Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4746 articles
Browse latest View live

نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجز

$
0
0

عہدہ بڑا ہو تو ذمہ داری بھی بڑی عائد ہوتی ہے۔ ایس ایچ او صرف شہر میں قانون نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ گورنر یا وزیر اعلیٰ پورے صوبے کے تمام نظم و نسق کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، یوں عہدہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایسے افراد جنھیں عہدے کے اختیارات سے زیادہ اور اس سے منسلک ذمہ داریوں سے کم دلچسپی ہوتی ہے ان کے لئے بڑے عہدے بڑی کشش رکھتے ہیں کیونکہ اس سے انھیں من مانی کرنے کا خوب موقع ملتا ہے مگر جو افراد ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں درپیش مشکلات کو سمجھتے ہیں وہ ان عہدوں کو بہت سوچ سمجھ کر قبو ل کرتے ہیں کہ آیا وہ ان ذمہ داریوں کو نبھا بھی سکیں گے یا نہیں ۔

وطن عزیز میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا اور غیر جمہوری قوتوں کا ایجنڈا ناکام ہو گیا ، تاہم جمہوریت کے ساتھ جڑی بھاری ذمہ داریوں کا احساس کچھ زیادہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ عوام تو نمائندوں کا چنائو اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں مگر منتخب ہونے والے نمائندے عوام کی بات کرنے کی بجائے صرف اپنی بات کرتے ہیں اور ان کی ساری سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور وہ ایم پی اے یا ایم این اے سے بھی آگے وزیر یا مشیر بننے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کر سکیں ، صرف اپنے لئے ۔

پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اس کی واضح مثا ل ہے،عوام نے دیکھا کہ قومی خزانے کو ملک وقوم پر کم اور ذاتی چمک دمک اور مفاد کے لئے زیادہ استعمال کیا گیا اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے چکر ویو سے نکالنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ قرضے حاصل کئے گئے تاکہ وہ بڑے آرام سے اپنا پانچ سالہ دور مکمل کر سکیں حتٰی کہ آئی ایم ایف جیسا ادارہ جس سے قرض لیتے ہوئے ہر ملک سو بار سوچتا ہے پاکستان کو نیا قرض دینے سے قبل سوچ میں پڑ گیا ۔

موجودہ انتخابات میں عوام نے سابقہ حکومت سے بے زاری کا کھل کر اظہار کیا جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا اور گزشتہ ادوار میں دو مرتبہ آزمائی ہوئی مسلم لیگ ن کو ایک مرتبہ پھر اس توقع کے ساتھ بھاری مینڈیٹ دے دیا گیا ہے کہ اب یہ عوام کے مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دے گی۔ یوں تو مسائل کا ایک انبار ہے جس نے ملک کو اپنے بوجھ تلے دبایا ہوا ہے مگر چند بڑے مسائل ایسے ہیں جن پر فوری اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے دیگر مسائل بھی انھی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان بڑے مسائل میں دہشت گردی ، توانائی کا بحران ، معیشت کی بحالی اور خارجہ معاملات میں عدم توازن شامل ہے۔

توانائی کے بحران نے گزشتہ چھ ،سات سال سے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ اس بحران کی ذمہ دار مشرف حکومت ہے تو غلط نہ ہو گا ، کیونکہ مشرف دور میں بجلی کی پیدا وار میں ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا، حالانکہ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی جن آٹھ نکات کا سہارا لے کر پوری قوم کو سہانے خواب دکھائے تھے ان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی شامل تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف اقتدار ہی جنرل (ر) پرویز مشرف کا مطمع نظر ٹھہرا اور باقی تمام وعدے بھلا دئیے گئے تاہم جب پرویز مشرف کو محسوس ہونے لگا کہ اس کا اقتدار خطرے میں پڑنے والا ہے تو اس نے عوام کو پھر سے بیوقوف بنانے کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ لگا یا مگر تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔

بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ کرنا مشرف حکومت کی ایک بہت بڑی غلطی تھی اور 2007ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑی شدت کے ساتھ شروع ہو چکی تھی جس کا خمیازہ جنرل(ر) پرویز مشرف کی پروردہ مسلم لیگ ق کو الیکشن میں شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا، جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انھوں نے ججز کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوام سے یہ بھی وعدہ کیا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بہت جلد قابو پا لیا جائے گا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ سابق حکومت کا یہ وعدہ وقت کی دھول میں اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا اور پورے پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اس وعدہ کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے 18کروڑ عوام توانائی کے بحران کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار تھے مگر تب وزراء کے ماتھے پر کبھی پسینہ تک دیکھنے میں نہیں آیا اور وہ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی سوٹ میں ملبوس نظر آتے جو ائیر کنڈیشنڈ کی موجودگی کے بناء نہیں پہنا جا سکتا۔ الیکشن مہم کے دوران تمام پارٹیوں نے توانائی کے بحران کو ختم کرنے کا نعرہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھا، کیونکہ یہ ایسامسئلہ ہے جس سے ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے ، مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی ہے کہ عوام نے انھیں اپنے مسائل کے حل کے لئے چنا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار دس ہزارمیگا واٹ اورطلب پندرہ ہزار میگا واٹ ہے ، جون، جولائی میں بجلی کی پیداوار تیرہ ہزا ر میگاواٹ ہو جاتی ہے جبکہ طلب ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے گویا پانچ سے چھ ہزار میگا واٹ کا فرق ہر حال میں برقرار رہتا ہے اور اگر کسی پیداواری یونٹ میں کوئی خرابی (جو گرمیوں میں اکثر ہو تی ہے) ہو جائے تو پھر صورتحال زیادہ گمبھیر ہو جاتی ہے۔

شہروں میں بارہ سے چودہ گھنٹے اور دیہاتوں میں اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے بھاشا ڈیم اور ایسے ہی دیگر منصوبے شروع کرنے کے وعدے تو بہت کئے حتٰی کہ بھاشا ڈیم کا افتتاح بھی کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہو جائے گا ، مگر افسوس بھاشا ڈیم پر کام افتتاح سے آگے نہ بڑھ سکا ، اگرا س منصوبے پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیا جاتا تو سابق حکومت کے دو ر میں نہ سہی بعد میں مکمل ہو جاتا جس سے ملک کو ساڑھے چار ہزار میگاواٹ سستی بجلی میسر آجاتی ۔ اب یہ مسئلہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا،عوام کو ناصرف بجلی فراہم کرنا ہو گی بلکہ سستی بجلی فراہم کرنا ہوگی کیونکہ پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس لئے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ یہ ہر آدمی کی پہنچ میں رہے۔

رہی بات متمول طبقے کی تو انھیں اب بھی نہیں پتہ کہ ملک میں کتنے گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھروں میں لگے ہوئے خود کار جنریٹر انھیں ہمہ وقت بجلی فراہم کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شور سن کر وہ مختلف بیانات کے ذریعے اپنی پریشانی کا اظہا ر کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہ ان کے مسائل سے آگا ہ ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو سب سے پہلے تو لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے تا کہ عوام اپنے معمولات کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کر سکیں، اس کے بعد بجلی چوری اور اس میں معاونت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے، اس سے یقیناًلوڈ شیڈنگ میں کمی ہو گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے چھوٹے منصوبوں پر فوری عمل شروع کیا جائے جس کے لئے جون میں بجٹ مختص کیا جائے، اگر ضروری ہو تو ترقیاتی بجٹ کم کر کے رقم بجلی کے منصوبوں پر خرچ کی جائے، سابقہ جاری منصوبوں کی پیداواری گنجائش بڑھائی جائے، اہم بات یہ کہ عوام اس سلسلے میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے فوری طور پر بجلی کی کمپنیوں کی ادائیگیوں کو بہتر کیا جائے تاکہ لوڈ شیڈنگ میں جس حد تک ممکن ہے فوری کمی ہو سکے۔

ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس نے گزشتہ تیرہ سال سے ملک میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ میں اب تک 49ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ، پیپلز پارٹی کی حکومت سے یہ توقع تھی وہ اس مسئلے کا حل نکالے گی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئی اور اس کے پانچ سالہ دور اقتدار میں 5152 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور 5678 شہری بری طرح زخمی ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ حکومتی ایماء پر فوج نے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی کیا اور کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی مگر مسئلے کا حل نہ نکل سکا ، اس مسئلے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو دہشت گرد قراردیا گیا ہے وہ بھی پاکستانی ہیں ان کی لڑائی کی اصل وجہ افغانستان جنگ میں پاکستان کا کردار ہے، اگر ان سے مذاکرات کئے جاتے تو یقیناً اس مسئلے کا حل نکل آتا ، مسلم لیگ ن نے طالبان اور ان کے حمایتیوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جو خوش آئند ہے ، دوسری طرف خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ ملا ہے، طالبان سے مذاکرات ان کے بھی منشور کا حصہ ہے ، گویا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے حالات کافی سازگار ہیں اب یہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔

الیکشن مہم کے دوران معیشت کی بحالی مسلم لیگ ن کانعرہ رہا ہے، مگر یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ سابق حکومت نے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرض پر قرض لے کر بجٹ خسارہ اتنا بڑھا دیا ہے کہ موجودہ حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لئے طویل المدت حکمت عملی طے کرنا ہو گی، پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل بیرونی قرضہ 40بلین ڈالر تھا جو پانچ سال میں بڑھ کر 60بلین ڈالر ہو گیا اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 2015ء تک بیرونی  قرضہ بڑھ کر 75بلین ڈالر ہو جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملک چلانے کے لئے قرضہ لینا پڑے گا اور پھر قرضہ دینے والے اداروں کی کڑی شرائط پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ پاکستانی عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے توقع ہے کہ وہ غیر ملکی قرضوں پر کم سے کم انحصار کرتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات کرے گی۔

خارجہ تعلقات میں توازن پاکستان کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستانی قوم کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان برابری کی سطح پر امریکا اور دیگر ممالک سے تعلقات قائم رکھے ، خاص طور پر افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ، پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملے اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا لائحہ عمل فوری طورپر طے کیا جانا چاہیے۔ میاں محمد نواز شریف بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف سے بھارت کے خیر سگالی دورے کی دعوت بھی قبول کر چکے ہیں ۔ پاکستانی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کا مسئلہ ایسا ہے کہ جو ملک کی خودمختاری کے لئے چیلنج ہے اس حوالے سے امریکا سے فوری مذاکرات ہونے چاہئیں، اسی طرح افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور ملک و قوم کے مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔

عوامی مینڈیٹ کے ساتھ مسلم لیگ ن کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے جس کا انھیں احساس ہونا چاہیے اور بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے مسائل جیسے قومی اداروں کی بحالی ، سستے انصاف کی فراہمی ، تھانہ کچہری کلچر کا خاتمہ ، بھی حل کرنا ہوں گے، ورنہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور انھیں پانچ سال بعد پھر عوام کی عدالت میں جانا ہے۔


یہ کچھ ہوا الیکشن میں

$
0
0

انتخابی عمل کے بعد اب معاملات حکومت سازی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔

جیت کس کا نصیب ہے اور ہار کس کا مقدر، ان سوالات کا جواب سامنے آگیا، اب فضا میں نئے سوالوں کی بازگشت ہے، وزیراعظم کسے بننا ہے، یہ معاملہ تو طے ہو ہی چکا ہے، اب وزیراعلیٰ ہوگا۔۔۔ گورنر کس کو بنانا ہے۔۔۔کون سی وزارت کس کے نام کرنی ہے اور حکومت کی گاڑی کیسے آگے چلانی ہے جیسے معاملات زیربحث ہیں۔ دوسری طرف عوام ہنوز بہتری اور اچھے کی توقعات وابستہ کیے منتظر ہیں کہ آنے والی حکومت کی پالیسیاں کیا ہوں گی۔

کئی سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابات میں دھاندلی اور بے ایمانی کے الزامات کو موضوع بنائے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، ناکامی سے دوچار ہونے والے استعفوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ جن میں گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، پیپلزپارٹی کے نائب چیئرمین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر منظور وٹو، پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ اعتزاز احسن نے سینیٹ کی رکنیت اور امریکا میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان انتخابات میں رائے دہندگان کا تناسب 53.4 تھا، جو اگرچہ ریکارڈ نہ سہی لیکن خاصا حوصلہ افزا رہا، لیکن ان انتخابات سے نتھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو خاصی دل چسپی اور اہمیت رکھتی ہیں۔

سمندر پار سے آنے والے!

سمندر پار پاکستانیوں کو ان انتخابات میں ووٹ کا حق تو نہ مل سکا، البتہ اس انتخابات میں بہت سے پاکستانی صرف ووٹ ڈالنے مختلف ممالک سے پاکستان آئے، لیکن انہیں بدانتظامی اور دھاندلی کی شکایات کے باعث شدید مایوسی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سنگاپور سے ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والے پاکستانی طاہر علی کا ووٹ کراچی کے حلقے این اے 256 میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے پہلی بار ووٹ ڈالنے کا قصد کیا اور اس ہی مقصد کے لیے وہ وطن لوٹے، لیکن 8 گھنٹے تک انتظار کرنے کے باوجود انہیں ووٹ دیے بغیر ہی واپس جانا پڑا۔ انتخابی نظام کے حوالے سے بھی انہیں شدید شکایات ہیں۔ ان کے مطابق وہ یہ سمجھے تھے کہ شاید نظام تبدیل ہو چکا ہے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

بیک وقت تین وزرائے اعظم کا پہلا دنگل

2013ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ تین سابق وزرائے اعظم راجا پرویز مشرف، نواز شریف اور ظفر اللہ جمالی نے انتخابات میں حصہ لیا۔ یوسف رضا گیلانی انتخاب لڑنے کے لیے نا اہل قرار پائے، جب کہ ان کے تینوں بیٹے بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ عبدالقادر گیلانی نے این اے 151، علی موسیٰ نے این اے 148 اور علی حیدر گیلانی نے پی پی 200سے ہار کا مزہ چکھا۔ اس سے قبل 1977ء 1985ء اور 2002ء کے عام انتخابات میں کسی سابق وزیراعظم نے حصہ نہیں لیا تھا۔

’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘

بہت سے حلقوں میں سخت مقابلے سے قطعہ نظر بہت شہرہ رہا، جیسے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے مقابلے میں آنے والی ان کی مبینہ بیوی عائشہ احد نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا، لیکن حمزہ شہباز کے ایک لاکھ سات ہزار 707 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 339 ووٹ حاصل کیے۔ اس ہی طرح تحریک مساوات کے چیئر پرسن مسرت شاہین نے حلقہ این اے 24 ڈیرہ اسماعیل خان پر مولانا فضل الرحمن کے مقابل انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ انتخابات کے دوران ہی انہوں نے الزام لگایا کہ خواتین کو اسلحے کے زور پر روکا گیا، اس لیے وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔ انہیں فضل الرحمن کے 91ہزار 834 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 99 ووٹ حاصل ہوسکے۔ اسی طرح فاٹا سے پہلی خاتون امیدوار بادام زری نے این اے 44 سے صرف 230 ووٹ لیے۔

عمران خان بیک وقت تین نشستیں جیتنے والے واحد امیدوار

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بیک وقت قومی اسمبلی کی چار نشستوں سے انتخاب میں حصہ لیا، جن میں سے تین نشستیں جیتیں، جب کہ ایک میں ناکام ہوئے۔ یوں تو بیک وقت تین نشستوں پر کام یابی کوئی نئی بات نہیں، لیکن رواں انتخابات میں یہ اعزاز صرف عمران خان کے حصے میں آیا۔ انہوں نے این اے 1 پشاور سے اے این پی کے غلام بلور کو ہرایا، راولپنڈی میں این اے 56 سے نواز لیگ کے حنیف عباسی کو ہرایا جو مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرانے کا دعویٰ بڑی شدومد سے کرتے رہے تھے۔ حلقہ 71 میانوالی سے انہوں نے عبیداﷲ شادی خیل کو ہرایا۔ البتہ لاہور سے این اے 22 پر وہ اپنے روایتی حریف ایاز صادق پر برتری ثابت نہ کرسکے۔ تین نشستوں سے کام یابی کے بعد انہوں نے پشاور اور میانوالی کی نشست چھوڑنے اور راولپنڈی کی نشست اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ شہباز شریف ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر کام یاب ہوئے۔ جاوید ہاشمی ملتان اور اسلام آباد، نواز شریف سرگودھا اور لاہور سے بیک وقت کام یاب ہوئے۔

جن کی ’’عزت بچ گئی‘‘

جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن، ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی ، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور نواز لیگ کے چوہدری نثار ان امیدواروں میں سے ہیں، جو اپنی عزت بچانے میں کام یاب رہے۔ انہوں نے بیک وقت ایک سے زاید حلقوں میں امیدوار ہونے سے فائدہ اٹھایا اور ایک نشست اپنے نام کر کے ایوان زیریں تک رسائی حاصل کرلی۔ فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل اور ٹانک کے تین حلقوں سے امیدوار تھے صرف ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے سرخ رو ہوسکے۔ سابق قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے بھی قومی اور صوبائی کی دو، دو نشستوں سے حصہ لیا۔ ایک قومی اور ایک صوبائی نشست ان کے ہاتھ آئی۔ شاہ محمود قریشی نے ملتان سے دو اور تھرپارکر کی ایک نشست پر انتخاب لڑا۔ صرف ملتان کی ایک نشست ہی ہاتھ آسکی۔ ق لیگ کے صدر چوہدری پرویز الٰہی گجرات اور چکوال سے لڑے اور صرف گجرات کی آبائی نشست ہی بچا سکے۔

پشاور۔۔۔’’نئے پاکستان‘‘ کی پہلی تجربے گاہ!

انتخابی مہم میں جان ڈالنے والے تحریک انصاف کے راہ نما عمران خان کا نعرہ تھا کہ وہ انتخابات جیت کر ’’نیاپاکستان‘‘ بنائیں گے اور باری باری اقتدار میں آنے والی جماعتوں کی اجارہ داری ختم کر دیں گے، لیکن ان کے امیدوار صرف سرحد میں ہی کام رانی کے جھنڈے گاڑ سکے ہیں ۔ اس حوالے سے سماجی ویب سائٹس اور موبائل پیغامات میں دل چسپ تبصرے کیے گئے، جیسے پشاور میں عموماً عید کا چاند پہلے نظر آجاتا ہے اور وہاں کے باسی باقی ملک سے پہلے عید منالیتے ہیں، اسی تعلق سے تبصرہ کیا گیا کہ عید کی طرح نیا پاکستان بھی پشاور میں پہلے نظر آگیا ہے۔ باقی ملک میں بعد میں نظر آئے گا۔ اس شگفتہ بیانی سے قطعہ نظر درحقیقت پشاور عمران خان کے مجوزہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی پہلی تجربے گاہ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں انہیں اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا کر اپنے سیاسی مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ گوکہ کپتان کو ملک کی مشکل ترین پچ ملی ہے، جہاں عسکریت پسند گروہ خاصے سرگرم ہیں اور امن وامان کی صورت حال ابتر ہے، تاہم ان کی لگن، کارکردگی اور خلوص بتائے گا کہ وہ صوبے کو آیندہ پانچ سال تک کس طرح لے کر چلتے ہیں۔ ساتھ ہی لوگوں کو ان کے اس انقلابی قدم کا بھی انتظار ہے کہ جس میں انہوں نے گورنر ہائوس کو کتب خانوں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کراچی میں تحریک انصاف کا اُبھار

تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا سار زور پنجاب میں رہا۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختون وغیرہ میں مہم چلائی گئی اور ایک آدھ جلسے دیگر مقامات پر بھی کیے گئے۔ البتہ کراچی میں منعقدہ یکم مئی کا جلسہ امن وامان کی صورت حال کی بنا پر منسوخ کردیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان صرف ایک بار مختصر دورے پر کراچی آئے، اور کوئی خاطر خواہ انتخابی مہم نہ چلائی گئی۔ اس کے باوجود مبصرین کا بہ ظاہر مشکل نظر آنے والا تجزیہ درست ثابت ہوا اور تحریک انصاف نے کراچی میں8 لاکھ سے زاید ووٹ اپنے نام کیے اور عملاً دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اس سے قبل شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ 12 سے 15 لاکھ ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ اس کی قریب ترین حریف جماعت اسلامی کے حصے میں محض2 سے 3 لاکھ ووٹ لینے میں کام یابی حاصل کرتی رہی ہے، جس نے اس بار پولنگ کے دوران دھاندلی کے الزامات لگا کر بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

شہر کے سیاسی مزاج میں تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار نے قومی اسمبلی کے حلقہ246 سے، (جہاں متحدہ قومی موومنٹ کا مرکز بھی واقع ہے) 31ہزار 875 ووٹ لیے، جب کہ ماضی میں جماعت اسلامی کے امیدوار بھی یہاں سے 5 ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکے۔ اس ہی طرح نئی کراچی، اورنگی ٹائون اور منگھو پیر کے حلقے 243 سے29 ہزار 876 ووٹ حاصل کیے، جب کہ جماعت اسلامی کو 8 اور پی پی کو 5 ہزار ووٹ ملے۔ خالص اردو بولنے والی آبادی پر مشتمل صوبائی حلقے پی ایس 98 (نئی کراچی) پر تحریک انصاف کو 18 ہزار 948 ووٹ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد، پاپوش نگر جیسے متحدہ کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے این اے245 پر تحریک انصاف کو 54 ہزار 937 اور لیاقت آباد، گلبہار اور ناظم آباد پر مشتمل این اے247 پر 35 ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں این اے248 پر تحریک انصاف کے امیدوار نے26 ہزار 348 ووٹ حاصل کیے اور 6 پولنگ اسٹیشنوں ایسے تھے جن پر تحریک انصاف کا امیدوار جیتا۔

ذکر کچھ نوازشریف سے حلف لینے والے صدور کا!

نواز شریف 1990ء میں پہلی بار وزیراعظم بنے اور انہوں نے غلام اسحق خان سے حلف لیا۔ جنہوں نے اپنا صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے 1993ء میں ان کی حکومت برطرف کی تو وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے بحال ہوگئے، لیکن اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت کے بعد دونوں کو مستعفی ہونا پڑا ۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ کا ہما 1997ء میں بیٹھا جب انہوں نے صدر فاروق احمد خان لغاری سے حلف لیا، لیکن اس کے بعد جب نواز شریف نے ان کی وہ تلوار چھین لی جس کے ذریعے انہوں نے پچھلی اسمبلی کو چلتا کیا تھا تو انہوں نے استعفے کا راستہ لیا۔ اب نواز شریف متوقع طور پر تیسری بار وزیراعظم بنیں گے تو قصر صدارت کے مکین صدر زرداری ہوں گے۔ نوازشریف پاکستان کے وہ پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے جو تین بار اس عہدے پر متمکن ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بے نظیر اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے دور رکھنے کے لیے آئین میں تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی لگا دی تھی۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل ہی بے نظیر کا قتل ہوگیا۔ اس کے بعد صرف نواز شریف ہی اس وقت تک اس ترمیم کے براہ راست متاثر تھے، اور پیپلزپارٹی نے نواز لیگ کی حمایت سے یہ آئینی ترمیم ختم کردی۔

خواتین پر پابندی

رواں انتخابات میں خواتین کے ووٹ کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں جس کے نتیجے میں دیر بالا میں خواتین نے پہلی بار ووٹ ڈالنے میں کام یابی حاصل کی۔ میانوالی کے علاقے پائی خیل میں خواتین نے 56 سال بعد ووٹ ڈالا۔ مہمند ایجنسی میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بتائی گئی، لیکن دیگر علاقوں میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان گٹھ جوڑ سامنے آئے۔ مانسہرہ کے حلقے این اے 21 اور پی کے 55، این اے 156 خانیوال اور پی پی 212 میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی ممانعت کردی گئی۔ پشاور کے نواحی علاقوں سے بھی خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی اطلاعات ملیں۔ این اے 46 نوشہرہ میں خواتین نے عسکریت پسندوں کی دھمکی کے باعث ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ پی کے 24 ڈیرہ اسماعیل خان اور شمالی وزیرستان میں بھی خواتین کو روک دیا گیا۔ میرانشاہ میں مساجد سے خواتین کو ووٹ ڈالنے پر سخت سزا کا انتباہ کیا گیا۔ پی کے 95 کے بعد پی کے93پشاور میں بھی خواتین کو ووٹ سے روکنے کے لیے پیپلزپارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی امیدواروں کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا۔

سیاسی جماعتوں کے سیکریٹری جنرل ناکام!

انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے جنرل سیکریٹری فتح یاب نہ ہوسکے۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق پی پی کے راجا پرویز 51، اقبال ظفر جھگڑا 3، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ 126 اور این اے 149 ملتان سے ناکام رہے۔ اے این پی کے احسان وائیں اور ق لیگ کے مشاہد حسین نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

انتخابی مہم پر لاگت

پاکستان کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کو اخراجات کی مد میں پابند کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا امیدوار  15 لاکھ، جب کہ صوبائی اسمبلی کا ہر امیدوار 10لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا، لیکن مجموعی طور پر عام انتخابات میں انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم کے حوالے سے برطانوی ذرایع ابلاغ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی رقم سے پاکستان جیسے اسکول میں 35 ہزار اسکول بنائے جا سکتے تھے، کیوں کہ پاکستان اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ انتخابی اشتہارات پر اتنا پیسہ خرچ کیا گیا جن سے 35 ہزار اسکول بنائے جا سکتے تھے۔ انتخابی مہم میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے اپنی اشتہاری مہموں کو ایسے دور افتادہ علاقوں تک بھی پہنچانے کی کوشش کی جہاں صحت یا تعلیم کی بنیادی سہولتیں دست یاب نہیں۔

بائیکاٹ کے باوجود فتح

چترال کے حلقے این اے 32 میں آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار افتخار الدین کے 29772ووٹ لے کر سرخرو ٹھہرے۔ افتخار الدین پرویز مشرف کے کورننگ امیدوار تھے، جنہوں نے پرویز مشرف کے کاغذات نام زدگی مسترد ہونے پر پارٹی کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ پی کے 90 میں ان ہی کی جماعت کے حاجی غلام محمد نے کام یابی حاصل کی۔

11 پی پی امیدواروں کی ہیٹ ٹرک

سندھ اسمبلی کے گیارہ پی پی امیدوار مسلسل تیسری بار رکن منتخب ہوئے۔ جن میں جام مہتاب ڈہر، طارق مسعود آرائیں، غلام قادر چانڈیو، قائم علی شاہ، سید علی مردان شاہ، نعیم کھرل۔ عزیز جتوئی، مخدوم جمیل الزماں، ڈاکٹر سکندر مندہرو، محمد نواز چانڈیو شامل ہیں۔ چھے ایسے ارکان ہیں جو 1988ء سے ناقابل شکست ہیں۔ ان میں نثار کھوڑو، میر نادر مگسی، منظور وسان، میر حیات تالپور، خورشید شاہ، نوید قمر اور امین فہیم شامل ہیں۔

ذرایع ابلاغ کا کردار

یوں تو گذشتہ انتخابات میں بھی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا موجود تھا، لیکن اس بار ہر دو سطح پر عام انتخابات میں ان کا کردار نہ صرف ابھرکر سامنے آیا اور مختلف جماعتوں نے نہ صرف اس کے ذریعے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا، بلکہ مخالفین پر تنقید کی بھی کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس کی ڈور تو عوام کے ہاتھ میں تھی لیکن برقی ذرایع ابلاغ نے انتخابات کے حوالے سے اپنی خصوصی نشریات کے وقت بہت زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، بالخصوص جانب داری اور نتائج کے حوالے سے جلد بازی سے صحافت کے بنیادی اصول پامال ہوئے۔

سو فی صد سے زیادہ ووٹ!

انتخابات میں  ملک بھر کے مختلف حلقوں کے بہت سے پولنگ اسٹیشن پر درج ووٹروں سے زیادہ ووٹ پڑے۔ انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فیفن) کے مطابق ملک بھر کے 38 حلقوں میں سو فی صد سے زاید ووٹ پڑے ۔ جن میں سے 18پر نواز لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی 5،5 اور متحدہ کے 3 امیدواروں کے علاوہ فنکشنل لیگ، ق لیگ، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک، ایک امیدواروں سمیت ایک آزاد امیدوار کام یاب ہوا۔ جب کہ ایک نشست کا نتیجہ نہیں آسکا۔جن حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر مبینہ طور پر سو فی صد سے زاید ووٹ پڑنے کا کہا گیا، ان کی تفصیل اور کام یاب امیدواروں کی تفصیلات کچھ یوں ہے۔

خیبرپختون:

حلقہ    امیدوار

5       پرویز خٹک (تحریک انصاف)

6       سراج محمد خان (تحریک انصاف)

13     اسد قیصر (تحریک انصاف)

24     فضل الرحمان (جمعیت علمائے اسلام)

پنجاب:

71     عمران خان( تحریک انصاف)

74     ڈاکٹر محمد افضل خان( آزاد)

94     چوہدری اسد الرحمنِ( نواز لیگ)

98     میاں طارق محمود( نواز لیگ)

101   جسٹس ریٹائرڈ افتخار احمد چییمہ( نواز لیگ)

105  چوہدری پرویز الٰہی( ق لیگ)

115   میاں محمد رشید( نواز لیگ)

122   سردار ایاز صادق( نواز لیگ)

124   شیخ روحیل اصغر( نواز لیگ)

126   شفقت محمود( تحریک انصاف)

127   وحید عالم خان( نواز لیگ)

128   محمد افضل کھوکھر( نواز لیگ)

130   سہیل شوکت بٹ( نواز لیگ)

140   رشید احمد خان( نواز لیگ)

142   رانا محمد حیات خان( نواز لیگ)

143   ندیم عباس ربیرا( نواز لیگ)

147   محمد معین وٹی( نواز لیگ)

148   ملک عبدالغفار ڈوگر( نواز لیگ)

151   سکندر حیات خان بوسن( نواز لیگ)

168   ساجد مہدی( نواز لیگ)

175   ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان درشک( نواز لیگ)

193   شیخ فیاض الدین( نواز لیگ)

195  مخدوم سید مصطفیٰ محمود( پیپلزپارٹی)

سندھ:

198   نعمان اسلام شیخ( پیپلزپارٹی)

200   علی گوہر خان مہر( پیپلزپارٹی)

211   رئیس غلام مرتضیٰ خان جتوئی( نیشنل پیپلزپارٹی )

217   سید کاظم علی شاہ( فنکشنل لیگ)

218   مخدوم امین فہیم( پیپلزپارٹی )

226   پیر شفقت حسین شاہ جیلانی( پیپلزپارٹی)

229   دوبارہ پولنگ

242   محبوب عالم( متحدہ قومی موومنٹ)

256   اقبال علی خان( متحدہ موومنٹ)

257   ساجد احمد( متحدہ موومنٹ)

بلوچستان:

262   محمود خان اچکزئی( پشتونخوا ملی عوامی پارٹی)

جو برج اُلٹ گئے!

جیسے کھیل کے میدان سے ایک سرخرو اور دوسرا ناکام لوٹتا ہے، ایسے ہی انتخابات میں بھی بازی ایک ہی امیدوار کے نام رہتی ہے ، جب کہ دوسرے کو ناکامی کا مزہ چکھنا پڑتا ہے، لیکن یہ صورت حال اس وقت بہت زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب بازی کسی بڑے امیدوار کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے امیدوار کے حق میں چلی جائے۔ انتخابی اصطلاح میں اسے ’’برج الٹنے‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

جن بڑے ناموں کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا ان میں سرفہرست سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سابق وزیر اطلاعات قمر الزماں کائرہ، فردوس عاشق اعوان، احمد مختار، اے این پی کے قائد اسفندیار ولی اور وزیر ریلوے غلام احمد بلور ، جب کہ نواز لیگ کے مہتاب عباسی، حنیف عباسی، شکیل اعوان اور ق لیگ چھوڑ کر نواز لیگ میں جانے والی ماروی میمن اور امیر مقام بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے علاوہ چوہدری نثار کو بھی ایک نشست پر شکست ہوئی۔ فردوس عاشق اور امیر مقام وہ امیدوار تھے کہ جنہیں دونوں نشستوں سے شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

جمشید دستی کا اعزاز

بہ حیثیت آزاد امیدوار 2 نشستیں جیتنے والے دوسرے امیدوارشیخ رشید کے بعد پی پی کے سابق رکن جمشید دستی پارلیمانی تاریخ میں دوسرے رکن بن گئے ہیں جنہوں نے آزاد حیثیت میں دو جگہوں سے کام یابی حاصل کی۔ جعلی ڈگری سے شہرت پانے والے جمشید دستی نے انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور دو حلقوں این اے 177 اور 178 سے انتخاب میں فتح حاصل کی۔

اس سے قبل 2002ء میں متعدد بار وفاقی وزارتوں میں جگہ پانے والے شیخ رشید نے ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پر پنڈی کے حلقوں 55 اور 56 سے آزاد حیثیت میں کام یابی حاصل کی تھی، لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں نواز شریف کا نام استعمال کیا اور کہا کہ وہ جیت کر دونوں نشستیں ان کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ عملاً ایسا نہ ہوسکا اور وہ اس زمانے میں عروج پانے والی ق لیگ سے جا ملے۔ اس کے بعد 2008ء میں انہیں ق لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے بعد کے ضمنی انتخاب میں بھی انہیں نواز لیگ کے سامنے کام یابی نصیب نہ ہوئی۔ رواں انتخابات میں انہوں نے اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سہارے کام یابی سمیٹی جس میں انہیں تحریک انصاف کا تعاون حاصل رہا۔

روپ کے رنگ نئے ڈھنگ نئے

$
0
0

جینز لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں میں بھی مقبول ہے.

مگر صرف مخصوص رنگوں میں دست یاب ہونے کے باعث صنف نازک کے انفرادیت پسند مزاج کا ساتھ یہ کم کم ہی دے پاتی تھی، مگر اب مختلف شوخ اور کھلتے رنگوں کی جینز آنے کے بعد یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ شوخ اور چمک دار رنگوں کی دل دادہ خواتین کے لیے اب انتخاب کا مسئلہ نہیں رہا۔

خوب صورت ڈیزائنز، مختلف رنگوں اور شوخی اور چمک لیے ہوئے یہ جینز شخصیت کو دل کشی کے ساتھ انفرادیت بھی عطا کرتی ہیں۔ یہ جینز نہ صرف ٹی شرٹ کے ساتھ زیب تن کی جاسکتی ہے، بلکہ ٹاپ، قمیص، لانگ شرٹ اور کُرتی کے ساتھ بھی پہنا جاسکتا ہے اور سراپے کو دل کشی اور انفرادیت کے نئے انداز دیے جاسکتے ہیں۔

بُک شیلف

$
0
0

سراب منزل (ناول)

ناول نگار: اے خیام

صفحات: 223

قیمت: 400 روپے

ناشر: میڈیا گرافکس، کراچی

پہلی شے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے، وہ ناول کے ’’فلیپ‘‘ اور گردپوش کے اندرونی حصے پر موجود آراء ہیں، جو، توقعات کے عین برعکس، اِس ناول، یعنی ’’سراب منزل‘‘ سے متعلق نہیں، فقط ناول اور ناول نگاری کی بابت ہیں۔ یہ امر واقعی دل چسپ ہے کہ تخلیق کار نے اپنی تخلیق کی بابت آراء درج کرنے کے بجائے صف ناول کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ڈی ایچ لارنس اور محمد حسن عسکری کی خیالات کو مقدم جانا۔

’’سراب منزل‘‘ افسانہ نگار، نقاد اور پبلشر کی حیثیت سے پہچانے جانے والے، اے خیام کا بہ طور ناول نگار پہلا تجربہ ہے۔ اِس سے قبل اُن کے دو افسانوی مجموعے ’’کپل وستو کا شہزادہ‘‘ اور ’’خالی ہاتھ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں جدیدیت کی مثبت قدروں کا جلوہ دکھائی دیا۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ترسیل و ترویج‘‘ کے عنوان سے منصۂ شہود پر آچکا ہے۔

زیرتبصرہ ناول میں ماجرے کا آغاز 80 کی دہائی کے شہر کراچی سے ہوتا ہے۔ کہانی نیم متوسط طبقے کے ایک ایسے پڑھے لکھے نوجوان کے گرد گھومتی ہے، جو بہتر مستقبل کی تلاش میں ہالینڈ جانے کا ارادہ باندھتا ہے۔ اِس ایک فیصلے سے اُس نوجوان کا خاندان اور زندگی جس طرح متاثر ہوتی ہے، مذکورہ ناول اُسے بیان کرنے کی سعی ہے۔ ایک زاویے سے یہ ایک تارکین وطن کا حزنیہ قصّہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مرکزی ماجرے کے زیریں بھی ایک کہانی چلتی ہے، جس کا آغاز تقسیم کے زمانے سے ہوتا ہے۔ یہ کہانی اقدار کی شکست و ریخت بیان کرتی ہے۔

35 ابواب پر مشتمل اِس ناول کی کہانی ’’تھرڈ پرسن پوائنٹ آف ویو‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ تکنیک کے تجربات ملتے ہیں۔ ’’فلیش بیک‘‘ کو برتا گیا ہے۔ کچھ ابواب خطوط پر مشتمل ہیں۔ زبان سادہ اور رواں ہے، جس کی وجہ سے کوئی پیچیدگی یا ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ ناول کی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ناقدین اور قارئین کا کام ہے، مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ مصنف نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران ہالینڈ میں خاصا وقت گزرا ہے، یہی سبب ہے کہ اِس ناول میں تخیل کے ساتھ تجربات و مشاہدات کا نچوڑ بھی شامل ہیں۔

کتاب کی طباعت اچھی ہے۔ کاغذ معیاری ہے۔ سرورق میں البتہ بہتری کا امکان ہے۔

نشیبی سرزمین (ترجمہ)

مصنف: ہاٹامیولر

مترجم: باقر نقوی

صفحات:160

قیمت:300 روپے

ناشر: اکیڈمی بازیافت

’’نشیبی سرزمین‘‘ رومانیہ میں پیدا ہونے والی جرمن ناول نگار، ہرٹا میولر کے ’’ناول نما‘‘، Nadirs کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب 2009 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازی جانے والی ہولر کی بہ طور ادیب پہلی تخلیق ہے، جو چودہ نثری ٹکڑوں اور ایک طویل قصّے پر مشتمل ہے، جنھیں چند ناقدین سوانح نگاری کی افسانوی شکل قرار دیتے ہیں۔ اِسی لیے راقم الحروف نے اس کے لیے ’’ناول نما‘‘ کی ترکیب استعمال کی کہ ان ٹکڑوں میں بہ ظاہر کوئی ربط نہیں، مگر گہرائی سے دیکھنے میں ایک رشتے کی جھلک ابھرتی ہے۔

میولر کی اِس تخلیق میں اُس کے آبائی گائوں ’’بنات‘‘ کی زندگی، قدیم روایات کے ساتھ نظر آتی ہے، جسے قلم بند کرتے ہوئے مصنفہ کی تحریر میں پیچیدگی، تجریدیت اور علامت نگاری کے عناصر در آتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق میولر کی خاصیت اُس کی نثر کی بے باکی اور شاعرانہ طرز اظہار کا امتزاج ہے، جس کے ذریعے وہ محرومیوں کی سماں بندی کرتی ہے۔

اب کچھ بات ہوجائے ترجمہ کی۔ اِس کتاب کو معروف مترجم، محقق اور شاعر، باقر نقوی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ گذشتہ چند برسوں سے تحقیق اور ترجمے کے میدان میں مصروف ہیں۔ اُن کی تخلیقات ’’نوبیل ادبیات‘‘ اور ’’نوبیل امن کے سو سال‘‘ شایع ہوکر ناقدین اور قارئین سے یک ساں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، جنھیں اردو کے نثری سرمائے میں سودمند اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔ اِس ترجمے سے بھی اُنھوں نے بھرپور انصاف کیا ہے۔ ہرٹامیولر کے مخصوص، اور ایک حد تک گنجلک، انداز کو برقرار رکھتے ہوئے بڑی گرفت سے اردو میں ڈھالا ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے یہ ایک کام یاب کوشش ہے، جس کے طفیل اردو کے قارئین کو میولر کے فکشن سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کتاب کی طباعت اور کاغذ معیاری ہے۔

پہچان کا لمحہ (افسانے)

افسانہ نگار: انورفرہاد

قیمت:250

صفحات:143

ناشر: میڈیا گرافکس، کراچی

انور فرہاد گذشتہ کئی دہائیوں سے میدان تخلیق میں مصروف ہیں۔ شاعری، افسانہ نگاری اور صحافت اُن کا حوالہ ہیں۔ تعلق Low Profile رہنے والے قلم کاروں کے قبیلے سے ہے۔ سفر زندگی میں اُنھیں گوناگوں مسائل کا سامنا رہا، دو ہجرتوں کا کرب سہا، جس کی وجہ سے اُن کی تخلیقات کو کتابی صورت میں منظر عام پر آنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے قبل ہی پہلا شاعری مجموعہ ’’چاند گہن‘‘ منصۂ شہود پر آیا۔ اب افسانوں کا مجموعہ شایع ہوا ہے۔

یہ مجموعہ 18 افسانوں پر مشتمل ہے۔ ابتدائی حصے میں مصنف کا سوانحی خاکہ موجود ہے۔ ’’لکھنا میرا پیشہ ہے‘‘ کے عنوان سے مختصر مضمون اُن ہی کے قلم سے نکلا ہے، جس میں اُن دوستوں اور کرم فرماؤں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے، جن کے تعاون اور تحریک کے طفیل اُن کی بکھری ہوئی کہانیاں کتابی صورت اختیار کرسکیں۔

کتاب میں انور فرہاد کے فن سے متعلق کسی کا مضمون موجود نہیں، البتہ بیک فلیپ پر ادیب اور نقاد، اے خیام کی رائے درج ہے۔ جو لکھتے ہیں: ’’اِس مجموعے کے افسانے زندگی کے بہت قریب ہیں۔‘‘

اے خیام کی یہ بات درست ہے کہ کتاب میں شامل لگ بھگ تمام افسانے روز مرہ کے واقعات کے گرد گھومتے ہیں، جنھیں تخلیق کار نے سادہ پیرائے میں، مگر پختگی کے ساتھ گرفت کیا ہے۔ اِس ضمن میں پہلا افسانہ ’’فیصلہ‘‘ قابل توجہ ہے، جو ذاتی احساسات و تجربات کے گرد گھومتا ہے۔ دیگر افسانے بھی ایک ’’اچانک‘‘ احساس یا صورت حال جنم دینے میں کام یاب نظر آتے ہیں، اِس تعلق سے ’’آنکھیں بڑی نعمت ہیں بابا‘‘ اور ’’دہشت‘‘ قابل ذکر ہیں۔

افسانوں کی زبان رواں ہے۔ جملے، افسانوں کے مانند، مختصر اور چست ہیں۔ مباحث نہیں ہیں، قاری کسی پیچیدگی سے روبرو نہیں ہوتا۔ الغرض یہ کتاب قاری کے وقت کے اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔

فن کار کہانیاں (مضامین)

مصنف: عمر خطاب خان

قیمت:360

صفحات:288

ناشر: کتاب پبلی کیشنز

زیرتبصرہ کتاب پاک و ہند کی فلمی ہستیوں سے متعلق نوجوان صحافی، عمر خطا ب خان کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل ہے، جسے اُنھوں نے کہانی کی صورت بیان کیا ہے۔

جہاں دلیپ کمار، مینا کماری، دھرمیندر اور نرگس جیسے سنیئرز کا ذکر ہے، وہیں نئے نسل کے فن کاروں پر بھی مضامین ہیں۔ پاکستانی فن کاروں میں وحیدمراد، جاوید شیخ اور وینا ملک کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اِس کتاب میں چودہ شخصیات کے حالات زندگی کو قلم بند کیا گیا ہے۔ بیک فلیپ پر مصنف کا تعارف درج ہے۔ اندرونی صفحات میں کتاب کی ناشر، نثار حسین کے علاوہ ابن آس اور نعیم حبیب کے مضامین موجود ہیں۔ ’’عمر بیتی‘‘ کے زیرعنوان تحریر کردہ مضمون مصنف کے قلم سے نکلا ہے۔

دنیا بھر میں فلمی ہستیوں کو کے حالاتِ زندگی قلم بند کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں اِس میدان میں نسبتاً کم کام ہوا۔ گو قارئین کی کمی نہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے عمر خطاب خان کی یہ کتاب اچھا اضافہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انھوں نے چست اور رواں زبان میں فلمی ہستیوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔ دل چسپی کا عنصر کا خاص خیال رکھا ہے۔

سرخ پھولوں کی سبز خوشبو

مرتب: خرم سہیل

صفحات:398

قیمت: 1400

ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

زیر تبصرہ کتاب جاپان اور پاکستان کے ممتاز ادیبوں اور اہل قلم کی تحریروں پر مشتمل ہے، جو جاپان اور پاکستان کے ادبی تعلقات کا احاطہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے شعرا، ادیبوں، محققین اور دیگر اہل قلم سے قارئین کو متعارف کرواتی ہیں۔

اِن تحریروں کو یک جا کرنے کا فریضہ نوجوان صحافی، خرم سہیل نے انجام دیا ہے۔ جاپانی ادب کو مختصر پیرائے میں، کتاب میں سموتے ہوئے خرم نے عام قاری کی دل چسپی کو پیش نظر رکھا ہے، جس کے طفیل مطالعیت کا عنصر برقرار رہتا ہے۔

پیش لفظ میں مصنف نے اِس کتاب کو مرتب کرنے کا سبب بیان کیا ہے۔ دیپاجہ دائتوبنکا یونیورسٹی، سائی تاما، جاپان سے منسلک اردو کے استاد، پروفیسر ہیرجی کتائونے لکھا ہے۔ اُنھوں نے کتاب کو مثبت کاوش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے شعر و ادب اور ثقافت کے رشتے کی عکاسی کرے گی۔

کتاب بنیادی طور پر نو ابواب پر مشتمل ہے۔ جن کی ترتیب کچھ یوں ہے: جاپانی اہل قلم کی اہم اردو تحریریں، جاپانی ادب اور شاعری، جاپانی ادیب اور شعرا، اردو زبان و ادب کے لیے جاپانیوں کی خدمات، جاپانی ادب اور پاکستانی مترجمین، برصغیر کے فکشن میں جاپان، جاپانی تہذیب و فن، جاپان ہماری نگاہ میں اور پاکستانی صحافیوں کی نظر میں جاپان۔

ابواب میں پایا جانا والا تنوع ہی واضح کرتا ہے کہ قاری اِس کتاب کے ذریعے جاپانی ادب سے متعلق بہت کچھ جان سکتا ہے۔

محنت اور لگن کے ساتھ، پاکستان جاپان دوستی کی 60 ویں سال گرہ کے موقع پر، تالیف کی جانے والی یہ کتاب اس میدان میں سودمند اضافہ ہے۔ اگر کوئی جاپانی ادب و ثقافت کے بارے میں قابل اعتماد معلومات تک رسائی چاہتا ہے، تو یہ کتاب اُس کے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ کتاب کی طباعت انتہائی معیاری ہے، کاغذ عمدہ ہے، مگر قیمت اتنی زیادہ ہے کہ عام قاری کے اِسے خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اجرا (ادبی جریدہ)

مدیر: احسن سلیم

صفحات:576،قیمت:400

ملنے کا پتا:1-G-3/2، ناظم آباد، کراچی

جوہڑ رکا ہوا، ایک جگہ مقید پانی، کائی، آلودگی میں رچا ہوا سڑاند میں بسا ہوا تعفن زدہ، ہاں وہ جو ہڑ ہوتا ہے۔ جو ہڑکو سمندر تو کیا ندی نالا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ندی، نالے، دریا تو وہ ہوتے ہیں، جو اپنا راستہ خود نکالتے، اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دھتکارتے، رواںدواں بہتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی مستی میں مست و بے نیاز، پیاسوں کو سیراب، فصلوں کو شاداب اور کائنات کو آباد کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بہتے دریا پاکی اور طہارت کا منبع ہوتے ہیں کہ رب کی ہر مخلوق اُن سے فیض یاب ہوتی ہے ۔ اور گندے جوہڑ ایک جگہ رکا ہوا تعفن زدہ پانی، جن سے فیض کسی نے نہیں پایا۔ لیکن ہر جوہڑ کا اصرار اور مطالبہ رہا ہے کہ اسے دریا نہیں سمندر کہا جائے، کچھ کور چشم جو اپنے بینا ہونے کے فریب میں گرفتار ہیں، انھیں سمندر بتاتے ہیں۔

ہمارے یہاں بھی ہر طرف جوہڑ ہیں، جو ادب کی ترویج کے دعوے دار ہیں۔ ہم انھیں ادبی جوہڑ کہتے ہوئے بھی رنجیدہ ہیں کہ ادب تو بلند خیالی، نوع بشر کی ذہنی آب یاری، خلق خدا کی دل داری، دکھوں کی ماری انسانیت کی غم خواری کا نام ہے۔ ادب تو انسان کو ہمت، حوصلہ اور بردباری سکھاتا، انسانوں کو باہم ملاتا اور انھیں ہر قسم کے تعصب سے بچاتا ہے۔ ایک لڑی میں پروتا ہے ۔ ہاں، یہ درست ہے کی ادب تقسیم بھی سکھاتا ہے، لیکن بس ظالم و مظلوم ، حق و باطل اور اصل و نقل کی تقسیم۔ ہمارے یہاں ادب برائے تعلقات اور ادب برائے حصول زر کی صنعت بن گیا ہے۔ اشتہارات کو چھاپنے کے کیے مالی منفعت کی میراتھون دوڑ لگی ہے، سب اس میں اول آنے کے لیے ہانپ رہے ہیں، بس الا ماشاء اﷲ۔ ایسے میں کوئی مست ملنگ دیوانہ وار رقص میں ادب برائے تبدیلی کا گیت گا رہا ہو، اور بس رقص ہی نہیں ، رقص بسمل ، تو ہماری بینائی حیران ، عقل پریشان ہوجاتی ہے اور بے ساختہ پکارنے لگتے ہیں آخر کیا ہوا ان کو ۔ لاکھ سمجھائو لیکن یہ دیوانے کسی کی نہیں سنتے اور بس اپنی کرنی کر تے رہتے ہیں۔

ایسے ہی ہیں احسن سلیم جو اس دور میں محو رقص ہیں ۔ اجرا رقص بسمل ہے ۔ ادب کے وقار کو بچانے کی آرزو کیے ہوئے۔ ایک بہتا دریا، جس کا فیض جاری ہے ۔ اجرا سمندر ہے جو سب کے لیے خزانہ ہے ۔ نام نہاد ادب کے سپر مارکیٹ میں گم ہونے سے دور وہ اپنی روشنی سے سب کو فیض یاب کر رہا ہے ۔ اجرا اک چھتنار شجر ہے، جس کی ہر شے نوع بشر کے فوز و فیض کے لیے ہوتی ہیں ۔ کسی بھی صلے و ستائش کی تمنا سے عاری ۔ شجر طیب کی طرح ۔ انسان کا ارادہ اصل ہوتا ہے ۔ یہ اگرخالص ہو تو اصل ہے، جوہر ہے، ورنہ تو بس دھوکا ہے ، سراب ہے ۔ اجرا کا تازہ شمار کتنے رنگوں سے کہکشاں بنا ہوا ہے کہ اجرا خون جگر سے نمود پاتا ہے۔

25 نظمیں، 18 شعرا کی غزلیں، 3 نثری نظمیں، 17 افسانے۔ ادب برائے تبدیلی پر مباحث، مرزا اطہر بیگ کا خصوصی انٹرویو، بیرونی ادب کے تراجم، تنقیدی و تحقیقی مضامین، کتابوں پر تبصرے، الغرض قاری کے لیے سوغات خاص ۔ ہاں یاد آیا کنول ہمیشہ کیچڑ میں کھلتا ہے ۔ ادب کا کنول اجرا، دیکھ لیا آپ نے اجرا ۔

ہاں احسن سلیم کہہ سکتے ہیں:

یہ محفل جو آج سجی ہے

اس محفل میں ، ہے کوئی ہم سا

ہم سا ہے تو سامنے آئے

نمک پارے (سو الفاظ پر مبنی کہانیاں)

مصنف: مبشر علی زیدی

صفحات:160،قیمت: 250،ناشر: شہرزاد

قاری کو متوجہ کرنا، گہماگہمی اور بے قیمتی کے اِس زمانے میں، کسی طور سہل نہیں۔ اِس نسبت سے یہ کتاب کام یاب ٹھہرتی ہے کہ اِس میں سمویا گیا تجربہ قابل توجہ ہے۔

الیکٹرانک میڈیا سے منسلک مبشر زیدی کی یہ کتاب سو کہانیوں پر مشتمل ہے، جن کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر کہانی کی بُنت سو الفاظ سے کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہانیاں گن کر لکھی گئی ہیں۔ الفاظ گن کر کہانیاں لکھنے کا عمل، شاید تخلیق کی ادبی حیثیت کی تعین کرنے میں زیادہ معاون نہ ہو، مگر اس کی انفرادیت پر تصدیق کی مہر ضرور ثبت کرتا ہے۔

کتاب میں شامل کہانیوں یا مختصر افسانوں میں سے 17 طبع زاد ہیں، جب کہ باقی 83 کے خیالات بیرونی ادب، مختلف بلاگز یا ویب سائٹس سے لیے گئے ہیں، اور اُنھیں اردو میں ڈھالتے ہوئے سو الفاظ کی بندش کا خیال رکھا گیا ہے۔ بیش تر مصنفین سے اس عمل کی اجازت بھی لی گئی ہے۔ اس زاویے سے یہ کہانیاں فقط ترجمہ نہیں۔ شاید ’’ماخوذ‘‘ ان کے لیے زیادہ بہتر لفظ ہے۔

موضوع کے اعتبار سے کتاب میں شامل کہانیوں کو گیارہ ابواب میں بانٹا گیا ہے۔ آغاز میں مصنف کا ’’گنے چنے الفاظ‘‘ کے زیرعنوان مضمون شامل ہے، جو اس تجربے کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ آخری حصے میں ’’دنیا کی سب سے مختصر کہانی‘‘ نامی مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی حصے میں چند انگریزی کہانیاں بھی شامل ہیں، جنھیں مصنف نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ گنے چنے الفاظ سے بُنی کہانیوں کی چند کتابوں کی ایک فہرست بھی کتاب میں موجود ہے۔

کتاب کا سرورق فنی نقطۂ نگاہ سے خوب صورت اور مواد کی مناسبت سے بامعنی ہے۔ بیک فلپ پر کسی کی رائے درج نہیں، البتہ انوکھے انداز میں پیش کردہ ایک کہانی موجود ہے، جو ورق گردانی سے قبل قاری کے تجسس کو مہمیز کرتی ہے۔ کاغذ اور چھپائی بھی اچھی ہے۔

مجموعی طور پر نمک پارے ایک کام یاب تجربہ ہے۔ کئی کہانیاں دل چسپ ہیں۔ اگر طبع زاد کہانیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی، تو بہتر تھا۔ مصنف کو اپنی تخلیقات کی ادبی جراید میں اشاعت کے معاملے پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک رسائی حاصل کر سکیں۔

سالگرہ کا دن آیا ہے

$
0
0

خوشی کے لمحات ہمیشہ یاد رہتے ہیں اوروہ پل توکبھی نہیں بُھلائے جاسکتے جوہم اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ بتاتے ہیں۔

پہاڑی مقامات کی سیرہو یا سمندرکی موجوں میں مستی، پارک میں لگے جھولے ہوں یا سالگرہ کی تقریب میں شرکت۔ سب کے سب یاد رہتے ہیں اوران کاتذکرہ ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ویسے توانسان کیلئے ہروہ لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے جس سے اس کی خوشیاں جڑی ہوں لیکن سالگرہ کا دن تو ہرکسی کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

سالگرہ کے موقع پرملنے والے تحائف، مبارکباد اورنیک تمناؤں کے پیغامات اورپھر دوستوں کے ساتھ موج مستی اورفوٹوسیشن۔ کیک کٹتے ہی ’ہیپی برتھ ڈے ٹویو‘کی آوازیں، کیک کھلانا اور کھانا، دیدہ زیب ملبوسات اورپھراس دن کوبہت سپیشل بنانے کیلئے تیاری بھی یاد رہ جاتی ہے۔ رنگارنگ روشنیوں سے گھرکو سجایا جاتا ہے، غبارے، موم بتیاں اوردیگرآرائشی سامان اس دن کو بہت یادگار بنا دیتا ہے۔

واقعی یہ لمحات ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اورہمارے ذہنوں میں گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔

’’دماغ خور‘‘ امیبا

$
0
0

 کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے پیدا ہوتے ہی بیماریاں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔

باالفاظ دیگر بیماریاں صدیوں سے انسانوں کے ساتھ چلی آرہی ہیں اور صدیوں سے موجود رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طورپر انسان اب جاکر کہیں ان کو دریافت کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ ایڈز کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے صرف چند عشروں قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈینگی نے بھی طویل عرصہ بعد وبائی صورت میں مختلف علاقوں کو متاثر کیا ہے۔

تیزی سے ترقی کرتی اور بدلتی ہوئی دنیا میں روز نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں اور خلقت کو حیران کررہی ہیں۔ یہ چیزیں مثبت بھی ہیں اور منفی بھی، یعنی ان میں بعض خوشخبریاں ہیں اور بعض بری خبروں کی زمرے میں آتی ہیں۔ نئی، انوکھی اور ساتھ ہی مہلک بیماریوں کی خبریں ظاہر ہے کہ بری خبروں کے زمرے میں شامل ہوں گی۔اب ایک نئی بیماری کے نسل انسانیت پر حملہ آور ہونے کی خبریں دنیا بھر سے موصول ہورہی ہیں۔اس بیماری کے بارے میں بتانے کا مقصد آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد قارئین کی آگاہی میں اضافہ کرنا ہے۔آئیے آپ کو اس موذی بیماری کے بارے میں بتاتے ہیں:

یہ مہلک اور انوکھی بیماری ’’نائیجلیریا فولیری‘‘ ہے جو دماغ کو کھانے والے یک خلوی جاندار ’’امیبا‘‘ کی ایک قسم کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسے میڈیکل کی اصطلاح میںPAM کہا جاتا ہے ۔جن لوگوں نے میٹرک میں سائنس پڑھی ہے ، انہوں نے امیبا کے بارے میں یقینا ً پڑھا ہوگا۔یہ ایک یک خلوی یعنی ایک خلیے پر مشتمل جاندار ہے۔

پاکستان میں اب نہ صرف اس بیماری نے لوگوں کا شکار شروع کردیا ہے بلکہ اس کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ میں آنے لگی ہیں۔ چند ہفتے پہلے کراچی میں ایک چودہ سالہ بچہ اس بیماری کا شکار ہوکر چل بسا ہے۔اس کے دماغ پر صرف ایک ہفتہ پہلے اس جان لیوا دماغ خور امیبا نے حملہ کیا تھا اور محض ایک ہفتے کے اندر اس کی موت واقع ہوگئی۔ سندھ میں صحت کے صوبائی حکام اور ہسپتال کی انتظامیہ نے بھی اس بیماری سے اس کی موت کی تصدیق کردی ہے۔اس طرح گذشتہ سے پیوستہ سال اس بیماری سے کراچی میں دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پام نامی یہ مہلک بیماری مرکزی اعصابی نظام اور دماغ دونوں کو نشانہ بناتی ہے۔اس کا موجب امیبا ناک کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ابتدا میں امیبا کے حملے کے نتیجے میں ہیمرج جیسی علامات نمودار ہوتی ہیں اور سر کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ اس کے بعد امیبا ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز پر حملہ کرتا ہے اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے دماغ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔یہ مہلک جاندار دماغ کے اہم خلیات کو کھانا شروع کردیتا ہے ۔ ان خلیات کو کھانے کے لیے اس امیبا کے خلیے کی سطح پر انوکھے قسم کے چوسنے والے آلے لگے ہوتے ہیں۔

اس کے بعد یہ باقاعدہ مرض بن جاتا ہے اور primary amoebic meningoencephalitis PAM کہلاتا ہے۔ پام ایک ایسی بیماری ہے جو مرکزی اعصابی نظام اور دماغ کو متاثر کرتی ہے۔یہ بیماری عام طور پر صحت مند بچوں اور نوعمر افراد کو نشانہ بناتی ہے۔

اس بیماری کی معلوم تاریخ کے مطابق 1909ء میں برطانیہ میں اس بیماری کا پہلا واقعہ سامنے آیا تھا۔ 1965 ء میں سب سے پہلے ڈاکٹر ایم فولر اور آر یف کارٹر نے اسے انسانی بیماری کے طورپر شناخت کیا تھا۔امیبو فلیجلیٹس نامی جاندار پر ان کی تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ کس طرح ایک خوردبینی جاندار آزادانہ طورپر ماحول اور انسان کے اندر زندہ رہ سکتا ہے۔1965 ء سے لے کر اب تک مختلف ملکوں میں اس بیماری کے 144 واقعات پیش آچکے ہیں۔1966 میںڈاکٹر فولر نے اس بیماری کے بارے میں مزید تفصیلات دریافت کیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا بنیادی سبب ’’امویبک مینن جیون سفالیٹیس‘‘ یا انگریزی میںamoebic meningoencephalitis (PAM) نامی یک خلوی جاندار ہے جسے حیاتیاتی زبان میں ’’امیبا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ خور جراثیم یا جاندار پہلے پانی میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد ناک کے نتھنے کے ذریعے دماغ پر حملہ کردیتا ہے۔یہ ایک قسم کی انفیکشن ہے اور یوں سمجھیں کہ امیبا دھیرے دھیرے دماغ کے خلیات کو کھانا شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ متاثرہ افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

کراچی میں دماغ خور امیبا کے حملے میں موت سے دوچار ہونے والے بچے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس کا باپ ایک پبلک سرونٹ ہے جو کورنگی ٹاؤن یونین کونسل سات میں بلال مسجد کے قریب کا رہنے والا ہے۔چودہ سالہ لڑکا ہسپتال لایا گیا تو وہ شدید بیمار تھا۔لیاقت نیشنل ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ کیے گئے تو اس کے نتیجے میں تشخیص ہوئی کہ وہ نائیجلیریا فولیری کے حملے سے دوچار تھا۔سندھ کے صوبائی محکمہ کے حکام بالا نے بھی اس معاملے کی تصدیق کی ہے۔ان حکام نے تصدیق کی کہ اس سال کراچی میں اس بیماری کا یہ پہلا حملہ تھا اور بظاہر شہر کے کسی اور حصے میں ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔

لڑکے کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے 10 مئی کو ہسپتال داخل کرایا گیا لیکن وہ صرف ایک ہفتے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طبی لٹریچر میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود اب تک صرف تین لوگ زندہ بچ پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کسی پر اس بیماری کا حملہ ہو جائے تو موت یقینی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ جو افراد ایسے تالابوں یا سوئمنگ پولز میں نہاتے ہیں جن کو کلوری نیشن کے ذریعے صاف نہیں کیاگیا ہوتا، وہاں پر نہانے والوں کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کاخدشہ زیادہ ہوتا ہے۔تاہم حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کراچی میں دماغ خور امیبا کے حملے میں مرنے والے لڑکے کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کبھی سوئمنگ پول میں نہیں نہایا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ بیماری کا جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوکر اسے متاثر کرتا ہے۔

بیماری کیسے لاحق ہوتی ہے؟

’’نائیجلیریا فولیری‘‘ یا پام کی بیماری کس طرح لاحق ہوتی ہے ، اس بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی کے ذریعے جراثیم کے ایک صحت مند فرد کے جسم میں داخل ہونے کے تین سے سات دن بعد بیماری اسے اپنا نشانہ بنانے لگتی ہے اور بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں جن میں سردرد ، ہلکا بخار اور بعض واقعات میں حلق میں خراش اور ناک میں مواد بھر جانے کی صورت ہوتی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بیماری کراچی میں گذشتہ سال مئی میں وارد ہوئی تھی اور اس سے دس افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن اس وقت میڈیا میں اس کے بارے میں خبروں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔

اگرچہ سینئر ڈاکٹر تاحال اس مہلک امیبا کے پھیلنے کی وجوہات اور اسباب سے آگاہ نہیں تاہم صحت کے حکام نے تجویز دی ہے کہ فزیشن اور ڈاکٹر حضرات اس بارے میں بین الاقوامی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں اور اس تحقیق سے آگے بڑھ کر اسباب اور نتائج کا پتہ چلائیں۔ اسی طرح وہ کوئی متفقہ اور صائب رائے قائم کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں گذشتہ سال اس بیماری سے مرنے والے افراد کی عمریں 4سال سے 49سال تک تھیں۔

اس سال کراچی میں اس بیماری سے لڑکے کی ہلاکت کے بعد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ایک بار بھر بعض اقدامات کا اعلان کیا جو گذشتہ سال کے اقدامات سے مختلف نہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر کے بعد اس بیماری سے موت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایمرجنسی بنیادوں پر ایک مانیٹرنگ سیل تشکیل دے دیا ہے جو شہریوں کو پانی کی فراہمی کو مانیٹر کرے گا۔

کراچی واٹر بورڈ کے علاوہ صوبے کے دیگر پانچ اضلاع کے حکام کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں سے پانی کے نمونہ جات اکٹھے کریں ا ور اس بارے میں ذرائع ابلاغ کو روزانہ کی بنیادوں پر رپورٹیں جاری کریں۔بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ایک ڈپٹی چیف انجینئر مانیٹرنگ سیل کے فوکل پرسن کا کردار اداکرے گا اور شہریوں کو مہیا کیے جانے والے پانی میں شامل کی جانے والی کلورین کی مقدار کی نگرانی کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہی وہ اقدامات ہیں جو واٹر بورڈ نے گذشتہ سال بھی کیے تھے۔

کراچی واٹر بورڈ اس بیماری کی ہلاکت خیزی سے شہریوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک آگاہی مہم چلارہا ہے جس میں انہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس طرح اس مہلک بیماری کے امیبا سے اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں۔ واٹر بورڈ کے علاوہ اسی قسم کی ایک مہم بلدیہ کراچی کی جانب سے بھی چلائی جارہی ہے۔اس کے علاوہ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر نے مختلف بلدیاتی محکموں کو کہا ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر صفائی کی مہم چلائیں تاکہ نایئجلیریا یا پام کے علاوہ ملیریا اور ڈینگی کے پھیلاؤ کو بھی روکا جائے ۔رپورٹ کے مطابق بیماری سے بچاؤ کے لیے شہر کی تنگ گلیوں اور خراب علاقوں میں دھونی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملیریا اور ڈینگی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گا۔

نائیجلیریا یا ورم دماغ
neagleria fowleri خوردبینی جراثیم ہے جو مذکورہ بیماری لاحق کرتا ہے۔یہ ایک مخصوص امیبا ہے جو گرمیوں میں جولائی سے ستمبر کے درمیان متحرک ہوتا ہے اور آلودہ پانی کے ذریعے ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہوتا ہے۔یہ براہ راست مرکزی اعصابی نظام اور پھر دماغ پر حملہ کرتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت کی وجہ بنتا ہے۔اس یک خلوی جاندار کو ’’دماغ خور امیبا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عام طورپر بچوں اور نوجوان افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ جراثیم متاثرہ فرد سے صحت مند افراد میں داخل نہیں ہوتا بلکہ آلودہ پانی کے ذریعے ہی اپنا شکار کرتا ہے۔

امیبا کہاں پلتا ہے؟
یہ مہلک امیبا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔یہ خاص طورپر صاف پانی بالخصوص گرم پانی کے چشموں اور سوئمنگ پولز میں پایا جاتا ہے جن کو کلورین سے صاف نہیں کیا گیا ہوتا۔اس کے علاوہ یہ تالابوں ، نہروں، جھیلوں اور گرم پانی کے ذخیروں میں بھی پلتاہے۔ یہ نمکین پانی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

بیماری کی علامات
1 – بیماری کی ابتدائی علامات ویسی ہی ہوتی ہیں جو گردن توڑ بخار کی ہوتی ہیں۔
2 – متاثرہ فرد کے ذائقے اور سونگھنے کی حسیات متاثر ہوتی ہیں۔
3 – مریض کو بخار ، سردرد ، بھوک کی کمی ، متلی ، قے ، گردن میں اکڑاؤ اور کوما میں جانے کی شکایات ہوسکتی ہیں۔
4 – بالعموم ایک سے دس دن میں موت واقع ہوجاتی ہے ۔

تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

بیماری کی تشخیص کے لیے متاثرہ فرد کی ریڑھ کی ہڈی سے پانی لیا جاتا ہے اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ پی سی آر ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی اس کی تشخیص کی کوششیں جاری ہیں۔

احتیاطی تدابیر
1 -گھر ، مساجد اور دفاتر کی زیرزمین یا زمین کے اوپر موجود پانی کی ٹینکیاں صاف کرتے رہیں۔
- 2 زیراستعمال پانی کی مناسب کلوری نیشن کریں۔ سٹور شدہ پانی کی کلوری نیشن کی تجویز کردہ مقدار 2ppm سے 0.5ppm ہے۔ جبکہ سوئمنگ پولز کے پانی میں یہ مقدار 2.5ppm سے 3.5ppm ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ کلورین کے ساشے پر موجود ہدایات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
3 -کلورین سے محروم جھیلوں اور ندی نالوں کے پانی میں نہانے یا اس سے منہ دھونے سے گریز کیا جائے۔
4 – کلورین سے محروم پانی کے ذخائر جیسے سوئمنگ پولز ، جھیلوں ، چشموں اور دیگر ذخائر میں نہانے سے گریز کیا جائے۔ پائپ لائنز کے لیک ہونے سے جمع ہونے والے پانی میں بھی نہ نہایا جائے۔
5 -نہاتے ہوئے کوشش کریں کہ پانی ناک میں نہ جائے ، اس کے لیے ناک پر لگائے جانے والے کلپس اور دیگر آلات استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
6 – سوئمنگ پول یا جھیل میں نہاتے ہوئے سر کو باہر رکھیں۔
- 7 نہانے ، منہ دھونے یا وضو کے لیے ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی استعمال کریں۔
8 – علامات نمودار ہونے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
اس بیماری سے ہلاکتوں کے بعد کراچی کے بلدیاتی حکام نے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ ساتھ ہی لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وضو ، غسل اور دیگر ضروریات کے لیے جراثیم کش پانی استعمال کیا جائے۔ کراچی واٹر بورڈ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اس امیبا کا منبع تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔

امریکی مرکز انسداد امراض کی رپورٹ
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پانی میں اس مہلک امیبا کی موجودگی کے بارے میں پتہ چلانا عملی طور پر ناممکن ہے اور انسانوں کے اندر اس کی موجودگی کے بارے میں صرف ریڑھ کی ہڈی کا پانی لے کر ہی معلوم کیاجا سکتا ہے۔ادھر امریکی مرکز انسداد امراض (سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن ) کے مطابق امریکی ریاست لوزیانا میں گذشتہ سال اس امیبا کی وجہ سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی سائینس ناک کے راستوں کو نیٹی پوٹ سے صاف کیا تھا۔

یاد رہے کہ نیٹی پوٹ ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ناک کے ایک نتھنے میں نیم گرم پانی ڈال کر دوسرے سے نکالا جاتا ہے۔اس طرح تین مزید امریکی بھی اس امیبا کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جب سوئمنگ کے دوران انہیں اس سے انفیکشن ہوئی تھی۔امریکہ کے علاوہ میکسیکو ، مشرقی یورپ کے بعض ملکوں اور بعض دیگر ایشیائی ملکوں میں بھی اس امیبا کے باعث انفیکشن کے واقعات پیش آچکے ہیں اور زیادہ تر افراد اس کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

امریکا میں اس بیماری سے ہلاک ہونے والے دو افراد میں ایک اکیاون سالہ عورت اور ایک اٹھائیس سالہ مرد تھا اور دونوں نے نیٹی پوٹ کے ذریعے اپنی ناک کے راستے کی صفائی کی تھی۔دونوں کا تعلق ریاست کے مختلف علاقوں سے تھا۔یاد رہے کہ ناک کے اندر بہت زیادہ فاضل مواد کو نکالنے کے لیے نیٹی پوٹ کے ذریعے صفائی کی جاتی ہے تاہم اگر پانی میں امیبا موجود ہو تو یہ فوری طورپر ناک کے ذریعے دماغ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

نیشنل سنٹر فار ایمرجنگ اینڈ زونوٹک انفیکشیس ڈیزیز کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر جوناتھن یوڈر کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا دونوں واقعات میں یہ مماثلت ہے کہ ان میں بیماری کاحملہ ٹیپ واٹر یعنی نلکے کے ذریعے سپلائی کیے گئے پانی سے ہوا۔

ڈاکٹر یوڈر اور رپورٹ کے دیگر مصنفین کے مطابق دماغ پر حملہ آور ہونے والا یہ مہلک امیبا گندے پانی کے بجائے گھروں کے باورچی خانوں ، شاور ، باتھ ٹب ، باتھ روم سنک اور گھروں کے دیگر حصوں کے صاف پانی میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانی کو پیے جانے کی صورت میں بھی یہ امیبا حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب پانی ناک میں داخل ہو یا جلد کے کسی ایسے حصے پر گرے جو کٹی یا پھٹی ہوئی ہو۔

ادارے نے لوگوں پرزور دیا کہ وہ منہ دھوتے ہوئے یا ناک کی صفائی کرتے ہوئے پانی کو ابال کر استعمال کریں یا ایسا پانی لیں جسے کلورین سے مناسب طریقے کے ساتھ صاف کیا گیا ہو۔سنٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس امیبا سے نئی قسم کی انفیکشن کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں2002-2011ء تک اس انفیکشن کے بتیس واقعات سامنے آچکے ہیںجن میں لوزیانا میں ہلاک ہونے والے دو افراد بھی شامل ہیں۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ انفیکشن کے بعد بیماری کی ابتدائی علامات پانچ دن بعد سامنے آتی ہیں لیکن اس میں سات دن بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کی علامات میں سردرد ، بخار ، متلی اور قے شامل ہے۔اس کے بعد جب امیبا دماغ کے ٹشوز میں داخل ہوتا ہے تو متاثرہ افراد جسمانی و دماغی توازن کھونے لگتے ہیں۔ خفتان اور جھٹکے لگتے ہیں اور نناوے فیصد واقعات میں موت واقع ہوجاتی ہے۔سی ڈی سی کے مطابق اس بیماری میں جان بچنے کا تناسب 123میں سے ایک ہے۔

مختلف ملکوں میں اموات کے واقعات
اب تک دنیا کے مختلف ملکوں میں دماغ خور امیبا کی انفیکشن کے نتیجے میں اموات کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ان میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جو کئی عشروں قبل ہوئے جب ابھی اس امیبا کے بارے میں زیادہ معلومات بھی موجود نہ تھیں۔آئیے ذیل میں آپ کو ان کے بارے میں مزید بتاتے ہیں۔

چیکو سلواکیہ
1962ء اور 1965ء کے درمیان چیکوسلواکیہ کے شہر اسٹیناڈلابم میں دماغ خور امیبا کی وجہ سے سولہ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی ۔ ان افراد کے بارے میں تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تمام لوگ ایک انڈور سوئمنگ پول میں نہا چکے تھے۔

نیوزی لینڈ
1968 اور 1978 کے درمیان نیوزی لینڈ کے ویکاٹو نامی خطے کے قصبوں ٹاپو اور ماٹاماٹا کے درمیان علاقے میں یہ بیماری پھیلی تھی۔ اس کے نتیجے میں آٹھ افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ان افراد کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ یہ اس علاقے میں جیوتھرمل پانی میں نہائے تھے۔

پاکستان
پاکستان کے بارے میں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے ، اس امیبا سے موت کا تازہ ترین واقعہ کراچی میں ہوا۔ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق مرنے والا ایک چودہ سالہ لڑکا عدیل ہے جسے 10 مئی کو کراچی کے نیشنل ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس لڑکے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بیس روز قبل ایک جھیل کے کنارے پکنک مناکر آیا تھا۔

اس سے پہلے پندرہ اکتوبر2010 کو غلام مصطفی خالد نامی ایک 54سالہ شخص کو کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا جس میں گردن توڑ بخار کی عمومی علامات تھیں۔جلد ہی اس بات کی تشخیص ہوگئی کہ وہ دماغ خور امیبا کی انفیکشن کا شکار ہوا تھا۔اس کے بعد اسے ایمفوٹیریسن بی نامی دوا بذریعہ آئی وی اور بذریعہ ریڑھ کی ہڈی دی گئی۔تاہم دوا کا کوئی اثر نہ ہوا۔اس طرح Cranial decompression (کھوپڑی پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ) سے بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔22 اکتوبر کو مریض کی موت واقع ہوگئی۔

مریض کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ بالکل صحت مند تھا اور کبھی نہر یا تالاب میں نہیں نہایا تھا۔تاہم اس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ وضو کرتے وقت ناک کو بہت اندر تک دھوتا تھا جس کی وجہ سے یہ انفیکشن کی ممکنہ وجہ ہوسکتی تھی۔بعدازاں لیبارٹری ٹیسٹ سے بھی تصدیق ہوئی کہ وہ امیبا کی انفیکشن کا شکار ہوا تھا۔

جولائی تا اکتوبر 2012ء میں صرف ایک ہفتے کے دوران پاکستان میں 22افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔صرف کراچی میں 13 افراد کی موت ہوئی جن میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو نہروں تالابوں میں نہاتا ہو اور امکان یہی ہے کہ انہیں نلکے کے پانی سے ہی انفیکشن ہوئی۔پانی میں اس امیبا کی افزائش کی وجہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ، پانی میں کلورین کی مقدار میں کمی اور فراہمی آب کے معاملے میں خرابی ہوسکتی ہے۔

یوکے (برطانیہ)
1979 میں برطانوی شہر باتھ میں ایک لڑکی رومن حمام میں نہا رہی تھی کہ اس نے کچھ پانی نگل لیا۔ پانچ روز بعد اس کی پام کے باعث موت ہوگئی۔ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ حمام کے پانی میں امیبا موجود تھا جس کے بعد مذکورہ حمام کو مستقل طورپر بند کردیا گیا۔

امریکا
جیسا کہ اوپر امریکہ میں اس کے چند واقعات کا ذکر کیا گیا لیکن درحقیقت امریکا میں اس بیماری کے بہت سے واقعات پیش آ چکے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں 1998ء سے 2007ء کے دوران پام کے حملے میں 33 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ 2001ء سے 2010ء کے 10 سال کے عرصے میں اس کی انفیکشن کے 32واقعات کا پتہ چلا۔ان میں 30 واقعات میں لوگ تفریحی مقامات پر موجود پانیوں میں نہاتے یا کھیلتے ہوئے اس امیبا کا شکار ہوئے جبکہ دو افراد جیوتھرمل واٹر سپلائی کے باعث ہلاک ہوئے۔

متفرق
اس کے علاوہ فرانس ، اٹلی کے علاوہ مشرقی یورپ میں چیکو سلواکیہ، ہنگری ، رومانیہ ،افریقہ میں سوڈان ، صومالیہ ، چاڈ ،کانگو ، مصر، لیبیا ، مراکش، گنی بساؤ اور ایشیا میں انڈونیشیا ، ملائشیا، تھائی لینڈ ، برما، ویت نام اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی اس بیماری کے باعث اموات کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

’’پاکستان میں تا حال پام کاریپڈ ٹیسٹ نہیں ‘‘
ماہر امراض کینسر و صحت عامہ ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی سے جب اس بارے میں رائے لی گئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس انفیکشن کے لیے تاحال کوئی ریپڈ ٹیسٹ موجود نہیں۔ بدقسمتی سے پچھتر فیصد مریضوں میں ان کی موت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ انہیں نائیجلیریا فولیری یا پام کی بیماری تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی اس بیماری کے بارے میں آگاہی زیادہ عام نہیں اور تحقیق بھی بہت کم ہے۔اس مرض میں اموات کی شرح پچانوے سے ستانوے فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ مرض کب ہوا اور کب موت واقع ہوگئی۔انہوں نے بتایا کہ فی الحال اس بیماری کا کوئی حتمی علاج نہیں اور جو بھی علاج ہورہا ہے وہ تجرباتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جب اس بیماری کے امیبا سے آلودہ پانی ناک میں جاتا ہے تو یہ ناک کے اندر موجود olfactory عصبوں کے ذریعے دماغ کے سامنے والے حصے یعنی frontal lobe پر حملہ کرتاہے اور وہاں سے پھیلتے پھیلتے دماغ کے دیگر حصوں میں بھی داخل ہوجاتا ہے اور دماغ کے خلیات کو کھانے لگتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس مہلک جاندار کو ’’دماغ کھانے والا امیبا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی نے مزید کہا کہ یہ بیماری چونکہ پانی سے پھیلتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ اس کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے۔ پانی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں جلدازجلد اس کی تشخیص کا انتظام ہونا چاہیے کیونکہ جتنی جلدی تشخیص ہوگی اتنا جان بچنے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔اگر ہسپتال میں کوئی ایسا مریض آئے جس میں اس امیبا سے متاثر ہونے کی علامات ہوں تو اس میں سوئمنگ کی ہسٹری کو دیکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک سوئمنگ اوراس مرض کے درمیان تعلق ہے تو حقیقت تو یہ ہے کہ سوئمنگ کرتے ہوئے ہر سال سینکڑوں لوگ مرجاتے ہیں لیکن اس امیبا سے چند لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔انہوں نے تالابوں اور نہروں میں نہانے والے افراد کو مشورہ دیا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے اپنی ناک کو کسی کلپ وغیرہ سے بند رکھیں تو بہتر ہے ، اس کے علاوہ وہ پانی کی تہہ میں موجود مٹی کہ نہ ہلائیں کیونکہ یہ مٹی ایک قسم کی فلٹر ہوتی ہے جو مہلک جانداروں کو پانی میں آنے سے روکتی ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ آج کے زمانے میں روز نئی نئی بیماریاں کیسے سامنے آرہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بیماریاں صدیوں سے موجود تھیں لیکن اب تشخیص کا نظام بہتر ہونے سے ان کا پتہ چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے زمانے میں لوگوںمیں قوت مدافعت زیادہ ہوتی تھی اور وہ اس انفیکشن کو برداشت کرلیتے تھے لیکن آج کل لوگ اس کو برداشت نہیں کرپا رہے ہیں اور موت سے دوچار ہورہے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہتر تشخیص کی سہولیات ہونے کی وجہ سے بھی اس کا پتہ چل رہا ہے۔

کرومائٹ، کان سے منڈی تک کا سفر

$
0
0

 رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان بنجر زمینوں، سنگلاخ چٹانوں اور صحراؤں کا مالک صوبہ ہے۔

پورے بلوچستان کی آبادی شہر لاہور کی نصف آبادی کے برابر بھی نہیں۔ پاکستان میں اگر صوبہ پنجاب زرخیز زمینوں، صوبہ سندھ کراچی کے ساحلوں اور خیبر پختونخوا سرسبز تفریحی مقامات کے مشہور ہیں تو صوبہ بلوچستان کو قدرت نے معدنیات کی بے تحاشا دولت سے مالامال کیا ہے۔ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے کوئلہ، قیمتی پتھر، کرومائٹ، میگناسائٹ، جپسم، سونا، اور توانائی کا اہم ذریعہ سوئی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہ تمام معدنیات قدرت کا تحفہ ہیں اور پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بڑا سہارا بھی۔ بلوچستان کا ضلع قلعہ سیف اﷲ کی سرزمین کرومائٹ سے مالامال ہے۔

٭ضلع قلعہ سیف اﷲ پر ایک نظر
اس ضلع کا نام سیف اﷲ قلعہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 1988میں ضلع ژوب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور قلعہ سیف اﷲ الگ ضلع بن گیا۔ اس کی دو تحصیلیں قلعہ سیف اﷲ اور مسلم باغ ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کے شمال میں ضلع ژوب، جنوب میں ضلع لورالائی اور ضلع پشین ہیں۔ مشرق میں ضلع ژوب، مغرب میں ملک افغانستان اور ضلع پشین ہیں۔ ضلع کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے۔ اس میں کوہ توبہ کاکڑی اور اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ کوہ تورغر، کوہ سپن غر، کوہ کند اور کوہ سرغنڈ اہم پہاڑ ہیں۔ ضلع میں چھوٹے چھوٹے دریا اور ندی نالے ہیں ان میں پانی زیادہ تر برسات کے دنوں آتا ہے۔

دریائے ژوب اور دریائے جوگیزئی مشہور ہیں۔ کان مہترزئی، مسلم باغ، قلعہ سیف اﷲ اور شرن جوگیزئی زرخیز وادیاں ہیں، کئی چھوٹے چھوٹے میدانی علاقے بھی ہیں۔ موسم سرما میں زیادہ سردی پڑتی ہے۔ مسلم باغ اور کان مہترزئی میں کئی کئی فٹ برف پڑتی ہے۔ درجۂ حرارت صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔ اس موسم میں بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ موسم بہار میں یہاں کا موسم انتہائی خوش گوار ہوتا ہے۔ باغات ہرے بھرے ہوتے ہیں۔ موسم گرما میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ درجۂ حرارت 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ تاہم راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

ضلع میں آب پاشی کے قدرتی ذرائع بارش اور برف ہیں ٹیوب ویل، کاریز، بند اور چشموں سے کھیتوں اور باغوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ زرعی پیداوار میں گندم، مکئی، تمباکو اور زہرہ ضلع کی اہم فصلیں ہیں۔ سبزیاں کم مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ پھلوں کے حوالے سے یہ ضلع اچھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں پر سیب ، زردآلو، انگور، آلوچہ اور انجیر وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔

ضلع قلعہ سیف اﷲ کی خاص اہمیت قدرتی معدنیات کے سبب ہے اس ضلع کو قدرت نے معدنیات کا بہت بڑا تحفہ کرومائٹ کی شکل میں دیا ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کی مانگ پوری دنیا میں ہے۔ خصوصاً نئی ابھرتی ہوئی معیشت چین کو اس عنصر کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں چین ہی اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چوںکہ یہ عنصر اسلحہ سازی، جہاز سازی، ادویات اور لوہا سازی میں استعمال میں لایا جاتا ہے، اسی لیے چین جو اقتصادی قوت کے طور پر عالمی منڈی میں تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے، وہاں ہزاروں فیکٹریوں میں یہ استعمال میں لایا جارہا ہے۔

قلعہ سیف اﷲ کا ضلع بلوچستان میں کرومائٹ کی پیداوار کے سبب بین الااقوامی سطح پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کانوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ چین اور یورپی ممالک تک پہنچتا ہے۔ یہاں کے مختلف علاقوں سے کانکنی کے ذریعے سے نکالا جانے والا کرومائٹ کا 80 فی صد کا خریدار چین ہے، جب کہ 20 فی صد کے قریب کرومائٹ یورپی ممالک خریدتے ہیں۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مسلم باغ، سولا، وچھٹاکی، خواجہ مران اور پلنہ خوڑہ وہ علاقے ہیں جہاں پر کرومائٹ کے ذخائر موجود ہیں۔

ان تمام علاقوں میں سے بہت سے اعلیٰ معیار کی کرومائٹ سولا اور وچھٹاکی اور بوستان کے علاقوں میں واقع پہاڑی سلسلوں میں پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں سے نکالا جانے والا کرومائٹ 52 فی صد والی شرح کا ہے۔ یہاں یہ امر واضع رہے کہ قلعہ سیف اﷲ کے مختلف علاقوں میں کانکنی کی صورت میں پہاڑوں سے نکالا جانے والے کرومائٹ کو یہاں کی تاجر برادری نے مختلف کیٹگریز میں رکھا ہے۔

سب سے اعلیٰ قسم کی کرومائٹ 52+ فیصد والی ہے، جب کہ فی صد کی شرح کے لحاظ سے یہاں پر کرومائٹ 24 فی صد، جو کہ کم ترین تصور کیا جاتا ہے سے شروع ہوکر 52+فی صد تک پہنچتی ہے، جس بھی علاقے میں تناسب کے اعتبار کے لحاظ سے بہتر کرومائٹ نکل آتا ہے تو تاجر برادری بھی اُسی علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیتے ہیں اور متعلقہ علاقے کو بڑی قدرومنزلت حاصل ہوجاتی ہے۔ کرومائٹ کی کانکنی سے لے کر اسے چین اور یورپی ممالک کی عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں یہاں کے ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ ان میں مقامی اور غیر مقامی دونوں شامل ہیں۔

٭کرومائٹ کانکنی سے مارکیٹ تک
کرومائٹ کو مارکیٹ تک لانے کے لیے پہلا مرحلہ اُس خاص مقام کا تعین کرنا جہاں سے یہ اُمید ہو کہ کرومائٹ مل سکتا ہے، چوں کہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے لوگ جدید دور کی جدید مشینری سے محروم ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کی کوئی معاونت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں کے لوگ اندازوں سے کام چلاتے ہیں۔ جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کا کوئی بھی تعاون یہاں ہوتا نظر نہیں آتا لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کانکنی کا آغاز کرتے ہیں، چوں کہ کسی کان پر کام شروع کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں کے لوگوں نے اس کا طریقۂ کار کچھ یوں بنایا ہے کہ تین یا چار لوگ مل کر ایک کان پر کام شروع کردیتے ہیں، جس کا فائدہ انھیں اس صورت میں کم وسائل میں کام کا آغاز کی صورت میں ہوتا ہے۔

یہاں پر کام محض اندازوں کے بل بوتے پر کیا جاتا ہے۔ جدید مشینری دست یاب نہیں لہٰذا اکثر اوقات ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ متعلقہ کان سے سوائے پتھروں کے کچھ نہیں نکل آتا۔ لہٰذا لیبر وغیرہ کی مد میں آنے والے اخراجات مالکان کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ کانکنی کے لیے استعمال ہونے والے جدید اوزاروں کا یہاں کوئی تصور نہیں روایتی طورطریقوں کو اپنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک کا پر اچھی خاصی رقم صرف ہوتی ہے۔

یہ علاقہ چوں کہ قبائلی ہے اور آمدورفت کے بھی کچھ خاص ذرائع میسر نہیں اس لیے یہاں پر لیبر کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کانکنی میں اکثر لیبر کا تعلق افغانستان اور کے پی سے ہے۔ یہ لوگ کان کے مالک کی ہدایات کے سخت پابند ہوتے ہیں۔ کان کے قریب مالک ان کے لیے ڈیرے کا بندوبست کرکے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔ ان لیبر کو ماہانہ کی بنیاد پر 10ہزار سے لے کر 20 ہزار تک تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، جب کہ ان کی خوراک کے اخراجات الگ ہیں۔ کرومائٹ کو کان سے باہر لانے کے لیے بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چوں کہ یہاں پر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام چلاتے ہیں، لہٰذا اگر کان کی اندرونی سطح ہموار ہے، تو گدے پر کرومائٹ کو لادا جاتا ہے اور اگر کان کی اندرونی سطح پیچیدہ ہے تو یہاں لوگوں کو کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرومائٹ کے کانوں میں کسی ایمرجینسی یا پھر خدانخواستہ کسی کان کے منہدم ہونے کی صورت میں ریسکیو کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اور ماضی میں ایسے کئی حادثات رونما بھی ہوچکے ہیں، جن میں اکثر کانوں سے لاشیں نکالنا ناممکن رہا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مالکان بھی اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ منہدم کان کو ویسے ہی رہنے دیا جائے۔

کرومائٹ کے کانوں میں کام کرنے والے لیبر کی نہ کوئی رجسٹریشن ہے اور نہ ہی اسی حوالے سے کوئی مستعد نظام موجود ہے، لہٰذا یہاں پر کام اندازوں سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کانکنی سے وابستہ 20 ہزار کے قریب لوگ لیبر کی صورت میں کام کررہے ہیں، جب کہ کانکنی سے وابستہ مالکان کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔

کرومائٹ کو کان سے مارکیٹ تک لانے کے لیے بھی کوئی خاص سسٹم موجود نہیں اگر جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہاں پر بڑی بڑی مشینوں کو استعمال میں لایا جانا چاہیے تھا، لیکن یہاں بھی انسانی جسم کو بطور مشین استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کرومائٹ چوںکہ دھات ہے لہذا اسے لوڈ کرنے میں لیبر کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبر کرومائٹ کو اپنے ہاتھوں اور بیلچوں کے ذریعے ٹرکوں میں ڈالتے ہیں اور اُتارتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ جہاں پر کرومائٹ کے ٹرک خالی اور لوڈ کیے جاتے ہیں یہاں کے مقامی لوگ اُسے ڈومان (منڈی) کہتے ہیں۔

ڈومان میں اربوں روپے کا کرومائٹ پڑا رہتا ہے۔ یہاں پر اس کی پرسنٹیج کی شرح اور قیمتوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ یہاں کی مارکیٹ ساکت نہیں رہتی اُتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے۔ کرومائٹ کی تجارت کے یہاں ٹن کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔ وہ بھی ناپ تول کے بغیر بس اندازوں سے کام لیا جاتا ہے۔ کرمائٹ کی اوسط قیمت فی ٹن 35000 روپے ہیں۔ تاجر منڈی میں ایک دوسرے سے خرید و فروخت کے عمل سے گزار کر متعلقہ کرومائٹ شہر کراچی کے علاقوں یوسف گوٹھ اور ماڑی پور میں موجود گوداموں تک پہنچاتے ہیں، جہاں سے یہ کرومائٹ چین اور یورپی ممالک کی منڈیوں میں پہنچتا ہے۔

ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مختلف تاجروں کی آراء کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 5 ہزار ٹن کے قریب کرومائٹ کانوں سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر 60 سے 70کروڑ روپے کے لگ بھگ کرومائٹ کا کاروبار ہوتا ہے۔ اگر سالانہ بنیادوں پر یہ شرح نکالی جائے تو یہ رقم 8ارب تک پہنچ جاتی ہے۔

اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والی تجارت کے علاقے میں امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ تاجر برادری اس حوالے سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں ہر لمحہ اپنے مال کی فکر رہتی ہے چند تاجروں کی آراء جاننے کے بعد یہ امر واضع ہوگیا کہ حکومت نے انھیں کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اور نہ ہی انھیں کرومائٹ کی پیداوار بڑھانے اور اعلیٰ پیمانے پر لانے میں کوئی سہولت دی ہے۔

٭تاجر برادری کو درپیش مشکلات
کرومائٹ کی کانکنی کے لیے جدید مشینری کی عدم دست یابی۔
ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور جو دست یاب ہیں اُن کے کرایوں کا زیادہ ہونا۔
کرومائٹ کی پرسنٹیج معلوم کرنے کے لیے کوئی سسٹم موجود نہیں
امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے حکومتی اداروں کا کردار سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
کانکنی کے لیے بجلی کی اشد ضرورت ہے لیکن بجلی ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی جو اس وقت ہر لحاظ سے ناممکن ہے۔
حکومتی سطح پر کوئی بھی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں کہ کانکنی کے احاطوں کا تعین ہو یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ یہاں ہر وقت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ڈی ایم ڈی ریالٹی کی صورت میں فی ٹن 200 روپے وصول کیے جاتے ہیں جو کافی زیادہ ہیں، حالاں کہ حکومت نے کوئی سہولت بھی نہیں دی ہے۔
کرومائٹ کو صاف کرنے کے لیے جدید مشینری اور پانی کی شدید قلت ہے۔
کانکنی پر تیز کام کرنے کے لیے بارود کی عدم دست یابی
تیز آمد ورفت کے لیے ہوائی سہولت موجود ہے نہ ریل گاڑی کی سہولت میسر ہے۔

اگر حکومتی سطح پر قلعہ سیف اﷲ کی تاجر برادری کے ساتھ تعاون کا سلسلہ شروع کیا جائے تو ضلع قلعہ سیف اﷲ انتہائی قلیل عرصے میں ملک کی مجموعی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضلع قلعہ سیف اﷲ کی کرومائٹ کی صنعت ملکی معیشت کو کافی حد تک سہارا دے سکتی ہے اور ملک کے ہزاروں بے روزگار افراد کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرسکتی ہے۔

جدید مشینری کو اس علاقے میں لانے سے کرومائٹ کی یہ تجارت کافی تیزہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں زندگی کا ہر شعبہ ترقی پاسکتا ہے۔ خصوصاً تعلیمی میدان میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے، جس کی بدولت ضلع قلعہ سیف اﷲ میں جیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کے بہت سے لوگ سامنے آسکتے ہیں۔ لہٰذا نئی بننے والی صوبائی اور وفاقی حکومت اپنی ترجیحات میں ضلع قلعہ سیف اﷲ کو شامل کریں اور اس علاقے کو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کردے۔

معدنیات، کچھ حقائق
دنیا میں تین ہزار قسم کی معدنیات موجود ہیں۔ فطری طور پر پایا جانے والا کوئی بھی کیمیکل یا مرکب، نامیاتی مادوں کے گلنے سڑے سے بننے والا پیٹرولیم اور کوئلہ اصطلاح کے درست ترین مفہوم میں معدنیات نہیں ہیں۔ دوٹوک انداز میں بات کی جائے تو تمام ’معدنیات‘ کانکنی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ انگریزی لفظ “Minerals”کا یہی مفہوم بنتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی غیرنامیاتی جوہروں کو بھی معدنیات کہا جاتا ہے۔ کانکنی میں عموماً زمین کی بیرونی تہہ میں کھدائی کرنا شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ چند معدنیات مثلاً سونا کبھی کبھار فطری طور پر سطح تک آجاتے ہیں اور دریاؤں یا سمندروں کے کنارے پر ملتے ہیں۔ دھاتیں، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر، سلفر اور نمک جیسے معدنیات سبھی کانکنی کے ذریعے نکالے جاتے ہیں۔

کانکنی کو سستا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معدنیات ایک ہی جگہ پر کثیر مقدار میں موجود ہوں۔ کبھی کبھی وہ تہوں میں ملتی ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار کی چٹانیں سطح سے قریب ترین ہیں۔ اس طرح ماہرین معدنیات کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے نیچے معدنیات موجود ہوں گی۔ عملی اعتبار سے صرف کرۂ ارض کا بیرونی خول ہی معدنیات کا واحد منبع ہے۔ یقیناً زمین کی بہت زیادہ گہرائی اور خلا میں بھی معدنیات موجود ہیں، لیکن فی الحال ان تک پہنچنا اور انہیں استعمال میں لانا ممکن نہیں۔

اگرچہ کرۂ ارض کے بیرونی خول میں لوہے اور ایلومینیم کے وسیع و عریض ذخائر موجود ہیں لیکن دیگر دھاتوں مثلاً جست، سیسے، چاندی، زنک، مرکری اور پلاٹینیم کی مقدار بہت زیادہ نہیں۔ ان دھاتوں کے کچھ مزید ذرائع دنیا کو معلوم ہیں لیکن فی الحال ان تک پہنچنا بہت منہگا ثابت ہورہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں ان دھاتوں کو ری سائیکل کرنا یا ان کی جگہ دیگر دھاتوں کو استعمال میں لانا ممکن نہیں۔

کُھلی کانیں اس وقت بنائی جاتی ہیں جب معدنیات کے ذخائر بہت زیادہ گہرے نہ ہوں۔ بالائی مٹی اور پتھروں کو مشین سے ہٹایا یا پانی سے بہایا جاتا ہے۔ اگر چہ کھلی کانیں عام بند کانوں کی نسبت سستی ہیں، لیکن کچھ لوگ اس طریقۂ کار کو ماحولیات کے لیے بہت نقصان دہ خیال کرتے ہیں، کیوں کہ اس طرح بہت بڑے علاقے جنگلی حیات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ آج کل کسی کھلی کان میں کام ختم ہونے کے بعد علاقے کو دوبارہ نئی شکل دینے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ متعدد سابقہ کانوں کو پارکوں یا جنگلی حیات کی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لوہے اور میگنیشم کے بعد ایلومینیم سب سے عام ملنے والا معدن ہے۔

جییں گے اب سب سو سو سال

$
0
0

جنوری کی ایک خوب صورت اور سرد صبح، جب کہ اسپرومونٹے کی پہاڑیوں پر برف چمک رہی تھی اور قریبی درختوں پر لگے ہوئی نارنگیاں اس حسین منظر کی دل کشی میں اضافہ کررہی تھیں، گسیپی پسارینو اپنی چھوٹی سی وین میں اٹلی کے انتہائی جنوبی علاقے کیلابریا کی ایک پہاڑی سڑک پر رواں دواں تھا۔

اس کا رُخ پہاڑی کی چوٹی کی جانب تھا۔ پھل دار درختوں کے جھنڈ کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے گسیپی جوکہ ماہر جینیات ہے، برابر والی نشست پر براجمان اپنے دوست موریزو بیراڈیلی سے بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ موریزیو علم پیری پر دسترس رکھتا ہے۔ ان کی منزل دوردراز واقع مولوچیو نامی گاؤں تھا۔ اس گاؤں میں دو ہزار نفوس آباد تھے جن میں سے چار افراد کی عمریں 100 کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں جب کہ چار ایک سال کے بعد سینچری مکمل کرنے والے تھے۔

جلد ہی وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہوگئے اور ان کی ملاقات 106سالہ سلواتورے کروسوسے ہوئی جو قصبے کے مضافات میں تعمیر شدہ اپنے گھر میں بیٹھا اخبار کے مطالعے میں گُم تھا۔ اس کے قریب ہی آتش دان روشن تھا جو کام یابی سے سردی کی شدت کو زائل کررہا تھا۔ اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی فریم شدہ نقل آتش دان کے قریب ہی موجود تھی جس پر اس کی تاریخ پیدائش 2 نومبر 1905ء درج تھی۔

کروسو نے ان محققین کو بتایا کہ وہ پوری طرح صحت مند ہے اور اس کی یادداشت بھی بالکل صحیح کام کررہی ہے۔ اسے اپنی زندگی کے تمام واقعات یاد تھے مثلاً یہ کہ 1913ء میں اس کے باپ کی موت واقع ہوئی تھی جب کہ وہ اسکول میں زیرتعلیم تھا؛ اور یہ کہ 1918-19ء میں پھوٹ پڑنے والی انفلوئنزا کی وبا کے دوران اس کی ماں اور بھائی کیسے لقمۂ اجل بنے تھے؛ یا یہ کہ 1925ء میں حادثاتی طور پر ٹانگ ٹوٹ جانے کے بعد اسے کیسے فوج سے نکال دیا گیا تھا۔ جب موریزیونے کروسو سے پوچھا کہ اس کی طویل العمری کا راز کیا ہے تو بوڑھے شخص نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،’’میں تمباکو، شراب، سگریٹ اور عورت سے ہمیشہ دور رہا ہوں۔‘‘ کروسو نے مزید کہا کہ بچپن سے جوانی تک انجیر اور پھلیاں اس کی خوراک کا حصہ رہیں۔ گوشت کا استعمال وہ بہت کم کیا کرتا تھا۔ دونوں سائنس دانوں نے اسی طرح کی باتیں 103سالہ ڈومینیکو رومیو اور 104 سالہ ماریا روزا کروسو سے بھی سنی تھیں۔

کوسینزا میں واقع لیبارٹری کی طرف واپس جاتے ہوئے بیرارڈیلی نے کہا کہ یہ لوگ سبزیوں اور پھلوں ہی کو اپنی طویل العمری کا راز بتاتے ہیں۔ اس پر پسارینو نے خشک لہجے میں جواب دیا کہ وہ پھلوں اور سبزیوں کو ترجیح اس لیے دیتے تھے کہ ان کے پاس کھانے کو یہی کچھ ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ پھل اور سبزیاں ہی کھانے پر مجبور تھے۔

اگرچہ بیسویں صدی میں کیلابریا جیسے غربت زدہ علاقوں میں رہنے والے دست یاب غذا ہی کھانے پر مجبور تھے، تاہم عشروں تک کی جانے والی مختلف تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ غذا میں یکسانیت اور طویل العمری کے مابین تعلق موجود ہے۔ تاہم آنے والے دور میں مزید سائنسی تجربات نے اس نظریے کو باطل ثابت کردیا۔ حالیہ برسوں میں کیے جانے والے متعدد تحقیقی مطالعات نے درازیٔ عمر اور محدود نوعیت کی کیلوریز کے درمیان تعلق کو جھٹلادیا ہے۔

بہرصورت پسارینو عمر کی صدی مکمل کرنے والوں کی خوراک سے زیادہ خود ان کی ذات میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ طویل العمری ایک ایسا تحقیقی میدان ہے جس میں مبالغہ آرائی کی حدوں کو چُھوتے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں نے طویل العمری کا راز جاننے کے لیے طاقت ور جینومی ٹیکنالوجیز، بنیادی مالیکیولی ریسرچ، اور سب سے اہم یہ کہ جینیاتی طور پر مختلف اور الگ تھلگ رہنے والے لوگوں کے گروہوں کا مطالعہ شروع کردیا ہے۔ کیلابریا، ایکواڈور، ہوائی اوربرونکس جیسے شہروں میں ہونے والے تحقیقی مطالعات کی بنیاد پر مالیکیولی اور کیمیائی طریقہ ہائے کار وضع ہونے لگے ہیں جو بالآخر ہر ذی نفس کی طویل عمر تک بہترین صحت کی برقراری کے ضامن بنیں گے۔

طویل العمری سے جُڑے سوالوں کے جواب کی تلاش نے بین الاقوامی سائنسی توجہ نکولس انازکو جیسے لوگوں کی طرف مبذول کردی ہے۔ انازکو کی عرفیت Pajarito ہے۔ اس ہسپانوی لفظ کا مطلب ’’چھوٹا پرندہ‘‘ ہے۔

کئی صورتوں میں انازکو ایک عام سا نوجوان یا ٹین ایجر ہے۔ وہ کمپیوٹر گیمز اور فٹبال کھیلتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایکواڈور کے صوبے ایل اورو میں چار کمروں کے ایک مکان میں رہتا ہے۔ انازکو کا گھر ایک خوب صورت دیہی علاقے میں ہے۔ سترہ سالہ یہ نوجوان کاشت کاری میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ انازکو کو ’’لٹل برڈ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا قد صرف تین فٹ نو انچ ہے اور دیکھنے میں وہ ایک آٹھ سال کا بچہ نظر آتا ہے۔ اس کوتاہ قامتی کا سبب ایک جین میں ہونے والی خرابی تھی۔ جینیاتی خرابی کے سبب جنم لینے والی بیماری نے جسے Laron syndromeکہا جاتا ہے، انازکو کی جسمانی نشوونما کو تو متاثر کیا ہے، لیکن یہ بیماری اس نوجوان کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے جن کا عمر بڑھنے کے ساتھ سا تھ انسان شکار ہوتا ہے۔ ان میں سرطان اور ذیابیطس جیسی خطرناک بیماریاں بھی شامل ہیں۔

اگرچہ اس سلسلے میں کچھ مبالغہ آرائی بھی نظر آتی ہے مگر غیرمعمولی طور پر صحت مند یا طویل العمر لوگوں کے گروپوں کے جینوم پر تحقیق میں محققین کی دل چسپی بڑھ رہی ہے۔ ان گروپوں کا باقی دنیا سے کٹ کر رہنا، ان کا جغرافیہ یا ثقافت سائنس دانوں کے لیے ان کی دراز عمری، ان میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت اور اچھی صحت کے جینیاتی اسباب تلاش کرنا آسان بنادیتا ہے۔

ایسا ہی ایک سائنس دان ’لٹل برڈ‘ کا معالج جیمی گوویرا ہے جوکہ ایل اورو صوبے ہی میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے 1987ء میں ان کوتاہ قد افراد کا مطالعہ کرنا شروع کیا تھا اور ربع صدی کے دوران وہ جنوبی ایکواڈور میں Laron syndrome سے متاثرہ ایک سو کے لگ بھگ لوگوں کی شناخت کرنے میں کام یاب رہا۔

چالیس سالہ اکیلی ماں Meche Romero Robles بھی گویرا کے زیرعلاج مریضوں میں شامل ہے۔ چار فٹ سے کچھ ہی اونچے قد کی روبلز اپنی نوعمر بیٹی سمانتھا کے ساتھ پناس کے پہاڑی قصبے میں ٹین کی چادروں والے گھر میں رہتی ہے۔ گوویرا کا کہنا ہے کہ روبلز کی خاندانی تاریخ اور اس کے جسمانی mass index کے پیش نظر اسے ذیابیطس میں مبتلا ہونا چاہیے تھا مگر وہ اس بیماری سے محفوظ ہے۔ گوویرا کو ان کوتاہ قامت لوگوں کی اس خاصیت کا ادراک 1994ء میں ہوا تھا۔

اُس وقت گوویرا کی اس بات پر کوئی یقین نہیں کرتا مگر2005 ء میں صورت حال تبدیل ہوئی جب جنوبی کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں خلیاتی حیاتیات کے ماہر والٹر لونگو نے اسے اپنی تحقیق پیش کرنے کے لیے مدعو کیا۔ اس سے ایک عشرہ قبل لونگو نے سادہ جان داروں جیسے یک خلوی خمیر کے جینز کے ساتھ ’چھیڑ چھاڑ‘ شروع کردی تھی۔ اس نے انھیں کچھ خصوصیات سے محروم کردیا تھا جس کی وجہ سے ان جان داروں کی طبعی عمر بڑھ گئی تھی۔ اس کی وجوہات مختلف تھیں۔ ان میں سے کچھ خلیات عام خلیوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز سے اپنے ڈی این اے کی مرمت کرسکتے تھے۔ جب کہ کچھ خلیوں نے تکسیدی عاملین سے پہنچنے والے نقصانات کے اثر کو کم سے کم کرنے کا بھی مظاہرہ کیا۔ دیگر خلیات ڈی این اے کو پہنچنے والے اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کام یاب ہوگئے جو انسانوں میں سرطان کا باعث بنتا ہے۔

مزید سائنس داں بھی اسی طریقۂ کار کا مطالعہ کررہے تھے۔ 1996ء میں جنوبی الینوائس یونی ورسٹی کے سائنس داں Andrzej Bartke نے چوہوں کے ان جینز میں تبدیلیاں کیں جو نشوونما کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے تجربات سے ظاہر ہوا کہ نشوونما کرنے والے ہارمون کے راستے کی بندش کی وجہ سے چوہوں کی جسامت چھوٹی رہ گئی تھی۔ یہ کوئی غیرمتوقع بات نہیں تھی، حیران کن امر یہ تھا کہ ان چوہوں کی عمر عام چوہوں کی نسبت 40 فی صد بڑھ گئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل انسانوں کے ضمن میں بھی کارگر ہوسکتا ہے؟ کیا جینیاتی بے قاعدگیاں بڑھتی عمر کے باعث لاحق ہونے والے امراض سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟ اسرائیلی endocrinologist، Zvi Laron ، جس نے 1966ء میں پہلی بار سائنسی بنیادوں پر کوتاہ قامتی کو بیان کیا تھا، نے وسطی اور مشرقی یورپ میں ایسے درجنوں لوگوں سے ملاقات کی تھی جو اس نایاب بیماری کا شکار تھے۔ لونگو کا خیال تھا کہ گویرا کے مریض فطرت کے ایک تجربے کا اظہار ہیں، یعنی دنیا سے کٹے ہوئے اور ایسی بیماری میں مبتلا لوگ جو جینیات کا تعلق طویل عمری سے جوڑتے ہیں۔

محققین کو یقین ہے کہ ایکواڈور میںsyndrome Laronمیں مبتلا لوگ پندرھویں صدی کے اواخر میں بھی موجود تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب جزیرہ نما ابیرین سے یہودی مغربی کرہ ہوائی یا ’’نئی دنیا‘‘ کی جانب عازم سفر ہوئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ایک بہت ہی خاص جینیاتی بگاڑ لے کر آئے تھے۔ یہ بگاڑ نشوونما کے ذمہ دار ہارمون کے ریسیپٹر جینز میں تھا جو جسم کی نشوونما کے اشارات موصول کرنے والے مالیکیول پیدا کرتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ میں یہ بگاڑ اسرائیل میں بھی پایا جاتا ہے۔

نیویارک سٹی میں قائم البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن میں ماہرجینیات ہیری اوسٹرر کہتا ہے،’’تصور یہ ہے کہ یہودی عدالت احتساب کی وجہ سے اسپین اور پرتگال چھوڑنے کے لیے بے تاب تھے۔ لہٰذا وہ شمالی افریقا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی یورپ کی طرف چلے گئے۔ بہت سوں نے مغربی کرہ ہوائی کا رُخ بھی کیا مگر وہاں بھی عدالت احتساب نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ لہٰذا یہ ان کے حق میں بہتر تھا کہ وہ لیما اور کیٹو جیسے شہروں سے نکل جائیں جہاں چرچ کا غلبہ بہت زیادہ تھا۔

چناں چہ وہ دیہی ایکواڈور کے 75 مربع میل کے علاقے میں چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات میں جابسے، جہاں 1980ء کی دہائی تک چند ایک ہی سڑکیں تھیں جب کہ فون اور بجلی کا کوئی وجود نہیں تھا۔

گذشتہ صدیوں میں عمل تغیر انسانی آبادی میں پھولا پھلا ہے، اور اسے تفرید اور داخلی تولید کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے۔

گوویرا اور لونگو نے 2006ء میں مشترکہ طور پر تحقیق کا آغاز کیا تھا۔ گوویرا نے ایک علاقے میں انسانوں کا ایسا ہم جنس گروپ تلاش کرلیا تھا جن میں ایک معلوم جینیاتی تغیر پایا جاتا تھا جو ان میں انفرادی طور پر ذیابیطس اور سرطان جیسی بیماریوں کا راستہ روکتا نظر آتا تھا۔ Laron گروپ میں ذیابیطس کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا، صرف ایک فرد کے جسم میں رسولی بن گئی تھی لیکن یہ بھی غیرمہلک تھی۔ ہم عمر لوگوں کے ایک گروپ میں گوویرا اور لونگو نے دیکھا کہ پانچ فی صد ذیابیطس میں مبتلا ہوئے اور بیس فی صد سرطان کے ہاتھوں موت کا شکار ہوگئے۔ بعدازاں جنوبی کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں لونگو نے جو تجربات کیے ان سے ظاہر ہوا کہ ایکواڈورین مریضوں سے حاصل کردہ خون انسانی جسم کے خلیوں کی لیبارٹری میں پیدا کردہ سرطان سےحفاظت کررہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خون میں ایسے کون سے کرشماتی اجزاء شامل تھے؟

لونگو کہتا ہے کہ خون میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ درحقیقت اس کا سبب ایک ہارمون کی غیرموجودگی تھی جسے IGF-1 کہا جاتا ہے۔ لونگو کہتا ہے کہ یہ خون اس لیے ایک محافظ کی سی حیثیت اختیار کرگیا تھا کہ اس میں IGF-1 کی سطح انتہائی کم تھی۔ یہ ہارمون بچوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم یہی ہارمون سرطان کا سبب بھی بنتا ہے اور میٹابولزم یا خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ کیا انسانی خون میں ایک ہارمون کی موجودگی پر کنٹرول حاصل کرلینے سے بڑھتی عمر کے امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟ غالباً یہ اتنا آسان نہیں ہے، تاہم انسولین اور IGF-1 کا تعلق طویل العمر پر تحقیق کے دوران بار بار سامنے آتا ہے۔

کیلابریا میں ان مخفی مالیکیولوں اور میکانزم کی تلاش، جو سالواتورے کروسو جیسے افراد کو لمبی عمر عطا کرتے ہیں، Luzzi کے ایک گاؤں کے سول رجسٹری آفس سے شروع ہوتی ہے۔ یہ گاؤں قرون وسطی سے آباد ہے۔ اس دفتر کی کھڑکیوں سے شمال میں برف پوش چوٹیوں کے دل کش نظارے دکھائی دیتے ہیں، مگر جینیاتی ماہرین کے نقطۂ نظر سے اس سے کہیں زیادہ دل کش مناظر اس دفتر کی الماریوں میں رکھی ہوئی فائلوں میں پوشیدہ ہیں۔ ان میں سب سے پرانی فائل پر 1866 ء کی تاریخ درج ہے۔ بدنظمی اور بدانتظامی کے لیے شہرت رکھنے کے باوجود اطالوی حکومت نے ملک کی وحدت کے فوراً بعد 1861ء میں ہر کمیونٹی اور ٹاؤن شپ میں پیدائش و اموات اور شادیوں کا ریکارڈ رکھنے کے احکامات جاری کردیے تھے۔

1994ء سے کیلابریا یونی ورسٹی کے سائنس داں علاقے کی 409 کمیونٹیوں کا غیرمعمولی سروے مرتب کرنے کے لیے ان ریکارڈز میں سَر کھپاتے آرہے ہیں۔ خاندانی تاریخ، نقائص کی سادہ طبعی پیمائش اور جدید ترین جینومی ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے وہ طویل العمری سے جُڑے بنیادی سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ طویل العمری میں جینیات کا کتنا دخل ہے؟ ماحول کا اس میں کیا کردار ہے؟ اور کیسے یہ دونوں عوامل آپس میں مل کر عمر کو بڑھاوا دیتے ہیں یا یہ کہ طویل العمری کے عمل کو کیسے تیزرفتار کرتے ہیں؟ان تمام سوالوں کے جواب دینے کے لیے سائنس دانوں کو ٹھوس آبادیاتی ڈیٹا سے آغاز کرنا ہوگا۔

گسیپی پسارینو کا ساتھی مارکو گیارڈانو ایک سبز لیجر کو کھولتے ہوئے اس میں درج ریکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے،’’فرانسسکو ڈی اماٹو کی پیدائش 3مارچ 1905 کو ہوئی، جب کہ انتقال کا سال 2007 ء درج ہے۔ مارکو ڈی اماٹو کو وسیع شجرۂ نسب کا مرکز سمجھتا ہے۔ مارکو نے ساتھی محققین البرٹو مونٹیسانٹو اور سنزیا مارٹینو کے ساتھ مل کرکیلابریا کے 202 ایسے افراد کا شجرہ تشکیل دیا ہے جن کی عمریں 90سے 100کے درمیان اور 100 سے اوپر تھیں۔ اس ریکارڈ میں نہ صرف سو برس تک زندہ رہنے والے افراد کے بہن بھائیوں بلکہ ان (بہن بھائیوں) کے جیون ساتھیوں کے بارے میں بھی تفصیلات موجود ہیں۔ ان تمام معلومات نے پسارینو اور ان کے ساتھیوں کو اس قابل بنادیا کہ وہ طویل العمری پر ایک قسم کی تاریخی تحقیق کرسکیں۔ گیورڈانو کہتا ہے،’’ہم نے ڈی اماٹوکے بھائیوں اور بہنوں کی عمروں کا ان کے جیون ساتھیوں کی عمروں سے موازنہ کیا۔ انھیں بھی اسی طرح کا ماحول، وہی خوراک اور وہی دوائیں میسر تھیں۔ ان کی ثقافت بھی ایک جیسی تھی مگر ان کے جینز میں مماثلت نہیں تھی۔‘‘ 2011ء میں ان محققین نے ایک تحقیقی مقالے میں حیرت انگیز نتیجہ پیش کیا۔ تحقیق کے مطابق اگرچہ کم ازکم 90 برس تک زندہ رہنے والے افراد کے والدین اور بہن بھائیوں نے بھی عام لوگوں کی نسبت زیادہ عمر پائی، تاہم جینیاتی عنصر خواتین کے بجائے مردوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتا نظر آیا۔ سائنس دانوں کے پیش کردہ نتائج اس امر کا ایک اور اشارہ دیتے ہیں کہ طویل العمری کا سبب بننے والے جینیاتی تغیر اور موڑ غیرمعمولی طور پر پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلے یورپ میں کی جانے والی بہت سی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ خواتین کے سو برس تک زندہ رہنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ تاہم کیلابریا کے محققین کی تحقیق اس کے برعکس نتائج ظاہر کررہی تھی۔

پسارینوکے یونی ورسٹی میں واقع دفتر کے باہر کئی فریزرز میں عمر کی صدی پوری کرنے والے لوگوں کے خون کے نمونوں سے بھری ٹیوبیں رکھی ہوئی ہیں۔ خون کے ان نمونوں کے علاوہ بافتوں کے نمونوں سے حاصل کردہ ڈی این اے نے کیلابریا گروپ کے بارے میں اضافی معلومات افشا کی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جن کی عمر 90 سال یا اس سے زاید تھی، ان میں جین کا مخصوص ورژن موجود تھا جو ذائقے کی حس اور ہاضمے کے لیے اہم ہوتا ہے۔ یہ ورژن نہ صرف لوگوں کو پولی فینول نامی مرکبات سے بھرپور تلخ غذائیں چکھنے کے قابل بناتا ہے، بلکہ آنتوں کے خلیات کو عمل انہضام کے دوران غذا سے غذائی اجزا زیادہ مؤثر انداز سے کشید کرنے کے بھی قابل بناتا ہے۔

پسارینونے عمر کی صدی پوری کرنے والے افراد میں ایک جین کا غیرمعمولی طور پر فعال ورژن دریافت کیا جو uncoupling protein کہلاتا ہے۔ پروٹین یا لحمیات میٹابولزم میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں جس کا اثر عمر پر پڑتا ہے (انسانی جسم جس طرح توانائی استعمال کرتا ہے اور جس طرح اپنا درجۂ حرارت برقرار رکھتا ہے وہ عمل میٹابولزم کہلاتا ہے)۔ پسارینو کے مطابق انھوں نے اُن پانچ یا چھے طریقوں کا عمیق جائزہ لیا ہے جو طویل العمری پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ پسارینو اور اس کے ساتھی اب اس نکتے پر ریسرچ کررہے ہیں کہ ماحولیاتی اثرات کیسے جینز کی سرگرمی میں تغیر کا سبب بن سکتے ہیں کہ وہ ( جینز) طویل العمری میں کمی بیشی کی وجہ بنیں۔

آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کے محققین ایک پروجیکٹ کے تحت مختلف خطوں میں کئی برسوں سے سو برس کی عمر کو پہنچنے والے افراد کے بارے میں معلومات جمع کررہے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر انھوں نے دیکھا کہ اشکنازی افراد میں HDL (کولیسٹرول کی بہت اچھی صورت) کی سطح بہت اونچی تھی، اور ان کے بچوں میں یہ سطح ان سے بھی زیادہ بلند تھی۔ ان نتائج نے محققین کو ایک سو کے لگ بھگ کولیسٹرول میٹابولزم سے متعلق جینز کے ڈی این اے کا تجزیہ کرنے پر مجبور کیا۔ اس تجزیے کے نتیجے میں ایک متغیر؛ ایک جین کی ذیلی قسم ان کے علم میں آئی جسے CETP (cholesteryl ester transfer protein) کہا جاتا ہے۔ یہ جین دوسرے لوگوں کے بجائے ان طویل العمر افراد میں زیادہ مشترک تھا۔

جب انھوں نے طویل العمر افراد ا میں پائے جانے والے CETP جین پر تحقیق کی تو ان پر ماضی میں کی گئی ریسرچ کی توثیق ہوگئی کہ جین کی یہ ذیلی قسم دل کے امراض سے بچاتی ہے اور پھر محققین نے تجربات سے یہ بھی ظاہر کیا یہ اس جین کے حامل افراد شعوری کام جیسے چلتے ہوئے گفتگو کرنا وغیرہ بہتر طور پر انجام دیتے ہیں۔

برازیلائی اور ان کے ساتھیوں نے عمر کی صدی پوری کرنے والے افراد کے مائٹوکونڈریا پر بھی توجہ دی ہے۔ مائٹوکونڈریا خلیے کا پاور پلانٹ ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا ڈی این اے، اپنے جینز اور جینیاتی متغیرات ہوتے ہیںِ، جو میٹابولزم کے عمل میں کلیدی افعال انجام دیتے ہیں۔ برازیلائی اور اس کی ٹیم نے متعدد مائٹوکونڈریائی لحمیات دریافت کی ہیں۔ ان لحمیات کو سائنس دانوں نے mitochinesکا نام دیا ہے۔ ان کا تعلق ان افراد سے ہوتا ہے جن کی عمر 90 برس سے اوپر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جانوروں پر تجربات کے دوران ان میں سے ایک مالیکیول خاص طور پر دل چسپی کا حامل نظر آیا جو humanin کہلاتا ہے۔ محققین کے مطابق ذیابیطس میں مبتلا چوہے کو جب humanin کی ایک خوراک دی گئی تو اس کے جسم میں گلوکوز کی سطح نارمل ہوگئی اور چند ہی گھنٹوں میں اس میں سے ذیابیطس کی تمام علامات ختم ہوگئیں۔ اس مالیکیول نے زیرتجربہ چوہوں کو شریانوں میں رکاوٹ اور الزائمر کے مرض سے بچایا اور دل کے امراض سے حفاظت میں بھی معاون ثابت ہوا۔

آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کا طویل العمری کے راز دریافت کرنے کا منصوبہ انسانی جینیاتی ریسرچ میں بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے، جہاں گذشتہ دو عشروں سے زیادہ زور بیماریوں کا سبب بننے والے جینز کی دریافت پر ہے۔ برازیلائیکا کہنا ہے ، ’’ ہر کوئی ذیابیطس اور مٹاپے کی وجہ بننے والے جینز کی تلاش میں ہے، مگر میرے خیال میں ان کے ابھی تک دریافت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں حفاظتی جینز بھی موجود ہوتے ہیں۔‘‘ بیشتر محققین کی نگاہیں اب ان حفاظتی جینز کی تلاش پر مرکوز ہیں۔

حفاظتی جینز پر کیلی فورنیا کے Scripps Translational Science Institute میں بھی تحقیق جاری ہے۔ جہاں فزیشن ایرک ٹوپول اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک ہزار کے لگ بھگ افراد کے ڈی این اے کا جائزہ لے رہا ہے۔ ان تمام لوگوں کی عمریں 80 برس سے اوپر ہیں اور انھیں کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے۔

طویل العمری کی کلید کی تلاش میں سائنس دانوں نے رحم مادر پر بھی تحقیق کی ہے۔ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ہماری طویل العمری کا راز رحم مادر میں پوشیدہ ہو۔ اس مفروضے پر کام کرتے ہوئے فرانسن آئن اسٹائن اور جان گریلی برونکس میں پیدا ہونے والے بچوں کی آنول نال کا سائنسی تجزیہ کرتے آرہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ چھوٹی جسامت اور بڑی جسامت کے نوزائیدہ بچوں میں ڈی این اے کی ترتیب عام جسامت کے نوزائیدہ بچوں سے بہت مختلف تھی۔ برازیلائی کے مطابق رحم مادر میں وہ اثرات موجود ہوسکتے ہیں جو جینیاتی میکانزم کو متاثر کرتے ہیں اور آپ کی عمر بڑھنے کی شرح مقرر کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ صرف جینز ہی طویل العمری کے تمام رازوں کو افشا کرسکیں۔ مثال کے طور پر چوہوں کے اکتالیس مختلف جینیاتی نمونوں پر کیے گئے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ خوراک میں تنوع کو محدود کردینے سے مختلف اور متضاد نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں سے نصف کے قریب چوہے اپنی اوسط عمر سے زیادہ عرصے تک زندہ رہے ، جب کہ کچھ اپنی اوسط عمر سے بھی کم وقت تک زندہ رہ پائے۔ دوسری جانب National Institute on Aging کے سائنس دانوں نے بندروں پر جو تجربات کیے ان سے ظاہر ہوا کہ ان جانوروں کو 25 برس تک محدود کیلوریز دینے سے بھی ان کی عمر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پسارینو کا کہنا ہے،’’بات اچھے اور بُرے جینز کی نہیں ہے، بلکہ بات مخصوص وقت پر مخصوص جینز کی ہے۔ اور آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ طویل العمری میں جینز کا حصہ غالباً ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں ماحول بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، مگر یہ دونوں عوامل بھی طویل العمری کے رازوں کو پوری طرح افشا نہیں کرتے۔‘‘

107سالہ سالواتورے کروسو اب بھی مکمل طور پر صحت مند ہے۔ 88 برس قبل اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور اسی بنیاد پر اسے فوج سے خارج کردیا گیا تھا۔ کروسو کے مطابق اس کے یونٹ کو جنگ عظیم دوم کے دوران روس کے محاذ پر بھیجا گیا تھا اور اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں آسکا تھا۔ یہ بھی ایک یاد دہانی ہے کہ اگرچہ مالیکیول اور مختلف طریقۂ ہائے کار ایک روز ایسی ادویہ کی تیاری کا سبب بن جائیں گے جو ہمیں طویل عمر تک صحت مند رکھ سکیں گی تاہم طویل العمری کے لیے قسمت کا ساتھ بھی لازمی ہوگا۔


سنجو بابا بالآخر کال کوٹھڑی پہنچ گئے

$
0
0

’’بلاشبہ زندگی کی سب سے اہم چیز پیار، پیار اور پیار ہے‘‘ بالی وڈ کے معروف اداکار اور کروڑوں پرستاروں کے دلوں کی دھڑکن سنجے دت عرف سنجو بابا کے اس پسندیدہ مقولے کی عملیت نے انہیں فائدہ تو دور کی بات ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا۔

بالی وڈ کے میگا سٹارز سنیل دت اور نرگس دت کے سپوت سنجے دت 29 جولائی 1959ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے۔ دی لارنس سکول سناور سے تعلیم حاصل کرنے والے سنجو بابا کی والدہ مئی 1981ء میں طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد بیٹے کی پہلی فلم کے ریلیز ہونے سے صرف 3 روز قبل انتقال کر گئیں۔ ماں کی موت کے صدمے اور منشیات سے چھٹکارا کے لئے امریکہ میں زیر علاج رہنے کے بعد سنجے واپس لوٹے تو کچھ عرصہ بعد ان کی ملاقات اداکارہ رچا شرما سے ہوئی جو لگ بھگ ان کی ہم عمر ہی تھیں، پھر دونوں نے 1987ء میں شادی کر لی۔

بیٹی ترشالا دت کی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد رچا کو برین ٹیومر ہو گیا اور نیویارک میں ان کا طویل عرصے تک علاج ہوتا رہا، لیکن وہ کینسر کے سامنے اپنی زندگی ہار کر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ سنجو کی دوسری شادی 1998ء میں ماڈل ریحا سے ہوئی مگر یہ رشتہ 2005ء میں ٹوٹ گیا۔ دت کی تیسری شادی گوا کی ایک پرائیویٹ تقریب میں مانیتا (دلنواز شیخ) سے 2008ء میں ہوئی ۔

جس سے ان کی ملاقاتیں 2سال سے جاری تھیں۔ مانیتا کو قدرت نے 21اکتوبر 2010ء کو جڑواں بچوں سے نوازا۔ سنجے دت نے کچھ قریبی دوستوں کے قائل کرنے پر 2009ء میں سماج وادی پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے لوک سبھا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، لیکن عدالت کی طرف سے سزا معطل نہ ہونے کے باعث انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ مل سکی۔ پھر وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نامزد ہوئے لیکن انہوں نے یہ عہدہ بھی دسمبر2010ء میںچھوڑ دیا۔

آج کل منا بھائی ممبئی دھماکوں میں ملوث ملزموں سے ناجائز اسلحہ لینے کے الزام پر پونے جیل میں 42 ماہ کی قید کاٹ رہے ہیں۔ اس کیس میں سنجے کا موقف تھا کہ اْنہیں بم حملوں کی منصوبے بندی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور اْنھوں نے اسلحہ لینے کا فیصلہ فرقہ وارانہ دنگوں میں اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے کیا تھا۔ لیکن پولیس کا کہنا تھا کہ سنجے دت کا نام ممبئی بم دھماکوں میں 100سے زائد مطلوب ہائی پروفائل ملزمان کی فہرست میں شامل ہے۔

یاد رہے کہ ممبئی میں 12مارچ 1993ء کو پے درپے 13دھماکے ہوئے تھے جن میں 257افراد ہلاک اور 713 لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ مذہبی کتابیں پڑھ کر خود کو سنبھالنے کی کوشش میں سرکرداں دت کو جیل کے مچھروں نے ’’ماموں‘‘ بنا دیا ہے۔ نرم و ملائم بستر کے بجائے چٹائی اور کمبل سے ان کے جسم پر نشان پڑ جاتے ہیں جبکہ گندے ٹائلٹ بھی ان کے لئے بہت بڑی پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ جیل میں پیش آنے والی ان تینوں مشکلات کا ذکر بابا پہلے ہی اپنی بیوی سے کر چکے تھے کیوں کہ جیل کی کال کوٹھڑی ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی وہ یہاں تقریباً ڈیڑھ سال بِتا چکے ہیں۔

جیل میں سنجے دت دیگر قیدیوں کے لئے کھانا بنائیں گے جس کے عوض انہیں 25 سے 30 روپے یومیہ اجرت ملے گی، اس سے قبل جب 2007ء میں سنجے دت نے جیل کاٹی تھی تو انہوں نے کارپینٹری کا کام کیا تھا، جیل قوانین کے مطابق انہیں گھر والوں سے صرف 1500 روپے ماہانہ لینے کی اجازت ہوگی اور وہ صرف 5 گھر والوں سے 20 منٹ کے لئے ملاقات کر سکیں گے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ سنجو بابا ملکی قوانین کے تحت خاص مدت تک قید کاٹنے کے بعد صدر مملکت سے رحم کی اپیل کرسکیں گے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارتی صدر انہیں انسانی ہمدردی کے تحت معاف کردیں گے۔

فلمی صنعت سے وابستہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایک فلم کا 4کروڑ روپے معاوضہ لینے والے ہیرو کے جیل جانے سے انڈسٹری کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ راجوہیرانی کی ’’پی کے‘‘ کے ایس روی کمار کی ’’پولیس گری‘‘ رنسل ڈی سلوا کی ’’انگلی‘‘ اور اپورو لاکھیا کی ’’زنجیر‘‘ میں سنجو بابا مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔

لیکن اب یہ فلمیں بری طرح متاثرہوئی ہیں۔ ان فلموں کے رک جانے سے بھارتی فلم انڈسٹری کو دو ارب پچاس کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ قبل ازیں جب 1993ء اور2007ء میں دت جیل گئے تو فلم ٹریڈ کے کروڑوں روپے دائو پر لگ گئے تھے۔

سنجے دت خود کو اپنے والد سنیل دت جیسا بنانا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے ان جیسے بنیں۔ ایک تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دت کا کہنا تھا کہ’’ جیسے میرے والد سنیل دت ایک بہترین انسان تھے اور ہمارے پورے خاندان کو انہوں نے جس مضبوطی سے سنبھالا، میں بھی وہی کرنا چاہتا ہوں۔

میں ان جیسا بننا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ نہیں چاہتا کہ میرے بچے مجھ پر جائیں۔ میں نے بہت شرارتیں کیں اور لوگوں کو بہت تنگ بھی کیا لیکن اپنے بچوں سے میں ایسی توقع نہیں کرتا‘‘ اس گفتگو کے دوران انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ پہلے دل سے کام لیتے تھے، لیکن اب انہوں نے دماغ سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دماغ سے کام لینے میں انہوں نے ذرا سی تاخیر کر دی۔ سنجو بابا پر لگا الزام غلط ہے یا درست، بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے کیس دائر ہونے کے 20سال بعد فیصلہ آنے کے بعد یہ سوال تو ختم ہو چکا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ سزا پوری کرنے کے بعد کیا دت دوبارہ بالی وڈ میں قدم جما سکیں گے کیوں کہ عمر کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں۔n

ممبئی دھماکے: سنجے دت کا پولیس کودیا پہلا بیان ہی سزا کا موجب بنا
12مارچ 1993ء میں ممبئی دھماکے ہوئے اور 19اپریل کو سنجو بابا کو ان دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہ پر گرفتار کر لیا گیا۔ 26 اپریل کو سہ پہر3بج کر30منٹ پر بالی وڈ ایکٹر نے ڈپٹی کمشنر پولیس کرشنا لال بشنوئی کو اپنا بیان قلم بند کروایا اور کہا جاتا ہے کہ اسی بیان کی وجہ سے انہیں سزا سنائی گئی لیکن بعد ازاں وہ اس بیان سے مکر بھی گئے۔ سنجے دت نے پولیس کو ممبئی دھماکوں کے ذمہ داروں سے تعلق کے بارے میں کیا بیان دیا آیئے ہم ان ہی کی زبانی مختصراً جانتے ہیں۔

’’میں نے ایلفین سٹون کالج سے آرٹس کی تعلیم حاصل کی، جس کے بعد 1980ء میں فلموں میں کام کرنے سے قبل پرائیویٹ طور پر اداکاری کی کلاسز بھی لیں۔ میرے پاس تین بندوقوں کا لائسنس اور 270برونو رائفل، 375ڈبل بیرل میگنم اور12بور شاٹ گن ہے۔ یہ اسلحہ میں نے شکار کے لئے خریدا اور عموماً میں اپنے ایک دوست یوسف نل والا کے ساتھ شکار پر جاتا تھا جو کہ ایک تجربہ کار شکاری ہے۔ دسمبر1991ء میں فلم یلغار کے لئے پروڈیوسر فیروز خان پورے یونٹ کو، جس میں بھی شامل تھا، عکسبندی کے لئے دبئی لے گیا، وہاں شوٹنگ کے دوران خان نے میری ملاقات گینگسٹر دائود ابراہیم سے کروائی۔

اس کے بعد دائود نے اپنے بھائی انیس سے میرا تعارف کروایا جس کے بعد انیس اکثر ہمیں ملنے کے لئے آیا کرتا۔ ایک روز دائود ابراہیم نے فلم شوٹ کرنے والے پورے یونٹ کو رات کے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ میں نے بھی دوسروں کی طرح اس میں شمولیت کی۔ اس پارٹی میں پاکستانی آرٹسٹ بھی شامل تھے اور اسی دوران ہمیں اقبال مرچی، شاراد شیٹھی اور چوٹا راجن سے بھی ملوایا گیا۔ میں میگنیم وڈیو کے مالک حنیف کاڈاوالا اور سمیر ہینگورا کو بھی جانتا ہوں کیوں کی میں ان کی ایک فلم ’’صنم‘‘ سائن کر چکا تھا۔ حنیف اور سمیر فلم کی شوٹنگ کے سلسلہ میں اکثر میرے گھر بھی آتے تھے۔

میرے والد کانگریس کے ایک سرگرم سیاسی ورکر اور آخری لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہو چکے تھے۔ وہ فلاحی کاموں میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ حالیہ دنگوں کے دوران فلم انڈسٹری کی مدد سے میرے والد متاثرین کیلئے امدادی سرگرمیوں میں جت گئے۔ اس دوران فلم انڈسٹری اور دیگر فلاحی اداروں سے متعلقہ افراد ہمارے گھر آتے اور امدادی سامان کو منظم کیا جاتا۔ اس عرصہ کے دوران ہی ہمیں ٹیلی فون پر دھمکیاں ملنے لگیں۔ دھمکانے والے کبھی قتل اور کبھی میری بہنوں سے زیادتی کی دھمکیاں دیتے۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے میری فیملی کا ہر فرد بہت خوفزدہ تھا۔

مسلم کمیونٹی کا حمایتی بنا کر میرے والد پر دو بار حملہ بھی کیا گیا۔ دھمکیوں کے بارے میں مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی لیکن ہماری حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ بعد ازاں میں نے کئی اور افراد سے ان دھمکیوں کے بارے میں تذکرہ کیا جن میں حنیف کاڈا والا اور سمیر بھی شامل تھے۔

حنیف نے مجھے کہا کہ اگر میں چاہوں تو وہ میرے لئے فوری طور پر ایک آٹومیٹک اسلحہ کا انتظام کر سکتا ہے۔ پہلے پہل میں نے انکار کیا لیکن پھر ان کے اصرار پر مان گیا۔ جنوری 1993ء کی ایک شام تقریباً 9 یا ساڑھے9 بجے حنیف اور سمیر میرے گھر آئے، ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا جس کا نام سلیم تھا۔ وہ تین عدد اے کے 56 رائفل، کچھ میگزین اور 250گولیاں لے کے آئے جن میں سے میں نے صرف ایک رائفل لی اور 2 واپس کردیں‘‘ واضح رہے کہ اس بیان میں (اپنی فیملی کو چھوڑ کر) جتنے افراد سے سنجے دت نے تعلق کا ذکر کیا، بھارتی پولیس اور عدالتوں کے مطابق یہ سب ممبئی دھماکوں کے ذمہ دار قرار پائے۔

دت کی تلخیوں سے بھری زندگی کا احوال
دت کی تلخ زندگی کا آغاز ان کی سکول لائف اور ماں کے انتقال سے ہی ہو گیا تھا۔ دوران تعلیم ہی سنجو نشہ کی لت میں مبتلا ہو گئے، اپنی زندگی تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ سنجے اپنے والد سنیل دت کے لئے بھی بہت بڑی آزمائش بن چکے تھے۔ 1982ء کے اواخر میں کچھ غیر قانونی مواد رکھنے کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ 5 ماہ قید میں رہے۔ یہاں سے رہائی پر سنیل دت، سنجو کو علاج کی غرض سے امریکہ لے گئے۔

2 سال امریکہ کے ایک بحالی سنٹر میں علاج کے بعد معروف اداکار بالی وڈ میں قسمت آزمائی کے لئے لوٹ آئے۔ 1987/88ء میں سنجو کی بیوی رچا شرما برین ٹیومر کے باعث انتقال کر گئیں جو ان کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ اکلوتی بیٹی کے معاملہ پر بھی سنجے، رچا کے والدین سے قانونی جنگ لڑتے رہے لیکن جیت ان کا مقدر نہ بن سکی اور ترشالا دت کو اس کے ننہیال کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1993ء کو ممبئی دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہ پر بابا کو گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً 18 ماہ جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے سنجے کی ضمانت منظور کر لی۔

31جولائی 2007ء کو دت کو غیر قانونی طور پر 3 عدد اے کے 56 رائفل، ایک پستول اور گولیاں رکھنے کے الزام پر 6سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ 2 اگست 2007ء کو سنجے گرفتار ہوئے اور 20 اگست2007ء کو انہیں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ رواں سال21 مارچ کو بھارتی سپریم کورٹ نے ممبئی دھماکوںکا فیصلہ سناتے ہوئے اس میں ملوث ملزموں سے ناجائز اسلحہ لینے کے الزام پر سنجے دت کو 5 سال قید کی سزا سنا دی جس پر16مئی کو بابا نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ بابا کی زندگی میں تلخیوں کا زہر تو بہت گھل چکا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے لئے انہوں نے بہت کچھ کیا آج جب ان پر کڑا وقت آن پڑا ہے تو ماسوائے چند ایک کہ کوئی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال بھارت کی فلم انڈسٹری اور فلمی ستارے ہیں۔

بلاشبہ بابا نے فلم انڈسٹری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ متعدد فلموں میں سنجے نے صرف یاری دوستی کی خاطر بلامعاوضہ کام کیا۔ جسمانی لحاظ سے 53 سالہ نوجوان سنجو بابا کی سزا میں کمی یا معافی کے لئے انڈین فلم ٹریڈ اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حوالہ سے فلمی ستاروں کی ایک میٹنگ بھی ہوئی لیکن سنجو کے لئے ہمدردی کے اظہار کے علاوہ کوئی بھی عملی اقدام پر راضی نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ملنسار اداکار کی گرفتاری کے وقت مہیش بھٹ کے علاوہ کوئی معروف فنکار نظر تک نہیں آیا۔

فلمی کیریئر اور کامیابیاں
1972ء میں 13برس کی عمر میں پہلی بار سنجے دت ایک چائلڈ ایکٹر کے روپ میں فلم ’’ریشماں اور شیرا‘‘ میں نمودار ہوئے لیکن 1981ء میں 22 سالہ دت نے فلم ’’روکی‘‘ سے باقاعدہ طور پر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ پھر اس کے بعد 1982ء میں بننے والی ہندی فلم’’ودہاتا‘‘ سے لے کر ’’نام‘‘ ’’ساجن‘‘ ’’کھل نائیک‘‘ ’’واستو‘‘ اور ’’منا بھائی‘‘ جیسی معروف فلموں کے ساتھ ’’ضلع غازی آباد‘‘ تک کا یہ فلمی سفر کامیابیوں کے چوٹیوں تک پہنچ گیا۔

سنجو بابا نے تقریباً 121 فلموں میں کام کیا اور متعدد ایوارڈ حاصل کرکے فلمی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جانے والے ایکٹر کو فلم فیئر، سٹار سکرین، انٹرنیشنل انڈین فلم اکیڈمی، گلوبل انڈین، سٹارڈسٹ، زی سنی، بالی وڈ موویز، بی ایف جے اے کی طرف سے 14بار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ سنجے دت کو اپنی میگا ہٹ فلم ’’منا بھائی‘‘ کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ بھی ایک ایوارڈ دے چکے ہیں۔

نئی حکومت کو درپیش معاشی مشکلات

$
0
0

نتھو دور افق پر سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا تھا ، نورے کمہار نے جب اپنے ننھے بیٹے کو یوں سورج کو تکتے دیکھا تو پیا ر سے اپنی گود میں اٹھا لیا اور پوچھنے لگا ’’کیا دیکھ رہے ہو بیٹا !۔

نتھو نے مسکراتے ہوئے معصومیت سے کہا’’ ابا بس ایسے ہی سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ نورے کمہار کو اپنے بیٹے کی معصومیت پر پیار آیا اور کہنے لگا ’’بیٹا سورج کے ڈوبنے کو مت دیکھو ، اس کا طلوع ہونا ہر روز ایک نئی امید دلاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ حالات چاہے نہ بدلیں مگر سورج کا چمکنا امید کی علامت ہے ‘‘۔ اس بات کو گزرے چالیس سال ہو گئے تھے مگر نتھو کو یوں لگتا تھا جیسے یہ کل کی بات ہو، آج بھی سورج ویسے ہی تابانی سے چمک رہا تھا مگر حالات نہیں بدلے تھے، اس نے ساتھ کھڑے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ بیٹا ، حالات ضرور بدلیں گے ، ہر روز چڑھتا سورج اسی کی نوید دیتا ہے‘‘۔

پاکستانی قوم کا عالم بھی نورے اور نتھو جیسا ہے، جس طرح پہلے نورا اپنے بیٹے نتھو کوچڑھتے سورج کو تبدیلی کا استعارہ قرار دے کر حالات کی تبدیلی کی امید دلاتا رہا اور پھر نتھو اپنے بیٹے کو ، ویسے ہی پاکستانی قوم بھی اس امید پر زندہ ہے کہ حالات ضرور بدلیں گے۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 65سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، تیسری نسل جوان ہو چکی ہے مگر پاکستان کے معاشی حالات ہیں کہ ٹھیک ہونے کو نہیں آرہے، بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پاکستان بنا کر ہم نے کیا حاصل کیا ، یہ مایوسی کی انتہائی کیفیت ہے۔

جس میں فرد اپنے وجود سے بھی انکاری ہوتا ہے،ایسے افراد کا تعلق اس طبقے سے ہے جو ہر کام کا نتیجہ اپنی مرضی کے مطابق چاہتے ہیں حالانکہ زندگی مختلف نشیب و فراز سے عبارت ہے اور ہر کام طے شدہ منصوبے کے تحت انجام نہیں پاتا اور پھر قوموں کی نمو کو فرد کی زندگی سے تطبیق نہیں دی جا سکتی، قوم کو اپنے وجود کو منوانے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، اس دوران وہ کئی مرتبہ پستیوں میں گرتی اور بلندیوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور جغرافیائی طور پر دنیا کے اہم خطے میں واقع ہے مگر اس کے باوجود معاشی بہتری اس کا مقدر نہیں بن سکی ، حالانکہ اس کے بعد آزاد ہونے والا پڑوسی ملک چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے جبکہ پاکستان معاشی ترقی کی شاہراہ پر چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے ۔ ہر دور میں اقتدار میں آنے والوں نے معاشی ترقی کے خواب ضرور دکھائے مگر پھر ذاتی مفادات کا شکار ہو گئے اور ملکی مفادات ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے گئے۔

موجودہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی پارٹی مسلم لیگ ن نے الیکشن مہم کے دوران معاشی ترقی کا نعرہ لگایا تھا، اب چونکہ ان کی حکومت بن رہی ہے اور انھیں اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل رہا ہے اس لئے ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آ گئی ہے، مگر ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہو گا کیونکہ گزشتہ دور میں معاشی حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوئے ہیں ۔

جس کی بڑی وجہ پاکستانی معیشت کو درپیش مسائل کا حل نہ ڈھونڈھ سکنا ہے۔ پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا ہے ان میں غیر ملکی سودی قرضوں کا بوجھ ، وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال نہ کرنا، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، کمزور مانیٹری پالیسی ، کرپشن، غربت، برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن، دہشت گردی،توانائی کا بحران ، کمزور ٹیکس سسٹم، افراط زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی شامل ہیں۔

پاکستان کی معاشی ترقی میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ توانائی کا بحران ہے جس نے گزشتہ سات سالوں سے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے ۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری دور میں اس مسئلے نے سر اٹھانا شروع کیا اور اقتدار کے خاتمے تک بہت شدت اختیار کر گیا ، جس کی اصل وجہ مشرف حکومت کی نااہلی تھی کیونکہ اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں بجلی کی پیداوار میں ایک یونٹ بھی اضافہ نہیں کیا گیا تھا جبکہ ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ، اسی طرح بغیر منصوبہ بندی کے سی این جی پمپ اور نئے کنکشن دینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ نہ دی گئی یوں بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی کمیابی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ۔ یہ دونوں مسئلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو وراثت میں ملے ۔

پیپلز پارٹی نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں شور تو بہت مچایا مگر عملاً کچھ نہ کیا جا سکا اور حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر توانائی کا بحران سنگین تر ہو چکا تھا، کیونکہ پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں ہو ا تھا جتنی تیزی سے طلب بڑھی تھی۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ، لوکل اور چھوٹی انڈسٹری کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے ، ہزاروں یونٹ بند ہو چکے ہیں ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موسم گرما میں بجلی کا استعمال بڑھ جانے کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال سات ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے جو کسی ایک بڑے ڈیم کے ذریعے بھی پورا نہیں کیا جا سکتااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طلب بڑھنے سے شارٹ فال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے عوام میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے اس لئے نئی حکومت کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ، اس سے معاشی ترقی کا پہیہ صحیح رفتار سے رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔

معیشت پر ایک بہت بڑا بوچھ غیر ملکی قرضے ہیں جو ہر دور میں بھاری سود اور کڑی شرائط پر حاصل کئے جاتے رہے ہیں اور ہر مرتبہ جواز یہی بتایا گیا کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرضہ حاصل کرنا ناگزیر تھا۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ 1600کھرب روپے ہے جس میں سے 750 کھرب روپے غیر ملکی قرضہ ہے، اس وقت ہر پاکستانی 88ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ 2008 ء میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس وقت غیر ملکی قرضے 38.8بلین ڈالر تھے، خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا گیا اور نئے قرضے حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کی گئی تو پتہ چلا کہ آئی ایم ایف کے سوا کوئی قرضہ دینے کو تیا رنہیں، یوں کڑی شرائط پر قرضے حاصل کئے گئے۔

2008ء میںغیر ملکی قرضہ 38.8ارب ڈالر تھا جو 2009ء میں بڑھ کر 44.15 ارب ڈالرہو گیا، 2010ء میں قرضہ 53.62 اربڈالر اور2011ء میں 57.21ارب ڈالر ہو گیا اور صرف پانچ سالوں میں یہ قرضے بڑھ کردوگنا یعنی 61.83ارب ڈالر ہو چکے ہیں اور سلسلہ یہاں رکنے میں نہیں آ رہا ، ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد سودقسطوں کے ساتھ ان قرضوں کی مد میں ادا کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود قرضے ہیں کہ ہر سال بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ ملکی معیشت کا زوال،بروقت اور پوری ادائیگی نہ کرنا ہے۔

اگر یہی صورتحال رہی تو2015ء تک یہ قرضے بڑھ کر 75بلین ڈالر ہو جائیں گے ، یوں ملکی بجٹ میں سے ایک بہت بڑی رقم ان قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں جاتی رہے گی جس سے ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہو گی۔ اس لئے حکومت کا ان سودی قرضوں کے چکر سے نکل کر خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملکی معیشت کو بحال کرنا ہو گا ، جو ہے تو ایک بہت بڑا چیلنج مگر مستقبل میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹیکس سسٹم پوری طرح فعال نہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ ٹیکس سسٹم بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں طے کیا گیا وصولیوں کا ہد ف کبھی بھی پورا نہیں کیا جا سکا، یوں ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، ٹیکس بجٹ کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جس میں سے تمام صوبوں کو حصہ دیا جاتا ہے ، جب طے شدہ حصہ نہیں ملتا تو اس کا اثر تمام شعبوں پر پڑتا ہے، یوں مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور قرضوں کے حصول کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے تاکہ بجٹ خسارہ کسی طریقے سے پورا کیا جا سکے۔

گزشتہ سال ٹیکس وصولیوں کا ٹارگٹ2.381کھرب روپے رکھا گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کی جانے لگی کیونکہ کمزور ٹیکس سسٹم کی وجہ سے ہد ف پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا ، پہلی مرتبہ ہدف کم کر کے 2.183کھرب روپے رکھا گیاجب یہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہ دیا تو ہدف میں مزید کمی کی گئی، نیا ہدف 2.193 کھرب روپے رکھا گیا ، مالی سال کے پہلے 9مہینوں کے لئے ٹیکس کا ہدف1.700کھرب روپے تھا مگرتمام تر کوشش کے باوجود 1.344کھرب روپے اکٹھے کئے جا سکے تھے یعنی 31مارچ تک ٹیکس کے ہد ف میں کئی ارب روپے کی کمی ہو چکی تھی۔

اس لئے موجودہ حکومت کے لئے ٹیکس وصولی کے نظام کی بہتری بہت ضروری ہے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے ، اس کے ساتھ ایسے اقدامات بھی کئے جائیں جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور ٹیکس چوروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ اسی طرح کرپشن بھی ہمارے ملک کا ناسور بن چکی ہے ، کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان نمبر 42واں ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 12600ارب روپے کی کرپشن کی گئی ، نئی حکومت کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ اداروں کو کرپشن سے پاک کرے۔

گزشتہ دور میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہت کمی ہوئی ہے اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہونے کے علاوہ ٹیکس کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ دہشت گردی ، امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کے بحران کو قرار دیا جاتا ہے، امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ، اب تک 49ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ یعنی 25ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ، وجوہات جو بھی ہوں حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ کا یقین دلاتے ہوئے واپس لانا ہو گا ، اس ضمن میں بھی اس پہلو کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ پاکستان میں گردش کرے تاکہ پاکستانی معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں ہو سکے۔

انفلیشن یعنی افراط زر ملکی معیشت کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ، سکے کی قدر میں کمی اوراشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراد کی قوت خرید میں کمی ہو تی ہے اور اگر کوئی ملک ایسی صورتحال سے مسلسل دوچار رہے تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہوتے ہیں، گزشتہ چند سالوں میں افراط زر میں بہت اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی ڈالر جس کی قیمت صرف چھ سال قبل تقریباً 64 روپے تھی اب سو روپے تک پہنچ گیا ہے۔

افراط زر میں سب سے زیادہ اضافہ 11.8فیصد2011 ء میں ہوا جبکہ اپریل 2013ء میں اس کی شرح 5.8فیصد رہی، اس کا یہ مطلب نہیں افراط زر میں کمی ہوئی بلکہ یوں کہا جائے گا کہ اس سال کم اضافہ ہوا۔ گویا ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بہت سی مشکلات حائل ہیں ، نئی حکومت کو ان تمام تر چیلنجز سے نمٹنا ہو گا تاکہ عوام نے انھیں جو بھاری مینڈیٹ دیا ہے وہ اس پر پورا اتر سکے۔

دشتِ بے اماں میں گھرے برمی مسلمان

$
0
0

تھین سین 2011 میں برما (میانمار) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سادگی پسند اور اصلاح پسند ہیں۔ اس سے پہلے وہ ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی اصلاح پسندی کے تحت وہ کئی سیاسی اصلاحات نافذ کر چکے ہیں جس میں ذرائع ابلاغ پر برسابرس سے عائد پابندیاں ہٹانا، برما کی جیلوں میں بند بے شمار سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا وغیرہ شامل ہے اور مغربی دنیا انہیں اس کی بھی داد دیتی ہے کہ انہوں نے چین کا بہت بڑا ہائیڈروپاور پراجیکٹ بھی روک دیا ہے۔

ان خدمات کے اعتراف میں میانمار کو 2014 کے لیے آسیان کی مسند نشینی عطا کی جا رہی ہے ورنہ اس سے قبل اس ریاست کو اچھوت یا ’’حقہ پانی بند‘‘ ریاست کے طور پر لیا جاتا رہا ہے، جس کا باعث یہاں کئی دہائیوں تک بلاتعطل قائم رہنے والا فوجی راج تھا جس نے ملک میں سیاسی بلیک آؤٹ مسلط کیے رکھا، قوم کے وسائل پر قبضہ جمایا اور حقوق انسانی کو بری طرح پامال کیا، خاص طور پر ملک کی مذہبی اقلیتوں کو یک سر نظرانداز رکھا اور ان پر مذہبی اور نسلی اکثریت کے ڈھائے گئے مظالم پر ہمیشہ آنکھیں بند رکھیں۔

صدر تھین سین کے آنے سے ملکی صورتِ حال فی الحال بہتر نہیں ہوئی تاہم مغربی صاحبانِ دانش کے مطابق آثار دکھائی دینے لگ گئے ہیں کہ اگر ملک جمہوری پٹڑی پر چل پڑا اور دوبارہ کوئی ناگہانی نہ آن پڑی تو حالات بہ ہرحال بہتر ہو جائیں گے تاہم اکثریت کا مذہبی تعصب و تفاخر ختم ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ صدر تھین سین بہ ظاہر مدبر شکل اور خاصے متین خدوخال کے مالک ہیں، وہ امریکا کی قربت کے بڑے حامی اور شائق دکھائی دیتے ہیں۔

دراصل یہ ریاست گزشتہ صدی کے نصف آخر سے ایک ’’در، دریچے بند ریاست‘‘ رہی ہے، خاص طور پر امریکا اور یورپ پر اس کے دروازے ایک طرح سے بند ہی رہے ہیں جب کہ یہاں کی فوجی جنتا کو چین کا ساتھ زیادہ راس آتا رہا ہے، چین کے ساتھ تعلق کو مغرب کبھی مثبت نہیں سمجھتا اور خاص طور پر ماؤزے تنگ والا چین تو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، اب جب چین کیپیٹلسٹ ہو چکا ہے تو بھی کسی ملک کا چین سے تعلق قریبی ہو تو اسے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے (پاکستان کی مثال سامنے ہے)۔

بہ ہرحال تھین سین نے چین کے توانائی کے ایک منصوبے کومعطل اور چند دیگرایسے اقدامات کر دیے کہ جس سے امریکا کسی حد تک پسیجا اور پٹا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے میانمار کا دورہ کیا، اس طرح وہ میانمار کا دورہ کرنے والے پہلے صدر بنے اور اسی طرح تھین سین نے بھی امریکا کا دورہ کرکے یہ ہی اعزاز حاصل کیا۔

تھین سین گزشتہ سوم وار کو امریکا پہنچے جہاں وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اوباما نے 47 سال سے عالمی تنہائی کی شکار قوم کے سربراہ کا استقبال کیا۔ یہ امریکی سرکار کی شفقت کا ایک اظہار تھا لیکن متعدد امریکی حلقوں نے اوباما کے لتے لیے ہیں اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں، وہی نسلی اور مذہبی تشدد ہے جو برما میں اب تک جاری ہے جس میں ہزارہا روہنگی نسل کے مسلمانوں کو مارا جا چکا ہے، ان کی بستیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا کر انہیں بے گھر کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ صدر تھین سین خود بھی ریٹائرڈ جنرل ہیں، فوج میں ان کی موجودی کے دوران بھی برما کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ یہ ہی سلوک روا تھا اور آج جب وہ ایک سویلین صدر کے طور پر مسند نشین ہوئے ہیں تو بھی وہ سلسلہ جاری ہے اور ان پر اس شک و شبہے کا اظہار کیا جا رہا ے کہ وہ آج بھی اس ناروا سلوک کو برداشت کر رہے ہیں اور اس طرف سے اپنی آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں جب کہ برمی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک دشتِ بے اماں میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ برما سے بھاگ کر کسی اور ملک میں جا بھی نہیں سکتے۔

قریب ترین ملک بنگلہ دیش ہے اور یہ لوگ جب بنگلہ سرحدوں پر پہنچتے ہیں تو بنگلہ فوج اور سکیورٹی فورسز سنگینیں تھامے انہیں دوبارہ برما میں دھکیل دیتے ہیں۔ پیچھے بھیڑئیے اور آگے کھائی، جائیں تو جائیں کہاں، لاچار لوٹ آتے ہیں اور جنگلوں اور ویرانوں میں موسم کے جبر میں زندگی اور موت کے درمیانی رقبے میں پڑے آسمان سے کسی دستِ غیب کے منتظر ہیں۔ بنگلہ دیش کے اپنے مسائل ہیں، سب سے بڑا یہ کہ اس پر یہ الزام آتا ہے کہ وہاں مجاہدین کے گروہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برما کے جغرافیے کو سکیڑنا چاہتے ہیں۔

تھین سین کی امریکا یاترا سے چھے ماہ قبل امریکی صدر اوباما نے برما کا دورہ کیا تھا بہ ظاہر ان کا مقصد یہ لگتا ہے کہ وہ میانمار اور اقوام عالم کے درمیان جمی برف پگھلانے میں برما کی مدد کرنا چاہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ چین میانمار پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اوباما اس کسے ہوئے اثر و رسوخ کو کچھ ڈھیلا کرنا چاہتے ہیں۔ تھین سین کے حالیہ دورۂ امریکا کے حوالے سے قصر سفید (وہائیٹ ہاؤس) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تھین سین کو خوش آمدید کہ کر اوباما دراصل ان رہ نماؤں کا حوصلہ بڑھانا چاہتے ہیں جو اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکا نے میانمار پر اپنی منڈی کے دروازے کھولنے کا عندیہ دیا تھا، تاہم امریکا فی الحال میانمار کو ’’برما‘‘ ہی کے نام سے سرکاری طور پر پکارے گا کیوں کہ اس کے خیال میں برما کو ’’میانمار‘‘ کا نام یہاں کی آمر عساکر نے 1989 میں دیا تھا جسے واشنگٹن نے تاحال سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا کیوں کہ نئے نام سے منسوب کرنے کے لیے برمی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا البتہ وہائیٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران توقع کی جا رہی تھی کہ صدر اوباما گفت گو کے دوران برما کو اس کے نئے نام میانمار سے ہی پکاریں گے۔

حقوق انسانی کے محرکین امریکی انتظامیہ پر تابڑ توڑ تنقیدی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ اسے ایک ایسے ملک کے صدر کو امریکا میں بہ طور سرکاری مہمان داخل ہونے کا اعزاز نہیں دینا چاہیے تھا جہاں حقوق انسانی کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہو، وہاں کے سفید و سیاہ میں اب بھی جرنیلوں کا عمل دخل جاری ہو اور جن کے سروں سے تکبر کا خناس ابھی نہیں اترا۔ یہ خناس ان کے اندر 1962 سے گھسا ہوا ہے اور ابھی جمہوری عمل کے بہت سے اعادے اس کو نکالنے کے لیے درکار ہیں۔ جہاں ایک بار فوج کے منہ کو اقتدار کا لہو لگ جائے تو یہ ذائقہ پھر جاتے جاتے جاتا ہے، اس ’’بھگیاڑ‘‘ کو بار بار روکا جاتا ہے اور وہ بار بار پنجرے سے باہر نکل آتا ہے۔

حکومتی امتیازی برتاؤ کی کریہ صورت ملاحظہ ہو کہ روہنگیا مسلمان مغربی برما میں آباد ہیں، اِن مسلمانوں پر ماضی کی فوجی حکومت نے پابندی عاید کیے رکھی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے۔ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد غالباً معطل ہو گیا ہوگا لیکن اس قانون کا ایک بار پھر احیا کیا جا رہا ہے اور اِس بار اسے ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت روہنگیا مسلمان جوڑا ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مجاز نہیں ہوگا ۔ اندھیر یہ ہے کہ یہ قانون صرف اور صرف مسلمانوں ہی پر لاگو ہوگا۔ ’’ون چائیلڈ پالیسی‘‘ کا قانون چین میں بھی لاگو ہے لیکن یہ بلا امتیاز ساری آبادی پر نافذ ہے۔ برما میں اس قانون سے بودھ تو خیر مستثنیٰ ہیں ہی دوسری اقلیتوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہوگا، صرف مسلم ہی اس کا پابند ہوگا۔

یاد رہے کہ برما میں مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں سے پچاس ہزار سے زیادہ تاحال مارے جا چکے ہیں اور اتنے ہی یا کچھ زیادہ ہجرت کر چکے ہیں جب کہ ملک بودھوں سے تھل تھل بھرا ہوا ہے یعنی وہ چھے کروڑ کل آبادی والے ملک کا 89 فی صد ہیں اور مسلم صرف 4 فی صد، اسی طرح مسیحی بھی 4 فی صد ہیں۔ اب اگر آبادی میں اضافے کا خدشہ ہے تو بودھوں کو پہلے اس قانون کا پابند بنانا چاہیے لیکن یہ پابندی محض مسلمانوں پر عاید کی جا رہی ہے، دوسری اقلیتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ جواب بالکل سیدھا سادہ ہے یعنی مسلم آبادی کی نسل کُشی، ایک طرف یہ پابندی اوپر سے مارا مار، یا تو مسلمان ہجرت کر جائیں گے یا نہیں تو مارے جائیں اور جو تھوڑے بہت بچ جائیں انہیں اس پابندی کے تحت آہستہ آہستہ نابود کر دیا جائے۔

دنیا بھر میں ایسے قانون کے نفاذ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گذشتہ دس برس کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور سارا عالم یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں مشرقی برما میں تین سو بھرے پرے گاؤں تاراج کر دیے گئے، دو لاکھ سے زیادہ روہنگی مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے جب کہ باقی تمام اقلیتیں چین کی بنسی بجا رہی ہیں۔ وجہ؟؟؟ وجہ یہ کہ مسلمان ریاستیں دنیا میں اپنی حیثیت ہی نہیں منوا سکیں، خوش حال لیکن ذہنی غلام، غلاموں کی یا حیثیت ہو سکتی ہے۔

حالیہ امتیازی قانون کے خلاف نوبل انعام یافتہ مادام سوچی بھی بالآخر بول ہی پڑیں تاہم بڑے گول مول انداز یوں گویا ہوئیں ’’اگر یہ اطلاع سچ ہے تو خلافِ قانون ہے‘‘ جیسے ابھی انہیں یقین نہیں کہ ایسا کوئی قانون ہے۔ سوچی محترمہ کو برما میں بودھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کرنے کی توفیق بھی نہیں ہو سکی جس سے ان کی عالمی سطح پر خاصی کرکری ہوئی تھی۔

اوباما صاحب فرماتے ہیں کہ برما کی نئی قیادت کے اقدامات قابل تعریف ہیں کیوںکہ صدر تھین سین برما کو بہتر راہ پر لے جا رہے ہیں، اسی لیے امریکا اپنے رویے کو نرم کر رہا ہے، ایسا نہیں کہ انہوں نے روہنگی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا، کیا، ضرور کیا لیکن بہ طور اتمامِ حجت! جیسے ہمارے پنجاب میں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے ’’ذرا ہتھ ہولا رکھو!‘‘ اور بس اللٰہ اللٰہ خیر صلّا۱ انہوں نے کہ دیا اور برما کے ’’بگڑے منڈے‘‘ نے اپنی اصلاح کرلی۔ کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ امریکا، برما پر چین کے اثر و رسوخ سے بدمزہ ہے۔

صدر تھین سین کا اس موقع پر عذرِ لنگ بھی ملاحظہ ہو، فرمایا ہمارے ہاں جمہوریت کو آئے دن ہی کے ہوئے ہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن، ہم اس معاملے ابھی بالکل کورے ہیں، ذرا جمہوریت کچھ دن پنپ لے تو مسلمانوں کو بھی تحفظ دے لیں گے یعنی مسلمانوں پر آگ اور خون کا جاری عرصۂ حشر فی الحال رکنے کا نہیں۔ جمہوریت کی یہ زلف کب تک سر ہوگی اس کی انہوں نے کوئی تاریخ نہیں، برمی مسلمانوں کو زیادہ عرصے تک نظرانداز کیے رکھا گیا تو خدشہ نہیں یقین ہے کہ روہنگیا نسل کے مسلم کرۂ ارض سے معدوم ہو جائیں گے، ان کی حالت اب چراغِ سحری کی سی رہ گئی ہے۔

غربت سعودی عرب میں بھی ڈیرے جمانے لگی

$
0
0

تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور اکثر لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں عوام بھی بہت امیر ہوں گے۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔سعودی عرب کے امیرترین ملک ہونے کے  باوجود   وہاں پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ  غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔دنیا کے دیگر غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جن میں لوگ کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

فاطمہ کا خاندان

فاطمہ ہزازی کا گھر  بھی ایسا ہی ہے۔ان کے حالات بہت خراب ہیں حتیٰ کہ بجلی کا بل آتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں کہ بل دینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔فاطمہ کا گھر سعودی دارالحکومت ریاض کے غریب ترین علاقے میں واقع ہے۔ فاطمہ بتاتی ہے :’’بچوں کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔لیکن ہمارے لیے تو زندہ رہنا مشکل ہے۔جب بل آتے ہیں تو میرا دل ڈوبنے لگتا ہے۔‘‘

فاطمہ کا خاوند  ایک سرکاری محکمے میں ملازمین کو کافی پلانے کا کام کرتا ہے اور اس کی تنخواہ انتہائی تھوڑی ہے۔اس کی تنخواہ سے بمشکل گھر کا کرایہ پورا ہوتا ہے۔بجلی ، گیس اور پانی کے بل دینا تو بہت مشکل ہوجاتا ہے۔فاطمہ کا خاندان کئی مرتبہ فاقوں پر مجبور ہوتا ہے ۔ مہینے میں ایک بار گھر میں گوشت پک جائے تو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔اس طرح بعض اوقات تو انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ پانی سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔بارش کے دنوں میں ان کے گھر کی چھت ٹپکنے لگتی ہے  لیکن ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ بازار سے جاکر پلاسٹک کی شیٹ لے آئیں جسے اوپر بچھاکر چھت کو ٹپکنے سے بچایا جائے۔آج کل ان کا فریج خراب پڑا ہے لیکن اسے مرمت کرانے کے لیے بھی ان کے پاس پیسے نہیں۔تاہم ان تمام چیزوں کے باوجود بجلی ایک ایسی چیز ہے ، جس سے محروم ہونے کے وہ بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتے۔

فاطمہ کے بستر کے پائے کے ساتھ ایک سفید رنگ کی مشین پڑی گھررگھرر کررہی ہے۔اس  مشین کے ساتھ ایک باریک پلاسٹک کا پائپ لگا ہوا ہے جو ایک نلکی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ نلکی فاطمہ کے پیٹ میں دھنسی ہوئی ہے۔یہ ہوم ڈائلاسس کی مشین ہے جو فاطمہ کے لیے بہت ضروری ہے۔اس تکلیف دہ طریقے کے ذریعے اس کے خون کی صفائی کی جاتی ہے کیونکہ اس کے گردے خراب ہیں اور یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔فاطمہ بتاتی ہے:’’اگر میں بجلی کا بل نہ دوں تو بجلی چلی جاتی ہے۔ بجلی چلی جائے تو میری مشین رک جاتی ہے۔اور اگر مشین رک جائے تو۔۔۔۔۔‘‘ فاطمہ جملہ مکمل نہ کرسکی۔ اس کی آواز رندھ گئی۔فاطمہ اگر اس قابل ہوکہ گردوں کا ٹراسپلانٹ کراسکے  تو اس کی تکلیف دور ہوسکتی ہے  لیکن اس کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہے ، وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ بصورت دیگر اگر اس کے پاس اتنے پیسے آبھی جائیں تو گردوں کے عطیہ کے لیے اسے کئی سال انتظار کرنا ہوگا۔

چالیس لاکھ لوگ غریب

سعودی عرب  دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں محلات جیسے گھر ہیں اوران میں سے کچھ گھر تو اربوں روپے مالیت کے ہیں لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کی بیس فیصد آبادی یا چالیس لاکھ کے قریب لوگ فاطمہ ہزازی جیسی زندگی جیتے ہیں جس کا کنبہ  آٹھ افراد پر مشتمل ہے جبکہ مہینے کی آمدن لگ بھگ صرف ایک ہزار ڈالر ہے۔اس طرح سعودی عرب کے معیار کے مطابق چالیس لاکھ سعودی شہری  خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔اس طرح سعودی عرب کے مقررکردہ معیار کے مطابق جو افراد  ساڑھے چار سو ڈالر مہینہ سے کم پر گذارہ کررہے ہیں ، وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گذارنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔

سعودی ادارے نیشنل سٹرٹیجی ٹو کومبیٹ  پاورٹی کے مطابق سعودی عرب کی کل آبادی کے  1.63  فیصد افراد ا خط غربت سے  انتہائی نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔یاد رہے کہ سعودی حکومت نے ملک میں غربت کا پتہ چلانے کے لیے حال ہی میں ایک  منظم سروے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت   لوگوں اور ان کی آمدنی کے بارے میں پتہ چلایا جارہا ہے۔ 2003ء میں شروع کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا اب تک کا پہلا سروے ہے۔اس کے نتائج کو آئندہ تین ماہ تک  عوام کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔دوسری جانب امدادی کارکنوں اور فلاح عامہ کے کام کرنے والے اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد وشمار یعنی بیس فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری،  افراط زر  ،کرایوں میں اضافے اور  تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

سعودی عرب میں غربت نہیں ، حکومت کا خیال

ادھر حکومت کاکہنا ہے کہ ملک میں صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات اور سبسڈائز نرخوں پر ایندھن کی فراہمی(حالانکہ بوتل بند پانی 35 ریال فی لٹر ملتا ہے جو کہ ایندھن کے نرخوں سے بھی زیادہ ہے) کا مطلب ہے کہ سعودی عرب میں حقیقی معنوں میں غربت  کا وجود نہیں۔تاہم اگر یہ کہا جائے کہ حکومت اس جڑ سے نمٹنے سے  قاصر ہے جو غربت کی اصل وجہ ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ سعودی حکومت مستقبل کے لیے مناسب طور پر تیار نہیں جب ملک کی آبادی اور بھی  بڑھ چکی ہوگی اور تیل کے ذخائر میں کمی آچکی ہوگی۔لہٰذا ایک ایسا خطہ جہاں بے روزگاری ، غربت اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے باعث انقلاب آچکے ہوں ، وہاں سعودی عرب میں موجود بادشاہت کا نظام بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔وہی شاہی خاندان جو  مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اہم ترین حلیف اور ایران کی توسیع کے خلاف ایک اہم فصیل کی حیثیت رکھتا ہے۔

پٹرول کا معجزہ

1930ء کی دہائی میں جب سعودی عرب میں پٹرول دریافت ہوا تو سعودی عرب اس قابل ہوگیا کہ اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کرے۔اس  سارے قصے کو یوں سمجھا گیا کہ جیسے سعودی شاہی خاندان پر خدا کی رحمت ہے اور یوں شاہی خاندان کو ایک جائزحیثیت دی جانے لگی۔ لیکن اب یہ تصور خطرے میں ہے۔تھامس ڈبلیو  لپ مین اپنی کتاب Saudi Arabia on the Edge: The Uncertain Future of an American Ally میں لکھتے ہیں کہ غربت اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب ایک اسلامی یوٹوپیا نہیں رہا جو یہ بننے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اب سعودی عرب کے حکمران یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا معاشرہ بہترین ہے  جس کا مطلب ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔اب وہ حقیقی مشکلات میں گھر رہے ہیں۔

80 سال سے بھی کم عرصے میں سعودی عرب ایک غریب ترین صحرائی خطے سے تیل پیدا کرنے والا امیر ترین ملک بن چکا ہے جس کی جی ڈی بی 740 ارب ڈالر ہے لیکن خوشحالی کی طرح اس کی آبادی بھی اسی رفتار سے بڑھی۔ یہ آبادی جو 1970 تک صرف ساٹھ لاکھ تھی اب دوکروڑ ستر لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ بلند شرح پیدائش اور غیرملکی کارکنوں کی آمد ہے جو کہ سعودی عرب کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔روزگار کی سکیمیں اور دیگر فلاحی پروگرام ناکام ہوچکے ہیں۔سعودی عرب کی دو تہائی سے زیادہ  آبادی تیس سال کی عمر سے کم ہے۔اس آبادیاتی شماریے میں سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ کل بے روزگار آبادی میں سے تین چوتھائی بیروزگار سعودی باشندے بیس سال سے کم عمر کے ہیں  جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح  بارہ فیصد ہے۔

اس طرح جہاں تک سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کا تعلق ہے ، جو کہ اس ملک کی خوشحالی کی  سب سے بڑی وجہ ہیں،  وہ بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ملک میں تیل کی اندرونی کھپت بڑھ رہی ہے اور اس صدی کے وسط تک سعودی عرب کے تیل کے ذخائر خاصی حد تک ختم ہو چکے ہوں گے۔اس طرح اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو سعودی عرب  میں ایکسپورٹ کے مقابلے میں تیل کی اندرون ملک کھپت بڑھ جائے گی  اور یوں ملک کی معشیت خطرے میں پڑ جائے گی جس کا زیادہ تر انحصار واحد وسیلے تیل پرہی ہے۔

شہزادہ طلال کے خیالات

شہزادہ الولید  بن طلال  جو ملک کے امیر ترین شخص ہیں  اور سعودی عرب کی ہولڈنگ کے سربراہ ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ان کے بجٹ کا بانوے فیصد تیل سے آتا ہے۔یہ بہت خطرناک ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک معاشی ٹائم بم پر کھڑے ہیں۔

آٹھ ماہ قبل فاطمہ کے بارے میں تشخیص ہوئی کہ اس کے گردے ناکام ہوچکے ہیں اور وہ ہسپتال میں داخل ہوئی۔وہ ایک ماہ سے زائد عرصہ ہسپتال میں داخل رہی۔بعدازاں ڈاکٹروں نے ایک جدید ترین ڈائلاسس مشین دے کر اسے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا۔اس مشین کی مالیت بائیس ہزار ڈالر ہے۔مشین کو چلانے کے لیے اس کی چوبیس سالہ بیٹی کو تربیت دی گئی۔ایک طرح سے فاطمہ خوش قسمت تھی۔ صحت کی وہ سہولت جو کہ  کسی بھی ایسے امریکی کو کنگال کرسکتی ہے  جس کی میڈیکل انشورنس نہ ہو، وہی فاطمہ کو ایک پائی ادا کیے بغیر مل گئی۔   وہ اس پر شکرگذار ہے لیکن  فاطمہ کو تاحال اس بات پر پریشانی ہے کہ  ریاست اس کو زندہ رکھنے پر بہت زیادہ اخراجات کررہی ہے  ، لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں کررہی۔اس کا گھر کاکروچوں سے بھرا پڑا ہے جو اس کی ڈائیلاسس کی مشین پربھی چڑھ جاتے ہیں۔فاطمہ کہتی ہے: ’’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر میں نے اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف نہ رکھا تو میں ایک بار پھر بیمار پڑسکتی ہوں۔لیکن کیسے؟ ذرا دیکھیں کہ میں کس ماحول میں رہ رہی ہوں۔ذرا میرے گھر کی حالت دیکھیں۔‘‘

فاطمہ کے دو بیڈ رومز پرمشتمل گھر میں کوئی کھڑکی نہیں ۔ دوکمروں میں سے ایک میں وہ اپنے خاوند اور دوسرے کمرے میں اس کے آٹھ بچے رہتے ہیں۔گھر کی فضا میں سڑی ہوئی سبزیوں اور دیگر کھانے پینے کے سامان کی  باس پھیلی ہوئی  ہے جو کہ خراب  فریج میں پڑی ہوئی ہیں۔ مٹی سے بنی دیواروں میں سے خاک اڑ اڑ کر گھر کے سامان پر تہہ بچھا رہی ہے۔مٹی کی یہ تہہ اس کی دوائوں اور ڈائیلاسس کے دیگر سامان پر بھی بچھی ہوئی ہے۔یہ دوائیں اور سامان فرش پر بستر کے ساتھ بکھرا پڑا ہے۔فاطمہ کہتی ہے: ’’کوئی میرے اور میر ے خاندان کا خیال نہیں رکھتا۔ وہ صرف میری بیماری کاخیال رکھتے ہیں۔‘‘

جامع فلاحی نظام کی عدم موجودگی

سعودی حکومت جو کچھ بھی مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات پر خرچ کرتی ہے (گذشتہ سال یہ خرچ بجٹ کا 37 فیصد تھا)، اس کے حوالے سے  سعودی حکومت کے پاس کوئی جامع فلاحی نظام نہیں۔بے روزگار افراد جن کی عمر 35 سال سے کم ہے ایک سال کے لیے 553 ڈالر ماہانہ بیروزگاری الائونس لے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ سرگرمی سے ملازمت تلاش کررہے ہیں۔فاطمہ کی بیٹی لیلیٰ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی ماں کی ڈائلاسس کی مشین چلانے کی ذمہ داری سے فارغ ہوئی تو  ملازمت تلاش کرے گی۔اس وقت تو اس کا سارا دن اپنی ماں کی دیکھ بھال پر لگ جاتا ہے۔’’اس وقت میں اپنی ماں کی کل وقتی ڈاکٹر ہوں۔‘‘ لیلیٰ بجھی بجھی مسکراہٹ کے ساتھ بتارہی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں کو حکومت کی جانب سے بہت کم امداد ملتی ہے جو اڑھائی سو ڈالر سے پانچ سو ڈالر ماہانہ تک ہوتی ہے۔معمر افراد کو بھی اتنی ہی امداد ملتی ہے۔تاہم ایسے لوگ جو اس زمرے میں نہیں آتے ، مثال کے طور پر وہ عورتیں جن کے خاوند ملازمت کرتے ہیں ، چاہے انہیں کتنی ہی کم تنخواہ ملتی ہے،انہیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی امدادنہیں ملتی۔ریاض میں رہائش بہت مشکل سے ملتی ہے جبکہ وہاں  پر رہنے والوں میں سعودی شہریوں کی شرح 23 فیصد ہے۔کرائے آسمانوں کو چھورہے ہیں۔حتیٰ کہ جو انتہائی خراب علاقے ہیں وہاں بھی کرائے بہت زیادہ ہیں۔ریاض کے خراب ترین علاقے میں بھی دو کمروں کے گھر کا کرایہ تین سو ڈالر ماہانہ  ہے۔فاطمہ کے خاوند کی تنخواہ کا ایک تہائی کرائے میں چلاجاتا ہے جبکہ مالک مکان اگلے سال کرایہ مزید بڑھادیتا ہے۔

رہائش کا بحران

سعودی عرب میں ہائوسنگ کابحران بھی بڑھتا جارہا ہے  جو سعودی معاشرے کو بہت متاثر کررہا ہے۔سعودی حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ملک کی وزارت ہائوسنگ کا کہنا ہے کہ ملک کی 65 فیصد آبادی کو رہائش کے لیے ایسے گھرکی تلاش ہے جس کے وہ متحمل ہوسکیں۔2011ء میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے عزم ظاہر کیاکہ ملک میں ستر ارب ڈالر کی لاگت سے پانچ لاکھ نئے گھر بنائے جائیں گے۔یہ گھر کن لوگوں کو دیے جائیں گے ، اس کے لیے ابھی ترجیحات طے نہیں کی گئیں۔ایسے گھروں کی تشہیر کی جارہی ہے لیکن فاطمہ کا کہنا ہے کہ اسے تو یہ خواب ہی لگتا ہے کہ وہ کبھی ایسے کسی گھر میں رہائش اختیار کرسکے گی۔اس کے پاس اس سلسلے میں کوئی ’’واسطہ‘‘ نہیں ہے یعنی وہ ایسی کسی سفارش سے محروم ہے جس کے ذریعے وہ حکومت کی کسی ایسی سکیم سے فائدہ اٹھاسکے۔فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہی امید رکھ سکتی ہے کہ کوئی مخیر شخص آئے اور اس کے گھر کاکرایہ ہی دیدے۔اس نے بتایا کہ یہ کوئی انوکھی خواہش نہیں بلکہ اس کے محلے میں ایک دو گھروں کے ساتھ یہ خوش قسمتی ہوچکی ہے۔

خیرات اور ’’بھکاریوں کی گلی‘‘

خیرات اسلام کے پانچ تقاضوں میں سے ایک ہے جو وہ اپنے پیروکاروں سے کرتا ہے۔یہ ان چند وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب میں خیرات و فلاح کے رسمی اور باقاعدہ طریقے کی مزاحمت کی جاتی ہے۔اس کے بجائے معاشرے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آگے آئے گا۔شہزادہ طلال کہتے ہیں کہ مغرب میں خیرات ایک اختیاری معاملہ ہے لیکن مسلمانوں میں نہیں۔اسلامی شرع اور روایات کی رو سے  مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی دولت میں سے ایک حصہ  غریبوں کو دیں۔قران پاک کے مطابق اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آخرت میں انہیں ہمیشہ کے لیے سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔فاطمہ کے محلے کی طرح دیگر علاقوں میں بھی غریب لوگ اس مذہبی فریضے پر انحصار کرتے ہوئے امداد حاصل کرتے ہیں۔ان میں سے ایک سبالہ سٹریٹ بھی ہے جسے مقامی طور پر ’’بھکاریوں کی گلی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ فاطمہ کے محلے کے ساتھ ہی واقع ہے۔ہر جمعے کی نماز کے بعد یہاں پر بوڑھے مرد اور عبایہ میں ملبوس عورتیں قطاروں میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔یہاں سے آڈس ، پورشے  اور چیوی جیسی مہنگی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان کی کھڑکیوں سے ہاتھ باہر نکلتے ہیں  جن میں چاول اور گوشت سے بھرے ہوئے تھیلے ہوتے ہیں۔طلب گار اور حاجت مند  فوری طو رپر آگے بڑھتے ہیں اور یہ تھیلے پکڑنے لگتے ہیں۔

انوکھا خیراتی نظام

شہزادہ طلال جن کے اثاثوں کی مالیت بیس ارب ڈالر کے قریب ہے اور وہ  اس سال دنیا کے پچیس امیر ترین افراد کی  ’’فوربس‘‘ کی سالانہ فہرست میں شامل ہوتے ہوتے رہ گئے ہیں۔خیرات کے لیے ان کا طریقہ ذرانوکھا ہے۔وہ ہر بدھ کو ریاض میں اپنے محل سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ایک صحرا میں عالیشان خیمہ لگاتے ہیں۔ یہاں ضرورت مند لوگوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔اصل میں یہ ایک روایتی طریقہ ہے جو اٹھارویں صدی سے سعودی عرب کے شاہی سعود خاندان میں رائج ہے ۔شہزادہ طلال اسی سعود  خاندان کے فرد ہیں۔چنانچہ مفلس اورغریب لوگ اس کیمپ میں آتے ہیں  جہاں شہزادہ طلال صحرا میں بچھے ایک دبیز قالین پر آتشی الائوکے قریب کھڑے ان غریبوں کے منتظر ہوتے ہیں۔ان کے دائیں ہاتھ پر بیٹھا سفید عقاب ان کی شان اور جلال میں اضافہ کرتا ہے۔ایک رات میں کوئی ہزار کے قریب مفلس اور ضرورت مند افراد اپنی حاجتوں جیسے  قرض  کی ادائیگی ، کار کی خریداری ، شادی کے اخراجات وغیرہ کے لیے ان سے مدد لیتے ہیں۔اس طرح یہاں پر لوگوں کی موقع پر ہی امداد کردی جاتی ہے۔ایسے لوگوں کی مدد کے لیے شہزادہ طلال نے پورا ایک دفتر بنارکھا ہے۔

لوگوں کی اس طریقے سے مدد کرنے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس میں غربت کی اصل جڑ یعنی روٹ کاز سے نہیں نمٹا جاتا۔ شہزادہ طلال کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ تیس سال کے دوران دنیا بھر میں تین ارب ڈالر سے زائد کی رقم خیرات کرچکے ہیں، یہ اسی طرح ہے جیسے سعودی عرب تمام تر انحصار تیل کی دولت پر کررہا ہے ، غریب لوگ تمام انحصار خیرات پرکریں۔تیل کے ذریعے آسانی سے کمائی جانے والی دولت پر یہی انحصار ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب میںپیچیدہ معاشی اصلاحات پر توجہ نہیں دی جاتی اور نہ اس سلسلے میں مراعات دی جاتی ہیں۔شہزادہ طلال کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے ملک میں دوباتوں پر خاصی تشویش ہے ، اول بیروزگاری اور دوئم تیل پر انحصار۔ان دونوں مسائل سے نہ نمٹا گیا تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ان کاکہنا ہے کہ عرب ممالک میں آنے والا انقلاب ہمارے لیے اشارہ ہے کہ ملک میں لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دیاجائے۔اس کے لیے اہم ترین قدم یہ ہے کہ معیشت کو متنوع بنایا جائے۔

’’سب سے پہلے سعودی عرب۔۔۔۔‘‘

سعودی حکومت نے بیروزگاری میں کمی کے لیے  گذشتہ دوسال کے دوران کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس نے تعلیمی اصلاحات اور فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور ساتھ ہی ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘ یعنی ’’سعودائزیشن‘‘جیسی پالیسی  تشکیل دی ہے۔اس پالیسی کے تحت ایسے آجروں کو سزا دی جاتی ہے جنہوں نے ایک خاص شرح سے زیادہ غیرملکی کارکنوں کو ملازمت دے رکھی ہو۔اس پالیسی کا مقصد ملک میں غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کرنا ہے۔اس وقت سعودی عرب میں ہر تین میں سے دو ملازمتیں غیرملکیوں کے پاس ہیں۔

سعودی عرب میں ایک اور مسئلہ خواتین کی بے روزگاری کا ہے ۔ ملک میں خواتین میں بے روزگاری کی شرح 34 فیصد ہے جس میں مزید اضافہ ہورہا ہے حالانکہ 2011 میں حکومت نے ایک سرکاری پروگرام کے تحت خواتین کے لیے روزگار میں اضافہ کرنے کے لیے ان کے ریٹیل کے سیکٹر کو اوپن کیا تھا ۔کم آمدنی والے خاندانوں ،جیسے فاطمہ کا خاندان ، کے لیے یہ ایک  اہم ایشو ہے جہاں ایک فرد کی تنخواہ سے گھر کا چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔سعودی عرب جیسے ملک میں خواتین کے لیے ملازمت  کی راہ میں رکارٹوں کی بھی کوئی کمی نہیں جہاں خواتین اور مردوں کو الگ الگ رکھنے کے لیے سخت قسم کی پالیساں موجود ہیں اورحکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے جس کے ذریعے اس پالیسی میں کچھ نرمی کی جائے کیونکہ اسے اس حوالے سے قدامت پسند علماء کے ردعمل کا خوف ہوتا ہے۔

مثال کے طورپر اگر لیلیٰ ہزازی ملازمت کے لیے جائے تو اسے ایسی ملازمت درکارہوگی جہاں خواتین اور مرد الگ الگ کام کرتے ہوں ۔ ان کے دفاتر الگ الگ ہوں ۔ان کے داخلی راستے ، غسل خانے ، کیفے ٹیریا  یا کھانے کے کمرے الگ ہوں۔یوں ان شرائط کے ساتھ اس کے لیے ملازمت کا حصول اور بھی مشکل ہوجائے گا۔اس طرح سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں جبکہ ریاض میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے اگر کوئی عورت ملازمت کرنا چاہتی ہے تو اسے ملازمت پر جانے کے لیے ایک گاڑی اور  ڈرائیور کی ضرورت ہوگی اور یوں اسے اپنی تنخواہ سے زیادہ پیسہ اس کام پرلگانا پڑے گا۔

شہزادہ طلال کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کے بارے میں جس طرح سوچتے ہیں ، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ریاض میں شاہ سعود یونیورسٹی کی پروفیسر اور انسانی حقوق کی کارکن فوزیہ البکر کا کہنا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ  یہی ہے کہ روزگار کی دنیا میں خواتین کو مکمل طور پر کس طرح شریک کیا جائے۔ غربت کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں خواتین کو روزگار دیا جارہا ہے اور سعودی عرب باقی دنیا سے مختلف نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب عورت کام کرتی ہے تو دنیا بھر کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔تاہم خیرات کرنے کی طرح  خواتین اور مردوں کو الگ الگ رکھنے کی روایت  بھی مذہب سے جڑی ہوئی ہے۔شاہی خاندان یعنی سعودی حکومت کے لیے  اس عقیدے کو چیلنج کرنا قدامت پرست علماء سے عداوت مول لینے کے مترادف ہے۔

غربت، منشیات اور فحاشی

سعودی عرب میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو اپنے ملک کے تاریک پہلوئوں کو تیل کی دولت کے ذریعے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔سعودی عرب کے کئی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لوگوں کو 2002تک یہی پتہ نہ تھا کہ ان کے ملک میں بھی غربت ہے جب اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے جنوبی ریاض میں واقع کچی آبادی کا دورہ کیا تھا جو میڈیا میں بہت مشہور ہوا تھا۔وہ وہاں کے خراب حالات دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور انہوں نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ غربت کوختم کردیں گے۔تاہم یہ ایشو سرد خانے میں چلا گیا حتیٰ کہ 2011 میں ایک نوجوان دستاویزی فلم ساز فراس بگنا کی محض نو منٹ کی فلم ’’یو ٹیوب‘‘ کے ذریعے منظر عام پر آئی جس میں ریاض میں شدید ترین غربت کو بے نقاب کیا گیا تھا۔فلم میں اس نے غریب اور مفلس ترین لوگوں سے ملاقات اور ان سے بات کی جن میں ایک امام مسجد بھی شامل تھا۔امام مسجد سے غربت کے بارے میں رائے لی گئی تو اس نے غربت جیسے سماجی مسئلے کو منشیات اور فحاشی کے ساتھ جوڑنا شروع کردیا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ سعودی حکومت کو چیلنج نہ کرے۔اس کے نزدیک مسئلے کا حل یہ تھا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ خیرات کریں ۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ معاشرہ ہی معاشرے کی مدد کرے اور یہ کہ ہمیں حکومت کی مدد کی ضرورت نہیں۔اس ویڈیو کو دنیا بھر میں چوبیس لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا۔

پرانی نسل سے مایوسی

سعودی حکومت نے اس فلم کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور فلم ساز کو دو ہفتوں کے لیے قید میں ڈال دیا۔بگنا کو کہا گیا کہ اس نے اس فلم کے ذریعے ’’ریڈ لائن‘‘ کو عبور کیا تھا۔لیکن بگنا کو اب تک نہیں پتہ کہ آخر اس نے کون سی ریڈ لائن عبور کی۔ بگنا کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار مسائل ہیں اور اس کا نہیں خیال کہ پرانی نسل ان مسائل کو حل کرسکتی ہے۔’’ہمیں نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔‘‘ بگنا کا کہنا تھا۔’’ہمیں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس نے کئی ایپس apps تیار کی ہیں تاکہ غربت سے نمٹنے میں ہم وطنوں کی مدد کی جاسکے۔ایک میں رضاکاروں کو مہنگے منصوبوں کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔دوسری مستقبل میں ملازمت کی ضروریات کی فہرست مرتب کرکے اور ہنر سکھا کر ہائی سکول کے طلباء کو گریجویشن سے پہلے کام کے لیے تیار کرتی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت اس کی ایپس خریدے اور وہ لوگوں کی زندگی آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

اگر سعودی حکومت بگنا جیسے افراد کی اختراعات کا خیرمقدم کرے تو اس سے غربت کو کم یا ختم کرنے کی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے۔لیکن آنے والی نسلوں کی مدد سے پہلے ان لوگوں کی بھی مدد کرنا ہوگی جو تاوقت مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔لیلیٰ ہزازی کی جلد شادی ہوجائے گی ، اس کے بعد ماں کی ڈائلاسس مشین کو چلانے کی ذمہ داری اس کی تیرہ سالہ بہن حواتف کے ذمے ہوگی۔اس مقصد کے لیے اسے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑنا ہوگا اور یوں اس کے لیے مستقبل میں ملازمت کا امکان اور بھی کم ہوجائے گا۔اس طرح غربت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

’’ہم ہر وقت پُل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں‘‘

$
0
0

 شب کا پہلا پہر ماضی بننے کے لیے آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔

افسردہ اور غم ناک سیاہ رات، شارع فیصل جیسی پُررونق اور مصروف سڑک اور اس پر اتنا سناٹا، انسان انسان سے خوف زدہ، خلق خدا بے آسرا و بے امان ، بے یار و مددگار، اکا دکا گاڑیاں ، سروس روڈ پر گھومتے آوارہ کتے، بند بینکوں اور دیگر تجارتی اداروں کے دفاتر کے سامنے سر جھکائے ،سہمے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے پہرے دار، میں سروس روڈ پر آتے ہوئے کرائون پلازہ کے موڑ سے جیسے ہی مڑا، اک ایمبولینس مریضوں اور زخمیوں کے لیے امید بنی تیار کھڑی تھی۔ اس میں بیٹھے دو آدمی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو وہ پریشان ہوکر بولے جی صاحب! کو ئی مسئلہ ہے کہاں چلیں، میں مسکرایا تو وہ مطمئن ہوئے۔ آپ کو اس وقت دیکھا تو جی چاہا کہ آپ سے گپ شپ کرلوں، یہ سن کر وہ ہنسے اور کہنے لگے ہم سے کیا گپ شپ، پھر با تیں ہوئیں، دل کی باتیں، دکھ اور درد کی سوغاتیں، زمانے کی گھاتیں۔ چلیے آپ بھی سن لیجیے اگر آپ کے پاس اتنی فرصت ہے تو۔

یہ بھی انسان ہیں اور کتنا عظیم کام کر رہے ہیں، جہاں ہر طرف موت کے ہر کارے موت بانٹتے پھر رہے ہیں، یہ ایسے میں زندگی تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ انسانوں کو موت کے وحشی جبڑوں سے چھین کر دوبارہ جیون کا تحفہ دینے کا کار عظیم کر رہے ہیں اور صلے میں انہیں کیا ملتا ہے ۔ جی گالیاں، الزامات، بہتان، اور مار پیٹ۔ کسی دانا نے سچ کہا ہے، جس کے پاس جو ہو وہی تو وہ دیتا ہے ۔ کسی کے پاس دعائیں ہیں، کسی کے پاس گالیاں، کسی کے پاس زہر ہے اور کوئی تریاق بانٹتا پھرتا ہے۔ رنگا رنگ مخلوق ہے خدا کی، اس کی دنیا عجیب ہے نہ سمجھ آنے والی۔ چلیے آپ ان سے ملیے، انہیں اپنے ادارے کی جانب سے کسی سے بات کرنے اور تصویر دینے کی ممانعت ہے، اس لیے انھوں نے تصویر بنوانے سے انکار کردیا۔ میں رخصت ہوا۔ اب آپ ایمبولینس ڈرائیور عبدالرحیم کی زبانی اس کی کتھا سنیے:

میرا نام عبدالرحیم ہے۔ میں قائد آباد میں رہتا ہوں ۔ پہلے میں ایک ٹیکسٹائل مل میں ڈرائیور تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، ایک دن ہمارے منیجر نے مجھے بلایا اور کہا تم آج سے لوڈر کا کام کرو گے اور ڈرائیور ہم نے رکھ لیا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں، تو انہوں نے کہا میں منیجر ہوں جو چا ہے کر سکتا ہوں۔ میں نے انکار کر دیا اس لیے کہ میں اپنا کام بہت ذمہ داری سے کرتا ہوں۔ خیر میں نے وہ ملا ز مت چھوڑدی بعد میں معلوم ہوا کہ منیجر کا کوئی رشتے دار تھا اسے رکھنے کے لیے مجھے فا ر غ کردیا گیا۔ بس یہی ہے جی دنیا۔ یہاں کام ملنا آسان نہیں رہا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کام مل جائے، لیکن نہیں ملا، پہلے تو اپنے دوستوں سے قرض لیتا رہا، اب یار دوست بھی کوئی ساہوکار تو تھے نہیں مجھ جیسے ہی ہیں، مجھے کب تک دیتے وہ خود غریب مر مر کے گزارا کرتے ہیں، لیکن بہت سا تھ دیا میرا دوستوں نے ۔

پھر ایک دن میرے دوست نے بتا یا کہ ایک رفا حی ادارے میں ایمبولینس ڈرائیور کی ضرورت ہے، اندھا کیا چا ہے دو آنکھیں، میں فوراً راضی ہو گیا، پھر ہو ا یہ کہ میں نے اپنے ایک اور دوست سے تذکرہ کیا تو وہ برہم ہوگیا اور کہنے لگا اگر خود کشی کرنا ہے تو زہر کھا لے، میں کچھ سمجھا ہی نہیں، میں نے پو چھا کہ تم ایسا کیو ں کہ رہے ہو تو اس نے بتایا کہ حالات اتنے خراب ہیں ہر طرف مارا ماری ہے۔ جب دیکھو ہنگامے ہو تے رہتے ہیں، گولیاں چلتی رہتی ہیں، لوگ ما رے جاتے ہیں اور تو چلا ہے ایمبولینس چلانے۔ سچ پو چھیں تو میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ آخر میں سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی یہ تو بہت خطر ناک کام ہے۔ یہی سوچتا ہوا میں اپنے اس دوست کے پاس گیا اور اسے یہ سب کچھ بتایا۔ وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ دیکھو! تمہارے سا رے خدشات سوفی صد صحیح ہیں، لیکن دیکھو موت کا تو ایک دن مقر ر ہے ناں، جو رات قبر میں آنی ہے وہ تو آنی ہے دنیا کی کو ئی طاقت بھی نہیں روک سکتی ناں، تو بس جب موت سے کو ئی نہیں بچ سکتا تو پھر کیسا ڈر۔

اور جب تک ہماری زندگی ہے ہمیں کو ئی نہیں مارسکتا، اس لیے کہ مو ت زند گی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اور پھر ایک اور بات اس نے کہی کہ رزق حلال عین عبادت ہے اب جب تم رزق حلال کے لیے نکلو گے تو اﷲ بہت خوش ہوگا اور پھر سب سے بڑی بات جو اس نے کہی وہ یہ کہ اؒﷲ نے کہا ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی تو تم اگر ایک بھی انسان کی جان بچا ئو گے تو سا ری انسانیت کی جان بچائو گے۔ یہ تو بہت عظیم کام ہے کام کا کام اور نیکی کی نیکی، لوگو ں کی دعائیں مفت میں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ تو بس مجھے یہ ساری باتیں بہت اچھی لگیں، اور بات تو صحیح بھی تھی ناں، تو بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں ایمبولینس ڈرائیور بنوں گا۔ میرے چار بچے ہیں، دو بیٹے دو بیٹیاں، جب میں نے اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو وہ بھی میرے سر ہو گئی کہ یہ کام نہیں کرو، لیکن میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ اپنے کام سے کام رکھو ۔ دوسرے دن میں اس رفاحی ادارے پہنچا۔ انہوں نے میرا لائسنس دیکھا کچھ سوالات کیے اور کام سمجھایا۔

لیکن جب میں نے تن خواہ پو چھی تو میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی آپ سننا چا ہتے ہیں تو سنیے، تن خواہ تھی 3500 ، میں تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، پہلے تو میں سمجھا مذاق کر رہے ہوں گے، لیکن انہیں سنجیدہ دیکھ کر میں نے کہا یہ تو بہت کم ہے، تو انہوں نے کہا کہ تن خواہ تو اتنی ہی ہوگی لیکن تمہیں ہر ٹرپ پر کمیشن ملے گا۔ تو اس طرح تقریباً 9000 تک ہوجائے گی، میں نے سوچا چلو غنیمت ہے، لیکن مشکلات تو آگے آئیں، لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب جو کچھ ہوجائے یہ کام کر کے رہوں گا۔ اب آپ پو چھ رہے ہیں کہ مشکلات کیا تھیں، او بھائی! میرے آسانیاں کچھ نہیں ساری مشکلیں ہی مشکلیں۔ ہماری ڈیوٹی 36 گھنٹے کی ہوتی ہے اور اس کے بعد 12 گھنٹے کا آرام ، میں جس ایمبولینس پر ہوں وہ پیٹرول پر ہے، مجھے 22  کلو میٹر کے ایک لیٹر کے حساب سے پیٹرول ملتا ہے۔ اب راستے میں اگر ٹریفک جام ہو اور وہ تو اکثر ہوتا ہے تو پیٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے تو اس دن مجھے اپنی جیب سے وہ کمی پوری کرنی پڑتی ہے۔

اب آگے سنیے اگر گاڑی پنکچر ہو جائے تو پنکچر مجھے لگانا پڑتا ہے، اگر خدا نہ خواستہ گا ڑ ی کہیں لگ جائے تو وہ نقصان بھی میرے کھاتے میں آئے گا۔ بس یہ حال ہے ہمارا اور جو کام ہم کر رہے ہیں اس میں ہر پل جان کا خطرہ ہے۔ یوں سمجھیں ایمبولینس میں نہیں چلتی پھرتی موت میں بیٹھا ہوں یار۔ ہر وقت وائرلیس پر کان لگائے ہوئے، ہر وقت ایک سے ایک بری خبر، ہمیں جیسے ہی اطلاع ملتی ہے ہم ہوٹر آن کرکے نکل جاتے ہیں۔ کسی مریض کو لینا ہوتا ہے۔ کسی کو دل کا دورہ پڑجاتا ہے تو بر وقت اسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ ہر وقت پل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں، اب آپ دیکھیں شہر میں ہر جگہ بم پھٹتے رہتے ہیں گولیاں چلتی رہتی ہیں، سب سے پہلے ہمیں ہی پہنچنا پڑتا ہے۔ آپ میڈیا اور پولیس والے تو بہت بعد میں پہنچتے ہیں وہ بھی بلٹ پروف جیکٹ پہن کے، ہم تو گولیوں کی بوچھار میں کھڑے ہوکر انسانوں کو بچاتے ہیں۔ لیکن لوگوں کا رویہ انتہا ئی برا ہوتا ہے۔ سب کا نہیں لیکن زیادہ تر لو گو ں کا۔ ایک تو راستہ نہیں دیتے، مار پیٹ کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں۔

آپ پوچھ رہے ہیں کیا الزامات، تو بھا ئی میرے! کون سا ایسا الزام ہے جو ہم پر نہیں لگتا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ہم، اگر کو ئی زخمی ہو جائے تو اس کے پیسے، گھڑی ، موبائل فون چرا لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بلوچ کالونی پر ایک بندے کو کوئی کاروالا ٹکر مارتا ہوا بھاگ گیا۔ ہم فوراً وہاں پہنچے اور اسے اسپتال لے گئے۔ میں نے اس کے جیب کی تلاشی لی اور وہ ہم اس لیے لیتے ہیں کہ کو ئی کارڈ مل جائے، تو اس کے گھر والوں کو اطلاع کردیں، تو اس کی جیب سے مجھے 40300 روپے ملے۔ میں نے وہ پیسے وہاں جو ڈاکٹر صاحب تھے انہیں دے کر رسید لے لی۔ پھر ان کے گھر والوں کو اطلاع کی ۔ وہ صاحب کہیں قریب ہی رہتے تھے، تو ان صاحب کا بیٹا اسپتال پہنچ گیا۔ وہ ڈاکٹر سے ملا۔ ڈاکٹر صا حب نے اسے 20000 روپے دے دیے۔ اتفاق سے اس نے میرے سامنے ڈاکٹر صا حب کی بہت تعریف کی کہ انہوں نے پیسے واپس کیے ہیں۔ میں نے معلوم کیا کتنے پیسے واپس لیے ڈاکٹر نے تو اس نے بتایا 20000 مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے تو آپ کو 40300 دیے تھے۔

وہ شرمندہ ہوا اور اسے پورے پیسے واپس کیے، کہنے کا مقصد یہ کہ لالچ میں تو کو ئی بھی آسکتا ہے۔ پچھلے دنوں میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے کٹی پہاڑی گیا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ زخمی ہیں۔ جب میں وہاں پہنچ کر اونچائی پر جا رہا تو گولیاں برسنے لگیں ، میں نے بریک لگائی ہم دو لوگ ہوتے ہیں ایک ڈرائیور اور ایک رضاکار تو چار گولیاں آکر لگیں، ونڈ اسکرین ٹوٹ گیا تھا۔ بس اﷲ نے بچایا ہمیں۔ تھوڑی دیر میں رکا رہا پھر آگے گیا اور وہاں سے دو زخمیوں کو لے کر اسپتال پہنچا۔ یہ تو روز کا معمول ہے ہمارا۔

ہمارے کئی رضاکار اور ڈرائیور شہید ہوئے کئی معذور ہوگئے ہیں اور اب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی کو تو میں بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ کئی یہاں پر جو سڑک کے کنارے کھانے کے دستر خوان ہیں، وہاں سے کھانا لیتے ہیں۔ کو ئی پرسان حال نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کی بے انتہا عزت ہونی چاہیے، لیکن یہاں انسان کی نہیں دولت کی، تعلقات کی قدر ہے۔ جب تک آپ میں دم ہے، سب آپ کے ہیں، اگر آپ گر گئے تو کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔

پچھلے دنوں میں اک کال پر پارکنگ پلازہ سے گزر رہا تھا۔ وہاں تو ویسے بھی بہت رش ہوتا ہے تو ایک صاحب راستہ روکے کھڑے تھے میں ان سے راستہ دینے کا کہا تو وہ صاحب کار سے ا تر آئے اور آتے ہی مجھے مارنے لگے۔ گالیاں بھی دیں اور کہنے لگے کہ خالی ایمبولینس لے کر جا رہے ہو اور شور مچا رہے ہو۔ میں نے کہا یہاں پیچھے فائرنگ ہوئی ہے، کوئی زخمی ہو گیا ہے، مجھے فوری پہنچنا ہے۔ انہوں نے اور گالیاں دیں اور کہنے لگے میں بھی یہیں قریب رہتا ہوں کچھ نہیں ہوا، تم بکواس کر رہے ہو۔ خیر صاحب! لوگوں نے بیچ بچائو کرایا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک نوجوان لڑکا زخمی تھا، میں نے اسے گا ڑی میں ڈالا اور تیزی سے اسپتال پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ صاحب جو مجھے گالیاں دے رہے تھے، مار پیٹ رہے تھے روتے ہو ئے داخل ہوئے وہ ز خمی نو جوان ان کا بھائی تھا۔ انہوں نے مجھ سے بہت معذرت کی ۔ زندگی کا تو کچھ معلوم نہیں ہے نا تو بس انسان کو دوسرے انسان کو رعایت دینی چا ہیے۔ دوسرے کو بھی انسان سمجھنا چا ہیے۔

اس کام میں بہت مشکلات ہیں، خطرات ہیں، لیکن اس میں اپنا ایک مزا بھی ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے کی جان بچانا اﷲ کی خوش نودی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ اب دنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی آخرت میں تو یہی کام آئے گا۔ پہلے گھر والے بہت پریشان ہوتے تھے اب تو وہ بھی عادی ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ کام میرا جنون بن گیا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس دور میں جہاں انسان دوسرے انسان کو مار رہا ہے، میں زندگی بچانے میں لگا ہوا ہوں۔ مجھے ایک دفعہ اک بندے نے بہت اچھی بات سنائی تھی۔ ایک شخص دریا کے کنارے جا رہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈوب رہا ہے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو کوئی چیز نہیں ملی، جس سے وہ بچھو کی جان بچاتا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے نکالنے کی کو شش کی تو اس بچھو نے اسے ڈس لیا۔ اس نے بہت مرتبہ اسے بچانے کی تدبیر کی، لیکن وہ اسے ہر بار ڈس لیتا تھا۔ آخر اس نے بچھو کو باہر نکال کر بچا ہی لیا۔ ایک شخص جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہنے لگا، تمہیں کیا ضرورت تھی اسے بچانے کی ڈوبنے دیتے اسے۔ اس نے کہا کہ سو چا تو یہی تھا مگر اس بچھو نے مجھے مجبور کردیا اور میں نے سوچا کہ یہ اپنی گندی عادت سے باز نہیں آرہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیسے با ز آجائوں۔

’’والد کی بے وقت موت سے والدہ اور پانچ بہن بھائیوں کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی‘‘

$
0
0

زندگی مختلف رنگوں کے امتزاج کا نام ہے، جس فرد کی زندگی جن حالات میں گزر رہی ہو گی اس کے لئے زندگی کے رنگ ویسے ہی ہوں گے۔

یعنی جس رنگ کی عینک ہو گی ویسا ہی نظر آئے گا، اگر کوئی خوشیوں بھری زندگی بسر کر رہا ہے تو اس کا کہنا ہو گا کہ زندگی بڑی خوبصورت ہے اگر تھوڑے عرصے بعد اس کے ساتھ کوئی اندوہناک واقعہ پیش آ جائے تو اس شخص کے لئے زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے اور وہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ زندگی بڑی دکھ بھری ہے اسی لئے ہر شخص زندگی کے بارے میں اپنے انداز میں سوچتا ہے، شاعر اور ادیب زندگی کو پیار بھراگیت، غم کا ساگر یا پھر دھوپ، چھائوں سے تشبیہہ دیتے ہیں ، دانشور اسے جہد مسلسل اور انسانیت کی خدمت قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک زندگی محض جانوروں کی طرح حیات کا ایک وقفہ ہے جس کے بعد انسان فنا ہو جاتا ہے اس لئے زندگی جیسے بھی گزاری جائے آخر گزر ہی جاتی ہے یعنی زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا، مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی ایک بہت بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد پتہ چلے گااسی لئے مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے زندگی کو مذہب کے تحت گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔

بعض افراد کی زندگی میں اچانک کوئی ایسا حادثہ رونما ہوتا ہے کہ ان کا بچپنا اور کھیل کود کے دن اچانک ختم ہو جاتے ہیں اوروہ حیات کے بپھرے ہوئے ساگر میں تھپیڑے کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گویا چھٹیاں ختم اور کام کے دن شروع ہو جاتے ہیں ۔ نشیب و فراز سے بھری زندگی کی راہگذر پر بیتنے والے واقعات اور مصائب و آلام انسان کی روح کو کیسے جھنجھوڑتے ہیں وہ محمد اسد کے چہرے، مہرے سے عیاں تھا، اس نے محتاط مگر تھوڑے سہمے ہوئے انداز میں گفتگو شروع کی تو اس کا حو صلہ بڑھانے کے لئے سمجھانا پڑا تا کہ وہ دوستوں کے انداز میں بلاجھجھک بات کر سکے، مگر زمانے کے سرد و گرم نے اسے اتنا محتاط کر دیا تھا کہ ناپ تول اس کے لہجے سے گیا ہی نہیں ، محمد اسد کہنے لگا ’’جب میرے والد محمد نثار اللہ کو پیارے ہوئے تو میں سات سال کا تھا ، مجھ سے چھوٹے پانچ بہن بھائی ہیں، ہمارے سر پر تو گویا آسمان آن گرا تھا کیونکہ گھر میں اور کوئی کمانے والا نہیں تھا۔

کوٹلی بازار مغلپورہ میں دو کمروں کاچھوٹا سا کرائے کا مکان اور پھر گھر کے دیگر اخراجات پورے ہوتے نظر نہیں آتے تھے، والد صاحب نے فوت ہونے سے تھوڑا ہی عرصہ قبل کریانہ کی دکان بنائی تھی جو کچھ زیادہ بڑی تو نہ تھی مگر پھر بھی اشیائے ضروریہ کی چیزیں اس میں موجود تھیں، ہم سب نے مل کر اس دکان کو چلانے کی کوشش کی مگر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے دکان سے بچت تو کیا ہونا تھی الٹا ادھار سودا لانے کی وجہ سے قرض چڑھنے لگاجب میری والدہ نے یہ صورتحال دیکھی توفیصلہ کیا کہ دکان ختم کر دی جائے، پڑھائی تو پہلے ہی چھوٹ چکی تھی، بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی ، والدہ نے بھی ادھر ادھر کام ڈھونڈا ، تب میں بادامی باغ کی سبزی منڈی جانے لگا ، وہاں آڑھتی کے پاس سبزی صاف کرتا اور وہاں سے ملنے والے پیسے اپنی ماں کو لا کر دیتا ، یوں ہم دونوں کی تھوڑی بہت آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کی جاتی مگر اخراجات تھے کہ کبھی بھی پورے نہ ہوئے، ایسی بات نہیں کہ ہم لوگ خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے، روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے تھے بلکہ کبھی تو یہ بھی میسر نہ ہوتی تھی ۔‘‘

رشتے ناتے انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ، انسان خوشی اور غمی میں انھی رشتوں پر انحصار بھی کرتا ہے ، خاص طور پر مصائب میں انسان کو سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے مگر محاورہ ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ، اسد اور اس کے خاندان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ جب اس کے والد فوت ہوئے تو سوائے ہمدردی کے ان کی کسی نے مدد نہ کی ، قریبی رشتہ دار جیسے سگے چچا خود اتنے غریب تھے کہ کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور اپنا گھر بڑی مشکل سے چلا رہے تھے ، اس لئے سوائے اللہ کے ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ کہتے ہیں جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا مد د گار ہوتا ہے ، تھوڑی سی ہمت کی جائے تو کوئی نہ کوئی وسیلہ بن جاتا ہے۔

زمانہ بہت بڑا استاد ہے وہ انسان کو زندگی گزارنے اور زندہ رہنے کا فن خود سکھاتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ حاصل ہونے والے تجربات کا کوئی نعم البدل نہیں، دیکھنے میں بچپنا مگر سوچ پختہ عمر کی عطا ہو جاتی ہے، اسد کی باتیں بھی کچھ ایسی ہی ہیں’’ خوشیاں تو گویا ہم سے روٹھ چکی تھیں ، چھوٹے بہن بھائیوں کی طرف دیکھتا تو مزید غمگین ہو جاتا، گو ہماری عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہیں میں اپنے چھوٹے بھائی سے دو سال بڑا ہوں، مگر بڑا بھائی ہونے کے ناتے میں یہ محسوس کرتا تھا کہ ان کو بھی دوسرے بچوں کی طرح خوشیاں ملنی چاہئیں، مگر موجودہ حالت میں دو وقت کی روٹی پورا کرنا مشکل تھا ، اس لئے میں زیادہ سے زیادہ محنت کرتا تھا تاکہ گھر کے اخراجات پورے کئے جا سکیں ، خاص طور پرچار ہزار روپے مکان کا کرایہ ہمارے اوپر سب سے بڑا بوجھ ہے جو ہر مہینے ادا کرنا پڑتا ہے اور کوئی ایسا سبب ہے نہیں کہ اپنا کچا پکا مکان بنانے کا بندوبست ہو سکے۔

میں صبح روزانہ چاربجے بادامی باغ سبزی منڈی پہنچ جاتا ہوں اور سات بجے تک آلو اور پیاز صاف کرتا ہوں ، جس سے مجھے ڈیڑھ سو روپے روزانہ ملتے ہیں۔ وہاں سے سات بجے واپس آتا ہوں جس کے بعد میں اکیڈمی پڑھنے چلا جا تا ہوں ، تین گھنٹے اکیڈمی میں پڑھنے کے بعد ہیئر ڈریسر کی دکان پر آجاتا ہوں ، یہاں پر ابھی کام سیکھ رہا ہوں ، استاد بہت اچھے ہیں ، روزانہ جیب خرچ دیتے ہیں اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے مدد کرتے رہتے ہیں، میں بڑے شوق سے کام سیکھ رہا ہوں تاکہ میری آمدن بڑھ سکے، یہاں سے تین بجے قریب ہی دہی بھلے کی دکان پر چلا جاتا ہوں وہاں پررات گیارہ بجے تک کام کرتا ہوں ، یہاں سے مجھے تین ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں ، یوں دن رات کام کر کے میں اتنے روپے کمانے کے قابل ہو تا ہوں کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوسکوں۔ امی تو اب بیمار رہنے لگی ہیں اس لئے گھر کے کام کاج کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتیں ، تاہم میرا چھوٹا بھائی انصار بھی پینٹ کرنے والوں کے ساتھ جاتا ہے اور روزانہ ڈیڑھ سو روپے کما لیتا ہے اس سے بھی گھر کی آمدن میں تھوڑا بہت اضافہ ہوتا ہے ، مگر سب ملا جلا کے بھی تنگی ترشی سے زندگی گزار رہے ہیں ۔‘‘

اعتماد انسانی زندگی میں اہم کردار اد اکرتا ہے کیونکہ اس کے بناء انسان زندگی میں ترقی کا سفر تیزی سے طے نہیں کر سکتا ، مصائب و آلام جہاں انسان کی شخصیت کے چند پہلوئوں کو دبا دیتے ہیں وہیں اسے بہت سی چیزیں سکھاتے بھی ہیں اسد نے اپنی زندگی میں بہت سی کٹھنائیاں دیکھی ہیں شائد اسی نے اسے محتاط رہنا سکھا دیا ہے ، باتیں کرتے کرتے اسد کا اعتماد تھوڑا بحال ہو گیا تھاکہنے لگا ’’ زندگی کی جنگ بڑی کٹھن ہوتی ہے، انسان چاہے نہ چاہے اسے لڑنا ہی پڑتی ہے، میں بھی اپنے خاندان کے لئے یہ جنگ لڑ رہا ہوں،

تعلیم انسان کی سوچ نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ بہتر زندگی گزار سکے، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مسائل کی چکی کے دونوں پاٹوں میں پسنے والے اسد کو اس بات کا کیسے خیال آگیا کہ تعلیم حاصل کی جائے، جب اس سے پوچھا کہ اب چودہ سال کی عمر میں پڑھنے کا کیسے خیال آگیا تو اس نے بتایا’’پڑھنے کا شوق تو مجھے بچپن سے ہی تھا مگر قسمت نے موقع ہی نہیں دیا ، ذمہ داریاں اتنی پڑیں کہ کوئی دوسری بات سوچ ہی نہ سکا ،اب میں تیسری کلاس کی کتابیں پڑھ رہا ہوں ، پرائیویٹ اکیڈمی والے پانچ سو روپے ماہانہ لیتے ہیں ، میری خواہش ہے کہ میں اتنا پڑھ لکھ جائوں کہ آسانی سے کوئی نوکری تلاش کر سکوں اس سے میرے سر پر پڑی ذمہ داریوں کو نبھانے میں مدد ملے گی ، میرے بہن بھائیوں کا بھی حق ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے کے کارآمد فرد بنیں، اب تو وہ مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں ، میں سمجھتا ہوں یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر علم تو حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

گرمی کی شدت میں اضافے کے ذمہ دارہم خود ہیں

$
0
0

چند روز قبل صبح 10 بجے کے قریب آفس میں اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو تھوڑے ہی فاصلہ پر نصب سینک پر ہاتھ دھونے والے ایک ساتھی نے آواز دے کر کہا نسیم صاحب پلیز نیچے کسی کو کہہ کر گیزر تو بند کروا دیں، پانی کو ہاتھ تک نہیں لگ رہا۔

میں مائیکرو سکینڈ کے لئے اپنی جگہ پر جم کر سر کھجانے لگا کہ آج کل کے موسم میں گیزر۔۔۔۔۔پھر یک دم میری ہنسی چھوٹ گئی کیوں کہ بھائی صاحب! آج کل سورج جو سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے گرم مرطوب خطہ میں گرمی اپنے جوپن پر ہے۔ گرمی سے نڈھال لوگ سڑکوں پر دوپہر کے وقت جھگڑتے نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ بلا قصور شاگردوں کو ڈانٹ ڈپٹ سے کہیں آگے مار پیٹ پر اتر آئے ہیں، معمر افراد اور بچے چڑچڑے ہو رہے ہیں، حکام اپنے ماتحتوں پر غصہ نکال رہے ہیں تو باورچی خانہ میں موجود خواتین کا پارہ نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ایک امریکی ریسرچ سنٹر کے مطابق عالمی سطح پر موسم گرما کی حدت کے باعث ہر سال نہ صرف لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

گرمی کی شدت کے باعث ہر سال نہ صرف آفات ناگہانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس سے عالمی معیشت کو بھی ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو کہ مجموعی عالمی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ممالک جن کی معیشت میں کاربن زدہ عناصر کے باعث آلودگی پھیلتی ہے وہ مجموعی طور پر سالانہ 50 لاکھ سے زائد اموات کے ذمہ دار ہیں جن میں سے نوے فیصد ہلاکتیں صرف فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں۔ تحفظ ماحول کے اقدامات سے قیمتی انسانی جانیں اور عالمی جی ڈی پی کا نمایاں حصہ محفوظ کرکے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو نقصان کی شرح 2030ء تک عالمی جی ڈی پی کے 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ شدید گرمی کی وجہ سے شعبہ زراعت بری طرح متاثر ہوتا ہے اور پاکستان کا تو شمار ہی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جنہیں زراعت کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ وطن عزیز میں جاری گرمی کی موجودہ لہر تادم تحریر درجنوں قیمتی جانوںکو نگل چکی ہے اور معلوم نہیں یہ گرمی اور کتنے پھول مرجھا دے گی؟ گرم یا سرد موسم اس روئے زمین اور اس کے باسیوں کے لئے عطیہ قدرت ہے جو بلاشبہ انسان کے لئے بے پناہ سود مند ہے۔ یہاں بہت ساری ایسی فصلیں ہیں جو صرف گرمی کی وجہ سے ہی تیار ہو سکتی ہیں، اسی طرح گرمی کے سبب ہی انسان متعدد خطرناک بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ پاکستان وہ ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام موسم عنایت کئے ہیں، لیکن موسموں کی شدت میں اضافہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی ذمہ دار قدرت نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ سادگی سے کوسوں دور مصنوعی اور سہل پسند طرز زندگی نے ملک میں گرمی کی شدت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ ہر سال گرمی کے کبھی پچاس تو کبھی سو سال پرانے ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں کر اور کس طرح ہو رہا ہے؟ آیئے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

تعمیرات کی ناقص منصوبہ بندی

پاکستان میں گرمی کے احساس اور شدت میں اضافہ کا ایک اہم سبب بغیر کسی منصوبہ بندی کے بننے والی عمارتیں ہیں۔ آج ہم گھر سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ پلازوں اور سرکاری و نجی دفاتر کو آرام دہ بنانے کے بجائے صرف دلہن کی طرح سجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمارتوں کی تعمیر میں بغیر کسی منصوبہ بندی اور مناسب مقدار کے پتھر، سیمنٹ اور لوہے کا بے پناہ استعمال ہمارے ماحول کی حدت کو بڑھا رہا ہے۔ دور جدید کا تعمیراتی میٹریل یعنی سیمنٹ، اینٹ، پتھر، لوہا اور سٹیل وغیرہ دن بھر آگ برساتے سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور پھر رات کو اسے خارج کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ماہر تعمیرات کے مطابق ایک خاص موٹائی کے ساتھ دیواروں میں 2 انچ کا خلا اور چھت کی اونچائی کم از کم 20 فٹ ہونا ضروری ہے لیکن آج ہم تھوڑی سی جگہ اور پیسے بچانے کے لئے کسی خلا کے بغیر صرف 9 انچ کی دیوار اور 10سے11فٹ اونچی چھت بناتے ہیں اور نتیجتاً ایسی گرم عمارتوں میں ہم اپنے آپ کو ساری زندگی عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ تعمیراتی تکنیک کو بائی پاس کرنے سے کمزور عمارتیں جلد گرنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسی عمارتوں میں درجہ حرارت باہر کے مقابلے میں 5 سے 8 سینٹی گریڈ زیادہ ہو جاتا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ تھوڑی رقم خرچ کرکے ہم چھت اونچی نہیں بنوائیں گے لیکن گھر کے فرنٹ پر آرائشی گیٹ اور ماربل پر لاکھوں روپے خرچ کر دیں گے۔ بلاشبہ آج ہم ماش کی دال کے آٹا اور چونے سے دیواروں کی چنائی اور اراضی کی قلت کے باعث پرانے دور کی طرح 5 فٹ موٹی دیوار تعمیر نہیں کر سکتے یا کرتے، لیکن دور جدید کے تعمیراتی میٹریل کو ایک خاص تکنیک سے استعمال کرکے اس کے نقصانات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا۔

تعمیراتی کاموں میں پتھر کا استعمال دور جدید کی کوئی انوکھی ایجاد نہیں بلکہ یہ تو 6 ہزار سال پرانا ہے لیکن اس کا نامناسب اور غیر ضروری استعمال اس کو نقصان دہ بنا رہا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پاک و ہند کی آزادی سے قبل کے برصغیر کو ہی دیکھ لیں۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز کا طرز تعمیر کچھ یوں تھا کہ صرف ایک کھڑکی کھول دینے سے پورے گھر کی فضا بدل جاتی تھی یعنی ہر طرف ہوا پھیل جاتی اور موسم خوشگوار ہو جاتا۔ انگریز کی بنائی عمارتیں آج بھی ہمارے لئے مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ جہاں شدید گرمی میں بھی بغیر کسی اے سی یا پنکھے کے آپ کو فرحت کا احساس ہوگا۔ آج ہمیں گرمی کی شدت، توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور تعمیراتی لاگت میں ہونے والے مسلسل اضافے کے بعد سستا، روایتی اور ماحول دوست طرز تعمیر اپنانے کی ضرورت ہے۔

آرائشی پہناوا

کوئی دور تھا جب اس خطہ ارض میں رہنے والے لوگ سادہ پہناوے کو نہ صرف پسند کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جاتی تھی۔ اور ایسا کرنے سے کسی بڑے شخص کی عزت و قار میں کوئی تنزلی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کھدر، ڈوری یا ڈوریا، تہبند اور ململ سمیت سوتی کپڑا زیادہ استعمال کرتے تھے۔کپڑے کی یہ تمام اقسام جسم کو نہ صرف گرمی کے مضر اثرات سے بچاتی تھیں بلکہ معاشی بوجھ بھی کم ہو جاتا تھا۔ لیکن آج کے دور جدید میں نمود و نمائش کی وجہ سے پہناوا نہ صرف مشکل بلکہ آمدن کے ضیاع کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ململ اور کھدر کی جگہ آج ٹائی پینٹ کوٹ، کلف لگی کاٹن اور ریشمی کپڑے نے سنبھال لی ہے، جو نہ صرف گرمی کے احساس میں اضافہ کرتا ہے بلکہ جلدی امراض کا سبب بھی بنتا ہے۔ مزید برآں گھروں میں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لئے لگائے جانے والی چق کی جگہ بھی اب موٹے کپڑے نے لے لی ہے جو کسی طور پر بھی چق کا نعم البدل نہیں۔

برصغیر پر انگریز کی حکمرانی کے بعد آج تک ہم نے تقریباً ہر کام میں اس کی اندھی تقلید کی ہے یہاں تک کہ ہمارا موجودہ مشینری سسٹم بھی کافی حد تک اسی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ انگریز نے جب برصغیر کو دریافت کر نے کے بعد فتح کیا تو گرم موسم کی نسبت سے پہناوے کے لئے وہ اپنے ساتھ دو بڑی اہم چیزیں لے کر آیا جس میں ایک ہیٹ اور دوسرا بوٹ (بند جوتا) تھا۔ لیکن افسوس۔۔۔! یہاں ہم نے انگریز کی مکمل پیروی نہیں کی بلکہ اس کے دیئے بوٹ تو اپنا لئے مگر ہیٹ کو پہننا ہمارے لئے ایک ٹینشن اور خوبصورتی میں کمی کا موجب ٹھہرا۔ یہی نہیں آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں موسم کی نسبت سے پہناوے پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے جیسے حال ہی میں جنوبی امریکا کے ملک چلی میں توانائی کے بحران اور گرمی سے بچنے کیلئے دفاتر میں ٹائی نہ لگانے کے احکامات جاری کئے گئے۔

ماحُولیاتی آلودگی اور سمٹتے جنگلات

انسان سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے جسے گرین ہائوس گیس کہا جاتا ہے اور یہ گیس زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ جتنی زیادہ کاربن ہوگی زمین کا درجہ حرارت بھی اتنا ہی بڑھے گا۔ سورج کی شعاعوں کو زمین سے ٹکرانے کے بعد واپس لوٹنا ہوتا ہے لیکن فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ان شعاعوں کو واپس نہیں جانے دیتی اور نتیجتاً زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی کا سب سے آسان اور قدرتی حل درخت ہیں لیکن افسوس اس معاملہ میں بھی ہماری روایتی غفلت اور چور بازاری کی سوچ نے ملکی جنگلات کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگلات کے لحاظ سے دنیا کے 220 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر110واں ہے۔ کسی بھی ملک کے کُل رقبہ میں سے25فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔

پاکستان میں 18ہزار 164مربع کلومیٹر پر جنگلات واقع ہیں جو کل رقبہ کا صرف2.28 فیصد بنتا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے وقت یہ رقبہ 4.75 فیصد حصہ پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں میں گرین ہائوس گیسز ہوتی ہیں جو گرمی کی حدت کو بڑھاتی ہیں۔ اس ضمن میں ترجمان محکمہ ماحولیات نسیم الرحمان شاہ نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ دھویں کے ذریعے فضائی آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ موٹرسائیکل رکشہ کا ہے۔ یہ رکشے ٹو سٹروک ہوتے ہیں۔ ہم رکشائوں کے خاتمہ کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں 4سٹروک کیا جائے تا کہ فضائی آلودگی میں کمی آسکے۔ اسی طرح لاہور جیسے بڑے شہر کے شمالی حصہ میں قائم 3 سو فیکٹریوں کا دھواں فضائی آلودگی اور گرمی کی حدت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان فیکٹریوں میں سے صرف 25 میں دھویں کو کنٹرول کرنے کا سسٹم موجود ہے جبکہ باقی تمام قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ ان تمام کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور 150فیکٹریوں کے خلاف تو کیس بنا کر ٹریبونل کو بھی بھجوا دیئے گئے ہیں۔

جدید ایجادات

دور جدید کی ایجادات نے بلاشبہ انسانی زندگی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان ایجادات کے مضر اثرات سے بھی نظر نہیں چرائی جا سکتی۔کمپیوٹر، موبائل، ٹی وی، اے سی، جنریٹر اورNFC(Near Field Communication) دور جدید کی وہ ایجادات ہیں جن کے فوائد سے انکار نہیں مگر ان کے استعمال سے گرمی کی شدت میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اے سی کمرے کو اندر سے ٹھنڈا کر رہا ہے لیکن باہر موجود اس کا کمپریسر درجہ حرارت بڑھا رہا ہے۔ اسی طرح جنریٹر کا شور اور دھواں بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ این ایف سی میں انفراریڈ، بلیوٹوتھ، وائے فائے، موبائل ٹاور سگنل وغیرہ آتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیدا ہونے اور سفر کرنے والی برقی لہریں نہ صرف فضا کا درجہ بڑھا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ سے کچھ بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل انٹرنیٹ پر میں نے ایک وڈیو دیکھی تو حیران رہ گیا۔ وڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک شخص اپنی گاڑی سے تیل نکال کر انفراریڈ آن کر کے اس کے قریب بیٹھ جاتا ہے، تقریباً 20 منٹ بعد انفراریڈ کی برقی لہر سے اس تیل میں آگ لگ گئی۔

بے ہنگم ٹریفک اور سگنلز

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران بیرون ملک سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی موسم کو ناخوشگوار بنا رہا ہے۔ ملک بھر میں چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ صرف لاہور شہر میں دوڑتی 32 لاکھ وہیکلز ہماری ماحول دشمن پالیسی کا واضح ثبوت ہیں۔ ان میں 2لاکھ سے زائد موٹرسائیکل اور رکشے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ سگنل پر رُکی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے یک لخت درجہ حرارت میں 5 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر لاہور کا درجہ 42 سینٹی گریڈ ہے تو سگنل پر رُکی گاڑیوں کے انجن چلنے اور دھویں سے پارہ 47 سینٹی گریڈ پر پہنچ جاتا ہے۔ بے ہنگم ٹریفک اور گاڑیوں کی بہتات کے ذمہ دار صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکمران بھی ہیں جو ٹریفک کا بہائو بہتر بنانے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ کثیر تعداد میں گاڑیوں کی خرید و فروخت جیسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں چیف انجینئر ٹیپا محمد سعید اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان یا لاہور میں اُس وقت تک ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جب تک شہریوں کو گاڑی چلانے کا خود شعور نہیں آجاتا۔ جتنی مرضی سڑکیں چوڑی کر لی جائیں یا دنیا کا کوئی بھی نظام نافذ کردیا جائے، یہاں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے گاڑی، رکشہ اور موٹرسائیکل والے کو اپنی لائن کا خیال کرنا پڑے گا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرے کو میں نے اس کا حق دینا ہے۔ گاڑیوں کو مقررہ رفتار پر دوڑایا جائے۔ ٹریفک رواں رہے گی تو گرم موسم میں شدت پیدا کرنے والی وجوہات میں بھی کمی آئے گی۔

عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں تغیّراتی تبدیلیاں رونما ہونے کے ساتھ گرمی کی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا میں گزشتہ برس گرمی کا ایک نیا ریکارڈ اس وقت قائم ہوا جب وہاں پہلی بار درجہ حرارت51 سینٹی گریڈ پر چلا گیا۔ لیکن ان حقائق سے قطع نظر قابل غور امر یہ ہے کہ مقامی سطح پر گرمی کی شدت میں کمی کیسے لائی جا سکتی ہے؟ بصورت دیگر گرمی کی وجہ سے ہلاکتوں اور معیشت کی تباہی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ اور جب درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشئر ضرورت سے زیادہ پگھل جائیں گے تو پاکستان جیسے زرعی ملک کو نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سادہ طرز زندگی، جنگلات میں اضافہ اور آبادی پر کنٹرول ایسے اہم عوامل ہیں جو گرمی کی شدت میں کمی کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

گرمی کی حدت اور اس کے نقصانات سے بچنے کے چند آسان طریقے

٭ گھر سے خالی پیٹ ہرگز نہ نکلیں کیوں کہ اس طرح لو لگنے کا خطرہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہو سکے تو دہی کی لسی کو اپنے ناشتے کا حصہ ضرور بنائیں، دوپہر کے کھانے میں چپاتی اور شوربے والے سالن کا استعمال لازمی کریں۔

٭ مناسب سوتی لباس زیب تن کیا جائے۔گرمیوں میں سفید رنگ موزوں ہوتا ہے۔ سر اور گردن کو ڈھانپ کررکھیں جبکہ لو کے موسم میں باریک کپڑے نہ پہنے جائیں۔

٭ رنگ دار چشمہ ضرور استعمال کریں، یہ گرمی کی شدت سے ہی نہیں بلکہ آنکھوں کو بھی محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

٭ صبح و شام نہانے کے علاوہ پانی اور نمک کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے۔

٭ کسی دوسری جگہ نقل مکانی کی صورت میں آب و ہوا سے موافقت پیدا کرنے کا دورانیہ آہستہ آہستہ بڑھایا جائے۔

٭ گوشت‘ چکنائی اور گرم سبزیوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔

٭ تربوز‘ آلوبخارا، فالسہ جیسے پھل اور سردائی‘ لسی‘ ستو، سکنجبین جیسے مشروبات کا استعمال باقاعدگی سے کیا جائے۔

٭ پیاز جیب میں رکھنا آپ کے لئے لو سے محفوظ رہنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے،کھانے میں پیاز کے سلاد کا اہتمام کرنا بھی لو کے اثرات سے بچاتا ہے۔

٭گرمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اگر آپ کو جھنجھلاہٹ ہو تو زبان سے برے الفاظ نکالنے اور کسی کو کوسنے یا چیخنے سے پوری طرح پرہیز کریں۔ غصے میں آکر اپنے اوپر پانی نہ انڈیلیں بلکہ صرف وضو کرلیں۔

٭ اول رات کے وقت نہانے سے پرہیز کریں اور اگر نہائیں تو پھر اے سی یا پنکھے کے نیچے بالکل نہ سوئیں کیوں کہ اس سے فالج اور لقوے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔


جیسے محل الف لیلہ کے

$
0
0

انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت مناسب رہائش ہے۔

حضرت آدم کے زمانے سے لے کر آج تک انسان سر چھپانے کے لیے مختلف انداز کی رہایش گاہیں بناتا رہا ہے۔ بیشتر رہائش گاہیں جغرافیائی ماحول اور انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئی تخلیق کی جاتی ہیں۔ اگرچہ گھروں کی تخلیق میں چار دیواری اور چھت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، تاہم پیسے کی فراوانی بعض مرتبہ ایسی رہائش گاہوں کی شکل میں سامنے آتی ہے، جن کی مالیت چھوٹے شہر یا قصبوں کے برابر ہوتی ہے، ان میں کچھ گھر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تاریخی حوالوں کے باعث بیش قیمت ہوجاتے ہیں۔ بعض رہائش گاہیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی ایسے مقام پر واقع ہوتی ہیں جہاں کے نظارے ان رہائش گاہوں کی قیمت کو پہاڑوں کی سی بلندی تک لے جاتے ہیں اور بعض رہائش گاہیں۔ اپنے طرز تعمیر اور سامان تعیش کی وجہ سے بیش قدر قرار پاتی ہیں دنیا کے امیر ترین اور قیمتی رہائش گاہوں کے شوقین افراد کو اپنی جانب کھینچنے والی یہ قطعہ اراضی کہاں کہاں واقع ہیں اور کیوں اس قدربیش قیمت ہیں، آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

انتیلا ممبئی ( Antilla)

قیمت ایک بلین امریکی ڈالر

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے شہر ممبئی جیسے گنجان آباد شہر میں قائم یہ عمارت دنیا کی مہنگی ترین رہائش گاہ تسلیم کی جاتی ہے جس کی مالیت ایک بلین امریکی ڈالر کے مساوی ہے جو پاکستان کے ایک ارب روپے کے برابر بنتی ہے۔ اس ستائیس منزلہ عمارت کا زمینی رقبہ40ہزار مربع فٹ ہے۔ عمارت کے مالک مشہور زمانہ بھارتی تجارتی پیٹروکیمیکل کمپنی ’’رئیلائنس انڈسٹریز لیمیٹڈ‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو اور گذشتہ چھے برس سے انڈیا کے امیر ترین شخص کے رتبے پر فائز56سالہ تاجر ’’مکیش امبانی‘‘ ہیں۔

دور سے ہی نظر آنے والی اس عمارت کے گنجان علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے عمارت کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ مکمل عمارت میں اندرونی طور پر چار لاکھ مربع فٹ کی گنجائش ہے، جس میں بیک وقت اور بہ آسانی کثیر تعداد میں افراد سما سکتے ہیں۔ عمارت کی اونچائی 570فٹ ہے۔ یاد رہے کہ انڈین پریمئیر لیگ میں ’’ممبئی انڈینز کرکٹ ٹیم‘‘ کے مشترکہ مالک مکیش امبانی کی ایک وجہ شہرت ان کے پاس بھانت بھانت کی بیش قیمت اور منفرد گاڑیوں کی موجودگی بھی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مکیش امبانی کے کاروں کے بیڑے میں 170گاڑیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمارت میں چھے منزلیں صرف گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مختص ہیں۔ منفرد انداز میں تعمیر کی گئی اس عمارت کی ایک اور خاص بات اس کی ہر منزل پر جدید قسم کے جمنازیم کی موجودگی بھی ہے۔ عمارت کے انتظامی اور حفاظتی معاملات چلانے کے لیے 600 ملازمین ہر وقت عمارت میں موجود رہتے ہیں۔

ڈریکولا قلعہ (Dracula Castle)

مالیت 135ملین امریکی ڈالر

رومانیہ میں واقع یہ قلعہ نما رہائش گاہ ڈومنکن ریاست کے نواب Anton Victorکی ملکیت ہے، جو ان کے 1987میں انتقال کے بعد ان کے ورثا کے پاس آچکی ہے۔ رومانیہ میں جس مقام پر یہ قلعہ واقع ہے۔ مقامی افسانوی کہانیوں کے مطابق یہ علاقہ خون آشام درندے ’’ڈریکولا‘‘ کا مسکن رہا ہے، چناںچہ پہاڑی جنگلات میں گھرے ہوئے اس قلعے نما رہائش گاہ کو اسی نسبت سے ’’ ڈریکولا قلعہ‘‘ کہا جانے لگا۔ حالاں کہ قلعے کے مکینوں نے قلعے کا نام محل وقوع کی نسبت سےBran Castle رکھا تھا۔ 1980کی دہائی میں عجائب گھر کے طور پر مختص کیے جانے والے اس قلعے کو اب مکمل طور پر رہائش گاہ کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں 57کمرے17خواب گاہیں اور نادر اور نایاب فرنیچر شامل ہے۔

اپ ڈائون کورٹ ، انگلینڈ (Updown Court)

مالیت139ملین امریکی ڈالر

برطانیہ کی سرے کائونٹی کے دیہی علاقے ’’ونڈلیشام‘‘ میں واقع یہ رہائش گاہ 103وسیع و عریض کمروں پر مشتمل ہے، جب کہ عمارت کا مکمل رقبہ58ایکڑ ہے۔ 2006 میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی یہ رہائش گاہ پانچ سوئمنگ پولز، اسکوائش کورٹ، فلڈ لائٹ ٹینس کورٹ، تین سو بوتلوں کا بارروم، پچاس نشستوں والا سینما، 80بڑی گاڑیوں کے لیے زیرزمین گیراج اور پارکنگ سے آراستہ ہے، جب کہ مرکزی عمارت کے اطراف میں وسیع باغات اور منفرد انداز کا جنگل بھی تخلیق کیا گیا ہے۔ عمارت کے موجودہ مالک ستر سالہ Leslie Allen-Vercoeہیں، جو پیشے کے اعتبار سے جائیداد کی خرید وفروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

دی پینٹ ہائوس ، لندن (The Penthouse London)

200ملین امریکی ڈالر

فلیٹوں کے حوالے سے دنیا کا سب سے بیش قیمت قرار دیا جانے والا یہ پینٹ ہائوس لند ن کے علاقے ہائیڈ پارک میں واقع ہے۔ فلیٹ کے بیش قدر ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلیٹ کی فی مربع فٹ قیمت چھے ہزار برطانوی پائونڈ ہے برطانیہ کی اسپیشل ایلیٹ فورس(SAS) یونٹ کے سابق کمانڈوز کی زیرنگرانی انتہائی جدید سیکیوریٹی کے نظام سے آراستہ اس پینٹ ہائوس میں کھڑکیوں کے بلٹ پروف شیشوں کے علاوہ ایک سرنگ نما راہ راستہ بھی ہے، جو اس پینٹ ہائوس کو قریب میں واقع ’’مینڈرن اورینٹل ہوٹل‘‘ سے ملاتی ہے۔ ہوٹل اپنے ملازمین کے ذریعے چوبیس گھنٹے پینٹ ہائوس کے لیے خدمات فراہم کرتا ہے۔ ہائیڈ پارک سے متصل Serpentine جھیل کے دل فریب نظار ے پینٹ پائوس کے باسیوں کو شہر میں رہائش کے باوجود فرحت بخش ماحول فراہم کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پینٹ ہائوس کے مالکان کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم برطانوی اخبار لندن ٹیلی گراف کے مطابق قطر کے حکم راں خاندان کے افراد اس بلند و بالا عمارت کے ٹاپ پر دو منزلوں کی صورت میں تعمیر کیے گئے چھے بیڈ روم پر مشتمل پینٹ ہائوس کے مالکان میں شامل ہیں۔

وِلا لیو پولاڈ (Villa Leoplde)

506ملین امریکی ڈالر

فرانس کی جنوب مشرقی ساحلی پٹی پُرفضا مقام French Rivieraسے متصل یہ وِلا 29ہزار مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے، جو اپنے تیراکی کے وسیع تالاب اور باغوں کے باعث بھی شہرت رکھتا ہے چاروں جانب درختوں سے گھرے اس وِلا میں وسیع و عریض گیارہ خواب گاہیں اور چودہ باتھ روم ہیں۔ وِلا کو اپنے محل وقوع کے باعث ساحل سمندر کے کنارے دنیا بھر میں خوب صورت ترین رہائش گاہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر وِلا کی تعمیر 1865سے1909تک بیلجیم کے بادشاہ کے منصب پر فائز رہنے والے ’’کنگ لیوپولاڈدوئم‘‘ کے لیے کثیر رقم خرچ کرکے تعمیر کی گئی تھی جوان کے انتقال کے بعد ایک عرصے تک ویران پڑا رہا۔ تاہم بعدازاں لبنان سے تعلق رکھنے والے ارب پتی یہودی تاجر اور بینکر Edmund J. Safraنے وِلا کو خرید کر اپنی رہائش گاہ بنا لیا ’’ایڈمنڈ یعقوب صفرا‘‘ کی اسی وِلا میں پراسرار حالت میں آگ سے دم گھٹنے کے باعث موت واقع ہوئی تھی۔ اس وقت اس پُرتعیش رہائش گاہ میں ایڈمنڈ صفرا کی بیوہ ’’للی صفرا‘‘ رہائش پذیر ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ للی سفرا نے یہ وِلا مشہور امریکی ادارے مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس، اطالوی سیاست داں گیننی اگنیلی یا غالباً ایک روسی ارب پتی تاجر Mikhail Prokhorov میں سے کسی ایک کو فروخت کردیا ہے۔ تاہم نہ تو ڈیل کی تصدیق ہوسکی ہے اور نہ ہی ڈیل میں حاصل کی گئی وِلا کی قیمت ظاہر کی گئی ہے۔

فیئر فیلڈ پونڈ (Fairfield Pond)

170ملین امریکی ڈالر

نیویارک میں واقع سمندری علاقہHamptons کئی خوب صورت دیہی خطوں پر مشتمل ہے۔ بحیرۂ اوقیانوس کی خوب صورت مگر پُرسکون ساحلی پٹی کے ساتھ یہاں پر کئی اہم تفریحی مقامات ہیں، جن میں ’’فیئر فیلڈ پونڈ‘‘ کے نام سے معروف ایک رہائش گاہ بھی ہے، جو اپنی قیمت کے باعث دنیا بھر میں اہمیت رکھتی ہے۔ وسیع وعریض رقبے پر مشتمل یہ عمارت بظاہر ہوٹل دکھائی دیتی ہے، تاہم یہ مکمل طور پر ذاتی رہائش گاہ ہے۔ 63ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس رہائش گاہ کے مکین 80سالہ امریکی تاجر اور انویسٹرIra Leon Rennert اور ان کا خاندان ہے۔ اپنے وسیع رقبے کے باعث فئیر فیلڈ پونڈ پورے امریکا میں سب سے بڑی ذاتی رہائش گاہ تسلیم کی جاتی ہے۔ اس سر سبز و شاداب چھوٹی سی ریاست میں اطالوی طرز تعمیر سے مزین 29کشادہ خواب گاہیں، 39پرتعیش باتھ رومز، پانچ ٹینس کورٹ، باسکٹ بال کورٹ، اسکوائش کورٹ، 91فٹ طویل کھانے کا کمرہ اور ڈیڑھ لاکھ ڈالر مالیت کے گرم پانی کے غسل کے منفرد ’’ ٹب‘‘ ہیں۔

 ہیرسٹ مینشن، بیورلے ہلز امریکا (Hearst Mansion)

165ملین امریکی ڈالر

امریکی صحافت کے کاروبار سے منسلک مایہ ناز پبلشر اور تاجر William Randolph Hears کی سابقہ رہائش گاہ ’’ہیرسٹ مینشن‘‘ کا شمار بھی قیمتی اراضی میں ہوتا ہے، انہوں نے یہ رہائش گاہ 1947میں خریدی تھی۔ اس وقت ا س رہائش گاہ کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر تھی بیورلے ہلز میں واقع چھے ہیکڑ پر پھیلی اس رہائش گاہ میں چار گھر، ایک اپارٹمنٹ اور کاٹیج ہاؤس شامل ہے۔ ان تمام رہائشی جگہوں پر مجموعی طور پر 29 خواب گاہیں، تین سوئمنگ پول، ٹینس کورٹ ، نائٹ کلب، سینما تھیٹر ، ڈسکو فلور اور دیگر پرتعیش لوازمات موجود ہیں ہیرسٹ مینشن کی ایک خاص بات 1953میں اس مینشن کو جان ایف کینڈی اور جیکولین کینڈی کا شادی کے بعد ہنی مون کے لئے منتخب کرنا تھا ا ہنی مون کے دوران دونوں نے شادی شدہ جوڑے کی حیثیت سے اپنی اولین فلم ہیرسٹ مینشن کے مووی تھیٹر میں ہی دیکھی تھی۔ ہیرسٹ مینشن میں مشہور زمانہ فلم ’’دی گاڈفاردر‘‘ کی فلم بندی بھی کی گئی ہے انگریزی کے حرف ’’ H‘‘شکل میں ڈیزائن کی گئی اس عمارت کے موجود ہ مالک مشہور قانون داں اور انویسٹر Leonard Rossہیں، جنہوں نے یہ رہائش گاہ 1976میں خریدی تھی، اگر آپ یہ رہائش گاہ خریدنے کی سکت رکھتے ہیں تو مشہور زمانہ آن لائن کاروباری ادارے Amazon.com, Incکے چیف ا یگزیکٹیو جیف بیزوس، مشہور اداکار ٹام کروز اور ادا کارہ کیٹی ہومز اور فٹ بال کے شہرۂ آفاق کھلاڑی ڈیوڈ بیکہم اور ان کی بیوی وکٹوریا بیکہم آپ کے پڑوسی ہو ں گے۔

دی مانر ، لاس اینجلس(The Manor, Los Angeles)

مالیت 150ملین امریکی ڈالر

1991میں منفرد فرانسیسی طرز تعمیرChateauاسٹائل سے متاثر ہوکر تخلیق کی گئی اس رہائش گاہ کے123 کمروں کا رقبہ 56ہزار مربع فٹ پر محیط ہے، جب کہ پوری عمارت 4.6ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے لاس اینجلس میں ذاتی رہائش گاہ کے حوالے سے سب سے بڑی رہائش گاہ کا اعزاز رکھنے والی اس عمارت کے اولین مکین امریکی فلم اور ٹی وی پروڈیوسرAaron Spelling تھے۔ ’’ایرون اسپیلنگ‘‘ کی وفات کے بعد2011میں ’’دی مانر مینشن‘‘ فارمولا ون کار ریس گروپ کے صدر اور چیف ایگزیکٹیوBernie Ecclestoneکی تئیس سالہ بیٹی Petra Ecclestoneنے خرید لی تھی اور وہی اس وقت اس رہائش گاہ کی مالک ہیں۔

یہ عمارت اپنی پُرتعیش پارٹیوں اور سرگرمیوں کے باعث منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس دو منزلہ عمارت میں سنیما تھیٹر، ٹینس کورٹ، سوئمنگ پول، جمنازیم، معدنی پانی کے فوارے، بیوٹی پارلر، جمنازیم اور سو گاڑیوں کی گنجائش والی کار پارکنگ موجود ہے، جب کہ اٹھارویں صدی کے انداز کے سے بنے وسیع باغات بھی اپنے امیر و کبیر مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

فران چک ولا، کینسنگٹن(Franchuk Villa Kensington)

مالیت 161ملین امریکی ڈالر

وکٹورین طرز تعمیر پر مشتمل یہ وِلا وسطی لندن کے علاقے ’’بیلگرا ویا‘‘ میں واقع ہے۔ چھے منزلوں پر مشتمل اس رہائش گاہ کی ہر منزل بیس فٹ اونچی ہے، جب کہ مجموعی طور پر کمروں میں رہائش کی گنجائش21ہزار مربع فٹ ہے۔ اس کے علاوہ عمارت کے بیسمینٹ میں سوئمنگ پول، جمنازیم، ہوم تھیٹر، گیراج اور نیوز روم بھی موجود ہیں۔ وِلا کے موجودہ مالک لبنان سے تعلق رکھنے والے مشہور اسٹیٹ اور پراپرٹی ڈیلر کمپنی Realtor.comکے مالک موسی سلیم ہیں انہوں نے یہ رہائش گاہ پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک مشہور برطانوی کمپنی The Grosvenor Estateسے خریدی تھی۔ اس سے قبل یہ رہائش گاہ یوکرائن کے دوسرے صدرLeonid Kuchma کی بیٹی Elena Franchukکی ملکیت تھی، جو انہوں نے 2008میں خریدی تھی اور عمارت آج بھی ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ ’’الینا فران چک ‘‘ کا موجودہ نام ’’اولیگرچ وکٹر پن چک‘‘ سے شادی کے بعد ’’الینا پن چک‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے، جو اس سے قبل ان کے سابق شوہر Igor Franchuk کی نسبت سے ’’الینا فران چک ‘‘ تھا۔   n

دی پینی کل ، مونٹانا (The Pinnacle Montana)

مالیت155ملین امریکی ڈالر

امریکی ریاست مونٹانا کے سرد پہاڑی مقام پر واقع یہ عمارت رہائشی کلب ’’Yellowstone Club‘‘ کے اراکین کی رہائشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ برفانی گھاٹیوں میں گھرے اس اسکائی ریزورٹ کے رہائیشیوں کی ذاتی چئیرلفٹ بھی ہے، جو گھر کے مکینوں کو قرب و جوار میں واقع دیگر رہائشی مقامات تک رسائی دیتی ہے۔ اگرچہ عمارت محض دس کمروں پر مشتمل ہے مگر انتہائی دوردراز اور سرد مقام پر جدید ہیٹنگ سسٹم کی موجودگی نے عمارت کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔ اس کے علاوہ نیم گرم پانی سے بھرا ہوا تیراکی کا تالاب، جمنازیم اور مساج روم بھی رہائش گاہ کے مکینوں کے لیے میسر ہیں۔ برفانی پہاڑی چوٹیوں کی مناسبت سے معروف ’’دی پینی کل، مونٹانا‘‘ رہائش گاہ کے مالک امریکا سے تعلق رکھنے والے ارب پتی تاجر Tim Blixseth ہیں۔ 63 سالہ ’’ٹم بلکستھ‘‘ جائیداد کی خرید وفروخت کے ڈیولپر، عمارتی لکڑی کے تاجر اور سانگ ریکاڈر کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔

تنازعات میں جکڑی آئی پی ایل

$
0
0

تنازعات میں جکڑی انڈین پریمئیر لیگ کا چھٹا سیزن بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔

بھارت میں جاری اس میگا ایونٹ میں ممبئی انڈینز کے ہاتھوں چنائے سُپر کنگ کو شکست ہو چکی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ٹورنامنٹ کے اختتام کے ساتھ ہی اُس طوفان کی شدت میں بھی تھوڑی بہت کمی واقع ہوگی، جس نے گذشتہ کئی روز سے بھارت سمیت دنیا بھر کے کرکٹ کے حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بھارت کے نام ور بولر شری شانت سمیت تین کھلاڑیوں کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ کا تنازعہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پے در پے گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور پولیس کے مطابق مزید کھلاڑیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آسکتی ہیں۔ شائقین کرکٹ اس تمام تر صورت حال سے انتہائی دل برداشتہ ہیں اور حکومت اور کرکٹ کے اعلیٰ حکام سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کب یہ مقبول کھیل دھن دھونس اور سَٹے جیسی خرافات سے پاک ہوگا اور اُنہیں معیاری کرکٹ دیکھنے کو ملے گی؟

آئی پی ایل سیزن سکس میں پیش آنے والا یہ افسوس ناک واقعہ کرکٹ کی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی کئی نام ور کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ جیسے قبیح تنازعات میں جکڑے نظر آئے ہیں، جن میں آسٹریلیا کے مارک واہ، شین وارن، جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونئیے، بھارت کے اظہر الدین، اجے شرما، اجے جڈیجا اور ویسٹ انڈیز کے مارلن سیموئلز جیسے نام شامل ہیں۔

پاکستانیوں کے لیے اسپاٹ فکسنگ کی اصطلاح غیرمعروف نہیں۔ یہ ایک ایسا غیرقانونی عمل ہے جس میں سٹے باز اور کھلاڑی کھیل کے کچھ حصوں کو میچ شروع ہونے سے پہلے ہی فکس کر لیتے ہیں۔ پھر ان پر جوا کھیلا جاتا ہے اور یوں بُکیز کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی جیبیں بھی گرم ہوتی ہیں۔ 2010ء میں دورۂ برطانیہ کے موقع پر انگلینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کے دو بولرز محمد آصف اور محمد عامر کے علاوہ کپتان سلمان بٹ نہ صرف اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کی زد میں آئے بلکہ جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا کھیل جس نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھارت نے خوب نام کمایا۔ وہ کھیل جو 2010ء، یعنی اپنی شروعات کے صرف تین سال بعد نہ صرف یوٹیوپ پر پہلا براہ راست اسپورٹنگ ایونٹ بن گیا بلکہ پانچویں سیزن میں اس کی برانڈ ویلیو 2.99 ارب ڈالر تک جاپہنچی اور جس کا مستقبل مزید روشن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن آج یہ اپنے چھٹے سیزن میں اتنا متنازعہ کیوں ہوگیا کہ نہ صرف اس کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں بلکہ اس کی بندش کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ ممکن ہے اس مطالبے میں شدت بڑی دیر بعد آئی ہو لیکن کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے پہلے دن ہی سے آئی پی ایل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے تھے۔

2008ء میں جب آئی پی ایل کی شروعات ہوئی تو جہاں ایک طرف پیسے کی رمق دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھارت کھینچ لائی تو دوسری طرف بولی وڈ کا گلیمر بھی فلم بینوں کو سنیما سے کرکٹ اسٹیڈیم لے آیا۔ بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور فلمی ستارے میدان میں اُترے۔ کھلاڑیوں کی بولیاں لگنے لگیں اور یوں اس کھیل میں سرمائے کا عنصر غالب آنے لگا۔ یعنی جس کے پاس جتنا سرمایہ اُس کی ٹیم اُتنی ہی مضبوط۔ ایک طرف نوجوان کھلاڑی کروڑوں میں کھیلنے لگے تو دوسری طرف کرکٹ میں تیزی، چھکے چوکوں کی بھرمار اور سنسنی خیر مقابلوں نے سٹے بازوں کو بھی ایک نئی منڈی فراہم کی اور یوں انڈر ورلڈ کے کئی دیوتا بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں انڈیا میں کرکٹ میچز کے دوران 427 ملین ڈالر کی سٹے بازی کی گئی۔ گذشتہ برس سیزن فائیو میں بھی بھارت کے پانچ کھلاڑی موہنیش مِشرا، شالابھ سری واستو، ٹی پی سودھندرا، ہرمیت سنگھ اور ابھینو بالی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈلز کی زد میں آئے اور انہیں معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔

آئی پی ایل میں اسپاٹ فکسنگ کا حالیہ آتش فشاں اُس وقت پھٹا جب دہلی پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ رواں برس اپریل سے کھلاڑیوں کی نگرانی اور ان کے ٹیلیفون کالز ٹیپ کر رہی تھی، کیوں کہ پولیس کو یہ شک تھا کہ کچھ کھلاڑیوں کے انڈر ورلڈ کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ پولیس کی یہ تفتیش جاری تھی کہ اس دوران اسپاٹ فکسنگ کا اسکینڈل سامنے آیا۔ جن کھلاڑیوں پر الزام عاید کیا گیا ہے اُن تینوں کا تعلق بھارتی اداکارہ شلپا سیٹھی کی ٹیم راجستھان رائلز سے ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق گذشتہ بدھ یعنی 15مئی کو ممبئی میں کھیلے گئے راجستھان رائلز اور ممبئی انڈینز، 5 مئی کو جے پور میں ہونے والے راجستھان رائلز اور پونے واریئررز، اور 9 مئی کو موہالی میں ہونے والے راجستھان رائلز اور کنگز الیون پنجاب کی ٹیموں کے درمیان میچوں میں اسپاٹ فکسنگ کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق سٹّے بازوں اور کھلاڑیوں کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا جاتا تھا کہ ہر اوور میں کتنے رنز دینے ہیں۔ پولیس کے مطابق کھلاڑیوں یعنی بولرز کو اشارہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ رنز دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان اشاروں میں پینٹ کی جیب میں تولیہ ڈالنا، ٹی شرٹ کو بار بار چھونا، آسمان کی طرف دیکھنا، وغیرہ شامل تھا۔

اسکینڈل منظر عام پر آتے ہی راجستھان رائلز کی ٹیم اور بھارتی کرکٹ بورڈ ان تینوں کھلاڑیوں کے معاہدے منسوخ کردیے اور راجستھان رائلز کے مطابق ان تینوں کھلاڑیوں کے خلاف دہلی پولیس کے پاس بھی معاملے کی شکایت درج کرائی گئی ہے۔

سری سانت جو اب تک 27 ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں کو مبینہ طور پر بکیوں کی جانب سے 40 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ مخالف ٹیم کو 14 رنز دلوائے گا۔ سری سانت، پیر کے روز نئی دہلی کی ایک عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے وکیل کی جانب سے جاری بیان میں اُس نے اپنے اوپر عاید تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ :’’میں کبھی بھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث نہیں رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ اس کھیل کو بھرپور اسپرٹ سے کھیلا ہے۔‘‘

دہلی پولیس نے اس کیس میں تفتیش کا دائرہ کافی وسیع کردیا ہے اور اب تک ان تین کھلاڑیوں کے علاوہ گیارہ بُکی اور چنئی سُپر کنگز کے ’پرنسپل‘ اور بی سی سی آئی کے صدر این شری نواسن کے داماد گروناتھ میئپن سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ علاوہ ازیں ممبئی پولیس کی کرائم برانچ نے مشہور پہلوان اور اپنے زمانے کے معروف اداکار دارا سنگھ کے بیٹے وندو دارا سنگھ کو بھی سٹے بازوں سے مبینہ تعلقات کی بنا پر گرفتار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس معاملے میں بھارتی فلم انڈسٹری سے وابستہ کسی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔

میئپن کا نام بولی وڈ کے اداکار وندو دارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق وندو دارا سنگھ نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ منی یپّن کے لیے ہی سٹا کھیلتے تھے۔ واضح رہے کہ چینئی کی ٹیم میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر این سری نواسن کا بھی شیئر ہے اور اب ان پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے مستعفی ہوجائیں۔ دریں اثناء بھارتی بورڈ کے سربراہ نے استعفیٰ تو نہیں دیا مگر معاملے کی مکمل چانچ پڑتال تک اپنے عہدے سے علیحدہ ہوگئے۔ ان کی جگہ مغربی بنگال کرکٹ بورڈ کے صدر اور بی سی سی آئی کے سابق صدر جگ موہن ڈالمیا عبوری صدر ہوں گے۔

اسپاٹ فکسنگ کے حالیہ اسکینڈل کے بعد اس کے خلاف نہ صرف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے بلکہ اہم شخصیات کی جانب سے اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ کئی دیگر سیاسی رہنمائوں کے علاوہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے آئی پی ایل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں اُنہوں نے کہا کہ آئی پی ایل کھیل نہیں بلکہ ایک تماشا ہے اور اب اس پر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا داغ بھی لگ گیا ہے۔ ان کے بقول یہ کرکٹ کے وسیع تر مفاد میں ہوگا اگر اس ٹورنامنٹ پر پابندی عاید کر دی جائے۔ قبل ازیں بھارتی سیاسی جماعت جنتا دل کا کہنا تھا کہ آئی پی ایل کا ہر ایک سیزن اسکینڈل سے بھرا ہوتا ہے۔ پارٹی کے راہ نما شرد یادیو کے بقول اس کھیل میں ’’ انسان یعنی کھلاڑیوں کا نیلام کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول آئی پی ایل کا مقصد پہلے دن سے ہی کھیل کے فروغ کے بجائے پیسا کمانا تھا۔‘‘

بھارت کے مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر شدید دبائو آیا ہے کہ وہ اس کھیل میں بدعنوانی روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ حال ہی میں بھارتی وزیر قانون کپل سبل کی جانب سے کھیلوں میں بے ایمانی روکنے کے لیے نئے قانون کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اُنہوں نے کہا کہ اس قانون کے دائرے میں صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دوسرے کھیل بھی آئیں گے۔ کپل سبل نے بتایا کہ حزب اختلاف اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہے۔

بھارتی حکومت اور انڈین کرکٹ بورڈ اس وقت جس منجدھار میں پھنسے ہوئے ہیں اُس سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ کرکٹ جیسے مقبول کھیل کی ساکھ بحال کی جائے۔ اس کھیل سے سرمائے کی عفریت کو خارج کیا جائے اور کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی بھی مرتبے پر فائز ہو، سپاٹ فکسنگ یا اس طرح کی کسی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو اُس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت پہلے ہی اس سلسلے میں قانون سازی ہوجاتی۔ ماضی میں اگر کسی ایک مجرم کو بھی قرار واقعی سزا ملی ہوتی تو شاید آج بھارت کرکٹ بورڈ کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔

خیر! دیر آید درست آید کی مصداق بھارت حکومت اس سے سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کرے اور بجائے اس کے کہ آئی پی ایل پر مکمل پابندی عاید کی جائے، اس میں اصلاحات کی جائے۔ یہ بھی دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی بھارت کے کچھ حلقے اپنے کھلاڑیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال بھارتی پولیس کی جانب سے یہ بیان ہے جس میں اُس کا کہنا ہے کہ، ’’بھارت میں سٹے بازی کی کڑیاں پاکستان سے ملتی ہیں اور اسپاٹ فکسنگ ریٹ پاکستان سے کنٹرول ہوتا ہے جس میں انڈر ورلڈ کے بعض لوگ ملوث ہیں جو پاکستان سے اسے آپریٹ کر رہے ہیں۔‘‘

یہ بیان انتہائی غیرذمے دارانہ اور بھارتی عوام کے غصے سے خود کو بچانے کی کوشش ہے۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے جب بھارتی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔

ایسے من گھڑت الزامات لگا کر بھارت دنیا کے سامنے خود کو معصوم ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر بھارتی کھلاڑی اس قبیح فعل میں ملوث ہیں تو اس کی مکمل اور غیرجانب دارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ ماضی میں پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف جس طرح بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اُٹھا تھا آج اپنے ملک کے کھلاڑیوں کے خلاف بھی اُسے ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ جُرم جُرم ہوتا ہے اور مجرم کو اُسے کے کیے کی سزا ملنی چاہیے نہ کہ کسی ایک فرد کے کیے کی سزا پوری قوم کو دی جائے۔ جس طرح ماضی میں پاکستانی کھلاڑیوں کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑا اگر دیگر ممالک بھی اپنے کھلاڑیوں کے خلاف قانون اور انصاف کے یہی پیمانے مقرر کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کھیل کو غیرقانونی سرگرمیوں سے پاک نہ کیا جاسکے۔

آج اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا اور ہمیشہ کی طرح اپنے جرائم کا بار دوسروں پر ڈالتے رہے تو اس مجرم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ایک دن آئے گا جب عوام کا اس کھیل پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا اور برصغیر پاک وہند کے عوام اپنے پسندیدہ کھیل سے محروم ہو جائیں گے۔

موتی ۔۔۔ خوبیاں، نقائص اور شناخت

$
0
0

موتی انگریزی میں(Pearl) پرل، عربی میں لولو، سنس کرت میں موکنکم، ہندی میں موکتا اور فارسی میں مروارید کہلاتا ہے، اسے درِ دریا بھی کہا جاتا رہا ہے۔

موتی اپنی خوش رنگی اور ملائمت کے باعث بہت مقبول ہے۔ خواتین میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے، یہ بیش قیمت اور قدیمی جوہر ہے۔ ہندوستان میں موتیوں کا رواج سب سے پہلے پڑا تھا۔ ہندوؤں کی قدیم کتب میں اس کے پہننے اور اسے دیوتائوں کی نذر کرنے کے طریقے درج ہیں۔ قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی اور یونانی امراء کانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔ اڑھائی ہزار سال قبال مسیح میں مروارید خراج میں دیے جاتے تھے اور دو صدی قبل از مسیح میں لوگ ان کو اس قدر پہننے لگے کہ علمائے وقت نے اسے عیاشی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مہم چلائی۔

رومیوں میں موتی کا استعمال زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے، شاہ روم کے پاس موتیوں کا ایک بہت بڑا خزانہ تھا۔ روم کی خواتین میں مروارید اس قدر مقبول تھا کہ جو خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں وہ تہواروں پر اس کی مالائیں کرائے پر حاصل کرتی تھیں۔ موتی خشخاش کے دانے سے لے کر کبوترکے انڈے کے برابر تک ہوتا ہے۔ اس کو دیگر پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا، یہ قدرتی چمک دمک رکھتا تھا۔ اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس میں کیلشیئم کاربونیٹ ہوتا ہے اور اس کی ہارڈنس 3 ہوتی ہے۔

موتی کی پیدائش

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازئوں پر کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق صدف میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے تو کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

موتی کے مقامات پیدائش

موتی کی پیدائش کے مقامات سمندر اور دریا ہیں۔ خلیج فارس، آسٹریلیا، شمالی روس، بحیرۂ قلزم، جاپان، امریکا، فن لینڈ، سویڈن، انڈونیشیا،آبنائے قسطنطنیہ، سری لنکا اور عراق کے سمندر موتیوں کے لیے مشہور ہیں۔

سراندیپ قدیم سے مروارید کی پیدائش کے لیے مشہور ہے۔ پرتگال نے سراندیپ کو ۱۶۰۵ میں کالونی بنایا اور وہاں کے حاکم سے خراج میں موتی بٹورنے شروع کیے، اس وقت تک اس جزیرے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ موتی کی تلاش میں غوطہ زنی کیا کرتے تھے، موتی جسے ملتا اسی کی ملکیت ہوتا تھا۔ ۱۶۴۰ میں ہالینڈ نے یہ جزیرہ چھین لیا اور موتی کی برآمد کے تمام مقامات پر قبضہ کرلیا اور تقریباً دو لاکھ غوطہ زن اس کام پر متعین کر دیے۔ یہ لوگ بیس دن اپنے لیے کام کرتے اور اکیسویں دن حکومت کے لیے، غوط زنی ہرتین سال بعد ہوتی تھی۔ سراندیپ کے راجہ اور  ہالینڈ کی حکومت کے مابین کسی بات پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ۱۷۶۰ سے۱۷۹۶ تک یہاں سے مروارید نہ نکالے جا سکے، بعد میں انگریز نے جزیرے پر قبضہ کر لیا اور ۱۷۹۸ میں یہاں سے بے شمار موتی نکالے۔

موتی کے لیے غوطہ زنی کو ’’صدف گیری‘‘ بھی کہا جاتا ہے، خلیج فارس میں جزیرۂ بحرین کے متصل دنیا بھر میں سب سے زیادہ صدف گیری ہوتی ہے۔ سمندروں کے علاوہ دریائوں سے بھی موتی حاصل ہوتے ہیں جو سمندری موتی کے ہم پلہ ہی ہوتے ہیں، آئرلینڈ، روس اور فرانس کے دریا اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، برازیل، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے دریائوں میں بھی موتی پایا جاتا ہے۔

موتی کی اقسام

کاہل:۔ اس کی رنگت بہت زیادہ سفید ہوتی ہے

سرمئی:۔ اس کی رنگت ہلکی سیاہی مائل ہوتی ہے

جاوام کھاڑی:۔ اس کی رنگت سبز پتے کی مانند ہوتی ہے

میانی:۔ یہ گہرا سیاہی مائل ہوتا ہے

دودھیا:۔ دودھ کی طرح بالکل سفید رنگت

بیضوی:۔ مرغی کے انڈے جیسا

عمانی:۔ عمان کے ساحل سے ملتا ہے

بحرینہ:۔ بحرین کے نزدیک ملتے ہیں

سنگلی:۔ انڈے کی زردی جیسا رنگ

ٹٹگری:۔ اس کا رنگ نیلا ہوتا ہے

ہرمزی:۔ یہ موتی قرمزی ہوتے ہیں

صراحی:۔ اس کی شکل صراحی کی مانند ہوتی ہے

پوربی:۔ اس کو کوڑ بھی کہتے ہیں، انتہائی باریک اور گول

بیھیریں:۔ سیسے کے رنگ کا ہوتاہے

گلابی:۔ یہ موتی انتہائی نادر ہوتا ہے

پتھریں:۔ یہ سلیٹی رنگ کا ہوتا ہے

نیلمی:۔ یہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے

زرد:۔ یہ زردی مائل ہوتا ہے

سبز:۔ ہرے رنگ کا ہوتا ہے

کچیا:۔ اس کی رنگت زرد ہوتی ہے

وضع قطع کے لحاظ سے موتی کی دواقسام ہیں

بالکل گول

صراحی نما:۔ اس کو لولوء کہتے ہیں

ساخت کے لحاظ سے یہ دو طرح کا ہوتا ہے، ناسفتہ (بے سوراخ) اور سفتہ (سوراخ دار)۔

برطانوی جوہریوں کے مطابق موتی کی اقسام

گرینڈ پرل:۔ ان کو بڑی مقدار کے پیراگون کہتے ہیں

بیرکوئیز:۔ اس کی شکل بیضوی ہوتی ہے

لٹل پرل:۔ اسے چھوٹا مروارید کہتے ہیں

خورد تخم:۔ اسے خورد تخم مروارید کہتے ہیں

موتی چور:۔ یہ خشخاس کے دانوں کی مانند ہوتے ہیں

موتی کی شناخت

اصلی موتی انتہائی صاف، شفاف اور رنگوں کی حسین لہروں سے سجا ہوتا ہے۔ موتی کی شکل اکثر گول اور ناشپاتی کی طرح ہوتی ہے۔ اصلی موتی قدرتی طور پر چمک دار اور خوب صورتی میں بے مثال ہوتا ہے، نقلی کی نسبت اصلی موتی کا وزن زیادہ ہوتا ہے، اس میں سوراخ انتہائی باریک ہوتا ہے جب کہ نقلی موتی میں سوراخ زیادہ کھلا ہوتا ہے۔ اصلی موتی نمک کے تیزاب، سرکہ اور نوشادر میں  میں حل ہو جاتا ہے، اس کارنگ جسم کی بو پسینے اور دھوئیں سے خراب ہو جاتا ہے۔ موتی میں کاربونیٹ آف لائم اورکچھ وہ مادہ، جس سے صدف بنتے ہیں، یہ ہی وجہ  ہے کہ خالص موتی تھوڑی حرارت پہنچانے پر بھی کشتہ ہو جاتا ہے۔

موتی کی شناخت بڑے تجربے کا کام ہے کیوں کہ ایسے نقلی موتی مارکیٹ میں ملتے ہیں کہ بڑے بڑے تجربہ کار جوہری بھی ان کی شناخت مشکل ہی کر سکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں فرانس مصنوعی موتی بنانے میں بڑی شہرت رکھتا تھا، یہ مصنوعی موتی قدرتی اور اصلی موتیوں سے بھی چمک دمک اور آب تاب میں زیادہ ہوتے تھے۔

بعض ماہر کاری گر گلابی مرجان کاٹ کر گلابی موتی کی ہو بہ ہو نقل بنا لیتے ہیں لیکن تجربہ کار جوہری فوراً شناخت کرلیتے ہیں، اکثر لوگ پھیکے رنگ کے موتی کو سیاہ رنگ دے کر فروخت کردیتے ہیں لیکن یہ بھی ماہرین کی نظر کو دھوکا نہیں دے پاتے۔

آج کل سچے موتیوں کے نام پر لڑیاں بڑی تعداد میں فروخت کے لیے بازار میں دست یاب ہیں جو نقلی ہیں یا صدف کی تسبیحیں بھی دستیاب ہیں جنہیں لوگ بڑے ذوق وشوق سے خریدتے ہیں اوردکان دار بھی قسم کھا کر کہ یہ اصلی صدف ہے کہ کر فروخت کرتے ہیں، جب کہ حقیقت  یہ ہے کہ یہ  اصلی صدف کا خول ہوتا جو کیلشیم ہی سے بنا ہوتا ہے، یہ لوگ اس کی تراش خراش سچے موتیوں کی طرح کرتے ہیں چوں کہ وہ قدرتی ہوتا ہے اس لیے لوگ آسانی سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ بازار میں دست یاب سچے موتی بیش تر غلط ہوتے ہیں چوںکہ ان کو بہت آسانی سے پگھلایا جاسکتا ہے اس لیے  اسی صدف کے خول سے موتی تیار کرلیے جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اصل موتی بہت قیمتی ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں چوں کہ سچے موتی کی مانگ بہت زیادہ ہے اور بیش تر خواتین اسے پسند کرتی ہیں، اس لیے بہت سے عقل  مندوں نے  موتی حاصل کرنے کے لیے اصل موتیوں کی فارمنگ شروع کردی ہے، جس میں چین سرفہرست ہے۔ وہ اصل سیپ کی پوری فیملی سمندر میں ایک مخصوص جگہ چھوڑ دیتے ہیں، چوں کہ یہ تمام سیپ سمندر میں زیادہ حرکت نہیں کرتے  اور احتیاط کے طور پر  وہ ان کے گرد مخصوص دائرے میں جال بھی لگا دیتے ہیں تاکہ  سیپ اس جال سے باہر نہ نکل سکیں، پھر مصنوعی طریقے سے ان کی بریڈنگ کی جاتی ہیںاور ان کو کچھ عرصے کے لیے سمندر ہی میں پڑا رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ قدرتی ماحول میں موتی تیار کریں اور وقت آنے پر آسانی سے اس مخصوص جگہ سے نکالا جا سکے۔ یہ کاروبار بے پناہ ترقی کررہا ہے کیوں کہ اس میں ایک بار سرمایہ کاری کرنا پڑتی  ہے، اس لیے بہت سے ممالک میںاس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ اس بات کا تعین ہو جائے کہ موتی خالص ہے تو پھر اس کے عیوب کی طرف توجہ بھی دینی چاہیے کیوں کہ اگر کسی موتی میں خالص ہونے کے باوجود کوئی عیب ہوگا تو اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ ماہرین جواہرات نے موتی کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مندرجہ ذیل عیب بھی گنوائے ہیں۔

۱۔گورج: جس کے اوپر کی طرف سوراخ ہو

۲۔لہر: جس کا سوراخ انتہائی چھوٹا ہو

۳۔پھڑکن: جو چھوٹے بڑے سوراخ والا ہو

۴۔گھڑت: جس میں چمک نہ ہو کیوں کہ موتی کی قیمت شکل اور آب وتاب پر منحصر ہوتی ہے جس قدر زیادہ چمکیلا خوش رنگ اور گول ہو گا، اسی قدر زیادہ قیمتی ہوگا۔

۵۔سورج: جس کے نیچے کی طرف سوراخ ہو

۶۔کمودیہ: جس موتی کا سائز بہت بڑا ہو

موتی کی حیرت انگیز صفات

اس کو گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کو پہننے والے کی شادی کام یاب اور ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے، موتی کو استعمال کرنے والا جادو اور سحر کے اثر سے محفوظ رہتا ہے، ذہنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے،  اسقاط حمل روکنے کے لیے اسے حاملہ خاتون کی کمر پر باندھا جاتا ہے ۔

موتی کا طبی استعمال

دانتوں پر ملنے سے میل ختم ہو جاتی ہے اور دانت چمک دار ہو جاتے ہیں، مسوڑھوں سے خون آنے کو روکتا ہے، زہر کا تریاق ہے، گردے کو تقویت دیتا ہے، معتدی امراض سے بچاتا ہے، پاگل پن دور کرتا ہے، اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتا ہے، خونی پیچش میں بہترین دوا ہے، اس کا سرمہ بینائی میں تیزی اورآنکھوں میں چمک پیدا کرتا ہے،۔بواسیر اور یرقان میں انتہائی مفید ہے، منہ کی بدبو کو دور کرتا ہے، ایام کی رکاوٹ دور کرتا ہے، لیکوریا میں مفید ہے،کثرت حیض کو روکتا ہے، خسرہ اور کالی کھانسی میں بچوں کو بے حد فائدہ دیتا ہے، اس کا سفوف ملنے سے چہرے پر چمک آتی ہے، جریان، احتلام اور آتشک میں مفید ہے، خون کو صاف کرتا ہے، اسے پانی میں دھو کر بچوں کو پلانے سے دانت نکلنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

مشہور تاریخی موتی

۱۔ دنیا کا سب سے بڑا موتی’’ گوہر بے نظیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ ناشپاتی کی شکل کا ہے، اس کا وزن۱۲۶ قیراط ہے، اس بیش قیمت موتی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو ۱۶۶۰ میں کانگی بس نام کا ایک  سوداگر ہندوستان سے لایا تھا۔ اس نے جب اپنی یہ سوغات ہسپانیہ کے بادشاہ  فلپ چہارم کے سامنے رکھی تو وہ اس پر سو جان سے فدا ہوگیا تاہم اس نے پوچھا کہ یہ موتی اس نے کیسے حاصل کیا ہے تو اس نے بتایا کہ اس اِسے اپنی ساری جمع پونجی بیچ کر حاصل کیا ہے اور یہ سوچ کر شاہِ ہسپانیہ کے پاس آیا کہ یہ موتی جہاں بھر صرف شاہ ہسپانیہ ہی کے لائق ہے، اِس بات پر شاہ نے اسے سولہ لاکھ روپے میں خرید لیا، واضح رہے کہ یہ سودا ایک صدی قبل ہوا تھا۔

۲۔ اس سے پہلے ہسپانیہ کے  بادشاہ فلپ دوئم کے پاس بھی دنیا کا مشہور ترین موتی تھا، جو کبوتری کے انڈے برابر تھا، یہ پانامہ سے لایا گیاتھا، اس کا وزن ۱۳۴ گرین تھا اور قیمت ایک لاکھ روپے تھی۔

۳۔ فرانس کے بادشاہ کے پاس ایک بیش قیمت موتی تھا جس کاوزن ۱۱۱گرین تھا۔

۴۔ ایران کے شنہشاہ کے پاس ایک موتی تھا جس کی قیمت ۱۶۳۳ میں۴۰ ہزار روپے پڑی تھی۔

۵۔ مسقط کے سلطان کے پاس آج سے ایک صدی قبل انتہائی خوب صورت موتی تھا، جس کی قیمت تین لاکھ بیس ہزار روپے پڑی تھی۔

۶۔ دنیا کے مشہور تخت طائوس میں اعلیٰ قسم کے تقریباً ستائیس ہزار موتی جڑے ہوئے تھے۔

۷۔ فرانس کے شہنشاہ کنگ لوئی کے پاس ۴۸ قیراط کا لاری جنٹ نامی موتی تھا جو اسپین کے شہنشاہ فلپس دوئم کے ہاتھ لگا، یہ موتی آگ میں جل کر ضائع ہوگیاتھا۔

۸۔ شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی اپنی رسم تاج پوشی کے دن، جس تخت پر بیٹھا، اس میں۲۹۵۳۲ خالص موتی بھی جڑے ہوئے تھے۔

۹۔ ایلیزبتھ ٹیلر کے پاس ایک انتہائی بیش قیمت موتی تھا جس کا نام ایلیزبتھ ٹیلر ہی ہے، لاکٹ میں جڑا ہے، چار صدیوں تک یورپ کے شاہی خاندانوں میں رہا ہے۔

۱۰۔ ریاست اودھ کے نواب محمد علی شاہ کی بیگم ملکہ جہاں کے پاس ایک ایسی پازیب تھی جس میں اعلیٰ قسم کے صراحی دار موتی اورنگینے جڑے تھے، اسے لکھنو کے ایک ماہر نے تیار کیا تھا، اس میں خاص صفت یہ تھی کہ جب پازیب کے پھول کو کھول کر لچھے کو اوپر کھینچا جاتا تو پائو ں سے گھٹنے تک جالی دار موتیوں کی جراب کی طرح پنڈلی کے چاروں طرف لچک دار انداز میں لپٹ جاتی اور جب درمیان میں سے کیل نکال دی جائے تو خود بخود پھسل کر پائوں کی طرف پازیب بن جاتی۔ یہ پازیب بعد میں شہزادی نواب امیر جہاں بیگم کے حصے میں آئی، بعد میں یہ پازیب چوری ہوگئی۔

۱۱۔ ماسکو کے میوزیم کا ’’پلگر ینہ‘‘ نامی موتی دنیا کے بہترین موتیوں میں شمار ہوتا ہے۔

۱۲۔ فرانس کے شہنشاہوں کے تاج میں  ۲۷ قیراط کا ’’لارینی‘‘ نامی موتی جڑا تھا، یہ بھی چوری ہوگیا تھا۔

۱۳۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے پاس نایاب موتیوں کی تسبیح تھی۔

۱۴۔ نپولین کے پاس۱۸۰ گرین وزنی ایک انتہائی بیش قیمت تھا۔

۱۵۔ ڈرِزڈن کے میوزیم میں مرغی کے انڈے کے برابر موتی ہے جسے کاٹ کر چارلس دوئم  کے وقت کے ایک بہروپیے کا نقش بنایا گیا ہے۔

جان ہتھیلی پر

$
0
0

پردۂ سیمیں پر سلمان خان، اکشے کمار، سنجے دت، ریتھک روشن اور دیگر ہیروز کو اپنی جان خطرے میں ڈالتے دیکھ کر ناظرین دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں اور ان کی بہادری پر اش اش کر اٹھتے ہیں۔

فلم بینوں کی بڑی تعداد اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ جان پر کھیلنے والے ان کے پسندیدہ اداکار نہیں ہوتے بلکہ ان کے رُوپ میں دوسرے فن کار خطرناک سین فلم بند کرواتے ہیں، جنھیں ’’اسٹنٹ مین‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلم انڈسٹری میں ’’اسٹنٹ مین‘‘ کا پیشہ نیا نہیں بلکہ بولی وڈ کے جنم ہی سے یہ فن کار ہیروز کی جگہ اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہوئے آرہے ہیں۔ خطرناک اور سنسنی خیز مناظر ایکشن فلم کی جان ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ایکشن فلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ فلم سازی کے شعبے میں ہونے والی جدت کے پیش نظر فلموں میں انتہائی خطرناک مناظر دکھائے جانے لگے ہیں، اور ان تمام مناظر میں اصل ہیرو کے بجائے یہ بہادر فن کار ہی اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ ہیروز کی طرح اب بولی وڈ کی حسینائیں بھی ایکشن رول کرنے لگی ہیں۔ پُرخطر مناظر اصل ہیروئن کے بجائے ’’اسٹنٹ وومن‘‘ فلم بند کرواتی ہیں۔

2010 ء میں بہ طور ہیرو سلما ن خان کی فلم ’’دبنگ ‘‘ کی فقید المثال کام یابی نے ایکشن فلموں کو پھر سے مقبول بنادیا، نتیجتاً ’’اسٹنٹ مین‘‘ کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ تاہم فلموں کی کام یابی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ان گُم نام فن کاروں کو برائے نام معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ فلم ساز آٹھ گھنٹے کام لینے کے عوض انھیں ساڑھے تین سے آٹھ ہزار روپے تک ادا کرتے ہیں، علاوہ ازیں ان کی انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات خطرناک مناظر کی عکس بندی کے دوران اسٹنٹ مین زخمی اور شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔

ذیل کی سطور میں بولی وڈ کے صف اول کے اسٹنٹ مین اور اسٹنٹ وومن سے کی گئی بات چیت پیش کی جارہی ہے۔

٭آصف مہتا

یہ فن کار عمران ہاشمی اور منوج باجپائی کے باڈی ڈبل کے طور پر کام کرتا ہے۔ آصف سات برس سے اس خطرناک پیشے سے وابستہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے انسان کے دل میں خوف گھر کرلیتا ہے۔ اس خوف پر قابو پانے کے بارے میں آصف کہتا ہے،’’فرض کیجیے کہ آپ کو ایک شیشے کے دروازے سے ٹکرانا ہے۔ آپ بس خود کو سمجھاتے رہیے کہ دروازہ شیشے کا نہیں بلکہ تھرموکول سے بنا ہوا ہے۔ آپ اسٹنٹ بھی مکمل کرلیں گے اور جسم پر خراش تک بھی نہیں آئے گی۔ آپ کو بس ذہنی طور پر خود کو اس کے لیے تیار کرنا ہوگا۔‘‘

آصف کے والد راشد خان بھی اسٹنٹ مین تھے، مگر آصف ان کے نقش قدم پر چلنے سے گریزاں تھا۔ اسی لیے اس نے آسٹریلیا میں گرافک ڈیزائننگ کی تربیت حاصل کی۔ اسے موٹر ریسنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ایسی ہی ایک ریس کے دوران آصف کو حادثہ پیش آیا جس نے اس کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ پھر والد کے کہنے پر اس نے اس پیشے میں نام کمانے کی ٹھان لی۔

خوف پر قابو پانے کی آصف کی تیکنیک ایک سین کی عکس بندی کے دوران ناکام ہوگئی اور اسے خاصے زخم آئے۔ آصف کہتا ہے کہ ’’ شوٹ آؤٹ ایٹ وڈالا‘‘ میں منوج باجپائی کا ایک سین ہے جس میں وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر شیشے کے دروازے سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس سین کے پہلے ٹیک پر میرے چہرے اور جسم میں شیشے کی کرچیاں پیوست ہوگئی تھیں اور بری طرح خون نکل رہا تھا۔ پھر طبی امداد کے بعد میں نے دوسرے ٹیک میں یہ سین او کے کروایا۔ اگر خود منوج باجپائی اس طرح زخمی ہوجاتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی مرہم پٹی کے بعد سے چند گھنٹے کے بعد اس سین کی دوبارہ شوٹنگ کے لیے رضامند کرلیا جاتا۔ اس واقعے کے بعد آصف نے اپنی انشورنس کے بارے میں سوچنا شروع کیا تاکہ زخمی ہوجانے کی صورت میں اس کی گزراوقات بہ آسانی ہوتی ہے۔ ’’ مووی اسٹنٹ آرٹسٹس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ان بہادر فن کاروں کی تنظیم بھی موجود ہے مگر اس نے انشورنس کی سہولت کی فراہمی کے سلسلے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

 ٭صنوبر پردی والا

یہ فن کارہ ایشوریا رائے، کرینا کپور، پریانکا چوپڑا، کترینا اور دیگر ٹاپ اسٹارز کے لیے خطروں سے ٹکراتی ہے۔ غالباً وہ بولی وڈ کی واحد اسٹنٹ وومن ہے۔ صنوبر کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اس پیشے میں نہیں آنا چاہتیں، کیوں کہ والدین اور اہل خانہ انھیں خطرات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ صنوبر نے بارہ برس کی عمر سے خطرناک کھیلوں اور کرتبوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ صنوبر کی بے خوفی اور بہادری کو دیکھتے ہوئے اس کے والد کے ایک دوست نے اس کی فلم ڈائریکٹر راہول راویل سے سفارش کردی جو ان دنوں اپنی فلم ’’ اور پیار ہوگیا ‘‘ کے لیے ایشوریا رائے کی باڈی ڈبل تلاش کر رہے تھے۔ صنوبر اس بات سے بے حد خوش تھی مگر اس کے والدین اس پر تیار نہیں تھے۔ بالآخر انھیں اپنی بیٹی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔

صنوبر ان ہی ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرتی ہے جو اسٹنٹ مین اور اسٹنٹ وومن کی حفاظت کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔ صنوبر کہتی ہے کہ کچھ ایکشن ڈائریکٹر انھیں اہمیت نہیں دیتے۔ وہ ایک مثال بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک فلم میں اس کا سین بہت خطرناک تھا اور جب میں نے اپنے خدشات کا اظہار ڈائریکٹر سے کیا تو اس کا کہنا تھا کہ زخمی ہونا تم لوگوں کے کام کا حصہ ہے۔ چناں چہ اب وہ پرویز، شیام کوشل جیسے ایکشن ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے جو ان کی حفاظت کو بھی مقدم رکھتے ہیں۔ ایک سین میں اسے ہیلی کوپٹر سے کود کر 80 فٹ نیچے سڑک پر چلتی ہوئی کار میں بیٹھنا تھا۔ صنوبر کا کہنا ہے کہ یہ سین کرتے ہوئے اسے سب سے زیادہ خوف محسوس ہوا تھا۔

٭مُنّا

بارہ برس قبل، چھے فٹ دو انچ قد کے حامل مُنّا کو قسمت ممبئی اور پھر ایکشن ڈائریکٹر پرویز خان کے پاس لے آئی۔ اس وقت سے وہ ابھیشیک بچن اور سنجے دت کے باڈی ڈبل کے طور پر کام کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایکشن ڈائریکٹر الّن امین کے نائب کے طور پر بھی فرائض انجام دے رہا ہے۔ خطروں سے کھیلنا مُنّا کی فطرت میں شامل تھا اور اسی لیے اس نے یہ پیشہ اختیار کیا، مگر اپنی حفاظت کی طرف سے وہ کبھی غافل نہیں رہا۔ آج بھی وہ ایسے اسٹنٹ کرنے سے انکار کردیتا ہے جن میں اسے جسمانی نقصان پہنچنے کا زیادہ امکان ہو۔ تاہم ان فن کاروں کے لیے انشورنس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہر اسٹنٹ اس کے لیے ایک بڑا رسک ہے۔ مُنّا کا کہنا ہے کہ زندگی میرے لیے دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ اسی صورت میں بے خوفی سے اپنا کام کرسکتے ہیں جب آپ محفوظ ہوں۔

مُنّا کا شمار بولی وڈ کے ٹاپ اسٹنٹ مینوں میں ہوتا ہے، تاہم اسے اس بات پر اعتراض نہیں کہ اس کی محنت کا پورا کریڈٹ ہیرو لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ہیرو کے لیے فکرمند رہتا ہے۔ مُنّا کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم پر خراشوں کا آنا معمول کی بات ہے مگر ہیرو کا ’بے خراش‘ رہنا ضروری ہے کیوں کہ اس پر کثیر رقم لگی ہوتی ہے۔ مُنّا کے مطابق اس کے لیے سب سے مشکل اسٹنٹ سین ’’ناک آؤٹ ‘‘ کا وہ سین تھا جس میں سنجے دت کو ایک عمارت کی چودھویں منزل سے نیچے گرتے ہوئے راستے میں سے ایک جھنڈا بھی تھامنا تھا۔

٭ریاض شیخ

ریاض کو اس پیشے سے وابستہ رہتے ہوئے ربع صدی گزرچکی ہے۔ اس کے باوجود وہ جسمانی طور پر چاق چوبند ہے اور آج بھی سلمان خان، شاہ رخ، ریتھک روشن، اکشے کمار اور دیگر کئی سپراسٹارز کے لیے اسٹنٹ عکس بند کرواتا ہے۔ خطروں سے کھیلنے کا ہنر ریاض کو وراثت میں ملا ہے۔ اس کے والد ناصر شیخ اور بڑے بھائی فیروز بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔

ریاض نے کیریئر کا آغاز گووندا کے لیے اسٹنٹ کی عکس بندی سے کیا تھا اور اب وہ بولی وڈ کے ٹاپ اسٹارز کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالتا ہے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ خطرناک اسٹنٹ کرتے ہوئے وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ اسے بہترین انداز سے کیسے انجام دیا جاسکتا ہے۔ تاہم کچھ اسٹنٹ ایسے ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے دوران بڑے بڑوں کو پسینا آجاتا ہے۔ ریاض کے مطابق ایسا ہی ایک اسٹنٹ ’’دھوم‘‘ میں تھا۔ اس خطرناک سین میں ریتھک روشن کو ایک عمارت کی بتیسویں منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ریاض کا کہنا ہے کہ یہ اسٹنٹ کرتے ہوئے وہ بہت ڈر رہا تھا۔ اسٹنٹ مین کو بھی انشورنس نہ ہونے کی فکر لاحق ہے۔ ریاض کے مطابق اگر یہ یقین دہانی مل جائے کہ انھیں کچھ ہوجانے کی صورت میں ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کی جائے گی تو وہ اسٹنٹ کی عکس بندی کے دوران خود کو زیادہ محفوظ خیال کرسکیں گے۔

یہ حَسین لمحے، یہ یادگار دن

$
0
0

دو زندگیاں جب شادی کے بندھن میں بندھ کر نئے سفر کی ابتدا کرتی ہیں تو یہ مسافت مسرت اور آرزوؤں کے پھولوں بھرے راستے پر ہوتی ہے۔

یہ دن ایک دوسرے کو سمجھنے   اور دلوں کی قربت کا سہانا موسم ہوتے ہیں۔

ایک دوسرے کی سنگت میں  تفریحی اور پُرفضا مقامات پر وقت بِتانا، ہوٹلنگ، تقریبات اور دعوتوں میں شرکت، نئی زندگی کی یہ مصروفیات  نئے شادی شدہ جوڑے کو جہاں ایک دوسرے کے ساتھ کی سرشاری عطا کرتی ہیں وہیں انھیں ایک  دوسرے کو سمجھنے اور ذہنی طور پر قریب آنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ یوں یہ خوب صورت دن یادگار بن جاتے ہیں۔

Viewing all 4746 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>