Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4667 articles
Browse latest View live

میں اور کشال جلد شادی کرنے والے ہیں، گوہر خان

$
0
0

بگ باس سیزن 7کا ٹائٹل ماڈل اور ایکٹریس گوہر خان جیت چکی ہیں اور ان کی یہ جیت بالکل غیرمتوقع تھی، کیوںکہ لوگوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ جیت کی حق دار تانیشا مکرجی ہے، لیکن فائنل میں پانسا پلٹ گیا اور جیت کا تاج گوہر کے سر پر سجا۔

گوہر 2002 میں مس فیمینیا کا ٹائیٹل بھی حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ فلموں جیسے آن، عاشق زادے اور ’’ونس اپون ا ٓٹائم ان ممبئی‘‘ میں آئٹم سونگز بھی کرچکی ہیں۔ رنبیر کپور کی فلم راکٹ سنگھ میں وہ ایک سیکریٹری کا خوب صورت رول نبھا چکی ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ گوہر کو ایکٹنگ سے زیادہ ماڈلنگ پر توجہ دینا چاہیے۔ بگ باس کی ونر کا اپنی جیت کے بارے میں کیا کہنا ہے اس انٹرویو میں پڑھیے:

سوال۔ آپ اپنی جیت کس کے نام کریں گی؟

جواب۔ میری جیت ہر اس شخص کے نام ہے، جس نے مجھے ووٹ دیا اور جو مجھ سے بہت بہت پیار کرتے ہیں۔ میں انہیں اپنا فین یا پرستار نہیں سمجھتی بلکہ یہ سب وہ لوگ ہیں جو مجھ سے پیار کرتے ہیں اور ان کی محبت نے ہی انہیں مجبور کیا کہ وہ مجھے ووٹ دیں میں ان سب کی بے انتہا شکر گزار ہوں سو میری جیت انہیں سب کے نام ہے جو مجھے جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، لیکن سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ میں خدا کی بے انتہا شکرگزار ہوں جس نے میری قسمت میں یہ جیت لکھی تھی، کیوںکہ اگر خدا نہ چاہتا تو میں کبھی بھی اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔

سوال۔ کیا آپ کو توقع تھی کہ بگ باس 7 میں جیت آپ کا مقدر ہوگی؟

جواب۔ میں اپنے آپ کو یہ ہی باور کراتی تھی کہ مجھے جیتنا ہے، کیوں کہ میرے خیال میں جب تک آپ خود کو کسی بھی بات کا یقین دلاتے رہتے ہیں تو وہ چیز آپ کے حق میں ہوتی ہے۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا اور میں ہر روز اللہ سے یہ دعا مانگتی تھی کہ مجھے کام یاب کردے، کیوں کہ میں جیتنا چاہتی تھی لیکن ان سب کے باوجود مجھے بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ میں جیت جائوں گی، یقیناً اگر مجھے جیتنا نہ ہوتا تو میں بگ باس ہائوس میں نہ ہوتی۔

 photo Gauharkhan_zpse3af650b.jpg

سوال۔ تو آپ کے لیے یہ جیت سرپرائز تھی؟

جواب۔ جی ہاں: میں واقعی حیران تھی کہ یہ سب کیسے ہوا؟ فائنل میرے اور تانیشا کے درمیان تھا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تانیشا ایک انتہائی مضبوط حریف تھی اور جب فائنل کرائوڈ میں، میں نے تانیشا کی مما لیجنڈ اداکارہ تنوجہ جی کو دیکھا تو میری جیت کا یقین ان کو دیکھ کر ڈانواڈول ہوگیا اور میں نے سوچا کہ اب نہیں جیت سکتی، کیوںکہ تنوجہ جی کی وہاں پر موجودگی میرے لیے سرپرائز تھی، لیکن اﷲ کو میری جیت منظور تھی اس لیے میں جیت گئی۔

سوال۔ آپ کے خیال میں کن خصوصیات کی بنا پر آپ اس جیت کی حق دار ٹھہریں؟

جواب۔ میں نے یہ ہی کوشش کی کہ میں اپنے اوپر کسی طرح کی ملمع کاری نہ کروں اور جیسی اصل زندگی میں ہوں شو میں بھی ویسی ہی نظر آئوں، اور ایسا ہی ہوا کیوں کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ میں شو میں ایکٹنگ نہیں کر رہی، بلکہ جیسی ہوں ویسی ہی نظر بھی آرہی ہوں۔ اپنی ذات پر بسا اوقات میں خود ہی تنقید بھی کرتی تھی کہ مجھے ہر بات کو درشتی سے یا پھر منہ پھاڑ کر نہیں کہہ دینی چاہیے تھا، لیکن میں اپنے اوپر کنٹرول نہیں رکھ پاتی تھی۔ اگر کسی بھی چیز یا شخص کے بارے میں کوئی رائے ہے تو میں فوراً اس کا اظہار بھی کر دیتی تھی ا ور دل میں کوئی بات نہیں رکھتی تھی۔ میرے خیال میں میری انہی خصوصیات کی بنا پر ویورز نے مجھے سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ کیے۔

 photo Gauharkhan1_zpsd115ab20.jpg

سوال۔ آپ کے خیال میں تانیشا کے ہارنے کی کیا وجہ تھی؟

جواب۔ کیوں کہ لوگوںنے مجھے ووٹ کاسٹ کیے اسے نہیں۔ لیکن ہائوس میں رہنے والے ہر ایک شخص نے اپنے قیام کے سفر کو انجوائے ضرور کیا ہے۔ اس لیے میں اس بارے کوئی حتمی بات نہیں کر سکتی۔

سوال۔ کشال اور آپ کے درمیان پیدا ہونے والی ایک دوسرے میں دل چسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی؟

ج۔ جی ہاں اور ہم اسے چھپانا بھی نہیں چاہتے اور میرے خیال میں تو لوگوں نے ہمارے تعلقات کو پسند بھی کیا ہے، کیوںکہ مجھے اس کا کہیں سے بھی منفی رد عمل نہیں ملا۔ ایسا تو اس گھر میں رہنے والوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔

سوال۔ کیا آپ تانیشا اور ارمان کے بارے میں بات کر رہی ہیں؟

جواب۔ نہیں: میں بگ باس کے گذشتہ سیزن کی بات کر رہی ہوں۔ ان شوز میں اکثر لوگوں کے درمیان اچھی کیمسٹری پیدا ہو گئی تھی، لیکن ان لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو اوپنلی ڈسکس نہیں کیا، بلکہ ان کو چھپایا۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ کشال اور میں ایک دوسرے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں۔ شاید لوگوں کو ہماری یہ سچائی پسند آئی ہے۔

سوال۔ آپ کے کشال کے ساتھ تعلقات صرف اس ہائوس کی حد تک تھے؟

جواب۔ جی نہیں: انشاء اﷲ ہم جلد ہی شادی کرنے والے ہیں۔

 photo Gauharkhan2_zpsb8fbf9bf.jpg

سوال۔ آپ کے خیال میں کیا آپ کے خاندان والے کشال کو قبول کر لیں گے؟

جواب۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے کشال ایک بہت اچھا انسان ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی طرح ہماری فیمیلیز بھی اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔

سوال۔ اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ بگ باس ہائوس میں آگے بڑھنے اور پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے شرکت کرنے والے اسی طرح ایک دوسرے سے تعلقات پیدا کرتے ہیں؟

جواب۔ مجھے آگے بڑھنے کے لیے کسی سے تعلقات بنانے یا بگاڑنے کی ضرورت نہیں تھی، کیوںکہ جھوٹ کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جاسکتا۔ میری اور کشال کی محبت وقتی نہیں ہے اس کا بہت جلد سب کو پتا چل جائے گا۔

سوال۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے ہائوس میں بڑی مہارت سے گیم کھیلاتا کہ آپ سب کی ہم دردیاں حاصل کر سکیں؟

جواب۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اپنے جذبات یا خیالات کو چھپاتی نہیں اور جو دل میں ہوتا ہے وہی میری زبان پر بھی ہوتا ہے۔ شاید لوگوں کو میری یہ سچائی پسند نہیں آئی اور وہ اسے میرا گیم یا ڈراما سمجھ بیٹھے میرے خیال میں تو اگر ایسا ہوتا تو آڈینس میرے ساتھ نہ ہوتی اور میں یہ شو کبھی نہ جیت پاتی۔

 photo Gauharkhan3_zpsf2daa8f5.jpg

سوال: بگ باس ہائوس میں آپ کا ہائی اور لو پوائنٹ کیا رہا؟

جواب۔ میں نے اپنے ہر ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے 200فی صد سے بھی بڑھ کر کوشش کی، یہی میرا ہائی پوائنٹ تھا۔ ایک وقت تھا جب میں نے ہائوس چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن پھر کشال کے مشورے پر ایسا نہیں کیا۔ یہ میرا لو پوائنٹ رہا۔

سوال۔ بہ طور جج آپ نے سلمان خان کو کیسا پایا؟

جواب۔ میرے خیال میں بگ باس کے لیے سلمان خان سے بہتر کوئی اور ہوسٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے اپنا کام نہایت عمدگی سے کیا۔ میں دل سے ان کی عزت کرتی ہوں۔

سوال۔ گوہر خان کیسی انسان ہے؟

جواب۔ میں بہت شدید جذباتی قسم کی انسان ہوں اور اپنے جذبات، خیالات کا اظہار برملا کرتی ہوں۔ مجھے ہر خوب صورت شے متاثر کرتی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ جس طرح میں لوگوں سے بالکل مخلصانہ برتائو رکھتی ہوں ایسے ہی لوگ بھی میرے ساتھ رکھیں۔


حالات سے لڑ کر منزل پائی

$
0
0

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بہت سے نوجوان حالات کا رونا روتے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں، جب کہ بعض ایک برائیوں کی راہ پر نکل کر خون خوار درندوں کے شکنجے میں پھنستے ہیں پھر وہ کٹھ پتلی بن کر اغیار اور سامراج کے لیے بھی آلۂ کار بن جاتے ہیں۔

لیکن ضیاء اﷲ ہمدرد ان میں سے نہیں جو مشکلات، سنگین حالات سے دلبرداشتہ اور قسمت کا رونا رو کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کھیلتے ہیں جو اس مٹی اور دھرتی پر سوائے بوجھ کے کچھ بھی بن نہیں پاتے، بل کہ وہ تندی باد مخالف کا جواں مردی اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کر کے اپنی اڑان اونچائی سے اونچائی پر لے جانے کے لیے سعی پیہم میں لگے رہتے ہیں۔

ضیاء اﷲ ہمدرد نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں افلاس اور فاقوں کے سوا کچھ نہیں تھا، تھوڑی سمجھ بوجھ آنے کے بعد وہ دیہاڑی پر لگ گئے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی تنگ دامنی کے باوجود چلتا رہا۔ ٹھوکریں کھاتے اور سنبھل کر آگے بڑھتے رہے۔ اس دشت کی سیاحی میں رنگ سازی، ٹیوشن پڑھانا، پینٹنگ بنانا، خطاطی اور کمپوزنگ سے اپنی تعلیمی اخراجات کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کا بھی ہاتھ بٹاتے رہے۔ اس دوران وہ جیسے تیسے تعلیم جاری رکھ کر ہر کلاس میں اول پوزیشن پر براجمان ہوتے رہے اور آخرکار اپنی اور غریب والدین کی خوابوں کو تعبیر دیتے ہوئے لیکچرر بن گئے۔ آئیے ضیاء اﷲ ہمدردکی کہانی ان کی زبانی سنتے ہیں، جوعبدالولی خان یونی ورسٹی میں بطور لیکچرر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

عزم ویقین کے مجسم پیکرضیاء اﷲ ہمدرد کہتے ہیں کہ پاکستان کے نوے فی صد عوام کی طرح میں نے بھی جس گھر میں آنکھ کھولی وہ خاندان غربت کی لکیر سے بہت نیچے تھا۔ خیبر پختون خوا کے زرخیز اور مردم خیز علاقے صوابی کے ایک تاریخی گاؤں شیوا اڈا میں ٹاٹ اسکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ، میں نے بھی ایک دو نے دونا، دو دونے چار کی بنیادی ریاضی پانچ روپے والی سلیٹ پر لکھتے لکھتے سیکھی، سلیٹ پر ریاضی سیکھنے کے بے شمار فوائد ہوتے تھے مثلاً ہمیں نوٹ بک کے جھنجھٹ سے نجات حاصل تھی، لکھائی مٹانے کے لیے پرانے کپڑوں سے والدہ کے ہاتھوں کا سلا ہوا چھوٹا سا جھاڑن، کسی گاڑی کی سیٹ سے چرایا ہوا اسفنج یا پھر قمیص کا دامن استعمال ہوتا تھا اور پانی کی جگہ اکثر تھوک سے کام نکال لیتے تھے۔ اس طرح تختی سے بھی ہمارے ماضی اور معصوم بچپن کی حسین یادیں وابستہ ہیں، میری تختی گاؤں کے ایک مشہور ترکھان جمعہ گل بابا کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی۔ جمعہ گل بابا میرے والد کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھے اور شاید یہ اسی دوستی کا کمال تھا کہ میری تختی موٹی، کشادہ اور وزنی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط لکڑی کی بنی ہوئی تھی، چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے تختیاں لڑانا ہمارا پسندیدہ کھیل تھا۔ میری تختی کو چار پانچ تختیاں توڑنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔

 photo Ziaullahhamdard_zps6f573a8b.jpg

اسکول بیگ خریدنے کی ہماری استطاعت نہیں تھی، لہٰذا کتابیں ایک گز لمبے کپڑے میں باندھ کر کندھے سے لٹکا لیتے، دوات کی بجائے اپنی دادی اماں یا گھر میں کسی دوسرے بیمار کی دوائی کی استعمال شدہ چھوٹی بوتل استعمال کرنا پڑتی، سلیٹ دھونے کے لیے ہم قطار بنا کر ایک بارانی نالے کی طرف جایا کرتے۔ اسی بہانے پانچ دس منٹ کا بریک ملتا، برساتی نالے میں مون سون کے دنوں میں طغیانی آجاتی تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے، کیوں کہ ہمارے پرائمری اسکول کی ایک دیوار عین اس نالے میں تھی اور اسکول کے تمام بچوں کی دلی آرزو تھی کہ ہمارا اسکول سیلاب کی نذر ہو جائے اور یوں ہمیں اسکول سے طویل چھٹیاں ملنے کا موقع ملے، لیکن یہ دعا کبھی بھی پوری نہیں ہوئی، کیوں کہ یہ بچپنے کی دعا ہر گز ہمارے حق میں نہ تھی۔ قلم کا خرچہ بچانے کے لیے برساتی نالے کے کنارے نل کے پودے توڑ کر قلم بناتے، روزانہ صبح سویرے کالا جوڑا اور کالی ٹوپی ہم عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی (ایک گانے کی طرف اشارہ) کی فرمائش پر نہیں بل کہ استاد کی مار کھانے کے خوف سے پہنتے تھے، یونی فارم کی حد تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن میری بدقسمتی یہ تھی کہ میرے والد عید پر بھی مجھے کالے رنگ کا جوڑا سلوا کر دیتے کیوں کہ وہ اپنی غربت کے باعث ایک تیر سے دو شکار کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔

اپنے زمانے کے آٹھویں پاس تھے اس لیے دیگر کی نسبت ذرا زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک تھے، اس لیے عید پر نئے کپڑے پہننے کو ملتے اور یونی فارم کی شکل میں نیا جوڑا بھی ملتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہر بار عید پر میرے والد کی طرف سے ملیشیا کا جوڑا پانا مجھے کس قدر ناگوار گزرتا، لیکن ایک آدھ آنسو بہانے کے بعد اتنی زور سے بھوک ستاتی کہ ہم رونا چھوڑ دیتے اور بالآخر اپنے والدین کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے، ویسے بھی گھر میں ہمارا احتجاج کبھی کام یاب نہیں ہوتا تھا، میرا جو بھی بھائی بشمول میرے اگر کسی بات پر ناراض ہو کر بھوک ہڑتال کرتا تو اسے بھوکا ہی سونا پڑتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے والدین خواہ مخواہ ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے بل کہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس ہمارے احتجاج اور ہڑتال کو ناکام بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ کس قدر مشکل ہوتا ہے ایک غریب باپ کے لیے اپنے بچوں کو اپنی غربت کا احساس دلانا، یہ تو غریب والدین ہی بتا سکتے ہیں۔

فرض کیجیے ایک غریب عورت بازار سے گزرتی ہے اور اس کا بچہ کسی کھلونے یا کھانے کی چیز کے لیے رونے لگتا ہے لیکن اس کی ماں وہ چیز اسے خرید کر نہیں دے سکتی، لیکن بچہ رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے ایک لمحے کے لیے، اس عورت کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنے لخت جگر کے لیے نہ تو کھلونا خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے اور نہ ہی اسے اپنی مجبوری کا احساس دلا سکتی ہے۔ میرے والدین کی بھی یہی حالت تھی اور یہ حالت تب تک رہی جب تک ہمارا بچپن رہا، رنگ برنگے کپڑوں کے علاوہ اچھے جوتے بھی میرے بچپن کی بہت بڑی آرزو تھی۔ میرے والد ہم بھائیوں کو لے کر گاؤں کے ایک دکان دار صادق کاکا کے پاس لے جاتے جہاں سے ہمارے لیے پلاسٹک کے جوتے خریدتے، جن کی قیمت تین اقساط میں ادا کرنا پڑتی۔ جب ہم پلاسٹک کے شوز پہنے خوشی خوشی گھر لوٹتے تو گھر اور گلی محلے میں جتنی مبارک بادیں ملتیں آج قیمتی جوتے خریدنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نئے جوتے خریدنے کا جشن مناتے۔

 photo Ziaullahhamdard1_zpsda1e5795.jpg

انتہائی غریب کا ایک اور فائدہ جو ایلیٹ کلاس یا متوسط گھرانوں کے بچوں کو شاید کم نصیب ہوتا ہے وہ روایتی کھیل ہیں جو صرف کم خرچ کے باعث غریب کا بچہ کھیل اور اسے سے محظوظ ہو سکتا ہے، جس میں غلان سپایان (چور سپاہی)، بلوری (بنٹے کھیلنا ) دوپہر کی تیز دھوپ میں برتھ ڈے سوٹ میں نہر میں تیرنا، اپنا قیمتی ہتھیار یعنی غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنا، درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے اتارنا، گلی میں کتا دیکھ کر اس پر پتھروں کی بارش کرنا، قریبی باغ سے تریوکے (ایک قسم کی ترش گھاس جس پر نمک ڈال کر کچا چبانا) کھانا، گلی ڈنڈا کھیلنا، پلاسٹک کے لفافوں کو آگ سے پگھلا کر گیند بنانا اور گاؤں کے ترکھان کے ہاتھوں بنے بیٹ سے کھیتوں میں کرکٹ کھیلنا اور ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے لٹک کر سواری کے مزے لینا، وہ لوغڑے (کھیل) ہیں، جسے ایک غریب کی زندگی سے جدا نہیں کیا جا سکتا، جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا میرے والد ضعیف العمری کی بنا مختلف سگریٹ کے کارخانوں میں مزدوری سے اکتا بھی چکے تھے اور بیمار بھی رہنے لگے تھے، نے ہمارے اسکول کے سامنے پٹ سن کے پھٹے پرانے بورے پر بیٹھ کر کھیر، چھولے اور ٹافیاں وغیرہ بیچنا شروع کردی، میں اور میرا بھائی بھی آدھی چھٹی کے دوران ان کی مدد کرتے، ضعیف العمری کے باعث ان کی نظر کم زور ہو گئی تھی، جس کا فائدہ اٹھا کر ہم اپنی جیبیں ٹافیوں سے بھر لیتے، کبھی کبھار چند سکے بھی ان سے چرا لیتے، لیکن پھر اچانک یہ کل کائنات لٹ گئی۔

جنوری 1994ء کی ایک رات جب ہر سو گھپ اندھیرا پڑ گیا۔ اسی طرح غربت نے ہمارا سہارا ہم سے چھین لیا اور ہم نو بچوں اور دو بیواؤں کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا، والد کی وفات کے اگلے ہی ماہ کویت، قطر اور سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے پشاور میں مرسی ایجوکیشنل کمپلیکس کے نام سے ایک یتیم خانے کا افتتاح ہوا، مذکورہ ادارے میں ایک ایڈمن منیجر استفتانوش کا تعلق میرے پڑوس کے گاؤں شیخ جانہ سے تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اپنے علاقے کے یتیم بچوں کو اس ادارے میں مفت تعلیم دلوائیں لہٰذا اس مقصد کے لیے علاقے کے 25 لڑکوں کو منتخب کر لیا گیا، جن میں، میں اور میرا بھائی بھی شامل تھے۔ ہم سب کو موسم بہار کی ایک دوپہر گاڑی میں بٹھایا گیا اور تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد پشاور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع اس اسکول پہنچایا گیا جس نے میری زندگی پر ان منٹ نقوش چھوڑے، اس اسکول میں ہمیں آزاد کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے دوست ملے۔ ہمارے اساتذہ میں افغان، عرب اور پاکستانی شامل تھے۔

27 اپریل 1994ء کو اسکول کا باضابطہ افتتاح ہونا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ روایت کے طور پر ایک طالب علم کو مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرنا تھا جس کے لیے سب کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ اس لیے ایک تعریفی کلمات پر مشتمل تقریر مجھے یاد کرنے کو دی گئی، جسے میں نے اچھی طرح ازبر کر لیا۔ مقررہ تاریخ کو اچانک ہمارے کلاس روم کا دروازہ کھلا اور لوگوں کا جم غفیر کلاس میں داخل ہوا میرے ٹیچر نے مجھے اشارہ کیا کہ شروع ہو جاؤ میں نے ابتدائی دو تین کلمات پڑھے ہی تھے کہ باقی ماندہ تقریر یکسر بھول گیا اور ساکت کھڑا رہا۔ فاروق لغاری صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور شاباش دی۔ اس کے بعد مجھے اسکول میں جو پروٹوکول ملا اس نے مجھے اور بھی اعتماد دیا، اگلے دن ڈائریکٹر فقیرمحمد انور نے آفس بلایا اور میری ہمت بندھائی، ظاہر ہے جب آپ کو ایسے اساتذہ ملیں گے جو ناکامی میں بھی آپ کا حوصلہ بڑھاتے ہوں تو پھر کوئی بھی چیز آپ کو کام یابی سے نہیں روک سکتی۔ اسی طرح اسکول میں ہر جماعت میں اول پوزیشن لیتا رہا میں یہاں 9 سال تک ہاسٹل میں رہا، وہاں زندگی ہمارے پرائمری اسکول کے برعکس تھی۔ تختی کی جگہ نوٹ بک، نل سے بنے قلم کی جگہ پنسل اور بال پوائنٹ نے لے لی، سلیٹ اور تختی کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔ ہمیں اتنی ساری نوٹ بکس ملنے لگیں کہ میں نے ان میں پینٹنگ شروع کردی، اسکول سے نکلتے نکلتے میں آدھا پینٹر بھی بن چکا تھا، کیوں کہ ہم ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کی عملی مثال بن گئے تھے۔ مجھے مرسی انٹرنیشنل اسکول ہی میں اس حقیقت کا ادراک ہو چکا تھا کہ ’’اوپر والا جب بھی دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔‘‘

 photo Ziaullahhamdard2_zps95ae39a9.jpg

مرسی انٹرنیشنل اسکول کے بعد قائداعظم کالج صوابی میں داخلہ لیا۔ اس دوران ایک دوست عبدالمتین نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا، دوسرے دوست شہاب یامین نے فیس معافی میں مدد دی، فرسٹ ایئر میں پری میڈیکل گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، لیکن فیس کی عدم ادائیگی پر مجھے کالج چھوڑنا پڑا، جب کہ بھائی کے دوست کی وساطت سے مجھے مردان ماڈل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن یہاں یونی فارم کا مسئلہ آڑے آگیا، لہٰذا پھر دوستوں نے یہاں بھی فراخ دلی دکھائی۔ یہاں سے ایف ایس سی نمایاں نمبروں سے پاس کرنے کے بعد بھائی کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میرا اس جانب رجحان نہ تھا، لہٰذا ایک مہربان استاد کے مشورے پر عظیم درس گاہ اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا، لیکن یہاں بھی حالات نے میرا پیچھا نہ چھوڑا اور کافی پاپڑ بیلنے پڑے، چوں کہ میں ایک پروفیشنل بھی پینٹر تھا۔ اس لیے شروع میں ایک ادارے کے لیے دیواروں پر اشتہارات وغیرہ لکھنا شروع کیا، کلاس کے بعد اپنے برش اور پینٹ کے ڈبوں کے ساتھ شہر کی دیواروں پر اشتہارات لکھ دیتا، اس دوران اوور ٹائم بھی کر لیتا، خیر نتیجہ آنے پر میں نے اپنے گروپ میں ٹاپ کیا تھا، لیکن یہ خوشی بھی زیادہ دیر راس نہ آئی۔ میرا ایک بھائی کینسر کا مریض تھا، اس کی طبیعت بگڑنے لگی یہ میرے لیے کافی کٹھن دن تھے کلاس جانا اور وہاں سے سیدھا اسپتال جا کر اپنے بھائی کی تیمار داری کرنا میرے لیے کافی مشکل تھا، انہی دنوں پشاور کے ایک مقامی اخبار میں آرٹیکل وغیرہ لکھنا شروع کیے۔

اس دوران فائنل کا امتحان بھی سر پر آگیا، ہاسٹل کے چارجز اور دیگر فیس وغیرہ ملا کر میرے ذمے کالج کے سترہ ہزار روپے بقایاجات تھے، لیکن یہ مشکل میرے مہربان استاد بخت زمان نے حل کر دی اور مجھے وی سی کے نام درخواست لکھنے کی ہمت بندھائی۔ خیر اس کے بعد مجھے رول نمبر سلپ جاری ہوئی۔ اس دوران میرا بھائی زندگی سے جنگ لڑتے لڑتے راہیِ عدم ہو چکا تھا۔ میں ان کا جنازہ پڑھنے کے بعد سیدھا کالج پہنچا، کیوں کہ اگلے دن میرا پرچہ تھا، امتحان دے ڈالا اور اپنے گروپ میں پھر سے ٹاپ کیا، زندگی کے حوادث، لوگوں کے بے حس رویے اور غریب کے لیے ہر جگہ دھتکار یہی باتیں میرا حوصلہ اور بھی بڑھاتیں اور میں اپنے غصے، انتقام اور تکالیف کو بطور انرجی استعمال کرتا رہا اور یہ مصمم ارادہ کیا کہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا، لیکن کسی بھی حال میں تعلیم ادھوری نہیں چھوڑوں گا اور میں آگے بڑھتا گیا، محترم بخت زمان اور ہردل عزیز استاد انعام الرحمن پشکلاوتی کی راہ نمائی اور کاوشوں سے پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں داخلہ لیا، اس عظیم درس گاہ میں داخلہ لیتے ہی مجھے پر اﷲ کی رحمتوں اور عنایات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ٹی وی میں نیوز ٹرانسلیٹر کی عارضی جاب مل گئی یہاں سے ماسٹرز کرتے ہوئے مجھے جاپان کی طرف سے جیکا اسکالر شپ ملی جو ایک لاکھ بائیس ہزار روپے بنتی تھی۔ اس دوران سکالر شپ پر امریکہ اور دو مرتبہ جرمنی بھی جانا ہوا، مجھ جسے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والے طالب علم کو حصول علم کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑے خدا کسی غریب کے بچے کو اس کے سائے سے بھی دور رکھے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پرخار راہ گزر میں حصول تعلیم کے لیے جو تجربہ اور حوصلہ ملا وہ اس قدر منافع بخش ہے کہ میں اکثر قسم کھا کر دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر مجھے دوبارہ اس دنیا میں آنے کی آپشن دی تو میں بلا جھجک دوبارہ اسی گھر اور انہی مسائل کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا پسندوں کروں گا۔

 photo Ziaullahhamdard3_zps7b3fa642.jpg

پیشہ ورانہ خدمات

ریڈیو پرزنٹر ، آر جے (پختون خوا ریڈیو مردان)

نیوز ٹرانسیلٹر، ایڈیٹر، پی ٹی وی پشاور، ریڈیو پاکستان

میڈیا ٹیکنیکل ایڈوائزر (ایم ٹی اے)

پراجیکٹ کوآرڈینیٹر (پشاور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایر فورٹ جرمنی)

میڈیا ایڈوائزر (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)

پروڈیوسر ، رپورٹر (KCSF ریڈیو سان فرانسسکو)

پروڈیوسر، رپورٹر (IDTY سان فرانسسکو)

ریڈیو پریزنٹر، آؑر جے (ریڈیو پاکستان ، ایم ایف 101)

فری لانس کالمسٹ (مختلف اخبارات، میگزین، ویب سائٹ)

اعزازات

فل برائٹ پروفیشنل ایوارڈ 2010-11ء

Bologna اٹلی آئی پی ایس آئی ایوارڈ

Jacka سکالر شپ ایوارڈ 2008-09 ء

پوئٹ آف دی کیمپس ایوارڈ 2007ء

نیشنل انٹی گریشن ایوارڈ

بیسٹ پریزنٹر ایوارڈ

ایمنسٹی انٹرنیشنل ایوارڈ (بچوں کے حقوق)

صدر لیٹریری سوسائٹی، اسلامیہ کالج پشاور

صدر خیبر لیٹریری کلب، پشاور یونیورسٹی

ممبر سٹیٹ ایلومینائی (یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ)

ممبر پیس اینڈ کولیبریٹ نیٹ ورک

جن زبانوں پر مکمل دسترس حاصل ہے

پشتو، اردو، انگریزی، دری، فارسی، عربی، ہندکو، اسپینش

اس نے پہنا پیراہن، کہ زیب تن کیے ہیں پھول

$
0
0

سرما کے ساتھ شادیوں کی حسین رُت بھی آپہنچی ہے اور خنک ہواؤں میں رنگارنگ رسومات اور تقریبات کی گہماگہمی ماحول کو گرمائے ہوئے ہے۔

اس رُت کی خوب صورتی جہاں ڈھول کی تھاپ، پھولوں کی خوش بو سے مہکتی رسمیں اور خوشیوں گیتوں سے سجی محفلیں ہیں، وہیں ملبوسات کی چھب اور رنگ بھی اس رت کا روپ بڑھاتے ہیں۔ شادی اور اس سے متعلق تقریبات میں جانے کے لیے ایسے لباس کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو اپنے رنگ، نقش ونگار اور ڈیزائن کے باعث شخصیت کو دل کشی عطا کرنے کے ساتھ منفرد بھی بنائے۔ یہ خوش لباسی دوسرے کی خوشی میں آپ کے شاداں ہونے کا بھی اظہار ہے۔

جہاں خوف کے سائے پھیلے ہیں

$
0
0

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں گھومے پھرے اور نت نئے مقام دیکھے یا پھر ان مقامات پر جائے جہاں لطف اندوز ہونے کے خوب مواقع میسر ہوں اور عموماً سیاح حضرات ایسی ہی جگہوں پر جانا پسند کرتے ہیں، لیکن کچھ ایسے خواتین اور حضرات بھی ہوتے ہیں جو زیادہ تر ان مقامات پر جانا پسند کرتے ہیں۔جہاں قدم قدم پر پراسراریت کے بادل چھائے ہوں، حالاں کہ جان جوکھم میں ڈال کر ان علاقوں کی سیر کرنا یا انہیں دریافت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم یہ بلند حوصلہ لوگ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان پراسرار اور اجنبی علاقوں میں جانے سے گریز نہیں کرتے۔

اس مضمون میں ایسے ہی کچھ اہم مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، جن کے گرد کسی نہ کسی حوالے سے دل دہلانے والی کہانیاں، انجانے خوف، پے درپے پیش آنے والے پراسرار حادثات اور انوکھے حالات اور واقعات کی چادر تنی ہوئی ہے۔

٭اسنیک آئی لینڈ
Snake Island
برازیل کی ریاست سائو پالو برازیل کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے تو دوسری جانب اپنے منفرد لینڈ اسکیپ کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت شمار کی جاتی ہے۔

طویل ساحلی پٹی کی حامل اس ریاست سے تیس کلومیٹر کی دوری پر سمندر میں ’’سانپ جزیرہ‘‘ واقع ہے، جسے انگریزی زبان میں اسنیک آئی لینڈ اور مقامی زبان میں ’’ایلہا ڈی کوئیمیڈا گرانڈ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ زہریلے سانپوں کی کثرت کے باعث عوام کے لیے ممنوع مقام ہے۔ اس جزیرے میں سانپوں کی انتہائی زہریلی قسم ’’فرڈی لانس‘‘ کی کثرت ہے۔ چار لاکھ تیس ہزار مربع میٹر پر محیط اس جزیرے میں ’’گولڈن لانس ہیڈ‘‘ کے نام سے بھی معروف ان زہریلے سانپوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر مربع میٹر رقبے پر کم ازکم تین یا چار سانپ موجود ہیں۔

پرندوں کو بطور غذا استعمال کرتے ہوئے عرصۂ دراز سے پلنے والے ان سانپوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ تاہم محتاط اندازے کے مطابق جزیرے پر پانچ سے سات ہزار سانپ ہر وقت پھنکارتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ جزیرہ پہاڑی پر مشتمل ہے اور اس کا کوئی ہموار ساحل نہیں ہے، لہٰذا یہاں اگر کوئی اپنے قدم رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا استقبال پہاڑی کے ساتھ درختوں پر لٹکتے ہوئے دو سے تین فٹ طوالت کے سانپ کرتے ہیں۔ اس وقت اس جزیرے میں برازیلین بحریہ کا ایک غیرآباد لائٹ ہائوس ہے جو عرصۂ دراز سے اپنے رکھوالے کا منتظر ہے۔

٭اوکیگھارا جنگل
Aokigahara Forest
سرسراتی سرد ہوائیں، تاریکی میں ڈوبے کیچڑ میں ایستادہ ہیبت ناک درخت اور ان سے ٹکراتی ہوائوں سے پیدا ہونے والی چیخ نما صدائوں کا مسکن ’’اوکیگھارا جنگل‘‘ دہشت کی علامت بن چکا ہے، کیوں کہ جاپان کے تاریخی پہاڑ فیجی کے شمال مغرب میں واقع یہ تاریک جنگل ان گنت لاشوں کا بھی مسکن ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ جنگل قبرستان بھی نہیں ہے تو پھر یہاں لاشوں کا کیا کام دراصل ضلع ’’یاما ناشی‘‘ کے کنارے پنتیس مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ اوکیگھارا جنگل جاپانیوں کے لیے خودکشی کا سب سے پسندیدہ مرکز ہے، جہاں اکثروبیشتر درختوں سے پھندا لگی جھولتی لاشیں نظر آتی ہیں یا پھر جنگل کے پر سکوت ماحول میں فائر کی آواز موت کی علامت بن کر بین کرتی ہے۔

واضح رہے کہ جاپان میں خودکشیوں کا تناسب دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے یوں تو جاپان میں مذہبی بنیاد پر رضاکارانہ خودکشی کا سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری ہے، جسے ’’ہاراکاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم گذشتہ کئی دہائیوں سے خودکشی کی وجوہات میںاکیلا پن، گھریلو ناچاقی، معاشی بدحالی اور قرضوں کی عدم ادائیگی شامل ہے۔

اوکیگھارا جنگل میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے انگریزی اور جاپانی زبان میں تنبیہی کتبے بھی لگائے گئے ہیں۔ تاہم اعدادوشمار کے مطابق سن انیس سو اٹھاسی سے اب تک یہاں سالانہ اوسطاً سو سے زاید افراد موت کو گلے لگاتے ہیں اور یہ رجحان جاپان کے مالی سال کے اختتام پر مارچ کے مہینے میں عروج پر ہوتا ہے۔ ’’درختوں کا سمندر‘‘ کے نام سے بھی معروف اس جنگل کا موت میں رنگا ہوا ماحول جس میں لاشوں کی بدبو اور قدموں تلے چرمراتی انسانی ہڈیوں کی آواز واضح محسوس کی جاسکتی ہے، کم زور دل حضرات کے لیے طبعی موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاح اوکیگھارا جنگل کو دور سے ہی دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

٭گڑیوں کا جزیرہ
Isla de las Munecas
شمالی امریکا میں واقع ملک میکسیکو اپنی متنوع ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے مشہور و معروف ہے۔ میکسیکو کے دارالحکومت کا نام بھی ’’میکسیکو سٹی‘‘ ہی ہے۔

یہ عظیم الشان شہر انتظامی طور پر سولہ حصوں میں منقسم ہے جس میں سے ایک ’’زو کچی ملکو‘‘ (Xochimilco)ہے۔ میکسیکو شہر کے جنوب میں اٹھائیس کلومیٹر کی دور پر واقع زوکچی ملکو کا بیشتر حصہ نہروں پر مشتمل ہے۔ ماضی میں ان نہروں کے درمیان کاشت کاری کی غرض سے بنائے گئے مٹی کے وسیع ٹیلے آج بھی موجود ہیں، جو ان نہروں کے درمیان جزیروں کے مانند نظر آتے ہیں۔ ان ہی خشکی کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑے کا نام مقامی افراد نے ’’گڑیوں کا جزیرہ‘‘ رکھا ہوا ہے۔

یہ چھوٹا سا مگر ہمورا سطح کا ٹیلا ’’ٹی شیلو‘‘ نہر کے درمیان واقع ہے، سربریدہ بدن، ہاتھ پیر کٹی ہوئی یا پھر آنکھوں سے محروم سیکڑوں بوسیدہ گڑیوں سے سجے یا اٹے ہوئے اس جزیرے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ آج سے تقریباً پچاس برس قبل یہاں پر ایک ننھی بچی پراسرار حالات میں ڈوب کر مرگئی تھی اور عین اس جگہ سے جہاں وہ بچی ڈوبی تھی جزیرے کے رکھوالے ’’ڈان جیولین سانتانا بریرا‘‘ کو ایک گڑیا پانی پر بہتی ہوئی ملی تھی، جسے اس نے نکال کر درخت سے ٹانگ دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد وہاں سے کشتی میں گزرنے والے کچھ افراد نے محسوس کیا کہ گڑیا انہیں دیکھ کر نہ صرف ہاتھ ہلاتی ہے بلکہ منہ سے بھی کچھ کہتی ہے۔

اس واقعے کے مشہور ہوتے ہی جزیرہ ایک پراسرار حیثیت اختیار کرگیا۔ دوسری جانب جزیرے کے رکھوالے ڈان جیولین سانتانا بریرانے محسوس کیا کہ اسے کوئی ماورائی قوت مزید گڑیائیں لانے اور انہیں درختوں پر لٹکانے کا حکم دے رہی ہیں۔ چناںچہ اس نے اس حکم پر عمل شروع کردیا اور آج جزیرے کے تمام درخت اس کی لٹکائی ہوئی گڑیوں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

لڑکی کے ڈوبنے کے پچاس سال بعد حیرت انگیز طور پر سن دوہزار ایک میں عین اسی مقام جہاں لڑکی ڈوبی تھی ڈان جیولین سانتانا بریرا بھی پراسرار طور پر ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے نے جزیرے کو مزید پراسرار بنادیا اور آج صرف باہمت سیاح ہی خشکی کے اس ٹکڑے پر قدم رکھتے ہیں ۔

جن میں سے کچھ سیاحوں نے پرانی، بوسیدہ اور گھورتی ہوئی آنکھوں والی ان گڑیوں میں اپنی لائی ہوئی گڑیائیں بھی لٹکادی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شام کا اندھیرا پھیلتے ہی درختوں کی خشک شاخوں اور کھردرے تنوں سے لٹکی ہوئی بے ضرر گڑیائوں کی گھورتی ہوئی آنکھیں جزیرے کے قریب سے کشتیوں میں گزرنے والوں کو تیز تیز چپو چلانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

٭دی اورٹن پل
The Overtoun Bridge
اسکاٹ لینڈ کی کائونٹی ڈنبرٹن میں ایک چھوٹا سا پرسکون اور سرسبز گائوں ملٹن ہے یہ گائوں مشہور عمارت ’’اوورٹن ہائوس ‘‘ کے قرب میں واقع ہے اور اوورٹن ہائوس اسٹیٹ کا حصہ ہے ۔اس اوورٹن اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کے قریب سے دریائے ’’کلیڈ ‘‘ گزرتا ہے ۔

جس سے نکلنے والی ایک نہر کے اوپر اٹھارہ سو پچانوے میں تعمیر کیا گیا ایک معمولی سا خمیدہ پل ہے۔

اس پل کے نیچے نہایت کم مقدار میں پانی بہتا ہے جب کہ نہر کا فرش سخت چٹانی پتھروں اور جھاڑ جھنکاڑ سے اٹا ہوا ہے۔

سن انیس سو پچاس کی دہائی میں یہ پل اس وقت پراسرار حیثیت اختیار کرگیا۔ جب مقامی افراد نے محسوس کیا کہ اس پل سے بہت سے کتے کود کر اپنی جان دے رہے ہیں اور ان کے اس عمل کی بظاہر کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آرہی۔ واضح رہے کہ نہر میں مچھلیاں بھی نہیں ہوتیں جا ن دینے یا دوسرے لفظوں میں خودکشی کرنے والے یہ کتے عموماً لمبی تھوتھنی والے ’’لبیراڈوری‘‘ نسل سے تعلق رکھتے تھے کتوں کی یہ نسل زبردست قوت شامہ رکھتی ہے اور تیر بھی سکتی ہے۔

خودکشی کے حوالے سے یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کتے جس وقت خود کشی کرتے ہیں۔ اس وقت ہمیشہ موسم خوش گوار اور تیز چمک دار دھوپ نکلی ہوتی ہے ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی سامنے آئی کہ بہت سے کتے پچاس فٹ کی بلندی سے کودنے کے بعد مرنے سے بچ گئے تو وہ تیر کر دوبارہ پل پر آئے اور دوسری کوشش میں جان کی بازی ہار گئے۔

خودکشی کے عمل کا ایک اور پراسرار پہلو یہ بھی ہے کہ مرنے والے تمام کتوں نے اوورٹن ہائوس کی جانب سے آتے ہوئے پل کی دائیں جانب کی دیوار سے نہر میں کودکر خودکشی کی ہے۔اس حوالے سے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سن انیس سو چورانوے میں پل سے ایک شخص نے اپنی کم عمر بچی کو پھینک کر ماردیا تھا اور خود بھی خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی خود کشی میں ناکامی کے بعد اس نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ پل کے نزدیک واقع اوورٹن ہائوس آسیب زدہ ہے اور اسے ایسا کرنے کی ہدایت اوورٹن ہائوس سے آنی والی ایک آواز نے دی تھی۔

واضح رہے کہ ’’کیون موائے‘‘ نام کے اس شخص نے یہ عمل عین اس مقام پر انجام دیا تھا، جہاں سے کتے نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرتے ہیں پچاس سال میں لگ بھگ چھے سو سے زائد کتوں کی پراسرار انداز میں خودکشی کے عمل نے ’’اوورٹن پل‘‘ کو انسانوں کے لیے بھی خوف کی علامت بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پل پر سے گزرنے والے ہر شخص کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔

٭ہوآیا بیکیو جنگل
Hoia Baciu Forest
وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ملک رومانیہ خوب صورت پہاڑوں، سرسبز قطعہ اراضی، جھیلوں اور جنگلات پر مشتمل ہے۔

رومانیہ کے مرکزی حصے میں تاریخی خطہ ٹرانسلوانیا واقع ہے، جس کے پہاڑ خون آشام بلائوں کی آماج گاہ ہونے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ واضح رہے خوف اور دہشت کی علامت ڈریکولا کے کردار کے خالق ’’برام اسٹوکر‘‘ نے ڈریکولا کا مسکن بھی انہی پہاڑوں میں ظاہر کیا ہے۔ دوسری جانب اسی پراسرار خطے میں واقع شہر ’’کلج نکوپا‘‘ اپنے ایک ایسے پراسرار جنگل کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، جس کے بارے میں مقامی افراد کا خیال ہے کہ یہ جنگل خلائی باسیوں کا زمین پر رابطہ کا مرکز ہے۔

جنگل کا نام ’’ہوآیا بیکیو‘‘ نامی اس چرواہے کی یاد میں رکھا گیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس گھنے اور تاریک جنگل میں اپنی دو سو بھیڑوں کے ساتھ غائب ہوگیا تھا اور کبھی واپس نہیں آیا تاہم جنگل اس وقت عالمی سطح پر خبروں کی زینت بنا تھا جب اٹھارہ اگست انیس سو اڑسٹھ کو ایک ملٹری ٹیکنیشن ’’امل بارنیا‘‘ نے کام کے دوران حادثاتی طور پر جنگل کے عین اوپر ایک ایسی عجیب و غریب شے کی تصویر اتاری تھی جسے بعد میں تمام حلقوں کی جانب سے نامعلوم اڑن طشتری قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح سن انیس سو ساٹھ ہی کی دہائی اور سن انیس سو ستر کی دہائی میں بھی یہاں پر مقامی افراد نے اڑن طشتریوں کی نقل وحمل کا مشاہدہ کیا تھا۔

اس عرصے میں ماہر حیاتیات ’’الیگزنڈر اسٹف ‘‘ کی کھینچی ہوئی تصاویر بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ خلائی مخلوق کے موجودگی کے علاوہ جنگل کے دوسرے پراسرار اور ناقابل یقین پہلوئوں میں سے ایک جنگل میں داخل ہونے والو ں کا مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونا یا جنگل کے قریب سے گزرتے ہوئے مسافروں کو یہ محسوس ہونا کہ جنگل میں سے کوئی مستقل انہیں دیکھ رہا ہے یا روشنیوں کے ہیولے ان کا تعاقب کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگل کے بعض حصوں میں موجود درختوں کے تنوں اور شاخوں کا انتہائی عجیب وغریب انداز کی وضع وقطع یا شکلوں میں مڑا ہوا ہونا شامل ہے۔

اس کے علاوہ جنگل میں بہت سی ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں ان عجیب وغریب تنوں والے درختوں میں گھری دائرے کی شکل میں صرف زمین نظر آتی ہے اور جب بھی اس زمین پر کچھ اگانے کی کوشش کی گئی تو وہاں کچھ بھی کاشت نہیں ہوسکا، حالاں کہ مٹی کے تجزیوں نے ثابت کیا ہے کہ یہاں کی مٹی ہر لحاظ سے قابل کاشت ہے۔

اس کے علاوہ کچھ انتہائی اہم اور اپنی نوعیت کے منفردواقعات میں ایسا بھی ہوا ہے کہ جب کوئی شخص جنگل میں داخل ہونے کے بعد اس کے چند مخصوص حصوں میں پہنچا تو اسے اپنے ماضی کے واقعات لمحہ بہ لمحہ یاد آنا شروع ہوگئے اور وہ جیسے ہی اس حصے سے نکلا تو واقعات کا تسلسل ٹوٹ گیا، بل کہ اس دوران اس کے پاس موجود برقی آلات نے بھی غیرمتوقع انداز کے نتائج دینے شروع کردیے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ کئی موقر رسالوں، ٹی وی کے ریالٹی شوز اور بی بی سی جیسے نشریاتی اداروں کی جانب سے دوسو پچاس ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ’’ہو آیا ہیکیو جنگل‘‘ پر پیش کی جانے والی تفصیلات اور پروگراموں میں اسے رومانیہ کا ’’بر مودا ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے بھی لکھا اور پکارا جاتا ہے۔

٭تیرتے پتھر
Sailing Stones
امریکا کی ریاستوں کیلی فورنیا اور نواڈا میں پھیلی ہوئی ’’موت کی وادی‘‘ اپنے پراسرار ماحول اور انوکھے واقعات کے باعث دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتی ہے شمالی امریکہ کے سب سے خشک اور گرم مقام کا درجہ رکھنے والی یہ وادی لگ بھگ پونے چونتیس لاکھ ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔

اس بنجر وبیابان وادی کے شمال مغرب میں ایک علاقہ ’’دی ریس ٹریک‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس مقام پر ماضی میں کبھی جھیل ہوا کرتی تھی جو اب خشک ہوچکی ہے۔

اس جھیل کی چٹخی ہوئی خشک سطح پر موجود گھسٹتے اور لڑھکتے پتھر اور ان سے بننے والے نشان ابھی تک عام انسانوں اور سائنس دانوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اپنے مخصوص راستوں پر ہر دو سے تین سال بعد انتہائی معمولی فاصلے پر گھسٹنے والے یہ پتھر بغیر کسی امدادی قوت کے یہ عمل انجام دیتے ہیں۔

چند گرام سے سیکڑوں کلوگرام وزن کے ان منفرد پتھروں کے اس عمل کے پیچھے کون سی قوت کار فرما ہے۔ یہ بات ابھی تک طشت ازبام نہیں ہوسکی ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف سائنس داں حیرت میں گم ہیں بل کہ روحانیت اور اسی طرح کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھی لاعلم ہیں۔

وادی میں وقوع پذیر ہونے والے اس قسم کے مختلف محیرالعقول جغرافیائی واقعات اور حالات کی کثیر تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی افراد جو کہ اب بہت کم تعداد میں رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موت کی وادی میں آنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دادی میں جب داخل ہوں تو اسے اپنا ممکنہ طور پر آخری سفر سمجھیں۔

مسجد دائی انگہ : مغلیہ عہد کے فن تعمیر کا شاہکار

$
0
0

برصغیر پاک و ہند میںمغل عہد کے ابتدا سے آخر تک‘ تمام ادوار میں شاہی بیگمات کے بعددایۂ خواتین کو ایک خاص مقام حاصل رہا۔ دایہ خواتین کا ادب و احترام ترکوں اور عربوں کے ہاں بھی بہت درجہ رکھتا تھا۔ ہندوستان میںان خواتین کو بہت عزت وتکریم حاصل رہی جن کے ہاتھوں سے شہزادے‘ شہزادیدں تولد ہوئے۔

شہزاد خرم جو کہ بادشاہ بننے کے بعد شاہ جہان کہلائے، روایات کے مطابق عہد جہانگیری میں زبیب النساء نامی دایہ تھیں اور خرم نہ صرف ان کے ہاتھوں تولد ہوئے مزید یہ کہ زیب النساء نے شہزادے کو اپنا دودھ بھی پلایا جس کی وجہ سے ان کو دائی انگہ کا خطاب بھی ملا، اس کی وجہ لفط ’’انگ‘‘ کے معنی ہیں جو کہ جسم یا جنم کے کسی حصے کے ہیں۔ شاہ جہاں تمام عمر آپ سے شدید انس کی حالت میں رہا‘ روایات کے مطابق شاہ جہان نے ان کے اعزاز میں گلابی باغ کی تعمیر کروائی اور دائی انگہ کو بعد از وفات اسی باغ میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبر پر ایک انتہائی خوبصورت مقبرے کی تعمیر کروائی گئی۔ یہ باع اور مقبرہ آج بھی جی ٹی روڈ لاہور میںانجینئرنگ یونیورسٹی سے شالا مارباغ کو جاتے ہوئے لب سڑک بائیں جانب د یکھے جا سکتے ہیں۔ دائی انگہ نے اپنی زندگی میں ہی نولکھا باغ کے قریب ایک انتہائی خوبصورت مسجد تعمیر کروائی جو آج تک آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔

مغل سرکار جب تک بام عروج میں رہی اس دور کی تعمیرات بھی سرکاری نگہداشت میں رہیں۔ جب وقت کے پہیے نے پلٹا کھایا تو اہل حکم اور ان کی تعمیرات بھی زبوں حالی کی جانب مائل رہے۔ لاہور میبں تعمیر کی گئیں کئی دیگر عظیم الشان عمارات کے ساتھ ساتھ اس مسجد نے بھی تاریخ کے کئی رنگ دیکھے۔ اس کا حوالہ ہمیں کنہیا لال ہندی کی کتاب تاریخ لاہور (ص273) پر یوں ملتا ہے۔

’’یہ مسجد مغلیہ سلطنت کے وقت بڑی رونق پر رہی کہ بہت سی جائیداد بانیہ نے اس کے ساتھ وقف کی ہوئی ہے۔ جب زمانہ پلٹ گیا اور شہر کو غارت گروں نے بار بار لوٹا اور باہر شہر کی آبادی بالکل ویران ہو گئی تو یہ مسجد باقی رہ گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت اس میں سالہا سال بارود و گولا بھرا رہا۔ جب انگریزی وقت آیا تو یہ مسجد خالی ہوئی اور درج نقشہ نزول کی گئی۔ چونکہ عمارت مطبوع و وسیع تھی‘ مسٹر کوپ صاحب مہتمم مطبوع لاہور کرانیکل نے سرکار سے اجازت لے کر اس مسجد کو کوٹھی بنا لیا۔ چند سال وہ رہتا رہا۔ آخر جب کارخانہ ریل کا اس موقع پر جاری ہوا تو یہ مسجد بھی ریل والوں نے لے لی اور روپیہ قیمت کا کوپ صاحب کو ادا کر دیا۔ اب وہ کوٹھی‘ جس کو مسجد کہنا چاہئیے‘ ریل والوں کے قبضے میں ہے اور مسٹر بو کی صاحب افسر کارخانہ آہنگراں اس میں رہتا ہے‘‘۔

دائی انگہ کی مسجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ  اس کے اردگرد ایک عظیم الشان محلہ بھی آباد ہوتا گیا۔ لاہور میں دائی انگہ کی مسجد کی مانند‘ دائی لاڈو کی مسجد بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دونوں دایہ حضرات کی کئی دیگر مماثلتوں کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے ناموں سے منسوب محلے بھی ملتے ہیں۔ دائی انگہ کے نام سے منسوب محلے میں کئی عظیم عمارات تعمیر ہوئیں  لیکن یہ تمام محلہ انگریز سرکار کے عہد میں ریلوے کے نظام میں کام آیا۔ اسی محلے کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔111) پر یوں کیا ہے۔

’’یہ محلہ شاہان اسلام کے وقت دائی انگہ نام کی ایک معزز دایہ نے آباد کیا تھا۔ عالی شان حویلیاں امرائے عظام کی اس میں بہت تھیں اور تمام محلوں سے آراستہ محلہ تھا۔ موضع غارت گری کے وقت اس کے رہنے والوں نے اپنی حفاظت کا انتظام بہت کیا۔ پختہ دروازے اور فصیل بنوائی۔ مدت تک اپنے محلے میں غارت گروں کو داخل ہونے نہ دیا۔ آخر روز روز کی مزاحمت سے تنگ آ گئے اور مکانات چھوڑ کر بھاگ گئے۔ محلہ ویران ہو گیا۔ یہ وہ موقع تھا جہاں سٹیشن ریلوے کا کارخانہ ہے۔ طرح طرح کے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ پرانی عمارات میں صرف ایک مسجد پختہ دائی انگہ کی موجود ہے جس کو صاحبان انگریز نے کوٹھی کی صورت بنا لیا ہے۔ اس کے بغیر اور کوئی علامت محلے کی موجود نہیں ہے۔‘‘

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سرکار کے عہد میں جو کچھ اس محلے اور مسجد کے ساتھ ہوا۔ وہ کسی بھی طور اطمینان بخش نہ تھا۔ محلے کو تو اس وقت کے مسلما ن نہ بچا سکے۔ لیکن اس مسجد کے بارے میں ان کے جذبات پنپتے رہے اور جب  1901ء میں منشی محمد الدین فوق مرحوم نے اپنا اخبار جاری کیا تو اس کے پہلے ہی پرچے میں مسجد کی بے حرمتی اور اس کے استعمال کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے بعد دیگر اخبارات نے بھی مسلمانوں کی اس تاریخی عبادت گاہ کے حق میں تحریر کرنا شروع کیا۔ یوں مسجد کی واگزاری ایک تحریک بن گئی اور مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باعث 1903ء میں یہ مسجد مسلمانوں کو باعزت طور پر لوٹا دی گئی لیکن پھر بھی ریلوے کے نظام کی توسیع کے باعث اس مسجد کا ایک بڑا حصہ ریلوے لائن اور ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک کی نذر ہو گیا۔ لیکن مسجد کی عمارت کا مزکری حصہ ان حوادث کے باوجود قائم و دائم رہا۔ مسجد کی خوبصورتی اور عمارت کی مضبوطی کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور (ص۔273) پر یوں تحریر کیا۔

’’یہ مسجد اندر سے کانسی کار ہے۔ محرابوں پر کام کانسی نہایت عمدہ و تروتازہ اب تک موجود ہے جس پر قرآن شریف کی آیتیں و درود شریف بہ خط نسخ خوش خط تحریر ہیں۔ صاحبان انگریز  نے بھی بہ سبب خوبصورتی کے بحال و برقرار رکھا ہوا ہے کہ ایسا رنگین و منقش کام ہونا اب مشکل ہے۔ مسجد کی تین عالی شان محرابیں قالبوتی خوش قطع ہیں‘ دو خرد‘ ایک کلاں عمارت تمام خشتی منقش کالنسی کار ہے۔ اندر سے بھی مسجد کے تین درجے ہیں۔ قالبوتی سقف اور اوپر سقف کے تین گنبد مدود عالی شان بنے ہیں۔ پہلے اس کے چار مینار تین تین منزلہ تھے۔ اب دو والے مینار باقی ہیں۔ پچھلے گر گئے ہیں۔ ایک ایک منزل ان دونوں کی بھی گر گئی ہے اندر سے پولے نہیں ہیں‘‘۔

قیام پاکستان کے بعد بھی اس مسجد نے کوئی خاص اچھے حالات نہیں دیکھے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اس مسجد کی مغربی سیدھ میں فوجی بیرکیں تعمیر کی گئیں لیکن مسجد کی خاص عمارت عبادت ہی کے لئے استعمال میں رہی۔ مسجد کی مرمت اور دیگراضافی عمارات کی تعمیر میں اس کے پرانے طرز تعمیر کو بالکل ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔

عہد حاضر میں جب ریلوے اسٹیشن سے علامہ اقبال روڈ سے گڑی شاہو کی جانب جایا جائے تو اسٹیشن سے آگے پہلے ہی چوک کے دائیں جانب ہومیوپیتھک کی دوائیوں کی بہت سے دکانیں نظر آتی ہیں اور اسی چوک سے پہلے بائیں جانب ایک سڑک ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک تک جاتی ہے۔ اس سڑک کو بوگی روڈ کہا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے ریلوے کی بوگیوںکے باعث اس سڑک کو بوگی روڈ  کا نام دیا گیا ہو ۔ اسی سڑک پر ریلوے کا ڈی ایس آفس اور ہسپتال ہے۔ اسی عمارت میں کبھی ایک گرجا گھر بھی ہوتا تھا جو کہ اب دیگر امور کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ تقسیم سے قبل اس مسجد کے اردگرد کی آبادی ریلوے ملازمین کی رہائشوں پر مشتمل تھی۔ اب بھی یہ علاقہ زیادہ تر ملازمین ہی کے زیر استعمال ہے۔ لیکن پھر بھی تقسیم کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد سہارنپور‘ انبالہ ور یوپی سے آکر بسی۔ مسجد کی جنوب مشرقی سیدھ میںعیسائیوںکی آبای ہے جو کہ بیل احاطہ کے نام سے معروف ہے۔ اسی علاقے میں کبھی مشہور ٹیسٹ کرکٹر یوسف یوحنا رہا کرتے تھے جو بعدازاں مسلمان ہو کر محمد یوسف کے نام سے پہچانے گئے۔ مسجد کے اردگرد کا علاقہ انگریز تعمیرات اور عہد انگریز میں تعمیر ہونے والی ریلوے کی کالونی اور کوٹھیوں سے بھرا پڑا ہے۔ خوش قسمتی سے یہاں پر دیگر تعمیرات کی اجازت نہیں وگرنہ اس کی حالت بھی لاہور کے دیگر پرانے علاقوں سے قطعاً مختلف نہ ہوتی جہاں پر مارکیٹوں اور پلازوں کی بھرمار ہے۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میںکارسن کرکٹ گراؤنڈ ہے۔ جہاں آج بھی بہت زیادہ کرکٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی گراؤنڈ کی جنوبی سیدھ میں برٹ ہال ہے لیکن انگریز عہد میں اس ہال میں ہونے والے ناچ کے باعث آج تک یہ ہال ’’ناچ گھر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ برٹ ہال میں ریلوے کمیونٹی سنٹر کے ساتھ ساتھ دیگر دفاتر بھی موجود ہیں۔

اس ہال کو آج کل بطور شادی گھر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناچ گھر کی گراؤنڈ بھی ہے جو کہ زیادہ تر ہاکی اور فٹ بال کے کھیل کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ جب تک پتنگ بازی پر پابندی نہ تھی تو اس گراؤنڈ میں اپنے وقت کے جگت استاد پتنگ باز‘ پتنگ بازی کرتے دیکھے گئے۔ جب ہم دائی انگہ کی مسجد کی شمال مشرقی سیدھ میں آتے ہیں تو ہمیں انگریز عہد میں تعمیر شدہ ایک بے مثال پل دکھائی دیتا ہے جوکہ ڈی ایس آفس سے ریلوے سگنل ورکشاپ تک جاتا ہے۔ اس پل کو ’’اینٹرلاک پل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ریلوے سگنل ورکشاپس سے ایک راستہ جی ٹی روڈ تک جاتا ہے۔ آج کے دور میں اس پل کو استعمال کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ویگن‘ بس یا پیدل سفر کرتے ہیں۔

اس پل کی تعمیر میں سب سے کمال چیز یہ ہے کہ پل کی دونوں جانب کی سیڑھیوں کی دونوں سیدھوں میں ریل کی پٹڑی ہے جو کہ سائیکل سوار حضرات ان پٹڑیوں پر سائیکل کا پہیہ رکھ کر اوپر پل تک جاتے ہیں اور دوسری جانب نیچے کو اترتے ہیں یہ پل لوہے کے پائپوں کی مدد سے کھڑا کیا گیا ہے اور اسی پل سے مغرب کی جانب لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت دکھائی دیتی ہے۔ اس پل کے نیچے ریل کی پٹڑیوں کا ایک جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آج کل ان سیڑھیوں پر الگ الگ بڑی تعداد میں ریل کی سفری اور سامان کی ترسیل کی بوگیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔

مقامی آبادی اس جگہ کو ریلوے کا قبرستان کہہ کر پکارتی ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلی سرکار میں موجود وزراء میں سے کچھ کا یہ خیال تھاکہ دنیا میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پر ریلوے کا نظام موجود نہیں، سو پاکستان کو بھی ان ممالک میں شمار کر لینا چاہئیے، ایک زمانے تک ان ریل کی پٹڑیوں کی چوری کے بہت سے واقعات دیکھنے کو ملے۔ اسی پل کی جنوبی سیڑھیوں کے سامنے والی گلی کو ’’سیلون سائیڈ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی گلی کے اختتام پر ایک بجلی کا پول ہے جو کہ دائی انگہ کی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔ اسی پول پر کئی ننگی تاریں ہیں جو کسی بھی وقت کسی حادثے کا باعث بن سکتی ہیں۔ پل کی انہی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک میز کرسی پر وزیر آباد سے آئے ایک بزرگ حمام کی برسوں سے بالوں کی کٹائی اور شیو بنا کر اپنے بال بچوں کی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ 1995ء میں ان صاحب کی ایک اچھی خاصی دکان کراچی میں تھی جو کہ لسانی تضادات کے باعث جلا دی گئی اور آج بھری پری دکان کا مالک سڑک پر میز کرسی رکھے اپنا وقت رب کا شکر ادا کر کے گزار رہا ہے۔

مسجد کا وسطی داخلی دروازہ عین ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک کے سامنے ہے۔ اس کو ایک زمانے تک انڈیا کا ایک پلیٹ فارم بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی پلیٹ فارم پر انڈیا کی گاڑی آ کر رکا کرتی تھی۔ لیکن اب یہاں محض بوگیاں ہی کھڑی ہوتی ہیں جس طرح آج بھی بڑے بزرگ نہر سے گزرتی ریلوے لائن کو امرتسر ریلوے لائن کہہ کر پکارتے ہیں اسی طرح کچھ بزرگ آج بھی اس ریلوے پلیٹ فارم کو انڈیا ہی کی مناسبت سے پکارتے ہیں۔ فن پہلوانی کے زوال کے باعث 1980ء کی دہائیوں میں لاہور کے ایک انتہائی معروف پہلوان ہندوستان سے آئی سواریوں سے جگا ٹیکس بھی وصول کیا کرتے تھے۔ مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے ایک قدیمی تالاب اپنے فوارے سمیت دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اب یہاں وضو نہیں ہوتا کیونکہ اس میں کئی رنگ برنگی مچھلیاں چھوڑ دی گئیں ہیں۔ اس فوارے کے بائیں جانب وضو خانے اور غسل خانے ہیں اور سامنے مغرب سیدھ میںامام صاحب کا گھر  ہے جس کا طرز تعمیر بالکل جدید ہے اور کسی بھی طور مسجد کی عمارت سے میل نہیں کھاتا۔ دائیں سیدھ میں عہدرفتہ کی یہ عظیم یاد گار دکھائی دیتی ہے۔ جس کی دونوں جانب ایک ایک مینار ہے۔ یہ دونوں مینار چھت سے اوپر تک اصل تعمیر کے بعد تعمیر شدہ ہیں جبکہ مسجد کی بنیادی تعمیر میں چار عظیم الشان میناروں کا ذکر ملتا ہے۔ ان دونوں میناروں کے درمیان میں مسجد کے تین عظیم الشان گنبد اپنی پوری آب و تاب سے دکھائی دیتے ہیں۔ سامنے اور دائیں بائیں سیدھوں کی دیواروں اور مسجد کے اندرونی ہال میں پرانا کاشی کاری کا نفیس کام آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے ہال کے وسطی حصے میں جدید طرز کی ٹائلیں نصب کی ہیں۔ اس بات کا شدید امکان موجود ہے کہ کسی بھی وقت اس عظیم الشان مسجد کی قدامت کے رنگ ختم کر کے یہاں طرز جدید کی ٹائلیں نہ لگا دی جائیں۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے پائپوںکی مدد سے برقی پنکھوں کی تنصیب کی گئی ہے۔ لیکن اس تنصیب میں بھی کسی طور پر قدامت کو کسی بھی طور مد نظر نہیں رکھا گیا۔

دائی انگہ کی تعمیر کردہ یہ مسجد اور ان کا مقبرہ آج بھی لاہور کی قدیم عمارات میں بہترین حالت میںموجود ہیں۔ لیکن ان کو مزید سرکاری نگہداشت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ لوگوں میں تاریخ کا شعور اجاگر کیا جائے تاکہ پچھلے وقتوں کی ان نایاب اور انمول تعمیرات کو ان کے مقام کے برابر کی حفاظت اور عزت وتکریم ملے۔

نیوکلیئر پاور پلانٹس

$
0
0

قیام پاکستان کے بعد جلد ہی اس وقت کے پالیسی سازوں اور حکومت کواس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ملک کو خوش حالی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا حصول آنے والے دور کی اہم ضرورت ہوگی، یہ ہی وجہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہٹ کر سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا حصول بھی ماضی کے حکم رانوں کی ترجیحات میں شامل رہا۔یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ انیس سو پچاس کی دہائی میںفرانس، روس، امریکا اور برطانیہ نے اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والے ایٹمی بجلی گھر بنا لیے تھے، اس کام یاب تجربے کے بعد انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ہم سایہ ملک بھارت کے علاوہ سویڈن، کینڈا، اسپین، نیدرلینڈز، اٹلی، جاپان، بلجیئم اور سوئیزرلینڈ نے بھی ایٹمی بجلی گھر بنا لیے۔

اس صورت حال میں وقت کا تقاضا تھا کہ پاکستان بھی اپنی بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کرے لہٰذا کینیڈا کی مدد سے کراچی میں جوہری توانائی سے چلنا والا  پہلا بجلی گھر تعمیر کیا گیا۔ بھاری پانی سے چلنے والے پاکستان کے اس پہلے کراچی نیوکلیئرپاور پلانٹ نے 1972میں پیداوار شروع کی اور اس طرح 137میگا واٹ کے کراچی نیوکلیئرپاور پلانٹ کی تعمیر سے پاکستان دنیا کا پندرہواں ملک بن گیا جو جوہری توانائی سے بجلی حاصل کر رہا تھا۔

لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا اور 1976 میں کینیڈا نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کو چلانے سے معذرت کرلی اور اسے چالو رکھنے سے متعلق ہر قسم کی امداد بند کردی تاہم ملک کے قابل فخر سائنس دانوں نے بندش کو مثبت انداز میں لیا اور پاور پلانٹ کو چلانے، ایندھن کی تیاری اور مرمت سے متعلق امور پر اپنی توانائیاں صرف کیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے میں پاور پلانٹ کو چلانے اور اس کے ایندھن کی تیاری اور مرمت کے کاموں میں مہارت حاصل کر لی۔ کینیڈا نے انکار کیا کیا ’’گویا دبستاں کھل گیا‘‘ پاکستان نے جوہری توانائی کے باب میں نئی تاریخ مرتب کرنا شروع کر دی۔ سائنس دانوں نے دن رات کی محنت سے وہ استعداد حاصل کر لی کہ جو شائد پاور پلانٹ کو کینیڈا کے تعاون سے چلانے کی صورت میں کئی سالوں تک بھی حاصل نہ ہوتی۔۔

جوہری توانائی سے بجلی گھر بنانے کے منصوبے،مناسب جگہ کی تلاش اور فزیبلیٹی میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔اس لیے ایک نئے جوہری توانائی سے چلانے والے ایٹمی پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے جگہ کے تلاش میں بھی کئی سال لگ گئے، چھبیس دسمبر 1992 وہ دن تھا کہ جس دن چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون کی بنیاد رکھی گئی اور کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد وہ دن بھی آیا کہ اس پاور پلانٹ سے پندرہ ستمبر سن دوہزار کو بجلی کی باقاعدہ پیداوار بھی شروع ہوئی۔تین سو پچیس میگا واٹ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون پاکستان کی جوہری توانائی کی منزل نہ تھا بلکہ یہ تو وہ سنگ میل تھا کہ جس پر چل کامیابیوں کے اور جھنڈے گاڑنے تھے۔آٹھ اپریل دو ہزار پانچ کو چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو کی بنیاد رکھی گئی۔اس پاور پلانٹ کی تعمیر میں دن رات ایک کر دئیے گئے کم وسائل کے باوجود بھی چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو نے تیس سو تیس میگا واٹ کی باقاعدہ پیداوار اٹھارہ مئی دو ہزار گیارہ میں شروع کر دی۔اس طرح مجموعی طور پر چھ سو ساٹھ میگا واٹ سے زیادہ بجلی چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون اور ٹو سے حاصل کی جارہی ہے۔

جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ تھری اور چشمہ نیوکلیئر پلانٹ فور پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ فور کے منصوبے کا سنگ بنیاد یکم اپریل سن دو ہزار گیارہ کو رکھا گیا۔چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اکتیس مارچ دو ہزار سولہ تک جبکہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اکتیس دسمبر دو ہزار سولہ تک اپنی پیداوار شروع کرکے نیشنل گرڈ سٹیشن سے منسلک ہوجائینگے۔اور دوہزار سولہ تک دونوں  پلانٹس سے مجموعی طور پر چھ سو تیس میگا واٹ کی بجلی حاصل کی جاسکے گی۔

جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کی کوششیں یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیراعظم میاں نواز شریف چھبیس نومبر دو ہزار تیرہ میں کراچی میں گیارہ گیارہ سو میگا وات کے دو جوہری توانائی سے چلانے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ K 2,K3 کاسنگ بنیاد بھی رکھ دیا ہے۔یہ نیوکلیئر پلانٹس اکیاسی سے اکیانوے ماہ میں تیار ہو جائینگے۔اس میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ پاکستان چھوٹے جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر میں مہارت حاصل کرنے کے بعد گیارہ سو میگا واٹ کے بڑے بجلی گھر تیار کرے گا۔

پاکستان نے جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے وژن2050 بنایا ہے جس کے مطابق اب تک سال2013تک پاکستان میں جوہری توانائی سے سات سو پچاس میگا واٹ کی بجلی تیار کی جارہی ہے۔سال دوہزار  سولہ تک چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس تھری اور فور کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک ہزار چار سو تیس میگا واٹ بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔اسی طرح سال دو ہزار اکیس تک تین ہزار پانچ سو تیس میگا واٹ،سال دو ہزار اکتیس تک نو ہزار میگا واٹ،سال دوہزار چالیس تک پچیس ہزار میگا واٹ اور سال دوہزار پچاس تک بیالیس ہزار میگا واٹ بجلی جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ٹو اور کے تھری کے بعد مظفر گڑھ میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی منصوبہ کرلی گئی ہے جس کی منظوری جلد ہی ایکنک سے لے لی جائے گی۔

آخر سولر،ہائیڈل اور وینڈ مل سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے جوہری توانائی سے بجلی کیوں پیدا کی جارہی ہے۔اس وجہ یہ ہے کہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے سات روپے فی یونٹ کی بجلی نیشنل گرڈ سٹیشن کو دی جا رہی ہے جبکہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس تھری اور فور سے سن دو ہزار سولہ میں فی یونٹ بجلی نو روپے59پیسے پر دی جائے گی۔اس وقت وینڈ مل سے تیار ہونے والی بجلی چار مختلف پیداواری کمپنیاں تیرہ روپے پچیس پیسے سے سولہ روپے گیارہ پیسے فی یونٹ کے حساب سے دے رہی ہیں جبکہ سولر انرجی سے ملنے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت اکیس روپے انچاس پیسے ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو سب سے سستی بجلی جوہری توانائی کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔

سستی بجلی کے حصول کے علاوہ قیمتی زرمبادلہ کے سالانہ بچت کو دیکھا جائے تو سالانہ ایک ہزار میگا وات جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صورت میں سالانہ ملک کو ایک ارب ڈالر کا کثیر زرمبادلہ بچ سکتا ہے۔کیونکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی سالانہ تیاری پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ لاگت صرف فرنس آئل کی خریداری پر آتی ہے اور ہر چند ماہ میں تیل کے ریٹ میں اتراؤ چڑھاؤ کا فرق بھی بجلی کی قیمت پر پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تیل کے بڑے ذخائر رکھنے والے ممالک  جس میں متحدہ عرب امارات،برطانیہ اور امریکا بھی جوہری توانائی سے چلانے

والے بجلی گھر تیار کر رہے ہیں۔امریکا نے پینتس سال گزرنے کے بعد گذشتہ سال نو مارچ دوہزار

تیرہ بارہ سو پچاس میگاواٹ جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھر پر کام شروع کر دیا ہے ۔اسی طرح برطانیہ نے اٹھارہ سال کے بعد سولہ سو ستر میگاواٹ جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھرکے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک جس میں متحدہ عرب امارات سال دو ہزار سترہ تک،سعودی عرب سال دوہزار دو ہزار بیس تک جبکہ ترکی دو ہزار اٹھارہ تک، بیلاروس دو ہزار انیس تک،اردون،بنگلہ دیش،مصر،ویتنام نے بھی دو ہزار بیس تک جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھربنانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

دیکھا جائے تو جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں نے دو ہزار بیس کے بعد کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ایک طرف تو اگر ناروے،پولینڈ،سینیگال،آئرلینڈ جیسے ممالک منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو دوسری جانب کینیاِِ،گانا،نائیجریا،چلی،تھائی لینڈ،سری لنکا جیسے ممالک بھی جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے دوہزار بیس کے بعد کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو جوہری توانائی سے بجلی کا حصول اک مہنگا ذریعہ ہے تاہم دوسرے ذرائع کی نسبت یہ دیرپا اور سستا طریقہ ہے۔محدود وسائل کی وجہ سے وسیع پیمانے پر جوہری توانائی سے بجلی کا حصول ممکن نہیں ہے تاہم اگر ایک نظر دیکھا جائے تو سال دو ہزار تیس تک بجلی کی کل پیداوار کا پاکستان میں پانچ اعشاریہ چار فیصد جوہری توانائی سے حاصل ہو گا جبکہ بھارت دوہزار تیس تک اپنی کل بجلی کی پیداوار کا چار فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرے گا۔اسی طرح جنوبی کوریا انتیس فیصد،روس چودہ فیصد جبکہ چین سات فیصد بجلی دو ہزار تیس میں جوہری توانائی سے حاصل کرسکے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ کم وسائل اور عالمی پابندیوں اور امداد نہ ہونے کے باوجود پاکستان نے جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنے کا کارنامہ ایک دن ،ہفتے  میں نہیں حاصل کیا ہے بلکہ پاکستان اٹامک  انرجی کمیشن نے منزل بہت تگ و دو اور شب روز کی مسلسل محنت اور تحقیق کے بعد حاصل کی ہے۔

پاکستان  ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جو کہ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے بجلی حاصل کر رہے ہیں۔یہ تب ہی ممکن ہوا کہ جب پاکستان اٹانک انرجی کمیشن کے اداروں سے انتہائی تربیت یافتہ سٹاف دن رات کی محنت سے اس ناممکن کو ممکن بنایا۔

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر جہاں بین الاقوامی اخبارات میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ پاکستان نے جوہری پروگرام کے شروع دن سے ایک احساس ذمہ داری کے تحت ایک خود مختار ادارہ پاکستان نیوکلیئر ریگولیرٹی اتھارٹی بھی بنایاہے جو کہ جوہری پروگرام کے لیے محفوظ پروگرام جو کہ بین الاقوامی ادارہ آئی اے ای اے کے حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے۔

یہ امر بھی تعجب خیر ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کا ہر تین ماہ بعد آئی اے ای اے اورڈبلیو اے این او کے اہلکار ہر تین ماہ کے بعد معائنہ کرتے ہیں اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے پرامن جوہری پروگرام کیخلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

تابکاری یا دوسر ی ناآگہانی آفات سے بچنے کے لیے پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس میں تمام حفاظتی اقدامات بین الاقوامی معیار کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں کراچی میں بننے والے نیوکلییر پاور پلانٹس کے ٹو اور کے تھری کی تعمیر میں خصوصی طور پر حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھا گیا ہے بلکہ حال ہی میں تسامی اور زلزلے سے جاپان میں نیوکلیئر پاور پلانٹس کو پہچنے والے نقصان کو خصوصی طور پر دیکھتے ہوئے تمام تر حفاظتی اقدامات بشمول مستقبل میں کسی ناآگہانی قدرتی آفات کی صورت میں پاور پلانٹس میں تمام حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔

پاکستان میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کے وژن دوہزار پچاس میں نیوکلیئر پلانٹس کی تعمیر میں تمام تر حفاظتی اقدامات کو پہلی ترجیح میں رکھا گیا ہے۔

ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے باوجود اس کے کوئی ملک بشمول امریکا پاکستان کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول میں مد د نہیں کر رہا ہے صرف چین اس وقت پاکستان کا مشکل وقت کا دوست ہے جو کہ ہر طرح کی مدد پاکستان کو دے رہا ہے۔

دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے لیکن اس کے باوجود جب سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی بات ہو تو امریکا نے پاکستان کی بجائے بھارت کی مدد کرنا بہتر سمجھا یہی وجہ ہے کہ اب تک امریکا بھارت کے ساتھ ایک سو تیئس سے زیادہ جوہری توانائی کے مختلف منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے۔

نام نہاد دوستوں کی مدد نہ کرنا بھی پاکستان کے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی پروگرام کے قدم نہ ڈگمگا سکا ہے اور نہ ترقی کی راہ میں اس کی رفتار سست کر سکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سال دوہزار پچاس دور ہی سہی لیکن آنے والی نسل کو جوہری توانائی سے بیالیس ہزار میگا واٹ بجلی کا تحفہ ضرور ملے گا۔

ناقدوں کے ناقد

$
0
0

سات سال ہوتے ہیں، رات گئے منشایاد کا فون آتاہے، چھوٹتے  ہی پوچھتے ہیں: ’’آپ ای میل کا جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ حملہ اتنا اچانک تھاکہ میں ایک لمحے کو بھونچکا رہ گیا، سوچا کیا لیکن سمجھ میں نہ آیا تو الٹا سوال کر دیا : ’’ کون سی میل کا جواب منشا صاحب؟‘‘ ’’میں ساجد رشید کی میل کا ذکر کر رہا ہوں، ساجد نے ایک میل تین بار بھیجی آپ کو۔‘‘

میرا میل اکاؤنٹ میرے سامنے کھلا پڑا تھا اور وہاں ساجدرشید (افسانہ نگار :مدیر’’ نیا ورق‘‘) کی کوئی میل نہیں تھی جس پر منشایاد نے ساجدرشید کی میل مجھے فارورڈ کر دی۔ اس میں میرے حوالے سے شکایت تھی اوراس کے ساتھ وہ ٹیکسٹ بھی لف تھا جو مجھے ساجد رشید بھیجنا چاہتے تھے۔ میری سرزنش کے دورانیے میں منشایاد نے مجھے مبارک دی تھی کہ میرے افسانے نے وارث علوی جیسے ’’ٹیڑھے نقاد‘‘ سے تحسین پائی تھی۔ واضح رہے کہ ’’ٹیڑھا‘‘ منشایاد نے کہا تھا۔ ساجد رشید نے لکھا تھا: ’’وارث علوی نے تمہارے افسانے ’’مرگ زار‘‘ کو پڑھ کر اس کی تیکنیک کو بہت سراہا ہے اور خوش ہو کر کہا ہے کہ افسانہ تو پاکستان میں لکھا جا رہا ہے۔‘‘ میں نے فوراً ساجد رشید کو معذرت کا فون کیا، شاید میں سارا قصہ ان کی زبانی سننا چاہتا تھا، پھر اگلے روز میں نے وارث علوی کو فون کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان سے بات کر رہا تھا اور پھر گاہے گاہے ان سے باتیں ہوتی رہیں۔

ساجد رشید کے اچانک مرنے کی خبر آئی تھی تو منشایاد نے مجھے فون کرکے بلایا تھا اور ہم دیر تک ساجد کو یاد کرتے رہے تھے، پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ منشایاد بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جی یہ سانحہ بھی اچانک ہوا تھا۔ ایسے میں ایکاایکی  یاد آگئے، میں نے وارث علوی کو فون کیا، اُن تک منشایاد کی وفات کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، دیر تک منشایاد کی باتیں کرتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے دونوںکوعالمی فروغِ ادب ایوارڈ دیا گیا تھا اور اس سلسلے کی تقریب میں دونوںدوحہ میں ملے تھے۔ وارث علوی نے اس ملاقات کو بہ طور خاص یاد کیا اور کہا کہ اگر صحت نے اجازت دی تو وہ منشایاد پر کتاب لکھنا چاہیں گے۔ افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

وارث علوی کی تنقید کی جانب میری توجہ ان رابطوں سے بہت پہلے کی ہے۔ اوّل اوّل میں نے شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب ’’ افسانے کی حمایت میں ‘‘ پڑھی تو دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا ردعمل کیا رہا سو وارث علوی کی ’’ فکشن کی تنقید کا المیہ‘‘ پڑھی اور پھر ’’حالی مقدمہ اور ہم‘‘ ، ’’تیسرے درجے کا مسافر‘‘ ، ’’خندہ ہائے بے جا‘‘ ، ’’کچھ بچا لایا ہوں‘‘ ، ’’جدید افسانہ اور اس کے مسائل‘‘ اور منٹو اور بیدی پر کتابیں۔ وارث علوی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کا تنقید کے حوالے سے نقطۂ نظر بھی جان لیجے! فرماتے ہیں : ’’تنقید رابطہ ہے قاری اور قاری کے درمیان۔ اپنی آخری شکل میں تنقید گفتگو ہے اہل علم کی اہل علم سے، اہل دل کی اہل دل سے۔ خوش طبعی ہے یاروں کے بیچ۔ بے تکلفی ہے احباب کے درمیان۔ بحث و تکرار ہے ہم مشربوں سے۔ چھینا جھپٹی ہے مخالفوں سے۔ پھکڑ اور ٹھٹھول ہے حریفوں سے۔‘‘

مجھے یاد آتا ہے جب میرے اور محمد عمر میمن کے درمیان ماریو برگس یوسا کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا تو میمن صاحب نے لکھا تھا: ’’ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جاسکتے۔‘‘

اس باب میں محمد عمر میمن کو فاروقی صاحب کا منطقی طریقہ پسند تھا۔ وارث علوی کے بارے میں یہ خیال لگ بھگ مستحکم ہو چکا ہے کہ بات کرتے ہوئے وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں؛ سنجیدگی اور دھیمے پن سے بات آگے نہیں بڑھاتے۔ میں، میمن صاحب اور اس عمومی خیال کو درست نہیں سمجھتا لہٰذا جواب میں لکھا : ’’پیارے! جب یہ ہی منظقی شمس الرحمٰن فاروقی ’افسانے کی حمایت میں‘ میں منطقی وتیرے کو ایک طرف دھر کر شاعری کے مقابلے میں فکشن کو نیچادکھانے کے لیے زور قلم کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں یا پھر غلبہ آور تنقید والے وارث علوی منٹو کے افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے منظقی ہوجاتے ہیں تو کیا تب بھی آپ کا فیصلہ یہ ہی رہتا ہے؟‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر حال میں منطقی رہنا ادب کے باب میں کوئی بہت بڑی خوبی نہیں بنتی، بسا اوقات تہذیبی تناظر منطق کو مات دے جایاکرتا ہے۔        اب جب کہ وارث علوی کی تنقید کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو چکی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ذکر ’’فکشن کی تنقید کا المیہ‘‘ کا ہو جائے۔  وارث علوی نے ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں لگ بھگ اتنی ہی شدت سے شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید پر سوالات قائم کیے ہیں جتنی شدت سے فاروقی صاحب نے افسانے کی صنف کے حوالے سے منفی سوالات اُٹھائے تھے۔ جب فاروقی صاحب نے افسانے کوشاعری کے مقابل رکھ کر اس کا موازنہ کیا اور اس باب میں درجات قائم کیے تو وارث علوی نے اسے ’’ناقدانہ خون خرابا‘‘ سے تعبیر کیا۔ ایک ایسا خون خرابا جس میں افسانہ تو اپنے حقوق، ناقد سے مانگتا پھرتاہے، محض اپنے حقوق نہیں، اپنی شناخت بھی اور اس پر فاروقی جیسا نقاد بلاسبب بھڑک اٹھتا ہے۔ اس طیش میں ناقد صاحب انیس کو شیکسپیئر اور پریم چندکوگورکی اورسوگندھی کو ایناکارے نینا اورسلطانہ کو مادام بواری ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اس ناقد سے باز پرس کرے ۔ اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو ناقد کسی جاگیردار کی طرح آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔

تو یوں ہے کہ وارث علوی نے نہ صرف اس ناقدانہ طرز عمل پر گرفت کی، اسے صاف لفظوں میں بے معنی اورمضحکہ خیز بھی قرار دے دیا اور یہاں تک کہ گزرے : ’’فکشن ان کے بس کا روگ نہیں۔ دراصل فکشن میںوہ ڈوبے نظر آتے ہی نہیں توتیریں گے کیا؟ ڈوبے اوروہ بھی افسانے کے چلو بھرپانی میں‘‘۔

وارث علوی نے ’’فکشن کی تنقید کا المیہ ‘‘ میں خوب خوب چوٹیں لگائیں اور بہ قول محمد عمر میمن اپنی’’غلبہ آور زبان‘‘ میں بڑھ بڑھ کر حملے کیے ہیں، یہاں تک کہ دیا کہ فاروقی صاحب کے پاس تو بیدی، منٹو، عصمت، قرٖٖٖٖأۃ العین حیدر، غلام عباس اور انتظار حسین پرلکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ خیر فاروقی صاحب نے وارث علوی کی اس چوٹ کے جواب میں منٹو صاحب پرحال ہی میں ایک کتاب لکھ دی ہے۔ وارث علوی کی چوٹ اور فاروقی صاحب کی کتاب کا ایک ساتھ ذکریوں آیا ہے کہ فاروقی صاحب اس تازہ کتاب میں بھی وارث علوی کو نہیں بھولے۔ خیر یہاں وارث علوی کی تحریر ’’فکشن کی تنقید کا المیہ ‘‘ سے ایک دل چسپ ٹکڑا مقتبس کرنا چاہتا ہوں :

’’ترقی پسند تنقید کاکوا اسی افسانہ پر منڈلاتا ہے جس میں سماج کی بھینس ڈکراتی ہے اورجدید تنقید کا گدھ اسی افسانہ پر لپکتا ہے جس میں افسانہ نگار اسطور کی گائے کے تھنوں سے منہ بھڑائے ہوئے ہے۔ ہمارے نقادوں نے ہمارے افسانہ نگاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ تو ہماری ادبی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دوسروں کے تفاعل کی تلافی فاروقی کی نظرعنایت نے اس طرح کی کہ افسانہ کو تھرڈ کلاس صنف سخن اورافسانہ نگاروں کو گھٹیا ادیب بناکر رکھ دیا ‘‘۔

وارث علوی نے اسے بھی نادرست کہا کہ ترقی پسندوں نے افسانے کو اپنے مقاصد کے لیے فروغ دیا اور یہ کہ افسانہ پروپیگنڈے کے لیے موزوں ترین صنف تھا۔ ان کے مطابق یہ شاعری ہی ہے جس سے آج تک دنیا بھرمیں ہرنوع کاکام لیا گیاہے حتیٰ کہ طب اورکھیتی باڑی کی کتابیں بھی اس میں لکھی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے شاعری اور بعد میں نثر پروپیگنڈے میں استعمال ہوئی ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ شاعری میں پروپیگنڈے کے لیے تک بندی سے بھی کام چلا یا جاسکتا ہے  جب کہ افسانے میں کہانی، پلاٹ اورکردار کو نہ نبھایا جائے اور افسانہ نگار اس میں ناکام ہو تو افسانہ ٹھپ ہوجاتاہے۔

خیر! اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی ’’ افسانے کی حمایت میں‘‘، جس کی  لگ بھگ سطر سطر اور نقطہ نقطہ وارث علوی نے رد کر دیا تھا اور ’’ وارث علوی کی ’’فکشن کی تنقید کا المیہ‘‘ جو محمد عمر میمن کی زبان میں ’’غلبہ آور‘‘ نثر کا نمونہ اور بہ قول فضیل جعفری ’’مناظراتی‘‘ ہو گئی تھی، دونوں کتابیں، فکشن کے مسائل کو سمجھنے میں بہت مددگار ہو جاتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے وارث علوی اسی مناظرانہ کتاب میں نشان زد کر رہے ہیں کہ :

۱۔ ’’کسی بھی فن کے میڈیم، طریقِ کار اورتکنیک کی حدود کو اس فن کے معائب بتانا حددرجہ غیر تنقیدی اورغیر عقلی رویہ ہے۔ دیکھا یہ جاتاہے کہ ہر فن اورہر صنف سخن اپنی حدود میں رہ کر کون سی تخلیق، معجزے دکھاتی ہے۔ افسانہ بیانیہ کا غلام سہی لیکن اس غلامی میں رہ کر اس نے کیسی بادشاہی کی ہے‘‘۔

۲۔ ’’ زبان کاتناؤ اورزبان کا اجمال موضوع اورمواد سے الگ کوئی چیز نہیں اور مواد کو افسانے میں ڈھالنے کا ذریعہ تکنیک ہے۔  چونکہ ناول اورافسانے کا مواد زندگی کی مانند پھیلاہوتا ہے اسی لیے بیانیہ بھی تکنیک کی مناسبت سے پھیلتا اورسمٹتا ہے۔‘‘

۳۔ ’’ناول میںلفاظی بالکل نہیں چل پاتی۔ لفاظ ناول پیدا ہوتے ہی دَم توڑدیتا ہے، جبکہ شاعری میں لفاظی چلتی رہتی ہے۔ ناول زبان کا اسراف نہیں کرتا۔ محض قدرت زبان کی بنا پر کوئی ناول نگار ادب میں نہیں چلتا۔ جن کے پاس افسانوی تخیل نہیں ہوتا اور محض قدرت زبان ہوتی ہے، وہ افسانے اورناول نہیں لکھتے بلکہ انشائیے، سفرنامے، یاداشتیں، آپ بیتی، ڈائری یاخطیبانہ مضامین لکھتے ہیں۔ اس لیے میں ناول یا افسانے کو شاعری سے کم تر نہیں سمجھتا‘‘۔

۴۔ ’’نئے افسانہ نگاروں کی پیٹھ ٹھونکنے کی بجائے انہیں ڈانٹ پلانی چاہیے کہ تم جس چیز کے خلاف انحراف کر رہے ہو وہ تو خود حقیقت پسند افسانے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ فاروقی ایساکرتے تو پھر انہیں سینہ کوٹنے کی ضرورت نہ رہتی کہ نئے افسانہ نگاروں نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی جو تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا۔ اب سینہ کوبی سے کچھ فائدہ نہیں، کیوں کہ جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تجسس کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس انسانی مواد کے فقدان کی وجہ سے ہے جس میں ایک ذہین قاری کو تھوڑی بہت بھی دل چسپی ہوسکتی ہے‘‘۔

۵۔ ’’جدید افسانہ انحراف تھا پریم چند اورمنٹو کے دور کے افسانے سے۔ لہٰذا فاروقی کو اس دور کے افسانے سے بے اطمینانی تو دکھانی ہی ہے اور وہ اطمینان سے بے اطمینانی دکھاتے ہیں اورتنقید کی لٹیا بھی بڑے اطمینان سے ڈوبتی ہے۔ نئے افسانے سے بھی وہ مطمئن نہیں اور سمجھ میں نہیں آتاکہ اُسے دل چسپ بنانے کے لیے کیاپیش کریں۔ افسانوی لوازمات مثلاً واقعہ،کہانی، کردار کے نام لینا نہیں چاہتے کہ نیت تجریدی امام کے پیچھے باندھی ہے‘‘۔

۶۔ ’’افسانہ کی صفتِ ذاتی افسانویت ہے، شعریت نہیں البتہ شعریت من جملہ دوسری صفات کے افسانہ کی صفتِ اضافی ہو سکتی ہے۔ ہماری تنقید نے شاعری کی کیسی ہوا باندھی کہ پورا جدید افسانہ شاعری بننے پر  کمربستہ ہوگیا اور شاعرانہ اسلوب کے چاؤ میں اسالیب کے ان تمام ذخائر سے خود کو محروم کرلیا جنہیں نثری فکشن نے پروان چڑھایاتھا‘‘۔

اپنے نظری مضامین میں وہ لگ بھگ ہر مضمون میں اس نقطے سے جڑے نظر آتے ہیں کہ ادب ہرحال میں مرکز میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں کو وہاں وہاں رد کیا ہے جہاں جہاں تخلیقی عمل پر مواد اور موضوع حاوی ہوتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں تخلیقی عمل اپنی آخری شکل میں لفظ کی تلاش ہے اور یہ کہ لفظ کی نزاکت، لطافت، جلال، جمال کا احساس فن پارے میں استعمال کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لفظ رنگ نہیں ہوتے مگر لکھنے والا اس سے تصویر بنا سکتا ہے، یہ سنگ نہیں مگر اس سے مجسمہ تراشا جا سکتا ہے تاہم یہ بھی وارث علوی کا کہنا ہے کہ لفظ کا یہ جادوئی استعمال ادب کے آدرشی تصور والے آدمی سے ممکن نہیں ہے کہ فن کار آدمی کو محض کھال میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی رشتوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے لیکن دیکھتا ہے وہ آدمی ہی کو، اس آدمی کو جو ایک فرد ہے؛ اس خیالی پرچھائیں کو نہیں، جو کسی سیاسی، مذہبی یا فلسفیانہ آدرش کی تخلیق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ادب، آدمی جو کچھ ہے وہ تو بیان کر سکتا ہے، آدمی کو کیا ہونا چاہیے وہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ وارث علوی کے مطابق ادب ایک شخصی تجربہ اور ایک انفرادی عمل ہے۔ ادب محض skill نہیں جسے سیکھا جا سکے بلکہ یہ تو منفرد شخصیات کی تخیلی معجز نمائیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ادب کاآہنگ اور اس کی تکمیلی صورت بعض اوقات متضاد اور متناقض عناصر کی موجودگی کے باوجود چند ایسی اقدار کے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتا ہے جنہیں ہم حسن و مسرت کی جمالیاتی قدریں کہتے ہیں ۔

تو یوں ہے کہ یہ تنقید بالکل ایک الگ لحن بناتی ہے، ایسا تنقیدی لحن جس کا تصور وارث علوی کی اپنی ذات سے جڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یا دآتا ہے کہ وارث علوی نے ’’حالی، مقدمہ اور ہم‘‘ کے آغاز میں کہا تھا کہ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ پڑھنے سے پیش تر بہتر ہو گا کہ حالی کی وہ تصویر ذہن میں حاضر رکھی جائے جو وحید قریشی والے ایڈیشن میں شامل تھی۔ اس میں وارث علوی کو حالی ایسے لگے تھے جیسے ایک نفیس، مہذب اور شائستہ شخص نے کسی اہتمام کے بغیر تصویر بنوالی تھی۔ ایسے آدمی کی تصویر جس میں نہ خود نمائی تھی، نہ نمائشی خود آگاہی، نہ بناوٹ ، نہ پوز اور تصویر ایسی بنی تھی کہ وہ حالی کی فطرت ثانیہ ہوجانے والی شائستگی کا مظہر ہو گئی۔ اسی تصویرسے جوڑ کر وارث نے حالی کے مقدمہ کو دیکھا تھا۔ اب میرا جی کرتا ہے کہ کہ دوں، وارث علوی کی تنقید کو بھی اس کی تصویر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا تاہم یوں ہے کہ یہ تصویر کسی کیمرے نے نہیں بنائی خود اپنی فطرت کے عین مطابق وارث علوی کی تحریروں سے بن گئی ہے۔

یوں تو ایک تصویر اور بھی ہے جس میں وارث ٹیلی فون کے اس طرف سے رنگ بھرتا ہے۔ ایک عام آدمی جو اپنی ستائش سن کر کہ سکتا ہے کہ مجھے تو محلے کے لوگ بھی نہیں پہچانتے۔ یہ محض اوپر سے اوڑھی ہوئی انکساری نہیں ہے، ایسے جملے ان کی زبان سے یوں ہی ادا ہوتے رہتے ہیں اور یہ ان کے اپنے مزاج کے عین مطابق ہیں۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ نہ جانے لوگ انہیں کیوں خود پسند سمجھتے ہیں حال آںکہ وہ سول لائینز کی کسی کوٹھی میں نہیں رہتے، مسلمانوں کے ایک غریب محلے میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ گندی گلیوں پر فراغت پاتے بچوں کی قطار کو پھلانگتے لائبریری تک پہنچتے تو کتاب پڑھنے کا لطف اور بڑھ جاتا۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ یہ ہی گندگی اور حسن ان کی زندگی کا حصہ ہو گیا ہے۔ میں نے وارث علوی کی آواز میں زندگی کے اس چلن کی تصویر دیکھی مگر جس تصویر سے وارث علوی اور اس کی تنقید کو بہتر طور پر دیکھا جا سکتا ہے وہ اس کی تحریروں سے بنتی ہے۔

جی! وہی تحریریں جن میں کہیں وہ تنقید نگاروں کی زد پر ہیں اور کہیں تخلیق کاروں کے فن کا تجزیہ ہوتا ہے۔ منٹو اور بیدی کے فن پر جس پائے کی کتابیں وارث علوی نے لکھیں، کون ہے جو اس کا معترف نہیں۔ ان کتابوں میں غلبہ آور نثر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور تجزیہ اور تعبیر کی ایک دل نشیںصورت ہنر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح اقبال، جوش، فراق، مجاز،ن م راشد، فیض احمد فیض، سردار جعفری، ساحر، اخترالایمان، کرشن چندر، غلام عباس  وغیرہ کی تخلیقات پر وہ جس اعلٰی عملی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ شمس الرحمٰن فاروقی ہوں یا ان سے پہلے حسن عسکری اور ادھر ہمارے وزیر آغا، وہ سب سے مکالمہ کرتے اور سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

’’دو بچیاں فوت، تیسری موت کا جھولا تھامے کھڑی ہے‘‘

$
0
0

 اولاد والدین کے لئے آزمائش ضرور لیکن اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، کیوں کہ اسے دنیا کی زینت کہا گیا ہے۔

بے اولاد شخص کی محرومی اپنی جگہ لیکن جسے مل کر یہ عنایت چھن جائے، اس کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری نہیں لیکن دنیا کا عام چلن ہے کہ اولاد اپنے والدین کے جنازے اْٹھاتی ہے، لیکن اولاد کا جنازہ اْٹھانا کِس قدر مْشکل ہے اِس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عام اِنسانوں کا تو ذِکر ہی کیا، یہ کرب کی گھڑی انبیائؑ پر بھی بہت گراں گزری۔ نبی کریمؐ کے صاحبزادے ابراہیمؓ بیمار تھے، مسجد نبوی میں کِسی نے آ کر بتایا کہ بیٹے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے تو آپؐ باقاعدہ بھاگتے ہوئے گھر پہنچے۔ ابراہیمؓ نے آپؐ کے زانو پر آخری ہچکی لی تو حضورؐ کے آنسو نکل آئے۔ کسی نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپ بھی روتے ہیں۔ فرمایا میں اللہ کا نبی بھی ہوں اور ایک باپ بھی… روایات میں ہے کہ اِس موقع پر آپ کی رنجیدگی دیکھنے والی تھی۔ نمازِ جنازہ خود پڑھائی لیکن تدفین کے لئے قبر میں نہیں اْترے حالاں کہ کِسی بھی مْسلمان کی موت کی صورت میں اْس کو لَحد میں اْتارنا آپؐ کا معمول تھا۔ نبی کریمؐ قبر کے کنارے بیٹھے اور فرمانے لگے ’’ابراہیمؓ! بڑا دْکھ دے کر جا رہے ہو۔

تمہیں پتہ تھا کہ تْمہارا باپ بوڑھا ہے اس کا بھی خیال نہیں کیا، چلو کوئی بات نہیں تم پہنچو میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے ہی آ رہا ہوں۔‘‘ سو ایسا ہی ہوا اور آپؐ اپنے بیٹے کے پیچھے پیچھے ہی اپنے رب سے جا ملے۔ موت برحق اور ہر انسان کو اپنے خمیر سے واپس جا ملنا ہے لیکن جب اس میں انسانی غفلت یا مجبوریوں کا عمل دخل ہو تو غم کی شدت میں اضافہ سے کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک کہانی فیض رسول کی ہے، جس کی غربت اور خطرناک و پُراسرار بیماری نے اس کی دو بچیوں کی جان لے لی اور تیسری بچی موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ایک مزدور کا بیٹا فیض رسول سانگلہ ہل کا رہائشی ہے۔ والد کے انتقال کے بعد 6 بھائیوں اور 3 بہنوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے گھر کی تمام ذمہ داریاں اس کے ناتواں کندھوں پر آن پڑیں۔ فیض نے بتایا کہ ’’ میرا چھوٹا بھائی صرف ڈیڑھ برس کا تھا، جب میرے والد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، اس وقت میں نہم جماعت کا طالبعلم تھا لیکن گھریلو حالات کی سختی کے باعث مجھے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ جس گھر میں ہم رہتے تھے، وہ کرائے کا تھا۔ میں نے سکول بیگ کی جگہ محنت مزدوری کرنے کے اوزار تھام لئے تاکہ میرے بہن بھائیوں کو باپ کی کمی محسوس نہ ہو اور ان کی تمام ضروریات پوری ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک آئل شاپ بنا لی جس کی آمدن سے نہ صرف اپنی فیملی کے لئے ایک گھر بنایا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بہن بھائیوں کو پڑھایا بھی، لیکن ابتر مالی حالات کے باعث وہ بھی مکمل طور پر پڑھ نہ سکے، جس کے باعث تینوں بھائی بھی اب مزدوری کرتے ہیں۔ ایک بہن کی شادی کر دی جبکہ باقی تمام بہن بھائی ابھی کنوارے ہیں۔‘‘

2004ء میں فیض رسول کی شادی صوبیہ عنبرین سے ہوئی، جو دینی و دنیوی علوم سے بہرہ ور ہیں، صوبیہ ایک عالمہ ہونے کے ساتھ اسلامیات میں ماسٹرز اور بی ایڈ کی ڈگری بھی رکھتی ہیں۔ شادی کے 2 سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو اپنی رحمت سے نواز دیا۔ ایمن فاطمہ جب پیدا ہوئی تو انتہائی خوبصورت اور صحت مند تھی، لیکن 2 ماہ بعد ناجانے اسے کیا ہوا کہ وہ بیمار رہنے لگی۔ فیض رسول کہتے ہیں ’’ ڈاکٹروں کے مطابق ایمن کو گردن توڑ بخار ہو گیا تھا، ہم نے مقامی سطح پر بیٹی کا علاج کروانے کی کوشش کی لیکن اس کی طبعیت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں اسے اہلیہ کے ہمراہ پہلے گوجرنوالہ، پھر فیصل آباد اور بعدازاں لاہور لے گیا، مگر ڈاکٹر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی بیماری کی تشخیص نہیں کر سکے۔

اہلیہ فیض رسول

پہلے ہی دو بچیاں کھو چکی اور اب ایسا ہوا تو جی نہ سکوں گی، ہادیہ کے علاج کے لئے اللہ تعالیٰ کے بعد حکمرانوں اور مخیر حضرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب میں دنیا میں تو آپ کو کچھ نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ نے میری بچی کی زندگی لوٹا دی، اس کا علاج کروا دیا، تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ روز محشر اللہ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی، میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے خدارا! اسے بچا لو۔

پورے چار سال مختلف شہروں اور ہسپتالوں کے دھکے کھانے کے بعد میری بیٹی انتقال کر گئی۔ مرحوم بیٹی کے علاج پر تقریباً 12لاکھ روپے خرچ آیا، جس میں سے 8 لاکھ روپے قرضہ تھا۔ قرض چکانے کے لئے میں نے اپنا آدھا گھر فروخت کر دیا۔‘‘ 3 سال بعد قدرت نے فیض رسول کو ایک بیٹے سے نوازا، سعد عبداللہ آج 6سال کا ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہے۔ 2011ء میں فیض کے ہاں تیسرا بچہ اور دوسری بیٹی عائشہ ہوئی، لیکن بدقسمتی نے اس بار بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور صرف 4 ماہ کی عمر میں عائشہ بھی ایک پُراسرار اور خطرناک بیماری کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھی۔ دسمبر 2012ء میں صوبیہ پر پھر قدرت کی طرف سے رحمت کا نزول ہوا، مگر آج سوا سالہ ہادیہ بھی موت کا جھولا تھامے کھڑی ہے۔

فیض رسول نے بتایا کہ ’’ پیدائش کے 3 ماہ بعد ہادیہ کو اچانک بہت تیز بخار ہوا، جسم میں جھٹکے لگنے لگے اور آج تقربیاً سوا سال کی ہونے کے باوجود یہ اپنی گردن تک کھڑی نہیں کر سکتی۔ بخار اور جھٹکے لگنے کا سلسلہ جب شروع ہوا تو مقامی ڈاکٹر کے علاج سے ایک بار تو ہادیہ تندرست ہو گئی، مگر 2 ماہ بعد پھر اس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی۔ میں اور میری اہلیہ بیٹی کو چلڈرن ہسپتال لاہور لے آئے، جہاں ہم تقریباً ساڑھے 3 ماہ خوار ہوئے لیکن کسی نے ہماری بیٹی کا تسلی سے معائنہ تک نہیں کیا۔ مرض کی تشخیص کرنے کے بجائے ڈاکٹر نے صرف میڈیسن لکھی اور گھر جانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ پریشانی کے عالم میں ہم ادھر ادھر پھرتے رہے مگر ہادیہ کا بخار اترا نہ جھٹکے لگنے بند ہوئے۔ اسی دوران کسی کے کہنے پر ہم نے جنرل ہسپتال لاہور کا رخ کر لیا، یہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ڈاکٹرز نے ہمارے ساتھ اچھا برتائو کیا اور بچی کو ایڈمٹ کر لیا۔

 

مختلف بلڈ ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو بھی پہلے انتقال کر جانے والی بچیوں جیسی ہی بیماری ہے۔ ہادیہ کو PKU (Phenyl ketone uria) نامی بیماری تشخیص ہوئی جس کا ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں علاج ہی نہیں ہے۔ بچی کے جسم میں پروٹین کی زیادتی ہے، لہٰذا اسے ماں کا دودھ دینا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو جو بھی خوراک دی جائے گی وہ فنائل فری ہو گی اور ایک دودھ بھی لکھ کر دیا، جو پتہ کرنے پر ملک بھر میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھا۔ فنائل فری دودھ (Phenyl Free Milk) کا ایک ڈبہ دس روز چلتا ہے اور اس کی قیمت پاکستانی 24 ہزار روپے بنتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر یہ مخصوص دودھ بچی کو نہ دیا گیا تو یہ زیادہ سے زیادہ 90 روز کی مہمان ہے۔ بیٹی کے علاج کی خاطر گزشتہ 7ماہ سے ہم لاہور میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے پیچھے جو دکان تھی وہ بھی ختم ہو گئی، گھر میں پہلے ہی فروخت کر چکا تھا۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آبائی علاقے سے کچھ دوست یار اور بھائی تھوڑا بہت سہارا لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بمشکل روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپیل کرنے پر ایک مخیر پاکستانی، جو لندن میں رہتا ہے، نے خدا ترسی کی اور ہمیں دودھ بھجوانے لگا۔ ڈاکٹرز کا تحریری طور پر اب کہنا ہے دودھ پلانے کے ہر دو ماہ بعد بچی کے 2 خون کے ٹیسٹ بھی کروانے ہیں، لیکن وہ بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق امریکا اور برطانیہ میں اس بچی کا علاج ممکن ہے لیکن مجھ بدنصیب کی اتنی اوقات ہی نہیں۔

میری بچی میرے ہاتھوں میں دم توڑ رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے ’’بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں‘‘ تو پھر کوئی مخیر شخص یا حکومت میری پھول سی بچی کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتی۔ چند روز قبل مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی جنرل ہسپتال آئے تو میں نے انہیں اپنا مسئلہ بیان کیا، جس پر انہوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور جلد کچھ کرنے کی یقین دہائی کروائی لیکن تاحال کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ خدارا! میری بچی کو بچا لو، میری بچی کو بچا لو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فیض رسول کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کچھ دیر میں نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا کہ دل کا کچھ غبار ہلکا ہو جائے، نہ جانے وہ کب سے یہ سب کچھ کسی سے شیئر کرنے کا منتظر تھا۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد میں نے فیض کی اہلیہ کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فیض کو حوصلہ دے کر خاموش کروایا۔ بے بس و مجبور باپ نے حکمرانوں سے اس کی بیٹی کا نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ حکومت PKU بیماری میں استعمال ہونے والا دودھ اور بیماری کے علاج کی سہولیات کی ملکی سطح پر دستیابی کو ممکن بنائے تاکہ میری بچی کے ساتھ دیگر بچے جو خدانخواستہ اس بیماری میں مبتلا ہوں تو ان کی زندگیاں بچ سکیں اور کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔‘‘

فیض رسول

ڈاکٹرز نے بیرون ملک ملنے والا دودھ نہ دینے پر ہادیہ کی زیادہ سے زیادہ عمر 90 روز بتائی، دودھ ایک مخیر نے بھیجا تو اب ٹیسٹ پاکستان میں نہیں ہوتے،’’PKU‘‘ نامی بیماری کے باعث ہادیہ تاحال اپنی گردن بھی کھڑی نہیں رکھ سکتی، بخار کے ساتھ جھٹکے لگتے ہیں، گزشتہ 7 ماہ سے لاہور میں ایک کمرا کرائے پر لے کر اہلیہ کے ساتھ رہ رہا ہوں، پہلی بیٹی کے علاج کے لئے گھر فروخت کردیا، اب دکان بھی ختم ہو گئی۔

فیض کے بعد ہادیہ کی بدقسمت ماں گویا ہوئی ’’ میری حکومت، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل ہے کہ وہ بیرون ملک سے میری بچی کا علاج کروائیں۔ میں پہلے ہی اپنی دو بچیاں کھو چکی ہوں اور اب کی بار بھی میرے ساتھ ایسا ہوا تو میں جی نہ سکوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہی صوبیہ کی ہچکی بندھ گئی اور الفاظ ٹوٹنے لگے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس بدنصیب میاں بیوی کو کیسے دلاسا دوں، بہرحال تھوڑی دیر بعد ہادیہ کی والدہ نے خود کو سنبھالا اور بولی ’’ میری پہلی دو بچیوں کے مرض کی تو تشخیص ہی نہ ہو سکی تھی، لیکن اب اس بیٹی کی بیماری کا سب کو علم ہو چکا ہے تو اس کے علاج کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے بعد حکمرانوں (خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب) اور مخیر حضرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب ہم دنیا میں تو آپ کو کچھ دے نہیں سکتے لیکن اگر آپ نے میری بچی کی زندگی لوٹا دی، اس کا علاج کروا دیا تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ روز محشر اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ’’ تم سب کے سب نگران ہو اور سب کے سب پوچھے جائو گے اپنی رعایا کے بارے میں‘‘۔ میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے۔ میری بچی کی زندگی میرے لئے اسی طرح انتہائی ضروری ہے، جیسے ہر ماں کے لئے اس کا ایک ایک بچہ ہوتا ہے۔‘‘


ایک بیاہ پر اتنا خرچہ۔۔۔۔۔

$
0
0

 شادی کسی بھی فرد کی زندگی کا سب سے خاص دن تصور کیا جاتا ہے۔ اس ایک دن کو یادگار بنانے کے لیے عام سے عام انسان بھی کچھ نہ کچھ خاص ضرور کرتا ہے، کیوں کہ یہ دن اس کی زندگی میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔

یہ تو رہی عام انسان کی بات لیکن اگر بات کسی نامور شخصیت یا پھر شو بز ہی کی کسی سیلیبریٹی کی شادی ہو تو وہ اسے ہر ممکن طریقے سے بہت سے بھی زیادہ خاص بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ضمن میں شادی پر کیے جانے والے بے شمار اخراجات کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کی شادی ہر لحاظ سے نہ صرف یاد گار ہو بلکہ منہگی ترین بھی ہو تاکہ لوگ اس شادی کو اس کی انفرادیت کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھیں۔

دنیا کی مشہور اور منہگی ترین شادیوں کا ذکر ہوتو ذہن میں سب سے پہلے شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈائنا کی شادی کا تصور آتا ہے۔ تیس برس قبل ہونے والی اس شادی کے اخراجات ایک سو دس ملین ڈالر سے بھی زیادہ رہے تھے اور اسی لیے یہ آج بھی دنیا کی منہگی ترین شادی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس خاندان میں منہگی شادیوں کی داستان شاید کبھی ختم نہ ہو، کیوںکہ اسی جوڑے کے بیٹے شہزادہ ولیم بھی اپنے باپ اور ما ں کی ڈگر پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور کیٹ سے ان کی شادی کا ممکنہ تخمینہ 34ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ دنیا کی تیسری منہگی ترین شادی ہو گی۔

٭ونیشامتل اور امیت بھاٹیہ
دنیا کی مہنگی ترین شادی کا ہونے کا دوسرا اعزاز ان دونوں کے پاس ہے۔ اس شادی کا تخمینہ 60 ملین ڈالر سے 66 ملین ڈالر تک لگایا گیا تھا۔ یہ شادی 2005میں ہوئی تھی۔ بھارت کے لکشمی متل جو کھربوں جائیداد کے مالک ہیں۔ ونیشا ان کی بڑی بیٹی ہے، جب کہ دلہا امیت بھاٹیہ برطانوی شہری اور سورڈ فش انویسمینٹ کا مالک ہے۔ پانچ دن تک جاری رہنے والی اس شادی کے لیے بیس صفحات پر مشتمل دعوت نامے چاندی کے صفحات پر تیار کیے گئے تھے۔ پیرس کے ٹاپ کلاس شیفز نے پانچ دنوں تک سو اقسام کے مختلف کھانے تیار کیے تھے۔

اس شادی کے لیے مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے بارہ چارٹرڈ بوئنگ طیارے بک کرائے گئے تھے۔ ان دونوں کی شادی پیرس کے ایک فائیو اسٹار ہو ٹل میں ہوئی۔ شادی کے دعوت نامے چاندی کے ڈبوں میں پیش کیے گئے تھے۔ ان باکسز میں شادی کارڈز کے علاوہ ہوٹل کے کمروں کے کارڈز اور فلائٹس ٹکٹس بھی تھے۔ مہمانوں کو شادی کی تقریب ختم ہونے کے بعد جیولری گفٹ کی گئی تھی۔ اس شادی کی سب سے اہم بات پیرس میں ایفل ٹاور کے پاس ہونے والا نہایت خوب صورت فائر ورک تھا، جس نے ونیشا اور امیت کی شادی کو مزید یادگار بنا دیا۔

٭لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس
1981میں ہونے والی اس شادی کو ہر لحاظ سے یاد گار قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے اسے لائیو کوریج دی تھی اس وقت کے مطابق شادی کے اخراجات اڑتالیس ملین ڈالر جب کہ آج کے حساب سے اس کا تخمینہ ایک سو دس ملین ڈالر بنتا ہے۔ ڈیانا سنہرے بالوں والی ایک متوسط طبقے کی اسکول ٹیچر تھی، جس نے شاید کبھی خواب میں نہ دیکھا تھا کہ وہ ایک دن انگلستان کی شہزادی بنے گی۔ دلہا برطانیہ کی ایلزبتھ دوئم کا بیٹا شہزادہ چارلس فلپ نے اسے یعنی ڈائنا کو اس کے خوابوں کی تعبیر بخشی۔ چارلس سے شادی کے بعد ڈائنا بہت جلد گلوبل آئی کون بن کر ابھری۔ سینٹ ہال کیتھڈرل میں ہونے والی اس شادی میں کئی درجن رائلز فیمیلز نے شرکت کی تھی۔ دو ملین تماش بین نے اس شادی کو براہ راست دیکھا جب کہ 750 ملین ٹی وی آڈینس نے اسے لائیو ٹی وی پر دیکھا تھا۔

اپنی شادی پر ڈائنا نے وکٹورین انداز کا بہت طویل گائون پہنا تھا، جس کی لاگت کا تخمینہ 115000ملین ڈالر سے 150,000ملین ڈالر تک لگایا تھا۔ مکمل طور پر خالص سلک سے تیار کیے گئے اس گائون پر 250گز کی لیس لگائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 10,000سے بھی زاید موتی اور ہیرے ٹانکے گئے تھے۔ اس گائون کے پچھلے حصے، جسے Trainکہا جاتا ہے، کی لمبائی 25 فٹ تھی ڈائنا کے 12ملین ڈالر کے تھے اور ان پر بھی ہیرے ٹانکے گئے تھے۔ اس وقت اس کی قیمت 9000 ملین ڈالر تھی۔ سرکاری طور پر تخمینہ منظر عام پر لایا گیا وہ115,000 سے 150,000ڈالر تک تھا۔ اس شادی کے خاص بات یہ بھی تھی 27ویڈنگ کیک کے علاوہ ایک بڑا اور مین کیک کی تیاری چودہ ہفتوں میں مکمل کی گئی تھی۔

٭ چیلسی کلنٹن اور مارک مز ونسکی
سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن کی بیٹی چیلسی کی شادی اس کے بچپن کے دوست مارک کے ساتھ ہوئی۔

شادی کے اخراجات کا تخمینہ پانچ ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔ صرف شادی کے ایئرکنڈیشنر ٹینٹ اور اس میں کی جانے والے سجاوٹ پر 600,000 ڈالر خرچ کیے گئے جب کہ سیکوریٹی کے لیے 200,000ڈالر خرچ ہوئے تھے اور شادی کے دعوت نامے پر بھی بے انتہا پیسہ لگایا گیا تھا۔

٭وین رونی اور کولین
فٹ بال کے نام ور کھلا ڑی وین رونی اور ٹی وی ہوسٹ کولین کی شادی کا شما ر بھی منہگی ترین شادیوں میں کیا جاتا ہے۔

یہ شادی 2008 میں اٹلی میں ہوئی اور اس شادی کے لیے ایک لانچ ہائر کی گئی تھی، جس میں چونسٹھ مہمانوں کے ساتھ چار دن تک قیام کیا گیا تھا۔ صرف اس پر ہی بے تحاشا اخراجات کیے گئے جب کہ پوری شادی پر تقریباً 15ملین ڈالر یعنی 92کروڑ خرچ کیے گئے تھے۔

٭لزا منالی اور ڈیوڈ گیسٹ
امریکن سنگر اور ایکٹریس لزا کی شادی امریکن کنسرٹ پروموٹر ڈیوڈ کے ساتھ مارچ 2002میں ہوئی۔ اس شادی پر 4.3 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے، جس میں 700,000ڈالر صرف پھولوں کی سجاوٹ اور40,000ڈالر اسپیشل کیک پر خرچ کیے گئے تھے۔

دلہن کا ویڈنگ گائون 90,000ڈالر کا تھا۔ بدقسمتی سے یہ شادی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی اور 2003 میں لز اور ڈیوڈ کے درمیان طلاق ہو گئی۔

٭ایلزبتھ ٹیلر اورلیری فورٹنسکی 

ہالی وڈ کی مقبول اداکارہ ایلزبتھ ٹیلر، جو اپنی کئی شادیوں کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہیں، کی یہ شادی 1991کو لیری کے ساتھ ہوئی۔ اس وقت ایلزبتھ کی عمر 59 سال اور لیری کی 29سال تھی۔ یہ شادی کیلی فورنیا میں واقع مائیکل جیکسن کے فارم ہائوس میں ہوئی تھی۔ شادی پر ایلزبتھ نے valentino گائو ن پہنا تھا۔

یہ ایلزبتھ کی آٹھویں شادی تھی اور اس میں مائیکل جیکسن سمیت کئی نام ور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ اس شادی پر 3.8ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ پانچ سال ساتھ رہنے کے بعد 1996 میں ان دونوں میں طلاق ہو گئی تھی۔

٭ وکرم چٹوال اور پریا سچدیو
بھارت سے تعلق رکھنے والے وکرم چٹووال جو کہ امریکی شہریت رکھتے ہیں اور نیو یارک میں ان کے کئی شان دار ہوٹلز ہیں، کی شادی پریا سچدیو سے ہوئی جو کہ انڈین ماڈل رہ چکی ہے۔

یہ شادی 2006 میں ہوئی اور اس شادی میں شاہ رخ خان اور ماڈل نومی کیمبل سمیت امریکا اور انڈیا کی کئی نام ور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ وکرم اور پریا کی شادی کے اخراجات کا تخمینہ 20ملین ڈالر یعنی 92کروڑ لگایا گیا تھا۔

 

٭پرنس ولیم اور کیٹ مڈل ٹون
پرنس ولیم اور کیٹ کی شادی 2011 میں ہوئی تھی اور اس شادی کے اخراجات کا تخمینہ 78 ملین ڈالر لگایا گیا تھا، جس میں صرف سیکوریٹی پر گیارہ سے پچیس ملین ڈالر کرچ کئے گئے دلہن کیٹ کے عروسی گائو ن کی قیمت47,000ملین ڈالر تھی۔

شادی سے ایک روز قبل ویسٹ منسٹر شائر اسٹریٹ کی صفائی پر 63,000ملین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ اس سے قبل ڈائنا کی تدفین کے لیے اس اسٹریٹ کی صفائی ستھرائی کا کام کیا گیا تھا اور اس وقت کے حساب سے اس پر سب سے زیادہ اخراجات یعنی 469,000ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔

٭سیمانتو رائے اور چاندنی تورو+ ششانتو رائے اورریچا رائے:

2004میں لکھنؤ میں ہونے والی اس ڈبل شادی کے اخراجات 123ملین ڈالر تھے شادی میں 11,000مہمانوں نے شرکت کی تھی، جب کہ ایک سو دس اقسام کی ڈشز اس شادی کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئیں تھی۔

٭شیخ محمد بن راشدالمختوم اور شیخا ہند بنت مختوم:

متحدہ عرب امارات کے وائس صدر اور وزیر اعظم شیخ محمد کی شادی کا شمار بھی منہگی ترین شادیوں میں ہو تا ہے۔ یہ شادی 1979 میں ہو ئی تھی، اس شادی پر 137ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ بیس ہزار مہمانوں کے لیے خصوصی طور پر ایئر کنڈیشنر ہال تیار کیا گیا تھا۔

سورج ہوا مدہم ۔۔۔۔۔۔

$
0
0

اسلام آ باد: بات بڑی عجیب ہے کہ ایک طرف دنیا بھر کی حکومتیں، لوگ اورادارے ’’عالمی تپش‘‘ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن زمین ہے کہ گرم ہونے کی بجائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ یہ بات بھی اب سائنس دان ہی کہتے ہیں کہ سورج پر اٹھنے والے شمسی طوفان زمین پر اثرا ت مرتب کرتے ہیں اور 2014 میں سورج نے اونگھنا شروع کردیا ہے۔

آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیرمعمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے۔ اب سورج کی سرگرمی میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں تک زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہے کہ جب بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہوئے تو دنیا سردی کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کے گلوبل وارمنگ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سورج کی شعائیں، جن کو ہم سولر ونڈز بھی کہتے ہیں، جب زمین کے اردگرد کے ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنائیاں (Aurora Boroealis) معرض وجود میں آتی ہیں لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ جلد ہی یہ حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے کیوں کہ یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

ردرفورڈ ایپلٹن لیبارٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ کچھ بھی کرلیں ’’سولر پیکس‘‘ میں کمی ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں سے یہ بات واضح ہے۔ یونی ورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمسی طوفانوں کے دورانیے میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ کم ہو رہا۔ سورج پر ایک مستقل طوفان کی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوسکتی ہیں مثلاً سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں، جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں جیسے نظر آتے ہیں، جب سورج کی بنفشئی شعاعیں زمین کی طرف آتی ہیں تو سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن برقی ذرات خلا میں بکھرا دیتے ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ سورج پر برپا ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس بعد کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ جب سورج پر ارتعاش کا زمانہ ہو تو اسے سائنسی اصطلاح میں ’’سولر میکسیمم‘‘ کہا جاتا ہے اور جب سورج پر غیر معمولی ٹہھراؤ ہو تو یہ ’’ سولر مینیمم‘‘ کہلاتا ہے۔

تیس سال سے سورج کا مطالعہ کرنے والے پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے حال ہی میں بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال نہیں دیکھی البتہ سو سال قبل ایسی صورت حال رونما ہوئی تھی۔ سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد توقعات سے انتہائی کم ہو چکی ہے اور اس کے شعلے متوقع تعداد سے آدھے ہوچکے ہیں۔ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح کے دھبے غائب رہے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی ہوگئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیاتھا۔

سترہویں صدی کے اس دور کی پینٹنگز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ منجمد دریائے ٹیمز پر ’’سرمائی بازار‘‘ لگا کرتے تھے۔ 1684 کے معروف ’’گریٹ فروسٹ‘‘ میں دریا دو ماہ تک مسلسل منجمد رہا تھا اور اس پر ایک فٹ دبیز برف کی تہہ جمی رہی، یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ’’مونڈر مینیمم‘‘ کا نام اس سائنس دان کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے سورج کی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ مونڈر مینیمم کے دوران ٹیمز ہی منجمد نہیں ہوا تھا بل کہ بحیرۂ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہوگئی تھیںاور قحط پڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر لوسی گرین نے بتایا کہ 1609 کے بعد سورج کے دھبوں کا مستقل یا اس پر اٹھنے والے شعلوں کا مشاہدہ جاری ہے اور دنیا کے پاس چار سو سال کے مشاہدات کا ریکارڈ موجود ہے۔ سورج کی موجودہ کیفیت وہی ہے جو سولر مینیمم آنے سے پہلے تھی تاہم شمسی سرگرمی کم ہونے پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی کہ اس کا زمین پر کیا اثر پڑے گا؟ البتہ کچھ سائنس دان تحقیق میں کئی ہزار سال پیچھے گئے ہیں اور انھوں نے برف کی تہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑہاو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور سائنس دان مائک لویکورتھ نے ان ذرات کا مشاہدہ کرکے کہا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے، برف کی تہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فی صد تک امکان ہے کہ آئندہ چالیس برس میں دنیا سولر مینیمم کا شکار ہو جائے گی اور جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔

شدید سردی کے انسانی جسم پر ممکنہ اثرات: شدید سردی سے فروسٹ بائیٹ یا ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ امریکا کی مشرقی ریاستیں آج کل شدید برفانی موسم کی لپیٹ میں ہیں اور درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کئی درجے نیچے گرنے پر عوام کو موسم کی سختی سے خبردارکیا جا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شدید سردی اور برفانی ہواؤں سے انسان کو کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ شدید سردی سے انسان فروسٹ بائیٹ (شدید سردی سے انسانی جلدکاگلنا) یا پھر ہائی پوتھرمیا (شدید سردی میں انسانی جسم کا درجۂ حرارت نارمل سے کم ہوجانا) میں مبتلا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ ہائی پوتھرمیا ایسی صورت حال ہے جس میں انسان کا جسمانی ٹمپریچر 35 سینٹی گریڈ سے نیچے چلاجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی طبعیت ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کے بعد بہ حال ہوتی ہے، ان میں گردوں، جگر اور پتے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ بہ ہرحال برقرار رہتا ہے۔ تھرمامیٹر کے بغیر اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر انسان کو ختم نہ ہونے والی کپکپاہٹ کا عارضہ ہو جائے، یادداشت خراب ہو جائے، زبان سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کرنکلتے ہوں، غنودگی اور تھکاوٹ کی کیفیت طاری ہو تو اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ ہائی پوتھرمیا ہو چکا ہے جب کہ فروسٹ بائیٹ وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں شدید سردی کے باعث انسانی جلد اور جلد کے نیچے موجود ریشے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین موسمیات کے مطابق منفی 29 سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں انسانی جلد محض30 منٹ میں فروسٹ بائیٹ کا نشانہ بن سکتی ہے۔ فروسٹ بائیٹ زیادہ تر جسم کے ان حصوں پر ہوتا ہے جو ننگے ہوں جیسا کہ کانوں کی لویں، ہاتھ، ناک وغیرہ۔ فروسٹ بائیٹ سے متاثرہ حصے سفید ہو جاتے ہیں، متاثرہ شخص کو اپنے اعضا جھڑنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔

سورج کی ماہیئت:سورج کی کمیت اپنے نظام کی کل کمیت کا 99.86 فی صد بنتی ہے۔ اس کا قْطر 13 لاکھ 92 ہزارکلومیٹر ہے، اس کی کل کمیت کا تین چوتھائی ہائیڈروجن پر اور باقی کا زیادہ تر ہیلیئم پر مشتمل ہے، کچھ مقدار میں لوہا، آکسیجن، کاربن اور نے اون عناصر بھی ہیں۔سورج کا اپنا رنگ سفید ہے تاہم زمین سے دیکھنے پر پیلا یا نارنجی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روشنی کی سپیکٹرم کلاس جی ٹو وی ہے۔ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت تقریبا پانچ ہزار پانچ سو دس درجے سینٹی گریڈ ہے، اس کا باعث جوہری عمل، فیوژن ری ایکشن ہے۔ سورج سے زمین کا اوسط فاصلہ ایک سو انچاس اعشاریہ چھ ملین کلومیٹر ہے اور یہ فاصلہ روشنی آٹھ منٹ انیس سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ سورج کا مرکز (Core)تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کی وجہ سے سب سے زیادہ گرم ہے اور وہاں کا درجۂ حرارت ایک کروڑ درجے سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے۔ کور اور سطح کے درمیان کا درجۂ حرارت بیس لاکھ درجے سینٹی گریڈ ہے۔

سورج کا مستقبل: سورج پر جاری یہ فیوژن ری ایکشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہاں ہائیڈروجن ایٹم موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج پر کتنی ہائیڈروجن موجود ہے؟ کیا یہ ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی؟ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ ماہرین کے مطابق سورج جیسے ستارے کی عمومی عمر دس بلین سال ہوتی ہے، جب سورج پر موجود تمام ہائیڈروجن ہیلیئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز ٹوٹ کر درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا، اس کا حتمی نتیجے یہ نکلے گا کہ سورج پر موجود ہیلیئم، کاربن ایٹموں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہائیڈروجن ایٹم کے ہیلیئم ایٹم میں تبدیل ہونے سے جتنی توانائی خارج ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ حرارت اس وقت خارج ہوتی ہے جب ہیلیئم ایٹم کاربن میں تبدیل ہوتا ہے، اس لیے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سورج کا درجۂ حرارت آج کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائے گا لہٰذا آج سے کئی سو ملین سال بعد مادے کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تمام ہائیڈروجن کے ختم ہونے کے بعد سورج کی کمیت کچھ کم ہوگی تاہم حجم بڑھ جائے گا اور یہ حجم اتنا ہو گا کہ اس وقت زمین اور مریخ کے موجودہ مدار اس کے اندر آجائیں گے لیکن کمیت میں کمی کی وجہ سے سورج کی کشش میں کمی کے باعث زمین، مریخ اور دیگر سیارے اپنے مدار سے دور چلے جائیں گے۔ اس وقت سورج سرخ دکھائی دے گا۔ اب تک کئی ستاروں پر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کی کمیت ختم ہوجانے کے باعث فیوژن ری ایکشن رک گیا اور آہستہ آہستہ یہ ستارے سرد ہونا شروع ہو گئے ایسی صورت میں ان کے حجم میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ان پر موجود باقی کمیت مرکز کی جانب سکڑنے لگتی ہے، مزید ٹھنڈا ہونے پر آہستہ آہتسہ ان کا رنگ مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے تاہم ان ستاروں کی کشش میں انتہائی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ہاں کمیت میں اضافے کے لیے آس پاس موجودہ چھوٹے ستاروں اور سیاروں کو نگلنے لگتے ہیں۔ ایسے ستاروں کو ’’بلیک ہولز‘‘ کہاجاتا ہے سو ایسا بھی ممکن ہے کہ آج سے کرڑوں برس بعد سورج بلیک ہول بن جائے اورزمین سورج کے اندر گم ہوجائے۔

سورج کی سطح کے معائنے اور اس سے حاصل ہونے والے ان اعداوشمار کو 1755 سے محفوظ رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق اب تک سورج پر سستی اور تیزی کے 24 ادوار دیکھے گئے ہیں۔ ان میں سب سے قلیل دورانیہ 10.7 برسوں پر مشتمل تھا۔ سورج کی سرگرمی کا 23 واں دور 2008 میں مکمل ہوا اور یہ تیزی کا دور تھا۔ واضح رہے کہ زمین پر دیکھی جانے والی ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی سورج کی سطح پر جاری عوامل سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سورج پر جاری تعاملاتی سرگرمیوں سے یقینی طور پر تعلق موجود ہے۔ ابھی حال میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ براعظم یورپ میں طویل اور سخت سردی کی ایک وجہ سورج پر جاری سست تعاملاتی عمل ہے۔ سورج کی سطح پر کالے رنگ کے دھبے پائے جاتے ہیں جو گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت 80 ہزار کلومیٹر تک ہے، انہیں ’’سن سپاٹ‘‘ کہاجاتاہے۔ ماضیِ قریب میں ایک دور ایسا آیا جب شمسی دھبے ( 1650 تا 1700) غائب رہے، اسے زمین پر ’’منی آئس ایج‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ ارضیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر متعدد برفانی دور گزرچکے ہیں۔ آج سے 12 ہزار برس قبل بھی زمین ایک برفانی دور سے گزری جو یک لخت شروع ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شمالی بحرِ اوقیانوس پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ایک روسی ماہرِ شمسیات اولگ سوروختِن کے مطابق سورج کی پوشیدگی کا مطلب اس بات کی نشان دہی ہے کہ دنیا سرد ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ انسان کی طرف سے ماحول یا زمین کے درجۂ حرارت میں پیدا کی جانے والی تبدیلی قدرتی عوامل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

حسینہ کی آمرانہ سیاست نے ملک مسائلستان بنادیا

$
0
0

بنگلہ دیش میں پانج جنوری کوہوئے پارلیمانی انتخابات میں آمرانہ مزاج حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کو بہ ظاہر ایوان میں دو تہائی سے بھی زیادہ کی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔پارلیمنٹ کی 300 نشستوں میں سے 232 پر حسینہ کی پارٹی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ مبصرین عوامی لیگ کی اس کامیابی کو پارٹی اور مسزحسینہ کی ’’سیاسی شکست‘‘ سے تعبیر کر ر ہے ہیں، کیونکہ عوامی لیگ نے پارلیمنٹ میں دو تہائی سیٹیں جیتنے کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اس کا خمیازہ کئی سال تک اسے بھگتنا پڑے گا۔

بنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں شیخ حسینہ واجد کی سیاسی ’’بالغ نظری‘‘ پر ایک نئی بحث بھی چھڑ چکی ہے۔ حال ہی میں اخبار’’ڈھاکہ پوسٹ‘‘ میں شائع ایک مضمون میں مسز حسینہ کے سیاسی قد کاٹھ کے بارے میں جو طرز کلام اختیار کیا گیا ہے وہ عوام میں ہونے والی بحث کا نچوڑ ہی نہیں بلکہ عوام کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ حسینہ واجد کو سیاست وراثت میں ملی تھی۔ اس کے والد مقتول شیخ مجیب الرحمان نے اپنی’’ہونہار‘‘ صاحبزادی کی جس انداز میں سیاسی تربیت کی تھی اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ حسینہ سلطانی جمہور کے دور میں ملک میں فرد واحد کی حکمرانی کا طرز سیاست اپنا کرملک کو کئی عشرے اور پیچھے لے جائے گی۔ لیکن حسینہ واجد کے حالیہ کچھ عرصے سے انداز سیاست سے لگ رہا ہے کہ محترمہ سیاسی گھرانے میں پلنے بڑھنے حتی کہ عمر عزیز کا بیشتر حصہ سیاسی ریگزاروں میں گذار جانے کے بعد بھی سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ان کا سیاسی شعور ابھی طفلانہ ہے اور مستقبل میں ان سے کسی مفید فیصلے کی توقع کم ہی کی جائے گی۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ عمر رسیدگی نے بیگم حسینہ واجد کی سوچ او ر رویے میں منفی پہلو پیدا کردیا ہو‘‘۔

پانچ جنوری کے انتخابات میں چونکہ صرف حسینہ واجد کی جماعت کے لوگ میدان میں تھے، معدودے چند آزاد امیدواروں میں جیتنے والے پنچھی بھی حسینہ واجد ہی کے گھونسلے میں جا بیٹھے ہیں۔ انتخابات سے دو ماہ قبل سے شروع ہونے والے ہنگاموں میں اب تک 300 افراد ہلاک،1200 زخمی اور کم سے کم 5000 گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالے گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے حراست میں لیے جانے والوں میں کئی ایسے سیاسی اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں جو ماضی میں شیخ مجیب اور حسینہ واجد کے پرزور حامی رہ چکے ہیں۔

ملک کا موجودہ مسئلہ صرف سیاسی انارکی یا انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا نہیں رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی زمین کی زرخیزی کو باریک بینی سے جاننے والے کہنے لگے ہیں کہ حسینہ واجد نے اپنی آمرانہ پالیسی تبدیل نہ کی تو ان کا سیاسی مستقبل تباہ ہوجائے گا، کیونکہ حسینہ واجد اور ان کی جماعت سے تواترکے ساتھ کچھ ایسے فیصلے سرزد ہوتے جا رہے ہیں جو نہ صرف جمہوری ممالک ، بڑی طاقتوں بالخصوص بنگلہ دیش کو امداد دینے والے ملکوں اور اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں بلکہ خود بنگالی عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر یہ ثابت کر چکے ہیں ’’ایسے دستور کوصبح بے نور کو‘‘ وہ نہیں مانتے۔

سیاسی انتشار نے ملک میں بدترین معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔ تین ماہ سے کارخانے بند اور کاروبار زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان نفسیاتی حدوں کے کئی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو ماہ میں بنگالی معیشت کو دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حسینہ واجد کو توقع تھی کہ پانچ جنوری کے انتخابات کے بعد حالات معمول پرآجائیں گے لیکن وہ یہ بھول گئی تھیں کہ اٹھارہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو پولیس کی طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی قیادت میں حکومت کے قیام کا امکان ہے لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ غیرملکی مبصرین کے مطابق اپوزیشن اتحاد کی جانب سے دباؤ برقرار رہا تو اگلے چھ ماہ میں انتخابات کا بگل دوبارہ بجے گا۔ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد موجودہ یک جماعتی انتخابات سے کسی قیمت پر راضی نہیں ہوا ہے۔ انتخابات دوبارہ ہوتے ہیں تب بھی عوامی لیگ سیاسی غنڈہ گردی کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ کیونکہ دوبارہ الیکشن کی صورت میںحسینہ واجد ایک زخمی ریچھ کی طرح اپنے مخالفین کو پچھاڑنے کے لیے ہرحربہ استعمال کر سکتی ہے۔

’’دی ایشیا فاؤنڈیشن‘‘ کے ایک تازہ سروے اور بنگلہ دیش کی سیاست پر جاری تازہ مفصل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فی صد بنگالی عوام حسینہ واجد کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ سروے میں جن پندرہ فی صد لوگوں نے عوامی لیگ کی سیاست کی حمایت کی ہے وہ شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کے جیالے ہیں۔ اُنہیں ملک کو درپیش مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ سیاسی انارکی کے بعد حسینہ واجد کی پالیسیوں سے معیشت کی تباہی اور جماعت اسلامی کے خلاف انتقامی پالیسی اور اس کے رد عمل میں اٹھنے والے عوامی جذبات ملک کے بڑے مسائل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حسینہ واجد کی منشاء کے تحت ہوئے پارلیمانی انتخابات کو عالمی برادری نے قبول نہیں کیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش کی سیاست پر باریک بینی سے نگاہ رکھنے والے یہ خبر دے رہے ہیں کہ سیاسی بھونچال جلد ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ حسینہ واجد نے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں میں نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے بلکہ عوام کو مشتعل کرکے اپنے سیاسی مستقبل پرایک نیا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وقت کا دھارا بہت تیز ہے اور حسینہ واجد نے اپنے لیے جو فصل بو دی ہے جلد اسے کاٹنا بھی پڑے گی۔

’’جنیوا2‘‘ اور یرموک کیمپ کا انسانی المیہ

شام میں جاری عوامی بغاوت کی تحریک اور صدر بشارالاسد کے مستقبل کے تعین کے لیے کئی ماہ کی مساعی کے بعد بالآخر اقوام متحدہ نے 22 جنوری کو دوسرے جنیوا اجلاس کا اعلان کیا۔ شام کی تہہ در تہہ پیچیدہ صور ت حال سے یہ کہنا مشکل ہے کہ عالمی سفارت کاری کی یہ کوشش ثمر آور ثابت ہوگی یا نہیں۔ مبصرین پہلے ہی یہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ جس طرح عالمی جرگہ داروں کے درمیان جنیوا اجلاس کی انعقاد کے ضمن میں اختلافات رہے اور شامی باغیوں کی جانب سے اجلاس میں شرکت اور عدم شرکت کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات نے پہلے ہی یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ’’جنیوا 2‘‘ بھی مسئلے کے جلد او ر دیر پا حل میں کوئی اہم سنگ میل ثابت نہیں ہو سکے گا۔

مبصرین یہ عندیہ اس لیے بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ کیونکہ دو سال قبل پہلے جنیوا اجلاس میں جتنے بھی اہم نکات منظور کیے گئے تھے۔ بشارالاسد اور باغیوں دونوں نے ان میں سے کسی ایک نقطے پرعمل درآمد نہیں کیا ہے۔ نئی سفارتی اور سیاسی کوشش بھی وہی ’’دوستان شام‘‘ کر رہے ہیں جو’’جنیوا1‘‘ کے خاکہ ساز تھے۔ ’’العربیہ ‘‘ ٹی وی کی   رپورٹ کے مطابق ’’جنیوا2‘‘کی کامیابی فریقین کی سنجیدگی پر منحصر ہے۔

دوسری اہم طاقت امریکا، سعودی عرب، ایران اور روس ہیں۔ یہ چاروں خارجی قوتیں چاہیں تو شام کی خانہ جنگی کودنوں میں نہیں کم از کم ہفتوں اور مہینوں میں ضرور ختم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بحران کو طول دینے اور اسے ختم کرنے میں ان ممالک کا کلیدی کردار سمجھا جاتا ہے۔شام کا دوسرا بڑا مسئلہ اندرون ملک جاری خانہ جنگی کی وجہ سے سنگین انسانی صورت حال ہے۔ جنیوا جلاس اگر شامی پناہ گزینوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کاباعث نہیں بن سکتا تو اس کے بعد شامی عوام کا عالمی برادری سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ سب سے زیادہ تباہ کن حالت دمشق کے جنوب میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ کی ہے۔

شام کی سرکاری فوج نے فلسطینیوں کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ’’یرموک‘‘ کا پچھلے سات ماہ سے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت کی تحریک کے دوران یرموک کیمپ میں بعض فلسطینی تنظیموں اور مقامی شامی آبادی پر بھی باغیوں کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کیمپ میں فوجی کریک ڈاؤن میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق شام میں بشارالاسد کی فوج کے ہاتھوں کم سے کم 1921 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، ان میں سے بیشتر یرموک کیمپ میں کریک ڈاؤن میں مارے گئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے محصورین یرموک کی مدد کے کئی بار وعدے اور یقین دہانیاں کی گئی ہیں مگرمفلوک الحال عوام کی عملی مدد نہیں کی جا سکی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں بالخصوص ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ رواں موسم سرما میں یرموک کیمپ میں پچاس افراد بھوک سے مر چکے ہیں۔ ہزاروں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔موت کے اس خوفناک سائے میں عالمی طاقتیں دوسرے جنیوا اجلاس کی تیاری کر رہی ہیں۔ کیا جنیوا اجلاس میں مفلوک الحال لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کوئی انتظام ہو سکے گا۔

نوری المالکی نے عراق کو عوام کا ’’مقتل‘‘ بنا دیا
عراق کے سنی اکثریتی صوبہ الانبار میں ایک ماہ سے شورش نے صوبے کو بدترین تباہی اور عوام کو سنگین مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ۔ وزیراعظم نوری المالکی کی غلط پالیسیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک ماہ سے جاری لڑائی کے دوران رمادی فلوجہ اور ابو غریب شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ تا دم تحریر چار سو افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق پندر ہ سے بیس ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

المالکی کی حکومت کے خلاف صوبہ الانبار کے شہر رمادی میں احتجاج اس وقت شروع ہوا تھا کہ جب مقامی قبائل نے امن وامان کے قیام میں فوج اور سیکیورٹی اداروں کے منفی کردار کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ حکومت نے مظاہرین کے جائز مطالبات پر کان دھرنے کے بجائے اُنہیں طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ دھرنا دینے والے ایک رُکن پارلیمنٹ احمد العلوانی کو وحشیانہ انداز میں گرفتا ر کرنے اور اس کے ایک بھائی کو گولیاں مار کر قتل کرنے کے واقعے نے حالات مزید کشیدہ کیے۔

حکومت اور شہریوں کے درمیان تناؤ کا فائدہ تیسرے فریق یعنی القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں بالخصوص’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ (داعش)کو ہوا۔ چنانچہ جنگجوؤں نے صرف ایک ہفتے کی لڑائی میں رمادی اور فلوجہ میں سرکاری فوج، پولیس اور مقامی قبائل کو شکست دے کر اہم تنصیبات پرقبضہ کر لیا۔ سنہ 2003ء کو امریکا کے عراق پر یلغار کے بعد اتنے کم وقت میں دو اہم شہروں پر القاعدہ کی یہ سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ نوری المالکی کی حامی فوجوں نے طاقت کا بھرپور استعمال کر کے باغیوں اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو پسپا کیا ہے مگر رمادی اور فلوجہ کا مکمل کنٹرول اب بھی عراقی فورسز کے ہاتھ میں نہیں ہے۔

؎مبصرین اس لڑائی میں وزیراعظم نوری المالکی کو سب سے بڑا قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نوری المالکی دانستہ طور پر شیعہ سنی فسادات کو ہوا دے کر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اہل تشیع مسلک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مخالف مسلک کے لوگوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدام حسین کی آمریت ختم کرکے جمہوریت قائم کرنے والے عالمی امن کے ٹھیکیدار اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے عراق کو تباہی اور بربادی کے دھانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ عرب میڈیا میں اب یہ سوال اٹھائے جا رہے کہ کیا عراق پوری عرب دنیا میں فرقہ واریت پھیلانے کا باعث بنے گا ۔ اگربغداد سرکار نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو عراق میں جاری دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی دوسرے عرب اور اسلامی ملکوں تک پھیلے گی۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث پہلے ہی شیعہ ، سنی تنازع شدت اختیا رکرتا جا رہا ہے۔

 

برفباری سے موسمِ سرما کا مزہ دوبالا

$
0
0

موسم سرما میں جونہی سردی بڑھنے لگتی ہے، ویسے ہی شمالی علاقوں کے پہاڑی سلسلے برف کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

دن رات جاری رہنے والابرفباری کا سلسلہ ایک طرف تودرجہ حرات کومنفی کردیتا ہے تو دوسری جانب سخت سردی میں برفباری سے لطف اندوزہونے کے شوقین بھی شمالی علاقوں میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کی بڑی تعداد مری سمیت دیگرسرد علاقوں کے تفریحی مقامات پر دکھائی دیتی ہے۔

ایسے میں جہاں برفباری سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، وہیں موسم کی شدت سے بچائو کے ساتھ ساتھ ’’اوورکوٹ، سکارف، جینز اور لانگ شوز‘‘ کے ذریعے فیشن کے تقاضوں کوبھی پوراکیا جاتا ہے۔ اسی لئے توکہتے ہیں کہ موسم سرد ہویا گرم، فیشن کے منفرد انداز ہمیشہ خواتین کی اولین ترجیح رہتے ہیں۔

حکومت مذاکرات کرے یا آپریشن دھرتی پر امن چاہتے ہیں، اسفند یار ولی

$
0
0

چارسدہ: عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کرے یا آپریشن دھرتی پر امن چاہتے ہیں۔

چارسدہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی تشدد کی مخالف کی اورآج بھی کرتے ہیں، وزیر داخلہ چودہدری نثار علی خان تبائیں کہ امن کے لئے کن گروپوں سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں اور ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ امن و امان صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن خیبر پختون خوا حکومت بھی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔

اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ نیٹو سپلائی روکنا بڑا خطرناک کھیل ہے، ملک نازک دورسے گزررہا ہے اورحالات تیزی سے بے قابو ہوتے جا رہے ہیں، تحریک انصاف والے کہتے ہیں کراچی میں ہمارے ایم این اے اور ایم پی ایز ہیں تو کراچی بندرگاہ سے نیٹو سپلائی بند کیوں نہیں کرتے، تحریک انصاف لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتی ہے لیکن خیبر پختون خوا میں مہنگائی کے خلاف دھرنا نہیں دیتی۔

انتہاپسندی اور غربت پر قابو پانے کے لئے تعلیم ہی موثر ترین ہتھیار ہے،شہباز شریف

$
0
0

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں انتہاپسندی اور غربت پر قابو پانے کے لئے تعلیم ہی موثر ترین ہتھیار ہے۔

لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیرصدارت پنجاب ایجوکیشنل اینڈوومنٹ فنڈ کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر بلدیات  بلوچستان  سردار مصطفیٰ خان نے بھی شرکت کی، اجلاس کے دوران تعلیمی فنڈ پروگرام کو مزید موثر بنانے اور دیگر متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اجلاس سے خطاب کرتےہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں انتہاپسندی اور غربت جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے تعلیم ہی سب سے موثر ہتھیار ہے، جس کےفروغ کے لئے پنجاب حکومت دن رات کام کرہی ہے، انہوں نے کہا کہ تعلیمی فنڈ پروگرام کے تحت اب تک طلبہ و طالبات کے لئے 59 ہزار وظائف جاری کئے جاچکے ہیں جبکہ اس پروگرام میں پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں کے طلبہ کو بھی شامل کیا گیا ہے،یہی وجہ ہے کہ تعلیمی فنڈ سے بلوچستان کے ایک ہزار 900  طلبہ و طالبات بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

طالبان سے باضابطہ مذاکرات 3 سے 5 روز میں شروع ہوجائیں گے

$
0
0

کراچی: حکومتی ذرائع کاکہناہے کہ حکومتی کمیٹی سے طالبان کے باضابطہ مذاکرات آئندہ 3سے 5روز میں شروع ہوجائیں گے۔

حکومتی ڈرائع کے مطابق اعلیٰ حکومتی شخصیت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعدحکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک اہم رکن رکن میجر(ر)محمدعامرنے ایک مذہبی شخصیت کے توسط سے طالبان قیادت تک حکومتی پیغام پہنچادیاہے،اس پیغام میں کہاگیاہے کہ باضابطہ مذاکرات کے آغازکے بعدحکومت یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ مذاکرات کے نتائج تک اگر طالبان کی جانب سے کوئی حملہ نہیں کیا جاتا ہے تو حکومت طالبان کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کرے گی،اس مثبت پیغام کے بعدطالبان نے بھی حکومتی ذرائع کویقین دہانی کرائی ہے کہ شوریٰ کے حتمی  فیصلے کے بعدباضابطہ طور پر اعلان کیاجائے گا کہ مذاکراتی عمل کے دوران کوئی حملہ نہیں ہوگا ،طالبان کی جانب سے رابطوں کے لیے مولانا عبدالعزیز ،مفتی کفایت اللہ ،مولانا سمیع الحق ،پروفیسر ابراہیم اور عمران خان کو شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے تاہم اس کمیٹی کا سربراہ طالبان مولانا سمیع الحق کو بنانے پر غور کررہے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ اگر مولانا سمیع الحق نے مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی قبول کرلی تو ان کی ہی سربراہی میں حکومتی ٹیم سے مذاکرات کیے جائیں گے اور اگر مولانا سمیع الحق معذرت کرلیتے ہیں تو پھر مولانا عبدالعزیز کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔

 photo 6_zpsc45d3fa3.jpg

اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں سب سے پہلے سیز فائر کا دونوں جانب سے اعلان کیا جائے گا ،اس اعلان کے بعد طالبان کے بعض رہنماؤں کی رہائی اور ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے باضابطہ بات چیت ہوگی،حکومتی کمیٹی مذاکرات کے لیے پرعزم ہے،ان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں ملک کے 5جیدعلمااہم کردار اداکررہے ہیں اورمسلسل  فریقین سے رابطے میں ہیں ،ابتدائی مذاکراتی عمل کے بعد فاٹا کے کسی مقام پر باضابطہ ملاقات کی جائے گی،ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان شوریٰ نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو مکمل اختیارات دینے کا بھی فیصلہ کیاہے تاہم اس کا باضابطہ اعلان وہ جلد کریںگے،اطلاعات ہیں کہ حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن جلد پشاور روانہ ہوں گے اور اگر طالبان کی جانب سے اعلان کردہ پانچوں ارکان کمیٹی میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر پشاور سے ہی مذاکرات کا آغاز ہوگا،دونوں جانب سے بیک ڈور چینل کے ذریعے شرائط طے کی جارہی ہیں،شرائط نامہ مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ حکومتی قیادت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد باضابطہ طور پر رابطہ کیا جائے گا۔


’’سُر ساتھ سویرا‘‘ پاکستان میں موسیقی کو فروغ دے گا، دعا ملک

$
0
0

دعا ملک نے شوبزنس کی چکاچوند میں بہ طور گلوکارہ اپنے کیریر کا آغاز کیا اور آج ’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ ‘ پر مارننگ شو کی میزبان کے طور پر ناظرین میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔

انہوں نے ساز اور سُروں کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور پھر مختلف نجی چینلوں کے ڈراموں کے ٹائٹل سونگ گائے۔ دعا کا کہنا ہے،’’چند ٹائٹل سونگز کے بعد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میں اچھی گلوکاری کر سکتی ہو۔ یہ فن سیکھنے کے ساتھ میں نے اپنا پہلا سونگ ’’رانجھنا‘‘ ریلیز کیا، جس کا بہت زبردست رسپانس ملا۔ مجھے ٹیلی ویژن پر کسی پروگرام کی میزبانی کرنے کا شوق بھی تھا۔ معلوم نہیں کیوں میں یہ سمجھنے لگی کہ پاکستان میں گائیکی کا اسکوپ بہت کم ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہاں ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے اور ہمیں میوزک کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے مجھے ’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ ‘ جیسا بڑا اور مؤثر پلیٹ فارم مل گیا۔ یہاں میرے میوزک کے بارے میں آئیڈیے کو بہت پسند کیا گیا اور یوں ’’سُر ساتھ سویرا‘‘ کا آغاز ہوا۔ اپنے شو کے ذریعے میری ٹیم اور میں باصلاحیت اور نئے چہروں کو پاکستان بھر میں اپنے ناظرین کے سامنے لائیں گے۔ یہ شو پاکستان میں میوزک کو فروغ دینے اور باصلاحیت افراد کو آگے لے کر جانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘

دعا کا کہنا ہے کہ ایکسپریس انٹرٹینمینٹ کے لیے شو کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ پروڈیوسر اور شو کی ٹیم سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور سیکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دعا کے مطابق وہ اپنے پروگرام کے لیے منفرد اور قابل توجہ موضوعات کا انتخاب کریں گی۔ وہ صبح کا آغاز کسی ایسے موضوع سے نہیں کرنا چاہتیں، جس سے ناظرین افسردہ اور مایوس ہو جائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا شو دیکھنے والوں کا دن پریشانی میں نہ گزرے بلکہ وہ ہنستے ہوئے اور خوشی خوشی اپنی صبح کی شروعات کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے پروگرام کے ذریعے ناظرین کو خوش گوار صبح دینا چاہتی ہوں۔

دعا رنگ اور خوش بو کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں چنبیلی کا پھول اور گلابی رنگ پسند ہے۔ کھانوں میں ہر ڈش اچھی لگتی ہے۔ مون سون کا موسم انہیں بہت بھاتا ہے۔ وہ اپنی والدہ کو اپنا آئیڈیل بتاتی ہیں۔

دعا کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کی تاریخ پیدائش یکم جون اور اسٹار جوزا ہے۔ انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن کے مضمون میں ڈگری حاصل کی ہے۔ کھیلوں میں انہیں باسکٹ بال بہت پسند ہے جب کہ مائنڈ سائنسز سے متعلق کتابیں شوق سے پڑھتی ہیں۔

دعا کے مطابق خواب دیکھنا ضروری ہے اور پھر اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے محنت بھی کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں،’’ انسان کی زندگی میں قسمت کا اہم رول ہے، لیکن محنت کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ نیک نیتی بھی کام یابی کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

دعا کا اپنے پرستاروں، خصوصاً لڑکیوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے سوچیں اور عملی طور پر قدم بھی اٹھائیں۔ اپنی دل چسپی اور رحجان کے مطابق کسی شعبے میں آگے بڑھیں اور ماں باپ کا سہارا بنیں۔

وسطی افریقی جمہوریہ: حکمرانوں کی نااہلی سے آگ بھڑک اٹھی

$
0
0

دنیا بھر میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا لمحہ بہ لمحہ ترقی، سوشل میڈیا کے زبردست فروغ اور لوگوں میں روز بر روز بڑھتی آگاہی کے باوجود بہت سے واقعات اور معاملات ایسے ہیں جن پر توجہ نہیں دی جاتی یا وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔

دنیا کے بہت سے خطے، ملک یا شہر اپنی اپنی مخصوص انفرادیت کی وجہ سے قابل توجہ بنتے ہیں، کچھ لوگوں کو ان کے حوالے سے جلد پتا چل جاتا ہے لیکن اکثریت کو کافی عرصے بعد چیزوں کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں سیاسی کشیدگی، تنازعات، جنگی کیفیت عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے پریشانی کا باعث تو ہوتی ہیں، مگر کبھی کبھی جان بوجھ کر بہت سارے حالات و واقعات کو دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے خون سے تر حالات پر بھی دنیا کی توجہ شاید ابھی عالمی طاقتوں کے فائدہ میں نہیں ہے، اسی لیے قتل و غارت گری سے پھراب خطہ عالمی لیڈروں کو کسی تشویش میں مبتلا نہیں کر رہا۔

وسطی افریقی جمہوریہ میں طویل عرصے سے خانہ جنگی کی کیفیت نے علاقے کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ گو مسلسل عذاب میں مبتلا رہنے والے یہ لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان حالات میں بھی زندہ ہیں، کیوں کہ ان کے ساتھ رہتے بستے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اس چھوٹے سے افریقی ملک میں قتل و غارت گری مسلسل بڑھ رہی ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس خون ریزی کا نشانہ سب سے زیادہ مسلمان بن رہے ہیں اور حالات اب اس پہنچ پر پہنچ چکے ہیں کہ عالمی طاقتوں کو بالآخر خطرناک صورت حال پر دھیان دینا پڑرہا ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک کا دارالحکومت بینگوئی ہے، جو قتل و غارت گری سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ انتہائی کشیدہ حالات کی وجہ سے علاقے میں رہنے والے محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ نے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں اور جو علاقہ نہیں چھوڑ سکے، انہیں باغیوں کے ظلم و ستم اور زندگی کا عذاب سہنا پڑرہا ہے۔ ان حالات سے ملک کی مسلمان آبادی، جو اقلیت ہے، سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اس ملک کے شمال میں چاڈ، شمال مشرق میں سوڈان، مشرق میں جنوبی سوڈان، جنوب میں کائکو جب کہ مغرب میں کیمرون واقع ہیں۔ ان ملکوں میں بھی سیاسی تنازعات اور کشیدگی پائی جاتی ہے، لیکن وسطی افریقی جمہوریہ جیسے خون آشام حالات کہیں نہیں ہیں۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس خطے میں (جہاں وسطی افریقی جمہوریہ واقع ہے) طویل عرصے تک فرانس کا تسلط رہا ہے۔ یہ ملک 1910ء سے 1960ء تک فرانسیسی حکومت کے زیر نگیں تھا۔ 13 اگست 1960ء کو وسطی افریقی جمہوریہ کو آزاد ملک کی حیثیت دی گئی۔ آزادی کے بعد تقریباً 30 سال تک ادھر ایسی حکومتیں رہی جن کی باگ ڈور یا تو غیرمنتخب افراد کے ہاتھ میں تھی یا حکم رانوں نے طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا۔ حکم رانوں کی غلط پالیسیوں اور عوام میں حکومت کے خلاف پیدا ہونے والے شدید منفی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑی اور وسطی افریقی جمہوریہ میں 1993ء میں باقاعدہ انتخابات کرائے گئے، جن میں مختلف سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اینچ فیلکس پتا سے (Ange Felix Pattase) نے اقتدار سنبھالا، لیکن 2003ء میں فوجی جزک نے فرائنکوئس بوزیز (Fanncois Bozize) نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 2005ء میں خود کو باقاعدہ صدر بھی منتخب کرایا۔

یہ حکومت بھی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔ 2008 ء میں نئے انتخابات کرائے گئے۔ مختلف اقدامات اور اصلاحات کے بل پر فرائنکوئس بوزیزے وسطی افریقی جمہوریہ کے منصب صدارت پر قابض رہے اور تنقید اور تنازعات کے باوجود 2011ء میں ہونے والے الیکشن میں بوزیزے کی پارٹی نے کام یابی حاصل کرلی۔ انتہائی کرپشن، بدانتظامی اور اقرباپروری نے اس حکومت کو عوام میں انتہائی غیرمقبول کردیا اور عوام کو پریشانی، بے چینی اور غصے کا نتیجہ بغاوت کی شکل میں سامنے آیا۔ جب مختلف گروپ حکومت سے ٹکرانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ 2013ء میں حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے فرینکوٹس یوزیزے کو صدارت چھوڑنا پڑی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ اداروں میں صدر اور وزیراعظم نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر اقتدار جمہوری حکومت کے حوالے کر دیا ہے جو ملک میں نئے انتخابات کرائے۔ اس سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کا سب سے خوف ناک پہلو قتل و غارت گری ہے۔ باغیوں کے مختلف گروپوں نے حکومت سے اختلافات کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو قتل کرنے، لوٹ مار کرنے اور دہشت پھیلانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس نے سب کو لرزہ کے رکھ دیا ہے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ کو قدرت نے متعدد وسائل سے نوازا ہے لیکن اس قدرتی دولت پر توجہ دینے اور اسے عوام کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ان وسائل کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں بہت سی معدنیات کے ذخائر ہیں۔ باکو ما (Backhoe) میں یورینیم، وکاگا (Vacaga) میں خوردنی تیل، سونا، ہیرے، ہائیڈرو پاور اور دیگر معدنی وسائل ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے، جب کہ براعظم افریقہ کے 10 غریب و پس ماندہ ترین ممالک میں بھی اس کا نام شامل ہے۔

ملک میں جاری خونی تصادم کے تناظر میں عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق اس افریقی ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال بہت ابتر ہے۔ حکومتی سطح پر بے قاعدگیوں، بے پرواہی اور غیرانسانی اقدامات کی حمایت یا ان سے چشم پوشی جیسی مذموم کارروائیوں نے وسطی افریقی جمہوریہ کے پُرامن باسیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے علاقے کی صورت حال بہت زیادہ کشیدہ اور خطرناک ہو گئی ہے۔ باغی گروپ اپنی بات منوانے سے زیادہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دارالحکومت بینگوئی اور دیگر علاقوں میں مختلف دیہات پر یلغار کررہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے عالمی ریڈ کراس کے رضاکاروں نے خبر دی تھی کہ چند دنوں میں ہم لوگ 50سے زیادہ لاشیں دفنا چکے ہیں۔ ان سب افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولیاں ماری گئیں یا تیز دھار خنجروں سے قتل کیا گیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمینٹ کی رپورٹوں کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں باغی جنگ جوئوں کی کارروائیوں کے ساتھ حکومت اور سیکیوریٹی فورسز کے ظالمانہ اقدامات نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ انہی فیصلوں اور اقدامات کے سبب یہ علاقہ برسوں سی تصادم اور کشیدگی کے ماحول میں گھرا ہوا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق ماورائے عدالت سزائیں، قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، تشدد انھیں جنسی وذہنی طور پر نشانہ بنانا، حراستی مراکز میں زیرحراست افراد کے لیے انتہائی مشکل اور عذاب جیسے حالات، غیرجانب دارانہ ٹرائل کی ممانعت، سرکاری سطح پر بے انتہا کرپشن، بدانتظامی، ملازمین کے حقوق سے انحراف اور ایسے ہی دیگر جرائم اور بے ضابطگیاں وسطی افریقی جمہوریہ کے سرکاری اور فوجی حکام کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال نے باغیوں کے غصے کو مزید بڑھایا، حکومت صرف عیاشیوں میں مگن رہی، نتیجہ یہ نکلا کہ خونیں فسادات نے علاقے کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بے گھر کر دیا۔

2003ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ کی 80 فی صد سے زیادہ آبادی مسیحی ہے، مسلمان یہاں تقریباً10فی صد ہیں، جب کہ دیگر مذاہب سی تعلق رکھنے والوں کا تناسب بھی 10فی صد ہے۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق یہاں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 15فی صد ہے۔ موجودہ خانہ جنگی کی صورت حال نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کیا اور انہیں دہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، کیوںکہ ایک طرف وہ باغی گروپوں کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت علاقے میں پائے دار امن کے لیے کوئی موثر فیصلہ نہیں کر پارہی، جس کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہو تے جارہے ہیں۔فرانسیسی حکومت نے اپنی اس سابق کالونی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے امن و امان قائم کرنے کے لیے فوجی دستے بھیجے ہیں۔ تاہم یہاں کے کچھ علاقے اتنے دور ہیں کہ وہاں آسانی سے فوجی دستوں کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ وہاں سے آنے والی رپورٹیں چاہیں وہ مصدقہ ہوں یا غیرمصدقہ ہر ایک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں، کیوںکہ یہی اطلاعات مل رہی ہیں کہ وسطی افریقی جمہوریہ کے مختلف علاقوں میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔

مختلف افریقی ممالک کی طرح وسطی افریقی جمہوریہ (CAR)کی معیشت کا انحصار بھی غیرملکی امداد پر ہے۔ غیرسرکاری تنظیمیں اپنے اپنے شعبوں میں مالی معاونت کرتی رہی ہیں، تاہم فی الحال ملک میں سدھار کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے ان ملکوں میں شامل کیا ہے جو عالمی ادارے کی امداد سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہاں فی کس آمدنی 300ڈالر ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے۔ معدنیات کے ذخائر ہونے کے باوجود یہاں کی پریشان کن معاشی صورت حال حکومتوں کی عدم توجہی، نالائقی اور صرف اپنوں کو نوازنے کی پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔

 photo Centralafricarepublic_zps12447d12.jpg

گذشتہ سال2013  میں سیاسی گروپوں کی محاذآرائی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اقوام متحدہ نے علاقے میں امن فوج تعینات کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ امن فوج نے وہاں صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن جنگجو گروپوں کی کارروائیوں نے صورت حال کو مزید خطرناک بنادیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ حالات امن فوج کے بس میں نہیں رہے۔ گذشتہ سال دسمبر میں عیسائی اور مسلمان گروپوں میں خوں ریز تصادم اور سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد صورت حال انتہائی خطرناک ہوگئی تھی۔ مختلف شہروں میں ایک ایک مقام سے درجنوں لاشوں کی برآمدگی نے فرانس کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنے فوجی دستے اس علاقے میں امن و امان کے لیے بھیجے جہاں وہ طویل عرصے حکم رانی کرچکا ہے۔ رواں ماہ میں اپنے اوپر لگنے والے مختلف الزامات کی وجہ سے عبوری صدر مچل جوٹودیاMichel Djotodiaنے استعفیٰ دیدیا تھا ، اب کیتھرین سامبا پانزاCatherine Samba-Panza ملک کی نگراں سربراہ ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ خون اور بارود کے ماحول میں جہاں ہر طرف خوںریزی اور ہلاکتوں کا سلسلہ ہے، ایک خاتون لیڈر کس طرح حالات کو کنٹرول کرتی ہیں۔

وسطی افریقی جمہوریہ کے حالات کا مختصر جائزہ قارئین کو علاقے کی صورت حال سے آگاہ کرنے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال حکومتی نااہلی، حکم رانوں کا عوام کی فلاح سے انکار، باغی گروپوں کی یلغار اور ایسے ہی دیگر عوامل نے ملک کو لاتعداد مسائل اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالات اس وقت ٹھیک ہوں گے جب عالمی ادارے خلوص کے ساتھ علاقے میں امن و امان اور عوامی حقوق کی بحالی کے لیے کوشش کریں۔ حکومتی انتظامی ڈھانچے کو کرپشن سے پاک کیا جائے، سیکیوریٹی فورسز اور باغی گروپوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالی جائے اور خطے میں پائے دار امن کے لیے جامع حکمت عملی بناکر اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وسطی افریقی جمہوریہ مسلسل آگ اور خون کی بارش کا سامنا کرتا رہے گا۔

زمیں پہ انصاف کرنے والے

سعود عثمانی

میں دو گروہوں کے درمیاں اک سفید پرچم لیے کھڑا ہوں

مگر کوئی مانتا نہیں ہے

مرے یمین و یسار دونوں گروہ اک دوسرے سے حد درجہ مختلف ہیں

مماثلت ہے تو بس یہی ہے

کہ ان کی انسانوں  جیسی شکلیں ہیں

اوردل  بھیڑیوں کے دل ہیں

مرے بدن پر جو زخم ہیں سب

مرے یمین و یسار میں ہیں

میں جانتا ہوں کہ تیز نیزے ، کڑی کمانیں ابھی مرے انتظار میں ہیں

کہ پتھروں نے بھلا کبھی التجا سنی ہے ؟

جو اِ س طرف ہیں

یہی  جو میرے  بدن کی  دائیں طرف کو تیروں  سے  چھیدتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

یہ اہرمن جو زبان ِ یزداں میں بولتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

جو میرے اعمال اپنے ہاتھوں میں تولتے ہیں

یہ سب خدا ہیں

اگر یہ میرے خدا نہیں ہیں

تو پھر یہ طے ہے

کہ جھوٹے نبیوں کی قوم سچی زمین پر بھیج دی گئی ہے

مگر یہ بے رحم  ان مہذب جنونیوں سے بہت الگ ہیں

جو  روز و شب  میرے بائیں  پہلو میں اپنے نیزے چبھو رہے ہیں

وہ آسماں سے زمیں پہ نازل ہوئے تھے اور یہ

زمین سے آسماں پہ مبعوث ہورہے ہیں

یہ لوگ میرے ہی  خون سے مجھ کو  دھو رہے ہیں

تمام قوموں ، تمام چہروں کوصاف شفاف کرنے والے

زمیں پہ انصاف کرنے والے

مرے لیے اپنے خاص انصاف کا صحیفہ لیے کھڑے ہیں

سفید رُو  خوش لباس قاتل

وہ  ناخدا ہیں جو سب خداؤ ں سے بھی بڑے ہیں

یہ علم و حکمت ،یہ عقل و دانش،

یہ کاسۂ سر

یہ سارے تمغے جو ان کی پوشاک پر جڑے ہیں

د مکتی پوشاک میں  یہ سفاک مسکراہٹ ہے  جو  مجھے خوب جانتی ہے

اور اس کو  میں خوب  جانتا ہوں

سفید قاتل

کہ جن کے ہمراہ  گندمی رنگ خاص چوپایہ آدمی ہیں

اور ان  کے پٹوں کی جھنجھناتی سنہری زنجیریں

ان کے آزاد  مالکوں  تک پہنچ رہی ہیں

یہ خاص چوپایہ آدمی ہیں

جو  اپنے راتب کو ہضم کرتے ہیں

اور دانشوری کا فضلہ نکالتے ہیں

مگر یہ دانش وری کے تاجر

خرد کی آڑھت پہ بیٹھتے ہیں  تو اپنی دُم سے

نشست بھی جھاڑتے نہیں ہیں

ذرا سا کھرچو

تو سطح ِ انسانیت  کی پتلی تہوں تلے سے

نکیلے، پتھریلے ناخنوں ،تیز دھار دانتوں سمیت اک مسلکی جنونی

نکل کے آتا ہے جس کی باچھوں سے گرم تازہ لہو کے فوارے چھوٹتے ہیں

میں کس  طرف  ہوں ؟

کہ میں کمانوں کا بھی نشانہ ہوں

اور زبانوں کا بھی ہدف ہوں

میں تیر کھا تا ہوں اور طعنے سہارتا ہوں

دہن دریدہ  وجود میرے بدن دریدہ وجود کو بخشتے نہیں ہیں

یہ دونوں لشکر  جو میری بستی میں آگھسے ہیں

نہ جانے کب تک یہاں رہیں  گے

میں دو  درندوں کے بیچ کب تک سفید پرچم لیے رہوں گا

سفید پرچم

مگر یہ اتنا سفید بھی اب کہاں رہا ہے

ہوا میں تحلیل ہوتی چیخیں ، سسکتی بے سود  التجائیں

انہی کے کانوں تلک پہنچتی ہین

جن کے دل بھیڑیوں کے د ل ہیں

جو سچ کہوں تو مجھے یہ مطلق خبر نہین ہے

وہ کون ہیں جو کہ مارتے ہیں ،

یہ کون ہیں جو کہ مر رہے ہیں

مگر یہ سچ ہے

یہ دونوں قاتل

مرے تحفظ  کا نام لیتے ہین اور مجھے قتل کر رہے ہیں

بُک شیلف

$
0
0

صحت مند زندگی کیلئے تین کتابیں

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں انسانوں کی صحت شدیدخطرات سے دوچار ہے۔ بیماریاں نہ صرف عام ہیں بلکہ وبائوں کی شکل میں پورے معاشرے میں دندناتی پھررہی ہیں اور لوگوں کو اپنا شکار بنا رہی ہیں لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت ، صحت کے مراکز اور معالجوں کی اکثریت لوگوں کو ان امراض سے بچانے میں مخلص ہی نہیں۔ ہم میں سے ہرکوئی جانتاہے کہ حکومتوں کی تمام ترکوششیںبیماریاں پھیلانے کے لئے ہی ہوتی ہیں، ہرکوئی جانتاہے کہ صحت کے مراکز لوٹ مار کے اڈے بن چکے ہیں اور ڈاکٹرز اور حکماء دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں۔ وہ علاج کے نام پر مریضوں سے پیسوں سے بھری ہوئی بوریاں وصول کرتے ہیں لیکن علاج اس اندازمیں کرتے ہیں کہ مریض مستقل طورپر ان کا کلائنٹ بنا رہے۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی ہے، ان کے ہاں علاج معالجہ مفت ہوتاہے ، یہاں الٹ ہے۔ ہرچیز کو کمرشلائز کردیا گیا ہے، ایسے میں وہ افراد اور ادارے تحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو صحت کا شعور عام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرجاویداقبال ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔’’ صحت مند اور لمبی زندگی کے لئے10رہنما اصول‘‘،’’بریسٹ کینسر‘‘،’’ نامردی‘‘ کے نام سے ان کی تینوں کتابیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ ان میں سے ہرکتاب دو سو سے اڑھائی سو صفحات تک مشتمل ہے۔

 photo 3books_zps68812f2a.jpg

ہرکتاب میں اس کے موضوع پر پوری تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔’’ صحت مند اور لمبی زندگی کے لئے10رہنما اصول‘‘ کے ذیل میں بیان کیاگیاہے کہ آلودگی سے حفاظت، اسلامی احکام پر عمل، ازدواجی تعلقات میں بہتری، تمباکو نوشی سے پرہیز، متحرک رہنے، خوش وخرم زندگی گزارنے، ذہنی تنائو اوردبائو کم کرنے ، غذائی عادات کو بہتربنانے ، مثبت اندازفکر اپنانے اور نشہ آور اشیاسے پرہیز سے ہی ایک انسان صحت مند اور لمبی زندگی گزارسکتاہے۔ مصنف میں ان اصولوں کی اہمیت، افادیت کو جامع اندازمیں بیان کیاہے جبکہ یہ بھی بتایاہے کہ ان اصولوں پرکیسے آسانی سے عمل کیاجاسکتا ہے۔ اسی طرح بریسٹ کینسر اور نامردی کے ضمن میں بھی ان امراض کے اسباب اور بچائو کی تدابیر پر مفصل بحث کی گئی ہے جبکہ ایسا آسان علاج بھی بیان کیاگیاہے کہ ایک عام مریض بھی اس سے فوائدحاصل کرسکتاہے۔’’ صحت مند اور لمبی زندگی کے لئے10رہنما اصول‘‘ کی قیمت545روپے،’’بریسٹ کینسر‘‘ کی قیمت495 روپے اور’’ نامردی‘‘ کی قیمت بھی495 روپے ہے۔ خوبصورت ٹائٹلز اور بہترین سفید کاغذ پر شائع ہونے یہ تینوں کتب پیرامائونٹ پبلشنگ انٹرپرائز،152/Oبلاک نمبر2 ، پی ای سی ایچ ایس، کراچی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

خطبات جمعہ وعیدین

مصنف: مولاناابوالکلام آزاد،قیمت:220روپے

ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور

 photo Khutbaat_zps87622ae1.jpg

زیرنظرکتاب کے عنوان سے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ مولانا آزاد کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے جمعہ اور عیدین کے کئی مواقع پر بیان کئے۔اللہ رب العزت نے مولاناآزاد کو فہم دین کاایک خاص ملکہ عطاکیاتھا۔ مولانا کے خطبات میں استدلال کی پختگی، زبان کی لطافت، الفاظ کی شان وشوکت، اندازبیان کی شائستگی، سامعین کے دل ودماغ کو پوری طرح مسخر کرلیتی ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایک باب میں خطبات جمعہ عیدین کے بارے خود مولانا خطباء کی رہنمائی فرماتے ہیں کہ رشدوہدایت کے دائمی اس ذریعہ کی بابت خلفاء وسلاطین کا کیامعمول رہاہے۔ مولانا کے یہ خطبات تمام خاص و عام مواقع پر بیان ہوئے جبکہ بہت سے خطبات خصوصی عنوانات کے تحت بھی دئیے گئے۔وہ ایک سے زائد ہیں گویا ایک سیریز۔ ان عنوانات میں اسلامی زندگی کا طرہ امتیاز،مسلمانوں کی اجتماعی زندگی،مسلمانوں کے انحطاط کے حقیقی اسباب اور علاج ،کھوئے ہوئے وقار کی واپسی کے موضوع بھی شامل ہیں۔ مکتبہ جمال قابل تحسین ہے کہ اس نے مولانا آزاد کی کتب کو ازسرنوخوب صورت اندازمیں شائع کرنے کا بیڑہ اٹھارکھاہے۔ یقیناً مولانا کے یہ خطبات خطیب حضرات وخواتین کے لئے خاصے کی چیز ثابت ہوں گے ۔

لہورنگ فلسطین

مصنف: سلمیٰ اعوان

قیمت:475روپے

ناشر:دوست پبلیکیشنز،پلاٹ نمبر110، سٹریٹ15،I-9/2، اسلام آباد

 photo Lahurang_zpsa268927a.jpg

نامور ناول نگار اور سفرنامہ نگارسلمیٰ اعوان کا تعارف تو ان کی سترہ کتابیں ہیں جو ’لہورنگ فلسطین‘ سے پہلے منظرعام پر آچکی ہیں۔ ’’شیبا‘‘،’’ ثاقب‘‘، ’’ زرغونہ‘‘،’’ تنہا‘‘،’’ گھروندا ایک ریت کا‘‘ سمیت بہت سے ناول بھی ان کا تعارف ہیں لیکن ان کا زیادہ بڑا تعارف’’ روس کی ایک جھلک‘‘،’’یہ میرا بلتستان‘‘،’’میرا گلگت وہنزہ‘‘،’’سندرچترال‘‘ اور ’’ مصر میراخواب‘‘ سمیت ان کے وہ سارے خوبصورت سفرنامے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ایک پوری نسل پلی بڑھی ہے۔ اب ان کا تازہ ناول’لہورنگ فلسطین‘فلسطین کی ایسی کہانی ہے جس میں وہاں کی پوری تاریخ بھی عیاں ہوتی ہے اور اس مسئلے کے اصل محرکات کو بھی نہایت خوبصورت اندازمیں اجاگرکیاگیاہے۔ اس میں جہاں لطیف جذبوں پر مشتمل محبت کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے وہاں قاری اس مسئلے کے اصل حل کو بھی جان لیتاہے۔ ان یہودی سازشوں کو بھی بے نقاب کیاگیاہے جو ہنستے بستے فلسطین کو خاک وخون میں لت پت کرگئیں۔ ورنہ یہ وہی سرزمین تھی جہاں صدیوں سے مسلمان، یہودی اور عیسائی باہم شیروشکر تھے۔

محترمہ سلمیٰ اعوان نے اس ناول میں تاریخ کے وہ گوشے بے نقاب کئے ہیںجو ہماری نظروں سے اوجھل رہے یا ہماری یادداشت سے محو ہوتے جارہے ہیں۔ ناول کے ایک یہودی کردار نے یہ کہہ کر سب کچھ طشت ازبام کردیاہے کہ’’ ارے آفندی! ہم سیفاردی یہودی تو اسرائیلی ریاست چاہتے ہی نہیں ہیں، ان اشکینازیوں(یورپی) کے بھانت بھانت کے کلچر، اوپر سے ان کے ماڈرن ، ترقی یافتہ، لسانی اور نسلی برتری کے زعم۔ بھئی زمانے گزرجاتے ہیں تب کہیں جاکرمشترکہ تہذیبیں وجود میں آتی ہیں۔ ہم نے عربی لٹریچر، موسیقی اورآرٹ کو مذہبی خانوں میں نہیں بانٹا۔وہ مسلمان، عیسائی، یہودی اور آرمینائی سب کاملاجلا اثاثہ ہے جسے وہ اشکرنزئی کمتر اور گھٹیا ہونے کا تاثر دیتے ہیں مگر ہمیں ان کے رنگ برنگے کلچروں سے کوئی دلچسپی نہیں جس میں یہ ہمیں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ مضبوط جلد اورساڑھے تین سوسے زائد صفحات کا یہ ناول خوبصورت طباعت کا شاہکارہے۔

انسانی تاریخ کے ایک سفاک کردار کا عبرتناک انجام

$
0
0

صموئیل شائنرمین انیسویں صدی کے آخرمیں مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں ایک نہایت مفلس گھرانے میں پیدا ہوا۔آنکھ کھولی تو چاروں طرف غربت نے ڈیر ے ڈال رکھے تھے۔کھانے کو کئی کئی روز کچھ نہ ملتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے بعض اوقات کئی روز کی پرانی باسی روٹی کے ٹکڑے پانی میں بھگو کر گذراوقات کرنا پڑتی۔

مفلسی کی زندگی سے تنگ صموئیل پولینڈ چھوڑنے کا سوچنے لگا۔ اس کی آبائی مذہبی یہودی قبیلے ’’اشکنزائی‘‘ کے ایک ربی سے ملاقات ہوئی جس نے صموئیل کو’’ارض المیعاد‘‘ یعنی فلسطین چلے جانے کا مشورہ دیا۔ ابھی فلسطین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ صموئیل کو یہودی پیشوا کا مشورہ پسند آیا اور اس نے فلسطین میں آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے گھرسے کچھ زاد راہ لیا اور فلسطین کو ہولیا۔ اسرائیل کے موجودہ دارالحکومت تل ابیب سے چند کلو میٹر دو ر ’’کفار ملال‘‘ کے مقام پر رہائش اختیار کی اور کھیتی باڑی شروع کردی۔ یہاں آنے کے بعد صموئیل کاتعارف ایک روسی نژاد یہودی خاتون ’’ڈاوورا‘‘ سے ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی بالآخر شادی پرمنتج ہوئی اور صموئیل اور ڈاوورا مل کر کھیتی باڑی کرنے لگے۔خلافت عثمانیہ کے انہدام کے بعد فلسطین کوبرطانیہ کی کالونی بنا دیا گیا۔ برطانوی سامراج نے فلسطینی مسلمانو ں اور عربوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں پرنوازشات کی بارش کردی۔ فلسطینیوں کی زمینیں چھین کر یہودیو ں کودی جانے لگیں۔ صموئیل نے بھی یہودیوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کی ملکیتی کئی مربع زمین ان سے غصب کر لی۔ بعد ازاں صموئیل اس کئی مربع زمین کا تنہا مالک ومختار بن بیٹھا۔ اسی اراضی کے چالیس ایکڑ رقبے پر بعد ازاں صموئیل کے فرزند ایریل شیرون نے ایک ’’فارم ہاؤس‘‘ بنایا۔ اس فارم ہاؤس میں دنیا بھر سے نایاب جنگی جانور اور پرندے بھی لا کر رکھے گئے۔

1926ء کو صموئیل خاندان میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام ’’یہودیتـ‘ـــــ‘ رکھا گیا۔ دو سال بعد 26 فروری 1928ء کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایریل شیرون رکھا گیا۔شیرون بچپن ہی سے لڑاکا مزاج تھا۔ اس کی عمر محض 14 سال تھی جب اس نے یہودیوں کی’’اکھاغاناہ‘‘ نامی مسلح یہودی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہی تنظیم تھی جو قیام اسرائیل کے بعد صہیونی فوج کی بنیاد بنی۔ اس تنظیم نے1948  ء میں قیام اسرائیل کے دوران ہزاروں فلسطینیوں اور اردنی فوجیوں کو شہیدکیا۔ شمالی فلسطین کے شہر’الد‘ میںمساجد میں پناہ لینے والے نہتے عرب شہریوں پر گولیاں چلانے والوں میں شیرون بھی شامل تھا۔ چنانچہ ایک ہی دن میں شیرون اور اس کے دیگر غندہ گرد ساتھیوں نے 426 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ یہاں سے شیرون کی فلسطینیوں کے قتل عام کی ایک طویل داستان شروع ہوتی ہے جو2005ء میں اس وقت تک جاری رہتی ہے جب شیرون اچانک برین ہیمرج کے نتیجے میں اسپتال جا پہنچتا ہے۔

بیت المقدس میں معرکہ نطرون نامی لڑائی میں شیرون اردنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا، لیکن فائر بندی کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔ شیرون کا والد اسے زراعت کی تعلیم دلوانا چاہتا تھا ۔شروع میں شیرون نے والد کی خواہش کے مطابق بیت المقدس کی عبرانی یونیورسٹی میں زراعت کے شعبے میں داخلہ لیا مگر اس میں اس کا دل نہ لگا۔ شیرون تعلیم کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دے رہا تھا۔ فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے اس نے فلسطینیون اور عربوں کا قتل عام اپنا وتیرہ بنا لیا۔ 1953ء میں ارد ن کی سرحد سے متصل علاقے قبیہ میں گولیاں مار کر 170 اردنی شہریوں کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔ یہ وہی سال تھا جب اس نے زراعت کی تعلیم ترک کرکے عبرانی یونیورسٹی میں تاریخ او ر قانون کے مضامین رکھ لیے۔1958ء میں قانون اور تاریخ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد شیرون نے انسانی حقوق کے شعبے میں داخلہ لیا۔ بعد زاں عبرانی، انگریزی اور روسی زبانوں پربھی مہارت حاصل کی۔

 photo Arielsharon_zps7b496c22.jpg

حادثات سے بھرپور زندگی

جنوری کے اوائل میں جب ڈاکٹروں نے ایریل شیرون کی حالت تشویشناک قرار دیتے ہوئے کسی بھی وقت اس کی موت کا امکان ظاہر کیا ۔ میڈیکل رپورٹ کے منظرعام پرآنے کے بعد عرب اور اسرائیلی میڈیا کوشیرون کی زندگی پر روشنی ڈالنے کا ایک نادر موقع مل گیا۔ سعودی عرب کے ’’العربیہ ‘‘ نیوز چینل نے شیرون کی نجی اور عائلی زندگی پرایک مفصل رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں شیرون کی زندگی کے وہ پہلو بھی سامنے آئے جو ماضی میں کبھی کسی ابلاغی ادارے کی جانب سے شائع نہیں کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق شیرون کی زندگی مجموعہ اضداد ہی نہیں بلکہ پے درپے حادثات سے بھی بھرپور ہے۔ شیرون نے اپنی عائلی زندگی کا آغاز1953ء میں ’’مارگلیٹ‘‘ نامی ایک خاتون سے شادی کے ساتھ کیا۔ گوکہ مارگلیٹ سے شیرون کا تعارف قیام اسرائیل سے ایک برس قبل1947ء کو ہوگیا تھا۔ تب شیرون کی عمر انیس اور مارگلیٹ کی سترہ برس تھی۔1956ء میں مارگلیٹ کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام گور شیرون رکھا گیا۔ شیرون کی اکلوتی بہن ’’یہودیت‘‘1951ء میں ڈاکٹر صموئیل منڈل نامی پولش دوست کے ساتھ امریکا چلی گئی۔

شیرون کے والدین کو بیٹی کے چلے جانے کا رنج ہوا جس پر والد صموئیل نے بیٹی کوعاق کرتے ہوئے جائیداد سے محروم کردیا۔یہ معلوم ہوا ہے کہ یہودیت ابھی تک بہ قیدحیات ہے، لیکن اس کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ امریکا جانے کے بعد وہ نہ اپنے خاندان کے کسی فرد یا بھائی شیرون سے ملی اور نہ ہی اسرائیل واپس آئی ہے۔سنہ 1962ء میں شیرون کی اہلیہ مارگلیٹ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس آتے ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئی۔ یہ شیرون کی زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا۔ سنہ 1964ء میں شیرون نے اپنی ہی سالی’’ لیالی‘‘ جو بعد میں لیلیٰ کے نام سے مشہور ہوئی سے شادی کرلی۔ 1967ء میں شیرون کا بیٹا ’’گور‘‘ اپنے والد کی بندوق سے کھیلنے لگا، لیکن والد نے اسے گھرکے اندر کھیلنے سے منع کر دیا۔ اس پر وہ بندوق اٹھائے ایک ہمسائے دوست کے گھر چلا گیا۔ دونوں بندوق سے کھیلنے لگے۔ بندوق میں گولی لوڈ تھی جو اچانک چل گئی جس کے نتیجے میں گیارہ سالہ گور شیرون بھی مارا گیا۔

دوسری بیوی لیلیٰ سے شیرون کے دو بیٹے ’’عومر شیرون‘‘ اور ’’گیلاد شیرون‘‘ ہیں۔ دونوں کی عمریں اس وقت 45 سے 50 برس کے درمیان ہیں۔1999ء میں لیلیٰ کو اچانک کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ یہ مرض اس تیزی کے ساتھ پھیلا کہ محض چند ایام میں لیلیٰ کی جان لے لی۔ یہ وہ وقت تھا جب شیرون باقاعدہ ملکی سیاست میں اتر چکا تھا۔ وہ پہلے’’لیکوڈ‘‘ پارٹی میں رہا لیکن اپنے شدت پسندانہ خیالات کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ رہتا۔ سنہ 2005ء میں شیرون کی پالیسی میں اچانک تبدیلی آئی اور س نے فلسطینی شہرغزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوجی واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے شہرمیں موجود یہودی بستیاںبھی ختم کردیں۔ اس پرشیرون کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر اس نے لیکوڈ پارٹی کو خیر آباد کہہ کر’’کدیما‘‘ پارٹی بنائی۔ یہ امرحیران کن ہے کہ پوری زندگی فلسطینیوں کا کٹر دشمن رہنے کے بعد اپنی بیماری سے قبل شیرون کی پالیسی میں ناقابل یقین تبدیلی آگئی تھی۔ اس نے اپنی پارٹی کدیما میں ان سیاست دانوں کو شامل کیا جو نسبتا روشن خیال اور لبرل تھے۔

ہیرو یا جنگی مجرم؟

اسرائیل میں ایریل شیرون کو ایک ہیرو ہی نہیں بلکہ نجات دہندہ کے طورپر جانا جاتا ہے لیکن دوسری جانب وہ نہتے فلسطینیوں کے قتل عام اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں غیرقانونی یہودی آباد کاری کے حوالے سے سنگین جنگی جرائم کا مرتکب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف سمیت برطانیہ اور یورپ کی کئی عدالتوں میں شیرون کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات درج ہیں۔ یہ امرحیران کن ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود شیرون کے خلاف کوئی عالمی عدالت کارروائی نہیں کرسکی۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمـوںایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے شیرون کے مرنے پرنہیں بلکہ اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی زندگی میں کسی عالمی عدالت نے جنگی مجرم کے جرائم پرکوئی کارروائی نہیں کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایریل شیرون فوج میں رہتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے۔

 photo Arielsharon1_zps890b9f89.jpg

قیام اسرائیل کے وقت الد شہرمیں 426 فلسطینیوں کی شہادت،1953ء میں قبیہ کے مقام پر170 اردنیوں کا قتل عام،1967ء میں درجنوں مصری شہریوں کو دوران حراست ہولناک تشدد کرکے ہلاک کرنے،1982ء میں لبنان میں فلسطینی مہاجرکیمپوں صبرا شاتیلا میں قیامت برپا کرکے کم سے کم تین ہزار فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرنے، سنہ 2000ء میں مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اشتعال انگیز سازش،2002ء میں مغربی کنارے کے شہرجنین میں فلسطینیوں کے قتل عام اور اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بانی الشیخ احمد یاسین کو شہید کرنے سمیت سیکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں شیرون کو براہ راست قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔1987ء کو امریکی اخبار’’ٹائمز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ایریل شیرون کولبنان کے صبرا شاتیلا قتل عام کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔ اس پر شیرون نے اخبار کے خلاف امریکا کی ایک عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔

’’ٹائمز‘‘نے امریکی حکومت اور یہودی لابی کے دباؤ پر شیرون کیخلاف لکھے اپنے ریمارکس واپس لے لیے جس کے بعد شیرون نے بھی مقدمہ واپس لے لیا۔ ان تمام جرائم کے علی الرغم اسرائیل میں اسے ایک ’’عظیم‘‘ قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔اسرائیلی اخبار’’معاریف‘‘ نے شیرون کی موت پراس کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے آنجہانی شیرون کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا: ’’ایریل شیرون قیام اسرائیل کی ان بنیادی اور مضبوط اینٹوں میں سے ایک تھی جو اب اسرائیل کی بنیاد سے نکل کر گر گئی ہے۔ اگرشیرون جیسے پُرعزم لوگ ہمارے ملک میں نہ ہوتے تو مسلمان اور عرب ملک کر اسرائیل کو سمندر میں غرق کر دیتے‘‘۔

مرنے کے بعد ’’ہیرو‘‘ کو بھلا دیا گیا!

گیارہ جنوری2014ء کو اسرائیل کے سابق مردآہن ایریل شیرون کی موت کا اعلان کیا گیا۔ توقع تھی کہ شیرون کے مرنے پر بالخصوص اسرائیل اور بالعموم پوری دنیا میں ان کے بہی خواہوں میں صف ماتم بچھ جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔شیرون کی موت پراسرائیلی میڈیا میں گوکہ خبریں نشرہوئیں مگر جس پذیرائی کی توقع تھی وہ کہیں موجود نہیں تھی۔ شیرون کے انتقال پر وزیرداخلہ ایلی یچائی نے کہا کہ ہم شیرون کا جنازہ افریقا کے نسل پرست مخالف رہ نما آنجہانی نیلسن منڈیلا کے جنازے سے بھی بڑا کریں گے۔ شیرون کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے اسے بھی ایک ہفتے تک دفن نہیں کریں گے، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک روز گذرنے کے بعد جب اسرائیلیوں کو اندازہ ہوا کہ شیرون کے مرنے پر کوئی پرسہ دینے بھی نہیں آیا تو اس کی آخری رسومات ادا کرکے حکومت نے شیرون کی لاش سے بھی جان چھڑا لی۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شیرون کی آخری رسومات میں صرف سات سو افراد شریک ہوئے ہیں۔ ان سات سو میں بیرون ملک سے صرف امریکا کا ایک وفد شریک تھا۔

اس کے علاوہ بیرون ملک سے کوئی قابل ذکر حتیٰ کہ غیرملکی سفیر بھی شریک نہیں ہوئے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں شیرون کی موت پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی تو پارلیمنٹ کے اسپیکر مارٹن چولٹز نے یہ درخواست مسترد کردی۔ درخواست گذار ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ نے برہمی کا اظہار کیا تو کئی دوسرے ارکان نے اس کا منہ یہ کہہ کر بند کرا دیا کہ ’’آپ ایک جنگی مجرم‘‘ کو کیوں سپورٹ کر رہے ہیں۔ شیرون کی موت کے بعد اسرائیلی سیاست اور ابلاغیات میں اختیار کی جانے والی خاموشی اور لاپرواہی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ کے مطابق شیرون کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ شیرون جس قد کاٹھ کا لیڈر تھا اس کی آخری رسومات اسی جاہ وحشم کے ساتھ ہونی چاہئیں تھیں۔ مگر افسوس ہے کہ عالمی برادری نے تو منہ موڑ لیا مگر اپنوں نے بھی اپنے ہیرو کی ما بعد وہ تکریم نہیں کی جس کے وہ سزاوار تھے۔

ہیرسن فورڈ: انڈیانا جونز اور ہان سولو جیسے کرداروں کو زندہ جاوید کردینے والا سپر اسٹار

$
0
0

ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں ایک سے بڑھ کر ایک فلمی ہیرو ہیں جو عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں مگر ایسے بہت کم ہیں جنھیں لوگ ان کے اصل نام سے کم اور کردار سے زیادہ پہنچانتے ہیں۔

ہیری سن فورڈ کا شمار بھی ایسے ہی ہالی وڈ فلمی ہیروز میں ہوتا ہے جنھوں نے جو بھی کردار ادا کیا وہ عوام کے دل و دماغ میں رچ بس گیا، خاص طور پر سٹاروار سیریز میں ہان سولو کا کردار ، انڈیانا جونز سیریز میں انڈیانا کا کردار،بلیڈ رنر میں رک ڈیکارڈ کا کردار اور وٹنس میں جان بک کا کردار ادا کرتے ہوئے انھوں نے ان میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ خاص طور پر انڈیانا جونز میں اس کی چالاکی، پھرتی، ذہانت اور دشمنوں کے چنگل سے بچ نکلنے کی صلاحیت فلم بینوں میں بہت مقبول ہوئی اور بہت سے لڑکے جونیئر انڈیانا جونز کی نقل کرتے بھی دکھائی دیئے۔

ہیرسن فورڈ13جولائی 1942ء کو امریکی ریاست الینوائے کے شہر شکاگو میں پیدا ہوئے، ان کی ماں ڈورتھی اپنے زمانے کی مشہور ریڈیو ایکٹریس تھیں، ان کے والد بھی جوانی میں اداکار رہے بعد میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہو گئے ، گویا اداکاری ہیرسن کو وراثت میں ملی ۔ ہیرسن کے دادا جان فٹگرالڈ اور دادی فلورنس ویرونیکا آئرش کیتھولک اور جرمن نژاد تھے جبکہ نانا ہیری اور نانی اینا یہودی النسل تھے ، جب ہیرسن سے پوچھا جاتا کہ ان کی تربیت کس مذہب کے تحت ہوئی تو وہ مسکرا کر کہتے ’’ڈیموکریٹ‘‘۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جب اس سے پوچھا گیا کہ بطور آرٹسٹ اور بطور انسان ان کی زندگی پر آئرش کیتھولک اور رشین جیوئش وراثت میں سے کس کے زیادہ اثرات مرتب ہوئے تو ان کا کہنا تھا کہ بطور انسان انھوں نے ہمیشہ خود کو آئرش محسوس کیا جبکہ بطور ایکٹر انھوں نے خود کو ہمیشہ یہودی محسوس کیا ۔ لڑکپن میں ہیرسن فورڈ نے بوائے سکائوٹس آف امریکا میں حصہ لیا اور اس تنظیم کے دوسرے بڑے عہدے لائف سکائوٹ تک پہنچے۔ اسی طرح انھوں نے نیپون ایڈونچر بیس سکائوٹ کیمپ میں ریپٹائل سٹڈی میرٹ بیج میں بطور کونسلر کام کیا۔ یہ تجربہ فلموں میں بھی کام آیا ۔

1960ء میں ہیرسن نے مینے ایسٹ ہائی سکول سے گریجوایشن کی، انھیں سکول میں قائم ہونے والے نئے ریڈیو سٹیشن کا سب سے پہلا سٹوڈنٹ وائس کاسٹر چنا گیا۔ سینئر کلاس میں اسے سپورٹس کاسٹر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا ۔ کالج کے زمانے میں وہ اسٹوڈنٹس کی ایک تنظیم سگما نو کے ممبر بھی بنے۔ انھیں اپنے شرمیلے پن کا شروع سے ہی احساس تھا اس لئے انھوں نے اس پر قابو پانے کے لئے ڈرامہ کلاسز میں بھی حصہ لیا۔

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ہیرسن کی توجہ اب اپنے کیرئیر کی طرف تھی ۔ انھوں نے 1964ء میں لاس اینجلس کیلی فورنیا کے ایک ریڈیوسٹیشن میں وائس اوور کی ملازمت کے لئے کوشش کی مگر انھیں مسترد کر دیا گیا ۔ انھوں نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور وہیں ٹھہر گئے تاکہ متبادل ملازمت تلاش کی جا سکے۔ بالآخر کولمبیا پکچرز کے نیو ٹیلنٹ پروگرام کے تحت انھیں 150ڈالر فی ہفتہ کے کنٹریکٹ پر چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنے کی نوکری مل گئی ، ان کرداروں میں ان کی اہمیت محض خاموش اداکار کی تھی ، چند سیکنڈ کے یہ کردار گو اہم تو نہ تھے مگر اس سے ہیرسن کو اداکاری کی رموز سیکھنے میں بہت مدد ملی اور جیسے تیسے جیب کے اخراجات بھی پورے ہونے لگے۔ اسی دوران اس نے ایک فیچر فلم میں بل بوائے کا کردار ادا کیا جس میں اس نے کچھ سامان کسی گھر میں پہنچانا ہوتا ہے ، پروڈیوسر کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے سے کردار کو ہیرسن نے ایسے نبھایا جیسے وہ کوئی فلم سٹار ہو۔ پروڈسرز نے ہیرسن کی خود اعتمادی دیکھی تو مزید بہتر کردار دینے لگے ، مگر ابھی تک ان کا نام کریڈٹ لسٹ میں نہیں آیا تھا یعنی اس کا نام فلم کے آخر میں نہیں چلایا جاتا تھا ۔ یوں تین سال تک بطور خاموش اداکار کے کام کرنے کے بعد  1967ء میں اسے ایک فلم’’ اے ٹائم فار کلنگ‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں کریڈٹ لسٹ میں اس کا نام ہیرسن جے فورڈ شامل کیا گیا۔ ’’جے‘‘ نام میں شامل کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہیرسن سے قبل بھی اسی نام کے ایک مشہو ر اداکار ہو گزرے تھے اس لئے نام میں جے کا اضافہ کیا گیا تھا تاکہ نام سے ان کا مغالطہ نہ ہو ، مگر بعد میں جے ختم کر دیا گیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہیرسن کو اس بات کا کافی عرصے تک علم نہیں تھا کہ اس سے قبل بھی اس نام کا کوئی اداکار ہو ا ہے ۔

اس کے بعد انھوں نے یونیورسل سٹوڈیوز کی بنائی ہوئی ٹی وی سیریز میں کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ 60ء کی دہائی کا آخری اور70ء کی دہائی کا ابتدائی دور تھا۔ اس دوران ہیرسن نے گن سموک، ان سائیڈ ، دی ورجینیا، دی ایف بی آئی، لو، امریکن سٹائل اور کنگ فو میں چھوٹے موٹے کردار ادا کئے۔ ہیرسن اداکاری کے اس کٹھن دور میں تھوڑے دلبرداشتہ بھی ہوئے کیونکہ انھیں ابھی تک کوئی بڑا کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ تب انھوں نے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے فلموں کے سیٹ لگانے والوں کے ساتھ کام شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اس میں اتنی مہارت پیدا کر لی کہ وہ مکمل بڑھئی کا کام کرنے لگے، اس کام نے ان کی زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس دور کے مشہور راک بینڈ نے انھیں اپنے لئے سٹیج بنانے کے کام پر مامو ر کر دیا۔ انھوں نے اداکارہ سیلی کیلر مین کے لئے سن ڈیک بنایا اور برازیلین بینڈ لیڈر سرجیو مینڈیز کے لئے ریکارڈنگ سٹوڈیو ڈیزائین کیا۔

معروف فلم ڈائریکٹر جارج لوکاس نے بھی ہیرسن سے اپنے گھر میں کیبنٹ بنوائے یوں ان کا آپس میں اچھا تعلق قائم ہو گیا اور جارج نے 1973ء میں اپنی فلم امریکن گریفٹی میں سپورٹنگ رول دیا، یوں ہیرسن فورڈ کو بڑی سکرین پر اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملا۔ گاڈ فادر فلم کے ڈائریکٹر فرانسس نے فلم کی کامیابی کے بعد اپنے سٹوڈیو میں توسیع کا فیصلہ کیا تو اس نے ہیرسن کی خدمات حاصل کیں اور اس دوران اسے اپنی دوفلموں کنورسیشن اور ایپی کلیپسی نو میں کاسٹ کیا ، اس سارے عرصے کے دوران ہیرسن جب بھی فلم کے سیٹ پر پہنچتے تو انھوں نے بڑھئی کا لباس پہنا ہوتا تھا ، مگر وہ اپنے اس کام سے بالکل مطمئن تھے کیونکہ یہی کام آہستہ آہستہ ان کے لئے کامیابی کی سیڑھی بنتا جا رہا تھا ۔

 photo Harrisonford_zps72fb2909.jpg

ہیرسن فورڈ کے کیریئر کو عروج اس وقت ملا جب جارج لوکا س نے اسے اپنی فلم سٹار وار میں ہان سولو کے کردار کے لئے منتخب کیا ۔ یہ فلم سیریز دنیا بھر میں ہمیشہ سے پسندیدہ رہی ہے ۔ ہان سولو کے کردار نے ہیرسن فورڈ کو سپر سٹار بنا دیا۔ اس کے بعد 1981ء میں ہیرسن فورڈ کو انڈیانا جونز کے کردار کے لئے منتخب کیا گیا۔ ریڈرز آف دی لاسٹ آرک میں انڈیانا جونز کا کردار ہی اس کی جان تھا اور ہیرسن نے اسے بڑی کامیابی سے ادا کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب ہوئی کہ اس کے بعد انڈیانا جونز سیریز کی مزید چار فلمیں بنیں ۔ انڈیانا جونز اینڈ دی ٹیمپل آف دی ڈوم 1984ء میں ، انڈیانا جونز اینڈ لاسٹ کروسیڈ 1989ء میں ، دی ینگ انڈیانا جونز کرانیکل 1993ء میں اور انڈیانا جونزاینڈ دی کنگڈم آف دی کرسٹل سکل 2008ء میں پیش کی گئی ۔ انڈیانا جونز سیریز کی پہلی دو فلموں کی کامیابی نے ہی ہیرسن فورڈ کو کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ان کا شمار ہالی وڈ کے سپر سٹارز میں ہونے لگا۔

سٹاروارز اور انڈیانا جونز فلم سیریز کے دوران ہیرسن نے دیگر فلموں میں کام کیا ۔ 1977ء میں ہیروز، 1978ء میں فورس ٹن فرام نیورون،1979ء میں ہین اوور سٹریٹ، 1982ء میں بلیڈ رنر ، 1985ء میں وٹنس ، 1986ء میں ماسکیٹو کوسٹ اور 1988ء میں فرینٹک میں کام کیا۔ 1992ء میں فلم پیٹریاٹ گیمز میں جیک ریان کا کردار ادا کیا۔ 1993ء میں فیوجیٹو ،1994ء میں پریزنٹ ڈینجر،1995ء میں سبرینا ، 1997ء میں ڈیول آونز اور ایئر فورس ون میں کام کیا۔ ایئر فورس ون میں ہیرسن نے امریکی صدر کا کردار ادا کیا جو بہت مقبول ہوا۔

ہیرسن فورڈ کو اپنی بہت سی اہم فلموں کے کردار ہنگامی طور پر ملے جیسے سٹار وار کا کردار ہان سولو اسے محض اس لئے ملا کیونکہ وہ اس فلم کی دوسری کاسٹ کو ڈائیلاگ پڑھ پڑھ کر سنا رہا تھا تبھی ڈائریکٹر کو سوجھا کہ جو سب کو اتنے اچھے طریقے سے ڈائیلاگ پڑھ کر سنا رہا ہے اسی سے کردار کیوں نہ کروایا جائے۔ اسی طرح انڈیانا جونز کا کردار معروف اداکار ٹام سیلاک کی مصروفیت کی وجہ سے فلم ڈائریکٹر نے ہیرسن سے کرایا، جیک ریان کا کردار اسے اداکار ایلک بالڈون کی طرف سے غیر معمولی مطالبوں کی وجہ سے دیا گیا ۔

اس کے علاوہ ہیرسن فورڈ نے بہت سی ایسی فلموں میں بھی کام کیا جو تنقید کی زد میں رہیں اور وہ باکس آفس پر بھی فلاپ ہوئیں۔ ان میں سکس ڈیز سیون نائٹس ، رینڈم ہارٹس، کے 19دی وڈو میکر ، ہالی ود ہومیسائیڈ ، فائر وال اور ایکسٹرا آر ڈی نری میئرز شامل ہیں۔2011ء میں ہیرسن نے کائو بوائے اینڈ ایلینز میں کام کیا جو بہت پسند کی گئی ۔ اب وہ دی ایکسپینڈ ایبل تھری میں کام کر رہے ہیںاس کے پہلے دو حصے بہت مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

ہیرسن فورڈ کی ایک اضافی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جہاز یا ہیلی کاپٹر اڑانا بھی جانتے ہیں اور انھوں نے امریکی ریاست وایومنگ میں اپنے آٹھ سو ایکڑ کے فارم میں بطور خاص رن وے بنایا ہے ۔ جہاز اڑانے کی تربیت انھوں نے 1990ء میں اس وقت حاصل کی جب انھوں نے گلف سٹریم ٹو خریدا ۔ ان کے جہاز اڑانے کی یہ صلاحیت کئی مرتبہ ریسکیو آپریشن کرنے والوں کے کام آئی جب انھوں نے کوئی چارہ نہ دیکھتے ہوئے ہیرسن فورڈ کو اپنے ہیلی کاپٹر سے حادثے کے مقام پر مدد پہنچانے کی اپیل کی، یوں ہیرسن فورڈ انسانیت کی خدمت کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں، اس وقت ان کے پاس سات چھوٹے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر ہیں۔ مارچ 2004ء میں ینگ ایگلز پروگرام دی ایکسپیریمنٹل ایئر کرافٹ ایسوسی ایشن نے انھیں اپنا چیئر مین منتخب کر لیا۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی ایک تنظیم کنزر ویشن انٹرنیشنل کے وائس چیئرمین اور بورڈ آف گورنر آرکیالوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف امریکا کے جنرل ٹرسٹی ہیں۔

ہیرسن فورڈ نے تین شادیاں کیں ۔ پہلی بیوی میری سے دوبیٹے بنجامن اور ولارڈ ہیں۔ دوسری بیوی سے بھی دوبچے میلکم اور جارجیا ہیں۔ انھوں نے تیسری شادی  2010ء میں اداکارہ کیلسٹافلاک سے کی ۔

اعزازات:

ہیرسن فورڈ کو فلم وٹنس میں اداکاری کے بہترین جوہر دکھانے پر اکیڈمی ایوارڈ برائے بیسٹ ایکٹر کے لئے نامزد کیا گیا۔ اسی فلم کے لئے ہیرسن کو بیفٹا اور گولڈن گلوب کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔

2000ء میں ہیرسن فورڈ نے اے ایف آئی لائف اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کیا۔

2002ء میں سیسل بی ڈی ملی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2003ء میں ہالی وڈ واک آف فیم کا ایوارڈ دیا گیا۔ ہیرسن کو تین فلموں دی ماسکیٹو کوسٹ، دی فیوجیٹو اور سبرینا میں بہترین اداکاری پر تین مرتبہ بیسٹ ایکٹر گولڈن گلوب ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔

2006ء میں ہیرسن کو جنگلی حیات کو محفوظ بنانے کے لئے کوششیں کرنے پر دی جیولز ورنے سپرٹ آف نیچرایوارڈ سے نوازا گیا۔

انڈیانا جونز اور ہان سولو جیسے لازوال کردار ادا کرنے پر 2007ء کے سکریم ایوارڈز کے موقع پر ہیرسن کو دی فرسٹ ایور ہیرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔

Viewing all 4667 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>