Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4667 articles
Browse latest View live

بُک شیلف

$
0
0

سلطان محمد فاتح

مصنف: ادریس آزاد

قیمت:500روپے

پبلشر: القریش پبلی کیشنز ، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور

قسطنطنیہ وہ شہر ہے مسلمانوں کے ہاتھوں جس کے فتح کئے جانے کی بشارت آنحضورؐ نے دی تھی ، آپؐ نے فرمایا ’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے، پس بہتر امیر اس کا امیر ہو گااور بہتر لشکر وہ لشکر ہو گا‘‘۔حضرت امیر معاویہ ؓ خلیفہ بنے تو آپ نے اپنے بیٹے یزید کی سرکردگی میں قسطنطنیہ پر باقاعدہ حملہ کرنے کے لئے فوج بھیجی، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ،ہشام بن عبدالملک ، مہدی عباسی اور ہارون الرشید جیسے پر جلال خلفاء نے بھی اس شہر کو تسخیر کرنے کے لئے زبردست حملے کئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ یوں وقت گزرتا گیا اور عیسائیوں کے روحانی مرکز کو فتح نہ کیا جا سکا۔ بالآخر پندرھویں صدی عیسوی میں یہ اعزاز ساتویں عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح کو حاصل ہوا۔ مصنف نے اس تاریخی واقعے کو ناول کے قالب میں بڑی خوبصورتی سے ڈھالا ہے،  مستند تاریخی حوالوں کے لئے تاریخ کی مختلف کتب سے استفادہ کیا گیا ہے، یوں ناول کے انداز میں تاریخ رقم کی گئی ہے،قاری کو دلچسپ پیرائے میں تاریخ پرھنے کا موقع ملتا ہے۔ ناول کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں چھ ابواب ہیں ، دوسرے میں آٹھ ابواب ہیں ، یوں ناول کے کل چودہ ابواب ہیں۔  خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب  کے 496صفحات ہیں ۔

 کالا جادو

مصنف : ایم اے راحت

صفحات :چارسو چھیانوے

قیمت : چار سو پچانوے

ناشر : القریش پبلشرز ، اردو بازار لاہور

کائنات کے سربستہ رازوں میں سے ایک کالاجادو ہے۔ اس کی حقیقت بے شمار واقعات سے ثابت ہوتی ہے۔ہندو ازم میں اسے بڑی فوقیت حاصل ہے۔ہولی اور دیوالی کے تہواروں میں اسے خصوصاً دشمنوں کے خلاف استعمال کیاجاتا ہے۔جادوئی ہانڈیاں جنہیں ’’مٹھ‘‘ کہتے ہیں ، فضائوں میں پرواز کرتی ہیں اور دشمنوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ایم اے راحت ملک کے ایک منجھے ہوئے لکھاری ہے۔ انہوں نے مذکورہ ناول میں کالا جادو کو ہی موضوع بنایا ہے۔یہ ایک ایسے نوجوان کی داستان الم ہے جس کے خواب نوٹوں سے سجے ہوئے تھے۔وہ دولت کے حصول کے لیے اس نے ناجائز ہتھکنڈے اختیار کرلیے۔نتیجے میں وہ ایک ایسے شیطان کے چنگل میں پھنس گیا جس نے اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔انکار پراس شیطان کے عتاب کاشکار ہوا ، قاتل بنا ، پھانسی کی سزا ہوئی، کسی طرح پھانسی سے بچا تو والدین چھن گئے۔بھائی جدا ہوگیا۔بہن گم ہوگئی۔خود دربدر ہوا اور پھر مسائل کاایک طویل سلسلہ چل پڑا۔’’کالا جادو‘‘ دلچسپ ناول ہے اور قارئین کو پسند آئے گا۔

محبتوں میں حساب کیسا؟

شاعرہ:مسرت یاسمین

قیمت:400روپے

ناشر:ماورا پبلشرز، دی مال لاہور

شاعری دل سے پھوٹتی ہے اور دماغ اس کا تانا بانا بنتا ہے ، شاعری کا تعلق دل سے اس لئے ہے کیونکہ شاعر شعروں کی صورت میں اپنے احساسات اور جذبات کو خیالات کی لڑی میں پرو کر خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے ۔ مسرت یاسمین کی شاعری میں بھی جذبات کی فراوانی نظر آتی ہے ،گو یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے مگر شاعری میں پختگی رچی ہوئی ہے ، وہ عروض سے بخوبی آگاہ نظر آتی ہیں، انھوں نے ناصرف اپنی ذات بلکہ ملک وقوم کے حوالے سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

دشمن جاں نہ بنو ہوش میں آئو لوگو!

اپنا ایماں نہ سر راہ گنوائو لوگو!

قہر ڈھائو نہ زبانوں کو بنا کر تلوار

میں تو بے بس ہوں مجھے تم نہ ستائو لوگو

اسی طرح  بے تکلفی اور لگائو کے اظہار کے لئے میں اور تو کے انداز میں کہتی ہیں ۔

میرے جذبوں کا حوصلہ تھا وہ

منتوں سے مجھے ملا تھا وہ

آسرا تھا وہ سونی راہوں کا

ہر قدم ساتھ ہی چلا تھا وہ

مسرت یاسمین ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ، ان کی شاعری کا انداز دل کو چھو لیتا ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو ماورا پبلشرز نے شائع کیا ہے۔

دل مضطر

شاعر:عاشق پرویز

قیمت:200 روپے

صفحات: 144

ناشر: ماورا پبلشرز، لاہور

’’دل مضطر‘‘ بزرگ شاعر شیخ عاشق پرویز کا نیا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے دو مجموعہ ہائے کلام ’’وفا کی خاطر‘‘ اور ’’آتش گمنام‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ زیر تبصرہ مجموعے میں حمد، نعت اور دیگر شعری موضوعات پر طبع آزمائی شامل ہے۔ مضامین کی رنگا رنگی میں جو بات یکساں نظر آتی ہے، وہ شاعر کا ’’د ل مضطر‘‘ ہے جس کی فراواں جھلک اس کے اشعار میں نظر آتی ہے۔

 سکوت شب کے رتجگے

مصنف: رخ چوہدری

قیمت:300 روپے

پبلشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور

زندگی بظاہر بڑی سیدھی سادی دکھائی دیتی ہے مگر اصل میں یہ رسم و رواج کے تانے بانے کا نام ہے، اس ناول میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والی روایات پر طنز کی گئی ہے، بڑے خوبصورت انداز میں دیہی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے خاص طور پر دیہاتی زندگی میں انا پرستی اور ذات برادری کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد ناول کو القریش پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

تقویم ہجری وعیسوی

مرتبہ:ابوالنصرمحمدخالدی

نظرثانی: پروفیسر محموداحمدخاں

اشاعت پنجم:2013ء

قیمت:150روپے/صفحات:75

ناشر:انجمن ترقی اردو پاکستان، ڈی۔159، بلاک ۷، گلشن اقبال، کراچی

بیسویں صدی سے قبل لکھی جانی والی کتابوں کے مصنف عام طور پر انگریزی تاریخ کے بجائے اسلامی تاریخ لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ عربی فارسی لٹریچر اور تاریخ لکھنے والوں کا بھی یہی معمول تھا۔ اُردو فارسی میں لکھے گئے تذکروں میں شعرا کی ولادت و وفات اسلامی ماہ و سال کے ساتھ درج ملتی ہے۔ علاوہ ازیں قدیم مخطوطوں اور قلمی نسخوں کے آخر میں بھی کاتبین اُس دور کے رواج کے مطابق اسلامی تاریخ درج کرتے تھے۔ فی زمانہ چوں کہ انگریزی تاریخ لکھنے لکھانے کا چلن ہے اور لوگ عام طور سے ہجری تاریخ لکھنے کے عادی نہیں رہے، اس لیے عہدِ قدیم کی کتابوں کا زمانہ عیسوی تاریخ کے مطابق متعین کرنے میں انھیں تھوڑی دقّت اُٹھانا پڑتی ہے۔ پیشِ نظر کتاب دراصل ایک ہجری و عیسوی سنین کا کیلنڈر ہے، جس میں پندرہ سو سال کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس کیلنڈر کے ذریعے ایک ہجری سے لے کر پندرہ سو ہجری کے دوران آنے والی عیسوی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔ جاننے کا طریقۂ کار نہایت آسان ہے جسے ابتدائی سطور میں سمجھادیا گیا ہے۔عام طور پر جو تقویم یا جنتریاں دستیاب ہیں، اول تو اُن میں بہت زیادہ صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا، دوسرے یہ کہ وہ بہت سے بہت صد سالہ ہوتی ہیں جو ضرورت کے لیے ناکافی رہتی ہیں۔ انجمن کی شائع کردہ یہ تقویم محققین کے لیے کارآمد تو ہے ہی، عام افراد، تاجروں، محاسبوں، مورخوں، وکلا و حکام وغیرہ کے لیے بھی سہولت کا باعث ہوگی کہ اس کی مدد سے وہ گذشتہ اور آئندہ کے صحیح ہجری یا عیسوی دن، تاریخ اور مہینہ معلوم کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ اس تقویم کی پہلی اشاعت ۱۹۳۹ء میں انجمن ترقی اُردو سے ہوئی تھی۔ اب اس کتاب کا پانچواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ کتاب بڑے سائز میں سفید کاغذ پر نفاست کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔


بُک شیلف

$
0
0

کتاب: امریکا جیسے میں نے دیکھا (سیاحت نامہ)
مصنف: فقیراﷲ خاں،قیمت: 300 روپے
پبلشرز مثال پبلشرز ، فیصل آباد


فقیراﷲ خاں کامرس گریجوایٹ ہیں۔ قومی فضائی کمپنی (پی آئی اے)کے شعبہ مالیات میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے اور امریکہ کی سیاحت کے بعد یہ کتاب تحریر کردی ۔ امریکہ دنیا کا بہت بڑا ملک اور واحد عالمی طاقت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے یہ ملک اپنے اندر بے پایاں خوبیاں ،کمالات بھی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خرابیاں اور برائیاں بھی اس میں بدرجہا اتم پائی جاتی ہیں ۔ اس کی 52 ریاستیں ہیں جن میں سے بعض اس قدر بڑی ہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک ان سے چھوٹے ہیں ۔

فقیراﷲ خاں نے اس ملک کے کم وبیش تمام قابل ذکر شہروں کی سیاحت کی اس دوران بڑی باریک بینی سے امریکیوں کی عادات وسکنات، ان کے رویوں ، ان کے طرز بودوباش کا مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے ۔ جسے انہوںنے بڑے حسن اور خوبی کے ساتھ انتہائی دلچسپ انداز میں سپرد قلم کیا ہے ۔انداز تحریر اور اسلوب ایسا دل کش ہے کہ قاری اس تحریر کے سحر ہی میں گم ہوجا تاہے ۔ یہ کتاب جہاں امریکی تہذیب ، ثقافت اور سماجی رویوں کے بارے میں رہنمائی مہیا کرتی ہے وہاں امریکہ کے بڑے اور معروف شہروں کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہے اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب امریکہ کے بارے میں ایک گائیڈ کادرجہ رکھتی ہے ۔ تاریخ، سیاست، سیاحت ،تہذیب و تمدن اور عمومی معلومات حاصل کرنے کا شوق رکھنے والوں کوا س کتاب کاضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔

٭٭٭

کتاب: خالی بْک
شاعرہ: صابرہ شاہین
صفحات: 174،قیمت: 200 روپے
ناشر سانجھ ٹمپل روڈ ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی خاتون شاعرہ صابرہ شاہین کی سرائیکی زبا ن میں لکھی غزلوں ، نظموں کا مجموعہ ہے ۔

صابرہ ماہر تعلیم ہیں اور گورنمنٹ گرلز کالج کوٹ چھٹہ ، ضلع ڈیرہ غازی خان کی وائس پرنسپل ہیں ۔ حال ہی میں انہوںنے ممتازشاعر مختار صدیقی کی حیات و خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ صابرہ شاہین نے نثری ،آزاد ، پابند نظم ، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ دوہڑے اور کافی جیسی کلاسیکل لیکن مشکل اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے شاعری پر اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ ان کی شاعری لوک روایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔

جس میں مقامی رنگ اپنے پورے رچائو کے ساتھ چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز ادیبہ پروفیسر مسرت کلانچوی کے مطابق ’’خالی بْک ‘‘ ان کے نزدیک کسی خاتون کا سرائیکی میں سب سے عمدہ مجموعہ کلام ہے۔صابرہ شاہین کے ایک استاد صدر شعبہ کیمیا پوسٹ گریجوایٹ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان پروفیسر محمد صادق نے ان کی شاعری پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ’’شاہین کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو زبردست خلاق اور فنی حوالے سے پختہ گو شعراء میں ہوتی ہیں۔‘‘کتاب ایسی ہے کہ جسے پڑھا جانا چاہئے۔

٭٭٭

بھلایا نہ جائے گا (خاکے)
مصنف: صابر لودھی
صفحات: 223،قیمت: 250 روپے
ناشر :مکتبہ روشن خیال، 7 اے سٹریٹ 6 کوچہ محمدی، سلطان پورہ، لاہور


’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ صابر لودھی کے لکھے ہوئے خاکوں کی پہلی کتاب ہے۔ ایک زندگی پر محیط یادنامہ۔ زندگی کا اگر کوئی دوسرا نام ہوتا تو یاد ہوتا۔ خاکے یاد یں ہی تو ہوتے ہیں۔ دوسری زندگی کے مترادف جنہیں تیسرا آدمی تخلیق کرتا ہے۔ ایک طرح کی گواہی جس میں کسی طرح کا کھوٹ گواہ کے لیے سوہانِ روح بن کر اُسے اندر سے کچوکے لگائے رکھتا ہے۔

صابر لودھی نے ایک استاد کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے۔ ملازمت کا طویل عرصہ گورنمنٹ کالج میں گزارا۔ فطری بات ہے آدمی جن لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارتا ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی زندگی پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ بھلایا نہ جائے گا‘‘ میں اساتذہ کے خاکے زیادہ نظر آئیں گے۔ ان خاکوں کو پڑھنے کے بعد پہلا خوشگوار احساس یہ ہوتا ہے کہ خاکہ نگارنے اپنی ذات کو یاد ناموں پر غالب نہیں آنے دیا۔ اپنی پیش کار کی حیثیت کو ہدایت کار نہیں بننے دیا۔ ورنہ تو خاکہ نویس شخصیت میں ترفع پیدا کرنے کے طریقے بتاتے بتاتے اپنی ذات کو رول ماڈل بنا دیتے ہیں۔ لودھی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ صاحب خاکہ سے متعلق اپنے احساس کو بلا کم و کاست بیان کیا ہے۔ ان خاکوں میں بیان کیے گئے واقعات کا دورانیہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے آج تک کی زندگی پر محیط ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم، قیوم نظر، ڈاکٹر نذر احمد، ڈاکٹر محمد اجمل، رحمان، ڈاکٹر محمد حمید الدین، مرزا محمد منور، غلام الثقلین نقوی، میرزا ریاض، جعفر بلوچ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انورسدید، ڈاکٹر عبدالحمید اعوان اور فرخندہ لودھی اس سفر کی نشانیاں۔ ان خاکوں کی مدد سے ہم پاکستان کاتہذیبی، علمی، سیاسی منظر نامہ مرتب کرسکتے ہیں۔

ایسا منظرنامہ جو دل سے تشکیل دیا گیا ہے۔ صابر لودھی کے یہ خاکے وابستگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ ایک طرح کا خراج جس میں محبت ہے۔ صابر لودھی چھوٹے جملے لکھتے ہیں۔ چھوٹے جملے اپنے آپ پر اعتماد کی علامت ہوتے ہیں اور آدمی کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ ان خاکوں میں وابستگی ہی وابستگی ہے۔ اس جرات نے صابر لودھی کو وقائع نویس نہیں بننے دیا بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر شخصیت میں جھانکنے کا موقع بھی دیا ہے۔ ذات تو دریاہوتی ہے اس میں کتنا جھنکا جاسکتا ہے مگر لودھی صاحب نے ان خاکوں میں اپنا آپ صرف کیا ہے اور دوسروں کے لیے ذات کا اسراف معمولی اسراف نہیں ہوتا۔

٭٭٭

کتاب: میں صبح ازل سے تیرا تھا
مصنف: سہیل انور
صفحات: 144،قیمت: 350 روپے
ناشر ماورا پبلشرز ، لاہور


دیارغیر میں بیٹھے اہل علم وہنر بلا شبہ جہاں روٹی روزی کمانے کے لیے برسر کار ہیں وہاں وہ ذہنی آسودگی کے لیے ادب کے سائبان تلے پناہ لیتے اور اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔

سہیل انور بھی دیارِ غیر میں بسنے والے ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے وطن عزیز سے باہر رہ کر علم وادب کی آبیاری کے لیے اپنی ذہنی توانائیوں کو صرف کیا اور آج وہ اس میدان میں بھی سربلند دکھائی دیتے ہیں ۔’’میں صبح ِازل سے تیرا تھا‘‘ سہیل انور کی خوبصورت شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جس پر انہیں اردو ادب کے معروف اساتذہ اور مستند اہل قلم نے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے ۔ ان میں پروفیسر خواجہ محمد ذکریا ، افتخار عارف، عطاء الحق قاسمی ، خالد شریف اور اسلم کولسری وغیرہ شامل ہیں ۔

اس مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو کلاسیکیت اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج لیے ہوئے ہیں۔ شعری لطافت ، حسیت تغزل اور چاشنی ان کی شاعری کا خاصا ہے ، عطاء الحق قاسمی کا کہنا ہے کہ سہیل انور کی شاعری پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ شعوری طور پر شاعری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے کسی شعر یا مصرع سے کچے پن کی خوشبو نہیں آئی ۔ یہ کتاب اس معیار کی حامل ہے کہ شعری ذوق رکھنے والے خواتین وحضرات کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔

٭٭٭

تذکرہ الانبیا ؑء
مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد
ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
قیمت: 500 روپے ، صفحات: 392

انبیائے کرام کی زندگیاں بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔

قرآن مجید میں بھی گذشتہ امتوں کے احوال اور انبیائؑ کے قصص بیان کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ ان سے سبق حاصل کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تذکرہ الانبیاء‘‘ مفسر قرآن اور برصغیر کے ممتاز مذہبی و سیاسی رہنماء مولانا ابوالکلام آزاد کی ان تحریروں پر مشتمل ہے جو انبیا کی پاکیزہ زندگیوں سے متعلق ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ جس تذبذب، بے یقینی، پست ہمتی، بے راہ روی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو رہا ہے، اس سے بچنے کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ پھر ان انبیاؑء کی زندگیوں کی طرف رجوع کیا جائے، جنہیں خالق کائنات نے ہماری رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ کتاب میں مختلف انبیا کے حالات، قرآنی حوالے اور ان کی تشریح و توضیح شامل ہے۔ یہ تحریریں پہلے الہلال اور البلاغ کے صفحات کی زینت بن چکی ہیں، جنہیں عابدہ خاتون نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس مجموعے کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:

’’زیر نظر مجموعے میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اصل متن سے ہٹ کر کوئی عبارت شامل نہ ہونے پائے تاکہ مولانا کی تحریر کے شیدا ان کے اسلوب کی لذت سے اپنے فکر و نظر کو سیراب کرتے ہوئے قلوب کو معطر و روشن کر سکیں۔‘‘

کمپیوٹر میوزیم

$
0
0

حضرت انسان کو جن ایجادات سے براہ راست فوائد حاصل ہوئے ہیں ان میں سب سے اہم ایجاد بلاشبہہ پہیے کو کہا جاسکتا ہے، جس نے نہ صرف گھونگے کی طرح رینگتی انسانی ترقی کو ہرن کی قلانچوں کی مانند برق رفتار بنا دیا، بل کہ ہزاروں میل کی طوالت پر مشتمل سفروں کو بھی سمیٹ کر رکھ دیا۔

یاد رہے کہ دور حاضر کے برق رفتار ہوائی جہازوں سے لے کر مریخ کی سطح پر گشت کرنے والی انتہائی جدید آلات سے لیس خلائی گاڑی کا ایک اہم حصہ پہیہ ہے۔ بالکل پہیے ہی کی مانند ایک اور ایجاد ایسی ہے، جس نے ابتدا ہی سے اپنی افادیت منواکر نہ صرف انسانی زندگی میں خوش گوار اور حیرت انگیز تبدیلی پیدا کی، بل کہ گذشتہ صدی کے نصف سے انسانی ذہانت کے راستے میں آنے والی بڑی بڑی رکاوٹوں کو سر کرنے میں انسانوں کی مدد کی انسان کے ہاتھوں تخلیق پانے والی یہ مشین جسے ہم کمپیوٹر کے نام سے پکارتے ہیں۔

اب انسان کے روزمرہ کے افعال کے ساتھ ساتھ انتہائی گنجلک مسائل میں بھی اپنے تخلیق کار کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ تحقیق، جستجو، تفتیش، بحث ومبا حثہ اور تفریح کے نت نئے پہلو لیے اس جادوئی مشین کی ابتدا 1940 کے اوائل میں ہوئی اور آج دنیا کا کوئی بھی شعبہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر نا مکمل سمجھا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کمپیوٹر کی روز بروز ترقی کی جانب بڑھتے قدموں کے ان اولین نشانوں کو محفوظ کرچکے ہیں، جس پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی عظیم الشان عمارت جلوہ افروز ہے اور اسی حوالے سے زیر نظر مضمون میں چیدہ چیدہ ’’کمپیوٹرعجائب گھروں ‘‘ پر نظر ڈالی گئی ہے۔

٭کمپیوٹر ہسٹری میوزیم
امریکا کی مغربی ساحلی پٹی پر واقع کیلی فورنیا آبادی کے لحاظ سے امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر ’’ماؤنٹین ویو‘‘ (Mountain View) کی وجہ شہرت یوں تو ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘‘ سے متعلق ’’سیلیکون ویلی‘‘ ہے، جہاں پہلی مرتبہ ’’سیمی کنڈکٹر ڈیوائسز‘‘ کے لیے ’’سیلیکون کمپیوٹر چپ ‘‘ تخلیق کی گئی۔ یہ کارنامہ 1956 میں قائم کی گئی Shockley Semiconductor Laboratory میں انجام دیا گیا تھا۔ بعدازاں اس جگہ کا نام ’’سیلیکون ویلی ‘‘ رکھ دیا گیا۔

اس اہم ترین جگہ کے علاوہ ماؤنٹین ویو شہر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی سے متعلق سرکردہ کمپنیوں گوگل، موزیلافاؤنڈیشن، سیکیوریٹی سافٹ ویر بنانے والے ادارے Symantecکارپوریشن، مالیاتی سافٹ ویر بنانے والے ادارےIntuitکارپوریشن اور دیگر درجنوں چھوٹے بڑے ہائی ٹیک کے ادارے مصروف عمل ہیں، لہٰذا ایک ایسے علاقے میں جہاں قدم قدم پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات پھیلی ہوں اور ادارے قائم ہوں تو اس جگہ پر اسی شعبے سے متعلق عجائب گھر کی موجودگی یقیناً ایک نہایت اہم کاوش قرار دی جاسکتی ہے۔

ایسی ہی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ماؤنٹین ویو شہر میں ’’کمپیوٹر ہسٹری میوزیم ‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اگرچہ اس میوزیم کا باضابطہ افتتاح1996میں کیا گیا۔ تاہم تاریخی طور پر اس عجائب گھر کی تشکیل کے تانے بانے 1968 کے اوائل سے جُڑے ہیں، جب مشہور الیکٹریکل انجینئر اور بعدازاں مائیکروسافٹ کمپنی میں بحیثیت محقق خدمات انجام دینے والے Gordon Bell نے کمپیوٹر اور اس سے متعلق تاریخی برقی آلات جمع کرنے کا پروجیکٹ شروع کیا تھا اس دوران سرد جنگ کے زمانے میں امریکی بحریہ کے لیے دفاعی خدمات انجام دینے والا Whirlwind Iکمپیوٹر سسٹم بھی بے سروسامانی کے عالم میں اسکریپ ہوتا جارہا تھا۔

واضح رہے کہ 1960میں اپنی مدت پوری کرنے والا یہ کمپیوٹر سسٹم زبردست دفاعی فنی صلاحیتوں سے لیس تھا اور کمپیوٹر کی تاریخ میں ’’رئیل ٹائم ویڈیو ڈسپلے‘‘ بطور ’’آؤٹ پٹ‘‘ دینے والا اولین سسٹم تھا چناںچہ اس سسٹم کی اہمیت سے آنے والی نسلوں کو آگاہ کرنے کے لیے ’’گورڈن بیل‘‘ اور دیگر حضرات کو اسے محفوظ کرنے کا خیال پیدا ہوا چناںچہ انہوں نے Whirlwind Iکمپیوٹر سسٹم کو محفوظ کرلیا۔ بعدازاں اس سسٹم کی 1975میں نمائش کی گئی۔ یہ نمائش 1998تک قائم رہنے والے ادارے ’’ڈیجیٹل ایکویپمنٹ کارپوریشن‘‘(DEC)کے ایک عمارتی حصے میں منعقد کی گئی تھی یادر ہے ڈیجیٹل ایکویپمنٹ کارپوریشن امریکی ریاست میساچیوسٹس کے علاقے ’’مینارڈ‘‘ میں واقع تھی۔

بعدازاں1978میں اس نمائش گاہ کے مقام کو مزید توسیع دے کر ’’دی ڈیجیٹل کمپیوٹر میوزیم‘‘ (TDCM)کا نام دے دیا گیا، جو 1982تک ’’دی کمپیوٹر میوزیم‘‘(TCM)کے زیرنگرانی کام کرتا رہا۔ یاد رہے ’’دی کمپیوٹر میوزیم‘‘ سن 2000 میں بند کیا جاچکا ہے۔ تاہم 1984میں TCMکے بوسٹن شہر منتقل ہوجانے کے بعد TCM نے ماؤنٹین ویو شہر کی سیلیکون ویلی میں اپنا ’’دی کمپیوٹر میوزیم ہسٹری سینٹر‘‘(TCMHC)قائم کردیا، جسے بعدازاں 1996کے آخر میں ’’کمپیوٹر ہسٹری میوزیم‘‘ میں تبدیل کردیا گیا اور اب 2003 سے کمپیوٹر ہسٹری میوزیم) CMH (کی نئی عمارت کیلی فورنیا کے ماؤنٹین ویو شہر میں شائقین کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہے۔

کمپیوٹر ہسٹری میوزیم (CMH)میں’’ Whirlwind Iکمپیوٹر سسٹم‘‘ کے علاوہ 1976میں تخلیق کیے جانے والے Caryسیریز کے Cray-1، Cary 2، Cary 3سپر کمپیوٹر کے اولین ماڈیول بھی محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ 1975میں ابتدائی کمپیوٹر گرافکس سافٹ ویر کی تخلیق کے لیے منتخب کردہ اوبجیکٹ Utah Teapotبھی میوزیم کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ چائے کی ا س ’’کیتلی‘‘کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ڈاکٹریٹ کی تحقیق میں مصروف گرافکس اور ڈیزائننگ کے ماہر Martin Newellنے پہلی مرتبہ 3Dکمپیوٹر ماڈل تخلیق کیا تھا۔ انہوں نے یہ کارنامہ جامعہ Utahمیں انجام دیا تھا جو مستقبل میں 3Dگرافکس کی لامحدود دنیا کا دروازہ کھولنے کا باعث بنا۔ اسی طرح میوزیم میں 1969 میں اشیائے خورونوش کے مشہور زمانہ ادارے Neiman Marcusکی جانب سے پیش کیا گیا ’’Honeywell 316کچن کمپیوٹر‘‘ کا اولین ماڈل بھی محفوظ ہے۔ کھانے پکانے کی ترکیبوں سے سجا یہ کچن کمپیوٹر پیروں کی مدد سے پیڈل کے ذریعے چلتا تھا، مجموعی طور پر کمپیوٹر کا وزن سو پونڈ اور قیمت دس ہزار امریکی ڈالر تھی دل چسپ بات یہ ہے کہ زبردست اشتہاری مہم کے باوجود ’’ہنی وال کچن کمپیوٹر‘‘ (H316) کا ایک بھی یونٹ فروخت نہیں ہوسکا تھا ایک اور قابل ذکر کمپیوٹر Apple I ہے، جسے 1976میں کمپیوٹر انجنیئر اور پروگرامرSteve Wozniakنے تخلیق کیا تھا۔ محض 4kb سے 8kb کی میموری کی گنجائش رکھنے والے اس کمپیوٹر کا پروسیسر1میگا ہرٹز پر مشتمل تھا۔

Apple 1 مشہور زمانہ ’’ایپل کارپوریشن‘‘ کی اولین پروڈکٹ تھی، جس کی تعارفی قیمت آنجہانی ’’اسٹیو جابز‘‘ نے 500 ڈالر مقرر کی تھی۔ میوزیم میں ایک اور یادگار شے Google کے فرسٹ جنریشن سرچ انجن کے لیے بنایا گیا ویب سرور(Web Server) ہے 1999 میں بنایا گیا یہ ویب سرور بڑی بڑی الماریوںRacks) پر مشتمل تھا اور چوں کہ موجودہ دور کے ویب سرور مختصر جسامت کے ہوتے ہیں، لہٰذا میوزیم میں موجود یہ Racks نئی نسل کے افراد کے لیے کسی عجوبے سے کم نہیں ہیں۔

کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ90 ہزار اشیاء محفوظ کی جاچکی ہیں، جن میں نادر ونایاب تصاویر اورفلمیں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چار ہزار فٹ پر محیط برقی دستاویزات بھی میوزیم کا حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں ہزاروں گیگا بائٹ پر مشتمل مختلف تاریخی سافٹ ویر بھی میوزیم کی شان بڑھانے کے لیے موجود ہیں۔ ان تمام اشیاء کے علاوہ میوزیم کا ایک اہم ترین حصہ 25ہزار مربع فٹ پر پھیلی ہوئی نمائش گاہ ہے، جس کا نام Revolutionہے۔ اس نمائش گاہ میں The First 2000 Years of Computingکے عنوان سے 13جنوری2011 سے نمائش جاری ہے، جہاں حساب کتاب کرنے کے تاریخی آ لے ’’گن تارا ‘‘ (Abacus)سے لے کر موجودہ عہد تک کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے آلات محفوظ ہیں۔ ان آلات یا اشیاء میں ابتدائی کیلکولیٹر، پنچ کارڈ مشین، اینالاگ کمپیوٹر، کمپیوٹرز مینوفیکچرنگ کے ابتدائی ادارے، کمپیوٹر پروگرامنگ کا ابتدائی احوال، اولین مین فریم کمپیوٹرسسٹم، سپر کمپیوٹرز، منی کمپیوٹرز، مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹک کمپیوٹر، کمپیوٹر کی اِن پُٹ اور آؤٹ پُٹ ڈیوائسز، کمپیوٹر گرافکس کی معلومات، کمپیوٹر گیمز، پرسنل کمپیوٹر، موبائل کمپیوٹنگ، نیٹ ورکنگ اور ویب سروسز شامل ہیں۔

اس نمائش گاہ میں دنیا کا اولین تجارتی پرسنل کمپیوٹرKenbak-1بھی موجود ہے۔ 256 بائٹ کی میموری والے اس کمپیوٹر کو 1971میں John Blankenbaker نے تخلیق کیا تھا۔ مشہور کمپیوٹر کمپنی IBMکا اولین پرسنل کمپیوٹرIBM PCماڈل نمبر5150 بھی نمائش گاہ میں موجود ہے۔ اس نمائش گاہ میں مجموعی طور پر 20گیلریاں ہیں، جن میں شائقین کے لیے ان مول اور بیش بہا معلومات کو یک جا کردیا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نمائش گاہ کی مکمل سیر ’’آن لائن‘‘ رہتے ہوئے بھی کی جاسکتی ہے۔ مذکورہ نمائش گاہ کے علاوہ کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں دیگر نمائش گاہیں بھی ہیں جن میں 1860کے مشہور ماہر ریاضیات اور کمپیوٹنگ ’’چارلس بیبیج(Charles Babbage) ‘‘ کے انتقال کے باعث اس کے نامکمل رہ جانے والے میکینکل کیلکیولٹر Difference Engine کو مکمل کرکے رکھا گیا ہے۔ یہ انجن مکمل طور پر عمل پذیر ہے۔ میوزیم میں اسی طرح دنیا کا پہلا ’’ڈیجیٹل ویڈیو گیم (Spacewar!)‘‘ کھیلنے کی سہولت سے آراستہ ’’PDP-1منی کمپیوٹر‘‘ بھی محفوظ حالت میں موجود ہے۔ میوزیم کا ایک اور اہم حصہ گوگل کی ’’اسٹریٹ ویو گیلری‘‘ ہے، جہاں سہ جہتی سافٹ ویئر ’’گوگل میپ‘‘ اور ’’گوگل ارتھ‘‘ کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

کمپیوٹر ہسٹری میوزیم کے چیف ایگزیکٹیو کے فرائض سا بق میڈیا ایکسپرٹJohn Hollar جولائی2008سے انجام دے رہے ہیں۔

٭کمپیوٹر اسپائل میوزیم، برلن
Computerspielemuseum Berlin
جرمنی کے شہر برلن میں واقع یہ میوزیم بنیادی طور پر’’کمپیوٹر ویڈیو گیمز‘‘ کے تاریخی مجموعے(Collections) پر مشتمل ہے۔ اس میوزیم کو ’’کمپیوٹر گیمز میوزیم برلن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جرمن زبان میں Spieleکے انگریزی معنی گیمز(Games)کے ہیں۔1997میں قائم ہونے والا یہ میوزیم سن دوہزار تک کمپیوٹر گیمز کے شائقین کو متاثر کرتا رہا۔ تاہم سن دوہزار کے آخر میں اس عجائب گھر کی نمائش گاہ بند کرکے تمام نوادرات اور کمپیوٹر گیمز کو صرف آن لائن دیکھنے تک محدود کردیا گیا تاہم 2011 میں عجائب گھر کی انتظامیہ نے میوزیم کو عام عوام کی نمائش کے لیے کھول دیا۔ اس وقت یہ میوزیم برلن کے نواحی علاقے Friedrichshain میں عوام کے لیے مکمل تفریح اور معلومات کا مرکز بن چکا ہے۔

اپنے قیام سے لے کر اب تک میوزیم میں 30سے زاید نمائشیں منعقد کی جاچکی ہیں۔گذشتہ پانچ سال میں اس میوزیم میں چھے لاکھ افراد آچکے ہیں۔ تقریباً 22 ہزار کمپیوٹر ویڈیو گیمز اور ان سے متعلق اشیا عجائب گھر میں محفوظ ہیں، جب کہ اسی شعبے سے متعلق دس ہزار معیاری رسالے بھی میوزیم کا حصہ ہیں۔ تقریباً تین سو کی تعداد میں گھریلو کمپیوٹر گیمز کے کنسول سسٹم سے آراستہ اس میوزیم میں تاریخی کمپیوٹر پوسٹر اور ہینڈ بک بھی رکھی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ’’کمپیوٹر اسپائل میوزیم برلن‘‘ میں ’’انٹرٹینمینٹ سافٹ ویئر‘‘ اور ’’ہارڈویئر‘‘ یورپ کے کسی بھی عجائب گھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد میں محفوظ ہیں۔ برلن کے ’’Booster کلب برائے یوتھ اینڈ سوشل ورک‘‘ اور وزارت تعلیم و تحقیق کے زیراہتمام چلنے والا یہ میوزیم یورپی یونین ممالک کے تحقیقی پروجیکٹPLANETSکا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ میوزیم 2002 میں ’’جرمن چلڈرن کلچر ‘‘ انعام بھی حاصل کرچکا ہے۔

میوزیم میں 1951میں تخلیق کردہ تاریخی اور اولین عوامی ڈیجیٹل ویڈیو گیمNimrodبھی محفوظ ہے۔ اسی طرح میوزیم میں موجود ’’Wall of Hardware‘‘ میں ایپلII، کموڈورPET، اٹاری، ورٹیکز،1980 میں ویڈیو گیمز کے شہرۂ آفاق جاپانی ادارے Nintendo کے پیش کیے گئے۔ ویڈیو گیمز اور ویڈیو گیمز کنسول سسٹم سے آراستہ پلے اسٹیشن سیریز کے مختلف ابتدائی ویڈیو گیمز سمیت لاتعداد کمپیوٹر گیمز موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیے گئے ہیں۔ اسی طرح مشین میں ’’سکے‘‘ ڈال کر ویڈیو گیمز کھیلنے والی1970کی اولین مشین، جسے ’’ Pong Machine‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھی میوزیم کی زینت ہے، جب کہ1980کا مشہور زمانہ جاپانی آرکیڈ ویڈیو گیم Pacman اور شہرہ آفاق کلاسیکل گیم Rave Snakeبھی میوزیم کا حصہ ہیں۔

٭ہینز نیکسڈورف میوزیم فورم
Heinz Nixdorf MuseumsForum
جرمنی سے تعلق رکھنے والے مشہور زمانہ تاجر اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے سرخیل Heinz Nixdorfکے نام سے منسوب یہ کمپیوٹر میوزیم2009 تک دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر عجائب گھر مانا جاتا تھا۔ جرمنی کے شہرPaderborn میں واقع یہ عجائب گھر ہینز نیکسڈورف کی کمپنی Nixdorf Computer AG کی عمارت میں1992سے1996کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے افتتاح سے اب تک اوسطاً سالانہ سوا لاکھ افراد کو کمپیوٹر کی تاریخ سے روشناس کرانے والے اس میوزیم میں دنیا کے بہت سے سربراہان مملکت بھی آچکے ہیں۔ اگرچہ میوزیم کمپیوٹر کی اشیاء سے متعلق بنایا گیا ہے۔ تاہم اس میں پیغام رسانی کے شعبے کے حوالے سے گذشتہ پانچ ہزار سال سے لے کر موجود زمانے تک کی معلومات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔

دو منزلوں پر واقع اس میوزیم میں تین ہزار قبل مسیح کے قدیم تہذیبی علاقے ’’میسوپوٹیما‘‘سے لے کر موجودہ انٹرنیٹ کے دور کی ترقی اور ترویج کو شائقین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ چھے ہزار مربع میٹر پر پھیلے اس عجائب گھر میں کمپیوٹر سسٹمز کی تاریخی حوالوں سے دو ہزار اشیاء محفوظ ہیں، جب کے مجموعی طور پر ابلاغ اور پیغام رسانی کے حوالے سے دس ہزار سے زاید نادر و نایاب اشیاء محفوظ ہیں۔ میوزیم میں کمپیوٹر کے اطلاعاتی نشانا ت کے حوالے سے نمبر، سمبل اور سگنلز گیلری، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی میکنیکل ترقی کی گیلری، کمپیوٹر اور اس سے متعلق آلات کی دفاتر میں روزمرہ استعمالات کی گیلری، کمپیوٹر سسٹمز کے تیکنیکی طور پر کام کرنے کے بنیادی طریقۂ کار سے متعلق گیلری اور مختلف کاروبار اور پیشوں کے لیے تخلیق کیے گئے مخصوص انداز کی کمپیوٹرز مشین کا شعبہ قابل ذکر ہے۔

میوزیم کا Wall of Fameکا شعبہ بھی شائقین کا پسندیدہ حصہ ہے، جہاں کمپیوٹر زکی ترقی اور ترویج کے مختلف مراحل میں خدمات انجام دینے والوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عجائب گھر میں 1961سے معرض وجود میں آنے والے ’’الیکٹرانک پاکٹ کیلکولیٹرز‘‘ کا خزانہ بھی محفوظ ہے۔ عجائب گھر کا ایک اور خاص شعبہ ’’موبائل فون وال‘‘ ہے، جس میں1992کے موبائل فون نیٹ ورک ’’D-network‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ عہد کے اسمارٹ فون کو پیش کیا گیا ہے۔ اس شعبہ میں لگ بھگ پانچ سو موبائل فون کے اولین ماڈل محفوظ ہیں۔

٭لیونگ کمپیوٹر میوزیم
Living Computer Museum
امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیٹل میں قائم اس عجائب گھر کاعوامی افتتاح 25 اکتوبر2012کو کیا گیا۔ تاہم اس سے قبل 2006 سے مائیکروسافٹ کمپنی کے مشترکہ بانی Paul Allen میوزیم بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ پندرہ ہزار مربع فٹ پر مشتمل اس عجائب گھر کا خاصہ یہاں پر موجود تمام قدیم کمپیوٹر اور اس سے متعلق اشیاء کا مکمل طور پر متحرک ہونا ہے۔ اسی مناسبت سے عجائب گھر کا نام’’ Livingکمپیوٹر میوزیم‘‘ رکھا گیا ہے۔ عجائب گھر میں 1971کاXerox Sigma 9 کمپیوٹراور ڈوئل پروسیسر پر مشتملKL-10 سسٹم 10کمپیوٹر اور اسی سیریز کا1974کا سسٹم 20کمپیوٹرقابل ذکر ہیں، جب کہ عجائب گھر میں مائیکروسافٹ کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کے مختلف ابتدائی ایڈیشن بھی محفوظ ہیں۔

میوزیم میں مائیکرو سافٹ کے حوالے سے ایک دل چسپ سافٹ ویئر ’’مائیکروسافٹ بوب‘‘(Microsoft Bob)کی موجودگی بھی ہے 1995میں ریلیز ہونے والا مائیکروسافٹ کا یہ ناکام ترین سافٹ وئیر اگرچہ لوگوں کے ذہن سے اتر چکا ہے، تاہم عجائب گھر میں اس کی موجودگی مائیکروسافٹ کی تاریخ کے اہم حصے کے طور پر رکھی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مشہور رسالے ٹائم میگزین نے اس سافٹ ویئر کو نوے کی دہائی کے سب سے خراب یا ناکام پچاس سافٹ ویئر میں شامل کیا تھا۔

اس کے علاوہ عجائب گھر میں مین فریم سسٹم کے حوالے سے 1970کی دہائی کے Burroughs کمپیوٹر سسٹم، کنٹرول ڈیٹاکارپوریشن سسٹم،Cray سسٹم، ہنی ویل،IBM اور سائینٹفک ڈیٹا سسٹم شامل ہیں، جب کہ منی کمپیوٹرز میں ڈیٹا جنرل کمپنی کے Novaاور Eclipseسسٹم، ڈیجیٹل ایکوپمنٹ کارپوریشن کی مختلف سیریز، ہیولٹ پیکارڈ کے HP1000اور HP 2000سیریز کے کمپیوٹر، انٹراڈیٹا اور پرائم کمپنیوں کے ابتدائی ماڈل سمیت مختلف کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں کی تخلیق کردہ اولین کمپیوٹر اشیاء عجائب گھر میں موجود ہیں۔

٭امریکن کمپیوٹر میوزیم
American Computer Museum
1990میں تعمیر کیا جانے والا یہ میوزیم ا پنے قیام کی تاریخ کے لحاظ سے سب سے قدیم کمپیوٹر میوزیم کا درجہ رکھتا ہے، جسے کمپیوٹرز سے محبت کرنے والے میاں بیوی جوڑے ’’باربرا‘‘ اور George Keremedjievنے نیوجرسی کے علاقے پرنسٹن میں قائم کیا تھا۔ بعدازاں میوزیم کو ریاست مونٹانا کے شہر Bozeman میں منتقل کردیا گیا ’’امریکن کمپیوٹر اینڈ روبوٹکس میوزیم ‘‘ کے نام سے بھی شہرت رکھنے والے اس میوزیم میں ابتدائی زمانے کے روبوٹس کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ ان روبوٹس میں نہ صرف تجارتی روبوٹس شامل ہیں بل کہ سائنسی ادب میں پیش کیے جانے والے تصوراتی روبوٹس کو بھی عملی شکل دے کر نمائش کا حصہ بنادیا گیا ہے۔

1980 میں خریدے گئے سن 1820کے ایک میکنیکل کیلکولیٹر (Arithmometer) سے آغاز کیے جانے والے اس میوزیم میں اب ہزاروں کی تعداد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اشیا محفوظ کی جاچکی ہیں، جن میں مونٹانا ریاست کا سب سے قدیم ٹیلی فون سیٹ، ٹیلی فون سوئچ بورڈ، کیلکولیٹر، دفتری استعمال کے قدیم آلات، جمع تفریق کی مشینیں اور درجنوں مین فریم اور پرسنل کمپیوٹر موجود ہیں۔ چھے ہزار مربع فٹ پر محیط اس عجائب گھر میں1956میںBurroughsکارپوریشن کا تخلیق کردہ کمپیوٹر ماڈل 205بھی رکھا ہوا ہے۔ یہ کمپیوٹر ساٹھ فٹ لمبا اور چھے فٹ اونچا ہے، جب کہ 1964کا IBMکا بارہ سو پونڈ وزنی کمپیوٹرIBM 1620بھی قابل ذکر اشیاء میں سے ایک ہے۔

اس کے علاوہ چاند پر بھیجے جانے والے 1966کے ’’اپالو مشن ‘‘ کی تیاری میں شامل ’’اپالو گائیڈنس کمپیوٹر‘‘(AGC) کا ابتدائی ماڈل بھی میوزیم کا حصہ ہے۔ میوزیم میں کمپیوٹر کی تخلیق کے چار مختلف ادوار ریلے سسٹم، ویکیوم ٹیوب، ٹرانسسٹر اور مائیکرو چپ کے حوالے سے بھی گیلری بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کیلکولیٹر، ایپل کمپیوٹر کمپنی، وائرلیس کمیونیکشن (وائرلیس سسٹم سے انٹرنیٹ)، ٹیلیگراف، پنچ کارڈ اور پرسنل کمپیوٹر کی گیلریاں بھی شائقین کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ عجائب گھر کی انتظامیہ کی جانب سے شائقین کے لیے داخلہ مفت ہے۔

٭دی نیشنل میوزیم آف کمپیوٹنگ
The National Museum of Computing
کمپیوٹر سسٹمز کی تاریخ وار حفاظت اور نمائش کے حوالے سے برطانیہ کا ’’دی نیشنل میوزیم آف کمپیوٹنگ‘‘ (TNMOC)میوزیم Bletchleyپارک کے وسیع وعریض قطعہ اراضی کے ایک حصے میں بنایا گیا ہے۔ میوزیم کے لیے بنائے گئے بلاک Hکی تعمیر2007میں مکمل ہونے کے بعد اس عجائب گھرکا باضابطہ افتتاح کیا گیا۔ جنوب مشرقی انگلینڈ کے علاقے بکنگھم شائر میں واقع اس میوزیم میں دوسری جنگ عظیم میں برطانوی افواج کے زیراستعمال Colossus سیریز کے ’’مارک1‘‘اور ’’مارک 2 کمپیوٹر‘‘ بھی موجود ہیں۔ جرمن افواج کے مختلف ’’خفیہ کمپیوٹرکوڈز‘‘ توڑنے اور پڑھنے میں استعمال ہونے والے یہ کمپیوٹر مکمل طور پر ’’پروگرامیبل‘‘ تھے اور ’’الیکٹرانک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی‘‘ کی کمپیوٹر سسٹمز میں استعمال کی اولین مثال تھے۔

اس کے علاوہ 1951کے ڈھائی ٹن وزنی ’’ Harwell Dekatron کمپیوٹر‘‘ اور برطانوی کمپنی ’’ایلیٹ برادرز‘‘ کے ’’ Elliott 803کمپیوٹر‘‘ بھی دوبارہ فعال کرکے میوزیم کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ میوزیم کا ایک حصہ کمپیوٹر کی خبروں اور معلومات کے حوالے سے دنیا کے اولین رسالے ’’کمپیوٹر ویکلی‘‘ سے متعلق ہے۔ اس حصے میں کمپیوٹر ویکلی کے چالیس سال سے لے کر موجودہ دور تک کے تمام رسالے 104والیوم کی تعداد میں جمع کرکے رکھے گئے ہیں۔

یہ زبردست آرکائیو بطور اعزازی کارکن کام کرنے والے نیشنل فزیکل لیبارٹری(NPL) کے سابق کارکن Brian Aldousکی محنت کا نتیجہ ہے میوزیم کی ’’سافٹ ویئر گیلری‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے، جہاں کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج کی تاریخ ’’ٹائم لائن‘‘ بنیاد پر محفوظ کی گئی ہے۔ اس گیلری میں کمپیوٹر ماہرین کوایک ایسا سافٹ وئیر پروگرام لکھنے کا چیلینج بھی دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ابتدائی 20 پرائم نمبروں کی ترتیب وار شکل میں ظاہر ہو۔ میوزیم کے ڈائریکٹر David Hartley اور ان کی ٹیم نے عجائب گھر میں مجموعی طور پر تیرہ گیلریاں تخلیق کی ہیں، جہاں پر کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے زبردست معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

٭دی کمپیوٹر میوزیم
The Compute Musuem
نیدر لینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم کی مرکزی جامعہ کے پروفیسرEdo Hans Dooijesکی زیرنگرانی کام کرنے والا ’’دی کمپیوٹر میوزیم‘‘1991سے کمپیوٹرٹیکنالوجی کے شائقین کو معلومات فراہم کررہا ہے۔ اس میوزیم میں نیدرلینڈ میں کمپیوٹر کے استعمال کے حوالے سے تاریخی اشیاء محفوظ کی گئی ہیں، بالخصوص نیدرلینڈ میں 1958میں تخلیق کیے گئے اولین کمپیوٹرX8 اورElectrologica X1 بھی یہاں محفوظ ہیں۔ ’’ ڈچ کمپیوٹر ہیر ی ٹیج ‘‘ کے تعاون سے کام کرنے والا یہ میوزیم آن لائن سہولت سے بھی آراستہ ہے۔

٭FWTیونیسکو کمپیوٹر میوزیم
FWT UNESCO Computer Museum
اٹلی کے شمالی علاقے Paduaمیں واقع یہ میوزیم یونیسکو کی Friends of the World Treasuresکمیونٹی کے زیراہتمام کام کرتا ہے۔ اس میوزیم میں ہزاروں کی تعداد میں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اشیاء جمع کی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ میوزیم ایک نمائش گاہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جہاں سال بھر طالب علموں کے لیے مختلف کمپیوٹر کورسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ میوزیم میں تقریباً تمام صف اول کے کمپیوٹر مینوفیکچرنگ اداروں کی اولین تخلیقات رکھی گئی ہیں۔

٭آسٹریلین کمپیوٹر میوزیم سوسائٹی
Australian Computer Museum Society
آسٹریلین کمپیوٹر میوزیم سوسائٹی1994سے سرگرم عمل ہے۔ سڈنی میں واقع اس سوسائٹی کے مقاصد میں سافٹ ویئر، ہارڈویئر اور آپریٹنگ سسٹمز اور اس سے متعلق تاریخی دستاویزات اور لٹریچر کو محفوظ بنانا ہے۔ میوزیم میں 1949کا پہلا آسٹریلین ڈیجیٹل کمپیوٹر CSIR Mark 1 بھی محفوظ ہے۔ اس تاریخی کمپیوٹر کو CSIRACبھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 1956میں استعمال ہونے والا WREDACکمپیوٹر بھی موجود ہے۔

میوزیم میں گھومتے ہوئے سیاح مین فریم کمپیوٹر سے لے کر منی کمپیوٹر، مائیکرو کمپیوٹر اور پرسنل کمپیوٹرز کی مختلف سیریز کو تاریخی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ مشہور آسٹریلوی ماہر فلکیات John Deaneکی سربراہی میں تشکیل پانے والا یہ میوزیم برآعظم آسٹریلیا کے سب سے بڑے اور اہم کمپیوٹر میوزیم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

آن لائن میوزیم
On Line Musuem

کمپیوٹر سسٹمز کے حوالے سے مذکورہ عجائب گھروں کے علاوہ کچھ ایسے بھی عجائب گھر ہیں جو آن لائن رہتے ہوئے کمپیوٹر سسٹم کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔

ان میں bitsaversآرگنائزیشن کی ویب سائٹ، فرانس کے کمپیوٹر مینوفیکچرنگ کے ادارے بل کارپوریشن کا ’’بل کمپیوٹر ہسٹری‘‘ آن لائن میوزیم، امریکا کی جامعہ مینوسوٹا میں قائم Charles Babbage انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ، جرمنی کی جامعہStuttgartکا آن لائن ’’کمپیوٹر میوزیم آف اسٹٹ گارٹ‘‘، نیویارک کی جامعہ کولمبیا کا آن لائن ’’کولمبیا یونیورسٹی کمپیوٹنگ ہسٹری میوزیم‘‘، قدیم زمانے سے دفاتر میں استعمال ہونے والی اشیاء جمع کرنے کے شوقین افراد کی ’’ارلی آفس میوزیم‘‘ کی ویب سائٹ http://www.officemuseum.com/، جامعہ پنسلوانیا کا آن لائن’’ENIACمیوزیم‘‘، مشہور ڈیٹا بیس ادارے IBMکا اپنے ادارے کے بارے میں آن لائن ’’ہسٹری آرکائیو‘‘، انفارمیشن پروسسینگ سوسائٹی برائے جاپان(IPSJ)کا آن لائن کمپیوٹر میوزیم،

فرانس کے دو شہریوں کا تخلیق کردہ آن لائن ’’اولڈ کمپیوٹرمیوزیم‘‘، روس کے مشہور پروگرامرEduard Proydakovکا ’’رشین ورچوئل کمپیوٹر میوزیم‘‘ مشہور زمانہ ایپل کمپنی کا اپنے ادارے کے حوالے سے آن لائن جامع عجائب گھر ’’دی ایپل میوزیم‘‘، سرچ کی سہولت سے آراستہ ذاتی کمپیوٹر کلیکشن آن لائن میوزیم ’’دی کمپیوٹر کلیکٹر‘‘، برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی کمپیوٹر لیبارٹری کا کمپیوٹر سائنس اور کمپیوٹر ہسٹری کی معلومات سے بھرے خزانے پر مشتمل ’’ورچوئل میوزیم آف کمپیوٹنگ(VMoC)اور رشین فیڈریشن کے ’’کمپیوٹر ویڈیوکارڈ‘‘ جمع کرنے کے شوقین نوجوان Slaventus کا ذاتی آن لائن ’’ویڈیو کارڈ ورچوئل میوزیم‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان آن لائن میوزیم سے نہ صرف معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں بل کہ منفرد نوعیت کی کمپیوٹر اشیاء کی خرید و فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔

ونٹاج کمپیوٹر فیسٹول
Vintage Computer Festival

پرانے یا منسوخ شدہ ماڈلز کے کمپیوٹر ز کے شائقین کے لیے سجائے جانے والے اس میلے کا افتتاح 1997میں ہوا تھا جو اب اپنی منفرد روایات کے ساتھ کمپیوٹرز کے عالمی میلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کیلی فورنیا کے علاقے لیور مور سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر ایکسپرٹ ’’سیلام اسماعیل (Sellam Ismail)‘‘ کی کاوشوں اور کوششوں سے شروع ہونے والے اس میلے کا مقصد ان کمپیوٹرز سسٹم کے بارے میں معلومات ایک جگہ اکھٹی کرکے رکھنا ہے، جو یا تو ختم کردیے گئے ہیں یا اپنے پرانے طریقے سے ہی کام کررہے ہیں، مثلاً 1972میں استعمال ہونے والا محض 8k میموری سے آراستہ DEC PDP-12منی کمپیوٹر جو آج بھی متحرک ہے۔ سیلام اسماعیل کے کمپیوٹر خزانے کا اہم ترین نگینہ ہے۔

ونٹاج کمپیوٹر میلے کا انعقاد اب تک امریکا کی سلیکون ویلی، جرمنی اور برطانیہ میں ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ سیلام اسماعیل کے اس میلے میں لگ بھگ تین ہزار پرانے کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز مداحوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، جو دنیا بھر میں کمپیوٹر کا کسی فرد کی جانب سے ذاتی حیثیت میں جمع کیا جانے والا سب سے بڑا مجموعہ ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اسکریپ یا منسوخ شدہ کمپیوٹروں کی مجموعی قیمت اپنی اہمیت کے باعث پانچ کروڑ روپے مالیت سے زاید ہوچکی ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ میلے میں لگ بھگ ساڑھے تین ہزار کمپیوٹر سے متعلق تاریخی کتابیں بھی رکھی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ کتابیں 1875میں شائع ہوئی ہیں۔ اسی طرح بیس ہزار سے زاید کی تعداد میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے متعلق میگزین بھی میلے کا حصہ ہیں۔ اپنے قیام1997سے اپریل 2013 تک ونٹاج کمپیوٹر میلے کے 37 ایونٹ امریکا اور یورپ کے مختلف شہروں میں کام یابی سے منعقد کیے جاچکے ہیں۔

 

 

ڈاکٹر عقیلہ کیانی : متانت اور دانش کا حَسین پیکر

$
0
0

 ڈاکٹر عقیلہ کیانی کوئی ایسی شخصیت تو نہ تھیں کہ دنیا سے چلی جاتیں اور دوسروں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی، لیکن ایسا ہوا۔ ایک تو شاید اس لیے کہ انہوں نے کوئی پندرہ سولہ سال قبل اپنی بستی ہی اتنی دور جا کر بسائی تھی کہ بڑی حد تک پاکستان میں ان کے جاننے اور اُن کو ماننے والے ان سے کٹ کررہ گئے تھے۔

ظاہر ہے کہ کینیڈا سے آنا یا یہاں سے وہاں جانا کوئی ایسا آسان بھی نہیں۔ وہ دو تین سال میں اِدھر کا چکر لگا لیتی تھیں، لیکن پچھلے پانچ، چھے سال سے یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ پھر کچھ اِدھر کے کوائف بھی ایسے ہیں کہ لوگ علائقِ روزگار میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ بالکل سامنے کی چیزیں بھی اب شاذونادر ہی اپنی طرف متوجّہ کرپاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ زمانے کے رنگ ڈھنگ بھی بدل رہے ہیں۔ چشم پوشی عام ہوتی جاتی ہے۔ آج کے محسن کل کے اجنبی بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے انتقال کی خبر کوئی دوہفتہ قبل کچھ اس طرح ملی کہ اُن کے صاحبزادے نے اسلام آباد سے فون پر اطلاع دی کہ وہ کسی کام سے کراچی آنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس دوران وہ مجھ سے ملنا بھی چاہتے ہیں۔

دورانِ گفتگو انہوں نے اپنی والدہ کی رحلت کا ذکر کیا تو یہی سب باتیں میرے ذہن میں آئیں کہ کس طرح مکانی فاصلے، روزگار کے مسائل، اور معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتے ہوئے بے رخی کے روّیے انسانوں کے درمیان فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔ دنیا کی اچھی جامعات میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی سینیئر پروفیسر وفات پا جاتا ہے تو اُس کے لیے ایک اکیڈمک ریفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مرحوم کی علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے اور اُس کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں رہی۔ ماضی میں کبھی کبھار اگر کسی سینیئر استاد کے لیے ریفرنس کا اہتمام کر دیا جاتا تھا تو اب ایسے ریفرنسوں کی تعداد اور بھی گھٹ چکی ہے اور شاذونادر ہی کبھی کسی ریفرنس کا سننے میں آتا ہے۔ سو اگر ہماری جامعہ میں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے شایانِ شان کوئی علمی ریفرنس منعقد نہیں ہوا تو افسوس تو ہوتا ہے، مگر حیرت نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر عقیلہ کیانی جن کا پورا نام عقیلہ برلاس کیانی تھا، جامعہ کراچی کی ایک انتہائی مقبول اور فعال استاد تھیں۔ انہوں نے سوشیالوجی کے مضمون میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ ایک طویل عرصہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے قیام کے بعد خوش قسمتی سے یونیورسٹی کو بہت سے ایسے اساتذہ مل گئے جنہوں نے آئندہ برسوں میں اپنے اپنے شعبے کی ترقی کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ سوشیالوجی یا عمرانیات کے شعبے کی خوش قسمتی تھی کہ اس کو ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن تھا۔ انہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل 44۔1943ء میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ 1949ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے شعبے میں ایم۔ اے کیا۔ اور پھر 1953ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال بعد انہوں نے امریکا ہی میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔

کوئی تین عشروں کے بعد جب کہ وہ تدریس اور تحقیق کا طویل تجربہ حاصل کر چکی تھیں، انہوں نے ایک اور ایم ۔ اے کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ہمیشہ علم حاصل کرنے کی جستجو رہتی تھی اور وہ مختلف علوم میں دست گاہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ اُن کی اس طلبِ علم کی خواہش کے بہت سے مظاہر ہم نے اُس وقت بھی دیکھے جب وہ ریٹائر ہوچکی تھیں۔

1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر کیانی امریکا سے فارغ التحصیل ہوکر پاکستان آئیں تو جامعہ کراچی میں انہیں ان افکار کی ترسیل کا موقع ملا جن سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران وہ روشناس ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے سوشیالوجی کے شعبے کو بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس مضمون کے لیے نصاب کی تیاری اور تحقیق کے نئے میدان دریافت کرنے میں اُن کا بڑا اہم کردار تھا۔ خود اُن کی اپنی تحقیقات کا رخ زیادہ تر دیہی سماجیات کی طرف تھا۔ 60ء اور 70ء کے عشرے میں جب کہ علم البشریات (Anthropology) کا مضمون پاکستان میں نیا نیا متعارف ہو رہا تھا، ڈاکٹر صاحبہ اس کی ترقی اور فروغ میں پوری طرح منہمک رہیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن کے منصب پر بھی ایک عرصہ فائز رہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ سوشیالوجی اور سوشل ورک کے دو شعبہ جات کی سربراہ تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ مختلف ملکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرنے والی اپنے زمانے کی فعال ترین شخصیت تھیں۔لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کا وزن محسوس کرتے ہوئے اُن کو اپنا فیلو مقرر کیا۔

ایک زمانے میں پاکستان میں ایک تنظیم فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن بہت فعال تھی۔ اس فیڈریشن نے مختلف جامعات میں پڑھانے والی اساتذہ کو مجتمع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر کیا نی اس تنظیم کی بھی صدر رہیں۔

اسی طرح وہ پاکستان سوشیولوجیکل ایسوسی ایشن کی صدارت کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی تحقیق کئی مقالوں کی شکل میں اعلیٰ پائے کے جریدوں میں محفوظ ہے۔ جامعہ کراچی کے تدریس وتحقیق کے وسیع تر تجربے کے بعد ایک موقع پر وہ جب امریکا اور کینیڈا گئیں اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا تو اس دوران انہوں نے یونیورسٹی آف الاسکا (امریکا) میں سوشیالوجی اور سوشل ورک کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔

1996ء میں انہیں سئیٹل (واشنگٹن) میں ویمینز فیڈریشن فار ورلڈ پیس نے اپنی کانفرنس میں مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا۔

ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی تحقیقی مطبوعات میں ایک واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ سماجی تبدیلی کی حرکیات (dynamics) کو سمجھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے جدید تحقیقی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کے اندر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت اور ایک خاص وقت میں معاشرے کے اندر پائے جانے والے تضادات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ اسی طرح انہوں نے دیہی معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک زمانے میں پشاور میں قائم پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیولپمنٹ ملک کا ایک مؤقر ادارہ تھا جو دیہی معاشرت کے احوال اور اُس کے کوائف کو اپنی تحقیقات کا موضوع بناتا تھا۔ ڈاکٹر کیانی کا اس ادارے سے بہت گہرا تعلق رہا۔ 1971ء میں ڈاکٹر کیانی کی کتابEmerging Patterns of Rural Leadership in West Pakistanاسی ادارے نے شائع کی۔ 1974ء میں ایک اچھوتے موضوع پر اُن کی ایک کتاب کراچی یونیورسٹی نے شائع کی۔ اس کتاب کا موضوع یہ تھا کہ سماجی علوم کی تدریس میں تخلیقی ادب سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کا نام Creative Literature and Social Sciences تھا۔ یہ بڑی پر مغز کتاب تھی، جو ایک ورکشاپ پر بنیاد رکھتی تھی۔ اس ورکشاپ میں اردو اور سندھی ادب کے کئی ناولوں، افسانوں اور ڈراموں کو منتخب کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان کا سماجی تناظر کیا ہے اور پاکستانی معاشرے کی تفہیم اور تشریح میں اس تخلیقی ادب سے کس طرح مدد لی جاسکتی ہے۔ چناںچہ اس میں دکھایا گیا کہ سعادت حسن منٹو کی کہانی ’پانچ دن‘ قدرت اﷲ شہاب کا افسانہ ’غریب خانہ‘ جمال ابڑو کی سندھی کہانی ’بدتمیز‘، دلاور فگار کی نظم ’کراچی کا قبرستان‘ اور شوکت صدیقی کا ناول ’خدا کی بستی‘ کس طرح پاکستانی سماجی منظر نامے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے علمی اور تحقیقی کام کا بڑا حصہ فیلڈ ریسرچ پر مشتمل تھا۔ وہ صرف لائبریریوں پر اکتفا نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ براہ راست معاشرے کے مختلف حلقوں میں جاکر اور مختلف سوال ناموں کے ذریعے لوگوں کی آراء حاصل کرنے کے بعد اپنے نتائج مرتب کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے علمی سطح پر کام کرکے لوگوں میں اس موضوع پر شعور پیدا کیا، جب یہ موضوع بڑی حد تک ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے میں جہاں لوگ توہمات اور غلط تصورات کے اسیر تھے کوئی ایسی بات کرنا واقعی بہت مشکل تھا جو ذہنی پستی اور غیر سائنسی سوچ کے خلاف ہو۔ ڈاکٹر کیانی بتایا کرتی تھیں کہ اُن کو فیلڈ ریسرچ کے دوران بارہا کس قسم کے مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑا۔

اُن کی وہ تحقیقات جو مختلف معاشرتی برائیوں میں ملوث افراد سے متعلق تھیں اُن تحقیقات کے لیے بھی انہیں مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر کیانی میں ایک جذبہ ہمیشہ موجود رہا اور وہ یہ کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا ہے اور جو مواقع انہیں ملے ہیں اُن کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔

اپنی ذاتی زندگی میں ڈاکٹر عقیلہ کیانی پُر عزم اور مضبوط ارادے کی حامل انسان تھیں۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان کے ایک اہم رئیس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے والد مرزا شاکر حسین برلاس وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور انہوں نے برطانیہ سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ اُن کا تعلق نواب قاسم خان کے خاندان سے تھا جو مغل دربار کے رکن تھے۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی والدہ بی بی محمودہ بیگم سر دھنہ کے آخری نواب، نواب امجد علی شاہ کی صاحبزادی تھیں۔ رؤسا کے اس خاندان سے تعلق کے باوجود اُن میں غرور اور تکّبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ گھل مل جاتی تھیں اور اُن کی تعلیمی استعداد کو بڑھانے میں اپنی پوری کوشش کرتی تھیں۔ جن طالب علموں نے ان کے ساتھ تحقیق کا کام کیا وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ ڈاکٹر صاحبہ ان کے مسودات کو کئی کئی مرتبہ پڑھتی تھیں اور اُن کی اصلاح کرتی تھیں، تاکہ وہ خوب سے خوب تر بن سکیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی نے اپنے شوہر عبدالحمید کیانی کے جوان عمری میں انتقال کے بعد خود کو مجتمع رکھا اور اپنے تینوں بچوں کی تعلیم کا بہترین انتظام کیا۔ اُن کو زندگی میں دوسرا بڑا سانحہ اُس وقت پیش آیا جب ان کے ایک جوان صاحبزادے خالد کیانی اُن کے ساتھ جہاز میں دوران سفر حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر کیانی نے اپنی زندگی میں بڑے سے بڑے حادثے کا بڑی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔

بالکل آخر کے چند سالوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اب سے سات آٹھ سال قبل تک وہ جب بھی پاکستان آتیں تو جامعہ کراچی کا پاکستان اسٹڈی سینٹر اُن کا مستقل ٹھکانا بنا رہتا۔ وہ انتہائی زندہ دل اور ملنسار واقع ہوئی تھیں۔ وہ ہر شخص سے گھل مل جاتیں، اُس کی خیریت دریافت کرتیں، بہت سوں کے لیے ان کے پاس تحفے بھی ہوتے۔ طالب علموں سے ان کی بے تکلفی بھی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اُن سے ان کے ذاتی مسائل پر بھی باتیں کرتیں اور اُن کو عملی زندگی میں داخل ہونے کے حوالے سے مشورے بھی دیتیں۔

ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت میں بے پناہ وقار پایا جاتا تھا لیکن اس وقار میں کبھی تکبّر کی آمیزش ہم نے نہیں دیکھی۔ اُن کی گفتگو بڑی شگفتہ ہوتی۔ دورانِ گفتگو اکثر اُن کی حِسِّ لطیف کا بھی اظہار ہوتا، خاص طور سے جب وہ کوئی تازہ لطیفہ سن کر آئی ہوتیں اور اُس کو دوسروں تک پہنچا رہی ہوتیں۔ تب بات سے بات نکلتی جاتی اور محفل گلزار بن جاتی۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ہمارے سینٹر میں پڑھایا بھی تھا اور 1980ء کی دہائی کے برسوں کا یہی تعلق تھا جو ہمیشہ قائم رہا۔ ڈاکٹر صاحبہ جب بھی سینٹر آتیں تو سینٹر کی فضا بہت خوش گوار ہوجاتی۔

کبھی وہ اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا کیک لے کر آرہی ہوتیں، کبھی اُن کے ہاتھ میں گلدستہ یا گجرے ہوتے۔ انہیں خود بھی اچھا نظر آنا پسند تھا۔ اور وہ دوسروں کو بھی اچھا دیکھنا چاہتی تھیں۔ ایک موقع پر جب کہ وہ ستر، بہتر برس کی ہوں گی میں نے حیرت کا اظہار کیا کہ وہ ان دنوں کینیڈا میں کسی سمراسکول میں پھول بنانے کی ترکیب کیوں کر سیکھ رہی ہیں۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تو پیراکی بھی 55 سال کی عمر میں سیکھی تھی۔

تمام عمر سماجی مسئلوں کو سمجھنے اور اُن کے حل تلاش کرنے والی ڈاکٹر عقیلہ کیانی کو زندگی کے آخری برس کینیڈا میں وینکوور کے ایک اولڈ پیپلز ہوم میں گزارنے پڑے۔ ایک مرتبہ وہ کراچی آئیں تو خود انہوں نے اس تجربے کے بارے میں گفتگو کی۔ لیکن خلافِ توقع اس گفتگو میں نہ تو یاس اور بے چارگی کا کوئی عنصر تھا، اور نہ ہی کسی سے شکوہ وشکایت کا پہلو۔ بلکہ مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے اس تجربے کو بھی ایک پر لطف تجربہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے گھر میں جو دیگر بوڑھے لوگ رہتے ہیں انہی میں انہوں نے اپنے بہت اچھے دوست بنالیے ہیں جن کے ساتھ وہ گپ شپ کرتی ہیں، ٹیلی ویژن دیکھتی ہیں، اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے کے لیے باغوں میں جاتی ہیں۔ غرض انہوں نے زندگی کے اس حصے میں بھی لطف اور اطمینان کے پہلو تلاش کر لیے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی بیٹی لینا (جو کینیڈا ہی میں مقیم تھیں اور ہیں) آپ سے ملنے تو آتی ہوں گی۔ انہوں نے لینا کی بے پناہ مصروفیت کا ذکر کیا، لیکن وہ خوش تھیں کہ لینا اُن سے وقتاً فوقتاً ملنے کے لیے آتی رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کیانی سے جتنا عرصہ بھی تعلق رہا اُس میں مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اُن میں اور مجھ میں کتنا فاصلہ ہے۔ سچی بات ہے کہ فاصلہ تو بہت تھا، عمروں کا بھی، اور علم کا بھی۔ ظاہر ہے کہ وہ کہاں اور ہم جیسے کم مایہ کہاں۔ لیکن اگر ہمارے درمیان موجود فاصلے نظر نہیں آتے تھے تو یہ ڈاکٹر صاحبہ کا کما ل تھا۔ وہ دوسروں سے اُن کی سطح پر آکر جس طرح ایک تعلق قائم کرتی تھیں وہ ہر شخص کے دل میں اس احساس کو پختہ کر دیتا تھا کہ جیسے وہ واقعی ڈاکٹر صاحبہ کے برابر ہی کی کوئی ہستی ہے۔ 30 مارچ 2012ء کووینکوور میں جب ڈاکٹر صاحبہ نے دنیا سے رختِ سفر باندھنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ اپنے اکیانوے (91) سال کی انتہائی بھر پور زندگی پر شادمانی کے احساس کے ساتھ ساتھ انہیں اس پورے عرصے کی مہلت کے کم ہونے کا بھی کچھ نہ کچھ خیال ضرور رہا ہوگا۔ لیکن پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی ہوں گی کہ ؎

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

’’تار آیا، تار آیا‘‘ کی صدا، سدا کے لیے رخصت

$
0
0

اسلام آ باد:  چودہ جولائی2013 کی رات کو جب بھارت میں ٹیلی گرام سروس ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی تو اس کے سا تھ ہی بر صغیر پاک و ہند اور قرب و جوار کے ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک قدیم باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

پاکستان میں یہ سروس 2005 میں اور سری لنکا میں 2011 میں بند ہو چکی تھی ۔ اس سروس نے خطے کے عوام کی خوشیوں اور غموں سے متعلق فوری اطلاع کو ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ تک جس انداز سے نباہا، وہ ہماری رفتہ و گذشتہ معاشرت کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے۔ اسے ہمارا مورخ یا لکھاری ہر گز نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ماضی قریب تک تار کے آنے پر لوگ جو ردعمل ظاہر کرتے تھے اس کو بھول جانا یا بھلا دینا ممکن نہیں کیوں کہ وہ اب ہماری شاعری، فوک لور، ناٹک نوٹنکی اور فلم وغیرہ کا حصہ بن چکا ہے۔

برصغیر میں ٹیلی گرام ٹیکنالوجی 1851 میں آئی۔ پہلی الیکٹرک ٹیلی گراف لائن بنگال میں ڈالی گئی تھی جسے بعد میں آگرہ، بمبئی (اب ممبئی)، کلکتہ (اب کولکتہ)، لاہور، بنارس (اب واراناسی) اور دیگر شہروں سے جوڑ دیا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1830 کی دہائی کے دوران دو برطانوی موجد ولیم کوک اور چارلس وہیٹ اسٹون نے الیکٹرک ٹیلی گراف سسٹم ایجاد کیا تاہم بعض مؤرخین دعویٰ کرتے ہیں کہ درحقیقت پہلا ٹیلی گراف 24 مئی 1844 کو وجود میں آچکا تھا اور اس کے موجد سیموئل مورس نے پہلا ٹیلی گرام بھیجا تھا۔ اس سے قبل امریکا میں دو ہزار میل کے فاصلے تک پیغام پہنچانے کے لیے گھڑ سوار کو دس دن لگتے تھے۔ 20 اگست 1911 کو شام 7 بجے نیویارک ٹائمز کے دفتر سے کمرشل سروس کے ذریعہ دنیا بھر میں پہلا ٹیلی گرام بھیجا گیا اور یہ پیغام 28 ہزار میل کا سفر طے کرنے کے بعد 16.5 منٹ میں واپس آیا۔ سب سے پہلے امریکا میں آغاز ہونے والا یہ نظام سب سے پہلے ( 27 جنوری 2006 کو ) اختتام پذیر بھی امریکا ہی میں ہوا۔

امریکا میں شروع کی جانے والی یہ سروس محض ایک دہائی بعد ہی برصغیر پاک و ہند (1854) میں بھی عام لوگوں کے افادے کے لیے متعارف کرا دی گئی۔ اس وقت آزادی کی جنگ لڑنے والے انقلابی برطانوی کمیونیکیشن کو ٹھپ کرنے کے لیے اکثرو بیش تر ٹیلی گرام لائن کو کاٹ دیا کرتے تھے۔ بعد میں یہ سروس فوج کے جوانوں کواچھی یا بُری خبریں مثلاً چھٹیاں، ٹرانسفر، جوائننگ، جنگ اور ایمرجنسی سے مطلع کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

پاک و ہند کی معاشرت میں ٹیلی گرام یعنی ’’تار‘‘ آنے پر پہلا ردِ عمل اکثر نا خوش گوار ہوتا تھا، جب اور جہاں تار آیا کرتا تھا تو یہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی سانحے کی اطلاع ہوگی۔ بعض اوقات تو تار ملتے ہی پورا گھرانا ماتم کناں ہو جایا کرتا تھا کہ ضرور کسی کے مرنے کی خبر ہوگی اور یہ درست بھی ہے۔ ہمارے قدرے سست رو سماج میں آج بھی دکھ کی ترویج کو ترجیح دی جاتی ہے لہٰذا ہم ’’موت‘‘ کی خبر کی ترسیل بے تاخیر کرنا چاہتے ہیں سو برصغیر میں مرنے کی خبر پہنچانے کے لیے تار ہی کو ترجیح دی جاتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تار کا نام سنتے ہی لوگ دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتے تھے۔

مگر بعض اوقات صورتِ حال بڑی دل چسپ ہو جاتی تھی جب ڈاک بابو یا ڈاکیا تار پڑھ کر اہل خانہ کو مفہوم سمجھاتا کہ خاندان کے بڑے لڑکے کو نوکری کی کال آئی ہے یا اسی نوع کی کوئی اچھی خبر سامنے آتی تو سسکیاں قہقہوں میں بدل جاتیں۔ یاد رہے ڈاکیا اور ڈاک خانے کا انچارج ’’ڈاک بابو‘‘ ہمارے ماضی کا ایک مضبوط معاشرتی کردار ہے، اسے علاقے میں بڑی توقیر دی جاتی تھی۔ برصغیر پاک وہند کی معاشرت میں جہاں اور بہت ساری روایا ت اورچیزوں میں تبدیلی آئی ہے وہیں ڈاکیا، ڈاک بابو ، ڈاک خانہ اور ڈاک بنگلہ جیسی اصطلاحات بھی اب کم کم ہی سنائی دیتی ہیں، وجہ ایک ہی ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ گذشتہ چار عشروں میں ہر سطح پر رو نما ہونے والی تبدیلی نے اس تیزی سے رنگ جمایا ہے کہ آج خاکی رنگ کی وردی والے ڈاکیے کے بارے میں نئی نسل کو سمجھانا پڑتا ہے۔

آج کے بچے کوریئر سروس کے ’’کوریئر مین‘‘ کو تو جانتے ہیں مگر پاکستان پوسٹ کے ڈاکیے سے واقف نہیں، شاید اسی لیے اب باقی بچ جانے والے ڈاکیوں نے وردی پہننا ہی چھوڑ دی ہے۔ دیہات میں رہنے والے لوگوں کو تو اب بھی یاد ہو گا کہ کھیتوں اور باغات کے درمیان بنی پگ ڈنڈیوں پر جوں ہی ڈاکیے کی سائیکل نظر آتی یا سائیکل پر لگی گھنٹی کے بجنے کی آواز سنائی دیتی تو لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوجاتے تھے، صرف یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کہیں ان کا کوئی خط تو نہیں آیا۔ جنہیں منی آرڈر کا انتظار ہوتا وہ صبح ہوتے ہی ڈاکیے کی سائیکل کے ہینڈل پر لگی گھنٹی کی آواز پر کان لگا کر بیٹھ جاتے تھے، ڈاکیے کے انکار پر مایوس ہوجاتے اور اگلے دن کی آس پر پھر انتظار میں بیٹھ جاتے تھے، ڈاکیا اقرار میں سر کو جنبش دیتا تو باچھیں کھل جاتیں اور ڈاکیے کو نقد انعام دیا جاتا یا پھر منہ میٹھا کرایا جاتا۔

جب کہ بڑے شہروں کا حال کچھ یوں تھا کہ شہر میں صدر پوسٹ آفس کے سامنے لوگ لائن میں لگ کر خط لکھوایا کرتے تھے۔ خط لکھنے والوں میں ریٹائرڈ ڈاکیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔ لوگوں کا یہ عالم ہوتا کہ خط لکھوانے یا منی آرڈر فارم بھروانے کے لیے تجربہ کار ریٹائرڈ ڈاکیے کو ترجیح دی جاتی۔ یہ لوگ مرکزی ڈاک خانوں کے گرد صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے، اَن پڑھ افراد کے خط لکھنا یا منی آرڈر فارم بھرنا ڈاکیوں کا ذریعہ آمدن اور پرسکون معاش ہوتا تھا۔ ہماری معاشرت میںایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب خط لکھنا خواندگی کا معیار تصور ہوتا تھا۔

اکثر بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کم ازکم اتنا تو ضرور پڑھاؤ کہ اسے خط لکھنا آجائے۔ شادی کے وقت لڑکی کا رشتہ لانے والے سے پوچھا جاتا کہ لڑکی خط پڑھنا لکھنا جانتی ہے؟ سوال کا جواب اثبات میں ہوتا تو سسرال والے پھولے نہ سماتے تھے کہ چلو پڑھی لکھی لڑکی مل رہی ہے، سسر اتراتے پھرتے کہ پڑھی لکھی بہو بیاہ کر لا رہے ہیں۔

عشرے ڈیڑھ عشرے پہلے تک شادی بیاہ، خوشی غمی یا کسی اور اہم تقریب میں شرکت کے لیے رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت نامے بہ ذریعہ خط یا ٹیلی گرام دیے جاتے تھے۔ امتحانی رزلٹ بھی ڈاکیا تقسیم کرتا تھا اور پاس ہونے والے بچے کا رزلٹ تب تک نہ دیتا جب تک اسے کوئی شیرینی نہ ادا کر دی جاتی۔ اگر تار وصول کرنے والا اَن پڑھ ہوتا تو ڈاکیا ہی اسے تار پڑھ کرسناتا تھا، خبر بری ہوتی توڈاکیا چہرے پر دکھ یا سنجیدگی طاری کر لیا کرتا اور اچھی اطلاع پر آواز و انداز کو خوش گوار بنا لیا کرتا۔ دکھ پر خاموشی سے مڑ جاتا لیکن اگر خبر کسی بہن ، بھائی، باپ یا کسی دوسرے رشتے دار کے آنے کی ہوتی یا رشتہ پکا ہونے کا پیغام ہوتا تو ڈاک بابو اپنی فیس لیے بغیر نہ ٹلتا۔ دیہی علاقوں میں تو شان ہی کچھ اور ہوتی۔ ڈاکیے اور منشی (خط نویس) کی بڑی آؤ بھگت ہوتی بل کہ انہیں بے شمار لوک گیتوں کا کردار بھی بنایا گیا مثلاً

تینوں دے آں گی پنج پتاسے
وے منشی خط لکھ دے
ترجمہ:’’ اے منشی خط لکھ دے میں تجھے پانچ بتاشے دوںگی‘‘۔۔۔ یا پھر
چٹھی ذرا سیاں جی نام لکھ دے
حال مرے دل کا تمام لکھ دے

دن چڑھتے ہی خاکی وردی اور پاؤں میں پشاوری چپل پہنے، سردی ہو یا گرمی ڈاکیا خطوط، لفافوں کا تھیلہ اٹھائے، ناک کہ پھننگ پر عینک ٹکائے، ڈاک بانٹنے نکل پڑتا۔ ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ جب ہمارے محلے میں ڈاکیا آتا تھا تو سب اس کو گھیر کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے اپنے پیاروں کے خطوط کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، ایک اچھی خاصی بیٹھک سی لگتی تھی مگر آج جوان نسل کو خط کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ ان کے ہاتھ انٹرنیٹ لگ گیا ہے۔ محکمہ ڈاک میں تقریباً 40 سال سروس کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ایک ڈاکیے نے بتایا ’’ماضی میں جب میں کسی گھر میں خط ڈالنے جاتا تھا تو گھروالوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جیسے ان کا کوئی کھویا ہوا مل گیا ہے۔ ’’خط ۔۔۔۔ آدھی ملاقات‘‘ کا محاورہ قابل غور ہے۔

بزرگ نے آہ بھر کر کہا ’’ آج ڈاکیے کا یہ احوال ہے کہ کس نہ می پرسد کہ بھیا کون ہو‘‘ کہنے لگا ’’تن خواہ کے علاوہ مجھے خاکی یونیفارم کے 60 روپے اور پشاوری چپلی کے 40 روپے سالانہ ملتے تھے، سال میں دو یونیفارم بھی محکمہ کے ذمے تھیں، عیدالفطر ، عیدالاضحی اوردوسرے تہواروں پر ڈاکیے کو خدمات کا خصوصی معاوضہ عیدی کے طور پر دیا جاتا تھا، اس دور میں ہمارا بڑا ٹھسا ہوا کرتا تھا، زمانہ بدل گیا ہے، اب نہ وہ خاکی وردی رہی نہ امتحانی رزلٹ ہی ڈاک سے آتا ہے، اب موبائل فون ہے، انٹرنیٹ ہے ، چیٹنگ ہے، ویب کیم ہے، منی آرڈر کی جگہ ہنڈی، فارن ایکس چینج اور منی ٹرانسفر کمپنیوں نے لے لی ہے، خط کی جگہ ای میل آگیا ہے، سو ڈاکیے کا انتظار اب کون کرے، اب تو معاشرے سے ڈاکیے کا روایتی کردار بھی ختم ہوگیا ہے ‘‘۔

جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ویسے ویسے پیغام رسانی کا انداز بھی جدید انداز میں ڈھل گیا۔ ڈاک اورٹیلی گرام کی جگہ اب فیکس، اِی میلز، موبائل میسیج، سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے لے لی ہے۔ شاید اسی لیے بھارت میں 163سال پرانی ٹیلی گرام سروس کو بند کرنا پڑا۔ اِس سروس کا آغاز 1850 میں کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کے درمیان تجرباتی بنیاد پر کیا گیا اور 1854 میں اْسے عوام کے لیے کھولا گیا لیکن وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، بڑھتے خسارے کی وجہ سے بھارتی حکومت کے مواصلاتی ادارے بی ایس این ایل نے اِسے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اِس سروس کے ذریعے سالانہ 75 لاکھ روپے کا ریوینیو حاصل ہوتا تھا لیکن اِسے چلانے کے لیے 100کروڑ روپے سے بھی زیادہ اخراجات اٹھتے تھے، سروس کی بندش کے باعث اس سروس سے منسلک 6 ہزار سے زیادہ ملازمین بے روزگار ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی وزارت ٹیلی کمیونی کیشن دہلی نے کہا ہے کہ ٹیلی گرام سروس کے 5960 ملازمین کا ان ہی شہروں میں مرکزی حکومت کے دوسرے دفاتر میں تبادلہ کردیا جائے گا۔ تین ہزار ملازمین کے تبادلوں کے احکام دیے جاچکے ہیں، دوسری جانب ٹیلی گرام سروس انڈیا کے سینیئر حکام کانگریس کے نائب صدر اور وزیراعظم کے مشیر راہول گاندھی سے ان کے گھر پر ملاقات کر چکے ہیں۔ حکام نے راہول گاندھی کو بتایا ہے کہ محکمہ کو ختم کرنا مناسب نہیں اسے جدید خطوط پر آگے بڑھانے کے انتظامات کیے جانے چاہییں۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے منسٹری سے بات کریں گے۔ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ٹیلی گرام سروس کے ملازمین کو بے روزگار نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ریڈف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فون، ای میلز اور ایس ایم ایس نے بھارت میں ٹیلی گرام سروس کو غیر موثر کرکے رکھ دیا تھا۔ یاد رہے پاکستان میں سال 2005 میں 21 اور 22 نومبر کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کی جنرل منیجرز کانفرنس میں خسارے میں جانے والی ٹیلی گرام سروس بند کرنے کا فیصلہ بھی شاید اسی وجہ سے کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل ٹیلی گراف یونین (جس کا پاکستان رکن ہے) کی اجازت کے بغیر مذکورہ سروس بند نہیں کی جاسکتی تھی لہٰذا اجازت ملنے کے بعد جنوری 2006 کے پہلے ہفتے میں پی ٹی سی ایل پورے ملک ٹیلی گرام اور ٹیلیکس سہولتوں سے دستبردار ہوگئی تھی۔ واضح رہے کہ 1991 سے 2005 کے درمیان پاکستان بھر میں ٹیلی گراف دفاتر کی تعداد 497 سے گھٹ کر 299 رہ گئی تھی۔ زیادہ کمی دیہی علاقوں میں ہوئی تھی جہاں یہ تعداد 1991 میں 302 سے گھٹ کر 2005 میں محض 73 رہ گئی تھی۔

بھارت کے ٹیلی گرام سروس کے ایک ملازم کاکہنا ہے کہ بٹوارے سے پہلے ’’ تار بابو ‘ ‘ کے عہدے کے لیے تعلیمی قابلیت صرف میٹرک فرسٹ ڈویژن ہوتی تھی لیکن امتحان اور تحریری امتحان میں جو تیز دماغ کے ہوتے تھے صرف ان کو ہی اس سروس کے لیے لیاجاتا تھا۔ تمام تار افسران کو’’ڈاٹ اور ڈیس‘‘ کے بارے میں اچھی معلومات ہوتی تھی جسے بعد میں ترجمہ کیاجاتا تھا۔ اردو لغت میں ٹیلی گراف یا ٹیلی گرام کے معنی ہیں’’دور خبر پہنچانے کا آلہ‘‘۔ ایک زمانہ تھا جب لاکھوں لوگوں کے لیے یہ پیغامات پہنچانے کا سب سے تیز رفتار ذریعہ تھا، ٹیلی گرام کو عام زبان میں ’تار‘ یا ’وائر‘ کہا جاتا تھا لیکن آج اس کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔

آج جدیدیت اور جدت کا دور دورہ ہے لہٰذا دنیا بھرکے افراد تیز رفتار ی کی دوڑ میں شامل ہیں اور ہرکوئی یہی چاہتاہے کہ وہ اپنے احباب سے فوری رابطہ کر لے۔ اپنے مراسلات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر فوری طور پر ٹرانسفر کر لے یوں ہر کوئی آج کل ای میل اور اسکائپ ، موبائل فون اور اسی طرح کے جدیدیت کا سہارا لینے میں سرگرداں ہیں۔ نئی چیزیں اور دریافتیں زندگی کے میدان میں آچکی ہیں اور لوگ پرانے طریقۂ کار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ زندگی اور دنیا میں یہی کام جار ی و ساری ہے کہ لوگ پرانے کو بھول کر نئے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں سال 1985کے دوران یہ سروس اپنے عروج پر تھی، جب یومیہ چھ لاکھ تار بھیجے جاتے تھے ، مگر اب صورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ تعداد گھٹ کر 4000 یومیہ رہ گئی تھی۔

بھارت میں جس دن یہ سروس بند ہو رہی تھی اس روز ٹیلی گرام دفاتر پر لوگوں کا ہجوم رہا، لوگوں نے یادگار کے طور پر اپنے عزیزوں کو ٹیلی گرام ارسال کیے۔ محکمے کے مطابق، رات نو بجے آخری ٹیلی گرام دیا گیا اور اْسے اِسی شب ڈلیور بھی کردیا گیا ۔

پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ڈاک کے ذریعے خط وکتابت کی تعداد 35کروڑ 84لاکھ سے کم ہو کر35کروڑ25لاکھ رہ گئی ہے۔ یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھییجے جانے والے کل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے، جب کہ 80 فی صد ڈاک حکومتی عہدے داروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات کی ہی ہوتی ہے۔

بات کا بتنگڑ

$
0
0

آج رات کو زلزلہ آئے گا، جیدے نے خوفزدہ انداز میں کہا تو سب اس کی طرف چونک کر دیکھنے لگے۔

تمھیں کیسے پتہ چلا کہ زلزلہ آئے گا، رشید نے پوچھا۔
سب لوگ باتیں کر رہے ہیں، جیدے نے کہا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے تو بات کر دی تھی مگر سب کے لئے پریشانی کا ایک نیا جہان پیدا کر دیا تھا ۔
یار سب لوگ باتیں کر رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو ہے ۔

مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے ۔

سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے ہو سکتا ہے کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو گیا ہوجو زلزلے کی پہلے ہی اطلاع دے دیتا ہو۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں، ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا ،ابھی سب بیٹھے تھے کہ مسجد میں اعلان ہوا کہ آج زلزلہ آنے کی اطلاع ہے اس لئے تمام لوگ محتاط رہیں۔ مسجد میں اعلان کے بعد گویا بات پایہ ثبو ت کو پہنچ گئی کہ زلزلہ ضرور آئے گا کیونکہ اگر کسی نے اعلان کرایا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے تصدیق کی ہے تب ہی اعلان کرایا گیا ہے، اب تمام افراد آپس میں صلاح مشورے کرنے لگے کہ زلزلے سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ، ایک نے مشورہ دیا کہ رات کو کمروں میں سونے کی بجائے چھت پر یا صحن میں سوئیں ، دوسرا کہنے لگا کہ اس میں بھی جان جانے کا خطرہ ہے بہتر یہ ہے کہ رات کسی کھلی جگہ پر گزاری جائے اس کے لئے کھیل کا گراؤنڈ سب سے بہتر ہے۔

رشید یہ سب باتیں سنتا رہا مگر پتہ نہیں اسے کیوں یقین نہیں آیا کہ رات کو زلزلہ آنے کی اطلاع صحیح ہے کیونکہ اس کی زندگی میں آج تک ایسا نہیں ہو ا تھا کہ زلزلے کا پتہ پہلے سے چل گیا ہو اس لئے وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا جو کافی پڑھا لکھا اور سمجھدار تھا ، رشید نے اسے ساری صورتحال بتائی تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ کبھی پہلے ایسا ہوا کہ زلزلے کا پتہ چل جائے، وہ تو جب آجاتا ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑا عرصہ پہلے جو زلزلہ آیا اس میں کافی زیادہ نقصان ہوا تھا تب سے لوگوں کے ذہنوں میں خوف بیٹھ گیا ہے ، زلزلے کے بعد تھوڑے عرصے میں مزید چھوٹے موٹے جھٹکے بھی آتے ہیں کسی بیوقوف نے ایسے ہی بات کر دی ہو گی جسے کسی چرب زبان نے آگے پھیلا دیا تم جاؤ اور آرام سے گھر جا کر سو جاؤ۔

رشید نے اپنے دوست کی بات پر عمل کیا ۔ صبح ہوئی بازار گیا تو پتہ چلا کہ قصبے کے بہت سے لوگ زلزلے کے ڈر سے اپنے بیوی بچوں کو لے کر کھلے میدان میں چلے گئے تھے ، جن کے بڑے گھر تھے انھوں نے صحنوں میں بیٹھ کر رات گزاری ، بہت سے مکانوں کو مکینوں سے خالی دیکھا تو اس کا فائدہ چوروں کے ایک گروہ نے اٹھایا اور وہ بڑے آرام سے پانچ گھروں کا صفایا کر کے چلتے بنے ، یوں ایک شخص کے منہ سے نکلنے والی معمولی سی بات آگے چل کر پورے قصبے کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور گھروں میں چوری کا باعث بنی۔

بعض اوقات چھوٹا سے واقعہ یا بات بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے کچھ سے کچھ بن جاتا ہے جس سے نا صرف اصل بات کا ہی پتہ نہیں چلتا بلکہ کئی مرتبہ یہی چیز کسی کی بدنامی یا فساد کا باعث بن جاتی ہے ، ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بات کسی ایسے آدمی کے ہتھے چڑھ جائے جو بات کو مرچ مسالہ لگا کر آگے پیش کرنے کا عادی ہو، رائی کا پہاڑ بنانا اسی پر پورا اترتا ہے۔

جیسے ایک واقعہ میں معمولی سی بات پر بارات واپس چلی گئی، ہوا یوں کہ عبدل کی بیٹی کی شادی تھی کیونکہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی اس لئے وہ اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا ، اس نے لڑکے والوں کو کہلا بھیجا کہ بارات کے ساتھ بینڈ باجہ ضرور لائیں، بارات والے دن لڑکی کا باپ خوش وخرم نظر آ رہا تھا اور ہر کام میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہا تھا ، بارات آنے میں ابھی تھوڑی دیر باقی تھی کہ ایک لڑکے نے آ کر کہا کہ بارات دوسرے محلے میں پہنچ گئی ہے مگر اس کے ساتھ بینڈ باجہ نہیں دکھائی دیا ، یہ سن کر لڑکی کے والد کو بہت غصہ آیا اور اس نے جذبات میں آ کر کہہ دیا کہ اگر بارات کے ساتھ بینڈ نہیں ہے تو بے شک واپس چلی جائے، لڑکی کے والد نے اس بات کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا ،

اس کا مقصد تو یہ نہیں تھا کہ بارات واپس جائے مگر وہاں کھڑے چند چرب زبانوں کے لئے بات کو بتنگڑ بنانے اور تماشہ دیکھنے کا اچھا موقع تھا ، انھوں نے اس بات کو فوری طور پر باراتیوں تک پہنچایا کہ لڑکی کا والد کہہ رہا ہے اگر بارات بینڈ باجے کے ساتھ نہیں آ رہی تو بے شک واپس چلی جائے، اسے یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لڑکے والوں نے یہ بات سنی تو سوچ میں پڑ گئے، بعض نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہنے لگے کہ جب لڑکی کا والد ہی راضی نہیں تو وہاں کیا لینے جانا اگر دروازے سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تو زیادہ بے عزتی ہو گی۔ یوں بارات واپس چلی گئی ، انھی چرب زبانوں نے اس کی فوری اطلاع لڑکی کے گھر والوں تک پہنچائی، لڑکی کا والد پہلے ہی دل کا مریض تھا ، اسے یہ سنتے ہی دل کا دورہ پڑ گیا اور اسے ہسپتال لے جانے کی تیاریاں کی جانے لگیں ، یوں خوشیوں کے شادیانے بجانے والے گھر میں غموں کی برسات ہونے لگی۔

اسلامی نقطہ نظر اخلاقیات کے حوالے سے بالکل واضح ہے ، اسلام میں بات کا بتنگڑ بنانے والی بری عادات جیسے غیبت ،چغلی، بہتان،بغیر تصدیق کے بات آگے کرنے اورجھوٹ کی سختی سے مما نعت کی گئی ہے ، غیبت جسے آج کل کوئی بڑی برائی تصور نہیں کیا جاتا ، اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے، سورہ الحجرات میں حکم ہو ا ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔‘‘اتنی سخت وعیدکے باوجود غیبت عام ہے ، جہاں دو افراد بیٹھے ہوں غیبت کرتے دکھائی دیں گے۔

اسی طرح ایک اور معاشرتی مرض بغیر تصدیق کے بات کو آگے بڑھانے کے حوالے سے بہت عام ہے ، ادھر بات سنی اْدھر آگے کر دی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ذرا بھی پشیمانی محسوس نہیں کی جاتی بلکہ چرب زبان افراد بات کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ اسلام میں تصدیق کے بغیر بات کو آگے کرنے کی مما نعت کی گئی ہے، سورہ حجرات میں واضح حکم ہے’’اے ایمان والو!اگر کوئی شریر آدمی تمھار ے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔‘‘اس آیت کا شان نزول یہ واقعہ بنا کہ حضورﷺ نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ و صدقات وصو ل کرنے کے لے بھیجا(ایک روایت میں قبیلے کا نام بنی وکیعہ آیا ہے) ولید بن عقبہ اور اس قبیلے والوں میں زمانہ جاہلیت سے کچھ عداوت تھی، اس لئے انھیں وہاں جاتے ہوئے اندیشہ ہوا کہ قبیلے والے انھیں کہیں نقصان نہ پہنچا دیں ،

ان لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ولید بن عقبہ کو حضورﷺ نے بھیجا ہے تو ان کے استقبال کے لئے آئے، انھیں گمان ہوا کہ یہ لوگ پرانی عداوت کی وجہ سے انھیں قتل کرنے آئے ہیں اس لئے واپس پلٹ گئے اور حضورﷺ سے عرض کر دیا کہ حضورﷺ ان لوگوں نے منع کردیا اور میرے قتل کے درپے ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور فرمادیا کہ خوب تحقیق کرنا اور جلدی مت کرنا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں دیتے اور نمازیں پڑھتے ہیں ، پھر انھوں نے زکوٰۃ و صدقات پیش کر دئیے۔ حضرت خالدؓ نے زکوٰۃ و صدقات کی رقوم لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں جس سے حضورﷺ کا اطمینان ہوا ۔ اس واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سچے یا معتبر فرد کے سوا اگر کوئی شخص کوئی بات کہے تو اس کی تصدیق ضرور کر لینی چاہیے، مگر ہمارا معاشرتی وتیرہ اس سے بالکل مختلف ہے، خاص طورپر میڈیا نے جب سے ترقی کی ہے صورتحال زیادہ بگڑ چکی ہے،

بڑی بڑی خبروں کو بغیر تصدیق کے چلا دیا جاتا ہے اور اکثر بعد میں تردید بھی نہیں کی جاتی،کچھ یہی چیز عوام میں پنپ رہی ہے، ادھر کسی بات کا پتہ چلا نہیں ادھر اسے آگے بیان کر دیا بلکہ خبر مختلف افراد کی طرف سے بیان ہونے کے بعد کچھ سے کچھ بن جاتی ہے یعنی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے،کسی جگہ پر دھماکے یا بم رکھے جانے کی خبر چلتے ہی سب اسے آگے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جو خبر سنتا یا ٹکر پڑھتا ہے وہ دوسروں سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم لوگ ابھی ادھر ہی بیٹھے ہو یہاں بم رکھے جانے یا دھماکے کی اطلاع ہے ،

حالانکہ کچھ دیر بعد نئی خبر آ چکی ہوتی ہے کہ دھماکہ گاڑی کا ٹائر پھٹنے سے ہوا یا بم رکھے جانے کی اطلاع غلط تھی ، مگر لوگوں تک دوسری خبر پہنچنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے اس دوران جو افراتفری پھیلنا یا نقصان ہونا ہوتا ہے وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جیسے ایک پلازہ میں بم رکھے جانے کی اطلاع ملتے ہی وہاں موجود ایک شخص افراتفری میں بھاگا تو باہر نکلتے ہی کار سے ٹکرا کر زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا حالانکہ اطلاع جھوٹی تھی کسی نے مذاق میں یہ بات پھیلا دی تھی۔

گلی محلوں میں گھر گھر گھومنے والی بہت سی ایسی چرب زبان خواتین ہوتی ہیں جن کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک گھر سے بات سنی اور پھر اسے بڑھا چڑھا کر آگے بیان کر دیا، انھیں عام طور پر ’’ففا کٹنی‘‘یا آگ کے گولے برسانے والی توپ وغیرہ کہا جاتا ہے، ہمارے معاشرے کا یہ کردار بڑا دلچسپ ہے صرف یہی نہیں کہ یہ بات کا بتنگڑ بنانے میں ید طولیٰ رکھتی ہے بلکہ اپنی ذہانت سے بہت سے مفید مشورے بھی ہر وقت اس کی ہتھیلی پر دھرے رہتے ہیں ادھر مسئلہ بیان کیا نہیں فوراً اس کا حل بیان کر دیا، گھر گھر گھومنے کی وجہ سے چونکہ ہر گھر کے حالات ففا کٹنی کے علم میں ہوتے ہیں اس لئے لائی بجھائی کرنے میں اسے بڑی آسانی رہتی ہے، جیسے ایک واقعہ میں ففا کٹنی نے دو خاندانوں میں جھگڑا کرا دیا اور نوبت تھانے کچہری تک جا پہنچی،

ہوا یوں کہ دو خاندانوں میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر رسہ کشی چلی آ رہی تھی، مگر سب صبر کئے بیٹھے تھے کہ کبھی تصفیہ ہو ہی جائے گا ، مائی حمیدہ کا دونوں گھروں میں آنا جاتا تھا ، ایک روز ایک خاندان کی خاتون خانہ سے کہنے لگی ’’تم لوگ زمین کا تصفیہ کیوں نہیں کر تے ‘‘ تو خاتون خانہ نے کہا کہ مردوں کا کام ہے خود ہی کر لیں گے،اور پھر دوتین کنال زمین ہی تو ہے اس پر کیا جھگڑا کرنا، مائی حمیدہ کہنے لگی ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر جائیداد کے تنازعہ پر بات بگڑ بھی تو جاتی ہے، یہ سن کر خاتون خانہ نے کہہ دیا کہ بات بگڑتی ہے تو بگڑ جائے ہم کونسا کسی سے ڈرتے ہیں ہمارا حق ہے ہم لے کر رہیں گے۔ مائی حمیدہ اگلے روز جب دوسرے گھر گئی تو اس نے وہاں پر بھی یہی بات چھیڑ دی اور کہا کہ دوسرے گھر والے ایسے ایسے کہہ رہے ہیں،

مائی حمیدہ تو بھوسے کو دیا سلائی دکھا کر چلتی بنی، خاتون خانہ نے یہ بات اپنے شوہر کو بتائی ، تو وہ کہنے لگا اچھا تو یہ بات ہے، پھر وہ اگلے روز دونوں بیٹوں کو لے کر لڑنے مارنے کے لئے کھیتوں میں جا پہنچا اور دوسرے خاندان کے افراد کو دیکھتے ہی کہنے لگا کس زمین پر حق ہے جی تمہارا،دوسرے خاندان والے کونسا ان سے پیچھے رہنے والے تھے وہ بھی میدان میں آگئے، دونوں فریقوں نے خوب ایک دوسرے کو مارا ، اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کراتے تو کسی کی جان چلی جاتی، پھر معاملہ تھانے کچہری میں چلا گیا، یوں ایک معمولی سی بات سے ان میں دشمنی کی بنیاد پڑ گئی۔ کہتے ہیں منہ سے نکلی کوٹھے چڑھی اور جب کوٹھے چڑھ جائے تو اسے کون روکے، اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ ہمیشہ پہلے تولو پھر بولو اور یہی عقلمندوں کا شیوہ ہے ۔

کیا دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے؟

$
0
0

کیا دنیا میں کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑنے والی ہے؟ کیا دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ایم آئی ٹی کے پروفیسر اور امریکی دانشور نوم چومسکی کی نئی کتاب Nuclear War and Environmental Catastrophe میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ کتاب اصل میں ان کے ایک صحافی لارے پولک کو دیے گئے انٹرویوز کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کی ممکنہ ایٹمی جنگ کے حوالے سے بھی کئی باتیں ہیں۔ مختلف ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی، توانائی کا بحران ، سمندروں پر حکمرانی کی جنگ اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے تناظر میں اب یہ سوالات زیادہ شدت کے ساتھ اٹھائے جارہے ہیں کہ گذشتہ ستر سال کے دوران کوئی نصف درجن سے زائد ملکوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے جو پہاڑ کھڑے کررکھے ہیں ، کیا ان کے استعمال کاوقت آنے والا ہے۔مشہور دانشور نوم چومسکی کے خیالات اور آراء پر مبنی مذکورہ کتاب اس حوالے سے پوری دنیا میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جارہی ہے۔یاد رہے کہ نوم چومسکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے دانشور ہیں جن سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی خوش نہیں رہی۔

خودکار ایٹمی نظام
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ 1945ء سے لے کر اب تک دنیا میں کئی بار ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے بچی ہے۔ عملی طور پر ایسا درجنوں مرتبہ ہوچکا ہے جب ایٹمی جنگ کاخطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ایک بار 1962 میں ایسا وقت آیا تھا جب ایٹمی جنگ کاخطرہ تھا۔ بھارت اور پاکستان کئی مرتبہ ایٹمی جنگ کے قریب آچکے ہیں اوران کے درمیان یہ خطرہ تاحال موجود ہے۔بھارت اور پاکستان ایسے ملک ہیں جو امریکہ کی مدد سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ایران کے حوالے سے خطرات موجود ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس شبے کی وجہ سے ایران پر حملہ کیا جاسکتا ہے اور یوں معاملات غلط سمت میں جا سکتے ہیں۔ یہ بہت کشیدگی والا معاملہ ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ امریکہ اور روس کے د رمیان متعدد بار ایسا ہوچکا ہے کہ ان کے خود کار نظام نے دوسرے ملک کی جانب سے ایٹمی حملے کے خطرے کا اشارہ کیا اوراس کے نتیجے میں کبھی بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ قبل اس کے کہ انسانی ہاتھ اصل حقیقت کا پتہ چلائے، ملک کا خود کار ایٹمی نظام خود بخود ہی جوابی کارروائی کردے اور ایسا منٹوں میں ہوسکتا ہے۔اس وقت دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے جو انبار اکٹھے ہوچکے ہیں، وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی ایٹمی جنگ کمتر امکان والی بات ہے تاہم آئندہ سالوں کے دوران یہ کمتر امکان والی بات نہیں رہے گی۔

نیویارک پر ڈرٹی بم کا حملہ
Nuclear War and Environmental Catastrophe میں نوم چومسکی مزید کہتے ہیں کہ ایٹمی جنگ سے ہٹ کر ایک اورجو خطرہ ہے وہ ایٹمی دہشت گردی کا ہے۔مثال کے طورپر نیویار ک میں ڈرٹی بم کا حملہ کیا جاسکتا ہے۔ نیویارک میں اس قسم کا حملہ کرنے کے لیے کوئی زیادہ پاپڑ نہیں بیلنا پڑیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکی انٹیلی جنس کے بارے میں جانتے ہیں اور گراہم ایلیسن جیسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو ہارورڈ یونیورسٹی میں اس معاملے پر کام کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آنے والے سالوں میں ایٹمی دہشت گردی کا بہت قوی امکان ہوسکتا ہے اور ایسا ہوا تو نجانے اس کا ردعمل کیا ہوگا۔

لہذا ان کے خیال میں بے شمار امکانات (ایٹمی جنگ یا ایٹمی دہشت گرد ی کے) موجود ہیں اور یہ امکانات شدید سے شدید ہورہے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو بد سے بدتر ہورہا ہے۔مثال کے طور پر چند واقعات کو لیں۔ستمبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد S/RES/1887 منظور کی جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اصل میں ایران کے خلاف قرار داد ہے۔جزوی طور پر ایسا ہی تھا ، لیکن اس میں دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے این پی ٹی میں شمولیت کے لیے کہا گیا تھا۔ان میں پاکستان ، بھارت اور اسرائیل سرفہرست تھے۔بعدازاں اوبامہ انتظامیہ نے فوری طورپر بھارت کو مطلع کیا کہ یہ قرار داد ان پر لاگو نہیں ہوتی۔ اسرائیل کو بھی مطلع کیاگیا کہ یہ قرارداد اس پر لاگو نہیں ہوتی۔

پاکستانی ایٹم بم اور امریکہ کی بالواسطہ اعانت
اگر بھارت اپنی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے تو پاکستان کو بھی ایسا کرنا ہوگا کیونکہ روایتی جنگ میں پاکستان بھارت کامقابلہ نہیں کرسکتا۔اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی بالواسطہ مدد کے ذریعے اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل کیا اور ایٹمی ہتھیار تیار کیے۔امریکہ کی ریگن انتظامیہ نے یوں ظاہرکیا کہ جیسے اسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں حالانکہ اسے سب پتہ تھا۔

بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار داد 1887 کے ردعمل میں اعلان کیا کہ اس کی ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار سپرپاورز کے برابر ہے۔ایک سال قبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے گذشتہ حکومت نے شروع کیا تھا اور جس کے تحت امریکی حکومت اس قابل ہوگئی کہ بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرسکے حالانکہ بھارت نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے تھے۔

یہ امریکی کانگرس کی اس قانون سازی کے خلاف تھا جو اس وقت کی گئی تھی جب بھارت نے1974 میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ امریکہ کے اس اقدام کے نتیجے میں نیوکلیئر سپلائر گروپ کو بھی آزادی مل گئی اور بھارت کے لیے کئی دروازے کھل گئے۔چین نے اس کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ بھارت کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی پرامن استعمال کے لیے ہے لیکن حقیقت میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگر بھارت اس ٹیکنالوجی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کرتا ہے تو کیا ہوگا۔

اور پھر 2009 میں کیے جانے والے اس اعلان کی طرف آتے ہیں کہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) بھرپور کوشش کررہی ہے کہ اسرائیل اپنی ایٹمی تنصیبات کو معائنے کے لیے کھولے۔لیکن امریکہ اور یورپ اس کی ان کوششوں کو ناکام بنانے میں لگے رہے ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے لیکن اس سے تمام مسائل حل نہیں ہوں گے۔اس کے بعد ایران سے کس قسم کا خطرہ ہوسکتا ہے ، یہ بھی ایک نہایت دلچسپ سوال ہے۔ لیکن ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اس کا کوئی خطرہ ہے تو بھی نیوکلیئر فری زون کے قیام سے یقینی طورپر اس میں کمی ہوگی اور ہوسکتا ہے،یہ (خطرہ) بالکل ختم ہوجائے۔ تاہم امریکہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔

اسرائیل کی ’’ابہام کی پالیسی‘‘
جب نوم چومسکی سے پوچھا گیا کہ اب جبکہ ایران کے شہر میں واقع ایٹمی پلانٹ کام کرنے لگا ہے تو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ سائیکل شدہ فیول سے پیدا ہونے والے پلوٹونیم کو استعمال کرکے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں امریکی دانشور نے کہا کہ 1960ء کی دہائی سے ایسا ہورہا ہے۔

حقیقت میں نکسن انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھاکہ اسرائیل کو اس کی’’ابہام کی پالیسی‘‘ (یعنی نہ تو اس بات کا انکار کرنا کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور نہ ہی اس کا اقرار کرنا) کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے قطعاً مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اب یہ مسئلہ مکمل طورپر زندہ ہوچکا ہے کیونکہ اب ہر پانچ سال بعد ایک کانفرنس ہوتی ہے جسے ’’عدم پھیلائو نظرثانی کانفرنس‘‘ Non-Proliferation Review Conference کہتے ہیں۔1995 میں عرب ملکوں خاص طور پر مصر کی جانب سے سخت دبائو کے بعد ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جانا مقصود تھا اور کلنٹن انتظامیہ نے اس پر دستخط کیے تھے۔2000 میں اس عزم کو دوبارہ دہرایا گیا۔ 2005 میں بش انتظامیہ نے اس تمام سلسلے کو سبوتاژ کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’’ایسا کیوں کیا جائے؟‘‘

مئی 2000 میں یہ سوال پھر اٹھایا گیا۔مصراب غیروابستہ ممالک کی تحریک ، جو 118 ممالک پر مشتمل تحریک ہے، کے ارکان کو کہہ رہا ہے کہ اس سمت یعنی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی جانب قدم اٹھائیں۔اس سلسلے میں دبائو اس قدرشدید تھا کہ امریکہ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس نے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے جڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا لیکن پھر ہلیری کلنٹن نے بیان داغ دیا کہ اس قسم کا خطہ بنانے کے لیے ابھی موزوں وقت نہیں ہے۔

امریکہ انتظامیہ نے ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت کردی اور کہا کہ ایسا صرف خطے میں جامع امن معاہدے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اور یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جسے اسرائیل اور امریکہ غیرمعینہ مدت تک موخرکر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ ٹھیک ہے ، لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ خبروں میں یہ باتیں نہیں آئیں ، اس لیے کسی کو اس کے بارے میں معلوم نہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح اوبامہ نے بھارت اور اسرائیل کو مطلع کیا تھا کہ قرار داد 1887ء ان پر لاگو نہیں ہوتی۔ان تمام چیزوں سے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ایران کیخلاف خصوصی ’’ایٹم بم‘‘
نوم چومسکی کے بقول حقیقت میں یہ (ایٹمی جنگ کا خطرہ) اچھا خاصا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران کو درپیش خطرات غیرمعمولی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ چیز اسے ایٹمی ہتھیار تیار یا حاصل کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ اوبامہ نے خاص طورپر امریکہ کی جارحیت کی صلاحیت میں زبردست اضافہ کردیا ہے جو اسے ڈیگوگارسیا کے جزیرے کے ذریعے حاصل ہے جہاں پر امریکہ کا امریکی اڈہ ہے جسے وہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا پر بمباری کے لیے استعمال کرتا ہے۔دسمبر 2009 میں بحریہ نے ڈیگو گارسیا میں ایٹمی آبدوزوں کے لیے ٹنڈر ارسال کیا ۔

قیاس ہے کہ یہ آبدوزیں پہلے سے موجود تھیں لیکن اس عمل سے اس کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور یقینی طور پر امریکہ کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ وہاں سے ایران پر ایٹمی حملہ کرسکے۔ اس طرح وہ گہرائی میں جاکر مار کرنے والے بم بنانے کا عمل بھی تیز کرچکا ہے جوایک ایسا پروگرام تھا جو بش انتظامیہ کے دور میں کمزور پڑچکا تھا۔اوبامہ جیسے ہی آئے انہوں نے اسے تیز کردیا اور اس کا خاموشی کے ساتھ اعلان بھی کیا گیا اور میرے خیال میں اس کو امریکہ میں رپورٹ بھی نہیں کیا گیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں یہ بم ڈیگوگارسیا میں پہنچا دیے گئے ہیں۔ یہ سب ایران کے خلاف ہے۔یہ تمام سنگین نوعیت کے خطرات ہیں۔

نوم چومسکی مزید کہتے ہیں کہ درحقیقت ایرانی خطرے کا سوال بہت دلچسپ ہے۔ اس مسئلے پر اس طرح بحث کی جاتی ہے جیسے یہ اس دور کا سب سے بڑا ایشو ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی۔’’یہ ایران کا سال ہے۔‘‘ ایران ایک بڑا خطرہ ہے ، بڑا پالیسی ایشو ہے۔اس سے سوال اٹھتا ہے :ایرانی خطرہ آخر ہے کیا؟ اس پر سنجیدگی سے بات نہیں کی جاتی۔ لیکن اس کا ایک آمرانہ قسم کا جواب دیا جاتا ہے جس کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔یہ جواب اپریل 2010 میں پنٹاگون اور انٹلی جنس کی جانب سے سامنے آیا تھا۔

انہوں نے عالمی سلامتی کے نظام کے حوالے سے کچھ چیزیں کانگرس میں پیش کی تھیں اور یقیناً ایران پر بات کی تھی۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ خطرہ فوجی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خطے کے معیار کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ایران کے فوجی اخراجات بہت کم ہیں۔ایران کا تزویراتی یا سٹرٹیجک نظریہ مکمل طور پر دفاعی ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جارحیت کو اتنی دیر تک روکا جائے کہ سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے کوئی پرامن حل نکل آئے۔ایران کے پاس بیرون ملک فوج تعینات کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ایران ایٹمی صلاحیت حاصل کربھی رہا ہے تو یہ مکمل طورپر ہتھیاروں کے حوالے سے نہیں ہے۔یہ اس کی ڈیٹرنٹ سٹرٹیجی کا حصہ ہے اور یہ ایک حکمت عملی ہے جسے زیادہ تر سٹرٹیجک تجزیہ کار چنداں اہمیت نہیں دیتے۔لہذا کوئی فوجی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی کہتے ہیں کہ ایران دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے۔یہ خطرہ کیا ہے؟ بڑی دلچسپ بات ہے۔ اصل میں ایران اپنے اثرورسوخ کو ہمسایہ ممالک میں بڑھا رہا ہے اور اس کے بارے میں امریکہ کہتا ہے کہ اس سے ’’عدم استحکام‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس کے ہمسایوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہاں پر قبضہ کرتے ہیں تو یہ ’’استحکام‘‘ لاتا ہے۔یہ ایک معیاری مفروضہ بن چکا ہے۔اصل میں اس کامطلب ہے کہ ’’دیکھو، ہم دنیا کے مالک ہیں۔اور اگر کوئی ہمارا حکم نہیں مانتا تو وہ بدمعاش ہے۔‘‘

چین، امریکہ ٹکرائو
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ حقیقت میں چین کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنایا جارہا ہے۔ یہ ایک قسم کا فساد ہے اوراس پر بھی امریکہ میں کوئی خاص بات نہیں کی جاتی۔ لیکن چین میں اس پر بڑی لے دے ہوتی ہے جیسے چین کی حدود میں واقع سمندروں پر کنٹرول کی بات ہے۔چین کی بحریہ وسعت اختیار کررہی ہے اوراس پر امریکہ میں بات کی جاتی ہے اور اس کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔وہ جو کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ چین کے آس پاس واقع سمندروں پر کنٹرول کیا جائے ۔ مثال کے طورپر سائوتھ چائنہ سی ، ییلو سی وغیرہ وغیرہ، اوراس کو یہاں جارحانہ طرز عمل کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔پنٹاگون نے حال میں چین کے حوالے سے خطرات کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ان کا فوجی بجٹ بڑھ رہا ہے ۔

یہ اس وقت اس بجٹ کا پانچواں حصہ ہے جو امریکہ عراق اور افغانستان میں خر چ کرتا ہے اور یقیناً یہ امریکی فوجی بجٹ کا ایک معمولی حصہ ہے۔زیادہ عرصہ کی بات نہیں ہے جب امریکہ چین کے قریب سمندر میں بحری مشقیں کررہا تھا۔ چین نے اس موقع پر احتجاج کیا تھا اور خاص طورپر ایٹمی طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری بیڑے ’’یوایس ایس جارج واشنگٹن‘‘ کو مشقوں میں لانے پر اس نے شدید احتجاج کیا تھا کیونکہ چین کا کہنا تھا کہ اس بیڑے کے ذریعے امریکہ بیجنگ پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔اس پر امریکہ کا موقف تھا کہ چین جارحانہ طرز عمل اختیار کررہا ہے کیونکہ وہ سمندروں کے حوالے سے آزادی میں مداخلت کررہا ہے۔اب اگر اس حوالے سے دفاعی اور فوجی تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں اس کو سلامتی کا ایک کلاسیک المیہ کہا جاتا ہے جس میں دونوں فریق ٹکرائو کا شکار ہیں۔

ہر فریق سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے جبکہ دوسرا جو کچھ کررہا ہے وہ اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے ، اور ہم خطرے کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔لہٰذا اگر چین اپنے پانیوں پر کنٹرول کی کوشش کررہا ہے تو وہ جارحیت ہے اور ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔یہ سلامتی کا ایک کلاسیک المیہ ہے۔تصور کریں کہ اگر چین کیریبئین جو کہ وسط بحرالکاہل میں آتا ہے، میں بحری مشقیں کررہا ہو تو کیا امریکہ اس کو برداشت کرے گا ۔ کبھی نہیں۔ ایران کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہے۔ بنیادی طورپر فرض کرلیا گیا ہے کہ ’’ہم دنیا کے مالک ہیں۔‘‘ اور ہمارے غلبے کی حدود میں خودمختاری کی کوئی کوشش ’’بدمعاشی‘‘ ہے۔

یہ غلبے کا مسئلہ ہے
کیا ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں نسل پرستی کا بھی کوئی مسئلہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار نہ ہوں ، یہ مسئلہ تب بھی ہوگا۔’’میرا مطلب ہے کہ یہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے حوالے سے مفروضے اور تصورات ہیں اور میرا نہیں خیال کہ اس کا نسل پرستی سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ٹھوس مثال پیش کرتے ہیں۔ہمارے پاس اب کافی پرانی دستاویزات آچکی ہیں۔ ان میں سے کچھ نکسن دور کی بھی ہیں۔نکسن اور کسنجر جس وقت 1973 میں چلی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کررہے تھے تو ان کا موقف تھا کہ چلی کی حکومت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ یہ خود مختاری کا مظاہرہ کررہی ہے، یہ ہمارے لیے خطرہ ہے، لہٰذا اس کو جانا ہوگا۔کسنجر نے اس موقع پر ’’وائرس‘‘ کے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ یہ وائرس کہیں بھی پھیل سکتا ہے جیسے جنوبی یورپ میں ۔

اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ چلی جنوبی یورپ پر حملہ کردے گا بلکہ یہ تھا کہ چلی میں ایک کامیاب سماجی جمہوری پارلیمانی نظام سے سپین اور اٹلی کو غلط پیغام ملے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی ایسا نظام لانا چاہتے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وائرس پھیل جائے گا اور نظام دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔اس وقت کی امریکی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ بلکہ اس نے بیان بھی دیا تھا کہ اگر ہم لاطینی امریکہ کو کنٹرول نہیں کرسکتے تو باقی دنیا کو کیسے کریں گے؟ وہ کہتے تھے کہ انہیں لاطینی امریکہ کو کنٹرول کرنا ہوگا۔اس حوالے سے کچھ تحفظات تھے جو زیادہ تر بے معنی تھے لیکن بہرحال کچھ خدشات تھے۔

مثال کے طورپر سوویت یونین لاطینی امریکہ میں گھس آئے گا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر یورپ کو لاطینی امریکہ میں زیادہ ملوث کیا جاتا ہے تو اس سے سوویت یونین کو گھس بیٹھنے سے روکا جاسکتا ہے۔لیکن پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ اس سے خطے پر امریکی غلبہ متاثر ہوگا۔لہٰذا یہ نسل پرستی کامسئلہ نہیں۔ یہ غلبے کا مسئلہ ہے۔

امریکہ کا ’’گرینڈ ایریا‘‘
حقیقت میں نیٹو کے حوالے سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹو کو ختم کیوں نہیں کیا گیا؟اگر کوئی پروپیگنڈا کو پڑھتا ہے تو و ہ کہے گا ’’اچھا ، نیٹو کو ختم کردینا چاہیے تھا۔ یہ تو یورپ کو سوویت یونین سے بچانے کے لیے تھی۔ اب سوویت یونین نہیں رہا تونیٹوکو بھی ختم کرنا چاہیے۔‘‘ گوربا چوف سے کیے گئے زبانی وعدوں کے باوجود اس کو توسیع دی گئی۔اس میں توسیع اس لیے بھی کی گئی تاکہ یورپ پر کنٹرول برقرار رکھا جائے۔نیٹو کا ایک مقصد تو پہلے ہی یہ تھا کہ یورپ کو آزاد راستے یعنی ایک قسم کے ’’گال ازم‘‘(Gaullism) کے راستہ پر چلنے سے روکا جائے ۔ نیٹو کو اس لیے بھی آگے بڑھانا تھا تاکہ یورپ کی حیثیت ایک’’مزارع‘‘ سے زیادہ نہ ہوسکے۔ اگر آپ دوسری جنگ عظیم کے پلاننگ کے حوالے سے ریکارڈ کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ بہت معلوماتی ہے۔

اگرچہ اس پر بات نہیں کی جاتی لیکن 1939 -1945 کے درمیان امریکی صدر روزویلٹ کی قیادت میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہورہے تھے جس میں جنگ کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیا جارہا تھا۔امریکی جانتے تھے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ ہی فائدے میں ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ وہ مکمل طورپر فاتح ہوں۔وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس قدر فاتح ہوں گے۔اس سلسلے میں جو اصول وضع کیے گئے وہ بہت دلچسپ اور انوکھے تھے اور بعد میں انہیں نافذ بھی کیا گیا۔انہوں نے ’’گرینڈ ایریا‘‘ کے نام سے ایک تصور وضع کیا۔ ’’گرینڈ ایریا‘‘ یعنی وہ علاقہ جہاں امریکہ کا غلبہ ہوگا۔اس گرینڈ ایریا میں کسی کو بھی اس قسم کی خودمختاری کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جس سے امریکی منصوبے متاثر ہوتے ہوں۔یہ ’’گرینڈ ایریا‘‘ کون سا تھا۔

جی ہاں ، اس میں کم سے کم تمام مغربی نصف کرہ ، تمام مشرقی بعید اور برطانوی سلطنت کا تمام علاقہ جو اب سابقہ ہوچکی ہے جس میں ظاہر ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے توانائی کے ذخائر سے مالا مال علاقے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ایک اہم امریکی مشیر کا کہنا تھا کہ اگر ہم توانائی کے ذخائر سے مالا مال مشرق وسطیٰ کوکنٹرول کرلیں تو پوری دنیا کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ یہ ’’گرینڈ ایریا‘‘ تھا۔جب سٹالن گراڈ کے بعد روسی فوج نے جرمنوں کو کچلنا شروع کیا تو امریکیوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ جرمنی کمزور ہوچکا ہے حالانکہ پہلے ان کا خیال تھا کہ جنگ کے نتیجے میں جرمنی بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔چنانچہ گرینڈ ایریا میں مزید اضافہ کرتے ہوئے یوریشیا کے زیادہ سے زیادہ علاقے بالخصوص مغربی یورپ کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا جو کہ خطے کا ایک بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔یہ گرینڈ ایریا تھا اوراس گرینڈ ایریا میں کسی کو خودمختاری کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ امریکہ کے لیے اس پر عمل کرنا ممکن نہ تھا۔

مثال کے طورپر چین بہت بڑا ملک تھا اوراس کو پیچھے ہٹانا مشکل تھا اور چین خود مختاری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ایران کوشش کررہا ہے۔امریکی سمجھتے ہیں کہ ایران ایک چھوٹا ملک ہے اوراسے دبایا جاسکتا ہے۔حتیٰ کہ لاطینی امریکہ اب کنٹرول سے باہر ہورہا ہے۔برازیل احکامات نہیں مان رہا بلکہ حقیقت میں زیادہ تر جنوبی امریکہ ایسا ہی کررہا ہے اور یہ تمام چیزیں واشنگٹن کے لیے بڑی بے چینی کاسبب ہیں۔اگر آپ سرکاری بیانات دیکھیں تو یہ بے چینی اورمایوسی صاف دکھائی دے گی۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو چین کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ایران کے خلاف امریکی پابندیاں یقینی طورپر کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتیں۔بات صرف اتنی ہے کہ لوگ امریکہ سے خوفزدہ ہیںاور ان میں یورپ بھی شامل ہے لیکن چین نہیں ڈرتا۔

وہ امریکیوں کی عزت نہیں کرتے۔وہ امریکہ کی ان پابندیوں کی پاسداری کرتے ہیں جو قانونی لیکن بے ضرر ہیں۔ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیوں کا ایک مقصد مغربی کمپنیوں کو ایران سے دور رکھنا ہے تاکہ امریکی اپنی من مرضی کرسکیں۔امریکہ اس حوالے سے پریشان ہے۔امریکی محکمہ خارجہ اس حوالے سے دلچسپ قسم کے بیان جاری کرتا رہا ہے۔دلچسپ اس لیے کہ ان بیانات کی زبان بڑی مایوس کن ہوتی ہے۔وہ چین کو خبردار کرتا ہے اور اس کے بیان کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ’’اگر چین بین الاقوامی برادری میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا اور بین الاقوامی ذمہ داری یہ ہے کہ امریکہ کے احکامات مانے جائیں۔‘‘ ان بیانات کی زبان سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکی پالیسی ساز کس قسم کی مایوسی اور پریشانی سے دوچار ہیں۔آپ تصور کریں کہ چین کا ایسے بیانات پر کیا ردعمل ہوتا ہوگا۔وہ ہنستے ہوں گے۔ بھلا وہ کیوں امریکی احکامات مانیں؟ ان کا جو دل چاہے گا، وہ کریں گے۔

ایران کیخلاف تدبیریں الٹی ہوگئیں
نوم چومسکی چین کے با رے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی عالمی طاقت کے طورپر اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔چینیوں کے بقول ’’ گذشتہ ایک صدی کی ذلت‘‘ سے پہلے چین ہمیشہ ایک بڑی عالمی طاقت رہا ہے۔وہ اب اپنی تین ہزار سال پرانی اس روایت کی طرف لوٹ رہے ہیں جب وہ دنیا کا مرکز تھے اور وحشیوں کو شکست دے چکے تھے۔چین اس قسم کی کوششیں کررہا ہے اور امریکہ کو اس سے زبردست پریشانی ہے۔انہیں جھنجھلاہٹ ہے کہ چین ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پاپندبوں کی پاسداری نہیں کررہا۔

اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں سے ایران اور چین تو عالمی تنہائی کے شکار نہیں ہوئے بلکہ الٹا امریکہ ہوگیا ہے۔ غیروابستہ تحریک کے 118ممالک جو کہ دنیا کی اکثریت ہے، ہمیشہ سے ایران کے یورینیم کو افزودہ کرنے کے حق کے حامی تھے اور ہیں۔ترکی نے حال ہی میں ایران تک تیل پائپ لائن بنائی ہے اور پاکستان بھی بنا رہا ہے۔ترکی کی ایران کے ساتھ تجارت کا حجم بڑھ رہا ہے اور وہ اسے اگلے چند سالوں میں تین گنا کرنا چاہتے ہیں۔عرب دنیا میں رائے عامہ کی اکثریت امریکہ کے اس قدر خلاف ہوچکی ہے کہ وہ نہ صرف اب اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ایران کو نہ صرف پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام چلانا چاہیے بلکہ ایٹمی ہتھیار بھی بنانے چاہئیں۔لیکن امریکہ عرب رائے عامہ کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ وہاں کے ڈکٹیٹروں سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے رہا ہے۔

لیکن جہاں تک ترکی اور چین کی بات ہے ، ان کے حوالے سے امریکہ پریشان ہے۔ان کا ایران کے معاملے میں ملوث ہونا امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قسم کے مایوسی بھرے بیانات سامنے آتے ہیں۔یورپ کے چند ممالک کے علاوہ کوئی بھی اس معاملے میں امریکہ کے احکامات ماننے کو تیار نہیں۔جنوبی امریکہ میں برازیل سب سے اہم ملک ہے۔زیادہ عرصے کی بات نہیں جب برازیل اور ترکی نے ایران کے ساتھ یورینیم افزودہ کرنے کا ایک معاہدہ کیا تھا۔

امریکہ نے فوری طورپر اس سودے کو ناکام بنادیا۔امریکہ ایسا نہیں چاہتا لیکن دنیا دن بدن اس کے قابو سے باہر ہورہی ہے۔گرینڈ ایریا کا تصور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد طویل عرصہ تک قابل عمل تھا لیکن اب دنیا بہت بدل چکی ہے بالخصوص گذشتہ ایک عشرے کے دوران تو بہت تبدیلی آئی ہے۔نوم چومسکی کے بقول اس کاتعلق ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو سے ہے۔امریکہ بھارت اور اسرائیل کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے بھارت کو اپنا قریبی اتحادی بنالیا ہے جبکہ اسرائیل تو ہمیشہ سے تھا۔تاہم بھارت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو سمجھداری سے استعمال کررہا ہے۔ وہ چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنارہا ہے۔

سمندری آزادی ۔۔۔۔
لیکن صرف اپنے لیے
نوم چومسکی سے جب پوچھا گیا کہ صدر اوبامہ نے حال ہی میں آسٹریلیا میں اڈے قائم کرنے کے حقوق حاصل کیے ہیں اور ایک فری ٹریڈ معاہدہ ’’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ‘‘بھی تشکیل دیا ہے جس میں چین شامل نہیں۔کیا یہ اقدام بحیرہ جنوبی چین (سائوتھ چائنہ سی) سے متعلق تو نہیں؟

امریکی دانشور نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق بھی ’’سلامتی کے کلاسیکی المیے‘‘ سے ہے ، جس کا زکر پہلے بھی کیا گیا۔چین کی جانب سے پانیوں پرکنٹرول کی کوششیں امریکہ کے اس تصور سے متصادم ہیں جس کو وہ ’’سمندروں کی آزادی‘‘(یعنی اپنے لیے) قرار دیتا ہے جس کے تحت امریکہ کو آزادی حاصل ہے کہ دنیا کے کسی بھی سمندر میں بحری مشقیں کرے یا اپنے فوجی اڈے بنائے لیکن اگر چین کیریبئین یا دنیا کے دیگر سمندروں میں بحری مشقیں کرنا چاہے تو یہ ’’آزادی‘‘ ختم ہوجاتی ہے۔

بعض وجوہات کے باعث چین کے ہمسایہ ممالک بالخصوص ویت نام اور فلپائن چین کی پانیوں پر کنٹرول کی کوششوں سے خوش نہیں لیکن امریکہ جیسے ملک بھی اس سے خوش نہیں۔امریکہ کی پالیسی کا فوکس اب دھیرے دھیرے مشرق وسطیٰ سے (اگرچہ مشرق وسطیٰ پر بھی ہے)بحرالکاہل کی طرف جارہا ہے اور اس کا صاف صاف اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔ اس کے منصوبے میں آسٹریلیا سے لے کر جنوبی کوریا تک نئے اڈوں کا قیام اور اقتصادی معاہدے بنام ’’فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ ہیں تاہم یہ محض پروپیگنڈا ہیں کیونکہ امریکہ کا اصل مقصد صرف چین کو روکنا ہے۔

کیا سمندروں کے نیچے موجود تیل اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ اس کے جواب میں نوم چومسکی کہتے ہیں کہ جزوی طورپر ایسا ہے اور سمندروں کے نیچے موجود دولت تنازعے کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن معاملہ کچھ اور بھی ہے۔جنوبی کوریا کے جیجو جزیرے میں نئے امریکی اڈے کا قیام تیل اور گیس کے لیے نہیں اور جزیرے کے لوگ بھی اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ چین کے مرکزی تجارتی راستے خلیج ملاکا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ، وہاں پر تیل اور گیس موجود ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ معاملات ہیں۔ پس منظر میں امریکہ میں اس حوالے سے بھی عمومی تشویش ہے کہ دنیا اس کے کنٹرول اور اثر سے نکل رہی ہے جو کہ اس کی ’’گرینڈ ایریا پالیسی‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔

روزہ دار بچوں سے سحر و افطار کی رونقیں دوبالا

$
0
0

رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میںاُمت مسلمہ عقیدت واحترام کے ساتھ روزے رکھتی ہے، پورا مہینہ خصوصی عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

سحراورافطار کے موقع پرخاص اہتمام کیا جاتاہے۔ خاص طورپرچھوٹے بچے اپنے والدین ، دادا ، دادی کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو بچے روزے رکھتے ہیں وہ سحر اور افطار کے وقت بڑے پُر جوش اور متحرک نظر آتے ہیں خاص طور پر افطاری کے وقت بڑی محنت کے ساتھ دسترخوان سجانے میں مدد کرتے ہیں۔

بچوں کا یہ جذبہ دیکھ کروالدین بھی ان کی افطاری کے لئے سموسے، پکوڑے، سینڈوچ، مشروب، پھل، دہی بھلے، فروٹ چارٹ اورلذیزپکوان تیارکرتے ہیں۔ یہ سماں واقعی دیدنی ہوتا ہے۔


ایوان صدارت کے مکین : کون کون رہا پاکستان کا صدر

$
0
0

قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے ایک نظر اب تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والی شخصیات پر ڈالتے ہیں:

(1) اسکندرمرزا کو ملک کا پہلا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی نمائندگی کرنے والے اسکندر مرزا نے 23مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے پاس ملک کے آخری گورنر جنرل ہونے کا اعزاز بھی ہے۔1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد وہ صدر بنے تھے۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں انھیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

(2) ایوب خان 27 اکتوبر 1958سے 8جون 1962 تک ملک کے دوسرے صدر کی حیثیت میں ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔ انھوں نے جون 1962 سے 25 مارچ 1969 تک دوسری مدت صدارت بھی گزاری۔ انہی کے دور صدارت میں پاکستان کو روایتی حریف انڈیا کے خلاف تاریخی 1965 کی جنگ سے گزرنا پڑا۔ 1969 میں شدید سیاسی بحران اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔

(3) پاکستان کے تیسرے صدر جنرل یحییٰ خان بنے، ان کی صدارت 25 مارچ 1969سے شروع ہوکر20 دسمبر 1971 کو اختتام پذیر ہوئی۔ ایوب خان کے استعفے کے بعد منصب صدارت سنبھالنے والے یحییٰ خان کے دور میں سقوط ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوا۔

(4)پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971کو ملک کے چوتھے صدر بنے، ان کا مدت صدارت 13اگست 1973 کو ختم ہوئی۔ انھوں نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 1973 میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد وزارت عظمی سنبھالی۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام حکومت متعارف کرایا گیا۔

(5)فضل الٰہی چوہدری ملک کے 5ویں صدر تھے، ان کا دور صدارت 14 اگست 1973 سے شروع ہوکر 16ستمبر 1978کو مکمل ہوا۔ 73 کے آئین کے تحت وہ پہلے صدر تھے، پارلیمانی نظام حکومت کے تحت امور مملکت چلانے کی ذمے داری وزیر اعظم کو سونپ دی گئی تھی۔

(6) پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق تھے جنھوں نے فوجی بغاوت کے تحت حکومت کا تختہ الٹا اور عنان اقتدار سنبھالی۔ وہ 16 ستمبر 1978سے 17 اگست 1988تک صدر مملکت رہے جو پاکستانی صدور کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک کی مدت ہے۔ 1977 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔17اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ان کا انتقال ہوا۔

(7)ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد غلام اسحٰق خان نے منصب صدارت سنبھالا، وہ 17 اگست 1988سے جولائی 1993 تک صدر رہے۔ ان کے دور میں قومی سیاست میں زبردست نشیب و فراز دیکھنے میں آئے۔ انھوں نے ایک بار پیپلزپارٹی کی حکومت کو بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ن لیگ کی حکومت کو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں برطرف کیا۔ سیاسی کشیدگی کے باعث 1993 میں فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کے کہنے پر وزیر اعظم (جنھیں سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا) اور صدر غلام اسحٰق خان کو گھر جانا پڑا۔

اس موقع پر وسیم سجاد کو جو چیئرمین سینیٹ تھے، 3 ماہ کے لیے قائم مقام صدر کی ذمے داریاں دی گئیں۔ وہ 18 جولائی 1993سے لے کر 14نومبر 1993تک صدر رہے۔ ان کا تعلق اس وقت مسلم لیگ ن سے تھا۔

(8) پیپلزپارٹی کے سردار فاروق احمد خان لغاری 14نومبر 1993 کو پاکستان کے 8ویں صدر بنے، ان کا دور صدارت 2دسمبر 1997تک جاری رہا۔ وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت سے شدید اختلافات کے بعد انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے دور صدارت میں فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی (پیپلزپارٹی) کی حکومت کو بھی برطرف کیا۔ لغاری کی جانب سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کا اقدام ہر ایک کے لیے انتہائی حیرت ناک تھا، کیوںکہ وہ پیپلزپارٹی کی قائد بینظیر بھٹو کے انتہائی قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔

لغاری کے استعفے کے بعد ایک بار پھر وسیم سجاد کو عبوری صدر بنایا گیا، 2 دسمبر 1997سے یکم جنوری 1998تک وسیم سجاد دوسری بار ملک کے عبوری صدر بنے۔

(9) یکم جنوری 1998 کو ن لیگ کی حکومت نے رفیق تارڑ کو پاکستان کا 9واں صدر بنادیا۔ انھوں نے 2001 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اپنے دور صدارت ہی میں انھوں نے اپنی پارٹی ن لیگ کی حکومت کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوتے دیکھا۔

(10)آرمی چیف پرویز مشرف 20 جون 2001 کو ملک کے 10ویں صدر بنے، ان کے عہدہ صدارت کی پہلی مدت 6اکتوبر 2007کو ختم ہوئی۔ 2007 میں ہی وہ دوبارہ صدر منتخب کیے گئے، ان کی دوسری مدت صدارت 18اگست 2008 کو پوری ہوئی۔ اکتوبر 1999میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالنے والے پرویز مشرف کا دور سیاسی اور قومی سطح پر انتہائی ہنگامہ خیز رہا۔ وہ آرمی چیف کے ساتھ ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہے۔ ان ہی کے دور میں طیارہ سازش کیس میں قید بھگتنے والے شریف خاندان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ دور صدارت میں ہی ان پر کئی بار قاتلانہ حملے کیے گئے، جب کہ 2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو عہدے سے معزول کرنا، افتخار چوہدری کے انکار، ایمرجینسی کے نفاذ، میڈیا پر پابندی اور پھر ججوں کی نظر بندی جیسے واقعات نے دنیا بھر کو ہلاکر رکھ دیا۔ 27دسمبر 2007 کو پیپلزپارٹی کی قائد اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بننے والی بینظیر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب پرویز مشرف نے میڈیا پر قوم سے خطاب کے دوران استعفے کا اعلان کیا تو اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی۔

پرویز مشرف کے استعفیٰ دینے کے بعد اس وقت کے چیئرمین سینیٹ اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو کو قائم مقام صدر بنایا گیا، وہ 18اگست 2008 سے 9ستمبر 2008تک صدر رہے۔

(11)پیپلزپارٹی کی لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کے شریک چیئرمین کی ذمے داریاں انجام دینے والے آصف علی زرداری 9ستمبر 2008 کو ملک کے 11ویں صدر منتخب ہوئے۔ صدر زرداری کے دور کا اہم آئینی کام 18ویں ترمیم تھا جس کے ذریعے صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے۔

مستقبل کی ممکنہ سپر پاورز۔۔۔۔۔۔۔۔

$
0
0

اس وقت امریکا واحد سپرپاور کے طورپر دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کاسکہ چلتا ہے، وہ جس کو چاہے پچھاڑ دے اور جس کو چاہے سنواردے۔

دنیا اس کی دوستی سے بھی ڈرتی ہے اور اس کی دشمنی سے بھی خوف کھاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو کبھی اچھا سلوک نہیں کرتا لیکن دوستوں کو بھی صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تاہم وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ہے۔مبصرین کے مطابق دنیا میں اور بھی کئی ایسے ملک ہیں جو سپرپاور بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔امریکا کے مقابلے پر مزید سپرپاورز کے سامنے آنے سے واحد سپرپاور کے طور پر امریکا کا غلبہ کمزور ہوگا اور اس کی سینہ زوری سے دنیا کی جان چھوٹنے کی کوئی امید دکھائی دے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کل پانچ ایسے ملک ہیں جو مستقبل میں سپرپاور بن سکتے ہیں۔ان کی معاشی ترقی ، انسانی ترقی ، جی ڈی پی ، جغرافیہ ، قدرتی وسائل، رقبہ ، آبادی اور دیگر اشاریے واضح کرتے ہیں کہ یہ ملک مستقبل میں سپرپاور بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ان ممالک کو موجودہ اصطلاح میں ’’پوٹینشل سپرپاور‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ملک چین ، برازیل ، بھارت ، روس اور یورپی یونین ہیں۔مجموعی طورپر یہ ممکنہ سپرپاورز اور امریکا عالمی رسمی جی ڈی پی کا 66.6 فیصد اور عالمی جی ڈی پی (پی پی پی) میں  62.2فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ان تمام ملکوں کا رقبہ دنیا کا ایک تہائی جبکہ دنیا کی کل نصف آبادی ان ملکوں میں رہتی ہے۔ یہ پانچ ممالک ایسی کون سی خصوصیات اور اشاریوں کے حامل ہیں جو ان کو مستقبل کی سپرپاور بناسکتے ہیں ، آئیے ذیل میں اس کاجائزہ لیتے ہیں۔

عوامی جمہوریہ چین

چین کو طویل عرصے سے ذرائع ابلاغ کی جانب سے مستقبل کی سپرپاور کے طورپر دیکھا جارہا ہے جبکہ عالمی مبصرین اور دانشور بھی چین کو ایک ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی سپرپاور قرار دیتے رہے ہیں۔ گلوبل لینگویج مانیٹر نامی ادارہ جو دنیا بھر کے مختلف زبانوں کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مواد کے علاوہ انٹرنیٹ، بلاگز اور سوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر نظر رکھتا ہے ، اس کے مطابق ’’چین کا عروج‘‘ اس وقت عالمی میڈیا کی ٹاپ سٹوری ہے۔حالیہ کچھ عرصے سے سکالرز کی جانب سے چین کے لیے ’’سیکنڈ سپرپاور‘‘ یعنی ’’سپرپاور ثانی‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جارہی ہے جس کے مطابق عوامی جمہوریہ چین ’’سیکنڈ سپرپاور‘‘ کے طورپر بھی ابھر سکتا ہے جس کی عالمی طاقت اور اثر و رسوخ امریکا کے برابر ہوگا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ دونوں ممالک ’’گروپ آف ٹو‘‘ کی شکل میں مضبوط باہمی تعلقات استوار کرکے دنیا کے بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

تجزیہ کار بیری بوزان نے 2004ء میں چین کے بارے میں ایک تجزیے میں لکھا کہ چین اس وقت مکمل ’’آل راؤنڈ‘‘ کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے جو اسے پوٹینشل سپرپاور کا درجہ دیتی ہے۔بوزان نے دعویٰ کیا کہ چین اس وقت سب سے فیشن ایبل پوٹینشل سپرپاور ہے جس کی باقی غالب بین الاقوامی سوسائٹی سے دوری اسے ان کے لیے ایک واضح سیاسی حریف کے طورپر پیش کرتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج چین کو درپیش ترقی کے دوسرے چیلنجز سے ٹکراتے ہیں اور حقیقت میں اس کے عروج سے ایشیا میں مختلف ریاستوں کا حریف اتحاد جنم لے سکتا ہے۔

پراگ کھنہ 2008ء میں اس کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاطینی امریکا اور افریقہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور تجارت کرکے چین نے یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ خود کو بھی ایک سپرپاور کے طورپر منوالیا ہے۔چین کا عروج اس کی بڑھتی ہوئی تجارت اور جی ڈی پی سے بھی واضح ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چین کا ’’سب سے مشورہ‘‘ کرنے کا رویہ نہ صرف دیگر ملکوں بلکہ ان ملکوں کے ساتھ بھی اس کے سیاسی اور معاشی تعلقات بڑھانے میں مددگار ہے جن کو عام طورپر امریکا کی جانب سے ’’بدمعاش‘‘ ریاستوں کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین ، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ آگے چل کر ‘‘مشرقی نیٹو‘‘ کا روپ دھارسکتی ہے۔

معاشی ماہر اور “Eclipse: Living in the Shadow of China’s Economic Dominance” کے مصنف اروند سبرامنین نے 2012ء میں تجزیہ کیا کہ 2020ء میں عالمی معیشت میں چین کا حکم چلے گا اور عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر چین کی کرنسی آئندہ دس سے پندرہ سال کے دوران امریکی ڈالر کی جگہ لے لے گی۔امریکا کی ’’سافٹ پاور‘‘ طویل عرصے تک رہے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ منگ دور سے پہلے تک چین ہزاروں سال تک دنیا کی سرکردہ معاشی طاقت رہا ہے۔کسی حد تک گذشتہ چند سو سال چین کے لیے ’’گم راہی‘‘ کا دور رہا ہے جس کے بعد اب وہ پھر عروج کی طرف گامزن ہے۔

اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز لندن کے لارنس سیز نے 2011ء میں ایک تجزیہ پیش کیا کہ اگلے بیس سال کے اندر فوجی سپرپاور کے طور پر چین امریکا سے سبقت لے جائے گا۔معاشی طاقت کے حوالے سے پیکنگ یونیورسٹی کے چائنہ سنٹر فاراکنامک ریفارم کے ڈائریکٹر یاؤ ینگ بیان کرتے ہیں کہ اگر فرض کیا جائے کہ چین اور امریکا کی معیشت بالترتیب 8فیصد اور 3فیصد کی شرح سے ترقی کررہی ہیں ، چین کے افراط زر کی شرح 3.6 فیصد اور امریکا کی 2فیصد ہے(گذشتہ دس سال کی اوسط) اور چینی کرنسی کی قیمت ہرسال ڈالر کے مقابلے میں تین فیصد کی شرح سے بڑھتی ہے تو 2021 تک چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس عرصے تک دونوں ملکوں کی جی ڈی پی چوبیس ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوگی۔

مورخ ٹموتھی گارٹن ایش 2011ء میں مختلف عوامل جیسے آئی ایم ایف کی پیشگوئی کہ چین کی جی ڈی پی (پی پی پی) 2016 میں امریکا سے آگے نکل جائے گی ، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں کہ دنیا کی ایک سے زیادہ سپرپاورز کی جانب پاور شفٹ ’’اس وقت‘‘ رواں دواں ہے تاہم سافٹ پاور اور پاور پراجیکشن کی صلاحیت ابھی چین میں کم ہے جبکہ انفرادی جی ڈی پی بھی کم ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے 2009ء کے سروے کا حوالہ بھی انہوں نے تجزیے میں دیا جس میں 22 میں سے 15 ملکوں کے افراد نے رائے دی تھی کہ چین سپرپاور کی حیثیت سے امریکا سے آگے نکل جائے گا۔

سنگاپور کے پہلے وزیراعظم لی کوان یو نے 2011ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایشیا کے طاقتور ترین ملک کے طور پر چین امریکا کی جگہ لینے کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چین نے اقتصادی معجزہ دکھاتے ہوئے ایک غریب ترین معاشرے کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنادیا ہے۔ وہ ایشیا اور دنیا کا نمبر ون ملک بننے کے لیے کیوں نہ سوچے؟ لی کوان یو کا کہنا ہے کہ چین کی حکمت عملی اس کی وسیع اور بڑھتی ہوئے انتہائی ماہر اور تعلیم یافتہ ورک فورس کے گرد گھومتی ہے۔تاہم جہاں تک امریکا سے تعلقات کی بات ہے تو ان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ چین امریکا کے ساتھ کسی بھی ایسے تنازعے سے گریز کرے گا جس کے چین امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

امریکا جیسی طاقتور اور ٹیکنالوجیکل سپرپاور کو چیلنج کرنے سے چین کے پرامن طریقے سے عروج کی راہ میں کو ئی رخنہ حائل ہو سکتا ہے۔اگرچہ لی کوان یو یقین رکھتے ہیں کہ چین حقیقی طورپر اس بین الاقوامی نیٹ ورک میں حصہ لینا چاہتا ہے جسے امریکا نے تشکیل دیا تھا تاہم اس سے قبل یہ خود کو اتنا طاقتور بنانا چاہتا ہے کہ کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کرسکے۔ ادھر چین کے فارن پالیسی ایڈوائزر وانگ جی سی نے 2012ء میں ایک بیان میں کہا تھا کہ کئی چینی حکام اپنے ملک کو فرسٹ کلاس پاور سمجھتے ہیں جس کے ساتھ اسی قسم کا فرسٹ کلاس برتاؤ ہونا چاہیے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اوروہ کئی شعبوں میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔اس کے مقابلے میں امریکا ایک زوال پذیر سپرپاور ہے جس کا اشارہ مختلف عوامل جیسے ناقص معاشی ریکوری ، مالی بدنظمی ، بلند افراط زر ، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم سے واضح طور پر ہوتا ہے۔

وفاقی جمہوریہ برازیل

برازیل کو بھی بڑی تعداد میں تجزیہ کاروں اور ماہرین کی جانب سے اکیسویں صدی کی مکمنہ یعنی پوٹینشل سپرپاور سمجھا جارہا ہے۔2009ء میں اقتصادی ماہر لیزلی ایلیوٹ آرمیجو نے کورنل یورنیورسٹی میں ایک لیکچر میں کہا کہ برازیل بہت جلد لاطینی امریکا کی پہلی سپرپاور بن جائے گا۔آرمیجو نے قرار دیا کہ مختلف منصوبوں کا آغازکرکے برازیل خود کو اپنے خطے کی قیادت کے لیے مضبوط بنا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ برازیل ایک عالمی ایکٹر کے طور پر اقتصادی اقدمات میں اپنی پہلے سے موجود موجودگی کو مزید مضبوط بناکر پہلے ہی بین الاقوامی سیاست سے اپنا بڑا حصہ لے چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ برازیل کے عروج کی ایک غالب وجہ اس کی ٹھوس جمہوری حکمرانی اور مضبوط اکانومی بھی ہے اور بہت جلد وہ وقت آئے گا جب مغربی نصف کرے میں ایک کے بجائے دو سپرپاور ہوں گی۔

بین الاقوامی ماہر الزبتھ ریوی اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ امریکا تو مشرق کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن ادھر برازیل ایٹمی سپرپاور کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہی بات ان کے مضمون کا عنوان بھی ہے۔مضمون میں وہ برازیل کی ایٹمی میدان میں ترقی کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ برازیل ایک ابھرتی ہوئی سپرپاور ہے جس کی اکانومی چین کی طرح ترقی کررہی ہے اور اس کی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ برازیل کی اپنی طاقت اور اپنا راستہ خود بنانے کی صلاحیت کے حوالے سے خوداعتمادی بڑھ رہی ہے۔

برازیل کو اکثر موجودہ یا آنے والے وقت کی اقتصادی سپرپاور قرار دیا جاتا ہے اور بہت سے ماہرین اور صحافی برازیل کوBRIC گروپ(برازیل ، روس ، انڈیا ، چین) کی دیگر ممکنہ سپرپاور کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ٹرانس نیشنل فاؤنڈیشن فار پیس اینڈ فیوچر ریسرچ کے جوناتھن پاور اپنے ایک مضمون “Becoming an Economic and Political Super power”  میں دعویٰ کرتے ہیں کہ برازیل کو بھارت اور چین پر ایک مثبت برتری حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ برازیل گذشتہ سوسال کے دوران مثبت انداز میں ترقی کررہا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ 1960-1980 کے دوران برازیل نے اپنی فی کس آمدنی میں دوگنا اضافہ کرلیا ہے۔جوناتھن پاور نے مزید کہا کہ برازیل ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی اس بات کا امکان رکھتا ہے کہ وہ اقتصادی سپرپاور کے طورپر ابھر آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ملک برازیل کا اعلانیہ دشمن نہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے برازیل کسی بڑی نوعیت کے تنازعے میں ملوث نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے دیگر بڑی طاقتوں کی طرح کوئی جارحانہ فوج نہیں پالی ہوئی۔

تاہم کچھ ماہرین برازیل کے سپرپاور بننے کے امکانات سے اختلاف بھی کرتے ہیں جن میں نوبل انعام یافتہ معاشی ماہر پال کرگمین بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ برازیل کی موجودہ معاشی طاقت ایسی نہیں کہ وہ اقتصادی سپرپاور بنے۔ اسی طرح توانائی کے امور کے حوالے سے تجزیہ کارمارک برجر کا کہنا ہے کہ برازیل عمومی طورپراپنی توانائی کی صورت حال کو بہتر بنائے گا لیکن اس کے توانائی کی سپرپاور بننے کا امکان نہیں۔ ایک اور بات یہ کہ کوئی ملک سپرپاور بننے سے پہلے بڑی طاقت بنتا ہے جبکہ برازیل کا بڑی طاقت ہونا متنازعہ ہے۔

یورپی یونین

یورپی یونین کو متعدد ماہرین اور محققین کی جانب سے ابھرتی ہوئی سپرپاور قرار دیا جارہا ہے۔متعدد سکالر اور ماہرین جیسے ٹی آر ریڈ ، اینڈریوریڈنگ ، اینڈریوموراوسک ، مارک لیونارڈ ، جرمی رفکن ، جان میکورمک اور رومانو پروڈی اور ٹونی بلئیر جیسے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ یا تو یورپی یونین سپرپاور ہے یا اس صدی میں بن جائے گی۔

مارک لیونارڈ اس سلسلے میں متعدد عوامل گنواتے ہیں جو یورپی یونین کو سپرپاور بناسکتے ہیں۔ یہ عوامل ہیں ، اس کی بڑی آبادی ، اس کی بڑی معیشت (یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی حامل ہے)، افراط زر کی کم شرح ، حالیہ سالوں کے دوران اس کی امریکی خارجہ پالیسی سے دوری اور بعض یورپی ملکوں میں زندگی کااعلیٰ معیار وغیرہ۔

جان میکورمک تو یہ تک کہتے ہیں کہ یورپی یونین پہلے ہی سپرپاور بن چکی ہے۔ اس کے لیے وہ اس کی اکانومی کے حجم اور دنیا میں اس کی رسائی اور اس کے عالمی سیاسی اثرورسوخ کاحوالہ دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سپرپاور کے لیے اب سردجنگ والی تعریف بدل چکی ہے اور اب کسی بڑی طاقت کے لیے فوجی طاقت ہونا ضروری نہیں رہا۔ان کا کہنا ہے کہ اب پروڈکشن کے ذرائع پر کنٹرول ، تباہی کے ذرائع پر کنٹرول سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

پراگ کھنہ بھی چین اور یورپی یونین کو سپرپاور قرار دیتے ہیں اور عالمی اثرورسوخ کے معاملے میں اسے امریکا کی ہم سری کرتا دکھائی دیتے ہیں۔وہ یورپی یونین کی بڑی معیشت ، اس کی ٹیکنالوجی کے اعلیٰ تر عالمی معیار اور اس عالمی امداد کا حوالہ دیتے ہیں جو یورپی یونین دنیا بھر میں ترقی کے لیے دیتی ہے۔ وہ میکورمک سے اتفاق کرتے ہیں کہ سپرپاور کے طور پر یورپی یونین کو مشترکہ فوج کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے علاوہ یورپی یونین ایک ایسا خطہ ہے جو ثقافتی طور پر متنوع ترین خطوں میں سے ایک ہے جس کی حدود میں دنیا کی چند بڑی بڑی اور موثر ترین زبانیں بولی جاتی ہیں۔

اینڈریو ریڈنگ مستقبل میں یورپی یونین کی توسیع سے پیدا ہونے والے روشن امکانات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔وہ شاندارمستقبل جب باقی تمام یورپ ، پورا روس اور ترکی بھی یورپی یونین کا حصہ بن جائے گا جس سے نہ صرف یورپی یونین کی معیشت ترقی کرے گی بلکہ اس کی آبادی بھی اسی کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ معیار کے اعتبار سے یورپی یونین چین اور بھارت سے مختلف ہے کیونکہ یہ کہیں زیادہ خوشحال اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کہتے ہیں ترکی کی شمولیت سے یورپی یونین مکمل طورپر سپرپاور بن جائے گی۔رابرٹ جے گٹ مین بھی یورپی یونین کے سپرپاور بننے کے بھرپور امکانات پر یقین رکھتے ہیں۔ فیرس ایرنی پیٹرسین جو امریکا میں ڈنمارک کی سفیر ہیں وہ بھی اسی قسم کے خیالات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یورپی یونین ایک خصوصی قسم کی سپرپاور ہے جس نے ابھی اپنی متحد فوجی طاقت کو استعمال نہیں کیا۔

ادھر بیری بوزان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے پوٹینشل سپرپاور ہونے کا انحصار اس کے ’’ریاست‘‘ ہونے کی صلاحیت پر ہے۔ابھی یہ غیر واضح ہے کہ سپرپاور بننے کے لیے یورپی یونین کو ریاست جیسے کتنے معیارکی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی یورپی یونین طویل عرصے تک ’’پوٹینشل سپرپاور‘‘ ہی رہے گی کیونکہ اگرچہ اس کے پاس مادی دولت تو بہت ہے لیکن اس کی سیاسی کمزوریاں اور اندرونی سیاسی ڈویلپمنٹ کا غلطیوں سے بھرا اور مشکل عمل بالخصوص مشترکہ خارجہ اور دفاعی پالیسی کا نہ ہونا اسکے سپرپاور بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

فن لینڈ کے وزیرخارجہ الیگزینڈر سٹب یورپی یونین کے حوالے سے بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپی یونین بیک وقت سپرپاور ہے بھی اورنہیں بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جانب تو سب سے بڑی سیاسی یونین ، سنگل مارکیٹ اور دنیا کو امداد دینے کے حوالے سے یورپی یونین سپرپاور ہے لیکن جب دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات کی بات کی جائے تو یہ سپرپاور نہیں ہے۔بیری بوزان کی طرح وہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ بین الاقوامی سسٹم میں یورپی یونین ایک واحد ریاست کے طور موجود نہیں اس لیے اس کے سپرپاور بننے کا امکان ابھی مفقود ہے۔اس کے علاوہ یہ فوجی طاقت میں بھی کم تر ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں فوری طورپر فوج بھیجنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں یورپی یونین میں کئی ملک ہیں جو خود کو ایک ’’قومی ریاست‘‘ سمجھنے کا رجحان مکمل طورپر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

کچھ ایسے بھی ہیں جو سرے سے اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یورپی یونین سپرپاور کا درجہ حاصل کرے گی۔یوکے (برطانیہ) کے سابق وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کہتے ہیں کہ یورپی یونین کبھی سپرپاور رہی نہ ہوگی۔ایک واحد خارجہ پالیسی نہ ہونے اور فوجی طاقت میں کمتر ہونیکی وجہ سے یورپی یونین وہ مواد نہیں رکھتی جو سپرپاور بننے کے لیے ضروری ہے۔سپرپاور ہونے کے لیے دنیا کے کسی بھی حصے میں سب سے پہلے فوج پہنچانے کی صلاحیت ہونا لازمی ہے۔یورپی پارلیمنٹیرین ایکا شروڈر کے مطابق حالیہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں یورپی یونین نے خاص طورپر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی اس نااہلیت کا ازالہ کرسکے جو کہ اسے فوجی طاقت کی عالمی پروجیکشن کے حوالے سے درپیش ہے۔’’دی اکانومسٹ‘‘ کے رابرٹ لین گرین کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی کمزور فوجی طاقت کی وجہ سے اس کی متحد خارجہ پالیسی بھی موجود نہیںجس کی وجہ سے اس کا سپرپاور ہونا مکمل طورپر مشکوک ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے امریکا جیسی فوری جواب دینے والی عالمی فورس کی تشکیل ناقابل تصور ہے۔

بھارت (عوامی جمہوریہ بھارت)

متعدد میڈیا پبلی کیشنز اور دانشوروں کی جانب سے بھارت کو پوٹینشل سپرپاور کا درجہ دیا جاتا ہے۔’’نیوزویک‘‘ اور ’’انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘‘بھی اس بحث میں شامل ہیں جس میں بھارت کو مستقبل کی سپرپاور کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔انیل گپتا اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت اکیسویں صدی کی سپرپاور بننے جارہا ہے۔مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی طویل جمہوریت اوراس سے پیدا ہونے والے عملی اداروں اور اس کی نسبتاً کرپشن سے پاک سوسائٹی کی وجہ سے یہ مستقبل قریب میں ایک شاندار ، تجارتی اور انرجی سے مالامال سپرپاور بننے کے زبردست امکانات رکھتا ہے۔وہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ 2015ء تک تیزی سے ترقی کرتی معیشت میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ دے گا اور 2025ء تک مکمل اقتصادی سپرپاور بن جائے گا۔

ایک اور ماہر رابن میریڈتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ چین اور بھارت دونوں سپرپاور بن جائیں گے۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ چین بھارت سے کئی عشرے آگے ہے اور اوسط چینی شہری ایک اوسط بھارتی شہری کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہے۔ایمی چوا کے بقول اگرچہ بھارت کے سپرپاوربننے کے امکانات بہت قوی ہیں تاہم اسے اب بھی بہت سے شدید مسائل کاسامناہے جیسے کہ دیہاتوں میں غربت کی بلند شرح ، مخفی کرپشن اور عدم مساوات وغیرہ۔ چین کی طرح ہی بھارت بھی اپنے شہریوں کو ملک سے ہجرت کرنے سے روکنے میں ناکام ہے اور بڑی تعداد میں بھارتی باشندے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی اچھے اقدامات اٹھائے ہیں اور اس میں اس کو کامیابی بھی ہوئی ہے مثال کے طورپر صدیوں پرانے زات پات کے نظام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور اس کی دنیا کی سب سے بڑی اور متنوع ترین جمہوریت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

فرید زکریا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سپرپاور بننے کے لیے بھارت کے پاس بہت عمدہ مواقع ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی نوجوان آبادی اوراس کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی انگریزی بولنے والی آبادی کا حامل ہونے کی وجہ سے اسے چین پربرتری حاصل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دیگر صنعتی ممالک میں نوجوان افراد کی آبادی بہت تیزی سے گھٹ رہی ہے جبکہ بھارت کے پاس بڑی تعداد میں نوجوان یعنی ورکر موجود ہیں۔فرید زکریا کے بقول بھارت کی ایک اور طاقت یہ ہے کہ دنیا کا غریب ترین ملک ہونے کے باوجود بھارت میں گذشتہ ساٹھ سال سے جمہوریت ہے جبکہ جمہوریت ایک ایساعمل ہے جو طویل المعیاد استحکام کی فراہمی کے لیے موزوں ترین ہے۔

امریکا کے اعلیٰ ماہر اور ریگن دور کے وزیرخزانہ کلائیڈ وی پریسٹووٹز جونئر تو موجودہ صدی کو بھارت کی صدی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جارہا ہے اور یہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سپرپاور بن سکتا ہے۔

تاہم بھارت کے سپرپاور بننے کی صلاحیت سے اختلاف رکھنے والے بھی کم نہیں۔پراگ کھنہ کا خیال ہے کہ بھارت نہ تو سپرپاور ہے اور نہ اس کے مسقبل قریب میں سپرپاور بننے کا امکان ہے۔بھارت ترقی اور سٹرٹیجک عزائم دونوں میں چین سے کئی عشرے پیچھے ہے۔اس کے بجائے بھارت روس کے ساتھ سپرپاور اور نان سپرپاور کے درمیان ایک ’’جھولتی ہوئی ریاست‘‘ ہی رہے گا۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت ’’بڑا ہے لیکن اہم نہیں۔‘‘ جہاں ایک بڑی پیشہ ورانہ کلاس ہے لیکن ساتھ ہی کروڑوں لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں چین کی اہمیت ہے مثال کے طورپر چین کی سرحدیں بھارت کے مقابلے میں درجن بھر ملکوں سے ملتی ہیں اور بھارت کی سمندری حدود اور بلند پہاڑی سلسلے بھی چین کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔چین کے غیرممالک میں مقیم ملک اس کے وفادار باشندوں کی تعداد بھارت سے دوگنی ہے جبکہ کئی ایشین اور افریقی ملکوں کی مارکیٹ پر چین چھایا ہوا ہے۔

لانٹ پرٹچیٹ کتاب “InSpite of the Gods: The Strange Rise of Modern India” میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ بھارت نے متاثر کن افزائش کا مظاہرہ کیا ہے اوراس کے پاس عالمی سطح کے ادارے ہیں لیکن اس کے باوجود متعدد اشاریوں میں یہ حیران کن طورپر کمزور ہے۔غذائی کمی اور امیونزائزیشن پروگرام کی کوریج کے اعتبار سے بھارت سب صحارن افریقہ کے ملکوں کی سطح پرکھڑا ہے۔آبادیاتی اور دیگر ہیلتھ سرویز کے مطابق بھارتی بچوں میں غذائی کمی بدترین سطح پر ہے۔بالغ خواندگی بھی بہت کم ہے۔ایک سٹڈی کے مطابق ملک کے چھبیس فیصد اساتذہ سکولوں سے غیرحاضر پائے گئے ۔ چالیس فیصد ہیلتھ ورکرز بھی اپنے کام سے غیرحاضر پائے گئے۔کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سیاست میں زات برادری کادخل بہت زیادہ ہے۔اس طر ح بھارت میں تعلیم کا معیار بھی اس سطح سے بہت نیچے ہے جس کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔

’’دی اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی اخراجات میں دنیا کا ساتوں بڑا ملک ، کم ازکم 80 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور 48.9 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کے باوجود بھارت کے سٹرٹیجک عزائم اس طرح نہیں جس طرح کسی بڑی طاقت کے ہونے چاہئیں۔جاندار ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینک اداروں کے باوجود بھارت اوراس کے لیڈر فوجی اور سٹرٹیجک معاملات میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگرچہ بھارت پاکستان اور چین سے محدود جنگیں لڑچکا ہے لیکن اس کے باوجود فوجی اور سٹرٹیجک معاملات میں بھارتی قیادت کی دلچسپی زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔سٹرٹیجک کلچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارت کا پروکیورمنٹ سسٹم کمزور ہے اور فوجی جدت کے لیے ملک کا انحصار غیرممالک پر ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت نے اب تک جو بھی فوجی اور دفاعی مصنوعات تیار کی ہیں ان میں سے صرف 29 فیصد کو گذشتہ سترہ سالوں کے دوران کے بھارتی فوج کے زیراستعمال لایاگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بعض سرویز اور ماہرین کی جانب سے جنوبی افریقہ کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے جو مستقبل میں سپرپاور بن سکتے ہیں۔

روس (رشین فیڈریشن)

روس کے بارے میں ماہرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں ایک بار پھر سپرپاور بن سکتا ہے۔یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے اکانومسٹ سٹیون روزفیلڈ کے مطابق روس اپنے سپرپاور کے رتبے کو دوبارہ بحال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور روایتی دانش کے برخلاف یہ ہدف حاصل کرنا روس کے لیے مشکل نہیں لیکن اس کے روسی عوام اور عالمی سلامتی پر زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔روزفیلڈ مزید کہتے ہیںکہ روس کا فوجی صنعتی ڈھانچہ قائم ہے اوراس کو دوبارہ چالو کرنے کے لیے اس کے پاس معدنی وسائل کی بھی کمی نہیں۔

’’سینٹ پیٹرزبرگ ٹائمز‘‘ کے فوجی تجزیہ کار الیگزینڈر گولٹس اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ ایٹمی معاملات میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کا امریکا کے ساتھ تصادم اصل میں دوبارہ سپرپاور کا درجہ حاصل کرنے کی کوششوں کاحصہ ہے۔

علاوہ روس نے ہمسایہ ملکوں کے حوالے سے جو خارجہ پالیسی مرتب کی ہے اس کاحتمی مقصد بھی دوبارہ سپرپاور بننا ہے۔’’انرجی انٹلی جنس‘‘ کے مارک رچی کہتے ہیں کہ روس ہمیشہ سپرپاور رہا ہے۔ اب بھی بہت کچھ نہیں بدلا۔روس کھیل میں واپس آچکا ہے ۔ وہ اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اور لوگوں پر اثرانداز ہوکرمزید اور نئے دوست بنا رہا ہے۔

دیس دیس رمضان کے رنگ

$
0
0

رمضان المبارک اسلامی سال کا وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔

پورے سال میں یہ وہ مہینہ ہے جس میں نہ صرف گھروں اورمساجد میں عبادات اورذکر اذکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے بلکہ اس ماہ مقدس میں مسلمان لذت کام و دہن سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہر روز سحری اور افطاری کا بطور خاص اہتمام اس مہینے کے ہر دن کو خاص دن بنا دیتا ہے۔ اس مہینے کی رحمتیں اور برکتیں ہر چھوٹے بڑے کے لیے عام ہوتی ہیں۔ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لہٰذا ہر ملک اور ہر خطے میں وہاں کے حالات اور رسم و رواج کے مطابق ماہ رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے اور سحر و افطار میں مقامی پکوان اور مشروبات کا اہتمام ہوتا ہے۔

اسی طرح سحر و افطار کے اوقات میں مختلف ممالک میں مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ افطار کا اعلان بھی مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ ان صفحات میں ہم اپنے قارئین کو مختلف ممالک میں رمضان المبارک کی سرگرمیوں کی تصویری جھلکیاں دکھا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مختلف ثقافتوں کے اپنے رنگ ہوتے ہیں لیکن رمضان المبارک کا احترام اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی جدوجہد وہ اہم ترین چیزیں ہیں جو تمام مسلمانوں میں مشترک ہیں۔

’’جانے کب ہوں گے کم، اس دنیا کے غم‘‘ شاید اس رمضان المبارک میں محکوم کشمیری مسلمانوں کی فریاد اللہ کے حضور شرف قبولیت حاصل کرلے

امریکا کی ریاست ٹیکساس میں افطار کا ایک منظر

ترکی کے دارالحکومت استنبول میں استقبال رمضان کی پرشکوہ تقریب کا ایک منظر

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک دکاندار افطاری سے قبل جلیبیاں تیار کر رہا ہے

پیرس کی جامع مسجد کا ایک منظر، کاش ہم بھی اپنی مساجد کو اتنا ہی صاف ستھرا رکھنے کی طرف مائل ہو جائیں

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد مسلمانوں کے لیے خوشی کا سب سے بڑا تہوار عیدالفطر ہے، ایک چینی خاندان عید کے موقع پر کھانے کی میز پر جمع ہے

موغادیشو کے بازار میں عید کی خریداری کا ایک منظر

کولکتہ کی ٹیپو مسجد میں افطاری کے لیے آئے خاندان کا بچہ اپنی ماں کا روزہ افطار کروا رہا ہے

روسی مسلمان مسجد میں افطاری کرتے ہوئے

ایران کے سابق صدر احمدی نژاد دوست احباب کے ساتھ افطاری کرتے ہوئے

نماز عید کے بعد اپنے پیاروں کی قبروں پر  قرآن خوانی بھی مسلم عقائد کا حصہ ہے

جکارتا میں عید کا چاند دیکھنے کے لیے جمع دو بچے

اتحادی فوج کا ایک ترک سپاہی افطار سے کچھ دیر پہلے افغان بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کر رہا ہے

راہی مسافروں کی روزہ کشائی کو بڑی سعادت سمجھا جاتا ہے

مسجد اقصیٰ میں نماز تراویح ادا کی جا رہی ہے

فلسطین میں روزہ افطار ہونے کا اعلان توپ داغ کر کیا جاتا ہے

افطاری کے لیے گھر جاتے ہوئے روایتی روٹی خریدی جا رہی ہے

ایک ضعیف العمر شخص صنعاء کی مسجد میں تلاوت کلام پاک میں مشغول ہے

نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے روسی مسلمان

روزہ کشائی: نور ومسرت کے یہ لمحے

$
0
0

ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہونے کے ساتھ ماہِ مسرت بھی ہے۔

افطار کی راحت بخش ساعتوں کے ساتھ قریب آتی عید کی خوشی بھی ماہِ مبارک کے حَسین تحفوں میں سے ایک ہے۔ اس سب کے ساتھ گھروں میں مسرت کے لمحے روزہ کشائی کی صورت میں اترتے ہیں۔ کسی گھر میں ننھے میاں اپنا پہلا روزہ رکھ رہے ہیں تو کہیں گڑیا رانی اپنے روزوں کی ابتدا کر رہی ہیں۔ معصوم سے چہروں پر بکھرا نور ماں باپ کی آنکھوں میں جگمگا رہا اور دلوں میں دمک رہا ہے۔ روزہ کشائی ہماری ثقافت کے خوب صورت حصہ ہونے کے ساتھ بچوں کو روزے اور دین کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

آسمان سے گری… جنگل میں اٹکی

$
0
0

’’وہ نظارہ میرے ذہن کی تختی پر جامد ہوکر رہ گیا ہے، وہ لمحات وقت کی مسافت پار کرکے میرے ذہن پر نقش ہوچکے ہیں۔

جب میں ہوش میں آئی اور میری آنکھ کھلی تو یہ لانبے لانبے درختوں کے جھنڈ تھے جن کی چوٹیاں آپس میں یوں ملی ہوئی تھیں کہ جیسے کوئی تاج ہو۔ سورج کی کرنیں گھنے پتوں میں سے چھن چھن کر بہ مشکل اپنا راستہ بناتی ہوئی جنگل کے فرش تک پہنچ رہی تھیں اور میرے چہارسو ہر شے سبز رنگ کی ملگجی روشنی میں نہائی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ میں خود کو بے حد تنہا، بے بس اور بے دست و پا محسوس کررہی تھی۔ میری ماں میرے ساتھ والی نشست پر ہی براجمان تھی مگر اب وہاں بھی خالی پن اور خاموشی میرا منہ چڑا رہی تھی۔ مجھ میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ میں کھڑی ہوسکوں یا زیادہ ہل جل کروں۔ میرے کانوں میں میری گھڑی کی ٹک ٹک گونج رہی تھی مگر مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ ٹائم دیکھ سکوں۔

مجھے بالکل سیدھا دیکھنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ جب کچھ حواس بحال ہوئے بلکہ میں نے ارادتاً اپنے حواسوں کو مجتمع کیا اور میرے احساسات بیدار ہونے لگے تو مجھے احساس ہوا کہ میری بائیں آنکھ سوجن کی وجہ سے بند ہوچکی ہے، دائیں آنکھ البتہ کچھ بہتر تھی اور میں ادھ کھلی دائیں آنکھ سے ہی کچھ دیکھنے کے قابل تھی۔ میرا چشمہ بھی کھوگیا تھا مگر کسی نہ کسی طرح میں نے ٹائم دیکھ ہی لیا ۔ یہ صبح کے 9 بجے کا وقت تھا۔ میں خود کو ادھ موا محسوس کررہی تھی اور بیچارگی کی حالت میں بارانی جنگل کے فرش پر ہی لیٹی رہی۔ کچھ دیر بعد میں نے ہمت مجتمع کی اور گھٹنوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر مجھے اتنی زور کے چکر آئے کہ میں دوبارہ جنگل کے فرش پر گرگئی۔

میں بار بار کوشش کرتی رہی اور آخر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئی۔ میری گردن میں سخت درد ہورہا تھا۔ میں نے ہاتھ سے اپنی ہنسلی کی ہڈی کو چھوا تو پتا چلا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے۔ میری بائیں پنڈلی میں ایک گہرا زخم تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پنڈلی کے گوشت کو کسی کند آلے سے کاٹا گیا ہو مگر حیرت انگیز طور پر اب وہاں سے خون نہیں بہہ رہا تھا۔ میں جانوروں کی طرف ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جنگل کے فرش پر رینگتی ہوئی چاروں جانب اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی، امی! امی! میں نے آوازیں بھی لگائیں مگر جواب میں مجھے صرف جنگل کی آوازیں ہی سنائی دیں‘‘

’’میرا نام جولیان کوئیپکی ہے۔ میں پیرو (Peru) کے شہر لائما میںپلی بڑھی اور پھر 14 برس کی عمر میں پیرو کے بارانی جنگلات میں اپنے والدین ماریہ اور ہینز کے پاس چلی گئی جنہوں نے وہاں ’’جنگلی حیات کے باہمی توازن‘‘ کے مطالعے کا سینٹر قائم کیا ہوا تھا۔ دو سال میں وہاں والدین کے ساتھ رہی اور اسی دوران مجھے جنگل اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور میں نے وہاں جنگل کے متعلق وہ کچھ سیکھا جس سے میں پہلے نابلد تھی۔ مجھے اس وقت احساس بھی نہیں تھا کہ قدرت مجھے یہ سب کچھ کس لیے سکھا رہی ہے جو بعدازاں میری زندگی بچانے میں کلیدی کردار کا حامل ہو گا۔ 16 برس کی عمر میں، میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے واپس لائما آگئی۔

میری والدہ کبھی میرے پاس رہتی اور کبھی ہم والد کو ملنے کی غرض سے ان کے پاس چلے جاتے۔ دسمبر 1971ء میں ہم کو کرسمس کی چھٹیاں گزارنے کیلئے والد کے پاس جانا تھا۔ امی جلد جانا چاہتی تھیں مگر میری ’’گریجوایشن تقریب‘‘ کی وجہ سے ہم نے 24 دسمبر کوجانے کا پروگرام فائنل کیا۔ میری والدہ کو ہوائی سفر پسند نہیں تھا۔ وہ پرندوں کے متعلق علوم کی ماہر تھیں (Ornithologist) اور انہیں اس بات پر اعتراض تھا کہ جہاز ایک مصنوعی پرندہ ہے اور اس میں سفر کرنا فطرت کے منافی عمل ہے۔ ہم 24 دسمبر 1971ء کی صبح ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں بہت رش تھا کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے گزشتہ روز کی پروازیں منسوخ ہوگئی تھیں۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میری والدہ کے ساتھ یہ میرا آخری سفر ہے اور یہ سفر میری زندگی پر انمٹ نقوش کندہ کرنے والا ہے۔‘‘

تقریباً 11 بجے ہم سب جہاز میں سوار ہوگئے۔ ہم تقریباً آخر والی نشستوں پر براجمان ہوئے۔ میں عادتاً کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی تاکہ باہر کے نظاوں سے بھی لطف اندوز ہوسکوں۔ سفر کا پہلا آدھا گھنٹہ پرسکون گزرا۔ ناشتہ میں سینڈوچ، کافی اور کولڈ ڈرنکس سے ہماری تواضع کی گئی۔ جب ایئرہوسٹس نے بچی کھچی اشیاء کو سمیٹنا شروع کیا تو جہاز ایک ہوائی طوفان  میں داخل ہوگیا۔ دن کی روشنی گھپ اندھیرے میں بدل گئی، جہاز کے چاروںاطراف گھنے سیاہ بادل، طوفان بادوباراں اور آسمانی بجلی کی کڑک نے مسافروں کے دل دہلا دیئے۔ میری ماں مصنوعی انداز میں گویا ہوئی ’’میرے خیال میں سب ٹھیک ہوجائے گا ۔‘‘ سیٹوں کے اوپر موجود مقفل درازوں میں سے اشیا باہر گرنے لگیں، سینڈوچ کے برتن ہوا میں اڑ اڑ کر ادھر اُدھر گرنے لگے، کافی اور کولڈ ڈرنکس مسافروں کے چہروں اور کپڑوں پر الٹ گئے اور ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ اچانک کھڑکی سے باہر جہاز کے دائیں پَر پر مجھے ایک خوفناک دھماکہ اور آگ دکھائی دی۔ پتا نہیں یہ بجلی کی کڑک تھی یا کچھ اور، بہرحال اس کے بعد جہاز نوک کے بل زمین کی طرف گرنے لگا۔ میری نظر سیٹوںکے درمیان موجود راستے سے ہوتی ہوئی سیدھی کاک پٹ پر پڑ رہی تھی۔

مجھے اپنے بدن میں بھی جہاز کی خوفناک گڑگڑاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ میرے کانوں میں اپنی ماں کے آخری الفاظ ٹکرائے۔ بہت ٹھنڈے اور پر سکون انداز میں انہوں نے کہا ’’لو جی…  سب ختم‘‘۔ ہم بہت تیزی سے زمین کی جانب گر رہے تھے۔ اچانک جہاز کے انجنوں کاشور ختم ہوگیا۔ میری والدہ میری ساتھ والی سیٹ سے غائب ہوچکی تھیں اور اب میں جہاز میں بھی نہیں تھی۔ تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے سیٹ بیلٹ کے ذریعے میں اپنی سیٹ سے اتنے زور سے بندھی ہوئی تھی کہ میرا سانس اٹک رہا تھا۔ جہاز تباہ ہوچکا تھا اور پھر میں بے ہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو میں ابھی زمین کی جانب گر رہی تھی اور نیچے پیرو کا بارانی جنگل نظر آرہا تھا جو لمحہ بہ لمحہ نزدیک آرہا تھا۔

دوبارہ بے ہوش ہونے سے قبل مجھے یہ سب کچھ خواب محسوس ہورہا تھا۔ جب مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں بارانی جنگل کے فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میری سیٹ بیلٹ کھل چکی تھی۔ میں رینگ کر سیٹ کے پیچھے چھپ گئی۔ میں پانی اور گارے میں لت پت ہوچکی تھی۔ مجھ میں ہلنے کی سکت بھی نہ تھی۔ خوف اور مایوسی میںگھری پتہ نہیں میں کب سوگئی یا بے ہوش ہوگئی۔ دوسری صبح میری آنکھ کھلی تو وقت کی مسافت پار کرکے میرے ذہن پر نقش ہوجانے والے لمحات میرے سامنے تھے۔‘‘

’’لانبے درخت، پراسرار سائے، بارش کے پانی کی ٹپ ٹپ، بارانی جنگل کی بو، جھینگروں، مکوڑوں، جنگلی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور دیگر جانوروں کی ہیبت ناک آوازیں، اگر میں پہلی دفعہ جنگل میں آئی ہوتی تو شاید یہ سب کچھ میرا دل دہلانے کیلئے کافی ہوتا مگر چونکہ میں نے والدین کے ہمراہ جنگل میں کافی وقت گزارا تھا اور انہوں نے مجھے جنگل کے متعلق تمام حقائق سے آگاہ کیا تھا اس لیے میں نسبتاً کم خوفزدہ تھی۔ اچانک مجھے شدید پیاس کا احساس ہوا تو میں نے پتوں پر رکے ہوئے بارش کے قطروں کو چاٹ چاٹ کر اپنی پیاس کم کی۔ میں نے سیٹ کے اردگرد ہی رہتے ہوئے جنگل کا چکر لگایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جنگل میں راستہ بھول جانا بہت آسان ہوتا ہے مگر مجھے تباہ شدہ جہاز کا ملبہ کہیں نظر نہ آیا۔ ہاں مجھے میٹھی ٹافیوں کا ایک بکس ملا جس میں سے میں نے ایک کھائی اور باقی سنبھال لیں۔

اچانک مجھے آسمان پر ایک جہاز کے انجن کی آواز سنائی دی۔ میں نے اوپر دیکھا مگر گھنے درختوں کی وجہ سے آسمان نظر نہیں آرہا تھا اور جہاز والوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا کوئی اور طریقہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ یہ میری بے بسی و لاچاری کی انتہا تھی۔ جلد ہی جہاز کی آواز دور ہوتی ہوتی معدوم ہوگئی۔ قریب ہی مجھے ایک ندی کے بہنے کی آواز آئی اور میری کچھ ہمت بندھ گئی کہ شاید یہ ندی میری بقا کا ذریعہ بنے۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگی کہ یہ مجھے کسی آبادی تک لے جائے گی۔ شام 6 بجے اندھیرا چھاگیا تو میں نے رات گزارنے کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ کو ڈھونڈا، ایک ٹافی کھائی اور نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ 28 دسمبر کو میری گھڑی بھی بند ہوگئی جو میری دادی نے مجھے بطور تحفہ دی تھی۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلتی گئی جو آہستہ آہستہ چوڑی ہوتی گئی اور پھر ایک چھوٹے دریا میں تبدیل ہوگئی۔ چونکہ موسم برسات تھا اس لیے درختوں پر کوئی پھل موجود نہ تھا اور اس کے علاوہ میں کسی بھی شے کو کھانے سے گریز کرتی رہی کیونکہ جنگل میں اگنے والے پودے زیادہ تر زہریلے ہی ہوتے ہیں۔ ہاں میں نے ندی سے خوب پیٹ بھر بھر کر پانی ضرور پیا۔‘‘

’’29 یا 30 دسمبر کو مجھے ایک پرندے کی گونجیلی آواز سنائی دی جس نے میرے اعتماد کو بحال کیا اور میری ہمت بندھائی۔ اس پرندے کی آواز میں پہلے بھی کئی دفعہ سن چکی تھی کیونکہ یہ پرندے انسانی آبادی کے قریب ہی اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ میں ایک نئے جذبے کے ساتھ تیز تیز چلنے لگی۔ جلد ہی میں ایک بڑے دریا کے کنارے پر پہنچ گئی مگر وہاں بھی آبادی تو کیا کوئی بھی انسان موجود نہ تھا۔ مجھے دور جہازوں کی آوازیں بھی سنائی دیں مگر پھر غائب ہوگئیں۔ شاید ریسکیو والوں نے تھک ہار کر میری تلاش ختم کردی ہے۔ مجھے یکایک بے انتہا غصہ آیا کہ وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس وقت کہ جب میں اتنی تکالیف سے گزر کر جنگل سے باہر کھلی فضا میں پہنچ چکی ہوں۔

آہستہ آہستہ میرا غصہ مایوسی میں تبدیل ہوگیا مگر میں نے ہمت نہ ہاری کیونکہ مجھے علم تھا کہ جہاں دریا ہو وہاںقرب و جوار میں آبادی ضرور ہوتی ہے۔ میں دریا کے کنارے کنارے چلنے لگی مگر کوشش کے باوجود مجھے آگے بڑھنے میں انتہائی مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ دریا کنارے بہت بڑے بڑے سرکنڈے اور خودرو جھاڑیوں کی بہتات تھی۔ پھر میں نے کنارے چلنے کے بجائے دریا میں تیرنے کو ترجیح دی۔ مجھے سانپوں، مگر مچھوں اور دیگر خونخوار دریائی جانوروں سے خوف بھی محسوس ہورہا تھا مگر یہ سوچ میری ڈھارس بندھا رہی تھی کہ یہ جانور عام طور پر انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ ہر دن کے اختتام پر میں رات گزارنے کیلئے کوئی محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈ لیتی جہاں میں سونے کی کوشش کرتی تھی۔‘‘

’’رات کے وقت جنگلی مچھر، مکھیاں اور مکوڑے مجھے بے حال کردیتے۔ وہ میرے ناک، کان اور منہ میں گھسنے کی کوشش کرتے۔ جس رات بارش ہوتی وہ رات میرے لیے سوہان روح بن جاتی۔ ٹھنڈی برف ہوائیں اور پھر بارش، میری روح تک ٹھٹھر کر رہ جاتی اور میں کانپ کانپ کر اتنی بے حال ہوجاتی کہ مجھ سے مزید کانپا بھی نہ جاتا۔ دن کے وقت میں دریا میںتیرتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی۔ میں کمزور ہوتی جارہی تھی۔ میں دریا کا پانی پیٹ بھر کر پیتی مگر مجھے احساس تھا کہ اگر جلد ہی مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا تو میں زندہ نہ رہ سکوں گی۔ایک دن مجھے اپنی کمر کے بالائی حصے میں شدید درد کا ا حساس ہوا۔ میں نے وہاںہاتھ لگایا تو میراہاتھ خون سے بھرگیا۔ دریا میں تیرتے ہوئے سورج کی تپش میری کمر پر پڑتی تھی جس نے میری کمر کو جھلسا دیا تھا۔ تیرتے ہوئے کئی دفعہ میری آنکھوں نے دھوکہ کھایا اور مجھے یوں لگا کہ میں نے دریا کنارے کوئی گھر یا جھونپڑا دیکھا ہو، مگر بعدازاں وہ میرا وہم اور سراب ثابت ہوا۔ میں ذہن میں اپنے پسندیدہ قسم قسم کے کھانوں کا تصور لاتی اور جب ہر نئے دن دریا میں اترتی تو خود کو سمجھاتی کہ میری محنت ضرور رنگ لائے گی اور میں انسانی آبادی تک پہنچ جاؤں گی۔‘‘

’’دسویں دن میں دریا میں تیرتی تیرتی ایک نسبتاً ہموار سطح والے کنارے پر پہنچی۔ میں نے سوچا کہ سستانے کیلئے یہ اچھی جگہ ہے اس لیے میں چند منٹوںکیلئے نیند کی وادی میں پہنچ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے کچھ دور کنارے پر ایک کشتی نظر آئی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔ میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا مگر کشتی ہنوز موجود تھی مگر میں پھربھی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہی۔ آخر میں کشتی کے پاس پہنچی اور اسے چھوا تو مجھے یقین آیا کہ ہاں یہ کشتی ہی ہے۔ وہاں سے ایک راستہ پہاڑ کی چوٹی کی طرف جارہاتھا۔ میں چوٹی کی طرف چل پڑی جو زیادہ فاصلے پر نہ تھی۔ مگر میں اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ مجھے یہ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگے۔ چوٹی پر مجھے انسانی ہاتھوں کا بنا ہوا ایک جھونپڑا نظر ایا اور وہاں سے ایک راستہ جنگل کے اندر رہنمائی کررہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی کشتی کا مالک یہاں آئے گا مگر رات تک کوئی نہ آیا تو میں سوگئی۔‘‘

’’دوسرے دن میں جاگی تو تب بھی وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ پھر بارش شروع ہوگئی تو میں رینگ کر جھونپڑے میں داخل ہوگئی اور وہاں پڑی ہوئی ترپال اپنے گرد لپیٹ لی۔ دوپہر کے وقت بارش رک گئی۔ میں اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ مجھ میں اب کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہ تھی۔ میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ ’’میں ایک دن مزید اس جھونپڑے میں آرام کروں گی اور کل پھر آگے روانہ ہوجاؤں گی۔‘‘ غروب آفتات کے وقت مجھے دور سے کچھ انسانی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے انہیں اپنا وہم جان کر جھٹکنے کی کوشش کی مگر وہ آوازیں قریب آتی گئیں اور صاف سنائی دینے لگیں، پھر تین آدمی جنگل سے برآمد ہوئے اور ان کی نظر مجھ پر پڑی تووہ پتھرا کر رہ گئے۔

’’میں تباہ شدہ جہاز کی مسافر ہوں اور میرا نام جولیان ہے‘‘

میں نے انہیں نحیف آواز میں بتایا اور آنکھیں موند لیں۔

بُک شیلف

$
0
0

’’پاکستانی خواتین: کام یابی کی داستانیں‘‘

مصنف: فریدہ دائود روکاڈیا

مترجم: ندیم سبحان

ناشر: پرنٹیک کوالٹی پرنٹرر، کراچی

صفحات:222

قیمت:995

گھٹن کے شکار معاشروں میں روشن مثالوں کی کھوج ایک اہم فریضہ ہے، خصوصاً اگر تذکرہ خوابوں پر یقین رکھنے والی خواتین کا ہو، تو کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ فرید دائود روکاڈیا کی یہ کتاب کام یاب خواتین کی داستان بیان کرتی ہے۔ امریکا میں مقیم مصنفہ نے کتاب انگریزی میں تحریر کی، جسے ندیم سبحان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، جو تراجم کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، اور اِس وقت ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں۔

کتاب کے ابتدائی حصے میں ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے انتساب اپنی دادی کے نام کرتے ہوئے اُنھیں اپنے تخلیقی عمل کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ ’’تعارف‘‘ میں اُنھوں نے کتاب لکھنے کے محرکات بیان کیے ہیں۔

کتاب کو گیارہ شعبوں؛ پہل کار، فن و ثقافت، تجارتی اور کاروباری شعبہ، تعلیم اور تعلیمی ادارے قائم کرنا، فیشن اور آرایش حسن، ادب اور اشاعت، ذرایع ابلاغ اور تفریح، طب، سیاست اور حکم رانی، سماجی کارکن، اور کھیل میں منقسم کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 63 خواتین سے متعلق مضامین ہیں، جو اختصار کے ساتھ اُن کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تمام خواتین کی تصویریں شامل کی گئی ہیں، جو کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔

کیا کام یاب خواتین کا یہ انتخاب متوازن ہے؟ یہ فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔ البتہ اِسے ایک سودمند کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل ہے، ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ اِس غیرمجلد کتاب کا کاغذ اور طباعت معیاری ہے، البتہ قیمت بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔

’’نقارہ‘‘ (ناول)

ناول نگار: گنتر گراس

مترجم: باقر نقوی

ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی

صفحات:780

قیمت:1200

ناقدین متفق ہیں کہ یہ عہد، ناول کا عہد ہے۔ اور سماجی حقیقت نگاری کو ایک نئے پہلو سے پیش کرنے والے جرمن ادیب، گنتر گر کو اِس عہد میں نمایاں مقام حاصل ہے، جنھوں نے بہ قول اسد محمد خان، اپنے لکھے ہوئے لفظوں اور برتی ہوئی زندگی میں دوئی مٹانے کا ہنر پالیا تھا۔ جرمن ادب کی آب یاری کرنے والے اِس تخلیق کار کو 99ء نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ’’دی ٹن ڈرم‘‘ جسے چند تجزیہ کار ایک عجوبہ قرار دیتے ہیں، گنتر گراس کی اہم ترین تخلیق تصور کی جاتی ہے کہ اس کے کردار، موضوع اور اسلوب، سب ہی انوکھے ہیں، خصوصاً اِس کا مرکزی کردار آسکر، جس نے اپنی نشوونما روک لی ہے، جو نقارہ نوازی کے عشق میں مبتلا ہے۔

اس پُرپیچ ناول کو اردو میں ڈھالنے کا فریضہ معروف شاعر، محقق اور مترجم، باقر نقوی نے نبھایا ہے۔ باقر نقوی نوبیل انعام یافتگان پر خاصا کام کر چکے ہیں۔ خصوصاً اُن کی کتابیں ’’نوبیل ادبیات‘‘ اور ’’نوبیل امن کے سو سال‘‘ کو اردو کے نثری سرمایے میں سودمند اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور لگتا ہے، وہ اِس سودمند سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کی مثال ’’نقارہ‘‘ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ مختلف ابواب میں منقسم، اس عجیب و غریب ناول کو انھوں نے پختگی کے ساتھ اردو کے قالب میں منتقل کیا ہے، جو قارئین کو ایک نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔

کتاب کے ابتدائی حصے میں مترجم نے اِس ناول کے انتخاب اور ترجمے کے پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ بیک فلیپ پر اسد محمد خان کی رائے درج ہے۔ اندرونی صفحات پر پروفیسر سحر انصاری کے خیالات نظر آتے ہیں۔

گرد پوش کے ساتھ شایع ہونے والی اِس کتاب کا کاغذ عمدہ اور چھپائی معیاری ہے، مگر ایک مسئلہ ہے۔ سرورق ایسا کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ یہ گنترگراس کے کسی ناول کا ترجمہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرورق کتاب کی نوعیت کی بابت بالکل خاموش ہے۔ یہ مسئلہ تب سلجھتا ہے، جب بیک فیلپ یا اندرونی صفحات سے رجوع کیا جاتا ہے۔ امید ہی پبلشر کی جانب سے اگلے ایڈیشن میں اس بات کا دھیان رکھا جائے گا۔

What is Ailing Pakistan and the Way Forward

مصنف: سید محمد سلیم

ناشر: درج نہیں

صفحات:127

قیمت:200

یہ کتاب، جس کی آمدنی فلاحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی ہے، پاکستان کو درپیش مسائل کے اسباب بیان کرتے ہوئے اُن سے نبردآزما ہونے کے امکانات کی نشان دہی کرتی ہے۔

مصنف نے اپنی تخلیق کو ایک عام آدمی کے مشاہدات، خیالات اور تجاویز قرار دیا ہے۔ ’’بیک فلیپ‘‘ پر دیے جانے والے تعارف کے مطابق محمد سلیم، جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے صدر رہ چکے ہیں، ’’ گراس روٹ لیول‘‘ پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اور یہ کتاب اُن ہی تجربات کا نچوڑ ہے۔ پیش لفظ میں وہ واضح کرتے ہیں کہ اِس کتاب کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ اِس کا مقصد عوام میں شعور بیدار کرتے ہوئے اُنھیں صحیح طرز زندگی اختیار کرنے کی تحریک دینا ہے۔

ابتدائی باب میں مصنف نے اِس ریاست کو خدا کا تحفہ قرار دیتے ہوئے اِس کے وسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اگلے باب میں اُن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اِس دوران مصنف نے طبقاتی اور جاگیردارانہ نظام، قیادت کے فقدان، ناخواندگی، ہمارے جمہوری نظام کے سقم، بدعنوانی اور دیگر مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اگلے صفحات میں وہ عوام کو خودمختار بناتے ہوئے اصلاحات پر مشتمل ایک دس سالہ منصوبہ پیش کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک دیرپا تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

اس مختصر کتاب میں ایک وسیع موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زبان سادہ اور رواں ہے۔ ابلاغی عمل میں کوئی رکاوٹ جنم نہیں لیتی۔ جہاں سیاسی و سماجی موضوعات پر کتابیں پڑھنے والوں کے لیے اِس میں مواد ہے، وہیں سیاسیات کے طلبا کے لیے بھی یہ مفید ہوگی۔ اپنے خیالات کی رسائی بڑھانے کے لیے اُنھیں اردو میں اس کی اشاعت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

’’پاک و ہند کے 25 منتخب افسانے‘‘

مرتب: سید فرید حسین

ناشر: فرید پبلشرز، کراچی۔

صفحات: 386 ۔قیمت: 499

زیر تبصرہ کتاب برصغیر کے معروف افسانہ نگاروں کے نمایندہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ افسانوی انتخاب شایع کرنے کا سلسلہ گو پرانا ہے، مگر یہ تاحال اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے کہ اِس نوع کی کتابیں آج بھی قارئین، خصوصاً نئے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کام یاب رہتی ہیں۔ جب اِس قسم کا کوئی انتخاب سامنے آتا ہے، تو پڑھنے والے کے ذہن میں پہلا خیال یہی جنم لیتا ہے کہ مرتب کرنے والا شخص انصاف کے تقاضے پورے کر سکا ہوگا یا نہیں۔ اِس نوع کی بیش تر کتابیں شاید اِس کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہوں، مگر سید فرید حسین اِس محاذ پر کام یاب نظر آتے ہیں، جنھیں ادبی حلقوں میں کتاب دوست ناشر کے طور شناخت کیا جاتا ہے۔

اِس انتخاب میں ابوالفضل صدیقی، احمد ندیم قاسمی، حیات اﷲ انصاری، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی اور پریم چند کے دو دو، جب کہ ممتاز مفتی، محمد خالد اختر، کرشن چندر، قاضی عبدالغفار، غلام عباس، رفیق حسین، خواجہ احمد عباس، خدیجہ مستور اور اوپندر ناتھ اشک کا ایک افسانہ شامل کیا گیا ہے۔

جن افسانہ نگاروں کا انتخاب کیا گیا، اُن کی انفرادی شناخت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جو افسانے منتخب کیے گئے، کیا وہ اُن تخلیق کاروں کے نمایندہ افسانے ہیں؟ بیش تر کے معاملے میں تو اِس کا جواب اثبات ہی میں ہے۔ اِس نقطۂ نظر سے یہ کتاب قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتی ہے۔

’’اظہار خیال‘‘ کے زیرعنوان فرید حسین نے اِس انتخاب کو مرتب کرنے کا مقصد بیان کیا ہے۔ اقبال خاتون نیازی نے مضمون ’’اپنی بات‘‘ میں منتخب افسانہ نگاروں کی بابت اظہار خیال کیا ہے۔ اگر تخلیق کاروں کا، چاہے سے ایک صفحے پر مشتمل، تعارف دے دیا جاتا، تو اور بہتر ہوتا۔

کتاب بڑے سائز کی ہے۔ ’’ڈسٹ کور‘‘ کے ساتھ شایع کی گئی ہے، اِس لحاظ سے قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔

وزن گھٹائیں، سونا پائیں

$
0
0

آپ اگر متحدہ عرب امارات کے شہری ہیں، موٹاپے کا شکار ہیں اور اپنا وزن کم کرنے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں توفوراً دبئی واپس جائیے ۔ وہاں جا کر جب آپ جوں جوں اسمارٹ ہوتے جائیں گے توں توں آپ امیر بھی ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک کلو گرام وزن کم کرنے پرآپ سرکار سے حاصل کریں گے ایک گرام خالص سونا۔

دبئی حکومت نے ملک میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر اپنے شہریوں کو وزن گھٹانے کے بدلے میں سونا دینے کی جو پیش کش کی ہے، وہ اب بہت مقبول ہو چکی ہے۔  پیش کش کچھ یوں ہے ’’ایک کلو گرام وزن کم کریں اور پائیں ایک گرام سونا‘‘۔

دبئی ایک چھوٹا سا شہر ہے مگر دنیا بھر میںاسراف ، فضول خرچی اور دولت کی نمائش کے لیے اب یہ سب سے زیادہ  مشہور ہو چکا ہے ، وہاں کی حکومت نے آج کل ایک  نئی اسکیم متعارف کی ہے جس کا چرچا ہر جانب ہو چکا ہے۔ بے تحاشا موٹاپے کا شکار دبئی کے عربی اب یہ حکمت عملی ترتیب دینے میں مگن ہیں کہ کیسے ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ وزن کم کر کے زیادہ سے زیادہ سونا حاصل کیا جاسکتا ہے؟۔ فربہ خواتین خصوصاً اس اسکیم میں حصہ لینے کے لیے بہت بے تاب نظر آتی ہیں۔ بہت سی’’ عربی آنٹیوں‘‘ نے تو ڈاکٹروں اور پرائیویٹ  Gym Instructors سے اس سلسلے میں خصوصی ہدایات بھی حاصل کر لی ہیں۔کہنے کو  تو مرد بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہیں مگر لگتا یوں ہے کہ مال دار اوراسمارٹ ہونے کے لالچ میں عربی عورتیں یقیناً بازی لے جائیں گی۔

اقوام متحدہ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق مشرق وسطی کے ممالک میں موٹے افراد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے۔گھروں میں نوکروں کی فوج ظفر موج ، دٖفاتر میں کام سنبھالنے کے لیے تیسری دنیا سے امپورٹ شدہ پروفیشنلز،گویا کھانے پینے کے سوا اور آرام کرنے کے علاوہ عربوں کا اور کوئی خاص شغل نہیں ۔ ایسے میں عربوں کی اکثریت کا موٹا ہوجانا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔

اس سروے کے مطابق موٹاپے میں اضافے کی شرح کویت میں ۴۲ فی صد، سعودی عرب میں ۳۵ فی صد، متحدہ عرب امارات میں ۳۳ فی صداور قطر میں ۳۳ فی صد ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں یہی شرح امریکا میں۳۵ فی صد ہے۔گویا موٹاپے میں اضافے کے حوالے سے عرب ممالک نہ صرف امریکا کے برابر ہیں بل کہ تیزی سے اس سے آگے بھی نکلتے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اس وقت دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں کے لوگوں میں موٹاپے کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اسی حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی نگرانی میں ہونے والی ایک اور تحقیق کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ۳۰ فی صد مرد اور ۴۳ فی صد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ دبئی میں کیے جانے اس سروے کے مطابق اسکول جانے والا ہر تیسرا بچہ  موٹاپے کا شکار ہے جو کہ کسی بھی ملک کے لیے ایک انتہائی خطرناک بات سمجھی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ڈاکٹروں اور صحت عامہ کے اداروں  کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کی وجوہات میں آرام طلبی، فاسٹ فوڈ کا بے جاء استعمال اور دولت کی فراوانی شامل ہے۔

صرف پچاس سال قبل متحدہ عرب امارات کی تقریباً تمام آبادی ریگستانوں میں اونٹ چرانے والے بدوئوں یا پھر مچھلیاں پکڑنے والے مچھیروں پر مشتمل تھی اور خال خال ہی کوئی شخص موٹا نظر آتا تھا۔ ۱۹۶۰ کی دہائی میں جیسے ہی وہاں سے تیل نکلا اور مقامی باشندے راتوں رات امیر ہوئے تو سہل پسندی بھی ان کے مزاج کا حصہ بنتی چلی گئی۔ دولت کی اس فراوانی کی گنگا میں ہاتھ دھونے  کے لیے تیسری دنیا کے غریب ممالک خصوصاً انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا، فلپائین، ملائشیا کے بہت سے مزدور پیشہ اور پڑھے لکھے افراد نے متحدہ عرب امارات کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس عمل سے مقامی عرب خواتین کو جہاں گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں نصیب ہو گئیں تو دوسری جانب گھر سے باہر ان کے  شوہروں کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے ہر قسم کا اسٹاف میسر آ گیا۔ ایسے میں اب وہاں کون عربی باشندہ محنت مزدوری کرتا؟ سو اس طرح آغاز ہوا متحدہ عرب امارات میں سہل پسندی اور موٹاپے  کے رجحان کا، جو اب  رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کا حل حکومت نے اس ترکیب کے ذریعے نکالا ہے وہ اب خاصی کامیاب نظر آ رہی ہے ۔

موٹاپا اب عرب ممالک میںوبا ء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پانچ عرب ممالک دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو چکے ہیںجن کی آبادی میں ذیابیطس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ سب اعداد و شمار سامنے رکھتے ہوئے ہی دبئی کی میونسپل کارپوریشن نے سوچا کہ دبئی کے باسیوں کو وزن گھٹانے پر کس طرح آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ جو شخص جتنا وزن گھٹائے گا وہ اتنا ہی سونا پائے گا۔ یعنی ایک موٹا عربی ایک کلو گرام وزن کم کرنے کے بدلے ایک گرام سونے کا حقدار قرار ہو جائے گا۔

اب ایک طرف سونا ہے جو انسان کو اپنی طرف  بلا رہا ہے تو دوسری طرف خوش شکل اور صحت مند دکھائی دینے کی خواہش بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ مقامی عربی مرد و زن نے اس اسکیم کا خو ش دلی سے استقبال کیا ہے  اور خصوصاً خواتین میں اس کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔اس کے علاوہ سب سے زیادہ وزن کم کرنے والے تین افراد کو  قرہ اندازی میں حصہ لینے کا موقع بھی دیا جائے گا جس میں جیتنے والے کو ایک سونے کا خصوصی سکہ انعام میں دیا جائے گا جس کی مالیت ۵۵۴۵ امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ وزن کم کرنے کا یہ مقا بلہ ۱۶- اگست تک جاری رہے گا۔

دبئی کی میونسپلٹی کے ڈائرکٹر جنرل حسین لوطح کہتے ہیں اس اسکیم کو خصوصی طور پر ماہ مبارک رمضان میں اس لیے لانچ کیا گیا ، تاکہ لوگوں کو وزن کم کرنے میںکے آسانی رہے۔ لوگ چوں کہ پہلے ہی روزے سے ہوں گے تو ان کو اچھی عادات اپنانے میںزیادہ دشواری محسوس نہیں ہو گی۔ گو یہ موٹاپے کے خلاف  پہلی کوشش نہیں ہے، اس سے قبل بھی دبئی والوںکو ورزش کرنے اور اپنا وزن کم کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔۲۰۱۱ میں بھی ایسی ہی ایک اسکیم عوام کے لیے بنائی گئی تھی جس میں انہیں دبئی میں جابجا پائے جانے والی عوامی سیرگاہوں میں گھومنے پھرنے اور سیر کر نے کو کہا گیا تھا اور مقابلے میں جیتنے والوں کو نئی کاریں انعام میں دی گئی تھیںمگر یہ اسکیم زیادہ کارگر ثابت ہوئی ہے۔

وزن کے مطابق سونا دینے کی حالیہ اسکیم میں البتہ یہ شرط ضرور رکھی گئی ہے کہ حصہ لینے والے افراد کم از کم۲ کلو وزن کم کریں گے ۔ جو اس شرط پر پورا نہیں اترے گا اس کو انعام کا حق دار نہیں سمجھا جائے گا اوروہ مقابلے سے باہر ہو جائے گا لیکن اس کڑی شرط کے باوجود لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا وزن گھٹانے کے اس دلچپ مقابلے میں حصہ لینے کا امکان پیدا ہو چکاہے۔


پرسکون نیند کے لیے اندھیرا لازمی

$
0
0

بھرپور نیند کے لیے گھپ اندھیرے میں سونا چاہیے یا ہلکی سی روشنی ہونی چاہیے؟

اس ایک سوال نے آج پوری دنیا کے طبی اور دیگر شعبوں کے ماہرین کو پریشان کیا ہوا ہے کیوں کہ نیند ٹوٹ جانے کا مرض (APNEA) پوری دنیا میں اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی آبادی کا 45 فی صد اس عارضے کی لپیٹ میں آ چکا ہے، جس کی گواہی یوں بھی ملتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نیند کی ادویات کی قانونی اور غیر قانونی فروخت کا حجم کھربوں ڈالر میں پہنچ چکا ہے۔گھوڑے بیچ کر سونے  کے حوالے سے سیانے لوگوں کا فرمان ہے’’جو مزہ رات کی نیند کا ہے وہ دن میں کہاں؟ اگر ہم اس بات کی تہہ میں جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ نیند کے دوران قدرتی یا مصنوعی روشنی ہر گز نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا کیا کیا جائے جب صورت حال کچھ یوں ہو جاتی ہے ’’ موت کا ایک دن معین ہے ،نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘۔

حالیہ دنوں میں ہونے والی ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق’’ برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی ویژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اوراسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں ہی دراصل ہماری نیند کی خرابی کی اصل وجہ ہیں‘‘۔ جب  کہ اس سے قبل نیند نہ آنے کی جو متعدد وجوہات بیان کی گئی تھیں ان میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر نہیں تھامگر آج طبی ماہرین بھی اس بات پر متفق  ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کے عام ہونے کی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس ( مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہی ہے۔

نیند کی دواؤں کے عالمی شہرت یافتہ ماہر پروفیسر چارلس زیسلر بھی یہ ہی کہتے ہیں’’ مصنوعی روشنیاں ہی دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں‘‘۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی قدرتی گھڑی  Circadian  Rhythm  اسے دن کے آغاز پر جگاتی ہے اور رات کا اندھیرا پھیلنے پرنیند کی طرف راغب کرتی ہے لیکن مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں موجود اس قدرتی گھڑی کے توازن کو جب بگاڑ دیتی ہیں  تو ہمارے سونے اورجاگنے کے قدرتی عمل میں خلل پیدا ہوجاتا ہے‘‘۔

عالمی جریدے نیچرل  میں شائع ہونے والی اس تحقیق کا مقصد مصنوعی روشنی کے استعمال سے لوگوں کے سونے کی عادت پر مرتب  ہونے والے مضراثرات سے بچانا،انسانی رویے میں تبدیلی لانا اور تکنیکی طریقوں کی مدد سے اس مسلے کا حل تلاش کرنا تھا ۔ پروفیسر زیسلر اپنی اس تازہ تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا ’’جو لوگ  ہر  رات نیند پوری نہیں کرتے ہیں، ان میں فربہ ہونے، یاسیت، اسٹروک اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ نیند کی کمی بچوں میں ارتکاز توجہ کے مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔

مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں نیند کے لیے بننے والے مخصوص ہارمون  Melatonin  کے اخراج میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں جو انسانی جسم کو سونے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور دوسری طرف اعصابی خلیوں  Neurons  (پیغام رسانی کا خلیہ) کو فعال بھی بناتے ہیں۔ اس سے جسم چوکنا رہتا ہے کیوں کہ مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مثلاً  ابھی تو دن جیسا سماں ہے لہذا سونے کے عمل کو مزید ٹالا جا سکتا ہے۔

وہ اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ  برقی بلب کی روشنی سے کہیں زیادہ کمپیوٹر اوراسمارٹ فونز کی ایل ای ڈی لائٹس سونے کے قدرتی نظام کو متاثر کرتی ہیں جو دماغ میں موجود کیمیکلز پرکیفین کی طرح اثرکرتی ہیں اور رات کو دیرتک جاگنے پر اکساتی رہتی ہیں۔ نیند میں خلل کے کئی دیگر عوامل  بھی ہیں جن میں صبح سویرے کام پر جانا، ثقیل غذائیں، مشروبات اور کیفین لینے کی عادت  اہم ہیں لیکن  جاگنے کی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس کو جب ہم بالکل نظر اندازکر دیتے ہیں جو جسم کی قدرتی گھڑی کو کسی بھی دوا سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

پروفیسر زیسلر کے مطابق 1950 سے 2000 کے عرصے میں ایک عام برطانوی باشندے کی زندگی میں مصنوعی روشنیوں کا استعمال چار گنا زیادہ بڑھا ہے جس کے ساتھ نیند نہ آنے کے مرض کی شکایت بھی عام ہوگئی ہے۔’’ ماڈرن دورمیں لوگوں کی مصروفیات کا سلسلہ دن کے بعد رات میں بھی جاری رہتا ہے، بہت سے لوگوں کو رات  میں کئی بار ای میل چیک کرنے کی عادت ہوتی ہے تو کچھ لوگ رات میں ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس دوران انھیں آدھی رات بیت جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے‘‘۔

اس ضمن میں ایک امریکی تحقیق کچھ یوں کہتی ہے ’’ 30 فی صد کام کرنے والے امریکی اور 44 فی صد رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اوسطاً 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں۔ پچاس برس قبل  صرف 3 فی صد امریکیوں میں یہ شکایت پائی جاتی تھی، اسی طرح دنیا بھرکے بچوں میں بھی  1 یا 2 گھنٹے نیند کم لینے کا رجحان نظر آرہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے دن کے 24 گھنٹوں میں سونے اور جاگنے کے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے رات میں دیر سے بستر پر جانا اورصبح سویرے اٹھتے ہی خود کو جگائے رکھنے کے لیے چائے اور کافی پینے کی عادت سے ہماری نیند کا دورانیہ مزید سکڑتا جا رہا ہے‘‘۔

حکومت جو بھی ذمہ داری سونپے، مقصد ملک وقوم کی خدمت ہے

$
0
0

چوہدری محمد سرور معروف بزنس مین اور سیاستدان ہیں۔ سالہا سال تک برطانیہ میں پارلیمنٹ کے ممبر رہے، انھوں نے ہر کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔

دوہفتے قبل اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ چوہدری محمد سرور کو حکومت نے پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ چوہدری محمد سرور بھی غیر متوقع طور پر اپنا طویل سیاسی کیرئیر چھوڑ کر پاکستان آگئے جس سے یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ انھیں پنجاب کا گورنر بنایا جا رہا ہے۔ آج کل وہ پاکستان میں موجود ہیں۔ ایکسپریس نے برطانیہ میں ان کے طویل سیاسی کیریئر اور پاکستان آنے کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے متعلق بتائیں۔

چوہدری محمد سرور: ہمارا خاندان 1947ء میں جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ فیصل آباد کے قریب چک109ہے ، ہم وہاں چلے گئے۔ وہاں پر میرے انکل غلام محمد 47ء سے سال چھ مہینے پہلے واپس آئے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ لوگ کسی نئی جگہ جائیں تو پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کچھ پیسے جمع کر کے پہلے اپنا گھر بنا لیں‘ آج بھی یہی سوچ ہے‘ تو میں حیران ہوتا ہوںکہ آج سے 50 سال پہلے بھی یہی سوچ تھی کہ کچے مکان ہی بنا لیں اور پھر انہیں پکا کرلیں گے اور وہی انہوں نے کیا۔ ہمارے پاس جو کاغذات تھے ان پر کلیم کے ذریعے 20 ایکڑ زمین حاصل کی جو کاغذات نہیں ملے اور ساتھ نہیں لا سکے ان کا کلیم نہیں ملا۔ 6، 6 ایکڑ زمین سب کے حصے میں آئی۔ پیدا میں ادھر ہی ہوا۔ پھر 5 سال کا تھا جب 331 گ ب چلے گئے۔

ہمارے رشتے دار بیٹھے تھے 331 گ ب پیر محل، تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ ادھر چک 109 میں تو ہم اکیلے تھے۔کیونکہ برادری ادھر بیٹھی ہوئی تھی اس لئے ہم بھی بعد میں ادھر چلے گئے۔ میرے تایا جی کے کچھ پیسے جو ہندوستان میں بینک میں پڑے تھے‘ انہیں مل گئے۔ ان پیسوں سے انہوں نے کچھ زمین خریدی۔ میرے تایا جی نے زیادہ رقبہ لے لیا لیکن چھ ایکڑ مزید میرے والد صاحب کے نام کرا دیا۔ پرائمری تعلیم 331 گ ب میں حاصل کی‘ درختوں کے نیچے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ جو ناکافی سہولیات اب ہیں، مثلاً سکولوں کی چار دیواری نہیں ہے‘ پنکھے نہیں ہیں، یہ سب اس وقت بھی تھا، لیکن فرق یہ ہے کہ ہمارے دور کے استاد بہت Commited تھے اپنے کام سے۔ حالانکہ وہ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے جتنا آج کل ہوتے ہیں‘ لیکن اس وقت کے ٹیچر نے 12 جماعتیں بھی اگر پڑھی تھیں‘ تو اس کا خیال ہوتا تھا کہ جتنا علم اس کے پاس ہے‘ وہ اتنا ہی بچوں کو بھی دے دے۔ شام کو ماسٹر اپنے گھر میں بھی بلا لیتا تھا۔ اب تو کوئی ٹیچر ٹائم پر سکول جاتا ہی نہیں اور کہتا ہے کہ میرے گھر پر آ کے ٹیوشن پڑھ لو۔

بہر حال میں نے پرائمری ادھر سے پاس کی اور گھر سے دو میل دور 331گ ب میں ہائی سکول تھا‘ میں نے چھٹی جماعت میں وہاں داخلہ لے لیا۔ روز پیدل آتا جاتا تھا۔ والد صاحب 1957ء میں تایا کے ساتھ UK چلے گئے تھے۔ والدہ نے مجھے کہا کہ جب مڈل پاس کر لو گئے تو تمہیں سائیکل لے دوں گی اور دوسری بات یہ کہ اب نویں جماعت سے ڈیسکوں پر جا کے بیٹھنا‘ اب ٹاٹوں پر نہیں بیٹھنا۔ نویں جماعت میں مجھے سائیکل مل گیا۔ میں بہ مشکل پانچ چھ دن ہی سائیکل پر گیا ہوں گا کہ میں بور ہونے لگا۔ پہلے لڑکوں کے ساتھ جاتا تھا اور ہم گپیں مارتے جاتے تھے اور واپس آتے تھے‘ اس لئے کچھ دنوں بعد ہی اکتا کر دوبارہ پیدل آنے جانے لگا دوستوں کے ساتھ۔ 69ء میں میڑک کے بعد مزید تعلیم کے لئے فیصل آباد چلا گیا۔ فیصل آباد سے میں نے گریجویشن کی ہے اور پھر 76ء میں یوکے چلا گیا۔

ایکسپریس: برطانیہ میں اس مقام تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد تفصیل سے بتائیں؟

چوہدری محمد سرور: اس وقت خیال یہ تھا کہ جب ادھر جائیں گے تو درختوں پر پیسے لگے ہوں گے‘ VIP لائف ہو گئی‘ وہاں سے بہت سارے پیسے لے آئیںگے اور پھر یہاں آ کر اپنا کاروبار شروع کریں گے۔ میرے والد صاحب اور بھائی بھی پہلے یوکے چلے گئے تھے۔ میں نے بھائی اور کزن کی دکان پر ان کے ساتھ کام شروع کر دیا‘ لیکن وہ دکان افورڈ نہیں کر سکتی تھی کہ میری‘ میرے بھائی اور کزن کی تنخواہ دے سکے۔ اس لئے میں نے سیلز مینی شروع کر دی۔ جس طرح ادھر جمعہ یا اتوار سستے بازار لگتے ہیں‘ اسی طرح ادھر بھی ہفتے میں دو تین دن سستے بازار لگتے ہیں۔ میں نے وہاں جانا شروع کر دیا۔ میں نے چھ مہینے اس طرح مارکیٹ میں سیلز مینی کی۔

میں کبھی سوچوں کہ سب کچھ چھوڑ کے دو جماعتیں اور پڑھ لوں یا کسی بینک وغیرہ میں ملازمت کر لوں۔ ایک پروفیسر صاحب تھے قریشی صاحب‘ فیصل آبادایگری کلچر یونیورسٹی کے‘ ان کے ساتھ میرا اچھا تعلق تھا۔ وہ ادھر آئے تو میں انہیں کھانے کے لئے لے گیا اور بتایا کہ بڑا پریشان ہوں۔ خاص طور پر وہاں بڑی ٹھنڈ تھی‘ کئی دن سورج نہیں نکلتا تھا۔ گلاسکو ‘ سکاٹ لینڈ جہاں ہم رہتے ہیں‘ ادھر لندن سے بھی زیادہ شدید سردی پڑتی ہے۔ پروفیسر صاحب سے مشورہ مانگا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے کزن کب یہاں آئے تھے؟ میں نے کہا کہ مجھ سے 10,8 سال پہلے آ گئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ ابھی تم ان سے 10 سال پیچھے ہو اور اگر دوبارہ پڑھنے لگ گئے تو 20 سال پیچھے ہو جاؤ گئے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈگریاں میرے پاس ہیں۔ لیکن 22 تاریخ ہوتی ہے تو دال پر گزارہ کر رہا ہوتا ہوں۔ میں تمہیں مشورہ دیتا ہوںکہ بزنس جس پر تم لگے ہو۔ اس کو نہ چھوڑو بلکہ سب کچھ بھول بھال کے اس پر ڈٹ جاؤ۔ اب تمہیں 30 پاؤنڈ یہاں سے مل رہے ہیں ہفتے کے۔ ہو سکتا ہے کہ نوکری میں 50 پاؤنڈ ملنا شروع ہو جائیں‘ لیکن پھر تم ساری عمر نوکری ہی کرو گے۔ اس لئے بزنس پر ڈٹ جاؤ۔ چنانچہ یہ بات میں نے پلے باندھ لی۔

میرے کزن اور بھائی کی جو دکان تھی وہ نفع نہیں دے رہی تھی اور پارٹنرز کے درمیان غلط فہمی بھی پیدا ہو گئی۔ ایک دن میرے انکل، جو میرے سسر تھے، جہاں میں کام کرتا تھا‘ وہاں آئے تو مجھے دیکھا کہ ٹھنڈ میں کھڑا کپڑے بیچ رہا ہوں۔ میں گھر پہنچا تو کہنے لگے کہ میں تمہیں کچھ پیسے دیتا ہوں اور کپڑوں کی دکان بنا کے دیتا ہوں‘ تم وہ کر لو‘ کیونکہ سخت کام تمہارے بس کا روگ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے صبح تک کا ٹائم دیں‘ میں آپ کو سوچ کر بتاؤں گا۔ میں نے سوچا کہ رشتہ بڑا نازک ہے‘ پہلے ہی کام نہیں ہو رہا‘ اگر میں ان سے 10,7,5 ہزار پاؤنڈ قرض لے کے کام شروع کرتا ہوں اور وہ کامیاب نہیں ہوتا، نقصان ہو جاتا ہے تو ساری عمر بیوی کی لعن طعن برداشت کرنا پڑے گی۔ اس لئے یہی کام بہتر ہے۔ میں صبح ان کے پاس گیا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں ناتجربہ کار ہوں اور مجھ سے کام نہیں ہو رہا تو میں تھوڑے سے دھکے اور کھا لوں‘ پھر آپ کی مدد کی ضرورت ہوئی توبتاؤں گا۔ پھر بھائی کی جو دکان تھی میں نے وہ لے لی۔ دکان ویسے بھی خسارے میں جا رہی تھی‘ میں نے سامان‘ شیلفوں کے پیسے دے دیئے۔ کچھ بینک سے قرض لے لیا اور کچھ ہزار پاؤنڈ میرے اپنے پاس جمع تھے۔ اس طرح سے میں نے وہ دکان خریدی۔

ادھر مسئلہ یہ تھا کہ چونکہ وہ ایریا ڈویلپمنٹ سکیم میں آتا تھا‘ اردگرد کے گھر خالی پڑے ہوئے تھے‘ اس لئے اس علاقے میں چوہے بہت آئے ہوئے تھے۔ وہ کونے کھدروں سے چھپ کر آتے‘ بسکٹ بھی کتر جاتے تھے اور چاکلیٹ بھی۔ دن کے وقت یہ ساری چیزیں ضائع کرنا پڑتی تھیں۔ اتنے خطرناک چوہے تھے کہ پلاسٹک کی جو بوتلیں ہیں‘ ان کو بھی کتر کر چلے جاتے تھے۔ میں نے پھر دو بلے لا کر اس دکان میں چھوڑ دیئے۔ آپ یقین کریں کہ وہ چوہے اتنے خطرناک تھے کہ انہوں نے ان بلوں کو بھی مار دیا۔ جب میں نے صبح دکان کھولی تو دیکھا کہ دونوں بلے مرے پڑے تھے۔ پریشان کھڑا حل سوچ رہا تھا کہ ایک بوڑھا گورا آیا اور کہنے لگا:

Hellow son! How are you?

میں نے جواب دیا:Very Bad

کہنے لگا: Whats the Problem

میں نے کہا :Problem are rats, they are eating my all profit and I have no solution

گورا کہنے لگا: Son! I have a solution

میں نے پوچھا کہ بتاؤ بھائی! تمہارے پاس کیا حل ہے۔ دکان بند کرنی ہے؟ کہنے لگا نہیں تم ایک دن چھ بجے دکان بند کر کے مجھے یہاں لاک کر جانا‘ اس کے علاوہ اینٹیں لے آؤ اور سیمنٹ لے آؤ۔ آئیڈیا اس کا بڑا زبردست تھا۔ اس نے کہا کہ دیواروں سے‘ جہاں سے چوہے آتے ہیں‘ ان پر سیمنٹ اور اینٹوں سے دو دو انچ کی ایک اور تہہ چڑھا کر انہیں بند کر دیتے ہیں پھر چوہے اندر نہیں آ ئیں گے۔ خیر اس بوڑھے گورے نے ایک رات ایک دیوار کر دی‘ دوسری رات دوسری اور پھر اسی طرح تیسری اور چوتھی دیوار کوبھی اینٹوں اور سیمنٹ سے مکمل بند کر دیا۔ اب چوہوں کا آنا بند ہو گیا اور دکان نفع دینے لگی ۔

میری زندگی کبھی ہموار نہیں رہی‘ ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف رہی ہے۔ جب میں سوچتا ہوںکہ اب سب ٹھیک ہو گیا ہے‘ وہاں بھی تکلیف آ جاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی تنازع کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا۔ برطانیہ میں بھی مجھے Britains most controversial MP کہا جاتا تھا۔ اب بھی جب سال چھ مہینے ہو جائیں اور لگے کہ زندگی ہموار ہو گئی ہے تو مجھے زندگی میں اکتاہٹ ہونے لگتی ہے اور میں مشکل ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہوں۔ ہلا گلا ہوتا رہے تو بہتر ہے۔

بہرحال میں ایک دن دکان پر گیا تو نوٹس آیا ہوا تھا ، دکان کو منہدم کرنے کے آرڈر تھے کہ اتنے دنوں میں خالی کر دو۔ میں نے نوٹس دینے والوں کو فون کیا کہ آپ سے ایک ملاقات کرنی ہے۔ انہوں نے کل آنے کا کہہ دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ میں نے لوگوں کے پیسے دینے ہیں، ایک بنا بنایا کام ہے۔ آپ اس طرح سے نہیں کرسکتے کہ میری دکان کو ختم کردیں۔ آپ مجھے اس کے بدلے کوئی اور دکان دے دیں۔ وہ بندہ بڑا اچھا تھا۔ اس نے مجھے لسٹ دے دی کہ یہ شہر میں خالی دکانوں کی فہرست ہے، تم اس میں اپنی پسند کی دو، تین دکانیں پسند کرکے مجھے بتادو۔ ایک دکان مجھے پسند آئی وہ کہنے لگے کہ آفر بھیج کے وہ دکان لے لو۔ میں نے کہا تم بتائو کہ تم نے کتنے پیسے لینے ہیں۔ کہنے لگا کہ ہم بتاتے نہیں ہوتے۔ میں نے کہا کہ چلو آئیڈیا ہی دے دو کہ کتنے پیسوں کی آفر بھیجوں۔

اس نے مجھے بتایا، میں نے آفر بھیج دی اور وہ دکان مجھے مل گئی۔ میں نے اپنا سامان اس دکان میں منتقل کردیا۔ یہ دکان بہت بہتر تھی، سیل بہترہوگئی، پھر اس کے بعد ڈسٹری بیوشن، ہول سیل کا کام شروع کردیا۔ Always you learn, you Pick the ideas مثلاً ہم کیش اینڈ کیری میں جاتے تھے سامان خریدنے۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم سارا دن کماتے ہیں اور پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور سارے ان کودے دیتے ہیں۔ تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ ہم کیوں نہ کریں یہ کام۔ میں نے دو چیزیں نوٹ کیں کہ گاہک ہم سب کالے ہوتے تھے، لیکن کیش اینڈ کیری کے مالک سارے گورے تھے۔ اور سلوک بھی ان کا کوئی اچھا نہیں تھا، میں سوچنے لگا کہ اگر میں خود بنائوں اور مال بھی انہیں اچھادوں اور سلوک بھی اچھا کروں تو یہ لوگ میرے پاس کیوں نہیں آئیں گے۔ پھر میں نے ہول سیل کا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ کاروبار ترقی کرتا گیا۔

ایکسپریس: اب اپنے سیاسی کیرئیرکے بارے میں بتائیں؟

چوہدری محمد سرور: 1982ء میں لیبر پارٹی جوائن کی ۔ جب بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو ہم نے برطانیہ میں Save the Bhutto کمپین چلادی۔ ریلیوں میں جانا، کونسلروں سے رابطے کرنا، جن سے زیادہ رابطے ہوئے ان کا تعلق لیبر پارٹی سے تھا۔ اس طرح ان سے ایک تعلق بن گیا۔ پھر سوچا کہ یہ بھی غریبوں کی بات کرتی ہے، انصاف اور برابر حقوق کی بات کرتی ہے، جو میرے آئیڈیلز ہیں، اس کے بھی ہیں، اس لیے میں لیبر پارٹی میں شامل ہو گیا۔ دوستوں نے کہا کہ الیکشن لڑلو، میں نے کہا ٹھیک ہے اور الیکشن کے لیے کھڑا ہوگیا۔ حالانکہ 28 سال سے یہ ٹونی کی سیٹ تھی، کیونکہ وہاں سارے امیر لوگ رہتے تھے، بڑے گھروں میں رہتے تھے، وہ سب ٹونی کو ووٹ دیتے تھے۔ 92ء میں پہلی دفعہ میں کونسلر منتخب ہوا اور 95ء میں دوسری دفعہ۔ پہلی دفعہ میں 400 ووٹ سے جیتا تھا اور دوسری دفعہ ایک ہزار ووٹ سے۔

پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ MP کے لیے بھی لڑا جائے۔ میرا جو MP تھا، اس نے ریٹائر ہونا تھا۔ میں نے اس سے ملاقات کی، اس نے مجھے کہا کہ تم میری جگہ لینے کے لیے موزوں شخص ہو۔ میں نے کہا یہ کام بڑا مشکل ہے۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟ اس نے ہامی بھر لی۔ جب تک تو میں کونسلر تھا، اس وقت تک کوئی میرے خلاف نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے: Muhammad is great ، Muhammad is doing good job ، Muhammad cares people وغیرہ۔ لیکن جس دن اخباروں میں آیا کہ Muhammad would be first Muslim MP in Britain ، Muhammad would be first Asian MP in Scotland تو پتا نہیں دشمن کہاں سے آئے، اللہ ہی جانتا ہے۔ گویا آسمان ٹوٹ پڑا اور زندگی مشکل ہوگئی۔ اچانک سارے عہدے دار، سیاسی لوگ اور میڈیا میرے خلاف ہو گیا۔

جب میری مخالفت بڑھتی ہے تو میں اور زیادہ متحرک ہوجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ لو اب یہ لڑائی لڑنی ہے، اللہ مالک ہے۔ 95ء میں سلیکشن کے لیے گیا اور انہوں نے دھاندلی سے مجھے ایک ووٹ سے ہرا دیا۔ برطانیہ، یورپ بلکہ امریکہ میں بھی کوئی مسلم MP نہیں تھا اور یہ دنیا کے لیے بہت بڑی خبر تھی۔ پھر خاص کر وہ بندہ جس نے 1986ء میں وہاں فلسطین پر کانفرنس کرائی۔ جس نے فلسطین کا جھنڈا سٹی چیمبرز (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) پر لہرا دیا اور تین دن تک یہ جھنڈا لہراتا رہا۔ انہوں نے میرے 52 ووٹ مسترد کردیئے تھے۔ 345 ووٹ میرے تھے اور 345 ووٹ میرے مخالف کے۔ لیکن پہلے بیلٹ میں اس کا ایک ووٹ زیادہ تھا۔ انہوں نے ووٹ اس بنیاد پر مسترد کیے تھے کہ دستخط آپس میں نہیں ملتے۔ مثلاً جب آپ ووٹ کے لیے اپلائی کرتے ہو، اسں وقت دستخط کرتے ہو اور جب اپنا ووٹ بھیجتے ہو، اس وقت بھی دستخط کرتے ہو۔ پھر وہ دیکھتے ہیں کہ یہ دستخط ایک دوسرے سے ملتے ہیں یا نہیں۔ میں نے اپنی پارٹی سے کہا کہ 52 ووٹ آپ نے اس بنیاد پر مسترد کیے ہیں کہ دستخط آپس میں نہیں مل رہے۔ یہ دستخط آپ ہینڈ رائٹنگ کے کسی ماہر کو بھجوادیں۔ وہ اگر کہہ دے کہ یہ واقعی نہیں ملتے تو میں شکست تسلیم کرلوں گا۔اس لیے آپ اسے چیک کرالیں یا پھر ری بیلٹ کرا لیں لیکن پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے ماننے سے انکار کر دیا اور میرے حریف امیدوار مائیک واٹسن کے منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔

رزلٹ کے بعد پریس کانفرنس میں پارٹی نے اعلان کیا کہ ہمارا یہ امیدوار منتخب ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مائیک واٹسن کی باری آئی۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگرچہ فتح کا مارجن بہت کم ہے، لیکن Victory is Victory چاہے ایک ووٹ سے ہی کبوں نہ ہو۔ پھر میری باری تھی، میں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اپنی شرائط پیش کیں۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر تم کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ پارٹی سے میرا پہلا مطالبہ یہی ہے کہ وہ الیکشن null and void قرار دے۔ ورنہ مجھے انصاف کے لیے عدالتوں کا ہی رخ کرنا پڑے گا لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اگلے دن کی اخباروں میں یہ سب آگیا۔ مجھے انہوں نے کہا کہ ہم تحقیقات کرادیتے ہیں، میں نے کہا کہ آپ کسی بھی آزاد برطانوی ادارے سے تحقیق کرا لیں، مجھے اس کے نتائج قبول ہوں گے۔ انہوں نے ایک unity Balleting Services کے نام سے ادارہ تھا، اس کو تحقیقات کے لیے کہہ دیا۔ اس کی رپورٹ بڑی تباہ کن تھی، جس میں کہا گیا کہ انتخاب میںدھاندلی ہوئی ہے اور جو ووٹ مسترد کیے گئے ہیں، ان کے دستخط آپس میں ملتے ہیں۔ چنانچہ پارٹی نے الیکشن null and void قرار دے دیئے۔

اب پارٹی نے کہا کہ تینوں امیدواروں کی جگہ نئے امیدوار لے آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مائیک واٹسن سے میری کوئی ذاتی لڑائی تونہیں ہے جو میرے ساتھ اسے بھی رد کررہے ہو۔ اگر آپ نے ایسا ہی کرنا ہے تو پھر جمہوریت کہاں گئی۔ خیر انہی امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوا اور میں 82 ووٹ سے جیت گیا۔1997ء میںMP کا الیکشن ہوا۔ اللہ کی مہربانی سے میں جیت گیا اور برطانیہ کے پہلے مسلمان MP بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ جو کہ بہت بڑی بات تھی۔ مجھے بعد میں کسی نے بتایا کہ قائداعظم نے بھی برطانوی پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہوکر یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش وہ کسی دن اس کے ممبر بینں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ کا خواب میں نے پورا کردیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن پاک پر میں نے حلف لیا۔ پھر دوسرا الیکشن ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرے خلاف جو کیسز بنے، جج نے تمام کیسز Dismissed کردیئے۔ لاکھوں روپے دے کر جتنے گواہ میرے خلاف کھڑے کیے گئے سب کو ہم نے غلط ثابت کردیا۔ جیسے ہی میں MP بنا، فوراً ہی حملہ شروع ہوگیا۔ میرا سیاسی کریئر ختم کرنے کیلئے ایک ملین پائونڈ فنڈ انہیں میسر تھے، میری کتاب آ رہی ہے جس میں لوگ تفصیل سے پڑھیں گے یہ سب۔ جب میں عدالت میں کیس جیتا تو کچھ تو میڈیا ٹھیک ہوگیا، لیکن جو بگڑا ہوا تھا اس نے لکھا کہ محمد سرور قانون کی عدالت میں تو جیت گیا ہے لیکن عوام کی عدالت میں ہار جائے گا۔ جب عوام کی عدالت کی باری آئی تو پہلے الیکشن میں میری 3000 کی اکثریت تھی اور اگلے الیکشن میں عوام مجھے ساڑھے چھ ہزار کی برتری پر لے گئی۔ یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ پھر میڈیا نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔

ایکسپریس: آج کل میڈیا میں مختلف حوالوں سے آپ پر تنقید بھی ہو رہی ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

چوہدری محمد سرور: ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ سیاست اور جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوسکتی ہے اور اسی کی خامیاں دور ہوسکتی ہیں، جب میڈیا ان کی خامیوں کو اجاگر کرے۔ سیاستدانوں کو بھی اسے صحیح طور پر لینا چاہئے کہ جو انہیں ان کی خامیوں کا بتائے وہ ان کا مخالف نہیں بلکہ دوست ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر میں کچھ غلط کررہا ہوں تو یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجھے بتائیں کہ میں کہاں غلط ہوں۔ تو یہ اچھی Contribution ہے میڈیا کی، جو وہ کررہا ہے۔ لیکن اسی طرح میڈیا کو بھی اخلاقیات اور انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جسے بھی طاقت اور اختیار ملا اس نے اس کا غلط استعمال کیا۔

فوج کے پاس طاقت آئی تو انہوں نے غلط استعمال کیا۔ سیاستدانوں کے پاس آئی تو انہوں نے غلط استعمال کیا۔ اسی طرح میڈیا نے بھی کیا۔ طاقت کا غلط استعمال ہمارے مسائل کی بڑی وجہ ہے۔ کچھ لوگ یہاں پر کہہ رہے ہیں کہ ولایت میں کسی بندے پر الزام لگتا ہے تو وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ اب الزام تو کل میں کسی پر بھی لگادوں تو کیا وہ مستعفی ہو جائے گا؟ وہاں مستعفی وہ ہوتا ہے جو beyond reasonable doubt مجرم ہو، یعنی وہ بندہ جو عدالتوں کا سامنا نہیں کرسکتا۔ ادھر قانون کی اور عدالتوں کی بہت بڑی طاقت ہے اور کوئی یہ نہیں کرسکتا کہ کسی کی سفارش کراکے اپنے آپ کو بچالے۔

کچھ لوگ یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ جس وقت میں MP تھا، اس وقت استعفی دے کر پاکستان کیوں نہیں آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں یقین رکھتا تھا کہ میں برطانوی اقلیتی مسلمانوں، بلکہ پاکستان اور یورپی دنیا کے مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر کام اس حیثیت میں کرسکتا ہوں۔ اب جب میں ریٹائر ہوچکا ہوں اوروہ خلاء نہ صرف میرے بیٹے بلکہ دوسرے ممبران پارلیمنٹ کی صورت میں پر چکا ہے۔ میرا بیٹا نہ صرف ممبر پارلیمنٹ ہے بلکہ وہ پارٹی کا ڈپٹی لیڈر بھی ہے۔ تو وہ لوگ پاکستان اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اوردفاع کررہے ہیں۔

ایکسپریس: کیا میاں برادران سے ذاتی تعلق کی وجہ سے آپ کا نام اہم سیاسی عہدے کے لیے زیر غور ہے؟

چوہدری محمد سرور: بات تعلقات کی نہیں ہے۔ بات تو یہ ہے کہ میں اس ملک کیلئے کیا کرسکتا ہوں۔ باہمی تعلق کا تو اس میں کوئی ایسا ایشو نہیں ہے۔ اگر میں اس ملک کیلئے Contribute کرسکتا ہوں تو پھر بات ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں 35 سال ملک سے باہر رہا ہوں، لیکن کوئی ایک ایسا موقع بتادیں جب یہاں کے لوگوں کو میری ضرورت ہو اور میں نہ آتا ہوں۔ ادھر سے ممبر آف پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ سوچ نہیں سکتے کہ وہاں میری کتنی مصروفیات ہوں گی۔ جب زلزلہ آیا تو میں فوراً پہنچا اور کئی دن لگائے۔ متاثرہ علاقوں میں گھر، سکول، ہسپتال وغیرہ بنائے پھر جو حکومت سے گرانٹ لی وہ علیحدہ ،میں نے حکومت سے کہا وہاں لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں نکالنے کے لیے فوری طور پر چینک ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے۔ وہاں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے چینک ہیلی کاپٹروں نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ کسے نہیں پتا۔ ہڈیوں کا مسئلہ ہوا تو میں خود وہاں سے Artifical limbs ساتھ لے کر آیا، برٹش ڈاکٹر یہاں پہنچے۔

انہیں چھٹیاں لے کر دیں کہ وہ تنخواہ کے ساتھ یہاں متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے کام کریں۔ گلاسکو سٹی کونسل کا ایک ایمپلائی تھا، اسے چھ مہینے کی تنخواہ کے ساتھ چھٹی لے کر دی تاکہ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں فل ٹائم کام کرے۔ سیلاب آیا تو میں دو مہینے ادھر تھا، سندھ، خیبر پختونخوا، کوٹ ادو میں کام کیا۔ سکول، گھر تعمیر کرائے۔ جنوبی پنجاب میں 10 ہزار فوڈ پارسل لوگوں میں تقسیم کیے، آرمی والے کہتے کہ یہ بہترین فورڈ پارسل تھے جو لوگوں میں تقسیم ہوئے۔ سو میرا جذبہ اور محبت جو اس ملک کے لیے ہے وہ میرا نہیں خیال کہ Questionable ہے۔ اس کے علاوہ MP ہونے کے باوجود میں نے رجانہ میں ہسپتال بنایا۔ 60 ہزار مریض سالانہ وہاں علاج کی سہولیات لے رہے ہیں۔ پھر چیچہ وطنی ہسپتال بنایا۔ ادھر 70 ہزار مریضوں کا سالانہ علاج ہورہا ہے۔ پیرمحل میں فائونڈیشن پبلک سکول بنایا ہے جہاں 350 بچے پڑھ رہے ہیں۔ اس لیے جب میں یہاں نہیں بھی تھا اس ملک کے لیے کام کررہا تھا اور اب بھی انشاء اللہ جو ہو سکا کرتا رہوں گا۔

ایکسپریس: کہا جارہا ہے کہ میاں برادران کی کسی خدمت کے پیش نظر آپ کو یہ عہدہ دیا جارہا ہے؟

چوہدری محمد سرور: بات یہ ہے کہ نہ میاں برادران کی میں نے کوئی خدمت کی ہے، نہ کوئی فیور کی ہے۔ اگر کسی کا کوئی کام ہے اور Merit پر ہوتا ہے تو ہونا چاہئے۔ میاں برادران ہوں، کوئی اور ہو، میں ہوں، اگر کسی بندے کے ساتھ کوئی زیادتی ہورہی ہے اور قانون اس کی ہیلپ کرتا ہے تو یہ ان کی فیور نہیں ہے، یہ اس کا right ہے۔ یقین مانیں کہ میں قطعاً ایک منٹ کے لیے یہ نہیں سوچتا کہ میں نے میاں برادران کو کوئی فیور دی ہے۔ یا میاں برادران سے میرا جو رشتہ ہے۔ لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کا تعلق لیفٹ سے ہے۔ آپ لیبر پارٹی کے ہیں، وہ رائٹ کے۔ میں جتنی دفعہ بھی میاں شہباز شریف صاحب سے ملا ہوں لاہور میں اور یوکے میں میاں نواز شریف صاحب سے ملا ہوں یہاں پہ  کبھی ہماری یہ گپ شپ نہیں ہوتی کہ آج موسم اچھا ہے، ہمیشہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اس ملک کے عوام کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب بھی میری ان سے گفتگو ہوتی ہے‘ نیتوں کے حال تو اللہ جانتا ہے، لیکن میں نے جو بات نوٹ کی ہے کہ ان میں غریبوں کے لئے اور اس ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہے۔

سوشلسٹوں کو بھی میں جانتا ہوں کہ ان کا جذبہ کتنا ہے‘ لیکن میں 100 فیصد آپ کو کہتا ہوں کہ ان کی نیت صاف ہے۔ وہ ملک کو دوبارہ ٹریک پر لانا چاہتے ہیں اور میں اسی وجہ سے اپنی ساری توانائی اور تجربہ ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔اگر میں یقین رکھتا کہ وہ ایماندار نہیں ہیں اور کام کرنا نہیں چاہتے تو میں کبھی ان کے ساتھ شامل نہ ہوتا۔ بہت سے لوگ‘ جو میرے خلاف لکھ رہے ہیں‘ مجھے کہتے تھے کہ میرا جو مقام ہے‘ وہ اس طرح کا نہیں ہے کہ میں کسی ایک جماعت کو سپورٹ کروں۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ اس ملک کی بقا اور بہتری کے سامنے میرا مقام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 1122 کے عہدے داروں کی انگلستان میں ٹریننگ میں نے ممکن بنائی ہے۔ ایک ادارہ ہے جو لوگوں کی خدمت کر رہا ہے اور میں کہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کو ہی میری نجات کا ذریعہ بنا دیں۔اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ میں امپورٹڈ ہوں۔امپورٹڈ تو فصلی بیٹرہ ہوتا ہے جو آیا اور بھاگ گیا۔ میں تو 35 سال سے یہاں کام کر رہا ہوں۔

میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوںکہ اگر لوگوں کو پرکھنا ہے تو ان کی باتوں سے نہ پرکھو۔ ان کا ٹریک ریکارڈدیکھ لو بس۔ورنہ میں سوچ سکتا ہوں کہ اب ریٹائر ہو گیا ہوں تو سکون سے رہوں یا بزنس وغیرہ ٹھیک ہے تو مجھے ادھر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر یہ تو ابھی ذمہ داری کی بات ہے۔ لیکن اگر عہدہ نہ بھی ہوتا تو میں نہ آتا ادھر؟ تین سال ہو گئے ہیں ریٹائر ہوئے مجھے۔ میں ہر سال ادھر آتا ہوں اور آدھا ٹائم ادھر رہتا ہوں‘ آدھا یو کے میں۔ ادھر میں اپنے ادارے چلاتا ہوں۔ کچھ دوست ناراض ہیں کہ ملاقات نہیں ہوسکی‘ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں کوئی بہت مغرور ہو گیا ہوں‘ بلکہ ایک دن میرا فاونڈیشن ہسپتال میں گزر جاتا ہے‘ ایک دن رجانہ میں‘ ایک دن پیر محل میںگزر جاتا ہے۔ میں کوٹ ادو میں مشہور ہو گیا لوگوں میں‘ پھر چارسدہ میں جانا ہوتا ہے تو میں یہاں رفاہی کاموں میں ہی مصروف ہوں، کون سا اپنے ذاتی کام کر رہا ہوں۔

ایکسپریس: ملک کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے اور آپ اس ملک کے لئے خدمت کا جذبہ لے کر آئے ہیں۔ گورنر کا ایک آئینی عہدہ ہے جس کا کوئی ایسا کردار نہیں ہے‘ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپ کو کوئی اور موزوں عہدہ دیا جاتا‘ جس سے آپ ملک کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوتے؟

چوہدری محمد سرور: دیکھیں میں آپ کو بتاؤں کہ جو باہر کے لوگوں کے مسائل ہیں‘ ان حالات میں بھی وہ تمام تر مشکلات کے باوجود 15بلین ڈالر زرمبادلہ ادھر بھیجتے ہیں۔ ہر تیسرا پاکستانی وہاں ان مسائل کا شکار ہے کہ کسی کی زمین پر قبضہ ہوا ہے‘ کسی پر جعلی کیس بنا دیا گیا ہے‘ کوئی اغواء ہو گیا ہے‘ اگر میرے ادھر آنے سے لوگ تحفظ محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ یہاں پیسہ بھیجتے ہیں تو کوئی ایسا شخص ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے گا‘ تو وہ زیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔ اسی طرح NGO,s بھی۔ میں ایک سوشل ورکر ہوں‘ جو ہیلتھ‘ ایجوکیشن میں کام کر رہا ہے اور مجھے پتا ہے کہ کس جگہ پر میں بیٹھ کے اس کام کو زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہوں۔ باقی اگر نہ بھی ملی گورنری‘ تو بھی لوگوں کی خدمت ہم نے کرنی ہے۔ پھر ہم نے کون سا پیچھے ہٹ جانا ہے۔ جب سال چھ مہینے گزر جائیں گے آپ دیکھنا کہ میں نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا۔ باتوں سے تو کچھ نہیں ہوتا۔

ایکسپریس: جب آپ گورنر بنیں گے تو گورنمنٹ چارٹر یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ساتھ ہی بن جائیں گے۔ یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے کہ کبھی تو VC کو اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے کہ 5/5 سال سیٹ خالی رہتی ہے‘ لیکن وہ ٹیچرز بھرتی نہیں کر سکتا اور کبھی اتنی ڈھیل دے دی جاتی ہے کہ وہ آرام سے اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کر لیتے ہیں؟

چوہدری محمد سرور: بات یہ ہے کہ تقرری کے جتنے اختیارات ہیں وہ تو چیف منسٹر کے پاس ہیں اور ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جن کا انہوں نے تقرر کیا ہے‘ میرٹ پر کیا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح سیاسی جماعتوں کے اندر ہر وقت لڑائیاں چلتی رہتی ہیں مختلف شہروں‘ علاقوں میں، اسی طرح ادھر بھی یہ ہو رہا ہے۔ استاد ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بچوں پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔ سو ان چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصلے تو میاں شہباز شریف صاحب ہی کریں گے۔ لیکن ایک ٹیم کی حیثیت سے انشاء اللہ امید ہے کہ بہتری لائیں گے۔

ایکسپریس: آپ سکاٹ لینڈ انرجی کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں جو شدید بحران آیا ہوا ہے‘ اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟

چوہدری محمد سرور: میں 5 سال سکاٹش افیئر سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین رہا ہوں۔ ادھر جتنی سلیکٹ کمیٹی ہیں‘ وہ طاقتور ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ مسئلہ کو سمھجنا‘ تحقیق کرنا‘ لوگوں سے ثبوت اکھٹے کرنا اور پھر اس کا حل تجویز کرنا۔اس طرح پاکستان میں بھی جو توانائی بحران ہے، اس کا کثیر الجہتی حل تلاش کرنا پڑے گا۔ مثلاً اس ملک میں جو دھوپ ہے‘ وہ ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ جرمنی میں دھوپ بھی نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ سولر سے بجلی پیدا کرنا فائدہ مند ہے۔ جتنی بھی سٹریٹ لائٹس ہیں‘ جتنے سکول ہیں‘ جہاں زیادہ بجلی کی ضرورت نہیںہے، صرف پنکھے ہی چلنے ہیں‘ وہاں آپ جتنی بھی سولر بجلی لے آؤ گے‘ اس کا فائدہ ہو جائے گا۔ پھر جو سب بڑا سبب میں سمجھتا ہوں وہ ہیں لائن لاسز۔ ایک مرحلہ ہے پیداوار کا، پھر ترسیل اور بجلی کی تقسیم۔ ایک تو ان تینوں کی آپس میں کوآرڈینیشن پوری نہیں۔ ان تینوں کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔

ایک تو لائن لاسز میں کہ بجلی پوری نہیں پہنچ رہی اور راستے میں ضائع ہو رہی ہے اور دوسرا بجلی چوری ہے۔ لائن لاسز ہمارے 22,25 فیصد ہیں۔ دنیا میںکہیں اور چلے جاؤ‘ کہیں چار فیصد ہوں گے کہیں تین فیصد۔ ان کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر ریکوری ہے۔ اگر ریکوری ہی پوری نہ ہوتو کام کیسے چلے گا۔ آپ تیل سے بجلی پیدا کرتے ہو‘ تیل نہیں ہو گا تو ادارہ کیسے چلے گا‘ سو ان سب کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ صلاحیت بڑھانی پڑے گی‘ پھر لوگوں میں سماجی شعور کے لیے آگاہی مہم چلانا ہو گی۔مثلاً ایئر کنڈیشن اگر 16/20 پر رکھو گے تو یہ زیادہ بجلی کھاتا ہے۔ 24 پر رکھو گے تو تمہاری صحت کے لئے بھی بہتر ہے اور اس سے خرچ بہت کم ہو جائے گا۔Efficiency saviny Bulb اگر آپ لگا دو گے تو 20 فیصد بجلی خرچ ہو گی اور 80 فیصد بجلی بچ جائے گی۔ ہمیں کم از کم سکولوں اور سرکاری ہسپتالوں میں یہ بلب لگا دینے چاہئیں۔ لیکن بڑے بڑے مسائل ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا‘ راتوں رات بہتری نہیں آئے گی۔ عوام کو تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ انشاء اللہ بحران سے نکل آئیں گے۔

اپنی غربت کو کبھی نہیں چھپایا

ہم ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں تھا جیسے کچھ لوگ غربت سے نکل کر امارت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس طرح سے ظاہر کرنے لگ جاتے ہیں جیسے وہ اربوں پتی تھے اور کوئی بڑے خاندانی لوگ تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی غریب بندہ 5/6 ایکڑ کی زمین سے ترقی کر کے آگے چلا گیا ہے تو وہ شاید خاندانی نہیں رہتا۔ لیکن میں ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا ہوںکہ اتنی سادہ شروعات سے میں نے اتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے۔ میں نے کبھی اپنی غربت کو نہیں چھپایا۔ میں جب کسی سکول یا یونیورسٹی میں لیکچر دینے جاؤں تو میں ہمیشہ تین باتیں ضرور کہتا ہوں۔ ایک یہ کہ کبھی نہیں بھولنا کہ تم کیا تھے پہلے۔ دوسری بات یہ کہ جس جگہ‘ علاقے سے تمہارا تعلق تھا‘ بعد میں تم دنیا کہ کسی بھی حصے میں چلے جاؤ‘ لیکن اپنے آبائی علاقے کے لیے ضرور کام کرو۔ تیسری بات جو میں کہتا ہوں کہ وقت کی پابندی کرو‘ وقت کو ضائع مت کرو بلکہ اس کا بہترین استعمال کرو۔ تفریح کے لئے بھی وقت ضرور نکالنا چاہئے‘ لیکن ایک توازن ضرور قائم رکھنا چاہئے کہ کتنا ٹائم پڑھنا ہے‘ کب کھیلنا ہے اور لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے‘ وغیرہ۔

ملٹی کلچرل سوسائٹی

انگلستان میں مختلف قومیتوں کے لوگ وہاں آئے ہوئے ہیں‘ چاہے انڈیا سے ہوں‘ پاکستان سے ہوں‘ بنگلہ دیش وغیرہ۔ خود میرے حلقے میں 60 قومیتوں کے لوگ بستے ہیں۔ ہم ادھر کہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ بھی ہم سے بہت سی باتیں سیکھتے ہیں۔ ہم اس سوسائٹی کو rich سوسائٹی اس لئے کہتے ہیںکہ وہ ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے۔ مثلاً جب ہم لوگ وہاں گئے ہیں تو انگریز صبح 9 بجے دکان کھولتا تھا اور 5 بجے بند کر دیتا تھا۔ اور ہفتے کے دن دو بجے بند کر دیتا تھا۔ ہم جب پاکستانی، انڈین وہاں گئے تو ہفتے میں 7 دن ہی دکانیں کھولنے لگ گئے اور پھر لیٹ بھی کھولنے لگے۔ اب انگریز بھی 24 گھنٹے دکان کھولنے لگ گیا ہے۔ ادھر کا جو ہیلتھ نظام ہے‘ اگر ایک دن ہم ایشین ہڑتال پر چلے جائیں تو وہ معطل ہو کر رہ جائے۔ ہر جگہ ایشین ڈاکٹر‘ پاکستانی ڈاکٹر‘ مجھے جب وہاں ہارٹ پرابلم ہوا تو میں مانچسٹر کے ہسپتال میں داخل ہوا۔ ادھر یورالوجی کا ڈاکٹر بھی پاکستانی‘ کارڈیالوجی کا ڈاکٹر بھی پاکستانی‘ کڈنی کا جو سپیشلسٹ ہے وہ بھی پاکستانی‘ تو میں کہنے لگا کہ بھائی! مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں لاہور میں بیٹھا ہوں۔

ملکی سیاسی جماعتوں کی بیرون ملک شاخیں

میں یہ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں مارشل لاء ہے پھر تو وہاں ہمیں اکھٹے ہو کر جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنی چاہئے، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ جمہوریت جتنی بھی بری ہو، وہ آمریت سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔ لیکن جب ملک میں جمہوریت چل رہی ہو تو باہر ہماری سیاسی پارٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ سوائے ایک دوسرے سے لڑائی اور گروہ بندی کے ان کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان سے باہر ہم سب پاکستانی ہیں۔ اگر ادھر پاکستانی کمیونٹی کو قابل فخر بنانا ہے تو انہیں اس ملک کی سیاست میں حصہ لینا چاہئے۔ وہاں ہمارے کئی لوگ ہائوس آف لارڈز اور ہائوس آف کامنز چلے گئے ہیں تو یہ خودبخود نہیں ہوا بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ میں مسلم منز آف لیبر یوکے کا چیئرمین ہوں۔ میں نے لوگوں کو متحرک کیا ہے کہ وہ وہاں کی سیاست میں حصہ لیں۔ ادھر کی سیاست میں حصہ لے کر آپ نہ صرف اس ملک کی پاکستانی کمیونٹی کی مدد کرسکتے ہیں، بلکہ آپ پاکستان کی بھی خدمت کرسکتے ہیں۔ ادھر کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ پاکستان کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی سے تعلق

بینظیر بھٹو جب جلا وطن تھیں، وہ بڑی تکلیف میں تھیں۔ بینظیر کا جو پہلا جلسہ گلاسکو میں ہوا، وہ میں نے کرایا تھا، اگرچہ یہ اس وقت آسان نہیں تھا اور جب بینظیر ملک کی پرائم منسٹر بن گئیں اور میں برطانوی سیاست میں داخل ہوگیا تو میرا پیپلزپارٹی بلکہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ جب وہ وزیراعظم بن گئیں تو شاید میں ان سے ایک دو بارملا ہوں گا لیکن جب اپوزیشن میں ہوتیں، تب میں کئی بار ان سے ملا۔ میں نے بے شک پیپلزپارٹی کو اس وقت سپورٹ کیا ہے، بلکہ اس کے بعد بھی میرے تعلقات رہے ہیں۔2007ء میں بی بی پاکستان آنے سے پہلے جب گلاسکو آئیں تو میں نے اُدھر اپنے ڈیفنس سیکرٹری سے ان کی ملاقات کرائی۔ وہ مجھ پر بہت مہربان تھیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ پاکستان کی سیاست میں آئیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سیٹ میں نے آپ کے لیے خالی رکھی ہے۔میاں صاحبان سے آپ کے بہت اچھے تعلقات ہیں، وہ آپ کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔ سو She was very bright۔ انہیں معلوم تھا کہ میرے میاں برادران سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔

والد کی جدوجہد

میرے والد صاحب کبھی سکول گئے ہی نہیں تھے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جو جدوجہد ہے‘ وہ ہماری جدوجہد سے بہت زیادہ ہے۔ مثلاً آپ انگریزوں کے ملک چلے جائیں‘ اور آپ کو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ آتا ہو‘ بلکہ اردو کا بھی ایک لفظ نہ آتا ہو‘ اور وہاں جا کر سلیز مین بن جاؤ‘ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ اس طرح سے کرتے تھے کہ ایک بیگ میں کپڑے اور مختلف چیزیں بھر لیتے تھے۔ پھر شہر سے دور دراز علاقوں میں بس یا فیری لے کر چلے جاتے تھے اور وہاں ان کے سامنے بیگ کھول کے رکھ دیتے تھے تاکہ لوگ اپنی پسند اور ضرورت کی چیزیں خود اٹھا لیں۔ آپ خود اندازہ کریں کہ بغیر انگریزی کے یہ کام کتنا مشکل ہو گا کہ گاہکوں کو قائل کرنا اور انہیں ان کی ضرورت کی چیز دینی۔ ان گوروں کا جذبہ بھی قابل تعریف ہے کہ وہ ایسے شخص سے بھی چیزیں خرید لیتے تھے‘ جو ایک لفظ بھی نہ بول سکتے ہوں۔

سخت جان قوم

اس قوم میں ماشاء اللہ پوٹینشل بھی بہت ہے۔ ہم بہت جلد بحرانوں سے نکل آتے ہیں۔ امریکہ میں Hurricane آیا تو لوگوں کو سنبھلنے میں کئی برس لگے۔ لیکن ہمارے ہاں سیلاب آیا تو چھ مہینے کے اندر لوگوں نے چہل پہل شروع کر دی تھی۔ مکان ‘ فصلیں‘ دکان، کاروبار وغیرہ دوبارہ شروع کر دیا۔ یہ قوم ایسی ہی ہے کہ جتنی بھی مشکل آئے‘ کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لیتی ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں سولہ سولہ، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہو تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے سروائیو کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ کوئی اور راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ زلزلہ آیا تو سال کے اندر لوگ دوبارہ کھڑے ہو گئے۔ وہ کیا کہتے ہیں

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

پاکستانی دنیا میں جدھر بھی گئے ہیں‘ انہوں نے اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔ ہر میدان میں اپنی قابلیت ثابت کی ہے۔

روزہ دار کو سہولت دینے کی تلقین کی گئی لیکن رعایت کا تقاضہ کرنا درست نہیں

$
0
0

رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا ذریعہ قرآن پاک نازل فرمایا۔

مسلمانوں کو اس مہینے رب تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اسی بات کے پیش نظر ذیل میں ہم معروف روحانی شخصیت سرفراز احمد شاہ صاحب سے رمضان المبارک کے حوالے سے کی گئی گفتگو پیش کررہے ہیں۔

روزہ کیسی ذہنی کیفیت کا متقاضی ہے، کس تصور کے تحت روزہ رکھا جائے؟

اس میں ہمارے دو تین رویئے ہیں، موجودہ وقت میں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے اور روزے کو خالصتاً عبادت کے طور پر لے لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے کو پورے آداب کے ساتھ‘ اس کے پورے  Protocol کے ساتھ اسے اختیار کرتے ہیں۔ جیسے رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے آپ کو ممنوعات سے روک لو ان کے قریب نہ جاؤ اور روزے کو پورے اہتمام کے ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے کچھ لوگ وہ ہیں جو میری طرح کے لوگ ہیں جو روزے کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر رکھ لیتے ہیں لیکن روزے کے جو آداب ہیں ان کے بارے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم غصے میں بھی آتے ہیں۔ ہمارے منہ سے وہ باتیں بھی نکل جاتی ہیں جو حقیقت کے قریب  نہیں ہوتیں۔ ہم عادتاً لوگوں کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں ایسی گفتگو بھی کر لیتے ہیں کہ جس آدمی کے بارے میں بات ہو رہی ہے اس کے لئے وہ پسندیدہ نہ ہو۔ یہ ہم سے کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔

اب تیسری قسم وہ ہے جو روزے کو میڈیکل نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس کے طبی فوائد ہیں‘ تو یوں جسمانی فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکم تعمیل بھی ہو جائے گی۔ جہاں تک میری اپنی ذاتی رائے ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ رب تعالیٰ نے فرما دیا کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا‘ تو روزے کو اللہ تعالیٰ کے لئے رکھ لیا جائے اور جب ہم روزے کو اس کے لئے رکھیں گے کہ رب تعالیٰ کے لئے ہے تو پھر اس کی تمام Pre-Conditions کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ تمام ممنوعات ایسی تمام باتیں جو اسلام میں منع ہیں ان سے ہم رک جائیں گے۔

روزوں کے لئے ایک مہینہ کا عرصہ ہی کیوں مقرر کیا گیا؟

یہی سوال برطانیہ میں ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران بھی پوچھا گیا تھا۔ تو میری گزارش یہ ہے کہ رمضان میں وہ تمام چیزیں جو اسلام میں منع ہیں اور دوران روزہ کئی حلال کاموں سے بھی ہم رک جاتے ہیں۔ تیس دن ہم مسلسل اسی عمل سے گزرتے ہیں۔ تو انسانی فطرت ہے کہ جو عمل آپ تیس دن تک مسلسل کر لیں اور شعوری کوشش کے ساتھ کریں‘ وہ عادت بن جاتی ہے۔ یہ ٹریننگ ہے ایک مسلمان کی‘ ہر سال Refresher course آتا ہے ۔ انسانی زندگی میں ٹریننگ ہمیشہ محدود وقت کے لئے ہوتی ہے‘ یہ مسلسل جاری نہیں رہتی۔اس Refresher course سے ہر چیز نئے سرے سے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔

مسلم ریاست میں احترام رمضان اور اوقاتِ کار میں کمی کی حقیقت؟

اس سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ اوقات کار میں کمی کی کوئی روایت موجود ہے تو میرے مطالعے میں اب تک ایسی کوئی بات نہیں آئی‘ نہ ہی اس طرف دھیان گیا کہ اس معاملے پر کوئی تحقیق کروں‘ اس کا جواب دینے سے تو میں معذرت چاہوں گا‘ جہاں تک رمضان کے احترام کی بات ہے اس کو لاگو کیا جاتا رہا ہے لیکن سختی یوں نہیں کرنی پڑتی تھی وہاںکہ وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ تھا جن کی ٹریننگ آپ ﷺ کے ہاتھوں ہوئی تھی‘ وہاں پر کسی قسم کی کوتاہی ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔ تو یوں اس زمانے میں حکومت کو کوئی سختی کرنی ہی نہیں پڑی۔ اُس زمانے میں سبھی تقویٰ اور پاکیزگی کے انتہائی مقام پر فائز تھے۔ تو اس لئے موازانہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم  کا دور تھا۔ تو اس وجہ سے ایسی کوئی نظیر ہم نہیں لا پائیں گے۔ بات تو یہ ہے کہ جب طبع تابعین کے بعد کا زمانہ آیا ہے تو پھر کیا ہوا۔ بعد کے زمانے میں ریاست کی طرف سے احترام تو نافذ ہوتا رہاہے ۔

غیر مسلموں کے بارے میں مسلم ریاست کا رویہ:

جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو انہیں تو پوری آزادی ہے۔ اسلامی مملکت کا حسن یہی ہے کہ اقلیتیں بہت محفوظ ہیں‘ شاید ان ممالک سے بھی زیادہ محفوظ جہاں ان کے اپنے ہم مذہبوں کی حکومت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ مسلمان کے ہاتھوں دشمن بھی اتنا ہی محفوظ ہے جتنا کہ دوست۔ دشمن کے لئے مسلمان خطرہ صرف میدان جنگ میں ہے اور میدان جنگ میں بھی صرف اس وقت تک جب تک دشمن نے ہتھیار اٹھایا ہوا ہے۔ مسلمان کی تو خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے دشمن کے لئے بھی بہترین دوست ہے۔اقلیتوںکی سماجی آزادی ، مذہبی آزادی‘ ان کی خاندانی آزادی سب کا تحفظ ہو گا وہ ہر طرح آزاد ہے‘ اسے صرف جزیہ دینا ہے۔

کیا یہ آئیڈیل صورتحال کا نقشہ نہیں ہے؟

نہیں یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا۔ یہ آئیڈیل صورتحال نہیں بلکہ وہ کم سے کم معیار ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ انصاف سے کام لیتا ہوں۔ اس میں فخر کی کوئی بات ہی نہیں اگر میں انصاف سے کام لیتا ہوں اس لئے کہ یہ تو کم سے کم معیار ہے جو رب تعالیٰ مجھ سے چاہتا ہے‘ ہاں اگر میں ایثار یا قربانی سے کام لوں تو پھر میرے لئے اس طرح کی کوئی بات قابل تحسین ہو سکتی ہے۔ تو اس طرح اسلامی مملکت جو علانیہ اسلامی مملکت ہے اس کے اندر غیر مسلم اقلیتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو خود مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ماسوائے ایک چیز کے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔اسلامی مملکت کی حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کا احترام بھی کیا جائے۔ ان کے عقائد کا احترام کیا جا ئے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی ہر سہولت بہم پہنچائی جائے۔

رمضان اور کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی:

مکمل طور پر کھانے پینے کے مراکز تو بند نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اسلام نے جن معاملات میں چھوٹ دی ہے جیسے کہ سفر ہے تو ریلوے اسٹیشن پر کھانے پینے کے تمام مراکز کھلے ہوئے ہیں۔ جتنے بھی آپ کے فائیواسٹار ہوٹلز میں جتنے بھی ان کے ریسٹورانٹ ہیں، وہ سب کھلے ہیں اور کوئی آپ کو منع نہیں کرتا جانے سے۔ صرف یہ ہے کہ اس کا احترام ضرور ہونا چاہئے۔ اگر کسی آدمی نے کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھا اس کو رخصت حاصل ہے، اسلام میں بیماری  یا کسی مجبوری میں روزے کی چھوٹ ہے تو آپ کھا پی سکتے ہیں، لیکن سرعام نہیں۔ اگر ریاست اسلامی ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان کے احترام کو یقینی بنائے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے اسلام میں شراب کی ممانعت ہے لیکن اسلامی ممالک میں بھی غیر مسلموں کو شراب پینے کی اجازت ہے، گھر کے اندر یا چار دیواری میں۔ غیر مسلموں کے اپنے کلب ہوتے ہیں اس کے اندر اگر وہ شراب نوشی کرتے ہیں تو حکومت انہیں منع نہیں کرتی۔ میری اتنی عمر ہو گئی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی گھر پر چھاپہ مار کر کسی کو کھانے پینے پر گرفتار کیا گیا ہو۔ یا کسی ریستوران میں چھاپہ مار کے لوگوں کو پکڑا ہو۔

جدید سہولیات آنے کے بعد سفر میں روزے کی چھوٹ کا تصور کیا ہو گا؟

شاید اس واقعہ سے بات واضح ہو جائے کہ ایک صحابی رسول  تھے ان کا نام اس وقت ذہن میں نہیں‘ تو سفر کے دوران ان کی حالت خراب ہو گئی تو آپؐ نے دوسرے صحابہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے اور بھوک، پیاس کی شدت کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہے۔ آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگر تم برادشت نہیں کر سکتے تو روزہ کیوں رکھتے ہو۔ یہ معیار ہے کہ اگر انسان سفر میں ہے اور آسانی سے برداشت کر سکتا ہے اس کے اندر اتنی سکت ہے تو ضرور رکھے روزہ‘ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ اسے تکلیف ہو گی تو رخصت ہے اس کو بعد میں روزہ رکھ لے۔

روزہ نہ رکھنے پر تضحیک کا نشانہ بنانا‘ مذاق اڑانا:

یہ پسندیدہ رویہ نہیں ہے مسلمان یہ کام کبھی نہیں کرتا یہ صرف روزے کا معاملہ نہیں ہے کسی بھی چیز میں مسلمان یہ کام کبھی نہیں کرے گا کہ وہ کسی کو شرمندہ کرے‘ ذلیل و خوار کرے کیونکہ یہ سنت نہیں ہے۔

لیلتہ القدر کی حقیقت

لیلتہ القدر بہت برکتوں اور رحمتوں والی رات ہے۔ اس شب اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی بہت زوروں پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات پہلے آسمان پر اترآتا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی دوسرے فرشتوں کے جلو میں ایک سبز پرچم لے کر زمین پراترتے ہیں اور وہ پرچم خانہ کعبہ کی چھت پر گاڑتے ہیں پھر فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ زمین پر پھیل جائو ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے کل چھ سو (600)پر ہیں جو محو عبادت لوگوں پر چھا جاتے ہیں۔ جب لوگ اس رات دعا کرتے ہیں تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔

ایک سوال جواکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ قرآن پاک پورے کا پورا شب قدر میں نازل کیا گیا اور دوسری طرف قرآن پاک آپﷺکی نبوت کے 23سالوں میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں وحی کے ذریعے آپﷺ پر نازل ہوتا رہا۔ درحقیقت یہ دونوں باتیں ہی بالکل ٹھیک ہیں۔ سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر ‘‘۔

اس سے دومعنی مراد ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل ہی قرآن پاک کو لوح محفوظ میں محفوظ کردیا گیا تھا۔ شب قدر میں یہ قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا (بیت العزت) پرپورے کا پورا نازل کردیا گیا۔ پھر اس آسمان سے حسب حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں آیات کی صورت میں وحی کی شکل میں آپﷺ تک پہنچاتے رہے اور یہ عمل 23سال میں مکمل ہوا۔

اس ضمن میں ایک اور بات بھی بے حداہم ہے کہ ایک شب قدر سے دوسری شب قدر کے دوران جتنا بھی قرآن پاک آپ ﷺ پر نازل ہوتا، اس رات حضرت جبرائیل علیہ السلام اس تمام وحی کو اکٹھا کرکے آپﷺ کو سنادیا کرتے تھے۔ قرآن پاک کے نزول کے علاوہ دیگر صحیفے اور الہامی کتابیں بھی ماہ رمضان ہی میں نازل ہوئیں۔

شب قدر، ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں ۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق ’’شب قدر 21رمضان المبارک کو ہوتی ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ گمان تھا کہ ’’تیسویں شب رمضان قدرہوتی ہے۔‘‘ آپ ؐسے ایک حدیث روایت کی جاتی ہے جس کے مطابق ستائیسویں رات شب قدرہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کے مطابق 23ویں رات کو شب قدر ہوتی ہے اور کچھ روایات کے مطابق شب قدر 29ویں رات ہوتی ہے۔

یہ سب روایات اپنی جگہ بے حداہم ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ کسی ایک مخصوص رات کی بجائے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں شب بیداری کا اہتمام کرلیا جائے تاکہ شب قدر کے فیوض وبرکات کو بھرپور طریقے سے سمیٹا جاسکے۔

شب قدر میں ہم رب تعالیٰ سے دوچیزیں مانگیں۔ یااللہ! تو مجھ پر رحم فرما دے۔ یا اللہ پاک ! تو ہم پر اپنی رحمت نازل فرما۔

کہنے کو تو ’’رحم‘‘ ایک لفظ ہے لیکن اس میں بہت سے معانی پوشیدہ ہیں۔ جب کوئی شخص اللہ سے اس کا رحم مانگتا ہے تو گویا وہ اپنے عاجز اور بے بس ولاچار ہونے کا اقرار کررہا ہوتا ہے۔ اللہ کے حضور اپنی خواہشات ، ارادے اور مرضی سے دست بردار ہونے کا اقرار کررہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کررہا ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ سے رحم کی بھیک طلب کرنا گویا اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا اقرار بھی ہے اور اظہار ندامت بھی۔ یہ دراصل ایک عاجز اور لاچار بندے کا اقرار ہے کہ ’’اے اللہ! تیرے حکم سے سرتابی نہیں ہونی چاہیے تھی پھر بھی مجھ سے غلطی سرزد ہوگئی۔ ‘‘ جب ہم مکمل طورپر ہتھیار ڈال کر اللہ سے اس کا رحم اور پھر رحمت طلب کرتے ہیں تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ وہ کتنے ہی فاسق وفاجر کیوں نہ ہوں، معاف فرما دیتا ہے۔

اس ہزار مہینوں سے بہتر رات میں عبادت مندرجہ ذیل طریقے سے کی جاسکتی ہے:

1۔نماز عشاء سے لے کر شب ایک بجے تک نوافل ادا کیے جائیں۔ 2۔ ایک بجے سے تین بجے تک تلاوت کلام پاک کی جائے۔ 3۔ تین بجے کے بعد مزید نوافل اور نماز تہجد ادا کرلیں۔ 4۔ نماز فجر ادا کریں اور اس کے بعد دوبارہ تلاوت قرآن مجید کرلیں۔

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے ہمیں بخش دے گا اور ہمارے گناہوں سے صرف نظر فرمائے گا۔

جہاں تک شب قدر کی علامت کا تعلق ہے اس رات میں نہ سردی ہوتی ہے نہ گرمی۔ روایت ہے کہ اس میں کتے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ اس رات کی صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے گویا اس میں ذرا سیاہی نہ ہو وہ طشت دکھائی دیتا ہے۔ اس رات کی عجیب باتیں اور اسار اہل دل، اہل اطاعت، اہل ولایت اور ان لوگوں پر منکشف ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ یہ سب دکھانا چاہتا ہے اور ہر شخص کو اس کے مقام، مرتبے، حال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرب کے مطابق اس رات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

صبر اور برداشت

انسان جب بھوکا پیاسا ہوتا ہے تو اس کی قوت برداشت ویسے ہی کم ہو گئی ہوتی ہے۔ tolerance (برداشت) تو پہلے ہی رفتہ رفتہ ہم سے دور ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تبدیلی آئی جو اُصولی طور پر نہیں آنی چاہئے تھی۔ ہمارے ہاں tolerance بالکل ہی ختم ہو گئی اور دوسری جانب لامحدود برداشت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہو گئی ہیں۔ ہم قومی معاملات میں، قانون کے احترام کے معاملے میں بے پناہ Tolerant ہو گئے (ہم ان معاملات میں بڑی سے بڑی بات ہضم کر جاتے ہیں) اور ذاتی معاملات میں ہماری tolerance (برداشت) صفر ہو گئی۔ جبکہ اسلام میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ذاتی معاملات میں اسلام آپ سے کہتا ہے کہ آپ انتہا درجے کی برداشت کا مظاہرہ کیجئے لیکن قومی اور قانونی معاملات میں برداشت بالکل نہیں ہونی چاہئے۔

کوئی چار برس پہلے کا واقعہ ہو گا کہ میں UK (برطانیہ) گیا ہوا تھا۔ میرے ایک جاننے والے ہیں وہاں، ان کی بیٹی کے لئے ایک رشتہ آیا تھا۔ تو اُن صاحب اور اُن کی اہلیہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ میری ہی کار میں بیٹھ کر لندن سے تقریباً دو سو میل (تین سو بیس کلو میٹر) دور ایک چھوٹے شہر میں گئے۔ اب میرے لئے بھی وہ شہر بالکل نیا تھا۔ میں گاڑی کے نیوی گیشن سسٹم سے مدد لے کر وہاں پہنچ تو گیا ۔ اب ایک جگہ سے یوٹرن لے کر مجھے اس گھر تک پہنچنا تھا۔ ٹریفک چل رہی تھی۔ وہاں ایک ٹریفک سگنل تھا اور وہاں ’’یو ٹرن منع ہے‘‘ کا سائن بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا کہ یہاں یوٹرن سے منع نہیں کیا گیا تو میں یہیں سے یوٹرن لے لوں گا۔ تو میں نے بڑے اطمینان سے جب ایرو کا نشان سبز ہوا تو وہاں سے یوٹرن لینے کی کوشش کی۔ اپنی دانست میں، میں کلیر تھا‘ نہ کسی گاڑی کا راستہ روکا تھا نہ کوئی میری وجہ سے مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔

اچانک پہلے میرے پیچھے سے ہارن کی آواز آئی پھر دائیں ہاتھ سے پھر سامنے سے بیک وقت چھ سات ہارن بولے‘ تو میں حیران ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگا کہ میں نے غلطی کیا کی جو میرے لئے ہارن بجایا جا رہا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر صاحب تھے‘ کم و بیش میری ہی عمر کے ہوں گے انہوں نے مجھے اُنگلی سے اشارہ کیا کہ جو تم یہ یوٹرن لے رہے ہو یہ غلط کر رہے ہو۔ مجھے روکنے والے عام شہری تھے‘ پولیس والے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی ۔ ہمارے لحاظ سے تو یہ بہت چھوٹی بات ہوتی۔ آپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ میں اگر آپ کسی کو ہارن بجائیں تو ایک طرح سے اسے گالی تصور کیا جاتا ہے۔ تو چھ سات اُس دن ہارن مجھے بجا دیئے گئے۔ یہ tolerance level ہے قانون کے بارے میں ان لوگوں کا۔ ملک کے قانون کو توڑنے کو وہ لوگ بہت بُرا سمجھتے ہیں۔ ہم یہاں کبھی بھی کسی کو قانون توڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے روکتے نہیں۔

اس معاملے میں tolerance بہت ہے لیکن اپنی ذات کے لئے tolerance بالکل ختم ہو گئی۔ تو روزے کی حالت میں تو ویسے ہی بھوک پیاس کی وجہ سے انسان کی قوت برداشت کم ہو گئی ہوتی ہے تو ہم لوگ برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے ٹریفک میں شام کے وقت زیادہ لڑائیاں ہوتی د کھائی دیتی ہیں۔ جہاں تک بات ہے ہر سطح پر رعایت مانگنے کی۔ یہ درست ہے کہ آپ ﷺ نے تلقین فرمائی ہے کہ روزے دار کو کام کے معاملے میں چھوٹ دو لیکن روزے دار کے لئے یہ تلقین نہیں کہ وہ چھوٹ کا تقاضہ کرے۔ ہم مسلمانوں پر تو یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے باوجود ہمارے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے۔ زندگی بالکل معمول کے مطابق چلنی چاہئے جیسی عام حالات میں زندگی چلتی ہے اور ہمارے چہرے سے، ہمارے مزاج سے، ہماری حرکتوں سے اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ ہم روزے سے ہیں۔

سکھر بیراج، ایک شاہ کار، جو کسی بھی وقت بے کار ہوسکتا ہے

$
0
0

پانی کے بنا انسانی بقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کے سبب آنے والے وقتوں میں کرۂ ارض پر بسنے والے پانی کو ترس سکتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی اور دیگر عوامل کے سبب گلیشیئرز پگھلنے کی خطرناک رفتار نے ماہرین اور سائنس دانوں کو نوع انسانی کے مستقبل کے لیے سر جوڑ کر سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہییں۔

پانی محفوظ رکھنے کا سب سے سادہ اور موثر ذریعہ ڈیمز کی تعمیر ہے، جن کی اس وقت ہمارے ملک کو اشد ترین ضرورت ہے۔ دریاؤں کی روانی میں بند باندھ کر پانی کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے بیراج بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

سندھ میں گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سمیت صرف 3 بیراج ہیں، جن میں برٹش دور حکومت میں تعمیر ہونے والا سکھر بیراج نمایاں مقام رکھتا ہے۔ سکھر بیراج کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں:

تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔

1903 میں دریائے سندھ میں WEIR BUKKUR پر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ مسٹر ڈاؤسن نے پیش کیا۔ 1909 میں لندن میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس میں اس پراجیکٹ کے متعلق تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ بالآخر 9 جون 1923 کو بیراج کی تعمیر کو حتمی شکل دے کر کام کے آغاز کی منظوری دے دی گئی اور یکم جولائی 1923 کو انیسویں صدی کے شاہ کار لینس ڈاؤن برج سے 3 میل دور نئے بیراج کا تعمیراتی کام شروع ہوا، جو  10 سال سے بھی کم مدت میں مکمل ہوگیا۔ 1932 میں مسٹر لائڈجارج نے بیراج کا افتتاح کیا۔

اس 5 ہزار فٹ لمبے بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ اسے پیلے پتھروں اور اسٹیل کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ سکھر بیراج سے 10 ملین ایکڑ کا رقبہ اس کی 7 بڑی نہروں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی نظام ہے۔ نومبر 2004 میں بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا گیا۔ سکھر بیراج کی دائیں بازو کی سمت سے 3 جب کہ بائیں بازو کی جانب سے 4 نہریں نکلتی ہیں، جو اندرون سندھ سمیت ڈیرہ مراد جمالی کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئی ہیں۔

بیراج سے نکلنے والی ساتوں نہروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

سکھر بیراج کے رائیٹ بینک سے نکلنے والی تینوں نہریں 20لاکھ 11ہزار کمانڈ ایریا پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 250 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق 18ہزار 960کیوسک پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے نکلنے والی دادو کینال پانچ لاکھ 51ہزار کمانڈ ایریا پر محیط ہے، جس کی لمبائی 132 میل ہے۔ ڈیزائن کے مطابق اس میں 3 ہزار 150کیوسک پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری رائس کینال کا کمانڈ ایریا پانچ لاکھ 20ہزار ہے، جس کی لمبائی 82میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 658کیوسک پانی جمع ہوسکتا ہے۔ تیسری شمال مغرب کینال کے لیے 9لاکھ 40ہزار کمانڈ ایریا مختص ہے، جس کی لمبائی 36.1 میل ہے جب کہ ڈیزائن کے مطابق 5ہزار 152 کیوسک پانی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے چار نہریں نکلتی ہیں جو کہ 55لاکھ42 ہزار کمانڈ ایریے پر مشتمل ہیں، جن کی لمبائی 534.5 میل ہے۔

ڈیزائن کے پیش نظر ان میں 28 ہزار 570 کیوسک پانی بہ آسانی آسکتا ہے۔ پہلی کینال خیرپور ویسٹ ہے، جس کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 22 ہزار اور لمبائی 41.9 میل ہے، جس میں ڈیزائن کے مد نظر ایک ہزار 940 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ دوسری روہڑی کینال کا کمانڈ ایریا 61 ہزار لمبائی 208 میل ہے اور ڈیزائن کے مطابق 10ہزار 887 کیوسک پانی جمع ہوتا ہے۔ تیسری نارا کینال ہے جس کا کمانڈ ایریا 22 لاکھ40 ہزار ہے اور لمبائی 226 میل ہے، ڈیزائن کے مطابق 13 ہزار 649 کیوسک پانی کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ چوتھی کینال خیرپور ایسٹ کا کمانڈ ایریا 3 لاکھ 70 ہزار ہے جسکی لمبائی 58.5 میل تک محیط ہے، جس میں 2 ہزار 94 کیوسک پانی جمع رہ سکتا ہے۔ اس طرح لیفٹ اور رائٹ بینک سے نکلنے والی ساتوں نہروںکا مجموعی طور پر کمانڈ ایریا 75 لاکھ 52 ہزار ہے، نہروں کی مجموعی لمبائی784.1 میل ہے اور پانی کی گنجائش 47 ہزار 530 کیوسک ہے۔

سکھر سمیت اندرون و بالائی سندھ کے علاقوں میں زراعت کے حوالے سے سکھر بیراج کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاہم انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سکھر بیراج جس توجہ کا مستحق ہے، اس سے محروم رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ بیراج کو محفوظ رکھنے کے بجائے مختلف ادوار میں ایسے اقدامات کیے گئے، جو اس تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک مثال نواز شریف دور میں کراچی سے پنجاب جانے والی شاہ راہ کو بلوچستان سے ملانے کے لیے بنایا جانے والا موٹر وے ہے جسے دریائے سندھ کے اوپر بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ دریا میں کی جانے والی کھدائی اور موٹروے پل کو مضبوط رکھنے کے لیے ڈالی جانے والی بنیادوں سے سکھر بیراج کو کافی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں بیراج سے پانی گزرنے کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2010 میں آنے والے ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں سکھر بیراج کے ٹوٹنے کے خطرات بھی سر پر منڈلارہے تھے۔ سکھر بیراج اور اس کے نہری نظام کو لاحق خطرات کے پیش نظر برطانیہ نے متعدد بار اپنے ماہرین کو پاکستان بھیج کر بیراج کی حفاظت کے انتظامات کے لیے لائحہ عمل تیار کروایا ہے۔ تاہم عملی طور پر تاحال اقدامات نظر نہیں آئے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سکھر، شکارپور، گھوٹکی، پنوعاقل، کرم پور، غوث پور، ٹھل، تنگوانی، جیکب آباد، خیرپور، نوابشاہ ودیگر اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ٹمبر مافیا، محکمۂ آب پاشی اور محکمۂ جنگلات کے بااثر افراد کی جانب سے تیزی سے جنگلات کی کٹائی ایک جانب ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب بنی، تو دوسری طرف نہروں اور دریاؤں کے حفاظتی پشتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اگر برصغیر کے نہری نظام پر نظر ڈالی جائے تو انگریزوں کے دورِحکومت میں دریاؤں اور نہروں کے کنارے شیشم سمیت دیگر درخت لگائے جاتے تھے، جس کا مقصد نہروں کی صفائی اور پانی کی طغیانی کوروکنا تھا۔ وفاقی و صوبائی اداروں کی جانب سے لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تعمیر کردہ سڑکوں کے تعمیر کے دوران بھی ہزاروں درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورے ریجن میں موسمی تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان عوامل کے وجہ سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سکھر بیراج، جو ایک شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے، کسی بھی وقت بے کار ہوسکتا ہے۔

اب کچھ بات ہوجائے ڈیمز کی۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں زراعت اہم کردار ادا کرتی ہے، جس کے لیے پانی کا ذخیرہ شرط ہے۔ آبی بحران کے شکار پاکستان میں اب سے چھے دہائیوں قبل پہلا ڈیم وارسک بنایا گیا۔ بعد میں منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کیے گئے۔ تقابلی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل انتہائی سست تھا۔ مثلاً بھارت کے پاس 1947 میں صرف 300 ڈیمز تھے، اور آج ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 4 ہزار تک ڈیمز ہیں۔ ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر کے نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے، تو چین 19ہزار ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ پہلی، امریکا 8 ہزار ایک سو ڈیم کے ساتھ دوسری، جب کہ بھارت  کی تیسری پوزیشن ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں فقط 18 ڈیمز ہیں، جس کا سبب حکم رانوں کی غیرسنجیدگی اور بیوروکریسی کی غفلت ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضایع ہوجاتی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوگئی ہے۔ زرخیز زمینیں اپنی حالت زار پر نوحہ کناں ہیں۔ زراعت بدحالی کی جانب بڑھ رہی ہے، مگر ارباب اختیار اس جانب توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے سندھ کے آبادگاروں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔

یوں تو دیگر صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے، مگر سندھ زیادہ بدقسمت معلوم ہوتا ہے۔ سکھر بیراج سے نکلنے والے بہترین نہری نظام کے باوجود یہاں کے کاشت کاروں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس کا ایک سبب سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کی صفائی کے معاملے میں برتی جانے والی غفلت بھی ہے۔ اِس ضمن میں کاغذائی کارروائی تو مکمل کر لی جاتی ہے، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ نہروں کے مخدوش پشتے کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صفائی نہ ہونے کے باعث نہریں پانی سے زیادہ مٹی، پتھر و دیگر اشیاء سے بھر گئی ہیں۔ کہنے کو تو نہروں سے مٹی نکالنے (بھل صفائی مہم ) کے نام پر کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے، مگر بعض مقامات پر موجود ریت کے ٹیلے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ضمن میں سنجیدگی نہیں برتی جاتی۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر بیراج کی دائیں جانب، لاڑکانہ ڈویژن میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر چاول، چنا، مٹر، سورج مکھی اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں، جب کہ بائیں جانب گندم، کپاس، گنا، کیلا اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں، مگر ان حصوں میں پانی کی مطلوبہ مقدار نہیں پہنچ پارہی جس کی وجہ سے شدید نقصان کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے کپاس میں سندھ کا حصہ لگ بھگ 32 فی صد ہے۔ لیفٹ بینک پر ہی 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے، جس کے لیے کسان قیامت خیز گرمی میں بیج بوتا ہے، اپنی اولاد کی طرح حفاظت کرتا ہے، مگر جب پانی ہی نہیں ہوگا، تو بیج سے کونپلیں کیسے پھوٹیں گیں؟ اب سندھ کے آباد گار اپنی مدد آپ کے تحت نہروں میں جمع مٹی نکال رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نہری نظام کو بہتر بنانے کے لیے سکھر سمیت ملک بھر میں ’’نیشنل پروگرام فار امپورمنٹ آف واٹر مینجمنٹ‘‘ شروع کیا گیا تھا، مگر یہ سودمند منصوبہ کبھی مکمل نہیں ہوسکا۔ سندھ بھر میں 29 ہزار واٹر ورکس تعمیر کیے جانے تھے، تاہم پانچ سال کے دوران صرف 19ہزار واٹر کورس ہی تعمیر ہو سکے، جن سے بیش تر عدم توجہی کے باعث ناکارہ ہوچکے ہیں۔ سابق حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات کے باعث بدولت سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جن کے سنگین نتائج وقت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔

ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ سکھر بیراج جیسے تاریخی ورثے پر توجہ دے کر نہری اور زرعی نظام کو بہتر بنائیں، تاکہ معیشت مستحکم ہو، بے روزگاری کا خاتمہ ہو، اور کاشت کار غیریقینی کی کیفیت سے نکل سکیں۔

بُک شیلف

$
0
0

’’الفراق‘‘ (شعری مجموعہ)
شاعر: اجمل سراج
زیراہتمام: انجمن فروغ ادب بحرین
صفحات: 100
قیمت: 200

موجودہ دور کے غزل گو شعرا میں اجمل سراج ایک مستند اور مقبول نام ہیں۔ صحافت بھی اُن کی شناخت کا مضبوط حوالہ ہے۔ بہ طور قطعہ نگار برسوں سے خیالات کو شعری پیراہن میں پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا پہلا مجموعہ ’’اور میں سوچتا رہ گیا‘‘ ناقدین اور قارئین سے پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ’’الفراق‘‘ اُن کا دوسرا مجموعہ ہے۔

سادہ مگر پُراثر لفظیات، روانی اور موسیقیت اُن کے کلام کی پہچان ہے۔ وہ روزمرہ کے لب و لہجے کو شاعری کا جُزو بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ نظریاتی آدمی ضرور ہیں، لیکن پرچارک نہیں۔ خیال کو اِس خوبی سے بحر اور قافیے میں باندھتے ہیں کہ بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے، ٹھیک پہلے مجموعے کے مانند، قارئین اُن کی نئی کتاب کے بھی منتظر تھے۔

مجموعے میں اُن کی 66 غزلیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ضیا الحسن کا مضمون ان کے فن کی بابت کتاب میں موجود ہے۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کے جائزے میں جہاں ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے، وہیں گہرائی میں ارتقائی عمل کے نشانات بھی ملتے ہیں۔

اجمل سراج کے فن اور حیثیت پر تو کوئی سوال نہیں، وہ ایک سنجیدہ شاعر ہیں، مگر اُن کا یہ مجموعہ اشاعت و طباعت کے معیارات پر شاید پورا نہیں اترتا۔ سرورق میں بہتری کا واضح امکان ہے۔ پروف کی غلطیاں بھی ہیں۔ ناشر کی جانب سے ایک اچھے شاعر کے مجموعے کو مناسب ڈھب پر پیش کرنا ازحد ضروری ہے، خصوصاً مطالعے کے گھٹتے رجحان اور کتابوں سے دوری کے اس زمانے میں۔

’’گویم مشکل‘‘ (یادداشتیں)
مصنف: سلیم کاشمیری
ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی
صفحات:127
قیمت:400

یادداشتوں کا مطالعہ، خصوصاً جب اُنھیں سادہ اور دل چسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہو، وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوتا ہے۔ ’’گویم مشکل‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے کہ اِس کے مصنف کو اپنے خیالات اختصار، روانی اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ قلم بند کرنے کا ہنر آتا ہے۔

یہ سلیم کاشمیری کی چوتھی کاوش ہے۔ اِس سے قبل اُن کی تین کتابیں ’’امارات کے لیل و نہار‘‘، ’’سفر کہانی‘‘ اور ’’بے نظر بھٹو کیوں شہید ہوئیں‘‘ شایع ہوچکی ہیں۔ سلیم کاشمیری معروف ادیب اور ڈراما نگار، حمید کاشمیری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اُن کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ یادداشتوں پر مشتمل اِس کتاب میں مضامین کی طوالت میں تنوع ہے۔ کچھ ٹکڑے فقط چند سطروں پر مشتمل ہیں، چند چھے سات صفحات پر پھیلے ہیں۔

یہ مضامین ایک جانب اُن کے تجربات، مشاہدات اور خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، وہیں ادبی ذائقہ بھی رکھتے ہیں۔ چوں کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی ایئرلائنز سے منسلک رہے، تو اُن دنوں کی یادیں بھی کتاب میں ملتی ہیں۔ ساتھ ہی کشمیر کہ خود کشمیری ہیں، اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر بھی آتا ہے۔ مضامین کے عنوانات بڑے ہی دل چسپ ہیں۔
کتاب گرد پوش کے ساتھ ہے۔ کاغذ معیاری ہے، البتہ قیمت کچھ زیادہ لگتی ہے۔

خزینہ قصرشادانی
(بیاد ڈاکٹرعندلیب شادانی)
مرتب: حیات نظامی
اشاعت: 2013ء
قیمت:250روپے
صفحات:132
تقسیم کار:ویلکم بک پورٹ اردو بازار، کراچی

عندلیب شادانی ان بڑے ادیبوں میں سے ایک تھے جن کا کام انھیں بہت سوں سے منفرد کرتا تھا۔

شادانی نے مختلف جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے مگر چار اصناف خصوصاً اُن کے پیش نظر رہیں،شاعری، افسانہ، تنقید اور تحقیق۔حیات نظامی شاعروادیب ہیں اور مشرقی پاکستان کے افسانہ نگار واحدنظامی کے صاحب زادے ہیں۔ حیات نظامی نے عندلیب شادانی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اُن کے شذرات کو یکجا کیا۔ جب کہ اس سے پہلے مشفق خواجہ کے ادارے مکتبۂ اسلوب سے پروفیسر نظیرصدیقی کی کتاب ’’ڈاکٹرعندلیب شادانی ایک مطالعہ‘‘ شائع ہوچکی ہے۔

ڈاکٹرعندلیب شادانی نے اپنی شاعری کا آغاز نظم سے کیا اور ان کی پہلی نظم ’’تصویربہار‘‘ تھی جو انھوں نے دیال سنگھ کالج لاہور کی بزمِ ادب کے ایک جلسے میں پڑھی تھی۔انھوں نے اپنی غزلوں میں تازگی اور نغمگی کا احساس دلایا اور حسُن آرائی اور دلکشی پیدا کرکے انفرادی لب ولہجہ اپنایا۔ بحیثیت نقاد، محقق ونثر نگار بھی شادانی کو یہ کمال حاصل رہا کہ انھوں نے جس صنف میں اپنی صلاحیت دکھائی اُسے قابل فہم بنادیا۔ بحیثیت محقق تاریخی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کے تنقیدی مضامین پڑھ کر بھی اُن کے تحقیقی مزاج کا پتا چلتا ہے۔

شادانی تشبیہ واستعارے کے بجائے عام بول چال کی زبان سے اپنی نثر کو دلکش بنانے کا ہُنر جانتے تھے۔انھوں نے ثقیل الفاظ، متروک لفظوں سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ حیات نظامی نے اپنی اس مرتبہ کتاب میں کوشش کی ہے کہ ڈاکٹرعندلیب شادانی کو یادکیا جائے اور اُن کے کاموں پرتوجہ کی جائے تاکہ ہمارے عہد کا ایک گمشدہ باب واگزار ہوسکے۔کتاب کا سرورق انتہائی سادہ اور باذوق ہے۔ ڈاکٹرعندلیب شادانی سے محبت کرنے والوں کے لیے اس میں خاصا مواد موجود ہے۔مگراب بھی بہت گنجائش باقی ہے۔

’’مہردر: بلوچستان کا عکس‘‘ (کتابی سلسلہ)
مینیجنگ ایڈیٹر: پروین ناز
ترتیب: عابد میر۔ناشر: مہردر، کوئٹہ،
صفحات: 376،قیمت: درج نہیں ہے

’’بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا سفر‘‘ ایک ایسا موضوع ، جس کی بابت دیگر صوبوں میں بسنے والوں کی معلومات لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معروضی حالات اور حقائق سے لاعلم کسی غیربلوچستانی کے لیے اِس پر قلم اٹھانا دشوار ہے۔ اِس مجلے کی پہلی، اور اہم ترین، خوبی یہی ہے کہ اِسے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ کے زیراہتمام شایع کیا گیا ہے، جس چلانے والے افراد حقائق کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اِسے پڑھنے کے بعد پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مہردر کی ٹیم نے ’’مہرنامہ‘‘ کے زیر عنوان ایک معیاری پرچہ ’’بلوچستانی ادب کا پیش کار‘‘ کے زیرعنوان شایع کیا تھا۔

اِس مجلے کا انتساب دنیا بھر میں فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہونے والے صحافیوں کے نام کیا گیا ہے۔ آغاز معروف ادیب، ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’’کارل مارکس کی داستان حیات‘‘ کے ایک ٹکڑے سے ہوتا ہے۔ پیش لفظ میں صحافتی جدوجہد میں اہل بلوچستان کی قربانیوں کا ریکارڈ مرتب کی خواہش کو، کتاب کا محرک قرار دیا گیا ہے۔

’’پیش لفظ‘‘ کے آگے ایک پورا جہاں آباد ہے۔ کتاب مختلف حصوں میں بٹی ہے۔ پہلا مضمون ’’بلوچستان میں صحافت کا آغاز و ارتقا‘‘ تصدق حسین کوثر کے قلم سے نکلا ہے۔ کچھ آگے بڑھیں، تو ارشاد مستوئی ’’بلوچستان کی اہم ابتدائی صحافی شخصیات‘‘ کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’جدید صحافت‘‘ کے باب میں نو مضامین ہیں۔ دیگر ابواب ’’بلوچستان اور میڈیا‘‘، ’’ملکی صحافت‘‘، ’’احساس ذمے داری‘‘، ’’صحافت پابند سلاسل‘‘، ’’گواہی‘‘، ’’صحافت کا اعتماد‘‘، ’’سوشل میڈیا‘‘، ’’صحافت اور دانش‘‘، ’’حل کی جانب‘‘ مختلف لکھاریوں کے مضامین پر مشتمل ہیں۔

’’پروفائلز‘‘ کے ٹکڑے میں بلوچستان، پاکستان اور عالمی دنیا سے بعض صحافیوں کی کہانیاں، جو انفرادیت کی حامل ہیں، شامل کی گئی ہیں۔ ’’ایک ہم ہی نہیں کے‘‘ کے زیرعنوان دیگر ممالک کے ذرایع ابلاغ کو درپیش چیلینجز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آخری صفحات میں کہانیاں ہیں، شعرا کی نظمیں ہیں۔

کتاب میں غیربلوچستانی مضمون نگاروں کے علاوہ غیرملکی لکھاریوں کی تحریریں بھی شامل ہیں، جو مہردر کی ٹیم کے نقطۂ نظر کو نئے پہلو سے پرکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ بلوچستان میں ذرایع ابلاغ کا دشوار سفر بیان کرنے کی یہ کوشش بلاشبہہ قابل تعریف ہے، جس کے لیے عابد میر اور پروین ناز مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Viewing all 4667 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>