Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4666 articles
Browse latest View live

مشہورچہرے پہچانیے! ڈیمنشیا کی تشخیص کے لیے ایک اور مفید ٹیسٹ دریافت

$
0
0

 اگر مریض کو کسی مشہورشخصیت جیسے ایلوس پریسلے اور لیڈی ڈیانا یا کسی اور مشہور شخصیت کا چہرہ دکھایا جائے اور اسے کہا جائے کہ اس کی شناخت کرے تو اس طریقے سے اس میں خلل دماغ کی بیماری ڈیمنشیا کی قبل ازقت شناخت کی جاسکتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈاکٹر اس بیماری کی تشخیص کے لیے دماغ کے ضعف کی سکریننگ کا عام طریقہ استعمال کررہے ہیں لیکن امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چہروں کی شناخت کو بھی اس کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔جریدے ’’نیورولوجی‘‘ میں شائع ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق اس طریقے کے ذریعے ڈیمنشیا کے آغاز کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مزید تجربات کیے جارہے ہیں۔

شکاگو کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں کی جانیوالی ایک تحقیق کے مطابق جب ڈیمنشیا کے مریضوں کو بیس سے زائد مشہور شخصیات جن میں جان ایف کینیڈی ، البرٹ آئن سٹائن اور مارٹن لوتھر کنگ بھی شامل تھے، کے چہرے دکھائے گئے تو ان افراد کو اس قدر مشہور شخصیات کو شناخت کرنے میں بھی دشواری کاسامنا کرناپڑا۔شرکاء کو جو بھی چہرہ دکھایا گیااس کے بارے میں انہیں اشارے دیے گئے تا کہ وہ ان کا نام بتاسکیں۔جب وہ ان کا نام نہ بتاسکے تو انہیں کہا گیا کہ وہ تحریری مواد کو پڑھ کر ان کا نام بتادیں۔اس ٹیسٹ میں ستائیس شرکاء وہ تھے جن کو ڈیمنیشا کا عارضہ نہیں تھا جبکہ تیس اس کے مریض تھے۔ بیماری سے محفوظ شرکاء کے مقابلے میں چہرہ شناخت کرنے کے مقابلے میں مریض شرکاء کی کارکردگی بہت ناقص تھی۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ ایک معمولی بات دکھائی دیتی ہے کہ کوئی انسان کبھی کبھی کوئی چہرہ یا نام وغیرہ بھول جائے لیکن اگر کوئی انسان ایلوس پریسلے جیسی مشہور شخصیت کو بھی شناخت کرنے میں ناکام رہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی گہرا سبب ہے۔ڈیمنشیا کے شکار مریضوں کے جب دماغ کا سکین کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے دماغ کے وہ ٹشوز متاثرہ تھے جو چہروں کی شناخت کا کام کرتے ہیں۔

اسٹڈی کے سرکردہ مصنف ٹیمر گرفن نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس ٹیسٹ کو بھی دیگر ان ٹیسٹوں کے ساتھ شامل کیا جائے جن کو ڈیمنشیا کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹیسٹ کو دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت ڈیمنشیا کے ٹیسٹوں میں کئی قسم کے جھول اور اختلافات ہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ مختلف طریقوں کے ٹیسٹوں کو آزمایا جانا چاہیے۔ڈاکٹر پہلے ہی اس مرض کی تشخیص کے لیے مریضوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ یہ کون سا مہینہ اور موسم ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چہرہ شناخت کرنے والے ٹیسٹوں میں مشہور شخصیات کی تصاویر دکھاتے ہوئے ان کی عمر کا خیال رکھا جائے۔مثال کے طورپر پنتالیس سال کے مریض سے شاید یہ امید نہ کی جاسکے کہ وہ 1930ء کی دہائی کے کسی فلمی ستارے کا نام بتادے گا اور نہ ہی کسی اسی سالہ مریض سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آج کل کے کسی نوعمر پاپ سٹار کا نام بتاسکے۔

ڈاکٹر ماریا جانسن جو الزائمر ریسرچ یوکے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ مریضوں سے تفصیل کے ساتھ بات کی جائے اور ان کی صحیح صحیح تشخیص کی جائے تاکہ وہ مناسب ترین دستیاب علاج سے فائدہ اٹھاسکیں تاہم ڈیمنشیا کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم کی شناخت کرنا بھی خاصا مشکل کام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی سٹڈیز ہوتی رہنی چاہئیں کیونکہ اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ ڈیمنشیا کی مختلف اقسام سے دماغ کس طرح متاثر ہوتا ہے تاہم اس کے علاوہ ہمیں اس کے لیے تحقیق کے کاموں میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ بیماری کی بہتر اور درست تشخیص کی منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے جاسکیں۔

الزائمر سوسائٹی کی ترجمان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے ٹیسٹ کئی قسموں کے ان ڈیمنشیا کی شناخت میں مددگار ہوسکتے ہیںجن کو بصورت دیگر نظر انداز کردیا جائے۔تاہم چہروں کی شناخت والے ٹیسٹوں سے شاید تمام اقسام کے ڈیمنشیا کی شناخت نہ ہوسکے چنانچہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ آیا ان ٹیسٹوں کو کس طرح مزید سے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

مچھلی کھائیں ، گنٹھیا ہونے کا خدشہ آدھا رہ جائے گا
ایک بار پھر تصدیق ہوگئی کہ اچھی صحت کے لیے خوراک میں مچھلی کو لازمی شامل کریں

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہفتے میں کم ازکم ایک بار چکنائی والی مچھلی جیسے سالمن اور میکرل کھائی جائیں تو گنٹھیا لاحق کا ہونے کا خدشہ نصف حد تک کم ہوجاتا ہے۔یہ نتائج 32 ہزار سویڈش خواتین پر کی جانے والی اسٹڈی کے بعد سامنے آئے جس سے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ اچھی صحت کے لیے خوراک میں مچھلی کو ضرور شامل ہونا چاہیے۔ محققین کے مطابق مچھلی اس لیے بھی صحت کے لیے مفید ہوتی ہے کیونکہ اس میں اومیگاتھری آئل یا فیٹی ایسڈ ہوتا ہے اور یہ وہ فیٹی ایسڈ ہے جو دل اور دماغ دونوں کی حفاظت کرتا ہے۔

گنٹھیا کے مرض کے لیے مخصوص جریدے میں شائع میں ہونیوالی تحقیق کے مطابق مچھلی اور اومیگا تھری آئل دافع ورم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ گنٹھیا سے لڑتے ہیں۔ رپورٹ میں مزیدکہا گیا کہ ہیرنگ ، میکرل ، پلچارڈ ، سالمن ، سارڈین ، ٹراؤٹ اور ٹیونا مچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور وٹا من ڈی بکثرت پایا جاتا ہے۔

بعض سفید مچھلیوں اور شیل فش میں بھی اومیگا تھری پایا جاتا ہے لیکن اس کی مقدار چکنائی دار مچھلیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔غذائی سفارشات کے مطابق ایک صحت مند متوازن خوراک میں ہفتے میں کم ازکم دو پورشن مچھلی بھی ہونی چاہیے اور اس میں ایک پورشن چکنائی والی مچھلی کا ہونا چاہیے۔ ایک پورشن چکنائی والی مچھلی کا مطلب ہے کہ پکنے کے بعد اس کا وزن ایک سو چالیس گرام تک ہوتا ہے۔

حاملہ خواتین یا وہ خواتین جو مستقبل میں ماں بننے والی ہیں ان کو ہفتے میں کم از کم دو پورشن سے کم چکنائی دار مچھلی نہیں لینی چاہیے کیونکہ اس میں آلودگی کی سطح بہت کم ہوتی ہے جو کہ جسم میں جمع ہوسکتی ہے۔مذکورہ اسٹڈی جو لگ بھگ ایک عشر ے پر مشتمل تھی ، اس میں دیکھا گیا کہ جو عورتیں ہفتے میں کم ا زکم ایک مرتبہ کسی بھی قسم کی مچھلی کھاتی رہی تھیں ان میں گنٹھیا لاحق ہونے کا خدشہ ایک تہائی تک کم ہوگیا تھا جبکہ جن عورتوں نے ہفتے میں کم ازکم ایک مرتبہ چکنائی دار مچھلی کا ایک پورشن کھایا تھا ان میں یہ خدشہ نصف حد تک کم ہوگیا تھا۔

اسٹڈی میں مچھلی کے تیل پر مشتمل سپلیمنٹ کی بات نہیں کی گئی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی مفید ہوسکتے ہیں۔آرتھرائٹس ریسرچ یوکے کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ایلن سلمین نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف شواہد ملنے کے بعد ہم یہ جان چکے ہیں کہ جن افراد میں متحرک گنٹھیا ہے وہ مچھلی کا تیل لیکر اس کی شدت کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ مقدار میں مچھلی کا تیل لینے سے جوڑوں میں ورم کو ابتداء میں ہی کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ تاہم اس میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے خوراک میں بڑے پیمانے میں تبدیلی کرنا ہوگی۔رپورٹ میںبتایا گیا کہ دنیا میں اس وقت کروڑوں کی تعداد میں افراد جوڑوں کی تکلیف دہ بیماری گنٹھیا میں مبتلا ہیں۔یہ بیماری جیسے جیسے بڑھتی ہے دفاعی نظام جوڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اوران کو سخت اورسوجا ہوا کرکے شدید تکلیف کا باعث بنادیتا ہے۔

چین میں ادویہ ساز کمپنیوں نے رشوت کو معمول بنالیا
ادویات کی فروخت کے لیے رشوت دیتی ہیں اور رشوت کا پیسہ قیمتیں بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین میں کام کرنیوالی دوا ساز کمپنیوں کا معمول ہے کہ وہ حکام کو رشوت دیتی ہیں۔پانچ ادویاتی سیلز مینوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کمپنیاں اپنی ادویات کی فروخت بڑھانے کے لیے رشوت سے کام لیتی ہیں۔ان میں سے کسی بھی سیلز مین نے اپنا نام نہیں بتایا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

یہ انکشاف ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب چینی حکومت ایک بڑی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے رشوت کے استعمال کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد ادویات کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے تحقیقات میں مصروف ہے۔ایک سیلز مین نے بتایا کہ اس کمپنی نے ایک ہسپتال میں اپنی دوا کا دوبارہ استعمال کرنے کے لیے ایک ہزار ڈالر رشوت دی۔سیلز مینوں نے بتایا کہ اگر کمپنی رشوت نہ دے تو اسے ادویات کی فروخت کے حوالے سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ایک اور سیلز مین نے بتایا کہ وہ اس بات کی تردید نہیں کرے گا کہ غیر ملکی کمپنیاں اپنی ادویات کی فروخت کے لیے ڈاکٹروں کو رشوت دیتی ہیں۔اس نے مزید کہا کہ ایسا بہت کم ہوتاہے اور بہت کم ڈاکٹر رشوت لیتے ہیں کیونکہ چین میں رشوت کی سزا بہت سخت ہے۔

اس نے ایک مثال دی کہ کس طرح ایک ہسپتال کی انتظامیہ نے اس کی کمپنی کی دوا کو اپنے ہسپتال کی لسٹ سے خارج کردیا جو کہ اس کے لیے اور اس کی کمپنی کے لیے بہت شرمندگی کی بات تھی۔اس نے بتایا کہ اگر ہم اپنی دوا دوبارہ ہسپتال کی لسٹ میں شامل کرنے کے لیے معمول کاطریقہ کار اختیار کرتے تو اس میں بہت زیادہ پیسہ اور توانائی خرچ ہوتی۔ لہٰذا انہوں نے تیز طریقہ یعنی رشوت کا استعمال کیا۔

اس نے مزید بتایا کہ ہسپتال کے شیلفوں میں کمپنی کی دوا دوبارہ پہنچانے کے لیے جو پیسے دیے گئے وہ یقینی طورپر رشوت تھی اور کمپنی کے منیجر نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔اس نے کہا کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو ہمیں اور بھی زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے اور بے شمار توانائی الگ خرچ ہوتی۔اس نے کہا کہ جیسے اور بہت سے کاموں کو جلدی سے مکمل کرانے یا فائلیں جلد ازجلد کلیئر کرانے کے لیے رشوت دی جاتی ہے، اسی طرح ادویات ساز کمپنیاں بھی اپنے مفاد کے لیے رشوت کو استعمال کررہی ہیں۔

یاد رہے کہ چینی پولیس نے گذشتہ ماہ ایک بڑی ادویات ساز کمپنی پر الزام لگایا تھا کہ وہ چین میں ’’مافیا‘‘ کی طرح کام کررہی ہے۔اس پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے مختلف ہسپتالوں اورڈاکٹروں کو 320 ملین پاؤنڈ رشوت دی اوراس کے لیے ٹریول ایجنسیوں کو استعمال کیا۔ فرم کے ایک زیرحراست چینی ایگزیکٹو نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اس کی کمپنی نے جو رشوت دی اس کی وجہ سے ادویات کی قیمتو ں میں ایک تہائی کااضافہ ہوگیا۔ مذکورہ ادویات ساز کمپنی نے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں چینی حکام سے تعاون کررہی ہے۔یاد رہے کہ اس عشرے کے اختتام تک چین میں ہیلتھ کیئر پر اخراجات دوگنا ہونے کا امکان ہے۔تحقیقات کے ذریعے رشوت جیسے مسئلے پر قابو پاکر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو روکا جاسکتا ہے۔


سادھو بیلہ : خوب صورتی اور عقیدت کا سنگم

$
0
0

 سادھو بیلہ کا لفظ سنتے ہی لوگوں کے ذہن میں درویش اور گھنے جنگل کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔

اٹک سے لے کر کراچی کے ساحل تک دریائے سندھ پر یہ واحد قدرتی جزیرہ ہے، جس پر ملک کا سب سے بڑا مندر (تیرتھ استھان) موجود ہے۔ 1823 میں ہجرت کرکے آنے والے بابا بنکھنڈی مہاراج نے دریائے سندھ کے جزیرے پر پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع کیا۔

 

یوں تو ہر روز ہی دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین ہندو عقیدت مند، دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم تیرتھ استھان سادھو بیلہ میں مذہبی رسومات (پوجا پاٹ) کرنے کے لیے آتے ہیں۔ خصوصاً ہر سال اسھاڑ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ہونے و الے سالانہ میلے کے موقع پر انڈیا، برطانیہ، کینڈا، امریکا سمیت دنیا بھر میں قیام پذیر سندھی ہندو یہاں پر رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔

پاکستان میں ہندوؤں کے چھوٹے بڑے ہزاروں مندر اور مذہبی مراکز موجود ہیں، مگر دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم سادھو بیلہ اور بلوچستان کے ہنگلاج ماتا مندر کو تیرتھ استھان کا اعزاز حاصل ہے۔ عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم چھوٹے ایک ہزار مندروں میں عبادت کرتے ہیں اس کا ثواب ایک طرف اور تیرتھ استھان سادھو بیلہ میں عبادت کرنے کا ثواب ایک طرف ہوتا ہے۔

ہندو برادری کے افراد مرنے والوں کی ارتھی کی راکھ یہاں ڈالتے ہیں، تاکہ مردے کو زیادہ ثواب حاصل ہو۔ عقیدت مندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار سو سال قبل جب تعلیم اتنی عام نہیں تھی تو سادھوؤں کی پہچان کے لیے ان کے ہاتھ یا جسم پر مہر لگائی جاتی تھی جس سے ان کے متعلقہ مذہبی گروہ کا کا معلوم ہوتا تھا اور وہ جب اس دنیا سے رخصت ہوتے تھے تو اس ہی گروہ کی رسومات کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔

 

قیام پاکستان کے فوری بعد پولیس کی جانب سے سادھو بیلہ کے گدی نشین بابا گنیش داس کو حراست میں لے لیا گیا۔ وہ ایک ماہ تک قید میں رہے اور رہائی کے فوری بعد وہ بھارت منتقل ہوگئے۔

سادھو بیلہ میں 12دیگر چھوٹے بڑے مندر اور سماھادیاں ہیں۔

کم و بیش 9ایکڑ رقبے پر محیط تیرتھ استھان کے علاوہ سادھو بیلہ میں 1۔ بابا بنکھنڈی مہاراج مندر،2۔ ماتا انپوری مندر، 3۔ ہنومان مندر، 4۔ سری چن مندر، 5۔ گنیش مندر، 6۔ شیو مندراول ، 7۔ شیو مندر دوئم، 8۔ راما پیر مندر، 9۔ باراں سمادھیاں ہیں، جب کہ سنت سوامی نارائن مندر کی اصل جگہ معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

اس کے علاوہ 2سماھادیاں سنتوں (پجاری) کی بھی ہیں۔ سادھوبیلہ میں اس وقت 48 کمرے ہیں جو باہر سے آنے والے یاتریوں کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ہندو پنچایت کی جانب سے زائرین کو تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ سادھو بیلہ میں ایک لائبریری بھی قائم ہے جس میں سیکٹروں کتابیں موجود ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ یاتری آگ کی پوجا، گنیش دیوتا کی پوجا کرتے ہیں۔

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر آصف علی زرداری نے ہندوؤں کی اس عبادت گاہ کی بہتری کے لیے48 کروڑ روپے کا پیکیج دیا، جس سے یاتریوں کو بہتر سہولیات مہیاکرنے کے لیے مزید 74کمرے، پانچ جدید ہال، سندھ کے صوفیوں، درویوشوں سے متعلق گیلری قائم کی گئی اور تزئین وآرائش کا کام کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس رقم سے سادھو بیلہ کو سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے دیوار بھی تعمیر کی گئی۔

سادھو بیلہ میگا پروجیکٹ:
نگراں صوبائی حکومت کے دور میں ترقیاتی کام کو بہتر انداز سے مکمل کرنے کے لیے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں سکھر کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے 6اراکین و دیگر افراد شامل کیے گئے۔ تعمیراتی کام کی ابتدا ہی میں منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ منارٹیز افیئر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سادھو بیلہ میگا پروجیکٹ پر یکم جنوری 2013ء کو48کروڑروپے کی خطیر رقم سے شروع کردہ کام 3سال میں مکمل ہونا ہے۔ شہر سمیت ملک بھر سے آنے والی ہندو عقیدت مندوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے کام جاری ہے اور اب تک 20 فی صد کام کو مکمل کر لیا گیا ہے۔

گدی نشین: 9 جون 2013ء کو سوامی اچاریا، وشو درشن جی مہاراج سادھو بیلہ کے نئے گدی نشین بنے۔

متروکہ وقف املاک بورڈ پاکستان کا کردار:
دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم ہندوؤں کی سب سے بڑی عبادت گاہ سادھو بیلہ کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے متروکہ وقف املاک کی جانب سے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ایک نگراں امتیاز علی میرانی، 2 پجاری راجیش، اشوک کمار، 2ملازمین غلام قادر اور منظور احمد کنارے سے سادھو بیلہ تک آنے والے عقیدت مندوں کو کشتی کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔

سادھو بیلہ کے وسیع لان اور درختوں کی دیکھ بھال کے لیے محمد ابراہیم، لال ڈنو اور محمد علی مالی کے فرائض انجام دیتے ہیں، جب کہ 10سیکیوریٹی اہل کار، صفائی ستھرائی کے لیے سینیٹری ورکرز اور چوکیدار بھی موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے دیکھ بھال، سالانہ لگنے والے میلے اور رنگ و روغن کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ روپے سالانہ 10لاکھ روپے ہندو پنچایت کمیٹی کے حوالے کیے جاتے ہیں۔

ہندو پنچایت کے مکھی ایشور لعل ماکیھ جا کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندوؤں میں ہمالیہ سے نکلنے والی گنگا اپنے تقدس کی وجہ سے اہم مانی جاتی ہے اور اس کے کنارے بسے ہوئے کاشی، پریاگ، ہری دوار وغیرہ مقدس مقامات مانے جاتے ہیں اور وہاں پر نہانا اور دان کرنا فائدے مند سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوؤں کے اس تیرتھ استھان پر خاص مواقع پر نہانا یا اشنان کرنا ثواب کام کام سمجھا جاتا ہے۔ شری سادھو بیلہ جیسے مقدس استھان پر پوجا پاٹھ کرنا دوسرے مقامات سے زیادہ فائدہ مند ہے، کیوں کہ یہاں پر عظیم درویشوں نے پوجا، چلہ کشی اور تپسیا (بندگی) کی ہے، اس لیے یہ مقام زیادہ مقدس بن گیا ہے اور یہاں پر اپنے آپ کو سدھارنا اور دھیان لگاکر عبادت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

سادھو بیلہ بننے سے پہلے یہاں پر دو پہاڑیاں ہوتی تھیں اور گھنا جنگل ہوتا تھا، جس کا ذکر ہندو مذہب کی سب سے پہلی مقدس کتاب ’’رگ وید‘‘ میں بھی ہے۔ یہ مقام دریا کے وسط میں واقع ہے اور اسے ’’میناک پربت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں پر بڑے بڑے رشی منی (مہارشی) عبادت کرتے تھے۔ ہندو مذہب کی کتابوں کے مطابق بڑے بڑے رشی منیوں سے میناک پربت کی تعریف سن کر سادھو بنکھنڈی بابا نیپال سے یہاں آئے اور ٹھیک اسی جگہ میناک پربت پر سادھو بیلہ کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ ہندو درھم میں دریائے سندھ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ رگ وید میں ’’سندھو دریا‘‘ کا ذکر سو سے بھی زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے، جب کہ گنگا ندی کا ذکر صرف دو جگہ پر کیا گیا ہے۔

سادھو بیلہ میں ہندو عقیدے کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے چکر تیرتھ اور برہم تیرتھ ہیں۔ دریائے سندھ پہلے نارائن سر کے مقام پر سمندر میں شامل ہوجاتا تھا، لیکن ایک زلزلے کی وجہ سے یہ علاقہ سمندر میں غرق ہوگیا اور اب دریائے سندھ کیٹی بندر کے قریب سمندر میں جاگرتا ہے۔ دریائے سندھ کی لمبائی 1700 میل ہے۔ ہندو عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ان کے دھرم کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لیے مختلف مقامات ہیں جو سادھوؤں، رشیوں اور دیوتاؤں نے اپنے رہنے کے لیے اپنالیے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مقامات لوگوں کی خوش حالی کے لیے تیرتھ استھان کا درجہ رکھتے ہیں۔

ایسے مقدس مقامات پر دان، کریا کرم، چلہ کشی اور پوجا پاٹ کرنا چاہیے، دوسری طرف لوگ بیمار ہوتے ہیں، غریب، اپاہج ہوتے ہیں، یہ لوگ موت سے پہلے اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی کے لیے اس مقام پر آتے ہیں۔ ہندو مذہب کے مطابق ان تیرتھ استھان پر کوئی اگر تھوڑی سی نیکی کرے تو بہت ثواب ملتا ہے اور اگر تھوڑا سا ہی پاپ کرے تو بہت دکھ سہنے پڑتے ہیں۔

سادھوبیلہ انتظامی کمیٹی کے چیئر مین موکیش کمار کارڑا کہتے ہیں کہ سادھو بیلہ کے بانی بابا بنکھنڈی مہاراج اداسین کا جنم دھرم کھیتر کر کھیتر کے مقام پر پنڈت رام چندر شرما گوڑ برہمن کے گھر میں ہوا۔ ان کا نام بھالچند شرما تھا۔ 9 برس کی عمر میں اپنی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے بہت سا علم حاصل کیا اور تب ان کے والد نے بڑی محبت و عزت سے اس بچے کو شری میلا رام اداسین کے حوالے کیا، جنہوں نے 1830 میں اپنا شاگرد (چیلا) بناکر اداسین فرقے میں شامل کرلیا اور بنکھنڈی نام رکھ دیا۔ انہوں نے 16 برس کی عمر میں مذہبی تعلیم میں مہارت حاصل کرلی اور لاتعداد یاترائیں کرتے ہوئے سندھ آئے اور بہ حساب 1880 بیساکھ کے بڑے دن پر اس استھان پر پدھارے جس کا نام انہوں نے شری سادھو بیلہ رکھا۔

اس مقام پر انہوں نے جگت گرو سریچند مہاراج کی تپسیا کی اور جگت گرو نے انہیں درشن دیتے ہوئے یہ دعا دی کہ یہ استھان دنیا بھر میں ایک مقدس مقام مانا جائے گا۔ بابا سریچند بابا گرو نانک کے بڑے فرزند تھے اور انہیں شو شنکر کا اوتار مانا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی پرانے پنتھ ’’اداسین‘‘ میں ایک نئی روح پھونکی اور ان کی کاوش سے یہ پنتھ سندھ میں پھیلا اور آج جتنے بھی اداسین مندر ہیں اس کا سہرا جگت گرو بابا سریچند کے سر جاتا ہے۔ جگت گرو نے بابا بنکھنڈی کو ہدایت کی کہ وہ انپورنا دیوی کی پوجا کریں۔

دریائے سندھ جب سکھر کے قریب سادھو بیلہ کے چاروں طرف چکر لگاکر جہاں پر چکر ختم کرتا ہے اس مقام پر ایک گھاٹ بنایا گیا، جس کا نام رکھا گیا دکھ پنجنی گھاٹ۔ یہاں پانی اندر تک آتا ہے۔ ہندو عقیدت مندوں کا کہا جاتا ہے کہ اس گھاٹ پر نہانے سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے یہ تیرتھ استھان بنایا گیا ہے۔

جس جگہ سنگ مرمر کا سنگھاسن ہے وہاں تین بڑے بڑے سایہ دار درخت لگے ہوئے ہیں، جو بنکھنڈی مہاراج نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے۔ یہ درخت ترشول کی شکل میں لگائے گئے ہیں۔ ایک گدی کے مشرق کی طرف، دوسرا مغرب کی طرف اور تیسرا گدی کے عین سامنے۔ آج 180 سال گزرنے کے باوجود یہ درخت قائم ہیں، ان درختوں کے نام ہیں، برہما، وشنو اور مہیش۔

بابا بنکھنڈی 60 سال کی عمر میں یہاں آئے، 40 سال سادھو بیلہ میں رہے، اس میں سے 20 سال تالپوروں کی حکومت تھی اور بعد میں 20 سال انگریز سرکار رہی، لیکن اس عرصے کے دوران بابا بنکھنڈی نے نہ پکا بندر بنوایا اور نہ ہی کوئی پکا مندر یا کوئی پکی عمارت تعمیر کرائی۔ دنیا سے جانے سے پہلے اپنے قریبی چیلے ہرنارائن داس اور بھائی ہرپرشاد کو حکم دیا کہ پکا بندر اور اندر پکا مندر اور سادھوؤں کے رہنے کے لیے پکی کٹیائیں بنائی جائیں۔ بابا بنکھنڈی نے پہلے سنگھاسن گدی بنائی اس کے بعد دھونی جو کہ عین گدی کے سامنے ہے۔

 

اس کے بعد انپورنا دیوی کا استھان، پھر پنگت والا شیو لنگ (مہادیو) اور بعد میں گنیش، ہنومان، گرو سریچند، ست نارائن اور کیلاش مہادیو وغیرہ کی مورتیاں رکھی گئیں۔ بابا بنکھنڈی کا جسم دریائے سندھ کے پانی کے حوالے کردیا گیا۔ سادھو بیلہ کے نام سے دنیا بھر میں سکھر کے اس مقدس استھان کی شاخیں بنائی گئی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن سندھ اسمبلی دیوان چند چاؤلہ کا کہنا ہے کہ سادھو بیلہ کی اربوں روپے کی پراپرٹی شہر سمیت ملک و بیرون ملک موجود ہے۔ سادھو بیلہ اور بابا بنکھنڈی مہاراج کے چاہنے والوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل، کوئٹہ اور بھارت کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کالج، یونیورسٹی، انجینئرنگ یونی ورسٹی، اسپتال، دھرم شالا، درس گاہیں، سادھو بیلہ کے نام مختص کر رکھی ہیں جب کہ سکھر شہر میں بندر روڈ پر مختلف علاقوں گؤشالہ سے لے کر گلیمر سینٹر تک قیمتی اراضی موجود ہے۔

سادھو بیلہ کی بیشتر اراضی پر بااثر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سادھو بیلہ میں حکومت کی جانب سے خطیر رقم سے شروع کردہ تعمیراتی کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے انہوں نے سندھ اسمبلی میں آواز اٹھائی ہے اور تجویز پیش کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سے ایک ایک رکن لے کر کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ترقیاتی کاموں میں ہونے والی مبینہ کرپشن اور اس میں ملوث افراد عوام کے سامنے آسکیں۔

وینس : ایک دیومالائی شہر ۔۔۔۔۔

$
0
0

آپ نے شیکسپیئر کی کہانی ’’وینس کا تاجر‘‘ تو ضرور پڑھی ہوگی جس میں ایک ایسے تاجر کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنے دوست کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔

لیکن وینس کوئی فرضی شہر نہیں جسے محض کسی کہانی میں بیان کیا گیا ہو بلکہ یہ حقیقی معنوں میں ایک جیتا جاگتا اور حیرت انگیز شہر ہے۔یہ دیومالائی شہروں جیسا شہر اٹلی میں واقع ہے جس کے قدرتی حسن اور انوکھے پن کی ایک دنیا گواہ ہے۔ یہ شہر شمال مشرقی اٹلی میں ایک سمندری کھاڑی کے بیچوں بیچ واقع ہے ۔ اسے طلسماتی اور جادوئی شہر بھی کہا جاتا ہے اور اس کے پس منظر میں کئی کہانیاں لکھی جاچکی اور فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ یہ ایک ایسا شہر ہے جس میں سڑکوں کی جگہ نہریں اور گاڑیوں کی جگہ کشتیاں چلتی ہیں کیونکہ یہ سمندری کھاڑی کے بیچوں بیچ تعمیر کیا گیا ہے جس میں مختلف علاقوں اور حصوں کو پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں سفر کے لیے کشتیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔جس طرح لاہور شہر میں ایک نہر بہتی ہے ، اسی طرح اس شہر میں سینکڑوں نہریں بہتی ہیں اور سڑکوں کا کوئی وجود نہیں کیونکہ نہریں ہی سڑکوں کا کام کرتی ہیں۔

ہے ناں دلچسپ بات !!! ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا ’’چلتے ہیں تو چین کو چلیے‘‘ لیکن اب دنیا میں پرکشش مقامات کی کمی نہیں جس میں وینس سرفہرست ہے۔ اس سے اس شہر کی سیاحت کی بڑھتی ہوئی مانگ کا پتہ چلتا ہے۔دنیا گھومنے کے شوقین لوگ وینس ضرور جاتے ہیں۔

وینس اپنے محل وقوع ، اپنے آرکی ٹیکچر اور آرٹ کی وجہ بھی دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ شہر کس قدر انوکھا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس پورے شہر اور اس کی سمندری کھاڑی کو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ یعنی عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔وینس اٹلی کے صوبے یا ریاست وینیٹو کا صدرمقام ہے۔ 2009ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس شہر کے مرکزی حصے میں لگ بھگ پونے تین لاکھ نفوس رہتے ہیں جبکہ آس پاس کے علاقوں اور مضافات کو ملا کر اس کی آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے۔اس کے اہم علاقوں میں کمیون آف وینیزیا ، ٹیرافرما ، پاڈوا اور ٹریویسو شامل ہیں۔ پاڈوا ، ٹریویسو اور وینس کو ملا کر یہ شہر میٹرو پولیٹن بن جاتا ہے ۔

وینس کی وجہ تسمیہ
وینس کا نام اس کے قدیم ’’وینیٹی‘‘باشندوں سے اخذ کیا گیا ہے جو دسویں صدی قبل از مسیح میں وہاں پر آباد تھے۔تاریخی طور پر بھی یہ شہر ریاست وینس کا صدر مقام تھا۔ریاست وینس زمانہ وسطیٰ کی ایک بڑی بحری طاقت تھی اور ان علاقوں میں سے ایک تھی جہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تھا۔یہ اپنے زمانے کا اہم تجارتی مرکز تھا جہاں پر ریشم ، اناج اور مصالحوں کی تجارت ہوتی تھی۔ تیرھویں سے سترھویں صدی تک یہ آرٹ کے اہم مراکز میں بھی شامل تھا۔ان تمام خصوصیات کی وجہ سے تاریخ کے زیادہ تر ادوار میں وینس ایک دولت مند شہر رہا تھا۔

وینس کے علاوہ اس شہر کو اور بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جو اس کے پیار کے نام ہیں جیسے ’’ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘، ’’پانیوں کا شہر‘‘، ’’نقابوں کا شہر‘‘، ’’پلوں کا شہر‘‘، ’’تیرتا شہر‘‘، ’’نہروں کا شہر‘‘ وغیرہ۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں اس شہر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا خوبصورت ترین شہر ہے۔ اسے یورپ کا سب سے رومانوی شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ اٹلی کا ایک مردم خیز خطہ بھی تھا جس نے انٹونیو ویوالڈی سمیت کئی نابغہ ء روزگار شخصیات کو جنم دیا۔

تاریخ
اگرچہ ایسا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں جو ہمیں براہ راست آگاہی فراہم کرتا ہو کہ وینس شہر کا قیام کب اور کیسے عمل میں آیا۔ تاہم دستیاب روایات اور شواہد سے متعدد مورخ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وینس کی اصل آبادی مختلف رومن شہروں جیسے پاڈوا ، ایکویلیا ، ٹریویسو ، الٹینو اور کونکورڈیا اور دیگر دفاع سے محروم دیہاتی علاقوں کے مہاجروں پر مشتمل تھی جو جرمن اور ہن حملہ آوروں سے جانیں بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہورہے تھے۔بعد کے کچھ رومن ذرائع کے مطابق وینس کے اصل دلدلی جزیرے پر کچھ ماہی گیروں کا بھی پتہ چلتا ہے۔

وینس کے مشہور مقامات اور تفریحات
اگر آپ وینس کی سیاحت کو جانا چاہتے ہیں یا وینس کے بارے میں ویسے ہی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آئیے آپ کو اس کے چند مشہور مقامات کے بارے میں بتاتے ہیں جن کی سیر کو جائے بغیر وینس کی سیاحت ادھوری رہتی ہے:

St. Mark’s Square ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک چوراہا ہے جو ممکنہ طورپر دنیا کا سب سے مشہور چوک یا سکوائر ہے۔اطالوی زبان میں اس کا پورا نام Piazza di San Marco ہے اور اس کے ارد گرد شاندار تاریخی عمارات ہیں جن کو دیکھ کر قدیم وینس سلطنت کی طاقت اور دولت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

St. Mark’s Basilica وینس کا سب سے مشہور گرجا گھر ہے۔اس کے عظیم الشان فن تعمیر سے بھی وینس کے قدیم جلال وحشمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
Bridge of Sigh بھی وینس کا قابل دید مقام ہے۔ یہ چھت دار پل ڈاگس محل کو ریو ڈی پلازو کے قیدخانوں سے ملاتا ہے۔ یہ پل وینس کے چند مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
Grand Canal وینس کی مرکزی نہر اور واٹر ٹریفک کا ذریعہ ہے۔ یہ نہر پورے شہر میں سے گذرتی ہوئی جاتی ہے۔ اس کے آس پاس دیکھنے کو شاندار عمارتیں اور رہائشی مقامات ہیں۔

Doge’s Palace کا محل گوتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے جو ایک زمانے میں وینس کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ یہاں سے ڈاگ اور ان کی حکومت نے وینس کی سلطنت پر طویل عرصہ حکمرانی کی۔
Rialto Bridge طویل عرصہ تک سان مارکو اور سان پولو اضلاع کے درمیان گرینڈ کینال کو پار کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ پل سولہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس پر بہت سی دکانیں موجود ہیں۔
Gondola وینس کی ایک قسم کی کشتیاں ہیں جو کسی زمانے میں ٹرانسپورٹ کا اہم ترین ذریعہ تھیں۔ اب یہ کشتیاں وینس کی سب سے پرکشش تفریح ہیں۔ ان کشتیوں کے ذریعے بڑی تعداد میں سیاح گرینڈ کینال اور دیگر چھوٹی نہروں کی سیر کرتے ہیں۔

St. Mark’s Campanile وینس کا بلند ترین گھنٹہ گھر ہے اور شہر کی مشہور ترین عمارت بھی ہے۔سولہویں صدی کا یہ ٹاور 1902 میں زمین بوس ہوگیاتھا جسے دس سال بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔
Riva Degli Schiavone بھی شہر کا ایک معروف آبی تفریح مقام ہے جو ہر وقت سیاحوں سے اٹا رہتا ہے۔یہ مقام ڈاگس محل سے آرسنل تک جاتا ہے اور اس کے ارد گرد کئی تاریخی عمارتیں واقع ہیں۔
Santa Maria della Salute وینس کا مشہور ترین اسٹرکچر ہے جو سترھویں صدی میں مقدس مریم ؑ کے اعزاز میں اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب طاعون کی وبا پھیلنے سے شہر کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہوگئی تھی۔

Zattereبھی ایک آبی تفریحی مقام ہے جو وینس کے علاقے ڈورس ڈورو میں واقع ہے۔ یہ علاقہ سان پولو اور سان مارکو کے مقابلے میںزیادہ وسیع اور کم ہجوم والا ہے۔ اگر کوئی سیاح خاموشی کو پسند کرتا ہے اور کسی ویران علاقے میں کھانا اور گھومنا پسند کرتا ہے تو اس کے لیے یہ بہترین علاقہ ہے۔
Arsenale اپنے عروج کے زمانے میں یہ جگہ دنیا کا سب سے بڑا شپ یارڈ تھی۔ وینس کو بحری طاقت بنانے میں آرسنل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

Ca’ d’Oro یہ ایک خوبصورت عمارت ہے جس کا لغوی مطلب ’’سونے کا گھر‘‘ ہے۔ پندرھویں صدی کی یہ عمارت وینس کی گرینڈ کینال کے ساتھ واقع خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔
Chiesa di San Zaccaria یہ احیاء العلوم کے زمانے کا ایک خوبصورت کلیسا ہے جسے پندرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس چرچ میں کئی مشہور پیٹنگز موجود ہیں جن میں بیلینی کی آخری ’’میڈونا ، بچہ اوربزرگان‘‘ والی مشہور تصویر بھی شامل ہے۔

Scuola Grande di San Marco وینس میں تیرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا مدرسہ ہے جسے انیسویں صدی میں ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کا ماتھا یا سامنے والا حصہ پندرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔
Lido وینس کی کھاڑی میں ہی واقع ایک طویل اور تنگ جزیرہ ہے جسے دنیا کا پہلا خصوصی تفریحی مقام قرار دیا جاتا ہے۔ لیڈو کا طویل ساحل گرمیوں کے موسم میں مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے زبردست کشش رکھتا ہے۔

Vaporetto وینس کی سیر کے لیے گنڈولا ہی واحد ذریعہ نہیں ہیں۔ Vaporetto شہر کی مقبول ترین ٹرانسپورٹ ہے۔ یہ اصل میں بحری بسیں ہیںجو شہر میں سفر کے لیے ایک آرام دہ اور سستا ذریعہ ہیں۔
Teatro La Fenice یہ یورپ کا مشہور ترین اوپیرا ہاؤس ہے۔یہ عمارت آگ لگنے سے تباہ ہوگئی تھی لیکن 2003 میں اسے اس کے پرانے ڈیزائن کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
Museo Storico Navale یہ شہر کا بحری عجائب گھر ہے جسے دیکھ کر آپ وینس کی شاندار بحری تاریخ کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس میں بحری فوج سے متعلقہ مختلف چیزیں جیسے توپخانہ ، گنڈولا کشتیاں ، بحری جہاز اور ماڈل بوٹس رکھی گئی ہیں۔

Madonna dell’Orto وینس میں کئی خوبصورت کلیسا موجود ہیں جن میں اینٹوں سے بنا یہ چرچ بھی ہے۔یہ چرچ کناریگیو میں واقع ہے جو چودھویں صدی میں ایک مقامی مذہبی فرقے ہیومیلیاٹی کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا۔
Squero di San Trovaso یہ سترھویں صدی میں قائم کیا جانے والا ایک چھوٹا سا شپ یارڈ ہے جو ان چھوٹے چھوٹے شپ یارڈز میں سے ایک ہے جہاں آج بھی وینس کی مشہور گنڈولا کشتیوں کی تیاری اور مرمت کا کام کیا جاتا ہے۔


Santi Giovanni e Paolo ایک چرچ ہے اور اسے انگریزی میں ’’چرچ آف سینٹس جان اینڈ پال‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر مختلف مذاہب کی کئی اہم شخصیات مدفون ہیں جس کی وجہ سے اسے Pantheon of Venice یعنی ’’وینس کی اجتماعی عبادت گاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

کھلونا بندوق، بچوں میں تشدد کاعنصر پروان چڑھانے لگی

$
0
0

علی ریسکیو 1122 کی گاڑی میں پڑے سٹریچر پر درد سے کراہ رہا تھا، اس کی ماں خون سے لت پت اس کے گالوں کو دیوانہ وار چوم رہی تھی۔

والد کی پریشان نگاہیں اپنے کمسن بیٹے کے چہرے پر گڑھی ہوئی تھیں اور ایمبولینس ہسپتال کی جانب فراٹے بھرتی جارہی تھی۔ چند ہی لمحے قبل علی گھر کے سامنے کھیل کود میں مصروف تھا کہ اچانک علی اور تمام اہل خانہ پر قیامت ٹوٹی پڑی۔ 6 سالہ علی اپنے ہم عمر دوست عمران کے ساتھ اپنی ’’بندوق‘‘ لئے گلی میں کھیلنے کیلئے گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد عمران دوڑتا ہوا آیا اور علی کے والد کو مطلع کیا کہ علی کی آنکھ میں کھلونا بندوق کی ’’گولی‘‘ لگ گئی ہے۔

ایسے ہی درجنوں واقعات ہمارے اطراف میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ عید سعید، جشن آزادی سمیت دیگر تہواروں کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تہواروں خصوصاً عید اور یوم آزادی کے پر مسرت موقع پر اکثر والدین انجام سے بے خبر اپنے بچوں کو خوشی خوشی کھلونا پستول لے کر دیتے ہیں اور بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ کھیلتے کودتے اکثر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جو ساری زندگی کے روگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ اکثر بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ والدین عید کے موقع پر انہیں کھلونا بندوق لازمی لے کر دیں اور آج کل پڑوسی ممالک میں تیار ہونے والی یہ کھلونا بندوقیں اصل سے کچھ ہی کم ہیں۔ ان میں پلاسٹک کی گولیاں استعمال کی جاتی ہیں اور ان کا پریشر بھی اتنا ہوتا ہے جو بچوں کی آنکھوں، جلد اور نازک اعضاء کو نقصان پہنچانے کیلئے کافی ہے۔ والدین مختلف تہواروں یا خوشیوں کے موقع پر بچوں کی ناجائز ضد کے سامنے ہتھیار ڈال کر ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں بچے اپنی بندوقیں اٹھائے گلیوں میں گھومنا شروع کردیتے ہیں۔

اور یہ کھیل خطرناک رخ تب اختیار کرتا ہے جبکہ ایک ہی گلی یا دوسرے محلے کے بچے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں اور ٹولیوں کی شکل میں دوستانہ لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس تصادم میں بچے ایک دوسرے پر آزادانہ گولیاں برساتے ہیں جن کی زد میں آکر اکثر و بیشتر راہ گیر بھی متاثر ہوتے ہیں اور اگر یہ گولیاں کسی نازک اعضاء جیسا کہ آنکھ میں لگ جائے تو بھاری نقصان ہوتا ہے اور کئی بچے عمر بھر کیلئے اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

عید اور یوم آزادی جیسے مواقعوں پر بچوں کے ہاتھوں میں اصل تو نہیں البتہ کھلونا بندوقیں ضرور آگئی ہیں۔ قسم قسم کی بندوق، ریوالور، 32 بور، اے کے 47 اور مشین گن ہاتھوں میں لیے یہ طفل گلیوں گلیوں گھومتے نظر آتے ہیں۔ ماہرین اس کی بڑی وجہ ٹی وی قرار دیتے ہیں لیکن کیا بچے صرف ٹی وی سے اثر لیتے ہیں؟ آخر بچوں میں کھلونا بندوقوں کی اچانک مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟ کیا بچے بڑوں سے متاثر ہوئے؟ یا پھر مارکیٹ میں اتنی زیادہ تعداد میں کھلونا بندوقوں کی آمد کسی کی سازش یا ظالمانہ ذاتی مفاد ہے؟۔

ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں گزری عیدالفطر اور جشن آزادی کے موقع پر کھلونا بندوقوں کی فروخت میں 70 فیصد اضافہ ہوا اور روایتی کھلونوں کے بجائے بچوں میں کھلونا بندوقوں کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس بار ساڑھے تین کروڑ روپے کی کھلونا بندوقیں چین سے درآمد کی گئیں۔ کراچی کے بڑے تاجر چین سے خصوصی آرڈر پر کھلونا بندوقیں درآمد کرکے مقامی مارکیٹ میں فراہم کررہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھلونا اسلحہ کی مانگ میں اضافے کے باعث مقامی طور پر بھی اس کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں ٹی ٹی پستول، ریوالور، ماؤزر، کلاشنکوف، ایم پی فائیو، ایس ایم جی، ایل ایم جی، اوزی، ایم16رپیٹر اور دیگر اسلحہ فروخت ہورہا ہے۔ ان بندوقوں میں بچوں میں سب سے زیادہ مقبول گن کلاشنکوف ہے۔ کھلونا بندوقوں کے تمام فنکشنز اصلی بندوقوں کی طرح ہیں اور بعض کھلونا بندوقوں میں لیزر لائٹس بھی نصب ہیں جو رات کے اوقات میں ٹھیک نشانہ لگانے میں مدد دیتی ہیں۔ امسال ملک بھر میں گنجان آباد اور کم آمدن والے علاقوں میں کھلونا ہتھیاروں کی فروخت عروج پر پہنچ چکی ہے، ہمسایہ ممالک سے کھلونا بندوقوں کے درجنوں کنٹینرز درآمد کیے جاتے ہیں جو یہاں شہروں میں کھلونوں کی دکانوں کے علاوہ عارضی سٹالز پر فروخت کی جارہی ہیں۔

گذشتہ چند سال سے شہر میں کھلونا بندوقوں کی فروخت کا رجحان بڑھ رہا ہے، ساتھ ہی ہر سال نت نئے ڈیزائن اور نمونوں کی کھلونا بندوقیں مارکیٹ میں لائی جارہی ہیں، زیادہ تر کھلونا بندوقیں چین سے درآمد کی جاتی ہیں جن کی قیمت 50روپے سے 1200روپے تک ہے، چھوٹے سائز کے پسٹل 70سے 200روپے، شاٹ گن اور پمپ گن کی نقل250سے500روپے جبکہ خودکار رائفلوں کی نقل 600سے 1200روپے میں فروخت کی جارہی ہیں، بچوں میں کھلونا بندوقوں کے بڑھتے ہوئے شوق پر سنجیدہ حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ آسان دستیابی اور زیادتی کی وجہ سے بچوں نے کھلونا بندوقوں میں پلاسٹک کے چھرے کی جگہ لوہے کی گولیاں (بال بیرنگ) تک استعمال کرنا شروع کردی ہیں اور ماہر امراض چشم کے مطابق کھلونا بندوقوں کے یہ چھرے آنکھوں کی بینائی ضائع کرسکتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق کھلونا بندوقوں کے چھرے لگنے سے سالانہ سینکڑوں بچے زخمی ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انڈر ورلڈ اور غنڈہ گردی کے موضوعات پر بنائی جانے والی بھارتی فلموں میں آتشیں اسلحے کی بے دریغ نمائش سے پاکستانی معاشرے پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بے روزگار نوجوان راتوں رات امیر بننے اور طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھارتی فلموں جیسے ہی انداز اختیار کررہے ہیں، جس سے معاشرے میں محنت کرکے اپنا مقام بنانے کے بجائے جرائم کی راہ اختیار کرکے پیسہ کمانے کا منفی رجحان فروغ پارہا ہے۔ اس رجحان کی ایک جھلک لاہور شہر کی گلیوں میں کھیلنے والے بچوں کے مشاغل سے بھی ملتی ہے، اسلحے سے اپنے حریفوں کو زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کی شخصیت کا حصہ بننے کی صورت میں معاشرے سے برداشت اور تحمل ختم کردے گا جس کی روک تھام کے لیے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تین سال قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے گلستان جوہر کراچی کے دورے کے موقع پر ایک بچے کے ہاتھ میں کھلونا گن دیکھ کر اسے توڑنے کا کہا۔ رحمن ملک کا بچے سے مکالمہ کرنا تھا کہ بچے نے کھلونا گن توڑ دی، جس پر سابق وزیر نے بچے کو 25 ہزار روپے نقد انعام دیا۔ اسی طرح پڑوسی ملک بھارت میں ہونے والے ایک انوکھے مظاہرے میں شہریوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں کی کھلونا گن پر پابندی لگائی جائے۔ مظاہرے کا اہتمام امن کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم نے کیا۔

شرکاء کا کہنا تھاکہ کھلونا ہتھیار اور پر تشدد ویڈیو گیمز بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ مظاہرے میں کھلونا بندوقیں تھامے کئی بچوں نے بھی شرکت کی۔ دوسری طرف افغانستان میں کھلونا بندوقوں کی وجہ سے کئی بچے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جس کے بعد نیٹو فورسز نے باقاعدہ اعلانات کروائے ہیں کہ بچے کھلونا بندوقوں سے دور رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اس معاملہ کی طرف خصوصی توجہ دیں اورسوچیں کہ نئی نسل کس سمت جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانا صرف حکومت نہیں بلکہ میرا، آپ کا اور ہم سب کا فرض ہے۔

ارباب اختیار کے ساتھ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسے کھلونے لے کر دیں جو ان کو مثبت رجحانات کی طرف راغب کریں تاکہ نونہال پاکستان جسمانی اور نفسیاتی نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ اوّل تو بندوق کے بجائے بچوں کی دیگر کھلونوں میں دلچسپی پیدا کی جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اس بندوق کا پریشر ختم کر دیا جائے جس کی وجہ سے چھرّا زور سے لگنے کے باعث نقصان دہ بنتاہے۔

کھلونا بندوقوں کے استعمال کے بارے میں ماہر امراض چشم، اعصاب اور نفسیات کیا کہتے ہیں؟
سروسز ہسپتال کے ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد کے مطابق کھلونا بندوق کا چھرّا لگنے سے آنکھ ضائع ہوسکتی ہے۔ عید اور جشن آزادی کے روز بچے کی آنکھوں یا جسم کے دیگر حصوں پر چھرّا لگنے کے متعدد کیس رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی 50 سے90 فیصد بینائی ضائع ہوگئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کے بجائے لوہے کی گولی آنکھ کے ساتھ ساتھ دماغ کیلئے بھی انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے والدین کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کو کھلونا بندوقوں کے استعمال سے روکیں، اور اگر خدانخواستہ کسی بچے کی آنکھ میں چھرّا لگ جائے تو فوری طور پر قریبی معالج سے رجوع کریں۔ ماہر اعصابی امراض ڈاکٹر صبا صدیق کا کہنا تھا کہ کھلونا بندوقوں سے کھیلنا کوئی غلط بات نہیں، اور نہ ہی اس سے بچوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، البتہ کھلونا بندوقوں میں تشدد کا عنصر شامل ہونا بری بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچے ہمارے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں جس سے ہم انہیں اس سے روک نہیں سکتے، کیوں کہ بچے مختلف طریقوں سے اعصابی تناؤ کو نکالتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آپ بچوں سے کھیل کے میدان چھین لیں گے تو ان میں قانون سے بغاوت اور منفی سرگرمیاں پروان چڑھیں گی۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر نجم الحسن نے کہاکہ کسی بھی معاشرے کے حالات تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں، کھلونا بندوقوں اور ویڈیو گیمز میں تشدد دراصل معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ والدین بچوں کو بخوشی کھلونا بندوقیں، مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں، ویڈیو گیمز دلاتے ہیں اور یہی عناصر بچوں میں تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو عدم تشدد کی طرف راغب کرنے کے لئے ایسے کھلونوں کا متبادل تلاش کریں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نجم الحسن کا کہنا تھا کہ اقتصادی محرومی، بے روزگاری، غربت اور بچوں سے جسمانی کھیل کے مواقع چھین لینے سے معاشرے میں تشدد پروان چڑھتا ہے۔ آپ نے بچوں سے کھیل کے میدان چھین لیے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوانوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر آج آپ بچوں کے ہاتھوں میں کھلونا بندوقیں تھمائیں گے تو ہمارا آئندہ مستقبل انارکی اور انتشار کا شکار ہوگا۔

5 سال قبل چھرّے والی کھلونا بندوق کی فروخت کا تجربہ کیا گیا، جو بہت کامیابی سے چل رہا ہے:تاجر
لاہور کے قدیم ترین کاروباری علاقے شاہ عالم مارکیٹ میں کھلونا بندوقوں کے ہول سیل ڈیلر نفیس احمد نے بتایا کہ پہلے پہل بچوں کے لئے پانی والی بندوقیں یا پستول ’’واٹر گنز‘‘ آتی تھیں، جس کے بعد ابھی 5 سال قبل تجرباتی طور پر چھرّے والی کھلونا بندوقیں چین سے فروخت کیلئے لائی گئی ہیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور کھلونا بندوقوں کو بچوں میں مقبولیت حاصل ہوئی، تاہم اس سال حیرت انگیز طور پر لاہور سمیت ملک بھر میں کھلونا بندوقوں کی مانگ میں اضافہ ہوا اور عیدالفطر، یوم آزادی کے موقع پر بچوں کے روایتی کھلونوں کے بجائے 70 فیصد سے زیادہ کھلونا بندوقیں فروخت ہوئیں۔

نفیس نے بتایا کہ کھلونا بندوقوں میں استعمال ہونے والے چھرے کا قطر 6.5 سے 8.5 ملی میٹر ہے اور مختلف رینج والی یہ بندوقیں8 سے 16 فٹ تک بآسانی ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ ان کھلونا بندوقوں میں کلاشنکوف کی فروخت سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ اس کی رینج بہتر ہونا ہے۔ ان کھلونوں کی وجہ سے نقصان بھی ہوتا ہوگا مگر کیا کریں ہمارا یہ کام ہے، ہماری روزی روٹی ہے، اس لئے مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔

جبری شادیوں کے خلاف برطانوی قانون ساز متحرک

$
0
0

اسلام آ باد:  ایک علاقائی کہاوت ہے کہ ’’شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘ کہا جاتا ہے کہ کہاوت صدیوں کا نچوڑ ہوتی ہے، جو غلط نہیں ہوتی، اگر ہم اِس تناظر میں مندرجہ بالا کہاوت کو درست تسلیم کر لیں تو پھر اس بات کا کیا کیا جائے؟ یہ بھی آج تک غلط ثابت نہیں ہوئی کہ ’’شوق کوئی بھی ہو، اُس کی ایک نہ ایک دن قیمت ضرور چکاتی پڑتی ہے، یہ قیمت چاہے آپ کی اولاد ہی کیوں نہ چکائے‘‘ دونوں باتیں سچ ہیں مگر ہیں دونوں ایک دوسرے کے برعکس ، ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن ہے ایسا ہی، اگراِس تناظر میں ہم یہاں برطانوی حکومت کے زیرغور اُس قانون کاجائزہ لیں، جس کی زد میں عن قریب سیکڑوں پاکستانی نژاد مسلمان خاندان آنے والے ہیںتو شوق اور نیتوں کے بہت سے معاملات کھل کر سامنے آ سکتے ہیں۔

یاد رہے برطانیہ میں مستقل مقیم یہ خاندان اکہری یا دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔برطانیہ میں آج کل جس قانون پر غور و خوض جاری ہے اُس کو ’’فورسڈ میرج پروٹیکشن آرڈر‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جس کے تحت برطانوی والدین یا کوئی اور(مرد یا عورت) کسی برطانوی لڑکے یا لڑکی کی جبری شادی نہیں کر سکتا اور نہ ہی لڑکے یا لڑکی کو شادی کے مقصد سے کسی دوسرے ملک میں بہانے سے یا جبری طور پر لے جا سکتا ہے۔ اِس قانون کے تحت جو شہری یاوالدین اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے، پولیس ان کے خلاف کارروائی کر سکے گی اور عدالت فوری طور پر میرج پروٹیکشن آرڈر جاری کر دے گی، جرم ثابت ہونے پر دو سال قید اور جرمانہ بھی ہو گا۔

برطانیہ میں جبری شادیوں پر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بڑی وجہ دراصل وہ ہزاروں شکایات تھیں، جو گزشتہ چند سالوں کے دوران وہاں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے پولیس کو رجسٹرڈ کرائیں جن کا لب و لباب یہ تھا کہ ’’ والدین اور رشتے دار اُن کی شادیاں ایسے مردوں یا عورتوں سے جبری طور پر کرانے کی کوشش کرتے یا ان کو مجبور کرتے ہیں، جس سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ شادی نہ کرنے کی سب سے بڑی اِن نوجوانوں نے یہ ظاہر کی کہ ’’جن کو ہم نے زندگی میں دیکھا تک نہیں ہم اُن سے شادی کیسے کر لیں؟

اِس حوالے سے جب لندن ہائی کورٹ کے ایک جج، مسٹر جسٹس ہول مین نے حال میں ایک زیر سماعت مقدمے کا فیصلہ سنایا تو معلوم ہوا کہ جج صاحب نے برطانوی حکومت کو پابند کردیا ہے کہ ’’پارلیمنٹ جلد از جلد جبری شادیوں کے قانون میں ترمیم لا کر اسے موثر بنائے تاکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سزاؤں سے بچ نہ سکیں‘‘۔ زیر سماعت مقدمے میں دو پاکستانی ملزم خواتین کو عدالت نے بری تو کر دیا مگر ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’’اگر قانون کے دانت ہی نہیں ہوں گے، تو وہ ملزموں کو کیسے کاٹ سکے گا‘‘۔ عدالت نے میرج پروٹیکشن آرڈر پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی بھی سفارش کر دی۔ یاد رہے یہ قانون برطانوی حکومت نے 2008 میں بنایا تھا تاکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، عرب ممالک، افریقی اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک میں برطانوی شہریوں کو لے جا کر جبری شادیوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ آئر لینڈ حکومت نے اس ضمن میں قانون کو اپنی پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا ہے جب کہ برطانیہ میں عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمنٹ نے اس پر غور وخوض شروع کر دیا گیا ہے توقع ہے کہ یہ قانون اسی سال منظور ہو جائے گا۔

برطانوی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جبری شادیوں میں سب سے سرفہرست ملک پاکستان ہے، جبری شادیوں کے اب تک جوکیس سامنے آئے ان میں سے 60 فی صد کا تعلق پاکستانی نژاد خاندانوں سے تھا، میڈیا رپورٹس کے مطابق جبری شادیوں کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور موسم گرما کی چھٹیوں میں جبری شادیوں کے واقعات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے جبری شادی کے خلاف حکومتی اقدامات کے تحت اساتذہ، ڈاکٹرز اور ائیر پورٹ کے عملے کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیمی اداروں کی موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ممکنہ جبری شادیوں کے حوالے سے ہوشیار رہیں۔ اس سرکاری رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھاکہ جب اسکولوں میں موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو اس دوران نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چھٹیوں میں گھومانے پھرانے کے بہانے برطانیہ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور انھیں اصل مقصد سے بالکل لاعلم رکھا جاتا ہے۔

لہذا اساتذہ اور ڈاکٹرز کو اس معاملے میں زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکنہ شادی کا نشانہ بننے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مکمل رازداری کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین انہی لوگوں نے دلانا ہوتا ہے۔ گذشتہ برس برطانوی ہائی کمیشن کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا تھا کہ جنوری سے مئی کے دوران جبری شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات برطانوی نژاد پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ پیش آئے جو کل واقعات کا 46 فی صد تھے۔ دفتر ِخارجہ اور وزارت ِداخلہ کے ماتحت ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس جون اور اگست کے مہینوں میں400 جبری شادیوں کے واقعات کی اطلاع ملی۔

جب کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال برطانیہ میں پانچ ہزار سے آٹھ ہزار کے لگ بھگ خواتین کو جبری شادی کرنا پڑتی ہے جن میں سے ایک تہائی لڑکیوں کی عمریں صرف سولہ برس یا اس سے کم تھی۔ حکومت کی جانب سے آج کل ممکنہ جبری شادی کے حوالے سے نوجوانوں کو آگاہ رکھنے کے لیے ایک مددگار ٹیلی فون لائن کی تشہیر بھی کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ ’’شادی : یہ آپ کا انتخاب ہے‘‘ کے نام سے ایک معلوماتی کارڈ تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں نوجوانوں کو رازدارانہ مشورے دیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں حکومتی وزیر برائے انسداد جرائم جریمی براؤن کا کہنا ہے ’’جس وقت نوجوان اسکولوں کی چھٹیاں گزار رہے ہوتے ہیں اور انھیں اپنے میٹرک کے نتائج کا انتظار ہوتا ہے اوروہ مستقبل کی نئی راہ پر گامزن ہونے والے ہوتے ہیں ان کو کسی ایسے شخص کے پلے باندھ دیا جاتا ہے جس سے وہ شادی کرنا نہیں چاہتے ، یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسی لیے ہم اسے غیر قانونی بنانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں‘‘۔

گذشتہ برس حکومت کی جانب سے جبری شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سدباب کے لیے ایسے مقدمات کو فوجداری قوانین کے تحت دئیے جانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے ان دنوں برطانوی دارالعلوم میں قانون سازی کی جارہی ہے، برطانیہ میں اب تک جبری شادیوں کے مقدمات کا فیصلہ دیوانی عدالتوں کے تحت سنایا جاتا ہے،ترمیم کے بعد یہ فوج داری قانون بن جائے گا۔ اس سلسلے میں اسکاٹ لینڈ میں گذشتہ برس جبری شادی کے خلاف قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے جس کے تحت اس جرم میں والدین کے لیے دو سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

اگر برطانیہ میں بھی نیا قانون منظور کر لیا جاتا ہے تو ایسے والدین جو اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جبراً شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں انھیں دوسال قید اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ تاہم جبری شادیوں کے خلاف مہم چلانے والوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات کو جرم کے زمرے میں ڈالنے سے ان معاملات کو رپورٹ کرنے کے واقعات میں کمی ہوسکتی ہے کیوں کہ جبری شادی کا شکار بننے والے بچے اور بچیاں شاید اپنے پیاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔

اِس ضمن میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور برطانیہ جانے والوں کے عزیز و اقارب سے جو گفت گو ہوئی اُس پر پہلے سے کوئی جانب دار رائے قائم کرنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اصل محرکات ہیں کیا؟ بہتر یہ ہے کہ پڑھنے والے خود ایک غیر جانب دار رائے قائم کریں کہ آخر برطانوی حکومت اس قانون کو موثر بنانے پر کیوں مجبور ہوئی؟ بحث طویل ہوجائے گی اس لیے بہتر ہے کہ ہم وہ گفت گو پڑھیں جو ہم سے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور ان کے یہاں مقیم رشتہ داروں نے جبری شادیوں کے حوالے سے کی۔
ارشاد احمد ۔ برطانیہ (لندن)

’’میں 13 سال قبل اپنی قسمت سنوارنے کے شوق میں برطانیہ گیا تھا،خوش شکل ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم درجنوں پاکستانی خاندانوں نے مجھے شادی کی پیش کش کی،جب میں نے بتایا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں اور میرے بچے بھی ہیں تو ان میں سے متعدد نے سلام دعا ہی ختم کر دی جب کہ کچھ خاندانوں نے دبے دبے لفظوں میں پہلی بیوی کو طلاق اور برطانیہ میں مستقل رہائش میں مدد کا عندیہ بھی دیا مگر وہاں جاکر میں پاکستانیوں کی بہت سی خباثتوں کو سمجھ چکا تھا، بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کر لی جو میرے ساتھ مزدوری کیا کرتی تھی گو کہ ابھی تک مجھے برطانوی شہریت نہیں ملی لیکن میری برطانوی بیوی ایک بہترین ساتھی ثابت ہوئی۔ برطانیہ جانے کا شوق میں نے پورا کر لیا مگر پاکستان میں میری غیر موجودگی نے میرے بچوں کی زندگیوں پر جو منفی اثرات مرتب کیے وہ میرے لیے خاصے اذیت ناک ہو چکے ہیں، چند سال مزید دیکھوں گا اگر شہریت نہ ملی تو پھر واپس یہاں آ کر محنت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے‘‘۔

چوہدری کاظم حسین، برطانیہ (برمنگھم)
’’ میں1952 میں ہی ولایت جانے کے شوق اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے برطانیہ چلا گیا تھا، دو سال بعد مجھے شہریت مل گئی، جنرل اسٹور کا کاروبار خوب چلا اور میں دنوں میں خوش حال ہو گیا، شادی واپس آکر پاکستان میں کی اور پھر بیوی کو بھی وہاں لے گیا، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کا باپ بنا، مگر جب بچے جوان ہوئے تو ہوش آیا کہ ان کی شادیاں پاکستان میں ہی ہونی چاہئیں، مگر سارے بچے نافرمان ثابت ہوئے اور میں ان کے سامنے مجبور ہو گیا، اب میں پڑدادا اور پڑنانا ہوں، بیوی وفات پا گئی ہے مگر تمام تر خوش حالی کے باوجود ہر وقت اداس رہتا ہوں، ولایت آنے کے شوق کی قیمت یہ ہے کہ ایسے لگتا ہے ساری دنیا ہی مطلب پرست ہے مگر کیا کروں اب وقت کو واپس نہیں لا سکتا۔ اگر ایسا ہو جائے تو میں اپنی زندگی سے برطانیہ جانے کا باب ہی نکال دوں‘‘۔

مسزبتول، برطانیہ(ایڈنبرا)
’’برطانوی حکومت جو کر رہی ہے وہ ٹھیک ہی ہو گا، دھوکہ دہی اور جبری شادیوں کی میں زندہ مثال ہوں، میں خود تین بچوں کی ماں ہوں اور بڑے وثوق سے یہ کہ رہی ہو کہ ہمارے والدین کی مجبوریاں۸۰ فی صد جھوٹی انا اور خودساختہ جواز پر مبنی ہوتی ہیں، والدین ہماری جبری شادیاں کر کے دراصل اپنی ان غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے خود کی ہوتی ہیں۔ قریباً تیس سال پہلے جب میری عمر صرف چودہ سال تھی اور میں سکول پڑھتی تھی، میرے خوش حال والدین نے میری قسمت سنوارنے کے لیے میری مرضی پوچھے بغیر نہایت خاموشی کے ساتھ پچاس سال سے زائد عمر کے ایک ولایت پلٹ شخص سے میرا نکاح پڑھا دیا، شادی کے موقع پر میرے چار جوان بھائی اس لیے خاموش رہے کہ ان کو برطانوی ویزوں کا لالچ دیا گیا تھا، چند ماہ بعد میں پیاء گھر چلی گئی، برطانیہ آکر مجھ پر عقدہ کھلا کہ میرے شوہر کو بیوی کی بجائے ایک نرس کم سیلز وویمن کی ضرورت تھی، برطانیہ آکر شروع دنوں میں زندگی اجیرن ہوگئی تھی، شوہر اور اس کے کاروبار کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال نے ہر شے بھلادی تھی۔ اب میرے شوہر کی خواہش ہے کہ جوائی اور بہو پاکستان سے امپورٹ کیے جائیں مگر میں اپنے بچوں کو اس آگ میں نہیں جلنے دوں گی جس میں مجھے میرے والدین نے جھونک دیا تھا‘‘۔

اطہر علی خواجہ، فیصل آباد ۔
’’پچیس سال پہلے میرے دور کے رشتے دار برطانیہ سے آئے تو ان میںایک خوبصورت،نوجوان لڑکی بھی شامل تھی،اس کو دیکھتے ہی میں اس کے حسن میں کھوگیا، وہ لوگ بھی اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے، رشتہ مانگنے کے بعد جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا اور میں تیسرے دن ہنی مون منانے کے لیے پہاڑی علاقوںمیں پہنچ گیا، میں ابھی وہیں تھا کہ میرے بڑوں نے میری بہن کا نکاح میرے سالے سے کر دیا۔ ایک ماہ بعد وہ لوگ چلے گئے، میری بہن ابھی پاکستان میں ہی تھی۔

میری بیوی چھے ماہ بعد بچے کی ڈلیوری کے لیے برطانیہ چلی گئی۔ ان چھے مہینوں میں مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے میرے سر سے عشق اور لالچ کا بھوت اتر چکا تھا، بہت سی تلخ حقیقتیں سامنے آ چکی تھیں، تمام تر کوششوں کے باوجود میری بیوی پاکستان واپس آنے پر راضی نہ ہوئی تو دوسرا گھر بچانے کے لیے بہن کو برطانیہ روانہ کر دیا گیا مگر وہ بھی چند ماہ بعد حاملہ ہونے کے بعد زبردستی پاکستان روانہ کر دی گئی۔ دراصل دونوں طرف اپنی دولت کا غرور ہمیں چین سے رہنے نہیں دے رہا تھا۔ ان بے جوڑ اور جبری شادیوں کا نتیجہ آخر کار طلاق نکلا اور دو بیٹے اپنے اپنے والد کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے، لوگ دولت کے لالچ میں ولایت جاتے ہیں ہم دولت کے باوجود ولایت والوں سے نباہ نہ کر سکے‘‘۔

پروفیسر(ر) محمد علیم(سیال کوٹ)۔
’’ جبری شادیاں پاکستان،بھارت،بنگلہ دیش، سمیت دیگر عرب اور افریقی ممالک میں عام ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو اس کی شرح خاصی بلند ہے۔آپ غور کریں1947میں انگریز اپنا اقتدار چھوڑ کر چلا گیا مگر ہم نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا، صرف تین سال بعد ہی لوگوں میں برطانیہ جانے کا رجحان زور پکڑ چکا تھا، اس وقت بھی اور آج بھی جواز یہ دیا جاتا ہے کہ بہتر مستقبل کی خاطروہاں جارہے ہیں، میرے خیال میں اس جواز کے پردے میں صرف 50 فی صد ہی سچائی ہوتی ہے۔

گذشتہ 66 سالوں میں یہ فی صد آج بھی قائم ودائم ہے۔ باقی پچاس فی صد جو ہوتا ہے وہ ہی اصل سچائی ہوتی ہے، جس کو ہم چھپانا چاہتے ہیں، ہم وہاں جا کر میموں کی گوری چمڑی،نیلی آنکھوں،جگ مگ کرتے شہروں کے شراب خانوںاور سرکار کی طرف سے ملنے والی مفت سہولتوں سے لطف اندوز تو ہونا چاہتے ہیں مگر وہاں کے تہذیب وتمدن کو اپناتے ہوئے ہم اندر سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ میم یا برٹش نیشنل بیوی سے شادی کو جائز مگر اس کی شخصیت اور عادتوں کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ خود شراب پی لیں تو ’’شوق‘‘ بیوی پی لے تو حرافہ بن جاتی ہے۔

اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہمارے قول وفعل کے تضاد کی اصل تصویر کو جب پینٹ کرتی ہیں تو ہم اپنی غلطی،کوتاہی یا کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ اور اللہ کی مخلوق سے معافی مانگنے کی بجائے جھوٹے جواز تراش لیتے ہیں، کبھی ہم اپنی ثقافت تو، کبھی مذہب کی آڑ لیتے ہوئے خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح بھارت کو گالی دینا اور بھارتی فلمیں دیکھنا اور گانے سننا دونوں ہی جائز ہو چکے ہیں ۔ یہ تضاد ہے مگر کام چل رہا ہے اس لیے ہم سب چپ ہیں۔ جوان بیٹے یا بیٹی کی ذہانت پر ہم ناز بھی کرتے ہیں مگر شادی کے لیے ان کی ذہانت غیر پختہ قرار دے دی جاتی ہے اور معاشی، معاشرتی اورمذہبی محرکات کو سامنے رکھ کر بیٹے کے لیے الگ اور بیٹی کے لیے الگ حدود وقیود مقرر ہو جاتی ہیں،

یہ ہماری اجتماعی معاشرت کا ایک رخ ہے، دوسری جانب ایسے بھی ہو رہا ہے کہ ہم ہر حدود وقیود سے آزاد ہو کر فیصلے کرنا شروع ہو جاتے ہیں،یہ بھی درست نہیں، جب تک ہم آدھا تیتر آدھا بیٹیر بنے رہیں گے، ہم اور ہمارے بچے اسی خوار ہوتے رہیں گے۔ برطانیہ والے یہاں فرشتہ صفت، فرماں بردار اور دولت کے رعب میں آنے والوں لڑکے،لڑکیوں کی شکل میں بہو اورجوائی تلاش کرنے آتے ہیں اور ہم اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ان کو برطانیہ روانہ کر دیتے ہیں، جبری یا سودے بازی سے ہونے والی ان شادیوں سے ملنے والے دکھوں کو شراب پی کر یا مذہب کی آڑ لے کر بھول جانے کی کوشش کی جاتی ہے، برٹش بیوی شوہر پر تشدد کرے،اس کے سامنے جنسی بے راہ روی کے مظاہرے کرے پھر بھی ان کو فلاحی ریاست عزیز رہتی ہے۔

ان باتوں کا وہاں جاتے ہی علم ہو جاتا ہے مگر ہم واپس آنے کو تیار نہیں ہوتے، کیوں۔۔۔؟ اس لیے کہ ہم تضادات کا مجموعہ بن چکے ہیں، تضاد کی اصلاح کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی ہم کو پچپن میں ہی تربیت دی جاتی ہے، میں خود برطانیہ میں چار سال یونیورسٹی میں پڑھا ہوں اور اب بھی گاہے بہ گاہے وہاں جاتا ہوں، میں نے محسوس کیا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والی نسل ہمارے بچوں کی نسبت تضادات کا بہت کم شکار ہے۔ جو محسوس کرتی ہے بیان کردیتی ہے اور یہ بات ان کے والدین اور یہاں سے جانے والوں کو خوف زدہ کردیتی ہے اور اس کے ردعمل میں یہ نسل مجبور ہو کر وہاں کی پولیس تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہاں جن مجبوریوں کا رونا آج رویا جاتا ہے اس کے بارے میں علم تو آج سے بیس پچیس سال پہلے ان لوگوں کو ہو چکا تھا اور وہ اس وقت اس کا حل بھی نکال سکتے تھے، مگر پاونڈ اسٹرلنگ اور سرکاری سہولتوں کو کون چھوڑتا۔۔۔۔۔؟

کیا یہ ہمارے نصف صدی پرانے وہ شوق نہیں،جن کی اُس وقت تو واقعی کوئی قیمت نہیں تھی مگر آج اس کو شوق پالنے والے ان بزرگوں کے بچے اِس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟ کیا ہم من حیث القوم اپنے قول و فعل کے تضاد سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے؟ کیا ہم جھوٹی انا اور خود فریبی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے ہیں؟ کیا ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو کرنے والے تو نہیں بن چکے؟

کیا ہم واقعی بہادر قوم نہیں ہیں؟ کیوں کہ بہادر انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرکے معافی کا طلب گار ہوتا ہے اور آئندہ سے غلطی کے ارتکاب سے خود کو روکتا بھی ہے، دین نے تو بہادر انسان اُسے قرار دیا ہے جو اپنے غصے پر قابو پائے؟ جب کہ ہم وہاں(برطانیہ) میں جا کر ہر طرح کی سہولتوں سے مستفید بھی ہوتے ہیں اور پھر ان ہی پر غصہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ہماری اقدار کے مطابق رہنے نہیں دیا جارہا۔۔۔سوچیے کیاآپ کی اقدار بچوں کی جبری شادیاں کرنے کی اضازت دیتی ہیں؟دین اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں،تو پھر غصہ کس بات کا؟

اعداد و شمار کے مطابق رواس سال2012 جنوری سے مئی تک جبری شادیوں کے 594 کیسز سامنے آئے۔ ان میں 87 فی صد کیسز خواتین اور تیرہ فی صد کیسز مردوں کے تھے۔اس کے علاوہ پندرہ سال سے کم عمر کے 14 فی صد کیس آئے، سولہ سے سترہ سال کے 31 فی صد، اٹھارہ سے اکیس سال کے 35 فی صد، بائیس سے پچیس سال کے 12 فی صد، چھبیس سے تیس سال کے پانچ فی صد کیس سامنے آئے۔ اس کے علاوہ اکتیس تا چالیس سال کے دو فی صد اور 41 سے 45 سال کے ایک فی صد کیس آئے۔

برطانوی ہائی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جبری سادی کے سب سے زیادہ کیسز پاکستان میں سامنے آئے جو کہ 46 فی صد ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں 9 فی صد، برطانیہ 8.7 فی صد، بھارت میں سات اور افغانستان میں ڈھائی فی صد سے زیادہ کیسز آئے۔گزشتہ برس جنوری سے دسمبر کے دوران جاری اعداوشمار کے مطابق تقریبا پندرہ سو مواقعوں پر اس لوگوں کومشورہ یا امداد مہیا کی۔ جن واقعات میں متاثرہ افراد کی عمر معلوم تھی وہاں سب سے زیادہ عمر کی متاثرہ خاتون ستاسی سالہ تھی جب کے سب سے کم عمر پانچ سالہ لڑکی تھی۔ زبردستی کی شادی میں عام تاثر کے برعکس مدد کے لیے درخواست کرنے والوں میں ناصرف اٹھتر فی صد عورتیں بلکہ بائیس فی صد مرد بھی شامل تھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ افراد یعنی ستائیس فی صد کی عمر اٹھارہ سے اکیس سالہ کے درمیان تھی۔

شادی سے متعلق مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے فتوے
اسلام میں جبری شادی کے بارے کیا حکم ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عدنان رضا ، مقام: یو کے ۔ السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میں برطانیہ میں رہتا ہوں۔ میرے والدین پاکستان میں مقیم اپنی بھتیجی کے ساتھ میری شادی کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں انہیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ میں آپ کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں۔ میں انہیں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اسلام میں زبردستی شادی کروانا جائز نہیں ہے لیکن وہ یہ نہیں سن رہے ہیں اور مجھ سے عزت کی بات کر رہے ہیں کہ اس بارے میں لوگ کیا کہیں گے۔ میں نے اس مسئلہ کے بارے میں تھوڑی سا مطالعہ بھی کیا ہے جس کے مطابق والدین کو اس معاملے میں اولاد پر زبردستی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں اس مسئلہ کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔ برائے مہربانی اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب: ’’اسلام میں زبردستی شادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس وقت تک نکاح قائم نہیں ہو سکتا جب تک لڑکا اور لڑکی دونوں رضامند نہ ہوں۔ دونوں میں سے ایک بھی انکار کر دے تو نکاح قائم نہیں ہو سکتا۔ وا

للہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
اسلام میں شادی کے لیے کن چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟
پوچھنے والے کا نام: صباء شاہ مقام: نامعلوم۔السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ مجھے شادی کے لیے ایک لڑکے کے گھر والوں نے پیغام بھیجا ہے، جو الحمد اللہ بہت نیک اور مہذب لوگ ہیں۔ لڑکا بھی نمازی، اچھی فطرت والا ہے اور اس میں کوئی بری عادات بھی نہیں ہیں۔ میں نے ان کے اس پیغام کو قبول کر لیا ہے۔ میں یہ ذکر کرنا چاہتی ہوں کہ میرے گھر والے خاص طور پر میری امی چاہتی ہیں کہ میری شادی کسی ڈاکٹر سے ہو یا پھر حیدر آبادی لڑکے سے ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی لڑکے والوں کو بھی بلایا۔

والدین کہہ رہے ہیں کہ اگر تم ان کے سامنے نہ آئی تو اس سے ہماری عزت پر حرف آئے گا۔ میرے گھر والے یہ بھی کہہ رہے ہیں جن لوگوں نے پہلے مجھے شادی کے لیے پیغام بھیجا ہے ان لوگوں کا رہن سہن ہمارے مقام ومرتبہ کا نہیں ہے،آپ بتائیں میں اس سلسلے میں کیا کروں۔ اس حوالے سے میں بہت پریشان ہوں۔ کیا اسلام میں عورت کو اپنی رائے دینے اور اس کی پسند کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ زبردستی شادی کے لیے لڑکی کو بلیک میل کرنا جائز ہے، میں امید کرتی ہوں کہ آپ کی ہدایات اور سفارشات میرے گھر والوں کو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے رہنمائی کا باعث بنیں گے۔

جواب: لڑکی ہو یا لڑکا دونوں جب تک رضامند نہیں ہونگے نکاح نہیں ہو سکتا، یہ نہیں کہ لڑکا لڑکی کو پسند کرے لیکن لڑکی کو وہ لڑکا پسند ہی نہ ہو، دونوں کو پکڑ کر نکاح کر دیا جائے، جب تک لڑکی بھی رضامند نہ ہو نکاح نہیں ہو سکتا۔ دونوں سے رائے لینا والدین کا فرض بنتا ہے۔2۔ لڑکی جس لڑکے کو پسند کرے اور وہ لڑکا بھی اسے پسند کرتا ہو تو والدین کو چاہیے اگر کوئی شرعی ممانعت نہ ہو تو اس کی شادی وہیں کریں جہاں لڑکی کہتی ہے۔ یہ لڑکی کا حق ہے، اسلام میں لڑکی کو رائے دینے اور قبول کرنے یا نہ کرنے کا بھی حق ہے، اسلام میں لڑکی کو اپنی پسند کا اظہار کرنے اور رائے دینے کی اجازت ہے۔3۔ والدین کو زبردستی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کیا اسلام میں زبردستی کی شادی جائز ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: مشتاق احمد مقام: خیبر پختونخواہ، پاکستان۔ السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں یا شریعت میں زبردستی شادی کی گنجائش ہے؟ میں اور میرے والدین نے جس لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا تھا تو اس کے چچا نے کہا ہے کہ وہ اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کرے گا کیوں کہ پہلا حق اس کا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود وہ لڑکی اور اس کے گھر والے یعنی اس لڑکی کی ماں اور بڑا بھائی اس زبردستی والے رشتہ کے لیے راضی نہیں ہیں۔ جب کہ لڑکی کا باپ فوت ہو چکا ہے؟ تو کیا یہ زبردستی والے چچا جی حق پر ہیں؟ اور کیا میرا اس رشتے پر اسرار کرنا ٹھیک ہے؟ کیا اسلام میں بھاگ کر شادی کی گنجائش ہے۔ برائے مہربانی جلدی جواب عنایت فرمائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں زبردستی تیسری پارٹی کی طرف سے ہے۔

جواب:اسلام میں زبردستی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے : فَان ِحْوا مَا طَابَ لْم مِّنَ النِّسَاء ِ. (النِّسَآء، 4 : 3) تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔اور حدیث پاک میں ہے : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔.1معلوم ہوا قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے۔ لڑکا لڑکی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لڑکی کا چچا اگر لڑکی کی مرضی کے بغیر اپنے بیٹے سے نکاح کرے گا تو وہ نکاح قابل قبول نہیں ہو گا۔

لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح کرنا کسی کا حق نہیں ہے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے نہ ہی ہمارا ملکی قانون، اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی رپورٹ متعلقہ ادارے کو فراہم کریں تاکہ لڑکی ظلم وستم ہونے سے بچ سکے۔2۔ اگر وہ لڑکی آپ کے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہو تو پھر آپ کا اسرار کرنا درست ہے ورنہ نہیں۔3۔ آپ اس معاملے کو بااثر لوگوں کے ذریعے حل کریں، بھاگنے دوڑنے سے حالات زیادہ خراب ہوں گے اور گھر کے باقی افراد بھی ذلیل وخوار ہو جائیں گے۔ یہ بہتریں حل ہے۔ نہیں تو پھر اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جائے تاکہ لڑکی پر ظلم نہ ہو۔المختصر نکاح کے لیے لڑکے لڑکی دونوں کا حق مہر کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں رضامندی سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح منعقد نہ ہو گا۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب

شادی کے حوالے سے صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کاخطاب
اسی حوالے سے یورپ میں سپریم کونسل ناروے تحریک منہاج القرآن کے صدر صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے اپنے ایک انگریزی خطاب میں سورہ بقرہ کی معروف آیت’’ لا اکرہ فی الدین‘‘ کو موضوع سخن بناتے ہوئے کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی کام میں سختی اور جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ چیز آج اسلامی معاشرے میں موجود ہے تو یہ اسلامی تعلیم کا نتیجہ نہیں بل کہ اسلام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی کئی مثالیں پیش کیں جن میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانبین یعنی لڑکے لڑکی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کریں اور طرفین میں سے کسی ایک یا دونوں پر جبر کرنے کی اجازت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عقلی طور پر بھی یہی مناسب ہے کہ جن لوگوں نے اکھٹے زندگی گذارنی ہے ان کو انتخاب کا حق دیا جائے نہ کہ ان کو زور زبردستی سے باند دیا جائے۔

انہوں نے صحیح بخاری، نسائی ابن ماجہ اور دیگر احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں خنساء بنت حزام صحابیہ حاضر ہوئیں انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے باپ نے میری شادی وہاں کر دی ہے جہاں میں خوش نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اختیار دیا کہ یہ کوئی شادی نہیں ہے تم جہاں چاہو شادی کر سکتی ہو۔ انہوں نے بخاری و مسلم اور بہت سے دیگرکتب احادیث سے ثابت کیا کہ اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو بھی اس سے اجازت لی جائے اگر کنواری ہو تب بھی اس سے شادی کے لیے رضامندی لی جائے۔ حسن قادری نے مزید کہا کہ اسلام میں جو سب سے اہم چیز’’ ایمان‘‘ ہے جو جبر اور سختی گوارا نہیں کرتا اور کسی کو جبراً مسلمان نہیں بناتا۔ اسلام باقی چیزوں میں سختی کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

شادی بیاہ کی تقریبات روایتی ملبوسات کے بغیر پھیکی لگتی ہیں

$
0
0

ماہ رمضان میں جہاں عید الفطر کیلیے تیاریاں جاری تھیں، وہیں عید گزرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر شادی بیاہ کی تقریبات عروج پر ہیں۔

موسم چاہے برسات کا ہو لیکن مہندی، بارات اور ولیمہ کی تقریبات تو زرق برق ملبوسات کے ساتھ ہی سجتی ہیں۔ خواتین تو پہلے ہی اپنے بناؤ سنگھار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر اب تو مرد حضرات بھی تیاریوں میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔

ایک طرف تو نوجوانوں کی بڑی تعداد شادی کی تقریبات میں شیروانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں تو دوسری جانب خواتین زری کے مختلف ڈیزائن اور رنگوں میں تیار کردہ ملبوسات پہن کر اپنی شخصیت کو مزید پُرکشش دکھائی دیتی ہیں۔’’ایکسپریس سنڈے میگزین‘‘ کے لئے ہونیوالے فوٹو شوٹ میں ماڈل سائرہ نذیر اور معروف گلوکار شجاعت علی خاں شادی کی تقریبات میں استعمال ہونے والے ملبوسات کو پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں کا کہنا ہے کہ شادی کی تقریبات روایتی ملبوسات کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں۔ مغربی پہناوں کے ساتھ ان تقریبات کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔

لمبی عمر کا راز

$
0
0

بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وقتِ مقررہ سے پہلے اور خدا کی رضا کے بغیر نہ تو کوئی روح اس دنیا میں آ سکتی ہے اور نہ ہی خدا کے مقررہ وقت سے پہلے کسی کو موت آ سکتی ہے۔ مگر سائنس روحانیت اور جذبات سے عاری ہے۔ سائنس کا ایک بنیادی اصول ہے کہ یہ ہر شے کو مادی، تجزیاتی اور تجرباتی پیمانوں پر پرکھتی اور نتائج اخذ کرتی ہے۔

امریکا کے اخبار ’’ایوننگ پوسٹ‘‘ نے اس راز سے پردہ اٹھانے کیلئے کہ لمبی عمریں پانے والے آخر کس طرح موت کے بے رحم ہاتھوں سے اتنے طویل عرصہ بچے رہے، باقاعدہ ایک کمیشن مقرر کیا اور اس انداز میں سارے انتظامات کئے گئے جس طرح سیاسی مسائل میں امریکیوں کا رحجان اور ان کی رائے معلوم کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اس کمیشن نے تلاش و تجسس کے بعد 402 معمر ترین افراد کا پتہ لگایا، ان سے تفصیلی انٹرویو کئے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا درازی عمر کے واقعی کچھ ٹھوس اسباب اور لگے بندھے اصول ہیں یا یہ قدرت کا کھیل ہے ۔ لمبی عمریں پانے والے آخر کیا کھاتے اور کس طرح رہتے ہیں؟ منتخب افراد میں سب کے سب 90 سال سے زائد عمر کے تھے ان میں مردوں کی تعداد 250 اور عورتوں کی 152 تھی ۔ نسلی اور جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے سفید فام امریکی 364‘ نیگرو 34 ‘ ایک جاپانی اور تین ریڈ انڈین تھے اور یہ لوگ مختلف جغرافیائی خطوں میں رہ رہے تھے ۔

کچھ انتہائی گرم علاقوں، میں کچھ انتہائی سرد علاقوں میں ،کچھ خشک آب و ہوا میں اور چند مرطوب خطوں کے رہنے والے تھے ۔ جب ان لوگوں سے ملاقات کی گئی تو اندیشہ یہ تھا کہ ان میں سے بیشتر افراد ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہوں گے کہ ان سے کام کی باتیں معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ان میں صرف سات فیصد افراد ایسے نکلے البتہ ان سب کی سماعت میں کسی نہ کسی حد تک فرق ضرور آچکا تھا ۔ ان لوگوں سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ آپ کے خیال میں درازی عمر کا راز کیا ہے۔ 48 فیصد افراد نے صاف صاف الفاظ میں اقرار کیا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ ان کی درازی عمر کا کیا سبب ہے۔ 22 فیصد نے اسے ’’اللہ کی مرضی‘‘ کا مظہر قرار دیا ۔17فیصد لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ انہوں نے زندگی میں کبھی فکر و پریشانی کو پاس پھٹکنے نہیں دیا ، ہر حال میں خوش رہے اور زندہ دلی شعار کی۔ 16فیصد افراد نے طوالت عمر کا سبب اپنی جفاکشی اور محنت کو ٹھہرایا‘ 11فیصد نے کہا کہ درازی عمران کی خاندانی خصوصیت ہے اور صرف 9 فیصد افراد نے نیند، کھانے اور ورزش میں باقاعدگی کو زیادہ عرصے زندہ رہنے کی بنیاد بتایا لیکن یہ سارے جوابات درحقیقت اس سوال کا کوئی دو ٹوک اور متعین جواب یا حل پیش نہیں کرتے۔

البتہ ان سے یہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کا طریقہ زیادہ مدت تک جینے کی ایک اہم بنیاد ہے لیکن یہ کوئی نئی دریافت نہیں۔ 1822ء میں ایک انگریز ڈاکٹر کچز اپنی کتاب ’’درازی عمر کے راز‘‘ میں یہ مشورہ دے چکا ہے کہ جلدی سو جائو، صبح سویرے اٹھ جائو ،کھلی ہوا میں اتنی ورزش کرو جس سے تھکان ہو‘ سیدھی سادی غذا اعتدال کے ساتھ کھائو اور ہر دم خوش و خرم رہو، ذہن کو پریشانیوں اور الجھنوں کی آماجگاہ نہ بننے دو‘ لیکن ڈھونڈنے سے ایسی مثالیں بھی مل سکتی ہیں کہ ان ساری تدابیر کے بغیر بھی بعض لوگ اوسط سے کہیں زیادہ عرصے زندہ رہے۔ ان عمر دراز لوگوں سے جن کا اوپر ذکر آ چکا ہے‘ گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے نصف تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے عمر بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، باقی لوگوں میں بھی اکثریت نے شراب یا تو بہت کم پی اور اگر پی ہے تو اس میں بھی اعتدال کا خاص خیال رکھا ہے، صرف ایک فرد ( 115سالہ) نے بتایا کہ اس نے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ شراب پینے کی کوشش کی ہے۔ مشی گن کی ایک سو ایک سالہ مسز میری اینیر کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ اسی سال سے مسلسل ہر ہفتے ایک کوارٹر شراب پیتی ہے اور کئی سال سے اس نے روزانہ ایک گیلن تک بیئر پی ہے۔

ان لوگوں میں 97 فیصد افراد ایسے پائے گئے جو مذہب سے کسی نہ کسی حد تک لگائو رکھتے تھے اور ان میں 73 فیصد تو اپنی زندگیوں میں کٹر مذہب پرست واقع ہوئے تھے لیکن چھ افراد ایسے بھی نکلے کہ جو سرے سے خدا کے منکر تھے۔ سگریٹ نوشی کے اعتبار سے جائزہ لیا گیا تو 60 فیصد افراد ایسے نکلے جو سگریٹ سے بالکل پرہیز کرتے رہے اور 14 فیصد ابھی تک سگریٹ پی رہے ہیں لیکن ان میں جداگانہ مثال ایک جج کی ہے جو بستر سے اٹھتے ہی اپنے پائپ میں تمباکو بھر کر پینا شروع کر دیتا ہے اور رات کو سونے کے وقت تک پائپ اس کے منہ سے جدا نہیں ہوتا۔

وزن کے اعتبار سے ان میں اوسط درجے کے  مرد کا وزن تیس سال کی عمر میں 152 پونڈ رہا‘ لیکن بعض 200 پونڈ سے بھی آگے نکل گئے۔ تین مردوں اور ایک عورت کا وزن اس عمر میں بھی دو سو پونڈ سے اوپر ہے۔ ان 402 معمر ترین افراد میں تیرہ مرد اور پانچ عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے شریک زندگی سے طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کی۔ کھانے کے معاملے میں تقریباً سب نے ہی بتایا کہ وہ صرف اتنا کھاتے ہیں جس سے انہیں بھوک محسوس نہ ہو لیکن حلق تک ٹھونسنے سے سب پرہیز کرتے رہے ہیں۔ 75 فیصد افراد اپنے پیشے سے پوری طرح مطمئن اور اپنے کام میں مگن رہے۔

ان افراد میں ٹیکساس کی ایک خاتون شامل ہے جس کی عمر 103 سال کے لگ بھگ ہے۔ وہ غلاموں کی تجارت کرنے والے ایک تاجر کی بیٹی ہے۔ اس نے اپنی خوراک میں وہ تمام چیزیں استعمال کیں جو صحت اور درازی عمر کے لئے بظاہر کوئی خاص مفید نہیں سمجھی جاتیں‘ مثلاً شکر‘ چکنائی‘ آلو اور گوشت وغیرہ۔ اس کا عام طریقہ یہ تھا کہ وہ اگر سبزی پکاتی تو اسے بھی کافی دیر تک پہلے چربی یا کسی اور چکنائی میں جوش دیتی تھی۔ اسے کبھی یہ معلوم نہ ہوا اور نہ اس بات کو جاننے کی ضرورت پیش آئی کہ چکنی غذائیں دل کو کم زور کرتی اور اختلاج قلب کے مرض میں مبتلا کرتی ہیں یا یہ کہ شکر کا زیادہ استعمال گردے کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان ساری بے اعتدالیوں کے باوجود  وہ اوسط عمر سے تقریباً پچاس ساٹھ سال اوپر گزر چکی ہے اور آج کل امریکی قانون کے مطابق ایک آرام گاہ میں رہ رہی ہے جو معمر لوگوں کو زندگی کے آخری ایام میں کسمپرسی اور فاقہ کشی کی مصیبت سے بچانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں وہ اپنی خوراک کے انتظام سے سخت نالاں ہیں کیوں کہ ڈاکٹر اپنے جدید فارمولوں کے مطابق ان آرام گاہوں کی خوراک چکنائی اور دوسری مضر صحت اشیا سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس خاتون کو نمک اور چکنائی بہت کم دی جاتی ہے۔

یہی معاملہ  95 سالہ سرخ و سفید شخص ریڈنگ بیک کا ہے۔ وہ مسوری کا رہنے والا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ساری عمر چربی والا گوشت، آٹے کی روٹی اور لوبیا استعمال کرتا رہا ہے۔ گوشت جتنا چکنا ہو‘ اسے اتنا ہی اچھا لگتا ہے۔ چارلی واشنگٹن کی عمر 115 سال ہے ، وہ بھی چکنائی اور گوشت خوب استعمال کرتا ہے۔ خاص طور پر بھنا ہوا گوشت اس کی مرغوب غذا ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان چیزوں کا استعمال رگوں میں سختی پیدا کر دیتا ہے البتہ بھوک سے زیادہ کھانا واقعی مضر ہے۔ 78 فیصد افراد نے اس بارے میں متفقہ طور پر ایک ہی طرز عمل کا ذکر کیا کہ وہ کھانے کے معاملے میں اس بات کی بہت احتیاط رکھتے ہیں کہ بھوک سے کچھ کم ہی کھایا جائے۔ غرض مجموعی طور پر ان سارے افراد کے حالات سے یہ اندازہ ہوا کہ کھانے کے معاملے میں انہوں نے کوئی خاص قید یا پابندی اپنے اوپر عائد نہیں کی اور درازی عمر کا کھانے کے اجزاء سے کم از کم ان افراد کی حد تک کوئی خاص تعلق واضح نہیں ہوا ۔ عمر کی انتہائی منازل میں پہنچنے کے باوجود انہیں زندگی سے پوری دل چسپی ہے اور وہ چست اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ ان افراد میں ایک شخص جیمز بریٹ ہے ۔ جو پکا مذہبی شخص ہے۔ اس سے زیادہ سکون شاید ہی کسی کو میسر آیا ہو۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ تم کتنے عرصے اور زندہ رہو گے تو اس نے نہایت پرسکون لہجے میں جواب دیا۔’’بھائی! موت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے نہ میں اس کے بارے میں کوئی علم رکھتا ہوں ، یہ تو خد کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اس کی مرضی ہے میں زندہ رہوں گا اور جب وہ چاہے گا مجھے اٹھالے گا ‘‘۔

خوش گوار اور پر مسرت ازدواجی زندگی بھی طویل عمر کا ایک سبب ہے۔ زیر مطالعہ افراد میں سے 94 فیصد نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ان کی گھریلو زندگی بہت اچھی اور پر سکون رہی ہے صرف چھ فیصد افراد ایسے نکلے جنہوں نے شادی نہیں کی ۔ شادی شدہ لوگوں نے اس دور میں زندگی گزاری کہ جب مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں زندگی میں شاید ہی کبھی خاندانی جھگڑوں سے کوئی واسطہ پڑا ہو۔ یہ لوگ ذہنی طور پر بھی بہت آسودہ ہیں۔ ان کا ضمیر بالعموم پاک صاف ہے اور اپنے پیشے اور کاروبار میں بھی یہ بہت خوش اور مطمئن رہے ہیں۔ 5 فیصد افراد کے سوا جنہیں معاش کے معاملے میں پریشانیوں اور الجھنوں سے دو چار رہنا پڑا‘ باقی تمام لوگ بہت خوش قسمت رہے ہیں ۔ انہوں نے بالعموم آزاد کاروبار کئے اور ملازمت یا ماتحتی کی زندگی سے بہت کم واسطہ پڑا اور یہ لوگ کبھی رشک و حسد کے ’’امراض‘‘ میں مبتلا نہیں ہوئے۔ البتہ بعض افراد نے اس حسرت کا اظہار ضرور کیا کہ کاش انہوں نے تعلیم اور زیادہ حاصل کی ہوتی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ بہتر تعلیم یافتہ ہوتے تو زندگی ان کے لئے اس سے بھی زیادہ پر مسرت اور خوش گوار ہوتی۔

بحیثیت مجموعی اس انوکھے  جائزے سے یہ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ کہ کھانے میں اعتدال، اچھا چال چلن، خانگی جھگڑوں سے بے نیازی اور ورزش زندگی کی گھڑیوں کو نہ صرف خوش گوار بناتی ہے بلکہ طویل بھی کر دیتی ہے۔

لمبی اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے چند تجاویز:

٭دبائو اور ڈپریشن سے بچنے کی کوشش کریں‘ یہ زندگی کم کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔

٭کم از کم روزانہ آدھا گھنٹہ ورزش کو معمول بنا لیں، یہ آپ کو بڑھاپے کی کمزوریوں سے روکے گی اور آپ کے اعصاب زیادہ طویل عرصے تک آپ کا ساتھ دیں گے۔

٭مناسب اور متوازن غذا استعمال کریں‘ ایسی غذا سے پر پرہیز کریں جس میں زیادہ چکنائی ہو۔

٭ آپ کی غذا میں فیٹی ایسڈز کم سے کم ہونے چاہئیں۔ یہ خوراک ہی ہے جو آپ کو مختلف امراض سے بچاتی اور مختلف امراض میں مبتلا کرتی ہے۔ زیادہ چکنائی کولیسٹرول دل کے امراض کا باعث ہوتے ہیں اور اس میں اب کسی شک کی بھی گنجائش نہیں رہی۔

٭کم از کم رات میں سات سے آٹھ گھنٹے کی معیاری نیند لیں۔ یہ آپ کے جسم کے خلیوں کو نئی جان دیتی ہے اور دن بھر کی مشقت سے جسم کے خلیوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے تاہم نیند کے لئے ضروری ہے کہ یہ پر سکون ہو بار بار اٹھنا نہ پڑے اگر آپ نیند نہ آنے کے مرض انسومینیا میں مبتلا ہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنی نیند کو بہتر بنائیں۔

٭شراب نوشی اور الکحل سے جس حد تک ممکن ہو پرہیز کریں‘ آپ کے کسی عمل میں زیادتی کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔

٭سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں‘ تمباکو کے استعمال سے جہاں آپ کے دانت خراب ہوتے ہیں‘ ان پر دھبے پڑتے ہیں وہیں براہ راست اس سے آپ کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک منٹ میں ایک سگریٹ پی جاتے ہیں تو سمجھئے کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک منٹ کم کر دیا۔

٭وزن کو مت بڑھنے دیں۔ جسم پر چربی کے آنے کا مطلب ہے کہ آپ موٹاپے کی طرف گامزن ہیں اور موٹاپا زندگی کا دشمن ہے۔ اس سے بیشتر نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے اپنا وزن درست رکھیں۔ وزن میں اضافہ عمر میںکمی کرنے کے مترادف ہے۔

٭اپنی غذا میں اینٹی آکسیڈینٹ اجزاء اور وٹامن شامل رکھیں اور ڈیری کی مصنوعات یعنی دودھ اور دہی وغیرہ سے مذکورہ غذائیت حاصل کریں۔

٭بروقت تشخیص کسی بھی مرض کے علاج کی بنیادی کنجی تصور کی جاتی ہے، لہذا کینسر اور دل کے امراض سے بچنے کیلئے ہر سال اپنا مکمل طبی معائنہ کراتے رہیں خواہ آپ کسی بیماری میں مبتلا ہوں یا نہیں۔

٭کم از کم آٹھ سے دس گلاس روزانہ صاف پانی پینا اپنا معمول بنا لیں‘ یہ آپ کی جلد کو بہتر رکھے گا اور گردے اور مثانے کے امراض سے بچنے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔

٭خود کو کبھی بوڑھا اور بے کار آدمی خیال نہ کریں‘ عمر کے کسی حصے میں بھی ہوں اپنی سوچ نوجوانوں جیسی رکھیں‘ اسی لئے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ عمر کا تعلق انسان کی سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کی سوچ جوان ہے تو آپ بھی جوان ہیں۔

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

$
0
0

وطن عزیز آج کل پھر سیلاب کی لپیٹ میں ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر ایک بار پھرمجبور ہوچکے ہیں۔

حکمران اپنی بساط کے مطابق امدادی کاموں کے ذریعے سیلاب زدگان کی دل جوئی میں مصروف ہیں لیکن ستمبر میں مزید بارشوں کی پیش گوئی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں بے گھر شہریوں کی تکالیف میں جب مزید اضافہ (اللہ نہ کرے) ہو گا، تو اِس کو کم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کیا بھی جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے کام جن کو لوگ آج بھی کرنا چاہتے ہیں وہ اس لیے نہیں ہو پاتے کہ بدعنوانی اور بدنیتی نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں، پاکستان میں جب بھی سیلاب آتا ہے حکومتی سطح پر یا وزیراعظم کے نام سے ایک فنڈ قائم ہو جا تا ہے،پھر تمام بینکوں کے ذریعے عطیات وصولی کا سلسلہ شروع ہوتا جاتا ہے، لیکن آج تک علم نہیں ہوا کہ ہر بار یہ عطیات کہاں خرچ  ہوتے ہیں؟ مستحق افراد کو ملتے بھی یا نہیں؟

تاریخ گواہ ہے حکومتی سطح پر تمام تر اقدامات اور امدادی منصوبوں کے بعد ہمیشہ سیلاب زدگان اپنی مدد آپ کے تحت ہی زندگی کے دھارے میں دوبارہ واپس آئے، یہی ہمارے عہد کا ایسا کڑوا سچ ہے، جس کو ہضم کرنا مشکل ضرورہے مگر اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔ اِس ضمن میں ایک مثال درج ہے کہ مشرف حکومت تھی، سیلاب آ چکا تھا ، ملک کے اندر مخیر حضرات نے دل کھول کر عطیات دیے، غیر ممالک نے بھی ہر سطح پر مدد کی، سعودی عرب نے سیلاب زدگان کے لیے قیمتی کھجوروں کا تحفہ دیا تاکہ چند ہفتوں بعد آنے والے رمضان کے دنوں میںسیلاب زدگان روزہ افطار کر سکیں، سیلاب کے بعد رمضان المبارک آ گیا، کراچی میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا، وہاں سعودی سفیر بھی مدعو تھے۔ افطاری کے لیے جب کھجوریں میزوں پر رکھی گئیں تو سعودی سفیر نے وہ کھجوریں پہچان لیں، جو عطیہ کی گئی تھیں۔ پہلے تو وہ افطاری سے اٹھ کر جانے لگے مگر پھر ان کو یہ بتا کر روک لیا گیا ’’ کہ کھجوریں بہت زیادہ تھیں، اِس لیے تقسیم کے بعد جو بچ گئیں، وہ ارباب اختیار نے آپس میں تقسیم کرلیں‘‘ کہتے ہیں سعودی سفیر صرف مسکرا کر رہ گئے اور اپنے ساتھ آنے والے ایک دوسرے معزز مہمان سے صرف یہ کہا ’’میں نے پہلی مرتبہ عطیات بچتے اور آپس میں بٹتے ہوئے دیکھے ہیں‘‘۔

پاکستان میں سیلاب اور مون سون بارشوں کی صورتحال بتدریج شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور بارشوں اور سیلاب سے اگست کے آخر تک 1.5 ملین پاکستانی متاثر ہوچکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)  کے تازہ اعداد و شمار  کے مطابق  گزشتہ ماہ کے دوران شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث کم از کم 178 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ رواں مون سون سیزن کے دوران پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال اور بارشوں کی وجہ سے 855 افراد زخمی بھی ہوئے۔ حکام کے مطابق پاکستان بھر کے 5 ہزار 615 دیہات متاثر ہیں جب کہ 20 ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔  تقریباً دس لاکھ متاثرہ  افراد کے بعد صورت حال تیزی کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 350 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وسطی پنجاب، جنوبی سندھ اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ ماہ بھی شدید بارشوں کی توقع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔  نومنتخب وزیراعظم نواز شریف نے بھی چاروں صوبوں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے انتظامات مکمل رکھیں۔ اگر ستمبر کے دوران شدید بارشیں ہوتی ہیں تو پاکستان کا وسیع رقبہ زیر آب آنے کا خدشہ ہے اور اس سے نمٹنا نومنتخب حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا۔ سیلاب کی صورت حال سنگین تر ہونے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا بل کہ وسیع پیمانے پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

پاکستان گزشتہ تین برسوں سے سیلابوں اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے اور مقامی میڈیا کی طرف سے حکومتی اداروں کو موسمی خطرات سے مناسب طور پر نہ نمٹنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘رہتا ہے۔2010 میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 1800 افراد ہلاک اور 21 ملین افراد متاثر ہوئے تھے اور اس سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ اب حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 178 افراد ہلاک جب کہ متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 64، خیبر پختونخوا میں 24، سندھ میں 35، بلوچستان میں 18، قبائلی علاقہ جات میں 12 اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب تک 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سب زیادہ نقصان صوبہ پنجاب میں ہوا ہے جب کہ نقصان کے لحاظ سے صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے 855 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں 790 افراد پنجاب سے ہیں اس کے علاوہ  سات لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد متاثرین کا تعلق  بھی  پنجاب سے ہے۔ اب تک تباہ ہونے والے دیہاتوں کی تعداد 5615 بتائی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دیہات صوبہ سندھ میں ہیں جن کی تعداد 3341 ہے۔ صوبہ پنجاب کے 1917، صوبہ بلوچستان کے 342 اور صوبہ خیبر پختونخوا کے 15 دیہات متاثر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 20,312 مکانات مکمل طور پر تباہ جب کہ 28,017 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں اگست کے آخر تک 55 افراد ہلاک اور 790 زخمی ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے 1741 دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔555030 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں اور متاثرہ افرار کی تعداد 634322 ریکارڈ ہوئی تھی۔ بارشوں اور سیلاب سے کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 760353 ایکڑ، صوبہ سندھ میں 203,593 ایکڑ، بلوچستان میں 63969 اور صوبہ خیبر پختونخوا میں 4,279 ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔ حالیہ بارشوں سے مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا اور اس سلسلے میں زیادہ نقصان صوبہ بلوچستان میں ہوا جہاں 4,555 مویشی ہلاک ہوئے۔ متاثر افراد کی مدد کے لیے ملک کے مخلتف حصوں میں 323 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں 210کیمپ صوبہ پنجاب، 109 کیمپ صوبہ سندھ اور 4 کیمپ صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ ملک میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران ساڑھے آٹھ سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا اور سیکڑوں افراد ہلاک ۔ اس کے علاوہ دو کروڑ سے زیادہ افراد کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالیہ مون سون کی بارشوں سے دریاؤں اور ندی نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے سے اب بھی مختلف دریاؤں میں درمیانے اور اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں جلد کی بیماری پھیلنے کے علاوہ لوگوں کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایات بڑھنے کی اطلاعات ہیں تاہم محکمہ صحت کے مطابق صورت حال قابو میں ہے اور ان بیماریوں نے فی الحال وبائی شکل اختیار نہیں کی۔

چاروں اور سمندر چھلکے، پینے کو اک بوند نہیں

سیلاب کے دنوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہوتی ہے۔ ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر وہ پانی رحمت کی بجائے زحمت بن چکا ہوتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ پالتو جانوروں کو بھی پانی چاہیے، متاثرین کے بقول ’’خوراک کے بغیر وقت کٹ جاتا ہے مگر پانی کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ کیچڑ، بد بو، حبس اور بے بسی کے عالم میں پانی وہ واحد شے ہو تی ہے، جو سانس کی ڈوری کو ٹوٹنے بچاتی ہے۔ بچے جب سوکھے ہونٹوں سے پانی مانگتے ہیں تو ……….؟ کر بلا کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے‘‘۔


براڈلے ہال

$
0
0

ضلع کچہری کے بالکل عقب میں ریٹی گن روڈ واقع ہے جو آگے چل کر حضرت داتا گنج بخش کے مزار مبار ک کے مغرب سے گزرتا ہے ، گو اس سڑک کی تاریخی اہمیت سے اب لوگ واقف نہیں ہیں مگر انگریزوں کے دور حکومت میں اس علاقے کی بڑی اہمیت تھی۔

ریٹی گن روڈ کو ضلع کچہری کی عقبی سڑک ایک طرف آئوٹ فال روڈ سے اور دوسری طرف لوئر مال سے ملاتی ہے ۔ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول کے ساتھ ہی یہ سڑک شروع ہو جاتی ہے ۔ ریٹی گن روڈ شروع ہوتے ہی صرف سوگز چلنے کے بعد بائیں طرف دوسرے نمبر پر ایک گلی مڑتی ہے ، یہیں پر وہ مشہور تاریخی عمارت براڈ لے ہال موجود ہے جسے انسانی حقوق کے لئے لڑنے والے برطانوی ایڈووکیٹ اور دانشور سر چارلس براڈ لے کی خریدی گئی زمین پر تعمیر کیا گیا ، مین روڈ سے یہ اندازہ نہیں ہو تا کہ یہاں پر ایسی شاہکار تاریخی عمارت موجود ہے، وہ تو جب انسان اس گلی میں داخل ہوتا ہے تو تھوڑی سی کھلی جگہ کے بعد قدیم فن تعمیر کا شاہکار سامنے آجاتا ہے، اس دو منزلہ عظیم الجثہ عمارت کو دیکھ کر انسان مبہوت رہ جاتا ہے، ایک تو یوںگلی میں داخل ہونے سے عمارت کا اچانک سامنے آنا دوسرا قدامت کے باوجود عمارت کی شان و شوکت برقرار ہونا، جسے دیکھتے ہی انسان کے ذہن میں اس انقلابی دور کا نقشہ گھوم جاتا ہے۔

براڈلے ہال انگریزوں کے دور حکومت میں 1900ء سے لے کر 1947ء تک پورے ہندوستان کے لئے آزادی کے انقلاب کی علامت رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جگہ کا مالک سر چارلس براڈلے ایک انگریز تھا جبکہ یہ جگہ استعمال ہندوستان کے لوگوں نے کی اور وہ بھی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے۔ جس جگہ یہ ہال واقع ہے اب تو وہاں بہت گنجان آباد ی ہے جبکہ انیسویں صدی میں اس جگہ کو بہت اہمیت حاصل تھی اور یہاں پر انگریزوں کی رہائش گاہیں تھیں اور اس علاقے کا شمار شہر کے بہترین علاقوں میں ہوتا تھا ، بلکہ یوں کہا جائے کہ ایلیٹ کلاس یہاں آباد تھی تو غلط نہ ہو گا ، سر چارلس براڈلے جب ہندوستان آئے تو انھوں نے یہاں پر ایک قطعہ اراضی خریدا، مگر چارلس براڈلے لامذہب تھے اور برطانیہ کے مقبوضات پر بھی تنقید کرتے تھے حتیٰ کہ انھوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے عوام کو آزادی دینے کے حوالے سے ایک قرار داد بھی پیش کی اور انھوں نے یہاں پہنچ کر بھی ہندوستان کے عوام کے حق میں بولنا شروع کر دیا اس لئے ان کی طرف سے اراضی خریدنے کے اقدام کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔

انڈیا پہنچ کر انھوں نے ریلوے ٹریک بچھانے کا کنٹریکٹ لے لیا مگر جب ان کی تنقید انگریز حکومت کی برداشت سے باہر ہوگئی تو چارلس براڈلے کو انڈیا چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا ، مگر چارلس براڈلے دل میں تہیہ کر چکے تھے کہ حکومت کی اس زبردستی کو نہیں مانیں گے ، حکومت کی طرف سے انھیں جو نوٹس ملا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ وہ انڈیا کی سرزمین چھوڑ دیں تو انھوں نے اس حکم پر من و عن عمل کرنے کے لئے ایک کشتی خریدی اور کھانے پینے کی اشیاء اس میں رکھ کر دریائے راوی میں لنگر انداز ہو گئے ، جب ان سے کہا گیا کہ انھیں تو انڈیا چھوڑ دینے کے احکامات دئیے گئے ہیں تو ان کا موقف تھا کہ انھیں جو نوٹس ملا ہے اس میں انڈیا کی سرزمین پر نہ رہنے کا حکم ہے اور وہ نوٹس کے مطابق عمل کر رہے ہیں کیونکہ وہ دریائے راوی کے پانی پر لنگر انداز ہیں نہ کہ انڈیا کی سرزمین پر ۔ یوں کافی دن تک محاذ آرائی چلتی رہی ، حکومت نے جب کوئی چارا نہ دیکھا تو انھوں نے چارلس براڈلے کو زبردستی ہندوستا ن سے نکال دیا ۔ برطانیہ جا کر بھی انھوں نے انڈیا کے عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لئے سول سوسائٹی اور مزدوروں کو متحرک کیا۔

چارلس براڈلے کے جانے کے بعد ہندوستانی سیاستدان سریندر ناتھ بینر جی نے 1900ء میں اس ہال کا افتتاح کیا ۔ سریندر ناتھ بینر جی کا شمار اس وقت کے مدبر سیاستدانوں میں ہوتا تھا ، وہ انڈین نیشنل ایسوسی ایشن کے ممبر تھے اور یہی تنظیم بعد میں انڈین نیشنل کانگریس بنی۔ سریندر ناتھ بینر جی 1898ء سے 1905ء تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔ تب یہ ہال سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور یہاں گاہے بگاہے سیاسی اور ثقافتی تقاریب منعقد ہونے لگیں۔

براڈلے ہال کے حوالے سے سب سے زیادہ کام لالہ لاجپت رائے نے سر انجام دیا۔ لالہ لاجپت رائے 28جنوری 1865ء میں دھودک ضلع موگا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1880ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی ، مہاتما گاندھی کی سول نافرمانی تحریک میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور براڈلے ہال لاہور میں ان لوگوں کے لئے نیشنل کالج کی بنیاد رکھی جو انگریز سرکار کی طرف سے قائم کردہ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے ، نیشنل کالج کا ذکر آتے ہی انگریزوںکے ہندوستان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف بھرپور جدو جہد کرنے والے پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور یش پال کا تصور ذہن میں در آتا ہے، بھگت سنگھ نے 1922ء میں نیشنل کالج میں داخلہ لیا اور یہیں اس کی ملاقات سکھ دیو وغیرہ سے ہوئی، اس کالج میں داخلہ دلانے میں بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ نے اہم کردار ادا کیا ، وہ غدر تحریک کے نمایاں رہنمائوں میں سے تھے، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی 1926ء تک اس کالج سے منسلک رہے اور یوں ان کی سیاسی تربیت ہوئی اور انھوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھر پور کردار ادا کیا۔

اس دور میں کالج میں ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے ڈرامے اور مختلف تقاریب منعقد ہوتی رہیں ۔ 1928ء میں جب سائمن کیمشن کا بائیکاٹ کیا گیا تو براڈلے ہال بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور لالہ لاجپت رائے ، مولانا ظفر علی خان اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ان تقاریب کے میزبان ہوتے تھے، اسی دور میں جواہر لال نہرو، اجیت سنگھ اور دیگر نامور سیاستدان ان تقاریب میں اپنی شعلہ بیانی کا جادو جگاتے اور سامعین کے دلوں کو گرماتے۔ بھگت سنگھ کی پارٹی نوجوان بھارت سوابھا کے ممبر شریف متین نے بھگت سنگھ کے کیس کے دوران احتجاج کے لئے براڈلے ہال میں کیمپ لگایا، جس میں پارٹی ممبران کے علاوہ بھگت سنگھ کے خاندان والوں نے بھی شرکت کی، یہ لوگ براڈلے ہال کے باہر چارپائیوں پر بیٹھ جاتے اور وہاں سے گزرنے والوں کو احتجاجی پیغام دیتے ، انگریز حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے براڈلے ہال کے باہر مین روڈ پر پولیس چوکی قائم کر دی مگر آزادی کے متوالوں کی سرگرمیاں ہر حال میں جاری رہیں۔

بیسویں صدی کے پہلے تین چار عشروں میں غدر تحریک، کسان تحریک اور پگڑی سنبھال جٹا کے ممبران براڈلے ہال میں ہی پناہ گزیں ہوتے تھے۔ اسی ہال میں 1920ء میں آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کے بانی رہنما موہن رائے نے ہندوستان پر برطانیہ کے غاصبانہ قبضے کے خلاف زبردست تقریرکی اور عوام کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو کہا، ان کی اس تقریر کی گونج پورے ہندوستان میں سنی گئی۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کا کہنا ہے کہ ان کے سیاسی کیرئیر کا آغاز براڈلے ہال سے ہوا اور انھوں نے پہلی سٹوڈنٹ یونین یہیں پر بنائی ۔ انھوں نے یہاں پر جواہر لعل نہرو، جوش ملیح آبادی ، سیف الدین کچلو، میاں افتخار الدین، ہران مکھر جی اور ڈاکٹر محمد اشرف کی تقاریر سنیں۔

لاہور کا پہلا فلم سٹوڈیو 1933 ء میں براڈلے ہال کے قریب ہی قائم کیا گیا تھا ، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں انقلاب کی علامت بن جانے والی یہ عمارت پاکستان بننے کے بعد نظر انداز کر دی گئی، 1947ء کے بعد پہلے یہاں خوراک کا سٹور قائم کیا گیا بعد میں یہاں سٹیل مل قائم کردی گئی جو 1980تک قائم رہی ، اس کے بعد یہاں ایک پرائیویٹ ٹیکنیکل ایجوکیشن سنٹر قائم کیا گیا ، چند سال بعد کالج کے مالکان میں آپس میں جھگڑے کی وجہ سے کالج بند کر دیا گیا ، تب متروکہ وقف املاک بورڈ نے عدالت میں کیس کر دیا جس کا فیصلہ 2009ء میں اس کے حق میں ہو گیا تو بورڈ انتظامیہ نے ہال کو تالہ لگا دیا ، یوں ہندوستان میں انقلاب کی علامت یہ ہال تب سے بند پڑا ہے، جبکہ ہال کے بعض حصوں پر قبضے ہیں ، ویرانی کی وجہ سے یہ جگہ اب جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بھی بن چکی ہے ، ہال کی عمارت بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔

تاریخی اور ثفاقتی پہلو رکھنے والی عمارتیں ملک و قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ براڈلے ہال کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں پر قومی مشاہیر کے حوالے سے میوزیم قائم کیا جا سکتا ہے یوں یہ یادگار بھی محفوظ ہو جائے گی اور عوام کو بھی برصغیر کی نامور شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

سر چارلس براڈلے 26ستمبر 1833ء کو لندن کے قریب ہی ایک علاقے ہاکسٹن میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے والد ایک لاء فرم میں کلرک تھے ۔ ان کی آمدن کم ہونے کی وجہ سے گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی تھی، اسی وجہ سے چارلس براڈلے کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ جب وہ صرف گیارہ سال کے تھے تو مالی مسائل کی وجہ سے انھیں سکول سے ہٹا کر ایک دفتر میں آفس بوائے کے طور پر کام کرنے پر لگا دیا گیا۔ وہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انھیں اس سے تھوڑا بہتر کام میسر آیا اور ان کی ذہانت کی وجہ سے انھیں ایک تاجر نے اپنے پاس کلرک رکھ لیا۔ چارلس براڈلے کو اپنی پڑھائی کے ادھورا رہ جانے کا احساس تھا اسی لئے انھوں نے کام کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی توجہ دی تاکہ خود کو بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے، یوںمسلسل محنت کے بعد وہ اس قابل ہوگئے کہ کسی سکول میں پڑھانے کی نوکری حاصل کر سکیں ، تب انھوں نے کوشش کر کے ایک سکول میں نوکری تلاش کر لی۔

چارلس بریڈلے کے مذہب کے حوالے سے خیالات دیگر اساتذہ سے بالکل مختلف تھے یعنی وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے ، اسی لئے ان کے ساتھی اساتذہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے، چارلس براڈلے کے یہی خیالات ان کو جلد ہی نوکری سے نکالے جانے کا باعث بنے، مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اور صحافت کے میدان میں قدم رکھ دیا اور جیسے تیسے صرف 17سال کی عمر میں اپنا پہلا پمفلٹ شائع کرایا۔ اس دور میں نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا جارہا تھا، یوں انھیں بھی فوج میں بھرتی کر لیا گیا، امید تھی کہ انھیں پہلی مرتبہ ہندوستان میں بھیجا جائے گا مگر کسی وجہ سے انھیں ہندوستان کی بجائے دبلن میں تعینات کر دیا گیا۔ وہ فوج کی نوکری سے بہت تنگ تھے مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق سرکاری احکامات کو ماننے پر مجبور تھے،مگر پھر تقدیر نے ان کا ساتھ دیا اور 1853ء میں ان کی فوت ہونے والی خالہ اپنے پیچھے بہت سی جائیداد چھوڑگئی،اس کا اکلوتا رشتے دار ہونے کی وجہ سے وہ تمام جائیداد کے وارث قرار پائے۔

انھوں نے اس جائیداد کو فوج کی نوکری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور محکمے کو راضی کر کے فوج کی نوکری سے اپنی جان چھڑا لی۔ اس کے بعد وہ لندن لوٹ آئے۔ اب انھوں نے اپنے باپ کی طرح ایک لاء فرم میں بطور کلرک کام کرنا شروع کر دیا ۔ ان کے سیکولر خیالات سے تمام لوگ آگاہ تھے ، اسی مکتبہ فکر کے لوگوں نے ان کے ساتھ روابط بڑھا ئے۔ لندن میں لامذہبیت کے خیالات رکھنے والے افراد کی ایک تنظیم لندن سیکولر سوسائٹی کام کر رہی تھی، وہ اس کے ممبر بن گئے۔ 1958ء میں انھیں اس سوسائٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔ ان کی صدارت میں اس سوسائٹی نے اپنے افکار کو خوب پھیلایا اور مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں پر تنقید کی۔1860ء میں انھیں سیکولر نیوز پیپر نیشنل ریفارم کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا ۔

انھوں نے 1866ء میں نیشنل سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔1868میں ان پر توہین مذہب کے الزامات لگائے مگر الزامات ثابت نہ ہونے پر انھیں بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے وکالت کو بطور پیشہ اپنایا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور بہت سے مشہور کیسز میں کامیابی حاصل کی۔ان کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں 1880ء میں پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیا گیا، تب انھوں نے بائبل پر حلف دینے سے انکار کردیا اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کیا۔ بالآخر وہ کیس جیت گئے اور بائبل پر حلف دیئے بغیر پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے پہلے ممبر بنے۔ ممبر اسمبلی بننے کے بعد انھوں نے برطانیہ کے مختلف ممالک پر قبضے پر تنقید کی ، خاص طور پر آئرلینڈ اور ہندوستان کے لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے کے لئے اسمبلی میں قراردادیں پیش کیں، آزادی اظہار کی علمبردار اس عظیم شخصیت کا انتقال1891ء میں ہوا۔

بزم بے تکلف

$
0
0

آپ نے ابراہیم ذوق کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا:

اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے

اگر سنا ہے تو ضروری نہیں کہ آپ ان کی رائے سے اتفاق بھی کریں۔ اگر اتفاق بھی کرتے ہوں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کرتے ہوں۔ کیوں کہ شاعر حضرات کی ہر بات کو مان لینا خطرے سے خالی نہیں۔ ویسے ہم ایسے بہت سے لوگوں سے واقف ہیں جو نہ صرف اس بات سے متفق ہیں بلکہ پابندی سے اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اگر کوئی ناخوش گوار صورت حال بھی سامنے آجائے تو اسے درگزر کرنے کے بعد سختی سے اسے اپنا مسلک بنائے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بے تکلیف بھی ایک فن ہے۔ اس سلسلے میں تھوڑی ’’احتیاط‘‘ لازمی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بے تکلفی کو اپنا شعار بنانا ہو تو کچھ نازک موقعوں پر اس سے پرہیز بھی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے ملازم، اپنے باس (Boss) اور اپنی بیگم کے ساتھ بے تکلفی ایک مستقل خطرہ بن سکتی ہے، جس کے نتائج فوراً نہیں ظاہر ہوتے اور کچھ دنوں بعد انسان کو بہت کچھ جھیلنا پڑسکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم آپ سے اپنے ایک بے تکلف دوست کا تعارف کرانا چاہتے ہیں جو ہم کو کافی عزیز رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ہم کو بھی ان کا کافی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر ان کے ساتھ دقت یہ ہے کہ اکثر وہ ’’ہم حال دل سنائیں گے سنیے کہ نہ سنیے‘‘ کے آزار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماری کبھی کبھی ان پر اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ کچھ لوگ دور ہی سے ان کو دیکھ کر اس آزمائش سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک حال دل سنانے کی بیماری کا تعلق ہے تو وہ اس کو بیماری کے بجائے بے تکلفی کا اعجاز قرار دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب ہم ان کی گرفت میں آگئے تو شروع ہوگئے،’’میاں تم کیا جانو بے تکلفی کے اعجاز! تم تو بن بلائے مہمان کو بھی بغیر چائے پلائے گھر سے جانے نہیں دیتے۔ بے تکلفی کی دو قسمیں ہوتی ہیں، شائستہ اور ناشائستہ۔ اگر انسان ناشائستہ بے تکلفی سے گریز کرنا سیکھ لے تو پھر ساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ شرط ہے کہ آدمی اپنی اس شائستگی کو اپنی جاگیر نہ سمجھے۔ تم جانتے ہو کہ شائستگی کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں سے میں کوسوں دور رہتاہوں…‘‘ ان کی یہ باتیں سن کر ہم کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ پٹری سے اترنے والے ہیں اس لیے ہم نے چپکے سے اپنی گھڑی کی طرف دیکھنا چاہا تو فوراً تاڑگئے ’’گفتگو… اور دوستوں سے گفتگو میں گھڑی دیکھنا بے توجہی کی علامت ہے۔‘‘

ہم نے شوشہ لگایا… ’’ اور بے تکلفی کی بھی۔!‘‘ جس کو سن کر وہ باغ باغ ہوگئے۔ کچھ سنبھلے کہ ان کی گفتگو سچ مچ پٹری سے اترچکی تھی۔ بات بتاتے ہوئے فرمایا،’’بے تکلفی سے ایک فائدہ اور ہوتا ہے کہ حاضر جوابی آپ کے مزاج میں خود بخود شامل ہوجاتی ہے‘‘۔ اس پر جب ہم نے لقمہ دیا،’’ایسی حاضر جوابی کس کام کی جس سے پرانی سی پرانی دوستی سے آدمی محروم ہوجائے…‘‘ ہماری اس چوٹ کو بھانپتے ہوئے جواب دیا،’’ہردل عزیزی میرے حصے میں آئے یا نہ آئے، لیکن میں اب بھی ابراہیم ذوق کے فلسفے کا قائل ہوں۔ ذرا سوچیے کہ اگر بطور مہمان آپ کی پسندیدہ ڈش (DISH) آپ کے سامنے آجائے تو اس وقت تکلف کا دامن پکڑے رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ یہ سن کر ہم کو ان کی ایک کم زوری یاد آگئی۔ کھانے کے معاملے میں وہ اپنی ’’خوش ذوقی‘‘ کے لیے خاصی ’’رسوائی‘‘ حاصل کرچکے تھے۔ اس لیے ہم خاموش ہوگئے اور شائستہ بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا اور ہم اس دن دفتر دیر سے پہنچنے سے بچ گئے۔

ذکر ہمارے دوست کا آچلا ہے تو ہم ان کا مکمل تعارف آپ سے کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ ویسے تو ہیں ڈاکٹر لیکن بے تکلفی کی بیماری ان پر اتنا حاوی ہوچکی ہے کہ اپنا تعارف بھی محفلوں میں ایک خاص ادا کے ساتھ کراتے ہیں،’’میں ڈاکٹروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جن کو لوگ بغیر قصور کے آنکھیں دکھاتے ہیں۔‘‘ بے تکلفی کے علاوہ ان کی شخصیت کے کچھ اور دل چسپ پہلو بھی ہیں جن کو لوگ ان کی (Idiosyncrasy) سمجھ کر ٹال دینے ہی میں نجات سمجھتے ہیں۔ مثلاً اردو شاعری سے ان کی عقیدت۔ غالب کے وہ عاشق ہیں۔ اس لیے کہ ان کو وہ بے تکلفی کا شہنشاہ کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کرنے میں غالب کی شوخیوں کو وہ بے تکلفی کی معراج سمجھ کر مثال کے طور پر ایک دن ہمیں یہ اشعار سنانے لگے:

(1) کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملالیں یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی!

(2) ہم سے کھل جائو بوقت مے پرستی ایک دن

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن

غالب کی بے تکلفی کی زندہ مثال تم کو اس شعر میں بھی نظر آئے گی:

جس میں لاکھوں برس کو حوریں ہوں

ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

ظاہر ہے کہ ان کا دل رکھنے کے لیے ہم نے فوراً جب حامی بھرلی تو ہمارے دل میں خیال آیا کیوں نہ ان کو چھیڑا جائے۔ ہم نے فوراً دریافت کیا ’’اردو کی مزاحیہ شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تھوڑے توقف کے بعد بولے مجھے ضمیر جعفری کی وہ نظم بہت پسند ہے جس کا ماڈرن آرٹ کے سلسلے میں ایک مصرع بہت مشہور ہے:’’جس کو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی‘‘ ن، م، راشد کی آزاد نظم،’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے۔ زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں‘‘ پر کسی کی مزاحیہ تضمین ان کو بہت اچھی طرح یاد تھی۔

اے مرے حجام قینچی تھام لے

اور کردے خشخشی داڑھی مری

مولوی سے بھاگ کر آیا ہوں میں…

یہ سن کر ہم پھر گھڑی دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تو فرمایا ’’آج تمہیں اس بات کا مکمل ثبوت دے کر رہوں گا کہ بے تکلفی سے حاضر جوابی بڑھتی ہے۔‘‘ کہنے لگے صرف دو مثالیں دوں گا،’’اردو کے آل انڈیا پاک مشاعرے گزرے دنوں میں بہت دل چسپ ہوا کرتے تھے، ایسی ہی ایک محفل میں کسی گستاخ نے جوش صاحب سے ان کی عمر دریافت کرلی، جوش صاحب بہ حسن وخوبی اس کا جواب دے چکے تو جگر اور فراق وغیرہ نے بھی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتانی جب ختم کی تو مجاز فوراً بولے،’’اس لحاظ سے تو میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘

’’ڈوبائی کی ایک ایسی ہی محفل مشاعرہ میں جب بے تکلفی کا دور شروع ہوا تو ایک شاعر نے شکایت کی کہ فلاں شاعر، فلاں صاحب کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا… اور لوگ اس سے بہت نالاں ہیں۔ اس پر مجاز نے برجستہ کہا ’’تم دل چھوٹا نہ کرو ہم سب تمہاری نماز جنازہ میں ضرور شریک ہوں گے۔‘‘

ہمارے صبر کا پیمانہ اب جھلکنے ہی والا تھا کہ ایک فاتحانہ تبسم کے ساتھ انہوں نے حکم دیا،’’اب تم جاسکتے ہو…‘‘

ان سے نجات ملنے پر جب ہم دیر سے گھر پہنچے تو ہماری نصف بہتر کا پارہ خاصا چڑھا ہوا تھا۔ بڑے انتظار کے بعد جب گرم گرم چائے آئی تو ہم نے آج کا اخبار طلب کیا۔ بیگم صاحب نے تنک کر جواب دیا،’’میں تو کل سے ڈھونڈ رہی ہوں نہ جانے کہاں غائب ہوگیا‘‘

اس کے بعد ہم نے خاموشی سے آنکھیں بند کیں اور بڑی دیر تک meditateکرنے کے بعد جب نیند کا غلبہ ہوا تو خواب میں بھی ابراہیم ذوق کا شعر کوئی بڑے ترنم سے گنگنا رہا تھا۔

اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے

2 حیرت انگیز ایجادات

$
0
0

دنیا میں نت نئی ایجادات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ہر نئی ایجاد انسان کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے انسان کوبہت آگے کا سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔

اگر ایک صدی پہلے کے انسان سے میلوں دور بیٹھے دوسرے شخص سے بات کرنے کے خیال کا ذکر بھی کیا جاتا یا اگر آپ ایک خط کو منٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجنے کا خیال بھی پیش کرتے تو یقیناً آپ کو پاگل قرار دے دیا جاتا۔ ہوائی جہاز، موبائل ٹیلی فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ایک صدی پہلے ان کے بارے میں سوچنا بھی پاگل پن کی علامات سمجھا جاتا۔

اوراگر آج کے دور میں کہا جائے کہ آپ کو بازار سے جوتے، چپل یا ٹوتھ برش خریدنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے آپ خود اپنے گھر میں پرنٹ کرسکتے ہیں یا آپ کو کسی بھی لفظ کے ہجے یاد کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ کا قلم خود آپ کی تحریر اور ہجے ٹھیک کرے گا، تو یہ بات آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی۔ لیکن سائنس کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے اس کو بھی ممکن بنادیا ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ اور ’’غلط ہجے پر سرزنش کرنے والے قلم کی‘‘

تھری ڈی پرنٹر:

1983میں جب لوگوں میں سی ڈیز اور کیم کوڈر متعارف کرائے جا رہے تھے، اسی وقت تھری ڈی سسٹم کارپوریشن کے چارلس ڈبلیو چک ہلز نے دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹر ایجاد کیا تھا، اس پرنٹر میں اسٹیریو لیتھو گرافی تیکنیک استعمال کی گئی تھی۔ اس پرنٹر سے کسی بھی ٹھوس شے کو پرنٹ کرنے میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی سرمایہ بھی درکار تھا۔ اس وقت چک ہلز کی ایجاد کو بڑے پیمانے پر شہرت اس لیے نہیں مل سکی کہ عوام کی توجہ سی ڈیز اور کیم کوڈر جیسی تفریحی ایجادات پر تھی، جو ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی تھی۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چک ہلز نے اپنے پرنٹر میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں اور ان کا ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ صنعتی اداروں میں متعارف ہوتا چلا گیا، لیکن اس کی قیمت اب بھی عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھی، جب کہ سائنس دانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹر بنانے کی تگ و دو شروع کردی جو کم قیمت کے ساتھ ساتھ کم خرچ اور تیز رفتار ہو۔ رواں ماہ برطانوی کمپنی نے جدید تھری ڈی پرنٹر متعارف کرادیا ہے جو مخصوص دکانوں پر دست یاب ہے۔ 700 پائونڈ مالیت کے اس پرنٹر کو المونیم کے فریم میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ K8200پرنٹر کے ساتھ ڈیزائننگ سافٹ ویئر، پرنٹ کرنے کے لیے پانچ میٹر پولی لیکٹک ایسڈ (مکئی کے دانوں سے بننے والا پلاسٹک جیسا مادہ) تار بھی فراہم کیا گیا ہے۔

تھری ڈی پرنٹر کس طرح کام کرتا ہے؟

سب سے پہلے کمپیوٹر پر ڈیجیٹل سافٹ پر مطلوبہ تھری ڈی ڈیزائن تخلیق کیا جاتا ہے۔

اس ڈیزائن کو کمپیوٹر سے تھری ڈی پرنٹر میں منتقل کیا جاتا ہے، جو پلاسٹک کو پگھلا کر اس ڈیزائن کی تہیں (لیئرز) جمانا شروع کر دیتا ہے۔

کسی بھی تھری ڈی آبجیکٹ کی پرنٹنگ کا وقت ڈیزائن کے سائز اور اس کی پیچیدگی پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ایک موبائل فون کیس پرنٹ کرنے میں تقریباً تیس منٹ لگتے ہیں۔

تھری ڈی پرنٹر سے کیا کیا پرنٹ ہوسکتا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تعمیرات، صنعتی ڈیزائن، آٹو موبائل، ایرو اسپیس، فوجی، انجینئرنگ، دانتوں اور طب سے وابستہ صنعتوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے، بلکہ اسے فیشن، جیولری، فٹ ویئر، آئی ویئر، تعلیم، غذا اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تھری ڈی پرنٹر سے آپ اپنے موبائل فون کے کَور سے لے کر گھر کی دیواریں تک پرنٹ کر سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک تو اس میں عام انک ہے لیکن انک کے طور پر سرامک، دھات، مٹی، شکر اور چاکلیٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، اگر آپ کسی کو ویلنٹائن پر چاکلیٹ سے بنا ’’دل‘‘ دینا چاہتے ہیں تو آپ چاکلیٹ انک استعمال کرلیں۔ اگر آپ چاندی سے بنا دل دینا چاہتے ہیں تو آپ چاندی بطور انک استعمال کرلیں۔

اگر آپ کا ٹوتھ برش خراب ہوگیا ہے تو باہر جانے یا کسی کا انتظار کرنے سے اچھا ہے کہ آپ صرف اپنے کمپیوٹر میں ڈیزائن کریں اور ٹوتھ برش پرنٹ کرلیں۔

خواتین کے لیے مطلوبہ ڈیزائن کی سینڈل یا جوتا تلاش کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ کبھی رنگ تو کبھی سائز آڑے آجاتا ہے، تھری ڈی پرنٹر نے آپ کی یہ مشکل بھی آسان کردی ہے۔ اپنی یا اپنی اہلیہ کی پسند کی سینڈل یا جوتا ڈیزائن کریں اور پرنٹ کرلیں۔

ایمسٹرڈیم کی ایک آرکیٹیکچر کمپنی DUSنے20فٹ اونچا تھری ڈی پرنٹر ’’کیمر میکر‘‘ بنایا ہے، جو ری سائیکل پلاسٹک سے گھر کے مختلف حصے دیواریں، کھڑکیاں وغیرہ پرنٹ کرتا ہے بعد میں ان ٹکڑوں کو جوڑ کر گھر بنایا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے DUSکے ترجمان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر تک ہم تھری ڈی گھر فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کر دیں گے اور پائے داری میں یہ عام گھر جیسے ہی ہوں گے۔

دوسری جانب یورپین اسپیس ایجنسی چاند کی مٹی سے تھری ڈی بلاک بنا کر اپنا خلائی اسٹیشن بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

تھری ڈی پرنٹنگ مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کا 95 فی صد استعمال صنعتی، جب کہ 5 فی صد استعمال گھریلو صارفین کر رہے ہیں۔

ہوابازی کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 2050 تک تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ کیے گئے ہوائی جہاز ہوا میں اڑتے دکھائی دیں گے۔

تھری ڈی پرنٹر کو بطور ’’بائیوپرنٹر‘‘ طبی مقاصد میں محدود استعمال کیا جارہا ہے۔ فی الحال اس سے جِلد کے عام ٹشوز اور کارٹیلیج بنائے جا رہے ہیں۔ اس طریقے میں زندہ خلیات کے مرکب سے بنی ’’بائیو انک‘‘ سے پہلے خلیات کی تہ پرنٹ کی جاتی ہے، پھر اس پر ’’ہائیڈروجل‘‘ کی تہ چڑھائی جاتی ہے اور آخر تک یہ طریقہ دہرایا جاتا ہے۔

ٹشوز کے مکمل پرنٹ ہونے کے بعد ہائیڈروجل کو صاف کردیا جاتا ہے، اور یہ مکمل طور پر انسانی خلیات سے بنا ہوا ٹشو بن جاتا ہے۔ بعدازاں اسے بائیو ری ایکٹر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں یہ ٹشو قدرتی طور پر بڑھتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم جلد ہی دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے جیسے انسانی اعضا بھی پرنٹ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

ہجے چیک کرنے والا قلم:

کسی بھی لفظ کے ہجے یاد کرنا خصوصاً انگریزی زبان کے ہجے یاد کرنا بہت مشکل کام ہے اور بعض اوقات غلط ہجے یا غلط رسم الخط باعث شرمندگی بھی بن جاتا ہے، لیکن اب جرمنی کی ایک کمپنی نے ایسا ’’ڈیجیٹل پین‘‘ ایجاد کرلیا ہے جس میں روشنائی (انک) کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا کمپیوٹر بھی لگایا گیا ہے، جو لکھنے والے کو اس کی غلط ہجے اور تحریر سے آگاہ کرتا ہے۔

لرن اسٹفٹ (سکھانے والا پین) پین کو کمپنی کے دو ماہرین ڈینئیل کائس میشر اور فالک وولسکی نے ایجاد کیا ہے۔ اس حوالے سیان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس پین کے دو فنکشن ہیں۔

کیلی گرافی (خطاطی) موڈ

آرتھو گرافی (املا اور ہجے کا علم) موڈ

کیلی گرافی موڈ میں یہ پین انفرادی حرف جب کہ آرتھو گرافی موڈ میں غلط ہجے لکھنے پر ارتعاش (وائبریشن) پیدا کرتا ہے۔

اس پین میں موجود لینکس کمپیوٹر اور وائبریشن ماڈیول AAA بیٹری سے چلتا ہے، جب کہ پین کی نوک پر ایک نان آپٹیکل موشن سینسر لگایا گیا ہے جو الفاظ اور حرف کی شکل اور مخصوص حرکت کو شناخت کرتا ہے۔

یہ موشن سینسر تین سینسر کا مرکب ہے جس میں گائرو اسکوپ (سمت کی پیمائش کرنے والا) ایکسسیلیرومیٹر (رفتار کی پیمائش کرنے والا) میگنیٹو میٹر (میگنیٹک فیلڈ کی طاقت اور سمت کا تعین کرنے والا) شامل ہیں اور یہ سب مل کر پین کی تھری ڈی حرکات کنٹرول کرتے ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ لرن سٹفٹ لکھنے کی تمام حرکات کو شناخت کر سکتا ہے چاہے آپ کاغذ پر لکھیں یا ہوا میں، جب کہ بلٹ ان وائی فائی سے بری تحریر والے افراد اسمارٹ فون، کمپیوٹرز یا نیٹ ورک میں موجود دوسرے پین سے منسلک ہوسکتے ہیں۔

اس پین کے موجد فالک وولسکی کا کہنا ہے کہ یہ پین بنانے کا خیال مجھے اپنے بیٹے کی خراب لکھائی کی وجہ سے آیا، کیوں کہ میری بیوی اس بات سے بہت پریشان تھی اور میں نے اپنے ساتھی ڈینئیل سے اس بات کا ذکر کیا، جس کے بعد ہم دونوں نے مل کر اس پین کی تخلیق پر کام شروع کردیا تھا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ پین تعلیمی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ ڈسلیکزک (ایسی بیماری جس میں بچوں کو پڑھنے، لکھنے میں مشکل ہوتی ہے کیوں کہ ان کا دماغ الفاظ کو دیر سے شناخت کرتا ہے) میں مبتلا بچوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوگا۔

لرن سٹفٹ کو تعلیمی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفلڈ کے پروفیسر گریگ بروکس کا کہنا ہے کہ اس پین کی ایجاد خوش آئند ہے لیکن اس میں بھی پروف ریڈنگ کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

کائیس میشر کا کہنا ہے ہم رواں سال کے آخر تک اسکولوں میں اس پین (لرن سٹفٹ) کی ٹیسٹنگ شروع کردیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ پین انگریزی اور جرمن زبان کی شناخت کرسکتا ہے۔ تاہم بعد میں طلب کے لحاظ سے اس میں مزید زبانیں بھی شامل کی جائیں گی۔

فالک کا کہنا ہے کہ کہ مستقبل میں ہم ہجے اور تحریر چیک کرنے والی پینسل، فائونٹین پین اور بال پوائنٹ بھی مارکیٹ میں پیش کریں گے، جن کی قیمتیں160سے200ڈالر تک ہوں گی، لیکن فی الحال ابھی تک لرن اسٹفٹ کی قیمت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف مشہور کمانڈو کارروائیاں

$
0
0

15 اگست 2013 کی شام کو وفاقی دارالحکومت میں پیش آنے والے واقعے نے پوری قوم کو کئی گھنٹوں ہیجان میں مبتلا کیے رکھا۔

نجانے کس جنون میں مبتلا ایک کار سوار شخص نے ، جس کی بیوی اور دو کمسن بچے بھی اس کے ساتھ تھے، دو جدید گنوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے پورے دارالحکومت کو یوں لگا جیسے یرغمال بنالیا ہو۔ اس شخص کا نام ملک سکندر حیات اوراس کی بیوی کا کنول بتایا جاتا ہے۔سکندر نامی اس شخص نے پہلے شاہراہ دستور پر پولیس پر فائرنگ کی اوراس کے بعد ایک سب مشین گن اور ایک کلاشنکوف ہوا میں لہراتے ہوئے اپنے لایعنی قسم کے مطالبات پیش کرنے لگا۔وہ اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی ریڈ زون سے کچھ ہی فاصلے کی دوری پر تھا۔پولیس ، کمانڈوز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد وہاں پر تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوگئی جبکہ پاکستانی ٹی وی چینلز نے یہ تماشا پورے پاکستان اور پوری دنیا کو براہ راست دکھانا شروع کردیا۔

پولیس اور دیگر کمانڈوز اس پر فائرنگ کرنے سے گریزاں رہے کہ ایسا کرنے سے ملک بھر کو ایک ناخوشگوار اور پرتشدد مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا جبکہ دو کمسن بچوں اوران کی ماں کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوگا۔وزیرداخلہ کی جانب سے حکم آیا کہ مسلح شخص کو زندہ گرفتار کیا جائے اور یوں گولی چلانے کا امکان مکمل طور پرختم ہوگیا۔اس طرح کئی بار صاف نشانے پر آنے کے باوجود سکندر پر فائر نہ کیا گیا اور یوں یہ ڈرامہ لگ بھگ چھ گھنٹے تک چلتا رہا۔

عوام اس ڈرامے کے ڈراپ سین کے انتظار میں تھے کہ نجانے کیا ہوگا لیکن پھر غیرمتوقع پر طور پر پیپلزپارٹی کے ایک مقامی رہنما زمرد خان مسلح شخص کے کمسن بچوں سے پیار کرنے اور ہاتھ ملانے کے بہانے آگے بڑھے اور اچانک مسلح شخص پر جھپٹ پڑے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ پوری دنیا نے دیکھا۔زمرد خان کے اقدام کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا موقع مل گیا اور انہوں نے مسلح شخص کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا اور پھر دبوچ لیا۔اس اقدام میں زمرد خان کی جان بھی بال بال بچی۔

اس واقعے کے بعد میڈیا پر دھواں دار تبصرے اور تجزیے سامنے آنے لگے کہ کروڑوں روپے تنخواہ اور مراعات لینے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، کمانڈوز اور نشانہ باز مسلح شخص پر بروقت کنٹرول نہ کرسکے اور اس کے برعکس ایک سویلین اور غیرتربیت یافتہ شخص نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ڈرامے کو اپنے انجام تک پہنچایا۔ زمرد خان کے اقدام پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ۔ کسی نے اسے بہادری اور کسی نے بے وقوفی قراردیا۔ حتیٰ کہ موجودہ حکومت کے ایک سینیئر رہنما اور صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ نے بھی زمرد خان کے اقدام کوحماقت کا نام دیا۔ بروقت آپریشن نہ کرنے اور معاملے کو بلاوجہ طول دے کر ملک بھر میں ہیجان پھیلانے اور دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کی وجہ بننے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط اور خفیہ کمانڈو ایکشن ہونا چاہیے تھا تاکہ ملزم کو واقعے کو طول دینے سے روکا جاتا۔ اس طرح کہا گیاکہ زمرد خان کے بجائے چالاکی کے ساتھ بہت پہلے ہی کسی مارشل آرٹ کے ماہر کمانڈو کو بہانے سے سکندر کے قریب بھیج دیا جاتا تو زمرد کے مقابلے میں وہ کمانڈو سکندر کو آسانی سے کنٹرول کرسکتا تھا اور جس طرح زمرد خان کی زندگی خطرے میں پڑی ، اس طرح کمانڈو کی زندگی خطرے میں نہ پڑتی کیونکہ مارشل آرٹ کا ماہر ہونے کی وجہ سے وہ سکندر کو آسانی سے کنٹرول کرسکتا تھا۔ یہ کمانڈو ایکشن بہت پہلے ہی ہوجانا چاہیے تھا۔

دنیا میں دہشت گرد ی کے اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے بعد متعلقہ ملکوں کی افواج اور کمانڈوز نے کارروائی کی۔ وہ اس کارروائی میں ناکام رہے یا کامیاب یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے کمانڈو ایکشن بڑے مربوط انداز میں اور جدید طریقے سے کیے جاتے ہیں۔اسلام آباد واقعے میں پاکستانی حکام مکمل طورپر ناکام ہوئے اور ایک سویلین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملزم کو قابو کرنے میں مدد دی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس وقت ملزم قابو میں آچکا تھا ، اس وقت پولیس اہلکاروں اور نشانہ بازوں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کرنا ایک بچگانہ اور مضحکہ خیز عمل تھا۔ملزم کے پکڑے جانے کے بعد ہوائی فائرنگ کرکے وہ نجانے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ جس وقت ملزم کو گولیاں ماری گئیں ، اس وقت وہ ہتھیار ڈال چکا تھا اوراس کی جانب سے کسی جان لیوا اقدام کا کوئی ارادہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس طرح بلاوجہ گولیاں چلاکر کروڑوں افراد میں ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو یہ مناظر اپنی ٹی وی سکرینوں پردیکھ رہے تھے۔بالفرض اگر گولیاں لگنے کے نتیجے میں وہ مرجاتا تو حکام ایک ٹھوس اور براہ راست شہادت سے محروم ہوجاتے۔یہ تو ڈاکٹروں اور سرجنوں کی مہارت تھی کہ انہوں نے اس کی جان بچالی ورنہ مسلح سرکاری اہلکاروں نے تو اسے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔اب آخری اطلاعات کے مطابق جان بچنے کے بعد وہ اہم معلومات فراہم کررہا ہے۔آئیے ذیل میں آپ کو دنیا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے اس قسم کے واقعات اور ان سے نمٹنے کے لیے یا جوابی اقدام کی غرض سے کیے جانے والے کمانڈو ایکشنز کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں:

ماسکو تھیٹر آپریشن

23اکتوبر 2002 میں روس سے آزادی کے طالب چیچن عسکریت پسندوں نے ماسکو کے ایک سینما گھر میں داخل ہوکر 850 سے زائد افراد کو یرغمال بنالیا تھا۔جدید ہتھیاروں سے لیس ان عسکریت پسندوں کی تعداد چالیس سے پچاس تھی اور وہ شائقین سے بھرے ڈوبرووکا تھیٹر (Dubrovka Theater)میں داخل ہوگئے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق چیچنیا کی ایک علیحدگی پسند اسلامی تحریک سے ہے۔ان عسکریت پسندوں میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے تھیٹر میں موجود ساڑھے آٹھ سو افراد کو یرغمال بنانے کے بعد مطالبہ کیا کہ روسی فوج چیچنیا سے نکل جائے اور ’’دوسری چیچن جنگ‘‘ کو ختم کرے۔سرکاری طور پر ملنے والی معلومات کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعے کی قیادت مووسار بریاف نامی چیچن عسکریت پسند کررہا تھا۔دہشت گردی کا یہ واقعہ لگ بھگ اڑھائی دن تک چلتا رہا اور آخرکار روس کی الفا گروپ کمانڈو فورس نے ایک نامعلوم گیس عمارت کے وینٹی لیشن سسٹم کے ذریعے اندر چھوڑی دی اور اس کے بعد تھیٹر پر دھاوا بول دیا۔

کمانڈو ایکشن کے دوران گیس کے زہریلے اثرات سے تمام چالیس چیچن عسکریت پسندوں کے علاوہ 130 سے زائد یرغمالی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔مرنے والوں میں نو غیرملکی بھی شامل تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف دو عسکریت پسندوں کے سوا تمام عسکریت پسند زہریلی گیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو کہ انہیں بے ہوش کرنے کے لیے عمارت میں چھوڑی گئی تھی۔کمانڈو آپریشن کے دوران اس گیس کے استعمال پر روس پر شد ید تنقید کی گئی اور اس کی مذمت کی گئی۔تاہم روس کا موقف تھا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ عسکریت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔روس کا موقف تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تب بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمالیوں کی ہلاکت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ دوسری جانب گیس کا نام نہ بتانے پر ڈاکٹروں نے بھی روس کی مذمت کی اور کہا کہ اگر وہ گیس کا نام بتادیتے تو انہیں لوگوں کی جان بچانے میں مدد ملتی۔ بعض رپورٹوں کے مطابق کچھ افراد کی جانیں بچانے کے لیے naloxone  نامی دوا بہت کامیاب ثابت ہوئی۔

اسرائیلی کمانڈو ایکشن ’’قہر خداوندی‘‘

1972 میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے میونخ اولمپک گیمز میں حملہ کرکے 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس المناک واقعے کے بعد اسرائیل حکام نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا جس کا مقصد دہشت گردی کے اس واقعے کا انتقام لینا اور اس میں ملوث تمام افراد کو ہلا ک کرنا تھا۔اس آپریشن کا نام ’’قہر خداوندی‘‘ (Wrath of God) تھا جس کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں میں کارروائیاں کی گئیں اور واقعے میں ملوث فلسطینی جنگجوئوں اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایک کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔بیس سالوں تک محیط اس آپریشن کے دوران فلسطینیوں کے مسلح گروپ ’’بلیک ستمبر‘‘ اور پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) کے ارکان کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا۔اس وقت کی خاتون اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے 1972 میں اس آپریشن کی منظوری دی اور کہا جاتا ہے کہ یہ آپریشن بیس سال تک چلتا رہا۔

میونخ میں گیارہ اسرائیلی کھلاڑیوں کی ہلاکت کے دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔خفیہ آپریشن کے آغاز سے قبل کے واقعات کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے ’’کمیٹی ایکس ‘‘ کے نا م سے ایک کمیٹی بنائی جس کا مقصد میونخ واقعے پر اسرائیلی ردعمل کا تعین کرنا تھا۔اس کمیٹی میں اسرائیلی وزیردفاع جنرل اہرون یاریو کے علاوہ کئی اسرائیلی سویلین اور فوجی حکام شامل تھے۔کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مستقبل میں میونخ جیسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ملوث تمام فلسطینیوں اور ان کے غیرملکی ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔تاہم اسرائیلی رائے عامہ نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اس آپریشن کا آغاز کرنے کے لیے اسرائیلی حکام گومگو کی کیفیت کا شکار ہوگئے لیکن شش و پنج کی یہ کیفیت اس وقت ختم ہوگئی جب جرمن حکام نے لفتھانسا ائرلائن کو ہائی جیک کرنے والے دہشت گردوں کے مطالبے پر میونخ واقعہ میں ملوث تین فلسطینی عسکریت پسندوں کو رہا کردیا۔

اس کے بعد اسرائیلی حکام نے آپریشن لانچ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔انہوں نے میونخ واقعے میں ملوث فلسطینیوں کی فہرست تیار کی۔اس سلسلے میں پی ایل او میں شامل اسرائیلی موساد کے ایجنٹوں اور دوست مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے اسرائیل کی مدد کی۔ اندازوں کے مطابق اس فہرست میں کوئی 35کے قریب نام شامل تھے جو فلسطینی تنظیموں ’’بلیک ستمبر‘‘ اور پی ایل او کے ارکان اور عہدیدار تھے۔یہ فہرست مرتب ہونے کے بعد موساد کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ ان افراد کو تلاش کرے اور ٹھکانے لگائے۔

اس بیس سالہ آپریشن کی حیرت انگیز اور ہولناک تفصیلات کچھ یوں ہیں۔آپریشن کے سلسلے میں پہلا قتل 16اکتوبر 1972 کو ہوا۔فلسطینی وائل زیویتر کو روم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا جو روم میں پی ایل او کا نمائندہ تھا۔وائل ایک ڈنر سے واپس آرہا تھا کہ موساد کے ایجنٹوں نے اسے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔اسے گیارہ گولیاں ماری گئیں۔ میونخ اولمپک میں قتل کیے جانے والے اسرائیلی کھلاڑیوں کی تعداد بھی گیارہ تھی۔

موساد کا دوسرا ٹارگٹ ڈاکٹر محمد ہمشاری تھاجو فرانس میں پی ایل او کا نمائندہ تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ فرانس میں بلیک ستمبر کا سربراہ تھا۔اسے آٹھ دسمبر 1972کو پیرس میں ڈرامائی انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ہمشاری کو قتل کرنے کے لیے اس کے ٹیلی فون ڈیسک کے نیچے بم نصب کیا گیا اور اس کے بعد اسے فون کیا گیا۔جب فون پر اس نے بتایا کہ وہ ہمشاری ہے تو موساد کے ایجنٹوں نے ڈیٹونیشن سگنل بھیج کر بم کو اڑادیا۔ہمشاری شدید زخمی ہوا اور بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔اس طرح ایک اور فلسطینی ایجنٹ کو لندن میں بس کے نیچے کچل کر ہلاک کیا گیا۔

چوبیس جنوری 1973کو قبرص میں فلسطینی تنظیم فتح کے نمائندے حسین البشیر کو ٹارگٹ کیا گیا۔وہ نکوسیا کے اولمپک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔اس نے جب سونے کے لیے اپنے کمرے کی لائٹ آف کیں توچند لمحوں بعد اس کے بیڈ کے نیچے نصب بم پھٹ گیا۔حملے میں البشیر ہلاک اور اس کا کمرہ مکمل طورپر تباہ ہوگیا۔اسرائیل کا کہنا تھا کہ البشیر قبرص میں ’’بلیک ستمبر‘‘ کا سربراہ تھا۔اسکے قتل کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کے کے جی بی کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔

چھ اپریل 1973کو بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹرباسل الکبایسی کو قتل کیا گیا۔ اسے بھی گیارہ گولیاں ماری گئیں۔اسے پیرس میں قتل کیا گیا۔ اس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ بلیک ستمبر کے لوگوں کو اسلحہ اور دیگر سہولیات فراہم کرتا تھا اور فلسطین کے لیے دیگر مختلف منصوبوں میں بھی ملوث تھا۔

موساد کے تین ٹارگٹ لبنان میں سخت حفاظتی انتظامات میں رہتے تھے اور ان کو قتل کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا تھا۔چنانچہ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی آپریشن شروع کیا گیا جس کا نام Operation Spring of Youth رکھا گیا جو کہ ’’آپریشن قہر خداوندی‘‘ کا ایک ذیلی آپریشن تھا۔9 اپریل 1973ء کی رات دو اسرائیلی کمانڈو تیزرفتار کشتیوں کے ذریعے لبنان کے ساحل پر اترے۔ یہ کشتیاں اسرائیلی بحریہ کی طرف سے بھیجی گئی تھیں۔لبنان میں پہنچنے کے بعد ان کمانڈوز کی ملاقات موساد کے ایجنٹوں سے ہوئی جنہوں نے کاروں کے ذریعے انہیں ٹارگٹ تک پہنچایا۔اس کے لیے انہوں نے کبھی عورتوں اور کبھی عام شہریوں کا روپ دھارا۔ وہ بیروت میں اس عمارت تک پہنچے جہاں تینوں ٹارگٹ سخت حفاظتی انتظامات میں مقیم تھے۔ان کے نام محمد یوسف النجار ، کمال عدوان اور کمال ناصر تھے اور یہ تینوں فلسطینی تنظیموں بلیک ستمبر اور پی ایل او کے اہم لوگ تھے۔اسرائیلی کمانڈوز نے ان تینوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جبکہ اس کوشش میں دو لبنانی پولیس اہلکار ، ایک اطالوی شہری اور النجار کی بیوی بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھی۔آپریشن میں ایک اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوا جبکہ وہ عمارت مکمل طورپر تباہ ہوگئی جس پر حملہ کیا گیا تھا۔

لبنان میں اس آپریشن کے فوراً بعد تین مزید حملے کیے گئے۔قبرص میں واقع ایتھنز ہوٹل میں ایک بم حملہ کیا گیا جس میں زیاد مشاسی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ یہ شخص حسین البشیر کی جگہ قبرص میں کام کررہا تھا۔اس طرح دومزید حملے روم میں کیے گئے جس میں بلیک ستمبر کے چھوٹے درجے کے دو کارکن عبدالحمید شیبی اور عبدالہادی ناکا زخمی ہوئے۔

موساد کے ایجنٹوں نے بلیک ستمبر کے ڈائریکٹر آپریشنز محمد بائودیا کا تعاقب کیا جو کہ الجزائری نژاد تھا اور فرانس میں رہتا تھا۔ محمد بائودیا طرح طرح کے بھیس بدلنے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے خاصا مشہور تھا۔اٹھائیس جون 1973 کو پیرس میں اس کی کار کوبم سے اڑادیا گیا جس سے بائودیا کی فوری طورپر موت واقع ہوگئی۔

15دسمبر 1979 کو دو فلسطینیوں علی سالم احمد اور ابراہیم عبدالعزیز کو قبرص میں نشانہ بنایا گیا۔پولیس کے مطابق ان دونوں کو پوائنٹ بلینک رینج سے بغیر آواز والے ہتھیاروں کے ذریعے قتل کیا گیا۔سترہ جون 1982 کو پی ایل او کے دو سینئر ارکان کو الگ الگ حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔نازح میر جو کہ روم میں پی ایل او کا سرکردہ عہدیدار تھا ، اسے اس کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔اس طرح روم میں ہی پی ایل او کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمال حسین کو بم سے نشانہ بنایا گیا۔ بم اس کی کار کی نشست کے نیچے رکھا گیا تھا۔ کمال حسین نے اپنے قتل سے صرف سات گھنٹے قبل نازح میر کے گھر کا دورہ کیا تھااور تحقیقات میں پولیس کی مدد کی تھی۔

23جولائی 1982 کو پیرس میں پی ایل او کے ڈپٹی ڈائریکٹر فضل دانی کو بھی اس کی کار کوبم سے اڑا کر ہلاک کردیا گیا۔اکیس اگست 1983 کو پی ایل او کے عہدیدار مامون میرایش کو ایتھنز میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ یہ آپریشن موساد کے دو موٹرسائیکل سوار ایجنٹوں نے انجام دیا۔

دس جون 1986کو پی ایل او کے ایک دھڑے ڈی ایف ایل پی کے سیکریٹری جنرل خالد احمد نزال کو ایتھنز میں اس کے ہوٹل کے باہر قتل کیاگیا۔ نزال کے سر میں چار گولیاں ماری گئیں۔اکیس اکتوبر 1986 کو فلسطین نیشنل کونسل کے رکن اور پی ایل او کے سینئیر عہدیدار منظر ابو غزالہ کو ایتھنز میں بم حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ چودہ فروری 1988 کو قبرص میں حملہ کیا گیا اور دو فلسطینیوں ابو الحسن قاسم اور حمدی ادوان کو قتل اور مروان کنافامی کو زخمی کیا گیا۔

اسامہ آپریشن المعروف ’’آپریشن نیپچون سپیئر‘‘

ماضی قریب میں ہونیوالا یہ آپریشن اب تک کا مشہور ترین آپریشن ہے جس میں اسلامی عسکریت پسند گروپ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہدف بنایا گیا۔اس آپریشن میں امریکی بحری فوج کے ماہرترین کمانڈوز نے حصہ لیا جنہیں امریکی فوج کی اصطلاح میں ’’SEAL‘‘ یعنی سمندری شیر کہا جاتا ہے۔اس آپریشن کا کوڈ نام ’’آپریشن نیپچون سپیئر‘‘ تھا جسے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے لانچ کیا گیا تھا۔آپریشن میں پاکستان میں موجود سی آئی اے کے ایجنٹوں نے امریکہ کی بھرپور مدد کی۔

آپریشن افغانستان سے لانچ کیا گیا اور اس میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک بڑے حویلی نما گھر یا کمپائونڈ پر حملہ کیا گیا جس میں اسامہ بن لادن اپنی بیویوں بچوں اور ساتھیوں کے ساتھ مقیم تھا۔آپریشن میں کامیابی کے بعد امریکی کمانڈو اسامہ بن لادن کی لاش کو شناخت کے لیے افغانستان لے گئے اور بعدازاں چوبیس گھنٹے بعد اس کی لاش کو سمندر میں بہادیا گیا۔

یہ آپریشن انٹیلی جنس اور ایکشن کا شاندار شاہکار تھا۔امریکی انٹیلی جنس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس بات کا سراغ لگایا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں ایک گھر میں مقیم ہے۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ کی تصدیق کے لیے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اس گھر میں موجود بچوں کے خون کے سیمپل لیے گئے اور ان کے ڈی این اے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ اسامہ بن لادن کے بچے ہیں اوروہاں پر مقیم شخص واقعی اسامہ بن لادن ہے۔

اس کے بعد ایکشن کا مرحلہ تھا۔ اس کے لیے امریکی ہیلی کاپٹروں کو افغانستان سے روانہ کیا گیا جس میں انتہائی تربیت یافتہ کمانڈو سوار تھے۔مبینہ طورپر ان ہیلی کاپٹروں میں ایسے آلات نصب تھے جن کے ذریعے پاکستان راڈار جام ہوگئے اور یوں یہ ہیلی کاپٹر خاموشی کے ساتھ اپنی منزل ایبٹ آباد میں اس کمپائونڈ تک پہنچ گئے جہاں اسامہ مقیم تھا۔امریکی کمانڈو اس گھر میں داخل ہوگئے لیکن وہاں پرموجود لوگوں نے مزاحمت کی جس کے نتیجے میں گولیاں چلیں اوراسامہ بن لادن سمیت کئی افراد ہلاک ہوگئے۔آپریشن میں امریکیوں کا ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوگیا۔اس کے بعد امریکی کمانڈو اسامہ بن لادن کی لاش کو لیکر وہاں سے فرار ہوگئے۔القاعدہ کی جانب سے چھ مئی کو ایک ویب سائٹ پر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی اور انتقام لینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ دیگر پاکستانی عسکریت پسند گروپوں بشمول تحریک طالبان پاکستان نے بھی عزم ظاہر کیا کہ وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان اور امریکہ پر حملے کریں گے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور کمانڈو ایکشن

٭ستمبر 1986 میں پان ایم کی فلائٹ 73 کو دہشت گردوں نے اس وقت ہائی جیک کرلیا جب اس کی پرواز ری فیولنگ کے لیے کراچی میں اتری تھی۔ہائی جیکروں سے مذاکرات کیے گئے جو ناکام ہوئے اور دہشت گرد ہائی جیکروں نے مسافروں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔بعدازاں پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے جہاز پر دھاوا بول دیا اور ایک ہائی جیکر کو ہلاک اور دیگر کو گرفتار کرلیا۔

٭فروری 1984 میں افغان دہشت گردوں نے بچوں سے بھری سکول بس کو اغوا کرلیا۔ بس میں 74بچے اور آٹھ ٹیچر سوار تھے۔دہشت گرد بس کواغوا کرکے اسلام آباد میں واقع افغان ہائی کمیشن کی عمارت میں لے گئے جہاں انہوں نے ستاون بچوں کو رہا کردیا جبکہ سولہ بچوں اور ٹیچرز کو یرغمال بنائے رکھا۔مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد یرغمالیوں کوکمانڈو ایکشن کے ذریعے رہا کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستانی حکام نے کسی طرح بچوں کو اس بات سے باخبر کردیا کہ ان کی رہائی کے لیے آپریشن کیا جانے والا ہے۔ایس ایس جی کے کمانڈوز نے دہشت گردوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک دھماکہ کیا اورجیسے ہی دہشت گردوں میں افراتفری پھیلی ، کمانڈوز نے ان پر ہلہ بول دیا۔حملے میں تین ہائی جیکر مارے گئے۔ یہ آپریشن صرف بیس منٹ میں مکمل کرلیا گیا۔

٭مئی 1998 میں مبینہ طور پر ایک بلوچ گروپ نے پی آئی اے کا فوکر طیارہ اغوا کرلیا۔یہ بلوچ بلوچستان میں ایٹمی تجربات کے خلاف غصے میں تھے۔ہائی جیکروں سے مذاکرات کیے گئے اوراس طرح کمانڈو آپریشن کرکے تین ہائی جیکروں کو گرفتار کرلیا گیا۔کمانڈوایکشن میں ایک بھی مسافر زخمی نہ ہوا۔

٭جولائی 2007 میں کیے جانے والے لال مسجد آپریشن کو شاید کوئی نہیں بھولا ہوگا۔اس کمانڈو آپریشن میں سب سے اہم کردار پاکستانی فوج کے ایس ایس جی گروپ نے ادا کیا۔اس آپریشن کے ذریعے لال مسجد کو انتہا پسندوں سے بازیاب کرالیا گیا۔آپریشن میں مبینہ طورپر بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔انتہا پسندوں نے اس آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے ستمبر 2007 میں تربیلا غازی میں خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایس ایس جی گروپ کے کم ازکم 20  افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ذرائع کے مطابق ایک باریش خود کش بمبار جو سائیکل پر سوار تھا، ایس ایس جی میس میں آیا اور خود کو اڑالیا۔

٭تیس مارچ 2009 میں دہشت گردوں نے لاہور میں واقع پولیس اکیڈمی پرحملہ کیا جس کو ناکام بنانے کے لیے ایس ایس جی کے کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا۔

٭دس اکتوبر 2009 عسکریت پسندوں نے پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا اور بیالیس سویلینز اور فوجی حکام کویرغمال بنالیا۔ایس ایس جی کمانڈوز نے نو عسکریت پسندوں کو ہلا ک کرکے 39 یرغمالیوںکو بچالیا۔ ایک عسکریت پسند کو گرفتار کرلیا گیا۔تحقیقات کے مطابق عسکریت پسندوں کا تعلق الیاس کشمیری گروپ سے تھا۔آپریشن کے دوران چھ ایس ایس جی کمانڈوز اور تین یرغمالی بھی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔

مافیا کے خلاف اطالوی کمانڈو آپریشن

اس سال جولائی میں اٹلی میں بھی ایک بڑا کمانڈو ایکشن کیا جاچکا ہے۔اطالوی پولیس اور کمانڈوز نے اس انٹی مافیا آپریشن میں پچاس سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔یاد رہے کہ اٹلی میں مافیا کے لوگ مختلف قسم کے سنگین جرائم میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے اٹلی کا عالمی امیج خاصا متاثر ہوچکا ہے۔مذکورہ بالا آپریشن روم کے قریب ایک ساحلی خطے میں کیا گیا۔آپریشن میں پانچ سو سے زائد پولیس حکام اور کمانڈوز کے علاوہ سراغ رساں کتوں ، ایک ہیلی کاپٹر اور کوسٹل پٹرول بوٹس نے حصہ لیا۔اس آپریشن کے علاوہ ایک ذیلی آپریشن کلابریا کے علاقے میں بھی کیا گیا جو کہ این ڈی رنگاتھیا نامی ایک مافیا کا گڑھ ہے۔روم میں جو آپریشن کیاگیا اس میں ساحلی علاقے اوسٹیا کو نشانہ بنایاگیا۔ یہ خطہ دارالحکومت کے قریب سب سے بڑا ساحلی دیہاتی علاقہ ہے۔ آپریشن کے دوران تین بڑے مجرم گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

کمانڈو ایکشن کے سربراہ کوریرے ڈیلا سیرا نے اس سلسلے میں بتایا کہ آپریشن میں تین بڑے مافیا گروہوں فاشیانی، ٹریاسی اور ڈی اگاٹی کو ہٹ کیاگیا جو کہ کئی سالوں سے اس خطے میں جرائم کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ٹریاسی مافیا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے سسلی کے کوسا نوسٹرا نامی کرائم نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مافیا اٹلی کے تاثر کو بدنام کررہی ہیں اور اس کے حوالے سے دنیا بھر میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مافیا کی وجہ سے اٹلی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ سیاحت ہے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری کے دیگر شعبوں میں بھی اٹلی کو جرائم میں ملوث ان مافیائوں کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بُک شیلف

$
0
0

حقیقت الصلوٰۃ

مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد

ناشر: مکتبہ جمال، اردو بازار لاہور

صفحات: 123،قیمت: 150روپے

نماز دین اسلام کا وہ ستون ہے جس کی اہمیت کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں سینکڑوں بار تذکرہ فرمایا گیا۔ نماز عبودیت کا ایسا اظہار ہے کہ جس کے بغیر بندگی کی کوئی بھی صورت مکمل نہیں ہو پاتی۔ عقیدہ و عمل کی تمام وسعتوں اور بلندیوں کا اگر بندگی کی کسی ایک وضع میں کمال اور جامعیت کے ساتھ اظہار ہوتا ہے، تو وہ صرف نماز ہے، مگر اس مقام پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ صاف نیت کے ساتھ نماز کی ادائیگی بھی اعلیٰ ہو اور یہی اس کتاب کا مقصد ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ ہمارے رکوع و سجود اور قیام و قعود صرف ایک مشق نہیں بلکہ حس بندگی کو اجاگر کرتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کتاب میں نماز کی حقیقت تک پہنچ کر اسے جس بے مثال اسلوب میںبیان کیا ہے وہ قاری کو محض فہم کی سطح تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ ایک روحانی تجربے سے بھی روشناس کراتی ہے۔ کتاب کی بہترین توجہ کے ساتھ ورق گردانی سے یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہے کہ ایک عام مسلمان کی نماز وہ نہیں رہتی جو پہلے تھی کیوں کہ کسی بھی دینی یا مذہبی تحریر کا منتہٰی یہی ہے کہ وہ مفہوم کو حال بنا دے۔

٭٭٭

اللہ اور ماں

مصنفہ: صائمہ ندیم

صفحات :  120

پبلشر: روحان پبلی کیشنز، سیالکوٹ

اپنی بات کو بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کرنے کے مختلف طریقے ہیں ان میں سب سے منفرد شاعری ہے، اور شاعری میں من کی با ت کہنا آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی ، مشکل ان کے لئے ہے جو لفظوں سے کھیلنے کے ہنر کو نہ جانتے ہوں ، اور جنھیں یہ فن آتا ہو وہ تو گویا لفظوں کے سمندر میں تیرتے ہیں اور اپنے فن کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اللہ اور ماں میں بھی شاعرہ نے بڑے خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے ، مگر زبان کو ثقیل بنانے کی بجائے عام فہم انداز میں اپنی بات کہی ہے تاکہ تمام لوگ ان کی بات آسانی سے سمجھ سکیں۔نظموں کے موضوعات پر نظر دوڑائیں تو وہ ایسے ہیں جو ہمارے چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں جیسے وطن ، عورت ، سکھیاں، بابل، شبنم ، آپ بیتی ایک بزرگ کی وغیرہ، اسی طرح عوام اور سیاستدان اور  پیارے پاکستان جیسے موضوعات کو شاعری میں سمویا گیا ہے ، تمام نظموں میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہے جیسے

تو چھوڑ دے حرص و ہوا زمانے کی

نہ جانے کب صدا آجائے تیرے جانے کی

خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کی قیمت 250روپے ہے۔

٭٭٭

ہجرت کشمیر

مصنف: مولانا محمد اشرف قریشی

قیمت:700روپے،صفحات:622

پبلشر:مکتبہ جمال ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار ،لاہور

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو موضوع کے حوالے سے انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں، ہجرت کشمیر  بھی کشمیر کے تاریخی پس منظر ، جغرافیائی حالات و واقعات اور جدوجہد آزادی کی قربانیوں پر لکھی گئی تحریروں کا ایک مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔مصنف نے جس خوبصورتی سے موضوعات کو ترتیب دیا ہے اس سے کتاب کو تاریخی دستاویز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، ایک ایک تفصیل کو بڑے جامع انداز میں بیا ن کیا گیا ہے ، گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔کشمیر کو جنت نظیر کہا جاتا ہے، مصنف نے کشمیر کا حسن بیان کرنے میں جس فصاحت و بلاغت سے کام لیا ہے اس سے قاری مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور ہجرت کے واقعات پڑھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں جدو جہد آزادی کی تحریک خون کو گرما دیتی ہے ، یوں مصنف کے انداز بیان کی وجہ سے قاری مختلف کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔ جہاں ضرورت محسوس کی گئی ہے وہاں اشعار کا برجستہ اور خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ انداز تحریر سے عیاں ہے کہ مصنف کو عربی زبان و بیاں پر مکمل قدرت حاصل ہے اور یہی وصف انھیں الفاظ کے استعمال میں دوسروں سے نمایاں کرتا ہے۔ مصنف نے اپنے خاندانی حالات و واقعات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کرام کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ہجرت کشمیر کا ہر ورق ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں ہجرت اور جد وجہد آزادی کے حالات کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔ تاریخ کے طلبہ اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ کشمیر کے حوالے سے تمام تر معلومات اس میں یکجا کر دی گئی ہیں۔

٭٭٭

ازل

مصنف: رفیع جمال

قیمت: 200روپے

پبلشر:سانجھ پبلیکیشنز، مزنگ روڈ ،لاہور

ذہنی و قلبی کیفیات کو بیان کرنے کے لئے شاعری سب سے خوبصورت اور حسین انداز ہے۔ نوجوان شاعر رفیع جمال نے بڑے دل موہ لینے والے انداز میں اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، ان کا لب و لہجہ ذرا جداگانہ سے دکھائی دیتا ہے پتہ نہیں کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس دور سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ گزشتہ سے پیوستہ ہیں۔ جیسے

زیر خاک معتبر ہونے کو ہے

اشک دیدہ اب گہر ہونے کو ہے

ان کے اشعار کی روانی اور بے ساختگی پڑھنے والے پر محویت طاری کر دیتی ہے اور وہ تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو سانجھ پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے ۔

٭٭٭

 پریوں کا دیس (سفرنامہ)

مصنف: مقصود احمد راہی

قیمت:500 روپے

’’پریوں کا دیس‘‘ اس حوالے سے ایک خطرناک کتاب ہے کہ اسے پڑھ کر پریوں کے دیس جانے کی تمنّا دل میں چٹکیاں لینے لگتی ہیں۔ راہی صاحب نے کتاب کا آغاز ایسے پراسرار انداز میں کیا ہے کہ قاری ہاتھ سے کتاب رکھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بیان اس قدر سادہ و سہل ہے کہ ورق پر ورق الٹتے چلے جایے ذرہ بھر بار محسوس نہیں ہوتا۔ بیانیے کی اسی سادگی کے باعث قاری ان کی آنکھوں کی وساطت سے مناظر کو جیسے خود دیکھ رہا ہوتا ہے۔ زبان کے معاملے میں راہی صاحب کسی تکلف کے قائل نہیں، جملہ سازی کے بہ جائے انہوں نے منظرکشی پر زیادہ زور دیا ہے۔ اس سفرنامے میں لندن سے زیادہ ایڈنبرا کو پینٹ کیا گیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایڈنبرا کے طلسم کے زیادہ اسیر ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایڈنبرا فطرت کی فیاضی سے بہت زیادہ فیض یاب ہے، وہاں کی فضائوں کا سحر جہاں خود انہیں لپیٹ میں لیے ہوئے ہے وہاں ان کا قاری بھی اس کی پکڑ میں آتا ہے۔

جہاں وہ لندن کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں کی بھیڑ بھاڑ اور شور و شغب بھی تحریر میں در آتا ہے، جیسے انگریز خود ایک پیچیدہ قوم ہے اسی طرح ان کا لندن بھی اس کتاب میں محسوس ہوتا ہے، راہی صاحب مرنجاں مرنج ہیں، لندن پر اپنی تحریر میں اس کا حق پورا ادا کرتے ہیں لیکن جو وارفتگی ان پر ایڈنبرا پر لکھتے ہوئے طاری ہوئی وہ لندن پر ان کی لکھت میں موجود نہیں، ایڈنبرا میں تو فطرت اپنے باسیوں کے ساتھ مدھر سروں میں سرگوشیاں کرتی سنائی دیتی ہے۔ کتاب کا نام ’’پریوں کا دیس‘‘ ہے اور یہ نام اس سفرنامے میں لندن پر چسپاں ہوتا نظر نہیں آتا بل کہ اس کی صحیح مناسبت ایڈنبرا کے ساتھ بنتی ہے۔ صاف پتا چلتا ہے کہ لندن ایک ایسا شہر ہے جسے دنیا جہاں کی دولت لوٹ کر مصنوع کیا گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ایڈنبرا ایک قدرتی شہرمحسوس ہوتا ہے۔ ہر چند لندن میں ایک سے ایک عمارت ہے لیکن جیسے ایڈنبرا اس کتاب میں اپنی Imagery بناتا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ علاقہ قدرت نے اپنی نموبخش قدرت کے وسیلے سے از خود زمین سے اگایا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ ایک قدرتی، قدرتی سا شہر لگتا ہے۔

مقصود احمد راہی صاحب بنیادی طور پر ایک کہانی کار ہیں۔ ہمارے مشترکہ دوست محمد تاج چوہدری (مرحوم و مغفور) ان کے حافظے، نکتہ رسی اور بذلہ سنجی کے بڑے مداح تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقصود راہی کے جسم میں ایک انتہائی سرگرم اور بے چین روح ہے جو انہیں ہمہ دم ’’بے کار مہ باش کچھ کیا کر‘‘ کی تلقین کرتی رہتی ہے سو جب مقصود راہی صاحب کچھ  نہیں کرتے تو کپڑے ادھیڑ کر سینے لگتے ہیں۔ اب تک کشمیر کے موضوع پر دس ناول تخلیق کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’داستان دکن‘‘ کی رونمائی کی تقریب منعقد ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ’’اولیائے پوٹھوہار‘‘ بھی تین جلدوں میں مرتب کی تاہم وہ اپنے کام کا بہت زیادہ واویلا کرنے والے نہیں، میڈیا کا سہارا لینے سے گریز کرتے ہیں اسی لیے خاصا پڑھے جانے کے باوجود زیادہ جانے پہچانے نہیں تاہم انہیں گم نام نہیں کہا جاسکتاالبتہ کم نام ضرور ہیں۔

اس تصنیف کے لیے سکاٹ لینڈ کو بجا طور پر مصنف کا ممنون ہونا چاہیے کہ اردو میں اس سے پہلے سکاٹ لینڈ کو اتنے جادوئی انداز میں کبھی متعارف نہیں کرایا گیا۔ اس پیاری کتاب کو اُس سلیقے سے شائع نہیں کیا گیا جس کی یہ متقاضی تھی، اکثر تصاویر سیاہ و سفید ہیں اور پرنٹنگ کا معیار بھی ناقص ہے، متعدد تصاویر ایک سے زیادہ بار شائع کی گئی ہیں، سرورق بھی از حد روایتی ہے اس کے علاوہ ہر ورق حاشیہ بند ہے، اگر راہی صاحب کا اسلوبِ ’’من کھچواں‘‘ نہ ہوتا تو یہ باتیں قاری کو بہت کھلتیں۔

٭٭٭

خاکی لفافہ

مصنف: کرنل(ر) محمد خالد خان مہر

صفحات:69

عام انداز میں بڑی بات کہنا بہت بڑا فن ہے۔ خاکی لفافہ میں مختلف انداز کی ایسی تحریریں شامل ہیںجو انسانی زندگی کے روشن اور تاریک پہلوئو کی ہلکے پھلکے انداز میں عکاسی کرتی ہیں۔ یہ عام انسانی زندگی کی شوخیوں ، شرارتوں ، مکاریوں اور منافقوں کی داستان ہے جو انسانی زندگی کے ساتھ ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک رہے گی۔ خاکی لفافہ خاکی ہونے کے باوجود نور کی ردا اوڑھے ہوئے ہے۔ اس کی روح کی بالیدگی اور ژولیدگی اسے قدم قدم پر خیر اور شر کے فرق سے آگاہی بخشتی رہتی ہے۔

یہ انسانی تنزل اور ترقی کے مختلف پہلوئوں کی عکاس ہے۔ خالق حقیقی نے خاکی لفافے کو تخلیق کر کے اس جہان فانی میں اس لئے بھیجا کہ وہ اسے اس آئینے میں دیکھ سکے جہاں پیار ہی پیار ہے اور جہاں ہر عمل اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب میں شامل تحریروں میں طنزو مزاح ہی نہیں بلکہ بہت سے سنجیدہ موضوعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

٭٭٭

 یوں رنگ زندگی بدلا

مصنف:اسماء سلیم

قیمت:450روپے

پبلشر: القریش پبلی کیشنز، اردو بازار ، لاہور

انسانی زندگی رشتوں سے گندھی ہوئی ہے، جہاں ان رشتوں سے انسان کو بہت سے سکھ نصیب ہوئے وہیں ان کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ رنگ زندگی بدلا بھی انسانی رشتوں کے گرد گھومتی کہانی ہے، مصنفہ نے انسانی رشتوں کو جوڑنے والے دھاگوں کی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے، معاشرے کی بنیاد ہی انسانی رشتے ہیں ، اگر انسانوں میں یہ باہمی قربت اور رفاقت نہ ہو تی تو معاشرہ ہی تشکیل نہ پا سکتا، یہ بہت وسیع موضوع ہے اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے ، مصنفہ کی انسانی رشتوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر بڑی گہری نظر ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں لکھا گیا یہ ناول قارئین کو ضرور پسند آئے گا۔

٭٭٭

سلطانہ ڈاکو

مصنف: محمود احمد مودی

قیمت:450روپے

پبلشر:القریش پبلی کیشنز ، سرکلر روڈ ،چو ک اردو بازار، لاہور

محمود احمد مودی کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ناول لکھنے میں انھیں بطور خاص ید طولیٰ حاصل ہے، ناول کے پلاٹ سے یوں کھیلتے ہیں جیسے کوئی ماہر ہواباز آسمان کی پہنائیوں میں اڑانیں بھر رہا ہو۔ سلطانہ ڈاکو ایک تاریخی کردار ہے جسے انھوں نے ناول کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ انگریز دور کے اس کردار کو بہت سے لوگ فرضی تخلیق سمجھتے ہیں جسے ظلم کے خلاف غریبوں کی مدد کے استعارے کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔سلطانہ ڈاکو کا اصل نام سلطان تھا جو عرف عام میں سلطانہ کے نام سے مشہور ہوا، اس کا تعلق بھنتو قبیلے سے تھا جو انگریزوں کے دور میں چور اور لٹیروں کے حوالے سے جانا جاتا تھا ، انگریز ہر بھنتو کو اس کی شرافت کے باوجود شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور معمولی سی بات پر چور اور ڈاکو قرار دے کر زنداں میں ڈال دیتے تھے، حتیٰ کے اس قبیلے کے افراد کو قید رکھنے کے لئے خصوصی طور پر ایک قلعہ بنایا گیا تھا ۔ مصنف نے اپنے زور قلم سے ایک تاریخی کردار کو زندہ جاوید کر دیا ہے ۔n

٭٭٭

القرآن الکریم

جدید رنگین تجویدی سولہ سطری

الوہاب قرآن پبلشرز

فسٹ فلور، حافظ پلازہ اردو بازار لاہور

قرآن کریم کو لوحِ محفوظ سے قلب محمدﷺ پر اترے چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔ اصحاب رسولؐ نے چمڑے کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور کپڑوں پر لکھی قرآنی آیات کو یکجا کرکے آنے والی امت کے لئے اس کو آسان کر دیا اور جدید دور میں ہر کسی نے قرآن کریم کو خوبصورت انداز میں چھاپنے کی کوشش کی۔ رسولؐ کا فرمان ہے ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘ یعنی ترتیل کے ساتھ تجوید و قرأت کا خیال رکھتے ہوئے۔ پہلے زمانے میں لوگ قرآن پڑھنے کے تجویدی قواعد سیکھنے کے لئے کئی کئی میل سفر طے کرتے تھے اور شبانہ روز محنت کرکے قرآء کرام سے قرآنی تلفظ کی ادائیگی کی مشق کرتے تھے، تاکہ لہن جلی اور لہن خفی جیسی غلطیوں پر قابو پا کر قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھ سکیں۔ لیکن دورِ حاضر میں ہر کوئی دنیاوی معاملات میں اس قدر مصروف ہے کہ تجویدی قواعد کو سیکھنے کے لئے وقت نکالنا مشکل ہے لیکن مولانا حافظ انجم علی نے امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان کیا ہے اور قرآن کریم کی پانچ کلر میں طباعت کر دی ہے۔

پہلا رنگ سبز ہے جو موٹے حروف یعنی تفخیم کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا پورے قرآن میں جو حروف سبز رنگ میں ہوگا وہ موٹا پڑھا جائے گا۔ دوسرا سرخ رنگ ہے جو حروف غنہ کو واضح کرتا ہے۔ گویا پورے قرآن میں جو حروف سرخ رنگ کے ہیں ان پر غُنہ ہوگا یعنی ناک میں آواز لے جائیں گے۔ تیسرا رنگ نیلا ہے، یہ حروف قلقہ کو اجاگر کرتا ہے۔ چوتھا رنگ مالٹا ہے، یہ اخفا والے حروف پر دلالت کرتا ہے اور پانچواں رنگ برائون ہے، یہ ادغام والے حروف کی نشاندہی کرتا ہے اور ساتھ قرآن کریم کی ہر منزل کو علیحدہ رنگ دے دیا ہے اور ہر صفحے کے آخر میں رنگوں کی تفصیل اردو، انگلش، فارسی، پشتو میں بھی لکھ دی ہے تاکہ پڑھنے والے اپنی اپنی زبان میں استفادہ حاصل کر سکے۔ اس کے ساتھ جہاں ہمزۃ الوصل پر حرکت لگی ہوئی ہے وہاں پر تیر کا نشان لگا کر سامنے لکھ دیا ہے کہ ملا کر پڑھنے کی صورت میں اس طرح پڑھیں۔

اسی طرح وقف کی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے رنگوں کو ترتیب دیا گیا ہے یعنی ترقیق کا رنگ حرف میں اور تفخیم کا رنگ حرکت میں ظاہر کیا گیا ہے اور کہیں کہیں تین صورتیں ہوں گی لیکن صرف اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کے شروع میں اڑھائی صفحات پر عربی کے حروف تہجی کے ساتھ حلق کی تصویر بنا کر صفات اور مخارج کی ادائیگی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ جو اردو، انگلش اور عربی زبانوں میں ہے۔ اس کے ساتھ حفاظ کرام کے لیے اردو اور انگلش میں متشابہات بھی لکھے گئے ہیں کہ ایک لفظ قرآن میں دو تین یا چار مرتبہ کس کس پارے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل آیات سجدہ کو آخر میں ایک صفحے پر علیحدہ لکھ دیا ہے اور قرآن کریم میں بیس مقامات ایسے ہیں کہ ذرا سی بے احتیاطی سے نہ چاہتے ہوئے بھی کلمہ کفر کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ زیر زبر اور پیش رد و بدل کر دینے سے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں اور انسان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ ان بیس مقامات پر سرخ لکیر کھینچ کر لال ڈبے میں ’’احتیاط‘‘ لکھ دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے حضرات دوران تلاوت اس مقام پر خاص خیال رکھیں۔

٭٭٭

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن

جلد اول (پارہ ایک تا دس)

مصنفہ: شکیلہ افضل

صفحات: 466، ہدیہ : 500 روپے

بلاشبہ قرآن الحکیم خدائے وحدہ لاشریک، خالق کائنات جل جلالہ کی وہ کتاب ہے جو سرور کونین، فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ پر انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمائی۔ اس کی تلاوت باعث ثواب اور ذریعہ نجات ہونے کے ساتھ ساتھ دل کو اطمینان بھی بخشتی ہے مگر اس کی سمجھ اورآیات مقدسہ کے مطالب کو جان لینے سے انسان کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اوراسے علم ہوتا ہے کہ وہ جس آیت مبارکہ کی تلاوت کر رہا ہے، اس میں اللہ رب العزت انسانیت کو کیا پیغام یا حکم دے رہا ہے جبکہ پڑھنے والا اس حکم پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے کہ خود قرآن سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔ کتاب مقدس کو سمجھ کر پڑھنا ہی افضل عمل قرار پاتا ہے۔

قرآن مجید کو سوچ اور سمجھ کر پڑھنے سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور زندگی میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ علمائے حق نے کلام اللہ کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اس کے تراجم ہی نہیں کیے بلکہ آیات مبارکہ کی تفسیر کو رقم کیا ہے۔ لاریب ان میں بعض تفاسیر ایسی ہیں جن میں علم و فضل کے دریا بہائے گئے ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے جبکہ کئی مفسرین نے ترجمہ اور تفسیر سادہ اور آسان الفاظ میں تحریر کی ہے جن کو کم پڑھا لکھا شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن کی مصنفہ محترمہ شکیلہ افضل نے تفسیر و ترجمہ کو آسان تحریر الفاظ اور انداز میں تحریر کرکے واقعی قرآن حکیم کو سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی ہے۔ مصنفہ نے آیت مبارکہ درج کرنے کے بعد اس کا ترجمہ بعد میں تفسیر کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ اس سے گھریلو خواتین سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت کم ہوتا ہے اس لیے وہ کم سے کم وقت میں اس تفسیر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکتی ہیں۔

شمشیر الحیدری

$
0
0

سندھ میں ادب کی دنیا میں کئی درخشندہ ستارے پیدا ہوئے اور ادب کے افق پر اپنی تخلیق کی روشنی سے ادب کے آسمان کو منور رکھا۔

وہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ ادیب، شاعر، محقق، اینکر اور اسکرپٹ رائٹر شمشیر الحیدری بھی ان ستاروں میں سے ایک ہیں، جنہیں ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا ہے مگر آج بھی ان کی یادیں، اس کا ادب میں کیا ہوا کام ہر دل میں موجود ہے۔

شمشیر کی کی زندگی کا خاکہ، کاوشیں اور محنت کے بارے میں تو میں آپ کو بتائوںگا، مگر اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ان سے جب بھی ملا ان کے ہاتھ میں سگریٹ اور چائے کا کپ ضرور دیکھا۔ وہ چین اسموکر تھے اور چائے قہوہ پیتے تھے۔ جس میں صرف چینی والا آدھا چمچہ، دودھ ڈالتے تھے۔ چائے ہر وقت ان کے ساتھ رہتی تھی۔ میں نے جب بھی انہیں کسی محفل میں دیکھا خوش ہی دیکھا۔ ان کے چہرے پر کبھی بھی مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آج سے سات سال پہلے جب میں شمشیر سے گلشن حدید میں ملا تو ان سے کچھ بات چیت ہوئی۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں زیادہ تر سندھی ادبی سنگت کو موضوع بنائے رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ سندھی ادبی کا قیام پاکستان بننے سے پہلے ہوا تھا اور جب کراچی میں مٹھا رام ہال میں سنگت وجود میں آئی تو اس موقع پر سوبھو گیان چندانی اور گوبندمالی بھی موجود تھے۔ پارٹیشن کے بعد کافی ہندو شاعر اور ادیب ہندوستان چلے گئے، جس کے بعد کئی سندھی ادبی انجمنیں وجود میں آئیں مگر سندھی ادبی سنگت کی اہمیت وہی رہی۔ لیکن 1956میں ایک تحریک چلی کہ اب ایک مرکزی تنظیم بنائی جائے جو پورے سندھ میں کام کرے جس کے لیے سینیٹوریم ہال کراچی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں علامہ دائود پوتہ نے یہ رائے دی کہ سندھی ادب کے فروغ کے لیے پورے سندھ میں مہم چلائی جائے جس کی تائید تاج محمد ابڑو، عبدالغفور انصاری، ایاز قادری، سوبھو گیان چندانی، تاج جویو، الطاف شیخ، رشید بھٹی اور تنویر عباس نے بھی کی۔

مرکزی تنظیم بنانے کے بعد سندھی ادبی سنگت کے لیے مشکلات کے دن شروع ہوگئے، کیوںکہ اس میں جتنے بھی شاعر اور ادیب تھے۔ وہ تقریباً ترقی پسند تھے۔ ان کا اصلی مقصد یہ تھا کہ سندھی ادب کی راہ میں جتنے مسائل ہیں انہیں حل کرکے سندھی ادب کو ترقی دی جائے۔ حکومت اور مذہبی لوگ سنگت کی مخالفت کرنے لگے، کیوںکہ سندھی ادبی سنگت سیکولر بنیاد پر بنائی گئی تھی، جس میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے ممبر بن سکتے تھے اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سنگت کی کارروائی کا آغاز شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے کیا جائے گا، جس پر حکومت اور مذہبی گروپوں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے اور اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے۔

مزید یہ ہوا کہ سنگت میں کچھ ممبر ایسے بھی تھے جن کا تعلق جمعیت شوریٰ سے تھا اور وہ مذہب کے معاملے میں بہت کٹر تھے۔ انہوں نے بھی اختلاف ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ایاز قادری نے سنگت سے استعفیٰ دیا، وہ سنگت کے پہلے سیکریٹری جنرل بھی تھے۔ شمشیر الحیدری اس وقت جوائنٹ سیکریٹری تھے، اس لیے انہوںنے سیکریٹری جنرل کا چارج سنبھال لیا۔ یہ عہدہ شمشیر کے پاس 1966تک رہا، جس کے دوران انہوں نے دو مرتبہ سندھی ادبی سنگت کے کنونشن منعقد کروائے جو نواب شاہ میں کیے گئے، جب شمشیر کو سرکاری نوکری ملی تو انہوں نے یہ چارج تنویر عباسی کو دے دیا۔ شمشیر نے اپنے دور میں کئی برانچیں سنگت کی سندھ کے مختلف شہروں میں قائم کروائیں اور ادبی لوگوں کو سنگت کا ممبر بنایا۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے ادبی اجلاس باقاعدگی سے پورے سندھ میں منعقد کروائے تاکہ شاعر اور ادیب اس میں حصہ لیں اور اپنے لکھے ہوئے کام کو پیش کریں تاکہ اس میں اصلاح ہو اور نئے نئے ادبی لوگوں میں شعور اور شوق پیدا ہو۔

اب پورے سندھ میں ادبی مشاعرے اور اجلاس ہورہے تھے جہاں پر نئی نسل کے شاعر اور رائٹر پیدا ہونے لگے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کے نتیجے میں سندھی ادبی سنگت اور سندھی زبان کی ترقی ہونے لگی۔ سندھی کتابوں کے میلے لگنے شروع ہوئے اور عام آدمی میں بھی کتاب پڑھنے کا رجحان بڑھنے لگا۔ اس عمل سے سندھی کلچر، سندھی ادب، سندھی زبان کی ترقی شروع ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے سنگت لوگوں میں مقبول ہوگئی۔ اب سندھ کے ہر کونے میں سنگت کی آواز پہنچنے لگی اور سندھی زبان کے لیے ایک نیا باب کھلنے لگا اور لوگ ادب کی طرف بڑھنے لگے مگر افسوس جب سے سیاسی رنگ سنگت میں آنے لگا اس نے سنگت کو کم زور کردیا اور اس میں اختلافات بڑھتے گئے۔ اس لیے اسے دوبارہ آکسیجن دینے کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ اس تنظیم کو دوبارہ لوگوں تک لایا جائے۔

ماضی میں یہ تنظیم سیاست دانوں اور طلبہ کو گائیڈ لائن دیا کرتی تھی۔ 1960میں جنرل محمد ایوب خان کے زمانے میں ایجوکیشن کمیشن بنایا گیا تھا، جس نے طے کیا تھا کہ صرف چار جماعت تک سندھی پڑھائی جائے، اس کے بعد اردو پڑھائی جائے۔ اس سلسلے میں سندھی ادبی سنگت نے ایک تحریک چلائی جس کے نتیجے میں یہ حکم واپس لے لیا گیا۔ اب ایم اے تک سندھی زبان پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ اس کا کریڈٹ سنگت کو جاتا ہے۔

شمشیرالحیدری ساری عمر سندھی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھی ادبی سنگت کے لیے ریڈیو پاکستان نوگوایریا تھا۔ جب وہاں پر کچھ آسانی پیدا ہوئی تو شمشیر نے ریڈیو کے لیے کئی فیچر پروگرام لکھے اور شاعری لکھی، مگر جب فروری 1970کو پی ٹی وی پر سندھی سیکشن کا قیام ہوا تو اس میں شمشیر نے رس رھان پروگرام کے لیے کام کیا جسے عبدالکریم بلوچ پروڈیوس کرتے تھے۔ اس وقت اسلم اظہر کراچی سینٹر کے جی ایم تھے، جنہیں ’’فادر آف پی ٹی وی‘‘ کہا جاتا ہے، وہ بہت ذہین تھے۔ بعد میں شمشیر کو پی ٹی وی میں آرگنائزر کے طورپر بھرتی کیاگیا اور وہ وہاں پر شاہ بھٹائی کے عنوان سے پروگرام کرتے تھے، جس میں پیر حسام الدین راشدی، جی الانہ، لطف علی شاہ نقوی بھی حصہ لے چکے تھے۔ اس پروگرام میں محمد جمن نے بھٹائی کے سر کلیان سے جو کلام ’’دوست درایو‘‘ پیش کیا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اس پروگرام کے پہلے حصے میں انہوں نے خود کمپیئرنگ کی تھی۔ اس کے علاوہ مرزا کلیم بیگ کے لکھے ہوئے ناول ’’زینت‘‘ کو ڈرامائی تشکیل دی تھی۔ شمشیر الحیدری نے سندھی پی ٹی وی نیوز سیکشن کو بھی آرگنائز کیا۔

پی ٹی وی پر شمشیر نے بہت سارے سندھی اور اردو ڈرامے لکھے۔ ان کے ترجمے کیے ہوئے مشاعرے ’’گیت منظر‘‘ کے نام سے اردو میں 6ماہ تک چلنے والے پروگرام نے بڑی مقبولیت حاصل کی، جس میں سندھی فوک گیتوں کو اردو میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے سندھی فلم ’’بے زبان‘‘ کے گانے بھی لکھے جو ریڈیو سے وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہے ہیں، مگر افسوس کہ یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔

ان کی شاعری کا مجموعۂ کلام 1962میں ’’لاٹ‘‘ کے نام سے چھپا تھا جو 82 صفحے پر مشتمل تھا۔ انہوں نے ’’کاک‘‘ کے نام سے ایک ڈراما بھی لکھا جو 12قسطوں کا تھا، اسے سنگم پبلی کیشن والوں نے شایع کیا تھا۔ اندازاً200کے قریب کتاب انہوں نے ترجمے کیے ہیں اور 8 کتابیں اردو اور سندھی میں چھپ گئی ہیں اور باقی اور بھی مواد ہے جو ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں بی اے اور ایم اے میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں۔

شمشیر الحیدری 15ستمبر1931کو ضلع بدین کے شہر کڈھن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام رسول بخش تھا۔ ان کے دادا ہاری تھے مگر وہ حکمت کا کام بھی جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بدین میں پنساری کی دکان کھول لی اور حکمت بھی کرنے لگے، انھوں نے بہ اس کام میں بڑا نام کمایا۔ اب یہ کام شمشیر کے والد کو منتقل ہوا اور ان سے شمشیر کو ملا۔ ان کے نانا چمڑے کا کاروبار کرتے تھے اور امیر آدمی تھے۔

شمشیر نے مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو غریب آباد محلہ بدین شہر میں واقع تھا۔ یہ مدرسہ مولوی حاجی احمد ملاح نے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے چار جماعت پرائمری اور پھر انگریزی میں پاس کی، جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کے لیے کراچی بھیجا گیا، جہاں سے وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے، کیوںکہ مدرسے کے ہیڈ نے ان پر یہ الزام لگایا کہ مدرسہ میں جو ہڑتال ہورہی ہے اس کا ذمے دار شمشیر ہیں، جب کہ ایسا نہیں تھا، کیوں کہ ہڑتال سے قبل وہ ایک مہینے سے بیمار تھے اور بدین میں اپنے گھر پر تھے۔ انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔ اسے لیونگ سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے این جے وی اسکول میں اپنی پڑھائی جاری رکھی جہاں سے بھی لیونگ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے نکال دیے گئے۔ اب وہ نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد چلے گئے، جہاں ان سے کہا گیا کہ تمہارے پاس لیونگ سرٹیفکیٹ نہیں ہے اس لیے تم جاسکتے ہو۔ آخرِکار انہوں نے ٹنڈو باگو میں خان بہادر غلام محمد اسکول میں داخلہ لیا جس نے کئی اچھی شخصیتوں کو تعلیم دی تھی۔ وہاں سے انہوں نے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ حالاںکہ انہیں سخت بخار تھا اور الٹیاں ہورہی تھیں، مگر انہوں نے میٹرک کے امتحان میں شرکت کی، لیکن وہ فیل ہوگئے۔ دوبارہ سپلیمنٹری امتحان میں بیٹھے اس میں بھی فیل ہوگئے۔

اب وہ ناکامیوں سے اکتاگئے تھے اور رشتے داروں کے کہنے پر انہوں نے شادی کرلی اور ایک مل کے اندر منشی کی نوکری کرنا شروع کی۔ اس کے بعد آب پاشی کے محکمے میں ٹیلی فون آپریٹر بنے پھر کلرک ہوگئے۔ آگے چل کر وہ سندھ کوآپریٹیو سوسائٹی کمرشیل بینک کے منیجر بن گئے، جہاں پر وہ 1954تک رہے۔ پھر وہ 1955میں ہلال پاکستان اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے امور سرانجام دینے لگے۔ اس وقت یہ اخبار حیدرآباد سے نکلتا تھا، جہاں پر وہ آگے چل کر نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ایک سال کے بعد پھر انہوں نے سندھی ادبی بورڈ جوائن کیا اور مہران میگزین میں کام کرنے لگے۔ اس کے علاوہ انہوں نے وہاں پر چھپنے والی کتابوں کو ایڈٹ کرنا شروع کیا۔ ان کی محمد عثمان ڈیپلائی کے ساتھ اچھی دوستی تھی، جن کے ساتھ وہ بھی اورینٹل کالج میں میٹرک کے امتحان میں بیٹھے اور پاس ہوگئے۔ پھر انٹر کیا۔ اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے بی اے (آنرز) پاس کیا۔ پھر ایم اے سندھی میں کیا، یہ سال تھا 1966۔

1966میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں اپیئر ہوئے اور انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں فلم اینڈ پبلی کیشن سیکشن میں جوائن کیا۔ وہاں سے نکلنے والے میگزین نئی زندگی کے ایڈیٹر ہوگئے، جہاں تین سال تک کام کرتے رہے۔ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں وہ 11سال رہے۔ اس کے بعد وہ منسٹری آف کمیونیکیشن میں چلے گئے، جہاں پر انہیں انفارمیشن سیل میں تعینات کیا گیا۔ وہاں سے ایک رسالہ کمیونیکیٹر نکلتا تھا۔ اس سیل میں قمرشہباز منیجر اور رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ شمشیر کو وہاں ڈپٹی منیجر اور ڈپٹی ایڈیٹر بنایا گیا۔ انہوں نے اس ادارے میں ڈیڑھ سال کام کیا، مگر جب ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو یہ سیل بند کردیا گیا، جس کی وجہ سے شمشیر بے روزگار ہوگئے۔ بے روزگاری کا یہ سلسلہ 11سال تک چلتا رہا۔ اس دوران انہوں نے پی ٹی وی اور اخباروں میں لکھ کر وقت گزارا۔

جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو پرویز شاہ یوتھ افیئرز کے منسٹر بنے، انہوں نے شمشیر الحیدری کو کراچی میں پبلک ریلیشنز ڈپارٹمینٹ کے چیف کے طور پر بھرتی کیا۔ اس کے بعد وہ گریڈ انیس میں ترقی پاکر اسلام آباد چلے گئے۔ آگے چل کر وہ گریڈ20 میں ڈائریکٹر پبلسٹی اور پبلی کیشن بنادیے گئے۔ پی پی پی کی حکومت کے جانے کے بعد انہیں واپس کراچی میں19گریڈ میں بھیج دیا گیا، جہاں سے وہ ڈیڑھ سال کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے پاس حکمت کا سرٹیفکیٹ تھا۔ اس لیے انہوں نے تھوڑا بہت حکمت کا کام بھی شروع کردیا اور کئی بیماریوں کے علاج کے لیے دوائیں بھی بنائیں ، جن سے لوگ مستفید بھی ہوئے۔

شمشیر کے والد نے تین شادیاں کی تھیں۔ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر 6سال تھی۔ ان کی پرورش اس کے نانا کے گھر ہوئی تھی۔ ان کے نانا کامریڈ ڈاکٹر نذیر حسین حیدری ہاری کمیٹی کے نائب صدر تھے اور کامریڈ حیدربخش جتوئی کے دوست بھی تھے۔ شمشیر نے لکھنے پڑھنے کا شوق اپنے نانا سے لیا، جو ایک اچھے قلم کار، مقرر اور شاعر تھے۔ اس کے علاوہ وہ ’’اعلان حق‘‘ کے پبلشر بھی تھے۔ شمشیر اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے تھے، مگر وہ ایک فطری شاعر تھے۔ ان کے نانا کی بہت بڑی لائبریری تھی جہاں جاکر وہ کتابیں پڑھتے تھے۔ اس لائبریری میں ہر قسم کی کتابیں ہوتی تھیں۔ وہاں پر موجود کتابوں کو پڑھنے سے ان میں علم کی روشنی مزید تیز ہوگئی اور وہ ایک روشن خیال انسان بن گئے، اب انہیں لکھنے کا ڈھنگ آگیا اور اس میں لفظوں کا استعمال کا ہنر بھی مل گیا۔ سندھی ادبی بورڈ میں کام کرنے کے دوران ان کے تعلقات کافی وسیع ہوگئے اور انہوں نے اپنے دوست ہندوستان میں بھی بنالیے، جس سے اس کے علم اور ادب میں کافی اضافہ ہوا۔ شمشیر نے مذہب اور سماج پر بہت کچھ پڑھا، جس کی وجہ سے ان میں انسانیت کے لیے زیادہ عزت اور محبت پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے کئی رائٹرز کی کتابیں پڑھی اور ان میں سے کافی کچھ حاصل کیا، جس کی وجہ سے ان کی سوچ میں وسعت پیدا ہوئی۔

شمشیر الحیدری کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے، جس کے بارے میں بڑی دیر کے بعد معلوم ہوا۔ انہیں آخری دنوں میں کلچر ڈپارٹمنٹ سندھ کی طرف سے آغاخان اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا، مگر زندگی نیان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ان کی وصیت کے مطابق انھیں چوکنڈی کے قبرستان میں ان کے دوست تاجل بے وس کے برابر سپرد خاک کیاگیا۔ انہوں نے پس ماندگان میں بیوہ، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور 5بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاکھوں چاہنے والے، دوست اور 200 سے زیادہ کتابیں چھوڑی ہیں۔

پاک بھارت معرکہ آرائیوں کی تصویری جھلکیاں

$
0
0

 دہلی کی گدی پر براجمان نیتا ہوں، بھارتی سینا ہو یا بھارت کا میڈیا، ان کے دل پاکستان کی نفرت سے سلگتی رہتی ہیں اور دماغوں پر ارض پاک کو مٹادینے کا جنون سوار رہتا ہے۔

اپنے ملک میں ہونے والے کسی واقعے کا الزام پاک فوج اور آئی ایس آئی پر تھوپ کر یدھ کے نعرے لگائے جاتے ہیں، تو کبھی پاکستان کو دھمکیاں دینے کے لیے کوئی سبب پیدا کرلیا جاتا ہے۔ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیوں کا حالیہ سلسلہ پونچھ سیکٹر میں پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد شروع ہوا ہے۔ بھارتی سیاست دانوں، فوج اور میڈیا نے حسب دستوں ان ہلاکتوں کو پاکستان کے سر ڈال دیا۔

اس واقعے کے بعد سے بھارت اب تک پینتیس مرتبہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرچکا ہے اور بھارتی فوج کئی پاکستانیوں کو کرچکی ہے۔ پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے بھارتی طاقت کے جوش میں اندھے ہوکر صرف1971کی جنگ یاد رکھتے ہیں، جب ہمارے ملک کے مشرقی حصے کے عوام ہماری فوج سے برسرپیکار تھے اور صورت حال سے فائدہ اٹھاکر اندراگاندھی کی سرکار نے پاکستان پر ہلہ بول دیا تھا۔ بھارتیوں کو 1947کا وہ حملہ بھی یاد ہونا چاہیے جس میں کشمیر کا ایک بڑا حصہ آزاد کرالیا گیا تھا، انھیں 1965کی عبرت ناک شکست اور کارگل کی جنگ نہیں بھولنی چاہیے، اگر بھول گئے ہیں تو چلیے تصاویر کی مدد سے ہم انھیں تاریخ یاد دلادیتے ہیں۔

1965کی جنگ کے دوران ایک ضعیف العمر شخص دل چسپی سے پاک فوج کے میجر سے جنگ کے قصے سن رہا ہے۔

1965، پاک فوج کے افسران اور جوان چھمب سیکٹر میں بھارتی فوج کے ٹینک پر تصویر کھنچواتے ہوئے۔

1965، پاک فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد موسیٰ خان کھیم کرن ریلوے اسٹیشن پر جوانوں کے ساتھ۔ اس قصبے پر پاک فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔

1965، کمانڈر ان چیف جرنل محمد موسی خان اگلے مورچوں پر جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے۔

1965، راجستھان کے راجپوت قلعے پر پاکستانی پرچم اپنی شان و شوکت سے لہرا رہا ہے۔ پاک فوج نے بھارتی حدود میں بارہ سو اسکوائر میل کے اندر تک قبضہ کرلیا تھا۔

1965، پاک فوج کے افسر قبضے میں لی گئی بھارتی گن کا معائنہ کرتے ہوئے۔

1965،پاک فوج کا جوان خیم کاران میں مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے۔

1965، بھارتی جنگی قیدی کیمپ میں ریس لگارہے ہیں۔

1965،پاک فوج کے جوان دشمن کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے۔

کارگل کی ایک چوٹی پر موجود پاک فوج کے جوان۔

پاکستان ائیر فورس کے لڑاکا طیاروں کی طرف سے اتارے گئے بھارتی جہاز کی تصویر۔

پاکستانی فوجی کارگل میں تباہ ہونے والے بھارتی جہاز کا ملبہ اٹھا رہے ہیں۔

1965، راجستھان سیکٹر کے موناباؤ ریلوے اسٹیشن پر پاک فوج کے مستعد جوان کی یادگار تصویر۔

1965، پاکستانی فوجی سلیمانکی سیکٹر میں دشمن کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں۔

مونا بائو پر قبضے کے بعد پاکستانی فوجی پرچم لہراتے ہوئے۔

پینسٹھ کی جنگ میں بھارتی فوج سے قبضہ کی گئیں فیلڈ گنیں۔

1965 کی جنگ میں پاک فوج کے قبضے میں آنے والے بھارتی ٹینک کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم جمع ہے۔

1965، مونا باؤ ریلوے اسٹیشن پر موجود پاکستانی فوجی کی تصویر اس بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کرتی ہے کہ پاکستان نے موناباؤ پر قبضہ نہیں کیا تھا۔

گردوغبار کے طوفان میں پاکستانی ٹینک اور جوان دشمن کو پسپا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

پاکستانی فوجی 1965 کی جنگ میں خندق کھود رہے ہیں۔

1965 کی جنگ میں جذبہ ایمانی سے سرشار پاک فوج کے جوان۔

1965 کی جنگ میں قبضے میں لیا گیا بھارتی لڑاکا جہازF-104 پی اے ایف میوزیم کراچی میں رکھا گیا ہے۔

پاک فوج کے جوان 1965کی جنگ میں اگلے مورچوں کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ۔


پراندہ

$
0
0

بالوں کی خوب صورتی حُسن کے لوازمات میں شامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خواتین ہمیشہ سے اپنے بالوں کو سجاتی سنوارتی اور انھیں منفرد انداز دیتی رہی ہیں۔ چُٹیا اور جوڑے سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب بالوں کے نت نئے اسٹائلز اور مختلف رنگوں تک دراز ہوچکا ہے۔ تاہم فیشن کی جدت کے ساتھ روایت کا حُسن برقرار ہے۔ چناں چہ پراندہ آج بھی بالوں کی دل کشی اور شخصیت کا حُسن بڑھا رہا ہے۔ پراندہ نہ صرف شخصیت کو خوب صورتی اور انفرادیت عطا کرتا ہے، بل کہ روپ کو معصومیت بھی دیتا ہے۔

اُن کا حُسن سلامت ہے

$
0
0

ٍعام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی اداکارہ اسی وقت تک اپنی کام یابی اور شہرت کو برقرار رکھ پاتی ہے جب تک وہ شادی نہ کر لے۔

بالی وڈ میں کئی ایسی اداکارائیں ہیں جنہوں نے اپنے کیریر کے عروج پر بے شمار کام یابیاں سمیٹیں اور اسی عروج کے دور میں انہوں نے شادی بھی کرلی اور ان میں سے کئی ایک یا دو بچوں کی ماں بن گئیں، مگر اس کے باوجود ان کی مقبولیت اور اسٹارڈم مین کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان فلمی حسینائوں نے خود کو جسمانی طور پر اس طرح مینٹین کر رکھا ہے جس طرح کوئی بھی غیرشادی شدہ ہیروئن رکھتی ہے۔

حالاں کہ بولی وڈ کے ماضی میں کوئی ایسا قابل ذکر سلسلہ نہیں ملتا۔ اس دور میں جب کوئی اداکارہ اپنے عروج کے دور میں شادی رچا بیٹھتی تو فلم بینوں کے لیے اس کی اہمیت اور کشش کم ہوتی چلی جاتی مثلاً ہیما مالنی، شرمیلاٹیگور، سائرہ بانو اور سادھنا وغیرہ، ان اداکارائوں نے شادی کے بعد جب بھی کام کیا بطور معاون اداکارہ کے طور پر ہی کیا، مگر آج صورت حال یکسر مختلف ہے آج فلم بین شادی شدہ اور ایک یا دو بچوں کی ماں کو بھی فلم میں بطور ہیروئن پذیرائی دیتے ہیں۔ ایسی اداکارائیں جو شادی شدہ اور ماں بننے کے بعد بھی فلم بین طبقے کے دلوں میں راج کر رہی ہیں، ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔

شلپا شیٹھی:

فلم بازی گر سے اپنے فلمی دور کا آغاز کرنے والی اداکارہ شلپاشیٹھی کی ابتدا اچھی نہ تھی۔ بازی گر کی کام یابی کا سارا کریڈٹ کاجول اور شاہ رخ کے حصے میں آیا اور شلپا ایک معاون اداکارہ کے طور پر سامنے آئی۔ سری دیوی سے مماثلت کی بنا پر فلم بین طبقے نے اسے پسند ضرور کیا، لیکن اس کی اداکاری کا گراف زیادہ اوپر نہ جا سکا۔ البتہ اس کے دراز قد اور جسمانی کشش نے اسے ایسی مقبولیت دی جو آج بھی قائم ہے اکشے کمار سے زور دار عشق لڑانے اور اس میں ناکامی میں کے بعد شلپا نے راج کندر سے لو میرج کی۔ دونوں کی شادی کو بولی وڈ میں یادگار ترین شادی سمجھا جاتا ہے۔ شادی اور پھر ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود شلپا کی اسمارٹنیس اسی طرح قائم ہے اور اس کا سارا کریڈٹ وہ اپنے کام اور یوگا کو دیتی ہے۔ شلپا کا کہنا ہے کہ آج کی تیز رفتار دنیا میں اور خاص طور پر با لی وڈ میں اگر اِن رہنا ہے تو خود کو ہر طرح سے سلم اور اسمارٹ رکھنا ہوگا اور اس چیز کے لیے میں روزانہ اپنے سخت ترین ڈائیٹ پلان کے ساتھ یوگا بھی کرتی ہوں اور یہ ہی میری فٹنس کا راز بھی ہے۔

لارا دتا:

فلم اجنبی سے اپنے کیریر کا آغاز کرنے والی لارا اس فلم میں اکشے کمار اور پریانکا چوپڑہ کی شمولیت کے باوجود اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا گئی، فلمی دنیا میں لارا اپنی اداکاری کے بجائے اپنی بولڈ نیس کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوئی۔ مس یونیورس کا تاج پہننے والی ماڈل ٹرن اداکارہ لارا دتا اپنے پُرکشش سانولے رنگ اور اسمارٹنس کی وجہ سے خاصی پسند کی جاتی ہے۔ شادی اور پھر ماں بننے کے بعد لارا نے اپنی اسمارٹنس کی ٹپس کو فروغ دینے کے لیے کئی سی ڈیز بھی تیار کیں، جن میں وہ یہ بتاتی نظر آتی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی خود کو کیسے سلم اور اسمارٹ رکھ سکتی ہے۔

ملائکہ اروڑہ خان:

ماڈل واداکارہ ملائکہ کا نام بولی وڈ میں ایک سمبل کے طور پر لیا جاتا ہے، کیوںکہ اس نے پچھلے کئی سالوں سے خود کو انتہائی سلم اور اسمارٹ رکھا ہوا ہے۔ دو بیٹوں کی ماں ہونے کے باوجود وہ آج بھی کم عمر اور نوخیز نظر آتی ہے۔ بولی وڈ میں کوئین آف آئٹم نمبر کا خطاب حاصل کرنے والی ملائکہ کو فلم بین طبقہ اداکارہ کے بجائے آئٹم گرل کے طور پر دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ پُرکشش اور سلم ملائکہ روزانہ جم جاتی اور یوگا کرتی ہے، اور ان بات کو وہ اپنی اسمارٹنس کا راز کہتی ہے۔

کاجول:

بولی وڈ میں کاجول ایک ایسی اداکارہ ہے جو لفظ اداکاری کے معنی بہت اچھی طرح سے جانتی ہے۔ یقیناً فلم میں اس کی موجودگی ہر ایک پر حاوی ہوتی ہے۔ اجے دیوگن سے شادی کے بعد کاجول نے ایک بیٹی نائسا کو جنم دیا۔ اس کے بعد اس نے یو، می اور ہم، اسٹیپ مام اور تون پور کا سپر ہیرو جیسی فلموں میں کام کیا اور لوگوں نے اس کی واپسی کوکھلے دل سے تسلیم کیا۔ کاجول نے اپنی اداکاری کے معیار کو ہمیشہ بلند رکھا بیٹی کی پیدائش کے سات سال کے بعد اس نے حال ہی میں ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔ فلم بین آج بھی اس کی واپسی کے منتظر ہیں اور شاہ رخ خان کے ساتھ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

سیلینا جیٹلی:

نیلی آنکھوں والی اداکارہ سیلینا نے ایک غیرملکی شخص سے شادی کی اور کچھ دنوں پہلے اس نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا۔ بچوں کی پیدائش کے باوجود اس کا جسم اسمارٹ اور پرکشش ہے۔ گو کہ سیلینا نے وقتی طور پر فلمی دنیا سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے، مگر اپنی ڈیبیو فلم جانشین میں ہوش رباڈریسسز سے شہرت حاصل کرنے والی اس اداکارہ کو لوگ دوبارہ اس اندازمیں دیکھنا ضرور چاہیں گے۔

مادھوری ڈکشٹ:

نوے کی دہائی میں سلور اسکرین پر اس ساحرہ کا جادو چلتا تھا۔ اپنے ملکوتی حسن اور دل فریب مسکراہٹ کے سبب مادھوری کروڑوں دلوں کی ملکہ بن گئی۔ وہ ایک ایسی اداکارہ ہے جس کے چاہنے والے آج بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اپنے کیریر کے عروج میں امریکی نژاد بھارتی ڈاکٹر رام سے شادی کے بعد مادھوری امریکا شفٹ ہوگئی شادی اور دو بیٹوں کی پیدائش کے پانچ سال کے بعد اس نے یش راج بینر کی فلم ’’آجا نچ لے‘‘ میں کام کیا۔ اس فلم میں وہ اسی طرح اسمارٹ اور خوب صورت نظر آئی جیسے وہ شادی سے پہلے تھی۔ مادھوری شوبز سے اپنی محبت کی بنا پر اب مستقل ممبئی شفٹ ہو گئی ہے، لیکن اب اس کی دل چسپی کا محور فلمیں کم اور ٹی وی شو زیادہ ہیں۔

ٹوئنکل کَھنّا:

ڈمپل کپاڈیا اور راجیش کھنّا کی بیٹی ٹوئنکل کھنّا نے جب فلم برسات سے اپنے فلمی دور کا آغاز کیا تھا تب آن اسکرین وہ زیادہ خوبصورت نظر نہیں آئی مگر اکشے کمار سے شادی اور ایک بیٹے کی ماں بننے کے بعد اس کی پرسنلٹی نے بہت گروم کیا۔ آج وہ انتہائی خوب صورت، سلم اور اسمارٹ نظر آتی ہے۔ ٹوئنکل کا زیادہ وقت اپنے انٹریر ڈیزائننگ کے بزنس اور بیٹے آرووکت ساتھ گذرتا ہے۔ ابھی فلمی دنیا میں آنے کا اس کا کوئی پلان نہیں۔ لیکن لوگ آج بھی اس بادشاہ فیم ایکٹریس کو ضرور دیکھنا پسند کریں گے۔

کرشمہ کپور:

راج کپور گھرانے سے تعلق رکھنے والی کرشمہ کے لیے فلمی دنیا نئی جگہ نہیں تھی۔ اپنے خاندان کی پرانی روایات کے بر خلاف اس نے اپنے بل بوتے پر فلمی دنیا میں قدم رکھا اس کی پہلی فلم پریم قیدی ایک ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ مادھوری کے شادی کرنے اور امریکا منتقل ہوجانے کے بعد کرشمہ بولی وڈ کی نمبر ون اداکارہ کہلائی۔ اس کے کریڈٹ پر کئی کام یاب فلمیں ہیں۔ تاہم اس نے بھی شادی اور بیٹے کی پیدائش کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اپنے دور میں پُرکشش ترین ہیروئن کا ٹائٹل حاصل کرنے والی کرشمہ گو کہ آج بھی اسمارٹ ہے، لیکن اس کا فلموں میں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں، جب کہ اس کے مداح آج بھی اس کی واپسی کے متمنی ہیں۔

روینہ ٹنڈن:

سلمان خان کے ساتھ فلم پتھر کے پھول سے شہرت پانے والی روینہ نے فلمی دنیا میں زیادہ کام یابی حاصل نہیں کی لیکن اس نے خود کو ابتدا سے ہی فٹ رکھا اور اسی لیے وہ جب بھی کسی فلم کے ذریعے اسکرین پر آئی دیکھنے والوں پر اپنا بھرپور تاثر چھوڑ گئی۔ دو کیوٹ بیٹوں کے بعد روینہ کا فلمی دنیا میں واپسی کا کوئی امکان نہیں، البتہ وہ چھوٹی اسکرین پر کبھی کبھار کسی شو میں ضرور نظر آجاتی ہے اور پسند بھی کی جاتی ہے۔

سونالی بیندرے:

ماڈل ٹرن اداکارہ سونالی بیندرے نے فلمی دنیا میں اپنے درازقد، اسمارٹنس اور جسمانی کشش کی بنا پر شہرت حاصل کی۔ کئی فلموں میں اس نے بولڈ کردار ادا کیے، جس کی وجہ سے وہ نوجوانوں کی پسندیدہ اداکارہ بن گئی۔ شادی اور دو بچوں کی ما ں بننے کے بعد بھی اس کی جسمانی کشش میں کوئی فرق نہیں پڑا ایسا لگتا ہے کہ گزرتے ہوئے وقت نے سونالی پر کوئی اثر نہیں چھوڑا۔

پری زاد زورابین:

فلم جاگرز پارک سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ پری زاد کی اصل شناخت ایکٹنگ نہیں بلکہ ریمپ ماڈلنگ ہے۔ اس کی مقبولیت میں ماڈلنگ کے ساتھ اس کی ملین ڈالر مسکراہٹ کا بھی دخل ہے۔ دو خوب صورت بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ہر سال ہونے والی ریمپ ماڈلنگ میں پری زاد ہر ڈیزائنر کی پہلی چوائس ہوتی ہے۔

سری دیوی:

اسی اور نوے کی دہائی کی یہ خوب صورت اداکارہ کئی سالوں تک بولی وڈ کی بلاشرکت غیرے نمبرون اداکارہ کے سنگھاسن پر برا جمان رہی ہے۔ اپنی پہلی فلم جولی سے لے کر آخری فلم جدائی تک اس کی کم وبیش ہر فلم نے سپرہٹ کا درجہ حاصل کیا۔ بونی کپور سے شادی اور دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اس کی واپسی کئی سالوں کے بعد فلم انگلش ونگلش سے ہوئی۔ سری دیوی آج بھی ویسی ہی اسمارٹ اور پرکشش نظر آتی ہے جیسے وہ پہلے تھی۔فلم بین آج بھی اس ساحرہ کو بڑی اسکرین پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

جوہی چاولہ:

نٹ کھٹ سی جوہی کا شمار بولی وڈ کی ان ایکٹریسسز میں ہوتا ہے جو اپنی قدرتی معصومیت اور بھولپن کی وجہ سے پسند کی جاتی ہیں۔ جوہی کی ہٹ فلموں کی تعداد گو کہ کم ہے لیکن وہ جب بھی کسی فلم میں آئی فلم بینوں نے اسے پسند ضرور کیا۔ آن اسکرین اسے شاہ رخ کے ساتھ سب سے زیادہ سراہا گیا۔ شادی کے بعد بھی جوہی نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی بلکہ وہ اب منتخب فلموں میں کام کر رہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس چلبلی اداکارہ کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

سوزانے خان:

سپراسٹار ریتھک روشن کی لائف پارٹنر سوزانے خان کا اداکاری سے کوئی تعلق نہیں کیوںکہ اسے ایکٹنگ سے کوئی دل چسپی نہیں بلکہ اس کی ساری توجہ اپنے انٹریر ڈیزائننگ بزنس پر ہے جو وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ اپنی اسی مصروفیت کو اپنی اسمارٹنس کی وجہ سمجھتی ہے دو بیٹوں کی ماں ہونے باوجود وہ کسی فلمی ہیروئن سے کم نظر نہیں آتی۔

ملیریا سے نمٹنے کے لیے نئی تکنیک

$
0
0

ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں میں ملیریا اور ڈینگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد محققین نے کہا ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ان جگہوں کو ہدف بنایا جائے جہاں پر مچھر کی افزائش ہوتی ہے تاکہ اس بیماری کو بڑھنے سے روکا جائے۔

ایک نئی رپورٹ کے مطابق محققین نے کہا ہے کہ مختلف دوائوں کے خلاف مچھروں میں مزاحمت بڑھتی جارہی ہے،اس لیے اب ان سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔ ان میں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کھڑے پانی، جہاں پر مچھر پیدا ہوسکتے ہیں ، کو فوری طور بہا دیا جائے اور دیگر پانیوں میں کیمیکلز شامل کیے جائیں۔ یاد رہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ملیریا کی بیماری بڑھ رہی ہے اور صرف افریقہ میں 2010 کے دوران چھ لاکھ افراد ملیریا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ عشرے کے دوران ملیریا سے ہلاکتوں کی تعداد میں ایک چوتھائی کمی ہوگئی تھی جس کی ایک وجہ تو مچھر مار ادویات سے ٹریٹ شدہ مچھر دانیوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم اور دوسری گھروں میں مچھرمار ادویات کا سپرے تھا۔ لیکن اب سامنے آرہا ہے کہ مچھروں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے چنانچہ لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جگہوں کو ہدف بنایا جائے جہاں مچھروں کے لاروا پیدا ہوتے ہیں۔اس کو ’’لاروا سورس مینجمنٹ‘‘ larval source managementکا نام دیا گیا ہے۔کئی قسم کے پانیوںمیں مچھروں کے لاروے بننے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے جیسے چاولوں کے کھیت یا گڑھوں میں کھڑا ہوا پانی وغیرہ، اس پانی کو فوری طورپر ختم کیاجانا چاہیے یا اس میں ایسے کیمیکلز شامل کیے جانے چاہئیں تاکہ مچھر کا لاروا نہ بن سکے۔اس کے علاوہ کھڑے ہوئے پانی میں لاروا مارنے والی خصوصی ادویات بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔

اسٹڈی کے مطابق جب اس طریقے کو آزمایا گیا تو نہ صرف ملیریا کے واقعات میں پچھتر فیصد کمی ہوئی بلکہ ان افراد کی تعداد میں بھی نوے فیصد تک کمی ہوگئی جو کہ ملیریا پیراسائٹ سے متاثر تھے۔محققین نے اس سلسلے میں ہزاروں مختلف سٹڈیز کا جائزہ لیا اور اس طریقے کی افادیت کو دیکھا تو انہوں نے پایا کہ ان میں تیرہ سٹڈیز ایسی تھیں جن سے اس طریقے کی کامیابی کا پتہ چلتا تھا۔یہ تحقیقات مختلف ملکوں جیسے گیمبیا ، کینیا ، مالی اور فلپائن سے آئی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملیریا پر کنٹرول کے لیے ان سٹڈیز کے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسٹڈی کی مصنف لوسی ٹسٹنگ کے بقول ملیریا پر قابو پانے کے لیے گذشتہ عشرے میں جو کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں وہ دستیاب ادویات کے خلاف مچھروں میں پیدا ہونے والی زبردست مزاحمت کے باعث خطرے میں پڑ گئی ہیں۔چنانچہ ملیریا پیدا کرنے والے مچھروں کو ہدف بنانے کے لیے اب مزید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مچھروں کے لاروا کو ختم کرنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی اس سلسلے میں خاصی موثر ہوسکتی ہے۔

ادھر عالمی ادارہ صحت ابھی اس ریسرچ کو بہت زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ادارے کے بقول اس طریقے کی حمایت کے لیے تحقیق ابھی اتنی جاندار نہیں اور دیہات میں اس کو اپنانے کے لیے سفارش نہیں کی جاسکتی کیونکہ دیہاتی علاقوں میں مچھروں کی افزائش کے سبب والی جگہوں کا سراغ لگانا خاصا مشکل ہے۔ ادارے کے ایک ترجمان کے مطابق جب تک لاورا کنٹرول کے حوالے سے اس تحقیق کے بارے میں مزید ٹھوس شواہد سامنے نہیں آجاتے، اس کو ابھی صرف ایک اضافی طریقے کے طو ر پر لیا جانا چاہیے کیونکہ اس پر کلی انحصار ابھی درست نہیں ہوگا۔سب صحارن افریقہ میں مچھروں کی افزائش کا باعث بننے والی جگہوں کو تلاش کرنا اور وہاں پر دوا کا چھڑکائو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

شاخ گوبھی کھائیں، گنٹھیا سے بچیں

$
0
0

ایک نئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شاخ گوبھی جسے انگریزی میں بروکولی کہا جاتا ہے ، اس کو بکثرت کھانے سے نہ صرف گنٹھیا کے خدشے کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ بیماری کو روکا بھی جاسکتا ہے۔

برطانیہ کی ایک  لیبارٹری میں کامیاب تجربات کے بعد یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا انسانوں پر اس کے تجربات کا آغاز کررہی ہے۔ خلیات اور چوہوں پر کیے جانے والے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شاخ گوبھی میں ایک قسم کا مرکب پایا جاتا ہے، جو انسان برسلز سپرائوٹ اور گوبھی سے بھی حاصل کرتے ہیں،جس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ایسے نقصان دہ انزائمز کا رستہ روکتا ہے جو کرکری ہڈی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اسٹڈی کے سلسلے میں بیس مریضوں کو لیا گیا جنہیں کہا گیا کہ وہ روزانہ اپنی خوراک میں شاخ گوبھی لیں۔انہیں کہا گیا کہ وہ شام کے کھانے یا دوپہر کے کھانے میں مناسب مقدار میں شاخ گوبھی کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس گوبھی میں ایک قسم کا مرکب گلوکورا فاننglucoraphanin پایا جاتا ہے جسے ہمارا جسم ایک اور مرکب sulforaphane میں تبدیل کرتا ہے جو کہ ہمارے جوڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیاکہ یہ مرکب اگرچہ گنٹھیا کو ٹھیک یا واپس نہیں موڑتا لیکن ایک حد تک اس کو لاحق ہونے سے ضرور روکتا ہے۔تحقیق کے سلسلے میں مریضوں کے گنٹھیا زدہ ٹخنوں کے آپریشن سے قبل انہیں دو ہفتے تک شاخ گوبھی خوراک میں لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ڈاکٹر روز ڈیوڈسن نے اور ان کی ٹیم نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آپریشن کے ذریعے ہم مریضوں کے اہم ٹشوز حاصل کرکے ان کا تجزیہ کریں گے اور کھائی گئی شاخ گوبھی کے ان پر اثرات کا پتہ چلائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ ہم مریضوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ دوہفتے تک روزانہ سو گرام شاخ گوبھی کھانے میں لیں۔ یہ ایک نارمل اور اچھی مقدار کی حامل سرونگ ہے اور یہ اتنی مقدار ہے جس کو زیادہ تر لوگ خوشی خوشی کھالیتے ہیں۔

اگرچہ دوہفتے تک شاخ گوبھی کھانے سے زیادہ بڑے فرق کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن ڈاکٹر ڈیوڈ سن کاکہنا ہے کہ ہم نے صرف اچھے اثرات کا پتہ چلا نا ہے۔ شاخ گوبھی کھانے سے جوڑوں پر کیا اثر پڑتا ہے ، اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے دوہفتے تک کی خوراک کافی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ بالکل نہیں کہیں گی کہ اس سے گنٹھیا کی مرمت ہوگی یا بیماری بالکل ختم ہوجائے گی لیکن یہ اس کو روکنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ڈیوڈسن اور ان کی ٹیم اس بات کے شواہد تلاش کرے گی کہ سلفورا فین جوڑوں میں وہاں پر پہنچ چکی ہے جہاں اسے پہنچنا چاہیے اور یہ کہ یہ خلیات کی سطح پر مطلوبہ فائدہ دے رہی ہے۔ اس طرح ٹخنے کا آپریشن کرانے والے دیگر بیس مریض جنہوں نے شاخ گوبھی کو کھانے میں نہیں لیا ، ان کو موازنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ڈیوڈسن کی ریسرچ کی فنڈنگ کرنے والے آتھرائٹس ریسرچ یوکے کے پروفیسر ایلن سلمین نے بتایا کہ فی الحال ریسرچ (جانوروں پر تجربات) یہ دکھانے میں ناکام ہوگئی ہے کہ خوراک گنٹھیا کی پیش رفت کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اگر انسانوں میں کیے گئے تجربات میں اس حوالے سے کوئی کامیابی ہوتی ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔n

سگریٹ نوشی، پھیپھڑوں کی بیماریاں بڑھنے لگیں

$
0
0

ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پھیپھڑوں کی بیماریوں اوراس کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

یورپین ریسپیریٹری سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف یورپ میں ہونے والی ہر سو میں سے دس اموات کی وجہ پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں اور سگریٹ نوشی ان بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔رپورٹ کے مطابق یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں یہ صورت حال ہے تو تیسری دنیا کے ممالک میں حالات کس قدر بدتر ہوں گے۔ادھر ایک برطانوی تنظیم کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر سو میں سے پچیس اموات کی وجہ پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں کی جانے والی سگریٹ نوشی کی شرح کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی دیگر بیماریوں کے باعث آئندہ بیس سالوں کے دوران اموات میں مزید اضافہ ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق اگر ان بیماریوں کی روک تھام ، علاج اور تحقیقی سرمایہ کاری کی بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کو ترجیح نہیں دی جارہی۔European Lung White Book نامی کتاب میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس معاملے کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔مذکورہ کتاب میں عالمی ادارہ صحت اور یورپی ادارے European Centre for Disease Prevention and Control کے تازہ ترین اعدادوشمار کو استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق یورپی خطہ جو بحر اوقیانوس سے وسط ایشیا تک پھیلا ہوا ہے یہاں پر پھیپھڑوں کی چار مہلک بیماریاں بہت عام ہیں۔ یہ lower respiratory infections (بشمول نمونیہ) ، COPD، پھیپھڑوں کا کینسر اور ٹی بی ہیں اور خطے میں دس فیصد اموات انہی بیماریوں کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ادھر یورپی یونین کے اٹھائیس ملکوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ یعنی آٹھ میں سے ایک موت ہے۔رپورٹ کے مطابق بیلجیم ، ڈنمارک ، ہنگری اور آئرلینڈ ایسے ممالک ہیں جہاں پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث اموات یوکے سے زیادہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق پھیپھڑوں کی تمام بیماریوں سے اموات کو اگر جمع کیا جائے تو یوکے یا برطانیہ میں کل اموات میں سے ایک چوتھائی اموات کی وجہ یہی بیماریاں ہیں جبکہ فن لینڈ اور سویڈن میں ان سے اموات کی شرح سب سے کم ہے۔

رپورٹ میں مزید کہاگیا کہ یہ شرح یورپی ممالک کی ہے جہاں علاج اور روک تھام کامعیار بہت اچھا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں صورت حال یقیناً اس سے زیادہ خراب ہوگی۔تاہم کچھ ماہرین اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں زندگی کے اعلیٰ معیار کے باعث لوگوں کے پھیپھڑوں میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت بہت کم ہوچکی ہے جبکہ تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا قرین قیاس دکھائی نہیں دیتا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں زیادہ اموات ہوتی ہوں گی۔

وائٹ بک کے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سانس کی بیماریوں کی اگر سماجی معاشی قیمت کی بات کی جائے تو اس کی نصف ذمہ داری سگریٹ نوشی پر عائد کی جاسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق سگریٹ نوشی یورپ میںصحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ عادت بن چکی ہے اور سگریٹ نوشی کو ختم کرکے ان بیماریوں اور ان کے نتیجے میں اموات سے بچا جاسکتا ہے جو سگریٹ نوشی سے ہوتی ہیں جیسے پھیپھڑوں کا کینسر ، سی او پی ڈی اور کورونیری آرٹری کی بیماریاں وغیرہ۔

اگرچہ 1970 کی دہائی سے یوکے اور ڈنمارک جیسے ملکوں میں سگریٹ نوشی کی شرح خاصی کم ہوچکی ہے تاہم رپورٹ کہتی ہے کہ جن لوگوں نے سگریٹ نوشی جاری رکھی ہوئی ہے ان کے طویل المعیاد اثرات کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں کی شرح بدستور زیادہ رہے گی۔اس کا آسان لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ اگلے بیس سالوں کے دوران بھی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث اموات کا تناسب مستحکم رہے گا، ا گرچہ پھیپھڑوں کے انفیکشن کے واقعات میں کمی ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کا قومی ادارہ برائے صحت 2000 سے ایسے افراد کی دوائوں اور مشوروں کے ذریعے مدد کررہا ہے جو سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے سگریٹ نوشی کے عادی دیگر افراد کو بھی حوصلہ مل رہا ہے کہ وہ اس بری عادت کو ترک کرنے کی کوشش کریں۔یورپ بھر کے ہسپتالوں کے ڈیٹا کے جائزے کے بعد وائٹ بک کو پتہ چلا کہ ان میں اعداد وشمار میں خاصا فرق تھا جو کہ اموات کے تناسب، جن کی کہ بات کی گئی، سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وائٹ بک کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف ملکوں میں صحت کی سہولیات میں فرق ہے اور بہت سے ملکوں میں ہوسکتا ہے کہ مریضوں کو ہسپتال داخل نہ کرایا گیا ہو۔

کتاب میں European Respiratory Society کے صدر پروفیسر فرانسسکو بلاسی نے کہا کہ اگر یورپ اور دنیا بھر میں اوسط عمر میں اضافہ کرنا ہے ، لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے اور معاشرے پر سے معاشی بوجھ کو ختم کرنا ہے تو پھیپھڑوں کی بیماریوں کی روک تھام اور علاج کے عمل کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔پروفیسر بلاسی نے مزید کہا کہ ان بیماریوں کی وجہ سے یورپ کے بہت سے گھرانوں میں غربت میں اضافہ ہوا اور ان کامجموعی معیار زندگی بھی متاثر ہوا ہے۔

ادھر British Lung Foundation کے صدر پروفیسر رچرڈ ہوبارڈ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے یوکے پر موجود اس بوجھ کی مکمل عکاسی نہیں ہوتی جو کہ سانس کی بیماریوں کی وجہ سے اس پر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پھیپھڑوں کے کینسر اور سی او پی ڈی جیسی بیماریاں ہرسال لاکھوں افراد کی زندگیاں ختم کررہی ہیں لیکن پھیپھڑوں کی کوئی چالیس قسم کی بیماریاں ہیں۔ ان میں سے کچھ بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح باقیوں سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ان سب کو ملایا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یوکے میں کل میں سے ایک چوتھائی اموات کی وجہ یہی بیماریاں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یوکے میں ان بیماریوں سے زیادہ اموات کی وجہ غالباً یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس بہت دیر سے پہنچتے ہیں۔

پروفیسر ہوبارڈ کا مزید کہنا تھا کہ نہ تو برطانیہ میں قومی ادارہ صحت پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاج اور روک تھام کو زیادہ ترجیح دے رہا ہے اور نہ ہی محققین کو اس سلسلے میں زیادہ فنڈ دیے جارہے ہیں۔مثال کے طورپر چھاتی کے سرطان پر ریسرچ کے لیے جو رقم دی جارہی ہے پھیپھڑوں کی بیماریوں پر ریسرچ کو اس کا تیسرا حصہ بھی نہیں مل رہا جبکہ انتڑیوں کے کینسر اور لیوکیمیا پر تحقیق کے لیے جو پیسہ دیا جارہا ہے ، پھیپھڑوں کی بیماریوں پرریسرچ کے لیے اس کا آدھا بھی نہیں مل رہا جبکہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کے باعث جتنے لوگ مررہے ہیں ، وہ ان تمام دیگر بیماریوں کو ملا کر جتنے لوگ مرتے ہیں ، اس سے زیادہ ہے۔

Viewing all 4666 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>