Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

ہاں، میں مجرم ہوں

$
0
0

مجرم چاہے کوئی بھی ہو، انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جرم کرنے والے کو قانون پکڑے اور سزا دے۔

مغربی ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں قانون کی موثر علمداری نافذ ہے اور جرم کرنے والا کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو وہ قانون کے لمبے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا اور بالآخر شکنجے میں پھنس ہی جاتا ہے۔

دوسری طرف جانوروں سے اہل مغرب کی محبت بھی اظہر من الشمس ہے لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ وہاں اگر کوئی جانور بھی جرم کرے تو وہ بھی قانون کی گرفت میں آجاتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ مجرم جانوروں کے خلاف قانون کے اطلاق کا زیادہ زور یورپ میں 13 ویں صدی تا 18 ویں صدی میں رہا، جب ان پر حقیقت میں مقدمات بنے اور چلے۔ ان جانوروں میں بیل، گھوڑے، گدھے، گائیں، چوہے، ٹڈے، خنزیر اور بندر وغیرہ شامل ہیں۔

موجودہ دور میں تو انسانی حقوق کے نام پر مغرب، مجرم انسانوں کو بھی انتہائی سزا دینے سے گریز کرتا ہے تو مجرم جانوروں کو تو مزید چھوٹ حاصل ہے لیکن پھر بھی قانون تو بہرحال قانون ہے اور وہاں قانون کا احترام کیا ہی جاتا ہے۔ مگر آج کے زیر نظر مضمون میں کئی اور جانور بھی مجرموں کی اس فہرست میں کھڑے نظر آتے ہیں لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے جرائم کی نوعیت بہت مزاحیہ ہے۔

-1 کارجیکر ریچھ (The Car-Jacker Bear) :

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جہاز اغوا کرنے والے ہائی جیکرز کے متعلق تو آپ نے اکثر سنا اور پڑھا ہی ہوگا۔ لیکن ہمارا آج کا پہلا مجرم ایک ریچھ ہے جس نے ایک کارکو ’’جیک‘‘ کرلیا تھا۔ اگست 2011ء میں امریکی ریاست ’’کولوراڈو‘‘ (Colorado) کے علاقے ’’ڈیورینگو‘‘ (Durango) کے رہائشی ’’رون کارنیلیس‘‘ (Ron Cornelius) کی آنکھ ایک کار کے اپنے ڈاک باکس سے ٹکرانے کی زوردار آواز سن کر کھلی۔ یہ کار اس کے ہمسائے کی تھی جو گلی میں سے گزرتے ہوئے اس کے گھر کے بیرونی لان میں در آئی تھی اور اب اس کے ڈاک باکس سے ٹکرانے کے بعد تباہ حال حالت میں کھڑی تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کالے رنگ کا موٹا سا بھالو براجمان تھا جو خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے اس گاڑی میں گھس بیٹھا تھا۔ بھوکے ریچھ نے حادثاتی طور پر گاڑی کو گیئر میں ڈال دیا اور گاڑی چل پڑی اور قبل اس کے کہ بدحواس ریچھ گاڑی سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوکر منظر سے غائب ہوجاتا، گاڑی ’کارنیلیس‘ کے ڈاک باکس کو توڑتی ہوئی اس کے لان میں آکھڑی ہوئی۔ خوش قسمتی سے اس حادثے میں ریچھ سمیت کوئی بھی زخمی نہیں ہوا مگر کار کو کافی نقصان ہوا اور اس کی پچھلی کھڑی کا شیشہ کرچی کرچی ہوگیا، اسٹیرنگ ویل ٹوٹ پھوٹ گیا اور اگلی نشست پر ریچھ کے پنجے کا واضح نشان ثبت ہوگیا۔ یہ بتانا یقینا ضروری نہیں کہ یہ کار اب دوبارہ سڑک پر آنے کے قابل نہیں رہی۔

-2 ’’ایمو‘‘ (Emu) کی خرمستیاں :

’ایمو‘ (Emu) آسٹریلین نسل کا شترمرغ ہوتا ہے۔ یہ عام شتر مرغ سے نسبتاً کچھ چھوٹا، لیکن پرندوں میں دوسرا بڑا پرندہ ہے۔ یہ پرندہ کیونکہ آسٹریلوی ہے، اس لیے انگلستان کا دیس اس کے لیے نامانوس، اجنبی اور ’پردیس‘ ہے۔ اسی وجہ سے جب جنوب مشرقی انگلستان کی ایک کاؤنٹی ’’ڈیون ‘‘ (Devon) میں پولیس سارجنٹ ’’زوئی پارنل‘‘ (Zoe Parnell) کو یہ خبر ملی کہ ایک ’ایمو‘ برانگیختہ حالت میں قصبے کی گلیوں میں دوڑتا پھر رہا ہے، تو وہ شدید الجھن کا شکار ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کو یہ اطلاع ملی تو ان کا خیال تھا کہ وہ پرندہ شاید ’’ٹرکی‘‘ Turkey (فیل مرغ) یا اسی قبیل کا کوئی دوسرا پرندہ ہوگا۔ لیکن جب انھوں نے چار فٹ اونچے ایک بڑے سے ’ایمو‘ کو ’’برنسٹیپل‘‘ (Barnstaple) جیسے چھوٹے سے قصبے کی گلیوں میں ادھر اُدھر بھاگتے دوڑتے دیکھا تو وہ ششدر رہ گئیں۔ یہ ’ایمو‘ لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ہراساں کررہا تھا۔ مزید پریشان کن بات یہ تھی کہ اس کا رخ مین روڈ کی طرف تھا۔ پولیس اس امر کے لیے کوشاں تھی کہ اسے مین روڈ کی ٹریفک درہم برہم کرنے سے پہلے ہی ’’گرفتار‘‘ کرلے۔ بالآخر پولیس اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کی اس افراتفری پھیلانے کی کوشش کی وجہ سے اسے ’’دماغی معائنے‘‘ کے لیے جانوروں کے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ آپ میں سے بہت سے قارئین کو شاید معلوم نہ ہو کہ ’ایمو‘ ان جانوروں کی فہرست میں شامل ہے جن کو پالتو جانور کے طور پر گھروں میں پالنا غیر قانونی ہے۔

-3 چور ’’سلوتھ‘‘ (Sloth) :

گزشتہ دسمبر کی ایک سرد رات کو براعظم امریکہ کے وسطی علاقے کے ملک ’’کوسٹاریکا‘‘ (Costa Rica) کے ایک کیفے میں ایک غیر متوقع ہستی چپکے سے داخل ہوئی۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور کیفے اس وقت بند تھا۔ تاہم سکیورٹی کیمرے

اپنی فلم بندی میں مصروف تھے۔ کیفے میں چوری چھپے داخل ہونے والا ایک بھوکا ’’سلوتھ‘‘ (Sloth) تھا۔ ’سلوتھ‘ امریکہ کے جنگلوں میں پایا جانے والا ریچھ کی شکل کا ایک چھوٹا جانور ہے، جو اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت اپنے ہاتھ پیروں کی مدد سے درختوں پر لٹک کر گزار دیتا ہے اور اگر اسے حرکت بھی کرنی پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے سلوموشن میں چل رہا ہو۔ کیفے میں لگے کیمروں نے ’سلوتھ‘ کی کیفے کے اندر مضحکہ خیز حد تک سست نقل و حرکت کو ریکارڈ کرلیا۔ وہ بڑے ہی بھدے طریقے سے ایک کرسی پر چڑھا اور الماری میں لگے ایک گھومنے والے نمائشی ریک کو چکر دینے لگا۔ آخر کار یہ مشتبہ چور اپنی ان انہی حرکات و سکنات کی بدولت پر شور آواز کے ساتھ دھڑام سے کرسی سے نیچے آگرا اور اس طرح کیفے کی چوکیداری پر معمور عملے کو اپنی موجودگی سے آگاہ کر بیٹھا۔ لیکن کیفے کے رحم دل مالکان نے اس چور ’سلوتھ‘ کو کھلا پلا کر واپس جنگل میں چھوڑ دیا۔ البتہ وہ کیفے اس واقعے کے بعد کافی مشہور ہوگیا کیونکہ ’’دی ڈیلی میل (The Daily Mail) اور ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ والوں نے اس سارے واقعے کی نمایاں کوریج کی تھی۔

-4 ’’روبن ہڈ‘‘ بلی (Robin Hood Cat) :

امریکی ریاست ’’اوکلا ہوما‘‘ (Oklahoma) کے دوسرے بڑے شہر ’’ٹلسا‘‘ (Tulsa) کی ایک معروف مارکیٹنگ فرم کے مالک ’’اسٹوارٹ میکڈانییل‘‘ (Stuart Mcdaniel) اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے اپنے دفتر کے شیشے والے دروازے کے پاس نوٹوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر پڑے ہوئے پایا۔ ان کے آفس کے ساتھ والے کمرے میں ایک بلی رہتی تھی۔ جس کو اردگرد کے تمام دفاتر والے بابرکت سمجھتے تھے۔ ’میکڈانییل‘ کے علم میں یہ بات آئی کہ دفتروں میں آنے جانے والے گاہک دروازے کی دراڑوں میں اپنے اپنے بلزاٹکا دیتے تھے اور ہوشیار بلی انہیں جھپٹ لیتی تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک دلچسپ کھیل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ’میکڈانییل‘ کو محسوس ہوا کہ وہ اس کھیل کو کارآمد بنا کر رفاۂ عامہ کے کاموں میں مدد لے سکتا ہے۔ ’میکڈانییل‘ نے بلی کے چرائے ہوئے پیسوں کو جمع کرکے مقامی بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک رفاہی ادارے کو چندے کی صورت میں دے دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انٹرنیٹ پر ایک آن لائن مہم شروع کی جس کا نام ’’دی کیش نپ کیٹی‘‘ (The Cash Nip Kitty) رکھا۔ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ اپنی کمائی میں سے چند ڈالرز الگ کرکے اسے دیں تاکہ وہ رقم انسانی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکے۔

-5 ثبوت خراب (temper) کرنے والا کوّا :

2016ء میں مغربی کینیڈا کے ساحلی شہر ’’وینکوور‘‘ (Vancouver) کی پولیس کا سامنا ایک چاقو بردار شخص سے ہوا۔ قانون نافذ کرنے والا ادارہ اس وقت ششدر رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ ایک کوّا جائے وقوع کے اردگرد اڑتا پھر رہا ہے۔ اس کوّا کا نام ’’کینک‘‘ (Canuck) تھا اور یہ وہاں کے ایک مقامی فرد کا پالتو کوّا تھا۔ کوّے نے اچانک غوطہ لگایا اور اس شخص کے ہاتھ سے چاقو اچک کر یہ جا وہ جا۔ دراصل ’کینک‘ کو چمکدار چیزیں جھپٹ لینے کی عادت تھی اور یہ بات علاقے کے اکثر و بیشتر لوگوں کو پہلے سے معلوم تھی، لیکن اس واقعے سے قبل اس نے کبھی کوئی ہتھیار نہیں اچکا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک پولیس والے نے کوّے کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ اس نے مضبوطی سے اپنی چونچ میں پکڑا ہوا چاقو، کچھ آگے جاکر نیچے گرا دیا۔ ایک کانسٹیبل نے بتایا کہ گو، کوّا اپنی دھن کا پکا تھا تاہم بالآخر جرم کا ایک اہم ثبوت یعنی چاقو ضائع ہونے سے بچ گیا اور برآمد ہو ہی گیا۔

-6 کپڑے چوری کرنے والی نقب زن بلیاں :

بلیوں میں چوری کی وارداتوں کے بڑھے ہوئے ’’رجحان‘‘ کی مزید بات کرتے ہیں۔ انگلستان کے علاقے ’’پورٹسوڈ‘‘ (Portswood) کے رہائشی ’’پیٹر‘‘ اور ’’برج اٹ‘‘ اس وقت حیرانی میں مبتلا ہوگئے جب ان کے پالتو بلّے ’’آسکر‘‘ (Oscar) نے ہمسایوں کے گھروں اور ان کے لان میں بندھی الگنیوں پر ٹنگے کپڑوں کو چرا کر لانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ آسکر کو خاص طور پر جرابیں، باغبانی کے دستانے اور خواتین کے کپڑے چرانا بہت پسند تھا۔ پیٹر اور ’برج اٹ‘ نے اپنے تمام ہمسایوں کو اپنے بلے کے اس جنونی شوق سے آگاہ کردیا۔ گو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے لاڈلے بلے کا روزانہ اپنے لیے کچھ نہ کچھ لیے چلے آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ’برج اٹ‘ نے ایک مزید دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کے آخری کنارے یعنی نیوزی لینڈ میں اس کی ہم نام یعنی ’برج اٹ‘ نامی ایک بلی بھی ان کے بلے آسکر کی ہم ذوق ہے اور چیزیں چرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس کو مردوں کے کپڑے چرانا مرغوب ہے۔

7۔ مسخرا اکٹوپس :

2008ء میں جرمنی کے ایک ایکویریم میں رہنے والا ’’اوٹو‘‘ (Otto) نامی 2 فٹ 7 انچ کا اوکٹوپس، ایکویریم کے عملے کے لئے د رد سری کے باعث بن گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’اوٹو‘ کو ہر طرح کے وہ کام کرنے میں بہت لطف آتا تھا جو عملے کے لئے پریشانی کا باعث بن سکیں۔ مثلاً وہ اپنے احاطے میں رکھی گئیں نمائشی اشیاء کی ترتیب بدل کر بہت خوش ہوتا تھا، وہ اپنے شیشے کی باکس کی دیواروں کو اس میں رکھے گئے پتھر کے ٹکڑوں سے کھٹکھٹاتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ان پتھروں سے ایکویریم میں اپنے ساتھ رہنے والے شریف النفس کیکڑوں کے ساتھ ’’کیچ کیچ‘‘ کھیلنا بھی بہت پسند کرتا تھا جو کیکڑوں کے لئے ایک نری مصیبت ہی تھی اور وہ اس سے تنگ آ گئے تھے۔ لیکن ان سب شرارتوں کا نقطئہ عروج اس وقت سامنے آیا جب ’اوٹو‘ نے اس وسیع و عریض ایکویریم میں تین راتوں تک مسلسل ’’بلیک آؤٹ‘‘ کیا۔ روزانہ ہونے والے اس بجلی فیلئر نے عملے کا سر چکرا کر رکھ دیا۔ آخر کار انہوں نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا اوررات کو چھپ کہ دیکھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس نگرانی کے نتیجے میں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس بلیک آؤٹ کا مجرم ’اوٹو‘ تھا جو اپنے ٹینک کے کناروں سے باہر لٹکا ہوا جھوم رہا تھا اور تاک تاک کر اپنے ٹینک کے عین اوپر لگی ہوئی سپاٹ لائٹ کو پانی پھینک کر نشانہ بنا رہا تھا جس کی وجہ سے شارٹ سرکٹ ہو جاتا اور لائٹ چلی جاتی۔ لیکن کوئی اس شاطر اکٹوپس کا کیا بگاڑ سکتا ہے بھلا ؟

8- بھوکا سمندری بگلا :

یہ بات کسی کے لئے بھی اچھنبے کا باعث نہیں کہ اگر آپ ساحل سمندر پر پکنک منانے جائیں تو خوراک کے لالچ میں بہت سے پرندے خاص طور پر سمندری بگلے آپ کے گرد منڈلانے لگتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اتنے نڈر ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے ہاتھوں سے کھانے پینے کی ا شیاء جھپٹ کر اڑتے بنتے ہیں۔ لیکن آج جس سمندری بگلے کی کہانی آپ کو سنائی جا رہی ہے وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ اسکاٹ لینڈ میں ایک بہادر سمندری بگلا مزے سے چہل قدمی کرتا ہوا آتا اور ایک بیکری میں گھس کر آلو کے چپس کے پیکٹ لے اڑتا ۔ بیکری کے ملازمین نے اس مخصوص سمندری بگلے کو اتنی مرتبہ چوری کرتے ہوئے دیکھا کہ اس کا نام ہی ’’سٹیون سیگل‘‘ (Steven seagull) رکھ دیا۔ یہ سمندری بگلا انٹرنیٹ پر بھی اس وقت بہت مشہور ہو گیا جب بیکری کے ایک گاہک نے اس کی ’نمک اور سرکے‘ کی بوتلوں کو ٹھونگیں مارنے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی اور یوں ہمارا یہ چور سمندری بگلا سوشل میڈیا پر ہیرو بن گیا۔

9- گھر میں گھس بیٹھنے والا مگر مچھ :

آپ نے بچپن میں یقینا کبھی نہ کبھی یہ ڈر و خوف محسوس کیا ہو گا کہ جیسے آپ کے بیڈ کے نیچے کوئی بھوت پریت یا عفریت چھپا بیٹھا ہے۔ مگر 40 سالہ ’’وائٹال‘‘ (Whittall) کو جو تجربہ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ زمبابوے کے کرکٹر ’وائٹال‘ اس وقت سکتہ زدہ ہو گئے جب وہ زمبابوے کے ’’ہمانی لاج‘‘(Humani Lodge) میں ایک صبح سو کر اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ گزشتہ شب کسی وقت ایک 330 پاؤنڈ وزنی مگرمچھ ان کے کمرے میں چپکے سے آ کر گھس گیا اور اس نے ساری رات ’وائٹال‘ کے بیڈ کے نیچے گزاری۔ اس مگر مچھ کی موجودگی کا انکشاف اس وقت ہوا جب صفائی کرنے والی نوکرانی کی چیخ سنائی دی جو کمرے کی صفائی کر رہی تھی۔ ’وائٹال‘ کے رونگٹے یہ سوچ سوچ کر ہی کھڑے ہو گئے کہ وہ ساری رات ایک دیو ہیکل مگرمچھ سے محض چند انچوں کے فاصلے پر سوتے رہے تھے۔ بالآخر انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے اس مگر مچھ کو نزدیکی ڈیم تک پہنچا کر پانی میں چھوڑ دیا۔ شکر ہے کہ اس تمام عرصے میں کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ’وائٹال‘ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد بھی اب جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اس صبح اٹھنے پر میں کافی دیر تک اپنے بستر سے پاؤں نیچے لٹکائے بیٹھا رہا تھا تو مجھے خوف کے مارے پھریریاں آنے لگتی ہیں۔

10۔ دکانیں تہس نہس کرنے والا ’’اود بلاؤ‘‘ :

چھٹیوں کے دنوں میں خریداری کے دوران انسان بھی اکثر حیوانوں والی حرکتیں کرنے لگتے ہیں یعنی خاص مواقعوں پر سیل میں لگی ہوئی چیزیں دوسروں سے جلدی خریدنے کے چکر میں بدتہذیبی اور افراتفری کا مظاہرہ کرنا وغیرہ۔ تاہم دسمبر 2016ء میں ایک مشتعل جانور کو دکانوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے پولیس نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ یہ ایک ’’اود بلاؤ‘‘ تھا جو امریکی ریاست ’’میری لینڈ‘‘ (Maryland) کے ’’ون ڈالر‘‘ (One Dollar) سٹورز میں گھس کر، کرسمس کے موقع پر سجائی گئی چیزوں کو تہس نہس کر رہا تھا۔ اسٹور کے ملازمین کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے گاہک اس ’او د بلاؤ‘ سے خوف ذدہ ہو کر بھاگ نہ جائیں۔ سو، انھوں نے فوراً مقامی پولیس کو بلا لیا۔ پولیس کیپٹن نے انتہائی ’فرض شناسی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’’دانتلے ڈاکو‘‘ (آگے کو نکلے ہوئے دانتوں والاڈاکو) پر دوسروں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے ’گرفتار‘ کر لیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے اس ’اود بلاؤ‘ کو جانوروں کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے کے حوالے کر دیا، جس نے اسے باحفاظت جنگل میں لے جا کر چھوڑ دیا۔

11- عادی مجرم بندر :

حالیہ برسوں میں بھارتی پنجاب میں بندروں نے کافی ادوھم مچا رکھا ہے۔ بھارتی پنجاب میں رہنے والے ہزاروں جنگلی بندر انسانوں کے لئے خطرناک رویہ اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر 2004ء میں ایک مخصوص بندر اس حوالے سے بہت بدنام ہوا۔ وہ لوگوں سے خوراک چھین کر بھاگ جاتا، ان پر پتھراؤ کرتا اور انھیں مسلسل پریشان کرتا رہتا، جب تک کہ وہ اسے کھانے کو کچھ نہ دے دیتے۔ آخر کار اس عادی مجرم بندر کو گرفتار کر کے 1990ء کی دہائی میں قائم کردہ بندروں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ بھارت میں چونکہ بندروں کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور انہیں مارنا یا نقصان پہنچانا گناہ ہے اس لئے ان کے شر سے بچنے کا یہی حل نکالا گیا کہ انہیں پکڑ کر چڑیا گھر میں تعمیر کردہ ایک وسیع پنجرے میں بند کر دیا جائے۔ 2009ء میں پٹیالہ شہر میں واقع بندروں کی اس جیل کو بند کر دیا گیا ہے۔

12- جاسوس کبوتر :

2015ء میں جموں کے گاؤں ’’منوال‘‘ کے رہائشی ایک لڑکے نے ایک کبوتر پکڑا۔ بقول اس لڑکے کے، کبوتر کے جسم پر کچھ خفیہ نشانات بنے ہوئے تھے۔ وہ لڑکا اس کبوتر کو پولیس اسٹیشن لے گیا جہاں ’’ماہرین‘‘ نے کبوتر کے جسم پر چھپے ان نشانات کو ڈی کوڈ کیا تو ان کے مطابق وہ پاکستان کی قومی زبان اردو میں لکھا گیا ایک مختصر پیغام تھا۔ کیونکہ یہ کبوتر جموں کے علاقے سے پکڑا گیا تھا، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ہے‘ اس لئے بھارتی ایجنسیوں نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ اس کبوتر کو جاسوسی کے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ۔ تاہم جب مزید تفتیش کے طور پر اس کبوتر کا ایکس رے کیا گیا تو کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ اس پر اس معاملے کو د اخل دفتر کر دیا گیا لیکن پولیس کی رپورٹس میں مسلسل اس کو ’’مشتبہ جاسوس‘‘ ہی لکھا جاتا رہا۔

قارئین کرام ! اس واقعے سے بدحواس بھارتی ایجنسیوں کی پھرتیوں‘ کارکردگی اور ذہنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

The post ہاں، میں مجرم ہوں appeared first on ایکسپریس اردو.


دس برس بعد ملکی سیاسی قیادت کا منظرنامہ کیسا ہوگا؟

$
0
0

بعض مرتبہ ایسے اشعار دیکھنے سننے کو ملتے ہیں کہ ان کا اثر تادیر قائم رہتا ہے رومانیت ایک خاص کسک کے ساتھ یادوں کے موسم اور رتیں لیے دل میں گھر کر لیتی ہے ایسا ہی ایک شعر گذشتہ دنوں کسی نے بھیجا ۔

گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا

غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے

میرا بچپن یادداشت کے اعتبار سے ساٹھ کی دہائی کے آغاز سے کوئٹہ جیسے اُس وقت کے دنیا کے پُر فضا، صحت افزا اور خوبصورت چھوٹے سے شہر میں گذرا، یہ شہر چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھری وادیِ کوئٹہ کے درمیان ہے، یہا ںجنوب سے شمال کی جانب بہتا دریائے لورا پشین جس کی چوڑائی اور بہاؤ عام دنوں میںآٹھ سے دس فٹ اور پانی کی گہرائی تین سے چار فٹ ہوا کرتی تھی، مگر ویسے اس دریا کا پاٹ تقریبا ستر میٹر چوڑا اور دونوں کناروں کے درمیان گہرائی پچاس فٹ سے زیادہ تھی اور جب زوردار با رش ہوتی اور سیلاب آتا تو یہ دریا کناروں تک بھر کر بہتا، مغرب میں بروری کے پہاڑ سے کرخساں اور درے کی جانب سے ایک بڑے چشمے کا ڈھلوان میں بہتا تیز رفتار پانی اس کی جانب آنا چاہتا مگر اس کے کناروں تک تین کلو میٹر کے درمیان لگے باغات چھوٹی چھوٹی نالیوں سے اسے اپنی اپنی جانب اس طرح کھینچتے کہ اس کی ملاقات بھی بس سیلاب کے زمانے ہی میں دریا سے ہوا کرتی تھی۔

یہی صورت شمال مغرب میں ولی تنگی،اوڑک اور ہنہ کے چشموں سے آنے والے پا نیوں کی تھی مگر دریائے لورا پشین کے اپنے کناروں پر درجنوں چھوٹے چھوٹے ابلتے شفاف پانی کے چشمے اس کے بہاؤ کی خوداری اور خود مختاری کو قائم رکھتے تھے۔ کوئٹہ کی پیالہ نما وادی پچاس ہزار کی آبادی تقریباً دس ہزار پختہ اور نیم پختہ گھروں میں رہتی تھی، شائد غم اس وقت بھی ہوتے ہو نگے یا تو ان کی شدت زیادہ نہیں تھی یا ہمارے والدین اور بزرگ اتنے باظرف تھے، ان گھروں میں اس شہر میں اور ملک میں بھی غموں کا احساس کم از کم معصوم بچوں کو نہیں تھا، پھو لوں کے رنگ خوشبو ، پرندوں کی چہچہاہٹ، بازاروں، پارکوں ،کھیل کے میدانوں میں گونجتے قہقہے سب اپنائیت کے ساتھ ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھے، ہمیں خبر ہی نہیں تھی کہ یہ سہانا خواب یک دم چکنا چور ہو جائے گا۔ 16 دسمبر1971 میں ہم صرف سترا سال کے تھے کہ ہم نے اُس اجتماعی اور قومی درد کو فیض احمد فیض کے درد بھر لہجے میں یوں سنا۔

ہم کہ  ٹھہرے  اجنبی کتنی مداراتوں  کے بعد

پھر  بنیں گے  آشنا  کتنی  ملاقاتوں کے بعد

کب  نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی بر ساتوں کے بعد

ملک دو لخت ہو چکا تھا، چار دن بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پہلا سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر اورصدر بنا کر اقتدار ان کو سونپ دیا گیا۔ اب ہم نے بھی تحریک پاکستان اور تاریخ پڑھنی شروع کردی، لمحے لمحے کی خبر بھی رکھنی شروع کی، پتہ چلا کہ ملکی خزانے میں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے صرف تین مہینے کی رقم ہے پھر سعودی عرب اور لیبیا نے ہماری فوری مدد کی، آنسو بھری آنکھوں سے تاریخ کو دیکھا، ہندوستان میں ہماری آزادی کی جدو جہد کے بعد یہ دوسری نسل تھی جن میں ہمارے والدین شامل تھے، پہلی نسل قائد اعظم ، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور ان سے ذرا پہلے سر سید احمد خان تھے، آزادی مل گئی، قائد اعظم آزادی کے تیرا ماہ بعد انتقال کرگئے۔ فیض نے دکھی دل سے کہا

یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

1951ء میں لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا تو اس وقت کے نوجوان شاعر محسن بھو پالی نے کہا

نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھئے

منزل انہیں ملی جو شریک ِ سفر نہ تھے

بھٹو 1928ء میں پیدا ہوئے تھے اور اس عہد کے باقی نمایاں سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھی اکثر وہی تھے جو 1920ء کے بعد یا ذرا پہلے پیدا ہوئے تھے جن میں خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد ، مولانا شاہ احمد نورانی، ریٹائر ائیرمارشل اصغر خان، خان عبدالقیوم خان، جی ایم سید، پیر پگارا صبغت اللہ ، نواب نصراللہ خان، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل،خان آف قلات احمد یار خان، جام غلام قادر، ظفر اللہ خان جمالی، پاکستان کی آزادی کے 23 برس بعد ہونے والے عام انتخابات کے بعد 20دسمبر1971 کو حکومت بھٹو کے حوالے کردی گئی تھی۔ اب پاکستان کا رقبہ 796096 مربع کلو میٹر اور آبادی پانچ کروڑ تھی۔

صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے چند ماہ کی کوششوں  سے  1972ء کا عبوری آئین بنا کر ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم کردیا اور پھر 1973ء کا مستقل آئین دے کر اس نظام کو مستحکم کر دیا۔ ملک کی یہ لیڈر شپ وہ تھی جو آزادی کے وقت بالکل جوان تھی جس نے آزادی کے لیے ہونے والی قربانیوں کو دیکھا تھا اور پھر پختہ عمر میں وہ عظیم المیہ دیکھا تھا جب ملک دو لخت ہو گیا تھا، 1970 کے انتخابات ایک طرح سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی  بنیادوں پر عوامی سروے رپورٹ تھی۔ اِن مسائل اور اِن کی شدتوں میں اضافہ اس لیے ہوا تھا کہ آزادی کے حوالے سے ہماری پہلی نسل قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ عوامی جمہوری قیادت نہیں رہی، جو عوام کی امنگوں کی آئینہ دار ہوتی، فوراً ملک کا آئین بنا لیتی، اس طرح ملک پانچ پانچ سال کی مدت کے بعد ہونے والے انتخابات کے جمہوری عمل سے محروم ہو گیا تھا، یوں 16دسمبر 1971ء کا المیہ وہی تھا جس المیے کی پرورش وقت کے اعتبار سے 23 برسوں میں ہوئی تھی۔

بھٹو نے پاکستان کو دوبارہ مستحکم کرنے کی کامیاب کوشش کی مگر بلوچستان کے اعتبار سے اُ ن کی پالیسی درست نہیں تھی۔ واضح رہے کہ 1970ء کے انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی اور یہاں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں قائم ہو ئی تھیں۔ بھٹو نے بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی صوبائی مخلوط حکومت جس کے وزیر اعلیٰ سردارعطا اللہ مینگل تھے نہ صرف ان کی حکومت کو ختم کردیا بلکہ ان کے گورنر غوث بخش بزنجو کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے جواب میںخیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ جمعیت علما اسلام کے مفتی محمود مستعفی ہوگئے، اور پھر نیپ کے رہنماؤں کو بغاوت کے مقدمے کے تحت حیدرآباد جیل میں قید کر لیا، اور یہ رہنما 1977 میں اس وقت تک جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی جب ان رہنما ؤں کو رہا کیا گیا تو ان میں سے اکثر رہنماؤں نے یا تو اس دور کی سیاست سے کنارہ کشی کر لی یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی ۔

پھر جنرل ضیا الحق کے دور میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یو ں 1972 کے عبوری آئین سے جس پارلیمانی سیاست کا دور شروع ہوا تھا اس کا اختتام 1977 میں ہو گیا اور بھٹو عہد کی ملک کی دوسری نسل کی قیادت اب بڑھاپے کو پہنچ رہی تھی۔ ضیاالحق حکومت نے بلدیاتی نظام معتارف کرایا اور درمیانے درجے کی عوامی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کی اور کراچی میں اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد قائم ہو نے والی پارلیمنٹ کے قیام کے وقت افغانستان سے سوویت یونین نکلنے کا کوئی مناسب بہانہ تلاش کر رہا تھا، جنیوا مذاکرات آگے بڑھ رہے تھے، وزیر اعظم محمد خان جنیوا کے زیرسایہ نہ صرف  1973 کے آئین میں صدر کے اختیارات وزیراعظم سے زیادہ ہوگئے تھے اور اس پارلیمنٹ سے اور پارلیمنٹ سے باہر نئے چہرے بھی ابھر رہے تھے جو نوجوان اور پاکستان کی تیسری سیاسی قیادت تھی، غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی پارلیمنٹ 1988ء میں صدر ضیاالحق نے ختم کردی اور اس کے چند دنوں بعد ضیاالحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔

اسی سال قومی سطح پر نوجوان قیادت نواز شریف اور بینظیر کی صورت میں سامنے آئی۔ متحرمہ بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو پیدا ہوئیں اور27 دسمبر2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 54 برس کی عمر میں شہید کردی گئیں۔ وہ بھٹو کی پہلی اولاد تھیں۔ آخری وقت میں وہی ذوالفقارعلی بھٹو کے قریب رہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، معاشیات اور سیاسیات ان کے شعبے تھے، وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے 2 دسمبر1988ء کو ملک کی وزیر اعظم بنیں، 16 نومبر 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 207 جنرل نشستوں میں سے کل کاسٹ کئے جانے والے ووٹوں میں سے7546561 یعنی38.5% ووٹوں کی بنیاد پر 94 نشستیں حاصل کیں جب کہ ان کے مقابل آئی جے آئی نے 5908741 یعنی30.2% ووٹوں کی بنیاد پر 56 نشستیں حاصل کیں۔

بینظیر بھٹو 35 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنی تھیں اور پھر دوسری مرتبہ 19 اکتوبر 1993 سے 5نومبر1996 تک وزیراعظم رہیں ، جب وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنی تھیں تو یہ عام تاثر تھا کی آئی جے آئی کی تشکیل اور پی پی پی کی کم ووٹوں سے کامیابی ایک سازش کا نتیجہ ہے اور ایسی صورت میں بینظیر بھٹو کو اقتدار لینے کی بجائے مضبو ط اپو زیشن کرنی چاہیے اور سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے اس وقت کا انتظار کرنا چا ہیئے جب پیپلز پارٹی کو انتخابات میں بہت واضح اکثریت سے کا میابی ملے اور اس کی بنیاد پر 1973ء کے آئین کو پہلی فرصت میں اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے ، مگر پارٹی کی اہم شخصیات کا موقف یہ تھا کہ پیپلز پارٹی تقریبا گیارہ سال بعد اقتدار حاصل کر رہی ہے اگر اس بار اقتدار نہ لیا تو اس کے کارکن زیادہ متاثر ہو نگے۔

یوں بینظیر بھٹو نے اقتدار بہت کمزور پوزیشن کے ساتھ حاصل کیا۔ انھی انتخابات میں میاں نواز شریف آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں پی پی پی سے زیادہ ووٹوں کی بنیادوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے، میاں محمد نوازشریف 25دسمبر1949 کو پیدا ہوئے، اِس وقت ان کی عمر تقریباً 69سال ہے، وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل ہیں، ان کو جنرل ضیا الحق کے دور میں متعارف کرایا گیا ،1981 میں پہلی بار صوبائی وزیر خز انہ ہوئے پھر 1985 تا 1988 وزیر اعلی پنجاب رہے اور پھر 1988 کے انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں زیادہ ووٹ حاصل کرکے دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور 1988سے1990ء تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، یوں بحیثیت وزیر اعلی نواز شریف 36 سال کی عمر میں 1985 میں پہلی مرتبہ بطور وزیر اعلی سیاست میں متعارف ہوئے اور قومی سطح پر اسی حیثیت میں بینظیر بھٹو کے مقابلے میں 1988 کے انتخابات کے بعد میدانِ سیاست میں آئے۔ یہ وہ دوسری قیادت تھی جو عوامی اعتبار سے آزادی کے بعد دوسری نسل کی قیادت کر رہی تھی۔ یوں قومی سطح پر بھٹو اور ضیا الحق آخری سربراہان حکومت اور مملکت تھے۔ یہ ضرور تھا کہ آئی جے آئی اور بعد میں مسلم لیگ نون میںاور اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں سیکنڈ لائن میں چند بوڑھے رہنما مشیروں کی حیثیت سے مو جود تھے مگر قومی قیادت اب جوان نسل کے پاس تھی۔

اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی نوجوان قیادت سامنے آنے لگی جمعیت علما اسلام کے مولانا فضل الرحمن کی پیدائش 19 جون 1953ء ہے وہ 1980ء میں اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد 27 سال کی عمر میں سیاست میں آئے یہ  وہ  دور  ہے جب سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں اور مجاہدین کی مزاحمت جاری تھی، 1988 میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اس دوران افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی، مولانا اپنی سیاسی بصیرت کے اعتبار سے علاقائی اور بین لاقوامی صورتحال اور اس کے تناظر میں قومی سیاست میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے تھے۔ 2001 ء میں انہوں نے امریکی صدر جارج بش کے اقدامات کی شدید مخالفت کی تھی۔

ایم ایم اے کے قیام کے بعدآنے والے دنوں میں انہوں نے  رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں اہم کرداد ادا کیا، اگر چہ وہ 2018 کے انتخابات میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست حاصل نہ کر سکے مگر 4 ستمبر2018 کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں وہ پیپلزپارٹی کے علاوہ ن لیگ سمیت حزب اختلاف جماعتوں  کی جانب سے امیدوار تھے، اس انتخاب میں  پی ٹی آئی کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے352 مولانا فضل الرحمن نے184 اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے 124 ووٹ لیئے تھے۔ جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمن کے بعد جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق ہیں، اگرچہ اپنی سنجیدگی کے اعتبار سے اپنی عمر سے زیادہ کے معلوم ہو تے ہیں لیکن ان کی تاریخ پیدائش 5 ستمبر 1962ء ہے، یوں ان کی عمر 56 سال ہے، انہوں نے ایم اے سیاسیات پشاور یونیورسٹی اور ایم اے ایجوکیشن پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔

جماعت اسلامی کے جمہوری مزاج کے مطابق وہ پہلے جمعیت طلبہ اسلام میںآئے اور پھر ترقی کرتے 2014 میں امیر جماعت اسلامی بن گئے۔ پاکستان کی سیاست میں اہم ترین نام سابق صدر آصف علی زرداری کا ہے یہ بھی اپنی عمر سے کچھ زیادہ کے لگتے ہیں جب کہ ان کی تاریخ پیدائش 26 جولائی 1955 کی ہے، اس طرح اس وقت ان کی عمر 63 سال ہے، محترمہ بینظیر بھٹو سے اِن کی شادی 1987 میں ہوئی تھی، یوں ازدواجی زندگی کے 20 سال بعد 2007 کو بینظیر بھٹو شہید ہو گئیں، اس میں شبہ نہیں کہ اُس وقت پاکستان کو یکجا اور مضبوط رکھنے میں اِنہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا، وہ 9 ستمبر 2008 سے8 ستمبر 2013 تک صدر مملکت رہے، طویل عرصہ جیل میں رہے، اِن پر کرپشن کے بڑے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں، 2018 ء کے عام انتخابات میں وہ اپنے نو جوان بیٹے بلاول زرداری بھٹو کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں،اِن کو ایک شاطر سیاستدان تسلیم کیا جا تا ہے، اگر چہ اس منتخب اسمبلی میں ن لیگ کے میاں شہباز شریف زیادہ اراکین اسمبلی کی بنیاد پر قائد حزب اختلاف ہیں مگر آصف علی زرداری کی اپنے بیٹے بلاول کے ساتھ موجودگی عمران خان کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کے لیے بھی چیلنج ہو گی جس کی ایک جھلک عمران خان کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے موقع پر عمران خان اور میاں شہباز شریف کے بعد بلاول کی تقریر تھی۔

موجودہ پارلیمنٹ میں شہباز شریف بہت مضبوط اپوزیشن کے ساتھ قائدِ حزب اختلاف ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش 23 ستمبر1951 ہے، یوں ان کی عمر67 سال ہے، وہ 20فروری1997 تا 12 اکتوبر 1999،اس کے بعد  8 جون 2008 سے26 مارچ 2013 ء اور پھر 8 جون 2013 سے8جون2018ء  تک آبادی اور بجٹ کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نہایت طاقتور وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور اب 20 اگست 2018 سے مسلم لیگ ن کے صدر ہیں، اِن پر بھی نوازشریف کی طرح کرپشن کے سنگین الزامات عائد ہیں اور یہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اسفند یار ولی ملک میں طویل ترین خاندانی سیاست اور جدوجہد کے اعتبارسے اہم ترین نام ہے۔

ان کے دادا غفارخا ن المعرف’’ باچا خان ‘‘ نے قیام پاکستان سے قبل مہاتما گاندھی کی طرح خیبر پختونخوا میںعدم تشدد کی بنیاد پر خدائی خدمت گار کی بنیاد رکھی اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی، ان کے بیٹے خان عبدالولی خان نے قیام پاکستان کے بعد قومی سیاست میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا، ایوب خان سمیت بھٹو دور میں جدوجہد جاری رکھی۔ اسفند یار ولی 19 فروری 1949ء میں پیدا ہوئے، اس وقت ان کی عمر69 برس ہے، زمانہ طالب علمی سے سیاست میں قدم رکھا، ایچی سن اور اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کی، ایوبی دور کے بعد ان پر 1975ء میں قتل کا مقدمہ قائم کیا گیا، حیدر آباد جیل میں رہے اور 1978 میں رہا ہوئے، 1993 سے انتخابی عمل میں آئے اور متعدد مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر کی حیثیت سے انہوں پشتون شناخت اور حقوق کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر جمہوریت کے لیے بہت جدوجہد کی، 2010 ء میں پی پی پی کی حکومت میں آئینی اٹھارویں ترمیم اورصوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا کروانے میں ان کا اہم ترین کردار رہا ہے، اگرچہ 1988ء کے انتخابات میں دو جماعتیں اور دو قومی لیڈر سامنے آئے، پیپلزپارٹی کی محترمہ بینظیر بھٹو اور پہلے آئی جے آئی اور پھر مسلم لیگ ن کے نواز شریف مگر کراچی میںمہاجر متوسط طبقے کے الطاف حسین نے ایک تیسر ی قوت کو متعا رف کرایا جو 1990 کے الیکشن سے 2013 تک کے انتخابات تک قومی سطح پر اور پارلیمنٹ میں اراکین کے اعتبار سے ملک کی تیسری قوت اور سندھ صوبائی اسمبلی میں دوسری قوت رہی، ایم کیو ایم پر  پُرتشدد سیاست اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے، مگر اس کے قائد کے لندن سے پاکستان میں پارٹی ورکرز کو قومی مفادات کے مخالف احکامات دینے، تشدد اور ہنگامہ آرائی کرنے پراس جماعت اور الطاف حسین کی تقریر پر عدالتی حکم سے پابندیاں عائد کر دی گئیں اور پھر اس کے لیڈر کم سے کم تین گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔

خالد مقبول صدیقی ، مصطفی کمال اور فاروق ستار ان تمام کی پیدائش  پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی ہے، ایم کیو ایم شروع ہی سے ایسی پوزیشن میں رہی کہ حکومت سازی میں اکثر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ان کی ضرورت رہی، اس وقت بھی ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی ضرورت بنی۔پنجاب اور قومی سیاست میں 1985سے چوہدری شجاعت حسین اور ان کے کز ن چوہدری پرویز الٰہی اہم سیاستدان کے طور پر سامنے آئے۔ پرویز الٰہی 2002 تا 2007 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ مسلم لیگ ق آج بھی موجود ہے اور چوہدری شجاعت حسین 2004 میںظفر اللہ جمالی کے بعد اور شوکت عزیز سے ذرا پہلے کچھ دن کے لیے وزیر اعطم بھی رہے، ان کی عمر اس وقت 72 سال ہے۔ اسی طرح شیخ رشید اس وقت عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر ریلوے ہیں، 6نومبر1950 کی پیدائش ہے اور ان کی عمر 68 سال ہے۔

بلوچستان ملکی آبادی کے چھ فیصد تناسب کے  اعتبار سے سب سے چھو ٹا اور ملک کے 43% رقبے کے ساتھ سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحل میں سے777 کلو میٹر ساحل اس کے پاس ہے ایران اور افغانستان سے اس کی طویل سرحدیں ملتی ہیں۔ گوادر ڈیپ سی پورٹ اور سی پیک کے علاوہ مستقبل میں زرعی پیداوارکے لحاظ سے اب بلوچستان ہی ملک کا مستقبل ہے، اگر چہ کم آبا دی اور نسلی، لسانی اور سیاسی تنوع کے اعتبار سے یہا ں  1972 سے آج تک کوئی اکیلی جماعت صوبائی حکومت بھی نہ بنا سکی مگر یہاں کی سیاسی شخصیات اور پارٹیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں کہ ان کا موقف ہمیشہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے خصوصاً بلوچستان کے عوام اور حقوق کے لحاظ سے مختلف اور بعض دفعہ متضاد اور کبھی کبھی متصادم بھی رہا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پانچ مرتبہ شدید نوعیت کا سیاسی بحران رونما ہوا اور پہاڑوں پر مسلح تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی، بلوچستان میں اگرچہ اب شہری آبادی کا حجم اور تناسب بڑھ گیا ہے مگر کیونکہ یہاں قبائلی سماج غالب ہے  اس لیے احتجاج سڑکوں پر اس شدت سے نہیں ہوتا اور شدت کی صورت عموماً پہاڑوں پر دکھائی دیتی ہے، یہاں قوم پرست جماعتوں کا ہمیشہ سے زور رہا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام ف ایک بڑی جماعت رہی ہے، جس کا زیادہ زور پشتون آبادی والے علاقوں میں رہا ہے مگر گذشتہ دس برسوں سے بلوچ آبادی والے کچھ علاقوں میں جمعیت علما ئے اسلام کے ووٹ بنک میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل ایک اہم بلوچ لیڈر سردار عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں جو 1972 میں بننے والی بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کے وزیر اعلیٰ تھے، سردار اختر مینگل 6 جون 1962ء کو پیدا ہوئے، ان کی عمر55 سال ہے، عمران خان کے ساتھ سیاسی معاملات میں بہت احتیاط سے چل  رہے ہیں اسی لیے ان کی جماعت نے ابھی تک حکومت میں کو ئی عہدہ نہیں لیا ہے۔

اختر مینگل وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور اپنے والد کی طرح سیاسی جدوجہد میں قید وبند کے مصائب بھی جھیلے ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، اپنے والد معروف سیاسی رہنما عبدالصمد خان اچکزئی شہید کے بعد سیاست میں آئے، 1973 میں رکن صوبائی اسمبلی ہوئے، ان کی تاریخ پیدائش 14 دسمبر1948 ہے، یوں اس وقت ان کی عمر69 سال ہے، ایم بی بی ایس ہیں، کئی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، ماہر پارلیمنٹر ین ہیں، پشتون قوم پرست سیاسی رہنما کی حیثیت سے پاکستان کے علاوہ افغانستان میںاثر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صدرنیشنل پارٹی بھی ایم بی بی ایس ہیں، بلوچ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں آئے، 1988 میں نواب اکبر خان بگٹی جب وزیر اعلیٰ تھے تو صوبائی وزیر صحت رہے، پھر 1993کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تو صوبائی وزیر تعلیم ہوئے، 2008 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2013 ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد 7 جون 2013 سے23 دسمبر2015 تک وزیر اعلیٰ رہے۔

ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے پہلے وزیر اعلی تھے، ان کی پیدائش 15 جولائی1958ء ہے، یوں ان کی عمر ساٹھ سال ہے۔ جام کمال خان یکم جنوری 1973 کو پیدا ہوئے، اس وقت ان کی عمر 45 سال ہے، بلوچستان میں وہ پہلی شخصیت ہیں جو تیسری پشت میں وزارت اعلیٰ حاصل کر چکے ہیں۔ پہلے ان کے دادا جام غلام قادر خان ستر اور اسی کی دہائیوں میں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے، ان کے والد جام یوسف خان 2002 تا 2007 وزیر اعلیٰ رہے، اب جام کمال نے بلو چستان عوامی پارٹی بنائی اور اس کے صدر اور بلوچستان کی مخلوط حکومت کے وزیر اعلی منتخب ہوئے ہیں، وہ 2013 سے 2018 تک رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر مملکت رہے۔

اگرچہ یہاں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںکا ذکر کیا گیا ہے اور ان لیڈروں کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو بعض اعتبار سے زیادہ بڑی قبائلی اور سیاسی شخصیات ہیں مگر قومی سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں مگر ظفر اللہ خان جمالی کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ وہ بلوچستا ن سے تعلق رکھنے والی واحد شخصیت ہیں جو وزیراعظم پاکستان کے منصب پر 2002 سے2004 تک فائز رہے، یکم جنوری 1944 کو پیدا ہوئے 1972 میں صوبائی وزیر ہوئے، دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور کئی مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر منتخب ہوئے، ان کا گھرانہ بلوچستان میں سیاست کے اعتبار سے بہت اہم ہے، جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے، ظفراللہ خان جمالی نے جمہوریت کی بحالی میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، اس خاندان سے تاج محمد جمالی اور جان جمالی بھی بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ رہے، صوبائی اسمبلی  کے اسپیکر کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزیر بھی رہے، ظفر اللہ خان جمالی کی عمر اس وقت74 سال ہے ۔

اس تما م تناظر میں اس وقت سب سے زیادہ اہمیت پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین اور پاکستان کے موجودہ  وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کی ہے، وہ 25 نومبر1952 کو پیدا ہوئے، اس وقت  ان کی عمر 65 سال 10 مہینے ہے لیکن روزانہ ورزش اور کھانے میں اعتدال کی وجہ سے سمارٹ اور سپر فٹ دکھائی دیتے ہیں،1971 سے1992 تک اکیس سال کرکٹ کی دنیا میں مثالی حیثیت سے چھائے رہے، 1992 میں پاکستان کے لیے بطور کیپٹن کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ حاصل کیا، فلاحی اور رفاہی کاموں میں اہم خدمات انجام دیں، شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا، دیہی علاقے میں تعلیم کے جدید شعبوں کے ساتھ اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی قائم کی اور اپنی اس کارکردگی کیساتھ 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنا کر پاکستان میں سیا سی جدوجہد شروع کی۔

2002 سے2007 تک اپنی پارٹی کے واحد رکن قومی اسمبلی رہے، 2008 سے تحریک انصاف نے پاکستانی سیاست میں اپنے وجود کا شدید احساس دلایا اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور پھر 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کل ڈالے گئے ووٹوں کے اعتبار سے ملک کی دوسری اور قو می اسمبلی میں نشستوں کے لحاظ سے تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن نے انتخابات میں دھاندلی کی ، ان الزامات کے حوالے سے عدالت کا فیصلہ یہ آیا کہ الیکشن میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے، اب عمران خان وزیراعظم  پاکستان ہیں، ملک پر تیس ہزار ارب روپے کے اندرونی قرضے اور 96 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ہیں، ملک میں مستقبل قریب میں پانی کی قلت کے سبب خشک سالی اور قحط کی صورتحال کی پیش گوئی ہے۔   پی ٹی آئی کی حکو مت کو تیس دن سے زائد ہو چکے ہیں اور میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزائیں معطل ہو گئیں اور ان کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔

سترہ ستمبر کو منی بجٹ آیا ہے اور عمران خان کے دورہ کراچی میںافغانیوں اور بنگالیوں کے بچوں کو شناختی کارڈز جاری کرنے کے بیان سے سردار اختر مینگل اور بلو چستان کی صوبائی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، یوں اس حکو مت کا آئندہ انداز کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا،اور جہاں تک وقت کا تعلق ہے تو1990 میں جب دیوار برلن گری اور سرد جنگ کا اختتام ہوا تھا اس وقت سے اب تک دنیا خصوصاً ہمارے خطے میں بہت بڑی تبدیلیاں ہو چکی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے کافی دیر ہوئی لیکن پھر اس تاخیر کا تیزی سے ازالہ کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی گئی۔

مگر جہاں تک تعلق معاشی،اقتصادی، سماجی، سیاسی، ماحولیاتی، مسائل کا ہے تو یہ نہ صرف اس وقت تشویشناک صورت اختیار کر چکے ہیں بلکہ ان کی شدت اور حجم میں سرطان کی سی تیزی آ گئی ہے، اگر ہم یہ تصور کریں کہ اِن مسائل کی رفتار یہی رہے تو پاکستان میں آنے والے دس برسوں یعنی 2028 میں کیا صورت ہو گی؟ اس وقت پاکستان کی 25 کروڑ آبادی اجتماعی خودکشی کر رہی ہو گی، اس وقت پاکستان گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج سے متاثر ہو نے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے، 5 اکتوبر 2005 میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں ملکی تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ آیا جس میںتقریباً ایک لاکھ افراد جاں بحق ہو ئے اور چالیس ہزار کلو میٹر  رقبے پر سب کچھ تباہ ہو گیا۔

8 اکتوبر 2008 میں بلو چستان زیارت کا تباہ کن زلزلہ آیا۔ 2010 کو ملکی تاریخ کا سب سے بدتر ین سیلاب آیا جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایسا تباہ کن سیلاب پہلے دیکھا نہ سنا۔اس بعد آواران اورمشکے بلوچستان میں2013  میں7.7 شدت کا آنے والا زلزلہ جو اپنی شدت کے لحاظ سے سب سے زیادہ شدت کا تھا اس سے یہاں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد جاں بحق ہو ئے، یہ ملک میں سب سے کم آباد ڈسٹرکٹ ہے جہاں آبادی کی گنجانیت صرف چار افراد فی مربع کلو میٹر ہے، اس زلزلے کی شدت کو کراچی میں محسوس  کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گلگت  بلتستان، خیبر پختونخوا کے سیلاب ،کراچی اور حید آباد کے بیشتر علاقے بارشوں کی وجہ سے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبے رہے،کراچی میں مئی کے مہینے میں گذشتہ دنوں آنے والی ہیٹ ویوز، بلوچستان، بارانی سندھ خصوصاً  تھر پارکر میں کئی برسوں سے رونما ہو نے والی خشک سالی اور قحط کی سی صورتحال بڑی سنگین علامات ہیں۔ ماہرین کی تحقیقات اور تجزیوں کے مطابق اگر صورتحال کی روک تھام کے اصولوں کے مطابق توجہ نہ دی گئی تو کلائمیٹ چینج اور گلو بل وارمنگ کے ساتھ قدرتی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو گا۔

اس وقت اگرچہ شرح خواندگی 58%  ہے مگر اَن پڑھ افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ ہے، دس کروڑ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، اتنی ہی آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے، ہپا ٹائیٹس کی شرح 15% ہے، اگرملکی معیشت کی صورتحال یہی رہتی ہے تو 2028 تک ملک پر بیرونی قرضو ں کا بوجھ دو سو ارب ڈالر سے زیادہ ہو جائے گا، اندرونی قرضے ساٹھ ہزار ارب ہو چکے ہونگے اور ڈالر دو سو پچاس روپے کا ہو چکا ہوگا۔  راقم نے چند برس قبل کہا تھا ،

میری یہ پیش گوئی ہے جو کل ہو گا

یہ  میرے  آج کا  ردعمل ہو گا

کوئٹہ سمیت تقریبا ڈھائی کروڑ آبادی شہر وں میں پانی کی قلت یا نایابی کی وجہ سے اپنے شہروں سے کہیں اور منتقل ہو نے لگے گی اور اگر خدانخوستہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پسپائی کی صورت ہوئی تو عراق،لیبیا اور شام سے زیادہ بدتر صورتحال کا سامنا کر نا ہو گا، یہ تو وہ خوفناک اور دل ہلادینے والی صورتحال کے اندیشے تھے، لیکن اگر ہم حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح مکمل تباہی کے واضح آ ثار کو دیکھتے ہوئے اجتماعی توبہ کے لیے ایک ہو جائیں، اس دس سالہ مدت کی مہلت سے فائد ہ اٹھا سکتے ہیں، سی پیک منصوبہ ملکی مفاد میں ہو اور آئندہ دس برسوں میں مکمل ہو کر ثمرات دینے لگے، ڈیمز بنا کر پانی اسٹور کر لیا جائے، آبادی کی منصوبہ بندی ہو ، افغانستان پاکستان  مین اعتماد بحال کرتے ہو ئے دونوں ملکوں میں مکمل امن وامان قائم کیا جائے، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو جائے، بہتر معاشی منصوبہ بندی کرتے ملک کو قرضوں سے آزاد کیا جائے۔ یہ سب کو ن کر سکتا ہے؟ اِس وقت ملکی قومی سیاست اور کاروبار حکومت کے اعتبار سے تجربہ رکھنے والے سیاسی لیڈروں کو ان کی حالیہ عمروں اور آئندہ دس برس بعد کے لحاظ سے دیکھیں تو صورتحال مستقبل میں یوں ہو گی کہ 2028 میں وزیر اعظم عمران خان جو اس وقت تقریباً 66 سال کے ہیں اُس وقت76 سال کے ہونگے۔

نوازشریف کی عمر79 سال، شہباز شریف کی 77 سال ہوگی، آصف علی زرداری 73 سال اور مولانا فضل الرحمن 75 سا ل کے ہونگے، اسفند یار ولی کی عمر 79 سال، چوہدری شجاعت کی 82 سال، محمود خان اچکزئی کی 79 سال اور شیخ رشید کی عمر 78 سال ہو گی، ظفر اللہ خان جمالی 84 سال کے ہو جا ئیں گے جب کہ سردار اختر مینگل 65 سال کے اور نئی قائم شدہ سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر اور بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی عمر دس سال بعد 55 برس ہو گی۔ کیا یہ تمام لیڈر ملک کے تحفظ، ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے آئندہ دس سال کی مدت کے لے مشترکہ طور پر کو ئی طویل المدت منصوبے پر اتفاق کر سکتے ہیں؟،کیا مقننہ میں اِس حوالے سے کو ئی قانون سازی ہو سکتی ہے؟ میں نے یہاں ان رہنماؤں کی دس سال کے بعد کی عمر وں کے اعتبار سے کمپیوٹر فوٹو شاپ سے ان کو ان کی عمروں کی بنیاد پر ان کے مستقبل کے عکس دکھانے کی کوشش کی ہے اور اس کے ساتھ  کسی شاعر کے یہ دو اشعار اِن کے فکر و نظر کی نذرکرتا ہوں۔

عجب زمانے کا ہر طور نظر آتا ہے

بدلا  بدلا  ہوا   ہر دور نظر آتا ہے

اب جو آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں

مجھ کو بوڑھا سا کو ئی اور نظر آتا ہے

The post دس برس بعد ملکی سیاسی قیادت کا منظرنامہ کیسا ہوگا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیلمٹ پہنو ورنہ بھاری جرمانہ بھرو

$
0
0

11 ستمبر کو لاہور ہائیکورٹ نے لاہور ٹریفک پولیس کو حکم دیا کہ وہ یہ امر ضروری بنائے، سڑکوں پر گامزن سبھی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ زیب تن کریں۔

عدالتی حکم نامہ پاکر لاہور پولیس نے بڑی سرگرمی سے کارروائی کی اور ان موٹر سائیکل سواروں کو بھاری جرمانے کیے گئے جنہوں نے ہیلمٹ نہیں پہن رکھے تھے۔ تاہم عدالتی حکم نامے نے لاہور کے شہریوں کو ہیلمٹ پہننے یا نہ پہننے کے سلسلے میں تقسیم کردیا۔

ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ حکم نامہ درست اور صائب ہے۔ ہر موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ پہننا چاہیے کیونکہ یہ حادثے کی صورت میں سر کو ضرب سے بچاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹر سائیکل ایک خطرناک سواری ہے اور بہت سے سوار خدانخواستہ حادثے کا شکار ہوکر سر پر چوٹ لگنے سے ہی چل بستے ہیں۔ اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے، تو واقعی ہیلمٹ ایک مفید ایجاد ہے جو قیمتی انسانی جان بچانے میں کام آتی ہے۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سبھی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہن سکتے۔ بعض لوگ اسے پہن کر فطری طور پر گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں اسے پہن کر  ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی گردن یا سر کے ساتھ کوئی طبی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ہیلمٹ پہن کر بائیک چلانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی مرض کے باعث ڈاکٹر بھی تجویز کرتے ہیں کہ مریض ہیلمٹ پہننے سے اجتناب کرے۔

ٹریفک پولیس کے مطابق جو موٹر سائیکل سوار کسی طبی مسئلے کے باعث ہیلمٹ نہیں پہن سکتے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو۔ بورڈ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا اسے ہیلمٹ پہننا چاہیے یا نہیں! اگر ثابت ہوجائے کہ کسی مسئلے کی وجہ سے ایک شخص ہیلمٹ نہیں پہن سکتا، تو پھر اسے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس اسے دیکھ کر پھر ہیلمٹ نہ پہننے پر اس کا چالان نہیں کرتی۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کی مصروف زندگی میں کم ہی لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کی خاطر چکر پر چکر لگائیں۔اس عمل کو زیادہ آسان ہونا چاہیے۔

ماضی میں بھی پاکستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں  ٹریفک پولیس موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے پر مجبور کرنے کے لیے مہم چلاتی ر ہی ہے۔ ایسی پہلی مہم 2005ء میں اسلام آباد میں چلائی گئی تھی۔ بعدازاں کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کی ٹریفک پولیس بھی ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ چلانے میں پیش پیش رہی۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ ایک دو ماہ بعد یہ مہم سرد پڑجاتی ہے۔

ایک متنازع معاملہ

دراصل موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہننا یا زیب تن نہیں کرنا پوری دنیا میں متنازع معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں بہت سے موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کے قانونی حکم کو اپنی شخصی آزادی پر حملہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، یہ فیصلہ کرنا موٹر سائیکل سوار کے پاس ہونا چاہیے کہ وہ ہیلمٹ زیب تن کرے یا نہیں! تاہم بیشتر ممالک میں موٹر سائیکل سواروں پر قانونی طور پر فرض ہے کہ وہ ہیلمٹ پہنے رکھیں۔

لاہور اور صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں جاری ٹریفک پولیس کی حالیہ ’’ہیلمٹ  پہنو مہم‘‘ اس لحاظ سے منفرد ثابت ہوئی کہ اس میں موٹر سائیکل سواروں پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ از روئے قانون یہ جرمانہ ایک یا دو سو روپے ہے۔ مگر اس مہم کے دوران پولیس نے خلاف ورزی کے مرتکب موٹر سائیکل سوار پر پانچ سو تا ایک ہزار روپے جرمانہ کیا۔ اس ضمن میں پولیس نے انوکھا طریق کار اپنایا۔ٹریفک پولیس ٹریفک کی مختلف ”24” خلاف ورزیوں پر ڈرائیوروں کو جرمانے کرسکتی ہے۔ ہیلمٹ نہ پہننے والے ڈرائیوروں کو تین چار خلاف ورزیاں جمع کرکے جرمانے کیے گئے تاکہ رقم بھاری بھرکم بن جائے۔

اسی بھاری جرمانے نے لاہوری موٹر سائیکل سواروں کی چیخیں نکلوادیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی مہنگائی نے پہلے ہی معاشی مسائل میں مبتلا کررکھا ہے۔گیس،بجلی اور پٹرول کا خرچ نکال کر روزمرہ اخراجات کے لیے کم ہی رقم بچتی ہے۔ اب ’’ہیلمٹ  پہنو مہم‘‘ کا بھاری جرمانہ انہیں مالی طور پر مزید زیربار کررہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے منسلک بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ مہم اس لیے چلائی گئی تاکہ عوام میں عمران خان حکومت کے خلاف نفرت پیدا کی جاسکے۔ یہ مہم چلانے میں سابقہ حکومت کے تعینات کردہ سرکاری افسر ملوث ہیں جو موجودہ حکومت کو عوام میں  بدنام کرنا چاہتے ہیں۔

2015ء میں بھی لاہور ٹریفک پولیس نے موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے پر آمادہ کرنے کے لیے بھر پور تحریک چلائی تھی۔ اس موقع پر بھی دلچسپ دعویٰ سامنے آئے تھے۔ مثلاً یہ کہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے چین سے بڑی تعداد میں ہیلمٹ منگوائے تھے۔ وہ ہیلمٹ فروخت کرنے کی خاطر ہی شہر میں ’’ہیلمٹ  پہنو مہم‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔ جب ہیلمٹ کا سارا سٹاک بک گیا، تو  مہم ختم کردی گئی۔

اس بار بھی مہم شروع ہوئی، تو راتوں رات لاہوری مارکیٹوں میں ہیلمٹوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ جو ہیلمٹ پانچ چھ سو روپے میں دستیاب تھا، اس کی قیمت ڈیڑھ دو ہزار روپے تک جاپہنچی۔ یوں ہیلمٹ فروخت کرنے والوں کی بیٹھے بیٹھے چاندی ہوگئی۔

مہم کے دوران یہ بات بھی سننے میں آئی کہ موٹر سائیکل چلانے والوں کی اکثریت نچلے اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا وہ مالی لحاظ سے اتنی استطاعت نہیں رکھتی کہ ہزاروں روپے مالیت کا ہیلمٹ خرید سکے۔ اسی لیے اکثر موٹر سائیکل سوار پلاسٹک سے بنے ہیلمٹ پہنے دیکھے گئے۔ یہ ہیلمٹ کسی بھی طرح حادثے میں ڈرائیور کا بچاؤ نہیں کرسکتے۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خصوصاً شہروں مثلاً کراچی،لاہور، راولپنڈی اسلام آباد،پشاور وغیرہ میں اب لاکھوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دوڑتی پھرتی ہیں۔ موٹر سائیکل سستی ہونے کے باعث اب یہ نچلے طبقے کی دسترس میں بھی آچکی۔ لہٰذا روزانہ ہزارہا لوگ موٹر سائیکلیں خرید رہے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری سمت سڑکوں کی چوڑائی ویسی ہی ہے۔صرف مرکزی سڑکیں ہی کشادہ کی جاتی ہیں۔ اسی لیے اب شہری سڑکوں پر بہت ہجوم رہنے لگا ہے۔ اس ہجوم میں حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات صاف ستھرے طریقے سے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والا بھی قانون شکن اور جلد باز ڈرائیور کی کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے شہروں میں خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کو چاہیے کہ وہ احتیاط سے بائیک چلائیں اور ہیلمٹ ضرور زیب تن کریں۔ یہ ان کی زندگی محفوظ و مامون کرنے والا عمدہ سہارا ہے۔

دنیا بھر میں جرمانے

ہیلمٹ نہ پہننے پر دنیا کے سبھی ممالک میں موٹر سا ئیکل ڈرائیوروں کو جرمانے کیے جاتے ہیں۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں حالیہ ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ کے دوران شہریوں نے اس امر پر غم و غصے کا اظہار کیا کہ جرمانہ بہت زیادہ کیا جارہا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ سب ممالک میں ہیلمٹ نہ پہننے پر ڈرائیور کو بھاری جرمانے کا سامناکرنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکا کی بیشتر ریاستوں میں جرمانہ پانچ سو سے ایک ہزار ڈالر کے مابین ہے۔ پاکستانی کرنسی میں اس جرمانے کی رقم باسٹھ ہزار روپے سے ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے بنتی ہے۔ امریکی ریاست جارجیا میں تو پولیس ہیلمٹ کے بغیر کسی موٹر سائیکل سوار کو پکڑے، تو عدالت بطور سزا اسے ’’چھ ماہ‘‘ کے لیے جیل بھی بھجوا سکتی ہے۔یہ جرمانے اسی لیے زیادہ ہیں تاکہ لوگ قانون شکنی کرنے سے باز رہیں۔بھاری جرمانے کا خوف انھیں جرم کرنے سے روکے رکھتا ہے۔

برطانیہ ہی کو دیکھیے جہاں حکومت ہیلمٹ پہننے کی قانونی پابندی پر عملدرآمد کرانے کے سلسلے میں بہت ہی زیادہ سخت ہے۔ وہاں کوئی ڈرائیور ہیلمٹ کے بغیر بائیک چلاتا پکڑا جائے، تو اسے اپنی جیب سے 500 تا 2000 پونڈ کے مابین رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ جرمانہ اسّی ہزار تا تین لاکھ بیس ہزار روپے بنتا ہے۔ برطانیہ میں سڑکوں پر تیزی سے موٹر سائیکل چلانا بھی ممنوع ہے۔ اگر کوئی ڈرائیور مقررہ حد پار کرے، تو اسے ’’دس ہزار پونڈ‘‘ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب وغیرہ میں بھی ہیلمٹ نہ پہننے پر ہزاروں روپے جرمانہ ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جرمانوں کے باعث ہی تمام ممالک میں موٹر سائیکل سوار نہ صرف ہیلمٹ پہنتے ہیں، بلکہ وہ قوانین کے مطابق اپنی بائیک چلاتے ہیں۔ اسی لیے ان ملکوں میں موٹر سائیکل سواروں سے متعلق حادثات کی شرح پاکستان کی نسبت بہت کم ہے۔کچھ عرصہ قبل تک بھارت میں جرمانے کی رقم کم از کم 100 روپے تھی۔ مگر اس سال بیشتر بھارتی ریاستوں میں ہیلمٹ نہ پہننے کا جرمانہ کم از کم ایک ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ سری لنکا میں اس جرمانے کی شرح دو ہزار روپے اور بنگلہ دیش میں پانچ سو تا ایک ہزار ٹکا ہے۔

 سوشل میڈیا پر تبصرے

صوبہ پنجاب میں ٹریفک پولیس کی ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘کا آغاز ہوا تو اس پر سوشل میڈیا میں متحرک و سرگرم پاکستانیوں نے مختلف تبصرے کیے جو دلچسپ ہیں اور اور غوروفکر کی دعوت دینے والے بھی۔چند تبصرے ملاحظہ فرمائیے:

٭ہمارے عوام سرعام ٹریفک قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔عدلیہ اور صوبائی حکومت نے ان قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کر کے مثبت قدم اٹھایا۔ہم لوگ یونہی ’’بندے کے پُتر‘‘بنیں گے۔

٭اگر بھاری جرمانے کیے جارہے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ سڑکیں ٹھیک کرائے،ڈرائیوروں اور مسافروں کی انشورنس کرانے کا بندوبست کرے اور انھیں دیگر متعلقہ سہولیات مہیا کرے۔تبھی بھاری جرمانے عائد کرنے کا جواز سمجھ میں آتا ہے۔

٭ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ نچلے پاکستانی طبقے کی جیب پر اچھا خاصا بار ہے۔پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہماری قوم خاصی ٹیرھی ہے۔جب اسے ڈنڈا دکھایا جائے تبھی وہ سیدھی راہ پہ چلتی ہے۔

٭لگتا ہے،کسی سیاست داں یا بڑے افسر نے ہیلمٹ بنانے کی فیکٹری کھول لی ہے۔

٭موٹرسائیکل سواروں کو سائیڈ کا شیشہ نہ لگانے پر بھی بھاری جرمانہ کرنا چاہیے۔سائیڈ شیشیوں کی مدد سے خوفناک حادثوں سے بچنا ممکن ہے ۔کیا وہ ایک ہزار کا ہیلمٹ اور سائیڈ مرر نہیں خرید سکتے؟جبکہ یہ دونوں اشیا ان کی قیمتی زندگیاں بچاتی ہیں۔

٭پاکستان صرف اسی وقت ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت بنے گا جب یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے۔

٭قانون کی پاسداری کرانے کی خاطر موٹر سائیکل سواروں پہ جرمانے عائد کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔لیکن ان لوگوں کو بھی پکڑنا چاہیے جو سستے ہیلمٹ مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔مختلف معیار کے ہیلمٹوں کی قیمتیں حکومت کو مقرر کرنا چاہیے۔

The post ہیلمٹ پہنو ورنہ بھاری جرمانہ بھرو appeared first on ایکسپریس اردو.

مودی جی! گھٹالے پر گھٹالا؟

$
0
0

اگر نریندر مودی جی نے گذشتہ ماہ اپنا 68واں یومِ پیدائش بنارس کے نور پور گاؤں میں پرائمری اسکول کے بچوں کے ساتھ منایا تو اس میں حیرت کس بات کی۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں جس بچکانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے اس کے بعد تو وہ اور کہیں منہہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ البتہ حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ اس دورے میں غلطی سے ایک دانش مندانہ بات کر بیٹھے جو ان کے اپنے ہی گلے پڑگئی ہے۔ اس کے لیے تاریخ تو شاید انہیں معاف کردے لیکن وہ خود کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔

پردھان منتری جی نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’پیارے پیارے بچوں سوال کرنے میں کبھی ڈرنا اور ہچکچانا نہیں چاہیے کیوں کہ یہی سوالات تو سیکھنے اور سمجھنے کی کنجی ہوتے ہیں۔‘‘ یہ نصیحت کرتے وقت ان کو کہاں معلوم تھا کہ بلندوبالا ایفل ٹاور کے نیچے بہتی خوب صورت اور سبک رو سین ندی پر سے گزرنے والی ہوا جلد ہی گنگا جمنا کی موجوں میں تلاطم برپا کر دے گی۔

سوالات کا بڑا ریلا ہوا کے دوش پر اڑان بھرے گا، خدشات کے بادل گرج گرج کر برسیں گے اور ہر وقت ٹپ ٹپ کرنے والے مودی جی دریا کی مانند ساکت ہو جائیں گے اور سوچیں گے کہ کاش میں سال گرہ میں بچوں کے ساتھ تالیاں بجاتا، کیک کاٹتا، غبارے پھاڑتا، کھیلتا اور کودتا مگر سوالات کرنے کی ترغیب نہ دیتا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت مودی جی! سوچے سمجھے بنا بولنے میں آپ مسٹر ٹرمپ سے بس ذرا ہی کم ہیں۔

فرانس کے سابق صدر فرینکوئس ہولاندے نے 2015میں مودی جی کے دورہ فرانس کی ایک حسین شام کا احوال کیا سنا دیا مانو قیامت ہی آگئی۔ انہوں نے کہا کہ جب رافیل دفاعی معاہدہ ہورہا تھا ، اس وقت حکومتِ ہند کی طرف سے نریندر مودی کے قریبی دوست انیل امبانی کی ریلائنس کمپنی کو ہی منتخب کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ چھتیس رافیل جنگی طیاروں کے معاہدے میں ہونے والی اقربا پروری پر گوکہ کافی مہینوں سے شبہات ظاہر کیے جارہے تھے جنہیں مودی حکومت کافی ڈھٹائی سے جھٹلا رہی تھی، لیکن اب جب فرانسیسی صدر نے ہی پردہ فاش کردیا تو پردھان منتری کو منہہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں مل رہی۔

اس دفاعی معاہدے کی تفصیلات خود بھارتی میڈیا سے چھپالی گئیں۔ این ڈی ٹی وی کے پیرس میں موجود نمائندے نے جب حکومت ہند سے ان کمپنیوں کے ناموں کی فہرست مانگی جن میں سے کسی ایک کو فرانس کی ڈاسو ایوی ایشن کے ساتھ مشترکہ پروڈکشن کے لیے منتخب ہونا تھا۔

اس فہرست میں انیل امبانی کا نام سب سے نیچے تھا ، لیکن جب جو لسٹ انہیں فرانس حکومت کی جانب سے ملی اس میں انیل امبانی کا نام سب سے اوپر تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ فرانس کے سابق صدر کے مطابق انہیں انیل امبانی کی کمپنی کے چناؤ کا پابند بھی کیا گیا تھا۔ انیل امبانی نریندر مودی کے جگری یار ہی نہیں بلکہ بھارت کے ایک مقروض ترین صنعت کار بھی ہیں۔ ان کی گرتی ہوئی مالی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے مودی نے ریاستی مفاد پر سمجھوتا کرلیا جس پر پورے بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس معاہدے سے بھارت کو اکتالیس ہزار کروڑ کا نقصان پہنچا ہے۔ پہلے نوٹ بندی اور اب رافیل دغا بازی پر خود بی جے پی کے بعض ارکان بھی مودی سے منہہ موڑے بیٹھے ہیں۔

مودی جی کی نصیحت کے عین مطابق اب پوری بھارتی قوم دوستی یاری کی اس گدلی سیاست کو سمجھنے کے لیے سراپا سوال ہے لیکن وہ آنا کانی کر رہے ہیں۔ بچہ بچہ پوچھ رہا ہے کہ آخر رافیل گُھٹالے میں شریک ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ بھلا اتنا بڑا کارنامہ کیا انہوں نے اکیلے ہی انجام دے دیا یا اس دفاعی معاہدے کے تاریخی غبن میں وہ ترچھی ٹوپی والے، بابو ’’بھولے بھالے‘‘ بھی شامل تھے جو پچھلے دنوں کیمرے کے سامنے ہیرو بن کر کھڑے پاکستانیوں کو للکارتے ہوئے جنوبی ایشیا کا امن ایک بار پھر تاراج کر نے کی سازش بُن رہے تھے۔ بھارتیوں کے دماغ میں یہ سوال بھی مسلسل کلبلا رہا ہے کہ مودی جی کب تک ریاستی اور عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر ’’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے‘‘ کا راگ الاپتے رہیں گے۔

جن دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مودی جی نے سارے داؤ کھیلے ان میں سے اکثر تو بھارتی بینکوں کو نچوڑ کر ملک سے فرار بھی ہوچکے جن میں للت مودی، نیرو مودی، مہیل چوکسی، وجے مالیا اور میہل بھائی شامل ہیں، جن کے بعد اب نتن سندیسارا بھی بھارت سے خاندان سمیت چمپت ہوگئے ہیں۔ صرف نتن سندیسارا نے ہی بینکوں سے پانچ ہزار کروڑ روپے قرض لیے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اس کے علاوہ نیرو مودی اور مہیل گیارہ ہزار کروڑ سے زائد کی رقم لے اڑے۔ مودی کی دوستوں کی اس فہرست میں ملکی خزانے کو چونا لگانے والے مزید انتیس نام اور موجود ہیں۔ ان بھگوڑوں کی اکثریت نے فرار ہونے کے لیے نائیجیریا کی طرف اڑان بھری ہے، کیوں کہ نائجیریا اور حکومتِ ہند کے درمیان خود سپردگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس صورت میں ان لٹیروں کو واپس بھارت لانا مشکل نہیں بلکہ سرے سے ناممکن ہے۔

مودی جی جو خود کو بار بار بھارت کا پردھان منتری نہیں بلکہ چوکی دار قرار دیتے رہے ہیں، افسوس ان کی چوکی داری میں بھارت کے تمام بینک ’’دیوالیہ پن‘‘ کی سرحد پر کیسے آن کھڑے ہوئے؟ مودی جی سے میڈیا سوال کر رہا ہے کہ محترم! آپ نے یہ کیسی چوکی داری کی کہ گجراتی سرمایہ دار پورے کے پورے بینک لوٹ کر لے گئے اور آپ سوتے ہی رہ گئے۔ آپ کو کون سا سائیکل پر ان کا پیچھا کرنا تھا، بس ایک سیٹی بجا کر اپنی قیادت میں چین سے سوئے ہوئے اداروں کو ہی تو جگانا تھا۔ آپ وہ بھی نہ کرسکے۔ بھارتی عوام بے چارے اب ایک دوسرے کے چہرے تکتے ہوئے سوال کر رہے ہیں کہ کیا انہوں نے دودھ کا رکھوالا بلے کو بنانے کی غلطی کر ڈالی؟ اور رافیل گھٹالے میں تو خود چوکی دار کے ہاتھوں ریاست پر اکتالیس ہزار کروڑ کی چٹی پڑگئی۔ رافیل کیس میں بھی دوستی ملکی مفاد پر غالب رہی۔

انیل امبانی کی دیوالیہ ہوتی ناتجربہ کار کمپنی کو پچاس سال کا تجربہ رکھنے والی ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹڈ پر فوقیت دے کر اپنے ملک کے غریبوں کا مذاق خود اڑایا، قوم کے پیسے کو دوستی پر لٹایا، اس دوستی میں وہ اس حد تک گر گئے کہ انہیں دیس کی غربت نظر آئی نہ ریاست کا مفاد۔ سوالات ہیں کہ کسی سیلابی ریلے کی مانند امڈے چلے آرہے ہیں۔ ہر آنکھ مودی جی سے کہ رہی ہے کہ جناب کا بہت یارانہ لگتا ہے امبانی سے۔ بھارتی میڈیا میں تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ رافیل ڈیل میں مودی جی نے اپنے قریبی دوست انیل امبانی کے لیے دلالی کی۔ اس ریلائنس کمپنی کے لیے راستہ ہموار کرتے رہے جو پہلے ہی پانچ ہزار کروڑ کی مقروض ہے۔

مودی کی دوست نوازی دیکھتے ہوئے تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ان کی سرکار میں اچھے دن کیا صرف کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ داروں کے لیے آئے تھے؟ جو مودی جی کو ان کی گذشتہ انتخابی مہمات میں بلاوجہ ہی اڑن کھٹولوں پر لے کر نہیں گھومے، نہ انہوں نے مودی جی کی دوستی میں اندھے ہوکر ان کی الیکشن مہمات پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ ان کو یقین تھا کہ مودی صاحب کے اقتدار میں وہ اسی پیسے کو دس گنا زیادہ کرکے وصول کرلیں گے، اور ایسا ہی ہوا۔ سو اب بھارتی عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا انہوں نے مودی جی کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ عوام کی دولت دوستوں پر نچھاور کردیں؟ لیکن یاروں کے یار نے تو گہری چپ سادھ لی ہے۔ بھارتی عوام کی لٹیا ڈبونے پر انہیں اگلے انتخابات میں اپنی جیت کے امکانات معدوم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔

رافیل گھٹالے نے مودی اور بی جے پی کی چناؤ میں جیت کی آس پر مٹی ڈال دی ہے، لیکن اقتدار کی لت ایسی کافر لت ہے کہ چھوٹے نہیں چھٹتی۔ سو اب مودی صاحب اگلے الیکشن میں فتح کا جھنڈا گاڑنے کی دھن میں اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ گائے، مسلمان اور پاکستان یہ تین وہ ہتھیار ہیں جن کے انتہائی استعمال سے وہ عوامی حمایت اپنے حق میں کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر پہلے بھی بی جے پی جیتتی چلی آئی ہے اب بھی یہ خدشہ پوری طرح موجود ہے۔ گذشتہ ماہ دہلی میں بی جی پی کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں باقاعدہ یہ طے کیا گیا ہے کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو لے کر ہندو ووٹوں کو یکجا کیا جائے گا۔

اس اعلان کی اگرچہ ہر سطح پر مذمت کی گئی لیکن مودی سرکار کو کب کسی کی بات پر کان دھرنے ہیں۔ انہیں تو اپنی کرسی سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا کا ہی تو بول بالا رہا اور اس نعرے پر وہ ان ریاستوں میں بھی الیکشن جیتنے میں کام یاب ہوئے جہاں ان کی انتخابی مہمات میں خالی پنڈالوں میں کرسیاں لڑھکتی تھیں۔ وہ اب بھی اسی ناپاک ایجنڈے کو انتخابی مہم کی بنیاد بنانے کا ارادہ ظاہر کر کے مسلمانوں اور اعتدال پسند ہندوؤں میں بے چینی پیدا کر چکے ہیں۔ اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ وہ گجرات ماڈل کو فالو کر کے مسلم منافرت کی آگ بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔

دوسرا ہَوّا وہ پاکستان کا کھڑا کرچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے فوجی مروا کر پاکستان پر ملبہ ڈالا اور لگے جنگ کی دھمکیاں دینے۔ پاکستان سے جنگ کے خطرات بڑھاکر موصوف ہم دردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح پاکستان کی طرف سے نہایت تحمل کا مظاہرہ کر کے ان کی سازش کو پہلے ہی قدم پر ناکام بنادیا گیا۔ رہ گئی بات پاک بھارت وزرائے خارجہ اجلاس کی، تو جناب اس کو منسوخ کرنا بھارتی حکومت کے لیے اس لیے ضروری تھا کہ یہ ملاقات خیرسگالی کا پیغام بن کر مودی سرکار کے نئے الیکشن ایجنڈے میں فِٹ ہی نہیں بیٹھ رہی تھی سو فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان ے سر ڈال کر اس سے جان چھڑا لی گئی۔

یہ حقیقت اب روزِروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ نریندر مودی نے اپنے دور حکومت میں ذاتی دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے سوا اور کوئی کام نہ کیا۔ کسی ایک سیکٹر نے بھی ترقی کے درشن نہ کیے ، الٹا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ اب مزید جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے مودی جی نے الیکشن سے محض چند ماہ کی دوری پر مفادِعامہ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ اسکیم ’’مودی کیئر‘‘ کا اجرا کر کے دنیا کو اور ہنسنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔

یہ اسکیم ’’اوباما کیئر‘‘ کا چربہ ہے جو امریکا کے سابق صدرباراک اوباما نے اپنے دور حکومت میں شروع کی تھی۔ جگری یاروں کے ملک سے اڑان بھرنے کے بعد اب مودی جی کو اپنی اگلی فتح کا صرف یہی راستہ نظر آرہا ہے کہ کچھ کام ان کے لیے بھی کرلیا جائے جن کے خون پسینے کی کمائی سے حکومتیں اپنے خزانے بھرتی ہیں، لیکن بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ اب مودی کیئر کی کیئر‘‘ کس کو ہے؟ بھارتی شہریوں کو جتنا چونا لگ چکا اس کے بعد انہیں ایسی کیئر کی عادت ہی کہاں رہی ہے۔ اور وہ بے چارے بھارتی شہری جو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کی خاطر مودی کیئر سے استفادہ کریں گے، اس وقت ان کا کیا بنے گا جب نئے الیکشن کے بعد انہیں ’’ڈونٹ کیئر‘‘ کہہ کر واپس زمین پر پٹخ دیا جائے گا۔

ایسی اسکیموں کا اجرا کرکے مودی جی خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارتیوں کا ایمان مودی پر سے اٹھ چکا ہے۔ پہلے ان کا کھوٹا بھی کھرا تھا اب کھرا بھی اپنی اہمیت کھوچکا ہے۔ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی رافیل گھٹالے کو بہترین طریقے سے اپنے حق میں کیش کر رہے ہیں۔ مودی سرکار اپوزیشن کے نشانے پر آگئی ہے۔ مودی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس زبانی جنگ میں اب گھمسان کا رن پڑ چکا ہے۔ راہول گاندھی مودی کو دھوکے باز کہہ رہے ہیں تو جواب میں انہیں حکومت ہند کی طرف سے Ra – Fail (راہول فیل) کا لقب دیا جا رہا ہے۔ سو اس طرح 74 فی صد شرح خواندگی کے حامل بھارت میں اگلے انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے کی جارہی ہیں۔ ڈیم فنڈ پر پاکستان کا مذاق اڑانے والوں سے آج رافیل گھٹالے کے بارے میں سوالات ہو رہے ہیں تو انہیں جانے کیوں برا لگ رہا ہے؟

بنارس کے اسکول میں بچوں کو سوالات پر اکسانے والے مودی جی سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ اتنے گھٹالوں کے بعد بھی آپ کو چوکی دار ہی کہا جائے یا پھر لُٹیرا؟ مودی جی کو زعم تھا کہ سب ’’نام دار‘‘ ہیں، بس ایک وہی ’’کام دار‘‘ ہیں۔ گہری نیند سے جاگیے جناب! آپ جرائم میں شراکت دار اور داغ دار بھی ہیں۔

The post مودی جی! گھٹالے پر گھٹالا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

نادیہ مراد

$
0
0

نادیہ کے لئے اپنی کہانی بیان کرنا آسان نہ تھا، وہ ایک مغربی جریدے سے وابستہ خاتون صحافی کے سامنے بیٹھی تھی، پورا دن گزر چکا تھا اور وہ سب کچھ بیان کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس کے ساتھ بیت چکا تھا۔

صحافی جب بھی اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی، وہ دور خلاؤں میں گھورنے لگتی۔ وہ خاتون صحافی کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کرپارہی تھی۔ صحافی نے پوچھا کہ جب داعش کے جنگجو اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تو اس کے بعد کیا کچھ ہواتھا؟ موصل میں اس پر کیا گزری؟ وہ ان سوالات کا پوری تفصیل سے جواب دیناچاہتی تھی کیونکہ وہ بہادر لڑکی تھی، جنگجوؤں کے ہاں سے فرار ہوکے آئی تھی اور دنیا کو بتاناچاہتی تھی کہ عراق میں یزیدیوں کے ساتھ کیابیتی، تاہم یہ سب کچھ بتانا اس کے لئے آسان نہیں تھا۔

نادیہ مراد 1993ء میں شمالی عراق میں کوہِ سنجار کے علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھی۔ یہ صوبہ ’نینوا‘ میں واقع ہے، ’نینوا‘ دنیا کے  چند قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، نادیہ کا گھرانہ کاشت کاری کرتا تھا۔ وہ انیس برس کی تھی اور کالج میں تعلیم حاصل کررہی تھی ، جب 2014 میں داعش کے جنگجو اس کے گاؤں پر چڑھ دوڑے۔ نادیہ مراد جس علاقے سے تعلق رکھتی ہے، وہاں دولاکھ30ہزار  یزیدی آباد تھے۔ داعش والے انھیں کافر سمجھتے تھے۔ 2014ء میں 3400یزیدیوں کو داعش نے گرفتارکرلیا، ان میں سے زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں تھیں جبکہ جو مرد تھے، انھیں لڑائی پر مجبور کیاگیا، انکار کرنے والوں کو قتل کردیاگیا۔ عراق میں مجموعی طور پر داعش کے سبب چارلاکھ  یزیدی بے گھر ہوئے۔

نادیہ مراد نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اچھی بھلی زندگی بسر کررہی تھی، وہ کالج کی طالبہ تھی اور تاریخ اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ وہ پڑھ لکھ کر استانی بنناچاہتی تھی۔ ان دنوں اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ داعش والے کون ہیں اور کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ پھر اس نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر خوفناک اور ہولناک تصویریں اور مناظر دیکھناشروع کردئیے۔ یہ اگست کا مہینہ تھا، جب ایک روز  وہ اپنی بہن کے ساتھ کہیں جارہی تھی کہ اس نے جنگجوؤںکو گاؤں میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس نے انھیں پہچان لیا۔ یہ وہی لوگ تھے جنھیں اس نے ٹی وی پر جرائم کرتے دیکھاتھا۔ اس وقت اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ بہت جلد اس کا بھی ان سے واسطہ پڑے گا۔

پندرہ اگست 2014ء کو  جنگجوؤں نے ہرفرد کو گاؤں کے باہر سکول میںجمع ہونے کا حکم دیا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ سکول کی طرف جاتے ہوئے نادیہ اوراس کے گھر کے افراد نے دیکھا کہ گھروں میں، گلیوں میں ہرطرف داعش کے جنگجو ہی کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ مختلف زبانوں میں گفتگو کررہے تھے۔ سکول میں جنگجوؤں نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ جمع کیا، نادیہ اور کچھ دیگر خواتین کو سکول کے سیکنڈ فلور پر جانے کو کہا۔ اس کے بعد اگلے ایک گھنٹے میں انھوں نے 312 مردوں کو قتل کیا۔ ان میں چھ نادیہ کے حقیقی اور سوتیلے بھائی بھی تھے۔ وہ سب کے سب نادیہ کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے۔ بعدازاںکُرد فوج نے داعش سے یہ علاقہ چھینا تو یہاں ایک اجتماعی قبر برآمد ہوئی جہاں 80بزرگ خواتین کو دفن کیاگیاتھا۔

نادیہ اور اس جیسی دیگرکم عمر، جوان لڑکیوں یا پُرکشش خواتین کوشہر موصل لے جایاگیا، جہاں تین دن بعد انھیں مختلف جنگجوؤں میں تقسیم کردیاگیا۔ اسے یاد آیا کہ  بعض خواتین نے اپنے آپ کو بدصورت بنانے کی کوشش کی تاکہ وہ جنگجوؤں کی زیادتی سے محفوظ رہ سکیں۔ بعض نے اپنے بال اکھاڑ پھینکے اور بعض نے اپنے چہروں پر بیٹری کا تیزاب چھڑک لیا۔ تاہم یہ سب تدابیر ان کے کام نہ آئیں۔ نادیہ کی بھتیجی (جو مغویوں میں شامل تھی) نے دیکھا کہ ایک خاتون نے اپنی کلائیاں کاٹ لیں۔ ایسی خواتین کی کہانیاں بھی منظرعام پرآئیں جنھوں نے پُلوں پر سے نیچے چھلانگیں لگا کر جان دیدی۔ جس گھر میں نادیہ کو رکھاگیاتھا،اس کا ایک بالائی کمرہ بھی ایک الگ ہی کہانی بیان کررہاتھا، یہ خون سے لتھڑا ہواتھا۔ نادیہ کے بقول:’’وہاں خون ہی خون تھا، اس کی دیواروں پرخون سے لتھڑے ہاتھوں کے نشانات تھے۔ دراصل وہاں دوخواتین نے اپنے آپ کو قتل کردیاتھا‘‘۔ نادیہ خود اپنی زندگی ختم نہیںکرناچاہتی تھی بلکہ  اس کی خواہش تھی کہ جنگجو ہی اسے قتل کردیں۔

ہرصبح خواتین کو غسل کرنے کو کہاجاتا، پھر انھیں ’’شرعی‘‘ عدالت میں لے جایاجاتا جہاں ان کی تصاویر بنائی جاتیں۔ یہ تصاویر عدالت کی ایک دیوار پر چسپاں کردی جاتیں، ہرخاتون کی تصویر کے ساتھ اُس جنگجو کا نام اور نمبر بھی لکھاجاتا جس کے قبضے میں یہ خاتون ہوتی تھی۔ اس طرح یہ جنگجو عورتوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے تھے۔ ایک دن نادیہ کی بھی باری آگئی۔ وہ گلابی جیکٹ پہنے دیگر خواتین کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھی تھی۔ اچانک ایک جنگجو کمرے میں داخل ہوا، اُس نے نادیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، ’’او گلابی جیکٹ والی! میرے ساتھ آؤ‘‘۔ نادیہ کے بقول:’’ اُسے دیکھتے ہی میں نے چیخناچلانا شروع کردیا، وہ ایک لمباتڑنگا آدمی تھا،  سرکے بال بڑے بڑے تھے اور داڑھی لمبی۔ ہم سب خواتین نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا لیکن اُس نے مجھے گھسیٹنا شروع کردیا۔ اس پر دیگرجنگجو مجھے اور میری ساتھی خواتین کو ڈنڈوں سے پیٹنے لگے۔ لمبا تڑنگا آدمی مجھے گھسیٹتے ہوئے گراؤنڈ فلور پر لے گیا، جہاں ایک جنگجو لڑکیوں اور خواتین کو لے جانے والے جنگجوؤں کے نام وغیرہ لکھ رہاتھا‘‘۔

نادیہ لمبے تڑنگے شخص کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی، وہ  مزاحمت کررہی تھی، اسی دوران  اُس نے ایک چھوٹے پاؤں والے جنگجو کو دیکھا۔ نادیہ کو خیال آیا کہ یہ جنگجو لمبے تڑنگے شخص کی نسبت اس کے لئے بہتر ہے، چنانچہ اُس نے اسے کہا: ’’مجھے اس بڑے جنگجو سے آزاد کرالو، اپنے ساتھ لے جاؤ، جو تم چاہو گے میں کروں گی۔ چنانچہ چھوٹے پاؤں والے نے مجھے حاصل کرلیا۔ یہ بھی درازقدتھا تاہم دبلاپتلا تھا۔ اس کے بال بھی لمبے تھے تاہم داڑھی چھوٹی تھی۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا جس کے دو دروازے تھے۔ وہ پانچوں وقت نماز پڑھتا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک بیٹی بھی، جس کا نام ’سارہ‘ تھا تاہم نادیہ اُن سے کبھی نہ مل سکی۔ ایک روز وہ مجھے موصل شہر ہی میں اپنے والدین کے گھر میں لے گیا۔ اسی روز رات کو اُس نے مجھے نئے کپڑے پہننے اور بننے سنورنے کو کہا۔ میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، پھر اس نے اپنی خواہش پوری کی۔ یہ بہت گہری اندھیری رات تھی‘‘۔

ایک روز نادیہ نے یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پکڑی گئی، نادیہ کے بقول:’’داعش کے جنگجوؤںکے اصول کے مطابق پکڑی جانے والی عورت مالِ غنیمت ہوتی ہے اور اگر وہ بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے کمرے میں بند کر کے ریپ کیا جاتا ہے‘‘۔ چنانچہ نادیہ پر  پہلے بدترین تشدد کیاگیا، پھر اسے کپڑے اتارنے اور ایک دوسرے کمرے میں جانے کو کہاگیا جہاں چھ  جنگجو موجود تھے۔ سب نے اس کے ساتھ مسلسل زیادتی کی حتیٰ کہ نادیہ بے ہوش ہوگئی۔ ایک دوسرے انٹرویو میں نادیہ نے ان جنگجوؤں کی تعداد 12بتائی ہے۔ یہ سب جنگجو اپنے کئے پر ذرہ برابر شرمندہ نہیں تھے، جب ان میں سے ایک جنگجو سے پوچھاگیا کہ کیا یہ آپ کی بیوی ہے؟ اُس نے کہا:’نہیں، لونڈی ہے‘‘۔ اس کے بعد اُس نے خوشی میں ہوائی فائرنگ شروع کردی۔

بالآخر نادیہ  نومبر2014ء میں اس روز فرارہونے میں کامیاب ہوگئی جب اس گھر میں رہنے والے جنگجوؤں میں سے ایک جاتے ہوئے گھر کو تالہ لگانا بھول گیاتھا۔چنانچہ وہ آرام وسکون سے باہرنکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہاں سے اس نے سیدھے ایک مسلمان گھرانے میں جاکر پناہ لے لی، یہی خاندان نادیہ کے کام آیا، اس نے نادیہ کے لیے جعلی شناختی دستاویزات تیارکرائیں، یوں وہ داعش کے علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب ایک مہاجر کیمپ میں پہنچی، جہاں سے وہ ایک امدادی تنظیم کے ذریعے جرمنی پہنچ گئی۔  یہ نادیہ کی جرات اور ہمت ہی تھی کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی، وہ کیسے فرار ہوئی؟ اس سوال کا جواب اس نے اپنی کتاب’The Last Girl: My Story of Captivity, and My Fight Against the Islamic State‘ کی صورت میں دیا ہے۔

داعش کی قید سے نجات پانے کے بعد نادیہ نے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد ریپ کے بطور جنگی ہتھیار استعمال کی طرف دنیابھر کے لوگوں کی توجہ مبذول کروانا تھا۔ اس کی تنطیم کا نام ’’نادیہ انیشی ایٹو‘‘ ہے۔ تنظیم کا مقصد انسانی قتل عام، وسیع پیمانے پر ہونے والے ظلم و تشدد، انسانی سمگلنگ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی مدد کرنا اور ان کے زندگی کی بحالی ہے۔ اسے2016ء میں ’کونسل فار یورپ‘ کی جانب سے واکلیو ہیومن رائٹس انعام دیا گیا تھا۔

اس نے اس موقع پر مطالبہ کیا تھا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف داعش کے جرائم کی تفتیش کرے۔ اس کے بعد اسے اُسی سال انسانی سمگلنگ کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پہلی خیرسگالی سفیر مقرر کیا گیا تھا۔  نادیہ نے ایک دوسری یزیدی خاتون لامیا اجی بشر کے ساتھ مشترکہ طور پر یورپ میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا سخاروف ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

حال ہی میں نادیہ کو 2018ء کا امن نوبل انعام  کا حق دار قراردیاگیا، اس انعام میں نادیہ مراد کے ساتھ دوسرے حصہ دار افریقی ملک کانگو کے گائناکالوجسٹ ڈینس مْکویگے ہیں جنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں متاثرین کا علاج کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سال امن نوبل انعام کے لئے 331 افراد اور اداروں کو اس انعام کے لیے نامزد کیا تھا،کمیٹی کے مطابق رواں برس حاصل ہونے والی ان نامزدگیوں میں 216 شخصیات اور 115 مختلف تنظیمیں شامل تھیں۔ تاہم کامیابی نادیہ مراد اور ڈینس مکویگے کے حصے میں آئی۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی کے سربراہ بیرٹ رائس اینڈرسن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ انعام ’جنسی تشدد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف جدوجہد‘ کے صلے میں دیا گیا ہے۔ رائس اینڈرسن نے کہا کہ دونوں انعام یافتگان نے’’ایسے جنگی جرائم پر توجہ مرکوز کروانے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔‘‘

The post نادیہ مراد appeared first on ایکسپریس اردو.

بچا سکتے ہیں تو بچا لیں، اب کس کس چیز کی حفاظت کی جائے ؟

$
0
0

چوری کرنا یقینا ایک برا کام ہے اور جرم بھی، لیکن بدقسمتی سے  بہت سے دوسرے جرائم کی طرح یہ فعل بد انسانی تاریخ کے ہر معاشرے میں قدیم عرصے سے انجام دیا جا رہا ہے۔

چوروں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ تو واقعی کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جبکہ چند افراد اس کو باقاعدہ پیشے کے طور پر اپناتے ہیں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی چور رات کی تنہائی میں چھپ کر چپکے سے اپنا ہنر آزماتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو دن دہاڑے دیدہ دلیری سے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگ محض اپنی تفریح طبع کے لیے بھی اس فن کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہاں تک کہ ایک نفسیاتی بیماری ایسی بھی ہے کہ جس میں مبتلا شخص امیر ہونے کے باوجود چھوٹی چھوٹی کم وقعت کی اشیاء چرا کر ذہنی تسکین حاصل کرتا ہے۔  البتہ انگریزی ادب میں ایک ایسے نابغۂ روزگار چور نک ویلوٹ کی چوریوں پر مبنی فکشن کہانیوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو اپنے گاہکوں کے لیے بھاری معاوضے پر مادّی لحاظ سے بے وقعت چیزیں چرایا کرتا تھا۔

چوروں اور ڈاکوؤں کا ہدف عام طور پر قیمتی چیزیں مثلاً کاریں، موٹر سائیکل، کمپیوٹرز، آرٹ کے شاہکار، نقدی اور زیورات وغیرہ چرانا ہوتا ہے۔ لیکن گھر کے لان اور برفانی گلیشیز چرانے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ زیر نظر مضمون میں چند ایسی ہی عجیب و غریب چیزوں کی چوری کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔

-1 پنیر کی چوری :

پنیر ایک فائدہ مند غذا ہے۔ دنیا بھر میں پنیر کھانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ لوگ صبح ناشتے میں یا عصرانے کے ہلکے پھلکے کھانے کے وقت سلائس پر پنیر لگا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہ دیگر طریقوں سے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن 2017ء میں جرمنی کے علاقے ’’بیڈہرسفیلڈ‘‘ (Bad Hersfeld)، میں جو اپنے معدنی پانی کے چشموں اور تہواروں کی وجہ سے مشہور ہے، چوری کی ایک عجیب و دلچسپ واردات ہوئی۔ پنیر کے ایک بہت زیادہ پسند کیے جانے والے معروف برینڈ کے کارٹنز سے لدے ہوئے ایک ٹرالر میں سے پنیر کے 6,875 جارز جن کی مالیت 18,000 امریکی ڈالرز تھی، چرا لیے گئے۔ چوری ہونے والے اس پنیر کا وزن تقریباً 5 ٹن بنتا ہے۔ چور شائد پنیر کھانے کا کوئی بہت ہی بڑا شوقین تھا۔

-2 پل کی چوری :

چونک گئے نا ؟ پر کہاوت مشہور ہے کہ ’’اگر آپ نے کوئی بڑی چیز چوری کرنی ہے تو یوں ظاہر کریں کہ جیسے سرکار نے آپ کو اس چیز کو اس کی جگہ سے ہٹانے کا ٹھیکہ دیا کرتا ہے۔ اسی پے من و عن عمل کرتے ہوئے ’’جمہوریہ چیک‘‘ (Czech Republic) میں لوہے کے سکریپ کا کاروبار کرنے والے ایک گروہ نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا۔ 2012ء میںاس شاطر گروہ کے ایک بدمعاش نے مقامی افراد کے سامنے اپنے آپ کو باقاعدہ ایک انجینئر ظاہر کرتے ہوئے جعلی سرکاری دستاویزات دکھائیں، جن کے مطابق  وہاں نزدیکی نہر پر واقع پل کو ہٹا کر اس جگہ پر سائیکل چلانے والوں کے لیے ایک نیا راستہ بنائے جانے کا سرکاری منصوبہ تھا اور اس کے لیے نئے ڈیزائن کا پل تعمیر ہونا تھا۔ مقامی افراد کے لیے گو یہ اچنبھے کی بات تھی تاہم انہیں تجسس آمیز مسرت بھی تھی کہ دیکھیں اب وہاں کیسا نیا پل تعمیر کیا جاتا ہے۔ بدمعاش گروہ کے اراکین نے 10 ٹن وزنی اس پل کو ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر توڑا اور پھر اسے مقامی مارکیٹ میں ہی سکریپ میں بیچ ڈالا اور یوں چوری اور دیدہ دلیری کی مثال قائم کردی۔

-3 انسانی پاؤں کے پنجوں کی چوری :

اہل مغرب بھی عجیب وغریب کام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔کیا کبھی آپ نے ان نمائشوں کے متعلق سنا ہے جن میں انسانوں یا جانوروں کی حنوط شدہ لاشوں کی نمائش کی جاتی ہے؟ ان نمائشوں کو ’’ٹریولنگ باڈی ورلڈز ایگزیبٹ‘‘ (Travelling Body Worlds Exhibit) کہا جاتا ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں ’’آکلینڈ‘‘ (Auckland) میں منعقد ہونے والی ایک ایسی ہی نمائش کو دیکھنے کے لیے آنے والے نیوزی لینڈ کے ایک باشندے نے سوچا کہ اسے اس نمائش کی یادگار کے طور پر کوئی ’’سوینئر‘‘ (Souvenir) اپنے وطن ساتھ لے کر جانا چاہیے۔ سو، اس نے نمائش میں پیش کی جانے والی ایک حنوط شدہ انسانی نعش کے پاؤں کے دونوں پنجے چرا لیے تاکہ واپس وطن جا کر اپنے دوستوں، عزیزوں کو فخریہ طور پر دکھا سکے۔ پنجوں کی اس جوڑی کی قیمت تقریباً 5,500 ڈالرز تھی۔ تاہم یہ چوری پکڑی گئی اور پنجوں کی جوڑی نمائش کی انتظامیہ کو واپس کردی گئی۔

-4 گلیشیر کی چوری :

براعظم جنوبی امریکہ کے انتہائی جنوب میں ایک علاقہ ’’پیٹاگونیا‘‘ (Patagonia) واقع ہے جس پر ارجنٹائن اور چلی کا مشترکہ کنٹرول ہے۔ اس علاقے میں موجود گلیشیرز سیاحوں کے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہیں۔ گو دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی موسمی و ماحولیاتی تبدیلیاں یہاں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہیں اور یہ گلیشیرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں تاہم یہ بات یقینی ہے کہ کبھی کسی نے ان کو چرانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن 2012ء میں ’’چلی‘‘ (Chile) کے ایک ’’ذہین‘‘ کاروباری شخص نے اپنے ’’ریفریجریٹر ٹرک‘‘ سے ’’مسلح‘‘ ہوکر یہ کام کر گزرنے کی ٹھانی تاکہ اس سے کاروباری نفع حاصل کرسکے۔ اس نے ’’پیٹا گونیا‘‘ کے ’’برنارڈو او ہیگنز‘‘ (Bernardo O’ Higgins) نیشنل پارک کے اندر سے 5 ٹن برف غیر قانونی طور پر اکٹھی کی اس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ برف ’’آئس کیوبز‘‘ Ice Cubes (برف کے ٹکڑوں) کی شکل میں شراب خانوں کو فروخت کرکے دولت کمائے گا۔ کیا آپ مغرب  کے اس ’شیخ چلی‘ کے اس کاروباری منصوبے کی داد نہیں دیں گے؟

-5 پنیر کی ایک اور چوری :

جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ پنیر بہت سے لوگوں کا بہت پسندیدہ ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کی چوری کے واقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سوال البتہ یہ ہے کہ کوئی زیادہ سے زیادہ کتنا پنیر کھاسکتا ہے؟ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پنیر استعمال کرنے والے امریکہ کی ریاست ’’وسکونسن‘‘ (Wisconsin) کے علاقے ’’گرین بے‘‘ (Green Bay) سے اس ریاست کے ایک اہم شہر ’’میلوؤکی‘‘ (Milwaukee) کے درمیان 130 میل کی مسافت ہے۔ 2017ء میں اس روٹ پر ایک ٹرک چلا جارہا تھا، جس پر 20,000 پاؤنڈ پنیر کا اسٹاک لدا ہوا تھا۔ اس پنیر کی مالیت تقریباً 46,000 ڈالرز تھی۔ دوران سفر ٹرک ڈرائیور نے ٹرک کی سروس کروانے کے لیے اسے سڑک کی ایک سائڈ پر روک دیا۔ ٹرک کا الگ ہوجانے والا ڈرائیور والا اگلا حصہ (کیبن) ٹرک سے الگ کرکے وہ اسے سروس کروانے کے لیے لے گیا اور ٹرک کا پچھلا سرد خانے والا حصہ جس میں پنیر لوڈ تھا، اس نے سڑک کنارے ہی کھڑا رہنے دیا۔ جب وہ واپس آیا تو معلوم ہوا کہ ٹرک کا ٹرالی نما پچھلا سرد خانہ پورے کا پورا غائب ہوچکا تھا۔ ظاہر ہے بے چارہ پنیر چور اتنا زیادہ پنیر اپنے گھر کے فرج میں تو نہیں رکھ سکتا تھا نا ؟

6۔ دماغ کی چوری :

دنیا کے مشہور سائنس دان آئن سٹائن سے کون ہے جو واقف نہیں۔  بی بی سی کے مطابق آئن سٹائن کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ’’تھامس ہاروے‘‘ (Thomas Harvey) نے اس کا دماغ نکال کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا۔ جب آئن سٹائن کے بیٹے کو اس صورتحال کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ لیکن ڈاکٹر تھامس نے اسے یہ کہہ کر بالآخر قائل کر ہی لیا کہ اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ وہ آئن سٹائن جیسے عظیم سائنس دان کے دماغ پر تحقیق کے ذریعے یہ پتا لگاسکے کہ اس کے اور عام آدمی کے دماغ میں کیا فرق ہے ؟ جس کے باعث وہ باقی لوگوں کے مقابلے میں اتنا ذہین تھا۔ آئن سٹائن کا دماغ ڈاکٹر تھامس کے پاس برسوں شیشے کے ایک مرتبان میں بند ، ایک کولر میں پڑا رہا۔

اب امریکہ میں ’’فلاڈیلفیا‘‘ (Philadephia) کے ’’مٹرمیوزیم‘‘ (Mutter Museum) دو میں سے وہ ایک جگہ ہے جہاں آئن سٹائن کے دماغ کے حصے رکھے ہوئے ہیں۔

-7 لان کی چوری :

جن لوگوں کے پاس گھر ہو، جگہ بھی وافر ہو اور انھیں شوق بھی ہو تو وہ گھر کے ساتھ لان بنانے اور اس کو خوبصورت گھاس، مختلف رنگوں کے پھولوں کے پودوں، پھلواریوں اور درختوں سے سجا کر اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔البتہ دفتر سے یا بیرون شہر چھٹیاں گزار کر گھر واپسی پر اپنے لان میں کوئی غیر معمولی چیز پڑی ہوئی دیکھنا، پودوں کی کیاریوں کو ٹوٹا پھوٹا دیکھنا یا پھر گھاس کی روشوں کو مسّلا ہوا پانا ناخوشگوار اور پریشان کن ہی سہی، لیکن اگر پورے کا پورا لان ہی غائب ہو تو پھر آپ کی کیا حالت ہوگی؟ اس صورتحال کا سامنا 2011ء میں کینیڈا کے صوبے ’’البرٹا‘‘ (Alberta) کی رہنے والی ایک خاتون کو ہوا۔ وہ خاتون جب اپنی سالانہ چھٹیاں شہر سے باہر ایک تفریحی مقام پر گزار کر واپس اپنے گھر لوٹیں تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھر کا لان غائب تھا اور اب وہاں محض مٹی کے ڈھیر موجود تھے۔ تفتیش کے نتیجے میں آخر کار ’’چور‘‘ پکڑا گیا اور اس نے اپنے ’’جرم‘‘ کا اعتراف بھی کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چور درحقیقت ایک پیشہ ور فنکار تھا جو معاوضے پر لوگوں کے لان کی، ان کی ہدایت کے مطابق آرائش و زیبائش کرتا تھا۔ اس فنکار کا کہنا تھا کہ کسی سنکی آدمی نے اسے فون پر پتا سمجھایا اور ہدایت دی کہ وہ آکر اس کے لان کو مٹی کے ڈھیر والی شکل کی سجاوٹ سے مزین کردے۔ اس فنکار کے مطابق لوگ اسے عجیب عجیب طرح سے اپنے لان کا ڈیزائن بنانے کے آرڈر دیتے رہتے ہیں اس لیے یہ آرڈر بھی اس کے لئے کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ وہ غلط پتے پر جاکر یہ کام کر آیا جو اس خاتون کے گھر کا تھا اور یوں وہ خاتون اپنے اچھے بھلے لان سے محروم ہوگئیں۔

-8 گٹر کے ڈھکنوں کی چوری :

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک جہاں تعلیم بھی اتنی عام نہ ہو، میں گٹروں کے ڈھکن چوری ہوجانا ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ زیادہ تر یہ کام نشئی قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ مگر امریکہ جیسے امیر اور مہذب کہلائے جانے والے ملک میں ایسا کام ہونا یقینا حیرانی کی بات ہی سمجھی جائے گی۔ 1990ء کی دہائی میں لاس اینجلس میں پولیس اس وقت ہکابکا رہ گئی جب تواتر سے مین ہولز کے ڈھکن چوری ہونے لگے۔ یہ وارداتیں کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ پورے لاس اینجلس میں مسلسل ہورہی تھیں۔ اور ان کی وجہ سے سڑکوں کے کھلے مین ہولز ٹریفک کے لیے انتہائی خطرناک بن چکے تھے۔ بالآخر ایک کباڑ گھر میں ان گٹر کے ڈھکنوں کو بیچنے کے لیے آنے والے دو نوجوانوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا جو ان ڈھکنوں کے ذریعے پیسے بنانے کے چکر میں تھے۔

-9 گھر کی چوری :

2015ء میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی جھیل ’’لون‘‘ (Loon Lake) کے کنارے بنے اپنے کیبن میں موسم بہار کی چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے میاں بیوی اس وقت حیران و پریشان رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا وہ گھر اپنی جگہ سے غائب ہوچکا تھا۔ چوروں نے صرف گھر چرانے پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ گھر کا تمام فرنیچر، کیمپنگ کرنے کا سامان یعنی خیمے وغیرہ، گھر سے لے کر جھیل کنارے پانی تک پہنچنے والی لکڑی کی روش، پانی میں اترتی سیڑھیاں اور پختہ فرش یعنی گھر اور اس سے متصل ہر ہر چیز غائب تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے چور کسی اور پر فضا مقام پر چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنا ذاتی کیبن بنانے کے لیے اس گھر اور اس کا تمام تر سامان وہاں سے چرا کر لے جاچکے تھے اور بس زمین ہی چھوڑ گئے تھے کیونکہ وہ تو بہرحال وہ لے جا نہیں سکتے تھے نا۔

-10 ساحل سمندر کی چوری :

دنیا بھر میں سیاح خوبصورت مقامات خاص طور پر سمندر کے ساحلوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں صاف ستھری نرم ریت پر لیٹ کر سمندر کے نیلگوں پانیوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ بحر غرب الہند میں واقع جزیرہ ’’جمیکا‘‘ (Jamaica) ایک ایسا ہی ملک ہے جو اپنے شاندار ساحلوں کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور سیاح یہاں کی دلکشی دیکھنے کے لیے کھینچے چلے آتے ہیں۔ لیکن وہاں کے مقامی باشندے، جن کی روزی کا زیادہ تر انحصار انہی سیاحوں کی آمد پر ہے، روز بروز اپنے معروف ساحل ’’کورل سپرنگ بیچ‘‘ (Coral Spring Beach) کی ریت کی گھٹتی ہوئی مقدار کی وجہ سے پریشان تھے۔ معاملہ جب پولیس تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہاں پر آنے والے ہزاروں لاکھوں سیاح واپسی پر یہاں کی ریت اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ اسے ان ہوٹلوں کو بیچ سکیں جو اپنے گاہکوں کے لیے اچھے ساحلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ سیاح یہ ریت نمونے کے طور پر ہوٹلوں کو سپلائی کردیتے تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چوری کی جانے والی اس ریت کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ جس سے 500 ٹرک آسانی کے ساتھ بھرے جاسکتے تھے۔

-11 خلائی مخلوق کی چوری :

کیا کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی پائی جاتی ہے ؟ اس معاملے میں سب ہی لوگوں کو بے حد دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ اسی تجسس کو مدنظر رکھتے ہوئے ادیبوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں، فلم سازوں نے فلمیں بنائیں اور سائنسدانوں نے مختلف نظریات پیش کیے، جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ خلائی مخلوق کی تصاویر اور گڈے نما ماڈل بھی بچوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تاہم جب انگلستان کے علاقے ’’پورٹس ماؤتھ‘‘ (Ports Mouth) کی رہائشی ’’مارگریٹ ویلز‘‘ (Margaret Wells) کے گھر نقب زنی کی واردات ہوئی تو اسے اس بات کی پریشانی نہیں تھی کہ نقب زن اس کے سارے زیور چرا کر لے گئے بلکہ اسے اصل دکھ خلائی مخلوق کی شکل کے اس قدآدم گڈے کی گمشدگی کا تھا جو اس کی بیٹی نے اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے گھر پر ہی تیار کیا تھا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ قریباً ایک سال بعد وہ گڈا نزدیکی ساحل کے پانیوں میں بہتا ہوا مل گیا اور گھر واپس پہنچ گیا۔

The post بچا سکتے ہیں تو بچا لیں، اب کس کس چیز کی حفاظت کی جائے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اُف یہ گندگی !

$
0
0

بعض لوگ جھوٹ بولتے ہوئے صفائی کا پورا خیال رکھتے ہیں، کچھ ہاتھ کی صفائی دکھانے میں کمال رکھتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو گھر صاف کردینے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ ان ’’صفائی پسندوں‘‘ کے ساتھ ایسے لوگ بھی انسانی برادری میں شامل ہیں جن کے نزدیک گندگی ہی زندگی ہے۔

تائیوان کی ان خاتون کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جن کا نام ہے ’’Lin۔‘‘ موصوفہ کے شوہر نے طلاق کی درخواست دائر کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کی وجہ اپنی بیگم کے صفائی کے معاملے میں یکسر بے غم ہونا قرار دیا، اور عدالت نے یہ درخواست منظور کرلی۔ محترمہ صفائی سے اتنی بے زار ہیں کہ انھوں نے وکیل صفائی کرنا بھی پسند نہ کیا۔

طلاق کے بعد سابق ہوجانے والے شوہر کا کہنا ہے کہ Lin بی بی سال میں بس ایک بار نہانے کا تکلف کرتی تھیں، وہ کبھی کبھار ہی بال دھوتی تھیں، اور دانت مانجھنے کی زحمت بھی شاذ ہی کرتی تھیں۔

شاعر نے شاید ایسی ہی خواتین وحضرات کے لیے کہا ہے۔۔۔۔پاس جانا نہیں بس دور سے دیکھا کرنا۔ تعلق میں یہ مقامِ غلاظت آجائے تب ہی شاعر کو کہنا پڑتا ہے۔۔۔۔مجھ سے پہلی سی محبت مِرے محبوب نہ مانگ۔ شاعر صفائی پسند ہونے کے ساتھ صاف گو بھی ہو تو محبوب کو۔۔۔۔خاک میں لتھڑے ہوئے، ’’دُھول‘‘ میں نہلائے ہوئے کہہ کر پہلی سی محبت نہ مانگنے کا سبب بھی صاف صاف بتادیتا ہے۔ مذکورہ شوہر کی محبت پر بھی یہی بیتی۔ بے چارہ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر اقرارِ وفا کرتا ہوگا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ناک پر اور پھر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ’’دور دفع‘‘ کہنے پر مجبور ہوگیا۔

ویسے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خاتون کتنی بھی گندی ہوں ان کی نیت اچھی تھی۔ غالباً دنیا میں بڑھتی ہوئی قلت آب سے خائف تھیں، اسی لیے وہ پانی سے دور دور رہیں اور اپنے حصے کا پانی قربان کردیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ محترمہ طبعاً بہت وضع دار ہوں، چناںچہ انھوں نے میل کچیل کو دھونا بے مروتی گردانا اور صفائی کو جسم سے چمٹی گندگی سے بے وفائی سمجھا۔

The post اُف یہ گندگی ! appeared first on ایکسپریس اردو.

سُسرالیوں کے ہو بہ ہو، مثالی بہو

$
0
0

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں قائم برکت اللہ یونی ورسٹی نے شادی شدہ خواتین کو سسرال والوں کا تابع دار بنانے کے لیے ’’مثالی بہو‘‘ کے نام سے ایک کورس متعارف کرایا ہے۔

یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈی سی گُپتا کا کہنا ہے کہ اس کورس کا مقصد بہوؤں کو خاندانی روایات اور اقدار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے، تاکہ شادی کے بعد انھیں خود کو (نئے ماحول کے مطابق) ڈھالنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔

گویا اس کورس کا منشا یہ ہے کہ بہو ہو بہو ویسی ہوجائے جیسی سسرال والے چاہتے ہیں۔ پتا نہیں یونی ورسٹی کو اس تربیت کی کیا سوجھی، برصغیر کی کسی بھی بہو کو کچھ بھی سکھانے کے لیے ساس اور نندیں کافی ہوتی ہیں، یوں بھی جنگ، تیراکی، صحافت اور سسرال مکمل طور پر میدان عمل ہیں، جہاں اچھا سپاہی، تیراک، صحافی اور اچھی بہو بننے کی تدریس کسی کام نہیں آتی۔ یوں بھی ہمارے ہاں اکثر خواتین اس لیے ساس بننے کی آس لگائے بیٹھی ہوتی ہیں ’’کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ اور اب ان کا ہدف خود ساس بن کر۔۔۔ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا ’’رہی‘‘ ہوں میں۔۔۔ہوتا ہے۔

اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش میں بعض اوقات ساس بہو کے لیے ’’چِلی سوس‘‘ (chili sauce) ہوجاتی ہے، جس کا کام بس مرچیں لگانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساس کو بہو اور بہو کو ساس کم ہی راس آتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر بہو اپنی ساس سے نالاں ہو اور اس کے بارے میں بُری رائے رکھتی ہو، بعض بہوئیں تو اپنی ساس پر دل وجان سے فدا ہوتی ہیں، ایسی بہوؤں سے آپ کو ایسے فقرے سُننے کو ملیں گے ’’اللہ مغفرت کرے، مجھے بہو نہیں بیٹی سمجھتی تھیں‘‘،’’اے بہن! میں تو کہتی ہوں اللہ ایسی ساس سب کو دے، ارے برا کیوں مان گئیں بہن دعا دے رہی ہوں، مرحومہ نے کبھی میرا دل نہیں دُکھایا۔‘‘

جس طرح ساس رخصتی کے وقت ہی سے بہو پر جھپٹا مارنے کے لیے پر تولے بیٹھی ہوتی ہے، اسی طرح بہو بھی ’’گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی‘‘ سوچ کر پیا کے آنگن میں قدم رکھتی ہے۔ اس جنگ کی کچھ تربیت تو ماں یہ سمجھا کر دیتی ہے کہ ساس سے کیسے نمٹنا ہے اور نندوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، اور سب سے بڑھ کر کس طرح شوہر کو مٹھی میں کرکے ساس کو انگوٹھا دکھا دینا ہے، باقی تدریس ٹی وی ڈراموں سے ہوجاتی ہے، اور بچی ماشاء اللہ سازشوں میں طاق ہوکر اور سسرال والوں کے ہر قول وعمل میں بدخواہی ڈھونڈ لینے کی مہارت پاکر نئی زندگی شروع کرتی ہے۔

اس صورت حال میں کوئی ننھا مُنا سا کورس کسی خاتون کو مثالی بہو بناسکے گا! یہ امکان نظر نہیں آتا، اور پھر بھارت جیسے ملک میں جہاں وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کی بہو مونیکا گاندھی کے مناقشے اور اطالوی بہو سونیا گاندھی کو اطالوی اور عیسائی ہونے کی بنا پر بھارت ماتا کی وزیراعظم نہ بننے دینے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں وہاں مثالی بہو کا کورس کرنے والی خاتون کو بھی آخرکار روایتی بہو ہی بننا پڑے گا۔

The post سُسرالیوں کے ہو بہ ہو، مثالی بہو appeared first on ایکسپریس اردو.


’’کاش ہم قطری گھوڑے ہوتے‘‘

$
0
0

ایک ویب سائٹ پر قطر میں قائم گھوڑوں کے پُرتعیش ریزورٹ کے بارے میں جب سے پڑھا ہے ہم سوچ رہے ہیں کیا پایا انساں ہوکے، کاش گھوڑے ہوتے، مگر گھوڑے بھی اِدھر اُدھر کے نہیں قطر کے، اپنے ملک کا گھوڑا ہونا تو ہماری حالت نہیں بدل سکتا تھا کہ یہاں گھوڑے گدھوں کے ساتھ باندھ دینے کا چلن ہے، اور پھر گدھے کھول دیے جاتے ہیں گھوڑے بندھے کے بندھے ہی رہ جاتے ہیں۔

اگر گھوڑا ہونے کی صورت میں ہم کسی تانگے میں جُتے ہوتے تو تانگے والا اب تک رکشا یا چنگچی لے چکا ہوتا اور ہم بے روزگار ہوکر کہیں کوڑے کے ڈھیر سے سوکھے پَتے چُن چُن کر کھا رہے ہوتے۔ البتہ کسی امیرکبیر سیاست داں کی نظرکرم ہوجاتی تو ہماری قسمت جاگ اُٹھتی، اور ہم اس کے اصطبل میں عیش کرتے ہوئے سوچ رہے ہوتے ’’یہ سیاست داں بھی عجیب ہیں، پالتے گھوڑے ہیں، ہارس ٹریڈنگ انسانوں کی کرتے ہیں۔‘‘

خیر ذکر تھا قطری گھوڑوں کا۔

ویب سائٹ ’’مڈ ڈے ڈاٹ کام‘‘ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ کے مضافات میں گھوڑوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے قائم ’’مرکز الشقب‘‘ میں گھوڑے شاہانہ زندگی بس کر رہے ہیں، اور کیوں نہ کریں شاہی گھوڑے جو ہوئے۔ امیرقطر کے قائم کردہ اس ریزورٹ میں مقیم خوش قسمت گھوڑے شان دار سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں، انھیں سنگھار کے لیے بیوٹی پارلر بھی میسر ہے اور گھوڑیوں کے لیے باقاعدہ زچہ خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ممکن ہے ولادت سے پہلے حاملہ گھوڑیوں کی گود بھرائی بھی کی جاتی ہو اور بچے کی پیدائش کے بعد چَھٹی نہانے کا اہتمام بھی۔

یہاں جِم بھی موجود ہے، جہاں گھوڑوں کو چاق وچوبند رکھنے کیے لیے انھیں مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ رات کو اور گرمی بڑھنے کی صورت میں دن کے اوقات میں بھی یہ 740 گھوڑے ایئرکنڈینشرز سے یخ بستہ اصطبلوں میں آرام کرتے ہیں۔

ان گھوڑوں کے عیش کا تذکرہ سُن کر یقیناً ہمارے ایوان وزیراعظم سے نیلامی کے ذریعے نکالی جانے والی بھینسوں کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے اور وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر رندھی ہوئی ’’بھیں بھیں‘‘ میں کہیں گی۔۔۔۔اب کے جنم موہے بھنسیا نہ کیجو، گھوڑا بنا دیجو اور قطر میں پیدا کیجو۔ ایوان وزیراعظم سے بڑی بے آبرو ہو کر نکلنے والی بھینسیں ہی نہیں، افلاس میں زندگی کرتے بہت سے لوگ بھی دعا کریں گے کہ کوئی کرشمہ ہوجائے اور وہ آناً فاناً انسان سے قطری گھوڑے بن جائیں۔

عجیب اتفاق ہے ہم پاکستانیوں کی امیدیں قطریوں سے وابستہ ہوگئی ہیں، کبھی ان کے خط کو نوشتہ آزادی سمجھ بیٹھتے ہیں، کبھی ان کے بٹوے سے دولت مند ہوجانے کی آس باندھ لیتے ہیں اور کبھی ان کا گھوڑا بن کر قسمت بدلنے کی آرزو کرتے ہیں۔

The post ’’کاش ہم قطری گھوڑے ہوتے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈونلڈ ٹرمپ اور کِم جونگ کے پریم پتر

$
0
0

امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے خطوط نے انھیں کم جونگ کی محبت میں مبتلا کردیا ہے۔

ٹرمپ صاحب نے یقیناً مذاق فرمایا ہے، لیکن دونوں شخصیات میں محبت کا ہوجانا بعیدازقیاس نہیں بل کہ اس کے پورے امکانات موجود ہیں، کیوں کہ محبت طبعیت مل جانے کا نام ہے اور ان دونوں حضرات کی طبعیتیں اور خصلتیں ایک سی ہی ہیں۔ دونوں ہی کے تیور دنیا کے بارے میں ’’مٹا‘‘ دے ٹھکانے لگادے اسے، والے ہیں، اور اتنے دونوں حضرات محبت بھرے ہیں کہ موقع ملنے پر محبت گولیوں سے بونے اور زمیں کا چہرہ خون سے دھونے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔ سو محبت تو بنتی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کو کس طرح کے پریم پتر لکھیں گے، شاید اس طرح کے:

’’پیارے ٹرمپو!

کیسے ہو، کیا حال ہے۔ کبھی کبھی مِرے دل میں خیال آتا ہے، کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے۔۔۔۔تو اب سے پہلے جنگل میں بس رہا تھا کہیں، شہر میں تجھ کو بسایا گیا ہے میرے لیے۔ اگرچہ مجھ میں اور تم میں چہرے مہرے اور رنگ سے ہیئراسٹائل تک بہ ظاہر بہت فرق ہے لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں بھائی ہیں جو کنبھ کے میلے میں بچھڑ گئے تھے، کیوں کہ ہم دونوں مزاجاً ’’میلے‘‘ ہیں۔ بدقسمتی سے میرے ابو جی اور بے بے بھی دنیا میں نہیں رہیں اور تم بھی ماں باپ سے محروم ہوچکے ہو، ورنہ حقیقت کُھل جاتی۔

حقیقت کچھ بھی ہو تم مجھے بھائی ہی سمجھو، بھائی چارہ قائم کرو بھائی کو چارہ بنانے کی دھمکیاں مت دیا کرو۔۔۔اپنے ’’بھیاؤں‘‘ سے ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔

تمھارا کم جونگ‘‘

’’جانی!

تمھارے خط نے مجھے تمھاری محبت میں مبتلا کردیا۔ اتنے پیار سے تو میری بیگم نے کبھی مجھ سے بات نہیں کی، وہ تو مجھ سے ناراض ہی رہتی ہے۔ جہاں تک بھائی ہونے کا تعلق ہے، ممکن ہے تمھاری بات درست ہو، لیکن میں کسی بھائی بندی کا قائل نہیں، ’’بندی‘‘ کی حد تک تو میرے کارناموں کی اطلاعات تم تک پہنچ چکی ہوں گی، لیکن بھائی ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت۔‘‘ اگر مزاج، اوصاف اور خصوصیات کو پیمانہ بنایا جائے تو دنیا میرے بھائیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ اپنا نریندرمودی، میری ’’کاربن کاپی‘‘ ہے، لندن میں مقیم ایک پاکستانی سیاست داں مجھے اپنا سایہ لگتا ہے، اور کتنے نام گنواؤں۔ ارے فکر کیوں کرتے پَپّو! جسے تم دھمکی سمجھتے ہو تو میرا پیار ہے۔ ہم امریکیوں کی دھمکی سے نہیں تھپکی سے ڈرا کرو پیارے۔

تمھارا ڈونلڈٹرمپ‘‘

’’میرے چھیل چھبیلے ٹرمپو!

محبت کے اعتراف کا شکریہ۔ یعنی انگریزی محاورے کے مطابق تم میری محبت میں گر گئے ہو۔ خیر یہ تو میں جانتا تھا کہ تم میں ہر قسم کی گراوٹ ہے اور گرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہو، لیکن یہ پتا نہ تھا کہ میری محبت میں بھی گر جاؤ گے۔ تمھارے اعترافِ محبت نے میرے دل میں تمھارا پیار اور بڑھا دیا اور دل سے بے اختیار نکلا۔۔۔۔’’ایک پَپّی اِدھر ایک پَپّی اِدھر۔‘‘ چلو اب اس محبت کی کہانی کو آگے بڑھائیں، فرہاد کی پیروی میں ایک دوسرے کے لیے خون کی نہریں بہائیں، رانجھا نے عشق میں بھینسیں چَرائی تھیں ہم دونوں دنیا بھر سے بھینسیں چُرائیں اور دودھ بیچ کر مال بنائیں، مجنوں صحرا میں نکل گیا تھا، ہم دونوں مجنوں آبادیوں کو صحرا بنائیں۔ چلو یہ سب تو ہوتا رہے گا، مگر جلد میں تمھیں میزائل پر گل دستہ باندھ کر بھیجوں گا، تمھاری سال گرہ پر بم کا کیک پیش کروں گا، اور شدت جذبات کا تقاضا ہوا تو ایٹم بموں کی موم بتیاں بھی روشن کروں گا۔

تمھارا زیادہ اپنا کَم۔۔۔کِم‘‘

’’کِمو!

ہٹ پگلے، ہر بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ تو پھر یہ طے ہے کہ لوگ محبت میں خود کو برباد کرتے ہیں ہم اپنے پیار میں دنیا کو برباد کردیں گے، اور پھر خالی کرۂ ارض پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گاتے پھریں گے:

ہم چھوٹے موٹے لڑکوں نے کیا کام کیے ہیں بڑے بڑے

تمھارا ٹرمپو‘‘

The post ڈونلڈ ٹرمپ اور کِم جونگ کے پریم پتر appeared first on ایکسپریس اردو.

ہم نے الطاف حسین کو اِن کی عدم موجودگی میں ’ایم کیو ایم‘ کا قائد بنایا، سید امین الحق

$
0
0

ایم کیو ایم (پاکستان) کے مرکزی راہ نما اور ترجمان سید امین الحق سے وقت لے کر اُس دن ہم ایم کیو ایم کے مرکز پہنچے، تو عام انتخابات کی آمد آمد تھی، یہ وضاحت کرتے چلیں کہ دراصل ہمارا یہ انٹرویو دو حصوں میں ہوا، (اس کا حصۂ دوم ہماری کچھ ناگزیر وجوہات کے سبب گذشتہ دنوں ہو پایا) ایم کیوایم کے سابق راہ نما سلیم شہزاد سے متعلق تمام گفتگو اُن کے انتقال سے پہلے کی بیٹھک میں ہی ہوئی۔

’’میرا نام امین الحق ہے، وہاں کسی سے بھی پوچھ لینا!‘‘ دوران گفتگو پانی کے ٹینکر والے کو وہ اپنے گھر کا مفصل پتا سمجھا رہے تھے، وسیع مہمان خانے کے ایک کونے میں کچھ افراد محو گفتگو تھے۔۔۔ مرکزی راہ نما فیصل سبز واری بھی یہاں فائلیں اور لیپ ٹاپ اٹھائے آتے جاتے، پھر ایک مذہبی جماعت کا وفد ایم کیوایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کرنے آیا، مہمان وفد کی بہ آواز بلند گفتگو ہماری بات چیت میں مخل ہوئی تو وہ ہمیں دوسری منزل پر ’الیکشن سیل‘ میں لے گئے، جہاں انتخابی حلقوں کی وضاحت کرتے بڑے بڑے نقشے آویزاں تھے، انہوں نے یہاں موجود ارکان سے آواز دھیمی رکھنے کو کہا اور یوں ہم نے اطمینان سے اپنی گفتگو کی، اس دوران علی رضا عابدی اور اسامہ قادری بھی آتے جاتے رہے۔

سید امین الحق ایم کیو ایم کی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں، بانی رکن اور پہلے سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے انہوں نے بہت سے نشیب وفراز جھیلے۔۔۔ اس لیے ہم نے اُن سے ماضی سے حال اور مستقبل تک کی بہت سی باتیں کھوجیں، جس کا زیادہ تر انہوں نے خندہ پیشانی اور تفصیل سے جواب دیا۔۔۔ کہیں جواب دشوار ہوتا تو وہ کچھ توقف کرتے، اور پھر اپنا محتاط یا مختصر موقف بیان کرتے۔ سیاسیات کے طالب علم کے طور پر ہم اپنی اس کاوش میں کس قدر کام یاب ہو سکے، اس کا جواب تو آپ اگلی سطریں پڑھ کر ہی دے سکیں گے۔

امین الحق یکم جنوری 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ تین بھائی اور دو بہنیں، والد بینک میں ملازم رہے۔ ناظم آباد اور دستگیر میں رہائش رہی، گزشتہ 40 برس سے گھر فیڈرل بی ایریا میں ہے۔ میٹرک 1977ء میں فیڈرل اسکول ناظم آباد اور 1981-82ء میں جناح کالج سے ’بی ایس سی‘ کیا، 1979ء میں سیکنڈ ایئر میں ’اے پی ایم ایس او‘ سے وابستہ ہوئے، تو آتے جاتے لوگ پھبتی کستے ’دیکھو بھئی مہاجر آگیا!‘

1980ء میں امین الحق جناح کالج کے یونٹ انچارج بنے، کہتے ہیں کہ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا، اکثر ہمارے پوسٹر اور بینر پھاڑے دیے جاتے، ’تھنڈر اسکواڈ‘ کی مار پیٹ بھی رہتی، مگر ہم عدم تشدد پر کاربند رہے۔ جذبہ اتنا تھا کہ ہم ٹیوشنیں پڑھا کر پیٹرول، بینر، ہینڈ بل یا پوسٹر وغیرہ پر خرچ کرتے۔

امین الحق بتاتے ہیں کہ 1979ء میں کم تعداد کے سبب جناح کالج کے یونین چناؤ میں حصہ نہ لیا، تاہم جامعہ کراچی میں اس برس ہمیں 100 ووٹ ملے، جو بڑی بات سمجھی، کیوں کہ وہاں ہم مختلف کالجوں سے جاکر اپنی تعداد بڑھاتے۔ کہتے ہیں کہ وہ 1981ء میں وہ ’اے پی ایم ایس او‘ کے مرکزی سیکریٹری نشر واشاعت بنے، خبریں بنا کر تپتی دوپہروں میں اخبارات میں دے کر آتے، جو دو یا تین سطر میں چھَپتی۔ چھوٹے سے چھوٹے اخبار میں بھی خبریں بھیجتے، تاکہ ہر طبقے تک بات پہنچے۔ 1983ء میں ’ایم ایس سی‘ شعبہ جینیات (Genetics) جامعہ کراچی میں داخلہ لیا، یہ سلسلہ ایک سمسٹر بعد منقطع ہوگیا، پھر 1987ء میں جامعہ کراچی سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے (تاریخ) کیا، اور وہاں فعال سیاست بھی کی۔ اس دوران ’ایم کیو ایم‘ کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور ’اے پی ایم ایس او‘ کے نگراں بھی رہے۔

ابتدائی سیاسی ایام کو یاد کرتے ہوئے امین الحق کہتے ہیں 1979-80ء میں فیڈرل بی ایریا میں واقع مشہور ’مکا چوک‘ کے قریب ایک چورنگی ہمارے رابطے کا واحد وسیلہ تھی، جہاں ہفتے میں چار مرتبہ ’اے پی ایم ایس او‘ کی بیٹھک ہوتی۔ جب ہم نے علاقوں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا، تو ترجیحاً پہلا دفتر لیاقت آباد میں فردوس سنیما کے پچھلی طرف لیا، پھر پیر الٰہی بخش کالونی، اورنگی ٹاؤن، النور سوسائٹی اور لانڈھی میں ہمارے یونٹ بنے۔ 1983ء کے وسط یا آخر میں الطاف حسین گرین کارڈ کے سلسلے میں شکاگو (امریکا) چلے گئے۔ البتہ وہ ان کے مایوس ہو کر روانگی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف امیگریشن کے باعث گئے۔ ہم نے بھی انہیں کہا تھا کہ آپ یہ موقع نہ گنوائیں، ہم اپنا کام آگے بڑھا لیں گے۔

امین الحق ایم کیوایم کے قیام میں بزرگوں کے کردار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اختر رضوی، رئیس امروہی اور احمد الطاف سے ہماری مشاورت رہتی تھی، لیکن ان ایم کیوایم کی تاسیس میں ان کا کوئی کردار نہیں، اس لیے ہم انہیں بانیوں میں شامل نہیں کہہ سکتے۔ اُن کے بقول ’ایم کیوایم کے قیام کے لیے ’اے پی ایم ایس او‘ قیادت کی بیٹھکیں لیاقت آباد میں فہیم فاروقی یا عظیم فاروقی کے گھر کی چھت پر ہوتی تھیں۔ 18 مارچ 1984ء کو عظیم احمد طارق، طارق جاوید، ڈاکٹر عمران فاروق، ایس ایم طارق، طارق مہاجر، بدر اقبال، سلیم شہزاد، زرین مجید، شیخ جاوید، آفاق احمد اور عامر خان سمیت 18، 20 نوجوانوں نے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے الطاف حسین موجود نہ تھے۔ ہم نے اُن کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ’قائد تحریک‘ ہوں گے۔ 19 مارچ کے ’جنگ‘ کی دو سطری خبر میں یہ لکھا ہے۔‘

’’پھر تو وہ ’اے پی ایم ایس او‘ کے بانی ہوئے، لیکن ایم کیو ایم کے تو نہیں؟‘‘ ہماری اِس حیرانی پر امین الحق بولے: ’’یہ تاریخ طے کرے گی، میں نے تو حقائق بتا دیے۔‘‘ انہوں نے الطاف حسین کی امریکا میں ٹیکسی چلانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انہیں فون پر تمام تنظیمی معاملات سے باخبر رکھتے اور وہ ہمیں آگے بڑھاتے۔‘

ہم نے پوچھا کہ ’اے پی ایم ایس او‘ میں ’چیئرمین‘ سب سے بڑا عہدہ تھا، لیکن ’ایم کیو ایم‘ میں اس سے اوپر ’قائد تحریک‘ اور اس کے لیے الطاف حسین کو رکھنے کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے ’اس لیے کہ 11 جون 1978ء کو ہماری طلبہ تنظیم بنی، تو الطاف حسین ہی اس کے پہلے آدمی تھے۔‘ اخبارات میں جگہ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہوئے امین الحق کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی تشہیر کے لیے شہر بھر میں چاکنگ کی: ’’مہاجر قومی موومنٹ، (ایم کیوایم) قائد تحریک الطاف حسین‘‘

1985ء میں بشریٰ زیدی والے واقعے پر امین الحق بولے اُس وقت ’ایم کیو ایم‘ کا چھوٹا مگر ایک فعال ڈھانچا تھا، ہم نے بشریٰ زیدی کے جنازے میں شرکت کی، بیانات دیے اور ہینڈ بل تقسیم کیا۔ ہم پہلے ہی کوٹا سسٹم اور مختلف موضوعات پر ہینڈ بل بانٹ رہے تھے۔ اس واقعے میں ایم کیو ایم کا کردار پوچھا تو وہ بولے کہ اس وقت تو ایم کیو ایم خود بہت کَس مپرسی کی حالت میں تھی۔ ہم نے اِس تشدد میں ایم کیوایم کے لوگوں کا حصہ جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ شہریوں میں محرومی کے سبب اشتعال پیدا ہوا۔

کارکنوں کو تشدد یا ’سیلف ڈیفنس‘ کا اختیار دینے کا ذکر ہوا تو امین الحق بولے ایم کیو ایم نے کبھی تشدد کی بات نہیں کی، جب علی گڑھ کالونی میں درجنوں گھر جلے اور سیکڑوں لوگ جان سے گئے، لیکن پولیس نہ آئی، تو ایسے میں ہر ایک کو اپنے تحفظ کا حق ہے۔‘ ہم نے الطاف حسین کی ’گھر کا سامان بیچ کر اسلحہ خریدو!‘ والی بات کا ذکر کیا تو امین الحق نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں، کچھ اس طرح کے نعرے تھے، تب صورت حال ایسی تھی، لیکن ہم نے یہ کہا کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

’’اس ’دفاع‘ کے سبب پھر پرتشدد ردعمل کی عادت ہوگئی، جس نے پھر آپ کو بھی نقصان پہنچایا؟‘‘ ہمارے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے اپنے طور پر حقِ دفاع استعمال کیا، مگر اس سے پھیلنے والی منفیت کو ہم نے روکنے کی کوشش بھی کی۔‘

’’کیسے؟‘‘ ہمارا تجسس بے ساختہ تھا، وہ بولے کہ ’ہم نے کارکنان کو یونٹ اور سیکٹر کا ماتحت کیا، بلدیاتی انتظامیہ ملی تو اس کی مدد بھی لی، لیکن عوامی ردعمل روکنا کسی کے اختیار میں نہیں رہتا۔‘ ہم نے کہا کہ یونٹ اور سیکٹر کے لڑکوں کے پُرتشدد ہونے کا تاثر تو اور بھی زیادہ تھا تو وہ بولے کہ ’ایسی پالیسی بالکل نہیں تھی۔‘

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پھر وہی کارکن دھیرے دھیرے آپ کا تاثر خراب کرتا گیا، آج آپ جہاں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ اسی کی تو شروعات تھی؟‘ ہم نے امین الحق کو کھوجنے کی کوشش کی تو انہوں نے اتنا کہا کہ ہم نے اس کی روک تھام کی کوشش کی۔

امین الحق کے بقول 1988ء کے ’معاہدۂ کراچی‘ کے لیے مذاکرات میں پیپلزپارٹی کی طرف سے پی کے شاہانی اور اجمل دہلوی، جب کہ ایم کیو ایم کی طرف سے وہ اور ڈاکٹر عمران فاروق تھے، جس کے بعد ہم نے صرف حکومت سندھ میں تین وزارتیں لیں۔ 10ماہ بعد یہ اتحاد اور پھر حکومت ختم ہوگئی۔ 1990ء کے انتخابات میں ہم نے پہلے سے زیادہ نشستیں لیں۔ اس مرتبہ ’آئی جے آئی‘ (اسلامی جمہوری اتحاد) سے مذاکرات میں بھی عظیم طارق اور عمران فاروق کے ساتھ وہ شامل رہے، جب کہ دوسری طرف نوازشریف، عبدالستار لالیکا اور زاہد سرفراز تھے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد وفاق میں دو اور صوبے میں سات یا آٹھ وزارتیں ملیں۔

نوازشریف کے ساتھ پہلی ساجھے داری پر امین الحق خاصے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ وہ دور تھا کہ جب ایم کیو ایم نے کچھ کر کے دکھایا۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’کیا۔۔۔؟‘‘ تو بولے ’بڑے پیمانے پر شہری علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں دلوائیں۔ اسکولوں کی بہتری اور جامعات کے قیام کی کوششیں کیں، ’کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی تھے، اسی دور میں عید گاہ (ناظم آباد) میں ملک کا پہلا فلائی اوور بنایا گیا۔ ‘ الطاف حسین سے ملاقات کا سوال کیا تو پتا چلا کہ وہ اُن کے لندن روانگی کے بعد سے نہیں ملے، بولے ’’ایم کیو ایم میں واپسی کے بعد میری خواہش ضرور تھی، لیکن بدقسمتی سے میں لندن نہیں جا سکا، البتہ فون پر رابطہ رہا۔‘‘

2008ء کے بعد ’نائن زیرو‘ پر نئے ذمہ داروں کے غالب ہونے کا ذکر ہوا، جنہیں بگاڑ کا ذمہ دار کہا جاتا ہے تو انہوں نے وسیم آفتاب، شکیل عمر، نیک محمد اور سلیم تاجک پر چائنا کٹنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

’’تو کیا مرکز کے پاس اس کی خبریں نہیں آتی تھیں؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سارے کرتا دھرتا یہی لوگ تھے، سنیئر راہ نما پس منظر میں اور بہت سے بے خبر تھے۔ ہم نے کہا چائنا کٹنگ ایک دو جگہ ہو تو نظر نہ آئے، لیکن اگر پانچ جگہ ہو تو کسی ایک جگہ تو علم میں آ ہی جائے گی؟ یہ بات مرکز یا ’انٹرنیشنل سیکریٹریٹ‘ نہیں پہنچتی تھی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال ہے پہنچتی ضرور تھی، لیکن ’کمال اینڈ انیس قائم خانی کمپنی‘ کے قابض ہونے کے سبب کوئی کارروائی نہ ہو پاتی۔ بالآخر ہم نے 2013ء میں ان لوگوں کو نکالا۔‘‘

2013ء کے انتخابات کے فوراً بعد بعد ’نائن زیرو‘ پر پیش آنے والے ایک پُرتشدد واقعے کا ذکر کیا، جس میں مبینہ طور پر مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور واسع جلیل وغیرہ کے ساتھ مارپیٹ ہوئی۔ امین الحق اِسے انتخابات میں مخصوص لوگوں کو ٹکٹ دینے پر کارکنان کی برہمی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد نئی رابطہ کمیٹی بنی اور چائنا کٹنگ کے معاملات کم اور پھر ختم ہوئے۔‘ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ مصطفیٰ کمال کو تو نہیں ہٹایا گیا تھا؟ تو وہ بولے کہ ان کی حیثیت غیر فعال ہوگئی تھی۔

25 جولائی 2018ء کو تحریک انصاف سے شکست کھاکر انہی سے اتحاد کے ماجرے کو وہ جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنا مثبت کردار کہتے ہیں کہ ’ہم نے کسی وزارت کا مطالبے کے بہ جائے شہری ترقی، اسیروں کی رہائی اور لاپتا کارکنان کی بازیابی کے ساتھ اس عزم کو بھی سمجھوتے کا حصہ بنایا کہ ہم انتخابات پر تحفظات کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کریں گے، پھر ہمارے ایک درجن کے قریب لاپتا کارکنان بازیاب ہوئے، اب بھی 230 گرفتار اور 100 کارکن لاپتا ہیں۔‘

22 اگست 2016ء کو امین الحق ایم کیو ایم کی تاریخ میں 19 جون 1992ء سے بھی زیادہ سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف نہیں جا سکتے! الطاف حسین نے ریاست مخالف نعروں پر بے شک معذرت کی، لیکن 24 اگست کو پھر یہی کیا۔‘

گفتگو کا موضوع اب مائنس ون تھا، ہم نے کہا 1991ء کے بعد تواتر سے ایم کیو ایم میں ’مائنس ون‘ کا غلغلہ رہا، جس کی آپ لوگ مخالفت کرتے اور اب خود ہی یہ کر دیا؟ اس کی توجیہہ میں امین الحق گویا ہوئے کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کے آئین وقانون میں رہ کر حقوق لینا ہیں۔ 22 اگست کے بعد کی ہماری جدوجہد سے ہی سیکڑوں کارکن رہا ہوئے۔‘ ہم نے کہا ’اس سے تو یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ پچھلی ساری مشکلات آپ کو لندن سے کاٹنے کے لیے ہی تھیں؟‘ وہ بولے ’ہماری خواہش یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں ہونا چاہیے۔‘

تو آپ کو لگتا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کے خلاف ہیں؟ ہم نے براہ راست پوچھ ڈالا۔

’’میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی کو بھی تقریر کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے واضح جواب دیا۔ یک دم ہمارے ذہن میں الطاف حسین کے پچھلے سخت بیانات آئے تو دریافت کیا کہ کبھی اس کی روک تھام چاہی؟ وہ بولے کہ کراچی اور لندن کی رابطہ کمیٹی نے انہیں ہمیشہ روکا، وہ کہتے کہ ’آیندہ اجتناب کروں گا!‘

’اتنی اجازت تھی کہ انہیں کہہ سکیں کہ یہ آپ نے غلط کیا؟‘ ہماری حیرت بے ساختہ تھی، وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں کہ ’’بالکل، پھر انہوں نے براہ راست یا اپنے وکیل کے ذریعے معذرتیں بھی کیں۔‘‘

ہم نے الطاف حسین پر سے پابندی ہٹنے کے بعد موجودہ ایم کیوایم کے مستقبل یا دوبارہ قائد سے جُڑنے کا سوال کیا تو انہوں نے ایم کیوایم (پاکستان) کو ایک حقیقت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ چیز قبل ازوقت ہے، فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔‘‘

کارکنان کی الطاف حسین سے جذباتی وابستگی کے باوجود قائد کی نفی کرنا کیسے ممکن ہوا؟ امین الحق اسے ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بولے کہ ’عوام ایم کیو ایم کی سوچ اور منشور کے ساتھ ہیں۔‘ ہم نے کہا ’لندن‘ کے حلقے کہتے ہیں کہ نازیبا الفاظ تو دوسروں قائدین نے بھی کہے، لیکن اُن کی جماعتوں نے ساتھ نہ چھوڑا، لیکن آپ آرٹیکل چھے کی قرارداد لے آئے؟ وہ بولے کہ پاکستان کے خلاف تو کوئی سیاسی جماعت نہیں سن سکتی۔ سندھ اسمبلی میں آرٹیکل چھے کی قرارداد دوسری جماعتیں لائیں، ہم نے خاموشی اختیار کی۔‘

امین الحق ایم کیو ایم کے اندر کسی بھی گروہ کی تردید کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے مرکزی معاملات سے دوری کے ذکر پر وہ انہیں اپنا سنیئر راہ نما قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، کہ وہ ہماری مشاورت میں شامل ہوتے ہیں، اِن کے تحفظات کو تنظیم کے اندر ہی حل کریں گے۔ سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کا استعفا ابھی منظور نہیں کیا، ہم ان سے بات چیت کر کے معاملے کو مثبت طریقے سے حل کریں گے۔ سابق راہ نما شاہد پاشا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 22 اگست کے بعد وہ ڈپٹی کنوینر نہ تھے، انہیں نظم وضبط کی خلاف ورزی پر خارج کیا۔ سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر نصرت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ کسی تنظیمی عہدے پر نہیں، مگر ہمارے رابطے میں رہتے ہیں۔

ایک سال قبل ’پاک سرزمین پارٹی‘ میں جانے والے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ کو نہ ہٹانے کا سبب پوچھا تو بولے کہ ’فاروق ستار نے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دی تھی، اُن کے کنوینر نہ رہنے سے تاخیر ہوئی، اب ارشد وہرہ کے خلاف خالد مقبول کی پٹیشن جا چکی ہے، قانوناً ہم ڈپٹی میئر کو رائے شماری سے نہیں ہٹا سکتے۔‘

سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حوالے سے امین الحق نے بتایا کہ ’2012ء اور 2013ء سے اُن میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وہ ایم کیو ایم کے کم اور اسٹیبلشمنٹ کے آدمی زیادہ بن گئے۔‘ سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کے ایم کیو ایم پر غالب آنے کی بات کو وہ پروپیگنڈہ کہتے ہیں۔

مارچ 2015ء میں ’نائن زیرو‘ پر چھاپے اور  22اگست 2016ء کے واقعے میں عامر خان کے کردار کو کھوجا تو امین الحق نے کہا کہ ’صرف ایک مخصوص چینل نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 22 اگست کو بھی عامر خان نے الطاف حسین کا اشتعال کم کرنے کی کوشش کی، اگر پوری ویڈیو دکھائی جائے، تو مکمل بات واضح ہو جائے گی۔‘

امین الحق 1988ء، 1990ء کے بعد 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ دو بار کورنگی اور اب حلقہ انتخاب اورنگی ٹاؤن ہے۔ موجودہ ذریعہ آمدن گاڑیوں کا کام بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیکس دہندہ ہوں۔ 1991ء میں جلاوطنی تک ’دستگیر‘ کے علاقے میں میڈیکل اسٹور تھا۔ دبئی میں گاڑیوں کا کام شروع کیا۔ 25 نومبر 1995ء کو شادی ہوئی، بڑی صاحب زادی اے لیول کر چکیں، دوسری او لیول میں جب کہ صاحب زادے گریڈ 6 میں ہیں۔

جب الطاف حسین کو اٹھا کر جامعہ کراچی سے باہر نکالا گیا!

امین الحق نے تصدیق کی کہ یونین انتخابات میں کام یابی کے بعد تین فروری 1981ء کو ایک تصادم کے بعد الطاف حسین کی ڈنڈا ڈولی کرا کے جامعہ کراچی سے نکال دیا گیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ اس روز وہ بھی حسب معمول جناح کالج سے جامعہ کراچی پہنچے۔ جہاں عظیم طارق ڈٹے تھے، اس دن پہلی بار ہم نے جامعہ کراچی میں ’یو بی ایل‘ کے سامنے ایک بجے پوائنٹس روکے اور ایک بس پر چڑھ کر عظیم طارق نے پرزور تقریر کی، جس کے الفاظ یہ تھے: ’’اے اللہ! تو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، یہ ظلم ختم کرا!‘‘

پھر اگلے دن بھی عظیم طارق کی قیادت میں ہمارے طلبہ جامعہ کراچی کے اندر موجود تھے، لیکن اس کے بعد تشدد کا سلسلہ بڑھا، اردو سائنس کالج اور جناح کالج میں بھی جمعیت کی طرف سے ہمارے یونٹ بند کرا دیے گئے۔ جامعہ کراچی میں ہمارے بیج کے ساتھ داخل ہونا تک ممنوع ہو گیا، کہتے ہیں کہ مرکزی دروازے پر جمعیت کے لڑکے ہمیں پہچان کر روک لیتے اور مار پیٹ کرتے۔ اس صورت حال میں ’اے پی ایم ایس او‘ نے تعلیمی اداروں کے بہ جائے علاقوں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

اخبار کے بائیکاٹ پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں!

ایم کیو ایم کے سربراہ شعبہ اطلاعات امین الحق سے صحافیوں کو دھمکا کر ایم کیو ایم کی خبریں لگوانے کا سوال بھی پوچھا، جس پر وہ بولے کہ اُس وقت کی نوجوان قیادت سے کہیں نہ کہیں کوتاہیاں ہوئیں، اسی سے سبق سیکھتے ہوئے اب تنقید برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ’’کیا پہلے سخت انداز میں کہتے تھے کہ ہماری خبر اِس طرح چَھپنا چاہیے؟‘‘ ہم نے کریدا۔ وہ سوچتے ہوئے بولے کہ ’میں نے کبھی ایسی گفتگو نہیں کی، لیکن ہمارے کچھ افراد ایسا کر رہے تھے۔‘ ان کے خلاف کارروائی کے سوال پر وہ بولے کہ وہ اس معاملے کو سدھارنے کی کوشش کرتے تھے۔ لگے ہاتھوں ہم نے 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کی جانب سے ایک اخبار کے بائیکاٹ کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ ’صحافت میں جماعت اسلامی کی مضبوط لابی کے سبب ہمیں شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود نظرانداز کیا جاتا تھا، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہمیں سرخ لکیر پار نہیں کرنا چاہیے تھی، اس عمل پر کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ شرمندگی محسوس کرتا ہوں!‘

ورنہ ’’ایم کیوایم‘‘ نہیں ’’ایم آئی ٹی‘‘ ہوتی۔۔۔!

امین الحق نے کہا کہ میں آج میں پہلی دفعہ یہ انکشاف کررہا ہوں کہ پہلے ہم نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ’مہاجر اتحاد تحریک‘ طے کیا، لیکن ہماری بات باہر نکلی اور اگلے دن ہی ڈاکٹر سلیم حیدر نے اس نام سے اپنی تنظیم بنالی! چناں چہ عظیم احمد طارق نے تنظیم کا نیا نام ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) تجویز کیا، انگریزی اور اردو کی ملاوٹ کے سبب کچھ ساتھی معترض بھی ہوئے، مگر چوں کہ عظیم طارق نے پیش کیا تھا، اس لیے قبول کرلیا۔ امین الحق کے بقول سلیم حیدر سندھ میڈیکل کالج میں ’اے پی ایم ایس او‘ کے بہت اچھے مقرر رہے، مگر 1982ء میں نظم وضبط کی خلاف ورزی پر نکالے گئے۔

 ’’الطاف حسین، عامر خان اور عظیم طارق میری گاڑی میں آئے‘‘

جب ہمارا دفتر الکرم اسکوائر منتقل ہوا تو ہم نے اُس وقت کے تین اضلاع پر تین زون ’اے، بی اور سی‘ بنائے۔ زون اے کے انچارج آفاق احمد، بی کے شاہد مہاجر اور سی کے انچارج عامر خان بنے، حیدرآباد زون کے انچارج کنور نوید ہوئے۔ مختلف شہروں میں ہماری میٹنگوں میں حاضرین بڑھنے لگے تو ہم نے آٹھ اگست 1986ء کو کراچی میں باقاعدہ ایک جلسے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے ہم نے ہر زون کے تحت سیکٹر اور اس کے نیچے یونٹ بنائے۔

یہ تمام معاملات سینئر وائس چیئرمین طارق جاوید اور جنرل سیکریٹری عمران فاروق وغیرہ دیکھا کرتے تھے۔ دوسری جماعتوں کے جلسوں میں جاکر ضروری انتظامات کا جائزہ لیتے۔ ایک نوآموز سیاسی جماعت کے لیے نشتر پارک کو بھرنا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ تینوں زون نے حاضرین کو لانے کے اہداف طے کیے۔ شہر بھر میں بھر پور چاکنگ کی، پوسٹر لگائے اور ہینڈ بل تقسیم کیے، کیوں کہ اخبارات میں تو ہماری آرزو رہ گئی تھی کہ کبھی کوئی خبر دو کالم بھی شایع ہو جائے۔ مختلف تنظیمی ترانے بناکر ہوٹلوں اور کیمپوں میں چلائے۔‘ ہم نے گفتگو میں نقب لگا کر ایم کیوایم کا پہلا ترانہ پوچھا؟ تو وہ یادداشت پر زور دیتے ہوئے بولے ’’غالباً ’دل دیا ہے جان بھی دیں گے ایم کیوایم تیرے لیے۔۔۔‘‘

امین الحق کہتے ہیں کہ مرکزی قیادت کے پاس جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے اسکوٹروں کے سوا کوئی سواری نہ تھی۔ اس لیے الطاف حسین عامر خان کے والد کی گاڑی ڈاٹسن 125 میں، جب کہ عظیم طارق میرے والد کی مزدا 1300 میں جلسہ گاہ پہنچے۔ جلسے میں خواتین سمیت بہت بڑی تعداد شریک ہوئی، جو موسلا دھار بارش کے باوجود جمی رہی۔ آٹھ اگست کو ایک اخبار‘ کے ’سٹی‘ کے صفحے پر جلسے کے انعقاد کی چار سطری خبر چَھپی، جب کہ اگلے دن ہماری خبر صفحۂ اول پر چار کالم لگی۔ کام یاب جلسے کے بعد ہمیں لونڈے لپاڑوں کی جماعت کہنے والے پہلی بار سنجیدہ ہو گئے۔‘

1993ء میں عامر خان اور میں ایک ہی پرواز میں دبئی گئے!
’’حقیقی کا بحران کیسے شروع ہوا۔۔۔؟‘‘

ہمارے اس سوال پر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے، پھر وہ کہتے ہیں کہ ’طاقت کا نشہ بہت برا ہوتا ہے، اسی سے خرابیاں شروع ہوتی ہیں۔ ہمارے کچھ ساتھی جمہوری طریقۂ کار کے بہ جائے طاقت کے استعمال کو فوقیت دینے لگے تھے۔ ‘

ان لوگوں میں انہوں نے سلیم شہزاد کا نام لیا اور کہا کہ اقتدار ملنے کے بعد ان کے اندر عاجزی کے بہ جائے غرور وتکبر آگیا، وہ راہ چلتے لوگوں کو چانٹے مار دیتے، انہوں نے بیوروکریسی میں بے جا مداخلت کی اور طاقت کے بل پر کام کرانے شروع کیے۔‘

امین الحق نے ذہن پر زور دیتے ہوئے 1991ء میں شاہ راہ فیصل کے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ جب سلیم شہزاد نے کسی فوجی افسر کے ساتھ بدتمیزی کی، اور ایم کیوایم کے ایک اور وزیر ہاشم علی نے بھی کچھ ایسا ہی فعل کیا۔ اس کی ’ایف آئی آر‘ کٹی اور بلکہ مقتدر حلقوں نے شدید ناراضی ظاہر کی اور پھر انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کی۔

’’ایک اختلاف ہوا جس پر آفاق اور عامر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ امین الحق سرسری سے گزرنے لگے تھے کہ ہم نے اس حوالے سے نائن زیرو کے ایک ناخوش گوار واقعے کی بازگشت کہی، کہ اگر عظیم طارق معاملہ رفع دفع نہ کراتے تو کوئی سانحہ ہو جاتا؟ انہوں نے کہا ’میرے علم میں نہیں۔‘

وہ آفاق احمد اور عامر خان کی جانب سے نائن زیرو پر اسلحے کے استعمال کی کوشش اور سلیم شہزاد کے آڑے آنے کے کسی واقعے کی نفی کرتے ہوئے اظہارخیال کرتے ہیں کہ آفاق اور عامر کو تنظیم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پارٹی کے مفاد میں ملک سے چلے جائیں ، ان کی روانگی کے سارا انتظام ہم نے کیا، مگر بدقسمتی سے بہت منظم طریقے سے ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ جس کا ذمہ دار وہ سلیم شہزاد کو کہتے ہیں۔ امین الحق نے تصدیق کی کہ آفاق اور عامر کی روانگی کے اگلے روز شہر بھر میں بینر لگ گئے تھے کہ ’جو قائد کا غدار ہے۔۔۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’’آج ہمیں احساس ہوتا ہے یہ کوئی بہت اچھی چیزیں نہ تھیں!‘‘ ہم نے ایسے افعال میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا پوچھا، وہ بولے کہ عظیم طارق نے ان چیزوں کو روکنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ کام یاب نہ ہو سکے، اور ایم کیوایم کو آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔

1992ء میں ایم کیوایم کے کراچی کے دو زونل انچارج آفاق احمد اور عامر خان نے ایم کیوایم حقیقی بنائی، امین الحق تیسرے زون انچارج شاہد مہاجر کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ غیرفعال ہوگئے تھے، مگر اب ہمارے ساتھ ہیں۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ ’حقیقی‘ کی غیرسیاسی سوچ کی وجہ سے تصادم ہوا، تو ہم نے یاد دلایا کہ ’آپ بھی تو ’حقیقی‘ میں چلے گئے تھے؟‘ جس پر وہ بولے ’چند مہینے کے لیے، اس کے بعد میں 1993ء میں دبئی چلا گیا، کیوں کہ، میں نے تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ ’’باہر ہی جانا تھا تو ’حقیقی‘ میں گئے ہی کیوں؟‘‘ بولے کہ دسمبر 1992ء میں، وہ گرفتار ہوئے اور پھر تشدد اور دباؤ کے بعد ’حقیقی‘ میں گئے۔

’کیا رہائی کا یہی راستہ تھا؟‘ ہم نے ٹٹولا تو وہ بولے کہ حالات میرے کنٹرول میں نہیں رہے تھے۔ پھر یہ انکشاف کیا کہ عامر خان بھی ایم کیوایم اور حقیقی کے تصادم سے ناخوش تھے اور انہی کی پرواز میں دبئی گئے۔ یک دم ہمیں سلیم شہزاد کی بھی دبئی میں موجودگی یاد آئی، کبھی ملنے کا پوچھا تو تردید کرتے ہوئے بولے ’’میں آج بھی ذاتی طور پر پارٹی میں بنیادی خرابیوں کا ذمے دار انہیں سمجھتا ہوں۔‘‘

امین الحق بتاتے ہیں کہ انہوں نے دبئی میں کاروبار کیا، پھر کینیڈا گئے، 2008ء میں کراچی آکر اور ایم کیوایم میں شامل ہوگئے۔

’شامل ہوئے بغیر واپس آتے تو کیا خطرہ ہوتا؟‘ ہم نے خیال ظاہر کیا تو بولے ’نہیں، میری پہلے ہی بات ہو چکی تھی۔‘ وہ ضلع وسطی میں واقع اپنے گھر واپس آنے کے لیے ’ایم کیو ایم‘ میں لوٹنے کا تاثر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واپسی کے چھے ماہ بعد 2008ء میں ہی وہ ایم کیو ایم کے شعبۂ اطلاعات کی ذمہ داری سنبھالی اور پھر 2013ء میں رابطہ کمیٹی میں آگیا۔

89 اور ’ڈبل فور‘ سے ’نائن زیرو‘ تک۔۔۔!

امین الحق بتاتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم‘ بننے کے بعد ہم اپنی سرگرمیوں کے لیے الطاف حسین کے چھوٹے بھائی اسرار کے توسط سے اُن کی رہائش گاہ استعمال کرتے، اپریل یا مئی 1985ء میں الطاف بھائی کراچی واپس آئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارا کوئی دفتر ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے لیاقت آباد ڈاک خانے پر دو کمروں کا دفتر لیا، جس کا راستہ پیچھے گندی گلی سے تھا، کرایہ غالباً 400 روپے تھا، جو ہم ٹیوشنیں پڑھا کر ادا کرتے، ساتھ ہی شرط تھی کہ کوئی شور شرابہ نہیں ہوگا۔

اس لیے ہم رات میں ایک، ایک، دو، دو کر کے نکلتے، تاکہ پاس پڑوس میں کوئی شکایت نہ ہو۔ یہاں الطاف حسین اور عظیم طارق سمیت تمام ارکان نے مل کر صفائی اور سفیدی کی۔ پھر سب کی باریاں مقرر ہوئیں، جس کی ذمے داری شام کو ہوتی، تو وہ چاہے الطاف حسین ہوں یا عظیم طارق، وہ بیت الخلا سمیت تمام صفائی بھی کرتا۔ کچھ ماہ بعد 1985ء میں ہی الکرم اسکوائر میں تین کمروں کا ایک قدرے بہتر دفتر لیا۔ یہ روزانہ دوپہر دو بجے تا رات دس بجے کُھلتا، اسی دفتر میں ہم نے نشتر پارک کے آٹھ اگست 1986ء کے تاریخی کے جلسے کی تیاری بھی کی۔

اس سے پہلے ہم نے حیدرآباد، ٹنڈو جام ، لطیف آباد اور اس کے بعد سکھر میں بھی کام کیا، کیوں کہ جام شورو یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل کالج، ٹنڈوجام زرعی یونیورسٹی میں اردو بولنے والے طلبہ کو سخت مسائل کا سامنا تھا۔

ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کا مرکز الکرم اسکوائر سے ’نائن زیرو‘ جانے کا ماجرا کھوجا تو انہوں نے بتایا کہ ’آٹھ اگست کے جلسے کے بعد ہم نے الطاف بھائی کا ڈرائنگ روم استعمال کرنا شروع کیا، پھر اُن کے اہل خانہ وہاں سے منتقل ہوگئے، تو پھر ہم نے پورا گھر لے لیا۔

ساتھ ساتھ ہم دستگیر 14 پر ایم کیو ایم کے فنانس سیکریٹری ایس ایم طارق کا گھر بھی استعمال کرتے تھے۔ الکرم اسکوائر کا دفتر فون کے آخری دو نمبروں کی بنا پر 89 کہلاتا، اسی طرح ’نائن زیرو‘ بھی فون نمبر کے آخری دو ہندسوں سے موسوم ہوا، اسی طرح ایس ایم طارق کے گھر کا آخری نمبر ’ڈبل فور‘ تھا۔ 1988ء تک جب کوئی بڑا سیاسی آدمی آتا تو ہمارے پاس دونوں دفاتر میں کوئی زیادہ معقول انتظام نہ تھا، تو ہم اسے ’ڈبل فور‘ لے جاتے، کیوں کہ اُن کا ڈرائنگ روم بہت شان دار تھا۔ البتہ خالص سیاسی بیٹھکیں ’نائن زیرو‘ پر ہوتی تھیں۔

1985ء کے انتخابات میں حافظ تقی، زہیر اکرم ندیم و دیگر نے ہماری حمایت لی!

امین الحق نے ہمیں بتایا کہ 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں ’اے پی ایم ایس او‘ نے پی آئی بی کالونی سے باقاعدہ اپنے ایک کونسلر سعید جمال کو بھی امیدوار نام زد کیا، جب کہ کراچی اور حیدرآباد کے دو درجن کے قریب آزاد امیدواروں سے اپنی حمایت کے بدلے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کیا کہ وہ منتخب ہو کر مہاجر حقوق کے لیے کام کریں گے۔

ہم ان کی مہم کے دوران ’جیے مہاجر‘ کے نعرے لگا کر اپنی حمایت کا اظہار کرتے۔ اِن میں صرف لانڈھی سے قیصر خان ہی جیت پائے۔ اسی طرح 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں ’ایم کیوایم‘ نے مختلف امیدواروں سے باقاعدہ ایک فارم پر دستخط کرائے کہ وہ مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کرتے ہیں اور وہ منتخب ہو کر ان کے لیے آواز اٹھائیں گے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ان میں حافظ محمد تقی، الحاج شمیم الدین، زہیر اکرم ندیم، جاوید سلطان جاپان والے اور قیصر خان وغیرہ شامل تھے۔ یہ امیدوار کام یاب بھی ہوئے، لیکن قیصر خان کے سوا کسی نے دوبارہ ہم سے رابطے کی زحمت ہی نہ کی۔

1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے امین الحق یوں اظہارخیال کرتے ہیں کہ پوری قیادت نے روپوشی میں دورے کرکے امیدواروں کو حتمی شکل دی، کیوں کہ تب تک ہمارے چہروں سے کوئی واقف نہ تھا۔ دفاتر کی بندش کے سبب ہمارے بہت سے امیدواروں کو ’پتنگ‘ کا نشان نہ مل سکا، اس لیے ہم نے دوسرا انتخابی نشان ’تالا‘ لیا۔ بلا مقابلہ ہمارا میئر منتخب ہونے کے بعد 1988ء کے عام انتخابات کے لیے زہیر اکرم ندیم ، الحاج شمیم الدین، حافظ محمد تقی، جاوید سلطان جاپان والا، کنور اعجاز اور بیگم سلمیٰ احمد وغیرہ نے ہمارے ٹکٹ کی خواہش کی، لیکن ہم نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کو ترجیح دی، جنہوں نے پھر شان دار کام یابی حاصل کی۔

The post ہم نے الطاف حسین کو اِن کی عدم موجودگی میں ’ایم کیو ایم‘ کا قائد بنایا، سید امین الحق appeared first on ایکسپریس اردو.

دیامیر بھاشا ڈیم؛ آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت

$
0
0

وجودِ کائنات کی تفہیم کو عقلِ انسانی کے احاطے میں لانے کے لئے اسے دو حصوں یعنی جان دار اور بے جان میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور پانی خدائے بزرگ و برتر کی وہ عظیم نعمت ہے، جو اس تقسیم کی لکیر کھینچتا ہے۔ کائنات میں زمین وہ واحد سیارہ ہے، جہاں زندگی پائی جاتی ہے اور اس کا سبب صرف پانی ہے۔ زمین کے علاوہ آج تک دریافت شدہ کروڑوں سیارے اور ستارے بے آب و گیاہ پا گئے ہیں۔

خالقِ کائنات نے زمین پر زندگی پروان چڑھائی تھی تو اس کے وسیع حصے پر پانی پھیلا دیا۔ زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے، تقریباً یہی حال ہمارے جسم کا بھی ہے، ہمارا دو تہائی جسم پانی پر مشتمل ہے، ایک عام انسان کے جسم میں 35 سے 50 لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ مردوں میں کل وزن کا 65 تا 70 فیصد حصہ پانی ہے جبکہ خواتین میں 65 فیصد پانی ملتا ہے۔ صرف دماغ کو ہی لیں تو اس کا 85 فیصد حصہ پانی ہے۔

امراض سے لڑنے والے ہمارے خلیے خون میں سفر کرتے ہیں اور خون بذاتِ خود 83 فیصد پانی ہے۔ ہمارے ہر جسمانی خلیے میں موجود پانی ہی سے بدن کے تمام نظام چلتے ہیں۔ لہذا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی ہی زندگی ہے……لیکن بات اگر وطن عزیز کی ہو تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے ک ہمیں احساس تک نہیں کہ کتنی تیزی سے ہماری زندگی موت کی وادیوں میں کھچی چلی جا رہی ہے۔

خالقِ کائنات نے 796096مربع کلومیٹر پر محیط ارض پاک کو جن نعمتوں سے نوازا، ان کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ زمین کے اوپر اور اس کے اندر چھپے خزانوں کے بارے میں جان کر پرائے بھی حیراں ہیں، ان خزانوں میں سب سے اہم اور انمول چیز پانی ہے، جس کی فراوانی نے ہمیں اس کی ناقدری اور نتیجتاً آج قلت کا شکار کر دیا ہے۔ کوئی وقت تھا (سروے رپورٹ1951ء) جب ملک میں 5650 مکعب میٹر پانی فی کس دستیاب تھا، جو 49 سال بعد 2000ء میں کم ہو کر 1400مکعب میٹر اور آج یعنی 2018ء میں مختلف رپورٹس کے مطابق صرف 865 مکعب میٹر فی کس رہ چکا ہے۔

اور بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہو رہی بلکہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی رواں سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040ء تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے، کیوں کہ پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے، یعنی ہم اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور مجرمانہ غفلت کے باعث ہر سال 131.3 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قدرتی امداد کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔

ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان میں پانی کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ ملک میں 16 ملین ہیکٹر اراضی پر کاشت کاری ہو رہی ہے، لیکن 18ملین ہیکٹر اراضی ایسی بھی ہے، جو قابل کاشت ہونے کے باوجود کاشت کاری سے محروم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ پھر بات یہیں تک رہتی تو شائد کچھ گزارا ہو جاتا لیکن پانی کی روز بروز بڑھتی قلت قابل کاشت اراضی کو بھی بنجر بنا رہی ہے، تو جس ملک کی معیشت میں شعبہ زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں مذکورہ شعبہ ہی کمزور ہو جائے تو پھر اس ملک کے پاس کیا بچے گا؟

پاکستان میں مسلسل گھٹتے پانی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک پانی کا غیرضروری بے دریغ استعمال اور دوسرا اس کو محفوظ بنانے کے لئے ذخائر کی کمی۔ لہذا بحیثیت قوم جہاں ہمیں ایک طرف پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا وہاں ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس صد افسوس اس معاملے میں بھی ہم نے سرمایہ کی کمی کا رونا رویا تو کبھی ملک کے بہترین مستقبل کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہر دور میں آنے والا حکمران طبقہ اپنے نمائشی پروگرامز جبکہ اپوزیشن اپنی سیاسی موشگافیوں میں مصروف رہی۔

کئی سال تک لیت و لعل سے کام لینے کے بعد دسمبر 2005ء میں جنرل مشرف نے ملک کے لئے سب سے زیادہ قابل عمل اور فائدہ مند منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے‘‘ لیکن پھر 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے بیان دیا کہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے کالاباغ ڈیم قابل عمل نہیں رہا۔‘‘

یوں کالاباغ کہیں فائلوں میں ہی دب کر رہ گیا، جس کے بعد پھر بھاشا ڈیم کی منظوری دی گئی تو وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث تعطل کا شکار رہا۔ تاہم تقریباً تین ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وہ قدم اٹھایا جو اس ملک کے حکمران کئی عشروں سے نہیں اٹھا سکے۔ ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اس سلسلے میں انہوں نے عوام سے چندے کی اپیل بھی کی۔ چیف جسٹس نے ایک فنڈ بنانے کا حکم دیا اور ’’دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ 2018‘‘ کے نام سے قائم کیے گئے بنک اکاؤنٹ میں سب سے پہلے خود دس لاکھ روپے جمع کرائے۔

گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے علاقہ بھاشا میں بننے والا مجوزہ ڈیم ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے، اس پراجیکٹ کے بنیادی مقاصد میں پانی ذخیرہ کرنا، سیلاب سے بچاؤ اور بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ 272 میٹر اونچا بھاشا ڈیم اس اعتبار سے دنیا کا سب سے بلند ڈیم ہو گا کہ یہ آرسی سی (Roller Compacted Concrete ) سے بنایا جائے گا۔ 25 ہزار ایکڑ (ایک مربع کلومیٹر) پر مشتمل یہ منصوبہ چلاس سے 40 کلو میٹر زیریں جانب دریائے سندھ پر تعمیر کیا جائے گا، جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل منصوبے سے سالانہ 18ارب یونٹ سے زائد کم لاگت اور ماحول دوست بجلی قومی نظام کو مہیا کی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی عمر میں مزید 35سال کا اضافہ ہوگا، کیوں کہ یہ ڈیم جس مقام پر بننے جا رہا ہے وہ 315کلومیٹر دور تربیلا ڈیم کی بالائی سطح پر واقع ہے۔

دیامیر بھاشا ڈیم سے زیریں علاقوں میں واقع پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی پیداوار پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ پن بجلی گھروں بشمول تربیلا، غازی بروتھا، جناح اور چشمہ سے بجلی کی سالانہ پیداوار میں 2 ارب 50 کروڑ یونٹ اضافہ ہوگا ، جبکہ داسو ، پٹن اور تھا کوٹ جیسے مستقبل کے منصوبوں سے بھی بجلی کی سالانہ پیداوار میں مزید 7 ارب 50 کروڑ یونٹ اضافہ ہو جائے گا۔ بھاشا ڈیم کے منصوبے کے آغاز پر اس کا تخمینہ 12 سو ارب روپے لگایا گیا، جو آج سرکاری اندازوں کے مطابق 1450 ارب روپے جبکہ مختلف ماہرین کے مطابق 18 سے 20 سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کی وجہ سے 30گاؤں، 22 سوگھر اور 22ہزار افراد متاثر ہوں گے، جنہیں نہ صرف معاوضہ ادا کیا جائے گا بلکہ متبادل جگہ بھی فراہم کی جائے گی۔

اگرچہ بھاشا ڈیم ورلڈ بنک کے 1967ء کے پلان میں شامل ہو چکا تھا، جس کے مطابق اسے 2010ء تک مکمل کیا جانا تھا، لیکن مختلف ادوار میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے آڑے آنے والی رکاوٹوں کے باعث اس کی بروقت تعمیر شروع نہ ہو سکی، تاہم 17 جنوری 2006ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے اعلان کیا کہ 2016ء تک ملک میں 5 بڑے ڈیم بنائے جائیں گے، جن میں سب سے پہلے بھاشا ڈیم بنایا جائے گا۔ ڈیم کے لئے ایک طرف ڈیزائن بنانے کا کام شروع کر دیا گیا تو دوسری طرف اراضی کے حصول کے لئے مقامی افراد کو نقل مکانی پر قائل کرتے ہوئے معاوضہ کی ادائیگی یقینی بنانے کا اعتماد دلایا گیا۔

اسی دوران 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرف کی ق لیگ بری طرح ہار گئی اور پیپلزپارٹی نے مسند اقتدار سنبھال لیا، لیکن پیپلزپارٹی نے اس منصوبے کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسی سال وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایکنک سے بھاشا ڈیم کے لئے منظوری حاصل کر لی اور اس کے بعد کونسل آف کامن انٹرسٹ میں موجود تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کی منظوری کے ساتھ ہی بھاشا ڈیم بنانے کا راستہ صاف ہو گیا۔

18 اکتوبر 2011ء کو یوسف رضا گیلانی نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ منصوبے کی تعمیر کے لئے تقریباً 1200 ارب کی ضرورت تھی، ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو قرض کے لئے درخواست دی گئی، جسے منظور کر کے ان بنکوں نے رقم دینے کی حامی بھر لی، لیکن جیسے ہی منصوبے پر کام شروع ہوا بھارت نے حسب معمول چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بھارت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو درخواستیں دینا شروع کر دیں کہ اس منصوبے کے لئے رقم فراہم نہ کی جائے کیونکہ یہ منصوبہ ایک ایسی جگہ پر بنایا جا رہا ہے جو کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔

بھاشا ڈیم کو رکوانے کی بھارتی کوششیں اس وقت رنگ لے آئیں جب اگست 2012ء میں ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے دی جانے والی رقم روک لی اور پاکستان سے کہا کہ بھارت لکھ کر دے دے کہ اسے اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم یہ رقم جاری کر دیں گے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اسی شوروغل میں اپنی مدت پوری کرکے گھر چلی گئی اور اقتدار ن لیگ کے ہاتھ میں آ گیا۔ نواز حکومت نے بھی ڈیم کی تعمیر کے بلند و بانگ دعوے کئے، حتی کہ 2013ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تک کہہ دیا کہ حکومت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو رقم فراہم کرنے کے لئے راضی کر لیا ہے اور یہ بنک بھارت کی پرواہ کئے بغیر ہمیں پیسے دیں گے، لیکن ایسا ہو نہ سکا اور یوں ایک بار پھر یہ عظیم منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

نواز شریف پانامہ کیس میں گھر چلے گئے تو شاہد خاقان عباسی وزارت عظمی کی مسند پر براجمان ہو گئے، جنہوں نے ہر طرف سے ہری جھنڈی دیکھنے کے بعد بالآخر اس منصوبے کو اپنی جیب (ریاست) سے بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے پہلی بار بجٹ میں رقم مختص کی گئی، جس سے ڈیم کے لئے زمین کی خریداری، بے گھر ہونے والے افراد کی آبادی کاری اور منصوبے کے پی سی ون پر خرچ کئے گئے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد بھاشا ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، یہ ارض پاک کی بقاء اور آئندہ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کا سوال ہے۔ بھاشا ڈیم پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، جس کے لئے چندہ مانگنا پڑے یا قوم کو کوئی بھی قربانی دینا پڑے، ہمیں اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ آج بڑے بڑے ماہرین بھاشا ڈیم کی تعمیر کے قومی عزم پر انگشت بدنداں ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر اتنے بڑے پراجیکٹ کی تکمیل کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

ہم ان ماہرین کے وسیع تجربے کی روشنی میں کئے جانے والے تجزیوں سے انکاری تو نہیں لیکن قوموں کا غیرمتزلزل عزم پہاڑوں میں راستے، خلاؤں کو تسخیر، دریاؤں کا رخ بدل اور ریگستانوں کو گل و گلزار بنا سکتا ہے۔ بھاشا ڈیم کے لئے قوم فخر سے چندہ بھی دے گی اور ایک بار یہ منصوبہ شروع ہو جائے تو دنیا بھر کا سرمایہ کار بھی اس طرف لپکے گا، بس ضرورت صرف اخلاص کے ساتھ پہلا قدم اٹھانے کی ہے۔

ہمارا نہری نظام اور آبی ذخائر

وطن عزیز میں پانی کے ذخائر اور اس کی ترسیل کا جائزہ لیا جائے تو 3 سو سالہ محنت اور مسلسل سرمایہ کاری کے نتیجہ میں پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم ہے، جو قیام پاکستان کے بعد قدرت کی طرف سے ہمیں تحفے میں ملا۔ لیکن افسوس ہمارا حکمران طبقہ اس تحفے کو گزشتہ 72 سال سے اپنی نااہلیوں کی بھینٹ چڑھانے میں مصروف ہے۔

پانی کے ذخائر کی بات کی جائے تو انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز کے مطابق 15 میٹر یا 49 فٹ اونچے ڈیم کو ہی بڑا ڈیم تصور کیا جائے گا، یوں آئی سی او ایل ڈی کی اس تعریف کی رو سے پاکستان میں 150 ڈیمز موجود ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں اس وقت پانی کے 3 بڑے ذخائر منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ نیلم جہلم، ورسک، باران، خانپور، ٹانڈا، راول، سملی، بخت خان، حامال جھیل، منچر جھیل، کنجھر جھیل اور چوتیاری جھیل بھی چھوٹے ذخائر کی صورت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔

تربیلا ڈیم

1976ء میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا کے مقام پر بنایا گیا جس میں 11.62 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈیم میں پانی جمع کرنے کی گنجائش میں 24.6 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔

منگلا ڈیم

منگلا ڈیم پاکستان میں پانی کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ 1967ء میں دریائے جہلم پر بنایا گیا جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 5.882 ایم اے ایف تھی۔ ریت اور مٹی کی وجہ سے اس کی گنجائش میں 13.2 فیصد کمی ہوگئی ہے اور اب یہ 4.636 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔

چشمہ بیراج

دریائے سندھ پر چشمہ بیراج کی تعمیر 1972ء میں عمل میں لائی گئی جو مجموعی طور پر 0.870 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا تھا اور اب یہ 39.3 فیصد کمی کے ساتھ 0.435 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔

پاکستان کے نہری نظام کی مالیت 20 ارب ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن مجرمانہ غفلت کے باعث 14 بیراجوں، 6429 کلو میٹر لمبی نہروں، 31214 کلو میٹر لمبی ڈسٹری بیوٹریز اور 58 ہزار فیلڈ آؤٹ لٹس پر مشتمل یہ نظام کافی حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے۔ اس نظام پر سوا تین ہزار کلو میٹر لمبے پشتے بھی قائم کیے گئے ہیں۔ فی الحال محکمہ آبپاشی کے تقریباً 50 ہزار مستقل اور غیر مستقل افسر و اہلکار اس نظام کی دیکھ بھال میں بالکل اسی طرح مصروف ہیں جیسے بلی دودھ اورچور تجوری کی حفاظت کرتا ہے۔ نہری نظام کے لیے مختص فنڈ کا 65 فیصد ان افسروں اور اہلکاروں کی تنخواہ دوسرا حصہ یوٹیلیٹی بلوں کی نذر ہوجاتا ہے جبکہ بچے کھچے فنڈز نہری نظام کی مرمت پر لگا دیئے جاتے ہیں۔

نظام کی بدحالی یہ ہے کہ آبیانہ لینے پر اٹھنے والے اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ عشر کو تو ہمارے ادارے بھول ہی چکے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کی وصولی ہی بند کردی گئی ہے۔ 2007ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے عالمی بینک کے ساتھ مل کر ہمارے نہری نظام کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کا ایک منصوبہ شروع کیا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹس میں اس منصوبے کے تحت نہری نظام کا کچھ حصہ ٹھیک ہونے کے بعد کاشتکار کی آمدن میں 10 فیصد اضافہ، ٹیل پر پانی کی فراہمی یقینی اور سیم و تھور کے خاتمے کی نویدیں سنائیں۔ یہ منصوبہ 2007ء سے شروع ہوا، جس کے بعد شائد سرکاری فائلوں میں کہیں گم ہو گیا۔

سرمایہ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ نہیں بنے گا، ضرورت صرف اخلاص نیت سے پہلا قدم اٹھانے کی ہے: سابق چیئرمین واپڈا و سابق وزیر اعلی شمس الملک

دیامیربھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعلی خیبرپختونخوا و سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ بدقسمتی! سے پاکستان میں موجود بھارت نواز اینٹی ڈیمز لابی کی مخالفت کے باعث جب کالاباغ ڈیم بنانے کی بھرپور مخالفت ہوئی تو اس وقت بھاشا ڈیم کی منظوری دی گئی، کیوں کہ ورلڈ بنک کے 1967ء کے پلان میں یہ دونوں (کالاباغ، بھاشا) ڈیمز شامل تھے اور اب صورت حال یہ ہے کہ چوں کہ ڈیمز ہماری بقاء کے لئے ناگزیر ہیں تو چلو! کالاباغ نہیں تو بھاشا ڈیم ہی سہی، لیکن یہ اب بن جانا چاہیے اور انشاء اللہ مجھے امید ہے یہ اب شروع ہو جائے گا اور بن بھی جائے گا، حالاں کہ واپڈا کے پروگرام کے مطابق کالاباغ ڈیم 1986ء اور بھاشا ڈیم 2010ء تک بن جانا چاہیے تھا۔

دیامیربھاشا ڈیم میں کچھ بھی متنازع نہیں، دیامیر پاکستان کا حصہ ہے اور جہاں تک انجینئرنگ پوائنٹ آف ویو کی بات ہے تو ڈیمز کے لئے جگہ دیکھنے سے قبل پوری سٹڈی کی جاتی ہے اور بھاشا ڈیم کے لئے یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہاں ڈیم بن سکتا ہے، لہذا ڈیم کے لئے بھاشا کا محل وقوع موزوں ترین ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھئی! اگر ڈیم بننے سے کوئی ملک تباہ ہوتا تو چین تو اب تک کب کا تباہ ہو جاتا، کیوں کہ اس نے تو 22 ہزار ڈیم بنا لئے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں وہ بھی ساڑھے چار ہزار ڈیم بنا چکا ہے تو کیا یہ ملک تنزلی کی طرف جا رہے ہیں؟ نہیں تو پھر ہمیں کیا مسئلہ ہے، ہم کیوں اپنے دشمن خود ہی بنے ہوئے ہیں؟ رہی بات بھارت کی مخالفت کے باعث ہمیں ورلڈ بنک اور ایشیاء بنک سے قرضہ نہ ملنے کی تو ایسا صرف بھارت ہی نہیں بلکہ ہماری اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے بھی ممکن ہوا۔

پاکستان میں سرگرم اینٹی ڈیم لابیز کی وجہ سے ہم ورلڈ بنک کے سامنے اپنا کیس مضبوط نہیں بنا سکے۔ پھر اگر آپ متنازع جگہ کی بات کرتے ہیں تو سب سے زیادہ متنازع ڈیم تو منگلا ڈیم تھا، اگر وہ بن گیا تو کالاباغ یا بھاشا ڈیم کیوں نہیں بن سکتا؟ بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت پر بات کرتے ہوئے سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ میرے خیال میں ہمیں بھاشا ڈیم کے لئے 10 سے 14 سو ارب روپے درکار ہیں، کیوں کہ یہ ایک روز میں تو بنے گا نہیں بلکہ بنتے بنتے 10 سے 12 سال لگ جائیں گے اور اس دوران قیمتیں بھی بڑھیں گی، تاہم چندوں پر ڈیم بنانے کے طعنے دینے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے بڑے پراجیکٹ خلوص نیت کے ساتھ صرف پہلے قدم کے متقاضی ہوتے ہیں۔

جیسے ہی آپ نے پہلا قدم اٹھایا تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر کا سرمایہ کار اس طرف کھچا چلا آئے گا۔ اس کی ایک مثال میں آپ کو یوں دیتا ہوں کہ ملک بھر میں قائم واپڈا کے تمام پاور ہاؤسز کے لئے حکومت پاکستان نے کبھی ایک روپیہ بھی نہیں دیا، یہ سب کچھ واپڈا نے خود کیا، جب کوئی پاور ہاؤس بننے جا رہا ہوتا ہے تو 40 فیصد پراجیکٹ کاسٹ اور 40 فیصد اس میں سول ورک ہوتا ہے، پھر ٹینڈر کیا جاتا ہے، جس کے بعد ٹینڈر حاصل کرنے والی کامیاب کمپنی سے ہی پراجیکٹ کے لئے سامان منگوایا جاتا ہے اور جب یہ سلسلہ ایک بار شروع ہوتا ہے تو دنیا بھر کے سرمایہ کار اس میں دلچسپی لیتے ہیں، کیوں کہ بجلی و پانی جیسے منصوبے کبھی ڈوبا نہیں کرتے۔ لہذا میرے خیال میں جب بھاشا ڈیم شروع ہو گا تو لوگ آپ کے پاس ضرور آئیں گے۔ پھر ڈیم کوئی ایک روز میں تو نہیں بننا، اسے بنتے 10 سے 12 سال لگیں تو اس دوران ہمارے پاس سول ورک کے لئے پیسے بھی انشاء اللہ بن جائیں گے۔ اچھا! اس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آپ بھاشا ڈیم کے لئے ایک کمپنی بنا دیں۔

جس کے شیئرز فروخت کرکے اچھی خاصی رقم اکٹھی کی جا سکتی ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ہونے والے فوائد کے بارے میں بتاتے ہوئے شمس الملک نے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے بجلی کا وہ یونٹ جو ہمیں 15 سے 20 روپے میں پڑتا ہے، وہ ملک کو 5 سے6 روپے میں ملے گا، اس ڈیم سے تقریباً 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ 2010ء میں آنے والا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس کی تباہ کاریوں کے نتائج سے ہم آج تک نہیں نکل پائے، لیکن سٹڈیز ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اگر اس وقت بھاشا ڈیم ہوتا تو یہ سیلاب ایک معمولی سیلاب سے کچھ بھی زیادہ نہ ہوتا، ماحولیات پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، پانی کی کمی کے مسئلہ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، ہر سال اربوں روپے کا ضائع ہونے والا پانی بچایا جا سکتا ہے، زیرزمین پانی کی ہر روز گھٹتی سطح کو بھی کسی حد تک استحکام ملے گا۔

جنرل مشرف کے دور میں آپ ان کے بہت قریب تھے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ڈیمز بنانے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا، تاہم وہ مضبوط حکمران ہونے کے باوجود ایسا کیوں نہ کر سکے؟ کے جواب میں شمس الملک گویا ہوئے ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں پاکستان میں آج تک جتنے بھی حکمران آئے ان میں سے میں صرف دو ہی کو مضبوط حکمران سمجھتا ہوں، ایک ایوب اور دوسرے بھٹو، باقی کوئی فوجی ہو یا سویلین کبھی بھی مضبوط ترین حکمران نہیں رہا، کیوں کہ وہ مصلحتوں کا شکار رہے۔ رہی بات مشرف دور کی تو اس وقت ڈیمز بنانے کے لئے ایک اعلی سطحی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی ایک میٹنگ میں جنرل مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ کالاباغ یا بھاشا ڈیم میں سے ہمیں کس کو ترجیح دینی چاہیے تو میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ سوال اگر آپ مجھ سے آج سے 10 سال قبل پوچھتے تو شائد میں کوئی جواب دے دیتا، تاہم آج یہ دونوں ہمارے لئے ناگزیر بن چکے ہیں۔

کیوں کہ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔‘‘ بھاشا ڈیم کی سی پیک میں شمولیت پر چین کی کڑی شرائط کی افواہوں پر سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا’’ میں یہ ماننے کے لئے ہی تیار نہیں کہ ایک کام پاکستان کے حق میں ہو اور چین اس میں ہماری مدد نہ کرے، کیوں کہ چین سے ہماری دوستی کوئی دکھاوا یا روایتی نہیں۔ چین ہمارا وہ دوست ملک ہے، جو اپنوں کو بھلاتا نہیں، کسی زمانے میں جب پوری دنیا نے چین کے لئے اپنے دروازے بند کئے تو صرف پاکستان وہ واحد ملک تھا، جس نے چین کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے اور چین کو اس بات کا بڑی اچھی طرح ادراک ہے، وہ ہمیں کبھی تنہا یا مشکل میں نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

The post دیامیر بھاشا ڈیم؛ آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت appeared first on ایکسپریس اردو.

کشمیر پر قبضے کا نیا پلان

$
0
0

یہ 18 ستمبر 2018ء کی بات ہے، بھارتی شہر ناگ پور میں قوم پرست تنظیم ،آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے ہیڈکوارٹر میں اہم خفیہ میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس میں موہن بھگت (سربراہ آر ایس ایس) امیت شاہ (صدر بی جے پی) اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کے سربراہ شریک تھے۔ یہ اجلاس اس لیے منعقد کیا گیا تاکہ ریاست جموں و کشمیر پر حکومتی قبضے کا پلان تیار ہو سکے۔

اجلاس میں ریاست سے آئے آر ایس ایس اور بی جے پی کے سبھی اہم رہنما موجود تھے۔ان ریاستی ہندو قوم پرست رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جب تک بھارتی آئین کے آرٹیکل 70 اور آرٹیکل 35A موجود ہیں، یہ ریاست کُلی طور پر بھارت میں ضم نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ آرٹیکل ختم کردیئے جائیں۔ ان کے خاتمے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ ریاست میں پورے بھارت سے ہندو خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت مل جاتی۔ بھارت کی ہندو قوم قیادت نے اس مطالبے پر طویل عرصہ غور کیا اور آخر کار اسے تسلیم کرلیا۔

ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے  قوم پرست لیڈروں کا مطالبہ ایک خاص وجہ سے تسلیم کیا گیا…  یہ کہ ریاست میں ہندو خاندانوں کو بسا کر اس کا مذہبی تشخص بدل دیا جائے۔  قوم پرست لیڈر چاہتے ہیں کہ ریاست میں ہندوآبادی اتنی حد تک بڑھا دی جائے کہ وہ مسلم اکثریتی نہ رہے! یعنی ایسی صورت میں مسلمانان جموں و کشمیر یہ دعویٰ نہ کرسکیں کہ ریاست میں ان کی اکثریت ہے۔ جب بھی ایسا ہوا، بھارتی حکمران طبقے کے لیے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔اس خفیہ میٹنگ کے بعد 19 ستمبر کو سربراہ آر ایس ایس، موہن بھگت نے اخباری بیان داغ دیا کہ اس کی جماعت آرٹیکل 70 اور آرٹیکل 35A کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ایک ہندو قوم پرست تنظیم نے یہ آرٹیکل ختم کرنے کی خاطر سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ اب بھارت کے ہندو قوم پرستوں نے یہ آرٹیکل ختم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔

بھارت میں اگلے سال الیکشن ہونے ہیں۔ اگر نریندر مودی یہ الیکشن جیت کر دوبارہ سربراقتدار آئے تو قوی امکان ہے، بھارتی سپریم کورٹ کم از کم آرٹیکل 35A کو ختم کر ڈالے کیونکہ اسی کی وجہ سے دیگر بھارتی ریاستوں کے باشندے ریاست جموں و کشمیر میں آباد نہیں ہوسکتے۔ وجہ یہ  کہ پچھلے چار برس میں مودی حکومت نے عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک میں ہندو قوم پرست ایجنٹ تعینات کردیئے ہیں۔ گویا اب بھارت میں جج اور سرکاری افسر بھی اپنے ملک کو ہندو مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں اور پاکستان سے کٹر دشمنی کی وجہ سے بھارتی قوم پرست خصوصاً ریاست جموں و کشمیر کو تو اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کی شدید تمنا ہے کہ ریاست مکمل طور پر بھارت کے زیر نگیں آجائے۔

موجودہ اعدادو شمار کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ ریاست کے تین انتظامی حصے ہیں: جموں، وادی کشمیر اور لداخ۔ جموں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔کُل آباد ی میں سے 60 فیصد ہندو ہیں، 30 فیصد مسلمان اور بقیہ دیگر مذاہب کے باشندے ہیں۔وادی کشمیر میں تقریباً بہتر لاکھ افراد بستے ہیں۔ ان کی97 فیصد تعداد مسلمان ہے۔ لداخ میں پونے تین لاکھ لوگ بستے ہیں۔ اس حصے کے دو اضلاع ہیں: کارگل اور لیہہ۔ کارگل کی آبادی ایک لاکھ چالیس ہزار ہے۔ اس میں سے 70 فیصد مسلمان ہیں۔ لیہہ میں ایک لاکھ تیتیس ہزار افراد بستے ہیں۔ ان میں سے پندرہ فیصد لوگ مسلمان ہیں۔

درج بالا اعدادو شمار کے مطابق ریاست میں 86 لاکھ 30 ہزار مسلمان بستے ہیں۔ ہندوؤں کی آبادی 34 لاکھ 25 ہزار ہے جبکہ بدھ مت اور سکھ مت کے ماننے والے بھی بستے ہیں۔ گویا تقریباً دو سو سال غیر مسلموں کے تسلط میں رہنے کے باوجود آج بھی ریاست جموں و کشمیر میں مسلمان اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اب قوم پرست ہندو یہی اکثریت  ختم کرنے کے درپے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں کو ریاست میں بسا کر مسلمانوں کی عددی برتری ختم کرنا چاہتے ہیں۔

وادی کشمیر میں بارہویں صدی کے دوران صوفیائے کرام کی تبلیغ سے اسلام پھیلا۔ ان کی تبلیغ سے جموں کے ملحقہ علاقوں میں آباد کئی ہندو بھی مسلمان ہوگئے۔ یہ دونوں علاقے پھر مغلوں نے فتح کرلیے۔ تاہم مغل حکومت کو زوال آیا تو جموں میں ہندوؤں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔وادی کشمیر کے لوگ فطری طور پر امن پسند اور محبت کرنے والے ہیں۔ وہ لڑائی بھڑائی سے پرہیز کرتے ہیں مگر عملی زندگی میں اپنا دفاع نہ کرنے کے باعث دوسروں کے غلام بن جاتے ہیں۔ وادی کے باشندے بھی اپنا دفاع نہ کرسکے اور 1819ء میں رنجیت سنگھ کی زیر قیادت سکھوں نے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ یوں وادی پر غیر مسلموں کی حکمرانی شروع ہوئی جو اب تک چلی آرہی ہے۔

1846ء میں انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو شکست دی اور وادی کشمیر جموں کے ہندو راجا، گلاب سنگھ کو فروخت کر دی۔ ہندو راجاؤں نے امن پسند کشمیری مسلمانوں پر بے انتہا ظلم توڑے اور ان کی فطری نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لحاظ سے انہیں اپنا غلام بنالیا۔ آخر بیسویں صدی میں کشمیری مسلمان بیدار ہوئے اور تحریک آزادی کا آغاز کیا۔ اس ضمن میں 1932ء میں مسلمانان کشمیر نے اپنی پہلی سیاسی جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی۔

صد افسوس، مسلمانوں کے دشمن اپنی چالوں اور سازشوں کے ذریعے مسلمانان کشمیر کو تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے، جب 1947ء میں ہندوستان انگریزوں کے قبضے سے آزاد ہوا، تو ہندو مہاراجا نے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا حالانکہ تب ’’77 فیصد‘‘ ریاستی آبادی مسلمان تھی۔ منطقی اعتبار سے اس کا الحاق نئی مسلم مملکت، پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔بھارت سے الحاق میں مسلمانان کشمیر کے لیڈر، شیخ عبداللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ موصوف وزیراعظم کشمیر بننا چاہتے تھے۔

اگر ریاست پاکستان کا حصہ بن جاتی تو ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ اسی لیے شیخ عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو، وزیر دفاع سردار پٹیل اور ریاستی مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ یوں ایک شخص نے ذاتی مفادات کی خاطر پوری قوم کو غیر مسلم حکومت کا غلام بنا دیا۔ سچ ہے، کبھی کبھی چند افراد کے فیصلے پوری قوم کے لیے تباہی کا پیغام بن جاتے ہیں۔

دستاویزِ الحاق (Instrument of Accession) وہ قانونی کاغذ ہے جس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بنی۔ یہ دستاویز مہاراجا ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ نے تیار کی تھی۔ اس دستاویز الحاق میں انہوں نے اپنے مفادات کا پورا خیال رکھا … وہ اس طرح کہ انہوں نے مستقبل میں اپنی قوتوں اور اپنے اختیارات کو بھارتی قانون و آئین سے مبرّا قرار دے دیا۔ وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر بھارتی حکومت سے یہ بات منوانے میں کامیاب رہے کہ بھارت کا آئین و قانون ریاست پر لاگو نہیں ہوگا۔

یہ حقیقت دستاویز الحاق کا حصہ ہے۔یہی وجہ ہے، جب بھارت کے آئین کی تیاری شروع ہوئی، ریاست جموںو کشمیر کے معاملات طے کرنے کی خاطر اس میں ’’آرٹیکل 370‘‘ متعارف کرانا پڑا۔ یہ آرٹیکل 26 جنوری 1950ء کو آئین بھارت کا حصہ بنا۔ اس کی رو سے  ریاست کے صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات (کمیونیکیشن) کے معاملات بھارتی حکومت کے سپرد کیے گئے۔ بقیہ حکومتی معاملات میں ریاستی حکومت خود مختار بنا دی گئی۔ مزید براں بھارتی حکومت صرف ریاستی اسمبلی کی اجازت ہی سے کوئی اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔

گویا یہ آرٹیکل 370 ہے جس کی وجہ سے اب تک ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ باقاعدہ الحاق نہیں ہوسکا۔ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل ریاست کو خصوصی درجہ عطا کرتا ہے۔ آر ایس ایس، یا بی جے پی اور دیگر قوم پرست ہندو جماعتوں کے لیڈر ریاست کو حاصل یہی خصوصی درجہ ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کرسکیں۔اگست 1953ء میں پنڈت نہرو نے اپنے دیرینہ ساتھی، وزیراعظم جموں و کشمیر، شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال دیا۔ یہ قدم اٹھانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شیخ عبداللہ ریاست کو خود مختار مملکت بنانے کی راہ پر چل نکلے تھے۔ پنڈت نہرو کو یہ راستہ ایک آنکھ نہ بھایا، چناں چہ شیخ صاحب حوالہ زنداں کردیئے گئے۔

مسلمانان کشمیر نے اپنے لیڈر کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے دیکھا تو وہ احتجاج کرنے لگے۔ مشتعل کشمیری عوام کو پُر سکون کرنے کی خاطر نہرو حکومت نے مئی 1954ء میں اپنے آئین میں آرٹیکل 35A متعارف کروا دیا۔ اس آرٹیکل کے ذریعے غیر کشمیریوں کو ریاست میں زمین خریدنے، سرکاری ملازمت کرنے اور کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے سے روک دیا گیا۔ اس آرٹیکل نے بھی گویا ریاست جموں و کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد درجہ عطا کرڈالا۔ بھارتی قوم پرست لیڈر خاص طور پر بذریعہ سپریم کورٹ اس آرٹیکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یوں انہیں جموں اور لداخ میں ہزارہا ہندوخاندان آباد کرنے کا موقع مل جائے گا۔

مودی حکومت اور قوم پرست تنظیموں کی مسلم دشمن سرگرمیوں نے مگر مسلمانان کشمیر کو تشویش و اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ انہیں علم ہے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 35A اور آرٹیکل 370 ختم کیے، تو وہ ہمیشہ کے لیے بھارتی حکمرانوں کے غلام بن جائیں گے۔ اسی لیے کشمیری مسلمان روزانہ بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ روزانہ سکیورٹی فورسز سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے اور ظالم بھارتی فوجی نہتے کشمیری مسلمانوں کو شہیدکردیتے ہیں۔ تحریک آزادی کی حامی کشمیری تنظیمیں اب ریاستی پولیس میں موجود مسلم سپاہیوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ وہ انہیں غدار تصّور کرتی ہیں۔

بھارت کے سپریم کورٹ نے دونوں آرٹیکل ختم کردیئے تب بھی بھارتی حکمرانوں کو ریاست جموں و کشمیر پر باقاعدہ قبضہ کرتے ہوئے عالمی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی پانچ قراردادیں… نمبر 38 (17 جنوری 1948ء)، نمبر 39 (20 جنوری 1948ء)، نمبر 47 (21 اپریل 1948ء)، نمبر 47 (21 اپریل 1948ء)، نمبر 51 (3 جون 1948ء) اور نمبر 80 (14 مارچ 1950ء) واضح طور پر بھارت اور پاکستان پر آشکارا کرچکیں کہ ’’استصواب رائے‘‘ ہی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے ریاست میں استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اب تک ایفا نہیں ہوسکا۔

بھارتی حکومت کا موجودہ موقف یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے 1957ء میں بھارت کے ساتھ الحاق کو ریاستی آئین کا حصہ بنالیا تھا۔ لیکن پاکستان بھارت کی کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اور ریاست میں استصواب رائے کرانے کا طلبگار ہے۔پاکستان کے لیے ریاست جموں و کشمیر کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ خطہِ پاک میں بہنے والے تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب) کشمیری علاقوں سے گزرتے ہیں۔ اگر بھارتی حکمرانوں نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A ختم کرنے کے بعد ریاست پر مکمل قبضہ کرلیا، تو وہ مستقبل میں مختلف اقدامات سے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتے ہیں۔یوں وطن عزیز میں پانی کی قلت شدید ہو جائے گی۔ فی الوقت ریاست کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کے باعث بھارتی حکمران کھل کر کشمیری دریاؤں کے بہاؤ میں ردوبدل نہیں کرپاتے۔

بھارتی آرمی چیف کا واویلا

21 ستمبر کو فرانس کے سابق صدر،فرانسوا اولاند نے انکشاف کیا کہ رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کرتے وقت بھارتی وزیراعظم مودی نے ان پہ دبائو ڈالا تھا کہ بھارت میں طیارے تیار کرنے کی ذمے داری مشہور صنعت کار،انیل امبانی کی کمپنی،ریلائنس کو سونپی جائے۔یوں ثابت ہو گیا کہ بھارتی امیر طبقہ مودی کو اسی لیے اقتدار میں لایا تاکہ وہ اس پہ ’’نوازشات‘‘کی بارش کر سکے۔اولاند کے بیان نے بھارت میں ہلچل مچا دی اور اپوزیشن مودی کو کرپٹ قرار دے کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے لگی۔یہ اسکینڈل دبانے کی خاطر مودی نے پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کر دیا۔

بھارتی آرمی چیف،جنرل راوت چینلوں پہ نمودار ہر کر پاکستان کو پے در پے دھمکیاں دینے لگا۔اس نے کشمیری مجاہدین کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا۔اس پر پاک فوج اور حکومت پاکستان  نے دنیا والوں کو باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج سے نبردآزما کشمیری دہشت گرد نہیں حریت پسند ہیں۔بعض عسکری ماہرین کا دعوی ہے،مودی جلد از جلد رافیل جنگی طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ الیکشن 2019ء سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے خلاف محدود جنگ چھیڑ دے۔یوں وہ الیکشن میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کا متمنی ہے۔وزیراعظم آزادکشمیر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی اسی پلان کا جز  ہو سکتی ہے۔

The post کشمیر پر قبضے کا نیا پلان appeared first on ایکسپریس اردو.

خدارا! کمپنیاں ایسے موبائل فون بنائیں۔۔۔

$
0
0

پاکستانی شوہروں کو اگر یہ خبر ملی ہوگی تو انھوں نے خوش ہو ہو کر پڑھی اور سُنی ہوگی کہ متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون کو اس لیے جیل بھیج دیا گیا کہ انھوں نے اپنے شوہر کا موبائل بلااجازت دیکھا اور اس کا سارا ڈیٹا کاپی کرلیا تھا۔ وہ تین ماہ جیل میں گزاریں گی۔

ان کے شوہر نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ جب وہ نیند میں ہوتا ہے تو اس کی بیوی اجازت کے بغیر اس کا فون کھول کر نہ صرف تصاویر اور پیغامات پڑھتی ہے بل کہ اس نے کئی بار پورا ڈیٹا اپنے فون پر منتقل بھی کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قانون کے تحت بلااجازت دوسرے فریق کا فون دیکھنے کی شدید ممانعت ہے۔

بیویوں کو کچھ ایسے ’’پیدائشی حقوق‘‘ حاصل ہوتے ہیں جو آئین سے نکاح نامے تک کہیں تحریر نہیں ہوتے، جیسے شوہر پر شک کرنے کا حق، اس کی جیب سے موبائل تک مکمل تلاشی کا حق، بات بے بات ناراض ہونے کا حق، اور ان سب حقوق کے استعمال پر حق بہ جانب ہونے کا حق۔ ہمارے ملک میں تو بیویاں شوہر کے سونے کا انتظار بھی نہیں کرتیں بل کہ دھڑلے سے ’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘ کہہ کر موبائل طلب کرلیتی ہیں۔

ایسے میں شوہروں کو خود سے زیادہ اپنے موبائل کی ’’صفائی‘‘ کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ’’کنٹیکٹس‘‘ کی فہرست میں کیسی کیسی گُل رخوں اور ماہ وشوں کے نام دلاور خان، بابو پان والا، سلطان بھائی۔۔۔سے تبدیل کرنا پڑتے ہیں، محبت بھرے ایس ایم ایس دل تھام کر انگلی کی ایک جُنبش سے مٹانا پڑتے ہیں، کیسی کیسی دِل رُبا تصویریں ’’ڈیلیٹ‘‘ کے آپشن کی نذر کرنا پڑتی ہیں۔ پھر بھی کچھ مٹنے سے رہ جائے تو بیوی بیوہ ہونے پر مُصر ہوجاتی ہے۔

ہم پاکستان میں کسی ایسے قانون کے نفاذ کے حق میں نہیں، جس کے بعد بات موبائل فون سے پولیس موبائل تک جاپہنچے اور بیگمات کو میکے سے زیادہ جیل میں رہنا پڑے، البتہ موبائل کمپنیوں سے ہم گزارش کریں گے کہ خدارا ایسے موبائل سیٹ بنائیں جن میں ان کے مالک کے علاوہ کسی اور کے دیکھنے پر ’’مہہ جبیں‘‘،’’نازنین‘‘ اور ’’پروین‘‘ کا نام کنور اقبال راجپوت، اللہ دتا جَٹ یا گبر سنگھ ہوجائے، تصویر میں گورے مکھڑے پر تلوار نما پونچھیں اور داڑھی اُگ آئے اور ایس ایم ایس میں ’’جانو کیسے ہو؟‘‘ کے الفاظ ’’بھائی جان کیسے ہیں؟‘‘ کے فقرے سے بدل جائیں، تاکہ موبائل رکھنے والے اور اس پر نظر رکھنے والیاں دونوں قرار پائیں۔

The post خدارا! کمپنیاں ایسے موبائل فون بنائیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

امداد سے شروع ہونے والا سلسلہ قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تک کیسے پہنچا؟

$
0
0

1918ء میں جب پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا میں سیاسی اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے تین بڑی اور نمایاں تبدیلیاں ہو چکی تھیں، ایک تو برطانیہ کی جگہ امریکہ سپر پاور بن چکا تھا ، دوسرے نمبر پر روس میں زار بادشاہت ختم ہو چکی تھی اوردنیا نے پہلی مرتبہ کیمونزم ’’اشتراکی نظام ‘‘ دیکھا تھا ، تیسری تبدیلی یہ تھی کہ ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ ’’خلافت عثمانیہ‘‘ ختم ہو چکی تھی اور پھر دوسری جنگ عظیم تک ترکی، سعودی عرب اور افغانستان صرف تین اسلامی مملکتیں آزاد اور خود مختار تصور کی جاتی تھیں۔

حقیقت پسند برطانیہ نے یہ جان لیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر دنیا کے 24 فیصد رقبے اور25 فیصد آبادی پر اس طرح اپنا کنٹرول بر قرار نہیں رکھ سکتا۔ اس وقت دنیا کی آبادی ایک ارب اور تقریباً تیس کروڑ تھی، یوں دنیا بھر میں برطانوی نوآبادیات کی کل آبادی 38 سے 40 کروڑ تھی اور برطانیہ کی اپنی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی اور جب دوسری جنگ عظیم 1939 میں شروع ہو کر 1945 میں ختم ہو ئی تو دنیا کی آبادی ڈھائی ارب کے قریب تھی اور برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی، اس وقت برطانوی ہندوستان کی کل آبادی 40 کروڑ اور بشمول ہندوستان پوری برطانوی نوآبادیات کی آبادی ستر سے اسی کروڑ تھی۔

ان نو آبادیات میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں، ڈائنامائٹ، دستی بم ، ہلکی مشین گنیں اور اس طرح کے ہتھیار اِن کو میسر تھے۔ یوں پہلی جنگ عظیم ہی میں یہ طے کرلیا گیا تھا کہ اب سیاسی نو آبادیاتی نظام کو اقتصادی نوآبادیاتی نظام سے بدل دیا جائے اور اس وقت سپر پاور چونکہ امر یکہ بن چکا تھا اس لیے نو آبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامی قوتوں نے امریکہ کی سربراہی میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کا عالمی نقشہ بنایا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے لیگ آف نیشنز ’’اقوام عالم‘‘ کا ادارہ بنایا گیا تھا جو اس وقت امریکہ اور دوسری قوتوں کی وجہ سے کا میاب نہ ہو سکا کہ اس وقت نئے اقتصادی نو آبایاتی نظام کی منصوبہ بندی پوری طرح مکمل نہیں ہوئی تھی۔

1930-32 دنیا میں عظیم عالمی کسا د بازای رونما ہوئی جس سے بیک وقت پوری دنیا شدت کے ساتھ متاثر ہوئی یہ عالمی اقتصادی نظام پر جنگ عظیم اول کی تین بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کے وہ اثرات تھے جن کے لیے سر مایہ دارانہ معیشت کے ماہرین پہلے سے پیش بندی اور منصوبہ بندی نہیں کر سکے تھے اور یہی وہ خلا یا موقع تھا کہ جس کو غنیمت جان کر ہٹلر نے جرمنی کو اور اسٹالن نے سابق سوویت یونین کے ساتھ اشتراکی نظام کو مضبو ط کر لیا تھا۔ جنگ عظیم اول سے دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک 1913-21 وڈرو ولسن، امر یکہ کے صدر رہے ان کے بعد 1921-23 وارن ہارڈینگ 1923-29 کالون کولیج 1929-33 ہربٹ ہاور اس کے بعد 1933 تا 1945ء فرینک ڈی روزویلٹ امریکہ کے صدور رہے، اسی دوران 1916-23ء ڈیووڈ ڈیووڈلوئڈ جارج 1922-23بونالو 1923-24 اسٹینلے بالڈون اور کچھ دن رمزے میکڈونل برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔

اس کے بعد 1935-37ء پھر اسٹینلے، چیمبرلین 1937-40 وزیر اعظم رہے اور پھر چرچل 1940-45 وزیراعظم رہے یعنی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر روز ویلٹ دوسری جنگ عظیم کو نہیں روک سکے، لیکن یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام رخصت ہونے لگا، مگر دنیا تباہ ہو چکی تھی، ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہو ئے۔ امریکہ پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی آخر میں داخل ہوا، اس کی سر زمین ’’ پرل ہاربر‘‘ پر جاپان کی فضائیہ نے ایک حملہ کیا تھا،اس جنگ سے دوسال قبل ہی امریکہ میں اتحادیوں نے کسی عالمی کساد بازی اور مالی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ ’’آئی ایم ایف‘‘ کا ادارہ تشکیل د یا، اُس وقت پور ی دنیا کے سر مایہ دار سرمائے کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے پہلی جنگ عظیم کی طرح سر مایہ امریکہ لے جا چکے تھے۔

یوں آئی ایم ایف کو اب دنیا بھر کے ملکوں کی معیشتوں کو عالمی اقتصادی نظام سے ہم آہنگ اور متوازن رکھنے کے لیے نگرانی کے فرائض سونپے گئے اور اس میں اُس وقت یہ مثبت اصول رکھا گیا کہ اگر کسی رکن ملک کی معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے اور اُس پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے سالانہ شرح پیداوار، فی کس سالانہ آمدنی میں کمی آتی ہے، افراط زر کی شرح میں عالمی معیار سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، تجارت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور ملک دیوالیہ ہونا شروع ہوتا ہے تو آئی ایم ایف کا ادارہ زرِضمانت کے طور پر رعایتی شرح سود پر قرضے دے گا، مگر ساتھ ہی ایسے ملک میں مالیاتی، معاشی اور اقتصادی بے ضابطگیوں، بے اصولیوں اور معاشی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی پر اس طرح نظر رکھے گا یا کنٹرول رکھے گا کہ جو قرضے دئیے گئے ہیں اُن کا استعمال بھی اُن کے مطابق درست ہو اور اُن قرضوں کی واپسی بھی یقینی ہو۔

اگست 1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشما پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا، اس جنگ کے بعد دنیا کو کسی تیسری جنگ عظیم سے محفوظ رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دیا گیا جس کے بنیادی خطوط ماہرین نے جنگ کے خاتمے سے دو برس پہلے ہی طے کر لیئے تھے۔

اس کی تشکیل میں ان ماہرین کے سامنے اس سے قبل اقوام عالم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کی ناکامی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ نئے اقتصادی نو آبادیاتی نظام میں پرانے سیاسی نو آبادیاتی عالمی نقشے کے مطابق بڑی قوتوں کے اِن ملکوں پر آزادی کے بعد معاشی اقتصادی تسلط کے لیے پانچ قوتوں کو ضما نت دی گئی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جو اپنے چارٹر کے اعتبار سے دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کا سب سے اہم اور بڑا ادارہ ہے اور اس کی جنرل اسمبلی میں اس کے تمام 193 آزاد ملکوں کو برابری کے لحاظ سے ووٹ کا حق ہے، وہاں یہی اقوام متحدہ کا ادارہ سب سے غیر جمہوری ہے، جنرل اسمبلی کی اکثریت کے کسی بھی فیصلے کو اس کی سکیورٹی کونسل کے پا نچ ممبر بڑے طاقتور ملکوں میں سے کوئی ایک اپنا ویٹو کا حق استعمال کر کے مسترد کردیتا ہے۔

عالمی ماہرین اسی سکیورٹی کو نسل کو یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ اسی کی وجہ سے دنیا گذشتہ 73 برسوںسے اب تک کسی ممکنہ تیسری جنگ عظیم سے محفوظ ہے، منطقی لحاظ سے شائد یہ درست بھی ہے کیونکہ اس سکیو رٹی کونسل میں پوری دنیا کے ممالک کے متفقہ فیصلے کو ایک طاقتور ملک کا ویٹو کا اختیار مسترد کر دیتا ہے اور اس ویٹو پاور کو سب تسلیم کر لیتے ہیں تاکہ عالمی سطح کی قوتوں میں تنازعہ جنگ کی حد تک نہ پہنچے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد عالمی بنک اور خصوصاً امریکہ کی جانب سے قدرے حقیقت پسندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا مگر اس میں بھی اس کا اپنا مفاد پوشید ہ تھا، جنگ کے بعد جاپان کے فاتح جنرل میکارتھر کی تجاویز پر جاپان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کے بجائے مغربی یورپی ممالک کی طرح اس کی بھی تیز رفتار تعمیر نو کے مراحل شروع ہوئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پانچ سات برسوں ہی میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک اور امر یکی امداد سے مغربی یورپی ممالک اور جاپان مستحکم ہو گئے۔ یہ اس لیے بھی کیا گیا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس وقت سابق سوویت یونین کی سرپرستی میں جس تیزرفتاری سے اشتراکی نظام دنیا میں پھیل رہا تھا اس کے لیے جنگ سے تباہ شدہ مغربی یورپی ممالک اور جاپان کی صورتحال بہت موزوں تھی۔

اب جہاں تک تعلق اُن ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا تھا جو نوآبادیاتی قوتوں سے سیاسی طور پر آزادی حاصل کر رہے تھے اِن کے لیے پرانے شکاریوں نے نیا جال بُن لیا تھا، یہ اقتصادی نو آبادیاتی نظام کا خوبصورت جال تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے قابض نو آبادیاتی قوتوں کو ان کے شیڈول کے مطابق غلام ملکوں کو آزادکر دینے کی مدت کا اختیار دیا ہوا تھا اور بعض ملکوں میں تو وہاں کی نوآبادیاتی دور کی مقامی حکومتوں سے معاہدے بھی کئے ہو ئے تھے۔ یوں 1946-47 سے دنیا میں نو آبادیاتی غلام ملکوں کو مرحلہ وار سیاسی آزادیاں دینے کا آغاز ہوا اور ستر کی دہائی تک عرب امارت سمیت بہت سے ممالک آزاد ہو ئے، جب کہ ہانگ کانگ کو 1990 کی دہائی میں معاہدے کے مطابق چین کے حوالے کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ غلام ملکوں کے عوام جدید تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے، یوں برطانیہ ، فرانس ، ہالینڈ، پرتگال ، اسپین، اٹلی اور پھر بہت سے مقامات پر دوسری جنگ عظیم میں بڑے فاتح کے اعتبار سے امریکہ جب یہاں سے رخصت ہوئے تھے تو انھوں نے یہاں سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ چار طریقوں سے ان ملکوں پر اپنا اقتصادی کنٹرول رکھا۔

1 ۔کسی ملک سے رخصت ہونے سے قبل سرحد کی تقسیم اس طرح کی کہ ہمسائے ممالک سے تنازعات پیدا کر دیئے گئے۔
2 ۔ جاتے وقت ہی ان نو آزاد ملکوں کو قرضوں میں جکڑ لیا گیا اور بعد میں ان پر مزید قرضے ڈالتے گئے۔
3 ۔ جن ملکوں میں معدنی ذخائر تھے یا ان کی بندر گاہیں اہم تھیں وہا ں سرمایہ کار ی کے نام پر کمپنیوں نے اپنی اپنی سابق نوآبادیات کے لحاظ سے اجارہ داری قائم رکھی، مثلاً مصر کی نہر سوئز جس کو بعد میں جرات سے صدر کرنل جمال ناصر نے فرانس اور برطانیہ سے جنگ کرکے قومی ملکیت میں لے لیا مگر جہاں تک تعلق تیل کی تلاش، تیل نکالنے اور اس کی تجارت کے معاہدے تھے ان میں سے بیشتر پر اب تک انہی مغربی ملکوںکا تسلط قائم ہے۔
4 ۔ مقامی لیڈر شپ کو کرپٹ کیا اور کرپشن سے حاصل کیے جانے والے لیڈروں کے کالے دھن کو اپنے ملکوں میں تحفظ دیا اور یہ سب سے خطرناک صورت تھی جس نے پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز سے نقصان پہنچایا۔

جہاں تک تعلق پاکستان کا ہے تو یہاں ان چارطریقوں میں سے زیادہ تر تین پر عمل در آمد ہوا۔ سرحدی تناعات: جب تین جون 1947 ء کو لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے اعلان آزادیِ ہند کیا تو اس وقت بنگال اور پنجاب میں مجموعی طور پر اور قدرے اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر بنگال کے مغربی حصے میں ہندو اکثریت میں تھے اور پنجاب میں مشرقی حصے میں سکھ اور ہندو،آزادیِ ہند کا قانون جب برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا تو ان دونوں بڑی آبادی والے صوبوں کی تقسیم کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ تشکیل دیا گیا اور ریڈ کلف نے مشرقی پنجاب کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تحصیلیں گورداسپو، فیروزپور اور زیرہ کو بھارت کے حوالے کرکے پانی کی تقسیم اور کشمیر کے لیے بھارت کو راستہ فراہم کردیا، یوں پاکستان اور بھارت کو آزادی کے وقت ہی دو بنیادی مسائل کے تحت ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا گیا اور ان دونوں ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہی آزادی کے ایک سال بعد ہو گئی۔

یہی صورتحال مشرق وسطی میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان ہوئی ۔ باقی دو طریقوں کو بھی اسی وقت استعمال کیا گیا یعنی ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ اور لیڈر شپ کی کرپشن، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ اکتوبر1951 سے پہلے کرپٹ نہیں تھی مگر پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب ملک میں اقتدار پر بیورکریسی نے قبضہ کر لیا تو کرپشن عام ہونے لگی، جہاں تک تعلق قرضوں کا تھا تو اس کے لیے بھارت نے منفی کردار ادا کیا، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ملک کی زمین کی تقسیم کے ساتھ اس کے اثاثوں، فوجی سازوسامان اور سنٹرل بنک آف انڈیا کے محفوظ سرمائے جس کی مالیت اس وقت چار ارب روپے تھی اس میں سے ایک ارب روپے پاکستان کا حصہ تھا، مگر بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس سرمایہ کی منتقلی میں نہ صرف بہت دیر کی بلکہ گاندھی جی کی تاکید کو نظرانداز کرتے ہو ئے بے ایمانی کی اور صرف 20 کروڑ روپے دئیے اور ساتھ ہی ہندوستان کے واجب الادا قرضوں کا ایک حصہ بھی پا کستان پر ڈال دیاکہتے ہیں کہ اس وقت قائد اعظم کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکہ سے قرض لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا، لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان کا صرف پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49 تھوڑے سے خسارے کا بجٹ تھا، اس کے بعد مسلسل کئی قومی بجٹ خسارے کی بجائے بچت کے بجٹ تھے۔

یوں اگر شروع میں پاکستان کی اس مضبوط مالی پو زیشن کو برقرار رکھا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ملک اسی وقت سے مالیاتی اور اقتصادی طور پر بھی آزاد اور خود مختار ہوتا۔ مگر جب لیاقت علی خان نے اپنی شہادت سے ایک سال قبل امریکہ کا دورہ کیا تواس وقت سے امریکی امداد کا سلسلہ شروع تھا بہت سے شعبوں میں امداد پہلے دس بارہ برسوںمیں مفت تھی جس میں امدادی طور پر دی جانے والی گندم بھی شامل تھی، مگر پھر آسان شرح سود اور واپسی پر قرضے شروع ہو گئے۔

صدر جنرل ایوب خان کے دور حکومت تک نہ صرف 1952ء میں سوئی بلوچستان میںدریافت ہونے والی قدرتی گیس کے معاہد ے ہو چکے تھے بلکہ 1961-62 میں سندھ طاس معاہدے کے تحت چھ دریائوں میں سے تین مشرقی دریائوں کے پانیوں پر بھارت کے حق کو تسلیم کر تے ہوئے ورلڈ بنک کی مالی معاونت سے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے معاہدے بھی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ہوئے تھے، لیکن اس وقت تک بھی کرپشن کی سطح اور حد خطر ناک نہیں ہوئی تھی اور اُوپر کی سطح پر کرپشن کو قواعدوضوابط کے بہتر نظام نے کنٹرول میں رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ اخلاقی ، تہذیبی اقدارکی سماج میں پاسداری بھی تھی۔

اس دوران 5 مئی 1960ء کو پشاور کے قریب بڈ بیر میں امریکی ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والے U2 جاسوی طیارے کو روس نے مار گرایا اور سابق سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشیف نے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔ پاکستان اُس وقت سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا رُکن بھی تھا اس سے پاکستان پر شدید تنقید تو ہوئی مگر فوری طور پر پاکستان کو اقتصادی اور مالیاتی طور پر کو ئی نقصان نہیں پہنچا۔ پاکستان پر آزادی کے بعد قرضوں کا کوئی قابل ذکر بوجھ نہیں تھا اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 1951ء کی مردم شماری کے مطابق 3 کروڑ 40 لاکھ تھی، ایک امریکی ڈالر کی قیمت 1954 تک تین روپے تھی،1961ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ ہو گئی جس میں مغربی پاکستان کی آبادی4 کروڑ 28 لاکھ تھی، اس دوران پاکستان کے تعلقات امریکہ اور برطانیہ سے بہت اچھے تھے، 1945-53 امریکہ میں ہیر ی ایس ٹرومین،1953-61 میں آئزن ہاور صدر رہے جب کہ برطانیہ میں1945-51ء ایٹلی اور 1951-55میں دوبارہ چرچل،1955-57 سر انتھو نی ایڈن، 1957-63میں ہارولڈ میک میلن وزیر اعظم رہے۔اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر 1955 تک 121 ملین ڈالر کے قرضے لیئے گئے۔

1960 تک یہ رقم 365 ملین ڈ الر تک پہنچ گئی۔ اس دوران پاکستان نے سرد جنگ میں سابق سوویت یونین کے خلاف اور امریکہ و برطانیہ کے حق میں اہم کردار ادا کیا۔اس دور میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بطور جمہوری ملک اُس وقت عالمی سطح پر شہرت کے ساتھ اہمیت بھی اختیا ر کر لی۔ جہاں تک پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اُس وقت بھی پاکستان نے کو شش کی کہ سوویت یونین اور چین سے اس کے بھی تعلقات بہتر ہوں مگر ہندوستان نے پہلے ہی سے سیکولر نظریہ کے تحت بھارت کا آئین تشکیل دے کر چین اور روس سے بہتر تعلقات قائم کر لیے تھے اور پاکستان چونکہ د و قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس لیے نظریاتی طور پر ان دونوں ملکوں سے تعلقات بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر نہیں تھے اور پاکستان کے لیے اور کو ئی راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ سے اس لیے تعلقات قائم کر ے کہ اسے بھارت سے خطرات لاحق تھے۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ لیا قت علی خان کے بعد ہم امریکی تعلقات کے لحاظ سے سابق سوویت یونین اور چین سے اپنے تعلقات کو متوازن نہ کر سکے لیکن ساٹھ کی دہا ئی کے آغاز پر جب پہلے سوویت یونین اور چین اور پھر 1962 میں چین اور بھارت تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان کو علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اپنے ہمسائے میں چین جیسے بڑے اور اہم ملک سے تعلقات کو بہتر اور مضبوط کرنے کا مو قع ملا اور خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کے دور میں پاک چین تعلقات کی مضبو طی میںاہم کردار ادا کیا۔ اگر آج سی پیک یعنی پاک چین راہد اری اہم ہے تو اُس وقت شاہراہِ قراقرم اہم تھی کہ پاک فوج نے یہاں ہمالیہ کے درے میں دنیا کے بلند مقام پر نہایت دشوار گذار علاقے میں یہ شاہراہ تعمیر کی تھی۔ یہ پاکستان میں بڑے اور اہم منصوبوں کی تعمیر کا تاریخی دور تھا، جب ایک جانب منگلا اور تربیلا ڈیمز تعمیر ہو رہے تھے تو دوسری طرف اس عظیم شاہراہ کی تعمیر تھی۔

اس دوران 1965ء کی پاک بھارت جنگ ایک اہم اور بڑا واقعہ تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ پاکستان کو سبقت حاصل رہی مگر پاک امریکہ تعلقا ت کو سرکاری سطح پر کم اور عوامی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور بھارت پر ہتھیارو ں کی سپلائی پر پابندی عائد کردی، بھارت تو سوویت یونین سے بھی اسلحہ لیتا تھا جب کہ پاکستان کا سارا دارومدار صرف امریکہ پر تھا اس لئے بھارت کے مقابلے میں امریکی اسلحہ کی بندش کا کہیں زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا اور یہی وجہ تھی کہ صدر ایوب خان کو معاہدہ تاشقند کرنا پڑا۔ 1961-63 میں امریکہ میں جان ایف کینیڈی، 1963-69جانسن اور 1969-74میں رچرڈ نیکسن صدر رہے ۔

جب کہ برطانیہ میں 1963-64 میں سر ایلک ڈیگلس ہیوم، 1964-70میں ہارولڈویلسن وزیر اعظم رہے۔ 1965ء سے پاکستان بحران کا شکار ہونے لگا۔ امریکی امداد گرانٹ یعنی نا قابلِ واپسی جو، گندم اور دیگر غذائی اجناس کی صورت میں ملتی تھی اس میں بہت زیادہ کمی آئی، مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا۔ بھٹو کے استعفیٰ کے بعد سیاسی بحران بڑھنے لگا۔ 1969 میں جب صدر ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحٰی خان صدر ہوئے تو پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 2.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1970ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے گئے۔ دسمبر1971 میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس دوران ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور مشرقی پا کستا ن کے بنگلہ دیش بن جا نے پر اُس کے حصے کا قرض بھی پاکستان پر آن پڑا اور بیرونی قرضے کا حجم 3 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس دوران صدر نکسن اور صدر یحیٰ خان اور پاکستانی چینی وزارت خارجہ کی باہمی رضا مندی سے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دور کیا جو سابق سوویت یونین اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے فوراً بعد میں ہوا تھا۔ مگر یہ دورہ خفیہ نہ رہ سکا اس لیے بھارت اور روس میں جنگ 1971 سے پہلے دفاعی معاہد ہ ہو گیا جس کا پاکستان کو دوران جنگ بہت نقصان ہوا۔

1972 میں ملک میں مردم شماری ہو ئی جس کے مطابق کل آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ ہو گئی جب کہ 1970 میں ڈالر کی قیمت 5 روپے اور 1972میں 10 روپے ہو گئی مگر یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ پاکستان کی تجارت پہلے پچاس کی دہائی میں کوریا کی جنگ میں سرپلس ہوئی اور پھر 1972ء میں روپے کی قیمت میں زیادہ کمی کی وجہ سے ہو ئی۔ 1972 تا 1977 پاکستان میں ترقی کا حقیقی دور رہا اور صدر ایوب خان کے بعد ملک میں اسٹیل ملز سمیت بڑے ترقیاتی اور پیداواری یونٹ لگائے گئے لیکن ان کے ثمرات ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ پہلے ملک میں سیاسی بحران نمودار ہوا اور پھر افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی جارحیت سے صورتحال علاقائی اور عالمی سطحوں پر بدلنے لگی اور 1946-47 سے شروع ہونے والی سرد جنگ شدت اختیار کرتے ہوئے اپنے حتمی انجام کی جانب تیزی سے بڑھنے لگی۔1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 6.3 ارب ڈالر ہوگیا تھا، 1981ء میں آبادی 8 کروڑ37 لاکھ ہوگئی۔ اس کے بعد اگست 1988تک صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت رہی جس میں 1985ء سے 1988ء تک وزیراعظم محمد خان جونیجو رہے۔

اس دور میں 1974-77 میں جیرالڈ فورڈ، 1977-81 میں جمی کارٹراور 1981-89 میں رونالڈ ریگن امریکہ کے صدر رہے جب کہ برطانیہ میں 1970-74میں ایڈ ورڈ ہیتھ، 1674-76 میں ہارورڈ ویلسر، 1976-79 میں جیمس کالاگ ہر اور 1979-90 میں مارگریٹ تھیچر وزراء اعظم رہے۔ ستر کی دہائی میں 1973 کی عرب اسرئیل جنگ کے بعد تیل کے عالمی بحران کے ساتھ یورپ اور امریکہ اپنی عالمی سیاسی اقتصادی منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرتے رہے، بھٹو دور حکومت میں 35 لاکھ پاکستانیوں کے بیرون ملک جانے اور وہاں سے کما کر زرمبادلہ بھیجنے کی وجہ سے پاکستا ن میں نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے بلکہ مستحکم بھی ہوئے جبکہ 1977-88 میں ملک پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 12.913 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1988 میں ڈالر کی قیمت 20 روپے ہو گئی۔

1988 سے1999ء تک دو، دو مرتبہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں۔ 1998ء میں مردم شماری کرائی گئی اور آبادی 13کروڑ 23 لاکھ ہوگئی۔اس دوران 1989-93 میں جارج ایچ ڈبلیو بش، 1993 تا 2001 میں ویلم کلنٹن امریکہ کے صدور رہے اور برطانیہ میں 1990-97ء میں جان جیمس، 1997 تا2007 میں ٹونی بلیئر وزیر اعظم رہے۔ پاکستان برطانیہ کی نو آبادی رہا تھاجب کہ افغا نستان، روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان حائلی ریاست ’’بفر اسٹیٹ ‘‘ تھا۔ اس کے بفر اسٹیٹ بننے کے دوران تین اینگلو افغان جنگیں 1839-42، اس کے بعد 1878 اور آخری برطانوی افغان جنگ 1919 میں ہوئی۔

1878ء کے بعد انگریزوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں ریلو ے لائنیں بچھائیں جو اس زمانے میں بھی خسارے میں تھیں اور ان کا خسارہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی ریلوے کمپنیاں اپنے نفع کے کچھ حصے سے پور ا کر تی تھیں۔ یوں 1945 میں جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں اس محاذ پر امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کو زک پہنچ رہی تھی، اس لیے یہاں افغان مجاہدین کی بھر پور مدد کی گئی اور گرانٹ کی صورت میں پاکستا ن کے نقصان کے ازالے کی بھی کوشش کی گئی مگر یہ یہاں زیادہ تر رقوم فوجی اسلحہ اور ہتھیاروں پر خرچ ہوئیں جس میں اسٹنگر میزائل جیسے مہنگے ہتھیار بھی شامل تھے، اور جہاں تک پاکستان کے نقصان کے ازالے کی بات ہے تو یہ اُس وقت بھی اصل نقصا ن کے مقابلے میں رقم بہت کم تھی۔ امریکی حکومت نے یہاں اُس وقت بھی بہت سی رقوم براہ راست خرچ کیں۔

اس تمام تر صورتحال کا سماجی، سیاسی ، اقتصادی نقصان بھی پاکستان کو ہوا جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ 1988 میں ڈالر 20 روپے کا تھا جو1997 میں 40 روپے کا ہو گیا اور2001 میں ڈالر کی قیمت 60 روپے ہو گئی۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، 1988 میں بیرونی قرضے12.913ارب ڈالر تھے جو 1990 میں بڑھ کر22.28 ارب ڈالر،1991میں 24.8 ار ب ڈالر، 1993میں 27.6 ارب ڈالر، 1994 میں31.1 ارب ڈالر، 1995 میں32.7 ارب ڈالر، 1996 میں 34.7 ارب ڈالر، 1997 میں 35.8 ارب ڈالر، 1998 میں 35.8 ارب ڈالر، 1999میں36.5 ارب ڈالر ہو گئے۔ اِس دوران مئی 1998 میں پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے اور اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا اور دو سال تک اقتصادی اصلاحا ت کی ا جازت کے بعد ملک میں عام انتخابات کروائے گئے۔

پرویزمشرف کے آنے کے بعد ایک جانب ابتدائی دنوں میں ان کے وزیر خزانہ شوکت عزیر جو بعد میں وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے 2000 تا 2002 انہوں نے اخراجات پر کنٹرول کیا۔ اس دوران 9 ستمبر2001 کے واقعہ نے پہلے ہماری معیشت کو دھچکا لگایا مگر فوراً بعد میں امریکہ کے مفادات کی وجہ سے امریکی امداد اور دہشت گردی کے خلافت معاونت اور پاکستان کی سر زمین کے استعمال کے نقصانات کے ازالے کے لیے کلوژن سپورٹ فنڈ کی مد میں بھی فنڈز آنے لگے جس کو حالیہ دنوں میں امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالتے ہو ئے روک دیا اور اب پھر سے نرمی کا عندیہ دیا ہے۔ یوں پرویز مشرف کے زمانے میں خصوصاً عام انتخابات 2002 کے بعد سے صدر پرویز مشرف کی رخصتی 2008 تک ملک پر بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 40.5 ارب ڈالر تھا، 2008 میں ڈالر کی قیمت 80 روپے ہو گئی، 2001 سے2009 تک بش سینئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر ہوئے، جنہوں نے پہلے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیں اتاریں اور بعد میں مشرق وسطی میں بھی کاروائی شروع کر دی۔

ان کے بعد 2009-17 میں باراک اوبامہ امریکہ کے صدر رہے اور پھر 2017 سے تا حال ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں اور برطانیہ میں 2007-10 میں گورڈن برائون کے بعد ڈیوڈ کیمرون اور اب دوسال سے تھریسا مے وزیر اعظم ہیں۔ 2013 میں ہمارے ہاں ڈالر 100 روپے کا تھا۔ 2017 میں مردم شماری کرائی گئی جس میں پاکستان کی آبادی20 کروڑ 77 لاکھ ہو گئی۔ 2017 تک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 104 روپے رکھا گیا۔ 2018 جون میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے برطانیہ میں بظاہر علاج کی وجہ سے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ مقرر کیا، حالانکہ اُس وقت اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت مالی سال 2017-18 کا بجٹ پیش نہ کرے کہ اخلاقی طور پر اُسے اس کا جمہوری حق حاصل نہیں، مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کے وزیر اعظم شاہد خان عباسی کی کا بینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ تین مہینے کا مختصر بجٹ پیش کرنے کی بجائے آئندہ مالی سالی کا پورا بجٹ پیش کرے گی، یوںملک کی پارلیما نی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ حکومت میں چھ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ قائم کیا، اس بجٹ کے بعد ڈالر کی قیمت 140تک پہنچی اور اب ڈالر 130 روپے کا ہے۔

27 ستمبر 2018 کو پاکستان تحر یک انصاف کی حکومت کے چالیس دن پورے ہونے پر وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے مشترکہ کانفرنس میں ملک کی اقتصادی مالیاتی صورتحال بیان کی۔ عمر ایوب خان جو سابق صدر جنرل ایوب خان کے پوتے اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایو ب خان کے بیٹے ہیں اور 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ انہوں نے بجٹ مالی سال 2018-19 کے بارے میں انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ سینکڑوں اربوں روپے کے اعداد و شمار کو بجٹ دستاویز میں چھپایا گیا اور ایسے اقدامات کئے گئے جو پی ٹی آئی کی حالیہ حکومت کے لیے ٹائم بم یا بارودی سرنگ ثابت ہو رہے ہیں اور ان کی پوری تفصیلا ت سے آگاہ کیا،2013, کے آخر تک قرضے 66 ارب ڈالر تک پہنچے، ان میں سے پی پی پی حکومت نے کچھ واپسی بھی کی مگر 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال جون 2018 تک بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر کی حد کو عبور کرگئے، اور اندرونی، گردشی قرضے،29 ہزار ارب روپے بتائے جا رہے ہیں۔

یوں پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی شدید معاشی، اقتصادی اور مالیاتی بحران کی زد میں ہے اور یہ صورتحال ملک کو اُس وقت لاحق ہے جب پوری دنیا میں سیاسی فیصلوں پر عملدر آمد کے لیے بڑی قوتیں ایک جانب ترقی پذیر ملکوں پر اقتصادی مالیاتی معاشی دبائو میں اٖضافہ کر رہی ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور چین کے درمیان اب تقریباً تین سو ارب ڈالر سے زیادہ تجارتی مال پر ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافہ کر کے ایک تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ روس پر اور اس کے خلاف ہتھیارواسلحہ کی فروخت خصوصاً روس کے جدید میزائلوں کی فروخت پر بھی امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایران اور روس سے تجارت اور کاروباری معاہدو ں کی بھی امریکہ مخالفت کر رہا ہے اور اس طرح اب امریکہ کا دبائو بھارت پر بھی پڑنے لگا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کو نہ صرف اپنے قرضے واپس کرنے ہیں بلکہ تیزرفتاری سے اپنے پیداواری شعبوں کو مستحکم کر کے پیدوار اور روزگار میںاضافہ کرناہے، تجارتی توازن کو اپنے حق میں کرنا ہے، یہ تمام امور جتنے اہم ہیں اُتنے ہی مشکل بلکہ مشکل ترین ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اصل قرضوں کی واپسی تو اپنی جگہ ان پر واجب الادا سود ہی تقریباً نو ارب ڈالر تک پہنچ رہا ہے۔ 27 ستمبر ہی کو خاتونِ اول محتر مہ بشریٰ بی بی نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ عمران خان کے پاس کو ئی جادو نہیں کہ اتنے مسائل چند دنوں میں حل ہو جائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ مسائل وہ اپنے دور حکومت میں حل کر دیں گے۔ ہمیں بھی وزیر اعظم سے یہی امید ہے لیکن حقائق کی روشی میں دیکھیں تواس کی دو تین صورتیں ہی نظر آتی ہیں، اچانک ہمارے ملک میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو جائیں یا امریکہ کسی طرح پھر کہیں اس طرح پھنس جائے کہ پاکستان کے قرضوں کی معافی بھی ہو جائے اور امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے ناقابلِ واپسی یعنی اربوں ڈالر اور یورو کے دروازے کھل جائیں اور تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں ہر صورت واپس لائی جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ حالیہ قانون کے تحت اس دولت کو واپس لانے میں طویل عرصہ درکار ہے۔ یوں یا تو اس کے لیے نئے اور سخت قوانین فوراً بنائے جا سکتے ہیں مگر وہ اس لیے ممکن نہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اہم لیڈروں کے خلا ف زیادہ تر مقدمات ہیں اور پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں اتنی اکثریت نہیں کہ وہ ان دونوں جماعتوں کی شراکت کے بغیر قانون سازی کر سکیں پھر یہ بھی ہے کہ چند کالی بھیڑیں اِن میں بھی مو جود ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ عمران ان کی قربانی پر راضی ہیں، یوں ایک ہلکی سی امید یہ ہو سکتی ہے کہ جہاں تک حالیہ قوانین کا تعلق ہے تو اُن کے تحت اس وقت بیرون ملک سے پاکستان کی لو ٹی ہوئی دولت اس طرح واپس لائی جا سکتی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کا قبلہ مکمل طور پر درست ہو جائے اور وہ ممالک جہاں یہ دولت موجود ہے اُ ن کو تعاون کے لیے آمادہ کر لیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سو دنوں کی مدت میںعمران خان اس حوالے سے کتنی حوصلہ افزا پیش رفت کرتے ہیں۔

27 ستمبر ہی کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری میں شائد خواجہ آصف کی روح حلول کرگئی تھی اور اُنہوں نے نہایت جذباتی انداز میںگذ شتہ حکومتو ں پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات عائد کرتے ہوئے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جس پر اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا اور پھر فواد چوہدری کی جانب سے ایوان سے معافی مانگنے پر اپوزیشن واپس ایوان میں آئی۔ یوں اسمبلی کے ہنگاموں سے اب عام آدمی کو کوئی مطلب نہیں اور اگر مطلب ہے تو واقعی اُس تین سو ارب ڈالر سے زیادہ لو ٹی ہو ئی قومی دولت سے ہے جس کی 30% واپسی سے ہی قوم کے مقدر بدل جا ئیں گے، اب اللہ تعالیٰ کی مدد سے عمران کیسے قوم کی تقدیر بدلتے ہیں یہ دیکھنا ہے۔

The post امداد سے شروع ہونے والا سلسلہ قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تک کیسے پہنچا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


بھائی ولیم مستقبل میں مٹرگشت کر آئے

$
0
0

علامہ اقبال نے مسلمانوں سے کہا تھا:

کھول کر آنکھیں مِرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دُھندلی سی اک تصویر دیکھ

ہم آنے والے دور کی تصویر تو خیر کیا دیکھتے، ہم نے تو ان کے ’’کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ‘‘ کے فرمان پر بھی عمل نہیں کیا، ہم میں سے کسی نے جس پہ ڈالی بُری نظر ڈالی اور ’’ایک ایک کو دیکھ لوں گا‘‘ کہتے ہوئے نیل کے ساحل سے لے تابہ خاک کاشغر ہر ایک سے جنگ مول لے لی اور کوئی ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگیا، لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آنے والے دور کی تصویر دیکھنے کے بہ جائے اس کی وڈیو میں جاپہنچے۔

ایسے ہی ایک صاحب ہیں برطانیہ کے ولیم ٹیلر، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹائم مشین پر سوار وقت میں سفر کرتے ہوئے سن 8973 میں جاپہنچے تھے، جہاں ان کی ملاقات عجیب وغریب انسانوں سے ہوئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے 8973 میں چھے گھنٹے گزارے۔ اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے انھیں جھوٹ کی کھوج لگانے والی مشین (lie detector) کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ اس آزمائش میں سچے ثابت ہوئے۔

مستقبل کا دورہ کرنے والے ان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اس زمانے سے کبھی واپس آنا نہیں چاہتے تھے، کیوں کہ وہ ایک مثالی دنیا تھی، جہاں نہ کوئی جُرم تھا نہ تنازعہ۔

ولیم کا کہنا ہے کہ ان کا یہ ’’دورہ‘‘ حکومتِ برطانیہ کے ایک خفیہ منصوبے کا حصہ تھا۔

ولیم کے مطابق وہاں ان کی ملاقات ملی جلی انسانی اور مشینی خصوصیات کے حامل انسانوں سے ہوئی، جن کے سر اور آنکھیں بہت بڑی لیکن منہہ چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان خواتین وحضرات کو لافانی زندگی مل چکی تھی اور یہ لوگ آپس میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے بھی رابطہ کرتے تھے۔ تاہم ولیم کو ان سے انگریزی بولنے اور انھیں سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ ان کے دماغوں میں ایک چِپ نصب تھی، جو کسی بھی زبان میں بولے جانے والے الفاظ کا ترجمہ کردیتی تھی۔

ولیم بھیا وہاں بس جانے کی خواہش اس لیے پوری نہ کرسکے کہ ’’آسمان سُرخ تھا، ہر طرف فضائی آلودگی تھی، مجھے احساس ہوا کہ ہوا میں تابکاری کے اثرات ہیں۔‘‘ چناں چہ انھوں نے واپسی کی راہ لی۔

وہ یہ خوش خبری بھی سناتے ہیں کہ 2028 تک ہر ایک کے لیے وقت کے دھار پر بہتے ہوئے مستقبل کے کسی بھی دور میں پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔

بھائی ولیم نے اس وقت کا تعین تو کردیا جس میں وہ جاپہنچے تھے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سا دیس تھا، کون سا شہر تھا، انھیں پہنچتے ہی پوچھنا چاہیے تھا ’’یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا مقام ہے۔‘‘ ہوسکتا ہے وہ ’’نیا پاکستان‘‘ ہو، جہاں سے جرائم اور تنازعات کا خاتمہ ہوچکا ہو اور پاکستانیوں کو خوش اور پُرسکون دیکھ کر آسمان کا چہرہ خوشی سے سرُخ ہوگیا ہو، لیکن تبدیلی کے بعد والے نئے پاکستان میں فضائی آلودگی کیسے ممکن ہے، جب تک تو ہر طرف درخت ہی درخت ہوں گے، مگر مستقبل کے پاکستانیوں کے بڑے بڑے سَروں، بڑی بڑی آنکھوں اور ننھے سے منہہ کا سبب سمجھ میں نہیں آیا۔ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ درختوں کی تلاش میں آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھتے دیکھتے آنکھیں پھیل گئیں، مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر سر سوج کر بڑے ہوگئے، اور منہہ اس لیے چھوٹے کر دیے گئے کہ یہ چھوٹے منہہ کوئی بڑی بات نہ کرسکیں۔

ویسے ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ چِپ لگے دماغوں والے انسانوں کا ہونا مستقبل والوں کا کون سا کارنامہ ہوا، ہمیں تو اپنے ملک میں جابہ جا ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنھیں سُن کر لگتا ہے کہ ان کے بھیجے میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کی چِپ جَڑی ہوئی ہے، سو جو الفاظ موصول ہوتے ہیں جوں کے توں زبان پر آجاتے ہیں۔

خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ولیم صاحب شادی شدہ ہیں یا کنوارے، اگر بیوی والے ہوتے تو یقیناً وقت میں سفر کرنے سے پہلے ہی ان پر بُرا وقت آجاتا، جب سوال ہوتے ’’کہاں جا رہے ہیں، کیوں جارہے ہیں، اکیلے جا رہے ہیں یا کسی کے ساتھ، کب آئیں گے۔۔۔ میں بھی چلوں گی۔‘‘

ویسے ولیم بھائی اگر پاکستان میں ہوتے تو اپنے دعوے کے بعد ’’بابا ولیم‘‘ بنادیے جاتے اور ان سے اس قسم کی فرمائشیں کی جارہی ہوتیں،’’بابا! ذرا اگلے سال کا دورہ کرکے بتانا میرے ہاں اولاد ہوگی؟‘‘،’’سرکار! ذرا الیکشن کے اگلے دن میں کود کر یہ تو بتاؤ میں جیتا یا نہیں؟‘‘،’’باباجی! اگلے پندرہ سال کا ایک چکر لگا آئیں اور دیکھیں کہ میرے شوہر سوتن تو نہیں لے آئے، اگر لائے ہوں تو مجھے وہیں بیوہ کردیجیے گا۔‘‘

عام پاکستانی تو ان سے بس یہی گزارش کرتا کہ بھیا ولیم! ذرا پانچ سال کے اُدھر کا پھیرا لگا کے اتنا بتا دو کہ پاکستان میں کتنے پیڑ لگے، غریبوں کے لیے کتنے گھر بنے اور کتنے بے روزگاروں کو روزگار ملا؟

The post بھائی ولیم مستقبل میں مٹرگشت کر آئے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہوا ہوئی بِکاؤ مال

$
0
0

آپ نے ہوا اُکھڑنے کا ذکر سُنا ہوگا، غبارے سے ہوا نکلنے کے محاورے سے بھی واقف ہوں گے، لیکن یہ اطلاع آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی کہ ہوا بیچی اور خریدی بھی جاسکتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی نے تازہ ہوا فروخت کرنے کا کاروبار شروع کیا ہے۔

کمپنی نے ادراک کرلیا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا خصوصاً بڑے شہروں کی فضا اتنی آلودہ ہوجائے گی کہ لوگ تازہ اور صاف ستھری ہوا کے لیے ترس جائیں گے، چناں چہ تازہ ہوا کے کین مارکیٹ میں متعارف کرا دیے گئے ہیں۔ ابھی یہ عمل تجرباتی طور پر شروع کیا گیا ہے لیکن سرمایہ داروں اور صنعتی ممالک کے لالچ کی آگ ماحول کو جس طرح جھلسا رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم وہ تاریک دن بھی دیکھیں گے جب منرل واٹر کی طرح ایک جھونکے کو راحت جاں بنانے کے لیے ہمیں کین میں بھری ہوا خریدنی پڑے۔ ہمارے آپ کے لیے تو یہ خدشہ ہے، لیکن انسان کی ہر ضرورت اور مجبوری سے زرگری کرنے والوں کے لیے یہ چمکتا دمکتا امکان ہے، جس کے پیش نظر ممکن ہے آلودگی پھیلانے کا عمل تیز کردیا جائے، تاکہ تازہ ہوا کی فروخت کا کاروبار شروع کیا جاسکے۔

فضائی آلودگی کی صورت حال یہی رہی تو تازہ اور صاف ہوا بیچنے کا کاروبار یوں دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا کہ ہوا بھرے کین ہر ایک کی ضرورت بن جائیں گے۔ پھر بیویاں سودے کی فہرست بناتے ہوئے ’’ہَوا کی بوتل ۔۔۔پانچ عدد‘‘ سرفہرست لکھا کریں گیِ، اور سودے کی پرچی شوہر کو تھماتے ہوئے ’’پچھلی بار اب جو ہوا کی بوتل لائے تھے اس کی ہوا سے پسینے کی بُو آرہی تھی، اب کی کسی اور کمپنی کی لائیے گا‘‘ کا حکم بھی جاری کردیں گی۔

ہوائی اسپرے کے اشتہارات شایع اور نشر ہوا کریں گے، جو اس طرح کے ہوں گے:

’’ہماری بوتل میں ملے صاف ہَوا، جس کا وجود ماضی ہُوا‘‘

’’پُھس پُھس ہوائی اسپرے۔۔۔۔پھیپھڑے تازہ ہوا سے بھرے‘‘

کمپنیاں مختلف خوشبوئیں ملا کر ہوا بیچیں گی، مارکیٹ میں غریبوں کے لیے ہوا بھری چھوٹی چھوٹی بوتلیں دست یاب ہوں گی اور امیروں کے لیے ہوا کے سلنڈر فروخت کیے جارہے ہوں گے۔

ہم سوچ رہے ہیں کہ اب تک تو ہمارے شاعر ہوا کو ذاتی ملازمہ سمجھ کر اس پر حکم چلاتے اور کام لیتے رہے ہیں، جیسے ’’ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لُٹا دے‘‘، کبھی ہوا پر پیغام لکھ کر بھیج دیا، کبھی کہہ دیا ہوا جا فٹ دھنی سے محبوب کی مہک لے آ، لیکن آلودگی سے بھاری ہوجانے والی ہوا ایسی کوئی بھی فرمائش سُن کر تَڑ سے جواب دے گی،’’میرا اپنا چلنا مشکل ہے اور میں تمھارے لیے خوشبو اور پیغام ڈھوتی پھروں، میاں! جیب ڈھیلی کرو اور صاف ہوا خرید کے اپنے شوق پورے کرو، ہنہہ مُفتے کہیں کے۔‘‘

The post ہوا ہوئی بِکاؤ مال appeared first on ایکسپریس اردو.

بھیا عادل عبدالمھدی۔۔۔ یہ کس جوکھم میں پڑگئے!

$
0
0

عراق کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے کمربستہ عادل عبدالمھدی نے اپنی حکومت کے وزراء کا چناؤ کرنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔

انھوں نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جس پر کسی بھی وزارت کے امیدوار مطلوبہ وزارت سنبھالنے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ عادل عبدالمھدی رواں سال ہونے والے انتخابات کے بعد دو اکتوبر کو وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے کام یاب قرار پائے تھے، اور آئین کی رو سے وہ یکم نومبر تک اپنی حکومت تشکیل دینے کے پابند ہیں۔

عادل عبدالمھدی کی قائم کردہ ویب سائٹ پر وزیر بننے کے خواہش مند افراد کو درخواست بھیجنے کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی ہے، جو ان سطور کی اشاعت تک پوری ہوچکی ہوگی۔ درخواست گزار کو اپنے ذاتی کوائف دینا ہوں گے، اپنی سیاسی سمت کے بارے میں بتانا ہوگا، اور اگر وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہے تو یہ وابستگی ظاہر کرنا ہوگی۔ جو خواتین وحضرات درخواست دیں ان کا یونی ورسٹی کی سند یا اس کے برابر تعلیمی قابلیت کا حامل ہونا ضروری ہے۔

اپنی پسند کی وزارت کے لیے درخواست دینے والے کو مطلوبہ وزارت کے بارے میں اپنا ویژن اختصار کے ساتھ تحریر کرنے کا پابند کیا گیا ہے، جس کے ذریعے اسے خود کو ایک کام یاب راہ نما کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ٹیم کی سرگرمیوں کو کس طرح مُنَظّم کرے گا؟ اسے مطلوبہ وزارت سے متعلق مسائل کے عملی حل بھی پیش کرنا ہوں گے۔

یوں تو ہمیں ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ کے سنہری قول پر عمل کرنا چاہیے، لیکن ہم پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں، پھر معاملہ کسی برادر مسلمان ملک کا ہو تو یہ عبداﷲ کچھ زیادہ ہی دیوانہ ہوجاتا ہے۔ سو ہم ہم عادل عبدالمھدی صاحب سے پوری دردمندی اور اپنائیت کے ساتھ کہیں گے کہ بھیا! کس جوکھم میں پڑگئے، وزیراعظم بنو اور ریوڑیوں کی طرح وزارتیں اپنے حامیوں اور اتحادیوں کے ریوڑ میں بانٹ دو۔ یہ اتنی ساری درخواستیں وصول کرنا، ان میں دیے گئے ویژن اور مسائل کے عملی حل کو پڑھنا، غور کرنا، رائے قائم کرنا۔۔۔۔اتنا جھنجھٹ پالنے کی کیا ضرورت تھی۔

لگتا ہے انتخابات کے دوران بڑے بڑے دعوے اور وعدے نہیں کیے ہوں گے، جنھیں سُنتے ہی عراقی ایمان لے آتے کہ عادل صاحب کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے، اقتدار میں آتے ہی وہ گھمائیں گے اور تباہ حال عراق لمحوں میں الف لیلوی عراق میں بدل جائے گا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو اتنی محنت کی ضرورت نہ پڑتی، ہاں یہ ضرور ہوتا کہ اچانک سر پر آپڑتی، لیکن پریشانی کیسی، جو اپنے سر پر پڑتی وہ اٹھاکر اپنی قوم کے سر پر ڈال دیتے، قوم بے چاری تمھارے وعدوں اور دعوؤں کی موسیقی پر سر دُھنتی رہتی اور منتظر رہتی کہ جادو کی چھڑی اب نکلی کے نکلی، گھومی کے گھومی۔

The post بھیا عادل عبدالمھدی۔۔۔ یہ کس جوکھم میں پڑگئے! appeared first on ایکسپریس اردو.

چینی معاشرہ ہر زاویئے سے نظم و ضبط میں ڈھلا ہوا ہے

$
0
0

محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان سے بطور سینئر پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ انگریزی ادب اور ابلاغ عامہ کے مضامین میں ماسٹر ڈگری رکھنے والے محمد کریم احمد2003ء میں ریڈیو پاکستان سے بطور پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہوئے۔

پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اسی دوران یکم اگست2015ء سے 31جولائی 2018ء تک تین برس کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل بیجنگ کی اردو سروس سے بطور غیرملکی ماہر وابستگی رہی۔ انہوں نے اپنی اس سلسلہ وار تحریر میں چین میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے ساتھ اپنی تین سالہ وابستگی کے دوران گزرنے شب و روز کا احوال قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس تحریر کے ذریعے چینی قوم اور ریاستی اداروں کی ایک خصوصیات کا بطور خاص ذکر کیا ہے جن کی بدولت چین آج دنیا کے چند ایک طاقتور ترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ یہ سلسلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔


٭٭٭
CRIیعنی چائنا ریڈیو انٹرنیشنل چین کی آزادی سے تقریباً آٹھ برس قبل 3دسمبر1941ء کو ریڈیو پیکنگ کے نام سے قائم کیا گیا تھا جو بعد میں ریڈیو بیجنگ ہوگیا۔ سی آر آئی کے تحت بیجنگ نیوز اوربیجنگ انٹرنیشنل کے نام سے اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں سی آر آئی کے 6علاقائی بیورو ہیں جن کے تحت بیرون ملک 32نیوز بیوروز کام کررہے ہیں۔ سی آر آئی دنیا کی 65زبانوں میں روزانہ 2700گھنٹے پر مشتمل پروگرام نشر کرتا ہے۔

چین میں انقلاب کے لیے سرگرم چینی کمیونسٹ پارٹی نے پہلی مرتبہ ریڈیو کا استعمال 1941ء میں صوبہ Shaanxiشانگزی کے علاقے یاننYanan میں کیا۔ یہ نشریات روس سے منگوائے جانے والے ایک ٹرانسمیٹر کے ذریعے کی گئیں۔ یہیں سے 30دسمبر 1940ء کو ژن ہوا چائینز ریڈیو (XNCR) کی نشریات کا آغاز ہوا۔ 1945ء میں نشریات کے دائرہ کار کو مزید وسعت ملی۔ 1947ء میں جب چین میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی تو تائی ہانگ پہاڑی سلسلے کی ایک غار سے ریڈیو کی نشریات جاری رکھی گئیں۔ 1949ء میں جب انقلاب کی کامیاب تکمیل کے بعد چین کی آزادی کا اعلان کیا گیا تو ریڈیو اسٹیشن بھی دارالحکومت پیکنگ (بیجنگ) منتقل کردیا گیا۔

10اپریل 1950ء کو اس کا نام بدل کر ریڈیو پیکنگ رکھ دیا گیا اور 1983ء کو یہ نام ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوکر ریڈیو بیجنگ ہوگیا۔ یکم جنوری 1993ء کو یہ نام ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوا اور اب اسے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل قرار دے دیا گیا۔مقامی بیجنگ ریڈیو براڈکاسٹنگ سے الگ شناخت کو واضح کرنے کے لیے 2011ء میں چائنا انٹرنیشنل براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک کی باقاعدہ تشکیل عمل میں آئی گئی جو بین الاقوامی نشریات کے تمام امور کو مربوط کرتا ہے۔

(پہلی قسط)
زندگی ایک سفر ہے جس میں مختلف مراحل اور نشیب و فراز آتے ہیں۔شاہراہِ حیات پر چلتے ہوئے کئی طرح کے تجربات اور مشاہدات ہماری زندگی کا حصہ بنتے ہیں جو زادِ راہ کی صورت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ زندگی کے اسی اتار چڑھاو میں جہاں انسان زندگی کے حقائق کی نت نئی جہتوں سے آشنا ہوتا ہے وہیں اُس کی پیشہ وارانہ مصروفیات بھی ایک استاد کی طرح اسے نت نئی منزلوں اور مقامات سے اُسے آشنا کراتی ہیں۔ میرے لئے بھی میرے پیشہ ورانہ فرائض ہمیشہ اچھوتے تجربات کا باعث بنتے رہے ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں میرا نیا پڑاو چین تھا اور یوں مشاہدات اور تجربات کے ایک حیرت انگیز سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔

جولائی کے اواخر کی ایک صبح ہمارا طیارہ چین کے دارالحکومت بیجینگ کی فضاوں میں داخل ہوا تو جہاز کی کھڑکی سے باہر کے مناظر بہت دلکش تھے۔ اونچے پہاڑ ،چہار سو پھیلا سبزہ اور جا بہ جا بلند و بالا عمارتیں جہاز کی کھڑکی سے بیجینگ کا پہلا تعارف تھا۔ جہاز سے اُتر کر امیگریشن کی راہ لی۔ وسیع و عریض اور جدید سہولیات سے آراستہ ائیر پورٹ کے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے چین کی ترقی واضح نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کے اجتماعی رویوں اور مزاج کا جائزہ لینے کے لیے سینما گھر، بس اڈے اور عوامی مقامات بہترین انتخاب ہیں۔ تو اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے جائزہ لینا شروع کیا۔ ائر پورٹ پر مختلف سروسز کی فراہمی کے لیے تعینات عملہ چاق و چوبند ، پُراعتماد اور خوش اخلاق تھا۔ ہوائی اڈے کے اندر چینی اور انگلش زبانوں میں لگے مختلف کمرشل اشتہارات اور سائن بورڈز ایک ترتیب اور آہنگ کے ساتھ آراستہ تھے۔ صفائی قابلِ دید او ر قابلِ رشک تھی۔ ایک طویل کوریڈور سے گزر کر امیگریشن کاونٹر ہے۔

وہاں پہنچے تو دیکھا کہ مختلف ممالک سے آنے والے تمام چینی و غیر چینی مسافر ایک لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتطار کر رہے ہیں۔ امیگریشن اہلکار کسی غیر ضروری شغل یا کسی ساتھی اہلکار سے خوش گپیوں میں مصروف ہوئے بغیر اپنا فرض نبھا رہے تھے۔ چینی قوم کا اپنے کام سے کام رکھنے کا یہ پہلا مشاہدہ اپنے قیام کے تین برسوں میں ہمیشہ دیکھنے کو ملا۔ امیگریشن کے مراحل سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو آس پاس موجود جدید ترین سہولیات اورچینی شہریوں کے زیرِ استعمال جدید ترین سمارٹ فونز اور ان کی باڈی لینگوئج ان کی ترقی کا خاموش اور واضح اظہار تھی۔ امیگریشن سے فراغت پائی اور باہر نکلے تو دبلے پتلے طویل قامت پھنگ شون جن کا اُردو نام فراز ہے چین میں ہمارے میزبان ادارے کے نمائندہ کی حیثیت میں استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے پُر اخلاص مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ ان کو دیکھ کر ہمارے ہاں پائی جانے والی ایک غلط فہمی دور ہوئی کہ چینی شہری صرف چھوٹے قد کے ہی ہوتے ہیں۔ فرازصاحب کو اردو بولتے سن کر خوشگوار حیرت ہوئی اوروطن سے دور کسی غیر ملکی سے اپنی زبان میں گفتگو کر کے بیحد خوشی محسوس ہوئی۔

رسمی علیک سلیک کے بعد ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو حیرتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے استقبال کو تھا۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو چینی قوم کے نظم و ضبط کا پہلا نظارہ ہوا۔ وہاں مسافروں کو لینے اور چھوڑنے کے لیے نئے ماڈلز کی بڑی، چھوٹی گاڑیاں اور بسیں نظرآئیں۔ تمام کی تمام گاڑیاں ایک ترتیب اور باری سے آتی تھیں اور متعلقہ افرا د کو لے کر یا چھوڑ کر روانہ ہو جاتی تھیں۔ کوئی ہارن کا شور ، بلاوجہ اوور ٹیکنگ یا تیزرفتاری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔وہاں موجود ٹیکسیاں بھی نئے ماڈلز کی تھیں اور ان کے ڈرائیورز مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کیے بغیر اپنی باری پر آگے بڑھتے ، مسافروں کو بٹھاتے اور چل پڑتے۔ سو فراز صاحب نے بھی کسی ٹیکسی والے سے معاملات طے کیے اور ہم چل پڑے۔

اگرچہ تھکاوٹ کافی تھی مگر نئی جگہ دیکھنے کی خواہش بھی تھی تو بیٹھتے ہی فراز صاحب سے ٹیکسی کے میکانکی انداز میں آ نے اور مسافر کے خاموشی سے بیٹھ جانے کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ تمام ٹیکسیوں میں میٹرز نصب ہیں اور تمام ڈرائیورز مقامی سطح پر متعلقہ ادارے سے رجسڑڈ ہیں اس لیے لوگ بلاکسی ڈر اور خدشے کے ٹیکسی میں بیٹھِتے ہیں۔ کرائے کا تعین مسافر کی منزل کے حساب سے ہوتا ہے۔فی کلومیڑ کرائے کا تعین طے شدہ ہے اور ہر کوئی اس کو جانتا بھی ہے، منزلِ مقصود پر پہنچیں تو ٹیکسی ڈرائیور آپ کو چارجز کی کمپیوٹرائزڈ رسید دے گا۔ یہ سن کر دل سے دعا نکلی کہ کاش وطنِ عزیز میں بھی ایسا ہی سسٹم آ جائے۔ پہلے سوال کے جواب کے بعد خاموشی چھا گئِی اور میں ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندو ز ہونے لگا۔ موٹروے کی مانند وسیع و عریض سڑک ، حد نگاہ تک اطراف میں سر سبز پہاڑ، کثیر المنزلہ عمارات ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھے، اپنی اپنی لین کی پاسداری کرتی، اورٹیکنگ کے وقت انڈیکیڑز کا استعمال کرتی اور بغیر ہارن کے شور کے رواں دواں ٹریفک چینی قوم کے نظم و ضبط کا واضح ثبوت تھی۔

مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی ٹیکسی چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کے سامنے پہنچ کر رُک گئی۔ یہی ہماری منزلِ تھی۔ ٹیکسی سے اترے ، سامان اتارا اور چائنا ریڈیو انٹر نیشنل سے ہی منسلک غیر ملکی ماہرین کی رہائش کے لیے مختص ایک اعلی درجے کے ہوٹل میں اپنی آمد کا اندراج کرواتے ہوئے ضروری دستاویزی کاروائی مکمل کی۔ ہوٹل کے استقبالیے پر ہی ریڈیو پاکستان کے ہمارے سینئر ساتھی عبدا لمجید بلوچ اور رئیس سلیم سے ملاقات ہوئی تو کسی غیر ملکی سرزمین پر ہونے کا احساس ہی نہ رہا۔ دیگر تمام امور اور معاملات ان کی رہنمائی اور مدد سے باآسانی طے پا گئے۔

ریڈیو کی بطور ایک قومی ادارہ اہمیت اور قدر وقیمت کا احساس چائنا ریڈیو انٹر نیشنل جا کر باآسانی ہو جاتا ہے۔ ترقی کے سفر کی جانب گامزن اور عصرِ حاضر میں ستر ملین سے زائد شہریوں کو غربت سے نکالنے والا چین، دنیا کی سب سے بڑی انسانی آنکھ فاسٹ ٹیلی سکوپ کا حامل چین، فائیو جی انٹرنیٹ سروس کی تجرباتی ابتدا کرنے والااور دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے والا، فاسٹ ٹرینز اور اپنا سیٹلائٹ لانچ کرنے والا چین ، ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے شروع کرنیوالا چین جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باوجود آج بھی ریڈیو کی افادیت کا قائل ہے اور یہ میڈیم اُن کی فارن پالیسی کی ترویج کا ایک اہم حصہ ہے۔

بیجنگ کے ضلع شی جنگ شن کی مرکزی شاہراہ پر چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی پندرہ منزلہ بلند و بالا عمارت کو کتاب کے صفحے کی مانند ڈیزائن کیا گیا ہے اوریہ بیجنگ میں دور سے ہی آپ کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ سی آر آئی چین سے باہر اطلاعات و نشریات کی دنیا میں چین کا ایک موثر و معتبر تعارف اور حوالہ ہے۔

ائرپورٹ سے شروع ہونے والا حیرتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ابھی جاری تھا۔ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی عمارت میں داخل ہوئے تو حیرتوں کے نئے در وا ہو ئے اور جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے عملے اور لوگوں کو دیکھا۔چائنا ریڈیو انٹرنیشنل میں داخلے کے لیے استعمال ہونے والا مرکزی دروازہ مشرقی گیٹ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں سے داخل ہوں تو شناختی دستاویزات چیک کروانے کے بعد دروازہ خود کار انداز میں کُھلتا ہے۔ گیٹ پر تعینات سیکورٹی عملہ انتہائی فرض شناس اور مستعد ہے۔ کسی بھی ملازم کو ’خواہ وہ چینی ہو یا غیر چینی‘ دفتر کی جانب سے جاری کردہ مخصوص کارڈ کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ یہاں قیام کے دوران ہم نے ایک دو بار مشاہدہ کیا کہ کوئی چینی ساتھی اپنا دفتری کارڈ ساتھ لانا بھول گیا تو اس کو داخل نہیں ہونے دیا گیا اور اس کو باضابطہ اجازت کے بعد ہی داخلے کی اجازت ملی۔ یہ چینی قوم کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا ایک اورعملی مظاہرہ تھا جہاں پر قانون شخصیت سے مقدم ہے۔

سی آر آئی کے مرکزی گیٹ اور عمارت کے داخلی دروازے کے درمیان کھلی اور وسیع جگہ ہے۔ داخلی دروازے پر ایک مرتبہ پھر شناخت کا عمل جِدید آلات سے کیا جا تا ہے۔ ِیہاں پر دروازے کے ساتھ ہی دائیں بائیں دو سینسرز لگے ہوئے ہیں۔ جب ملازمین یہاں سے گزرتے ہیں تو وہ اپنا سروس کارڈ اِن سینسرز کے سامنے کرتے ہیں تو سینسرز سے منسلک سکرین پر ملازم کی تصویر نمودار ہو جاتی ہے۔ اگر تصویر نمودار نہ ہو تو وہاں موجود سیکورٹی عملہ بذاتِ خود کارڈ چیک کر کے اندر جانے دیتا ہے۔عمارت میں داخل ہوں تو چینی حکومت کی اس ادارے کے لیے ترجیح اور سر پرستی کا اظہار واضح صورت میں ہوتا ہے۔

عمارت کے داخلی دروازے اور پھر اندرونی راہداری کے درمیان کی جگہ بھی کھلی ہے جہاں بائیں ہاتھ دیوار پر چینی اور ا نگلش میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل لکھا ہوا ہے۔ یہی جگہ سی آر آئی کادورہ کرنیوالے تمام غیر ملکی وفود اور ملاقاتیوں کی پسندیدہ جگہ ہے جہاں وہ اپنی تصاویر کھینچتے اور دورے کو یاد گار بناتے ہیں۔ آگے بڑھے تو اندرونی راہداری کے دونوں جانب جدید ترین لفٹس نصب تھیں جو کہ عمارت کے پندرہ فلورز تک ملازمین کو برق رفتاری سے منتقل کرتی ہیں۔ اندر داخل ہوئے اور عمارت کے بارہویں فلور جا پہنچے۔ عمارت کا بارہواں فلور جنوبی ایشیائی زبانوں کے لیے مختص ہے۔جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو، تامل ہندی، بنگلہ، نیپالی اور سنہالی شامل ہیں۔ اس فلور پر جنوبی ایشیائی چہرے وطن سے دوری کا احساس قدرے کم کر دیتے ہیں۔ ہندی، بنگلہ اور نیپالی سروس کے لوگ اردو سمجھ اور بول بھی لیتے ہیں۔ اول الذکر سے ملتے ہوئے بات چیت کی حد تک تو قطعاً اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ ہر فلور پر لفٹس والی راہداری کے اطراف میں مختلف سروسز کے دفاتر موجود ہیں۔ اسی فلور پر اردو سروس کا دفتر ہے۔

دفتر کو دیکھ کر حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ میرے ذہن میں ریڈیو پاکستان کی عمارت میں موجود پروڈیوسرز کے کمروں کا نقشہ تھا جبکہ یہاں پر تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ پاکستان میں موجود کمرشل بینکس کی طرح کیبن بنے ہوئے تھے اور ہر ملازم کے بیٹھنے کے لیے ایک جدید فولڈنگ کرسی اور کمپیوٹر۔ ہر ملازم کا کل دفتری اثاثہ ۔ اس کے علاوہ دو دیوار گیر الماریاں جس میں کیبن بنے ہوئے تھے جہاں چینی ساتھی اپنی اپنی اشیاء رکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اشیائے خوردونوش رکھنے کے لئے ایک عدد فریج بھی موجود تھا۔

اردو سروس کا دفتر باہر سے گزرتی مرکزی شاہراہ کی جانب ہے۔ کھڑکی سے پار دیکھیں تو نیچے سڑک پر رواں دواں ٹریفک، دور دور تک نظر آتے سرسبز پہاڑ اور بلند عمارتیں ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے پہلے فلور کی یاد دلاتی ہیں جہاں سے فیصل مسجد کے پہلو میں موجود مارگلہ ہلز اور ریڈیو کے پڑوس میں واقع مختلف سرکاری عمارات اور شاہراہ ِ دستور پر رواں ٹریفک دو مختلف ممالک، دارالحکومتوں اور نشریاتی اداروں میں مماثلت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس منظر کی حد تک تو مماثلت ٹھیک ہے مگر دونوں اداروں کے کام کے طریقہ کار اور دستیاب سرکاری سہولیات کے تقابل کا دور دور تک موازنہ اور مقابلہ نہیں۔ سی آر آئی کے ہر فلور پر مختلف زبانوں کے دفاتر کے علاوہ ڈائریکٹر ز آفس ، میٹنگ روم ، ایڈمن اور انتظامی معاملات کے دفاتر بھی ہیں ۔ ہر فلور پر موجود انتظامی ڈھانچے سے آگاہی ہوئی تو پھر اردو سیکشن کے ساتھیوں سے تعارف کا مرحلہ شروع ہوا۔

یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانی ناموں کے حامل تمام چینی ساتھی اردو لکھنا، پڑھنا اور بولنا خوب جانتے ہیں اور ان کاچینی لہجے میں اردو بولنے کا انداز بہت ہی دل موہ لینے والا ہے۔ اردو سروس کے کم و بیش تمام چینی ساتھی پاکستان میں یا تو پڑھ چکے تھے یا پھر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے یا کسی صحافتی وفد کے ہمراہ پاکستان کادورہ کرچکے ہیں۔ اردو سروس کے سینیئر ساتھی لیو شیاو ہوئی اور محترمہ ای فینگ جن کا پاکستانی نام طاہرہ ہے وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دو سال تک اردو پڑھتے رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ لیو شیاو ہوئی چین کی معروف و قدیم جامعہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے فارغ التحصیل ہیں۔( اس یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ چین کی پہلی جامعہ ہے جہاں اردو کا شعبہ1954 میں قائم کیا گیا) وہ بیجنگ کے مقامی ہیں اورشہر کی ترقی کے عینی شاہد بھی۔ یوں سمجھیں وہ چینی معاشرے، کلچر ، سماجی روایات، تاریخ و ادب کے چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا ہیں۔

لیو شیاو کا ذکر چھڑا ہے تو بتاتا چلوں کہ وہ اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والے باذوق شخص ہیں۔ وہ پاکستان اور اردو زبا ن سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ بڑی خاموشی سے چین میں اردو کی ترویج کے لیے کام کررہے ہیں۔ وہ چین کی مقبول و معروف اپلیکیشن “وی چیٹ” پر ایک گرو پ بنا کر اردو شاعری کا چینی زبان میں ترجمہ کر کے اس پر شیئر کرتے ہیں۔ چین میں کسی شہری کا وی چیٹ پر اکاونٹ نہ ہونا محال ہے۔ وہاں پر تو کسی بھی سماجی تقریب میں ملاقات کے موقع پر وزیٹنگ کارڈز کے تبادلے کی بجائے وی چیٹ کو شیئر کیا جاتا ہے۔ اس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیو شیاو اکثر لاہور اور پاکستان میں اپنے گزرے ہوئے وقت کا ذکر کرتے اور اپنی یادوں کو تازہ کرتے رہتے۔ انہیں لاہور کے کھانوں کا ذائقہ ابھی تک یاد ہے۔اور وہ آج بھی چین میں موجود پاکستانی ہوٹلوں پرباقاعدگی سے جاتے ہیں۔ لکشمی چوک، انار کلی، مال روڈ، یادگارِ پاکستان، ریلوے سٹیشن ، ناصر باغ ، نہر،جامعہ پنجاب اور دیگر مشہور مقامات کا انہیں بخوبی علم ہے اور وہ وقتاً فوقتاً ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اتنا گہرا ہے کہ وہ لاہور میں معاشرتی سطح پر بولے جانے والے کچھ ” غیر پارلیمانی الفاظ” کا بھی بھر پور علم رکھتے ہیں اور ان کا برمحل استعمال بھی جانتے ہیں۔

لیو شیاو کے ساتھ ساتھ اردو سروس کی آپریشنل سربراہ ای فینگ (میڈم طاہرہ ) بھی اردو زبان میں مہارتِ تامہ رکھتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ پاکستان کے سیاسی نشیب و فراز سے بخوبی واقف اور اس حوالے سے مکمل اور جامع معلومات رکھتی ہیں۔ بول چال والی اردو اور قواعد کے تابع اردو میں فرق یہاں آ کر محسوس ہوا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اردو بطور طریقہ تدریس کب کی ختم ہو چکی ۔مگر ملک سے دور اردو کی بطور زبان کی ا ہمیت کو جان اور دیکھ کربہت خوشی ہوتی ہے۔

بارہویں فلور سے واپسی ہوئی توعمارت میں موجودایک اور حیرت کدہ میرا منتظر تھا۔چینی اور پاکستانی ساتھی عمارت میں موجودکیفیٹیریا کی طرف لے گئے تا کہ کچھ اہتمامِ خور و نوش ہو جائے اور ساتھ ہی اس اہم مقام سے شناسائی بھی ہوجائے۔ کیفے ٹیریا کیا تھا وہ تو پہلی نظر میں ہی کسی ذوقِ جمالیات کے حامل شخص کی ذہنی اختراع دکھائی دیا۔ کیفے ٹیریاز کی پاکستان میں روایتی ترتیب و ڈیزائن سے ہٹ کر ایک منفرد اور پُرکشش انداز تھا۔ جب ہم داخل ہوئے تو وہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، باتیں بھی کر رہے تھے ، خوش گپیاں بھی جاری تھیں۔

قہقہے بھی بلند ہو رہے تھے مگر اس تمام منظر نامے میں یہ محسوس ہوا کہ شاید کیفے ٹیریا کے مسحور کن ماحول کا اثر تھا کہ سب انسانی آوازوں کا مجموعی شور اتنا دھیما اورمدہم تھا کہ سماعت پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ کیفے ٹیریا میں کشتی نما میز، لکڑی کے گول میز اور ارد گرد کرسیاں، ایک طرف الماری میں ترتیب سے پڑی کتابیں ، ایک کونے میں کسی جھیل اور جھِیل میں رواں دواں کشتی کا رومان پرور منظر کہ بندہ خود کو اس جگہ محسوس کرے اور ِ من چاہے خیالات میں کھو جائے ،سی آر آئی کے مختلف فنکشز اور نشریاتی سفر کی داستان بیان کرتی نفاست اور ترتیب سے لگی تصاویر سے آراستہ دیواریں اور کیفے ٹیریا ز کے بیروں کو چہار سو سے پکارتی آوازوں کے روایتی شور سے یکسر بے نیاز یہ مقام پہلی نظر میں بہت ہی خوبصورت اور بھلا لگا۔ یہاں پر صرف مشروبات، جوسز اور بیکری آئٹمز دستیاب تھے ۔ کیفے ٹیریا سے باہر نکلے تو اوپر کے فلور کی جانب رخ کیا تو مجھے یوں لگا کہ شاید میں کسی عجائب گھر میں کھڑا ہوں۔ وہاں ارد گرد ریڈیو چائنا میں استعمال ہونے والے متروک ریکاڈنگ آلات، ٹائپ رائٹرز، مائیکرو فونز ، دنیا بھر سے سی آر آئی کی مختلف سروسز کے نام لکھے گئے سامعین کے خطوط ایک گلوب نما ڈھانچے میں محفو ظ پڑے ہوئے تھے۔ اس جگہ سب سے اہم و تاریخی چیز چین کے بانی رہنما ماوزے تنگ کی وہ تصویر ہے جس میں وہ چین کی آزادی کا اعلان کر رہے ہیں اور جس مائیکرو فون کے ذریعے انہوں نے اعلان کیا وہ بھی وہاں رکھا ہوا ہے۔

سی آر آئی کی عمارت میں موجود اس عجائب گھر نما جگہ کی موجودگی یہاں کا دورہ کرنے والے تمام غیر ملکی وفود کو بالواسطہ چین کی نشریاتی تاریخ کے سفر سے آگاہ کرتی ہے۔سی آر آئی کی وسیع و عریض عمارت کی دلکشی اپنی جگہ مگر میں اس ادارے کی چین میں اہمیت کو جان کر رشک میں مبتلا ہو گیا۔ کیونکہ چین میں ریڈیو کی بطور ادارہ ترقی و ترویج ریاستی وحکومتی ترجیحات میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔ چین بیرونی ممالک میں اپنے نکتہ نظر اور پالیسوں کی تشہیر اور ابلاغ کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کا بھر پور انداز میں استعمال کرتا ہے اور یہ ان کے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کے فروغ کا ایک اہم جزو ہے۔ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل میں کیا جانے والا زیادہ تر نشریاتی کام چین سے باہر متعلقہ ممالک اور ریجنزکے لئے کیا جاتا ہے۔چین میں ہونے والی تمام ترا ہم ملکی و بین الاقوامی تقریبات ، پالیسی ساز اجلاسوں اور بیرونی وفود کے دوروں کی میڈیا کوریج کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں چین کی تہذیب و تمدن اور ترقی کو اجاگر کرتے موضوعات چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی ادارتی پالیسی کا اہم و مستقل حصہ ہیں۔

چائنا ریڈیو انٹر نیشنل حقیقی معنوں میں ایک عالمی نشریاتی ادارہ ہے جہاں اردو سمیت دنیا بھر کی کم وبیش چھیاسٹھ زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ ان چھیاسٹھ زبانوں میں سے ہر زبان کے کم ازکم چا ر غیر ملکی ماہرین اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرا نجام دیتے ہیں۔ ان غیر ملکی ماہرین کا ماہانہ مشاہرہ ان کے چینی ساتھیوں کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ان غیر ملکی ماہرین کو رعایتی نرخوں پر تمام ضروری سہولیات سے آراستہ اعلی درجے کی رہائش کی فراہمی اور طبی اخراجات کی ادائیگی بھی چینی حکومت ہی کرتی ہے۔ معمول کی ذمہ داریوں کے علاوہ مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات ،کانفرنسز، ورکشاپس اور دیگر صحافتی نوعیت کی تقریبات میں ان غیر ملکی ماہرین کی شرکت اور چین کے مختلف شہروں کے دورے جنہیں بزنس ٹرپ کا نام دیا جاتا ہے یہ سب سی آر آئی کی پالیسی کا حصہ ہیں جن کے تما م تر اخراجات چائنا ریڈیو انٹر نیشنل ہی برداشت کرتا ہے۔

چائنا ریڈیو انٹر نیشنل میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو باقاعدگی سے بیرونی ممالک میں پیشہ ورانہ تربیت کے حصول اور صحافتی دوروں پر بھجوایا جاتا ہے جس کے اخراجات بھی چینی حکومت ہی ادا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل اپنے تمام تر آپریشنل اور انتظامی اخراجات کے لیے حکومتی امداد و گرانٹ پر ہی انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی سرپرستی ا ور مالی اعانت سے سی آر آئی کی توسیع کا سلسلہ جاری ہے اور یہ چینی حکومت کی دوراندیشی ہے کہ اس نے مستقبل میں اس ادارے کے پھیلاو ، کردار اور یہاں ہونے والے کام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ عمارت سے متصل ہی ایک نئی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی ہے جو کہ جلد ہی پرانی عمارت کے ساتھ آپریشنل ہو جائے گی یوں یہ دونوں عمارتیں مستقبل میں ریاستی ریڈیو کے نشریاتی مقاصد کے لیے استعمال ہوں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سی آر آئی کی اردو سروس کے زیرِ انتطام چلنے والے چین کے ایف ایم 98دوستی چینل کے بھی تمام تر اخراجات حکومتِ چین ہی ادا کرتی ہے۔

چائنا ریڈیو انٹرنیشنل اپنے ملازمین کو پیشہ ورانہ فرائض کی احسن طریقے سے ادائیگی کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا ہے۔ تیز ترین سپیڈ کے ساتھ انٹر نیٹ ،ریکارڈنگ اور ایڈٹنگ کے لئے جدید ترین کمپیوٹر اوریجنل سافٹ ویئرز کے ساتھ دستیاب ہیں۔ پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک میں فون کرنے کی سہولت ادارے کی جانب سے مہیا ہے۔اس کے علاوہ ملازمین کے لیے ایک جم بھی موجود ہے۔ یہ جم صبح آٹھ بجے سے لیکر رات دس بجے تک کُھلا ر ہتا ہے۔ اس میں ملازمین اپنی سہولت کے مطابق آ کر ورزش کر سکتے ہیں۔ جم کے ساتھ ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلنے کے لیے الگ سے سہولیات بھی موجود ہیں۔سی آر آئی میں ملازمین کے لیے تیراکی کی سہولت بھی موجود ہے۔ دفتر سے باقاعدہ ٹکٹس ملتے ہیں ان ٹکٹس کو سی آر آئی کی حدود میں ہی واقع ایک سوئمنگ پول پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح وقتاً فوقتاً مختلف میوزیکل کنسرٹس اور موویز کے مفت ٹکٹس بھی ملازمین کو ملتے رہتے ہیں۔کھیلوں کی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جاتاہے۔

کبھی دوستانہ رسہ کشی تو کبھی بیڈ منٹن اور بعض اوقات مخصوص مدت کے لیے روزانہ واک کرنے کی صورت میں ملازمین کو تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ ملازمین کے لیے سہولیات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ سی آرآئی میں دو عدد اے ٹی ایمز بھی نصب ہیں جہاں سے ہر نوعیت کی فنانشنل ٹرانزکشنز کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سالانہ تین ہزار یوان ہرسی آر آئی ملازم کو اس کی ماہانہ تنخواہ کے علاوہ فراہم کئے جاتے ہیں جو کہ ان کے سروس کارڈ میں منتقل ہوتے ہیں۔ جس سے وہ سی آر آئی کینٹین سے انتہائی رعاِیتی نرخوں پر ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا کھا سکتے ہیں، جبکہ کیفے ٹیریا پر بھی اس کارڈ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کینٹین ہمارے ہاں کی روایتی کینٹینز کی مانند نہیں بلکہ اس کا تینوں وقت کا مینیو پنج ستارہ ہوٹلوں کی طرح بوفے کی مانند ہوتا ہے۔

ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے مختلف انواع کی ڈشز اور پکوان دستیاب ہوتے ہیں۔ ہر فرد اپنی مرضی سے کھا پی سکتا ہے۔ کھانے کے علاوہ ملازمین اپنی پسند کے مطابق ضروری گھریلو اشیاء مثلاً انڈے، آئل ، دودھ، بیکری آئٹمز اور دیگر اشیاء بھی وہاں موجود ایک دکان سے اس کارڈ کی مدد سے خرید سکتے ہیں۔ سی آرآئی کی ایک اور عمدہ روایت دوپہر کے وقت قیلولہ کرنا ہوتا ہے۔ وہاں دن کے ساڑھے گیارہ بجے سے لیکر دوپہر دو بجے تک کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس دوران کوئی کام نہیں ہوتا۔دفتر کی لائٹس کو بجھا دیا جاتا ہے۔ جولوگ آرام کرنا چاہیں تو وہ دفتر ہی میں فولڈنگ چارپائی بچھا کر سو تے ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمین ٹیبل پر سر رکھ کر بھی سو جاتے ہیں۔اس دوران دفتر میں مکمل خاموشی کا راج ہوتا ہے۔ نائٹ شفٹ والے ایک بجَے دفتر آتے ہیں تو وہ بھی دو بجے تک خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں۔

دو بجتے ہی تمام لائٹس آن ہو جاتی ہیں اور دفتری زندگی لوٹ آتی ہے۔ سی آرآئی کے مرکزی استقبالیہ دفتر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سے چائنا پوسٹ کا دفتر ہے جہاں سے ڈاک چین کے مختلف شہروں کو بھیجی جا سکتی ہے۔ مختلف تقریبات کی کوریج پر جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

سی آر آئی میں کام کرتے ہوئے دنیا بھر کے مختلف ریجن اور ممالک سے آئے ہوئے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یورپ ، افریقہ، لاطینی امریکہ، عرب ممالک ، جنوبی ایشیا ، جنوب مشرقی ایشیا ، مشرقِ وسطی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے اور رہنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ سی آر آئی میں منعقد ہونے والی مختلف ثقافتی نوعیت کی تقریبات میں شرکت کا اپنا ہی ایک حسن اورمزہ ہے۔ مذکورہ تقاریب میں غیر ملکی ماہر مرد و خواتین تو اپنے روایتی لباس پہن کر آتے ہیں مگر متعلقہ سروس کے چینی ساتھی بھی اسی ملک کا لباس پہن کر شریک ہوتے ہیں جس سے تقریب کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

ذرا تصور کریں کہ دبلے پتلے چینی مردو زن اگر پاکستانی شلوار قمیض پہنیں تو کیسالگے گا؟ ایسا ہی منظر دنیا کے دیگر خطوں کی ثقافتی نمائندگی کرنے کے وقت ہوتا ہے۔سی آر آئی میں کام کرتے ہوئے اور چین میں رہتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ چین میں مردوزن میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ وہاں یہ ایک عمومی معاشرتی سوچ ہے کہ جو کام ایک مرد کر سکتا ہے وہی کام ا یک عورت بھی بخوبی سر انجام دے سکتی ہے۔ یوں چینی مردو خواتین شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

راقم الحروف تین سال تک بطور فارن ایکسپرٹ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے وابستہ رہا۔ سی آر آئی کی اردو سروس گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصے سے اپنی نشریات پیش کررہی ہے۔یوں سفارتی دوستی کے ساتھ ساتھ نشریاتی دوستی کا سفر بھی جاری و ساری ہے۔ (جاری ہے)

The post چینی معاشرہ ہر زاویئے سے نظم و ضبط میں ڈھلا ہوا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

لینڈ مافیا قانون کے شکنجے میں

$
0
0

پندرہ سال پہلے کی بات ہے، کراچی کے ایک محنت کش، عامر نے شہر قائد کے مضافات میں اپنی جمع پونجی سے 80 گز کا پلاٹ خریدا۔ وہ چند سال بعد مزید سرمایہ جوڑ کر وہاں گھر بنانا چاہتا تھا تاکہ سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر ہو۔ وقت بیتتا گیا اور شہر قائد پھیلتے پھیلتے اس مضافاتی علاقے تک آپہنچا۔

بدقسمتی سے عامر اتنی رقم نہیں جوڑ سکا تھا کہ پلاٹ پر اپنی چھت تعمیر کرسکے۔ ایک دن عامر یونہی اپنا پلاٹ دیکھنے گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے گرد ایک دیوار تعمیر ہوچکی تھی۔ دیوار کے اندر جھگی بناکر کچھ لوگ رہ رہے تھے۔

عامر نے جب ان سے استفسار کیا کہ وہ کون ہیں، تو لوگ اسے دھمکاتے ہوئے بولے کہ یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ عامر بہت پریشان ہوا۔ اس نے علاقے کے لوگوں سے معلومات لیں، تو انکشاف ہوا کہ عامر کے پلاٹ پر لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ’’ڈان‘‘ نے قبضہ کرلیا ہے۔پلاٹ کے کاغذات عامر کے پاس تھے۔ وہ انہیں لیے مقامی پولیس اسٹیشن پہنچا۔ جب عامر نے ڈان کیے خلاف ایف آئی آر لکھوانی چاہی تو پولیس نے انکار کردیا۔ کلرک نے عامر کو مشورہ دیا کہ بہتری اسی میں ہے، اپنا پلاٹ ’’صاحب‘‘ کو فروخت کردو۔

عامر ڈان کے اڈے پہنچا اور اس کے کارندوں سے پلاٹ فروخت کرنے  کی بابت معلومات لیں۔ تب اسے معلوم ہوا کہ ڈان تو پلاٹ کی قیمت بہت کم دے رہا ہے۔عامر اپنی حلال کی کمائی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے ایک سماجی رہنما اس کا واقف کار تھا۔ سماجی رہنما اسے سول سوسائٹی کی مشہور تنظیم، ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر لے گیا۔ تنظیم کے وکلا نے عامر کا کیس لے لیا اور سندھ ہائیکورٹ جاپہنچے۔ ہائیکورٹ نے مقامی پولیس کو حکم دیا کہ وہ ڈان کے خلاف ایف آئی آر درج کر ے۔ یوں ملزم قانونی کارروائی کی زد میں آگیا۔

ایک ہفتے بعد عامر اپنے پلاٹ پر گیا تو یہ دیکھ کر پھر حیران رہ گیا کہ پلاٹ پر تعمیر کردہ دیوار گرچکی ہے جبکہ جھگی والے بھی غائب تھے۔ وہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر گیا اور اپنے وکلا کو سارا ماجرا سنایا۔ انہوں نے معاملے کی تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ لینڈ مافیا کے ڈان پر دراصل علاقے کے ایک سرکردہ سیاست داں کا ہاتھ تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ ایک قومی سماجی تنظیم کیس اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے تو وہ خوفزدہ ہوگیا۔ وہ جارح مزاج اختیار کرنے والی عدالتوں میں جانے سے بچنا چاہتا تھا، اسی لیے پسپا ہونے میں عافیت جانی۔

یہ یقینی ہے کہ عامر ایک نامور سماجی تنظیم کا سہارا نہ لیتا تو وہ مجبور ہوجاتا کہ اپنا پلاٹ لینڈ مافیا کے ڈان کی من چاہی قیمت پر فروخت کردے۔ عوام کو انصاف دینے کے لیے  متحرک ،عدلیہ کی سرگرم فعالیت بھی عامر کے کام آئی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت ناخواندہ ہے اور وہ عامر جیسا شعور و عقل نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے، جب لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والا کوئی طاقتور مجرم گروہ کسی غریب کی زمین پر زبردستی قبضہ کرے، تو عموماً وہ چیخ چلا کر خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی زمین کی جو بھی اونے پونے قیمت مل رہی ہے، قبول کرلے۔

زمین کی مادی کشش

کہتے ہیں، دنیا میں اکثر لڑائی جھگڑے ’’ز‘‘ سے شروع ہونے والے تین الفاظ… زن، زر، زمین سے جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا کے کرتوت دیکھے جائیں تو یہ مثل برحق لگتی ہے۔ پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ یہ زمین ہی ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت میں کرپشن، بے ایمانی،اقربا پروری لالچ اور ہوس کی بنیادیں رکھیں۔ آزادی کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی زمینوں، پلاٹوں اور گھروں کی الاٹمنٹ میں کافی گھپلے ہوئے ۔وزرا سے لے کر کرپٹ سرکار ی افسروں تک ،سبھی نے جسے چاہا،متروکہ گھر،پلاٹ اور زمینیں دے دیں۔یہی وجہ ہے اس زمانے میں  بہت سے کنگال راتوں رات لکھ پتی بن گئے۔قیام پاکستان سے قبل دیہی علاقوں میں زمین ہی قیمتی ترین شے سمجھی جاتی تھی اور اب بھی حالت نہیں بدلی۔ حتیٰ کہ زمینوں کا انتظام رکھنے والا معمولی کلرک، پٹواری اپنے علاقے میں بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ دیہی بزرگ جب کسی نوجوان سے خوش ہوتے، تو اسے یہی دعا دیتے کہ اللہ تجھے پٹواری بنائے۔ جب سے زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوا ہے، پٹواری کی اہمیت گھٹ گئی مگر خصوصاً دیہات میں اب بھی ختم نہیں ہوئی۔

آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ جب شہر پھیلنے لگے تو شہری زمین کی قدرو قیمت میں بھی اضافہ ہوا ۔جو زمینیں پہلے بنجر و بے آباد تھیں، وہاں کالونیاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے لگیں۔ اس نئے اعجوبے نے شہری زمینوں کی قیمتیں راتوں رات دگنی چوگنی بڑھا دیں۔ قیمت کے اسی محیر العقول اضافے نے جرائم پیشہ گروہوں کو بھی شہری زمینوں کی طرف متوجہ کردیا۔

رفتہ رفتہ ویران پڑی زمین اور غریب و مسکین لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کے لیے مختلف طریقہ ہائے واردات دریافت ہوگئے۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ کسی ویران زمین پر جھگیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر وہاں دیواریں تعمیر ہوتی ہیں۔ پھر ان جھگیوں میں مقیم اپنے کارندوں کے جعلی ملکیتی کاغذات برائے زمین بنوائے جاتے ہیں۔ یوں زمین پر قبضے کا پلان مکمل! یہ زمین پھر عموماً  ایک نہیں چھ سات خریداروں کو بیچی جاتی ہے۔کسی غریب و بدقسمت مسکین کی زمین ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب آ جائے، تو پہلے اسے اونے پونے رقم دے کر خریدنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لینڈ مافیا غریبوں کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔

پاکستان میں زمینوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کی مالیت کھربوں روپے ہے۔ اسی مادی کشش کے باعث پچھلے بیس برس کے دوران پورے پاکستان میں  لینڈ مافیا وجود میں آگئی۔زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والی اس مافیا پر تحقیق کرتے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہر علاقے میں جرائم پیشہ افراد، سیاسی رہنما، پولیس اور سرکاری افسر لینڈ مافیا گروہوں کا حصّہ ہوتے ہیں۔ قبضہ کی گئی زمینوں کے کاروبار سے جتنی آمدن ہو، وہ ہر فریق کے مابین تقسیم ہوتی ہے۔ چونکہ یہ آمدن کروڑوں روپے میں ہے، اسی لیے پیسے کی کشش کے باعث رفتہ رفتہ ملک بھر میں لینڈ مافیا کے سیکڑوں چھوٹے بڑے گروہ وجود میں آگئے۔

قانون کی بے بسی

ان گروپوں میں پولیس اور مختلف  محکموں سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسر بھی شامل تھے، اسی لیے قانون  ان کے سامنے کمزور ہوتا گیا۔ قانون کی کمزوری نے لینڈ مافیا کو زیادہ دلیر اور مادرپدر آزاد بنادیا اور وہ دن دیہاڑے سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کرنے لگی۔ کھیل کے میدان، باغات اور قبرستان ،اسکول، یونیورسٹی، اسپتال، ائرپورٹ کی زمینیں غرض ہر قسم کی لاکھوں کنال زمین لینڈ مافیا کی ہوس کی نذر ہوگئی۔ ان گروپوں کی دیکھا دیکھی عام دکانداروں نے اپنی دکانوں کے آگے ناجائز تجاوزات قائم کرلیں۔ اس وجہ سے پاکستانی شہروں میں سڑک، فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کا تصور آپس میں گڈ مڈ ہوگیا۔ اب پتا ہی نہیں چلتا کہ فٹ پاتھ کہاں ہے اور سڑک کہاں؟

میرے ایک عزیز، فیصل گیلانی کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جوہر ٹاؤن میں 1995ء میں ایک کنال کا پلاٹ خریدا تھا۔ چند سال قبل وہ کینیڈا سے پاکستان آئے تاکہ پلاٹ فروخت کرسکیں۔ وہ اپنے پلاٹ پر پہنچے تو یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہاں تو ایک گھر بنا ہوا ہے۔ گھر والوں سے دریافت کیا، تو افشا ہوا کہ انہوں نے یہ گھر فلاں آدمی سے خریدا ہے۔مزید پوچھ گچھ ہوئی تو پتا چلا کہ وہ آدمی جوہر ٹاؤن کے ایک مشہور قبضہ گروپ کا ایجنٹ ہے۔ فیصل بھائی اس فراڈ کی رپورٹ کرانے مقامی پولیس سٹیشن پہنچے، تو اس نے کوئی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ ایل ڈی اے والوں سے رجوع کیا، تو انہوں نے بھی ہاتھ اوپر کردیئے اور کہا کہ قبضہ گروپ کا سرغنہ بہت بااثر و طاقتور آدمی ہے،وہ اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔

جماعت اسلامی لاہور کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی، احسان اللہ وقاص بھی ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ فیصل بھائی نے ان سے مدد کی درخواست کی۔ وقاص صاحب انہیں ساتھ لے کر ایل ڈی اے پہنچے اور اعلیٰ افسروں سے ملے۔ یقین کیجیے، ان افسروں نے کہا کہ وہ لینڈ مافیا کے سامنے بے بس ہیں۔ اب مسروقہ پلاٹ کبھی آپ کو نہیں مل سکتا۔ تشفی کی خاطر انہوں نے ایک اور پلاٹ فیصل بھائی کو دے دیا۔ یہ پلاٹ دور دراز مقام پر تھا اور اس کی قدرو قیمت بھی کم تھی۔ لیکن بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق انہیں مجبوراً وہ پلاٹ قبول کرنا پڑا۔

درج بالا چشم کشا واقعے سے عیاں ہے کہ پاکستان بھر میں لینڈ مافیا اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ قانون اس سے خوف کھانے لگا ہے۔ گویا قبضہ مافیا نے قانون کی حکمرانی کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور ملک میں لاقانونیت اور کرپشن کو رواج دیا۔ کراچی سے خیبر تک اس کا سّکہ چل پڑا اور خصوصاً غریبوں، بیرون ملک پاکستانیوں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کرنا معمول بن گیا۔ یہ اعجوبہ جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جن سرکاری محکموں نے لینڈ مافیا کو قابو میں رکھنا تھا،اس کے سرغنوں کو قانون کی گرفت میں لانا تھا،ان  کے کرپٹ اور لالچی افسر بھی قبضہ گیروں سے جا ملے۔لاقانونیت کی انتہا ہے کہ 2008 ء میں تین سرکردہ تعمیراتی کمپنیوں نے مل کر اس سرکاری زمین پہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنا ڈالی جہاں ’’ڈھڈوچہ ڈیم‘‘ بننا تھا۔اس ڈیم کے ذریعے راولپنڈی کو صاف پانی مہیا کرنا مقصود تھا۔(یہ شہر پانی کی قلت سے دوچار ہو چکا ہے)حد یہ ہے کہ مجوزہ ہاؤسنگ سوسائٹی بھی مکمل نہیں ہوئی جہاں پاک فوج کے شہدا کے عزیز واقارب کو پلاٹ دئیے جانے تھے۔2015ء میں سپریم کورٹ نے اس علاقے میں زمین کی خریدوفرخت پہ پابندی لگا دی تاکہ مجوزہ ڈیم تعمیر کیا جا سکے۔

قانون کی لاٹھی حرکت میں

نئی آنے والی حکومتیں اور عدلیہ بھی لینڈ مافیا کے خلاف کارروائیاں کرتی رہیں مگر یہ سرگرمی کچھ عرصے بعد سرد پڑ جاتی ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پوری ریاستی مشینری دہشت گردوں سے لڑنے میں محو تھی۔پاکستان پہ آئی آفت سے مگر سفاک لینڈ مافیا نے فائدہ اٹھایا اور اپنے دھندے کووسعت دیتی چلی گئی۔آخر صورت حال نے 2017ء کے اوائل سے ڈرامائی موڑ اختیار کر لیا جب چیف جسٹس کی زیرقیادت سپریم کورٹ پاکستان لینڈ مافیا کے خلاف سرگرم ہوا۔ یہ ایک نمایاں تبدیلی تھی کیونکہ ملک بھر کی عدالتوں میں زمینوں کے قبضے سے متعلق لاکھوں کیس زیر التوا تھے اور کچھ خبر نہ تھی کہ ان کا کب فیصلہ ہوگا۔ تبھی اعلی عدلیہ نے فیصلہ کیا کہ لینڈ مافیا  کو ضرب پہنچانے کی خاطر اس پہ بھرپور وار کیے جائیں۔ اس عدالتی فعالیت کو حکومت کے مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔

اگست 2018ء میں حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔نئے وزیراعظم، عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں قوم سے وعدہ کیا کہ وہ لینڈ مافیا کے خلاف جنگ کا آغاز کریں  گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا، اوائل اکتوبر سے وفاقی علاقہ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں لینڈ مافیا اور ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن کے ذریعے اب تک ہزاروں کنال سرکاری و نجی زمین لینڈ مافیا کے قبضے سے چھڑائی جاچکی ہے۔حکومت کے گرینڈ آپریشن سے ریاست کی رٹ بحال ہوئی اور قانون پر عوام کا اعتماد بڑھا۔ انہیں محسوس ہواکہ حکومت طاقتور ہورہی ہے اور اب کوئی بااثر ان پر ظلم کرے گا تو وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کو یہ سنہرا قول یاد رکھنا چاہیے کہ جس ریاست میں غریب کو بھی آسانی سے انصاف میسّر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔

لینڈ مافیا کے خلاف جاری مہم میں تادم تحریر ہائی پروفائل شخصیات بھی قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، مرتضیٰ امجد اور عمار گلزار شامل ہیں۔ ان تینوں کو بالترتیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور، ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور اور پاک عرب ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں فراڈ،ہیر پھیر اور بے ضابطگیوں کے الزامات پر زیر حراست لیا گیا۔ مرتضیٰ امجد سابق چیف جسٹس پاکستان، افتخار چودھری کے داماد  جبکہ عمار گلزار مرحوم سینیٹر گلزار احمد خان کے فرزند ہیں۔ عمار خود بھی پی پی پی کے سینٹر رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے بانی، ملک ریاض احمد پر سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان پر زمینوں کی خرد برد اور غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ نیز پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ہوئے فراڈ  کے سلسلے میں نیب سابق وزرا، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سے تفتیش کررہا ہے۔

26 ستمبر 2018ء کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے  وزیر مملکت داخلہ، شہریار آفریدی نے قوم کو بتایا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں تیتیس ہزار کنال زمین ناجائز قبضے سے چھڑالی گئی ۔ اس زمین کی مالیت تین کھرب روپے ہے۔بارہ سو کنال زمین پر بحریہ انکلیو نے قبضہ کررکھاتھا جو بحریہ ٹاؤن کا ایک پروجیکٹ ہے۔پریس کانفرنس میں شہریار آفریدی نے کہا ’’لینڈ مافیا کے خلاف مہم طاقتور و بااثر مگر مجرم پاکستانیوں کے نام یہ پیغام ہے کہ اب قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوچکا۔ اب کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ غریبوں کی یا سرکاری زمین پر قبضہ کرسکے۔ ماضی میں جن لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، حکومت انہیں ہرجانہ دینے کی کوشش کرے گی۔‘‘

لینڈ مافیا کے قلع قمع ہونے سے وطن عزیز میں گڈ گورنس یا عمدہ انتظام کے نظام کو تقویت ملے گی جس سے سبھی شہریوں کو فائدہ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاست دانوں کو بھی قانون کے دائرہ کار میں لایا جائے جو پراپرٹی ڈیلنگ یا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ان پہ الزامات ہیں کہ وہ اپنے اثرورسوخ کی بدولت کارندوں سے زمینوں پر قبضے کراتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی اس چلن سے نجات پائیں جس کے ذریعے الیکشن کے وقت سیٹیں جیتنے کی خاطر لینڈ مافیا کے سرغنوں سے  مدد مانگی جاتی ہے۔

لینڈ مافیا کے خاتمے کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ پورے ملک میں زمینوں کے ریکارڈ کا مربوط منظم کمپیوٹرائزڈ نظام تشکیل دیا جائے۔ اسی طرح لینڈ مافیا سے منسلک گروپوں کے لیے  جعل سازی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ابھی تو ان کا طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ وہ زمین کسی شریف آدمی کو بیچتے ہیں۔ پھر تحصیل دار یا پٹواری کو رشوت دے کر اس زمین کے نئے کاغذات بنواتے ہیں۔ پھر شریف آدمی پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ تھانے کچہری کے چکر لگانے سے خوفزدہ ہوکر ان کے آگے سر جھکا دے۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لینڈ مافیا سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی بنادیتی ہے۔ اس سوسائٹی کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ تشہیر سے متاثر ہو کر کئی لوگ پلاٹ خرید لیتے ہیں۔جب کروڑوں روپے جمع ہو جائیں تو لینڈ مافیا انھیں سمیٹ کر رفوچکر ہوجاتا ہے۔ اس فراڈ کے باعث ہزارہا پاکستانی پچھلے تیس  برس میں حلال کی کمائی  سے محروم ہوچکے۔پاکستان بھر میں پھیلی کچی آبادیاں خصوصاً لینڈ مافیا کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا یہ حکم صائب ہے کہ صوبہ پنجاب میں کچی آبادیوں کو ریگولرائز کیا جائے۔انھوں نے احکامات جاری کیے کہ سرکاری زمینوں پہ بنی آبادیوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔یوں حکومت غریب مکینوں  کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔کچی آبادیوں کی ریگولرائز یشن سے  لینڈ مافیا کے لیے انھیں ہڑپ کرنا ناممکن ہو جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اب ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام‘‘کے نام سے غریب و متوسط پاکستانیوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کا سرکاری منصوبہ بنایا ہے۔امید ہے،اس منصوبے کی کڑی مانیٹرنگ کی جائے گی تاکہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن کا شکار نہ ہو اور بہ کمال خوبی سے انجام پائے۔یہ بھی خوش آئندہ امر ہے کہ پنجاب حکومت اب اخبارات میں اشتہارات دے کر عوام کو صوبے بھر میں پھیلی جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے باخبر کرنے لگی ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ ہونا یہ چاہیے زمینوں کے ریکارڈ کا ایسا جامع نظام بنایا جائے کہ لینڈمافیا کسی بھی سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی قائم ہی نہ کرسکے۔ یہ عمل عموماً علاقے کے سرکاری عملے اور بااثر افراد کی ملی بھگت سے انجام پاتا ہے۔ تاہم زمینوں کے ریکارڈ کا جامع اور کمپیوٹرائزڈ نظام اس قسم کی دھوکے بازی کو اپنانا کٹھن بنا دے گا۔ تب کوئی بھی باشعور شہری جلد جان سکے گا کہ اس کے ساتھ فراڈ ہورہا ہے یا نہیں۔

آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب،میاں شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار ہوئے۔ان کی حکومت نے چودہ ارب روپے مالیت کی یہ اسکیم 2010ء میں شروع کی تھی تاکہ ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنا کر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سستے داموں دئیے جاسکیں ۔مگر یہ اسکیم عملی جامہ نہ پہن سکی بلکہ تنازعات کا نشانہ بن گئی۔تفصیل کے مطابق یہ اسکیم بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے 2010ء میں ایک نئی کمپنی،پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔اس نے ایک تعمیراتی کمپنی،چودھری لطیف اینڈ سنزکو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم  بنانے کا ٹھیکہ  دیا۔اسکیم پر جوں کی رفتار سے کام شروع ہوا۔2013ء میں شہباز شریف دوسری بار وزیراعلی بنے تو فیصلہ ہوا کہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کو پبلک۔پرائیویٹ شراکت میں بنایا جائے۔چناں چہ اسکیم کی جگہ تبدیل کر دی گئی۔اسی دوران چودھری لطیف اینڈ سنز سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ کمپنی منسوخی کے خلاف عدالت پہنچ گئی۔عدالت نے منسوخی کو غیر قانونی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ حکومت پنجاب چودھری لطیف اینڈ سنز کو پانچ کروڑ نوے لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرے۔قومی خزانے سے یہ رقم ادا کر دی گئی۔(میاں شہباز شریف کا استدلال یہ ہے کہ اس کمپنی کو پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی نے ناجائز طور پہ ٹھیکہ دیا تھا۔ )

نیب کے مطابق  پھر میاں شہباز شریف ،ان کے سیکرٹری فواد حسن فواد اور سربراہ ایل ڈی اے احد چیمہ نے غیر قانونی طریق کار سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا ٹھیکہ ایک نئی کمپنی،لاہور کاسا ڈویلپرز کو دے دیا۔اس کمپنی کی حقیقی مالک پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ تھی۔نیب کا  دعویٰ ہے کہ اس کمپنی کے اصل مالکان سلمان شریف (شہباز شریف کے فرزند)اور سابق وزیر ریلوے سعد رفیق تھے۔ڈیل یہ تھی کہ کاسا ڈویلپرز کو تین ہزار کنال زمین دی گئی۔اس نے دو ہزار کنال رقبے پر ’’اپنے خرچ ‘‘سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کے ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنانے تھے۔معاوضے کے طور پر اسے ایک ہزار کنال رقبہ دیا گیا۔پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ نے اسی رقبے پر تو اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لی جس میں ایک پلاٹ کی قیمت اب کروڑوں روپے ہے مگر غریبوں کے لیے فلیٹ تیار نہ ہو سکے۔نیب کے مطابق یہ پورا پلان اسی لیے بنایا گیا تاکہ سرکاری زمین بڑے منظم انداز میں ہڑپ کی جا سکے۔

قبضہ گیروںکے خلاف آپریشن

لاہور میں یکم اکتوبر سے لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ اعدادو شمار کے مطابق لاہور میں لینڈ مافیا نے 32 ہزار کنال کی سرکاری زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔ آپریشن کے دوران علاقہ جوہر ٹاؤن میں لینڈ مافیا کے ایک بڑے سرغنہ ،منشا ’’بم‘‘ کھوکھر سے کئی کنال سرکاری زمین واگزار کرالی گئی۔ اس زمین کی مالیت اربوں روپے ہے۔لاہور کی لینڈ مافیا کے خلاف یہ اب تک کا سب سے بڑا آپریشن ہے جو تاحال جاری ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واگزار کرائی گئی سرکاری زمین پر ہزاروں پودے لگائے جائیں گے تاکہ وہ لاہور کا قدرتی ماحول صاف ستھرا کرنے میں مدد دے سکیں۔

آپریشن کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایات جاری کیں کہ غریب پھیری والوں اور محنت کشوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ ان طاقتور اور بااثر مجرموں پر ہاتھ ڈالا جائے جو لینڈ مافیا سے تعلق رکھتے اور قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ لاہور کی عوام نے اس آپریشن کو سراہا اور کہا کہ تبدیلی کے پروگرام پر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔لینڈ مافیا کے خلاف جاری اس آپریشن کا دائرہ کار رفتہ رفتہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پھیلایا جائے گا۔ اس آپریشن کے ذریعے بازاروں میں بنی ناجائز تجاوزات بھی ختم کی جارہی ہیں۔ پنجاب کی اپوزیشن پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے آپریشن میں صرف عام تاجروں کو نشانہ بنایا جبکہ لینڈ مافیا کے اکثر مگر مچھ چھوڑ دیئے گئے کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے وزرا سے تعلقات رکھتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو نوٹس

1960ء میں جب یونانی تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد کا نقشہ بنایا تو اس نے نئے پاکستانی دارالحکومت کے مضافات میں ایک نیشنل پارک کی بھی بنیاد رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد کے مکین وہاں جاکر سیروتفریح کرسکیں۔ اس مجوزہ نیشنل پارک میں بعض چھوٹے دیہہ موجود تھے۔ منصوبے کے مطابق اسلام آباد تعمیر کرنے والے ادارے، سی ڈی اے نے دیہاتیوں سے زمینیں خرید لیں تاکہ نیشنل پارک کا قیام عمل میں آسکے۔ لیکن سی ڈی اے بعض دیہات میں آباد دیہاتیوں سے زمین نہیں خرید سکا۔ انہی میں موہڑہ نور نامی نامی گاؤں بھی شامل تھا جو بعد ازاں بنی گالہ کہلایا۔ انیس سو ستر کے عشرے میں اسلام آباد کے بعض لوگ بنی گالہ میں دیہاتیوں سے زمینیں خرید کر وہاں اپنے مکان بنانے لگے۔ وجہ یہ کہ بنی گالہ میں اسلام آباد کی نسبت زمین بہت سستی تھی۔

چند ہزار روپے میں ایک کنال زمین میسر آجاتی۔مذید براں گھر تعمیر کرتے ہوئے سی ڈی اے کے بھاری ٹیکس بھی ادا نہ کرنے پڑتے۔1980ء میں حکومت پاکستان نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ راول جھیل سے دو کلو میٹر تک کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ بنی گالہ بھی راول جھیل کے نزدیک واقع ہے ۔مگر بنی گالہ میں زمینیں دیہاتیوں کی ملکیت تھیں،اس لیے وہ انہیں فروخت کرتے رہے۔زمینیں خریدنے والے یونین کونسل بارہ کہو سے خریداری کا معاہدہ تسلیم کرالیتے۔ سی ڈی اے نے اسلام آباد کے مضافات میں واقع دیہات کی زمینوں کا بندوبست و انتظام یونین کونسلوں کے سپرد کردیا تھا۔ان دیہات میں مگر سی ڈی اے کی اجازت کے بعد ہی کوئی نیا گھر بن سکتا تھا۔ تاہم نئے خریدار مقامی دیہاتیوں سے زمین خریدتے، سودے کو یونین کونسل سے منظور کراتے اور اپنا گھر بنالیتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ بنی گالہ میں وسیع و عریض گھروں کی ایک سوسائٹی وجود میں آگئی۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی وہاں اپنا گھر تعمیر کرلیا۔

آخر 1992ء میں سی ڈی اے کو ہوش آیا اور اسے احساس ہوا کہ بنی گالہ میں لوگ اس کی اجازت کے بغیر گھر تعمیر کررہے ہیں۔ تب سی ڈی اے نے مکانات گرانے کی خاطر وہاں آپریشن کردیا۔ دوران آپریشن ہنگامہ آرائی ہوئی اور گولیاں چلنے پر بعض لوگ مارے گئے۔بنی گالہ میں گھر بنانے والوں کا موقف تھا کہ انہوں نے قانونی طریقے سے زمینیں خریدی ہیں۔ لہٰذا مکینوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ کردیا۔ 1998ء میں کورٹ نے قرار دیا کہ سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خریدنے میں حق بجانب ہے کیونکہ یہ علاقہ نیشنل پارک قرار دیا جاچکا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ وہ مکینوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمینوں کی قیمت ادا کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔یہ ایک طرح سے بنی گالہ کے مکینوں کی جیت تھی کیونکہ اب علاقے میں زمین کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔ سی ڈی اے اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ سینکڑوں مکینوں کو اربوں روپے ادا کرسکے۔

لہٰذا اس عدالتی فیصلے کے بعد سی ڈی اے نے اپنے قوانین میں تبدیلی کی اور بنی گالہ میں محدود رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی۔سی ڈی اے نے  بنی گالہ میں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے اور وہاں سیوریج کا مسئلہ خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ عمران خان بھی 2002ء میں وہاں تین سو کنال زمین خرید چکے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا۔ 2017ء میں ایک خط کے ذریعے انہوں نے چیف جسٹس کو مطلع کیا کہ بنی گالہ میں سیوریج کا بڑا مسئلہ ہے اور یہ کہ وہاں ناجائز تعمیرات بھی جاری ہیں۔ اس خط کی بنیاد پر بنی گالہ کے سلسلے میں نیا کیس چلنے لگا۔کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے نے عمران خان کی رہائش گاہ کو ناجائز تعمیر قرار دیا حالانکہ وہ عدالتی فیصلے کے بعددارالحکومت کے زون 4 (بنی گالہ وغیرہ) میں رہائشی تعمیرات کی اجازت دے چکا تھا۔ بہرحال حال ہی میں عدالت عالیہ نے وزیراعظم عمران خان سمیت بنی گالہ کے چار سو سے زائد رہائشیوں کو حکم دیا کہ وہ سی ڈی اے کو فیس دے کر اپنے گھر اور تجارتی عمارات ریگولرائز کروالیں۔تحفظات کے باوجود وزیراعظم نے سی ڈی اے کا نوٹس وصول کرلیا۔ اس طرح انہوں نے قوم پر واضح کیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا دور شروع ہوچکا۔ امید ہے، وہ آنے والوں دنوں میں بھی ہر قیمت پر قانون کی سپرمیسی قائم و دائم رکھیں گے۔

بنی گالہ کے مسئلے نے اس لیے جنم لیا کہ سی ڈی اے کے کرتا دھرتا اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔اگر چالیس پچاس سال پہلے سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خرید لیتا تو آج یہ علاقہ قدرتی مناظر سے بھرپور نیشنل پارک کا حصّہ ہوتا۔یوں دارالحکومت کے شہری سی ڈی اے کی غفلت کے باعث سیروتفریح کرنے اور ماحول پاک صاف رکھنے کی انمول جگہ سے محروم ہو گئے۔

چائنا کٹنگ کا اعجوبہ

اواخر ستمبر میں انکشاف ہوا کہ صدر پاکستان، ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی ’’چائنا کٹنگ‘‘ کی نذر ہوچکا اور وہ سرتوڑ کوشش کے باوجود اپنی زمین کو قبضہ مافیا سے نہ بچا پائے۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ لینڈ مافیا ریاست کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی اور اس کا قلع قمع کرنا وقت کی ضرورت تھا۔صدر مملکت نے 1978ء میں کراچی کی مشہور بستی، گلستان جوہر کے بلاک 10 میں چار سو گز کا پلاٹ پچاس ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ پلاٹ ایک نئے عجوبے، چائنا کٹنگ کی زد میں آگیا۔کہتے ہیں کہ یہ اعجوبہ گزشتہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کی اختراع ہے۔

اس عمل میں بڑے پلاٹوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ پلاٹوںکو ’’چائنا پلاٹ‘‘ کا نام دیا گیا جبکہ پلاٹوں کی تقسیم کا عمل ’’چائنا کٹنگ‘‘ کہلایا۔یہ عمل مگر غیر قانونی ہے اور لالچ و ہوس کی پیداوار! کراچی کا لینڈ مافیا پچھلے بیس برس میں کئی سو ایکڑ سرکاری زمین چائنا کٹنگ کی بھینٹ چڑھا چکا۔ یہ سرکاری زمین پارکوں، اسکولوں، قبرستانوں، کھیل کے میدانوں وغیرہ پر مشتمل تھی۔ اب وہاں عمارتیں اور گھر تعمیر ہوچکے۔یوں اہل کراچی کے حقوق پر بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ہوس کے پیروکاروں نے انھیں اسکولوں،پارکوں اور کھیل کے میدانوں سے محروم کر دیا۔

کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً گلستان جوہر، نیو کراچی، گلشن اقبال، بلدیہ ٹاؤن، بنارس کالونی، گلشن معمار، کیماڑی، سرجانی ٹاؤن، سہراب گوٹھ اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ میں لوگوں کی نجی ملکیت والے بڑے پلاٹ خالی پڑے تھے۔ لینڈ مافیا نے بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں بھی ٹکروں میں تقسیم کر کے بیچ ڈالا۔ انہی میں ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی شامل تھا جس کے ایک حصّے پر آج مکان بن چکا۔

لینڈ مافیا نے چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکاری اور نجی زمین کے ٹکڑے کرکے پلاٹ جن افراد کو فروخت کیے، ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ بے گناہ افراد شامل ہیں جنہیں خبر نہ تھی کہ وہ غیر قانونی طریقے سے پیدا کردہ ایک پلاٹ خرید رہے ہیں۔ دوسری قسم ان افراد پہ مشتمل ہے جنہیں علم تھا کہ یہ ایک غیر قانونی پلاٹ ہے پھر بھی انہوں نے اسے خرید لیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون دونوں اقسام کے افراد سے کس طرح پیش آتا ہے۔ کراچی سے چائنا کٹنگ کا اعجوبہ دیگر بڑے شہروں مثلاً لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور تک پھیل گیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق لاہور کی مضافاتی بستیوں میں واقع کئی ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی چائنا کٹنگ کا نشانہ بن چکی ہے۔نئی بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بھی لینڈ مافیا نے یہ گُر آزمایا۔کئی لوگوں کے بڑے پلاٹ تین یا پانچ مرلوں کی صورت ایک نہیں زیادہ خریداروں کو بیچ دیے گئے۔ اسی طرح اسلام آباد میں یہ اعجوبہ G-13 اور E-11 کے سیکڑوں اور راول ڈیم کے اردگرد علاقوں میں سامنے آیا۔ لینڈ مافیا نے ان علاقوں میں زمین کے وسیع سرکاری و نجی قطعات پر قبضہ کیا، بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں پلاٹوں کا روپ دیا اور پھر متعلقہ سرکاری محکموں کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے ان کے جعلی کاغذات بنوالیے۔ بعد ازاں پلاٹ بیچ کر اربوں روپے کمائے گئے۔

غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار

قبضہ کی گئی سرکاری یا نجی زمین ہڑپ کرنے کے لیے لینڈ مافیا کا معروف طریق کار یہ ہے کہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ملک بھر میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہوچکی۔یہ معاملہ قانون کی حکمرانی کمزور ہونے کے باعث پیدا ہوا اور اب معاشرے کا ایک ناسور بن چکا۔کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، ایف آئی اے کو ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متعلق تحقیق و تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اواخر ستمبر میں ایف آئی اے نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ رپورٹ نے افشا کیا کہ پاکستان میں ’’چھ ہزار‘‘ غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیاں موجود ہیں۔ یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان میں لینڈ مافیا کی جڑیں وسیع پیمانے پر پھیل چکیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن علاقوں میں ہریالی ہو، وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بن جاتی ہے۔ ہم اپنا ماحول اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔ بحث کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ لینڈ مافیا نے پنجاب کوآپریٹو سوسائٹیز کے دفتر میں ریکارڈ کو آگ لگادی تاکہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ پیچیدہ ہوجائے۔سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ وہ ملک بھر میں موجود تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا فرانزک آڈٹ کرے اور ان سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ اس ضمن میں ایف بی آئی کی بھر پور طریقے سے مدد کریں۔

The post لینڈ مافیا قانون کے شکنجے میں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>