Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

الیکشن2018ء؛ دھاندلی ہوئی… نہیں ہوئی؟

$
0
0

وطن عزیز کی تاریخ میں معمّوں کی کمی نہیں اور پچھلے دنوں ایک اور انوکھے معّمے کا اضافہ ہو گیا۔25جولائی کو الیکشن والی رات اچانک ایک سافٹ ویئر نے کام کرنا چھوڑ کر پوری قوم کو حیران پریشان کر دیا۔

اب یہ معاملہ  چیستان بن چکا کہ سافٹ ویئر میں از خود کوئی خرابی پیداہوئی یا اسے جان بوجھ کر خراب کیا گیا؟ اس خرابی سے فائدہ اٹھا کر بہرحال حزب اختلاف کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل گیا کہ الیکشن 18ء دھاندلی زدہ تھے۔آرٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) نامی یہ سافٹ ویئر الیکشن کمیشن نے قومی شناختی کارڈ بنانے والے سرکاری ادارے‘ نادرا کے آئی ٹی ماہرین سے تیار کرایا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 45 کی الیکشن شدہ کاپی بذریعہ انٹر نیٹ جلد از جلد الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر واقع اسلام آباد تک پہنچ سکے۔

فارم 45 پر ایک پولنگ اسٹیشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد امیدواروں کے حساب سے درج ہوتی ہے۔یہ سافٹ ویئر پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں کے ناظمین (پریزائڈنگ افسروں یا ان کے نائبین ) کے سمارٹ فونوں میں انسٹال کر دیا گیا۔ اس سافٹ ویئر کو چلانے کا سارا انتظام عملہ نادرا ہی کے سپرد تھا۔ نادرا کے ہیڈ کوارٹر (اسلام آباد) میں اس سافٹ ویئر کی خاطر سرور مخصوص کر دیئے گئے۔ نیز ایک معروف انٹر نیٹ کمپنی سے 400ایم بی پی ایس (MBPS) کی پائپ لائن کرائے پر حاصل کی گئی۔

الیکشن والی رات پولنگ اسٹیشنوں سے ہر فارم 45 سب سے پہلے نادرا کے سروروں میں آنا تھا۔ عملہ نادراپھر ہر فارم الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر‘ حلقے کے متعلقہ ریٹرنگ افسر اور سرکاری ٹی وی‘ پاکستان ٹیلی ویژن کو بھجوا دیتا۔ جیسا کہ بتایا گیا‘ آر ٹی ایس سافٹ ویئر کروڑوں روپے کی لاگت سے اسی لیے بنایا گیا تاکہ پولنگ سٹیشنوں کے نتائج الیکشن کمیشن تک جلد پہنچ سکیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کمیشن نے پارلیمانی انتخابات سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ 25 جولائی کی رات دو بجے تک سبھی پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج قوم کے سامنے آ جائیں گے۔اس دن بعض ناخوشگوار واقعات کے باجود ووٹنگ جاری رہی۔ رات نو بجے سے پہلے ہی ہمارے ٹی وی چینل پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج بھی مشتہر کرنے لگے۔ نتائج تیزی سے سامنے آ رہے تھے۔ تاہم گیارہ بارہ بجے اچانک نتائج آنے کا سلسلہ تھم سا گیا۔ بعض مبصرین نے اظہار حیرت بھی کیا کہ نتائج آنا بند کیوں ہو گئے؟

گو مگو کی اس کیفیت میں اچانک سابق وزیراطلاعات ‘ مریم اورنگ زیب ٹی ی چینلوں پر نمودار ہوئیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے مسلم لیگ ن کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔ اور یہ کہ پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45کے بجائے سادہ کاغذ پر ووٹوں کی تعداد لکھ کر دے دی گئی ۔

انہوں نے دعوی کیا کہ دھاندلی کا آغاز ہو چکا اور بند کمروں میں ووٹوں کی تعداد تبدیل کی جا رہی ہے۔ مریم اورنگ زیب کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے رہنماؤں نے بھی پریس کانفرنسیں کر کے درج بالا الزامات دھرائے اور دعوی کیا کہ پولنگ اسٹیشنوں میں نتائج بدلے جا رہے ہیں۔ گویا ان پارٹیوں نے الیکشن 18ء کو مشکوک قرار دے ڈالا۔ڈیڑھ دو گھنٹے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں خرابی کی وجہ سے نتائج آنا بند ہوئے ہیں۔ اب روایتی طریقے سے کام ہو رہا  ہے لہٰذا نتائج آنے میں دیر ہو سکتی ہے۔ یوں دو بجے تک تمام نتائج سامنے لانے کا جو دعویٰ الیکشن کمیشن نے کیا تھا‘ وہ غلط ثابت ہوا۔

معاملہ کیا پیش آیا؟

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ رات گیارہ بجے کے بعد آر ٹی ایس جام ہونا شروع ہوا ۔ وجہ یہ کہ جب ہزار ہا پریذائڈنگ افسروں نے اپنے اپنے فارم 45 سافٹ ویئر میں لوڈ کیے‘ تو فارموں کی کثرت کی وجہ سے آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ اب اس میں اسکین شدہ فارم 45 لوڈ کرنا ممکن نہیں رہا۔ایک سافٹ ویئر کا جا م ہو جانا کوئی نئی بات نہیں‘ ترقی یافتہ ممالک میں تو زیادہ ٹریفک ہونے سے ویب سائٹس بیٹھ جاتی ہیں۔ اس قسم کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں لہٰذا 25 جولائی کی رات فارموں کی کثرت کے باعث آر ٹی ایس سافٹ ویئر نے کام کرنا چھوڑ دیا‘ تو یہ ایک ناگہانی آفت تھی۔

اس خرابی پر زیادہ سے زیادہ الیکشن کمیشن پر یہ تنقید کی جا سکتی ہے کہ اس نے پہلے کیوں نہیں سوچا ،جب ایک ساتھ ہزاروں فارم 45سافٹ ویئر میں لوڈ ہوں گے تو ہجوم کی وجہ سے وہ بیٹھ جائے گا؟ اگر اصل خرابی یہی ہے‘ تو مطلب یہ کہ نادرا اور الیکشن کمیشن‘ دونوں قومی اداروںنے سافٹ ویئر کوتجربات سے نہیں گذارا ۔ اگر آر ٹی ایس پرایسا تجربہ کیا گیا ہوتا‘ تو یقیناً یہ خرابی سامنے آ جاتی کہ فارموں کی کثرت اسے جام کر دے گی۔ الیکشن کوئی بھی ہو‘ بڑا اہم ہوتا ہے۔ خاص طور پر قومی الیکشن کی اہمیت تو بے حساب ہوتی ہے کہ اسی کے ذریعے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کا چناؤ ہوتا ہے ۔ الیکشن کے عمل میں بعض اوقات معمولی سی غلطی بھی اسے مشکوک بنا دیتی ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ سرکاری اداروں کو خصوصاً قومی الیکشن کرواتے ہوئے انتہائی توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے دشمن ہیکروں نے سافٹ ویئر جام کر دیا ہو۔ یہ عمل انجام دینے کا معروف طریقہ یہ ہے کہ ہیکر سافٹ ویئر کی ٹریفک مصنوعی طریقے سے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ مصنوعی ٹریفک دراصل مختلف کمپیوٹر پروگرام ہو تے ہیں۔ جب ہجوم بڑھ جائے تو سافٹ ویئر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دنیائے انٹرنیٹ میں یہ عمل اصطلاح میں ’’ڈی ڈی او ایس‘‘ (Denial-of-service attack) کہلاتا ہے۔اگر درج بالا معاملہ پیش آیا‘ تو اس کے جنم لینے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ آر ٹی ایس سافٹ ویئر کی انٹرنیٹ پائپ لائن محفوظ (Secure) تھی۔ یعنی اس سافٹ ویئر تک صرف نادرا کا عملہ ہی رسائی رکھتا تھا۔ پہلی صورت میں یہ  ممکن ہے‘ سافٹ ویئر میں از خود کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی۔ یوں پاکستان دشمن ہیکروں کو اس میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔

انہوں نے پھر ڈی ڈی او ایس حملے کے ذریعے سافٹ ویئر جام کر ڈالا۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی تربیت یافتہ پاکستان دشمن ہیکر آر ٹی ایس کا دفاعی حصار توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ وہ سافٹ ویئر کی انٹرنیٹ پائپ لائن میں داخل ہو اور اسے ڈی ڈی او ایس حملوں کا نشانہ بنا دیا۔تیسری صورت یہ ہے کہ نادرا کے آئی ٹی عملے میں سے کسی نے آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں ایسی خرابی پیدا کر دی کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ کام کرنا نہیں چھوڑا‘ تو جام ضرور ہوگیا اور بڑی سست رفتاری سے اپنا کام انجام دینے لگا۔چوتھی صورت یہ کہ جس انٹرنیٹ کمپنی سے سافٹ ویئر چلانے کے لیے 400 ایم بی پی ایس کی پائپ لائن کرائے پر لی گئی تھی، اس کے کسی شرپسند عنصر نے آر ٹی ایس میں خرابی کردی۔ اس کی وجہ سے وہ قابل استعمال نہیں رہا۔

الیکشن کمیشن اور نادرا کا تنازع

25 جولائی کی رات سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دعوی کیا تھا کہ آر ٹی ایس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اسی موقف پر قائم ہے۔ تاہم الیکشن کے بعد نادرا کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ آر ٹی ا یس نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ سوال یہ ہے کہ دونوں قومی اداروں میں سے کس کا دعویٰ درست ہے؟آر ٹی ایس سافٹ ویئر کے ڈیٹا کی رو سے 25 جولائی کو شام چھ بجے ووٹنگ ختم ہوئی‘ تو اگلے ایک گھنٹے میں’’225‘‘ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج بذریعہ نادرا سرور الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ چکے تھے ۔پھر فارم 45تیزی سے آنے لگے حتیٰ کہ رات گیارہ بجے 15,796فارم الیکشن کمیشن تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد فارم 45کی آمد سست رفتاری کا شکار ہو گئی۔ حتیٰ کہ فی گھنٹہ ایک ہزار پولنگ اسٹیشنوں کے فارم 45آنے لگے۔ اس ڈیٹا سے یہ سچائی عیاں ہے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر نے کام کرنا تو نہیں چھوڑا تاہم وہ انتہائی سست رو ضرور ہو گیا۔

الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر چلانے کا سارا انتظام نادرا کے سپرد تھا۔ اگر سافٹ ویئر خراب ہوا تو یہ اس کی ذمے داری ہے۔ لیکن نادرا کا د عویٰ ہے کہ 25 جولائی کی رات آر ٹی ایس صحیح طرح کام کر رہا تھا۔ بعض نادرا افسران کا کہنا ہے کہ پریڈائزنگ افسروں اور ان کے نائبین کو الیکشن کمیشن نے سافٹ ویئر چلانے کی درست تربیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے ‘ وہ الیکشن کی رات فارم 45صحیح طرح سافٹ ویئر پر لوڈ نہیں کر سکے اور نتائج کا سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا۔تجویز یہ ہے کہ درج بالا تنازع ختم کرنے کے لیے تجربہ کار آئی ٹی ماہرین، ججوں اور ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک جامع کمیشن بنایا جائے ۔وہ گہرائی و گیرائی سے تحقیق کرے کہ آر ٹی ایس سافٹ ویئر میں کس مرحلے پر خرابی در آئی۔

غیر جانب دارانہ تحقیق دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے گی۔ ایسا کمیشن ضرور بننا چاہیے تاکہ مستقبل میں ٹیکنالوجی سے متعلق کوتاہیوں اور غلطیوں سے بچا جا سکے۔یہ بات ضرور قوم کو معلوم ہونی چاہیے کہ 25 جولائی کی رات آر ٹی ٹی ایس سافٹ ویئر کیوں صحیح طرح اپنا کام انجام نہیں دے سکا؟ جس نے بھی اسے خراب کیا ہے، اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ وجہ یہ کہ اس سافٹ ویئر کی خرابی کے باعث ہی الیکشن 18ء کا پورا عمل دھاندلی زدہ اور مشکوک بن گیا۔

الیکشن میں شکست سے دوچار ہونے والی سیاسی جماعتوںکے بعض رہنما تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے یہ الزم عائد کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر یہ سسٹم بند کیا گیا تاکہ پی ٹی آئی کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ سابق حکمران جماعت (مسلم لیگ ن) کے ساتھی مختلف اداروں میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے اثرورسوخ کی بدولت آر ٹی ایس جام کرادیا۔ مقصد یہ تھا کہ الیکشن کو جس میں ان ناکامی واضح ہوچکی تھی‘ متنازعہ بنایا جاسکے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ دعویٰ اس لیے کمزور ہے کہ الیکشن 18 میں فوج سبھی پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کی گئی تھی۔ مقصد یہی تھا کہ کسی قسم کی دھاندلی انجام نہ پائے۔ یہ عمل کارگر اور مفید ثابت ہوا۔

الیکشن کے بعد اگرچہ کوڑے کے ڈھیر وغیرہ سے بیلٹ پیپر ملنے کے واقعات سامنے آئے، تاہم کوئی امیدوار یہ ثبوت پیش نہیں کرسکا کہ اس کے حلقے میں جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ پاک فوج کی موجودگی کے باعث ووٹنگ کا عمل بھی مجموعی طور پر منظم اور پُرامن رہا۔یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو کامیابی دلوانی تھی ،تو الیکشن سے قبل ایسے اقدامات کیے جاتے جن کی بدولت اس جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہو جاتی۔یعنی وہ الیکشن میں کم از کم 140 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہتی مگر ہم نے دیکھا کہ وہ بمشکل 116 نشستیں جیت سکی۔

اس حقیقت سے عیاں ہے کہ حالیہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار رہی۔الیکشن کو پرکھنے والی مشہور پاکستانی تنظیم،فافن نے بھی مجموعی طور پر الیکشن کو صاف ستھرا قرار دیا ۔یہ یاد رہے،حالیہ الیکشن سے قبل ہی غیرملکی میڈیا میں ایسے مضامین شائع ہونے لگے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ’’یہ الیکشن نہیں سلیکشن‘‘ہوں گے۔اس قسم کے مضامین امر یکا اور برطانیہ کے مشہور اخبارات اور ویب سائٹس میں شائع ہوئے۔گویا غیرملکی میڈیا نے پہلے ہی الیکشن کو متنازع اور مشکوک قرار دے دیا۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ غیرملکی میڈیا کی اس ملک دشمن مہم کے پیچھے مسلم لیگ ن کا سرمایہ کارفرما تھا۔مقصد یہ تھا کہ خصوصاً سیکورٹی فورسز کو بدنام کیا جا سکے۔

حزب اختلاف کے دیگر الزامات

اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ الیکشن کی رات ان کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا گیا۔ ان کے نزدیک یہ دھاندلی کا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت ہر امیدوار کے صرف ایک پولنگ ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں رہنے کی اجازت تھی۔ جس امیدوار کے زیادہ پولنگ ایجنٹ تھے،صرف انہیں پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالا گیا۔اگر الیکشن کمیشن کا دعویٰ درست ہے، تو یہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی غلطی تھی کہ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں میں اپنے زیادہ پولنگ ایجنٹ داخل کردیئے۔ گویا یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات لگتی ہے۔ امیدواروں کو قانون پر عمل کرنا چاہیے تھا۔

حزب اختلاف کا دوسرا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ الیکشن کی رات ان کے پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 کے بجائے سادہ کاغذ پر ووٹوں کی تعداد لکھ کر دی گئی۔ اس کے نزدیک یہ دھاندلی ہونے کا دوسرا ثبوت ہے۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سبھی پریذائڈنگ افسروں کو ہدایت دی گئی تھی ،فارم 45آر ٹی ایس پر بھجوانے کے بعد ہی وہ فارم کی نقول پولنگ ایجنٹوں کو فراہم کریں گے۔

جب آرٹی ایس میں خرابی پیدا ہوئی تو فارم دینے کا معاملہ بھی لٹک گیا۔اس پر بعض بے صبرے پولنگ ایجنٹوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ان سے جان چھڑانے کی خاطر کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے پریشان اور گھبرائے ہوئے عملے نے انھیں سادہ کاغذوں پر ووٹوں کی متعلقہ تفصیل فراہم کر دی۔اگر یہی ماجرا پیش آیا تو یہ بھی آشکارا کرتا ہے کہ حزب اختلاف نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے بے صبرے پن اور جلد بازی کو دھاندلی کا نام دے دیا۔گویا کوتاہی ان کے اپنے لوگوں کی تھی مگر معتوب الیکشن کمیشن کا عملہ قرار پایا جس کی انتظامیہ کو سابقہ حکومت نے خود متعین کیا تھا۔بہرحال حزب اختلاف کے دونوں الزامات کی گہرائی سے تحقیق ہونی چاہیے تاکہ سچ سامنے آسکے۔

The post الیکشن2018ء؛ دھاندلی ہوئی… نہیں ہوئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


شہر میں شورِمحشر برپا

$
0
0

سریلی اور نقرئی آواز اللہ تعالیٰ کی دی گئی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔

قدرت نے ہر شے کو اعتدال میں رکھا ہے، بارش کی بوندوں کی ٹپ ٹپ سے بننے والی جلترنگ، بلند و بالا پہاڑوں سے گرتے آبشاروں کی مُدھر آواز، بہتے جھرنوں کی گنگناہٹ، سمندری لہروں کا شور، چڑیوں کی چہچاہٹ، کوئل کی کوکو، ہوا سے لہراتے سبز پتوں کی سرسراہٹ، یہ سب ایسی آوازیں ہیں جو کہ نعمت خداوندی ہیں۔

سریلی اور نقرئی آواز کی مدح سرائی میں کئی مشہور شاعروں نے دیوان کے دیوان لکھ دیے۔ لیکن حرص کا شکار انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ شہری علاقوں سے کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کو روٹھے عرصہ گزر گیا۔

چاروں جانب سے بند گھروں نے ہمیں بارش کی جلترنگ سننے سے محروم کردیا۔ ان سریلی آوازوں کی جگہ پولیس موبائل، ایمبولینسوں کے ہوٹرز، تشہیری، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے بے ہنگم شور، مرکزی شاہراہوں پر فٹنس نام کی چیز سے نا آشنا بے ہنگم طریقے سے شور مچاتی بسوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی غراہٹوں نے لے لی ہے۔

یہ سب مل کر ہمارے شہروں خاص طور پر شہرِقائد کراچی کے عوام کو صوتی آلودگی کی شکل میں ایسا زہر دے رہیں ہیں جو نہ صرف یہاں کہ باسیوں کو آہستہ آہستہ سماعت سے محروم کر رہا ہے، بل کہ انہیں چڑچڑے پن، بلند فشار خون، ہارٹ اٹیک اور مختلف نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور موسمی تغیرات کے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے آلودگی میں کمی اور کلائمیٹ چینج جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم پاکستان میں اکثریت کے نزدیک آلودگی کا مطلب صرف فضائی یا آبی آلودگی ہے، لیکن آلودگی کو صرف دو، تین درجوں تقسیم کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ آلودگی کی ایک سب سے غیرمعروف لیکن سب سے نقصان دہ شکل صوتی آلودگی ہے۔

صوتی آلودگی قدرتی ماحول میں غیرفطری طریقے سے پیدا ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے صوتی حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر، سرمایہ کاری نظام کے لیے پیدا کی جانے والی مصنوعات اور ان کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے صوتی آلات، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والا شور نہ صرف صوتی آلودگی میں اضافہ کر رہاہے بل کہ غیرمحسوس طریقے سے بنی نوع انسان کو نفسیاتی اور بہت سے جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کر رہے ہیں، جن میں ارتکاز توجہ میں کمی، لوگوں میں قوت برداشت کی کمی جیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔

صوتی آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جُڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔

ایک صدی قبل تک رہائش کے لیے کچے یا ایک منزلہ روشن و ہوادار گھر بنانے کا رجحان تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کے لیے جگہ کی تنگی نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس رقبے پر پہلے ایک یا دو گھر بنتے تھے اور دس پندرہ افراد رہا کرتے تھے، اسی جگہ کو فلیٹوں کی شکل دے کر سیکڑوں افراد کی رہائش کے قابل بنا دیا گیا۔ ان تمام تر عوامل کے نتیجے میں نہ صرف لوگ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے محروم ہوئے بل کہ اس جگہ پیدا ہونے والے شور کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ناقص اور بے ہنگم تعمیرات، پبلک ٹرانسپورٹ کے غیرمعیاری نظام اور پتھاروں نے دنیا بھر میں صوتی آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا۔ ماہرین کے مطابق کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف اس علاقے اور شہر کی صوتی اور مادی خصوصیات میں منفی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں بل کہ یہ قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اس شہر کی خوب صورتی کو بھی کم کردیتی ہے۔

دنیا بھر میں طویل عرصے تک شور سے پیدا ہونے والی آلودگی کو نظرانداز کیا جاتا رہا، تاہم اب ترقی یافتہ ممالک صوتی آلودگی کے سدباب اور اس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔ دورحاضر میں ’’صوتی آلودگی‘‘ ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے لیکن ہم ابھی تک شُترمرغ کی طرح ریت میں سر چپھائے اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین ماحولیات صوتی آلودگی میں کمی کے لیے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں، لیکن پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے۔

مذہبی تہوار ہو یا سیاسی جلسہ، جشن آزادی ہو یا کھیل کے میدان میں فتح ، ہم لاؤڈ اسپیکر، ہارن، تیز موسیقی اور موٹر سائیکلوں کے ہارن نکال کر شور مچانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم دانستہ اور نادانستہ طور پر شور کی آلودگی کو نظرانداز کر رہے ہیں جب کہ اسی صوتی آلودگی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں سماعت اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آواز کے دباؤ کی پیمائش ’’ڈیسی بل‘ میں کی جاتی ہے۔ اوسطاً ایک عام آدمی زیرو ڈیسی بل تک کی آواز سن سکتا ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ زیرو ڈیسی بل ہوتی ہے۔ 85 ڈیسی بل یا اس سے زیادہ ایکسپوژر سے کانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ صوتی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں فالج اور دل کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ علمی ادارہ صحت کے مطابق صوتی آلودگی موٹاپے اور بے خوابی جیسے مسائل میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ زیادہ شور والی جگہ میں رہنے والے افراد درج بالا بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل سر درد، بے چینی اور متلی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے، جسے ہمارے ملک میں کسی بھی طور اہمیت نہیں دی جارہی، حالاںکہ یہ ان دیکھی آلودگی ہماری زندگیوں، جسمانی و ذہنی صحت اور ترقی پر براہِ راست اور بلاواسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثلاً شور کے حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی حِس کو بری طرح تباہ کردیتی ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی سے کیا جائے تو شور کی آلودگی کے عناصر ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیں گے مگر آواز کی لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے شور کی سطح کے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ شور کا پیمانہ ڈیسی بل ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کی حد 45، کمرشیل علاقوں میں 55 اور صنعتی علاقوں میں 65 ڈیسی بل ہے۔ کچھ عرصہ قبل یورپ میں صوتی آلودگی اور امراضِ قلب کے مابین ربط کو جاننے کے لیے ایک سروے کیا گیا۔ محققین نے یورپ کے 5 شہروں سوئیڈن، ناروے، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین کے چالیس ہزار شہریوں کا 5 سے 9 سال تک جائزہ لینے کے ساتھ ہر ہفتے ان شہروں میں صوتی آلودگی کی جانچ بھی کی۔ سروے میں سامنے آیا کہ وہ علاقے جہاں شور کی سطح بلند تھی ان علاقوں کے رہائشیوں میں ہائی بلڈ پریشر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔

دنیا بھر میں صوتی آلودگی میں سب سے اہم کردار ٹریفک کے شور کا ہے۔ پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جن میں بل ڈوزر، واٹر ٹینکرز، بسیں، موٹر سائیکل، کار اور ٹرک وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی میں ان گاڑیوں اور ان میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور، موسیقی کا شور، ریل گاڑیوں کا شور اور ہر محلے میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹر کے شور نے شہریوں کی اکثریت کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ چند سال قبل کراچی میں ٹریفک کی وجہ سے ہونے والی آلودگی پر ایک تحقیق کی گئی۔

اس ریسرچ میں کراچی کے مصروف ترین علاقوں میں صوتی آلودگی کی پیمائش کی گئی، جس کے مطابق صوتی آلودگی پھیلانے میں سرفہرست آٹو رکشا رہے۔ آٹو رکشوں سے پیدا ہونے والا کم سے کم شور 81ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ شور پیدا کرنے میں دوسرے نمبر پر منی بس رہی ، جس سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، بس سے پیدا ہونے والا شور کم از کم 83 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، موٹر سائیکل سے پیدا ہونے والا کم ازکم شور 82 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 115ڈیسی بل، ٹرک سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 85 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، پک اپ سے پیدا ہونے والا کم از کم شور86 ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ 100ڈیسی بل، واٹر ٹینکر سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 95ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور100ڈیسی بل اور کار سے پیدا ہونے والا کم از کم شور 65ڈیسی بل اور زیادہ سے زیادہ شور 80 ڈیسی بل ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ تجارتی علاقوں میں شور کی اوسط سطح 96ڈیسی بل اور رہائشی علاقوں میں 60ڈیسی بل ریکارڈ کی گئی، جو کہ بین الاقومی معیار کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں شور کی سطح کچھ اس طرح رہی۔

٭صوتی آلودگی کی وجہ سے ظاہر ہونے والی علامات

جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں، ان کے متاثر ہونے کی علامت یہ ہے کہ متاثرہ شخص کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوںکہ درخت شور کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہییں تاکہ وہ ماحول کی آلودگی کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ان لوگوں پر خاص طور پر منفی اثرات ڈالتی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں جیسے مزدور اور کسان وغیرہ۔ ماہرین کے مطابق یہ کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کی استعداد کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

حال ہی میں کیے گئے سروے کے مطابق گنجان آباد علاقوں میں شور کا تناسب پچھلے 10سال میں تیزی سے بڑھا ہے۔ ماہرین کے مطابق رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب 80 ڈیسی بل ہونا چاہیے مگر کراچی کے رہائشی علاقوں میں شور کا تناسب مختلف وجوہات کی بنا پر تیزی سے بڑھتا جارہا ہے، آواز کی آلودگی کے بہت سے عوامل عوام کی روزمرہ کی زندگی میں شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ 10 سال سے کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں، بڑوں میں بھی مستقل شور والے ماحول میں رہنے کے سبب سر درد، چڑچڑے پن اور دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

کراچی میں خصوصاً خستہ حال بسوں میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور،موسیقی کا شور، ہوائی جہاز، ریل گاڑیوں کا شور، ہر محلے میں میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹرز کے شور نے عوام کو مستقل رہنے والی ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ سونے پر سہاگہ وہ افراد جو کسی فیکٹری یا ریلوے ٹریک کے اطراف رہتے ہیں ان میں قوت سماعت متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق کراچی میں مختلف آوازوں کے امتزاج سے شہر میں صوتی آلودگی پیدا ہوگئی ہے، جو نہ صرف انسان کی قوت سماعت بل کہ بہت سی چیزوں کی خوب صورتی کو بھی متاثر کررہی ہے۔

صوتی آلودگی کے اسباب
صوتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل تو بے تحاشا ہیں، لیکن یہاں ان میں سے چند اہم عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے۔

٭ انڈسٹریلائزیشن :  صوتی آلودگی کے پھیلاؤ میں اہم کردار صنعتوں کا بھی ہے۔ بھاری مشینوں کے استعمال سے شور پیدا ہوتا ہے، جب کہ ان مشینوں کو چلانے کے لیے استعمال ہونے والے کمپریسر، جنریٹرز، ایگزاسٹ فین، گرائنڈنگ مشینیں مل کر اس شور میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اس ماحول میں کام کرنے والے افراد شو ر سے تحفظ کے لیے ایئر پلگ استعمال کرتے ہیں، تاہم پاکستان میں ماسوائے کثیرالقومی کمپنیوں کے اس طرح کے حفاظتی آلات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت اونچا بولنے اور اونچا سننے کی عادی ہوجاتی ہے۔

٭ناقص شہری پلاننگ:  تنگ و تاریک گلیوں، چھوٹے گھروں، ایک گھر میں زیادہ افراد کی رہائش، شہری آبادیوں کے نزدیک بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور ہوائی اڈوں کی تعمیر غیرمحسوس طریقے سے اس کے گردونواح میں رہنے والے افراد کی سننے کی حس ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی قسم کی تعمیرات ٹاؤن پلاننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں۔ گیس، پیٹرول اسٹیشن گھروں سے کتنا دور ہونا چاہیے ، مرکزی سڑک، بس اڈے یا ایئر پورٹ سے شہری آبادی کتنی دور ہونی چاہیے، گلیوں محلوں میں تعمیرات کس طرح ہونی چاہییں، کسی بھی شہر کی آباد کاری میں سب سے پہلے ان باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لیکن پاکستان خصوصاً کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔

٭ سماجی تقریبات :  پاکستان میں موسیقی، لاؤڈ اسپیکر اور شور شرابہ ہر سماجی تقریب کی خاصیت ہوتے ہیں۔ تقریب چاہے سیاسی ہو، شادی کی ہو، یا کسی مذہبی دن کی، اس کے منتظمین بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے اپنی تقریب میں پڑوسیوں کو شامل کرنا اہم فرض سمجھتے ہیں۔ آپ اگر کسی عبادت گاہ، شادی ہال یا کسی ایسی جگہ جو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہو کے قریب رہتے ہیں تو پھر آپ کو باقاعدگی سے کسی ای این ٹی یا آڈیولوجسٹ سے اپنا چیک اب کرواتے رہنا چاہیے۔ تقریبات کے علاوہ شہرقائد میں گذشتہ چند سال سے پیدا ہونے والے ایک نئے رجحان نے بھی صوتی آلودگی میں اپنا حصہ شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ کسی بڑے شاپنگ مال کا افتتاح ہو یا گلی کے نکڑ پر کھلنے والی دودھ کی دکان، افتتاح کے پہلے ہفتے اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے بلند آواز میں سات سات، دس دس گھنٹے تک کان پھاڑ دینے والی آواز میں گانے چلانا ایک روایت بنتی جا رہی ہے، جو نہ صرف اس ماحول میں رہنے والوں بل کہ اطراف کے لوگوں کی سننے کی حس کو متاثر کر رہی ہے۔

٭ ذرایع آمدورفت:  اگر کبھی آپ کو کراچی کے پُرانے علاقوں صدر، گولیمار، ایم اے جناح روڈ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو پھر یقیناً آپ اس تجربے سے بھی گزر چکے ہوں گے کہ آپ ایک خوانچہ فروش کے لاؤڈاسپیکر پر بلند آواز میں اس پراڈکٹ کی خصوصیت پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ اسی اثنا میں کسی موٹر سائیکل، رکشہ، ٹیکسی یا بس کے کان پھاڑ دینے والے ہارن کی آواز آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتی ہے۔ ایمبولینسوں، پولیس موبائلوں کا بلاضرورت ہوٹر کا استعمال، پابندی کے باجود ممنوعہ ہارن کا استعمال نہ صرف عام شہریوں بلکہ اس طرح کے گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے افراد کو سماعت سے محروم کر رہا ہے، اس کا دل چسپ پہلو تو یہ ہے کہ ہارن، ہوٹر کے بے جا استعمال کے قانون کو لاگو کروانے کی پابند ٹریفک پولیس ہی چند روپوں کے عوض اس اہم مسئلے سے چشم پوشی کر رہی ہے اور صوتی آلودگی سے متاثر بھی سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہل کار ہی ہورہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر فٹنس سے محروم کان پھاڑ دینے والے رکشوں کی آواز کئی دہائیوں تک صوتی آلودگی میں برابر کا حصہ ڈالتی رہی۔ تاہم کچھ سال قبل ان پر مکمل پابندی عاید کردی گئی۔

٭گھریلو سرگرمیاں:  دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی نت نئی جدت نے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں۔ ٹیلی ویژن، اسمارٹ فون، انٹرنیٹ سے دنیا آپ کی انگلی کی نوک پر آگئی تو دوسری جانب سل بٹے کی جگہ مسالا پیسنے کے لیے برقی مشین، گوشت گلانے کے لیے پریشر کوکر، صفائی کے لیے جھاڑو کی جگہ ویکیوم کلینر، کپڑے دھونے اور سکھانے کے لیے واشنگ مشین اور ڈرائر، پنکھے کی جگہ روم کولر اور ایئر کنڈیشنرز نے لے لی۔ بہ ظاہر ان سب چیزوں نے انسانی زندگی کو مزید سہل بنادیا، لیکن دیگر ماحولیاتی نْقصانات کے ساتھ ساتھ یہ آلات صوتی آلودگی میں بھی حصہ بہ قدر جثہ ادا کر رہے ہیں۔ ان آلات سے پیدا ہونے والا شور بہ ظاہر ہمارے معمولات زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے، لیکن اس کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب اچانک بجلی چلی جائے تو کمرے میں موجود خاموشی اس قدر دبیز ہوتی ہے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے۔ ان میں سے کچھ آلات بہ ظاہر یہ آلات اتنی آواز پیدا نہیں کرتے جو انسانی کانوں کو متاثر کرسکیں، لیکن ان آلات سے پیدا ہونے والی معمولی آواز پرندوں، حشرات الارض اور دیگر جانوروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔

صوتی آلودگی سے صحت پر مرتب ہونے والے نقصانات

جب کوئی آواز ناگوار گزرے یا اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کو متاثر کرنے لگے تو ہم اسے شور کا نام دیتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہمارے کس حد تک نقصان دہ ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،’’ہمیں سب سے پہلے شور کی تعریف کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ شور کہتے کسے ہیں؟ شور سے متعلق بہت کم لوگوں کو آگاہی ہے۔ شور ہماری زندگی میں آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے اور اگر شور حد سے بڑھ جائے یا ہم مستقل اس کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر کامل خان کے مطابق شور اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن ٹیکنالوجی نے جنم لیا تھا اور ٹیکنالوجی اس دن پیدا ہوئی جب انسان نے پہیا ایجاد کرلیا۔ پہیا ہمارے آباؤ اجداد سے لے کر آج تک ہماری ٹیکنالوجی کا ایک اہم رکن ہے، جس دن پہیا وجود میں آیا اس نے شور مچانا شروع کر دیا اور اسی دن سے شور ہماری زندگی میں داخل ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے،’’بنیادی طور پر شور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اول، ٹریفک کا شور، دویم ہوائی جہازوں کا شور جو کہ ہوائی اڈوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پایا جاتا ہے اور تیسرا صنعتی شور۔اب ہم بات کرتے ہیں انسانی کان کی۔

انسانی کان ایک پیچیدہ آلہ ہے جو کہ ہمارے اعصاب بل کہ مرکزی عصبی نظام سے جُڑا ہوتا ہے ۔ عمومی طور پر ایک نارمل انسان بیس، پچیس ہزار ہرٹز تک کی مختلف آوازیں سُن سکتا ہے۔ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ 60 سے 65 ڈیسی بَل تک کی آوازوں سے واسطہ رہتا ہے، اس سے زیادہ شور انسانی کان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، 85 ڈیسی بَل آگے کا شور بہ مطابقِ دورانیہ عارضی یا مستقل بہرے پن کا سبب بنتا ہے۔ مسلسل شور میں رہنے سے قوّت سماعت متاثر ہوتی ہے۔

متاثرہ فرد چِِڑچِڑے پن اور بد خوابی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مختلف نفسیاتی عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔ اعتماد کی کمی و احساس کمتری (جو نفسیاتی امراض کی ماں ہے) ہوجاتی ہے۔ زیادہ شور میں رہنے والے بوڑھے اور اور ادھیڑ عمر کے افراد کو دل کے اور دل کی نالیوں کے امراض کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، خاص کر تیز دھمَک دل کے دورے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ شور حاملہ خواتین اور خاص کر ان کے حمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ کان کے ایک لاعلاج مرض’’ Tinnitus‘‘(اس مرض میں کانوں میں سیٹیاں سی بجنی شروع ہوجاتی ہیں، جب کہ یہ آواز ماحول میں کہیں موجود نہیں ہوتی) کا سبب بھی بہت سے ماہرین صوتی آلودگی کو قرار دیتے ہیں، تاہم ابھی تک اس کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آسکی ہے لیکن مسلسل و مستقل شور بھی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔

اگر ہم بات کریں اس کے تدارُک کی تو بہ ظاہر یہ کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ خاص کر شہری اور صنعتی علاقوں میں چوںکہ عمومی شور گاڑیوں ٹریفک اور مشینوں کا ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص ان میں موجود طرح طرح کے ہارن، مخصوص کُھلے ہُوئے سائیلنسرز جو کہ آج کل ایک فیشن کی صورت اختیار کر گئے ہیں، جب کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تقریباً ہر گھر میں جنریٹرز کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے اور ان سے پیدا ہونے والا شور بھی صوتی آلودگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت ہوتی ہے، جب کہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔

یہ واحد علامت ہے جسے سب سے پہلے گھر والے نوٹ کرتے ہیں۔ ان جگہوں پہ جہاں شور مُستقل اور مجبوراً بہت زیادہ ہورہا ہے۔ انفرادی طور پر اپنے کانوں میں حفاظتی آلات یا کم از کم ایئر پَلگ لگا کر کانوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے، جو بہت سادہ آسان اور سستا حل ہے۔ اجتماعی طور پر عوامی آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ آلودگی سے متعلق موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

صوتی آلودگی کے بچوں پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں میں چڑچڑاپن، بے زاری، ارتکاز توجہ اور سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت میں انتہائی کمی، الفاظ و تلفظ کی ادائیگی میں مشکل، چیخ چیخ کر بلند آواز میں بولنا، جلدبازی کا مُظاہرہ، تنہائی پسندی و ملنساری کا فقدان، نشوونما اور تخلیقی صلاحیتوں میں کمی بھی ان کی صوتی آلودگی سے متاثر ہونے کی چند علامتوں میں سے ہے۔ آج کل کے نوجوان ہیڈ فون استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی مُضر ہے۔ جسمانی اعتبار سے تو سماعت کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔

یہاں تک کہ اگر ایئر بَڈز جو کان کو بالکل بند کرنے کا باعث ہوتے ہیں کے مستقل اور کئی گھنٹوں استعمال سے کان کے پردے کی سوزش یا پردے کا پھٹ جانا، عارضی اور یہاں تک کہ ناقابلِ علاج اعصابی بہرا پن سامنے آسکتا ہے۔ نفسیاتی طور پر معاشرے سے لاتعلقی و دوری (ISOLATION & Disorientation )کا سبب بھی ہے جو کہ پاگل پن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ صوتی آلودگی نہ صرف انسانوں بل کہ جنگلی حیات خاص کر پرندوں اور آبی حیات کے لیے تو بہت ہی نقصان دہ ہے۔ شور ہمارے فطری نظام پر بہت منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پرندے جو کہ رابطے کے لیے مخصوص آواز استعمال کرتے ہیں، آہٹ کی بنیاد پر اپنا شکار کرتے ہیں، افزائشِ نسل کے لیے بھی آوازوں سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔

صوتی آلودگی ان کی یہ ساری کی ساری صلاحیتیں زائل کر رہی ہے۔ ڈاکٹر کامل خان کا کہنا ہے،’’فیکٹری کے شور کو کم کروانے کے لیے ماحولیاتی اداروں کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً فیکٹریوں کا دورہ کرتے رہیں اور انہیں شور کو کم کرنے کے لیے پابند کریں کہ وہ شور کو 86 ڈیسی بَل سے کم کریں تاکہ سماعت کو نقصان نہ پہنچیں۔‘‘ ٹریفک کے شور سے بھی حفاظت ممکن ہے، ہارن کے غیر ضروری استعمال کے ساتھ ساتھ پریشر ہارن، شور مچانے والے رکشوں اور بغیر سائلینسر موٹر سائیکلوں پر کنٹرول کیا جائے۔

The post شہر میں شورِمحشر برپا appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان کا سرسید … پروفیسر فضل حق میر

$
0
0

کوئٹہ میں مارچ کا مہینہ عموماً بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ دسمبر سے فروری تک مسلسل شدید اور اکتا دینے والی سردی کے بعد پت جھڑ سے بے لباس درختوں کو بہار کی آمد پر کھلتے ہلکے سبز نئے پتوں کی پوشاک ملتی ہے تو جو پھلدار درخت ہیں جیسے ناشپاتی، بادام ، خوبانی، آڑو، شفتالو، سینٹ روزہ اور چیری کے درخت سبز پتوں سے پہلے پھولوں اور پھر پھلوں سے لد جاتے ہیں، زمین پر گھاس خود رو سرخ اور پیلے گل لالہ بوئے مادران نامی جڑی بوٹی کے پھولوں کے علاوہ ہر جگہ چنبلی مہکتی ہے تو موسم سر ما پر ہجرت کرنے والے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھی چہکتے، چہچہاتے آمد بہار کا اعلان کرتے واپس آ جاتے ہیں۔

دوسری جانب یکم مارچ ہی سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے، تمام اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں ڈھائی مہینے کی طویل تعطیلات کے بعد کھل جاتی ہیں اور طلبا وطالبات نئے یونیفارم پہنے نئی کلاسوں میں آتے ہیں۔

اس موسم میں کو ئٹہ میںمقابلہ ِ گل بھی ہوتا ہے کیونکہ یہاں اس موسم میں پھولو ں سے محبت کرنے والوں کے لان، باغ اور باغیچوں میں ایک سو پچاس سے زیادہ اقسام کے گلاب اور تین سو سے زیادہ  پھولوں کی اقسام ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی خنک موسم کے پھول کھلتے ہیں۔ یہ مقابلہ گل ملک کے دوسرے شہروں میں موسم بہار کی آمد پر منعقد ہونے والی پھولوں کی نمائشوں سے بہت مختلف ہوتا ہے، ان نمائشوں میں حصہ لینے والے یا تو پھولو ں کو توڑ کر یا ان کے گملوں سے کھلے میدانوں میں آرائش گل کرتے ہیں۔

اس میں پھولوں کی خوبصورتی سے زیادہ ان کی سجاوٹ پر مقابلہ ہوتا ہے، جب کہ کوئٹہ میں مقابلہ گل اس طرح نہیں ہوتا بلکہ لان، باغ اور باغیچوں کے مالکان کو بتا دیا جاتا ہے کہ مقابلے کے جج حضرات آئیں گے اور ان کے لان، باغ اور باغیچوں میں پھولوں کو دیکھیں گے۔ ہمارے تعمیر نو ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تعلیمی اداروں میں خصوصاً تعمیر نو بوائز کالج اور تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ مقابلہ میں ہمارے یہ دو ادارے اکثر پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشنوں میں سے کو ئی نہ کوئی پوزیشن لیتے رہے ہیں۔

اس مقابلے کے لیے 23مارچ کا دن مخصوص کیا گیا ہے۔ اس بار 23 مارچ کی سہ پہر کو تعمیر نو کالج ہزاروں افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن یہاں لگے ہزاروں لاکھوں پھولوں کی طرح یہ ہزاروں لوگ بھی سوگوار تھے کیونکہ بلوچستان کے سرسید کی شہرت رکھنے والے پروفیسر فضل حق میر انتقال کر گئے تھے، یہاں تعمیر نو کے چھ تعلیمی اداروں کے وہ پھول چہرہ طالب علم بھی تھے اورکالج کے لان، فٹبال گراؤنڈ ، برآمدے، ہر جگہ میر مرحوم اور تعمیر نو کے تعلیمی اداروں سے محبت اور عقیدت ر کھنے والوں اور کالج کے سابق طالب علموں سے بھرے ہوئے تھے۔

ہر آنکھ اشکبار تھی ہزاروں افراد کی ہچکیو ں اور سسکیوں نے بہار کے پورے تاثر کو رد کردیا تھا۔ پروفیسر فضل حق میر کا جنازہ ان کی تعمیر کردہ وسیع اور خوبصورت جامع مسجد اور فٹ بال گراؤنڈ کے درمیان رکھا ہوا تھا اورجب جنازہ اٹھا تو یوں لگا جیسے پورا شہر چیخ چیخ کر رو رہا ہو، افسوس کرنیوالوں میں وزیر اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا، گورنر اور اعلیٰ افسران شامل تھے۔

میر اتصور مجھے نصف صدی دور ماضی میں لے گیا جب میں کو ئٹہ شہر کے سنڈے من ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، ستر کی دہائی کا آغاز ہوا تھا مگر ابھی سقوط ڈھاکہ پیش نہیں آیا تھا، ہمیشہ کی طرح صوبائی سطح کا تقریری مقابلہ تھا، اس مقابلے میں ہم اپنے انچارج ٹیچر کے ساتھ آئے تھے جب کہ تعمیر نو کے نوجوان پرنسپل پروفیسر فضل حق میر اپنے مقرر طالب علم کے ساتھ آئے تھے، اس تقریری مقابلے میں، میں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور تعمیر نو ہائی اسکول کے طالب علم کی دوسری پوزیشن تھی۔ جیسے ہی تقریری مقابلہ ختم ہوا۔ پروفیسر فضل حق میرخود ہمارے پاس آئے اور مجھے اتنے پیار اور خلوص سے مبارکباد دی کہ مجھے یوں لگا کہ میں سنڈے من اسکول کا نہیں بلکہ تعمیر نو ہائی اسکول کا طالب علم ہوں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بلو چستان کا واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ سے تعمیر نو ہائی اسکول کے طالب علم ہی میٹرک کے سالانہ امتحانا ت میں پہلی، دوسری اور تیسری پو زیشنیں حاصل کرتے تھے حالانکہ یہ ایک نیا اسکول تھا جو اس اعتبار سے اچھوتا تھا کہ یہ ایک فلاحی ادارے کے طور پر کام کر رہا تھا جس میں آدھے سے زیادہ بچوں کی فیسیں معاف تھیں ابھی ہم نے میڑک پاس ہی کیا تھا کہ تعمیر نوکالج بھی شہر کے درمیان کھل گیا اور پھر کیا تھا کہ انٹر میڈیٹ یعنی ایف ایس سی کی بھی اول دوئم سوئم پوزیشنیں تعمیر نو کالج کی آنے لگیں۔

پروفیسر فضل حق میر اب واقعی پروفیسر اور کالج کے پرنسپل ہو گئے تھے۔ میں بھی چند برسوں میں تعلیم سے فارغ ہو کر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گیا۔ اب ہم ریڈیو، ٹی وی،آرٹس کو نسل اور دوسرے اداروں میں بطور شاعر ادیب اور ماہر تعلیم مدعو کئے جانے لگے تو پروفیسر فضل حق میر سے شناسائی زیادہ ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ فضل حق میر نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے دینی اسکالر ہیں بلکہ ان کی نظر تاریخ، اردو، فارسی اور انگریری ادب پر بہت گہری ہے۔ وہ بطور ماہر تعلیم بلوچستان کی قومی سطح پر منفرد انداز رکھتے تھے اور تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم وملزوم سمجھتے تھے۔

قدرے دراز قد، کھڑی ناک اور ہلکی گلابی رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھوں کے ساتھ گہری پلکیں اور ابرو اس وقت گھنے اور سیاہ بالوں میں قدرے دائیں نکلتی ہوئی مانگ، چھریرا بدن، ہمیشہ سفید کبو تر کی طرح اجلا سفید اور استری شدہ شلوار قمیض کا لباس، موسم گرما میںویسکوٹ پہنتے اور سردیوں میں کوٹ اور مفلر ہوتا۔ ان کے رنگوں کو اور ڈیزائن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ لباس اور صفائی کے معاملے میں وہ بہت محتاط تھے۔

فضل حق میر نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے چھ برس کی عمر میں مقبوضہ کشمیر میں جموں کے علاقے سے اس وقت ہجرت کی تھی جب تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر کی جدوجہد آزادی کی پہلی جنگ ہوئی اور آزاد کشمیر کے علاقے پر مجاہدین اور پاک فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔ جموں اور وادی کے علاقے کو ایک سازش کے تحت کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ مسلم اکثریت سے محروم کرنا چاہتا تھا یوں ایک سازش کے تحت راجہ نے یہ اعلان کردیا کہ جو مسلمان آزاد کشمیر اور پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ جموںشہر کے مرکزی پارک میں جمع ہو جائیں۔

جہاں سے ان کو ٹرکوں کے ذریعے قافلوں میں روا نہ کردیا جائے گا۔ میر صاحب مرحوم بتاتے تھے کہ چونکہ جموں کے مرکزی میدان اور پارک میں اس مقصد کے لیے بنائے گے کیمپوں میں ان کشمیری مسلما نوں کی رہائش کے ساتھ ان کے تحفظ کے بہت اچھے انتظامات تھے اور راجہ کی فوجیں مسلمانوں کو ان کے اکثریتی علاقوں سے نکالنے کے لیے ٹرک لے آتی تھیں یوں مسلمان سادگی میں ان کے فریب میں آگئے اور جموں شہر کے مرکز میں جمع ہوتے جاتے جہاں سے روزانہ تین چار ہزار مسلمانوں کو ٹرکوں میں بھر کر لے جاتے اور پھر کو ئی چالیس پچاس کلو میٹر دور جنگل میں ان نہتے مسلمانوں کو ٹرکوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیتے، یہ سلسلہ جاری تھا اور جموں کے کیمپ میں اس کی کوئی خبر نہیں تھی ہم بھی ایک دن ٹرکوں کے قافلے میں روانہ ہوئے اور پھر پروگرام کے مطابق ہمارے قافلے کو جنگل میں روک دیا گیا اور ہمیں راجہ کی فوج نے گھیرے میں لے لیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہم سے پہلے یہا ں آنے والے شہیدوں کی لاشیں بے گورو کفن بکھری ہوئی تھیں جن میں مائیں بہنیں، بچیاں، بچے، بوڑھے، جوان سبھی شامل تھے، ہم سے آگے دو تین ٹرکوں سے اتارے گئے مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔

گو لیوں کی آوازیں سن کر لوگ چلا رہے تھے کچھ بلند آوازوں میں کلمہ ِشہادت کا ورد کر رہے تھے کہ ہندوستان کی باقاعد ہ فوج یہاں اس مقام پر ان کے کمانڈر بریگیڈیئر عثمان کی قیادت میں پہنچ گئی اور اس نے ہم سب کو اللہ کے کرم سے بچا لیا اور سب کو باحفاظت آزاد کشمیر اور پاکستان کے علاقے تک چھوڑ دیا۔

دو ایک ماہ کے بعد فضل حق میر کا پورا خاندان کوئٹہ آگیا اور وہ کشمیر ی خاندان جو جموں اور وادی میں چاول کا کاروبار کرتا تھا یہاں کو ئٹہ میں آباد ہو کر گزر بسر کرنے لگا۔ یہاں اسپیشل ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد میر صاحب اپنے روحانی استاد مولانا عبدالمجید کے کہنے پر مولانا عبدالمجید ، فضل جمالی اور دیگر اہل دل کی جانب سے بنائے گئے تعمیر نو ہائی پرائمر ی اسکول میں پڑھانے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کیا ۔ پھر 1966ء میں پچیس سال کی عمر میں اسکول کے پرنسپل ہو ئے۔ یہاں سے میر صاحب نے تعمیر نو کے ادارے کو ایک ایسی تحریک بنا دیا جو بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے لیے علی گڑھ کی تحریک  جیسی تحریک ثابت ہوئی ۔

پہلا تعمیر نو ہائی اسکول حکومت سے حاصل کی گئی زمین پر شہر کے قلب میں قائم ہوا اور پھر اس کے تھوڑے عرصے بعد میرصاحب نے اس اسکول سے کو ئی تین کلومیٹر دور حکومت بلوچستان سے حاصل کردہ زمین پر تعمیر نو پرائمری اسکول کی ایک اور نئی عمارت تعمیر کروا دی۔ ستر کی دہائی تک تعمیر نوکی ساکھ پورے صوبے میں قائم ہو چکی تھی۔ اسی کی دہائی میں جب تعمیر نو بوائز کالج قائم ہوا تو اس نے بھی بلوچستان بھر میں پہلی، دوسری اور تیسر ی پوزیشنیں حاصل کیں۔

میں اس دوران وفاقی حکومت کی سترا گریڈ کی نوکری سے صوبائی محکمہ تعلیم کالجز میں اسسٹنٹ پروفیسر آیا، اس دوران پروفیسر فضل حق میر نے کو ئٹہ ہی میں تعمیر نو ایجو کیشنل کمپلیکس کے لیے 72  ایکڑ زمین حکومت سے حاصل کر لی، اس وقت ان کے ساتھ میر عبدالخالق جمالی چیرمین تعمیر نو ٹرسٹ نے جو سابق وزیراعظم و وزیر اعلیٰ ظفر اللہ جمالی کے کزن ہیں انہوں نے بھی اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا اور پھر اس 72 ایکڑ زمین پر ایجوکیشنل کمپلیکس قائم کیا اور ساتھ ہی یہاںیو نیورسٹی بنانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ راقم پروفیسر فضل حق میر کے اس عظیم مشن کے لیے میڈیا کے شعبے سے لکھتا رہا مگر ان سے گہرا اور قریبی تعلق اس وقت ہوا جب میں سرکاری ملازمت سے اپنی 25 سالہ سروس مکمل کرتے ہی45 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے کر تعمیر نو کالج میں آ گیا۔ اس وقت پروفیسر فضل حق میر کی عمر 58 برس تھی۔ تعمیر نو کالج میں پہلے مطالعہ پاکستان اور پھر اردو ادب پڑھانے لگا۔

یوں تقریباً بیس سال میں ان کے قریب رہا اور ان کی شخصیت نے لاکھوں دوسرے افراد کی طرح مجھے بھی بہت متاثر کیا۔کالج ہی میں پرنسپل لاج ہے جو چار کمروں، ایک ڈرائنگ روم اور مختصر سے لان پر مشتمل ہے۔ وہ صبح وسویرے بیدار ہوتے، کالج کی جامع مسجد میں نماز پڑھتے اور پھر کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت فرماتے پھر کچھ دیر آرام کرتے اور بہت ہلکا ناشتہ کرکے کالج آجاتے، گھر میں ان کی مختصر فیملی تھی جن میں ضعیف والد، اہلیہ اور بیٹی جو اس وقت ہائی اسکول کی طالبہ تھی، وہ ہمیشہ باوضو رہتے، کالج میں اور گھر کے ڈرائنگ روم میں بھی جہاں میرا اکثر جانا ہوتا تھا ان دونوں جگہ اٹیج باتھ روم نہیں تھا، یہ ان کے مزاج کی پاکیزی اور طہارت تھی، اُن کا کہنا تھا کہ جہاں انسان رہے اٹھے بیٹھے وہاں ملحقہ باتھ روم کا ہونا پاکیزگی اور حس جمالیات کی نفی کرتا ہے، یوں ان کے دفتر اور ڈرائینگ روم دونوں سے کوئی بارہ چودہ فٹ دور باتھ روم تھے۔

دفتر میں ان کی میز پر روضہ رسولﷺ اور خانہ کعبہ کے ٹھوس شفاف شیشے کے بنے ماڈل کے قریب تازہ پھولوں کا خوبصورتی سے بنایا گیا گلدستہ ہوتا اور اکثر وہ اپنے کالر میں بھی پھول اور ہلکی خوشبو کا عطر لگاتے تھے، کرسی کی پشت پر دیوار کے اوپر مہر نبوت آویزاں تھی جس کے زیرِ سایہ وہ کام شروع کرنے سے قبل تلاوت کرتے، بائیں دیوار پر کسی اچھے خطاط کے ہاتھوں لکھی علامہ محمد اقبال کی یہ ُرباعی آویزاں تھی۔

تُو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائے من پزیر

گر تُومی بینی حسابم ناگزیر

از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر

تر جمہ ۔’’اے اللہ تعالیٰ تُو دونوں جہانوں کا مالک اور بخشنے والا ہے اور میں تو تجھ سے بھیک مانگنے والا ہوں، قیامت میں یومِ حساب مجھے معاف کردینا اور اگر تُو یہ سمجھے کہ حساب لینا ضروری ہے تو پھر میرے گناہوں کا حساب حضورﷺ کی نظروں سے بچا کر لینا یعنی مجھے اُن کے سامنے شر مندگی سے بچا لینا‘‘ کمرے میں میز کے سامنے چار کرسیوں کے علاوہ دائیں بائیں صوفے اور بائیں طرف ایک بڑی سی شوکیس نما الماری میں قرآن پاک کی چند جلدوں کے ساتھ تفسیر وتفہیم القرآن کی معتبر کتب اور بہت سی حوالہ جاتی کتابیں ترتیب سے رکھی ہوتیں اور ترجمے والا وہ قرآن پاک جو اکثر اُن کے استعمال میں رہتا یا تو ان کی میز پر دائیں طرف احترام سے باقی فائلوں سے فاصلے پر رکھا ہوتا یا اس الماری کے اس خانے میں رکھا ہوتا جہاں سے وہ اسے فوراً اٹھا لیا کرتے تھے۔

یوں تو پروفیسر فضل حق میر کو تعلیمی اور دینی خدمت پر ستارہ امتیاز،اعزاز فضیلت سمیت درجنوں، ایوارڈز اور شیلڈز ملی تھیں لیکن ان کو کبھی کسی نے ان کے دفتر یا گھر میں سجے نہیں دیکھا البتہ ایک جیسی پانچ شیلڈز ایسی تھیں جو مختلف برسوں میں انٹر نیشنل سیرتﷺ کانفرنسوں میں انھیں سیرت پر لکھے گئے بہترین مقالوں پر ملی تھیں۔ تعمیر نو ٹرسٹ کے چیرمین میر عبد الخالق جمالی اور دیگر اراکین ڈاکٹر مولاناعطا الرحمن، مولانا عبداللہ خلجی، غلام حسین جمالی، فضل جمالی، محمد نسیم لہڑی، ڈاکٹر عبداللہ خان، حافظ محمد طاہر،کرنل ر محمد مجیب خان کے ساتھ میٹنگ ہو یا اسٹاف روم میں ماہا نہ اسٹاف میٹنگ اُن کا یہ اصول تھا کہ اُس موقع یا اجلاس کی مناسبت سے قرآن پاک کی سورہ کا انتخاب کرتے اور اجلاس کے آغاز پر اُس سورہ کی آیات کی تلاوت کرتے جاتے، ایک ایک آیت کا ترجمہ کرتے، تفسیر بیان کرتے اور اس کے بعد میٹینگ ایجنڈے کے نکات پر بات شروع ہوتی۔

اجلاس میں نکات اور مسائل بیان کرتے اور پھر وہاں موجود ہر شخص کو اس پر تجاویز دینے،اعتراضات اٹھانے کی کھلی اجازت ہوتی اور آخر میں ان نکات پر اکثریتی بنیادوں پر فیصلے ہوتے باوجود یہ کہ اجلاس پروفیسر فضل حق میر ہی کی صدارت میں ہوا کرتے تھے مگر فیصلے اکثریت کی رائے پر ہی ہوتے تھے۔ جہاں تک تعلق فیصلہ سازی کا تھا تو اس میں ان کا یہ اصول تھا کہ دوران اجلاس کوئی کتنا ہی اختلاف کرے یہ اُس کا حق ہے مگر جب فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہو جائے تو یہ سب کا فیصلہ ہو گا اور وہ بھی جو اختلاف رکھتے تھے وہ بھی اس فیصلے کو نہ صرف قبول کریں گے بلکہ اس اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے بعد اپنے اختلاف اپنی ذات تک محدود رکھیں گے۔

میر صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام تک ایک خاص ڈسپلن سے اپنے معمولات پر قائم رہے وہ کم از کم ایک پیریڈ روزانہ ضرور لیتے، ٹیچنگ کا انہیں حد درجہ شوق تھا اور لیکچر دیتے ہوئے ڈوب جاتے تھے، اسلامیات ، تاریخ اور اردو ادب ان کے خاص پسندیدہ مضامین تھے۔ تعمیر نو کالج کی جامع مسجد کے خطیب تھے، جمعہ کے روز نماز سے پہلے بہت پُر اثر تقریر فرماتے، ہمیشہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے جس میں کسی کو کوئی اختلاف نہ ہوتا، ان تقاریر کے لیے نمازیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے علاقوں کی جامع مساجد کی بجائے یہاں آتی۔

رمضان المبارک میں بھی تراویح پر خاص اہتمام ہوتا جو پارہ حافظ صاحب جس دن تلاوت کرتے اُس کی اہم سورتوں کے تراجم اور تفسیر کی بنیاد پر تراویح سے قبل ان کی پُر اثر تقریر ہوتی اور پھر دوسرے روز صبح یہی تقریر کالج کے تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبا کے سامنے ہوتی، بعد میں یہ اہتمام بھی ہوتا رہا کہ ٹیلیفون اور اسپیکروں کے ذریعے کوئٹہ کے تمام چھ اداروں میں یہ تقاریر بیک وقت سنی جاتی تھیں۔ انہوں نے تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کے احاطے میں بھی چند سال قبل ایک بڑی خوبصورت جامع مسجد تعمیر کروائی اور جب بھی یہاں آتے یہاں کے اساتذ ہ اور طالب علموں کے سا تھ نماز ادا کرتے اور اکثر امامت بھی فر ماتے۔

ساری زندگی اُن کی بھرپور کوشش رہی کہ سیرت النبیﷺ کی بنیاد پر طالب علموں کی کردار سازی کی جائے، طہا رت، پاکیزگی، عبادات اور عشق نبیﷺ نے ان کے لہجے کی سچائی کو دو چند کردیا تھا، ان کی زبان سے نکلے الفاظ پوری تاثیر کے ساتھ سماعتوں سے ہوتے دلوں میں اترتے تھے، ایمانی قوت، جرات کے ساتھ اللہ تعالی نے انہیں نبی ﷺ کی ا یسی محبت بخشی تھی کہ یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی انسان ایمانی قوت سے اتنا طاقتور اور تو انا ہوسکتا ہے۔

تعمیر نو کے اداروں کی تعمیر و ترقی کے دوران آخری بیس برس میں اُن کے ساتھ رہا، بہت طاقتور لوگوں نے اُن کی مخالفت کی لیکن اُن کا اللہ پر کامل ایمان تھا، اُ ن کو حکومت کی جانب سے تنبیہہ ملتی تھی کہ ان کو جان کا خطرہ ہے مگر وہ اپنے مشن میں ایک لمحے کی کو تاہی یا تاخیر برداشت نہیں کرتے تھے۔ چند سال پہلے تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس جاتے ہوئے اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میںکلاشنکوف کی کئی گولیاں ان کی گاڑی کو لگیں اور دو گولیاں تو ان کے لباس میں سے بدن کو نقصان پہنچائے بغیر گزر گئیں۔ نسیم لہڑی جو میر صاحب کے شاگرد اور میرے گہرے اور پرانے دوست ہیں اس وقت کمشنر کوئٹہ تھے، مجھے فون کیا کہ میں آرہا ہوں اور فوراً ہی بغیر محافظوں کے خود اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آئے۔

میں سڑک کے کنارے ان کا انتظار کر رہا تھا، ہم دونوں اس مقام پر پہنچے جہاں اطلاع کے مطابق انہوں نے پناہ لی تھی لیکن معلوم ہوا کہ وہ گھر جا چکے ہیں، ہم گھر پہنچے تو تھوڑی دیر میں سینکڑوں افراد وہاں آچکے تھے اور وہ خیریت دریافت کرنے پر سب کا شکر ادا کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے دو برس قبل تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس کے پرنسپل پروفیسر فضل باری کو شہید کردیا گیا تھا، قاتلا نہ حملے کے بعد بھی وہ متواتر تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلکس جاتے رہے، وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان میں معیاری تعلیم اور تربیت کے اداروں سے طالب علم ایسی قابلیت کے ساتھ عملی زندگی میں آئیں کہ وہ بین الاقوامی ، قومی اور صوبائی سطحوں پر مقابلے کی بنیادوں پر خود کو منوائیں۔

اس کے لیے ان کی کوشش ہوتی کہ غریب طالب علم زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ میں نے ان کو اس وقت روتے دیکھا جب فیس معافی کی کمیٹی کے کسی رکن سے غلطی سے کسی مستحق بچے کی فیس معاف نہ کی گئی ، یوں اس کا پتہ چلتے ہی وہ اس کا ازالہ کردیتے تھے، ان کے اس کار خیر میں نامعلوم کتنے افراد حصہ دار تھے لیکن معتبر ناموں میں کراچی کی انفاق فاونڈیشن کے حاجی ناظم اور بلو چستان کے سابق گورنر اویس غنی آخر وقت تک تعمیر نو کے فلاحی کاموں میں ان کی مالی مدد یا تعاون کرتے رہے۔ وفات سے ایک برس قبل انہوں نے کوئٹہ شہر میں تعمیر نو گرلز کالج بھی کھول دیا جس کے لیے انفاق فاونڈیشن کراچی کے حاجی ناظم نے فوراً بسوں کا تحفہ بھجوایا۔

پروفیسر فضل حق میر کو 2000 کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے وزیر تعلیم بنانے کی پیشکش کی جس پر انہوں نے خاموشی سے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ انہوں نے زندگی بھر نام ونمود کو پسند نہیں کیا، انہیں کسی قسم کا کوئی لالچ نہیں تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تعمیر نو بوائز کالج شارع گلستان، تعمیر نو ہائی اسکول اردو بازار اور تعمیرنو گرلز کالج سمنگلی روڈ پر جو ادارے تعمیر کئے وہ اب کمرشل علاقے ہیں، جہاں زمین کی قیمت پچیس ہزار روپے مربع فٹ تک ہے، ان اداروں کے احاطوں کی دیواروں کے ساتھ اس وقت تقریباً سو دکانیں اندر کی جانب کئی ہال اور سینکڑوں فلیٹ پلازے بنائے جا سکتے تھے مگر انہوں نے اداروں کو ہوادار اور روشن رکھنے پر ترجیح دی۔

ان کی والدہ بہت بوڑھی تھیں اور مرحوم کی وفات سے تین سال قبل ان کا انتقال ہوا، اس وقت تک وہ باوجود انتہائی مصروفیت کے اپنی ماں کے پاس بیٹھتے، ان کے پاؤں دابتے، اُن کی صحت ،کھانے پینے کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ مرحوم اپنی اہلیہ سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور سب سے زیادہ محبت اُن کو اپنی اکلوتی بیٹی سے تھی جو ان کی وفات سے چند برس قبل بیاہ کر امریکہ چلی گئیں تھیں، یوں پروفیسر فضل حق میر اپنی زندگی کے آ خری ایام میں تنہا رہ گئے تھے اور شائد ایک وجہ یہی تنہائی بھی ہوکہ انہوں نے خود کو حد درجہ مصروف کر لیا تھا۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوا ہش تھی کہ کسی طرح بلوچستان میں تعمیر نو یونیورسٹی بن جائے۔

افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی مگر امید ہے کہ تعمیر نو ٹرسٹ کے چیر مین میر عبدالخالق جمالی اور مرحوم کے سابق شاگرد ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان، ممبران ٹرسٹ ڈاکٹر مولانا عطاالرحمن ، نسیم احمد لہڑی، حافظ محمد طاہر، مولانا عبداللہ خلجی، پروفیسر فضل حق میر مرحوم کی اس خواہش کو پورا کرکے بلوچستان کے عوام کو ایک معیاری یو نیورسٹی ضرور دینگے ، فضل حق مرحوم ایسے عاشق نبی ﷺتھے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرت ِ مبارک کو عام کرنے کا عظیم مشن رکھتے تھے اور تحریر وتقریر، درس وتدریس ہر وقت اُن کے دل ودماغ میں بقول علامہ اقبال یہی پیغام رہتا تھا،

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم ِ محمدﷺ سے اجا لا کردے

انہوں نے تعمیر نو کالج کی پیشانی پر یہ حدیثِ مبارکہ لکھوائی ’’عقل میرے دین کی بنیاد اور علم میرا ہتھیار ہے‘‘۔ بلوچستان میں ان کی علمی و دینی خدمات یہ ہیں کہ انہوں نے اس صوبے میں تعمیر نو کے چھ معیاری تعلیمی ادارے اور دو وسیع خوبصورت جامع مساجد تعمیر کروائیں اور ہزاروں طالب علمو ں کو معیاری تعلیم دینے کے ساتھ ان کی تربیت کی، پروفیسر فضل حق میر بیوٹم یو نیوسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں بھی شامل رہے۔

اس کے علاوہ وہ بہت سے رفاہی اور فلاحی اداروں کے بورڈ آف ڈائر یکٹرز میں بھی شامل رہے، اُن کی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی اعلیٰ، سول اور فوجی افسران ہیں اِن میں سے نصف سے زیادہ تعمیر نو کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ تعمیر نو کے چیرمین میر عبدالخالق جمالی، جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان اور تمام اراکین تعمیر نو ٹرسٹ ان کے مشن کو لیکرآگے بڑھ رہے ہیں۔

ان کے شاگردوں کی اکثر یت ’’تعمیرین ‘‘ یہ چاہتے ہیں کہ اس سال انٹرنیشنل ٹیچرز ڈے عالمی یوم اساتذہ کو پروفیسر فضل حق میر سے منسو ب کرکے یہ دن منایا جائے اور چونکہ اس بار بھی بلو چستان کے واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات میں نہ صرف ٹاپ ٹونٹی میں تعمیر نو کالج نے تین پوزیشنیں لی ہیں بلکہ پورے صوبے میںسب سے زیادہ فرسٹ ڈویژن اسی تعمیر نو کالج نے حاصل کی ہیں اور رز لٹ 99% رہا ہے اور اس بار بھی تعمیرنو کے طالب علموں نے تقاریر، مضمون نویسی اور کھیلوں کے شعبوں میں قومی اور صوبائی سطحوں پر نمایاں پوزیشنیں حاصل کی ہیں، اس لیے یہ تجاویز بھی ہیں کہ اس سال سے فضل حق میر ایوارڈ اور میڈل کا اجراء بھی کیا جا ئے گا۔

The post بلوچستان کا سرسید … پروفیسر فضل حق میر appeared first on ایکسپریس اردو.

کریم اسیر؛ افغانستان کا چارلی چیپلن

$
0
0

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طویل عرصے سے خوں ریزی کا سلسلہ جاری ہے، اس ملک کے رہنے والے خوشیوں کے لیے ترسے رہتے ہیں، اسی لیے جب کبھی موقع ملتا ہے، وہ خوشیوں کو نہیں چھوڑتے اور کسی نہ کسی طرح اپنے لیے ہنسنے مسکرانے کا سامان کرلیتے ہیں۔

کریم اسیر اس ملک سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا نوجوان ہے جسے عرف عام میں افغانستان کا چارلی چیپلن کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس نوجوان نے اپنے ملک کے لوگوں کو دکھوں اور پریشانیوں سے نجات دلاکر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا عزم کررکھا ہے، اس کی خواہش ہے کہ اس کے وطن کے لوگ بھی دوسرے عام لوگوں کی طرح خوب ہنسیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں، اس کام میں وہ مسلسل ان کے ساتھ ساتھ ہے۔

افغانستان کے اس ہنستے مسکراتے کردار یعنی افغانی چارلی چیپلن کا اصل نام کریم اسیر ہے، اس کی عمر صرف 25سال ہے اور اس نے خود کو ماضی کے لیجنڈ اداکار چارلی چیپلن کے روپ میں ڈھال کر دنیا کو وہ کردار ایک بار پھرزندہ روپ میں دے دیا ہے۔ وہ بہت محنتی اور جفاکش اداکار ہے جو اپنی ریہرسل کے دوران بھی مسلسل ورزشیں اور ایکسرسائزز کرتا رہتا ہے اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انہیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ کام میں لینا چاہیے تاکہ ان کی ذات دوسروں کے لیے کچھ دینے والی بن جائے۔

افغانستان کے چارلی چیپلن کریم اسیر کا کہنا ہے:’’میری ساری زندگی اب تک خودکش حملوں، بم دھماکوں کی گھن گرج اور دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دھمکیوں کے ماحول میں گزری ہے اور میں نے بار بار یہ گھناؤنی کارروائیاں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو میں کسی سے ڈرا اور نہ ہی ایسے دہشت گردوں سے خوف زدہ ہوا، بلکہ ان کی بزدلانہ کارروائیوں نے میری ہمت اور بھی بڑھائی اور میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اپنے لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہوں گا۔‘‘

چناں چہ وہ بڑے من موجی انداز میں اسی طرح کابل کی سڑکوں اور گلیوں پر خوشی خوشی جھومتا اور گاتا رہا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری سے کبھی غافل نہ ہوا اور وہ تھی اس کی اپنی جان کی حفاظت جسے بچانے کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہا۔

افغان چارلی چیپلن یعنی کریم اسیر کا یہ بھی کہنا ہے:’’اپنے لوگوں کو مسکراہٹیں دینا بہت سادہ اور آسان کام ہے، میں افغانیوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتا ہوں، انہیں نہ اداس دیکھ سکتا ہوں اور نہ مایوسی کی دلدل میں اترے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں انہیں ہر وقت خوش اور مطمئن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

کریم اسیر افغان دارالحکومت کابل میں چارلی چیپلن بنا پھرتا ہے، یعنی وہی حلیہ، وہی لباس، بیگی یا ڈھیلی ڈھالی پینٹ، بڑے سائز کے جوتے اور سیاہ لمبا ہیٹ، وہ سر سے پیر تک چارلی چیپلن بنا رہتا ہے جسے دیکھ کر لوگ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہر وقت اس کی کارکردگی کو دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔

25 سالہ کریم اسیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں چارلی چیپلن کے نقال جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں، یہ وہ ہنستے مسکراتے لوگ ہیں جو لوگوں کے ذہنوں سے ان کے دکھ درد دور کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کو رنج و غم سے نکال کر انہیں خوشیوں کی وادیوں میں لے جاتے ہیں۔

کریم اسیر کے ابتدائی ایام ایران میں گزرے تھے جہاں اس کا خاندان اس وقت پہنچا تھا جب طالبان نے 1996 میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ وہاں کریم اسیر نے ایرانی ٹیلی ویژن پر چارلی چیپلن کی اداکاری دیکھی تھی اور اس سے متاثر بھی ہوا تھا۔

جب یہ گھرانا واپس اپنے گھر افغانستان پہنچا تو عصر نے اپنے آپ کو افغانی چارلی چیپلن بناکر پیش کرکے نہ صرف افغانیوں کو بلکہ پوری دنیا کے ہی ناظرین کو چونکادیا، اور پھر جب اپنی جان دار اور بے مثال پرفارمنس دینی شروع کی تو ایک طرح سے اس نے ایک نئے چارلی چپیلن کو افغانیوں اور دنیا بھر کے لوگوں سے متعارف کرادیا۔ حالاں کہ یہ شہر یعنی کابل مسلسل دہشت گردی، وحشت و بربریت اور بم دھماکوں کی لپیٹ میں رہتا تھا، مگر پھر بھی کریم اسیر اپنے کام میں لگا رہا، کیوں کہ اس کی خواہش تھی کہ اس کے لوگ عارضی غموں کو فراموش کرکے ہنسیں بولیں، قہقہے لگائیں اور خوش رہیں۔

کریم اسیر نے یہ بھی بتایا کہ اسے یہ کہہ کر دھمکیاں بھی دی گئیں کہ وہ جو بھی کام کررہا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے، اس کے باوجود اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ عام طور سے اپنی پرفارمنس یا تو عوامی پارکس میں دکھاتا تھا یا نجی محفلوں میں، یتیم خانوں اور رفاہی پروگراموں میں بھی وہ اپنی کاردگی دکھاتا تھا جو عام طور سے بین الاقوامی امدادی ایجینسیاں منعقد کرتی تھیں۔

افغان چارلی چیپلن کریم اسیر کا کہنا ہے:’’میں اپنے لوگوں کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دکھ اور غم بھول جائیں، ان کے ذہنوں سے جنگ، جھگڑے، تنازعات، مسائل اور عدم تحفظ کے احساسات نکل جائیں جس کے بعد وہ صرف خوش رہیں اور خوشیاں منائیں۔‘‘

اپنے خوف اور دہشت گردی کا نشانہ بننے کے حوالے سے کریم اسیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے سر پر ہمیشہ کسی خود کش بم بار کی جانب سے حملے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے، مگر یہ چیزیں میرا راستہ نہیں روک سکتیں۔ میرا کام اس ملک میں امن اور سلامتی کو فروغ دینا ہے اور میں لوگوں کے دلوں سے خوف و دہشت کو نکال پھینکنا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر صرف ہنستے اور مسکراتے رہیں اور ہر طرح کی دہشت گردی کو بھول کر امن و امان کے ساتھ زندگی گزاریں۔

کریم اسیر 1994 میں افغان والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا جو اس وقت ایران میں رہتے تھے۔ ان کے ایران منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اور ان کی وجہ سے کریم اسیر کے والدین کو یہ ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ مگر بعد میں جب اس ملک میں امن قائم ہوگیا تو کریم اسیر اپنے والدین کے ساتھ واپس اپنے وطن آگیا لیکن یہاں آنے کے بعد بھی اس نے اپنا یہ کام جاری رکھا جس کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھلے رہتے ہیں اور وہ ہر طرح کے ٹینشن سے دور رہتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے کریم اسیر نے کابل کے ایک یتیم خانے میں اپنی پرفارمنس دکھائی تھی۔ اس موقع پر اس کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہونے والے حاضرین میں دو درجن بچے تھے جنہوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور افغانی چارلی چیپلن کی پرفارمنس خوب انجوائے کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کریم اسیر افغانستان میں بہت مقبول ہے اور خاص طور سے نوجوان نسل اس سے بہت زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آج کے لوگ کامیڈی کو ان مسائل کا علاج نہیں سمجھتے جن کا سامنا آج کے لوگوں کو افغانستان میں کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اس حوالے میری کامیڈی پر طنز کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

کریم اسیر نے بتایا کہ میرے ہی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے، ہمارے پاس رہنے کو اچھا گھر یا محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ ایسے میں تم ہنسی مذاق کرکے ہمارا اور ہمارے لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہو، تمہاری ان باتوں سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ ہمیں تم پر غصہ بھی آتا ہے اور چڑچڑاہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔

کریم اسیر نے بتایا کہ میں ان کی شکایات سن کر یہ جواب دیتا ہوں:’’یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مگر ہمیں خوشیوں اور مسکراہٹوں کی بھی تو ضرورت ہے ناں، اور میں وہی کام کررہا ہوں۔ یہ ایک ایسی خدمت ہے جو کسی نہ کسی کو تو انجام دینی ہے، اگر میں وہ خدمت کررہا ہوں تو اس میں اعتراض والی کیا بات ہے؟ میں اس کام کو اپنے لوگوں کی ایک بڑی خدمت سمجھتا ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ چارلی چیپلن وہ لیجنڈ تھے جو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آج میں اس عظیم شخصیت کو اپنے لوگوں کے لیے ایک عظیم تحفے کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔‘‘

کریم اسیر اپنی اس شان دار پرفارمنس کو پورے افغانستان میں اور اس کے سبھی شہروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ میرا ایک ایسا مقصد ہے جس کی وجہ سے میرے لوگ خوف اور دہشت گردی کے سائے سے باہر نکل آئیں گے اور ہنستی مسکراتی دنیا میں قدم رکھ دیں گے جہاں ہر طرف امن و سلامتی اور پیار و محبت کے پھول کھلے ہوں گے اور آج ہمیں ایسے ہی ماحول کی ضرورت ہے۔

The post کریم اسیر؛ افغانستان کا چارلی چیپلن appeared first on ایکسپریس اردو.

بڑے شہروں میں پانی کا بحران بدترین شکل اختیارکرنے لگا

$
0
0

یہ 1975ء کی بات ہے جب میں نے شعور سنبھالا۔ تب ہم محلہ سنت نگر،لاہور میں ابا جی (دادا جان) کے ساتھ رہتے تھے۔ انہی دنوں سنت نگر میں ایک ٹیوب ویل لگا جو زمین سے پانی نکالتا۔

یہ پانی محلے کے سبھی گھروں کو فراہم ہوتا۔ یہ پانی اتنا ٹھنڈا اور میٹھا تھا کہ میں آج بھی اس کا شیریں ذائقہ نہیں بُھلا پایا۔ اب مگر کایا پلٹ چکی۔ سنت نگر میں مٹی ملا پانی آتا ہے۔ وجہ یہ کہ زیر زمین موجود پانی کی سطح اتنی نیچے ہوچکی کہ اب ریت و مٹی اس میں شامل ہونے لگی ہے۔ پھر محلے میں پانی بھی پہلے کی طرح وافر دستیاب نہیں، اس کا بہاؤ خاصا کم ہوچکا اور اس کی ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی ہوتی ہے۔

لاہور کے اکثر علاقوں کا یہی حال ہے کہ پانی کی کوالٹی معیاری نہیں رہی اور مقدار بھی کم ہوچکی۔لاہور میں پانی کی نایابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں زیر زمین محفوظ پانی ختم ہورہا ہے۔ پچیس سال پہلے چالیس پچاس فٹ گہرائی میں کھدائی کرنے سے پانی مل جاتا تھا۔ آج 800 فٹ کھدائی کرنا پڑے، تو پینے کا صاف پانی دستیاب ہوتا ہے۔ ماہرین آب کا کہنا ہے کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح ہر سال ڈھائی تا تین فٹ گر رہی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔شہرلاہور دریائے راوی کے کنارے بسایا گیا۔ماضی میں راوی میں خوب پانی ہوتا تھا۔

لہٰذا اس دریا کا پانی لاہور کے نیچے واقع آبی ذخائر بھرتا رہتا جنھیں اصطلاح میں ’’آب اندوخت‘‘ (Aquifer)کہتے ہیں۔ اب سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے اس دریا میں خال خال پانی آتا ہے چناں چہ لاہور کی زمین کے نیچے واقع پانی کے آبی ذخائر بھر نہیں پاتے۔ دوسری اہم وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت داتا کی نگری میں تقریباً سات لاکھ لوگ آباد تھے۔ آج اس شہر کی آبادی سوا کروڑ تک پہنچ چکی۔ اتنے زیادہ انسانوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ اگر لاہور میں وقتاً فوقتاً بارشیں نہ ہوں، تو زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے چلی جائے۔ بارشوں کا پانی گرتی سطح دوبارہ کچھ اوپر لے آتا ہے۔

لاہور وطن عزیز کے ان تین بڑے شہروں میں شامل ہے جہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی نکال کر شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ بقیہ دو شہر گوجرانوالہ اور ملتان ہیں۔ جبکہ دیگر بڑے شہروں،کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ کو ڈیموں، جھیلوں، دریاؤں اور نہروں کا پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزار کر ملتا ہے۔

جب بارشیں نہ ہونے سے ڈیموں اور جھیلوں میں پانی نہ رہے، تو یہ شہر بھی پانی کی کمیابی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اس سال بارشیں کم ہونے سے راولپنڈی و اسلام آباد کو روزانہ 80 لاکھ گیلن پانی فراہم کرنے والا خان پور ڈیم تقریباً سوکھ گیا۔ اس قدرتی آفت نے دونوں شہروں میں پانی کی قلت پیدا کردی۔ تبھی سپریم کورٹ اور حکومت، دونوں کو احساس ہوا کہ نئے ڈیم تعمیر کرنا ناگزیر امر بن چکا ۔ چناں چہ انہوں نے نئے ڈیم تعمیر کرنے کی مہم کا آغاز کردیا۔

اسی طرح کراچی کا مسئلہ دیکھئے جہاں تقریباً ڈیرھ کروڑ انسان بستے ہیں۔اس نگر کو روزانہ ایک ارب بیس کروڑ گیلن پانی درکار ہے۔اسے کینجھر جھیل سے چالیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن پانی ملتا ہے جبکہ حب ڈیم سے صرف دو کروڑ گیلن مل رہا ہے۔

بارشیں نہ ہونے سے یہ ڈیم تقریباً خالی ہو چکا ،اسی لیے کراچی میں پانی کی قلت ہو گئی۔ڈیم بھرا ہو تو یہ روزانہ دس کروڑ گیلن فراہم کرتا ہے۔بیالیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن میں سے بیس کروڑ گیلن پانی شہر قائد کے صنعتی ادارے اور کھیت استعمال کرتے ہیں۔بقیہ بیس کروڑ پچاس لاکھ گیلن میں سے آدھا ٹینکر مافیا اڑا لیتی ہے کہ کراچی میں پانی قیمتی جنس بن چکا ہے۔گویا شہریوں کو سرکاری طور پر روزانہ صرف دس کروڑ پچاس لاکھ گیلن پانی ملتا ہے۔یہ صورت حال نہایت گھمبیر اور خطرناک ہے۔

کراچی کے غریب باشندے ظاہر ہے،مہنگا پانی نہیں خرید سکتے۔اسی لیے بہت سے لوگوں نے مضافاتی ٕعلاقوں میں کنوئیں کھود کر پانی بیچنے کا نیا دھندا شروع کر دیا۔مگر ان کنوؤں سے بدبودار پانی برآمد ہوتا ہے۔تاہم غریب مجبوراً اسے استعمال کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ سرکاری پانی کی نسبت بہت سستا ہے۔لیکن یہ غیرمعیاری پانی کراچی کے خصوصاً غریب بچوں اور عورتوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔مذید براں کنوئیں کھودنے کی وجہ سے کراچی میں بھی زیرزمین واقع آبی ذخائر تیزی سے خالی ہو رہے ہیں۔

پانی کی کمی نہیں!

حیرت انگیز بات یہ کہ اعدادو شمار کی رو سے پاکستان قلتِ آب کا شکار نہیں۔ وطن عزیز میں ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے برفانی تودوں سے نکلنے والا پانی نالوں اور دریاؤں کی صورت ہر سال ہماری زمینوں کو چودہ کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ فٹ سیال دولت فراہم کرتا ہے ۔ ہمارے بڑے دریاؤں میں پانی کا سالانہ بہاؤ کچھ یوں ہے: دریائے سندھ (بشمول دریائے کابل): آٹھ کروڑ نوے لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریائے جہلم: دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریائے چناب: دو کروڑ پچیس لاکھ ایکڑ فٹ اور مشرقی دریا (ستلج، راوی اور بیاس): نوے لاکھ ایکڑ فٹ۔ دریاؤں کے پانی میں سے دس کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ ہر سال ہمارے گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یاد رہے، بین الاقوامی اصول کی رو سے ہر انسان کو روزانہ اپنی مختلف ضروریات پوری کرنے کی خاطر 35 گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ستر لاکھ ہے۔ اس آبادی کو 35 گیلن پانی روزانہ کے حساب سے ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ درکار ہے ۔جبکہ ایک کروڑ اسی لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہمارے کارخانوں اور دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

درج بالا اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ پاکستان میں تو زائد پانی موجود ہے کہ اسے ہر سال دریاؤں سے جو پانی ملتا ہے، اس میں سے ایک کروڑ دس لاکھ ایکڑ فٹ پانی بچ جاتا ہے۔(یہ پانی چوری ہوتا یا پھر بہہ کر سمندر میں جاتا ہے) پھر یہ کیوں کہا جانے لگا کہ پاکستان میں پانی کی کمی واقع ہوچکی؟ یہ دعویٰ سامنے آنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی کم ہوچکا۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا، تو یہاں ٹیوب ویلوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ آج پورے پاکستان میں لاکھوں ٹیوب ویل کام کررہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں کنوئیں کھودے جاتے ہیں۔ ان ٹیوب ویلوں، کنوؤں اور ہینڈ پمپوں سے نکلا پانی ہمارے کھیتوں ،گھروں اورکارخانوں میں استعمال ہوتا ہے۔

وطن عزیز کے خصوصاً شہری علاقوں میں واقع زیر زمین موجود آبی ذخائر کو مگر بارشوں کے ذریعے اتنا پانی نہیں مل رہا کہ وہ دوبارہ بھر جائیں۔ اسی لیے ان میں پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے۔ مثلاً خیال ہے کہ لاہور کے زیر زمین آبی ذخائر سے موجودہ رفتار سے پانی نکالا جاتا رہا تو 2025ء تک وہ خالی ہوجائیں گے۔ گویا ہمارے دریاؤں میں تو پانی موجود ہے مگر پاکستان کی زیر زمین جہگوں میں یہ سیال مادہ نایاب ہوتا جارہا ہے۔

ڈیم بننے چاہیں یا نہیں؟

اس نئی صورتحال میں یقینی ہے کہ دریاؤں کے پانی کا استعمال بڑھ جائے گا۔ اب لاہور، گوجرانوالہ، ملتان وغیرہ کو بھی دریاؤں کا پانی پاک صاف بناکر فراہم کرنا ہوگا تبھی ان شہروں میں قلت آب دور ہوگی۔ ان بدلتے حالات میں یہ خیال صائب لگتا ہے کہ دریاؤں پر نئے ڈیم بننے چاہیں تاکہ ان کے ذریعے کثیر پانی محفوظ کیا جاسکے اور وہ بعدازاں زرعی صنعتی اور گھریلو ضرورت پوری کرنے میں کام آئے۔

دنیا بھر میں لیکن ماہرین آب ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ خصوصاً بڑے ڈیم ہرگز تعمیر نہیں ہونے چاہیں۔ یہ ڈیم وسیع علاقے کا قدرتی ماحول تباہ کرتے ہیں۔ وہاں صدیوں سے آباد لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ پھر ان پر لاگت بھی اصل تخمینے سے بہت زیادہ آتی ہے۔اس ضمن میں بڑے ڈیموں کے مخالف پاکستانی ماہرین آب نیلم جہلم بجلی گھر کی مثال پیش کرتے ہیں۔ 1989ء میں جب آبی بجلی بنانے والے اس ڈیم کا منصوبہ بنا، تو منصوبے پر لاگت کا تخمینہ سولہ کروڑ ستر لاکھ ڈالر تھا۔ یہ تخمینہ پھر بڑھتا رہا اور بجلی گھر آخر کار پانچ ارب پندرہ کروڑ ڈالر کے کثیر سرمائے سے تعمیر ہوا۔اس کے معنی ہیں، دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر لاگت کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے، اس میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے۔

بڑے ڈیموں کے مخالف ماہرین آب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈیم سے سستی بجلی پیدا ہونے کا اعلان بھی دیومالا ہے۔بڑے ڈیموں کے مخالف آبی ماہرین کی تجویز ہے کہ اب متبادل ذرائع توانائی مثلاً شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے بجلی بنائی جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اب شمسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک واٹ بجلی پیدا کرنے پر پچاس روپے خرچ ہوتے ہیں۔ گویا شمسی ٹیکنالوجی بجلی پیدا کرنے کے معاملے میں آبی قوت سے بھی زیادہ سستا ذریعہ بن چکی۔غیر جانب دار ماہرین کو چاہیے کہ وہ اس دعوے کو بھی جانچ پرکھ سے گذاریں ۔

سوال یہ ہے کہ اگر بڑے ڈیم نہیں بننے چاہیں، تو پھر پانی کیسے محفوظ کیا جائے؟ اس سلسلے میں آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دریاؤں کے ساتھ ساتھ موزوں مقامات پر ’’ذخائر آب‘‘ بنائے جائیں۔ یہ طریق کار تکنیکی اصطلاح میں ’’رائپرین زون مینجمنٹ‘‘ (riparian zone management) کہلاتا ہے۔ یہ ذخائر آب بنانے میں ڈیموں کی نسبت کم رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ ان میں زیادہ پانی سما جائے گا۔ ماہرین آب کا کہنا ہے کہ اگر مجوزہ نئے ڈیم بن بھی جائیں تو پاکستان کے سبھی ڈیموں میں مجموعی طور پہ پانچ کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا۔ لیکن ’’رائپرین زون مینجمنٹ‘‘ اپنانے کی صورت میں دریاؤں کے ساتھ بنے ذخائر آب میں ’’تین ارب ایکڑ فٹ پانی‘‘ جمع کرنا ممکن ہے۔ یہ پانی کی بہت بڑی مقدار ہے۔ تاہم ان بیشتر ذخائر آب کے ذریعے بجلی نہیں بن سکے گی۔ یہ بجلی پھر تیل و گیس سے چلنے والے بجلی گھروں یا متبادل ذرائع توانائی سے بنانی پڑے گی۔ یہ ذخائر صرف پانی محفوظ کریں گے تاکہ وہ زرعی، گھریلو اور صنعتی مقاصد میں کام آسکے۔

شہروں میں ماہرین آب ایک اورجدید تکنیک ’’واٹر سینسٹیو اربن ڈیزائن‘‘ (Water sensitive urban design) اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے بارشوں کا پانی زیر زمین موجود آب اندختوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ لاہور کے نیچے آب اندختوں کا جال بچھا ہے۔ ان میں درج بالا جدید ترین تکنیک کی مدد سے تربیلا ڈیم جتنا پانی (تقریباً ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ) محفوظ کرنا ممکن ہے۔ گویا پاکستانی شہروں میں ’’واٹر سینسٹیو اربن ڈیزائن‘‘ تکنیک اپنالی جائے، تو زیر زمین آبی ذخائر وہاں پینے کے صاف پانی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔

بڑھتی آبادی کے باعث اب پورے ملک میں پانی کی ضرورت بڑھ رہی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے پیش نظر سونا بن چکا۔اب لازماً ہمیں پانی کے ذخائر درکار ہیں جو اس قدرتی سیال کی بڑی مقدار ذخیرہ کرسکیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام ماہرین سے مشورہ کرکے نئے ڈیم اور آبی ذخائر بنائے تاکہ ایسی تعمیرات بن سکیں جو ماحول کو کم از کم نقصان پہنچائیں جبکہ پانی کی بڑھتی طلب بھی پورا کردیں۔

اگر حکومت نے ذخائر آب تعمیر نہ کیے، تو اگلے چند برس میں خصوصاً پاکستانی شہروں میں پانی کی شدید کمی جنم لے سکتی ہے۔تب شہروں میں پانی کی خاطر دنگے فساد ہو سکتے ہیں۔اب تو یہ نظریہ عام ہو چکا کہ مستقبل میں دنیا بھر میں بڑی جنگیں پانی پر ہوں گی۔

The post بڑے شہروں میں پانی کا بحران بدترین شکل اختیارکرنے لگا appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک جعل ساز، جس نے ایفل ٹاور بیچ ڈالا

$
0
0

تاریخ کے چند صفحات وکٹر لسٹنگ نے بھی اپنے نام کیے ہیں، مگر اس کا تذکرہ جعل سازوں اور دھوکے بازوں کی فہرست میں ملے گا۔

اس کے ’کارنامے‘ پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اصل نام تو اس کا رابرٹ ملر تھا، مگر دھوکا دہی کی وارداتوں کے لیے اس نے مختلف نام اپنائے اور سوانگ بھرے۔ ان میں وکٹر لسٹنگ وہ نام ہے جو زیادہ مشہور ہے۔

اس کی تاریخِ پیدائش 1890ء اور وطن چیکو سلواکیا تھا۔ کہتے ہیں وہ ذہین اور پُراعتماد تھا اور بَروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ متعدد زبانوں پر عبور رکھنا اس کی ایک زبردست قابلیت تھی۔ لوگ اس کی لچھے دار باتوں میں آسانی سے آجاتے۔ وہ اپنی جادو بیانی سے ان کا بھروسا اور مان حاصل کرنے کے بعد موقع پاتے ہی انہیں نقدی اور قیمتی اشیا سے محروم کردیتا۔ اس دھوکے باز نے تو مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور تک بیچ دیا تھا۔

سچ ہے لالچ بُری بلا ہے، مگر راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں انسان اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ رابرٹ نے اسی انسانی کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور خوب مال اکٹھا کیا۔ اس کا پہلا ’منظم کارنامہ‘ کرنسی نوٹ چھاپنے والی مشین تھی۔

یہ قصّہ کچھ یوں ہے کہ وکٹر لسٹنگ (جعلی نام) کے شیطانی ذہن نے ایک ایسی مشین تیار کی جس سے کرنسی نوٹ کی نقل حاصل کی جاسکتی تھی۔ یعنی اس میں مخصوص طریقے سے کرنسی نوٹ داخل کر کے دگنی رقم ہاتھ لگ سکتی تھی۔ یوں کوئی بھی گویا راتوں رات امیر بن سکتا تھا۔ اس نے چند لوگوں کو اس ’ایجاد‘ سے آگاہ کیا اور مشین کی قیمت تیس ہزار ڈالر بتائی۔ یہی نہیں بلکہ خواہش مندوں کے سامنے اس کا مشین کا عملی مظاہرہ کیا۔ پہلی بار مخصوص طریقۂ استعمال سے مشین نے سو ڈالر اگل دیے۔ وکٹر نے بتایا کہ اگلی بار یہ اس سے دگنی رقم دے گی اور اس نے ایسا کر کے دکھایا بھی۔

وہ ایک کرنسی نوٹ مخصوص حصّے سے داخل کرتا اور دوسرے سے دگنی رقم باہر نکلنے لگتی۔ چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد دوبارہ مشین استعمال کی جاتی تو مزید دو سو ڈالر نہایت آسانی سے ہاتھ آجاتے۔ جانچ کروانے پر وہ تمام کرنسی نوٹ اصلی ثابت ہوئے۔ یوں لوگ لالچ میں آگئے، مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس مشین سے دو مرتبہ ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور تین سو ڈالر اگلنے کے بعد یہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ یوں بھی سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس مشین سے نکلنے والے کرنسی نوٹوں نے ختم کردی تھی۔ وکٹر لسٹنگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ایسا الجھایا کہ کسی نے مشین کے بارے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اسے خریدنے کے چکر میں پڑ گئے۔ دھوکے باز وکٹر اپنے مقصد میں کام یاب رہا اور تیس ہزار ڈالر کے عوض مشین فروخت کرتا رہا۔ دراصل اس مشین کے مخصوص خانے میں اصل کرنسی نوٹ خود اس دھوکے باز نے رکھے تھے تاکہ لوگوں کا بھروسا حاصل کر سکے۔ جب مشین کو مخصوص طریقے سے استعمال کیا جاتا تو اس میں موجود کرنسی نوٹ باہر نکل آتے۔

یہ دو مرتبہ تو ممکن ہوتا، مگر تیسری بار صارف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، کیوں کہ نوٹوں کا خانہ خالی ہو جاتا تھا۔ تب ان پر اس کی حقیقت بھی کُھل جاتی، مگر اس وقت تک یہ جعل ساز ایک دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ اس طرح مشین کی ادا کردہ قیمت تک لوگوں کی جیب میں نہیں آسکی اور وہ اپنے لُٹنے کا ماتم کرتے رہ گئے۔ تیسری مرتبہ مشین میں سے سادہ کاغذ برآمد ہوتا اور صارف جھنجھلاہٹ کے عالم میں پھر کوشش کرتا، اس کی متعدد کوششوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا۔ یعنی ہر کوشش میں کورا کاغذ ہی ہاتھ لگتا اور تب وہ یہ ماننے پر مجبور ہوتے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ اس وقت تک وکٹر لسٹنگ ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔ وہ فراڈ کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر منتقل ہوجاتا تھا۔

اس دھوکے باز کا اصل نام رابرٹ تھا۔ اساتذہ اسے ایک ذہین طالبِ علم کے طور پر شناخت کرتے تھے۔ نت نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا جس کا جرم کی دنیا میں اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسے فرانسیسی، چیک، انگریزی، جرمن، اطالوی اور دیگر بولیوں پر عبور حاصل تھا۔ 19 برس کی عمر میں رابرٹ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا اور وقت گزاری کے لیے جوا کھیلنے لگا۔ اسی زمانے میں اس پر دولت سمیٹنے کا جنون سوار ہوا اور اس نے دھوکے بازی اور جعل سازی کا راستہ اپنایا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے ان تاجروں کو لوٹنا شروع کیا جو سمندری راستے امریکا اور فرانس آتے جاتے تھے۔ کبھی وہ میوزک پروڈیوسر بن کر ان سے ہاتھ کر جاتا تو کہیں نواب وکٹر کا روپ دھار کر اپنے جال میں پھنسا لیتا۔

وہ سرمایہ دار بن کر اپنے کاروباری منصوبے تاجروں کے سامنے رکھتا اور ملاقاتوں کے دوران ان کا اعتبار اور بھروسا حاصل کرلیتا اور پھر ان کے ساتھ ہاتھ کرجاتا۔ یوں تاجر قیمتی اشیا اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے۔ ایسی چند کارروائیوں کے بعد اس نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مالیاتی ادارہ سے بڑا فراڈ کیا۔ یہ1922 کی بات ہے جب فرانس کا ایک بینک اس کی جعل سازی کا نشانہ بنا۔ یہ پراپرٹی اور بانڈز سے متعلق فراڈ تھا جس پر پولیس اور خفیہ ادارے متحرک ہوگئے، لیکن یہ دھوکے باز اب امریکا میں تھا۔ اس نے پیرس اور امریکا میں معمولی فراڈ اور جعل سازیوں کے ذریعے خاصی رقم اور جائیداد بنا لی تھی اور اب کوئی بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ امریکا میں قیام کے دوران وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا رہا۔ کہتے ہیں وہ صرف امریکا اور فرانس ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک میں بھی مختلف معمولی نوعیت کے فراڈ کرتا رہا اور اس عرصے میں درجنوں بار گرفتار ہوا، لیکن زیادہ دن سلاخوں کے پیچھے نہیں رہا۔

یہ سن کر آپ حیران ہوں گے کہ رابرٹ نے مشہورِزمانہ ایفل ٹاور بھی بیچ دیا تھا۔ فرانس کی یہ تاریخی یادگار اس ملک کی ایک پہچان بھی ہے۔ لوہے کا یہ مینار فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ 1889ء میں انقلابِ فرانس کا صد سالہ جشن مناتے ہوئے اس مینار کی رونمائی کی گئی تھی اور ارادہ تھا کہ دو دہائی بعد اسے منہدم کردیا جائے گا، لیکن بعد میں انتظامیہ نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ایفل ٹاور کی تعمیر میں لوہا اور اسٹیل استعمال کیا گیا ہے جن کا مجموعی وزن 7,300 ٹن ہے۔ یہ مینار جہاں ایک تاریخی حوالہ رکھتا تھا اور اب شہر کی ایک شناخت بھی تھا، وہیں اسکریپ کا کاروبار کرنے والوں کے لیے اس کی فروخت کا اعلان بھی قابلِ ذکر بات تھی۔ شہر کے اہم کباڑیوں تک ایک سرکاری کاغذ پر دعوت پہنچی کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کی شکل میں فروخت کرنا چاہتی ہے، دل چسپی رکھنے والے رابطہ کریں۔ کسی کو گمان تک نہ گزرا کہ یہ سب فراڈ ہے۔ اس کے پیچھے رابرٹ کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا جو 1925ء میں امریکا سے فرانس آیا تھا اور اس بار پیرس اس کا ٹھکانہ تھا۔

وہ موسمِ بہار کی ایک صبح تھی جب اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے رابرٹ کی نظر ایک مضمون پر پڑی جس میں ایفل ٹاور کی وجہ سے شہر میں انتظامی مسائل کا ذکر تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ ٹاور کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش انتظامیہ کے لیے دردِ سَر بنتی جارہی ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر رابرٹ کا شیطانی ذہن متحرک ہو گیا۔ اس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس کے لیے سرکاری عہدے دار کا روپ دھار لیا۔ اس نے دھاتوں اور خام لوہے کی خریدوفروخت سے منسلک چھے بڑے تاجروں کے پتے حاصل کیے اور ایک جعلی سرکاری لیٹر پر دعوت نامہ بھیجا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کرنا چاہتی ہے، اگر وہ اس میں دل چسپی رکھتے ہیں تو رابطہ کریں۔ یہ ہدایت بھی کی کہ انتظامیہ اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جائے۔ اسے حوصلہ افزا جواب موصول ہوا۔ رابرٹ نے خود کو ایک محکمے کا ڈپٹی ڈائریکٹر ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں خواہش مند کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

وہ سرکاری عہدے دار کی حیثیت سے انہیں بتاتا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کی مرمت اور اس کی تزئین و آرائش کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور اسے فروخت کرنا چاہتی ہے، لیکن عوام کی جانب سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے فی الوقت اس معاملے کو خفیہ رکھنا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق جب مالک ٹاور کو اکھاڑے گا تو انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جائے گا کہ اس کی مرمت اور جگہ کی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہے۔ یوں تاجر کو اسکریپ لے جانے پر کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جائے گا۔ آخر اس سودے پر اس نے ایک تاجر کو رضامند کر ہی لیا۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد تاجر نے سرکاری کاغذات پر ایفل ٹاور کی خریداری کے لیے دستخط کردیا اور بھاری رقم رابرٹ کے حوالے کردی جو ٹرین کے ذریعے آسٹریا روانہ ہوگیا۔ بعد میں اس تاجر پر کھلا کہ وہ بیوقوف بن گیا ہے اور وہ دعوت نامہ ہی نہیں معاہدے کی تمام دستاویز جعلی ہیں۔

وہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے رابطہ کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔ اسے اپنی کاروباری ساکھ متاثر ہونے کا ڈر تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ راز کھلا تو اس کے معاصر بزنس مین اس پر ہنسیں گے۔ تاجر نے کھوج لگایا تو انکشاف ہوا کہ خفیہ یا اعلانیہ کسی بھی طور انتظامیہ ایفل ٹاور کی فروخت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اور کبھی ایسی کوئی تجویز تک انتظامیہ میں زیرِغور نہیں رہی۔ ادھر رابرٹ فرانس کے تمام بڑے اخبارات کا مطالعہ کررہا تھا۔ چند ماہ تک اس کے فراڈ سے متعلق کوئی بھی خبر کسی اخبار کی زینت نہ بنی تو اس نے دوبارہ فرانس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ایفل ٹاور ’فروخت‘ کرے اور اسی طرز پر کاروباری شخصیات سے رابطہ کرے۔ اس نے پیرس پہنچ کر یہی کیا، مگر اس بار قسمت اس کے ساتھ نہ تھی اور ایک تاجر نے شک ہونے پر اس معاملے کو پولیس کے سامنے رکھ دیا۔ پولیس نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور یوں فراڈ کا پردہ چاک ہو گیا، لیکن رابرٹ پولیس کے ہاتھ نہ آیا اور امریکا پہنچ گیا۔

1930ء میں امریکا نے بدترین کساد بازاری دیکھی۔ ان حالات میں رابرٹ جس نے جعلی نام وکٹر لسٹنگ اپنا لیا تھا، ایک نئے فراڈ کا منصوبہ ترتیب دیا۔ تاہم اس بار وہ تنہا نہیں تھا بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل دو کاروباری افراد اس کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل بھی وکٹر لسٹنگ بدنامِ زمانہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل کر بڑے فراڈ کرچکا تھا۔ ان میں لوگوں کو کسی اسکیم کے ذریعے راتوں رات امیر بنانے کے ساتھ دوسرے بڑے مالیاتی فراڈ شامل ہیں۔

ولیم واٹس اور ٹام شا نامی دوا ساز اور کیماگر کے ساتھ مل کر اس نے جعلی کرنسی چھاپنے اور اسے ملک بھر میں پھیلانے کا کام شروع کردیا جو پانچ سال تک جاری رہا۔ 1935ء میں اس جرم کا پردہ چاک ہوگیا اور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ امریکا میں ٹرائل سے چند روز قبل اس ملزم نے فرار کا منصوبہ بنایا اور کسی طرح بھاگنے میں کام یاب ہوگیا، مگر27 روز بعد ہی دوبارہ پکڑا گیا۔ اسے15  سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 1947ء میں دورانِ قید بیماری کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

The post ایک جعل ساز، جس نے ایفل ٹاور بیچ ڈالا appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور

$
0
0

کینیا کے علاقے اوسیوان میں دو شیر کئی ہفتوں سے مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کوخوراک بنارہے تھے۔ نقصان اٹھاتے اٹھاتے ماسائی قبیلے کے چرواہوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔

گزشتہ دسمبر میں ماسائیوں نے کینیا وائلڈ لائف سروس کو تنبیہہ کردی تھی کہ انھیں خونخوار درندوں سے نجات دلائی جائے بہ صورت دیگر وہ خود اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں گے۔ اس سنگین مسئلے پر سوچ بچار کے لیے قبیلے میں کئی اجتماعات ہوچکے تھے۔ ایسے ہی ایک اجتماع میں نوجوان ماسائی جنگجُو سواہیلی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وائلڈ لائف سروس نے جلد ہی شیروں کا خاتمہ نہ کیا تو وہ خود انھیں ہلاک کر ڈالیں گے کیوں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ شیر کو کیسے مارا جاتا ہے۔‘

سواہیلی کا اشارہ محض اپنے ترکش میں سجے تیروں کی جانب نہیں تھا بلکہ اس کی مراد قاتل زہر سے بھی تھی جسے اب گلہ بان اور چرواہے شیروں سے اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شیر کینیا کا قومی نشان و جانور ہے تاہم ماسائی چرواہے اسے قومی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایسے عفریت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے ذریعۂ معاش کو نگل جاتا ہے۔ کینیا وائلڈ لائف سروس شیروں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے، تاہم مقامی باشندے اس کی قومی جانور کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیلوں پر اب کان نہیں دھرتے۔

کینیتھ اولے ناشوو نے جو کینیا وائلڈ سروس سے بہ طور سنیئر وارڈن وابستہ ہیں، دیہاتیوں کے ہاتھوں شیروں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد فیصلہ کیا کہ قومی جانور کے تحفظ کے لیے انھیں اوسیوان میں امبوسیلی نیشنل پارک کے شمالی حصے سے، جہاں مویشیوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے تھے، ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں منتقل کردیا جائے جو اوسیوان سے زیادہ دور نہیں تھا، تاہم یہ مرحلہ آسان نہ ہوتا، اس کے لیے شیروں کو بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ کرسمس سے ایک دن پہلے کی شام اولے ناشوو اور ان کے ساتھی رینجرز شیروں کے تحفظ کے لیے فعال ’ لائن گارجینز‘ نامی گروپ کے رکن لیوک مامائی کی ہمراہی میں ایک لینڈ کروزر میں سوار ہوکر جھاڑیوں کے درمیان نسبتاً کُھلی جگہ پر پہنچے اور گاڑی کا انجن بند کردیا۔ آسمان پر چاند روشن تھا اور اس کی چاندنی میں اردگرد کا منظر بڑی حد تک واضح تھا۔ کینیتھ اور اس کے ساتھی شیروں کی آمد کے منتظر تھے۔

مامائی نے جو ماسائی قبیلے کا فرد ہے، گاڑی کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر رکھا، کچھ ہی لمحوں کے بعد شب کی تاریکی میں موت سے ہمکنار ہوتی گائے کے ڈکرانے کی آواز گونجنے لگی جسے نظرانداز کرنا شیر کے لیے ممکن نہیں۔ کینیتھ اور اس کی ٹیم کو زیادہ دیر انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔ لب مرگ گائے کی صدا خاموش ہوئے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ دائیں جانب کی جھاڑیوں سے ایک بڑے چوپائے کا ہیولا نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ ایک شیرنی تھی۔ وہ گاڑی سے دس گز کے فاصلے پر آکر رُک گئی اور پھر محتاط انداز میں ایک پستہ قامت درخت کی جانب بڑھنے لگی جس کی شاخوں سے مامائی نے بکری کی آلائشیں لٹکا دی تھیں۔ اولے ناشوو نے دوسری لینڈکروزر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اشارہ کیا جو ہاتھوں میں ڈارٹ رائفل (بے ہوشی کی برچھی فائر کرنے والی بندوق) تھامے ہوئے تھا۔

چند ہی لمحوں بعد اولے ناشوو اپنے آدمیوں کو بے ہوش شیرنی پنجرے میں منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک کام یاب مشن کی تکمیل پر ساتھیوں کو مبارک باد پیش کررہا تھا۔ اوولے کا کہنا تھا کہ دو شیرنیوں میں سے ایک کی ’گرفتاری‘ سے شیروں کی جوڑی کو زک پہنچے گی اور دونوں بھائی مویشیوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے۔ اوولے کا یہ دعویٰ بہ ظاہر عجیب و غریب تھا کیوں کہ دونوں شیر آزاد تھے اور ان کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔

رات خاصی گزر چکی تھی۔ میں اور میرا رہبر اور شکاری پرندوں کا ماہر سائمن تھامسیٹ، اس کی لینڈکروزر میں سونے کی سعی کررہے تھے جب غراہٹ کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں۔ بہ تدریج یہ آوازیں قریب آتی چلی گئیں۔ اندازہ ہوا کہ یہ غراہٹیں دو شیروں کی تھیں جو ممکنہ طور پر شیرنی کو کھوج رہے تھے۔ ڈارٹ گن کی مدد سے ایک شیر کو پکڑ لیا گیا جب کہ دوسرا بچ نکلا۔ پکڑے گئے شیر اور شیرنی کو بعدازاں ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر اندازہ تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں درندے زندہ نہیں رہ پائے ہوں گے کیوں کہ پہلے سے موجود شیروں نے انھیں اپنا ساتھی نہیں بلکہ درانداز تصور کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ عموماً نوواردوں کی پُرتشدد موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

کے ڈبلیو ایس کے شعبہ ویٹرنری خدمات کے سربراہ فرانسس گاکو نے جوکینیا میں جنگلی حیوانات کی بہبود کے ذمے دار ہیں، شیروں کو آزاد کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،’’ہم انھیں دوسرا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم فرانسس کے برعکس شیروں کے کئی ماہرین کا یقین ہے کہ شیروں کو نئے مسکن میں منتقل کرنے کے بجائے انھیں دیکھتے ہی ہلاک کردینا انسانیت کے زیادہ قریب ہوتا۔

اسی دوران وارڈن کی سوچ کے برخلاف بچ جانے والے شیر نے مویشیوں کو خوراک بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم اس بار گلہ بانوں نے، جو ممکنہ طور پر مقامی نہیں تھے، بیرونی مدد طلب نہیں کی۔ انھوں نے مُردہ بکری اور گائے پر زہریلے کیمیکل چھڑک دیے۔ شیر اور شیرنی نے جب ان مُردہ جانوروں کے گوشت سے شکم سیری کی تو زہرخورانی کا شکار ہوکر جان سے چلے گئے۔ جب اس واقعے کی اطلاع کے ڈبلیو ایس کو ہوئی اور وہاں سے تحقیقات کے لیے ویٹرنیرین ( جانوروں کا ڈاکٹر) بھیجا گیا، اس وقت تک شیروں کی نعشیں گل سڑ چکی تھیں۔

ویٹرنیرین کو ’جائے وقوعہ‘ پر لگڑبھگڑ اور گدھ کی باقیات بھی نظر آئیں جو یقیناً مُردہ مویشیوں کا زہرآلود کھانے کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ کینیا میں یہ مناظر عام ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ویٹرنیرین نے جانچ کے لیے مُردہ مویشیوں اور شیروں کے نمونے حاصل نہیں کیے تھے حالاں کہ کئی قسم کے زہر ایسے ہیں جو طویل عرصے تک متأثرہ جانوروں کی باقیات میں موجود رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ شیروں کو ہلاک کرنے کے لیے کون سا زہر استعمال کیا گیا تھا، جو اس کا علم رکھتے تھے وہ ممکنہ طور پر اس بارے میں بات کرنے سے انکاری ہوتے۔

کینیا اور افریقا بھر میں چھوٹے جانوروں کو بہ غرض حصول خوراک، ہاتھیوں اور گینڈوں کو ان کے سینگ، اور دیگر جانوروں کو ادویہ میں ان کے اعضا کی ضرورت کی وجہ سے زہر دے کر مار دینے کا رواج عام ہوچکا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ انسانی صحت پر زہر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زہر کے استعمال کی ایک اور تکلیف دہ صورت انسان اور جنگلی جانوروں کے مابین ٹھن جانے کے بعد سامنے آتی ہے جب کوئی شیر یا لگڑ بھگڑ مویشیوں کو نشانہ بناتا ہے، یا پھر کوئی ہاتھی جب ان کی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زہر کی یہ قسم کیڑے مار زہر پر مشتمل ہوتی ہے کیوں کہ حشرات کُش زہر ارزاں قیمت پر اور عام مل جاتے ہیں نیز مہلک بھی ہوتے ہیں۔

گاکویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ زہر کا استعمال ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور اوسیوان کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

مزاحمت کے طور پر زہر دینے کے واقعات کہیں بھی کسی بھی لمحے پیش آسکتے ہیں مگر اکثر اس کے شواہد من گھڑت اور نامکمل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کینیا کی جنگلی حیات کی نگرانی کرنے والے ماہرین حیاتیات، کینیا والڈ لائف سروس کے ملازمین اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ زہر دینے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تصادم بڑھ رہا ہے۔

کینیا کے محفوظ علاقے بشمول جنوب کا ماسائی مارا، امبوسیلی، ساوو ویسٹ اور ساوو ایسٹ پارک، سب کے سب محاصرے میں ہیں۔ شاہراہوں، ریلوے لائنوں، بجلی گھروں کی تعمیر اور بھاری صنعتوں، ہائی ٹیک سینٹرز اور وسعت پذیر شہروں کو بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں کا پھیلتا ہوا جال محفوظ علاقوں کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ کینیا کی آبادی جس کی ضروریات کے لیے مقامی وسائل پہلے ہی ناکافی ہوچکے ہیں، 2050ء تک متوقع طور پر دُگنی ( آٹھ کروڑ ) ہوجائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں جانوروں کی نقل وحرکت محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ ہاتھی جیسے بڑے ممالیہ کے صورت حال خاص طور سے مخدوش ہے جو موسم میں تبدیلی کے ساتھ غذا اور پانی کی تلاش اور افزائش نسل کے لیے ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

شیر کینیا کا قومی جانور ہے مگر اب ان کی تعداد دو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے جو پانچ عشرے قبل بیس ہزار تھی۔ علاوہ ازیں 90 فی صد شیر اپنے اصل مسکن یا علاقوں سے غائب ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں کینیا میں شیروں کی تعداد اتنی رہ جائے گی جتنی چڑیا گھروں میں ہوتی ہے اور وہ چڑیا گھر جیسے ہی حالات میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔ شیروں کو زہر دے کر مارنے کا ہر واقعہ کینیا کو جنگلی حیات کی تصویر کشی کرنے والے معروف فوٹوگرافر پیٹر بیئرڈ کے بہ قول ’اینڈ آگ دی گیم‘ کے قریب لے جارہا ہے۔

دنیا بھر میں زمانۂ قدیم سے جانوروں کے شکار اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لیے زہر کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مشرقی افریقا میں  Acocantheraنامی درخت میں ایسا کیمیائی مرکب پایا جاتا ہے جس کی معمولی مقدار ایک بڑے ممالیہ کے دل کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے، یہ زہر صدیوں سے مقبول ہے۔ کچھ عشروں سےحشرات کش زہر بھی جانوروں کی ہلاکت کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔

اس کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا تھا جب براعظم افریقا میں آبادی تیزی سے بڑھنے لگی تھی اور اسی مناسبت سے سَر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کے حصول کی مسابقت میں بھی تیزی آتی گئی۔ زمین داروں اور گلہ بانوں پر انکشاف ہوا کہ حملہ آوروں (شیر، تیندوا، چیتا، جنگلی کتے، گیدڑ ) مردار خوروں (بھیڑیے، گدھ) اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے جانوروں (ہاتھی، کچھ اقسام کے پرندے ) کو ہلاک کرنے کے لیے حشرات کش زہر کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگ ان ہلاکت خیز مرکبات کو بطخوں اور مرغابیوں وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بطخیں بعدازاں فروخت کردی جاتی ہیں جن کا گوشت خریداروں کی خوراک بنتا ہے۔

زہر دینے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر ایک تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشرقی افریقا کی قدیم ترین نیچرل ہسٹری آرگنائزیشن، نیچر کینیا پر انکشاف ہوا کہ شمالی علاقوں میں کسان شیروں کو حشرات کش زہر کی مدد سے ہلاک کررہے ہیں۔ نیچر کینیا کی برڈ کمیٹی میں شامل ڈیرسی اوگاڈا نے اس مسئلے کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر سروے ڈیزائن کیے اور ان کی نگرانی کی۔ سروے کرنے کے لیے انھوں نے مارٹن اوڈینو نامی ایک پُرجوش ماہر طیوریات کی خدمات حاصل کیں۔

سروے کے لیے انھوں نے جن مقامات کا انتخاب کیا ان میں سے ایک مغربی کینیا میں جھیل وکٹوریا کے کنارے بنیالا کا علاقہ تھا جہاں دور تک دھان کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق یہاں کاشت کار فیوراڈان 5G نامی حشرات کش زہر کے ذریعے پرندوں کو ہلاک کررہے تھے۔ فیوراڈان 5G ارغوانی رنگ کا دانے دار کیمیائی مرکب ہے جسے امریکا کی ریاست فلاڈلفیا میں قائم ایک کمپنی ایف ایم سی تیار کرتی ہے۔ اس حشرات کُش زہر میں کاربوفوران نامی ایک مرکب بھی شامل ہے۔ یہ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ کینیڈا، یورپی یونین، آسٹریلیا اور چین میں اس کے استعمال پر پابندی ہے یا پھر اس کا استعمال انتہائی محدود ہے۔ امریکا میں خوردنی فصلوں پر اس کے استعمال کی ممانعت ہے، اس کے باوجود کینیا میں اس کی درآمد کی اجازت ہے۔ کینیا میں اس زہر کی درآمد کا اجازت نامہ جوانکو گروپ کے پاس ہے جس کا مرکزی دفتر نیروبی میں واقع ہے۔

بنیالا کے علاقے میں پہلے دورے پر اوڈینو نے دیکھا کہ زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G عام دستیاب تھا اور کوئی بھی اسے خرید سکتا تھا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شکاری چاول اور گھونگھوں پر اس زہر کا چھڑکاؤ کرکے انھیں بطخوں اور ایک قسم کے بگلے کا شکار کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے جو ان اشیاء کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ جانور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ شکاری ، مُردہ پرندے مقامی باشندوں کو فروخت کردیتے تھے، جن کا خیال تھا کہ اگر گوشت کو اچھی طرح پکالیا جائے تو وہ زہریلے اثرات سے تقریباً پاک ہوجاتا ہے۔ پرندوں کے زہریلے گوشت سے بنا سوپ پینے والے کئی اشخاص نے اوڈینو کو بتایا کہ سوپ پینے کے بعد انھیں گھٹنوں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے، یہ علامت ایک ایسے مرکب کی ہے جو دماغی خلیوں کی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

اوگاڈا نے اپنی حاصل کردہ معلومات ’’والڈ لائف ڈائریکٹ‘‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاؤلا کاہومبو کو پیش کیں جو کینیا میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی سب سے بااثر حامی ہیں، انھیں بھی مختلف علاقوں سے اسی نوع کے واقعات کے بارے میں خبریں مل رہی تھیں۔ کاہومبو نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس کا پہلا اجلاس اپریل 2008 میں ہوا۔ اوگاڈا کے مطابق یہ ایک کام یاب اجلاس تھا، کیوں کہ پہلی بار قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر اس اہم مسئلے پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ کاہومبو جانتی تھی کہ سنگین صورت حال کے باوجود حکومت کو اس اس کیمیکل کی درآمد پر پابندی کے لیے راضی کرنا آسان نہیں ہوگا جس پر کینیا کی وسعت پذیر زراعتی صنعت کا دارومدار تھا۔ کاہومبو کہتی ہیں کہ ابھی تک اس کیمیکل کا سستا اور اتنا ہی مؤثرمتبادل دستیاب نہیں ہوسکا تھا۔

زہر کی مدد سے جنگلی حیات کی ہلاکت کو عالمی توجہ 2009ء میں اس وقت حاصل ہوئی جب امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کے پروگرام میں کینیا میں فیوراڈان  5G کے ذریعے شیروں کی ہلاکت اور اس کیمیائی مرکب کی دست یابی پر ایک جامع رپورٹ نشر کی گئی۔ بعدازاں فیوراڈان 5Gبنانے والی کمپنی نے کینیا میں اپنی مصنوعہ مارکیٹ سے اٹھالی اور عوام الناس سے اس زہریلے مرکب کی بوتلیں واپس خریدنے کی اسکیم بھی چلائی۔ یہ حکمت عملی ایک حد تک کام یاب رہی کیوںکہ 2010ء کے بعد سے زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G فروخت نہیں ہوئی، لیکن کاربوفیوران اب بھی عام دست یاب ہے۔

کبھی کبھار فیوراڈان افریقا ہی کے بعض علاقوں سے کینیا تک پہنچنے میں کام یاب ہوجاتی ہے۔ تاہم فیوراڈان کی بندش کے بعد اب مارکیٹ میں نقلی فیوراڈان موجود ہے، علاوہ ازیںکاربوفیوران سے بنی چینی اور بھارتی مصنوعات بھی بیچی جارہی ہیں۔ ایف ایم سی کی تیارکردہ گلابی رنگ کی ایک اور مصنوعہ جو ’’مارشل‘‘ کہلاتی ہے، بھی حملہ آور جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے مُردہ جانوروں پر چھڑکی جارہی ہے۔ مارشل میں کاربوسلفان نامی مرکب شامل ہے جو کم ارتکاز پر کاربوفیوران میں ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کے باوجود یہ بے حد زہریلا ہوتا ہے۔ کاہومبو، اوڈینو، اوگاڈا اور دوسروں کی کوششوں کے باوجود کینیا کی حکومت نے ہنوز کاربوفیوران پر پابندی عائد نہیں کی۔ صدر اہورو کینیاٹا کی پہلی ترجیح فوڈ سیکیورٹی ہے اور کینیا کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس زہریلے مرکب کی درآمد پر پابندی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ آبادی میں اضافے کا مطلب ہے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب، اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لانا ناگزیر ہے، اور پھر اسی مناسبت نباتات اور حشرات کش زہر کا استعمال بھی وسیع ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ ان پر پابندی کا امکان بہ ظاہر دور دور تک نظر نہیں آرہا۔

ایف ایم سی کمپنی کی ترجمان کوری اینے ناٹولی نے ای میل کے جواب میں لکھا کہ پہلی بار ہم نے ’’مارشل‘‘ کے غلط استعمال کے بارے میں سنا ہے، کمپنی اس دعوے کی تحقیقات کررہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ایم سی کینیا میں فیورڈان کی دست یابی کے ضمن میں کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتی۔

کینیا کی مارکیٹ کے فیوراڈان کے اٹھائے جانے کے بعد بھی حشرات کش زہر کا استعمال اسی طرح کیا جارہا تھا۔ دسمبر 2015ء میں یہ مسئلہ ایک بار پھر اس وقت اجاگر ہوا جب ایک شیر اور دو شیرنیوں پر مشتمل گروپ موت کا شکار ہوا۔ کینیا میں یہ شہر بے حد مقبول تھے اور ’’ مارش پرائڈ‘‘ کہلاتے تھے۔ مقبولیت کے پیش نظر انھیں بی بی سی ٹیلی وژن کی سیریز سیریز ’’ بگ کیٹ ڈائری‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ دسمبر 2015ء کے ابتدائی ہفتے میں ان درندوں نے ماسائی مارا کی حدود میں کئی مویشی ہلاک کردیے۔

جواباً گلہ بانوں نے ایک جانور کی لاش پر زہر کا چھڑکاؤ کردیا۔ نتیجتاً ایک شیرنی موقع ہی پر ہلاک ہوگئی، دوسری جو زہرخوانی کے باعث بے حد لاغر ہوگئی تھی اسے لگڑ بگڑوں نے شکار کرلیا۔ زہریلے اثرات کے سبب نقاہت اور کمزوری کا شکار ہونے والے شیر کو بھینسوں نے روند ڈالا۔ معذوری کا شکار ہوجانے والے شیر کو اذیت سے نجات دلانے کے لیے کینیا وائلڈ سروس کے عملے کو اسے زہر دینا پڑا۔ شیروں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے جسم میں کاربوسلفان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی سرحدیں جانوروں کے لیے خطرناک بن چکی ہیں تاہم بڑے اور زیادہ متحرک رہنے والے جانوروں کے لیے مارا ریجن کا مشرقی حصہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ محفوظ علاقے کے اطراف گلہ بانی زوروں پر ہے، اور مویشیوں کے ریوڑ اور باڑوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں کھلے میدان سکڑتے جارہے ہیں، چناں چہ ماسائی کے گڈریے اور گلہ بان بالخصوص خشک سالی کے دوران مویشیوں کو چرانے کے لیے محفوظ علاقے کی حدود میں لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہزاروں گائے بھینسیں شیروں کے مسکن میں چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہیں۔ شیر کو دھیمی چال چلنے اور موٹ عقل والا شکار زیادہ پسند ہوتا ہے، چناں چہ وہ مویشیوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں بندوقوں کا قانونی طور پر حصول مشکل ہے، وہاں زہر اور زہریلے تیر ہی گلہ بانوں کا ہتھیار ٹھہرتے ہیں جن سے شیروں اور دوسرے حملہ آور جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے۔

اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ شکار کے اس رجحان، جانوروں کے خلاف تشدد کو ختم یا محدود کرنا مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، کچھ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے ایم نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

کچھ معروف این جی اوز اسی طرح کی حکمت عملیوں سے کام لے رہی ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں زیبرا اور اسی جسامت کے جانوروں کو دستی آہنی پھندوں سے بچانے کے لیے گشت کرنا، مویشیوں کی ہلاکت کی صورت میں مالکان کے نقصان کی تلافی کرنا، اور رات میں جانوروں کو بند کرنے کے لیے مضبوط چوبی اور جالی کی باڑ لگا ہوا احاطہ تعمیر کرنا ہے۔ 2010ء سے اینے کینٹ ٹیلر فنڈ نامی این جی او نے مارا ریجن میں 800 احاطے تعمیر کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مویشیوں پر درندوں کے حملوں میں کمی آئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس علاقے میں شیروں کو زہر دینے کا جواز قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔

این جی اوز کی سب سے کام یاب حکمت عملی مقامی رہائشیوں کو بہ طور رینجرز، تصفیہ کار، اور جنگلی حیات کا محافظ بھرتی کرنا ہے۔ بگ لائف نامی این جی او کے شریک بانی اور افریقا میں ڈائریکٹر آپریشنز رچرڈ بونہم کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کی تنظیم کاری دراصل لوگوں کی تنظیم کاری ہے۔

جنگلی حیات کو زہر کا شکار ہونے سے بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار بہ آسانی کینیا وائلڈ لائف سروس کو ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور کچھ لوگ اسے موردالزام ٹھہراتے بھی ہیں۔ میں نے جن علاقوں کا بھی سفر کیا وہاں نااہلی کے واقعات سُننے کو ملے؛ زہر کا شکار ہونے والے جانوروں کے نمونے حاصل نہیں کیے گیے، نمونے ضایع ہوگئے، نمونوں کی شناخت میں غلطیاں کی گئیں اور بے پروائی برتی گئی، نمونوں کی جانچ نہیں کی گئی، اور نہ ہی کبھی لیبارٹری سے جانچ کے نتائج موصول ہوپائے۔ زخمی جانوروں کا بروقت اور مناسب طور پر علاج نہ ہونے کی شکایات بھی موجود تھیں جو صحت یاب ہوسکتے تھے مگر موت کا شکار ہوگئے، علاوہ ازیں جائے وقوعہ پر ناقص تحقیقات، مربوط اور جامع معلومات کی کمی جیسے مسائل بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر پالیسی اور طریقہ ہائے کار وضع کیے جاتے۔

تاہم مارا کنزروینسی کے سربراہ برائن ہیتھ کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ کینیا وائلڈ لائف سروس کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم فنڈز کی قلت ہے۔ علاوہ ازیں کیتھ کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اسی لیے کے ڈبلیو ایس کے مقابلے میں ٹوارزم بورڈ کو زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں، حالاں کہ جنگلی حیاتیات اور خوب صورتی تفریحی مقامات جن کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمے داری کے ڈبلیو ایس کے سپرد ہے، کے بغیر سیاحتی صنعت بیٹھ جائے گی۔

ملک کے بیشتر نیشنل پارکوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے اور دست یاب اہل کاروں کی اکثریت بھی مناسب تربیت یافتہ نہیں۔ ویٹرنری ڈاکٹر کام کے بوجھ سے لدے ہوتے ہیں، کیوں کہ قانون کے تحت انھیں انسانوں اور جانوروں کے مابین تصادم میں موخرالذکر کو پہنچنے والے ہر چھوٹے بڑے زخم کا علاج کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زہر دینے کے واقعات کے نتیجے میں جانوروں کی ہلاکتوں پر ضروری کارروائی کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ کے ڈبلیو ایس کے اہل کار فرانسس گا کویا کہتے ہیں کہ یہ بڑی مایوس کن صورت حال ہے، بنیادی وسائل دستیاب نہیں ہیں، گاڑیاں بہت کم ہیں جن کے لیے اکثر اوقات ایندھن بھی مہیا نہیں ہوتا۔

اس قومی معمے کا ایک اور نظرانداز کردہ پہلو پولیس اور ججوں کا کردار ہے۔ ’مارش پرائڈ‘ کو زہر دینے کے الزام میں مارا کنزروینسی کے رینجرز نے دو مشتبہ افراد پکڑے تھے، مگر کوئی کیس درج کیے اور مقدمہ چلے بغیر ان کی ضمانت ہوگئی۔ اگرچہ ماضی کی نسبت اس نوع کے معاملات میں قانونی اور عدالتی کارروائی کی شرح بڑھ گئی ہے تاہم بیشتر ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے جنگلی جانوروں کو زہر دینے کے واقعات اسی طرح جاری ہیں۔ کاربوفیوران اگرچہ مقبول ہے تاہم اس کے علاوہ گھریلو تیارکردہ روایتی زہریلے مرکبات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ رواں سال مسائی مارا میں ایک ہی واقعے میں چالیس کے لگ بھگ کرگس ہلاک ہوگے تھے۔ مشرقی ساوو میں ہاتھیوں کے شکاری زہریلے تیروں سے کام لیتے ہیں۔ گذشتہ برس پندرہ ہاتھی زہریلے تیروں کا شکار ہوئے تھے۔

کچلہ کے پودے سے حاصل کردہ زہریلا مرکب تنزانیہ سے کینیا میں موٹرسائیکل پر اسمگل کرنا بہت آسان ہے اور پھولوں کے کھیتوں( فلاور فارم) پر کام کرنے والا کوئی بھی کاشت کار یا ملازم نیا حشرات کش زہر مقامی بلیک مارکیٹ کو مہیا کرسکتا ہے۔ زہر تو زہر۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سیمنٹ بھی جنگلی حیات کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں جہاں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ نیروبی کے قریب مجھے سمبا سیمنٹ کا بل بورڈ نظر آیا، یہ سیمنٹ مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ تشہیری بورڈ پر ببر شیر کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس کے اوپر ’’کنگ آف دی کنکریٹ جنگل‘‘ کے الفاظ چھپے ہوئے تھے۔ شیروں کے تحفظ کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہ جانور صرف تشہیری بورڈز ہی پر رہ جائے گا۔

ایک روز اینے کینٹ ٹیلر فنڈ کی شکار کی روک تھام کی گشتی ٹیم مجھے اپنے ہمراہ نیاکویری کے جنگل میں لے گئی۔ یہ جنگل ماسائی مارا کی حدود سے باہر سے باہر پہاڑی ڈھلوان پر واقع ہے۔ گشتی ٹیم کے نوجوان سربراہ ایلیس کمانڈے نے مجھے وسیع و عریض قطعہ ارض دکھایا جہاں جا بہ جا درختوں کے تنے اور شاخیں بکھری ہوئی تھیں۔ کمانڈے نے بتایا کہ یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک ہاتھیوں کی نرسری کے طور پر استعمال ہورہا تھا، جہاں دو سو ہتھنیاں بہ یک وقت بچے جنتی تھیں۔

یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک گھنے جنگل کا منظر پیش کرتا تھا مگر اب اس پر سے درختوں کا صفایا ہوچکا تھا۔ اس قطعۂ ارض کا رقبہ فٹبال کے چار میدانوں کے مساوی تو یقیناً تھا۔ کمانڈے نے بتایا کہ جنگل میں درختوں سے خالی ایسے قطعہ ارض کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور درختوں کے اس قتل عام کے پس پردہ کوئلے کی صنعت کے کرتا دھرتا ہیں۔ کمانڈے نے اداس لہجے میں مجھ سے کہا کہ پانچ سال کے بعد یہاں اس جنگل کے بجائے انسانی آبادیاں، فصلیں، مویشی اور باڑے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں یہاں سے ہاتھی، شیر، زرافے، لگڑبھگڑ اور دوسرے جانور ختم ہوجائیں گے، جو آج مارا ٹرائی اینگل اور اس ڈھلوانی جنگل کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔

کینیا کے پاس اب بھی جنگلی حیات کے مساکن کو بچانے کا وقت ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نباتات اور حشرات کش زہر کسی تشویش کا باعث نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے جب جنگلی جانور ہی باقی نہیں رہیں گے تو زہر کسے دیا جائے گا!

The post انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور appeared first on ایکسپریس اردو.

وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق

$
0
0

1600 پینسلوینیا ایونیو پر واقع 220 سال پرانی یہ عمارت اپنی تعمیر سے لے کر آج تک دنیا کی اہم ترین اور غیر معمولی عمارتوں میں سے ایک گردانی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت وخصوصیت اس کے طرز تعمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس حیثیت کے باعث ہے جو اسے حاصل ہے۔

جی ہاں، یہ وائٹ ہاؤس ہے جسے ’’صدارتی محل‘‘ یا ’’ایگزیکٹو مینشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں معنوی اعتبار سے دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکہ کا صدر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ حقائق ہیں کہ جو آج تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے، تاہم اس عمارت کے متعلق چند دلچسپ باتیں ایسی بھی ہیں جو شاید سب لوگوں کے علم میں نہ ہوں۔ آئیے آپ کو ان سے آگاہ کرتے ہیں۔

-1 جارج واشنگٹن اس میں کبھی بھی نہیں رہے :۔ موجودہ امریکہ کے بانی اور پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اس جگہ کو یعنی وائٹ ہاؤس جہاں یہ آج واقع ہے، 1791ء میں صدارتی محل کی تعمیر کے لیے منتخب کیا اور اس کے حتمی ڈیزائن کی منظوری دی۔ 13 اکتوبر 1792ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر واشنگٹن جن کی مدت صدارت 1797ء میں ختم ہوئی اور وہ 1799ء میں وفات پاگئے، کو یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس صدارتی محل میں قیام کرسکیں۔ 1800ء میں دوسرے امریکی صدر جون ایڈمز اپنی بیگم ’’ابیجیل‘‘(Abigail) کے ساتھ نامکمل وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوگئے اور یوں وہ پہلے امریکی صدر تھے جو وائٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی عمارت اور ملحقہ باغات 18 ایکڑز پر پھیلے ہوئے ہیں۔

-2 یہ عمارت کافی وسیع و عریض ہے :۔ گو وائٹ ہاؤس کی عمارت آج کل کی دیگر عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد تک بھی ملک کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ اس میں 132 کمرے، چھ منزلوں میں 35 غسل خانے، 412 دروازے، 147 کھڑکیاں، 28 آتش دان، 8 سیڑھیاں اور 3 لفٹس ہیں۔ یہ عمارت 168 فٹ لمبی اور 85 فٹ چوڑی (بیرونی برآمدوں کے علاوہ) جبکہ جنوبی سمت سے 70 فٹ اونچی اور شمالی جانب سے 60 فٹ 4 انچ اونچی ہے۔

-3 برطانوی فوج کی طرف سے لگائی گئی آگ :۔ 1812ء کی برطانیہ امریکہ جنگ کے دوران 1814ء میں برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس پر چڑھائی کردی۔ اس حملے میں انہوں نے وائٹ ہاؤس کو نظر آتش کردیا۔ انہوں نے یہ کارروائی امریکی فوجیوں کی جانب سے کینیڈا کے صوبے ’’اونٹاریو‘‘ (Ontario) کے شہر ’’یارک‘‘ (York) میں عمارتوں کو آگ لگانے پر بدلہ لینے کے لیے کی تھی۔ آگ نے وائٹ ہاؤس کے اندرونی حصے اور چھت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ امریکی صدر ’’جیمز میڈیسن‘‘ (James Madison) نے وائٹ ہاؤس کے اصل ڈیزائنر ’’جیمز ہوبان‘‘ (James Hoban) کو طلب کرکے عمارت کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے صدر میڈیسن اور ان کی بیگم دوبارہ کبھی وائٹ ہاؤس میں آ کر نہیں رہ سکے۔ البتہ تعمیر نو کا کام مقررہ مدت میں مکمل ہوگیا اور 1817ء میں نئے منتخب صدر ’’جیمز مونروے‘‘ (James Monroe) وہاں منتقل ہوگئے۔

-4 1901ء تک اس کا کوئی سرکاری نام نہ تھا :۔ وائٹ ہاؤس گو کہ 1800ء سے تمام ہی امریکی صدور کی سرکاری رہائش گاہ رہا ہے مگر اس کو وائٹ ہاؤس کا نام 1901ء میں صدر ’’تھیوڈرر روز ویلیٹ‘‘ (Theodore Roosevelt) نے اپنی سرکاری دستاویزات میں دیا۔ اس سے قبل اسے ’’پریذیڈنٹ ہاؤس‘‘ یا ’’پریذیڈنٹ منشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس کا نام اس وقت دیا گیا جب آگ لگنے کے بعد دھویں سے کالی ہوجانے والی دیواروں پر سفید پینٹ کیا گیا۔ تاہم بیشتر تاریخ دان اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔

-5 عورتوں کا حق رائے دہی کے حصول کے لیے دو سال تک احتجاج :۔ 10 جنوری 1917ء کو صدر ’’وڈو ولسن‘‘ (Woodrow Wilson) کی صدارت شروع ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے ایک گروہ جو ’’دی سائلینٹ سینٹینلز‘‘ The Silent Sentinels (خاموش محافظ) کہلاتا تھا، نے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کے سامنے احتجاج کا آغاز کیا۔ ’’نیشنل وومن پارٹی‘‘ کی نمائندگی کرنے والے عورتوں کے اس گروہ کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک بھی امریکہ میں عورتوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا۔ ان عورتوں نے اپنے مطالبے کی منظوری تک وہاں سے ہٹنے اور احتجاج موخر کرنے سے انکار کردیا۔ یہ گروہ وائٹ ہاؤس کے سامنے اڑھائی برس تک مسلسل موجود رہ کر احتجاج کرتا رہا۔ اس دوران انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک اور بدتمیزی روا رکھی گئی۔ یہاں تک کہ انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ لیکن وہ اپنی دھن کی پکی ثابت ہوئیں۔ بالآخر 4 جون 1919ء کو 19 ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے پر عورتوں کو رائے دہی کا حق مل گیا۔

-6 آسیب زدہ ہونے کی افواہیں :۔ امریکہ کے بہت سے صدور، ان کی بیگمات، عملے کے افراد اور مہمانوں نے مبینہ طور پر بھوتوں کو متعدد بار اس تاریخی عمارت کے کمروں میں منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ 1789-97ء میں پہلے امریکی نائب صدر اور 1797-1801ء میں دوسرے امریکی صدر رہنے والے صدر جون ایڈمنٹر کی اہلیہ ’’ابیگیل ایڈمز‘‘ (Abigail Adms) کا بھوت وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے دھلے ہوئے کپڑے لٹکایا کرتی تھیں۔

مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن کی اہلیہ ’’میری ٹوڈ لنکن‘‘ (Mary Todd Lincoln) نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے 7 ویں صدر اینڈریو جیکسن کی غصیلے لہجے میں گالیاں دینے اور زور زور سے پاؤں پٹخنے کی آوازیں وائٹ ہاؤس کے کئی ہال کمروں میں سنیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت خود صدر ابراہم لنکن ہی کے بھوت کو ملی جس کو دیکھنے کا دعویٰ 30 ویں صدر ’’کیلوین کولیج‘‘ (Calvin Coolidge) صدر جونسن اور صدر روز ویلٹ کی بیگمات نے کیا اور تو اور دوسری جنگ عظیم میں وہائٹ ہاؤس کے قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو بھی ابراہم لنکن کا بھوت دیکھنے کا ’شرف‘ حاصل ہوا۔

-7 پالتو ریچھ، شیر کے بچے اور دیگر جنگلی جانور :۔ اگرچہ بہت سے امریکی صدور نے وائٹ ہاؤس میں پالتو جانور، جیسے کتے بلیاں وغیرہ رکھے لیکن کئی صدور نے اس سے آگے بڑھ کر ایسے جانور بھی وہاں پالے جو عام پالتو جانوروں میں شمار نہیں کیے جاتے اور فارم ہاؤسز میں رکھے جانے والے جانور تصور ہوتے ہیں۔ تاہم چند صدور تو اس سے بھی آگے جاکر جنگل کے جانوروں کو بھی وائٹ ہاؤس میں لے آئے۔ مشہور امریکی صدر جون ایف کینڈی پالتو جانوروں کے زیادہ ہی دلدادہ تھے۔ ان کے دور صدارت میں وہائٹ ہاؤس کے گراؤنڈز مختلف انواع کے پرندوں، ہامسٹرز Hamsters (چوہے جیسا ایک جانور)، خرگوشوں، کتوں، بلیوں اور گھوڑوں سے بھرے رہتے تھے۔ صدر تھامس جیفرسن نے وائٹ ہاؤس میں ریچھ کے دو بچے رکھے ہوئے تھے۔

امریکہ کے 8 ویں صدر ’’مارٹن وین برن‘‘ نے وائٹ ہاؤس میں شیر کے بچوں کا جوڑا پالا ہوا تھا جو انہیں اومان کے سلطان نے تحفے میں دیا تھا۔ کانگریس نے صدر مارٹن کو مجبور کیا کہ وہ اس جوڑے کو چڑیا گھر میں بھیج دیں کیونکہ وہ نجی نہیں بلکہ ایک سرکاری تحفہ تھا (ہمارے لیے یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے حکمران غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف کو ذاتی سمجھ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں)۔ صدر ولیم ہنری ہیریسن نے ایک بکرا اور ایک گائے وائٹ ہاؤس میں رکھی ہوئی تھیں جبکہ صدر ’’جیمس بچانن‘‘ کے پاس امریکہ کے مشہور گنجے عقابوں کا جوڑا اور کتے کے بچوں، پونی گھوڑوں اور مچھلیوں کا پورا غول موجود تھا۔ صدر گرور کلیولینڈ کو مرغ بانی کا شوق تھا اور وہ اپنا یہ شوق وائٹ ہاؤس میں بھی پورا کرتے تھے۔

-8 وائٹ ہاؤس کے لیے ٹنوں پینٹ درکار ہوتا ہے :۔ دوسری تمام تاریخی عمارتوں کی ہی طرح وائٹ ہاؤس کو جاذب نظر بنائے رکھنے کے لیے مرمت و تزین و آرائش کا کام چلتا رہتا ہے۔ تاہم دوسرے گھروں کے برخلاف وائٹ ہاؤس کے بیرونی حصے کو پینٹ کرنے کے لیے تقریباً 3 ٹن سفید پینٹ درکار ہوتا ہے جس میں سے 300 گیلن پینٹ عمارت کے رہائشی حصے کو پینٹ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1992ء میں جب وائٹ ہاؤس کی تزین نو کی گئی تو اس کی بیرونی دیواروں پر سے رنگ کی قریباً 30 پرتیں اتاری گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایسے تو وائٹ ہاؤس کو سالانہ بنیادوں پر پینٹ کیا جاتا ہے، البتہ ہلکی پھلکی لیپا پوتی تو سارا سال ہی جاری رہتی ہے۔

-9 کیا وائٹ ہاؤس کے نیچے خفیہ کمانڈ سینٹر موجود ہے؟ 2010ء میں تعمیراتی عملے نے وائٹ ہاؤس کے مشرقی حصے کے سامنے واقع گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا گڑھا کھودنا شروع کیا۔ اس دوران اس حصے کو سبز رنگ کی باڑ سے ڈھانپ دیا گیا تھا تاکہ یہاں ہونے والے تعمیراتی کام کو خفیہ رکھا جاسکے۔ دو سال بعد یہ باڑ ہٹا دی گئی اور زمین کی سطح دوبارہ ہموار کرکے پختہ کردی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہاں کچھ کام ہوا ہی نہیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ یہ تعمیراتی کام مشرقی حصے میں موجود زیر زمین سہولیاتی مشینری جیسے ایئرکنڈیشنگ اور سیوریج سسٹم کی مرمت اور بحالی کے سلسلے میں کیا گیا تھا مگر کنکریٹ سے لدے درجنوں بھاری بھرکم ٹرکوں کی آمدورفت اور بڑے بڑے شہتیروں کے یہاں لائے جانے نے معاملے کو متجسس شہریوں کے لیے مشکوک بنا دیا اور طرح طرح کی باتیں پھیلنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں زیر زمین خفیہ کمانڈ سینٹر بنانے کا منصوبہ 50 برس قبل بنایا گیا تھا جو آخر کار اب روبہ عمل لایا گیا۔

-10 وائٹ ہاؤس میں ہونے والے بدتہذیبی کے واقعات :۔ جدید دور میں امریکہ کے نئے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور کے درمیان اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت پرسکون اور باوقار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں سابق ہوجانے والے چند صدور نے انتہائی پر امن طریقے سے وائٹ ہاؤس کو خیر باد کہا۔ تاہم تاریخ میں ایسا بھی ہوا کہ رخصت ہونے والے کچھ صدور نے نئے صدر کے ساتھ بات چیت تک سے گریز کیا۔ اس کی ایک مثال 1932ء میں صدر ہوور اور روز ویلٹ کے مابین دیکھنے میں آئی۔

البتہ کئی جانے والی حکومتوں نے آنے والی انتظامیہ کے ساتھ بے ضرر قسم کے مذاق ضرور کیے۔ خاص طور 2001ء میں جب جارج بش کی انتظامیہ اقتدار سنبھالنے لگی تو بظاہر بل کلنٹن کے عملے نے وائٹ ہاؤس کو 20 ہزار ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ انہوں نے 30 تا 60 کمپیوٹرز کے کی بورڈز‘‘ میں سے ”W” کے حروف کے بٹن نکال کر وائٹ ہاؤس کی دیواروں پر مختلف جگہوں پر چسپاں کردیئے۔ علاوہ ازیں مبینہ طور پر انہوں نے دروازوں کی نابیں چوری کرلیں، میزوں کی درازیں گوند لگا کر چپکا دیں اور قریباً 100 ٹیلی فون لائنز ڈائیورٹ کردیں تاکہ ان پر آنے والی کالز دوسرے نمبروں پر منتقل ہوجائیں اور نئے عملے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

-11 وائٹ ہاؤس میں کل وقتی 3000 سے زائد لوگ کام کرتے ہیں :۔ جب سبکدوش ہونے والا کوئی امریکی صدر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنا عملہ بھی ساتھ لے جاتا ہے تاکہ آنے والا نیا صدر اپنی مرضی کا عملہ تعینات کرسکے۔ مگر یک مشت 3 ہزار 3 سو کل وقتی اہلکار بھرتی کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو وہاں جزوقتی کام کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کی ملازمت تو وائٹ ہاؤس میں ہی ہوتی ہے لیکن ان کے دفاتر وائٹ ہاؤس سے باہر ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے صرف دفتر ہی میں 500 افراد ملازم ہوتے ہیں۔ نائب صدر کے دفتر میں 100، فوجی دفتر میں 1300 اور مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے دفتر میں تقریباً 500 لوگ جبکہ 500 سے زائد خفیہ اہلکار اور 200 افراد صدر کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

-12 وائٹ ہاؤس کا اصلی سنگ بنیاد غائب ہوگیا :۔ وائٹ ہاؤس کے اسراروں میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل ذکر اس کے اصلی سنگ بنیاد کا غائب ہوجانا ہے۔ 1792ء میں اپنے نصب کیے جانے کے محض 24 گھنٹے بعد ہی وائٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد اور کندہ کی ہوئی پیتل کی پلیٹ غائب ہوگئی اور اس کے بعد آج تک کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔ وائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام کرنے والے راج مستریوں نے اس کے غیاب سے خود کو بری ذمہ قرار دیا۔ متعدد صدور جن میں ’’روز ویلیٹ اور ٹرومین‘‘ شامل ہیں، نے اس کو تلاش کروانے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے اور یہ کوششیں لاحاصل اور بے سود رہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سنگ بنیاد وائٹ ہاؤس کے ’’روزگارڈن‘‘ کی دو سنگی دیواروں کے درمیان چھپا ہوا ہے تاہم اس بات کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی۔

The post وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.


’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ

$
0
0

امریکا کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ،ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی مملکت کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ برسراقتدار آکر امریکا کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔ اس وعدے پر امریکی عوام نے اعتبار کیا اور ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیا۔

صدر ٹرمپ نے مگر اپنی ٹیم کے ساتھ امریکا کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے انوکھا راستہ اپنالیا… وہ مختلف ممالک پر معاشی حملے کرنے لگے۔

انہوں نے گویا انہونی دکھاتے ہوئے معاشی حملے کو جدید دور کا خطرناک طرزِ جنگ بناڈالا۔یہ طرزِ جنگ آشکارا کرتا ہے کہ اب کسی ملک کے خلاف محض ٹینکوں، توپوں اور طیاروں سے حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کمزور کرنے اور اپنا مطیع بنانے کے لیے اس پر معاشی حملے کرنے بھی ممکن ہیں جو شاید زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔وہ اس لحاظ سے کہ انسانی خون بہائے اور تباہی پھیلائے بغیر حملہ کرنے والا ملک اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر ہی امریکی حکمران طبقے نے اپنے ملک کو معاشی مسائل میں گرفتار کروایا اور امریکا کھربوں ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ تاہم ٹرمپ حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور معاشی حملوں کی داغ بیل ڈال دی۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کے اہم ارکان امریکی فوج کے سابق فوجی افسر ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی چھیڑی معاشی جنگوں سے امریکا کو وقتی طور پہ فائدہ پہنچ جائے، لیکن طویل المعیادی لحاظ سے اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

امریکا کو کئی ممالک سے باہمی تجارت میں خسارہ ہورہا تھا۔ اس ضمن میں چین اور امریکا کی باہمی تجارت میں خسارہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹرمپ حکومت نے چینی سامان پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ یوں اس نے ایک تیر سے دو شکار کر دئیے۔ ایک تو امریکی حکومت کی آمدن بڑھ گئی، دوسرے ٹیکس بڑھنے سے چینی سامان کی آمد میں بھی کمی آجاتی۔چین نے ٹرمپ حکومت کے اس معاشی حملے کو صبر و سکون سے برداشت نہیں کیا۔ چینی حکومت نے بھی امریکی سامان پر لگے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا۔ اس جوابی وار نے دونوں ممالک کے مابین جاری معاشی جنگ کی شدت بڑھادی۔ تاہم فریقین سنبھل کر اور بڑی حکمت عملی سے ایک دوسرے پر معاشی حملے کررہے ہیں کیونکہ وہ باہمی تجارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔

ٹرمپ حکومت نے کئی یورپی ممالک سے آنے والے سامان پر بھی ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس پر یورپی یونین بھی چیں بہ جبیں ہوئی۔ بعض یورپی حکومتوں نے ٹرمپ حکومت کے معاشی حملے کا جواب دیا اور امریکی مال پر نئے ٹیکس عائد کردیئے۔ غرض ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچا دی اور اس کے استحکام کو ضعف پہنچایا۔خاص طور پر کئی ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو بیٹھیں ۔یہ امر اکثر ملکوں کو ڈالر سے متنفر کر سکتا ہے۔

ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں کا نشانہ وہ ممالک بھی بنے جو امریکا کی ہدایات من و عن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان ممالک میں عالم اسلام کے تین ملک،ایران، ترکی اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے سب سے پہلے پاکستان کو معاشی حملے کا نشانہ بنایا۔ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان کو پاک افواج کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے 2002ء سے لے کر اب تک وہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے میں کامیاب رہے۔ اسی الزام کے باعث ٹرمپ حکومت نے برسراقتدار آنے کے صرف سات ماہ بعد جولائی 2017ء میں ’’کوکیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی رقم روک دی جبکہ جنوری 2018ء میں اس رقم میں بہت کمی کردی گئی۔

ان معاشی حملوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکا سے ڈالروں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کی پالیسیاں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے اور یہ کہ افغان طالبان ہتھیار پھینک کر افغان حکومت کا حصہ بن جائیں۔ یہ عمل انجام پذیر ہونے کے بعد امریکی فوج باعزت طریقے سے افغانستان سے رخصت ہوسکتی ہے۔دوسری صورت میں امریکا کو ویت نام کے بعد افغانستان سے بھی ذلت و رسوائی اٹھا کر رخصت ہونا پڑے گا۔ تاہم پاکستان کئی بار اعلان کرچکا کہ وہ افغان طالبان پر اتنا زیادہ اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرسکے۔ افغان طالبان ایک خود مختار اکائی ہیں جو اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔

ٹرمپ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں پاکستان کسی ایک فریق کا طرفدار بن جائے۔ پاکستانی حکومت کا المّیہ یہ ہے کہ فی الوقت وہ کھل کر امریکا یا چین کا ساتھ نہیں دے سکتی کیونکہ پاکستان کے دونوں کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔پاکستان کا سرکاری خزانہ تقریباً خالی ہے اور عمران خان حکومت کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے۔ مطلوبہ ڈالر اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ پاکستانی حکومت امریکا کی پالیسیاں قبول کرلے۔

اکثر عالمی مالیاتی اداروں میں امریکا کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے اور وہ امریکی حکومت کی ایما پر ہی مختلف ملکوں کو قرضے دیتے ہیں۔ گویا عمران خان حکومت نے اگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے ہیں تو اسے امریکی حکومت کی’’ڈکٹیشن‘‘ یا ہدایات قبول کرنا پڑیں گی۔چین نے پاکستان میں سی پیک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ وہ پاکستان کو قرضے بھی فراہم کررہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکا جس طرح وسیع پیمانے پر پاکستان کی معاشی و مالی مدد کرتا رہا ہے، اس انداز میں چین ابھی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ امر بھی پاکستان کو امریکا سے کلی طور پر ناتا توڑنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔

ایک اور معاشی وجہ یہ کہ پاکستان کا سب سے زیادہ مال امریکی منڈیوں ہی میں جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے علی الاعلان امریکا سے رشتہ توڑ لیا، تو پاکستان کو ایک بڑی منڈی سے محروم ہونا پڑے گا۔ گویا ضرورت اس مار کی ہے کہ پہلے پاکستان  امریکی منڈی پر انحصار کم سے کم کرے تبھی وہ اس حیثیت میں آئے گا کہ اپنی شرائط پر امریکی حکومت سے مذاکرات کرسکے۔ فی الحال تو مذاکرات کی میز پر پاکستانی حکومت کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔

مزید براں بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث پاکستان امریکا کے لیے پہلے کی طرح زیادہ اہم ساتھی نہیں رہا۔ امریکی حکمران طبقہ اور امریکی فوج اب چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے جو معاشی و عسکری طور پر طاقتور ہورہا ہے۔ امریکی حکمران چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ چینی معاشی سرگرمیوں خصوصاً ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے پھیلاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ اسی لیے امریکی حکمران بھارت کی ناز برداری کرنے اور نخرے برداشت کرنے میں محو ہیں۔

بھارتی حکمران طبقہ اگرچہ کھل کر چین کے سامنے نہیں آنا چاہتا کیونکہ اس خفیہ و عیاں لڑائی میں بھارت کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔(اپنے پڑوسی،پاکستان کی مثال اس کے سامنے ہے جس نے دوسروں کی جنگ میں شامل ہوکر بہت نقصان اٹھایا)اسی لیے مودی حکومت ٹرمپ سرکار کی تمام پالیسیوں پر آمنا صدقاً بھی نہیں کہنا چاہتی۔مثال کے طور پر مودی حکومت روس سے ایس۔400 جدید ترین میزائل خریدنا چاہتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوا تو بھارت پر امریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ امریکی کانگریس نے اگست 2017ء میں ایک بل (CAATSA) منظور کیا تھا۔ اس کی رو سے جو ممالک روسی کمپنیوں سے کاروبار کریں گے، ان پر امریکی معاشی پابندیاں لگ جائیں گی۔

اس کے علاوہ بھارت ایران سے بھی تجارتی تعلقات توڑنے کو تیار نہیں۔ بھارت بڑی مقدار میں ایرانی تیل خریدتا ہے۔ کچھ عرصے سے اس مقدار میں کمی آگئی ہے لیکن بھارت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کے حق میں نہیں۔جبکہ ٹرمپ حکومت مودی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایران سے معاشی تعلقات توڑ لے۔بھارت نے ایران سے تجارتی رشتہ برقرار رکھا تب بھی امریکی کمپنیاں آزادی سے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکیں گی۔

روس اور ایران کی سمت بھارت کے بدستور جھکاؤ کی وجہ سے ہی ٹرمپ حکومت مخمصے کا نشانہ بن چکی۔گو وہ نت نئے عسکری و سول معاہدے کر کے بھارتی حکمرانوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔اسی باعث اب امریکی حکمران طبقہ کو احساس ہو چکاکہ براعظم ایشیا میں بہ لحاظ آبادی چوتھا بڑا ملک،پاکستان بھی اہم اتحادی ہے اور اس کے ساتھ زیادہ بگاڑ مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے، جب عمران خان کی نئی حکومت آئی تو امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان جانے کا اعلان کردیا۔ یاد رہے،کسی بھی امریکی حکومت میں صدر کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے عہدے سے ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ٹرمپ حکومت میں یہ دونوں عہدے سابق فوجیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مذہبی و سیاسی لحاظ سے قدامت پسند ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے پہلے تو وزیراعظم بننے پر عمران خان کو مبارکباد دی۔ لیکن نئی پاکستانی حکومت نے ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی تو امریکی وزیر خارجہ نے دو پاکستان مخالف اعلان داغ دیئے۔ پہلے دھمکی دی کہ امریکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ نہیں لینے دے گا۔

 

پھر امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 300 ملین ڈالر روکنے کا بیان دے ڈالا۔ اس طرح نئی پاکستانی حکومت کو ترغیبات دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئیں۔کچھ عرصہ سے ترکی بھی امریکا کے معاشی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ معاشی حملے اس لیے ہوئے کیونکہ ایران کے خلاف محاذ میں ترکی نے امریکا کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ کہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری امریکی جنگ میں ترکی امریکا کا اتحادی رہا ۔لیکن اس جنگ نے ترکی کو معاشی طور پر خاصا نقصان پہنچا دیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین نے ترکی میں ڈیرے ڈال دیئے۔ پھر شام کے ساتھ ترکی کی طویل سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ لہٰذا ترکی اب امریکی حکمرانوں کی خاطر ایران کے ساتھ لڑائی مول لینے کو تیار نہیں۔

ترکی کو جُھکانے کی خاطر ٹرمپ حکومت نے ترک مال تجارت پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس عمل سے ترک کرنسی کی قدروقیمت گرگئی اور مقامی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا۔ امریکا کے معاشی حملے کو تاہم ترک معیشت برداشت کرگئی۔ وجہ یہ ہے کہ صدر طیب اردوان نے پچھلے پندرہ سولہ برس میں معقول معاشی پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنا دیا ہے۔ٹرمپ حکومت ایران پر بھی معاشی حملے کررہی ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور ایران نے مل کر جولائی 2015ء میں ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔

مقصد یہ تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کا اپنا پروگرام منجمد کردے۔ مئی 2018ء میں ٹرمپ حکومت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اگلے ہی دن ایرانی کرنسی کی قیمت گرگئی۔ تاہم یورپی یونین نے یہ معاہدہ برقرار رکھا ہے، اس باعث ایرانی معیشت کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ مگر ٹرمپ حکومت اقوام متحدہ کی وساطت سے ایران پر نئی عالمی پابندیاں لگانے میں کامیاب رہی تو ایرانی معیشت گھمبیر مسائل کا نشانہ بن سکتی ہے۔

ترکی اور ایران پہ امریکا کے معاشی حملوں کا ایک بڑا مقصد اپنے آقا،اسرائیل کو تقویت پہنچانا بھی ہے۔امریکی و اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ و عیاں چالوں سے قطر و شام کے علاوہ اکثر عرب ممالک کو کم ازکم غیر جانب دار ضرور بنا چکے۔ ترکی و ایران لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اسرائیل کے کٹر مخالف ہیں۔امریکی حکمران دونوں اسلامی ملکوں پر معاشی حملے کر کے انھیں اتنا ناتواں بنانا چاہتے ہیں کہ وہ عسکری لحاظ سے اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہیں۔

امریکا کے نئے طرز جنگ،معاشی حملوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر چین،روس اور ان کے ہمنوا ممالک مختلف تدابیر پر غور کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ دیگر ملکوں سے تجارت ڈالر کے بجائے اپنی قومی کرنسی یا دیگرکرنسیوں مثلاً چینی ین یا یورپی یورو میں کی جائے۔ڈالر نے امریکا کو سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈالر کی کمزوری اسے بھی کمزور کر دے گی۔

The post ’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

محمد حسین آزاد، احوال و آثار
مصنف: ڈاکٹر محمد صادق
صفحات:269
قیمت: 300 روپے
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

اردو ادب کی ترویج اور ترقی میں بہت سی شخصیات نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے انداز میں کردار ادا کیا، کچھ نے نثر کو میدان کے طور پر چنا اور کچھ نے شاعری پر توجہ دی، اسی طرح علوم شرقیہ کی بھی ترویج ہوئی۔

مولانا محمد حسین آزاد کا زمانہ یعنی انیسویں صدی بڑی ہی پرآشوب تھی کیونکہ اس دور میں مغل سلطنت کا زوال ہو چکا تھا اور انگریزوں نے پورے برصغیر پر اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ لیے تھے۔ مسلمان یوں تو پہلے ہی معتوب تھے کیونکہ انگریزوں نے اقتدار انھی سے چھینا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بالخصوص مسلمانوں پر دور ابتلا کا آغاز ہوا ۔ مولانا آزاد کے والد مولوی محمد باقر ایک اردو اخبار کے مالک تھے اور ابتدا سے ہی ہر طرح سے مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے یوں وہ انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔

جنگ آزادی کے بعد انھیں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پھانسی دیدی گئی۔ مولانا آزاد اس دور میں اپنے اخبار میں بطور مدیر منسلک تھے، یوں وہ بھی معتوب ٹھہرے، مگر شومئی قسمت وہ بچ نکلے اور کافی عرصہ تک جان بچانے کے چکر میں سرگرداں رہے، یوں ان کی زندگی بڑی مشکلات سے دوچار رہی، مگر کیا کہتے ہیں حالات کی چکی میں پسنے کے بعد جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں تو مولانا آزاد نے بھی ہمت نہ ہاری اور بالآخر انھوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا ۔

زیر تبصرہ کتاب ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف اور رجحانات کا بھی بڑے معروضی انداز میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور تحقیق کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ آخر میں ضمیمہ جات بھی دیئے گئے ہیں، گیارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کا قارئین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ ایک عظیم ادیب کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے واقفیت حاصل کر سکیں۔

بحر الفصاحت (حصہ ششم و ہفتم) علم بدیع
مصنف: مولوی نجم الغنی رام پوری
مرتب: سید قدرت نقوی
قیمت:500 روپے
صفحات:488
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

زبان کے قرینے اور سلیقے زانوئے تلمذ طے کرنے سے ہی آتے ہیں، سیکھنے کے یہ آداب ذوق و شوق سے ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ چل چلاؤ تو بہتوں کو آتا ہے۔ مجلس ترقی ادب نے بحر الفصاحت کے نام سے زبان کے قرینے سے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو آگاہ کرنے کی شاندار کاوش کی ہے، زیر تبصرہ کتاب میں علم بدیع میں صنائع لفظی و معنوی سے بحث کی گئی ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ بدیع کلام کی خوبی بعد رعایت مقتضائے حال اور وضوح الدلالۃ یعنی تعقید سے خالی ہونے کی معلوم ہوتی ہے۔

منفعت اس کی یہ ہے کہ کلام میں ایسی خوبی پیدا ہو جائے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اتر جائے۔ ’’خیر البلاغت ‘‘ کے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ علم بدیع وہ ہے جس سے کلام بلیغ کی عارضی خوبیوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن معتز عباسی نے علم بدیع کے قواعد بنائے اور اسے الگ علم کا درجہ دیا اور اپنی کتاب میں سترہ قسم کی صنائع لکھیں، پھر پیچھے آنے والے اس میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ایک علمی بحث یہ بھی ہے کہ علم معانی اور بیان سے کلام میں حسن ذاتی آ جاتا ہے، پھر علم بدیع کو الگ علم کا درجہ کیوں دیا گیا؟۔

اسی لئے محاسن کو دیکھتے ہوئے کچھ محققین نے بدیع کو علم معانی اور بیان کا ہی حصہ قرار دیا۔ ایسی علمی مباحث ادب کی وسعت اور بڑائی میں اضافے کا سبب ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

 درد جاں ستاں
مصنف: سید ناصر نذیر فراق دہلوی
مرتبہ: محمد سلیم الرحمٰن
قیمت:150 روپے
صفحات؛133
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

ناصر نذیر فراق اپنے زمانے کے نامور نثر نگار رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کی نسل ان کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، جس کی وجہ ان کی تصانیف کا منظر عام پر نہ آنا ہے،انھوں نے افسانے، مضامین، لوک روایات، معاشرتی خاکے اور ناول لکھے، مجلس ترقی ادب نے ان کے اس ناول کو مرتب کروا کر ادب کی شاندار خدمت کی ہے ۔

یہ ناول پہلی مرتبہ 1909ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول کی فضا اور زبان و بیان بھی اسی دور کے مطابق ہے، اندازہ ہے کہ یہ فراق کا پہلا ناول ہے۔ نامور ادیب محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناول کو سچا واقعہ قرار دے کر فراق نے پڑھنے والوں کو بڑے دبدھے سے دوچار کر دیا ہے ۔ تاہم اگر ناول نگار کے اس دعوے پر یقین کر لیا جائے کہ وہ سچے واقعات بیان کر رہا ہے تو طرح طرح کے سوال سر اٹھاتے ہیں اور ان کا کوئی تسلی بخش جواب ناول کے متن میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ محترم سلیم الرحمٰن نے پیش لفظ میں اسی طرح ناول کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت سی ادبی مباحث کا راستہ کھول دیا ہے، بہرحال گم گشتہ ادب کی بازیابی مجلس ترقی ادب کی بہترین کاوش ہے۔

میں ہوں عمران خان
مصنف: فضل حسین اعوان
قیمت: 750روپے
صفحات: 256
ناشر: دعا پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور

عمران خان سپر سٹار کرکٹر ہیرو جنھوں نے 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی کپ جتوایا، جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں، کی زندگی مسلسل جدوجہد کی شاندار مثال ہے۔ انھوں نے کھیل کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کی آخری بلندی تک پہنچے اور سیاست کے خارزار میں پاؤں دھرے تو اس کی بھی سب سے اونچی سیٹ پر براجمان ہوئے۔

مصنف نے کتاب میں عمران خان کی زندگی کی بھرپور تصویر پیش کی ہے، بچپن سے لے کر کرکٹ کے میدان میں قدم رکھنے تک عمران کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہوئے اور عمران نے ان پر کیسے قابو پایا؟ کرکٹ میں کامیابی کے لئے انھیں کتنی محنت کرنا پڑی اور کیسے ناکامیوں کو کامیابی میں بدلا؟ اس دوران ان کی زندگی میں جو گلیمر در آیا اس کی وجہ سے انھیں کن سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کیسے ان سے عہدہ برآ ہوئے؟

عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیسے متحرک ہوئے؟ پھر آخر میں سیاست کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور مخالفین کا پروپیگنڈا، ان سب کا سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ عمران کے والد اکرام اللہ نیازی کی ایک تحریر بھی کتاب میں شامل ہے جو ایک باپ کے اپنے بیٹے کے بارے میں محسوسات کا اظہار تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ بجپن سے جوانی کی زندگی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک شاندار شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو ایک سچا اور کھرا انسان ہے اور ہمہ وقت جہد مسلسل کا پیکر ہے اور یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو بالآخر منزل مل ہی جاتی ہے۔

میرا پاکستان
مصنف: مولانا محمد الیاس گھمن
صفحات:  127
قیمت : درج نہیں
ناشر :عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین ہیں اور میرا پاکستان ان کی تازہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے وطن عزیز پاکستان کی تخلیق کے مقاصد، اس کے قیام کی غرض وغائت، اس کی تاریخ اور اس حوالے سے علما کا کردار کیا تھا، اس بارے میں اس چھوٹی سی کتاب میں بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کتاب کے مخاطب تو بظاہر مدارس کے طلبہ ہی ہیں لیکن یہ کتاب ہر پاکستانی خصوصاً ہماری نوجوان نسل، جس نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے نہیں دیکھا ان کے لیے یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ عظیم مملکت خداداد حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قدر قربانیاں دینا پڑیں اور مشکلات و مصائب جھیلنا پڑے، آگ و خون کے دریا سے کس طرح گزرنا پڑا۔ لیکن جن عظیم مقاصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ آج تک پورے نہیں ہو سکے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کی منزل پانے کے بعد اپنی خواہشات، آرزووں اور آدرشوں کی روشنی میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس کتاب میں اس تمام صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔

 شریف کنجاہی کے خطوط
 مرتب : احسان فیصل کنجاہی
 صفحات: 160
قیمت : 250/ روپے
ناشر: کامرانیاں پبلی کیشنز، کنجاہ، گجرات

شریف کنجاہی پنجابی زبان کے معروف ادیب، شاعر، مترجم، محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے تمام عمر پنجابی زبان و ادب کی خدمت میں گزاری۔ دیگر علمی وا دبی کتب کے علاوہ قرآن مجید کا پنجابی میں ترجمہ بھی ان کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ زیر تبصرہ کتاب شریف کنجاہی کے ان ایک سو سے زائد خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف لوگوں کو لکھے۔ خطوط نویسی الگ سے ایک صنف ِ ادب کا درجہ رکھتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط اسی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جن سے نہ صرف متعلقہ شخصیت کو سمجھنے، اور اس کے فکر و فلسفہ، اس کی سوچ اور نظریہ حیات و فن تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے بلکہ۔ یہ خطوط اس عہد کی ادبی اور ثقافتی تاریخ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔

احسان فیصل کنجاہی نے شریف کنجاہی کے خطوط کو منضبط کرکے کتاب کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ تاہم پروف کی غلطیاں بعض مقامات پر مزہ کرکرا کردیتی ہیں ۔کتاب کی اشاعت بلا شبہ ایک بڑا کام ہے اور اس نوعیت کے بڑے کام کے لیے عرق ریزی اور محنت بھی اسی قدر درکار ہوتی ہے۔ اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بڑی کتاب کو بھی قاری کی نظر میں بے وقعت کر دیتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ ایک ایسی کاوش ہے جسے بہرحال سراہا جانا چاہیے۔

 تکلم
 شاعرہ: تبسم شیروانی
 صفحات: 128
 قیمت : 260 روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب تبسم شیروانی کی شاعری کا اولین مجموعہ ہے جو سترکے قریب آزاد نظموں پر مشمل ہے۔ ان نظموں میں نسوانی حسن، خیالات اور جذبات کی خوشبو رچی ہوئی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ میرے لیے شاعری کتھارسس بھی ہے اور تلاش ِ ذات کا سفر بھی۔ان نظموں کے مطالعے سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ شاعرہ تلاش ِ ذات کے سفر پر ہے۔ ذاتی مشاہدات و تجربات نے ان کی شاعری کو وقیع بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کے بقول ’’ ان نظمو ںکے مطالعے سے قاری کو پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ ان کا طرز احساس عہد جدید سے لگا کھاتا ہے۔

ان کے ہاں قید اور آزادی کی متضاد کیفیات کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے ظاہر و باطن میں موجود بُعد کو اپنے تخلیقی تجربے میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ‘‘َ۔  اور یہی کتھارسس ہے ۔ پروین سجل کا کہنا ہے کہ ’’ تکلم کی شاعری فکر انگیز ہے جس سے شاعرہ کی سوچ اپنی راہ متعین کرتی دکھائی دیتی ہے ‘‘۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ یہ مجموعہ دلکش بھی ہے اور دیدہ زیب بھی۔

رت جگوں کا سفر
 شاعر : شبیر ناقد
صفحات: 144
 قیمت:  500/ روپے
ناشر : اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان

غزلوں، نظموں اور قطعات پر مشتمل یہ مجموعہ شاعر اور ادیب شبیر ناقد کا نتیجہ ء فکر ہے ۔ وہ اس سے پہلے درجن بھر شعری کتب شائع کرچکے ہیں ۔ا س کتاب میں چھوٹی بحراور سادہ پیراہن میں غزلیں روائتی مضامین کے ساتھ موجود ہیں ۔ شبیر ناقد کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ان کی شاعری میں عشق و محبت کے روائتی مضامین بہ کثرت ملتے ہیں، تاہم خیالات میں وہ گہرائی اور گیرائی نظر نہیں آئی جس کی توقع شاعری کے کسی نئے مجموعے سے رکھی جاسکتی ہے۔

تاہم کتاب کے ناشر کا ماننا ہے کہ ’’ شبیر ناقد عہدِ موجود کے کہنہ مشق، ممتاز اور اپنے ہنر میں مخلص شاعر ہیں جو ریاضت کے مسلسل عمل سے نت نئے اظہاری پیرائے اور قلبی وارداتوں کے سراغ تلاش کرتے رہتے ہیں، سادہ مگر جاندار لفاظی ان کا وطیرہ ہے جبکہ خوبصورت رومانوی فضا کی تعمیر میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ‘‘۔کتاب کے آخری صفحات پرآزاد نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے دو نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں سے ایک ان کے اکلوتے بیٹے ’’کاوش بیٹا ‘‘ اور دوسری ’’ الائیڈ بنک تونسہ شریف‘‘ کے عنوان سے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔

$
0
0

وزیراعظم عمران خان نے افغان اور بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا عندیہ دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اِن کے پہلے دورۂ کراچی پر کہاں تو یہ توقع تھی کہ وہ کوئی ترقیاتی پیکیج دیں گے، اور کہاں انہوں نے اپنے تئیں مسائل کا یہ حل تجویز کر دیا کہ بعض مبصرین اسے الٹا مسائل میں اضافے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

عمران خان کا خیال ہے کہ کراچی میں جرائم کی وجہ بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ملنے کی صورت میں بے روزگار رہتے ہیں اور پھر جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

گزشتہ سال وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں تارکین وطن کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا، جن میں ظاہر ہے سب سے بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ رجسٹرڈ اور سات لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالی افراد کی تعداد 15 لاکھ ہے، جب کہ بنگالی باشندوں کے نمائندے خواجہ سلمان اپنی برادری کی تعداد 25 لاکھ تک بتاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن نئے شہریوں کے اس حق کی بنیاد دیگر مقامی شہریوں کے بنیادی حق تلفی پر ہرگز نہیں رکھی جانی چاہیے۔ عمران خان کے اس اعلان پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ کہ صرف کراچی میں موجود افغانوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔

کراچی اور سندھ لسانی اعتبار سے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت مقامی آبادی کے تحفظات کو نظرانداز کرنا بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے حکم رانوں سے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اب تک واپس اپنے ملک کیوں نہیں بھیجا گیا۔ بالخصوص کراچی جیسے مصائب زدہ شہر کب تک بن بلائے مہمانوں کی تواضع کر کر کے ہلکان ہوتا رہے گا۔ اگر ان تارکین وطن کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیںِ، تو حکومت کا فرض ہے کہ بطور غیر ملکی ان کی رجسٹریشن یقینی بنائے۔ اس کے بعد باضابطہ طریقے سے انہیں روانہ کیا جائے۔

بدترین گنجانیت کے شکار کراچی میں بنیادی سہولیات سے لے کر ہنگامی امداد تک شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس گنجانیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا ہے، جس کے سبب ملک کے کونے کونے سے یہاں مسلسل نقل مکانی جاری ہے۔ سرکاری سطح پر بھی یہ سلسلہ رہا، جب 1960ء کی دہائی میں یہاں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو لاکر بسایا گیا۔۔۔ 1980ء کی بدنصیب دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کا سیلاب بھی داخل کردیا گیا، جس سے شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اِن افغان پناہ گزینوں نے اِس شہر کو منشیات اور اسلحے و بارود کا وہ ’’تحفہ‘‘ دیا کہ جس کے ثمرات کا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں۔ اس کے بعد 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے شکار افراد کی بھی یہاں آمد ہوئی۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے متاثرین کو بھی ہزاروں کلو میٹر دور یہاں لاکر بسایا گیا۔

یہ وہ صورت حال ہے کہ اب اہل کراچی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں اجنبی بنایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے آباو اجداد نے ہجرت کی، لیکن اب اُن کا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے، جب کہ یہاں آنے والی دیگر لسانی اکائیوں کے اپنے آبائی علاقے بھی موجود ہیں، اس لیے اس شہر اور اِس کے وسائل پر پہلا حق ہمارا تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم یہاں سے کما کر یہیں خرچ کرتے ہیں، جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگر افراد یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی زیادہ تر آمدنی اپنے علاقوں میں صرف کرتے ہیں۔

جب کوئی سہولت پہلے گھر کے افراد کے بہ جائے باہر والوں کو ملے، تو ایسے سماج میں ہم آہنگی کے بہ جائے شدید تناؤ جنم لیتا ہے، اور ہماری تاریخ میں اس کے خوف ناک نتائج بھی رقم ہیں۔ آج بھی کراچی میں مسافر بسوںِ، سڑکوں، بازاروں اور گلی محلوں میں معمولی تنازع لسانی تکرار اختیار کر جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس شہر کے وسائل نہایت کم اور مسائل بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ لاکھ جتن کرلیں نہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ لسانی سیاست کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔

اگر تارکین وطن کو شہریت دے دی گئی تو پھر لامحالہ یہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کریں گے۔ یہ امر جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے موافق ہوگا اور وہیں بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے غیرموافق بھی ثابت ہوگا۔ ایسی صورت حال میں کراچی میں خدانخواستہ دوبارہ نفرتوں کا الاؤ دہکنے کے خدشات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ اس شہر نے پہلے ہی 1965ء سے اب تک لسانی عصبیتوں کو بہت جھیلا ہے، درمیان میں لسانیت کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوتے ہی 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کو بنیاد بنا کر شہر میں دوبارہ لسانی نفرتیں پھیلائی گئیں، آج تک نہیں پتا چلا کہ آخر ایک سیاسی اختلاف کو اس شہر میں لسانی رنگ کس طرح دے دیا گیا؟

25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار تحریک انصاف نے کراچی میں بھی اکثریت حاصل کی ہے۔۔۔ انتخابات سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جب کراچی کے دورے کے دوران یہ کہا کہ ’’میں پان کھانے والوں کے کراچی کو لاہور بناؤں گا!‘‘ تو پہلی بار ایسا ہوا کہ تحریک انصاف کراچی کے راہ نماؤں نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کراچی کے دفاع کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے اس دوران ’بانیان پاکستان‘ جیسی اصطلاحیں بھی استعمال کیں، جو اس سے پہلے صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔ آج تحریک انصاف ملک بھر کی طرح کراچی کی بھی ایک اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے کراچی کے نمائندوں کی حیثیت سے اِن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یہاں کی سماجیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کریں۔ کسی تجزیے، خدشے یا شکایت کو آنکھ بند کرکے فقط تعصب یا تنگ نظری کے چابک سے نہ ہانک دیں، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، کیوں کہ یہ شہر اب مزید کسی سماجی اور سیاسی اشتعال انگیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

٭کیا بنگالی باشندوں کا موازنہ افغان مہاجرین سے کیا جا سکتا ہے؟

عمران خان نے بنگالی اور افغان افراد کو شہریت دینے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں دونوں قوموں کا مقدمہ یک ساں نوعیت کا ہے، یا اس میں کوئی فرق ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہمارے بیش تر تجزیہ کار دو الگ الگ مسئلوں کو خلط ملط کر رہے ہیں، جس سے کافی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

جغرافیائی طور پر دیکھیے تو ریاستِ پاکستان برصغیر کے ایک مخصوص حصے میں قائم ہوئی، لیکن یہ ریاست پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ 1971ء میں مشرقی بنگال، بنگلا دیش بن گیا، لیکن نظریاتی طور پر پاکستان میں بنگالیوں کے رہنے کی نفی نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بنگال کا مغربی ٹکڑا بنگلا دیش کا حصہ نہیں، جس طرح برصغیر کے دیگر علاقے نے اس ریاست میں رہنے کے حق کو استعمال کیا، اسی طرح مغربی بنگال کی نسبت سے بھی اِن کے لیے گنجائش نکلتی ہے۔

یہی نہیں مسلم لیگ کے قیام (1906ء) سے قیام پاکستان (1947ء) تک اہل بنگال کی جدوجہد سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، بنگال کا شمار برصغیر کے اُن تین صوبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے (کل 30میں سے) سب سے زیادہ یعنی چھے، چھے نشستیں دے کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ان صوبوں میں ’یوپی‘ تو کبھی اس ملک کا حصہ ہی نہ بن سکا، جب کہ پنجاب کی مسلم لیگ میں شمولیت بٹوارے سے کچھ ہی پہلے کا واقعہ ہے، دوسری طرف صوبہ بنگال کی تحریک پاکستان میں شمولیت بالکل آغاز سے ہے۔

افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ 1980ء میں روسی حملے کے بعد پیدا ہوا، اِن افغان باشندوں کی یہاں آمد عارضی بنیادوں پر تھی، لیکن عملاً یہ کراچی کے وسائل پر دھڑلے سے قابض ہوتے گئے، جس کی وجہ سے شہر میں امن وامان کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے، انہیں واپس بھیجنے کے خاطرخواہ اقدام تو کیا ہوتے، الٹا ان کے یہاں قیام کی مدت میں بار بار توسیع کی جاتی رہی۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی 45 فی صد سے زائد آبادی تاجک، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی نسلوں پر مشتمل ہے، یوں بلاواسطہ وسطی ایشیا کے باشندے بھی یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے راستے اختیار کرنے لگیں گے، اس امر پر بھی بہت اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بنگلادیش کی کوئی سرحد نہیں ملتی، اس لیے جغرافیائی طور پر بنگالی باشندوں کی یہاں مزید نقل مکانی ممکن نہیں۔ یوں بنگالیوں کے حوالے سے تو شہریت کے مسئلے کو ہم حل ہونا کہہ سکتے ہیں، افغان باشندوں پر انہیں جغرافیائی اور تاریخی طور پر بھی برتری حاصل ہے، جب کہ نسلی طور پر ریاست میں افغانیوں کے مماثل لسانی اکائیاں اور موافق سیاسی آوازیں موجود ہیں، پھر فطری طور پر اپنا ناتا وہاں سے جوڑ لیں گے، جب کہ بنگالیوں کی یہاں کراچی ہی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ امر سماجی ہی نہیں سیاسی طور پر کراچی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

ریاست پہلے ہی تین عشروں سے افغان باشندوں کی تباہ کن مہمان نوازی اٹھا رہی ہے، ہماری افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد بھی موجود ہے، جہاں سے آمدورفت کا سلسلہ بھی مستقل جاری رہتا ہے۔ کراچی میں ان کے لیے شہریت کے دروازے کھلنے کے بعد یہ سلسلہ مزید دراز ہونے کے خدشات ہیں، پھر کیا ہمارے کم زور نظام میں کسی بھی طرح یہاں کی پیدائش ثابت کرنا کون سا دشوار امر رہ جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ناکافی وسائل پر مزید بار بڑھ جائے گا۔

٭غیرملکیوں کی شہریت اور اپنے شہریوں کی بے گھری!

اِن دنوں کراچی میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے کئی عشروں پرانی آبادیاں خالی کرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ مارٹن کوارٹر اور گارڈن وغیرہ میں بہت سے کوارٹرز میں سابق سرکاری ملازمین کے اہل خانہ 40، 40 برسوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں اپنے تئیں مالکانہ حقوق کی کارروائی بھی نمٹائی ہے، اس کے باوجود چار ہزار سے زائد کواٹروں میں رہنے والے لاکھوں مکینوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی نام لیوا ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے لے کر حب الوطنی اور مذہبی بنیادوں پر استوار کوئی بھی سیاسی جماعت اس سنگین انسانی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔! ایسے ماحول میں اسی کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو قانونی تسلیم کرنا اِن افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جو ریاست کے قیام کے وقت سے یہاں کے شہری ہیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں جن تارکین وطن کی باقاعدہ پوری آبادیاں غیرقانونی ہیں، بلکہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر بھی وہ قبضہ جمائے ہیں اور ان کے اصل مالکان بے بس ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ ان کے قبضے چھڑائے۔ الٹا نہیں یہاں کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہے، جب کہ دو، دو کمرے کے گھروں میں گزر بسر کرنے والے ان سرکاری خادمین کے اہل خانہ کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، جن کے بڑوں کی محنت سے اُس زمانے میں امور ریاست چل پائے۔

٭شہریت دینے سے پہلے

پاکستان جیسے کثیر الا قومی ملک میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے کسی بھی فیصلے سے قبل مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جانا ضروری ہیں، تاکہ انہیں اپنے سماجی اور سیاسی حق کی تلفی کا کوئی خدشہ نہ ہو، انہیں کسی بھی طرح اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے، نئے شہریوں کی رہائش اور زندگی گزارنے کے لیے براہ راست متعلقہ ضلع کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، نہ کہ اُسی وسائل میں نئے شہریوں کو بھی حصے دار بنا دیا جائے۔ نئے وسائل میں پانی، بجلی اور گیس سے اسپتالوں تک کی ہنگامی ضروریات کا احاطہ ہونا چاہیے.

شہریت دینے کے بعد انہیں بہ جائے کسی مخصوص جگہ بسانے کے، انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لیے بھی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں، غیر ملکی باشندوں کو مکمل شہری حقوق بہ تدریج اور مشروط طور پر دیے جائیں، جس میں باقاعدہ طور پر حق رائے دہی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ایک مدت کا تعین کیا جائے، وغیرہ۔ اگر ان بنیادی امور کو سامنے رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہ قدم کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی طرف بڑھا ہوا محسوس ہوگا، ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔

The post قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

بنجر علاقے میں درخت لگانا
عزت سلیم، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ھے۔اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کہ اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت ۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔دوست آپ کے معاون رہیں گے۔ آپ نماز کی پابندی ضرور رکھیں۔

بیل گم ہو جاتا ہے
حرا پروین، لاہور

خواب : میرے ابو نے خواب میں دیکھا کہ ہم ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں ہے۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا۔

تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔

تحفے میں قلم ملنا
امجد بٹ،گوجرانوالہ

خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے ہیں ۔ یہاں میری خالہ بھی آئی ہوئی ہوتی ہیں اور سب بچوں کے لئے تحفے لے کر آئی ہوتی ہیں۔ مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات لکھتا ہوں ۔ سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

بازار سے تیل خریدنا
اسماء امین،لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے گھر گئی ہوئی ہوں وہاں پہ میرے دیور کی فیملی بھی آئی ہوئی ہے اور نند بھی ۔ میری ساس مجھے اور میری نند کو کچھ سامان لانے کو پیسے دیتی ہیں ۔ میں اور میری نند بازار جاتے ہیں اور سامان لے کر آتے ہیں ۔ اور وہ سارا کا سارا تیل پہ ہی مشتمل ہوتا ہے۔گھر آ کر جب میری ساس اس تیل کو دیکھتی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہیں ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتی ھے۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

دوستوں کے ساتھ دعوت اڑانا
فرقان علی، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی جگہ پہ موجود ہوں اور ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

درخت سے انار توڑ کر کھانا
معین وقار، شورکوٹ

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے انار توڑ کر کھا رہا ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کہ دیتا ہوں وہ سب بھی انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

لذیذ کھانے
احمد مرتضیٰ، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اکیلا کہیں کسی کمرے میں بیٹھا ہوں اور وہاں ایک میز پہ انواع و اقسام کے کھانے پڑے ہوئے ہیں جن سے انتہائی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ بلکہ کئی کھانے تو ایسے تھے جو کبھی دیکھے نہ کھائے۔ میں ادھر انتھائی بے تکلفانہ انداز میں بیٹھ جاتا ہوں اور مزے لے لے کر انتھائی لذیذ کھانے کھاتا ہوں۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ھم کو یہ نعمت دی۔ وہ خوشی سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

سسر گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں
ماریہ قبطیہ، وزیرآباد

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال کے ساتھ کسی گاوں میں کوئی شادی اٹینڈ کرنے آتی ہوں۔ میرے سارے سسرال والے وہاں خوشی خوشی رہتے ہیں مگر مجھے گاوں میں بنیادی سہولیات کے بنا کافی مشکل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک دن میرے سسر باہر جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں گندگی میں سارے لتھڑ کر گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر :۔ یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں اور اللہ کے حبیبﷺ کی سیرت پر عمل کریں۔

گاؤں میں خالی گھر
عمران کبیر، بورے والا

خواب : ۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر گاوں گیا ہوں۔ اس خالی گھر میں ہر طرف ابتری پھیلی ھوئی ہوتی ہے اور جیسے پورے گھر میں اس کا غبار پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس گھر میں رہتے بھی نہیں اور نہ ہی ادھر کچھ خاص سامان موجود ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ مالی معاملات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے۔کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ وخیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں۔

سفید بکری خریدنا
ارسلان بیگ ، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی منڈی جیسی جگہ پر ہوں اورکوئی جانور خریدنا چاہتا ہوں ، حالانکہ نہ تو بکرا عید ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی فنکشن ہے پھر بھی میں خود کو ادھر پاتا ہوں۔کافی دیر بعد مجھے ایک سفید رنگ کی خوبصورت سی بکری پسند آ جاتی ہے۔ میں ان بزرگ سے بھاؤ تاؤ کرتا ہوں۔ اب آگے مجھے یاد نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں گھر آ کر اس سفید بکری کو لا کر بہت خوش ہو رہا ہوتا ہوں اور حیران اس کے ساتھ ملنے والے ایک سفید بیگ پہ ہوتا ہوں جس میں ایک گائے کی کھال موجود ہوتی ھے۔ میں ان دونوں چیزوں کی موجودگی سے کافی خوشی محسوس کر رہا ہوتا ہوں اور مسلسل اس پر اپنی انگلیاں پھیر کر خوش ہو رہا ہوتا ہوں ۔

تعبیر :۔ بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا اور مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ آپ چاہے کاروباری ہوں یا نوکری میں، سب میں آسانی ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

ریچھ حملہ کر دیتا ہے
مدیحہ سلمان، لاہور

خواب :۔ یہ خواب میرے بھائی نے دیکھا کہ ہم سب کسی پہاڑی مقام پہ چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے ہیں اور ایک دن وہاں پہ سب بچے گراونڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ ادھر ایک ریچھ جنگل سے نکل آتا ہے۔ یہ دیکھ کر سب بچے چیخنے لگ جاتے ہیں۔ ریچھ تیزی سے ہماری طرف بڑھتا ہے اور سب ڈر کہ مختلف سمتوں میں بھاگتے ہیں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتادیں۔

تعبیر:۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

گھوڑے سے گرنا
صوفیہ تبسم،لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ اس کے فارم ہاوس پہ آئی ہوئی ہوں۔ وہاں ان لوگوں نے گھوڑے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ میری دوست مجھ سے گھڑ سواری کا کہتی ہے تو میں اس کو یہ نہیں بتاتی کہ میں نے اس سے پہلے کبھی گھوڑے کی پشت پہ سواری نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پہ سوار ہو جاتی ہوں ۔ مگر جیسے ہی وہ دوڑتا ہے میں نیچے گر جاتی ہوں اور وہ میرے اوپر سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب لوگ اکھٹے ہو جاتے ھیں جو مجھے اٹھانے اور ہسپتال لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں ۔

تعبیر : ۔ اس سے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ ے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ خیرات بھی کریں۔

 سکول میں تلاوت کرنا
منیرہ علی، اسلام آباد

خواب ؛ ۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے سکول کی اسمبلی میں کھڑی ہوں اور جو بچہ اسمبلی میں تلاوت کر رہا ہوتا ہے وہ بار بار بھول رہا ہوتا ہے۔ میں نجانے کیوں آگے بڑھ کر خود تلاوت کرنے لگ جاتی ہوں حالانکہ ہمارے سکول میں ٹیچرز ایسا نہیں کرتیں۔اس کو میں پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتی ہوں اور خود اس کی جگہ کھڑی ہو کر سورہ الفیل پڑھنا شروع کر دیتی ہوں ۔ پڑھتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں باقاعدہ قرات کے ساتھ تلاوت کرتی ہوں۔ بعد میں پرنسپل اور باقی اساتذہ بہت خوش ہوتے ہیں۔

تعبیر: ۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے آپ کو بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

گھر میں آبشار
ملیحہ حسن، پتوکی

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی اجنبی سے گھر میں ہوں اور اس گھر کے اندر ہی ایک آبشار سی بہ رہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ گھر کس کا ہے یا اندرکون لوگ ہیں ، مگر یہ یاد ہے کہ میں حیران ہوتی ہوں کہ کیسے یہ گھر کسی نے بنایا ہے۔ میں آھستہ آھستہ آگے بڑھتے ہوئے آبشار کے پانی کے پاس چلی جاتی ہوں جو ایک نالی نما راستے سے گھر سے باہر جا رہا ہوتا ہے۔ میں اس پانی میں قدم رکھ دیتی ہوں جو کہ اتنا صاف ہوتا ہے کہ میں اپنے پیر بھی پانی میں دیکھ سکتی ہوں۔ پھر میں آگے بڑھ کر اس کو پینے کی کوشش کرتی ہوں اور پیتے ہوئے یہ سوچ کے کھڑی ہو جاتی ہوں کہ زمزم کو تو ہم بیٹھ کر نہیں پیتے اور کھڑے ہو کر وہ انتہائی لذیز اور میٹھا پانی پینے لگ جاتی ہوں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ھے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے درجات میں ترقی ہو گی۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پر بھی آپ کو فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

ڈبے میں مردہ خرگوش
نصرت فیروز، گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی شادی پر گاوں آیا ہوا ہوں۔ میرے بچوں کو یہ جگہ بہت پسند آتی ہے۔ ایک منظر میں مجھے لگتا ہے کہ جیسے یہ میری ہی شادی ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ میرے لئے تحفے لے کر آئے ہیں۔ جن میں میری جٹھانی بھی ہیں جو ایک بڑا سا ڈبہ لاتی ہیں اور مجھے دیتی ہیں کہ تمھارے بیٹے کے لیے ہے۔ میں خوشی خوشی کھول کر دیکھتی ہوں تو اس کے اندر کچھ خرگوش ہوتے ہیں جو کہ مر چکے ہوتے ہیں۔ میں ایک دم گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہوں تو وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گر جاتا ہے۔ مگر میں مارے خوف کے اس جگہ سے بھاگ جاتی ہوں۔ اس کے بعد والا حصہ مجھے یاد ہی نہیں ہے ۔

تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا خفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

گناہوں کی معافی مانگنا
اسلم خان، اسلام آباد

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے گیا ہوں۔ نماز کے بعد جب کافی نمازی چلے جاتے ہیں مسجد میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔ میں خود کو گڑگڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ھوئے دیکھتا ہوں۔ اور اس آہ و زاری میں مسجد میں موجود لوگ اٹھ کر میرے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں تو میں گھبرا کر باہر نکل آتا ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرا چہرہ آنسووں سے بھرا ہوا تھا اور میں استغفار کی تسبیح پڑھ رہا تھا۔

تعبیر :۔ اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

نظر کی خرابی
محمود علی، لاہور

خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں کہیں جا نے کے لئے تیار ہو رہا ہوں۔ میرے باتھ روم کا شیشہ کافی اندھا سا ہو رہا ہوتا ہے تو میں دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہوں کہ ادھر تیار ہو جاتا ہوں۔ مگر اس کمرے میں موجود شیشہ بھی زنگ آلود سا ہوتا ہے اور بالکل بھی ٹھیک نظر نہیں آ رہا ہوتا ۔ پھر میں اسی طرح گھر سے نکل جاتا ہوں مگر میری گاڑی کے شیشے بھی اندھے سے لگتے ہیں ۔ مجھے بالکل بھی ٹھیک دکھائی نہیں دیتا ۔

تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے۔ جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

’اسپرگرز‘ بچے بڑوں سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں

$
0
0

’’میں نے بچپن میں جو فقرہ سب سے زیادہ سنا وہ یہ تھا:’’ میری طرف دیکھو۔‘‘

سارا بچپن ماں باپ یہ کہتے رہے کہ ادھر دیکھ کر بات کرو، پھر سکول جانا ہوا تو استاد دن میں کئی دفعہ کہتے:’’ ادھر میری طرف دیکھ کر جواب دو‘‘ جب میں نہ دیکھ پاتا تو لائن لگانے والا پیمانہ مارا جاتا یا پنسل کا سکّہ چبھویا جاتا کہ ’اوپر دیکھ کر کیوں نہیں بات کرتے؟‘ لیکن جونہی میں کسی کی آنکھوں یا چہرے کی طرف دیکھتا میں بات کرنا بھول جاتا اور لفظ میرے ذہن سے غائب ہوجاتے۔ میرے باپ کو میرے اِدھر اُدھر دیکھنے پر اتنا غصہ آتا کہ میرے پیچھے بھاگتا اور میں اُس سے چھپتا پھرتا اور اکثر میری ماں مجھے اس سے بچاتی کیونکہ میرے باپ کو یہ یقین تھا کہ آنکھیں صرف وہ لوگ چراتے ہیں جو کچھ بُرا کرکے چھپاتے ہیں، ایک سچا اور صاف انسان آنکھ ملا کر بات کرتا ہے لیکن جب میں چالیس سال کا ہوا تب مجھے پتا چلا کہ مجھے ایک بیماری ہے جس کا نام ’اسپرگرز‘ ہے اور اس میں مبتلا افراد دوسروں کی طرف دیکھ کر بات نہیں کر سکتے۔‘‘

یہ الفاظ ہیں اسپرگرز کے مریض ’جان ایلڈر‘ کے، یہ اُن کی بہت بکنے والی کتاب ’’ میری آنکھوں میں دیکھو‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ یہ وہ فقرہ ہے جو انہوں نے زندگی میں سب سے زیادہ سنااور یہ سچ ہے کہ ’اسپرگرز‘ کے مریض کسی سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کر سکتے۔ آنکھیں نہ ملانے کی وجہ صرف نفسیاتی نہیں ہوتی بلکہ اسپرگرز لوگوں کے دماغ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ وہ چند سیکنڈ سے زیادہ دوسروں کی طرف نہیں دیکھ سکتے، کچھ اسپرگرز لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا دماغ پھٹنے کو کرتا ہے اور چکرانے لگتا ہے جب وہ کسی سے نظر ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسپرگرز کا اردو میں کوئی متبادل لفظ نہ ہونے کی وجہ سے اسے ’اسپرگرز‘ ہی کہا جائے گا، کچھ ممالک میں اس کا تلفظ’’ اسپرجر‘‘ بھی ہے۔ اسپرگرز کو پہلی دفعہ آسٹریا کے ڈاکٹر ’’ہینس اسپرگرز‘‘ نے آٹزم سے الگ بیماری کے طور پر دریافت کیا اس لئے اسی ڈاکٹر کے نام پر اسے ’اسپرگرز‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین اور اسپرگرز کے مریض اسے مرض نہیں مانتے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اسپرگرز کے حامل افراد ذہین ہوتے ہیں، صرف کچھ حسیات کے زیادہ شدید ہونے کی وجہ سے انہیں مختلف سمجھا جائے نا کہ مریض۔ یہ سچ ہے کہ اسپرگرز کے حامل افراد اپنے دماغ کی مختلف بناوٹ کی وجہ سے بہت فائدہ اٹھا لیتے ہیں، جیسے کہ نابینا افراد کی دیکھنے کی حس نا ہونے کے باعث ان کے اندر محسوس کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ ابتدائی زندگی میں دوسروں سے مختلف ہونا انہیں بھونچکا رکھتا ہے مثلاً ہر وقت شور محسوس کرنا، منہ سے ہر بات اونچی نکل جانا، اپنے آپ میں اتنا مگن رہنا کہ ارد گرد بم پھٹنے کا بھی نوٹس نہ لینا، کوئی مر بھی جائے تو اپنی رو ٹین نہ چھوڑ سکنا۔ مثلاً اگر ٹی وی دیکھنے کا ٹائم ہے تو اسکو ضرور دیکھنا ہے خواہ کیسی ہی ایمرجنسی ہو جائے یعنی تبدیلی کے ساتھ فوراً تبدیل ہونے کی صلاحیت جو انسانی فطرت کا حصہ ہے اس میں کمی ہونا لیکن ارد گرد سے لا تعلقی ان کے اندر کسی ایک چیز کی دلچسپی کو اتنا اجاگر کردیتی ہے کہ وہ اس میں نامور ہوجاتے ہیں۔ ایک مفروضے کے مطابق بہت سارے موجدوں میں اسپرگرز لوگوں کی خصوصیات ہوتی ہیں اور اگرچہ ان کی طبی تشخیص ہو پائے یا نہ لیکن ان کے اسپرگرز ہونے یا نہ ہونے پر بحث جاری رہتی ہے۔

آٹزم اور اسپرگرز میں فرق

اسپرگرز کو آٹزم کی کزن بیماری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسپرگرز آٹزم کی ایک شکل ہے سوائے چند علامات کے فرق کے۔ مثلاً  اسپرگرز کو لکھنے پڑھنے میں اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اکثر وہ اپنی عمر سے پہلے لکھنے پڑھنے میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں جبکہ آٹزم کے حامل بچے لکھنے پڑھنے اور بولنے میں پیچھے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال سوفٹ وئیر انجنیئر بل گیٹس ہے۔ بل گیٹس جو کچھ عجیب عادات رکھتا ہے مثلاً  آواز کا ناہموار ہونا، اپنی ہائجینک ضرورتوں کی پروا نہ کرنا۔ اس کے متعلق وقتاً  فوقتاً یہ بحث اٹھتی رہتی ہے کہ وہ اسپرگرز یا آٹزم کا مریض ہے لیکن ابھی تک کوئی ڈاکٹری تشخیص سامنے نہیں آئی اس لئے یہ کوئی حتمی بات نہیں، اس کے باوجود بہت سارے اسپرگرز افراد بل گیٹس کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر صرف اس لئے کیاگیا ہے کہ اسپرگرز بہت ذہین ہوتے ہیں۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ وڈیو گیمز کے تخلیق کاروں خاص کار’’ پوکے مان ‘‘میں بھی اسپرگرز کی عادات پائی گئی ہیں۔ جب اسپرگرز اپنا اور دوسروں کا فرق سمجھ لیتے ہیں تو خود کو ایک حد تک معاشرتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسپرگرز کا علم اکثر تب ہوتا ہے جب بچہ سکول جانے لگتا ہے جبکہ آٹسٹک بچہ دو اڑھائی سال میں ہی اپنی عمر سے پیچھے ہونے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اسپرگرز کے لئے آٹسٹک لوگوں کی نسبت گہری اور پیچیدہ باتیں سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔

اسپرگرز کی بڑی علامتیں درج ذیل ہیں:

(1) حواس خمسہ کا زیادہ حساس ہونا، (2) سماجی طور پر نہ گھل مل سکنا، (3) مخصوص عادات کو بار بار دہرانا، (4) کچھ خاص چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی لینا۔

حواس خمسہ کے زیادہ حساس یا ضرورت سے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے اسپرگرز کے حامل افراد کو ایک معمولی سی آواز بھی بہت تیز اور تیز آواز کان پھاڑنے والی لگتی ہے۔ بد بو اور خوشبوکو عام لوگوں سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، خوراک کے معاملے میں بھی وہ ذائقے ،رنگ اور خوشبو کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ روشنی سے الرجی ہونا یعنی تیز روشنی کو سہہ نہ پانا، کیمرے یا سورج کی چمک سے سر میں درد محسوس کرنا۔ جلد کی حساسیت بھی اسپرگرز کو پریشان رکھتی ہے۔ کپڑوں پر ابھری ہوئی لکھائی، بنیان یا قمیض کا لیبل ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے رف اور کھردرا کپڑا جو عام لوگ ساری ساری زندگی پہنتے ہیں اسپرگرز چند منٹ بھی نہیں پہن سکتے۔ کاموں کو دہرانا اسپرگرز کی خاص عادت ہوتی ہے۔ انگلیاں چٹخاتے جانا، کسی عضو کو جھٹکنا، ایک ہی کام بار بار کرنا، ا یک ہی کھیل بلا ناغہ کھیلنا، ایک ہی فلم یا ڈرامہ بار بار دیکھنا اور برسہا برس ایسا کرنا۔ اگر کسی وجہ سے معمول کا کام نہ کر سکیں تو بہت زیادہ ڈپریشن میں چلے جانا۔

اسپرگرز بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ وہ قدم قدم پر دوسروں کی بے رخی، سرد مہری اور اکثر ذلت آمیز رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد باوجود ذہین ہونے کے انہیں ملازمت حاصل کرنے اور پھر اس پر دیر تک ٹکے رہنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بڑی تعداد میں اسپرگرز کی بے روزگاری کی وجہ ان کی کام نہ کرنے کی صلاحیت نہیں بلکہ اپنے ساتھی ورکرز کی توقعات پر پورا نہ اترسکنا ہوتی ہے۔ روز مرہ گفتگو میں ہم بولنے سے پہلے قدرتی طور پر سامنے والے کے احساسات کو ذہن میں رکھ کر بولتے ہیں۔ قدرت نے ہما رے دماغ میں ایک فلٹر یا چھلنی نصب کی ہوئی ہے، ہما ری اولین سوچ اس چھلنی میں جا کر مناسب الفاظ کا لباس پہن کر منہ سے نکلتی ہے لیکن اسپرگرز کی وہ چھلنی نہیں ہوتی، ان کی سو چ جوں کی توں اپنی اصلی حالت میں باہر آجاتی ہے جو دوسرے لوگوں کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپرگرز دوست نہیں بنا پاتے۔ اسپرگرز دوسرے کی جگہ پر جا کر سوچنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔

ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہوتی ہے، اگر کوئی شخص موٹا ہے تو وہ اسے موٹا ہی کہیں گے، اچھی صحت والا نہیں کہیں گے۔ لطیفہ، مذاق، یا طنز اسپرگرز کے سر پر سے گزر جاتا ہے بلکہ وہ جواب میں کچھ ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو سننے والے کو ناگوار گزرے کیونکہ ایسے لوگ دوسرے کا چہرہ اور دماغ پڑھنے سے قاصر ہوتے ہیں، والدین کو اکثر اسپرگرز بچے کی وجہ سے دوسروں کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ لفٹ میں جاتے ہوئے بارہ سالہ لڑکا ہمسائیوں کے کتے کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے کتنی بد بو آتی ہے! کچھ تو کتے میں بد بو تھی لیکن چونکہ اسپرگرز کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اس لئے اسے وہ کئی گنا زیادہ ہوکر محسوس ہوئی اور اوپر سے وہ اپنے دل میں گزرنے والے خیالات کو کنٹرول نہیں کرپاتے۔ ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ اسپرگرز کے دل میں وہ مطلب نہیں ہوتا جو اس کے لفظوں سے نکلتا ہے، اس کی مثال جان ایلڈر اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں: ’’میری ماں نے اپنی سہیلی بیٹسی کو دعوت دی، وہ ہما رے گھر آئی،وہ دونوں بیٹھی چائے پی رہی تھیں اور ساتھ گپ شپ کر رہی تھیں، میں کچھ فاصلے پر بیٹھا کھیل رہا تھا، بیٹسی نے میری والدہ سے کہا:’ تم نے ایک بری خبر سنی؟‘ میری والدہ نے کہا:’ نہیں تو‘ اس نے بتایا کہ مسٹر اور مسز پارکر کا بیٹا ٹرین کے نیچے آکر مرگیا، وہ پٹری پرکھیل رہا تھا کہ اچانک ٹرین آ گئی اور وہ موقع پر ہی مر گیا۔‘‘

میں اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔ بیٹسی نے مڑ کر شدید حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی:’ تمہارے خیال میں یہ کوئی ہنسنے کی بات تھی؟‘ مجھے کچھ شرمندگی اور اپنی بے عزتی محسوس ہوئی یا نہیں؟ ’’میرا خیال ہے کہ ’نہیں‘‘ میں نے کافی خفت سے کہا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کہوں لیکن اتنا احساس تھا کہ میرا مسکرانا ان کو اور میری والدہ کو بہت برا لگا ہے۔ میں نے سنا بیٹسی میری والدہ سے کہہ رہی تھی کہ تمہارے بیٹے کو کیا مسئلہ ہے؟بعد میں مجھے ماں سے بھی ڈانٹ پڑی جو اکثر ایسے مواقع پر لازمی پڑا کرتی تھی۔ بہت برسوں بعد جب مجھے شعور آیا تو میں نے اپنے دماغ کو ٹٹولا کہ میں کیوں اس وقت لڑکے کی فوتگی کا سن کر اتنا کھل کر مسکرایا تھا تو مجھے پتا چلا کہ میرے دماغ کی سوچ کا عمل بہت مختلف تھا میرا ذہن اس لڑکے کی طرف تھا ہی نہیں، میں کئی سوچوں میں گھرا ہوا تھا مثلاً  شکر ہے کہ وہ لڑکا میں نہیں تھا، اچھا ہے کہ میں پٹڑی پر نہیں کھیلتا، میں خوش ہوں کہ میرے سارے دوست ٹھیک ہیں، میرا بھائی بھی ٹھیک اور سلامت ہے۔ ان ساری سوچوں کے بعد میں ایک احساس طمانیت سے کھل کر مسکرایا کہ جن سے میرا تعلق ہے وہ خیریت ہیں۔ آج بھی میں اپنے چاہنے والوں کی خیریت پر ایسے ہی اطمینان محسوس کروں گا لیکن اب فرق یہ ہے کہ مجھے اندرونی محسوسات کو کنٹرول کرنا آگیا ہے۔

علاج

سب سے پہلے والدین کا بچے کے مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ آگاہی آدھا علاج ہے۔ جس قدر کم عمری میں علاج شروع کردیا جائے اتنا ہی بچے کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے، والدین اگر تھرا پیز نہ بھی کرا سکیں تو بچے کے محسوسات اور مخصوص ضروریات کو سمجھتے ہوئے کافی حد تک اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو ہر بچے کی علامات ، اور مزاج مختلف ہوتا ہے اس لئے ایک کا علاج دوسرے کے لئے مفید نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ڈاکٹرز کو بچے کی تفصیلی تشخیص کرنی پڑتی ہے۔

٭سماجی رویے کی تھرا پی

اس میں لوگوں سے میل جول کے مروجہ طریقوں کی مختصر فلموں ، خاکوں اور باتوں کے ذریعے بچوں کو نارمل اور ابنارمل رویے کا فرق سمجھایا جاتا ہے تاکہ اسے دوست بنانے اور تعلق نبھانے آسکیں۔

٭زبان اور الفاظ کے چناؤ کی تھرا پی

اسپرگرز اپنے ذہن میں دوڑنے والے خیالات کو کسی بھی سوال کے جواب کے طور پر بیان کردیتے ہیں۔ زبان کی تھرا پی کے دوران انہیں حقیقی دنیا کے سوالات کے جوابات دینے کی پریکٹس کروائی جاتی ہے کہ ملاقات کے آغاز میں سلام کرتے ہیں ،کوئی سلام کرے تو ’وعلیکم السلام‘ کہنا ہے۔ کوئی حال پوچھے تو شاپنگ کی لسٹ نہیں بتانی بلکہ یہ کہنا ہے کہ میں ٹھیک ہوں۔ گفتگو شروع کیسے کرنی ہے اور دوسرے کی بات ختم ہونے کے بعد اپنی بات کی جائے اور گفتگو کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ اس کے علاوہ اونچی اور زیادہ نیچی آواز کا کنٹرول کرتے ہوئے آواز کو یکساں ٹون میں کیسے رکھنا ہے۔

٭ذہنی اور دماغی تربیت

اس میں اسپرگرز کو جذباتی ٹھہراؤ کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ اپنے غصے، دکھ اور جوش کی حالت کو قابو میں رکھنا سیکھیں اور دہرائی ہوئی باتوں اور کاموں کو نہ دہرائیں۔

٭والدین کی تربیت

اسپرگرز بچوں کے والدین کی تربیت بہت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ بچے کی اضافی ضروریات پر نظر رکھ سکیں۔ بچے کے دماغ کی بناوٹ اور مرض کو پوری طرح سمجھیں بغیر والدین بچوں کی مدد نہیں کر سکتے۔ بچے سے اس کے محسوسات پوچھیں اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تین سال کے بچے کو اسپرگرز کے طور پر تشخیص کر لیا جاتا ہے۔ اسپرگرز کوئی بیماری نہیں بلکہ دماغ کا مختلف ہونا ہے جس کا کوئی علاج نہیں صرف معاشرے کو اس کا شعور ہی اس کا علاج ہے۔

The post ’اسپرگرز‘ بچے بڑوں سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

یغور مسلمانوں کا فرار

$
0
0

سن 2015ء میں تھائی لینڈ حکومت کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ ترکی پہنچنے کے خواہشمند، چین کے ترکی النسل100 یغور مسلمانوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود چینی حکومت کے حوالے کر دیاگیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان افراد پر چینی حکومت کے بد ترین تشدد کا خطرہ موجود ہے۔ پھر خبر آئی  کہ ایسے ہی چینی مظالم سے بچنے کے لئے فرار ہونے والے کچھ یغور مسلمان تھائی لینڈ کی ایک جیل سے فرار ہو گئے ہیں اور چینی حکومت ان کی جلددوبارہ گرفتاری پر زور دے رہی  ہے۔ حال ہی میں  مصر سے خبر آئی کہ مصری حکومت نے قاہرہ اور اسکندریہ میں مقیم یغور طلبہ اور کچھ یغور ریستورانوں پر چھاپہ مار کر یغور مسلمانوں کو چینی حکومت کی ایما پر گرفتار کیاگیا۔ یاد رہے کہ تھائی لینڈ اور چین کی سرحد ملتی ہے اور حکومتی مظالم اور مذہبی پابندیوں سے بچنے کے لئے یغور مسلمان ایک دہائی سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب سے ایک کرم فرما نے بتایا کہ سعودی عرب میں بھی بڑی تعداد میں یغور مسلمان مقیم ہیں۔

چینی حکومت ان جلاوطن مسلمانوں پر علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے کا الزام لگاتی ہے۔ دوسری طرف یغور ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر بے پناہ مذہبی پابندیاں  لگا رکھی ہیں، مساجد میں آنے جانے والوں کی سخت نگرانی ہوتی ہے۔2009  سے  خبریں آرہی  تھیں کہ 60 سال سے کم عمر یغور مسلمانوں کو حج پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، مساجد میں پابندی سے جانے والے نوجوانوں کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ ہوتی تھی۔ پھر2014ء میں خبر آئی کہ نہ صرف رمضان میں روزے رکھنے پر پابندی لگادی گئی ہے بلکہ رمضان کے دوران سرکاری دفاتر میں زبردستی کھانا کھانے پر مجبورکیا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس نے اس پر ایک مذمتی قرارداد بھی پاس کی تھی، معلوم نہیںکسی مسلم ملک کو اس کی توفیق ہوئی یا نہیں۔ پھر ایک اور خبر آئی کہ سنکیانگ کے صوبے میں نقاب یا حجاب میں ملبوس خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کرسکتیں۔کاشغر شہر کے تاریخی مرکز کو جہاں تقریباً 100 فیصد مسلمان رہتے تھے، عرصہ سے مختلف بہانوں سے خالی کروایا جارہا تھا کیونکہ حکومت کو شک تھا کہ یہاں علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہے جبکہ مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ چین کا رویہ ان مسلمانوں کو بغاوت پر مجبور کررہا ہے۔

ایک فرنچ صحافی، جس نے ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ 2014ء میں سنکیانگ کا سفرکیااور ایک تفصیلی ڈاکومنٹری بنائی تھی، کے مطابق چین نے پچھلی تین چار دہائیوں میں بہت بڑی تعداد میں چینی نسل کے باشندوں کو بھاری مراعات دیکر سنکیانگ میں منتقل کیاہے۔ ان میں بڑی تعداد سابق فوجیوں کی بھی ہے۔ صحافی کا کہنا تھا کہ انہیں سنکیانگ کی بہترین زمینیں اور ہتھیار دیکر ان سے یغور مسلمانوں کی نگرانی کا کام بھی لیا جا رہا ہے اور وقت پڑنے پر ان سے ملٹری سروس بھی لی جاسکتی ہے۔ چینی حکومت کے نئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سنکیانگ میں آٹھ ملین یغور جبکہ11ملین چینی نسل کے باشندے موجود ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں چینی نسل کے باشندوں کا اکثریت میں ہونا پچھلی سات دہائیوں سے چینی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ عملاً صوبے کا سارا انتظام چینی نسل کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یغور باشندوں  پر بھروسہ نہیں کیا جاتا۔

یہی نہیں چین کے دوسرے شہروں میں جہاں یغور بزنس یا ملازمت کے لئے مقیم ہیں، انہیں بھی بیجا پابندیوں اور  امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے۔ پچھلے دنوں یغور باشندوں کو چین کے کاروباری مرکز شنگھائی سے نکلنے کا حکم ملا جہاں بڑی تعداد میں  یغور مسلمان ملازمت  اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے۔

حالیہ اطلاعات کے مطابق ، یغورشہری بہت بڑی تعداد میںکیمپوں میں قید ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی تعداد ایک ملین سے زاید بتاتی ہیں۔  مغربی ذرائع ابلاغ اور جلاوطن یغور باشندوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آٹھ ملین سے زائد یغور مسلمانوں کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے،کسی بھی مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے پر یغور مسلمانوں کو گرفتار کرکے کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے، ان کیمپوں سے اب تک بہت کم خوش نصیبوں کو نکلنے کا موقع ملا ہے،  جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہوئے،انہوں نے تشدد اور جبری ذہن سازی کی کہانیاں سنائی ہیں۔ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کسی کا جنازے میں سورہ فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھنا اور اپنے بچے کا نام ’محمد‘ رکھنا بھی ایسا جرم ہے جس پر اسے کیمپوں میں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسا ظلم اسرائیل میں بھی نہیں ہو رہا، وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزرنے کی پوری آزادی ہے۔

یغور مسلمانوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں بھی اب کافی بلند ہیں۔ ذیل میں دس ستمبر2018ء کی شائع کردہ ’الجزیرہ‘ کی ایک رپورٹ کا ترجمہ دیا جا رہا ہے جس نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو اپنی ذریعہ بنایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق:

48 سالہ تاریم چین کے صوبے سنکیانگ کے مرکز ارمچی میں ایک کامیاب بزنس تھا، اسے اپریل 2017ء میں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اچانک ایک فون موصول ہوا، اسے فوری طور پر اکسو شہر پہنچنے کے احکامات دیئے گئے تھے جو 900 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ تاریم جس کا تعلق ترک نسل یغور سے تھا، فوری طور پر سمجھ گیا کہ اب اس پر مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔ دو دن قبل وہ اکسو شہر اپنی 33 سالہ بہن زہرا سے ملنے گیا تھا جو چینی کمیونسٹ حکومت کے قائم کردہ ایک ری ایجوکیشن کیمپ میں قید تھی۔ تاریم نے بعد ازاں انسانی حقوق کی تنظیم،  ہیومن رائٹس واچ کو  بتایا کہ بہن سے ملنے کے لئے اسے متعلقہ حکام کو 20ہزار چینی یو آن (2900 امریکی ڈالر کی رقم رشوت کے طور پر دینا پڑی)۔ تاریم کا خیال تھا کہ وہ مزید رشوت دے کر اپنی بہن کو وہاں سے آزاد کروا لے گا مگر اسے بتایا گیا کہ یہ نا ممکن ہے۔

تاریم نے ’الجزیرہ‘ کو یہ بھی بتایا کہ ری ایجوکیشن کیمپ عوام کی نظروں سے اوجھل تھا جہاں پہنچنے کے لئے بہت سے فوجی چیک پوائنٹس سے گزرنا پڑا۔ بالآخر اس کی بہن کو مختصر وقت کے لئے خاتون گارڈ کی موجودگی میں ملنے کی اجازت دی گئی۔ بہن کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے اور  آنسوؤں سے بھرے پیلے چہرے سے اس کی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا۔  بہن کا کہنا تھا کہ اس کے کچھ سبق باقی ہیں اس کے بعد اگر اس نے امتحان پاس کرلیا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ ’’کب؟‘‘ اس کا جواب بہن نے دیا نہ تاریم میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ تاریم نے وہاں500 نئے یغور قیدیوں کو بھی دیکھا جن کے کپڑے اتروا کر انھیںکیمپ کا یونیفارم پہنایا جارہا تھا۔ ان سب کے سرمنڈے ہوئے تھے، ان میں سے کچھ قیدیوں کو تاریم اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کی حیثیت سے پہچانتا تھا۔

واپس ’ارمچی‘ پہنچنے کے دو دن بعد اسے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے کال موصول ہوئی اور اکسو  میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے فوری طور پر اکسو کے لئے فلائٹ بک کروائی۔ فلائٹ کے مقررہ وقت سے پہلے اس نے ائیرپورٹ پہنچ کر اپنی بورڈنگ کروائی لیکن اس کا پلان مختلف تھا۔ ویٹنگ لاؤنج میں فون کرکے اُس نے اپنے سیکرٹر ی کے ذریعے استنبول کی فلائٹ بک کروائی۔ اسے معلوم تھا کہ چینی شہریوں کے لئے ترکی کا ویزا آن آرائیول یعنی داخلے پر دے دیا جاتا ہے۔ بجائے اکسو کی فلائٹ کے اُس نے ائیرپورٹ لاؤنج سے استنبول کی فلائٹ پکڑی، اس طرح تاریم چینی عقوبت خانوں سے بچ کر استنبول پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ سنکیانگ سے باہر ایسے58 افراد کے انٹرویو کرچکی ہے جو سنکیانگ سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوئے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازے کے مطابق اس وقت ایک ملین سے زائد ایغورچینی کیمپوں میں قید ہیں۔ چینی حکومت کے مطابق یہ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث مجرم ہیں جنھیں اصلاح کے لئے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، مخالفین انہیں کنسنٹریشن کیمپس کا نام دیتے ہیں۔ بی بی سی ہی کے مطابق چینی اس پروگرام کو transformation through educationکا نام دیتے ہیں۔

تاریم ، ارمچی کا یہ بزنس مین سنکیانگ میں اپنا چلتا ہوا بزنس اور اہل خانہ چھوڑ کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا مگر چین میں رہنے والے گیارہ ملین سے زائد یغور مسلمانوں پر مختلف سورتوں میں ظلم جاری ہے، یہ کب تک جاری رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔

یغور مسلمان ہیں کون؟

یہ 2012ء کی بات ہے، کراچی کے ایک مہنگے اور معیاری اسکول کے اسٹاف کے ایک ٹریننگ سیشن کے دوران میں نے بر سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ اقبال کا یہ شعرکس کس نے سن رکھا ہے؟

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لیکرتا بہ خاک کاشغر

تمام شرکاء  کے ہاتھ کھڑے ہوگئے۔ میرا اگلا سوال تھاکہ آپ میں سے کون جانتا ہے کہ کاشغر کہاں واقع ہے؟ تقریباً تین درجن شرکاء جن میں سے بیشتر او اور اے لیول کی کلاسز بھی لیتے تھے، میں سے کوئی بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ کاشغر جس کا حکیم الامت نے اپنے معروف ترین شعر میں ذکرکیا ہے۔ چین کے سرحدی صوبے  xingjiang  میں واقع ہے  جسے اردو میں سنکیانگ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ چین اسے سنکیانگ خودمختار علاقے کا نام دیتا ہے۔ چینی قبضے سے پیشتر یہ مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ کاشغر شہر قدیم شاہراہ ریشم پر واقع معروف ترین شہروں میں  ہے۔  مغربی سیاح اسے  ثقافتی  اعتبار سے وسط ایشیا کا سب سے محفوظ  شہر قرار  دیتے تھے جو صدیوں بعد اسی طرز تعمیر کا حامل تھا۔

سنکیانگ میں  ایک اندازے کے مطابق 15 ملین ترکی نسل کے مسلمان بستے ہیں جنھیں نسلاً یغور کہا جاتا ہے۔ ان کی عورتیں آج بھی نقاب اور حجاب کرتی ہیں۔ ان کے بازاروں میں مشرق وسطیٰ کے بازاروں کی طرح مصالحے، اشیائے خورو نوش اور تازہ تندور کی روٹیاں، اور مویشی کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے کاشغر کا تاریخی مرکز مسلمانوں سے بزور خالی کروا لیا۔ اس سے قبل شہر کے مرکزی علاقے کی تنگ گلیوں میں عورتیں حجاب پہن کر اور داڑھی والے مرد ٹوپیاں پہن کر روز مرہ کے کام انجام دیتے نظر آتے تھے۔ پچھلی چند دہائیوں میں چین نے ان مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ چین میں ایک دوسری نسل کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں جو ’ہوئی‘ مسلمان کہلاتے  ہیں۔ ان مسلمانوں کی اکثریت چینی النسل  ہے یا یہ آٹھویں صدی کے بعد باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی چینیوں سے شادیوں کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ یہ مسلمان چین میں مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہوئی مسلمانوں کی ثقافت چینی نسل کی ثقافت سے بہت قریب ہے۔

بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ چین کی مسلم آبادی سعودی عرب کی مسلم آبادی سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی مسلمانوں کا رابطہ باہر کی دنیا سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ چین سنکیانگ کے صوبے کو خود مختار صوبے کا نام دیتا ہے لیکن یہاں کا مسلمان ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے۔ مہذب ممالک میں مجرم قیدیوں کو بھی اس کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوتی ہے لیکن ترک نسل کا یہ چینی اپنے گھر اور محلوں میں بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اس وقت یغور علاقوں کی گلیاں سنسان پڑی ہیں۔ مرد اور نو عمر لڑکے بہت کم گھر کے باہر نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ نگرانی والی جگہ ہے۔

تیل اور گیس کے قدرتی وسائل سے مالا مال، یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کا رقبہ فرانس کے رقبے کا تین گنا بتایا جاتا ہے۔ یہ چین کا سب سے زیادہ ملیٹرائزڈ علاقہ بھی ہے جہاں ڈیجیٹل آلات کے ذریعے مسلمانوں کی مسلسل مانیٹرنگ ہورہی ہے۔ مسجدوں میںface recognition    ڈیوائسز لگی ہوئی ہیں جو مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تصویریں ریکارڈ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کتنے مسلمان مساجد میں نماز ادا کرنے کا رسک لیتے ہوں گے۔

امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم کے رہنما  عبدالمالک مجاہد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ٹورنٹو میں ایک یغور بہن سے ملاقات کی جنکی چھ خالائیں یا پھوپھیاں سنکیانگ میں رہتی ہیں۔ چھ کی چھے آنٹیوں کے شوہروں کو ری ایجوکیشن یا کنسٹریشن کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے، عورتیں اور بچے مردوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ بی بی سی کی وڈیو کے مطابق،  تشویشناک بات یہ ہے کہ اب تک ان کیمپوں میں منتقل شدہ افراد میں سے بہت کم کو  رہا کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی Genocide کی تعریف کے مطابق، کسی نسل کو جبری مذہبی عقائد یا ثقافت کی تبدیلی پر مجبور کرنا نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔

The post یغور مسلمانوں کا فرار appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

نام: مرجع خلائق
مولف: عبدالودود
قیمت:500 روپے
ناشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ، لاہور

اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ ہردور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور لوگوں کی نگاہوں میں آتے رہتے ہیں جو اس دور کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس اعلان ’’ اور اس شخص سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، نیک عمل کیا اور کہا کہ بے شک میں تو سراطاعت خم کردینے والوں میں سے ہوں‘‘ کی عملی تفسیر بن کر رب کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔

زیرنظرکتاب جس مرجع خلائق کے بارے میں ہے ، انھیں پاکستان کا اہم ترین شہر راولپنڈی مولانا قاضی محمد سرورکے نام سے گزشتہ کئی عشروں سے جانتا اور پہچانتاتھا۔ وہ جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور علمی و عوامی حلقوں میں بڑا نام و مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک دنیا کو اپنی شخصیت سے متاثرکیا۔ کتاب میں کم وبیش ایک سو لوگوں نے ان کا تذکرہ لکھاہے  اور خوب لکھاہے۔ ان سب تذکروں سے قاضی صاحب کی شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے، کسی نے انھیں ’پہاڑی کا چراغ‘ کہا، کسی نے انھیں دیکھا تو اسے قرون اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ سراپا روشنی ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی روشن کرنے کے لئے شبانہ روز محنت کرتے ہیں۔  کتاب کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ سعادت کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جن کے رخصت ہونے پر زمانہ رہ ، رہ کے روتاہے۔

٭٭٭

نام: کالاپانی (تواریخ عجیب)
مصنف: مولانا محمد جعفرتھانیسری مرحوم
قیمت:500روپے
ناشر:بک کارنر، جہلم
دومئی1864ء کو عدالت میں جج کی آواز گونجی:’’ مولوی محمد جعفر!!‘‘

’’تم بہت عقل مند، ذی علم، اور قانون دان، اپنے شہر کے نمبردار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقل مندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا۔ تمہارے ذریعے سے آدمی اور روپیہ سرکار کے دشمنوں کو جاتاتھا۔ تم نے سوائے انکارِبحث کے کچھ حیلتاً بھی خیرخواہی سرکارکا دم نہیں بھرا اور باوجود فہمائش کے اس کے ثابت کرانے میں کچھ کوشش نہ کی۔ اس واسطے تم کو پھانسی دی جاوے گی۔ میں تم کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا‘‘۔

مولوی محمد جعفر نے بے خوف کہا:’’جان لینا اوردنیا خدا کاکام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ رب العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کردے۔‘‘

تاریخ گواہ ہے… مولوی محمد جعفر کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور جج اگلے چند روز میں دنیا سے سدھارگیا۔

مولانا محمد جعفرتھانیسری تحریک سیداحمد شہید کے قافلے کے رہرو تھے، یہ تحریک جہاد اور تجدید احیائے دین کی تھی جس کے سرفروش اپنی گردنیں اپنی ہتھیلیوں پر لیے پھرتے تھے۔ سید احمد شہید نے طاغوت اور لرزتی ،کانپتی ، دم توڑتی سکھاشاہی حکومت کے خلاف تلواریں نیام سے نکال کر وقت کے پہیے کو گھمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان شدید ابتلاء و آزمائش میں تھے، زندگیاں اجیرن، مساجد اور اسلامی شعائر کی علانیہ  بے حرمتی کا دور دورہ تھا۔ مولانا جعفر اور ان کے ساتھیوں نے اس کے خلاف جدوجہد کی۔

مولانامحمد جعفر کی پھانسی کی سزا عمرقید میں بدلی اور انھیں’کالاپانی‘ بھیج دیاگیا جہاں انھوں نے قریباً دوعشرے گزارے۔ زیرنظرکتاب اسی طویل قید کی داستان ہے، بہت شاندار نثر میں نہایت عمدگی سے تمام حالات وواقعات بیان کئے گئے ہیں۔ قیدی کی زندگی اذیت ناک ہوتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ مولانا محمد جعفرتھانیسری کی یہ داستان بہت لطف بخشتی ہے۔ آپ ضرور پڑھئے گا۔

٭٭٭

نام: کبھی ہمت نہ ہارئیے
مصنف: سجاول خان رانجھا
قیمت:400روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم

سجاول خان رانجھا سینئر صحافی، سفرنامہ نگار اور دانشور ہیں۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے صحافت میں ماسٹرڈگری حاصل کی، پھر فرائی یونیورسٹی برلن جرمنی سے بھی اسی مضمون میں ماسٹر کیا۔بعدازاں دنیا کی دیگرکئی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے، پھرتے رہے۔ سفرنامہ نگاری ان کی بڑی پہچان ہے، ممتازمفتی، اشفاق احمد، ڈاکٹرسلیم اختر، پروفیسرمحمد منور، افتخارعارف، ڈاکٹروحید قریشی ، سیدضمیر جعفری، ڈاکٹرمسکین علی حجازی، ڈاکٹرعطش درانی، مستنصر حسین تارڑ، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹررضیہ سلطانہ، ڈاکٹرنجیبہ عارف، پروفیسراحمد رفیق اختر، محسن احسان اور منشایاد ایسے سرکردہ ادیبوں اور دانشوروں نے ان کے سفرناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔

زیرنظرکتاب کا عنوان ہی اس کا تعارف ہے، یہ نامساعد حالات میں کامیاب اور نامور بننے والے اہل ہمت کی ولولہ انگیز داستانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مصنف ایک شخص کی محض کہانی بیان کرکے آگے نہیں بڑھ گئے بلکہ نہایت دلنشین اندازمیں اس کی داستان عزم وہمت بیان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ، قاری کو غیرمحسوس طور پر کچوکے بھی لگاتے رہے، پھر ہر کہانی کے آخر میں  سوالات کی صورت میں قاری کو باقاعدہ بازوسے پکڑ کے کچھ کرگزرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔مثلاً ایک آدمی کے19گھوڑوں کی کہانی بیان کرکے پوچھتے ہیں کہ کسی مشکل کا سامنا کرتے ہوئے آپ اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پریشان ہوکرہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؟ ایک مشہور فاسٹ فوڈ چین کے بانی کرنل ہارلینڈ سینڈرز، مشہور امریکی شخصیت اوپراونفرے، ہیری پوٹرسیریز کی مصنفہ جے کے راؤلنگ کی کہانیاں بیان کرکے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کی زندگی کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے، جسے آپ دوسروں کے ساتھ شئیر کرنا پسند کریں گے؟ اور مجمسمہ سازمائیکل اینجلو کا قصہ بیان کرکے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بھی آج کے بعد  مائیکل اینجلو ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

اگر آپ بھی اپنے آپ کو کسی بندگلی میں محصور محسوس کرتے ہیں تو یہ کتاب آپ کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردے گی۔

٭٭٭

جو بچھڑگئے

’’تابوت لئے ہوئے ہیلی کاپٹر ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ ڈیرہ بگتی پہنچا، تابوت سیل بند تھا، چہرے والی جگہ پر شیشہ بھی نہیں لگایا گیاتھا، سو کوئی نہ دیکھ سکا کہ تابوت کے اندر کس کی میت ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ گزشتہ کئی گھنٹوں سے حراست میں لئے گئے مولانا محمد ملوک نے نمازجنازہ پڑھانے میں ڈیڑھ منٹ لیا، ایک ٹی وی چینل کے مطابق  پندرہ افراد نے نمازجنازہ پڑھی۔ اخبارنویس چیختے رہ گئے کہ ہمیں چہرہ دکھایاجائے لیکن ایسا کرنا وسیع ترقومی مفاد کے خلاف سمجھاگیا۔ دوچار مزدوروں نے تابوت قبر میں اتارا، مٹی ڈالنے کے بعد فاتحہ ضروری نہ سمجھی گئی، صحافیوں اور مزدوروں نے مل کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، چاروں طرف سیکورٹی فورسز کا گھیرا تھا، گلیوں اور سڑکوں پر بکتربند گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردی گئی تھیں۔ امن وامان کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا اور ’’ریاستی رٹ‘‘ کو چیلنج کرنے والے باغی کو انہی کی نگرانی میں سپردخاک کردیاگیا جن پر اس کے قتل کا الزام تھا۔ قبرکا دھانہ بند ہوتے ہی پاکستان کی فصیل دفاع فولاد کے سانچے میں ڈھل گئی‘‘۔

جناب عرفان صدیقی نے اپنے کالموں کے زیرنظرمجموعہ میں نواب اکبربگٹی کا تذکرہ کچھ اس اندازمیں کیا کہ آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔ منفرداسلوب کے حامل کالم نگار ایک طویل عرصہ صحافت کے میدان میں گزارنے کے بعد ایک عرصہ سے پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم کو مشاورت فراہم کرنے کے منصب پر فائز ہیں۔ اس اعتبار سے انھوں نے بہت کچھ ایسا دیکھا، سنا جو کروڑوں لوگوں کے علم میں نہیں ہے۔ ان کی معلومات، مشاہدات کالموں کی صورت میں اخبارات کی زینت بنے، ان میں سے پچاس کے قریب کالم زیرنظرمجموعہ کی شکل اور مجلدصورت میں منظرعام پر آئے ہیں۔ کتاب کے عنوان ہی سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ کالم جانے والوں کی یاد میں لکھے گئے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر مصنف نے سنا اور وہ بھی جنھیں دیکھا اور ایسے بھی جن کے ساتھ وقت گزارا۔

ذوالفقارعلی بھٹو سے بے نظیر بھٹو حتیٰ کہ آصف علی زرداری تک، پیپلزپارٹیکبھی عرفان صدیقی کے فکر وخیال میں جگہ نہیں بناسکی تاہم اس کے باوجود بے نظیر بھٹو سے ان کی محبت کے قصے زیرنظرکتاب میں موجود ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان،میاں طفیل محمد،مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسرغفوراحمد، نواب اکبربگٹی، قاضی حسین احمد سے ملاقاتوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ دل چاہتاہے کہ ان خوبصورت ملاقاتوں کی ایک ایک جھلک یہاں لکھ دوں لیکن تنگی داماں اس چاہت کو قید کردیتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ کتاب ہی خرید لیں، اس میں علامہ اقبال، مولانا ظفرعلی خان، آغا شورش کاشمیری، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا نعیم صدیقی، مفتی محمد جمیل خان، ڈاکٹر اسراراحمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، عباس اطہر، میاں محمد شریف، سلیم شہزاد، اشفاق احمد، احمد فراز، ارشاداحمد حقانی، عبدالقادرملا ایم ایچ ہمدانی، بشیراحمد بلور اور جسٹس رانا بھگوان داس کے علاوہ اپنی، بہت ہی اپنی ہستیوں کو بھی یاد کیا، والدہ، بھائی، دیگر اعزا اور اساتذہ کے شاندار تذکرے موجود ہیں۔ اس انتہائی مضبوط اور خوبصورت کتاب کی قیمت 800روپے ہے اور ناشر ہے: ’بک کارنر، جہلم‘ ۔

٭٭٭

 نام: سلطان زنگی کی بیوہ
مصنف:ڈاکٹر اختر حسین عزمی
 قیمت:260 روپے
ناشر: منشورات منصورہ،ملتان روڈ ،لاہور042-35252211

ڈاکٹر اختر حسین عزمی بنیادی طور پر ایک استاد ہیںاور طالبعلموں میں علم وعمل کی جوت جگانے میں روز و شب مصروف رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان میں خطابت کا ملکہ بھی رکھا ہے۔ کسی بھی موضوع پر سامعین کو پُرمغز گفتگو سے مسحور اورمحصورکردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جس موضوع پر قلم بھی اٹھایا، اپنا سکہ جمایا۔ان کی کتب ’مولانا امین احسن اصلاحی حیات و افکار‘،’امام شافعی کے علمی سفر‘،’عظمتِ کردار‘،’نیل کا مسافر‘،’فطرت ِ انسانی اور دعوت و تربیت‘پڑھنے والوں کو سیراب کر رہی ہیں۔ ابانھوں نے ’سلطان زنگی کی بیوہ‘ پر قلم اٹھایا اور تاریخِ اسلامی کے اس روشن کردار سے قارئین کو آگاہ کرنے کا حق ادا کردیا ہے۔

ڈاکٹر عزمی خود تاریخِ اسلامی کے اس روشن کردار کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں:’’1099ء میں قبلہ اول بیت المقدس پرصلیبی طاقتوں کا قبضہ ،مسلمانوں کی کمزوری کے باقاعدہ اظہار کاایک نقطہ ء آغاز تھالیکن ان کا زوال اور بگاڑ تو بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اتنا بڑا سانحہ اس وقت وقوع پذیر ہو ا تھاجب مسلمان امرا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صلیبیوں کے مددگار بن گئے تھے۔ قبلہ اول کی طرف پیش قدمی کرنے والے صلیبیوں کو بہت سی ریاستوں کے مسلمان امرا نے اپنی اپنی ریاستوں سے گزرنے کے لیے نہ صرف راہداری دی تھی بلکہ رسد، جسے آج کے زمانے میں لاجسٹک سپورٹ کہتے ہیں، وہ بھی فراہم کی تھی۔ مسلم معاشروں میں مسلمان امرا کو اتنی لاتعلقی اور بے غیرتی کی جسات اس وقت پیداہوئی جب مسلم معاشروں میں منافقت ، بے مقصدیت اور بے حسی کی معاشرت پروان چڑھ چکی تھی۔

ایسے میں شام کی ایک چھوٹی سی ریاست کا حکمران عمادالدین زنگی اس احساسِ زیاں کی علامت بن کر ابھرا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نورالدین زنگی نے نہ صرف اپنی سلطنت کو توسیع و استحکام بخشا بلکہ وہ احیائے اسلام کے لیے مضطرب روحو ں کا مرکزِ توجہ بن گیا۔ اس کی وفات کے بعد بظاہر حالات وہیں پہنچ گئے تھے،جہاں سے نورالدین زنگی کے باپ نے آغاز کیا تھا۔ نورالدین زنگی کا کمسن بیٹا مفاد پرست امرا کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا توقدرتِ حق نے صلاح الدین ایوبی کو سلطان زنگی کے مشن کا وارث بنا کر کھڑا کر دیا۔ عظمتِ اسلام کے مشن سے منحرف سلطان زنگی مرحوم کے بیٹے کے مقابلے میں خود اس کی ماں۔۔۔یعنی سلطان زنگی کی بیوہ ۔۔۔۔۔نے جس طرح اندورنی محاذ پر مزاحمت کر کے دمشق کی سلطنت کے بگڑے ہوئے تشخص کو پھر سے بحال کر دیایہ ہماری تاریخ کا اہم باب ہے۔‘‘

کتاب کاسرورق خوب صورت اور طباعت کا معیار اعلیٰ ہے۔ اسلامی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک تحفے سے کم نہیں۔

مصباح علی سید کی دوکتابیں
ڈائجسٹوں کی دنیا کی معروف نام ’مصباح علی سید‘ کی کہانیوں کو پڑھا جائے تو  ان کے لکھے لفظ بولتے محسوس ہوتے ہیں، وہ خوشی سے کلکاریاں بھی مارتے ہیں، ناچتے ہیں، گاتے ہیں اور کدکڑے بھی بھرتے ہیں۔ اچھے لکھاری کے لفظوں کی یہی تاثیر ہوتی ہے کہ وہ اس کہانی میں اس طرح گم ہوتاہے کہ اسے زمان ومکان کی خبر نہیں رہتی۔ آپ ’مہجورنشیمن‘ ناول ہی کو پڑھ لیں جس کی کہانی کے کردار ’ازمیر‘ اور ’مریم‘ آسٹریلیا کے شہر وکٹوریہ میں رہتے ہیں جبکہ ان کی اکلوتی بیٹی روائیبہ شادی کی گیارہ سال بعد پیدا ہوئی، وہ غیرمعمولی طور پر خوبصورت ہوتی ہے، اسی کہانی کا ایک کردار جندب بھی ہوتاہے جو ازمیر کے پرانے دوست رضاحیات کا بیٹا ہے، آسٹریلیا میں پڑھ رہاہوتاہے۔

کہانی میں فیصل آباد کے ایک نواحی گائوں کے زمیندار اور اہم سیاسی شخصیت میرذکا بھی ہوتے ہیں،  جن کی بیوی آئمہ روایتی زمیندارنی اور حویلی پر حکمرانی کرنے والی خاتون ہے، اس کی ساس فالج کی مریضہ ہوتی ہے۔ زینب اسی حویلی کے جدی پشتی خدمت گزاروں کی بیٹی ہوتی ہے،وہ اپنی مالکن کے بیٹے حنبل کی پُرکشش شخصیت کے سحر میں بُری طرح جکڑی جاتی ہے۔  ایک بڑی کہانی میں شامل یہ سب کہانیاں کیسے پروان چڑھتی ہیں، پھر کیا گل کھلاتی ہیں، یہ سب کچھ آپ پرساڑھے چارسو صفحات پڑھنے کے بعد ہی کھلے گا۔ مصنفہ کو یقین ہے کہ اعتماد، خلوص اور محبتوں میں بسے رشتوں کی تکونی بھول بھلیوں جیسی اس کہانی کے ہر پیرائے میں قاری اس قدر گم ہوجائے گا کہ راستے کی تلاش کا تجسس اسے یہ کتاب میز پر واپس رکھنے نہیں دے گا حتی کہ چہرے پر پھسلتے آنسو مسکان میں تبدیل ہوں گے اور ناول ختم ہوگا لیکن قاری  اس کے سحر میں کئی دنوں تک گرفتار رہے گا۔ اس ناول کی قیمت 900روپے ہے۔

’’وصل جاناں‘‘ مصباح علی سید کی پندرہ کہانیوں کا مجموعہ ہے،’ وصل جاناں‘،’ اسے جنون قلب‘،’ سیماب تھے لفظ‘،’ میں بنت جنوں‘،’ رشتہ تانے بانے کا‘،’ کونپلیں یہیں سے پھوٹیں گی‘،’ میرے لفظ کو زبان ملے‘،’اجنبی کے نام‘،’ زندگی کنارے‘،’ دل تو بچہ ہے جی‘،’ رشک چمن‘،’ آنکھوں کا پانی‘،’ اک رات کا رنگ‘،’ لہنگا ہوا مہنگا‘ اور’ تبدیلی‘۔ یہ سب کہانیاں ثابت کرتی ہیں کہ مصباح علی سید کو ایسی خداد داد صلاحیت حاصل ہے جس سے ان کے قلم سے دلوں کو چھونے والی کہانیاں نکلتی ہیں۔ زیرنظرمجموعے کی قیمت 400روپے ہے، دونوں کتابیں ’القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردوبازار، لاہور‘ سے منگوائی جاسکتی ہیں۔ (تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


بابا جی نے جیتے جی ہی مجھے قبر میں اتار دیا

$
0
0

قسط15

بابا جی حضور انتہائی باکمال انسان تھے، انہوں نے مجھ جیسے غبی کو جو کچھ عنایت کیا اس کا تذکرہ محال ہے اور کیا بھی جائے تو اس سے کسی اور کا کیا لینا دینا، سو اسے رہنے دیتے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے زمین کی پشت سے اٹھا کر جیتے جی ہی زمین کے پیٹ میں اتار دیا تھا، انہوں نے ہی مجھے بتایا اور مشاہدہ بھی کرایا کہ یہ ہے زمین، دیالو زمین اور سب کے عیوب چھپا لینے والی زمین اور جب ہاں اپنے عزیز ترین رشتے ناتے والے بھی ہمیں قبول کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے انکاری ہوجائیں اور اصرار کریں کہ بس اب اسے جلد لے چلو اور سپرد خاک کردو، تو یہی دیالو زمین ہمیں اپنے اندر ہمارے عیوب سمیت پناہ دیتی ہے، ایسی سخی اور پردہ پوش زمین، اسی لیے تو خالق کائنات نے اس پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے۔

میں تو سدا کا لاابالی، آوارہ اور گم راہ ہوں، کل کیا ہوگا میں جانتا نہیں اور نہ ہی اس کا اشتیاق رہا کہ میرے لیے لمحۂ موجود ہی زندگی ہے، بس لمحۂ موجود۔ ایک دن میں کام پر چلا گیا، جب مغرب سے ذرا پہلے میں واپس ان کے پاس قبرستان پہنچا، کھانے پینے کا سامان میں روز لے کر آتا تھا، بابا جی اکیلے بیٹھے تھے۔ تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی تو میں نے پوچھا، کیا ہُوا بابا جی آج تو آپ اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی آیا نہیں کیا اور تھکے ہوئے بھی لگ رہے ہیں، تو مسکرائے اور کہا آئے تھے کچھ لوگ لیکن میں کہا آج نہیں کل ملوں گا۔ میں نے پوچھا خیریت تو تھی ناں، کیا طبیعت ناساز ہے آپ کی۔ تو کہنے لگے نہیں پگلے میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ مجھے پیار سے ہمیشہ پگلے ہی کہتے ہیں۔

تو پھر آخر سارا دن کیا کرتے رہے آپ؟ میں نے پوچھا۔ بس قبر کھود رہا تھا ناں، انہوں نے کہا۔ یہ کام کب سے شروع کردیا آپ نے، کس کی قبر اور گورکن کہاں چلا گیا، میں نے بے چینی سے پوچھا۔ تُو پگلا ہی رہے گا، گورکن تو مُردوں کی قبریں کھودتا ہے مجھے تو زندہ کی قبر کھودنا تھی ناں۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے تو میں ان کے سَر ہوگیا، کیا کہے جارہے ہیں، کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا مجھے، کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ۔ بہت عجلت میں ہے تُو پگلے! اب سُن! میں تیری قبر کھود رہا تھا بل کہ کھود کر تیار بھی کردی ہے اب اس میں بس تیری کمی ہے اور اسے تیرا انتظار، پکار رہی ہے تجھے کہ میرا انتظار ختم کردے اور آجا مجھے بھر دے۔

مجھے حیرت تو ہوئی اور حیرت کا تو میں عادی ہوگیا تھا، روز ہی کوئی ایسی بات ہوتی جو مجھے حیرت کے سمندر میں غوطے دیتی اور میں تھک ہار کر خاموش ہوجاتا۔ مجھے خاموش دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا: کیا ہوا پگلے، کیوں خاموش ہوگیا۔ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تو بس خاموشی ہی بھلی بابا جی حضور۔ اوہو اتنی جلدی ہے تجھے، تو چل بتاتا ہوں تجھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے، ہمارے ٹھکانے سے بس چند قدم پر ایک نئی قبر بنی ہوئی تھی، بالکل تازہ قبر کی طرح، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، پھر ارشاد فرمایا، لے پگلے دیکھ لے یہ ہے تیری قبر، اب تجھے یہیں رہنا ہوگا، زمین کی پشت پر تو بہت رہ لیا اب ذرا اس کے پیٹ میں بھی رہنا سیکھ۔ میں کبھی قبر اور کبھی انہیں دیکھنے لگا، کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا مجھے، آخر وہ بولے۔ چل کھانا کھائیں اور پھر تجھے دفنائیں۔ ہم نے کھانا کھایا اور پھر انہوں نے میرے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ کر کچھ پڑھنا شروع کیا اس کے بعد کھڑے ہوئے اور ایک ٹہنی سے میرے گرد دائرہ کھینچ دیا۔

اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑا اور اس تازہ قبر کے ساتھ ہی جو بڑا سا سوراخ بنا ہوا تھا، اس میں داخل ہونے کا حکم صادر کیا، میں بغیر کوئی سوال کیے اس سوراخ سے قبر میں داخل ہوگیا۔ بابا جی کی آواز شفیق آواز گونجی، دیکھ جب تک میں نہ کہوں باہر مت نکلنا، آرام سے سوجانا، یہی تو ہے اصل ٹھکانا۔ میں قبر میں جاکر لیٹ گیا اس سوراخ سے ہوا اور تھوڑی سی روشنی اندر آرہی تھی، میں سوچنے لگا یہ اچانک ہی بابا جی کو کیا سوجی کہ مجھے جیتے جی ہی قبر میں اتار دیا، تھوڑی دیر بعد میں اندر کے ماحول سے ہم آہنگ ہوگیا تھا کچھ ہی دیر میں نیند کی آغوش میں تھا، ایسی گہری نیند مجھے اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، فجر کی اذان سے خاصا پہلے مجھے کہیں دُور سے بابا جی کی شفیق آواز سنائی دی، اب باہر بھی آجا، کب تک سویا رہے گا پگلے اور میں اس سوراخ سے باہر نکل آیا، بابا جی نے مجھے گلے لگا کر میری پیشانی پر بوسہ دیا اور ہم نماز کی تیاری کرنے لگے۔ پھر تو یہ معمول بن گیا بابا جی قبر کے پاس اور میں قبر کے اندر سونے لگا۔ کئی ماہ ایسے ہی گزر گئے، بابا جی کی بنائی ہوئی قبر آج بھی موجود ہے اور اس پر میرے نام کا کتبہ بھی نصب ہے، میں اب بھی وہاں جاتا اور قیام کرتا ہوں، اس دوران جو کچھ ہوتا رہا اسے میں بتانے سے معذور ہوں، اجازت ملی تو بتاؤں گا۔

دن گزرتے چلے گئے، جنہیں گزرنا ہی ہے، وقت کبھی نہیں رکا کہ اس کی فطرت ہے گزرنا، اور سچ پوچھیں تو یہاں کسی کو ثبات نہیں بس فنا ہے ، ہر شے نے بس گزر ہی جانا ہے۔ اور پھر ایک دن بابا جی حضور نے مجھے سفر کا حکم دیا۔ کہاں جاؤں میں نے پوچھا، تو جواب ملا وہاں جہاں تجھے کوئی نہیں جانتا ہو۔ اور واپس کب آؤں میں نے دریافت کیا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جب واپس بلانا ہوگا تو بلا لیں گے کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ اور میں حکم کی تعمیل میں لگ گیا۔ سچ ہے سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ پھر میری روانگی کا دن آپہنچا، بابا جی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا اور پھر میں کینٹ اسٹیشن پر راول پنڈی جانے والی ٹرین کا انتظار کررہا تھا۔

یہ اسٹیشن بھی کیسی جگہ ہے جہاں لوگ ملتے ہیں اور بچھڑتے ہیں، جہاں قہقہے بھی ہیں اور اداسی بھی۔ جہاں ملاپ بھی ہے اور جدائی بھی اور ہُوک بھی۔ اس اسٹیشن سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ جب میں اپنے امی ابو کو تلاش کرتا تھا کہ شاید کوئی مجھے پہچان لے اور گھر پہنچ کر مار کھاتا تھا ہاں یہ اسٹیشن مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور قُلی بھی جو لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ’’قُلی‘‘ کے نام سے ہمارے بچوں جیسے معصوم اور پیارے یحیٰی بابا نے ایک مختصر ناولٹ بھی لکھا ہے، کبھی کار جہاں سے فرصت ملے تو ضرور پڑھیے گا اور سر دھنیے گا کہ کیا کمال کیا ہے بابا محمد یحیٰی خان نے، بابا یحییٰ بہ ذات خود اک کائنات ہیں، لوگ ابھی انہیں جانتے ہی کب ہیں، وہ تو بس ان کا ایک رخ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا باکمال اور شدھ لکھاری ہیں، انہوں نے اجازت دی تو یہ ان کا بگڑا ہوا بچہ ضرور ان کے کئی رخ آپ کے سامنے رکھ دے گا۔

میں اکثر سوچتا ہوں یہ ریل کی پٹری بھی کیا ہے۔ ساتھ بھی اور جدا بھی۔ پھر ٹرین آگئی اور میں اﷲ جی کا نام لے کر اس میں سوار ہوگیا۔ راول پنڈی کا ٹکٹ میں نے خرید لیا تھا لیکن میری منزل کون سی تھی یہ میں نہیں جانتا تھا۔ بس بابا جی کا حکم تھا اور میں تعمیل میں لگ گیا تھا۔ جی جاننے سے زیادہ ماننا اہم ہوتا ہے۔ یہ ٹرین بھی بہت کمال کی ہوتی ہے۔ ایک انجن اتنے سارے ڈبوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے اس میں مختلف مذاہب، عمر، رنگ و نسل کے انسان سوار ہوتے ہیں۔ جو ایک ساتھ سفر شروع کرتے ہیں لیکن ان کی منزلیں جدا ہوتی ہیں۔ یہ بابا لوگ بھی ٹرین کا انجن ہوتے ہیں، وہ اکیلے اور تنہا اتنے سارے لوگوں کو بلا تفریق و مذہب و ملت رنگ و نسل کے اپنی منزلوں پر پہنچاتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے بھی نہیں۔

اس لیے تو لوگ انہیں مرنے کے بعد بھی نہیں بھولتے، انھیں یاد رکھتے ہیں، وہ بہ ظاہر مرجاتے ہیں۔ مرتے کہاں ہیں وہ۔ مجھے کھڑکی کے ساتھ علیحدہ ایک سیٹ مل گئی تھی اور میرے سامنے والی دوسری سیٹ پر ایک سانولی سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر وسل بچی اور ٹرین نے اسٹیشن چھوڑنا شروع کیا۔ بہت سارے ہاتھ بلند تھے اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، کچھ چہرے شاداں تھے اور کچھ اداس، ایسی ہی ہے دنیا کبھی خوشی کبھی غم، انہی کے درمیان میں ہے زندگی، تھوڑی دیر خاموشی چھائے رہی، ٹرین اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی اور منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ پھر کھسر پھسر ہونے لگی اور تعارف شروع ہوا۔ انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔ اسے اک ہم سفر کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وقتی ہی ہو، میں خاموشی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا اتنے میں میرے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنا بیگ کھولا اور پھر بالوں کو کھول کر کنگا کرنے لگی۔ سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور وہ سب سے بے نیاز تھی۔ اس وقت سماج اتنا کھلا نہیں تھا۔ کسی لڑکی کا سر عام اس طرح بالوں کو کھول کر کنگا کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔

لیکن وہ خود میں مگن تھی۔ کیا نام ہے تمہارا کہاں جارہے ہو تم؟ اچانک ہی اس نے مجھ سے پوچھ لیا، نام تو میرا سلطان ہے، جا کہاں رہا ہوں یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیا مطلب تمہیں نہیں معلوم کہ تم کہاں جارہے، کیا کرتے ہو۔ مزدوری۔ پڑھتے نہیں ہو کیا؟ نہیں تم کہاں جارہی ہو؟ میں بمبئی میں رہتی ہوں اور وہاں میڈیکل کالج میں پڑھتی ہوں۔ میرا نام کنول ہے۔ اچھا اچھا وہی کنول جو کیچڑ میں کِھلتا ہے۔ ہاں وہی، وہ مسکرائی تو یہاں کیا کررہی ہو؟ اپنے ابو سے ملنے آئی تھی وہ ایبٹ آباد چلے گئے اب میں وہاں جارہی ہوں، میں نے اب تک اپنے ابو کو دیکھا نہیں۔ کیوں نہیں دیکھا؟ میں نے پوچھا۔ بس نہیں دیکھا۔ میرے ابو پاکستانی ہیں، بہت عرصے پہلے وہ انڈیا گئے تھے تو انھوں نے وہاں میری امی سے شادی کرلی، پھر وہ امی کو چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں شادی کرلی۔ ان کے پاکستان آنے کے بعد میں پیدا ہوئی، ہمارا سارا خاندان امی سے ناراض ہوگیا پھر نانا نے انھیں گھر سے نکال دیا۔ میں نے جب تھوڑا ہوش سنبھالا تو امی ایک دفتر میں کام کرتی تھیں ہم ایک بہت چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے، بس میں اور امی، بہت مشکل دور دیکھا ہم نے، ہم دونوں اک دوسرے کے دوست ہیں، مشکلات تو بہت آئیں لیکن وہ زندگی کے دن کٹ ہی گئے۔ میں نے انٹر کے بعد ابو کو ڈھونڈنا شروع کیا جس دوست نے ان کی شادی کرائی تھی وہ انڈین ہیں۔ انھوں نے میری بہت مدد کی امی نے تو بہت منع کیا تھا لیکن میں انہیں دیکھنے کراچی پہنچ ہی گئی۔

ان کے گھر پہنچی تو ان کے بچوں نے کہا کہ وہ تو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں اب وہاں جارہی ہوں۔ عجیب سی کہانی تھی اس کی۔ تم کیوں دیکھنا چاہتی ہو اپنے ابو کو اور ایسے ابو کو جو تمہاری امی اور تمہیں چھوڑ آئے۔ میرا سوال سن کر وہ خاموش ہوگئی، اسے بہت مشکل ہورہی تھی پھر بھی اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ وہ مسکرائی، کبھی آپ نے آنسوؤں بھری مسکراہٹ دیکھی ہے ایسی مسکراہٹ کا درد بھی وہی جانتا ہے جو خود اس سے گزرا ہو۔ تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ بولی میں انھیں دیکھنا چاہتی ہوں وہ کیسے انسان ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔ وہ کیا مجبوری تھی اور اگر وہ واقعی مجبوری تھی تو میں انھیں معاف کرکے ان کے گلے لگ کر رونا چاہتی ہوں، بس اور کچھ نہیں۔ کیا وہ تمہیں سب کچھ سچ سچ بتادیں گے، میں نے ایک اور سوال اس کے سامنے رکھ دیا۔ اگر وہ جھوٹ بھی بولیں گے تب بھی میں اس پر یقین کرلوں گی وہ آخر میرے ابو ہیں۔ عجیب سی بات کی تھی اس نے۔ انسان اتنا وسیع الظرف بھی ہوتا ہے کیا، ہاں کبھی وہ بہت وسیع الظرف ہوتا ہے اور کبھی انتہائی کم ظرف اور سنگ دل، انسان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔

یہ لو اس نے بسکٹ کا پیکٹ میرے سامنے کیا اور میں نے ایک بسکٹ لے کر اسے چھیڑا۔ اب چائے کہاں سے آئے گی۔ تم بہت بے صبرے ہو۔ میرے تھرمس میں چائے بھی ہے اور وہ ایک کپ میں چائے نکالنے لگی۔ میرے بیگ میں سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ میری امی نے مجھے سکھایا ہے کہ اپنا سب کچھ ساتھ لے کر چلو۔ تم نے ایبٹ آباد دیکھا ہے، اس نے پوچھا۔ ہاں کیوں نہیں دیکھا بہت اچھی جگہ ہے وہ، میں نے کہا۔ تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ لیکن میں تو پنڈی جا رہا ہوں، کتنی دور ہے پنڈی سے ایبٹ آباد؟ زیادہ دور تو نہیں ہے میں نے کہا تو بس ٹھیک ہے تم میرے ساتھ ایبٹ آباد چلو گے۔ پھر واپس آجانا پنڈی، اس نے خود ہی سب کچھ طے کرلیا۔ حیدر آباد کے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو میں اترنے لگا۔ کہاں جارہے ہو تم؟

ویسے ہی ذرا ٹہلنے جارہا ہوں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے آرام سے بیٹھو، اس نے کہا۔ لیکن میں سدا کا خود سر میں نے اس کی بات نہیں مانی اور اسٹیشن پر ٹہلنے لگا۔ وہ دروازے میں کھڑی مجھے دیکھنے لگی اور پھر اس کی آواز آئی، چلو بس اب واپس آجاؤ، گاڑی چلی جائے گی۔ اور مجھے مجبوراً واپس آنا پڑا۔ تم میری فکر کرنا چھوڑ دو، میں نے تلخ ہوکر کہا۔ تم بھی میری نہیں سنو گے اور اس کی پلکیں پھر بھیگ گئیں۔ اچھا ٹھیک ہے مانوں گا۔ میں عجیب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ پنڈی تک کا اتنا لمبا سفر اور اس کی ہدایات پر عمل میرے لیے جان کا آزار بن گیا تھا لیکن میں اس سے وعدہ کرچکا تھا۔

ٹرین دوسرے دن رات کے گیارہ بجے پنڈی پہنچی۔ ہم دونوں نیچے اترے۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو سناٹا تھا بس اکا دکا گاڑیاں موجود تھیں یا تانگے، میں نے ایک تانگے والے سے پوچھا ایبٹ آباد کی گاڑی کہاں سے ملے گی۔ بابو جی اس وقت تو مشکل ہے صبح فجر میں ملتی ہے اور یہاں اسٹیشن سے ہی گزرتی ہے۔ صبح اتنی سواریاں بھی نہیں ہوتیں‘‘ اب رات کہاں گزاری جائے میں سوچنے لگا۔ میں اکیلا ہوتا تو میرے لیے کوئی مشکل نہیں تھی لیکن اب تو میرے ساتھ کنول بھی تھی۔ چلو اسٹیشن پر ہی رات گزارتے ہیں، وہ بولی چلو ناں باتیں کریں گے کٹ ہی جائے گی رات، اس نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔ کتنی باتیں کروگی، تمہاری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے، سفر کی تھکن نے اسے نڈھال کردیا تھا۔ تھوڑی دیر تو وہ باتیں کرتی رہی اور میں بے زار ہوکر سنتا رہا۔ آخر وہ کتنا جاگتی اسے نیند آنے لگی۔ مجھے تو بہت نیند آرہی ہے تو سوجاؤ، میں نے کہا۔ تم کہاں سوگے؟ تم میری فکر چھوڑ دو اپنی کرو اور سوجاؤ۔ تو پھر تمہاری فکر کون کرے گا۔

وہ عجیب پاگل سی لڑکی تھی۔ میرے اصرار پر وہ چادر اوڑھ کر بینچ پر لیٹ گئی اور میں اس کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ سوگئی، نیند بہت ظالم ہے، آدھی موت ہوتی ہے یہ۔ وہ سوگئی تو میں اپنی نامعلوم منزل کا سوچنے لگا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی، اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ آخر مجھے اسے جگانا پڑا۔ صبح ہوگئی کیا؟ کہہ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ تم کہاں سوئے تھے؟ بس سوگیا تھا۔ کہاں؟ بس یہیں۔ تم رات بھر نہیں سوئے ناں۔ ہر لڑکی میں ایک ماں ہوتی ہے۔ ہم نے ناشتہ کیا اور اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ کچھ دیر بعد ایک ویگن آگئی اور ہم دونوں ایبٹ آباد جانے کے لیے اس میں سوار ہوگئے۔ وہ تو خاموش رہ ہی نہیں سکتی تھی لیکن وہ خاموش تھی۔ پھر اچانک وہ بولی، میرے ابو کیسے ہوں گے؟ اور اگر وہ وہاں بھی نہ ملے تو کیا تم مجھے چھوڑ کے چلے جاؤگے؟

تمہارے ابو بہت اچھے ہوں اور وہ ہمیں ضرور ملیں گے۔ میری یہ بات سن کر وہ پھر خاموش ہوگئی۔ تمہیں یہ کیسے پتا کہ ابو بہت اچھے ہوں گے اور وہ مجھے ملیں گے بھی۔ بس ویسے ہی معلوم ہوگیا مجھے، تم دیکھ لینا۔ وہ کچھ مطمئن ہوکر پھر خاموش ہوگئی۔ منزل کوئی بھی ہو، دائمی ہو یا عارضی، انسان یا تو بہت چہکتا ہے یا پھر بالکل خاموش ہوجاتا ہے۔ پورے راستے وہ خاموش رہی، نہ جانے کیا کیا خدشات اسے ستا رہے تھے یا وہ اس خوشی کو محسوس کر رہی تھی جو اتنے انتظار کے بعد اسے ملنے والی تھی۔

The post بابا جی نے جیتے جی ہی مجھے قبر میں اتار دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

’آسان اردو‘ ہماری قومی مشکل

$
0
0

جنرل پرویزمشرف نے میڈیا کو بلاجواز آزادی نہیں دی، بلکہ اُس کے دو بنیادی اسباب تھے۔ پہلا یہ کہ عالمی سطح پر صورتِ حال تبدیل ہوچکی تھی اور فوج کے براہِ راست اقتدار میں آنے کا معاملہ اب دنیا بھر میں آسان نہیں رہا تھا۔

وہ مقتدر ممالک جو پس ماندہ دنیا میں اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے ڈکٹیٹرز کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرتے یا اُن کو شہہ دیتے تھے، اب یہ کام اس انداز سے کرنے سے گریزاں تھے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل اور اہداف کے حصول کے لیے زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سمجھ لیے تھے۔ پھر یہ کہ اس دوران میں دنیا بھر میں میڈیا اور سیٹیلائیٹ کا استعمال بہت بڑھ گیا تھا۔ لہٰذا اُس کے توسط سے ہونے والے خبروں کے پھیلاؤ کو روکنا کسی طور ممکن نہیں رہا تھا۔ اس لیے یہ طے تھا کہ اگر جنرل پرویزمشرف اپنے میڈیا کو آزادی نہ دیتے تو بھی دنیا کے اور چینلز کو تو حقیقتِ حال بیان کرنے اور خبروں کے پھیلنے کو نہیں روک سکتے تھے۔

دوسرے یہ کہ وہ چوںکہ جمہوریت پر (چاہے وہ جیسی بھی تھی) شب خون مار کر اقتدار میں آئے تھے اور خود اُن کا اور اُن کے اقتداری ساتھیوں کا بیانیہ اس اقدام کو عوامی حقوق کا تحفظ قرار دے رہا تھا اور ملکی دفاع کی ضمانت بتا رہا تھا، اس لیے وہ عوام میں یہ تأثر عام کرنا چاہتے تھے کہ وہ اقتدار میں بحیثیت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نہیں ہیں، اور اسی وجہ سے اُن کا طرزِعمل بھی سابقہ ڈکٹیٹرز جیسا نہیں ہے۔ اسی خیال سے میڈیا کو آزادی دی گئی کہ اس طرح اُن کا عوامی امیج بہتر ہوگا اور فوج کے خلاف جذبات نہیں ابھریں گے۔ ایک حد تک انھیں اس کا فائدہ بھی ہوا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ کوشش بھی کرتے تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا جیسی قابو کرنے والی فضا نہیں بناسکتے تھے۔ اُس وقت تک الیکٹرونک میڈیا وہ قوت حاصل کرچکا تھا کہ دیر سویر سے ہی سہی، اُسے بہرحال آزاد ہو کر رہنا تھا۔

خیر، جب میڈیا کو آزادی ملی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ دیکھ بھال کر اور ذمے داری سے اس کو استعمال کرتا، لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہ خود ویسے ایک سنجیدہ، غور طلب اور اہم موضوع ہے، جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے، سو ہم وہ کسی اور موقعے پر کریں گے۔ فی الحال واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

میڈیا نے گزشتہ بارہ پندرہ برسوں میں خاص طور سے اس تأثر کو پھیلایا ہے کہ ہماری قومی زبان مشکل ہے۔ اس میں (میڈیا کے بقول) بہت ’’سخت الفاظ‘‘ ہیں، جو ’’زبان پر نہیں چڑھتے‘‘ اور جن کے معنی و مفہوم سے بھی آسانی سے واقفیت نہیں ہوتی اور اُن کا محلِ استعمال واضح نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے سب لفظوں کو ترک کرکے ان کے ایسے متبادل استعمال کیے جائیں جو ’’سادہ‘‘ اور ’’عام فہم‘‘ ہوں۔ یہ بات بڑے تواتر اور تیقن سے کہی گئی ہے۔ صرف کہی نہیں گئی، بلکہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہم آج میڈیا پر جو زبان سن رہے ہیں، وہ ہمارے سامنے ہے۔ میڈیا پر ہم کیا زبان سن رہے ہیں، اُس کے دوچار نمونے بھی لگے ہاتھوں دیکھتے چلیے:

٭آج ہماری ینگ جنریشن بہت پرومسنگ ہے۔ ہمیں اُس پر ٹرسٹ کرنا اور اسے پروموٹ کرنا چاہیے۔

٭ملک میں اسٹریٹ کرائم کا ریشو ایک بار پھر تیزی سے انکریز ہورہا ہے۔ یہ ایک سیریس ایشو ہے۔

٭ہر ایک پرسن جب شام کو گھر آتا ہے تو اسے اینٹرٹینمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ فیملی کے ساتھ ریلیکسڈ ٹائم گزار سکے۔

٭یہ دنیا بہت چینج ہوچکی ہے۔ پرانا سسٹم اب نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنی اپروچ بدلنی ہوگی، نئے نورمز کو اوپٹ کرنا ہوگا۔

پہلے تو آپ ان جملوں کی ساخت پر غور کیجیے، جو الفاظ ان میں استعمال کیے گئے اور جس طرح وہ استعمال ہوئے ہیں، اس پر توجہ دیجیے۔ دیکھا جائے تو یہ فقرے اظہار کی سطح ہی کو نہیں، بلکہ ذہنی کیفیت کو بھی پوری طرح بیان کررہے ہیں۔ یعنی صرف اظہار و ابلاغ کا معاملہ ہی چوپٹ نہیں ہے، بلکہ ان فقروں کو سن کر صاف صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بولنے والا ذہنی الجھن یا دباؤ کی کیفیت میں ہے۔ وہ مسائل کو محسوس تو ضرور کررہا ہے، لیکن اُس کی شخصیت انھیں سہارنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اِس لیے کہ یہ سکت کسی شخص میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اُس کی روح توانا اور اعصاب مستحکم ہوں۔ یہ توانائی اور استحکام صرف اور صرف اپنی تہذیب اور اس کی اقدار سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ہر زندہ زبان دراصل ایک زندہ تہذیبی قدر کا درجہ رکھتی ہے اور ایک ایسی توانائی کی حامل ہوتی ہے جو اپنے بولنے والے کو اعتماد کی قوت عطا کرتی ہے۔ وہ اپنے بولنے والے کو صرف الفاظ فراہم نہیں کرتی، ان کے ساتھ معنی کی قوت اور احساس کی حرارت بھی مہیا کرتی ہے۔ وہ اُسے ایک ایسی زمین بھی دیتی ہے جس پر مضبوطی سے قدم جما کر وہ اپنی بات تیقن سے کہتا ہے اور وہ ہوا بھی فراہم کرتی ہے جو اُس کے خیالات اور آواز کو آگے لے کر جاتی ہے اور ایک شخص کی زبان کو پورے معاشرے کا احساس بنا دیتی ہے۔

اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سارے ناموافق حالات کے باوجود اردو آج بھی ایک زندہ اور توانا زبان ہے۔ ہر زندہ زبان وقت کے تقاضوں کو قبول کرتی اور ان کے تحت اپنے اندر لازمی تبدیلیوں کے عمل سے بھی گزرتی ہے۔ اردو ایسی ہی ایک زبان ہے۔ ہمارے سیاسی مسائل اپنی جگہ اس زبان کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں کھڑی کرسکتے تھے، وہ انھوں نے ہر طرح سے کی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ آئین کے مطابق تو بے شک اردو ہماری قومی زبان ہے، لیکن گذشتہ ستر اکہتر برسوں میں بھی اسے سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے قبول نہیں کیا گیا۔ اسمبلی میں اس کام کے لیے قراردادیں پیش ہوئیں، یادداشت گزاری گئیں۔

یہی نہیں، بلکہ ملک کی عدالتِ عالیہ نے احکامات جاری کیے، لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اقتدار اور اشرافیہ دونوں ہی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے، اُن میں آپ اُردو کے لیے ہر جگہ کھلا پن دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود اردو کے مزاج میں بھی افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ تاہم اِس بات کا خیال اس کے بولنے والوں کو خود اور ضرور رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی کسی نفسیاتی کم زوری، مرعوبیت یا سہل انگاری کی وجہ سے خواہ مخواہ اُس کا حلیہ تو نہیں بگاڑ رہے۔ اب مثلاً آپ انھی مندرجہ بالا فقروں کو دیکھیے اور بتائیے کہ ان میں جو کچھ کہا گیا ہے، اگر اُسے اس طرح کہا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔

٭آج ہماری نئی نسل بہت ہونہار ہے۔ ہمیں اس پر اعتماد کرنا اور اُسے آگے بڑھانا چاہیے۔

٭ہمارے یہاں گلیوں اور بازاروں میں لوٹ مار کا تناسب پھر بڑھ گیا ہے اور یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔

٭ہر شخص جب شام کو گھر آتا ہے تو اُسے کچھ تفریح کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ گھر کے افراد کے ساتھ سہولت اور اطمینان کے لمحات گزار سکے۔

٭یہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ پرانا نظام اب نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنا رویہ بدلنا اور نئے طور طریقوں کو اپنانا ہوگا۔

کیا اس طرح انگریزی زبان کی قطعی غیرضروری اور بے ڈھب پیوندکاری کے بغیر جو بات ان فقروں میں کہی گئی ہے، وہ واضح نہیں ہے؟ یا اس طرح مفہوم کا ابلاغ ناقص ہو گیا ہے؟ ایسا یقینا نہیں ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان سیدھے سادے فقروں میں کہی گئی بات اب زیادہ واضح اور ابلاغ کی سطح بہتر ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس لیے ہم اپنی زبان کو خراب کررہے ہیں؟ اب کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے (بلکہ کہا بھی جاتا ہے) کہ ہم نے انگریز استعمار سے ملک تو آزاد کرالیا، لیکن اپنے ذہنوں کو آزاد نہیں کراسکے۔ اس لیے ہم اب تک اپنے سابقہ آقاؤں کی زبان کو استعمال کرنے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم انگریزی کو کسی ضرورت کے تحت استعمال نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمارے لیے افتخار کا یا اسٹیٹس کا مسئلہ ہے۔

تو کیا یہ ہماری مرعوبیت اور نفسیاتی کم زوری کا اظہار نہیں ہے؟ اس خیال کو یکسر تو مسترد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں صداقت ضرور ہے۔ تاہم ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر جو انگریزی اردو کا ملغوبہ پیش کیا جارہا ہے، وہ اقتدار یا بیوروکریسی کے رجحانات کے زیرِاثر نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ اظہار کا یہ انداز میڈیا پر ایک فیشن کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ خبریں پڑھنے، نظامت کرنے اور جائزہ لینے والے بیشتر لوگ (مرد اور خواتین دونوں) جو اس طرح کی زبان بولتے ہیں، وہ دراصل نئے لہجے، نئے انداز اور نئی زبان کی خواہش کے کسی ذہنی مسئلے سے دوچار ہوکر ایسا کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد توجہ اور مقبولیت حاصل کرنا ہے۔ کیوں؟ تاکہ اُن کی شناخت کا نیا پہلو سامنے آئے اور اس کے ذریعے بھی وہ زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرسکیں۔

قابلِ اعتراض بات یہ نہیں ہے کہ انگریزی کے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔ اردو نے تو کتنے بہت سے انگریزی الفاظ پہلے ہی سہولت سے اختیار کیے ہوئے ہیں، مثلاً کپ، گلاس، پلیٹ، ٹیلی وژن، ریڈیو، وال کلاک، ٹیلی فون، وائرلیس، موبائل فون، بیٹری، چارجر، فریج، کاپی، پنسل، پین، ڈرائنگ، بلیک بورڈ، کلینک، لیبارٹری، ٹیسٹ، کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، بیڈمنٹن، اسکول، کار، ڈرائیور، روڈ، ٹائر، ٹیوب، بس، ٹرین وغیرہ غرضے کہ ایک نہیں سیکڑوں، بلکہ ہزاروں الفاظ ہوں گے جو اردو نے دوسری زبانوں سے لیے ہیں اور وہ عام اردو بول چال میں اس طرح مستعمل ہیں کہ ان سے بولنے سننے والوں کو قطعاً کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔

اس طرح آنے والے وقت میں اور نئے الفاظ کے اردو میں داخلے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن کسی بھی نئے لفظ کو زبان میں اس طرح آنا چاہیے کہ وہ اپنی شمولیت کی ناگزیر ضرورت کو ظاہر کرتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ زبان اور معاشرے کے لیے طرزِ احساس کی وسعت اور اظہار و ابلاغ کی بہتری کا ذریعہ بن رہا ہو۔ بصورتِ دیگر وہ معاشرے میں صرف ایک اجنبی ہیولے کی طرح گھومتا اور ذہنوں کو پراگندہ کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر سطورِ گذشتہ میں درج کیے گئے نشریاتی شخصیات کے ان فقروں کو ایک بار پھر پڑھ کر دیکھ لیجیے۔

یہ نیا زمانہ ہے۔ اس کا اپنا مزاج اور رجحانات ہیں اور بے شک ہونے بھی چاہییں۔ تبدیلی انسانی زندگی کا لازمہ اور وقت کا ناگزیر عمل ہے۔ تاہم تبدیلی اور بگاڑ میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ تبدیلی عام طور سے بہتری کے امکانات کے ساتھ آتی ہے اور بگاڑ تو ظاہر ہے کہ نام ہی تخریب کا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا ہماری زبان کو (اور اُس کے زیرِاثر پورے معاشرے اور اُس کے تہذیبی و سماجی رویوں کو) تبدیل کرنے کی نہیں، بگاڑنے کی مہم میں مصروف ہے۔ ہماری عمر کے لوگ جنھوں نے ریڈیو کا زمانہ دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ پہلے ریڈیو پر باقاعدہ ایک شعبہ تھا اور اس سے وابستہ لوگ زبان کی درستی اور الفاظ کے صحیح تلفظ کی خدمت پر مامور ہوتے تھے۔

جب ٹیلی وژن آیا تو اُس پر ایسا کوئی شعبہ تو نہیں بنایا گیا، لیکن زبان و ادب سے بخوبی واقف، پڑھے لکھے اور اچھی صلاحیتوں والے لوگ رکھے گئے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں ہر طرح سے خود کو ذمے دار محسوس کرتے تھے اور فرائض میں کوتاہی کو جرم خیال کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے دنوں میں کتنے ہی لوگ ریڈیو اور ٹیلی وژن تک سے زبان کے اچھے الفاظ اور ان کے استعمال کا قرینہ بھی سیکھتے رہے ہیں۔ افسوس کہ آج کا الیکٹرونک میڈیا ایسی کسی ذمے داری کا شعور تک رکھتا نظر نہیں آتا اور اپنے لوگوں کو سکھانے سمجھانے کی کسی ذمے داری کو پورا کرتا محسوس نہیں ہوتا۔

ہم نے بات کا آغاز کیا تھا وزیرِاعظم کی حلف برداری سے، بہتر ہوگا کہ اس کا اختتام بھی اُسی حوالے سے ہو۔ وزیرِاعظم کی زبان حلفیہ کلمات پر کیوں لڑکھڑائی، اس کی وجہ وہی بتاسکتے ہیں۔ ممکن ہے، محض اعصابی دباؤ، جذباتی کیفیت، ذہنی تناؤ، نیند کی کمی یا بڑھی ہوئی تھکن جیسی کوئی وجہ ہو۔ تاہم یہ بات پوری ذمے داری سے کہی جاسکتی ہے کہ اس عبارت میں ایسے مشکل الفاظ تو نہیں تھے کہ وزیرِاعظم عمران خان کو ان کے ادا کرنے میں دشواری محسوس ہوتی۔ حلف کی ایسی ہی عبارت بینظیر بھٹو اور غلام اسحاق خان جیسے لوگوں نے بھی سہولت سے اور سنبھل کر بخوبی دہرا دی تھی، جب کہ وہ دونوں اردو میں اتنے رواں بھی نہیں تھے جتنے حالیہ وزیرِاعظم عمران خان ہیں۔ چلیے، خیر رفت گزشت۔ البتہ یہ بات ہم ضرور اور باصرار کہیں گے کہ حلف برداری میں وزیرِاعظم کے سہوِ زبان کو بنیاد بناکر جس طرح الیکٹرونک میڈیا نے آسان اردو کو ایک بار پھر ہماری قومی مشکل بناکر پیش کیا ہے، وہ یقیناً قابلِ مذمت اور مسترد کیے جانے کے لائق ہے۔

میڈیا کے لوگوں کو ایسے سوالات اٹھاتے اور ایسے خیالات کو پھیلاتے ہوئے کم سے کم ایک بار رک کر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ قومی زبان کا تمسخر اڑانا یا اسے استہزا کا نشانہ بنانا دراصل پوری قوم اور اس کی تہذیب کو تماشا بنانے کے مترادف ہے۔ جس طرح خط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، اسی طرح قومی زبان ایک قوم کے مزاج و کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہیے۔

The post ’آسان اردو‘ ہماری قومی مشکل appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا کے چند منفرد خِطے

$
0
0

اس دنیا میں سات برِاعظم ہیں۔ لیکن یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں اور آج سے نہیں کب سے جانتے ہیں۔ اس میں نئی بات کیا ہے؟

اس میں ایک چیز ذرا ہٹ کے ہے، وہ یہ کہ جناب ہر برِاعظم میں بہت سے ممالک اور خِطے اپنی جغرافیائی ہیئت، سیاسی و معاشرتی پہچان ، طبعی خدوخال، قدرتی وسائل کی تقسیم اور منفرد ساخت کی بدولت ایک الگ حیثیت اور شناخت رکھتے ہیں۔ ان ناموں کے پسِ پردہ چند دل چسپ حقائق اور وجوہات ہیں۔ اسی بنیاد پر ان خِطوں کو بین الاقوامی طور پر بھی الگ الگ نام دیے گئے ہیں جو برِاعظم کے اندر ان کی انفرادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

جاننا چاہیں گے؟؟؟

چلیں شروع کرتے ہیں برِاعظم افریقہ سے۔

٭  برِاعظم افریقہ:

طلسماتی کشِش اور سحرانگیز خوب صورتی کے حامل اس برِاعظم میں کئی جغرافیائی اور تاریخی علاقے ایسے ہیں جن کو منفرد نام دیے گئے ہیں، اِن میں سے کچھ ان کی شباہت کی وجہ سے ہیں اور کچھ مختلف اشیاء کی تجارت کی بدولت۔

1۔ قرن افریقہ ( Horn of Africa) :

مشرق میں برِاعظم افریقہ کا ایک حصہ سمندر میں بہت دور تک چلا گیا ہے جسے قرنِ افریقہ یا افریقہ کا سینگ کہا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کی شکل بالکل گینڈے کے سینگ جیسی ہے۔ اس حِصے کو شمال مشرقی افریقا یا جزیرہ نما صومالیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ مشرقی افریقا کا وہ جزیرہ نما ہے جو خلیج عدن کے جنوبی علاقے میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔

قرن افریقہ کی یہ اصطلاح چار ملکوں، جبوتی، ایتھوپیا، اریٹریا اور صومالیہ پر مشتمل اس خطے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ علاقہ 2000,000مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں 90.2 ملین افراد رہتے ہیں جن میں ایتھوپیا کی 75، صومالیہ 10، اریٹریا 4.5 اور جبوتی کی 0.7 ملین آبادی شامل ہے۔ یہ علاقہ عظیم درز کی تشکیل سے پیدا ہونے والے پہاڑوں پر مشتمل ہے اور دنیا کے گرم اور خشک ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی تاریخ مسلمانوں اور مسیحیوں اور قوم پرستوں اور مارکسسٹوں کے درمیان فسادات سے بھری پڑی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی مختلف مسائل سے دوچار رہے ہیں جن میں صومالیہ کی خانہ جنگی اور ایتھوپیا کا قحط شامل ہیں۔ اریٹریا اور جبوتی بھی مختلف تنازعات کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں یہ علاقہ قدرتی آفات کا بھی شکار رہتا ہے جن میں قحط یا سیلاب قابل ذکر ہیں جن سے خصوصاً دیہی علاقے بہت متاثر ہوتے ہیں۔

موغادیشو، ادیس ابابا، کسمایو، اسمارا اور جبوتی اس خطے کے بڑے شہر ہیں۔ برِاعظم افریقا کا پست ترین مقام، آسل جھیل بھی یہیں واقع ہے۔

2۔ ساحل(SAHEL):

ساحل ایک نیم صحرائی جغرافیائی پٹی کا نام ہے جو صحرائے صحارا کے جنوب اور سوڈانی گھاس کے میدانوں کے شمال میں واقع ہے۔ یہ بحرِاوقیانوس سے بحیرۂ احمر تک پھیلی ہوئی ہے۔ ساحل عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کنارہ یہ صحرائے اعظم کے کنارے واقع ہے اس لیے اسے ساحل اور یہاں رہنے والوں کو ”ساحلی” کہا جاتا ہے۔ یہاں گھاس کے وسیع میدان ہیں۔

ساحل کے علاقے میں شمالی سینیگال، جنوبی موریطانیہ، مالی کا وسطی حِصہ، بروکینا فاسو، الجزائر کا جنوبی سِرّا، نائیجر، شمالی نائیجیریا، وسطی چاڈ، وسطی اور جنوبی سوڈان، اریٹیریا، وسطی افریقا جمہوری، کیمرون اور ایتھوپیا کا شمالی حِصہ شامل ہے۔ 3،053،200 مربع کلومیٹر کے ساتھ افریقا کا یہ سب سے بڑا خِطہ قریباً 14 ممالک تک پھیلا ہے۔ یہ خِطہ ہر سال قحط کا شکار ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہاں غربت بہت زیادہ ہے۔

یہ علاقہ وسیع و عریض گھاس کے میدان ، چراگاہوں ، جنگلی جھاڑیوں کے میدان، دلدلی علاقوں اور سبزہ زاروں پر مشتمل ہے۔ یہاں اوسطاً سالانہ 100 سے 600ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ مختلف قبائل کی شکل میں آباد ہیں جو مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں۔

ٹمبکٹو، گاؤ، این جمینا، نیامے یہاں کے بڑے شہر ہیں۔

3۔ غلاموں کا ساحل اور ساحلِِ مرچ  ( Slave coast & Pepper Coast)  :

ساحلِ غلاماں یا سلیو کوسٹ، مغربی افریقا کے کچھ ساحلی علاقوں کا ایک تاریخی نام ہے۔ اس کے نام کی وجہ سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک جاری رہنے والی غلاموں کی تجارت ہے۔ سلیو کوسٹ کی یہ پٹی آج کے نائیجیریا، ٹوگو، بینین، گھانا اور آئیوری کوسٹ کے جنوبی علاقوں پر مشتمل تھی۔

نوآبادیاتی دور میں واقع دیگر قریبی ساحلی خطے بھی اپنی برآمدات کی وجہ سے مختلف ناموں سے پہچانے جاتے تھے، جیسے سونے کی تجارت والی ساحلی پٹی گولڈ کوسٹ، ہاتھی دانت کی پٹی آئیوری کوسٹ اور کالی مرچ کی تجارتی بیلٹ پیپر کوسٹ (ساحل مرچ) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ان میں ٹوگو، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائیبیریا اور سیرالیون کے علاقے شامل تھے۔

٭  برِاعظم ایشیا:

بہ لحاظ رقبہ یہ دنیا کا سب سے بڑا برِاعظم ہے، جہاں دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی بستی ہے۔ عام طور پر ماہرارضیات و طبعی جغرافیہ داں ایشیا اور یورپ کو الگ براعظم تصور نہیں کرتے اور ایک ہی عظیم قطعہ زمین کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا دونوں برِاعظموں کو الگ الگ ہی پایا۔ اس برِاعظم میں بھی بہت سے حصے ایسے ہیں جن کی سیاسی، جغرافیائی اور معاشرتی لحاظ سے ایک الگ شناخت ہے۔

 1۔ زرخیز ہلال  (Fertile Crescent)  : 

شروع کرتے ہیں زرخیز ہلال سے۔ زرخیز ہلال مشرق وسطیٰ میں چاند کی شکل کا ایک تاریخی خطہ ہے جو تاریخ کے شاندار دور کا گواہ ہے۔ دنیا کی تاریخ کی چند عظیم ترین تہذیبیں اسی علاقے میں پروان چڑھیں۔ اسی لیے اس علاقے کو “تہذیب کا گہوارہ” یا ”تہذیبوں کا پالنا” بھی کہا جاتا ہے۔

چار عظیم تاریخی دریاؤں، نیل، اردن، فرات اور دجلہ کے پانیوں سے سیراب ہونے والا ایشیا کا یہ زرخیز ترین علاقہ بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں سے صحرائے شام کے شمالی علاقوں اور مابین النہرین (دجلہ اور فرات کا درمیانی حصہ) سے خلیج فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں عراق، شام، اْردن ، کویت، مصر، اسرائیل، لبنان، فلسطین (غزہ اور مغربی کنارہ) جنوب مشرقی ترکی اور جنوب مغربی ایران کے چند علاقے شامل ہیں۔ زرخیز ہلال کی یہ اصطلاح بین الاقوامی سیاست میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔

دریائے نیل کے طاس کی آبادی 70 ملین، دریائے اردن کے طاس کی تقریباً 20 ملین اور دریائے دجلہ و فرات کے طاس کی 30 ملین ہے، اس طرح زرخیز ہلال کی موجودہ آبادی 120 ملین سے زاید بنتی ہے۔ یعنی یہ مشرق وسطیٰ کی کم از کم ایک تہائی آبادی کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں دنیا کے چند قدیم ترین اور اہم شہر واقع ہیں جن میں دمشق، بغداد، قاہرہ، حمص، حلب، یروشلم، غزہ، عمان، بصرہ ، بیروت، تل ابیب اور شامل ہیں۔ برِاعظم ایشیا کا پست ترین مقام، بحیرہ مردار بھی یہیں واقع ہے۔

2۔ قفقاز  ( Caucasus):

قفقاز، یورپ اور ایشیا کی سرحد پر جغرافیائی و سیاسی بنیاد پر مبنی ایک خطہ ہے جسے کوہِ قاف بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان واقع ایک پٹی ہے۔ یہاں موجود کوہ ِقاف کا پہاڑی سلسلہ ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔

یہ علاقہ جنوبی روس، آزربائیجان، آرمینیا اور جارجیا پر مشتمل خوب صورت پہاڑی خِطہ ہے۔ سیاسی اعتبار سے قفقاز کو شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کی جزوی طور پر تسلیم شْدہ ریاستیں بھی اس علاقے کا حِصہ ہیں۔ ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ انتہائی درجے کی اہمیت اختیار کرچکا ہے جہاں روس اور امریکا دونوں اپنی برتری چاہتے ہیں۔

باکو، تبلیسی، یراوان اور گروزنی اہم شہر ہیں۔

روس اور جارجیا کی سرحد پر واقع کوہِ البرس، برِاعظم یورپ کا سب سے اونچا مقام ہے۔

3۔ اناطولیہ  (Anatulia)  :

اناطولیہ (ایشیائے کوچک) برِاعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ایک جزیرہ نما ہے جس کے شمال میں بحیرۂ اسود، جنوب میں بحیرۂ روم اور مغرب میں بحیرہ ایجیئن واقع ہے۔

ترک باشندے اسے اناضول یا اناضولو کہتے ہیں۔ ترکی کا بیشتر حصہ اسی جزیرہ نما پر مشتمل ہے۔ جہاں ترک، کرد، عرب، یونانی اور آرمینیا ئی نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ اناطولیہ کو لاطینی نام ایشیائے کوچک سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ازمیر، انقرہ، قونیہ اور انطالیہ یہاں کے بڑے شہر ہیں۔

4۔ بحرالکاہل کا حلقۂ آتش  ( Pacific Ring of Fire)  :

یوں تو یہ علاقہ بحرالکاہل کے گرد واقع امریکی و ایشیائی ممالک پر مشتمل ہے لیکن اس کا اہم حِصہ ایشیا میں واقع ہے۔

حلقہ آتش ایک اصطلاح ہے جو بحرالکاہل کے گرد پھیلے ہوئے آتش فشانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ آتش فشاں زمین کی پرتوں میں حرکت اور دباؤ کے باعث اکثر پھٹتے رہتے ہیں اس لیے اس حلقے کو حلقۂ آتش کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 40 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے کل 90 فی صد زلزلے اور بڑے زلزلوں میں سے 80 فی صد اس خطے میں آتے ہیں۔ یہ حلقہ جنوبی بحرالکاہل میںوانواٹو اور نیو کیلیڈونیا کے درمیان اور جزائر سولومن کے کناروں کے ساتھ اور نیو برٹن اور نیو گنی کے درمیان سے گزرتا ہے۔

یہاں واقع اہم ممالک میں چلی، پیرو، گوئیٹے مالا، بیلیز، ایل سلواڈور، میکسیکو، امریکا، کینیڈا، روس، جاپان، تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، پاپوا نیو گنی، ٹونگا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ یہ علاقہ بحرالکاہل کے چاروں اطراف میں پھیلا ہے۔

5۔ ماوراء النہر  (Transoxiana)  :

ماوراء النہر (نہر یا دریا سے پار کا علاقہ) وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں آج ازبکستان، تاجکستان، جنوبی کرغیزستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ہے۔ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سمرقند و بخارا، فرغانہ، اشروسنہ اور ترمذ شامل ہیں۔

پانچ صدیوں تک یہ خطہ ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین خِطہ رہا ہے۔ یہ علاقہ بہت سے مشہور بزرگانِ دین، علما، دانش وروں، درویشوں اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔1917 تا 1989ء تک روسی تسلط میں رہا اور اب وسط ایشییائی ریاستوں کا حصہ ہے۔ فارسی کے معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر ہے۔

٭  برِاعظم یورپ:

یوں تو سیاسی، سماجی اور مذہبی طور پر یورپ میں مشرقی اور مغربی حِصوں کی تقسیم بہت گہری ہے لیکن اس کے علاوہ بھی یہاں بہت سے چھوٹے چھوٹے خِطے ہیں جن کی نہ صرف اپنی الگ حیثیت ہے بل کہ ان ممالک نے الگ صنعتی بلاکس بھی بنا رکھے ہیں۔

1۔ بلقان  (Balkan):

بلقان یا جزیرہ نما بلقان جنوب مشرقی یورپ کا تاریخی و جغرافیائی نام ہے۔ اس علاقے کا رقبہ 5 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 55 ملین ہے۔ اس خطے کو یہ نام کوہ بلقان کے مشہور پہاڑی سلسلے پر دیا گیا ہے جو بلغاریہ و سربیا کی سرحد سے لے کر ”بحیرہ اسود” تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں موجود ممالک کو عموماً بلقانی ریاستیں کہا جاتا ہے۔

اسے اکثر جزیرہ نما بلقان بھی کہتے ہیں، کیوںکہ اس کے تین جانب سمندر ہے جس میں مشرق میں بحیرۂ اسود اور جنوب اور مغرب میں بحیرۂ روم کی شاخیں (بحیرۂ ایڈریاٹک، بحیرۂ آیونین، بحیرۂ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ) ہیں۔ اس کی شمالی حدود پہ دریائے ڈینیوب اور ساوا بہتے ہیں۔

جنگِ عظیم اول ہی سے اس علاقے کا سیاسی و جغرافیائی حلیہ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ خصوصاً سابقہ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے سے بلقانی ریاستوں کی تعداد میں اِضافہ ہوا ہے۔ آج بلقان میں البانیہ، بلغاریہ، بوسنیا ہرزیگوینا، کوسوو، مقدونیہ، مونٹینیگرو جب کہ کروشیا، یونان، اٹلی، رومانیہ، سربیا اور سلووینیا کے کچھ حِصے شامل ہیں۔

اس علاقے کے بڑے شہروں میں تِرانہ، سرائیوو، ایتھنز، پرسٹینا، بلغراد اور سکو پچی شامل ہیں۔

2۔ اسکینڈینیویا  (Scandinavia) :

شمالی یورپ کے ممالک ڈنمارک، سویڈن، اور ناروے کو مجموعی طور پر اسکینڈے نیویا کہا جاتا ہے، جب کہ فِن لینڈ کا کچھ حِصہ اس میں شامل ہے۔ یہ ممالک بشمول شمالی بحراوقیانوس کا جزیرہ آئس لینڈ ملتی جلتی زبانوں اور ثقافتوں کے حامل ہیں۔

اسکینڈے نیویا کا شمالی اور مغربی حصہ بہت زیادہ کٹا پھٹا اور پہاڑی ہے جب کہ جنوب میں زمین زیادہ ہموار ہے اور گلیشیروں کی بدولت انتہائی زرخیز بھی ہے۔ فن لینڈ، ناروے اور سویڈن کا بیشتر حصہ گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔

آئس لینڈ دنیا کے سب سے زیادہ آتش فشانی علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس خِطے کا مجموعی رقبہ829750 مربع کلومیٹر اور آبادی 12ملین کے لگ بھگ ہے۔

یہ دنیا کے وہ علاقے ہیں جہاں کئی کئی مہینے سورج نہیں نکلتا اور زیادہ تر شام کا سا سماں رہتا ہے۔ اوسلو، کوپن ہیگن اور سٹاک ہوم بڑے شہر ہیں۔

3۔ آئیبیریا  (Iberia)  :

جزیرہ نما آئبیریا یورپ کے انتہائی جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ یورپ کے تین جزیرہ نماؤں (جزیرہ نما بلقان، جزیرہ نما اٹلی اور جزیرہ نما آئبیریا) میں سے انتہائی جنوب اور مغرب میں واقع آخری جزیرہ نما ہے۔ جنوب اور مشرق میں اس کی سرحدیں بحیرہ روم اور شمال اور مغرب میں بحر اوقیانوس سے ملتی ہیں۔

جزیرے کا بیشتر حِصہ اسپین اور پرتگال کے بیچ تقسیم ہے جب کہ شمال میں انڈورا اور فرانس کے کچھ علاقے اور جنوبی ساحلی کونے پر ”جبرالٹر” واقع ہے۔

285,000مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ یہ اسکینڈینیویا کے بعد برِاعظم یورپ کا دوسرا بڑا جزیرہ نما ہے جہاں لگ بھگ 75 ملین لوگ آباد ہیں۔جزیرہ نما کے شمالی علاقے میں کوہ پائرینیس ہیں جو اسے بقیہ یورپ ملاتے ہیں۔ اس خطے میں یورپ کے حسین ترین نظارے دیکھے جا سکتے ہیں۔

میڈرڈ، لزبن، بارسلونا، ویلنشیو، قرطبہ، سیویل اور اوپورٹ اہم شہر ہیں۔

4۔ بینیلکس  (Benelux)  :

بیلجیئم، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ کے اقتصادی اتحاد کو بینیلکس کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ تینوں ممالک کے الفاظ کے پہلے دو حروف جوڑ کر بنایا گیا ہے، یعنی بیلجیئم کا، نیدرلینڈ کا، اور لکسمبرگ کا۔ ان ممالک کے درمیان اقتصادی اتحاد کا باقاعدہ معاہدہ 1958ء میں طے پایا۔

اس کے علاوہ انہیں زیریں ممالک بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ اس علاقے کا بیشتر حصہ ہموار اور سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔ خصوصاً نیدر لینڈز، جہاں کا بیشتر حصہ سطح زمین سے بھی نیچے ہے اس لیے ولندیزیوں نے کئی بند تعمیر کیے ہیں تاکہ سیلاب سے بچا جا سکے۔

بینیلکس ممالک یورپ کے سب سے زیادہ گنجان آباد ممالک ہیں اور یہاں کے لوگوں کا معیار زندگی انتہائی اعلٰی ہے۔ ان ممالک میں 30 ملین سے زائد افراد رہتے ہیں اور ہر 10 میں سے 9 افراد شہر یا قصبے میں رہائش پذیر ہیں۔ دوسری جانب دیہی علاقے بھی انتہائی گنجان آباد ہیں۔ نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ تک کارخانوں کا ایک عظیم جال پھیلا ہوا ہے۔ دوسری جانب لکسمبرگ بینکاری کا ایک اہم مرکز ہے اور اس کے دارالحکومت میں دنیا کے کئی اہم بینکوں کے صدر دفاتر ہیں۔

ایمسڑڈیم، روٹرڈیم، لکسمبرگ سٹی، برگِس اور یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر برسلز اسی خِطے کا حِصہ ہیں۔

5۔ بالٹک ریاستیں  (Baltic States):

سابق سوویت یونین سے آزاد ہونی والی ریاستوں اسٹونیا، لیٹویا اور لتھووینیا کو مجموعی طور پر بالٹک ریاستیں یا بالٹک اقوام کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں ممالک 1940ء اور 1941ء میں اور 1944ء اور 1945ء سے 1991ء تک سوویت یونین کے قبضے میں رہے۔

یہ تینوں ممالک ”بحیرۂ بالٹک” کے مشرقی ساحل پر آباد ہیں جو اس نام کہ وجہ تسمیہ ہے۔ اس خِطے کی آبادی زیادہ نہیں ہے۔ ریگا، تالین اور ویلنیئس مرکزی شہر ہیں۔

٭  براعظم شمالی و جنوبی امریکا:

برِاعظم شمالی و جنوبی امریکا کے زیادہ تر خِطوں کو قدرتی ہیئت اور طبعی خدوخال کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایسٹ انڈیز کے علاوہ زیادہ تر خِطے دو یا تین ممالک پر ہی مشتمل ہیں۔

1۔ عظیم جھیلوں کا خِطہ  ( Great Lakes Region):

عظیم جھیلوں کا یہ علاقہ شمالی امریکا میں ایک دو قومی خِطہ ہے جو امریکا اور کینیڈا کے درمیان واقع ہے۔ اس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی آٹھ ریاستوں کے علاقے شامل ہیں، جن میں الینوائے، انڈیانا، مشی گن، مینیسوٹا، نیو یارک، اوہائیو، پنسلوانیا اور وسکونسن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا کا صوبہ انٹاریو بھی اس میں شامل ہے۔

یہ علاقہ جھیل مشی گن، جھیل سپیریئر، جھیل آئر، جھیل اونٹاریو اور جھیل ہیورون پر مشتمل ہے جو مختلف چھوٹے بڑے دریاؤں سے منسلک ہیں اور امریکا و کینیڈا کے درمیان سرحد کا کام بھی کرتی ہیں۔

شکاگو ، ڈیٹرائیٹ، ٹورنٹو، اوٹاوہ، ہیملٹن، وینڈسر اور آئر جیسے بڑے شہر اِن جھیلوں کے آس پاس واقع ہیں۔

2۔ ویسٹ انڈیز  (West Indies):

ویسٹ انڈیز یا غرب الہند یا جزائر غرب الہند شمالی بحراوقیانوس میں کیریبین کا وہ علاقہ ہے جہاں بے شمار جزائر بکھرے ہوئے ہیں۔

یورپی اقوام نے اس علاقے کو برِاعظم ایشیا کے حِصے ایسٹ انڈیز یا جزائر شرق الہند (موجودہ انڈونیشیا) سے تفریق کرنے کے لیے جزائر غرب الہند یا ویسٹ انڈیز کا نام دیا۔

یہ خِطہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی ساحلوں سے لیکر برِاعظم جنوبی امریکا کی شمالی ساحلی پٹی تک پھیلا ہوا ہے۔

ویسٹ انڈیز میں کیوبا، جمیکا، ہیٹی، ہنڈوراس، ڈومینکن ریپبلک، پورٹو ریکو، جزائر کیمین، بہاماس، اینٹی گوا اینڈ باربوڈا، بارباڈوس، اروبا، ڈومینیکا، گرینیڈا، برٹش ورجن آئی لینڈ، سینٹ لوسیا، سینٹ کیٹز و ناویس اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو سمیت متفرق فرانسیسی و امریکی نو آبادیاں شامل ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور مضبوط ملک کیوبا ہے۔

یہ علاقہ کوکونٹ، کافی، پام آئل اور ربڑ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کیوبا کو دنیا میں اعلیٰ پائے کے سِگار بنانے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

3۔ پیٹا گونیا  (Patagonia):

جنوبی امریکا میں واقع کم آبادی والا یہ خِطہ 297000 مربع میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا جنوبی علاقہ انتہائی خشک اور سرد ہے۔

کوہِ انڈیز کے مشرق کی جانب واقع یہ علاقہ دریائے کولوراڈو کے جنوب میں ہے۔ یہ خطہ دو ملکوں ارجنٹائن اور چلی میں پھیلا ہوا ہے۔ سطح مرتفع، گھاس کے میدانوں، صحرا اور بلند پہاڑوں پر مشتمل یہ علاقہ معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ کان کنی، ماہی گیری اور شمالی علاقوں میں زراعت کا پیشہ ، یہاں کی اہم صنعتیں ہیں۔ یہاں دنیا میں ”سوڈیم نائیٹریٹ ” کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ مجموعی رقبہ 1,043,076 متبع کلومیٹر ہے۔

4۔ گیاناز ( The Guyanas) :

جنوبی امریکا کے شمال مشرقی ساحلوں پر واقع تین ممالک کو مجموعی طور پر ”گیاناز” کہا جاتا ہے، جس میں گیانا، سورینام اور فرانسیسی گیانا شامل ہیں۔ کبھی کبھار یہ اصطلاح پڑوسی ممالک کے چند علاقوں کو شامل کرکے بھی استعمال کی جاتی ہے جن میں وینیزویلا کا خطہ گیانا اور برازیل کا خطہ گیانا شامل ہیں۔ یہاں جارج ٹاؤن اور پیراماریبو شہر واقع ہیں۔

جب وینیزویلا اور برازیل کے علاقوں کو اس تعریف میں شامل کیا جاتا ہے تو اس خطے کی جغرافیائی سرحدیں شمال مشرق میں بحر اوقیانوس، شمال مغرب میں اورینوکو اور جنوب مشرق میں دریائے ایمیزن تک پہنچ جاتی ہیں۔

یہ تو تھے دنیا کے چند مشہور خِطے لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے علاقے دنیا میں پائے جاتے ہیں جو اپنی وضع قطع میں بالکل مختلف اور بے مثال ہیں۔

The post دنیا کے چند منفرد خِطے appeared first on ایکسپریس اردو.

استاد، طالب علم اور کامیابی کی تکون

$
0
0

مشہور ماہر تعلیم اگناسیو ایسٹراڈا کا کہناہے:’’اگر ایک بچہ اس طرح نہیں سیکھ پاتا جس طرح ہم سکھاتے ہیں تو پھر ہمیں اسے اس طرح سکھانا چاہئے جس طرح کہ وہ سیکھ پائے‘‘۔ 

استاد بچے کو بنانے اور بگا ڑنے میں وہ کردار ادا کرتا ہے جو شاید والدین بھی نہیں کرسکتے۔ بہت سے نامور لوگ اپنے استادوں کی وجہ سے نامور ہوئے اور بہت سے مجرم اور ناکام لوگ بھی استادوں کی بے جا سختی کے باعث سکولوں سے بھاگے اور سڑکوں پر آوارگی کے بعد ان کا انجام یا تو کسی ورک شاپ میں مکینک بن کر ہوا یا پھر جیل جا کر۔ اگر ہمارے سوشل ورک کے سٹوڈنٹس جیلوں میں جا کر قیدیوں کا انٹرویو کریں تو ان میں سے اکثریت نے بچپن میں استادوں کی مار پیٹ کی وجہ سے سکول چھوڑا ہوگا۔ سکول چھوڑنے کے بعد معاشرے سے بچے پر نالائق ہونے کا پکا لیبل لگ کر اسے آوارگی کا سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔ والدین بھی ایسے بچے کی عزت نہیںکرتے۔کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ہوسکتاہے بچہ بے قصور ہو اوراستادکی سختی اس کے سکول چھوڑنے کا باعث بنی ہو۔

یورپ اور امریکہ میں استادوںکی اپنے طالب علموں کوسمجھنے اور پروان چڑھانے کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ بہت سارے استاد اپنے فیلڈ میں گہری دلچسپی کے باعث کامیاب سپیکر اور ریسرچر بن گئے۔ انہوں نے بچوں کی نفسیات پر ایسی کتابیں لکھیں جنہوں نے کسی ناول کی طرح بکنے کے ریکارڈ توڑ دئیے اور وہاں لوگ ایسے استادوں کی ورک شاپس اور لیکچرز سننے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ استاد اپنے تجربے کی روشنی میں انمول نکتے بیان کرتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کا مشن بچوں کی بہبود ہوتا ہے اور ضرورت مند والدین اور ریسرچرز انہیں سننے کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں۔

استاد کی آنکھ حیران کن حد تک باریک بین اور مرد م شناس ہوتی ہے۔ اکثر استاد والدین کو ان کے بچے کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کی فطری محبت بچے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرجاتی ہے اور وہ اس امید پر رہتے ہیں کہ بڑا ہوگا تو ٹھیک ہوجائے گا لیکن استاد اور ڈاکٹر کا واسطہ چونکہ بہت سارے لوگوں سے پڑتا ہے اس لئے وہ صحیح موازنہ کر لیتے ہیں کہ200 بچوں میں سے یہ چار بچے اضافی طور پر تیز ہیں یا نمایاں طور پر سست ہیں۔ والدین کی محبت بے پایاں ضرور ہوتی ہے لیکن مشاہدے کا میدان اتنا وسیع نہیںہوتا۔

٭استاد ایک جادوگر

استاد کا کردار جادو کی وہ چھڑی ہے جو کسی کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوکر اسے بدل سکتی ہے۔ بند ذہن کو کھولنا، اداس روح کو خوشی اور مایوس بچوں کو امید سے آشنا کرنا استاد کا کام ہے۔ نار تھ امریکہ کے بہت بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور کے ششماہی رسالے ’دی کنکشنز‘ نے استاد کے موضوع پر لوگوں سے اپنی یادیں لکھنے کو کہا۔ دو بہت سادہ اور موثر واقعات جون، 2018 کے شمارے میں شائع ہوئے ہیں انھیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ استاد بچوں کی زندگیوں پر کتنا زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

٭’مہربانی میں چھپا ایک سبق‘(جینیفر کی کہانی)

’’1970ء کی دہائی میں’ مس ڈیگ‘ میری دوسری کلاس کی استانی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتیںکہ ان کی شفقت سے بھر پور کتنے لمحات نے میری زندگی کو کیسے متاثرکیا تھا۔ مس ڈیگ ہمیشہ ایک لاکٹ پہنتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ا یک دن کلاس کے راؤنڈ کے دوران وہ جھکیں اور لاکٹ کھل کر آگے پیچھے جھولنے لگا۔ لاکٹ کا یوں جھولنا مجھے مبہوت کر رہا تھا۔ میں نے بے اختیار آگے بڑھ کر کھلا ہوا لاکٹ بند کردیا۔ وہ ایک لمحے کو رکیں، میری آنکھوں میں دیکھا ، پیار سے میرے گالوں کو سہلا یا اور کہا: ’’شکر یہ‘‘

بہت سارے لوگوں کے لئے یہ بات بہت ہی معمولی ہوگی لیکن ایک ایسی بچی جو انتہائی بے توجہی کے ماحول میں پروان چڑھ رہی تھی جہاں باپ ہمیشہ غیر حاضر ہوتا اور سوتیلی ماں نے سوائے تلخی اور غصے کے کبھی کچھ نہیں دیا تھا، اس کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس دن زندگی میں پہلی دفعہ مجھے احساس ہواکہ میں بھی نرم رویے اور محبت کی مستحق ہوسکتی ہوں۔ کئی سال بعد میرے شوہر نے میرے بچے کی پیدائش پر مجھے ایک سونے کا لاکٹ تحفے میں دیا، اس کی کنڈی میں کچھ خرابی تھی اور وہ اکثر کھل جاتا۔ میرے شوہر نے کہا کہ جیولر کو واپس کردیتے ہیں تاکہ وہ اس کی مرمت کردے لیکن میں نے انہیں روک دیا کہ میں اس کی مرمت نہیں چاہتی کیونکہ مجھے ایسے لگتا تھا کہ یہ اگر اس طرح ہے تو اس کے پیچھے کوئی وجہ ہے۔ میں ہمیشہ ’’مس ڈیگ‘‘ کی شکر گزار رہوں گی، ان کی شفیق تھپکی ،مہربان آواز اور میرے اندر یہ احساس جگانے کے لیے کہ میں بھی توجہ دئیے جانے کے قابل ہوں‘‘۔

کہنے کو یہ واقعہ بہت ہی معمولی ہے لیکن یہ اپنے اندر ایک گہری نفسیات لیے ہوئے ہے۔ ایک محرومیوں کی ماری ہوئی بچی کو استاد کا ایک محبت بھرا لمس اور شفقت بھرا رویہ ہمیشہ کے لئے متاثر کرگیا۔ تقریباً  آدھ صدی گزرنے پر بھی وہ اس محبت کو سرمائے کی طرح سنبھالے ہوئے ہے۔ یقیناً ایسے مثبت احساسات سے بچے کے اندر کام کا شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں استاد کی امیدوں پر پورا اتروں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جینیفر مس ڈیگ کا سبق نہ یاد کرنا چاہتی ہو یا مس ڈیگ کی کلاس میں بیٹھنا اسے بوجھل محسوس ہوتا ہو؟ یقیناً مس ڈ یگ کا پڑھانا جینیفر کو زیادہ آسانی سے سمجھ آتا ہو گا کیونکہ وہ ٹینشن فری ماحول میں سکھایا جاتا تھا۔ محبت کا جواب ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔ کلاس میں دی گئی تھوڑی سی توجہ کلاس سے باہر کی طویل زندگی پر محیط ہوسکتی ہے۔

٭ڈبہ بند طرز تعلیم

بد قسمتی سے تعلیم کو نصاب کے ڈبے میں بند کردیا گیا ہے۔ تعلیم کی روح کو پانے کے لیے نصاب سے باہر نکلنا اور بچوں کو نکالنا بہت ضروری ہے۔ ایک اچھا استاد بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ مطالعے سے آشنا کرواتا ہے اور پوری دنیا کی سیر کرواتا ہے۔ مروجہ طرز تعلیم میں استاد اور طالبعلم کے تعلق میں فاصلوں کو لازمی سمجھا جاتا ہے تاکہ

احترام اور ادب برقرار رہ سکے۔ طے یہ کرنا ہے کہ کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟ فاصلہ نہ صرف ایک دوسرے کی بات سمجھنے اور سمجھانے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ ایک ایسے تکلف اور تکلیف کو جنم دیتا ہے جو آسان چیزوں کو مشکل بنا دیتا ہے۔

خاص کر ذہنی مریض بچے جن کے مسائل نے ان کے ارد گرد ہچکچاہٹ اور خوف کی مضبوط دیواریں کھڑی کی ہوتی ہیں۔ بچوں کے دماغ بڑھو تری کے جس عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، انہیں اپنے ارد گرد کے متعلق بہت زیادہ تجسس ہوتا ہے۔ معاشرے ، اخلاق ، رسم و رواج، دنیا ، فطرت اور سب سے بڑھ کر اپنا وجود اور اس کی قدر و قیمت کے متعلق ان

کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب استاد دوستانہ گفتگو میں نصابی علم کے ساتھ ساتھ بہت ساری اخلاقی اور سماجی تربیت بھی کرسکتا ہے۔

٭استاد شاگرد اور شاگرد استاد

ایک حدیث مبارکہ میں علم کو مومن کی کھوئی ہوئی میراث کہا گیا ہے۔ اس حدیث کا اصل مقصد علم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، علم صرف استاد کی میراث نہیں ہوتا اور نہ صرف کتاب میں بند ہوتا ہے۔ علم روشنی کی طرح ہر طرف پھیلا ہوتا ہے ، اگر اسے سیکھنے کے دروازے بند نہ کرلئے جائیں یا خود سے ہی فیصلہ نہ کر دیا جائے کہ یہ جگہ اور یہ شخص تو اس قابل ہی نہیں کہ کچھ سکھاسکے تو سیکھنے کے لا متناہی رستے کھل سکتے ہیں۔ سیکھنے کے عمل کا کو ئی بھی ذریعہ ہوسکتا ہے اور کسی طرح بھی سیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ مشہور موسیقار فل کولنز کہتے ہیں:’’ سیکھنے میں آپ سکھاتے ہیں اور سکھانے میں آپ سیکھتے ہیں۔‘‘ اس کی بہترین مثال جونی ہیرن کی یہ سچی کہانی ہے۔

٭وقت ضائع نہیں کرنا

(جونی ہیرن کی کہانی )

اس سال(2018ء میں ) میں، میں61سال کی ہوگئی ہوں اور میری استاد’لین ہین کاک‘ جو بہت مشہور مصنفہ ہے اور جس کی یہ کہانی ہے وہ 80 سال کی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ چھٹی جماعت میں مس ہینکاک میری استانی تھیں۔ ہماری کلاس کا کمرہ بہت دلچسپ تھا کیونکہ مس ہینکاک اپنے ساتھ  طرح طرح کے دلچسپ جانور لایا کرتی تھیں۔ میری دوسری بڑی خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے ’جپسی‘ نام کے بندر کی دیکھ بھال کا موقع ملا جس نے میرے لئے لکھنا پڑھنا آسان کردیا۔ میں جس سکول میں پڑھتی تھی وہاں ’مس ہینکاک‘ جیسے غیر روایتی استاد اتنے عام نہیں تھے۔ خاص کر میرے جیسی لڑکی جو سخت قسم کے ڈسلیکسیا( لکھنے پڑھنے کی کمزوری) کا شکار تھی اور اس وقت سکولوں میں ذہنی امراض کی تشخیص اور خصوصی طریقہ تعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا۔ میں اس  روایتی قسم کے سکول میں سخت مشکلات کا سامنا کر رہی تھی، جب خوش قسمتی سے ’مس ہینکاک‘ آسٹریلیا سے جدید ٹیچنگ کورس کرکے آئی جسے عملی پڑھائی کا طریقہ کہتے ہیں۔

اس نے میرے مسائل کو سمجھ کر میری پوشیدہ صلاحیتوں کو خوب چمکایا۔ مثلاً مجھے بندر پر غور کر کے اس کی نشوونما اور بڑھو تری کی رپورٹ لکھنے کے کام نے مصنفہ بنادیا۔ چھٹی کلاس میں، میں نے بندر پر جو مضمون لکھا تھا اسے دس سال بعد’مس ہینکاک ‘ نے ایک کہانی کی بنیاد بنایا۔ مجھے وہ استاد نہیں بلکہ دوست کی طرح یاد آتی ہے۔ میرے والد کا کام کیمرے اور فلموں سے متعلق تھا اور مجھے میڈیا کے بارے میں کافی علم تھا، میں نے میڈیا سے متعلق جدید ٹیکنالوجی مس ہینکاک کو سکھائی، بدلے میں’مس ہینکاک‘ نے مجھے بڑ ی کشتی کے پیڈل چلانے سکھایا۔ مس ہینکاک ہی تھیں جنھوں نے مجھے دنیا کا شاندار نظارہ دکھایا کہ کیسے سمندر میں عقاب مچھلیاں پکڑنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، جو ایک بہترین تحفہ تھا‘‘۔

یہ دونوں خواتین استاد اور شاگرد اپنے اپنے میدان میں کئی ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ دونوں نے خوب نام کمایا اور دنیا کو اپنا بہت کچھ دیا اور ایسا صرف ان کے سیکھنے اور سکھانے کی لگن سے ممکن ہوا۔

٭کوئی بات نہیں

انگلش میں ’پلیز‘ اور ’تھینک یو‘ کو میجک ور ڈز کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے اساتذہ کو اس لسٹ میں ’بہت اچھا‘،’شاباش‘ اور’ کوئی بات نہیں‘ کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ یہ اساتذہ اور والدین کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ بظاہر یہ معمولی الفاظ بچوں کے لئے ایک طاقتور ٹانک کا کام کرتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے زنگ آلود تالے کو تیل لگانے سے وہ بڑے آرام سے کھلنے ملنے لگتا ہے یا جام ہوئے پرزوں کو گریس لگانے سے ان میں روانی آ جاتی ہے۔ کامیاب استاد وہ ہے جو پچھلی رو میں بیٹھنے والے بچوں کو اگلی رو میں بٹھاسکے ورنہ ان بچوں کی ساری زندگی معاشرے میں پیچھے رہ کر گزر جائے گی۔

٭کوئی بات نہیں

بچے کی غلطی، ہوم ورک میں بہ وجوہ تاخیر کے نتیجے میں استاد کا رد عمل ’کوئی بات نہیں‘ زیادہ تر مثبت نتائج لائے گا۔ اگر کوئی بہت ہی کاہل بچہ اس رویے سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو بہت سارے، ڈرے ہوئے ، کم اعتماد بچوں میں بہت مثبت تبدیلی آئے گی۔ رٹا ایک عارضی،محدود اور ناکارہ طرز تعلیم ہے جبکہ اسی چیز کو خواہ وہ قرارداد پاکستان ہو یا حدود اربع بلوچستان ہو دوستانہ ماحول میں اسے اپنے لفظوں میں بیان کرنا اور ساری کلاس کو اس میں دلچسپ طریقے سے اس طرح شامل کرنا کہ بچے اس نصابی پڑھائی کے لیے اپنے الفاظ استعمال کرسکیں اور صرف کتاب میں لکھے ہوئے لفظ لائن بہ لائن یاد کرنے کی فکر سے آزاد ہوجائیں۔ یہ ایسی ہی آزادی ہے جیسے کسی کے سر سے منوں ٹنوں وزنی بوجھ اتار لیا جائے۔ پاکستانی معاشرے میں والدین کو بھی ایسے استاد کو ترجیح دینی چاہیے جو نمبروں کی دوڑ سے زیادہ معیاری تعلیم دے رہا ہو۔ اگر استاد والدین اور بچے کو جانچ سکتا ہے تو والدین کیوں استاد کو نہیں جانچ سکتے۔

ایک حساس ماں کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بچے کو صرف اس لئے ایک کلاس سے دوسری میں کروایا کہ میٹنگ کے دوران دو سے تین دفعہ استانی نے بچے کے لئے لفظ ’جھوٹا‘ بولا جہاں بچہ جھوٹا نہیں تھا بلکہ استاد اور بچے کی کوئی غلط فہمی تھی۔ ایک قابل قدر، بلند مقام استاد کا معمولی سی بات پر بچے کو ’جھوٹا‘ کہہ دینا گالی سے کم نہیں۔ اس ماں کا مؤقف تھا کہ میں نے اپنے بچے کو یہ سکھایا ہے کہ مر جانا لیکن جھوٹ نہ بولنا اور مجھے ڈر ہے کہ یہ استانی اس کو جھوٹ بولنا نہ سکھادے۔ کیونکہ جب سچے کو جھوٹا کہا جائے تو وہ سچ کی قدر کھو دے گا۔ ہاں! وہی استاد اگر مصلحتاً جھوٹ کی پردہ پوشی کردے تو شاید جھوٹا بچہ بھی سچ بولنا شروع کردے۔

٭فیل استاد

فیل صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ استاد بھی ہوتے ہیں،ایک بارہویں کلاس کے لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیا استاد بھی فیل ہوسکتے ہیں ؟ اس نے ایک سیکنڈ سوچے بغیر کہا:’’ہاں! وہ استاد جو بچوں کا احساس نہیں کرتے‘‘۔ ’’استاد کیسا ہونا چاہیے؟‘‘اس کے جواب میں تھرڈ ائیر کی طالبہ نے کہا کہ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں ٹیچر بنوں گی اور اس دن استعفی دے

دوں گی جب کوئی ایک سٹوڈنٹ بھی غیر مطمئن میری کلاس سے باہر نکلا‘‘۔ کچھ اساتذہ کے مخصوص تکیہ کلام ہوتے ہیں مثلاً  ’ڈل کلاس‘،’سست بچے‘،’ Passive people‘۔

حقیقت یہ ہے کہpassive class نہیں ہوتی، استاد ہوتاہے۔active  استاد کی کلاس کبھی Passive نہیں ہوتی۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ جیسے کہ  آپ وہ ہیں جو آپ کھاتے ہیں(you are what you eat) یعنی کلاس استاد کی کارکردگی کا آئینہ ہوتی ہے۔

٭استاد کا بستہ

استاد کا ذہنی بستہ رنگا رنگ آئیڈیاز سے بھرا ہونا چاہیے۔ کلاس میں کسی مختلف یا مشکل بچے سے واسطہ پڑنے پر کامیاب استاد اپنا غیر روایتی بستہ کھولتا ہے۔ کلاس کو کوئی بھی دلچسپ بات سنا دیں، کلاس سے کہہ دیں کہ وہ کوئی پہیلی یا لطیفہ سنادیں، کلاس کا ایک یا چند خاموش نہ دلچسپی لینے والے بچے بھی لطیفہ اور پہیلی سنانا یا سننا پسند کریں گے۔ اگر ان کی خاموشی پھر بھی نہ ٹوٹے تو آپ زیادہ ایکٹیو بچے سے پوچھیں کہ ہا!ں بھئی عمران آپ نے آج گھر سے سکول آتے  ہوئے کیا کیا دیکھا؟  (بلی،کتا، گاڑی، ٹھیلا کچھ بھی ) اور پھر ڈائریکٹ خاموش بچے سے پوچھیں لیکن  ایسے بچے کو کبھی بھی دو ٹوک آرڈر مت دیں کہ علی! اب آپ بتاؤ کہ کیا دیکھا؟ بلکہ علی کیا آپ ہمیں بتانا پسندکریں گے کہ آپ نے آج کیا دیکھا آتے ہوئے؟ اگر بچہ زیادہ ہی مسئلے کا شکار ہے تو  آپ اس کو الفاظ دیں مثلاً آپ پیدل آئے یا ویگن میں؟ ویگن میں آئے تو کس رنگ کی ،بڑی ،چھوٹی وغیرہ وغیر ہ۔ پیدل آئے تو اکیلے یا کسی کے ساتھ ؟عین ممکن ہے کہ لرننگ ڈس ایبل بچہ اتنی کوشش کے باوجود کوئی خاص جواب نہ دے پائے لیکن اس کے لئے یہ احساس ہی کافی ہے کہ وہ  باقی طلبا کے برابر اہمیت رکھتا ہے۔

٭کلاس کا ماحول

اچھا استاد کبھی بھی بچوں پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ انھیں خوفزدہ یا پریشان نہیں کرتا۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پریشانی میں دماغ بند ہوجاتا ہے۔ اچھا استاد کبھی اپنے طالب علم پر ’نالائق‘ کا لیبل نہیں لگنے دیتا۔ ایک دفعہ ’نالائق‘ کا دھبہ لگ جانے سے طالب علم اپنا جذبہ اور محنت کی تحریک کھودیتا ہے۔ بچوں کو جب ’نالائق‘ اور ’سست‘ کہہ دیا جاتا ہے تو وہ ذہنی طور پر یہ یقین کرلیتے ہیںکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح سیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ احساس انھیں صرف پڑھائی ہی میں پیچھے نہیں رکھتا بلکہ زندگی میں ہرجگہ وہ اپنے کمتر ہونے کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔

٭بند دروازہ = کھلا دروازہ

اندر جانے کے لئے دروازے کا کھلا ہونا ضروری ہے۔ اگر دروازہ بند ہے تو آپ صرف ٹکریں مارسکتے ہیں اندر نہیں جا سکتے۔ خواہ آ پ کے پاس کتنا ہی بڑا عہدہ اور پیسہ کیوں نہ ہو۔ استاد کلاس میں آتے ہی اپنی رعب دار آواز میں کہتا ہے ’ہوم ورک کی کاپیاں میز پر لے آؤ‘ یا ’کل کا  سبق سناؤ‘ یا ’میں تم لوگوں کے ہفتہ وار ٹیسٹ کے رزلٹ لایا ہوں۔‘ یہ سب کہتے ہوئے استاد کی آواز  دوستانہ تو قطعاً نہیں ہوتی بلکہ ہر فقرے کے آخر میں ایسی وارننگ ہوتی ہے کہ اگر نہیں تو پھر سزا کے لیے تیار رہو۔ خوف سیکھنے کے راستے بند کر دیتا ہے۔ ساؤ تھ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نیورو سائنس ، فلسفہ اور نفسیات کے پروفیسر کی تحقیق کے مطابق’’دماغ کے سیکھنے کا عمل بلاواسطہ ہمارے جذبات سے جڑا ہوتا ہے‘‘۔ گویا ہما ری ساری علمیت یاد داشت کی مرہون منت ہے۔ اگر ہم اپنی سٹور کی ہوئی معلومات کو ضرورت پڑنے پر واپس نہیں لاسکتے تو سارا سیکھنا بے کار ہے۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایک بور اور نہ دلچسپی لینے والا طالب علم سکھائی گئی معلومات کو اپنی یاد داشت  سے اس طرح واپس نہیں لاسکتا جیسے ایک دلچسپی لینے والا طالبعلم۔

استاد کی پہلی انٹری ہی بچوں کے دماغ کو بند کردیتی ہے۔ بالخصوص کمزور دل و دماغ کے یا ’لرننگ ڈس ایبل‘ بچے کے دماغ کے سیکھنے کے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ اب استاد خواہ پی ایچ ڈی ہو وہ دماغ کو نہیںکھول سکتا کیونکہ خوف سیکھنے کے ماحول کا بڑا قاتل ہے اور خوف میں رکھنا ایک روایتی استاد کی عادت بن چکی ہوتی ہے(جو صرف جہالت ہے) اس کے بر عکس کلاس میں آتے ہی اگر استاد مسکرا کر یہ کہہ دے کہ ’کیسے ہیں آپ لوگ؟‘ یا یہ کہ ’آج ہم کچھ نیا سیکھیں گے‘۔ اور اگر استاد بہت پسندیدہ اور روایت شکن بننا چاہتا ہے تو وہ تھوڑا سا آگے قدم اٹھاسکتا ہے مثلاًکسی کے پاس کوئی اہم بات ہے بتانے والی تو وہ ہمیں بتائے۔کسی نے کل کچھ نیا پڑھا؟

اکثر سٹوڈنٹس ابتدا کرنے میں گھبراتے ہیں لیکن اگر استاد خود سے ابتدا کردے تو پھر ماحول ایک دم بہت دوستانہ ہوجاتا ہے اور طالبعلموں کو بولنے کی جرات ہوجاتی ہے ( مثلاً ’ہوں میرا کل کا دن بہت اچھا گزرا، مجھے میرا پرانا دوست مل گیا اور ہم نے خوب باتیں کیں‘ یا ’مجھے کل کسی نے ایک کتاب تحفے میں دی جو میں پڑھنے کے بعد آپ کو بتاؤں گا کہ اس میں کیا لکھا ہے‘ یا ’کل میں ایک دعوت میں ہوٹل گیا/ گئی وہاں میں نے ایک نئی ڈش کھائی جو بہت انوکھی تھی، میں نے وہاں ایک بیرے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارے ہوٹل کی بہت خاص ڈش ہے ہما رے باورچی اٹلی سے سیکھ کر آئے ہیں‘۔ یہ پانچ یا دس منٹ کی گفتگو بچوں کے دماغ کو کھول دے گی اور وہ استاد کا پڑھایا ہوا جذب کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ دوستانہ ماحول میں پڑھانے کے استاد کو خاطر خواہ مثبت نتائج نظرآئیںگے۔

اگرچہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی کچھ اساتذہ کو جب بچوں کو سلیبس سے ہٹ کر گفتگو کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں مقررہ وقت پر نصاب ختم کروانا ہوتا ہے،ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے، لیکن انہیں یہی کہا گیا کہ اس طرح بچے ذہنی طور پر آسودہ ہو جاتے ہیں اور وہ زیادہ اچھا اور جلدی سیکھتے ہیں۔

سخت ورزش سے پہلے وارم  اپ کیا جاتا ہے ہلکی پھلکی اچھل کود ،جسم کو ورزش کے لیے تیار کرنے کے لیے اسی طرح کلاس کو ذہنی کام کے لیے تیار کرنے کے لیے ماحول خوشگوار کرنا بہت ضروری ہے۔

٭مثبت سوچ والا استاد= با اعتماد بچے

ہما رے ہاں بچوں کو ذہنی تناؤ میں رکھنا تعلیم کا ضروری حصہ سمجھا جاتا ہے، اور اکثر استاد منفی فقروں کا استعمال اپنی عادت بنا لیتے ہیں جو خود استاد اور بچے دونوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ مصر میں منعقد ہونے والے تلاوت قرآن مجید کے مقابلے میں پوری دنیا سے بچے اپنے والدین یا استاد کے ساتھ شرکت کرتے ہیں اس ڈاکو مینٹری https://www.youtube

.com/watch?v=mjbahxKVj9A میں بچوں کے تاثرات کو بہت اچھی طرح فلم بند کیاگیاکہ کس طرح وہ مقابلے کے لئے محنت کرتے ہیں اور کتنی ذہنی ٹینشن لیتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔

بارہ سالہ پاکستانی بچے عبدالمجید کی تلاوت بہت ہی پیاری ہے، اس کا سکور سو میں سے90.6 پوائنٹ بنتا ہے۔ ایک سیکنڈ کے سین میں استاد بہت غیر جذباتی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم نہیں جیتو گے۔ یہ ایک سچ تھا، مایوس کن سچ لیکن پھر بھی یہ فقرہ ایسا ہونا چاہئے تھا کہ بچہ اپنا دل چھوٹا نہ کرے کیونکہ مقابلے کی ایسی صورت حال میں بچے  پہلے ہی ڈرے ہوتے ہیں انہیں ایک حوصلہ افزا مسکراہٹ، اپنایت بھری تھپکی یا ایک مثبت فقرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناً استاد نے بہت محنت کروائی ہوگی اور استاد کو بھی مایوسی ہوئی ہوگی لیکن اتنی دور اجنبی ملک میں اتنے ججز اور کمپیوٹر کے سامنے اس بچے کا سکور بہت اچھا تھا۔ پاکستانی استاد نے بچے کے پہلے سے پریشان چہرے پر نظر ڈالے بغیر یہ فقرہ کہا۔ باقی بچوں نے غلطیاں بھی کیں اور ان کا سکور بھی کم ہوا لیکن ان کے ساتھ لوگوں کا رویہ مثبت تھا۔

٭’میری کلاس میں بچے بہت نالائق اور سست ہیں‘

یہ ایک عام فقرہ ہے جو اکثر استاد بچوں کے متعلق کہتے ہیں، لیکن یہ سراسر غلط جواز ہے۔ ایک طرفہ ٹریفک اب بند ہوجانی چاہئے۔ کب تک صرف استاد کو ہی سنا جائے گا اور طالب علم کو بولنے کا حق نہیں دیا جائے گا! یہ فیصلہ کون کرے گا کہ طالب علم نالائق ہے یا استاد کو پڑھانا نہیں آتا۔ امریکا میں ماہرین تعلیم نے اس موضوع پر بہت تحقیق کی ہے بہت سے بچوں کو نالائق اور پڑھنے کے جذبے سے خالی قراردے دیا گیا اور ایک سے زیادہ استادوں نے کہا کہ ہم ان سے مغز ماری کرکے تھک چکے ہیں۔ انہی بچوں کو مختلف طریقے سے پڑھایا گیا تو انہوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ انسانی فطرت ہے کہ انسان’ عادت کا عادی‘ رہنے میں سہولت محسوس کرتا ہے لیکن بڑی کامیابیاں صرف انہی لوگوں کو ملتی ہیں جو’ کمفرٹ زون‘ سے باہر نکلتے ہیں۔ اکثر استاد یہ سوچ کر زیادہ کوشش یا تجربات نہیں کرتے کہ تنخواہ تو وہی ہے اور سہولتیں بھی وہی ہیں تو کلاس میں کچھ لائق اور نالائق کا تناسب توہوتا ہی ہے لیکن یہ تناسب کی بات نہیں انصاف، حق اور مساوی حقوق کی بات ہے۔ اپنے کمائے ہوئے رزق کو حلال کرنے کی کوشش اور ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچوں کو معاشرے کا عضو ناکارہ بننے سے بچانے کی ضرورت ہے۔

ایلکس مور( Alix Moor) جیسے کئی استاد ہیں جو استادی کے پیشے کی شان بن کر جگمگاتے ہیں انکی کتاب’دی گفٹ‘ ہر استاد کو پڑھنی چاہئے، وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:’’ ٹیر نس کو میں نے سال بھر پڑھایا ، تیسری کلاس کا ایک بچہ، وہ ہما رے سکول میں نیا تھا اور اسے پڑھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ شروع میں ہم نے پہلی کلاس کی ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ جو ایک درمیانے درجے کا پہلی کلاس کا بچہ اس سال خزاں میں پڑھتا (ششماہی پرچوں کے بعد) ٹیر نس کو پڑھنے میں جو طریقہ اپنانے کی ضرورت تھی وہ تھا سمجھ کر پڑھنا۔ جب کوئی مشکل لفظ اسے سمجھ نہیں آتا تھا تو وہ اسے بار بار پڑھتا تاکہ سمجھ سکے۔ وہ جلدی پڑھنا سیکھ رہا تھا وہ بہت جلد پہلی کلاس کے دوسرے درجے کی کتابیں پڑھنے والا تھا۔ ٹیر نس کی ترقی سے میں خوش تھی لیکن تیسری کلاس اور پہلی کلاس کا فرق مٹانے کے لئے جتنی ترقی درکار تھی وہ اس سے بہت دور تھا۔

اب میں نے اپنے استادی کے خصوصی ڈبے سے کوئی بڑا ہتھیار نکالنے کا سوچا۔ میں نے ٹیر نس کو چیلنج کردیاکہ اگر وہ اپنی عمر اور کلاس کے درجے کے مطابق 25کتابیں پڑھ کر دکھا دے تو میں اسے اس کی پسند کے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے جاؤں گی۔ ٹیر نس بہت پر جوش ہوگیا۔ اس نے اپنی پسند کا ریسٹورنٹ منتخب کرلیا اور ایک دوست کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ ہما رے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا ہم نے شرائط لکھ کر دستخط بھی کردئیے۔ آہستہ آہستہ ٹیرنس نے خود سے ایسی کتابیں منتخب کرنا شروع کردیں جو نہ تو بہت آسان ہوتیں اور نہ بہت مشکل۔ (ایک آسان کتاب کا پڑھنا پھر بھی ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن بہت مشکل کو پڑھنا بے کار ہوگا)۔ ہر رات، وہ یاد رکھنے کی کوشش کرتا کہ سارا ہوم ورک ختم کر لے تاکہ پھر کوئی کتاب پڑھ سکے۔ وہ کتاب کا نام نوٹ بک میں درج کرتا، پھر اسے پڑھتا پھرسارا کچھ بستے میں پیک کر کے سوتا۔ اس کے لیے یہ سب کرنا آسان نہیں تھا اور کبھی کبھی وہ بھول جاتا لیکن پھر بھی اس کی نوٹ بک میں کتابوں کے نام بڑھتے ہی جا رہے تھے۔

ایک دن میں نے سوچا کہ شاید اب ٹیرنس آسان لیکن طویل ابواب والی کتابیں پڑھنے کے لیے تیار ہوچکا ہوگا۔ میں نے مناسب کتابوں کی تلاش شروع کردی، اس کے لیے دوکتابیں (ہاپ آن پوپ اور لٹل بئیر) منتخب کر لیں۔ جب میں نے وہ ٹیرنس کو دیں تو وہ اچھل پڑا کہ وہ کئی ابواب پر مشتمل لمبی کتاب پڑھ سکتا ہے۔ میں بھی بہت زیادہ پر جوش تھی، اتنی زیادہ کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کی یہ کامیابی کسی اور کو بھی نظر آنی چاہئے۔

اس مقصد کے لیے میں نے اور ٹیرنس نے چیپٹرز والی کتابیں پکڑیں اور پرنسپل کے دفتر کی طرف چل پڑے۔ میں اس کی کامیابی پرنسپل کو دکھانا چاہتی تھی لیکن وہ آفس میں نہیں تھی۔ پھر ہم نے سوچا کہ اسسٹنٹ پرنسپل کو ہی پڑھ کر سنا دیتے ہیں لیکن اس نے ہمیں انتظار کرنے کا کہا۔ آخر ٹیرنس نے اونچی آواز میں دونوں کتابیں پڑھیں جو کہ اسسٹنٹ پرنسپل اور سیکرٹریوں نے سنیں، جب اس نے پڑھنا بند کیا تو انہوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجا کر گرم جوشی کا اظہار کیا۔ ٹیرنس کی خوشی کی انتہا نہ تھی، وہ بادلوں میں اڑ رہا تھا۔ ’’مجھے یقین نہیں آرہا ، میں بھی طویل کتابیں پڑھ سکتا ہوں‘‘ یہ الفاظ وہ بے اختیار اور بار بار کہہ رہا تھا۔ میں اس کی خوشی دیکھ کر سوچ رہی تھی کلاس کے کمرے میں سب سے بڑی خوشی کامیابی کے ایسے لمحات ہوتے ہیں، جب ہرچیز ٹھیک ہوجاتی ہے، سٹوڈنٹ کو مسئلہ حل کرنا آجاتاہے تو استاد کو کامیابی مل جاتی ہے۔ استاد، طالب علم اورکامیابی، یہ کیسی مکمل اور اطمینان بخش تکون ہے‘‘۔ اس ساری کہانی کے اندر جو بات قابل غور ہے وہ استاد کی لگن اور پڑھانے کا جذبہ ہے کہ کس طرح ایلس جیسے استاد اپنی بے پناہ محبت سے ان گنت بچوں کو پڑھنا سکھاتے ہیں۔

ایلس کی کتاب پڑھتے وقت پاکستان کے اخباروں میں چھپنے والی معصوم بچوں پر ان گنت مظالم کی انتہائی تکلیف دہ خبریں یاد آتی ہیں کہ کیسے ایک معصوم اندھا بچہ جسے درس کے قاری نے سبق نہ آنے پر پنکھے کے ساتھ اتنا لٹکائے رکھا کہ وہ لٹکے لٹکے مر گیا، ایک کم عمر لڑکے کو بہت ہی معمولی بات پر استاد نے اتنا زدوکوب کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر تین چار دن بعد فوت ہوگیا۔ اس کے والدین ٹی وی پر بھی بلائے گئے تھے اور اس طرح کی ان گنت کہانیاں جو انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہیں۔

ایلس مور کی کتاب ’دی گفٹ‘ ھر استاد کے ٹیچنگ کورس کا لازمی حصہ ہونی چاھئے۔ ایلس کہتی ہیں کہ جب کلاس کے سب بچوں کو آپ کا پڑھایا سمجھ آ رہا ہو تو کوئی نہ کوئی ایسا بچہ ضرور ہوتا ہے جس کو آپ کا پڑھایا سمجھ نہیں آتا ، یہاں آپ کو اس بچے کے سمجھنے کے طریقے کو سمجھ کر اپنا سمجھانے کا طریقہ بدلنا ہوگا۔

The post استاد، طالب علم اور کامیابی کی تکون appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیمز؛ آبی ذخیروں کے بارے میں اہم معلومات اور دلچسپ حقائق

$
0
0

 کسی نے ڈیم کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ آبی ذخیرہ فطرت پر انسان کی فتح ہے۔

ڈیمز کے دو بڑے اور بنیادی کام یا مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد پانی کو ذخیرہ کرنا ہے جس کی مدد سے دریاؤں میں پانی کی طلب کے وقت اس کے بہاؤ کو متوازن بنانا ہے اور توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا ہے، تاکہ دوسرے پیداواری کام انجام دیے جاسکیں۔ مثلاً اس سے بجلی بنائی جاسکے۔

اس کے علاوہ اس کا دوسرا کام وقت ضرورت اس ذخیرہ شدہ پانی کی سطح کو اس کی ذخیرہ گاہ کے اندر اس حد تک بلند کرنا ہے تاکہ اس پانی کو مطلوبہ مقام تک بہ ذریعہ نہر یا کینال پہنچایا جائے۔ اس طرح ایک طرف تو یہ پانی نہر کے ذریعے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائے گا اور ساتھ ہی یہ اس حد تک بلند سطح پر پہنچ جائے گا جس کے بعد اس کو توانائی پیدا کرنے کے لیے حسب منشا استعمال کیا جاسکے یعنی ریزروائر کی سطح اور دریا کے نچلے بہاؤ کے درمیان بلندی کو کم کیا جاسکے۔

پانی کے ذخیرے کی تخلیق اور اس کا بالائی حصہ ڈیمز میں بجلی کو جنریٹ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہائیڈرو پاور دنیا کی بجلی کا لگ بھگ پانچواں حصہ فراہم کرتی ہے، اسی کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار کو بجلی ملتی ہے، ہماری صنعتوں کو بھی اسی کی وجہ سے بجلی فراہم ہوتی ہے، اور پھر ہمارے گھروں کو بھی بجلی فراہم ہونے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ اور اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں اسی بجلی کے ذریعے معاونت ملتی ہے۔اس کے علاوہ بھی یہ ڈیمز مختلف دوسرے کاموں میں ہماری مدد کرتے ہیں جیسے: فشریز کے کاموں کے لیے مدد کرنا اور بوٹنگ وغیرہ میں بھی اس کی مدد حاصل کرنا۔

٭ڈیمز کی تاریخ: دنیا کی تاریخ میں ابتدائی اور قدیم ترین ڈیمز جن کے آثار بھی ملتے ہیں، یہ 3,000 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ آج کے دور جدید کے اردن میں جاوا شہر میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس ڈیم یا پانی کے سسٹم میں ایک 200 میٹر چوڑا ڈیم یا پشتہ شامل ہے جو ایک نہر کے ذریعے پانی کو دس چھوٹے چھوٹے ریزروائرز کو منتقل کرتا تھا۔ اس میں پانی ایک بلند چٹان سے کافی زور کے ساتھ گرتا تھا اور نیچے زمین پر بنے ہوئے ڈیمز کے ذریعے اسٹور ہونے کے بعد آگے جاتا تھا۔ ان میں سب سے بڑا ڈیم چار میٹر بلند اور 80 میٹر طویل تھا۔

اس کے کوئی 400 سال بعد غالباً پہلے اہراموں کے وقت کے قریب مصری معماروں نے Sadd el–Kafra تعمیر کیا جسے Dam of the Pagans بھی کہا جاتا تھا، یہ ڈیم قاہرہ کے قریب موسمی چشمے کے آر پار تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ریت، بجری اور چٹانی پتھروں کا سکڑا سمٹا ہوا ڈھیر 14 میٹر بلند اور 113 میٹرز طویل تھا جسے 17,000 کٹے ہوئے پتھروں سے اس طرح سہارا دیا گیا تھا کہ جیسے ایک پشتے کو دیا جاتا ہے۔ پھر غالباً تعمیر کے ایک عشرے بعد یہ ڈیم جزوی طور پر بہ گیا اور اس کی مرمت بھی نہیں کی گئی۔ یہ ناکام ڈیم اصل میں مقامی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

دریائے نیل سے آنے والے سیلاب ویسے ہی اس دریا کے پانی کو دور دور تک پھیلادیتے تھے، اس لیے مصر کے کاشت کاروں کو نہ ڈیمز کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ ہی ایسے اسٹور شدہ پانی کی، چناں چہ یہ ڈیم ان کے لیے کسی کام کے ثابت نہ ہوسکے۔

پہلے میلینیم (قبل مسیح) کے اواخر تک بحیرہ روم کے اطراف میں چٹانی اور دیگر پتھروں کے ڈیمز تعمیر کیے گئے، یہ سب ڈیمز مشرق وسطیٰ، چین اور وسطی امریکا میں تعمیر ہوئے تھے۔ لیکن رومی انجنیئرز کے تعمیر کردہ ڈیمز میں ان کی ہنرمندی بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سب سے متاثر کن رومی ڈیم آج بھی اسپین میں موجود ہے جو مور عہد سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔

ایک اور 46 میٹر بلند پتھریلا ڈیم جو Alicante کے قریب بنایا گیا تھا اس کی تعمیر 1580 میں شروع ہوئی تھی اور یہ لگ بھگ 14  برسوں میں مکمل ہوا تھا، یہ ڈیم کوئی معمولی نہیں تھا، بل کہ یہ دنیا کا بلند ترین ڈیم تھا جو کم و بیش تین صدیوں تک دنیا کا سب سے بلند ڈیم شمار ہوتا رہا۔

٭جنوبی ایشیا میں ڈیمز کی تعمیر کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں سری لنکا کے شہروں میں چوتھی صدی قبل مسیح میں طویل اور لمبے پشتے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان ابتدائی پشتوں میں سے 460 عیسوی میں 34 میٹر بلند ڈیم تعمیر کیے گئے تھے جب کہ ایک میلینیم سے بھی زیادہ عرصے بعد دنیا کا بلند ترین ڈیم تعمیر کیا گیا تھا۔

شاہ پرکارما بابو بارھویں صدی کا ایک سنہالی حکم راں تھا جو ایک غارت گر کے طور پر مشہور تھا۔ اس نے 4,000 سے زیادہ ڈیم تعمیر کرائے تھے۔اس نے ایک پتھریلا پشتہ پندرہ میٹر کی بلندی تک تعمیر کرایا تھا جس کی لمبائی لگ بھگ14 کلو میٹر تھی۔ اس کے حجم کے برابر کوئی دوسرا ڈیم نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ پرکارما بابو کے ان ڈیمز سے سری لنکا کی دیہی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا، کیوں کہ اس خطے کے کاشت کار یا تو بارشوں سے آب پاشی کا کام لیتے تھے یا پھر چھوٹے مصنوعی تالاب بناکر ان سے اپنی ضرورت پوری کرتے تھے۔

بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو بدل کر میکینیکل انرجی میں بدلنے کی ٹیکنالوجیز کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسی طرح آب پاشی کی بھی اپنی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قدیم مصر اور سمیریا میں رہٹ کے ذریعے کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح تک روم میں ا ناج کو پیسنے کے لیے پن چکیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ازمنہ وسطی میں جرمنی اور شمالی اٹلی میں صنعتی مراکز میں ایسی پن چکیں استعمال کی جاتی تھیں۔

٭انیسویں صدی کے ڈیم: انیسویں صدی صنعتی شعبے میں تیزی سے ترقی پانے والی صدی تھی جس کے دوران 15 میٹرز سے زائد بلند لگ بھگ 200 ڈیمز تعمیر کیے گئے۔برطانیہ کو اپنے تیزی سے پھیلتے اور ترقی پاتے شہروں کے لیے پانی اسٹور کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔1900 میں برطانیہ میں بڑے ڈیم اتنے زیادہ تھے جو باقی پوری دنیا کی تعداد کے برابر تھے۔

انیسویں صدی کے ڈیم زیادہ تر پتھر سے تعمیر کردہ پشتوں پر مشتمل تھے مگر ان میں خاصی پیچیدگیاں تھیں۔ اس دور میں مٹی اور چٹانوں پر بھی ریسرچ کی گئی، تاکہ ڈیمز کی تعمیر کے لیے مناسب زمین منتخب کی جائے۔کسی جگہ ڈیمز تعمیر کرنے کے لیے نہ صرف اس جگہ کہ مٹی کو دیکھا جاتا ہے ، بلکہ وہاں پانی کے بہاؤ اور بارش کا بھی ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔

اس سارے ڈیٹا کی تیاری اور پوری ریسرچ کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ ڈیم کہاں اور کس طرح تعمیر کرنے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر کے دوران کافی حادثات بھی پیش آئے اور اچھے خاصے لوگ مارے بھی گئے۔ امریکا میں متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے جب ڈیمز کی تعمیر کے دوران بہت سے حادثات نے جنم لیا اور ان کے نتیجے میں کئی ڈیمز ناکام بھی ہوئے۔

فرانسیسی انجینئر Benoit Fourneyron نے 1832ء میں پہلی واٹر ٹربائن تیار کی جس سے واٹر ملز کی کارکردگی بڑھ گئی۔ ٹربائن وہ چیز ہے جو اوپر سے گرتے ہوئے پانی کی پوٹینشیل انرجی کو میکینیکل انرجی میں بدل دیتی ہے۔ یہ بعد میں آنے والے برسوں میں کام یاب رہی جس کی وجہ سے بعد میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں بڑی پیش رفت ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاور اسٹیشنز اور ٹرانسمیشن لائنز وجود میں آئیں۔

اگلے چند عشروں کے دوران چھوٹے ہائیڈرو ڈیم دریاؤں اور چشموں پر تعمیر کیے گئے جن میں یورپ میں زیادہ کام ہوا تھا۔ ایلپس کی پہاڑیوں میں اسکینڈیویا میں بھی بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے۔اگلی صدی کے دوران ان ڈیمز اور پاور اسٹیشنز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ان کی خامیاں بھی بہ تدریج دور ہوتی چلی گئیں۔

٭اہم نکات:

تاجکستان کا Rogun Dam  دنیا کا سب سے بلند ڈیم ہے جس کی بلندی 1,099 فٹ یا 335 میٹر ہے۔

ڈیمز اور ریزروائر کیا ہوتے ہیں؟ ڈیمز اور دیگر اسٹرکچرز جو دریاؤں پر تعمیر کیے جاتے ہیں، ان کا مقصد کی ایک یا زیادہ مقاصد کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنا ہوتا ہے یعنی ہائیڈرو الیکٹریسٹی جنریشن کے لیے۔

٭ریزروائر اصل میں ڈیمز کے پیچھے تعمیر کیے جاتے ہیں۔

ایک ریزروائر پانی کی ایک باڈی ہے جو خاص مقاصد کے لیے انسان کی کوششوں سے وجود میں آتی ہے۔ تاکہ انہیں ایک قابل اعتماد اور قابل کنٹرول ذریعہ مل سکے۔

٭گلینمور ریزروائر:گلینمور ریزروائر ڈیو کیچپ کے لائسنس کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔

٭ڈیمز اور ریزروائر کیا کام کرتے ہیں؟

ڈیمز اور ریزروائر بہت سے کاموں اور مقاصد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ یہ مقصد ایک بھی ہوسکتا ہے اور متعدد بھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں بھی آسکتی ہیں۔ویسے ڈیمز اور ریزروائر کے درج ذیل مقاصد ہوسکتے ہیں:

٭پانی کو ذخیرہ کرنا: یعنی ان کے ذریعے پانی کو میونسپل یعنی گھریلو مقاصد یا پھر کاشت کاری کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

٭بجلی کی پیداوار کے لیے:ڈیمز اور ریزروائر کو بجلی کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

٭تفریحی مقاصد کے لیے:ریزروائرز کو تفریحی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بوٹنگ اور فشنگ وغیرہ۔

٭سیلاب سے تحفظ: بعض ڈیمز اس انداز سے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ خاص طور سے سیلاب سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

یہ خاص قسم کے ڈیمز سیلاب سے تیس سے پچاس فی صد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پانی کے نچلے بہاؤ والے ایریاز کو بھی خالی کرانے میں مدد کرتے ہیں، جب کہ ایک ڈیم کا دوسرا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے سیلاب سے تحفظ فراہم کیا جائے۔اگر مناسب منصوبہ ڈیمی کی جائے تو ایک ریزروائر کی سطح نچلی کرکے سیلاب کے پانی کو روکا جاسکتا ہے۔

٭آلودگی کا کچرا:بعض اوقات ریزروائرز آلودگی اور کچرا روکنے کے لیے بھی تعمیر کیے جاتے ہیں۔

٭دنیا کے 10سب سے بڑے ڈیمز:

Longtan Dam: یہ ڈیم چین کے ہانگ شوئی دریا پر واقع ہے۔

Grand Coulee: یہ ڈیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے دریائے کولمبیا پر واقع ہے۔

Xiangjiaba: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔

Tucuruí: یہ ڈیم برازیل کے دریائے ٹوکنٹنز پر واقع ہے۔

Tucuruí: یہ ڈیم وینی زوئلا میں دریائے کیرونی پر واقع ہے۔

Xiluodu: یہ ڈیم چین میں دریائے ژن شا پر واقع ہے۔

Itaipu Dam: یہ ڈیم برازیل اور پیراگوئے میں مشترکہ طور پر دریائے پارانا پر واقع ہے۔

٭ دنیا کا بلند ترین ڈیم:

دنیا کا سب سے بلند اور لمبا ڈیم Jinping-I Dam ہے جو ایک کمان کی صورت میں 305 m (1,001 ft) چین میں واقع ہے۔ دنیا کے سب سے بلند پشتے اور دوسرے سب سے بلند ڈیم 300 m (984 ft) کا نام  Nurek Dam ہے جو تاجکستان میں واقع ہے۔ سب سے بلند کشش ثقل کا حامل ڈیم 285 m (935 ft)  ہے جس کا نام Dixence Damہے اور جو سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے۔

٭ دنیا کا قدیم ترین ڈیم

دنیا کا قدیم ترین ڈیم Kallanai Dam جسے Anicut بھی کہا جاتا ہے، یہ تاریخ کا چوتھا قدیم ترین ڈیم ہے۔ یہ آج بھی انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کے لوگوں کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ڈیم دوسری صدی عیسوی میں چولا دور حکومت کے شاہ کاری کالا چولا نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ ڈیم دریائے کاویری پر واقع ہے جو Tiruchirapalli شہر سے لگ بھگ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

٭اسوان ڈیم: مصر میں واقع اہم تاریخی ذخیرۂ آب:

اسوان ڈیم مصر کے شہر اسوان کے قریب دریائے نیل پر بنایا گیا ایک عظیم ڈیم ہے۔ دراصل یہ دو ڈیم ہیں جن میں ایک جدید اور ایک قدیم ہے۔ جدید ڈیم کو عربی میں ’’السد العالی‘‘ جب کہ انگریزی میں Aswan High Dam کہتے ہیں۔ قدیم ڈیم کو Aswan Low Dam کہا جاتا ہے۔ قدیم اسوان ڈیم کی تعمیر برطانوی دور میں ہوئی جو 1899ء میں شروع ہوکر 1902ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 1900 میٹر طویل اور 54 میٹر بلند تھا۔ 1907ء سے 1912ء اور 1929ء سے 1933ء کے درمیان میں دو مراحل میں اس ڈیم کی بلندی میں اضافہ کیا گیا۔ 1946ء میں جب ایک مرتبہ پھر ڈیم میں پانی زیادہ ہو گیا تو اس دفعہ تیسری مرتبہ ڈیم کو بلند کرنے کے بجائے نئے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا جسے قدیم ڈیم سے 6 کلومیٹر دور تعمیر کیا گیا۔

1952ء میں جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں چیکوسلواکیہ سے خفیہ عسکری معاہدے اور عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے پر امریکا اور برطانیہ نے ڈیم کی تعمیر کے لیے 270 ملین ڈالر کا قرضہ دینے سے انکار کر دیا جس پر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے اس سے ہونے والی آمدنی سے ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے نے یورپ میں تہلکا مچادیا اور برطانیہ اور فرانس کی مدد سے اسرائیل نے مصر پر حملہ کرتے ہوئے نہر سوئز پر قبضہ جمالیا۔ یہ واقعہ سوئز بحران کہلاتا ہے۔

اقوام متحدہ، روس اور امریکا نے مداخلت کرتے ہوئے قابض افواج سے مصر نے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کر لیا گیا۔ سرد جنگ کے ان دنوں میں سوویت یونین نے افریقا میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے 1958ء میں مصر کو اسوان ڈیم کی تعمیر میں تعاون کی پیشکش کی اور بہ طور تحفہ ایک تہائی لاگت بھی دینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ تکنیکی ماہرین اور بھاری مشینری بھی مہیا کی۔ 1960ء میں ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا گیا اور ’’السد العالی‘‘ 21 جولائی 1970ء کو مکمل ہوا۔

٭ خصوصیات:

جدید اسوان ڈیم 3600 میٹر طویل، بنیادوں پر 980 میٹر اور ہلال پر 40 میٹر عریض اور 111 میٹر بلند ہے۔ ڈیم میں ہر سیکنڈ میں 11 ہزار مکعب میٹر پانی گزر سکتا ہے۔ اس عظیم ڈیم کی تعمیر سے بننے والی جھیل کو ’’جھیل ناصر‘‘ کا نام دیا گیا جو 550 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر عریض ہے۔ اس کا سطحی رقبہ 5250 مربع کلومیٹر ہے۔ ڈیم سے 175 میگا واٹ کے 12 جنریٹر چلتے ہیں جو 2.1 گیگا واٹ کی پن بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کا آغاز 1967ء میں ہوا۔

The post ڈیمز؛ آبی ذخیروں کے بارے میں اہم معلومات اور دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>