Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4666 articles
Browse latest View live

49 دنوں کا وزیر اعلیٰ بنے گا وزیر اعظم

$
0
0

پچاس دن بھی پورے نہیں ہوئے کہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال نے استعفیٰ دیدیا۔

سبب یہ تھاکہ وہ ریاستی اسمبلی میں کرپشن کے خلاف قانون ’جین لوک پال‘ منظورنہیں کراسکے تھے، اس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا۔ 70رکنی اسمبلی میں ان کے پاس اپنے28 ووٹ تھے، قانون کی منظوری کے لئے انھیں دیگر جماعتوں کی حمایت بھی درکارتھی لیکن دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت سے انکار کردیا۔ کیجریوال کہہ چکے تھے کہ وہ یہ قانون منظورنہ کراسکے تو استعفیٰ دیدیں گے۔ چنانچہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے اپنے کئے پر عمل کردکھایا۔

اگر یہ قانون منظور ہو جاتا تو ایک ایسا آزاد ادارہ وجود میں آتا جو سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کر تا۔ تاہم کانگریس اوربی جے پی نے یہ کہہ کر قانون کی حمایت سے انکارکردیا کہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی۔ تاہم عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال کا کہنا تھاکہ آئین میں ایسی کوئی بات درج ہی نہیں کہ اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے قانون کا گورنر سے منظورکرانا ضروری ہے۔ کیجریوال کے مطابق شیلاڈکشت نے اپنے دور اقتدار میں تیرہ ایسے مالیاتی بل پاس کرائے جن کی مرکز سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔

استعفیٰ کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر سینکڑوں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے کہا کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر ان کی حکومت کی جانب سے مجوزہ قانون منظور کرانے کی کوشش ناکام بنادی ہے جس پر وہ اپنی حکومت چھوڑ رہے ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت نے بھارت کی مشہور کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول ’’انہیں سبق سکھانے کے لیے ’بی جے پی‘ اور ’کانگریس‘ نے اتحاد کرلیا‘‘۔ اب چھ ماہ بعد یہاں دوبارہ انتخابات ہوں گے یعنی مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد۔

اب کیاہوگا؟ کیجریوال کیاکریں گے؟ حکومت چھوڑنے کے بعد کیجریوال کے سامنے ایک طرف کرپشن کے خلاف جاری جنگ کو مزید گرم کرنے کا چیلنج ہوگا تو دوسری طرف عام انتخابات کا بڑا مقابلہ بھی لڑنا ہوگا۔ عام انتخابات میں شرکت اور عام انتخابات کے لئے امیدواروں کی پہلی فہرست کا اعلان کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے پورے ملک میں ’جھاڑو چلاؤ بے ایمان ہٹاؤ‘ مہم شروع کردی ہے ۔ پہلے مرحلے پر ایک ہفتہ کے اندر 24ریاستوں کے 332حلقوں میں جھاڑو یاتراہوگی۔ یادرہے کہ بھارت کی مجموعی طور پر 28 ریاستیں ہیں۔ یہ ایک تیزرفتارانتخابی مہم کا آغاز ہے، سوال یہ ہے کہ کیا کیجریوال اس تیزرفتار مہم سے من پسند فوائد اٹھاسکیں گے؟

جب کیجری وال دہلی میں انتخابی مہم چلارہے تھے تو ان کی انتخابی حکمت عملی مسحورکن تھی۔ انھوں نے غیرروایتی مہم چلائی۔ درست پالیسی، صحیح تشہیر اور بہترین انتخابی نظم و ضبط۔  اس کے زیادہ تر امیدوار سچ مچ کے عام آدمی تھے۔ کوئی حلوائی ،کوئی سافٹ ویئر انجینئر، کوئی چھوٹا بڑا تاجر، زیادہ تر نوجوان۔

عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت متوسط طبقے سے ملی۔ ان میں زیادہ ترسرکاری ملازم ، چھوٹے تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر، وکیل اور صحافی تھے۔ یہ طبقہ بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھا، یہ سرکاری محکموں سے ناراض ، بجلی کے بلوں سے تنگ آیا ہوا تھا، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان، ہسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کے بارے میں بھی شدید شاکی تھا۔ عام آدمی پارٹی کو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازموں کی بھی بھرپور حمایت ملی کیونکہ وہ بہت عرصہ سے مستقل ہونے کا مطالبہ کررہے تھے ، عام آدمی پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے انھیں مستقل کرنے کا وعدہ کیا۔ یادرہے کہ صفائی کرنے والا عملہ، ٹیچرز، مزدور، ڈرائیور، میٹرو میں کام کرنے والے ملازمین زیادہ تر ٹھیکے پر ہی کام کرتے ہیں، یہ سب دہلی میں ایک بڑی آبادی شمار ہوتے ہیں۔ پارٹی کو این جی او، سماجی کارکنوں کی بھی بھرپور حمایت ملی، ان میں ہر مکتبہ فکر والے لوگ تھے۔

عام آدمی پارٹی نے نظریات کے بجائے مسائل کی بنیادپر انتخابی مہم چلائی ، فائدہ یہ ہوا کہ جو تنظیم جن طبقوں میں کام کرر ہی تھی، وہاں اس پارٹی کی تشہیر خود بخود ہوگئی۔ دہلی کی زیادہ تر این جی اوز جھگی جھونپڑیوں میں کام کرتی ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے عام آدمی پارٹی کی خوب تشہیر کی۔ جھگی جھونپڑی میں اب تک کانگریس کا دبدبہ رہاتھا، اور وہ جھگیوں میں انتخاب سے پہلے پیسے اور شراب بانٹتی تھی اور لوگوں کے ووٹ پاتی تھی۔ لیکن پہلی بار عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے رضاکار تنظیموں کے ذریعے جھگیوں میں براہ راست ووٹروں سے رابطہ کیا، انہیں گھر دینے کا وعدہ کیا، ٹھیکے پر کام سے نجات دلانے کی بات کا یقین دلایا۔ یوں یہ طبقہ عام آدمی پارٹی کی بھیڑ میں شامل ہوگیا۔ یوںعام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کامیابی ہوگئی۔

انچاس روزہ اقتدار کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل حالت جنگ میں رہے۔ انھوں نے کئی اہم تبدیلیوں کو متعارف کرایا۔ وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کے لئے بذریعہ میٹرو ٹرین پہنچ کر انھوں نے عوام کوباور کرایا کہ اس مرتبہ ایک عام آدمی ریاست کا وزیراعلیٰ بن رہاہے۔ ان کی گاڑی جب سڑک پر چلتی تھی، کوئی پہچان ہی نہیں سکتاتھا کہ وزیراعلیٰ گزررہاہے۔ ان کی ویگن کو کئی مرتبہ سرخ سگنل ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے یا ان کے کسی وزیر نے سرکاری بنگلہ نہ لے کر سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی ۔ انھوں نے سیکورٹی لی نہ ہی ان کے کسی وزیرنے۔ کرپشن کے خلاف ہیلپ لائن شروع کرکے انھوں نے کرپٹ بیورکریٹس کی نیندیں حرام کردیں اور عوام میں بلاکااعتماد پیدا کیا۔ سب سے بڑھ کر دہلی پولیس کے رویے کے خلاف دھرنے کے موقع پر انھوں نے رات سڑک پر گزاری ۔ سڑک پر سونے والے شاید وہ ملک کے پہلے وزیراعلیٰ بن گئے۔

بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق کیجریوال کا طرزعمل ملک کے باقی سیاست دانوں کے لئے باعث پریشانی تھا کہ کہیں عوام ان سے جُر نہ جائیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان کے استعفے پر ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے راحت کا سانس لیاہے۔ بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی کاکہناہے کہ ایک بھیانک خواب ختم ہوگیا۔ یادرہے کہ بی جے پی گزشتہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کی بری کارکردگی کے سبب دہلی میں اپنی جیت کے بارے میں یقین کی کیفیت میں مبتلاتھی لیکن عام آدمی پارٹی نے اس کے سارے خواب بکھیر دئیے۔ ارون جیٹلی سچ کہتے ہیں کیونکہ عام آدمی پارٹی ان کے لئے بھیانک خواب ہی تھی البتہ ان کا یہ کہناقبل ازوقت ہے کہ یہ بھیانک خواب ختم ہوگیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ اگلے عام انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی بی جے پی کے لئے بھیانک خواب ہی ثابت ہو،کیونکہ بی جے پی اس بارپھر یقین سے ہے کہ وہ مئی میں وہ کانگریس کو شکست دے کر مسنداقتدارسنبھال لے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اپنے پہلے ہی انتخاب میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والی ’عام آدمی پارٹی‘ عام انتخابات میں بھارت میں کئی دہائیوں سے سرگرم مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔

پانچ ریاستوں کے انتخابات اگلے عام انتخابات کی ایک جھلک محسوس ہوئے تھے۔ بھارتی عوام کے بارے میں بھی خیال کیاجاتاہے کہ وہ ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلتے، اگر نکلتے ہیں تو ذات پات کی سوچ کے ساتھ پولنگ بوتھ تک آتے ہیں یا پھر علاقائیت کے دائروں میں قید رہتے ہیں۔ تاہم ان ریاستوں کے انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ اب عوام نے صحیح معنوں میں اپنی جمہوری قدروں کو سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ ریاستوں کے ان انتخابات میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا کہ سبھی ریاستوں میں زیادہ تر موجودہ ایم ایل اے وزیر ہار گئے۔ حقیقت میں یہ ناراضی ہے ان امیدواروں سے، جو صرف وعدوں کے سہارے سیاسی زندگی جیتے تھے لیکن اس بار عوام نے انھیں دھکے دے کر نکال باہر کیا۔کرپشن کے خلاف بے مثال مہم کے دوران انا ہزارے مسلسل کہتے رہے کہ کھوئی ہوئی سیاسی شان حاصل کرنی ہے، تو سیاست سے مجرمانہ کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو باہر نکالنا ہوگا۔ انتخابی نتائج نے ظاہرکیاکہ لوگوں کو اناہزارے کا مشورہ مانا۔ مدھیہ پردیش اسمبلی، راجستھان، دہلی اور چھتیس گڑھ اسمبلی میں ایسے تمام امیدوار ہار گئے جن کے خلاف جرائم پر مبنی سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان انتخابات میں اقربا پروری کو بھی نقصان پہنچا۔ کئی لیڈروں کے بیٹے اور بیٹیاں الیکشن ہار گئے۔

زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کا ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینا، وزیروں اور ارکان اسمبلی کو شکست فاش سے دوچارکرنا، ایسے افراد کو اسمبلی میں بھیجنا جو تعلیم یافتہ ہوں اور جرائم پیشہ نہ ہوں، علاقائیت، لسانیت سمیت دیگرتعصبات سے بالا ترہوکرووٹ دینا، یہ سب اشارے ایک بڑی پائیدار تبدیلی ہی کا مظہرہوتے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ کیجریوال کو کرپشن کے خلاف قانون سازی کرنے سے روکاگیا، اس سے کرپشن سے تنگ بھارتی عوام مزید غضبناک ہوں گے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ بدعنوانی جیسے مسئلے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کجریوال کے اس اقدام سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

انچاس دنوں میں عام آدمی پارٹی نے عوام کومشکلات سے نجات دلانے کے لئے اقدامات کئے تو دونوں بڑی جماعتیں تڑپ اٹھیں۔ بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کمی،دہلی کے شہریوں کوماہانہ 20 ہزار لیٹرپینے کے صاف پانی کی مفت فراہمی، وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ، بے گھر افراد کے لئے رات کے قیام کی سہولت فراہم کرنا،ایسے تمام اقدامات پر عوام خوش ہوئے لیکن دونوں بڑی جماعتیں تلملاتی رہیں۔ ابھی کیجریوال نے دہلی کے تمام اسکولوں کے انفراسٹرکچر کوٹھیک کرنا تھا، فوری انصاف کی خاطر 47 نئی عدالتیں قائم کرناتھیں، اگرایسا ہوجاتاہے تو کوئی اس تبدیلی کا تصوربھی نہیں کر  سکتا تھا جو محض چندماہ میں وقوع پذیرہوجاتی۔

اگرچہ دونوں بڑی جماعتیں عوام کو باورکرانے کی کوشش کررہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں حکومت چلانہیں سکی اور گھبرا کے بھاگ اٹھی۔تاہم حال ہی میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزے ثابت کرتے ہیں کہ کیجریوال کی حمایت میں اضافہ ہورہاہے۔ مثلاً ہندوستان ٹائمز کے جائزے میں پوچھے گئے مختلف سوالات کے جواب میں لوگوں کی اکثریت نے کیجریوال کے استعفیٰ کو درست اقدام قراردیا۔ 52فیصد لوگوں کے خیال میں کیجریوال کے اس اقدام کی وجہ سے انھیں عام انتخابات میں خوب فائدہ ملے گا۔56فیصد کا کہناتھا کہ کیجریوال کے استعفیٰ کی وجہ سے عام آدمی پارٹی دہلی کے اگلے ریاستی انتخابات میں زیادہ تعدادمیں سیٹیں جیت سکے گی۔76فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگلے ریاستی انتخابات میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی جماعت کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ کیجریوال حکومت کے اقدامات کو واپس لے سکتی ہے۔ کیجریوال حکومت کی ریٹنگ کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں 57فیصد لوگوں نے اسے ’اچھی‘ قراردیا۔ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ایک دوسرے ادارے C-Fore کے مطابق دہلی کے59فیصد لوگ کیجریوال کے استعفیٰ پر مایوس ہوئے لیکن 58فیصد کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اگلے ریاستی انتخابات میں پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت سازی کرے گی۔یہ جائزے بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے سیاسی منظرنامے میں عام آدمی پارٹی کہاں کھڑی ہوگی۔

45 سالہ کیجریوال سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ہمیشہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے آتی ہے، وہ سابق سرکاری ملازم ہیں،بد عنوانی کے خلاف جدوجہد اور سماجی خدمات کے اعتراف کے طورپر2006ء میں ’رومن میگسیسے انعام‘ ملا، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ’پریورتن‘(تبدیلی) کے نام سے ایک تحریک چلائی۔ اس منفرد تحریک کے ذریعے انکم ٹیکس کی ادائیگی، بجلی اور راشن جیسے معاملات میںعام لوگوں کی مدد کرتے تھے،ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی۔’رومن میگسیسے انعام‘ کے ضمن میں جو انعامی رقم ملی ، اسے بھی فاؤنڈیشن میں لگادیا۔ انھوں نے ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کے خلاف غیرمعمولی جدوجہد کی۔دو برس قبل کرپشن کے خلاف ایک سخت قانون بنانے کی غرض سے’بھارت ہے کرپشن کے خلاف‘ کے نام سے ایک گروپ بھی تشکیل دیا تھا۔اس جرم کی پاداش میں کیجریوال کو جیل بھی دیکھناپڑی۔ انا ہزارے نے اسی گروپ کے پلیٹ فارم سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔

اس مہم نے محض چندگھنٹوں میں پورے بھارت کو اپنی پشت پر کھڑا کرلیاتھا۔ کانگریس اور بی جے پی اس مہم کو غیرمعمولی طورپر مقبول دیکھ کر پریشان ہوگئی تھیں۔کیجریوال اور ان کے بعض ساتھیوں نے گزشتہ برس 2اکتوبر کو، بھارتی قوم کے باپو مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر ’عام آدمی پارٹی‘ قائم کئی۔ اس کے بانیوں میں انا ہزارے شامل نہیں تھے۔ انّا ہزارے کا خیال تھا کہ گندی سیاست میں شامل ہونے کے بجائے پاک صاف احتجاج ہی کرنا چاہئے۔ انتخابات سے پہلے ہی انا ہزارے نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ کیجریوال ان کا نام استعمال کریں گے نہ ہی تصویر۔ انھیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اپنے بل بوتے پر کریں۔قیام کے بعد عام آدمی پارٹی اس اندازمیں میدان سیاست میں متحرک ہوئی کہ بھارتی تجزیہ نگاروں نے اسی وقت خبردار کردیاتھا کہ نئی سیاسی جماعت پہلے سے موجود بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لیے خطرہ بنے گی۔ پھروہی ہواجس کا دونوں بڑی جماعتوں کو ڈرتھا، انتہائی کم بجٹ سے انتخابی مہم چلاکرکیجریوال کی پارٹی نے دہلی کی 70 ریاستی سیٹوں میں سے 28 سیٹیں جیتیں۔


جدت وروایت کا حسین امتزاج : پلازو

$
0
0

تبدیلی ہمیشہ انسان کو متاثر کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زندگی میں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کے بعد ہم اپنے کاموں میں دل چسپی محسوس کرتے ہیں۔ مسلسل ایک ہی ڈھب پر زندگی بِِتانے سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری نگاہیں بھی مناظر میں بدلائو سے فرحت کا احساس پاتی ہیں۔

یہ تبدیلیاں کبھی موسم اور تہوار کے حوالے سے ہوتی ہیں اور کبھی ان میں صرف کچھ نیا کرنے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

ہر بار بدلتا موسم نئی طرح کے تراش خراش کے ملبوسات لے کر آتا ہے۔ اس بار بھی جوں جوں موسم کے تیور بدل رہے ہیں، گرم ملبوسات کی جگہ کاٹن، سلک اور جارجٹ کے ملبوسات پھر سے مقبول ہوتے جا رہے ہیں، جن میں پلازو یعنی کھلے پائنچے کے ٹرائوزر بھی شامل ہیں، جو تیزی سے ان ہو رہے ہیں۔

اسے ہم روایتی عروسی غرارے کی جدید شکل کہہ سکتے ہیں، البتہ اسے گھٹنوں پر چُنٹ کے بہ جائے بیل باٹم کی شکل دی گئی ہے۔ پلازو بنانے کے لیے جرسی، سلک اور جارجٹ کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔ لڑکیاں پلازو کی دل دادہ ہیں۔ بازار سے تیار شدہ پلازو کے ساتھ من چاہے پلازو سلوائے بھی جا رہے ہیں۔ پرنٹڈ پلازو کے ساتھ سادہ قمیصیں اور سادہ پلازو کے ساتھ پرنٹڈ قمیصوں کا امتزاج بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہے۔ بدلتے موسم میں پہناوئوں کا تبدیل ہوتا ڈھنگ پلازو کے روپ میں بہت بھلا لگتا ہے۔

فلپ ہوفمین : جو ریسلر بنتے بنتے اداکار بن گئے

$
0
0

ٹرومین کپوٹے کا شمار گذشتہ صدی کے معروف امریکی افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں میں ہوتا ہے۔

وہ ڈراما نگار بھی تھے اور انھوں نے نان۔ فکشن تخلیقات بھی کیں۔ ان کے تحریر کردہ ناولوں، افسانوں اور ڈراموں پر کم از کم 20 فلمیں اور ڈرامے بنے۔ جرم کے سچے واقعے پر مبنی ان کا ناول In Cold Blood بے حد مقبول ہوا تھا۔ 1966ء میں شایع ہونے والے اس ناول کو ٹرومین کی بہترین تخلیق مانا جاتا ہے۔ Capote اسی تخلیق کار کی زندگی پر مبنی فلم تھی۔ یہ فلم 2005ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ Capote میں مرکزی کردار کے لیے ہالی وڈ کے باصلاحیت ترین اداکاروں میں سے ایک فلپ ہوفمین کا انتخاب کیا گیا تھا۔ متاثرکُن اداکاری نے نہ صرف ہوفمین کو متعدد اعزازات کا حق دار ٹھہرایا بلکہ اُس برس بہترین اداکار کا اکیڈمی ایوارڈ بھی اسی کے حصے میں آیا۔ ہوفمین کی کام یاب فلموں کی فہرست خاصی طویل ہے۔

اس فہرست میں Scent of a Woman، Twister، Boogie Nights، The Big Lebowski ،  Magnolia،  The Talented Mr. Ripley،  Red Dragon، 25th Hour ، Charlie Wilson’s War، Doubt اور The Master شامل ہیں۔ فروری کے ابتدائی ہفتے میں دنیا سے منہ موڑ جانے والا یہ اداکار فلمی دنیا میں ایک ایسے اداکار کے طور پر جانا جاتا ہے جسے ہر طرح کے کرداروں کی ادائیگی میں ملکہ حاصل تھا۔

رُبع صدی پر مشتمل پیشہ ورانہ زندگی میں ہوفمین نے سلور اسکرین پر صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ کردار چاہے سنجیدہ ہو یا مزاحیہ، رومانوی یا پیچیدہ وہ ہو نوع کے کردار کو یادگار بنادینے کی صلاحیت سے لیس تھے۔ ہوفمین کہتے تھے کہ اگر وہ اداکاری جانتے ہیں تو یہ تھیٹر ہی میں گزارے دنوں کا کمال ہے۔ اگرچہ ٹیلی ویژن کے ناظرین بھی ان کی اداکاری سے لطف اندوز ہوئے مگر مِنی اسکرین سے ان کا تعلق مختصر ثابت ہوا۔ یوں ان کی زندگی فلم اور تھیٹر ہی کے گرد گھومتی رہی۔

اداکاری کے علاوہ ہوفمین ہدایت کار کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے تھے۔ انھوں نے متعدد اسٹیج ڈراموں کی ہدایات دیں۔

ہوفمین کی پیدائش 23 جولائی 1967ء کو نیویارک کے مضافاتی علاقے فیئرپورٹ میں ہوئی تھی۔ ان کی والدہ مارلن او کونر فیملی کورٹ کی جج اور والد گورڈن ہوفمین ایک ادویہ ساز کمپنی میں افسر تھے۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ 1976ء میں ان کے والدین میں طلاق ہوگئی تھی۔ فلپ کو اداکاری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بلکہ ریسلر بننا ان کی خواہش تھی۔ نوجوانی میں گردن میں لگنے والی چوٹ نے انھیں اس شوق سے دستبرداری پر مجبور کردیا تھا۔ تن سازی سے دوری کے بعد ان کی توجہ اداکاری کی جانب مبذول ہوئی۔ 1984ء میں وہ باقاعدہ طور پر تھیٹر سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1989ء میں انھوں نے نیویارک یونی ورسٹی کے ٹش اسکول آف آرٹس سے ڈراما میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

فلپ کے اداکارانہ کیریر کی ابتدا ٹیلی ویژن سے ہوئی تھی۔ امریکی ٹیلی ویژن چینل کی ڈراما سیریز Law & Order کی ایک قسط میں انھوں نے ایک ملزم کے کردار سے جہان اداکاری میں قدم رکھا تھا۔ اگلے ہی برس سلور اسکرین تک بھی ان کی رسائی ہوگئی۔ بڑے پردے کے ناظرین ان سے Triple Bogey on a Par Five Hole سے متعارف ہوئے۔ چند مزید فلموں میں مختلف النوع کرداروں کی ادائیگی کے بعد انھیں  Scent of a Woman میں مشکلات کا شکار ایک طالب علم کا رول کرنے کی پیش کش ہوئی۔ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم میں ہوفمین کی اداکاری کو ناظرین کے ساتھ ساتھ ناقدین نے بھی سراہا۔ ہالی وڈ کے ساتھ اسٹیج سے بھی ان کا ناتا بدستور جُڑا ہوا تھا۔ وہ نیویارک کی لابرنتھ تھیٹر کمپنی سے منسلک ہوگئے اور اس کے متعدد ڈراموں میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ 1996ء ہوفمین کے کیریر کا یادگار سال ثابت ہوا۔ اس برس ریلیز ہونے والی فلم Twister نے ان کے کیریر کو استحکام دیا۔

Twister سال کی سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والی فلم ثابت ہوئی۔ Twisterکی بہ دولت ہوفمین کو اگرچہ آسکر جیسا معتبر اعزاز ملا مگر پرستار انھیں آج بھی Capoteکے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ معروف لکھاری ایلیکس ہیگل نے لکھا تھا کہ Twister میں ہوفمین کی اداکاری اس فلم سے بھی پانچ گنا بہتر تھی۔ Scent of a Woman میں ہوفمین کی پُراثر اداکاری کی بنیاد پر ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پال تھامس اینڈرسن نے انھیں اپنی فلمBoogie Nights میں ایک فم اسسٹنٹ کے رول میں سائن کیا۔ یہ فلم بے پناہ مقبول ہوئی اور اس کا شمار کلاسیک فلموں میں کیا جانے لگا۔ ہوفمین کی پرفارمینس کو ایک بار پھر بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور فلمی مبصرین نے لکھا کہ اس فلم میں ہوفمین کی صلاحیتیں اوج کمال پر پہنچی ہوئی ہیں۔

1999ء میں انھوں نے  Flawlessمیں رابرٹ ڈی نیرو جیسے لیجنڈ کے بالمقابل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس دوران وہ اسٹیج پر بھی سرگرم رہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد ان کا شمار اسٹیج کے کہنہ مشق اداکاروں میں ہونے لگا، اور ڈائریکٹر انھیں مرکزی کرداروں میں دیکھنے کے مشتاق رہنے لگے۔ سلور اسکرین پر بھی ان کی کام یابیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ 2002ء میں ہوفمین کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں اور چاروں ہی پسند کی گئیں۔ اس وقت تک ہوفمین کا امیج ایک ایسے اداکار کے طور پر مستحکم ہوچکا تھا جو ہر طرح کے کردار مہارت سے ادا کرسکتا ہے۔ وہ کرداروں کی حقیقت سے قریب تر ادائیگی کے قائل تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن تیاری کرتے تھے۔ مثال کے طور پر 2003ء میں ان کی فلم Owning Mahownyنمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم میں انھوں نے بینک کے ملازم کا کردار ادا کیا تھا جو جوئے کی لت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے کھاتے داروں کی رقم میں خوردبُرد کرتا ہے۔ Owning Mahowny کی کہانی ٹورنٹو کے ایک بینر برائن مولونی کی داستان حیات پر مبنی تھی جس نے انفرادی حیثیت میں کینیڈا کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کیا تھا۔

اس کردار کی تیاری کے لیے ہوفمین نے مولونی سے کئی ملاقاتیں کیں۔ ہوفمین کی پیشہ ورانہ زندگی میںاس نوع کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ 2005ء ہوفمین کے کیریر کا ایک اور یادگار سال ثابت ہوا۔ اس برس Capote کی صورت میں اس کے کیریر کی سب سے یادگار فلم ریلیز ہوئی۔ معروف امریکی قلم کار کی زندگی پر بنائی جانے والی اس فلم نے ہوفمین کو آسکراعزاز یافتہ اداکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ آسکر کے علاوہ بھی انھوں نے اس فلم میں بہترین اداکاری کی بنیاد پر گولڈن گلوب اور بافٹا سمیت تمام اہم ایوارڈز جیتے۔

ہوفمین کا کہنا تھا کہ ایک اداکار کو ہر طرح کے کرداروں میں اپنی صلاحیتوں کی آزمائش کرنی چاہیے۔ چناں چہ انھوں نے منفی کردار بھی ادا کیے۔ Mission: Impossible III میں ہوفمین کے پرستاروں نے انھیں منشیات کے اسمگلر کے روپ میں دیکھا۔ ڈائریکٹر مائیک نکولس کی فلم  Charlie Wilson’s War میں سی آئی اے کے افسر کا رول کیا جو افغانستان میں خفیہ جنگ شروع کرنے میں کانگریس کے رکن کی مدد کرتا ہے۔ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ناقدین نے لکھا کہ ہوفمین اس فلم کا مرکزی اداکار ہے جس کی پرفارمینس فلم کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس فلم میں ہوفمین کی متاثرکن اداکاری کی بہ دولت ان کی بہترین معاون اداکار کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی بھی عمل میں آئی۔

2008ء میں  Synecdoche, New Yorkمیں انھوں نے ایک پریشان حال ڈراما ساز کا کردار خوبی سے نبھایا جو ڈرامے کے لیے ایک تہہ خانے میں نیویارک شہر کا ماڈل بنانا چاہتا ہے۔ معروف فلمی مبصر راجر ایبرٹ نے اس فلم کو اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے کی بہترین فلم قرار دیا تھا۔ 2010ء میں ہوفمین نے Jack Goes Boating سے ہدایت کاری کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا تھا۔ یہ ایک رومانوی مزاحیہ فلم تھی۔ ہوفمین نے اس فلم میں مرکزی کردار بھی ادا کیا تھا۔ یہ فلم ایک ایسے شخص کے بارے میں تھی جو اپنی نصف بہتر کی تلاش میں سفر پر نکل پڑتا ہے۔ ابتدائی طور پر ہوفمین نے فلم کی ہدایات ہی دینے کا ارادہ کیا تھا مگر مرکزی کردار کے لیے کوئی موزوں اداکار دست یاب نہ ہونے پر انھیں ہی یہ رول کرنا پڑا۔

فلپ ہوفمین کی آخری ریلیز ہونے والی فلم  The Hunger Games: Catching Fireتھی۔ یہ فلم گذشتہ برس سنیماؤں کی زینت بنی تھی۔ ان کی موت سے قبل دو فلموں کی شوٹنگ مکمل ہوچکی تھی۔ دونوں فلمیں A Most Wanted Man اور God’s Pocket رواں برس نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔  دوران انٹرویو ہوفمین اپنی نجی زندگی کا تذکرہ کرنے سے گریز کرتے تھے۔ زندگی کے آخری چودہ برس میمی او ڈونل سے ان کے تعلقات رہے۔ میمی ایک کاسٹیوم ڈیزائنر ہیں۔ ہوفمین کی ان سے ملاقات 1999ء میں ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ میمی سے ہوفمین کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ 2013ء کے اواخر میں، موت سے چند ماہ قبل ان کی راہیں جُدا ہوگئی تھیں۔

شیخ ایاز کی دعائیں، سندھ کے مایہ ناز شاعر اور ادیب کے فن کا ایک پہلو اجاگر کرتی تحریر

$
0
0

انیسیویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل یعنی 2؍مارچ 1923کوایک ایسے سپوت نے آنکھ کھولی جو بعد میں چل کر خاکنائے سندھ کی ایک مایہ ناز شخصیت بنا اور جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز محنتِ شاقہ کے باعث بڑا نام کمایا۔

تاہم محسوس ہوتا ہے کہ اس عہد ساز شخصیت کی مساعی ہائے جمیلہ کا مقصد یہ نہ تھا کہ اپنے لیے نام پیدا کیا جائے، اس کے برعکس ہر بڑے شخص کی طرح اس کا منتہائے نظر بھی کام ، کام اور بس کام تھا اور جہاں تک نام کمانے کا تعلق ہے تو نام تو خود بخود کام کے جلو میں انسان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ننگے پائوں چلنے والا شیخ سعدؔی اپنی غربت و افلاس کے بوسیدہ لباس میں بھی شیخ سعدؔی ہی رہا کہ جس کی ’’گلستان‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکایاتِ سعدؔی درحقیقت الہاماتِ سعدؔی ہیں اور یہ وہ منزل ہے جو غازیانِ علم و حکمت کو بعدازتلاش بسیار ہی حاصل ہوتی ہے۔

یہ شیخ ایازؔ تھے جن کی شخصیت نے سرزمین سندھ کو ایک نیا امتیاز عطا کیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زمین پر قدم جمانے والی یہ شخصیت ایک ممتاز شاعر اور دانش ور کی حیثیت سے ابھری۔ ایک ایسے مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے کہ جو معاشرے میں بسنے والے فرد کے وجود پر غور فکر بھی کرتا ہے اور یہ بھی سوچتا ہے کہ آخر وہ کیا طریقۂ کار ہے کہ جس کے تحت یہ معاشرہ وجود میں آتا اور قائم و دائم رہتا ہے۔

شیخ ایازؔ کی شخصیت کا اولین پہلو تو ایک شاعر ہی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، لیکن جب پہلے پہل ان کے کلام کے مطالعے کی سعادت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایک ایسے شاعر کی حیثیت سے پہچان میں آتے ہیں جس کی انقلابی سوچیں کسی خاص فرد، علاقے یا معاشرے تک محدود نہ تھیں، بل کہ وہ اپنے دور ونزدیک ایسی تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھنا چاہتے تھے کہ جو پابندِ حدودقیود نہ ہوں، بل کہ ان کی وسعتیں بے کنارہوں۔

شیخ ایازؔ سندھی اور اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جس نے آنے والے وقت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور جس کے بارے میں آج کا دانش ور بھی اور آنے والا مورخ بھی یہی تحریر کرے گا کہ شیخ ایاز جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کہیں صدیوں بعد ہی پیدا ہوتی ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی نت نئی جہتیں کھلنے کے باوجود بنیادی نظریات میں تبدیلی روز روز رونما نہیں ہوتیں ہر سوچ اور فکر کا محور وہی رہتا ہے۔ تاہم وقت اور حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ وسعتِ بے کنار پیدا ہونا ایک الگ بات ہے۔

شیخ ایازؔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نثرنگار بھی تھے جن کی نثری تحاریر کو دنیائے ادب میں شہ پاروں کی حیثیت حاصل رہے گی۔ میرے موضوع کا تعلق نہ تو ان کی جدیدیت سے ہے اور نہ ہی اس سے غرض ہے کہ ان کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی کی نوعیت کیا تھی۔ اس کے برعکس میرا ارتکازِ فکر ان کے اس اضطراب پر ہے جو ان کے نہاں خانۂ دل میں موجود تھا۔ اور جو بالآخر ان کی دعائوں کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ کو ان کے اردو اور فارسی کے اشعار ہی نے غالب نہیں بنایا تھا، بل کہ ان کی نثری تحریریں اور خاص طور پر خطوط ِ غالبؔ اردو ادب کا سرمایہ ہیں جن سے علم و ادب کے دل دادہ آج بھی فیضیاب ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ نصف صدی سے زاید عرصے تک جدیدیت کا ممتاز علم بردار شیخ ایاز جس کی سوچ پر زیادہ تر مغربی مفکرین اور دانش ور چھائے رہے، آخر کار اپنے رب کی طرف مائل ہوا تو دریچۂ فکر سے در آنے والی تازہ ہوائوں نے اس پر ثابت کردیا کہ دنیا کی ہر بڑی اور چھوٹی شے میں اس ذاتِ اقدس کا ظہور موجود ہے جسے اس کے خالقِ حقیقی ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔

اس نے زمینوں اور آسمانوں پر غور کیا اس نے ستاروں کے جلتے بجھتے چراغ دیکھے اس نے طلوعِ آفتاب پر غور کیا اور دورافق میں غائب ہوتے ہوئے چاند کو راتوں میں اٹھ اٹھ کر دیکھا کہ دراصل یہ اس کا وطیرۂ خاص ہی تھا کہ جب دنیا سورہی ہوتی تو وہ بندۂ خدا نیند کے عالم سے بیدار ہوجاتا۔ رات کے پچھلے پہر کا یہ مسافر جب چیزوں کی اصلیت پر غور کرتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ کائنات کو پیدا کرنے والی اور اس کو چلانے والی ذات دراصل ذاتِ خداوند ہی ہے کہ جس کے وجود سے ہست وبود کی گتھیاں سلجھائی جاسکتی ہیں۔ رات کا یہ پچھلا پہر وہ ثانیۂ دل گداز ہوتا ہے کہ سچے دل سے مانگی جانے والی دعا عرش تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اور انسان عالم استغراق میں اس حد تک کھو جاتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس کی خاموشی نے کب سسکیوں کی صورت اختیار کرلی ہے اور کب یہ سسکیاں شورِِگریہء کی حدوں سے آگے نکل گئیں بقولِ شاعر

وہ خود مجبور کردیتی ہے مجھ کو شورِ گریہ پر

دعائے نیم شب سے خامشی دیکھی نہیں جاتی

سندھی روزنامہ ’’برسات‘‘ کراچی میں 1994 کے مختلف شماروں میں چھپنے والی شیخ ایاز ؔکی یہ دعائیں سندھی ادب کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ان دعائوں کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ دعائیں محض دعائیں ہی نہیں ہیں، جو کسی دلِ مضطرب سے عالمِ اضطراب میں نکلی ہوں، بل کہ یہ دعائیں ادب کا وہ ورثہ ہیں جو شیخ ایازؔ نے اپنے پیچھے چھوڑی ہیں ان کی دعائوں کے الفاظ اور بندشِ الفاظ جملوں کی برجستگی اور سلیقۂ اظہار خود ان کے قارئین کے دلوں پر اثر انداز ہوتا اور گداز پیدا کرتا چلا جاتا ہے تو کیا یہی پکار خداوندِ قدوس کی بارگاہ میں قبولیت حاصل نہ کرے گی جو حلیم بھی ہے اور خبیر بھی اور سمیع بھی ہے اور بصیر بھی شیخ ایازؔ کے ظاہر سے ماوراء ان کے اندر کا انسان ان کے تنِ اظہار پر چھا جانے کے لیے کیوںکر بے قرارومضطرب تھا، اس کا پتا ان کی اس دعا سے چلتا ہے، (ترجمہ)’’یا رب مجھے اپنے غصے پر غصہ دے اور اپنی نفرت کے لیے میرے دل میں نفرت پیدا کردے۔ یہ میرے اندر ناراضگی کی باتیں کہاں سے آرہی ہیں۔ میں تو سراپا دعا تھا۔ یہ بددعائیں کہاں سے آئیں۔‘‘ بددعائوں کو دعائوں کے رنگ میں پیش کرنے والا یہ دعاگو اپنے مالکِ حقیقی سے یوں مخاطب ہوتا ہے، (ترجمہ)’’یا رب! تو میرے دشمن کے لیے بھی رحمت کا سایہ بن جا۔‘‘ درحقیقت ان دعائوں میں شیخ ایازؔ کا ظاہر نہیں بل کہ ان کا باطن بولتا نظر آتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب ظاہر و باطن ایک ہوجاتے ہیں تو دراصل تمام حساب بے باق ہوجاتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا :

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا، پایا

اب اگر دشتِ امکاں کا پہلا قدم وہ مجاز ہے جس سے آغازِسفر شیخ ایازؔ نے کیا تو ہی دشتِ امکاں کا دوسرا قدم وہ ولایت ہے، جو کسی رندِ بادہ خوار کو اس کی ایک صدائے یا رب سے حاصل ہوجاتی ہے اور شاید مجاز اور حقیقت کے درمیاں پایا جانے والا وہ فاصلہ بیک گام تھا۔

شیخ ایازؔ کی دعائوں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ان کی سوچوں میں کا کینوس بلندی و پستی تک محدود نہ تھا، بل کہ ان کی سوچوں میں لہو کا وہ رنگ شامل تھا، جس کے اجزائے ترکیبی ہر پیکر خاکی میں یکساں تناسب اور کم و پیش یکساں اوزان میں موجود ہوتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیںکہ یا رب! انتقام کا جذبہ میرا دشمن ہے۔ دوسرے کو ایذا رسانی کا تصور بھی میرے لیے خنجر ہے، جو میں سینے میں لگارہا ہوں مجھے اپنے غیض و غضب سے اپنی پناہ میں رکھ اور مجھے خودکشی سے بچالے‘‘ تو کیا س دعا کو پڑھ لینے کے بعد بھی اس قیمتی خون کو سٹرکوں پر بہا دینے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے۔ شیخ ایاز ؔکہتا ہے کہ ’’یا رب! تو میرے دشمن کے لیے بھی رحمت کا سایہ بن جا اگر میں یہ کہوں کہ تو اس پر عتاب نازل کر تو تو میری یہ پکار نہ سن میرے دشمن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کو یوں پونچھ لے جس طرح آفتاب نرگس کے پھول سے شبنم پونچھ لیتا ہے۔ یہ دعا محض دعا ہی نہیں بلکہ ادب کا ایک بہترین فن پارہ بھی ہے۔

شیخ ایازؔ پیرویٔ رسول مقبول ﷺ میں ہر ایک پر بارش کرم کے متمنی ہیں۔ وہ اپنے بدخواہ پر بھی رحم کی درخواست کرتے ہیں وہ ملتجی ہیں کہ اے خدا! میرے بدخواہ کے اندر سے خیر کو اس طرح ابھاردے جس طرح تھوہر کے درخت میں لال پھول پھوٹ پڑتے ہیں۔ ’’حیرت تو یہ ہے کہ ایک ایسا شاعر جس کی شخصیت پر دستارِانا بھی جچتی نظر آتی ہے، اپنے خدا سے یوں دستِ با دعا ہے کہ یا رب! مجھے داراوسکندر کے قدر و قامت نہیں چاہییں۔ مجھے حافظؔ کا ترنم، اور خیامؔ کی سرمستی عطا فرما۔ مجھ میں شمس تبریز اور رومی والی وہ حیرت دے اور وہ شانِ قلندری پیدا کردے کہ میں اپنے آپ سے حقارت نہ کروں اور خود کو حقیر بھی نہ سمجھوں شیخ ایازؔ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ، وتعزمن تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر۔

بس وہ کہتے ہیں کہ یا رب ہر ایک کو عزت سے تو ہی شرف یاب کر تا ہے اور ذلت بھی تو ہی دیتا ہے۔ میرے اندر یہ صلاحیت پیدا فرما کہ عزت دیکھ کر حد سے تجاوز نہ کروں اور ذلت دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ دراصل آج ادب اس قدر بے ادب اور بے باک ہو چکا ہے کہ ہم اس کے معانیٰ اور غرض و غایت ہی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جب علم آتا ہے تو اندھیرے مٹ جا تے ہیں اور تاریکیاں کافور ہوجاتی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ادب کا مطلب معاشرے کی اصلاح اور اس کی بھلائی ہے۔ ادب محض لفظوں کو جوڑنے جملوں کو سنوارنے اور مصرعوں کو ترتیب دینے کا نام بن کر رہ گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس ادب کے ذریعے انسان کو ظاہری اور باطنی آسودگی حاصل ہو تی ہے۔ ادب وہ زینہ ہے جو آدمی کو آدمیت کے بلند مقام پر فائز کرتا ہے علم و ادب کا مقصد انسانیت اور تہذیب کو فروغ دینا ہے نہ کہ اسے انسانی اقدار سے محروم کر کے خس و خاشاک کی صورت کسی طوفانِ بدتمیزی کے سپر د کردینا۔

شیخ ایازؔ نے ایک دانش ور اور مفکر کی حیثیت سے عمرِعزیز کے آخری عشرے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو علم و ادب کو لوگوں کے ضمیر روشن کرنے اور اپنے مالکِ حقیقی سے قریب تر لانے کے لیے استعمال کیا اور ثابت کیا ہے کہ توبہ کے دروازے کسی پر کبھی بند نہیں ہوتے وہ بار بار رحم کرنے والا ہے۔ صرف اور صرف ایک پکار کی ضرورت ہوتی ہے اور پکار میں تڑپ اور کسک وہ لازمی عناصر ہیں، جو انسان کو بندے سے بندۂ خدا بنا دیتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ جگر ؔمرادآبادی جن کی داڑھی کے تمام تر بال غرقابِ ام الخبائث ہوجاتے تھے تو بہ کے دروازے پر پہنچنے اور ا ن کے اند ر کا انسان بیدار ہوا تو اسی تر ک شراب نے ان کی جان لے لی، لیکن وہ راہ ہدایت سے نہ ہٹے:

اچھا ہے سنبھل جائے کوئی گر نے سے پہلے

اور کو ئی سنبھل جائے جو گر کر بہت اچھا

شیخ ایازؔ نے بتدریج علم و ادب کا سفر طے کرتے کرتے آخر اپنے اُس مقصد کو پالیا جو انسان کے تحت الشعور میں کہیں پوشیدہ ہوتا ہے اور اگر نیک نیتی اور خلوصِ دل کارفرما ہو تو اس کے شعور میں آتا ہے۔ تحت الشعور سے لے کر شعور تک کا یہ سفر بہت طویل، بہت صبرآزما اور بہت کٹھن ہوتا ہے۔ لیکن یہی وہ سفر ہے جس کے ہر موڑ پر انسان کی ذات میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور انسانی فکر میں ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے۔ اس دوران انسان خیر و شر کی قوتوں کو متصادم ہو تے ہوئے بھی دیکھتا ہے اور یوں نفسی قوتوں کی غلامی سے آزاد ہو کر خود اپنے معاشرے میں اپنے گر و پیش سے دور دور تک کے معاشروں میں انقلاب حقیقی لانے میں کام یاب ہو جا تا ہے۔ شیخ ایاز کی دعائیں ان کی ذات تک محدود نہ تھیں۔ وہ اپنی دعائوں میں اپنے آپ کو غیروں کے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو معاشرے کی ایک اکائی سمجھنے کی بجائے معاشرے کو ایک اکائی تصور کرتے ہیں اور خود کو اس اکائی کا جزو لازمی قرار دیتے ہیں۔ ان کا ذہن رسا ہے جس کا مقصد کسی منظر کے گرد حاشیہ لگانا نہیں بلکہ وہ معاشرے کے ہر جبر و کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔

ان کا سفر نیست سے ہست کی طرف کا سفر ہے وہ محدود سے لا محدود تک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ ایازؔ کا ذہن کہتا ہے،’’یا رب! تو جو ازل سے ابد تک رواں ہے اور متحرک بھی نہیں ہے، تو جو کہکشاں سے دور ہے۔ شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے تو جو اس کائنات میں بھی ہے، اس کائنات کے باہر بھی ہے، تو جو میری زندگی کے فلسفے کا نچوڑ ہے اور میری محبت کی انتہا بھی ہے میں تجھے فلسفے کے تخیل تک یا تصوف کے تصور تک محدود رکھنا نہیں چاہتا اور تیرے سامنے سربسجود بھی ہونا چاہتا ہوں، تو مجھے اتنی دانش عطا فرمادے کہ میں تیرے وحدتِ الشہود اور وحدت الوجود کے شعور کے تضاد کو مٹا سکوں میں فلسفی، صوفی اور عام آدمی کی اس سوچ کا خاتمہ کر سکوں جو الجھائو پیدا کررہا ہے اور یہ تخیل کہ سب تیری ذات میں ہے اور سب میں تو ہے اور پھر بھی تو سب سے جدا گانہ ہے میں اس تضاد کی ڈوری کو سلجھاسکوں اور تیرے سامنے دست ِدعا ہو کر مشکلات میں مدد مانگ سکوں۔ یا رب! تو نے یہ دانش خاص خاص افراد کو دی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ بس مجھے یہی دانش عطا فرما۔

صادقہ بصیری سلیم

$
0
0

صادقہ بصیری سلیم واقعتاً عام طالبہ نہ تھیں کہ لاکھوں افغان لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے منصوبے سے پیچھے ہٹ جاتیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب امریکی افواج ناٹو کی چھتری تانے عشروں کی جنگ اورپھر خانہ جنگی کے شکارملک میں اترچکی تھیں، آٹھ برس سے زائد عمر کی طالبات کے تحصیل علم پر پابندی لگانے والی طالبان حکومت ختم کردی گئی تھی۔ اسی سبب صادقہ پرامیدتھی کہ اب طالبات کو درپیش مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوگی۔ وہ اس یقین سے مالا مال تھیں کہ امید کی یہی کرن آنے والے وقتوں میں ماحول کو مکمل روشن کرے گی۔

اس وقت صادقہ امریکی ریاست اوٹاوا کی ایک یونیورسٹی میں تھیسز پر کام کررہی تھیں ، سب جانتے ہیں کہ تھیسز کاکام تھوڑا نہیں ہوتا، دن رات ایک کرناپڑتاہے، اسی سے کیرئیر کی بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ تاہم کیرئیر سے متعلق جوش وجذبہ صادقہ کو خودغرض نہ بناسکا، انھوں نے صرف اپنے کیرئیر ہی کی فکر نہیں کی بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ اپنے وطن کی لاکھوں لڑکیوں کا کیرئیربھی بناناچاہتی تھیں۔

صادقہ نے زندگی کے18برس پاکستان میں واقع ایک مہاجر کیمپ میں گزارے۔ یہاں رہتے ہوئے اپنے آبائی صوبہ وردک میں لڑکیوں کا ایک سکول قائم کرنے کا خواب دیکھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے وہ مہینوں تک اپنے جیب خرچ سے رقم بچاتی رہی تھیں۔ انھیںخبرتھی کہ جب وہ آبائی علاقے میں پہنچیں گی ، سکول کھولنے کی کوشش کریں گی تو کیاکچھ مشکلات پیش آئیںگی۔ اس لئے بلیک بورڈ،چاک، کاپیوں سمیت طالبات کی ضرورت کا ساراسامان لے کر ہی واپس پہنچیں اور گائوں کی ایک غیرآباد مسجد میں پہلاسکول کھول لیا۔ یہ ’عروج لرننگ سنٹر‘تھا۔ ابتدائی طورپر 36طالبات کو جمع کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اللہ نے صادقہ کے منصوبے میں برکت عطافرمائی ، آج ’’عروج لرننگ سنٹر‘‘ ایک این جی او کاروپ دھارچکاہے۔ دس برسوں کی محنت یہ ہے کہ 4000 لڑکیاں اس کے سکولوں میں پڑھ رہی ہیں۔ ان لڑکیوں کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں صادقہ جیسی سرپرست اورمعلمہ ملیں ، جوجانتی ہیں کہ ان بچیوں کی زندگی کو کیسے شانداربنایاجاسکتاہے۔

افغانستان جیسے ملک میں صادقہ کے لئے کام کرنا آسان نہیں، بہت سی مشکلات کا سامناکرناپڑرہاہے۔ یہاں15برس اوراس سے زائد عمر کے پڑھے لکھے لوگ مجموعی ملکی آبادی کا محض28.1فیصد ہیں۔ مردوں کی شرح 43.1فیصد جبکہ خواتین کی شرح محض12فیصد ہے۔ افغانوں میں اکثریت عورتوںکوانسان نہیں سمجھتی۔ ایسے معاشرے میں کام کو آگے بڑھانے کے لئے صادقہ کو جو کچھ کرناچاہئے تھا، انھوںنے وہی کیا۔ انھوں نے معلّمات تلاش کیں حالانکہ یہ آسان کام نہیں تھا۔ ہم اپنے معاشرے میں بھی ایسے علاقے دیکھتے ہیں جہاں لمبی مونچھوں والا جاگیردار یا وڈیرہ سکول کھلنے کی راہ میں سینہ تان کے کھڑاہوجاتاہے۔ افغان معاشرہ اس سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔ بہرحال صادقہ نے ٹیچرز کو تلاش کیا، انھیںخوف سے نجات دلائی، حوصلہ، ہمت اور بہادری سکھائی اوراپنے ساتھ کام میں شامل کرلیا۔

2005ء میں صادقہ نے امریکا کے مائونٹ ہولیوک کالج میں گریجویشن کے لئے داخلہ لے لیا جہاں سے 2009ء میں واپس آئیں تو ان کے ذہن میں افغانستان کا پہلا کمیونٹی کالج قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ طالبات کی اعلیٰ کلاسوں کے لئے اساتذہ کی تلاش زیادہ مشکل کام تھا لیکن یہ کام بھی کیا۔ صادقہ نے اندرون، بیرون ملک پروفیسرز سے رابطہ کیا اور انھیں ’’عروج لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے منسلک کیا۔ یوں افغانستان کا پہلا کمیونٹی کالج برائے خواتین کھل گیا۔ اس طرح کے پراجیکٹس کے لئے بڑی فنڈنگ ناگزیرہوتی ہے۔ اس کے لئے صادقہ نے نت نئی پارٹنرشپس تلاش کیں۔ یوںپرائمری سکولوں اورکالجز کادائرہ پھیلنے لگا ۔ زیادہ ترسکول دیہاتی علاقوں میں قائم کئے گئے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ساری ترقی شہروں تک ہی محدود ہے جبکہ دیہاتی خواتین کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔

 photo Sadiqabasirisaleem_zps44bbabab.jpg

صادقہ کے کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن وامان کی خراب صورت حال ہے۔ اس کا منفی اثرطالبات کی سکول میں حاضری پر پڑتاہے۔ بالخصوص امتحان کے دنوں میں ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے۔ صادقہ کہتی ہیں کہ ہم تعلیمی شیڈول سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایک بار حد ہی ہوگئی جب ہم شیڈول سے پورا ایک مہینہ پیچھے ہوگئے۔ ایک مسئلہ عمارتوں کے بڑھتے کرائے ہیں۔کئی مرتبہ زیادہ کرائے کی وجہ سے سنٹرکی جگہ تبدیل کرناپڑی۔ہمارے پاس اس قدر فنڈز نہیں کہ ہم زیادہ کرایہ دے سکیں۔

صادقہ وہ سارے حالات بھی بیان کرتی ہیں، جن کے درمیان سے گزرکرایک خاتون کو داخلہ ٹیسٹ کیلئے عروج انسٹی ٹیوٹ میں آناپڑتاہے لیکن اس کے والدین بے خبرہوتے ہیں۔صادقہ کے بقول بہت سے کیسز میں صرف ماں ہی کوخبرہوتی ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر لڑکیوں کو گھر سے اجازت ہی نہیں ملتی۔ مردوں کانظریہ ہے کہ بالغ لڑکیوں کوگھر سے بالکل باہر نہیں نکلناچاہئے۔بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو سوچتی ہیں کہ انھیں کون سا زیادہ پڑھنے لکھنے کا موقع ملے گا، اس لئے ابتدائی چندکلاسز پڑھنے کاکیافائدہ! یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے سابقہ طالبات کی ایک ایسوسی ایشن قائم کردی گئی جو لڑکیوں اوران کے والدین کو قائل کرنے میں لگی رہتی ہے۔ اس حکمت عملی سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ماہانہ تقریبات ہوتی ہیں جہاں طالبات اورخواتین کوملنے جلنے کا موقع مل جاتاہے، ایک دوسرے سے حوصلہ اورآئیڈیاز ملتے ہیں، سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اوراعتماد بھی حاصل ہوتاہے۔

صادقہ نے افغانستان ہائیر ایجوکیشن پراجیکٹ کی مدد سے اپنے پراجیکٹ کو مزید بہتراورموثربنایا۔ اس دوران 18اعلیٰ افغان تعلیمی اداروں اور ان کے سسٹم کا مطالعہ کیاکہ بہترین نتائج کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کے لئے نئے آئیڈیاز ملے۔ اب جوں جوں صادقہ کی جدوجہد دنیا میں نمایاں ہورہی ہے، انھیں مختلف اداروں سے تعاون ملناشروع ہوچکاہے۔ مائیکروسافٹ کارپوریشن نے صادقہ سے رابطہ کرکے کالج کے لئے سافٹ وئیرز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ وہ کچھ کمپیوٹرز لینے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ ان سافٹ وئیرز سے استفادہ کیاجائے۔

گزشتہ برس 18سے30برس عمر کی 72خواتین عروج لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہوئیں۔امسال بھی تعداد اتنی ہی ہوگی۔ صادقہ کہتی ہیں کہ جب لڑکیاں کالج تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت کے لئے مارکیٹ میں داخل ہوتی ہیں تو انھیں ناقابل تصور خوشی ملتی ہے۔تاہم اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم معاشرے میں تبدیلی پیداکرنے والے لوگ پیداکررہے ہیں۔ میرے لئے یہ بہت حیرت اورخوشی کاموقع تھا کہ جب گریجویشن مکمل کرنے کی تقریب کے موقع پرایک لڑکی کا بھائی اس کی تصویراتاررہاتھا حالانکہ یہی بھائی اسے سکول جانے سے روکتاتھا۔

صادقہ اوران جیسی دیگرخواتین کی کوششوں کا اثرکس قدر ہے؟ یہ بلند ہمت خاتون کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین کی زندگیوں میں واضح بہتری محسوس کررہی ہیں۔ ملک میں خواتین کی بہتری کے لئے پالیسیاں بن رہی ہیں،آئین میں خواتین کے مساوی حقوق تسلیم کئے گئے ہیں۔ افغانستان کے ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز طے کئے گئے ہیں جن میں خواتین کے لیے اہم ترین اہداف رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے عالمی کنونشن پر دستخط بھی کردئیے ہیں۔وفاقی کابینہ نے حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان فارویمن بھی منظورکرلیا ہے۔خواتین پر تشدد کے خلاف بھی قانون منظورہوچکاہے۔اس سب کچھ کے اثرات نظربھی آئے کہ قومی اسمبلی کی 249نشستوں میں سے68سیٹیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں جبکہ ایک خاتون نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیاتھا۔

 photo Sadiqabasirisaleem1_zps2c418ede.jpg

صادقہ کہتی ہیں: ’’معاشرے میں خواتین کی پیش قدمی حیران کن ہے۔ تعلیم، صحت اورزراعت کے شعبوں ہی میں نہیں بلکہ امن وامان کے ذمہ دار اداروں میں بھی خواتین نظرآرہی ہیں۔ ایک تہائی غیرسرکاری انجمنوں(این جی اوز) کی قیادت بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کاروبار بھی چلارہی ہیں اوران کی رسائی بین الاقوامی منڈیوں تک ہوچکی ہے۔ ایک سو سے زائد افغان خواتین ایتھلیٹس بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں اوراب سکولوں میں ایک تہائی تعداد طالبات کی ہے۔ اس کے باوجود افغانستان میں سب اچھا نہیں ہے۔ خواتین کو اب بھی ہراساں کیاجاتاہے۔ عائشہ ، جس کی ناک کاٹ دی گئی تھی،کوعشروں تک نہیں بھلایاجاسکے گا۔ اس کی تصویر ایک بین الاقوامی انگریزی میگزین نے اپنے سرورق پرشائع کی تھی۔ خواتین اساتذہ اور خواتین پولیس اہلکاروں کے قتل ، معلمات اورطالبات پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں ‘‘۔

صادقہ نے خواتین پر تشددکے خاتمے کے لئے فیملی ویلفیئر سنٹر قائم کیا جو 14000خواتین کو خدمات فراہم کررہاہے، وہ سرکاری سٹاف کی تربیت بھی کررہاہے تاکہ وہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے اپنا کردار اداکریں، اورعلمائے کرام کو بھی قائل کرتاہے کہ وہ خواتین کے مسائل پرگفتگو کریں۔ 2009ء میں خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے والی دنیا کی جن چھ خواتین کو ’’رائزنگ وائس ایوارڈ‘‘ سے نوازاگیا، ان میں سے ایک صادقہ اوردوسری امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن تھیں۔ یہ ایوارڈ ’’وائٹل وائسز گلوبل پارٹنرشپ‘‘ کی طرف سے دیاجاتا ہے۔اس موقع پراس ادارے کے بانی نیلسن بلوم نے صادقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے جنگوں سے تباہ حال ملک میں عروج لرننگ سنٹر کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کیا لیکن آپ کی زیادہ اہم کامیابی یہ ہے کہ آپ نے لاکھوں افغان لڑکیوں کوہمت اورحوصلہ عطاکیا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ صادقہ اب گم شدہ بچوں کی تعلیم کے لئے مراکز بھی قائم کرنے کامنصوبہ رکھتی ہیں، اسی طرح افغان ویمن لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ قائم بھی کرناچاہتی ہیں تاکہ کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے والی خواتین کو بزنس مینجمنٹ سکھائی جاسکے اوران کی قائدانہ صلاحیتیوں کی پرورش کی جاسکے ۔

آئیڈیا کیسے پھوٹا؟

صادقہ نے جب 2005ء میں امریکا کے ہولیوک کالج میں داخلہ لیا تو وہ اس کی بانی میری لیون(Mary Lyon) سے بہت متاثرہوئیں جنھوںنے 1836ء میں دنیا کا پہلا خواتین کالج میساچوسٹس(امریکا) میں قائم کیاتھا۔ میری لیون ایک کسان کی بیٹی تھیں۔ابتدائی زندگی نہایت عسرت سے گزری ۔ پانچ برس کی تھیں کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں اب سارے گھروالے ہی کھیتی باڑی میں جت گئے۔ تیرہ برس کی تھیں کہ ماں نے دوسری شادی کرلی اورسب کچھ چھوڑکرچلی گئی۔ اب میری لیون اوربھائی آرون ہی پیچھے باقی بچے تھے۔ مشکلات بھری زندگی میں بھی سکول کی تعلیم سے منہ نہ موڑا، مختلف سکولوں میں پڑھتی رہیں۔ کئی سکولوں سے محض اس لئے نکال دی گئیں کہ ان کے پاس فیس نہ ہوتی تھی۔ سترہ برس کی عمر (1814ء)میں انھوں نے خود بھی سکول میں پڑھاناشروع کردیا۔اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو غریب لڑکیوں کی تعلیم کے لئے وقف کردیا۔جس کرب سے وہ طالب علمی کے دور سے گزریں، اس سے دوسری غریب لڑکیوں کو محفوظ رکھناچاہتی تھیں۔ آنے والے برسوں میں انھوں نے15000ڈالرکے فنڈز جمع کئے اورمائونٹ ہولیوک کالج کھڑاکردیا۔ وہ ابتدائی بارہ برس تک اس کی پرنسپل رہیں۔اس بہادرخاتون نے اپنے کالج میںصرف غریب خواتین ٹیچرز ہی کوجگہ دی۔اپنے ادارے میں وہ لڑکیوں کی جسمانی ورزش پر بھی خوب توجہ دیتی تھیں۔پہلے پہل طالبات کو ایک میل پیدل واک کرائی جاتی تھی بعدازاں اسے 45منٹ تک محدود کر دیاگیا۔ وہ خواتین کو ایک ہی سبق دیتی تھیں کہ وہ مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے تعلیم حاصل کرنی اور ٹیچر بننا چاہئے۔

آمد بہار کے رنگ پہنائوں پر بکھرنے لگے

$
0
0

موسم میں بدلائو آتے ہی روزمرہ کے پہنائوںمیں بھی واضح تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے۔

دن کے وقت توخواتین جیکٹس، سوئٹرز اور شال کی جگہ اب ہلکے پُھلکے کڑھائی والے ملبوسات استعمال کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ رات کے وقت گرم ملبوسات سردی سے بچائو کیلئے ضروری ہیں۔ان دنوں خواتین کڑھائی والی لمبی قمیص اورشلواریا پاجاما استعمال کر رہی ہیں۔

خاص طورپر کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں توان دنوں اس طرح کے ملبوسات کے ساتھی ہی تقریبات میں بھی شریک ہو رہی ہیں جس کومدنظررکھتے ہوئے ہمارے معروف ڈیزائنر ہلکے اور شوخ رنگوں میں کپڑے ڈیزائن کررہے ہیں جو خواتین کی توجہ کامرکز بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تویہ ملبوسات شخصیت کوپروقار بناتے ہیں اور دوسری جانب ان میں استعمال ہونے والا کپڑا بھی موسم کی مناسبت سے آرام دہ ثابت ہوتا ہے۔

امریکا میں بچوں کی فروخت کا گھناؤنا کاروبار

$
0
0

امریکی ریاست کیرولینا کی کرسٹینا فائبوس کی یادیں اپنے مُلک سے باہر بھارت اور چین تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس کی عمر33 برس تھی جب اس کی ملاقات ایک دوسری خاتون مارگریٹ سے ہوئی۔

دونوں کے درمیان تعلق گہری دوستی میں بدل گیا۔ کرسٹینا نے اپنی عمر سے کافی بڑی مارگریٹ سے اپنی معاشی پریشانی کا ذکر کیا۔مارگریٹ نے اسے مختلف معاشی ٹوٹکے بتائے۔ ان میں ایک ٹوٹکا’’Surrogacy‘‘ یعنی کسی دوسرے شخص کے لیے پیسوں کے عوض بچے پیدا کرنا تھا۔ مارگریٹ نے بتایا کہ گوکہ یہ امریکا کی بعض ریاستوں میں غیرقانونی اور بعض میں جائز سمجھا جاتا ہے مگر وہ چاہے تو وہ اسے ایسے لوگوں سے ملا سکتی ہے، جنہیں بچوں کی ضرورت ہے۔ آپ کسی کے لیے بچہ پیدا کرکے اپنی معاشی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔ اس کاروبار سے آپ کو اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔

کرسٹینا ایسے کسی بھی کاروبار سے ناآشنا تھی۔ مارگریٹ نے اسے بتایا کہ اس کاروبار میں آپ منہ مانگی رقم پر کسی دوسرے شخص کے لیے بچہ جنم دے سکتی ہیں۔اس نے پوچھا کہ یہ کیسے ہو گا؟مارگریٹ نے کہا کہ متعلقہ شخص یا کسی بھی شخص کے سپرم آپ کی بیضہ دانی میں میڈیکل ٹیوب کی مدد سے داخل کیے جائیں گے۔ گوکہ یہ عمل تھا کافی مشکل لیکن کرسٹینا کے لیے اسے قبول کرنا زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا۔ دونوں کے درمیان دوستی جب مزید راسخ ہوگئی تو مارگریٹ (جو اس کا اصل نام نہیں تھا) نے بتایا کہ وہ بھارت اور چین کی ایک مشترکہ ایجنسی کی ایجنٹ ہے جو امریکا سے Surrogacy کے ذریعے چین، جاپان، تھائی لینڈ اور دوسرے ملکوں میں اپنے گاہکوں کو بچے مہیا کرتی ہے۔

مارگریٹ نے اپنے نئے شکار(کرسٹینا) کو اس گھناؤنے کاروبار کے تمام فوائد اورگُر بتا دیے۔ اس نے خود کو ذہنی طور پرتیار کرلیا۔ کچھ ہفتے مزید گزرے تو مارگریٹ نے کرسٹینا کی ملاقات ایک چینی سے کرائی۔ چینی مہمان نے اپنی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ وہ ایک عددبچے کا خواہاں ہے۔ قصہ مختصر دونوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور کرسٹینا جو پہلے دو بچوں کی ماں تھی ایک چینی گاہک کے لیے تیسرا بچہ جنم دینے کو تیار ہو گئی۔

دُنیا میں انسانی اسمگلنگ ، انسانی اعضاء کی فروخت اور بچوں کی خریدو فروخت یکساں گھناؤنے جرائم سمجھے جاتے ہیں لیکن مقام حیرت ہے کہ مائیں اپنے معاشی مسائل اور گاہک کی بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس غیر فطری طر ز عمل کوقانونی کیسے قرار دے سکتی ہیں؟ لیکن عملا امریکا سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی چیمپئن اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم آگے چل کراس مضمون میں ان ممالک کا ذکر کریں گے جو اس گھناؤنے انسانی جرم کو جائز سمجھتے ہیں۔

دبئی سے نشریات پیش کرنے والے مقبول عربی ٹیلی ویژن چینل ’’العربیہ‘‘ نے دنیا بھر بالخصوص امریکا اور چین میں ہونے والے اس گھناؤنے کاروبار پر ایک چشم کشا رپورٹ نشر کی،انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق بھارت بھی اس سماجی جرم میں صف اول کے ممالک میں شامل ہے، جہاں غربت زدہ عورتیں چند پیسوں کے عوض بچے پیدا کرتی اور اُنہیں آگے فروخت کرتی ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے اعدادو شمار نہایت خطرناک ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء کے بعد سے اب تک امریکا میں غیرقانونی طریقے سے شکم مادر میں بچوں کی خریداری کے کاروبار میں10 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکا میں یہ ایک تیزی سے مقبول ہوتا کاروبار بنتا جا رہا ہے۔ امریکی ماؤں کے شکم میں بچوں کی خریداری کا سب سے بڑا گاہک چین ہے۔ چونکہ چین میں ایک سے زیادہ بچے کے پیدا کرنے پرپابندی ہے، چنانچہ چینی خاندان اپنی خاندانی افرادی قوت میں اضافے کے لیے مغربی امریکی ریاستوں، بھارت ، نیپال اور جنوبی افریقا کی غریب عورتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکا سے بچوں کی خریداری کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت مہنگی ہے جبکہ بھارت اس میدان میں نہایت سستی مارکیٹ ہے۔ امریکا میں کسی بھی گاہک کو ایک بچے کے عوض 80 ہزارسے 01 لاکھ 20 ہزار ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ بھارت اور نیپال جیسے ملکوں میں فی بچہ 20 سے 30 ہزار ڈالر میں مل جاتا ہے۔ تاہم یہ امر حیران کن ہے کہ چینی بھارت اور نیپال جیسے پڑوسی اور سستے ملکوں کو چھوڑ کر امریکی خواتین کے بچوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ بعض امریکی ریاستوں میں اس کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اس کے علاوہ امریکا میں ایسے منظم ادارے اور گروپ بھی موجود ہیں جو دوران حمل خواتین کی دیکھ بحال بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں، یوں چینیوں یا کسی بھی دوسرے ملکوں کے گاہکوں کو یقین ہوتا ہے کہ جس بچے کا وہ سودا کرنے جا رہے ہیں وہ صحت مند اور تندرست وتوانا ہوگا، جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔

امریکی اخبار’’ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق دوسروں کے لیے بچے جنم دینے والی خواتین کی اکثریت غریب اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ مزدور اور ملازم پیشہ عورتیں اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے پیدا کرتی اور پھرانہیں فروخت کر دیتی ہیں۔ چونکہ یہ کام مکمل را ز داری میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی کوئی تشہیر نہیں کی جاتی۔ البتہ اس کاروبار میں سرگرم گروہ اس قدر مستعدی اور چستی سے کام کرتے ہیں کہ وہ قانون کی گرفت سے بھی بچ جاتے ہیں اور اچھی خاصی رقم بھی جمع کرلیتے ہیں۔ عموما امریکا کی پسماندہ عورتیں جو براہ راست کسی غیرملکی گاہک سے نہیں مل پاتیں وہ ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ یہ ایجنٹ گاہک سے تو ایک لاکھ ڈالر کے قریب رقم اینٹھ لیتے ہیں لیکن بچے کی ماںکو 20 سے 25 ہزار ڈالر ز میں ٹرخا دیا جاتا ہے، تاہم غریب عورتیں اسے بھی ایک بڑی قیمت سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا ایسے گھناؤنے کارو بار کا اڈا اس لیے بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر چین کی طرح خواتین کے زیادہ سے زیادہ بچوں کو جنم دینے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ سرکاری قانون کے تحت بھی ہرشخص کو اپنی مرضی کے مطابق خاندان ترتیب دینے، بچے پیدا کرنے اور ان سے متعلق ڈیلنگ کی اجازت حاصل ہے ۔ اس لیے امریکا کی جنوبی اور مشرقی ریاستیں ایسے گروپوں کا آسان ہدف ہیں۔برطانو ی اخبار’’ڈیلی میل‘‘ کے مطابق امریکا، یورپ، اسرائیل، چین، بھارت، برازیل اور دوسرے ممالک میں ماؤں کے حمل کی خریداری کی ایک چین ہے۔بعض ممالک میں ایک ایک گروپ کے ماتحت کئی ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ ہرایجنسی کے ماتحت ایک بچے کی خریداری کے لیے کئی کئی ایجنٹ سرگرم ہوتے ہیں۔یوں وہ ایک سے دوسرے اور تیسرے ملک تک گاہکوں سے رابطے کرتے اور ان کے آرڈر ز کے مطابق خواتین کے حمل بک کراتے ہیں۔

 photo Kidskidnappingincalifornia_zps4b0c7e0e.jpg

امریکا اور بھارت گھناؤنے کاروبار کا اڈا کیوں؟

اخبار خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا میں کرائے پربچوں کی پیدائش کے گھناؤنے کاروبار کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ان دونوں ملکوں میں پائی جانے والی غربت ہے۔ غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے اور کفر مایوسی کا آخری مقام ہے جہاں حضرتِ انسان کُچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکا اور بھارت کے ان ’’غریبوں‘‘ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے بچوں کی پیدائش کے اس عمل کی ایک بڑی وجہ لوگوں میں پائی جانے والی بے راہ راوی ہے لیکن اخبار نے اس سے بھی بڑا سبب’’بے حسی ‘‘ کو ٹھہرایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی بچوں کی رضاکارانہ خریدو فروخت ہو رہی ہے بالخصوص جہاں ماںخود اپنے نومولود یا حمل کو کسی کے ہاتھ فروخت کرتی ہے تو وہ ماں کے اوصاف سے عاری ہوتی ہے۔بھلا ایک ماں جو اپنے لخت جگرکو اپنے دل وجان سے زیادہ متاع عزیز سجھتی ہے وہ کس طرح اپنے نومولود کو کسی اجنبی کے ہاتھ فروخت کرسکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا چین ہی امریکا اور بھارت جیسے ممالک سے بچے خرید رہا ہے؟ تو اس کاجواب نفی میں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس میدان میں چین سب سے بڑی منڈی سمجھی جاتی ہے مگردوسرے ملکوں کی خواتین کے حمل کی خریداری صرف چین میں نہیں بلکہ برازیل، ایران، اسرائیل ، روس اور جاپان جیسے ممالک بھی اسی قبیل کا حصہ ہیں۔اہل چین کے ہاں دوسرے ملکوں سے خواتین کے حمل خریدنے کی بڑی وجہ ملک میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش پرپابندی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں ہرچوتھا خاندان اولاد سے محروم ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ حکومت کی جانب سے خواتین میں بانجھ پن کی ادویات کا بہ کثرت استعمال ہے ۔ ان دواؤں کے استعمال سے خواتین ایک سے زیادہ بچے جننے کے قابل نہیں رہتیں۔ اکلوتے بچے کے ساتھ نسل کی بقاء کے امکانات کم سے کم ہوجا تے ہیں۔ چنانچہ بہت سے چینی خاندان محض اپنی نسل کی بقاء کے لیے دوسرے ممالک کی خواتین سے بچے مستعار لیتے ہیں۔خاندان کی بقاء کے علاوہ چین اور اسرائیل جیسے ملکوں میں ان دوسری خواتین کے بچوں کا ایک اور مصرف بھی ہے۔ وہ یہ کہ ان ملکوں میں غیرعورتوں کے شیرخوار بچوں کو مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص جمناسٹک جیسے کھیلوں کے لیے کم عمربچوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نہایت تکلیف دہ تربیتی مراحل کے دوران نونہالوں کی اکثریت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے یا وہ اپاہج ہوکر کسی کام کے نہیں رہتے۔ معدود ے چند ایسے ہوتے ہیں جوکھیلوں کے مقابلوں کی صلاحیت حاصل کر پاتے ہیں۔

حامی اور مخالف ممالک

خواتین کے حمل کی خریداری کا عمل دنیا کے کئی ممالک میں جائز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مسلم دنیا میں ایران واحد ملک ہے جو اسے جائز قرار دیتا ہے،اس کے جواز کے ساتھ ساتھ بعض ممالک کڑی شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ماؤں کے حمل خریدنے یا منتقل کرنے کے اس گھناؤنے کاروبار کو جائز قرار دینے والے ممالک میں امریکا، برطانیہ، بھارت، کینیڈا، آسٹریلیا، یونان، ڈنمارک، بیلجیم، ایران، روس ، رومانیہ، یوکرائن، جرمنی ، ہالینڈتھائی لینڈ،ارجنٹائن، برازیل اور جنوبی افریقا سر فہرست ہیں۔

فرانس، اسپین، اٹلی، چین اور تمام مسلمان ملک رحم مادر میں بچے کی خریداری کے عمل کے خلاف ہیں۔ مسلمان ممالک کی جانب سے اس کی مخالفت کی بنیادی وجہ اسلام میں پابندی ہے۔ البتہ جو غیرمسلم ملک اس عمل کو غیرقانونی قرار دیتے ہیں۔ وہ طبی وجووہات کی بناء پر ایسا کرتے ہیں۔ چین میں غیرقانونی بچے پیدا کرنا یا انہیں خریدنا دونوں سنگین جرم ہیں لیکن حیرت یہ ہے کہ پوری دنیا میں بچوں کا سب سے بڑا خریدار بھی چین ہی ہے۔

Surrogacy کا طریقہ کار

Surrogacy یا ’’متبادل حمل‘‘ کے مختلف طریقے ہیں۔ مورخین کے مطابق یہ سلسلہ قدیم زمانے میں رائج رہا ہے۔ قدیم زمانے میںبچوں سے محروم خاندان کی عورت سے بچے کے حصول کے لیے دوسرے کسی شخص سے عارضی شادی کردی جاتی تھی جو صرف ایک بچے کی پیدائش تک ہوتی تھی۔ یہ طریقہ قدیم یونانی تہذیب میں رائج رہا۔ اس کے علاوہ خاتون اپنے ہی شوہر کے نطفے سے مخصوص رقم کے عوض بچہ پیدا کرتی تھی۔ جدید سائنس نے اس میدان میں کافی آسانیاں پیدا کردی ہیں کیونکہ اب سائنسی طریقوں سے مردوں کے سپرم عورتوں کی بچہ دانی میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔عموما جو شخص بچے کا خریدار ہوتا ہے، اسی کا نطفہ کسی خاتون کی بیضہ دانی میں منتقل کرکے حاملہ کردیا جاتا ہے۔

مذاہب اور اخلاقی تعلیمات

خواتین کے پیٹ میں موجود بچے کو خریدنا، یا خاتون کا کسی غیر مرد کے نطفے سے برائے فروخت بچے پیدا کرنے کا عمل کئی مذاہب میں قطی ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اس کی پابندی کی بڑی وجہ اس کا مذہبی پہلو ہے۔ البتہ اہل ایران کے فقہ کی رو سے ایسا کرنا بوجوہ درست ہے اسلئے ان کے ہاں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام کے علاوہ بدھ مت اور کنفیوشس بھی اس کے قطعی خلاف ہیں۔ البتہ عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فرقے کے ہاں ایسا کرنا جائز لیکن کیتھو لک عیسائی مسلک اسے قطعی حرام عمل قرار دیتا ہے۔ مسیحی برادری کے مذہبی مرکزـویٹی کن نے اپنے آئین کی دفعہ 2376 میں اسے غیراخلاقی اور غیر فطری قرار دیتے ہوئے ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ آسمانی مذاہب میں یہودیت اسے مطلق جائز عمل سمجھتا ہے۔ ہندو دھرم میں مشروط طورپر اس کی اجازت ہے۔ تاہم ہندو مت میںطبقاتی تقسیم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

عالمی طاقتوں کے مفادات کی کشمکش میں پھنسی ’’گوادر پورٹ‘‘

$
0
0

پانی کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ترقی یافتہ تہذیبیں تک پانی کے کناروں پر آباد ہیں مثلاً قدیم تہذیبوں میںموہن جودوڑو اور ہڑپہ دریائے سندھ کی وادی میں آباد تھے۔

اگر آج کی تہذیبوں کو ہم دیکھیں تو لاہور دریائے راوی کے کنارے پر، کراچی، حیدر آباد، دریائے سندھ، ملتان دریائے چناب کے کنارے پر اور لندن جیسا ترقی یافتہ شہر دریائے ٹییمز کے کنارے پر آباد ہے۔ پانی نہ صرف زندگی کا وسیلہ ہے بلکہ اس سے کاروباری زندگی کا پہیہ بھی رواں دواں رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح بندرگاہیں بھی قوموں کی ترقی میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیاں ان بندگاہوں کی مرہون منت ہیں۔ آج جب دنیا کی تہذیبیں ترقی کے سب سے اوپر والے زینے پر کھڑی ہیں تو اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے وطن عزیز کی گوادر پورٹ دنیا کے کئی ممالک کی آنکھوں کا تارا ہونے کے بجائے ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی ہے اور اس کیلئے دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے۔ گوادر پورٹ سے ہمارے برادر ملک متحدہ عرب عمارات کی بندرگاہ دبئی کافی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر ہم اس کو ایک سٹریٹجک اثاثے کے لحاظ سے دیکھیں تو اس کی اہمیت اور کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ سٹریٹجکلی پاکستان بحرہند میں سٹریٹ آف ہرمز کیلئے بہت اہم گیٹ وے ہے اور اسی سٹریٹ سے دنیا کے 20 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے، اس سے دو اسلامی ممالک ایران اور افغانستان کی سرحدیں بھی ملتی ہیں۔

گوادر پورٹ کے بننے سے پاکستان ایک معاشی مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ امریکہ اور چین کے ساتھ ساتھ بھارت اور خلیجی ممالک بھی رسہ کشی میں شامل ہوگئے۔ یہ رسہ کشی دو سطحوں پر جاری ہے۔ ایک تو اس پر کنٹرول حاصل کرنے کی دوسری اس کو ناکام بنانے کی۔ امریکہ اور چین قبضے کی تگ و دو میں لگ گئے جبکہ خلیجی ممالک اس کو ناکام کرنے کی ناکام کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ گوادر پورٹ کے ذریعے توانائی سے مالا مال وسط ایشیائی ممالک تک رسائی آسان ہونے کی وجہ سے اس کی سٹریٹجک اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اسی وجہ سے ایران اور متحدہ عرب عمارات اس کو مقابلے سے نکال باہر کرنے پر جت گئے ہیں۔ اگر ہم مغربی چین اور وسط ایشیائی ممالک کو دیکھیں تو یہ قیف کی مانند ہیں اور قیف کے چوڑے حصے پر گوادر پورٹ موجود ہے۔اگر ہم اس کی اہمیت فوجی لحاظ سے دیکھیں تو اس بندر گاہ سے بحیرہ عرب پر ہمارا تسلط قائم ہوتا ہے۔ خاص طور پر بھارت سے ہمارا فاصلہ 460 کلو میٹر بڑھ جاتا ہے۔ ہم بھارت کی آنکھوں سے دور اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گیا ہے کیونکہ گوادر پورٹ سے سی لائنز آف کمیونیکیشنز ( Sea Line of Communications )کو مانیٹر کرنے میں مدد ملے گی۔

اس صورت حال میں بھارت کیسے چاہے گا کہ گوادر پورٹ کامیاب ہو؟ اور وہ لوگوں کو غائب کرنے میں کیسے ملوث نہیں ہوگا اور وہ مسنگ پرسنز کے معاملے کو کیوں نہیں اچھالے گا؟ وہ کیوں نہیں چاہے گا کہ وہ ہمارے فوجی جوانوں کو اپنوں سے شہید کرائے؟ جبکہ بھارت خود 1990ء سے ایران کی چابہار بندرگاہ بنانے میں لگا ہوا ہے تاکہ وہ خطے میں اپنا تسلط قائم کر سکے۔ 12637 سکوائر کلومیٹرز پر مشتمل یہ وسیع بندر گاہ ہمارے ملک کا کاروباری مرکز بننے والی ہے۔ یہ بندرگاہ جہاں وسط ایشیائی ریاستوں اور چین کی آنکھوں کا تارا ہوسکتی ہے تو وہاں کچھ خلیجی ممالک کی آنکھوں کا کانٹا بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں بحیرہ عرب میں امر یکہ کا پانچواں بحری بیڑہ موجود ہے وہاں چین کے نیوی کے اثاثے بھی موجود ہیں۔ تو کیا اس صورتحال میں گوادر کیلئے مقابلے سے بچا جا سکتا ہے؟کیا گوادر پورٹ کو آسانی سے چلنے دیا جائے گا؟ کیا اس کی اہمیت اس بات سے عیاں نہیں ہوتی کہ کہ اتنے سارے ممالک کے مفادات اس سے وابستہ ہیں؟ اگر امریکہ ملاکا سٹریٹ بند کردیتا ہے تو چین کیلئے بحرہند اورمغربی ایشیاکی تجارت صرف گوادر پورٹ سے ہی ممکن ہے۔

 photo Gwadarport_zps2147dacf.jpg

چین بھی اس لئے اس بندر گاہ  میں دلچسپی رکھتا ہے کہ اس سے نہ صرف وہ بھارتی نیوی کی نگرانی کرسکتا ہے بلکہ خلیج فارس سے اپنی توانائی کی 60 فیصد ضروریات بھی پوری کرسکتا ہے کیونکہ اس کا صفیانہ آئل فیلڈ دنیا کا سب سے بڑا آف شور آئل فیلڈ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ گوادر پورٹ بنیادی طور پر مفادات کی جنگ کے شکنجے میں پھنس کر التوا کا شکار ہوتی رہی ہے۔ خلیجی ممالک اس بندرگاہ کو رقیب سمجھ کر اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں کیونکہ ان کو خدشہ ہے کہ ان کی تجارت تقسیم ہو جائیگی اور آہستہ آہستہ چین کے مفادات کی وجہ سے تجارت کا زیادہ تر حصہ گوادر کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ اس رقابت کی وجہ سے وہ بھات اور امریکہ سے مل کر اس کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ماحولیاتی لحاظ سے دیکھیں تویہ بندرگاہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں خطرناک موسمی اثرات کم سے کم ہیں اور وسیع علاقہ ہونے کی وجہ سے کارگو کو محفوظ کرنے کیلئے خاصی جگہ دستیاب ہے۔ اس لئے اسے خلیجی ممالک اور متحدہ عرب عمارات کی بندرگاہوں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ بندرگاہ کرغیزستان اور قزاقستان کیلئے گرم پانیوں تک رسائی کا مختصر تریں راستہ ہے۔

علاوہ ازیں قزاقستان، ترکمانستان اور کرغیزستان اپنے تیل کے ذخائر پائپ لائن کے ذریعے یہاں سے آسانی سے منتقل کر سکتے ہیں۔ یورپی ممالک بھی روس سے گزرے بغیر متذکرہ بالا ممالک کے توانائی کے ذخائر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یورپی ممالک کو خطرہ ہے کہ روس کسی بھی وقت ان راستوں سے منتقل ہونے والے توانائی کے ذخائر کو روک سکتا ہے جیسا کہ پہلے وہ گیس روک کر کر چکا ہے۔ جن ممالک کے مفادات کو خطرہ ہے وہ اس کے خلاف مختلف طریقوں سے پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے ماحولیاتی توازن بگڑے گا اور مختلف قسم کے موسمیاتی تغیرات رونما ہونگے۔ اگرچہ اس طرح کی ساری باتیں مفروضاتی ہیں لیکن ان کے ذریعے پروپیگنڈہ بھرپور انداز میں کیا جاتا ہے اور ایسا صرف اس کو کاروباری ہب بننے سے روکنے کیلئے ہے۔ چین کی اس بندرگاہ میں دلچسپی اس لیے ہے کہ وہ اس خطے میں امریکی اور بھارتی تسلط نہیں چاہتا اور خطے کی سب سے بڑی فوجی قوت بھی بننا چاہتا ہے۔

کافی عرصے سے لا پتہ افراد کا مسئلہ زیربحث ہے اور اسے خوب اچھالا جارہا ہے لیکن کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ کئی سالوں سے سپریم کورٹ میں بھی یہ کیس زیرسماعت ہے ۔حکومت پاکستان کے معتبر ذرائع بارہا اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ بلوچستان میں گیارہ سے زائد غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان میں غائب ہونے والے یا مبینہ طور پر اٹھا لیے جانے والے لوگوں کے بارے میں کئی طرح کے موقف سامنے آئے ہیں لیکن اس معاملے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جو غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں یہاں سرگرمیوں میں مصروف ہیں ان کا مفاد اسی میں ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب رہیں اور یہاں پر زندگی معمول پر نہ آئے، اگر صوبے میں استحکام ہوگا تو پھر ترقیاتی سرگرمیاں پورے زور و شور سے آگے بڑھیں گی۔

بلوچستان سے غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے جاری احتجاج اپنی جگہ منطقی ہے لیکن اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اصل میں غائب کم ہوئے جتنے بھیج دیے گئے اور ان کو مختلف ملکوں میں سکونت دے دی گئی۔ ایسا کرنے والوں میں مسلمان ملک پیش پیش ہیں کیونکہ ان کو اپنے برادر اسلامی ملک کی گوادر بندرگاہ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لہٰذا یہ قدم پاکستان کو ڈبونے کیلئے ضروری تھا، وہ بھی گوادر میں اور لاپتہ افراد کے نام پر۔ ہمیں تو بس اتنا پتہ ہے کہ لاپتہ افراد ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ بعض اطلاعات کے مطابق بہت سے لاپتہ افراد کو خلیج کے کچھ ممالک نے شہریت دے دی ہے اور ان کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کی اگر کسی مخالفانہ سرگرمی میں حصہ نہ بھی لیں پھر بھی ان کا محض لاپتہ ہو جانا ہی ریاست کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر امریکہ اور بھارت کیخلاف کام کرنے والے افراد لا پتہ نہ ہوتے تو ان کا انجام کیا ہوتا یہ ہم سب جانتے ہیں۔ اگر ہم اس خطہ کو خالصتاً بلوچستان کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں سونے کی دنیا کی بڑی کانیں موجود ہیں۔گوادر پورٹ اور یہ کانیں ہر کس دشمنوں کی آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔ اس معاملے میں حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھنے سے فائدہ کے بجائے اُلٹا نقصان ہو گا۔ جب ہمارا اپنا ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے تو ایسے میں ’’دوست‘‘ اسلامی ملکوں کے رویہ پر پردہ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔

 photo Gwadarport1_zps36272384.jpg

اکنامک کوریڈور کا تصور

پاکستان اور چین کے درمیان گوادر پورٹ سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں ملکوں نے اکنامک کوریڈور قائم کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے جس پر چین 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس منصوبے کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے جبکہ باقی جزیات تیزی کے ساتھ طے کی جا رہی ہیں۔ اکنامک کوریڈور سے مراد گوادر اور چین کے علاقے کاشغر کو سڑک، ریل اور آپٹک فائبر کے ذریعے باہم منسلک کرنا ہے جبکہ تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر بھی اس منصوبے کا حصہ ہوگی۔

گوادر میں ’’آئل سٹی‘‘ کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے خطے کی تیل کی ضروریات پوری ہوں گی۔ بھارت اور امریکا گوادر پورٹ کا انتظام چین کے حوالے کرنے کے اقدام سے ناخوش ہے اور اس منصوبے کو برباد کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اہم تجزیہ نگار اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی اوراندرونی عدم استحکام کی وجوہات میں گوادر پورٹ بھی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ اگر پاکستان اپنے اندرونی معاملات درست کر لیتا ہے تو اس کی تمام تر توجہ تجارتی سرگرمیوں کو منظم کرنے پر مرکوز ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق گوادر پورٹ اور اکنامک کوریڈور کام شروع کرتے  ہی چین کو سالانہ تیل کی درآمد کی مد میں 20 ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ دینے لگیں گے جبکہ پاکستان کو محض محصول کی وصولی پر 5 ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ ہوگا۔ گوادر میں لگنے والی آئل ریفائنری روزانہ 60 ہزار بیل تیل صاف کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔ امریکا نے پاکستان کو اس بات پر مجبور کر رکھا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدے جس کا مقصد توانائی کے سنگین بحران کے شکار پاکستان کو مکمل اقتصادی بربادی کی طرف دھکیلنا ہے، لہٰذا اس امریکی کوشش کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان نے چین کو گوادر سے مغربی چین تک آئل پائپ لائن بچھانے کی پیشکش کی ہے جو اپنی تیل کی ضرورتوں کی تکمیل کے متبادل ذریعے کے بندوبست کی ایک بہترین کوشش ہے۔

چین کے انسٹی ٹیوٹ فار سکیورٹی اینڈ آرمز کنٹرول اسٹڈزی جو وزارت پبلک سکیورٹی سے منسلک ہے، کے ڈائریکٹر لی وئی کا کہنا ہے کہ شمال مغربی چین کے علاقے ژن جیانگ کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے ساتھ اکنامک کوریڈور (سڑک، ریل اور آپٹک فائبر لنک) کے ذریعے منسلک کرنے کے منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے دو ہمسایہ ملکوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ خطے میں امن و امان اور سکیورٹی کی صورتحال سب سے اہم معاملہ ہے۔ چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمشن کے ڈپٹی ژنگ ژاو کوینگ کی قیادت میں جس وفد نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی تھی ’’لی‘‘ اُس وفد کا حصہ تھے۔ وفد نے پاکستانی حکام کو بتایا تھا کہ افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء خطے پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ان کا خیال تھا کہ خطے میں سیاسی مفاہمت کے عمل میں پاکستان، چین، روس اور بھارت کی شمولیت ضروری ہے۔


چین چاند پر

$
0
0

اسلام آباد: چند دن پہلے یعنی 8 فروری  2014کو چین نے ایک روبوٹ مشن کام یابی کے ساتھ چاند کی سطح پر اتارا تو اس کے ساتھ ہی چین، امریکا اور سابق سوویت یونین کے بعد چاند پر کام یاب مشن اتارنے والا تیسرا ملک بن گیا۔

بلا شبہ  یہ چین کی تاریخ کے سنہرے  لمحات تھے، جب ایک تاریک آڈیٹوریم میں تقریباً 250 چینی ماہرین ایک پروجیکٹر سے برآمد ہو کر سکرین پر پڑنے والی نیلی روشنی اور اس سے نمودار ہوتی تصاویر اور الفاظ کو بہ غور دیکھنے میں مصروف تھے اور چین کے’’لیونر پروجیکٹ‘‘ کے بانی اویانگ زی ژوان کے خلائی پروگرام کے مستقبل سے متعلق گفت گو کو بھی انہماک سے سن رہے تھے۔

عالمی رائے عامہ کے مطا بق جب امریکا اور دوسرے ممالک اپنے اپنے خلائی پروگرامز کے اخراجات میں نمایاں کمی کر رہے ہیں تو چین اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کر کے خود کو ایک ابھرتی ہوئی سپر طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی ہے جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ ہو رہی تھی، تب خلائی تحقیق کے شعبے میں سنگ میل عبور کرنے  کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ چاند کی سطح پر اترنے والے نئے روبوٹ مشن ’’چانگ ای تھری جیڈ ریبٹ‘‘ سے حاصل کردہ تازہ تصاویر بھی سامنے آرہی ہیں اور کچھ ایسی خیالی تصاویر بھی دکھائی جا رہی ہیں، جن میں چاند کی سطح پر ایک خلانورد نظر آ رہا ہے، جو وہاں بڑے فخر کے ساتھ چین کا تاروں بھرا سرخ پرچم گاڑ رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے بیجنگ میں معروف چینی سائنسی ویب سائٹ گوکر کی جانب سے نوجوان چینی خلائی ماہرین کے ساتھ چینی خلائی پروگرام کے سابق سربراہ 78 سالہ اویانگ زی ژوان کی ملاقات کا انعقاد  بھی کیا گیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ چین کی کیمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی اور کر رہی ہے جس کی وجہ سے، اب ہم چاند سے بھی آگے جائیں گے، اب چین بھی ’’ ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن‘‘ کی اہلیت کا حامل ہو چکا ہے، وہ دن دور نہیں جب چین پورے نظام شمسی کو مسخر کرلے گا۔ اویانگ کی رنگ برنگی تصاویر سے مرصع اس پریزنٹیشن کو ملک بھر میں خوب سراہا جارہا ہے اورچین میں چاند پر کمند ڈالنے کے اس عمل کو قومی سطح پر قابل فخر کارنامہ سمجھا جارہا ہے۔ چینی عوام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں چین امریکا کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو چکا ہے۔

 photo Chinaonmoon_zpsdf25e9cf.jpg

بیجنگ میں قائم انٹرنیشنل اسپیس انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ماؤ ریسیو فلانگا کے مطابق ’’مغربی خلائی سائنس دان یہ بات جانتے ہیں کہ چین خلا کو مسخر کرنے کی اہلیت کا حامل ہے اور اسی لیے وہ چینی سائنس دانوں اور خلائی پروگرام کا تعاون چاہتے ہیں، اب چینی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا اور روس کے مدمقابل کھڑے ہو چکے ہیں اور چین ایک عالمی طاقت بننے والا ہے‘‘۔

واضح رہے کہ 2010 میں چین نے پہلی مرتبہ ایک انسان کو خلا میں بھیجا تھا جب کہ، چین  2020  تک زمینی مدار میں گردش کرنے والا اپنا ایک مستقل خلائی اسٹیشن بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ  وقت ہو گا جب امریکا، روس، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے خلائی اسٹیشنز اپنی مدت پوری کر چکے ہوں گے اور دوسری جانب یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں جاری اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں پر اربوں ملین ڈالر لٹانے کے بعد معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے حال ہی میں خلائی تحقیق کے شعبے میں ناسا کو مہیا کیے جانے والے سرمائے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین کی یہ پیش کش خاصی قابل غور ہے کہ اس نے اپنے ’’سیٹلائٹ نیوی گیشن نیٹ ورک‘‘ کی دیگر ممالک کو استعمال کی دعوت دے دی ہے۔ چینی ماہرین جانتے ہیں کہ چین کا تیار کردہ سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم نہ صرف ملک کے لیے سماجی، معاشی اور فوجی حوالے سے ایک اثاثہ ثابت ہو گا بل کہ چینی سیٹلائٹ نیویگیشن ایجنسی کے مطابق ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔

گذشتہ سال روس کے ذرائع ابلاغ نے چین کی خلائی تسخیر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا ’’ امریکا اور سوویت یونین کے بعد چین تیسرا ملک ہے جس نے چاند کی سطح پر اترنے کی خاطر زمینی آلہ بھیجا ہے۔ چاند گاڑی کو وسط دسمبر 2013  تک چاند کی سطح پر اترنا چاہیے، جہاں سے وہ چاند کی مٹی کے نمونے لے گی اور کارآمد اطلاعات زمین پر اپنے مستقر کو بھجوائے گی۔ اگلا قدم چینی خلا بازوں کو چاند پر بھیجنے کے حوالے سے ہوگا مگر یہ مرحلہ اخراجات اور تحقیق کے لحاظ سے خاصا دقت طلب ہے لہٰذا 2020 کے بعد ہی طے ہو پائے گا۔ بیجنگ نے اس کام کو ایسے  وقت پر کیا ہے جو، یونی پولر یا یک رخی دنیا میں چین کے دوسری عالمی قوت ہونے کی دلیل ہے، ایسی قوت جو مستقبل میں اپنے بڑے مد مقابل امریکا سے نہ صرف تجارت اور معیشت کے میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو رہی ہے بل کہ خلائی صنعت میں بھی وہ اسی راہ پر گام زن ہے ۔

روس کے ذرائع ابلاغ نے خصوصی طور پر چینی لانچنگ سنٹر کے ڈائریکٹر زہانگ زہن زہونگ کے بیان کو نمایاں کیا تھا ’’ہم خلا سے متعلق اپنے خواب پورے کرتے رہیں گے جو، قومی حیات نو کے بارے میں چین کے خواب کا ایک حصہ ہوگا، قابل غور بات یہ ہے کہ “عظیم چینی خواب” چین کے نئے حکام، جن کی سربراہی شی جن پنگ کر رہے ہیں،  کے کلیدی پروگراموں کی بنیاد ہے‘‘۔

 photo Chinaonmoon1_zps21fcd05d.jpg

اس پر روسی مبصّر سرگئی تومن نے بھی یوں اظہار کیا تھا ’’امریکا اور روس سے خلائی صنعت میں پیچھے رہ جانے والے چین نے گزرنے والی صدی کی آخری دو دہائیوں میں  خلائی میدان میں بے تحاشا رقم خرچ کی ہے، اسی وجہ سے اسے آگے بڑھنے میں دوسروں کا سر چکرا دینے والی کام یابیاں نصیب ہوئی ہیں اور یوں چین آج عالمی خلائی دوڑ میں تیسرے مقام پر آ چکا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ چین نے اس منصوبے کا عملی مظاہرہ 2011 میں کیا تھا لیکن  وہ ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا تاہم حریفوں کو یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ اتنی بری طرح منہ کے بل گرنے کے باوجود چین اس سے زیادہ توانائی کے ساتھ اٹھے گا اور از سر نو،  یعنی 2014 کے آغاز میں ہی اپنی کمند چاند کی کگر  پر ڈالنے میں کام یاب ہو جائے گا۔

اب تو چین کا اپنا میڈیا بھی کچھ یوں کہ رہا ہے کہ جب خلائی پروگرامز سے متعلق  بات ہو رہی ہو تو یہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہی معاملہ نہیں ہوتا بل کہ وسیع تر سیاست بھی کہیں نہ کہیں نظر میں رکھی جاتی ہے۔ چین نے خلائی تحقیق کے ضمن میں دوسرے ملکوں اور سب سے پہلے بھارت کے ساتھ تعاون کرنے میں دل چسپی ظاہر کی تھی  مگر اس خواہش میں عالمی منڈی میں خلائی ٹیکنالوجی اور خدمات میں ایشائی ملکوں کے بڑھتے ہوئے مفادات بھی لامحالہ شامل  ہوں گے۔

ایک معتبر اطلاع کچھ یوں بھی ہے کہ چین کے علاوہ دنیا کے 25 سے زیادہ ممالک خلا میں پہنچنے اور وہاں اپنی جگہ بنانے کے لیے درمیانے اور طویل مدتی منصوبے ترتیب دے چکے ہیں ، ان ملکوں میں بھارت، اسرائیل، ایران اور پاکستان نمایاں طور پر سامنے آچکے ہیں جب کہ، دیگر ملک جلد یا بہ دیر اپنے منصوبوں کا اعلان کرنے والے ہیں۔  2 ستمبر 2013 کو  اسرائیل نے روس کی مدد سے ایک مصنوعی سیارہ ’’عاموس 4‘‘ کے نام سے خلا میں چھوڑا تھا، جو بڑی کام یابی کے ساتھ تل ابیب کو مواصلاتی میدان میں معاونت فراہم کررہا ہے۔ اسرائیل کی ایک کمپنی کا کہنا تھا کہ مصنوعی سیارہ ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات میں مدد فرہم کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ، امریکا، مشرق وسطیٰ، افریقا، روس اور جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں مواصلاتی رابطوں میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ یاد رہے کہ اسرائیل اب تک چار مصنوعی مواصلاتی سیارے خلا میں بھیج چکا ہے۔ مواصلاتی سیاروں کے علاوہ اسرائیل اب تک چھے جاسوس سیارے بھی خلا میں بھیج چکا ہے اور کچھ عرصہ پیش تر ’’شاویٹ‘‘ راکٹ کے ذریعے خلا  میں بھیجے گئے ’’وویک ۔9‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ایران کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے۔

اسی طرح پاکستان بھی 2014 تک خلا  میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائیٹ سسٹم بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خلائی اور اعلیٰ ماحولیاتی ریسرچ کمیشن سپارکو نے 2014 تک جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائیٹ سسٹم کو خلا میں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے جو، قومی اور بین الاقوامی صارفین کی مصنوعی سیارے سے منظر کشی کی ضروریات کو پورا کرسکے گی۔ سپارکو  رواں برس کے آخر میں آپٹیکل سیٹلائیٹ بھی خلا میں چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان جنوری 2003 میں ’’ پاکسیٹ ون‘‘ کے ساتھ ہی خلائی دوڑ میں شامل ہوچکا تھا، پاکستان کا خلائی پروگرام 2040  تک متعدد مصنوعی سیاروں کی لانچنگ پر مشتمل ہوگا۔

 photo Chinaonmoon2_zps67711bcd.jpg

خلا نوردی کے تین عالمی نظام

چینی نیویگیشن سیٹلائیٹس پر مشتمل نظام ’’بیئی ڈو‘‘(Beidou) امریکی گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) اور روس  کے گلوناس نظام کا حریف بن چکا ہے۔ چین نے قریباً ایک سال پہلے فرانسیسی ساختہ مواصلاتی سیارہ کام یابی سے خلا میں روانہ کیا تھا، یہ مصنوعی مواصلاتی سیارہ ایشیا، افریقا اور یورپ میں صارفین کے لئے ٹیلی کمیونیکیشن کی خدمات فراہم کررہا ہے۔  بیئی ڈو کے اب تک 16 مصنوعی سیارے زمین کے اوپر خلا میں موجود کام کر رہے ہیں اور اس وقت یہ ایشیا پیسیفک علاقے میں نیویگیشن کی سہولت فراہم کر رہا ہے تاہم 2020  تک اس کے سیٹلائیٹس کی تعداد 30 تک پہنچ چکی ہوگی جس کے بعد، اس کی نیویگیشن سروس پوری دنیا کے لیے دست یاب ہو گی۔ چین کے سیٹلائیٹ نیویگیشن آفس کے ڈائریکٹر رین چینگ چی کے مطابق یہ نظام سویلین اور فوجی مقاصد کے لیے یک ساں فائدہ مند ہوگا۔

انہوں نے کہا ’’بیئی ڈو نیٹ ورک‘‘ کی تکمیل ملکی سیکیوریٹی سے متعلق مسائل کا حل ثابت ہو گی جن میں، معاشی سلامتی اور وسیع پیمانے پر معاشرتی سلامتی سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔ بلا شبہ یہ انفراسٹرکچر، ملٹری اور سویلین، دونوں مقاصد کے لیے ہے، اس نظام کی فوجی افادیت کے بارے میں تو ظاہر ہے کہ ملکی وزارت دفاع ہی جانتی ہے تاہم اس کو بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ نظام اب ٹیکنالوجی اور سروسز، دونوں حوالے سے مکمل طور پر دست یاب ہے؛ گو ابھی ہم گلوبل کوریج فراہم نہیں کر رہے تاہم اس نظام سے منسلک ایپلیکیشنز دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں‘‘۔ بیئی ڈو نظام کی کام یاب تکمیل کے بعد چینی فوج کو غلطی سے مبرا  اور خودمختار نیوی گیشن نظام مل جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی؛ میزائلوں، بحری جنگی جہازوں اور ہوائی جہازوں کی رہ نمائی کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس طرح تیزی سے طاقت حاصل کرتی ہوئی چینی فوج کے قوت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

چینی سرکاری میڈیا کے مطابق سینیئر فوجی حکام یہ کہ چکے ہیں کہ بیئی ڈو نظام چین کے لیے انسان بردار خلائی پرواز اور چین کے چاند پر بھیجے جانے والے تحقیقی مشن سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چینی حکومت اس نظام کو کاروں، موبائل فون اور دیگر ایپلی کیشنز کے لیے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سیٹلائیٹ نیویگیشن کی صنعت کے لیے بھی تجارتی حوالے سے بہت زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ چین ایشیا کے دیگر ممالک کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ بیئی ڈو کی سروسز کو بغیر کسی بھی طرح کی ادائی کے بغیر استعمال کریں ۔۔۔ یاد رہے کہ امریکا بھی اپنے سویلین جی پی ایس سسٹم کی سروسز مفت فراہم کررہا ہے ۔ پاکستان میں چین کے اس خلائی نظام کی سروسز کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیشنز کی تعمیر کا کام جاری ہے جب کہ تھائی لینڈ نے بیئی ڈو کی سروسز کو قدرتی آفات کے بارے میں پیش گوئی کے لیے حاصل کیا ہوا ہے۔

مگر مچھ …….درختوں پر

$
0
0

کیا کوئی مگرمچھ آپ کا تعاقب کررہا ہے؟ ممکن ہے آپ کو سامنے درخت نظر آجائے اور آپ یہ سوچ کر اس پر چڑھ جائیں کہ مگرمچھ درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ لیکن اس وقت آپ حیران رہ جائیں گے جب مگرمچھ تیزی کے ساتھ آپ کے پیچھے درخت پر چڑھ جائے گا۔

University of Tennessee, Knoxville کے ماہرین حیاتیات نے رینگنے والے جانوروں کے درختوں پر چڑھنے کی عادات پر ریسرچ کی ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف سائیکالوجی کے پروفیسر Vladimir Dinets اور ان کے ساتھیوں نے تین براعظموں آسٹریلیا، افریقا اور شمالی امریکا کے مگرمچھوں کی مختلف اقسام کا بغور مشاہدہ کیا۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی چار اقسام عام طور سے ایسے درختوں پر چڑھ سکتی ہیں جو پانی پر جھکے ہوئے ہوں۔ لیکن یہ کتنی بلندی تک جاسکتے ہیں، اس کا انحصار ان کی جسامت پر ہے۔ چھوٹے مگرمچھ زیادہ بلندی تک پہنچنے میں کام یاب رہتے ہیں، لیکن بڑے اور بھاری بھرکم مگرمچھ زیادہ اونچائی تک پہنچ نہیں پاتے۔ پھر درختوں کی شاخوں کی چوڑائی بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کم چوڑائی والی شاخوں پر چھوٹے مگرمچھ آسانی سے چڑھ جاتے ہیں، جب کہ بڑے مگرمچھوں کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اگر کسی انسان نے درختوں پر چڑھے ہوئے مگرمچھوں کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ خوف زدہ ہوکر پانی میں کود گئے۔ بہرحال ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض لوگ تو درختوں پر چڑھتے ہوئے مگرمچھ دیکھ کر حیران ہوئے لیکن بعض انسان اور جانور اس سے خوف زدہ ہوگئے۔ گویا درختوں پر رہنے والے پرندے اور جانور محفوظ نہیں ہیں، انہیں کسی بھی وقت مگرمچھ دریا سے نکل کر اپنا نوالہ بناسکتے ہیں۔

زیادہ تر ایسے مگرمچھ درختوں پر چڑھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں جو آرام اور سکون کی حالت میں دریائوں کے کنارے درختوں کے نیچے پڑے دھوپ سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ ایسے مگرمچھوں کو درختوں پر ہونے والی کوئی بھی ہلچل یا سرگرمی اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور وہ سرعت کے ساتھ درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔ مگر جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا ہے، یہ کام سبھی مگرمچھ نہیں کرتے، البتہ ان کی چند اقسام ہی ایسا کرپاتی ہیں۔

 photo Crocodile_zpsd077bf89.jpg

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مگرمچھوں کا یہ رویہ اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں زمینی یا دریائی خطرات سے بچنے کے لیے نئی پناہ گاہوں کی تلاش ہے اور درخت ان کے خیال میں زیادہ بہتر ٹھکانے ہوسکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب دریائوں اور زمین پر مگرمچھوں کو وافر مقدار میں شکار نہیں مل پاتا، اب انہیں شکار کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ممکن ہے انہیں یہ خیال آیا ہو کہ درختوں پر انہیں شکار آسانی سے مل سکتا ہے۔ وجہ جو بھی ہے، یہ سچ ہے کہ اب درخت مگرمچھوں کی دست رس میں آچکے ہیں اور ان پر رہنے والے جانور اب ان سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مگرمچھوں کی سبھی اقسام درختوں پر نہیں چڑھ پاتیں، لیکن ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں قدرت ایسا کوئی انتظام کردے کہ سبھی اقسام میں درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔

مگرمچھوں کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ectothermic یعنی سرد خون والے جان دار ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اپنے جسم کا درجۂ حرارت خود ریگولیٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ اس کے لیے انہیں بیرونی ذرائع جیسے سورج کی روشنی یا دھوپ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

کچھ اور ماہرین کا خیال ہے کہ مگرمچھوں کو عام طور پر زمین پر رہنے والے جان دار کہا جاتا ہے، جن کی ساری زندگی پانی میں گزرتی ہے، لیکن چند اقسام درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، مگر ان کے بارے میں ان ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ اقسام ایسا کبھی کبھار ہی کرتی ہیں۔

میکسیکو، کولمبیا، انڈونیشیا اور بوٹسوانا سے ملنے والی مقامی رپورٹس سے پتا چلا ہے کہ وہاں بھی مگرمچھوں کو مینگریوز اور دیگر درختوں پر دھوپ تاپتے دیکھا گیا ہے۔ مسس سپی میں دریائے پرل کے ڈیلٹا پر ایک فوٹوگرافر نے تو ایک امریکی مگرمچھ کی تصویر بھی کھینچی تھی جو ایک درخت کی شاخ پر دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ وہ مگرمچھ دریا کے پانی سے لگ بھگ چار سے چھے فٹ کی بلندی پر تھا اور ذرا بھی خوف زدہ نظر نہیں آرہا تھا۔

 photo Crocodile2_zpsdcfde30f.jpg

آسٹریلیا میں تحقیق کرنے والے ماہرین نے تازہ پانی کے مگرمچھوں کو دریا کے پانی کے اوپر لٹکی ہوئی شاخوں پر دن رات آرام کرتے دیکھا، دن میں یہ دھوپ سینکتے تھے اور رات کو غالباً تاریکی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جب ماہرین نے موٹر بوٹس میں ان کے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ زور دار چھپاکے کے ساتھ پانی میں کود کر فرار ہوگئے۔

ریسرچ کرنے والے ماہرین نے تین فٹ لمبے مگرمچھوں کو مینگریوز کی جڑوں اور شاخوں میں دھوپ سے لطف اندوز ہوتے دیکھا۔ لیکن بار بار مشاہدہ کرنے پر بھی انہیں تین فٹ سے زیادہ بلندی پر نہیں دیکھا گیا۔

ریسرچ کرنے والے ماہرین کے قائد Vladimir Dinets نے اپنی آنکھوں سے کسی بھی مگرمچھ کو درخت پر چڑھتے نہیں دیکھا، انہوں نے جب بھی دیکھا، مگرمچھ پہلے سے درختوں پر موجود تھے، حالاں کہ Vladimir Dinets کو انہیں اپنی آنکھوں سے درختوں پر چڑھتے دیکھنے کی شدید خواہش تھی، مگر وہ پوری نہ ہوسکی۔ مگر جب بھی ان کے قریب جانے کی کوشش کی گئی تو وہ نہ جانے کیوں ایک دم خوف زدہ ہوگئے اور فوری طور پر پانی میں کود گئے۔

اس رویے کو دیکھ کر ماہرین نے یہ نتیجہ نکالا کہ مگرمچھ درختوں پر چڑھنے کے عادی نہیں ہیں، بلکہ ان کے لیے یہ ناقابل یقین عمل ہے، اسی لیے وہ کسی بھی اجنبی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور درختوں کی شاخوں کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اگر وہ درختوں پر چڑھنے کے عادی ہوتے یا ان میں یہ عادت عام ہوتی تو وہ اس طرح خوف زدہ نہ ہوتے۔

 photo Crocodile1_zps8140b6a7.jpg

ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ایسے مگرمچھ بھی دیکھے جنہوں نے خود کو جھاڑیوں اور درختوں کی شاخوں میں چھپا رکھا تھا جہاں سے اچانک باہر نکل کر وہ قریب موجود جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کو ہڑپ کرجاتے تھے۔ ان مگرمچھوں کو ایک اور طریقے سے بھی خوراک مل رہی تھی۔ دریا کے کنارے مٹی اور دلدل میں پڑے ہوئے لکڑی کے لٹھوں پر بیٹھنے والے پرندوں کے پنجے اس کیچڑ میں پھنس جاتے تو پہلے سے منتظر مگرمچھ ان پر حملہ کرکے انہیں کھاجاتے۔

Vladimir Dinets اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مگرمچھوں نے درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے، لیکن یہ ثبوت موجود ہیں کہ مگرمچھ بلندی پر چڑھ سکتے ہیں۔ ویسے مگرمچھ چٹانوں اور دیگر گرم مقامات پر بھی دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مگر وہاں سایہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ درختوں پر چڑھنے لگے ہیں جہاں وہ دھوپ کی تیزی اور شدت سے محفوظ رہتے ہیں۔ جہاں تک دھوپ سے لطف اندوز ہونے کا تعلق ہے تو یہ کام دن میں ہوتا ہے، لیکن مگرمچھ رات میں درختوں پر کیوں چڑھتے ہیں، اس کا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے وہ خطرات سے بچنے کے لیے زمین کے بجائے بلند درختوں کا انتخاب کرتے ہوں، کیوں کہ درخت سب سے محفوظ پناہ گاہ ہوتے ہیں اور وہاں سے کسی بھی خطرے کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ Dinets کہتے ہیں کہ اس ریسرچ اور انکشاف سے paleontologists یعنی علم حجریات کے ماہرین کو اپنے کام میں مدد ملے گی۔ ماہرین حجریات فوسلز (حجرات) میں تبدیلیوں کو دیکھ کر رویے پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز: لوہے کی فصیل ریت کی دیوار بن کر ڈھے رہی ہے

$
0
0

روس کی تیکنیکی معاونت سے بننے والے پاکستان کے پہلے فولاد ساز ادارے ’’پاکستان اسٹیل ملز‘‘ کا سنگ بنیاد 30دسمبر 1973کو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔

شہرِقائد سے 40کلومیٹر کی مسافت پر تعمیر ہونے والے اس عظیم ادارے کی پیداواری صلاحیت11لاکھ ٹن سے 30 لاکھ ٹن سالانہ ہے، لیکن کرپشن، سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوں اور دیگر عوامل نے پاکستان میں صنعتوں کی ماں کہلانے والے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ 18ہزار600 ایکڑ سے زاید رقبے پر محیط اس ادارے کو پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل کمپلیکس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاہم خام مال کی قلت اور بدعنوانیوں کی وجہ سے یہ ادارہ اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور گذشتہ چھے سال میں صرف خام مال کی خریداری میں بدعنوانی کے بیس کیسز سامنے آچکے ہیں، جب کہ معاشی سال 2008میں3ارب سے زاید خالص منافع کمانے والے ادارے کو 2008کے بعد سے ڈرامائی طور پر ہر سال خسارے کا سامنا ہے۔ دوسری طرف تقریباً ایک دہائی سے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں جاری ہیں اور 2006 میں اس ادارے کو تقریباً فروخت کر ہی دیا گیا تھا، تاہم وطن پارٹی نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں سیکشن184(3) کے تحت پٹیشن دائر کردی، جس پر کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے نج کاری کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اب موجودہ حکومت نے بھی پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اسٹیل ملز میں تن خواہوں کی عدم ادائیگی نے مزدوروں کو ایک ایسی معاشی صورت حال سے دوچار کردیا ہے جس نے نہ صرف اُن کی عزت نفس بل کہ اُن کے مضبوط ارادوں کو بھی پاش پاش کردیا ہے۔ کسی ورکر کو کرایہ نہ دینے پر روز مالک مکان کی جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں تو کسی مزدور کے بچے فیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ذریعۂ معاش کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز میں ہر ورکر کے دن کا آغاز روز نئی آس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر ورکر کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا ’’خام مال‘‘ آگیا؟ کیا آج تن خواہ مل جائے گی؟ ہر مزدور کو اپنی تن خواہ ملنے سے زیادہ انتظار خام مال ملنے کا ہوتا ہے، کیوں کہ یہ خام مال اُن کے لیے نسوں میں دوڑنے والے خون کی مانند ہے، یہ حوصلہ مند، باہمت ملازمین اس وقت بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کے با وجود اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہیں۔ انہیں ابھی بھی اچھے دنوں کی آس ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچوںکی ادھوری تعلیم، دو وقت کی روٹی کی فکر اور سر چھپانے کے لیے کسی کم کرائے کے مکان کے لیے سرگرداں ہونے کے باوجود یہ پُرعزم ملازمین ان سب مشکلات کے باوجود نج کاری کے خلاف ہیں، یہ ورکر دوبارہ پاکستان اسٹیل ملز کواپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کی تمام مزدور یونینز بھی اپنے اختلافات بھلا کر نج کاری کے خلاف متفق ہیں۔

ملک کا یہ اہم دولت اگلتا ادارہ اس نہج تک کیسے پہنچا؟ عام آدمی سے اقتصادی ماہرین تک سب اس سوال کا ایک ہی جواب دیتے ہیں، بدعنوانی۔

اس حوالے سے ممتاز ماہرِمعیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کو صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی بد عنوانی، اقربا پروری اور نااہلی نے اس منافع بخش ادارے کو زبردست نقصان سے دو چار کر دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اس ادارے کو پیشہ ورانہ اصولوں پر چلانے کے لیے مناسب حکمت عملی وضح کی جائے، اعلیٰ انتظامی عہدوں اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرریاں پیشہ ورانہ اصولوں پر کی جائیں تو یہ ادارہ دوبارہ منافع بخش ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی واضح شواہد موجود ہیں کہ موجودہ حکومت اس ادارے کے خسارے کو مزید بڑھا رہی ہے، تاکہ آئی ایم ایف سے طے کی گئی شرائط کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے، جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے بھی بتایا جا چکا ہے کہ میرٹ پر تقرریاں نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیل ملز سمیت کئی ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں۔

 photo Pakistansteelmill_zps9fb8c608.jpg

ڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز ایک قیمتی اثاثہ ہے اور اسے ہر قیمت پر حکومتی شعبے میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال 19اگست کو حکومت پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی ادارے)کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹائن لیگارڈ (Ms. Christine Lagarde ) کو بھیجے گئے خط میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حالیہ میٹنگ میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے پاکستان اسٹیل ملز سمیت مختلف اداروں کی نج کاری کی منظوری دے دی ہے۔ یعنی چاروں صوبے اِن اداروں کی نج کاری کی منظوری پر اپنی مہر ثبت کر چکے ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا حکومت میں شامل جماعت، جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہہ چکے ہیں کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے ایسی کوئی منظوری دی ہی نہیں ہے۔

اس حوالے سے سینیٹ میں حکم راں جماعت کی نمائندگی کرنے والے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو کرائی گئی ’’یہ‘‘ یقین دہانی درست نہیں تھی، اور مشترکہ مفادات کی کونسل کی اگلی میٹنگ میں نج کاری کی منظوری لی جائے گی۔ ڈاکٹر شاہد حسن نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کسی صورت ممکن نہیں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کے مطابق جلد از جلد اِن اداروں کی نج کاری کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے، لیکن2014 میں یہ عمل ممکن ہونے کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دنوں نج کاری کمیشن نے جن اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کیا ہے، یہ دستورِ پاکستان سے متصادم ہے۔ نج کاری کمیشن کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ گذشتہ 23 برسوں میں پاکستان میں نج کاری کا عمل مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور بہت سے ادارے نج کاری کے بعد بند ہوگئے۔ نوازشریف کے پچھلے دور حکومت میں نج کاری کمیشن کے چیئرمین ، اور نجی تحویل میں دیے گئے بینکوں کے دو سابق صدور کو گرفتار جب کہ تیسرے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ نج کاری کے بعد ایک بینک نے 6ارب کا نقصان دکھایا تھا، جب کہ اِس کے 26 فی صد حصص40کروڑ روپے میں فروخت کیے گئے تھے۔ خسارے کے بعد حکومت نے اس بینک کو واپس لے لیا تھا۔ دوسرے بینک کے بھی 26 فیصد حصص40کروڑ روپے میں فروخت کیے گئے تھے، لیکن یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور مقدمہ کرنے والی پارٹی کو حکومت کی جانب سے مختلف بینکوں سے 2ارب روپے کے قرضے دلائے گئے، جو بعد میں معاف کرنے پڑے۔ اس بینک کے صدر اور چیئرمین بھی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ یہ حقائق قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن کہتے ہیں کہ قومی اداروں کی نج کاری مسلم لیگ ن کے منشور میں شامل نہیں تھی، لیکن حکومت بجٹ خسارے میں کمی کے لیے اِس کی نج کاری کر رہی ہے، جو خسارے کا سودا ہے۔

دوسری طرف پاکستان اسٹیل ملز کی معاشی بدحالی کے حوالے سے منیجر تعلقات عامہ شاہ زم اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو اِس وقت مختلف اداروں کے واجبات اور تن خواہوں کی مد میں115 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کو مالی بحران سے نکالنے اور اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے گذشتہ سال اکتوبر میں ہم نے حکومت کو 29 ارب روپے کا ایک بزنس پلان پیش کیا تھا۔ تاہم اس پلان پر مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور ادارہ دن بہ دن خسارے میں جاتا گیا۔ مالی بحران کا سب سے اہم سبب خام مال کی عدم دست یابی ہے، جس کی وجہ سے یومیہ اوسطاً  5 فی صد پروڈکشن ہورہی ہے اور پلانٹ کو اتنی کم پیداواری صلاحیت پر چلانا ہماری مجبوری ہے، کیوں کہ بلاسٹ فرنیس اور کوک اوون بیٹری کو ایک مخصوص درجۂ حرارت پر رکھنا ضروری ہوتا ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے اور انہیں مطلوبہ درجۂ حرارت پر نہیں چلایا جائے تو پھر یہ دوبارہ قابل استعمال نہیں رہیں گے اور پھر اِن کو صرف اسکریپ میں ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔

 photo Pakistansteelmill1_zpsdd9f253d.jpg

شاہ زم اختر نے بتایا کہ خام مال کی عدم دست یابی کی وجہ سے ہمارے گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ہم آسٹریلیا اور کینیڈا سے درآمدکردہ ’’میٹالرجی کوک‘‘ استعمال کرتے تھے، جس سے اسٹیل بنانے کے دوران ہمیں بائی پروڈکٹ ’’کول تار‘‘ اور ’’کوک اون گیس‘‘ حاصل ہوتی تھی، جسے ہم ’’تھرمل پاور پلانٹ ‘‘ چلانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کرتے تھے۔ اس طریقۂ کار کی وجہ سے ہمیں گیس اور بجلی کی مد میں ماہانہ تقریباً 25کروڑ روپے کی بچت ہوتی تھی، لیکن اب 110میگاواٹ گنجائش کے حامل اس تھرمل پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے بجلی اور گیس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، جو ہمارے خسارے میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2011تک پاکستان اسٹیل ملز کے ای ایس سی کو بجلی فروخت کرتا تھا جس سے ہمیں ماہانہ 6سے7کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میٹالر جی کوک ‘‘ کے لیے ہمیں کم ازکم 55ہزار ٹن کا جہاز منگوانا پڑتا ہے، جس کے لیے ایک ارب روپے چاہییں اور موجودہ صورت حال میں ہم اسے منگوانے سے قاصر ہیں اور پلانٹ کو زندہ رکھنے کے لیے خام کوئلے کو کوک میں تبدیل کر رہے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز اور مارکیٹ میں موجود دوسری متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں واضح فرق کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں فرق کی سب سے اہم وجہ گر ے مارکیٹ (ایسی مارکیٹ جہاں چیزیں مقرر کردہ قیمت سے کم پر فروخت کی جاتی ہیں) ہے، کیوں کہ WTO(ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی وجہ سے اسٹیل شیٹس کی درآمد کُھل گئی ہے۔ اسٹیل بنانے والے مقامی تیار کنندگان تقریباً تیس فی صد سبسڈی (حکومت کی جانب سے قیمت پر رعایت) پر اسٹیل شیٹس درآمد کرتے ہیں۔ تاہم اُس میں سے 70فی صد شیٹس کم قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے ادارے خصوصاً کارساز ادارے پاکستان اسٹیل ملز کے بجائے مارکیٹ سے کم قیمت اسٹیل شیٹس خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

شاہ زم اختر کا کہنا ہے کہ مالی خسارے میں دن بہ دن اضافے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خام مال کا نہ ہونا ہے، کیوںکہ ادارے کے روزانہ کے اخراجات تو اپنی جگہ پر ہیں، چاہے پروڈکشن 100فی صد ہو یا 5 فیصد، ہمیں پلانٹ کو 70فی صد پیداواری لاگت پر چلانے کے لیے تقریباً ایک لاکھ ٹن خام لوہا اور50ہزار ٹن کوئلہ چاہیے، اگر ضرورت کے مطابق خام مال مل جائے تو ہم اپنے خسارے پر قابو پاکر ادارے کو منافع میں لاسکتے ہیں، حکومت کو دیے گئے 29ارب کے بزنس پلان میں ہم نے11ارب روپے صرف خام مال کے لیے مختص کیے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس 50 ہزار ٹن خام لوہا اور16ہزار ٹن کوک اسٹاک میں موجود ہے، جس سے ہم صرف پلانٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اُس وقت حکومت ہمارے پیش کیے گئے بزنس پلان کو منظور کر لیتی تو آج پاکستان اسٹیل ملز کی حالت یکسر مختلف ہوتی اور اِس کا شمار ملک کے منافع بخش اداروں میں ہو رہا ہوتا۔

تن خواہوں اور دیگر یوٹیلیٹی بلز کی مد میں پاکستان اسٹیل ملز کے ذمے واجب الادا رقوم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ملازمین کی مجموعی تن خواہیں کم و بیش ایک ارب روپے ماہانہ بنتی ہیں۔ تاہم ادارے کی معاشی بدحالی کی وجہ سے ملازمین کو فی الوقت نیٹ تن خواہیں ادا کی جارہی ہیں، جو 48کروڑ روپے ماہانہ بنتی ہیں۔ تمام ملازمین کو تیس نومبر تک کی تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں، جب کہ ملازمین کو طبی سہولیات کی مستقل فراہمی کے لیے گذشتہ سال نومبر میں اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کو 18کروڑ 10لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ تاہم ابھی اِس مد میں اچھی خاصی رقوم کی ادائیگیاں باقی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو سوئی سدرن گیس کمپنی کے 12ارب روپے ادا کرنا ہیں، جس میں 5 ارب روپے لیٹ پیمنٹ اور دیگر سرچارج کی مد میں دینا ہیں۔ اس معاملے پر ابھی سوئی گیس حکام سے بات چیت چل رہی ہے، جب کہ کے ای ایس سی کے تقریباً 50کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ شاہ زِم اختر کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کو گذشتہ سال نومبر میں 2کروڑ 20لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ تاہم اس کے بعد کے بل ابھی ہمارے ذمے واجب الادا ہیں۔

 photo Pakistansteelmill2_zpscd890289.jpg

پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے میں جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ’’پاکستان اسٹیل لیبر یونین‘‘ (پاسلو) کے جنرل سیکریٹری طارق اعوان نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں انتظامیہ کی بدترین کرپشن نے پاکستان کے اس منافع بخش ادارے کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اسے بیساکھیوں پر کھڑا کردیا ہے۔ 2008 تک تمام ملازمین کو سال میں بیسک تن خواہ پر مشتمل چار بونس اور ورکرز پارٹیسیپیشن فنڈ (منافع کا 5فی صد) ملتا تھا۔ اُس وقت پاکستان اسٹیل ملز میں خوش حالی کا دور دورہ تھا اور یہ ادارہ ایک روپے کا بھی مقروض نہیں تھا۔ دو اعشاریہ تین بلین روپے تو صرف اس کے ریزرو (محفوظ رقم ) تھے، لیکن 2008کے بعد آنے والی حکومت اور اُس کی من پسند سی بی اے نے ادارے کو کھوکھلا کردیا اور آج پاکستان کی ایک منافع بخش صنعت 2 سو ارب روپے خسارے کا شکار ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ملازمین کے ’’پروویڈینٹ فنڈز‘‘،’’گریجویٹی‘‘ اور ’’گلشن حدید ہائوسنگ اسکیم‘‘ کے 22 ارب روپے بھی اس کرپشن کی نظر ہوچکے ہیں۔ آپ پاکستان اسٹیل ملز میں ہونے والی کرپشن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کرپشن کی وجہ سے اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اپنے ہی لگائے گئے پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین معین آفتاب شیخ کو برطرف کرنا پڑا تھا۔

ادارے کی تباہی کے پیچھے کارفرما عوامل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل پیپلز ورکرز یونین، سی بی اے کے سیکریٹری اطلاعات مرزا طارق جاوید کا کہنا ہے کہ اس عظیم ادارے کی تباہی کے دو تین عوامل ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ 2008میں دنیا بھر میں آنے والے معاشی بحران نے بہت سے اداروں اور صنعتوں کو دیوالیہ کر دیا تھا اور اس بحران سے دنیا بھر میں اسٹیل کی صنعت پر بھی برے اثرات مرتب کیے تھے۔ ایک وجہ تو یہ ہے اور دوسری سب سے بڑی وجہ 2006میں کی گئی پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کا فیصلہ ہے۔ اُس وقت ہمارے خام مال کے طویل المدتی (لانگ ٹرم) معاہدے ختم کردیے گئے اور ہمیں اسپاٹ چارٹرنگ (بندرگاہ پر آنے والے کسی بھی جہاز سے مال خریدنا)کرنا پڑی، جس سے ہماری پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا، لانگ ٹرم معاہدے میںخام مال کی قیمت بھی نسبتاً کم ہوتی تھی۔ طویل المدتی معاہدے ختم ہونے سے جہاں ہمارے پاس خال مال کی قلت ہوئی تو دوسری جانب معاہدہ منسوخ کرنے پر ہمیں ایک بھارتی کمپنی ’’فومنٹو‘‘کو ایک ارب روپے ہرجانہ بھی بھرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خسارے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ ادارے کی بحالی کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت میں دونوں وزرائے اعظم نے بیل آئوٹ پیکیج منظور کیے لیکن ایک ساتھ نہیں دیے گئے، جس کی وجہ سے ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔ اِس وقت پاکستان اسٹیل ملز کو روزانہ سات کروڑ (دو ارب دس کروڑ ماہانہ ) خسارہ ہورہا ہے۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں سولہ ارب روپے سے زاید کا نقصان تو ویسے ہی ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خسارے کو ہم کسی صورت نہیں روک سکتے، کیوںکہ یہ تو فکسڈ کاسٹ ہے۔ اگر بیل آئوٹ پیکیج بروقت دے دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے میں جانے کے اسباب بیان کرتے ہوئے اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نمااکبر ناریجو نے بتایا کہ ادارے کو اس وقت ایک سو ارب روپے سے زاید خسارے کا سامنا ہے اور اس خسارے میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ مزدور تو اپنی نوکری پر آرہے ہیں لیکن جب خام مال ہی نہیں ہے تو پھر پیداوار کیسے ہوگی۔ اکبر ناریجو نے کہا کہ میں آپ یہ بات دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان اسٹیل کو صرف 30ارب روپے کا بیل آئوٹ پیکیج دیا جائے تو یہ ادارہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا، بل کہ چھے ماہ کے اندر اندر واجب الادا قرضے اتارنا بھی شروع کردے گا، جب کہ اس حوالے سے ’’پاسلو‘‘ کے طارق اعوان نے بتایا کہ ہم ہر حالت میں نج کاری کے خلاف ہیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے باوجود آج پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، کیوں کہ پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور وفاقی حکومت اس کیس میں فریق نہیں ہیں، جس پر ہمارا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل کی وہی انتظامیہ جو کرپشن میں ملوث تھی اب وہی فریق بننے پر تیار نہیں ہے، کیوں کہ یہ ساری کرپشن ملی بھگت کے ساتھ ہوئی ہے، جب کہ سپریم کورٹ کے نیب کو تین ماہ میں اس کیس کی رپورٹ مرتب کرنے کے واضح احکامات کے باوجود آج تک ایسی کوئی رپورٹ جمع نہیں کی گئی، جس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں کی گئی کرپشن پر کچھ نہیں ہوسکے گا، جب کہ بیل آئوٹ پیکیج کی مد میں ملنے والی رقوم بھی اس کرپشن کی نظر ہوچکی ہیں۔

 photo Pakistansteelmill3_zps82d0ba88.jpg

پروڈکشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں طارق جاوید کا کہنا ہے کہ پیداواری صلاحیت تو نہ ہونے کے برابر ہے، ہم نے تو صرف پلانٹ کو زندہ رکھا ہوا ہے، اور ایک بات میں آپ کے علم میں بھی لانا چاہتا ہوں کہ کم پروڈکشن پر پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی تیکنیکی وجہ یہ ہے کہ بلاسٹ فرنیس کو فُل پر چلانے کے لیے 300 ٹن کوک چاہیے، لیکن فرنیس کو صرف زندہ رکھنے (گرم رکھنے) کے لیے 700ٹن کوک چاہیے، کیوں کہ فُل پر چلانے میں پگھلا ہوا کوک پلانٹ کو زیادہ گرم رکھتا ہے۔

اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کے72 ڈیپارٹمنٹس میں سے ’’کوک اوون بیٹری‘‘،’’آئی ایم ڈی‘‘،’’ایس ایم ڈی‘‘،’’ٹی بی پی ٹی بی ایس‘‘، ’’آکسیجن پلانٹ‘‘، ’’ری فیکٹریز‘‘،’’سینٹرنگ‘‘، ’’کولڈ رولنگ مل‘‘،’’ہاٹ رولنگ مل‘‘ اور ’’انجینئرنگ لیب‘‘،’’سی ایم ڈی‘‘ اور ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کے علاوہ کچھ چھوٹے ڈیپارٹمنٹ بھی آپریشنل ہیں۔

ادارے کی نج کاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مرزا طارق جاوید نے کہا کہ نج کاری کبھی بھی مزدور کے مفاد میں نہیں رہی اور خصوصاً پاکستان میں نج کاری کبھی بھی کام یاب نہیں رہی اور اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ہم نج کاری کی ہر شکل کو مسترد کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارے کو خسارے سے نکالنے کے لیے نج کاری ہی واحد حل ہے۔ آپ (حکومت ) کہتے ہیں کہ اسٹیل ملز والے چور ہیں، تو ٹھیک ہے، آپ ہمیں پیسے نہ دیں، ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) بھی خود کھولیں، اپنی مرضی کا سی ای او لے آئیں، بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی اپنا لے آئیں، ہمیں صرف چھے ماہ باقاعدگی سے خام مال فراہم کردیں، اُن چھے ماہ میں ہم آپ کے پیسے ادا کرنے کے ذمے دار ہیں، لیکن موجودہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد سے اسٹیل ملز کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ میں قومی اداروں کی نج کاری کا وعدہ کرکے آئی ہے۔ مرزا طارق کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر پاکستان اسٹیل ملز ہی کیا کسی بھی ادارے کی نج کاری نہیں ہوسکتی۔ 2006 میں پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری ہوچکی تھی، شیئر پرچیز ایگریمنٹ بھی جاری ہوگیا تھا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا، ’’کیوں کہ نج کاری کا فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہے، اس لیے حکومت کا یہ اقدام غیرقانونی ہے۔‘‘

اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نما اکبر ناریجو کا نج کاری کے بارے میں کہنا ہے کہ حکومتِ وقت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ملک کی معیشت اداروں کو قومی تحویل میں دینے سے بہتر ہوگی، لیکن یہ سوچ نہایت غلط ہے اور اس بارے میں ہمارے پاس چین کی بہترین مثال موجود ہے، جہاں تمام صنعتیں حکومت کی ملکیت میں ہیں اور اُس کی معیشت بہت مستحکم ہے۔ دوسری طرف نجی معیشت رکھنے والا ملک یوکرائن گذشتہ چار سال سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ 2013 میں یوکرائن کو باقاعدہ دیوالیہ قرار دیا جارہا تھا، لیکن اُ س کو روس نے 15ارب ڈالر دے کر وقتی سہارا دیا۔ یہ ہمارے حکم رانوں کے لیے بہت بڑی مثال ہے کہ اگر قومی اداروں کو نجی شعبے میں دینے سے ملک ترقی کرتے تو پھر آج یوکرائن کا یہ حال نہیں ہوتا۔ لہٰذا میری حکم رانوں سے یہی درخواست ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری ملکی معیشت اور اُس کے ملازمین کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔

اس ادارے کو خسارے سے نکالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کرپٹ انتظامیہ کو ہٹاکر ایمان دار انتظامیہ لائی جائے اور اُسے مطلوبہ بیل آئوٹ پیکیج دیا جائے تو چھے ماہ کے اندر اندر یہ ادارہ نہ صرف منافع میں آجائے گا، بلکہ اقساط میں اپنا قرضہ بھی اتارنے کا اہل ہوجائے گا، لیکن اگر پاکستان اسٹیل ملز کو نج کاری کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ پاکستان اسٹیل ملز بل کہ ’’پی آئی اے‘‘ اور ’’او جی ڈی سی ایل‘‘ سمیت نج کاری کی فہرست میں شامل تمام اداروں کے ملازمین ملک بھر میں بھرپور احتجاج کرتے ہوئے بیک وقت پورے ملک کو جام کردیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ نج کاری کے زہریلے انجکشن لگانے کے بجائے ملکی اداروں کو کرپٹ عناصر سے پاک کرکے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ سابق حکومت نے آئی ایف سے شرائط کے باوجود کوئی ادارہ فروخت نہیں کیا، لیکن آئی ایم ایف ہی کے لگائے گئے وزیر خزانہ شیخ حفیظ اور جہانگیر ترین نے بروقت بیل آئو ٹ پیکیج نہ دے کر قومی اداروں کو ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا اور موجودہ حکم راں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دبائو پر پاکستان کے تما م بڑے اداروں کو نج کاری کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔

 photo Pakistansteelmill4_zps3732fcde.jpg

اکبر ناریجو نے کہا کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل میں لوٹ مار ہوئی ہے، لیکن چند افراد کی بدعنوانی کی سزا اس ادارے سے وابستہ ہزاروں ملازمین کو نہ دی جائے۔ ہم تمام ملازمین کی جانب سے لوٹ مار کرنے والے عناصر کے کڑے احتساب اور سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کے تمام محنت کش حکومت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے کسی صورت نج کاری نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک مہینے کا خام مال موجود ہے اور حکومت کہہ چکی ہے کہ اب پاکستان اسٹیل ملز کو مزید رقم فراہم نہیں کی جائے گی۔ ایسا ہوا تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو بیچنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہے، کیوں کہ اسٹیل مل اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے اور اس کے لیے مناسب بیل آئو ٹ پیکج کی منظوری کے لیے کوششیں نہیں کی گئیں تو ایک دن اس ادارے کے دیوالیہ پن کا اعلان کر دیا جائے گا، اور ہزاروں محنت کشوں کے گھر کے چولہے بجھ جائیں گے۔ میں آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ نج کاری کی صورت میں اس ادارے کی صرف تباہی ہی ہے، حکومتِ وقت اپنے دوستوں، رشتے داروں، سرمایہ داروں کو نوازنا چاہتی ہے۔

ان سب کی نظریں پاکستان اسٹیل ملز کی قیمتی زمین پر ہیں۔ یہ سب پاکستان اسٹیل ملز اور اُس کے ملازمین کو تباہ و برباد کردیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف لیبر ونگ کے چیف آرگنائزر تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ ہم نج کاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے کیوں کہ یہ ہم تمام مزدوروں کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف اور ہمارا معاشی قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ یہ (حکومت) نج کاری کی آڑ میں اسٹیل ملز کی قیمتی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کرنا چاہتے ہیں صرف زمین کی قیمت ہی کھربوں میں ہیں اور ستر کی دہائی میں پاکستان اسٹیل ملز کا پلانٹ 25 ارب روپے میں لگایا گیا تھا۔ اُس وقت ایک ڈالر کی قیمت پاکستانی چار روپے کے برابر تھی اور آج 105سے زاید ہے، جس سے آپ خود پاکستان اسٹیل ملز کی مالیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے اور بچانے کے لیے مزدور یونینز اور ورکرز کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے اور آج تن خواہیں نہ ملنے پر بھی وہ ادارے کے ساتھ مخلص ہیں، جب کہ موجودہ حکومت نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو 7سے 8 کروڑ روپے روزانہ نقصان ہو رہا ہے تو حکومت نے یہ سب جانتے ہوئے بھی سات ماہ سے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے، ہم حکومت سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ سوا ارب روپے ماہانہ نقصان کس کے کھاتے میں ڈالا جائے؟ یہ سب جانتے بوجھتے بھی حکومت کوئی بیل آئوٹ پیکیج کیوں نہیں دے رہی؟ ہمیں تو تن خواہیں بھی قرضے کی مد میں دی گئی ہیں۔

حکومت آج بیل آئوٹ پیکیج دیں ہم ایک ہفتے میں پروڈکشن 50 فی صد سے زاید کردیں گے۔ قانون داں اور پاکستان اسٹیل ملز کی مزدور یونین ’’پروگریسیوورکرز یونین‘‘ کے سابق جنرل سیکریٹری محمد مشفع کا کہنا ہے کہ یہ حبیب بینک یا یوبی ایل نہیں ہے، جسے آپ نجی ادارے کو فروخت کر کے فارغ ہوجائیں، پاکستان اسٹیل ملز ملک کا واحد فولاد ساز ادارہ ہے، جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب 26ہزار ملازمین ہونے کے باوجود یہ ادارہ منافع میں تھا، اس ادارے نے ایک وقت میں سو فی صد پروڈکشن بھی دی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری مسئلے کا حل نہیں ہے اور میں یہ سمجھتا ہو کہ اسے بیچنے کے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں کی نظریں پاکستان اسٹیل ملز کی اربوں روپے مالیت کی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر ہے، نج کاری کی صورت میں اس قیمتی زمین کو بیچ کر ادارے کو ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ محمد مشفع کا کہنا ہے کہ اس ادارے کو خسارے سے نکالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اسے سمجھ دار اور ایمان دار افسران/ بیوروکریٹ کے حوالے کیا جائے، اس کی زمینوں پر ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹریز‘‘ لگائی جائیں، تو یہ دوبارہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا شروع کردے گا۔

 photo Pakistansteelmill5_zps8848d6b4.jpg

پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے بارے میں مرزا طارق جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی ورک فورس بہت تربیت یافتہ اور اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہے اور آپ نے ایسے ورکر کہیں نہیں دیکھے ہوں گے جو تن خواہ سے پہلے خام مال کا پوچھتے ہیں، بس سے اترتے ہی اُن کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ’’ کہیں کوئی شپ لگا ہے؟‘‘، ہم سب اپنے ادارے سے محبت کرتے ہیں اور اس ادارے نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے بارے میں اکبر ناریجو اور اور مرزا طارق جاوید کا موقف ایک ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے پاکستان اسٹیل ملز وہ ادارہ ہے جہاں پچھلے پانچ سالوں میں سیاسی بنیادوں پر ایک بھی بھرتی نہیں کی گئی ہے اور جن 5 ہزار سات سو ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے وہ پندرہ، بیس سالوں سے ڈیلی ویجز پر کام کر رہے تھے۔ طارق جاوید کا کہنا ہے کہ اب تو کُل ملازمین کی تعداد ہی پندرہ ہزار ہے، اگلے پانچ سالوں میں ہمارے پانچ ہزار ملازمین ویسے ہی ریٹائر ہو رہے ہیں تو پھر ملازمین ادارے پر کہاں سے بوجھ ہیں۔ آج ہمارے ملازمین کی تن خواہ دوسرے اداروں سے زیادہ ہے۔ ہمارے ایک چپڑاسی اور ڈرائیور کی تن خواہ 35 ہزار ہے لیکن وہ ادارے پر بوجھ نہیں ہے۔ ماضی میں تو پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد 25ہزار سے زاید تھی اور اس کے باوجود ادارہ منافع میں تھا۔

ملازمین کو دست یاب طبی سہولتوں کے حوالے سے اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نما یاسین جاموٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین طبی سہولیات سے مکمل طور محروم ہیں۔ نہ انہیں دوائیں مل رہی ہیں اور نہ ہی پینل پر موجود ہسپتال اُن کا علاج کر رہے ہیں۔ اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی پینل پر موجود ہسپتال مریض کو طبی امداد فراہم نہیں کر رہے، جب کہ تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ تن خواہوں کی عدم ادائیگی پر ملازمین بہت کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ زیادہ تر ملازمین کے بچوں کو فیس نہ دینے پر اسکولوں سے نکال دیا گیا ہے، اُن کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ میں 27 ملازمین دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر چکے ہیں، آپ اس بات کی تصدیق پاکستان اسٹیل ملز کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ سے بھی کر سکتے ہیں اور حال ہی میں ہمارے سی آر ایم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی شریف بھٹو بھی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز کی موجودہ مالی حالت کے بارے میں پاکستان اسٹیل ملز کی ’’پروگریسیو ورکرز یونین‘‘ کے سابق جنرل سیکریٹری محمد مشفع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز ایک ’’مدر انڈسٹری‘‘ ہے اور یہاں میں ایک بات یہ واضح کردوں کہ کسی بھی ملک میں مدر انڈسٹری کما کر نہیں دیتی بلکہ اس کی کمائی ’’ڈائون اسٹریم اسٹیل انڈسٹری ‘‘ ہوتی ہے، جس سے آپ اسٹیل ملز میں بننے والے فولاد سے سوئی سے لے کر جہاز تک بناسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کے وقت ہزاروں ایکڑ زمین بھی فراہم کی گئی تھی، جس کا مقصد وہاں ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹری‘‘ کا قیام تھا، لیکن بھٹو حکومت کے بعد آمر ضیاء الحق کی حکومت نے وہاں ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹری‘‘ نہیں بنائی اور مفاد پرست عناصر نے اس ادارے کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی ذمے دارالحکومت ہے، کیوں کہ اس ادارے کے اعلیٰ عہدوں پر نان ٹیکنیکل اور نا اہل افراد بٹھا دیے گئے۔ اُس وقت پاکستان اسٹیل ملز کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے میں عابد حسین مرحوم اور حق نواز اختر کا اہم کردار تھا، کیوں کہ یہ دونوں افسران منجھے ہوئے اور ایمان دار بیوروکریٹ تھے۔ ادارے کی معاشی بدحالی میں مزدور یونینز کے کردار پر محمد مشفع کا کہنا ہے کہ مزدور یونینز مزدوروں اور انتظامیہ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتی ہیں اور پاکستان اسٹیل ملز کی حدود میں آج تک مزدوروں کی وجہ سے کوئی بڑا دنگا فساد نہیں ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پُر امن یونین ہے، ادارے کی موجودہ صورت حال کی ذمے داری کافی حد تک انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے تو اس میں کچھ کردار یونین کی عاقبت نااندیشی کا بھی ہے۔

 photo Pakistansteelmill6_zps765d78f6.jpg

’’گھر ادھار پر چل رہا ہے‘‘

پاکستان اسٹیل ملز میں بہ طور ڈرائیور کام کرنے والے علی محمد کا کہنا ہے کہ میرے 5 بچے ہیں اور سب زیرتعلیم ہیں، چھوٹی بچی کے اسکول والوں نے نوٹس دیا ہوا ہے کہ فیس جمع نہ کروانے پر اسے اسکول سے نکال دیا جائے گا، صرف 2 ہزار امتحانی فیس جمع نہ کرنے پر ایک بیٹا میٹرک کا امتحان نہیں دے سکا اور اس کا قیمتی سال ضایع ہوگیا، بڑے بیٹے کی پڑھائی چھڑوا کر اُسے کام سیکھنے پر لگا دیا ہے، کیوں کہ میرے پاس اُس کی کالج کی فیس بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، مالک مکان نے اگلے ماہ گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے، کیوں کہ اُسے دیا گیا ایڈوانس بھی ختم ہو چکا ہے اور دو ماہ کا کرایہ بھی مجھ پر قر ض ہو گیا ہے۔ علی محمد کا کہنا ہے ہمارے گھر کا دال دلیہ صرف ادھار پر چل رہا ہے۔ علی محمد نے بتایا کہ ابھی جو تنخواہ ملی وہ لوگوں کے ادھار میں چلی گئی اور اب صرف اﷲ کا ہی آسرا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود علی محمد کو پاکستان اسٹیل کے حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ علی محمد کا کہنا ہے کہ اِس ادارے میں ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ایک سال میں دو بونس ملتے تھے، تن خواہ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی مل جایا کرتی تھی۔

دل کش سراپا، پُراعتماد شخصیت

$
0
0

انسانی تہذیب کے آغاز ہی سے عورت اپنا معاشی کردار ادا کرتی آئی ہے، جس کی ابتدا کھیتوں کھلیانوں میں کام اور دست کاری سے ہوئی تھی۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دیہی سماج کی معاشی زندگی نسوانی ہاتھوں کی محنت ہی سے نمو پاتی ہے، مگر شہری معاشروں میں صنف نازک ایک عرصے تک صرف امورخانہ داری نبھاتی رہی، لیکن گذشتہ صدی کے دوران خاص طور پر مغرب میں آنے والی فکری تبدیلی اور صنعتی انقلاب نے ہر شعبے میں عورت کو مرد کے شانہ بہ شانہ لاکھڑا کیا۔

ہمارے شہری معاشرے میں ایک عرصے تک عورت کا معاشی کردار بہت محدود تھا، لیکن اب ایسا نہیں۔

کارخانوں میں اپنی محنت کے جوہر دکھانے سے دفاتر میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار تک اب حوا کی بیٹی ہمارے ہاں ہر شعبے میں متحرک ہے اور خود کو منوا رہی ہے۔ یوں وجود زن ثابت کر رہا ہے کہ وہ تصویر کائنات میں رنگ ہی نہیں، قوموں کی معاشی تگ ودو میں بھی پوری طرح شریک ِ کار ہے۔

خاص طور پر نجی اداروں میں خواتین کی بہت بڑی تعداد اہم مناصب پر فائز رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں بہ خوبی نبھارہی ہے۔ بالخصوص انتظامی امور نبھاتے اور مَردوں کے درمیان رہ کر کام کرتے ہوئے ایک عورت جس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے صلاحیتوں کے ساتھ لباس بھی عطا کرتا ہے۔

اس حوالے سے مغربی طرز کے ملبوسات خاص کر پینٹ شرٹ نسوانی وجود کو اعتماد کا بھرپور احساس دیتے ہیں۔ جدید تراش خراش کے یہ لباس اعتماد کے ساتھ شخصیت کو دل کشی اور وقار بھی عطا کرتے ہیں۔

جنھوں نے بنایا امیتابھ بچن کو بگ بی

$
0
0

امیتابھ بچن ہندی سنیما کے وہ وراسٹائل اداکار جنہوں نے چار دہائیوں تک انڈین فلم انڈسٹری پر حکم رانی کی اور آج بھی اس فلم نگری پر چھائے ہوئے ہیں۔

اب تک تقریباً ایک سو اسی فلمیں کرنے والے امیتابھ کو لوگ اینگری ینگ مین کے نام سے بھی پکارتے ہیں، انہوں نے اب تک بے شمار کردار کیے ہیں اور فلم ہٹ ہو یا نہ ہو وہ اپنے رول سے پورا انصاف کرتے ہیں۔ ایک فرانسیسی ڈائریکٹر Francois Truffautنے انہیں ون مین انڈسٹری کا خطاب دیا۔ وہ بولی وڈ میں ہر آنے والے کے لیے ایک انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے ہیں۔ فلم ’’پا‘‘ میں امیتابھ کے کردار کے لیے برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ اس فلم پر امیتابھ کو بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے تھا۔ دلیپ کمار کے یہ الفاظ امیتابھ کے لیے ایوارڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔

وہ اب تک لاتعداد چھوٹے بڑے ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ صرف فلم فیئر میں بہترین اداکار کے لیے ان کی 39 بار نام زدگی ہوچکی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ہندی سنیما کی گراں قدر خدمات پر پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ وہ اداکاری کے علاوہ وہ گلوکاری، پروڈکشن، ہوسٹنگ اور صدا کاری کے میدان میں بھی کام یابی حاصل کرچکے ہیں۔ 2013 میں امیتابھ نے ہالی وڈ میں فلم The great gatsbyسے کام شروع کیا، جس میں انہوں نے Meyer wolfsheimکا رول کیا تھا۔امیتابھ کو اپنی بھاری اور گمبھیر آواز کا بھی ہمیشہ ایڈوانٹیج رہا۔ سب سے پہلے ہدایت کار ستیہ جیت رے نے اپنی فلم شطرنج کے کھلاڑی میں ان کی پس پردہ آواز ریکارڈ کی۔ اس کے بعد وہ کئی ہندی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگا چکے ہیں۔ ایک فرنچ ڈوکومینٹری فلم MARCH OF THE PENGUINمیں ان کی آواز ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس فلم کو 2005 میں آسکر ایوارڈ مل چکا ہے۔

امیتابھ کی کام یابی میں ان کی ان تھک محنت، لگن، شوق اور وقت کی پابندی کے ساتھ کچھ لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔ ان میں سر فہرست وہ ہدایت کار ہیں جنہوں نے امیتابھ کے اندر چھپی صلاحیتوں کو عوام کے سامنے آشکار کیا۔ ان سے مختلف قسم کے کردار کرائے، جن کی بدولت وہ آج اس مقام پر پہنچے۔ اس مضمون میں امیتابھ کے ابتدائی دور کے ان نام ور ہدایت کاروں کا تذکرہ کیا جارہا ہے، جن کے ساتھ کام کرکے خود امیتابھ نے بھی ہمیشہ فخر محسوس کیا اور اپنی پہچان بنائی۔

٭ہری کیش مکرجی: ہری کیش کے ساتھ امیتابھ نے نو فلمیں کیا انہوں نے امیتابھ سے ہلکے پھلکے رومانوی کردار کرائے جوان کے اینگری ینگ مین کے امیج سے بالکل الگ تھے۔ ان کی فلموں کے ذریعے عوام ایک نئے امیتابھ سے متعارف ہوئے۔ ہری کیش نے اپنی ہر فلم میں امیتابھ سے مختلف رول کرایا، جس میں مزاح سے لے کر ایک حاسد نوجوان تک کے کردار تھے۔

چُپکے چُپکے، ملی، ابھیمان اور ہریشادہ میں امیتابھ ایک الگ رنگ میں نظر آئے۔ انہوں نے اپنے کسی بھی کردار پر ڈائریکٹر کو مایوس نہیں کیا۔ ہریشادہ میں ان کا کردار ایک ایسے انسان کا تھا جو زندگی کے ہر میدان میں جدوجہد کرتا ہے اور دوسروں کی مصیبت کے وقت ان کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اس کردار کو خود امیتابھ اپنا یادگار کردار کہتے ہیں۔

٭پرکاش مہرہ: جس ڈائریکٹر کی وجہ سے امیتابھ کا نام گھر گھر جا نا جانے لگا ان کا نام پرکاش مہرہ ہے اور ا س بات کے لیے امیتابھ یقیناً ان کے شکر گزار ہیں۔ 1973میں پرکاش مہرہ نے زنجیر بنائی اور اس میں امیتابھ کو سب کی مخالفت کے باوجود کاسٹ کیا ان کے قریبی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس لمبے دبلے لڑکے کو اپنی فلم میں مرکزی کردار میں کاسٹ کر کے وہ خود کا بہت بڑا نقصان کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے پرکاش مہرہ اس رول کے لیے دھرمیندر کو آفر کرچکے تھے، لیکن انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے انکار کردیا اور دھرمیندر کی سفارش پر، پرکاش نے یہ کردار امیتابھ سے کروایا اور سب ہی جانتے ہیں کہ زنجیر نے ریلیز ہو کر مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور اس فلم کی کام یابی نے ان لوگوں کے منہ بند کردیے، جو امیتابھ کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے۔ اس فلم میں امیتابھ نے ایک ایمان دار اور سچے پولیس آفیسر کا یادگار کردار کیا تھا۔ اس کے بعد جن جن اداکاروں نے پولیس آفیسر کے کردار کیے ان سب میں امیتابھ کے اس کردار کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔ اس کام یابی کے بعد پرکاش مہرہ نے امیتابھ کے ساتھ کئی اور بلاک بسٹر فلمیں کی جیسے لاوارث، مقدر کا سکندر، نمک حلال اور شرابی وغیرہ۔

٭من موہن ڈیسائی: امیتابھ بچن کے تمام ڈائریکٹرز میں صرف من موہن ڈیسائی وہ ڈائریکٹر تھے جو امیتابھ پر حاوی رہتے تھے اور خود امیتابھ بھی من موہن ڈیسائی کے بارے میں یہ ہی کہتے تھے کہ جب میں ڈیسائی جی کی کسی فلم کے سیٹ پر ہوتا تھا تو میری لگامیں ان کے ہاتھ میں ہوتی تھیں۔ ڈیسائی جی وہ واحد ڈائریکٹر تھے جن کے کسی بھی فیصلے سے بگ بی نے انحراف نہیں کیا۔ امیتابھ اور ڈیسائی جی کے اشتراک سے کئی ایسی فلمیں بنیں جنہوں نے گولڈن جوبلی منائی۔ ان کی فلمیں مکمل طور پر فلمی مسالے اور تفریح سے بھر پور ہوتی تھیں جیسے کہ پرورش، امر اکبر انتھونی، سہاگ، نصیب، دیش پریمی، قلی، مرد، گنگا جمنا سرسوتی اور طوفان قابل ذکر ہیں۔

٭یش چوپڑہ: اس سے پہلے امیتابھ نے جتنے بھی کردار کیے تھے وہ یا تو ہلکے پھلکے نیم مزاحیہ نوعیت کے تھے یا پھر پولیس آفیسر کے کردار نبھائے تھے، لیکن یش چوپڑہ نے آڈینس کے سامنے اپنی فلموں کے ذریعے ایک نئے امیتابھ کو متعارف کرایا۔ یش جی نے بگ بی کے لیے خصوصی کردار لکھوائے، جن میں سے اکثر کردار احساس کمتری کے شکار ایسے نوجوان کے رول ہوتے تھے جو اپنی بقاء کے لیے معاشرے میں سروائیو کرتا ہے۔ امیتابھ کے یہ کردار بھی لوگوں نے پسند کیے اور خود بگ بھی نے ڈائریکٹر کے کہے میں خود کو ڈھال کر ثابت کیا کہ واقعی وہ ہو طرح کے رول بڑی عمدگی سے ادا کر سکتے ہیں۔ ان دونوں کی سپرہٹ فلم دیوار جس کے ڈائیلاگ اور پرفارمنس آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اس کے علاوہ ترشول، کالاپتھر ان کی یاد گار فلمیں ہیں۔ یہی نہیں یش چوپڑہ نے امیتابھ سے فلم سلسلہ اور کبھی کبھی میں رومانٹک رول کروائے اور یہاں بھی امیتابھ نے اپنے ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ آڈینس کو بھی مایوس نہیں کیا اوربتا دیا کہ وہ واقعی انڈسٹری کے سپر اسٹار اور اینگری ینگ مین ہیں۔

٭رام گوپال ورما: ایک لمبے عرصے کے بعد امیتابھ کو بالکل نئے انداز میں انڈسٹری میں متعارف کرانے والے ڈائریکٹر رام گوپال ورما ہیں۔ امیتابھ نے جب بڑھتی عمر کے باعث فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد ٹی وی کا رخ کیا تب را م گوپال نے انہیں اپنی فلم سرکار کی آفر کی امیتابھ اپنی موجودہ پوزیشن کے باعث یہ کردار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، جب کہ دوسری طرف رام گوپال کا پرانا سپنا تھا کہ وہ بگ بی کے ساتھ کام کریں۔

اسی لیے رام گوپال ورما کے بے حد اصرار پر وہ یہ فلم کرنے پر تیار ہوگئے اور آڈینس نے امیتابھ کے اس تبدیلی اور کردار کو بہت سراہا۔ یہ فلم سپر ہٹ ہوئی اور اس کے بعد اسی فلم کے سیکیوئل سرکار ٹو میں بھی امیتابھ نے کام کیا سرکار کے بعد بگ بی نے رام گوپال کی اگلی فلم نیشبدھ میں ایک ایسے آدمی کا رول کیا جسے اپنی بیٹی کی دوست کے ساتھ پیار ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی بگ بی نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔

کیا آپ کی یادداشت کمزور ہو رہی ہے؟

$
0
0

یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ روز مرہ معمولات میں کچھ ایسے کام بھول جاتے ہیں کہ جو کرنا ضروری ہوتے ہیں اور بعدازاں پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

کچھ لوگ تو اتنے بھلکڑ ہوتے ہیں کہ بار بار یاددہانی کے باوجود بھی بھول جاتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ’’نسیان‘‘ کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک روزمرہ کے معمولات حتیٰ کہ تھوڑی دیر پہلے کہی ہوئی باتیں بھی بھول جاتی ہیں۔ بعض اوقات ’’نسیان‘‘ کا یہ عارضہ سخت خفت اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔آخر کار لوگ اس عارضہ سے نجات کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔ آیئے آج ہم آپ کو ایسی خوراک کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس کے استعمال سے نہ صرف آپ کی دماغی قوت میں اضافہ ہو گا بلکہ ڈاکٹر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ نسیان کا مرض بھی نہیں ہو گا اور آپ ادویات کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔

اخروٹ:۔بغور دیکھیں تواخروٹ کی بناوٹ بھی انسانی دماغ کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں وٹا من ای کی بہتات ہوتی ہے جو الزائمر جیسی خطرناک بیماری کے خلاف بھی مدافعت فراہم کرتی ہے۔

’’شکاگو رش یونیورسٹی‘‘ میں 6000 تندرست افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق یہ لوگ صرف اس لئے نسیان اور الزائمر جیسے امراض سے محفوظ رہے کہ انہوں نے زندگی بھر وٹا من ای سے بھرپور خوراک کا استعمال کیا۔

انڈے:۔انڈے کی افادیت سے کس کو انکار ہے۔ یہ ایک مکمل غذا ہے۔انڈے کی زردی میں ایک مادہ ’’کولائن‘‘ ہوتا ہے جو دماغی طاقت کے لئے مفید ہے۔

یہ یاداشت کو قائم رکھنے اور دماغ کے خلیوں کی آپس میں پیغام رسانی کے عمل کو تیز کرنے میں ممدو و معاون ثابت ہوتا ہے۔ روزانہ ایک انڈہ کھانے والے افراد کا آئی کیو لیول بھی دیگر افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

سبزپتوں والی سبزیاں:۔کسے معلوم نہیں کہ سبزیاں صحت و قوت کا خزانہ ہیں۔

عمر رسیدہ عورتوں پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ عورتیں جنہوں نے زندگی بھر سبزپتوں والی سبزیوں کا متواتر استعمال کیا‘ ان کی یادداشت اور ذہنی استعداد کار ان خواتین کی نسبت بہتر تھی کہ جنہوں نے سبزیاں کھانے سے اعراض برتا۔ ان سبزیوں میں بند گوبھی‘ گوبھی‘ پالک‘ کھیرے‘ سبز پیاز اور سبز لہسن وغیرہ شامل ہیں۔

مچھلی:۔دماغی طاقت کے لئے اومیگا۔3 سے بڑھ کر شاید ہی کوئی چیز کارآمد ہے۔

اگر جسم میں اومیگا۔3 کی مقدار کم ہو تو یہ دماغ کی خراب کارکردگی پر منتج ہوتی ہے۔ اومیگا۔ 3 سرد پانی کی مچھلیوں کی مخصوص اقسام میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً سلیمون اور ٹراؤٹ ایسی مچھلیاں ہیں کہ جن میں اومیگا ۔3 پایا جاتا ہے۔ یہ دماغی استعداد کار اور دماغ کے باہم متصل افعال کو بہترین بناتا ہے۔

پروٹین سے بھرپور غذا صحت کی ضامن
موٹاپا ایک ایسا مرض ہے کہ جو دیگر امراض کو دعوت دیتا ہے مثلاً شوگر‘ بلڈ پریشر‘ تھکاوٹ اور دل کے امراض وغیرہ۔ ہر مردو زن موٹاپے سے خوفزدہ رہتا ہے اور خاص طور پر خواتین کو احساس ہو جائے کہ ان کا وزن بڑھ رہا ہے تو ڈائٹنگ کے نام پر فاقے شروع کر دیئے جاتے ہیں اور پروٹین اور فیٹس فراہم کرنے والی خوراک پر بھی لمبی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔

مگر اس حقیقت کا ادراک چند افراد کو ہی ہے کہ پروٹین ہمارے جسمانی و ذہنی افعال کے تسلسل کے لئے بے حد ضروری ہے ورنہ جسم مضمحل ہوجاتا ہے اور اس کے افعال میں سستی در آتی ہے۔ آیئے آج ہم کو کچھ ایسے ٹپس دیتے ہیں کہ جن پر عمل کر کے آپ کا وزن بھی نہیں بڑھے گا اور آپ کے جسم کو مناسب پروٹین اور فیٹس بھی ملتے رہیں گے۔

سوپ میں پھلیاں استعمال کریں
پھلیوں سے مراد وہ تمام خوردنی اشیاء ہیں جن میں پھلیاں موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً لوبیا‘ مٹر‘ رواں وغیرہ یہ بازار سے ڈبوں میں بآسانی دستیاب ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر پھلیوں کی جگہ گوشت استعمال کیا جاتا ہے جو کہ موٹاپا پیدا کرتا ہے اور دیر سے ہضم ہوتا ہے۔

آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ اپنے سوپ میں گوشت کی جگہ پھلیاں استعمال کریں۔ ایک تو اس سے آپ کے جسم کی پروٹین سے متعلق غذائی ضروریات بھی پوری ہوں گی جبکہ یہ زود ہضم بھی ہیں اور جسم کو موٹاپے کی طرف بھی مائل نہیں کرتیں۔

دلیے میں دودھ استعمال کریں
اگر آپ کم کیلوریز کے حصول کی خاطر دلیے کو پانی میں بناتے ہیں تو ہماری نصیحت ہے کہ پانی کی جگہ دلیے میں دودھ استعمال کریں۔

اس سے نہ صرف آپ کی خوراک میں صحتمند پروٹین شامل ہو گی بلکہ آپ کا کھانا بھی ذائقہ بخش ہو جائے گا۔ اگر آپ کو یہ منظور نہیں تو آدھا دودھ اور آدھا پانی استعمال کرلیں۔ یقین مانیے یہ ایک صحت بخش اور متوازن کھانا ہے۔

سلاد میں انڈھ شامل کریں
ایک انڈے میں عمومی طور پر 6 گرام پروٹین شامل ہوتی ہے۔ اگر آپ سلاد میں ایک انڈا بھی شامل کر لیں تو ایک مکمل صحت بخش غذا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آپ اسے ابال کر‘ فرائی کرکے غرضیکہ اپنی منشاء اور پسند کے مطابق ڈھال کر سلاد میں شامل کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کے جسم کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین بھی فراہم کر ے گا جبکہ سلاد کا ذائقہ بھی لذیز ہو جائے گا۔

فروٹ اور پنیر
اگر آپ پھل کھانا چاہتے ہیں تو اس میں کم فیٹس کی حامل پنیر بھی مناسب مقدار میں شامل کر لیں۔ کم فیٹس والی پنیر بازار سے بآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ سیب کھانا چاہتے ہیں تو اس میں پنیر شامل کر لیں۔ اس سے ذائقہ بھی بہتر ہو گا جبکہ آپ کا وزن بھی قابو میں رہے گا اور آپ کے جسم کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین بھی مل جائے گی۔

ناشتے کے ساتھ پی نٹ بٹر
اگر آپ کاناشتہ آپ کے پسندیدہ پھلوں پر تو مشتمل ہے مگر اس میں پروٹین شامل نہیں ہے تو پھر یقیناً دوپہر کے کھانے سے قبل ہی آپ کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگیں گے۔ آپ کو شدید بھوک کا احساس ہو گا جو آپ کے معمولات کو متاثر کرے گا۔

اس لئے بہتر ہے کہ آپ ناشتے میں دو چمچ پی نٹ بٹر(Peanut Butter) بھی استعمال کریں جو آپ کو 8 گرام کے قریب صحت بخش پروٹین فراہم کرے گا ۔ اس طرح آپ کو لنچ سے پہلے شدید بھوک کا احساس بھی نہیں ہو گا اور آپ اپنے معمولات بھی چستی اور مستعدی سے سرانجام دے سکیں گے۔

کھانوں میں بیج استعمال کریں
سورج مکھی‘ خربوزے‘ حلوہ کدو وغیرہ کے بیج اور تل پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اگر آپ کھانے کی ڈشز بنانے کے بعد ان پر مناسب مقدار میں بیج ڈال دیں تو اس سے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک تو کھنے کا ذائقہ بہتر ہو جائے گا‘ پھر آپ کے بدن کو مطلوبہ صحت بخش پروٹین مل جائے گی جبکہ آپ کو موٹاپے کا خوف بھی تنگ نہیں کر ے گا۔

بادام
بادام کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔

آپ انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی کھانے کے ساتھ ملا کر کھا سکتے ہیں جبکہ اکیلے بادام کھانا بھی دماغ اور صحت کے لئے بہترین ہیں۔ انھیں لازماً اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔

دہی
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی ایک غالب تعداد کھانے کے بعد میٹھے کو پسند کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے کیک‘ بسکٹ‘ پیسٹری اور دیگر چینی سے بنی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں جو موٹاپے اور امراض کو دعوت دیتی ہیں۔

بہتر ہے کہ میٹھے کے شوقین افراد دیگر مضر صحت میٹھی اشیا کی جگہ میٹھا دہی استعمال کریں۔ بازار میں کئی مختلف ذائقوں میں میٹھا دہی بآسانی دستیاب ہے۔ اس طرح میٹھا کھانے کی طلب بھی پوری ہو جائے گی، جسم کو پروٹین بھی مل جائے گی جبکہ وزن بڑھنے کا خوف بھی جاتا رہے گا۔

برقی آلات:بچوں کے بولنے میں تاخیر کی وجہ
سائنس داں کہتے ہیں کہ الیکٹرونک مصنوعات کا بڑھتا ہوا استعمال بچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنے میں دقت محسوس کرنے کا ذمہ دار ہے۔

تحقیق دانوں کے مطابق بچے کے لیے ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ یہیں سے وہ ماں کی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرانا اور اس کے ہنسنے پر قلقاریاں مارنا سیکھتا ہے۔ یہ فطری تعلق اسے ماں کی ذات کا اس قدر عادی بنا دیتا ہے کہ وہ ماں کے نزدیک ہونے پر خوش اور دور جانے پر غمگین دکھائی دیتا ہے۔بچے کا فطری مطالبہ تو آج بھی وہی ہے، مگر معاشی مسائل میں الجھے ہوئے والدین کی ترجیحات پہلے کی نسبت بدل چکی ہیں۔ا ن کے پاس اپنے بچے سے باتیں کرنے اور اس کے معصوم سوالوں کا جواب دینے کے لیے وقت نہیں بچتا۔گذشتہ برس برطانوی ادارہ برائے تعلیم کی جانب سے اسکول کے بچوں میں زبان سیکھنے کی صلاحیت اوربات چیت کرنے کی اہلیت جاننے کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔

تحقیق دانوں کے مطابق گذشتہ چھ برسوں کے دوران بات کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچوں کی تعداد میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے بچوں کو اسکول میں ایک ماہر زبان دان کی ضرورت پڑتی ہے۔تحقیق دانوں نے بچوں میں دیر سے بولنے اور بات کرنے میں دقت محسوس کرنے کا الزام گھروں میں الیکڑونک مصنوعات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیا ہے۔اسکرین بیسڈ الیکٹرونک مصنوعات کو ہر بچے والے گھر میں ایک سستے ‘بے بی سٹر’ کی حیثیت حاصل ہے، جہاں بچوں کو گھنٹوں ٹی وی، کمپیوٹر، ویڈیو گیم کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مگر ا ن کا حد سے بڑھتا ہوا استعمال بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، خصوصاً کمسن بچے جن کے سیکھنے کے لیے ابتدائی دو سال بہت اہم ہوتے ہیں۔’’بیٹر کمیونیکیشن ریسرچ‘‘ پروگرام کے نام سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کلاس میں بات چیت کرنے میں دقت محسوس کرنے والے بچے جن کی عمریں پانچ سے16 سال کے درمیان ہے، کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو ہے لہٰذا ایسے بچوں کو اسکول میں زبان کی مشقیں کرائی جاتی ہیں، جبکہ ان بچوں میں سیکھنے کا عمل بھی عام بچوں کی نسبت سست ہوتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک ابتدا میں بچے کے گھرکا ماحول اسے زبان سیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے،جس میں بچے کے ساتھ ماں کا برتا ؤ، اہل خانہ کا بچے کے ساتھ لگاؤ اور گھر کا سماجی ماحول شامل ہے۔ برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ‘ آئی کین’ نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں دیر سے بات شروع کرنے کے مسئلے کی کئی اور وجوہات بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مثلاً بچے کی مخصوص ذہنی کیفیت، عادت اور اس کے اطراف کا ماحول بھی بچے کی بولنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔کام پر جانے والے والدین جن کے پاس بچوں کے ساتھ پارک جانے یا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے وقت نہیں ہوتا وہ خود کو سماجی حلقے کی گہماگہمی سے دور کرلیتے ہیں۔ان تھکے ماندے والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال میں، بچوں کو ٹی وی پر ان کا پسندیدہ کارٹون شو کئی کئی گھنٹے دکھایا جاتا ہے۔اسی طرح کچھ والدین اپنے سات آٹھ سال کے بچوں کے ہاتھوں میں ویڈیو گیم اور اسمارٹ فون تک تھما دیتے ہیں۔لہذا تنہائی کے زیراثر پلنے والے بچے بڑے ہونے کے بعد بھی بات چیت کرنے میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح بچوں والے گھروں میں مل کر دستر خوان پر کھانا کھانے، سردیوں کی راتوں میں ایک ہی کمرے میں جمع ہو کر لوڈو یا کیرم کی بازیاں کھیلنے جیسی خاندانی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیں اور یہی عوامل بچوں کے بولنے کی صلاحیت پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

بُک شیلف

$
0
0

 کچھ لکھ نہ سکے‘ کچھ لکھ بھی گئے (طنز و مزاح)
مصنف:ایس ایچ جعفری
ناشر:الحمد پبلی کیشنز G-42 گلشن اردو بازار، گلشن اقبال کراچی
صفحات: 176،قیمت200:روپے

ایس ایچ جعفری، بنیادی طور پر ایک بینکر ہیں۔ طویل عرصہ بینکنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھیں ادب سے گہرا شغف ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی دوسری نثری تصنیف ہے جس کے مطالعے کے بعد پہلی بات جو مشاہدے میں آتی ہے یہ ہے کہ ان کو لکھنے کا شوق ہے اور وہ اپنے مشاہدات، تجربات اور کیفیات کو نثر میں رقم کرتے رہتے ہیں۔ ’’عشق بیماری‘‘ سے لے کر ’’شگوفے‘‘ تک اس کتاب میں مختلف طرز فکر کے 27 مضامین سمیت ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور صاحب تصنیف ایس ایچ جعفری کے مضامین شامل ہیں۔ زیرنظر کتاب پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایس ایچ جعفری پختہ لکھاری نہیں ہیں اور ان کے مضامین میں جھول ملتا ہے۔ کچھ میں منظر کشی کرتے ہوئے غیرحقیقی بھی ہوجاتے ہیں، جیسے مضمون ’’پہلی کار‘‘ میں جیسا ماحول انھوں نے کھینچا ہے۔

یہ حقیقت سے دور بھی لگا اور پیدا کردہ مزاح پر ہنسی بھی نہیں آئی۔ بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پاکستان سے باہر بھی تعیناتی رہی۔ چناںچہ سفر نامے مضامین ’’ہند یاترا‘‘، ’’لندن‘‘ اور ’’لکسمبرگ‘‘ میں ملتے ہیں جو معلومات افزا ہیں۔ کچھ مضامین اس کتاب میں ایسے ہیں جن میں ایس ایچ جعفری کا قلم روانی سے چلتا محسوس ہوا اور ان کا یہ طرز تحریر کافی مضبوطی اور شگفتگی لیے ملا، ان مضامین میں ’’شریک حیات‘‘،’’انجمن انسداد قبض‘‘، ’’پھنے خان‘‘، ’’ضابطہ اخلاق‘‘، اور ’’شگوفے‘‘ شامل ہیں۔ ایس ایچ جعفری نے طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ جس کرب کے ساتھ ماحول کی کثافت کو محسوس کیا اسے بھی کھلے دل سے لکھا ہے۔ مجموعی طور پر صرف اتنی رائے دی جاسکتی ہے کہ ’’کچھ لکھ نہ سکے، کچھ لکھ بھی گئے‘‘ ایس ایچ جعفری کے محسوسات، خیالات اور لفظوں کا اجتماع ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہ لکھنا جانتے ہیں اور انھوں نے اپنے مشاہدات، خیالات، احساسات، محسوسات کو لفظوں میں پرو کر کتابی شکل عطا کردی۔

خواب دان (شعری مجموعہ)
شاعر : اختر رضا سیلمی
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز 46/2 فرنگ روڈ لاہور
سال اشاعت2013:ء ،صفحات:124، قیمت : 200 روپے

جواں سال شاعر اختر رضا سیلمی نے اپنے ا شعار کی بدولت بہت کم وقت میں دنیائے ادب میں ایک اہم مقام بنایا ہے۔ نیا اور معتبر لفظ تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں کی فہرست میں ان کے نام کا شامل ہونا یقیناً ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زیر نظر برائے تبصرہ مجموعہ ’’خواب دان،، مجموعی طورپر 57 نظموں پر مشتمل شعری تخلیق ہے۔ اپنی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی اختر رضا نے کمال دکھائے ہیں اور بڑی متاثر کن نظمیں تخلیق کی ہیں۔ خاص کر ’’منظر اک بلندی پر‘‘، ’’کیا بشارت کے زمانے جاچکے ہیں‘‘، ’’ناوقت میں اثبات کا وجود‘‘، ’’اپنے آبائی مکان کے دروازے پر‘‘،’’پرومیتھیں کے حضور میں‘‘، ’’نظم دکھ تو نہیں ہے‘‘، ’’ایک نظم درختوں کے لیے‘‘، ’’البیر کا میو کے لیے‘‘، ’’ایک تصویر‘‘، ’’البلاغ دو منظر‘‘، ’’تعبیر‘‘، ’’دوسرا جنم‘‘ وغیرہ۔ اپنی غزلوں کی طرح اپنی نظموں میں بھی اختر رضا نے ماحول کی گھٹن، منافقانہ رویے اور زندگی میں پیش آنے والے مشاہدات و تجربات کو سمیٹا ہے، اس کا مطالعہ اور اس کا مشاہدہ دونوں اس کی نظموں کا خاصہ ہیں، مثلاً ’’نظم دکھ تو نہیں ہے،، کے درج ذیل لائنیں ملاحظہ ہوں:
نظم تو خواب ہے:
ایک شاعر کا خواب
جسے بس وہی آدمی دیکھ سکتا ہے
جو صبح دم خشک ٹہنی پہ لرزیدہ شبنم کے قطرے کا دکھ جانتا ہے
ضیاء المصطفیٰ ترک نے اپنی رائے میں لکھا ہے،’’مجھے اختر رضا سیلمی بطور نظم گو، اپنی غزل پر حاوی آتا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ میں اس رائے سے اختلاف کروں گا۔ کوئی شک نہیں کہ اختر رضا سیلمی نے اچھی نظمیں تخلیق کی ہیں، مگر اس کی بنیاد شناخت اس کی غزل ہے اور وہ کسی بھی طرح غزل سے دامن نہیں چھڑاسکتا، اس کا واضح ثبوت ’’خواب دان،، میں شامل چند نظمیں ہیں، جہاں غزل مکمل طور پر حاوی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
بہر حال نظم ہو یا غزل، ہر جگہ اختر رضا نے اپنے ڈکشن کو برقرار رکھا ہے اور اپنی شاعری سے دوسروں کو مایوس نہیں کرتا۔ کتاب معروف مصور وصی حیدر کے خوب صورت معنی خیز ٹائیٹل سے آراستہ ہے اور اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔

ھک وک جو سفر (افسانے)
افسانہ نگار : نسیم انجم
مترجم :ذوالفقار گادھی
ناشر:ادام پبلی کیشن، دادو
صفحات:175
قیمت : 300 روپے

ھک وک جو سفر، پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کتاب کے ہمیں دو نام ملتے ہیں، ٹائیٹل پر ’’ھک وک جو سفر (ایک قدم کا سفر) لکھا ملتا ہے جب کہ اندر مرکزی ٹائیٹل کے صفحے پر، ان سائیڈ صفحہ حتیٰ کہ مضامین میں بھی کتاب کا نام ’’سوا نیزی سج،، یعنی سوا نیزے پر سورج ملتا ہے۔ مصنف کس نام پہ زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے، لیکن کتاب کے اندر صفحات پر موجود تفصیلات سے اسے ہم ’’سوا نیزی سج،، ہی کہیں گے، بنیادی طور پر یہ نسیم انجم کے اردو کے 18افسانوں کا سندھی زبان میں ترجمہ ہے، جسے خیرپور ناتھن شاہ دادو کے معروف سندھی لکھاری، شاعر، ذوالفقار گادھی نے ترتیب دیا ہے۔ نسیم انجم معروف افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار ہیں۔ ان کی تحریروں میں پختگی، ندرت آمیزی نے کم و قت میں انھیں مضبوط مقام پر ادب میں لاکھڑا کیا ہے۔ ذوالفقار گادھی کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کتاب کو دیکھ کر سب سے پہلی خوشی یہ ہوتی ہے کہ ایک سندھی ادیب نے اردو ادیب کے افسانوں کو سندھی زبان کا پیراہن عطا کیا اور اسے سندھی کے ان قارئین تک پہنچایا جو اردو پڑھ نہیں سکتے۔ ذوالفقار گادھی نے 18افسانے ترجمہ کیے ہیں اور نہایت باریک بینی اور مشاہدے کے ساتھ کہ نسیم انجم کے اصل افسانے کی روح متاثر نہیں ہوئی اور مترجم نے مترجم کا حق بھی ادا کردیا۔ ذوالفقار گادھی نے اس کتاب کا انتساب اپنے دو گہرے دوستوں ’’مشتاق گرگڑی‘‘ اور ’’اختر ملاح،، کے نام کیا ہے۔

ثالث (ادبی رسالہ)


رسالہ ’’ثالث‘‘ (۲) جنوری 2014 تا مارچ 2014زندہ اور متحرک تخلیق کی تمام آہٹوں، دھڑکنوں اور لہروں کا حسین استعارہ ہے۔ ثالث کے تا زہ شما رے میں گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اقبال حسن خاں، قاضی طاہر حیدر، قرب عباس، ابرارمجیب، سلمیٰ جیلانی، طلعت زہرا، زین سالک، ثناء غوری، امین بھایانی، فرحین جمال، نوشابہ خاتون، سب ہی کے افسانے عمدہ اور معیاری ہیں اور حالات، حادثات، المیے اور وقوعے کو آئینہ عطا کرتے ہیں۔عصری منظر ناموں کو بڑے دل کش اور پرکشش طرز ادا کے سا تھ پیش کر نے کی سعی کی گئی ہے۔

مہمان اداریہ شفیق احمد شفیق کا ہے۔ انہوں نے ادب میں عصری آگہی اور ادیب کے عصری عرفان کی اہمیت کو مختلف تمثیلوں سے سپرد قلم کیا ہے۔ آج کے ادبی منظر نا موں کے حوالے سے یہ اداریہ کا فی اہمیت کا حا مل ہے۔اس رسالے میں تنقید اور خصوصی مطالعہ کے باب میں پانچ مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے میں ایک انٹرویو اور کچھ تبصرے بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرویو ’’راشد اشرف سے فرزانہ اعجاز کا لیا ہوا ہے، جو محض رسمی نہیں بلکہ بہت سی معلومات کو اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔

رسالے کے مدیران ’’اقبال حسن آزاد اور ثالث آفاق صالح ‘‘ بجا طور پر مستحق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس رسالے کے ذریعے ادب کو نئی تازگی اور نئی توانائی عطا کر نے کا حوصلہ کیا ہے۔


ایک جینیئس لیونارڈو ڈاوِنچی ۔۔۔۔۔

$
0
0

لیونارڈو ڈاوِنچی کی وجۂ شہرت مونا لیزا یا لاسٹ سپر (Last Supper) ہے۔

’’عبقریت‘‘ کا تمغہ ہم کسی کے بھی کالر پر سجا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ صدیوں میں کہیں خال خال ہوتے ہیں۔ ڈاونچی یقیناً عبقری Genious تھا۔ اس شخص کے اندر بلا کی توانائی تھی۔ اس کے کارنامے بوقلموں ہیں۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ فن کار اور سائنس دان ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں جب کہ ڈاونچی میں یہ یوں مدغم ہیں کہ طے نہیں ہو پاتا کہ وہ سائنس دان تھا یا فن کار۔ فن کار کے طور پر اس کی مصوری کے پندرہ شہ کار محفوظ ہیں اور ان میں مونا لیزا اور لاسٹ سپر لافانی مانے جاتے ہیں جب کہ نباتات، علم الابدان، فن تعمیر، انجنیئرنگ، نقشہ گری، ارضیات، فلکیات، موسیقی، فلسفہ، ریاضی، اسلحہ سازی، ہوابازی اور نہ جانے کن کن شعبوں میں اس کا کام یادگار ہے۔

ڈاونچی کا پورا نام لیونارڈو ڈی سر پیرو ڈاونچی (Leonardo di Ser Piero da Vinci) ہے، فرانسیسی تلفظ لیئن آردو,ہے، اس میں پیرو اس کے باپ کا اور ونچی اس مقام کا نام ہے جہاں وہ پیدا ہوا جب کہ SER احتراماً کہا جاتا ہے۔ لیونارڈو ٹسکینی یا ٹسکانا میں واقع ہے۔ یہ لیونارڈو کے عہد (پندرہویں صدی) میں آزاد ریاست فلورنس کا حصہ تھا۔ وِنچی، دریائے آرنوکی ایک نشیبی وادی ہے۔ لیونارڈو کا والد پیرو فروسینو ڈی انتونیو ڈاونچی(Messer Piero Fruosino di Antonio da Vinci) ایک قانون دان تھا اس کے نام کے ساتھ ’’سر‘‘ (Ser) کا لاحقہ تھا جو اس کے اشرافیہ سے تعلق کی علامت ہے، ماں قطرینہ ایک دہقان زادی تھی۔ ان کے درمیان باقاعدہ شادی نہیں ہوئی تھی۔ سو لیونارڈو ان کی محبت کا نتیجہ (Love Child)تھا۔

اس کے بچپن کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں سوائے اس کہ کے اولیں پانچ سال تک وہ اپنی ماں کے گھر میں رہا،1457 کے بعد اس کا باپ اسے اپنے پاس لے آیا، یہ گھر ایک چھوٹے سے گاؤں فرانسسکو میں تھا، اس کے دادا، دادی اور چچا بھی یہیں تھے۔ اس کے باپ نے ایک 16 سالہ لڑکی سے شادی کی تھی، جولیونارڈو کے ساتھ بہت شفقت کرتی تھی تاہم وہ زیادہ عمر نہ پا سکی اور جلد ہی چل بسی۔ لیونارڈو 16 برس کا ہوا تو اس کے باپ نے 20 سالہ ایک اور خاتون فرانسسکالین فریدیتی سے شادی کی۔ وہ اپنا جائز وارث پیدا کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے تیسری اور پھر چوتھی شادی بھی۔ اس دوران لیونارڈو گھر پر ہی جیومیٹری اور ریاضی کی غیر رسمی تعلیم حاصل کر پایا۔ مصوری کا رجحان اس میں بہت آغاز ہی سے تھا۔ ایک بار ایک کسان ایک سادہ شیلڈ اس کے باپ کے پاس لایا اور اس سے درخواست کی وہ اس پر کوئی کچھ بنا دے، اس پر لیونارڈو نے مصوری کی اور ایک بہت بدہیئت عفریت کی تصویر بنادی جو آگ اگل رہا تھا۔ یہ تصویر اس کے باپ کو بڑی پسند آئی، ڈیوک آف میلان نے دیکھی تو خرید لی اس پر اس کے باپ نے بازار سے ایک اور شیلڈ خرید کر کسان کو دے دی۔

1466 میں لیونارڈو 14 برس کا ہوا تو اسے ویروشیو کی ورکشاپ میں داخل کرادیا۔ ویروشیو (Verrochio) اپنے وقت میں مصوری کا بہت بڑا استاد تھا، اس کی ورکشاپ فلورنس کا سب سے اعلیٰ نگار خانہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے مصوروں نے تربیت پائی۔ لیونارڈو نے یہاں پوری ایک دہائی تربیت حاصل کی۔ اس ورکشاپ میں صرف مصوری ہی کی تربیت نہیں دی جاتی تھی بل کہ ڈرافٹنگ، علم کیمیا، دھاتوں کے علوم، آہن گری، پلاسٹر کا استعمال، چمڑے کا کام، لکڑی کا کام، مشین سازی، ڈرائنگ، مجسمہ سازی اور ماڈلنگ بھی سکھائی جاتی تھی۔ ویروشیو کی ورکشاپ سے مصوری کے نمونے اس کے ملازمین تیار کیا کرتے تھے۔

مورخین کے مطابق ویروشیو کے یادگار شہ پارے The Baptism of Christ پر لیونارڈو نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اس میں ایک نوجوان فرشتے کو یوں مصور کیا کہ استاد دنگ رہ گیا اور اس کے بعد اس نے زندگی بھر برش نہیں اٹھایا۔ اس شہ پارے میں Tempera پر Oil Painting کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ روغنی رنگوں کے استعمال کی روایت افغانستان میں بہت پہلے سے موجود تھی یورپ میں اس کا آغاز پندرہویں صدی میں مصور وراسی نے کیا۔ مذکورہ تصویر میں فرشتے کے علاوہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ، پانی اور پس منظر میں پہاڑی کی مصوری پر بھی ڈاونچی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس ورکشاپ میں لیونارڈو نے ماڈلنگ بھی کی جس کے آثار اس ورکشاپ کے مختلف شہ پاروں جسے ڈیوڈ، بارگیلو، آرکنچل، رفائیل اور ٹوبیاس اینڈ دی اینجل رفائیل وغیرہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ 1472 میں بیس سالہ لیونارڈو فارغ التحصیل ہو چکا تھا اور اسے گلڈ آف سینٹ لیوک نے ماسٹر تسلیم کر لیا۔ یہ گلڈ فن کاروں اور ادویات کے ڈاکٹروں کی مجلس تھی۔

اس کے والد نے اسے اپنی ورکشاپ سے منسلک کر لیا تاہم اس کے باوجود وہ اپنے استاد ویروشیو کے ساتھ برابر کام کرتا رہا۔

1476 میں لیونارڈو اپنے تین دوسرے ساتھیوں کے ہم راہ ہم جنسیت کے الزام میں گرفتار ہوا تاہم جلد ہی رہائی مل گئی۔ اس کے بعد 1478 تک کے برسوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ لیونارڈو اس عرصے میں کہاں رہا اور کیا کرتا رہا البتہ ریکارڈ کے مطابق 1478 میں اس نے اپنے استاد کی ورکشاپ چھوڑ دی اور اپنا گھر بھی ترک کر دیا۔ ایک مورخ کے مطابق 1480 میں لیونارڈو فلورنس کے علاقے سان مارکو کے ’’گارڈن آف دی پی ازا‘‘ سے منسلک تھا جو نو افلاطونی مصوروں، شاعروں اور فلسفیوںکی اکادمی تھی۔

جنوری 1478 میں اسے چیپل آف سینٹ برنارڈ میں پہلا کام ملا ساتھ ہی مارچ 1481 میں اسے سان دوناتو میں The Adoration of the magi بنانے کا کام ملا تاہم یہ دونوں کام ادھورے رہے کیوں کہ اس دوران لیونارڈو میلان چلا گیا البتہ دی ایڈوریشن آف دی میگی نامکمل حالت میں اب بھی محفوظ ہے۔

لیونارڈو بہ طور موسیقار:
لیونارڈو فنون و علوم کے باب میں سماجی مزاج کی شخصیت تھا۔ وہ ایک ایسا مصور تھا کہ جس نے صدیوں تک مصوروں کو متاثر کیے رکھا اور آج بھی اس کے شہ پاروں کو کلاسیکیت میں اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن وہ محض مصور ہی نہیں تھا بل کہ اعلیٰ درجے کا موسیقار تھا۔ 1482 میں اس نے گھوڑے کے سر کی شکل کا بربط یجاد کیا۔ یہ ساز روم اور یونان میں پہلے سے موجود تھا تاہم لیونارڈو نے اس میں ایک حسن پیدا کر دیا۔ یہ بربط اکادمی کے سربراہ لورینزو نے اسی کے ہاتھ میلان کے ڈیوک کو تحفے کے طور پر بھیجا تاکہ ڈیوک کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم ہوں۔ میلان میں اس کا قیام 1482 سے 1499 تک رہا۔ اس دوران اس نے اپنے شہ کار Virgin of the Rocks اور Last Supper تخلیق کیے۔ ڈیوک آف میلان لیوڈوویکو کے ایما پر وہ ہنگری کے بادشاہ میتھیاس کاروینس کے پاس بھی گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں اس نے Holly Family نامی شہ پارہ تخلیق کیاتھا۔ 1495 کا سال اس کے لیے دکھ کا سال رہا کیوں کہ اس سال اس کی ماں قطرینہ کا انتقال ہوا۔ لیونارڈو نے ڈیوک آف میلان کی فرمائش پر کافی کام کیے، ان میں میلان کیتھیڈرل کے گنبد کا ڈیزائن بھی شامل ہے۔

ڈیوک آف میلان کے جانشین فرانسسکو کی فرمائش پر ایک یادگار ’’گھوڑے پر سوار نائیٹ‘‘ کا ڈیزائن تیار کیا۔ یہ بہت بھاری بھر کم یادگار تھی، جس کے لیے 70 ٹن دھات فراہم کی گئی لیکن یہ کام بھی سیماب صفت لیونارڈو نے کئی سال تک ادھورا ہی چھوڑے رکھا۔ اسی طرح ’’گران کیویلو‘‘ پر کام شروع کیا، یہ بھی ایک گھوڑے کا مجسمہ تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں گھوڑے کا سب سے بڑا مجسمہ تھا بہ شرطِ کہ پورا ہو جاتا۔ لیونارڈو ایک عرصے میں اس کا صرف مٹی کا مجسمہ ہی بنا پایا جو بعد میں فرانسیسی فوج نے علاقے پر ایک حملے کے دوران تباہ کر دیا تھا، اس کے باوجود یہ مجسمہ فن کی تاریخ میں ’’لیونارڈو ڈاونچی کا گھوڑا‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

اس گھوڑے کی ڈھلائی کا کام نہ کر پانے پر اس کے ہم عصر مائیکل اینجیلو نے اس پر پھبتیاں بھی کسی تھیں، ڈھلائی کا کام نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس گھوڑے کی ڈھلائی کے لیے فراہم کی گئی دھات لیونارڈو نے شہر کو فرانس کے حملے سے بچانے کے لیے توپ بنانے کی خاطر عطیہ کر دی تھی، 1499 کی اس جنگ کو ’’سیکنڈ اٹیلیئن وار‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دوران فرانسیسی سپاہی لیونارڈو کے گھوڑے کو چاند ماری کے لیے استعمال کرتے رہے۔

ڈیوک آف میلان کا تختہ الٹنے کے بعد لیونارڈو اپنے معاون سالائی اور ریاضی دان دوست لیو کا کے ہم راہ وینس چلا گیا۔ وینس کے دربار میں اسے فوجی آرکی ٹیکٹ اور انجنیئر کی جگہ ملی جس کے فرائض میں شہر کو بحری حملوں سے بچاناتھا۔

1500 میں لیونارڈو، فلورنس لوٹ آیا تو اس کے گھرانے کو سروائیٹ فرقے کے تارکین دنیا کی معروف خانقاہ انون زیاتا میں مہمان ٹھہرایاگیا۔ یہاں اسے ایک ورکشاپ بھی دی گئی، جہاں اس نے آٹھ تہوں کا ایک دبیز کاغذ بنایا اور اس پر چارکول اور چاک سے سفید و سیاہ The Virgin and child with St:Anne and St.John the Baptist نامی شہ کار تخلیق کیا جو لندن کی نیشنل گیلری میں موجود ہے۔ لیونارڈو نے اسے جب نمائش کے لیے پیش کیا تو دیکھنے کے لیے لوگ یوں ٹوٹے پڑتے تھے جیسے وہاں کوئی عظیم الشان میلہ لگا ہو۔

1502 میں لیونارڈو نے پوپ الیگزینڈر ششم کے بیٹے سیزر بورجیا کی ملازمت اختیار کی۔ اس نے بھی لیونارڈو کو فوجی آرکی ٹیکٹ اور انجنیئر کی حیثیت دی۔ لیونارڈو پورے اطالیہ میں سیزربورجیا کے ساتھ گھومتا رہتا۔ اس دوران لیونارڈو نے ان علاقوں کا نقشہ تیار کیا جو سیزر کے زیرنگیں تھے۔ آئی مولا (Imola) نامی شہر بسانے کا منصوبہ بھی تیار کرکے دیا۔ اس زمانے میں نقشہ سازی ایک کم یاب فن تھا۔ اس کا کام دیکھ کر سیزربورجیا نے اسے چیف ملٹری انجنیئر کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اس نے وادیٔ چی آنا کا نقشہ بھی تیار کیا، اس نقشے کا مقصد یہ تھا کہ سیزر کو اپنے زیرنگیں علاقوں کا درست ادراک رہے اور اس کے دفاع کے لیے بہتر حکمتِ عملی تیار کرسکے۔ اس نے ایک ڈیم کا نقشہ بھی تیار کیا، تاکہ فلورنس کو سمندر سے سارا سال پانی ملتا رہے۔

18 اکتوبر 1503 کو لیونارڈو ایک فلورنسلوٹ آیا اور گلڈ آف سینٹ لیوک میں دوبارہ شامل ہو گیا۔ یہاں ایک دیوار کو مصور کرنے پر اس نے دو سال لگا دیے۔ اس پینٹنگ کو The battle of Anghari کہاجاتا ہے۔ اس دیوار کے عین مقابل دیوار پر مائیکل انجیلو بھی اپنا شہ کار تخلیق کر رہا تھا جس کانام The battle of cascina ہے۔ لیونارڈو کا یہ شہ کار گم شدہ ہے تاہم اس کی نقول موجود ہیں۔ یہ دونوں عظیم مصور ایک دوسرے کے رقیب تھے۔ شومئی قسمت کہ لیونارڈو کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا جس نے مائیکل اینجیلو کے تخلیق کردہ ’’ڈیوڈ‘‘ نامی 17 فٹ بلند مجسمے کی تنصیب کے لیے جگہ کا تعین کرنا تھا حال آں کہ لیونارڈو اس کے حق میں نہیں تھا لیکن بہ دلِ نخواستہ اسے یہ کام کرنا پڑا۔ سنگ مرمر سے تراشا گیا یہ مجسمہ فلورنس کی ایک گیلری میں محفوظ ہے، اس کی جگہ اب اس کی نقل نصب ہے۔

1506 میں اسے میلان واپسی کا خیال آیا تاہم وہ زیادہ دیر اس شہر میں نہیں رہ سکا کیوں کہ 1504 میں اس کا باپ چل بسا تھا تاہم 1507 میں باپ کی جائداد پر اپنے بھائیوں کے ساتھ مسائل سلجھانے کے لیے اسے ایک بار پھر فلورنس آنا پڑا۔1508 میں وہ میلان لوٹ گیا اور سانتابابیلا کے قریب واقع اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہو گیا۔

ستمبر 1513 سے 1516 تک لیونارڈو نے زیادہ تر وقت ویٹی کن سٹی (روم) میں گزارا۔ اس شہر میں اس کے دو عظیم ہم عصر مصور رفائیل اور مائیکل اینجیلو سرگرم تھے۔

اکتوبر 1515 میں فرانسس اول نے ایک بار پھر میلان پر قبضہ کر لیا تاہم لیونارڈو کا احترام برقرار رکھا اور اس سے فرمائش کی کہ وہ اس کے لیے ایک مشینی شیر بنائے جو حرکت کر سکتا ہو اور اس کی چھاتی میں ایک کھڑکی ہو جو خود کار طور پر کھلے تو اس کے اندر سے سوسن کے پھول جھانکنے لگیں، معلوم نہیں لیونارڈو نے شاہ فرانس کو ایسا شیر بنا کر دیا یا نہیں تاہم 1516 میں اسے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی ملازمت مل گئی۔ اسے شاہی محل کے قریب ہی ایک شان دار رہائش دی گئی۔ اسی جگہ اس نے اپنی زندگی کے آخری تین برس آرام و آسائش میں گزارے۔ فرانس کا بادشاہ فرانسس اول اس کے قریبی دوستوں میں تھا۔ بتایاجاتا ہے کہ 2 مئی 1519 کو جب اس پر جاں کنی کا عالم طاری تھا تو اس کا سر بادشاہ کے بازوؤں میں تھا۔ مرنے سے کچھ دن پہلے اس نے ایک مذہبی پیش وا کو بلوا کر گناہوں کا اعتراف (Confession) کیا اور برکت حاصل کی۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے جنازے کے ساتھ بھکاری چلیں گے۔ اس کی باقیات میں سے اس کے شہ پارے، آلات مصوری، لائبریری اور نقدی ملزی (Melzi) کو ملی جب کہ اس نے اپنے شاگرد دوست سالائی اور اس کے ملازم باتستا کے لیے اپنے انگوروں کے باغ کا آدھا حصہ چھوڑا، بھائیوں کو زمین اور اپنی خدمت گار کو بہت قیمتی فر کا سیاہ چوغہ دیا۔ اسے سینٹ ہیوبرٹ کے گرجا میں سپرد خاک کیا گیا۔

بادشاہ نے اس کے مرنے پر اسے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’دنیا میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو لیونارڈو سے زیادہ صاحبِ علم ہو، وہ صرف عظیم مصور اور ماہر تعمیرات ہی نہیں، ایک بڑا فلسفی بھی تھا‘‘۔

لیونارڈو رینے سانس (چودھویں تا سترھویں صدی) کے اوائلی برسوں کی ایک بہت بوقلموں شخصیت تھا۔ وہ اپنے عہد کا ایک بہت بڑا موجد تھا، بہت خوب صورت جسم کا مالک اور فیاض شخص تھا۔ مورخ وساری کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ مرتبت روح کے ساتھ ایک انتہائی کشادہ ذہن رکھتاتھا، اس کا انوکھا پن دوسروں کے لیے بہت پرکشش تھا، زندگی کا بہت احترام کرتا تھا، غالباً اسی لیے زندگی بھر گوشت کھانے سے مجتنب رہا۔ اس کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ پنجرے میں بند پنچھی منہ مانگے داموں خریدتا اور آزاد کر دیتا تھا۔

اس کے دوستوں میں سے اکثر نے تاریخ میں بڑا مقام پایا۔ ان میں اپنے وقت کا عظیم ریاضی دان لیوکا ڈی بورگو بھی تھا، جس نے لیونارڈو کے اشتراک سے ’’ڈی ڈیوائین پروپورشنے‘‘ (1490) میں تصنیف کی۔ لیوکا جدید عہد کی Accounting کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کی طرف رجحان کم ہی رکھتا تھا تاہم تین خواتین، سیسیلا، بترائیس اور ازابیلا کے نام اس کی دوستوں میں ملتے ہیں۔ ان تینوں کو اس نے مصور بھی کیا ہے۔ سیسیلا گیلیرانی کو اس نے The lady with an Ermine کے نام سے مصور کیا، جو محفوظ ہے۔

لیونارڈو اپنی شخصیت پر پردہ ڈالے رکھتا تھا۔ اپنے دو شاگردوں ملزی اور سالائی کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس پر ہم جنس پرستی کے الزام کا کوئی شاہد یا ثبوت موجود نہیں ہے، جس شخص کانام اُس سال کے عدالتی ریکارڈ میں درج ہے وہ لیونارڈو کے بہ جائے لائن آرڈو ہے۔

اس کے شاگردوں میں سالائی نے بھی نام پیدا کیا۔ سالائی اس کے پاس 10 سال کی عمر میں شاگرد ہوا اور اگلے 30 برس تک اسی کے پاس رہا۔ لیونارڈو کا شہ کار Jhon the Baptist کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس تصویر کے لیے سالائی ہی ماڈل بنا تھا۔ سالائی نے اپنے استاد کی شہرہ آفاق ’’مونالیزا‘‘ کے مقابل ’’برہنہ مونا لیزا‘‘ تخلیق کی، جو محفوظ تو ہے تاہم نام نہیںبناپائی۔ لیونارڈو کے انتقال کے بعد ’’مونالیزا‘‘ سالائی ہی کے حصے میں آئی تھی۔ فرانسسکو ملزی بھی اس کا چہیتا شاگرد تھا، لیونارڈو نے اپنی جائداد سے اسے بھی حصہ دیا تھا۔

وِرجن اینڈ چائلڈ وِد سینٹ این:
اس تصویر میں بھی پس منظر میں لینڈ سکیپ ہے۔ مقدسہ مریم اپنی والدہ این کی گود میں بیٹھی ہیں اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو تھامنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ایک میمنے کے ساتھ غیر محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں جب کہ جناب این بیٹی کو شفقت سے دیکھ رہی ہیں۔ معروف مصور ویسرمین نے اس شہ کار کو ’’سانس لینے کی حد تک حسین‘‘ قرار دیا ہے۔ اس تصویر کو بھی بے تحاشا نقل کیاگیا اور اس کے متاثرین میں لیونارڈو کا رقیب مائیکل انجیلو تک شامل ہے۔

ڈرائنگ:
لیونارڈو محض مصور ہی نہیں ایک بہت بڑا ڈرائنگ ماسٹر بھی تھا۔ اس کی ڈرائنگ کے متعدد نمونے بھی محفوظ ہیں۔ اسے جو چیز، واقعہ یا منظر متاثر کرتا وہ اس کی چھوٹی چھوٹی ڈرائنگز بناتا رہتا۔ اس کے بہت سے شہ کار رنگوں میں ڈھلنے سے پہلے ڈرائنگز کی صورت میں ہیں۔ اس کی سب سے مشہور ڈرائنگ The Vitruvian Man ہے، جس میں جسم انسانی کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے، فرشتے کا سر (Head of thd Angel) اور چٹانوں کی دوشیزہ (The Virgin of the rocks) بھی اس کی اعلیٰ ترین ڈرائنگز میں شمار کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی ’’دی وِرجن اینڈ چائلڈ وِد سینٹ این اینڈ سینٹ جون دی بیپٹسٹ‘‘ اور ایک پھول دار بوٹی نجم بیت اللحم (Star of Bethlehem) کی مطالعاتی ڈرائنگ اور درجنوں دیگر محفوظ ہیں۔

مشاہدہ
لیونارڈو کا مشاہدہ بہت گہرا ہے، وہ اپنے آس پاس کی چیزوں کو انتہائی گہری نظر سے دیکھاکرتا تھا۔ مورخ وساری لکھتا ہے کہ جب اسے کسی چہرے میں کوئی دل چسپ بات نظر آتی تو سارا سارا دن اس کے تعاقب میں رہتا اور مختلف زاویوں سے اس کا مشاہدہ کرتا تھا۔ اپنے کام کے آغاز میں اس نے کپڑے پر بھی کام (Drapery) کیا۔
لیونارڈو کے ہاں فن اور سائنس میں کوئی خط فاصل نہیںہے۔ وہ دونوں کو سکے کے دو رخ سمجھتا تھا۔ اسی لیے وہ جہاں ایک بہت بڑے مصور کے روپ میں سامنے آتا ہے وہیں وہ ایک بہت بڑا انجنیئر بھی ہے۔ اس کی ڈرائنگز میں بے شمار مشینوں کی ڈرائنگز ہیں، اس نے رائٹ برادران سے بہت پہلے اڑن مشین کی ڈرائنگ بنائی تھی جو آج کے ہیلی کاپٹر کے مشابہ ہے۔ اس کے محفوظ کام کا پھیلاؤ 13 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے سے کسی لمحہ غافل نہیں رہتا تھا۔

کوڈیکس لیسٹر:
کوڈیکس، لیونارڈو کے 30 سائنسی رسالوں کا مجموعہ ہے، اسے کوڈیکس ہیمر بھی کہا جاتا ہے۔ کوڈیکس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ رسالے رول آف لسٹر تھامس کوک نے 1719 میں خریدے تھے۔ نومبر 1994 میں بل گیٹس نے یہ مجموعہ نیلامی 3 کروڑ 80 لاکھ 2 ہزار 500 ڈالر میں خریدا تھا۔ اس مجموعہ کے مطالعے سے لیونارڈو کی عبقریت کے بہت سے پہلو نقاب کشا ہوتے ہیں۔ اس میں اس نے پانی، پتھر، متحجرات، فلکیات، ماورائی روشنیوں اور متعدد موضوعات پر اپنے مشاہدات درج کیے ہیں۔

تحیراتِ لیونارڈو
لیونارڈو کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ دو ہتھا تھا، جب چاہتا بایاں ہاتھ کام میں لاتا، جب چاہتا دایاں، بعض اوقات دونوں ہاتھوں سے کام کرتا۔ اپنی بعض تحریروں کو خفیہ رکھنے کے لیے وہ دائیں جانب سے لکھتا تھا (یاد رہے کہ یورپی زبانیں بائیں جانب سے لکھی جاتی ہیں) اس کی ایسی تحریریں آئینے میں دیکھنے پر ہی پڑھی جا سکتی ہیں لہٰذا مرئی تحریریں (Mirrored writing) کہلاتی ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں دائیں اور بائیں ہاتھ سے الٹا/ سیدھا لکھنے پر قادر تھا۔ اس کی تحریروں کا بڑا حصہ مرئی انداز میں ہے۔

موسیقار
لیونارڈو کا زمانہ ایسا تھا کہ اس کی بنائی ہوئی دھنیں محفوظ نہ رہ سکیں تاہم حال ہی میں ایک اطالوی موسیقار گیوآنی ماریا پالا نے لیونارڈو کی مشہور عالم تصویر ’’دی لاسٹ سپر‘‘ سے 40 سیکنڈ کا ایک سازینہ ڈی کوڈ کیا ہے، جس کا تاثر کچھ مرثیے یا دعائے بخشش کا سا ہے۔ ایک بار اس نے ایک صاحبِ اختیار کی فرمائش پر گھوڑے کے سر سے مشابہ بربط بنایا تھا جو اسی کے ہاتھ ڈیوک آف میلان کو خیر سگالی کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جہاں اس نے اسے بجانے کا مظاہرہ بھی کیا۔ وہ تاروں والے ساز بجانے میں یکتا تھا۔ بہت ممکن اس کی تحریروں سے اس کے مزید سازینے بھی مل جائیں۔

مائیکل انجیلو سے رقابت:
مائیکل انجیلو یوں تو عمر میں لیونارڈو سے 23 سال چھوٹا تھا لیکن اپنی تیزی اور طراری کے باعث لیونارڈو کے لیے چیلنج بنتا تھا۔ لیونارڈو کی طبیعت میں آج کا کام کل پر چھوڑنے کا عنصر تھا جس کے باعث اس نے کئی کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچائے۔ دونوں فن کار مصوری اور مجسمہ سازی میں صاحبِ کمال تھے اور مدیچی کے دربار سے وابستہ بھی۔ مائیکل کو اس کی عبقریت سے چڑ ہوتی تھی وہ جہاں جاتا وہاں اسے لیونارڈو کے ذکر سے پالا پڑتا تھا۔ وہ اسے ’’گھوڑوں کا ماڈلر‘‘ قرار دیتا تھا۔ یہ گھوڑے کے دھاتی مجسمے کے اس نامکمل منصوبے کی طرف اشارہ تھا جو لیونارڈو نے میلان کے ایک چوک میں نصب کرنا تھا لیکن وہ اپنی افتاد طبع کے باعث محض مٹی کا مجسمہ ہی بنا پایا تھا، اس پر آگے کام کرنا باقی تھا لیکن اسی دوران فرانسیسی فوجوں نے علاقے پر قبضہ کرکے اسے تباہ کر دیا۔ ادھر لیونارڈو کہا کرتا تھا یہ مجسمہ سازوں اور بیکری کے کاری گروں میں کچھ فرق نہیں۔ اس پر مائیکل انجیلو بڑی توہین محسوس کرتا۔ انجیلو ایک تو نوجوان تھا اس پر تنک مزاج اور نازک طبع بھی تھا سو خوب چیخم دھاڑ کرتا تھا۔

چرچ کے ساتھ اختلاف:
لیونارڈو کیتھولک چرچ سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا تھا، خاص طور پر ان لوگوں کو ہدف تنقید بناتا تھا جو مذہب کا ملائی رجحان رکھتے تھے۔ بعض محقیقین اسے منکر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ وہ مذہب کے مروجہ تصور کا باغی تھا اور مذہبی پیش واؤں سے ایسے سوالات کرتا تھا جو انہیں زچ کر دیتے تھے۔

علم الابدان
لیونارڈو کو علم الابدان (Anatomy) کا خبط تھا۔ اس کی بیاضوں میں اس حوالے سے متعدد ڈرائنگز اور مشاہدات موجود ہیں تاہم اس کی سٹڈی ڈرائنگ وٹروویئن مین (Vitruvian Man)یقیناً ایک شاہ کار ہے۔ یہ ڈرائنگ نہ صرف بدنی مشاہدے پر مبنی ہے بل کہ اس میں آرکی ٹیکچرل رموز بھی ہیں۔ اس کا نام دراصل اٹلی کے بہت بڑے آرکی ٹیکٹ وٹرو ویئس کے نام پر ہے۔ اس حوالے سے لیونارڈو کی 240 ڈرائنگز دست یاب ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے خود لاشوں کی چیرا پھاڑی کی اور بہ نظر غائر جو دیکھا اس کو ڈرائنگ کیا۔ واضح رہے کہ لاشوں کی چیرا پھاڑی کیتھولک چرچ کے مطابق ناجائز تھی۔ یہ چرچ کے ساتھ اس کا ایک اور اختلاف تھا۔

شمسی توانائی
کیسی عجیب بات ہے کہ شمسی توانائی پر اس نے آج سے پانچ صدیاں پہلے بات کی اور اپنے مشاہدات پیش کیے، اڑن کھٹولے پر کام کیا اور اس کی ڈرائنگ بھی بنائی۔ پانی اور اس سے توانائی کے حصول کا ذکر کیا، اس مقصد کے لیے مشینوں کے مطالعاتی خاکے بھی بنائے۔ جنگی مشینوں پر کام کیا۔ اس کے عہد میں گو عملی طور پر کوئی کام نہ ہو سکا لیکن اس کے صدیوں بعد یہ تسلیم کیاجا رہا ہے کہ لیونارڈو نے جو بنیادیں فراہم کی تھیں، وہ بہ ہرحال قابل عمل تھیں۔

ہمیشہ دیر کر دینے والا
لیونارڈو اپنی اس کم زوری کے باعث خاصا بدنام رہا۔ وہ کوئی بھی کام بروقت نہیں کر سکتا تھا اور اکثر کام نامکمل چھوڑ دیتا تھا۔ یہ جدید عہدکی خوش بختی ہے کہ اس کے ہاتھ اس کا اتنا ڈھیر کام ہاتھ آگیا۔ وہ دراصل پرفکشنسٹ (Perfectionist) تھا مثال کے طور پر مونالیزا سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوا اور ایک پوری دہائی اس کو وقتاً فوقتاً بناتارہا۔ یہ بہ ہرحال کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اس مزاج کا مالک نہ ہوتا تو اتنا کام بھی نہ کر پاتا۔

مونا لیزا (1500)
مونالیزا لیونارڈو کا ایک ایسا مقبولِ خواص و عوام شہ کار ہے کہ جس کی مصوری کی تاریخ میں دوسری کوئی مثال موجود نہیں۔ اب تک اس کی کروڑوں نقول اور پوسٹرز بن چکے ہیں۔ اس کی سب سے پہلی خصوصیت تو یہ ہی ہے کہ یہ بہ ظاہر انتہائی سادہ ہے۔ یہ چھوٹا سا پورٹریٹ یا پلرپینل پر روغنی رنگوں سے بنایا گیا ہے۔ لیونارڈو نے اسے تین سال (1503-1506) میں مکمل کیا۔ اسے وہ اپنی سب سے اعلیٰ تخلیق قرار دیتاہے۔ اس تصویر کا ایک نام لا جیوکونڈا (La Gioconda) بھی ہے۔ خاتون کا اصل نام گیرار دینی یا جیراردینی تھا جو فرانسیسکو جیوکونڈا کی اہلیہ تھی۔ تصویر میں خاتون، اہرامی انداز (Pyramid Designe) میں ایک آرام دہ کرسی پر براجمان ہے۔ اس عہد میں پورٹریٹ بنانے کا یہ ہی انداز تھا۔ لیونارڈو نے اس کے ہاتھ آرام کرسی کے دستے پر رکھے بنائے جس سے یہ تاثر بنا کہ وہ ایک فاصلے پر دکھائی دیتی ہے اور اس کے آسن سے یہ بھی محسوس کرایا کہ خاتون کچھ ریزرو موڈ میں ہے۔

تاہم وہ براہِ راست آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ ابھی وہ کچھ کہے گی۔ اس میں شیڈوز اور بالوں وغیرہ جیسی تفصیلات کی باریکیاں بے مثال ہیں۔ لیونارڈو نے اس میں نئے میتھڈ یہ استعمال کیے کہ آئوٹ لائن نہیں کھینچی بل کہ شیڈز کا استعمال گوشہ ہائے لب و چشم پر کیا۔ اس کے علاوہ مونا لیزا اپنے عہد کی اولیں تصویروں میں سے ہے جس میں پس منظر میں لینڈ سکیپ بنایاگیا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ مونا لیزا تصویر ہونے کے موقع پر یرقان میں مبتلا تھی، ایک قیاس یہ ہے کہ حاملہ تھی۔ اس کی مسکراہٹ کی پراسراریت بھی خاصے کی چیز ہے۔ یہ کچھ خندۂ زیر لب کا شائبہ دیتی ہے۔ یہ مسکراہٹ ناظر کے موڈ کے مطابق کبھی نشاطیہ ہوتی ہے توکبھی اداس۔ تصویر میں مونا لیزا کی بھنویں نہیںہیں۔ 2007 میں ایک فرانسیسی انجینئر نے دعویٰ کیا ہے کہ مونا لیزا کی بھنویں امتداد زمانہ کے باعث مٹ گئی ہیں جب کہ بعض محقیقین کا دعویٰ ہے کہ لیونارڈو کے عہد میں بھی بھنویں نوچنے (Plucking) کا رواج تھا۔ بعضے اسے لیونارڈو کا اپنا پورٹریٹ قرار دیتے ہیں۔

اپنی طویل تاریخ کے دوران یہ شہ کار بارہا چرایا گیا۔ یہ عظیم شہ کار پیرس کے میوزیئم میں 1797 سے محفوظ ہے۔

انتخابات کی آمد۔۔۔بھارتی مسلمانوں سے مصنوعی ہم دردیوں کا موسم

$
0
0

بھارتی لوک سبھا کے سولہویں چناؤ(انتخابات) کے لیے بڑے بڑے سیاسی پنڈت اپنی اپنی انتخابی مہمات شروع کر چکے ہیں۔

فی الوقت کسی دائیں ، بائیں جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں رائے زنی قبل از وقت ہوگی،کیونکہ بھارتی سیاست اس وقت چوں چوں کا مربہ معلوم ہوتی ہے۔ البتہ کم سے کم موجودہ حکمراں نیشنل کانگریس ، بھارتیہ جنتا پارٹی ، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے منہ زور سیاسی لیڈر اپنی جسمانی قوت کو مجتمع کر کے انتخابی جیت کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصرو ف ہیں۔ انتخابات سے قبل مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ نرمی، چاپلوسی اور’’ منافقانہ رواداری‘‘ بھارتی سیاست کا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں رہنے اور وہاں کے حالات سے بخوبی آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے جعلی ہمدردی جتانے کے دن ایک مرتبہ پھر آگئے ہیں۔

سونیا گاندھی، ان کے فرزند ارجمند راہول گاندھی، چشم بددور من موہن سنگھ، بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی ، پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ اور دیگر کے بیانات اٹھا کر دیکھیں تو ایسے لگ رہا ہے کہ ان کی ہار جیت مسلم ووٹ بنک پر منحصر ہے۔ خاص طورپر یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس نے ماضی میں مسلمان اقلیت کے حقوق کے لیے ہونے والی کسی بھی کوشش کو ہمیشہ ناکام بنایا ۔ یہ پارٹی نہ صرف مسلمانوں کو بنیادی شہری حقوق دینے کی کھلی مخالف رہی بلکہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے قتل عام میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ آج اگر نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ مسلمانوں سے معافی کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انتخابات کے موقع پر اس جماعت کے سورماؤں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔

بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں کہا کہ اگر ان کی جماعت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں تو وہ معافی مانگتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی معافی کی بات کو’’اگر‘‘ کے لفظ سے مشروط کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو ’’بے جے پی‘‘ کے مظالم اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے واقعات آج بھی یاد ہیں۔ یہی وہ پارٹی ہے جس نے ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے اپنے غنڈوں کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو ا ب بھی یاد ہے۔ یہ مذہبی دہشت گردی بھی بی جے پی کی کارستانی تھی۔ ریاست آسام میں ایک ہی دن میں پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا کانگریس نے کرایا تھا؟۔ کیا جنتا پارٹی وہ قتل عام بھول گئی۔ ریاست اتر پردیش اور بہار میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی نے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کی ۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام جھوٹا نہیں۔

خود بھارتی میڈیا اور عدالتیں مسلمانوں کے کشت وخون میں بی جے پی کی رہ نما سنگیت سوم کو قصور وار قرار دے چکی ہیں۔ سب کو یاد ہے کہ پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے مسلمانوں کی اس قاتل کو ’’ہیرو‘‘ قرار دیا تھا۔کانگریس کی حکومت لوک سبھا کے الوداعی اجلاس تک چارسال کے دوران انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کئی بار کی کوشش میں بی جے پی ہی حائل رہی اور مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا یہ بل منظور نہ کیا جا سکا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی تو ہرحکومت کے دور میں رہی ہے لیکن بی جے پی جب بھی برسراقتدارآئی اس نے کشمیر میں جارحیت میں اضافہ کیا۔ انسانی حقو ق کی تنظیمیں آج بھی گواہ ہیں کہ وادی جنت نظیر میں گمنام قبریں اس دور میں بنیں جب مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی اورشری اٹل بہاری واجپائی جیسے امن دشمن لوگ مقتدر تھے۔

پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں سے یہ جعلی ہمدردیاں صرف بی جے پی کی جانب سے نہیں بلکہ دوسرے سیاست دان اور جماعتیں بھی مسلمانوں کے حقوق کی کھل کربات کرنے سے کتراتے ہیں ۔ ہاں اس میدان میں اگر بھارت کے مسلمانوں کو کچھ امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں تو عام آدمی پارٹی سے ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ نئی جماعت کم سے کم قومی خزانے کی لوٹ مار پر یقین نہیں رکھتی ۔ رہی کانگریس تو اس نے 55 سال ہندوستان میں حکومت کی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسے لوگ اس پارٹی میں رہے لیکن مسلمان اقلیت کے بارے میں جو طرز عمل جواہر لعل نہرو نے اختیار کیا تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔کانگریس اگر اتنی ہی مسلم نواز ہوتی توکشمیر میں سات لاکھ فوج کے ذریعے نہتے شہریوں کا قتل عام نہ کراتی اور بی جے پی جیسی انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی شفاف تحقیقات کی جاتیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

سعودی ولی عہد کا دورہ بھارت
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان، جاپان اور بھارت کے دورے پر ہیں۔

تادم تحریر وہ دہلی میں ہیں تاہم امکان ہے کہ وہ اس کے بعد چین کے دورے پر بھی جائیں گے۔ انہوں نے اپنے دورے کا آغاز پاکستان سے کیا ۔ سعودی ولی عہد کا یہ دورہ وقت کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ دورے کی خبر کے اندر کی خبروں اور تجزیہ نگاروں کے خیالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سعودی عرب شام کے تنازع کے حل اور ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی ڈیل کے تناظرمیں ایک نئی پیش بندی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد نے سب سے پہلے اپنے دیرینہ اتحادی ممالک کا دورہ کرنا مناسب سمجھا ہے۔ غیرملکی اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے بعد اب بھارت کا دورہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیے خوش آئند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ذریعے کی اطلاع یہ ہے کہ پاکستان نے سعودی ولی عہد سے کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ اسلام آباد کے معاملات کو بہتر بنانے میں مدد کریں بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب بھارتی سرکار پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

بھارتی اخبارات نے بھی دبے لفظوں میں اس جانب اشارہ کیا ہے ۔ ولی عہد شہزادہ سلمان نے نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی تنازعات ختم کرکے ایک ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اس ضمن میں سعودی عرب دونوں ملکوں کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔ ولی عہد کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بھارتی سرکار سے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد فراہم کرنے کی بھی بات کی ہوگی ۔ بھارت چونکہ پاکستان کے معاملات میں زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ اس لیے سعودی ولی عہد کی جانب سے بھی کسی مفاہمتی پیشکش پر کا ن دھرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔

مصر میں حماس کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم قرا ر دینے کی کوشش
مصرکی زیرعتاب اعتدال پسند مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی فکری و نظریاتی ہم خیال فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) بھی اب قاہرہ کی انتقامی سیاست کے نشانے پر ہے۔ مصرکی ایک عدالت نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں شروع کردی ہیں ۔ یہ عین ممکن کے ان سطور کی اشاعت تک مصری عدالت کوئی ایسا فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔ مصر کی جانب سے حماس کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری اس وقت ہی حرکت میں آئی تھی جب اخوان کے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ مصر کی موجودہ فوجی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ فلسطینی تنظیم 2011ء کے فسادات کے دوران قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ حماس اور اخوان کارکنوں نے مل کر ایک جیل توڑ دی تھی جس میں سابق صدر محمد مرسی بھی اس وقت قید تھے۔ ان کے ہمراہ سکیورٹی اداروں کو مطلوب سیکڑوں ایسے قیدی بھی فرار ہوگئے تھے جن کی رہائی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

حماس کے خلاف جاری چارج شیٹ میں تین درجن کے قریب افراد کے نام جاری کیے گئے ہیں جن پر جیل توڑنے میں معاونت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حماس کی جانب سے سامنے آنے والے موقف میں بتایا گیا ہے کہ قاہرہ کی فراہم کردہ فہرست میں کئی ایسے نام شامل ہیں جو 2011ء کے مصری انقلاب سے قبل انتقال کر چکے ہیں یا انہیں اسرائیل نے شہید کردیا تھا۔ کئی ایسے ہیں جو کئی سال سے اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں۔ کچھ افراد سرے سے غزہ کی پٹی یا فلسطین کے دوسرے کسی شہر سے باہر بھی نہیں گئے جبکہ اسی فہرست میں شامل کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جن کا فلسطینی سرکاری اداروں میں کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں قاہرہ کی جانب سے حماس پر بے سروپا الزام تراشی خود مصری حکومت کے لیے پریشانی کا باعث تو بنے گی لیکن اس سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ ایسے کسی بھی فیصلے سے اسرائیل تو خوش ہوسکتا ہے لیکن فلسطینی یا مصری عوام کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے باوجود مصری حکومت حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔

’’جم او نیل‘‘ کی معنی خیز پیش گوئی
یہ درست ہے کہ ارباب اختیار کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی میدان میں مسلسل زوال پذیر ہے۔ موجودہ حالات میں فوری بہتری کی توقع بھی کم ہی کی جا رہی ہے لیکن برطانیہ کے ماہر معیشت’’جم اونیلJim O Naill ‘‘ کی تازہ پیش گوئی کسی صورت میں نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اونیل کو عالمی معیشت کا ’’گرو‘‘ اور اسٹاک مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤ کا جادو گر مانا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2050ء میں پاکستان دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس وقت پاکستان معاشی طو ر پر 44 نمبر پر ہے۔

اگلے 35 برسوں میں غیرمعمولی معاشی ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچنا ناممکن بھی نہیں ہے۔ جم اونیل صرف برطانیہ ہی کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے ممتاز ماہر معیشت مانے جاتے ہیں۔ آج تک ان کی تقریبا تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔ 2001ء میں انہوں نے BRIC(برازیل، روس، انڈیا اور چین) کے بارے میں پیش گوئی کہ 2008ء تک یہ ممالک معاشی میدان میں تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے عالمی معیشت پر چھا جائیں گے۔ اس کی یہ پیش گوئی سو فی صد درست ثابت ہوئی۔2011ء میں اس نےMINT یعنی میکسیکو، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ترکی کو2025 ء کی بڑ ی عالمی معاشی طاقتیں قرار دیا جبکہ 2050ء تک پاکستان دنیا کی اٹھارہویں بڑی معاشی طاقت ہوگا۔ اونیل کے بہ قول اس وقت پاکستان کا کل ’’جی ڈی پی‘‘ 225.14 بلین ڈالر ہے جو کہ 2050ء میں بڑھ کر جرمنی کے موجودہ جی ڈی پی کے مساوی یعنی 3.33 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گا۔ تب پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کے گروپ اول میں ہوگا۔

جیم اونیل نے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے جو اہم نکات اور تجاویز پیش کی ہیں وہ کوئی مشکل نہیں ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان امن وامان کے مسائل پرقابو پانے کے ساتھ ساتھ ، چین سے معاشی تعلقات بہتر کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرے تو وہ با آسانی اپنے معاشی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ برطانوی ماہر معیشت کی اس پیشین گوئی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ پاکستانی قوم اور ارباب اختیار کے لیے ایک خوش کن خبر سے کم نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اونیل نے پیشین گوئی کر دی ہے اس لیے اب ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہیں۔ اس نے اہداف کے حصول کے لیے جن عناصر اربعہ کو لازمی قرار دیا ہے ان پر ہرصورت میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ لا ء اینڈ آرڈر ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے لیکن اونیل نے جتنا امن وامان کا قیام لازمی قراردیا ہے اتنا ہی چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بہتری پر بھی زور دیا ہے۔

عالمی سیاست کی جلتی پر امریکی تیل

$
0
0

اسلام آ باد:  چند سال قبل انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے متنبہ کیا تھا کہ اگر دنیا کے بیش تر ممالک نے اپنی انرجی پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ کیں تو دنیا بھر میں توانائی کی مانگ ممکنہ طور پر بڑھتی چلی جائے گی۔

اس وقت انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی اِی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نوبوٹا ناکا نے کہا تھا کہ دنیا میں توانائی کی مانگ 2030 تک بڑھتی ہی چلی جائے گی اور اس وجہ سے سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ آج کے مقابلے میں 2030 تک فوسل فیول، یعنی قدرتی ایندھن جس میں کوئلہ اور گیس وغیرہ بھی شامل ہیں، ان کے استعمال میں کمی نہ آئی تو اس کی ضرورت پچاس فی صد سے بھی تجاوز کر جائے گی ۔ نوبوٹاناکا نے یہ بات عالمی انرجی کی اہم رپورٹ، ورلڈ انرجی آؤٹ لک، کے اجرا کے موقع پر کہی تھی۔

انہوں نے واضح کیا تھا کہ بھارت اور چین، جن کی معیشتیں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، ان دو ممالک کو اس طلب کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عالمی توانائی فراہم کرنے کی مارکیٹ میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس بڑھتی ہوئی طلب پر قابو پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ظاہر سی بات ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی ترقی ہندستان اور چین کی اس عالمی توانائی کی مانگ میں مزید اضافہ کرے گی۔ اس رپورٹ پر وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا تھا ’’ اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا میں تیل کی پیدوار کے نقشے میں زبردست تبدیلی آنے والی ہے۔ امریکا میں تیل اور گیس کی پیداوار میں جو انقلاب آرہاہے، اس کی وجہ سے دنیا کا توانائی کانقشہ نئے سرے سے مرتب ہورہا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف توانائی کی فراہمی میں ایک انقلاب آئے گا بل کہ خود امریکی سیاسیات اور سفارت کاری بھی اس سے متاثر ہوگی‘‘۔

اس رپورٹ کے ٹھیک چھے سال بعد سال 2013 کے وسط میں جب شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار ناقابل یقین مثبت حد تک بڑھی تو تیل کی عالمی منڈی میں ایک تہلکہ مچ گیا اور متعدد ماہرین نے اس وقت یہ اندازہ لگایا کہ سال 2020 میں امریکا دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہو گا، جو سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا، گو کہ ماہرین کا یہ دعویٰ دھیرے دھیرے سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن چند ماہ پہلے تک کسی بھی عالمی تھنک ٹینک کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ امریکا نہایت چابک دستی سے ایران کے خلاف اپنے ایٹمی تحفظات کو اپنے مفادات میں بدل کر خطے میں توانائی کی طلب اور رسد کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی وہ چال چل جائے گا کہ سب منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

اب عالمی ادارے ’’ آئی اِی اے‘‘ ہی کا کہنا ہے ’’شمالی امریکا میں تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیداوار نے عالمی منڈی میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ پیرس میں قائم اس ادارے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے، شمالی امریکا کی ریاست نارتھ ڈیکوٹا میں تیل کی اضافی پیداوار اور کینیڈا کے’’آئل سینڈز‘‘ اگلے پانچ برسوں میں تیل کی عالمی منڈی میں اِسی طرح تبدیلی لائیں گے، جس طرح چین میں گذشتہ 15 برسوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی طلب سامنے آئی ہے‘‘ جب کہ اس ادارے کی انتظامی سربراہ ماریہ وین ڈر ہووین کا کہنا ہے ’’شمالی امریکا کی یہ پیش قدمی تیل کی عالمی منڈی میں ’’ ترتھلی‘‘ مچا دے گی۔ اگلے پانچ برسوں میں شمالی امریکا کا شمار مشرق وسطیٰ کے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) سے باہر تیل پیدا کرنے والے اْن ممالک میں ہوگا جو، دنیا میں پیدا ہونے والے کْل تیل کا دو تہائی پیدا کرتے ہیں۔ اوپیک ممالک اِس وقت دنیا میں 35 فی صد تیل کی مصنوعات پیدا کر رہے ہیں‘‘۔

اوپیک (Organization of the Petrolium Exporting Countries) پٹرول برآمد کرنے والے ملکوں کی ایک عالمی تنظیم ہے، اس میں الجزائر ، انگولا ، انڈونیشیا ، ایران ، عراق ، کویت ، لیبیا ، نائجیریا ، قطر ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور وینیزوئلا شامل ہیں۔ اوپیک کا بنیادی مقصد تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کو متوازن کرنا اور مناسب مقدار تک بڑھانا شامل ہے۔ اس کا مرکزی دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے اگرچہ آسٹریا اس کا ممبر نہیں ہے۔ وینیزوئلا جنوبی امریکا کا ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ترقی یافتہ دنیا تیل کو بڑے سستے داموں حاصل کر کے اسی سے بنائی ہوئی چیزیں تیسری دنیا کے ممالک کو منہگے داموں بیچتی ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں اصل طاقت امیر ملکوں کے پاس ہے جن کی حکومتیں اور تیل کمپنیاں مختلف حیلے بہانوں سے تیل کی رسد بڑھا کر تیل کی قیمت کو ایک سطح سے کم رکھتی ہیں۔

اس بات کو بنیاد بنا کر سب سے پہلے 1949 میں وینیزوئلا کے صدر نے ایران ، عراق ، کویت اور سعودی عرب کی حکومتوں سے رابطہ کیا جس کا مقصد ایک مشترکہ ادارہ قائم کرنا تھا جس میں تیل سے متعلق مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ اس وقت بات نہیں بنی کیوں کہ ان ملکوں میں امریکا ، برطانیہ اور فرانس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا بل کہ تیل کی کمپنیاں ان کی ملکیت تھیں۔ 1960 میں ان ہی ممالک کا اجلاس عراق کے شہر بغداد میں ہوا، جہاں اوپیک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ خیال تھا کہ اوپیک تیل کی عالمی رسد کو محدود کر کے اس کی قیمت کو ایک مناسب درجے تک لے آئے گی۔ ابتدائی ممبران یہ ہی ممالک تھے مگر 1975 تک قطر ، الجیریا (الجزائر) ، انڈونیشیا ، لیبیا ، نائجیریا ، متحدہ عرب امارات ، ایکواڈور اور گیبون شامل ہو گئے، ایکواڈور اور گیبون نے بعد میں اوپیک چھوڑ دی۔ جنوری 2007 میں انگولا نے اوپیک میں شمولیت حاصل کر لی۔ سوڈان کی شمولیت کی توقع بھی ہے۔ آج کل اوپیک کے ممبران تیل کے ذخائرکے پینسٹھ فی صد کے مالک ہیں اور کل پیداوار میں ان کا حصہ چالیس فی صد سے زیادہ ہے۔

آج کل شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کی جانے والی جدید تکنیک تیل میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے، اِس تکنیک میں پانی کی تیز دھار اور دیگر عناصر کو پہاڑوں کے بیچ تیزی سے چھوڑا جاتا ہے تاکہ پہاڑ سے تیل کے ذخائر کے مادوں کو کھدائی کے لیے نرم کیا جاسکے۔ شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں آنے والی یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال 2020 میں امریکا دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو پیچھے چھوڑ جائے گا البتہ تیل کی پیداوار کے عالمی ادارے کا یہ کہنا بھی ہے کہ شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار شاید اگلے چند برس تک وہیں محدود رہے لیکن تیل نکالنے کا جدید طریقہ دیگر کمپنیوں کو یہ موقع دے سکتا ہے کہ وہ اْن مقامات سے تیل پیدا کرنے کی کوشش کریں جنہیں اب تک پْرخطر اور گراں سمجھ کر مسترد کر دیا گیا تھا لیکن اِس صورت حال میں تیل کی عالمی منڈی کی جانب سے شدید ردِعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔

اس پر رواں سال امریکا نے عالمی سطح پر ایران کے قریب اور سعودی عرب سے دوری اختیار کر کے جو چال چلی، وہ شاید اسی شدید ردعمل سے بچنے کی ایک حکمت عملی ہے، عین ممکن ہے کہ اب نئے تناظر میں ایران اوپیک کے سالانہ اجلاس میں امریکی مفادات کا کھل کر تحفظ کرے ، جس سے ممکنہ ردعمل کی شدت میں خاطر خواہ کمی کا امکان روشن ہو جائے گا۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس ہے کہ گذشتہ سال کے امریکی اخبارات میںشائع ہونے والے متعدد کالموں اور تجزیوں سے اس چال (حکمت عملی) کے خدوخال اب ، 2014 میں کافی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔

گذشتہ سال ایران کی طرف سے عراق کوگیس کی ترسیل پر ایک مؤقر امریکی اخبارکی رپورٹ کا متن کچھ یوں تھا ’’ایران عراق کو قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے، اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں مدد مل رہی ہے اور واشنگٹن کو اِس پر خاصی تشویش ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا ’’ اگلے چار سال کے دوران اس گیس کی مجموعی مالیت چودہ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر تک چلی جائے گی، اِس سودے سے ایران کو مغرب کی طرف سے لگائی ہوئی اقتصادی تعزیرات کا مقابلہ کرنے میں بھر پور مدد ملتی ہے، ایران کی قدرتی گیس کی برآمدات دوگنی ہوجائیں گی اور گیس کے کنوؤں کی پیداوار، جو بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے رْکی ہوئی تھی، اس میں اب مزید توسیع ہوگی۔ اخبار نے عراق کے ایک ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا ’’اِس قدرتی گیس کی مدد سے دو بجلی گھر چلائے جائیں گے‘‘۔ اخبار نے مزید لکھا تھا کہ تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر لگنے والی مغربی تعزیرات کے بعد اس کی برآمدی منڈیاں تو سْکڑ گئی ہیں لیکن اْس کے لیے اِس سودے کی بہ دولت ایک اہم برآمدی منڈی کْھل جائے گی اور بغداد میں اس سودے پر دست خط کے بعد ایران، عراق کو روزانہ ایک کروڈ ڈالر مالیت کی گیس برآمد کرے گا۔ اِس طرح ایران عراق کو تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی گیس ہر سال برآمد کرے گا۔ اقتصادی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں پچھلے سال (2012) 26 ارب ڈالر سے زیادہ کی گراؤ ایا تھا۔ اوباما انتظا میہ کو ایران کے ساتھ عراق کے بڑھتے ہوئے تعلّقات پر تشویش لاحق ہے، خاص طور سے اس پر، کہ ایران شام کے صدر بشار الاسد کو اسلحہ اور نقدی فراہم کرنے کے لیے عراقی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے اور امریکی عہدے داروں کی بار بار تنبیہ کے باوجود ایران کی پروازیں جاری ہیں۔ ایران ترکی کو بھی قدرتی گیس فراہم کر رہا ہے۔ اخبار نے ترکی کی حکومت کے حوالے سے بھی بتایا تھا کہ وہ مغربی دباؤ کے باوجود ایران سے گیس خرید نے پر ڈٹا ہوا ہے۔

عراق کو گیس کی فراہمی کے لیے ایران، تْرکی ہی کے راستے پائپ لائن بچھا رہا ہے جو 90 فی صد مکمل ہو چْکی ہے اور دو ماہ میں مکمّل تیار ہو جائے گی‘‘۔ اسی طرح جب 2013 میں پاک ایران گیس معاہدہ طے پایا تھا تو اس پر بھی امریکا اور امریکی میڈیا کا رویہ اسی نوعیت کا تھا۔ اس وقت آئی اِی اے نے بتایا تھا کہ امریکا جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے وہ 2035 میں تیل کی اپنی تمام ضروریات ملکی وسائل سے پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا جب کہ 2016 تک امریکا تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے سعودی عرب اور روس پر سبقت لے جائے گا اور صرف دو عشروں میں توانائی کے میدان میں خودکفیل بھی ہو چکا ہوگا۔ امریکا اور کینیڈا کی طرف سے برازیل میں ’’شیل‘‘ آئل ڈرلنگ اور زیر آب تیل کی تلاش کے کام میں حاصل ہونے والی کام یابی کے نتیجے میں، اگلے 10برسوں کے اندر امریکا کا مشرق وسطیٰ کے سایہ تلے قائم تیل درآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم پر انحصار ختم ہوجائے گا اور وہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا نمایاں ملک بن چکا ہوگا کیوں کہ ایک طویل عرصے سے خودکفالت کی منزل امریکی راہ نماؤں کا ہدف رہی ہے‘‘۔

لیکن اسی حوالے سے گذشتہ سال پیرس میں ہی، توانائی استعمال کرنے والے 28 ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے کے مشیر نے یہ بھی کہا تھا کہ 2020 کے وسط تک جب نارتھ ڈکوٹا اور ٹیکساس کی وسطی امریکی ریاستوں میں تیل کی کانوں سے تیل نکلنا بند ہوجائے گا تو دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ملک میں امریکا کی برتری بھی ختم ہوجائے گی اور اْس کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک ہی بڑھتی ہوئی تیل کی ضروریات کا زیادہ تر حصہ پورا کریں گے۔

لیکن دوسری جانب آئی اِی اے نے کہا تھا کہ اْبھرتی ہوئی معیشتوں کے باعث دنیا بھر کی توانائی کی طلب میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ کہ 2030 تک تیل کے سب سے بڑے صارف کے طور پر چین، امریکا پر سبقت لے جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تیل کی ضرورت کے حساب سے، چین، بھارت اور مشرق وسطیٰ کو دنیا میں پیدا ہونے والے تیل کے تیسرے حصے کے استعال کی ضرورت پیش آئے گی تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں توانائی کی سلامتی کا معاملہ خطرات و خدشات سے دوچار ہو چکا ہے کیوں کہ2011 سے اوسطاً تیل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل تک بڑھ چکی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی تاہم ادارے کی پیش گوئی کے مطابق تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور 2035 تک یہ 128ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گی۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں آنے والا اضافہ نسبتاً یک ساں نوعیت کا ہے جب کہ قدرتی گیس کے نرخ عام طور پر مختلف سطح پر رہیں گے۔

تیل کے تناظر میں چلی جانے والی چالیںدراصل بھارت اور چین کی طلب اور رسدکو کنٹرول کرنے اور خطے میں اوپیک کی طرح کا ایک نیا ادارہ بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک اور سعودی عرب کو کارنر کرنے کی تیاریاں محسوس ہورہی ہیں۔ اس نئے ادارے میں جہاں امریکا خود مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے تو اس میں ایران کو بھی نمایاں کردار مل سکتا ہے، جس پر اسرائیل اور سعودی عرب کا سیخ پا ہونا اس امکان کی چغلی کھا رہا ہے۔

عباس علی بیگ : وہ ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹر، تنگ نظری جس کا کیرئیر نگل گئی

$
0
0

1959ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈکے دوران وجے منجریکر کے ان فٹ ہونے پر بیس سالہ عباس علی بیگ کو ٹیسٹ کیپ مل گئی۔

نوجوان نے کیرئیرکا عمدہ آغازکیا۔ انگلینڈ کے بہترین بولروں کا سامنا جی داری سے کرتے ہوئے،دوسری اننگز میںسنچری بناڈالی۔وہ پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے سب سے کم عمربھارتی کھلاڑی بھی بنے اور غیرملکی سرزمین پریہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے ہندوستانی بیٹسمین بھی۔دوران اننگز ہیرلڈ رھوڈز کا گیند کنپٹی پرلگنے سے انھیں ریٹائرڈہرٹ ہونا پڑا۔ دوبارہ میدان میں اترے توفوراًہی انھیں زخمی کرنے والے فاسٹ بولرکولگادیا گیا، جس نے باؤنسرز کے ذریعے دھمکانا چاہا مگرعباس علی بیگ اپنے انداز میں ہک ، پل کھیلتے رہے اور سنچری مکمل کرلی۔مایہ نازفاسٹ بولرٹرومین کا سامنا بھی اعتماد سے کیا۔ اس دورے میں بھارتی ٹیم کی خوب درگت بنی ، جیساکہ غیرملکی دوروں پراب بھی بنتی ہے،مگرعباس علی بیگ کے نام کا ڈنکا بج گیا۔بھارتی تاریخ دان مہیربوس اپنی کتاب “A Maidan View: The Magic of Indian Cricket” میں لکھتے ہیں کہ عباس علی بیگ کی کارکردگی نے انھیں فوراً ہیرو کا درجہ دلادیا،اوروہ ایسے کرکٹرکے طور پرمتعارف ہوگئے،جو اینٹ کا جواب پتھرسے دے سکتا، یعنی بولراگرباؤنسرپھینکے گا تو جواباًاسے ہک کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عباس علی بیگ کو جب بھارتی ٹیم میں شامل کیا گیا ،وہ انگلینڈ میں موجود تھے، جہاں وہ آکسفرڈ کی طرف سے شاندار کھیل کے ذریعے اپنا لوہا منوا کر سمرسٹ کاؤنٹی کرکٹ کلب کا حصہ بننے جارہے تھے۔کیتھ ملر نے بھی ان کو بھارتی ٹیم میں شامل کرنے پرزوردیا ۔ انگلینڈ کے بعد بھارتی ٹیم نے ہوم سیریز میں آسٹریلیاکے مدمقابل ہوناتھا۔ رچی بینو کی قیادت میں بہترین بولروں سے لیس آسٹریلین ٹیم کے خلاف بھی عباس علی بیگ نے اچھا کھیل پیش کیا۔بمبئی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں انھوں نے نصف سنچری بنائی اورمیچ ڈرا کرنے میں نمایاں کرداراداکیا۔عباس علی بیگ کی اٹھان کی بنا پرماہرین ان کے تابندہ مستقبل کی گواہی دے رہے تھے، مگرپھراچانک سب کچھ پلٹ گیا ۔وہ ہیرو سے زیرو بن گئے۔ 1960ء میں انڈیا پاکستان ٹیسٹ سیریز میں خراب کارکردگی نے ان کی منزل کھوٹی کردی۔بند دماغوں اور تنگ نظروں نے عباس علی بیگ کے جلد آؤٹ ہونے کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے مہمان ٹیم سے ان کی درپردہ ہمدردی کا شاخسانہ قراردیا۔

ان پرخوب لے دے ہوئی۔ہرچند کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان 1965ء کی جنگ سے پانچ برس پہلے کی بات ہے، لیکن اس وقت بھی تقسیم کے وقت کی مسموم فضا کے اثرات باقی تھے۔اس ماحول سے کھلاڑی بھی دباؤ میں رہتے۔ ہار کے خوف سے دونوں ٹیمیں دفاعی حکمت عملی اپناتیں، اور ٹیسٹ میچ ڈرا ہوتے، نتیجتاًبیچارے شائقین کوبیزارکن کرکٹ دیکھنے کو ملتی۔ 1955ء میں پاکستان میں سیریز ہوئی تو بے نتیجہ اور ایسا ہی بھارت میں ہونے والی1960ء کی سیریز میں ہوتا ہے۔اس عرصے میں ہندوستانی مسلمان کھلم کھلاپاکستانی کرکٹ ٹیم کی سپورٹ کرتے، جس پرہندو برافروختہ ہوتے۔ہندوستانی مسلمانوں کے رویے میں1971ء کے بعد تبدیلی آئی، جب وہ پاکستان سے مایوس ہوگئے اور ہماری کرکٹ ٹیم کے لیے ان کی طرف سے ہمدردی کے ماضی جیسے مظاہردیکھنے میں نہ آئے، گوکہ حمایتی افراد بعدازاں بھی موجود رہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم جو 1979ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے، اپنی کتاب ’’اقبال قاسم اور کرکٹ‘‘میں ہندوستان سے ہارنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں میں پائی جانے والی مایوسی کے بارے میں لکھتے ہیں’’انڈیا کے بڑے بڑے شہروں کے لوگ ہم سے ملتے اور ہماری شکست پرحیرت کا اظہار کرتے، خاص طورپرانڈین مسلمانوں کو اس شکست کا کافی ملال تھا۔اس شکست سے ان کو بڑی شرمندگی ہوئی،اس کی وجہ پاکستان سے ان کی جذباتی وابستگی ہے، اس لیے ان سب کو گہرا صدمہ ہواخصوصاًاس وقت جب ہندؤوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں،اور مسلمانوں کے علاقہ میں جلوس نکالے، بہت سے مسلمان اس شکست پرروپڑے۔مجھ سے جس انڈین مسلمان کی ملاقات ہوئی اس نے بس یہی درخواست کی کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو سمجھائیں آپ لوگ ہماری عزت رکھیں، ہاریں نہیں، جیتیں۔میں ان کو بہت سمجھاتا کہ ہارجیت تو کھیل کا حصہ ہے،مگر وہ اتنے جذباتی ہوا کرتے کہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔‘‘

پاکستان ٹیم کے بہی خواہ مسلمان اب بھی موجود ہوں گے مگرایک توان کی تعداد بہت کم ہوگی، اوردوسرے ان کے لیے اپنے جذبات کاسرعام اظہاربھی ممکن نہ ہوگا۔یہ اور بات کہ ہندؤوں کی جانب سے مسلمانوں پرپاکستان کی حمایت کے الزام کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔کچھ دن قبل ہی تو ندا کرمانی اپنی کتاب Questioning the ‘Muslim Woman’: Space, Identity and Insecurity in an Urban Locality کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتارہی تھیں کہ تحقیق کے لیے دہلی کے جس خاص علاقے ذاکرنگر کو انھوں نے فوکس کیا، وہاں کے مسلمانوں نے انھیں بتایا کہ ان پر پاکستانی ٹیم کوسپورٹ کرنے کا الزام لگتا ہے۔اب توخیر حالات ہی اور ہیں مگرجس زمانے میں ہندوستانی مسلمان پاکستانی ٹیم کی حمایت کرتے ہوں گے، اس وقت بھی یہ قرین قیاس نہیں کہ بھارتی ٹیم کا کوئی مسلمان کھلاڑی پاکستان کے خلاف جان بوجھ کرخراب کھیل پیش کرنے کا تصورکرے۔

کسی پروفیشنل کھلاڑی سے ایسی توقع عبث ہے۔اور بالفرض محال اگرکوئی ایسا کربھی گزرے توبھی کسی کا کیا لے گا،اپنے پاؤں پرخود ہی کلہاڑی مارے گا، کہ ٹیم میں بقاکا انحصارتوکارکردگی پر ہوتا ہے۔لیکن نام نہاد قوم پرستی کے ماروں کو اس قدر فرصت کہاں کہ وہ غوروفکرسے کسی نتیجے پرپہنچیں،انھیں تو بس الزام دھرنا ہوتا ہے۔افسوس!عباس علی بیگ جیسا باصلاحیت بیٹسمین اندھی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھااورصرف دس ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرسکا۔ بیمارذہن رکھنے والوں کو کون سمجھاتا کہ بڑے بڑے بیٹسمین بھی ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔کتنے ہی ہندوکھلاڑی ایسے رہے ہیں، جن کا چراغ پاکستانی ٹیم کے آگے نہ جل سکا، توپھران کی اس ناکامی کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔زہریلے خطوط اورتاروں کے ذریعے عباس علی بیگ کی حب الوطنی کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔اس پروہ دباؤ میں آگئے۔کلکتہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں حسیب احسن کے ہاتھوں آؤٹ ہونے پرتنقیدکا کوڑاان پرخوب برسا۔وہ ٹیم سے ڈراپ کردیے گئے، اور ان کا کیرئیرایک طرح سے انجام کو پہنچ ہی گیا۔آنے والے برسوں میں وہ رانجی ٹرافی اور دلیپ ٹرافی میں رنزوں کا انبارلگاتے رہے ،مگرسلیکٹروں کا دھیان ان کی طرف نہ گیا۔ 1966ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کی بنا پرآخرکار ویسٹ انڈیزکے خلاف سیریزمیں عباس علی بیگ کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔دوٹیسٹ میچ وہ کھیلے مگرکچھ خاص نہ کرسکے، اور پھراس کے بعد کبھی دوبارہ ٹیسٹ نہ کھیل سکے ۔ 1971ء میں انگلنیڈ کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کا وہ حصہ تھے، مگرانھیں فائنل الیون کا حصہ نہ بنایا گیااور اشوک منکڈ کو مسلسل ناکامی کے باوجود ان پرترجیح دی گئی۔ دراصل عباس علی بیگ کا کیرئیر پاکستان کے خلاف سیریز میں اسکورنہ کرنے پر ہونے والی تنقید کے بعد سنبھل نہ سکا۔۔عباس علی بیگ کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی، اس کی بنیاد پرکرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفوانھیں انڈین کرکٹ کے tragic figuresمیں شمارکرتی ہے۔

چھوٹی سوچ جیت گئی اور عباس علی بیگ ہارگئے۔ عباس علی بیگ کے ساتھ اس ناانصافی کے بعد نواب منصورعلی خان بھارتی ٹیم کا حصہ بنے۔جلد ہی ان کو کپتان بنادیا گیا۔چھیالیس ٹیسٹ میچ جو وہ کھیلے، ان میں سے چالیس میںبھارتی ٹیم کی کپتان رہے۔سلیم درانی بارہ تیرہ سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔یہ دونوں عباس علی بیگ کے برعکس نام نہاد حب الوطنی کی چھلنی سے اس لیے آساں گزرگئے، کہ اپنے کیرئیرکے دوران ان کے پاکستان سے کھیلنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئی،کیوں کہ اس عرصے میںدونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤکے باعث کرکٹ سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ سترہ برس کے تعطل کے بعد1978میں دونوں ٹیموں کا سامنا ہوا تومذکورہ دونوں کرکٹرریٹائرڈ ہوچکے تھے اور یوں بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، مگرپھربھی1979ء میں پاکستان ٹیم کے دورہ بھارت کے دوران بمبئی ٹیسٹ میں وکٹ کیپرسید کرمانی کی کارکردگی کو بھی تنگ نظری کی عینک سے دیکھنے کی کوشش ہوئی ضرور مگربات چلی نہیں۔

اس کے بعد بھی بھارتی ٹیم میں مسلمان کھلاڑی آتے رہے، اور اس وقت جب یہ سطوررقم کی جارہی ہیں، بھارتی ٹیم میں ظہیرخان اور محمد شامی شامل ہیں۔مسلمان کھلاڑیوں میں اظہرالدین کانام نمایاں تررہا، جو دس برس بھارتی ٹیم کے کپتان رہے۔ ان کا تعلق بھی عباس علی بیگ کی طرح حیدرآباد دکن سے ہے۔کرکٹ کے حوالے سے اس زرخیزسرزمین نے ہندوستان کی طرح پاکستان کو بھی آصف اقبال کی صورت میں ٹیسٹ کپتان دیا،جو ساٹھ کی دہائی میں ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ آصف اقبال اور عباس علی بیگ دونوں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ساتھی رہے۔1960ء میں آصف اقبال ساؤتھ زون کی طرف سے پاکستانی ٹیم کے خلاف سائیڈ میچ بھی کھیلے۔

بات ہورہی تھی متعصبانہ اورتنگ سوچ کی، بھلا تواسی میں ہے کہ ایسی علتوں کو کھیل سے دورہی رکھا جائے مگرنفرت پسند اپنا گند ڈالنے سے کہاں بازآتے ہیں۔ انتہا پسند اور متعصب بال ٹھاکرے،جن کا مسلمانوں پربرسنا شیوہ رہا۔ ان موصوف نے ایک بارفرمایا’’ یہ مسلمانوں کی ڈیوٹی ہے ، وہ ثابت کریں کہ وہ پاکستانی نہیں۔بھارت جب کبھی بھی ہارے ، میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھناچاہتا ہوں۔‘‘البتہ ایک دفعہ اس کٹرپنتھی نے اظہرالدین کی کارکردگی سے خوش ہوکرانھیں نیشنلسٹ مسلمان قراردیا۔1998ء میں لال کرشن ایڈوانی نے انتخابی جلسے میں مسلمان نوجوانوں کو محمد اظہرالدین اور اے آررحمان کے نقش قدم پرچلنے کا مشورہ دیا۔ اظہرالدین پرجب میچ فکسنگ کے الزامات لگے تب انھیں بھی لگاکہ مسلمان ہونے کے باعث وہ نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے جنوری 2001 میں پہلی بارمیچ فکسنگ کے الزامات کے حوالے سے گفتگوکی تو کہا کہ بمبئی لابی حسد کی وجہ سے ان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔

بھارت کے اس سابق کپتان نے یہ سوال اٹھایا’’کوئی بمبئی جم خانہ کلب کے لاکرزسے مختلف کرنسیوںمیں ملنے والے سنیل گواسکرکے سترلاکھ روپے کی بات نہیں کرتا۔‘‘ خیریہ معاملہ ہندومسلم کا نہیں تھابلکہ اظہرالدین اپنی کھال بچانے کے لیے ایسی باتیں کررہے تھے، آخردس برس وہ مسلمان ہوکرکپتان بھی تو رہے،جو ہندوستانی معاشرے کی کشادہ ظرفی کی دلیل ہے۔ ممتازکرکٹراور مبصر سنیل گواسکر کا1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران اپنے تبصروں میں بڑھ چڑھ کرپاکستانی ٹیم کی حمایت کرنا پاکستانی عوام کے دل میں گھرکرگیا تھا۔ورلڈ کپ کی خوشی منانے کے حوالے سے کراچی میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے سنیل گواسکرکو مدعو کیا گیا تو شیو سینا نے انھیں پاکستان جانے سے منع کیا لیکن وہ مانے نہیں۔ ان کا موقف تھا کہ وہ پاکستان ایک ایشین اور کرکٹرکی حیثیت سے جارہے ہیں۔

ہندوستان کی طرح ہمارے ہاں بھی بعض اوقات معاملات کوتنگ نظری سے دیکھا جاتا ہے۔بہت سی مثالوں میں سے صرف ایک کا ہم ذکرکردیتے ہیں۔2011ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل سے قبل عظیم کرکٹر عمران خان نے بھارتی ٹیم کو پاکستان کے مقابلے میں فیورٹ قراردیا۔اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پران کا یہ دیانت دارانہ تجزیہ تھا، اوریقیناً پاکستانی ہونے کے ناتے وہ دل سے توپاکستان کی کامیابی کے خواہاںہی ہوں گے۔کسی ایک کوفیورٹ ٹیم کہنے سے مراد یہ تھوڑی ہوتی ہے کہ وہ ٹیم ہی لازماً جیتے گی بلکہ یہاں زیادہ امکان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔میچ کے نتیجے نے ثابت بھی کردیا کہ عمران خان کا تجزیہ درست تھا۔ہمارے ہاں چونکہ عقل کے بجائے جذبات پرزور زیادہ ہوتا ہے، اس لیے عمران خان نے بھارتی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا توان پرتنقید کا در کھل گیا۔ اور تو اور ان کے سیاسی مخالفین بھی پیچھے نہ رہے،اوران کی حب الوطنی کو معرض بحث میں لائے، جو نہایت غیرمناسب بات تھی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے، جو ان دنوں وزیراطلاعات کے منصب پرفائز ہیں، بیان جاری فرمایا:

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارتی ٹیم کو فیورٹ قرار دینا افسوسناک اور سمجھ سے بالاتربات ہے، مزنگ چونگی کی ریلی میں پاکستانی عوام سے جیت کی دعا کرنے کی اپیل کرنے والے عمران خان کو ہندوستان پہنچتے ہی اب کیسے بھارتی فتح نظرآنا شروع ہوگئی ہے۔ایک پاکستانی سیاسی رہنما کو بھارت کی فتح کی پیشگوئی کرنا ہرگززیب نہیں دیتا، کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے اپنی ٹیم اور موجودہ کپتان پرعدم اعتماد کرکے 16کروڑ پاکستانی عوام کے جذبات کی توہین کی ہے۔ عمران خان میڈیا میں’ان‘رہنے کے لیے ایسی توتا فالیں نہ نکالیں، پاکستان ٹیم انشاء اللہ جیتے گی۔ عمران خان بھارت جاکرپاکستانیت کا لبادہ کیوں اتاردیتے ہیں، وہ گنگا کے دیس میں ہی الٹی گنگا بہانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘ ان دنوں پرویزرشید کی پارٹی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے سلسلے میں دبلی ہوئی جارہی ہے لیکن جب تک اس عامیانہ سوچ کا، جس کا حوالہ ہم نے اوپردیا ہے، اظہارہوتارہے گا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نارمل نہیں ہوں گے۔قصہ مختصریہ کہ مبنی برتعصب رویہ سرحد کے اس پار ہو یا اس پار اس کی بہرصورت مذمت کی جانی چاہیے، کہ دونوں معاشروں کا بھلا اسی میں ہے ، متعصب آدمی ، کسی دوسرے گروہ یا قبیلے کی بعد میں مگر پہلے اپنی جڑ کاٹتا ہے۔ علامہ اقبال کا سبق ہے:

شجرہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمراس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

٭ پاکستان کے سابق کپتان جاوید برکی آکسفرڈ کرکٹ ٹیم میں عباس علی بیگ کے ساتھی رہے۔کرک انفو کو 2002 ء میں اپنے انٹرویو میں انہوں نے عباس علی بیگ سے متعلق اپنی ایک یاد کا ذکریوں کیا: ’’یارکشائرکے ساتھ ایک میچ میں آکسفرڈ کے سترہ رنز پردوکھلاڑی آؤٹ ہوگئے اورعباس علی بیگ میرے پارٹنر کی حیثیت سے کھیلنے میدان میں اترے،توٹرومین نے دومتواتر باؤنسروں سے ان کا استقبال کیا،جن کو عباس علی بیگ نے باؤنڈری کی راہ دکھائی۔تیسری گیندجو اندرآتا ہوا یارکرتھا،اس کے ساتھ بھی پہلی دو گیندوں جیسا سلوک ہوا۔بیگ نے اس میچ میں 130 رنز اسکور کیا۔اس سیزن میں اس نے دو عظیم فاسٹ بولروںبرائن سٹیتھم اور کیتھ ملرکا سامنا کرتے ہوئے دو خوبصورت نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ملر نے اپنے اخباری کالم میں لکھا کہ انھوں نے عباس علی بیگ جیسی عمدہ بیٹنگ طویل عرصے کے بعد دیکھی ہے۔ اگلے سیزن میںوہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کا حصہ تھے۔زبردست سنچری کے ساتھ انھوں نے اپنے کیریئر کا بڑا دھماکہ خیزآغازکیا۔ ‘‘

آل ٹائم حیدرآباد الیون:٭ حید رآباد کی کرکٹ کے حوالے سے بڑی منفرد پہچان رہی ہے اور بڑے نامی گرامی کرکٹرزاس خطۂ زمیں نے پیدا کئے۔ممتاز بھارتی تاریخ دان رام چندر گوہا نے اپنی کتاب”The States of Indian Cricket” میں آل ٹائم حیدرآباد الیون کے لیے جن کھلاڑیوں کو چنا، ان کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیسے کیسے نامورانِ کرکٹ حیدرآباد کی ٹیم میں شامل رہے۔ ایم ایل جیسمہا،عباس علی بیگ،منصورعلی خان پٹودی،وی وی ایس لکشمن، محمد اظہرالدین،آصف اقبال،سید عابد علی،کرشنا مورتی،این ایس یادو،وینکٹا پاتھی راجو، غلام احمد۔

پرستار خاتون کی بے باکی:٭ 1960ء میں آسٹریلیا کے خلاف بمبئی ٹیسٹ کی دوسری اننگزکے دوران عجب واقعہ پیش آیا۔چائے کا وقفہ ہونے پرعباس علی بیگ پویلین لوٹ رہے تواچانک فراک پہنے بیس ایک سال کی لڑکی نارتھ اسٹینڈسے برآمد ہوئی ، اور جنگلہ پھلانگ کر فرط جذبات سے عباس علی بیگ کا گال چوم لیا۔لڑکی کی اس بیباکی نے وہاں موجود افراد کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔وجے مرچنٹ جو اس وقت کمنٹری باکس میں موجود تھے، کہنے لگے کہ انھوں نے اس گراؤنڈ پررنزوں کا ڈھیرلگایا لیکن کبھی کسی خاتون نے ان کی جناب میں ایسے التفات کا مظاہرہ نہ کیا۔اس واقعہ نے عباس علی بیگ کی مقبولیت کا دائرہ وسیع کردیا۔اس قصے کا ذکربعد میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی یہ تحریروں میں کبھی کبھار جگہ بنالیتا ہے۔کچھ ہی عرصہ قبل نواب منصور علی خان پٹودی کے بارے میں’’نواب آف کرکٹ‘‘کے نام سے کتاب چھپی تواس میں کرکٹ کے رسیا ممتاز اداکارنصیرالدین شاہ نے پٹودی پرمضمون میں بچپن میں کرکٹ سے اپنے عشق کی داستان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ عباس علی بیگ کی خاتون کے ساتھ اتری یادگارتصویرکاٹ کرانھوں نے اپنی اسکریپ بک میں جڑ لی تھی۔

طالبان پالیسی میں تبدیلی پارٹی قیادت میں بحث کا نتیجہ ہے

$
0
0

وطن عزیز کے تمام اہم نوعیت کے خارجہ امور میں ایک نام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان، مسئلہ کشمیر، ایٹمی دھماکے، امریکہ، بھارت، چین اور سوویت یونین سے تعلقات ہوں یا حالیہ افغان وار، ان تمام امور میں اس شخصیت نے موثر کردار ادا کیا۔ بین الاقوامی سطح پر اپنا نام اور مقام بنانے والی یہ شخصیت پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما خورشید محمود قصوری ہیں۔ خورشید قصوری خارجہ امور پر دسترس کے ساتھ ملک کے داخلی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ خود کیا یا کسی طاقت کے دباؤ پر شامل ہوئے؟
خورشید قصوری: دیکھیں جی! پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لاہور جلسہ (اکتوبر 2011ء) سے تقریباً 6،7ماہ قبل ہی میرا چھوٹا بھائی بختیار قصوری تحریک انصاف میں شامل ہو چکا تھا۔ جلسہ میں، میں نے قصور سے لوگوں کی بھاری اکثریت کو شمولیت کروائی۔ لیکن میں نے اس وقت تک کوئی پارٹی جوائن نہیں کی تھی، کیوں کہ عمران خان سے میری بات چیت چل رہی تھی، وہ کئی بار میرے گھر بھی آئے، لیکن اس وقت جو بات چیت چل رہی تھی وہ الائنس کی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ہم خیال، جس میں حامد ناصر چٹھہ، سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر اور ہم سب شامل تھے، تو ہم تحریک انصاف سے الائنس کی بات کر رہے تھے، بعدازاں اس بات چیت میں مسلم لیگ کے دیگر دھڑے بھی شامل ہو گئے۔

میرا تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ بالکل واضح تھا، میں اس چیز کے حق میں تھا کہ تحریک انصاف میں شمولیت کر لی جائے لیکن ہمارا گروپ الائنس چاہتا تھا، جسے تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے مسترد کر دیا حالاں کہ عمران خان پہلے میرے گھر پر اس بات پر راضی ہو چکے تھے۔ پھر الائنس نہ بننے کی وجہ سے میں نے تحریک انصاف کو باقاعدہ جوائن کر لیا۔ قصور میرا سیاسی حلقہ ہے اور سیاسی نقطہ نظر سے اس وقت ن لیگ میں شمولیت میرے حق میں تھی، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ ن لیگ کی طرف سے مجھے متعدد بار شمولیت کی دعوتیں دی گئیں۔ نواز شریف جب سعودیہ سے ملک واپس آئے تو سعودی سفارت خانے میں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے براہ راست مجھے پارٹی میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت بھی دی۔ نواز شریف نے مجھے پنجاب ہاؤس بلایا اور وہاں ان کے معتبر ساتھی سعید مہدی نے ایک کونے میں لے جا کر مجھے ن لیگ میں شمولیت کے بارے میں پوچھا تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا، کیوں کہ میں پہلے ہی تحریک انصاف میں شمولیت کا ذہن بنا چکا تھا۔

ایکسپریس: قومی اور مقامی سطح پر 2002ء تا 2007 میں آپ اپنی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اگر اچھی کارکردگی تھی تو پھر دو بار 2008ء اور 2013ء میں آپ اپنے حلقے سے جیت نہ سکے۔۔۔کیوں؟
خورشید قصوری: کارکردگی کی جو بات ہے، وہ میں اپنے منہ سے کیا بیان کروں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اندھے کو بھی نظر آجاتی ہیں۔ جو لوگ لاہور سے قصور اور پھر دیپالپور جاتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں جو ایکسپریس ویز اور جدید سڑکیں بنی ہیں، پہلے کبھی ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے قصور ایک پسماندہ علاقہ تھا اور اس وقت یہ اشتہارات چھپ رہے تھے کہ قصور ایشیا کا گندا ترین شہر ہے۔ ضلع میں گیس تھی نہ سرحد ہونے کی وجہ سے کوئی فون چلتا تھا۔ قصور میں سب سے پہلا اور بڑا واٹر ٹریمنٹ پلانٹ میں نے لگوایا، سوئی گیس لے کر گیا اور مواصلاتی رابطوں کا یہ عالم ہے کہ آج ایک ایک بندے کے پاس دو، دو موبائل ہیں۔ ترقیاتی کام ہونے کی وجہ سے وہاں کی پراپرٹی کی قیمت تین سے چار گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کتنی ترقی ہوئی ہے۔ ضلع قصور جتنا پسماندہ تھا، آج اتنا ہی ترقی یافتہ ہو چکا ہے اور جب لاہور قصور روڈ پر انڈسٹری لگے گی تو انشاء اللہ دیکھئے گا یہ علاقہ کہاں چلا جائے گا۔

اچھا دوسری بات جو آپ نے الیکشن ہارنے کی تو اس میں یہ عرض ہے کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایسے ارکان منتخب ہو جاتے ہیں، جن کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہوتی اور دوسری طرف بہترین کارکردگی دکھانے والے ہار جاتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے حق یا مخالفت میں ہوا چلتی ہے، اُس وقت ہوا ن لیگ کے حق میں تھی اور دوسرا الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ وقت بتائے گا یا تاریخ دان کہ کتنی دھاندلی ہوئی۔ اس کے علاوہ میرے ہارنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک ہی حلقہ (NA140) میں، میں اور سردار آصف احمد علی آ گئے۔ ماضی میں ہم دونوں ایک دوسرے کو ہرا چکے تھے لیکن میری پارٹی سے یہ غلطی ہوئی کہ ہمیں ایک ہی حلقے میں ڈال دیا اور کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا کہ ٹکٹ کس کو دیا جائے گا؟۔ جنرل الیکشن سے 20 روز قبل تک میرے پاس ٹکٹ تھا نہ سردار آصف کے پاس، اور اس چیز کا ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا‘ کیوں کہ جس نے الیکشن لڑنا ہوتا ہے وہ تو پانچ، پانچ سال مہم چلاتے ہیں۔ پھر تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن آخری وقت تک چلتے رہے، جس کا پارٹی کو نقصان پہنچا کیوں کہ الیکشنوں میں تعلقات خراب ہوتے ہیں، تضادات بڑھتے ہیں۔ پارٹی الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں ہوئیں جس سے پھر ہمیں نقصان ہوا۔ تو ایسے بہت سارے عناصر نے مل کر ہماری ناکامی میں کردار ادا کیا۔

ایکسپریس: تحریک انصاف کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں، پارٹی کو ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے وہ ملک کی سب سے بڑی عوامی طاقت بن جائے؟
خورشید قصوری: تحریک انصاف آج پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ہے، جس نے ملک کے ہرکونے سے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف اس سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی اگر انتخابات منصفانہ اور پارٹی کے اندرونی الیکشن عام انتخابات سے ایک سال قبل ہو چکے ہوتے۔ ہمیں اگلی بار اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا، جس میں ایک تو یہ ہے کہ پارٹی الیکشن جلد کروائے جائیں، امیدواروں کو دو سال قبل ہی بتا دیا جائے کہ آپ امیدوار ہوں گے اور گزشتہ الیکشن میں جن کی اچھی کارکردگی تھی، انہیں ابھی سے تیاری کرنے کی ہدایات جاری کر دینی چاہیں، تاکہ جب الیکشن قریب آئے تو لوگ سردار آصف اور خورشید قصوری کو پوچھتے نہ پھریں کہ کیا آپ کے پاس ٹکٹ ہے؟۔ اور جہاں تک تحریک انصاف کے مستقبل کا سوال ہے تو نوجوان اس تحریک کے ساتھ ہیں، جو پاکستان کی آبادی کا کثیر حصہ ہے، تو اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف مستقبل کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

ایکسپریس:طالبان کے حوالے سے تحریک انصاف اور عمران خان کے موقف میں حالیہ تبدیلی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ طالبان سے وابستہ توقعات ٹوٹنے پر عمران خان نے موقف بدلا یا کسی دباؤ نے ایسا کروا دیا؟
خورشید قصوری: نہیں! دباؤ والی کوئی بات نہیں، اگر ایسا ہوتا تو عمران خان مذاکرات کی بھرپور حمایت کا موقف ہی اختیار نہ کرتے کیوں کہ یہ کوئی مقبول فیصلہ تو نہیں تھا، لوگ پوچھتے تھے کہ عمران خان نے مذاکرات کی حمایت کا فیصلہ کیوں کیا؟ پھر پارٹی کے اندر اس معاملہ پر بہت بحث چلتی رہی کیوں کہ پارٹی میں بھی مذاکرات کی مخالفت کرنے والے لوگ موجود تھے، لیکن جب پارٹی سطح پر حمایت کا فیصلہ ہو گیا تو کسی نے بات نہیں کی۔ اب موقف کی تبدیلی کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اسی بحث کا نتیجہ ہے جو کئی ماہ سے چلتی رہی۔ اس کے علاوہ موقف تبدیلی کا دوسرا بڑا عنصر یہ ہے کہ طالبان نے جس طرح معصوم سویلینز اور ہمارے پولیس والوں کو قتل کیا اور ہمارے 21 سکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر ان کی نعشیں پھینک دیں تو پھر حمایت جاری نہیں رہ سکتی تھی۔ دیکھیں! تحریک انصاف، پاکستان کی پارٹی ہے، کوئی باہر کے لوگ تو نہیں ہیں کہ پولیس اور فوج پر حملے ہو رہے ہوں اور ہم حمایت جاری رکھیں۔ تحریک انصاف پاکستان اور پاکستانیوں سے کٹ کر نہیں رہ سکتی۔ تو یہ وہ وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے موقف میں تبدیلی آئی ہے، اس میں پریشر یا دباؤ والی کوئی بات نہیں تھی، ہاں دباؤ تو تب ہوتا جب تحریک انصاف وہ کام کرتی، جو اسٹیبلشمنٹ یا فوج چاہ رہی تھی، ہم نے تو ایسا نہیں کیا، پھر امریکہ سے بڑا کس کا دباؤ ہو سکتا ہے، ہم نے تو (تادم تحریر) نیٹو سپلائی بھی بند کر رکھی ہے۔

ایکسپریس:اپنی پارٹی کے حوالے سے کیا آپ کچھ تحفظات رکھتے ہیں، کیوں کہ آپ ایک ممتاز شخصیت ہیں لیکن پارٹی میں آپ کا کوئی لیڈنگ کردار نہیں؟
خورشید قصوری: اس کی کئی وجوہات ہیں، میری مصروفیات زیادہ ہیں، ایک تو میں ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ کا چیئرمین ہوں، جس میں کئی ممالک کے صدور اور وزرائے خارجہ شامل ہیں اور مجھے اس سلسلہ میں بیرون ملک بھی جانا پڑتا ہے، جس میں ظاہر ہے بہت وقت لگتا ہے۔ پھر پارٹی امور میں زیادہ حصہ میرا چھوٹا بھائی بختیار قصوری لیتا ہے، میں کور کمیٹی میں شامل ہوں اور پارٹی پالیسی میں رائے دیتا ہوں لیکن مقامی سیاست (ضلع قصور) میں بہت دلچسپی لیتا اور وقت دیتا ہوں، کیوں کہ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے’’All politics is local‘‘۔ اب بلدیاتی انتخابات کی بات چیت چل رہی ہے، اس کے لئے ہم نے بہت مضبوط گروپ بنایا ہے جو ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے گا۔

ایکسپریس: مشرف دور سے قبل آپ نواز حکومت میں بھی شامل تھے اور اطلاعات کے مطابق اس وقت مجوزہ پندرھویں ترمیم کی مخالفت پر آپ کو پارٹی اور پارٹی سربراہ کی شدید ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، دراصل معاملہ کیا تھا؟
خورشید قصوری: پندرھویں ترمیم میں مجھے کوئی مربعے تو نہیں ملنے تھے، لیکن یہ ایک قومی معاملہ تھا، جس میں وزیراعظم کو اتنی طاقت دی جا رہی تھی کہ جمہوریت ختم ہو جاتی، تو میں نے کہا اس ترمیم سے قائداعظم اور اقبال کا پاکستان نہیں رہے گا۔ مذہبی حلقوں کی حمایت کے لئے اس کا نام شریعت بل رکھ دیاگیا تھا، پندرھویں ترمیم میں آئین کو بدلنے کا طریقہ بدل دیا گیا تھا، وزیراعظم جب چاہے آئین کی کسی بھی شق کو2/3 اکثریت کے بغیر بدل سکتا تھا۔ تو اس وقت اجلاس میں، میں نے کہا کہ اتنی آسانی سے تو لاہور کے فٹبال کلب کا آئین بھی نہیں بدل سکتا، جتنا پندرھویں ترمیم میں طریقہ طے کیا جا رہا ہے۔ تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا نواز شریف سے اتنا جھگڑا ہوا کہ انہوں نے کہا کہ پھر آپ استعفیٰ دیں، جس کے لئے میں ذہنی طور پر پہلے ہی تیار تھا۔ جس کمیٹی روم میں ہم بیٹھے تھے وہ بڑا تھا، میں ایک کونے سے اٹھا اور وزیراعظم کی طرف چل پڑا، لوگ مجھے روک رہے تھے لیکن میں نے وزیراعظم کے سامنے استعفیٰ رکھ دیا۔ اس دوران وہاں بیٹھے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ استعفی دیں گے تو پھر ہم بھی دیں گے۔ بعدازاں وہاں بیٹھے لوگوں نے میرا استعفیٰ پھاڑ دیا۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ تو نہیں تھا؟ میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ یہ میرے ملک کے لئے اچھا نہیں ہے۔ جیسے آپ اب دیکھیں یہ جو طالبان کی سوچ ہے، وہ ہمارے ملک کے لئے اچھی نہیں ہے۔ میں تو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان چاہتا ہوں۔

ایکسپریس: آپ کے بیانات کے مطابق مشرف دور میں، جب آپ وزیرخارجہ تھے، کشمیر کا معاملہ حل ہونے کے قریب تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی؟ حالاں کہ دوسری طرف تاثر یہ ہے کہ مشرف دور میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پاکستان نے پسپائی اختیار کی۔
خورشید قصوری: یہ تاثر صرف مخالفین کا ہے کہ اس دور کی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پسپائی اختیار کی۔ اس میں کوئی صداقت نہیں لیکن مخالفین اس تاثر کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ دیکھیں! پاکستان اور ہندوستان کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، جس میں 1947ء، 1948، 1965،1971، رن آف کچھ اور چھوٹی جنگوں میں کارگل کی لڑائی شامل ہے لیکن ہمیںکچھ حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کو ہم تعلیم بھی صحیح نہیں دے رہے، آپ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت دیکھ لیں۔ پاکستان کی معیشت کا براحال ہو چکا ہے۔ تو آپ کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت کی حکومت اپنے موقف سے ہٹ گئی، یہ وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو پرانی پالیسی نہیں بدلنا چاہتے تھے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ ہمارے پاس تو بنیاد اور دلیل ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں تھیں اور اگر ہم ان سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے ہمارے پاس تو کچھ بچا ہی نہیں، تو ہم وہ کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ لیکن جنگیں اس مسئلہ کا حل نہیں، اب دونوں ملک نیوکلیئر پاور بھی ہوگئے ہیں اور نیوکلیئرجنگ تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ خطہ ہی غائب ہو جائے گا اور کئی ہزار سال کے لئے غائب ہو جائے گا کیوں اب جو ایٹم بم بھارت اور پاکستان کے پاس ہیں، وہ ہیروشیما اور ناگاساگی کے بموں سے سو گنا زیادہ طاقت ور ہیں۔

جنگیں لڑ کر آپ مسئلہ حل نہیں کر سکے، اور اب جب آپ دونوں نیوکلیئر طاقت بن چکے ہیں تو دانش، تدبر اور انسانیت تک کا یہ تقاضا ہے کہ لڑنے کے بجائے بات چیت سے مسئلہ کا حل ڈھونڈا جائے۔ میں جب وزیرخارجہ تھا تو میری پالیسی تھی کہ تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کئے جائیں اور الحمداللہ ایسا ہوا، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بن رہی تھی اور اس سے کہیں زیادہ کم قیمت پر بن رہی تھی جو سابق صدر زرداری نے طے کی۔ افغانستان سے بڑے خراب تعلقات تھے، جو نسبتاً بہتر ہو گئے، تجارت 20 ملین ڈالر سے بڑھ کر ایک بلین ڈالر تک چلی گئی۔ بھارت کے ساتھ ہم کشمیر سمیت بہت سارے مسائل کے حل کے قریب تھے اور اب جو میاں نواز شریف کی حکومت ہے، وہ یہی کہہ رہی ہے جو ہم کہا کرتے تھے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے گا۔ اور پھر جب آپ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے تو کیا وہ آپ کو طشتری پر رکھ کر دے دیں گے۔ اس بات چیت میں بھارت، پاکستان اور کشمیریوں کی مکمل خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔ایسا ہوگا کہ جس کو انڈیا، پاکستان اور کشمیریوں کی بھاری اکثریت قبول کر لے، ایسا نہیں ہوگا کہ سب کی سوفیصد خواہشات پوری ہو جائیں۔

ایکسپریس: جب ہم مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے ہیں تو دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول حل کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے؟
خورشید قصوری: سب سے پہلے تو آپ نے یہ دیکھنا ہے کشمیری کیا چاہتے ہیں کیوں کہ مسئلہ تو کشمیر کا ہے ناں۔ تو اس مقصد کے حصول کے لئے میں کشمیریوں سے انڈیا، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ملا، یہ ملاقاتیں کھلے عام بھی تھیں اور چھپ کر بھی کی گئیں۔ ان کی پہلا مطالبہ تھا کہ انڈین آرمی کی موجودگی سے ہماری عورتیں اور بچے ذہنی مریض بن رہے ہیں، ان سے ہماری جان چھڑوائی جائے۔ فوج کی تعداد اتنی کم کی جائے کہ وہ صرف ایل او سی کے قریب رہیں۔ دوسری چیز ہندوستان کی یہ خواہش تھی کہ کشمیر کو راجھستان، پنجاب، ہریانہ، مہاراشٹر جیسی عام ہندوستانی ریاست کی طرح کر دیا جائے لیکن کشمیریوں کا کہنا تھا کہ ہمارا سپیشل سٹیٹس ہے، ہمیں آپ وہ لے کر دیں۔ پھر ہم نے سوچا کہ اگر ہم یہ دو چیزیں لے دیں تو کشمیریوں کا تو مسئلہ بہت حد تک حل ہوگا لیکن پاکستان میں اپوزیشن کہے گی کہ یہ تو سٹیٹس کو ہے، کچھ بھی نہیں کیا گیا تو ہم نے سٹیٹس کو بدلوانے کے لئے جوائنٹ میکانزم ترتیب دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت، پاکستان اور کشمیری مل کر بیٹھیں اور مسائل کا حل تلاش کریں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا تھا، جسے ہم نے جوائنٹ میکانزم میں شامل کیا۔

یہ وہ ساری چیزیں تھیں جو مسئلہ کشمیر کے حل میں دونوں ملکوں کے لئے قابل قبول حل کے بنیادی خدوخال تھے۔ لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر ہم سونے میں بھی گھڑ کر آجائیں تو اپوزیشن کہے گی یہ پیتل ہے۔ اس چیز کا انڈیا کو بھی ڈر تھا اور ہمیں بھی، تو ہم نے کہا کہ چلو جی! اس کو مزید بہتر کرنے کے لئے اسے عارضی معاہدہ بنا لیتے ہیں، 15سال کے بعد اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں بہتری کی مزید گنجائش ہے اور پاکستان اور انڈیا دشمنی سے ہٹیں، دنیا سے سبق سیکھیں کہ ترقی وہیں ہوتی ہے جہاں امن ہو۔

ایکسپریس:کارگل لڑائی سے مسئلہ کشمیر کو فائدہ ہوا یا نقصان، سرتاج عزیز سمیت دفتر خارجہ سے تعلق رکھنے والے متعدد شخصایت کے مطابق اس سے نقصان ہوا جبکہ مشرف نے اسے فائدہ مند قرار دیا۔آپ کی کیا رائے ہے؟
خورشید قصوری: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کارگل جنگ سے مسئلہ کشمیر کو نقصان ہوا جو ہماری غلطی تھی، ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ نواز شریف کا دور تھا اور میں اس وقت کم ازکم وزیرخارجہ نہیں تھا۔ لیکن مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو کوششیں ہوئیںوہ واقعتاً تاریخی نوعیت کی تھیں۔

ایکسپریس:وکلاء تحریک جنرل (ر) مشرف دور کے خاتمہ میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے، اس تحریک کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اس کے پیچھے اصل میں کون تھا اور کیا یہ فنڈڈ تھی؟
خورشید قصوری: یہ تو خدا جانتا ہے، اس کے بارے میں تو اس وقت پتہ چلے گا، جب وقت گزرے گا۔ لیکن وکلاء تحریک منفی اور مثبت دونوں پہلو رکھتی تھی۔ اچھا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سویلین سوسائٹی، وکلاء اور میڈیا نے مل کر پاکستان کی عدلیہ اور اداروں کو مضبوط کیا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ کبھی عدلیہ جلسے جلوسوں کے ذریعے نہیں آتی، افتخار چودھری جلسے، جلوس کر رہے تھے، اسی کے ذریعے وہ بحال ہوئے تو ان کا ذہن سیاسی بن گیا تھا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہر چیز میں دخل دینے لگے، جس سے ان کا خیال تھا افتخار چودھری کا سیاسی قد بڑھ رہا ہے لیکن اس سے عدلیہ کو نقصان ہوا اور وکلاء تنظیموں میں دراڑیں پیدا ہوئیں، اس میں حصے بن گئے، جن لوگوں نے افتخار چودھری کو بحال کروایا وہی لوگ آپس میں اختلافات کا بھی شکار ہوئے، افتخارچودھری کے نظریے کی وجہ سے وکلاء تنظیموں میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔

ایکسپریس: ریاست اور شہریوں کی سوچ و جذبات میں فرق تو ہوتا ہے لیکن خارجہ پالیسی میں قومی غیرت کا کہاں تک عمل دخل ہوتا ہے؟
خورشید قصوری: پہلے آپ یہ تو جان لیں کہ قومی غیرت کیا چیز ہے، کیا یہ غیرت ہے کہ آپ کشکول اٹھائے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوں۔ جو قوم ٹیکس نہیں دیتی وہ کس منہ سے کہتی ہے کہ غیرت ہو، اس سے بڑی کیا بے غیرتی ہو گی۔ بڑی بڑی کوٹھیاں اور کاریں لیکن ٹیکس زیرو۔ ہندوستان میں جی ڈی پی کا 18فیصد ہے ، کئی ممالک میں 30 فیصد ہے لیکن ہمارے ہاں شرمناک حد تک صرف 8فیصد ہے۔ ٹیکس دیتے کوئی نہیں لیکن غیرت کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر آپ ٹیکس دیں تو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا لیکن یہاں تو حالت یہ ہے کہ دو ماہ پیسے نہ ملیں تو آپ ڈیفالٹ کر جائیں گے، تو اس لئے غیرت ضرور ہونی چاہیے لیکن عقل کے ساتھ۔ قوم خود غیرت مندی دکھائے، دوسروں پر انحصار کرنا بند کرے۔

ٹیکس کی جب بات آتی ہے تو سیاستدان بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ٹیکس نہیں دینا تو پھر غیرت کی کیوں بات کرتے ہیں۔ میں خوش قسمت وزیرخارجہ تھا، مجھے بھیک مانگنے نہیں جانا پڑتا تھا اور معیشت بھی تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ اس وقت ہمارا جی ڈی پی 8.6 فیصد ہو گیا تھا چین کا 9.2فیصد تھا، پاکستان چائناکے بعد دوسرا بڑا ملک تھا جو معاشی لحاظ سے تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ پاکستان کانام N11 یعنی نیکسٹ 11میں آ رہا تھا۔ پاکستان ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بن رہا تھا اور یہ میں نہیں کہہ رہا‘ یہ عالمی ادارے کہہ رہے تھے لیکن اب معیشت کے حالات دیکھ کر تو رونا آتا ہے۔

ایکسپریس:آپ کے دورِ وزارت خارجہ میں اسرائیل سے بھی تعلقات بڑھانے کی کوششیں کی گئیں؟ ان میں کس حد تک کامیابی ہوئی تھی اور مقاصد کیا تھے؟ یہ مقاصد قومی تھے یا نجی؟
خورشید قصوری: اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی، میں نے وہاں کا صرف ایک دورہ کیا تھا، کیوں کہ اسرائیل بھارت کو جدید نوعیت کا بھاری اسلحہ فروخت کر رہا تھا، ہماری فوج اور وزارت خارجہ آفس اس سے ڈسٹرب تھے، تو اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا کہ پرائیویٹ طور پر اسرائیل سے مل کر ان سے بات کی جائے۔ ملاقات کے لئے جواز یہ بنایا گیا کہ اس وقت بادشاہ عبداللہ نے ایک فارمولا دیا Land For Peace یعنی زمین دو تاکہ امن ہو۔ اس فارمولا کو عرب لیگ نے قبول کر لیا تومجھے کہا گیا کہ آپ اسرائیل سے مل کر انہیں کہیں گے وہ اپنی فوجیں غزہ سے نکال لے اور الگ ریاست بنا لے۔ تو اس طرح ملاقات کے لئے میں وہاں گیا لیکن اس کے پیچھے ہمارا بہت بڑا مقصد یہ تھا کہ انہیں سمجھایا جائے کہ وہ برصغیر میں چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔

ایکسپریس: یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کی اجازت آپ کی حکومت نے دی، اس میں کتنی صداقت ہے اور ڈروں حملوں کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟
خورشید قصوری: پہلی بات یہ ہے کہ جب یہ فیصلے ہوئے تو میں اس وقت وزیرخارجہ نہیں تھا یہ فیصلے 2001ء میں ہو چکے تھے۔ دوسرا ڈرون حملوں کی اجازت ہم نے بالکل نہیں دی، اگر ایسا کیا ہوتا تو میں بحیثیت وزیرخارجہ ڈرون حملہ ہونے پر امریکن سفیر کو طلب نہ کرتا، وہ مجھے کہتا کہ تم (خورشید قصوری) مجھے کس حیثیت سے طلب کر رہے ہو، تم نے تو ہمیں خود اجازت دی ہے۔ پھر ہمارے دور میں کتنے ڈرون حملے ہوئے، چار یا پانچ اور جب بھی حملہ ہوا میں انہیں طلب کرتا لیکن بعد میں تو سینکڑوں کے حساب سے حملے ہو چکے ہیں۔ بعد میں یہ بات منظر عام پر بھی آگئی کہ مشرف دور میں صرف فضائی نگرانی(Photo Surveillance) کی اجازت دی گئی تھی تاکہ وہ ہم سے انٹیلی جنس شیئر کر سکیں۔ پھر یوسف رضا گیلانی کوئی ہمارے حمایتی تو نہیں تھے، انہوں نے یہ قبول کیا اور بیان دیا کہ اس دور میں صرف فضائی نگرانی کی اجازت تھی۔

ایکسپریس: الزام یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا جو بیج آپ کی پارٹی کے دور حکومت میں بویا گویا وہ ہی آج تناور درخت بن چکا ہے۔ 2004ء سے قبل جب تک پاک فوج قبائلی علاقوں میں نہیں گئی ہر طرف سکون تھا، اور یہ قبائلی پاکستان کا دفاع کرنے والے لوگ تھے، لیکن فوجی آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وزیرستان میں پہلی بار فوج کس بنیاد پر اور کس کے دبائو پر بھیجی گئی؟
خورشید قصوری: پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کوئی آج شروع نہیںہوئی، 80ء کی دہائی میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ 1998-99ء میں امریکی صدر کلنٹن نے افغانستان میں اسامہ پر حملہ کیا تو کروز میزائل پاکستان کے اوپر سے گزرے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف تھے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں تھا۔ دہشت گردی بدنصیبی ہے پاکستان کی، بدنصیبی جب آتی ہے تو کسی سے اجازت نہیں مانگتی، 9/11کا واقعہ جو ہوا، وہ پاکستان یا پاکستانیوں نے تو نہیں کیا لیکن اثر کس پر ہوا۔ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو 45 لاکھ افغانی پاکستان آگئے اور جتنے دہشت گرد تھے وہ سارے تورا بورا سے اٹھ کر یہاں آ گئے وہ پاکستان کے علاقوں میں آ گئے۔ جب تک ان علاقوں میں قبائلی رہے، جو ہمارے بھائی ہیں، اس وقت کسی فوج کی ضرورت نہیں تھی لیکن جب وہاں دہشت گرد آ گئے تو اس وقت کی حکومت نے، جس میں، میں شامل نہیں تھا۔ حکومت نے کہا کہ ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے کرو، نہیں تو پھر ہم ان کے پیچھے آئیں گے۔ تو پھر فوج کو ان علاقوں میں جانا پڑا۔

ایکسپریس:کہا جاتا ہے، سویت یونین سے لڑائی میں پہلے پاکستان نے یہاں بندے تیار کئے اور افغانستان میں بھیجے، آج یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یعنی بندے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاریاں کر رہے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے کہ اس بدامنی کے قصوروار ہم خود ہیں؟
خورشید قصوری: میں یہ سمجھتا ہوں کہ بالکل درست ہے کہ ہم نے جو بیج بوئے وہ آج ہمیں کاٹنے پڑ رہے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں اس چیز کا ادراک ہو چکا ہے، اور جب آپ کو کسی چیز کا ادراک ہو جائے تو پھر آپ اس کا بہتر طریقے سے تحفظ بھی کر سکتے ہیں۔ اور اس چیز کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے کہا تھا کہ ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں اور اب موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

ایکسپریس:افغانستان کے حوالے سے 80ء کی دہائی میں سامنے آنے والی Strategic depth (تزویراتی گہرائی) پالیسی پر آج پاکستان کا موقف بدل رہا ہے، آپ کے خیال میں ہم اس وقت درست تھے یا آج۔۔۔؟
خورشید قصوری: میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا موقف درست نہیں تھا۔ ہمارا موقف یہ ہونا چاہیے کہ ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ خود مختار اور نیوٹرل افغانستان ہو۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ ہم وہاں دخل اندازی کریں، ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ساری عمر نقصان ہی ہوا۔ آپ دیکھ لیں کہ افغانستان میں روس کو فائدہ ہوا نہ امریکہ کو تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے۔ افغانستان میں ہماری صرف اتنی دلچسپی ہے کہ بھارت وہاں جا کر ہمارے خلاف گڑ بڑ نہ کرے اور یہ ہمارا ایک جائز حق ہے۔

ایکسپریس: آپ سفارت کاری اور خارجہ امور میں بڑی مہارت رکھتے ہیں،70ء کی دہائی میں آپ نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے بارے میں بتائیں کہ آپ بنگالی حکومت کے رویے پر پاکستان کے ردعمل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ یعنی پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو آج 4 دہائیوں بعد سزائیں دی جارہی ہیں۔
خورشید قصوری: جب میں وزیر خارجہ تھا تو وہاں گیا اور پروٹول کے مطابق حسینہ واجد سے ملا۔ انہوں نے گلے شکوے بھی کئے لیکن ہماری کوشش تھی کہ تمام ممالک سے اچھے تعلقات استوار کئے جائیں۔ دوسری بات جو حسینہ واجد آج کل کر رہی ہیں وہ بہت افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اگر انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے تو پھر ان سے مل کر حسینہ واجد نے سیاسی طور پر کام کیوں کیا۔ پھر ان کے جو والد تھے، جن کو بنگلہ دیش کا بانی کہا جاتا ہے، انہوں نے ان لوگوں کا ٹرائل کیوں نہیں کیا تھا، یہ سب کچھ آپ کو 40 سال بعد یاد آیا، یہ صرف سیاسی بنیادوں پر کیا گیا کیوں کہ حسینہ واجد کو ڈر تھا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی حلیف ہے اور وہ کامیابی سمیٹے گی۔ حسینہ واجد کی طرف سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس معاملہ میں اسمبلی میں قرارداد پاس کی، مذمت کی اور یہی ہم کر سکتے تھے کیوں کہ بنگلہ دیش خودمختار ملک ہے، ہم اس کے معاملات میں اس سے زیادہ مداخلت نہیں کر سکتے۔

ایکسپریس: تعلیم کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے لیکن تجربات اور مشاہدات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور ماہرین تعلیم کے مطابق تعلیم اسی وقت موثر بن سکتی ہے جب نظام تعلیم یکساں ہوں لیکن آپ پاکستان کا ایک Leading پرائیویٹ سکول سسٹم چلا رہے ہیں جس کا اپنا نظام ہے۔۔۔تو پھر بہتری کیسے آئے گی؟
خورشید قصوری: ریاست کو بالکل یکساں نظام تعلیم بنانا چاہیے لیکن ایک چیز آپ نہ بھولیں کہ 1970ء کے بعد جب تعلیم اداروں کو قومیا لیا گیا تو ایجوکیشن تباہ ہو گئی تھی ۔ پرائیویٹ سکول صرف مہنگے ہی نہیں ہیں، یہ سکول ہر قیمت اور ہر جگہ پر موجود ہیں، دیہات میں بھی پرائیویٹ سکول ہیں، جہاں 2سو روپے فیس ہے اور والدین اپنا پیٹ کاٹ کر یہ فیس ادا کرتے ہیں، کیوں دیتے ہیں؟ اسی لئے دیتے ہیں ناںکہ سرکاری سکول میں باتھ روم ہے نہ بجلی اور استاد اپنی مرضی سے آتا ہے۔

بالکل میں اس چیز کے حق میں ہوںکہ یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے لیکن یکساں کا مطلب یہ نہیں کہ یکساں خراب ہونا چاہیے بلکہ یکساں بہتر ہونا چاہیے۔ حکومت اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے اچھے پرائیویٹ سکول کا سسٹم سرکاری سکولوں میں لائے، کیوں کہ اگر ایسا ہو گا تو پھر والدین کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوںکو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجیں۔ والدین کو اب اپنے بچے پرائیویٹ سکول میں زبردستی اور مجبوری میں بھیجنے پڑتے ہیں اور سرکاری سکول کام کریں گے تو پھر والدین خوشی سے سرکاری اداروں میں اپنے بچوں کو بھیجیں گے لیکن جب تک سٹیٹ یہ ذمہ داری نہیں اٹھا رہی تو آپ خدا کا شکر ادا کریں کہ پرائیویٹ سکول موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں شہروں سے لے کر گائوں تک 40 فیصد سے زیادہ لوگ پرائیویٹ سکولز کا رخ کر رہے ہیں، اگر پرائیویٹ سکول نہ ہوتے تو آپ کانوں کو ہاتھ لگاتے جو تعلیم سے سلوک ہونا تھا۔ سرکاری سکول کہیں گھوسٹ ہیں تو کہیں گدھے بندھے ہیں۔ اگر آپ نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے تو اپنا نظام تعلیم لے آئیں اور وہ ایسا ہو کہ جس کے تحت پڑھنے والے بچے کو بیرون ملک بھی آسانی سے داخلہ ملے، دنیا آپ کے نظام تعلیم کو مانے۔ تعلیم نظام کو اس نہج پر استوار کریں کہ قائداعظم کا پاکستان معرض وجود میں آئے نہ کہ طالبان کا۔

قصوری خاندان ۔۔۔۔!
خورشید محمود قصوری کا تعلق ایک روایتی سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالقادر قصوری معروف مذہبی شخصیت اور کانگرس کے رہنما تھے۔
اسی نسبت سے خورشید قصوری کے والد محمود علی قصوری نے بھی 1940ء تک کانگرس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا، لیکن بعدازاں انہوں نے سوشل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ محمود علی قصوری نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں خدمات بھی سرانجام دیں لیکن ان کا شمار ملکی سیاست کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ذوالفقار بھٹو سے آئینی معاملات میں اختلافات پر وزیر قانون و پارلیمانی امور اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ 1973ء کے آئین پاکستان کی تشکیل میں محمود قصوری نے اہم کردار ادا کیا۔ خورشید قصوری کے چھوٹے بھائی بختیار محمود قصوری بھی ایک سیاستدان ہیں۔

خورشید قصوری کا تعلیمی سفارتی اور سیاسی سفر
جون 1941ء میں پیدا ہونے والے خورشید محمود قصوری نے ابتدائی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔

گریجوایشن کے لئے پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی داخلہ لیا، لیکن جلد ہی مائیگریشن کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انہوں نے 1961ء میں بین الاقوامی تعلقات میں بی اے آنرز کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پبلک ایڈمنسٹریشن اینڈ پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ کرنے کے لئے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر لیا۔ 1963-67 میں وہ پیرس چلے گئے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف نائس سے تاریخِ فرانس اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر بھی دیئے۔ واپسی پر قصوری نے خارجہ امور میں خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں اور انہیں سب سے پہلی سفارتی ذمہ داری مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کی سونپی گئی، جس پر انہوں نے سول نافرمانی کے بارے میں ایک مفصل اور جامع رپورٹ بھی مرتب کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لئے انہیں برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے متواتر اور مسلسل دورے کرنا پڑے۔ 1972ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اقوام متحدہ کے لئے تشکیل دیئے گئے سفارتی وفد کا حصہ بنا دیا۔ پھر خورشید محمود قصوری وزارت خارجہ امور میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر آف ڈائریکٹویٹ جنرل برائے سوویت و مشرقی یورپ امور خدمات سرانجام دینے لگے۔

1998ء میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے فیصلہ کی حمایت کے لئے وزیراعظم کا خصوصی ایلیچی بن کر خدمات سرانجام دیں اور متعدد ممالک (امریکہ، کینیڈا، چین، فرانس، برطانیہ ودیگر) کا دورہ کرکے ان سے پاکستان کے فیصلہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔ 1981ء میں خورشید قصوری نے دفترخارجہ کو خیر باد کہہ کر قومی سیاست میں قدم رکھا اور تحریک استقلال کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے ایم آر ڈی جیسی تحریکوں کا حصہ بننے پر انہیں متعدد بار گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1983ء میں ضیاء الحق کی ملٹری حکومت کے باعث وہ بیرون ملک چلے گئے جہاں سے ان کی واپسی 1988ء میں ہوئی۔ 1993ء میں انہوں نے پہلی بار پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور قصور سے ایم این اے منتخب ہوگئے، پھر 1997ء اور 2002ء میں بھی انہیں اسی حلقہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ق لیگ کے دور حکومت میں نومبر 2004ء میں جب وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے قصوری کو وزیرخارجہ نامزد کیا، تو اپوزیشن نے بھی ان کی نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بعدازاں 2012ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔

Viewing all 4666 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>