتدار سنبھال لی۔ جمیل صاحب کے بہ قول، کمپیوٹر کی آمد کے بعد Slave کمپوزنگ مشین ڈائناسور کے زمانے کی چیز لگنے لگی۔ جمیل صاحب کے مشوروں کی روشنی میں مونو ٹائپ کارپورشن نے اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے خط نستعلیق کو پرسنل کمپیوٹر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سوفٹ ویئر کی تیاری شروع کی۔ 91-92 میں ’’نوری نستعلیق ان پیچ‘‘ کے نام سے یہ سوفٹ ویئر مارکیٹ میں آگیا۔ اور گذشتہ دو عشروں سے یہ اردو کتابت اور طباعت پر چھایا ہوا ہے۔ اِس ایجاد پر حملے بھی ہوئے۔ ایک اخبار کے دفتر سے اس کے ترسیمے چرائے گئے، جنھیں بعد میں مشین پر منتقل کرکے، ان پیج کی آمد سے قبل ایک سوفٹ ویئر بنایا گیا تھا، مگر وہ مسئلے کا مکمل حل نہیں تھا۔ سو ناکام گیا۔

اپنی ایجاد سے متعلق گفت گو کرتے ہوئے جمیل صاحب کہتے ہیں،’’اچھا کاتب بننے کے لیے پانچ چھے برس خرچ ہوتے تھے، جب کہ کمپیوٹر پر اسے سیکھنے میں ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں۔ یعنی کام آسان ہوگیا۔ ایک کاتب میرے پاس آئے، اور کہا؛ میرا بچہ کام نہیں سیکھتا۔ میں نے کہا، اب آج کے دور میں کون نوجوان گھنٹوں اکڑوں بیٹھ کر کام کرے گا۔ اسے کمپوزنگ سکھاؤ۔‘‘

کتابیں سرہانے رکھی رہتی ہیں
زندگی کے چند گوشے
کب خوشی محسوس کرتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب دینا جمیل صاحب کے لیے سہل ہے۔ بہ قول ان کے، لوگوں کی مدد کرکے، ان میں اعتماد پیدا کرکے وہ مسرت محسوس کرتے ہیں۔ دُکھوں سے واسطہ کم ہی رہا۔ اپنوں کی جدائی نے کرب سے دوچار ضرور کیا، مگر اسے زندگی کا حصہ خیال کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنی مثال پیش کرتے ہوئے مسلسل کام، کام اور صرف کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ حالات اُنھیں دُکھی کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں،’’جب میں ہندوستان سے آرہا تھا، ایک ہندو نے مجھے سے کہا؛’تم مسلمانوں کا خون گرم ہے۔ یہاں تو ہم سے لڑتے رہتے ہو، وہاں جاکر کیا آپس میں لڑو گے؟‘ اور اس کی بات درست ثابت ہوئی۔ ہم نے اسلام کے نام پر یہ ملک بنایا، مگر آج ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ بندوقوں کے سائے میں نماز پڑھی جائے۔ یہ صورت حال افسوس ناک ہے۔‘‘

ہر صاحب ذوق کے مانند اچھے شعر اُنھیں بھی بھاتے ہیں، خصوصاً ایسے، جن سے رجائیت جھلکتی ہو۔ البتہ مصروفیات نے فکشن سے دور رکھا۔ اقبال بانو اور فریدہ خانم کی آواز اچھی لگتی ہے۔ کسی زمانے میں فلمیں بھی دیکھیں۔ دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ کتابیں سرہانے رکھی رہتی ہیں۔ جب وقت ملتا ہے، پڑھ لیتے ہیں۔ آپ بیتی لکھنے کا سوچا ضرور، مگر خود کو اس کام کے لیے مناسب خیال نہیں کرتے۔

49ء میں ان کی شادی ہوئی۔ کہتے ہیں، مصروفیات بہت رہی، مگر گھر والوں، خصوصاً بیگم کے تعاون کے طفیل کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ خدا نے انھیں تین بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ خیر سے اب پردادا ہیں۔
ان کے نزدیک زندگی مسلسل آگے بڑھنے کا نام ہے، جمود تو موت ہے۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ رب کے ممنون ہیں، جس نے انھیں صحت اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ادا کیا۔

مرزا جمیل کا ہم پر ایک احسان ہے۔۔۔
اردو زبان و ادب کی کئی قدآور شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اِس محسن عظیم کو خراج تحسین پیش کیا۔ قارئین کے لیے یہاں چند مشاہیر کے الفاظ نقل کیے جارہے ہیں:
’’اِس ایجاد نے اردو کی طباعتی دنیا میں انقلاب برپا کرکے نسلوں پر احسان کیا ہے۔‘‘ (احمد ندیم قاسمی)

’’مرزا جمیل کا ہم پر ایک احسان ہے، جو خط نوری نستعلیق انھوں نے وضع کیا ہے، یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘‘ (فیض احمد فیض)
اردو زبان اور اس کی ترقی میں جو کئی نوری سال حائل تھے، نوری نستعلیق نے ان نوری سالوں کو عبور کرلیا۔ (پروین شاکر)
’’نوری نستعلیق نے حُسن کے ساتھ ہماری زبان کو ہمارے عہد، بلکہ مستقبل کی رفتار عطا کردی ہے۔‘‘ (ابوالخیر کشفی)

’’ہم سب کو احمد مرزا جمیل کا احسان مند ہونا چاہیے، انھوں نے قومی زبان کے فروغ کے لیے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔‘‘ (ڈاکٹر جمیل جالبی)
قلم سے کمپیوٹر تک یہ سفر (نوری نستعلیق) حیران کن بھی ہے، اور اور دل چسپ بھی۔ اور بیسیویں صدی کی ایجادوں میں ایک معجزہ بھی۔ (محسن احسان)

ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بڑا اور کیا اعزاز ہوگا!
احمد مرزا جمیل کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔

82ء میں تمغۂ امتیاز ان کے حصے میں آیا۔ اگلے ہی برس پشاور یونیورسٹی نے سپاس خیبر پیش کیا۔ 99ء میں انھیں جامعہ کراچی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا ہوئی۔ نجی کمپنیاں وقتاً فوقتاً ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز سے نوازتی رہیں۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو وہ اپنے لیے بڑا اعزاز قرار دیتے ہیں، جس کا، اُن کے نزدیک کسی ایوارڈ سے موازنہ ممکن نہیں۔ یوں تو پرنٹنگ کی دنیا میں بھی اُنھوں نے کئی کارنامے انجام دیے، مگر خواہش یہی ہے کہ اُنھیں نوری نستعلیق کے خالق کے طور پر یاد رکھا جائے۔

٭ حرکت میں برکت ہے
92 برس کی عمر میں بھی وہ انتہائی متحرک ہیں۔ کیا صحت کا راز ورزش میں پہناں ہے؟ اِس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں،’’نہیں باقاعدہ ورزش تو نہیں کرتا، مگر یہ ضرور ہے کہ حرکت میں برکت کا قائل ہوں۔ خود کو مصروف رکھتا ہوں، ذہن کو بھی استعمال کرتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے حافظہ اچھا ہے۔‘‘

ان کے نزدیک آرٹسٹ کے ہاتھ میں چاہے برش ہو، قلم ہو، یا کمپیوٹر، اس کا ذہن اسی طرح سے کام کرتا ہے۔ 80 برس کی عمر میں کمپیوٹر سے ان کی دوستی ہوئی تھی، جو ہنوز قائم ہے۔ روٹری انٹرنیشنل کے ڈسٹرکٹ گورنر اور ’’پاکستان ایسوسی ایشن آف پرنٹنگ اینڈ گرافک آرٹ‘‘ (PAPGAI) کے دو بار چیئرمین منتخب ہوچکے ہیں۔

کاروبار سے تو بیس برس قبل خود کو الگ کرلیا تھا۔ اب معمولات کچھ یوں ہیں کہ صبح اٹھ کر اخبار پڑھتے ہیں۔ ناشتے کے بعد باغیچے کی سیر کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں۔ مطالعہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ادبی مجلے توجہ کا مرکز ہیں۔ جو تحریر اچھی لگتی ہے، اُسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ظہرانے کے بعد قیلولہ نہیں کرتے۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،’’میں اب بھی فیکٹری کے اوقات کار فالو کر رہا ہوں۔ قیلولے کی عادت نہیں پڑی۔‘‘

٭ تکمیل ایک نادر نسخۂ قرآن کی۔۔۔
ناممکن سے ممکن کا سفر
احمد مرزا جمیل کے کئی کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ اُن کے ادارے الیٹ پبلشرز کے تحت شایع ہونے والا قرآن پاک بھی ہے، جس کی تکمیل کی کہانی، ایک حیران کن کہانی ہے کہ اس کی خطاطی انوکھے انداز میں مکمل ہوئی۔

قصّہ کچھ یوں ہے کہ خطاطی ان کے والد، نور احمد کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسی شوق کے تحت الیٹ پبلشر کے قیام کے بعد اُنھوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ احمد مرزا جمیل قرآن کریم کا ایک نسخہ طبع کریں، جو فنی معیار سے انتہائی دیدہ زیب ہو۔ اِس منصوبے میں اہم ترین مرحلہ خطاطی کا تھا، جس کا بیڑا 72 برس کی عمر میں نور احمد صاحب نے خود ہی اٹھایا۔ چھے میں ماہ میں نو سپارے مکمل کیے تھے کہ بلاوا آگیا۔

والد کی اِس تمنا کے ناتمام رہنے کا خاندان کو شدید قلق تھا۔ کچھ عرصے بعد ان کے بھائی، ظہوراحمد نے خیال ظاہر کیا کہ نامکمل خطاطی سے عکس لے کر باقی سپارے ترتیب دیے جائیں۔ بہ ظاہر یہ طریقہ ناممکن تھا، تاہم دھیرے دھیرے یہ امکان کے قالب میں ڈھلنے لگا، جس کا تعاقب کرتے ہوئے خوش نویس، منشی رضا حسین اور ان کے چچا، مقبول احمد نے کام شروع کیا۔

طریقہ کچھ یوں تھا کہ کتابت شدہ 9 پاروں سے ایسے حروف، ترسیمے اور الفاظ منتخب کر کے چھاپ لیے گئے، جو نسخے کی گرافک خطاطی میں درکار تھے۔ پھر سطر کی گنجایش اور الفاظ کی نشست و کشید کی موزونیت سے تراشے منتخب کیے گئے۔ انھیں جوڑ کر ایک ایک سطر ترتیب دی گئی۔ حسب ضرورت اعراب اور نقطے لگائے گئے۔
یوں صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد، 14 برس کی محنت کے نتیجے میں یہ منفرد اور بے مثال نسخہ مکمل ہوا۔ تصحیح، تزئین اور طباعت میں مزید کچھ برس لگے۔ کمال یہ تھا کہ پہلے 9 اور باقی 21 پاروں میں زرہ برابر فرق نہیں تھا۔

خوش لباسی یہ سرد موسم کی طویل گھیرے دار قمیصیں

$
0
0

مختلف پہناوؤں اور ان کی تراش خراش ہماری شخصیت کو چار چاند لگا دیتی ہے اور حُسن کو جلا بخشتی ہے۔

لباس کی تراش خراش اگر ہمارے قد وقامت سے ہم آہنگ ہو تو دیکھنے والوں کی نگاہیں ٹھہرتی ضرور ہیں۔ ملبوسات کی کچھ اقسام ہمارے جثے پر اس قدر عمدگی سے جچتی ہیں کہ گویا خزاں کے موسم میں بھی بہار آجائے۔ لونگ شرٹس یا لمبی قمیصوں پر بھی یہ بات صادق آتی ہے ۔ یہ نہ صرف طویل قامت لڑکیوں پر خوب جچتی ہے، بلکہ عام قد کی لڑکیوں پر بھی خاصی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ لمبی قمیص زیب تن کرنے سے دیکھنے والوں کو قد کی کمی بھی معلوم نہیں ہوتی۔ موسم کی بدلتی رتوں کے باوجود خواتین کے لباس کی وہی ریت جاری ہے، یعنی موسم گرما کے بعد سرما کی آمد کے موقع پر بھی لونگ شرٹس کا رواج اسی طرح ہی جاری ہے۔ اگرچہ کپڑوں کی بُنت اور ساخت میں موسم کے لحاظ سے مناسب تبدیلی آگئی ہے، جو کہ ہمیں سرد موسم کی شدت سے محفوظ رکھنے میں معاون ہو گی۔


کیا سعودی عرب امریکا سے دور ہو رہا ہے؟

$
0
0

عرب، اسرائیل تنازعے کے موقع پر سعودی فرماں روا شاہ فیصل نے جب تیل کو سیاسی ہتھیار بناکر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کو جھنجھوڑا تو اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر، شاہ فیصل سے ملنے ریاض آئے۔

شاہ فیصل نے انہیں دو دن انتظار کروایا اور تیسرے روز صحرا میں آراستہ خیمے میں ملاقات کی، جس کے پاس کھجور کے درخت تھے اور اونٹوں کا ریوڑ تھا۔ جب ہنری کسنجر نے ان سے تیل جاری رکھنے کی بات کی تو انہوں نے کہا عرب ماضی میں اونٹوں کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔ اونٹنیوں ہی کا دودھ اور کھجور کو غذا بناتے رہے ہیں۔ عرب اب بھی اپنے ماضی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ اگر تیل چاہیے تو مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی مسلمانوں کو آزاد ریاست دیں اور تیل لے لیں۔ ورنہ ہم عرب خود اپنے تیل کے کنویں آگ کی نذر کر دیں گے اور ہماری نسلیں آسانی سے کھجور اور اونٹنی کے دودھ پر گزارا کرلیں گی۔

ایک مسلمان حکم راں کا یہ جرأت مندانہ اقدام فقط چند عشرے قبل کا ہی ہے، کہ جب مسلمانان عالَم کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ اور قابل قدر کوشش کی گئی، لیکن عالمی بساط کے شاطر کھلاڑیوں نے ایسی جرأت دکھانے والے حاکم کو اپنے بھتیجے کے ہاتھوں ہی قتل کرا دیا اور پھر کوئی اس سطح کی ہمت کا مظاہرہ نہ کرسکا۔ شاہ فیصل کے بعد شاہ خالد، شاہ فہد اور ان کے بعد شاہ عبداﷲ برسراقتدار آئے، لیکن تاریخ پھر سعودی عرب کے ایسے جرأت مند ماضی کو نہ دیکھ سکی، البتہ حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی بار ملنے والی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کو ٹھکرائے جانے سے کچھ ماضی کی یاد آنے لگی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے اس اقدام کی وجہ سلامتی کونسل کا دُہرا معیار قرار دیا اور اصلاحات نہ ہونے تک اپنے اسی فیصلے پر کاربند رہنے کا عندیہ دیا۔

سعودی سرکاری بیان میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے شام کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکامی اور مشرق وسطی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں ناکامی کو بھی دُہرایا گیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی تقریر سے انکار کر چکا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اور فلسطین جیسے اہم اور پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کرتا، وہ جنرل اسمبلی کی بائیکاٹ کرتا رہے گا۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ شام کے معاملے پر امریکا بظاہر بشار الاسد کا مخالف ہے، لیکن درپردرہ اس کے مقاصد کچھ اور بھی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذریعے خاطر خواہ اقدام نہ ہوسکنا اور اس کے بعد ایران سے واشنگٹن کی بڑھتی پینگوں نے اس کے ان خدشات کو باوزن کردیا کہ شاید واشنگٹن، دمشق میں ایران کی مدد سے کوئی راہ نکالے گا، جس کا واضح طور پر مطلب شام میں ایرانی اثر رسوخ کا بڑھنا ہے یا کم سے کم سابقہ اثرات برقرار رہنا ہوگا۔ ایران کی جوہری قوت کے حوالے سے بھی سعودی عرب کو تشویش ہے، کیوں کہ یہ امر اسے عرب خطے میں تہران کی برتری کا ذریعہ نظر آرہا ہے، جب کہ دوسری طرف کوئی بھی عرب ملک اس صلاحیت کا حامل نہیں۔

خطے میں امریکی مفادات کے ساتھ براہ راست اس کی معیشت کے کچھ معاملات بھی سعودی سردمہری کی زد میں آسکتے ہیں اور فی الوقت اس کی معیشت میں بھی کچھ پیچیدگیاں حائل ہیں۔ اس لیے واشنگٹن کو ہر دو طرح کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ سعودی مرکزی ریزرو بینک کے تقریباً 690 بلین ڈالر امریکی بینکوں میں امریکی ٹریژری بانڈز کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر اس بڑے سرمائے کا انخلا ہوا تو امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر امریکا اس منتقلی کو رکوانا چاہے تو اسے سعودیہ پر پابندیوں کی راہ اختیار کرنا پڑے گی، جو بہرحال ایک طویل عمل ہوگا۔

دوسری طرف سعودی عرب اپنی دفاعی ضروریات کے لیے امریکا پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے۔ سعودی انٹیلی جنس سربراہ نے واضح طور پر اس اقدام کو امریکا کے لیے پیغام قرار دیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودیہ نے امریکا انحصار سے نکلنے کے لیے متبادل تیار کرلیا ہے؟ یا وہ نادانستگی میں کوئی بچگانہ اقدام کرنے جا رہا ہے، جس سے وہ خود امریکا کی طرف سے آزمایش سے دوچار ہو سکتا ہے، کیوں کہ امریکا کو آنکھیں دکھانے کے لیے بظاہر سعودیہ کو دنیا کی کسی بڑی طاقت کی بھی حمایت حاصل نہیں۔

خادم الحرمین شریفین شاہ عبداﷲ نے اگرچہ 2005ء میں زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد دیگر عالمی طاقتوں سے تعلقات بڑھانے کی خاطر خواہ کوششیں کیں، جس میں چین اور روس قابل ذکر ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم میں روس کو مبصر کا درجہ بھی دلایا گیا، لیکن شام کے معاملے پر روس سے معاملات اس نہج پر چلے گئے کہ اس نے سعودیہ پر حملے کی دھمکی دے ڈالی۔ امریکی مخالفین سے قربت کرتے ہوئے شاہ عبداﷲ نے ایرانی صدر کو بھی نہایت گرم جوشی سے اپنے ہاں خوش آمدید کہا تھا، مگر موجودہ منظر نامے میں اس حکمت عملی کا کوئی خاطر خواہ ثمر دکھائی نہیں دے رہا۔ شام کے معاملے پر برہمی اس نہج پر پہنچی کہ اس نے اس پیمانے پر اپنا ردعمل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے احتجاج کو زیادہ سے زیادہ موثر بنا سکے۔ ورنہ اقوام متحدہ فلسطین اور دیگر معاملات پر جو کردار ادا کر رہا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

سعودی اقدام کو انتہائی نوعیت کا اقدام کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ایک طرف عرب ممالک سلامتی کونسل میں اپنی نمایندگی کی چاہ رکھتے ہیں اور اب اس کی تکمیل کا وقت آیا تو احتجاجاً اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے عربوں کی عالمی سطح پر رسائی میں رکاوٹ ہوئی، کیوں کہ ’’عرب لیگ‘‘ کو بھی اس وقت اگر غیرفعال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جس کے اجلاسوں میں اکثر عرب سربراہان ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہے ہیں، جس میں خاص طور پر لیبیا کے کرنل معمرقذافی اور سعودی فرماں روا شاہ عبداﷲ کے درمیان ہونے والی جھڑپ قابل ذکر ہے۔ یوں سعودی اقدام خاصا شدید دکھائی دیتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب نہ مانا تو عرب دنیا کی نمایندگی کی خواہش سے فایدہ اٹھاتے ہوئے واشنگٹن عربوں میں سعودیہ کے بہ جائے متبادل اتحادی تیار کرسکتا ہے، لیکن دوسری طرف موجودہ منظر نامے میں کوئی بھی قد آور عرب راہ نما ایسا نظر نہیں آتا، جو کسی بھی طرح اس خلا کو پُر کرسکے۔

سعودی عرب کا یہ فیصلہ امریکا کے لیے بھی غیرمتوقع رہا اور عرب ممالک کی طرف سے بھی اس پر دبائو ڈلوایا گیا کہ وہ اپنی نمایندگی کی خاطر اسے راضی کریں کہ وہ سلامتی کونسل کی نشست مسترد نہ کرے، تاہم قطر نے سعودی اقدام کی حمایت کی ہے، لیکن سعودی عرب نے اپنے اس اقدام کے ذریعے انتباہ کردیا ہے کہ اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو پھر وہ بھی خود کو بھی اب مزید امریکا کے ہم راہ نہیں رکھ سکے گا اور یہ قدم آگے چل کر دونوں ممالک کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا بھی سکتا ہے۔

اس واضح اشارے کے بعد امریکا نے بھی سوچنا ہے کہ اس نے سعودی عرب کو راضی رکھنے کی حکمت عملی ہی رکھنی ہے یا پھر اب اس کی پروا نہیں کرنی۔ امریکی حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن کے قانون سازوں نے سعودی عرب کے مشرق وسطیٰ کے بارے میں تحفظات دور کرنے کا مشورہ دیا، اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سعودی عرب کا دورہ کر کے دوریاں کم کرنے کی سعی کی۔ جان کیری نے دورہ سعودی عرب کے دوران عرب ممالک کے دفاع کی یقین دہانی کراکے ریاض کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

سعودی عرب جیسے ملک کی جانب سے عالمی ادارے پر عدم اعتماد کا اظہار عالمی سیاست کے ساہوکاروں کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ اب پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آیا سعودی عرب اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا ہے یا تبدیل کرلیتا ہے اور اس کے بعد یہ کہ سعودی عرب اس اقدام کے ذریعے اپنے مقاصدمیں کس قدر کام یابی حاصل کرتا ہے۔

آیا اس کا یہ قدم واقعتاً خود انحصاری اور متبادل اتحادی ڈھونڈنے کی غرض سے ہے یا یہ محض خطے کی صورت حال پر مجبوراً اٹھایا جانے والا ایک عارضی قدم ہے، جو صرف خطے میں شام اور ایران کے معاملے پر امریکی حکمت عملی تبدیل کرانے کے لیے ہے۔ اگر سعودی عرب واقعی امریکا سے تعلقات کی نوعیت تبدیل کر رہا ہے تو بظاہر کسی متبادل قوت سے قربت نہ ہونے کے باعث اس کے پاس صرف اپنے ہم سائے عرب ریاستوں کے اتحاد اور تعاون کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

سعودی عرب تاریخ اور جغرافیہ
اکثر عرب ممالک کی سرحدیں 1920ء کی دہائی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعے قائم ہوئیں۔ سعودی عرب جزیرہ نما عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں عُمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہیں، جب کہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے، کیوں کہ یہاں مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا، جب ایک مقامی راہ نما محمد بن سعود ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعدازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔

1926ء تک الاحسا، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ اور مدینہ شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ 1932ء میں مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگیا۔

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکم رانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے۔ کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ انتخابات ہوتے ہیں، البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔

بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علما اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔ قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلا عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔

اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کے لیے عمل میں آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کی ناکامی دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی صورت میں سامنے آئی تو ایک نئی انجمن کی طرح ڈالنے کی سعی کی گئی اور 25 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کی بنیاد 51 ممالک کی رکنیت سے پڑی اور اس وقت دنیا کے 193 ممالک اس عظیم تنظیم کے رکن ہیں۔ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم ذیلی ادارہ ہے، جس کی پہلی باضابطہ نشست 17 جنوری 1946ء کو لندن کے ویسٹ منسٹر کے چرچ ہاؤس میں ہوئی۔

سلامتی کونسل میں پانچ ر کن ممالک کو مستقل رکنیت کی حیثیت دی گئی اور اقوام متحدہ کے منشور کے خالقوں نے ان پانچ ارکان کو کسی بھی تجویز کو ویٹو کرنے کا خصوصی اختیاردیا گیا جس پر آج تک تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل اراکین دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہرسال جنرل اسمبلی پانچ غیرمستقل ممبران کو منتخب کرتی ہے جو دنیا کے مختلف خطوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔

سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کی منظوری کے لیے کسی بھی تجویز کو 9 ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ان پندرہ مستقل وغیرمستقل ممبران کے ووٹ پر مشتمل ہے، لیکن اسے رد کرنے کے لیے پانچ مستقل اراکین میں سے کسی ایک کا ویٹو کر دینا کافی ہے۔ اب تک روس نے 123مرتبہ، جب کہ امریکا 89، برطانیہ 32، فرانس18، اور چین 6مرتبہ اپنے اس ویٹو کے اختیار کو استعمال کر چکا ہے۔

سلامتی کونسل میں اس بار آذربائیجان، گوئٹے مالا، مراکش، ٹوگو اور پاکستان کی مدت ختم ہوئی اور چاڈ، چلی، لیتھونیا، نائجیر یا سعودی عرب کا انتخاب کیا گیا چنا گیا ہے۔ نئے ارکان یکم جنوری 2014ء سے اپنی نشست سنبھالیں گے۔ ان اراکین کو صرف ان فیصلوں میں اہمیت حاصل ہوتی ہے، جن کی پانچ بڑے ممالک مخالفت نہ کریں۔ پانچ نومنتخب ارکان میں سے تین ممالک چاڈ، سعودی عرب اور لیتھوانیا اس سے پہلے کبھی سلامتی کونسل کے رکن نہیں بنے، جب کہ نائجیریا اور چلی ماضی میں چار چار مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں۔

اس نے اپنا عضو دیا اور پھر۔۔۔

$
0
0

اعضا کی ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت نے ان لوگوں کو نئی زندگی کی نوید دی ہے جو اپنے جسم کا کوئی اہم عضو ناکارہ ہوجانے کے باعث تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہے تھے یا صحت کے شدید مسائل کا شکار ہوگئے تھے۔  یہاں ہم ٹرانسپلانٹیشن سے جُڑے  کچھ دل چسپ واقعات پیش کر رہے ہیں۔

1 ۔خودکشی کرنے والے کا دل:

جس کے یہ دل لگا اس نے بھی۔۔۔

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے سینے میں ایک خودکشی کرنے والے شخص کا دل لگایا گیا تھا۔  اس نے نہ صرف ڈونر کی بیوہ سے شادی کی بلکہ اس کے آنجہانی شوہر کے انداز میں خودکشی بھی کرلی۔ گویا ایک عورت کو دو شوہروں کو ایک ہی انداز سے کھونا پڑا اور دو بار بیوہ ہونا پڑا۔

سونی گراہم نامی شخص کے ٹیری کوٹل نامی شخص کا دل لگایا گیا تھا۔ سونی اپنے آنجہانی محسن کا اتنا ممنون تھا کہ اس نے ڈونر کی بیوہ سے شادی بھی کرلی۔ یہ دل ٹرانسپلانٹ ہونے کے بعد سونی گراہم میں ایک یہ تبدیلی بھی آئی کہ وہ انہی کھانوں اور مشروبات کو پسند کرنے لگا جو ٹیری کوٹل کو پسند تھے۔ جب سونی گراہم کے ٹیری کوٹل کا دل لگایا گیا تو اس نے  ٹیری کی بیوہ کو شکریہ کا خط لکھا۔ نئے دل کے ساتھ سونی گراہم خوش اور مطمئن تھا، مگر بارہ سال بعد اسے نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے عجیب حالات میں خود کو گولی مارکر ہلاک کرلیا اور کوٹل کی بیوہ کو دوسری بار بیوہ کردیا۔ سونی گراہم کی بیوہ اس عجیب حادثے پر حیران اور پریشان تھی۔ 1995میں سونی گراہم کے دل میں ایسی پیچیدگی پیدا ہوئی کہ وہ کسی بھی وقت فیل ہوسکتا تھا، گویا اس کے سر پر موت کھڑی تھی۔  ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس کے پاس صرف چھے ماہ ہیں۔ ایسے میں جنوبی کیرولینا کی میڈیکل  یونیورسٹی سے فون آیا، جس میں اسے یہ اطلاع دی گئی تھی ٹیری کوٹل نامی ایک 33سالہ شخص نے اپنے سر میں گولی مارکر خود کشی کرلی  ہے، اس کا جوان دل ٹرانسپلانٹیشن کے لیے موجود ہے۔ اس طرح  ٹیری کا جوان دل سونی گراہم کو مل گیا، مگر سونی بھی  بالکل ٹیری کے انداز میں خود کو گولی مارکر ہلاک کرلیا۔

2 ۔بیوی کے لیے گُردہ چاہیے:

لیری سویلنگ نامی امریکی نے اپنی بیوی سے محبت کا جو اظہار سادی دنیا کے سامنے کیا ہے، اس نے لوگوں کو حیران کردیا ہے۔ اس نے مسلسل چار سال تک اپنی مرتی ہوئی بیوی کے لیے گردے کا عطیہ مانگا۔  78سالہ لیری کو اپنی بیوی جیمی سو سے بہت محبت تھی۔ جیمی کا ایک گردہ ناکارہ ہوگیا تھا، جس کے بعد اس کے زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی، مگر اس کا دیوانہ شوہر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، چناں چہ اس نے یہ کیا کہ اپنے گلے میں ایک بڑا سا بورڈ لٹکایا اور پورے ایک سال تک جنوبی کیرولینا کی گلیوں میں گھومتا رہا۔ اس بورڈ پر یہ عبارت درج تھی:’’میری بیوی مررہی ہے، اس کی جان بچانے کے لیے مجھے ایک گردہ چاہیے۔‘‘

لیری کی بیوی 76سالہ جیمی سو صرف ایک گردے کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ جب اس کا یہ واحد گردہ خراب ہوگیا تو ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ فوری طور پر کسی ڈونر کا انتظام کرے، ورنہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے پاس چند ماہ ہی بچے تھے۔ لیری اور اس کے تینوں بچوں نے سب سے پہلے خود کو پیش کیا مگر ان چاروں کے گردوں کو جیمی کے لیے ناموزوں قرار دے دیا گیا۔ اب کیا کریں؟ لیری کو اپنی بیوی جیمی سے بہت محبت تھی۔ ان کی شادی کو 57سال گزر چکے تھے۔ اتنی مدت کے بعد لیری اس سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے شہر کی سڑکوں پر گردے کے لیے بھیک مانگنی شروع کردی۔ اس دیوانی محبت کو دیکھ کر سیکڑوں لوگ آگے آئے اور انہوں نے لیری کو اپنے گردے عطیہ کرنے کی پیشکش کی۔ ستمبر 2013میں ایک ریٹائرڈ نیوی لیفٹیننٹ کمانڈر کیلی ویورلنگ نے  ایک طویل آپریشن کے بعد اپنا ایک گردہ جیمی کے لیے عطیہ کردیا۔ یہ آپریشن کام یاب رہا۔ بعد میں جیمی اور اس کے شوہر لیری نے کیلی ویورلنگ سے  ملاقات کی اور اس فیاضانہ عطیے پر اس کا شکریہ ادا کیا۔

3 ۔باپ کی آزمائش

اپنا گردہ بیٹے کو دے یا بیٹی کو

کسی بھی باپ کے لیے اس سے بڑی آزمائش اور کیا ہوگی جب اس سے یہ کہا جائے کہ تمہارے گردے کی ضرورت تمہارے بیٹی کو بھی ہے اور بیٹی کو بھی۔ وہ کس کے حق میں فیصلہ دے گا؟ دونوں اس کی اولاد ہیں۔ دونوں اسے عزیز ہیں۔

یہ آزمائش47سالہ انتھونی لیون کے سامنے اس وقت آن کھڑی ہوئی جب پہلے اس کی بیٹی جیڈ اور اس کے ایک سال بعد  اس کے بیٹے کیگن کو گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کی ضرورت تھی۔

انتھونی ایک ہوٹل میں منیجر تھا۔ وہ بیٹے یا بیٹی میں سے کسی ایک کو ہی بچاسکتا تھا۔

بعد میں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے دے گا جسے اس کی ضرورت پہلے پڑی تھی۔ ظاہر ہے وہ جیڈ تھی۔ جیڈ کو 2004 میں ڈی جنریٹو کڈنی ڈزیز تشخیص ہوئی تھی۔ یہ ایک موروثی کیفیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے انتھونی اور اس کی بیوی وکٹوریا دونوں ہی اس بیماری کے حامل تھے۔ ان کی شادی تو ہوگئی مگر ہر بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی صورت حال خراب ہوتی چلی گئی۔  سب سے بڑے بیٹے جیس میں جس کی عمر اب 18سال ہے، اس کی کوئی علامات نہیں تھیں۔ 13سالہ کیگن جو چار سال بعد پیدا ہوا، اس میں بیماری کے اثرات تھے مگر وہ سامنے نہیں آئے۔ گیارہ سالہ جیڈ جب سے پیدا ہوئی،  بیمار تھی ۔ لیکن سب سے زیادہ وہی اس سے متاثر ہوئی تھی۔ گردے کی ٹرانسپلانٹیشن کے بعد جیڈ کافی بہتر ہے، مگر کیگن ابھی گردے کے عطیے کا منتظر ہے۔

4 ۔اجنبی کو گردہ دیا، چار سال بعد اسی سے شادی کرلی:

کیل فرولچ شدید بیمار تھا اور خدا کے کسی بندے کا منتظر تھا جو اسے اپنا گردہ عطیہ کردے۔ ایسے میں ایک اجنبی نوجوان عورت چلیسی کلیئر  نے اسے اپنا گردہ ڈونیٹ کردیا جسے کیل جانتا تک نہیں تھا۔ چلیسی کلیئر  اور کیل فرولچ پہلی بار 2009میں ایک کار شو میں ملے تھے۔ اس وقت  چلیسی 22کی اور کیل 19سال کا تھا۔ وہ شدید بیمار تھا۔ اس کا گردہ ناکارہ ہوچکا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے امید دلائی  تھی کہ اس کے لیے ڈونر کی تلاش جاری ہے، وہ ناامید نہ ہو۔ اسی دوران چیلسی کی ملاقات ریاست انڈیانا میں کیل سے ہوئی اور چیلسی نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کے بعد چیلسی کے گردے کو کیل کے لیے موزوں ترین  قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مرحلہ مکمل ہوگیا۔ چلیسی نے اپنا گردہ کیل کو عطیہ کردیا اور کیل نے اسے پورے جوش کے ساتھ قبول کرلیا۔ اسپتال میں ان دونوں کی ملاقاتیں  ہوتی رہیں اور انہیں پتا بھی نہیں چلا کہ کب وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت کے اسیر ہوتے چلے گئے۔

12اکتوبر2013کو ان کی شادی ہوگئی۔ شادی کا پروپوزل دیتے وقت کیل نے چیلسی سے کہا تھا:’’تمہارا گردہ میرے پاس بالکل محفوظ ہے، اس لیے میں اپنا ہاتھ، اپنا دل  اور اپنی روح تمہارے حوالے کررہا ہوں اس امید پر کہ یہ تمہارے پاس بالکل محفوظ رہیں گے۔‘‘

5۔باس کو گردہ ڈونیٹ کیا اور باس سے ملازمت سے نکال دیا:

نیویارک کی ایک جوان عورت ڈیبی اسٹیونز نے اپنی باس کو نئی زندگی کا تحفہ دیا اور بدلے میں اسے ملازمت سے ہی فارغ کردیا گیا۔ ڈیبی کی باس جیکی  کافی عرصے سے بیمار تھی۔ اس کا گردہ ناکارہ ہوچکا تھا، اسے کسی ڈونر کا انتظار تھا۔  ڈیبی نے اپنی 61سالہ باس جیکی بروشیا کو اپنا گردہ عطیہ کردیا ۔ لیکن  اس کی باس اس قدر ناشکری اور خود غرض نکلی کہ اس نے ڈیبی کا کوئی احسان نہیں مانا، بلکہ بدلے میں الٹا اسے پریشان کرنا شروع کردیا۔

جیکی کا کہنا تھا کہ ڈیبی مجھے گردہ دے چکی ہے، اس کا  کام مکمل  ہوچکا ہے، اس لیے اسے فوری طور پر اپنی ڈیوٹی پر واپس آجانا چاہیے۔ حالاں کہ ڈیبی کی طبیعت خاصی خراب تھی۔ جیکی کو گردہ دینے کے لیے اسے کافی طویل اور تکلیف دہ آپریشن سے گزرنا پڑا تھا۔ اس نے جیکی سے اس کی شکایت کی تو جیکی نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ڈیبی نے اس سلسلے میں اپنے وکیل سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ ڈیبی کو پہلے ہی ملازمت سے فارغ کیا جاچکا ہے۔ اب ڈیبی نے جیکی سے یہ مطالبہ کیا ہے:’’میرا گردہ مجھے واپس دو ورنہ میں تمہیں عدالت میں لے جائوں گی۔‘‘

6 ۔بھائی نے بہن کو گردہ دیا

نرس نے غلطی سے پھینک دیا

امریکی ریاست اوہایو کے شہر ٹولیڈو کی  Sarah Fudacz نامی عورت اور اس کی فیملی  ایک اسپتال کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے جارہی ہے جس نے ایک گردے کو پھینک کر ضائع کردیا۔ وہ گردہ اس عورت کے بھائی نے اسے ڈونیٹ کیا تھا۔   Sarah Fudacz کی عمر اس وقت 24سال تھی جب یہ واقعہ  پیش آیا۔ اس کا ایک گردہ خراب ہوچکا تھا۔ وہ اپنے چھوٹی بھائی Paul Fudacz Jr کی جانب سے گردے کے عطیے کا انتظار کررہی تھی۔ لیکن یونیورسٹی آف ٹولیڈو کی  کی میڈیکل سینٹر کی ایک نرس نے غلطی سے اس گردے کو پھینک دیا۔ وہ گردہ  وہاں ایک ٹمپریچر کنٹرولڈ سلش مشین میں رکھا ہوا تھا۔ اسے بعد میں ایک آپریشن کے ذریعے سارہ کے  لگانا تھا۔

اتفاق سے ڈیوٹی پر موجود نرس لنچ کے لیے چلی گئی تھی اور اس کی جگہ دوسری نرس نے لی اور اسی دوران یہ واقعہ پیش آگیا۔ سلش مشین کی صفائی کے دوران دوسری نرس نے اس گردے کو اٹھاکر پھینک دیا۔ بعد میں گردہ تو مل گیا مگر اس وقت تک وہ ناکارہ ہوچکا تھا یعنی ٹرانسپلانٹیشن کے قابل نہیں رہا تھا۔ اسپتال کی انتظامیہ نے سارہ کے لیے دوسرے گردے کا انتظام کردیا تھا اور اس کے وہ گردہ لگا بھی دیا گیا تھا مگر اب سارہ اپنے بھائی کے گردے کا اس انداز سے ضائع کیے جانے پر اسپتال پر مقدمہ کرنے جارہی ہے۔

7 ۔ملازمین کی غفلت

ایئرپورٹ  پر ڈونر کا ’’دل‘‘ گرادیا

دنیا میں بہت احتیاط سے لے جائی جانے والی چیزوں میں ’’دل‘‘ سب سے اہم ہے۔

میکسیکو سٹی کے ایک اسپتال میں  مریضہ ٹرانسپلانٹیشن کے لیے ’’دل‘‘ کی منتظر ہے۔  اس کے لیے دل لایا جارہا ہے۔ لانے والے ملازم نے عجلت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے وہ ’’دل‘‘ زمین پر گرپڑا۔ مگر یہ مریض کی خوش قسمتی تھی کہ اس دل کو اٹھالیا گیا اور کام یابی کے ساتھ منتظر مریضہ کے سینے میں فٹ بھی کردیا گیا۔ ڈونر کے دل کو بہت احتیاط سے پیک کرکے ایک چارٹرڈ ہیلی کاپٹر کے ذریعے  بھجوایا گیا تھا۔

اس دل کو جلد از جلد مریضہ کے پاس پہنچانا تھا، مگر اسی جلدبازی میں مذکورہ بالا حادثہ پیش آیا اور ایک کارگو ملازم ٹھوکر کھاکر زمین پر گرگیا جس کے نتیجے میں وہ پیکیج کھل گیا اور ’’دل‘‘ زمین پر گرپڑا۔ لیکن یہ اس 20سالہ مریضہ کی خوش قسمتی تھی کہ دل کا کچھ بھی نہ بگڑا اور چار گھنٹے طویل  آپریشن کے بعد وہ دل مریضہ کے سینے میں فٹ ہوکر دھڑکنے لگا۔

قدرتی موٹاپے سے نجات کیلئے لائپو سکشن نہیں کروانا چاہئے!

$
0
0

’’اتار پھینکیں اس چربی کی تہہ کو، اپنے جسم کو متناسب اور پرکشش بنانے کے لیے ہماری یہ دوا استعمال کریں۔

موٹاپا ایک عذاب ہے، نجات حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس تشریف لائیں‘‘۔ اخبارات، گلیوں، بازاروں اور کلینکس پر لگے اس طرح کے اشتہار موٹے اور ضرورت سے زیادہ صحت مند افراد کے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ امید کا دامن ہاتھ میں تھامے ان افراد کی ایک غالب تعداد اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کرنے کے بجائے ان ادویات اور کلینکس پر انحصار کرتے ہیں۔ موٹاپے سے نجات دلانے کے لیے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ایک نئی تکنیک متعارف کرائی گئی ہے جس کو Liposuctionکہتے ہیں۔lipoکا مطلب چربی ہے جبکہ Suction کا مطلب نکالنا ہے۔ یعنی آپریشن کے ذریعے جسم سے فالتو چربی نکالنے کے عمل کو لائپو سکشن کا نام دیا گیا ہے۔ کیا موٹاپے اور فالتو چربی سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ ٹھیک ہے، اس سرجری کے مضمرات کیا ہیں؟ قارئین کی معلومات کے لیے کچھ حقائق پیشِ خدمت ہیں۔

موٹاپے کی سرجری کی تین اقسام ہیں۔ ایک Bariatric Surgery ہے جس میں خاص تکنیک سے جسم کی فالتو چربی نکال دی جاتی ہے اور جسم کو shape کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کی سرجری کو Tummy Tuck Stomach banding کہتے ہیں جس میں جلد اور فالتو چربی دونوں کو جسم سے علیحدہ کردیا جاتا ہے، تیسری سرجری Liposuction ہے جس میں صرف فالتوچربی کو جسم سے علیحدہ کردیا جاتا ہے مثلا ٹھوڑی، رانوں، پیٹ اور کمر وغیرہ سے۔الٹرا سائونڈ شعاعوں کے ذریعے جسمانی چربی پگھلا کر نکالنے کے عمل کو Ultrasonic Lipusuction کہتے ہیں۔ جسم میں چربی نیم مائع حالت میں ہوتی ہے۔ اس کو سخت کرنے کیلئے پہلے انجکشن لگایا جاتا ہے۔ پھر ایک ایک سینٹی میٹر کے دو یا تین سوراخ کیے جاتے ہیں جنہیں Keyholes کہا جاتا ہے جن کے ذریعے چربی کو Suckکرلیا جاتا ہے۔ اگر مختصر جگہ کاآپریشن مقصود ہوتو اس جگہ بے حس کرکے آپریشن کیا جاتا ہے اور اگر زیادہ ایریا کا آپریشن کرنا ہو تو پھر مریض کو بے ہوش کیا جاتا ہے۔ Liposuction کے بعد مریض اسی دن گھر جاسکتا ہے جبکہ Bariatric Surgery اور Abdomino Plasty کے بعد مریض کو حفاظتی نقطہ نظر کے تحت تقریباً دو دن ہسپتال میں رکھا جاتا ہے۔

اس آپریشن کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔ جگر کی بیماریوں میں مبتلا لوگ جن کا خون پتلا ہوتا ہے، شوگر، بلڈپریشر کے مریضوں کو اس سے احتراز برتنا چاہیے۔ یہ سرجری ہر قسم کی جلد کیلئے موزوں ہے۔ ہاں اگر آپ کو کسی قسم کی سکن الرجی ہے تو پھر مسئلہ ہوسکتا ہے۔ جلد اس تبدیلی کو آسانی سے قبول کرلیتی ہے اور بعد ازآپریشن اپنی اصلی حالت میں واپس آجاتی ہے۔ آپریشن کی زیادہ سے زیادہ طوالت ڈیڑھ گھنٹہ کو محیط ہے۔ اگر آپریشن کا ایریا زیادہ ہو تو پھر دو یا تین دفعہ آپریٹ کرنا پڑتا ہے مثلا سینے اور پیٹ کا لائپو سکشن بیک وقت نہیں کرنا چاہیے۔ آپریشن کے دوران تکلیف نہیں ہوتی۔ ہاں بعد ازاں کچھ عرصہ تک Pain Killer یعنی درد کش ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ مریض کو ورزش اور خوراک کا چارٹ بھی فراہم کیا جاتا ہے اور تقریبا ایک ہفتہ کے لیے مخصوص قسم کے کپڑے پہننے پڑتے ہیں جنہیں Compression Garmentsکہتے ہیں۔ یہ کپڑے آپریشن شدہ حصے پر پہنے جاتے ہیں تاکہ جلد اپنے اصلی مقام اور حالت میں واپس آجائے۔ Liopsuction میں ٹانکے نہیں لگتے جبکہ Abdomino plasty میں ایک ہفتے بعد ٹانکے کھول دیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر سے آپریشن نہ کروایا جائے تو جلد کی رنگت کی تبدیلی، گڑھے ، پچکائو، سکڑائو، جھریاں وغیرہ یا جلد کے نیچے مواد یا پانی وغیرہ جمع ہوسکتا ہے۔ سانس اور خون کی روانی پر اس کا کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے اور بلڈ کلاٹ وغیرہ بھی نہیں بنتے۔ یہ آپریشن عالمی ادارہ صحتWHO کی جانب سے تصدیق شدہ ہے۔

اول تو یہ کہ وزن کم کرنے کا یہ مناسب ترین اور قدرتی طریقہ ورزش ہے لیکن ورزش ایک طویل عمل ہے جبکہ اس آپریشن کے ذریعے یہ مقصد قلیل ترین مدت میں حاصل ہوتا ہے۔ بعد میں وزن پر کنٹرول رکھنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہاں ایک بات کا دھیان رکھیں کہ موٹا پا دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کے جسم کا قدرتی جھکائو موٹاپے کی جانب ہے اور آپ موٹے ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ کے عادات واطوار، لائف سٹائل، کھانا پینا آپ کو موٹاپے کی جانب مائل کردیتا ہے۔ قدرتی موٹاپے سے نجات کے لیے یہ آپریشن بالکل نہیں کروانا چاہیے کیونکہ آپ کی جسم کی ساخت ہی ایسی ہے جو آپ کو موٹا کرتی ہے۔ اگر آپ قدرتی طور پر موٹے ہیں تو اس آپریشن سے آپ کی چربی خون میں شامل ہونے کے غالب امکانات ہوتے ہیں اور آپ مزید بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

مچھر کیوں کاٹتے ہیں، کن کو کاٹتے ہیں اور کب کاٹتے ہیں؟

$
0
0

موسم بدلتے ہی ڈینگی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے یعنی جب سردی گرمی میں بدلتی ہے اور گرمی سردی میں تبدیل ہوتی ہے تو یہی درمیانی موسم مچھروں کی افزائش کے لئے ایک بہترین ماحول مہیا کرتا ہے۔

اسی موسم میں مچھروں کی افزائش بھی دیگر موسموں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ زیادہ سردی اور زیادہ گرمی کا موسم مچھروں کے لئے قاتل ہوتا ہے۔ یقینا آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ سخت سردی یا سخت گرمی کے موسم میں مچھر غائب ہو جاتے ہیں جبکہ میانہ موسم کے دروان یہ بہتات میں نظر آتے ہیں اور یہی موسم ہے کہ جب یہ سوتے جاگتے ہمارے کانوں میں بین بجاتے اور ہمارا خون چوستے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نر مچھر انسانوں کو نہیں کاٹتے۔ یہ اپنی خوراک پودوں اور جھاڑیوں وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر ہے کہ جو انسانی خون سے اپنا شکم بھرتی ہے مگر صرف مادہ مچھر ہی ایسا کیوں کرتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے مادہ مچھروں کو اپنے انڈوں کی افزائش کے لئے جس پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے انسانی خون سے مہیا ہوتی ہے۔ ایک وقت میں ایک مادہ مچھر ایک قطرہ سے بھی کم انسانی خون پیتی ہے اور اس کے بعد یہ مادہ کسی بھی جگہ پر 100سے لے کر 400 تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دنیا میں مچھروں کی 3000 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ مچھر زیادہ سے زیادہ 1.5 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتے ہیں جبکہ ایک خاص قسم کے مچھر جن کو (Salt-Marsh mosquitos) کہا جاتا ہے خوراک کے حصول کی خاطر 40 میل تک کا سفر بھی طے کرسکتے ہیں۔

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مچھر انسانی خون کی بو پا کر انسان پر حملہ کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک غلط تصور بھی رائج ہے کہ اگر کسی کو زیادہ مچھر کاٹتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’’اس کا خون میٹھا ہے اس لئے اسے زیادہ مچھر کاٹتے ہیں‘‘ مگر یہ ایک جاہلانہ سوچ ہے۔ مچھروں کو صرف خون پینے سے غرض ہوتی ہے نہ کہ خون کے ذائقے سے۔ مندرجہ بالا دونوں مفروضے غلط ہیں۔ مچھر انسانی خون کی بو سے نہیں بلکہ سانس لینے کے دوران انسانوں کے منہ سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بو کی لپٹ پر لپکتے ہیں۔ اس لئے ہماری سانس جتنی غلیظ ہو گی یا ہم جتنی زور سے سانس لیں گے مچھر اتنے ہی زیادہ ہم پر حملہ آور ہوں گے۔ یعنی جو انسان ٹوتھ برش نہیں کرتے یا اپنے منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے وہ مچھروں کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم جاگنگ یا ورزش سے فارغ ہوتے ہیں تو ہمارا سانس دھونکی کی طرح چل رہا ہوتا ہے اور لامحالہ ہمارے منہ سے کابن ڈائی آکسائیڈ بھی زیادہ خارج ہوتی ہے تو اس وقت مچھروں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بھی دو گنا ہو جاتے ہیں اس لئے ورزش کے بعد خاص احتیاط کرنا چا ہئے۔ شراب اور بیئر پینے والے افراد بھی مچھروں کیلئے خاص کشش رکھتے ہیں کیونکہ نشہ کرنے کے بعد انسانوں کے جسم اور جلد کی کیمسٹری بدل جاتی ہے اور یہ بدلی ہوئی حالت ہی مچھروں کو اپنی طرف زیادہ راغب کرتی ہے۔

حاملہ خواتین کو خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک تو حاملہ خاتین کے جسم اور خاص طور پر پیٹ کا درجہ حرارت نارمل خواتین کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور پھر حمل کی حالت میں خواتین کا سانس بھی عام حالات کی نسبت زیادہ تیزی سے چلتا ہے جو مچھروں کو کشش کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اب سردیوں کی ابتدا ہو چکی ہے اور یہ بند جوتے پہننے کا موسم ہے۔ زیادہ دیر جرابیں اور بند جوتے پہننے سے پاؤں میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے اور پاؤں سے اٹھنے والی بو مچھروں کو انتہائی مرغوب ہوتی ہے اس لئے بند جوتے اور موزے اتارنے کے فوراً بعد انہیں کسی خوشبودار صابن سے دھو کر صاف کر لینا چاہئے تاکہ مچھروں سے محفوظ رہا جا سکے۔ چونکہ مچھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بو کی جانب راغب ہوتے اس لئے جہاں پر زیادہ لوگوں کا اکٹھ ہو گا تو یقینا وہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی زیادہ ہو گی جو مچھروں کے لئے دعوت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے شادی بیاہ‘ سالگرہ اور اسی طرح کے دیگر مواقع پر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھا چاہئیں۔

جہاں پر زیادہ گھاس پھونس اور سبزہ ہو وہاں پر مچھر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر کا باغیچہ انٹ شنٹ پودوں‘ جھاڑیوں وغیرہ سے اٹا ہوا ہے‘ پودوں اور درختوں کی کانٹ چھانٹ نہیں کی گئی اور جگہ جگہ پانی کھڑا ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ کا باغیچہ مچھروں کا مسکن ہے۔ ہاں اگر پودوں، درختوں اور باڑ وغیرہ کی تراش خراش کی جاتی ہے اور پانی بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا اور صفائی کا باقاعدگی سے خیال رکھا جاتا ہے تو پھر یہ باغیچہ مچھروں کے لئے زیادہ کشش انگیز نہیں ہوتا۔

کچھ گھرانے اور خاص طور پر متمول گھرانے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے گیراج یا عقبی دروازوں کے قریب ایسی برقی آلات نصب کرتے ہیں کہ جن میں سے کاربن ڈائیا ٓکسائیڈ اور ایک خاص قسم کی روشنی خارج ہوتی ہے جو مچھروں کو اپنی طرف راغب کر کے جلا دیتی ہے یا مار دیتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان آلات کی وجہ سے مچھر آپ کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کیونکہ ان آلات کی وجہ سے مچھر دگنا‘ تین گنا بلکہ کئی گنا زیادہ تعداد میں راغب ہوتے ہیں۔ بلاشک ان میں سے کئی آلات کی نذر ہو کر مر جاتے ہیں مگر ایک غالب تعداد ان سے بچ کر آپ کے گھروں میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر آپ مزید مشکل میں پھنس جاتے ہیں اس لئے ایسے آلات سے پرہیز ہی برتیں کہ جن سے پیسے کا زیاں بھی ہو اور مطلوبہ مقصد بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔

کچھ کمی سی ہے۔۔۔۔۔

$
0
0

چین کی صنعتی اور معاشی ترقی پوری دنیا کے لیے حیرانگی کا باعث ہے۔جائے نماز اور تسبیح سے لے کر کامن پن ، سوئی اور موٹرسائیکل اور کاروں سے لے کر جنگی طیاروں اور راکٹوں تک چینی دنیا کی ہرشے تیار کرتے ہیں۔ چینی ساختہ مصنوعات پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ ان کی کم قیمت اور بہتر معیار کی وجہ سے لوگ ان کو خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

امریکا جیسے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک میں بھی چینی مصنوعات چھائی ہوئی ہیں۔چین اپنی دولت کے ذریعے امریکا جیسے ملک کو اپنا مقروض بنا چکا ہے۔اس طرح چین اپنی دولت اور طاقت دونوں میں اضافہ کررہا ہے۔لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود چین میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کمی ہے جو اسے امریکا سے آگے نکلنے نہیں دے رہی۔یہی وہ کمی ہے جو اسے مغربی دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کم تر بناتی ہے۔ وہ کمی کیا ہے؟ وہ کمی ہے ، ایجاد ، اختراع اور دریافت کرنے کی صلاحیت کی کمی۔

چین سب کچھ بناتا ہے لیکن کچھ ایجاد یا دریافت نہیں کرتا۔وہ اختراع میں بھی امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے پیچھے ہے۔آئی فون آج اسمبل تو چین میں ہوتا ہے لیکن ایجاد امریکا میں ہوا تھا۔جدید جنگی طیارے امریکا میں تخلیق ہوتے ہیں لیکن ان کی نقل چین میں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔جدید ڈیزائن کی گاڑیاں اور نت نئے آلات بھی امریکا ، یورپ اور جاپان میں ایجاد اور تخلیق کیے جاتے ہیں لیکن چین ان کو بعد میں ہی نقل کرپاتا ہے۔چین آج دنیا بھر کی مصنوعات اپنے ملک میں تیار کرتا ہے لیکن یہ تمام مصنوعات امریکا یا یورپ میں ایجاد اور دریافت ہوتی ہیں۔ چین حقیقت میں محض ایک ’’عالمی ورکشاپ‘‘ بنا ہوا ہے جہاں ان چیزوں کی بڑے پیمانے پر یعنی ماس پروڈکشن ہوتی ہے جو دوسرے ممالک میں ایجاد ہوتی ہیں یا کبھی ایجاد ہوئی تھیں۔کیا چین نے جدید اشیاء میں سے کچھ ایجاد بھی کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی یہ کمی اس کی پائیدار ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

پائیدار ترقی کیسے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو اس وقت نہ صرف امریکا جیسے ممالک سے مقابلہ درپیش ہے بلکہ بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشت بھی اس کے مقابلے پر موجود ہے۔چین کی معاشی ترقی کی کئی وجوہات ہیں جن میں حکومتی امداد ، سستی لیبر اور سٹیٹ ڈائریکٹڈ فنانس ہے جو اس کے کامیاب مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ چین دنیا بھر کی اشیاء تیار کرکے اپنا مسقبل محفوظ نہیں بنا سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے چین کو ایجاد کرنے اور دریافت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ اسے چیزیں ڈیزائن کرنا ہوں گی۔ برانڈ کرنا اور مارکیٹ کرنا ہوں گی۔عالمی صنعت کے لیڈروں کی پیروی کرنے کے بجائے چین کو اپنے لیڈر خود پیدا کرنا ہوں گے۔

لیکن ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔دنیا میں بہت کم ممالک پرزے جوڑنے سے آگے نکل کر موجد بن پائے ہیں۔بہت کم ملک نقلچی کے درجے سے آگے نکل کر تخلیقی اور اختراعی درجہ حاصل کر سکے ہیں۔ چین کو ایسا کرنے کے لیے اپنی پوری معیشت کو اوور ہال کرنا ہوگا۔چینی کمپنیوں کو دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے خالص اپنی اشیا تخلیق کرنا ہوں گی۔انہیں ایسی اشیاء تیار کرنا ہوں گی جو اسی طرح اعلیٰ معیار اور خصوصیات کی حامل ہوں جس طر ح امریکا ، یورپ اور جاپان کی تیارکردہ اشیا ہوتی ہیں۔ اس کیلئے چین کو ایسی ہنر مندی اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے جو فی الحال اس کے پاس نہیں۔ اس کیلئے چین کو جن انتظامی مہارتوں کی ضرورت ہے، وہ بھی اس کے پاس موجود نہیں۔معیشت دان ولیم جین وے کا کہنا ہے کہ چین نے اس وقت جو کچھ بھی حاصل کیا ، وہ اگلے مرحلے میں داخل ہونے کیلئے کافی نہیں۔وہ کہتے ہیں: ’’موجودہ پالیسیوں اور افعال کے ساتھ وہ سب کچھ حاصل کرنے کیلئے آغاز کرنا بہت مشکل ہے جن کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی دریافت اور ایجاد کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا۔‘‘

 اصلاحات کی باتیں

چینی قیادت کو اس کا بھرپور احساس ہے۔بیجنگ میں چین کی نئی قیادت جس نے ایک سال قبل ہی کام شروع کیا تھا ، نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ فری مارکیٹ اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائیں گے جس کے تحت فنانس کو لبرلائز کیا جائے گا ، پرائیویٹ کاروبار کی مدد کی جائے گی اور تحفظ شدہ سیکٹر کو اوپن کیا جائے گا۔چینی وزیراعظم نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اصلاحات کے بغیر چین جدت یا ماڈرنائزیشن کی طرف نہیں بڑھ سکتا اور خود کو اوپن کیے بغیر بھی یہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔تاہم یہ عمل ابھی سست روی کا شکار ہے۔اس حوالے سے کچھ معنی خیز اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور کچھ اور اہم اقدامات بھی کیے گئے ہیں جیسے شنگھائی میں سرمایہ کی آزادانہ گردش والے سپیشل زون کا قیام ، تاہم یہ اقدامات بھی ابھی بہت چھوٹے ہیں۔چینی وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور ضدی بیورو کریسی کو نکیل ڈالنا ہوگی اوراس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی۔بینک آف امریکا کی معاشی ماہر میرل لائنچ نے خبردار کیا ہے کہ چینی قیادت تاحال واضح خصوصیات کی حامل اور نظام الاوقات کے مطابق اصلاحات کے لیے تیار نہیں۔ عالمی جریدے’’ٹائم‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں اپنی پائیدار ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے چین کو جن پانچ چیلنجز کا سامنا ہے (یعنی اس کی معیشت کی کمزوریاں)، وہ درج ذیل ہیں۔

1-چینی لیبر اخراجات میں اضافہ

اس سال جون میں میڈیکل آلات اور اشیاء بنانے والی امریکی کمپنی ’’ چپ سٹارنس‘‘ نے اپنی پلاسٹک مینوفیکچرنگ کا کام بیجنگ میں واقع فیکٹریوں سے بھارت منتقل کرنے کا اہم فیصلہ کیا۔اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جب کمپنی نے 34 ملازمین فارغ کیے تو باقی 110ملازمین نے بغاوت کردی۔پہلے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کی مرضی کے معاوضے دیے جائیں اور پھر انہوں نے بھارت کے لیے آلات کی پیکنگ کو کھٹائی میں ڈال دیا ۔پھر جب یہ افواہ پھیلی کہ امریکی کمپنی چین میں اپنا آپریشن مکمل طور پر ختم کرکے بھارت جارہی ہے تو ملازمین نے کمپنی کے امریکی ایگزیکٹو کو چھ دن تک اس کے دفتر میں یرغمال بنائے رکھا۔

چینی ملازمین کا طبقہ شاید اس واقعے کو پسند نہ کرے لیکن سٹارنس میں ملازمین کو جس صورت حال کا سامنا ہوا وہ شاید مستقبل میں ایک معمول بن جائے۔چین کو اس کی وافر اور سستی لیبر کی وجہ سے ہمیشہ فائدہ پہنچا ہے لیکن جس طرح چین میں بوڑھوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور نوجوان لیبر کی تعداد میں کمی آرہی ہے، اس سے اس کی لیبر فورس بھی گھٹ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ چین کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت میں بڑھتے ہوئے مواقع کی وجہ سے مزدوروں کے لیے محض پرزے جوڑنے والی فیکٹریوں میں ملازمت میں دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاوضے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سٹارنس کے بقول گذشتہ دس سال کے دوران ملازمین پر اخراجات کئی گنا بڑھ کر پانچ سو ڈالر ماہانہ تک پہنچ گئے ہیں اوراس قدر اضافے کے باوجود انہیں ملازمین کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں ممبئی پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں لیبر 75فیصد سستی ہے اور نہایت افراط میں ہے۔

چین میں ٹیلنٹ کے درمیان مسابقت اس قدر زیادہ ہے کہ ہر قسم کے ملازمین باقی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے ملازمین کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔ تنخواہوں کے حوالے سے مشاورتی فرم ’’مرسر‘‘ کی جانب سے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق چین میں ایک مشین آپریٹر سالانہ ساڑھے چھ ہزار ڈالر جبکہ ایک ہنر مند سیکریٹری سالانہ سوا گیارہ ہزار ڈالر تک کماتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں مشین آپریٹر سالانہ پونے پانچ ہزار ڈالر اور سیکریٹری لگ بھگ پونے نو ہزار ڈالر کماتا ہے۔دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس لیے چین کی راہ اختیار کی تھی کہ وہاں لیبر سستی ہے لیکن اب ایسا نہیں رہا۔اب یہ کمپنیاں دوسرے ممالک کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔

امریکا کے بعد اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث عالمی کمپنیوں کے لیے اس ملک میں دلچسپی کم ہورہی ہے۔ اس سے پہلے ہر امریکی ایگزیکٹو کے لیے پیداوار کا کام آف شور منتقل کرنے کے لئے چین پہلی چوائس تھا کیونکہ امریکا میں بہت زیادہ اخراجات کے باعث ان کیلئے اپنے ملک میں کام کرنا مشکل تھا تاہم اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث یہ امریکیوں کے لیے پسندیدہ چوائس نہیں رہا۔بوسٹن کنسلٹنگ گروپ (بی سی جی) کا کہنا ہے کہ چین میں بڑھتے ہوئے معاوضوں ، لیبر کی پیداواری صلاحیت اور دیگر اسباب کو مدنظر رکھا جائے تو 2015ء تک مینوفیکچررز کیلئے چین امریکا جتنا ہی مہنگا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بی سی جی کے امریکا کے بڑے مینو فیکچررز سے کیے جانے سروے کے نتائج پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہئے جس کے مطابق 21فیصد امریکی مینوفیکچررز یاتو اپنے کاروبارچین سے واپس امریکا لارہے تھے یعنی آف شورنگ سے ری شورنگ کی طرف آرہے تھے یا اگلے دوسالوں کے دوران ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

کھلونے بنانے والی کمپنی knex کے صدر مائیکل آرٹن نے 2009ء میں چین سے مینوفیکچرنگ واپس امریکا لانے کا کام شروع کر دیا ۔ چین میں مینوفیکچرنگ کا جائزہ لیتے ہوئے knex اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ چین میں اب کام کرنا اتنا فائدے مند نہیں رہا۔چین کے حوالے سے اس صورتحال کو ماہرین ’’چائنہ ہینڈی کیپ‘‘ کہتے ہیں یعنی اب چین میں آف شور کام کرنا نقصان دہ ہوچکا ہے کیونکہ چین میں بڑی بڑی فیکٹریاں چلانا ، ان کو مسلسل سپلائی دینا اور طویل فاصلوں کی وجہ سے اب یہ کام منافع بخش نہیں یعنی امریکا سے مینوفیکچرنگ کا کام اٹھا کر چین لے جانا۔یہی وجہ ہے کہ knex اپنا زیادہ تر کام یعنی پرزوں کی تیاری اور تکمیل شدہ پروڈکٹس کی فائنل ٹچنگ وغیرہ پنیسلوینیا میں واقع اپنے مرکز میں واپس لا چکی ہے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے منافع کو دوبارہ بحال کرچکی ہے۔

’’چین اب ہمارے لیے موزوں نہیں رہا۔‘‘مائیکل آرٹن کا کہنا تھا۔’’گذشتہ تیس سال کے دوران دنیا میں جوتجارتی تبدیلی آئی تھی، اس کا فائدہ چین کو ہوا تھا، لیکن دنیا میں دوبارہ تجارتی تبدیلی آرہی ہے اور اب اس کا فائدہ امریکا کو ہورہا ہے۔‘‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ صرف غیرملکی کمپنیاں چین سے نہیں جا رہیں بلکہ چینی کمپنیاں بھی اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک کا رستہ اختیار کررہی ہیں۔مثال کے طورپر جوتے بنانے والی ایک چینی کمپنی ’’ہوجیان‘‘ جو چین کے صنعتی قصبے ڈونگوان میں کام کرتی ہے ، نے افریقہ کے غریب ترین ملک ایتھیوپیا میں فیکٹری لگانے کے لیے پندرہ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ یہاں پر معاوضے چین کے مقابلے میں آٹھ گنا کم ہیں۔ ہوجیان کے افریقہ میں ملازمین کی تعداد اس وقت اٹھائیس سو ہے اور کمپنی اگلے پانچ سال کے دوران یہ تعداد تیس ہزار تک کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

2-ٹیکنالوجی کی کمتری

چین کی بعض کمپنیاں، جن میں ٹیلی کام کے آلات بنانے والے’’ہواوی‘‘ زیادہ قابل ذکر ہے، لائق تحسین عالمی مسابقت میں شریک ہیں۔لیکن ایسی چینی کمپنیاں بہت کم ہیں۔زیادہ تر ٹیکنالوجی میں خاصی پیچھے ہیں۔ہانگ ژو کی کمپنی Geely ، جس کے بانی لی شوفو ہیں، اس کی ایک مثال ہیں۔ان کی کمپنی نے 2006ء میں پہلی چینی کمپنی بننے کا اعزاز حاصل کیا جس نے امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں ہونے والے نارتھ امریکن انٹرنیشنل آٹو شو میں اپنی تیار کردہ کار کی نمائش کی۔اس کے بعد انہوں نے امریکا کے صارفین کے لیے اپنی چھوٹی سیڈان کاریں ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔ شوفو نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ان کی کاریں ابھی اس قابل نہیں کہ امریکا کی ٹف مارکیٹ کا مقابلہ کرسکیں۔

یہی مثال چین کی تمام کار کمپنیوں پر صادق آتی ہے۔چین کاروں کی صنعت میں امریکا اور جاپان کا مقابلہ کرنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن بے تحاشا سرمایہ کاری اور ریاستی سرپرستی کے باوجود چینی کار کمپنیاں دیگر غیرملکی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ خود چین میں کاروں کی ستر فیصد مارکیٹ پر چیوی ، واکس ویگن اور ہنڈائی چھائی ہوئی ہیں۔چین کی کار کمپنیاں زیادہ تر غریب ملکوں میں ہی اپنی کاریں فروخت کرتی ہیں جہاں صارفین معیار کے مقابلے میں کم قیمت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔گیلی سمیت چین کی کچھ کمپنیاں تو عالمی معیار کے مطابق کاریں تیار کرنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اسی فیصد چینی ساختہ کاروں میں بہت سے نقائص ہوتے ہیں۔چین میں جنرل موٹرز کے سابق صدر کیون ویل کے بقول چین کی کار انڈسٹری تاحال سیکھنے کے مرحلے میں ہے۔یہی حال چین میں بحری جہاز اور کشتیاں تیار کرنے کی صنعت کا ہے۔اس میں چین جاپان اور امریکا تو کیا جنوبی کوریا سے بھی پیچھے ہے۔چین پرانے ڈیزائن اور کارکردگی کی حامل بحری کشتیاں اور کنٹینرشپس تیار کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا کی کشتیاں کہیں معیاری اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔

3-فن اختراع اتنا آسان نہیں

چین میں بھی ایسی کمپنیاں ہیں جن میں فن اختراع پایا جاتا ہے جیسا کہ شانزن سے تعلق رکھنے والی کمپنی Tencent جو انٹرنیٹ اور موبائل سروس میں اپنی تخلیق صلاحیتوں کی وجہ سے خاصی مشہور ہے۔اس کا پیغام رسانی کا سسٹم WeChat بہت مقبول ہے۔ اس طرح ایک اور کمپنی Xiaomi چین میں اپنے کم مہنگے سمارٹ فونز کی وجہ سے ایپل کو ٹکر دے رہی ہے حالانکہ اسے مارکیٹ میں آئے صرف تین سال ہوئے ہیں۔تاہم چین میں اختراع کا جو رجحان ہے وہ موجودہ ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر ہی قائم ہے اور یہ نئے انقلابی آئیڈیاز پیدا نہیں کررہا۔اس طرح ٹیکنالوجی کی دوڑ میں چین امریکا سے کافی پیچھے ہے۔امریکی فرم جی جی وی کیپیٹل کے جیف رچرڈ کے بقول امریکا کی سلیکان ویلی کو چین پر واضح برتری حاصل ہے۔اس کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا ایکوسسٹم ہے جو بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا رہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے سکول بچوں کو ہر قسم کے ہنر سکھا رہے ہیں لیکن چین کا ایجوکیشن سسٹم بھی روایتی امتحانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور بچوں میں اختراعی اور تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنے میں سست روی کے باعث اس کے سسٹم کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔حتیٰ کہ سابق چینی وزیر اعظم وین جیابائو بھی ایک مرتبہ یہ کہنے پرمجبور ہوگئے تھے کہ طالب علموں کو صرف علم کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں یہ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اپنا دماغ کیسے استعمال کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کاپوریٹ مینیجرز چینی انجینئرز کو ان کے خول سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔رمیش بابو سونگوکرشنا سوامی جب ہنی ویل کے شنگھائی اور بیجنگ میں واقع آر اینڈ ڈی سنٹرزکے جنرل منیجر بنے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انجینئرز اپنے منصوبوں کے بارے میں بھی اپنے طورپر نہیں سوچ رہے تھے۔رمیش بابو کے بقول وہ وہی کچھ کرکے خوش تھے جس کا ان کو کہا جاتا تھا۔ رمیش بابو نے اس کا سبب یہ پایا کہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی نیا تجربہ کیا اور وہ ناکام ہوگیا تو کمپنی ناراض ہوگی۔ناکامی کا خوف کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔

4-چین کے عالمی برینڈز کی کمی

چین بے شمار اشیا بناتا ہے لیکن سوائے لینووو(Lenovo) اور ہائر(Haier) کے اس کے عالمی سطح پر پہچان رکھنے والے دیگربرینڈ دکھائی نہیں دیتے۔کھیلوں کے لباس اور دیگر اشیا بنانے والا چینی برینڈ Li Ning عالمی سپورٹس برینڈز نائیکی اور ایڈیڈاس کے مقابلے میں اپنے برینڈ کی تشہیر کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کرتا ہے حتیٰ کہ اس نے گذشتہ سال این بی اے کے سپرسٹار ڈیویان ویڈ کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ مصنوعات کی تشہیر کرسکے تاہم کمپنی عالمی صارفین کو لبھانے میں ناکام ہوگئی۔2013ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران اس کی سیلز کم ہوکر صرف پچیس فیصد رہ گئی۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنی صرف اپنی مدمقابل کمپنیوں کی پیروی کرتی ہے ۔ماہرین کے مطابق جب تک چینی کمپنیاں اپنے صارفین کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے نئے آئیڈیازکے ساتھ اشیاء نہیں بنائیں گی تب تک وہ عالمی معیار کے برینڈز تخلیق کرنے میں مشکل کا شکار رہیں گی۔

اسی طرح جینز اور شرٹس تیار کرنے والی کمپنی meters/bonwe کے بانی ژو چنگ جیان کی مثال ہے۔ان کی مصنوعات چین کے پانچ ہزار سٹورز پر بکتی ہیں۔ انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ’’ٹرانسفارمرز‘‘ میں اس کے مرکزی کردار شیا لابوف کی شرٹ پر اپنی کمپنی کا لوگو استعمال کیا اور اس پر کثیر سرمایہ خرچ کیا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مصنوعات کو چین سے باہر لانچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ابھی ان کا برینڈ اس قدر طاقت ور نہیں۔ ماہرین کے مطابق چینی معیشت کی یہ کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ امریکا سے آگے نہیں نکل پا رہی۔ چین مصنوعات کو عالمی معیار کا بنانے کے لیے انہیں اختراع اور تخلیق کے ساتھ ساتھ ایجاد اور دریافت کی راہوں پر چلنا پڑے گا لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔

5-اچھے منتظمین کی کمی

چینی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے کاروباری انتظامی (management) معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اگرچہ چین میں غیرمعمولی کارکردگی کے حامل کاروباری ادارے اور منتظم موجود ہیں لیکن جتنی ضرورت ہے، اس کے مطابق ایسے افراد اور ادارے تیار کرنا اچھا بھلا مشکل کام ہے۔چین میں یورپین چیمبر آف کامرس کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ سند یافتہ ہنر مند کارکنوں کی کمی چیمبر کے ارکان کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔جو قلیل تعداد میں ایسے کارکن ہیں وہ بھاری معاوضے مانگتے ہیں۔2012 کے دوران چین میں ایک اوسط درجے کے اپر مڈل منیجر کی تنخواہ ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو کہ امریکا سے بھی دو تہائی زیادہ ہے۔

بلیو ہورائزن ہاسپیٹیلیٹی گروپ کے سی ای او بوب بوئس کے مطابق باصلاحیت منیجر کے بے تحاشا معاوضے ہی اس وقت ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے ریستوران چین میں آٹھ سو ملازمین کام کرتے تھے اور ملازمت حاصل کرنے سے قبل کوئی بھی متعلقہ تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ ان کو زبردست ٹریننگ کے بعد اپنی اپنی فیلڈ میں تربیت یافتہ بنایا جارہا ہے اوراس کے بعد انہیں عہدے دیے جائیں گے۔ان میں سے کچھ اب ٹاپ کے منیجر بن جائیں گے۔اس کے لیے انہیں جو اقدامات کرنا ہیں ، وہ شاید امریکا میں غیرضروری سمجھے جائیں لیکن چین میں ضروری ہیں۔مثال کے طور پر ان کی ذمہ داریوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جیسے ایک منیجر کچن کو دیکھے گا ۔ ایک منیجر ویٹرز کی نگرانی کرے گا جبکہ ایک مختلف سہولیات پر نظر رکھے گا۔ ان تینوں منیجرز کی نگرانی ایک جنرل منیجر کرے گا اور ریستوران کی تمام شاخوں میں کھانے اور سہولیات سے لیکر صفائی ستھرائی سمیت ہر چیز کو بہتر بنائے گا۔ بوئس نے اپنے چائنہ میں واقع ریسٹورینٹ چین میں جتنے ملازمین رکھے ہوئے ہیں وہ امریکا میں رکھے گئے ملازمین سے تیس فیصد زیادہ ہیں۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود چین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تواتر کے ساتھ تنقید کرنے والوں کے منہ بند کرچکا ہے اور مایوسی پھیلانے والے حلقوں کی پیشگوئیوں کو ناکام بنا چکا ہے۔ معاشی سست روی کے دنوں میں بھی ملکی معیشت کی شرح شاندار رہی ہے اور اس سال کی تیسری سہ ماہی میں یہ 7.8 تک افزائش حاصل کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ اس ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اہم مجلس ہورہی ہے جس میں معاشی اصلاحات کے بارے میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔تاہم چین جیسے عظیم الشان حجم کے حامل ملک ، جس کی آبادی اور رقبہ دونوں بہت بڑے ہیں، اس کی معیشت کو جس طرح ترقی یافتہ بنایا گیا ہے ، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ماہرین کے مطابق امریکا کو اختراع اور ایجاد کی صلاحیت حاصل کرنے میں پچاس سال کا عرصہ لگا تھا جبکہ چین سے یہ کارنامہ دس سال کے عرصے میں دکھانے کی توقع کی جارہی ہے۔کسی بھی ملک ، چاہے یہ چین ہی کیوں نہ ہو، سے یہ توقع بہت زیادہ ہے۔

چین کی معیشت کے حوالے سے چند دلچسپ حقائق

٭ چین کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ سستی اور ہنر مند لیبر ہے تاہم لیبر اب چین میں بھی تیزی سے مہنگی ہورہی ہے۔مثال کے طورپر چین میں ایک فیکٹری ورکر ماہانہ 466 ڈالر تنخواہ لیتا ہے جبکہ ہنوئی میں ایک ویت نامی ورکر یہی کام 145 ڈالر ماہانہ میں کرتا ہے۔

٭ چین میں اس وقت جن برانڈز کی کاریں فروخت ہوتی ہیںان میں ٹاپ 10 برانڈ میں سے نو برانڈ امریکی ، جرمن ، جاپانی اور کورین ہیں جبکہ دسویں نمبر پر چینی برانڈ بائیڈ ہے۔

٭آئی فون چین میں بہت مقبول موبائل فون ہے۔آئی فون کا نیا ماڈل 5s چین میں اسمبل ہوتا ہے لیکن اس میں بہت کم حصہ چین کا ہوتا ہے۔آئی فون امریکا میں ڈیزائن ہوتا ہے اوراس کے تین چوتھائی پرزے بیرون ملک سے آتے ہیں۔

٭ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن دنیا کے طاقتور ترین برانڈز کے حوالے سے فوربس میگزین میں اس کی آٹھ انٹریز ہیں جبکہ چین کی کوئی انٹری نہیں حالانکہ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔

٭ بھارت میں ایک اپر مڈل منیجر ساٹھ ہزار ڈالر سے کم کماتا ہے جبکہ چین میں اس کی کمائی ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ چین میں اب معاوضے کم نہیں رہے جبکہ کم معاوضے اس کی معیشت کی گروتھ کا ایک بڑا سبب سمجھے جاتے تھے۔

چین سب کچھ بناتا ہے لیکن کچھ ایجاد یا دریافت نہیں کرتا، وہ اختراع میں بھی امریکا اور مغربی ممالک سے پیچھے ہے، آئی فون آج اسمبل تو چین میں ہوتا ہے لیکن ایجاد امریکا میں ہوا تھا، جدید جنگی طیارے امریکا میں تخلیق ہوتے ہیں لیکن ان کی نقل چین میں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، جدید ڈیزائن کی گاڑیاں اور نت نئے آلات بھی امریکا ، یورپ اور جاپان میں ایجاد اور تخلیق ہوتے ہیں لیکن چین ان کو بعد میں ہی نقل کرپاتا ہے، چین آج دنیا بھر کی مصنوعات اپنے ملک میں تیار کرتا ہے لیکن یہ تمام مصنوعات امریکا یا یورپ میں ایجاد اور دریافت ہوتی ہیں امریکا کے بعد اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث عالمی کمپنیوں کے لیے اس ملک میں دلچسپی کم ہورہی ہے، اس سے پہلے ہر امریکی ایگزیکٹو کے لیے پیداوار کا کام آف شور منتقل کرنے کے لیے چین پہلی چوائس تھا کیونکہ امریکا میں بہت زیادہ اخراجات کے باعث ان کے لیے اپنے ملک میں کام کرنا مشکل تھا تاہم اب چین میں بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث یہ امریکیوں کے لیے پسندیدہ چوائس نہیں رہا۔بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے مطابق 2015 تک مینوفیکچررز کے لیے چین امریکا جتنا ہی مہنگا ہوجائے گا۔

Viewing all 4663 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>