Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4667 articles
Browse latest View live

’’دہشتگردی کا خاتمہ حکومت کی ترجیح نہیں‘‘

$
0
0

بلاشبہ جماعت اسلامی وہ سیاسی پارٹی ہے جو اقتدار کے بغیر بھی ملکی سیاست اور معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

انتخابات میں بھلے ہی جماعت اسلامی کو زیادہ نشستیں نہ ملیں، اقتدار نہ ملے لیکن بڑے بڑے جلسے اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ عوام میں اثر رکھتی ہے، لوگ اس کو ووٹ نہیں دیتے لیکن ہمدردیاں ضرور رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن ایک پُرخلوص، قابل، سیاسی و معاشرتی فہم و فراست رکھنے والے اور تہذیب و شائستگی سے مرقع شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ کمال ہے کہ وہ کسی جلسے میں تقریر، ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو یا اخبار میں بیان دے رہے ہوں تو سننے، دیکھنے اور پڑھنے والا ایک بار رکتا ضرور ہے۔ اپنے اٹل موقف کی وجہ سے کئی بار انہیں مختلف مکاتب فکر اور حکومت کی مخالفت کا سامنا بھی رہا لیکن وہ اپنے اصولوں کے راستے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ان کی زندگی کے سفر اور موجودہ ملکی صورتحال کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کے لئے ایک طویل نشست کا اہتمام کیا جو قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس: بچپن کہاں اور کیسے گزرا، تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

سید منور حسن: (مسکرا کر دو مختلف اشعار کا ایک ایک مصرعہ پڑھا)

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

__________________

میں جھک جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی

میرا بچپن دہلی کی گلیوں میں گزرا، چھوٹے تھے مگر تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ ہم نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس حوالے سے یہ بتاؤں کہ جو لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ کہیں لگا ہی نہیں تو بھائی ہم نے خود دہلی کی گلیوں میں یہ نعرے لگائے ہیں۔ ہم سب بچے شام کو ٹولیوں کی صورت میں نکلتے تھے اور یہی نعرہ لگاتے تھے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ اور یہ نعرہ ہمارے بڑوں نے ہی ہمیں سکھایا تھا۔ 47ء کے فسادات میں جہاں ہم رہتے تھے، وہاں قتل عام ہوا۔ اس لیے تن کے کپڑوں سے ہم وہاں سے نکلے تھے، حالاں کہ مسلم لیگ کا وہاں بڑا اثر تھا اور ہماری والدہ اس پورے سیکٹر کی صدر تھیں۔47ء کے دسمبر میں ہی ہم پاکستان آگئے تھے۔ پرانا قلعہ نامی ایک معروف جگہ تھی جو لوگ پاکستان جانا چاہتے تھے، وہ وہاں پہنچ جاتے اور ٹرینیں انہیں پاکستان لے آتیں۔ تو ہم جب پرانا قلعہ پہنچے تو جو ٹرین گئی تھی، وہ امرتسر میں پوری کٹ گئی۔ سکھوں نے قتل عام کیا تو اس کے بعد ٹرینیں بند ہو گئیں تو ہزاروں لوگوں کے ساتھ ایک ماہ سے زائد ہم وہاں ہی رہے۔

بہرحال ایک ماہ بعد پرانا قلعہ سے ہم لاہور آئے اور دو چار ہفتے یہاں رہ کر کراچی چلے گئے۔ مہاجر لٹے پٹے وہاں گئے تھے لیکن کراچی کی مقامی آبادی، جن میں اکثریت غریبوں کی تھی، نے مہاجروں کا بہت اچھا خیرمقدم کیا تھا۔ کراچی میں تقسیم سے قبل زیادہ تر بڑے لوگ اور گھر ہندوئوں کے ہی تھے، جس وجہ سے ایک بار فساد بھی ہو گیا تھا، مسلمانوں نے ہندوئوں پر حملہ کر دیا، انہیں کوٹھیوں سے نکال باہر کیا۔ پھر قائداعظمؒ نے براہ راست اس معاملہ میں مداخلت کی اور انہوں نے کہا کہ جو لوگ چیزیں لوٹ کر لے گئے ہیں، وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تمام چیزیں ایک مخصوص جگہ پر واپس کر دیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں کارروائی کرنے کے لیے تیار ہوں جس پر پھر لوگوں نے چھوٹی چھوٹی پلیٹیں تک واپس کر دیں۔ اس وقت قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی کہ مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ردعمل میں ویسا ہی سلوک کریں۔ یہ بات 48ء کے شروع کی ہے۔

ایکسپریس: کمیونسٹ تنظیم این ایس ایف سے جمعیت میں کیسے شمولیت ہوئی، نظریات میں تبدلی کی وجہ کیا بنی؟

سید منور حسن: اس وقت کراچی میں طلبہ کی تنظیمیں بنیں، جس میں این ایس ایف اور جمعیت بھی تھی۔ میرا پہلا رابطہ ہی این ایس ایف سے ہوا، جو اصلاً نظریاتی بنیادوں پر تھا۔ اس زمانے میں غیر نظریاتی لوگ نہیں ہوا کرتے تھے۔ لٹریچر پڑھتے تھے، تقسیم کیا کرتے تھے اور اس لٹریچر پر بحث بھی ہوا کرتی تھی۔1958ء میں مارشل لاء لگا تو طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی، میں اس وقت کالج میں تھا۔ تو ان حالات میں این ایس ایف نے سٹوڈنٹ سرکل کے نام سے ایک انڈر گرائونڈ آرگنائزیشن بنائی، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہم خالی نہ بیٹھیں اورکچھ کام کرتے رہیں۔ سینئر لوگوں کی موجودگی کے باوجود سٹوڈنٹ سرکل کا بھی مجھے ہی صدر بنایا گیا۔ پھر اس آرگنائزیشن کا ایک اجلاس ہوا جس میں یہ طے پایا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ فارغ بیٹھے ہیں تو ان کے باصلاحیت لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں، میں نے یہ کام کیا اور جمعیت کے لوگوں سے رابطے کے لئے روزانہ تین سے چار گھنٹے میں لگاتا اور مسجد میں جا کر نماز بھی پڑھتا تھا۔

جمعیت کے لوگ جتنا اسلام جانتے تھے، وہ مجھے بتاتے تھے اور ہمیں جتنا کمیونزم کا علم تھا، ہم وہ انہیں بتاتے تھے لیکن یہ سب کچھ بہت دوستانہ ماحول میں ہوتا، بحث بھی ہوتی تھی۔ اچھا برا تاثر یہ ہے کہ اس وقت اس رابطے کو دو یا تین ماہ گزرے ہوں گے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی تبدیلی آرہی ہے۔ انہوں نے مجھے مولانا مودودیؒ کی ایک دو کتابیں بھی پڑھنے کو دیں لیکن کتابیں تو میں نے شروع میں نہیں پڑھیں لیکن روزانہ بحث و مباحثہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں اندر سے تبدیل ہو رہا ہوں، میرا کمیونزم کے حوالے سے موقف اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا ان کا تھا۔ پھر مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ کو میں نے سرسری سا پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں اس ماحول میں رہتے ہوئے میں اس کو توجہ سے نہیں پڑھ سکتا کیوں کہ اس میں ساری انقلابیت تھی، تو میں اپنے بڑے بھائی جو اس وقت نوشہرہ میں رہتے تھے، ان کے پاس چلا گیا جہاں میں نے اس کتاب کو 17 بار پڑھا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ این ایس ایف چھوڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہونا ہے تو اس طریقے سے میرا پہلا پیار بھی نظریاتی اور دوسرا بھی نظریاتی تھا۔

ایکسپریس: پاکستان کے ابتر حالات کا ذمہ دار کون ہے، عوام یا حکمران؟ ان حالات میں کوئی بہتری آئے گی یا ایسے ہی چلتا رہے گا؟

سید منور حسن: دیکھیں! پاکستان نے تو چل کر دکھایا ہے، باوجود اس کے کہ ہم سب نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی ہیں اور کوشش کی کہ یہ نہ چل سکے، اس کے دو ٹکڑے بھی کر دیئے۔ میرے خیال میں حکمرانوں اور فوجیوں نے مل کر کوشش کی کہ پاکستان نہ چلے لیکن پاکستان چل رہا ہے اور اپنی جگہ موجود ہے۔ حب الوطنی دنیا بھر میں ہے، لوگ اپنے وطن سے محبت کرتے ہی ہیں لیکن جتنی محبت پاکستانی اپنے ملک سے کرتے ہیں آپ کو اس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک کو قیادت ایسی میسر نہیں آئی کہ جو حقیقت میں وہ کام کرے جو اس وطن عزیز کے لیے ضروری ہے۔2014ء میں ہی امریکیوں کے اس خطے سے جانے سے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان مضبوط اور قوی ہوگا اور جن مقاصد کے لیے یہ ملک بنا تھا یعنی لا الٰہ الا اللہ اس کو فروغ بھی حاصل ہوگا۔

ایکسپریس:کراچی کے امن کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے، سیاسی جماعتیں، گینگ وار یا کوئی تیسری طاقت؟

سید منور حسن: کسی بھی اچھے یا برے کام میں بعد میں بہت سے لوگ شامل ہو جاتے ہیں، لیکن ساری خرابی کی بنیاد اور جڑ ایم کیو ایم ہے۔ یہ بھتہ خوری کا سارا کاروبار ایم کیو ایم نے شروع کیا ہے۔ بوری بند نعشیں پہلے کبھی کسی کے تصور میں نہیں تھا، یہ ایم کیو ایم نے ایجاد کیا ہے اور ’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘‘ اس نعرے کو ایم کیو ایم نے اپنے قائد کے حوالے سے فروغ دیا ہے۔ لہذا کراچی کا امن اس وقت تک واپس نہیں لایا جا سکتا جب تک ایم کیو ایم وہاں پر موجود ہے اور ایم کیو ایم کی سرپرستی پیپلزپارٹی بھی کر رہی ہے، فوج بھی کرتی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرتی ہیں کیوں کہ حکومتیں ایم کیو ایم سے بلیک میل ہو جاتی ہیں۔

 photo Munawwarhassan_zpsa0c4690c.jpg

ایکسپریس:کہا جاتا ہے کہ کراچی میں ہر جماعت کا عسکری ونگ ہے، کیا جماعت اسلامی کا بھی ہے اور اگر نہیں تو پھر آپ وہاں Survive کیسے کر رہے ہیں؟

سید منور حسن: میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی درست نہیں کہ ہر جماعت کے عسکری ونگز ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مختلف جماعتوں کے لیڈرز کراچی میں ہیں جن کی حفاظت کے لیے ان کی نفری ہوتی ہے لیکن جماعت اسلامی میں وہ بھی نہیں ہے۔ میں تو کراچی میں چلتا پھرتا ہوں، کوئی ایسی بات نہیں۔ دیکھیں یہ بات بھی ہے کہ عام طور پر وہ بڑے لوگ ہی مارے گئے جن کے پاس بندوق تھی۔ تو بندوق مارنے کا کام کرتی ہے، بچانے کا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں غلو ہے کہ تمام پارٹیوں کے عسکری ونگز ہیں۔

ایکسپریس:کراچی میں امن کے لیے پھر کیا فوج یہاں اتاری جائے؟

سید منور حسن: دیکھیں! اس بات کو تو پوری دنیا نے اپنے تجربے سے تسلیم کر لیا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر اور حکمرانی سویلینز کا کام ہے اور انہیں ہی کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے گھر میں باورچی کام ٹھیک نہیں کرتا، کھانا اچھا نہیں بناتا تو آپ باورچی ہی بدلیں گے، اس کی جگہ کسی درزی کو تو نہیں لائیں گے، تو اس لیے سول سوسائٹی کو کنٹرول کرنے اور لاء اینڈ آرڈر کے لیے کام تو سویلین ہی کو کرنا ہے، فوج کا یہ کام نہیں کیونکہ فوج کی یہ ٹریننگ ہی نہیں ہے۔ آپریشن کبھی بھی کسی مسئلہ کا علاج نہیں ہے لیکن یہ ٹھیک ہے کہ جس طرح سرجری کرنا پڑتی ہے جب حالات بہت ناگزیر ہو جائیں اور حکومت بے بس ہو تو ایسی صورت میں ایک یا دو، چار روز کے لیے آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ملٹری آپریشن سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ نصیر اللہ بابر نے کیا تھا لیکن اس کے نتائج سب کو معلوم ہیں۔ بلوچستان میں پانچواں اس وقت آپریشن چل رہا ہے۔ اس کے نتائج بھی معلوم ہیں۔ ملٹری آپریشن  مشرقی پاکستان میں بھی کیا تھا اور 90 ہزار آپریشن کرنے والوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے تھے تو اس لیے اگر ہم اپنے تجربات سے بھی نہیں سیکھتے تو مجھے نہیں پتہ پھر کہاں سے سیکھیں گے؟ حکومت کا پورا سیٹ اپ ہے لیکن وہ اپنے حصے کا کام نہیں کرتا۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر اور دہشت گردی کا خاتمہ ان کی ترجیح نہیں ہے۔

ایکسپریس: جماعت اسلامی کے انتخابی جلسے بڑے لیکن انتخابات میں کامیابی کے نتائج مختلف ہوتے ہیں، کیوں؟

سید منور حسن: اسی لیے تو ملک کے حالات خراب ہیں۔ آج اگر آٹھ ماہ بعد بھی حالات کی خرابی کا رونا رویا جا رہا ہے تو یہی بات ہے کہ جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ نہیں دیتے۔ لوگ کرپشن کا علاج کرنا چاہتے ہیں کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر۔ ظالم کو ووٹ دیتے ہیں کہ ظلم کچھ کم کرے۔ تو اس ساری صورتحال میں جماعت اسلامی تو یہی کر سکتی ہے کہ بڑے جلسے کرے، لوگوں کو بتائے، انہیں سمجھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیانتدار قیادت ملک میں آئے۔

ایکسپریس: الیکشن کی بات ہو رہی ہے تو عام انتخابات سے قبل اپریل میں آپ نے بیان دیا تھا کہ اگر دھاندلی ہوئی تو لاکھوں افراد سڑکوں پر ہوں گے۔ کیا ایسا ہوا؟۔ اور دوسرا یہ کہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے کراچی میں بائیکاٹ خود کیا یا کسی کے کہنے پر مصلحتاً خاموشی اختیار کی گئی؟

سید منور حسن: پہلی بات تو یہ واضح کر لی جائے کہ جماعت اسلامی سے کوئی کچھ کروا نہیں سکتا، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز میرے بارے میں جاری ہوا ہے۔ یہ بندوقوں کے سامنے کھڑے ہو جانا اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے حوالے سے جماعت اسلامی کا جو کردار ہے، اس کا ثبوت ہے۔ یہ دیکھ لیں جماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ کو بھی فوجی عدالت نے موت کی سزا دی تھی جو مولانا نے بھگتی لیکن وہ پھانسی نہیں دے سکے تھے۔ اس لیے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ جماعت اسلامی سے کوئی اور کام کروا سکے۔ دوسری بات جو الیکشن میں دھاندلی کی تھی تو اس میں عرض ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جس میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں نے دھاندلی کا واویلا مچایا۔ دونوں نے دھرنے دیئے، احتجاج کیا اور عدالت بھی گئے۔ اس سے ہماری بات تو درست ثابت ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ احتجاجوں میں شریک بھی ہوئے۔ اب جو کسر رہ گئی ہے، وہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جو سڑکوں پر آئے ، وہ ایک تحریک بن جائیں۔ وہ سینہ تان کر نکلیں اور ہار نہ مانیں۔ آج کرپشن کا لفظ بہت چھوٹا رہ گیا ہے اور یہ لوگ ازخود چیزوں کو خونی انقلاب کی طرف لے جا رہے ہیں… اس لیے تنگ آمد بجنگ آمد… اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں بیروزگاری میں جو اضافہ ہوگا تو لوگ گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے۔

ایکسپریس: طالبان سے مذاکرات کیوں اور کیسے؟

سید منور حسن: دیکھیں! یہ ایشو کئی ماہ بعد اٹھانا تو بے معنی بات ہے۔ جب سب پارٹیوں نے متفقہ طور پر پہ کہہ دیا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں تو اس کی دلیل بھی واضح تھی۔ پانچ چھ گھنٹے کی طویل بحث کے نتیجے میں جو سوالات ہو سکتے تھے، وہ بھی اس کے اندر آگئے تھے۔ سب پارٹیوں نے متفقہ طور پر مذاکرات کی بات کہی اور کہا کہ ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے بے حسی اورعدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ حالات کی ابتری کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کل فون (گزشتہ ہفتے جب انٹرویو کیا گیا) آیا کہ حالات ایسے ہو گئے ہیں، بیٹھ کر بات کرنا ہے تو میں نے کہا کہ اب کیا بات کرنا ہے جب تمام پارٹیوں نے اتفاق رائے سے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا ہے، ہم نے پہلے بھی بات کی ہے، مگر افسوس ہمیں مذاکرات کا معلوم ہی نہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن ہمیں تو پتہ ہی نہیں۔ طالبان سے مذاکرات ایک مقبول موضوع ہے، جس کے حق اور مخالفت میں لوگ ہیں اور اگر آپ مذاکرات کر رہے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے۔ ہوا کے اندر تیر نہیں چلانے چاہیں۔ کوئی نہیں جانتا طالبان سے مذاکرات کا مطلب کیا ہے، لہذا آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں تو شائد لوگوں کو بات سمجھ آ سکے۔ بیان بازی سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس:طالبان کے مختلف گروپس ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف بھی ہیں، جیسے گزشتہ دنوں طالبان کے دو گروپ آپس میں لڑ پڑے جس سے کئی جانیں گئیں۔ تو ایسی صورت حال میں حکومت کس سے مذاکرات کرے؟

سید منور حسن: پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے پانچ ماہ میں آپ نے کیا کیا ہے؟ اور اگر آپ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے تو یہ سوال نہ کریں۔ کیا کریں اور کس سے کریں؟ یہ تو آپ پہلے بیٹھ کر آپس میں بات کرتے۔ ہم سے بھی حکمرانوں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ ہم سے پوچھتے کہ کہاں سے شروع کریں تو ہم بتاتے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے۔ پھرمولانا سمیع الحق کو کیوں مقرر کیا گیا تھا۔ طالبان سے مذاکرات میں حکومت کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے مذاکرات کے لئے مولانا سمیع الحق کو ٹاسک دیا اور کہا کہ وہ ہر وقت حاضر ہیں، جو مدد چاہے ملے گی لیکن مولانا کہتے ہیں کہ ان کا فون تک نہیں سنا جا رہا، کوئی جواب ہی نہیں دیتا۔ حکومت نے مذاکرات کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بااختیار لوگ کام کریں، بے اختیار کچھ نہیں کر سکتے۔ مقتدر اور حکمران لوگ جس میں فوج بھی شامل ہے، ان سب کو پتہ ہے کس سے مذاکرات کرنا ہیں، کتنے گروپ ہیں؟۔ ایک گروپ کے پیچھے 6-6 گروپ ہیں۔ آپ اگر ایک گروپ سے مذاکرات کرتے ہیں تو 6 خود بخود چل کر آجائیں گے۔ حکومت کی غیر سنجیدگی نے ہی ایسے سوالات پیدا کیے اور دہشت گردی میں اضافہ کیا۔

 photo Munawwarhassan1_zpsa713d1aa.jpg

ایکسپریس: مذاکرات کے بات ہونے کے باوجود طالبان کی طرف سے حالیہ حملوں میں تیزی کیوں آئی؟

سید منور حسن: میرے خیال میں دہشت گردی کی حالیہ لہر طالبان کی طرف سے ممکنہ مذاکرات میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی کوشش ہے۔

ایکسپریس: مذاکرات کے بجائے اگر ملٹری آپریشن کی راہ اختیار کی جاتی ہے، خصوصاً شمالی وزیرستان میں تو جماعت اسلامی کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

سید منور حسن:گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں جو جیٹ طیاروں نے حملے کئے ہیں وہ کیا ہیں، اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ آپریشن شروع ہو چکا ہے لیکن خیال رہے کہ یہ آپریشن سوات، بونیر، جنوبی وزیرستان جیسا نہیں ہوگا۔ شمالی وزیرستان بارود کا ڈھیر ہے، آپ اس پر گولیاں برسائیں گے تو اس میں لگی آگ اتنی دور تک پھیل جائے گی کہ جس پر قابو پانا مشکل ہو گا۔ اور یہ بات آپ یا میں اتنی نہیں جانتے جتنی حکومت اور فوج جانتی ہے۔ آپریشن سے لڑائی پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ زیادہ بہادری کی صورت میں آگے بزدلی ہاتھ باندھے کھڑی ہو جاتی ہے اور ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ آپریشن سے طالبان کی سرگرمیوں کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اس سے بچنا چاہیے اور اس میں کسی احساس شکست کو جنم بھی نہیں دینا چاہیے۔

ایکسپریس: فوج اور طالبان میں لڑائی کی شروعات کس طرف سے ہوئی؟

سید منور حسن: یہ انتظامی مسئلہ ہے، جس میں جاننا مشکل ہے کہ پہل کس طرف سے ہوئی۔ سلالہ سانحہ کے بارے میں کیا سب نہیں جانتے کس نے پہل کی لیکن امریکہ نہیں مانتا۔

ایکسپریس: دنیا کی اقدار اور ترجیحات بدل رہی ہیں، کوئی ملک دنیا سے کٹ کرزندہ نہیں رہ سکتا، لیکن پاک انڈیا ہمسائے ہو کر بھی ایک دوسرے سے سات سمندر دور ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھارت میں شیوسینا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو قرار دیا جاتا ہے، اس تاثر میں کتنی صداقت ہے؟

سید منور حسن: جتنا قریب بھارت اور پاکستان ہے یعنی سارا بارڈر ساتھ ہے تو اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟۔ اس سے آگے تو پھر اکھنڈ بھارت یا وسیع تر پاکستان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ آزاد قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے دست نگر یا غلام یا اس کی ماتحتی میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ بھارت کے ساتھ کشمیر سے شروع ہو کر آبی جارحیت تک پہنچتا ہے۔ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی پھیل رہی ہے، وہ اسلحہ تقسیم کر رہا ہے، پیسہ بانٹ رہا ہے، ہمیں غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے تو ہم ان تمام چیزوں کو کیسے نظرانداز کریں؟۔ امریکہ اس خطے میں بھارت کو بڑا بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ایسا ہوگا نہیں۔ افغانستان میں امریکہ نے بھارت کو بڑا بنانے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے دنوں ملا عمر کی طرف سے میرے پاس افغانستان سے ایک وفد آیا ۔

میں نے ان سے گفتگو کے دوران پوچھا کہ معاشی اور انتظامی دائرے کے اندر وہاں تو بھارت کے اثرات بہت بڑھ گئے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ تو بھارت کو ہندئوں کا ملک کہتے ہیں، ہم تو انہیں مشرک کہتے ہیں اور مشرکوں کے بارے میں ہمارا جو رویہ ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تھوڑا سا امریکہ پیچھے ہوگا تو بھارت کا وہاں سے نام و نشان مٹ جائے گا۔ کشمیریوں کی آزادی کے معاملہ کو سرفہرست رکھا جائے۔ بھارت نے بڑے پیمانے پر جو دریائوں کا رخ موڑا ہے، بند باندھے ہیں پاکستان کو ریگستان بنانے کی جو کارروائیاں کی ہیں، سب سے پہلے ان مسائل کو اجاگر کیا جائے بجائے اس کے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے، لہٰذا گلے لگا لیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے یہ مسائل حل کئے جائیں پھر چاہے حکمرانوں کی خواہشات پوری ہوں،میاں نوازشریف کی چینی بھارت جائے اور وہاں سے پیاز آئیں۔ سو جوتے اور سو پیاز کھانے پڑیں تو ہم اس کو بھی برداشت کر لیں گے لیکن صرف اپنی تجارت اور فائدے کے لیے پورے ملک کو استعمال کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔

ایکسپریس: بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

سید منور حسن: دیکھیے! بنگلہ دیش میں بھی بھارت کا ہی نام آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ سب بھارت کے ایما پر اور اس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل میں نے کہیں پڑھا کہ بنگال میں شہری سڑکوں پر آئے ہیں تو حسینہ کی کوششوں سے بھارت کی فورسز کے لوگ آئے اور انہوں نے احتجاجیوں کو قتل کیا۔ حسینہ واجد کی وجہ سے بھارت کا بنگال میں عمل دخل زیادہ ہوا اور مغربی دنیا بھی یہی چاہتی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت اپنی مقبولیت کھو چکی تھی تو اس کے پاس آخری کارڈ یہی بچا تھا کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں کرے تو جنگی جرائم کی فائلیں کھولی گئیں تاکہ اپنی کونسلر سے اپنی پارٹی کو جتوایا جا سکے ۔ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئیں یہ وہی بہتر بتا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کارڈ چلا ہوا کارتوس ہی ثابت ہوا، لیکن مغرب اور بھارت کی پشت پناہی سے حسینہ واجد نے ظلم کی ایک نئی رات کا آغاز کیا جو طویل ہوتی جا رہی ہے اور اب اپوزیشن نے 18 پارٹیوں پر مشتمل الائنس بنایا ہے جو بہت بڑا احتجاج ہے اور میرے خیال میں حکومت اس کا سامنا نہیں کر سکے گی۔ حکومت کے وزیر کریمنل کیسز میں ملوث ہیں، یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی لیکن اقوام متحدہ کو اس ساری صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بنگلہ دیش کے موجودہ حالات میں پاکستان نے افسوس کن کردار ادا کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے نے بنگلہ دیش کے نمائندے کو کہا ’’ہمارا موقف مداخلت کا نہیں ہے۔ ہم سب چیزوں کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری پالیسی ہے، اس کے علاوہ اگر کچھ ہوا ہے تو غلط فہمی ہے۔‘‘ اب یہ غیر ضروری طور پر معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا۔ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ معاملہ بنگلہ دیش کا اندرونی ہے تو وہاں کی عدالتوں میں مسلسل پاکستانی فوج کا نام کیوں لیا جاتا ہے۔ پھر پاکستان بھی تو احتجاج کرے کہ آپ اپنے ملک میں جو مرضی کریں لیکن پاکستانی فوج کا نام نہ لیں، لیکن حکمران اس پر بھی احتجاج نہیں کرتے۔ اسمبلی نے قرارداد پاس کی، درست ہے مگر دفتر خارجہ کو بھی کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس معاملے میں ہمیں تو فوج سے بھی گلہ ہے کہ جن کی خاطر مر رہے ہیں لوگ اور ’’وہ رہے وضو کرتے‘‘ والی بات ہے۔ چالیس سال بعد یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا قصور کیا ہے؟ انہوں نے البدر بنائی تھی؟ البدر کس نے بنائی تھی، سب کو پتہ ہے تو جن لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے وہ تو سہولت سے نکل آئے اور جنہوں نے نہیں ڈالے وہ آج تک مر رہے ہیں۔

ایکسپریس:کے پی کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جس کے دعوے کئے گئے تھے؟

سید منور حسن: خیبر پختونخوا کا بنیادی مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنا وفاق کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے ہی روز مرکزی حکومت، صوبائی حکومت کو بلاتی اور ان سے بات کرتی اور دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی بناتی، اپنے حصے کا کام خود کرنے کی یقین دہانی کراتی۔ فنڈنگ کرتی اور صوبے کو اس کا کام دیتی اور دونوں اتفاق رائے سے دہشت گردی کا معاملہ حل کرتے۔ یہی معاملہ مرکزی حکومت کو بلوچستان میں کرنا چاہیے تھا، لیکن افسوس! ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے صوبائی حکومت کے پی کے کی کہاں کھڑی ہے سوائے اس کے کہ آئے روز دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس پر بیانات اور ہسپتالوں کے دورے ہوتے ہیں، اگلے روز پھر وہی سب کچھ شروع ہو جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ کے پی کے کی حکومت نے بعض سنجیدہ مسائل پر توجہ دی ہے۔ یہ واحد حکومت ہے جس نے پہلی بار ٹیکس فری بجٹ دیا۔

ایکسپریس:کے پی کے میں جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے الحاق نظریاتی ہم آہنگی ہے یا اقتدار کی مجبوری کیوں کہ باقی صوبوں میں آپ اکٹھے نہیں؟

سید منور حسن: ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جو ہمارے نظریات سے مختلف ہو یا نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ نہ ہو۔ اس بات میں باہمی مشورے کا بھی عمل دخل ہے۔ نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کا نظریہ مضبوط ہے اور ہم بھی اس میں کوئی ضعف پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ کوئی کمی یا کمزوری نظر آئے گی حکومت میں تو اس طرف توجہ دلا کر اسے درست کریں گے۔ اور دیگر صوبوں یا مرکز میں کچھ ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کے لئے اکٹھا ہوا جائے۔

ایکسپریس:ن لیگ کی حکومت کے گزشتہ 7 ماہ کیسے گزرے اور یہ حکومت مستقبل میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟

سید منور حسن: 7 ماہ کہاں گزرے ہیں یہ تو گزر ہی نہیں رہے۔ نہ کھانے کو میسر ہے نہ پینے کو میسر ہے۔ جان، مال عزت آبرو سب دائو پر لگا ہے۔ دیکھیں حکومت بنتی ہی اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ باقی کام تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ تعلیم کے لیے کوئی سیٹ اپ بنا سکتے ہیں، مل جل کر کاروبار کر سکتے ہیں، لیکن لاء اینڈ آرڈر، میں اور آپ نہیں کر سکتے، یہ صرف حکومت کا کام ہے۔ اب اگر یہ حکومت نہیں کرتی تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر جی ایچ کیو پر حملے ہو رہے ہیں تو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ صورتحال کس قدر خراب ہو چکی ہے۔ افسوس! حکومت کا کام عوام کا دکھ بانٹنا نہیں ہے بلکہ اس کی ترحیحات مال بٹورنا ہے اور اس عمل کو اپنے رشتہ داروں تک پھیلانا ہے۔

ایکسپریس:بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کی وجہ کیا ہے، جماعت اسلامی کسی سے اتحاد کرے گی یا سولوفلائٹ کی جائے گی؟

سید منور حسن: بلدیاتی انتخابات سے سیاسی حکومتیں ہمیشہ خوفزدہ ہوتی ہیں۔ اب بھی جو انتخابات التوا کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ہزاروں لوگ منتخب ہو کر نیچے آجائیں گے۔ عوام سے ان کا ہی رابطہ ہوگا تو ہمیں کون پوچھے گا؟ ہمارے فنڈز بھی تقسیم ہو جائیں گے۔ یہ ہے وہ سیاسی مخمصہ جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں اس سے ڈر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ پہلا ریفلیکشن یہ آہی جائے گا کہ پنجاب میں ن لیگ ہار گئی یا پیپلزپارٹی سندھ میں ہار گئی۔ اس تاثر کو، جو اعداد و شمار کے مطابق ہوگا، سے بچنے کے لیے بلدیاتی الیکشن کو ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اپریل یا مئی سے پہلے سندھ اور پنجاب میں انتخابات ہونے کی توقع نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کراچی اور پشاور میں تحریک انصاف سے اتفاق رائے ہو گیا ہے، دیگر علاقوں کے حوالے سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور معاملہ کافی حد تک طے ہو گئے ہیں۔ باقاعدہ اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی چل رہی ہے کہ ایک ہی نشان پر الیکشن لڑا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑا جائے۔ ابھی تک جو معاملات طے ہوئے ہیں ان کے مطابق جس پارٹی کا چیئرمین نامزد ہوگا اسی کا پرچم اور نشان دونوں پارٹیاں اس حلقہ میں استعمال کریں گی۔ یعنی جماعت اسلامی کا چیئرمین ایک حلقے میں نامزد ہوا تو تحریک انصاف بھی اسی حلقہ میں ہماری جماعت کا پرچم اور نشان استعمال کرے گی اور دوسرے میں اگر تحریک انصاف کا چیئرمین ہوگا تو ہم ان کا نشان استعمال کریں گے۔

ایکسپریس: طلبہ یونین کے حوالے سے جب بھی بات ہوتی ہے تو جمعیت کا منفی تاثر کیوں ابھرتا ہے؟

سید منور حسن: اس لیے کہ جمعیت کے علاوہ کوئی اور ہے ہی نہیں۔ طلبہ تنظیموں پر مکمل پابندی ہے سوائے جمعیت کے، کیوں کہ جمعیت نظریاتی تحریک ہے جسے پابندیاں لگانے سے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ جمعیت کے بارے میں جو منفی تاثر آتا ہے تو ان الزامات کا کوئی منطقی انجام کیوں نہیں ہوتا؟ مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی میں شور مچا کہ ہاسٹل میں جمعیت والوں سے کچھ غلط لوگ پکڑے گئے۔ بھائی اگر پکڑے گئے تو وہ کہاں ہیں، ان کو سامنے لائیں۔ جمعیت کے لوگوں پر تو کوئی الزام ثابت نہیں ہوا البتہ وائس چانسلر کے بارے میں باتیں چل رہی ہیں اور ان کے خلاف لوگ عدالتوں تک پہنچ گئے ہیں۔ لہٰذا جمعیت نے تو ہمیشہ تعلیمی اداروں میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی سب کو بھلی لگتی ہے اور ان کے لیے یہی بہتر ہے، اسی لیے ایسا کیا جا رہے۔

سید منور حسن کی زندگی کے سفر کی مختصر کہانی

سید منور حسن کی پیدائش1941ء میں دہلی کی ہے۔ قیام پاکستان کے صرف 4 ماہ بعد ان کا خاندان پہلے لاہور پہنچا، جہاں تین، چار ہفتے رہنے کے بعد وہ کراچی آ گئے۔ پرائمری کلیٹن روڈ سکول، مڈل گورنمنٹ سکول جیل روڈ اور میٹرک کی تعلیم گورنمنٹ سیکنڈری سکول ناظم آباد سے حاصل کی۔1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے پہلا ایم اے سوشیالوجی میں کیا اور پھر 1966ء میں اسی جامعہ سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ امیر جماعت اسلامی کالج میگزین کے ایڈیٹر اور بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔ 1959ء میں کمیونسٹ طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر ہو کر 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگئے اورجلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن بنادیے گئے۔

بعد ازاں 1964ء میں جمعیت کے مرکزی صدر (ناظم اعلی) بنے اور مسلسل تین بار اس عہدے پر منتخب ہوتے رہے۔ 1963 ء میں وہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ سید منورحسن 1967ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ 1977ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ریکارڈ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔ اپریل2009ء میں ارکان جماعت نے کثرت رائے سے سید منور حسن کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا اور 5 اپریل کو انہوں نے باقاعدہ طور پر امارت کی ذمہ داری کاحلف اٹھایا۔ امیر جماعت اسلامی انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ان کی تقاریر کو بڑے شوق سے سنتی اور پسند کرتی ہے۔


تاریخ کا بدترین موسم سرما

$
0
0

اس سال موسم سرما نے جس طرح دنیا پر قہر برسایا ہے، اس کے بعد امریکا، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک تو برفانی جہنم بنے، ساتھ ہی ایشیائی ممالک جاپان، چین، کوریا، انڈیا، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی اس خوف ناک سرد لہر کی لپیٹ میں آگئیں۔

ایسی برف باری کئی عشروں پہلے کبھی دیکھی گئی ہوگی، لیکن یہ طے ہے کہ اس سرد لہر نے امیر و غریب تمام ممالک کو ناقابل بیان پریشانیوں میں ڈال دیا۔ نہ جانے کتنی جانیں ضائع ہوئیں، کتنے لوگ بھوک سے مرگئے، کتنے بے گھر ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے۔ لوگوں کو کھانا پینا نہیں مل سکا۔ تجارتی اداروں میں کام نہیں ہوسکا۔ مزدور، مزدوری سے محروم رہے تو محنت کشوں کو محنت کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ سرد ممالک میں تو سردی کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ اس موسم کے عادی ہیں، لیکن وہ بھی اتنے شدید موسم کو برداشت نہیں کرسکے۔ تعلیمی اداروں میں تدریس کا عمل روکنا پڑا۔ دوست احباب ذرائع آمدورفت میں خلل کے باعث ایک دوسرے کو دیکھنے یا ایک دوسرے سے ملنے بھی نہ جاسکے۔

 photo Dangerwinter1_zpscda50b73.jpg

دوسری جانب ہمارے ملک پاکستان کے کچھ علاقوں میں سردی زیادہ پڑتی ہے، باقی ہمارے متعدد علاقوں میں موسم معتدل رہتا ہے، مگر اس بار جیسی شدید سردی پڑی، اس نے پاکستانیوں کو بھی پریشان کردیا۔

شدید سردی کی یہی لہر کہاں سے آگئی۔ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ کیا یہ اچانک ہوا یہ ہمارے ماہرین پہلے سے اس کے بارے میں جانتے تھے؟ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اس کی ذمے دار قطبی ہوائوں کے شدید اور غیرمعمولی جھکڑ ہیں جنہوں دنیا کے بیشتر ممالک کو سفید برف کی چادر اڑھادی۔ ماہرین کا شروع سے ہی یہ کہنا تھا کہ سردی کی یہ لہر گذشتہ چالیس برسوں میں شدید ترین ہے جس میں درجۂ حرارت منفی 60درجے سینٹی گریڈ تک گرسکتا ہے۔

 photo Dangerwinter_zps7508c67d.jpg

امریکا میں آنے والی اس شدید ترین سرد لہر نے درجۂ حرارت انتہائی حد تک گرادیا جس کے بعد متعدد اموات ہوئیں۔ کاروباری مراکز بند کردیے گئے اور اسکول، کالج و دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ہنگامی چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا۔ امریکا اور برطانیہ میں سیکڑوں پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ اس شدید ترین سرد موسم کے باعث نہ جانے کتنے ہی لوگ بے گھر ہوگئے اور مختلف مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ موسم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے تیل کی پیداوار کو وقتی طور پر روکنا پڑا۔ ماہرین موسمیات نے سردی کی اس شدید لہر کو “polar vortex” کا نام دیا ہے اور ذرائع ابلاغ اسے “polar pig” کہہ کر پکار رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ “polar vortex” آخر کیا ہے جس نے ساری دنیا پر سرد قہر برسادیا ہے۔

 photo Dangerwinter2_zpsae4d0971.jpg

ایک پولر وورٹیکس کو پولر سائیکلون بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک وسیع پیمانے کا مستقل سائیکلون ہے جو کرۂ ارض کے جغرافیائی قطبین میں سے کسی ایک قطب کے قریب موجود ہوتا ہے۔ زمین پر قطبی چکر یا تو زمین کی بالائی تہہ پر ہوتے ہیں یا درمیانی تہہ پر۔یہ قطبی بلندیوں کو گھیرے رہتے ہیں اور قطبی فرنٹ میں موجود رہتے ہیں۔ یہ سرد تہہ والے کم دبائو والے مقامات سردی میں مضبوط ہوجاتے ہیں اور گرمی میں کم زور پڑجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خط استوا اور قطبین کے درجۂ حرارت میں فرق پر انحصار کرتے ہیں۔ عام طور سے یہ ایک ہزار کلومیٹر یعنی 620میل سے کم کا چکر لگاتے ہیں جس میں ہوا گھڑی کی سوئیوں کے مخالف انداز سے گھومتی ہے، لیکن یہ کام شمالی نصف کرے میں ہوتا ہے اور اس طرح یہ طوفان یعنی پولر وورٹیکس بنتا ہے۔

 photo Dangerwinter3_zps23e03fcc.jpg

دوسری طرف دوسرے سائیکلون انہی کے اثرات سے بنتے ہیں۔ شمالی نصف کرے میں Arctic vortex کے دو مراکز ہیں، ایک بفن آئی لینڈ کے قریب اور دوسرا شمال مغربی سائبیریا کے بالائی حصے میں۔ جنوبی نصف کرے میں یہ روز آئس شیلف کے کنارے پر 160مغربی طول کے قریب رہتا ہے۔ جب پولر وورٹیکس زیادہ شدید ہوجاتا ہے تو مغربی ہوائیں بھی شدت اختیار کرلیتی ہیں۔ لیکن جب پولر سائیکلون کم زور ہوتا ہے تو شدید قسم کی سرد ہوائیں چل پڑتی ہیں۔ پولر وورٹیکس میں اوزون میں کمی ہوتی ہے، خاص طور سے جنوبی نصف کرے پر اور یہ موسم بہار میں زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال یہ پولر وورٹیکس ہی تھا جو امریکا، یورپ، ایشیائی ملکوں اور مشرق وسطیٰ میں شدید سردی کا سبب بنا۔

 photo Dangerwinter4_zpsfe78aa42.jpg

شکاگو میں نصف سے زیادہ پروازیں منسوخ کرنی پڑیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایندھن سپلائز تک منجمد ہوگئی تھیں اور عملہ طیاروں کو تیل فراہم نہیں کرسکا۔ شکاگو میں دوپہر کا درجۂ حرارت منفی 24درجے سینٹی گریڈ تھا۔ تیز اور طوفانی ہوائوں کی سردی مکینوں کی ہڈیوں میں گودا تک جمائے دے رہی تھی۔

ٹیکساس سے شمالی ڈکوٹا اور کینیڈا تک تمام آئل فیلڈز میں شدید سردی کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ تیل کے کنوئوں میں تکنیکی مسائل کی وجہ سے کام مکمل طور پر بند ہوگیا۔

 photo Dangerwinter8_zps824f8b05.jpg

اناج اور مویشیوں کی نقل و حمل کا کام بھی شدید متاثر ہوا جس سے لوگوں کو گوشت کی فراہمی بند ہوگئی۔ اناج اور گوشت کی پیکنگ کرنے والے متعدد اداروں میں بھی کام نہ ہوسکا۔ پھر اس سردی نے گیہوں کی فصلیں بھی تباہ کرڈالیں۔

 photo Dangerwinter10_zps10806174.jpg

کلیو لینڈ (اوہیو) میں درجۂ حرارت منفی 19ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا تھا جس نے بے گھر لوگوں کو پناہ کی تلاش میں بھٹکنے پر مجبور کردیا۔

امریکی محکمہ موسمیات نے مغربی اور مرکزی نارتھ ڈکوٹا کے لوگوں کو خبردار کیا کہ درجۂ حرارت منفی 51درجے سینٹی گریڈ تک جانے کا خطرہ ہے۔

 photo Dangerwinter11_zps06b35e2b.jpg

سردی کی یہ خطرناک اور شدید ترین لہر صرف امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے دنیا کے دوسرے حصوں کو بھی متاثر کیا۔ الماتے (قزاقستان) میں درجۂ حرارت منفی 22درجے سینٹی گریڈ تک گرگیا۔ منگولیا میں یہ منفی 23درجے سینٹی گریڈ تک گرا اور سائبیریا کے علاقے Irkutsk میں یہ منفی 33  درجے سینٹی گریڈ تک گرگیا۔ انگلینڈ میں بھی صورت حال امریکا سے مختلف نہیں تھی۔ وہاں بھی برف نے تمام کاروباری اور دیگر سرگرمیاں منجمد کرکے رکھ دیں۔ کوریا میں بھی جگہ جگہ برف کے ڈھیر لگ گئے۔

 photo Dangerwinter9_zpsf8f28a09.jpg

مصر میں پہلی بار ایسی برف باری ہوئی کہ اہرام مصر جو ہمیشہ سے سرخ اور زرد نظر آتے تھے، انہوں نے بھی دودھیا برف کی چادر اوڑھ لی۔ شام، فلسطین اور دیگر عرب ریاستوں میں بھی یہی صورت حال رہی۔ امریکا میں طوفانی برف باری اور شدید سردی کی لہر نے صرف ایئر ٹریفک کو ہی متاثر نہیں کیا، بلکہ ریلوے نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اس شدید طوفان کی وجہ سے نیوانگلینڈ کے مختلف حصوں میں سڑکوں پر دو فٹ موٹی برف کی تہہ جم گئی۔ پھر ماہرین موسمیات مسلسل یہی کہتے رہے کہ یہ سرد لہر پورے موسم سرما میں برقرار رہے گی۔

٭منجمد نیاگرا آبشار

 photo Dangerwinter5_zpsa9369f3e.jpg

اس شدید ترین موسم سرما نے جہاں دنیا پر سرد قہر برسایا، وہیں کچھ حسین مناظر بھی اس موسم کی وجہ سے دیکھنے میں آئے۔ نیاگرا آبشار، دنیا کی وہ حسین ترین آبشار ہے جو اپنے بلندی سے گرتے پانی کی وجہ سے ساری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لوگ بڑے شوق سے صرف اس کا تیز و تند پانی دیکھنے ہی تو آتے ہیں، مگر اس بار تو یہ آبشار بھی جم گئی اور اس کی ٹھوس برف پر شوقین لوگوں نے خوب اسکیٹنگ کی اور کھیل تماشے کیے۔ منجمد نیاگرا آبشار کو اگر اس موسم سرما کا منفرد تحفہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

٭جرمنی میں برف کی چادر اوڑھے درخت

 photo Dangerwinter7_zps01e912d0.jpg

جرمنی کے مختلف شہروں میں برف باری نے بہت حسین مناظر تخلیق کرڈالے۔ کئی پارک اور باغ ایسے تھے جن میں درختوں اور پیڑپودوں نے برف کی چادر اوڑھ لی اور یہ چادر اس حد تک پختہ اور ٹھوس ہوگئی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ برف کے درخت ہیں۔ ان درختوں کو دیکھ کر اچھا تو محسوس ہوا مگر لوگ جلد اس صورت حال سے اکتانے لگے، کیوں کہ وہ سرسبز درختوں اور پیڑپودوں کے عادی ہیں، سفید درختوں کے نہیں۔

٭چین میں منجمد جھیل پر تفریح

 photo Dangerwinter6_zps6a68eb91.jpg

چین کی جھیلیں ہر سال ہی موسم سرما میں جم جاتی ہیں اور ان کی برف اس حد تک ٹھوس اور سخت ہوجاتی ہے کہ اس پر لوگ خوب تفریح کرتے ہیں، مختلف کھیل کھیلتے ہیں اور گاڑیاں تک چلاتے ہیں۔ بعض لوگ تو اس پختہ جھیل پر کھڑے ہوکر پتنگ بازی بھی کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس جھیل میں سوراخ کرکے اس سے مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں، مگر اس بار وہ مچھلی نہیں پکڑسکے، کیوں کہ سردی کی شدت کی وجہ سے برف کی یہ تہہ خاصی موٹی ہوگئی تھی اور مچھلیاں زیادہ گہرائی میں چلی گئی تھیں۔

سرمائی اولمپکس 2014ء: کھلاڑی کی معرکہ آرائی کے لیے تیار

$
0
0

مشرقی یورپ میں روس کے مغرب میں بحیرۂ اسود کے کنارے واقع سوچی بائیسویں سرمائی اولمپکس کا میزبان ہے،۔یورپ کے اس علاقے میں کھیلوں کے انعقاد کا یہ پہلا موقع ہے۔ عالمی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے 2007 میں گوئٹے مالا میں ہونے والے اپنے 119ویں اجلاس میں ان کھیلوں کے لیے سوچی کا انتخاب کیا تھا۔

سوچی سرمائی اولمپکس 7فروری سے 23فروری تک جاری رہیں گے۔ سترہ روز تک جاری رہنے والے ان کھیلوں میں دنیا کے لگ بھگ 98 ایونٹس سوچی اولمپکس کا حصہ ہیں۔ ان میں بارہ نئے ایونٹس پہلی بار کھیلوں میں شامل ہورہے ہیں۔ تیرہ ہزار سے زیادہ ذرائع ابلاغ کے نمائندے بائیسویں اولمپکس کی کوریج کے لیے سوچی آرہے ہیں۔ یہاں پچیس ہزار رضاکاران بھی اپنی خدمات پیش کریںگے۔

 photo Wintergames_zps8684cea5.jpg

سوچی اولمپک پارک کو کوسٹل کلسٹر کا نام دیا گیا ہے۔ کوسٹل کلسٹر میں تمام انڈور برفانی کھیلوں کے مقامات ایک دوسرے سے انتہائی قریب ہیں۔فشسٹ اولمپک اسٹیڈیم میں کھیلوں کی افتتاحی و اختتامی تقاریب منعقد ہوں گی۔ چالیس ہزار نشستوں کی گنجائش کا یہ انڈور اسٹیڈیم ایک شیل کی مانند ہے۔ پولی کاربونیٹ کی چھت کے ساتھ اس کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اندر بیٹھے ہوئے تماشائی شیشوں سے باہر کا منظر بھی دیکھ سکیںگے اور اپنی نشستوں سے شمال میں کاسیس کی برف پوش پہاڑیوں اور دوسری جانب جنوب میں بحر اسود کے خوب صورت نظارے کا لطف اٹھاسکیں گے۔

فگر اسکیٹنگ اور شارٹ ٹریک اسکیٹنگ کے لیے بارہ ہزار تماشائیوں کی گنجائش کے ساتھ آئس برگ اسکیٹنگ پیلس تعمیر کیا گیا ہے۔ دیدہ زیب شیشوں سے آراستہ یہ پیلس خوب صورت کروی گولائی لیے ہوئے ہے، جس کے باعث شائقین اپنے پسندیدہ اسکیٹنگ کھلاڑیوں کو انتہائی قریب ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔ یہاں صرف دو گھنٹے کے وقفے میں فگر اسکیٹنگ سے شارٹ ٹریک اسپیڈ اسکیٹنگ کے لیے برف کی ایڈجسٹمنٹ کی جاسکے گی۔

تعمیر کا ایک اور شاہ کار ایڈلر ایرینا اسپیڈ اسکیٹنگ مقابلوں کے لیے تیار ہے۔ آٹھ ہزار نشستوں کے اس ایرینا کو کرسٹل اسٹائل میں تیار کیا گیا ہے۔ اوول کی مانند اس ایرینا میں مختلف زاویوں کی دیواروں اور مثلثی شیشوں والی کھڑکیوں کے ساتھ برفانی بے ربطگی کا دل کش نظارہ پیش کیا گیا ہے بلاشبہہ یہ سائنس کا قابل ستائش نمونہ ہے۔

 photo Wintergames1_zpsd9f9f19b.jpg

سرمائی اولمپکس کے مقبول ٹیم کھیل آئس ہاکی کے مقابلے دو مقامات پر ہوں گے۔ ان میں ’’شیبا ایرینا‘‘ بھی شامل ہے، جس کی نشستوں کی گنجائش سات ہزار ہے اس ایرینا کا نام روسی زبان کے لفظ ’’شائیو‘‘ سے لیا گیا ہے جو انگریزی زبان میں آئس ہاکی میں استعمال ہونے والی ڈسک ’’پک‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیلا رنگ لیے ہوئے یہ ایرینا برفانی خوب صورتی میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ آئس ہاکی ٹورنامنٹ کے لیے دوسرا مقام بولشوئی آئس ڈوم مقابلوں سے سجے گا۔ بارہ ہزار تماشائیوں کا یہ ایرینا بظاہر برف کا ایک جما ہوا بڑا قطرہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں انتہائی ٹھنڈک میں گرمائی کا خاص انتظام موجود ہے۔

کراس کنٹری اسکیننگ اور بائتھلون کے مقابلے لارکراس کنٹری اسکیننگ سینٹر میں ہوں گے۔ یہ علاقہ سیکھا کورج کے شمال مشرق میں واقع ہے اور ان کھیلوں کے لیے منفرد سمجھا جاتا ہے یہاں ان دونوں کھیلوں کے ایونٹس کے لیے الگ الگ ٹریکس ہیں اور مقام کے آغاز اور اختتام کے علاقے بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں، ان علاقوں کی اپنی حفاظتی حدود بھی ہیں۔

الپائن اسکیننگ کے مقابلے روزاخوتھر الپائن سینٹر میں ہوں گے۔ سوچی سے 80 کلو میٹرز دور ابیجارج پر واقع یہ سینٹر اسکیننگ کے الپائن ایونٹس کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتاہے۔ 1972 کے ساپارو سرمائی اولمپکس میں ڈائون ہل اسکیننگ کے گولڈ میڈ لسٹ اور دنیا کے نام ور آرکیٹیکٹ سوئٹزر لینڈ کے برن ہارڈ روزی نے اس سینٹر کو ڈیزائن کیا ہے۔ یہاں بنائے گئے ٹریکس کی مجموعی طوالت 20 کلو میٹر ہے۔ اس میں مردوں کے ڈائون ہل مقابلوں کے لیے بنائے جانے والے کورس تقریباً ساڑھے تین ہزار میٹرز طویل جب کہ اس کی عمودی گران ایک ہزار 75 میٹر ہے۔ اسکیننگ کے مقبول ترین مقابلے اسکی جمپنگ کے لیے شائقین کی نظریں رس اسکی گورگی جمپنگ سینٹر پر لگی ہوئی ہیں۔ جہاں جمپنگ کے تمام ایونٹس منعقد ہوں گے۔ ابیجارج کے شمال ڈھلان میں واقع اس سینٹر میں ساڑھے سات ہزار تماشائیوں کے لیے نشستوں کا انتظام ہے یہ اسٹو سیڈک کا ایک گائوں ہے۔ دو برف پوش طویل پہاڑی سلسلوں کا سنگم بھی ہے جو اس کی جمپنگ کے لیے انتہائی موزوں سمجھا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ارد گرد کے برفانی منظر نے اس کو اور زیادہ مسحور کن بنادیا ہے۔

 photo Wintergames2_zps4c1fe686.jpg

سرمائی اولمپکس کے برق رفتار کھیلوں باب سلینڈنگ، لوجنگ اور اسکلیٹن کے مقابلوں کے لیے سوچی کے تقریباً 60 کلو میٹرز شمال مشرق میں سینکی سلائیڈنگ سینٹر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مثالی پروجیکٹ کو بنانے کا سہرا یہاں کی الپائکا سروسز مائونٹین اسکی ریزوٹ کے سر ہے۔ یہاں ڈیڑھ کلو میٹرز کے سلائیڈنگ ٹریک میں 18 موڑ اور 131 میٹرز کا علاقہ عمودی گران پر مشتمل ہے۔ اسٹیٹ آف آرٹ آئس کے تیار کردہ مقابلے کے دوران تمام ٹریک کا درجۂ حرارت کا کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال اس ٹریک کی خاص بات ہے۔ اس سینٹر پر آنے والے شائقین کے لیے پانچ ہزار نشستوں کا انتظام موجود ہے۔

روزاخٹرایکسٹریم پارک سرمائی اولمپکس کے نئے کھیل اسنو بورڈنگ اور فری اسٹائل اسکیننگ کا مرکز ہے۔ یہاں اسنوبورڈنگ کے لیے بنائے جانے والے سینٹر پر چار ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی نشستوں کا انتظام ہے، جب کہ فری اسٹائل اسکیننگ سینٹر میں یہ تعداد چھے ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ پارک خٹر پلاٹیئو کے مغرب میں واقع ہے۔ منفرد برفانی صورت حال اور مخصوص جدید سہولیات سے مزین ٹریکسی آنے والے وقتوں میں اس کو دنیا کا مقبول ترین اسنو بورڈنگ اور فری اسٹائل مقابلوں کا علاقہ بنادے گا۔ ایک اعشاریہ دو کلو میٹرز اسکی کراس ٹریک کے لیے 213 میٹرز کا عمودی گران رکھا گیا ہے۔

تین ہزار نشستوں کے ساتھ تیار کیا گیا آئس کیوب کرلنگ سینٹر سوچی اولمپک کرلنگ مقابلوں کا مرکز ہوگا۔ آئس کیوب کرلنگ سینٹر ہم وار اور کرلنگ اسٹون کی شکل لیے ہوئے مکمل گولائی کا خوب صورت امتزاج ہے اور اس پر پالش کی چمک نے اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ آئس کیوب ایرینا میں کرلنگ مقابلوں کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔

 photo Wintergames3_zps12d7d522.jpg

بائیسویں سرمائی اولمپکس مشعل بالآخر اپنے سفر کے اختتامی مراحل طے کررہی ہے۔ اولمپک ریلے کے دوران تاریخ کا طویل ترین سفر طے کرنے والی اس مشعل کا طے کردہ فاصلہ 65 ہزار کلو میٹرز ہے۔ اس دوران یہ مشعل روس کے 83 علاقوں سے گزری ہے۔ اپنے 123 روزہ سفر میں تقریباً ایک میٹر اونچی اور ایک اعشاریہ آٹھ کلو وزنی اس مشعل نے سفر کے مختلف ذرائع جن میں ٹرین، ہوائی جہاز، برفانی سلیڈز اور روسی ٹرائیکا شامل ہیں، میں سفر کیا ہے۔ اس دوران یہ دو ہزار نو سو قصبوں اور شہروں سے گزری ہے۔ یہ مشعل بیکل جھیل کے دامن میں اور ایلبرس کی چوٹی پر جب کہ شمالی قطب اور حتیٰ کہ خلائی سفر سے بھی گزری ہے۔ یہ اولمپک تاریخ کے نئے باب کہلائے جائیںگے۔

سوچی اولمپک ماسکوٹ کی نمائندگی شمالی قطبی بھالو، خرگوش اور چیتا کررہے ہیں جو سوچی آنے والے مہمان کھلاڑیوں، آفیشلز، سیاحوں، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

سرمائی اولمپکس کی تاریخ

1896 میں جدید اولمپکس کے آغاز کے بعد کھیلوں کے بانی پیری ڈی کوبرٹن نے جہاں ان کھیلوں کے فروغ اور دنیا کے پانچ براعظموں کے ممالک کی اولمپکس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا وہاں ان کی یہ خواہش بھی ابتدا ہی سے محسوس کی جارہی تھی کہ برفانی کھیلوں کے لیے بھی سرمائی اولمپکس کا انعقاد کیا جائے۔ برفانی کھیلوں کی سرگرمیاں یورپ اور امریکا کے شمالی حصوں میں بخوبی دیکھی جاسکتی تھیں، خصوصاً شمالی یورپ کے نارڈک ممالک میں ان کے اپنے وضع کردہ سرمائی گیمز بھی منعقد ہورہے تھے۔ نارٹک ممالک نے پیری ڈی کوبرٹن کی رائے سے اتفاق نہیں کیا، ان کا خیال تھا کہ سرمائی اولمپکس کے آغاز سے ان کے سرمائی گیمز متاثر ہوں گے، اس کے برعکس یورپ کے مغربی و جنوبی ممالک اور امریکا نے کوبرٹن کی سرمائی اولمپکس کو شروع کرنے کی تجویز کی بھرپور حمایت کی۔سرمائی اولمپکس کے باقاعدہ آغاز سے قبل گرمائی اولمپکس کے دوران ان میں برفانی کھیلوں کی شمولیت شروع ہوگئی تھی۔ اس سلسلے کا پہلا مظاہرہ 1908 کے چوتھے اولمپیاڈ میں، جو لندن (انگلستان) میں منعقد ہوئے تھے، دیکھنے میں آیا۔ یہاں برفانی کھیل اسکیٹنگ کھیلوں میں شامل کیا گیا۔

 photo Wintergames7_zps6babfed6.jpg

چار سال بعد 1912 کے اسٹاک ہوم اولمپیاڈ میں کوئی برفانی کھیل پروگرام میں شامل نہیں کیا گیا۔ 1920 کے ساتویں اولمپیاڈ میں جو بیلجیئم کے شہر اینٹ ورپ میں منعقد ہوئے دو برفانی اسکیٹنگ اور آئس ہاکی اولمپکس کا حصہ تھے۔ یہاں اس بار فگر اسکیٹنگ کے تین ایونٹس کے مقابلے دیکھے گئے، ان میں سوئیڈن کے کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان ملک کے لیے دو گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ اس ملک سے مردوں میں گلس گرافسٹرام اور خواتین میں اس کی ہم وطن ماڈگا جولن مارائے نے انفرادی مقابلوں میں اور فن لینڈ کے لوڈیکا اور والٹرجیکسن ایکسرس نے پیئر ایونٹ میں اولمپک ٹائٹلز حاصل کیے۔ آئس ہاکی کا ٹورنامنٹ یہاں پہلی بار اولمپیاڈ میں شامل کیا گیا۔ پانچ ممالک کی ٹیموں نے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ کینیڈا کی ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے اولمپک چیمپئن قرار پائی۔ فگر اسکیٹنگ اور آئس ہاکی میں مجموعی طور پر دس ممالک کے 86 کھلاڑیوں نے مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان میں 74 مرد اور 12 خواتین شامل تھیں۔

آئی اوسی کے بیسویں سالانہ اجلاس میں جو 5 جون 1921 کو آئی اوسی کے ہیڈکوارٹر لونان (سوئٹزرلینڈ) میں منعقد ہوا تھا، فرانس کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ آٹھویں اولمپیاڈ جو 1924 میں فرانس کے صدر مقام پیرس میں منعقد ہوں گے، اس دوران ایک سرمائی کھیلوں کا ہفتہ بھی منایا جائے جس میں سرمائی (برفانی) کھیلوں کے مختلف ایونٹس کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔  فرانس کی اولمپک کمیٹی نے اس کو عملی شکل دینے کے لیے 20 فروری 1923 کو فرانس کے برفانی علاقے شامونی کو باقاعدہ اس ’’سرمائی ویک‘‘ کی  میزبانی کے لیے منتخب کیا۔ شامونی میں 25 جنوری سے 5 فروری 1924 تک جاری رہنے والے اس سرمائی اولمپک ویک میں 16 ممالک نے شرکت کی۔ 258 کھلاڑیوں نے چار برفانی کھیلوں کے 16 ایونٹس میں حصہ لیا۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی اوسی) کا 24 واں سالانہ اجلاس 27 مئی 1925 کو سابق چیکوسلواکیہ کے صدر مقام پراگ میں منعقد ہوا۔ یہاں فرانس کے آئی اوسی کے رکن مارکوئس ڈی یولیگنس نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر چار سال بعد اسی سال جب جدید اولمپیاڈ منعقد ہوں سرمائی اولمپکس کا انعقاد بھی کیا جائے، تاہم یہ سرمائی اولمپکس موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے سال کے ابتدائی مہینوں میں کروائے جائیں۔

آئی او سی نے 6 مئی 1926 کو مغربی یورپ میں پرتگال کے صدر مقام لسبن میں ہونے والے اپنے 25 ویں سالانہ اجلاس میں شامونی میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک ویک کو باقاعدہ پہلے سرمائی اولمپکس کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ فرانس کے فزیکل ایجوکیشن کے سیکریٹری نے شامونی میں منعقد ہونے والے پہلے سرمائی اولمپکس کھیلوں کا افتتاح کیا، ان پہلے سرمائی اولمپکس کا کھلاڑیوں کی طرف سے اسکیٹنگ کے کھلاڑی کیمیلی مینڈرایسن نے حلف اٹھایا۔

 photo Wintergames4_zps7aaad53e.jpg

سرمائی اولمپکس کا پہلا باقاعدہ اولمپک چیمپیئن بننے کا آغاز امریکی اسکیٹنگ کھلاڑی چارلس چیوٹرا کے حصے میں آیا۔ چارلس نے اسپیڈ اسکیٹنگ کے 500 میٹرز مقابلے میں مطلوبہ فاصلہ 44 سیکنڈز میں طے کرکے کھیلوں کا پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اسپیڈ اسکیٹنگ مقابلوں میں یہ واحد گولڈ میڈل تھا جو یورپ سے باہر کسی امریکی کھلاڑی نے حاصل کیا۔ اسکیٹنگ کے تمام مقابلوں میں فن لینڈ اور ناروے کے کھلاڑیوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ شامونی سرمائی اولمپکس میں مجموعی طور پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ فن لینڈ کے اسکیٹنگ کھلاڑی کلیس تھنبرگ نے کیا اس کھلاڑی نے اسپیڈ اسکیٹنگ کے دو ایونٹس پندرہ سو میٹرز، پانچ ہزار میٹرز میں دو گولڈ میڈلز، دس ہزار میٹر میں 1 سلور میڈل اور پانچ سومیٹر میں 1 براؤنز میڈل حاصل کیا اور پہلے سرمائی اولمپکس کا ہیرو قرار پایا۔ کلیس تھنبرگ نے اس مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر آل راؤنڈ گولڈمیڈل بھی حاصل کیا۔ اس ایونٹ میں آل راؤنڈ کارکردگی میڈل صرف ایک بار ہی دیا گیا ہے۔

اسکیٹنگ کے مقابلوں میں صرف نارڈک اسکیٹنگ کے مقابلے منعقد ہوئے ناروے کے تھارلیف ہاگ نے تین گولڈمیڈلز اور ایک اسپیشل جمپنگ کے مقابلوں میں براؤنز میڈل حاصل کیا۔ اس براؤنز میڈل سے ایک دل چسپ واقعہ وابستہ ہے۔ تھارلیف ہاگ کو یہ میڈل پچاس سال بعد دیا گیا۔ یہ براؤنز میڈل  ناروے کے کھیلوں کے مورخ جیکب ویگی کے اس انکشاف کے بعد دیا گیا کہ 1924 میں مقابلوں کے دوران کی جانی والی اسکورنگ صحیح نہیں تھی، جس کے باعث تھارلیف براؤنز میڈل سے محروم رہا اور چوتھے نمبر پر چلا گیا۔ 1974 میں یہ براؤنز میڈل اس کی بیٹی کو دیا گیا، اس وقت تھارلیف کی عمر 84 سال تھی۔

شامونی میں کینیڈا کی آئس ہاکی ٹیم نے اپنے 1920 کے اولمپک ٹائٹل کا کام یابی سے دفاع کیا۔ کینیڈا نے پانچ میچوں میں مجموعی طور پر 13گول اسکور کیے۔ اس کے خلاف صرف 3 گول ہوئے دوسرے نمبر پر امریکا کی ٹیم رہی اور سابق چیکوسلواکیہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ فگر اسکیٹنگ مقابلوں میں مرد کھلاڑیوں میں سوئیڈن کے گلیس گرافسٹرام نے اپنے 1920 کے ٹائٹل کو برقرار رکھا یہاں گلیس نے فائنل راؤنڈ میں مجموعی طور پر دس پوائنٹس حاصل کیے اور سرمائی اولمپکس کے پہلے باقاعدہ فگر اسکیٹنگ چیمپئن قرار پائے۔ اسکیٹنگ کے جمپنگ ایونٹ (70میٹرز) میں ناروے کے جیکب تھیولن پہلے اولمپک چیمپئن بنے۔

 photo Wintergames8_zps559f2621.jpg

باب سلائیڈنگ کے ایک ایونٹ (4مین باب) میں مقابلے ہوئے۔ باب سلائیڈنگ میں اجتماعی نوعیت کے مقابلے ہوتے ہیں۔ ایک باب سلائیڈنگ کی ٹیم چار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ سوئٹزرلینڈ نے چار ریسوں میں اپنی برتری برقرار رکھی اور فائنل جیت کر باب سلائیڈنگ کا پہلا اولمپک ٹائٹل حاصل کیا۔ برطانوی ٹیم نے دوسری اور امریکا کی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ کرلنگ اور ملٹری پٹرولنگ ایونٹس بطور نمائشی کھیل شامونی اولمپکس میں شامل کیے گئے تھے۔

شامونی سرمائی اولمپکس میں ناروے سرفہرست رہا۔ ناروے کے کھلاڑیوں نے چار گولڈ، سات سلور اور چھے براؤنز میڈلز حاصل کیے۔  فن لینڈ دوسرے نمبر پر رہا، جس کے کھلاڑیوں نے چار گولڈ، تین سلور اور تین ہی براؤنز میڈلز حاصل کیے۔ آسٹریا نے تیسری پوزیشن حاصل کی اس نے دو گولڈ اور ایک سلور میڈل حاصل کیا۔

1928میں دوسرے سرمائی اولمپکس سوئٹزر لینڈ کے برفانی شہر سینٹ موریز میں ہوئے۔11 فروری سے19 فروری تک جاری رہنے والے سرمائی اولمپکس میں25ممالک کے464کھلاڑیوں نے حصہ لیا، یہاں ہالینڈ، رومانیہ، میکسیکو اور جاپان پہلی بار کھیلوں میں شریک ہوئے اور یوں مرکز امریکا اور براعظم ایشیا کی برفانی کھیلوں میں نمائندگی کا آغاز ہوا، پانچ کھیلوں کے14ایونٹس پروگرام کا حصہ تھے،438مرد اور 26خواتین کھلاڑیوں نے مختلف مقابلوں میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کی تھی، خواتین کھلاڑیوں نے صرف اسکیٹنگ مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ آئی او سی نے گرمائی اور سرمائی اولمپکس کو دو مختلف ملکوں میں کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل ہونے والے دونوں اولمپک کھیل ایک ہی ملک فرانس میں منعقد کیے گئے تھے۔ 1924میں سرمائی اولمپکس شامونی اور گرمائی اولمپکس پیرس میں ہوئے تھے۔ اس بار سرمائی اولمپکس کے لیے سینٹ موریز اور موسم گرما کے کھیلوں کے لیے مرکزی یورپ میں ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) کا انتخاب ہوا تھا۔

سینٹ موریز میں اسکی انگ میں شامونی میں شامل کیے جانے والے چار ایونٹس ایک بار پھر پروگرام میں شامل تھے۔ اس فرق کے ساتھ کہ18کلو میٹرز کا فاصلہ19کلو میٹرز کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پچاس کلو میٹرز نارڈک اسکی انگ، کمبائنڈ نارڈک ایونٹ اور70میٹرز اس کی جمپ شامل تھے۔

 photo Wintergames5_zps13acb5e8.jpg

اسکی انگ میں1924میں ایک سو میڈل18کلو میٹرز اور 50کلو میٹرز میں ساونز میڈل حاصل کرنے والے ناروے کے جوہان گرو تھمس براٹن نے دو گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ اس کی یہ کام یابیاں پندرہ ہزار میٹر اسکی انگ اور نارڈک کمبائنڈ میں تھیں۔ 50 کلو میٹرز اسکی انگ میں سوئیڈن کے کھلاڑیوں نے  پہلی تینوں پوزیشنز حاصل کیں۔ یرایرک ہیڈ لنڈ نے مطلوبہ فاصلہ چار گھنٹے اور3.52سیکنڈ میں طے کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے ہم وطن گیسٹل جانسن نے دوسری اور ولگر اینڈریسن نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

اس کی جمپنگ میں ناروے کے ایلزیڈ اینڈریسن نے19.960پوائنٹس کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ دوسرے سرمائی اولمپکس کی نمایاں خصوصیت نوعمر اسکیٹنگ خاتون کھلاڑی سونجاہنی کی غیرمعمولی کارکردگی تھی۔ ناروے سے تعلق رکھنے والی پندرہ سال اور316دن کی سب سے کم عمر کا اعزاز بھی حاصل کرنے والی خاتون کھلاڑی نے فگراسکیٹنگ میں شائقین سے خوب داد حاصل کی۔

سوئیڈن کے گلیس کلیسٹرام نے مردوں کے انفرادی فگر اسکیٹنگ مقابلوں میں اپنی برتری کو شامل کرکے یہ تیسرا مسلسل گولڈ میڈل تھا۔ اس بار بھی اس کا قریب ترین حریف آسٹریا کا ولی بوکل تھا گلیس نے12پنالٹی کے ساتھ پہلی اور 1924کے سلور میڈلسٹ ولی بوکل نے13پنالٹی کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کرتے ہوئے مسلسل دوسری بار سلور میڈل حاصل کیا۔ پیئرفگر اسکیٹنگ میں فرانسیسی جوڑی اینڈری جولی اور پیری برونٹ نے سرمائی اولمپکس کا اپنے ملک کے لیے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔

 photo Wintergames9_zpsb1af455a.jpg

اسپیڈ اسکیٹنگ کے مقابلے اس بار بھی فن لینڈ کے کلیس تھبزگ کے نام رہے،کلیس نے پانچ سو میٹرز میں43.44سیکنڈز کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا لیکن اس ایونٹ میں کلیس کے وقت کے ساتھ ہی ناروے کے ابھرتے ہوئے اسپیڈ اسکیٹر برنٹ ایونسن نے مطلوبہ فاصلہ طے کیا اور یوں دونوں کھلاڑیوں نے گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ کلیس تھبزگ نے دوسرا گولڈ میڈل پندرہ سو میٹرز اسکی انگ میں مطلوبہ فاصلہ (19کلو میٹرز)2گھنٹے21اعشاریہ ایک منٹ میں طے کرکے جیتا اور اپنے اولمپک ٹائٹل کو برقرار رکھا، البتہ وہ پانچ ہزار کے ٹائٹل کا دفاع نہ کرسکا اور بارہویں پوزیشن پر رہا تھا، جب کہ ناروے کے برنٹ ایونسن نے ایک گولڈ میڈل کے علاوہ پانچ سو500میٹرز ایونٹ میں سلور میڈلز اور پانچ ہزار میٹرز میں بھی میڈل حاصل کیا تھا۔ یہاں دس ہزار میٹرز ایونٹ کے مقابلوں کو اس وقت منسوخ کردیا گیا جب ناروے کے ریفری نے نتائج میں جانب داری کا مظاہرہ کیا اور اس کی وجہ موسم میں تبدیلی بتائی۔ ان مقابلوں میں خلاف توقع امریکی کھلاڑی غیرمعمولی کارکردگی دکھارہے تھے۔ امریکا اور دیگر ملکوں کے کھلاڑیوں اور آفیشلز نے احتجاجاً مقابلوں سے واک آئوٹ کیا تھا۔

سینٹ مورٹیز اولمپکس میں باب سلیڈنگ (سلیجنگ) مقابلوں میں فائیو (پانچ) مین باب ایونٹ کے مقابلے دیکھے گئے جو صرف ایک بار ہی اولمپکس میں شامل ہوئے ہیں۔ اس سے قبل اور بعد میں اب تک فور (چار) مین باب ایونٹ اولمپکس کا حصہ رہا ہے، باب سلیڈنگ میں امریکا اور جرمنی کی دو ٹیمیں شریک ہوئیں، امریکا کی سیکنڈ ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا اور امریکا کے فرسٹ ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی اور جرمنی کی سیکنڈ ٹیم کے حصے میں براؤنز میڈل آیا تھا۔ ضابطے کے مطابق مقابلہ چار ریسوں تک جاری رہتا ہے۔ یہاں سلیڈ کی ایک اور قسم ٹوبو گیگنگ کے مقابلے بھی پہلی بار منعقد کیے گئے۔ اس ایونٹ میں دو امریکی بھائیوں جینیسن اور جاہن ہیٹن نے بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ جینیسن اس کے علاوہ امریکہ کی سیکنڈ باب سلیڈنگ ٹیم کا بھی رکن تھا جس نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ آئس ہاکی میں اس بار بھی دفاعی چیمپئن کینیڈا نے کامی ابی سے اپنے ٹائٹل کو برقرار رکھا۔ کینیڈا کی ٹیم نے مجموعی طور پر38 گول اسکور کیے، اس کے خلاف کوئی گول نہ ہوسکا۔ سوئیڈن نے سلور میڈل اور میزبان سوئٹزرلینڈ کے حصے میں براؤنز میڈل آیا۔

سینٹ موریز سرمائی اولمپکس میں بھی ناروے مجموعی کارکردگی میں سر فہرست رہا۔ ناروے کے کھلاڑیوں نے6گولڈ،4 سلور اور5 براؤنز میڈلز کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی، امریکا دوسرے نمبر پر رہا ، جو 2،2 گولڈ، سلور اور براونز میڈلز جیتنے میں کام یاب ہوا۔ ناروے کا پڑوسی ملک سوئیڈن دو دو گولڈ اور سلور اور ایک براؤنز میڈل کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

 photo Wintergames6_zps3a5a0070.jpg

الپائن اسکی انگ

برف پوش پہاڑی علاقوں میں اسکی انگ کے مقابلے الپائن اسکی انگ کہلاتے ہیں، الپائن اسکی انگ مغربی، مشرقی اور جنوبی یورپی علاقوں اور شمالی امریکا میں بہت مقبول ہے۔

الپائن اسکی انگ پانچ حصوں پر مشتمل ہے، یہ ڈائون ہل، سلالم، جائنٹ سلالم، سپر جائنٹ سلالم اور الپائن کمبائنڈ کہلاتے ہیں۔

ڈائون ہل: ڈائون ہل کے مقابلے پچاس کلو میٹرز نارڈک اسکی انگ کی طرز پر ہوتے ہیں، یہ ایونٹ ’’الپائن کوئن‘‘ بھی کہلاتا ہے، ڈائون ہل کے کورس (راستے) کو سرخ رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے، جن کے درمیان آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھا جاتا ہے، جس میں ایک کھلاڑی140کلو میٹرز فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے ڈھلوان سطح کی طرف اوپر سے نیچے اسکی انگ کرتا ہے، ڈائون ہل کے لیے منتخب کیے جانے والے راستے میں آنے والے جرکس زیادہ سخت اور خشک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جرکس خاص طور پر بنائے جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ یہ کسی جگہ سے کریک نہ ہوں۔ ان راستوں میں باہر کی جانب اضافی جگہ چھوڑی جاتی ہے جو فال زون کہلاتی ہے، یہ راستے چوڑائی میں30میٹرز ہونا ضروری ہے، مقابلوں کا انسپکٹر مقابلے کے لیے بنائے جانے والے راستوں کی چوڑائی کو اگر مناسب سمجھتا ہے تو کم یا زیادہ کرواسکتا ہے۔ انسپکٹر کی تصدیق حتمی ہوتی ہے۔

سلالم: الپائن اسکی انگ کا دوسرا ایونٹ سلالم ہے، سلالم کے مقابلوں کے لیے بنائے جانے والے ٹریک پر چھڑیوں کی مدد سے قطار میں گیٹس بنائے جاتے ہیں، جن کے اوپر کے حصے پر نشانی کے طور پر سرخ رنگ کی جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، گیٹس آپس میں ایک دوسرے سے خاص فاصلے پر ہوتے ہیں۔ سلالم مقابلے میں ایک کھلاڑی کو اپنی بے پناہ تیکنیکی قابلیت او مہارت کا ثبوت دینا ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے وجود کو کام میں لاتے ہوئے ان گیٹس کو زگ زیگ کی شکل میں عبور کرتے ہوئے گزرتا ہے، راستے کی تیزی سے بدلتی ہوئی سمتیں کھلاڑیوں کی تیکنیکی صلاحیت کا امتحان ہوتی ہیں، کیوںکہ سلالم ٹریک کی بناوٹ کے مطابق اس کی سمت کسی قدر ڈھلان سطح میں ہوتی ہیں، ایک سلالم کا مقابلہ دو رائونڈ پر مشتمل ہوتا ہے، یہ دو رائونڈز دو مختلف راستوں (ٹریکس) میں ہوتے ہیں، فاتح کا فیصلہ ان دونوں رائونڈز میں طے کردہ فاصلے کے دونوں دورانیوں کو آپس میں جمع کرنے کے بعد کیاجاتا ہے۔

 photo Wintergames10_zps1d2b1125.jpg

جائنٹ سلالم:جائنٹ سلالم مقابلوں کے لیے تیر کیے جانے والے علاقے کو سرخ اور نیلے رنگ کے گیٹس سے آراستہ کیا جاتا ہے، جن کے درمیان چار سے آٹھ میٹرز کا فاصلہ رکھاجاتا ہے اور ان کے درمیان دس میٹرز کی اضافی جگہ بھی چھوڑی جاتی ہے۔ جائنٹ سلالم کا مقابلہ ایک روز میں دو ریسوں پر مشتمل ہوتا ہے،  جو دو مختلف کورس میں ہوتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو اجازت ہوتی ہے کہ مقابلے سے پہلے اگر وہ چاہیں تو کورس کا معائنہ کرسکتے ہیں۔ مقابلے کے آغاز کے لیے ہر کھلاڑی کو ایک منٹ30سیکنڈ کا وقت دیا جاتا ہے، مقابلے کے دوران اگر کھلاڑی کو اس سے باہر نکل جائے یا گیٹس سے نہ گزر پائے تو وہ مقابلے سے خارج ہوسکتا ہے، تاہم فوراً کورس میں آنے کی صورت میں وہ مقابلے میں برقرار رہتا ہے۔ فاتح وہ کھلاڑی ہوتا ہے جو دونوں ریسوں میں بہتر وقت کے ساتھ مقابلہ ختم کرے۔

سپر جائنٹ سلالم:الپائن اسکی انگ کا چوتھا ایونٹ سپر جائنٹ سلالم’’سپر جی‘‘بھی کہلاتا ہے، سپر جی کو جدید اسکی انگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اسے ڈائون ہل اور جائنٹ سلالم کی درمیانی شکل کہا جاسکتا ہے، سپر جی کورس کی بناوٹ ڈائون ہل کے مقابلے میں قدر عمودی ہوئی ہے۔ گیٹس کی تعداد جائنٹ سلالم کے برابر ہوتی ہے، سرخ اور نیلی جھنڈیوں کے فرق سے یہ گیٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ دونوں رنگ کی جھنڈیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے، سپر جی مقابلہ صرف ایک ریس میں ہوتا ہے، ریس کا آغاز ڈائون ہل ریس کی طرز پر ہوتا ہے۔

سپر کمبائنڈ:سپر کمبائنڈ ڈائون ہل اور سپر جی ایونٹس پر مشتمل ہوتا ہے، کھلاڑی ان دونوں ایونٹس میں یکے بعد دیگرے حصہ لیتے ہوئے الپائن کمبائنڈ کے مقابلے دو روز میں مکمل ہوتے ہیں۔

’’کرسٹیز‘‘ اور ’’Sotheby’s‘‘

$
0
0

دنیا بھر میں کرسٹیز اور ’’Sotheby’s‘‘ نیلامی کی دنیا کے دو بہت معتبر اور بڑے نام ہیں۔

’’کرسٹیز‘‘ کے دو مرکزی ہیڈ کوارٹر لندن اور نیویارک میں واقع ہیں۔’’کرسٹیز آکشن ‘‘ میں نیلام ہونے آرٹ کے نادر نمونے اور تصاویر تسلسل کے ساتھ ورلڈ ریکارڈ بھی قایم کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی نیو یارک کے کرسٹیز آکشن میں شہرۂ آفاق برطانوی مصور ’’فرانسس بیکن‘‘ کی 14کروڑ24لاکھ ڈالرمیں نیلام ہونے والی تصویر نے دنیا کا سب سے منہگا آرٹ کا نمونہ ہونے کا ریکارڈ قایم کر دیا ہے۔ بیسویں صدی کے تمثیلی فن کار فرانسس کی “Three Studies of Lucian Freud” کے نام سے بنی اس نایاب تصویر کو تاریخ میں پہلی بار نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

دنیا کے اس سب سے بڑے نیلام گھر میں پہلی نیلامی 5دسمبر1966کو کی گئی۔ تاہم اس نیلام گھر کی بنیاد ’’جیمز کرسٹیز‘‘ نے 1762 میں رکھ دی تھی۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد لندن بین الاقوامی تجارت کا اہم مرکز بنتا جارہا تھا جس کا سب سے زیادہ فائدہ کرسٹیز کو بھی ہوا اور جلد ہی اِس کا شمار لندن کے ممتاز نیلام گھروں میں کیا جانے لگا۔ 1958میں کرسٹیز نے اپنے کاروبار کو دنیا کے دوسرے ممالک تک فروغ دینے کی شروعات کی اور اس سلسلے میں روم میں پہلا غیرملکی دفتر قایم کرکے وہاں اپنا نمائندہ تعینات کیا جب کہ کرسٹیز نے اپنا پہلا غیرملکی ’’سیلز روم‘‘ سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں کھولا جہاں کرسٹیز کے پاس موجود زیورات کی نیلامی کی جاتی تھی۔

’’Sotheby’s‘‘ دنیا کا چوتھا سب سے پرانا نیلام گھر ہے جو 40ممالک کے 90 مقامات پر نادر و نایاب اشیاء کی نیلامی کا کام سر انجام دے رہا ہے۔ اس نیلام گھر کو 11مارچ1744کو لندن میں قایم کیا گیا تھا۔ دنیا کے ان دو بڑے گھروں میں گذشتہ سال دنیا کے نام ور فن کاروں کی تخلیقات ریکارڈ قیمت پر نیلام کی گئیں۔ آرٹ سے وابستہ نیلام گھروں کے لیے 2013 ایک اچھا سال ثابت ہوا۔

سالِ گذشتہ میں ابھرتی ہوئی معیشتوں سے تعلق رکھنے والے نئے دولت مند خریداروں نے دنیا بھر کے سر فہرست نیلام گھروں سے 75کروڑ22لاکھ ڈالر مالیت کی تصاویر اور آرٹ کے نادر نمونوں کی خریداری کی۔ خریداروں کی اس شرح میں 2011 اور 2012 کی نسبت بالترتیب 82 فی صد اور27 فی صد اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال ہی کرسٹیز نیلام گھر نے تین گھنٹے سے بھی کم وقت میں 69کروڑ 20لاکھ ڈالر کے فن پارے فروخت کرکے اِس سال کا نیا ریکارڈ بھی قایم کیا تھا۔ آرٹ کے نادر فن پاروں کی فروخت میں ہونے والے اضافے کے بارے میں لندن کے ’’فائن آرٹ فنڈ‘‘ کے فلپ ہوف مین کا کہنا ہے کہ ’’اب آرٹ کے نادر نمونے فروخت کرنے والے نیلام گھروں کے پاس چین، روس اور مشرق وسطی کے نئے کلائنٹ ہیں، جو امیرکبیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور امارت کا اظہار کرنے کے لیے وہ منہگے سے منہگے فن پارے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔‘‘

دوسری طرف دنیا بھر میں امیر ترین افراد کی دولت میں اضافہ بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ صرف امریکا کے دو بڑے آکشن ہاؤسز ’’کرسٹیز‘‘ اور ’’Sotheby’s‘‘ پر ہی فروخت ہونے نادر فن پاروں کی مالیت 3.9ارب ڈالر رہی۔
ان دونوں نیلام گھروں میں 2013 میں فروخت ہونے والے سر فہرست فن پاروں کا احوال درج ذیل ہے۔

1۔“Three Studies of Lucian Freud”
برطانوی مصور فرانسس بیکن کی جانب سے 1969میں بنائی گئی اس تصویر نے کرسٹیز کے نیویارک ہیڈ کوارٹر میں 14کروڑ24لاکھ ڈالر میں فروخت ہوکر آرٹ کی تاریخ کا نیا ریکارڈ قایم کر دیا۔

اس سے قبل سب سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے والے فن پارے کا ریکارڈ ناروے کے مصور ’’Edvard Munch’s‘‘ کی تصویر ’’The Sream‘‘ کے پاس تھا۔ اس نادر تصویر کو مئی 2012میں ’’Sotheby’s‘‘ نیلام گھر میں11کروڑ99 لاکھ ڈالر میں فروخت کیا گیا تھا۔

2۔“Silver Car Crash (Double Disaster)”
امریکی مصور اینڈی وار ہول کی یہ سلک اسکرین پینٹنگ نیویارک کے ’’Sotheby’s‘‘ آکشن ہاؤس میں 10کروڑ54لاکھ ڈالر میں فروخت ہوکر گذشتہ سال سب سے زیادہ قیمت پر نیلام ہونے والی تصاویر میں دوسرے نمبر پر رہی۔

2007 میں وار ہول کی سنگل پینل کار کریش پینٹنگ“Green Car Crash (Green Burning Car I)” کرسٹیز پر 7کروڑ17لاکھ ڈالر کی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوئی تھی۔

3۔59.6قیراط گلابی ہیرا ’’پنک اسٹار‘‘
نیویارک سے تعلق رکھنے والے ڈائمنڈ کٹر (ہیرا تراش) ایساک وولف نے ’’Sotheby’s‘‘ جنیوا میں 59.6 قیراط وزنی گلابی ہیرا ’’پنک اسٹار‘‘ سب سے زیادہ بولی 8کروڑ32 لاکھ ڈالر لگا کر خریدا۔

یہ نیلامی میں فروخت ہونے والے کسی قیمتی پتھر کی ریکارڈ قیمت ہے۔ بیضوی شکل کا یہ بے داغ، نفیس اور چمک دار گلابی ہیرا ’’جیمولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آ ف امریکا‘‘ کی ملکیت تھا۔ وولف نے اس نادر ہیرے کو ’’دی پنک ڈریم‘‘ کا نام دیا ہے۔

4۔“Balloon Dog (Orange)” (مجسمہ)
اٹھاون سالہ مجسمہ ساز جیف کونز کا شمار اِن زندہ فن کاروں میں کیا جاتا ہے جن کے فن پارے ’’بلون ڈاگ، اورنج‘‘ نے 5کروڑ84لاکھ ڈالر میں فروخت ہوکر ایک نیا ریکارڈ قایم کیا ہے۔ اسٹین لیس اسٹیل سے بنے اس دس فٹ اونچے مجسمے کی قیمت کا اندازہ3کروڑ 50 لاکھ سے 5کروڑ 50لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا۔

اس مجسمے کو نیویارک کے کرسٹیز نیلام گھر پر فروخت کیا گیا تھا۔ جیف نے یہ ریکارڈ بنا کر اپنا ہی ’’سب سے منہگا لیونگ آرٹسٹ ‘‘ ہونے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جو ان کے مجسمے نے چند سال قبل 3کروڑ 37لاکھ ڈالر میں نیلام ہوکر قایم کیا تھا۔ جیف سے پہلے ’’سب سے مہنگے لیونگ آرٹسٹ‘‘ کا اعزاز جرمنی کے ویژیول آرٹسٹ ’’Gerhard Richter‘‘ کے پاس تھا، جن کی تصویر “Domplatz, Mailand” 1968 میں ’’Sotheby’s‘‘ میں 3کروڑ71لاکھ ڈالر میں نیلام ہوئی تھی۔

5۔“Number 19” (تصویر)
گذشتہ برس نیلام ہونے والے نادر فن پاروں کی فہرست میں امریکی مصور ’’جیکسن پولاک‘‘ کی 1948 میں بنائی گئی تصویر “Number 19” پانچویں نمبر پر ہے۔

نیویارک کے کرسٹیز نیلام گھر میں 5کروڑ83لاکھ ڈالر میں فروخت ہونے والی اس نادر تصویر کی قیمت کا اندازہ 25 سے35 ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔

6۔ ایک کولڈ ڈرنک کی تصویر (اوور سائز بوتل کی تصویر)


امریکی مصور کی 6فٹ اونچے کینوس پر بنی ایک مشہور کولڈ ڈرنک کی بوتل کی تصویر کو کرسٹیز کے نیلام گھر میں 5کروڑ 73لاکھ ڈالر میں فروخت کیا گیا۔

7۔“Woman with Flowered Hat”
گو کہ گذشتہ برس شہرۂ آفاق مصور ’’پیبلو پکاسو‘‘ کی کوئی تصویر اس فہرست میں جگہ نہیں بنا سکی۔

لیکن اس نے امریکی مصور ’’Roy Lichtenstein‘‘ کی 1963میں بنائی گئی تصویر ’’وومین ود فلاوردڈ ہیٹ‘‘ پر اپنا اثر قایم کیا۔ رے نے پیبلو پکاسو کی اپنی محبوبہ ’’ڈورا مار‘‘ کے پورٹریٹ پر کام کرتے ہوئے یہ تصویر تخلیق کی تھی۔

8 ۔Grande tete mince (مجسمہ)


سوئٹرزلینڈ کے مایہ ناز مجسمہ ساز، مصور اور ڈرافٹ مین ’’Alberto Giacometti‘‘ کا 1955میں کانسی سے بنا مجسمہ ’’Grande tete mince ‘‘ گذشتہ سال نیلام ہونے والے فن پاروں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رہا۔
1955میں کانسی سے بنا یہ مجسمہ تین سال قبل5کروڑ 30لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ تاہم 2013 میں یہ مجسمہ5کروڑ ڈالر میں نیلام ہوا۔ تاہم اب بھی اس کا شمار دنیا کے سب سے منہگے مجسموں میں کیا جاتا ہے۔

9۔“Dustheads”(کینوس)
کم عمری میں بہت اچھا اور زیادہ کام کرنے والے امریکی مصور ’’Jean-Michel Basquiat‘‘ کے کینوس’’Dustheads‘‘ کو کرسٹیز آکشن ہاؤس میں 4کروڑ 88 لاکھ ڈالر کی ریکارڈ قیمت پر نیلام کیا گیا۔

اس فن پارے کی مالیت کا تعین 25سے 35ملین ڈالر کے درمیان کیا گیا تھا۔ جین مائیکل نے اپنی 27سالہ زندگی میں 800تصاویر پینٹ کی تھیں اور دنیا بھر آکشن ہاؤسز (نیلام گھروں) میں نیلام ہونے والی نادر تصاویر میں سے15فی صد سے زاید تصاویر جین مائیکل کی ہوتی ہیں۔

10۔“Saying Grace” (تصویر)
گذشتہ سال نیلام ہونے والے دنیا کے منہگے ترین فن پاروں میں دسویں نمبر پر بیسویں صدی کے مشہور امریکی مصور ’’نارمین راک ویل‘‘ کی 1951میں بنائی گئی تصویر’’Saying Grace ‘‘ کو رکھا گیا ہے۔ نیویارک کے ’’Sotheby’s‘‘ نیلام گھر میں 4کروڑ61 لاکھ ڈالر میں فروخت ہونے والے اس نایاب فن پارے کی قیمت کا تعین دو کروڑ ڈالر کیا گیا تھا۔

تاہم نیلامی میں یہ تصویر توقع کے برعکس دگنی سے زاید قیمت پر نیلام ہوئی۔ یہ تصویر ’’سیٹر ڈے ایوننگ پوسٹ‘‘ جریدے کے آرٹ ایڈیٹر کینتھ جے اسٹیورٹ سنیئر فیملی کے حوالے کی گئی ہے۔

اسی فہرست میں دسویں نمبر پر موجود دوسری تصویر امریکی مصور’’مارک رُتھ کو‘‘ کی “No. 11(Untitled)” ہے۔ مارک رُتھ کی1957میں بنائی گئی اس تصویر کو کرسٹیز آکشن ہاؤس میں 4کروڑ61 لاکھ ڈالر میں نیلام کیا گیا ہے۔ نارنجی کینوس پر بنے اس فن پارے کو دو دہائی بعد نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1991 میں کرسٹیز نیلام گھر میں ہی یہ فن پارہ 1کروڑ دس لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔

وہ آئے اور بدل ڈالا : بولی وڈ کی تاریخ اور انداز بدلنے والے اسٹارز

$
0
0

بولی وڈ دنیائے فلم کی دوسری بڑی انڈسٹری سمجھتی جاتی ہے۔

کہتے ہیں کہ یہاں فلاپ فلم بھی اپنے پیسے پورے کر لیتی ہے، اسی لیے ہر نوجوان خوا اس کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو اگر وہ فلموں کا شیدائی ہے تو وہ بولی وڈ میں قسمت آزمانا چاہتا ہے، لیکن یہاں پر قسمت ہر ایک پر مہربان نہیں ہوتی ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو سال ہا سال سے انڈسٹری میں کام یاب ہونے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کی ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے اور دوسری طرف ایسے خوش قسمت بھی ہیں جن پر قسمت ایسے مہربان ہوئی کہ وہ راتوں رات سُپرہٹ ہوگئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے انڈسٹری کی ابتدا سے لے کر اب تک کئی اسٹارز آئے اور چلے گئے۔

ان میں سے کئے ایک نے چند ہٹ فلمیں بھی دیں لیکن آج ان وہ سب گم نام ہیں اور انہیں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن کچھ قسمت کے دھنی ایسے بھی ہیں جنہیں انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ اور انداز بدلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ اسٹارز ہیں جنہوں نے ورسٹائلٹی سے بولی وڈ کو ایک نیا رحجان دیا۔ذیل میں چند ایسے ہی عظیم اداکاروں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

بلراج ساہنی: یہ وہ اداکار تھے جنہیں اسٹار ڈم سے کوئی غرض نہ تھی بل کہ ان کا مطمع نظر ہمیشہ ان کا کام ہی رہا ہے۔ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے وہ اچھی طرح ہوم ورک کیا کرتے تھے۔

بمل رائے کی لازوال فلم دو بیگھ زمین میں بلراج ساہنی نے رکشہ ڈرائیور کا رول کیا تھا اور اس کردار کو کرنے سے پہلے انہوں نے پورے دو ہفتوں تک کول کتہ کی سڑکوں پر رکشہ چلایا تھا۔ایک زمانہ ان کے کام کا مداح تھا۔

گرودت: گرودت نے اپنی فلموں میں ہمیشہ سادگی کا عنصر رکھا وہ بھی کردار کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہو تے اور رول میں جان ڈال دیا کرتے تھے۔

ان کی فلمیں پیاسا، کاغذ کے پھول، صاحب بی بی اور غلام اور چودھویں کا چاند ان کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی معرکۃ لآرا فلمیں تھیں۔ انہیں انڈسٹری میں ون میں آرمی بھی کہا جاتا تھا وہ بیک وقت پروڈیو سر ، ڈائریکٹر او ر ایکٹر تھے۔

دلیپ کمار: محمد یوسف خان جنہیں دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے بولی وڈ کی پوری فلمی تاریخ میں ان جیسا دوسرا اداکار اب تک پیدا نہیں ہوسکا۔ انہیں دنیائے فلم میں کلاسک ایکٹر کا مقام حا صل ہے۔ دلیپ کمار نے جب جب جو کردار کیا وہ ہٹ ہو گیا۔ یہاں تک کہ ان پر تنقید کرنے والے بھی انہیں صدی کا عظیم اداکار مانتے ہیں۔

یہاں تک کہ دلیپ کمار کا نام سب سے زیادہ ایوارڈ پانے والے ایکٹر کے طور پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے کم و بیش اپنی ہر فلم میں ایک مختلف اسٹائل اپنایا کیوںکہ وہ بلاشبہہ ورسٹائل ایکٹر ہیں۔ بلاشبہہ دلیپ کمار ایک مکمل انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے ہیں۔

راج کپور: ہندی فلمی دنیا میں راج کپور کو حقیقی شو مین مانا جاتا ہے۔ ان کی مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں تھی بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی جانے جاتے تھے۔ خاص طور پر روس میں ان کی فلم ’’میرا نام جوکر‘‘ کی نمائش کے بعد ان کے پرستاروں کا ایک بہت بڑا حلقہ پیدا ہو گیا تھا۔

ان کی فلمیں جیسے آوارہ ، شری چار سو بیس، بوٹ پالش اور انداز ان کی فنی صلاحیتوں کا نچوڑ تھیں۔ مشرقی اور مغربی انداز میں بنی ان کی فلموں میں گلیمر کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ ہوتا تھا جسے اس وقت کا فلم بین طبقہ دیکھنا چاہتا تھا۔

دیو آنند: اپنے آخری وقت تک فلموںمیں ہیرو آنے والے دیو آنند کو ایک رومانٹک ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ نقاد ہمیشہ انہیں سدا بہار ایکٹر کہتے رہے اور یہ سچ بھی ہے کہ دیو آنند اس وقت کے تمام ہیروز میں سب سے زیادہ ہینڈ سم سمجھے جاتے تھے۔

فلموں میں اس وقت بھی ہیرو آتے رہے جب ان کے ہم عصر ایکٹرز نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دیو آنند نے کبھی خود کو بوڑھا نہیں سمجھا۔ انہوں نے اپنی عمر سے کئی چھوٹی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا۔

راجیش کھنہ: کاکا جی کو انڈین فلم انڈسٹری کا پہلا باقاعدہ سپر اسٹار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اپنے فلمی دور میں 73گولڈن جوبلی ہٹ فلمیں دینے والے راجیش کھنہ کو انڈسٹری کا وراسٹائل ایکٹر کہا جاتا تھا۔

سولو ہیرو کے طور پر ان کی فلموں کی تعداد بے شمار ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کئی ملٹی اسٹاررز فلمیں بھی کیں۔ وہ ہر طرح کی فلموں میں پسند کیے جاتے تھے۔

امیتابھ بچن: بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مووی میکنگ کلچر پر راج کرتے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری سے اینگری ینگ مین کا خطاب پانے والے امیتابھ بچن کو لوگ آج بھی اسی طرح پسند کرتے ہیں، جس طرح ان کے فلمی عروج کے دور میں کیا کرتے تھے۔ کیریر کے آغاز میں چند فلاپ فلمیں دینے والے اس اداکار نے پرکاش مہرہ کی بلاک بسٹر فلم زنجیر سے جو کام یابی اور مقبولیت کا سفر شروع کیا۔

وہ اب تک جاری ہے۔ اپنے چار دہائیوں پر مشتمل کیریر میں امیتابھ نے ہر طرح کے کردار اپنے آپ کو اس مقام تک لا کھڑا کیا ہے، جس کے خواب ہر اداکار دیکھتا ہے۔ وہ نہ صرف اداکار بل کہ انہیں لوگ سپر اسٹار، میگا اسٹار، شہنشاہ، اسٹار آف دی میلینیئم، لیجنڈ، آئی کون وغیرہ کے ناموں سے بھی جانتے ہیں۔

سلمان خان: سلمان خان اک کی نسل کا چہیتا اور پسندیدہ اداکار ہے، حالاںکہ ان پر تنقید کرنے والے ہر ممکن طریقے سے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

2012 میں دبنگ ، باڈی گارڈ، ریڈی اور ایک تھا ٹائیگر جیسی سپر ہٹ فلمیں دے کر اپنے خلاف لابی کرنے والوں کے منہ بند کردیے اب وہ ایک فلم کا معاوضہ ایک کروڑ لے رہا ہے۔ سلمان کے پرستار یہ جانتے ہیں کہ ان کی فلموں کی کامیابی کا راز صرف سلمان کی سحر انگیز شخصیت ہے۔

عامر خان: مسٹر پرفیکشینسٹ کے نام سے جانے والے عامرخان انڈسٹری کے وہ اداکار ہیں، جن کی آنے والی ہر فلم کا انتظار شائقین فلم نہایت بے چینی سے کرتے ہیں، کیوںکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سال میں ایک فلم ہی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ انہیں ان کی فنی خدمات پر پدما شری اور پدما بھوشن ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائم میگزین میں 100بااثر شخصیات میں عامر کا نام بھی شامل کیا گیا۔ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کی بنا پر ان کا موازنہ ہالی وڈ کے سپر اسٹار جونی ڈیپ سے بھی کیا جاتا ہے۔

شاہ رخ خان: شاہ رخ خان دہلی سے ممبئی اپنی قسمت آزمانے اور اپنا پیار پانے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے کیریر کی ابتدا میں بے انتہا محنت کی جب وہ ممبئی آئے تھے، تو ان کے پاس رہنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی تھی اور رات فٹ پاتھ پر سو کر گزارتے تھے۔

آج بائیس سال گزر جانے کے بعد لوگ انہیں انڈسٹری کے بادشاہ کے نام سے جانتے ہیں۔ شاہ رخ خان وہ واحد اداکار ہیں جن کو ملنے والے ایوارڈز کی تعداد دلیپ کمار کے ایوارڈ کی تعداد کے برابر ہے۔ انہیں دنیا کا سب بڑا مووی اسٹار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

مدھو بالا: آج کی نسل کی کئی اداکارائیں مدھو بالا کی کاپی کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس چارم اور گریس تک نہیں پہنچ پائی جو ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔

وہ حسن وذہانت کا شاہ کار تھیں، جب کہ ان کی فنی صلاحیتیں بھی کسی سے چھپی نہ تھیں۔ ہاوڑہ برج، چلتی کا نام گاڑی، مسٹر اینڈ مسز55 اور مغل اعظم ان کی بے مثال اداکاری سے مزین لازوال اور یادگار فلمیں ہیں۔ وہ پہلی انڈین اداکارہ تھیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر کام یابی کا مزہ لیا تھا۔

نرگس دت: کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر نرگس نہ ہوتیں تو آر کے بینر کا بھی وجود نہ ہوتا، کیوں کہ اس ادارے کے بینر تلے ابتدا میں جتنی فلمیں بھی بنیں جیسے کہ شری چار سو بیس، آوارہ، مدرانڈیا، انداز اور چوری چوری میں راج کپور کے ساتھ نرگس کی اسکرین کیمسٹری اور ان کی اداکارانہ صلاحیتیں اپنے عروج پر تھیں۔

دلیپ کمار کے ساتھ میلہ اور جوگن بھی کام یاب فلمیں تھی لیکن نرگس کی فنی زندگی کا سارا نچوڑ ان کی فلم مدر انڈیا میں تھا۔ یہ فلم آسکر کے لیے بھی نام زد کی گئی تھی۔

ریکھا: بنگال کی ساحرہ ریکھا کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ آج وہ پچاس سال سے بھی زیادہ عمر کی ہوچکی ہیں لیکن اپنی فٹنیس اور چہرے کی تروتازگی کے باعث تیس سال کی نظر آتی ہیں۔

ریکھا نے کمرشیل فلموں کے ساتھ ساتھ آرٹ فلموں بھی کام کیا۔ خوب صورت، امراؤ جان، آستھا، اجازت، ان کے کیریر کی یاد گار فلمیں ہیں۔ پراسرایت ریکھا کی شخصیت کا وہ حصہ ہے جو انہیں اور پر کشش بناتا ہے۔

زینت امان: بیوٹی کوئن زینت امان کا شمار انڈسٹری کی ان چند اداکاراؤں میں ہوتا ہے ۔

جنہوں نے انڈین فلموں میں روایتی ہیروئین کے امیج کو ختم کیا اور ایک نئے انداز سے فلم کی ہیروئن کو متعارف کرایا۔ اپنی بولڈ پرفارمینس کی بنا پر لوگوں نے انہیں ہمیشہ یاد رکھا۔ قربانی، دھرم ویر، ہرے رام ہرے کرشنا ان کی بولڈ فلموں میں شمار کی جاتی ہیں ۔

مادھوری ڈکشٹ: ان کا موازنہ اکثر اداکارہ مدھو بالا سے کیا جاتا ہے اور انڈسٹری میں دھک دھک گرل کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ مادھوری کی دل موہ لینے والی مسکراہٹ، اس کی جاذب نظر شخصیت دوسری تمام ہیروئنز سے ممتاز کرتی ہے۔

مادھوری وہ واحد اداکارہ جو دیگر ہیروئنز کی نسبت سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہو چکی ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔

کاجول: ایسی بہت ہی کم اداکارائیں ہیں جن کا فلمی کیریر شادی کے بعد بھی ہٹ رہتا ہے اور ان کی مارکیٹ ویلیو کم نہیں ہوتی۔

کاجول کا شمار ایسی ہی ہیروئنز میں ہو تا ہے۔ خاص طور پہ شاہ رخ خان کے ساتھ اس کی ہر فلم نے کام یابی حاصل کی۔ ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ کے بعد وہ نوجوان نسل کی پسندیدہ اداکارہ کا درجہ حاصل کر چکی تھی، لیکن کاجول کی شہرت اور کام یابی صرف اس کی فلموں کی مرہون منت نہیں، بل کہ اس کی نرم مزاجی، زندہ دلی، شائستہ اطوار اور شگفتگی اسے ہر دل عزیز شخصیت بناتی ہے۔

استفسارکرنا ۔۔۔سماج کی زندگی

$
0
0

ہم اپنی گفتگو کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں، اظہار یا استفسار۔ ہم دوسروں کو کچھ بتا رہے ہوتے ہیں، یا کسی سے کچھ پوچھ رہے ہوتے ہیں۔

سوالات کے ذریعے ہی ہم اپنے تصورات کو واضح کرتے اور کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کر پاتے ہیں۔ سوال کو شعور کا پہلا اور آخری ہتھیار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سوال ہوگا تو مکالمہ ہوگا، مکالمہ ہوگا تو کسی نئے سماجی شعور کے امکانات ہوں گے۔ سوال فرد کی قابلیت کا عکاس ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کے بارے میں آگہی کے لیے ہمارا ذہن سوالات اٹھانا شروع کر دیتا ہے، اور ہم اس پیاس کو بجھانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں۔

صحافی کا تعلق چوں کہ حالات حاضرہ اور اس سے جڑے معاملات سے ہے، لہٰذا اسے مختلف سوالات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بہت سے امور کے بارے میں پوچھا جانا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ دھندلکوں میں پڑی چیزوں کی وضاحت درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ امور کسی فرد کے اختیارات یا ذمہ داریوں میں آتے ہیں یا پھر وہ اس مسئلے پر کچھ ثبوت اور ایسی معلومات رکھتا ہے، جو کہ لوگوں کو نہیں پتا۔ یہ تمام چیزیں ایک نامہ نگار یا صحافی کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس سے سوال کرے، لیکن اس سوال کو بہت سے اخلاقی ضابطوں اور معاشرتی پیمانوں کا پابند ہونا چاہیے۔ جس میں اسے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کا انداز جابرانہ اور حاکمانہ ہو، کیوں کہ صحافی کو یہ حق کسی طور نہیں کہ وہ تفتیشی افسران کے انداز میں اس سے پوچھ گچھ کرے کہ گویا وہ کوئی ملزم ہو۔ سوال اجتماعی امور سے متعلق ہونا چاہیے۔ اگر کسی کا ذاتی انٹرویو کیا جا رہا ہے، تب بھی بہت شایستہ انداز میں اس سے ذاتی سوالات کرنے کی اجازت لینا چاہیے اور اس کے جواب نہ دینے کے حق کا بھی احترام کرنا چاہیے۔

جواب کے لیے درخواست تو کی جاتی ہے،لیکن مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے سوالات کے جواب میں دانستہ بات کو اِدھر اُدھر کر دیا جاتا ہے، کیوں کہ بہت سے لوگ براہ راست سوال کو روکنے کے بہ جائے ایسا کرتے ہیں۔ دوسری طرف جب کسی سوال پر بنا کسی عار کے جواب دینے والا جواب دے دے، لیکن اس سوال پر ملنے والے جواب کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی تنازع یا مسئلہ کھڑا ہوجائے، جس کے بعد سوال پوچھنے والے صحافی کو مطعون یا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ دراصل اس کی وجہ سے یہ آگ لگی۔ نہ وہ یہ سوال کرتا اور نہ ہی یہ تمام صورت حال پیدا ہوتی۔۔۔! یہ نہایت عجیب وغریب صورت حال ہے، کیا ایک عام شہری کی حیثیت سے کسی کو سوال پوچھنے کے حق سے اس طرح روکا جا سکتا ہے۔۔۔؟ کیا یہ جواز ایک صحافی کو کسی استفسار سے روک سکتا ہے کہ اس کے جواب نے اتنا بڑا تنازع پیدا کر دیا، جب کہ اس نے تو صرف ایک چیز جاننے کی کوشش کی۔۔۔ یا کسی چیز کو بے نقاب کیا۔ سوال پوچھنے والے کو ذمہ دار قرار دینا ایسا امر نہیں کہ جیسے کسی مرض کی تشخیص کرنے والے معالج کو اس کا الزام دیا جانے لگے کہ اگر یہ اس کی تفتیش نہ کرتا تو پتا ہی نہ چلتا! یعنی مرض کے ہونے سے زیادہ اس کا پتا چلنا برا سمجھا جائے۔ اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا کہ ایک صحافی نے اپنے سوال پوچھنے کے حق کو ہی استعمال کیا ہے۔

جواب دینے والے کو مکمل اختیار تھا کہ وہ اس کا جواب دینے سے انکار کر دیتا، لیکن اس نے نہ صرف یہ جواب دیا بلکہ وہ اس کے بعد بھی اس پر قائم ہے۔ اس کے جواب کو تو حق اظہار اور اختلاف رائے کے حق کے طور پر لینا چاہیے۔ اس لیے سوال پوچھنے والے پر الزامات دھرنے کے بہ جائے سماج کے عدم برداشت کا کوئی علاج کرنا چاہیے، نہ کہ اس غیرعلمی سوچ کا پرچار کریں کہ دراصل یہ سوال پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے تھا! جب کہ سوال کے ذریعے کسی بھی پہلو کی وضاحت ہوئی یا کسی کا موقف واضح ہوا۔ ایسی صورت میں جب کسی سوال کے جواب میںکسی نئی بحث کا آغاز ہو یا کسی کے خیالات کے بارے میں پتا چلے، مگر اس کے بعد تنقید کا یہ انداز اختیار کیا جائے کہ یہ سوال تو پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے تھا، جب کہ سوال پوچھنے والے نے تو صرف اپنا حق استفسار استعمال کیا۔ اسے کس طرح الزام دیا جا سکتا ہے۔ بات تو اس کے ذریعے سامنے آنے والی بات یا موقف پر کی جانی چاہیے کہ اس نے ایسا کیوں کہا اور سماج میں اس کی سہار کیوں کر موجود نہیں۔ دراصل معاشرے کے مخصوص طبقے کی یہ سوچ کچھ اسی طرح کی ہے جو چاہتے ہیں کہ خلق خدا آنکھیں میچے رہے اور کوئی سوال لوگوں کی موندی آنکھوں کو نہ کھول دے۔ وہ اگر الجھنوں، ابہام اور دھندلکوں کی دبیز تہہ میں پڑے ہیں تو انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے۔

سوال پوچھنے کا حق حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر سوال سے ہی بہت سی معلومات ملتی ہیں، اور جہل کا خاتمہ ہوتا ہے، بہت سے غیرمناسب اور غیرمنطقی سوالات اس کے برعکس کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ یہ سوالات بعض اوقات افراد کے درمیان نزاعی صورت حال پیدا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔ اس کی پہلی صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ دانستہ ایسے نازک مسئلے پر آگ لگانے کی کوشش کی جائے، جس سے فقط سستی شہرت حاصل کرنا مقصود ہو، بعض اوقات سوال پوچھنے والے کے الفاظ، لہجہ اور انداز ہی جواب کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔ یا سوال کی بُنت ایسی ہوتی ہے، جس میں پہلے ہی ایک چیز طے کر لی ہوکہ یہ معاملہ ایسا ہے، اب یہ بتائیے کہ فلاں چیز کیوں کر ہے؟ اس سے سوال پوچھنے والے کی جانب داری واضح ہے یا پھر وہ من چاہا جواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ بھونڈے سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں، جیسے کسی حادثے اور دہشت گردی میں زخمیوں سے یہ پوچھا جانا کہ آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ یا کسی چیز کا بہت زیادہ قبل ازوقت اپنے تئیں کوئی نتیجہ اخذ کیے بیٹھنا کہ یہ ایسا ہوگا وغیرہ۔ یہاں تو سوال پوچھنا قابل تنقید ہو سکتا ہے، لیکن کوئی ایسا معاملہ جو سیدھا سا سوال ہو اور اسی طرح اس کا جواب واضح اور عیاں ہو، اس کے باوجود کہا جائے کہ نہیں یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا، اس سے سماج میں انتشار پھیلا۔ یہ قطعی غیرصحت مندانہ رویہ ہے۔ یہاں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اس سوال کے پوچھے جانے سے پہلے اس موضوع پر مبہم صورت حال معاشرے کے لیے باعث انتشار نہیں تھی؟ سوالات تو پوچھے جاتے ہیں اور پوچھے جانے چاہئیں۔ کسی بھی سوال پر روک لگا کر معاشرے کو گٹھن زدہ بنانا مسئلے کا کوئی حل نہیں، بلکہ معاشرے کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ مزید سوالات اٹھائے اور پھر اس کے جواب پر مشتعل ہونے کے بہ جائے خندہ پیشانی سے اختلافانہ رائے کو برداشت کرنے کا ظرف پیدا کرے اور مکالمے سے اس کا مقابلہ کرے۔

صحافت کا سماجی ذمہ داری کا نظریہ غیر ذمہ دارانہ سوالات سے روکتا ہے، لیکن ذرایع ابلاغ اور صحافیوں کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے فقدان کی وجہ سے غیر ذمہ دارانہ سوالات بھی پوچھ لیے جاتے ہیں۔ جیسے ایسے سوالات جن کے بارے میں قطعی دو رائے نہیں ہوتیں کہ اس کا جواب کیا آنا ہے۔ بولنے والی شخصیت، موضوع اور سماج کی حساسیت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ بہت سنبھل کر سوال کیے جائیں، تاکہ معاشرے میں بے چینی اور اشتعال نہ پھیلے، کسی بھی طبقے اور گروہ کی دل آزاری نہ ہو، کیوں کہ آزادی اظہار کی بڑی سے بڑی آزادی بھی کبھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔

اگر سوال کسی مطبوعہ ذریعہ ابلاغ کے لیے کیا جا رہا ہے، تو اسے متن سے حذف کیا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کسی پروگرام کے لیے گفتگو براہ راست نہ ہو تو، اس کی بھی کتر بیونت آسان ہے، لیکن اگر برقی ذرایع ابلاغ میں گفتگو کا سلسلہ براہ راست ہو، کوئی پریس کانفرنس یا تقریب براہ راست نشر کی جا رہی ہو، تب صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے درمیان پوچھے جانے والے سوال کا جواب اگر صحافی نہ بھی شایع یا نشر کرے، وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ سماجی ویب سائٹس کے توسط سے اس طرح کی چیزوں کو اور بھی فروغ ملا ہے۔ کسی گڑبڑ پھیلانے والے جواب کو اسی صورت میں شایع اور نشر ہونے سے روکا جا سکتا ہے کہ جب وہ براہ راست نہ ہو۔ دوسری طرف خلقت میں پھیلنے سے روکنے کی بھی واحد صورت یہ ہے کہ یہ سوال جواب کسی علیحدہ روبرو نشست میں چل رہے ہوں۔ بصورت دیگر سوالات میں احتیاط برتنی چاہیے۔

مجموعی طور پر ہمارے ہاں خبروں کی سطح پر مختلف چھوٹے بڑے واقعات اور معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائے جانے کا رجحان نہیں۔ کوئی تازہ خبر ایک دم سے بھر پور جگہ لیتی ہے، لیکن جوں ہی وقت کی گَرد پڑتی ہے، فوراً نئی خبریں اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔ خبروں کے منطقی انجام تک پہنچنے کی آگاہی سوالات کی ہی مرہون منت ہے، مگر اکثر صحافی تازہ ترین خبر پر ہی زیادہ توجہ دیتے نظر آتے ہیں۔

جاننے کے حق کے حوالے سے اگر ہم اپنے مجموعی طور پر بڑے بڑے واقعات کا جائزہ لیں تو ہماری تاریخ کا کتنا ہی بڑا واقعہ کیوں نہ ہو وہ ’’نوٹس لے لیا، رپورٹ طلب کرلی، تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی‘‘ سے آگے کبھی شاذ ہی بڑھ پاتا ہے۔ اگر کوئی منطقی انجام بھی ہو تو اسے اتنے دھندلکوں میں چھپا دیا جاتا ہے کہ سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے۔ دوسری طرف برقی ذرایع ابلاغ میں جوں ہی کسی تازہ ترین خبر کا نقارہ بجتا ہے اور نامہ نگار کسی وقوعے کی تفصیلات دے رہا ہوتا ہے تو اس سے اسٹوڈیو میں بیٹھا میزبان جو سوال کرتا ہے، وہ نہایت بھونڈے اور بعض اوقات نہایت مضحکہ خیز اور بچکانہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سوال پوچھے جانے کے لیے بھی واضح مہارت لازم امر ہے۔ ایک اچھا اور باخبر صحافی ہی کسی ایسی صورت حال میں اچھے سوالات کے ذریعے اپنی معلومات پوری کر سکتا ہے۔ وہ جانتاہے کہ اس خبر کو کن سوالوں کے ذریعہ ہم جہت بنایا جاسکتا ہے۔ یوں ایک کام یاب صحافی بے دار ذہن کے ساتھ بروقت معلومات حاصل کرتا ہے۔

٭سوالات۔۔۔ کلیدِ جمہوریت
سوالات کو معاشرے کی زندگی کہا جاتا ہے۔ اگر سوالات نہ اٹھیں تو اس کا مطلب ہے کہ افراد زندگی سے پرے ہو رہے ہیں۔ کسی سے دوستی کرنا ہو۔۔۔ کوئی نیا رشتہ قایم کرنا ہو۔۔۔ کسی کو ملازمت دینا ہو، ہر راہ سوالات کے جواب کے بعد ہی چنی جاتی ہے۔۔۔ دوران تدریس طلبا کے سوالات صرف انہیں ہی نہیں بلکہ بعض اوقات اساتذہ کو بھی فکر کی نئی راہیں دکھاتا ہے۔ تعلیمی سلسلے میں سوالات کے اسی سلسلے کو امتحان کہا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جتنے سوالات اٹھائے جائیں گے، وہ معاشرہ اُتنا ہی زندہ اور متحرک کہلائے گا۔ اجتماعی سطح پر یہ جمہور کے شعور کی خبر دیتا ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے سوال اٹھاتے ہیں اور بالادست لوگوں کو جوابدہی پر مجبور کرتے ہیں۔ سیاسی سطح پر اس فکر کی موجودگی اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر سوالات اٹھائے جانے بند ہو جائیں تو با اختیار لوگوں کی بے لگام آزادی نچلے طبقوں کے استحصال کی انتہا پر پہنچا دے گی۔

٭ ’’خبردار۔۔۔ یہ سوال نہ کرنا!‘‘
دنیا کے بہت سے جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں سوال اٹھانے پر پابندی ہے۔ کہیں سرکار کے کسی اقدام کے حوالے سے نہیں پوچھا جا سکتا۔ کہیں کسی مذہبی معاملے پر سوال اٹھانے کی ممانعت ہے۔ کہیں امور ریاست، نظریہ ریاست اور ریاست کی تاریخ پر سوال اٹھانا منع ہوتے ہیں۔ یہی نہیں جمہوریت کے باوجود بہت سے جمہوری ممالک میں بھی سوال اٹھانے کے لیے بہت سی چیزیں بدستور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر شجر ممنوعہ رہ جاتی ہیں۔ کچھ کو ’’حساسیت‘‘ کا پہناوا دیا جاتا ہے اور کسی کو ’’نزاکت‘‘ کا پیرہن۔۔۔ کچھ ’’مداخلت‘‘ کہہ کر رد کی جاتی ہیں اور ’’مداخلت‘‘ کے مرتکب لوگوں سے سختی سے ’’نمٹا‘‘ بھی جاتا ہے۔ معلوم اور نامعلوم قوتیں سوال پوچھنے اور سوال اٹھانے کی پاداش میں اسے بھیانک انجام سے دوچار کرتی ہیں۔ کسی پردہ نشیں کا نام بھی ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے جامے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں دفاعی اخراجات مکمل اور جزوی طور پر راز رکھے جاتے ہیں۔ مختلف ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں، جس کی گہرائی میں اُترنے نہیں دیا جاتا۔ کسی مسئلے کے ایسے سِرے کو پکڑنے پر پہرہ ہے، جس سے بہت سی الجھنیں سلجھ جانے کا اندیشہ ہو اور ڈھول کا پول کھل جائے۔ اَسرار کے دبیز پردوں کے پیچھے دبی ہوئی کوئی دستاویز جو ایسا کچھ کرنے جا رہی ہو، جس سے رکھوالوں کی رکھ والی لرزہ براندام ہو۔۔۔ اختیار والوں کی حکم پر چوٹ پڑتی ہو۔۔۔ یا کسی حادثے کی وجہ، کسی تجویز کا محرک اور کسی واقعے کا ذمہ دارسے متعلق بھی ایسی معلومات ہوتی ہیں، جن سے متعلق طاقت وَر قوتیں نہیں چاہتیں کوئی جان پائے۔

٭سماجی ذرایع ابلاغ۔۔۔۔اَن کہے سوالات کی زنبیل
قارئین، سامعین اور ناظرین کو یہ شکایت ہے کہ ان کے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینل کسی معاملے پر بعض اوقات بہت سادہ سے سوالات اٹھانے پر کیوں گریزاں ہیں، چناں چہ وہ اپنے ذریعہ ابلاغ کو ہتھیار بناتے ہوئے سماجی ذرایع ابلاغ پر اس حوالے سے لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہیں اور اب فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ جیسے سماجی ذرایع ابلاغ کے توسط سے اٹھائے جانے والے سوالات کی بازگشت عام ذرایع ابلاغ پر بھی سنائی دیتی ہے۔ یعنی سماجی ذرایع ابلاغ اَن کہے سوالات کی ایک بہت بڑی زنبیل بن چکا ہے۔ کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں، جو اس سطح پر موضوع نہ بنے۔ بالخصوص کسی بھی معاملے کے نئے پہلو وا کرنے اور تشنہ پہلوئوں پر نئے سوالات کے حوالے سے یہ بہت اہم جانا جا رہا ہے۔ اس طرح اَن چھوئے سوالات کا دائرہ روز بہ روز سکڑتا جا رہا ہے اور سماجی ذرایع ابلاغ پر روزانہ اور ہر لمحہ جاری رہنے والی گفتگو میں ہر وقت نت نئے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، یوں معاشرے کے سوالات کسی نہ کسی سطح پر سفر کرتے ہوئے اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہیں۔

٭ مخصوص سوالات پر قدغن۔۔۔
ہمارے ہاں صحافیوں کے سخت سوالات پر معاشرے میں سرگرم مختلف فشاری گروہوں کی جانب سے تشدد کیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مختلف نام وَر شخصیات بھی سخت سوالات پر منہ بناتی ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ صرف ان کی مرضی کے سوالات پوچھے جائیں۔ بہت سی پریس کانفرنسوں میں بھی پیشگی ’’ہدایات‘‘ دے دی جاتی ہیں کہ سوالات کا رخ کس جانب زیادہ رکھنا ہے اور خبردار! اس قسم کا سوال نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ’’بہادری‘‘ دکھائے تو پھر اسے اس جہاد کی قیمت بھی چُکانا پڑتی ہے۔ آئے روز پریس کانفرنسوں میں تیکھے سوال پوچھے جانے پر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سے صحافی نئے نئے سوالات کی کرید میں اپنے جیون کو گھائو لگا بیٹھے۔

٭عام زندگی میں سوالات
ہماری نجی زندگی میں بھی گفتگو سوال جواب سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد کسی چیز پر اظہار خیال، تبصرہ، اتفاق اور اختلاف کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ نئے ملنے والے دوست احباب ظاہر ہے اپنے مخاطب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، مخاطب سے شناسائی نئی ہو یا بہت دن بعد روبرو آئے ہوں، تاہم یہ سوالات بھی حدود وقیود کے پابند ہیں۔ سوالات پوچھے جانے کا انحصار دو اشخاص کے درمیان استوار تکلف اور بے تکلفی پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت سے اس کی عمر اور مرد سے اس کی تنخواہ سے متعلق سوال نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی بہت قریبی فرد ہو تو وہ اس بارے میں بھی پوچھ سکتا ہے، لیکن بہت سے لوگ پہلی ملاقات میں ہی ذاتیات کی گہرائی میں اتر کر اپنے مخاطب کو اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہر معاشرے میں مختلف روایات کی بنا پر کچھ نہ کچھ سوالات مناسب نہیں سمجھے جاتے۔ کہیں ذات، گھر اور خاندان، فرقہ و مسلک تو کہیں سیاسی وابستگی کے بارے میں جاننا معیوب ہوسکتا ہے۔

ارد شیرکاوس جی: جن کی تحریریں جرأت، بصیرت اور روشن خیالی کا نمونہ تھیں

$
0
0

 ایسے دور میں جب ہماری صحافت سے راستی کا رواج ختم ہورہا ہے،ایسی تحریروں کا سامنے آنا خوش آیندہے جنھیں حق گوئی وبیباکی کا بہترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

لکھنے والا وہ جس کی زبانِ قلم ہزارخوف کے باوجود دل کی رفیق رہی ۔وہ حقیقی معنوں میں کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے۔بات ڈنکے کی چوٹ کہنے کا ہنرجاننے کے خواہش مندوں کو اردشیر کاوس جی کے سوا دو سوکالموں پر مشتمل مجموعے “Vintage Cowasjee”کولگ کرپڑھنا چاہیے ،جس کو ان کی دوست امینہ جیلانی نے مرتب کیا ہے۔ ارد شیر کاوس جی کی تحریروں میں تمام ترہمدردی مظلوم سے مخصوص اور لڑائی ظالم کے ساتھ نظرآتی ہے ۔ان کی نگارشات اس سادہ سی حقیقت کی ترجمان ہیں کہ دنیا میں طبقات دو ہی ہیں:ظالم اور مظلوم۔باقی باتیں اضافی ہیں مگربالادست زیردستوں کو اور ہی باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ ان کا دھندہ چلتا رہے۔ممتازشاعرظفراقبال کا شعرہے:

مجھے دیا نہ کبھی میرے دشمنوں کا پتا
مجھے ہوا سے لڑاتے رہے جہاں والے

کاوس جی کی تحریریں عوام کو اصل دشمنوں کے بارے میں بتاتی ہیں ۔وہ ہمارے ہاں کے ان چنیدہ دلاورقلم کاروں میں سے تھے، جو بدی کی قوتوں کے سامنے خم ٹھونک کرسامنے آتے اورستم زدگاں کے کندھے سے کندھا ملاکرکھڑے ہوتے ۔ ضمیر کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھتے۔منتخب سچ بولنے سے مجتنب رہتے۔حقائق بلاکم وکاست بیان کرتے۔ وہ قائد اعظم کے تصورات سے بہت متاثر تھے اور انھی کی روشنی میں پاکستان کو آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے تھے۔قرارداد مقاصد کو وہ قائد اعظم کی راہ سے انحراف جانتے اور قائداعظم کی 11اگست1947 کو قانون سازاسمبلی میں تقریرکے مندرجات پرعمل پیرا ہونے میں قوم کی نجات خیال کرتے، جس میںبانیٔ پاکستان نے ریاست کی اولین ذمہ داری شہریوں کے جان ومال کا تحفظ قراردیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں طور پراپنے اپنے عقائد کے مطابق، زندگی بسرکرنے کی اجازت ہوگی۔افسوس!ہمارے ہاں، اس کے بالکل الٹ ہوا اور اب صورتحال میں سدھار کے بجائے اور ابتری آگئی ہے ، اقلیتوں کوتوچھوڑ ہی دیں، مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔

کاوس جی کا یقین تھا کہ سچ بولے بغیر قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔اپنے ایک کالم میں انھوں نے لکھا کہ اہل پاکستان نے خود کو یقین دلا رکھا ہے کہ سچائی ایک نایاب اور قیمتی شے ہے، جسے انتہائی تنگ دلی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ جرأت مندی کاوس جی کی تحریر کا بنیادی وصف ضرور ہے لیکن ساتھ میں دوسری امتیازی خوبیوں نے بیان اوربھی زورآور بنادیاہے۔وہ جس موضوع پرقلم اٹھاتے،اس کا گہرا ادراک انھیں ہوتا۔معلومات کا انبار بڑے سلیقے اور منظم طور سے صفحے پربکھیرتے چلے جاتے۔بیچ بیچ میںکاٹ دار جملے پڑھنے کو ملتے۔صاف شفاف ذہن سے تجزیہ کرتے۔ ان کی تحریروں کے موضوعات میں جس قدرتنوع رہا، اس عہد کے شاید ہی کسی دوسرے لکھنے والے کے ہاں ملے۔ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کی کرپشن پران کا قلم خوب چلتا۔ ان کی تحریروں کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قوم نے اپنی صورت کو کس قدربگاڑ لیا ہے، اور اسی بنا پر کاوس جی کے خیال میں ہم مہذب کہلانے کے حق دارنہیں۔

کاوس جی کوحادثاتی کالم نویس قراردیا جاسکتا ہے۔1984ء میں فلیگ اسٹاف ہاؤس کی تزئین وآرائش کے حوالے سے کالم لکھا تو پھران کا قلم رواں ہوگیا۔اس کے بعد تواترسے’’ ڈان‘‘ میں ایڈیٹر کے نام خطوط شائع ہونے لگے،جنھیں قارئین نے سراہا۔ ۔1988ء میں انھوں نے کچھ دوستوں کی تحریک پر ’’ڈان ‘‘کے ایڈیٹر احمد علی خان کو کالم بجھوائے جو انھیں پسند آئے اور پھر ان کے ہفتہ وارکالم کا سلسلہ شروع ہوگیاجو تقریباً بائیس برس جاری رہا۔ ان کے بقول: ’’ہرہفتے لکھنا ایک طویل اور تھکا دینے والا کام ہے مگراس کا فائدہ بھی ہے۔لکھے گئے کالموں میں کئی واقعات ریکارڈ ہوجاتے ہیں اور ان جھروکوں سے ماضی میں جھانکنا اچھا لگتاہے۔‘‘ معروف صحافی خالدحسن کے مرنے پرکالم میں انھوں نے ان کی ویب سائٹ کے سرنامہ پر درج، چراغ حسن حسرت کا یہ بیان دہرایاکہ ’’کسی کو بھی صحافیوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے ، خاص طور سے خود صحافیوں کو کہ ان کا لکھا صبح جس اخبار میں چھپتا ہے وہ شام میں مچھلی لپیٹنے کے کام آتا ہے۔‘‘ اس سے ملتی جلتی مثال انھوں نے اپنے آخری کالم میں بھی دی ’’ برنارڈ لیون ، جنھوں نے1970سے لے کر1997ء تک لندن ٹائمز کے لیے بہت عمدہ کالم لکھے، ایک مرتبہ کالم نگاروں کوبیکری والے قرار دیا تھا۔ بیکر ہرصبح تازہ بریڈ بناتے ہیں اور یہ استعمال ہوجاتی ہے، اور اس کے بعدپھرایک اور صبح اور نئی بریڈ۔چنانچہ کالم بھی وہ تازہ بریڈ ہوتے ہیں، جو ہضم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد اخبارات کو پڑھ کرپھینک دیا جاتا ہے۔‘‘

اردو شیر کاوس جی کے کالموں سے جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں، ان میں سے چند ایک کا ہم ذکر کئے دیتے ہیں۔ان تحریروںمیںغلام مصطفی کھرکے فرزند ارجمند بلال کھر کا ذکربھی ہے،جس نے بیوی پرتیزاب پھینک کرمردانگی کا ثبوت دیا۔ مختاراں مائی کی داستان غم کا بیان بھی ہے،اورجنرل (ر)پرویز مشرف کا وہ فرمان عالی شان بھی، کہ ہمارے ہاں! ویزے اور دولت کمانے کے لیے بھی ریپ کروالیا جاتا ہے۔غیرت کے نام پرجان سے گزرنے والی مظلوم بیبیوں سے انھیں ہمدردی ہے۔ گمشدہ افراد کے مسئلے پروہ آوازبلند کرتے ہیں۔حاکم وقت کے شہر میں ورود سے خلق خداکو جس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے، اس اہم مسئلے پربھی قلم کو جنبش دیتے ہیں۔کراچی میں گٹرباغیچہ بچاؤتحریک کے روح رواںنثاربلوچ کا نوحہ بھی لکھتے ہیں،جو قبضہ مافیا کے گلے کی پھانس بن چکے تھے۔ماحول میں زہرگھولنے والوں کے بارے میں قلم حرکت میں آتاہے ۔ٹمبرمافیاکو بے نقاب کرتے ہیں۔درختوں کا کٹنا انھیں آزردہ کرتا ہے۔ بچھڑنے والے احباب کودرمندی سے یاد کرتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ سے متعلق ایسی معلومات بھی سامنے لاتے ہیں،جوعام نظروں سے اوجھل ہیں ، جیسا کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات سے ایوب خان کی امریکیوں کو یہ یقین دہانی کہ اگروہ چاہیں تو پاکستانی فوج ان کی فوج بن کرکام کرسکتی ہے۔وہ ان دو جرنیلوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، جونوازشریف کے پاس پاس ڈرگ ٹریڈ سے متعلق ایک منصوبے کی منظوری لینے آئے اور بے نیل مرام واپس لوٹے۔ وہ اس نام نہاد بااصول مرحوم صدر کے داماد کا کچاچٹھا بھی کھولتے ہیں۔

جس نے پیپلزپارٹی کو سبق سکھانے کے لیے جام صادق علی کی جلاوطنی ختم کراکر وزیراعلیٰ بنوایااور بقول کاوس جی اس بات کا ملحوظ نہ رکھا کہ اس سے سندھ کے عوام کس قدر خسارے میں رہیں گے 1988ء میں پیپلزپارٹی کاراستہ روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے میں بھی جناب غلام اسحاق خان کی کوششوں کو دخل تھا۔ اس اتحاد کی تشکیل میں کردار کے بارے میں جنرل (ر) حمید گل کے اعتراف اور ایم کیو ایم حقیقی کو وجود میں لانے کا جنرل (ر) جاوید ناصر نے جو کریڈٹ لیااس کا حوالہ بھی کاوس جی دیتے ہیں۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صحافیوں سے ناراض ہوکرلندن سے جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ان کو تو اب الیکٹرانک میڈیا کے طفیل ہم سب سن لیتے ہیں۔وہ جس زمانے میں پاکستان میں تھے،تب بھی اہل قلم پرگرجا برسا کرتے، ایسی ایک مثال کاوس جی نے اپنے کالم میں دی ہے،جس کے مطابق1990ء کی الیکشن مہم کے دوران جرات مند صحافی رضیہ بھٹی کی ادارت میں نکلنے والے’’ نیوزلائن‘‘ کے ایک مضمون پر الطاف حسین نے ایک جلسے میں دھمکی آمیزلہجے میں اس جریدے کی ٹیم کے بارے میں خاصی سخت گفتگو کی تھی ۔آئین ساز ذوالفقارعلی بھٹو نے کس انداز میں مختصرسے عرصے میں من مرضی کی ترامیم سے آئین کاحلیہ بگاڑااس بابت بھی بتاتے ہیں، اور اسی دور میں سانگھڑ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی گرفتاری کے شرمناک واقعہ کا ذکربھی کرتے ہیں۔1997ء میں سپریم کورٹ پرحملہ پاکستانی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پریاد رکھا جائے گا۔اس حملے کے ذمہ دار کاوس جی کی کڑی تنقید کی زد میں آئے۔

مسلم لیگ(ن)کی حملہ آوراس حکومت سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اوراس نے بھی عدلیہ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کیا ۔اس ضمن میں کاوس جی خاص طورپرچیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ناصراسلم زاہد کا حوالہ دیتے ہیں، جنھیں حکومت نے ناراض ہوکرفیڈرل شریعت کورٹ بھیج دیا۔بیوی کا تبادلہ کردیا۔داماد کو بھی تنگ کیا۔کاوس جی کی تحریروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف کے طرزحکمرانی کو ناپسند کرتے۔ان کے کسی فیصلے کی اگربھولے سے اس قلم کارنے تعریف کی ہے توجمعہ کے بجائے اتوار کی ہفتہ وارچھٹی کا فیصلہ ہے، جو مسلم لیگ ن کے دوسرے دورحکومت میں ہوا۔ اردشیرکاوس جی کی دانست میں اس کام کو کرنے کی خواہش 1977ء کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں کے ہاں بھی رہی تو،مگر وہ جرات نہ کرسکے۔ پرویزمشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک کالم میں انھوں نے لکھا کہ دوبار خراب حکومت کرنے کے باوجود وہ یہ گارنٹی دینے کو تیارنہیں کہ نوازشریف اب کبھی وزیراعظم نہیں بنیں گے ۔اور پھرہم سب نے دیکھا کہ نوازشریف تقریباً چودہ برس بعد تیسری بار وزیراعظم بن گئے اورکاوس جی کی بات رہ گئی، وگرنہ ہم نے توایسی ہستیوں کے بارے میں بھی سنا ہے، جنھوں نے مریدین کو یقین دلارکھا تھا کہ نوازشریف وزیراعظم توکجا رکن قومی اسمبلی بھی نہیں بن پائیں گے۔ اس لیے ہمارے خیال میںسیاسی معاملات کو روحانی آنکھ کے بجائے ظاہر کی آنکھ سے دیکھ کر رائے قائم کرنی چاہیے ۔

ذوالفقارعلی بھٹوکے اقتدارمیں آنے سے قبل کے زمانے سے کاوس جی ان کے شناسا تھے،وہ حکمران بنے تو نہ جانے کس بات پران سے بگڑے اور جیل بھجوادیا ۔وہ72دن قید رہے۔آخر وہ اس سزا کے کیوں سزاوارٹھہرے؟اس کی وجہ ہم آپ کو کیا بتلائیں کہ اس بارے میں مرتے دم تک خود کاوس جی کو معلوم نہ ہوسکا۔قید سے وہ بھٹو کے نام تحریری معافی نامہ لکھ کرآزاد ہوئے۔اس قسم کی تحریرچئیرمین بھٹو کے نام ان کے والد نے بھی لکھی۔ اکبربگٹی نے کاوس جی کو بتایا کہ بھٹو نے ایک باران کا لکھا معافی نامہ دکھایا تھا۔اپنے دوست کا یہ عمل انھیں خوش نہ آیا کہ خود بگٹی کی ڈکشنری میں معافی کا لفظ نہ تھا۔ ان کے خیال میںچاپلوسی وہ برائی ہے جو قوموں کو برباد کردیتی ہے،یہ بات انھوں نے اپنے اس کالم میں لکھی جس میں انھوں نے ایوب دور میں پیرعلی محمد راشدی کی خوشامد درآمد کے رویے پربات کی اور بتایا کہ کس طرح انھوں نے ایوب خان کو کنگ بن کرموروثی بادشاہت قائم کرنے کا مشورہ دیاتھا۔ حکومتی عہدہ قبول کرلینے کے بعد بڑے بڑے اصول پسند بھی حکمران کی منشاکو ہی عزیزجاننے لگتے ہیں۔

جیسا کہ کاوس جی نے ممتازقانون دان خالد انورکی مثال دی ہے کہ بطور وزیرقانون انھوں نے احتساب قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیا کہ حکمران خاندان ان کے شکنجے میں نہ آسکے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کی خدمات پر بعد از مرگ ایوارڈ دیاتوآصف علی زرداری نے قوم کو مبارکباد دی تو کاوس جی نے محترم صدرکو یاد دلایا کہ پیپلزپارٹی کی کابینہ میںبلوچستان سے تعلق رکھنے والے وہ صاحب بھی موجود ہیں، جنھوں نے غیرت کے نام پردوخواتین کو زندہ درگورکرنے کواپنی قبائلی روایات کے مطابق قرار دیااور وہ حضرت بھی وزیر ہیں جو لڑکی کو ونی کرنے والے جرگے کے رکن تھے۔سیاستدانوں کے لتے لینے والے کاوس جی نے اپنے ایک کالم میں ولیم رینڈولف ہیرسٹ کا یہ قول نقل کیا ’’سیاست دان اپنی نوکری بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے حتیٰ کہ محب الوطن بھی بن سکتا ہے۔‘‘ سیاست دانوں میں وہ اصغرخان کو سب سے بڑھ کر پسند کرتے۔ 1996ء میں تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا توکاوس جی نے عمران خان کے نام کھلے خط میں انھیں تجویز کیا کہ سیاسی امور پرانھیں اصغرخان سے مشورت کرنی چاہیے۔ان کے کہنے پریا پھراپنی مرضی سے عمران کی سیاسی سفر میں اصغرخان سے ذہنی قربت رہی اور وہ دوسرے اصغرخان ہونے کا طعنہ اب تک سہہ رہے ہیں۔ عمران خان نے ایک تقریب میں دیرسے آنے پرعذر کیا توارد شیر نے لکھا کہ اچھا لیڈرعوام کو انتظارنہیں کراتااور اگرایسا ہوجائے تو اسے تاخیرسے آنے کا جوازپیش کرنے کے بجائے معذرت کرلینی چاہیے۔ارد شیر کاوس جی کو ہم سے بچھڑے چودہ ماہ ہوگئے ۔ان کے چلے جانے کے بعد بھی ویسے ہی حالات ہیں، جن کا رونا وہ روتے رہے۔ بقول، احمد مشتاق

تبدیلیٔ حالات کے چرچے تو بہت ہیں
لیکن وہی حالات کی صورت ہے ابھی تک

ایک اہم تبدیلی جو ان کے جانے کے بعد رونما ہوئی، جس سے ان کی روح کو تکلیف ہوئی ہوگی وہ یہ ہے کہ قائد اعظم کی 11اگست1947ء کی جس تقریر کا حوالہ بارباران کی تحریروں میں آتا، اب بعض نابغے دھڑلے سے اس کے وجود سے ہی انکار کررہے ہیں۔

٭٭٭

’’ تمام مذہبی کٹرپن اندھا،احمقانہ اوروحشیانہ ہوتا ہے۔فرقہ وارانہ کٹرمذہبی پن اتنا ہی برا ہے جتناکہ مذہبوں کے درمیان غالی تعصب۔ کٹرمذہبی پن عقل کا گلہ گھونٹ دیتاہے اور کٹرمذہبی آدمی اپنے جوش جنوں میں سب کومجبور کرنے پرتلا ہوتا ہے کہ جس پراسے ایمان ہے،دوسرے بھی اس پرایمان لے آئیں۔ ‘‘
(11جون 2000ء)
٭٭٭
٭ ’’میری خواہش ہے کہ آنے والے سال مزید خوشیاں لائیں اور اس سرزمین کو امن نصیب ہو اور وہ لوگ جو اس ملک پرحکمرانی کرنا چاہتے ہیں، انھیں بھی تھوڑی سی عقل نصیب ہو۔‘‘
٭ ’’جہاں تک جناح صاحب کا تعلق ہے انھوں نے اپنی گیارہ اگست والی یادگارتقریر میں، جس کا چند ایک وہ لوگ حوالہ دیتے ہیں جوان کے نقش قدم پرچلنا چاہتے ہیں، اس بات کی وضاحت فرمادی تھی کہ یہ ملک کن خطوط پرگامزن ہوگا۔کچھ لوگ اپنی حکومت کے محدود نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کے لیے بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔جہاں تک انتہا پسندوں کا تعلق ہے، بدقسمتی سے ان کی تعداد اس ملک میں کم نہیں ہے، ان کواول تواس تقریرسے کوئی سروکارنہیں ہے،یا پھروہ اس سے اپنی مرضی کے مطالب نکالتے ہیں۔مسٹرجناح کا نظریہ اس قوم نے فراموش کردیاہے۔یہاں لفظ سیکولربغاوت کے مترادف ہے، یہاں تک کہ برداشت اور رواداری کے ذکرکو بھی مشکل ہی سے برداشت کیاجاتا ہے، جبکہ انتہا پسندی کا سایہ معاشرے میں مزید گہراہوتا جارہا ہے۔‘‘
٭ ’’اس ملک کے تمام حکمرانوں، وردی والوں اور وردی کے بغیر ، ہر دونے جناح کے پاکستان کی تلاش کاعزم کیا مگراپناڈولتا ہوا اقتداربچانے کے لیے کیا وہی جواس کے برعکس تھا۔ ‘‘
(25دسمبر 2011ء کو تحریر کردہ آخری کالم سے اقتباسات)

کیا آپ کی نظر کمزور ہو رہی ہے؟

$
0
0

مشاہدے اور تجربے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ عام طور پر ایک تندرست انسان کی نظر 40 سال کی عمر کے بعد کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے بعد چشمے یا لینز کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض افراد کی دور اور بعض کی نزدیک کی نظر میں کمی بیشی ہوتی ہے۔

تمام لوگوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ساری زندگی نظر درست اور 6×6 ہی رہے مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہاں ایسا ممکن ہے کہ خوراک اور مناسب احتیاط کے ذریعے نظر کی کمزوری کے اسباب کو مزید پیچھے دھکیل دیا جائے۔

امریکن آپٹو میٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا کے تقریباً اڑھائی کروڑ افراد بڑھتی عمر اور سفید موتیے وغیرہ جیسے امراض کی وجہ سے اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر افراد کی عمر 55 برس سے زائد ہے۔ یہ اندھا پن یا انتہائی کمزور بصارت آکسیڈیشن اور Inflamation جیسے عوامل کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وٹامن سی، وٹامن ای، زنک، اومیگا تھری، فیٹی ایسڈز، لیوٹن اور زیاکسنتھن اجزاء کی حامل سبزیاں اور پھل عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں اور بصارت کو لاحق ہونے والے امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ آج ہم آپ کو کچھ ایسی سبزیوں اور پھلوں سے متعارف کرواتے ہیں کہ جن کے خوراک کے ساتھ باقاعدہ استعمال سے نہ صرف آپ کی بصارت تادیر درست رہے گی بلکہ آپ کی آنکھیں مختلف امراض چشم سے بھی محفوظ رہیںگی۔

-1 بند گوبھی (Kale):
بند گوبھی ایک انتہائی مفید سبزی ہے جس میں کینسر کے خلاف مدافعت کرنے والے وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں۔ اس کو بطور سلاد، پھلوں کے ساتھ اور چپس وغیرہ کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک تو کینسر کے خلاف انتہائی کارآمد ہے جبکہ آنکھوں کے امراض اور بصارت کی کمزوری کو بھی رفع کرتی ہے۔

-2 مکئی (Corn):


یہ ایک ایسی نعمت خداوندی ہے کہ جس کو کئی طریقے سے کھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ابال کر، آگ پر بھون کر، ہنڈیا میں پکا کر وغیرہ وغیرہ۔ اس میں موجود لیوٹین اور زیاکسنتھن بصارت اور امراض چشم کے خلاف مؤثر ہتھیار ہیں۔ اس کو یخنی اور سوپ وغیرہ میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

-3 پالک (Spinach):


پالک ایک صحت بخش اور ذائقہ دار سبزی ہے۔ اس کو علیحدہ یا گوشت میں ملاکر پکایا جاتا ہے۔ اس میں بھی لیوٹن اور زیا کسنتھن کی قابل ذکر مقدار موجود ہوتی۔ اس کو بطور سلاد اور سینڈوچ کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے پکا کر کھایا جائے تو اس میں موجود صحت بخش اجزاء زیادہ زود ہضم ہوجاتے ہیں۔

-4 گوبھی (Broccoli):


گوبھی یا شاخ دار گوبھی وٹامن سی سے بھر پور ہوتی ہے جبکہ بصارت کو جلا بخشنے والے اور آنکھوں کے امراض سے محفوظ رکھنے والے اجزاء لیوٹن اور زیاکسنتھن بھی اس میں قابل ذکر حد تک موجود ہوتے ہیں۔اس کو آپ بطور سبزی پکا بھی سکتے ہیں، اسے طعام کے ساتھ بطور سلاد بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ ابال کریا فرائی کرکے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

-5 انڈے (Eggs) :


صحت کیلئے انڈے کی اہمیت سے کس کو انکار ہے۔ دنیا کے زیادہ تر انسان ناشتے میں انڈا ضرور استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ توانائی سے بھر پور ہوتا ہے۔ انڈے میں لیوٹن، وٹامن ای اور اومیگا3- جیسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو بالعموم صحت بخش اور بالخصوص آنکھوں کی صحت کیلئے بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ فارمی انڈوں کی نسبت دیسی انڈوں میں مندرجہ بالا غذائی اجزاء زیادہ نسبت میں پائے جاتے ہیں۔ روزانہ ایک انڈے کا استعمال آپ کے جسم کو توانائی اور بیماریوں کے خلاف مدافعت فراہم کرتا ہے۔

-6 سنگترہ (Orange):


سنگترہ، مالٹا، کینو، مسمی وغیرہ ایک ہی خاندان کے پھل ہیں۔ ان میں وٹامن سی بکثرت پایا جاتا ہے جو آنکھوں کے ٹشوز کی نشوونما اور صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بصارت کی کمزوری دور کرنے کیلئے یہ ایک تریاق کی سی حیثیت رکھتا ہے۔


مثبت طرز عمل…ذہنی سکون، ترقی وخوشحالی کازینہ

$
0
0

انسانی فطرت کئی قسم کے رویوں کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ منفی میں سے بھی مثبت پہلو نکال لیتے ہیں جبکہ کچھ کا طرز عمل اور رویہ مثبت میں سے بھی منفی پہلو کشید کرلیتا ہے۔

اول الذکر رجائیت پسند جبکہ موخر الذکر قنوطیت پسند کہلاتے ہیں۔ رجائیت پسند لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی بھر پور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں جبکہ قنوطیت پسند لوگوں کو بڑی بڑی خوشیاں بھی مطمئن نہیں کرسکتیں۔ رجائیت پسند لوگوں کی نظر ہمیشہ روشن پہلوئوں پر مرکوز ہوتی ہے جبکہ قنوطیت پسند لوگ روشنی میں بھی اندھیرے کے متلاشی رہتے ہیں۔ رجائیت پسند لوگوں کو معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ انہیں ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو غموں سے نکال کر خوشی دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس قنوطیت پسند لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا اور لوگ ان سے کترا کر گزر جانے کو پسند کرتے ہیں۔ قنوطیت پسند لوگ معاشرے سے کٹ کر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ عمل انہیں مردم بیزار بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم آپ کو کچھ نکات بتائیں گے کہ جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں مثبت طرز عمل اپناسکتے ہیں اور ہر دلعزیز بن سکتے ہیں۔آپ کو ترقی، خوشحالی اور ذہنی سکون بھی میسر ہو سکے گا۔

خود کو تبدیلی پر مائل کریں
خوشی کوئی ایسا عنصر نہیں ہے کہ جسے آپ ہر طرز عمل اپنا کر حاصل کرسکتے ہیں بلکہ خوشی کے حصول کی خاطر آپ کو اپنے رویہ اور طرز عمل دونوں میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ پہلے تو اس نکتے پر غور کریں کہ کیا یہ تبدیلی آپ کیلئے ترقی اور خوشی کے در وا کرے گی۔ اس مقصد کیلئے آپ اپنی زندگی کے وہ تین واقعات یاد کریں کہ جس نے آپ کی شخصیت کو موڑنے میں اہم کردار ادا کیا، آپ کو خوشی سے روشناس کروایا اور آپ کو پسندیدہ شخصیت بننے میں مدد دی۔ ان واقعات میں آپ کی دیرینہ دوست سے ملاقات، اپنے پسندیدہ مقام یا شہر کی طرف سفر یا تعلیمی میدان میں کامیابی وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کو لکھ کر اپنے کمرے میں ایسی جگہ آویزاں کریں کہ وقتاً فوقتاً آپ کی نظر اس پر پڑتی رہے اور آپ کے ارادوں کو مہمیز عطا کرتی رہے۔

نئے اور مختلف ماحول کا انتخاب
جب ہم پریشان اور ذہنی الجھائو کا شکار ہوتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی پریشانیاں بھی دیوہیکل نظر آتی ہیں۔ ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ نیا اور مختلف ماحول اس حالت سے چھٹکارا دلانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً اگر پڑھتے ہوئے آپ کا دماغ کسی نقطے پر اٹک جاتا ہے اور آپ اسے حل کرنے سے قاصر ہیں تو ذہن پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کوئی اور کام شروع کردیں یا کسی باغیچے وغیرہ میں ٹہلنے کیلئے چلے جائیں۔ ماحول کی تبدیلی آپ کے ذہن سے بوجھ ہٹا دے گی اور آپ پھر دوبارہ تازہ دم ہوکر نئے سرے سے پڑھائی شروع کردیں۔ یہ عمل یقینا آپ کا مسئلہ حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا کیونکہ تازہ دم ہونے کے بعد آپ کا دماغ مسئلے کے حل کیلئے نئی جہتوں پر کام شروع کردے گا اور یہی جہتیں آپ کی ممد و معاون ثابت ہوں گی۔

خود کو توانائی سے بھر پور رکھیں
سب کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ تھکن اور بھوک انسان کو خوشی کے احساسات سے دور کردیتی ہے مگر بھوک اور تھکن کے اثرات اس سے کہیں زیادہ مضر ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ آپ کے نروس سسٹم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو آپ کی صحت کیلئے زہر قاتل ہے۔ اگر آپ نیند پوری نہیں کرتے تو آپ ذہنی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ نیند کی کمی آپ کی قوت فیصلہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی یعنی منفی اثرات پیدا کرتی ہے، مگر اگر آپ نے نیند پوری لی ہے اور سیر شکم ہیں تو آپ کی سوچنے سمجھنے اور جانچنے پرکھنے کی صلاحیت پوری طرح بیدار ہوتی ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق عدالتوں کے جج صاحبان لنچ سے پہلے صرف 20% لوگوں کو پیرول یا ضمانت پر رہائی دیتے ہیں جبکہ لنچ کے بعد وہ سیر شکم ہوتے ہیں تو یہی تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہوجاتا ہے۔ آپ بھی اپنے کھانے اور سونے کی عادت کو درست نہج پر ڈال کر مثبت رویے کا حصول ممکن بناسکتے ہیں۔

منفی اور مثبت پہلو مدنظر رکھیں
یاد رکھیں کہ ماحول جتنا بھی خراب ہو، اس میں جتنے بھی منفی پہلو ہوں مگر مثبت پہلو بھی بہر حال ضرور موجود ہوتے ہیں، بات صرف ان کو ڈھونڈنے کی ہے۔ اگر آپ کبھی کسی ایسی سچوایشن میں گھر جائیں تو اپنے ذہن سے مسئلے کے حل کو نکال کر صرف ایک منٹ کیلئے اس کے منفی اور مثبت پہلوئوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کو 10 منفی پہلو نظر آئیں گے تو یقینا 5 مثبت پہلو بھی نظرآئیں گے جو آپ کیلئے مسئلے کو سلجھانے میں معاون ہوں گے۔ منفی پہلوئوں پر بھی غور کریں اور انہیں بطور چیلنج قبول کریں تو آپ کا ذہن زیادہ بیدار اور چست انداز میں عمل پیرا ہوگا ۔

گفتگو کیلئے صحیح افراد کا انتخاب کریں
ہم زیادہ تر اپنے مسئلے بہنوں، بھائیوں اور دوستوں سے ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ ہر مسئلے پر ہر دفعہ ایک ہی قسم کے لوگوں سے بات چیت کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو ہمیشہ وہی گھسے پٹے جملے اور خیالات سننے کو ملیں گے۔ ہر دفعہ ایک ہی قسم کے لوگوں سے ایک ہی قسم کی گفتگو نئی جہتوں سے متعارف نہیں کرواتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے گفتگو کریں جن سے آپ نے پہلے صلاح مشورہ نہ کیا ہو۔ اس مقصد کیلئے آپ اپنے سے کمر عمر، زائد العمر، اپنی پروفیشنل فیلڈ اور اسٹیٹس سے کم یا زیادہ حیثیت کے حامل لوگوں سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ آپ کو یقینا ایسے کئی نکات سے آشنائی حاصل ہوگی کہ جن سے آپ پہلے نابلد تھے۔ یہ نئی معلومات یقینا آپ کیلئے ممدو معاون ثابت ہوں گی۔

ذہنی دبائو کو چینلائز کریں
ذہنی دبائو یا ٹینشن قوت فیصلہ اور صحت کا دشمن ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی قسم کے برے حالات کو بدترین بناسکتا ہے اور خاص طور پر حافظے اور ذہنی صلاحیتوں پر منفی انداز میں اثر انداز ہونے کی قوت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس لیے خود کو ذہنی دبائو اور پریشانی میں مثبت سوچ کی طرف مائل کرنے کی پریکٹس کریں۔ ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ خود کو یہ سکھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ سردرد، کمر درد اور دیگر کئی قسم کے عارضوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ دبائو یا پریشانی کی بنیادی وجہ تلاش کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر آپ جس چیز کیلئے پریشان ہیں باطنی طور پر مسئلہ وہ نہ ہو، مثلاً اگر آپ نے کوئی پریڈینٹیشن دینی ہے اور آپ دبائو میں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کا مسئلہ پریزینٹیشن نہ ہو بلکہ آپ اس لیے پریشان ہوں کہ آپ کا باس آپ سے مطمئن ہوگا یا نہیں۔اس طرح اگر آپ پریشانی کی بنیادی وجہ تلاش کرلیں تو اس کا حل ڈھونڈنا آسان ہوجائے گا ۔

پاکستان میں برطانوی جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں

$
0
0

اسلام آ باد:  سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور پرائیڈ آف پرفارمنس ڈاکٹر عطاء الرحمٰن بنیادی طور پر آرگینک کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔

ملک کے اندر اور باہر تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ قابل تحسین رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کے کیمیائی اجزاء پر تحقیق کی، جن سے دوائیں بنائی جا سکتی ہیں اس کے علاوہ 425 نئے قدرتی اجزا دریافت کیے۔ مؤقر عالمی مجلوں میں تاحال ان کے 380 تحقیقی کالم شائع ہوچکے ہیں۔ 1987 میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو سائنسی خدمات کے اعتراف میں کیمبرج یونی ورسٹی نے ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں کام کرتے ہوئے یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے سائنس داں ہیں۔

انھوںنے 51 کتابیں تحریر و تصحیح کے مراحل سے گزاریں۔ کیمسٹری پر پاکستان کی وہ پہلی کتاب، جو بیرون ملک چھپی اور خریدی گئی، ان ہی نے تصنیف کی۔ ان کی تحقیقات کی بہ دولت کئی پاکستانی طلبہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے مکمل کیے۔ پروفیسر صاحب کو سائنس دانوں کی اس کتاب میں دست خط کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس میں نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے سائنس دانوں کے دست خط شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کامسٹیک کے کو آرڈی نیٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی سائنس دانوں نے جنییاتی مادے کا نقشہ تیار کرکے اس علم کی تاریخ میں نیا کارنامہ سرانجام دیا، اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا جینوم ڈی کوڈ کیا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، ان سے ہوئی گفت گو وہ حاضر خدمت ہے۔

ایکسپریس: چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن کا عہدہ چھوڑنے کے بعد آپ کی کیا مصروفیات رہیں؟
عطاء الرحمٰن: جی میں اس عرصہ میں یک سر فارغ نہیں بیٹھا بل کہ بہت سارا ایسا کام کیا جو میں پہلے نہیں کر سکتا تھا مثلاً، پاکستان میں معیاری تعلیم کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل قابل اساتذہ کی کمی ہے، میں نے معروف عالمی تعلیمی اداروں سے اجازت لے کر اس مسئلے کا ایک حل یہ نکالا کہ دنیا بھر کی معروف اور ٹاپ یونی ورسٹیوں کے مفت انٹرنیشنل آن لائین کورسز ایک مخصوص ویب سائٹ ’’ایل ای جے فور‘‘ (لطیف ابراہیم جمال نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر) کے نام سے اکٹھے کر دیے ہیں، جس کو ’’LEJ. Knowledge Hub‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اب ان کورسز کی تلاش نہایت آسان ہو چکی ہے، یہاں پر ہر قسم کی تعلیم کے قریباً ہر سطح کے کورسز موجود ہیں، کراچی میں صدر پاکستان کے ہاتھوں ان کورسز کی لانچنگ بھی ہو چکی ہے۔ اب پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے دنیا بھر کے مفت اور بہترین آن لائین کورسز کے لیے ایک سرچ انجن تیار کر لیا ہے۔ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ جیسے ممتاز اداروں کے مفت کورسز سے نہ صرف پاکستان بل کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے ہزاروں لاکھوں طلبہ بھی مستفید ہوں گے۔

اب ہمارے بچے آن لائین کورسز کے لیکچر سن اور دیکھ کر اپنی کلاسوں میں جانے کے قابل ہو سکیں گے۔ میرے دوسرے کام کا آغاز 17 فروری 2014 سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں چینی زبان کی ترویج کے لیے یو نی ورسٹی سطح پر 4 ماہ کا ایک کورس شروع کیا جارہا ہے، جو مفت ہو گا، پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور کراچی کے کنفیوشس سینٹرز کے زیر انتظام اس کورس سے ملک بھر کی یونی ورسٹیوں کے 500 سے زیادہ نام زد طلبہ چینی زبان سیکھ سکیں گے۔ میں نے اس پروگرام کے حوالے سے 30 کے قریب وائس چانسلروں کو خطوط بھیجے ہیں۔ اس پروگرام کو بہ تدریج کالج اور اسکول کی سطح تک لایا جائے گا، پہلے مرحلے کے طلبہ کو امتحان کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری ہوں گے، یہ پروگرام مستقل بنیادوں پر شروع کیا جا رہا ہے تاکہ ہماری نئی نسل کو چین کی تعمیر و ترقی کو سمجھنے کا موقع ملے۔ اِس ضمن میں جو تیسری ڈیویلپمنٹ ہوئی ہے، وہ کراچی یونی ورسٹی میں میرے والد صاحب کے نام پر قائم سینٹر میں جینیٹک کے شعبے میں ہوئی، اس مرکز کی تعمیر کے لیے میں نے اپنی ذاتی بچت سے کافی رقم فراہم کی ہے، ’’جمیل الرحمٰن جینومیکس ریسرچ سینٹر‘‘ اِس کا نام ہے۔

اِس مرکز میں کام کرنے والے کوالی فائیڈ ماہرین نے سب سے پہلے میرا ’’جنیٹک کوڈ میپ‘‘ تیار کیا، اس مرکز کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور جدید آلات بھی درآمد کیے جا چکے ہیں، اِس مرکز کو چین کے جینیٹک مرکز کی معاونت حاصل ہے۔ چین کی اکیڈیمی آف سائنسز نے 10 جنوری 2014 کو بیجنگ میں ایک تقریب کے دوران مجھ کو انٹرنیشنل کوآپریشن ایوارڈ دیا، یہ پہلا موقع ہے کہ یہ ایوارڈ ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والے کسی سائنس دان کو ملا۔ آج کی دنیا علم کی دنیا ہے، وہی ملک آگے ہیں جن کی افرادی قوت علم و دانش رکھتی ہے۔ ان ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترجیح دی مگر بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان 8 ممالک میں شامل ہے، جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کر رہے ہیں، ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.9 فی صد تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کابینہ سے اس کو 7 فی صد تک منظور کرایا مگر کیا کچھ بھی نہیں، موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں 5 فی صد کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر ابھی تک اِس پر عمل درآمد نہیں کیا، تعلیم کے معیار کو بہتر کیے بغیر پاکستان سے غربت ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کو نالج اکانومی کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس: آج کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟
عطاء الرحمٰن: آپ تیس پینتیس سال کا تجزیہ کر لیں، ہر آنے والا سال گزرنے والے سال سے خراب ہی گزرا، آپ ان برسوں کو چاہے کسی بھی پیمانے پر پرکھیں، حالات برے ہی نظر آئیں گے، حال آںکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں، نئی نسل بہت باصلاحیت اور ذہین ہے مگر مشعل راہ کسی کے پاس نہیں۔ موجودہ حکومت سے مجھے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، کابینہ میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں مگر وہ کچھ کرکے دکھائیں تو بات بنے۔ کوئلے کی بنیاد پر توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کا اعلان بہت اچھا ہے گو کہ یہ قدم ہمیں 40 سال پہلے اٹھانا چاہیے تھا، آج پاکستان کوئلے سے 5 فی صد، بھارت 50 فی صد اور چین 65 فی صد سے زیادہ توانائی حاصل کر رہا ہے مگر ماضی میں ہم نے کرپشن کی وجہ سے توانائی کا حصول تیل پر شفٹ کر دیا جو 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے۔

ایکسپریس: آپ اچھے سائنس داں، ماہر تعلیم یا اچھے منتظم ہیں، خود کو بہتر کہاں پاتے ہیں؟
عطا الرحمٰن: میں تو خود کو ہر فیلڈ میں بہت کم زور سمجھتا ہوں، جب بھی کتاب اٹھاتا ہوں تو اپنی نااہلی کا احساس شدت سے ہوتا ہے، بس خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، کہاں تک کام یاب ہوں؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن مجھے تحقیق کے شعبے میں بہت لطف آتا ہے، نئی چیزیں دریافت کرنا اور ان کی کھوج لگانا اور عالمی سطح پر ایجادات کے اثرات دیکھنا میرا شوق ہے، میں علم کی حدود کے پار جانا چاہتا ہوں، ایچ ای سی کے منتظم کی حیثیت سے میں نے جو کام کیا اُس پر بھارت کی تشویش، میری کام یابی کا واضح ثبوت ہے، ایچ ای سی کے تحت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی شان دار ترقی کے بارے میں بھارتی وزریر اعظم کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی تھی، جو بھارت کے ایک بڑے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز میں23 جولائی 2006 کوشائع ہوئی، اس کا عنوان ’’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘‘ تھا، جس کے بعد بھارت نے اپنے UGC کو بند کرنے اور HEC کی طرز کا ادارہ ’’نیشنل کمیشن آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایکسپریس: آپ کے جانے کے بعد ایچ ای سی کی زبوں حالی کی کہانی کو آپ سن ہی رہے ہوں گے؟
عطا الرحمٰن: میری مدتِ ملازمت کے جب دو سال باقی تھے تو میں نے اکتوبر 2008 میں یہ عہدہ اس لیے چھوڑا کہ پاکستان سے 5 ہزار کے قریب جو بچے باہر پڑھنے گئے ہوئے تھے، ان کے فنڈ روک کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں بڑی آسانی سے آنکھیں بند کرکے اپنی مدت پوری کر سکتا تھا مگر مجھ سے ایسے ہو نہیں پایا، زرداری صاحب کو پیغام بھجوایا کہ یا تو یہ مسئلہ حل کیا جائے یا میرا استعفیٰ حاضر ہے، انہوں نے میرا استعفیٰ قبول کرنے کا پیغام بھیجا۔ پھر میرے بعد ایک خاتون آئیں، ان کے بعد جاوید لغاری صاحب آئے لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ میرے چھوڑے ہوئے راستے پر سفر، بعد میں آنے والوں نے جواں مردی سے جاری رکھا۔ ان کو حکومت نے حکم دیا کہ عطاء الرحمن کی کرپشن کے ثبوت باہر نکالو مگر آڈیٹروں کو کچھ نہ ملا، میں نے ہمیشہ ایچ ای سی کا عالمی اداروں سے آڈٹ کرایا تھا اور کرپشن کا سارا کلچر ہی ختم ہو چکا تھا۔ زبوں حالی کی اصل وجہ جاوید لغاری کی بی بی بے نظیر صاحبہ سے محبت اور زرداری صاحب سے دوری بھی تھی مگر لغاری صاحب نے نہایت جرأت سے کام کیا، پھر 200 کے قریب ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں نے رہی سہی کسر ہی نکال دی، اندازہ کریں کہ وقاص اکرم کی اپنی ڈگری جعلی تھی مگر وہ وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز ہوئے، یہ بات گنیز بک آف ریکارڈ کا حصہ بننا چاہیے۔ پی پی پی کے دور میں مزے لوٹنے کے بعد اب وہ مسلم لیگ (ن) کی وکالت کرتے ہیں، کوئی ایسے لوگوں کو پوچھنے والا نہیں، وہ اب بھی میڈیا پر دھڑلے سے آتے ہیں، یہ ہی لوگ شروع سے چھائے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس: جنیٹک میپ سے کیا انسان کے مستقبل کی پیش گوئی ممکن ہے؟
عطاء الرحمٰن: ہر انسان میں 3 ارب کے قریب جینیٹک لڑیاں ہوتی ہیں، جنہیں ہم عام زبان میں ’’موتی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ تین سے چار رنگ کے ہوتے ہیں، ان موتیوں کی ترتیب سے البتہ یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کے خدوخال کیا ہو سکتے ہیں۔ بالوں، جلد اور آنکھوں کا رنگ کیسا ہوگا، یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے اندر نصب کیمیاوی سافٹ ویئر ہے۔

ایکسپریس: کیا انسان کی پسند ناپسند بھی جین کی ترتیب کے تابع ہے؟
عطاء الرحمٰن: اس کا مجھے علم نہیں البتہ انسان کے رجحانات کا اِس ترتیب سے علم ہوسکتا ہے لیکن یہ کسی ماحول میں رہتے ہوئے کس طرح پروان چڑھتے ہیں؟ وہ ایک الگ کہانی ہے مثلاً، جارحیت (ایگریشن) اور جرائم وغیرہ، یہ سب وہ رجحانات ہیں، جو جینیٹک اسٹرکچر کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے اِن کو پہچان لیا ہے مثلاً، موٹاپے کا قبل از وقت علم ہوسکتا ہے مگر احتیاط اور ماحول سے اسے کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے تاہم اس پر ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ جین کی پوری لڑی کا کون سا حصہ کس کام، اہلیت، بیماری یا رجحان کو کنٹرول کرتا ہے، اِس پر کام ہو رہا ہے اور بہت جلد اس میں کام یابی ممکن ہے، طب کے میدان میں اِس پر بڑی کام یابیاں متوقع ہیں، اِس میدان میں اب اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ صرف 10 دنوں میں 5 ہزار ڈالر مالیت سے آپ کی ساری جینیٹک کیمسٹری سامنے آ جاتی ہے لیکن مستقبل قریب میں نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے اب یہ ہی کام چند سوڈالر میں، پندرہ سے بیس منٹ میں ہو جایا کرے گا۔ اسی حوالے سے اب پودوں اور فصلوں پر بھی بہت کام ہو رہا ہے، اب ’’جینیٹک موڈی فائیڈ‘‘ فروٹ اور فصلیں سامنے آرہی ہیں، مستقبل میں ان کی مزید ورائٹیز سامنے آئیں گی، جن کی پیداواری صلاحیت بھی بہت زیادہ ہو گی۔

ایکسپریس: آپ خود اسی شعبے کے ماہر ہیں، آپ کی دل چسپی کس شعبے میں ہے؟
عطاء الرحمٰن: میں ’’سالٹ ٹالرنس جینز‘‘ کی تلاش میں ہوں یعنی ایسے جین جو نمک کی شدت کو برداشت کر سکیں مثلاً، جو پودے سمندری پانی میں نشو و نما پاتے ہیں، ان میں وہ کون سا جین ہے، جو انہیں نمکین پانی میں بھی زندہ رکھتا ہے؟ اگر ان سے یہ جین حاصل کرکے ہم گندم یا دوسری فصلوں میں ڈال دیں تو ہم کلرزدہ زمینوں میں بھی فصلیں اگا سکیںگے، ہمارے پاس سمندری پانی کا بہت بڑا خزانہ ہے، ہم اسے استعمال میں لا سکیں گے۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ دنیا میں پانی کی کمی نہیں، مسئلہ نمک کا ہے، جو اس کو ناقابل استعمال بنا دیتاہے۔

ایکسپریس: اگر یہ جین مل جاتا ہے؛ تو پھر فشار خون پر کنٹرول بھی ممکن ہے؟
عطا الرحمٰن: بالکل ممکن ہے، آپ نے درست سوچا، اس سے تو دل کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب آ جائے گا، میرے خیال میں یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

ایکسپریس: کیا یہ درست ہے کہ فکشن اور سائنس کے درمیان ربط دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے؟
عطا الرحمٰن: بڑھ نہیں رہا بل کہ بہت زیادہ بڑھ چکاہے، اب تو سائنس، فکشن سے زیادہ حیرت افزا ہو چکی ہے، اِس کی میں بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں، آپ ہیری پوٹر کی کہانیاں پڑھیں، اُس میں لکھا ہے کہ آپ ایک لبادہ اوڑھ لیں تو آپ غائب ہو جائیں گے، سائنس نے آج یہ ممکن کر دیا ہے، یہ لبادہ میٹامٹیریل کہلاتا ہے، اس پر جب روشنی پڑتی ہے تو وہ گھوم کر پیچھے کی طرف چلی جاتی ہے، اگر آپ کے اوپر اس میٹریل کی چادر ڈال دی جائے تو آپ کا جسم غائب اور آپ کے جسم کے آر پار نظر آئے گا، یہ سائنس کا تازہ کرشمہ ہے۔ آج ٹینکوں، جہازوں اور آب دوزوں کو اس میٹریل سے ڈھانپ کر رکھا جارہا ہے؛ جگنو کے اندر چمکنے والے مادے کے جین کو اب پھولوں میں ڈال دیا گیا ہے، جو رات کو بھی نظر آتے ہیں، ایسے ہوائی جہاز بن چکے ہیں جن کو فیول کی ضرورت نہیں، ان کو ’سیکریم جیٹ‘ کہا جاتا ہے، جب یہ آواز کی رفتار سے بارہ گنا زیادہ پر سفر کرتے ہیں تو ان کے اندر خود بہ خود ہوا سے فیول بننے لگتا ہے، کام یاب تجربے ہو چکے ہیں، نینو ٹیکنالوجی سے کاغذ سے بنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ تیار ہو چکی ہیں، یہ کاغذ، لوہے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، آج اندھے لوگ اپنی زبان سے دیکھنے کے قابل ہو رہے ہیں، ان کے منہ میں ایک لولی پاپ کی طرح کا سکینر ان کے دماغ پر تصویر بنا دیتا ہے، جو ان کی عینک سے تصویر لے کر ٹرانسفر کرتا ہے، یہ سکینر ’’وائی کیپ کمپنی‘‘کمرشل بنیادوں پر تیار کر رہی ہے، اسی طرح آج آپ اپنی سوچ سے چیزوں کو حرکت دے سکتے ہیں، آپ جب سوچتے ہیں تو دماغ سے نکلنے والے چار طرح کے سگنلز میں سے ایک کمانڈ سگنلز کو سر پر رکھی ٹوپی سے کنٹرول کرکے کمپیوٹر کو فراہم کیا جاتا ہے، جو چیزوں کو حرکت دے سکتا ہے، سوچ سے گاڑی چلانے کا تجربہ ہوچکا ہے، مستقبل میں مزید حیرت انگیز باتیں سامنے آنے والی ہیں۔

ایکسپریس: دہشت گردی کے خلاف کیا جدید سائنس کچھ مدد کر سکتی ہے؟
عطا الرحمٰن: بالکل کرسکتی ہے مثلاً، جارحیت کی وجہ بننے والے جین کی پہچان سے لوگوں میں اِس رجحان کو پہچانا جا سکتا ہے، اگرایک جارح میں سے یہ جین ختم کر دیا جائے یا پھر اس کو بچے پیدا کرنے سے ہی روک دیا جائے تو یہ جین آنے والی نسل میں ٹرانسفر نہیں ہوگا، جارحیت کے جینز پر روس میں کتوں پر کام یاب تجربات کیے جاچکے ہیں، دہشت گردی کو جینیٹک ٹیکنالوجی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس: پولیو قطروں کے متعلق آئندہ نسل کوکنٹرول کرنے کے بارے میں جو ابہام پھیلایا جا رہا ہے، اسے بھی کیا اِس تناظر میں سچ کہاجاسکتاہے؟
عطا الرحمٰن: یہ ابہام نہیں بل کہ پاگل پن ہے، ایسی باتیں کرنے والے پڑھے لکھے لوگ، پڑھے لکھے جاہل ہو تے ہیں۔ ایسوں ہی کی وجہ سے ہم کئی دہائیوں سے نقصان اٹھاتے چلے آ رہے ہیں، ایسے لوگ حکومت اور حکومت سے باہر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، بہ حیثیت سائنس داں میں یقین دلاتا ہوں کہ پولیو کے قطرے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں۔

ایکسپریس: ملک میں جی ایس ایم کے بعد تھری جی ٹیکنالوجی آ رہی ہے، جب کہ دنیا فور جی پر پہنچ چکی ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟
عطا الرحمٰن: کیا کہوں، رونے کا مقام ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت پہلے آ جانی چاہیے تھی لیکن مجھے تو اب بھی لگتا ہے کہ مزید دیر ہو جائے گی۔ حکومت کو اب تھری جی کے بہ جائے براہ راست فورجی پر جانا چاہیے، تھری جی کا زمانہ لد چکا۔

ایکسپریس: سائنس دانوں کے متعلق مشہور ہوتا ہے کہ یہ بہت ’بور لوگ‘ ہوتے ہیں مگر آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ خاصے حسن پرست واقع ہوئے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
عطا الرحمٰن: کیا میں آپ کو بور شخصیت لگتا ہوں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں حسن پرست ہوں، مجھے قدرت کی خوب صورتی اچھی لگتی ہے۔ سائنس دانوں میں بھی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں مگر ہر اچھے سائنس داں میں چند مشترک باتیں ضرور ہوتی ہیں مثلاً، وہ حد سے زیادہ محنتی ہو گا، ذہین تو وہ ہوتے ہی ہیں، پھر ان میں سچ کی تلاش کی لگن بہت زیادہ ہو گی، تیسری مشترک بات یہ کہ وہ لکھی ہوئی چیز کو قبول نہیں کرتے، ہر شے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں، بڑے سے بڑے رستم زماں کی بات پر بھی آمنا و صدقنا کہنے سے گریز کرتے ہیں، ان کی یہ ہی سوچ انہیں علم کے نئے محاذوں پر کھڑا کرتی ہے۔ یہ تصورات کو بدلنے والے ہوتے ہیں، سوچ میں غرق رہنا ان کی عادت ہوتی ہے، دنیا کے تمام بڑے اور اچھے سائنس داں کھوئے کھوئے سے نظر آنے والے تھے اور اب بھی ایسے ہی ہیں، میں خود بھی اِس کیفیت سے کئی بار گزرا ہوں، کئی مرتبہ آئینے میں خود کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اِن صاحب سے کہیں ملاقات ہوئی ہے؛ یہ طے ہے کہ کچھ پانے کے لیے خود کو کھونا پڑتا ہے۔ آپ نے کہا یہ حسن پرست نہیں ہوتے، ایسا نہیں یہ بھی حسن پرست ہوتے ہیں مگر ان کی حسن پرستی میں ایک خاص قسم کا تجسس ہوتا ہے، جو عام لوگوں میں نہیں ہوتا مثلاً، یہ ہے، تو کیوں ہے؟ کیسی ہے؟ مثلاً، میں چیزوں میں، ماحول میں، اپنے اردگرد قدرت کے کیمیائی حسن کو دیکھتا رہتاہوں، مالیکیول کے ادغام کا حسن میرے لیے حسن کی معراج ہے، یہ حسن ہی مجھے تحقیق پر اکساتاہے، علم تو پیاز کے چھلکوں کی طرح ہوتا ہے، ایک کو اتارو، دوسرا پھر تیار! یہ حسن در حسن کا سفر ہے۔

ایکسپریس: حسن در حسن کا یہ سفر اگر علم کا سفر ہے تو علم کے پانچ دروازوں، کب، کہاں، کون، کیسے اور کیوں، میں آپ نے سب سے مشکل دروازہ کون سا پایا، جو کھلتا نہیں؟
عطا الرحمٰن: دروازے تو سارے ہی مشکل ہوتے ہیں، ایک دروازہ کھولو تو اُس کے پیچھے ایک اور دروازہ ہوتا ہے، میں نے پیاز کے چھلکے کی مثال اسی لیے دی ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں ہے۔

ایکسپریس: مگر کہا جاتا ہے کہ ’’کیوں‘‘ والا دروازہ بہت کم ہاتھوں سے کھلتا ہے؟
عطا الرحمن: (سوچتے ہوئے) آپ کہہ سکتے ہیں کیوںکہ اِس درکے کا تعلق فلسفے کے ساتھ ہے، یہاں سائنس اور فلسفہ متصادم ہو سکتے ہیں، اس لیے مشکل پڑتی ہے۔

ایکسپریس: اس مشکل کو فلسفی حل کر سکتا ہے یا سائنس داں؟
عطا الرحمن: یہاں پہنچ کر فلسفی سائنس دان اور سائنس داں فلسفی ہوجاتا ہے مگر آج کل سائنس دان ہی شاید اس دروازے کو کھولنے پر مامور ہیں۔ دراصل یہ وہ سائنس دان ہیں، جو طے شدہ راستوں سے ہٹ کر نئی راہ نکالنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں مثلاً، آج فزکس کے نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ہگس اور ان کے ساتھی نے جو کام کیا، وہ نئی راہ ہے، یہ دونوں عظیم سائنس دان اسی راستے کے مسافر ہیں۔

ایکسپریس: آپ نے اپنے ایک کالم میں سوال اٹھایا تھا کہ مشرف کا 1999 میں اٹھایا گیا قدم صیحیح تھا اور وہی قدم 2007 میں غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر کیا آج بھی آپ قائم ہیں؟
عطا الرحمٰن: پرویز مشرف کے ضمن میں آج کل جو ڈراما بازی ہو رہی ہے یہ صرف ڈھائی سے تین ماہ کا عرصہ ہے۔ 3 نومبر 2007 کو جب یہ قدم اٹھایا گیاتھا اُس وقت کے قانون کے مطابق یہ عمل قابل گرفت نہیں تھا۔ کئی سال بعد یعنی 18 ویں ترمیم کے بعد جب نیا قانون بنا تو وہ قابل گرفت تھا، آپ نئے قانون کی بنیاد پر ماضی کے قانوں کے تحت کیے گئے عمل کو کیسے قابل گرفت قرار دے سکتے ہیں۔ قانونی طور پر مشرف پر غداری کا مقدمہ بنتا ہی نہیں۔ 1999 میں جو کچھ ہوا، وہ سپریم کورٹ کے مطابق بالکل درست تھا، اِس لیے کہ اس وقت سب ’’موٹے موٹے لوگ‘‘ اِس میں شامل تھے، چیف جسٹس سے لے کر سیاست داں اور جنرل سب ہی، یہ تو سب کے گلے کا پھندا ہے، ہمت کر کے یہ پھندا ڈالیے، بعد والے عمل میں تو صرف مشرف کے گلے میں پھندا فٹ ہوتاہے، اِس لیے سارا زور اب اسی پھندے پر ہے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ قائم نہیں کر سکتی بل کہ یہ اختیار تو حکومت کا ہے۔ میرے نزدیک صرف مشرف کو اب ٹارگٹ کرنا غیرقانونی ہے، پکڑنا ہے تو پھر 1999 سے شروع کیجیے۔ پاکستان کے آئین میں صدر کی حیثیت تو محض رسمی ہوتی ہے، پاکستان کا اصل چیف ایگزیکٹیو تو وزیرِاعظم ہوتا ہے ۔

اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو سب ہی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ سمجھ میں آنے والی بات صرف اتنی ہے کہ 1999 میں جو قدم اٹھایا گیا وہ تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دے دیاتھا اور اس کے تحت 2007 تک حکومت ہوتی رہی لیکن جب یہ ہی قدم نومبر 2007 میں 3 ماہ کے لیے اٹھایاگیا اور 18فروری 2008 کو الیکشن ہو گئے تواس کو غدّاری کہ کے پرویز مشرّف کے خلاف غدّاری کا مقدمہ دائر کردیا گیا، یہ مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ 3نومبر 2007 کے اقدام کو سپریم کورٹ پاکستان 24 نومبر 2007 کو جائز قرار دے چکی ہے بعد میں مگر آ ئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو معطل کرنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا لیکن یہ ترمیم تو بہت بعد میں نافذ ہوئی، جس وقت صدر مشرف نے 3نومبر 2007 کو ایمرجینسی نافذ کی، اس وقت یہ غیر قانونی نہیں تھا۔ پھر یہ بھی مدّ نظر رکھنا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف دو مہینے کا ہے کیوںکہ الیکشن 8 جنوری 2008 کو ہونے والے تھے لیکن 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹّو کے قتل کی وجہ سے ان کو 14 فروری 2008 تک ملتوی کرنا پڑا، اِس وقت مشرف کے خلاف جو بینڈ بج رہا ہے وہ صرف تین مہینے کی ہنگامی حالت لاگو ہونے پر مبنی ہے جب کہ اس سے پہلے آٹھ برسوں کو یعنی 1999سے 2007 کی شان دار کاوشو ں کو فراموش کیاجا رہا ہے۔ پرویز مشرّف کے خلاف لوٹ مار کا کوئی الزام نہیں جب کہ ان سے پہلی حکومت نے جس انداز سے اس ملک کو لوٹا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں پرویز مشرف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ڈوبتے ہوئے پاکستا ن کو 1999میں اندھیروں سے نکال کر ’’Next 11‘‘ ممالک میں لاکھڑا کیا تھا، جو حقائق میں نے یہاں پیش کیے، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں انصاف کہاں؟ پچھلی حکومت کے حکم راں ہزاروں ارب روپے لے کر باہر چلے گئے، انہیں کوئی نہیں پوچھتا، جس کے نتیجے میں آج پورا ملک غربت کے اندھیرے میں ڈوب رہاہے۔ مشرف کے دونوں اقدام صحیح تھے یا دونوں غلط ؟ اگر صحیح ہیں تو پرویز مشرّف کوآزاد کر دینا چاہیے اور اگر غلط ہیں تو پھر 1999کا سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا اور اس کے لیے ججوں کو بھی دوسروں کے ساتھ سزاوار ہونا چاہیے۔

ایکسپریس: مشرف کے وکیل اِس نکتے کو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں لے جاتے؟
عطا الرحمن: ہو سکتا ہے لے گئے ہوں، مجھے اس کا علم نہیں مگر حکومت کو چاہیے کہ سب کے خلاف چارج لگائے۔

ایکسپریس: جو بات چوہدری شجاعت نے خود کواور پرویز الٰہی کو پکڑنے کی کہی تھی، کیا وہ درست تھی؟
عطا الرحمن: بالکل۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے درست کہا تھا، اب سب ڈھکوسلے بازی ہو رہی ہے، ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب نے اس الیکشن سے پہلے جو کچھ کہا تھا، وہ آج وقت نے درست ثابت کر دیا ہے کہ جب تک الیکٹیورل ریفارمز نہیں ہوں گی، ملک کے حالات درست نہیں ہوں گے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ہم نے برطانیہ سے جو جمہوری نظام مستعار لیا ہے، وہ پاکستان کے لیے سود مند نہیں ہے۔ ہماری ساٹھ سالہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے، ہمارے آدھے سے زیادہ لوگ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہیں، باقی آدھے لوگوں کا نصف صرف دست خط کرنا جانتے ہیں، جمہوری نظام وہاں چلتا ہے جہاں کے لوگ سیاسی جماعتوں کے منشور کو ان کی ساکھ کو پرکھ سکیں اور مقابلہ کر سکیں۔ میں نے ایک اپنی اصطلاح وضع کی ہے کہ پاکستان میں’’فیوڈوکریسی‘‘ ہے، جو جاگیرداروں، وڈیروں اور ان جیسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اِس نظام کو ڈیموکریسی کہتے ہیں، جب تک فیوڈوکریسی رہے گی ملک میں کبھی سول اور کبھی ملٹری حکومت کی باریاں لگتی رہیں گی، غریب مزید غریب ہوتا رہے گا اور لوٹ کا بازار گرم رہے گا، میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان پڑھ لوگ پارلیمنٹ میں آئیں تو ان کو کیبنٹ میں نہیں آنا چاہیے۔

ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے ان کی کابینہ میں کم از کم ماسٹر اور پی ایچ ڈی لوگ شامل ہیں، کابینہ میں میرٹ کی بنیاد پر لوگ آنے چاہئیں۔ علامہ طاہرالقادری نے جب الیکشن کمیشن کے ممبران پر اعتراض کیا تو اُس وقت کی حکومت نے ان کے ساتھ ڈراما رچایا، اُس کے بعد علامہ طاہر القادری کے خدشات کے عین مطابق الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، ہزاروں غلط انگوٹھوں کا اسکینڈل سامنے آچکا ہے، نیب کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اِس ملک میں شفاف الیکشن کے لیے آپ کو یہاں جمہوری صدارتی نظام لانا پڑے گا، یہاں برطانوی جمہوریت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ صدارتی جمہوریت کے تحت آپ ایک آدمی کو منتخب کریں جو اپنی ٹیم بنائے، وہ ٹیم ماہرین پر مشتمل ہو، ٹیم کے رکن اپنے شعبے میں قابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں، ہر وزارت کا سیکریٹری اُس وزارت کے اصل کام اور اس کی روح کو سمجھنے کا ماہر ہونا چاہیے۔ جاہل اور ان پڑھ افراد قانون سازی نہیں کر سکتے، عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لیے بی اے نہیں، ایم اے کی شرط ہونا چاہیے۔ تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا۔ تعلیمی شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک اعشاریہ تین فی صد خرچ کیا جارہا ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے۔ ملکی ترقی کے لیے حکومت تعلیمی شعبے کے اخراجات میں اضافہ کرے اور تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا دس فی صد تک بڑھائے۔ سابق دور حکومت میں پانچ غیرملکی جامعات کو پاکستان میں کام کی اجازت دی گئی تھی، جو اب تک ممکن نہیں ہوسکا، حکومت غیرملکی یونی ورسٹیاں پاکستان میں کھولنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے۔

ایکسپریس: صدارتی جمہوری نظام کی مدت کیا ہونی چاہیے؟
عطا الرحمن:کم از کم 10 سے 15 سال تک یہ نظام رہے گا تو ملک کی ساکھ بحال ہو سکے گی یا پھر یہ نظام اتنا عرصہ رہے کہ آپ کا تعلیمی لیول تبدیل ہو جائے، ملک میں شرح خواندگی 80 سے 90 فی صد ہوجائے، اُس کے بعد بے شک کوئی بھی جمہوریت کو لے آئیں۔ اب دوسری جانب آ جائیں اسلام کے اندر جمہوریت نام کی کوئی بیماری ہے ہی نہیں، اسلام میں تو شوریٰ کا نظام ہے اور یہ شوریٰ بھی فہم والوں سے حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ سورۂ انعام کی 115 سے 116 ویں آیات میں واضح حکم ہے کہ ’’ اور پوری ہے تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سنتا اور جانتا ہے۔۔۔۔۔اور اے سننے والے زمین میں اکثریت میں وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں، وہ صرف گمان کے پیچھے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں {‘‘، واضح ہوا کہ اللہ نے فہم والوں سے مشورے کا حکم دے رکھا ہے۔

جمہوریت کے نظام میں ہم اُس وقت تک غوطے کھاتے رہیں گے جب تک اِس نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائیں گے، اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اب بھی ہم نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر خونی انقلاب آئے گا، جو بہت سے لوگوں کو بہا لے جائے گا۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ بھی یہ ہی کہ رہے ہیں، حکومت سمجھ رہی ہے کہ ایک جنرل کو سزا دے کر دوسرے جنرل کو سبق سکھانے کی کوشش خام خیالی ہے، اب جو بھی آئے گا، ہو سکتا ہے وہ پکڑنے والوں کو پہلے ختم کرے، چھوڑے گا نہیں، اِس لیے بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور غالباً یہ بات حکومت کی سمجھ میں آ چکی ہے اور وہ جنرل مشرف کو یہاں سے جانے دے گی۔ یہ ہمت کرنے والے نہیں کیوںکہ فوج واقعی اندر سے بہت ناراض ہے، ابھی وہ خاموش ہے، اس لیے دانش مندی یہ ہی ہے کہ فوج کو خاموش ہی رہنے دیا جائے، آپ کے پاس ایک ہی تو ادارہ محفوظ ہے آپ اُس کو بھی تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ آپ ایک طرف دہشت گردی کی جنگ اِسی فوج کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب اسی فوج کی چولیں بھی ہلا رہے ہیں میں اِس کو دانش مندی قرار نہیں دے سکتا۔

یہ شاعری رنگوں کی، یہ مصوری لفظوں کی

$
0
0

 شاعری اب رنگوں کی زبان برتے گی، اشعار کینوس پر جلوہ گر ہوں گے۔ مصرعے نئے معنی، نئے مفہوم آشکار کریں گے!

یہ ایک منفرد منصوبے کا تذکرہ ہے، جو ایک بلاصلاحیت فن کار کی تخلیقی اپچ کا عکاس ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ شاہد رسام ان دنوں ’’گلزار اینڈ غالب‘‘ نامی منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جس کے تحت اشعار غالب اور کلام گلزار کو ’’سررئیل ازم‘‘ کی تکنیک میں کینوس میں سمویا جائے گا۔ اِس میں پینٹنگز اور میورل تو ہوں گے ہی، مجسمے میں تراشے جائیں گے۔ غالب کے لگ بھگ سو اشعار کینوس پر اتارنے کا ارادہ ہے۔ گلزار صاحب کی نظمیں اور مصرعے بھی لگ بھگ اِسی تعداد میں فن پاروں کی صورت اختیار کریں گے۔ اشعار غالب کا انتخاب خود گلزار صاحب کریں گے۔

اور گلزار صاحب کے کلام سے انتخاب کا ذمہ ممتاز ادیب شکیل عادل زادہ کے سر ہے۔ توقع ہے کہ اِن تین افراد کا اشتراک برصغیر میں فن مصوری کو ایک نئی جہت عطا کرے گا۔ منصوبے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ اِس سیریز پر کام کرتے ہوئے ایک ایسا مرحلہ بھی آئے گا، جب گلزار صاحب سازوں پر کلام غالب پڑھیں گے، اور شاہد ’’لائیو‘‘ اُن شبدوں کو مصور کریں گے۔

پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں بھی اِن فن پاروں کی ایگزیبیشن ہوں گی۔ پہلی نمایش اِسی برس متوقع ہے۔اِس انوکھے سلسلے کا آغاز کیسے ہوا؟ اِس سوال کے جواب میں شاہد بتاتے ہیں؛ اردو شاعری اور ادب اوائل سے اُن کی توجہ کا محور رہے۔ مشتاق احمد یوسفی، جون ایلیا اور انور مقصود جیسے جویان علم کی صحبت نے شوق مطالعہ کو مہمیز کیا۔ غالب یوں تو کم عمری سے مطالعے میں ہیں، مگر ’’دُرودرشن‘‘ سے نشر ہونے والی غالب سیریز نے اِس قادر الکلام شاعر کے عشق میں مبتلا کر دیا۔ اِس یادگار کھیل کے پیش کار، گلزار سے اُنھیں محبت ہوگئی۔ گیت اُن کے اپنے دل کی آواز معلوم ہونے لگے۔

لگ بھگ تین برس قبل یہ خیال ذہن میں کوندا کہ کیوں کہ کلام غالب کو کینوس پر منتقل کیا جائے۔ کہتے ہیں،’’یوں تو چغتائی، صادقین اور حنیف رامے جیسے آرٹسٹوں نے غالب پر کام کیا، مگر بڑے پیمانے پر کلام غالب کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ جب میں نے surrealist پینٹر کے طور پر دیکھا، تو مجھے غالب کے ہاں surrealist امیجری نظر آنی شروع ہوئی۔ دراصل Surrealism ایک بڑی تحریک تھی، جس نے آرٹسٹوں کو انسان کے لاشعور اور خواب کے درمیانی مسائل اور کیفیات سے متعلق کام کرنے کی راہ سجھائی۔ مجھے غالب کے ہاں وہ رنگ نظر آنے لگا۔ اِس پر سوچ بچار کے بعد میں نے گلزار صاحب سے رابطہ کیا۔ اُنھیں میرا خیال بہت پسند آیا۔ مجھے ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ گذشتہ برس، دسمبر میں میرا ہندوستان جانا ہوا۔ گلزار صاحب سے ہونے والی نشستوں میں یہ منصوبہ پھیلتا چلا گیا۔ اور پھر اِس نے موجودہ شکل اختیار کی۔‘‘

گلزار صاحب کی جانب سے اِس منصوبے کے اعلان پر ہندوستانی میڈیا کا ردعمل بہت ہی مثبت رہا۔ خاصا چرچا ہوا۔ ٹائمز آف انڈیا، مڈ ڈے، مہاراشٹر ٹائمز، ٹی وی نائن اور این ڈی ٹی وی نے اُن کے انٹرویوز کیے۔غالب پر تو کام کا فیصلہ کر چکے تھے، گلزار کے اشعار کو رنگوں میں ڈھالنے کا خیال کیوں کر آیا؟ اِس بابت کہنا ہے،’’گلزار صاحب شاید برصغیر کے وہ اکلوتے شاعر ہیں، جو گذشتہ پچاس برس سے دونوں ملکوں کے درمیان محبت اور امن کی بات کر رہے ہیں۔ غالب کا اُن جیسا عاشق میں نے نہیں دیکھا۔ اِن ہی عوامل کی وجہ سے یہ خیال تشکیل پایا۔‘‘اُنھوں نے گلزار صاحب کا ایک پورٹریٹ بنایا تھا۔ 45×60 انچ کے اِس پورٹریٹ کو گلزار صاحب نے بہت پسند کیا۔ ’’اُنھوں نے بہت محبت کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی کہا، آپ نے اتنا بڑا پورٹریٹ بنایا کہ ہم تو زیربار آگئے۔ ہمارے گھر میں تو ہمارے رہنے کی جگہ نہیں۔ میں نے یہی کہا کہ یہ نذرانۂ عقیدت ہے۔ میری محبت ہے، جسے میں نے پینٹنگ کی صورت پیش کیا۔ ساتھ ہی کہا کہ جناب آپ نے بڑا کمال کیا۔ غالب کو عام آدمی کے دل میں اتار دیا۔ اُنھوں نے جواب دیا؛ بھئی ہم نے کہاں کمال کیا۔ جب کبھی غالب کو پڑھتے ہیں، وہ کچھ عطا کر دیتا ہے، ہم لوگوں میں بانٹے چلے جاتے ہیں۔‘‘

شاہد صاحب ایک نئے زاویے سے غالب کو برتنے کے خواہش مند ہیں۔ ’’میرا راستہ ’سررئیل ازم‘ سے ’رئیل ازم‘ کی طرف ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ انسان سے انسان کا رشتہ، انسان کا خدا سے رشتہ۔ ناسٹلجیا۔ غالب اور گلزار کے کلام کی surrealist فارم کسی نے پینٹ نہیں کی۔ میں پہلا آدمی ہوں۔ اور خوش نصیب ہوں کہ مجھے گلزار صاحب اور شکیل عادل زادہ جیسے افراد کا ساتھ حاصل ہے۔‘‘

کام کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ہر دو تین روز بعد گلزار صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوتی ہے، جسے وہ thought provoking سیشن قرار دیتے ہیں۔ نئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ان ہی مکالموں کے طفیل وہ غالب کے ناسٹلجیا تک پہنچے، اس کے سیاسی نظریات بازیافت کیے، جو جلد اُن کے فن پاروں سے جھلکیں گے۔

گلزار صاحب کی ایک نظم ’’انسان اور چہرے‘‘ پر وہ میورل بنا چکے ہیں۔ اِس فن پارے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اِس منصوبے کو کس سطح پر لے جانے، کس ڈھنگ سے آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ معروف ہندوستانی اداکارہ، راکھی کا بھی اُنھوں نے حالیہ دنوں میں ایک پورٹریٹ بنایا ہے، جس کو ہندوستان میں بہت پسند کیا گیا۔ادبی ذوق کے حامل شاہد رسام فنون لطیفہ کی اصناف میں تفریق کرنے کے قائل نہیں۔ وہ اُنھیں فن کار کی تخلیقی صلاحیت کا پرتو قرار دیتے ہیں۔ ’’کہیں رنگوں سے شاعری ہوتی ہے۔ کہیں لفظوں سے مصوری ہوتی ہے۔ دراصل یہ اصناف ایک خاص سطح پر مل جاتی ہیں۔ اور اِس کی کئی مثالیں ہیں۔‘‘

اس منصوبے کا ایک فلاحی پہلو بھی ہے۔ بہ قول اُن کے،’’فراز کا ایک شعر ہے:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنی حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

یہی میرا نظریہ ہے۔ اِس سیریز کی نمایشوں سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ سلمان خان کی این جی او Being Human کو جائے گا۔ خود سلمان بھی اِس منصوبے میں شامل ہوں گے۔‘‘

اُن کے نزدیک آرٹ اینڈ کلچر وہ اکلوتا پُل ہے، جو دو ممالک کو قریب لاسکتا ہے۔ ’’فقط آرٹ ہی کے وسیلے افہام و تفہیم کی بات ہوسکتی ہے، کیوں کہ فن کی زبان آفاقی ہوتی ہے۔ اِس میں کوئی تیرا میرا نہیں ہوتا۔‘‘ یقین رکھتے ہیں کہ فنون لطیفہ کا فروغ عدم برداشت کے رویے میں کمی لاسکتا کہ اِس سے دلوں میں گداز پیدا ہوتا ہے۔ اِس ضمن میں ٹائم میگزین کی ایک ریسرچ کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جس کے مطابق شاعری، موسیقی اور مصوری بہتر انسان کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مغرب میں اس تکنیک کو برتا بھی جارہا ہے۔

مستقبل کے منصوبے زیربحث آئے، تو بتانے لگے، اُنھوں نے ’’انسان‘‘ کے زیر عنوان کانسی کا 25 فٹ اونچا مجسمہ تیار کیا ہے، جو آرٹس کونسل، کراچی کے نزدیک نصب ہوگا۔ اِس مجسمے کا وزن پانچ ہزار کلو ہے۔ اس سیریز میں ایک اور مجسمہ بنایا ہے، جو دہلی میں لگایا جائے گا۔

کہانی ایک مصور کی۔۔۔
اِس انوکھے کلاکار کی کہانی جدوجہد سے عبارت ہے، اور اُس قدیم نظریے کو مزید پختہ کرتی ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، صلاحیت اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔

شاہد رسام کی تخلیقی اپج نے اُنھیں دور نوجوانی ہی میں نمایاں کاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ آج ان کا شمار پاکستان کے اہم مصوروں میں ہوتا ہے۔ بیرون ملک بھی جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔

ایک نچلے متوسط گھرانے میں وہ پیدا ہوئے۔ حیدرآباد میں آنکھ کھولی۔ کورنگی میں پروان چڑھے۔ بچپن ہی سے ڈرائنگ سے لگاؤ تھا۔ والدہ حوصلہ افزائی کیا کرتیں، مگر غربت ایسی تھی کہ شاہد ڈرائنگ کی کاپی خریدنے سے خود کو قاصر پاتے۔ کاپی نہ ہونے کے باعث ایک روز ڈرائنگ کے استاد سے کڑی سزا ملی۔ اس واقعے نے باغی بنا دیا۔ بغاوت کے زیراثر لگے بندھے کلیوں کے خلاف ہوگئے۔ اپنا راستہ خود بنانے کی خواہش دہکنے لگی۔ جس زمانے میں صادقین فریئر ہال میں میورل بنایا رہے تھے، گیارہ سالہ شاہد گھنٹوں اُنھیں دیکھا کرتے۔ پھر معروف آرٹسٹ، اقبال مہدی سے ملاقات ہوئی۔ پورٹریٹ بنانا اُن ہی سے سیکھا۔ اگلے پندرہ برس ’’رئیل ازم‘‘ کے میدان میں مصروف رہے۔ نمایشوں میں حصہ لیا۔ ڈائجسٹوں کے لیے اسکیچ بناتے رہے۔ ادیبوں، شاعروں سے رابطہ رہا۔ جون ایلیا نے اُن کے نام کے ساتھ ’’رسام‘‘ کا لاحقہ تجویز کیا تھا۔ عربی زبان کے اِس لفظ کے معنی ہیں، مصور!

جدوجہد کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رہا۔ 95ء میں جامعہ کراچی سے جیولوجی اور 98ء میں اردو میں ایم اے کیا۔ 99ء میں برٹش کونسل کی اسکالر شپ پر لندن چلے گئے۔ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹس سے اس فن کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ وہیں ایک بیلے ڈانسر کو دیکھ کر “Oldest Profession Prostitution” کے موضوع پر مقالہ لکھنے کا خیال آیا۔ یہی مقالہ ’’رئیل ازم‘‘ سے ’’سررئیل ازم‘‘ کی جانب لے گیا۔

نمایشوں کا سلسلہ 1991-92 میں جامعہ کراچی میں ہونے والی سولو ایگزیبیشن سے شروع ہوا۔ جن 30 نمایشوں میں حصہ لیا، اُن میں سے 17 انفرادی تھیں۔ 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں، پاکستانی سفارت خانہ میں، اُن کے فن پاروں کی یادگار نمایش ہوئی۔ ٹورنٹو کے اُس پروگرام کا تذکرہ لازم ہے، جہاں مشہور آکسٹرا، کاؤنٹر پوائنٹ کی دھنوں پر انھوں نے ’’لائیو‘‘ پینٹنگ کرکے خوب داد بٹوری۔ وہ فن پارہ پچاس ہزار ڈالر میں نیلام ہوا۔ رقم زلزلہ زدگان کے لیے وقف کر دی گئی۔ برطانیہ، دبئی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، اسکاٹ لینڈ اور انڈیا میں ہونے والی نمایشوں میں بھی شرکت کی۔ کمرشل بنیادوں پر خاصا کام کیا۔ ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے فن پارے تخلیق کیے۔

یونیورسٹی آف بوسٹن، یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یونیورسٹی آف آرٹس، لندن اور یو اے ای یونیورسٹی العین میں وہ لیکچرز دیتے رہے ہیں۔ گذشتہ برس ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں لیکچر دینا ایک یادگار تجربہ رہا۔

91ء میں شاہد رسام نے جامعہ کراچی کی جانب سے بہترین آرٹسٹ ایوارڈ وصول کیا۔ 94ء میں قائد اعظم پورٹریٹ فرسٹ پرائز اُن کے حصے میں آیا۔ 95ء میں قائد اعظم اکیڈمی ایوارڈ اور اگلے برس قائد اعظم یوتھ ایوارڈ اپنے نام کیا۔ 2000 میں یو اے ای یونیورسٹی العین سے سال کے بہترین فن کار کا اعزاز پایا۔

مجسمہ سازی بھی شناخت کا مضبوط حوالہ ہے۔ اُن کے دو پیس ’’گھومتا دُرویش‘‘ اور ’’رقص زنجیر‘‘ کو شایقین فن نے بہت سراہا۔
2011 میں اُن کے فن پاروں پر مشتمل کتاب “Worshiper and Sinner” شایع ہوئی۔ کراچی کے علاوہ ٹورنٹو میں بھی اُن کا اسٹوڈیو ہے۔

بنگلہ دیش: حسینہ واجد کی انتقامی پالیسی کیا رنگ لائے گی؟

$
0
0

 بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی اپنی انتقامی خو پرقابو پانے میں مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔

مسزحسینہ نے نہ صرف تمام اپوزیشن جماعتوں کو ڈرا دھمکا کر، انھیں قیدوبند میں رکھ کر، انہیں الیکشن کے عمل سے باہر رکھ کر مرضی کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ وہ اسلام پسندوں بالخصوص جماعت اسلامی کودیوار سے لگانے کی پالیسی پربھی عمل پیرا ہیں۔ مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا حسینہ واجد سیاسی مدبر سیاستدان ہونے کے باوجود سیاسی مخالفین سے اس قدرخائف کیوں ہے؟ لیکن انہیں اس کا جواب نہیں مل رہا ہے۔

دسمبر2013ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادرملا کو پھانسی دیے جانے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کاغصہ قدرے ٹھنڈا ہوچکا ہوگا لیکن اب لگ رہاہے کہ جماعت اسلامی کے پچھتّر سالہ امیرمولانا مطیع الرحمان نظامی سمیت ایک درجن سے زائد اہم سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا سنا کر بنگلہ دیش کو دانستہ طورپر تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پربنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی حلقوں حتی کہ ذرائع ابلاغ نے بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن تازہ سزاؤں کے فیصلے کے بعدذرائع ابلاغ نے بھی زبان کھول دی ہے ۔

بنگالی ذرائع ابلاغ نے اب کی بار حسینہ واجد کی پالیسی پرکڑی تنقید کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ مولانامطیع الرحمان نظامی اور ان کے دیگرساتھیوں کو سزائے موت سنائے جانے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سیاسی، سماجی اور ابلاغی حلقوں کی جانب سے مسزحسینہ کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا ذہنی معائنہ کرائیں کیونکہ جس قسم کی سیاسی انتقامی پالیسی انہوں نے اپنا رکھی ہے وہ کسی بھی صورت میں ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔

اپوزیشن کے مسلسل احتجاج ، سیاسی انارکی اور حسینہ واجد کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں معیشت بدترین تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ ملک بھرمیں کاروبار زندگی متاثر ہوا ہے۔حسینہ واجد کے اقدامات کے باعث غیرجمہوری قوتوں کو سیاست میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔ بنگالی سیاست سے باخبرحلقوں کا خیال ہے کہ حسینہ واجددانستہ طورپر ملک کو فوج کے حوالے کرنے کی سازش کررہی ہیں۔اگرانہیں حالات کی نزاکت کا معمولی سا بھی ادارک ہوتو یہ اندازہ کرلینا چاہیے کہ اگراب کی بار فوج نے اقتدار سنبھالا توحسینہ واجد اپنی زندگی کے بقیہ ایام میں سیاست کے قابل بھی نہیں رہیں گی۔

دوسراجنیوا اجلاس، شامیوں کے غم غلط نہ ہوسکے
سوئٹرزلینڈ کے عالمی شہرت یافتہ شہرجنیوا میں عالمی طاقتیں اور دوستان شام سرجوڑ کربیٹھے ہیں تاکہ شام میں جاری فسادات اور کشت وخون کے خاتمے کی کوئی سبیل نکالی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے امن مندوب الاخضر الابراہیمی کی جانب سے شامی اپوزیشن اور بشارالاسد کے ترلے اور منتوں کے بعد بہ مشکل انہیں اجلاس میں شرکت پرآمادہ کیا گیا۔ جب فریقین اجلاس میں شرکت کو پہلے ہی کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے تو ایسے میں اجلاس ’’آمدن، نشستند، خوردن اور برخواستند‘‘ کے سوا کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی ۔تادم تحریر فریقین اپنی تقریروں میں تنقید برائے تنقید سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جبکہ اجلاس میں تنقید کی نہیں بلکہ معاملے کو سلجھانے اور اصلاح کی ضرورت تھی۔شامی اپوزیشن کے مندوبین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی مستقبل میں صدر بشارالاسد اور ان کے نورتنوں کو کسی قیمت پرقبول نہیں کریں گے جبکہ بشارالاسد اپنی انا اور ہٹ دھرمی پرقائم ہیں۔ دونوں فریقوں کے غیرلچک دار رویے کا نقصان عام لوگوں کو ہو رہا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ جب تک بشارالاسد اپنی انا کا بت توڑتے ہوئے اپوزیشن کی شرائط کی طرف نہیں آتے تب تک کشت وخون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فریقین نے جنیوا اجلاسوں کے دوران دو دن تک سیز فائرکا عندیہ دیا تھا مگر ان دو دنوں کے دوران سرکاری فوج کی گولہ باری سے کم ازکم تین سو افراد جاں بحق اور ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں جنیوا اجلاس کیا گل کھلائے گا؟

جان کیری کا مشرق وسطیٰ امن فارمولہ
امریکی وزیرخارجہ جان کیری مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے پچھلے چھ ماہ سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس اگست میں فلسطین اسرائیل براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ جان کیری کی مساعی اپنی جگہ لیکن شائد انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے پیشرو بالخصوص ہیلری کلنٹن، کنڈو لیزارائس، سابق صدر جارج بش اور بل کلنٹن بھی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا سنہری خواب دیکھتے دیکھتے تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ہٹ دھرم اسرائیلیوں نے جو طرز عمل سابق امریکی ثالثوں کی کوششوں کے ساتھ کیا، وہی انہوں نے جان کیری کے ساتھ بھی کیا ہے۔

جان کیری کی جانب سے فلسطین اسرائیل مفاہمت کے لیے اس ماہ اپریل تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اپریل میں کیا ڈیل ہونے والی ہے اور کیا یہ ڈیل ہوسکے گی یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اب تک کے حالات اور فریقین کے رویوں سے کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہورہاہے کہ مستقبل میں کیاہونے والا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ فریقین نے اب تک کے جان کیری کے امن فارمولے کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ جان کیری نے اپنی امن تجاویز میں کہا ہے کہ بیت المقدس کو فلسطین اور اسرائیل دونوں کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن سے یہودی بستیاں ختم کردے۔ اگرا یسا نہیں تو فلسطینی شہروں اور آبادی کا تبادلہ کرلیا جائے لیکن اردن سے متصل وادی اردن پراسرائیل کا قبضہ برقرار رہے۔ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کا معاملہ اس فارمولے کا حصہ نہیں ہے۔ ان تجاویز کو فریقین میں سے کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اسرائیل کا طرز عمل زیادہ سخت اور ہٹ دھرمی پرمبنی ہے۔ اس لیے اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھتادکھائی نہیں دیتا ہے۔

مصر:فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے
مصرمیں پچھلے سال اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد حالات اب بھی فوجی حکومت کے قابو سے باہر ہیں مگرجنرل عبدالفتاح السیسی کی صدارتی انتخابات میں دوڑ میں باضابطہ شمولیت کا اعلان اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ صدارتی انتخابات کی تاریخ کا تعین تو نہیں ہوا ہے مگریہ طے ہے کہ اگرجنرل عبدالفتاح سیسی میدان میں اترے تو ’’بندوق کی نوک پر‘‘ان کی کامیابی یقینی قرار دی جاسکتی ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان سے یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ ملک میں فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے ہیں اور مستقبل قریب میں کسی حقیقی جمہوری اور عوام کے نمائندہ نظام حکومت کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔

فوج کی نگرانی میں قائم عبوری حکومت سیاسی مخالفین بالخصوص زیرعتاب اخوان المسلمون کومستقبل کے سیاسی نقشہ راہ میں کسی قسم کا کردار سونپنے پرآمادہ نہیں ہوگی۔ العربیہ ٹی وی کی ایک تجزیاتی رپورٹ اور دیگر مبصرین کے خیال میں موجودہ فوجی آمریت خود کو عوام میں مقبول عام بنانے اور عوام کی اشک شوئی کے لیے کچھ ایسے اقدامات ضرور کرے گی، جس سے عوام کو قدرے ریلیف ملے گا لیکن مخالفین کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال کی پالیسی ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہے۔

بندوق کی نوق پرصحافت پرقدغنیں
مصرمیں ایک بڑا مسئلہ آزادی صحافت کا ہے۔ جب سے فوج نے اقتدارپرقبضہ کیا ہے اہل صحافت کا گلہ گھونٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی۔ خاص طورپر فوجی حکومت کی مخالفت کرنے والے عرب اور مغربی ابلاغی اداروں کے نمائندگان کو گرفتاریوں اور حراستی مراکز میں تشدد کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی قاہرہ حکومت کی اس پالیسی سے سخت ناراض ہیں۔ مصرمیں روشن خیالوں کے کھلے حامی سمجھے جانے والے مغربی بالخصوص یورپی ممالک اور امریکا نے بھی مصرکے حوالے سے سرد مہری کا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے عبوری حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ صحافتی آزادیوں پرقدغنیں لگانے سے باز رہے توقاہرہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جاسکتے ہیں،لیکن فوجی سرکار کی جانب سے یورپی مطالبے کو قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا گیا ہے۔مصرمیں صحافتی آزادیوں بالخصوص آزادی اظہار رائے پرناروا پابندیاں صرف مصرہی کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، کیونکہ ان پابندیوں کا نشانہ عالمی ابلاغی اداروں کے صحافی بن رہے ہیں۔

ڈرون پالیسی میں تبدیلی حقیقی یا فریب دشمناں
امریکی صدربارک اوباما کی جانب سے ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ کی کمرتوڑنے کی پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔ یہ موضوع چند سطورمیں مکمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ باراک اوباما کا بیان اپنی جگہ اہم سہی لیکن جب تک کانگریس اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ’’سی آئی اے‘‘ ڈرون پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ نہیں کریں گے، کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل سکے گی ۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ اور ان کے حامی گروپوں کے خلاف تازہ کارروائی پاکستان اور یمن میں جاری ہے۔ پاکستان ان ڈرون حملوں پر کئی بار احتجاج کرچکا ہے جسے ملک کے بیشترحلقے رسمی سمجھتے ہیں مگریمن کی جانب سے ڈرون حملوں پر کوئی جاندار رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ’’سی آئی اے ‘‘اب بھی پاکستان اور یمن کے قبائلی علاقوں کو القاعدہ کے بڑھتے خطرات کے حوالے سے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ قرار دے رہا ہے۔امریکی صدر کے بیان کے بعد سی آئی اے چیف کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے۔ ان کے بیان کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرلیاجائے تو یہی مطلب نکلتاہے کہ اوباما اپنا پالیسی بیان اپنے پاس رکھیں کیونکہ ابھی امریکا کو ڈرون کی پیدوار اور اس کے استعمال کا دائرہ کار بڑھانا ہے۔

عراق:2014ء کو ایک ہزارجانوں کی قربانی سے سلامی
سابق مصلوب عراقی صدر صدام حسین کی آمریت کے خاتمے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعے خوشحالی اور امن وجمہوریت کا خواب دکھانے والے عالمی ٹھیکداروں نے جو گل کھلائے ہیں اس کا نتیجہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔جس انارکی اور بدامنی کا شکار عراق اب ہوا ہے ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ امریکی کٹھ پتلی جہاں افغانستان میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے وہاںنوری المالکی سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سو وہی کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا۔ جنوری 2014ء رواں سال کا پہلا مہینہ عراقی عوام کے لیے خونی ثابت ہوا اور سال نو کو ایک ہزار جانوں کی قربانی سے سلامی دی گئی۔ قتل عام کی یہ وحشت ناک صورتحال نوری المالکی کی آمرانہ او ر منافقانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ مالکی تمام مسائل کا حل صرف فوجی طاقت کے ذریعے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سنی اکثریتی صوبہ الانبار دو ماہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے، پانچ لاکھ افراد شہرچھوڑنے پرمجبور ہوئے ہیں۔ سرکاری فوج کے حملوں میں پارلیمنٹ کے ارکان بھی محفوظ نہیں رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم مسلسل یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ملک کوامن کا گہوارا بنا لیا ہے۔ایک ماہ میں ایک ہزار افراد کی ہلاکت اور پھربھی امن،’’ حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی‘‘۔

روشن خیال عالمی جمہوریہ کا تاریک چہرہ
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ قرار دیا جانے والا بھارت حقوق نسواں اور ان کی آزادیوں کے حوالے سے ایک خونخوار ریاست کے طورپر متعارف ہونے لگا ہے۔ بھارت میں خواتین کو کتنے حقوق حاصل ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن نئی دہلی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ سمجھنے والوں کے دماغ کے معائنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ فی الوقت ہندو دھرم کی ذات پات اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی پرمبنی تعلیمات ہمارا موضوع نہیں۔ ہم بھارت کے اس جدید تاریک چہرے کو دیکھ رہے ہیں دنیا میں جسے سب سے زیادہ روشن خیال سمجھا جاتا رہا ہے۔ البتہ اب عالمی برادری کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ تنگ ذہن بھارتی سماج میں خواتین کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے کوئی ایک مثال نہیں بلکہ ایک عشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیںجن میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کا انکشاف کیا گیا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ بھی مان رہے ہیں کہ بھارت غیرملکی خاتون سیاحوں کے حوالے سے جنت کبھی نہیں رہا ہے لیکن اب یہ جہنم ضرور بن چکا ہے۔ پچھلے دو برسوں کے دوران میں غیرملکی سیاح خواتین کے ساتھ زیاتی کے پانچ سو واقعات رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ اندرون ملک خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے پورے بھارت کو دنیا کے سامنے بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداو شمار نہایت خوفناک ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں خواتین کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا ہے۔

ویلنٹائن ڈے… جب دل سے دل ملتے ہیں

$
0
0

 فروری کا مہینہ اس اعتبارسے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طرف تو بہار کے موسم کا آغازہوجاتا ہے اوردوسری جانب ’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘ کی مناسبت سے سُرخ رنگ کے پہناوے اورسُرخ گلاب ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔

’ ویلنٹائن ڈے ‘ کوسرخ گلاب سے محبت کے اظہارکا دن کہا جاتا ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس دن کومنانے کیلئے نئے سال کے آغاز پر ہی تیاری میں لگ جاتی ہے۔ خوبصورت سُرخ پیراہن اورگلاب ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کوتحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔ تقریبات کا انعقاد اور خصوصی پروگرام بھی اس دن کو یادگاربنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’’ایکسپریس سنڈے میگزین‘‘ کیلئے کئے جانے والے فوٹوشوٹ میں معروف اداکارہ وماڈل حیاء اور عبدالصمدخان ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی عکاسی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہروہ دن ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ ہوتا ہے جب دل سے دل ملتے ہیں۔

برطانیہ کے سفاری پارک میں شیروں کا پورا خاندان مارڈالا گیا

$
0
0

گذشتہ ماہ جنوبی انگلستان میں واقع Longleatکے سفاری پارک میں ایک شیر (ہنری) اس کی شیرنی (لوسیا) اور ان کے چار بچے بے دردی سے ہلاک کردیے گئے، جب کہ Longleat کو شیروں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے قائم سب سے اہم سفاری پارک سمجھا جاتا تھا، مگر انہیں ان کی اپنی ہی پناہ گاہ میں جس طرح موت کے گھاٹ اتارا گیا، اس پر دنیا بھر میں بڑے غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالا سفاری پارک جنوبی انگلستان کی کاؤنٹی Wiltshire کے Marquess of Bath نامی مقام پر 1966میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ برطانیہ کا پہلا وائلڈ لائف سفاری پارک ہے جہاں کی خاص اور پرکشش چیز ’’شیر‘‘ ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے بے شمار لوگ یہاں آتے ہیں۔

اس بار موسم سرما کی طویل چھٹیوں کے بعد جب اہل برطانیہ نے سکون کا سانس لیا تو انہوں نے سیر و تفریح کی خاطر اس سفاری پارک کا رخ کیا، مگر شیروں کو وہاں نہ پاکر وہ حیران ہوگئے، کیوں کہ وہاں آنے والے اکثر تماشائی صرف شیروں کو دیکھنے کی خاطر ہی وہاں پہنچے تھے۔ جب انہوں نے شیروں کی غیرحاضری کے بارے میں عملے سے سوال کیا تو نہ تو کسی نے انہیں جواب دینے کی کوشش کی اور نہ ہی انہیں مطمئن کرسکے۔ اس چیز نے تماشائیوں کو اور بھی مشتعل کردیا اور ہر طرف سے سوال کیے جانے لگے کہ جو سفاری پارک اپنے شیروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھا، اس کے شیروں کو یکایک کیا ہوگیا۔ ان کی صحت کے بارے میں سوال کیا گیا تب بھی کوئی جواب نہ مل سکا۔ کچھ ہی دن بعد یہ خبر ہر طرف پھیل گئی کہ شیروں کے اس پورے خاندان کو خود مالکان نے ہلاک کروایا ہے۔

اس حوالے سے جب Longleat کے ذمے داروں اور مالکان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:’’چند نامعلوم وجوہ کی بنا پر شیروں کا یہ خاندان نہ جانے کیوں مشتعل اور جارح ہوتا جارہا تھا، یہ آنے والے تماشائیوں پر بھی حملے کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنی نگہداشت پر مامور عملے کے لیے بھی خطرہ بن رہے تھے، چناں چہ عوامی تحفظ اور سلامتی کی خاطر انہیں ہلاک کردیا گیا۔‘‘

یہ بات تو اپنی جگہ تھی، مگر جب Longleat کے عملے کو اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے محبوب جانوروں کے ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کیا گیا ہے تو وہ بلک بلک کر رو پڑے اور انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ وہ شیر عملے یا تماشائیوں کے لیے خطرناک ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیروں کی یہ پوری ہی فیملی بڑی ہنس مکھ تھی اور تماشائیوں کے ساتھ کھیل تماشے کرتی تھی، ایسے جانور خطرناک کیسے ہوسکتے ہیں۔ Longleat سفاری پارک میں چھے شیروں کو ہلاک کرنے پر عملے کے ساتھ ساتھ بے شمار افراد غم و اندوہ میں ڈوب گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان شیروں کو ہلاک کرنے کی کوئی معقول ظاہری وجہ نہیں تھی۔

شیروں کی ہلاکت کا کام بڑے منظم طریقے سے انجام دیا گیا تھا اور جنوری کے مہینے میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی نگرانی میں اس کے لیے خصوصی آپریشن ہوا تھا، جس میں شیر (ہنری) شیرنی (لوسیا) اور ان کے چار بچے، یہ سب بے دردی سے ہلاک کردیے گئے۔ سفاری پارک میں آنے والے بے شمار تماشائیوں نے اس ’’آپریشن‘‘ کو وحشیانہ قرار دیتے ہوئے اس کی کھل کر مذمت کی۔

لیکن جنوبی انگلستان کی کاؤنٹی Wiltshire کے Marquess of Bath پر قائم سفاری پارک کے مالکان نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ شیروں کی اس فیملی کی وجہ سے صحت کے سنگین خطرات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیروں کے اس خاندان کے سبھی ارکان کے رویے وحشت ناک ہوتے جارہے تھے اور ان کی وجہ سے متعدد خطرات پیدا ہونے لگے تھے۔ لیکن شیروں کی اس پناہ گاہ میں کام کرنے والے متعدد سابق ورکرز نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سچ ہوتا کہ شیروں کی اس فیملی کا رویہ خطرناک ہوچکا تھا تو عملے کے افراد اس طرح پھوٹ پھوٹ کر نہ روتے جس طرح وہ ان جانوروں کی ہلاکت پر روئے ہیں۔

یہ صرف تین ہفتے پہلے ہی کی تو بات ہے جب مشہور و معروف Longleat سفاری پارک کی شان ’’شیروں کے اس خاندان‘‘ کی تصاویر کھینچی گئی تھیں جو پارک میں ہنسی خوشی کھیل رہے تھے جن میں سے ایک شرارتی چھوٹا شیر شاہ بلوط کے تیس فٹ بلند درخت پر چڑھ گیا تھا، پھر اس نے درخت سے چھلانگ ماری تو زمین پر اس طرح گرا کہ اپنے چاروں پیروں پر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس منظر کو دیکھ کر تماشائی حیران رہ گئے تھے۔

اندر کے ایک آدمی کا کہنا تھا کہ ان شیروں کو مہلک اور زہر آلود انجیکشن لگاکر ہلاک کیا گیا تھا جو ان جانوروں کو ایک tranquiliser gun کے ذریعے لگایا گیا تھا۔ شیروں کی اس پناہ گاہ میں کام کرنے والے کچھ سابق کارکنوں نے یہ سوال کیا ہے کہ اس طرح شیروں کو موت کے حوالے کرنے کا حق اس پارک کے مالکان کو کس نے دیا تھا؟

واضح رہے کہ شیرنی (لوسیا) 2011میں اس سفاری پارک میں پہنچی تھی۔ اس سے پہلے وہ سمرسٹ میں ریکسل کے Noah’s Ark Zoo Farm میں رہتی تھی۔ شیروں کے خاندان میں لوسیا کی شمولیت یہ خاندان لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز بن گیا، یہاں پہنچنے کے بعد اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہوا جس کے بعد اس کا اور دیگر شیروں کا رشتہ اور بھی مضبوط ہوگیا۔

سفاری پارک کے ایک ملازم نے جس کا کام نئے آنے والے جانوروں کی خصوصی دیکھ بھال کرنا ہے، پوچھنے پر بتایا کہ یہ وہ وقت تھا جب یہ جوڑی اپنے بچوں کے ساتھ خوب کھیلتی تھی اور لطف اندوز ہوتی تھی۔ ان دونوں نے مل کر دل و جان سے اپنے بچوں کی حفاظت بھی کی اور سب کو یکساں محبت دی۔

Noah’s Ark Zoo کے ایک ترجمان نے کہا:’’اس شیرنی کی ہلاکت کے بارے میں Longleat سفاری پارک کی جانب سے ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ میرے خیال میں لوسیا جیسی شیرنی کو مارنے کی وجہ کچھ اور نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے کہ اسے کوئی موذی بیماری لگ گئی ہو۔ ویسے اس ضمن میں ہم Longleat کے عہدے داروں اور انتظامیہ سے رابطہ کریں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ ہمارے تحفے کو اس طرح کیوں رخصت کردیا گیا۔‘‘

جان نائٹ شیروں کے عالمی ماہرین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’شیروں کے اس طرح ہلاک کیے جانے پر مجھے دلی صدمہ ہوا ہے۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک عجیب و غریب حرکت ہے جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور میرے خیال میں Longleat کی انتظامیہ ایسی نامعقول حرکت نہیں کرسکتی۔ یقیناً اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس سبب ہوگا۔ ویسے بھی Longleat والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کی حرکت سے ان کے عملے اور ارکان میں بے چینی پھیل سکتی ہے۔ وہ پریشان ہوسکتے ہیں۔‘‘

جیسا کہ ہم نے شروع میں لکھا ہے کہ جان نائٹ دنیا بھر میں شیروں کے ٹاپ کلاس ماہرین میں شامل ہیں اور وہ کافی عرصے تک ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ساتھ مشاورتی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:’’جو کچھ ہم نے سنا، وہ شیروں کے تحفظ کے پروگرام کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک شیرنی اور اس کے بچوں کو جس طرح ہلاک کیا گیا ہے، اس پر بحث ہوسکتی ہے، لیکن جب تک تمام حقائق سامنے نہیں آجاتے، اس وقت تک ہم Longleatکی انتظامیہ اور عہدے داروں کی بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اکثر چڑیا گھروں میں برتھ کنٹرول پروگرام چلائے جاتے ہیں جس سے جانوروں کی آبادی کو عمدگی سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور ان کی افزائش نسل کے لیے اچھے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن Longleat میں شیروں کی اس انداز سے ہلاک یقینی طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔ چڑیا گھروں میں جانور مشتعل ہوتے رہتے ہیں اور ان کی انتظامیہ اس کے لیے مؤثر اقدامات بھی اٹھاتی ہے، مگر اس انداز سے تمام چھ شیروں کی ہلاکت نہایت افسوس ناک ہے۔‘‘

شیروں کے ایک اور عالمی ماہر اینڈریو گرین وڈ ہیں جن کا تعلق انٹرنیشنل زو ویٹ گروپ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے:’’چڑیا گھروں کو جانوروں کی افزائش پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں، شیروں کو زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے لیے خصوصی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں، اس لیے بعض چڑیا گھر انہیں رکھنا پسند نہیں کرتے۔‘‘

Longleat میں کام کرنے والے ایک ملازم نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ شیروں کو اس طرح ہلاک نہیں کرنا چاہیے تھا، ہنری کو کسی دوسرے چڑیا گھر کے ہاتھ فروخت کیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ یہ تمام کام اس وقت انجام دیا گیا جب Longleat سردی کی چھٹیوں کے لیے بند تھا، اس لیے کسی کو کچھ پتا نہیں چل سکا اور شیر صفحۂ ہستی سے مٹادیے گئے جس کا بے شمار لوگوں کو افسوس ہے۔‘‘

Longleat کے ذرائع کا کہنا ہے:’’شیرنیوں میں امید سے ہونے کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے رویے بھی وحشت ناک ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے خود ان کے اپنے بچوں کے لیے بھی خطرات بڑھ رہے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی۔ ویسے بھی اسی سال ہنری نامی شیر اپنے دیگر ساتھیوں سے لڑپڑا جس کے نتیجے میں وہ خود بھی زخمی ہوا اور اس کے دوسرے شیر ساتھی بھی۔ اس کے بعد Longleat کی انتظامیہ فکرمند ہوگئی۔

کچھ اور شیروں میں بعض ایسی موذی بیماریوں کے جراثیم پائے گئے جن کی وجہ سے ان کی اپنی جانوں کو بھی خطرہ لاحق تھا اور دیگر بھی ان کی زد میں آسکتے تھے۔ اس لیے انہیں مجبوراً ہمیشہ کے لیے رخصت کرنا پڑا۔

عدم برداشت

$
0
0

 انسانی معاشرہ ایک گل دستے کی طرح ہے جس طرح گل دستے میں مختلف رنگ کے پھول اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذہب اور مختلف النسل کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے ، اگر کسی جگہ ایک ہی نسل اور مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو اسے ہم معاشرتی گروہ تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے کلیتاً معاشرے کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔

تاہم معاشرے کی مختلف اقسام ضرور ہوتی ہیں جیسے مذہبی معاشرہ، کمیونسٹ معاشرہ وغیرہ، مگر ان میں بھی ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں، کسی غالب اکثریت کی وجہ سے ایسے معاشرے کو ایک خاص قسم سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جیسے روس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ معاشرہ ہے اسی طرح ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی معاشرہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ان معاشروں میں دوسرے مکتبہ فکر کے لوگ موجود نہیں ہیں ، وہاں ہر نسل، ہر سوچ اور مذہب کے افراد موجود ہیں مگر غالب اکثریت چونکہ اقتدار میں بھی ہے اس لئے انھی کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے ۔

میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔

ٹریفک سگنل کو ہی لے لیں ، وہاں پر کھڑا ہر فرد دوسرے سے جلدی میںدکھائی دیتا ہے خاص طور پر موٹر سائیکل سوار تو اشارہ کھلنے کا بھی انتظار نہیں کرتے، ابھی سگنل سبز سے سرخ بھی نہیں ہوتا کہ وہ موٹرسائیکل بھگا لے جاتے ہیں اور اگر سگنل پر ٹریفک اہلکار موجود نہ ہو تو پھر سگنل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، افراتفری کے عالم میں چوراہے کو پار کرتے ہیں، اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاًمعاملہ تھانے کچہری میں چلا جاتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو یقینا ً دوسرے کو بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کرنا پڑے گا اور معاملہ وہیں رفع دفع ہو جائے گا، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کا چلن بالکل بدل چکا ہے، بات کو ختم کرنے کی بجائے بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔

عدم رواداری کے اس بڑھتے ہوئے خوفناک رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آ رہے ہیں کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے ڈیفنس میں بھی تشدد کا ایک ایسا ہی شرمناک واقعہ پیش آیا۔ ایم اے او کالج کے پروفیسر سلمان رفیق کے گھر ایک 14سالہ ملازمہ فضہ بتول پانچ سال سے کام کرتی تھی ۔ پروفیسرسلمان گزشتہ ایک ماہ سے اس پر تشدد کر رہا تھا جب اس کی حالت غیر ہوئی تو ہسپتال میں داخل کرا دیا جہاں پر میڈیکل رپورٹ میں جنسی زیادتی بھی ثابت ہوئی ۔ فضہ پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکی اور دو روز کے بعد چل بسی ۔ پروفیسر سلمان رفیق نے اپنا جرم تسلیم کر لیا۔ اس واقعے کے بعد ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی پڑھے لکھے مہذب انسان سے ایسی بہیمانہ واردات سرزد ہونے کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم معاشرتی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ پڑھے لکھے افراد بھی ایسی وارداتوں کا ارتکاب کرنے لگے ہیں ۔

مذہب انسان کو اخلاق کا درس دیتا ہے، اس کے اندر ایسے اعلٰی اوصاف پیدا کرتا ہے کہ وہ بہترین انسان بنے اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو ، مگر ہمارے معاشرے میں مذ ہب کو ہی سب سے زیادہ جارحیت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ، مختلف مکتبہ فکر کے اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ مختلف فرقے کے افراد ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہیں ۔ اب تک ہزاروں افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ کچھ مذہبی گروہ مذہب کو بالکل ہی مختلف انداز میں استعمال کر رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کا پسندیدہ مذہب نافذ کیا جائے اور اس کے لئے مسلح جد وجہد کو جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام تو میانہ روی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کر دینے کو افضل قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح دوسرے مذاہب چاہے وہ الہامی ہیں یا انسانوں کے بنائے ہوئے سب میں دوسروں کو برداشت کرنے کا درس دیا گیا ہے ، مگر بدقسمتی سے مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی بجائے اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی جاتی ہے، یوں مذہب سوسائٹی کی اصلاح کی بجائے لڑائی جھگڑے اور فساد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسی بنیاد پر لبرل طبقہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینے پر زور دیتا ہے، حالانکہ مذہب ذاتی معاملہ نہیں ہے یہ تو طرز معاشرت ہے یعنی مذہب کو عام زندگی میں برتا جائے، اگر لبرل طبقہ کی اصول پرستی اور اخلاقیات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بہت سے اصول الہامی مذاہب سے ہی اخذ کیے گئے ہیں، گویا انھیں بھی کہیں نہ کہیں مذہب کا سہارا لینا ہی پڑا ہے ۔ مذہب کا مقصد ہی معاشرے سے برائی کا خاتمہ کر کے امن و سکون قائم کرنا ہے تو پھر اسے ذاتی معاملہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم دوسروں پر زبردستی اپنی سوچ تھوپنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی اور یہی مذہب سکھاتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی ہے جس کا دل اسلام کی حقانیت تسلیم کر چکا ہو جب معاملہ دل کا ہے تو بات محبت سے دل میں اتاری جا سکتی ہے ناکہ زبردستی ۔

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان میں اضافے کی بڑی وجہ معاشرتی مسائل ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی بری طرح پس رہا ہے جیسے مہنگائی ، بیروزگاری، عدم تحفظ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ۔

پاکستانی سوسائٹی میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر عمرانیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا کہتے ہیں ’’ہماری سوسائٹی میں جہالت اور تنگ نظری بہت زیادہ ہے، علم کا پھیلاؤ نہیں ہے ، جہالت کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں وہی ٹھیک ہے یعنی ہم مختلف آراء جاننے کی بجائے اسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں جو ہمارے مطابق ٹھیک ہوتا ہے ، اس کی مثال یو ٹیوب کی بندش سے لے لیں کہ اسے صرف اس لئے بند کیا گیا کہ وہ ہمارے مطابق نہیں ۔ جہاں جہالت ہو گی وہاں عدم برداشت بڑھے گی، یہی کچھ ہماری سوسائٹی کے ساتھ ہو رہا ہے، یہاں تو یہ حال ہے کہ پولیو کی ٹیم پر گولیاں چلائی جاتی ہیں ۔ ہمیں اپنے معاشرے میں سائنٹیفک نالج بڑھانا ہو گا تا کہ حقیقت پسندانہ سوچ بڑھے جس سے معاشرے میں توازن پید ا ہو گا ، آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لئے کام کرنا ہو گا اس سے عام آدمی کا ویژن وسیع ہو گا ، جس کا خاطر خواہ اثر معاشرے پر پڑے گا اور جارحیت ، غصہ اور تشدد میں کمی ہو گی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے کلچر کی ترویج ہو گی۔‘‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز نے عدم برداشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے میں یہ ایک بہت بڑی برائی پیدا ہو گئی ہے کہ ہم ہر چیز کو اتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، جیسے اگر کسی ملازمت کے لئے 100 سیٹیں ہیں اور اس کے لئے ایک ہزار افراد نے درخواست دے رکھی ہے تو ہر کوئی یہی چاہے گا کہ اس کی ملازمت ضرور ہو ، حالانکہ سوچ تو یہ ہونی چاہئے کہ جو 100 لوگ اس کے اہل ہیں ان کو نوکری ملے اور دوسرے اسے کھلے دل سے تسلیم کر لیں۔ مگر یہاں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے اسے ضرور ملے، یوں ہر فرد ٹنشن کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہ ٹنشن اس کی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معاشرتی ناہمواریاں بھی عدم برداشت کی بہت بڑی وجہ ہیں، جو لوگ وسائل پر قابض ہیں ان کے خلاف بہت زیادہ غصہ پایا جاتا ہے، عام آدمی اسے اپنے ساتھ ناانصافی تصور کرتا ہے۔

سیاست کو ہی لے لیں، اپوزیشن حکومت کو گرانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، میڈیا بھی ایسی ہی خبروں کو اچھالتا ہے، اگر کوئی سیاستدان کشادہ دلی سے دوسرے کا موقف تسلیم کر لیتا ہے تو اسے بزدل قرار دیا جاتا ہے، یوں کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں رواداری کا درس دیتا ہے مگر ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے ، کسی بھی فورم پر رواداری اور دوسروں کو برداشت کرنے کی بات نہیں ہوتی ، اگر ہر فورم پر چاہے وہ مذہبی ہو ، معاشرتی ہو یا پھر سیاسی، رواداری کی بات کی جائے تو اس سے معاشرے میں پایا جانا والا یہ تناؤ، غصہ ، تشدد خود بخود کم ہونا شروع ہو جائے گا۔‘‘

روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے ، معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے چاہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کے لئے انھوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ایک خاتون اگر بازار میں خریداری کرنے جاتی ہے تو اس میں اس وجہ سے غصہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔

یہ غصہ پورے معاشرے میں ہے اور جس کا اظہار کبھی احتجاج کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں ، جرائم بڑھ رہے ہیں ، فرقہ واریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام رواداری کا درس دیتا ہے، اگر ہم لوگ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت ہر فورم پر رواداری کو اجاگر کرنے کے لئے کوشش کرے ، مذہبی و سماجی رہنما اس حوالے سے خاص طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عوام میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اس سے عوام کو ذہنی سکون ملے گا۔ اس سے بھی عوام میں پایا جانے والا خوف یا غصہ کم ہو گا ۔‘‘


یہ کھٹ پٹ، یہ ناراضگیاں

$
0
0

گلیمر، رنگوں اور روشنیوں کی چکا چوند سے سجی بولی وڈ کی فلم دنیا جسے طلسماتی اور جادو نگری بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ یہاں ہر گذرتا لمحہ رنگ بدلتا ہے کب کیا ہوجائے؟ یا کب کوئی کیا کہہ دے؟ کسی کا کوئی اعتبار نہیں دوست جو آج جان سے پیارا ہے کب دشمن بن جائے اور دشمن کب دوست بن جائے اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔

دلوں میں ایک دوسرے کی کام یابی پر حسد کرتے ہوئے بظاہر ہونٹوں پر والہانہ مسکراہٹ سجائے ایک دوسرے سے یوں گلے ملیں گے جیسے ان سے بڑھ کر ان کا کوئی خیرخواہ نہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب دکھاوے کی محبت کا اظہار میڈیا پر ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ ان سب سیلیبریٹیز کے درمیان حسد، جلن، لڑائی جھگڑے، تو تو میں میں اور ہاتھاپائی ہونا اب عام سی بات لگتی ہے، کیوں کہ یہاں پل پل بدلتے موڈ کے ساتھ رویے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ بولی وٖڈ کی ایسی ہی چند مشہور لڑائیوں کا ذکر ہے۔

سلمان خان اور ویویک اوبرائے

فلم انڈسٹری کے ان دو اسٹارز کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجہ ایشوریا رائے تھی۔ جب ایشوریا سلمان خان کی گرل فرینڈ تھی اس وقت تک یہ دونوں بہت اچھے دوست تھے، جب سلمان سے بریک اپ کے بعد ایشوریا نے ویویک اوبرائے سے تعلقات استوار کرلیے تب سلما ن نے اس کی کُھل کر مخالفت کی اور ویویک کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا ایشوریا اور ویویک کی فلم ’’کیوں ہو گیا نا‘‘ کے دوران پروان چڑھنے والی ان کی لواسٹوری بنا کسی انجام کے ختم ہو گئی تھی۔ بعد میں ویویک کی کسی اور جگہ شادی بھی ہوگئی اور اس نے بارہا سلمان کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا، لیکن سلمان اس کے ساتھ شاید کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔

سلمان خان اور سبھاش گھئی

سلما ن کی ہر کسی کے ساتھ جھگڑا کرنے کی عادت آج کی نہیں یہ شاید اس وقت سے ہے جب اس نے فلم انڈسٹری کو جوائن کیا تھا۔ بطور ہیرو جب سلمان اپنی پہلی فلم میں نے پیار کیا کی شوٹنگ میں مصروف تھا تب اس وقت کے ہٹ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سبھاش گھئی نے سلمان کی اس فلم کے سیٹ پر سلمان کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بے ہنگم جسم کا مالک یہ چھوٹا سا لڑکا کیسے ہیرو بن سکتا ہے۔ لیکن جب ’’میں نے پیار کیا‘‘ ہٹ ہو گئی تب سلمان نے ایک فلمی پارٹی میں اس بات کو بنیاد بناکر سبھاش گھئی کے ساتھ جھگڑا کیا اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی تب سلمان کے والد کی مخالفت سے یہ معاملہ رفع دفع ہوا، لیکن دونوں کے درمیان آج بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔

رام گوپال ورما اور کرن جوہر

بولی وڈ کے یہ دونوں فم میکر مکمل طور پر ایک بالکل مختلف اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ہی ایک لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے لیے درد سر بنے رہے ہیں۔ دونوں ہی نہ صرف ایک دوسرے کی فلموں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں، بلکہ کھلے عام ایک دوسرے کی برائیاں بھی کرتے ہیں اور یہ سب آن ریکارڈ ہوتا ہے لیکن اب کچھ عرصے دونوں طرف خاموشی ہے کیوںکہ کرن جوہر اور رام گوپال کی بہت عرصے سے کوئی فلم ہٹ نہیں ہوئی ہے اسی لیے دونوں طرف مکمل خاموشی ہے۔

شاہ رخ خان اور شریش کندر

شاہ رخ خان اور شریش کندر کے درمیان ہونے والی لڑائی کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ ان کے جھگڑے کی ابتدا ایک پارٹی میں ہوئی۔ یہ پرائیوٹ فنکشن سنجے دت نے اپنی فلم اگنی پتھ کی کام یابی کے سلسلے میں منعقد کیا تھا۔ اس پارٹی میں شاہ رخ اور شریش کندر نے بھی شرکت کی شریش نے ٹوئیٹر اورفیس بک پر شاہ رخ کی فلم راون پر کھل کر تنقید کی تھی (اس وقت یہ فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی) اور کہا تھا کہ شاہ رخ نے کروڑوں روپیہ اس فلم کی میکنگ پر برباد کر دیا ہے۔ اس پارٹی میں بھی شریش نے ایسے ہی ریمارکس دیے جنہیں کنگ خان نے نظرانداز کر دیا تھا لیکن جب پارٹی اپنے اختتام کو پہنچی تب سریش نے یہ بات دوبارہ شاہ رخ کے کان میں کہی۔ شاہ رخ سے برداشت نہ ہوسکا اور اس نے شریش کو تھپڑ مار دیا۔

شاہ رخ خان اور فرح خان

شاہ رخ اور فرح خان کے درمیان جھگڑے کی بنیاد اس وقت پڑی جب ’’اوم شانتی اوم‘‘ کی کام یابی کے بعد فرح خان نے اپنی اگلی فلم ’’تیس مارخان‘‘ کے لیے شاہ رخ کے بجائے اکشے کمار کو سائن کیا۔ اس وقت فرح کا کہنا تھا کہ وہ شاہ رخ کے بغیر بھی ہٹ فلم دے سکتی ہیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور تیس مار خان باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئی۔ شاہ رخ کو فرح کی یہ بات ناگوار لگی تھی اور اس نے کہا تھا کہ اب وہ کبھی بھی فرح کے ساتھ کام نہیں کرے گا، لیکن اس جھگڑے کے پانچ سال گزر جانے کے بعد ان کے دوستوں نے ان کی صلح کرائی اور اب شاہ رخ فرح کی فلم ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ میں کام کر رہا ہے۔ یہ فلم شاہ رخ کے ادارے ریڈ چلی انٹرٹینمینٹ کے تحت ریلیز کی جائے گی۔

مدھر بندھارکر اور ایشوریا رائے بچن

مدھر بندھارکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ وومن اورینٹڈ فلمیں بناتے ہیں چاندنی بار، فیشن اور پھر ہیروئن۔ ہر اداکارہ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار مدھر کی فلم میں ضرور کام کرے، لیکن وہ اپنی فلم میں کردار کی مناسبت سے اداکارہ کو کاسٹ کرتے ہیں، جیسے فلم فیشن کے لیے پریانکا چوپڑہ ایک بہترین انتخاب تھی۔ مدھر نے جب اپنی فلم ہیروئن بنانے کا اعلان کیا اس وقت اس میں ایشوریا کو کاسٹ کیا لیکن فلم کی کچھ شوٹنگز کرنے کے بعد ایشوریا نے فلم نامکمل چھوڑ دی اور پھر اس کی جگہ کرینہ کپور کو کاسٹ کیا گیا۔ یہ بات مدھر کو بری لگی اور اس نے آن اور آف ریکارڈ ایشوریا کے خلاف ایک محاذ بنالیا کہنے والے کہتے ہیں کہ مدھر نے یہ سب کچھ شہرت حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، کیوںکہ ایشوریا اسے فلم چھوڑنے کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر چکی تھی۔

عامر خان اور فلم فیئر ایوارڈ

عامرخان نے فلم فیئر ایوارڈ فنکشن میں کبھی شرکت نہیں کی کیوںکہ وہ اس ایوارڈ کو معتبر نہیں سمجھتے۔ فلم رنگیلا میں عامر نے مُنا کا رول کیا تھا تو دوسری طرف شاہ رخ خان نے فلم ’’رام جانے‘‘ میں رام کا کردار کیا تھا اور اس سال یہ دونوں بہترین اداکار کے لئے نام زد کیے گئے تھے۔ اس وقت فلم فئیر کے ایڈیٹر خالد محمود عامر کے گھر گئے اور ان سے کہا کہ اگر وہ فلم فیئر فنکشن میں ایک گانے پر پرفارم کر نے کی حامی بھرلیں تو مُنا کے کردار کے لیے بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ان کو مل جائے گا۔ عامر کو خالد کی یہ بات سن کر دھچکا لگا اور انہوں نے فوراً انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایوارڈ کے حق دار ہیں تو انہیں گانا پرفارم کیے بغیر ہی مل جائے گا، مگر ایسا نہ ہوا اور بہترین اداکار کا ایوارڈ شاہ رخ خان کو مل گیا۔ اس وقت سے عامر نے اس فلم فیئر ایوارڈ کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور آج تک اس میں شرکت نہیں کی۔

ایشوریا رائے اور ابھیشیک بچن

شادی شدہ جوڑوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ہونا عام بات ہے، لیکن یہ بات اس وقت خاص ہو جاتی ہے جب یہ جھگڑا نام ور فلم سیلیبریٹیز کے بیچ ہوا ہو۔ ایسی ہی ایک لڑائی ایشوریا اور ابھیشیک کے درمیان اس وقت ہوئی جب دونوں ایک پارٹی میں موجود تھے۔ ایک ذرا سی بات پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور ایشوریا نے غصے میں آکر پارٹی سے واک آؤٹ کردیا اور باہر گاڑی میں ابھیشیک کا انتظار کرنے لگی، لیکن جب کافی دیر ہوجانے کے بعد بھی وہ باہر نہیں آیا تب وہ دوبارہ اندر اپنے شوہر کو ڈھونڈنے گئی۔ اندر پارٹی میں ابھیشیک بہت اچھے موڈ میں تھا۔ یہ بات ایشوریا کو شدید غصہ دلا گئی اور اس نے کسی کی پرواہ کیے بغیر ابھیشیک کو کھر ی کھری سنا ڈالیں۔

رنبیر کپور اور کترینہ کیف

بولی وڈ میں آج کل جس رومانس کے چرچے سب سے زیادہ ہو رہے ہیں وہ کترینہ اور رنبیر کپور کا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنے کی حد تک سنجیدہ ہیں، لیکن کب، اس کا شاید ان دونوں کو بھی نہیں پتا۔ اسی لیے نیویارک میں چھٹیاں مناتے ہوئے جب کترینہ نے رنبیر سے شادی کی بات کی تو جونئیر کپور نے کہا کہ ابھی وہ شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔ بس اس بات پر ان دونوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی اور کترینہ مکمل چھٹیاں گزارے بغیر ہی ممبئی واپس آگئی۔

سلمان خان اور ایشوریا رائے

شاہ رخ خان کی فلم ’’چلتے چلتے‘‘ کے سیٹ پر سلما ن کی بار بار مداخلت ایشوریا کو ناگوار گزر رہی تھی، لیکن وہ سلمان کا آنا نظر انداز کررہی تھی لیکن ایک بار جب وہ شوٹنگ کے دوران وقفہ ملنے پر ایشوریا کو آؤٹنگ کی آفر کر بیٹھا تو ایشوریا نے، جو پہلے ہی سلمان کی روز روز موجودگی سے خائف تھی جانے سے انکار کردیا، بس پھر کیا تھا سلما ن نے ایشوریا کو نہ صرف بے بھاؤ کی سنائیں بل کہ اسے تھپڑ بھی ماردیا۔ اس واقعے کے بعد سلمان اور ایشوریا کا بریک اپ ہو گیا تھا۔

پریانکا چوپڑہ اور کرینہ کپور

ان دونوں ہیروئنز کے درمیان تعلقات کبھی بھی خوش گوار نہیں رہے ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو لیٹ ڈاؤن کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ایک ایوارڈ فنکشن کے لیے پریانکا ڈانس ریہرسل کر رہی تھی، جب کرینہ بھی اسی جگہ پہنچ گئی، کیوںکہ اس کی ریہرسل کا بھی وہی ٹائم تھا۔ پریانکا کا فارغ ہونے کا کوئی موڈ نہ تھا اور کرینہ مزید انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ بس اس بات پر دونوں نمبر ون ہیروئنز میں لڑائی جھگڑے کے ساتھ ساتھ ہاتھا پائی کی نوبت بھی آگئی تھی۔ ان کا معاملہ شاہ رخ خان نے رفع دفع کرایا جو اس وقت وہاں موجود تھے۔

پاک و ہند کی سوا ارب آبادی تاریخ کی یرغمال ہے ، بابر ایاز

$
0
0

کتابوں کی ریل پیل ہے۔ ایک کے بعد ایک کتاب۔ رسم اجرا، ریڈنگ سیشنز۔ خبریں۔ مگر اِس گہماگہمی میں خال خال ہی کوئی ایسی کتاب سامنے آتی ہے، جو اشاعت کے موضوع بحث بن جائے۔ مباحث کو جنم دے۔ سوالات اٹھائے۔ گذشتہ برس ایک ایسی ہی کتاب شایع ہوئی۔ عنوان تھا؛ What’s wrong with Pakistan?، اور مصنف تھے؛ بابر ایاز!

اِس ریاست کے مصائب، سماج کے رویوں اور شدت پسند رجحانات کا مدلل انداز میں تجزیہ کرنے والی اِس کتاب کا خاصا چرچا ہوا۔ پاک و ہند کے سنجیدہ سیاسی مبصرین نے اسے سراہا۔ قارئین نے پسند کیا۔ مصنف کے موقف سے اختلاف کرنے والوں نے بھی اِسے قابل قدر جانا۔ گذشتہ دنوں کراچی لٹریچر فیسٹول میں نان۔فکشن کیٹیگری میں یہ کتاب شارٹ لسٹ ہوئی۔ پیس ایوارڈ کے شعبے میں سیکنڈ پرائز کی حق دار ٹھہری۔

پاکستان کو درپیش مسائل کا متوازن انداز میں تجزیہ کرنے والے بابر ایاز نے صحافتی اور سیاسی میدان میں ایک بھرپور زندگی گزاری۔ خاصا بھاری بھرکم ’’پروفائل‘‘ ہے۔ اوائل میں طلبا سیاست میں نام پیدا کیا۔ سکھر کے جمہوریت پسند طلبا کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے انڈرگرائونڈ کام کرتے رہے۔ انگریزی صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد کئی بڑے اخبارات کے نیوز رومز میں نظر آئے۔ جہاں بزنس رپورٹنگ کی، وہیں سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی جم کر لکھا۔ بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھتے رہے۔ عملی صحافت سے علیحدگی کے بعد ایک پبلک ریلیشنز کی کنسلٹنگ فرم قائم کی، اُسے اوج پر پہنچایا۔گذشتہ کئی برسوں سے کالم لکھ رہے ہیں۔ جو انگریزی اور اردو اخبارات کے علاوہ ایک سندھی اخبار میں بھی شایع ہوتے ہیں۔ سیاحت کا شوق ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی سیر کر چکے ہیں۔ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں مقالات بھی پڑھے۔

گذشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی۔ اِس کتاب کے علاوہ اُن کے حالات و خیالات بھی زیر بحث آئے۔ تو آئیے، اِس تذکرے کا آغاز کرتے ہیں:

سیاسی شعور والدہ سے وراثت میں ملا
ابتدائی دنوں کی یادیں
زندہ دلوں کے شہر لاہور میں تقسیم ہند کے دو برس بعد بابر ایاز نے آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، شہزادہ ایاز فن و ادب کی دنیا کے آدمی تھے۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ رہے۔ افسانے، انشائیے لکھے۔ انجمن رائٹرز گلڈ سے رشتہ رہا۔ بمبئی فلم انڈسٹری میں خاصا وقت گزرا۔ تقسیم کے بعد لاہور کے ایک سنیما کی دیکھ ریکھ کرتے رہے۔ پھر سکھر میں ایک سنیما خرید لیا۔ گھرانا وہاں منتقل ہوگیا۔ اِسی شہر میں بابر صاحب نے شعور کی آنکھ کھولی۔ والدہ کا مزاج بھی ادبی تھا۔ سیاست میں بھی وہ خاصی متحرک رہیں۔ ایوب دور تک مسلم لیگ کی میونسپل کمیٹی کی رکن رہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتیں۔ سیاسی شعور والدہ ہی سے وراثت میں ملا۔ مطالعے کا شوق تو ماحول میں رچا بسا تھا۔ والد کی دیکھا دیکھی کتابوں سے دوستی ہوئی۔ انگریزی فکشن سے آغاز کیا۔ کالج میں قدم رکھنے کے بعد اردو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔

دو بہنوں، تین بھائیوں میں اُن کا نمبر چوتھا ہے۔ بچپن میں بیڈمنٹن اور ہاکی کا تجربہ کیا۔ کالج کی بیڈمنٹن ٹیم کے کپتان رہے۔ کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے، مگر اُس سے باہر کر دیے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹیم اُن کی بیٹنگ کر رہی تھی۔ سوچا، آج تو ہمارے بلے باز میدان میں جمے رہیں گے، فیلڈنگ کی نوبت نہیں آئے گی، کیوں ناں فلم دیکھ لی جائے۔ فلم دیکھ کر لوٹے، تو پتا چلا کہ فیلڈنگ کا مرحلہ آگیا تھا۔ اُن کی ڈھونڈ پڑی، جب عقدہ کھلا کہ وہ سنیما میں تھے، تو فوراً ٹیم سے باہر کا راستہ دِکھا دیا گیا۔

نصابی کتب زیادہ نہیں بھاتی تھیں۔ شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوا کرتا۔ سینٹ میریز ہائی اسکول، سکھر سے 65ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر آرٹس کی جانب آگئے۔ گورنمنٹ کالج سکھر سے بارہویں کا مرحلہ طے کیا۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ کالج کی کلچرل اور ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے سیکریٹری تھے۔ 71ء میں سندھ یونیورسٹی کے سکھر کیمپس سے پولیٹیکل سائنس میں، فرسٹ ڈویژن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

سندھی مہاجر تقسیم، حکومتی چال
طلبا سیاست کے دن
جھکائو ان کا ترقی پسندوں کی جانب تھا۔ ون یونٹ کے خلاف تھے، تاہم کسی جماعت سے وابستگی نہیں تھی کہ اُن دنوں سکھر میں اِس نوع کی کوئی تنظیم نہیں ہوا کرتی تھی۔ باقاعدہ طلبا سیاست کی طرف مارچ 67ء میں آئے۔ اُن دنوں انٹر کالج میں ہوا کرتے تھے۔ ایک صبح خبر ملی کہ ون یونٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کو جام شورو میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُنھوں نے فوراً طلبا کو اکٹھا کیا۔ کالج بند کروایا۔ جلوس لے کر ڈگری کالج پہنچے۔ وہاں سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا رخ کیا۔ اپنے مطالبات پیش کیے۔

اس دن کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سکھر کی سطح پر طلبا کی ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے۔ اُسی زمانے میں یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح حکومت نے سندھی اور مہاجروں میں خلیج پیدا کی۔ کہتے ہیں،’’وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے اردو بولنے والے چند طلبا کو بلوایا، اور ہمارے متعلق اُن سے کہا؛ یہ تو سندھیوں کے ایجنٹ ہیں، آپ غلط ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، ان سے الگ ہوجائیں۔ اس طرح انھوں نے ایکشن کمیٹی تڑوا دی۔ جو اردو اسپیکنگ لڑکے رائٹ ونگ کے تھے، وہ چلے گئے، مگر جو لیفٹ ونگ کے تھے، وہ ہمارے ساتھ رہے۔ اِس وقت سندھ میں اِس قسم کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ حکومت نے اپنے مفادات کے لیے یہ خلیج پیدا کی۔‘‘

حکومت مخالف سرگرمیوں کے دوران گرفتار بھی ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی تک اسٹوڈنٹ پولیٹکس میں متحرک رہے۔

مارکسی تربیت آج بھی کام آرہی ہے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی اور علیحدگی کا قصّہ
کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اُن دنوں انڈرگرائونڈ کام کر رہی تھی۔ طلبا سرگرمیوں کے طفیل بابر ایاز سکھر کے کمیونسٹوں کے رابطے میں آگئے۔ 68ء میں اُنھیں پارٹی کا رکن بننے کی پیش کش ہوئی، جسے اُنھوں نے قبول کیا۔

اُس وقت معروف شاعر، حسن حمیدی اور مزدور لیڈر، ڈاکٹر اعزاز نظیر کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں عہدے دار تھے۔ جلد ہی بابر ایاز کا شمار متحرک کارکنوں میں ہونے لگا۔ کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فورم سے عملی سیاست کیا کرتی تھی۔ نیپ کی سرگرمیوں میں بھی انھوں نے بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ اس کی نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ خیرپور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری کا بھی عہدہ سنبھالا۔

معاش کی تلاش کراچی لے آئی۔ یہاں بھی پارٹی کے لیے کام کرتے رہے۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف ہوئی، کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، تو اُنھوں نے پندرہ سو روپے کی ملازمت چھوڑ کر سیاست کو کُل وقتی مصروفیت بنا لیا۔ ڈیڑھ سو روپے اِس کام کے عوض ملا کرتے، مگر نظریاتی جدوجہد تھی، سو خوش تھے۔

جب ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ پر پابندی لگی، تو ’’عوامی ادبی انجمن‘‘ تشکیل دی گئی۔ بابر صاحب ادبی ذوق رکھتے تھے، اُن دنوں افسانے بھی لکھ رہے تھے۔ تو یار دوستوں نے کراچی میں اس تنظیم کو فعال کرنے کی ذمے داری انھیں سونپ دی۔ اِس کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔ نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔

74ء میں وہ دھیرے دھیرے کمیونسٹ پارٹی سے دُور ہونے لگے، اور دُوری علیحدگی میں تبدیل ہوگئی۔ کہتے ہیں،’’پارٹی کہتی تھی کہ بلوچستان میں جاری عسکری جدوجہد کی حمایت کی جائے۔ میں اور کچھ ساتھی اِسے دُرست نہیں سمجھتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ جدوجہد کام یاب نہیں ہوگی۔ پھر اور بھی معاملات تھے۔ اصل میں کمیونسٹ پارٹیوں میں ’ڈیموکریٹک سینٹرل ازم‘ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ یہاں کے علاوہ سوویت یونین میں بھی آیا کہ جمہوری فکر ختم ہوگئی، اور صرف مرکزیت رہ گئی۔ اُن ہی وجوہات کی وجہ سے ہم الگ ہوگئے۔‘‘

نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، مگر پارٹی سے وابستگی کے ثمرات بھی بیان کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، پارٹی کے طریقۂ کار نے مطالعے کی عادت پختہ کی۔ سوچنے اور تجزیہ کرنے کا ڈھنگ سِکھایا۔ ’’میں مارکس ازم کو مذہب نہیں سمجھتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ مارکس ازم نے مجھے سیاسیات اور معاشرے کو سمجھنے کا فہم عطا کیا۔ اور یہ تربیت بعد میں بھی میرے کام آئی۔‘‘

محکمۂ پولیس اور سفارشیوں کی بھرتیاں
پیشہ ورانہ سفر کی ابتدائی یادیں
بابر صاحب حکومتی اداروں کو استحصال کا آلۂ کار خیال کرتے تھے۔ سرکاری ملازمت کی خواہش نہیں تھی، مگر والد کے حکم پر بادل نخواستہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دینا پڑا۔ امتحان کراچی میں ہوا کرتا تھا، خوش تھے کہ روشنیوں کا شہر گھومنے کا موقع مل جائے گا۔ اتفاق سے امتحان میں پاس ہوگئے۔ محکمۂ پولیس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ پولیس میں جانا اُنھیں قطعی گوارا نہیں تھا۔ والد کو منا لیا۔ فیصلہ کیا کہ یا تو پڑھائیں گے، یا پیشۂ صحافت اختیار کریں گے۔

شعبۂ تدریس میں ایک امکان پیدا ہوا تھا۔ 72ء میں دہلی کالج، کراچی کے پرنسپل نے اُنھیں ملازمت کی پیش کش کی۔ اُنھوں نے ہامی بھر لی۔ غلطی یہ کی کہ اپائنٹمنٹ لیٹر کا تقاضا کرنے کے بجائے سامان لینے سیدھے سکھر چلے گئے۔ جس روز لوٹنا تھا، ریڈیو سے حفیظ پیرزادہ کا بیان نشر ہوا کہ تمام اداروں کو نیشنلائز کر دیا گیا ہے، اب امیدواروں کو انٹرویوز کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ بہ خوشی اِس مرحلے سے گزرے کہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا تھا، خود پر اعتماد تھا، مگر ان کی جگہ سفارشیوں کو منتخب کر لیا گیا۔ دل برداشتہ ہو کر تدریس میں جانے کا خیال تج دیا۔

اور ایجینسیاں میرے پیچھے لگ گئیں
نوواستی پریس ایجینسی کا زمانہ
کراچی آنے کے بعد وہ فری لانسر کی حیثیت سے مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھنے لگے تھے۔ ’’مارننگ نیوز‘‘، ’’آئوٹ لک‘‘ اور ’’ہیرالڈ‘‘ میں مضامین شایع ہوتے، تو کچھ پیسے ہاتھ آجاتے۔ ایک روز میکسم گورکی کے لازوال ناول ’’ماں‘‘ پر بننے والی فلم دیکھنے کے لیے ڈرگ روڈ پر ’’فرینڈ شپ ہائوس‘‘ جانا ہوا۔ وہاں سوویت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے عہدے دار سے ملاقات ہوئی۔ وہ صاحب فلسطین اسرائیل مسئلے پر اُن کا ایک مضمون پڑھ چکے تھے۔ جب پتا چلا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہیں، تو ’’نوواستی پریس ایجینسی‘‘ کے لیے کام کرنے کی پیش کش کرڈالی۔ ڈیڑھ ہزار روپے تن خواہ تھی۔ ایک برس سوویت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھتے رہے۔

بابر ایاز کے مطابق اُس زمانے میں بھارتیوں کے مانند روسیوں کو بھی بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ سوویت پریس سے وابستگی کی وجہ سے ایجینسیاں اُن کے پیچھے لگ گئیں۔ ان ہی دنوں بھٹو صاحب نے بلوچستان حکومت کو برطرف کردیا۔ ان دو عوامل کی وجہ سے انھوں نے وہ ملازمت چھوڑ دی۔ اب بے روزگاری کا زمانہ شروع ہوا۔

صحافتی شب و روز
73-74 میں وہ ’’پی پی آئی‘‘ کے میگزین ’’اکنامک آئوٹ لک‘‘ سے بہ طور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر منسلک ہوگئے۔ مارکسٹ ہونے کی وجہ سے اقتصادی نظام کی خاصی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، اس لیے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
تین برس بعد ’’ڈیلی سن‘‘ کا حصہ بن گئے۔ تھے تو رپورٹر، مگر اقتصادی اور سیاسی موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔ 79ء میں وہ اخبار بند ہوگیا، مگر وہ شناخت بنا چکے تھے۔ فوراً ’’بزنس ریکارڈر‘‘ سے پیش کش ہوگئی۔ چند برس بعد ’’ڈان‘‘ کا حصہ بن گئے، جہاں سینیر صحافی، ایس جی ایم بدرالدین کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع ملا، جن کا تذکرہ وہ بہت احترام سے کرتے ہیں۔ 82ء تا 88ء ’’ڈان‘‘ کے اقتصادی صفحات سے منسلک رہے۔ انویسٹی گیٹنگ رپورٹنگ کا سلسلہ شروع کیا، جسے بہت سراہا گیا۔ ساتھ ہی ادبی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔

بین الاقوامی اخبارات وجرائد کے لیے بھی اُسی زمانے میں لکھنا شروع کیا۔ فرانسیسی پرچے ’’ایفرک ایشیا‘‘ میں تحریریں شایع ہوا کرتیں۔ فیچر سروس ’’ڈیپتھ نیوز‘‘ کے لیے مضامین لکھے۔ ہندوستان کے معروف اخبار ’’ہندو‘‘ اور اُس کے میگزین ’’فرنٹ لائن‘‘ میں تحریریں چھپتی رہیں۔ الغرض صحافت کو وہ، اور صحافت اُنھیں راس آگئی۔
بہ ظاہر سب کچھ ٹھیک جارہا تھا، مگر پھر ایک ایسی صورت حال نے جنم لیا کہ وہ صحافت کو خیرباد کہنے کی بابت سوچنے لگے۔

کہانی صحافت سے علیحدگی کی
اُنھوں نے پسند کی شادی کی تھی۔ بے روزگاری کے زمانے میں رشتۂ ازدواج میں بندھے۔ اُن کی زوجہ، نجمہ بابر خود بھی صحافت سے وابستہ تھیں۔ نظریات دونوں کے یک ساں۔ لوگ اِس جوڑے کی مثال دیا کرتے۔ کہتے ہیں،’’وہ باکمال عورت تھیں۔ ہماری آئیڈیالوجی ایک تھی، یہی وجہ ہے کہ میری بے روزگاری کے باوجود اُنھوں نے مجھ سے شادی کی۔ اُن کا 96ء میں انتقال ہوا۔ اُن کے تذکرے کے بغیر میں نامکمل ہوں۔‘‘

78ء میں خدا نے اُنھیں بیٹے سے نوازا، جس کا نام آدرش رکھا گیا۔ اس وقت تو بابر صاحب اور نجمہ صاحبہ نے اپنا صحافتی سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، مگر 86ء میں دوسرے بیٹے، امر کی پیدایش کے بعد محسوس ہونے لگا کہ اب دونوں میں سے کسی ایک کو اِس شعبے سے کنارہ کش ہونا پڑے گا۔ اُس زمانے میں آج جیسی تن خواہیں نہیں ہوا کرتی تھیں، یہ فکر دامن گیر تھی کہ کسی ایک نے ملازمت چھوڑ دی، تو گزارہ کیسے ہوگا۔ بابر صاحب کے مطابق، جس ادارے سے وہ منسلک تھے، وہاں تن خواہ میں بڑھوتی کا امکان نہیں تھا۔ بس، اِسی مسئلے نے نئے راستے پر چلنے کا حوصلہ دیا۔

“Mediators”: پاکستان کی پہلی پبلک ریلیشنگ فرم
پی آر فرم کا تصور دنیا بھر میں عام تھا، مگر بابر ایاز کے مطابق اس وقت تک پاکستان میں اِس نوع کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ’’پی آر او‘‘ ہوا کرتا تھا۔ ’’مجھے محسوس ہوا کہ ملٹی نیشنل اور بڑی مقامی کمپنیوں اور ذرایع ابلاغ کے درمیان خاصا فاصلہ ہے، جسے ایک پی آر فرم پُر کرسکتی ہے۔ تو اِس میدان میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔ “Mediators” کی بنیاد رکھی، جو اُس وقت پاکستان کی پہلی پی آر فرم تھی۔ بدرالدین صاحب، جو ریٹائر ہوچکے تھے، اُن سے چیئرمین بننے کی درخواست کی، جسے اُنھوں نے قبول کیا۔‘‘

کام تو شروع کر دیا، مگر ابھی یہ تصور نیا نیا تھا۔ اندیشے تھے۔ پھر صحافت کے پُرتجسس تجربات اُنھیں پکارتے رہتے۔ ایسے میں کاروباری دنیا سے منسلک ایک صاحب، نواب اصغر سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا خیال تھا، بابر صاحب جلد اِس سرگرمی سے بھاگ جائیں گے۔ جواب میں اُنھوں نے کہا: ’’اگر مجھے چھے اداروں کا اکائونٹ مل جائے، تو میں یہ کام جاری رکھوں گا۔‘‘

نواب صاحب کے توسط سے چند اداروں نے اِس بات پر رضامندی ظاہر کر دی کہ “Mediators” کی ٹیم اُن کے ہاں آکر پریزنٹیشن دے۔ کوشش اُن کی کام یاب رہی۔ یوں اِس سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر دیگر ادارے بھی رابطہ کرنے لگے۔

93ء میں مشہور امریکی پی آر کمپنی، Burson·Marsteller سے اُن کے ادارے کا الحاق ہوگیا۔

گذشتہ 25 برس سے یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ آج “Mediators” کا شمار پاکستان کی تین بڑی پی آر فرمز میں ہوتا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس کی خدمات سے استفادہ کر رہی ہیں۔

کافی عرصے تک وہ اِس کے مینیجنگ ڈائریکٹر رہے، مگر جب لکھنے لکھانے کی خواہش ستانے لگی، تو ذمے داریاں اپنی دوسری بیگم، ڈاکٹر سمیعہ بابر کو سونپ دیں۔ اُنھیں چیف ایگزیکٹو بنایا، اور خود چیئرمین ہو گئے۔

اب کتاب لکھنے کے لیے تیار تھے، مگر اِس سے پہلے ذرا کالم نگاری کا تذکرہ ہوجائے۔

کالم نگار کے روپ میں تجزیہ کار
عملی سیاست تو 25 برس قبل چھوڑ دی، مگر اندر کے صحافی کو خاموش بیٹھنا گوارا نہیں تھا، سو کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’گلف نیوز‘‘ میں اُن کے کالم چھپا کرتے تھے، جو سنڈیکیٹ ہو کر ’’دی نیشن‘‘ میں بھی آنے لگے۔ پھر ’’دی نیوز‘‘ میں کالم نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’’ڈان‘‘ اور ’’نیوز لائن‘‘ کے لیے بھی وقفے وقفے سے لکھتے رہے۔

پانچ چھے برس قبل اردو میں کالم نگاری شروع کی۔ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں اُن کا کالم چھپنے لگا۔ کالم کا سندھی روپ ’’عوامی آواز‘‘ میں شایع ہوتا۔ ہفتہ وار انگریزی کالم ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ میں آتا ہے۔

کیا ہمارے کالم نگار معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے؟ جب یہ سوال کیا گیا، تو کہنے لگے،’’میں کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں میں فرق کرتا ہوں۔ تجزیہ کار کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ اُسے منطق اور دلائل سے بات کرنی ہوتی ہے۔ کالم نگار اپنی دل کی بات کہتے ہیں۔ اِس طرز کی اپنی جگہ ہے، مگر میرا مزاج تجزیہ کاری کی جانب ہے۔‘‘

یعنی بابر صاحب کالم نگار کے روپ میں تجزیہ کار ہیں۔ اس میدان میں وہ آئی اے رحمان اور خالد احمد کو سراہتے ہیں۔ بابر ستار کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔

What’s wrong with Pakistan?
کتاب کے محرکات پر ایک نظر
بچپن میں جب وہ شیکسپئر کو پڑھا کرتے، تو خود سے کہتے؛ اِس انگریز ادیب نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ برسوں بعد پاکستان نامی ایک ریاست ہوگی، اور اُس کے ایک چھوٹے سے شہر کے اسکول میں اُس کے ڈرامے پڑھائے جائیں گے۔

’’کتاب انسان کو زندہ رکھتی ہے‘‘، اِسی احساس نے کتاب لکھنے کی جوت جگائی۔ کئی عشروں بعد جب قلم تھاما، تو یہی خیال پیش نظر تھا کہ ایسا موضوع چُنا جائے، جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہو۔ ایک واقعے نے بھی راہ کا تعین کیا۔ بتاتے ہیں:

’’پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جارہی تھی۔ اُن دنوں میری ملاقات بی بی سی کے ایک نمایندے سے ہوئی۔ اُن کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے ازراہ مذاق کہا کہ اِس خطے کے مسلمان جمہوریت سے بھاگتے ہیں۔ ہم نے ہندوستان میں آٹھ سو برس حکومت کی، مگر جب انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان میں جمہوریت کا تصور پروان چڑھنے لگا، تو ہم اپنی علیحدہ گروہی شناخت پر اصرار کرنے لگے۔ یعنی اپنی باری کھیل لی، دوسرے کی باری آئی، تو کہہ دیا کہ ہم الگ قوم ہیں۔ اُنھوں نے میرا تبصرہ بی بی سی کے لیے ریکارڈ کر لیا۔ اُس وقت تو میں نے یہ بات کہہ دی، مگر پھر اس پر سوچنا شروع کیا۔ غور کیا کہ اِس کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ کیوں ہمارے ہاں انتہا پسندی بڑھی۔ کیوں ہم اِس مقام پر پہنچے۔ تو اپنی کتاب میں مَیں نے ان ہی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘

بابر ایاز کے مطابق مارکس اور ایڈم اسمتھ کا سیاسی نظریہ الگ تھا، مگر اُن میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں نے اِس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ معاشرہ جو رویہ اپناتا ہے، جن رجحانات کی پیروی کرتا ہے، اُن کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ ’’میں نے بھی اِن ہی خطوط پر سوچنا شروع کیا۔ تحقیق کی۔ مواد اکٹھا ہوتا رہا۔‘‘

جون 2013 میں کتاب شایع ہوئی۔ پاکستان میں ماہ اگست اور ہندوستان میں ماہ ستمبر میں اِس کی تقریب رونمائی ہوئی۔

ایک تقریر ذہن بدلنے کے لیے کافی نہیں تھی!
اُن کی تصنیف زیر بحث آئی، تو پہلے اُس خیال پر بات ہوئی، جو اُنھوں نے کتاب میں پیش کیا۔ کچھ حلقوں کے نزدیک جو متنازع بھی ٹھہرا، یعنی تحریک پاکستان میں عوام کی شمولیت کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’دراصل جب اِس تحریک کو عوام کی تائید نہیں حاصل ہوئی، 37ء کے انتخابات میں شکست ہوگئی، تو عوام کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا گیا۔ جب تک مقصد حاصل نہیں ہوا تھا، قائد اعظم بھی مذہبی تقریریں کرتے رہے۔ جب ملک بن گیا، تو سوچا گیا کہ مقصد حاصل ہوگیا، اب راستہ تبدیل کیا جائے۔

قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947 کی تقریر کی، جسے لوگ اُن کی سیکولر فکر کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر اُس ایک تقریر سے راستہ تبدیل نہیں ہوسکا۔ دراصل ایک تقریر تحریک کا دھارا، لوگوں کا ذہن، بدلنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ پھر پاکستان کی جو رولنگ کلاس تھی، اُنھیں لگا کہ یہ نعرہ تو بہت کام کی چیز ہے۔ اُنھوں نے پاکستان میں بسنے والی مختلف قومیتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یہ کہا؛ ہم سب مسلمان ہیں، ایک قوم ہیں۔ اس سے حکومت کرنے والا گروہ مضبوط ہوتا گیا، اور دیگر طبقات کم زور ہوتے گئے۔ ہم نے بنگلادیش کو کالونی بنانے کی کوشش کی۔ وہ اکثریت میں تھے، مگر ہم نے اُنھیں حکومت نہیں دی۔ میں نے کبھی ’فال آف ڈھاکا‘ نہیں لکھا، ہمیشہ اُسے ’بنگلادیش لیبریٹڈ‘ لکھا ہے۔‘‘

بابر ایاز کے مطابق ہمارے ہاں مذہب کی بنیاد پر قوانین بنے۔ مذہب کا اثر براہ راست پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر پڑا۔ دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوئے، نتیجتاً پاکستان کی اکانومی متاثرہوئی۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مذہب کو سیاست سے جدا نہیں کیا جائے گا، پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہی موضوعات کتاب میں اٹھے گئے ہیں۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ کتاب کا نام میں نے بہت Provoking رکھا۔ میں نے کہا؛ یہ میں نے اپنے پاکستانی بھائیوں کو جگانے کے لیے کیا۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ جو غلط ہے، اس کا تعین کیا جائے۔

ہماری سیاسی جماعتیں، مکالمے کی ضرورت اور ایک فارمولا
جہاں وہ مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں ایک حل بھی پیش کرتے ہیں: ’’ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے جو پالیسیاں اپنائیں، وہ غلط تھیں۔ جب تک یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ دوسرے ممالک میں گڑبڑ کرنے کے لیے عسکری تنظیموں کی تشکیل غلط فیصلہ تھا، بات آگے نہیں بڑھے گی۔ تو پہلے آفیشلی یہ بات مان لیں۔ اب سوال ہے کہ اِس غلطی کو ٹھیک کیسے کیا جائے۔ یہ راتوں رات نہیں ہوگا۔ انقلابی صورت حال تو ہے نہیں۔ کوئی کمال اتاترک نہیں آئے گا۔ اِس کے لیے آپ اسٹریٹجی بناتے ہیں۔ قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے غلطیاں دُرست کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مذہب کو سیاست سے جدا کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کے کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔‘‘

مراحل تو اُنھوں نے بیان کر دیے، مگر کیا یہ فارمولا قابل عمل بھی ہے؟
اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،’’یہ قابل عمل ہے۔ اگر پاکستانیوں کی اکثریت مذہبی حکومت چاہتی، تو وہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتی۔ مگر اُنھیں کبھی دس فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگرآپ عوام کے شب و روز کا جائزہ لیں، تو اپنی ذاتی زندگی میں وہ مذہبی ہیں، مگر عام زندگی میں اُن کا مزاج سیکولر ہے۔ اب آپ بڑی سیاسی جماعتوں کو دیکھیں، زیادہ تر کا جھکائو سیکولر ازم کی جانب ہے۔ مسلم لیگ ن میں بھی آدھے اِدھر ہیں، تو آدھے اُدھر۔ بس، وہ کھل کر یہ بات نہیں کہہ پاتے۔ دراصل ہمارے ہاں بہت زیادتی ہوئی۔ 80 کی دہائی میں ضیا الحق نے سیاسی اسلام کو عسکری اسلام بنا دیا۔ پھر گذشتہ آٹھ سو برس میں اسلام اور جدید طرز زندگی کے موضوع پر کوئی بھرپور مکالمہ نہیں ہوا۔‘‘

کیا مذہبی مکالمے کا امکان موجود ہے؟ بابر ایاز کے بہ قول،’’ماحول تو نہیں ہے، مگر ہمیں ایسا ماحول بنانا پڑے گا۔ یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے۔ دراصل جب آپ کے پاس استدلال نہ ہو، موقف کم زور ہو، تو آپ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔‘‘

یہی سیاسی جماعتیں، جو آج شدید تنقید کی زد میں ہیں، کس طرح تبدیلی لاسکتی ہیں؟

اِس بابت بابر ایاز کہتے ہیں،’’اگر ہم ذہن بنا لیں، آہستہ آہستہ تبدیلی کی طرف چلنے لگیں، تو امکان نظر آنے لگے گا۔ کچھ تبدیلیاں آئی بھی ہیں۔ مثلاً آئین میں غیرمسلموں کا ووٹ الگ کر دیا گیا تھا، مشرف نے Separate Electorate کو ختم کر کے مخلوط کر دیا۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے مخلوط ووٹنگ کو قائم رکھا۔ تو اِس قسم کی Incremental تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔‘‘

امریکی ہمارے پاس نہیں آئے تھے، ہم خود ان کے پاس چلے گئے
جب سوال ہوا کہ کیا پاکستان کے لیے امریکا سے جان چھڑانا ممکن ہے، تو کہنے لگے،’’فی الحال تو یہ ممکن نہیں۔ امریکا بہت بڑی طاقت ہے۔ پھر آپ کی اکیس فی صد برآمدات کی کھپت امریکا میں ہوتی ہے۔ وہاں سے فارن کرنسی آتی ہے، امداد ملتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ آپ اُن سے ایمان داری پر مبنی رشتہ قائم کریں۔ اُنھیں بتا دیں کہ فلاں فلاں کام ہم نہیں کرسکتے۔ المیہ یہ ہے کہ پہلے امریکی ہمارے پاس نہیں آئے تھے۔ ہم خود ان کے پاس چلے گئے کہ ہم اِس علاقے میں سوشلزم کو روکنے کے لیے آپ کی مدد کریں گے۔ دستاویز موجود ہیں۔ بہ قول شاعر: ’سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھائے جائے!‘ پاکستان اور امریکا دونوں کا یہی معاملہ تھا۔ پاکستان چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ امداد لے، کیوں کہ اُسے ہندوستان کا خوف تھا۔ امریکا مدد دے رہا تھا کہ آپ سوشلزم کو روکیں گے۔‘‘

جتنے امریکی ذمے دار، اتنے ہی سعودی قصور وار!
اپنی کتاب میں اُنھوں نے سعودی عرب کے کردار پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اِس بابت استفسار کیا، تو کہنے لگے،’’جب 79ء میں ایران میں انقلاب آگیا، تو سعودی حکومت ڈر گئی۔ اُس نے پاکستان میں رجعت پھیلانی شروع کر دی۔ اِس سے پہلے جب افغانستان میں ترہ کئی انقلاب آیا، سوشلسٹ حکومت آگئی، تو سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ ضیا الحق نے اُسے ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اِس فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں اسلحہ پھیل گیا۔ آج ملک پھٹا جارہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے جتنے ذمے دار امریکی ہیں، اتنے ہی سعودی قصور وار ہیں۔ آج جو فرقہ وارانہ جنگ ہے، یہ بھی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار ہے۔‘‘

پنجاب کی رولنگ کلاس اور ہندوستان سے تعلقات
وہ خواہش مند ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں۔ ’’پاک و ہند کی سوا ارب آبادی تاریخ کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ بڑے مسائل ہیں۔ دونوں ملکوں میں ترقی کی بہت گنجایش ہے۔ ہندوستان پھر بھی آگے بڑھ رہا ہے، ہم پیچھے جارہے ہیں۔ ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہماری مشکلات میں ہندوستان کا ہاتھ ہے۔‘‘

میاں صاحب کی حکومت سے کچھ پُرامید نظر آتے ہیں، جس کا ایک بنیادی سبب ہے۔ ’’دراصل پنجاب کی رولنگ کلاس بدل گئی ہے۔ پاکستان کا ’بگ بزنس‘ پنجاب کی رولنگ کلاس ہی ہے۔ اس کے مفاد میں ہے کہ ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوں، تو وہ اداروں پر زور ڈالتی ہے۔‘‘

مارکس واشنگٹن میں۔۔۔

بابر ایاز کے مطابق مستقبل میں لیفٹ کے نظریات کی تجدید کا امکان تو ہے، مگر ٭٭اُنھیں سوشلزم کے نام سے نہیں پکارا جائے گا۔ ’’سوشلزم کا مقصد عدم مساوات کو ختم کرنا تھا۔ اب کیپٹلسٹ ممالک کی حکومتیں اِس مسئلے پر بات کر رہی ہیں۔ عدم مساوات ختم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں گے، یہ وہی ہوں گے، جن کی سوشلسٹ حمایت کرتے تھے۔ مگر یہ سب پرانے طرز پر نہیں ہو گا۔ میں ستمبر 2012 میں امریکا گیا تھا۔ وہاں صدارتی امیدواروں کے مباحثے سنے، جن کی بنیاد پر میں نے ایک مضمون لکھا کہ اوباما انتخابات جیتے گا، اور مارکس واشنگٹن پہنچ جائے گا۔ اُس وقت ایک امیدوار ’بگ بزنس‘ کو سپورٹ کر رہا تھا، دوسرا عوام کی بات کر رہا تھا۔ کیپیٹل ازم میں بہت لچک ہے۔ مساوات کا نظام اب سوشلزم کے نام پر یہ نہیں آئے گا۔ یہ ایشوز کی بنیاد پر رائج ہوگا۔‘‘

کیا ہماری معیشت کم زور ہے؟
پاکستان کی معیشت کو جتنا خستہ حال تصور کیا جاتا ہے، بابر ایاز کے مطابق وہ اتنی خستہ حال نہیں۔ ’’پاکستان میں جتنی بڑی ریئل اکانومی ہے، اتنی بڑی بلیک اکانومی ہے۔ حکومت غریب ہے، مگر عوام کے پاس بہت پَیسا ہے۔ سب سے پہلے اس بلیک اکانومی کو ’اکانومک نیٹ‘ میں لانا ہوگا۔ اِس کے لیے بہت سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ ٹیکس ریٹ کم ہونا چاہیے، مگر چھوڑنا کسی کو نہیں چاہیے۔‘‘

سیاسی تنہائی
پاکستان کی سیاسی تنہائی ختم کرنے کے لیے وہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں،’’یہ ناگزیر سب سے پہلے تو ہمیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ ہمیں دنیا کے کسی دوسرے ملک کے معاملات سے غرض نہیں۔ ہم اپنا ملک سنبھالیں گے، اِس وقت ہمارے لیے یہی اہم ہے۔ نہ ہم ہندوستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی کشمیر میں۔ ہمیں بس اپنے ملک سے غرض ہے۔‘‘

کیا روشن خیال حلقوں کا مستقبل تاریک ہے؟
روشن خیال حلقے، اُن کے مطابق پاکستان میں موجود ضرور ہیں، مگر یہ بکھرے ہوئے ہیں، اُن کے ایک جانے ہونے، تحریک بننے کا تو امکان نظر نہیں آتا، تاہم اُنھیں نظرانداز کرنے کے قائل نہیں۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ روشن خیال سوچ آگے بڑھے گی، کیوں کہ تاریخ دائروں میں نہیں چلتی، وہ آگے کی سمت بڑھتی ہے۔ یہ عالم گیریت کا دور ہے۔ دنیا کے کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں ہر معاشرے میں ایک جانب وہ لوگ دکھائی دیں گے، جو قدیم اقدار کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، دوسری طرف اکیسویں صدی کی اپنی قدریں ہیں۔ وقت کا دھارا ہے۔ مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کلچر، زبان، رہن سہن بدل رہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں رجعت پسند اس پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہر مذہب میں جدید اور قدیم اقدار میں تصادم نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ رجعت پسندوں نے اسلحہ اٹھا لیا، جس کی وجہ سے یہ نظروں میں آگئے۔‘‘

جب سوال ہوا کہ کون غالب آئے گا، تو کہنے لگے،’’یہ تو واضح ہے۔ تاریخ تو آگے بڑھتی ہے۔ یہ رجعت پسند رخنہ تو ڈال سکتے ہیں، مگر یہ روشن خیالی کو روک نہیں سکتے۔ جب یہ بیراج نہیں بنا سکے، تو ڈیم کیا بنائیں گے۔

لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟
ہندوستان میں کسی نے اُن سے پوچھا؛ How do you write?، تو کہنے لگے،’’میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والے کو اپنی قومی، مذہبی، سماجی اور لسانی شناخت سے بُلند ہو کر ایک انسان کی حیثیت سے لکھنا چاہیے۔ اور اس کی تحریر کی اہمیت جانچنے کا ایک سادہ سا ’لٹمس ٹیسٹ‘ ہے۔ یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے، وہ عوام کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ یہی نقطہ نظرلکھتے ہوئے میں پیش نظر رکھتا ہوں۔‘‘

ہم اپنے بچوں کو غلط تاریخ پڑھا رہے ہیں
سیاسی اسلام کو عسکری اسلام بنانے کا آغاز، اُن کے بہ قول، 48ء میں ہوا، جب پاکستان نے قبائلیوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا، اور اسے کشمیر روانہ کر دیا۔’’65ء میں ہم نے پھر یہی کیا۔ اس پر ہندوستان نے کہا کہ اگر ہمیں لڑنا ہی ہے، تو ہم اپنی مرضی کے محاذ پر لڑیں گے، اُنھوں نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ہم آج تک بچوں کو غلط تاریخ پڑھا رہے ہیں کہ ہندوستان نے حملہ کیا تھا، حالاں کہ پہلے ہم نے گڑبڑ شروع کی تھی۔ اب تو سابق جرنیلوں نے بھی لکھ دیا ہے۔

پھر آپ نے کہا، ہم جیت گئے تھے۔ یہ بھی غلط تھا۔ آپ محمد بن قاسم کی حمایت کرتے ہیں، راجا داہر کو غلط قرار دیتے ہیں۔محمودغزنوی نے ہندوستان پر کس لیے سترہ حملہ کیے؟ یہ حملے لوٹ مار کے لیے کیے گئے تھے۔ اگر آپ بچوں کو ہر بات غلط پڑھائیں گے، ہندوستان پر حملہ کرنے والے ہر شخص کو دُرست قرار دیں گے۔ تو کل جو حملہ آور آئے گا، اُسے بھی قوم درست قرار دے گی۔ ‘‘

تذکرہ من پسند شعرا اور ادیبوں کا۔۔۔
فیض اور غالب کے وہ مداح ہیں۔ افسانہ نگاروں میں بیدی اور منٹو کا نام لیتے ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ بیرونی ادب میں ڈورلس لیسنگ، مارکیز اور اورحان پامک کا نام لیتے ہیں۔ کسی زمانے میں اُنھوں نے جم کر افسانے لکھے، مگر اُنھیں کتابی صورت دینے کا امکان نہیں کہ لگ بھگ سب ہی اب گم ہوچکے ہیں۔ آج کل راج موہن گاندھی کی کتاب ’’اورنگ زیب ٹو مائونٹ بیٹن‘‘ مطالعے میں ہے ۔ مذاہب سے متعلق کتب عام طور سے مطالعے میں رہتی ہیں۔

پہلی شادی 74ء اور دوسری 97ء میں ہوئی۔ چار بچے ہیں، آدرش، امر، سارہ اور مائرہ، جن سے وہ بہت محبت کرتے ہیں۔ مصروف آدمی ہیں، مگر گھر والوں کو، چاروں بچوں کو بھرپور وقت دیتے ہیں۔ شفیق مزاج والد ہیں۔ پرانے گانے شوق سے سُنتے ہیں۔ آرٹ فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

بُک شیلف

$
0
0

آج کاجاپان
مصنف: عامر بن علی ،قیمت:400روپے
ناشر:نستعلیق مطبوعات، F-3 الفیروز سنٹر،غزنی سٹریٹ، اردوبازارلاہور


جاپان ایسا ملک ہے جہاں جاکر تیسری دنیا ہی کے لوگ نہیں بلکہ انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کے باشندے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ عالمی جنگوں میں تباہ ہوجانے کے باوجود چند برسوں میں حیرت انگیز ہمہ جہتی ترقی کے ذریعے دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں سرفہرست آچکاہے۔ بہت سے پاکستانی جنھیں براہ راست جاپانی معاشرے سے متعارف ہونے کا موقع میسر نہیں آیا، جاپانی قوم کی اس تیز رفتار ترقی کا راز سمجھ نہیں سکتے۔ بلکہ اس کی ترقی کی بہت سی جہتوں سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔

زیرنظرسفرنامے میں عامر بن علی نے جاپان کو یہاں متعارف کرانے کی ایک قابل قدرکوشش کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ جاپان میں رہے، انھوں نے اس حیران کردینے والی قوم کو ہرزاویے سے دیکھا، اور اس قوم کے مطالعے سے حاصل شدہ اسباق کو اپنی قوم کے سامنے رکھ دیا۔پروفیسر امیریٹس خواجہ محمدزکریا عامربن علی کی اس تصنیف کو پاکستانی قوم کے لئے ایک تحفہ تصورکرتے ہیں۔ اوساکا یونیورسٹی ، اوساکا جاپان میں اردو کے استاد پروفیسر سویامانے اسے ’سفرنامہ‘ ماننے کو تیار ہیں نہ ہی ’تحقیقی مقالہ‘، وہ اسے ’تجربہ نامہ‘ قراردیتے ہیں۔

یقینا اس کتاب کی پاکستانی معاشرے کو بہت ضرورت ہے، شاید اس کے مطالعے سے چند افراد کے دلوں میں یہ جذبہ پیداہوجائے کہ ہمیں بھی اپنے ملک اور قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے جاپان سے کچھ سیکھناہے۔

قصہ ایک صدی کا
مولف: علامہ عبدالستار عاصم
صفحات : سات سو تیس،قیمت : تین ہزار روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل


پاکستان کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ بزرگ اور موجودہ نوجوان نسل میں سے تمام پڑھے لکھے ،باشعور اور روزانہ اخبارات پڑھنے والے تمام افراد حمید اختر کے نام سے بخوبی واقف ہیں۔ حمید اختر نہ صرف پاکستان میں معروف تھے بلکہ قیام پاکستان کے وقت بھی اپنی نمایاں سیاسی ، ادبی اور صحافتی خدمات کے باعث ہندوستان اور پاکستان میں جانے پہچانے تھے۔ وہ کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز ، مساوات اور دیگر اخبارات شامل ہیں جبکہ ’’آزاد‘‘ کے تو وہ بانیوں میں شامل تھے۔ یوں تو حمید اختر کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی بھی جائیں گی۔ اس سے پہلے ان پر ایک کتاب ’’حمید اختر‘‘ شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ اب یہ ایک اور کتاب ہے۔ زیرنظر کتاب میں مولف نے حمید اختر کے اپنے لکھے ہوئے ان کی زندگی کے آخری دوسالوں کے تمام کالم شامل کردیے ہیں جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین سو کے قریب ہے۔

ان کالموں کے مطالعہ سے قارئین کو محسوس ہوگا کہ مثبت سیاست اور بھرپور صحافت پر مبنی زندگی گزارنے کے بعد بھی حمید اختر مالی حوالوں سے تہی دست تھے لیکن تجربے اور دانش کے حوالے سے حددرجہ دولت مند تھے۔ وہ ترقی پسندی کے خیالی اور زبانی دعوے دار نہ تھے بلکہ انہوں نے عملاً ایک ترقی پسند کی طرح زندگی گذاری۔ وہ حددرجے بے ساختگی اور سادگی کے ساتھ ہر وہ بات اپنے کالموں میں لکھ دیتے تھے جو ان کے دل میں ہوتی تھی۔اسلام کے نام پر ملک میں جاری قتل وغارت پر وہ بہت کڑھتے تھے اور اس سلسلے میں ذمہ دار طبقوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے ۔

ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن اور لاقانونیت پر بھی ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔ وہ علمی، ادبی، تصنیفی ، سیاسی اور تالیفی نزاکتوں کو جس طرح بیان کرتے تھے، یہ ان کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ مذکورہ کتاب ان کے ایسے ہی کالموں کامجموعہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حمید اختر کے چاہنے والوں کو پسند آئے گی بلکہ وہ قارئین بھی ان کو پسند کریں گے جو ابھی ان سے متعارف نہیں۔ اس حوالے سے مولف کی کوشش لائق تحسین ہے۔

وحشت ہی سہی(افسانے)
مصنفہ:نیلم احمد بشیر،قیمت:450روپے
ناشر: سنگ میل پبلیکیشنز،25۔ شارع پاکستان(لوئر مال) لاہور

یہ ایک خوبصورت خاندان ہے، مرحوم احمدبشیر سے بھی سب ہی واقف ہیں، ادیب، صحافی ، دانشوراور فلم ڈائریکٹر تھے۔ ان کی بہن بیگم پروین عاطف اور بچوں میں سے ہرایک نے بھی خوب نام کمایا۔ بالخصوص بشریٰ انصاری جو ممتاز ٹیلی ویژن آرٹسٹ ہیں اور نیلم احمد بشیر جو شاعرہ اور افسانہ نگارہیں۔ اور پھر بچوں کے بچے بھی آج معاشرے کے مختلف شعبوں میں اس گھر کا نام روشن کررہے ہیں۔اس گھرانے کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ یہاں ہربڑے ادیب کا آناجانارہا۔ ممتازمفتی نے نیلم احمد بشیر کو دیکھاتوکہنے لگے کہ یہ احمد بشیر کی سب سے ٹیلنٹڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک دن دنیائے ادب میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی۔ خوداحمد بشیر نے ایک بار نیلم کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی نظم دیکھی تو بہت حیران ہوئے اور بقول ان کے پریشان بھی۔ کہاکرتے تھے کہ اللہ اس کی ذہانت کو قابو میں رکھے مگر یہ لڑکی خوفناک معلوم ہوتی ہے۔آج نیلم احمد بشیر نے اپنے باپ کے سارے ’’خوف‘‘ اور ’’ڈر‘‘ سچ کردکھائے ہیں۔

ان کی تصانیف ’’ایک تھی ملکہ‘‘،’’گلابوں والی گلی‘‘، ’’چار چاند‘‘، ’’ جگنوؤں کے قافلے ‘‘ اور ’’ ستمگرستمبر‘‘ کے بعد اب ’وحشت ہی سہی‘ کے سارے افسانے پڑھ کر آپ خود اس حقیقت کو مان لیں گے۔ اس مجموعہ میں موجود سب کہانیاںگہرا تاثرلئے ہوئے ہیں اور ہمارے معاشرے کے بہت سے اہم مسائل کو اجاگرکرتی ہیں۔ اس شاعرہ اور افسانہ نگار کے کام کو دیکھ کر بانو قدسیہ نے کہاتھا کہ اس کی کہانی کا جوانجام ہوتاہے وہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتاہے۔

روسی مسلمانوں کے تین سوال
مصنف: محمد سلطان المعصومی
مترجم: مختار احمد ندویؒ،ناشر:طارق اکیڈمی، فیصل آباد
صفحات: ایک سو دو


بلاشبہ دور حاضر میں فرقہ واریت کے فتنہ نے شدت اختیار کر لی ہے، فرقہ بندی کی وجہ سے اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جدھر نظر دوڑائی جائے ادھر اسی کا جھگڑا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک فرقہ کی پیروی کو جائز، واجب بلکہ فرض سمجھتا ہے اور دوسرا سرے سے اس کا انکاری ہے۔ ان حالات کی وجہ سے نہ صرف عام مسلمان بلکہ وہ غیر مسلم جو مشرف بااسلام ہونا چاہتے ہیں، مشکل میں پڑ چکے ہیں۔ بدنصیبی اور کم علمی کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں (امت محمدیہؐ) کو اسلام کی تبلیغ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، وہ ہی اس کی ترویج میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چند چاپانیوں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں رہائش پذیر ہندوستانی مسلمانوں نے ان چاپانیوں کو مسلمان ہو کر ’’حنفی‘‘ مذہب اختیار کرنے پر اصرار کیا جب کہ دوسری طرف انڈونیشیا اور جاوا کے مسلمان بضد ہوئے کہ انہیں ’’شافعی‘‘ مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ یہ جھگڑا دیکھ کر حیرت زدہ چاپانیوں کا فیصلہ ڈگمگا کیا، ایسے میں وہاں قیام پذیر روس کے کچھ مسلمانوں نے فکرمندی کے عالم میں اسلام کے عظیم سکالر محمد سلطان المعصومی کو تین سوالات بھجوائے:۔

(1) دین اسلام کی حقیقت کیا ہے؟(2) مذہب کے معنی کیا ہیں؟(3) اور کیا یہ ضروری ہے کہ جو شخص مسلمان ہونا چاہے، وہ چاروں مذاہب (مسالک) میں سے کسی ایک کا ضرور پابند ہو؟
مصنف نے بڑے درد بھرے انداز میں ان سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں دیا ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک غیر جانبدار شخص یہ سوچنے اور جاننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسلام کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ کتاب صرف کوئی روایتی تحریر نہیں بلکہ ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہے، جو اسلام میں بے سود اختلافات کو ختم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔

فریب آرزو
مصنف:ناصر الدین احمد
قیمت:240روپے،صفحات:120
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ لاہور

حساس انسان اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا سے بہت زیادہ اثر لیتا ہے خاص طور پر ایسے مسائل جو پورے معاشرے کو اپنے نرغے میں لئے ہوں اور سالہا سال گزرنے کے باوجود جوں کے توں موجود ہوں، اسی طرح فکری الجھنیں بھی انھیں گھیرے رہتی ہیں اور ہمہ وقت انھیں حل کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر حساس فرد ان کے بارے میں مختلف انداز میں سوچتا ہے۔ فریب آرزو بھی ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن سے ناصر الدین احمد کی حساسیت نمایاں نظر آتی ہے تاہم ان کا انداز صوفیانہ رنگ لئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے ان مضامین کو خود کلامی قرار دیا ہے تو بالکل ٹھیک کہا ہے ، کیونکہ ان کا انداز ایسا ہی ہے ۔

محبت بھیگتا جنگل
شاعر: احمد حماد
قیمت: 350روپے،صفحات: 134
ناشر: جہانگیر بکس، ڈی بلاک، گلبرگ۲،لاہور

شاعری اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ اس سے قبل بھی احمد حماد کی دو کتابیں شام بے چین ہے اور ترے خیال کا چاند شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا انداز نئے دور کے تقاضوں کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے، جیسے وہ کہتے ہیں
پہلے بارش ہوتی تھی تو یاد آتے تھے
اب جب یاد آؤ تو بارش ہوتی ہے
ان کے انداز میں سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے
میں تیرے دل میں خلش بن کے رہوں
کیا مجھے اتنی اجازت بھی نہیں ؟
ان کی شاعری کا یہی انداز من بھاتا ہے ، مگر ابھی انھیں رچاؤ اور پختگی کی بہت ضرورت ہے جو گزرا زمانہ عطا کرتا ہے۔ مجلد کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے۔

سارے موسم اپنے
شاعرہ: عمرانہ انعم
صفحات: 128،قیمت: 150روپے
اُس کی فطرت ہے موسموں جیسی
اِس لیے اُس پہ اعتبار نہیں

بلاشبہ شاعری جذبات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ ہے، لیکن اس میں لطافت تب ہی پیدا ہوتی ہے، جب لکھنے والا بھی اندر سے خوبصورت اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ زیرتبصرہ کتاب کی شاعرہ ان دونوں شرائط پر پورا اترتی ہیں۔ ان کی شاعری معیار کی حد تک قاری کے لئے نہایت پُر اثر ہے، اس شاعری میں جذبہ و احساس کے حقیقی وجود کے ساتھ تاثیر کا بہاؤ قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں لفظوں کا انتخاب سادہ لیکن پُروقار انداز میں کیا گیا ہے، جسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ شاعرہ کا فکری اور تخلیقی معیار بلندی پرواز کی طرف مائل ہے۔ شاعرہ نے اپنے اس پہلے شعری مجموعہ میں محبوب کی روایتی بے وفائی سے لے کر ماحول اور معاشرے پر چھائی ہوئی بے حسی تک کے تمام مناظر کی نشاندہی کی ہے۔

آزاد کی تقریریں
مولانا ابو الکلام آزاد
قیمت:300روپے
ناشر:مکتبہ جمال ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور

مولانا ابو الکلام آزاد ممتاز عالم ، ادیب، دانشور اور سیاستدان تھے ۔ ان کی نظر سے معاشرہ کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں تھا۔ تحریر و تقریر میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھا ۔ دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کرتے تو یوں لگتا جیسے انھیں اس موضوع پر ید طولیٰ حاصل ہے ، سننے والا جب کسی اور موضوع پر ان کی بات سنتا تو وہ حیران ہو جاتا اور سوچ میں پڑجاتا کہ مولانا کے علم کے حد کہاں تک ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب میں مولانا ابواکلام آزاد کی تقریریں یکجا کی گئی ہیں جس کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میںوہ تقریریں شامل ہیں جو انھوں نے 1934ء کے آخر میں بالی گنج کلکتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کیں ، جبکہ دوسرے حصے میں چند تقریریں حکومت ہند کی شائع کردہ کتاب سپیچز آف مولانا آزاد سے لی گئی ہیں ۔ یہ وہ تقریریں ہیں جو مولانا نے قیام پاکستان کے بعد اسلام ، تعلیم اور فلسفہ کے موضوعات پر کیں۔

تقریروں میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے مصائب کا علاج، مساوات کی حقیقت، ایمان کی حقیقت اور اس کی شناخت ، خداکے وفادار بن جائو، تعلیم کے زاویے، مغربی تعلیم کے اثرات ، تعلیم اور مذہب، ادب اور زندگی ، زبان کا مسئلہ اور فلسفہ تعلیم جیسے اہم موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ موضوع کے حوالے سے مولانا کے دلائل قاری کے دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ مرتبہ انور عارف نے مولانا کی یہ تقریریں یکجا کرکے علم کے متوالوں پر احسان کیا ہے۔

رومیں ہے رخشِ عمر(آپ بیتی)
مصنف:عبدالسلام خورشید
قیمت:500روپے
ناشر:آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹائون لاہور

ڈاکٹرعبدالسلام خورشید صحافی بھی بڑے تھے اور استاد بھی اور بڑی بات یہ بھی کہ وہ ایک بڑے اور بلندپایہ صحافی عبدالمجیدسالک کے فرزندتھے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال کی صحبتوں سے فیض پانے والے ڈاکٹرصاحب نے ایک عرصہ صحافت میں گزارا، روزنامہ انقلاب سے روزنامہ مشرق تک کا سفر طے کیا اور پھر آخری عمر تک صحافی تیارکرتے رہے، 28برس اس شعبے میں گزارے۔ متعدد کتابیں لکھیں جو ایم اے صحافت کے طلبہ وطالبات کے لئے تحصیل علم کا سامان قرارپائیں۔ علامہ اقبال ؒ نے ڈاکٹرصاحب سے کہاتھا کہ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہ بنو، مکمل طورپر آزاد رہو، جو فیصلہ کرناہوخود سوچ سمجھ کر کرو‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے بڑے ڈاکٹرصاحب کی اس نصیحت کو ہمیشہ رہنما سمجھا۔

’ رومیں ہے رخشِ عمر‘ صرف ڈاکٹرصاحب کی آپ بیتی نہیں بلکہ پاکستان کی ایک تاریخ بھی ہے۔اس میں بہت سے آنکھیں کھول دینے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کے بھی ہیں اور بعد کے بھی جب یہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا، انھوں نے احوال بتایاہے کہ کیسے بڑے بڑے لوگوں کے منہ میںپانی بھرآیا اور تقویٰ اوندھے منہ گرا۔کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہوا جو پابند صوم وصلوۃ بھی ہوتے تھے اور بازارحسن بھی مسلسل جاتے، وہیں نماز کے لئے جائے نماز بچھ جاتا۔ اپنی دل پسند طوائفوں کے لئے انھوں نے بسم اللہ، ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کے نام گھڑ رکھے تھے۔ اسی طرح ترقی پسندادب کی تحریک کے بعض ایسے پہلو بیان کئے جنھیں پڑھ کر بہت سے لوگوںکے آنکھیں شعلے برسانے لگیں گی۔اس آپ بیتی میں مختلف سیاسی اور ادبی تحریکوں کی تفصیل ہی نہیں سو سال قبل کا لاہور بھی پوری طرح ٹھاٹھیں مارتا نظرآتاہے۔ اس دور کی سماجی ، ادبی اور علمی شخصیات اور محافل کا احوال ، ثقافتی مراکز ، ریستورانوں اور قہوہ خانوں کی چہل پہل۔ عرب ہوٹل، نگینہ بیکری ، کافی ہائوس اور انڈیا ٹی ہائوس میں آمدورفت رکھنے والی شخصیتوں اور جمنے والی حفلوں کی تفصیلات نے لاہور کے ماضی کا ثقافتی سراپا زندہ جاوید کردیاہے۔

جاپان ، سنگاپور، سری لنکا ، ہالینڈ ، فرانس اور انڈونیشیا وغیرہ کے علاوہ جب 1967ء میں شاہ ایران کی رسم تاجپوشی ہوئی اور ایران نوروسرور میں غرق تھا، اس کا آنکھوں دیکھا حال مصنف نے اس قدر دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو وہاں موجود محسوس کرتاہے۔

سو سال پہلے ایک شہزادے کا قتل کروڑوں بے گناہوں کی ہلاکت کا باعث بن گیا

$
0
0

اسلام آ باد:  پہلی جنگ عظیم کا آغاز 28 جون 1914 کو اس واقعہ سے ہوا کہ کسی دہشت پسند نے آسٹریا کے شہزادے فرڈی ننڈ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

اس کے جواب میں 28 جولائی کو آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ 15 اگست کو آسٹریا کے رفیق جرمنی نے اپنی فوجیں ہالینڈ اور بیلجیم کی طرف روانہ کر دیں، جو ان ممالک کو روندتی ہوئی فرانس کی سرزمین تک پہنچنے میں کوشاں ہوئیں۔ جرمنوں نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا، وہ یہ تھا کہ فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے فرانس کے دارالحکومت پیرس پر اس طرح حملہ کیا جائے جیسے پھیلے ہوئے بازو کی درانتی وار کرتی ہے۔ فرانسیسی فوج کی اعلیٰ کمان اس منصوبے کو بھانپ نہ سکی اور اس نے اپنی مشرقی سرحد پر سے جرمنوں پر 14 اگست کو حملہ کر دیا۔ یہ حملہ چوں کہ جنگی تدبیر سے بے بہرہ ہو کر کیا گیا تھا، لہٰذا جرمنوں نے، جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے، ایک بھرپور وار کیا اور فرانسیسی واپس ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد جرمنوں نے اپنے حملے کی اسکیم شروع کی، جسے تاریخ میں ’’شلفن منصوبہ‘‘ کے نام سے یاد رکھا گیا ہے۔ یہ حکمت عملی 1905سے تیار تھی۔ جلد ہی پیرس کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا اور یوں یہ جنگ اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی۔ بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی اس جنگ میں کود پڑے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں، برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت نے جرمنی، آسٹریا اور ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑائی کی۔ بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی جنگ میں شامل ہو گئے۔

پہلی جنگ عظیم کا جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب یہ لڑائی معاشی سطح پر انتہائی منہگی ثابت ہوئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بلقان علاقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہورہی تھی اور یوں یہ جنگ سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔ اس طرح پہلی عالمی جنگ گذشتہ صدیوں اور جدید تاریخ کی پہلی سب سے تباہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں لگ بھگ ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ اسی طرح اس میں زخمی ہونے والوں کے عدد بھی ہول ناک حد تک زیادہ ہیں، یعنی دو کروڑ دس لاکھ افراد زخمی اور معذور ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی ایک وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کی ایجاد اور اسے آزمانا اور متعارف کرانا بھی تھی اس کے علاوہ ہلاکت آفریں گیس بھی استعمال کی گئی۔

جنگ کے دوران یکم جولائی 1916 کو ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس واقعہ میں برطانوی فوج کے 57 ہزار فوجی مارے گئے تھے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اْٹھانا پڑا، جرمنی کے 17 لاکھ 73 ہزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجی ہلاک ہوئے، فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فی صد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہِ راست یا بالواسطہ ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ ’’اسپینش فلو‘‘ تھا جو، اب تک کی تاریخ کا سب سے مہلک انفلوئنزا ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے۔ جائداد اور صنعتوں کا نقصان بے اندازہ خطیر رہا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں جہاں جنگ اپنی تمام تر ہیبت کے ساتھ لڑی گئی۔

11نومبر 1918کو صبح 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اْس زمانے کے لوگوں نے اس لڑائی کو ’’جنگ عظیم‘‘ کے نام سے منسوب کیا، یہ نام اب تک رائج ہے اور اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے تھے۔

28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس جنگ کا بہت برا اثر پڑا کیوں کہ ترکی، جرمنی کا اتحادی تھا اور جرمنی کو بہت بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی سو اس کے اتحادی ترکی کو بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں میں لارنس آف عربیہ جیسے مکاروں کے ذریعے قوم پرستی پر اکسایا اور وہ ترکوں کے خلاف شمشیر بہ دست ہوگئے اور ترکی کے بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی پر بھی قبضہ کر لیا اور اس کی کی تقسیم کا منصوبہ تیار کیا لیکن مصطفٰے کمال پاشا (اتاترک) نے برطانیہ اور یونان کی چلنے نہ دی۔ مسلمانوں کی عظیم خلافت عثمانیہ اسی جنگ کے ہیبت ناک بھاڑ کا خاشاک بن گئی۔

امریکی سائنس دان آئن اسٹائن، جس نے امریکا کے ایٹمی پروگرام پر بہت کام کیا تھا، اس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟ تو انہوں نے کہا تھا ’’تیسری جنگ عظیم کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی‘‘۔ آئن اسٹائن کے اس جواب میں ایک وضاحت اور بلاغت موجود ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی اور کچھ نہیں بچے گا، اس کے باوجود اگر انسان کو لڑنا پڑ گیا تو اسے ڈنڈوں سے لڑنا ہو گا۔ اس قول میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انسان چھین جھپٹ سے باز آنے کا نہیں وہ دوسروں کا حق مارنے کے لیے لڑتا ہی رہے گا۔

رواں سال پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کو ایک صدی مکمل ہو جائے گی۔ اس تناظر میں آج کل برطانیہ میں اس جنگ کا پہلا دن منانے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب اہل علم حلقوں میں یہ بحث زوروں پر پہنچ چکی ہے کہ پہلی جنگ عظیم شروع کرنے میں کس ملک نے اہم کردار ادا کیا تھا؟

حال ہی میں برطانوی وزیر تعلیم مائیکل گوو نے اسکولوں میں پہلی جنگ عظیم کی وجوہات اور اس کے نتائج سے متعلق دی جانے والی تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کے بعد اس بحث میں مزید تیزی گرما گرمی آ گئی ہے۔ اب ایک صائب رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جرمنی کے قیصر ولیم دوئم اور برطانوی شہنشاہ جارج پنجم رشتے میں ایک دوسرے کے کزن تھے، یہ رشتے داری بھی انہیں جنگ شروع کرنے سے باز نہیں رکھ سکی تھی۔ جنگ کے حوالے سے جن دس تاریخ دانوں نے اپنی اپنی آراء پیش کی ہیں، وہ قابل غور تو ہیں مگر ان کی آراء سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس جنگ کا اصل ذمے دار کون تھا اور کیا اس جنگ سے بچنا ممکن تھا؟

مورخین کیا کہتے ہیں آیے پڑھتے ہیں:
فوجی تاریخ دان سر میکس ہیسٹنگز
’’میرے خیال میں کسی ایک قوم پر پہلی جنگ عظیم شروع کرنے کی ذمے داری نہیں ڈالی جا سکتی البتہ جرمنی وہ واحد ملک تھا جو براعظم یورپ کو اس جنگ سے بچا سکتا تھا۔ کیا تاریخ نے جرنیلوں کے کردار کو سمجھنے میں غلطی کی ؟ اگر جرمنی جولائی 1914 میں آسٹریا کو اس امر کی کھلی چھٹی نہ دے دیتا کہ وہ سربیا پر چڑھ دوڑے تو شاید جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ دراصل میں اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوں کہ سربیا ایک بدمعاش ملک تھا اور اسے سزا دینا ضروری تھا، میں نہیں سمجھتا کہ روس 1914 میں جنگ کے لیے تیار تھا۔ روس کے راہ نما جانتے تھے کہ وہ مزید دوسال بعد زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے لیکن یہ سوال بالکل الگ ہے کہ کیا برطانیہ کی اس جنگ میں شرکت لازمی تھی؟ میرے خیال میں برطانیہ کے پاس غیر جانب دار رہنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ یورپ میں جرمنی کی فتوحات کے بعد یہ قرینِ قیاس نہیں تھا کہ وہ برطانیہ کو برداشت کرے اور برطانیہ اس جنگ شروع ہونے سے پہلے تک بڑی عالمی طاقت بھی تو تھا‘‘۔

پروفیسر سر رچرڈ جے ایون کیمبرج یونی ورسٹی:
’’ سربیا کا پہلی جنگ عظیم شروع کرنے میں سب سے بڑا کردار تھا۔ بوسنیائی سرب شدت پسند گوریلو پرنسپ نے فرانز فرڈی نینڈ کو قتل کر دیا تھا اوردوسری جانب سربیا کی قوم پرستانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھی۔ سربیا ’’بلیک ہینڈ‘‘ نامی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا تھا لیکن آسٹریا اور ہنگری بھی پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کے ذمہ داروں میں سے ہیں، جنہوں نے تختِ ہپیس برگ کے وارث فرانز فرڈی نینڈ کی ہلاکت پر جس طرح کا شدید ردعمل ظاہر کیا وہ جنگ عظیم کے اسباب میں سے ایک تھا۔ فرانس نے روس کے جارحانہ رویے کی حوصلہ افزائی کی اور جرمنی نے آسٹریا کی حمایت کی۔ برطانیہ پہلے کی طرح بلقان کے اس بحران میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکا حالاں کہ برطانیہ 1910 تک دنیا کی بڑی بحری طاقت بھی تھا‘‘۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہیتھر جونز،لندن سکول آف اکنامکس:
’’میرے خیال میں آسٹریا، ہنگری ، جرمنی اور روس کے چند سخت گیر سیاست دان اور فوج کے پالیسی ساز پہلی جنگ عظیم کے ذمہ دار تھے۔1914 سے پہلے شاذ و نادر ہی کوئی شاہی قتل کسی جنگ کا سبب بنا تھا۔ آسٹریا اور ہنگری کے سخت گیر فوجیوں نے سرائی وو میں ہنگری کے شاہی خاندان کے افراد کے بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں قتل کو سربیا پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ سربیا اس وقت انتہائی عدم استحکام کا شکار تھا لیکن وہ اس کے باوجود اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کی بھی کوشش کر رہا تھا، وہ 1912 کی جنگ میں تھک چکا تھا اور 1914 میں مزید جنگ نہیں چاہتا تھا۔ یہ جنگ پورے یورپ میں اس وقت پھیلنے لگی، جب جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی سربیا پر حملہ آور ہونے کی حوصلہ افزائی کی لیکن جب روس، سربیا کی مدد کرنے لگا تو جرمنی نے بلغاریہ کے راستے روس اور اس کے اتحادی فرانس پر یلغار کر دی۔ اس صورتِ حال نے برطانیہ کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لیا‘‘۔

پروفیسر آف ہسٹری جان روہل، یونی ورسٹی آف سسیکس:
’’پہلی جنگ عظیم کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی اور نہ ہی یہ سفارت کاری کی ناکامی تھی بل کہ یہ جنگ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کی سازش کا نتیجہ تھی۔ ان ملکوں نے شاید سوچ رکھا تھا کہ برطانیہ جنگ سے باہر رہے گا۔ جرمنی کا حکم ران قیصر ولیم دوئم دنیا میں ’’جرمن خدا‘‘ کا غلبہ دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ وہ اپنے جارحانہ مزاج اور آمرانہ رویے کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ جرمن حکم ران نے 20 کے قریب لوگوں کے ایک گروہ کو اپنے گرد جمع کر رکھا تھا اور ان ہی کے مشورے سے اس نے حالات کو سازگار سمجھتے ہوئے جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘‘۔

پروفیسر آف ہسٹری جیراڈ ہرشفیلڈ، یونی ورسٹی آف سٹٹگارٹ:
’’جنگ شروع ہونے سے پہلے جرمنی کی قدامت پسند اشرافیہ اس بات کی قائل ہو چکی تھی کہ دوسرے یورپی ممالک کی طرح نوآبادیاں قائم کرنے اور جرمنی کو عظیم سلطنت بنانے کے لیے یورپی جنگ ضروری ہے۔ میرے خیال میں برطانیہ اس جنگ کو روکنے میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا تھا۔ سرائی وو میں ہونے والے قتل کے ایک واقعے پر جنگ کی ابتدا غلط سوچ اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی‘‘۔

ڈاکٹر انیکا مومبوئر، دی اوپن یونی ورسٹی:
’’ جنگ کے لیے ہنڈن برگ (مرکز) نے جرمنی کی فوج کو متحرک کیا تھا، میرے خیال میں پہلی جنگ عظیم کسی حادثے کانتیجہ نہیں تھی، اس جنگ سے بچا جا سکتا تھا۔ آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914 میں فرانز فرڈی نینڈ کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ ہی اس جنگ کا باعث تھا۔آسٹریا اور ہنگری کی پوزیشن بلقان کے خطے میں کم زور ہو رہی تھی اور انھوں نے اسی بنا پر جنگ کا راستہ اختیار کیا لیکن سربیا کے خلاف جنگ کے لیے آسٹریا اور ہنگری کو جرمنی کی حمایت کی ضرورت تھی اور پھر جرمنی کا آسٹریا کی غیر مشروط حمایت کرنا ہی اس جنگ کی وجہ بنی۔ آسٹریا اور جرمنی دونوں جانتے تھے کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس، سربیا کی حمایت کرے گا اور پھر یہ جنگ مقامی جنگ نہیں رہے گی بل کہ مغرب گیر جنگ میں بدل جائے گی، ان ملکوں نے یہ خطرہ مول لیا اور یوں یہ جنگ شروع ہو گئی‘‘۔

پروفیسر شان میکمیکن، کے او سی یونی ورسٹی استنبول:
’’ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سوالوں کے آسان جواب ڈھونڈتا ہے اور اسی وجہ سے سب جرمنی کو اس جنگ کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر کے اس کی بنیاد رکھی لیکن اگر فرانز فرڈی ننڈ کو سرائی وو میں قتل نہ کیا جاتا تو پھر آسٹریا اور جرمنی کے لیے سربیا پر حملے کا جواز نہ ہوتا۔ جرمنی اور آسٹریا نے اس جنگ کو ’’مقامی‘‘ رکھنے کی کوشش کی لیکن روس نے سربیا کی حمایت میں آ کر جنگ کو یورپی بنا دیا۔ برطانیہ کی اس جنگ میں شمولیت فرانس اور روس کی خواہش تو ہو سکتی تھی لیکن جرمنی ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا لہٰذا جرمنی، روس، فرانس اور برطانیہ بھی اس جنگ کے ذمہ دار ہیں‘‘۔

پروفیسر گیری شیفیلڈ، پروفیسر آف وار سٹڈی، یونی ورسٹی آف وولورہمٹن:
’’ آسٹریا، ہنگری اور جرمنی نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے اس جنگ کا فیصلہ کیا کہ روس، سربیا کی مدد کو آئے گا۔ آسٹریا اور ہنگری نے فرانز فرڈی ننڈ کے قتل کا بہانہ بنا کر اپنے علاقائی حریف سربیا کو تباہ کرنا چاہا۔ جرمنی اور آسٹریا کے رہ نماؤں نے مجرمانہ خطرہ مول لیا جس نے پورے براعظم کو جنگ میں دھکیل دیا‘‘۔

ڈاکٹر کیٹریونا پینل، لیکچرار یونی ورسٹی آف ایگزٹر:
’’میرے خیال میں پہلی جنگ عظیم شروع کرنے کا الزام جرمنی اور آسٹریا کے پالیسی سازوں پر ہی دھرا جا سکتا ہے، جنہوں نے ایک مقامی جھگڑے کو براعظمی جنگ میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جرمنی نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ اور فرانس کی طرح سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی۔ آسٹریا اور ہنگری نے 23 جولائی 1914 کو سربیا کو الٹی میٹم دیا جو، دراصل جنگ کا اعلان تھا۔ اس طرح 28 جولائی کو پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا‘‘۔

پروفیسر آف انٹرنیشنل ہسٹری ڈیوڈ سٹیونسن ، لندن سکول آف اکنامکس:
’’جرمن حکومت پہلی جنگ عظیم کی ذمہ دار تھی۔ جرمنی نے بلقان کی جنگ کو ممکن بنایا۔ انہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ سربیا پر آسٹریا اور ہنگری کے حملے سے یہ بڑی جنگ بن سکتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی۔ جرمنی نے نہ صرف آسٹریا کی غیر مشرو ط حمایت کا اعلان کیا بل کہ اس نے روس اور فرانس کو بھی الٹی میٹم دینا شروع کر دیے تھے۔ جرمنی نے عالمی معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور یہ جانتے ہوئے کہ اگر بیلجیئم پر حملہ ہوا تو برطانیہ بھی اس جنگ میں شریک ہو جائے گا، اس نے لگسمبرگ اور بیلجیئم پر یلغار کر دی تھی‘‘۔

پاکستان، سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نئے موڑ پر

$
0
0

 پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں، تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیوں میں آنے والے تغیرات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ضرور ہوتے رہے ہیں ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ تاریخ  پاکستان کے چھ عشروں میں پاک سعودی تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے کئی دور بھی آئے ہیں ۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان مرحوم اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے درمیان دوستانہ تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اسلام آباد کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔

قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی ۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے آگھیرا سعودی عرب مصیبت زدہ پاکستانیوں کا پہلا سہارا ثابت ہوا۔ سنہ 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 09 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے مختلف ادوار میں کم سے کم35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ آج تک سعودی عرب کے کئی ادارے پاکستان کی سر زمین سے افغان مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں ۔

ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔ سعودی اخبار’’المدینہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا بالخصوص مغرب اور امریکا نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈالا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایسے میں سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایٹمی تجربات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پر سعودی عرب کے مغربی بہی خواہوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی‘‘۔

اکتوبر2005ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ڈونر ممالک میں بھی پہلے نمبر رہا ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی حکومت کے براہ راست تعاون سے ہمہ وقت آج بھی کئی ادارے سرگرم ہیں جو سالانہ سیلاب سے متاثرین کی امداد پر ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم صرف کرتے ہیں ۔ یوں سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ مشکل کا ساتھی رہا۔

سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی حکومت کی داخلی معاشی پالیسیاں بالخصوص کرپشن نے سعودیوں کو ناراض کیے رکھا۔ گذشتہ برس مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے مابین خوشگوا ر تعلقات کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ پیش رفت2013ء کے اختتام کے ساتھ ہوئی ۔ بعض مغربی اخبارا ت یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان افواہوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ اس ضمن میں تازہ پیش رفت 2013ء کے اختتام پر صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے۔ اخباری ذرائع بتا تے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستان نے 2014ء کے اوائل میں ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں دونوں ملک ایک دوسرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بھرپور مدد فراہم کریں گے۔ آغاز کا ر کے طور پرسعودی عرب نے پاکستان اور چین کے تعاون سے تیار کردہJF17 تھنڈر طیاروں، آگسٹا آبدوزوں اور دیسی ساختہ الخالد ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔گو کہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت پائپ لائن میں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی اس ضمن میں عملی معاہدہ طے پا نے والا ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے دفاعی منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دوران صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کیں اور دفاعی اوراقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا قریب ترین دوست اور حلیف ہے اور یہ تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ جامع سٹریجک تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کے اس تین روزہ دورے کے دوران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور یوریا کھاد کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔

غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے چار فروری کو دورہ سعودی عرب، جنوری میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان بن عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان سے اسلحہ کی خریداری سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ریاض کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی مشقیں شروع کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ یہ مشقیں بھی جلد شروع ہونے والی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سعودی نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ اپنے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے محکمہ دفاع سے متعلق اہم اداروں کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔ سعودی وفد نے مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان ائیر فورس، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ PAC کا بھی دور ہ کیا ۔ کامرہ کمپلیکس دورے کے دوران سعودی نائب وزیردفاع نے پاک، چین مشترکہ مساعی سے تیار ہونے والے’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کا بھی معائنہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ کے دوران صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے خلیجی ملک بھی پاکستان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات کر چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کی آمد سے قبل عراق ، یمن اور اردن کے وفود بھی کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے نہ صرف تیار شدہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاض کی اصل خواہش اپنی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے پاکستانی ماہرین کی خدمات کا حصول ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی بات چیت میں پاکستانی ماہرین کی خدمات پربھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

پاکستان کے بعض اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے دو ڈویژن فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں چھاپی ہیں، تاہم سعودی ذرائع ابلاغ ان خبروں کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ کچھ غیر ملکی بالخصوص پاکستان سے فی سبیل اللہ کی دشمنی رکھنے والے بھارتی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے پر ہونے والی ڈیل کے بعد سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگی طیاروں ، ٹینکوں ، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لیے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان مشکل حالات میں پہلے بھی اپنی افواج کو سعودی عرب بھجوا چکا ہے۔1990میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ریاض کی جانب سے اسلام آباد سے ہنگامی ضرورت کے لئے فوج کا تقاضا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

گوکہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب اسلحہ کی بڑی بڑی ڈیلیں کرنے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ضمن میں عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں سعودی عرب اندرونی اور بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر کر رہا ہے۔

سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت
عرب خطے میں سعودی عرب بہترین ، پیشہ وارانہ طاقتور مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ مسلح افواج میں سعودی عریبین آرمی، سعودی رائل ایئر فورس، رائل سعودی نیوی ، رضاکار فورس اور سعودی عریبین نیشنل گارڈ(SANG) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں جن کی مجموعی افرادی قوت چارلاکھ پر مشتمل ہے۔ مسلح افواج 400 اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، پیشگی وارننگ پر فوری کارروائی کی صلاحیت کے حامل F 15 اسٹرائیک ایگل، جدید ترین یورو فائیٹر ٹائیفون، پا نیوا ٹو رنیڈو، جدید ترینF15 SA، جدید ترین راڈار سسٹمAESA ،جوائنٹ ہیلمٹ ماؤنٹڈ کیوننگ سسٹم جیسے دفاعی آلات سے لیس ہے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 500 الفارس آرمرڈ کیرئیر وہیکل۔ رائل سعودی اسٹریٹیجک میزائل فورس(RSSMF) کے پاس طاقت ور ترین میزائلوں میں چینی ساختہ ’’ڈونگ فنگSS4‘‘ میزائل ہے۔ گوکہ اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی رینج درمیانی ہے لیکن کارکردگی کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔

پاکستان کیلئے سعودی عرب کی دفاعی اہمیت
ہر چند کہ پاکستان دفاعی طور پر ایک ناقابل تسخیر اور کسی حد تک خود کفیل ملک بن چکا ہے تاہم سعودی عرب جیسے دیرینہ دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالات حاضرہ میں پاکستان اندرونی اور علاقائی طور پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے ہیں۔ ظاہر ہے مذاکرات کی یہ کوشش محض اتمام حجت کے لیے ہے۔ اگر فریق ثانی(طالبان) کی جانب سے عسکریت پسندی کا سلسلہ بند نہ ہوا یا انہوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلاء جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔

افغان طالبان سعودی عرب پر کسی دوسرے مسلمان ملک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں ۔ اس لیے افغانستان کو ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے بچانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں ۔ افغان عوام بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستانی اور سعودی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکیوں کی واپسی کے بعد کے افغانستان کے معاملات پر خاص طور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی موجودہ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ریاض کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام نمائندہ دھڑوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا صرف یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو بھی نظرانداز کیا گیا تو کشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شرو ع ہو سکتا ہے۔

Viewing all 4667 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>