Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4746 articles
Browse latest View live

بُک شیلف

$
0
0

امثال الحدیث

مؤلف:مفتی محمد کریم خان

ناشر: ہجویری بک شاپ، گنج بخش روڈ، لاہور

قیمت:200 روپے، صفحات: 270

احادیث کی کتب میں ہمیں بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں اللہ کے آخری نبیؐ نے مختلف مثالوں کی مدد سے اخلاق کریمہ کی تعلیم کی ہے اورمختلف باتوں کی وضاحت فرمائی ہے۔مثال بیان کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیر واضح اور غیر محسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب لانے کے لئے کسی ایسی چیز سے تشبیہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے کہ جو چیز عام نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے مثال کے ذریعے سے گویا اس کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ مثلاً زیر تبصرہ کتاب میں درج ایک حدیث اس طرح سے ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:’’ نیک ہم نشیں کی مثال خوشبو والے کی طرح ہے۔ اگر تو اس سے کچھ نہ بھی خریدے تو عمدہ خوشبو کو اس سے پا ہی لے گا اور بُرے ہم نشیں کی مثال بھٹی دھونکانے والے کی طرح ہے، اگر تو اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تجھے ضرور پہنچے گا۔‘‘ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میںاحادیث صحاح ستہ کی کتب سے منتخب احادیث کو شامل کیا گیا ہے۔ احادیث کے طالب علم اور عام قارئین کے لئے یہ کتاب یقینا مفید ثابت ہوگی۔

سلطان الوھم(کلاں، خورد)

مصنف:سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ

مترجم:حافظ حماد الرحمان

پبلشرز:سلطان الفقر پبلیکیشنز ،لاہور

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒنے تصوف پر بہت سی تصانیف فارسی میں تحریر فرمائیں جن میں سے مورخین 140 تصانیف کا ذکر کرتے ہیں لیکن آپ ؒ کی اولین سوانح حیات مناقب سلطانی میں صرف تیس کتب کے نام ملتے ہیں ، گویا مناقب سلطانی کی تصنیف کے وقت ہی بہت سی کتب زمانہ کی نذر ہو چکیں تھیں۔ ان میں سے 33کے قریب تصانیف کے تراجم دستیاب ہیں جن میں سے سلطان الوھم سب سے اہم تصنیف ہے۔سلطان الوھم کلاں اور خورد کا قلمی نسخہ جیکب آباد میں سید سلطان شاہ لائبریری سے 1977ء میں دریافت ہوا۔ یہ ایک خطی نسخہ ہے۔ سلطان الوھم سلطان العارفین حضر ت سخی سلطان باہوؒ کی فقر کے اہم مقام ’’وھم‘‘ پر بہت ہی مدلل تصنیف مبارکہ ہے۔ آپ ؒ نے اپنی اس تصنیف مبارکہ میں وھم کی حقیقت کو کھول کر طالب مولیٰ کے لئے بیان فرمایا ہے۔ فقراء نے اپنی تصانیف میں وھم کا ذکر کیا ہے لیکن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ نے اپنی تصانیف مبارکہ میں دیگر صوفیاء کرام سے مقابلتاً وھم کا ذکر زیادہ تفصیل سے فرمایا ہے۔ترجمہ بڑا آسان اور رواں ہے ، قاری بڑی آسانی سے بات سمجھ جاتا ہے، راہ سلوک پر چلنے والوں کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

اللہ کے نام کے کرشمے

مصنف: پروفیسر محمد حبیب الرحمان کنجاہی

پبلشرز: یونیک ڈسکوری لاہور

اللہ تعالیٰ کے نام کی بے شمار برکات ہیں یہی زیر تبصرہ کتاب کا موضوع ہے، مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام سے ساری کائنات اور جاندار پیدا کئے ہیں۔ کتاب کے تیرہ ابواب ہیں اور ان کے عنوان سے ہی اظہار ہو جاتا ہے کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے جیسے اللہ کے نام کی برکات، چھ دن میں تخلیق، رزق دینے والا وغیرہ،  اہم بات یہ کہ مصنف نے اپنی بات کو دلائل اور سائنسی نقطہ نظر سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

بی کھوکھو کی ناک

مصنف:محمد سلیم الرحمن

ناشر:القاپبلیکشنز12-kگلبرگ2لاہور

قیمت:95

بچوں کا ادب اور ’’بی کھوکھو کی ناک‘‘ محمد سلیم الرحمن اور ان کے خیال کی مدد سے بنایا گیا گائوں اڑ اڑا اڑا دھوں پور اور وہاں کی رہنے والی بی کھوکھو۔ کتنی دلچسپ، کتنی سفاک، کتنی بے یارو مددگار، کتنی معصوم۔ ایسا کردار جو بچوں کے تخیل میں جگہ بنا سکتا ہے۔ دلچسپ، انگلی پکڑ کر چلاتا ہوا۔ الجھائو سے پاک، واقعاتی بھرمار سے صاف۔ محمد سلیم الرحمن نے بی کھوکھو کی کہانی بناتے ہوئے لمبے جملوں سے احتراز کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے ہیں۔ بچپن کے ہم عمر جملے۔ ان کے ہاں کہیں یہ خیال ضرور موجودہوگا کہ لمبے جملوں، مشکل ترکیبوں سے بچے بدک جائیں گے۔ اس لیے آسان زبان استعمال کی ہے۔ ’’بی کھوکھو‘‘ سے ملیے۔

’’اتنی نک چڑھی کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی۔ مگر یہ کیا؟ بی کھوکھو کی چڑھی ناک کو کیا ہو رہا ہے؟ ارے یہ ناک ہے یا شیطان کی آنت! بی کھوکھو کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس دلچسپ کہانی میں پڑھیے۔‘‘یہ وہ تحریر ہے جو بی کھوکھو کی کہانی کے بیک فلیپ پر درج ہے۔ بی کھوکھو نک چڑھی ہی تو ہے جو کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتی۔ اڑ اڑا اڑا دھوں پورمیں کوئی بی کھوکھو کے گھر سے آگ جلانے کے لیے ماچس کی تیلی لینے تک کا روادار نہیں۔ سنی اَن سنی کر دیتی ہے۔ کبھی اس کے کان کوے کاٹ جاتے ہیں، کبھی کتے۔ اس کا علاج آخر اجگڑ بجگڑ ہی کرتا ہے۔ اجگڑ بجگڑ جادوگر اپنے جادو کی مدد سے بی کھوکھو کو جوانی واپس لانے کا نسخہ بتاتا ہے ۔ وہ اس نسخے کے استعمال سے اپنی ناک لمبی کر بیٹھی ہے۔ کان غائب کروا لیتی ہے۔ لمبی ناک اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ آخر اجگڑ بجگڑ کو رحم آتا ہے اور وہ اس کی ناک واپس اصلی جگہ پر آجاتی ہے۔ کان دوبارہ نکل آتے ہیں۔ اجگڑ بجگڑ کا سنہری مولی کے استعمال کا نسخہ کتنا دلچسپ اور کیسا تیر بہ ہدف ثابت ہوتا ہے یہ اور اس طرح کی دلچسپ باتیں ’’بی کھوکھوکی ناک‘‘ کا حصہ ہیں۔

اس کہانی کی زبان بڑی سادہ ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی زبان، بچپن جیسی خوبصورتی، رموز و اوقاف سے مزین، اعراب کا استعمال، بچوں کے لیے مشکل الفاظ کی فرہنگ، ٹھیک ہی تو ہے اگر بچے شروع سے زیر زبر کا استعمال سیکھ جائیں گے تو انہیں زبان کے بولنے میں اطمینان اور اعتماد حاصل ہوگا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو زندگی کو خوبصورت کر دیتی ہیں۔ کہانی کار نے اس دلچسپ کہانی میں ایک سطح پر بچوں کی فطرت پر اچھا اثر ڈالنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کسی کی زندگی بی کھوکھو جیسی خودغرضی میں گزر رہی ہے تو اسے کہیں نہ کہیں ضرور اجگڑ بجگڑ سے پالا پڑ سکتا ہے اور اس کی زندگی مصیبتوں کی نذر ہو سکتی ہے۔ خوش خلقی اچھی چیز ہے۔ آپ خوش، آپ کا خدا خوش۔

امرت سر 30 کلومیٹر

مصنف: حسنین جمیل

قیمت: تین سو روپے،صفحات: دوسو چھپن

ناشر : الحمد پبلی کیشنز، لیک روڈ لاہور

حسنین جمیل کی تازہ ترین تخلیق ’’امرت سر تیس کلومیٹر‘‘ مختصر افسانوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد افسانہ نگاری کے میدان میں حسنین جمیل کا مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے۔ان کے افسانوں کی زبان آسان اور سادہ ہے جبکہ ان کا ہلکا پھلکا انداز پڑھنے والوں کو بوجھل محسوس نہیں ہوتا۔اکیس کہانیوں پر مشتمل ان کا یہ افسانوی مجموعہ ان کی دوسری طبع شدہ تخلیق ہے۔ اس سے قبل 2005 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’کون لوگ‘‘ کے عنوان سے سامنے آیا تھا۔یوں لگتا ہے کہ حسنین جمیل نے بھی بہت سے دیگر لکھنے والوں کی طرح یہ افسانے روزمرہ زندگی اور مشاہدات سے اخذ کیے ہیں جیسے پہلا افسانہ ’’امرتسر تیس کلومیٹر‘‘ اور دوسرا ’’بے چارے لوگ‘‘ ہے جس میں معاشرے کے المیوں اور تلخیوں پر قلم آرائی کی گئی ہے۔

جبکہ کچھ افسانوں جیسے ’’پھر وہی کہانی۔۔۔‘‘ میں ان کا تخیلاتی رنگ سامنے آتا ہے۔ان کی دو تخلیقات کے درمیان آٹھ سال کا فاصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ لکھنے سے پہلے طویل تپسیا کے قائل ہیں۔وہ جس طرح ادب کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں اور ادبی اجلاسوں اور بیٹھکوں میں شرکت کرتے ہیں ، اس سے ادب کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ان کی تحریر میں موجود نکھار اور پختگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آنے والے وقت میں وہ افسانوں کا ایک نمایاں نام بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ نقاد رشید مصباح ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حسنین جمیل کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہری نظر ہے۔ انہوں نے 1977 سے لیکر 2007 تک ہونے والے چار بڑے سیاسی قتلوں کو اپنے افسانے’’صلیبیں‘‘ کا موضوع بناتے ہوئے اس طرف ا اشارہ کیا ہے کہ جابر طبقے غریب کے لیے آواز بلند کرنے والے اپنے طبقے کے افراد کو بھی سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ظلم اور و حشت کی انتہا اس افسانے کی رگ رگ میں سمائی ہے۔’’رام اور سیتا‘‘ انسانی رشتوں کی اہمیت آشکارا کرتا ہے اور معاشرہ ان رشتوں کو کس طرح بے دردی سے پامال کرتا ہے ، حسنین جمیل نے بڑی تفصیل سے اس افسانے میں وضاحت کی ہے۔

رشید مصباح کے بقول حسنین جمیل کے افسانے ظلم اور جبر کے خلاف ایک بلند آواز ہیں جسے کبھی دبایا نہیں جاسکتا۔انہوں نے ان مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بناکر جنہیں ہماری لکھاری بھولتے جارہے ہیں، ایک بڑا اہم کام کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ حسنین جمیل آنے والے دنوں میں ان سے بھی زیادہ اہم اوران سے بھی زیادہ جاندار افسانے تخلیق کریں گے کہ وہ تخلیقی جذبے سے بھرے ہوئے ہیں اور سماج کو تبدیل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔

تبصرہ نگار حسنین جمیل کے بارے میں مذکورہ رائے سے مکمل طور پر متفق ہے۔ امید ہے کہ حسنین جمیل آئندہ بھی اسی طرح کے اچھوتے اور جاندار افسانے تحریر کرتے رہیں گے اور قارئین کو مایوس نہیں کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ ان کے قلم کو مزید طاقت عطا کرے۔


دنیا کے خوب صورت ترین واٹر پارک، جہاں جانے والوں کے لیے انوکھی تفریحات اور اچھوتی دل چسپیاں مہیا کی گئی ہیں

$
0
0

موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی سمندروں کے کنارے آباد شہروں میں ساحلوں کی رونق میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

شہروں میں کنکریٹ سے بنی عمارتوں اور تارکول سے تخلیق کردہ سڑکوں پر دھواں دوڑاتی گاڑیاں گرمی کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے میں سورج کی تپش چھائوں میں بھی گرمی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تاہم اس صورت حال میں ضروری نہیں ہے کہ ہر شہری ساحل سمندر پر جا کر لہروں سے لطف اندوز ہوسکے یا پانی میں ڈبکیاں اور غوطے لگائے، کیوں کہ بہرحال سمندر میں تیراکی ایک خطرناک عمل ہے، جو بعض مرتبہ ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس صورت حال کا حل کچھ اداروں یا افراد نے اس طرح ڈھونڈا ہے کہ تفریح کے متلاشی افراد نہ صرف لہروں سے لطف اندوز ہوسکیں بلکہ ایک ہی مقام پر مختلف ساحلی تفریحات بھی حاصل کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں ’’پانی کے باغ‘‘ یا عام الفاظ میں ’’واٹر پارک‘‘ تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان وسیع و عریض پارکوں کا بنیادی مقصد خاندان کے تمام افراد کو ایک ہی مقام پر ہر وہ ساحلی یا آبی تفریح فراہم کرنا ہے جو کھلے ساحلوں پر عموماً دست یاب ہوتی ہیں۔ زیر نظرتحریر میں دنیا کے ان اہم ’’واٹر پارکوں‘‘ کے بارے میں معلومات دی جارہی ہیں جو اپنے اپنے مخصوص طرزِ تعمیر، سہولیات اور انوکھی آبی تفریحات کے باعث بین الااقوامی سطح پر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پُرکشش مقام کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

٭ٹراپیکل آئی لینڈ ریزورٹ

 Tropical Islands Resort

جرمنی کا شہر برلن یورپی دنیا کا ایک اہم شہر ہے، جو نہ صرف دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی یادگار ہے، بل کہ دوسری جنگ عظیم میں تخلیق کی جانے والی تعمیرات کو بطور یادگار محفوظ کرنے کے حوالے سے بھی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی ہی کچھ تاریخی تعمیرات برلن کی انتظامیہ نے عوامی تفریح کے لیے بھی مختص کی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے برلن کے جنوب میں واقع ریاست Brandenburg کے ضلعKrausnick میں واقع دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والا مشہور زمانہ ’’طیارہ ہینگر‘‘ ایک زبردست تفریح گاہ میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ سامان بردار ایرشپ طیاروں کے لیے بنایاگیا یہ ہینگر دنیا میں بغیر کسی سہارے یا ستون کے سب سے بڑے ہال کا درجہ رکھتا ہے۔ وسیع الجثہ’’ایر شپ غبارے‘‘ جو فضا میں Propellers یا مشینی پنکھوں کی مدد سے پرواز کرتے ہیں، ان کے لیے بنائے گئے اس ہینگر کو تیکنیکی اصطلاح میں Aerium کہا جاتا ہے۔ ہوا کشتی (ائیر شپ) کے عدم استعمال کے بعد عرصۂ دراز تک یہ ہینگر ناقابل استعمال رہا اور جب ایر شپ بنانے والی کمپنی Cargolifterدیوالیہ قرار دی گئی تو2002 میں اس مقام پر واٹر پارک کی داغ بیل ڈالی گئی۔ چھے ہزار افراد کو بیک وقت سمانے والے اس واٹر پارک کا باضابطہ افتتاح 19دسمبر2004کو کیا گیا۔ مشہور تجارتی ادارے Tanjongپبلک لیمیٹڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ واٹر پارک کی انتظامیہ کی جانب سے مہیا کردہ اعداد وشمار کے مطابق واٹر پارک کے افتتاحی سال میں لگ بھگ دس لاکھ افراد نے اس تفریح گاہ سے دل بہلایا۔ سطح سمندر سے محض 70میٹر بلندی پر واقع یہ واٹر پارک برلن سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ واٹر پارک میں داخل ہونے کے لیے مضافاتی قصبے Staakowکی جانب سے موٹر وے بنائی گئی ہے اور جب سیاح اس موٹر وے کے ذریعے پارک میں داخل ہوتا ہے تو اس کے سامنے پارک کی طلسماتی دنیا کُھل جاتی ہے۔

بنیادی طور پر یہ منصوبہ یورپ کے سرد موسم میں استوائی خطوں کے موسموں سے لطف اندوز ہونے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واٹر پارک میں دنیا کا سب سے بڑا اندرونی (Indoor) برساتی جنگل بنایا گیا ہے، جو استوائی خطوں میں واقع جنگلات کے پودوں اور درختوں سے ہرا بھرا رہتا ہے۔ چوں کہ واٹر پارک مختلف حصوں پر مشتمل ہے، لہٰذا سیاح کو گھومنے پھرنے کے حوالے سے مختلف مالیت کے ٹکٹس خریدنے پڑتے ہیں اور منتخب حصوں کے علاوہ وہ کسی دوسرے حصے میں نہیں جاسکتا۔ اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے واٹر پارک میں آنے والے ہر شخص کے ہاتھ میں ایک برقی Chip پر مشتمل بینڈ پہنایا جاتا ہے، جس کی مدد سے انتظامیہ ہر فرد کو اپنی نظر میں رکھتی ہے لگ بھگ78ملین یورو کی مالیت سے تخلیق کیے گئے اس واٹر پارک میں استوائی یا منطقہ حارہ کے نیم گرم خطوں کی مناسبت سے Tropical Villageبنایا گیا ہے ۔

اسی طرح برساتی جنگل میں پچاس ہزار مختلف اقسام کے پودے اور درخت لگائے گئے ہیں، جب کہ استوائی جنگلات کے 600اقسام کے مختلف چرند پرند بھی لائے گئے ہیں۔ ’’ٹراپیکل گائوں‘‘ میں موجود درختوں کی حفاظت اور افزائش کے لیے بیس ہزار مربع میٹر پر محیط ایک کھڑکی بنائی گئی ہے، جس پر موجود الٹرا وائلٹ ٹرانسپیرنٹ شیٹ ان مخصوص درختوں کے لیے دھوپ فراہم کرتی ہیں، جب کہ استوائی علاقوں کے سمندروں کے ساحلوں کی نقل کرتے ہوئے واٹر پارک میں 140میٹر طویل تیراکی کا تالاب بنایا گیا ہے، جس کا مجموعی رقبہ 4,400مربع میٹر اور گہرائی1.35میٹر ہے۔ Coralآئی لینڈ کی طرح تخلیق کردہ اس مقام پر200 میٹر طویل ساحل سمندر بھی بنایا گیا ہے، جہاں پر ساحل کی چمکتی ریت کے ساتھ 850لکڑی کی نشستیں لگائی گئی ہیں، جن پر لیٹ کر تفریح کرنے والے ہال کے شفاف گنبد میں سے آنے والی دھوپ سینک سکتے ہیں۔ اس مقام سے متصل ’’Baliجھیل‘‘ بھی تفریح کے لیے آنے والوں کو ششدر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ 12سو مربع میٹر پر محیط یہ جھیل ایک میٹر گہری ہے، جس میں فوارے، تیز بہائو کے پانی کے راستے اور دو زبردست قسم کی 27 میٹر بلند واٹر سلائڈز بنائی گئی ہیں۔اس واٹر پارک کی ایک اور خصوصیت یہاں پر موجود ’’سونا غسل‘‘ (Sauna Bath) کی سہولت ہے۔ اس حوالے سے واٹر پارک میں یورپ کا سب سے وسیع ’’سوناکمپلیکس‘‘ ہے، جس میں کرسٹل اسٹیم باتھ، اسٹون سونا باتھ، ہربل باتھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ’’سونا باتھ‘‘ کے لیے بنائے گئے ۔ واٹر پارک کی انتظامیہ کی جانب سے سیاحوں کے سامان کی حفاظت کے لیے 7ہزار لاکرز بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ پارک کا ایک اہم حصہ بچوں کی تفریح کے لیے مختص ہے، جس میں کریزی گولف کورس نہایت دل چسپی کا حامل ہے۔

٭ونگزاینڈ ویوز واٹر پارک

Wings and Waves Waterpark

چھے جون2011 کو قائم ہونے والا یہ منفرد واٹر پارک امریکا کے علاقے اوریگون کے مضافات McMinnville میں واقع ہے ’’ایور گرین ایوی ایشن اینڈ میوزیم‘‘ میں بنایا گیا یہ واٹر پارک اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس واٹر پارک کے اندر داخل ہونے کے لیے ہوائی جہاز کے دروازے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 71350مربع فٹ پر محیط اس واٹر پارک کی مرکزی عمارت کے اوپر ہوائی جہاز ایستادہ ہے۔ اسی مناسبت سے اس واٹر پارک کو Wingsیعنی ’’پر‘‘ اور واٹر پارک کے اندر91703گیلن پانی کے ذریعے پیدا کردہ Waves’’ لہروں‘‘ کی وجہ سے ’’ونگز اینڈ ویوز واٹر پارک ‘‘ کہا جاتا ہے۔

دس عدد تیزرفتار پانی کی سلائڈز پر مشتمل اس واٹر پارک میں بچوں کی تفریح کے علاوہ تعلیمی حوالے سے بھی سہولیات مہیا کی گئی ہیں، جن میں بچو ں کا’’ H2O سائنس اسٹیڈی سینٹر‘‘ قابل ذکر ہے، جہاں بچے اور بڑے پانی کی کیمیائی ترکیب سے لے کر اس میں موجود تمام خواص پر نہ صرف سیر حاصل بحث کرتے ہیں، بلکہ تجربات کی مدد سے پانی کی اہمیت اور قدروقیمت بھی جانتے ہیں۔واٹر پارک کی دوسری منزل پر قائم اس سائنس اسٹیڈی سینٹر میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو بجھانے کے طریقے بھی بچوں کو سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑے تالاب میں مصنوعی طریقے سے سونامی طوفان کی لہریں پیدا کرکے سونامی بننے کی وجوہات اور طوفانی شدت کو دکھایا جاتا ہے۔ بچوں میں خلا نوردی کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے سائنس اسٹڈی سینٹر میں پانی سے بھرے تالاب کے اندربے وزنی کی کیفیت کے مظاہر تخلیق کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے بچے خلانوردں کی تربیت کے طریقے اور رموز سے آگاہ ہوتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ واٹر پارک کے اس اسٹیڈی سینٹر میں لڑاکا جیٹ طیارے اور خلائی شٹل کی نقول بھی بچوں کے مشاہدے اور تجربات کے لیے رکھی گئی ہیں، جب کہ پانی کی اہمیت اور ضرورت کے عنوان Life needs Waterپر 20انٹر ایکٹیو معلوماتی پروگرام بھی اسٹیڈی سینٹر کا حصہ ہیں۔

واٹر پارک میں موجود چار واٹر سلائڈز کا آغاز ایک ریٹائرڈ بوئنگ طیارے 707-100 کی چھت پر سے ہوتا ہے۔ یہ طیارہ مرکزی عمارت کی چھت پر رکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر سلائڈز کی اونچائی62 فٹ ہے جہاں سے سیاح تیزی سے پھسلتے ہوئے پانی کے تالاب میں گرتے ہیں۔ ان سلائڈز میں Yellowسلائیڈ 550 فٹ طویل ہے، جس کا افتتاحی پوائنٹ بوئنگ طیارے کے اوپر نظر آتا ہے ۔ جب کہ Green سلائڈ350فٹ طویل ہے، جس میں سیاح ایک ٹیوب میں لیٹ کر پھسلنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنے مخصوص زاویوں کے باعث سیاح اس میں سے نہایت تیز رفتاری سے پھسلتے ہیں۔ آواز کی رفتار سے تیز ہونے کے عمل کو تیکنیکی طور Mach 1کہا جاتا ہے اور یہ عمل علامتی طور پر Orangeسلائڈ میں انجام پاتا ہے۔ سرنگ نما اس سلائڈ میں سیاح کی رفتار اگرچہ آواز سے تیز تو نہیں ہوتی، تاہم اپنے زبردست گھمائو کے باعث یہ سلائڈ سیاح کے لیے Mach کے عمل سے کسی طور کم نہیں ہے۔ ایک اور سلائڈ جسے Blueسلائڈ کہا جاتا ہے، اپنے8عدد ٹرننگ پوائنٹ کے باعث سیاح کوزبردست تفریح فراہم کرتی ہے۔ جسم کو گدگدانے والی یہ سلائڈ مکمل طور پر نیلے رنگ کے ماحول میں سفر کرتی ہے۔ اس سلائڈ کو Tail Spin بھی کہا جاتا ہے۔

واٹر پارک میں خشکی کے حوالے سے بھی تفریحی سہولیات موجود ہیں، جن میں نجی تقریبات کے لیے ہال، لاکر رومز اور فیملی ایریا شامل ہے۔ واٹر پارک کی ایک امتیازی خصوصیت اس میں معذور افراد کے لیے بہترین تفریحی سہولیات کی موجودگی بھی ہے۔ مجموعی طور پر اس واٹر پارک میں بیک وقت1500افراد کی تفریحی کی گنجائش ہے۔ پورا واٹر پارک ایک بڑی ہال نما عمارت میں بنایا گیا ہے، جس کی بیرونی دیواروں پر سبز رنگ کے مخصوص شیشے لگائے گئے ہیں۔ ’’ونگز اینڈ ویوز واٹر پارک‘‘ کا بنیادی مقصد تفریح کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کا انعقاد بھی ہے۔ اس حوالے سے واٹر پارک کی انتظامیہ کی جانب سے ہونہار طالب علموں کے لیے اسکالر شپ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جس کی مثال دنیا کسی دوسر ے واٹر پارک میں نہیں ملتی۔

٭تیرتے حمام ، پراگ

Floating Bath. Prague

مشرقی یورپ کے ملک جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں واقع یہ حمام اگرچہ واٹر پارک کی مکمل تعریف پر تو پورا نہیں اترتا، تاہم عوام کی اِن ڈور آبی تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ پراگ میں رواں دواں دریائے Vltavaمیں تخلیق کیا گیا یہ حمام یا تیراکی کا وسیع تالاب چاروں جانب سے ایک دائرے نما حصار میں بند ہے۔ یہ حصار دریائے Vltava کی سطح پر لہروں کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام پر ڈولتا رہتا ہے۔ نو ہزار مربع فٹ پر محیط اس تالاب تک رسائی کے لیے سیاح کشتی کے ذریعے دریا کے کناروں سے سفر کرتے ہیں۔ دو مقامی ماہر تعمیرات Ondrej Lipensky اور Andrea Kubna کا تخلیق کردہ یہ منصوبہ 2011 میں معرض وجود میں آیا۔ عوامی سہولیات سے آراستہ ان سوئمنگ پولز کے چاروں طرف کرسیوں اور 24 عدد چھوٹے کمرے (Cabins) کی سہولت بھی بہم پہنچائی گئی ہے، جب کہ ’’Sauna غسل‘‘ اور بھاپ کے غسل کے کیبن بھی اس تیرتے تالاب کا حصہ ہیں، جب کہ بچوں کے لیے علیحدہ پیراکی کا تالاب بھی بنایا گیا ہے۔ تالاب میں کھانے پینے کی اشیاء کے لیے کیفے بھی موجود ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کے یہ سوئمنگ پول جو کہ اوپر سے شیشے سے ڈھکا ہوا ہے سردی کے موسم میں جب تالاب کا پانی جم جاتاہے تو اس کی برفانی سطح پر اسکیٹنگ کے شائق آ پہنچتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ واضح رہے Vltaveدریا جمہوریہ چیک کا سب سے طویل دریا ہے، جو بدقسمتی سے شدید آلودگی کا شکار ہے۔ تاہم تالاب میں لائے جانے والے پانی کے لیے صفائی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ بیک وقت 300افراد کی گنجائش والے اس تالاب نما واٹر پارک کی گہرائی165سینٹی میٹر ہے۔ تالاب کے پیند ے کو پانی میں قائم و دائم رہنے والی مخصوص لکڑی سے بنایا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ کہ تالاب کے مختلف حصوں کو ضرورت پڑنے پر کھول کر دوسری جگہ کشتیوں کی مدد سے تیراتے ہوئے منتقل کیا جاسکتا ہے۔

٭نارڈ پولین واٹر پارک

Nordpoolen Water Park

دنیا کے انتہائی شمال میں واقع یہ منفرد واٹر پارک اپنی خوب صورت عمارتی حسن کے باعث دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ سوئیڈن کے قصبے Bodenمیں تخلیق کردہ اس واٹر پارک میں انتہائی سرد موسم میں گرم پانی کے تالاب سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں پانی کو گرم رکھنے کے لیے واٹر پارک میں جدید ہیٹنگ سسٹم لگایا گیا ہے۔ واٹر پارک میں ایڈونچر پول، واٹر سلائڈز، ایکسرسائز پول، ریسٹ روم، بچوں کا پول، ریسٹورنٹ، جم، پہاڑ سر کرنے والی مصنوعی دیوار اور بلبلوں سے بنا (Bubbleing Water)پول بطور خاص سیاحوں کو لبھاتا ہے۔

واضح رہے کہ واٹر پارک کی مرکزی واٹر سلائڈ مرکزی عمارت کے باہر سے چکر لگاتے ہوئے عمارت میں داخل ہوتی ہے اور ایک زور دار قوت کے ساتھ سیاح کو تالاب میں لا پھینکتی ہے۔ اس سرنگ نما سلائیڈ کو ’’ ٹربو پائپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

٭جادوئی خوشی کا واٹر پارک

Happy Magic Water Park

’’وشی اور جادو کے واٹر پارک‘‘ کا ماحول دیو مالائی کہانیوں جیسا ہے، جس میں داخل ہوتے ہی رنگ برنگے مناظر تفریح کے لیے آنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیتے ہیں۔ انتہائی جاذب نظر اور خوب صورتی سے تخلیق کیے گئے اس واٹر پارک کا اولین استعمال2008 میں بیجنگ میں ہونے والے گرمائی اولمپکس کھیلوں کے موقع پر کیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر بیجنگ اولمپک 2008میں مختلف آبی کھیلوں کے لیے ’’بیجنگ نیشنل Aquaticsسینٹر‘‘ بنایا گیا تھا، جس میں آبی کھیلوں کے بین الااقوامی معیار کی تمام سہولیات میسر تھیں۔ اولمپکس کے بعد اس انتہائی جدید سہولتوں سے آراستہ Aquaticsسینٹر کو بیجنگ کی انتظامیہ نے ایک وسع و عریض انڈور واٹر پارک میں تبدیل کردیا اور آج یہاں پر دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور واٹر پارک میں موجود مختلف تفریح سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اس واٹر پارک میں نیون پلاسٹک سے بنی سلائڈز اور آبی سرنگیں سیاحوں کی دل چسپی کا مرکز ہیں، جب کہ پانی کے اندر تیراکی کے تالابوں میں گہرے رنگوں سے تخلیق کردہ وسیع و عریض تصاویر بھی سیاحوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ چالیس فٹ کی بلندی سے ’’فری فال‘‘ یا آزاد چھلانگ لگانے کا پوائنٹ بھی بہادر سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس واٹر پارک کی ایک اہم خوبی جو اسے دوسرے واٹر پارکوں سے ممتاز بناتی ہے۔ پارک میں ہلکی اور مدھم لہروں سے بنایا گیا علامتی دریا ہے، جس میں تفریح کرنے والے پرسکون سمندر کی ڈولتی لہروں جیسا لطف اٹھاتے ہیں ’’جادوئی خوشی کے واٹر پارک‘‘ میں بچوں کے لیے بھی خصوصی حصہ بنایا گیا ہے۔ واٹر پارک کی عمارت مستطیل شکل کی ہے، جس کے چاروں طرف کی دیواریں اور چھت پانی میں بننے والے بلبلوں (Bubbles) کی شکل میں تخلیق کی گئی ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں بنائے جانے والے یہ شفاف بلبلے دن میں سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں، جب کہ رات میں نیلگوں روشنی میں انتہائی دل فریب نظر آتے ہیں۔

عمارت کے اندر رنگ برنگے شفاف غباروں کے ساتھ مختلف رنگوں سے ’’جیلی فش ‘‘ کی متعدد نقول بھی بنائی گئی ہیں، جو عمارت کی چھت پر غباروں کی مانند جھولتی رہتی ہیں اور اپنے ناظر کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہیں ایشیا کے سب سے بڑے واٹر پارک کا درجہ رکھنے والی اس تفریح گاہ میں دس کی تعداد میں واٹر سلائڈز ہیں، جب کہ پارک کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں واٹر ورلڈ کے حصے میں تجسس، حیرانگی، تازگی اور خوشی کی تھیم رکھی گئی ہے۔ دوسرے حصے کو ’’بیوٹی اور ہیلتھ‘‘ سے منسوب کیا گیا ہے، جس میں فیشن، صحت اور جسمانی ساخت کو چین کے روایتی طریقوں سے بہتر بنانے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ تیسرا حصہ SPAکہلاتا ہے، جہاں انسان کو آبی تھراپی کے ذریعے سکون پہچانے والے روایتی طریقۂ علاج کے جدید ترین آلات ہیں، جن میں پتھروں سے لے کر خوش بودار پھول پتیوں تک سے ’’واٹر تھراپی‘‘ اور مساج کیا جاتا ہے۔

٭ڈزنی بلیزرڈ بیچ واٹر پارک

Disney’s Blizzard Beach

والٹ ڈزنی کمپنی دنیا بھر میں تفریحی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے صف اول کے اداروں میں شمار کی جاتی ہے۔ ڈزنی لینڈ کمپنی کے ’’والٹ ڈزنی ورلڈ ریزورٹس‘‘ کا جال دنیا کے تقریباً تمام اہم ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جس میں سے ایک امریکی ریاست فلوریڈا کی جھیل Bay میں بنایا گیا ہے۔ اس وسیع و عریض ریزورٹ کے ایک حصے میں تخلیق کردہ ’’ڈزنی بلیزرڈ واٹر پارک‘‘ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ انتہائی دل فریب، خوش نما، جادوئی مناظر اور حد نگاہ تک پھیلے ہوئے اس واٹر پارک میں سال بھر سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یکم اپریل 1995 کو عوام کے لیے کھولے جانے والے اس واٹر پارک میں2009 کا 1.89ملین افراد نے وزٹ کیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ پارک دنیا کا دوسرا واٹر پارک ہے، جہاں ایک ہی دن اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں اور مقامی افراد نے اپنا دل بہلایا۔

پارک کا اہم ترین مقام یہاں تخلیق کی جانے والی 90 فٹ بلند مصنوعی پہاڑی ہے، جسے ’’مائونٹ Gushmore‘‘ کہا جاتا ہے۔ کوہ پیمائی کے ساتھ ساتھ اس پہاڑی سے تین مختلف رنگوں کی واٹر سلائڈز نکالی گئی ہیں سرخ، سبز اور جامنی رنگوں کی ان سلائڈز پر ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پھسلتے ہوئے بڑے بڑے بہادروں کا پتا پانی ہوجاتا ہے۔ مائونٹ گیشمور کے دامن میں ایک ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا تالاب بنایا گیا ہے، جس میں سردیوں کے بعد برف کا پگھلتا ہوا پانی آبشار کی شکل میں آکر جمع ہوتا ہے اور گرمیوں میں اس ہی پانی میں سیاح تیراکی کرتے ہیں۔ پارک کا ایک حصہ Cross Country Creek ہے۔ یہ کریک بنیادی طور پر ایک ہلکا بہتا ہوا دریا ہے، جو پارک کے چاروں جانب گھومتا ہے۔  ایک اور حصہ Leisure Pool ہے، جس میں برفانی تودے (Ice Berg)بنائے گئے ہیں، جن پر سیاح پیدل چل سکتے ہیں۔ پارک میں رسی سے جھولتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگانے کا تفریحی مقام بھی ہے۔ اس کے علاوہ برف سے بنا قلعہ بھی شائقین کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مائونٹ Gushmoreکی چوٹی پر پہنچنے کے لیے ’’چیئر لفٹ‘‘ بھی پارک کا حصہ ہے، اگر ہم ’’ڈزنی بلیزرڈ بیچ واٹر پارک‘‘ کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس کے تخلیق کاروں نے پارک کا مرکزی خیال پگھلتے ہوئے برف میں تفریحی سہولیات کی فراہمی رکھا ہے۔

٭سن وے لیگون واٹر پارک ، کوالالمپور

Sunway Lagoon Water Park

ملائیشیا کا دارالحکومت کوالالمپور اپنی ثقافتی خوب صورتی اور جدید طرز تعمیر کے باعث دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ کواالالمپور سے محض پندرہ کلومیٹر جنوب مغرب میںPetaling Jaya کا علاقہ اپنے صنعتی کاموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس حوالے سے طویل عرصے تک اس علاقے سے گرینائٹ پتھر کھود کر نکالا جاتا رہا ہے۔ بعدازاں پتھر کی عدم دست یابی کے باعث کھدائی کا کام روک دیا گیا۔ تاہم اس کے نتیجے میں ایک وسیع گڑھا بن گیا۔ اس وسیع گڑھے کو کوالالمپور اور ’’ پیتلنگ جے‘‘ شہر کی انتظامیہ نے 29 اپریل 1993میں واٹر پارک میں تبدیل کردیا۔ انتہائی قدرتی انداز میں تشکیل کیے گئے اس واٹر پارک میںدنیاکا سب سے بڑا لہروں پر مشتمل تیراکی کا تالاب ہے، جس کا رقبہ 139,800مربع فٹ ہے۔ اس وسیع و عریض تالاب میں وقتاً فوقتاً آبشار کی شکل میں پانی گرایا جاتا ہے۔

80 ایکڑ پر محیط اس پارک کو مجموعی طور پر پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں ’’واٹر پارک‘‘ جہاں پر تیراکی کا تالاب اور اس کے کنارے ساحل جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اس حصے میں سطح آب پر سرفنگ کی سہولت بھی ہے۔ اس حصے کو ’’واٹر آف افریقہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں پر زمباوے، کانگو اور کیمرون کے آبی جنگلات اور رہائش گاہوں کا ماحول تخلیق کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ جسے Screamپارک کہا جاتا ہے۔ اس حصے میں پانی میں تفریح کرتے ہوئے کچھ ڈرائونے مقام سیاحوں کے دل دہلا دیتے ہیں تیسرا حصہ ’’امیوزمنٹ پارک‘‘ کا ہے، جس میں بھانت بھانت کے تفریحی مقامات بنائے گئے ہیں۔ اس حصے میں بحری قذاقوں کا ایک بحری جہاز بھی رکھا گیا ہے، جس میں سیاح سفر کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس امیوزمنٹ پارک میں ایک 428 میٹر طویل جھولنے والا پل بھی ہے، جس پر سفر کے دوران نیچے دیکھنے پر پارک کی خوب صورتی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

اس حصے میں جنگلی حیات کے حوالے سے بھی معلومات اکھٹی کی گئی ہیں، جب کہ پارک کی بل کھاتی طویل نیلے رنگ کی سلائڈ بھی اسی حصے میں بنائی گئی ہے۔ پارک کا چوتھا حصہ Extremeپارک کہلاتا ہے۔ اس حصے میں تیراندازی اور کوہ پیمائی کی سہولیات رکھی گئی ہیں، جب کہ ایک چھوٹا گولف کورس بھی موجود ہے۔ ایکسٹریم پارک میں ایشیا کی سب سے طویلSlingshotرائیڈ بھی ہے۔ G-Force Xکے نام سے مشہور یہ رائیڈ اپنے سوار کو صرف دو سیکنڈ میں 65 میٹر کی بلندی پر لے جاکر واپس زمین پر لاتی ہے۔ اس دوران غلیل نما Slingshotکی رفتار زیرو کلومیٹر سے 120کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے دو مضبوط ستونوں سے بندھی ہوئی اس لچکدار رسی کے ذریعے اوپر نیچے ہوتے وقت سوار اپنے اوپر خلائی جہاز میں بیٹھے خلانورد جیسا دبائو محسوس کرتا ہے۔

پارک کا پانچواں حصہ وائلڈ پارک پر مشتمل ہے، جس میں لگ بھگ 150جانوروں کی انواع اقسام کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس حصے میں افسانوی کردار ٹارزن اور اس کی محبوبہ جین سے واٹر پارک آنے والوں کی ملاقات کے لیے بھی وائلڈ پارک کی انتظامیہ نے خصوصی اہتمام کیا ہے۔

زمین کسی بھی وقت تباہ ہو سکتی ہے؟

$
0
0

کسی پرفضا مقام پر شب کو تاروں بھرے فلک کا نظارہ انسان کو کیف و مستی کے ایک نئے عالم میں کھینچ کر لے جاتا ہے۔

یہ نظارہ دیکھنے والا اگر شاعر ہو تو اس پر شعروں کا نزول ہونے لگتا ہے، اگرسائنسدان ہو تو اس کی نظر نئے ستاروں اور کہکشائوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہے، اس حسین منظر میں کھویا ہوا انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اگلے ہی لمحے یہ فضا اس کے لئے کوئی خوفناک تباہی بھی لا سکتی ہے، زمین سے لے کر آسمان تک بظاہر بالکل سکون نظر آتا ہے مگر اس سکون کے پس پردہ بے شمار ہنگامے چھپے ہوئے ہیں۔ شہاب ثاقب جب خلاء سے زمین کے گرد بنے ہوا کے ہالے میں داخل ہوتا ہے تو روشنی کی ایک لمبی لکیر چھوڑتا ہوا کہیں غائب ہو جاتا ہے ، جسے عام طور پر لوگ تارے کا ٹوٹنا بھی کہتے ہیں ۔ اگر یہی شہاب ثاقب ہوا سے رگڑ کھانے کے بعد جل کر راکھ ہو نے کے بعد غائب نہ ہو تو کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، آسمان سے گرنے والے اس پتھر کا دھماکہ کسی بڑے بم سے کم نہیں ہو گا، اور اگر یہ ٹکڑا کئی کلومیٹر طویل ہو تو زمین کا ماحولیاتی منظر تبدیل ہو جائے گا جس سے زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔

اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق ہماری زمین پوری کائنات میں واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، زندگی سے بھرپور یہ سیارہ اپنی اسی اہمیت کی وجہ سے تمام ستاروں اور سیاروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بے کنار کائنات میں سورج کے گرد گھومنے والا یہ واحد حیاتیاتی سیارہ کیا محفوظ ہے؟۔ جب انسان کو یہ بھی علم نہ تھا کہ زمین پر اس کی طرح اور بھی کئی خطے ایسے ہیں جہاں پر اس کی طرح انسان بستے ہیں تب اسے یہ زمین بہت ہی محفوظ لگتی تھی کیونکہ اس کا علم زمین کے ایک خاص حصے تک محفوظ تھا ، وہ زمین کو محدود نہیں بلکہ بے کنار سمجھتا تھا ، اس کا خیال تھا کہ سورج ،چاند، ستارے سب اس کے گرد گھومتے ہیں ، کائنات کے راز اس کے لئے ابھی سربستہ تھے،

اسے ابھی یہ علم نہیں تھا کہ زمین جسے وہ لامحدود سمجھتا ہے وہ کائنات میں ایک ذرے جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، حالانکہ آسمان سے گرنے والی چٹانیں اور اس سے پھیلنے والی تباہی اسے کائنات میں جھانکنے پر مجبور کرتی تھی ، مگر توہم پرستانہ خیالات اسے ہر طرف سے جکڑے ہوئے تھے اور پتھروں کے گرنے کو دیوتائوں کی ناراضگی قرار دیا جاتا تھا۔ جب سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ انسان کوعلم ہو گیا کہ زمین کائنات میں موجود بے شمار نظاموں میں سے ایک نظام شمسی کا ایک حصہ ہے تو اس پر حیرت کے نئے در وا ہوئے۔ تب جہاں اسے کائنات میں زمین کی حیثیت کا علم ہوا وہیں اسے یہ بھی پتہ چلا کہ سورج کے گرد خلاء میں گردش کرتے ہوئے زندگی سے بھرپور اس سیارے کو بے شمار خطرات لاحق ہیں ، خلاء میں آوارہ گھومنے والے سیارچے اور چٹانیں کسی وقت زمین کو تباہ کر سکتے ہیں ۔

خلاء میں گھومنے والے یہ سیارچے اور چٹانیں آخر ہیں کیا اور کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔ 1801ء میں ایک سائنسدان گیوسپی پیزی نے خلاء کے مشاہدے کے دوران مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان چٹانی مادے کو سورج کے گرد گھومتے دیکھا تو وہ بڑا حیران ہوا ، اس نے اس کا نام سیرس رکھا ، اس کا حجم 1003کلومیٹر تھا ( یہ اب تک کے دریافت ہونے والے تمام اسٹیرائیڈز میں سب سے بڑا ہے اور تمام سیارچوں کے مجموعی حجم کا پچیس فیصد ہے) مگر یہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ اسے سیارہ کہا جا سکے اس لئے اسے سیارچہ یعنی اسٹیرائیڈ کہا گیا ، چھ سال کی تحقیق کے دوران مزید تین سیارچے دریافت ہوئے ، پہلے خیال تھا کہ یہ سلسلہ یہیں پر رک جائے گا مگر تحقیق کرنے پر پتہ چلاکہ ایسے بے شمار چھوٹے بڑے سیارچے ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ،

تب یہ خیال کیا گیا کہ یہ سب کسی ایک سیارے کے ٹکڑے ہیں جو کسی وجہ سے تباہی سے دوچار ہو گیا ، ان سیارچوں کو اسٹیرائیڈ بلٹ کا نام دیا گیا، ان میں چند میٹر سے لے کر سینکڑوں میل بڑے سیارچے شامل ہیں ۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان میں سے 6ہزارکے باقاعدہ نام رکھے گئے ہیں جبکہ 70 ہزار سیارچوں پر تحقیق جاری ہے ۔ ساخت کے اعتبار سے سیارچوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے Cٹائپ، Sٹائپ ،M ٹائپ وغیرہ ۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سی ٹائپ کی ہے، کالے رنگ کے یہ سیارچے کل تعداد کا 75فیصد ہیں، S ٹائپ سیارچے نسبتاً روشن ہیںکیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش ہے اور یہ تمام اسٹیرائیڈ ز کا 17فیصد ہیں، دیگر سیارچے ایم ٹائپ ہیں اور یہ بہت روشن ہیں کیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھی سیارچوں کی چند دیگر اقسام ہیں ۔

اگرچہ سیارچوں کی اکثریت اسٹیرائیڈ بلٹ میں ہی چکر کاٹ رہی ہے مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے مدارمقررہ نہیں یعنی بے مرکز یا عام روش سے ہٹ کر ہیں اور وہ اسٹیرائیڈ بلٹ سے باہر حرکت کرتے ہیں اور زمین کے مدار کے بہت قریب سے گزرتے ہیں ، سائنسدان ایسے سیارچوں کو خطرنا ک کیٹگری میں شمار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ اپنے مدار میں حرکت کر رہے ہیں مگر ان کی قربت زمین کے لئے خطرناک ہے کیونکہ مستقبل میں کسی بھی بڑے ٹکرائو کا باعث بن سکتے ہیں ، ان میں سے بھی زیادہ وہ سیارچے اور چٹانیں خطرناک ہیں جو ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوئیں اور اچانک ظاہر ہوتی ہیں ، خاص طور پر چھوٹے سیارچے جنھیں شہابیہ کہا جاتا ہے جو زمین کی فضا میں داخل ہو کر جل جاتے ہیں ۔

ایسا ہی ایک شہابیہ فروری میں روس کی فضا میں داخل ہوا اور جل کر راکھ ہو گیا مگر اس کے جلنے سے پیدا ہونے والی شاک ویو یا لہر اتنی طاقتور تھی کہ اس نے کرہ ارض کے گرد دو بار چکر لگایا، فرانس کی جوہری توانائی کمیشن کے الکسی لاپیشن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ روس میں چمکنے والے شہابیے کی شدت 460کلو ٹن ٹی این ٹی یونٹ کے برابر تھی جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 1908ء میں روس کے علاقے سائبیریا میں گرنے والے شہابیوں نے دوہزار مربع میل کے جنگل کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا ، ان کی طاقت تین سے پانچ میگا ٹن ٹی این ٹی کے مساوی تھی یعنی دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم دھماکوں سے سو گنا زیادہ ۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ اگر فروری میں روس کی فضا میں داخل ہونے والا شہابیہ جل کر خاکستر ہونے کی بجائے زمین سے آ ٹکراتا تو بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ زمین کے گرد ہوا کا ہالہ ایسا قدرتی دفاعی نظام ہے جو ہمیں فضا سے آنے والی ایسی آوارہ چٹانوں اور شہابیوں سے بچاتا رہتا ہے اور اکثر ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سائنسدانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ سیارچے اپنے مداروں میں گھوم رہے ہیں اس لئے ان کا زمین سے ٹکرانا بہت مشکل ہے۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق زمین کے قریب نوہزار سیارچوں اوراوسطاًسالانہ آٹھ سوچٹانوں کا پتہ چلایا جا چکا ہے ۔ ناسا کے مطابق اگر 1/4کلومیٹر جسامت کا سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ جو سیارچے سائنسدانوں کے علم میں آ چکے ہیں وہ ان پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ اگر کوئی غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئے تو اس کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے کیونکہ کرہ ارض کو لاحق ایسے گھمبیر مسائل سے نمٹنے کے لئے سائنسی تحقیق جاری ہے ، مگر ایسے سیارچے جو ابھی ان کے علم میں ہی نہیں یا انھوں نے اپنے غیر مستقل مدار کا چکر ہی پورا نہیں کیا وہ کرہ ارض کے لئے کسی بھی لمحے شدید خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ، اصل میں ایسے غیر مستقل مداروں والے سیارچوں کا چکر کئی کئی سو سال پر محیط ہوتا ہے، زمین کے مدار کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ کشش ثقل کا شکار ہو کر زمین کی فضائی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے زمین لمحوں میں تباہ ہو سکتی ہے۔

تین کلومیٹر بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے سفر
گزشتہ مہینے زمین کے قریب سے تین کلومیٹر چوڑا سیارچہ گزرا تو دنیا بھر کے سائنس دانوں کی نظریں اس کی طرف لگ گئیں ۔

کیونکہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے گزرنا ایک بہت بڑا واقعہ تھا، اس سیارچے کو 1998 کیو ای 2 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ زمین سے اٹھاون لاکھ کلومیٹر کی دوری سے گزرا ،دو سو سال کے سفر کے دوران یہ اس کا زمین سے کم ترین فاصلہ تھا گویا یہ اپنے مرکز سے ہٹ رہا ہے،تاہم اتنے فاصلے سے اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات بہت کم تھے۔ یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے سیارچے کو صرف دوربین سے دیکھا جا سکا ،خوفناک پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی جسامت کے چھ سو کے قریب سیارچے خلا میں گردش کر رہے ہیں۔

تاہم سب اپنے مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں ۔ جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ کیو ای 2کا اپنا چاند بھی ہے اور اس کے مدار میں مزید خلائی چٹانیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین سے ٹکرانا بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، اس لئے ایسے سیارچوں پر نظر رکھنا بہت
ضروری ہے تاکہ وقت سے پہلے پیش بندی کی جا سکے۔

ماہِ صیام

$
0
0

 ماہ رمضان کاچاند نظرآنے سے پہلے ہی اس بابرکت مہینے کے لوازمات کے انتظامات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

کوئی خریداری میں مصروف ہوتا ہے توکوئی دیگرانتظامات کو حتمی شکل دیتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اُمت مسلمہ کیلئے رحمتیں، برکتیں لے کرآتا ہے۔ ماہ رمضان میں جہاں عبادات اور روحانی محافل کے انعقاد کی سرگرمیاں عروج پر پُہنچ جاتی ہیں وہیں لذتِ کام و دہن کے لئے بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

خواتین کھجور، پکوڑے ، سموسے، کچوری، مشروب،دہی بھلے، پھل اوردیگراشیاء کے ساتھ افطاری کا دسترخوان سجانے کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے خاص دلجمعی کے ساتھ کام میں مصروف رہتی ہیں۔

یہ سب رمضان کی برکتیں ہیں کہ روز مرہ باورچی خانے کی مصروفیت بھی بڑی نیکی کا درجہ اختیار کر جاتی ہے ۔ گھر کے سب لوگ ساتھ بیٹھ کرروزہ افطارکرتے ہیں اور دوست احباب کو افطاری پر مدعو کیا جاتا ہے۔ روزہ ایک فریضہ ہے جس کوامت مسلمہ عقیدت واحترام کے ساتھ ادا کرتی ہے۔

 

’’تمنا یہ ہے کہ مرنے سے پہلے۔۔۔‘‘

$
0
0

زندگی میں بہت سے حادثات کہنے کو تو محض ایک حادثہ ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ ہمیں ایک بالکل نئی اور الگ ڈگر پر بھی ڈال دیتے ہیں۔

کوئی بڑی ناکامی، بیماری یا کوئی بڑا نقصان ہماری سوچ کے پیادوں کو بالکل جدا راہیں دکھاتا ہے اور بعض اوقات ہم اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد پچھلی زندگی کے بالکل برعکس زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ بعض ماہرین اسے ہمارے لیے قدرتی راہ نمائی سے بھی تعبیر کرتے ہیں کہ ہر کام میں کچھ بہتری ہوتی ہے اور سب کچھ مجموعی طور پر اچھے ہی کے لیے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بہت سی بڑی بڑی ایجادات اور دریافتیں بھی کسی حادثے، سانحے یا واقعے ہی کا نتیجہ تھیں۔ ایسا ہی کچھ تائیوانی نژاد امریکی خاتون Candy Chang کے ساتھ بھی ہوا، جب ان کی بالکل معمول پر چلتی زندگی نے ایک ایسا موڑ کاٹا کہ انہیں اپنی ہر دل عزیز ساتھی کو گنوانا پڑا، جس کی موت کا انہیں کبھی خیال بھی نہ آیا تھا، لیکن یہ ان ہونی نظر آنے والی بات اب رونما ہو چکی تھی اور اب اس پر یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے، یہ حقیقت کا روپ دھارے کھڑی تھی۔

اس واقعے نے انہیں موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور انہیں یہ خیال آیا کہ زندگی کیا ہے اور ہم اس کے لیے کتنی خواہشات بُنتے ہیں، مگر اچانک ہی ہمیں موت آلیتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری منشا کیا ہے، جو ہم مرنے سے پہلے پوری کرنا چاہتے ہیں۔

بس، زندگی کے اس کرب اور تکلیف کے اس شدید وقت میں ان کے ذہن میں ایک اچھوتے خیال کا جنم ہوا اور انہوں نے سوچا کہ آخر ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم مرنے سے پہلے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کون سی ایسی خواہش ہے، جس کی تکمیل ہم اپنی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

لوگوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ تاکہ ان کے سوچ کے پیادے بھی دوڑیں اور دوسروں کو بھی پتا چلے کہ لوگ اس خیال کے حوالے سے کس طرح سوچتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے پڑوس میں واقع ایک خالی مکان کی بیرونی دیواروں پر جلی حروف میں لکھوا ڈالا کہ die I want to ……..” “Before I یعنی اس سے پہلے کہ میں مرجاؤں میں چاہتا/ چاہتی ہوں کہ۔۔۔۔‘‘، اور اس کے نیچے اس طرح کی متعدد سطریں بھی کنندہ کردیں تاکہ لوگ آئیں اور خالی جگہ پر اپنے خواب چُنتے چلے جائیں۔ یہی نہیں اس کے ساتھ چاک بھی رکھ دی تاکہ وہاں سے جوبھی گزرے وہ اس سرگرمی میں حصہ لیتا جائے۔

کینڈی نے صرف اپنا غم ہلکا کرنے کے لیے یہ تجربہ کر ڈالا تھا اور انہیں معلوم نہ تھا کہ لوگ اس میں کس قدر دل چسپی اور دل جمعی کا مظاہرہ کریں گے، لیکن لوگوں کا ردعمل حیران کن حد تک بہت زبردست رہا۔

لوگوں کے بہت سے جوابات جہاں بے ساختہ ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کرتے تھے، وہیں بہت سی خواہشات پڑھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو بھی لے آتی تھیں۔ کسی نے اپنی بیٹی کو گریجویٹ دیکھنے کی خواہش تحریر کی، تو کسی نے خلائی مخلوق کے ساتھ کھانا کھانے کی چاہ کی، کسی کی منشا زندگی میں امن وسکون تھی، تو کوئی اپنی ذات کی تکمیل کا خواب لیے ہوئے تھا، کوئی اپنے مرجانے والے عزیزوں سے ملنے کا سپنا سجائے تھا تو کوئی بچھڑے یار کی یاری کا پھر سے آرزو مند۔

لوگوں کے ان جذبات اور احساسات سے قطع نظر کینڈی کو رنج والم کی ان کٹھن گھڑیوں میں دل جوئی کرنے والی اہم مصروفیت مل گئی۔ ان کی تنہائی اور غم کا احساس خاطر خواہ حد تک ہلکا ہوا اور لگا کہ یہ سارے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف مرنے سے پہلے کسی خواب کی تکمیل کا جواب ایسی چیز تھی، جو بلاواسطہ موت کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے، کہ جس کے بارے میں ہم اپنی عام زندگی میں سوچتے نہیں اور شاید سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ پھر کم عمری یا نوجوانی کے بہ جائے اس حوالے سے سوچنے کے لیے توقع کی جاتی ہے کہ کوئی بوڑھا یا قریب المرگ شخص ہی اس بارے میں سوچے کہ جس کی زندگی عام حالات کے مطابق واقعتاً ختم ہو رہی ہو، جب کہ موت کے لیے تو نہ تو بیمار ہونا شرط ہے اور نہ ہی معمر ہونا ضروری ہے۔

کینڈی بھی اسی طرح اپنی زندگی میں مگن تھی، لیکن اپنے قریبی ساتھی کی اچانک موت نے اسے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ کہتی ہے،’’میں نے اداسی اور دل گرفتگی کا سخت وقت دیکھا۔ ایسے میں مجھے اکیلے پن سے نکلنے کی ضرورت تھی۔ میں موت اور زندگی کے خاتمے کے حوالے سے بھی اپنی الجھے خیالات کی وضاحت چاہتی تھی۔ زندگی کے اس میٹھے جھوٹ اور موت کے کڑوے سچ کی وضاحت کے لیے میں نے یہ راستہ چُنا، جس کے ذریعے لوگ بھی بہ خوشی موت کے حوالے سے غور کرنے پر مجبور ہوئے اور انہیں اپنی بے مقصد بنی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور مشن منتخب کرنا پڑا اور یوں معاشرتی لحاظ سے بھی یہ ایک نہایت مثبت عمل ثابت ہوا کہ ان کی زندگی کسی مقصدیت سے منسلک ہونے لگی، کیوں کہ لوگ جہاں اپنی ذاتی خواہشات کا اظہار کر رہے تھے وہیں بہت سوں نے اجتماعی راستوں کو بھی اپنی زندگی سے نتھی کرنے کی اُمنگ پیش کی تھی۔‘‘

اس منصوبے کے ذریعے لوگوں کو گویا باقاعدہ دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور بتائیں کہ ان کی زندگی میں کس چیز کی زیادہ اہمیت ہے۔ کینیڈی کہتی ہیں کہ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کے ذریعے ہمیں اپنے اردگرد بسنے والوں کی آرزوئیں جاننے کا موقع ملا کہ وہ کیسے سوچتے ہیں اور زندگی میں ان کی ترجیحات کیا ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ بورڈ لوگوں کی خواہشات سے اتنا بھر جاتا کہ پھر اس میں مزید خوابوں کے اندراج کی ذرا بھی گنجایش باقی نہ بچتی، جس سے پتا چلتا کہ لوگ اس حوالے سے کتنے پرجوش ہیں اور دل چسپی لے رہے ہیں۔ ویسے بھی عوامی سطح پر شاید ہر کوئی اپنی ذاتی زندگی کو لکھنا نہیں چاہتا، لیکن ’’مرنے سے پہلے۔۔۔‘‘ کے اچھوتے منصوبے میں ہم بہت سے لوگوں کی چھپی ہوئی محرومیاں، حسرتیں، امیدیں، درد، عدم تحفظ اور خوف سے لے کر ہر طرح کی زندگی کے احساس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو خود کو بھی پہچاننے کا موقع ملا۔ خود کینڈی نے بھی اپنی متعدد خواہشیں اس دیوار پر رقم کیں۔

کینڈی چینج اور ان کے رفقا کے اس وسیع ہوتے منصوبے کو شہری انتظامیہ کے مختلف اداروں کی طرف سے بھی سراہا گیا، کیوں کہ محض ایک جملے میں زندگی کے حوالے سے کتنے بڑے سوال اور اہم سوچ کا جواب دیا جا سکتا ہے۔

اس اچھوتے منصوبے کی بانی کینڈی چینج کی پیدایش اگرچہ امریکا میں ہوئی، لیکن ان کا آبائی تعلق تائیوان سے ہے۔ کینیڈی نے آرکیٹکچنگ میں گریجویشن کرنے کے بعد ’’اربن پلاننگ‘‘ کے شعبے میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے شہری حقوق کے لیے متعدد گروپ تشکیل دیے، جن میں امن و ان اور منشیات کے خلاف شعور وآگہی وغیرہ شامل ہے۔ ’’بفور آئی ڈائی‘‘ کو ان کی سماجی خدمات کے میدان میں ایک بہترین تخلیقی منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 2006ء سے اب تک انہیں 20 کے قریب مختلف اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے ان کی مالی معاونت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

فروری 2011ء میں امریکا میں پہلی ’’بفور آئی ڈائی‘‘ دیوار کے بعد یہ منصوبہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ اس وقت قازقستان، ارجنٹائن، چین، اٹلی، اسرائیل، جنوبی افریقا اور تھائی لینڈ سمیت دنیا بھر کے 45 ممالک میں 15 زبانوں میں 250 ایسی دیواریں بن چکی ہیں، جہاں پر جوش لوگ موت سے پہلے پوری کی جانے والی اپنی اپنی خواہشات رقم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اب بھی اس طرح کی دیواریں بنائی جا رہی ہیں، کیوں کہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یہ نئے اور اچھے تجربات کا باعث ہے۔ اور اب اس منصوبے سے حاصل ہونے والے تجربات کو رواں برس نومبر میں کتابی شکل میں شایع کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

کوئی ہے ۔۔۔ ایڈورڈ سنوڈین کو لانے والا؟

$
0
0

بولیوین ائیر فورس کی فلائیٹ FAB-001 جب ماسکو ائیر پورٹ سے اپنی منزل ’’ لا پز‘‘ La Paz کی جانب روانہ ہوئی تو اس کے مسافر بولیویا کے صدر Evo Morales کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ان سے ہزاروں میل دور امریکا اور یورپ میں بیٹھے ہو ئے کچھ لوگ ان کے طیار ے کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ایک شیطانی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔

Dassault Falcon 900EX طیارہ فضاؤں کو چیرتا پرتگال کی جانب رواں دواں تھا، اس نے وہاں سے ایندھن لے کر دوبارہ بولیویا کی جانب سفر کرنا تھا۔ طیارہ یورپ کی فضائی حدود میں داخل ہو ا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد اچانک اس نے غیر متوقع طور پر اپنی سمت تبدیل کرلی اور تیزی سے مڑ کر آسٹریا کی جانب بڑھنے لگا، اس کے ساتھ ہی آسٹریا کے شہر ویانا کے ائیر پورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی تیاریاںشروع ہو گئیں۔

ائیر ٹریفک کنٹرول روم میں ڈیوٹی پر موجودایک اہل کار کی فلائیٹFAB-001 کے گھبرائے ہوئے پائلٹ سے بات ہوئی تھی جس نے اس کو مطلع کیا تھا کہ اس کے طیارے کا ایندھن خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور پرتگال، اسپین ، اٹلی اور فرانس نے اس کو اپنی سرزمین پر طیارہ لینڈ کرنے اجازت دینے سے معذرت کر لی ہے اس لیے اس کو فوری طور پر ویانا میں لینڈ کرنے کی اجازت دی جائے ورنہ طیارہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے وی آئی پی مسافر بولیویا کے صدر کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ویانا کے ائیر پورٹ کی انتظامیہ کے لیے صورت حال ذرہ بھر بھی غیرمتوقع نہیں تھی ، ہوائی اڈے پر موجود کچھ اہل کاراس طیارے کے پائلٹ کی کال کا پہلے ہی سے انتظار کر رہے تھے، ہر ہر، لمحہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے عین مطابق پیش آرہا تھا جس کی ان کو خبر دی جا چکی تھی۔ حکم کے مطابق انہوں نے طیارے کو ویانا ائیر پورٹ پر لینڈ کر نے کی اجازت دے دی اور رن وے پر موجودسیکیو رٹی اہل کاروں کے ہم راہ طیارے کے اترنے کا انتظار کرنے لگے جو اگلے چند لمحوں میں وہاں پہنچنے والا تھا، پھر جیسے ہی طیارہ رن وے پر اتر کر رکا اس کو چاروں اطراف سے سیکیورٹی اہل کاروں نے گھیر لیا ، بولیویا کے صدر اور طیارے کے عملے کو فوری طور پر ائیر پورٹ کے ایک مخصوص حصے کی جانب روانہ کر دیا گیا اور طیارے کی تلاشی لینے کا عمل شروع ہو گیا، ائیر پورٹ کی عمارت میں محصور بولیویا کے صدر اور جہاز کا باقی عملہ حیران و پریشان تھا کہ وہ کونسی طاقت تھی جس کے ایماء پر ایک ملک کے صدر کے سرکاری طیارے کو یوں اغواء کر کے ویانا میں یرغمال بنالیا گیا ؟ بے دھیانی میں کوئی جرم سرزد ہوگیا؟ طیارے کے پائلٹ نے کسی ممنوعہ منطقے کو عبور کیا؟ کہیں اُن کے ملک میں کوئی ناگہانی آن پڑی ؟ سو طرح کے وسوسے، خدشے لیکن۔۔۔۔ کسی کی سمجھ کچھ آیائے تو بتائے ۔

بہ ہر حال منظر کھلتے کچھ بہت زیادہ دیر بھی نہیں لگی، معلوم ہوا کہ کہ یہ سب کیا دھرا ’’عالمی بدمعاش‘‘ انکل سام کا ہے اور اس کو تلاش ہے ایڈورڈ سنوڈ ین کی، جی ہاں؛ وہ ہی ایڈورڈ سنوڈین، جس نے چند ہفتے قبل امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی NSA کے مکروہ چہرے پر چڑھا خوب صورت مکھوٹا اتار کر امریکا کو بوکھلا دیا اور دنیا جہان کو انگشت بہ دنداں کر دیا، امریکا کو اس کے اپنے ہی شہری نے جگ میں رسوا کیا، امریکی صدر بارک اوباما کو امریکی عوام اور باقی دنیاکے سامنے جواب دہ بھی ہونا پڑا اور بات اب تک ان کے قابو میں نہیں آئی، آنکھیں اب بھی غصے سے لال دھائی دیتی ہیں۔

ایڈورڈ سنوڈین جو امریکہ سے بھاگ کر ہانگ کانگ پہنچا تھا ، پھر اس کے بعد NSA کے رازوں کو افشا کر کے ماسکو کے بین الاقوامی ائیرپورٹ کے لاؤنج میں پناہ گیر ہوا تھا اور امریکا کی تمام تر سر توڑ کوششوں کے باوجود وہ تاحال اس کے ہاتھ نہیں لگا ہے اور وہ آج کل کسی بھی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ سنوڈین کا امریکی پاسپورٹ چوں کہ امریکا منسوخ کر چکا ہے اس لیے اب انکل کو خدشہ یہ لاحق تھا کہ وہ کسی دوسرے طریقے سے ماسکو سے فرار ہو کرلاطینی امریکا نہ پہنچ جائے۔

ان ہی وسوسوں کی فضا میں بولیویا کے صدر ماسکو میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں پہنچے ہوئے تھے، بوکھلائی ہوئی امریکی ایجنسیوں کو اس وہم نے لپیٹ میں لے لیا کہ ہو نہ ہو بولیویا کا صدر سنوڈین کو واپسی پر اپنے ذاتی طیارے میں ماسکو سے فرار کرا کے لے جائے گا، یہ بے پر کی دھیان میں آتے ہی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ڈپلومیسی کی علمی اخلاقیات کو بھاڑ میں جھونکنے کی ٹھان لی۔ فوری طور پر یورپ بھر کی تاریں کھڑک گئیں ، انکل نے جلالی حکم صادر کر دیا، اب کس کی مجال ہے کہ سرِ مو انحراف کرے، سو جب بولیویا کے صدر کا طیارہ یورپ کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو ویانا کی طرف مڑنے کو کہا گیا، لاکھ سمجھایا گیا کہ جناب یہ بولیویا کا سرکاری طیارہ ہے، صرف یہ ہی نہیں بل کہ اس وقت اس میں بولیویا کا صدر بہ نفسِ نفیس محو پرواز بھی ہے اور یہ حرکت جو کی جا رہی ہے،

مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی پامالی ہے ، جواب ملتا ہے ، کون صدر، کہاں کا صدر ۔۔۔۔ ادھر تلاشی دیتے جاؤ۔ امریکی حکام کو واضح طور پر معلوم تھا کہ طیارے کو ایندھن کے لیے پرتگال اترنا ہے، اس لیے پرتگال کے ساتھ ساتھ امریکا نے قریبی ممالک اسپین، فرانس اور اٹلی کو بھی اس بات پر راضی کیا کہ وہ بولیویا کے صدارتی طیارے کو اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیں، اس صورت میں مجبورہو کر پائلٹ کو طیارہ آسٹریا میں اتارنا پڑے گا اور وہاں طیارے کی اطمینان سے تلاشی لی جا سکے گی۔

جب طیارے کی تلاشی لے لی گئی تو ایک بار پھر امریکا کے ہاتھ سوائے خفت و ذلت کے کچھ بھی نہ آیا، و اقعہ کے فوراً بعد لاطینی امریکا کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور مختلف لاطینی امریکی ممالک کے اعلیٰ عہدے داروں نے امریکہ اور یورپ پر بے نقط کے تبرے بھیجے اور بے بھاؤبھیجے۔

’’ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے وہ ایسی حرکتیں کر کے مجھے ڈرانے دھمکانے میں کام یاب ہو جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے ، لاطینی امریکا ایسی بدمعاشیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں‘‘۔ بولیویا کے صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ جب وہ چودہ گھنٹے آسٹریا میں روکے جانے کے بعد وہاں سے روانہ ہونے لگے تھے تو دنیا کے لیے یہ ایک حیران کن بات تھی کہ امریکا اتنا طاقت ور ملک ہے کہ وہ امریکا سے باہر کسی بھی ملک پر دباؤ ڈال کرکسی صدارتی طیارے کو زبردستی کہیں بھی لینڈ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ امریکا کی اندھی طاقت کا یہ ایک کھلا ثبوت ہے جس نے لاطینی امریکا میں پائے جانے والے امریکا مخالف جذبات کو اور ہوا دے دی ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت تھا کہ ایڈورڈ سنوڈین امریکا کے حواس پر طاری ہوچکا ہے اور اس کو گرفتار کرنے میں مسلسل ناکامی امریکا کی خفیہ ایجنسیوں سے ہضم نہیں ہو رہی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اب اوچھی حرکتوں پر بھی اتر آئی ہیں۔

بولیویا کی وزات خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکا اور یورپ کی اس مشترکہ حرکت کوبین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا گیا اور بولیویا کی جانب سے اقوام متحدہ کے سامنے اس واقعے کی شدید مذمت کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پیش آنے سے قبل بولیویا کے صدر نے ماسکو میں دیے گئے ایک بیان میں ایڈورڈ سنوڈین کو امریکی ہیرو قرار دیا تھا، جس کو سن کر امریکی حکام کو یوں لگا کہ بولیویا ایڈورڈ سنوڈین کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کر چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ بولیویا کے صدراس کو ماسکو سے اپنے صدارتی طیارے میں ساتھ لے چلیں، پھر ایڈورڈ سنوڈین کو قابو کرنے کے لیے امریکی حکام نے بولیویا کے صدر کی زندگی بھی خطرے سے دوچار کر ڈالی۔

یاد رہے کہ بولیویا ان درجن بھر سے زیادہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جن سے ایڈورڈ سنوڈین نے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی اور زیادہ امکان اسی بات کا تھا کہ کوئی لاطینی امریکی ملک ہی سنوڈین کو پناہ دے گا جیسے اس سے پہلے وکی لیکس کے جولیئن اسانجے کو ایکواڈور نے سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی پناہ کے حصول میں بھی جولیئن اسانجے ہی سنوڈین کی مدد کر رہا ہے۔ امریکا اپنی بے پناہ طاقت کے خمار میں پہلے ہی ساری دنیا میں منادی کرا رکھی ہے کہ چوں کہ ایڈورڈ سنوڈین امریکا کا غدار ہے، اس لیے جس ملک نے بھی اس کو اپنے ہاں پناہ دی، کولہو میں پلوا دیا جائے گا، اب کون ہے جو امریکا سے دشمنی مول لینے کی سوچ بھی سکے۔

یورپ میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد ارجنٹائن کی صدر کرسٹینا فرنینڈیز نے احتجاج کرتے ہوئے بیان دیا ہے ’’ یہ اقدام لاطینی امریکا کی ہتک کرنے کے مترادف ہے ،کسی بھی ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کو اس طرح ہراساں کر سکے، ایسا کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور قابل مذ مت بھی ہے۔ ایوی ایشن حکام کے مطابق ’’ کسی ملک کی اعلیٰ سرکاری شخصیت کے طیارے کو اپنی سرزمین پر اترنے سے انکار کرنے کا حق یا پھر اس کو اپنی سرزمین پہ اتار کر اس کی تلاشی لینے کا حق اگرچہ کوئی غیر قانونی عمل نہیں مگر حالیہ تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال بھی نہیں ملتی ، اس لیے یورپی ممالک کا یہ اقدام غیر معمولی ہے‘‘۔

اس سلسلے میں جب امریکی حکام سے رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا امریکا کے ایما پر بولیویا کے صدارتی طیارے پر یورپی ایئر اسپیس بند کی گئی تو امریکی حکام نے کسی قسم کا تبصرے کرنے سے معذرت کر لی ، دوسری طرف پرتگال، اسپین، فرانس اور اٹلی نے یہ بات ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ انہوں نے اپنی فضائی حدود بولیویا کے صدارتی طیارے پر بند کی تھی تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے تسلیم کیا کہ ان سے اجازت دینے میں تاخیر سرزد ہوئی جس پر وہ بولیویا کی وازرت خارجہ سے معذرت خواہ ہیں، یہ بہ ہرحال ایک عذرِ لنگ ہے اور نامعقول بھی۔

لاطینی امریکی ممالک کے بارے میں امریکا کے ماضی کے رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان ممالک کا تاثر ہے کہ امریکہ ہی اصل میں اس سارے ڈرامے کا خالق ہے اور یہ کوئی ان ہونی بات نہیں ۔

ابھی تک کسی بھی لاطینی امریکی ملک نے واضح طور پر ایڈورڈ سنوڈین کو سیاسی پناہ دینے کا عندیہ تو نہیں دیا البتہ بولیویا کے صدر کے ساتھ پیش آنے والے اس حالیہ واقعے کے بعد اب دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ کیا امریکی حکام کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولیویا یا کوئی اور لاطینی امریکی مملک ایڈورڈ سنوڈین کو سیاسی پناہ دے کر اپنے خطے کی بے عزتی کا بدلہ چکائے گا یا ٹھنڈے پیٹوں یہ تذلیل برداشت کر جائے گا۔

راہول گاندھی : بھارتی وزیراعظم بن سکیں گے؟

$
0
0

کچھ لوگ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، لیکن اگر بھارت میں گاندھی خاندان کے چشم و چراغ اور سونیا گاندھی کے ہونہار سپوت راہول گاندھی کا ذکر ہو تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاست ان کی گھٹی میں پڑی ہے، انھوں نے معروف سیاسی خاندان میں جنم لیا اور ان کی زندگی کا سفر سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔

19جون 1970کو سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اور کانگریس کی موجودہ سربراہ سونیا گاندھی کے گھر آنکھ کھولنے والے راہول گاندھی کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ سابق بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور اندر گاندھی کا پوتا ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ راہول کی پرورش کی کتاب میں سیاسی سوجھ بوجھ کا سبق سب سے اہمیت کا حامل رہا ہوگا۔

راہول نے 1984میں اپنی دادی (اندراگاندھی) اور 1991میں اپنے والد (راجیو گاندھی) کے قتل کے بعد ذاتی زندگی اور سیاسی سفر میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ دونوں شخصیات وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے نشانہ بنائی گئیں، جس کی وجہ سے راہول کی زندگی کو بھی شدید سیکیوریٹی خطرات لاحق ہوئے اور انھیں اپنے تحفظ کے لیے بار بار تعلیمی ادارے بھی تبدیل کرنا پڑے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ سونیا گاندھی نہیں چاہتی تھیں کہ شوہر کے بعد ان کے بیٹے کو بھی کوئی نقصان پہنچے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ سونیا گاندھی نے اپنے بچوں کے تحفظ اور کسی بڑے خطرے میں نہ پڑنے کے لیے تمام تر اندازوں کے برعکس وزارت عظمیٰ کی مسند پر اس وقت بیٹھنے سے انکار کردیا تھا جب ہر کوئی سونیا گاندھی کو بطور وزیراعظم دیکھ رہا تھا۔ کانگریس، سونیا اور راہول گاندھی کے حامی اور پرستار آج تک اس معمے کو نہیں سلجھا پائے کہ ایسی کون سی بات تھی جس کی وجہ سے سونیا گاندھی نے طشتری میں پیش کی جانے والی وزارت عظمیٰ کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا؟ اب بھارتی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے ذہنوں میں اسی قسم کا سوال راہول گاندھی کے حوالے سے اٹھ رہا ہے کہ کیا راہول گاندھی آگے چل کر بھارتی حکومت کی باگ ڈور بہ حیثیت وزیراعظم سنبھال پائیں گے؟ اور کیا ان کے نصیب میں وزیراعظم بننا لکھا ہے؟

سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل راہول گاندھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بین الاقوامی تعلقات اور فلسفے جیسے موضوعات پر غیرملکی اداروں سے ڈگریاں ان کی قابلیت کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست کے داؤ پیچ، حکمت عملیاں اور سیاسی سمجھ تو ان کے خاندان کے ذریعے انھیں وراثت میں ملی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے سے قبل راہول نے لندن کی ایک کنسلٹنٹ فرم میں کچھ عرصے کام بھی کیا ہے، بعدازاں 2004 میں انھوں نے ممبئی میں اپنی کمپنی قائم کرلی۔

قومی سیاست میں پیش قدمی راہول نے اترپردیش کے علاقے امیٹھی کے اسی حلقے سے کی، جہاں سے ماضی میں ان کے والد راجیو گاندھی انتخابات جیتے رہے تھے۔2007 میں راہول کے سیاسی کیریر کو اس وقت مزید استحکام ملا جب انھیں کانگریس کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس عہدے پر راہول کے دادا اور والد نے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی قومی سطح پر پارٹی کے لیے راہول گاندھی نے مختلف ذمے داریاں سرانجام دی ہیں۔

رواں سال 2013 ہی میں قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہی راہول کو کانگریس کا نائب صدر بنادیا گیا۔ کانگریس کے نائب صدر بنائے جانے کے بعد راہول کے پرستاروں اور ووٹروں کو یقین ہوچلا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے پسندیدہ لیڈر کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر دیکھ سکیں گے۔ یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ کچھ عرصے قبل تک ایسا دکھائی دیتا تھا کہ راہول کی بہن پریانکا گاندھی اپنے والدین کی سیاسی وارث ہوں گی، کیوں کہ تجزیہ نگاروں کی رائے میں وہ راہول سے زیادہ کرشماتی شخصیت کی حامل ہیں، لیکن راہول کو جب ذمے داریاں ملیں تو انھوں نے عوام کی نظروں میں اور اپنی پارٹی کے راہ نماؤں کے سامنے خود کو ہر منصب کا اہل ثابت کیا۔

2004 وہ سال تھا جب راہول نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا۔ امیٹھی کے انتخابی حلقے سے جس وقت راہول نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان دنوں اترپردیش میں کانگریس کی پارٹی پوزیشن بہت خراب تھی، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کی 80 میں سے صرف 10 نشستیں کانگریس نے جیتی تھیں۔ ایسے میں سونیا گاندھی کی جانب سے امیٹھی سے راہول کو الیکشن لڑنے کا موقع دینے کا فیصلہ بہت سے لوگوں کے لیے سرپرائز سے کم نہیں تھا۔ گو کہ راہول کی موجودگی کے باوجود کانگریس الیکشن میں کوئی بڑی کام یابی حاصل نہیں کرسکی، تاہم راہول نے اپنے حلقے کے ساتھ پرستاروں کے دل ضرور جیت لیے۔

قومی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد غیرملکی میڈیا کو اپنے پہلے انٹرویو میں راہول گاندھی نے ذات پات اور مذہب کی سیاست کو ختم کرنے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کے عزائم اور انقلابی تقاریر نے ووٹروں خاص طور پر پر نوجوان طبقے کو کانگریس کی جانب مائل کیا۔ لوگ ان کی باتوں اور اقدامات کو پسند کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ راہول نے بھاری اکثریت سے فتح اپنے نام کی۔ کانگریس نے بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ انتخابی فتوحات سمیٹیں اور اپنی روایتی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھی شکست سے ہم کنار کیا۔2008 میں کانگریس کے راہ نما رویراپا موئلی کی جانب سے راہول گاندھی کا نام وزیراعظم کے طور پر پیش کیا گیا۔ 2013 میں اس وقت کے وزیر قانون اور موجودہ بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید نے ایک بیان میں کہا کہ راہول گاندھی اپنے خیالات اور نظریات کے ذریعے کانگریس کو درپیش مسائل و مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔

قومی سیاست میں اہم عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ راہول نے نوجوانی میں بھی سیاسی افق پر کافی سرگرمی سے کام کیا ہے۔ کئی اہم عہدے انھیں دیے گئے، جن میں انڈین یوتھ کانگریس اور نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا کی ذمے داریاں بھی شامل ہیں۔ مختلف تنظیموں کے لیے کام کرتے ہوئے پارٹی کی تنظیم سازی اور اس کے استحکام کے لیے راہول نے کئی تھنک ٹینک بنائے، مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا اور کانگریس کی رکنیت سازی کی شرح کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔2009 کے انتخابات میں امیٹھی کی نشست راہول گاندھی نے تقریباً سوا 3 لاکھ ووٹوں کے واضح فرق سے جیتی۔

٭ناخوش گوار واقعہ
جیل جانا یا گرفتار ہونا کسی بھی سیاست داں کی پہچان اور اس کے سیاسی سفر کا اہم پڑاؤ سمجھا جاتا ہے، سیاسی سفر میں راہول گاندھی نے بھی ایک بار گرفتاری کا تجربہ حاصل کیا، جب مئی 2011 میں کسانوں کے ساتھ احتجاج کرنے کی پاداش میں اترپردیش پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔

٭مخالفین اور تنازعات
سیاست کے پیچیدہ سفر کے دوران جہاں لاکھوں لوگ راہول کے پرستار بنے، وہیں اندرا گاندھی کے پوتے کے مخالفین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2010 میں ایک تقریب کے دوران راہول گاندھی کا یہ بیان سامنے آیا کہ،’’ہندو انتہا پسند مسلمان عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بھارت کے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘ راہول گاندھی کا اشارہ انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف تھا۔ اس بیان نے پورے ملک میں ہلچل مچادی اور ہندو انتہا پسندوں کی تنقید اور مخالفت کا رخ راہول کی طرف ہوگیا۔

راہول کا یہ بیان بھی بھارت اور دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا کہ ’’ہمارے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ لشکر طیبہ اور دیگر مجاہدین کو بھارت ہی میں موجود کچھ مسلمان عناصر کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ ان بیانات کے علاوہ راہول گاندھی نے انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ 2011میں ممبئی بم دھماکوں کے بعد راہول نے کانگریس کے اہم راہ نما کی حیثیت سے یہ بیان دیا تھا کہ ’’دہشت گردی کے ہر واقعے کو روکنا بہت مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مقامی سطح پر بھی اپنی کم زوریوں کو بھی دور کریں۔‘‘

٭ناقدین کی نظر میں
اپنے سیاسی کیریر میں جہاں راہول گاندھی نے اپنے ووٹروں اور حامیوں کی زبردست پسندیدگی کا مزہ لیا ہے، وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر راہول گاندھی کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی کے سپوت میں قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔ وکی لیکس نے انڈیا میں سابق امریکی سفیر ڈیوڈ ملفورڈ کے حوالے سے یہ بات بھی افشا کی تھی کہ کانگریس کے بہت سے راہ نما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ راہول گاندھی بہت سی وجوہات کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ راہول جذباتی طبیعت کے مالک ہیں اور یہی بات ان کے وزیراعظم بننے میں بڑی رکاوٹ ہے۔دوسری جانب کانگریس کے بھی کچھ راہ نماؤں کی رائے ہے کہ راہول گاندھی اپنے والد (راجیو گاندھی) کی سیاسی قابلیت سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔

٭مثبت تجزیے
تنقیدی تجزیوں اور آراء کے ساتھ کچھ حلقے پارٹی کی تنظیم سازی، کارکنوں اور عوام کو متحرک کرنے میں کردار اور ذات پات کی قید سے نکل کر سیاسی پیش قدمی کی حکمت عملی پر راہول کو سراہتے یہیں۔ راہول کی حمایت میں مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کی پارٹی کے لیے خدمات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ آگے چل کر وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے بھی مضبوط امیدوار بن سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں نے ان کی فیصلہ سازی کو بھی سراہا ہے اور تنظیمی سطح پر کیے گئے اقدامات کو مستقبل میں کانگریس کی سیاسی زندگی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔

عالمی اور قومی سطح پر راہول گاندھی کے حوالے سے مثبت آراء سامنے آئیں یا ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے، راہول کی پالیسیوں کو پسند کیا جائے یا مسترد کیا جائے، یہ بات حقیقت ہے کہ راہول گاندھی بھارتی سیاست میں رفتہ رفتہ اہم حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر آئندہ الیکشن میں راہول کی سیاسی محنت کا صلہ کانگریس کی جیت کی صورت میں ملا تو راہول گاندھی یقینی طور پر وزیراعظم بننے کی مضبوط پوزیشن میں ہوں گے، لیکن بھارتی سیاست شطرنج کی اس بساط کی مانند ہے جہاں بادشاہ سے لے کر پیادے تک کسی کو آخری وقت تک پتا نہیں چلتا کہ کون سی چال سامنے آنے والی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا گاندھی خاندان میں ایک بار پھر وزارت عظمیٰ آتی ہے یا راہول گاندھی بھی اپنی والدہ سونیا گاندھی کی طرح ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کی وجہ سے وزیراعظم بننے سے محروم رہ جائیں گے۔

یہ ہے ہمارا بلوچستان ، سَونے کی دھرتی مگر

$
0
0

قدرتی معدنیات سے مالامال پاکستان کا صوبہ بلوچستان اپنے مخصوص محل وقوع اور قبائلی نظام کی وجہ سے ہمیشہ سے مسائل سے دوچار چلا آ رہا ہے ۔

مگر گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی، بیرونی مداخلت ، فرقہ واریت اور قبائلی شورشوں نے پورے صوبے کو آتش فشاں کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ بلوچستان کی بنجر سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اتنے وسائل سے نواز ہے کہ اسے سونے کی دھرتی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6 فیصد حصہ بنتا ہے ۔ اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے جس میں سے 1.3فیصد یعنی ایک لاکھ دس ہزار غیر مسلم ہیں،ان میں آدھے ہندو یا شیڈول کاسٹ ہیں جن کی سب سے بڑی آبادی جعفر آباد اور نصیر آباد میں ہے، صوبے کی دوسری سب سے بڑی غیر مسلم آبادی مسیحی ہے ، جو تقریباًچالیس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان کی اکثریت کوئٹہ میں آباد ہے ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختون خوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔

قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 ء تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ قلات کی ریاست جو کہ ان میں سب سے بڑی ریاست تھی اس کے حکمران خان قلات میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

پاکستان کے ساتھ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن یہ سب پاکستان کی آزادی کے معاہدے کے خلاف تھا اس لئے پاکستان نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی، آخر کار مئی 1948ء میں بلوچستان کو پاکستان میں باقاعدہ شامل کر لیا گیا۔ 1973ء تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا، 1956ء کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔ 1970ء میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور 1972ء میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔ یوں بلوچستان کو باقاعدہ قومی دھارے میں شامل کر لیا گیا ۔

بلوچستان کے اضلاع
صوبہ بلوچستان کو تیس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے
کوئٹہ، چاغی اور نوشکی:کوئٹہ بلوچستان کا صدر مقام ہے اور آبادی کے لحاظ سے سے بڑا ضلع ہے، یہ چاروں جانب کوہ چلتن، کوہ مردان زرغون اور کوہ مسلخ جیسے خشک پہاڑی سلسلوں سے گھرا قلعہ نما علاقہ ہے، یہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ضلع چاغی پاک ایران بارڈر پر واقع ہے، اسے دووجہ سے شہرت حاصل ہوئی ایک تو ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے، دوسری وجہ شہرت سینڈک پراجیکٹ ہے۔

ضلع نوشکی کے ایک طرف چٹیل پہاڑ اور دوسری طرف بڑا صحرائی علاقہ ہے، ان تینوں اضلاع کی آبادی13لاکھ 37ہزار ہے، صنفی فرق 100 کے مقابلے میں 85 ہے، 89فیصد افراد اپنے مکانوں میں اور آٹھ فیصد کرائے دار ہیں،62 فیصد کو بجلی میسر ہے جبکہ38 فیصد اس سہولت سے محروم ہیں،65فیصد گھروں کو گیس کی سہولت میسر ہے،46 فیصد آبادی کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے، تین شہروں اور ایک سو سینتیس دیہات کی آبادی کے لئے آٹھ ہپستالوں، نو دیہی مراکز صحت سمیت 94ڈسپنسریا ں ہیں،کوئٹہ میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد 30 فیصد، نوشکی میں 9فیصد جبکہ چاغی میں صرف دس فیصد ہے، ہر تیس طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔

سبی،کوہلو،ڈیرہ بگٹی اور ہرنائی: ان چاروں اضلاع کی آبادی 688000 ہے، صنفی تناسب سو مردوں کے مقابلے میں زنانہ آبادی84 ہے۔78فیصد آبادی کے پاس اپنے گھر جبکہ دو فیصد کرائے پر اور17فیصد مزارعے ہیں،33 فیصد کو بجلی کی سہولت میسر نہیں، صرف بیس فیصد گھروں کو گیس کی سہولت میسر ہے،558دیہات کے لئے چار ہسپتالوں، نو دیہی مراکز صحت سمیت 156ڈسپنسریاں ہیں ، یوں 2392 مریضوں کے لئے ایک بیڈ ہے، سبی میں میٹرک تک پہنچنے والے بچوں کی تعداد انیس فیصد، ہرنائی میں انتالیس فیصد، ڈیرہ بگٹی میں صفر فیصد اور کوہلو میں چار فیصد ہے، ہر اٹھارہ طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔

زیارت اور پشین:ان دونوں اضلاع کی کل آبادی 477931 ہے،95 فیصد کو مکان میسر ہے ، دو فیصد کرائے پر رہتے ہیں، ایک فیصد مزارع ہیں ،96 فیصد گھروں کو بجلی میسر ہے جبکہ باقی چار فیصد اس سہولت سے محروم ہیں،58فیصد آبادی کو واٹرسپلائی کی سہولت میسر ہے،83فیصد کو گیس کی سہولت میسر ہے،دو شہروں اور چار سو پندرہ گاؤں کے لئے دو ہسپتالوں،دس دیہی مراکز صحت سمیت 94ڈسپنسریاں ہیں،3124 افراد کے لئے ایک بستر ہے۔ پشین میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد 36 فیصد اور زیارت میں چوبیس فیصد ہے، ہر29طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔

گوادر اور کیچ:ان دونوں اضلاع کی آبادی832190 ہے،96 فیصد افراد مالک مکان ہیں ، ایک فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، چارفیصد مزارع ہیں، پچاس فیصد خاندان بجلی کی سہولت سے محروم ہیں ،42 فیصد گھروں کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے،95 فیصد گھر قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں، پانچ شہروں اور چار سو دیہاتوں کے لئے تین ہسپتال،14دیہی مراکز اور 117 ڈسپنسریا ں ہیں،2073افراد کے لئے ایک بیڈ ہے،کیچ میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد چھ فیصد جبکہ گوادر میں تین فیصد ہے، ہر چالیس طلبہ کے لئے ایک استاد ہے۔

لورالائی ، موسٰی خیل اور بارکھان:ان تینوں اضلاع کی آبادی 679000 ہے،91 فیصد افراد کے اپنے مکان ہیں جبکہ تین فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں، چار فیصد مزارع ہیں، 22فیصد گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہیں،9 فیصد گھروں کو بجلی کی سہولت میسر ہے، صرف تین فیصد گھروں کو قدرتی گیس میسر ہے، پانچ شہروں اور 521دیہات کے لئے چار ہسپتال،تین دیہی مراکز صحت اور 111ڈسپنسریاں ہیں، ہر 2408افراد کے لئے ایک بیڈ ہے، لورالائی میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد سولہ فیصد، بارکھان میں صفر فیصد اور موسیٰ خیل میں دو فیصد ہے۔

نصیر آباد اور جعفر آباد:ان دونوں اضلاع کی آبادی 943408 ہے،72فیصد لوگ مالک مکان ہیں جبکہ ایک فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، 16فیصد مزارع ہیں، بارہ فیصد گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہیں ، پندرہ فیصد افراد کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے، تین شہروں اور 389دیہات کے لئے چار ہسپتال، چار دیہی مراکز صحت اور 82ڈسپنسریاں ہیں، 3841 افراد کے لئے صرف ایک بیڈ میسر ہے، جعفر آباد میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد بارہ فیصد اور نصیر آباد میں پندرہ فیصد ہے۔ ہر اکتیس طلبہ کے لئے ایک استاد ہے۔

یہ بلوچستان کے 16اضلاع کی صورتحال پیش کی گئی ہے ، دوسرے 14اضلاع بولان، جھل مگسی، ژوب، شیرانی، قلعہ سیف اللہ، آواران، لسبیلہ ، خاران، واشک، پنجگور، قلعہ عبداللہ اور خضدار میں بھی ایسے ہی حالات ہیں ، جبکہ انفراسٹرکچر کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ناقص ہے، اکثر علاقوں کو سڑکیں بھی میسر نہیں ہیں ۔

بلوچستان کے قبائل اور زبانیں
بلوچستان میں کل 231قبائل آباد ہیں جن میں سے بڑے قبائل کی تعداد 132ہے ۔ ان میں سے بزنجو، بگٹی، رئیسانی، رند ، لغاری ، محمد حسنی، مری، مینگل،کرد، نوتکانی یا ننکانی اور جنگوانی قبائل زیادہ مشہور ہیں ۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلوچستان میں علاقائی سطح پر تمام افراد بلوچی بولتے ہیں اور یہ تصور اس لئے پایا جاتا ہے کیونکہ اس صوبے کا نام بلوچستان ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں جس طرح پنجاب میں پنجابی کے علاوہ بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ایسے ہی بلوچستان میں بھی پشتو، سندھی، پنجابی سرائیکی اور دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں۔

ان میں سے بلوچی بولنے والے کل آبادی کا 55 فیصد، پشتو بولنے والے 30 فیصد، پنجابی یا سرائیکی بولنے والے5 فیصد جبکہ دیگر زبانیں بولنے چار فیصد ہیں ۔ بلوچستان کے9 شمالی اضلاع میں پشتون مقامی آبادی کا نوے فیصد کے قریب ہیں، دس جنوبی اضلاع میں بلوچوں کی آبادی نوے فیصد سے زائد ہے اور مزید سات میں بھی وہ اکثریت میں ہیں، صوبے کے بڑے شہروں کوئٹہ اور سبی میں پشتون اکثریت میں ہیں ، شہروں میں پنجابی اور اردو بولنے والے بھی کافی تعداد میں ہیں ۔ یوں بلوچستان زیادہ رقبے اور کم آبادی کے باوجود مختلف زبانیں بولنے والوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔

قدرتی وسائل اور معدنیات
بلوچستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا ہے ، یہاں کی زمین دیکھنے میں بنجر مگر اپنے اندر بے پناہ خزانے چھپائے ہوئے ہے ۔ اسی وجہ سے اسے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ ضلع کوہلو اور کوئٹہ کے قریب کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ مسلم باغ ، قلعہ سیف اللہ ، لسبیلہ، خضدار، خاران اور چاغی میںکرومائیٹ کا وسیع ذخیرہ ہے۔ خضدار کے نزدیک بیرٹس کے دو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ ضلع چاغی کے علاقے کوہ سلطان میں سلفر پایا جاتا ہے۔

اسی طرح ضلع چاغی ، زردکان، سیاچنگ ، جھولی، پتکوک ،مسکیچاھ، زہ، چلغیزی اور بٹک میں ماربل کے ذخائر پائے جاتے ہیں ، ماربل کی ایک اعلیٰ قسم اونیکس کے ذخائر بولان، لس بیلہ اور خضدار میں دریافت ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، قلات، ہرنائی،سور رینج اور سپنتنگی کے علاقوں میں چونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چاغی میں لوہے کے تیس ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں ، اس کے علاوہ تانبا، سونے، سلور اور لیڈ کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں۔ ان معدنیات سے سالانہ 1.5ارب ڈالر ریونیو اکٹھا ہو تا ہے۔

بلوچستان میں تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، صرف گیس سے سالانہ اربوں روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق بلوچستان میں گیس کے 19ٹریلین کیوبک فٹ اور تیل کے 6ٹریلین بیرل ذخائر موجود ہیں ۔ پنجگور، لسبیلہ، خاران ، قلات اور مری میں بھی تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ۔ اگر ان تمام ذخائر سے مکمل استفادہ کیا جائے تو روزانہ 140ملین ڈالر ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے۔

گوادر پورٹ
بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر سے نہ صرف صوبے بلکہ ملک وقوم کے لئے ترقی کے نئے راستے کھلے ہیں، یہاں سے افغانستان ، وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین تک آسانی سے رسائی ہو سکتی ہے۔ اس خوبصورت اور وسیع عریض بندر گاہ کی تیرہ برتھ ہیں جن میں سے ہر ایک 200میٹر طویل ہے ۔

جب یہ بندر گاہ مکمل طور پر کام شروع کر دے گی تو اس سے سالانہ اربوں ڈالر ریونیو اکٹھا ہو گا ۔ پاکستان نے حال ہی میں اس کا سارا انتظام چین کو ٹھیکے پر دے دیا ہے، جس سے چین سے دوستی گہری ہونے کے علاوہ دفاعی طور پر بھی بہت فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ماہی گیری بھی بہت منافع بخش کاروبار ہے کیونکہ سات سو کلومیٹر سے زائد طویل سمندری ساحل کی وجہ سے اس کاروبار میں کافی آسانیاں ہیں۔ بلوچستان کے سمندری ساحلوں پر 60 قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، بلوچستان میں ماہی گیری کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ کروڑوں روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔

بلوچستان کے جتنے زیادہ وسائل ہیں اتنے ہی زیادہ مسائل نے اسے اپنے نرغے میں لیا ہو ا ہے، دہشت گردی، قبائلی لڑائیوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی طاقتیں یہاں اپنا کھیل، کھیل رہی ہیں ، یوں پاکستان سونے جیسی اس دھرتی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، اگر پاکستان نے ایشین ٹائیگر بننا ہے تو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کی محرومیوں کا بھی ازالہ کرنا ہو گا۔

کوئٹہ کے ہزارہ

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے سینکڑوں خاندان آباد ہیں ، مذہبی حوالے سے ان کا تعلق مسلمانوں کے شیعہ مکتبہ فکر سے ہے۔

یہ نسلاً یہاں کے رہنے والے نہیں ہیں، 19ویںصدی میں جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت قائم تھی تو یہ قبیلہ افغانستان کے مرکزی علاقے ہزارہ سے ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہوا ۔ اس قبیلے کے یہاں آ کر آباد ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں افغان امیر عبدالرحمان خان نے ہزارہ آبادی پر مظالم ڈھانے شروع کر دئیے تو یہ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے یہاں آ گئے۔ ہزارہ افراد کے خدو خال منگولوں جیسے ہیں اس لئے یہ دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبیلے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

اب تک اس قبیلے کے دوہزار سے زائد افراد جان بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں ۔ رواں سال ہزارہ قبیلے پر چار بڑے جان لیوا حملے کئے گئے جن میں 300 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام حملوں کی ذمہ داری ایک کالعدم مذہبی تنظیم نے قبول کی ہے جس سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے، مگر ملک وقوم کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم انتہا پسندوں کو اس کی کیا پرواہ، انتہاپسندی کی آگ میں جلتے ہوئے یہ لوگ دانستگی یا نا دانستگی میں گویا پاکستان کے دشمنوں کے مذموم مقاصد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔


توشۂ خاص : ’’علم بالقلم‘‘

$
0
0

اسلامی ثقافت اپنے جن فنون پر فخر کرسکتی ہے، ان میں خطاطی ایک ایسا منفرد اور حسین و جاذب ِ توجہ فن ہے، جس کی نظیر کوئی اور قوم پیش نہیں کرسکتی۔

دوسری ساری قوموں کے پاس مصوری ایک مقبول فن کے طور پر رائج رہی ہے، لیکن مسلمانوں میں مصوری کے حرام ہونے کے تصور کی وجہ سے ایک ترفع (Sublimation) کے تحت یا متبادل کے طور پر کہ تسکین ذوق کا کوئی سامان ضرور ہو، فن خطاطی نے مثالی فروغ پایا۔

اگرچہ یہ فن دیگر قوموں میں بھی موجود ہے اور ان کی ثقافتی روایات کا حصہ بھی ہے، لیکن مسلمانوں نے اپنی خطاطی کو جس فنی توازن اور پختگی، حسن و کشش اور نزاکت و دل نشینی کے ساتھ ساتھ رنگ آمیزی سے نوا زا ہے، یہ فنی و جمالیاتی لحاظ سے کسی بھی مہذب سے مہذب قوم کی خطاطی سے زیادہ حسین و دل کش ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کی خطاطی کے شاہ کار، اپنے فنی و تاریخی ارتقا اور علاقائی مناسبت سے، ایک تقابلی حیثیت میں خود دیگر تہذیبوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے مستشرقین کی توجہ اور ستائش کا موضوع بنے ہیں اور اس طرح بنے ہیں کہ متعدد مجموعے اور منتخبات مغربی دنیا میں بھی آئے دن شائع ہوکرداد و تحسین وصول کرتے رہتے ہیں۔

بعض مغربی ناشرین نے تو خود کو صرف اسلامی خطاطی کے انتخابات شائع کرنے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اور ان کے شائع کردہ خطاطی کے انتخابات اور نمونے جہازی سائز کی خوب صورت جلدوں میں مغربی شائقین اور امراء کے مابین تحفوں کے طور پر تقسیم ہوتے اور ان کے ڈرائنگ روموں میں میزوں پر رکھے اور الماریوں میں سجے نظر آتے ہیں۔ مغربی ممالک کے متعدد عجائب گھروں میں تو اسلامی خطاطی کے گوشے بھی مخصوص ہیں، جہاں شائقین انھیں بصد شوق دیکھ کر سراہے بغیر نہیں رہتے۔

اسلامی خطاطی کی تاریخ میں عرب دنیا کے کئی ملکوں اور ایران نے جو فنی امتیاز حاصل کیا ہے، اس سے وہ سب ہی واقف ہیں جو اس فن میں کسی طرح کی بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ عرب دنیا میں تو عربی خط یا خط نسخ یا ان سے قریب تر روایتی خطوط کو اُس فن میں فروغ حاصل ہوا، لیکن ایران اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہاں اس فن میں تجربات بھی بکثرت ہوئے اور ایرانی خطاطوں نے اپنا ایک ایسا خاص انداز بھی وضع کیا، جو ان ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہاں فارسی کے اپنے خط، نستعلیق کے ساتھ ساتھ خط نسخ نے بھی ایسا فروغ پایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ پھر عصری اور جدید رجحانات کے زیر اثر جو جو صورت گری اس فن کی ایران میں ہوئی ہے وہ بھی ایک مثال ہے۔

یہی صورت بر عظیم پاک و ہند کی بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے فنون میں فن تعمیر اور خطاطی دونوں نے وہ امتیاز پیدا کیا کہ بعض مثالوں میں، خصوصاً فن تعمیر میں، وسط ایشیا، ترکی اور ایران کی تعمیرات بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ یہی کچھ یہاں کی مصوری اور خطاطی کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے۔ عہد مغلیہ نے جہاں جنوبی ایشیا کو نہایت پختہ کار ماہرین تعمیرات سے نوازا، وہیں مصور اور خطاط بھی بے مثال دیے۔ ایک بڑی تعداد میں سے مُلا عبدالرحیم عنبریں رقم، خواجہ عبدالصمد شیریں رقم، محمد حسین کشمیری زریں رقم، میر عبداﷲ مشکیں رقم، آقا عبدالرشید دیلمی، عبدالباقی حداد یاقوت رقم، سید علی خاں جواہر رقم، غلام محمد ہفت قلم، امیر علی پنجہ کش ایسے چند نام ہیں، جنھیں خطاطی کی مقامی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔

اس فن نے اپنی روایات کے تمام تر محاسن کے ساتھ پاکستان میں بھی فروغ پایا ہے۔ یوسف دہلوی نے دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن بنایا اور اپنے فن کو یہاں ایک مثال کی حیثیت دی کہ جس کو پیش نظر رکھ کر اور ساتھ ہی اپنی ذاتی کاوشوں اور لگن سے ایک پہلے سے موجود اور ابھرتی ہوئی نسل نے یہاں اس فن کو ایسی حیات تازہ دی اور اپنی اختراعات اور اپنے مزاج و انداز سے اس فنی انتہا تک پہنچادیا کہ حال، ماضی کے عروج سے نیچے نہ رہا۔

اس نسل میں جہاں عبدالمجید دہلوی، عبدالمجید پرویں رقم، حافظ محمد یوسف سدیدی، انور حسین نفیس رقم اور شفیق الزماں خاں جیسے ممتاز خوش نویس نظر آتے ہیں، جنھوں نے روایات کی پاس داری کرتے ہوئے یہاں اس فن کو زندہ رکھا اور جلا بخشی، وہیں اس فن میں جدید رجحانات اور عصری میلانات کے مطابق، کچھ فن مصوری کے زیراثر اور کچھ اپنی اختراعات کے شوق میں، ایسے شاہ کار پیش کیے جن سے اس فن میں ایک جدیدتَر اور جداگانہ طرز و اسلوب کی نمائندگی ہوتی ہے۔

ایسے فن کاروں میں صادقین سب سے جدا اور مختلف ہیں، جب کہ اسلم کمال، شاکر علی، گل جی، جمیل نقش، حنیف رامے وغیرہ جیسے پختہ کار مصور ہیں یا نوجوان مصوروں کے متعدد نام ہیں جوان مصوروں میں شامل ہیں، جنھوں نے خطاطی کو بھی بطور فن اختیار کیا اور نہایت پُرکشش شاہ کار تخلیق کیے۔

ان خطاطوں اور مصوروں کی تخلیقات کے متنوع مجموعے یا انتخابات انفرادی یا اجتماعی جلدوں میں وقتاً فوقتاً منظر ِ عام پر آتے رہے ہیں، جنھیں ہم اپنی ثقافت کے اس نوع کے اظہار کا ایک مؤثر وسیلہ قرار دے سکتے ہیں۔ ایسے انتخابات اور مجموعے جب دیگر قوموں اور معاشروں تک پہنچتے ہیں تو پاکستان کا ایک خوب صورت تعارف ثابت ہوتے ہیں۔ یہ تعارف ایک بے حد مثبت اور دوررس اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ یہاں ایک ایسے ہی انتخاب کا حوالہ مقصود ہے جسے ’’علم بالقلم‘‘ کے عنوان سے جدہ، سعودی عرب میں پاکستانی قونصل خانے نے بے حد عمدگی اور نفاست کے ساتھ بڑے سلیقے و اہتمام سے انتہائی پُرکشش اور مؤثرانداز میں کچھ ہی عرصہ قبل 2012 کے آخر میں شائع کیا ہے۔

یہ ایک حیران کُن اور تعجب خیز کارنامہ ہے، جس کی بظاہر کسی پاکستانی قونصل خانے یا سفارت خانے سے توقع نہ ہوسکتی تھی۔ کیوں کہ یہ حکایتیں اور روایات عام ہیں، اور خود راقم کا بیرونی ممالک کا 26 سالہ ذاتی مشاہدہ اور تلخ تجربہ بھی ایسا ہی ہے کہ پاکستانی عمّال حکومت بیرونی ممالک میں تعینات ہوکر بالعموم اپنے وہ فرائض بھول جاتے ہیں جو ان کے منصب کا حقیقی تقاضا ہوتے ہیں۔

وہاں زیادہ تر اپنا عیش و آرام انھیں عزیز رہتا ہے یا سہولتوں اور آسائشوں کے حصول پر بالعموم ان کی توجہ اور ترجیحات مرکوز رہتی ہیں۔ چناں چہ جب ’’علم بالقلم‘‘ ہمدست ہوا تو ایک خوش گوار حیرت اب تک طاری ہے، کیوں کہ اس انتخاب کی خوبیاں ہیں کہ جو اسے بار بار دیکھتے رہنے پر اور ہر ایک کو دکھاتے رہنے پر ہمیشہ مجھے آمادہ رکھتی ہیں۔

اس انتخاب کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض پاکستانی خطاطوں کی خطاطی کے نمونوں کا ایک عام سا انتخاب نہیں۔ ایسے انتخاب آئے دن شائع ہوتے رہے ہیں اور عمدگی کے ساتھ بھی شائع ہوئے ہیں، لیکن یہ انتخاب کئی وجوہات سے ان سب سے مختلف اور زیادہ مؤثر ہے۔ صاف لگتا ہے کہ اس کے مرتبین کے پیش نظر محض خطاطی کے ایک انتخاب کی اشاعت ہی پیش ِ نظر نہ تھی، بلکہ اسے وہ ایک ایسے انتخاب کے طور پر شائع کرنا چاہتے تھے، جس سے اس فن کی نمائندگی پاکستانی تناظر میں اور خاص پاکستان کے حوالے سے ہوسکے۔

پھر یہاں یہ نمائندگی صرف پاکستانی خطاطی ہی کی نہیں، پاکستان کی اسلامی خطاطی کی نمائندگی کے مقصد سے ہوئی ہے، جس میں اس کا اسلامی تشخص نمایاں رہے۔ اس مقصد کے پس ِ پشت ایک اسلامی ملک میں، جو خود اس فن کا ایک امین ہے، ایک دوسرے اسلامی ملک کے قونصل خانے نے یہ انتخاب شائع کیا ہے، جسے اپنے ملک کے فنی امتیاز کو لازماً اجاگر کرنا تھا اور بصد فخر و اعتماد اس انتخاب کو پیش کرنا تھا، جس میں وہ پوری طرح کام یاب اور ظاہر ہے سرخ رُو ہوا ہے۔

اس مثالی انتخاب کو قونصل خانہ جدہ کے عمران احمد صدیقی (نائب قونصل جنرل) اور ڈائریکٹر حج سید ابو احمد عاکف ( فرزند ارجمند ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی) نے مرتب کیا ہے۔ اس پیش کش یا انتخاب کا تصورعمران احمد صدیقی کا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ایسے کسی تصور کا ذہن میں آنا ہی ایک بڑی نیک نیتی اور اخلاص کا مظہر ہے۔

پھر اس تصور کا فہم اور اسے عملی صورت دینا ناممکن ہوتا اگر وہ سرپرستی نہ ہوتی جو اس انتخاب کی اشاعت کے لیے لازم تھی۔ اس مناسبت سے قونصل خانے کے سربراہ عبدالسّالک خان مبارک باد کے مستحق ہیں، جنھوں نے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ہمارے سفارت خانے اور قونصل خانے اپنے فرائض سے مخلص ہوں تو کیا کچھ نہیں کرسکتے۔

اس انتخاب کا یہ پہلو بھی نہایت قابل ستائش ہے کہ مرتبین نے تخلیقات کا انتخاب بڑی جستجو اور کدوکاوش سے کیا ہے اور بہتر سے بہتر نمونے یک جا کرنے کی کام یاب اور متاثر کُن کوشش کی ہے۔ اسے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس سے بہتر انتخاب ممکن نہ تھا، جس میں نہ صرف فن کے روایتی اسالیب کا لحاظ رکھا گیا ہے اور متعلقہ تمام فن کاروں کو مناسب نمائندگی دی گئی ہے، بلکہ جدیدتَر اور مقبول فن کاروں کے فن کو بھی جائز نمایندگی دی گئی ہے۔

اس طرح یہ ایک بھرپور نمائندگی کا حامل منتخب مجموعہ ہے جو بیرونی ممالک میں پاکستان کے ایک عمدہ تأثر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ یقینا یہی اس کے مرتبین کا بنیادی مقصد نظر آتا ہے جس میں وہ پوری طرح کام یاب بھی کہے جاسکتے ہیں۔ اس کتاب کے خوش کُن تأثر میں اس کی طباعت کی نفاست اور ترتیب و تزئین کی خوبیاں بھی شامل ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے مرتبین نے اس انتخاب کو ہر لحاظ سے ایک مثالی اور مؤثر پیش کش بنانے کی شعوری اور کام یاب کوشش کی ہے۔

اب اس پیشکش کو ایک مثال اس طور پر بھی بننا چاہیے کہ اسے دیکھ کر ہمارے دیگر سفارت خانے اور قونصل خانے بھی ایسی کوششیں کریں کہ ہمارے ملک کے اوصاف دنیا کے سامنے نمایاں ہوسکیں اور پاکستان کا حقیقی اور ایک اچھا تأثر عام ہو۔

تزویراتی گہرائی کا تصور افغانستان پرلاگو ہی نہیں ہوتا

$
0
0

 سرکاری افسروں کی ایک قسم میں تو وہ حضرات آجاتے ہیں،جو اپنے فرائض سے سبکدوشی کے بعد چپکے بیٹھ جاتے ہیں اوراپنا دیکھا سنا کچھ بھی سامنے نہیں لاتے۔

ایسے اصحاب میں سب سے اوپرتو غلام اسحاق کا نام ہے، جنھوں نے بڑے بڑے سرکاری مناصب پر رہ کر بھی جو کچھ دیکھا ،اس کے بارے میں لکھنا تو درکنار کبھی کچھ بولنے کی زحمت بھی گوارانہ کی۔ دوسری قبیل میں وہ سرکاری افسران شامل ہیں جنھوں نے اپنے عرصئہ ملازمت میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں لکھا تو ضرور لیکن ان کا سارا زور قلم خود کو بے قصور ثابت کرنے میں صرف ہوگیا اور بیچ میں تاریخ جو تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئی۔اس ذیل میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کا نام رکھا جاسکتا ہے۔

کچھ افراد البتہ ایسے ضرور ہیں،جو ان قیمتی اور تاریخی واقعات جن کا وہ حصہ بنتے ہیں، انھیں معروضیت کے ساتھ سامنے لاتے ہیں، اور ان کے پیرائیہ اظہار میں خود کو ہیرو ثابت کرنے کا رجحان نہیں ہوتا۔ریاض محمد خان بھی فکری دیانت کے حامل ایسے افراد میں شامل ہونے کے لائق ہیں جنھوں نے اپنی کتابوں میں مذکورہ بالا دونوں صورتوں سے بچتے ہوئے، بڑے متین اورجچے تلے الفاظ میں اپنی بات دوسروں تک پہنچائی ہے۔ وزارت خارجہ میں افغانستان اور سوویت یونین سے متعلق امور کے نگران کی حیثیت سے حاصل ہونے والے مشاہدات وتجربات کو ریاض محمد خان نے اپنی کتاب’’ untying the afghan knot: negotiating soviet withdrawal‘‘میں پیش کیا۔

1989ء میں جارج ٹائون یونیورسٹی واشنگٹن سے وابستگی کے دوران تحریر کردہ یہ تصنیف 1991ء میں ڈیوک یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی جس میں انھوں نے 1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت سے لے کر جنیوا معاہدے (1989 )تک کے حالات کا جائزہ لیا ۔ اس کے بعد کی صورت حال کے بیان کے لیے انھوں نے2009ء میں وڈرو ولسن سنٹر میں بحیثیت پاکستانی اسکالر Afghanistan and Pakistan. Conflict Extremism, and Resistance to Modernity کے عنوان سے کتاب تحریر کی،جو حال ہی میں اضافوں اورمصنف کے قلم سے ہونے والے اردو ترجمے کی صورت میں ’’ افغانستان اور پاکستان:تصادم، انتہا پسندی اور عہد جدید سے مزاحمت ‘‘کے نام سے القا پبلی کیشنزلاہور نے چھاپی ہے۔

ریاض محمد خان نے اس کتاب میں سیدھے سادھے انداز میں بڑی گہری باتیں کی ہیں۔انھوں نے ان تمام عوامل کا تجزیہ پیش کیا ہے، جو افغان پالیسی کی تشکیل میں کارفرما رہے۔پاکستان نے اس پالیسی میں جہاں جہاں غلطیاں کی ہیں، اس کی نشاندہی بھی انھوں نے بے تامل کردی ہے۔انھوں نے طرز تحریر میں معروضیت کو ملحوظ رکھا۔تجزیہ کرتے وقت کہیں بھی دلیل اور منطق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جذباتیت کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔معروف دانشور اور صحافی خالد احمد کے بقول’’ریاض محمد خود کو پاکستان کے حوالے سے تبصرہ کرنے والے کئی سابق جرنیلوں اور سفارتکاروں سے یہ کہہ کر منفرد اور جدا کرلیتا ہے کہ ریاستی کردار کے بارے میں اکثر تجزیے، معروضیت اور غیر جانبدارانہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔‘‘ریاض محمد خان محض حالات وواقعات بیان کرنے پر اکتفا نہیں کرتے، ان کی توضیح و تعبیربھی کرتے ہیں۔

تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر ہے، اس لیے وہ بعض اوقات اپنی بات کی اصابت کے لیے تاریخ سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ مثلاًتاریخ کے تناظر ہی میںوہ بیان کرتے ہیں کہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) کا تصورافغانستان پر لاگو نہیں ہوتا اور مطالعۂ تاریخ ہی انھیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پرمجبورکرتا ہے: ’’حالیہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ عیاں ہے کہ کوئی ملک جہاں ریاست کے کنٹرول میں کام کرنے والی باقاعدہ فوج اور امن وامان کے اداروں کے علاوہ،کسی بھی وجہ سے، مسلح گروپ یا پرائیویٹ ملیشیا پیدا ہوجائیں وہ ملک تباہی سے نہیں بچ سکتا۔‘‘ ریاض محمد خان کے خیالات کی طرف بڑھنے سے قبل ان کی ذاتی زندگی اورکیرئیر کا اجمالاً ذکر۔

چاربرس پنجاب یونیورسٹی میںریاضی کا لیکچراررہنے کے بعد 1969 ء میں ریاض محمدخان دفترخارجہ سے منسلک ہوگئے۔وہ وزارت خارجہ میں بڑے کلیدی عہدوں پر تعینات رہے۔ فروری2005ء سے اپریل2008تک سیکرٹری خارجہ کا منصب ان کے پاس رہا۔اس سے قبل کے تین برس وہ چین میں سفیر رہے۔ چاربرس ایڈیشنل سیکرٹری کے طورپر کام کیا۔یورپی یونین، بلجیم،لکسمبرگ،قازقستان اور کرغزستان میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کیں۔سات برس پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ سے وابستہ رہے۔وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے افغانستان اور سوویت یونین سے متعلق امورکے نگران رہے۔ کئی اہم کانفرنسوں اور مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

ریاض محمد خان اپنے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے گفتگو میں ان کے بارے میں بہت کم معلوم ہو پایا۔ ریاض محمد خان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ میٹرک کا امتحان راولپنڈی کے اردو میڈیم اسکول سے پاس کیا۔دسویں میں اپنے انگریزی کے ایک استاد کا ذکر وہ بڑی محبت سے کرتے ہیں، جو بہت جان مار کر بچوں کو پڑھاتے۔

اسکول کے اوقات ختم ہونے پر بھی ان کے فیض کا سلسلہ جاری رہتا۔یہی وہ استاد ہیں جنھوں نے انھیں بتایا کہ نصاب کی کتب پڑھنے سے انگریزی نہیں آئے گی، برٹش کونسل اورلائبریریوں کا رخ کرو گے تو پھر دنیا اور انگریزی دونوں کی سمجھ آئے گی۔بی اے آنرزگورڈن کالج راولپنڈی سے کیا۔1965 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی میں ماسٹرکرنے کے بعد وہ یہیں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ریاضی میں ڈاکٹریٹ کا ارادہ تھا جو بوجوہ پورا نہ ہوسکااور وہ وزارت خارجہ سے متعلق ہوگئے جہاں انھوں نے عمر عزیز کے 39 برس گزارے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنی تمام تر توجہ علمی سرگرمیوں پر مرکوز کررکھی ہے۔

ریاض محمدخان نے اپنے سفارتی سفر کا آغاز چینی امور کے ماہر کی حیثیت سے کیا۔چین میں بحیثیت تھرڈ سیکرٹری تقرری کے دوران چینی زبان بھی سیکھی۔اپنی تازہ کتاب میں اس زبان سے اپنی واقفیت کا ثبوت بھی انھوں نے فراہم کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جدیدیت کو ہمارے ہاں مغرب پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس سے مغرب سے متعلق تعصبات ذہن میں گھر کرلیتے ہیں جب کہ جدیدیت اور مغربیت دو الگ معنے رکھنے والے لفظ ہیں۔اس بات کی توضیح وہ چینی زبان سے کرتے ہیں۔

بتاتے ہیں کہ چینی زبان میں ماڈرنائزیشن کے لیے’’سیئن تائی کھائن فا‘‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب عہد حاضرکا طریق اورمغربیت کے لیے ’’شی فانگ کھائن فا‘‘کا لفظ برتا جاتا ہے، جس سے مراد مغرب کا طریق ہے۔ان کے بقول’’اس طرح کی وضاحت پاکستانی ذہن کو میسر نہیں۔‘‘ ریاض محمد خان سے بات چیت کا سلسلہ ہم نے چین کے بارے میں سوال پوچھ کر کیا۔ ’’چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کو ہمارے ہاں عام طور پر کلیشے زدہ الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔

مثلاً یہ کہنا کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند ہے، اور اسی طرح کی باتوں سے۔ہمیں بتائیں ،اصل میںچین سے ہمارے تعلقات کس نہج پر ہیں ؟‘‘ اس سوال پرریاض محمد خان کاجواب تھا ’’پاکستان اور چین کے تعلقات سیاسی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں اور ان کی کوالٹی ایسی ہے کہ شاید چین کے کم ممالک سے ایسے تعلقات ہوں گے۔تعلقات کا ایک پہلو نہیں ہوتا، یہ ہمہ جہت ہوتے ہیں۔سیاسی پہلو ایک چیز ہے۔دیگر کئی پہلو ہوتے ہیں، جیسے تجارت ہے ، سرمایہ کاری ہے، معاشی اعتبار سے تعاون ہے۔باہمی روابط ہیں۔

مثلاً سیاحت ہے،آٹھ کروڑ چینی ہر سال دوسرے ممالک کی سیاحت کو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں!کتنے چینی سیاحت کے لیے آتے ہیں؟کام کرنے کے لیے آنے والے تو پھر بھی آٹھ دس ہزار ہوں گے۔تعلقات میں اس طرح کے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ چین کا پاکستان سے ٹریڈ بہت کم ہے، اس کے مقابلے میں امریکا سے اس کا ٹریڈ ہم سے کئی گنازیادہ ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی اس کا ٹریڈ ہم سے زیادہ ہے۔ تعلقات میں تجارتی پہلو بھی ہمارے مدنظر رہنا چاہیے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘

٭ ’’آپ کے خیال میں چین سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‘‘
’’اپنی غلطیوں سے سیکھنا سب سے بہتر ہوتا ہے۔ان کا مزاج مختلف ہے۔ ثقافت مختلف ہے۔تاریخ مختلف ہے۔ان کی تاریخ میں مائوزے تنگ انقلاب لے کرآئے۔اس سے میرے خیال میںتین اہم تبدیلیاں چین میں رونما ہوئیں۔اول:تعلیم کو عام کیا گیا۔اب سوائے چند دیہاتی علاقوں کے اسی نوے فیصدچینی پڑھے لکھے ہیں۔یہ بہت اہم بات ہے۔دوم:معاشرے کو منظم کیا۔وہ نظم کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔سب سے پہلے50ء کی دہائی میں انھوں نے نہریں کھودیں۔بند بنائے۔سیلاب بہت آتے تھے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی۔آبی ذخائر بنائے۔پچاس کی دہائی میں انھوں نے قحط اور سیلاب جیسی آفات سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔یہ سب محنت اور تنظیم کے ذریعے سے کیا۔

بعد میںانھوں نے اپنی پالیسی بدلی اور مغرب سے رجوع کیا۔معیشت کو اوپن کیا۔ ان کی Orientation مختلف ہوگئی اور اب دیکھیے اس عمل کا نتیجہ کہ ان کی تجارت اور تعلیم کہاں پہنچ گئی ہے۔اس وقت دنیا میں تعلیم کے لیے سب سے زیادہ چینی طالب علم دوسرے ممالک میں جاتے ہیں۔ایک اور تبدیلی جو چین میں آئی کہ انھوں نے اپناروایتی مائینڈ سیٹ جو بہت زیادہ تقدیر پرستی پرمبنی تھا ، اسے تبدیل کیا اورکہا کہ انسان اپنی تقدیر خود بدلتے ہیں۔اس لیے جب تنگ سیاو پنگ نے چین میں جدیدیت پسند پالیسیوں کو رواج دیا تو معاشرے میں ان کی مخالفت نہیں ہوئی۔ یہ اعتماد بڑی چیز ہے۔دنیا سے سیکھنے کی امنگ ان میں بہت ہے۔ علم کا منبع ہونے کی وجہ سے وہ مغرب کی اہمیت سے واقف ہیں۔ چین میں والی ترقی معجزہ ہے۔‘‘

٭ ’’ کیا سنکیانگ میں مسلم انتہا پسندوںکی مداخلت کی وجہ سے چین کو ہم سے ماضی میں شکایت رہی ہے؟‘‘
’’چین اس معاملے میں بہت حساس ہے۔ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس معاملے میں ہم ان سے پورا تعاون کریں گے اور چین ہم پر اعتماد کرتا ہے۔ہم نے انھیں یقین دلایا ہے کہ ہم ہرگز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ہماری سرزمین چین میں مداخلت کے لیے استعمال ہو۔‘‘
امریکی ڈرون حملے پاکستان کو درپیش بڑے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ ہے۔انھیں ملکی خود مختاری پر حملہ اور دہشت گردی کے واقعات میں فروغ کا باعث جانا جاتا ہے لیکن امریکا ہے کہ پاکستان کے احتجاج کے باوجود حملوں سے باز نہیں آتا۔ڈرون حملوں کے بارے ریاض محمد خان سے ہونے والی گفتگو کچھ یوں رہی’’2004 ء میں پہلا حملہ نیک محمد پر ہوا تھا۔وہ ہمارا ٹارگٹ تھا ، امریکیوں کا اتنانہیں تھا۔اس سے مگر امریکیوں کو ایک شہہ مل گئی کہ اب یہ کام ہوسکتاہے۔ ڈورن حملوں کی2007ء تک تعداد بہت کم تھی۔

بعض تخمینوںکے مطابق اس سال تک دس اور بعض کے مطابق سات حملے ہوئے۔ان پر احتجاج کیا گیا۔ساتھ میں زوردیا گیاکہ یہ حملے پاکستان کی کوارڈینیشن سے ہوں یا ہمیں ٹیکنالوجی دی جائے ہم خود کارروائی کریں گے، کیوں کہ ہم بھی شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہماری طرف سے چار پانچ حملوں پر بڑا سخت احتجاج ہوا اورہم نے کہا کہ آپ یہ ہماری اجازت کے بغیر نہیں کرسکتے۔ان سے بات چیت جاری تھی کہ حکومت بدل گئی اور2008ء میں نئی حکومت آنے سے ایک دم صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے ۔

امریکا حملوں میں اضافہ کردیتا ہے۔2008ء میں درجنوں حملے ہوئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پالیسی سی آئی اے کے ہاتھ میں آگئی اورایک طرح سے اسے کھلی چھوٹ مل گئی۔دوسرے غالباً انھیں ایسا اشارہ ملا ہو کہ پاکستان چشم پوشی (acquiesce) سے کام لے رہا ہے۔امریکا کو آپ convinceکرسکتے ہیںاگر آپ یہ ذمہ داری لیں کہ ہمارے علاقے سے افغانستان میں کچھ نہیں ہوگا۔ڈورن گرانے کے بہت سے مضمرات ہوسکتے ہیں۔ ہمارے امریکا سے تعلقات ہیں۔دفاعی سازوسامان ادھر سے آتاہے۔میرے خیال میںمستقبل میں حملے کم ہوں گے۔ہم کو اپنا دبائورکھنا چاہیے۔جیسا کہ نئی حکومت آنے کے بعد حملہ ہوا تو اس پربڑاپرزوراحتجاج کیا گیا۔ڈرون حملوں سے جہاں پاکستان کی خود مختاری متاثرہورہی ہے، وہاں امریکا کا اپنابھی نقصان ہورہا ہے، امریکا مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔

امریکا کے اندر بھی دبائو بڑھ رہا ہے کہ اس کے باعث خرابی زیادہ ہورہی ہے اور فائدہ نہیں ہورہا۔اور اب تو اوبامہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ڈرون کا استعمال بڑی احتیاط سے ہونا چاہیے، پہلے ایسی بات وہ کب کرتے تھے۔ جہاں تک ڈرون حملے ختم ہونے کا سوال ہے تو ہر چیز کے ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔اگر کسی اسٹیج پرامن ہوجائے اور شدت پسندی ختم ہوجائے تو ڈرون حملے ختم ہوسکتے ہیں۔ڈرون حملے پاکستانی فوج کی مرضی سے ہونے کے بارے میں صرف speculations ہیں۔فوج تو چاہتی تھی کہ ڈرون حملے ان کی کوارڈینشن سے ہوں۔

دوسرے امریکا ڈرون حملوں کا دائرہ بڑھانا چاہتا تھا لیکن ہم نہیں مانے۔اصل میں تو ڈرون surveillanceکے لیے تھے۔اگر ہم اپنی خود مختاری برقراررکھنا چاہتے ہیں اوراس پراصرارکرتے ہیں تو پھر خود مختاری کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ آپ اپنی سرزمین کسی بھی صورت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔شمالی وزیرستان میں ہمارا کنٹرول ذرا کم ہے تو ادھر سے مسلح کارروائیاں ہوتی ہیں۔حقانی گروپ کرتا ہے یا دوسرے گروپ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں ڈرون حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود ہم نے بعض معاملات میں بڑی واضح ریڈ لائن کھینچی اور انھیں باور کرایا کہ آپ ان حدود میں نہیں آسکتے۔ بعض مواقعوں میں ہم نے سخت ردعمل کے ذریعے اپنا پیغام انھیں پہنچایا۔جیسے جالا خیل اور سلالہ میں امریکی کارروائی پر ہم نے بڑا سخت موقف اختیار کیا۔‘‘

ہمارے ہاں!خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات کے ساتھ غیرت کاجو تصور وابستہ ہے، اس کے بارے میں دو مکاتب فکر ہیں۔ایک وہ جن کا خیال ہے کہ خارجہ پالیسی مفادات کے تابع ہوتی ہے، غیرت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس سوچ کے حامل افراد اپنے مخالفین کو طنزاً غیرت بریگیڈ قرار دیتے ہیں اور خود اس کے جواب میں لبرل فاشسٹ کہلاتے ہیں۔ہم نے ریاض محمد خان سے خارجہ پالیسی میں غیرت کے تصور کے بارے میں جاننا چاہا تو ان نے بتایا ’’ سب سے پہلے توآپ کو غیرت اور بے غیرتی کے تصورکی تعریف کرنا ہوگی کہ اصل میں یہ کیا ہے۔

غیرت اور بے غیرتی کا تصور واضح ہونا چاہیے۔ جس وقت آپ بھیک مانگتے ہیں تو کیا وہ غیرت کی بات ہوتی ہے؟جب آپ قرض لینے جاتے ہیں وہ غیرت کی بات ہوتی ہے؟آپ کے سوشل انڈیکٹرزبہت ہی نیچے ہیں تو کیا یہ غیرت کی بات ہے؟ دوسرے ممالک بھی ہیں۔ باقی دنیا میں مثلاً یورپ کو لیجیے یا دوسرے ممالک کواگر وہاں پر عوام کی حالت خراب ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کا سوال ہے کہ ایسی چیز نہ ہو۔حقوق ملنے سے لوگوں میں احساس تفاخر پیدا ہوتا ہے۔ماڈرن سوسائٹی میں یہ بنیادی بات ہے ،حقوق سلب ہونے پران معاشروں میں بڑا ردعمل ہوتا ہے۔ان کا دھیان معاملات سدھارنے کی طرف ہوتا ہے۔ہمارے ہاں غیرت کا عجب تصور ہے، اس کے نام پر قتل ہوجاتے ہیں۔پسند کی شادی پر قتل کردیا جاتا ہے جوایک طرح سے قبائلی جذبے کے تحت ہوتا ہے کیوں کہ اسلام میں تو اس کی اجازت نہیں ۔‘‘

ریاض محمد خان ترک قیادت کی بصیرت کے بہت قائل ہیں۔ان کے بقول’’ طیب اردگان اور عبداللہ گل کا مداح ہوں۔ میں تو کوئی اچھا مسلمان نہیں ہوں۔لیکن وہ بڑے مخلص اوراچھے مسلمان ہیں۔ اپنی سوچ اور باتوں میں وہ بہت زیادہ پریکٹیکل ہیں اور اس میں وہ جذبات کو شامل نہیں کرتے۔طرز حکومت سیکولر ہے اور عوام اور خاص طور سے دیہی علاقوں میں ان کا ثقافتی جذبہ مذہبیت کی طرف مائل ہے،انھوں نے اپنی دانش مندی سے اس دوری کو کم کیا۔

جب یہ چیزیں ہوتی ہیں تو اس سے بڑی فریکشن جنم لیتی ہے جس کو کنٹرول کرکے،ترقی کے عمل کو جاری رکھنا بڑی بات ہے، جس کا کریڈٹ میں ترگت اوزال کو بھی دوں گا، عبداللہ گل کو بھی دوں گا اور اردگان کو بھی دوں گا۔ اصل میں توجہ تو معیشت پر ہونی چاہیے۔معاشی ترقی نہ ہونے سے سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے۔ملک کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔کئی اور خرابیاں جنم لیتی ہیں۔عہد حاضر میں زندہ رہنے اور بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے سائنٹفک اپروچ کی ضرورت ہے۔گڈگورنس کا ہونا بہت ضروری ہے۔شہری ذمہ داریاں ہوں یا حکومتی ذمہ داریاں ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ہمارے بھی حالات بہتر ہوں گے کیوں کہ اس الیکشن میں پہلی بار ووٹرزنے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے ۔الیکشن میں ٹرن آئوٹ کا ساٹھ فیصد ہونا بھی اچھی بات ہے۔‘‘

ریاض محمد خان ہندوستان سے تعلقات بہتربنانے کے لیے مذاکرات کے حامی ہیںلیکن ساتھ ہی کشمیر، سیاچن اورسرکریک کے جو بنیادی مسائل ہیں، انھیں حل کرنے پرزور دیتے ہیں۔ٹریڈ سے متعلق معاملات کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ یہ اس طریقے سے طے ہوں کہ دونوں ممالک کا فائدہ ہو۔ان کا اس بات پر یقین ہے کہ آج کی دنیا میں مہم جوئی کا فائدہ نہیں اور اس سے اجتناب میں ہی بھلا ہے۔خارجہ پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں وہ عقل سلیم سے کام لینے پرزور دیتے ہیں۔ان کے بقول’’ طے کریں کہ آپ کا مفاد کس میں ہے۔

چین نے جب ماڈرنائزیشن کو ترجیح بنایاتو پھر ہر شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ساری پالیسی اس اصول کے ماتحت کردی۔خارجہ پالیسی میں مغرب سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینی چاہییں، جس سے معیشت مضبوط ہو۔معیشت بیٹھ جائے تو دفاع بھی بیٹھ جاتا ہے۔دنیا کو تجارت کے لیے راستہ بھی آپ اس وقت ہی فراہم کرسکتے ہیں، جب ملک میں امن ہو۔پڑوس میں امن ہوگا تبھی معاشی سرگرمیوں کو ترقی ملے گی۔ افغانستان میں حالات کی خرابی سے امریکا کو فرق پڑتا ہے نا ہندوستان کو، اس سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ پاکستان متاثرہوتا ہے۔‘‘خارجہ پالیسی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں سوال پران کا کہنا تھا ’’اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں ہے۔

سویلین کیconvictionمضبوط ہونی چاہیے تبھی آپ اس پر دوسروں کو قائل کرسکیں گے لیکن اگرسامنے سے کوئی مضبوط دلیل آجائے جو آپ کے موقف سے میل نہ کھاتی ہو تو آپ کو اپنی رائے سے رجوع بھی کرلینا چاہیے۔ بنیادی بات ہے کہ سویلین کو خود پر یقین ہونا چاہیے کہ جو بات کررہے ہیں، وہ صحیح اور ملک کے مفاد میںہے، اس پرپھرآپ اسٹیبلشمنٹ کو بھی قائل کرسکیںگے۔کیوں کہ جو چیز ملک کے مفاد میں ہوگی،وہ فوج کے مفاد میں بھی ہوگی۔حکومت کے فائدے میں بھی ہوگی اور بیوروکریسی کا مفاد بھی اسی میں ہوگا۔‘‘

ریاض محمد خان اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی ہے اور اس میں وزارت خارجہ کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ان کا بتانا تھا کہ ہر معاملے میں دفترخارجہ کیinputs Institutional ہوتی ہے اور کئی دفعہ اس نے اپنی بات منوائی ہے۔ اس ضمن میں وہ جنیوا معاہدے کی مثال دیتے ہیں جس پردستخط کرنے کے معاملے میںاسٹیبلشمنٹ کے بجائے دفتر خارجہ کی بات مانی گئی۔ ریاض محمد خان کے خیال میں، افغانستان میں امریکا کی موجودگی چین کے لیے زیادہ پریشانی کی بات نہیں ، کہ وہ ماضی میں جاپان ، کوریا اور تھائی لینڈ میں امریکی ہمسائیگی کو برداشت کرتا رہا ہے۔

ریاض محمد خان سازشی تھیوریوں پریقین نہیں رکھتے۔ان کا موقف ہے کہ اس طرح کی باتیں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے واسطے کی جاتی ہیں۔وہ مثال دیتے ہیںکہ ہمارے ہاں یہ بات کہی جاتی رہی کہ امریکا نے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے بھٹو کوراستے سے ہٹایا لیکن اس پروگرام کو تو ضیاء الحق نے بھی آگے بڑھایا۔ریاض محمد خان کا کہنا ہے ’’خود مختاری عزیز ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے آپ کو دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرنا پڑتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آپ کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

خود مختاری جو ہے وہ آپ پر ذمہ داری بھی ڈالتی ہے، اس لیے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ریاست میںکوئی گنجائش نہیں۔‘‘ ریاض محمد خان کی ایک بار منگولیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دوران گفتگو اپنے تیسرے ہمسایہ ملک کا ذکر کیا۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گئے اور سوچنے لگے کہ منگولیا کے ہمسائے میں روس اور چین ہی تو ہے، اس لیے یہ تیسراہمسایہ کون سا ملک ہے، ان کی حیرانی اس وقت دور ہوئی، جب منگولیا کے وزیرخارجہ نے انھیں بتایا کہ تیسرے ہمسائے سے امریکا مراد ہے، کیوں کہ سپرپاور کہیں بھی آباد ہو،وہ آپ کی ہمسایہ ہی ہوتی ہے۔

بُک شیلف

$
0
0

خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زن
مصنفہ: نسیم انجم
ناشر: ماورا پبلشرز، لاہور
صفحات:224
قیمت:400روپے


اس کتاب کی مصنفہ نسیم انجم افسانہ نگار ہونے کے ساتھ بہ طور کالم نویس بھی اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ اس سے قبل ان کا خواجہ سراؤں کی زندگی کے پس منظر میں لکھا جانے والا ناول ’’نرک‘‘ افسانوں کا مجموعہ ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے‘‘ شایع ہوکر پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ’’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصور زن‘‘ معروف شاعر فضا اعظمی کی مسدس ’’خاک میں صورتیں‘‘ کے تناظر میں تحریر کیا جانے والا مقالہ ہے۔ فضااعظمی کی یہ مسدس دنیا میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کے استحصال کی کہانی سناتی ہے۔ ساتھ ہی یہ عہدحاضر میں عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی پردہ کشائی کی ہے۔

نسیم انجم نے ’’خاک میں صورتیں‘‘ میں شعری اسلوب میں بیان کردہ خیالات اور واقعات کو ان کے پورے پس منظر کے ساتھ نثر کا روپ دیا ہے۔ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرکے مسدس میں شامل استعاروں اور تشبیہات کو پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لیے بڑی عرق ریزی سے یہ تحقیقی کاوش انجام دی ہے۔ نسیم انجم نے فضا اعظمی کی مسدس کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اردو شاعری میں عورت کے تصور پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

کتاب کا انتساب چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام ہے، جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے،’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مظلوم عورت کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایسے قوانین کا نفاذ کریں جن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘‘

’’نونہال‘‘
مدیرِاعلیٰ: مسعود احمد برکاتی

بچوں کے رسالے ’’نونہال‘‘ کا جولائی 2013کا شمارہ اپنے ننھے مُنے قارئین کے لے دل چسپسی کا سامان لیے ہوئے اور معلومات سے آراستہ ہے۔ شمارے میں ’’جاگوجگاؤ‘‘ کے زیرعنوان حکیم محمد سعید شہید کی تحریر کے علاوہ ’’روزے کے آداب‘‘،’’سیکھنا اچھا ہے‘‘،’’امیر بنا بھکاری‘‘،’’جن دادا‘‘ ’’سینگوں والا لڑکا‘‘، ’’ہاریاجیت‘‘،’’آئیے مصوری سیکھیں‘‘،’’عالم بالا سے واپسی‘‘، ’’وہ کون تھی‘‘ اور ’’بلاعنوان انعامی کہانی‘‘ کے علاوہ مزید خوب صورت تحریریں اور نظمیں شامل ہیں۔ ہمدرد نونہال اسمبلی کی کارروائی بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ شمارے کا سرورق بہت خوب صورت ہے، جس پر ایک پیاری سی بچی ہاتھ میں گڑیا پکڑے کھڑی ہے اور پس منظر میں چاند اور پھول نظر آرہے ہیں۔

پروفیسر سید محمد نصیر کے مضامین
ترتیب وتدوین: ڈاکٹر سید جعفر احمد
ناشر: ارتقاء انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، کراچی
صفحات:395
قیمت:400روپے


زیرتبصرہ کتاب ممتاز ترقی پسند دانش ور اور ماہرتعلیم پروفیسر سید محمد نصیر کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر سید محمد نصیر کی دانش محض کتابوں ہی کی دین نہ تھی بل کہ انھوں نے زندگی کی گہماگہمی سے اپنے افکاروخیالات کو نکھارا اور سنوارا تھا۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور پھر زندگی بھر اس پیشے سے وابستہ رہ کر ذہنوں کی آبیاری کرتے رہے۔ بہ طور مدرس فرائض انجام دینے کے ساتھ وہ تہذیبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔

انھوں نے انگریزی اور اردو میں لاتعداد مضامین تحریر کیے، جنھیں ارتقاء انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز نے کتابی صورت میں شایع کیا ہے۔ کتاب کی تدوین وترتیب کا فریضہ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انجام دیا ہے۔ کتاب میں پروفیسر سید محمد نصیر پر ڈاکٹر جعفر احمد کا مضمون بھی شامل ہے۔ کتاب میں مضامین کو موضوعات کے اعتبار سے سیاست، معیشت، تعلیم اور ادب کے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاں تک مضامین کے مواد کا تعلق ہے، یہاں ڈاکٹر سید جعفر احمد کی رائے دینا مناسب ہوگا، وہ لکھتے ہیں،’’پروفیسر نصیر تمام عمر اشتراکی فکر سے متاثر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے انسانی سماج کے ارتقا کی تاریخ کو اشتراکی اصولوں، جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کے حوالوں سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ اشتراکیت سے جو بصیرت ان کو حاصل ہوئی وہ ان کی سب تحریروں میں دیکھی جاسکتی ہے، خواہ وہ ادب سے متعلق ہوں سیاست سے یا پھر ان کا تعلق عمرانیات، معاشیات اور تعلیم سے رہا ہو۔‘‘

مجموعہ رسائل افطار و توقیت
مرتب: سید علی کاظمی صابری
زیرنگرانی: سید محمد سعد کاظمی صابری
قیمت: 3 سوروپے
صفحات:192
ناشر: قاسم امین پرنٹر لاہور

’’اے ایمان والوں! تم پر(رمضان المبارک کے) روزے فرض قرار دیئے گئے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی مقرر کئے گئے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جائو‘‘۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں اتقاء اخلاص کی ساری منزلیں ایسے احسن طریقے سے طے ہوتی ہیں جس میں ریاء یا نفاق کا شائبہ تک نہیں رہتا، اسی لئے رمضان المبارک کو تمام مہینوں میں نہایت فضیلت حاصل ہے۔

حدیث قدسی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کی جزا ہوں‘‘ روزہ داروں کے لئے دنیاوی و اخروی زندگی میں جہاں بے پناہ انعامات کا ذکر کیا گیا وہاں اس فرض کی ادائیگی میں آداب کا بھی خاص خیال رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ عصر حاضر کے مسلمانوں میں مذہبی احکام کی پابندی کے متعلق جہاں اور بہت سی باتوں میں بے رخی اور بے اعتنائی برتی جاتی ہے وہاں بشری حوائج کا عمل دخل ہونے کے باعث ایک بہت بڑی بے احتیاطی روزہ کے افطار کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔

ہر کوئی اپنے نام یا کاروبار کی تشہیر کے لئے سحری و افطاری کے الگ الگ نقشے چھپوا کر تقسیم کرنے لگ جاتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سید علی کاظمی صابری نے مختلف علمائے کرام اور مشائخ عظام کے رسالہ جات کو مجموعہ کی صورت میں چھپوا کر بلاشبہ اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ مجموعہ میں سطحی جذبات یا کسی قسم کے مسلکی تعصب کے بجائے قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب غور و فکر کرکے وقتِ افطار کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے تاکہ عوام و خواص مسلم اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

جمیل الدین عالی
شخصیت و فن کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
مصنفہ: ڈاکٹر فہمیدہ عتیق
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان
صفحات: 424
قیمت:500 روپے

یہ کتاب ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر جمیل الدین عالی کے فن وشخصیت کے گوشوں کا احاطہ کرتا تحقیقی مقالہ ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر فہمیدہ عتیق اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انھوں نے اس مقالے میں بڑی جاں فشانی سے جمیل الدین عالی کے شخصی اور فنی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور اس تحقیقی وتنقیدی مطالعے میں عالی جی کی زندگی کے تمام گوشے سمودیے ہیں، اور مختلف عنوانات کے تحت جمیل الدین عالی کی پوری زندگی اور خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے،

جن میں ’’حیات وشخصیت‘‘، ’’عالی کی شاعری کا پس منظر‘‘،’’عالی کی شاعری کی ارتقائی منازل‘‘،’’عالی کی نثرنگاری‘‘،’’سماجی وعلمی خدمات‘‘ کے زیرعنوان باب شامل ہیں۔ محترمہ فہمیدہ عتیق نے یہ مقالہ بڑی محنت سے تحریر کیا ہے، جس میں جمیل الدین عالی کے خاندانی پس منظر سے لے کر ان کی زندگی کے اہم واقعات، وہ پس منظر جس میں ان کی شاعری پروان چڑھی، ان کے کلام اور نثر کا تنقیدی جائزہ اور بہ حیثیت دانش ور اور بیوروکریٹ جمیل الدین عالی کی ادبی وسماجی خدمات سمیت ان کی زندگی کا ہر گوشہ سمودیا گیا ہے۔
(تبصرہ نگار: کتاب دوست)

پاکستانی کرکٹرز جو غیر ملکی حسینائوں کی زلفوں کے اسیر ہوئے

$
0
0

کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے کہ جس کا نام سنتے ہی ذہن میں بیرونِ ملک دوروں، تماشائیوں سے بھرے گرائونڈ، لگژری لائف اسٹائل اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے شمار مداحین کا تصور ابھرتا ہے،اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔

وہ تمام کرکٹرز جو بیٹنگ،بائولنگ یا فیلڈنگ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں اور کھیل کے وقا ر کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اپنے شعبے میں محنت کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ صرف اور صرف کھیل اوراپنے ملک و قوم کی سربلندی کیلئے کھیلتے ہیں، تو نہ صرف ان کی اپنی قوم ان کو بطور ہیرو عزت و احترام بخشتی ہے بلکہ غیر اقوام میں بھی ان کو بے حد پذیرائی نصیب ہوتی ہے۔ اندرون و بیرونِ ملک ان کے لا تعداد مداحین ان کی ایک جھلک دیکھنے اور آٹو گراف لینے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ ان مداحین میں بچے،بڑے بوڑھے اور نوجوان مرد و خواتین غرضیکہ ہر رنگ ونسل کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ کھلاڑی اندرون اور بیرونِ ملک بے شمار پروگراموں، پارٹیوں،ٹی وی شوز میں مدعو کئے جاتے ہیں جہاں لامحالہ ان کی ملاقات اپنے مداحین سے بھی ہوتی ہے جن میں ہر عمر اور ہر رنگ و نسل کے مردو زن شامل ہوتے ہیں۔آج کل کی خواتین خاص طور پر کرکٹ کی بہت شیدائی ہیں اور پھر اگر ان کی ملاقات بالمشافہ اپنے پسندیدہ کرکٹر سے ہو جائے تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے اور اگر کوئی صنفِ نازک کسی کرکٹر کے دل کو بھا جائے تو پھر کیا ہوتا ہے…ہاں جی پھر وہی ہوتا ہے کہ جو عمران خان اور جمائمہ،محسن خان اور رینا رائے،شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کے ساتھ ہوا یعنی شادی خانہ آبادی ۔ اب اس صف میں پاکستان کے مایہ ناز سابقہ کھلاڑی اور سوئینگ کے سلطان وسیم اکرم بھی شامل ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں سپر سٹار کرکٹرز میں سے جو کھلاڑی بھی ریٹائر ہوتا ہے وہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے غیر ملکیوں کے ساتھ دوستی بڑھا لیتا ہے اور ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی ہوتی ہے کیونکہ دور جدید میں ریٹائرڈ کرکٹرز کی آمدنی کا زیادہ تر انحصارکمنٹری اور کوچنگ پر ہی ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی کرکٹر قومی ٹیم میں کھیلنے کے ساتھ ساتھ کائونٹی کرکٹ کھیلتے تھے اور وہاں کئی کئی مہینے قیام کرنے کے دوران ان کی دوستیوں کے کئی قصے مشہور ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض ایک قدم آگے بڑھ کر غیر ملکی دوشیزائوں سے رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوجاتے تھے۔ ایسے ہیروز کی کئی ایک مثالیں ہیں جن میں سرفہرست اس وقت کے اوپنر اور سابقہ قومی سلیکشن کے رکن محمد الیاس کی ہے جنہوں نے انگلینڈ میں شادی کی جس کے بعد یونس احمد، وسیم حسن راجہ، ثقلین مشتاق، عمران خان اور یاسر عرفات بھی غیر ملکی حسینائوں کی زلفوں کے اسیر ہونے کے بعد شادی کے بندھن میں بندھے۔ ان کے علاوہ ایشین بریڈ مین ظہیر عباس، سابق ڈیشنگ اوپنر محسن خان اور آل رائونڈر شعیب ملک نے بھارتی حسینائوں سے شادیاں کیں۔ مدثر نذر نے بھی آسٹریلوی خاتون سے شادی کی جبکہ وسیم اکرم کے بائولنگ پارٹنر وقار یونس نے بھی پاکستانی نژاد آسٹریلوی لڑکی سے شادی کی۔ بعض اوقات ان مایہ ناز کھلاڑیوں کو اپنی پسند کے حصول کی خاطر خاصے مشکل حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں طنز،طعن و تشنیع اور تنقید کا سامنا کر کے ہی منزل مقصود تک رسائی حاصل ہوئی جس کی سب سے بڑی مثال شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی ہے کہ جن کو شادی کے بندھن میں بندھنے سے قبل کئی اسکینڈلز اور میڈیا ٹرائلز کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات یہ شادیاں ناکامی یا طلاق پر بھی منتج ہوئیں۔

برصغیر کے میگا اسٹارز شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی سے متعلق خبروں نے پاکستان اور بھارت میں ہلچل مچادی تھی۔ پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اور بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا 12 اپریل 2010ء کو حیدرآباد دکن کے تاج کرشنا ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے تھے۔ جوبلی ہلز کے قاضی نے دونوں کا نکاح پڑھایا، جس میں ثانیہ مرزا کاحق مہر 61 لاکھ روپے مقرر کیا گیا تھا۔ نکاح میں دولہا اوردلہن کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں نے شرکت کی تھی جبکہ ولیمے کی تقریب جمعرات 15 اپریل کو تاج کرشنا ہوٹل میں ہی منعقد کی گئی، جس میں مہمانوں کی تواضع 23 پکوانوں سے کی گئی تھی۔ اسی طرح ایک پاکستانی نژاد جنوبی افریقہ کے شہری عمران طاہر نے پاکستان کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہ ملنے پر جنوبی افریقہ میں ایک بھارتی نژاد خاتون سے شادی رچالی تھی۔ عمران طاہر کی جنوبی افریقہ میں سیٹل ہونے کی داستان بہت دلچسپ ہے۔ جنوری 1998ء میں انڈر 19 ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے انہیں جنوبی افریقہ جانے کا موقع ملا۔ وہاں ان کی ملاقات سمیعہ دلدار نامی بھارتی نژاد نوجوان خاتون سے ہوئی، ان کی دوستی کچھ ہی عرصہ بعد محبت میں بدل گئی۔

عمران طاہر ورلڈ کپ کے بعد واپس پاکستان تو آگئے لیکن ان کا دل جنوبی افریقہ ہی میں اٹک گیا۔ 8 سال بعد 2006ء میں انہیں اپنے دوست کے توسط ایک بار پھر جنوبی افریقہ جانے کاموقع ملا اور وہاں انہوں نے سمیعہ دلدار سے شادی کرلی اور پھر ایک مقامی کرکٹ کلب ٹائٹنز کی جانب سے کرکٹ کھیلنے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے مستقل طور پر جنوبی افریقہ منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ بعدازاں عمران طاہر جنوبی افریقہ کی شہریت ملنے کے بعد وہاں کی قومی کرکٹ میں شمولیت کے اہل بن گئے۔ لاہور میں پیدا ہونے والے لیگ بریک بالر عمران طاہر نے 90ء کی دہائی میں پاکستان میں جونیئر لیول سے کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ یاد رہے کہ غیرملکی خواتین کو جیون ساتھی بنانے والے قومی کرکٹ ٹیم کے 3 سابق کھلاڑیوں کی شادیاں ناکام ہوگئی تھیں۔

لیجنڈ سٹارعمران خان نے 16 مئی 1995ء کو ایک معروف برطانوی بزنس مین گولڈ اسمتھ کی بیٹی جمائمہ گولڈ اسمتھ سے پسند کی شادی کی تھی۔ ان کی ازدواجی زندگی محض 9 برس تک قائم رہی۔ جمائمہ سے عمران خان کے دو صاحبزادے سلیمان اور قاسم ہیں۔ واضح رہے کہ عمران خان اور جمائمہ کی شادی 22 جون 2004ء کو ختم ہوگئی تھی۔ اسی طرح لارڈز کے میدان میں سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی کرکٹر محسن خان نے 80ء کی دہائی میں بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی کی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ محسن حسن خان اور رینا رائے کی ایک بیٹی بھی ہے جس کا نام محسن خان نے جنت رکھا تھا ۔ تاہم محسن خان سے علیحدگی کے بعد رینا رائے نے بیٹی کا نام تبدیل کرکے صنم رکھ دیا تھا۔ صنم اب اپنی والدہ کے ساتھ بھارت میں رہتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سابق کرکٹر تسلیم عارف نے ایک آسٹریلوی خاتون سے شادی کی تھی ، لیکن یہ شادی بھی نہ چل سکی اور ان کی علیحدگی پر منتج ہوئی۔

وسیم اکرم بھی اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پر

پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کی غیر ملکی خواتین سے شادی کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم اس فہرست میں تازہ اضافہ سابق فاسٹ بالر ئوسیم اکرم کا ہوا ہے۔ جنہوں نے آسٹریلیا کی ایک غیر معروف خاتون سے شادی کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان کرکٹ کے 5 قومی کھلاڑی غیر ملکی خواتین سے شادی کرچکے ہیں، جن میں سابق مایہ ناز کپتان عمران خان، ممتاز بیٹسمین محسن حسن خان، تسلیم عارف، آل رائونڈر شعیب ملک اور پاکستانی نژاد جنوبی افریقی اسپنر عمران طاہر شامل ہیں۔

پاکستان کے لیجنڈ فاسٹ فائولر وسیم اکرم بھی اپنے پیش رو لیجنڈ کھلاڑیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک غیر ملکی حسینہ کے ساتھ شادی کے بندھن میں منسلک ہورہے ہیں۔ اس خبر کو کرکٹ کی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص بڑی دلچسپی سے سنا اور پڑھا گیا۔ عام طورپر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی کرکٹر کسی غیر ملکی خاتون کو اپنا ہم سفر بنانے کا عندیہ دیتا ہے تو سب سے پہلے اسے اندرونِ ملک اور خاص طور پر خواتین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے نامور کرکٹرز کی غیر ملکی خواتین سے شادی پر شائقین کرکٹ خفا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح وسیم اکرم کی آسٹریلوی خاتون سے شادی کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل نیٹ ورک سائٹس پر ملک بھر سے کرکٹ شائقین یہ شکایت کرتے نظر آرہے ہیں کہ کیا پاکستان میںلڑکیوں کی کمی ہے جو وسیم اکرم نے ایک آسٹریلوی خاتون کو پرپوز کیا ہے تاہم وسیم اور ان کی پسند شنیرا تھامپسن تو اس بندھن سے بہت خوش ہیں جبکہ اس شادی پر پاکستان کے کرکٹ شائقین اور وسیم اکرم کے فین بھی بہت مسرور ہیں۔ 47 سالہ وسیم اکرم نے پہلی شادی 1995ء میں ہما وسیم سے کی تھی، جن سے وسیم اکرم کے دو صاحبزادے تیمور اور اکبر ہیں۔ ہما اور وسیم کی 15 سالہ رفاقت اکتوبر 2009ء میں چنائے کے ایک ہسپتال میں اس وقت اختتام پذیر ہوگئی تھی کہ جب ہما وہاںانتقال کرگئیں۔ دو بیٹوں کے والد وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ کہ انہوں نے اپنی زندگی اپنے بیٹوں کے لیے وقف کردی تھی مگر شنیرا سے ملنے کے بعد انہوں نے دوسری شادی کا فیصلہ کرلیا ہے۔

شنید ہے کہ میلبورن سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ شنیرا تھامپسن جلد ہی وسیم اکرم کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گی۔ وسیم اکرم کی شنیرا سے پہلی ملاقات ملبورن میں 2011ء میں ہوئی تھی۔ حال ہی میں وسیم نے انہیں بذات خود شادی کی پیشکش کی تھی۔آسٹریلیا کے اخبار ہیرالڈسن کے مطابق’’ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم 30 سالہ آسٹریلوی خاتون کی محبت میں گرفتار ہو گئے ہیں اور جلد شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے‘‘۔ وسیم اکرم نے ملبورن کی رہائشی شنیرا تھامپسن نامی خاتون سے اپنی محبت اور شادی کی خواہش کا اظہارکیا جسے انہوں نے قبول کر لیا، شنیرا تھامپسن کا کہنا ہے کہ ’’وسیم اکرم نے ان سے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انتہائی رومانوی انداز میں شادی کی خواہش کا اظہار کیا مگر انھوں نے اپنے والد کی اجازت کی شرط رکھی جس پر وسیم اکرم نے ان کے والد سے بات کی جنہوں نے اس رشتے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا‘‘ ۔

وسیم اکرم کے مطابق وہ دونوںآئندہ سال یعنی 2014ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں گے۔ شنیرا تھامپسن نے وسیم اکرم سے شادی کے لیے اسلام بھی قبول کر لیا ہے اور وہ شادی کے بعد پاکستان میں رہیں گی۔ وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سے شادی کریں گے تاہم وہ دوبارہ محبت میں مبتلا ہونے پر کافی خوش ہیں۔ شنیرا تھامپسن میلبورن میں ہی بطور پبلک ریلیشننگ آفیسر کام کرتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل وسیم اکرم اور سابق بھارتی حسینہ عالم اور بولی وڈ کی صفِ اول کی اداکارہ سشمیتا سین کے معاشقے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں اور یہ خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں کہ وسیم اکرم اور سشمیتا سین جلد ہی شادی رچا لیں گے۔مگر یہ خبریں افواہوں کی طرح دم توڑ گئیں۔ وسیم اکرم نے کبھی اپنی اور سشمیتا کی شادی کے حوالے سے کسی خبر کی تصدیق نہیں کی مگر اب وسیم اکرم نے اقرار کیا ہے کہ وہ آسٹریلوی حسینہ شنیرا تھامپسن سے محبت کرتے ہیں اور آئندہ برس ان سے بیاہ رچا لیں گے۔

حُسن اور حیا کا رنگ

$
0
0

حیا کی پاس داری کرتا عبایا ہمارے مذہی شعائر ہی میں شامل نہیں ہماری ثقافت کا ایک خوب صورت حصہ بھی بن چکا ہے۔

عبایا دل کش تراش خراش کے ساتھ، دیدہ زیب ڈیزائنوں میں اور مختلف رنگوں میں دست یاب ہیں، یوں خواتین کی خوش لباسی کی فطری خواہش اور منفرد دکھائی دینے کی چاہ بھی پوری ہوجاتی ہے اور حجاب کے تقاضے بھی نبھائے جاتے ہیں۔ عبایا کے منفرد ڈیزائن اور الگ الگ رنگ شخصیت کو دل کشی کے ساتھ انفرادیت بھی عطا کرتے ہیں۔

اسکی انگ، برف زاروں کا کھیل

$
0
0

 دنیا کے برف پوش پہاڑی سلسلوں اور غیرہموار میدانی نوعیت کے علاقوں میں اسکی انگ کا شوق صدیوں پرانا ہے۔

اسکی انگ کے کھلاڑی اپنے مختلف رنگوں سے بھرپور گرم لباس زیب تن کیے اور جوتوں میں نصب سیلرور (اسکینر) کے ساتھ چھڑیوں (اسکی پولز) کی مدد سے اپنے توازن کو خوب صورتی سے برقرار رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور طویل ترین برفانی اونچے نیچے علاقوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے اور تیز رفتاری سے اپنی بے پناہ مہارت، چابک دستی اور قدموں کے عمدہ طریقے سے استعمال کے ساتھ شائقین کو محظوظ کرتے ہیں اور ساتھ ہی خود بھی اس برفانی کھیل کا لطف اٹھاتے ہیں۔

اسکی انگ کا کھیل زمانۂ قدیم سے کھیلا جارہا ہے۔ یورپ کے شمالی علاقوں میں اس کے آثار نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ شمالی یورپ کے ملک ناروے کے روڈ وے جزیرے پر غار کی چٹانوں کی دیوار پر چار ہزار سال پرانے اسکی انگ کے تصویری خاکے موجود ہیں اور ناروے کے پڑوسی ملک سوئیڈن کے جغرافیہ دانوں کے حاصل کردہ قدیم اسکی انگ کے تصویری خاکوں کے ٹکڑے بھی تقریباً چار ہزار سال پرانے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ روس کے شمالی حصے میں موجود غار کی دیواروں پر بھی اسکی انگ کے مخصوص انداز لیے ہوئے تصویری خاکے دنیا میں اسکی انگ کے کھلاڑیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ تصویری خاکے بھی صدیوں پرانے ہیں۔

اسکی انگ جو سرمائی کھیلوں میں ’’کھیلوں کے شہنشاہ‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ اور عالمی کپ کے مقابلوں میں مقبولیت میں سب سے بلندی پر نظر آتا ہے۔ برفانی کھیلوں کے وہ مقابلے جن کو دیکھنے کے لیے شائقین کی تعداد دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اسکی انگ ہی ہے۔ اسکی انگ کی عالمی فیڈریشن (ایف آئی ایس) کے مطابق اس وقت دنیا میں اسکی انگ کے باقاعدہ کھلاڑیوں کی تعداد چھے کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان کھلاڑیوں کی بڑی تعداد شمالی یورپ اور شمالی امریکا کے ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔

سرمائی اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ اور عالمی کپ مقابلوں میں شمالی یورپ نے اپنی برتری کو قائم رکھا ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا بھی کام یابیوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔

1924میں جب پہلے سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہوا تو اسکی انگ بھی ان کھیلوں میں شامل تھا۔ جب سے یہ تمام اولمپکس میں کھیلوں کا باقاعدہ رکن ہے۔ تاریخ کے حوالے سے اسکی انگ بطور ایک کھیل آج سے158سال پہلے شمار یورپ کے ملک ناروے کے شہر کرسٹانا (جسے آج ہم اوسلو کے نام سے جانتے ہیں) میں کھیلا گیا تھا۔ یہ شہر اس زمانے میں ایک قصبہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں ایک ریس منعقد ہوئی تھی جس میں مقامی اسکی انگ کے شائقین کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا۔ یہ اسکی انگ کے کھیل کا عالمی کھیلوں کی دنیا میں باقاعدہ شروع ہوا جو ناروے کے پڑوسی ممالک سوئیڈن اور فن لینڈ تک جا پہنچا۔ شمالی یورپ میں برفانی علاقے عموماً میدانی اور غیر ہموار نوعیت کے ہیں۔ اس لیے مقابلوں کی صورت بھی کراس کنٹری کی رہی۔ اسکی انگ کی مقبولیت کی یہ ہوا یورپ کے ان ممالک تک بھی پہنچی جو برفانی پہاڑی علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ زمانہ 1870کا تھا۔ یورپ میں اسکی انگ کی مقبولیت کے پیش نظر اس کھیل کی باقاعدہ تنظیموں کی موجودگی عمل میں آنا شروع ہوگئی۔

سال 1924کا آغاز دنیا میں سرمائی کھیلوں کے شائقین اور کھلاڑیوں کے لیے خاصا خوش آیندہ ثابت ہوا، کیوںکہ اسی سال پہلے سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہوا اور یہی سال اسکی انگ کی عالمی فیڈریشن (ایف آئی ایس) کا سال بھی بنا جب انٹرنیشنل اسکی انگ کمیشن کو انٹرنیشنل اسکی انگ فیڈریشن میں تبدیل کردیا گیا اور یہ تنظیم باقاعدہ عالمی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی رکن بن گئی۔ جب سے اسکی انگ فیڈریشن نے اس کھیل کو مقبول اور منظم کرنے کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں اسکی انگ ایشیا میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی۔ اس کا ثبوت 1972میں جاپان کے شہر ساپارو میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد تھا۔ عالمی اسکی فیڈریشن کے رکن ممالک کی تعداد113ہے۔ پاکستان میں اسکی انگ کو منظم ومقبول بنانے میں پاکستان ایئرفورس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک فضائیہ کی کوششوں سے1990میں اسکی فیڈریشن آف پاکستان قائم کی گئی۔ اس فیڈریشن کے قیام کے بعد پاکستان کے شمالی برفانی علاقوں میں اسکی انگ کے کھیل کی باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اسکی فیڈریشن آف پاکستان نے اب تک پندرہ قومی اسکی انگ چیمپئن شپ کا انعقاد کیا ہے۔ ان میں سے آٹھ پاکستانی ایئرفورس نے اور پانچ پاکستان آرمی نے جیتی ہیں۔ پاکستانی اسکی انگ کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں بھی ملک کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان میں تیسری اور چوتھی ایشیائی اسکی انگ چیمپئن جو بالترتیب چین1996اور کوریا1999میں قومی کھلاڑیوں نے شرکت کی ہے۔ اس کے بعد ایران میں بچوں کی چیمپئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ مورو (جاپان) میں بچوں کی الپائن اسکی انگ چیمپئن شپ میں امر حبیب نے شرکت کی۔

پاکستان کے اسکی انگ کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت جاری ہے۔ اکیسویں سرمائی اولمپکس کے اسکی انگ مقابلوں میں، جو 2010 میں کینیڈا کے برفانی شہر وینکو ور میں منعقد ہوئے، پاکستان نے بھی شرکت کی۔ جب محمد عباس نے الپائن اسکی انگ کے ایونٹ سلالم میں حصہ لیا اور 103کھلاڑیوں میں79ویں نمبر پر رہے۔ اس طرح محمد عباس پاکستان کے پہلے کھلاڑی بن گئے جنہوں نے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس بار بھی پاکستان نے آیندہ سال روس کے برفانی شہر سوچی میں ہونے والے بائیسویں سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے تین کھلاڑیوں میر نواز، محمد کریم اور محمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں میر نواز نے لبنان میں ہونے والی عالمی اسکی انگ فیڈریشن کی ٹرائلز چیمپئن شپ میں سلور میڈل بھی حاصل کیا۔ میر نواز نے یہ اعزاز سلالم ایونٹ میں حاصل کیا ہے۔ سوچی اولمپکس کے لیے ان تینوں کھلاڑیوں میں سے ایک کھلاڑی (ٹرائلز چیمپئن شپ جنوری2014تک جاری رہیںگی) کے بعد مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیاجائے گا۔

اسکی انگ دو بنیادی اقسام نارڈک اسکی انگ اور الپائن اسکی انگ کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ اسکی انگ کی دیگر اقسام میں فری اسٹائل اسکی انگ، اسپیڈ اسکی انگ اور اسنوبورڈنگ شامل ہیں۔ نارڈک اسکی انگ کا تعلق شمالی یورپ سے ہے جہاں سے فن لینڈ، ناروے اور سوئیڈن کے کھلاڑیوں نے نارڈک اسکی انگ میں نمایاں ترین کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک اور شمالی امریکا بھی اس قسم کے مقابلوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے قسم الپائن اسکی انگ میں ہم مشرقی ومغربی اور جنوبی یورپ کے علاوہ شمالی امریکا کو بھی بڑی کام یابیوں کی فہرست میں اوپر دیکھتے ہیں۔ ایشیا سے جاپان اور اب چین الپائن اسکی انگ میں قابل ذکر کام یابیاں حاصل کررہے ہیں۔ نارڈک اسکی انگ کے مقابلے ہموار اور غیرہموار اور اونچے برفانی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ اس میں کراس کنٹری کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں۔ جب کہ الپائن اسکی انگ میں برفانی علاقہ، پہاڑی اور اونچائی کے ساتھ مقابلے کے لیے ضروری ہوتا ہے، 1936سے اسکی انگ کے مقابلوں میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسکی انگ کے مقابلوں میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت اور طریقہ ٔکار اولمپکس، عالمی چیمپئن شپ وعالمی کپ اور دیگر قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں ایک ہی ہیں۔ یہ قوانین اور ضابطے عالمی اسکی انگ فیڈریشن نے ترتیب دیے ہیں جن میں یہ تنظیم ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرتی ہے۔ ان قوانین کے تحت خاص طور پر نارڈک اسکی انگ کے مقابلوں میں موسم کا قطعی موزوں ہونا، درجۂ حرارت کا قوانین کے مطابق معیاری ہونا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلوں کے لیے برف باری کا موسم منتخب کیا جاتا ہے۔

نارڈک اسکی انگ تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں کراس کنٹری، اسکی جمپنگ اور نارڈک کمبائنڈ کے مقابلے ہوتے ہیں۔

کراس کنٹری:۔

نارڈک اسکی انگ میں کراس کنٹری میں مختلف فاصلوں اور انداز کے مقابلے ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں مرد کھلاڑیوں کے لیے اسپرنٹ انفرادی اور ٹیم (دو کھلاڑی) مقابلے،50کلو میٹرز ماس اسٹارٹ، 15کلو میٹرز انفرادی اور 4×10کلو میٹرز ریلے مقابلے (چار کھلاڑیوں کی ٹیم) اور 15کلو میٹرز کا پروسیٹ مقابلہ شامل ہے، جب کہ خواتین کے لیے بھی اسی ترتیب میں فاصلوں کو کم کرتے ہوئے30کلو میٹرز ماس اسٹارٹ، 10کلو میٹرز انفرادی، 4×5کلو میٹرز ریلے اور 5ء7کلو میٹرز پروسیٹ کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

کراس کنٹری کے تمام مقابلوں میں کھلاڑی کو ایک خاص فاصلہ طے کرنا ہوتاہے، اس لیے اس کو استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ مقابلے طبعی حالات میں جن کا ایک کھلاڑی کو برف باری کے دوران مقابلہ کرنا ہوتا ہے اپنی فنی صلاحیت کے مطابق توانائی کو محفوظ رکھنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ مقابلوں کے دوران کھلاڑیوں کو مطلوبہ فاصلے میں ایک تہائی حصہ جو کسی قدر اونچا ہوتا ہے طے کرنا ہوتا ہے، جو نو سے اٹھارہ فی صد نیچے ہوتا چلاجاتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کا ایک تہائی حصہ اونچائی سے نشیب کی طرف ہوتا ہے اور اتنا ہی فاصلہ ہموار سطح میں ہوتا ہے۔1985تک مقابلے کے لیے کلاسیکی طریقۂ کار استعمال کیا جاتا تھا، جس میں ایک کھلاڑی فاصلہ طے کرنے کے دوران خاصا وقت لیتا تھا۔ لیکن موجودہ وقت میں کھلاڑی بہت پھرتی کے ساتھ مطلوبہ فاصلہ طے کرتے ہیں، جو اصطلاحاً فری تیکنیک کہلاتا ہے۔ کراس کنٹری کے طویل فاصلوں کے مقابلے کلاسیکل تیکنیک کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔

کراس کا مقابلہ عموماً 2ریسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ریسیں 2روز میں مکمل ہوتی ہیں۔ پہلی ریس کا دورانیہ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ مقابلے میں ایک کھلاڑی کے مقابلے کے آغاز کرنے کے بعد باقی کھلاڑیوں کے درمیان30سیکنڈ کا وقفہ لازمی ہے۔ پہلی ریس کلاسیکل تیکنیک میں بہتر وقت کے ساتھ مکمل کرنے والا کھلاڑی فاتح قرار دیاجاتا ہے، جب کہ اگلے روز کھلاڑی دوسری ریس میں اپنی پہلی ریس کے دورانیہ کا پابند نہیں ہوتا وہ آزادانہ طور پر ریس میں شریک ہوتا ہے مقابلے کا فاتح دونوں ریسوں میں بہترین وقت کے ساتھ فاصلہ طے کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔

اسکی جمپنگ:۔

نارڈک اسکی انگ کا دوسرا حصہ اسکی جمپنگ ہے۔ اسکی جمپنگ اسکی انگ کے تمام ایونٹس میں مقبول ترین کھیل ہے۔ شائقین کے لیے اس حصے میں خاص دل چسپی دیکھی جاتی ہے۔ اسکی جمپنگ کے بین الاقوامی مقابلوں میں اب تین ایونٹس نارمل ہل، لارج ہل، اور نارڈک کمبائنڈ شامل ہیں۔ نارمل ہل 90میٹرز اور لارج ہل 120میٹرز اونچائی کے مقابلے ہوتے ہیں۔

اسکی جمپنگ میں ایک طرف تو کھلاڑی جمپ پر کودنے سے پہلے مخصوص ٹریک پر جو فاصلہ طے کرتا ہے مقابلے میں موجود منصف اس کو دیکھتے ہیں جب کہ دوسری کھلاڑی کو دیا گیا مخصوص کودنے کا اسٹائل بھی  مقابلے کے فیصلے کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ جمپنگ کے لیے مکمل فنی صلاحیت، قوت اور دیے گئے دورانیے کے مطابق رفتار کا صحیح استعمال کام یاب جست لگانے میں مدد دیتے ہیں۔ کھلاڑی کی جمپ اسٹینڈ سے لگائی گئی انتہائی جست کو انگریزی کے حروف ’’کے‘‘ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایسا کھلاڑی سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرتا ہے۔ پانچ جج مقابلے کے منصف ہوتے ہیں۔ ٹیم مقابلوں میں چار کھلاڑیوں کی ٹیم اپنے ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔

نارڈک کمبائنڈ:۔

نارڈک کمبائنڈ اسکی انگ کا تیسرا حصہ نارڈک کمبائنڈ ایک روایتی ایونٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایونٹ کراس کنٹری اسکی انگ اور جمپ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نارڈک کمبائنڈ کے کھلاڑی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمہ جہد صلاحیتوں کا مالک ہو، نارڈک کمبائنڈ میں کھلاڑی کی طرف سے’’کراس کنٹری‘‘ اور ’’اسکی جمپ‘‘ کا مشترکہ مظاہرہ اس کی آل رائونڈ کارکردگی اور بہترین پوائنٹس کے حصول میں اس کو کام یابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ نارڈک کمبائنڈ کے مقابلے تقریباً24گھنٹے تک جاری رہتے ہیں۔ خواتین اسکیٹرز پہلی بار 2014کے سوچی سرمائی اولمپکس میں جمپنگ کرتی نظر آئیں گی۔ نارڈک مقابلے انفرادی اور ٹیم کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ایک ٹیم چار کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

اسکی انگ کی دوسری بنیادی قسم الپائن اسکی انگ کہلاتی ہے۔ الپائن اسکی انگ پانچ حصوں (ایونٹس) پر مشتمل ہے جو ڈائون ہل، سلالم، جائنٹ سلالم، سپر جائنٹ سلالم اور سپر کمبائنڈ کہلاتے ہیں۔ ان تمام ایونٹس میں مرد اور خواتین دونوں کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

ڈائون ہل:۔

ڈائون ہل کے مقابلے پچاس کلو میٹرز نارڈک کراس کنٹری کی طرز پر ہوتے ہیں۔ یہ ایونٹ ’’الپائن کوئن ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ڈائون ہل کے کورس کو سرخ رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ جن کے درمیان آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ اس ایونٹ میں ایک کھلاڑی ڈیڑھ سو کلو میٹرک فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے ڈھلوان سطح پر نیچے تیکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور توجہ بلاکا اسٹیمنا اور موقع کی مناسبت سے اپنے وجود کو ٹانگوں پر اسکینر کے ذریعے گھمانے کی کام یاب مشق کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ مردوں کے لیے آٹھ سو سے ایک ہزار میٹرز ڈھلان اور ایک منٹ30سیکنڈ سے لیکر دو منٹ تک کا دورانیہ درکار ہوتا ہے۔ ڈائون ہل مقابلے کے لیے منتخب کیے جانے والے راستے میں آنے والے ’’جرکس‘‘ زیادہ سخت اور خشک نہیں ہونا چاہیے۔ دھکے جو خاص طورپر مقابلے میں کھلاڑیوں کو عبور کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان جرکس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کسی جگہ سے کریک نہ ہوں۔ ایسی صورت میں کھلاڑی کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ڈائون ہل کے راستے میں ڈھلان تیز موڑ اٹھے ہوئے نہیں ہوتے ہیں، خاص طور پر جہاں کھلاڑی کی رفتار تیز ہوتی ہے، تنگ راستے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ یہ راستے کے مطابق زیادہ چوڑے بنائے جاتے ہیں۔ راستوں میں باہر کی جانب اضافی جگہ چھوڑی جاتی ہے جو ’’فال زون‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ راستے چوڑائی میں30میٹرز ہونا ضروری ہیں۔ مقابلوں کا انسپکٹر مقابلے کے لیے بنائے جانے والے راستوں کی چوڑائی کو اگر مناسب سمجھتا ہے تو کم یا زیادہ کرواسکتا ہے، جب کہ انسپکٹر کی تصدیق حتمی ہوتی ہے۔

سلالم:۔

الپائن اسکی انگ کا دوسرا ایونٹ سلالم ہے۔ سلالم کے مقابلے کے لیے بنائے جانے والے ٹریک پر چھڑیوں کی مدد سے قطار میں گیٹس بنائے جاتے ہیں جن کے اوپر کے حصے میں نشانی کے طور پر سرخ جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ گیٹس آپس میں ایک دوسرے سے خاص فاصلے پر بنائے جاتے ہیں۔

سلالم مقابلے میں ایک کھلاڑی (اسکیٹر) کو اپنی بے پناہ تیکنیکی قابلیت اور مہارت کا ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنا وجود پھرتی کے ساتھ ایک ٹانگ سے دوسری ٹانگ پر منتقل کرتا ہے۔ کھلاڑی اپنی مہارت کو کام میں لاتے ہوئے ان گیٹس کو زگ زیگ کی شکل میں عبور کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ راستے کی تیزی سے بدلتی ہوئی سمتیں کھلاڑی کی تیکنیکی صلاحیت کا امتحان ہوتی ہیں، کیوںکہ سلالم ٹریک کی بناوٹ کے مطابق اس کی سمت کسی قدر ڈھلان سطح میں ہوتی ہے۔ یہ سمت جیسے جیسے کھلاڑی آگے کی طرف بڑھتا ہے اس میں تبدیلی آتی چلی جاتی ہے۔ ایک سلالم کا مقابلہ دو رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ دو رائونڈز دو مختلف راستوں (ٹریکس) میں ہوتے ہیں۔ مقابلے کا فیصلہ ان دونوں رائونڈ میں طے کردہ فاصلے کے دونوں دورانیوں کو آپس میں جمع کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے140سے200ڈھلان اور 35سے75گیٹس اور خواتین اسکیٹرز کے لیے 120سے180ڈھلان اور 45سے60گیٹس درکار ہوتے ہیں۔

جائنٹ سلالم:۔

مقابلوں کے لیے تیار کیے جانے والے کورس (علاقے) کو پوری طرح استعمال کرنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس کورس کو سرخ اور نیلے رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ ان گیٹس کے درمیان چار سے آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھا جاتا ہے اور ان کے درمیان تقریباً دس میٹرز کی اضافی جگہ بھی چھوڑی جاتی ہے۔ جائنٹ سلالم کا ایونٹ ایک روز میں دور ریس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ دونوں ریس دو مختلف کورس میں ہوتی ہیں۔ مقابلے میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ مقابلوں سے پہلے اگر چاہیں تو کورس کا معائنہ کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ اس کورس کو مقابلے سے قبل استعمال نہیں کرسکتے۔ مقابلے کے آغاز کے لیے ہر کھلاڑی کو ایک منٹ اور 30سیکنڈ کا وقت دیا جاتا ہے۔ مقابلے کے دوران اگر کھلاڑی کو اس سے باہر نکال دیا جائے یا وہ گیٹس سے نہ گزر پائے ایسی صورت میں وہ مقابلے سے خارج بھی ہوسکتا ہے، لیکن فوراً ہی کورس میں آجانے کی صورت میں وہ مقابلے میں رہتا ہے۔ مقابلے کا فاتح وہ کھلاڑی ہوتا ہے جو دونوں ریسوں میں بہترین وقت کے ساتھ مقابلہ ختم کرتا ہے۔ جائنٹ سلالم کے لیے بنائے جانے والے موڑ سمجھ کے مطابق چھوٹے بڑے کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ اس ایونٹ میں کھلاڑی کو یہ اجازت بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مقابلے کے لیے کورس(علاقے) کا انتخاب کرے جو مختلف گیٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جائنٹ سلالم میں ایک کھلاڑی کو اپنی تیز ترین رفتار کے ساتھ طویل اور مختصر موڑوں کو خوب صورتی سے کاٹنے کی صلاحیت کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے۔

سُپرجائنٹ سلالم:۔

الپائن اسکی انگ کا چوتھا ایونٹ سپرجائنٹ سلالم ہے جو ’’سپرجی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ سپر جی کو جدید اسکی انگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ 1988کے کالگری سرمائی اولمپکس میں کھیلوں کا حصہ بنا۔ سپرجائنٹ سلالم کو ڈائون ہل اور جائنٹ سلالم کی درمیانی شکل کہا جاسکتا ہے۔ سپر جائنٹ کورس کی بناوٹ ڈائون ہل کے مقابلے میں قدر عمودی ہوتی ہے۔ سپر جی مقابلوں میں کھلاڑیوں (اسکیٹرز) کے لیے پہلے کورس کا خاکہ مقابلے کے دوران رفتار کے مختلف علاقوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس ایونٹ میں گیٹس کی تعداد جائنٹ سلالم کے برابر ہوتی ہے۔ سرخ اور نیلی جھنڈیوں کے فرق سے یہ گیٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ دونوں رنگ کے جھنڈیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ سپر جائنٹ مقابلہ صرف ایک ریس میں ہوتا ہے۔ ریس کا آغاز ڈائون ہل ریس کی طرز پر ہوتا ہے۔

سپر کمبائنڈ:۔

سپر کمبائنڈ مقابلہ ڈائون ہل اور سپر جی ایونٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی ایک اسکیٹر (کھلاڑی) ان دونوں ایونٹس یکے بعد دیگرے حصہ لیتا ہے۔ سپر کمبائنڈ کے مقابلے 2 روز میں مکمل ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں کا آغاز ڈائون ہل سے ہوتاہے۔ یہاں ڈائون ہل کے مقابلے سادہ ڈائون ہل سے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً مقابلہ 150میٹرز اونچائی سے نیچے کی سمت شروع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کورس سے متعلق دیگر ضابطے سادہ ڈائون ہل کی طرز پر ہی ہوتے ہیں۔ ریس کے لیے پندرہ بہترین اسکیٹرز کا انتخاب کیا جاتا ہے جو عالمی اسکی فیڈریشن کی ریکنگ کے مطابق مقابلہ شروع کرتے ہیں۔ سپر جی کا دوسرا ایونٹ سپر جائنٹ سلالم سے جہاں 2روسیں کورس میں تیار کیے گئے بہت نزدیک گیٹوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

فری اسٹائل اسکی انگ:۔

اسکی انگ کا نوعمر ایونٹ فری اسٹائل اسکی انگ ہے۔ آرٹسٹک خصوصیات کا حامل یہ ایونٹ الپائن اسکی انگ میں کافی مقبولیت حاصل کرگیا ہے۔ اس ایونٹ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کھلاڑی کی اپنی فن کارانہ صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک اپنے مد مقابل کھلاڑی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس ایونٹ میں کھلاڑی کی عمدہ ٹائمنگ مقابلے کے فیصلے میں اسکورنگ کا درجہ رکھتی ہے۔ فری اسٹائل اسکی انگ تین حصوں بیلٹ ریسنگ، بمپی زنرز اور آرٹسٹک جمپنگ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فری اسٹائل اسکی انگ میں تین ایونٹس موگلز ایریلز اور اسکی کراس میں مردوں اور خواتین کے لیے مقابلے ہوتے ہیں۔

اسپیڈ اسکی انگ:۔

اسپیڈ اسکی انگ میں کھلاڑی اپنے جسموں سے چپکے ہوئے مخصوص چست لباس اور ہیلمٹ سے مکمل طور پر اپنے سر اور چہرے کو چھپائے ہوئے انتہائی منفی درجۂ حرارت میں ڈھلان سطح سے جس برق رفتاری سے نیچے کی طرف اسکی انگ کرتے ہوئے آتے ہیں۔ یہ منظر گو کہ دیکھنے والوں کے لیے خاصا دلکش نظر آتا ہے، لیکن اس دوران کھلاڑی کے لیے مسلسل خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اس برق رفتار اسکی انگ کے دوران کھلاڑیوں کے نیچے کی سمت آنے کی رفتار سوا دو سو کلو میٹرز فی گھنٹہ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اسپیڈ اسکی انگ کے لیے چھوٹے قد کے کھلاڑیوں کے لیے عمدہ کارکردگی کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

اسنوبورڈنگ:۔

اسکینر اور اس کی پولز کے ساتھ اسکی انگ کا کھیل ڈیڑھ سو سال سے کھیلاجارہا ہے۔ تاہم اسنوبورڈنگ کھیل کی عمر ابھی خاصی کم ہے۔ اسنوبورڈنگ کے مقابلے سرمائی اولمپکس میں پہلی بار 1998تا گانو(جاپان) میں شامل ہوئے۔ کھلاڑی اس کھیل میں مخصوص جوتوں کو اس بورڈ پر اسٹریپ کے ساتھ باندھ لیتے ہیں۔ اسنوبورڈنگ مقابلے ایک سلنڈر نما شکل کے آدھے کورس میں ہوتے ہیں۔ کھلاڑی خاصی برق رفتاری کے ساتھ سلنڈر کی دیواروں پر اپنے بورڈ کی مدد سے اسکی انگ کرتے ہیں۔ پانچ جج کھلاڑیوں کو ان کی کارکردگی پر پوائنٹس دیتے ہیں۔ اسنوبورڈنگ کے ایونٹس میں اسنوبورڈ کراس، ہاف پائپ اور پیرالل جائنٹ سلالم شامل ہیں۔

اداکاری جن کی وراثت ٹھہری

$
0
0

 بلاشبہ دنیا کے ہرکونے میں فلمیں بنتی اور دیکھی جاتی ہیں بلکہ شائقین فلم ان کے آنے کا مہینوں انتظار کرتے ہیں۔

ان فلمی صنعتوں میں سے ہالی وڈ اور بالی وڈ کو بڑی شہرت حاصل ہے ، اگرچہ ہمارے ہاں بھی لالی وڈ  کے نام سے فلمی صنعت قائم ہے مگر بدقسمتی سے یہ وہ مقام نہیں بنا سکی جیسا ہالی وڈ اور بالی وڈ کو حاصل ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں جسے فلم کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ فلم ساز اور ہدایتکار بن جاتا ہے۔ ہماری فلمی صنعت جس حال کو پہنچی ہے اس میں کاروباری لوگ زیادہ گھس بیٹھے ہیں جو فن کے بجائے روپے پیسے کی پوجا کرتے ہیں۔

اگر دنیا میں موجودہ فلمی صنعت کی بات کرتے ہیں تو اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں اس شعبے میں بہت کام کیا گیا ہے۔ بھارت میں فنکاروں نے بڑی محنت سے اس فن کی آبیاری کی ہے۔ بڑے بڑے سپر سٹارز  نہ صرف خود محنت کرکے  بام عروج تک پہنچے ہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کو بھی  اس فیلڈ میں لے کر آئے ہیں۔

بھارت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور کمائی کی وجہ سے فلمی صنعت نے باقاعدہ ایک وراثت کا روپ دھار لیا ہے جو سپر سٹارز اپنے بچوں کو منتقل کرتے ہیں، کہنے کو تو یہ فن کی منتقلی ہے مگر اس کے ساتھ جڑی کروڑوں اور اربوں کی آمدن ہی اصل وجہ ہے۔ بالی وڈ میں راج کپور، امیتابھ بچن ، دھرمیندر، سنیل دت ، انیل کپور، شرمیلا ٹیگور ، شتروگھن سنہاجیسے بڑے بڑے نام ہیں جن کے بچے آج بالی وڈ پر راج کررہے ہیں۔

کپور فیملی کی بات کی جائے تو وہ آج بھی بالی وڈ پر راج کر رہی ہے۔ راج کپور سے شروع ہونے والے فن کے اس سلسلے کو پہلے ان کے بیٹے رشی کپور اور رندھیر کپور نے آگے بڑھایاجسے آج بھی کرشمہ کپور ،کرینہ کپور اور رنبیر کپور  برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ شو مین کے نام سے  مشہور راج کپور نے ایک عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ راج کپور نے بطور اداکار ، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف انڈیا میں بہت سے ایوارڈ جیتے بلکہ بیرون ملک بھی کئی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے۔ ان کی فلموں کو ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ میں بہت پزیرائی ملی۔ انہیں نیشنل فلم ایوارڈز ، فلم فیئر ایوارڈز ، پدما بھوشن اور داصاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے دوبھائیوں شمی کپور اور ششی کپور نے بھی فلم انڈسٹری میں اپنے  جوہر دکھائے۔آج کل کرینہ کپور اور رنبیر کپور نے فلم انڈسٹری میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔

فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سے اس پر جو شخص راج کر رہا ہے اس کا نام امیتابھ بچن ہے۔ امیتابھ بچن ، ان کی اہلیہ جیا اور بیٹے ابھیشک بچن نے فنی زندگی میں خوب نام کمایا ہے۔ امیتابھ بچن نے ستر کی دہائی میں اینگری ینگ مین کے نام سے شہرت پائی ۔ان کا فنی کرئیر چار دہائیوں پر محیط ہے۔ ان کا شمار بھارتی سینما کے سب سے زیادہ بااثر فنکاروں میں ہوتا ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں انہوں نے تن تنہا راج کیا۔ انہوں نے متعدد ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ امیتابھ نے اداکاری کے علاوہ پلے بیک سنگر ، فلم پروڈیوسر اور ٹی وی میزبان کے طور پر بھی کام کیا۔ امیتابھ نے ہندی فلموں کے علاوہ ہالی وڈ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ طویل عرصے تک فلم نگری پر حکومت کرنے کے بعد امیتابھ نے اپنے بیٹے ابھیشک کو فلم انڈسٹری کی راہ دکھائی ۔ ابھیشک کو شروع شروع میں تو کوئی خاطر خواہ رسپانس نہ ملا تاہم بعد میں انہوں نے کئی ایک اچھی فلمیں دیں۔ فلمی دنیا میں آنے کے بعد ہی انہوں نے بالی وڈ حسینہ ایشوریا رائے سے شادی کی۔ شاید وہ اس انڈسٹری میں نہ آتے تو ان کی شادی ایشوریا سے نہ ہو پاتی۔

شرمیلا ٹیگوراپنے دور کی خوبرو اداکارائوں میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے ہندی سینما کو بہت سی لازوال فلمیں دیں۔ فلموں میں اداکاری کے علاوہ انہوں نے انڈین فلم سنسر بورڈ میں بھی کئی سال تک خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے فنی کرئیر کا آغاز بطور ماڈل وایکٹریس کے کیا اور جوانی کے دور میں ہی نواب منصور علی خان سے شادی کرلی ۔ انہوں نے فلمی کریئر کا آغاز 1959ء میں کیا۔ ان کی فلم کشمیر کی کلی کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی فلم ایوننگ ان پیرس میں بکنی شوٹ سے شہرت پائی اور بعد میں آنے والی ہیروئنوں پروین بوبی ، زینت امان او ر ڈمپل کپاڈیا نے ان کی تقلید کی۔ شرمیلا ٹیگور نے ہندو سے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام عائشہ سلطانہ رکھ لیا۔ ان کے تین بچے ہیں جن میں سیف علی خان ، سوہا علی خان اور صبا علی خان ہیں۔ ان میں سیف اور سوہا علی خان فلموں میں کام کر رہے ہیں۔ اس طرح سے شرمیلاٹیگور نے اپنے دونو ں بچوں کو فلموں میں آنے سے نہیں روکا اور وہ آزادی سے فلموں میں کام کررہے ہیں۔

بھارتی فلم انڈسٹری میں پروڈیوسر ،ڈائریکٹر اور ایکٹر کی حیثیت سے شہرت پانے والے راکیش روشن کا اپنا ایک مقام ہے۔ انہیں فلموں میں ’’کے‘‘ سے شروع ہونے والی فلمیں بنانے کی حیثیت سے خوب پذیرائی ملی ۔ پنجابی فیملی میں آنکھ کھولنے والے راکیشن روشن کا تعلق میوزک گھرانے سے تھا ۔ نہ صرف انہوں نے خود فلموں میں شہرت پائی بلکہ وہ  اپنے بیٹے ہریتک روشن کو فلموں میں لے کر آئے جس نے کئی فلموں میں یادگار رول کیے۔ راکیش روشن نے اپنے کرئیر کے دوران کوئی ساٹھ سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے انیس سو اسی میں فلم کرافٹ کے نام سے پروڈکشن کمپنی بنائی اور پہلی فلم آپ کے دیوانے دی ۔ انہوں نے اس کے بعد متعدد باکس آفس فلمیں دیں۔  اپنے بیٹے کو بطور ایکٹر دوہزار میں فلم کہو نا پیار ہے سے متعارف کرایا ۔ فلم نے کسی بھی فلم سے زائد ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے بعد انہوں نے کوئی مل گیا اور سائنس فکشن فلم کرش پر کام کیا جو بہت زیادہ کامیاب رہیں۔

بھارتی سینما پر ایک عرصہ تک راج کرنے والے فلمی جوڑے دھرمیندر اور ہیما مالنی نے اپنے بچوں کو فلمی لائن میں آنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ دھرمیندر  نے کوئی لگ بھک دوسو ستاسی فلموں میں فنکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔ وہ فلم نگری میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے اداکاروں میں شامل رہے۔ انہیں ’’ہی مین‘‘ اور ’’ایکشن کنگ‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ فلم شعلے نے ان کو فن کی بلندیوں تک پہنچا دیا جس کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ بہار ریاست سے لوک سبھا کے رکن بھی رہے۔ سکھ فیملی سے تعلق رکھنے والے دھرمیندر نے اپنے وقت کی شہرہ آفاق ہیروئن ہیما مالنی سے شادی کی جن سے ان کے چار بچے سنی دیول ،بوبی دیول ، ایشا دیول اور آہنہ دیول ہیں۔ چار بچوں میں سے تین یعنی سنی دیول ، بوبی دیول اور ایشا دیول نے فلم نگر میں انٹری دی اور ان کی کئی فلمیں کامیاب ہوئیں۔

مسٹر انڈیا کے نام سے فلمی صنعت  میں شہرت پانے والے انیل کپور بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ا نہوں نے بھی اپنی بیٹی سونم کپور کو فلموں میں پرموٹ کیا ۔ انیل کپور نے بطور ایکٹر اور پروڈیوسر نام کمایا اور بہت سی ہندی فلموں کے ساتھ انٹرنیشنل فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا کرئیر کوئی تیس سال پر محیط ہے۔ ایکٹنگ کے علاوہ انہوں نے فلم گاندھی:مائی فادر کے نام سے پروڈکشن دی ۔ وہ اسی کی دہائی میں فلمی دنیا پر چھائے رہے۔ انہوں نے 1980ء میں تیلگو فلم ’’ وامسا روکشم‘‘سے کریئر کا آغاز کیا جو بلاک بسٹر ثابت ہوئی ۔ انہیں صحیح معنوں میں تیزاب نے فن کی بلندیوں پر پہنچایا جس کے بعد بیٹا نے انہیں مزید شہرت دی۔ اس کے بعد انہوں نے بہترین کارکردگی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ انٹرنیشنل کرئیر کا آغاز انہوں نے دوہزار آٹھ میں فلم سلم ڈاگ ملینیئر سے کیا ۔ بونی کپور اور سنجے کپور ان کے بھائی جبکہ ارجن کپور ان کے بھتیجے ہیں۔ انیل کپور کی بیٹی سونم کپور نے کئی فلموں  میں کام کیا ہے ۔ انہوں نے سانوریا سے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور حال میں ہی ایک اور فلم رانجھا میں بھی کاسٹ ہوئی ہیں جس کا اچھا رسپانس ملا ہے۔

شتروگھن سنہا اپنے دور کے کامیاب ترین ایکٹر رہے ہیں۔ فلموں میں کام کے علاوہ وہ ایک کامیاب سیاستدان بھی رہے ہیں۔ راجیا سبھا کے رکن ہونے کے علاوہ وہ ہیلتھ اور فیملی ویلفیئر کے وزیر بھی رہے ہیں ۔ ان کی بیٹی سوناکشی سنہا نے باپ کی طرح فلموں میں خوب نام کمایا  اور آج کل وہ فلموں میں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں۔ شتروگھن سنہا نے سابق مس انڈیا پونم سنہا  سے  شادی کی۔

شترو کو دیو آنند کی فلم پریم پجاری میں ایک پاکستانی ملٹری آفیسر کے کردار سے کرئیر شروع کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بہت سی فلموں میں معاون اداکار کا رول کیا جس میں ان کے کام کو بہت سراہا گیا۔ ان کو غیر روائتی اداکاروں میں ایک خاص مقام حاصل  ہے۔ دوہزار آٹھ میں وہ گریٹ انڈین لافٹر چیلنج میں جج بھی رہے۔ شترو ،شیکھر ثمن کو ہرا کر بہار سے عام انتخابات جیتے ۔ ان کے پاس ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر اور شپنگ کے قلمدان رہے۔ اپنے کام کی وجہ سے انہوں نے بہت سے ایوارڈ جیتے۔

جہاں تک بھارتی فلموں میں کریکٹر رول کرنے کا سوال ہے تو اس میں اداکار سریش اوبرائے نے خوب نام کمایا۔ کوئٹہ پاکستان میں پیدا ہونے والے اداکار نے فنی کرئیر میں کئی ایوارڈز اپنے نام کیے ۔ انہوں نے تقریباً ایک سو پینتیس فلموں میں کام کیا ۔ انہوں نے رومانوی اور فلسفیانہ شاعری بھی کی ۔ ان کے بیٹے ویوک اوبرائے بھی فلموں میں آئے اور فلم کمپنی سے کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس فلم پر بیسٹ میل ڈبیو اور بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔

بالی وڈ میں رواں سال کے سب سے زیادہ اثاثے رکھنے والے فنکار:

بھارتی فلم انڈسٹری اپنے اداکاروں ، موسیقاروں اور نغمہ نگاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ انیس سو اسی کے بعد فلم نگری نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ بھارت میں فلم اور ٹی وی انڈسٹری ریونیو اکٹھا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا  ہے۔ لوگ اتنی کتابیں نہیں پڑھتے جتنی فلمیں اور ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں۔ بالی وڈ میں بڑے بڑے بجٹ کی فلمیں بننا شروع ہوگئی ہیںاور ہالی وڈ اداکاروں نے بھی ادھر کا رخ کرلیا ہے۔ بالی وڈ میں امیر ترین اداکاروں  میں سب سے پہلا نمبر بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کا آتا ہے۔شاہ رخ خان شائقین کے سب سے فیورٹ ایکٹر ہیں۔ ان کے اثاثوں کی ملکیت 310 ملین امریکی ڈالر ہے۔ ان کے بعد دوسرے نمبر پر بالی وڈ کے مسٹر پرفیکٹ ہیں۔ وہ اتنے قد کاٹھ کے مالک تو نہیں ہیں تاہم ان کے اندر کی فنکارانہ صلاحیتوں نے انہیں صف اول کے بھارتی اداکارائوں میں لاکھڑا کیا ہے۔

ان کی شہرت کو دیکھ کر یونیسف نے انہیں اپنا سفیر مقرر کیا۔ ان کے کل اثاثوں کی ملکیت 180 ملین امریکی ڈالر ہے۔ اثاثوں کے لحاظ سے بالی وڈ کے چارمنگ ہیرو سلمان خان تیسرے نمبر پر ہیں۔ انڈسٹری میں انٹری مارتے وقت وہ بہت دبلے پتلے تھے تاہم اب ان کی شہرت ایک باڈی بلڈر کی ہے۔ ان کی فیملی میں ان کے باپ سلیم خان ،بھائی ارباز اور سہیل خان اور سسٹر ان لاء ملائیکہ اروڑا شامل ہیں۔ ان کے مالی اثاثے 100 ملین ڈالر ہیں۔ چوتھے نمبر پر خطروں کے کھلاڑی اکشے کمار ہیں۔ انہوں نے فلمی کرئیر ایک سٹنٹ مین کی حیثیت سے شروع کیا ۔ وہ آج بھی سٹنٹ خود کرتے ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت 65 ملین امریکی ڈالر ہے۔

پانچواں نمبر بگ بی کا  ہے۔ وہ حقیقت میں لیجنڈ ہے جو دہائیوں سے فلم نگری پر راج کررہے ہیں۔ ان کی فیملی کو بالی وڈ کی امیر ترین فیملی کہا جاتا ہے۔ ان کے کل اثاثوں کی مالیت 50 ملین امریکی ڈالر ہے۔ چھٹے نمبر پر اجے دیوگن ہیں ان کے اثاثے 30 ملین امریکی ڈالر ہیں۔ ساتویں نمبر پر اس وقت ہریتک روشن ہیں۔ ان کے اثاثے بھی 30 ملین امریکی ڈالر ہیں۔ آٹھویں نمبر پر سنجے دت موجود ہیں جن کے اثاثے 10ملین امریکی ڈالر ہیں۔ ان کے فلموں میں منفی رول کو بڑا پسند کیا جاتا ہے۔ نویں نمبر پر سیف علی خان جبکہ دسویں نمبر پر رنبیر کپور موجود ہیں۔


اسلامی دنیا میں خوراک کا سر اٹھاتا بحران

$
0
0

خوراک کا بحران دنیا بھر میں پھیلے درجنوں ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جبکہ بہت سے ملکوں کو مستقبل میں اس بحران کا خطرہ ہے۔

ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق خوراک کا بحران سب سے زیادہ جن ممالک میں سر اٹھارہا ہے وہ اسلامی دنیا کے ممالک ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اسلامی ممالک میں مستقبل کی منصوبہ بندی بہت کمزور ہے جبکہ اس کے برعکس ان ممالک میں آبادی میں اضافے کا تناسب دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔بہت سے ممالک صحرائی اور بارانی خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے خوراک کے بحران کے خطرے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔یہ زیادہ تر وہ ممالک ہیں جہاں بارش بہت کم ہوتی ہے ا ور جہاں زمین کے نیچے بھی پانی موجود نہیں ہے۔ ان میں عرب اور افریقی ممالک سرفہرست ہیں۔خلیج فارس میں واقع قطر بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پانی اور خوراک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

مستقبل میں پانی اور خوراک کہاں سے آئیں گے ، اس بارے میں وہاں پر حکمران اور ماہرین پریشانی کا شکار ہیں۔قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اسے اپنی خوراک کی عدم کفالت کا بھرپور احساس ہے اور وہ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کررہا ہے۔دیگر اسلامی ممالک جیسے پاکستان ، بنگلہ دیش ، مصر ، کویت ، بحرین ، یواے ای ، سوڈان اور موریطانیہ ایسے ممالک ہیں جہاں مستقبل میں خوراک کے بحران کے خدشات موجود ہیں جس کے نتیجے میں ان ملکوں کی سلامتی تک خطرے میں پڑسکتی ہے۔پاکستان میں غذائی بحران کے مظاہر ماضی میں تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ خوراک کی قیمتوں اور خورا ک کی کمی کا شکار افراد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان ، مصر ، سوڈان ، موریطانیہ سمیت بہت سے مسلم ملکوں میں عوام کی کثیر تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں پانی اور زرخیز زمینوں کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود وطن عزیز میں خوراک کے حوالے سے مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ماضی میں اس سلسلے میں چینی، آٹے اور دیگر خوردنی اجناس کی قلت اور بحران کے واقعات ہمارے سامنے ہیں اور کوئی پتہ نہیں کس وقت کوئی اور بڑا خوراک کا بحران پیدا ہوجائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ آبادی میں بے محابا اضافے کے ساتھ ساتھ بدانتظامی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

خوراک اور پانی کی کمی کا شکار عرب ممالک میں ایسے دلچسپ اور احمقانہ آئیڈیاز بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ برفانی علاقے سے برف لاکر خطے میں پانی کی کمی پوری کی جائے۔ایسا ہی ایک سعودی شہزادہ 1977 میں یہ ’’کارنامہ‘‘ دکھا چکا ہے۔ اس شہزادے نے آئیڈیا پیش کیا کہ عرب ممالک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قطب شمالی اور سائبیریا سے برف کے پہاڑ منگوائے جائیں اور یوں ان کا پانی استعمال کیا جائے۔ اس نے علامتی طور پر ٹرک اور ہیلی کاپٹرکے ذریعے الاسکا سے برف کا ایک عظیم الشان ٹکڑا منگایا اور لوگوں کے ایک بڑے اجتماع کے سامنے رکھ دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس برف اور اس کے پانی کو ہڑپ کرگئے۔الاسکا سے برف کے اس ٹکڑے کو لانے کے لیے کتنا سرمایہ خرچ کیاگیا ہوگا اور غیرملکی کمپنیوں نے اس سے کتنا پیسہ کمایا ہوگا، اس کے بارے میں آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔واقعی شہزادے شہزادے ہی ہوتے ہیں!

تاہم عرب ممالک میں اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں بھی جاری ہیں جیسے کہ مصنوعی طورپر بادل بناکر بارش برسائی جائے یا صحرا کی پیش قدمی روکنے کے لیے ہر ے بھرے درختوں کی فصیل بنائی جائے۔اس کے علاوہ خشک سالی سے دوچار خطوں میں فصلیں اگانے کے منصوبے بھی بنائے جارہے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا کی اکتالیس فیصد زمین صحرائی اور بارانی ہے اور یہاں پر دو ارب لوگ رہتے ہیں۔ان اعداد وشمار سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے وقت میں خوراک کا بین الاقوامی بحران جنم لے سکتا ہے۔

قطر خدشے سے دوچار سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔یہ خلیج فارس میں واقع چھوٹا سا ملک ہے جو پاکستان کے ضلع چاغی سے بھی پانچ گنا چھوٹا ہے۔یہاں پر کوئی دریا یا جھیل نہیں جبکہ سالانہ بارش کی شرح 7.4 سنٹی میٹر سے بھی کم ہے۔قطر اس سلسلے میں جو منصوبہ بندی کررہا ہے ، باقی عرب ملکوں کو بھی اس کی پیروی کرنا ہوگی۔قطر کو خوراک کے معاملے میں خود کفیل بنانے کے لیے جو شخص منصوبہ بندی کررہا ہے، اس کا نام فہد بن محمد العطیہ ہے۔ العطیہ کہتے ہیں کہ برفانی پہاڑکو صحرا میں لانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس کا کہنا تھا کہ سعودی شہزادے کے ’’کارنامے‘‘ میں توسیع کرتے ہوئے اگر دس کروڑ ٹن وزنی برف کا پہاڑ بھی قطر لایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والا پانی صرف ساٹھ دن چلے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا!

العطیہ کے بارے میں آپ کو مزید بتاتے چلیں کہ وہ ملک کے نیشنل فوڈ سیکورٹی پروگرام کے ایگزیکٹو چیئرمین ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ قطر جو خوراک درآمد کررہا ہے ، اس کی شرح کو کم سے کم کیا جائے۔ان کے ادارے کی کوشش ہے کہ قطر جو اس وقت اپنے ملک کی نوے فیصد خوراک بیرون ملک سے منگوا رہا ہے ، اس کے بجائے اگلے بارہ سال کے دوران ملک کی پچاس فیصد خوراک اندرون ملک ہی پیدا کی جائے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس کے تحت قطر کے موسم کو مکمل طورپر ری انجینیرڈ کیا جا ئے گا۔ڈی سالینیشن پلانٹ یعنی سمندری پانی سے نمک نکال کر اسے استعمال کے قابل بنانے کے لیے نئے پلانٹ لگائے جائیں گے۔ ملک کے گرین ہائوسز کو ایکڑوں کے بجائے میلوں پر پھیلا جائے گا۔ملک میں سماجی انقلاب کے ذریعے کاشت کاروں کے درجے کو بلند کیا جائے گا۔اس منصوبے کے لیے کل تیس ارب ڈالر کا بجٹ رکھا گیا ہے جس میں سے اسی فیصد نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ العطیہ کو قطریوں کو اس بات پر بھی قائل کرنا ہوگا کہ خوراک میں خود کفالت قومی سلامتی کے لیے لازمی ہے۔ ان کی یہ دلیل اس وقت اور بھی مضبوط ہوچکی ہے جب صرف ایک سال قبل سعودی عرب ، جو اسے خوراک کی سپلائی کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے ، نے اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کے لیے قطر کو پولٹری ، آلو اور پیاز کی ایکسپورٹ روک دی تھی۔

خوراک میں خود کفالت کی قطری مہم کا منبع 2007-2008 کاخوراک کا بحران ہے جب خوراک پیدا کرنے والے ممالک میں خشک سالی اور ایکسپورٹ پر پابندیوں اور اجناس کے حوالے سے قیاس آرائیوں کے نتیجے میں خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔العطیہ کے بقول یہ وہ وقت تھا جو پکار رہا تھا کہ ہمیں اب جاگنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں: ’’اس وقت یہ صورت حال تھی کہ ہم دنیا کا امیر ترین ملک ہیں لیکن ہم چاول نہیں خرید سکتے۔‘‘دیگر خلیجی ملکوں نے اس بحران کے بعد بیرون ممالک زرخیز زمینیں خریدنا شروع کردیں۔تاہم العطیہ کا کہنا ہے کہ یہ حل پائیدار نہیں۔ان کے نزدیک اس بحران کا واحد حل یہ ہے کہ ملک کی خوراک ملک میں ہی پیدا کی جائے۔

اس مہم میں العطیہ کو ملک کے ولی عہد شہزادہ تمیم بن حماد الثانی کی بھرپور مدد حاصل ہے جس کے تحت العطیہ اور ان کی ٹیم بہترین سے بہترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔العطیہ کا کہنا ہے کہ ہمیں مزید فارمز اور گرین ہائوسز کی ضرورت ہے ، لیکن پانی کہاں سے آئے گا؟ چنانچہ اس کے لیے ہم سمندری پانی کو صاف کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ایسا کرنے کے لیے توانائی کہاں سے آئے گی؟ فاسل ایندھن کے استعمال کے ذریعے ہم گلوبل وارمنگ کو بڑھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔اس کا حل شمسی توانائی ہے۔ ’’ہم سب کو اس کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔‘‘

جس زمانے میں العطیہ کے والد پیدا ہوئے تو فوڈ سیکورٹی کا مطلب کھجوریں اور اونٹ کا گوشت تھا۔ملک کے چند نخلستانوں سے بہت کم آبادی کو پانی دستیاب تھا۔تاہم جب ملک سے تیل کی دریافت ہوئی تو یہ سب کچھ بدل گیا۔لیکن امیرہونے کے باوجود قطر خود کو غیر محفوظ ترین ملک سمجھتا ہے۔اس وقت قطر کے لوگ 9.8 ارب لٹر پانی روزانہ استعمال کرتے ہیں اور یہ صاف کیا گیا سمندری پانی ہوتا ہے۔اس کے مقابلے میں اسرائیل جس کی آبادی قطر سے چار گنا زیادہ ہے وہ قطر سے تین گنا کم پانی روزانہ استعمال کرتا ہے۔قطر کی وزارت زراعت کے مطابق کی ملک کی آبادی اٹھارہ لاکھ ہے اور آنے والے دنوں میں پانی کی اس طلب میں ساڑھے تین ارب لٹر کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔

قطر میں صرف چند فارمز ہیں جو کنویں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں جن میں پانی زیرزمین چٹانوں سے آتا ہے۔ کنویں کا پانی مفت ہوتا ہے، اس لیے کسان اس کی پروا نہیں کرتے جبکہ پانی کو بچانے کے لیے انہیں کوئی مراعات بھی نہیں دی جاتیں۔العطیہ کے بقول ہم قطر میں اس طرح کاشتکاری کرتے ہیں جیسے دریائے نیل کے کنارے رہتے ہیں۔ ان کا خیالات کا اظہار العطیہ نے اس وقت کیا جب وہ اپنے خاندانی فارم ہائوس پر آئے تھے جو ایک شاندار نخلستان ہے جس میں کھجور کے ا ونچے اونچے پیڑ اور سفیدے کے درخت ہیں۔وہ ایک ایسی منصوبہ سازی کررہے ہیں جس کے ذریعے پانی کے ہر قطرے کو سیدھا پودے کی جڑوں تک پہنچایا جائے اور یوں ان پودوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جائے۔ان کو ایسا ماحول دیا جائے جس میں وہ موسم گرما کی شدید گرمی کو سہار سکیں۔العطیہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ ان کی عرب بہار ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق قطر کی مستقبل کی زراعت کا انفراسٹرکچر وسیع پیمانے پر سبسڈی پر منحصر ہوگا۔سمندر سے جو پانی صاف کرکے کھیتوں کو دیا جائے گا ، اس کے استعمال کی نگرانی کی جائے گی ۔ کاشت کاروں کی تربیت کی جائے گی کہ وہ کس طرح پانی ضائع ہونے سے روک سکتے ہیں اور پانی کو بچا سکتے ہیں۔اگر کوئی شخص ٹماٹر غلط طریقے سے اگاتا پایا گیا تو اسے سزا دی جائے گی اور اس کا پانی بند کردیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق 2025 میں جب سمندری پانی صاف کرنے کی تنصیبات کا مکمل ہونگی تو ملک اضافی پانی کو زیر زمین چٹانوں میں محفوظ کرلے گا۔ تاہم سمندری پانی صاف کرنے کا عمل اس قدر سستا نہیں ہوگا۔قطر کے منصوبے کے تحت روزانہ پونے دو سو ٹن نمک پیدا ہوگا اور یہ نمک دوبارہ سمندر میں بہا دیا جائے گا جیسا کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت میں کیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں ماحول پر کیا اثر ہوگا ، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔قطر یونیورسٹی کے ماحولیاتی سٹڈی کے شعبے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فاضل سعدونی کے بقول خلیج کا پانی پہلے ہی دبائو کا شکار ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ اس قسم کی مزید آلودگی کو برداشت نہیں کرسکے گا۔

سمندری پانی کو صاف کرنے کے روایتی طریقے میں توانائی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔تاہم قطر نیشنل فوڈ سیکیورٹی پروگرام (QNFSP) کا منصوبہ ہے کہ اپنی ضرورت کے تمام تر پانی کو سمندرسے لیکر صاف اور استعمال کیا جائے اوراس مقصد کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیا جائے۔ قطر کو اپنی ضرورت کا زرعی پانی پیدا کرنے کے لیے 753 میگاواٹ اضافی بجلی کی ضرورت ہوگی۔اس مقصد کے لیے دو ہزار فٹ بال سٹیڈیمز کے برابر شمسی توانائی کے پینل لگانا ہوں گے تاہم اس وقت شمسی توانائی کے جو پینل دستیاب ہیں وہ سرد ماحول کے لیے ہیں۔دوہا سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی ’’گرین گلف‘‘ اور ’’چیورون قطر‘‘ دس ملین ڈالر کی گرانٹ سے ایسے شمسی توانائی کے پینل تیار کررہی ہے جو قطر کے ماحول کے مطابق ہوں۔

اپنے فارم سے واپسی پر العطیہ اپنی پورشے کے ڈیش بورڈ پر ایک نقشہ پھیلائے ہوئے تھے اوراس کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔وہ قطر میں زراعت کی ترقی کے حوالے سے ایک لیکچر دینے کے لیے جارہے تھے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کے مطابق قطر کی صرف ایک فیصد زمین قابل کاشت ہے ۔ تاہم قطر کے لوگ امید پرست ہیں اور ان کا یقین ہے کہ ان کے ملک کی ایک فیصد نہیں چھ فیصد زمین قابل کاشت ہے جو ستر ہزار ہیکٹر بنتی ہے۔تاہم صورت حال اتنی خوش کن نہیں۔اگر قطراپنی توقعات کو کم کرتے ہوئے سالانہ دس لاکھ ٹن خوراک بھی پیدا کرنا چاہے جو کہ اس کی ضرورت کا چالیس فیصد پورا کرتی ہے ، توروایتی زراعت کے ذریعے ایسا بھی ممکن نہ ہوگا۔

قطر نیشنل فوڈ سیکیورٹی پروگرام (QNFSP) ایسی چار سو مختلف فصلوں کا جائزہ لیکر ان میں سے ایسی فصلیں شناخت کرچکا ہے جن کو نئی قسموں ،گرین ہائوسز اور ہائیڈرو پونک ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے قطر میں کاشت کرنا ممکن اور مفید ہوسکتا ہے۔اس معاملے میں ہدف یہ ہے کہ موجود زمین کو ہی استعمال کرکے پانچ گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جائے جبکہ پانی کا استعمال 30 فیصد تک کم ہو۔

تاہم ٹیکنالوجی کے ذریعے قطر کو خوراک کے معاملے میں خود کفیل بنانے میں ابھی بہت سی محدودات ہیں۔عملی طورپر قطر کبھی بھی اس قابل نہیں ہوگا کہ اپنی ضرورت کا چاول اور گندم پیدا کرسکے اور اسے گوشت اور ڈیری کی مصنوعات کے لیے بھی ہمیشہ امپورٹ پر انحصار کرنا ہوگا۔اس طلب کو پورا کرنے کے لیے قطر نے اپنے خودمختار فنڈز سے ایک ارب ڈالر مختص کیے ہیں ۔ اس نے آسٹریلیا اور سوڈان میں زمینیں خریدی ہیں۔ اس نے کینیا میں لیزپر زمینیں حاصل کی ہیںجبکہ بھارت میں چاول کی ایک بڑی کمپنی میں دس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔چینی ، سرخ گوشت اور اناج کے لیے قطر کی نظریں جنوبی امریکہ پر ہیں۔

قطر کو ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کسان اور کاشت کار مطلوبہ تعداد میں موجود نہیں۔ملک کی چورانوے فیصد ورکنگ فورس غیرملکی ہے۔زراعت کے میدان میں آگے نکلنے کے لیے قطرکو سماجی انقلاب بھی لانا ہوگا تاکہ ملکی ضرورت کے مطابق کسان اور کاشت کاربھی پیداکیے جاسکیں۔کسانوں کو اس معاملے میں مراعات اور عزت اور احترام دینا ہوگا۔العطیہ کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قطر میں کاشت کاری شروع کی جاتی ہے تو ان زمینوں کو کاشت کون کرے گا۔ہمیں زرعی کالجوں اور زرعی تعلیم کی ضرورت ہے۔ہمیں مارکیٹنگ ، فضلہ اور سیوریج کی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔سپلائی چین اور نالج اکانومی کی ضرورت ہے تاکہ یہ سب کچھ چلتا رہے۔

ٹماٹروں کی فصل کی طرح قطر کو دوسری فصلوں کے لیے بھی ہاٹ ہائوس انوائرمنٹ کی ضرورت ہوگی ۔ اس مقصد کے لیے اسے قدرتی گیس کی ضرورت ہوگی جو قطر کے پاس کثرت سے ہے۔ دوبئی سے تعلق رکھنے والے انرجی کے تجزیہ کار رابن ملز کے مطابق اگر گیس کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی توقطر کو ان تمام منصوبوں پر نظرثانی حتیٰ کہ ان سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔العطیہ ان تحفظات کو مسترد کرتے ہیں۔ان کے بقول حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں بجٹ مختص ہوچکا ہے بصورت دیگر حکومت کو سبسڈائز درآمدی خوراک پر انحصار کرنا ہوگا۔یہ جو پچیس ارب ڈالر ملکی زراعت پر لگائے جائیں گے ، اس کا فائدہ ہوگا۔وہ کہتے ہیں:’’ہمارے پاس پانی کے سٹرٹیجک زخائر ہیں۔ہم اپنے لیے خوراک کے بحران کے عالمی خدشات کو کم کرچکے ہیں۔ہمارے پاس انٹیلیکچول پراپرٹی ڈویلپمنٹ اور ٹیکنالوجی ہے جسے منافع کی قیمت پر کہیں بھی ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کلیمنز برسنگر کا کہنا ہے کہ فوڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ اگلے بیس سال تک دنیا کی آبادی میں ایک تہائی اور خوراک اور توانائی کی طلب میں نصف فیصد تک اضافہ ہوچکا ہوگا تاہم ان کا کہنا ہے کہ صحرائوں کو سرسبز بنانے کے بجائے اس سرمایہ کاری کو زیادہ سمجھداری سے استعمال کرنا ہوگا۔مثال کے طورپر اگر سب صحارن افریقہ میں مزید ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے تو سالانہ تیس لاکھ ٹن اناج پیدا کیا جاسکتا ہے جوکہ قطر کی سالانہ کھپت سے پندرہ گنا زیادہ ہے۔

دنیا میں اس وقت لگ بھگ 68 ملک ایسے ہیں جو بارانی سمجھے جاتے ہیں اور یوں یہ ملک بھرپور زراعت کے لیے موزوں نہیں۔تاہم خدشے کی بات یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں بارانی ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا کیونکہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں بارشوں والے خطوں میں بارشوں جبکہ خشک ملکوں میں خشکی میں مزید اضافہ ہوگا۔العطیہ نے بتایا کہ قطر اپنی دولت کو استعمال کرتے ہوئے سب کے لیے تحقیق کے اخراجات میں کمی کررہا ہے۔اس کی ایک مثال قطر میں قائم کیا گیا ایک تجرباتی فارم ہائوس بھی ہے۔تین سال قبل قطر کی وزارت ماحولیات کے بائیوٹیکنالوجی سنٹر کے محققین نے نمک کھانے والے خوردبینی جانداروں کو ’’سبخا‘‘ (صحرائی مٹی جس میں سمندری پانی سے تین گنا زیادہ نمک ہوتا ہے) میں شامل کیا۔ مکئی ، تربوزوں اور ٹماٹروں کو براہ راست اس تیار شدہ نئی قسم کی مٹی میں بویا گیا اور انہیں ٹریٹ کیا گیا سیوریج کا پانی دیا گیا۔سنٹر کے ڈائریکٹر مسعود المری نے خبردار کیا کہ ان خوردنی اشیاء کو ابھی انسانوں کے استعمال کیے آزمایا نہیں گیا۔تاہم اس کے باوجود جب ایک شخص نے وہاں پر موجود مکئی کے ایک بھٹے کو چکھا تو المری اسے روک نہ سکے۔المری نے اس موقع پر مسکراتے ہوئے کہا: ’’یہ میٹھا ہے۔ اگرہم اس میں کامیاب ہوگئے تو سب کچھ بدل جائے گا۔‘‘

 پاکستان کی صورت حال

پاکستان بھی دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں خوراک کے بحران کا زبردست خدشہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بہت تیزی سے خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے حکومت کو فوری طور پر اس ضمن میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ پچھلے دنوں ایک تنظیم کی جانب سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر حکومت نے فوری طور پر گندم کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے اہم فیصلے نہ کیے تو عوام کو اس کاخمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے کیونکہ اس وقت گندم کا جو لوکل سٹاک ہے ، وہ اگلی فصل آنے تک ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس تنظیم کا نام پاکستان اکانومی واچ ہے جس کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے پچھلے دنوں خبردار کیا کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے پاس اناج کا جو پچھتر لاکھ ٹن کا ذخیرہ ہے ، اس کی مقدار غیرتسلی بخش ہے۔

آزاد اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے 2013 میں 22.8 ملین ٹن (دو کروڑ اسی لاکھ ٹن) گندم پیدا کی جو کہ مقررہ ہدف 25ملین ٹن (ڈھائی کروڑ ٹن) سے بائیس لاکھ ٹن کم تھا۔ ڈاکٹر مغل کے بقول اگر اب بھی حکومت نے کوئی فیصلہ لینے میں تاخیرکی تو عوام اور حکومت کو نقصان ہوگا جس کا فائدہ زخیرہ اندوز اٹھائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ایکسپورٹ کی وجہ سے گندم کے زخائر پر اضافی بوجھ پڑرہا ہے جس کو ایکسپورٹ پر پابندی لگاکر کنٹرول کیا جاسکتا ہے جو پندرہ لاکھ ٹن تک پہنچ چکی ہے۔دوسری جانب ود ہولڈنگ ٹیکس کی وجہ سے گندم کی امپورٹ بھی بہت سے لوگوں کے لیے بے معنی ہوچکی ہے جس کو ختم یا کم کرنا ہوگا تاکہ فوڈ سیکورٹی کو لاحق خطرات سے نمٹا جاسکے۔بصورت دیگر گندم کا بحران پیدا ہوگا جس کا فائدہ صرف اور صرف ذخیرہ اندوزوں کو ہوگا جن کو تاحال حکام نے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ڈاکٹر مغل نے مزید کہا کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کا وافر سٹاک موجود ہے لیکن اگر حکومت نے اس کو امپورٹ کرنے میں تاخیر کی تو عالمی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال نئی حکومت کے لیے ایک امتحان ہے جس میں ناکامی کا اسے سیاسی طور پر سخت نقصان ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تو وقتی صورت حال ہے لیکن اگر پاکستان نے پانی کے مزید ذخائر نہ بنائے اور پانی کو ضائع ہونے سے نہ روکا تو مستقبل قریب میں پانی کی کمی کے نتیجے میں فصلوں کو نقصان ہوگا اور یوں گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار کم ہونے سے کسی مخصوص وقت یا سال کے بجائے ہر وقت خوراک کے بحران کا خدشہ موجود رہے گا۔

بنگلہ دیش کی صورت حال

بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی زمانے میں قحط معمول تھے لیکن پھر ملک خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا تاہم اب ایک بار پھر اس ملک میں خوراک کی قلت کے خدشات سر اٹھارہے ہیں۔بنگلہ دیش کے چالیس فیصد سے زائد دیہی عوام روزانہ سوا ڈالر سے بھی کم پر گذارا کرتے ہیںجس میں 60 فیصد خوراک پر لگ جاتے ہیں۔ملک کی 66 فیصد آبادی کا گذارا زراعت پر ہے اور 81 فیصد بنگلہ دیشی کسانوں کے پاس ایک سے ڈیڑھ ایکڑ تک زمین ہے جس پر وہ کاشت کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں کاشت کے لیے مزید زمین دستیاب نہیں جس کامطلب ہے کہ بنگلہ دیش کو موجودہ زمینوں پر اپنی پیداوار کو بڑھانا ہوگا لیکن اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت اس ضمن میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی۔ بنگلہ دیشی کسانوں کی صرف9 فیصد تعداد ایسی ہے جو پیداوار بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور طریقے اختیار کررہی ہے۔

بنگلہ دیشی عوام کی 90 فیصد تعداد خوراک کی قلت کا شکارہے۔بے تحاشا آبادی اور پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کسی بھی وقت خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور غذائی قلت ایک معمول بن سکتی ہے۔

فوڈ سکیورٹی

خلیجی ممالک اپنی 70 فیصد خوراک مختلف ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے کئی خلیجی ممالک دوسرے ملکوں کی زرعی زمینوں میں پیسہ لگار ہے ہیں تاکہ وہاں اپنی ضرورت کی خوراک اگاسکیں۔دوسری جانب قطر کی منصوبہ بندی مختلف ہے۔ وہ اپنی خوراک ملک میں اگانا چاہتا ہے۔اس وقت خلیجی ممالک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے جو اعداد وشمار ہیںان کے مطابق سعودی عرب اپنی 35 فیصد خوراک خود پیدا کرتا ہے۔دوسری جانب اومان 33 فیصد خوراک خود پیدا کررہا ہے۔ قطر سب سے کم خوراک اندرون ملک پیدا کرتا ہے جس کا تناسب صرف 7 فیصد ہے یعنی وہ اپنی 93 فیصد خوراک امپورٹ کرتا ہے۔دیگر خلیجی ممالک میں بحرین 10 فیصد اور یواے ای 18 فیصد خوراک اندرون ملک پیدا کرتا ہے۔اس طرح خلیجی ممالک میں قطر وہ ملک ہے جو خوراک کے معاملے میں سب سے کم خود کفیل ہے اور یہ عدم خود کفالت اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

مصریوں کا مسئلہ ؟

مصر گندم امپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اسے ان دنوں خوراک کی شدیدقلت کا سامنا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ اگر اس قلت کو نہ روکا گیا تو مصر میں سیاسی صورت حال اور بھی خراب ہوجائے گی۔مصر کی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سال ملک میں پچھانوے لاکھ ٹن گندم کی پیدوار کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا تاہم تازہ ترین اعدادوشمارکے مطابق مصر یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2011 میں صدر حسنی مبارک کے طویل اقتدارکے خاتمے اور دوسال سے جاری اقتصادی بحران کے باعث ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوچکے ہیں۔بعض اعدادوشمار کے مطابق حسنی مبارک کیخلاف انقلاب سے لے کر اب تک یہ ذخائر 30 ارب ڈالر سے کم ہوکر 13.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مصر کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بیرون ملک سے گندم خرید سکے جو ملک کے ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کی بنیادی غذا ہے۔

مصر میں گندم کی روٹی انتہائی سبسڈائز نرخوں پر ملتی ہے لیکن اگر یہ سبسڈی ختم کردی جائے تو موجودہ حالات میں اس کے سیاسی اور سماجی نتائج بہت سنگین ہوسکتے ہیں اور 1977 جیسی وہ بغاوت سامنے آسکتی ہے جب مصری حکومت نے روٹی پر سبسڈی ختم کی تھی اوراس کے نتیجے میں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے۔

مصرسے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پانی اور ڈیزل کی کمی کی وجہ سے فصل متاثر ہورہی ہے اور یوں خوراک کا بحران پیدا ہورہا ہے۔گندم اور اناج کی قلت کی وجہ سے حکومت کو قیمتی غیرملکی زرمبادلہ گندم کی امپورٹ پر خرچ ہونا ہوگا جبکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی تیزی سے نیچے کی طرف جارہے ہیں۔ اس سے ملکی کسانوں میں بھی غم وغصہ بڑھے گا جس سے سیاسی صورت حال خراب ہوگی۔

مصری حکومت کا اصرار ہے کہ اس کے پاس گندم کے ذخائر کی کوئی کمی نہیں اور تمام اشاریے یہ کہتے ہیں کہ حکومت گندم کے ہدف کو حاصل کرلے گی ۔ حکومت کا یہ بھی اصرار ہے کہ ڈیزل کی سپلائی میں کوئی رکاوٹ نہیں حالانکہ مصر کو غیرملکی کمپنیوں کے پانچ ارب ڈالر ادا کرنا ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ابھی ذخائر موجود ہیں اور عالمی مارکیٹ سے گندم خریدنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔

تاہم عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صورت حال سنگین ہے۔’’ایشیا ٹائمز آن لائن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں مصری پائونڈ کی قیمت میں ساٹھ فیصد تک کمی ہونے کے بعد سوائے سبسڈائزڈ روٹی کے ہر شے مصری عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے جبکہ حقیقت میں روٹی کی سپلائی بھی خطرے میں ہے۔کرنسی کی قیمت گرنے سے امپورٹ کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بحران کی شدت بھی ضرب لے رہی ہے۔ملک میں ایندھن کی سپلائی بھی کم ہے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر ہے اور ملک کا زیادہ تر انحصار غیرملکی امداد اورقرضوں پر ہے۔

وزیر صاحبہ!’’آیئے چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے قالب میں گزار کر دیکھتے ہیں‘‘

$
0
0

عزیزی بیٹرس آسک!

بہت سی وجوہات ہمیں ایک دوسرے سے مختلف بتاتی ہیں۔ آپ پچاس کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوئیں، میری پیدائش ستر کے عشرے کے آواخر میں ہوئی۔ آپ ایک خاتون ہیں، میں ایک مرد ہوں۔ آپ سیاستدان ہیں، میں ایک مصنف ہوں۔ لیکن ہمارے درمیان کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ ہم دونوں نے بین الاقوامی اقتصادیات کا مضمون پڑھا ہے۔ (اور دونوں ہی ڈگری حاصل کرنے میں ناکام رہے) ہم دونوں کے بالوں کا اسٹائل تقریباً ایک جیسا ہے (گو ہمارے بالوںکا رنگ مختلف ہے)۔

اور ہم دونوں اس ملک کی مکمل شہریت رکھتے ہیں، اس ملک کی حدود میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری زبان، ہمارا قومی پرچم، تاریخ اور بنیادی ضوابط مشترک ہے۔ قانون کی نظر میں ہم دونوں برابر ہیں۔

لہٰذا مجھے پچھلی جمعرات کو P1 Morgan ریڈیو پر آپ کے اس سوال کا جواب سن کر تعجب ہوا کہ وزیر انصاف کی حیثیت سے آیا آپ کو اس بات پر تشویش ہے کہ عوام (شہری، ٹیکس گزار، ووٹ دینے والے) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس ان کو صرف ان کے حلیہ (سانولا رنگ اور بالوں کا سنہری کی بجائے کالا ہونا) کی بنیاد پر سرعام روک کر ان سے شناختی کارڈ طلب کرتی ہے۔ آپ کا جواب یوں تھا۔ کسی شہری سے ایسے سوال پوچھے جانے کا تجربہ اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔ جو سزا یافتہ ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ روک کر ان سے سوال جواب کیا جاتا ہے حالانکہ کسی فرد کے حلیہ سے آپ اس کے مجرم ہونے کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ پولیس کی جانب سے قانون اور ضابطہ کی حدود کی پاسداری کا اندازہ لگانے کیلئے آپ کو مجموعی صورتحال کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

’’سزا یافتہ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال دلچسپ ہے۔ مجھ جیسے سب سزا یافتہ ہی تو ہیں۔ ہمیں اس وقت تک موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے جب تک ہم بے قصور نہ قرار پائے جائیں۔ کسی فرد کا ذاتی تجربہ کب نسل پرستی کے ضابطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے؟ ایسا تجربہ کس مقام پر امتیازی رویئے، استحصال اور تشدد کی نوید بنتا ہے؟ مزید یہ کہ شہریوں کے متعدد ذاتی تجربوں کو کیسے نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟

ہیٹرس آسک، میری آپ سے ایک معمولی مانگ ہے۔ چلئے ہم ایک دوسرے کی جلد اور تجربات کی ادلی بدلی کرلیں۔ آئیے اس پیش کش کو قبول کیجئے۔ آپ کے ہلکے پھلکے خبط تو معروف ہیں (مجھے آپ کی وہ متنازع تجویز یاد ہے کہ جنس کے خریداروں کو قانونی پروانے بھجوانے کیلئے خوشبو دار لفافے استعمال ہونے چاہئیں)۔ ہم ایک دوسرے کے قالب میں چوبیس گھنٹے گزاریں گے۔

اولاً میں آپ کے قالب میں سموکر جان سکوں گا کہ سیاست کے مردانہ میدان میں ایک خاتون کیسا محسوس کرتی ہے، آپ میری جلد میں ملبوس ہوکر سمجھ سکیں گی کہ سڑک پر چلتے ہوئے، زیر زمین ٹرین کے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہوئے، کسی شاپنگ سنٹر کے اندر قدم رکھنے پر جب پولیس کو اپنی گھات میں کھڑا دیکھیں گی جو آگے بڑھ کے آپ سے آپ کی بے قصوری کا ثبوت مانگیں گے تو پھر آپ کی چند ایک یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ ماضی کی کچھ زیادتیاں چند وردیاں اور چند گُھوریاں۔ ہمیں دوسری جنگ عظیم کے جرمنی یا80ء کی دہائی کے شدید نسل پرست جنوبی افریقہ تک پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ سویڈن کی حالیہ تاریخ کا ذکر ہی کافی ہے، تجربات کا ایک بے ترتیب سلسلہ جو ہمارے قالب میں یکایک جاگ اٹھتا ہے۔

میری عمر چھ سال کی تھی جب میں اپنی فیملی کے ساتھ آرلینڈ کے مقام پر اترا تھا۔ جب ہم کسٹم کے عملے کی جانب بڑھ رہے تھے تو میرے والد کے ہاتھ پسینہ میں شرابور تھے۔ اس نے اپنے سر کے بال سیدھے کیے، اپنا گلہ صاف کیا اور پتلون کے پائینچوں پر جوتے پھیر کر ان کو چمکایا۔ اس نے دوبارہ اپنے سویڈش پاسپورٹ کو نکال کر دیکھا کہ وہ کوٹ کی صحیح جیب میں رکھا ہے۔ گلابی جلد والے سب مسافروں کو سیدھا باہر جانے دیا گیا لیکن میرے والد کو روک لیا گیا۔ ہم نے سوچا کہ ایسا شاید اتفاقاً ہوا ہے۔

ایسا ہی واقعہ ہمیں اس وقت پیش آیا جب میں دس برس کا ہو چلا تھا۔ شاید ایسا میرے والد کے عجیب و غریب تلفظ کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب میں بارہ برس کی عمر کو پہنچا تو بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملا۔ تب سوچا کہ شاید اس کی اصل وجہ میرے والد کا وہ بیگ تھا جس کی زِپ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے چودہ سال کی عمر میں بھی یہی کچھ دیکھا۔ یہی کچھ سولہ اور اٹھارہ سال کی عمر میں بھی میری آنکھوں کے آگے دُھرایا گیا۔

میں سات سال کی عمر میں سکول داخل ہوا۔ مجھے سویڈش سماج سے متعارف کرواتے ہوئے میرے والد کو یہ خوف تھا کہ ان کے ’’غیر‘‘ ہونے کی حیثیت ان کی اولاد کو وراثت میں منتقل ہوجائے گی۔ اس نے ہم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب تمہارا حُلیہ ہمارے جیسا ہو تو تمہیں دھتکار سے بچنے کیلئے دوسروں سے ہزاروں گنا بہتر ہونا ہوگا۔

کیوں؟

کیونکہ یہاں سب لوگ نسل پرست ہیں

کیا آپ بھی نسل پرست ہیں؟

میرے سوا باقی سب نسل پرست ہیں، کیونکہ نسل پرستوں کا یہی شیوہ ہے۔ نسل پرستی ہماری تاریخ، ہمارے DNA کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ یہ رویہ ہمیشہ دوسروں میں پایا جاتا ہے۔ میں اور ہم سب خود کو اس سے پاک سمجھتے ہیں۔

آٹھ سال کی عمر میں میں نے ایسی ایکشن فلمیں دیکھیں جن میں سیاہ فام کردار عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں، اونچی گہری آوازوں میں قسمیں کھاتے ہیں، خواتین پر تشدد کرتے ہیں، بچوں کو اغوا کرتے ہیں، زیادتیاں کرتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ سولہ، انیس بیس اور بتیس سال کی عمر میں بھی ایسے ہی یک رنگی کرداروں کو پردہ سیمیں پر یہ سب کچھ کرتے بار بار دیکھا۔

نو سال کی عمر کو پہنچ کر میں نے ارادہ کیا کہ اپنی جماعت کا ذہین ترین طالبعلم بنوں گا، یعنی دنیا کا عظیم ترین چاپلوس۔ پھر سب کچھ پلان کے مطابق ہوا اور جب ہماری صف اول کی جگہ کسی اور طالب علم نے لے لی تو سب نے بغیر سوچے سمجھے مان لیا کہ جماعت میں ہم ہی ایک فسادی تھے۔

دس سال کی عمر میں پہلی بار گنجے غنڈوں کے نرغے میں پھنسا جس کا تجربہ مجھے بعد میں بھی ہوتا رہا۔ وہ ظالم غنڈے Hogalidskyrkan کے علاقہ کے ایک بنچ پر بیٹھے مشترک قالب کودیکھ کر غرائے۔ ہم نے دوڑ لگائی اور ایک گھر کے دروازے کے پیچھے چھپ گئے، ہمارے منہ سے خون رس رہا تھا اور گھر تک دوڑتے دوڑتے ہمارا مشترک دل خرگوش کے دل کی طرح تیز دھڑک رہا تھا۔

گیارہ سال کی عمر میں ایسی کارٹون کہانیاں پڑھنے کوملیں جن میں مشرق کے لوگوں کو ملامتی صوفی دکھایا گیا تھا، خوبصورت بھوری آنکھوں کے حامل، لذت پرست لیکن دھوکہ باز۔

بارہ سال کے ہوئے تو Mega Skivakademien کی سپر مارکیٹ میں موسیقی کی سی ڈیز سننے جاتے اور ہر بار وہاں خود کو سکیورٹی کے عملے کے حصار میں محسوس کرتے۔ وہ آپس میں مستقل واکی ٹاکیز پر گفتگو کرتے اور چند میٹر کے فاصلہ پر ہمارا پیچھا کرتے۔ ہم خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے اور بڑے تردد سے اپنی باڈی لینگویج( حرکات سکنات) کو غیر مجرمانہ رکھتے اور دھیرے دھیرے ادھر اُدھر گھومتے رہتے۔ بیٹرس آپ پریشان نہ ہوں، اور معمول کے طور پر سانس لیتی رہیں۔ ہم سی ڈیز کے شیلف تک جاکر Tupac کا البم یوں نکالتے کہ ایسا کوئی شبہ نہ ہو کہ ہم اسے چرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن سکیورٹی گاڑی مستقل ہماری گھات میں رہتی۔ ہمارے مشترک قالب کی گہرائیوں میں شاید ایک شرم ناک خوشی کی لہر دوڑتی ہے کہ ہم نے اپنے آباء کو پھنسانے والے ایک ضابطہ کا مزہ چکھ لیا ہے۔ اپنے آباء کے یہاں ناکام ہونے کی وجہ تلاش کرلی اور یہ جان لیا کہ ان کے خواب ڈاک میں واپس شدہ روزگار کی عرضیوں کے سمندر میں کیسے دم توڑ گئے۔

تیرہ سال کے ہوئے تو یوتھ سنٹر میں فارغ وقت گزارتے جہاں مختلف کہانیاں سننے میں آتیں۔ ایک دوست کے بڑے بھائی کو Norrmalm پولیس سے تکرار کرنے پر پولیس وین میں گھسیٹ کر پھینک دیا گیا اور تشدد کے بعد اسے Nacka لے جاکر چھوڑ دیا گیا۔ ایک دوست کے کزن کو زیر زمین ٹرین کے Slussen اسٹیشن کی سکیورٹی کا کا عملہ پلیٹ فارم کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دھکیل کر لے گیا اور (اس کی رانوں پر ٹیلی فون ڈائرکٹری کی کتابیں باندھ دی گئیں کہ جسم پر تشدد کے نشان نہ پڑیں) زدوکوب کیا۔ پھر ہمارے والد کے دوست N کا قصہ سنا جن سے پوچھ گچھ کے دوران زبان کی لڑکھڑاہٹ کو شراب نوشی سے منسوب کرکے انہیں اٹھا کر شرابیوں کی حوالات میں بند کردیا گیا۔ اگلی صبح غلطی کا احساس ہونے پر ان کی موت کی وجہ عارضہ قلب لکھوائی گئی جبکہ ان کے جنازے میں شامل ان کی گرل فرینڈ کہہ رہی تھی کہ ’’اگر پولیس مجھ سے پوچھتی تو میں بتاتی کہ مرنے والے نے کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔‘‘

ساڑھے تیرہ سال کی عمر کو پہنچا تو ایسے شہر میں رہ رہا تھا جسے ایک لیزر کے نشانے والی رائفل بردار شخص نے ہراساں کررکھا تھا کیونکہ اس نے سات ماہ کے عرصہ میں گیارہ سیاہ فام لوگوں کو بھون ڈالا تھا اور پولیس کبھی حرکت میں نہ آئی تھی اور ہمارا مشترک ذہن یہ سوچنے لگا کہ ہمیشہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، عربی ناموں سے موسوم یہ کمزور ترین لوگ (اور یوں ہم اس وقت کی تمام یادیں بھول جاتے ہیں جب طاقت کے مختلف ضابطے رائج تھے ’جیسا کہ ہمارے سکول کا ایک لڑکا جسے سب یہودی پکارتے تھے‘ اس لڑکے کو سکول کے جنگلے سے اس کی پتلون سے یوں باندھ دیا جاتا کہ اس کی بیلٹ میں سے ایک قفل گزار کر بند کردیا جاتا تھا۔ جب وہ خود کو اس قید سے آزاد کروانا چاہتا تو سب لڑکے اس پر قہقے لگاتے اور وہ بیچارہ بھی ہنسنے  کی کوشش کرتا، تو کیا ہم بھی اس کی حالت پر ہنستے تھے؟)۔

چودہ سال کے ہوئے تو Hornsgatan میں میکڈانلڈ کے رستوران سے نکلنے پر دو پولیس افسروں کا ہم سے شناختی اوراق طلب کرنا بھی یاد ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں ایک بار Expert سٹور کے باہر بیٹھا تھا کہ پولیس کی ایک گاڑی سامنے آکے رکی، اس میں سے دو افسر باہر نکلے، مجھ سے میری شناخت طلب کی اور پوچھا کہ آج کی شام کیلئے میرے کیا ارادے ہیں۔ پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔

عمر کے اس تمام عرصہ اندر ہی اندر ایک تنازع برپا رہا۔ ایک آواز کہتی تھی کہ ان حرامیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھیں۔ آخر یہ وردی پوش حرامی سارے شہر کا محاصرہ تو نہیں کرسکتے۔ ہمارے محلوں میں ہمیں پریشان کرنے کی تو انہیں اجازت ہی نہیں۔

پھر دوسری آواز کہتی ہے کہ کیا معلوم ہم ہی قصور وار ہوں۔ ہم شاید زیادہ اونچی آواز میں گفتگو کرتے پائے گئے تھے۔ ہم نے پائوں میں جوگر اور جسم پر ہڈ والی جیکٹس پہن رکھی تھی، ہماری جین کی پتلونیں ہمارے سائز سے کہیں بڑی تھیں۔ جن میں بے تحاشہ مشکوک جیبیں جڑی تھیں۔ غلطی سے ہم نے اپنے بالوں پر اوباشوں والا رنگ چڑھا رکھا تھا۔

ہم اپنی جلد کا رنگ ہلکا کرسکتے تھے۔ ہم نوجوان تھے، اور سوچتے تھے کہ بڑا ہونے پر یہ سب کچھ لازماً تبدیل ہوجائے گا۔

اور بیٹرس آسک، ہمارا مشترک قالب جوان ہوتا رہا۔ ہم نے یوتھ سنٹر میں جانا چھوڑ دیا۔ ہم نے ہڈ والی جیکٹ کی بجائے کالا کوٹ زیب تن کرلیا اور ٹوپی کی جگہ مفلر اوڑھ لیا۔ باسکٹ بال کا کھیل چھوڑ کر ہم نے بزنس سکول میں اقتصادیات پڑھنا شروع کی۔ ایک روز ہم سٹاک ہوم کے سنٹرل ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑے اپنی کاپی میں کچھ لکھ رہے تھے (علم اقتصادیات کے طالب علم ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے زعم میں مصنف بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے)۔ اچانک ہماری دائیں جانب سے ایک کڑیل جوان نمودار ہوا جس نے کانوں میں ہیڈ فون لگا رکھا تھا  اور ہم سے شناختی کارڈ مانگنے لگا۔ پھر اس نے پولیس والوں کی طرح ہمیں بازوئوں سے پکڑ کر قریب کھڑی وین میں جا دھکیلا جہاں ہمیں شاید اس وقت تک بیٹھنا تھا جب تک ان کا مرکزی دفتر ہماری شناخت کی صحت کی تصدیق نہ کردے۔ غالباً ہمارا حُلیہ و شناخت کسی مشتبہ شخص سے جاملی تھی۔ ہم اکیلے تقریباً بیس منٹ اس پولیس وین میں بیٹھے رہے۔ لیکن پھر بھی تنہا نہ تھے کیونکہ سینکڑوں راہ گیر اس مقام سے گزرتے ہوئے ہم پر ایسی نگاہ ڈالتے جیسے کہ وہ کہہ رہے ہوں ’’لو، ایک اور دھرا گیا۔ وہ ایک اور ایسا شخص ہے جس کا عمل ہمارے تعصب کی دلیل ہے‘‘۔

کاش، بیٹرس آسک، آپ اس پولیس وین میں میرے ساتھ بیٹھی ہوتیں۔ لیکن آپ وہاں موجود نہ تھیں۔ میں تو اکیلا ہی وہاں براجمان تھا اور ہرگزرنے والے کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر انہیں اپنی بے قصوری کا یقین دلانا چاہتا کہ میں تو بس کسی جگہ پر ایک خاص انداز میں کھڑا پایا گیا تھا، لیکن پولیس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنی بے گناہی ثابت کرنا تو مشکل ہوتا ہے نا!

اور کسی ایسے معاشرے کا حصہ بننا ناممکن ہے جس میں اصحاب اقتدار کا ہمہ وقت یہ مفروضہ ہو کہ آپ تو ’’غیر‘‘ ہیں۔

بیس منٹ بعد ہمیں پولیس وین سے اترنے کو کہا گیا، کوئی معافی کا کلمہ نہیں، کوئی وجہ بتائے بغیر یہ کہا جاتا ہے‘ ’’اب تم جاسکتے ہو‘‘۔ ہمارا جذبات سے لبریز جسم وہاں سے چل کھڑا ہوتا ہے اور ذہن میں خیال گزرتا ہے کہ ’’مجھے اس واقعہ کو قلم بند کرنا چاہیے۔‘‘ لیکن میری انگلیوں کو معلوم تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ بیٹرس آسک، میرے تجربات مجھ جیسے دوسرے ’’اغیار‘‘ کے مقابلہ میں معمولی ہیں۔ ہمارے جسم کسٹم افسروں کا سامنا کرتے ہوئے پروان چڑھے ہیں۔ ہماری والدہ سویڈیش ہیں۔ ہماری زندگی ان لوگوں سے قدرے بہتر ہے جو بے اختیار ہیں، قلاش ہیں اور شناختی اوراق سے محروم۔ ہمیں ملک بدر کیے جانے کی دھمکیاں نہیں سننا پڑتیں۔ دوسرے ممالک کے سفر سے واپسی پر ہمیں جیل بھیجے جانے کاخوف نہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ دوسرے ’’اغیار‘‘ کو ہم سے زیادہ ظلم سہنا پڑتے ہیں ہم نے خاموش رہنا پسند کیا۔ یوں سالہا سال بیت گئے۔ پھر Reva کا قانون آیا جسے’’ضابطوں کے موثر نفاذ کا قانونی پراجیکٹ‘‘ بتایا گیا۔ پس پولیس نے شاپنگ سنٹروں اور غیر قانونی اجنبیوں کے مخصوص شفاخانوں کے باہر قطاروں میں کھڑے لوگوں سے شناخت طلب کرنا شروع کردی۔ سویڈن میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی فیملیوں کو زبردستی ایسے ممالک بھجوایا گیا جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے۔ سویڈن کے شہریوں سے ان کی شہریت کے ثبوت کے طور پر ان کے پاسپورٹ طلب کئے جانے لگے اور ایک وزیر انصاف نے یہ وضاحت پیش کی کہ اس رویہ کا نسلی امتیاز سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ کچھ لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے انفرادی واقعات تھے۔ طاقتوروں کے معمولات۔ تشدد کی کاروائیاں۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام ہی تو کررہا تھا۔ سکیورٹی گارڈ، پولیس، کسٹم کے افسر، سیاستدان اور عوام۔

یہاں آپ مجھے روک کر کہتی ہیں ’’یہ سمجھنا ایسا مشکل کیوں ہے؟ قانون کی پاسداری ہر ایک پر فرض ہے‘‘۔

اور ہم جواباً کہتے ہیں، ’’چاہے وہ قانون غیر قانونی ہی کیوں نہ ہو؟‘‘

آپ فرماتی ہیں کہ ’’یہ سب ترجیحات کا معاملہ ہے۔ اور ہمارے وسائل بھی تو لامحدود نہیں ہیں‘‘ اور ہم کہتے ہیں ’’قلاشوں پر ظلم ڈھانے کے لیے آپ کے پاس ہمیشہ دولت ہوتی ہے، لیکن ان بے چاروں کی حمایت کیلئے آپ کے وسائل کم پڑ جاتے ہیں‘‘۔

پھر آپ کہتی ہیں کہ ’’ہمارا وسیع فلاحی نظام اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے دروازے ہر ایک کیلئے کھول رکھیں‘‘۔

اور ہم اپنے گلے صاف کرتے ہوئے، اپنے پائوں زمین پر رگڑتے ہیں کیونکہ سچی بات ہے کہ ہم سے کوئی جواب نہ بن پڑ رہا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص ’’غیر قانونی‘‘ نہیں ہوتا اور جب وردی والے عدم تحفظ پھیلائیں اور قانون اپنے ہی شہریوں کے خلاف سرگرم ہوں تو بہتری کے کچھ اقدام کرنا لازم ہوجاتا ہے۔

بیٹرس آسک، اب تو آپ کی ناک میں دم آنے لگا ہوگا‘ اور آپ ہمارے مشترک قالب سے جان چھڑانے کی کوشش کررہی ہوں گی، اور میرے قارئین کی طرح آپ بھی سوچتی ہوں گی کہ اب بہت ہوگئی اور معاملہ کو طوالت دی جارہی ہے، ایک ہی بات کو باربار دہرایا جارہا ہے اور کوئی مدعا واضح نہیں ہوتا۔ آپ صحیح ہیں، کسی بات کا خاتمہ نہیں ہوتا، کیونکہ حل حتمی نہیں ہوتا، کوئی اخراج ہنگامی نہیں ہوتا، سب کچھ دہرایا ہی تو جاتا ہے۔ کیونکہ اقتدار کے استعمال کے ضابطے صرف اس لیے معدوم نہیں ہوجائیں گے کہ ہم نے Reva کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ Reva کا قانون ہلکی شدت کے مستقل جبر کا منطقی بڑھاوا ہی تو ہے۔ Reva کی حجت ہماری قوم کے تصور خودی کی تشکیل نو کی ناکامی ہے۔ آج آپ کے قریب واقع بار میں رنگین چمڑی والے سکیورٹی کے عملے سے بچنے کیلئے جان بوجھ کر ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور کل گھر حاصل کرنے کے امیدواروں کی قطار میں کھڑے ایسے لوگ جن کے نام غیر ملکی ہیں اپنے ازواج کے سویڈش نام درج کروائیں گے تاکہ ان کے نام کو فہرست سے خارج نہ کردیا جائے اور مجھے ابھی بتایا گیا ہے کہ ایک عام سویڈش شہری نے ایک آسامی کیلئے اپنی عرضی میں خود کو جلی حروف میں ’’سویڈن کی جم پل‘‘ ظاہر کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔

لیکن اس کے بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کرتا۔ اس کے بجائے ہماری توجہ ایسے لوگوں کی تلاش میں لگی ہوتی ہے جو اس حفظ و امان کی تلاش میں یہاں آئے ہیں جو ہم نہایت فخر سے اپنے (چند) شہریوں کو فراہم کرتے ہیں اور میں یہ سب اس لیے تحریر کررہا ہوں ’’ہم‘‘ اس مجمع کاحصہ ہیں، اس معاشرتی قالب کا اور اس ’’ہم‘‘ کا بھی۔ اب آپ جاسکتی ہیں۔

جوناس حسن خیمیری

حسن خیمیری 1978ء سویڈن میں پیدا ہوا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مصنف ہے اور اب تک تین ناول اور چھ ڈرامے تخلیق کرچکا ہے۔ اس کا پہلا ناول ون ریڈ آئی (One Red Eye) ’’بورس ٹائیڈنگ ایوارڈ‘‘ برائے بہترین تخلیقی ادب کا حقدار قرار پایا۔ اس کے دوسرے ناول Montecore نے سال کے بہترین ناول کے لیے سویڈش ریڈیو ایوارڈ سمیت غیر معمولی پذیرائی اور کئی ادبی ایوارڈ حاصل کیے۔ خیمیری کے ادبی کام کے دنیا کی پندرہ اہم زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں جبکہ دنیا کی 40 سے زائد کمپنیاں اس کے ڈراموں کو سٹیج کرچکی ہیں۔مسلمانوں اور غیر یورپی تارکین وطن سے امتیازی رویے کی حمایت کرنے پر حسن نے وزیر انصاف بیٹرس آسک کو ایک خط تحریر کیا جو ایک ادب پارے سے کم نہیں۔آن لائن ادبی جریدے Asymptote کے لیے اس کا انگریزی ترجمہ ریچل ولسن بروے لس نے کیا۔ ریچل اِس خط کے پس منظر کے بارے میں Asmptote میں لکھتی ہیں:

سویڈن کی حکومت اور مائیگریشن بورڈ نے 2009ء میں REVA پروجیکٹ متعارف کروایا تھا جس کا مقصد سویڈن میں رہائش پذیر غیر قانونی تارکین وطن کے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے کام کو یقینی بنانا تھا۔ اس پروگرام کو اب جاکر دارالحکومت سٹاک ہوم میں نافذ کردیا گیا ہے اور پولیس ہر اُس شخص کے کاغذات چیک کررہی جس پر انہیں شک ہوتا ہے حالانکہ پولیس کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ لوگوں کی شکل و صورت اور حُلیے کو بنیاد بنا کر نہیں چیک کریں، لیکن اس بارے میں بے شمار شکایات ہیں کہ صرف ان لوگوں کو روکا جاتا ہے جو شکل و صورت سے سویڈن کے مقامی باشندے نہیں لگتے۔

عام تاثر یہ ہے کہ پولیس زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے نسلی امتیاز کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے اس بات پر بڑا شور اُٹھا، لیکن جب وزیر انصاف بیٹرکس آسک کو ایک ریڈیو انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آیا انہیں اس بات پر تشویش ہے، تو ان کا جواب تھا ’’جس بات کو لوگ نسل پرستانہ رویہ کہتے ہیں وہ تاثر انفرادی تجربات پر مبنی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کسی قسم کے اقدامات کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ وزیر انصاف کے اس جواب کے ردعمل میں حسن خیمیری نے انہیں یہ خط تحریر کیا تھا۔ 13 مارچ، 2013ء کو یہ خط سٹاک ہوم کے اخبار Dagens Hyheter میں شائع ہوگیا۔ اسی دن کے اختتام تک اس خط نے سوشل میڈیا پر ایک دن میں سب سے زیادہ شیئر کیے جانے والی تحریر کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اخبار کے مطابق ٹویٹر Twitter پر اس خط کو اتنا شیئر کیا گیا کہ اکائونٹ رکھنے والے سویڈن کے ہر شہری کے پاس پہنچ جائے۔ اس وقت یہ تحریر سویڈن میں آج تک سب سے زیادہ شہرت پانے والی تحریر کا امتیاز حاصل کرچکی ہے۔

Asymptote(خط متقاربہ) علم جیومیٹری میں Asymptote ایسے خط (لکیر) کو کہتے ہیں جو کسی دوسر خط کے بتدریج قریب ہوتا چلا جائے مگر اسے چھوئے نہیں) ایک آن لائن ادبی مجلہ ہے جس کا مقصد دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی اہم ادبی تخلیقات کو منظر عام لانا ہے۔ اس وقت یہ جریدہ دنیا کی 54 مختلف زبانوں میں کام کررہا ہے، یہ تحریریں دنیا کے 75 مختلف ممالک سے حاصل ہوتی ہیں۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دنیا کے اہم ادیب اور دانشور Asymlotote کے ساتھ منسلک ہیں۔

ریچل ولسن بروے لس

ریچسل یونیورسٹی آف وسکونسن۔ میڈی سن میں مطالعہ سیکنڈے نیویا کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ وہ جوناس حسن کے ناول Montecore کا انگریزی میں ترجمہ کرچکی ہیں۔ سویڈن کی وزیر قانون و انصاف بٹیرس آسک کوجو خط جو ناس حسن خیمیری نے تحریر کیا تھا اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی ریچل نے کیا تھا۔ جسے بعد میں بیرون ملک طویل عرصہ سفارتی خدمات انجام دینے والے سابق پاکستانی ڈپلومیٹ توحید احمد نے اردو میں منتقل کیا ہے۔

سوئٹزر لینڈ کالے دھن کے بعد خفیہ معلومات کا گڑھ بننے لگا

$
0
0

 سوئٹزرلینڈ کی وجہ شہرت صرف اس کے برف سے ڈھکے پرفضا مقامات ہی نہیں بلکہ وہاں کے بینکوں میں موجود کالادھن بھی ہے۔

لیکن اب کالے دھن کے ساتھ اہم دستاویزات بھی ’’سوئس ڈیٹا بینکس‘‘ میں محفوظ کی جاسکتی ہیں ۔ امریکا کے انٹرنیٹ اور فون کالز کی نگرانی کے خفیہ پروگرام ’’پرزم‘‘ کا راز افشاء ہونے کے بعد بہت سے اداروں نے اپنے کاروباری ڈیٹا (معلومات) کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسی جگہ تلاش کرنی شروع کردی تھی جہاں وہ جاسوسی سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوئس ہوسٹنگ کمپنی آرٹ موشن (Artmotion) نے اپنے گاہکوں کو یہ سہولت فراہم کرنی شروع کردی ہے کہ وہ ا ن کے پاس اپنی قیمتی معلومات محفوظ کر سکتے ہیں، جہاں تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

اس حوالے سے کمپنی کے چیف ایگزیکٹو میٹیو میئر(Mateo Meier) کا کہنا ہے کہ پرزم کے انکشاف کے بعد سے ہمارے نئے گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان میں زیادہ تعداد امریکیوں کی ہے جو خود اپنی ہی حکومت کی نگرانی کا شکار ہو رہے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں میں ہمارے کاروبار میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ڈیٹا اسٹوریج کے لیے سوئٹزرلینڈ کو مقبولیت حاصل ہے، کیوںکہ وہاں کے سرد ماحول میں سرورز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کم توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ میئرکا کہنا ہے کہ ہماری کمپنی کے کاروبار میں اضافے کی وجہ سرد ماحول نہیں۔ ہماری کمپنی کے محل وقوع کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارے پاس محفوظ ہونے والی معلومات پر یورپی یونین کے قواعد کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سوئٹزرلینڈ کی غیرجانب داری کی وجہ سے وہاں محفوظ ہونے والی معلومات کی رازداری اور تحفظ پر صرف ملکی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’سوئس ڈیٹا پروٹیکشن ایجنسی‘‘ کے پاس سرحد پار ڈیٹا (معلومات) کی منتقلی روکنے کا حق ہے، اگر اسے یہ محسوس ہو کہ معلومات وصول کرنے والا ملک ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کرسکتا۔

میئر نے کہا کہ یہی قانون ہمارے لیے سیلنگ پوائنٹ ہے اور پرزم سے پہلے بھی ہمارے کئی گاہک ایسے تھے جنہیں اپنی کمپنی کی خفیہ معلومات کے حوالے سے تحفظات تھے اور ان میں اکثر کے پرانے ڈیٹا سرور پر کسی نہ کسی نوعیت کے سیکیوریٹی مسائل تھے۔

مئیر نے بتایا کہ ہم اس وقت کلائنٹ کے تحفظات دیکھ رہے ہیں اور اس وقت ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس پروگرام میں حصہ لینے والی کمپنیوں کے صارفین کی معلومات کا غلط استعمال ہوا ہے یا نہیں۔

واضح رہے کہ ’’پرزم‘‘ کے خلاف امریکا سمیت کئی یورپی ممالک میں احتجاج کیا جا رہا ہے اور گذشتہ ہفتے یورپی یونین کی نائب صدر نیلی کروئس نے ایک بیان میں ’’پرزم‘‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ جاسوسی نے ہمارا اعتماد ختم کردیا ہے اور اگر یورپ کے کلائوڈ (کلا ئوڈ یا ورچوئل سرور کسی آپریٹنگ سسٹم پر ڈیڈی کیٹڈ سرور خریدے بنا معلومات کو بہ حفاظت اور موثر طریقے سے کنٹرول کرنے کو کہتے ہیں اور صارفین اپنے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ یا موبائل فون سے اپنی معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں) صارفین امریکی کمپنیوں پر یقین نہیں کرسکتے تو پھر شاید وہ کلائوڈ فراہم کرنے والی امریکی کمپنیوں پر بھی بھروسا نہیں کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ میرا اندازہ ہے اور اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر امریکی کمپنیوں کو اربوں یورو کے نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔

امریکا کے انٹرنیٹ اور فون کالز کی خفیہ نگرانی کے پروگرام ’’پرزم‘‘ کے بارے میں انکشاف گذشتہ ماہ نیشنل سیکیوریٹی ایجنسی کے ایک اہل کار ایڈورڈ سنو ڈین نے برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ اور ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں کیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں تہلکا مچ گیا تھا۔امریکا نے معلومات تک رسائی کس طرح حاصل کی:

ستمبر 2003 میں فائبرآپٹک خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ’’گلوبل کراسنگ‘‘ کے ساتھ ’’نیٹ ورک سیکیوریٹی ایگریمنٹ‘‘ کے نام سے ہونے والے معاہدے نے امریکا کو نگرانی کے لیے فائبر آپٹک کیبلز تک رسائی دی۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد امریکا کے مواصلاتی نظام کو غیرملکی جاسوسی اور ایسے اقدامات سے بچانا تھا جو ملکی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہوں، لیکن امریکی حکام نگرانی کے مجاز نہیں تھے۔ اس معاہدے سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ امریکا کی حکومتی ایجنسیوں نے جب ان کمپنیوں سے بڑے پیمانے پر دنیا بھر سے منتقل ہونے والی معلومات تک رسائی میں دل چسپی ظاہر کی تو پھر ان کمپنیوں نے بھی خفیہ طور پر معلومات فراہم کرنی شروع کردیں، جب کہ فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن نے مواصلاتی آلات فراہم کرنے والی امریکی کمپنی ’’ٹیم ٹیلی کوم‘‘ کو اس وقت تک منظوری نہیں دی جب تک اس نے اس سیکیوریٹی ایگریمنٹ پر دستخط نہیں کیے۔

معاہدے کے تحت27  ملکوں اور 4 برِاعظموں کو فائبرآپٹک کیبلز سے منسلک کرنے والی کمپنی ’’گلوبل کراسنگ‘‘ کے لیے ایک ’’نیٹ ورک آپریشنز سینٹر‘‘ بنانا ضروری تھا، جہاں حکومتی اہل کار آسکیں۔ شروع میں کچھ افراد نے اس پروگرام کو صیغۂ راز میں رکھنے کا حلف اٹھاکر نگرانی کا کام سر انجام دیا اور بہت سے کیسز میں کمپنی کے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو کے ساتھ بھی ممنوعہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا۔دنیا بھر میں لاکھوں افراد چیٹنگ، برائوزنگ، تصاویر بھیجنے سمیت دیگر آن لائن سہولیات استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر معلومات امریکا کی تیکنیکی نگرانی کی پہنچ میں ہیں۔ دنیا بھر کی لاکھوں ڈیوائسز سے جمع ہونے والی ان معلومات کو امریکا اور اس کے اتحادی مانیٹر کرنے کے اہل ہیں۔ نیشنل سیکیوریٹی ایجنسی کی دستاویزات کے مطابق ’’پرزم‘‘ پروگرام کے متوازی چلنے والے فائبر آپٹکس نیٹ ورک کی نگرانی نے انہیں 9 بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں گوگل، فیس بک، مائکروسافٹ، یاہو، اے او ایل اور ایپل کے ڈیٹا تک رسائی دے دی تھی۔ تاہم، ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے محدود معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

ایک گلوبل ریسرچ فرم ٹیلی جیوگرافی کا کہنا ہے کہ معلومات کی منتقلی سے پہلے ہی امریکا کی انٹرنیٹ کمپنیوں نے اپنے انفرا اسٹرکچر میں تبدیلی کرتے ہوئے، سیٹلائیٹ، مائیکروویو اور ٹیلی فون کی تانبے کی تاروں کو فائبر آپٹک کیبلز سے تبدیل کردیا، جو کہ امریکی نگرانی کا اہم ہدف تھے۔ زیرآب بچھی یہ فائبرآپٹک کیبلز زیادہ بہترمعیار اور ہزاروں گیگابائٹس فی سیکنڈ کے حساب سے ڈیٹا منتقل کرتی ہیں اور اب دنیا بھر میں زیرآب بچھی ان سیکڑوں تاروں سے 99فی صد ڈیٹا منتقل ہوتا ہے، جن میں بین الاقوامی ٹیلی فون کالیں بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خفیہ اداروں کے لئے فائبر آپٹک کیبلز معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ بن گئی ہیں۔

آپ کا ڈیٹا کس حد تک محفوظ ہے؟

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیٹا (معلومات) کے حصول کے لیے صرف فائبر آپٹک پر ہی انحصار نہیں کیا جاتا، بلکہ آپ کے کمپیوٹر کا میٹا ڈیٹا (معلومات کا ایسا سیٹ جو دوسرے ڈیٹا کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے) آپ کی ساری معلومات کو محفوظ کرتا ہے کہ آپ نے کب کس کو ای میل کی اور اس کا کیا جواب آیا؟ یاآپ کون سا سرور استعمال کر رہے ہیں؟

میٹا ڈیٹا ہماری اتنی معلومات رکھتا ہے جتنی ہم خود نہیں رکھتے۔ جب ہم انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ڈیٹا بنارہے ہوتے ہیں جسے جمع اور اس کا تجزیہ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ مثلاً:

جب ہم گوگل پر ایک سستے صوفے کی تلاش کرتے ہیں تو مختلف ویب سائیٹ پر فرنیچر کے اشتہارات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ ان ٹریکنگ کوکیز کی وجہ سے ہوتا ہے جو استعمال کنندہ کے ویب برائوزر میں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ٹریکنگ کوکیز ہمارے جمع کیے گئے ڈیٹا (معلومات) کو ہمارے برائوزر پر موجود ویب سائٹ کو فراہم کر دیتی ہیں، جس سے مطلوبہ ویب سائٹ ہمارے برائوزر پر انجام دی جانے والی پچھلی سرگرمیوں سے باخبر ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی ٹریکنگ اشتہاری صنعت کے لیے دل چسپی کا باعث ہے، کیوںکہ اس طرح انہیں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین تک بہترین رسائی مل جاتی ہے، لیکن حکومت یا خفیہ ادارے ان کوکیز سے زیادہ دل چسپی میٹا ڈیٹا میں رکھتے ہیں، کیوںکہ اس سے انہیں مطلوبہ ویب کونٹینٹ تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر:

ڈیجیٹل تصاویر استعمال کیے گئے کیمرے، تصویر کی ریزولیشن اور اس کی دیگر خصوصیات ظاہر کرتی ہیں، جب کہ اسمارٹ فنکشن سے مزین کیمرے اتنے جدید ہیں کہ اگر استعمال کنندہ نے ٹریکنگ فیچرز کو بند نہیں کیا تو وہ اس مقام تک کی نشان دہی کر دیتے ہیں کہ تصویر کہاں بنائی گئی تھی اور اسی طرح کی معلومات کو خفیہ ادارے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ’’کس نے کسے کب اور کہا ں ای میل کی۔‘‘ یہ تمام معلومات میٹاڈیٹا میں موجود ہوتی ہیں۔ میٹا ڈیٹا میں ای میل بھیجنے والے، وصول کرنے والے، پتا، تاریخ اور جس سرور سے ای میل بھیجی گئی ہے کی ساری معلومات موجود ہوتی ہیں۔

میسا چیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کسی بھی انٹرنیٹ صارف کے میٹا ڈیٹا سے کس حد تک معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں، جب کہ گوگل اکائونٹ رکھنے والے استعمال کنندہ کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اپنی ای میل سے بننے والا میٹا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے اور اس بات کا تعین بہت آسان ہے کہ استعمال کنندہ نے کتنی بار کس کے ساتھ رابطہ کیا اور یقیناً یہ بہت بڑا خطرہ ہے خصوصاً انٹرنیٹ کے حوالے سے کم معلومات رکھنے والے صارفین کے لیے، کیوںکہ کہ امریکی حکام نے یوزرز اور ان کے حلقہ احباب پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور وہ ای میل کھولے یا پڑھے بغیر بھی اس سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

پرزم کے بعد بہت سے انٹرنیٹ صارفین نے کہا تھا کہ ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور انہیں یہ حقیقت بھی پتا ہے کہ حکام ای میل پڑھنے یا ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو نہیں سن رہے بلکہ پہلے مرحلے میں انہوں نے صرف ڈیٹا جمع کیا ہے۔ اس حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر جارج برنس مین کا کہنا ہے کہ یہ سب کام مشینوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر مشین یہ دیکھ سکتی ہے کہ:اسامہ بن لادن نے دو سال کے عرصے میں جین اسمتھ کو 30 ای میل بھیجیں، لیکن اسامہ مر چکا ہے اور اسمتھ اب تک زندہ ہے تو پھر یہ بات ان کے لیے دل چسپی کا باعث ہے، لیکن اگر کسی ای میل میں صرف پالتو جانوروں کی بات کی گئی ہے تو پھر اس میں ان کے لیے کوئی دل چسپ بات نہیں۔

کیا ڈیٹا انکرپشن سے معلومات محفوظ کی جاسکتی ہے؟

گرچہ ایسے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بہت کم ہے جو اپنی ای میل کے پیغام کو انکرپٹ (ڈیٹا کو کوڈ میں منتقل کرنا)کرتے ہیں اور اس کام کے لیے TrueCrypt  اور GnuPrivacyGuard جیسے سافٹ وئیر آن لائن تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے، لیکن ’’میٹا ڈیٹا‘‘ کو انکرپٹ نہیں کیا جا سکتا اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ سرورز اور نیٹ ورک کا استعمال کیا جائے جو متواتر اپنا ایڈریس تبدیل کرتے ہیں اس سے صارف کو ٹریک کرنا مشکل ہوجائے گا۔

انٹرنیٹ صارفین چاہے وہ انٹرنیٹ زیادہ استعمال کر تے ہوں یا کم اپنے نشانات آن لائن چھوڑ دیتے ہیں اور فیس بک یا ٹوئٹر جیسی سوشل ویب سائٹس استعمال کرنے والے صارفین نہ صرف اپنا ڈیٹا دے رہے ہیں بلکہ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بے تحاشا معلومات بھی آن لائن فراہم کر رہے ہیں اور نیٹ ورک پر تھرڈ پارٹی ان کا ڈیٹا استعمال کر سکتی ہے اور نہ صر ف سوشل میڈیا بلکہ موبائل ایپلی کیشنز، اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی ان معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہے دنیا بھر میں تقریباً 45ملکوں میں ’’ڈیٹا سینٹر‘‘ ہیں اور امریکا 890 ڈیٹا سینٹرز کے ساتھ سر فہرست ہے۔ لیکن ’’پرزم‘‘ کے بعد ان ڈیٹا سینٹرز کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ معلومات محفوظ کرنے کے لیے سوئٹزر لینڈ کے ڈیٹا سینٹرز دنیا بھر کے کاروباری اداروں کی اولین ترجیح بن گئے ہیں۔

بازار حسن سے پان کھانے کی عادت پران کو پردۂ سیمیں تک لے آئی

$
0
0

لاہور کے بازارحسن میں پان کھانے کے لیے جانا پران کے اداکاربننے کی بنیاد بنا۔ فلم میں کام کرنے کا خیال کبھی ان کے گمان میں بھی نہیں آیاتھا۔ ان کے دماغ میں صرف اورصرف فوٹوگرافربننے کا سودا سمایا تھا۔

اس شوق کی خاطرہی وہ اپنا گھربارچھوڑکر اٹھارہ برس کی عمرمیں لاہور آگئے تھے۔دہلی میں جس فوٹوگرافرز کمپنی سے وہ وابستہ تھے اس نے لاہور میں برانچ کھولی تو پران کو یہاں بھیج دیا گیا۔شوق جس قدرفراواں ہو،آدمی رموز اتنی ہی سرعت سے سیکھ لیتا ہے،اس لیے پران فن فوٹوگرافی سے متعلق بہت کچھ بہت جلد جان گئے۔وہ اپنے کام کی رفتار سے مطمئن اور شاد کام تھے لیکن بیچ میں ایسا پیچ پڑا کہ انہیں اپنے اُس شوق سے ناتا توڑنا پڑا جس سے وہ میٹر ک کے بعد جڑ گئے تھے۔ اس کے بجائے انھیں وہ پیشہ اپنانا پڑا، جس میںتصویریں اتارنے کے بجائے تصویر اترنے کا سامان پیدا ہونا تھا۔ قسمت کس طرح پران کو گھیرگھار کر فلم انڈسٹری میں لے گئی،اس کا احوال کچھ یوں ہے کہ پران کام سے فراغت کے بعد دوستوں کے ہمراہ سیرسپاٹے کے لیے نکلتے تو کھانے کے بعد بازارحسن کا رخ بھی کرتے جہاں مقیم حسینائوں کا رخ روشن بھی وہ ضروردیکھتے ہوں گے اور ان کی آواز سے جی بھی بہلاتے ہوں گے لیکن بازار میں جانے کی ایک وجہ پان کھانا بھی تھا۔

1939ء میں سردیوں کی ایک رات وہ حسب معمول پان کھانے ادھر آئے تو دیکھا کہ ایک شخص بڑے غور سے ان کو سرتا پا دیکھ رہا ہے۔ پہلے پہل تو پران نے اسے نظرانداز کیا لیکن جب ان صاحب نے بڑھ کر ان کا نام پوچھ لیا تو پران نے انھیں ٹکا سا جواب دیا۔ان سے مخاطب شخص فلمی دنیا کی معروف شخصیت ولی محمد ولی تھے، جو ولی صاحب کے نام سے معروف تھے۔انھوں نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم رائٹر ہیں اور مشہور پروڈیوسردل سکھ پنچولی کے لیے فلم لکھ رہے ہیں۔ پران نے ولی صاحب کی تمام معروضات سن تو لیں لیکن روکھائی سے کہا: توپھر؟ولی صاحب نے اس ترش روئی پربھی پران کا پیچھا نہ چھوڑا کہ انھیں پران کے پان چبانے کی لُک میں اپنے اسکرپٹ میں موجود کردار کا پرتونظرآگیاتھا ۔اب ان کا سوال تھا ’’کیا آپ فلم میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟‘‘اس سوال پر پران کا جواب نفی میں تھا۔

بہرکیف ولی صاحب کو اس جواب نے بھی مایوس نہ کیااور انھوں نے اپنا کارڈ پران کو دے کر اگلے روز صبح دس بجے فلم اسٹوڈیوآنے کی دعوت دی،جس کو پران نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے قبول کرلیا۔ پران کو فلم اسٹوڈیو جانا تھا نہ وہ گئے۔چند دن بعد وہ پلازہ سینما میں فلم دیکھنے گئے تو ادھر ولی صاحب سے ملاقات ہوگئی، جنھوں نے اس نوجوان کو وعدے کے مطابق فلم اسٹوڈیو نہ آنے پرکھری کھری سنائیں۔ اس گوشمالی کا پران پرخاطر خواہ اثر ہوا۔ انھوں نے اسٹوڈیو آنے کا وعدہ کیا اور پھر اسے وفا کرنے ادھر پہنچ بھی گئے۔ اسکرین ٹیسٹ کے ساتھ پران کی تصویریں بھی بنائی گئیں، جو کچھ دیر میں دھل کر آگئیں۔ پران کے بقول،جیسا خوبصورت وہ ان تصاویر میں دکھائی دیا، آنے والے برسوںمیں ہرچند کہ اس کی ہزاروں تصاویر بنیں لیکن ویسی خوبصورتی پھر دکھائی نہیں دی۔ پران کے بقول،’’ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ میرا میک اپ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا تھا یا پھر فوٹوگرافرکوئی ماہر تھا یا پھرمیں کوئی بڑا خوبصورت آدمی تھا۔

اصل بات یہ تھی کہ میں اس وقت اداکارنہیں بنا تھا اورحقیقی زندگی گزار رہا تھا،ایک عام زندگی جو دوسرے لاکھوں لوگوں جیسی تھی۔‘‘ قصہ مختصریہ کہ پران کا پنجابی فلم ’’یملا جٹ‘‘ کے لیے انتخاب ہوگیا۔ پران ذہنی اعتبار سے فلم میں کام کے لیے تیار تھا لیکن فوٹوگرافر سے فلمی اداکار بننے کے فیصلے سے باپ کو آگاہ کرنا چاہتا تھا۔اس زمانے میں فلم والا ہونا عزت کی بات نہ تھا۔پران کا شش وپنج میں پڑنا سیٹھ دل سکھ پنچولی کو ناگوارگزرا تو اس نے بغیر لگی لپٹی کے اس باور کرا دیا کہ وہ خوش قسمت ہے جو اسے یہ چانس مل رہا ہے وگرنہ تو فلم میں کام کے خواہش مندوں کی لائنیں لگی ہیں۔ پران پر واضح کردیا گیا کہ اسے فلم اسٹوڈیو کا فارم فوراً بھرنا ہوگا۔پران کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ فوٹو گرافرز کمپنی سے فوٹوگرافر اسسٹنٹ کے طور پر اسے دو سو ماہانہ ملتے تھے جبکہ ادھراسے ماہانہ پچاس روپے کی پیشکش کی جارہی تھی۔ پنچولی نے اب انھیں کہاکہ وہ بدستور دکان پر جاتے رہیں ، جب شوٹنگ ہوگی، یا ان کی ضرورت پڑے گی تو انھیں بلا لیا جائے گا۔

یوں پران نے فارم پر دستخط کردیے اور یوں وہ پنچولی آرٹ پکچرز اسٹوڈیوز میں ملازم ہوگئے۔ پران کے بقول، ’’یملاجٹ ‘‘ ریلیز ہونے کے بعد انہیں لوفرکے بجائے اداکار سمجھا جانے لگا تھا۔ پنچولی اسٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے پنجابی فلم ’’چودھری‘‘ میں بھی انھیں کاسٹ کیا گیا ۔یہ فلم بھی ہٹ ہوئی۔اس کے بعد فلم ’’خزانچی‘‘ میں جلوہ گر ہوئے۔لیکن صحیح معنوں میں پران کو جس فلم سے بریک ملا وہ1942 میں بننے والی فلم ’’خاندان‘‘تھی۔ پران کو اس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر تو پہنچا دیالیکن فلم میں گانوں کی بھرمار اور ہیروین کے پیچھے درختوں کے گرد بھاگنا انہیں زیادہ اچھا نہیں لگا۔ اس سوچ کے زیراثر پران نے آئندہ برسوں میں خود کو ولن کے کرداروں کے لیے مخصوص کرلیا تھاکیوں کہ ان کے خیال میں ایسے کردار میں آپ زیادہ بہترطور پر فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہارکرسکتے ہیں۔

لاہور میں قیام کے دوران پران کی فلمی صحافی وی این نیرسے بھی دوستی ہوئی۔نیر نے1940ء میں لاہور سے انگریزی ماہنامہ فلم کرٹک جاری کیا۔ نیرکی سفارش پر پران کو پنجابی فلم ’’پردیسی بلم‘‘ میں چانس ملا۔یہ فلم بھی کامیاب رہی۔اس فلم کی پران کی زندگی میں اہمیت یہ تھی کہ اس سے حاصل ہونے والے معاوضے سے انھوں نے کار خریدی۔ 1945 ء میں پران کی شادی جان پہچان کے لوگوں کی لڑکی شکلا سے ہوئی، معاملہ تھوڑا لٹکاجس کی وجہ لڑکے کا فلم میں کام کرنا تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس لیے کام بن گیا۔ پران اس شادی کو محبت اور ارینج دونوں ہی قراردیتے ہیں۔ دونوں خاندانوں کے تعلقات قریبی رہے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ شکلا نے ایک جگہ بتایا ہے کہ جب پران کی پہلی فلم یملا جٹ ریلیز ہوئی تواس کا تمام خاندان اسے دیکھنے کے لیے راولپنڈی سے لاہور گیا۔ لاہور میں اپنے آٹھ برس کے فلمی کیرئیر میں پران نے 22فلموں میں کام کیا۔ سب سے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم ’’بیرہاں‘‘ تھی، جو 1948 ء میں ریلیز ہوئی۔

ان کی فلم ’’بت تراش‘‘ فسادات کے زمانے میں ریلیز ہوئی۔ فلم ’’شاہی لٹیرا‘‘ تو تقسیم کے بعد بھی لاہور میں فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ پران کو لاہور شہرنے اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تھا۔یہاں انھوں نے بڑے مزے سے زندگی گزاری۔ گلے میں کیمرہ ڈالے وہ سائیکل پرگھومتے پھرتے۔موٹرسائیکل پر شہرنوردی بھی کی اور ایک بار تو ایکسیڈنٹ کرا بیٹھے جس پر انہیں مجسٹریٹ کے حضورپیش ہوکر صفائی دینا پڑی۔ ان کا اپنا ذاتی ٹانگہ تھا۔ اس شہر ہی میں انہوں نے پہلی گاڑی خریدی۔  11اگست1946ء کو پران کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاسی فضا کی گرما گرمی سے ماحول میں تنائو تھا اور جوں جوں آزادی کا وقت قریب آرہا تھا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کمزور پڑتی جارہی تھی۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بیوی اور نوزائیدہ بچے کو پران نے اندور بجھوادیا۔ کشیدگی عروج پر پُہنچی تو انھیں خود بھی لاہور چھوڑنا پڑا۔ پران کے سوانح نگار بنی روبن کے مطابق، اگر تقسیم نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ پران لاہور میں رہنے کو ترجیح دیتے کیوں کہ وہ یہاں اپنی ازدواجی زندگی شروع کرچکے تھے۔

معروف براڈ کاسٹر عارف وقارکے بقول’’اداکار پران جو لاہور کو دل وجان سے چاہتے تھے، آخری وقت تک حالات بہتر ہونے کاانتظارکرتے رہے انھوں نے اپنی بیوی اور ایک سالہ بچے کو اندوربھیج دیا تھا لیکن خود لاہور چھوڑنے کو ان کا دل نہ چاہتا تھا۔گیارہ اگست1947ء کو خیر خواہوں کے اصرارپر انھوں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور بھاری قدموں سے لاہور کوخیرباد کہا اور اگلے ہی روز ان کے محلے پر فرقہ پرستوں نے حملہ کردیا۔ بہت سے ہندومارے گئے، جو بچ رہے انھوں نے فوراً رخت سفر باندھا اور محفوظ علاقوں کی راہ لی۔ ‘‘

نورجہاں اور پران

پران کی پہلی فلم’’یملاجٹ‘‘میں نورجہاں نے بھی کام کیا۔ وہ اس زمانے میں چائیلڈ اسٹارتھیں اور بے بی نورجہاں کے نام سے جانی جاتیں۔’’یملا جٹ‘‘ میں پران ولن بنے۔نورجہاں نے ہیروین کی سہیلی کا کردار کیا۔ فلم ’’خاندان‘‘ میں وہ پران کی ہیروین بنیں۔ 12 مارچ 1942ء کو لاہور کے ریگل سینما میں پران اورنورجہاں کی ریلیز ہونے والی ’’خاندان‘‘کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی امتیازعلی تاج نے لکھی ۔گانے ڈی این مدھوک اور شوکت تھانوی کے قلم سے تھے۔موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی ۔ فلم کے گانوں نے بہت مقبولیت حاصل کی ، نامورموسیقارآرسی بورال خاص طور سے فلم دیکھنے پہنچے اور بیحد متاثر ہوئے۔فلم کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی سے نورجہا ں کا عشق اسی فلم کے دوران ہی پروان چڑھا ۔’’خاندان ‘‘تکمیل کے مراحل میں تھی تو نورجہاں کے گھر والے جو فلم میں ان کے کام کرنے سے ناخوش تھے، انھیں قصورلے گئے ، اور فلم کی شوٹنگ کھٹائی میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جو راہ نکالی گئی، اس کے بارے میں خالد حسن نے لکھا ’’ایک دن اسٹوڈیو کی کار اسے شوٹنگ کے لیے ہیرامنڈی لاہور سے لانے کے لیے گئی تو معلوم ہواکہ نورجہاں اپنے خاندان سمیت وہاں سے کوچ کرگئی ہے۔سیٹھ دل سکھ پنچولی بڑا بااثر آدمی تھاچنانچہ اس نے نورجہاں کے نام وارنٹ نکلوا دیے۔جلد ہی نورجہاں سمیت اس کے خاندان کے40افراد قصور سے گرفتارکرکے لاہور لائے گئے۔اس دن فلم کے جس منظر کو فلمایاجانا تھا،اس میں فلم کے ہیرو پران، ہیروین نورجہاں اورکیریکٹر ایکٹرغلام محمد کے کچھ سین شامل تھے۔ نورجہاں کی بطور ہیروین اور پران کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ ‘‘ برسوں بعد پران نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ لاہور میں تھے تو نورجہاں نے انکے مدمقابل ہیروین کا کردار نبھایاتھا، اور وہ اس زمانے میںمشہورہیروین اورمغنیہ تھی۔اس حد تک تو پران کا کہنا ٹھیک تھا مگر اس انٹرویو میں چلتے چلتے انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب تو وہ خاصی بوڑھی ہوگئی ہوں گی۔انٹرویوچلا۔نورجہاں نے خود دیکھا یا پھر کسی نے انھیں بتایا۔

نورجہاں کوپرانے رفیق کار کا اپنے بارے میں یہ کمنٹ اچھا نہ لگا، جس کا ردعمل پران کو ان کے ناراضی بھری فون کال کی صورت میں ملا۔اس فون کے بارے میں پران بتاتے ہیں:نورجہاں کال ملتے ہی سیدھا اصل بات پر آگئیں۔چھوٹتے ہی بولیں ’’میں نورجہاں بول رہی ہوں۔اچھا تو میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔تم اپنی سنائو؟تم بھی اب کون سے جوان نظرآتے ہو۔‘‘ خیر،یہ بات رفت گزشت ہوگئی۔1982ء میں نورجہاں انڈین ٹاکی کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان گئیں تو پران سے35 برس بعد ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے یہ تقریب بارہ فروری کو پران کی سالگرہ کے دن ہونا تھی ۔نورجہاں نے یہاں اپنا مشہور گانا’آواز دے کہاں ہے، گایا۔ ہندوستان  روانہ ہونے سے قبل نورجہاں کی کیفیت کے بارے میں پران نے بتایا تھا’’نورجہاں اس دورے کے حوالے سے اس قدر نروس تھی کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل کوئی آٹھ دس بار مجھے صرف اس بات کا اطمینان کرنے کے لیے فون کیا کہ میں ائیرپورٹ پر اسپیشل بس کے ساتھ اس کے انتظار کے لیے موجود ہوں گا۔‘‘ نورجہاں!ہندوستان پہنچیں توپران نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی ، جس میں فلم انڈسٹری کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے مل کر وہ بہت خوش ہوئیں۔n

منٹو اور پران

سعادت حسن منٹو اپنی کتاب ’’لائوڈ اسپیکر‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پران سے جب میری ملاقات شیام کے توسط سے ہوئی تو میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی۔بڑا بے ریا آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پران اچھاخاصہ خوش شکل مرد ہے۔لاہورمیں اس کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ بڑا ہی خوش پوش تھا۔بہت ٹھاٹ سے رہتاتھا۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا لاہور کے ریئسی ٹانگوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ ‘‘

 پران کا منٹوکو’’ماموں‘‘ بنانا

منٹو کے بقول’’ کلدیپ اور پران ایک ساتھ تھے۔پران ہی پتے بانٹتا تھا وہی اٹھاتا تھا اور کلدیپ اس کے کاندھے کے ساتھ اپنی نوکیلی ٹھوڑی ٹکائے بیٹھی تھی۔البتہ جتنے روپے پران جیتتا تھا، اٹھاکر اپنے پاس رکھ لیتی۔اس کھیل میں ہم صرف ہاراکئے۔میں نے کئی بار فلش کھیلی ہے لیکن وہ فلش عجیب وغریب قسم کی تھی۔میرے پچھترروپے پندرہ منٹ کے اندر اندرکلدیپ کور کے پاس تھے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آج پتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹھکانے کے آتے ہی نہیں۔شیام نے جب یہ رنگ دیکھاتو مجھے کہا۔ منٹو اب بند کردو۔میں نے کھیلنا بند کردیا۔پران مسکرایا اور کلدیپ سے کہا’’کے کے!پیسے واپس کردو منٹو صاحب کے۔‘‘ میں نے کہا یہ غلط ہے۔تم لوگوں نے جیتے ہیں،واپسی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔

اس پر پران نے مجھے بتایا کہ وہ اول درجے کا نوسر باز ہے۔اس نے جو کچھ مجھ سے جیتا ہے اپنی چابکدستی کی بدولت جیتا ہے۔چونکہ میں اس کا دوست ہوں،اس لیے وہ مجھ سے دھوکا کرنا نہیں چاہتا۔میں پہلے سمجھاکہ وہ اس حیلے سے میرے روپے واپس کرنا چاہتاہے، لیکن جب اس نے تاش کی گڈی اٹھاکرتین چار بار پتے تقسیم کئے اور ہر بار بڑے دائو جیتنے والے پتے اپنے پاس گرائے تو میں اس کے ہتھکنڈے کا قائل ہوگیا۔یہ کام واقعی بڑی چابکدستی کا ہے۔پران نے پھر کلدیپ کور سے کہا کہ وہ پیسے واپس کردے مگراس نے انکار کردیا۔‘‘ تقسیم کے فوراً بعد جب پران لاہور سے بمبئی پہنچے تومنٹو اس وقت ادھر ہی تھے۔ منٹو نے حقیقی دوست کی طرح انھیں اس نئی جگہ چانس دلانے کی کوشش کی۔ پران کے بقول’’میرے عزیز دوست عظیم اردو لکھاری سعادت حسن منٹوجو ملک کی نمایاں فلم کمپنیوں میں سے ایک بمبئے ٹاکیزسے وابستہ تھے، وہ مجھے کام دلانے کے لیے اپنے ساتھ ملاد لے گئے ، تاہم اس وقت کچھ بھی نہ بن پڑا۔‘‘

لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

$
0
0

گزشتہ دو سال کے عرصے میں مصر بین الاقوامی خبروں میں نمایاں رہا اور آج کل عالمی میڈیا  پرپھر سے چھایا ہوا ہے۔

حسنی مبارک سے شروع ہو کر محمد مرسی تک، مصر کے عوام ابھی تک سڑکوں پہ ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ وہ سڑکوں پر کب تک رہیں گے؟ ۔ سال پہلے کی بات ہے فوج کی مدد سے مصر پر ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک کے خلاف بل آخر فوج نے ہی مصری عوام کا ساتھ دیا تھا اور حسنی مبارک کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا تھا ، مصری عوام اور فوج کو اس وقت شاید اپنی ہی یہ ادا بھا گئی اور ٹھیک ایک سال بعد فوج نے پھر سے یہی ڈرامہ رچایا گیا اور اس بار قرہ فال محمد مرسی کے نام نکلا۔

ایک سال کی قلیل مدت میں مصری عوام محمد مرسی سے بھی تنگ آگئے اور ایک بار پھر فوج عوام کی مدد کو آئی او ر یوں محمد مرسی کو بھی چلتا کیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور مصری فوج کے درمیان ایک عجیب رشتہ قائم ہو چکا ہے کہ ایک جانب فوج نے ہمیشہ مصری عوام پر حکمرانی کی اور پھر انہی کی خواہش کے مطابق اپنے ہی سپریم کمانڈر کے خلاف ایک بار نہیں بلکہ دو بار بغاوت بھی کردی۔ ایک جانب اخوان المسلمون ہیں اور ایک دوسری جا نب النور جیسی سیکیولر اور لبرل جماعتیں۔  مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ا ن دونوں کے لیے مصری عوام اپنی ہی فوج کی مدد سے کبھی ایک پارٹی کے خلاف سڑکوں پر ٹینکوں کے ہمراہ چلے آتے ہیں تو کبھی دوسری کے خلاف محاذ آراء ہو جاتے ہیں۔ ایک ہنگامہ ہے کہ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا، ایک دھند ہے کہ جس کی وجہ سے راستہ نظر ہی نہیں آتا، دنیا ہے کہ تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے۔

آخر مسئلہ ہے کیا؟ اگرچہ محمد مرسی جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہوئے تھے مگر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انہیں اپنے مخالفین پر فقط ایک فی صد کی برتری حاصل تھی، گویا جتنے عوام مرسی کے حق میں تھے تقریباً اتنے ہی ان کے خلاف بھی تھے۔ اقتدار سنبھالتے ہی محمد مرسی نے مصری عوام سے سو دن کا وعدہ کیا تھا کہ اس عرصے میں واضح طور پر مصری عوام کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کی حکومت کی ترجیحات مصر کوصحیح سمت میں لے جارہی ہیں مگر ایسا ہو نہ سکا۔ عام مصری شہری کے مسائل وہیں کے وہیں رہے بل کہ ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مثال کے طور پر روٹی پر ملنے والی سبسڈی کو قائم نہ رکھا جا سکا اور طاقت ور سرمایہ داروں نے اناج کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی جس کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔

اقلیتوں اور عام آدمی کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ، وہ شخصی آزادی جس کے لیے مصری سڑکوں پر آئے تھے اس کو دوبارہ سے پس پشت ڈال کر حکومت مخالف نشریاتی اداروں کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بل کہ ان پر مقدمات بھی چلائے گئے۔ حکومت سازی میں مخالف سیاسی پارٹیوں کو مناسب نمائیندگی نہ دی گئی جس کی وجہ سے ان میں احساس محرومی پیدا ہو ا اور ان سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے عوام کو ایسا محسوس ہوا کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی آواز سننے والا کوئی بھی نہیں۔ اس زمرے میں مصری خواتین اور قبطی عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد مرسی کی مخالف ہو گئی۔ عدلیہ کے ساتھ بھی کوئی اچھا برتائو نہ کیا گیا جس کی وجہ سے عدلیہ اور حکومت کے درمیان ایک شدید مخاصمت کی فضا بنی رہی۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے آرٹ کے دلدادہ مصری عوام کی حوصلہ شکنی کی گئی اور قاہرہ کے آپرا ہاوس اوربیلے ڈانس کی اکیڈمیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں گویا کہ آزادی اظہار پرمکمل پابندیاں لگ گیئں۔

ملک میں غذا، صاف پینے کے پانی، انرجی اور تیل جیسی مصنوعات پر شدید بحران آیا ، بنیادی ضرورت کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ مصری پائونڈ ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے زوال پزیر ہوا جس کی وجہ سے ، پہلے سے موجود مہنگائی میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی غیر ملکی قرضوں کے حجم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا  اور یوں  پہلے سے ہی دبائو کا شکار مصری معیشت  مزید دبائو میں آ گئی اور پھر ہر چیز کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیااور یہ سب کچھ ایک سال کے قلیل عرصے میں ہوا جس کی مصری عوام کو بل کل امید نہیں تھی۔ حسنی مبارک کے جانے بعد ہر کوئی یہ سمجھ رہا تھا کہ اب حالات یک سر تبدیل ہو جائیں گے اور مصر خوش حالی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو مصریوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ محمد مرسی کو مورد الزام  ٹھہراتے، ان سے یہ وعدہ آخر انہوں نے ہی تو کیا تھا کہ وہ  سو دنوں کے اندر اندر عوام کی زندگیاں تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ اوپر سے جلتی پر تیل کا کام خود محمد مرسی نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، عوام کے مسائل کو سمجھنے کی بجائے یک طرفہ طور پر ان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور وہ سازش سے آہنی ہاتھوںکے ساتھ نمٹیں گے۔ پھر عوام اور مرسی کے درمیاں خلیج بڑھتی گئی اور عوام میں ان کی مقبولیت روز بروز کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔

انہی عوامل کی بنیاد پر مصر میں تمرد نامی مہم شروع ہوگئی۔ تمرد کا مطلب تھا بغاوت،عوام ایک بار پھر سے بغاوت پہ آمادہ تھے۔اس موقع سے مرسی مخالف سیاسی پارٹیوں اور گروہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تمرد کو اور بھی تقویت پہنچانا شروع کردی۔ تمرد نے محمد مرسی کے خلاف ایک یاداشت پر مصری عوام کے دستخط لینا شروع کر دیے اور سوشل میڈیا پر تمرد کی خوب تشہیر کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کروڑوں مصری اس مہم میں شامل ہو گئے اور مرسی سے استعفی دے کر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرنے لگے جس کو مرسی نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ محمد مرسی کے خیال میں یہ صرف چند حکومت مخالف گروہوں کی ان کے خلاف سازش تھی جس کا مصری عوام سے کو ئی تعلق نہیں تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔ محمد مرسی یہ بھول چکے تھے کہ حسنی مبارک کے خلاف لگنے والا سب سے بلند آہنگ نعرہ ، ’’ روٹی، آزادی اور انصاف‘‘ ہی تھا اور وہی روٹی، آزادی اور انصاف محمد مرسی مصری عوام سے چھین رہے تھے۔

محمد مرسی کے خلاف جا ری کی جانے والی یاداشت پر دو کروڑ سے زائد دستخط حاصل کیے جا چکے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مصری عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مرسی کو اب اپنے صدر کے طور پر تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ جامعہ الازہر، مصری پولیس اور قبطی عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد مرسی کے خلاف ہو چکی تھی اور عوا م تحریر اسکوئر میں احتجاج شروع کر چکے تھے۔ جوک در جوک مصری عوام اس احتجاج میں حصہ لینے کے لیے امڈے چلے آ رہے تھے اور ایسے میں مصری افواج پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ عوام کے اس سمندر کو قابو میں رکھیں تاکہ عوام کے جان و مال اور آبرو کی جس حد تک ممکن ہو حفاظت کی جا سکے۔ ایسے میں مصری افواج کے سربراہ نے محمد مرسی سے ملاقات کی اور ان کو عوام کے مطالبات سے آگاہ کیا اور واضح طور پر بتایا کہ مصری افواج اس ضمن میں مصری عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ انقلاب آنے میں اور محمد مرسی کے ایوان اقتدار سے جانے میں اب کچھ ہی دیر باقی تھی۔ ساری دنیا کا میڈیا یہ تماشہ دیکھنے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمع ہو چکا تھا اور پل پل کی خبر نشریاتی اداروں تک پہنچ رہی تھی ۔

ایسے میں دوسری جانب مرسی کے حامی بھی باہر نکلے اور تحریر اسکوئر سے کچھ فاصلے پر ایک اور اجتماع کا اہتمام ہوا۔ مرسی کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور جہاں جس کا بس چلا وہاں اس نے اپنے مخالف کونیچا دکھا نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مرسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ایک سال کا عرصہ مصر کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے اور عوام کو چاہیے کہ وہ مرسی کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں۔ مرسی کے مخالفین یہ کہتے تھے کہ جس مرسی نے ایک سال میں مصری عوام کے مسائل حل کرنے کی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے اس کو اب اپنے اقتدار کو طول دینے کا کوئی کوئی حق حاصل نہیں۔ ایک سال پہلے کے انتخابات میں بھی مصر دو واضح بلاکس میں بٹا ہوا نظر آتا تھااور آج بھی ویسی ہی خلیج عوام میں نظر آتی ہے۔ دونوں طرف عوام اپنی اپنی رائے پر بہ ضد  ہیں اور کوئی دوسرے کی بات سمجھنے کا روادار نہیں۔ حالات کا رخ تیزی سے تبدیل ہوا اور مرسی مخالف جذبات میں شدت آتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ مصر کے حکومتی ٹیلی ویژن کی جانب سے لوگوں کو مرسی کے حق میں جہاد کرنے پر اکسایا جا رہا تھا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ حکومتی سطح پر ایسے اعلانات پہلے سے تقسیم شدہ مصری معاشرے میں شدت پسندانہ بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔

پھر وہی ہوا جس کی امید کی جا رہی تھی، مصری افواج نے محمد مرسی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر محصور کردیا، اخوان کے دفاتر پر مرسی مخالف عوام نے حملے شروع کر دیے اور مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مختلف شہروں خاص  طور پرقاہرہ میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مصری فوج نے جہاں تک ممکن ہو سکا ان جھڑپوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ مرسی کی حکومت تحلیل کرنے کے بعد ملک کی باگ ڈور عدلیہ کے سپرد کر دی گئی اور نئے وزیر اعظم کا اعلان آخری خبریں آنے تک تاحال نہیں کیا جا سکا۔ آیندہ مصر میں کیا ہونے والا ہے؟ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ مصری عوام ایک بار پھر غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی اس حالت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت سی غیر ملکی قوتیں بالخصوص اسرائیل ، امریکہ اور سعودی عرب میدان میں آ چکی ہیں جب کہ ایران اور ترکی نے مرسی کے خلاف اس بغاوت کو کامیابی پر مصری ا فواج کو خوب برا بھلا کہا ہے۔ امریکا  اس مسئلے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے چپکے چپکے عوام کے دونوں دھڑوں میں موجود اپنے خیر خواہوں کے ذریعے اور اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے صورت حال کو قابو میں لانے کی کوششوں میں برسرپیکار دکھائی دے رہا ہے مگر مانتا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا۔آج پورے عالم اسلام میں سوائے ترکی کے کوئی اور ایسا ملک نظر نہیں آتا جس نے عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم جان کر ان کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہوں۔ جہاں جہاں بھی کٹر اسلام پسند حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے اسلامی نظریے کے مطابق حکومت کرنے کی کوشش کی وہاں عوام کی حالت ہمیشہ خراب سے خراب تر ہی ہوئی۔۔۔۔۔آخرکیوں ؟ اب پوری امت کو ضرور سوچنا چاہیے۔

مصر میں اخوان عرصہ ۴۹ سال سے حکومت میں آنے کے خواہش مند تھے اور جب آ ہی گئے تو انہوں نے ملک کا ایک سال میں وہ حال کر دیا جو حسنی مبارک، انوار السادات اور ناصر عبدل جمال جیسے ملٹری ڈکٹیٹر مل کر بھی ایک طویل عرصہ میں نہیں کر سکے تھے۔ جب کہ اس کے بر عکس اگر بے دین مغربی معاشروں اور مشرق بعید کے چین، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حکومتوں کا اولیںمقصد عوام کی فلاح و بہبود ہوا کرتاہے نہ کہ مذہب کا پرچار ، جومبصرین ایران کی مثال دیتے ہیں ، وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مذہب کی آب یاری کے لیے وہاں کے لوگوں کو پہلے ذہنی طور پر تیار کیا گیا تھا پھر حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے گئے تھے۔

حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ اسلام کے سنہرے اصولوں کو اپنے باہمی تعلقات میں یہ لوگ مکمل طور پر اپنائے ہوئے ہیں مگر خود کووہ کسی مذہب کا پیروکار تسلیم نہیںکرتے اور جودھڑے اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکے دار تصور کرتے ہیں وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی حیات میں اسلامی اصولوں سے کوسوں دور نظر آتے ہیں، کیا عجب تضاد ہے جس کو اب عالمی میڈیا بھی اچھالنے لگا ہے، ایسے میں مصریوںکا حال خراب نہ ہو تو اور کیا ہو، وہاں بار بار بغاوتیں جنم نہ لیں تو اور کیا سامنے آئے۔ جب وہاں کے غریب عوام دو وقت کی روٹی کو     تر سیں گے تو پھر لوگ یہ ہی کریں گے جو اب ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں جب خود ساختہ حکمران اور راہنما جب چند سکوں کی خاطر کسی دوسرے ملک کے ٹٹو بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں زندہ قوم کی بجائے ایک ہجوم جنم لے چکا ہے۔ مصر میںدونوں جانب جمع لوگ بہ ظاہر منظم دکھائی دیتے ہیں ، لیکن جہاں دیدہ دیکھنے اور سننے والے اب پیش گوئیاںکررہے ہیں کہ عن قریب دونوں جانب لوگ ہجوم میں بدلنے والے ہیں ۔ خدا نا خواستہ ایسا ہو گیا تو پھر مصر مخالف قوتوں کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہ ہو گی، سب کچھ خود مصری عوام کر لیں گے اور شاید وہ قوتیں بھی یہ ہی چاہتی ہیں کہ مصری عوام اپنے سر اپنی تلوار سے خود اتار کر پیش کریں ۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حازم البیبلاوی مصر کے نئے عبوری وزیر اعظم کے طور پر حلف لینے کے بعد اب اپنی عبوری کابینہ کے لیے مناسب افراد کی تلاش میں ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مصر کی نئی عبوری کابینہ جلد از جلد حلف لے کر مصریوں کی مشکلات کا مداوا کرنے میں لگ جائے(یہ سطور شائع ہونے تک شاید عبوری کابینہ کام بھی شروع کر چکی ہو)،مصر کی سڑکوں پر اخوان کے حامیوں اور نئی عبوری حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ابھی تک جاری ہیں اور ان جھڑپو ں کے ساتھ خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کا سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ۔  عدلیہ الاخوان کے سرکردہ راہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دے چکی اور فوج ان کو ڈھونڈنے میں مصروف ہے لیکن ابھی تک الاخوان کی لیڈرشپ مصری فوج کے ہاتھ نہیں لگی۔ مبصرین کے مطابق مصر میں ہونے والے ہنگاموں کے فوراً تھم جانے کی امید کرنا غلط ہو گی ۔ تا حال حالات کے مزید بگڑنے کا  اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ، ایسے میں سیاسی مبصرین کی نگاہیں عبوری وزیر اعظم پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ مصر پر حکومت کرنے کے لیے اور مصری عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں؟

Viewing all 4746 articles
Browse latest View live