Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4666 articles
Browse latest View live

سنجو بابا کے بعد اب سلو بھیا کی جیل یاترا کی تیاری؟

$
0
0

بالی وڈ فلم انڈسٹری میں عوام کے مقبول ترین فائٹنگ ہیروز کے ستارے گردش میں دکھائی دیتے ہیں۔

پہلے سنجو بابا کو جیل کی یاترا کرنا پڑی اور بالآخر انھیں پانچ سال کے لئے پابند سلاسل کر دیا گیا، اب ان کے بعد سلو بھیا جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔کیونکہ ان کے خلاف 2002ء میں قائم کئے گئے ایکسیڈنٹ کے مقدمے میں غیر ارادی قتل کی دفعہ کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی ہے جس کے تحت انھیں دس سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

ممبئی کی عدالت نے عوام کے محبوب اداکار سلمان خان کے خلاف فرد جرم ان کی غیر موجودگی میں عائد کی جبکہ سلمان خان شروع سے ہی اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے آئے ہیں ۔ سلمان خان پرجب 2002ء میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا تو اس میں لکھا گیا تھا کہ 28ستمبر 2002ء کو ایک لینڈ کروزر کار ممبئی کے باندرہ علاقے میں ایک بیکری کے باہر واقع فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے لوگوں پر چڑھ گئی تھی، اس حادثے میں ایک شخص ہلاک اور چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ لینڈ کروزر چلائے جانے کا مبینہ طور پر الزام سلمان خان پر لگا تھا۔ تب اس مقدمے میں لاپرواہی سے گاڑی چلائے جانے کی دفعات لگائی گئی تھیں جس کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا دوسال تھی۔ اتنے سال کے بعد بھارتی عدالت کو پتہ نہیں اچانک کہاں سے یاد آگیا ہے کہ سلمان خان کے خلاف یہ الزام غیر ارادی قتل کے زمرے میں آتا ہے۔

اداکار سنجے دت کے کیس پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر بھی بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں، سنجے دت کے خلاف مقدمہ تب قائم کیا گیا تھا جب 1993 ء میں ممبئی میں بم دھماکے کئے گئے تھے جس میں 257افراد ہلاک اور 713زخمی ہوگئے تھے ۔ سنجے دت کا ان دھماکوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ، مگر جب ان کے پاس بغیر لائسنس کا ایک پسٹل اور بندوق برآمد ہوئی جس کی ساخت غیر ملکی تھی تو اس کے ڈانڈے ممبئی دھماکوں سے ملا دئیے گئے ، یوں ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیااور وہ ممبئی دھماکوں کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے شبے میں 18ماہ تک جیل میں بند رہے۔

جب ان پر کچھ بھی ثابت نہ کیاجا سکا تو انھیں رہا کر دیا گیا مگر ان کے خلاف غیر قانونی اسلحے کا کیس ہنوز چلتا رہا اور بالآخر بیس سال کے بعد عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ سنا دیا ، اب انھیں ساڑھے تین سال مزید سزائے قید کاٹنا ہو گی۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ سنجے دت کو اس کیس میں پھنسا دیا گیا تھا۔ ممبئی میں زیر زمین کام کرنے والے ڈان مافیا نے ہر شعبے میں سازشوں کا جال بنا ہوا ہے اور ڈان مافیا کے تعلقات سرکاری مشینری میں بھی دور تک ہیں، یوں وہ اپنی مرضی کے مطابق حالات میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔ سنجے دت کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں شدت پسند تنظیموں کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں۔ اب تو بھارتی سپریم کورٹ نے بھی سنجے دت کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے، لے دے کر اب آخری راستہ ریاستی گورنر کی طرف سے معافی کا بچا ہے،دیکھیں اب وہ سنجے دت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

سلمان خان کے فلمی کیرئیر پر نظر دوڑائیں تو کامیابیوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے ۔ سلمان خان کا پورا نام عبدالرشید سلیم سلمان خان ہے، وہ 27 دسمبر 1965ء میں مدھیا پردیش کے شہر اندور میں سلیم خان کے ہاں پیدا ہوئے جو فلم انڈسٹری سے بطو رایکٹر اور سکرین رائٹر وابستہ ہیں، سلمان خان کی دوسری ماں ہیلن بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، اسی طرح ان کے دونوں بھائی ارباز خان اور سہیل خان بھی بالی وڈ میں اپنی فنکارانہ صلاحیتیں منوا چکے ہیں ۔ سلمان خان نے 1988ء میں فلم’’ بیوی ہو تو ایسی سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا،مگر انھیں شہرت فلم ’’ میں نے پیار کیا‘‘ سے حاصل ہوئی۔

جس میں سلمان خان نے لیڈنگ رول ادا کیا تھا ، اس پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ بیسٹ میل ڈبیوٹ سے نوازا گیا۔اس فلم کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا ، اس کے بعد 1990ء میں باغی فلم میں کاسٹ کیا گیا جس نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی ، 1991ء میں سلمان خان کو تین مزید فلموں پتھر کے پھول ، صنم بے وفا اور قربان میں کام کرنے کا موقع ملا، تینوں فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، اسی سال سلمان کی ہٹ فلم ساجن ریلیز ہوئی جسے نے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔

مگر اگلے دوسال یعنی 1992ء اور1993ء سلمان خان کے لئے کچھ زیادہ کامیابیاں لے کر نہ آئے اور ان سالوں میں ریلیز ہونے والی فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، تب سلمان کو فلم’’ ہم آپ کے ہیں کون‘‘ نے سہارا دیا اور اس فلم نے تین فلم فیئر ایوارڈ اور نیشنل ایوارڈ حاصل کیا ۔ اس فلم نے 135کروڑ روپے کا بزنس کیا اور سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ 1995ء میں سلمان خان نے فلم کرن ارجن میں شاہ رخ خان کے ساتھ لینڈنگ رول کیا یہ اس سال کی دوسری بڑی فلم تھی۔ 1996ء میں میوزیکل فلم خاموشی ریلیز ہوئی جسے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اس کے بعد سلمان خان نے دو فلموں میں کام کیا جو کچھ زیادہ پسند نہ کی گئیں، پھر پیار کیا تو ڈرنا کیا ریلیز ہوئی جس نے ایک مرتبہ پھر فلم انڈسڑی پر سلمان خان کی دھاک بٹھا دی،’’ کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ نے بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے اور سلمان خان کو دوسری مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

1999ء میں ہم ساتھ ساتھ ہیں ، بیوی نمبر ون اور ہم دل دے چکے صنم منظر عام پر آئیں۔ ان تینوں فلموں نے بھی خوب بزنس کیا۔2000ء میں ہر دل جو پیار کرے گا اور چوری چوری چپکے چپکے ریلیز ہوئیں اس کے بعد تیرے نام منظر عام پر آئی جس میں سلمان خان کی اداکاری اور سٹائل بہت پسند کیا گیا ۔2007ء میں سلام عشق اور پارٹنر ریلیز ہوئیں، یہ فلمیں بھی عوام میں کافی مقبول ہوئیں اس کے بعد تین فلموں کو خاطر خواہ مقبولیت نہ مل سکی ۔ پھر سلمان خان نے 2009ء میں ٹی وی شو’’ دس کا دم‘‘ شروع کیا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔ یہ سال سلمان خان کے لئے بڑی کامیابیاں لایا، فلم وانٹڈ نے سلمان خان کے لئے بطور فائٹنگ ہیرو کامیابیوں کے نئے دروازے کھول دئیے، پھر فلم ویر اور دبنگ ریلیز ہوئیں ، دبنگ نے پہلے ہفتے میں 80کروڑ کمائے اور بولی وڈ کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے، اس کے بعد 2011ء میں فلم ریڈی اور باڈی گارڈ ریلیز ہوئیں ، دونوں فلموں نے خوب بزنس کیا ، ایک تھا ٹائیگر منظر عام پر آئی جس نے تین سو کروڑ کا بزنس کیا ، دبنگ ٹو 2012ء میں ریلیز ہوئی جس نے 250کروڑ کا بزنس کیا۔

سلمان خان نے اداکاری اور ٹی وی شو اینکر کے علاوہ بطور ماڈل بھی کام کیا اور متعدد کمپنیوں کے برینڈ ایمبیسیڈر رہے۔ سلمان خان کو فلاحی کاموں میں بھی بہت دلچسپی ہے ، غریبوں کی مدد کے لئے انھوں نے ایک این جی او بئینگ ہیومن فاؤنڈیشن (being human)کی بنیاد رکھی، یہ این جی او آن لائن شرٹس اور دیگر مصنوعات فروخت کرتی ہے جس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ غریبوں کے لئے قائم کئے گئے فنڈ میں جاتا ہے۔

سلمان خان کی زندگی ہنگاموں سے پُر ہے، موجودہ ممبئی ایکسیڈنٹ کیس تو ان کے خلاف چل ہی رہا ہے اس کے علاوہ 1998ء میں ان پر کالے ہرن شکار کرنے کا بھی پرچہ درج ہو اتھا،وہ جودھپور میں فلم کی شوٹنگ کے لئے گئے ہوئے تھے تب ان پر یہ الزام لگااور تب سے ہی یہ کیس زیر سماعت ہے، اس سال عدالت نے اداکار سیف علی خان ، تبو، سونالی باندرے اور نیلم پر بھی ہرن کے شکار میں معاونت کی فرد جرم لگانے کا حکم دیا ہے، اسی طرح سلمان خان پر مختلف مواقعوں پر ہنگامہ آرائی کے الزامات بھی لگے تب وہ ان سے بچ نکلے، اب برطانوی حکومت نے سلمان خان پرایکسیڈنٹ کا مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے ان کا ویزہ منسوخ کردیا۔ انہیں فلم کی شوٹنگ کے لیے برطانیہ جانا تھا۔اس مرتبہ عدالت نے ان پر غیر ارادی قتل کی جو دفعہ لگائی ہے اس سے بچ نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

سلمان خان کو ملنے والے ایوارڈز
٭ 2007ء میں راجیو گاندھی ایوارڈ حاصل کیا ۔
٭ 2012ء میں ان کی بچوں کے لئے بنائی گئی فلم’’ چلر پارٹی‘‘ کو نیشنل فلم ایوارڈز سے نوازا گیا۔
٭ 1990ء میں فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے لئے بیسٹ میل ایکٹر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا,اسی طرح1999ء میں فلم ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ کے لئے بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1990ء، 1996ء، 1997ء، 1999ء، 2000ء، 2004ء، 2006ء، 2011ء، 2012ء اور2013ء میں فلم فیئر ایوارڈ کی مختلف کیٹیگریز کے لئے نامزد کیا گیا۔
٭ 2011ء میں دبنگ فلم کے لئے بیسٹ ایکٹر سکرین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح 2013ء میں فلم ایک تھا ٹائیگر اور دبنگ ٹو کے لئے بیسٹ ایکٹر سکرین ایوارڈ دیا گیاجبکہ1995ء ، 1999ء، 2000ء، 2003ء، 2004ء، 2009ء، 2010ء، 2011ء، 2012ء اور2013ء میں انھیں سکرین ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔

٭ 2010ء میں آئیفا ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ 2000ء،2004ء،2005ء،2008ء،2010ء،2011ء اور 2012ء میں آئیفا ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔
٭ 2013ء میں فلم دبنگ ٹو کے لئے بیسٹ میل ایکٹر زی ایوارڈ سے نوازا گیا، اسی سال ایک تھا ٹائیگر اور دبنگ ٹو کے لئے بیسٹ یوز آف میڈیا زی ایوارڈ دیا گیا۔
٭ 2008ء میں فلم پارٹنر میں گوویندا کے ساتھ بیسٹ جوڑی اسپرا فلم اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز گلڈ ایوارڈ حاصل کیا، 2011ء میں دبنگ کے لئے بیسٹ ایکٹر لیڈنگ رول اسپرا ایوارڈ حاصل کیا۔

٭ 2012ء میں ایک تھا ٹائیگر کے لئے فیورٹ مووی ایکٹر پیپلز چائس ایوارڈ انڈیاسے نوازا گیا، اسی طرح فیورٹ ایکشن مووی کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
٭ 2011ء اور 2012ء میں سٹارڈسٹ ایوارڈ حاصل کیا جبکہ پندرہ مرتبہ اس ایوارڈ کے لئے نامزد کئے گئے۔
٭ 2002ء میں چوری چوری چپکے چپکے کے لئے موسٹ سینشینل ایکٹربولی وڈمووی ایوارڈ حاصل کیا۔

٭ 2011ء میں بگ باس کے لئے بیسٹ ہوسٹ دی گلوبل انڈین فلم ایند ٹی وی آنرز حاصل کیا۔
٭ 2009ء میں کوئز شو دس کا دم کے لئے بیسٹ اینکر انڈین ٹیلی ویژن اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
٭ 2008اور2009ء میں کوئز شو دس کا دم کے لئے بیسٹ اینکر انڈین ٹیلی ایوارڈزحاصل کیا۔
٭ 2010،2011،2012ء میں بگ سٹار انٹرٹینمنٹ ایوارڈز حاصل کیا۔


غذائیں جو کینسر سے بچائیں

$
0
0

 کینسر یا سرطان ایک انتہائی موذی مرض ہے، جس کا علاج دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے آج بھی چیلینج کی حیثیت رکھتا ہے۔

دنیا کے کونے کونے میں ماہرین، ڈاکٹر اور محققین اس موذی مرض کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس کا فوری اور سستا طریقۂ علاج ڈھونڈنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران اس مرض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ماہرین ابھی تک اس مرض کا کوئی تسلی بخش علاج تلاش کرنے میں کام یاب نہیں ہو پائے ہیں، لیکن کچھ ایسی احتیاطی تدابیر ضرور ہیں جن پر عمل کیا جائے تو کافی حد تک اس مرض سے خلاصی مل سکتی ہے۔ زیرنظر تحریر میں ہم آپ کو 18ایسی غذاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں، جن کے اندر قدرت نے اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔

1۔ بند گوبھی

بند گوبی ایک صحت بخش غذا ہے جو نہ صرف آپ کو مضبوط بناتی ہے بلکہ اسے دوا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود Indole-3-carbinol ، خواتین کے ایک خاص ہارمون، ایسٹروجن کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ ہارمون خواتین کے اندر چھاتی کے سرطان کا سبب بنتا ہے۔Indole-3-carbinol ایسٹروجن کے نقصان دہ اثرات کو مفید اجزاء میں بدل دیتا ہے۔

2۔ گوبھی:


پھول گوبھی کی طرح گوبھی کا شمار بھی صحت کے لیے مفید سبزیوں میں ہوتا ہے۔ یہ سبزی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گوبھی کو مثانے، چھاتی، آنتوں، غدود اور اووری کے سرطان کا مقابلہ کرنے والی غذا قرار دیا جاتا ہے۔

3۔ مشروم یا کھمبی
مشروم کو وٹامن بی اور آئرن کا بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ذیابطیس، الرجی اور کولیسٹرول کا مقابلے کرتا ہے، رسولی سے تحفظ دیتا ہے، علاوہ ازیں یہ کینسر سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دوران علاج سائڈ افیکٹس سے مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

4۔ بروکولی (گوبھی کی ایک قسم)


’سلفورافین‘ نامی مرکب گوبھی یا اس سے ملتی جلتی سبزیوں میں پایا جاتا ہے جو کینسر سے نمٹنے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ یہ مرکب رسولی کو بڑھنے سے روکتا ہے۔

5۔ گاجر:
گاجر کے اندر دو اجزاء بیٹا کیروٹین اور فالکارینول پائے جاتے ہیں، جو کہ کینسر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن بعض تحقیقات کے مطابق ’بیٹا کیروٹین‘ کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن یہ ابھی تک حتمی نہیں ہے۔ گاجروں کا استعمال مختلف اقسام کے سرطان کا مقابلہ کرتا ہے جن میں منہ، گلے، پیٹ، آنتوں، مثانے، غدود اور چھاتی کا سرطان شامل ہے۔

6۔ میٹھے آلو:
میٹھے آلوؤں کے اندر موجود بعض اجزاء پھیپھڑوں، مثانے، گردے، جگر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

7۔ چکوترا
چکوترا عمومی طور پر ذیابیطس سے بچاؤ اور جسم کو توانا رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا بھی ہے۔ بڑی آنت کے کینسر کو چکوترے کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ چکوترے کے اندر موجود ’’فلیونائیڈز‘‘ کینسر کے خلیوں کی افزائش کو آہستہ کر دیتی ہے۔ واضح رہے کہ دورانِ علاج دواؤں کے ساتھ چکوترے کا استعمال مضر بھی ہو سکتا ہے۔

8۔ انگور
انگوروں کی کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا کے طور پر تحقیق اب ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ انگور کے بیج میں proanthocyanidins نامی کیمیکل آنتوں کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔

9 ۔ ٹماٹر


ٹماٹر وٹامن اے، سی اور ای کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس کے اندر کینسر کا مقابلہ کرنے والا ایک ’’جز‘‘ بھی پایا جاتا ہے، جسے lycopene کہتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل اور کینسر کے خلیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ٹماٹر کے اندر موجود وٹامن سی اُن خلیوں کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے جو آگے چل کر کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر اجزاء چھاتی کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر، منہ، لبلبہ اور مثانے کے کینسر سے تحفظ فراہم کر تے ہیں۔

10۔ چیری اور اسٹابریز
چیری اور اسٹابریز کے اندر موجود اجزاء بھی کینسر سیلز بالخصوص پیٹ کے سرطان، بڑی آنت کے سرطان اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کے اندر موجود Ellagic acid جلد، مثانے، پھیپھڑوں اور غذائی نالی کے سرطان کے خلاف ایک مہلک ہتھیار ہے۔

11۔ پپیتا:


پپیتے کے اندر موجود دو مرکبات ’’بیٹا کیروٹین‘‘ اور لائیکو پین ’’فری ریڈیکلز‘‘ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور مرکب Isothiocyanates بھی خیلوں کو کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک طرح سے پپیتا کینسر سے بچاؤ کا ایک بہترین پھل ہے۔

12۔ نارنجی اور لیمو


نارنجی کے اندر limonene نامی اجزاء کینسر کا مقابلہ کرنے والے خلیے پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں فری ریڈیکلز کا مقابلہ کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔

13۔ السی کے بیچ
السی کے بیج کینسر کے خلیوں کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اسے غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا علاج سمجھا جاتا ہے ۔

14۔ لہسن:


لہسن پیٹ کے کینسر، بڑی آنت، غذائی نالی، لبلبے اور چھاتی کے سرطان کے خطرات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

15۔ ہلدی:


ہلدی کے اندر Curcumin پایا جاتا ہے جو کہ عمل تکسید کو روکنے والا ایک طاقت ور عامل ہے۔ اس کا کام کینسر کی افزائش اور اس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، لیکن اس شعبے پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ تاہم بھارت میں روایتی طریقے سے علاج کر نے والوں کا کہنا ہے کہ ہلدی کے اندر بہت سی دواؤں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

16۔ سبز چائے:
ممکن ہے کہ سبز چائے کو اب تک لوگ وزن گھٹانے ہی کے لیے استعمال کرتے رہے ہوں لیکن اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سبز چائے کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

17۔ سویابین:
سویابین کے اندر موجود کچھ اجزاء کو غدود اور چھاتی کے سرطان کو روکنے میں معاون سمجھا جاتا ہے۔ کینسر کے علاوہ سویابین کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔

18۔ تربوز:
Lycopene نامی مرکب ٹماٹر کے ساتھ ساتھ تربوز میں پایا جاتا ہے۔ یہ مرکب کینسر سے نمٹنے کے لیے انتہائی مفید ہے۔n

لیمو پانی کے 10 فائدے


٭ جلدی مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے آپ کی جلد کو خوب صورت اور توانا بنانے کے لیے آئے دن نت نئے دعوے کیے جاتے لیکن یہ دعوے اُلٹا آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اپنی جلد کو خوب صورت اور پرکشش بنانے کے لیے ان مصنوعات کے بجائے اب لیمو پانی کا استعمال کریں۔ یہ آپ کی جلد کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ جھریوں اور کیل مہاسوں کو بھی کم کرتا ہے۔
٭ ہمارے ہاں ہر تیسرا شخص ہاضمے کے مسائل کا شکار ہے لیکن گرم پانی اور لیمو کا رس ان بیماریوں سے نمٹنے کا اہم نسخہ ہے۔ یہ خون کو صاف کرتا ہے، بدہضمی، قبض کے خدشات کم کرتا ہے اور نظام ہاضمہ کو بہتر بناتا ہے۔

٭ ہم روز مرہ زندگی میں بہت سی غیرمعیاری غذائیں استعمال کرتے ہیں، جن کی وجہ سے خون آلودہ ہو جاتا ہے اور بہت سی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لیکن روزانہ لیمو پانی خون کو صاف کر کے ان بیماریوں سے چھٹکارا دلانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
٭ لیمو پانی کٹھی ڈکاروں کو کم کرتا ہے۔ مسوڑھوں سے خون آنا روکتا ہے اور دانت کے درد کو کم کرتا ہے۔

٭ لیمو کے اندر پوٹاشیم پایا جاتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے اور سر درد کے لیے بھی مفید ہے۔
٭ لیمو پانی آپ کو ایک خوش گوار احساس دلاتا ہے اور ڈپریشن میں ریلیف فراہم کرتا ہے۔
٭ لیمو پانی بلغم کو کم کرتا ہے اور سانس لینے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں (asthma) کے مریضوں کے لیے بھی یہ انتہائی مفید ہے۔

٭ لیمو پانی پیشاب کی کئی بیماریوں کا بھی علاج ہے۔
٭ لیمو پانی جھریوں کا باعث اور جلد کو تباہ کرنے والے فری ریڈیکلز کو کم کرتا ہے۔

٭ لیمو پانی اپنی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کی وجہ سے گلے کے انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے۔ اگر نمک ملا پانی آپ کے لیے مفید ثابت نہیں ہو رہا تو پھر غراروں کے لیے لیموںکا رس استعمال کیجیے، آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا۔

موت کے کھلونے

$
0
0

ہمارے خطے میں کھلونا بم افغان جنگ کے دوران متعارف ہوئے جب روسی افواج نے افغان شہریوں کو مجاہدین کا ساتھ دینے کی پاداش میں سبق سکھانے کے لیے ہوائی جہازوں سے ہزاروں کھلونا بم افغانستان کے دیہات میں گرائے۔

یہ موت کے کھلونے بچوں کے ہاتھ لگے تو افغان عوام کو ایک نئے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ آئے دن کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک، زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور ہوتے رہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو یہ افتاد عام شہریوں پر بھی آپڑی۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جہاں ایک جانب عام شہریوں کا خون بہایا جارہا ہے، وہاں اس جنگ میں بلاامتیاز عمر و جنس ہر خاص و عام نے اپنا خون دے کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کھلونا بم بنانے والے ذہن میں ظاہر ہے کہ کسی بڑی عمر کے مرد یا عورت کو نقصان پہنچانے کا خیال نہیں ہوتا۔ یہ بھیانک اور وحشیانہ خیال صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جائیں۔

موت کا کھلونا بنانے والے کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اُڑجائیں تو اسے غم زندگی کے بار سے ایک ہی بار اسے نجات تو مل جاتی ہے، لیکن اگر یہی موت کا کھلونا دو معصوم ہاتھ تن سے جدا کردے، ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم کردے ایک یا دونوں آنکھوں سے محروم کردے، تو اس محرومی کا شکار ہونے والے بچے پر کیا گزرے گی، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوچنا موت کا کھلونا بنانے والے، بچے کے ہاتھ میں پکڑانے والے یا اسے بچوں کے کھیلنے والی جگہوں پر پھینکنے والے کا کام نہیں ہے۔

بے چہرہ لوگوں کا یہ مکروہ فعل کتنے خاندانوں پر زندگی بھر کے دکھ اور اذیت سے دوچار کردیتا ہے۔ یہ نقاب پوشوں کے سوچنے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے مختلف قبائلی و بندوبستی علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے کے واقعات سے پتا لگتا ہے کہ معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والی سوچ یہاں بھی موجود ہے۔ روسی افواج کے ہاتھوں افغان بچوں میں موت کے کھلونے تقسیم کرنے کی کوئی نہ کوئی تُک اس لیے بھی بنتی تھی کہ وہاں افغان شہری براہ راست روسی فوج کے خلاف سینہ سپر تھے، یہاں کے بچوں نے بے چہرہ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟ کون ہے جو قبائلی علاقوں اور ملحقہ اضلاع میں کھلونا بم پھیلا کر دشمن کے عزائم کی تکمیل کررہا ہے؟

صرف کھلونا بم ہی نہیں، دہشت گردی کے دیگر واقعات میں بھی بچے بری طرح متاثر ہورہے ہیں، دھماکوں میں نہ صرف بچے خود نشانہ بن رہے ہیں بل کہ اپنے خاندان کے افراد کے جانی نقصان کی وجہ سے بھی بچے بالواسطہ طور پر متاثر ہورہے ہیں۔پچھلے دو سال میں کھلونا بم کے ذریعے معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملاکنڈ کے علاقے شاہ کوٹ کی ننھی شمائلہ ہو یا ضلع ٹانک کا نو سالہ عارف کسی کو اپنے جرم کا پتا نہیں۔ یہ دونوں بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کو کھلونے کی صورت میں موت کا تحفہ دینے والے لوگ کیا چاہتے تھے۔

اسی طرح کا واقعہ شیوائی ضلع بونیر میں تین ماہ قبل پیش آیا، جب بچوں کو گھر کے باہر ایک ’’کھلونا‘‘ ملا وہ اسے گھر لے آئے۔ اس سے مٹی وغیرہ صاف کرنے کے دوران دھماکا ہوا اور دو بچے اپنی ماں سمیت وحشیوں کے خونیں ایجنڈے کی نذر ہوگئے۔ 15 جون کو شمالی وزیرستان میں ایک چودہ سالہ لڑکے محسن خان کو دریائے ٹوچی سے ایک کھلونا بم ملا جو وہ گھر لے آیا، جہاں موت کا یہ کھلونا پھٹ گیا اور وہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا۔ 19مئی کو بنوں کے علاقے بسیہ خیل میں کھلونا بم گھر لاکر چاقو سے اسے کھولنے کی کوشش کے دوران ایک بچہ عارف ہلاک ہوگیا، جب کہ اس کے دیگر رشتہ دار بچے عرفان، عثمان، اسفندیار، محمد یوسف، عامل اور فرہاد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح کوٹکہ بلند فاطمہ خیل بنوں میں ایک بچی سمیرا کھلونا بم پھٹنے سے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئی، جب کہ اس کی چچی اس واقعے میں زخمی ہوئی۔

کھلونا بم سے جانی نقصانات کے واقعات بونیر اور ملاکنڈ کے دیگر علاقوں کے علاوہ سوات اپر دیر، لوئر دیر وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں۔ باجوڑ اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے بچے بھی خونیں عزائم کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔ اسی طرح بنوں، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔افغانستان میں جن کھلونا بموں نے تباہی پھیلائی وہ کھلونے اسی مقصد کے لیے تیار کئے گئے تھے، جب کہ پاکستان میں ایسے کھلونوں نے تباہی پھیلائی جو تھے تو عام ہی کھلونے مگر ان کے اندر بم نصب کیے گئے تھے۔

کھلونا بم کرکٹ بیٹ کی شکل میں، بال کی شکل میں یا اس قسم کے دیگر کھلونوں کی شکل میں ہوسکتے ہیں، اکوڑہ خٹک میں فورسز نے اسی قسم کا ایک بم کرکٹ بیٹ کے دستے کی شکل میں برآمد کیا تھا۔ اسی طرح میک اپ بکس کی شکل میں بھی بم کی نشان دہی ہوچکی ہے۔ پشاور کے رہائشی سبز علی گل کے مطابق اس کا پانچ سالہ بچہ باہر سے بطخ کی شکل کا ایک کھلونا لایا جو اسے پہلی ہی نظر میں مشکوک لگا، اس نے فوری طور پر اسے باہر لے جاکر پھینکا جو زمین پر لگتے ہی پھٹ گیا۔ اب سبز علی گل اپنے بچوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔

پاکستان میں دیسی طریقے سے بنائے جانے والے بموں میں جو بارودی مواد استعمال ہوتا ہے وہ مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب ہے، اس مواد میں پوٹاشیم کاربونیٹ، نائٹروجن ٹرائکلو رائیڈ، ایمونیم فاسفیٹ، پوٹاشیم کلوریٹ، یوریا اور ایمونیم نائٹریٹ، آرڈی ایکس، نائٹرک ایسڈ، ایلومینم کلورائیڈ، میٹل ڈسٹ، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ اور یوریا نائٹریٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے ڈیٹونیٹر بھی مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتے ہیں، جب کہ ریموٹ کنٹرول بموں میں استعمال ہونے والے ریموٹ تو بازار میں ہر جگہ دست یاب ہیں۔

سیکیوریٹی پر مامور اداروں کے اہل کاروں کو بطور خاص ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ مواد جہاں بھی زیادہ مقدار میں نظر آئے تو محتاط ہوجائیں اور کسی بھی ایسے مواد کو خود چھیڑنے یا چیک کرنے کے بجائے متعلقہ ماہرین کے ذریعے ہی پرکھا جائے۔ سیکیوریٹی اہل کار جب کوئی مشکوک گاڑی چیک کرتے ہیں تو ان کا اپنا مخصوص طریقۂ کار ہوتا ہے، یعنی کسی بھی مشکوک گاڑی کے ڈرائیور سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس یا وائپر آن آف کروائے جاتے ہیں، اگر ڈرائیور بٹن تلاش کرنے میں لگ جائے تو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ گاڑی اس کی اپنی نہیں ہے اور وہ کوئی دہشت گرد ہوسکتا ہے۔

کسی بھی گاڑی میں مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب مواد میں سے کوئی بھی چیز کم یا زیادہ مقدار میں برآمد ہو تب بھی اس گاڑی کو مشکوک سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈرائیور سے جلدی جلدی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر یا گاڑی کا ماڈل پوچھا جائے اور وہ فوری جواب نہ دے پائے تب بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ گاڑیاں چیک کرنے والے سیکیوریٹی اہل کار اپنی تربیت کے مطابق گاڑی کے مختلف حصے چیک کرتے ہیں۔ ماہر اہل کار ایک ہی نظر میں خطرہ بھانپ سکتے ہیں مثلاً سی این جی کٹ کے ساتھ اگر کوئی اضافی تار لگی ہوئی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔

دیسی بموں کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً اسے کسی پریشر ککر میں بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں پریشر ککر کے ذریعے دھماکوں کی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح دودھ کے ڈرموں میں بھی اس قسم کے بم نصب کیے جاتے رہے ہیں۔ گیس کے سیلنڈروں میں بھی بم نصب کیے جاتے ہیں جب کہ گاڑی کے اسپیکروں، ظاہری طور پر بریف کیس، سی این جی سیلنڈروں، ڈائری، ڈکشنری یا کسی موٹی کتاب وغیرہ اور کمپیوٹر کے مانیٹر میں بھی بم نصب ہوسکتے ہیں۔ خودکش گاڑی کا ٹریگر سوئچ عموماً ڈرائیور کے بہت قریب ہوتا ہے، اس لیے سیکیوریٹی اہل کار پہلی نظر میں یہ سوئچ تلاش کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ خودکش حملہ آور اہل کار کو تلاشی کا موقع دے۔

خیبرپختون خوا اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں عام لوگوں کی آگاہی کے لیے بھی ہدایات جاری کی جاتی ہیں، مثلاً عام لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی مشکوک چیز نظر آئے تو اس کو ہاتھ نہ لگائیں، اس چیز کو کسی بھی دوسری چیز سے ضرب نہ لگائیں، معمولی رقم کی خاطر مشکوک چیز سے لوہا الگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، ایسی مشکوک چیز کو آگ میں بھی نہ پھینکا جائے، جہاں ہے اس کو وہیں پڑا رہنے دیں اور اس کو اٹھاکر دور پھینکنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ہاتھ کے علاوہ کسی چیز کا سہارا لے کر بھی اس مشکوک چیز کو ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں اس مواد کو ہاتھ ہر گز نہ لگایا جائے جو پھٹ نہ سکا ہو۔ پاکستان کے مخصوص حالات نے بچوں کی نفسیات پر بھی برے اثرات مرتب کیے ہیں۔

جن علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں وہاں کے بچے اب کھلونے کے نام سے بھی خوف زدہ ہیں اور ظاہر ہے جب ناخوش گوار واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہوں تو بچے تو بچے بڑی عمر کے افراد بھی نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے مواد کے حوالے سے شعور دلانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر شروع میں خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہی دلائی جائے تو مستقبل میں ناخوش گوار واقعات کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ عام لوگ خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہ ہوں گے تو ان کا تعاون بھی سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ بڑھے گا جس سے دہشت گردوں کو کم از کم ہدف تک پہنچنے میں آسانی نہیں رہے گی، سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی نظریں بھی ملک کے دفاع میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

بیگم نے مارا۔۔۔ : بیویوں سے پٹنے والی مشہور شخصیات

$
0
0

گذشتہ دنوں مشہو ر امریکی اداکارہ جولیا رابرٹس کی بھتیجی اداکارہ ایما رابرٹس کو پولیس نے اپنے دوست اداکار ایوان پیٹر پر تشدد کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

اس واقعے کے حوالے سے چھپنے والی خبروں کے مطابق کینیڈا کے ایک ہوٹل میں ان دونوں اداکاروں کے درمیان ہونے والی لڑائی کی آواز سن کر دوسرے کمرے میں رہائش پزیرشخص نے پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس وہاں پہنچی تو پیٹر کی ناک سے خون بہ رہا تھا اور جسم پر دانتوں سے کاٹنے کے نشانات بھی نمایاں تھے، جس کے بعد پولیس نے ایون پر تشد کے الزام میں ایما کو فوراً گرفتار کر لیا۔ تاہم پیٹر کی جانب سے مقدمہ درج نہ کرائے جانے پر چند گھنٹوں بعد ایما کو رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیٹر نے اس واقعے کو غلط فہمی کی وجہ سے ہونے والا حادثہ قرار دیا تھا۔ ایوان پیٹر اگرچہ ایمار رابرٹس کا شوہر نہیں، مگر ایسے شوہروں کی کمی نہیں جو اپنی بیویوں کی مار سہتے ہیں۔

دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرکاری اور غیرسرکاری تنظیمیں ہمیشہ اس بات کا واویلا کرتی رہی ہیں کہ خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن آج تک کبھی کسی نے مردوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کی مذمت نہیں کی۔ خانگی تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کی فہرست میں نہ صرف اداکار، سائنس داں شامل ہیں، بلکہ ایک سپر پاور ملک کے سابق صدور بھی اپنی بیویوں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ آئیے! آپ کو ان مشہور مگر مظلوم شوہروں سے ملوائیں جو اپنی بیوی کے ہاتھوں زبان ہی نہیں ہاتھ کی مار بھی سہہ چکے ہیں:

٭بوبی براؤن اور وائٹنی ہوسٹن:

مشہور امریکی گلوکار بوبی براؤن جن پر1993میں اپنی اداکار، گلوکار اور ماڈل بیوی وائٹنی ہوسٹن پر تشدد کرنے کی فرد جرم عاید کی گئی تھی۔ جب کہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وائٹنی نے ایک غیرملکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا، ’’میں نے ہمیشہ اس کی پٹائی کی ہے، لیکن اس نے تو کبھی مجھ پر ہاتھ تک نہیں اٹھایا۔‘‘ وائٹنی کا کہنا تھا،’’ہم ایک دوسرے کی محبت میں پاگل تھے اور لڑائی بھی ہماری محبت کا ایک انداز تھا۔

٭کرسٹیان سلیٹر اور ریان ہیڈن:

2003 میں امریکی اداکار کرسٹیان سلیٹر کو بیوی کے تشدد کے بعد خوب میڈیا کوریج ملی تھی۔ کرسٹیان کی صحافی بیوی ریان ہیڈن نے لاس ویگاس کے ہارڈ روک کیفے میں مشتعل ہوکر کرسٹیان کو کانچ کی بوتل مار دی تھی، جس سے کرسٹیان کے گلے سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور اسے فوراً اسپتال لے جایا گیا تھا،جہاں کرسٹیان کی گردن پر بیس ٹانکے لگے تھے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے ریان کو گرفتار کر کے کلارک کاؤنٹی کے حراستی مرکز میں بند کردیا تھا۔ تاہم بارہ گھنٹے بعد ہیڈن کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ 2007 میں کرسٹیان نے ریان کو طلاق دے دی تھی۔

٭بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن:

سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جہاں اپنے دور صدارت میں مونیکا لیونسکی کی وجہ سے میڈیا کی تنقید کا نشانہ بنے تو دوسری طرف انہیں اپنی بیوی ہیلری کلنٹن سے پٹائی کا خطرہ بھی لاحق رہتا تھا۔ ہیلری کی سوانح حیات ’’ہیلیریز چوائس‘‘ لکھنے والی امریکی صحافی اور مصنفہ گیل شے نے دعویٰ کیا تھا کہ ہیلری کلنٹن اپنے عاشق مزاج شوہر کی ’’باقاعدگی ‘‘ سے پٹائی کرتی رہتی تھیں۔ کبھی وہ کلنٹن پر کتابیں تو کبھی ایش ٹرے مار دیتی تھیں۔

1993 میں ہیلری نے ناخنوں سے بل کلنٹن کا چہر ہ نوچ لیا تھا، اور کلنٹن کے چہرے پر ناخنوں کے نشانات رہ گئے تھے۔گیل کے مطابق اس وقت وائٹ ہاؤس کی ترجمان دی دی میئرز نے گلوکارہ باربرااسٹرسینڈ کے وائٹ ہاؤس کے دورے کو کلنٹن پر حملے کی وجہ بتایا تھا۔ تاہم سرکاری سطح ہر کلنٹن کے جبڑوں پر نظر آنے والی خراشوں کو ’’شیونگ ایکسیڈنٹ‘‘ بتایا گیا تھا۔ جب کہ مونیکا لیونسکی کا معاشقہ منظر عام پر آنے کے بعد بھی ہیلری نے ’’سپر پاور‘‘ ملک کے ’’مظلوم‘‘ صدر بل کلنٹن کی پٹائی کی تھی۔

٭اسٹیفن ہاکنگ اور ایلین میسن:

مشہور سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ بھی بیوی کے عتاب سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ 2004 میں اسٹیفن کی دوسری بیوی ایلین نے مبینہ طور پر ہاکنگ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اسٹیفن کی دیکھ بھال کرنے والی ایک نرس نے ٹائم میگزین کو بتایا تھا،’’ہم سب اس تشدد کے گواہ ہیں۔ اس وقت ہم سب ایلین سے ڈرے ہوئے تھے اور ہم سب اس مار پیٹ سے ہاکنگ کو پہنچنے والے نقصان سے بھی ڈر رہے تھے۔ مار پیٹ کے نتیجے میں اس عظیم سائنس داں کے جسم پر گہرے زخم اور خراشیں آئیں اور کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ ان کے بیٹے ٹم اور بیٹی لوسی نے اس واقعے کی تصدیق کی تھی۔ تاہم پولیس نے اسٹفین کے عدم تعاون پر اس کیس کی تفتیش روک دی تھی۔

٭برینڈا ہاروے اور لیونل رچی: اسی کی دہائی کے مشہور امریکی گلوکار لیونل رچی اس وقت اپنی بیوی کے عتاب کا نشانہ بنے جب وہ بیورلے ہلز میں واقع اپنے فلیٹ میں الیگزینڈرا نامی ملازمہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ رچی کی بیوی برینڈا نے الیگزینڈرا اور رچی دونوںکو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے برینڈا کو گرفتار کرکے بدمعاشی، زودوکوب کرنے اور قانونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی فرد جرم عاید کی تھی۔

٭ابراہام لنکن اور میری ٹوڈ:

سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی سوانح حیات ’’دی انر ورلڈ آف ابراہام لنکن‘‘ لکھنے والے کنیکیٹی کٹ کالج کے پروفیسر مائیکل برلنگیم کے مطابق میری ٹوڈ صدر کو زودو کوب کرنے کی عادی تھیں۔ ایک بار ابراہام لنکن نے آتش دان میں لکڑیاں کم ڈالی تھیں، جس پر مشتعل ہوکر میری نے صدر لنکن کو لکڑی مار دی تھی، جب کہ ایک بار لنکن نے ناشتے کے لیے میری کی پسند کا گوشت نہیں خریدا تو میری نے گوشت کا پیکٹ لنکن کے منہ پر دے مارا تھا، جس کی وجہ سے لنکن کے چہرے سے خون بہنے لگا تھا۔

٭فل ہارٹ مین اور برائن:امریکی ٹی وی این بی سی کے مشہور پروگرام ’’سیٹردے نائٹ لائیو‘‘ میں ہارٹ مین نے ستر سے زاید کرداروں کی نقالی کی ۔ پروگرام میں فل کی اس وقت کے صدربل کلنٹن کی بہترین نقل اتارنے پر صدر کلنٹن نے اپنی تصویر پر ہارٹ مین کے لیے دستخط کے ساتھ تعریفی کلمات لکھ کر بھیجے تھے۔ 27مئی1998 کی شام فل نے اپنی بیوی برائن کو کوکین کا نشہ نہ چھوڑنے پر طلاق کی دھمکی دی اور سونے چلا گیا اور اسی رات برائن نے ہارٹ مین کے سر پر دو گولیاں مار کر اسے ہلاک کردیا اور خود گرفتاری بھی پیش کردی۔

٭ہیمفرے بوگارٹ اور مایو میتھوٹ:لیجنڈ اداکار اور امریکی سینیما کی تاریخ میں ’’عظیم ترین مرد اداکار‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے ہیمفرے بوگارٹ بھی اکثرو بیشتر اپنی بیوی مایو میتھوٹ کے تشدد کا نشانہ بنتے رہتے تھے۔ مایو نے ایک دن غصے میں آکر سبزی کاٹنے والی چھری ہیمفرے کی پیٹھ میں گھونپ دی تھی۔

منہگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے؟

$
0
0

اسلام آ باد:  رمضان المبارک کے دوران جب ملک بھر میں منہگائی کا طوفان پہلے ہی عروج پر تھا تو ایسے میں امریکی ڈالر نے اپنی قدر و قیمت میں بہ ظاہر اچانک اضافہ کر کے اس طوفان کو سونامی بنانے کا طبل بجا دیا سو جو ڈالر قریب 100روپے کا تھا، وہ 106روپے پر پہنچ کر منہ چڑا رہا تھا۔

ایسے میں معیشت کے ماہرین نے ڈالر کی مزید پیش قدمی کی پیش گوئی کی تو حکومت نے بھی حسب روایت اپنی کم زوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آئیں بائیں شائیں پر مبنی جواز تراشنے شروع کر دیے اور یوں صورت حال گو مہ گو سے دوچار ہوتی چلی گئی۔

دراصل یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب غیر قانونی ترسیلات زر پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کے مرکزی بینک نے ایک سرکلر جاری کیا تو اس کے فوراً بعد روپے کی قدر میں ہوش ربا کمی ہونا شروع ہوگئی اور ڈالر روپے کے مقابلے میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلا گیا۔ جولائی کے آخری دنوں میں انٹر بینک کے تحت ایک امریکی ڈالر 101روپے جب کہ اوپن مارکیٹ میں 105 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ یاد رہے اس سرکلر کے بعد معلوم پڑا کہ کرنسی بازار میں ڈالر کا قحط پڑا ہوا ہے اور یوں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی نے عوام کو افواہوں اور پریشانیوں کے گرداب میں گرداں چھوڑ دیا۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق ’’ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں روپے کی قدر میں 5 فی صد کمی ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر جہاں تیزی سے کم ہوئے وہاں پاکستان کا ہر شہری قریباً 80 ہزار کے بجائے 85 ہزار روپے کا سرکاری سطح پر مقروض ہو گیا۔ اس پر وزارت خزانہ کے ایک سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کا کہنا تھا کہ ڈالر کا 100 روپے کی نفسیاتی حد کو عبور کر جانا ہی شرم ناک امر ہے۔ روپیہ پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا اب آئی ایم ایف سے قرضے کے نئے معاہدے اور مرکزی بینک کے سرکلر نے بے یقینی کی ایک نئی خوف ناک فضا تان دی ہے، جس کے نتیجے میں عن قریب منہگائی کا ایک اور ہری کین آسکتا ہے، جس سے ضروریاتِ زندگی کی عام اشیا، جو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں، چہارم آسماں کی خبر دینے لگ جائیں گی، یہ پیشگوئی حقیقت ہے اور اپنے اندر قوی امکان رکھتی ہے۔

ادھر ہمارے وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے، کہ زیرک بہت ہیں، تُرت اس بات کی تردید کر دی اور ایک انٹرویو میں یہ موقف اختیار کیا کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہر گز نہیں ہے بل کہ یہ صرف افواہیں ہیں۔ ڈالر کے موجودہ بحران کا آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کرنے کی کسی شرط کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ رمضان المبارک میںعمرے پر جانے والوں کی وجہ سے ڈالر کی طلب عموماً بڑھ جاتی ہے، یہ طلب پوری ہوتے ہی ڈالر کی قدر بہ تدریج کم ہوتی جا ئے گی، علاوہ ازیں یہ کہ عالمی اداروں سے ملنے والی رقوم کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آجائے گی۔

انہوں نے عید کے موقع پر ترسیلات زر (Remittences) کے ذریعے روپے کی قدر پر مثبت اثرات کا حوالہ بھی دیا۔ بہ قول جنابِ سیکریٹری ’’آئی ایم ایف سے تو پاکستان نے ابھی اسٹاف کی سطح پر معاہدہ کیا ہے، بورڈ کی سطح پر تو 4 ستمبر کو بات ہو گی، بدخواہوں نے پہلے ہی افواہیں پھیلانا شروع کر دی ہیں کہ ہم نے روپے کی قدر میں کمی سے متعلق کوئی شرط تسلیم کر لی ہے۔ مرکزی بینک نے جو دو سر کلر جاری کیے ہیں، وہ ڈاکو مینٹیشن کے حوالے سے بہت اچھے ہیں مگر ان کی غلط ’’ٹائمنگ‘‘ کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف کا پروگرام چند دن میں پوری دنیا کے سامنے آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے مواقع ضائع کیے گئے، کچھ اس وجہ سے بھی موجودہ صورت حال بنی ہے۔ 30 جون2011 کو زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 8 ارب ڈالر تھا، بعدازاں سی ایف سی کے تحت گزشتہ سا ل مزید 2 ارب ڈالر آئے مگر ہم بیس ہزار ارب سے دس ہزار ارب پر آ گئے ہیں، اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم اپنے ڈالر کھو چکے ہیں۔ اب آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک، اے ڈی پی اور دیگر اتحادیوں کی طرف سے پیسے ملنے کے بعد ہی ملک کے ذخائر میں اضافہ ہو گا‘‘ ۔

مگر دوسری جانب ناقدین مسلسل کہ رہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی بے قدری کی بڑی وجہ کرنسی ڈیلرز کی طرف سے بڑی مقدار میں ڈالرز کا ذخیرہ کرنا ، منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئی شرائط ہی ہیں۔

اس بارے میں کرنسی ایکسچینج ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کی طرف سے منی لانڈرنگ روکنے کے لیے نیشنل ٹیکس نمبر کی فراہمی کی شرط عائد ہونے کے بعد غیر قانونی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا کیوں کہ لوگ اپنا ٹیکس نمبر فراہم کرنے کی بجائے مارکیٹ سے منہگا ڈالر خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں لہٰذا روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

جولائی میں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 29 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ۔ یہ ذخائر گھٹ کر 10 ارب، 20 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے تھے۔

ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد امید ہو چلی تھی کہ معیشت اور روپے کی قدر مستحکم ہو گی مگر صورت حال اس کے برعکس ہو چلی ہے۔ حکومت نے سب سے پہلے کشکول
اٹھایا اور عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے پر دستک دی اور یوں بجٹ خسارے، بیرونی امداد پر انحصار اور آمدنی سے زیادہ اخراجات نے معاشی مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات اب براہ راست عوام پر پڑیں گے اور روپے کی حالیہ بے قدری لامحالہ منہگائی کا ایک اور طوفان لے کر آئے گی۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء بھی کئی گنا منہگی ہو جائیں گی۔

روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکنے کے لیے حکومت نے’’ فارن ایکس چینج رسک مینیجمنٹ پروگرام‘‘ اور ’’ کرنسی ہیچنگ فریم ورک‘‘ کی تجویز کا فوری طور جائزہ لینا شروع تو کیا ہے مگر اس کے مثبت اثرات کب سامنے آئیں گے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

وزات خزانہ کے مطابق پاکستان کے ذمے واجب الادا غیر ملکی قرضے کا پورٹ فولیو دنیا کی بیس مختلف کرنسیوں میں ہے۔ پاکستان کو قرضے میں ملنے والی کسی بھی کرنسی میں رقم پاکستانی روپے میں تبدیل ہو کر ملتی ہے کیوں کہ پا کستانی رقم میں عالمی سطح پر لین دین نہیں ہوتا جب کہ دوسری کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں خرید و فروخت ہوتی ہے، اس لیے فوری طور پر کچھ ہونا ممکن نہیں۔ ایسے میں ایک عام شہری یہ سوچنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے کہ کیا روپے کی قدرمیں حالیہ کمی قیاس آرائی پر مبنی اقدامات کا نتیجہ ہے؟ کیوں کہ جب بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر کھونے لگتا ہے تو ایک شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے۔

گھاگ اور سرکاری مخبریوں سے استفادہ کرنے والے ٹوڈی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں یہ کمی مزید بڑھے گی اور یوں چپکے چپکے طلب میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ طلب میں بہت زیادہ اضافہ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے میں کرنسی مارکیٹ کے استحکام کی خاطر، ہمیشہ اسٹیٹ بینک کو بروقت قدم اٹھانے پڑتے ہیں اور اس شیطانی چکر کو توڑنے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر کی تازہ فراہمی کو ممکن بنانا پڑتا ہے۔ یہ چکر مئی 2013 کے دوران شروع ہو جاتا مگر انتخابات کی وجہ سے یہ چکر نہ چل سکا مگر اب یہ چل پڑا ہے ۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ انٹر بینک شرح تبادلہ کے مقابلے میں اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کا فرق ریکارڈ سطح تک بڑھ چکا ہے۔ فرق کا یہ پھیلاؤ کئی دہائیوں بعد دیکھنے میں آرہا ہے۔

جولائی کے آخری ایام میں جس تیزی سے روپے کی قدر میں کمی کا مشاہدہ ہوا، کرنسی لین دین کے بنیادی اصول اسے ہر گز درست قرار نہیں دے سکتے۔ اس دوران جتنی تیزی سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں نرخ بدلے، ایسا انٹر بینک کی سطح پر پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط کے باعث جو غیر یقینی پیدا ہوئی، وہ نہ جانے کب ختم ہو؟ روپے کی قدر میں کمی کی راہ ہم وار کرنے کے لیے ان شرائط کو اگر بہ طور افواہ استعمال بھی کیا گیا ہے تو اس تاثر کو فوری طورپر ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکتے تھے، بروقت اور مناسب توجہ سے افواہوں کو روکنا کافی آسان تھا مگر ۔۔۔۔۔ دیر آید، وفاقی وزیرِ خزانہ نے اس مسئلے پر جب توجہ دی تو واقعی دیر ہو چکی تھی۔

انہوں نے کرنسی ڈیلروں اور بینکاروں سے فون پر گفت گو کی مگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، جو اس ضمن میں روپے کی پہلی دفاعی صف میں تھا اور ہے، وہ اس دوران تمام منظرنامے سے کلیتاً غائب رہا۔ کرنسی مارکیٹ میں جو کچھ ہوا، اسے ٹھوس کارروائی کے ذریعے درست کیا جاسکتا تھا لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان خود کافی دیر بعد خوابِ غفلت سے بیدار ہوا۔ جب تک ایکسچینج کمپنیوں اوراسٹیٹ بینک کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہوئی اورانٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں فرق کم کرنے پر اتفاق ہوا، اس وقت تک گھاگ لوگ اربوں کھربوں روپے کما چکے تھے۔ ملاقات میں روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے مختلف امور پر غور ہوا۔ ایکسچینج کمپنیوں نے بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرز اب بھی روزانہ کی بنیاد پر بیس ملین ڈالر کی طلب پوری کرسکتے ہیں گو کہ سونے کی بے دریغ درآمد کی وجہ سے یہ طلب اب بڑھ کر پچاس ملین ڈالر ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے طلب اور رسد میں توازن نہیں اور ڈالر کے بے قابو ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

ملاقات میں جب ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کی خریداری پر ’’ این ٹی این‘‘ کی شرط واپس لینے کا مطالبہ کیا تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ضمن میں کسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا اس طرح ایک بار پھر خدشات کے بادل روپے پر منڈلانے لگے۔ اس وقت چاہیے تو یہ تھا کہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کے امکانات کو ہر ممکن روکا جاتا۔ اس لیے یہ خدشہ اب بھی ہے کہ روپے کی قدر میں لگاتار کمی ملکی معشیت کو ایک اور دھچکا دے گی۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اوران فلوز میں کمی کے باعث گزشتہ مالی سال میں یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوارب انتیس کروڑ ڈالر تھا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال دوہزار بارہ تیرہ میں خسارے کی مالیت چارارب پیسنٹھ کروڑ ڈالر ہوئی۔ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں گزشتہ مالی سال کے دوران اکیاون فی صد کمی ہوئی لیکن معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں یہ کمی عارضی ہے کیوں کہ خام تیل کی قیمت میں اضافے، روپے کی گرتی قدر اور ان فلوز میں کمی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا جو واقعی بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

پھرجب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجلی کے گردشی قرضوں کی مد میں، 342 ارب روپے کے قرضوں کی ادائی سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی تو ماہرین معیشت کو یہ بات بھی ہضم نہ ہو سکی۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے پر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ 342 ارب روپے کے قرضوں کی ادائی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ضرور ہوئی۔ آئندہ چند ہفتوں میں حکومت کے اقدامات کی وجہ سے روپیہ اپنی کھوئی ہوئی حالت پر لوٹ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ممبر ملک ہے اور ان اداروں سے قرض لینے کو بھیک مانگنے کے مرادف قرار دینے کا کوئی جواز نہیں، ماضی کی حکومت نے جو معیشت کا حال کیا ہے، اس کو درست کر نے کے لیے حکومت کو ان اداروں سے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ قوم اس پر پریشان نہ ہو، بہت جلد ملکی معیشت کو درست کر دیں گے، جس کے بعد آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

جولائی کے آخر میں جب یہ خبر آئی کہ یکم اگست سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے تک اضافے کا امکان ہے، اوگرا حتمی سمری 29 جولائی کو منظوری کے لیے وزارت پٹرولیم کو ارسال کرے گی، تو حکومتی دعوے ڈھیر ہوتے نظر آئے۔ اوگرا حکام کے مطابق پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ عالمی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے متوقع ہے۔

عید کارڈ کی دم توڑتی روایت

$
0
0

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

شاعر نے بلبل کی نغمہ سرائی کو گلشن میں بہار کی آمد کی نوید قرار دیا تھا، لیکن جہاں تک عید کا تعلق ہے، اس کی آمد کا اعلان صرف چاند رات کو رویت ہلال پر موقوف نہیں، بلکہ اس تہوار سے جڑی کئی روایات ایسی ہیں، جو کئی ہفتے قبل سے پتا دینے لگتی ہیں کہ عید کی آمد آمد ہے۔

ان میں ایک خوبصورت روایت عید کے موقع پر عید کارڈ دینے کی بھی ہے، جو کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ماند پڑتی جا رہی ہے اور اگر اب یہ کہا جائے کہ عید سے وابستہ یہ روایت دم توڑ رہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ماضی میں ماہ رمضان کے آغاز میں ہی مختلف دکانوں اور سٹورز پر عید کارڈ کے سٹال نظر آنا شروع ہو جاتے تھے جبکہ مہینے کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی۔ خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو عام ڈاک اور ائیر میل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔

اس وجہ سے عید کے دنوں میں محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انہیں عوام الناس کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت عید کارڈز کی ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کر دئیے جائیں۔ کاروباری نقطہ نظر سے بھی یہ ایک نفع بخش کام سمجھا جاتا تھا اور بہت سے لوگ عید کے موقع پر سٹال وغیرہ لگا کے عارضی طور پر اس سے وابستہ ہو جاتے تھے۔ لیکن اب موبائل فون اور سوشل میڈیا تک عام رسائی کی بدولت لوگ ان ذرائع سے عید مبارک کے پیغامات بھیجنے کو زیادہ سہل اور موزوں سمجھتے ہیں اور عید کارڈ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔

رمضان مبارک کے آخری عشرے میں لبرٹی مارکیٹ، لاہور میں واقع ایک بڑے کتابوں کے سٹور میں عید کارڈز کے ایک چھوٹے سے سٹال کو دکان میں بڑی نمایاں جگہ پر لگایا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ گاہکوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکا اور وہ دکان میں موجود دوسری اشیاء میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی دئیے۔ سٹال پر رکھے ہوئے مختلف عید کارڈز کی قیمت 40 روپے سے 200 روپے کے درمیان تھی، لیکن وہاں موجود مرد و خواتین کی بے اعتنائی ان سب کے ساتھ یکساں نظر آ رہی تھی۔

اس سلسلے میں جب ایک صاحب سے سوال کیا تو وہ کہنے لگے، ’’عید کارڈوں کی روایت کم ہونے کی وجہ معاشی نہیں بلکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ فوری اور بروقت رابطے کا ذریعہ ہر شخص کے پاس موبائل فون کی صورت میں موجود ہے۔

اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ میں جائے اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔‘‘ ایک محترمہ کا کہنا تھا، ’’عید کارڈز کی روایت اگرچہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، لیکن یہ بات صحیح ہے کہ اس ضمن میں اب پہلے والا جوش و خروش نہیں رہا۔ پہلے اچھے عید کارڈ کے انتخاب میں بھی بہت وقت صرف کیا جاتا تھا اور مختلف سٹالوں میں گھوم پھر کر پسند کے کارڈ منتخب کیے جاتے تھے۔‘‘ ایک نوجوان نے بتایا:’’بچپن میں دوستوں اور کلاس فیلوز کو عید کارڈ دینے کا شوق تھا، اسی طرح ان سے بھی عید کارڈ وصول کر کے خوشی ہوتی تھی، لیکن ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ موبائل فون کے ذریعے آپ آسانی سے ایک ہی وقت میں اپنے تمام جاننے والوں کو عید مبارک کے پیغامات بھیج سکتے ہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے دوست، رشتہ دار سے فون پر براہ راست بات کر کے اسے اسی وقت مبارکباد دے دیتے ہیں اور آج کل اس پر زیادہ خرچ بھی نہیں آتا۔‘‘

کاونٹر پر موجود سیلزمین نے کہا:’’لوگوں کی عیدکارڈ میں دلچسپی ابھی بھی موجود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی عید کارڈ کی روایت کو ماند پڑے زیادہ عرصہ نہیںگزرا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر یہ بالکل ختم ہو جائے یا پھر کسی نئی شکل میں دوبارہ زندہ ہو جائے۔ ہماری دکان میں سالگرہ، شادی اور دوسرے مواقع کی نسبت سے بھی کارڈ دستیاب ہیں، جن کی فروخت سارا سال چلتی رہتی ہے۔ اس لیے یہ روایت کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔‘‘

اگر ماضی کی بات کی جائے تو عید کارڈ کے تبادلے میں بڑی عمر کے لوگوں کے علاوہ بچے خاص طور پر دلچسپی لیتے تھے اور وہ اس سرگرمی میں پورے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مارکیٹ میں بچوں کی مناسبت سے چھوٹے اور بڑے سائز میں عیدکارڈ دستیاب ہوتے تھے۔ بچوں کے عید کارڈوں کی انفرادیت، اس کے اندر لکھے گئے نفس مضمون سے بھی ظاہر ہوتی تھی، جو صرف عید مبارک کے پیغام تک محدود نہیں ہوتا تھا اور مختلف اشعار سے ان کی معصومیت اور شرارت ظاہر ہوتی تھی۔ مثلاً:

ڈبے میں ڈبا، ڈبے میں کیک
میرا دوست لاکھوں میں ایک
یا:
عید آئی ہے کس زمانے میں
طفیل گر گیا غسل خانے میں

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے، اور یہ اس اعتبار سے سچ بھی ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوں سے جو خوشی اور طمانیت بچوں کو ملتی ہے، وہ عام آدمی محسوس نہیں کرسکتا۔

بچوں کو عید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی عیدی کا بھی ہوتا ہے۔ نئے نئے نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھر لینا ان کے لیے بہت طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ عیدی کی روایت اگرچہ آج بھی پہلے کی طرح قائم ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان ماضی کی طرح عید کے موقع پر نئے نوٹ بھی جاری کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ عیدی میں نئے نوٹوں کی روایت کم ہوتی جا رہی ہے، اس کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

ایک تو نئے نوٹ تک ہر آدمی کی رسائی نہیں ہوتی، پھر یہ کہ پہلے چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹ عام تھے، جنہیں بچے حاصل کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی قدر (بمعنی ویلیو) اس قدر گھٹ چکی ہے کہ بچے بھی انہیں حاصل کر کے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سے وہ اپنی پسند کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے، اس لیے وہ چھوٹی کرنسی کے نئے نوٹوں کے مقابلے میں بڑی کرنسی کے پرانے نوٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عید کے موقع پر بچوں میں ماضی کے بر عکس اب شلوار قمیص کے بجائے ریڈی میڈ سوٹ پہننے کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے۔

کوئی بھی رواج معاشرے میں اچانک عام نہیں ہوتا اور نہ ہی فوراً ختم ہو جاتا ہے، بلکہ ایسا مختلف عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ان عوامل میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی وجوہات شامل ہیں، اس کے علاوہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت بھی ان چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اس لیے بحیثیت قوم ہمیں اس بات کی شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماضی کی کچھ خوبصورت روایات اگر اب کسی وجہ سے برقرار نہیں ہیں تو کم از کم ان کے پیچھے باہمی محبت اور ہمدردی کا جو جذبہ کار فرما ہے اسے کسی صورت ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ ان جذبوں کو زندہ رکھنے کی ضرورت آج پہلے سی بھی زیادہ ہے،جو ان روایات کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت ہمیں عید کے موقع پر ان لوگوں کو نہیں بھلانا چاہیے، جن کو یہ خوشیاں میسر نہیں ہیں۔ تب ہی عید کا دن ہمارے لیے حقیقی طور پر عید کا دن ثابت ہو سکے گا۔

خوشیوں کے رنگ بکھیرتی چاند رات

$
0
0

یوں تو عید کے تہوار کی تیاریاں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں ہر بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورت کے چہرے پر خوشیوں کے رنگ نظر آنے لگتے ہیں، مگر رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاریوں میں تیزی آجاتی ہے کیونکہ عید میں اب صرف چند روز باقی بچے ہوتے ہیں ۔

ایسی تیاریاں جو قبل از وقت کی جانا ضروری ہوتی ہیں وہ تو مکمل کر لی جاتی ہیں جیسے گھروں کی تزئین و آرائش ، کپڑوں کی خریداری اور سلائی وغیرہ مگر اکثر افراد کچھ خریداری چاند رات کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، جیسے چوڑیاں ، مہندی، میک اپ کا سامان، جوتے اور سلے سلائے کپڑے وغیرہ، یہ چاند رات کو ہی خریدے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چاند رات کو ہی خریداری کیوں کی جاتی ہے؟ راتیں تو بہت سی ہیں اور ان میں سے بہتوں کا مقام و مرتبہ بھی بہت زیادہ ہے مگر عید الفطر یعنی سویوں والی عید کے ساتھ جڑی رومانویت صرف اسی رات کا حصہ ہے۔ رمضان کے اختتام پر مغربی افق پر جب باریک تار جیسا چاند اپنی جھلک دکھاتا ہے تو گویا ہر طرف رنگ و نور کی برسات ہونے لگتی ہے ۔

حالانکہ چاندنی چٹخنے کی باتیں تو چاند کی چودھویں کے ساتھ منسوب ہیں مگر چند منٹوں کے لئے نمودار ہونے والے اس باریک سے چاند کی وجہ سے انسانی چہروں پر روشنی کا جو عکس دکھائی دینے لگتا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، بس یوں لگتا ہے جیسے ہرطرف خوشیوں نے ڈیرے ڈال لئے ہوں، حتیٰ کہ حوادث زمانہ کے ستائے ہوؤںکی کیفیت بھی بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے

آج کل گرمی اور حبس کے باعث لوگ تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں لیکن عید کا چاند دیکھنے سے انسان کے اندر کا موسم بدل جاتا ہے، اس کے رویے سے مسرت و شادمانی کا اظہار ہونے لگتا ہے اور وہ ہر کام پھرتی اور چستی سے خوشی خوشی سر انجام دینے لگتا ہے یوں جیسے اس میں ضرورت سے زیادہ توانائی بھر دی گئی ہو۔ روزہ رکھنے والے چاند کو دیکھتے ہی خدا کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسم کی شدت کے باوجود انھیں روزے رکھنے کی سعادت نصیب فرمائی ، ورنہ اس شدید گرمی اور حبس میں اللہ کی طرف سے عنایت کردہ توفیق کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان روزہ رکھے کیونکہ روزہ رکھنا انسانی مجبوری نہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، اگر کوئی روزہ نہ رکھنا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا اور اگر وہ چاہے تو سب کے سامنے روزہ ظاہر کرے اور تنہائی میں کھاتا پیتا رہے، اس لئے یہ صرف ربّ کی عنایت ہے اور اس کے ہی علم میں ہوتا ہے کہ کس کا روزہ ہے اور کس کا نہیں۔

خواتین عید کا چاند نمودار ہونے کے بعد مختلف قسم کے پکوانوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں جبکہ لڑکے، لڑکیاں چاند رات کی خریداری کی تیاری کرنے کے لئے اودھم مچا دیتے ہیں، کسی کو چوڑیا ں اور مہندی خریدنا ہوتی ہے تو کسی کو جوتے ، اور کسی کو بناؤ سنگھار کا سامان خریدنے کی جلدی ہوتی ہے، سب سے زیادہ رونق چھوٹے بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے جنھیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ انھوں نے کیا خریدنا ہے مگر وہ بازار جانے کے لئے سب سے زیادہ پرجوش نظر آ رہے ہوتے ہیں ۔

چاند رات کو شہروں کی بڑی مارکیٹوں میں عوام کا رش دیدنی ہوتا ہے خاص طور پر بازار کے اس حصے میں جو خواتین کے لئے شاپنگ کے لئے مخصوص ہوتا ہے، میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسی بات نہیں کہ سب ہی لوگ شاپنگ کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان چاند رات کی رونق سے لطف اندوز ہونے کے لئے ویسے ہی گھوم رہے ہوتے ہیں ایسے میں بدنظمی سے بچنے کے لئے سکیورٹی اہل کاروں کی مدد لینا پڑتی ہے جو ہر ایسی مارکیٹ کے داخلی راستے پر کھڑے نظر آتے ہیں اور فیملی کے بغیر خواتین کی مارکیٹ میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ یہ سارا بندوبست دکانداروں نے خود کیا ہوتا ہے جو اپنے گاہکوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ان کی جیبوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔

پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی مرکز لاہور میں یوں تو بہت سی مارکیٹوں میں چاند رات کو شاپنگ کے لئے آنے والوں کا رش ہوتا ہے مگر نئی انارکلی میں واقع بانو بازار کی اپنی ہی بات ہے ، یوں لگتا ہے جیسے رنگ و نور کی برسات ہو رہی ہو، ہر چہرے سے خوشی چھلک رہی ہوتی ہے ، ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے لوگ شاپنگ کے لئے نہیں بلکہ کسی میلے میں سیر و تفریح کے آئے ہوئے ہوں، شاپنگ کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق بھی ہو رہا ہوتا ہے، بانو بازار کی موڑ کاٹتی ہوئی کہیں سے تنگ اور کہیں سے کھلی گلیاں ہنستے مسکراتے چہروں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔

معمول کے دنوں میں بھی اس بازار میں رونق ہوتی ہے مگر تب دکاندار گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے ایک ملازم کو باہر کھڑا کر دیتے ہیں جو ہر گزرنے والے کو دکان سے خریداری کی دعوت دیتا ہے، مگر چاند رات کو اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہوتا ہے، گاہک دکاندار کو آوازیں دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے لئے فلاں چیز نکال دو اور اپنے پیسے لو اور میری جان چھوڑو ، یعنی گاہک بے چارے کی باری نہیں آ رہی ہوتی، یوں دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بتاتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ گاہک نے چیز ہر حال میں خریدنی ہے، گاہک چاند رات کی وجہ سے اس سے زیادہ تکرار کئے بغیر پیسے ادا کر دیتا ہے۔

تاکہ جلد از جلد شاپنگ کر کے گھر کی طرف روانہ ہو سکے، کیونکہ چاند رات کو گھر میں بھی بہت سے کام ہوتے ہیں خاص طور پر اس رات کو خواتین کا کام بہت بڑھ جاتا ہے، بچوں کو شاپنگ کرانے علاوہ عید کے کھانوں کی تیاری بھی اسی رات کو کی جاتی ہے اور پھر بچوں کے تمام تر کام کی نگرانی بھی انھی کے ذمہ ہوتی ہے جبکہ بچے عید رات کو اودھم مچانے کے موڈ میں ہوتے ہیں ، یوں بعض اوقات ان کی رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی ہے۔ مگر یہ ان پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا عید کی آمد کی خو شی میں وہ سب کام بڑے جو ش و جذبے سے کئے جاتی ہیں۔

بانو بازار میں شاپنگ کے لیے آئی ہوئی ایک خاتون شاہدہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’چاند رات کو شاپنگ کرنے کا اپنا ہی لطف ہے ، ہر کوئی پوری فیملی کے ساتھ آتا ہے اور اپنی پسند کی چیزیں خریدتا ہے، خاص طور پر چوڑیاں، بناؤ سنگھار کا سامان، مہندی اور جوتے وغیرہ تو ضرور خریدے جاتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں چاند رات کی ہی سوغات ہیں ، ہر لڑکی یہ چیزیں خریدتی ہے کیونکہ اس کے بغیر عید ہی نہیں ہوتی، ایک ناگوار بات چاند رات میں بے پناہ رش ہے جس کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آتی ہیں مگر یہ بھی چاند رات کی شاپنگ کا ایک حصہ ہے ، ہر کوئی چاند رات کو شاپنگ کرنا چاہتا ہے اس لئے رش ہونا فطری بات ہے‘‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چاند رات کو خریداری کرنے میں تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مہنگائی بھی ہوتی ہے ، مگر عید کی خوشی میں ان مشکلات کو کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا ، اسی لئے کہتے ہیں کہ چاند رات کی شاپنگ کا اپنا ہی مزا ہے ۔

’’ایک آس ہوتی ہے کہ کوئی ملنے آئے گا‘‘

$
0
0

سہارا ہوم
سہارا پبلک رائٹس ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر انتظام 1988 سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

اکبر علی رانا اس کے روح رواں ہیں۔ یہ ادارہ بے سہارا اور خصوصی افراد کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے۔ سہارا ہوم میں ماہرین نفسیات، فزیو تھراپسٹ اور طبی عملہ بھی موجود ہے۔ سہارا ہوم میں مقیم افراد گھر جیسا ماحول پاتے ہیں اور خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ ادارے میں ذہنی و جسمانی معذور اور نفسیاتی امراض کا شکار افراد کی بحالی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

عید آتی اور خوشیاں لاتی ہے۔ کیا ایسا ہی ہے، کسے کہتے ہیں عید، ہر طرف ناامیدی ہے، معاشی نا ہم واری ہے، بے کلی اور اداسی ہے، وہ جسے اپنا پن کہتے تھے کہاں ہے وہ ، کسے کہتے ہیں اخلاص، کہاں گئے رشتے ناتے ، نہ جانے کہاں گئے، اب تو سب مصنوعی سا لگتا ہے ۔ ہم اس جگہ آ نکلے تھے جہاں سب مجسم انتظار تھے۔ اپنوں کے منتظر اور بس منتظر۔۔۔ میں ایک اولڈ ہوم آپہنچا تھا۔ عجیب سا سوال لیے کہ وہ عید پر کیا تیاری کر رہے ہیں ۔ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ پھر جو کچھ ہوا ، دیکھ لیجیے۔ ہمیں خالد معین کی ایک خوب صورت نظم یاد آگئی ۔

سسکیاں ابھرتی ہیں
پھر پس غبار شب
یہ ہَوا کا نوحہ ہے
دیپ بجھ گئے لیکن
چاند اب بھی روشن ہے
انتظار کو اوڑھے
راہ گزر کی ویرانی
یاد کچھ دلاتی ہے
جانے اس دریچے میں
تیرگی و تنہائی
اب کسے بلائیں گے
کون ہم نوا ہو گا
کس سے ہم کلامی کی
ساعتیں بسر ہوں گی
رات کی اداسی میں
یہ خیال کیوں آیا
ہم کو در بدر کرکے
کوئی خوش رہا ہوگا
یا کبھی دکھا ہوگا

روئی کے گالوں جیسے بال اور ملکوتی مسکراہٹ سجائے شمشاد بیگم ہمارے سامنے تھیں۔ وہ اپنی عمر کی صدی مکمل کرنے والی ہیں۔ 99 سالہ شمشاد بیگم کی زندگی کی کہانی اتنی مختصر نہیں کہ اسے چند جملوں میں بیان کردیا جائے۔ سینٹ جوزف کالج کی تعلیم یافتہ شمشاد بیگم کے شوہر جج تھے، جن کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہیں جو شادی شدہ ہیں، پانچ سال قبل وہ انہیں سہارا ہوم میں چھوڑ کر چلی گئی تھیں، تب سے وہ یہی ہیں۔ میں نے پوچھا عید آنے والی ہے، آپ کیا کریں گی، کیا تیاری کی ہے آپ نے؟ مسکرائیں اور کہنے لگیں:

عید آنے والی ہے تو آنے دیں، وہ بھی عام دنوں کی طرح گزرجائے گی۔ اب کچھ نیا نہیں لگتا ہمیں ، سب دن یکساں لگتے ہیں۔ پہلے تھی عید، شب برأت تو، سب خوشیاں، حقیقی خوشیاں مناتے تھے۔ دکھ سکھ سانجھے تھے۔ شادی غمی سانجھی تھی۔ عید آتی تو کوئی چہرہ اداس نہیں رہتا تھا۔ عید پر کوئی رنجش باقی نہیں رہتی تھی، سارے گلے شکوے ختم ہوجاتے تھے، عید نئے سرے سے تعلقات کی تجدید کا نام تھا۔ عید کی تیاریاں تو شعبان ہی میں شروع ہوجاتی تھیں، نئے کپڑے، جوتے اور لڑکیوں کی منہدی چوڑیاں نہ جانے کیا کیا۔ اچھا اب تو سویاں بازار میں ملتی ہیں ناں، اس وقت گھروں پر خود بنائی جاتی تھیں۔ قیمہ بنانے والی مشین سے سویاں نکالی جاتی تھیں، پھر انہیں سکھایا جاتا تھا، ان میں باریک بھی ہوتی تھیں اور موٹی بھی، اور بہت سے گھروں میں رنگا رنگ مٹھائیاں بھی بنائی جاتی تھیں اور ان کاموں میں سارے محلے کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ اس طرح باہمی تعلقات زیادہ گہرے ہوتے تھے۔

کسی کو کوئی خوف نہیں تھا۔ ہر طرف شانتی تھی امن تھا اور جب امن ہو شانتی ہو تب ہی سارے تہوار اچھے اور بھلے لگتے ہیں۔ اب تو ہر طرف موت کا ہرکارہ اپنا کوڑا لیے گھوم رہا ہے۔ موت کا خوف، لٹنے کا خوف، بموں کا خوف نہ جانے کیا کیا خوف۔ اب کہاں رہی عید، اب تو سب کچھ پھیکا لگتا ہے۔ یہاں اولڈ ہوم میں عید، بس ٹھیک ہے اس لیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ والدین کی عید تو بچوں کے سنگ ہوتی ہے، والدین اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور جب بچے بڑے ہوجائیں، ان کی شادیاں ہوجائیں اور ان کے بچے، تو پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ ہوتی ہے اصل عید تو، ورنہ کیا عید، میں 5 سال سے یہاں ہوں، یہاں نئے کپڑے بھی ملتے ہیں، چوڑیاں بھی، منہدی بھی، اچھے اچھے کھانے بھی، لیکن یہ سب کچھ تو عید نہیں ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرکے اپنا غم غلط کرتے ہیں، دن گزر ہی جاتا ہے۔ ایک آس ہوتی ہے کہ کوئی ہمیں ملنے آئے گا، لیکن کسے ہے اتنی فرصت کہ ہمارے پاس آئے، بس سورج ڈوب جاتا ہے تو دل بھی ڈوب جاتا ہے۔ کیا پوچھتے ہو بیٹا، جو ہے بس ٹھیک ہی ہے، عید آئے گی اور گزر جائے گی۔

٭ وہ مجھے دیکھتے ہی سنجیدہ ہوگئیں، میں نے مسکرا کر پوچھا عید کیسے منائیں گی؟
کب ہے عید؟
میں نے کہا بس چند دن رہ گئے ہیں، آپ کو نہیں معلوم عید آنے والی ہے؟
ہاں معلوم ہے مجھے آنے والی ہے۔
تو آپ کیسے منائیں گی عید؟

میں نئے کپڑے پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی، چوڑیاں پہنوں گی، عید ہے ناں بھئی، پھر میرا بیٹا لندن سے آئے گا کتنا مزہ آئے گا۔ پھر میں اس کے ساتھ لندن چلی جائوں گی، بس آنے ہی والا ہے میرا بیٹا، بہت اچھا ہے، بہت نیک ہے میرا بیٹا، بس مصروف ہوگیا ہے ناں وہ۔ بھئی باہر لندن میں تو کام بھی بہت ہے، وہ چھٹی بھی نہیں دیتے اور کہتے ہیں، بس کام کرو کام۔ لیکن وہ آئے گا ضرور، ضرور آئے گا میرا بیٹا۔ بہت دعائیں دیتی ہوں میں اسے، جب وہ چھوٹا تھا ناں تو عید پر بہت مزہ آتا تھا۔

عید کے لیے ہر چیز مانگتا تھا وہ، اماں یہ لے دو، وہ لے دو، پگلا، نئے کپڑے خریدتا تھا، اور ایک نہیں، نہیں صاحب! ایک جوڑا نہیں، کئی جوڑے، سینڈل، چپل اور جوتے اور اتنا پگلا تھا کہ چاند رات کو سب کچھ اپنے پلنگ پر رکھ کر سوتا تھا۔ ایک دفعہ تو نئے جوتوں کا ڈبا اپنے سینے سے لگاکر سوگیا تھا، پھر عید کے دن میں اسے تیار کرتی، اس کے ابا زندہ تھے ناں تو وہ اسے پیسے دیتے۔ وہ ان پیسوں کا پتا ہے کیا خریدتا تھا، کھلونے خریدتا تھا پھر ان سے کھیلتا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ، مت پوچھو کتنا خوش ہوتا تھا وہ، میں شیر خورمہ بناتی اور سویاں بھی تو وہ بہت خوش ہوکر کھاتا تھا۔ اب سنو! میٹھے سے پیٹ بھر گیا تو اسے کچوری چاہیے، اکلوتا تھا ناں، بس ایک بات سے بہت اداس رہتا تھا پگلا، اور پوچھتا رہتا تھا کہ اوروں کے تو بہت بہن بھائی ہیں میرے کیوں نہیں ہیں۔

بہت مشکل سے سمجھاتے تھے اسے۔ خیر سارا دن وہ خوش رہتا اور پھر ہم اسے شام کو رشتے داروں کے گھر لے کر جاتے تھے، عید کے تینوں دن وہ خوش رہتا، کبھی کلفٹن لے کر جاتے کبھی چڑیا گھر، اور چڑیا گھر میں تو وہ جانوروں کو دیکھ کے بالکل پاگل ہوجاتا تھا اور ان کی طرح نقلیں اتارتا تھا، وہاں سے واپس آنے کو تو اس کا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ بچپن میں بہت پگلا تھا وہ۔ پھر اس کے ابا مرگئے لیکن ہم نے اسے احساس نہیں ہونے دیا، بہت محنت کی ہم نے، کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، احساس ہی نہیں ہونے دیا اسے کہ اس کا باپ نہیں ہے۔ نازوں سے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا اور پھر وہ لندن چلا گیا۔ وہاں جاکر اس نے گوری میم سے شادی کرلی، وہ خود بھی گورا چٹا ہے جی، وہ کسی انگریز سے کم ہے کیا، چودھویں کے چاند کی طرح ہے وہ ۔ مجھے تو اس کی بہت فکر لگی رہتی ہے۔

بہت نخرے تھے اس کے کھانے پینے میں ، یہ نہیں کھائوں گا اماں، وہ نہیں کھائوں گا اماں۔ پتا نہیں کیا کھاتا ہوگا۔ گوری میم کو تو میری طرح کھانے بنانا تو نہیں آتے ہوں گے ناں۔ اب میں جائوں تو اسے بھی کھانا بنانا سکھائوں گی ۔ کیا کیا کرنا پڑتا ہے اپنے بچوں کے لیے، جان گھلانی پڑتی ہے جی۔ بہت شرارتی ہے ناں وہ، اب آئے گا وہ مجھے لے جائے گا۔ بس میں اس کے ساتھ رہوں گی، اس عید پر تو وہ ضرور آئے گا۔ ہر عید پر یہی کہتا ہے باؤلا۔ اب میرے پاس موبائل بھی نہیں ہے کہ اس سے بات کروں، بہت پریشان ہو رہا ہوگا بہت مہینوں سے بات نہیں ہوئی ناں۔

چلو اسے یہ جگہ معلوم ہے، بھئی خود ہی تو وہ چھوڑ کر گیا تھا مجھے، کہ اماں بس ایک ہفتے میں آکر لے جائوں گا، وہاں جا کر کاموں میں لگ گیا پگلا۔ میں بھی تیار ہوکر بیٹھوں گی کہ بس وہ آئے اور ہم جائیں، وقت ضائع نہ ہو ناں۔ بس اب میں تیار شروع کردوں ناں وہ آئے گا عید پر، ضرور آئے گا۔شہناز 70 سال کی ہوگئی ہیں ، انہیں فالج ہے 3 سال پہلے ان کا اکلوتا بیٹا انہیں یہاں چھوڑ گیا تھا۔ اب وہ لندن میں ہے۔ اور شہناز اس کا انتظار کررہی ہے۔

٭ انعم شاہ رسول کالونی میں رہتی تھیں۔ انہوں نے بی اے کیا ہے اور ہمیشہ امتیازی اور نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے۔ 35 سالہ انعم کو اولڈ ہوم کا رخ کیوں کرنا پڑا، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ لڑکیوں کو سہانے خواب دکھاکر برباد کرنے والوں کی داستان۔
میں نے پوچھا عید آنے والی ہے کیا تیاری کی آپ نے؟

وہ مجھے غصے سے گھورتی رہیں۔
کیا عید؟ کیا تیاری؟ سب دھوکا ہے سب دھوکا کوئی عید وید نہیں ہوتی، بس ایسی ہی ہوتی ہے عید، لوگ مررہے ہیں، گولیاں چل ر ہی ہیں، بم پھٹ رہے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں عید آنے والی ہے۔ عید تو خوشیاں لاتی ہے اور دنیا میں کہاں رہ گئی خوشی، بتائیں آپ کہاں ہے خوشی، ہر طرف غم ہی غم ہیں، رونا ہی رونا ہے، دکھ ہی دکھ ہیں، دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا۔ زندگی ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا۔ رہنے دیجیے عید، کوئی خوش نہیں ہے یہاں۔ بہن بھائی، ماں باپ سب دھوکا ہیں۔ عید آئے گی تو خود ہی خوش ہوجائوں گی، کوئی آئے گا نہیں، کوئی نہیں آئے گا کوئی بھی ۔ میرے ساتھ آخر کس کا رشتہ ہے کسی کا، انسان اگر غلطی کرلے اور کون انسان ہے، جو غلطی نہ کرے، پھر وہ شرمندہ بھی ہو نادم بھی، معافی بھی مانگ لے تو کیا گھر والوں کو پھر بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔

جب اللہ معاف کردیتا ہے تو انسان کو بھی معاف کردینا چاہیے، ٹھیک ہے میرے ساتھ دھوکا ہوگیا، غلطی ہوگئی میں پڑھی لکھی ہوں ، میں نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی، شرمندہ بھی تھی، میں حالات کی وجہ سے بہت غصہ کرنے لگی تھی، لیکن کیا ماں باپ بھائی بہنوں کو مجھے اولڈ ہوم میں داخل کرادینا چاہیے تھا۔ چھوڑیں سب رشتے ناتے جعلی ہیں، سب مطلب کے ہیں، مطلب کی ہے ساری دنیا، کوئی کسی کا نہیں ہے۔ سنا تھا ماں اپنی بیٹی کو کبھی نہیں چھوڑتی، پھر مجھے کیوں چھوڑا۔ یہ سب بکواس ہے۔ ہاں عید پر نئے کپڑے پہنوں گی، چوڑیاں پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی اور خود ہی دیکھ کر خوش ہوجائوں گی۔ کوئی آتا ہے تو آئے جو نہیں آئے گا، سب بھاڑ میں جائیں، میں اپنے لیے جیوں گی بس۔

٭ نسرین40 سال کی ہیں، ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ایک ہی بیٹی تھی جو سسرال والوں نے لے لی۔ ان کے والد صاحب اسٹیل ملز میں ڈیزائنر تھے، بنی سنوری سنجیدہ و متین نسرین کی کہانی بھی دل خراش ہے۔ جب عزیز رشتے داروں اور خونی رشتوں نے منہ پھیر لیا تو وہ خود ہی اولڈ ہوم آگئیں، لیکن سب کو یاد بہت کرتی ہیں۔ خاص کر اپنے گھروالوں اور بیٹی کو۔ عید کے لیے کیا تیار ی کی آپ نے؟
جی بھائی آنے والی ہے عید، مجھے معلوم ہے، رسمِ دنیا ہے نبھانی پڑے گی۔ وہی جو سب کرتے ہیں، اوپر سے خوش اور اندر سے رنجیدہ ۔ میرے ’’کیوں‘‘ کے جواب میں نسرین کہنے لگی:

بھائی آپ تو جرنلسٹ ہیں، سارا دن خبروں میں رہتے ہیں، آپ دیکھ نہیں رہے کہ کیسی مارا ماری ہے، انسان انسان کا دشمن بنا ہوا ہے، رشتے ناتے سب دھول مٹی ہوگئے ہیں، کوئی کسی کا ہاتھ تھامنے والا نہیں ہے۔ مروت نام کی کوئی قدر رہی ہی نہیں، خلوص و ایثار نجانے کسے کہتے ہیں، ایسی عجیب زندگی ہوگئی ہے۔ جو خوش نظر آرہا ہے وہ بھی خوش نہیں ہے جو رنجیدہ نظر آرہا ہے وہ رنجیدہ نہیں ہے۔ سب ڈرامے بازی اور اداکاری کررہے ہیں۔ آپ تجزیہ ہی نہیں کرسکتے کہ اصل کیا ہے ، اصل تو دھول میں گم ہوگیا ہے۔ سب کچھ اداکاری ہوگیا ہے۔ پہلے نہیں آتی تھی مجھے اداکاری، لیکن اب تو میں بھی سیکھ گئی ہوں۔ عید آئے گی تو نئے کپڑے پہنوں گی، منہدی لگوائوں گی، ہم سب مل کر اپنے اپنے دکھ ایک دوسرے کو سنائیں گے اور بس دن ہوجائے گا تمام۔ عید پر گانا بھی گائوں گی۔

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ

عید پر آپ ضرور آئیے گا، پھر ہم منائیں گے عید، یہ لیجیے آپ کے لیے شعر

عید آئی ہے سلگتی ہوئی یادیں لیے
آج پھر اپنی اداسی پر ترس آتا ہے

٭ شہناز کی عمر 30 سال ہے، انھیں شوہر نے طلاق دے دی، والدین کا انتقال ہوگیا ہے، تو وہ بھائی کے گھر آگئیں۔ اپنی بھاوج سے ان کی نہیں نبھی اور ایک دن بھائی انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ گیا۔ وہ بات کرتے کرتے کہیں کھو جاتی ہیں ۔ روتے روتے ہنسنے لگتی ہیں اور بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتی ہیں۔

شہناز نے اپنی عید کی تیاریوں کے بارے میں بتایا۔
بھائی عید تو خوشی کو کہتے ہیں، جب انسان تن درست ہو، خوش ہو تو اس کے لیے تو ہر دن عید کا ہوتا ہے۔ اور اگر انسان اداس ہو تو عید بھی غم کا تہوار بن جاتی ہے۔ عید کے دن تو انسان اور بھی غم گین ہوتا ہے، عید تو ماں باپ ، بہن، بھائی، شوہر اور بچوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو پھر کیسی عید۔ بس ایک دن ہوتا ہے جسے عید کہتے ہیں، اچھے کپڑے اور اچھے کھانوں کا نام تو عید نہیں ہوتا۔ عید تو اندر سے خوش رہنے اور خوشیاں منانے اور خوشیاں باٹنے کا نام ہے۔ عید آئے گی تو ہم بھی منالیں گے۔ اب یہاں ہم سب لوگ ایک خاندان کی طرح ہیں۔ ایک دوسرے کا دکھ سنتے ہیں، خوشی میں خوش ہوتے اور غمی میں روتے ہیں۔ بس اب ہم ایک دوسرے کا سہارا ہیں، عید آئے گی تو ایک دوسرے سے ملیں گے، اچھے کھانے کھائیں گے، باتیں کریں گے اور بس گزر جائے گی عید۔

وہ باتیں کرتے کرتے پھر سے گم ہوگئیں۔
٭ وسیم حسین کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ وہ وسیم کو پڑھا لکھا نہیں سکے۔ وسیم بچپن ہی سے کام کرنے لگے تھے اور والدین کا سہارا تھے، وہ کوٹ پینٹ اور لیدر جیکٹ سینے کے ماہر ہیں۔ حالات کے مارے ہوئے وسیم حسین اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے اور اولڈ ہوم پہنچ گئے۔ وسیم سے ہم نے عید کی تیاریوں کے حوالے سے سوال کیا تو وہ بولے:
’’عید آئے گی تو خوشیاں منائیں گے، گانے گائیں گے اور میں تو ناچوں گا بھی۔‘‘

وسیم آپ کیا گائیں گے، انہوں نے ہمیں گانا سنایا،
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگاکر ملیے
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہے

٭ستار بابا کو دو سال قبل ان کے بچے اولڈ ہوم میں داخل کرا گئے تھے، ستار بابا پولیس کے مخبر تھے، بچوں کے منع کرنے پر بھی وہ باز نہیں آئے تو وہ انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ گئے۔ وہ بہت باتونی ہیں ہم نے عید کی تیاریوں کا پوچھا تو کہنے لگے،’’دیکھو بھائی! مخبر کے بنا پولیس کام نہیں کرسکتی اور پولیس کے بنا عدالت۔ اب میں نے قومی خدمات سرانجام دی ہیں تو بچوں کو اچھا نہیں لگا اور مجھے یہاں چھوڑ گئے، کس کے لیے میں نے اتنی محنت کی اپنی اولاد کے لیے کی ناں۔ ورنہ مجھے اتنی محنت کرنے کی کیا پڑی تھی۔ جن بچوں کے لیے اتنی محنت کی، وہی مجھ سے بے زار ہوگئے۔ چلو وہ خوش رہیں اپنا کیا ہے، وقت کٹ ہی جائے گا۔ میرے سینے میں تو ہزاروں راز دفن ہیں ۔ میں کسی اور ملک میں ہوتا تو میری عزت ہوتی اور یہاں پر یہ سلوک ہورہا ہے۔

لیکن میرے بچے ہیں بہت اچھے، عید کے دن وہ ضرور آئیں گے۔ یہاں پر ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں، مزے دار کھانے کھاتے ہیں، ہلا گلا کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، لیکن اصل مزہ تو عید کا گھر پر ہی ہے، بچوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا سب اچھا لگتا ہے۔ ابھی بھی عید آئے گی تو اب ہم سارے دوست سب مست ہوکر عید منائیں گے، کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے تو ہمیں بھی کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ دنیا ہی ایسی ہے، یاشیخ اپنی اپنی دیکھ۔ ہاں بھائی صاحب جو خوش ہو اسے خوش دیکھ ہی نہیں سکتے۔ بڑا عجیب وقت آگیا ہے، خون سفید ہوگیا ہے، یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ اب کیا کریں، بس جو ہے شکر ہے پاک پروردگار کا، عید کو آنا تم بھی، گپ شپ ماریں گے، تاش واش کھیلیں گے ضرور آنا تم۔

٭ کرامت علی صاحب ساری عمر کام کرتے اور اپنے بچوں کو پالتے پوستے رہے، انہوں نے انہیں بہترین تعلیم سے آراستہ کیا، اپنا سُکھ تج کر انہیں راحت پہنچائی۔ بچوں کی شادیاں کرائیں، پھر کرامت علی کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا ، وہ کہتے رہے، لیکن بچوں نے توجہ نہیں دی۔ شوگر کے مرض میں وہ اپنی ٹانگ سے محروم ہوگئے، اور معذور ہونے کے بعد آخر انہیں اولڈ ہوم پہنچادیا گیا۔ وہ ہر دم اپنے بچوں کو دعائیں دیتے اور خاموش رہتے ہیں۔ ہم نے ان سے عید کی تیاریوں کا پوچھا تو جواب کچھ نہیں دیا۔ بس اُن کی آنکھیں برسنے لگیں۔ ہم تھوڑی دیر ان کے سامنے سر جھکاکر کر بیٹھے رہے اور پھر وہاں سے لوٹ آئے۔

٭ افتخار احمد کسی ٹیکسٹائل مل میں ملازم تھے۔ ان بہت اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ بہت اچھی بیوی تھی ان کی جو ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو بہترین تعلیم سے آراستہ کیا۔ ہر طرح سے ان کا خیال رکھا۔ بچے جوان ہوئے تو ان کی شادیاں کیں۔ اب وہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور ان کے ابتر دنوں کا آغاز۔

وہ اپنے تینوں شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ اس گھر میں رہتے تھے جو انہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنایا تھا۔ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ بیوی کے انتقال کے بعد وہ اپنی بہوؤں کے رحم و کرم پر تھے، بیٹے اپنے کام پر چلے جاتے اور ان کی بیگمات انہیں جھڑکتی رہتیں، انہیں وقت پر کھانا پینا میسر نہیں تھا۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں اٹھا کر پیار نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اپنے بیٹوں سے شکایت کرتے تو وہ انہیں ہی ڈانٹ دیتے تھے ۔ بات آگے بڑھی تو اپنے ہی بنائے ہوئے گھر سے بے دخل کردیے گیے۔ بے دخل کیے جانے کے بعد وہ اپنے کسی عزیز کے گھر اس لیے نہیں گئے کہ انہیں اپنے بیٹوں کی عزت پیاری تھی پھر کسی نے انہیں سہارا ہوم کا بتایا تو وہ یہاں چلے آئے ۔

کیسے منائیں گے عید آپ؟ ہم نے ان سے پوچھا:
بیٹا عید تو بہت دور ہے، آئے گی تو منا ہی لیں گے اور نہیں منائیں گے تو وہ گزر ہی جائے گی۔ ہماری عمر اب عید منانے کی نہیں ہے، بس انتظار کرنے کی ہے، موت کا انتظار۔ کیا عید بیٹا بس رہنے ہی دو۔ عید کہتے ہیں خوشوں کو۔ اپنی خوشیاں ہوگئیں ختم شد۔ بس اب انتظار ہے کہ اپنی اصل منزل کی طرف سفر شروع کرنے کا۔ بس دعا کرو کہ خاتمہ خیر سے ہوجائے۔ ویسے تم آنا عید پر اور خود دیکھ لینا کیسے مناتے ہیں ہم عید۔ اچھا ہے تھوڑا مزہ آئے گا، دو پل کا خواب ہے جیون بیٹا۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں
آتے ہوئے اذان ہوئی، جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے، چلے گئے


عید منانے کا اصل لطف گھر میں فیملی کے ساتھ ہے

$
0
0

 عیدالفطر کو ’’میٹھی عید‘‘ کہا جاتا ہے جس میں خاندان کے لوگ اور عزیز واقارب خوشی کے لمحات مل بیٹھ کر گزارتے ہیں ۔

یہ مبارک دن آنے سے کئی روز قبل رمضان المبارک کی عبادات کے ساتھ ساتھ تیاریاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ گھر کی تزئین وآرائش ، ذاتی ضرورت کی اشیاء اور نئے ملبوسات کی خریداری عروج پر ہوتی ہے۔

اس خاص موقع کو یادگار بنانے کے لئے گلوکارہ حمیرا ارشداور ان کے شوہر ماڈل واداکار احمد بٹ اور ان کے بیٹے متقین بٹ کے ساتھ روزنامہ ایکسپریس نے خصوصی عید شوٹ کا اہتمام کیا۔

اس موقع پر حمیرا ارشد اور احمد بٹ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عید کا تہوار خوبصورت ملبوسات ، مٹھائی اور سوئیوں سے منہ میٹھا کروانے کے لوازمات کے باعث ایک انتہائی حسین موقع ہوتا ہے اس لئے ہم عید ہمیشہ گھر پر فیملی کے ساتھ منانے کو یقینی بناتے ہیں۔

تیس سال بعد ایک خفیہ دستاویز کا احوال

$
0
0

اسلام آباد: برطانوی حکومت نے حال ہی میں یکم اگست 2013 کو 30 سال بعد سرکاری معلومات پر مبنی ایک خفیہ دستاویز کو قانون کے تحت عام کیا ہے۔

دستاویز میں ملکہ برطانیہ کا اپنی قوم کے نام اس خطاب کا متن سامنے آیا ہے جو ملکہ نے 1983 میں  تیسری  ایٹمی جنگ کی صورت میں تقریر کی صورت میں پڑھنا تھا تاکہ برطانوی قوم متحد اور پرعزم رہتی۔ ملکہ کی تلقین پر مبنی یہ فرضی تحریری خطاب گو کہ آج ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس خطاب کا متن ہمارے ہولناک مستقبل کی طرف  اشارہ ضرور کرتا ہے، جہاں آگ اور خون کی ہو لی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ملکہ برطانیہ کا یہ فرضی خطاب  شاید اس وقت کی بین الاقوامی جنگی مشقوں، مغرب اور امریکا میں بننے والی جنگی فلموں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا، جب دنیا میں سرد سے گرم جنگ اور دائیں اور بائیں بازو کے بحث و مباحثے عروج پر تھے۔

اس زمانے میں  ہر وقت یہ ہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ تیسری عالمی جنگ آج ہوئی یا کل۔ اس زمانے میں سوویت یونین اور اس کے وارسا پیکٹ کے اتحادی افواج کے بلاک کی نمائندگی نارنجی رنگ  سے کی جاتی جب کہ نیلے رنگ کی فوج نیٹو کی نمائندگی کیا کرتی تھی۔ ان مشقوں کے دوران دکھایا جاتا کہ جب نارنجی فوج برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرتی ہے تو نیلی فوج جوابی حملے میں محدود پیمانے پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے نارنجی فوج کو مصالحتی عمل شروع کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ مشقیں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھیں جب اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو ’’شیطانی ریاست‘‘ قرار دے دیا تھا۔

برطانوی وائٹ ہال کے حکام کی طرف سے سرد جنگ کے مشکل ترین زمانے میں تیار کردہ اس تقریر کا مسودہ نہ تو کبھی ریکارڈ ہوا اورنہ ہی نشر۔ یہ تقریر 1983 کے موسمِ بہار میں جنگی مشقوں کے حصے کے طور پرتیار کی گئی تھی۔ اس فرضی تقریر میں ملکہ نے اس اپنے ملک کو بہادر اوردرپیش خطرے کو تاریخی قرار دیا تھا۔برٹش حکومت نے اس دستاویز کو 30 سال بعد سرکاری معلومات عام کرنے کے قانون کے تحت کو عوامی سطح پر جاری کر دیا ہے۔اس خطاب کو پڑھنے والے کہتے ہیں’’ اگرچہ یہ صرف ایک مشق تھی لیکن ملکہ کے خطاب کو اس طرح لکھا گیا تھا کہ یہ جمعہ چار مارچ 1989 کی دوپہر کو نشر ہو گا‘‘۔ دراصل اس خطاب  کے ذریعے برطانوی قوم کو تیسری عالمی جنگ کے دوران پیش آنے والی شدید مشکلات کے لیے تیار کرنا تھا۔ملکہ برطانیہ کے اس فرضی تقریری مسودے کے متن میں کیا لکھا ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔

’’جنگ کا پاگل پن اب دنیا میں مزید پھیل رہا ہے اور ہمارے بہادر ملک کو ایک بار پھر شدید مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ضرور تیاری کرنی چاہیے‘‘۔ خطاب میں مزید کہا گیا: ’’مجھے آج تک  وہ افسوس ناک مگر قابلِ فخر دن نہیں بھولا جب 1939 میں دوسری جنگِ عظیم کے آغاز پر میں اور میری بہن ریڈیو پر اپنے والد جارج ہشتم کی پرجوش تقریر سن رہی تھیں، میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن یہ سنگین اور خوفناک ذمے داری مجھے نبھانی پڑے گی۔ آج ہمیں دہشت کا سامنا ہے، جن خصوصیات کی بدولت ہم نے اس اداس صدی میں دو دفعہ اپنی آزادی کو قائم رکھا، آج  وہی اقدار ایک بار پھر ہماری طاقت ہوں گی‘‘۔

خطاب میں ایک ذاتی بات کرتے ہوئے  یہ بھی کہا گیا ’’میں اور میرے شوہر ملک کے ان تمام خاندانوں سے مکمل ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے خدشات میں شریک ہیں جن کے بیٹے،بیٹیاں،بہن، بھائی اور شوہر ملک کی خدمت میں مصروف ہیں، میرا پیارا بیٹا اینڈریو بھی اس وقت اپنے یونٹ کے ساتھ میدانِ جنگ میں ہے۔ ہم ملک کے اندر اور باہر فوجی خدمات دینے والے تمام مرد و خواتین کی حفاظت کے لیے مسلسل دعاگو ہیں‘‘۔ ملکہ کے خطاب کی ایک لائن یہ بھی تھی کہ’’اگر خاندانوں کی سطح پر متحداور پرعزم رہا گیا اور غیر محفوظ اور اکیلے رہنے والوں کو پناہ دینے کا عمل جاری رہا تو ہمارے جینے کے حوصلے کو کبھی مات نہیں دی جا سکتی‘‘۔ فرضی تقریر میں کہا گیا کہ ’’آج جب ہم ایک نئے شیطان(روس) کے خلاف برسرِپیکار ہیں، آئیے ہم اپنے ملک اور اچھے ارادے رکھنے والے ایسے تمام افراد کے لیے جو چاہے کہیں بھی ہوں دعا کریں، خدا آپ کا حامی و ناصر ہو‘‘۔

مخلوط کھیل

$
0
0

انسانی زندگی میں سیر و تفریح کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی سے تعلق رکھنے والی تہذیبوں کے جب آثار دریافت ہوئے تو ان آثار قدیمہ میں کھیلوں کے لیے مخصوص علاقے یا اسٹیڈیم بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔

ان آثار میں نہ صرف کھلاڑیوں کے بارے میں معلومات درج تھیں بل کہ تماش بینوں کی سرگرمیاں بھی دیواروں پر کندہ تھیں، جو اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دادوتحسین دیتے دکھائی دیتے تھے۔ اس حوالے سے سب سے اہم ’’اولمپک کھیلوں‘‘ کی داستان ہے جو انسان کے ماضی کا قابل فخر حصہ ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ارتقاء کا سفر بھی شروع ہوگیا اور وہ چیزیں جو کبھی جدید یا زمانے کے شانہ بہ شانہ سمجھی جاتی تھیں قصۂ پارینہ بن گئیں اور ان کی جگہ مزید جدید اور زمانے سے ہم آہنگ چیزوں نے حاصل کرلی۔

ایسا ہی کچھ کھیل کے میدانوں میں بھی ہوا اور آج بھی ہورہا ہے اور یہی ہماری تحریر کا موضوع ہے، جس میں کچھ ایسے کھیلوں کے بارے میں معلومات جمع کئی گئی ہیں، جو بدلتے وقت کے ساتھ تیزی سے رائج ہوتے جارہے ہیں۔ تاہم مضمون میں صرف ان اہم کھیلوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو موجودہ عہد میں کھیلے جانے والے مختلف کھیلوں کے باہم ’’امتزاج ‘‘یا ’’اختلاط ‘‘ سے وجود میں آئے ہیں اور جن کے لیے اب عام طور پر ’’مخلوط کھیل‘‘ یا (Hybird Sports) کی اصطلاح رائج ہے۔ مختلف کھیلوں کی مختلف خوبیوں کا یہ خوب صورت مرکب جن کھیلوں میں نظر آتا ہے ان میں سے کچھ کھیل زیرنظر تحریر میں شامل کیے گئے ہیں۔

٭ شطرنج باکسنگ (Chess Boxing):

شطرنج جیسے دماغی کھیل اور باکسنگ جیسے طاقت کے کھیل کا اگر ملاپ دیکھنا ہے تو ’’چیس باکسنگ‘‘ کے ’’رنِگ‘‘ سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہے ’’چیس باکسنگ‘‘ کا کھیل فرانس سے تعلق رکھنے والے فن کار اور فلم میکر ’’انکی بلال‘‘ (Enki Bilal)کی تخلیق ہے جنہوں نے 1992میں اپنے ایک سائنسی کامکس ناول Froid Equateurمیں اس کھیل کا تصور پیش کیا تھا۔ تاہم اس تصور کو عملی جامہ نیدرلینڈ کے آرٹسٹ Lepe Rubinghنے 2003 میں پہنایا، جب انہوں نے اپنی سرکردگی میں پہلی مرتبہ چیس باکسنگ کی عالمی چیمپیئن شپ کا انعقاد کیا۔ چیس باکسنگ کے مقابلوں کے حوالے سے جرمنی کا شہر برلن اور برطانیہ کا دارالحکومت لندن قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ لاس اینجلس، ٹوکیو، ایمسٹرڈیم، کلکتہ اور روس کا شہر Krasnoyarskبھی چیس باکسنگ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان شہروں کے علاوہ ایران اور چین میں بھی یہ کھیل تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے۔

بنیادی طور پر چیس باکسنگ کے مقابلوں کے لیے کھلاڑی کا دونوں کھیلوں میں ماہر ہونا ضروری ہے مکمل مقابلہ گیارہ رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں چھے رائونڈ تیز شطرنج (Fast Chess) کے ہوتے ہیں ہر رائونڈ کی میعاد چار منٹ ہوتی ہے، جب کہ باکسنگ کے پانچ رائونڈ ہوتے ہیں۔ ہر رائونڈ کا دورانیہ تین منٹ کا ہوتا ہے۔ ہر رائونڈ کے درمیان ایک منٹ کا وقفہ کیا جاتا ہے۔ کھیل کا آغاز شطرنج کے رائونڈ سے ہوتا ہے۔ اس رائونڈ کے بعد ایک منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، جس کے بعد باکسنگ کا رائونڈ کھیلا جاتا ہے اسی ترتیب سے گیارہ رائونڈ مکمل کیے جاتے ہیں۔ شطرنج کی بساط رِنگ کے درمیان میں لگائی جاتی ہے اور شطرنج کھیلتے ہوئے دونوں کھلاڑی عوام کے شور سے بچنے کے لیے اپنے کانوں پر ہیڈفون لگاتے ہیں۔

شطرنج کے تمام رائونڈ ٹائم کیلکیولیشن کی بنیاد پر کھیلے جاتے ہیں، جس کے دوران گھڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کھیل کا اختتام باکسنگ کے دوران ناک آئوٹ یا شطرنج کے دوران شہہ مات پر بھی ہوتا ہے، جب کہ مکمل گیارہ رائونڈ کھیلے جانے کی صورت میں کھیل کا فیصلہ مجموعی پوائنٹ اسکورنگ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اگر شطرنج کا مقابلہ برابر ہوجائے تو باکسنگ کے پوائنٹس پر فیصلہ کیا جاتا ہے، لیکن اگر باکسنگ کے پوائنٹس بھی برابر ہوں تو پھر بین الااقوامی قانون کے مطابق کالے مہرے والے کھلاڑی کو فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیوں کہ شطرنج میں چال کی ابتدا سفید مہر ے والا کھلاڑی کرتا ہے اور ایک چال پیچھے ہونے کے باوجود کالے مہرے والا کھلاڑی کیوں کہ بازی کو برابر یا ’’ زچ ‘‘ کے مرحلے تک لے آتا ہے، لہٰذا اسے فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔

چیس باکسنگ کے مقابلے میں شرکت کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑی کی عمر 35سال سے کم ہو اور اس نے ملکی سطح کے بیس باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا ہو، جب کہ اس کی ریٹنگ شطرنج میں رائج ریٹنگ کے سسٹم ELOکے مطابق 1800 پوائنٹ سے کم نہ ہو۔ واضح رہے کہ اٹھارہ سو پوائنٹ شطرنج میں اوسط معیار کے کھلاڑی کی ریٹنگ سمجھی جاتی ہے۔ شطرنج کا گرینڈ ماسٹر بننے کے لیے عموماً 2700پوائنٹ کی ریٹنگ درکار ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ چیس باکسنگ کے پہلے عالمی چیمپیئنLepe Rubingh تھے۔ انہوں نے 14نومبر2003کو Lepe the Joker کے فرضی نام سے لڑتے ہوئے Luis the Lawyerکو شکست دی تھی۔ اس وقت Lepe Rubingh ’’ورلڈ چیس باکسنگ آرگنائزیشن‘‘(WCBO)کے موجودہ صدر بھی ہیں۔ وہ اس عہدے پر WCBOکے قیام2003 سے فائز ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں قائم ہونے والی ’’چیس باکسنگ ایسوسی ایشنCBA ‘‘ بھی کافی فعال ہے۔ اس کے صدر برطانیہ کے چیس باکسنگ کے چیمپیئن Tim Woolgarہیں، جب کہ روس کے پچیس سالہ چیس باکسر Nikolay Sazhin موجودہ ورلڈ چیمپیئن ہیں۔ انہوں نے یہ اعزاز مارچ 2012میں برطانیہ کے Andy Costelloکو ہرا کر حاصل کیا تھا۔

٭ فٹ والی (Footvolley):

فٹ بال اور Beach والی بال کے امتزاج پر مشتمل کھیل ’’فٹ والی‘‘ دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہونے والا کھیل بن چکا ہے فٹ بال کے کھیل سے محبت کرنے والو ں کے ملک برازیل میں 1965میں تخلیق کیے گئے۔ اس دل چسپ کھیل کے خالق Octavio Moraesتھے، جو خود ایک بلند پایہ فٹ بالر تھے برازیل کے شہر ’’ریوڈی جینرو‘‘ کےCopachabana ساحل پر فٹ بال کھیلتے ہوئے ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں نے جب ہاتھوں کے بجائے پیروں سے فٹ بال کو ’’والی بال‘‘ کے نیٹ کے پار پھینکنے کا مظاہرہ کیا، تو کچھ ہی عرصے بعد یہ عمل ایک کھیل کی شکل اختیار کرگیا۔ ابتدا میں ’’فٹ والی‘‘ کو ’’Pevoley‘‘ کہا جاتا تھا اور ٹیم پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی تاہم کچھ عرصے بعد اس میں تبدیلی کرتے ہوئے ٹیم دو کھلاڑیوں تک محدود کردی گئی اور اس کے باقاعدہ قوانین مرتب کیے گئے جس کا سب سے اہم قانون یہ تھا کہ کھلاڑی کسی بھی صورت میں گیند کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور جس طرح والی بال میں ہاتھوں سے گیند ایک دوسرے کے حصے میں پھینکی جاتی ہے فٹ والی میں یہ عمل صرف پیروں اور سر سے انجام دیا جائے گا تاہم اس دوران گیند کو سینے پر بھی روکا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کھیل کے دوران والی بال کی گیند کے بجائے فٹ بال کی گیند استعمال کی جاتی ہے ساحل کے کنارے یا انڈور جمنازیم میں ساحلی ریت سے بنائے گئے کورٹ پر کھیلے جانے والے اس کھیل میں جہاں تک پوائنٹس حاصل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے والی بال کے مروجہ قوانین کی پیروی کی جاتی ہے ایک گیم پر مشتمل کھیل 18پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ ’’بیسٹ آف تھری‘‘ کے تین گیمز پر مشتمل میچ کے اولین دو سیٹ 15پوائنٹس اور تیسرا سیٹ 11پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ بین الااقوامی میچوں میں نیٹ کی اونچائی سات فٹ دو انچ ہوتی ہے، جب کہ خواتین کے مقابلوں میں نیٹ کی اونچائی چھے فٹ چھے انچ ہوتی ہے ’’فٹ والی‘‘ کا کورٹ 29.5فٹ چوڑا اور 59فٹ لمبا ہوتا ہے جسے دو مساوی حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے تاہم امریکا کی فٹ والی ایسوسی ایشن نے کھیل کو مزید تیز رفتار بنانے کے لیے قوانین میں معمولی سی ترامیم کی ہیں جن میں نمایاں ترمیم میں کورٹ کی لمبائی 57فٹ اور چوڑائی ساڑھے اٹھائیس فٹ کرنا شامل ہے۔

اس وقت برازیل کی فٹبال کی قومی ٹیم کے کئی نامور کھلاڑی فٹ والی کے کھلاڑی کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں ان کھلاڑیوں میں رونالڈو، رونالڈہینو، روماریووغیرہ شامل ہیں جب کہ آسٹریلیا، اسرائیل، اسپین، برطانیہ، پرتگال، یونان، متحدہ عرب امارات، فرانس، ہالینڈ، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ اور پیراگوائے میں بھی فٹ والی مقبول کھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فٹ والی کا ورلڈ چیمپیئن برازیل ہے جس نے ریوڈی جینرو شہر کے ساحل Copacabanaپر نو اور دس مارچ2013 کو منعقد ہونے والے مقابلوں کے فائنل میں پیراگوئے کو شکست دے کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔

٭ فٹ بال ٹینس (Football tennis):

فٹ بال اور لان ٹینس کے کھیلوں کو باہم ایک کرکے کھیلے جانے والے ’’فٹ بال ٹینس‘‘ کا آغاز 1920میں ہوا، ابتدا میں Futnet کے نام سے شہرت رکھنے والے اس کھیل کو وسطیٰ یورپ کے علاقے جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والے مقامی فٹ بال کلب Slavia Pragueکے کھلاڑیوں نے تخلیق کیا تھا، واقعات کے مطابق جب مقامی فٹ بال کلب Slavia Pragueکے کھلاڑیوں نے ٹینس کورٹ میں زمین کو چھوتے جال کے اوپر سے فٹ بال کو اچھال کر پیروں کی مدد سے ایک دوسرے کو پاس دینے کی پریکٹس شروع کی، تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ وہ کیوں نہ ایسا کھیل بنائیں جس میں صرف پیروں اور سر کی مدد سے گیند کو اپنی مخالف ٹیم کے حصے میں پھینکا جائے۔

تاہم اس دوران ٹینس کی مانند کھلاڑیوں کو گیند کو ایک ٹپا زمین پر کھانے کے بعد سر یا پیر کی مدد سے مخالف کے کورٹ میں منتقل کرنے کی اجازت ہو (یاد رہے کہ والی بال یا فٹ والی کے کھیل میں گیند کو ٹپے دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم فٹ بال ٹینس میںکھلاڑی کھیل کے دوران والی بال کی مانند ایک دوسرے کو محدود پیمانے پر پاس دے سکتے ہیں) چوں کہ کھیل کے دوران قوانین کے مطابق فٹ بال کی گیند کو استعمال کیا جاتا ہیِ، لہٰذا زمین پر لگے ہوئے نیٹ اور فٹ بال گیند کی مناسبت سے اس کھیل کو ’’فٹ بال ٹینس‘‘ کہا جانے لگا۔ واضح رہے کہ قوانین کے مطابق ٹیمیں بالترتیب ایک، دو یا تین کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ کورٹ12میٹر لمبا اور 9میٹر چوڑا ہوتا ہے اور نیٹ کی اونچائی 1.10میٹر ہوتی ہے۔

مکمل تین سیٹ پر مبنی مقابلے میں ہر سیٹ 15پوائنٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ فٹبال ٹینس کے عالمی سطح پر معاملات1987سے ’’انٹرنیشنل فٹبال ٹینس ایسوسی ایشن‘‘ کے ہاتھوں میں ہیں، جسے ’’فیڈریشن آف انٹرنیشنل فٹبال ٹینس ایسوسی ایشن‘‘FIFTA بھی کہا جاتا ہے، جس کے زیراہتمام 1994سے فٹبال ٹینس کی عالمی چیمپیئن شپ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ہر دو سال کے بعد منعقد کی جانے والی اس چیمپیئن شپ کا موجودہ عالمی چمپیئن جمہوریہ چیک ہے جس نے2012 کی عالمی چیمپیئن شپ میں سنگل ، ڈبل اور ٹرپل کیٹیگریز میں ہنگری کو شکست دے کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔

٭ انسان بہ مقابلہ گھڑ سوار ریس Man versus Horse Marathon:

انسان اور گھوڑوں کا ہمیشہ سے ساتھ رہا ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ کھیلوں میں ان دونوں کا ساتھ نہ ہو، لیکن اس کھیل میں جسے ’’انسان بہ مقابلہ گھڑ سوار میرا تھون ‘‘ کہا جاتا ہے، انسان اور گھوڑے کے درمیان مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں دو کھیلوں یعنی ’’گھڑ سواری‘‘ اور’’ انسان کی دوڑ‘‘ کو باہم ملاکر ایک کھیل بنادیا گیا ہے۔ 1980سے ہر سال منعقد کی جانے والی اس میراتھون دوڑ کی ابتدا برطانوی علاقہ ویلز کے چھوٹے سے قصبےLlanwrtyd Wells سے ہوئی، ابتدا میں مقامی سطح پر شروع ہونے والی یہ دوڑ اب ایک عالمی سطح کا مقابلہ بن چکی ہے، جس میں دنیا بھر کے گھڑ سوار اور ایتھلیٹ حصہ لیتے ہیں۔

کھلاڑیوں اور گھڑ سواروں کو مجموعی طور پر 22 میل کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے، جو اولمپک میراتھون سے صرف چار میل کم ہے۔ دریائے Afon Irfon کے ساتھ ساتھ منعقد کی جانے والی اس میراتھون کے دوران حصہ لینے والوں کو اونچے نیچے دشوار گزار پتھریلے راستوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ راستے میں انھیں کانٹے دار جھاڑیاں، کیچڑ، دلدل اور اسی قسم کے دیگر بے شمار دشوار گزار مراحل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر کھلاڑی راستہ عبور کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اب تک منعقد کی جانے والی 32 ریسوں میں صرف دو مرتبہ انسان نے گھوڑے کو شکست دی ہے۔ یہ کارنامہ پہلی مرتبہ مقابلوں کی سلور جوبلی کے موقع پر 2004 میںجنوبی لندن کے علاقے بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والے 27سالہ Huw Lobbنے انجام دیا تھا، جب انہوں نے تقریباً ڈھائی منٹ کے فرق سے گھوڑےKay Bee Jayاور اس کے سوار Zoe White کو شکست دی تھی۔

’’ہیو لاب‘‘ نے یہ فاصلہ دو گھنٹے پانچ منٹ اور انیس سیکنڈ میں طے کیا تھا۔ دوسری مرتبہ یہ کارنامہ جرمنی کے Florian Holzingerنے 2007 میں انجام دیا تھا۔ انہوں نے اس کام یابی کے لیے دو گھنٹے بیس منٹ اور تیس سیکنڈ کا وقت لیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مقابلے میں دوسرے نمبر پر گھوڑے کے بجائے برطانوی ایتھلیٹ John Parkinsonآئے تھے۔ وہ فاتح ایتھلیٹ سے ایک منٹ بعد پہنچے تھے، جب کہ گیارہ منٹ بعد گھڑسوارGeoffrey Allen نے یہ فاصلہ اپنے گھوڑی ’’لوسی‘‘ پر طے کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2012 میں منعقد کی جانے والی اس میراتھون میں دنیا بھر سے پچاس سے زاید گھڑ سواروں اور پانچ سو ایتھلیٹس نے حصہ لیا تھا۔

٭ ’’سیپاک ٹکرا‘‘ یا ’’کک والی بال‘‘ (Sepak Takraw):

’’والی بال‘‘ اور ’’فٹ والی‘‘ کے امتزاج پر مبنی یہ کھیل جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ اس کھیل کو عالمی سطح پر مقبولیت ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، تاہم کھیل کی ابتدا پندرہویں صدی سے جُڑی ہوئی ہے ملائی زبان کے دو لفظ Sepakاور Takrawسے بنا ہوا یہ کھیل تین تین کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ ’’کک والی بال‘‘ کے نام سے بھی پہچانے جانے والا یہ کھیل عموماً اِن ڈور کھیلا جاتا ہے۔ ’’سیپاک ٹکرا‘‘ کی ’’انٹرنیشنل سیپاک ٹکرا فیڈریشن‘‘(ISTAF)کے زیراہتمام ہر سال تھائی لینڈ میں تھالی لینڈ کے بادشاہ کے نام سے‘‘ کنگز کپ عالمی چیمپیئن شپ‘‘ منعقد کی جاتی ہے، جب کہ ’’سیپاک ٹکرا ‘‘ ایشین گیمز اور جنوب مشرقی ایشیائی گیمز کا بھی مقبول حصہ ہے۔

اس کے علاوہ 2011 میں پہلی مرتبہ سیپاک ٹکرا کا ’’ISTAFورلڈ کپ‘‘ ملائیشیا میں منعقد کیا گیا، جس میں مردوں اور عورتوں کے مقابلوں میں تھائی لینڈ نے ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ واضح رہے کہ سیپاک ٹکرا کے کورٹ کی لمبائی 13.4میٹر اور چوڑائی 6.1میٹر ہوتی ہے، جب کہ نیٹ زمین سے 1.52میٹر اونچا ہوتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے کورٹ میں سروس کروانے کا دائرہ بھی ہوتا ہے۔ سیپاک ٹکرا کھیل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال کی جانے والی گیند بید کی چھال سے بنائی جاتی ہے، جس میں فٹ بال کے برعکس نہ صرف 12سوراخ ہوتے ہیں، بل کہ اس کی بنُت بھی بیس جوڑوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ کھیل کا مکمل سیٹ 15پوائنٹ پر مشتمل ہوتا ہے اور عموماً بیسٹ آف فائیو پر مشتمل ہوتا ہے۔

جہاں تک کھیلنے کے طریقۂ کار کا تعلق ہے تو کھلاڑیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کھیل کے دوران صرف پیر، سر اور سینہ استعمال کرسکتے ہیں، جب کہ گیند کو ہاتھ لگانے پر مخالف ٹیم کو پوائنٹ حاصل ہوجاتا ہے۔ کھیل کا آغاز والی بال کی طرح سروس سے ہوتا ہے، مگر سروس کورٹ کے اندر سے کی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے دوسرے کھیلوں کے برعکس ’’سیپاک ٹکرا‘‘ کے کھلاڑیوں کا قلابازی کھانے میں ماہر ہونا نہایت ضروری ہے اور یہ انداز تماشائیوں میں بھی نہایت مقبول ہے۔

٭ سلم بال (Slamball):

باسکٹ بال، امریکن فٹ بال، آئس ہاکی اور جمناسٹک کے ملاپ سے تخلیق کیا گیا کھیل ’’سلم بال‘‘ نہایت مہارت کا متقاضی ہے۔ زمین پر لگے ہوئے اسپرنگ بورڈ پر اچھلتے ہوئے گیند کو باسکٹ کرنا ہی اس کھیل کے کھلاڑیوں کا اصل کارنامہ ہے۔ باسکٹ بال کے برعکس سلم بال میں دونوں ٹیموں کے باسکٹ نیٹ کے سامنے چارچار اسپرنگ بورڈ لگے ہوتے ہیں، جن پر کھلاڑی پندرہ سے بیس فٹ کی بلندی تک ہوا میں اچھلتا ہے اور نیٹ میں گیند ڈال کر پوائنٹ حاصل کرتا ہے۔ ہر اسپرنگ بورڈ کا سائز 7X14فٹ ہوتا ہے، جب کہ کورٹ کا مجموعی رقبہ 100X62فٹ ہوتا ہے۔ کورٹ کے چاروں طرف آئس ہاکی کے کورٹ کی مانند آٹھ فٹ بلند مضبوط شیشے کی دیوار بھی ہوتی ہے۔

2002 میں لاس اینجلس کے ایک گودام میں تفریح کے لیے شروع کیے جانے والے اس کھیل کے تخلیق کار Mason Gordonاور Mike Tollinتھے، جنہیں یہ خیال ویڈیو گیمز دیکھ کر آیا۔ واضح رہے کہ سلم بال کی ٹیم چار کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے، جب کہ متبادل کھلاڑی کھیل روکے بغیر ہی کھیل میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کھلاڑی جو نیٹ کے نیچے ہوتا ہے اسے Stopperکہتے ہیں۔ مخالف ٹیم پر حملہ کرنے والے کھلاڑی کو Gunner اور درمیان میں رہتے ہوئے گیم پلان کرنے والے کو Handlerکہا جاتا ہے۔ کھیل کا دورانیہ پانچ پانچ منٹ کے چار رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران جو ٹیم زیادہ مرتبہ بال باسکٹ میں نیٹ کرکے پوائنٹ حاصل کرتی ہے، فاتح قرار پاتی ہے۔ میچ کو دو ریفری کنٹرول کرتے ہیں۔ سلم بال کا کھیل امریکا، آسٹریلیا، چین اور پرتگال میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ تاہم سلم بال کے ابھی تک ملکی سطح پر مقابلے شروع نہیں ہوئے ہیں، البتہ امریکا میں کھیلے جانے والے سلم بال کے مختلف سیزنز میں باسکٹ بال کے قومی سطح کے کھلاڑیوں کی شرکت کے بعد امید ہوچلی ہے کہ جلد ہی سلم بال کے بین الااقوامی سطح کے مقابلے منعقد کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے ’’ملٹی نیشنل سلم بال ایتھیلٹک ایسوسی ایشن(MSAA)‘‘ بھی قائم کی جاچکی ہے۔ شائقین کی تعداد کے لحاظ سے سلم بال مخلوط کھیلوں میں صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔

٭ فٹ گولف (Foot Golf):

گولف کورس کے سبزہ زار پر کھیلا جانے والا کھیل ’’فٹ گولف ‘‘یورپ میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اس کھیل کے تقریباً تمام قوانین گولف کے جیسے ہی ہیں۔ تاہم کھلاڑی گیند کو ہٹ گولف اسٹک کے بجائے اپنے پیر سے لگاتا ہے، گیند کی جگہ فٹ بال استعمال کی جاتی ہے اور فٹ بال کی مناسب سے ’’ہول‘‘ ہوتے ہیں ۔ گولف ہی کی مانند کم سے کم شاٹ میں گیند ہول میں ڈالنے والا فاتح قرار پاتا ہے۔ کھیل کے دوران ہر وہ رکاوٹیں بھی موجود ہوتی ہیں جو گولف کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کے سامنے آتی ہیں۔

فٹ گولف کا عالمی سطح کا ادارہ ’’فیڈریشن فار انٹرنیشنل فٹ گولف(FIFG)‘‘ کہلاتا ہے۔ 2009 میں تشکیل پانے والے اس ادارے کے رکن ممالک کی تعداد 14ہے۔ FIFG کے زیراہتمام جون 2012 میں فٹ گولف کے عالمی کپ کا انعقاد ہوچکا ہے۔ ہنگری کے شہر بڈاپسٹ میں ہونے والے اس عالمی کپ میں آٹھ ممالک کے 80 سے زاید کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی، جن میں ہنگری ہی سے تعلق رکھنے والے Bela Lengyelنے فٹ گولف کے اولین عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

٭ پولو کروس (Polocrosse):

دنیا بھر میں مقبول کھیل پولو اور براعظم امریکا میں کھیلے جانے والے کھیل Lacrosseکے باہم امتزاج سے بنا ’’پولو کروس‘‘ مخلوط کھیلوں میں ایک منفرد کھیل بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ Lacrosseایک ایسا کھیل ہے جس میں دو ٹیمیں ایک دوسرے پر گول کرتی ہیں، تاہم اس کے لیے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں ایک ایسی اسٹک ہوتی ہے جس کے سرے پر تھیلی نما جال لگا ہوتا ہے اور اس جال ہی کے ذریعے سے کھلاڑی گیند پکڑ کر ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے گول کرتے ہیں اور جہاں تک پولو کا تعلق ہے تو سب کو علم ہے کہ یہ گھوڑے پر بیٹھ کر اسٹک کی مدد سے گول کرنے کا کھیل ہے۔ تاہم پولو کروس میں استعمال ہونے والی چھڑی Lacrosseکی چھڑی کی مانند ہوتی ہے اور گھوڑے پر سوار کھلاڑی اسی جال میں گیند پھنسا کر یا ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے چکر پورا کرتے ہیں اور گول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں بیڈمنٹن کے ریکٹ جیسی چھڑی ہوتی ہے، جس پر ڈھیلا جال بندھا ہوتا ہے۔

قوانین کے مطابق دونوں ٹیموں میں چھے چھے کھلاڑی ہوتے ہیں گیند عموماً ربر کی بنی ہوتی ہے، جس کا قطر چار انچ تک ہوتا ہے۔ میدان کا مجموعی رقبہ 60X160 میٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھیل مجموعی طور پر چھے چکروں پر مشتمل ہوتا ہے، تاہم اس دوران کھلاڑی پولو کی مانند گھوڑے تبدیل نہیں کرسکتے۔ جدید پولو کروس کی ابتدا دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ماہر حیوانیات آسٹریلوی جوڑے مسٹر اینڈ مسزEdward Hirstنے کی تھی۔ ان دونوں نے ہی اس کھیل کے قوانین مرتب کیے جو آج ہمیں پولو کروس کھیل کی شکل میں تیزی سے مقبول ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’انٹرنیشنل پولو کروس کونسل‘‘ کے زیراہتمام اب تک پولو کروس کے تین عالمی کپ منعقد ہوچکے ہیں۔ 2003 اور2007میں آسٹریلیا اور2011میں جنوبی افریقہ نے عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اگلا ’’پولو کروس ورلڈ کپ‘‘ جنوبی افریقہ میں 2015 میں منعقد ہوگا۔

٭ انٹرنیشنل رولز فٹبال (International rules football):

فٹ بال اور آئرلینڈ میں کھیلی جانے والی روایتی Gaelic Football کے کھیلوں کو ملا کر تخلیق کیا گیا یہ کھیل 145میٹر لمبے اور 90میٹر چوڑے میدان میں کھیلا جاتاہے، جس میں پندرہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کو دو لمبے اور دو چھوٹے گول پوسٹ کے درمیان گیند ڈال کر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس دوران کھلاڑی ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے گیند کو آگے دھکیلتے ہوئے بڑھتے ہیں اور پوائنٹ حاصل کرتے ہیں۔ پوائنٹ بالترتیب چھے، تین اور ایک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کھلاڑی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوڑتے ہوئے گیند کو ہر 10میٹر یا چھے قدموں کے بعد زمین پر ٹپا دے۔

مجموعی طور پر کھیل کا دورانیہ 72منٹ ہوتا ہے جو 18منٹ کے چار ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ مار دھاڑ اور دھینگا مشتی سے بھرپور اس کھیل کا اولین بین الااقوامی مقابلہ 1967میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی مقامی ٹیموں کے درمیان منعقد ہوا تھا۔ تماشائیوں کی تعداد کے لحاظ سے ’’انٹرنیشنل رولز فٹ بال‘‘ مخلوط کھیلوں میںسب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل ہے، جس کا موجودہ عالمی چیمپیئن آئرلینڈ ہے۔ انٹرنیشنل رولز فٹبال کے معاملات چلانے کی ذمہ داری ’’آسٹریلین فٹبال لیگ کمیشن‘‘ کی ہے، جس کے تحت تیرہ ممالک کی انٹرنیشنل رولز فٹبال کی گورننگ باڈیز کام کرتی ہیں۔

٭ کورف بال (Korfball):

گیند کو ساڑھے گیارہ فٹ کی بلندی پر باسکٹ کرنے والا یہ کھیل ہالینڈ کے ایک اسکول ٹیچر Nico Broekhuysenنے 1902میں تخلیق کیا تھا۔ نیٹ بال اور باسکٹ بال کے امتزاج پر مبنی اس کھیل کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں شامل ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں میں سے چار خواتین اور چار مرد ہوتے ہیں اور کھیل کے دوران گیند کو باسکٹ بال کی مانند ٹپے نہیں دیے جاتے۔ ہالینڈ، تائیوان اور بیلجیئم کے علاوہ تقریباً 54 ممالک میں کھیلے جانے والے کورف بال کا کورٹ 20X40میٹر پر محیط ہوتا ہے۔ تیس تیس منٹ کے دو ہاف پر مشتمل اس کھیل کی گیند کا قطر فٹ بال جتنا ہوتا ہے۔

’’انٹرنیشنل کورف بال فیڈریشن‘‘(IKF) کے زیراہتمام 1978سے ہر سال عالمی چیمپیئن شپ منعقد کی جارہی ہے۔ موجودہ عالمی چیمپیئن ہالینڈ ہے جس نے یہ اعزاز چین میں2011میں حاصل کیا تھا۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کے پاس یہ اعزاز گذشتہ پانچ سال سے ہے۔

٭شنتی ہرلنگ (Shinty–Hurling):

’’شنتی ہرلنگ‘‘ اگرچہ دو کھیلوں ’’شنتی‘‘ اور ’’ہرلنگ‘‘ کا امتزاج ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کا واحد کھیل ہے جس میں باہم کھیلنے والی ٹیمیں دو علیحدہ علیحدہ کھیل ’’شنتی‘‘ اور ’’ہرلنگ‘‘ کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ کھیل کے قوانین، گرائونڈ کا رقبہ اور گول یا پوائنٹ حاصل کرنے کے طریقہ کار ایک تیسرے کھیل ’’انٹرنیشنل رولز فٹبال‘‘ جیسے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’شنتی‘‘ فیلڈ ہاکی سے ملتا جلتا کھیل ہے، جس میں کھلاڑی ہاکی کی مانند اسٹک استعمال کرتا ہے۔

تاہم فیلڈ ہاکی کے برعکس اپنی ہاکی یا شنتی کی دونوں جانب سے گیند کو چھو سکتا ہے جب کہ ’’ہرلنگ‘‘ میں کھلاڑی ایک ایسی چھڑی یا اسٹک استعمال کرتا ہے، جس کا ایک سرا گولائی میں چپٹا ہوتا ہے اور وہ اس چپٹے سرے کی مدد سے گیند کوزمین سے چمچے کی مانند اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے اپنے کھلاڑی کو پاس دے سکتا ہے یا گول کرسکتا ہے۔ یہ دونوں کھیل اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں شوق سے کھیلے اور دیکھے جاتے ہیں۔ پینتیس منٹ کے دو ہاف پر مشتمل اس کھیل میں ہر ٹیم چودہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہاف میں ’’شنتی‘‘ کی مخصوص گیند اور دوسرے ہاف میں ’’ہرلنگ‘‘ کی گیند استعمال کی جاتی ہے۔ تاریخی طور پر اس کھیل کے ابتدائی میچ کا ثبوت 1896میں گلاسگو اور ڈبلن شہر کی ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے میچ سے ملتا ہے۔

مصنوعی دانت اگانے کی طرف پیش رفت

$
0
0

سائنس دانوں نے مصنوعی طریقے سے دانت اگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور جس شے کو استعمال کرکے ایسا کیاگیا ہے، وہ کچھ اور نہیں بلکہ انسانی پیشاب ہے۔

اس تجربے کی تفصیلات جریدے’’سیل ری جنریشن جرنل‘‘ میں شائع کی گئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ پیشاب کو سٹم سیلز کے سورس کے طورپر استعمال کرکے دانتوں کو اگایا جاسکتا ہے۔ یہ تجربہ چین میں کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس تکنیک کو استعمال کرکے ضائع ہوچکے دانتوں کا بدل حاصل کیاجاسکے گا۔ تاہم سٹم سیلز کے دیگر محققین کا کہنا ہے کہ ابھی اس ہدف کو حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں سائنس دانوں کی ٹیمیں ایسے طریقے تلاش کررہی ہیں جس کے ذریعے عمر کی زیادتی یا خیال نہ رکھے جانے کے باعث ضائع ہونے والے دانتوں کی جگہ نئے دانت اگائے جاسکیں۔اس سلسلے میں سٹم سیلزتحقیق کا مقبول ترین ذریعہ ہیں جو ماسٹر سیلزہوتے ہیں جن کو کسی بھی قسم کے ٹشوز میں اگایا جاسکتا ہے۔ اب چین کے گوانگ زو انسٹی ٹیوٹ آف بائیو میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے سائنس دانوں نے پیشاب کو استعمال کرنے کے اس کوشش کا آغاز کردیا ہے۔

وہ سیلز یا خلیات جو جسم میں سے باہر نکل آتے ہیں جیسے پیشاب کے راستے سے جو خلیات خارج ہوتے ہیں ، ان کو لیبارٹری میں نشوونما کے عمل سے گذارا جاتا ہے جس کے بعد یہ چنے گئے خلیات ردوبدل کرکے سٹم سیلز میں تبدیل کردیے جاتے ہیں۔اس قسم کے ملے جلے ہوئے سیلز اور ایک چوہیا سے حاصل کیے گئے مواد کو جانوروں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ تین ہفتے بعد خلیات کا یہ مجموعہ دانت جیسی شکل اختیار کرنے لگا۔ دانت کی شکل والے اس وجود میں دانت کا گودا ، ڈنٹن ، انیمل سپیس enamel space اور انیمل عضو enamel organ بھی موجود تھے۔تاہم یہ دانت اس قدرسخت نہ تھا جس طرح کے دانت ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے فوری طور پر ٹوٹے ہوئے اور ضائع شدہ دانتوں کے متبادل نئے دانت اگانے کا ہدف حاصل نہیں ہوگا تاہم محققین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق آگے چل کر مزید تحقیق کی راہ کھول سکتی ہے اور یوں ایک دن نئے انسانی دانت اگانے کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر کرس میسن جو کہ یونیورسٹی کالج لندن میں سٹم سیلز کے سائنس دان ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پیشاب کے ذریعے دانت اگانے کی بات کمزور لگتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ ذریعہ بدترین ہے اور پہلے مرحلے میں اس سے بہت کم سیلز پیدا ہوتے ہیں اور ان کے سٹم سیلز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت بہت سست ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے دانتوں کے آلودہ ہونے، مثال کے طورپر بیکٹیریا وغیرہ سے، کا خدشہ بھی بہت زیادہ ہوگا ۔پروفیسر میسن نے مزید کہا کہ بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ چونکہ دانت ایک قسم کا گودا حاصل کرتے ہیں جس میں عصبے اور خون کی نالیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے مستقل دانت میں تبدیل ہونے کا عمل پیدا ہوتا ہے۔

کینسر کی فیملی ہسٹری سے خاندان کے دیگر لوگوں میں بھی کینسر کا خدشہ

$
0
0

ایک تحقیق میں اس بات کی ایک بار پھر تصدیق کی گئی ہے کہ اگر خاندان میں کسی کو فردکینسر ہو تو خاندان کے دیگر افراد کو بھی کینسر لاحق ہونے کاخدشہ بڑھ جاتا ہے۔

ان کو نہ صرف اسی قسم کا بلکہ دوسری اقسام کے کینسر لاحق ہونے کاخدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اٹلی اور سوئیٹزرلینڈ میں 23  ہزار افراد پر کی جانے والی سٹڈی کے بعد پتہ چلا کہ تمام تیرہ اقسام کے کینسر کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر خاندان کے کسی فرد کو ان میں سے کوئی بھی کینسر ہوتو خاندان کے دیگر افراد کو بھی اسی قسم کا کینسر لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس بات کے شواہد بھی ملے کہ خاندان میں کینسر کی ہسٹری خاندان کے دوسرے افراد میں دیگر اقسام کے کینسر کا خدشہ بھی بڑھا دیتی ہے۔

تحقیق کے مطابق اس خدشے کا انحصار جینز ، لائف سٹائل اور ماحول پربھی ہوتا ہے۔مذکورہ تحقیق ایک جریدے میں شائع ہوئی جس میں مختلف اقسام کے کینسر میں مبتلا بارہ ہزار افراد کو فالو کیا گیا اور ان کا موازنہ ایسے گیارہ ہزار افراد سے کیا گیا جنہیں کینسر نہیں تھا۔تحقیق کے سلسلے میں کینسر کی فیملی ہسٹری کو جمع کیا گیا خاص طورپر ان افراد میں جن کا آپس میں قریبی تعلق ہو جیسے والدین اور بہن بھائی وغیرہ۔

تحقیق میں سامنے آیا کہ اگر خاندان کے قریبی افراد میں منہ اور حلق کا کینسر ہو تو دیگر قریبی عزیز جیسے اولاد اور بہن بھائیوںمیں یہ کینسر ہونے کاخدشہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح اگر خاندان میں کسی خاتون کو چھاتی کا کینسر ہوتو دیگر خواتین کو کینسر اور بیضہ دانی کاکینسر لاحق ہونے کاخدشہ چار گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح اگر خاندان کے کسی مرد کو غدود کا کینسر ہو تو دیگر میں مثانے کا کینسر لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح اگر خاندان میں بڑی آنت کے کینسر کی ہسٹری ہو تو خاندان کی دیگر خواتین میں چھاتی کا کینسر لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

تاہم محققین کا کہنا ہے کہ خاندان میں کینسرکی ہسٹری ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر افراد کو یقینی طورپر کینسر لاحق ہوجائے گا بلکہ لائف سٹائل کو بہتر بنا کر کینسر کے خدشے کو ہر صورت میں گھٹایاجاسکتا ہے۔تاہم سٹڈی میں جو چیز زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر خاندان کے کسی فرد میں ایک قسم کا کینسر ہے تو دیگر افراد میں دوسری قسم کا کینسر لاحق ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس طرح خاندان کے افراد میں مختلف کینسر لاحق ہونے کی وجہ ماحولیاتی بھی ہوسکتی ہے جیسے سگریٹ نوشی اورشراب نوشی کی عادت وغیرہ۔ تاہم مختلف اقسام کے کینسر لاحق ہونے کی وجہ زیادہ تر جینیاتی ہوتی ہے۔کینسر ریسرچ یوکے کی سینئر ہیلتھ انفارمیشن مینیجر جیسیکا ہیرس کا کہنا ہے کہ تمام تر تحقیق کے باوجود عام لوگوں کو سفارش کی جاتی ہے کہ وہ کینسر سے بچائو کے لیے صحت مند لائف سٹائل اختیار کریں جیسے ورزش اور متوازن خوراک وغیرہ۔

وزن گھٹانے کے لیے ناشتہ ترک کرنا مفید ہے یا مضر؟

$
0
0

ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر روزانہ کے کھانے میں سے ناشتے کو ترک کردیا جائے تو وزن گھٹانے میں خاطرخواہ کامیابی ہوسکتی ہے۔

کورنل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اس بات کا بھی کوئی خدشہ نہیں کہ اگر آپ ناشتہ نہیں کریں گے تو دوپہر کو زیادہ کھانا کھالیں گے یعنی زیادہ کیلوریز لے لیں گے۔ کورنل یونیورسٹی نے اس سلسلے میں کالج کی عمر کے چار سو سے زائد طالب علموں کو اپنی سٹڈی میں شامل کیا ۔ انہوں نے ان طالب علموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے گروپ کو ناشتہ کرایا گیا اور دوسرے گروپ کو ناشتہ نہ کرایا گیا۔ اس کے بعد ان کے دن بھر کے کھانے اور اس سے حاصل ہونیوالی کیلوریز کی پیمائش کی گئی۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ اگرچہ ناشتہ نہ کرنے والے طالب علم دوپہر کے کھانے تک زیادہ بھوکے تھے تاہم اس کے باوجود انہوں نے دوپہر کے کھانے میں دوسرے گروپ کے ناشتہ کرنے والے طالب علموں سے زیادہ کھانا نہ کھایا۔ حقیقت میں ناشتہ نہ کرنے والے طالب علموں نے دن بھر میں چار سو کے قریب کیلوریز لیں۔سٹڈی کے مصنف اور کورنل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ لیوٹسکی نے بتایا کہ ہمارے کلچر میں مسئلہ ہے کہ ہم بہت زیادہ کیلوریز لیتے ہیںاور ہمیں کوئی ایسا رستہ تلاش کرنا ہے کہ ہم ان کو گھٹاسکیں۔ اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ اگر آپ اپنا وزن گھٹانا چاہتے ہیں تو ناشتہ ترک کرنا کوئی خراب طریقہ نہیں۔

تاہم ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اس سٹڈی کی کچھ محدودات بھی سامنے آئیں۔مثال کے طور پراگرچہ سٹڈی میں شرکاء کی جانب سے لی گئی کیلوریز کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کی گئی لیکن محققین نے ناشتہ کرنے اور نہ کرنے والے شرکاء میں انرجی کی سطح ، میٹابولزم اورشعوری عمل کاری کا جائزہ نہ لیا۔ اس کے علاوہ سٹڈی کے تمام شرکاء نوجوان اور صحت مند طلباء تھے جن کو صرف تین مختلف مواقع پر ٹیسٹ کیا گیا۔

سٹڈی کے حوالے سے مزید کہا گیاکہ صرف امریکا کی دو تہائی آبادی موٹاپے کی شکار یا زائد الوزن ہے اس لیے کورنل یونیورسٹی کی ٹیم کیجانب سے ناشتہ ترک کرنے کے جو فوائد بیان کیے گئے ہیں وہ شاید امریکا کی آبادی کی اکثریت کے لیے اتنے حقیقی نہ ہوں لیکن باقی دنیا کے لیے اچھے ہوسکتے ہیں۔دوسری جانب مزید یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ناشتہ نہ کرنے کے حوالے سے ایک سٹڈی کی گئی تھی جس کے نتائج کورنل یونیورسٹی کے نتائج سے مکمل طورپرمتضاد تھے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے 27ہزار مردوں پر سولہ سال تک تحقیق کی گئی تھی جس میں پایا گیا تھا کہ جن افراد نے ناشتہ نہ کرنے کا معمول اپنا رکھا تھا ان میں ہارٹ اٹیک یا دل کی دیگر بیماریوں سے مرنے کا خدشہ 27فیصد تک بڑھ گیا تھا۔اس خدشے کو عمر اور لائف سٹائل کے دیگر عوامل کے ساتھ بھی ایڈجسٹ کیا گیا تھا مثال کے طورپر موٹاپا اور سگریٹ نوشی وغیرہ۔اس سٹڈی میں کہا گیا تھا کہ جب ہم سوتے ہیں تو قدرتی طورپر ہم ساری رات بھوکے رہتے ہیں ۔ اب اگر ہم صبح اٹھنے کے بعد بھی ناشتہ نہ کرنے کے عمل کو اپنا معمول بنالیں تو اس ہمارے جسم کو کئی قسم کے مسائل کاسامنا ہوسکتا ہے جیسے انسولین مزاحمت ، کولیسٹرول کی زیادتی اور بلڈپریشر وغیرہ، اور یوں اس کے نتیجے میں دل کی مختلف بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی سٹڈی کے سرکردہ مصنفین کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت ناشتہ دل کی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم کو خوراک کی باقاعدگی سے ضرورت ہوتی ہے تاکہ خون میں موجود اجزاء جیسے کولیسٹرول ، ہارمونز انسولین وغیرہ کی صحت مند سطح برقرار رہے اور بلڈ پریشربھی متوازن رہے۔ہارورڈ کے علاوہ اور بھی کئی اداروں کی سٹڈیز مفید قرار دی جاچکی ہیں۔سی این این کے چیف میڈیکل کارسپانڈنس سنجے گپتا کے بقول ناشتہ کرنے سے ہمارے دماغ اور جسم کو ایندھن ملتاہے اور اس سے فوری توانائی حاصل ہوتی ہے۔انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہاکہ وہ بادشاہ کی طرح ناشتہ کرتے ہیں ، شہزادے کی طرح دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں اور کسان کی طرح رات کا کھانا کھاتے ہیں۔

ایک غذائی ماہر ماریسا مورکا کہنا ہے کہ جو لوگ ناشتہ باقاعدگی سے کرتے ہیں ، ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے چاہے یہ کام کی جگہ ہو یا سکول۔ اس طرح وہ مجموعی طورپر بھی صحت مند خوراک لینے کا رجحان رکھتے ہیں۔اگر آپ صبح ناشتہ نہ کریں تو خدشہ ہوتا ہے کہ دن کے باقی اوقات میں آپ زیادہ کھالیں گے۔

تاہم آپ ناشتے میں کیا کھارہے ہیں یہ بھی اہم ہے۔ مثال کے طورپر جو کے دلیے کے ساتھ بغیر چکنائی دودھ ، نصف اونس خشک میوہ جات اور ایک کپ ملی جلی بیریز ایک مثالی ناشتہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کولینے سے آپ کو مکمل اناج ، پروٹین ، دل کے لیے مفید چکنائی اور انٹی آکسیڈنٹ سب مل جاتے ہیں۔

ماریسامور مزید کہتی ہیں کہ اگر آپ ہمیشہ سے ناشتہ ترک کرتے آرہے ہیں تو آپ کو اسے شروع کرنے میں مسئلہ ہوگا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہ اگر ایسا ہے تو پوری کوشش کریں کہ ناشتہ کرنے کی عادت کو بحال کریں اور اس سلسلے میں ہلکے پھلکے ناشتے سے آغاز کریں۔ بن ، انڈا ، مونگ پھلی کا مکھن ، ابلا ہوا انڈا، جو کادلیہ اور اس قسم کی ہلکی پھلکی غذائیں اس سلسلے میں بہت مفید رہیں گی۔

’’اور پیسے نکالو‘‘ اور تقاضا پورا نہ ہونے پر گولیاں برسا کر اس کی زندگی اُجاڑ دی گئی

$
0
0

زندگی کوئی سیدھی سڑک نہیں ہے کہ جس پر ہنستے گاتے چلتے چلے جائیں۔

کوئی روک ٹوک نہ ہو، راستہ سیدھا ہو، موسم سہانا ہو، زاد سفر بھی وافر ہو، امن ہو، امان ہو، کہیں لُٹنے کا ڈر نہیں ہو، نخلستان ہوں، سایہ دار شجر ہوں، جو پھلوں سے لدے پھندے اور جھکے ہوئے ہوں، جہاں گل ہائے رنگا رنگ سے منظر مہکتا ہو، جہاں آبشاریں ہوں، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے اور بہاریں ہوں، جہاں اندیشۂ زیاں نہ ہو، نہیں ایسا نہیں ہے جیون۔ شاہ راہِ حیات ہم وار نہیں ہے۔ بہت بے اعتبار ہے، بہت پُرخطر ہے یہ۔ سیدھی سڑک نہ جانے کہاں ناہم وار ہوجائے، جانے کہاں مڑجائے، نہیں شاہ راہ زندگی بہت عجیب ہے۔ اس میں بھول بھلیاں ہیں، نشیب ہیں، فراز ہیں، اس کا موسم یک سا نہیں رہتا ، یہاں کاسایہ نہ جانے کب دھوپ میں بدل جائے اور نخلستان صحرا میں، نہ جانے آشنا کب اجنبی بن جائے، سانس لینا عذاب اور جینا بھیانک خواب ہوجائے، کوئی نہیں جانتا جیون کے راز کو، جیون بس کہانی ہے جو نہ جانے کب کوئی موڑمڑ جائے، ہاں کوئی نہیں جانتا کوئی بھی نہیں۔

فہیم کی کہانی تو اس کے چہرے پر نقش ہے، لیکن اس کہانی کے ہر کردار نے اس میں رنگ بھرے ہیں۔ فہیم، اس کی وفا شعاربیوی صدف، اس کی گیارہ سالہ بیٹی ماہ نور، فہیم کی ماں، فہیم کو پالنے پوسنے والی اس کی بوڑھی ناتواں اور آب دیدہ نانی، فہیم کے بھائی۔

شہر بے اماں ونا پرساں کی ادھڑی ہوئی زخمی سڑکوں کو روندتے ہوئے ہم اس کے کھنڈر نما گھر پہنچے۔ وہ سب ہمارے منتظر تھے۔ پھر کہانی سنائی اور سنی جانے لگی۔ آنسو بھری کہانی، جس کے کردار ہمارے سامنے تھے، نہیں جیون کوئی سیدھی ہم وار سڑک نہیں ہے۔

میں کراچی میں پیدا ہوا۔ اب میری عمر چونتیس سال ہے ۔ میرے والد ویلڈنگ کا کام کرتے تھے۔ ہمارے معاشی حالات ابتر ہی رہے ہیں۔ ہمیشہ اپنی والدہ کو گھر پر سلائی کرتے محنت کرتے ہی دیکھا ہے۔ میں نے جیسے تیسے میٹرک پاس کیا۔ یہ بھی بہت تھا کہ اتنا پڑھ لیا، ورنہ ہم جیسے گھرانوں میں پڑھنے کی عیاشی کا کوئی متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس دوران والد صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ ویسے بھی ویلڈنگ میں انسان بری طرح سے گُھل جاتا ہے، پھر ان کا انتقال ہوگیا۔ گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے کام کی تلاش شروع کی۔ چھوٹے موٹے کام تو میں نے بہت کیے، پھر مجھے ڈبل روٹی بنانے والی ایک فیکٹری میں سیلزمین کا کام مل گیا۔ جہاں محنت زیادہ اور معاوضہ کم تھا خیر ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ہر ایک دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ میرے کام کرنے سے گھر میں کچھ آسانی اور خوش حالی آئی ۔ ہم سب بھائی بہت پیار محبت سے رہتے تھے۔ سب ہی اک دوجے کا خیال رکھتے تھے، ایسے میں گھر میں میری شادی کی باتیں ہونے لگیں اور پھر ایک لڑکی پسند آگئی اور یوں میری شادی ہوگئی ۔

شادی ہونے سے میری ذمے داریاں تو بڑھ گئی تھیں، لیکن جیون بہت حسین ہوگیا۔ مجھے بیوی بہت اچھی ملی، جس پر میں اﷲ کا بے حد شکرگزار ہوں۔ شادی کو آٹھ ماہ ہوگیے تھے۔ میری بیوی امید سے تھی، ہم نئے مہمان کے آنے کے منتظر اور بہت خوش تھے۔ ہم نئے آنے والے مہمان کی باتیں کرتے، اس کے لیے بہت منصوبے بناتے۔ انسان خواب بہت دیکھتا ہے۔ اس دن بھی میں حسب معمول اپنے کام پر جانے کے لیے نکلا۔ فیکٹری پہنچ کر میں اور ڈرائیور ڈبل روٹی کی سپلائی کے لیے نکلے، ہمارے پاس لیاری کا علاقہ تھا۔ ہم نے مختلف دکانوں پر سپلائی دی اور وصولیاں بھی کیں۔ ہم کلاکوٹ پہنچے تو چار لڑکوں نے ہمیں روک لیا۔ ہمارے پاس بارہ یا تیرہ سو روپے تھے وہ چھین لیے۔ پھر وہ تقاضا کرنے لگے کہ اور پیسے دو۔ ہمارے پاس تھے ہی نہیں تو کہاں سے دیتے، انہیں بہت سمجھایا منتیں کیں، خوشامد کی، لیکن ان کی تو ایک ہی رٹ تھی اور پیسے دو۔ ان کا اصرار بڑھ رہا تھا لیکن ہم مجبور تھے اور وہ ہمیں جھوٹا سمجھ رہے تھے۔

آخر انہوں نے مجھے ایک گولی ماری جو میرے پیٹ میں لگی، میں نے پھر ان سے کہا کہ میرے پاس نہیں ہیں پیسے، لیکن ان کے سر پر تو خون سوار تھا، انہوں نے دوسری گولی ماردی جو میری پیٹھ میں لگی۔ پھر وہ چلے گئے اور سپلائی وین کی چابیاں بھی ساتھ لے گئے تھے۔ ہمارے ڈرائیور نے کسی طریقے سے گاڑی اسٹارٹ کی اور مجھے سول اسپتال پہنچایا، وہاں ڈاکٹر نے کہا یہ پولیس کیس ہے پہلے پولیس اپنی کارروائی پوری کرے گی پھر ہم علاج شروع کریں گے۔ میں بے دست و پا تھا، کمپنی کو اطلاع ہوگئی تھی، لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ میرے دیگر سیلز مینز دوستوں نے خود پیسے جمع کیے اور اسپتال پہنچائے، یہ ہے یہاں مزدوروں کا تحفظ، جب تک کام کے ہیں خون نچوڑو، جب کام کے نہ رہیں تو منہ موڑلو، تم کون ہم کون۔ یہ ہے یہاں کا نظام، سرمایہ داروں کا مکروفریب ہے یہ سب، خیر میری حالت بگڑتی چلی جارہی تھی اور اسپتال میں یہ نکتہ زیرغور تھا کہ پولیس پہلے کیس رجسٹر کرے اور پولیس کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔

میں یہ تو آپ کو بتانا ہی بھول گیا کہ جب مجھے ان لڑکوں نے گولیاں ماری تھیں، قریب ہی ایک پولیس موبائل بھی کھڑی تھی۔ وہ لڑکے موٹر سائیکلوں پر ان کے سامنے سے ہی گزرے تھے اور وہ بت بنے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن یہ دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے، وہاں ایک ڈاکٹر بھی تھے، ڈاکٹر عمیر۔ وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے میرے آپریشن کا فیصلہ کیا وہ گھر والوں کو بتا چکے تھے کہ میرے بچنے کی امید صفر ہے۔ لیکن کوشش کرتے ہیں پیٹ میں گولی لگنے سے میرا پِتا پھٹ گیا تھا جس سے زہر پھیل گیا تھا اور پھر اتنی دیر تک میں باہر بھی پڑا رہا۔ ڈاکٹر عمیر پانچ گھنٹے تک میرے ساتھ مصروف رہے۔ لیکن وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ بچنے کی امید صفر ہے، لیکن بس زندگی تھی تو بچ نکلا۔ لیکن میرا نچلا حصہ مفلوج ہوگیا۔ سرکاری اسپتال بھی برائے نام اسپتال ہیں، نہ دوا نہ دارو کچھ بھی نہیں بس ایک تسلی ضرور ہوتی ہے کہ اسپتال میں ہیں اور غریب کے لیے یہ تسلی بھی بہت بڑی نعمت ہے، میں خاصے عرصے تک سول اسپتال میں رہا بس جگہ ہی تھی باقی سب دوا دارو تو خود کرنا پڑتا تھا۔

میں معذور ہوگیا تھا اور حالات تیزی سے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ سب مزدور ہیں، آمدنی محدود ہے، اب میرے ساتھ حادثہ ہوگیا۔ میری آمدنی ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ خرچ بھی بے انتہائی بڑھ گیا۔ عجیب عذاب میں آگئی زندگی۔ غریب آدمی کر بھی کیا سکتا ہے۔ بس صبر، پھر ایک دن اسپتال والوں نے فارغ کردیا اب میں گھر پر تھا۔ زندگی تو اب ختم ہونی تھی۔ وہاں کم از کم تربیت یافتہ عملہ تو تھا۔ یہاں گھر میں تو بس میری بیوی تھی، میں بول نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ پائوں ہلانا تو دور کی بات ہے۔ زندہ لاش تھا میں، جس کی سانسیں چل رہی تھی بس۔ پھر علاج کا خرچ بھی نہیں تھا۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا تو علاج کے لیے کہاں سے آتا۔ میں لیٹا ہوا سوچتا رہتا کہ کیا کروں گا ایسی زندگی کا دو دفعہ خودکشی کی کوشش کی پھر میری بیٹی پیدا ہوئی، ماہ نور نام ہے اس کا۔ بس یہ پیدا ہوئی تو میں نے تہیہ کرلیا کہ اب خودکشی کا سوچوں گا ہی نہیں میں کچھ کروںگا، مانگ مانگ کے، کچھ مخیر حضرات کے تعاون سے میرا علاج چلتا رہا۔

میں مکمل صحت مند تو نہیں ہوا لیکن بس گزارہ ہوگیا تھا۔ پھر میں نے کچھ کام کرنے کا سوچا اور گھر سے کچھ فاصلے پر بچوں کے گیم کی دکان کھول لی وہ بھی ایک نیک آدمی نے پیسے دیے تھے۔ وہاں تک جانا اور آنا ایک انتہائی مشکل اور اذیت ناک کام تھا۔ محلے کا ایک لڑکا مجھے لے کر جاتا اور واپس لاتا تھا۔ کچھ عرصے تک میں نے وہ کام کیا۔ ایک دن اس نے مجھے اٹھایا ہوا تھا کہ میں زمین پر گر گیا اور میرے کولہے اور پائوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ زندگی پہلے ہی عذاب تھی مزید عذاب ہوگئی۔ اب تو میں کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ پھر ایک ٹی وی چینل والوں کے توسط سے ایک نیک انسان آیا اور اس نے میرے علاج معالجے کے تمام اخراجات برداشت کرنا شروع کیے۔ بہت اچھے اور نیک انسان تھے وہ، بہت زیادہ خیال رکھا، انھوں نے میرا، بستر پر مسلسل لیٹے رہنے سے بیڈ سور ہوگئے۔ بہت اذیت ناک ہوتے ہیں یہ بیڈ سور۔ انسان جیتا ہے نہ مرتا۔

مجھے ہر اسپتال میں داخل کرایا گیا، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میں اب زندگی بھر چل پھر نہیں سکتا تو ٹانگوں کا بوجھ کم کردیا جائے۔ یعنی میری مفلوج ٹانگیں تن سے جدا کردی جائیں۔ ایک لحاظ سے تو وہ ٹھیک کررہے تھے لیکن میں نہیں مانا کہ ناکارہ سہی لیکن ٹانگیں تو ہیں ناں۔ لوگوں کو چاہے بری لگیں مجھے تو اچھی لگتی ہیں۔ دن گزرتے گئے اور زندگی کی اذیت بڑھتی گئی وہ نیک دل فرشتہ سیرت انسان میرے اخراجات اٹھاتا رہا۔ پچھلے سال یعنی ستمبر2012میں ہم پر پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یوں کہ میرا چھوٹا بھائی جس کی عمر 26سال تھی وہ میرا سہارا بھی تھا، قریب ہی اپنے دوست کے ساتھ بیکری پر گیا۔ وہ ابھی بیکری پہنچا ہی تھا کہ فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس کی گردن میں گولی لگ گئی۔ 24دن تک وہ بھی موت سے لڑتا رہا اور بالآخر ہار گیا۔ اب تو میں اور زیادہ افسردہ تنہا اور لاچار ہوگیا تھا۔ وہ بہت بڑا سہارا تھا میرا۔

لیکن جینا پڑتا ہے اور سہنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ جو نیک دل انسان میرے اخراجات برداشت کررہا تھا، اسے بھتے کی پرچیاں اور ساتھ ہی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ آخر وہ ملک چھوڑ کر چلاگیا۔ جاتے ہوئے اس نے مجھ سے معذرت کی۔ بہت دکھی تھا۔ لیکن وہ مجبور تھا کیا کرتا۔ جان سے پیاری تو کچھ بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں جان ہے تو جہان ہے اب زندگی اندھیر ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔ دس سال ہوگئے ہیں، میں اس حالت میں ہوں، روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں لیکن ہمت نہیں ہارتا تہیہ کرلیا کہ نہیں ہاروں گا ہمت چاہے کچھ ہوجائے، مجھے صرف دوائوں کی مد میں 25ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ مکان کرایہ کا ہے مہنگائی نے جینا اجیرن کردیا ہے۔

صدف کی کہانی:

فہیم کی بیوی صدف مجسم ایثارووفا ہے گذشتہ دس سال سے وہ اپنے مفلوج شوہر کی بے لوث خدمت کررہی ہے، فہیم کی والدہ کا کہنا ہے کہ صدف ان کے لیے خدا کی طرف سے تحفہ ہے۔ ایسی لڑکیاں نعمت خداوندی ہوتی ہیں۔ صدف اپنے شوہر فہیم کی مرہم پٹی ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی راحت وآرام اور چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہے۔ صدف فہیم کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی ماہ نور کا بھی ہر طرح سے خیال رکھتی ہے صدف ہمارے سوال پر کہ آپ کو تو بہت محنت کرنا پڑتی ہوگی۔ کہا محنت تو ہر کام میں کرنی پڑتی ہے۔

فہیم شادی کے آٹھ ماہ بعد ہی اس حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ میرے شوہر ہیں ان کی خدمت مجھ پر فرض ہے اور میں اسے احسان نہیں فرض سمجھتی ہوں۔ میں اﷲ تعالیٰ کی شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے آزمائش میں ڈالا اور مجھے ہمت دی کہ میں اس بڑے امتحان میں سرخرو رہوں۔ بس اﷲ تعالیٰ ہی ہے جو مجھے ہمت اور حوصلہ دیتا ہے، میں اﷲ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہوں اور ہر وقت دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس امتحان میں کام یاب فرمائے اور میرے شوہر فہیم کو صحت سے نوازدے۔ اﷲ تعالیٰ تو ہر شے پر قادر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فہیم ایک دن ضرور تن درست ہوجائیں گے اور پھر سے زندگی کی بہاریں اور رونقیں لوٹ آئیں گی۔ مجھے بس اس دن کا انتظار ہے۔


ڈاکٹر ذکی حسن، سائنسی فکر اور انسان دوستی کے علم بردار

$
0
0

پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی جو کم زوریاں اور خامیاں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی کی مختلف حکومتوں نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں وہ جگہ نہیں دی جو ایک روشن مستقبل کی خواہش مند قوم کے پیشِ نظر ہوسکتی ہے۔ پھر تعلیم کے شعبے کو ماضی میں جس قدر بھی وسائل بہم ہوئے اُن کا بہترین استعمال نہیں کیا جاسکا۔ سو گذشتہ 65 برسوں میں تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلباء کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافے کے باوجود اچھی تعلیم اب بھی قوم کے ایک بڑے حصے کی دسترس میں نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کا شعبہ اور بھی بہت سے مسائل کی آماج گاہ ہے جن میں معیارِ تعلیم کی عمو می پستی، اس شعبے میں بدعنوانیوں کی بہتات اور نصاب ہائے تعلیم کی پس ماندگی سرِ فہرست ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود تعلیم کے شعبے میں پچھلے چھے سات عشروں میں کئی اچھے تجربات بھی ہوئے ہیں۔ بہت سے قابلِ ذکر ادارے بھی ہمارے ہاں قائم ہوئے ہیں اور ایسے اساتذہ کی بھی کمی نہیں رہی جنہوں نے اپنے خلوص اور محنت سے تمام تر معاندات کے باوجود مثبت کارکردگی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن سے صرف نظر کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اساتذہ ہی قوم کے اصل معمار ہوتے ہیں۔ کسی قوم کو اچھے استاد میسرآجائیں تو اُس کے لیے ترقی اور افتخار کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی تاریخ کے ایسے ہی محسن افراد کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ایک نمایاں اور محترم نام ڈاکٹر ذکی حسن کا نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر ذکی حسن پاکستان میں میڈیسن کی تعلیم سے وابستہ لوگوں کے لیے تو کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہیں لیکن دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے باخبر لوگ بھی ان سے ناواقف نہیں ہوں گے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ یقیناً میڈیکل سائنس سے وابستہ تھے، لیکن اُن کے افکار اور کام کی وسعت اپنے شعبے سے بہت آگے تک تھی۔ انہوں نے محنت کشوں کی بستیوں میں، معذور افراد اور معاشرے کے دوسرے مجبور اور پسے ہوئے طبقوں کے لیے جو طبّی خدمات سرانجام دیں انہوں نے اُن کو سماجی حلقوں میں بھی بہت اچھے طور پر متعارف کروا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی اور پیشہ ور انہ ذمے داریوں کو عوام دوستی کے جس قالب میں ڈھالا، اُس نے اُن کے سوچنے کے انداز کو بھی عوام دوستی کا پیکر فراہم کر دیا تھا۔ وہ اشتراکیت کے اصولوں سے بھی بہ خوبی واقف تھے، لیکن ایک طبقاتی نظام کس طرح انسانوں کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے اور پس ماندگی کے مارے ہوئے لوگ کس طرح بے بسی اور ذلّت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، اس کا مشاہدہ انہوں نے بچشمِ خود کچی آبادیوں اور مزدور بستیوں میں کیا۔ انہوں نے جس بیمار اور لااغر انسانیت کو دیکھا اُسی نے اُن کو سماجی انصاف کی جدوجہد پر کمربستہ ہوجانے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹرذ کی حسن نے کوئی80 سال کی زندگی پائی۔ اس زندگی کا بڑا حصہ سماجی شعور سے متصف اور خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور رہا۔

ڈاکٹر ذکی حسن کی عوام دوست جدوجہد کو اُن کے سائنسی طرزِ فکر سے جدا کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے۔ اُن کا غوروفکر کا انداز سائنسی تھا، مسائل کے حل تک پہنچنے کا اُن کا طریقۂ کار بھی سائنسی تھا اور اپنی سوچ اور مطالعے کے نتائج کو دوسروں تک پہنچانے کے اُن کے انداز میں بھی سائنسی پیرائے کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اُن کے اس طرزِ فکر و احساس نے زندگی کے حوالے سے اُن کو بہت مثبت روّیوں کا حامل بنادیا تھا۔ چناںچہ کوئی مشکل مرحلہ درپیش ہوتا، کوئی آزمائش ہوتی یا کسی بحران کا سامنا ہوتا، ہر صورت میں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کا ٹھہرائو اپنی جگہ برقرار رہتا تھا۔

زندگی کے آخری برسوں میں جب وہ مختلف بیماریوں سے دوچار ہوئے تب بھی اُن کی شخصیت میں کسی قسم کی شکست وریخت نہیں ہوئی بلکہ انتقال سے تین، چار سال قبل جب وہ امریکا سے دل کا آپریشن کروا کر واپس آئے تو وہ اس پورے تجربے سے بے حد مسرور اور شاد نظر آرہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگے کہ کس طرح خاصی دیر تک وہ خود بھی اسکرین پر آپریشن کے ابتدائی مرحلے کو دیکھتے رہے۔ وہ سائنس کی اس درجہ ترقی پر بے حد خوش تھے اور اُن کا کہنا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ آج میڈیکل سائنس اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ جس کا ہم سے پہلے کی نسلیں تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ آخری زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں رعشہ آچکا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کے لیے دوسروں سے ہاتھ ملانا بھی مشکل ہوچکا تھا۔ لیکن اُن کے سامنے کسی کو ہم دردی کا اظہار کرنے کا یارا نہیں ہوسکتا تھا کیوںکہ وہ فوراً بات کو ہنسی میں اڑادیتے تھے۔ اُن کا کہنا ہوتا تھا کہ عمر کا تقاضا ہے، جسم بھی تو مشین ہے، زیادہ وقت گزر جانے پر کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

ڈاکٹرذکی حسن 1927میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حیدرآباد دکن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے نیورولوجی اور نفسیات میں اختصاص حاصل کیا۔ گریجویشن کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 1959سے 1961 تک انہیں برطانیہ کی نفیلڈ(Nuffield)فیلو شپ حاصل رہی۔ پاکستان میں وہ مختلف اہم ذمے داریوں سے عہدہ برا ہوئے۔ 1967سے 1987تک، کوئی بیس برس انہوں نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں خدمات سرانجام دیں۔ یہاں وہ نیورو سائیکٹری کے شعبے کے سربراہ بنے۔ سندھ میڈیکل کالج میں انہوں نے ایک عرصہ تدریس کی ذمے داریاں پوری کیں۔ انہوں نے نرسنگ اسکول میں بھی پڑھایا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے نفسیات، عمرانیات اور سوشل ورک کے شعبوں میں بھی مختلف اوقات میں پڑھاتے رہے۔

تدریس کے علاوہ ڈاکٹر ذکی حسن تحقیق کی طرف بھی ہمیشہ مائل رہے۔ خاص طور پر جن موضوعات پر انہوں نے کام کیا اُن میں ذہنی امراض، بچوں کی معذوریاں(Disabilities)، مرگی(Epilepsy) شَقاق دِماغی (Schizophrenia) شامل تھے۔ ان کی تحقیقات کا ایک اور اہم موضوع ذہنی امراض کا سماجی حالات سے تعلق تھا۔

ڈاکٹر ذکی حسن کو اپنے مضمون میں جو درک حاصل تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے مشاہدات ، مطالعے اور تحقیقات میں جو پھیلائو آتا رہا اُس کا اعتراف بھی علمی حلقوں میں جاری رہا۔ چناںچہ وہ ملک اور بیرونِ ملک کئی اہم پیشہ ور اداروں، کمیٹیوں اور تحقیقی بورڈز کے رکن بنے۔ ایسے اداروں نے بھی اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جو مزدوروں اور پس ماندہ بستیوں میں بہبود کے کام کرنے میں مصروف تھے۔ چناںچہ وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(PILER) سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ کئی سال تک وہ اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (ISRD)، پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل ایجوکیشن اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی (کراچی چیپٹر) جیسے اداروں کے صدر رہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی اور پاکستان سائی کیٹرک سو سائٹی کو بھی اُن کی صدارت سے مستفید ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔

اپنے علمی اور پیشہ ور انہ کام کے حوالے سے ڈاکٹرذکی حسن کو ملک میں اور بیرونِ ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 1972سے 1981 تک وہ یونیسیف کے ایگزیکیٹو بورڈ میں پاکستان کے نمائندے رہے۔ 1980میں وہ اس بورڈ کے چیئرمین رہے۔ ڈاکٹر ذکی حسن کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (جنیوا) کی ایکسپرٹ کمیٹی برائے ذہنی صحت کا رکن بننے اور اس ادارے کی تحقیقاتی کمیٹی کی رکنیت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب 1961سے1974تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC)کے رکن رہے۔

مذکورہ تمام پیشہ ورانہ خدمات اور اعزازات کا نقطۂ عروج کا بعض اہم تعلیمی اداروں کی تشکیل وتعمیر میں ان کے کردار کی صورت میں سامنے آیا۔ 1987میں وہ بقائی میڈیکل کالج کے بانی ڈین بنے۔ بعدازاں جب یہ کالج یونیورسٹی کے درجے پر فائز ہوا تو ڈاکٹر ذکی حسن 1992سے1996تک بقائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔

1997میں کراچی میں جناح میڈیکل کالج کے قیام کے وقت وہ اس ادارے سے ڈین کی حیثیت سے وابستہ ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ یہ کالج جلد یونیورسٹی بن جائے گا۔ شاید اس سلسلے میں خاصی پیش رفت بھی ہوگئی تھی لیکن حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں یہ مرحلہ طے نہیں ہوسکا۔ جس صوبائی اسمبلی کو یونیورسٹی کا چارٹر منظور کرنا تھا وہ خود تحلیل ہوگئی اور جناح میڈیکل کالج، یونیورسٹی بنتے بنتے رہ گیا۔

اپنی تحقیقات کے وسیلے سے ڈاکٹرذکی حسن کو پاکستانی معاشرے کے تہہ در تہہ سماجی عوارض کو سمجھنے کا موقعہ ملا۔ گذشتہ تین چار عشروں میں ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ انتہا پسندی اور عدم رواداری کے رویوں نے فروغ پایا ہے۔ تحمل اور برداشت کا مادّہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جسمانی اور ذہنی تشدد کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی ان انتہا پسندانہ رویّوں کا شکار کیوں کر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ذکی حسن نے اس موضوع پر خاطر خواہ کام کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ، افراد کی شخصیت کے اندر بھی شکست وریخت پیدا کر دیتی ہے۔

اس شکست وریخت کے نتیجے میں فرد اپنی داخلی یکجہتی ہی سے محروم نہیں ہوتا بلکہ وہ ذات کے ایک شدید بحران اور خود سے لاتعلقی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ تب آس پاس ہونے والی چیزیں بھی اس کو متاثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ جہاں فرد ہر قسم کے خارجی تشدد کے مظاہرے کے حوالے سے بے حس ہو جاتا ہے۔ یہ بات کسی بھی فرد کے لیے ایک المیے سے کم نہیں کہ اس کے اندر اچھائی یا برائی کی تمیز ختم ہوجائے اور وہ ہر خرابی کو معمول کی چیز کے طور پر قبول کرنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگ تشدد پر کیوں آمادہ ہوتے ہیں؟ اس کے پیچھے بھی داخلی اور خارجی دونوں طرح کے اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا تھا کہ انسان کا طرزِ عمل (Behaviour)، اُس کا مزاج اور طبیعت، یہ چیزیں پیدائشی اور موروثی طور پر متعین ہوتی ہیں یا ان چیزوں کو انسان کا خارجی ماحول متشکل کرتا ہے؟

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سی چیزیں پیدائشی طور پر انسان میں آتی ہیں اور ان کا سبب بھی سائنسی ہی ہوتا ہے۔ البتہ جو کچھ انسان کو پیدائشی اور موروثی طور پر حاصل ہوتا ہے بعد کی زندگی میں اُس پر ماحول کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں۔ بہت سی پیدائشی اور موروثی عادتیں اور جبلّتیں جو منفی انداز کی ہوں، ایک مثبت ماحول کے زیرِاثر اُن کے اثرات کو ختم یا محدود کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ماحول اگر خود ہی بُرا اور خراب ہو تو وہ ان منفی موروثی خصوصیات کو مزید طاقت ور بنا دیتا ہے۔ یہی صورت مثبت موروثی خصوصیات کی بھی ہے۔ وہ اچھے ماحول میں مزید بہتر جب کہ بُرے ماحول میں برائی کی طرف مائل ہوسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ بنانا اور سوسائٹی میں اچھے رویّوں کو فروغ دینا، فرد کی اصلاح کے نقطۂ نظر سے غیر معمولی اہمیت کا حامل فریضہ ہے۔

ڈاکٹر ذکی حسن اپنے انہی خیالات کی توسیع و اشاعت کے لیے اخبارات ورسائل میں مضامین لکھتے تھے۔ وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ اُن کے مضامین کئی علمی کتابوں میں ابواب کی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ اُن کے تقریباً 120مقالے علمی جرائد کی زینت بنے۔

ڈاکٹر ذکی حسن اپنے خالص پیشہ ورانہ موضوعات کے علاوہ دیگر سماجی واقتصادی موضوعات سے بھی بڑی دل چسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا اور بارہا ان پر زبانی اظہارِ خیال کیا۔ وہ معاشرے کی اقتصادی ترقی کو بنیادی اہمیت کا حامل تصور کرتے تھے۔ لیکن ان کا ترقی کا تصور محض اقتصادی نمو اور معاشی پھیلائو تک محدود نہیں تھا۔ اُن کی دانست حقیقی معاشی ترقی وہ ہے جس کے ثمرات ایک عام فرد کی زندگی میں منعکس ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ ترقی کے اس تصور کی رُو سے افرادِ معاشرہ کے لیے صحت بخش غذا کی فراہمی، حفظانِ صحت کے وسائل کی دست یابی، تعلیم تک ہر بچے کی رسائی، سر چھپانے کے لیے موزوں مکان کی موجودگی اور اپنی پسند کے پیشے کو اختیار کرنے کی سہولت ایسے تقاضے ہیں جن کی تکمیل ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی خیال تھا کہ حقیقی معاشی ترقی تب ہی ممکن ہے جب کہ معاشرے میں موجود طبقاتی امتیازات کو ختم کیا جائے یا ان کو قابلِ ذکر حد تک کم کرنے میں کام یابی حاصل کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب بامعنی اور مؤثر تعلیم کے خاص طور سے بڑے پُرزور وکیل تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ تعلیم کا اصل مقصد طالب علموں کے ذہنوں کو کھولنا، اُن کو سوال کرنے کا حوصلہ فراہم کرنا اور پھر اُن کو سوالات کے جواب تلاش کرنے کا راستہ سجھانا تھا۔ وہ ایسی تعلیم کو تعلیم ہی تصور نہیں کرتے تھے جو طالب علموں کو چند مخصوص نظریات کی تنگنائے میں محصور کرنے اور اُن کو تخلیق کے بجائے تقلید کا عادی بنانے کا کام کرتی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہم کو اپنی نوجوان نسل پر اعتماد کرنا چاہیے اور اُن کو اتنا اعتماد اور حوصلہ فراہم کر دینا چاہیے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی سمت رواں دواں ہوسکے۔

ڈاکٹرذکی حسن کا طرزِ تحریر بہت سادہ مگر پر اثر تھا۔ ان کی انگریزی تحریریں، خاص طور سے وہ جو عام لوگوں کے لیے لکھی گئی ہیں، اُن میں بھاری بھر کم الفاظ اور مشکل ترکیبوں سے مکمل احتراز کیا گیا ہے، البتہ خالص پیشہ ورانہ مقالوں میں، جو تیکنیکی نوعیت کے حامل ہیں، وہ زبان استعمال کی گئی ہے جس کا تقاضا متعلقہ موضوعات خود کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذکی حسن عام زندگی میں بڑے نظم وضبط کے عادی تھے۔ وقت کی پابندی اُن کا مستقل شعار تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوئی مشکل انسان نہیں تھے۔ اس کے برعکس انہوں نے بہت شگفتہ مزاج پایا تھا۔ اُن کی حسِّ مزاح بھی اکثر بیدار رہتی تھی۔ فرصت کے اوقات میں ان کی صحبت، عالمِ مصروفیت میں ان کی رفاقت سے کچھ کم فیض بخش نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وہ خصوصیت جو ان کی دیگر تمام خوبیوں پر فائق تھی، وہ اُن کا انکسار تھا۔ وہ چھوٹے بڑے، ہر شخص کو عزت دینے کے معاملے میں جتنے فراخ دل واقع ہوئے تھے اتنے کم ہی لوگ ہوتے ہوں گے۔ان کی حیثیت ایک ثمر دار درخت اور ایک سائبان کی سی تھی۔15دسمبر 2007کو ہم اس سائبان سے محروم ہوگئے۔

سائیکل چلائیں، صحت بنائیں، پٹرول بچائیں

$
0
0

اسلام آباد: بائی سائیکل انیسویں صدی کے آغاز میں جب متعارف ہوا، تو دنیا بھر میں اِس کے چرچے ہوئے تھے۔

سائیکل کی سواری کو گھوڑ سواری کا نعم البدل قرار دیا گیا اور شروع شروع میں اِسے طبقہ اشرافیہ میں خوب پذیرائی ملی۔ جب اس کی طلب بڑھی تو سائیکل ساز کمپنیوں کے درمیان مقابلے کی فضاء کے باعث اس کی قیمت میں کمی واقع ہو گئی اور یوں سائیکل عوام الناس کی سواری بن گئی۔ تب ہلکے پھلکے امپورٹڈ سائیکل طبقہ اشرافیہ کے لیے اسٹیٹس سمبل بن گئے تھے اور مقامی سائیکل ساز کمپنیوں کے بھاری بھر کم سائیکل عام لوگوں میں مقبول ہوئے، انہی ایام میں دنیا بھر میں جب موٹر گاڑیوں نے خاص طور پر صاحب ثروت لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تو بے چاری بائی سائیکل طبقہ اشرافیہ سے نکل کر غریبوں کی سواری بن گئی اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ اس سائیکل کی حالت زار کو معروف مزاح نگار پطرس بخاری کو ’’مرزا کی بائی سائیکل‘‘ کے عنوان سے اسے رقم کرنا پڑا۔

جو صاحب ذوق پطرس بخاری کے اس مضمون کو پڑھ چکے ہیں انہیں بہت اچھی طرح علم ہو گا کہ سائیکل دنیا بھر کی معاشرت میں کس طرح داخل ہوئی اور اس کو عوام الناس نے اسے کیا مقام دیا، دنیا بھر سائیکل بندہ برداری سے لے کر مال برداری تک کے تمام مراحل نہایت عمدگی سے طے کرنے والی سواری قرار پائی۔ اس لیے پرانے بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس نے سائیکل چلانا نہیں سیکھی وہ کبھی کوئی مشینری عمدگی سے چلانا نہیں سیکھ سکتا۔

بائی سائیکل اور انسان کی محبت کا سفر قریباً ایک صدی پر محیط ہے، اس میں متعدد اتار چڑھائو آئے مگر آفرین ہے اس سواری پر کہ انسان نے جب بھی اس کو پکارا، اِس نے ہمیشہ لبیک کہا اور آج یہ حال ہے کہ دنیا بھر میں تیسری مرتبہ سائیکلنگ اہمیت اختیار کر چکی ہے اور یورپ میں تو خاص طور پر لوگوں کو سائیکل چلانے کا ’’کریز‘‘ ہو چکا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم سے پہلے دنیا میں سفر زیادہ تر سائیکل پر ہی کیا جاتا تھا، مگر انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں جب موٹر گاڑیوں کا رجحان بڑھا تو جہاں اور بہت کچھ تبدیل ہوا وہاں سائیکل چلانے کے شوق کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ یوں یورپ سمیت دیگر ممالک میں گاڑیوں کا سڑکوں پر رش ہوا تو سائیکل سوار بے چارے گلیوں، فٹ پاتھوں اور پکڈنڈیوں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے، پھر دھیرے دھیرے سائیکل نے شہروں سے نکل کر دیہاتوں میں اپنی ساکھ بنانا شروع کی اوریوں اسی کی دہائی تک اپنے ہونے کے احساس کو خاصی حد تک قائم بھی رکھا لیکن جب موٹر سائیکل نے سائیکل سواروں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو سائیکلنگ کا شوق ایک بار پھر کملا گیا اور صرف بچوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ مگر سائیکل ساز اداروں نے ہمت نہ ہاری اور یوں سائیکل نے بھی سادگی کے لبادے کو خیر باد کہا اور ماڈرن دور میں داخل ہونے کی ٹھان لی۔

جب سادہ اور وزنی سائیکلوں کی جگہ ہلکی پھلکی اور ٹیکنالوجی کی جدت سے مزین سائیکلیں تیار ہونے لگیں اورگاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے سڑکوں پر ہلاک ہونے والے افراد کی شرح میں اضافہ ، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں،جسم پر تیزی سے چڑھتی ہوئی چربی کے باعث لاحق ہونے والے متعدد عارضوں کے اخراجات اور خاص طور پر عالمی سطح پر موٹاپے کے خطرناک رجحان سے لوگ باخبر ہوئے تو سب کو گھروں کے اسٹوروں میں پھینکی ہوئی پرانی سائیکلوں کی یاد ستانے لگی۔ اس یاد کے بعد آج دنیا بھر میں سائیکل، ایک بار پھر سب کی نظروں کا تارہ بننے لگاہے، یورپ اور امریکا سمیت ایشیا میں سائیکل چلانے کی شرح میں گذشتہ 15 سالوں میں 40 فی صد تک اضافہ ریکارڈ ہوچکا ہے اور سال 2020 تک یہ اضافہ دوگنا ہونے کا امکان ہے۔

عالمی سطح پر توانائی کی پالیسیاں بنانے والے ماہرین آج کل اس سلوگن کی مارکیٹنگ پر غوروخوض کر رہے ہیں’’کار اور بائیک کا استعمال چھوڑیں، سائیکل چلائیں،صحت بنائیں، پٹرول بچائیں‘‘۔ کیا یہ نعرہ مستقبل میں کام یاب ہو جائے گا؟ کیا لوگ سہل پسندی کی عادت اور آرام دہ گاڑیاں چلانا چھوڑ دیں گے؟ اس ضمن میں ماہرین دو گروپوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ پہلا گروپ جو غیر جانب دار ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے، اس کے مطابق ’’ موجودہ سرمایاداری نظام معیشت میں ادویات، تیل ،آٹوموبائیل اورسڑک ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا نہیں ہونے دیں گی،اگر یہ نعرہ کامیاب ہوا بھی تو صرف لوگوں کی تسلی اور تشفی کی ایک خاص حد تک ا س سے آگے سائیکلنگ کے رجحان کو نہیں جانے دیا جائے گا‘‘۔

جب کہ ماہرین کا دوسرے گروپ کو قوی امید ہے کہ عالمی سطح پر بہت جلد سائیکلنگ سمیت دیگر ایسے اقدامات کو لاگو کرنا پڑے گا، جس سے انسانی فلاح اور بہتری کا پہلو نکلتا ہو، ملٹی نیشنل کمپنیاں نئے اوردیگر متوقع اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے خود سرمایا کاری کریں گی۔ دنیا بھر میںپٹرول،ادویات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج اور ہڑتالوں کے سامنے اب سرمایادار زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ مہنگائی نے عالمی سطح پر عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایران اور چین میں بھی تیل کی قیمتیں بڑھیں تھیں تو لوگوں نے سائیکلنگ شروع کردی تھی جس سے قیمتیں کم ہوگئیں تھیں، سائیکلنگ سے صحت بھی اچھی رہے گی، ماحول بھی صاف رہے گا اور پیٹرول بھی بچایا جاسکے گا۔

دنیا بھر میںآج ہالینڈ کوسائیکل سواری کے شعبہ میںسب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہالینڈ کے شہریوں کے پاس سب سے زیادہ ہیں۔ ایمسٹرڈیم اور ہیگ جیسے بڑے شہروں میں لوگ اپنا ستر فی صد سفر سائیکلوں پر ہی کرتے ہیں۔ جب ہالینڈ میں انیس سو اکہتر میں تین ہزار افراد موٹر گاڑیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے جن میں ساڑھے چار سو بچے بھی تھے تواس کے ردِعمل میں ایک سماجی تحریک شروع ہوئی تھی جس کا مطالبہ تھاکہ بچوں کو سائیکل چلانے کے لیے محفوظ ترین ماحول فراہم ہونا چاہیے ۔ سڑک کے ایک حادثے میں اپنا بچہ کھو دینے والے صحافی وِک لیگ ناف کے مضمون کی سرخی ہی جوکچھ یوں تھی ’’ بچوں کا قتل روکو‘‘ اس تحریک کا نام بن گیا تھا۔

ماضی کی بات ہے دنیا بھر میں گاڑیوں کی صنعت پر اعتماد کو ایک دھچکا یوں بھی لگا تھا جب 1973 میں تیل کا بحران آیا تھا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک نے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کو تیل کی برآمد روک دی تھی۔ اسی طرح کی متعدد وجوہات کی بناء پر دنیا بھر میں سائیکل سواروں کو بہتر انتظامی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا اور بہت سے یورپی شہروں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی سوچ گاڑیوں کے لیے سڑکیں بنانے سے ہٹ گئی تھی، جو بعد میں اس احساس کے ساتھ تبدیل ہوئی کہ گاڑیوں کے سا تھ سائیکل سواروں کے لیے الگ ٹریک بنائے جائیں ، جو اتنے چوڑے ہوں گے کہ ایک وقت میں دو سائیکلیں ساتھ ساتھ چل سکیں۔ ان راستوں کی واضح نشان دہی ہو، سطح ہموار اور ٹریفک کے علیحدہ نشان اور لائٹیں لگائی جائیں گی۔ جب کہ کچھ شہروں میں سائیکل سواروں کے لیے سڑکیں گاڑیوں کی سڑکوں سے بالکل علیحدہ بھی بنائی گیں۔ جہاں جگہ کی کمی تھی اور دونوں سواریوں کو سانجھی سڑک ملی وہاں ایک نشان بنایا گیا، جس میں سائیکل سوار آگے اور گاڑی پیچھے تھی۔ اس نشان پر لکھا ہواتھا کہ ’’سڑکیں سائیکلوں کے لیے ہیں،گاڑیاں تو صرف مہمان ہیں‘‘۔آج ترقی یافتہ ممالک میں گول چکروں پر بھی سائیکل سواروں کو ترجیح حاصل ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ گول چکر کے گرد بہت آرام سے سائیکل چلاتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور گاڑیاں انتظار کرتی ہوئی ۔ ان ممالک میں سائیکل کو ترجیح حاصل ہونا سیاحوں کو عجیب سا لگتا ہے۔

یورپ اور امریکا میں اب تو بچے چلنے سے پہلے سائیکل سواری کی دنیا سے متعارف ہو رہے ہیں۔ نومولود بچے سائیکلوں کی خصوصی سیٹوں پر سفر کرتے ہیں اور موسمی حالات سے بچاؤ کے لیے ان سیٹوں پر ایک پردہ بھی لگا ہوتا ہے، اب تو والدین ان خصوصی سیٹوں پر بہت خرچا بھی کرنے لگے ہیں۔ ان ممالک میں سائیکلوں کے لیے چوڑے اور محفوظ راستوں کی بدولت بچے بہت جلد  اپنی سائیکلیں چلانا شروع کر دیتے ہیں جب کہ نگرانی کے لیے والدین ان کے ساتھ پیدل چل سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں اٹھارہ سال تک بغیر نگرانی کے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں اسی لیے بھی سائیکل کی سواری اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے لیے آزادی کا متبادل بن جاتی ہے۔  سائیکل سواری کو نوجوانوں میں مقبول بنانے کے لیے بعض ریاست نے بھی اپنا کردار اداکیا۔ سکولوں کے نصاب میں سائیکل سواری کو شامل کیا،جس سے سکول آنے جانے کے لیے سائیکل سوار کی عزت افزائی ہوئی ، سکولوں میں سائیکل اسٹینڈ بنائے گئے اوراس کے بعد آج یورپ میں نوے فی صد طالب علم سائیکل پر ہی سکول آتے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ یورپ میں سائیکلوں کی پارکنگ کے لیے ہر جگہ اسٹینڈ موجود ہیں،  دفاتر ، بازاروں اور دکانوں کے قریب اسٹینڈ بنائے گئے ہیںاور سائیکل سواروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سائیکل ان مخصوص جگہوں پر ہی کھڑی کریںگے اور اگر کسی نے غلط جگہ پر سائیکل کھڑی کر دی تو اسے اپنی سائیکل سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے یا پھر  سائیکل دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پچیس یورو تک کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ فلیٹوں میں رہنے والوں کے لیے سائیکل کھڑی کرنے کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہوتی لیکن وہ عمارت کے اجتماعی استعمال کی جگہ پر اپنی اپنی سائیکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ سائیکل سواری چند لوگوں کی روز مرہ زندگی کا اتنا اہم حصہ ہے کہ وہ یہاں لوگ جدید ترین سائیکل یا آلات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنی سائیکل کو ایسا ساتھی سمجھتے ہیں جس پر وہ اعتماد کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے، جتنی پرانی سائیکل، اتنی بہتر اور معتبر سمجھی جاتی ہے۔ اکثر پیچھے سے آتی ہوئی سائیکل کے مڈ گارڈ پہیوں سے ٹکراتے سنائی دیتے ہیں، مگر کوئی پرواہ نہیں کرتا، جتنی پرانی سائیکل اتنا بہتر اتنی ہی طویل محبت کی علامت ۔ وہ دفتر جا رہے ہوں یا دوستوں سے ملنے، سفر سائیکل پر ہی ہوتا ہے اور وہ کپڑے بھی وہی پہنتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی منزل کے لیے مناسب ہوں۔

یورپ اور امریکا میں سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کے عادی نہیں تھے مگر اب کئی ایک ممالک میں یہ ضروری ہو گیا ہے ۔ دوسری جانب گاڑیاں چلانے والے بھی سڑک پر سائیکل سواروں کا خیال رکھتے ہیں۔ مگر ریاستی قوانین اس کے بدلے سائیکل سواروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی سڑک کے قوانین کا احترام کریں گے۔ اشارہ توڑنے، غیر ذمہ دارانہ انداز میں سائیکل چلانے یا غلط راستے پر چلانے کی وجہ سے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ رات کو سائیکل پر لائٹیں نہ ہونے کی صورت میں سائیکل سوار پولیس اہل کار آپ کو ساٹھ  یورو کا جرمانہ کر سکتا ہے۔ قوانین کے تحت سائیکل پر روشنی کے ’’ریفلیکٹرز‘‘ نہ ہونے کی صورت میں جرمانہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ جب سائیکل سوار خود کو محفوظ محسوس کرتے ہوںتو ایسے میں سائیکل کی سواری اور بھی پر لطف ہو جاتی ہے۔

برطانیہ میں سائیکل سواری کا مستقبل:

برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی خواہش ہے کہ ملک میں سائیکل سواری کے شعبے میں انقلاب آنا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے برطانوی حکومت نے سائیکل سواری کے فروغ کے لیے تقریباً دس ارب روپے مالیت کے برابر امدادی رقم مختص کر دی ہے ۔ جوبرطانیہ کے مختلف شہروں اور پارکوں میں تقسیم کی جائے گی۔مانچسٹر، لیڈز، برمنگھم، نیو کاسل، برسٹل، کیمبرج، آکسفورڈ اور ناروچ77 ملین پاؤنڈ کی رقم آپس میں بانٹ کر استعمال کریں گے جب کہ ملک کے چار نیشنل پارکس کے لیے سترہ ملین کی رقم الگ سے مہیا کی جائے گی۔اس رقم سے موجودہ اور نئے سائیکل روٹ بنائے جائیں گے۔ حکومت نے حکومتی سرخ فیتے کو سائیکل سواری کے فروغ کے معاملے میں کم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے ۔

دوسری جانب برطانوی لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں سڑکیں سائیکل سواری کے لیے غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’اولمپکس، پیرا اولمپکس اور ٹور ڈی فرانس میں برطانوی سائیکل سواروں کی کامیابی کے بعد سے سائیکل سواری میں برطانیہ بہت بہتر جا رہا ہے اور ہم اسے مزید اوپر لے کر جانا چاہتے ہیں۔مانچسٹر شہر کو اس مد میں20 ملین ملیں گے جس سے شہر میں تیس میل لمبی سائیکل لینزبنیںگی اور شہر میں بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار کے زون بھی بنیں گے۔نیشنل پارکس جنہیں اس امداد میں سے حصہ ملے گا ان میں نیو فرسٹ، پیک ڈسٹرکٹ، ساؤتھ ڈاؤنز اور ڈارٹمور شامل ہیں۔حکومت نے لندن سے برمنگھم اور وہاں سے لیڈز اور مانچسٹر تک سائیکل سواری کے لیے خصوصی راستے تیار کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے جو تیز رفتار ایچ ایس ٹو ٹرین لائن کے روٹ پر بنے گا،اس کے لیے فیزیبلٹی جائزے کا بھی اعلان کیا گیاہے۔برطانوی وزراء ملک بھر میں سائیکل سواری کی بڑھتی مقبولیت کو لندن میں دکھانا چاہتے ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق سائیکل سواروں کی تعداد گزشتہ سالوں میں دو گنا ہو چکی ہے۔

بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی صوبائی حکومتیں

$
0
0

اختیارات، اقتدار اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کے عمل کو بلدیاتی نظام کا نام دیا جاتا ہے تاکہ گلی، محلوں کے مسائل انہیں سطحوں پر حل ہو سکیں۔

دور جدید میں یہ بحث بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے کہ کسی بھی ملک میں اچھی حکومت بنانے کے لئے سہہ سطحی حکمرانی کا ہونا ضروری ہے یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی۔ یہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں کہ معاشروں اور ملکوںکی ترقی کے لئے نظام حکومت کو شفاف اور عام لوگوں تک رسائی ممکن بنانے کے لئے بلدیاتی نظام کو بحث سے آگے بڑھا کر قابل قبول شکل دینے کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کا ادراک آج دنیا کے تمام ممالک کو ہو چکا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مہذب اور پڑھے لکھے معاشروں نے اقتدار کی اس سطح (مقامی نظام حکومت) کو اپنے لئے ترقی کا زینہ بنا لیا جبکہ غیر ترقی یافتہ ممالک تاحال اقتدار کی چھینا چھپٹی میں مصروف ہیں۔

بلدیاتی ادارے عوامی سطح پر بننے والے وہ چھوٹے یونٹ ہیں جنہیں حکومت کچھ اختیارات اور وسائل فراہم کرکے اتنا مستحکم کر دیتی ہے کہ وہ مقامی مسائل حل کرنے کے ساتھ مختلف انتظامی اور ترقیاتی امور میں حکومت کی معاونت کریں۔ پاکستان میں بھی بلدیاتی نظام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ملکی آئین میں واضح جگہ دی گئی ہے۔ آئین میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کا طریقہ کار، اختیارات اور وسائل کا تعین بھی کیا گیا، آئین کے آرٹیکل 32 (Promotion of local government institutions ) کے تحت ریاست بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ آرٹیکل 140اے کے مطابق تمام صوبے بلدیاتی نظام تشکیل دے کر اختیارات اسی نظام کے تحت منتخب ہونے والے افراد کے سپرد کریں گے۔

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بلدیاتی نظام کے تحت چلنے والے مقامی اداروں کے اغراض و مقاصد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ابتداء میں بلدیاتی اداروں کا مقصد حکومت کے عوام سے رابطے کو فوری اور مربوط بنانا تھا۔ بادشاہوں کو عوام کے حالات اور مختلف علاوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں وغیرہ سے آگاہی کے لئے ان اداروں کی ضرورت تھی۔ بعد ازاں ان کا مقصد مختلف انتظامی امور میں حکومت کی معاونت کرنا بھی شامل ہو گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں دہشت گردی کے عفریت نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں وہاں تو بلدیاتی نظام کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔

یہ نظام جہاں سیوریج، صفائی، پانی، چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے اور مختلف شناختی سرٹیفکیٹس کے مسائل حل کر سکتا ہے وہاں ملک کو دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہو گا۔ یہاں بلدیاتی نظام دیگر ممالک کی طرح صرف چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل ہی نہیں بلکہ دہشتگردی جیسا قومی مسئلہ بھی حل کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ میں انسانی شناخت نہایت اہمیت کی حامل ہے اور بلدیاتی نظام میں چھوٹے چھوٹے یونٹ کے ذریعے گلی، محلوں کی سطح پر شناخت کا مسئلہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انسانی شناخت کے لئے دنیا میں ہونے والی ترقی سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، آج دنیا بھر میں لوگوں کی شناخت اور سکیورٹی مقاصد کے لئے بائیو میٹرکس سسٹم تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ انسانی شناخت کے روایتی طریقہ کار کی جگہ بائیو میٹرکس نظام نے لے لی ہے۔ بائیو میٹرکس حیاتیاتی ڈیٹا ماپنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا علم ہے۔

بائیو میٹرکس سے مراد ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے انسانی جسم کی خصوصیات ماپی جاتی ہیں اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، ان میں ڈی این اے، فنگر پرنٹس، آنکھوں کا تجزیہ، آواز کے نمونے، چہرے کے تاثرات اور ہاتھوں کے پرنٹ شامل ہوتے ہیں۔ شناخت کا یہ نظام نہ صرف آسان بلکہ غلطیوں سے بھی پاک ہوتا ہے۔ بائیو میٹرکس شناخت کا سب سے عام طریقہ ہاتھوں کی انگلیوں کے فنگر پرنٹس کی سکیننگ ہے، اس طریقے میں ایک مخصوص سافٹ ویئر فنگر پرنٹس کو ڈیجیٹل حالت میں لے آتا ہے، اس سافٹ ویئر میں ڈیٹا بیس بھی ہوتا ہے جو ایک فنگر پرنٹس کا دوسروں سے موازنہ کرتا ہے۔ بائیو میٹرکس طریقہ کار میں جسمانی اعضاء کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں کی بھی مانیٹرنگ ہو سکتی ہے۔ رویوں پر نظر رکھنے والا نظام کسی بھی شخص کی چال ڈھال نوٹ کرکے اس کی شناخت کرسکتا ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں کی اولین ترجیحات میں شامل بلدیاتی نظام (مقامی حکومتیں) ہمارے ہاں صرف بیانات تک محدود ہے۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری، تربیت گاہ اور اہم حکومتی اکائی کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس نظام کے سب سے بڑے دشمن ہی وہ لوگ ہیں جو خود کو جمہوریت کے چیمپئن اور جمہوری قوت کہلواتے ہیں۔ مگر افسوس! سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جمہوری قوتیں ہمیشہ بلدیاتی نظام سے بھاگتی ہوئی نظر آئی ہیں، اس کے برعکس ماضی کے آمروں نے (چاہے مقاصد کچھ بھی ہوں) مقامی حکومتوں کے نظام میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اولین ترجیحات میں شامل کیا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد جب ملک میں پھر سے ایک جمہوری نظام بحال ہوا اور جنرل پرویز مشرف کے دور کا خاتمہ ہوا تو بہت سے لوگوں اور سیاسی اشرافیہ کو یقین تھا کہ اب یہ دونوں جماعتیں (ن لیگ اور پیپلزپارٹی) مل کر نظام کی بہتری کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گی لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ملک میں مقامی نظام حکومت یا مقامی حکومتوں کے نظام کو ہوا۔ گزشتہ دور حکومت میں پورے 5 سال بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جا سکے جس سے جہاں انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوا وہاں آئین کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ اب جب کہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام صوبوں کو 15ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کروانے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن صوبائی حکومتوں کے اطوار اور بیانات سے یہی لگ رہا ہے کہ مقررہ ٹائم فریم تک انتخابات نہیں کروائے جائیں گے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایک کنٹرولڈ نظام کی حامی ہیں اور مقامی سطح پر اختیارات کو منتقل کرنے کے سوال پر بہت سی بڑی سیاسی جماعتیں تضادات کا شکار ہیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی اس نظام کے بہت زیادہ حامی نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نظام مضبوط ہوگا تو اس کا براہ راست نقصان ان کی مقامی سیاست پر ہوگا اور مقامی منتخب افراد (میئر، چیئرمین، ناظمین وغیرہ) ان کے مقابلے میں زیادہ سیاسی طاقت حاصل کریں گے۔ ارکان اسمبلی سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈ کا حصول ان کا حق ہے اور وہ مقامی ترقی کو اپنی مدد کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں اور مقامی نظام حکومت میں ان کے لیے رکاوٹ ہے۔ اس سوچ کے حامل ارکان اسمبلی کسی ایک سیاسی جماعت میں نہیں بلکہ آپ کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں یہی لوگ بالا دست نظرآتے ہیں۔ ارکان اسمبلی قانون سازی کے مقابلے میں مقامی ترقی کو اپنی ترجیحات سمجھتے ہیں۔ اگر قومی، صوبائی اور مقامی منتخب نمائندوں نے ایک ہی کام یعنی ترقیاتی کام ہی کرنے ہیں تو کوئی بھی نظام یہاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا، بلکہ اس کے برعکس ان تمام سیاسی اداروں میں تضادت اور اختلافات بھی نمایاں ہوں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اگر انتخابات کروائے گئے تو ضروری نہیں کہ وہ ان انتخابات کی مدد سے اپنی مرضی اور منشاء کے نتائج بھی حاصل کرسکیں۔ پنجاب میں ن لیگ کے سامنے اس وقت کئی حریف ہیں جن میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی نمایاں ہیں، مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں بعض اضلاع اور تحصیلیں ایسی ہیں جہاں ان کے مخالف زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کئی اضلاع ایسے ہوں گے جہاں ان کے حمایت یافتہ افراد منتخب نہیں ہوسکیں گے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت اگر مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پر نظرڈالیں تو وہ عملاً اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرکے نظام حکومت چلا رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کے لئے ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں درد سر ہیں اور پھر وہاں (تادم تحریر) نظام کا انتخاب ہی نہی ہو پا رہا تو اس نظام کے تحت انتخابات کب ہوں گے؟ بلوچستان میں تاحال وزارتوں کی تقسیم ہی مکمل نہیں ہو سکی تو عوامی مسائل کے بارے میں سوچنے کی کس کو فکر ہے؟ خیبر پختونخوا  حکومت نئے جوش و ولولہ سے نیا بلدیاتی نظام لانے کے نعرے لگا رہی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان نعروں کو عملی شکل کب دیتے ہیں کیوں کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ صوبائی حکومت بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کا پاس نہیں رکھے گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ آج تک انہی ممالک اور اقوام نے ترقی کی جس کے بااختیار لوگوں نے اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی۔ بلدیاتی نظام کے نفاذ میں کروڑوں افراد کی زندگی کو کسی حد تک سہل کرنے کا راز مضمر ہے، اس لئے مقامی اداروں کے اس نظام کو بننا اور چلنا چاہیے۔ ترقیاتی فنڈز، اختیارات اور عوامی مقبولیت کھو دینے سے خوفزدہ ارکان اسمبلی وہ کام کریں جس کے لئے انہیں چُنا گیا ہے یعنی قانون سازی۔ ایک رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا کام گلی کی نالی بنوانا نہیں بلکہ ایسی قانون سازی کرنا ہے جس سے تعمیراتی کاموں میں آسانیاں پیدا ہو سکیں۔ اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر رکن اسمبلی اپنا حقیقی کام دیانتداری سے کریں تو ان کے اختیارات میں فرق آئے گا نہ عوامی مقبولیت میں کمی ہو گی۔ اب قوم منتظر ہے کہ صوبائی حکومتیں کون سا بلدیاتی نظام سامنے لاتی ہیں اور اس کے تحت انتخابات کا مرحلہ کب آئے گا؟ کیوں کہ الیکشن کمیشن نے بھی اپنا کام شروع کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے لئے کمیشن میں خصوصی ونگ قائم کر دیا ہے جہاں گریڈ 17 کے 4 افسر کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صوبے  جتنا بھی لیت و لعل سے کام لیں یہ افسر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے ان سے رابطہ قائم رکھیں گے۔

برصغیر و پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی تاریخ:

برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی اداروں کا باقاعدہ آغاز انگریز راج میں ہی ہوچکا تھا، اس حوالے سے ابتدائی قوانین اور ایکٹ بھی اسی دور میں منظر عام پر آچکے تھے، لیکن بلدیاتی نظام یہاں کسی نہ کسی صورت میں صدیوں سے موجود رہا ہے۔ 1688ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں میونسپل کارپوریشن قائم کی جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا انتظامی تجربہ تھا۔ 1842ء میں بنگال پریذیڈنسی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، یہ اولین ذمہ داریاں تھیں جو اس انتظامی ڈھانچے کو سونپی گئیں۔ اسی طرح کے انتظامی ڈھانچے چار برس بعد 1846ء میں کراچی میں بھی قائم کئے گئے۔ سرکاری انتظامیہ نے 1850ء میں ابتدائی طور پر لاہور اور امرتسر میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ 1862ء میں برصغیر میں پہلا میونسپل ایکٹ منظورہوا۔ 1882ء میں پہلی بار شہری اور دیہی مقامی حکومتوں کے حوالے سے لارڈ رپن کی حکومت نے قرار داد منظور کی۔ 1925ء میں ’’سائمن کمیشن‘‘ کے نام سے ایک بورڈ ترتیب دیا گیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ خودمختار مقامی حکومت کی گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور بہتری کے لئے تجاویز پیش کی جائیں۔ اس کمیشن کی تجاویز کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1935ء میں ہندوستان میں برطانوی حکومت نے صوبائی سطح پر مقامی حکومت کے خودمختار ڈھانچہ کی منظوری دے دی۔

پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں 3 مختلف ادوار میں مقامی یا بلدیاتی اداروں کا وجود نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1958 سے 1969ء کے مختصر عرصہ میں نومولود مملکت، جمہوری اور فوجی حکومتوں کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ فوجی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو معطل کر دیا تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی کہ عوامی سطح پر ایک ایسا انتخابی حلقہ تشکیل دیا جائے جو جمہوریت کی عدم موجودگی سے پیدا ہو جانے والا خلا پُر کر سکے، اسمبلیوں اور صدر کے انتخاب کے ساتھ فوجی حکومت کو جمہوری بنیاد بھی فراہم کرے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملکی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نظام ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے نام پر متعارف کروایا جس کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ 1962ء میں بلدیاتی ادارے قائم ہوئے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں 1972ء سے 1977ء تک بلدیاتی انتخابات کروانے یا ان اداروں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اوران اداروں کو مقامی انتظامی ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعد جنرل ضیاء الحق نے فوجی مارشل لاء لگایا تو انہوں نے بھی 1979ء میں دوسری بار بلدیاتی آرڈیننس کی مدد سے مقامی بلدیاتی اداروں کا نظام متعارف کروا کر بلدیاتی انتخابات کروائے جو عملی طور پر 1999ء تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔

ضیاء الحق کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو بار حکومتیں بنیں لیکن اس دوران بلدیاتی ادارے کبھی فعال اور کبھی پابندیوںکے زیر عتاب رہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے پہلے سے رائج بلدیاتی اداروں کو توڑ کر مقامی حکومتوں کا نیا نظام متعارف کروایا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں لفظ ’’مقامی حکومت‘‘ کا استعمال کیا گیا اور اس سے مراد یہ  تھی کہ تیسرے درجے کی حکومت کے اصول کو قبول کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگرچہ یہ نظام فوجی حکومت کی جانب سے سامنے آیا جس کے پیچھے کچھ ذاتی مفادات بھی تھے لیکن اس کے باوجود اس نظام میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو خصوصی اہمیت کی حامل تھیں۔ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور عوامی مسائل کے حل میں اس سے بڑھ کر کوئی مضبوط نظام تاحال موجود نہیں لیکن یہاں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی جمہوری قوتیں یعنی سیاستدانوں نے آج تک بلدیاتی نظام کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ ملکی تاریخ میں بلدیات کے حوالے سے پائے جانے والے تینوں نظام (تادم تحریر) فوجی حکمرانوںکی طرف سے ہی عنایت کردہ ہیں۔

بلدیاتی نظام کے حوالے سے پنجاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صوبائی حکومت نے دیگر کسی بھی صوبے سے پہلے قانون سازی کے لئے اسمبلی میں بل پیش کر دیا تھا، جو حکومت کے مقامی حکومتوں کے حوالے سے سنجیدہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ضمن میں وزیر قانون و بلدیات پنجاب رانا ثناء اللہ نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہم کسی قسم کے ابہام کا شکار نہیں، پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ضرور کروائے جائیں گے اور اس سلسلے میں ہم نے کام بھی شروع کر رکھا جس کے لئے قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔ بلدیاتی نظام میں جو ترامیم تجویز کی گئی ان میں سب سے اہم ویلیج کونسل ہے، جو 20 سے 25 ہزار آبادی پر مشتمل ہو گی۔

ویلیج کونسل کے 11ممبرز ہوں گے جن میں 8 منتخب جبکہ 3 مخصوص نشستوں پر ہوں گے۔ مخصوص نشستوں میں ایک خاتون، ایک منیارٹی اور ایک کسان نمائندہ شامل ہوگا، پھر اس کے بعد ڈسٹرکٹ کونسل میں ہر ویلیج کونسل سے ایک ممبر الیکشن لڑکر آئے گا۔ آگے چلتے ہوئے میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹین بنائی جائیں گی۔ میونسپل کمیٹی اور ٹائون کمیٹی میں سنگل وارڈ کونسلر منتخب کئے جائیں گے جو چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کریں گے۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ 15اگست (یہ تاریخ گفتگو کے وقت کی ہے، ہو سکتا ہے اب تک بل پاس ہو چکا ہو) تک قانون سازی کا مرحلہ مکمل کرلیں، پھر اس کے بعد انتخابات کروانے کے لئے الیکشن کمیشن سے درخواست کی جائے گی کیوں کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا ہی کام ہے۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی ہوں گے یا غیر جماعتی اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اسمبلی میں اس معاملہ پر بحث چل رہی ہے، بعض لوگ غیر جماعتی الیکشن کروانا چاہتے ہیں جبکہ دیگر جماعتی الیکشن کے حامی ہیں، بہرحال حتمی فیصلہ اسمبلی کو ہی کرنا ہے۔ حکمران پارٹیوں کی طرف سے بلدیاتی نظام سے فرار کی کوششوں کے سوال پر وزیر قانون و بلدیات پنجاب نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے، ہماری جماعت جب بھی اقتدار میں آئی ہم نے ترجیحی بنیادوں پربلدیاتی الیکشن کروائے۔

’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر صوبائی وزیر بلدیات خیبرپختونخوا عنایت اللہ نے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی الیکشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی نظام آئین کی ضرورت اور نہایت اہمیت کا حامل ہے، افسوس کی بات ہے کہ آج سے قبل مختلف ادوار میں ہم اس نظام کو یکسر نظر انداز کرتے رہے جس کا بہرحال ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مگر اب اس غلطی یا غفلت کو دوہرایا نہیں جائے گا۔ بڑی بڑی سیاسی و حکمران پارٹیوں کی جانب سے بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کا رویہ مناسب نہیں۔ تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کی موجودہ حکومت بلدیاتی نظام اور الیکشن کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے، ہمارا ایک ورکنگ گروپ اس ضمن میں کام کر رہا ہے جس میں تجاویز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مقامی نظام حکومت عوام کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتا ہے۔ بلدیاتی نظام میں جوترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کا مقصد عوام کو نچلی سطح پر جمہوریت کے فوائد و ثمرات سے براہ راست مستفید کرنے کیلئے مقامی سطح پر اس کی جڑوں میں مزید گہرائی اور پھیلاؤ یقینی بنانا ہے۔ مجوزہ ترامیم میں سب سے اہم چار تا پانچ ہزار کی آبادی پر مشتمل ویلیج کونسل کا قیام ہے، جس پر سب کا اتفاق بھی ہو چکا ہے۔ جماعتی یا غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کروانے کے سوال پر عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ ویلیج کونسل کے لئے غیر جماعتی جبکہ باقی سارے نظام کے لئے جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ہماری کوشش ہے کہ تمام کام جلد از جلد مکمل کرکے رواں سال اکتوبر کے آخر میں بلدیاتی الیکشن کروا دیئے جائیں۔ صوبائی وزیر کے مطابق کے پی کے حکومت نے مسائل کے خاتمہ اور امن و امان کے نام پر صوبے کے عوام سے ووٹ حاصل کئے، ہم اپنے وعدوں کو ضرور پورا کریں گے اور الیکشن کے ذریعے مضبوط بلدیاتی نظام کا نفاذ مسائل کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس فیچر کے اختتامی مراحل میں موصول ہونے والی آخری اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی پارٹیاں (تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی) بلدیاتی نظام کے نئے مسودے اور تجاویز پر متفق ہو چکی ہیں اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے بھی ان تجاویز کی منظوری دے دی گئی ہے۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی نظام اور الیکشن کروانے پر کوئی دو رائے نہیں لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے جو احکامات یا انتخابی تاریخ دی گئی ہے، ہمارے خیال میں اس پر عملدرآمد کسی صوبے کے لئے ممکن نہیں۔ بلوچستان میں چوں کہ ایک مخلوظ حکومت قائم ہے،اس لئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے کولیشن پارٹنرز سے مل کر ایک پالیسی مرتب کی جا رہی ہے۔ بلدیاتی نظام کے لئے پہلے سے موجود قانون نامکمل ہے، ہمیں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ ہر صوبے میں الگ الگ بلدیاتی نظام نافذ کرنے کی بات چیت چل رہی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام صوبے ایک ہی بلدیاتی نظام کے قیام پر راضی نہیں، جمہوری قوتوں کا یہ رویہ درست نہیں۔

جمہوریت کی مضبوطی، نظام کی بہتری اور ملکی استحکام کے لئے جمہوری قوتوں میں اتفاق آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس میں بلوچستان کی طرف سے صوبائی حکومت اپنا مکمل حصہ ڈال رہی ہے۔ بلدیاتی نظام بہت اچھا ہے لیکن عوامی خدمت کے تناظر میں اس کو مزید موثر بنانے کے لئے بحث ومباحثہ ضروری ہے۔ مقامی سطح پر منتخب افراد میں اختیارات اور وسائل کی تقسیم سے پہلے نظام کی شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ بلوچستان حکومت میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان شامل ہیں تو ہمیں بلدیاتی نظام کے چنائو میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرلیں۔

بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی کوئی تاریخ نہیں دے سکتے، بس یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ممکن ہوا بلدیاتی انتخابات کروا دیں گے، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے، ہم اس ضمن میں کام بھی کر رہے ہیں۔ بڑی سیاسی و حکمران پارٹیاں بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی کیوں ہیں؟ کے سوال پر ترجمان صوبائی حکومت نے جواب دیا کہ ایسا شاید ماضی میں ہوتا ہو لیکن اب نئی حکومت میں نواز شریف نے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہے، لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ اس میں مسئلہ صرف ٹائم فریم کا ہے، وفاق اور صوبائی حکومتیں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہیں۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے کیونکہ ہمارا پارٹی منشور بھی یہی ہے۔

سندھ حکومت کے وزیر قانون ڈاکٹر سکندر علی مہندرو نے بلدیاتی الیکشن  کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں بلدیاتی نظام اور ادارے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جن سے صرف نظر نہیں برتا جا سکتا۔ بلدیاتی نظام کے بغیر حکومت نامکمل ہے، حکومت کی 3چیئرز (اقتدار کی 3سطحیں) ہوتی ہیں، وفاق، صوبائی اور بلدیاتی، ان میں سے کسی ایک بغیر بھی حکومت کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو روزانہ 4سے5گھنٹے کام کرتے ہوئے تجاویز کو حتمی شکل دینے میں مصروف عمل ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ہمارے ہاں چار اقسام کے بلدیاتی نظام موجود ہیں۔

1962ء، 1979ء، 2001ء  اور 2011ء کے نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ایک نیا بل لانا چاہتے ہیں جس میں اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے ساتھ عوام حقیقی معنوں میں اس کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔ ڈاکٹر سکندر علی مہندرو کا کہنا تھا کہ حکمران پارٹیاں بلدیاتی الیکشن سے بالکل بھی نہیں بھاگ رہی ہیں، جمہوری قوتوں کی طرف سے راہ فرار اختیار کرنے کا تاثر غلط اور یہ رائے بھی پرانی ہو چکی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے احکامات بھی آچکے ہیں جس پر عملدرآمد کروانے کیلئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے لئے نئی قانون سازی کا عمل جاری ہے، صوبائی اتھارٹیز اور بلدیاتی نظام کے دائرہ کار پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنا کام مکمل کرکے یعنی اسمبلی سے بل پاس کروا کر الیکشن کمیشن کو درخواست بھجوا دیں گے کیوںکہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ ہماری پارٹی ایک جمہوری پارٹی اور جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق یقین رکھتی ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے جو جماعت عوام میں جتنی مقبول ہوگی بلدیاتی الیکشن میں اس کو اتنی ہی پذیرائی مل جائے گی، جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہر سیاسی پارٹی کو اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی غریب عوام کی جماعت ہے جس کی ساری جدوجہد کا محور پسا ہوا طبقہ ہے اور بلدیاتی نظام اس طبقہ کی حالت سدھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لہٰذا ہم اس نظام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کریں گے۔

تجزیہ نگار و رہنما سول سوسائٹی سلمان عابد نے بلدیاتی نظام پر ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں جہاں اور بہت سی سیاسی رکاوٹیں ہیں ان میں ایک بڑی رکاوٹ مقامی حکومتوں کی کمزوری ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ملک میں جمہوریت اور جمہوری حکمرانی کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، لیکن مقامی سطح پر لوگوں کو با اختیار بنانے اور مقامی نظام حکومت کو مضبوط بنانا ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں، سیاسی جماعتیں عملی طور مرکزیت حامی ہیں۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں فوجی آمروں کی طرف سے پیش کردہ بلدیاتی یا مقامی حکومتوں نظام پر تنقید کرتی ہیں مگر وہ خود کوئی بھی مقامی سیاسی نظام کو تشکیل دینے میں ناکام رہی ہیں۔

اب بھی جو مقامی نظام اس ملک میں چلا ہے یا چلانے کی کوشیش کی جارہی ہے وہ فوجی آمروں ہی کا پیش کردہ ہے جو سیاسی جماعتوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کے حصول کو بنیاد بنانے کی وجہ سے مقامی نظام حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

سلمان عابد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کی شق 140-Aمیں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ نہ صرف مقامی حکومتوں کی تشکیل کو یقینی بنائیں بلکہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات، ذمہ داریاں بھی مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کریں‘‘ لیکن عملی طور پر ہماری صوبائی حکومتیں عوام کے منتخب نمائندوں کو باختیار بنانے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بجائے صوبائی حکومتوں اور بیوروکریسی کے عمل کو مضبوط بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اس وقت بھی ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں نے جو نظام مقامی سطح پر ترتیب دیے ہیں وہ عملاً 140-Aکی شق کی نفی کرتے ہیں، اس لئے جب کوئی صوبائی حکومت آئین کے بنیادی اصولوں کے برعکس قانون سازی کرے گی تو وہ آئین سے متصادم ہوگا اور اس پر عدالت کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سوال یہ نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کا نظام اچھا تھا یا جنرل پرویز مشرف کا بلکہ اہم بات یہ ہے جو بھی جمہوری حکومت اپنا مقامی نظام لاتی ہے اسے آئین کی شق140-A کے تحت ہونا چاہیے جو مقامی طرز حکمرانی کے بنیادی اصولوں کی عکاسی کرتا ہو۔

رنگ اور پھول بنے پہناوا

$
0
0

فیشن کی دنیا میں جہاں جدت کی لہر آتی ہے وہیں ماضی بھی لوٹ کر آتا رہتا ہے۔

ہیئر اسٹائل ہوں یا میک اپ کے انداز ماضی کے ڈھنگ جوں کے توں یا کچھ کمی بیشی کے ساتھ دوبارہ رائج ہوکر مقبولیت حاصل کرتے ہیں ہیں۔ خاص طور پر ملبوسات کی دنیا میں تو گزرا وقت بار بار پلٹ کر آتا اور اپنا سکہ جماتا ہے۔ خواتین کے پاجامے ہی کو لیجیے۔ ماضی کا یہ پہناوا بہت سا وقت گزر جانے کے باوجود اب خوش نمائی کے نئے اور اچھوتے انداز لیے دوبارہ رائج ہوا ہے۔ مختلف رنگوں میں دست یاب اور پھولوں کی بہار لیے یہ پاجامے لمبی قمیصوں اور کرتوں کے ساتھ شخصیت کو دل آویزی عطا کرتے ہیں۔ روپ کو انفرادیت اور خوب صورتی ادا کرتا یہ لباس خواتین میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔

چھوڑ کر پڑھائی خوب کی کمائی

$
0
0

اگر ہم دنیا میں معاشی اور سماجی طور پر کام یاب لوگوں پر نظر دوڑائیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کی کام یابی کے پیچھے جہاں بہتر قوت فیصلہ اور قسمت کا موافق ہونا ہے تو دوسری جانب ایسے حالات کی تشکیل بھی ہے جو بنظر غائر مناسب نظر نہیں آرہے ہوتے، لیکن یہی حالات یا وجوہات ان کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا باعث بن جاتے ہیں نہ صرف مثبت تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں، بلکہ ان مراحل سے بھی بچا لے جاتے ہیں جو وقت کا ضیاع کررہے ہوتے ہیں۔

لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ حالات، واقعات اور عوامل جو انسان کی زندگی میں تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں، ان میں صرف تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس سے دوری کو کسی بھی صورت میں حالات بدلنے کے جواز میں پیش نہیں کیا جاسکتا چاہے۔ یہ تبدیلی کتنی بھی کام یابیوں اور کام رانیوں سے سجی ہوئی ہو بل کہ تعلیم کو تو مروجہ ترقی کے معیار میں کلیدی حیثیت دی جاچکی ہے، لیکن ترقی اور کام یابی کے حوالے سے ہماری اس موجودہ دنیا میں گذشتہ دو تین دہائیوں میں کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جہاں ترقی اور کام یابی کی مثال بننے والے افراد نے جیسے ہی اپنی جاری تعلیم کو خیرباد کہا تو اپنے اپنے شعبوں میں وہ عروج حاصل کیا کہ انتہائی تعلیم یافتہ اور کام یاب افراد بھی ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔

زیرنظر تحریر میں موجودہ عہد کی کچھ ایسی ہی ’’زندہ ‘‘ شخصیات کی کام یابیوں کا احاطہ کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے فطری رجحان یا میلان طبع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے راستے خود تلاش کیے اور جب ان تعلیمی دور کے ان ’’نالائق‘‘ افراد نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو حیرت انگیز طور پر یہ ’’نالائق افراد‘‘ کرۂ ارض کے کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا محور اور محبتوں کا مرکز بن گئے۔

٭بل گیٹس


مائیکرو سافٹ کارپوریشن کے مالک اور دنیا ئے کمپیوٹر کے نابغۂ روزگار شخص بل گیٹس کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ بل گیٹس اور ان کے دوست پال ایلن کی کوششوں سے 1975میں مائیکرو سافٹ کے نام سے شروع کیا جانے والا ادارہ جو بعدازاں مائیکرو سافٹ کارپوریشن میں تبدیل ہوگیا۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور آپریٹنگ سسٹم کے حوالے سے گذشتہ چار دہائیوں سے اپنی دھاک جمائے ہوئے ہے۔

واشنگٹن کے مضافاتی علاقے سیٹل میں1955میں جنم لینے والے ’’ولیم ہنری گیٹس‘‘ جنہیں دنیا کے امیر ترین فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انہوں نے1973میں سیٹل شہر کے مقامی اسکول سے گریجویشن کیا، جس کے بعد انہوں نے کیمبرج میں واقع ہارورڈ یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ’’ہارورڈکالج‘‘ میں داخلہ لیا۔ داخلے کے لیے منعقد کیے جانے والے ’’SATٹیسٹ‘‘ میں انہوں نے 1600میں سے1590شان دار نمبر حاصل کیے۔

لیکن چوں کہ یہ دونوں دوست اوائل عمری ہی سے کمپیوٹر پروگرامنگ اور سافٹ وئیر کی دنیا میں کھوئے رہتے تھے، چناںچہ ہارورڈ کالج میں جانے کے بعد بھی بل گیٹس اور ان کے دوست کمپیوٹر پروگرامنگ میں انقلاب لانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ دونوں نے تعلیم پر توجہ کم کردی اور نتیجے کے طور پر بل گیٹس کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ہارورڈ کالج کو خیرباد کہنا پڑا۔ آج بھی ہارورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بل گیٹس کے نام کے آگے ’’نامکمل گریجویشن طالب علم‘‘ کی سطر لکھی ہوئی ہے۔

٭لیری ایلیسن


دنیا کے صف اول کے ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کے ادارے ’’اوریکل‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو اور بانی لیری ایلیسن کا شمار بھی ان کام یاب افراد میں ہوتا ہے جو اپنی مصروفیات کے باعث تعلیم کو ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

نیویارک سٹی میں1944میں پیدا ہونے والے لیری ایلیسن کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے ہے اور وہ اس وقت دنیا کے نویں امیر ترین شخص ہیں۔ 1977میں محض دو ہزار ڈالر سے اوریکل کارپوریشن کی بنیاد رکھنے والے لیری ایلسن نے ریاست Illinois کی جامعہ Illinois at Urbana–Champaignسے محض 20سال کی عمر میں تعلیم سے ناتا توڑ لیا تھا۔

اس وقت وہ دسویں درجے میں پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ شکاگو میں داخلہ لیا، لیکن صرف ایک ٹرم کے بعد وہاں سے بھی ان کا دل اچاٹ ہوگیا اور لیری ایلیسن شمالی کیرولینا منتقل ہوگئے اور کاروباری زندگی میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح دنیا کو کمپیوٹر ہارڈویر، انٹرپرائز سافٹ ویر اور ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم دینے والے لیری ایلیسن مروجہ تعلیم کے حصول سے نابلد رہتے ہوئے بھی ایک ناقابل فراموش شخصیت بن چکے ہیں۔

٭لیڈی گاگا
رنگا رنگ شخصیت کی مالک گلوکارہ ’’لیڈی گاگا‘‘ کا اصل نام ’’اسٹفنی جاون اینجیلا جرمانوٹو‘‘(Stefani Joanne Angelina Germanotta) ہے۔ 27سالہ ’’لیڈی گاگا‘‘ کا شمار دنیا کی صف اول کی امیر ترین گلوکاراؤں میں کیا جاتا ہے۔

نیویارک میں1986میں پیدا ہونے والی لیڈی گاگا کے کئی گانے اور ویڈیو البم عالمی سطح پر شہرت رکھتے ہیں۔ لیڈی گاگا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ تاہم اس کے باوجود ان کے والد نے 17سالہ لیڈی گاگا کو نیویارک یونیورسٹی کے ’’ٹش اسکول آف آرٹس‘‘ میں داخل کرادیا۔ تاہم اس دوران لیڈی گاگا نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دیگر ہم جماعتوں سے زیادہ ذہین اور بہتر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہے۔

چناں چہ اس نے تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر موسیقی کے شعبے میں عملی قدم رکھ دیا پانچ گریمی ایوارڈز، تیرہ MTVویڈیو میوزک ایوارڈز، نیویارک سے تعلق رکھنے والے کیبل نیٹ ورکVH1کے مطابق دنیا میں موسیقی کی سو بہترین خواتین میں چوتھے نمبر پر فائز، فوربس میگزین کی جانب سے 2010 سے لگاتار2013 تک دنیا کی سو موثر ترین خواتین میں شامل اور ٹائم میگزین کی جانب سے موثر ترین مقام پر فائز لیڈی گاگا روایتی تعلیم کو خیرباد کہنے کے باوجود آج نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن ہیں۔

٭جیمز کیمرون


ٹائیٹنک، اوتار، دی ٹرمینٹر جیسی معرکتہ الآرا فلموں کے خالق جیمز کیمرون کا تعلق کینیڈا سے ہے۔ 1954میں پیدا ہونے والے آسکر ایوارڈ یافتہ جیمز کیمرون ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک فلم ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ہدایت کار، ایڈیٹر، اسکرین رائٹر، ماہر ماحولیات، مہم جو اور مصور کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔

بالخصوص 25 مارچ 2012 کو سمندر کے اندر دنیا کے گہرے ترین مقام کی عکاسی اور مہم جوئی نے انہیں ایک نہایت اہم مہم جو بھی ثابت کردیا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اپنی تمام تر کام یابیوں کے باوجود جیمز کیمرون مروجہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اگرچہ ان کے والدین جب 1971میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو سے امریکا منتقل ہوئے تو دو سال بعد 1973میں جیمز کیمرون کو کیلی فورنیا میں واقع Fullerton کالج میں فزکس کے شعبے میں داخل کرادیا گیا، لیکن جلد ہی انہوں نے فزکس کا مضمون تبدیل کرکے انگریزی کا مضمون لے لیا، لیکن ایک برس بعد ہونے والے امتحان میں شریک نہ ہوئے اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے، جن میں ٹرک ڈرائیوری اور سیلز مین کی نوکری بھی شامل تھی۔

تاہم اس دوران وہ فلم میکنگ سے متعلق اپنی معلومات میں ازخود اضافہ کرتے رہے، چناں چہ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے تعلیم کے بجائے اپنی خداداد صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور مشہور زمانہ فلم ’’فرسٹ بلڈ پارٹ ٹو‘‘ کا اسکرین پلے اداکار سلوسٹر اسٹالون کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کیا، جس کے بعد ٹرمینیٹر جیسی فلم پردہ سیمیں کی زینت بنا کر دنیا بھر سے اپنی صلاحتیں منوالیں اور آج بلاشبہہ جیمز کیمرون کا شمار فلمی دنیا کے چند ذہین ترین دماغوں میں کیا جاتا ہے۔

٭مارک زوکربرگ


کمپیوٹر کی دنیا میں یوں تو روزانہ ہی نت نئی اختراعات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ان اختراعات میں فیس بک پروگرام ایک ایسا اضافہ ہے جس نے سماجی تعلقات بنانے کے اچھوتے انداز کو روشناس کرایا ہے۔

اس منفرد پروگرام کے خالق 29 سالہ ’’مارک زوکر برگ‘‘ ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ 2004میں اسوقت انجام دیا تھا جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ہارورڈ کالج میں زیرتعلیم تھے۔ بنیادی طور پر مارک زوکر برگ نے نفسیات کے شعبے میں داخلہ لیا تھا۔ تاہم کمپیوٹر پروگرامنگ ان کا اولین شوق تھا۔ چناں چہ انہوں نے دوران تعلیم اپنے شو ق کے مطابق کمپیوٹر پروگرامنگ ہی کو اولین ترجیح دی اور اسی شوق کا نتیجہ فیس بک کی شکل میں آج دنیا کے سامنے ہے اور بالآخر فیس بک کی مقبولیت کے باعث مارک زوکربرگ ہارورڈ کالج سے ناتا توڑنے پر مجبور ہوگئے۔

2004 میں انہوں نے کیلی فورنیا کے علاقے Palo Alto میں ’’فیس بک کارپوریشن‘‘ کی بنیاد ڈالی اور آج اپنی انہی ذاتی کوششوں اور کاوشوں کے سبب مارک زوکر برگ کو دنیا کے سب سے کم عمر دولت مند ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جب مارک زوکر برگ 2011میں ہارورڈ کالج میں بحیثیت چئیرمین اور چیف ایگزیکٹیو ’’فیس بک کارپوریشن ‘‘ کے خطاب کرنے کے لیے مدعو کیے گئے تو ان کی سابق مادر علمی کے طالب علموں نے ان کا استقبال ایک سپر ہیرو کے طور پر کیا تھا۔

٭مائیکل ڈیل


پاکستان جیسے ملک میں جہاں متوسط طبقے کے زیر استعمال کمپیوٹرز زیادہ تر استعمال شدہ ہوتے ہیں ’’ڈیل‘‘ (Dell)کمپنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، کیوں کہ ڈیل کارپوریشن کے استعمال شدہ کمپیوٹر پاکستان کی مارکیٹ میں ارزاں اور وافر تعداد میں موجود ہیں۔

اس کمپنی کے مالک ’’مائیکل ڈیل‘‘ کا شمار بھی ان امیر و کبیر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم کو نامکمل چھوڑ کر کاروبار شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا 1965میں پیدا ہونے والے مائیکل نے آسٹن میں واقع جامعہ ٹیکساس میں پری میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا لیکن اس دوران وہ اپنے طبعی رجحان کے باعث کمپیوٹر اشیاء کی خریدوفروخت سے بھی وابستہ رہے اور رفتہ رفتہ اسی شعبے کی جانب ان کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔

بالآخر وہ میڈیکل کی تعلیم سے دست بردار ہوگئے اور محض 19برس کی عمر میں اپنے ذاتی کمپیوٹر ہارڈویر کے کاروبار کی بنیاد رکھ دی جو محض چند سال بعد 1984میں ’’ڈیل کارپویشن‘‘ کی شکل اختیار کرگئی۔ مشہور رسالے ’’فاربس‘‘کے مطابق مائیکل ڈیل اس وقت دنیا کے اکتالیسویں امیر فرد ہیں۔

٭شیلڈن ایڈلسن


کسینو اور جوئے کے حوالے سے امریکا کے مشہور زمانہ شہر لاس ویگاس کے ارب پتی تاجرSheldon Adelson محض 19برس کی عمر میں تعلیم کو خیرباد کہہ کر کاروبار کی دنیا میں داخل ہوگئے تھے۔

سیاحتی سرگرمیوں کے بین الااقوامی ادارے Las Vegas Sands Corp کے مالک اور دنیا کے 24ویں امیر ترین شخص کی حیثیت پر فائز شیلڈن ایڈلسن سٹی کالج نیویارک کے طالب علم تھے۔ تاہم اپنی افتاد طبع کے باعث انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر کاروباری سرگرمیاں شروع کردیں اور آج شیلڈن ایڈلسن کا شمار اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے والے کام یاب تاجروں میں ہوتا ہے۔

٭ٹائیگر وڈز


کھیلوں کی دنیا کا ایک بڑا اور اہم نام ٹائیگر وڈ ز کا ہے۔ گولف میں اپنی مہارت کے بل بوتے پر دنیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں شامل موجود ہ عالمی نمبر ایک ٹائیگر وڈز کا تعلق امریکا کی ریاست کیلیفورنیا سے ہے۔

37 سالہ ٹائیگر وڈز کو ان کی گولف میں مہارت کے باعث امریکا کی کئی نام ور جامعات نے انہیں اسکالر شپ دینے کی پیشکشیں کیں۔ ان پیشکشوں کے جواب میں ٹائیگر وڈز نے1994میں کیلیفورنیا کی جامعہ اسٹین فورڈ کے شعبۂ ’’معاشیات ‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران ٹائیگروڈز نے اگرچہ اپنی جامعہ کو گولف کے مقابلوں میں تو بہت کام یابیاں دلائیں، لیکن اپنی پڑھائی سے انصاف نہ کرسکے اور بالآخر کھیل کی محبت اور مصروفیت کے باعث ٹائیگروڈز بھی ان شخصیات میں شامل ہوگئے، جنہوں نے اپنے شوق کے آگے تعلیم کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے خوابوں کی تعبیر اپنی خداداد صلاحیتوں میں تلاش کی۔

٭ٹام ہینکس

تعلیم کو خیرباد کہ کر اپنے پسندیدہ شعبے میں قسمت آزمائی کرنے والوں میں اداکار ٹام ہینکس کا نام بھی شامل ہیں۔

1956میں پیدا ہونے والے ٹام ہینکس نے بے شمار فلموں میں اپنی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ٹام ہینکس نے ابتدائی تعلیم ہیورڈ، کیلی فورنیا کے Chabotجونئیر کالج میں حاصل کی جس کے بعد انہوں نے کیلیفورنیا کے شہر Sacramentoکی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

اس دوران انہوں نے ریاست اوہائیو میں منعقد کیے جانے والے ’’گریٹ لیک شیکسپیر فیسٹیول‘‘ میں شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں مسلسل شرکت کے باعث ٹام ہینکس نے1980میں یونیورسٹی سے اپنا تعلق توڑ لیا اور اداکاری میں اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے نیویارک چلے آئے جہاں وقت نے انہیں ایک کام یاب اداکار ثابت کردیا ہے۔

٭ہیریسن فورڈ


امریکا سے تعلق رکھنے والے شہرۂ آفاق اداکار ہیریسن فورڈ کا شمار معاوضے کے لحاظ سے دنیا کے منہگے ترین فن کاروں میں کیا جاتا ہے ’’انڈیانا جونز‘‘ فلم سیریز اور ’’اسٹار وار‘‘ فلموں سے شہرت پانے والے ہیریسن فورڈ1942میں شکاگو میں پیدا ہوئے اور آج 71سال کی عمر میں بھی چاق و چوبند اداکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

1960میں انہوں نے ریاست Wisconsinکے علاقے Riponکے ’’ریپون کالج‘‘ کے شعبہ نفسیات اور انگریزی زبان میں داخلہ لیا۔ تاہم انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ ان کا فطری رجحان روایتی تعلیم کے بجائے اداکاری کی جانب ہے چناں چہ ہیریسن فورڈ نے پڑھائی چھوڑ کر ہالی وڈ کی راہ لی اور آج انہیں دنیا ایک کام یاب اور منفرد اداکار کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

٭اسٹف ورتھی مر


اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ’’اسٹف ورتھی مر‘‘ 1926میں پیدا ہوئے اور اس وقت بھی اسرائیل کی سب سے بڑی دھاتی کمپنی ’’انٹرنیشنل میٹل ورک کمپنیز‘‘ کے گروپ IMCکے اعزازی چئیرمین ہیں۔

1937میں جرمنی سے تل ابیب منتقل ہونے کے بعد اسٹف ورتھی مر نے مقامی اسکولTel-Nordau میں داخلہ لیا، لیکن عدم دل چسپی کے باعث16سال کی عمر میں کیمروں کی مرمت کی ایک ورکشاپ میں نوکری کرلی، جہاں انہوں نے نازک اور باریک عکسی کاموں کے حوالے سے اوزاروں کا استعمال سیکھا اور یہی شعور انہیں اپنے ذاتی کاروباری ادارے کی تخلیق کے لیے مہمیز لگانے کا باعث بنا۔

1952میں انہوں نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹا سا دھاتی اشیاء کی کٹنگ یا تراش خراش کے آلات بنانے کا کارخانہ شروع کیا، جس کی آج ISCARکے نام سے دنیا کے پچاس ممالک میں شاخیں ہیں اور یہ کمپنی فی زمانہ دھاتی اشیاء کی کٹنگ کے آلات کی فروخت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا درجہ رکھتی ہے، جس کے خریداروں میں جنرل موٹرز اور فورڈ جیسے ادارے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اسٹف ورتھی مرکا 1969میں تخلیق کردہ ادارہ ’’بلیڈٹیکنالوجی لمیٹڈ‘‘ جیٹ انجن اور گیس ٹربائن کی تیاری کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارے کی خدمات کا دائرہ کار رولس رائس، سولر ٹربائن، جنرل الیکٹرک، ٹیک اسپیس ایرو جیسے اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔

٭رچرڈ لی


ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے ’’رچرڈ لی‘‘ ایک کام یاب تاجر ہیں۔ چھیالیس سالہ رچرڈ لی کے پاس ہانگ کانگ اور کینیڈا کی دہری شہریت ہے، جو ان کے کاروبار کی ترقی میں نہایت ممدو مددگار ثابت ہوئی ہے۔ رچرڈ لی نے ابتدائی تعلیم ہانگ کانگ کے ’’سینٹ پال کو ایجوکیشنل کالج‘‘ سے حاصل کی جس کے بعد انہیں ان کے مالدار والد Li Ka-Shingنے مزید تعلیم کے لیے کیلیفورنیا کے ’’مینلو اسکول‘‘ بھیج دیا، لیکن دورانِ تعلیم رچرڈ لی تعلیم حاصل کرنے سے زیادہ پیسے کمانے کی فکر میں لگے رہے۔

اسی فکر میں انہوں نے ایک ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم ملازمت بھی شروع کردی اور گولف کورس میں بھی خدمات انجام دینے لگے۔ تاہم اسکول سے فارغ ہونے کے بعد رچرڈلی نے ’’اسٹین فورڈ یونیورسٹی‘‘ میں ’’کمپیوٹر انجنیئرنگ ‘‘ میں داخلہ لے لیا، لیکن ڈگری کے حصول سے قبل ہی تین سال بعد انہوں نے پڑھائی کو خیربادکہ کر کاروبار پر بھرپور توجہ دی اور آج رچرڈ لی کا شمار دنیا کے صف اول کے پچاس امیر افراد میں کیا جاتا ہے۔

رچرڈ لی کی کمپنی ’’پیسیفک سینچری سائبر ورک‘‘ (PCCW) ہانگ کانگ میں ٹیلی کام کے شعبے میں مرکزی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ رچرڈ لی کا ’’پیسیفک سنچری گروپ‘‘ ایشیا پیسفک ممالک سنگاپور، ہانگ کانگ اورجاپان میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے اولین گروپ میں شمار کیا جاتا ہے۔

٭مکی جگتیانی


انڈیا کے شہرمدراس سے تعلق رکھنے والے مکی جگتیانی اس وقت دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔

ساٹھ سالہ مکی جگتیانی کا روز مرہ کے گھریلو سامان صرف کا کاروبار Landmarkکے نام سے پورے خلیج کی عرب ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ مکی جگتیانی نے ابتدائی تعلیم مدراس، ممبئی اور بیروت میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لندن منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے ’’لندن اکائونٹنگ اسکول‘‘ میں داخلہ لیا، لیکن اس سلسلے کو اپنی کاروباری طبیعت کے باعث جاری نہ رکھ سکے۔

اس فیصلے کے فوری بعد مکی جگتیانی نے ابتدائی طور پر لندن میں ٹیکسی بھی چلائی۔ تاہم کچھ عرصے بعد انہوں نے روزمرہ کے سامان صرف کا کاروبار شروع کردیا اور آج اس وقت ان کے ڈپارٹمنٹل اسٹور Landmark کی خلیجی ریاستوں، انڈیا، اسپین اور چین میں ایک ہزار سے زاید شاخیں کام کررہی ہیں، جن میں اٹھائیس ہزار سے زاید افراد برسرروزگار ہیں۔

٭ایکا باتستا


برازیل سے تعلق رکھنے والے 56سالہ ’’ایکا باتستا‘‘ ایک کام یاب تاجر ہیں۔

جہاز رانی، کان کُنی اور توانائی کی چھے مختلف کمپنیوں کے EBXگروپ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایکا باتستا کی عمر جب 17برس تھی تو ان کے والدین یورپ منتقل ہوگئے۔ اس دوران ایکا باتستا نے1974میں جرمنی کیRWTH Aachenیونیورسٹی میں ’’دھات کاری‘‘ کی سائنس کے شعبے میں داخلہ لے لیا۔

تاہم ان کے والدین اس اثنا میں دوبارہ برازیل چلے گئے اور اس طرح ایکا باتستا کا تعلیمی تسلسل ٹوٹ گیا، لیکن دوسری جانب ایکا کی یہی خواہش بھی تھی کیوں کہ ان کا رجحان کاروبار کی جانب تھا۔ چناں چہ انہوں نے برازیل میں اپنی کاروباری سرگرمیاں شروع کردیں اور 2012 کے اختتام تک ایکا باتستا کا شمار برازیل کے سب سے امیر شخص بن گئے تھے اور دنیا کے ساتویں امیر ترین فرد بن گئے۔

٭تھامس ہوفا


جرمنی میں میڈیا آئیکون کی حیثیت رکھنے والے تھامس ہافا نے 19سال کی عمر میں تعلیم کو چھوڑ کر نوکری شروع کردی تھی۔ تھامس ہافا کا بچپن ہی سے کاروبار کی جانب رجحان تھا، جس کا عملی اظہار انہوں نے 21سال کی عمر میں IBM کی ملازمت کے دوران گھروں پر جاکر اشیاء فروخت کرنے والے سیلزمین کے طور پر کام کرکے کیا تھا۔

اس وقت 62 سالہ تھامس ہافا جرمنی کی مشہور ایرلائن ’’ایر انڈیپنڈنٹ‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور جرمنی کی امیر ترین شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

٭گیب لوگانیوویل


کمپیوٹر ویڈیو گیمزڈیولپمنٹ اور ان کی آن لائن ڈسٹری بیوشن کی سب سے بڑی کمپنی Valveکارپویشن کے بانی ’’گیب لوگا نیو ویل‘‘ کا شمار ارب پتی کاروباری حضرات میں ہوتا ہے۔

بل گیٹس کے مانند ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلے کے باوجود تعلیم کو خیرباد کہنے کے بعد انہوں نے بل گیٹس ہی کی کمپنی مائیکروسافٹ میں تیرہ برس تک ملازمت کی۔ 1996میں انہوں نے اپنی کمپنی Valveقائم کی اور کمپیوٹر ویڈیو گیمز اور سافٹ ویر ڈیولپمنٹ میں انقلاب لے آئے 2.5بلین ڈالر کی مالیت کے اثاثے رکھنے والی یہ کمپنی گیب لوگا نیوویل کے کاروباری ذہن اور محنت کا شاہ کار ہے۔

٭جاوید کریم


کیا آپ کو معلوم ہے یو ٹیوب پر سب سے پہلی ویڈیو کس نے اپ لوڈ کی تھی؟ یہ کارنامہ بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے34سالہ جاوید کریم نے 23اپریل2005 کو انجام دیا تھااور جاوید ہی یوٹیوب کے تین مشترکہ بانیوں میں سے ایک تھے۔

بنگلادیشی والد نعیم الکریم کے ہاں جرمنی میں پیدا ہونے والے جاوید کریم1992میں امریکا منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے جامعہ Illinois at Urbana-Champaign میں داخلہ لیا، لیکن ای کامرس کے ادارے PayPalمیں نوکری کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ تاہم2011 میں انہوں نے کمپیوٹر سائنس کے مضمون میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور جب یوٹیوب کو گوگل نے خرید لیا تو محض 21سال کی عمر میں تعلیم کو خیرباد کہنے والے جاوید کریم کو اس وقت کے حساب سے 64ملین ڈالر رقم حاصل ہوئی جس نے انہیں دنیا کے امیر افراد کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔

Viewing all 4666 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>