Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

سلطنت روم کی عظیم اختراعات جنہوں نے دنیا کی صورت گری کی

$
0
0

یہ بات درست ہے کہ رومی سلطنت آج سے تقریباً 2000 سال قبل ہوگزری ہے تاہم اس کے دور میں کیے گئے چند اقدامات سے دنیا ابھی بھی مستفید ہورہی ہے۔

عموماً یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ زمانہء قدیم کے لوگ بہت پسماندہ تھے اور سادہ زندگی گزارا کرتے تھے لیکن یہ خیال جزوی طور پر ہی درست مانا جاسکتا ہے۔ آج کی جدید ٹیکنالوجی بڑی حد تک قدیم رومی لوگوں کی مرہون منت ہے۔ عمارتوں سے لے کر تفریحات تک رومی روایات، علم اور ڈیزائن صدیوں سے نقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ آئیے ایک نظر ان پر ڈالتے ہیں۔

-1 محرابیں (Arches)
محرابیں رومیوں کی ایجاد ہرگز نہیں ہیں لیکن انہوں نے ان کا بہترین استعمال کیا۔ جس انداز میں رومی اپنی عمارتیں تعمیر کرتے تھے اس میں محرابوں کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ رومیوں نے عمارتی علم کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی جدتیں بھی پیدا کیں اور اس فن میں کمال خوبصورتی لے کر آئے۔ ان کی اس محرابی تکنیک نے زیر زمین پانی کی نالیوں (کاریز)، کھیلوں کے آڈیٹوریمز، عبادت گاہوں اور سٹیڈیمز کو مضبوطی و پائیداری عطا کرنے کے علاوہ ان کے عمارتی حسن کو چار چاند لگادیئے۔ یہ عمارتیں ناصرف ہزاروں سال تک قائم رہیں بلکہ ان کی تعمیری تکنیک آج بھی مستعمل ہے۔

-2 رومی جمہوریہ(Roman Republic)
روم کی عظیم سلطنت بننے سے قبل ابتدائی طور پر یہ اطالوی جزیرہ نمامیں وجود میں آئی۔ اس وقت بھی یہ ایک جمہوری ریاست تھی جس کا نظام دو منتخب کونسلز چلاتی تھیں۔ ایک صدارتی کونسل جبکہ دوسری سینٹ کا کردار ادا کرتی تھیں۔ ان میں یہ جمہوری نظام اس دور میں رائج تھا جب دنیا کے بیشتر ممالک میں بادشاہت قائم تھی۔ برسوں بعد ان کے اس جمہوری طرز حکومت کو امریکہ اور دیگر ممالک نے نمونے کے طور پر اپنایا۔

-3 کنکریٹ (Concrete)
رومی، کنکریٹ کی ٹھوس اور پائیدار قسمیں بنانے کے ہنر میں بھی طاق تھے۔ ان کا بنایا ہوا کنکریٹ موجودہ زمانے کے کنکریٹ کے معیار کو شرمندہ کرسکتا ہے کیونکہ آج کے دور کا کنکریٹ پائیداری میں زیادہ سے زیادہ 50 سالہ معیاد رکھتا ہے اور پھر ٹرخنا شروع ہوجاتا ہے جبکہ رومی دور کے کنکریٹ سے بنی عمارتیں صدیوں سے سر اٹھانے کھڑی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رومی انجینئر ’’مارکس ویٹووویس‘‘ (Marcus Vitruvius) نے یہ مضبوط ترین کنکریٹ، آتش فشانی راکھ، چونے کے پتھر اور سمندری پانی کے ملاپ سے تیار کیا تھا۔ رومی ان تینوں چیزوں کو آتش فشانی چٹانوں کے پتھروں کے چورے کے ساتھ مکس کرکے مزید سمندری پانی میں ڈبو دیتے تھے۔ دس سال کے بعد اس کنٹکریٹ میں ایک نایاب معدنی عنصر جسے ’’الومینیم ٹوبرمورائٹ‘‘ Aluminum Tobermorite) کہا جاتا ہے، تشکیل پاجاتا تھا جو اسے ناقابل یقین حد تک پائیدار بنا دیتا تھا۔

-4 تفریح (Entertainment)
رومی تفریحات کے بے حد شوقین تھے۔ بہت سے رومی لیڈروں نے عوام کی اس دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفت تفریحی سرگرمیوں کو خوب فروغ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح لوگوں کو خوش کرکے وہ تادیر اقتدار کے ایوانوں کے لیے منتخب کیے جاتے رہیں گے۔ رتھوں کی ریس، جنگجوئوں کے درمیان مقابلے اور تھیٹروں میں ڈرامے سمیت اسی طرح کی دوسری تفریحات اس وقت بھی لوگوں کا دل لبھاتی تھیں اور آج بھی یہ بہت مقبول ہیں۔ گو اب ان کی شکل قدرے تبدیل ہوگئی ہے اور رتھوں کی جگہ کاروں، جنگجوئوں کی بجائے پہلوانوں (ریسلرز) اور تھیٹر ڈراموں کے ساتھ ساتھ فلموں اور سینما نے لے لی ہے۔

-5 سڑکیں اور ہائی ویز (Roads And Highways)
جب رومیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ پختہ سڑکیں اور بڑی بڑی شاہراہیں ان کی فوجوں کی نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرکے انہیں ایک عظیم طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں تو انہوں نے ہر طرف سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ 700 سال کے عرصے میں انہوں نے پورے یورپ میں تقریباً 5,500 میل لمبی سڑکیں بنائیں۔ یہ سڑکیں انجینئرنگ کا اعلیٰ نمونہ اور مثال تھیں۔ ان سڑکوں کو پختگی و پائیداری کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا تاکہ ساری سلطنت میں تیز رفتار آمدورفت کو یقینی بنایا جاسکے۔ آج 2000 سال گزر جانے کے باوجود ایسی بہت سی سڑکیں اب بھی قابل استعمال ہیں۔

-6 جولین کیلنڈر(The Julian Calender)
رومی تاریخ میں مختلف کیلنڈرز رائج رہے ہیں تاہم ان سب میں سب سے اہم اور بہترین جولین کیلنڈر ہے۔ آج کے دور میں ساری دنیا میں استعمال ہونے والا ہمارا گریگورین کیلنڈر اسی رومی جولین کیلنڈر کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ جولین کیلنڈر کے مہینے، دن اور یہاں تک کہ ’’لیپ سال‘‘ (Laeap Year) کا حساب اتنا درست تھا کہ آج کا جدید کیلنڈر کچھ ترامیم کے ساتھ انہیں اصولوں اور ضوابط پر ترتیب دیا گیا ہے۔

-7 کھانے کا التزام (Fine Dining)
قدیم رومی خوش خوراک تھے اور اچھا کھانا انہیں نہایت ہی مرغوب تھا، جس کا وہ خاص اہتمام کرتے تھے۔ان کے گھروں میں کھانے کا کمرہ انتہائی اہمیت کا حامل اور ایک لازمی جز ہوتا تھا اور اس کے لیے خاص طور پر جگہ مختص کی جاتی تھی۔ آج کے جدید کھانوں کی طرح روایتی رومی کھانے بھی ایک وقت میں کم از کم تین مختلف پکوانوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ ان میں باقاعدہ کھانے سے پہلے ہلکی پھلکی کھانے پینے کی چیزیں جو بھوک کی اشتہا کو بڑھانے کا کام کرتی تھیں، جنہیں آج کل ’’ایپیٹائز‘‘ (Appetizers) کہا جاتا ہے۔ پھر مرکزی یا اصل کھانا اور آخر میں سویٹ ڈش یا میٹھا۔ کھانے کے دوران ’’وائن‘‘ (Wine) کا دور مسلسل چلتا رہتا تھا۔ ان کا یہ رواج یونانیوں سے مختلف تھا جو کھانا کھا چکنے کے بعد شراب پینا پسند کرتے تھے۔

-8 مجلد کتابیں (Bound Books)
مجلد کتابوں سے پیشتر دنیا کی مختلف تہذیبوں میں پتھر کی تختیاں یا پھر ایسے چرمی پارچے جو گول لپیٹے جاسکیں، استعمال ہوتے تھے۔ پہلی صدی عیسوی میں رومیوں نے چرمی پارچاجات یا پودوں کی چھال سے بنائے گئے کاغذوں کو باہم نتھی کرکے مجلد کتابوں کی شکل دی۔ یاد رہے کہ کاغذوں کو آپس میں نتھی کرکے باقاعدہ کتابوں کی صورت دینے کا کام پانچویں صدی عیسوی میں انجام دیا جانے لگا۔

-9 پلمبری (Plumbing)
قدیم رومیوں نے پلمبری کا ایک انقلابی نظام شروع کیا۔ اس کی شروعات زیر زمین پانی کی نالیوں کے ذریعے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی کے ذریعے کیا گیا اور پھر اسے ترقی دیتے ہوئے سب جگہوں پر سیسے کے پائپوں کا جال بچھا دیا گیا۔ رومی تہذیب وہ پہلی تہذیب تھی جس نے اس مفید سہولت کی بنیاد رکھی جو مستقبل میں رسائی حاصل کرتے کرتے آج ہم تک آپہنچی ہے۔

-10 کوریئر سروس(Courier Service)
رومی فرماروا ’’آگسٹس‘‘ (Augustus) نے تاریخ کی پہلی کوریئر سروس شروع کی جسے ’’کرسس پبلیکس‘‘ (Cursus Publicus) کہا جاتا تھا۔ اس کی مدد سے پیغامات اور ٹیکس کے بارے میں معلومات پوری رومی سلطنت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک تیز رفتاری سے پہنچائی جاتی تھیں۔ ’’آگسٹس‘‘ نے اس سروس کا بنیادی خیال ایرانیوں کے ہاں پائے جانے والے پیغام رسانی کے ایک ایسے ہی نظام سے اخذ کیا تھا تاہم اس نے اس نظام میں تبدیلی کرکے ایرانیوں کے برعکس متعدد لوگوں کی بجائے ایک ہی فرد (کوریئر) کو مقررہ مقام تک ڈاک پہنچانے کی ذمہ داری سونپنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طرح اس نے پیغام کی رازداری برقرار رکھنے اور براہ راست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

-11 اسٹیڈیم نما تھیٹر(The Colosseum)
’’فلیوین ایمفیتھیٹر‘‘ (Flavian Amphitheater) کے نام سے جانا جانے والا رومی ’’کولوسیم‘‘ (Colosseum) لوگوں کے لیے ایک تحفے سے کم نہ تھا۔ اس کا افتتاح 80 قبل از مسیح میں ہوا اور یہ 100 روزہ کھیلوں کے یادگار مقابلوں کے لیے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ آج بھی اس کی عمارت رومیوں کی تعمیراتی کارناموں اور ان کے تفریح کے دلدادہ ہونے کے نمونے کے طور پر شان سے سر اٹھائے کھڑی ہے۔

-12 قانونی نظام (Legal System)
قدیم روم میں نافذ قانونی نظام زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنا تھا۔ شہریت، جرائم اور سزا، ذمہ داری و جواب دہی اور تباہ شدہ املاک سے لے کر عصمت فروشی، غلاموں کی آزادی اور ہرجانے، مقامی سیاست غرض زندگی کے ہر ہر رخ اور معاملے پر محیط بہترین خدوخال سے مزین قانونی نظام کی تشکیل میں رومیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کانسی کی 12 پلیٹوں پر شہریوں کے حقوق و فرائض کی تفصیلات کندہ کرکے عام شہریوں کے فورم کی عمارت کے باہر آویزاں کردی گئیں تھیں تاکہ تمام شہریوں کو اپنے حقوق و فرائض کے متعلق آگاہی ہو اور انہیں پتا ہو کہ تمام شہری برابر حیثیت کے حامل ہیں اور انہیں یکساں قانونی حقوق حاصل ہیں۔ ان پلیٹوں کو ’’ٹویلوٹیبلز‘‘ (Twelve Tables) کہا جاتا تھا۔

-13 اخبارات (Newspaper)
اخبارات کی تاریخ بہت پرانی اور طویل ہے۔ روم میں ابتدائی طور پر سینٹ کی میٹنگز کا تحریری ریکارڈ لکھنے کا طریقہ رومیوں نے شروع کیا۔ اس ریکارڈ کو ’’ایکٹاسینٹس‘‘ (Acta Senatus) کہا جاتا تھا اور یہ مطالعہ کے لیے صرف سینیٹرز کو مہیا کہا جاتا تھا۔ بعد میں البتہ 27 قبل از مسیح کے لگ بھگ عوام الناس کے لیے ایک سرکاری روزنامچہ (گزٹ) جاری کیا گیا جس کا نام ’’ایکٹاڈیورنا‘‘ (Acta Diurna) تھا جو عام دستیاب تھا۔ یہ اخبار کی ابتدائی شکل تھی۔

-14 دیواروں پر لکھی جانے والی تحریر (Graffiti)
آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ ’’گرافیٹی‘‘ (Graffiti) فنون لطیفہ کی کوئی جدید صنف نہیں ہے بلکہ یہ بھی قدیم روم سے چلی آرہی ہے۔ 79 قبل از مسیح میں اٹلی کے آتش فشاں ’’مائونٹ وسیوویس‘‘ (Mount Vesuvius) کے پھٹنے پر ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ اس سے نکلنے والی آتش فشانی راکھ نے مشہور رومی فرمانروا ’’پومپائی‘‘ (Pompeii) کے زمانے کی دیواری تحریروں کے نمونوں کو ڈھانپ کر محفوظ کردیا۔ ان دیواری تحریروں میں لکھی ہوئی بہت سی باتوں میں سے ایک زبردست فقرہ یہ تھا کہ ’’اے دیوار میں حیران ہوں کہ اتنی فرسودا تحریریں تجھ پر لکھی جانے کے باوجود تو انھیں ابھی تک کیسے برداشت کررہی ہے؟ تجھے تو کبھی کا ڈھ جانا چاہیے تھا‘‘۔

-15 رفاۂ عامہ (Welfare)
قدیم روم کا محنت کش طبقہ ’’پلیبینز (Plebians) کہلاتا تھا۔ یہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود حیثیت کے لحاظ سے کمزور تھے۔ ان کی حالت زار کے پیش نظر روم کے حکمرانوں، خاص طور پر 98 تا 117 عیسوی میں حکمران رہنے والے ’’ٹراجن‘‘ (Trajan) نے ’’سوشل ویلفیئر سسٹم‘‘ قائم کیا، جس کے تحت غریب ترین لوگ انتظامیہ سے امداد حاصل کرسکتے تھے۔ روم کا حکمران ’’آگسٹس‘‘ (Augustus) عوام الناس کو ’’روٹی‘‘ کی فراہمی اور ’’سرکس‘‘ جیسی تفریحات مہیا کرکے خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا تاکہ وہ فسادات پر آمادہ نہ ہوجائیں۔

-16 عمارتوں کو گرم رکھنے کا نظام(Central Heating)
HVAC (ہیٹنگ، وینٹی لیشن اور ایئر کنڈیشنگ) کا پہلا معلوم نظام رومیوں نے بنایا۔ اس کو ’’ہائپو کاسٹ‘‘ (Hypocaust) کہا جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر بڑے عوامی حماموں میں حرارت، ہوا کی آمدورفت اور ٹھنڈک کے حصول کے لیے ہوتا تھا۔ اونچے فرش اور مستقل جلتے رہنے والی آگ کے ذریعے ان حماموں میں گرمائش اور گرم پانی کی فراہمی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

-17 فوجی ادویات(Military Medicine)
پرانے زمانے میں بہت سے فوجی زخمی ہوجانے کے باعث میدان جنگ سے دور رہنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ تاہم دوسری صدی عیسوی میں روم کے حکمران ’’ٹراجن‘‘ کے دور میں رومی افواج میں ’’میڈیسی‘‘ (Medici) یعنی ڈاکٹروں کو تعینات کیا جانے لگا تاکہ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں اور چھوٹی موٹی جراحی بھی کرسکیں۔ بعدازاں میدان جنگ میں باقاعدہ گشتی ہسپتال قائم کیے جانے لگے اور زیادہ تربیت یافتہ معالج فوجیوں کے ساتھ ہوتے تھے تاکہ ان کا بہتر علاج ممکن ہو۔

-18 رومی اعداد(Roman Numerals)
بنیادی طور پر رومی اعداد، اجناس کی قیمتوں اور سہولیات کے معاوضوں کی گنتی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اس دور میں ہر خاص و عام ان کے استعمال سے آشنا تھا۔ آج کل یہ زیادہ تر روایتی موقعوں پر ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اولمپکس، بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ، عمارت کی تعمیر کے دوران نمبرنگ کرنے اور نیشنل فٹ بال لیگ کے کھیلوں کے لیے ان کا استعمال ہوتا ہے۔

-19 گندے پانی کا نکاس (Sewers)
رومی دور کے نکاسی آب کے نظام کا تعلق 500 سال قبل از مسیح کے جزیرہ نمائے اٹلی کی ’’ایٹروسکین‘‘ (Etruscan) تہذیب سے جاملتا ہے۔ رومیوں نے اس نظام کو بہتر بناکر مزید وسعت دی۔ ابتدائی طور پر یہ نظام گندے پانی کی نکاسی کے بجائے سیلابی پانی کے نکاس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

-20 سیزیرین آپریشن(Cesarean Section)
بدقسمتی سے ہمارے یہاں آج کل چند حریص ڈاکٹرز بچے کی پیدائش کو نارمل ڈلیوری کی بجائے محض اپنے لالچ کی وجہ سے آپریشن کے ذریعے عمل میں لاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹور سکیں۔ لیکن رومی قانون میں سیزر کے احکامات کے مطابق ان تمام حاملہ خواتین کا، صرف اس وقت آپریشن کیا جاتا تھا جو بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کرجاتی تھیں یا قریب المرگ ہوتی تھیں، تاکہ بچے کو بچایا جاسکے۔ اس وقت چونکہ ماں کو بچانے کی ادویات ایجاد نہیں ہوئی تھیں اس لیے کوشش کی جاتی تھی کہ کم از کم بچے کو ہی بچالیا جائے۔ لیکن آج کل کے ڈاکٹروں کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ آپریشن کو آخری قدم کی بجائے پہلے قدم کے طور پر لیتے ہیں تاکہ پیسہ بنایا جاسکے۔

-21 آلات طب (Medical Tools)
ہمیں رومی فرمانروا ’’پومپیائی‘‘ (Pompeii) کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس کے دور میں روم میں استعمال ہونے والے آلات طب بعد تک محفوظ رہے اور یوں ہمیں آج ان کے نمونے دستیاب ہونے کے باعث ان کو مزید بہتر کرکے استعمال میں لانے کا موقع ملا۔ ان آلات طب میں سے بہت سے آلات ایسے تھے جو اپنی ابتدائی شکل میں ہی 20 ویں صدی عیسوی تک اسی طرح استعمال ہوتے رہے جیسے قدیم رومی دور میں استعمال کیے جاتے تھے۔ ان میں زیادہ تر آلات نظام ہاضمہ اور نظام تناسل کے معائنے سے متعلق ہیں۔

-22 شہری منصوبہ بندی(City Plannig)
رومیوں کو بجا طور پر بہترین شہری منصوبہ بندی کرنے پر دادو تحسین کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت انہوں نے فصیلوں والے چند ابتدائی شہر آباد کیے۔ ان کے یہ شہر بعد میں جدید ٹریفک، خاص طور پر تجارتی ذرائع نقل وحمل کے ڈیزائنوں کے لیے ابتدائی نمونے ثابت ہوئے۔ ان شہروں کی منصوبہ بندی کے بعد رومیوں نے یہ سیکھا کہ اس طرح وہ اپنی ٹریفک کے بہائو کو باآسانی کنٹرول کرسکتے ہیں اور اسے تجارت اور پیداوار کو مزید موثر بناسکتے ہیں۔

-23 اپارٹمنٹ بلڈنگز(Apartment Buildings)
قدیم رومی دور کی اپارٹمنٹ بلڈنگز کم و بیش آج کے دور جیسی یا ان سے ملتی جلتی تھیں۔ ان عمارتوں کے مالکان عمارت کا نچلا حصہ تاجروں اور دکانداروں کو کرائے پر دے دیتے اور خود اوپر کی منزلوں میں رہائش پذیر ہوجاتے تھے یا ان غریب لوگوں کو کرائے پر اٹھا دیتے جو پورے مکان کا کرایہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ یوں سمجھئے کہ یہ اس دورکا فلیٹ سسٹم ہوتا تھا۔ ان فلیٹوں کو ’’انسولائے‘‘ (Insulae) کہتے تھے۔ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ صرف ’’اوسشیا‘‘ (Ostia) شہر کے ہی رہائشی 90 فیصد لوگ اس طرح کی اپارٹمنٹ بلڈنگز میں رہتے تھے۔

-24 ٹریفک سائن (Traffic Signs)
آپ کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ سڑکوں پر لگے ٹریفک سائنز آج کے جدید دور کا کرشمہ نہیں ہے۔ قدیم رومی بھی ان کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی بہت سی سڑکوں اور بڑی شاہراہوں پر لگے بڑے بڑے سنگ میل مسافروں کو روم سے دوسرے شہروں کی سمت اور فاصلے کے متعلق معلومات فراہم کرتے تھے۔

-25 فاسٹ فوڈ (Fast Food)
آج فاسٹ فوڈ کی دنیا کے بڑے بڑے برانڈز یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ فاسٹ فوڈ کے بانی ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی شروعات بھی روم سے ہی ہوئیں۔ مثال کے طور پر رومی سلطنت کے مشہور شہر ’’پومپیائی‘‘ (Pompeii) میں کوئی بھی گھر میں کھانا پکانا پسند نہیں کرتا تھا بلکہ زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں باورچی خانے کی سہولت ہی موجود نہیں تھی۔ اسی لیے لوگ ’’پوپینائے‘‘ (Popinae) یعنی ایسے ہوٹلوں اور ریسٹورینٹوں میں جاتے تھے جہاں بیٹھ کر کھانے کی سہولت تو میسر نہیں تھی البتہ بس یہ تھا کہ کھانا لو اور چلتے پھرتے کھاتے پھرو اور اس کا چلن وہاں عام تھا۔

zeeshan.baig@express.com.pk

The post سلطنت روم کی عظیم اختراعات جنہوں نے دنیا کی صورت گری کی appeared first on ایکسپریس اردو.


دل، مگر کم کسی سے ملتا ہے۔۔۔۔۔۔!

$
0
0

 قسط نمبر 11

اکبر بھائی انتہائی وجیہہ، بلند قامت، گورے چٹے اور مضبوط جثے کے ملن سار انسان تھے۔ وہ اپنی صحت کا بے حد خیال رکھنے کے ساتھ انتہائی خوش خوراک بھی تھے۔ انسان کو اپنی صحت خیال رکھنا چاہیے اس لیے کہ پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اگر وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھے گا تو پھر کوئی کام نہیں کرسکے گا اور دوسروں کا محتاج ہوجائے گا، اور یہاں کسی کو بھی اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کا روگ پال لے، ایسی ہی باتیں وہ اکثر کرتے رہتے تھے۔ آدمی کماتا کیوں ہے، کھانے کے لیے تو کماتا ہے ناں، ان کا نصب العین تھا۔ وہ انتہائی خوش لباس تھے۔

ان کے کپڑوں پر کوئی شکن نہیں ہوتی تھی۔ سفید اور نیلا ان کے پسندیدہ رنگ تھے۔ دانتوں کو صاف کرنے کے بعد وہ ان پر لیموں کا رس لگاتے تو میں ہنستا تو کہتے تُو جنگلی کیا جانے اس کے فوائد۔ لیکن بعد میں مجھ پر کھلا کہ وہ یہ سب کچھ خواتین کو رجھانے کے لیے کرتے تھے۔ دن بھر مزدوری کے بعد وہ رات گئے تک پڑھتے، ان پر ایک اچھا وکیل بننے کی دُھن سوار تھی اور وہ اپنے اس مقصد میں کام یاب بھی ہوئے۔ ان کی بھی وہی کہانی تھی جو دیگر پردیسیوں کی ہوتی ہے۔

وہ جھنگ کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ اپنے والدین کی پہلی اولاد، اس کے بعد ان سے چھوٹے پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو انہوں نے دیکھا کہ گزر بسر بہ مشکل ہو رہی ہے اور والد بھی اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں صرف آرام ہی کیا جاسکتا ہے۔ اپنے والدین اور چھوٹے بھائی بہنوں کی کفالت کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے انہوں نے کراچی کا رخ کیا۔ جھنگ سے دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد یہاں آکر محنت مزدوری کرنے کے ساتھ ایک کالج میں پڑھنے لگے۔

وہ رہتے تو ہماری گلی میں ہی تھے اور تنہا۔ پھر جب استاد جی چلے گئے تو میں اسی گلی میں ایک کوارٹر میں رہنے لگا۔ ہم گلی میں آتے جاتے ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، بس واجبی سا تعارف اور دعا سلام۔ استاد جی کے پنجاب جانے کے بعد دکان بند ہوگئی تھی تو میں نے ایک ٹیکسٹائل مل میں کپڑا تہہ کرنے کی مزدوری شروع کی تو وہ مجھے وہاں مل گئے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اُسی مل میں ملازمت کرتے ہیں۔

پھر ان سے ایک مضبوط رشتہ بنتا چلا گیا اور ان کے اصرار پر میں ان کے ساتھ ہی رہنے لگا تھا، ساتھ رہنے میں بچت بھی تھی کہ ہم کرایہ آدھا کر لیتے تھے۔ اور پھر صرف رات گزارنے کے لیے تو ہمیں جگہ درکار تھی ورنہ تو ہمیں اپنی مزدوری اور آوارہ گردی سے ہی فرصت نہیں تھی۔ میں انہیں بھائی جان کہتا تھا، صرف کہتا نہیں بل کہ ان کا اسی طرح احترام بھی کرتا تھا، مجھے یہ کہنے میں ذرا سا بھی تعامل نہیں کہ انہوں نے ایک حقیقی بڑے بھائی کی طرح ہمیشہ میرا خیال رکھا، بل کہ اس سے بھی بڑھ کر۔ میری ہر سرگرمی پر ان کی نگاہ تھی، میرے سوالات اور دیگر حرکات سے تنگ بھی تھے، میں ان سے الجھتا بھی تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ سب سے زیادہ وہ میرے روز قبرستان جانے سے شاکی تھے اور اکثر کہتے، تجھ میں کوئی ہزار سال کی بوڑھی روح رہتی ہے، جو تجھے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، زندوں کا کیا کام مُردوں سے بھلا۔ آپ یہ راز نہیں سمجھ سکتے بھائی جان ہمیشہ میرا جواب ہوتا۔

اکبر بھائی بہت اچھے انسان تھے، محنتی، جفاکش اور ملن سار اور ہر ایک کے کام آنے والے، پنج وقتہ نمازی، صبح سویرے اذان سے بہت پہلے وہ مسجد پہنچتے اور تلاوت کرتے تھے، رمضان میں انتہائی اہتمام سے پورے روزے رکھتے۔ سارے محلے میں وہ انتہائی احترام سے دیکھے جاتے، ان کی بات توجہ سے سنی جاتی اور ان کے مشوروں پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔ محلے کا کوئی بھی نوجوان کسی بھی وقت ان سے اپنی پڑھائی میں مدد لے سکتا تھا اور اس پر وہ خوش بھی ہوتے اور دیگر نوجوانوں کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔

وہ پورے محلے میں انسانی روپ میں ایک عظیم فرشتہ سمجھے جاتے تھے۔ لیکن جب میں ان کے ساتھ رہنے لگا تو مجھے ایک نئے اکبر بھائی کا سامنا تھا۔ وہ اتنے مذہبی ہونے کے باوجود انسانی کم زوریوں کا مجموعہ بھی تھے۔ وہ اپنے کام سے واپس آکر کہیں ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ اسی دوران انہیں کسی لڑکی سے محبت ہوگئی تھی اور وہ اس سے شادی کرنے کا وعدہ کرکے بہت دُور نکل گئے تھے، اتنی دُور جہاں سنگین سماجی نتائج ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے بہت کوشش کی لیکن ان کے والدین اس رشتے پر آمادہ نہ ہوئے، پھر مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس معصوم لڑکی سے کس طرح پیچھا چھڑانے میں کام یاب ہوئے۔ لیکن اس کے بعد وہ اس دلدل میں دھنستے ہی چلے گئے اور ان کے بہت سی خواتین سے تعلقات قائم ہوگئے تھے، وہ اکثر اس بازار بھی جاتے تھے۔ میں نے انہیں اپنی دانست میں بہت سمجھایا، وہ کچھ دن کے لیے مان بھی جاتے لیکن اپنی اس لت سے وہ دور نہ ہوسکے۔

کسی قسم کی محنت مزدوری سے وہ کبھی نہیں گھبرائے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل مل میں لومز چلائیں، کپڑا تہہ کیا اور نہ جانے اس طرح کے کئی کام، وہ سرمایہ داروں کے سخت خلاف تھے اور تنہائی میں اکثر انہیں ننگی گالیوں سے نوازتے تھے۔ وہ تھے ہی اتنے وجیہہ اور خوش گفتار کہ ان کا مخاطب ان کے گرفت سے نکل ہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے انہیں کئی مرتبہ ان کی کم زوریوں سے آگاہ کیا، ان سے لڑا، خفا ہوگیا لیکن وہ اپنی عادت بد سے باز نہیں آئے۔ وہ اکثر مسکرا کر کہتے تُو مجھے بھائی جان کہتا ہے لیکن ہے دراصل تُو میرا بڑا بھائی، میں تو بس نام کا بھائی جان ہوں، اور اسی طرح کی باتیں۔

ہم جس کمرے میں کرائے پر رہتے تھے، اس کے مالک کا نام خان زمان تھا۔ وہ بھی اپنی طرز کے واحد آدمی تھا۔ ہم تھکے ہوئے پہنچتے تو وہ آجاتا اور پھر عجیب عجیب سے سوالات پوچھتا، آج آپ لوگوں نے کیا کام کیے، اوہو تو تم لوگوں نے بہت محنت کی، لیکن سنو مجھ سے زیادہ محنت تم کبھی کر ہی نہیں سکتے، جو تم لوگ کررہے ہو یہ تو میں نے بھی کیا ہے۔ عجیب سنکی تھا وہ شخص۔ مجھ سے زیادہ بھائی جان اس سے تنگ تھے۔

اسے کئی مرتبہ انہوں نے سمجھایا لیکن وہ کبھی مان کر نہیں دیا۔ ہم نے کوئی دوسرا کمرا ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ہمارے نصیب میں خان زمان کا عذاب سہنا لکھا تھا اور پھر لکھے کو کوئی کیسے ٹالتا۔ ایک دن ہم بُری طرح تھکے ہوئے پہنچے تو وہ باہر موجود تھا۔ ہاں جی تو آپ لوگ آگئے، اس کا بس یہ کہنا ہی تھا کہ بھائی جان اس کے گلے پڑگئے۔ جی ہم آگئے، فرمائیے کیا خدمت کریں آپ کی! بھائی جان نے پوچھا۔ میں مالک ہوں اس کمرے کا اور تم لوگوں پر نظر رکھنا میرا فرض ہے، خان زمان بولے۔ کیوں آپ ہمارے والد گرامی ہیں کیا جو آپ ہماری نگرانی کریں گے، بھائی جان بہت غصے میں تھے۔ لیکن ہوں تو تم لوگوں کے باپ کی عمر کا، خان زمان نے دلیل دی۔

آپ ہمارے والد کی عمر کے سہی لیکن والد ہیں نہیں، آپ کو اپنے کرائے سے مطلب ہونا چاہیے بس۔ بھائی جان نے بھی طے کرلیا تھا کہ آج بس فیصلہ ہوجائے کہ وہ ہمارے کاموں میں مداخلت بند کردیں اور اپنے کام سے کام رکھیں۔ تھوڑی دیر تو وہ خاموش رہا اور پھر برابر میں اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے کمرے کا تالا کھولا اور سامان پیک کرنے لگا تو بھائی جان جو پہلے ہی غصے میں بھرے بیٹھے تھے بولے، اب یہ تُو کیا کرنے بیٹھ گیا۔ سامان پیک کررہا ہوں بھائی جان۔ کیوں۔۔۔ ؟ بس تھوڑی دیر میں خان زمان آئے گا اور کہے گا مجھے یہ کمرا چاہیے اس لیے آپ اسے خالی کردیں تو بس سامان پیک کررہا ہوں، میں نے جواب دیا۔ یہ تمہیں کس نے کہا ہے کہ وہ یہ کہے گا۔ بھائی جان کہا تو کسی نے نہیں ہے لیکن ایسا ہی ہوگا۔

لیکن تُو یہ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا ہے۔۔۔۔؟ پتا نہیں ، لیکن ہوگا ایسے ہی بھائی جان۔ ابھی ہم یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ خان زمان نازل ہوگیا اور کہنے لگا، دیکھو جی میرے بیٹے کی شادی کا پروگرام بن رہا ہے، اس لیے مجھے یہ کمرا چاہیے آپ پہلی فرصت میں اسے خالی کردیں۔ میں نے بھائی جان کی جانب دیکھا وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے، اس سے پہلے کہ بھائی جان کچھ کہتے میں نے کہا، دیکھیے خان زمان صاحب ہم سامان پیک کررہے ہیں اور ہمارا سامان ہے ہی کتنا، بس تھوڑی دیر میں ہم آپ کا کمرا خالی کردیں گے۔ خان زمان نے مجھے گُھور کر دیکھا۔ اب میں اتنا بھی بے رحم نہیں ہوں کہ اس وقت تم سے کہوں کہ فورا جاؤ۔ لیکن خان زمان صاحب ہمیں آپ کے رحم کی بھیک نہیں چاہیے بس تھوڑی دیر میں ہم اسے خالی کردیں گے۔

حیرت تھی کہ بھائی جان خاموشی سے یہ سب کچھ سُن رہے تھے تو خان زمان بھائی جان سے مخاطب ہوا، ہاں جی یہ تو بچہ ہے آپ کیا کہتے ہیں۔ بھائی جان نے خان زمان سے کہا یہ بچہ نظر آتا ہے، ہے نہیں، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے مجھے بتایا ہے کہ آپ یہ کہیں گے، اور ایسا ہی ہوا ہے، اب جیسے سلطان کہے گا بس ویسا ہی ہوگا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے وہ کمرا خالی کردیا۔ اب ہم کیا کریں سلطان۔۔۔۔؟ کچھ نہیں قبرستان چلتے ہیں، وہاں سے تو ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا بھائی جان۔ اب ہم قبرستان میں رہیں گے۔

کیا؟ نہیں یار! دماغ تو خراب نہیں ہوگیا تیرا۔ میرا دماغ تو ٹھیک ہے بھائی جان، آپ اپنا سوچیں اب۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہمارے ایک اور پڑوسی نے ہمیں اپنے گھر کا ایک کمرا دے دیا اور ہم وہاں منتقل ہوگئے۔ خان زمان ہمیشہ ہمارا سامنا کرنے سے کتراتا تھا، پھر نہ جانے کیسے اسے کوئی مہلک نفسیاتی بیماری ہوگئی، وہ سارا دن گلی میں بیٹھا رہتا، اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا آئینہ ہوتا اور وہ اپنی شکل اس میں دیکھ کر خود کو تھپڑ مارتا رہتا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کرتا تھا اور اپنی ماں کو تو اس نے کئی مرتبہ مارا پیٹا بھی تھا، بس یہ اسی کی سزا تھی، اصل حقیقت کیا تھی یہ تو اﷲ ہی جانتا ہے۔

ہمارے کمرے کے سامنے ایک نوجوان لڑکی رہتی تھی، اس کا نام مریم تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی جان سے تعلقات استوار کرنا چاہتی تھی۔ اکثر وہ اپنے دروازے پر کھڑی انہیں اشارے کیا کرتی لیکن بھائی جان محلے میں کسی قیمت پر اپنی نیک نامی پر حرف آنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ ایک دن میں دوپہر میں واپس آگیا، شدید گرمی تھی اور پوری گلی سنسان تھی، اس نے اپنے دروازے سے مجھے دیکھا اور پھر وہ ٹرے میں کھانا سجا کر لے آئی، میں نے اسے گُھور کر دیکھا تو کہنے لگی تمہارے لیے نہیں لائی، اپنے بھائی جان کو کھلا دینا۔ وہ کھانا رکھ کر چلی گئی، میں نے خدا کا نام لے کر وہ کھانا کھایا اور برتن دھو کر رکھے ہی تھے کہ اتفاق سے بھائی جان آگئے۔

میں نے جلد آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے الٹا مجھ سے یہی سوال کرلیا، میں نے انہیں بتایا کہ میں سارا کپڑا تہہ کرچکا تھا تو بس جلدی واپس آگیا، اپنا انہوں نے نہیں بتایا کہ وہ کیوں جلدی آگئے تھے۔ اچانک ان کی نظر ٹرے اور برتنوں پر پڑی تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا، میں نے انہیں بتادیا کہ مریم آپ کے لیے کھانا لائی تھی جو میں کھا گیا ہوں۔ انہوں نے بس اتنا کہا اچھا کیا تم نے، لیکن اسے روکنا ہوگا اب اس کی یہ جرأت ہوگئی کہ وہ کمرے میں بھی آنے لگی۔ بس پھر بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک شام پھر مریم کمرے میں آگئی اور پوچھنے لگی۔

تم نے اپنے بھائی جان کو وہ کھانا کھلا دیا تھا ناں، میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بڑبڑائی، پیر صاحب نے تو پیسے بھی اتنے لے لیے اور اس کا کوئی اثر بھی اب تک نہیں ہوا۔ میں نے چونک کر اس سے پوچھا کون سے پیر صاحب اور کیسا اثر؟ پہلے تو وہ گھبرائی اور پھر بناتے لگی کی وہ بھائی جان کو تسخیر کرنے کے لیے کسی پیر صاحب کے پاس گئی تھی، پیر صاحب نے پیسے لے کر اسے کچھ چیزیں دَم کرکے دیں کہ وہ انہیں کھلا دے تو وہ مسخر ہوجائیں گے۔ خیر رات کو جب بھائی جان آئے تو میں نے انہیں یہ بتایا، وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے۔

اگر میں وہ کھانا کھا لیتا تو یقیناً مسخر بھی ہوجاتا لیکن تم نے کھا لیا جس پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کرتی۔ اور پھر مریم، بھائی جان کو مسخر کرتے کرتے خود مسخر ہوگئی، اور آخر اپنے پیا گھر سدھار گئی۔ عجیب ہے انسان بھی، کسی کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، یہ بھی تو ایک طرح کی مجبوری ہے ناں، ان سادہ لوح دل کے ہاتھوں مجبور انسانوں کو لُوٹنے کے لیے ہر جگہ نام نہاد پیر، عامل اور مُلّا پھندے لگائے بیٹھے ہیں۔ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا۔

مجھے کہنے دیجیے بھائی جان جیسے بھی تھے میرے لیے نعمت عظمیٰ تھے۔ اب وہ ایک کام یاب وکیل ہیں اور انہوں نے ایک لائر فرم بھی بنائی ہے۔ بھائی جان کی شادی والدین کی مرضی سے ہوئی اور انہوں نے اسے بہت خوش اسلوبی سے نبھایا بھی۔

اپنے بھائی بہنوں کی نہ صرف تعلیم پر توجہ دی بل کہ انہیں ایک کام یاب انسان بھی بنایا، پھر ان کی شادیاں بھی کرائیں، بلاشبہہ انہوں نے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کیا، ان کے چھوٹے بہن بھائی اپنے والد سے زیادہ ان کی عزت کرتے ہیں، اب تو ان کی اپنے بچوں کی شادی بھی ہوگئی ہے۔ جب وہ چلے گئے تھے تو میں ہر ہفتے انہیں خط لکھا کرتا تھا اور وہ بھی مجھے بروقت جوابی چِھٹی لکھتے تھے۔ میں نے جتنے خط انہیں لکھے وہ اب تک ان کے پاس محفوظ ہیں اور وہ اکثر کہتے ہیں کہ جب میں کسی کام کاج کا نہیں رہوں گا، کسی کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہوگا اور میں تنہائی کا شکار ہونے لگوں گا، تب تمہارے لکھے ہوئے خطوط میرے سنگی ساتھی بنیں گے۔

میں انہیں پڑھ کر دوبارہ جوان ہوجاؤں گا۔ ایک مرتبہ تو مجھے ان کی بیگم نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ وہ روزانہ رات کو کھانے کے بعد تمہارا ایک خط سب کو سناتے ہیں اور اکثر اشک بار ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہا، بھابھی! آپ وہ خطوط چُرا کر جلا ڈالیں تو پھر نہیں روئیں گے، کہنے لگیں لوگ تجوری میں پیسے رکھتے ہیں اور تمہارے بھائی جان تجوری میں تمہارے خط رکھتے ہیں، جن تک سوائے ان کے کسی کی رسائی نہیں۔ بھائی جان اب ستّر سال سے تجاوز کرچکے ہیں، لیکن اس عمر میں بھی انتہائی متحرک اور فعال ہیں۔ خدا ان کا سایہ مجھ پر سلامت رکھے۔ اب بھی اکثر ان سے فون پر بات ہوتی ہے تو میری سرگرمیوں کا معلوم کرتے، کوستے اور پھر سے وہی پُرانے بھائی جان بن جاتے اور نصیحتوں کا تحفہ دیتے رہتے ہیں، یہ دوسری بات کہ مجھ جیسا کبھی ان کی بات نہیں مان کے دیا۔

دیکھیے اس وقت اور کیا بروقت یاد آیا

آدمی، آدمی سے ملتا ہے

دل، مگر کم کسی سے ملتا ہے

The post دل، مگر کم کسی سے ملتا ہے۔۔۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

گوئبیلز! تم کیا جانو جھوٹ کسے کہتے ہیں

$
0
0

برطانوی اخبار گارجیئن اور بی بی سی بنیادی طور پر برطانیہ کے دانش ور طبقے کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں، لیکن زیرنظر مضمون میں ان ’مستند‘ سمجھے جانے والے اداروںکی جانب سے غیر محسوس انداز میں کیے گئے پروپیگنڈے کا ایک تصوراتی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

دنیا میں قتل عام کرنے والے سفاک قاتلوں کے لیے بنائی گئی اس جنت میں گوئبیلز رومیوں، کمیونسٹوں اور یہودیوں کے خون سے بنی شراب کے گھونٹ بھر رہا تھا، اچانک اسے دروازے پر دستک سنائی دی۔ دروازہ اس کے پُرتعیش صوفے سے پچاس فٹ دور تھا۔ صوفے پر انسانی کھال سے بنا غلاف چڑھا ہوا تھا جو اسے مشہور جرمن جرنل لوتھر وون ٹروتھا نے تحفتاً دیا تھا، وہی جرنل لوتھر جس نے نمیبیا میں ہیریرو اور ناما قبائل کے قتل عام سے بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی کا آغاز کیا۔ جرنل لوتھر قاتلوں کی جنت میں گوئبیلز کا سب سے قریبی پڑوسی تھا۔

’یہ کون ہوسکتا ہے ؟‘ گوئبیلز نے تعجب سے سوچا،’کیا یہ میرا عزیزدوست ایریل شیرون ہے؟ شیرون اور گوئبیلز ابتدا میں شیرون کی یہودیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے ، لیکن جلد ہی یہ دونوں جان گئے کہ ان کی خون کی پیاس تمام تر اختلافات سے زیادہ اہم ہے۔ ایک دن قبل ہی دونوں نے بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی پروپیگنڈا حکمت عملی پر پُرجوش بحث کی تھی۔ گوئیبلز نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھولا، وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید شیرون کل کی بحث کا دوبارہ آغاز کرنے آیا ہے، لیکن وہ اپنے سامنے شیرون کے بجائے ایک زندہ انسان کو دیکھ کر بدحواس ہوگیا ۔

’’تم کون ہو؟ کون۔۔۔۔‘‘ گوئبیلز نے تشویش سے پوچھا۔

’’ہیلو! میں ایک برطانوی دانش ور ہوں اور دانش وروں کے ایک برطانوی مرکز، دی گارجیئن کے لیے کام کرتا ہوں، جس میں تمام برطانوی دانش وروں کے آؤٹ لیٹس میں سے سب سے زیادہ برطانوی ہیں،‘‘ گوئبیلز کے سامنے کھڑے شخص نے برطانوی ادبی لب و لہجے میں نہایت شائستگی کے ساتھ جواب دیا۔

’’ لیکن کیسے ؟ تم یہاں کیسے آئے؟ اس مقام تک زندہ انسانوں کی رسائی ممکن نہیں ہے،‘‘ گوئبیلز نے بے چینی سے پوچھتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔

’’میں ایک برطانوی دانش ور ہوں اور سچ، انصاف کی خاطر ہم جب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں!‘‘

’’اوہ؟ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ گوئبیلز نے اسے اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’اندر آنے کا وقت نہیں ہے،‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا’’میں آپ کو یہاں سے دنیا میں لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ ہمارے رپورٹرز نے ہمیں بتایا ہے کہ قاتلوں کی جنت میں جدید دنیا میں رائج مختلف پروپیگنڈا حکمت عملیوں پر زورشور کے ساتھ مباحثہ ہورہا ہے۔ خیر، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے فرسودہ خیالات مکمل طور پر احمقانہ ہیں۔ میں آپ کو دکھاتاہوں کہ جدید پروپیگنڈا کیا ہے!‘‘ اس کے ساتھ ہی برطانوی دانش ور نے حیران و پریشان کھڑے گوئبیلز کی کلائی پکڑ کر یہ منتر پڑھنا شروع کردیا:

’’ہم برطانوی دانش ور ہیں، ہم ایمان دار اور ذہین ہیں،

ہم ہمیشہ اپنی حکومت کی وہ بات کہتے ہیں جو سب سے اچھی اور بہترین ہے،

ہم اچھے گانے گاتے اور رقص کرتے ہیں، ہم کتنے بہادر اور آزاد ہیں،

پھر بھی ہم جس پر تنقید کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے،

ہم آپ کو ہمیشہ سچی کہانی سناتے ہیں، ہمارا دل لیبر، ہماری دولت ٹوری ہے!‘‘

منتر کے ختم ہوتے ہی گوئبیلز نے خود کو ایک کمرے میں پایا جو مدیروں اور رائے سازوں (اوپینین میکرز) سے بھرا ہوا تھا۔ ’’اس کمرے میں موجود افراد آپ کو بتائیں گے کہ پروپیگنڈا سسٹم کس طرح کام کرتا ہے،‘‘ برطانوی دانش ور نے اپنا لیکچر شروع کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جربی، کیا میں آپ کو جربی کہہ کر پکار سکتا ہوں؟‘‘

گوئبیلز کا جواب سنے بغیر اس نے اپنی بات جاری رکھی ’بہت سادہ، جدید پروپیگنڈا سسٹم کو اس طرح بیا ن کیا جاسکتا ہے: نظریات کی وافر خوراک، کاہلی، کم زوری اور احمقانہ حرکات کو ملا کر خوش گوار سچ، آدھے سچ، جھوٹ کی عدم شمولیت اور اکثر و بیشتر جھوٹ پر مبنی صحت مند مکسچر تیار کرنا۔ مختصراً جدید پروپیگنڈا سسٹم یہی ہے!‘‘

برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی طرف دیکھ کر بے ہودہ انداز سے مسکراتے ہوئے کہا: ’’تمہاری طرح کے بھونڈے طریقے سے نہیں!‘‘

گوئبیلز نے جھجھکتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی لیکن برطانوی دانش ور نے فوراً ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے غلط مت سمجھو۔ یہاں ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو یقیناً تمھارے طریقے پر چلتے ہیں، مثال کے طور پر فاکس نیوز، لیکن ان کی اپنے ملک کے علاوہ کہیں بھی عزت نہیں کی جاتی۔ دوسری جانب ہم اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہیں اور کسی کو اپنی اقدار کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔‘‘

گوئبیلز کو اپنی باتوں سے قائل نہ ہوتے دیکھ کر برطانوی دانش ور نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا، ’’برائیاں بہت ہوگئیں۔ اب آپ کی قوت فہم سے شروع کرتے ہیں! اس کے لیے سب سے اہم کیس اسٹڈی جو ہم استعمال کریں گے وہ ہے، جریمی کوربائن کو رُسوا کرنے کی اینٹی سیمیٹزم مہم، جس میں ہم سب سے آگے ہیں۔‘‘ اس مقصد کے لیے میں سب سے پہلے آپ کا تعارف کچھ اہم معاون اداکاروں سے کرواؤں گا۔ یہ پروپیگنڈا نظام کا براہ راست حصہ نہیں ہیں، مجھے خود نہیں پتا کہ یہ ہماری مدد کیوں کر رہے ہیں، لیکن کر رہے ہیں۔ ہمارے پہلے معاون وکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز ہیں۔‘‘

آرام دہ کُرسی پر بیٹھے  Ayn Randکے ناول ’Atlas Shrugged‘ کی ورق گردانی میں مصروف ایک شخص نے پلکیں جھپکاتے ہوئے گوئبیلز کو دیکھا۔’’یہ جیریمی کوربائن کو رُسوا کرنے کی مہم میں ہماری مدد کر رہے ہیں‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا ’’مثال کے طور پر تم یہ ٹوئٹ دیکھو۔‘‘

’’ٹوئٹ؟ یعنی پرندوں کی طرح باتیں؟‘‘ گوئبیلز نے احمقانہ انداز میں پوچھا۔ ’’ہاں ٹوئٹس۔ یہ نیا دور ہے جربی۔ کسی کی تعریف اور ستائش کے لیے آپ کو صرف چند سو کیریکٹرز کی ضرورت پیش آتی ہے۔

بس اپنی مبہم اور احمقانہ باتوں پر مبنی ٹوئٹس کرتے رہے ہو اور اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاؤ۔‘‘ گوئبیلز کو ٹوئٹ کے اس نئے پلیٹ فارم میں دل چسپی پیدا ہونے لگی جس نے انسان کو پرندوں کے بے وقوف دماغ میں تبدیل کردیا تھا۔ پروپیگنڈا کرنے کے لیے بہترین ٹول کی صورت میں اس کا پہلا سامنا وکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز کی فالوئنگ ٹوئٹس کی شکل میں تھا۔ ’’بہترین‘‘ گوئبیلز نے مسرت سے چلاتے ہوئے کہا۔’’حالاںکہ میں جانتا ہوں کہ کوربائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس نے اسرائیل کے وجود رکھنے کے حق پر سوال کیا ہو۔ یہ تو یکسر جھوٹ ہے‘‘ اس نے جمی ویلز کی جانب تائیدی نظروں سے دیکھا، جو جھوٹا قرار دیے جانے پر پریشان دکھائی دے رہا تھا۔

’’جھوٹ؟‘‘ ویلز نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ ’’یہ جھوٹ نہیں ہے۔ یہ درجنوں ویب سائٹس بہ شمول گارجیئن میں چھپ چکا ہے۔ اور ہم یعنی وکی پیڈیا جانتا ہے کہ ہماری دنیا میں سچ کی تلاش ناممکن ہے۔ صرف ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور وہ ہے تصدیق۔ اور محترم، میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرا کوربائن پر دیا گیا بیان قابل تصدیق ہے۔ اور میں آپ کو اس بات کو سچ ثابت کرنے والے ہزاروں ذرایع دے سکتا ہوں۔‘‘

’’جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ بن جائے؟‘‘ گوئبیلز نے برطانوی دانش ور کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ یہ بات سن کر برطانوی دانش ور نے مسکراتے ہوئے کہا،’’خیر، پروپیگنڈے کی کچھ پُرانی حکمت عملی ابھی تک کام کر رہی ہے۔‘‘ اسی لمحے انہیں نزدیک آتی ایک خاتون کی آواز سنائی دی جو کہہ رہی تھی’’تم جیریمی کوربائن میرے آنجہانی باپ کی باقیات پر کھڑے ہو!۔‘‘ جمی ویلز کی ٹوئٹ کا پہلا حوالہ، برطانوی دانش ور نے قریب آنے والی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کتاب پکڑی ہوئی تھی جس کا عنوان تھا،’’ہاؤ ٹو بی کم رِچ اینڈ فورگیٹ واٹ اٹ فیلز لائیک ٹو بی پور(اینڈ شٹ آن دی اونلی گروپ آف پیوپل ہو ہیو دی کیور)۔

’’ مجھے اپنا تعارف کروانے کی اجازت دیجیے۔ میں جے کے رولنگ ہوں،‘‘ خاتون نے گوئبیلز سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

’اوہ، جے کے رولنگ،‘‘ گوئبیلز کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’ قاتلوں کی جنت میں حال ہی میں آنے والا شمعون پیریز تمہاری کتابوں کا بہت دلدادہ ہے۔‘‘

’شکریہ، لیکن کیوں؟، جے کے رولنگ نے مسرت سے کہا۔ ’’ آپ جانتے ہیں دنیا میں کچھ بڑا کام کرنے کے لیے آپ کو سخت محنت اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ شکایت کرنے والے تمام لوگ احمق ہیں۔ انہیں میری طرح سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر شخص میری طرح خوش قسمت نہیں ہوسکتا۔ میں کہتی ہوں کہ آپ بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب قسمت کا نہیں سخت محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘

’’یعنی تم بھی کوربائن کے خلاف ہو؟‘‘ گوئبیلز نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی، یہ بھی‘‘ برطانوی دانش ور نے رولنگ کے جواب دینے سے پہلے ہی کہہ دیا، یہ مسلسل اس کے خلاف ہیں، ابتدا ’وہ جیت نہیں سکتا، ’وہ مزدوروں کے لیے بُرا ہے‘ سے ہوئی۔ اب یہ دن رات اس پروپیگنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

’’جی بے شک، میں نے یہ سب کیا،‘‘ جے کے رولنگ نے فخریہ کہا۔ ’’اور جب یہ سب باتیں بے اثر رہیں تو یہ’کوربائن از اینٹی سیمیٹک‘ بریگیڈ میں شامل ہوگئیں۔ آپ ان کی ٹوئٹس چیک کریں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا۔

’’لیکن کیا دائیں بازو کے لوگ اس پر غصہ نہیں ہیں کہ لبرلز اس طرح کہہ رہے ہیں‘‘،گوئبیلز نے بے یقینی سے پوچھا۔

’’یقیناً،‘‘ جے کے رولنگ نے غصے سے اسی لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا جس لہجے میں تمام برطانوی دانش ور بڑبڑاتے ہیں، کیوں کہ یہ لہجہ انہیں وراثت میں ملا ہے۔ ’’یقیناً، آپ مجھے یہ تجویز نہیں دے رہے کہ مجھے صرف اس لیے ان کی باتیں نوٹ کرلینی چاہییں کیوں کہ وہ دائیں بازو کے ہیں۔‘‘

گوئبیلز نے اپنا سر ہلایا، عین اسی لمحے ایک ہل چل سی پیدا ہوئی۔ مشہور برطانوی صحافی جوناتھن فریڈلینڈ اپنے مخصوص شرمیلے اور سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے گوئبیلز کی طرف آرہا تھا۔ اس نے قریب آکر گوئبیلز کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا،’’خیر گوئبیلز، تم بہت بڑے قاتل ہو اور گاریجیئن میں ہم بڑے قاتلوں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اخلاقی اقدر اور آزادی اظہار پر بھی یقین رکھتے ہیں اور تم تو ویسے بھی مردہ ہو، میرے دل میں کوئی کینہ نہیں ہے اس لیے میں تمہیں بڑا قاتل سمجھتے ہوئے بھی ہاتھ ملا رہا ہوں۔‘‘

فریڈ لینڈ نے گوئبیلز سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا، شاید وہ اپنے بے باک طرز تخاطب کو سراہے جانے کی توقع کر رہا تھا۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کرنے والے گوئبیلز کو فریڈ لینڈ اور اس کے ہم عصروں کے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں تھا اس لیے اس نے قدرے بے دلی سے ہاتھ ملایا۔ برطانوی دانش ور نے ایک ٹوئٹ دکھاتے ہوئے فخر سے کہا،’’اور یہ ہماری کٹھن مہم میں مسٹر فریڈ لینڈ کی کوششیں ہیں۔‘‘

’’خیر، میں اس کا بہت زیادہ کریڈٹ نہیں لیتا، یہ میرا دن بھر کا کام ہے۔‘‘ فریڈلینڈ نے شرماتے ہوئے کہا۔ ’’اور ایک صرف فریڈ لینڈ نہیں ہے، گارجیئن میں ہم سارا دن یہی کرتے ہیں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے دانت پیستے ہوئے کہا،’’یہ تو صرف ایک مثال ہے‘‘ فریڈلینڈ نے برطانوی دانش ور کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا،’’اب میں آپ کو وہ دکھانے جا رہا ہوں جسے دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فریڈ لینڈ نے کمپیوٹر اسکرین گوئبیلز کے سامنے کردی۔ اسکرین پر کوربائن کے حوالے سے گارجیئن میں لکھے گئے مضامین کی طویل فہرست موجود تھی۔’’یہ صرف گذشتہ ایک ماہ میں گارجیئن میں لکھے گئے کوربائن مخالف مضامین ہیں! اور ایسے مضامین کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے۔‘‘

’’فلسطین کے بارے میںکیا خیال ہے؟ کیا تم لوگوں نے کبھی ان کی رائے لی؟‘‘ گوئبیلز نے پوچھا۔

’’خیر ہم انہیں سپورٹ کرتے ہیں،‘‘ فریڈ لینڈ نے ہلکی آواز میں کہا۔’’گارجیئن میں ہم ریاکاری سے کام کرتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ ہم فلسطینیوں کے لیے اچھی خدمات سر انجام دیتے ہیں، لیکن راکٹ حملے رکنے چاہییں۔ ہاں ہاں، راکٹ حملے لازمی رکھنے چاہییں، جو شخص یہ کہتا ہے تو ٹھیک ورنہ پھر یہ اینٹی سیمٹ ہے!!‘‘ یہ کہتے ہی فریڈ لینڈ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ فریڈ لینڈ کے جاتے ہی کمرے میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک پروگرام کا میزبان اسٹیفین سکُر ان کے قریب آیا اور برطانوی دانش ور کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا،’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم گارجیئن کی اچھائی بیان کرنے کے لیے کتنے شواہد دکھا دیے ہیں، لیکن میں یہی کہوں گا کہ ہم بی بی سی میں اس سے زیادہ بہتر پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔‘‘

’’آپ کے شواہد کہاں ہیں، محترم‘‘ برطانوی دانش ور نے فوراً مطالبہ کیا۔

’’میں معافی چاہتا ہوں، میں آپ کو شواہد دکھاؤں گا۔ میرے پاس صرف کوربائن کے خلاف مہم کے علاوہ بھی کافی ثبوت ہیں۔‘‘ اسٹیفین نے چیختے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود کچھ خبریں دکھاتے ہوئے کہا،’’یہ سُرخیاں دیکھو؟ اس میں اسرائیل ہمیشہ دفاع کرتا ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف برابر ہیں ، پھر اس بات پر غور کریں کہ ہم لوگوں کے مرنے کا کیسے بتاتے ہیں، جب صرف فلسطینی مرتے ہیں یا اسرائیلی انہیں مارتے ہیں تو ہم صرف یہ لکھتے ہیں کہ اتنے افراد مرگئے، یہ نہیں لکھتے کہ کس وجہ سے مرے۔ اس طرح ہم اچھی طرح پروپیگنڈا کرتے ہیں!‘‘

’’خیر، بی بی سی کے کیس میں خوف اور کم زوری بھی بہت ہے۔‘‘ برطانوی دانش ور نے یہ کہتے ہوئے بی بی سی ورلڈ میں شایع ہونے والی ایک خبر کی طرف اشارہ کیا:

بی بی سی نے پہلے سُرخی لگائی کہ ’’ اسرائیلی فضائی حملے میں ایک خاتون اور بچہ جاں بحق‘‘، لیکن اسرائیلی لابی کے دباؤ پر تم لوگوں نے سُرخی کو تبدیل کرکے کچھ یوں کردیا،’’غزہ ٖفضائی حملے، اسرائیل پر راکٹ حملے کے بعد خاتون اور بچہ جاں بحق۔‘‘ تمہارے ایک نیو ز ایڈیٹر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے کہ ’’اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں رپورٹ لکھنے کے بعد ہم خوف کے عالم میں اسرائیلیوں کی جانب سے فون کال کے منتظر رہتے ہیں۔‘‘

’’خیر، یہ آپ کا یہ بیان میری بات کو ثابت کرتا ہے۔‘‘ اسٹیفین نے خودپسندی سے جواب دیا۔ ’’میں وہاں بیٹھا ہوا سن رہا تھا کہ تم جب گوئبیلز سے کہہ رہے تھے کہ خوف اور کم زوری بھی پروپیگنڈا سسٹم کا حصہ ہیں۔‘‘ کیا تم اور گوئبیلز دونوں اس منطق سے متفق ہو!۔ ’’ لہذا یہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ بی بی سی پروپیگنڈے میں کتنا اچھا ہے، آپ نے خود دیکھا کہ آپ نے خود ہی کیسے ثبوت پیش کیے۔‘‘ اسٹیفین نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا،’’میں پاکستانی شخص حمید ہارون سے انتخابات میں فوجی مداخلت کا مسلسل پوچھتا رہا، وہ لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کرنے والا امیر آدمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہماری بالادستی پر یقین کیا۔‘‘

’’اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ: اگر ایک پاکستانی ناشر کے بجائے تمہارے سامنے روسی ناشر بیٹھ کر یہ بات کہتا کہ پیوٹن اور روسی ایجنسیوں نے آزادی اظہار کو دبا رکھا ہے، تو کیا تم اس سے وہی سوالات اسی جارحانہ انداز میں کرتے؟‘‘ برطانوی دانش ور نے سیکر کو مزید کریدا۔

’’اچھا، خیر‘‘ اسٹیفن نے بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی، لیکن اچانک ہی اسے ایک حربہ یاد آگیا جو کہ تمام برطانوی دانش ور دباؤ میں آنے کے بعد کرتے تھے، یعنی اونچی آواز میں چڑچڑانا اور برہمی ظاہر کرنا۔ ’’تمہارے پاس اس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ میں نے کبھی کسی روسی ناشر سے یہ سوالات نہیں پوچھے۔ میں تم سے پوچھ رہا ہوں ثبوت کہاں ہیں؟‘‘ اس نے غصے سے چیختے ہوئے پوچھا۔ حمید ہارون اور گلین گرین ویلڈ سے پوچھے گئے سوالات کے انداز میں اسٹیفین اشتعال میں اپنے اس بے معنی چیلنج کو چھوڑ کر غصے میں کمرے سے چلا گیا۔

برطانوی دانش ور اسے جاتا دیکھ کر ستائشی انداز میں کہنے لگا،’’یہ ایک سچا برطانوی دانش ور ہے۔ ‘‘ گوئبیلز یہ سب دیکھ کر متاثر تو ہوچکا تھا، لیکن آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ ’’لیکن یہ متاثر کن نہیں ہے‘‘ اس نے کہا ’’ہم بھی بالکل اسی طرح کرتے تھے۔ یہ صرف جھوٹی خبروں کی بھرمار ہے۔ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ بن جائے وغیرہ ، وغیرہ۔‘‘ گوئبیلز نے جرمن لب و لہجے میں اونچی آواز میں کہنا شروع کردیا۔ اس کی بات سُن کر برطانوی دانش ور نے سر ہلاتے ہوئے کہا’’ یقیناً تم درست کہہ رہے ہو، جربی۔ یہ سب بہرحال متاثر کن نہیں ہے۔ ماضی میں تم ان سب چیزوں کے ماسٹر تھے۔ ‘‘ یہ بات سُن کر گوئبیلز تھوڑا پُرسکون ہوا۔ ’’لیکن یہ صرف اس کا نصف ہے جو ہم کر رہے ہیں،‘‘ برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی جانب دیکھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ کہا۔ برطانوی دانش ور کے اس پُراعتماد رویے میں گوئبیلز اپنی متوقع شکست دیکھ رہا تھا، اس نے بے چینی سے پوچھا،’’بقیہ نصف میں تم کیا کرتے ہو؟‘‘

’’ہم ہمیشہ برطانوی اقدار، سچ اور انصاف، شفافیت اورغیرجانب داری کی ظاہری پرت چڑھائے رکھتے ہیں،‘‘ برطانوی دانش ور نے کہا۔ ’’خیر، میرے دوست تم انصاف اور سچ کے بارے میں زیادہ سوچتے ہو، اور ہم یہودیوں سے محبت کرتے تھے! لیکن میرے خیال میں اس سے تمہاری کوریج پر کوئی غلط اثر نہیں پڑے گا؟‘‘ گوئبیلز نے بے پروائی سے کہا۔

’’یقینا، سارے ثبوت دیکھ لو، سب ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘

’’اگر تم اسے پڑھتے ہو تو پھر اس سے تمہیں کیا توقع ہے۔ اسے ممکنہ حد تک برطانوی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ہماری اصل کام یابی اسی طرح ہے جس طرح ایک مصور کے ہاتھ کی صفائی، ہم لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ ’’ذرایع کے فقدان‘‘ کے باوجود گارجیئن کتنا غیرجانب دار ہے۔‘‘

’’ہمارے پاس جارج مون بیوٹ ہے جو دوسروں کے جرائم پر غصے سے بے قابو ہوجاتا ہے، لیکن جب یہی جُرم ہماری عظیم ریاست میں ہو تو یہی غراتا ہوا جارج تمام اچھے برطانوی دانش وروں کی طرح مہذب اور شائستہ بن جاتا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر کسی کی ملامت کیے بنا نیو لبرل ازم پر بھی لکھتا ہے۔ ہم اس طرح کی تنقید کو پسند کرتے ہیں، مکمل خلاصہ، مکمل مہربان۔‘‘

’’گوئبیلز متاثر ہوچکا تھا لیکن اسے ظاہر نہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’اس کے علاوہ تم اور کیا کرتے ہو؟‘‘

’’اس کے علاوہ؟ سُرخیاں جربی، اور ان سُرخیوں کے ساتھ کچھ پروپیگنڈا، برطانوی دانش ور نے جواب دیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘، گوئبیلز نے پریشانی سے پوچھا۔

’’اس کا مطلب یہ کہ ہم سرخیوں کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ اسٹیفین نے بتایا تھا۔ اور پھر مضمون کے اندر کہیں، اختتام میں تھوڑا سا سچ لکھ دیتے ہیں۔‘‘

’’ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ گوئبیلز نے حیرت سے پوچھا۔

’’واقعی یہ بات تم پوچھ رہے ہو؟ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ تم اتنے کُندذہن ہو گے۔ اب مجھے حیرت نہیں ہے کہ تمہارا پروپیگنڈا اتنا گھٹیا کیوں تھا! محترم! اگر ہم پر کوئی پروپیگنڈا کرنے یا جھوٹ بولنے کا الزام عاید کرتا ہے تو ہم اسے اُس مضمون میں موجود سچ لکھی گئی کچھ لائنیں دکھا سکتے ہیں۔ لیکن جربی سرخی تو غیرحقیقی یا اس میں غفلت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یمن پر حملے کی یہ سُرخی دیکھو؛

’’بچوں کولے جانے والی بس پر فضائی حملے میں درجنوں بچے ہلاک‘‘ دیکھو؟ کیا ہم سرخی میں لکھ سکتے تھے کہ اس سفاکی میں برطانوی مدد حاصل تھی؟ تاہم ہم نے اس خبر کے بالکل آخر میں چند لائنوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس فضائی حملے کے لیے برطانوی حکومت نے سعودی اتحاد کی عسکری مدد کی تھی۔ ہم نے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ برطانیہ نے گذشتہ تین سالوں میں سعودیہ کو چار ارب ستر کروڑ یورو کا اسلحہ فروخت کیا جو اب یمن میں استعمال ہو رہا ہے، لیکن سُرخی میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

جب کہ اس خبر کی سُرخی کچھ اس طرح کی ہونی چاہیے تھی:

’سعودی عرب کی جانب سے یمن میں اسکول بس پر فضائی حملے میں 29بچے جاں بحق‘ اور اس کی ذیلی سُرخی کچھ اس طرح کی ہونی چاہیے تھی ’ریاض کی جانب سے اس حملے میں استعمال ہونے والے برطانوی اسلحے نے شہریوں کی ہلاکت پر سوال اٹھا دیے‘

ذرا سوچو اگر یہی فضائی حملہ ہمارے کسی دشمن نے کیا ہوتا تو اس خبر کی سُرخی کچھ ایسی ہوتی ’’شیطان یمن میں پہنچ گیا: پیوٹن کے فضائی حملے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد جاں بحق‘ اور اس کی ذیلی سُرخی اس طرح ہوتی ’روسی آمر کو لگام دینے کے لیے دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے!‘‘

’’لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے اتحادی کہیں بم باری کرتے ہیں تو ہم ان کی بربریت کا تذکرہ خبر کے آخر میں ڈھکے چھپے الفاظ میں کردیتے ہیں تا کہ کسی کو شکایت نہ ہو۔‘‘

برطانوی دانش ور کی ان باتوں نے گوئبیلز کو مغلوب کردیا تھا۔ یہ سب اس کے بے ہودہ دماغ سے کہیں زیادہ تھا۔

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میری باتوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہو۔ چلو میں تمہیں ایک آخری مثال اور دیتا ہوں، برطانوی دانش ور نے گوئبیلز کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’چلو ہم تمہارے دور کا کوئی واقعہ لیتے ہیں، وارسا میں یہودیوں کی جانب سے ہونے والی بغاوت؛ وارسا کی یہودی آبادیوں میں ہونے والے بغاوت کے دوران نازیوں کو اس طرح کی سُرخیاں بنانی چاہیں تھیں:

’وارسا میں رہنے والے یہودی پُرتشدد ہوگئے، سات دن سے جاری پُر تشدد کارروائیوں میں متعدد دکانوں اور گاڑیوں کو آگ اور دونوں طرف کئی افراد کو قتل کردیا گیا۔‘

اب اس سُرخی سے کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ یہ ہلاکتیں کیوں اور کیسے شروع ہوئیں، اور یاد رکھیں کہ ہم نے ’ دو طرفہ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی جانب سے ہلاکتوں کا نہیں۔ اس سُرخی سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر یہودی پُرتشدد ہوگئے۔ اس خبر کے آخر میں آپ ایک لائن میں یہ لکھ سکتے ہیں،

’’کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہودیوں کا غصہ جائز ہے کیوں کہ انہیں بڑے پیمانے پر ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے اثرات کو مزید کم کرنے کے لیے اس طرح کا چھوٹا سا پیراگراف شامل کیا جانا چاہیے:

’’تاہم، جنرل وون بلوم برگ کا کہنا ہے کہ شہروں میں دہشت پھیلانے والے افراد کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور جرمن افواج انتشار کا سبب عناصر سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘‘

’’تم یہ سب کیسے کرتے ہو میرے عزیز دوست؟‘‘ گوئبیلز نے پوچھا۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری طویل نوآبادیاتی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ ہمارے پاس دنیا کے بہترین دانش ور تھے اور اب بھی ہیں۔ برطانوی فطرتاً بہت شکی ہیں تو ہم ان سے جھوٹ نہیں بولتے۔ اس لیے انہیں ہم اس طرح فریب دیتے ہیں۔ جب کبھی وہ ہمیں چیلینج کرتے ہیں تو ہمارا وہی منہ پھٹ اور غصے والا رویہ ہوجاتا ہے۔ ہمارا یہی غرور اور غصہ ایسے لوگوں کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے جو یقیناً ہم سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔‘‘ برطانوی دانش ور نے فخریہ انداز میں کہا۔

’’یہ بات میرے لیے باعث شرمندگی ہے کہ مجھے تم سے کچھ سیکھنے کا موقع نہیں ملا‘‘ گوئبیلز نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’جربی تم نے تو ابھی تک اس کے بہترین حصے کے بارے میں تو سنا ہی نہیں ہے‘‘ برطانوی دانش ور نے کریہہ آواز میں کہا، یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات بہت خراب ہوگئے تھے، اس طرح جیسے کسی کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہو۔

’’کیا؟‘‘

’’گارجیئن کو برطانیہ کے دانش ور حلقوں میں بائیں بازو کا ترقی پسند اخبار تصور کیا جاتا ہے!!‘‘

’’کیا؟‘‘ گوئبیلز کو اچانک صدمہ پہنچا۔ پھر گوئبیلز اور برطانوی دانش ور کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ پھر دونوں نے بے تحاشا ہنسنا شروع کردیا۔ ان کے دیوانوں کی طرح ہنسنے کی آواز سن کر برابر والے کمرے میں موجود جے کے رولنگ نے بہ آواز بلند ہیری پوٹر کا ایک منتر پڑھا ’’ایکسپیکٹو پیٹرونم‘‘

لیکن دونوں پر اس منتر کا کوئی اثر نہیں ہوا بل کہ وہ اور زیادہ زور زور سے ہنسنے لگے۔

’’جربی او جربی! تم جانتے ہو سب سے مزے دار بات کیا ہے؟‘‘ برطانوی دانش ور نے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘ گوئبیلز نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔

’’بی بی سی کو بھی بائیں بازو کا !!!!!!!!!!!!‘‘

اس آخری جملے نے دونوں نئے دوستوں کو ہذیان میں مبتلا کردیا اور دونوں اپنی پشت سے پشت ملا کر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگے۔

The post گوئبیلز! تم کیا جانو جھوٹ کسے کہتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

تعلیم اور ہماری نئی نسل

$
0
0

(گذشتہ سے پیوستہ)

اب آتے ہیں وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے جہاں معاشرے کی اکثریت، یعنی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان میں کم و بیش سارے ہی ادارے انگلش میڈیم ہیں۔

بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فیس کا اسٹرکچر کسی قدر اوسط درجے کا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ پورے سال کے فی بچہ مجموعی اخراجات کا تخمینہ لگائیں تو اندازہ ہوگا کہ کتابوں، کاپیوں اور غیر نصابی سرگرمیوں اور دوسرے سالانہ اخراجات نے ایک اوسط حیثیت کے تنخواہ دار آدمی کے لیے یہ تقریباً ناممکن بنا دیا ہے کہ وہ اپنے صرف تین چار بچوں کی تعلیم کا انتظام بھی کسی حد تک سہولت سے کرسکے۔ اس لیے معاشرے کے بہت سے گھرانے ایسے ہیں جو بچوں کی تعلیم کا مرحلہ بڑی دشواری سے طے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ ہمارا متوسط طبقہ اب اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے کہ کم سے کم متوسط درجے کی زندگی کا خواب بھی اگر وہ اپنی اولاد کے لیے دیکھتا ہے تو اُس کے پاس بچوں کو تعلیم دلوانے کے سوا اور کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ میاں بیوی دونوں کام کرتے اور پھر بھی بمشکل بچوں کو تعلیم دلاپاتے ہیں۔ اگر گھر میں صرف مرد کماتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایک سے زائد آدمی کا کام کرے۔ سو، وہ ایک جگہ باضابطہ اور معقول نوکری کے ساتھ ساتھ جز وقتی ملازمت یا فری لانس جیسا کوئی کام بھی لازماً کرتا ہے۔ تب کہیں جاکر بچوں کی تعلیم ممکن ہوپاتی ہے۔ اس کے باوجود کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی تعلیم کو ممکن بناتے ہیں۔

ان اداروں کا تعلیمی معیار کیا ہے، اس کا اندازہ باآسانی اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ نظامِ تعلیم اوسط درجے کی ذہنی و عقلی صلاحیتیں ابھارتا ہے۔ تعلیم کا عمل ایک طرح کا میکانکی انداز رکھتا ہے، لہٰذا وہ ایسا ہی اثر بچوں پر ڈالتا ہے اور کچھ ایسی ہی استعداد کو ان میں ابھارتا ہے۔ اس اندازِ تعلیم میں اداروں، اساتذہ اور والدین سب کی توجہ تعلیم کے خارجی اظہار یا اثرات پر ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بچے انگریزی بولنے اور لکھنے میں جلد رواں ہوجاتے ہیں۔ البتہ اپنی قومی زبان اردو ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔

اس سے یہ ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدرجہ مجبوری اگر کہیں اردو میں اظہار کی ضرورت پیش آجائے تو بس پھر جیسے ان کی روح فنا ہوتی ہے۔ اس الجھن کا الزام ان بچوں کے سر پر ڈالنا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اپنی قومی زبان کے ساتھ ان کا یہ معاملہ خود ان کی اپنی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ ان کے والدین، اساتذہ اور سماجی ماحول کی وجہ سے ہے۔

والدین یقین رکھتے ہیں کہ انگریزی بولنے اور لکھنے کی صلاحیت اجاگر ہوگئی تو معاشرے میں ان کی عزت اور مقام دونوں بہتر ہوجائیں گے۔ ایسے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولز کی انتظامیہ اور اساتذہ دونوں ہی والدین کی اس نفسیاتی کم زوری کا پورا فائدہ اٹھاتے اور اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔ وہ بچوں میں ظاہری سطح کی تعلیم کا تأثر قائم کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، یعنی بچوں کی انگریزی بولنے، سمجھنے اور لکھنے کی صلاحیت کو ابھارنے پر زیادہ محنت کرتے ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان اداروں سے پڑھنے والے بچوں کی انگریزی بھی کسی بہتر معیار کی نہیں ہوتی۔

ان کے اظہار کی سطح نہایت اوسط درجے کی ہوتی ہے۔ اظہار و بیاں کے لطیف اور بہتر قرینے یکسر ناپید۔ مافی الضمیر کے اظہار کی صلاحیت سراسر واجبی اور تخلیقی اسلوب یا رویہ تو سرے سے ہی مفقود۔ چناںچہ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہیے کہ یہ نظامِ تعلیم اگر کوئی کام ہمارے معاشرے میں کررہا ہے تو صرف یہ کہ اوسط درجے کے مشینی پرزے ڈھال رہا ہے جو کلرکی والی ذہنیت اور افادیت کے حامل ہیں۔

ہمارے یہاں تعلیم کے سلسلے میں یہ رویہ کیوں پایا جاتا ہے؟ اس سوال کا ایک آسان اور سادہ سا جواب تو وہی ہے جو ایک عرصے سے آپ ہم ایک دوسرے کو پیش کرتے رہتے ہیں، یہ کہ ہم نے انگریزوں کی حکمرانی سے آزادیِ تو حاصل کرلی، لیکن ہم نوآبادتی اثرات سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں غلامی ظاہری سطح پر ختم ہوئی ہے، حقیقتاً نہیں۔

ہم اب بھی اپنے سابق آقاؤں کی زبان بولنا اور اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر نفسیاتی برتری کا احساس پیدا کرتی ہے اور اس کے ذریعے ہم اپنے ہی لوگوں پر اپنی سبقت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ جواب آج بھی اپنی ایک معنویت رکھتا ہے، اس لیے غلط نہیں ہے۔ تاہم مسلسل اس قسم کی سوچ کے زیرِاثر رہنا بھی تو بجائے خود نوآبادتی اثرات کے تسلسل کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم نے اس صورتِ حال کی اور اس طرزِاحساس کی تبدیلی کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردار ادا کیا ہے، آخر یہ بھی تو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہیں؟

ہر وقت اپنی نفسیاتی کم زوریوں کا راگ الاپنا کون سی اچھی بات ہے۔ ہاں، ان کا تدارک، ان کی اصلاح کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے زمانے کے حقائق کو بھی لازماً پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

آج ہم جس گلوبل دنیا میں جی رہے ہیں، اُس میں ابلاغ و اظہار کی زبان انگریزی ہے۔ اس لیے آج مسئلہ محکومی کے دور کی یادگار کا نہیں ہے، بلکہ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے اور اختیار کرنے کا ہے۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں چین، جاپان، سعودی عرب اور ایران میں بھی انگریزی سیکھنے اور سمجھنے کا وہ رجحان سامنے آرہا ہے جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس لیے انگریزی سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت اس میں ہے کہ ہم اس کے تحت وہ رویے اختیار کرتے ہیں جو ہمارے تہذیبی مزاج اور قومی شعور کی نفی کرتے ہیں۔ چناںچہ ہمیں ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

بہرحال اس کے بعد ہمارے نظامِ تعلیم کا ایک درجہ وہ ہے جس کے تحت اشرافیہ اور امرا کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں بھی تعلیم کی سطح حقیقتاً اور مجموعی طور پر بہت اچھی یا مثالی درجے کی تو خیر نہیں ہے، لیکن مڈل کلاس کے بچوں والے نظامِ تعلیم سے اس کی سطح بہرحال بہتر ہے۔ یہاں بچوں کی ذہنی استعداد بھی آپ کو بہتر ملے گی اور زندگی اور اس کے معاملات کی طرف ان کا رویہ بھی زیادہ واضح اور بااعتماد نظر آئے گا۔

تاہم اس بہتری کا سہرا اس نظامِ تعلیم کے سر نہیں باندھا جاسکتا۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ اوّل یہ کہ معاشرے کے جس طبقے کے بچے ان اداروں میں تعلیم کے لیے جاتے ہیں، وہ طبقہ بجائے خود اس معاشرے کی کریم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اپنی ذہنی سطح، سماجی شعور اور فہم و فراست کا معیار بہتر ہوتا ہے۔ چناںچہ یہ سب کچھ کسی حد تک ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ گھر کا ماحول بھی اس معاملے میں ایک کردار ادا کرتا ہے۔ انگریزی بولنا بھی یہاں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ بچپن سے ہی بچہ یہ زبان سیکھنے اور بولنے کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔

دوسری وجہ یہ کہ اس طبقے کے بچوں کی تعلیم کا انحصار صرف تعلیمی اداروں پر بھی نہیں ہوتا۔ غیرنصابی سرگرمیاں اور سوشل سرکل بھی ان کی تعلیم میں خاصی معاونت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی زندگی کی سہولتیں اور دوسرے ذرائع بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ادارے بہتر تعلیم کی اپنے انداز میں کوشش بھی ضرور کرتے ہیں۔

یہاں تعلیم کے نام پر معلومات کا بوجھ بچوں پر لادنے کی کوشش بہرحال نہیں کی جاتی، بلکہ انھیں غیر رسمی ماحول اور کسی قدر غیرروایتی ذرائع سے بھی تعلیم دینے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بچے مڈل کلاس کے بچوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تعلیم اور خاصی بہتر خود اعتمادی حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ البتہ یہاں بھی دیکھا یہی گیا ہے کہ انگریزی زبان اور تعلیم کا طریقہ بچوں کی فطری اور تخلیقی صلاحیتوں کو پوری طرح مہمیز دینے اور چمکانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتا۔ یہاں پر بھی بہتری کے باوجود تعلیم کے اثرات میکانکی انداز سے بہت زیادہ مختلف محسوس نہیں ہوتے۔ چناںچہ انگریزی زبان پر قدرے اچھی دسترس کے باوجود فطری، تخلیقی اور تعمیری مزاج بچوں میں پروان نہیں چڑھتا۔

اب رہ گئے مدارس کے زیرِاہتمام تعلیم پانے والے بچے۔ ان میں جن کی تعلیم مدرسوں کی خاص مذہبی سطح تک ہوتی ہے، ان کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ معاشرے کے ڈھانچے میں ان کا حصہ اور رویہ دونوں ہی جس نہج پر ہمیں ملتے ہیں، ان کا موازنہ انگلش میڈیم تعلیم پانے والے بچوں سے قطعی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں کے مابین فرق بہت زیادہ اور بنیادی نوعیت کا ہے۔

البتہ وہ بچے جو مدرسوں میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں، انھیں ضرور موازنے کے لیے پیشِ نظر رکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مذہبی تعلیم کی بات ہے، سو وہ عام طور سے حفظِ قرآن کی ہوتی ہے۔ کم عمری میں اس طریقِ تعلیم کو اختیار کرنے والے بچے قرآن تو ضرور جلد حفظ کرلیتے ہیں اور پھر جو وقت وہ حفظِ قرآن میں لگاتے ہیں، اُس کو کور کرنے کے لیے انھیں اگلے درجے کی جماعتوں میں بٹھا کر تیاری بھی کرالی جاتی ہے۔ اس طرح میٹرک یا او لیول کی تعلیم کے درجے تک وہ کم و بیش اسی عمر میں پہنچ جاتے ہیں جس میں براہِ راست جدید تعلیم کی طرف سے آنے والے بچے۔

تاہم کم سنی میں حفظِ قرآن بچے کے اندر تعلیماتِ قرآنی کا تو کوئی شعور پیدا نہیں کرتا۔ سوال پھر یہ ہے کہ ایسی صورت میں دین کی تعلیم کے کیا وہی ثمرات یہ بچے حاصل کرتے ہیں جو اس طریقِ تعلیم کا مقصود ہوتے ہیں؟ دوسری طرف جس انداز سے یہ بچے جدید تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ بھی ان کی استعداد مڈل کلاس کے انگلش میڈیم تعلیم سے بہرہ مند بچوں سے بہتر بناتی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طریقِ تعلیم نے انھیں کس اختصاص سے ہم کنار کیا؟ گویا سماجی نظام میں وہ بھی ایک عام کل پرزے سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

یہ تو ہوا ہمارے یہاں رائج چار نظام ہائے تعلیم اور ان کے تحت علم حاصل کرنے والی نسلِ نو کی صورتِ حال کا بالکل سادہ اور نہایت مختصر جائزہ۔ طرزِتعلیم اور اس کے اثرات کا یہ جائزہ بے شک اجمالاً لیا گیا ہے، لیکن اس سے اتنا اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ اس وقت ہماری نئی نسل تعلیم کے نام پر کیا حاصل کر رہی ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے وہ کس منزل کی طرف رواں ہے۔

اس حقیقت پر غور کرکے ہم واضح طور پر یہ شعور حاصل کرسکتے ہیں کہ ان حالات میں ان کوششوں اور ان نظام ہائے تعلیم کے تحت پروان چڑھنے والی نئی نسل سے ہمیں کیا توقعات وابستہ کرنی چاہییں اور اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچنا اور کیا امیدیں قائم کرنا ہمارے لیے درست ہوگا۔ یہ تو ہوا تعلیم کا معاملہ۔ اس کے ساتھ ہمیں ایک اور بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس دور کے نئے لوگ نہ سہی، لیکن ہماری عمر کے سب لوگ یہ بات جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کسی فرد اور کسی معاشرے کے لیے صرف تعلیم کافی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ وہ ساری ضرورتیں پوری نہیں کرتی۔ اس کے ساتھ لازمی طور سے تربیت بھی درکار ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس تعلیم کے ساتھ نئے لوگوں کی تربیت کس سطح پر ہورہی ہے؟ تربیت کا یہ سوال اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ علم اگر عمل تک نہ پہنچے تو اُس کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جو سایہ دیتا ہو اور نہ پھل۔ یہ تربیت ہی تو ہوتی ہے جو علم کو چراغِ راہ گزر بناتی ہے کہ اپنے پرائے سب اس سے فیض پاتے ہیں۔ تعلیم بغیر تربیت کے ایک مجرد شے ہے اور تربیت کے ساتھ وہ مجسم ہوجاتی ہے۔

تربیت نہ ہو تو تعلیم آدمی کو گم راہی کی طرف بھی لے جاتی ہے، تربیت کے ساتھ ہو تو آدمی کے اندر روشنی بھر دیتی ہے اور خود اسے روشنی بنا دیتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جتنے انبیا علیہم السلام آئے، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا سانچا بھی لے کر آئے، اور نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنیٰ کو تو تربیت کا بلند ترین سانچا قرار دیا گیا ہے۔ چناںچہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تعلیم کی فضیلت اصل میں تربیت کے ساتھ ہے، اس کے بغیر نہیں۔

اب اگر ہم اپنے چاروں نظام ہائے تعلیم پر نگاہ ڈال کر یہ دیکھیں کہ ان کے دائرۂ کار میں نسلِ نو کی تربیت کا معیار کیا ہے تو ہم سخت افسردگی اور مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں، خاص طور پر جدید تعلیم کے ادارے تو اس معاملے میں ہمیں ہلاکت خیز مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں۔ یہاں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے نظامِ تعلیم میں تربیت کی اہمیت اور ضرورت کا کوئی واضح تصور ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔

سب کچھ تعلیم ہی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ سب ہمارے اردگرد کے حالات اور حقائق کا نقشہ ہے اور اس دور کے تصورِ تعلیم۔ یونان، چین اور جاپان یا عرب و عجم کے حکما اور صوفیا کا ذکر نہیں، اسی ارضِ وطن کے تعلیمی اداروں میں چار پانچ دہائی پہلے تک تربیت کو تعلیم کا جزوِ لازم گردانا جاتا تھا۔ اساتذہ اپنے طلبہ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالنا اپنی بنیادی ذمے داری کا لازمی حصہ خیال کرتے تھے جو انھیں علم و عمل کی اکائی بنا دے۔

وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے پاس علم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کے ذہن کو علم سے اور شخصیت کو عمل سے اس طرح آراستہ کریں کہ وہ آگے چل کر دوسروں کے لیے ایک روشن مثال بن جائیں۔ اس کے برعکس، ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج تعلیم زیادہ سے زیادہ معلومات کا ڈھیر ہوکر رہ گئی ہے اور عمل کا فقدان ایسا ہے کہ شخصیت تعمیر ہی نہیں ہو پاتی۔

اس سارے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہماری نئی نسل کس طرف جارہی ہے۔ بلاشبہہ یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل کو کیا بنانا چاہتے ہیں، کیسا دیکھنا چاہتے ہیں اور کہاں پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ خواب اور خواہشیں جو اپنی اولاد کی زندگی، شخصیت اور مستقبل کے بارے میں ہمارے دلوں میں ہیں، موجودہ نظامِ تعلیم کے سب سلسلے کسی بھی طرح انھیں حقیقت میں ڈھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر ہم واقعی ان خوابوں کو تعبیر سے ہم کنار کرنا چاہتے ہیں تو پھر سمجھ لیجیے کہ ہمارے تعلیمی نظام کو بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

جدید دنیا کے علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں لازمی طور سے ہیومینیٹیز، یعنی بشری علوم کو بھی اپنے نظامِ تعلیم کا حصہ بنانا چاہیے، تاکہ ہم اپنے بچوں کو مشین کے پرزے جیسی زندگی کے بجائے جیتے جاگتے اور ہنستے بستے انسان کی زندگی کے شعور و احساس سے بہرہ مند کرسکیں۔ ان علوم کے ذریعے ہم انھیں اپنی تہذیب و اقدار کا شعور دے سکتے ہیں۔ تاکہ وقت کا دھارا انھیں اجنبی جزیروں پر لے جاکر نہ پھینک سکے۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہمیں تربیت پائے ہوئے اساتذہ کی اشد ضرورت ہے جو ان کے کردار کی تشکیل و تعمیر میں مثبت انداز سے حصہ لے سکیں۔

آخری بات یہ کہ اولاد کی تعلیم و تربیت جیسا بیش بہا اور گراں مایہ کام ہمیں صرف تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑ کر بیٹھ رہنا چاہیے، بلکہ ماں، باپ، بہن، بھائی، عزیز، رشتے دار جس حیثیت میں بھی ہم اس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، ہمیں پوری ذمے داری، محبت اور لگن سے ادا کرنا چاہیے۔ اپنی آئندہ نسل کی بہترین تعلیم اور تربیت ہی دراصل ہماری اجتماعی اور آبرومندانہ بقا کا واحد راستہ ہے۔

The post تعلیم اور ہماری نئی نسل appeared first on ایکسپریس اردو.

بیورو کریسی کا قبلہ کیسے درست ہو گا؟

$
0
0

جمہوری حکومتوں میں کہا جا تا ہے کہ ریاست کے تین ستون یا ادارے اہم ترین ہو تے ہیں، ان میں ، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہیں۔ انتظامیہ کی اعلیٰ سطح کو عام طور پر بیوروکریسی کہا جاتا ہے۔

چین میں سب سے پہلے 605 سنِ عیسوی میں زاہو اور اس کے بعد سیُو شاہی خاندانوں نے بیوروکریسی کا نظام اختیار کیا تھا، اس وقت پورے چین سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کے درمیان مقابلے کے امتحانات کروائے جاتے، کامیاب افراد ایک خاص مدت تک مخصوص اکیڈمی میں تربیت مکمل کرتے تھے اس کے بعد انتظامی امور کے لیے ان بیوروکریٹ کو اضلاع میں تعینات کیا جاتا تھا۔

چین میں صدیوں تک اس بیوروکریسی کے اثرات انتظامی لحاظ سے بہت بہتر رہے ، اس کے بعد کے زمانوں میں اہل یورپ نے بیوروکریسی کے اس طریقہ کار کو اپنایا۔ برصغیرمیں انگریز پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد پر آیا تو اگرچہ کمپنی کی حکومت نے بھی انتظامیہ پر تو جہ دی تھی اور وہ بھی ہندوستانی کی روایتی انتظامیہ سے قدرے مختلف اور جدید تھی مگر جب جنگ آزادی 1857ء کے بعد تاج برطانیہ کے تحت ہندوستان میں برطانیہ کے باد شاہ کی حکومت قائم ہو گئی تو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہندوستان میں انڈین امپریل سول سروس کا ایکٹ 1858ء منظور کیا ۔

جس کے سیکشن xxx11 آف انڈیا کے تحت آئی سی ایس کا سربراہ سیکرٹری آف اسٹیٹ انڈیا مقرر ہوا، اس وقت آج کے بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان یعنی برصغیر کی 30 کروڑ آبادی اور اس کے250 اضلاع میں ڈی سی سے لے کر گیا رہ صوبوں کے گورنروں تک آئی سی ایس افسران مقرر ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ فوجی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا کی سپر پاور تھا۔

انگریز ہندوستان میں اپنی انتہائی وفادار 540 ریاستوں کے راجائوں، مہا راجائوں، نوابین اور ہندوستانیوں پر مشتمل فوج کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے حکومت کر رہا تھا۔ انگریز کی حکومت میں انتظامی اعتبار سے آئی سی ایس افسران ضلعی سطح سے صوبائی سطح تک بادشاہت کیا کرتے تھے لیکن یہ جوابدہ تھے اور اپنے فرائض بھی پوری طرح ادا کرتے تھے مگر یہ تلخ حقیقت ہمارے لیے تھی کہ ہم غلام تھے اور انگریز ہمارے آقا تھے۔

1905 تک کوئی انڈین آئی سی ایس افسر نہیں تھا، اس کے بعد نچلی سطح پر بنگال سے 5% آئی سی ایس افسران آنے لگے مگر ان کی مراعات بھی انگریزوں کے مقابلے میں کم تھیں۔ 1920تک 8000 آئی سی ایس افسران کی کل تنخواہیں 13930554 پونڈ تھی جب کے اس کے مقابلے میں 130000 عام سرکاری افسران اور اہلکاروں کی کل تنخواہیں 3248163 پونڈ تھی اس کے ساتھ ان کو نہ صرف سروس کے دوران شاہانہ انداز کی مراعات حاصل تھیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی پینشن بھی ملتی تھی، یہی آئی سی ایس افسران انڈین پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے تحت عدلیہ میں بھی بطور جج پچاس فیصد کو ٹہ رکھتے تھے اور اس وقت یہ جج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک نہ صرف تعینات ہوا کرتے تھے بلکہ یہاں ان کی سروس کی ریٹائرمنٹ عدلیہ کے قوانین کے تحت ہوا کرتی تھی۔

انتظامی شعبوں میں سیکرٹری ٹو گورنمنٹ آف انڈیا سمیت مختلف محکموں کے سیکرٹری کے اعلیٰ عہدوں پر آزادی سے ذرا پہلے تک یورپین ہی تعینات ہوتے تھے۔ انڈیا ایکٹ 1935 کے بعد مقامی افراد کا تناسب بیوروکریسی میں کچھ بڑھا لیکن یہ پھر بھی انگریزوں کے مقابلے میں بہت کم تھا اس کاندازہ ان اعداد و شمار سے کیا جا سکتا ہے، 1947ء میں آزادی کے وقت 980 آئی سی ایس افسران تھے جن میں سے 468 یورپین 352 ہندو101مسلمان 25 ہندوستانی عیسائی، 13 پارسی، 10سکھ، 5 اینگلو انڈ ین تھے مگر ان آئی سی ایس افسران میں انگریز ہی اعلیٰ ترین عہدوں جیسے گورنر،کمشنر، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج یہی انگریزتھے۔

یہ نہایت تلخ حقیقت ہے ہندوستان میں کانگریس نے قائد اعظم کا میثاق لکھنوکا فارمولہ رد کرکے برصغیر کی حصولِ آزادی کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچا یا،کانگریس نہرو رپورٹ میں میثاق لکھنو کو رد نہ کرتی تو ہندو مسلم اتحاد قائم رہتا اور برصغیر کے چالیس کروڑ انسان انگریز سے آزادی چھین کر لیتے نہ کہ مانگ کر، اور 1935ء کے قانونِ ہند کے تحت بھارت اور پاکستان جب قائم ہو ئے تو یہ حقیقت ہے کہ انگریز نے یہاں پہلے سے مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کا نہ صرف ایک مستحکم ڈھانچہ دیا تھا بلکہ ایک بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھی دیئے تھے ۔

جہاں تک تعلق مقننہ کا ہے تو انگر یز نے آزادی سے قبل کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اجازت تو دے رکھی تھی مگر انڈیا ایکٹ 1935ء جو آزدی سے قبل مشترکہ ہندوستان کا آئین تھا اسی قانون کے تحت غیرمنقسم ہندوستان میں 1937ء اور پھر 1945-46 کے موسم سرما میں ہونے والے انتخابات ہوئے ۔ انتخابات کی بنیاد پر ہی پاکستان قائم ہوا۔

یہ انڈیا ایکٹ 1935 ہند وستان کی مقننہ نے نہیں بنایا بلکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور پھر جب آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو اعلانِ آ زادی کیا تو پھر اس اعلان پر عملدرآمد کے لیے قانون آزادیِ ہند کے عنوان سے ترمیم بھی برطانیہ کی مقننہ نے کی تھی۔ یو ں انگریز نے اپنے اقتدار میں ہند وستان میں انتخابات تو کروائے مگر آئین سازی کا اختیار حقیقت میں آزادی کے بعد بھی ایک سال تک نہیں دیا تھا اور ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ کا پورا نظام اور ماہر اور بااثر افراد میں بھی انگریز دئیے تھے۔

اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی کے رہنمائوں نے آزادی کا جذبہ اپنی اپنی قوم کے افراد میں بھر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی آئی سی ایس افسران کے دو واضح گروپ بن چکے تھے ایک کانگریس کے حامی تھے اور ان میں سے کچھ مسلمان مسلم لیگ کے حامی تھے، یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو باوجود قائد اعظم کی اپیل کے 101 مسلمان آئی سی ایس افسران میں سے ڈھائی تین درجن سے زیادہ بڑے ،چھوٹے آئی سی ایس افسران ہی پاکستان آئے، البتہ بھارت اور پاکستان دونوں میںگورنروں اور سیکرٹریوںاور عدلیہ کے ججوں پر آزادی کے بعد کافی عرصے تک انگریز آئی سی ایس افسران تعینات رہے۔

بھارت میں آخری آئی سی ایس انگریز افسر جسٹس پنجاب ہائی کورٹ 1966 میں اور آخری بیوروکریٹ نرمل کمار مکھر جی بطور کیبنٹ سیکرٹری 1980 میں ریٹائر ہوئے جبکہ اِس وقت بھارت میں آئی سی ایس کی آخری نشانی کے طور پر وی کے رائو 104 برس کی عمر میں زندہ ہیں، وہ 1914 میں پیدا ہوئے، 1937 میں آئی سی ایس افسر ہوئے، بطور چیف سیکرٹری آندھرا پردیش ریٹائر ہوئے۔ پاکستان میں آخری آئی سی ایس افسر آفتاب غلام نبی ذکی تھے جو بطور چیرمین پاکستان بورڈ آف انویسٹمنٹ 1994 میں ریٹائر ہوئے۔

پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی کہ آزادی کے ایک سال29دن بعد قائد اعظم انتقال کر گئے اور پھر ہم 1956ء تک اپنا آئین بھی نہ بنا سکے اور اس وقت تک نہ صرف 1935ء کا انڈیا ایکٹ ہمارا آئین رہا بلکہ 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس آئین کی تشریح اور اس کے اختیارات استعمال کرنے والے بھی آئی سی ایس اعلیٰ افسران گورنر جنرل ملک غلام محمد،گورنر جنرل اور 1956 کے آئین کے بعد صدر مملکت اسکندر مرزا بھی آئی سی ایس افسر تھے اور پھر وزیر اعظم ہونے والے چوہدری محمد علی بھی آئی سی ایس افسر تھے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد ایک عرصے تک ہمارے ہاں سر فرانسس موڈی صوبہ پنجاب کے، سر فیڈرک برائون مشرقی پاکستان کے، سر جارج کونگینگ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔

ان کے علاوہ بھی سات سینئر تر ین بیوروکریٹ اور بہت سے انگریز افسران ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں تعینات رہے۔ جب کہ اگست1947 تافروری1948 سر جنرل فرینک میسری اور ان کے بعد فروری 1948 تا جنوری 1951 سر جنرل ڈگلس گریسی فوج کے آرمی چیف رہے۔ ان کے بعد جنرل ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف ہوئے۔ اسی طرح اگست 1947 تا فروری1949 پاکستان فضائیہ کے سربراہ ائیر وائس مارشل پیری کین فروری، 1949 تا مئی 1951 ائیر وائس مارشل آر ایل امرلی، مئی 1951 تاجون1955ان کے بعد 1957 تک ائیر وائس مارشل اے ڈبلیو میکڈونلڈ پاک ٖفضا ئیہ کے چیف رہے اور ان کے بعد پہلے پاکستانی سربراہ ائیر مارشل اصغر خان تھے۔

اسی طرح پاکستان نیوی کے پہلے ایڈ مرل اگست 1947 تا فروری1953 جے جیمز ولفریڈ تھے اور ان کے بعد پہلے پاکستانی ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری ہوئے۔ یہاں یہ بہت واضح ہے کہ اگر ہم بھی قیام پاکستان کے بعد ایک سال کے اندر اندر اپنا آئین بنا کر 1935 کے انڈیا ایکٹ کی جگہ نافذ کردیتے تو ہماری آزادی ’’داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر نہ کہلاتی‘‘۔ واضح رہے کہ بھارت میں نہرو نے آئینی جمہوریت کو اس کے باوقار کردار کے ساتھ مستحکم کرتے ہو ئے جرات مندانہ اقدامات کئے اور جب آزادی کے تھوڑے عرصے بعد فوج کے لیے اسلحہ کی خریداری پر بھارتی وزیر دفاع پر سینئر ترین فوجی افسران نے دبائو ڈالتے ہوئے استعفے پیش کئے تو وزیر اعظم نہرو نے استعفٰے فوراً قبول کر لیے اور کہا کہ مجھے یہ فیصلہ کرتے وقت تکلیف ہو رہی ہے مگر میںجمہوری حکومت اور جمہوریت کو بھارت میں طاقتور دیکھنا چاہتا ہوں۔

اس سب کے باوجود کہ ہندوستان کی بیوروکریسی ہماری بیوروکریسی کے مقابلے میں کانگریس سے ہم آہنگی بھی رکھتی تھی اور بھارت کے قومی مفادات کو عزیز رکھتی تھی، نہرو نے جلد ازجلد آئی سی ایس افسران کی قوت کو کمزور کیا، جبکہ ہمارے ہاں آزادی کے فورا بعد خصوصا قائد اعظم کے بعد آئی سی ایس افسران نے پاکستان اور اس کے تمام اداروں کو دبوچ لیا ۔1947 میں ہمارے پاس جو نمایاں آئی سی ایس مسلمان افسران آئے، ان میںآفتاب غلام علی،اے این جی قاضی،آغاشاہی، ایم ریاض الدین ، چوہدری محمد علی ، محمد اکرام اللہ جو ہمارے پہلے فارن سیکرٹری رہے، عزیز احمد جو پہلے مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری اور پھر فارن سیکرٹری رہے، جے اے رحیم، مرزا سکندر علی بیگ، ایس کے دہلوی، اختر حسین جو پہلے چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیر دفاع اور پھر گورنر مغربی پاکستان رہے۔

ان کے علاوہ پاکستان آنے والے آئی سی ایس افسران میں آغا ہلالی، سابق فارن سیکرٹری، اے ٹی نقوی، ایس غیاث الدین ، ایچ اے ماجد، سید فدا حسین ، ایچ آر کیانی، ایس ایچ رضا،عبدالمجید ،شیخ ناز الباقر، شہاب الدین ، محمد شعب، نصیر احمد فاروقی مرزا مظفر، ایم ایم احمد ،ایم ایم نیاز، قمر الاسلام اور قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔ ان میں بہت سے باکمال اور قدرے محب وطن آئی سی ایس افسران بھی شامل تھے مگر یہ نہایت تلخ حقیقت ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ان آئی سی ایس افسران نے آزادی کے بعد جب ان کے سینئر آئی سی ایس افسران نے پاکستان کو کمزرو کرنے کی کوشش کی جمہوریت کو پامال کیا تو کسی نے جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یہ درست ہے کہ چوہدری محمد علی نے بطور وزیر اعظم 1956 کا آئین دیا مگر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد نیشنل بنک کا عہدہ لے لیا اور جب سینئر بیورو بیوکریٹ سکندر مرزا نے اپنے اقدار کو بچانے کے لیے آئین اور جمہوریت کو قربان کرتے ہو ئے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا اور ایوب خان نے مارشل لاء کے بعد صدر اسکندر مرزا کو فارغ کرد یا اور تو ا یوب کی 1969 تک تشکیل پانے والی تین کابینہ میں محمد شعیب،اختر حسین اور شہاب الدین جیسے آئی سی ایس افسران وفاقی وزرا رہے۔

قیام پاکستان کے بعد جو افراد سی ایس پی افسر بنے تو ان میں سے بھی بہت سے افسران نے نہ صرف غیر جمہوری حکومتوں کو مضبوط کیا بلکہ انتظامیہ کو بہت نقصان پہنچایا، مثلاً ایوبی دور میں یہی بیوروکریسی تھی جس نے متحرمہ فاطمہ جناح کو بطور اے سی اور ڈی سی بنیادی جمہوریت کے صدارتی انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی سے ہروانے میں بنیادی کر دار ادا کیا۔

یہاں معرف سفر نامہ نگار بیگم اختر ریاض الدین کی کتاب دھنک پر قدم میں ہوائی کے سفر کی روداد کا حوالہ بہت اہم ہے جس میں امریکہ کی جانب سے سی آئی سی ایس اور پھر پی سی ایس افسران کے لیے لکھا ہے کہ ان افسران کے ایک اشارے پر بی ڈی ممبر بنتے اور جوڑ تے ہیں ان کے لیے ہوا ئی یو نیورسٹی میں اسکالر کہلانا کو ئی حیرانی کی بات نہیں لیکن ہمارے نیک اور اچھے بیوروکریٹ میںآئی سی ایس قدرت اللہ شہاب اور سی ایس پی کے پہلے بیج کے مختار مسعود نہ صرف بہت محب وطن بیوروکریٹ تھے بلکہ ان کا کمال یہ ہے کہ اردو ادب کے ان بے مثال ادیبوں نے نہ صرف ادب کی خدمت کی بلکہ اپنی تحریر وں میں ادبی چاشنی کے ساتھ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی صورتحال کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس میں بیوروکریسی کا چہرہ بھی زیادہ واضح انداز میں نظر آتا ہے، پاکستان کے قیام کے فوراً بعد پشاور میں قا ئد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے بیوروکریسی سے کہا تھا کہ یہ آزاد ملک ہے اور اب آپ عوام کے حاکم نہیں خادم ہیں۔

یوں یہ دو ایک افسران توعوام کے خادم رہے لیکن اکثریت نے قوم وملک کو نقصان پہنچایا، البتہ چند آئی سی ایس اور کچھ پی سی ایس ا فسران ایسے تھے جنہو ں نے یہ افسری چھوڑ دی، ان میں خواجہ خورشید انور، سنتوش کمار اور بعد میں راحت کاظمی، ایاز امیر اور ڈاکٹر محیط پیرزادہ جیسے شامل ہیں، مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، لیکن نمک کا ذائقہ رکھتے ہیں جو آٹے پر محیط ہوا کرتا ہے۔ صدر جنرل ایوب خان نے چونکہ ملک غلام محمد،اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی کے علاوہ بہت سے بیوروکریٹ کے ساتھ کام کیا تھا اس لیے انہوں نے ان میں سے ان کو جو ایوب خان کے ساتھ نہ چل سکتے تھے مجبور کیا کہ وہ اپنا راستہ الگ کر لیں۔

یوں 28 جون 1959ء کو 12 سی ایس پی سمیت 89 سینئر افسران نے استعفے دے دیئے، یہ بیوروکریسی کے خلاف ملک میں پہلا قدم تھا ، 1969ء میں صدر ایوب خان کی رخصتی اور صدر جنرل یحیٰ خان کی آمد کے وقت 303 سی ایس پی اور سینئر افسران کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا، انہی میں سے ایک مشہور شاعر مصطفٰی زیدی تھے جن کی ایک غزل کے دو اشعار یوں ہیں

ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میری روح کی حقیقت مرے آنسووں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زید ی کی موت بہت پراسرا انداز میں 12اکتوبر1970 کو کراچی کے ایک ہو ٹل میں ہوئی جب وہ اپنی خاتون دوست کے ہمراہ ہوٹل کے کمرے میں تھے، وہ مردہ پائے گئے جب کہ خاتون شہناز گل مدہوشی کی حالت میں تھیں، قتل کا یہ کیس اس زمانے میں اخبارات کی شہ سرخیوں کے ساتھ بہت مشہور ہو ا کہ یہ قتل تھا یا خود کشی؟

اس کے بعد اگست 1973ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر بیوروکریسی میں اصلاحات کرتے ہوئے 1300 افسران کو فارغ کردیا۔اس دور سے بیوروکریسی عدم تحفظ کا شکار ہو گئی اور اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک مالی کرپشن کے رجحان کا آغاز ہوا، اسی دور میں جب یہ سی ایس پی سے سی ایس ایس ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے ڈائریکٹ انٹری کے تحت بغیر مقابلے کے امتحان کے بھی سینکڑوں افراد کو بیوروکریسی میں داخل کیا جن میں سے کچھ کو صدر جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی فارغ کر دیا اور بعض شامل رہے۔

اگر چہ بیوروکریسی کے شعبے میں پہلا دور جو 1958 تک رہا، پورا اقتدار بیوروکریسی کے قابو میں تھا۔ صدرایوب خان کے دور میں بیوروکریسی کے نہ صرف اعلیٰ افسران کابینہ میں شامل رہے بلکہ نچلی سطح پر ایوبی اقتدار میں حکومت کی مضبوطی کی ضمانت تھے، اس لیے بیوروکریسی کی اہمیت طاقت کے اعتبار سے قائم رہی۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں غلام اسحاق خان سمیت بہت سے بیوروکریٹ اہمیت اختیار کر گئے اور غلام اسحاق خان تو چیرمین سینٹ اور اس کے بعد صدر کے عہد ے تک پہنچے۔ ان کے بعد اگر چہ سردار فاروق احمد لغاری بھی صدر ہوئے مگر یہ پہلے ڈی سی کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔

بھٹو کی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بینظیر کے دور میں صدر ہو ئے اور پھر ان ہی کی حکومت کو برطرف بھی کیا، جنرل ضیا الحق کے دور میں سرد جنگ اپنی انتہا کو پہنچی اور اس کا سب سے بڑا محاذ ہماری سرحد پر افغانستان میں کھل گیا، اب مقامی اہم افراد بڑے سرمایہ دارافغانستان، مڈل ایسٹ اور پاکستان، سمیت بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں براہ راست انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے را بطے میں گئے وہاں بیوروکریسی کے بعض سینئر افراد بھی اس بگ گیم میں شامل ہو گئے، عام سطح پر مالی کرپشن کا بڑا حصہ یہی بیوروکریسی بن گئی۔

یوں پہلے بیوروکریسی ملک کی حکمران رہی پھر حکمران طبقے کے ساتھ کابینہ کے اراکین بن کر حکو متوں کا حصہ رہی اور پھر اب تک بیوروکریسی کا بڑا حصہ حکمرانوں کی کرپشن میں بنیادی ایجنٹوں کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس دوران صوبائی سطحوں پر تو پی سی ایس کے مقابلے کے امتحانات میں کر پشن، اقربا پرورری اور سیاسی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ ایک دو مرتبہ تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے بھی سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحانات کے پرچوں کے آئوٹ ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

دوسری جانب ملک بھر میں یو نیورسیٹوں کی سطح پر نقل،کرپشن اور اقربا پروری کے رجحانات کی وجہ سے تعلیم کا معیار انتہائی پست ہو گیا۔ اس کا اندازہ 2015 کے سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان کے نتیجے سے ہو سکتا ہے جو اب تک کا سب سے برا رزلٹ ہے، اس میں کل 12176 امیدواروں نے مقابلے کا امتحان دیا تھا اور رزلٹ صرف 3% رہا تھا۔

یوں اب جب کہ برسوں بعد ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کی حکومت آئی ہے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہر شعبے میں تبدیلی لانے کا دعوٰی کرتی ہے تو اس کے لیے بیورو کریسی کی اصلاح بہت بڑا چیلنج ہوگا،اگرچہ یہ حقائق بھی عوام کے سامنے ہیں کہ اس وقت 20 اور21 گریڈوں کے بعض سینئر ترین سی ایس ایس افسران کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کی بنیادوں پر عدالتوں میں مقد مات چل رہے ہیں اور یہ مقدمات اتنے مضبوط ہیں کہ باوجود بہت بڑے وکلا کے ان کی ضمانتیں نہیں ہو پائی رہیں۔

اگر چہ ملک میںکرپشن ساٹھ کی دہا ئی کے آخر میں شروع ہو چکی تھی مگر اُ س وقت ایسی اندھیر نہیں مچا تھا اگر کسی سرکاری افسر یا اہلکار کے پاس زیادہ دولت کا گمان ہو تا تھا تو فوراً اُس کے خلاف تحقیقات شروع ہو جایا کرتی تھیں لیکن 80ء کی دہائی کے بعد یہ تصور ہی ختم ہو گیا کہ کوئی پوچھنے والا بھی ہے۔

1999ء میں جب ہمارے قومی بجٹ کا خسارہ پچاس فیصد تک پہنچ گیا تھا اور بیرونی قرضوںکی ادائیگی کے لیے قرضے لیئے جانے لگے تھے اور جب پرویز مشرف نے اقتدار حاصل کیا اور احتساب کا اعلان کرتے ہو ئے کاروائیاں بھی عمل میں لائیں تو عوام کی اکثریت خوش ہوئی مگر بعد میں جب ڈیل اور بارگیننگ کی اصطلا حات نیب اور حکومت کی جانب سے سامنے آئیں تو اس انداز سے کرپشن کے رجحانات کو کہیں زیادہ تقویت ملی اور یہ مثال بالکل درست ثابت ہو گئی کہ ’’کیسے پکڑے گئے تو جواب دیا رشوت لینے پر اور کیسے چھوٹے تو پیسے دیکر‘‘ ۔ پرویز مشرف کی حکومت کو گئے اب تقریباً گیارہ برس ہوچکے ہیں اس دوران مجموعی قرضے چھ ہزار ارب سے بڑھ کر اٹھائیس ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں اور بیرونی قرضے چالیس ارب ڈالر سے بڑھ کر 95 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ملکی قوانین پر عملدر آمد کروانا سرکاری مشینری یعنی انتظامیہ کا کام ہے اور یہ چاہے پولیس ہو یا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ، ایف بی آر،کسٹم، یا کوئی اور ادارہ یہاں سی ایس ایس یا پی سی ایس افسران ہی بنیادی کردار اداکرتے ہیں اور آج ہم بحیثیت قوم اخلاقی گراوٹ کی اُس پستی میں چلے گئے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی رزق حرام کو برا یا گناہ تصور نہیں کرتا اور یہ بھی تاریخ کا ریکارڈ رہے گا کہ کسی سر براہ ِ حکومت نے سر عام یہ کہا کہ اگر کرپشن کو ختم کیا گیا تو قومی ترقی رک جائے گی۔

اب جہاں تک بیوروکریسی کا تعلق ہے تو اس کے پاس قانونی طور پر اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہر اُس اجتماعی اور انفرادی اقدام کو روکے جس کی ملک کا قانون اجازت نہیںدیتا اور اس کے لیے اس وقت سی ایس ایس کے نظام کے تحت پورے ملک سے ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کا انتخاب مقابلے کے امتحان کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس سخت امتحان سے گزر کر کامیاب ہوئے افراد کو بارہ محکموں یا شعبوں میں اعلیٰ درجے کی ملا زمت دی جاتی ہے اور وہ ہر پانچ، سات سال بعد اگلے گریڈوں میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔ اس وقت اگرچہ 18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے بہت سے محکموں کا کام مکمل صوبائی خودمختاری کی وجہ سے صوبوں کی ذمہ داری ہے اور پی سی ایس افسران بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔

لیکن جہاں تک تعلق سی ایس ایس افسران کا ہے تو ایک تو اس میں 7.5% میرٹ کے بعد آبادی کے تناسب سے صوبوں کا کوٹہ ہے اور یہ سی ایس ایس افسران پورے ملک کی سطح پر تعینات کئے جاتے ہیں اور پھر جو محکمے اب تک مرکز کے پاس ہیں وہاں صرف یہی سی ایس ایس افسران ہی تعینات ہوتے ہیں جیسے فارن گروپ کے دفتر خارجہ کے تحت اس دفتر کے علاوہ پوری دنیا میں جہا ں جہا ں ہمارے سفارت خانے ہیں وہاں سفیر کے عہدہ تک یہ سی ایس ایس افسران تعینات کئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور سینئر سابق آئی سی ایس افسر جے اے رحیم کی تجاویز پر بیورو کریسی کے شعبے کے پورے ڈھانچے میں تبدیلیاں کی تھیں لیکن اس کے باوجود اس شعبے کے ایک پر موٹی افسر غلام اسحاق خان نے اپنا کمال دکھا دیا اس کے بعد انہی کی پیپلز پارٹی میں شامل ہو نے والے سابق ڈی سی صدر فاروق لغاری نے کمال دکھایا مگر دوسری جانب کچھ فاش غلطیاں اور کو ہتیاں خو د ان سیاسی لیڈروں کی بھی تھیں۔

بھٹو جو ذہانت اور اہلیت کے لحاظ سے اب تک اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ بیوروکریسی کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھ کر سواری کر نے کے ہنر سے واقف تھے اور شروع میں انہوں نے ایسا کیا بھی مگر ان کی پارٹی کا جو منشور تھا اور اس کے لیے جس پالیسی اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی غالباً اُس پر پوری طرح عملدر آمد کے لیے وہ خود بھی تیار نہیں تھے اور اُس عہد کی تصاویر اور فلمیں اس کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ پی پی پی کے منشورکی بنیاد اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے۔

طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور پھر ہر شخص کے لیے بنیادی ضرورت روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا، بھٹو چین کے ماوزے تنگ سے متا ثر تھے اور اسی لیے ا نہوں نے بشمول خود چینی عوامی لباس کو اپنی کا بینہ کے تمام اراکین کو بعض مواقع پر پہنایا تھا۔ یہ لباس چینی عوام اور قیادت کے اسٹائل کا تو ضرور تھا مگر اس کا کپڑا اور سلائی اتنی ہی قیمت کی تھی جتنی بھٹو جیسے اپنے وقت کے دنیا کے خو ش پوش لیڈر کے دوسرے ان سوٹوں کی تھی جو فرانس اور برطانیہ سے سل کر آتے تھے جن کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے بھی کیا ہے کہ بھٹو نے ان کو بھی کچھ سوٹ سلوا کر دئیے تھے۔

یوں اگر بھٹو واقعی سوشلزم کے پورے اور حقیقی فلسفے پر عمل کرتے اور اسی کی بنیاد پر بیوروکریسی کی اصلاح ہوتی تو یہ واقعی آ ج عوام کی خادم بیوروکریسی ہوتی، اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے پورے نظام کو بدلنے کی ایسی کو شش کی جس کے لیے پاکستان کی سماجی ساخت مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے 2000-2001 میں مقامی حکومتوں کا ضلعی نظام متعارف کروایا، اور ضلعی ناظم کو ڈی سی اور ایس پی کے اختیارت کے ساتھ بعض شعبوں میں ضلع کا تقریباً خود مختار حاکم بنا دیا پھر اس نظام کو مالی لحاظ سے مستحکم بنانے کے لیے صوبائی طرز پر ضلعی این ایف سی ایوارڈ کا منصوبہ بھی دیا مگر اس پر پوری طرح عملدر آمد نہ ہو سکا، کچھ عرصے بعد یہ شعبہ دانیال عزیز کے حوالے کردیا گیا تو انہوں نے پورے ملک سے صحافیوں، سماجی محققین اور دانشوروں کو مشورے کے لیے اسلام آباد بلوایا۔

بلو چستان سے معروف صحافی اور دانشور انور ساجدی اور مجھے بھی دانیال عزیزکی جانب سے دعوت ملی۔ راقم نے اس وقت دانیال عزیز کو یہی مشورہ دیا تھا کہ رفتار کو برقرار اور متوازن رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ گا ڑی بھی بہتر ہو اور سڑک بھی، نہ تو اچھی سڑک پر پرانی اور چھکڑا گاڑی بہتر رفتار اور توازن سے چل سکتی ہے اور نہ ہی ٹوٹی پھو ٹی سڑک پر نئی اور تیز رفتار گاڑی اچھی رفتار و توازن سے چل سکتی ہے، پھر ساتھ ہی پولیس آرڈر کے عنوان سے اس شعبے کی اصلاحات پر بھی نظر ڈالی گئی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر پبلک سیفٹی کمیشن بنائے گئے،ایف آئی آر کے اندرراج کو یقینی بنا نے کے لیے چند اچھی تجاویز پر عملدر آمد ہوا اور ساتھ ہی پولیس اور انتظامی اعتبار سے پرانے نظام کو بلوچستان اور دوسرے صوبوں میں اے ایریا اور بی ایریا پولیس اور لیویز کے ساتھ ساتھ قبائلی جرگہ کے نظام کو ختم کرنے کا عمل شروع ہوا، یوںبرسوں بلکہ تقریبا ڈیڑھ صدی کے قائم نظام کوچند مہینوں میں ختم کردیا گیا۔

اب اس کو اتفاق کہیں کہ اسی وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور پھر اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یوٹرن کے ساتھ پاکستان کو ایک بار پھر افغانسان سے طویل سرحد کی بنیادوں پر فرنٹ لائن کا ملک بننے کے علاوہ کوئی چارہ دکھائی نہیں دیا، اور اس وقت انتظامی لحاظ سے بڑی بے بسی دکھائی دی ، جب ڈسٹرکٹ ناظم جو چار پانچ سال کی محدود مدت کے لیے منتخب ہوتا تھا امن و امان کی بہتری کے لیے کوئی جرات مندانہ اقدام یو ں نہیں لیتا تھا کہ اسے معلوم تھا کی اقتدر کے جانے کے بعد اسے تحفظ نہیں ہو گا اور اس صورتحال سے ہمیں اس وقت بہت نقصان ہوا تھا۔آج جب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اس حکو مت کو بیوروکریسی کی اصلاحات کرتے وقت اور بلد یاتی ادارورں کو اختیارات دیتے ہو ئے ماضی کے ان تجر با ت کو سامنے رکھنا چاہیے۔
جہاں تک بیوروکریسی کا تعلق ہے تو اس کے پورے نظام میں انتخاب اور تربیت سے لے کر اختیارات کے استعمال کے تمام مراحل میں تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے،اور پہلے مرحلے میں بڑے آپریشن کے ذریعے گریڈ 17 تا 22 پورے ملک میں تمام کرپٹ افسران کو چھان بین کے بعد ملازمتوں سے فوراً فارغ کر دینا چاہیے، نیک اور فرض شناس افسران کو سر آنکھوں پر بٹھا نا چاہیے اور ان کی ترقی اور ملازمت کے تحفظ کی آئینی ضمانت ہونی چاہیے۔ ضلعی سطحوں پر تعمیر وترقی عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے لیے بلدیاتی نظام کے تحت ضلعی ناظم کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوں مگر یہ مدنظر ضرور ہو کہ ہم کو دہشت گردی کے اعتبار سے جن جنگی حالات کا سامنا ہے اس کے لیے تحصیل، سب ڈو یژن اور ضلع کی سطح پر بیوروکریسی کو ایسے اختیارات دینے ہو ں گے کہ جس پر مرحلہ وار ضلع، ڈویژن اور صوبے کی سطح پر ہی افسران جوابدہ ہوں، اگر چہ ملکی مسائل اتنے گھمبیر اور شدید ہو چکے ہیں کہ ان کی اصلاح اور حل کے لیے تیز رفتاری بہت ضروری ہے۔

مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے پہلے سے بیورو کریسی کی اصلاح اور ضلعی سطح پر بلدیاتی نظام کے تحت اختیارات کی منتقلی کا کوئی جامع منصوبہ تیار کر کے نہیں رکھا، تو نیا منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر بنائے کیونکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے بنیادی نوعیت کے یہی اقدامات ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس بار کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوا تو نہ صرف ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ میر ے منہ میں خا ک ،کہیں ملک کا خاتمہ نہ ہو جائے،کیونکہ جب جسم میں خون نہ ہو تو دل دھڑکنا بند ہو جاتا اور آخر میں کسی کا یہ شعر وزیر اعظم عمران خان اور ان کی نئی کا بینہ کی نذ ر ہے۔
دل دھڑکنے کی صدا ہے تو اِسے غور سے سن
یہ کوئی یاد دہانی تو نہیں ہوتی ہے؟

The post بیورو کریسی کا قبلہ کیسے درست ہو گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

کتا حملہ کر دیتا ہے
راحیل عنصر، بہاولپور

خواب : میں نے دیکھا کہ ہم سب دوست اپنے ایک مشترکہ دوست کے فارم ہاؤس میں موجود ہیں اور وہاں رات گزارنے آئے ہیں۔ وہاں اس نے حفاظت کیلئے کتے پال رکھے ہیں جو رات کو کھول دیئے جاتے ہیں۔ میرے کچھ دوست شرارت میں انہیں چھیڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ ہم پہ حملہ کرتے ہیں۔ میں بھی ایک طرف ہونے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میری ٹانگ پر کاٹ دیتا ہے۔ میں خود کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر لڑ کھڑا کر گر جاتا ہوں اور وہ غراتے ہوئے میری طرف لپکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے، مگر میں اس کے بعد بھی کتنی دیر خوفزدہ رہا ۔

تعبیر:۔ اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس سے کوئی نقصان بھی پہنچ جائے۔ کاروبار میں کوئی رکاوٹ بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اپنا صدقہ روزانہ دیں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔ کثرت سے استغفار کیا کریں۔

مسجد میں نماز پڑھنا
مومن علی،جھنگ

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرے گھر کچھ مہمان دوست آئے ہوئے ہیں۔ ہم کھانے کے بعد باتوں میں مشغول ہوتے ہیں کہ اذان ہونے لگ جاتی ہے۔ میں اپنے دوستوں سے معذرت کر کے مسجد چلا جاتا ہوں اور وہاں با جماعت نماز ادا کرتا ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب اچھا ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دین و دنیا میں بھلائی حاصل ہو گی اور نیک بخشی حاصل ہو گی۔ آپ کے رزق اور وسائل میں اضافہ ہو گا اور برکت ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم پڑھا کریں۔ اسی کو پانی پر دم کر کے بھی پی لیا کریں۔

مٹھائی کا ڈبہ
نادر رانا، شاہکوٹ

خوا ب : میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر میں بہت رونق ہے۔ خوب سجا ہوا ہے اور خوب مہمان بھی موجود ہیں۔ کافی رونق اور چہل پہل ہے ۔ گھر کے پیچھے والے پلاٹ میں باورچی کھانے پکا رہے ہوتے ہیں۔ میری نظر اپنی پھو پھی پر پڑتی ہے جو کہ زرق برق لباس میں ملبوس ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہوتا ہے۔ میری پھوپھی کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہ خواب دیکھ کر میں کافی پریشان ہوں ۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نے کرے کہ کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سے بیماری بھی مراد ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کاروبار میں بھی رکاوٹ یا بندش کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور روزانہ سورہ بقرہ کی تلاوت کیا کریں۔ جتنی بھی آسانی سے پڑھی جا سکے جب مکمل ہو جائے تو دوباہ شروع کر دیں ۔

سرراہ خوبصورت لڑکا ملنا
ن ف، فیصل آباد

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر سے نکل کر اپنے چچا کے گھر جا رہا ہوتا ہوں کہ راستے میں ایک لڑکا جو اسی طرف جا رہا ہوتا ہے مجھے مل جاتا ہے اور میرے ساتھ باتیں کرنی شروع کردیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ باتیں کرتا ہوں پھر اسی اثناء میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کوئی خوشخبری ملے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دلی مراد پوری کریں گے۔ اگر شادی نہیں ہوئی تو آپ کی جلد شادی ہو جائے گی۔ کاروبار میں اضافہ اور رزق میں برکت نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ عزت اور وقار میں اضافہ فرمائیں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کیا کریں۔ آپ کیلئے محفل مراقبہ میں دعا کروا دی جائے گی۔ اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں۔

جنگل میں لومڑی
تابش بصیر، چونیاں

خواب: میں نے دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک چھوٹا سا جنگل ہے اور اس جنگل میں کافی تعداد میں جانور رہتے ہیں۔ ایک لومڑی وہاں میرے آگے آگے چلتی جاتی ہے۔ مگر بار بار مڑ کر میری طرف دیکھتی ہے۔ مجھے خوف سا آتا ہے کہ کہیں یہ مجھ پر حملہ نہ کردے۔ میں آہستہ ہو جاتا ہوں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قریبی رشتہ دار کی باتوں میں آ کر آپ اس کے مکرو فریب کا شکار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے کاروبار میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ کوئی رقم ڈوب جانے کا بھی خدشہ ہو سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے استغفار کیا کریں۔ آپ کیلئے محفل مراقبہ میں دعا کروا دی جائے گی۔

درود شریف پڑھنا
راحت ، بہاولنگر

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی ہوں۔ وہاں سے ہمسائیوں کے گھر جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ ان کے ہمسائیوں کے گھر میلاد کی دعوت کرنے چلے جاتی ہوں ۔ وہاں سب درود شریف پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم بھی خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور ہلکی آواز میں خود بھی درود شریف پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر میں آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کی دلی مراد پوری ہو گی۔ دین و دنیا دونوں میں بہتری ہو گی ۔ اللہ کی مہربانی سے روضہ رسولؐ کی زیارت نصیب ہو سکتی ہے۔ رزق اور وسائل میں بہتری ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یا حفیظ یا اللہ کا ورد بھی کریں ۔ رات کو بعد از عشاء 313 مرتبہ درود شریف پڑھ کر سویا کریں ۔

لوگوں سے جھگڑا کرنا
ندیم احمد، کامونکی

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کہیں ہوٹل میں کھانا کھا رہا ہوتا ہوں اور کچھ آدمی اگلی میز پر بیٹھے کافی شور شرابا کر رہے ہوتے ہیں۔ میں ان کو روکنے کیلئے اٹھتا ہوں اور میں وہاں گالیاں دینا شروع کر دیتا ہوں ۔ اس پر کافی لوگ مجھے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح اگلے دن میں نے دیکھا کہ میری مارکیٹ میں دوکاندار کے ساتھ منہ ماری ہو گئی اورمیں نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ اس موقع پر بھی لوگوں نے آ کے مجھے روکا اور منع کیا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔ برائے کرم تعبیر بتا دیں۔

تعبیر:۔ یہ خواب اچھا نہیں اور کسی پریشانی و غم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے بیماری بھی مراد لی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے آپ کو یا گھر والوں کو کسی تکلیف غم، دکھ یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے وضو بے وضو یا حفیظ یا عزیز کا ورد کیا کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

قسط نمبر 12

اکبر بھائی کے جانے کے بعد زندگی بھر مثلث بن گئی، کام، سینما اور قبرستان۔ کھانے پینے سے مجھے کوئی سروکار تھا ہی نہیں، گھر سے نکلنے کے بعد تو کبھی نہیں رہا، جو ملا کھالیا، نہیں تو نہیں، کھانے کے معاملے میں اب تک ویسا ہی ہوں۔

خوش لباسی تو دُور کی بات، میں تو بس تن ڈھانپنے کا قائل تھا اور اس کے لیے لُنڈا بازار موجود تھا، جو اب بھی ہے اور سفید پوش لوگوں کا بھرم قائم رکھتا ہے۔ مسجد میں تو میں بچپن ہی سے جاتا تھا، وہاں جانا بھی ایک جبر ہی تھا اور وہ اس لیے کہ اسکول والوں نے ایک جیبی ڈائری دی ہوئی تھی جس میں ہر نماز کی تفصیل کے خانے موجود تھے، مثال کے طور پر باجماعت نماز، یا پھر بے جماعت اور اگر بے جماعت پڑھی تو اس کی وجوہات وغیرہ، اور اس ڈائری پر ہر نماز کے بعد امام مسجد کے دست خط لینا ضروری تھے۔

میں نے آپ کو اس سے پہلے بھی بتایا تھا کہ جعلی دست خط کرنا میں نے وہیں سے سیکھے تھے۔ نماز پڑھنا بس عادت تھی، مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں نماز کیوں پڑھتا ہوں۔ سب کچھ بس خلا میں تھا۔ لیکن اﷲ جی سے میرا ایسا رشتہ تھا جسے بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ محسوسات بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتے، بس انہیں محسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور اگر ہمیں محسوسات کے بیان کے لیے الفاظ مل بھی جائیں تو وہ پوری طرح اس کے عکاس اور کفالت نہیں کرتے۔ اﷲ جی ہی میرا سب کچھ تھے۔

جس سے میں ہر بات کرسکتا تھا، ہر ضد کرسکتا تھا، لڑ سکتا تھا، روٹھ سکتا تھا۔ پھر اگر وہ روٹھ جائے تو اسے منا بھی سکتا تھا۔ اﷲ جی سے میں کبھی نہیں ڈرا، بالکل بھی نہیں، ذرا سا بھی نہیں، اسی لیے میں اس سے ہر بات کرسکتا تھا۔ سیدھی سی بات ہے یہ کہ اگر آپ کسی سے ڈرنا شروع کردیں تو اس پر اعتماد نہیں کرسکتے، اس سے دل کی بات نہیں کرسکتے، آپ جسے ڈرنا کہتے ہیں میں اسے مان کہتا ہوں، کہ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو وہ جس سے میرا تعلق ہے، کیا سوچے گا، یہ ڈر کہاں سے ہوگیا، یہ اعتماد ہے، یہ مان ہے کہ میری حرکت کی وجہ سے اس سے میرے تعلقات میں رخنہ پیدا ہوجائے گا۔ میں پھر دُور نکلنے لگا ہوں، اسے بس یہیں سمیٹتے ہیں۔ دیکھیے کیا یاد آگیا ہے، شاید اس سے آپ میری بات سمجھ پائیں۔

وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں کو ہے معلوم

دغا کرے وہ کسی سے، تو شرم آئے مجھے

رات کی تنہائی میں تو رنگ ہی کچھ اور ہوجاتا۔ کبھی گاتا، روتا، ناچتا اور اسے پیار کرتا، بس وہی تھا جو میرا رازدار تھا۔ غم خوار تھا، پالن ہار اور سدا بہار تھا اور رہے گا، بس وہی تو رہے گا اور کون رہا ہے یہاں، سب تو بس جانے کے لیے ہیں، فنا ہے سب کا مقدر، بس وہی ہے اول و آخر، ظاہر و باطن، اور بقا صرف اسے ہی ہے۔ ہاں میں ابّاجی سے ڈرتا تھا جن کے پاس میرے ہر سوال کا جواب مار تھی، انسان ان کے سامنے کیڑے مکوڑے تھے۔ ابّاجی کو سب بڑے خان کہتے تھے۔ گولیوں سے بھرا ہوا ویبلے پستول ان کی واسکٹ میں ہوتا تھا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، ایک مرتبہ ایک خاتون ہمارے مکان آئی تھیں، بڑے خان میرا شوہر دوسری شادی کررہا ہے آپ اسے منع کریں خاتون نے التجا کی۔ کیوں تم نہیں چاہتی کہ وہ دوسری شادی کرے؟ ابا جی نے پوچھا۔ نہیں، آپ اسے سمجھائیں۔ ٹھیک ہے نہیں کرے گا، کہہ کر اباجی چلے گئے۔ وہ بہت کم گو تھے، لیکن یہ سب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے ہاں کہہ دیا تو اسے پورا کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسرے دن اباجی نے زمینوں پر جانا تھا، میں نے ضد کی کہ مجھے بھی لے جائیں۔ جاؤ جاکر جیپ میں بیٹھو کہہ کر انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔

فرید خان ابّاجی کا وفادار ڈرائیور جیپ چلا رہا تھا۔ مجھے فرید خان بالکل سمجھ نہیں آتا تھا جو ابّاجی کہتے وہ بغیر کوئی سوال کیے، بلا چُوں چَرا اس پر عمل کر گزرتا تھا۔ جیپ کے پیچھے ایک گاڑی ہوتی تھی جس میں چھے مسلح افراد ہوتے تھے اور اسے ہمارا کم دار مہر چلاتا تھا۔ ہم شہر سے خاصا باہر نکل آئے تھے کہ ابّاجی کی آواز آئی۔ فرید گاڑی روکو، اور پھر گاڑی رک گئی۔

میں نے سنا، کل جو عورت مجھ سے ملنے آئی تھی یہ اسی کا شوہر ہے؟ فرید نے جی کہا۔ گاڑی کو ریورس کرو اور اسے ذرا مزا چکھاؤ۔ فرید نے سر باہر نکال کر پیچھے والی گاڑی کو ریورس ہونے کا کہا۔ خاصا پیچھے جانے کے بعد اس نے جیپ کو دوڑانا شروع کیا اور پھر ایک شخص جیپ کے بونٹ سے ٹکرایا اور سڑک پر جاگرا۔ دونوں گاڑیاں تیزی سے اپنی منزل کی طرف گام زن ہوگئیں۔ میں نے چیخنا شروع کردیا، کیوں مارا ہے اس آدمی کو؟ میں سب کو بتاؤں گا اور پھر گاڑی ایک سنسان جگہ رکی، مجھے جیپ میں پیٹا گیا اور یہ کہتے ہوئے کہ جسے بتانا ہو، جاؤ ضرور بتاؤ کہہ کر وہیں چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ گرتے پڑتے میں شام کو اپنے مکان پہنچا۔

امی مجھے دیکھ کر پریشان ہوئیں میں نے انہیں پورا واقعہ سنایا اور یہ بھی کہ میں سب کو یہ بتاؤں گا۔ امی نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا، اتنے میں وہی خاتون روتی دھوتی ہمارے مکان میں داخل ہوئی کہ اس کے شوہر کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا امی نے قاسم کو آواز دی اور مجھے اس نے اپنے گھر لے جاکر ایک کمرے میں بند کردیا۔ اس رات بھی میں قاسم کے گھر سویا اور صفیہ مجھے بہلاتی رہی، دوسرے دن مجھے اسکول بھی نہیں جانے دیا گیا۔ شام کو ابّاجی واپس آگئے اور آتے ہی انھوں نے مجھے طلب کیا۔ جاؤ کپڑے بدل کے آؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، وہ شخص پٹیوں میں جکڑا ہوا بستر پر دراز تھا اور اس کی بیوی اس کے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی۔ ابا نے ڈاکٹر کو بلاکر ہدایات دیں۔ پھر فرید خان نے پیسے کاؤنٹر پر جمع کرائے اور بہت سارے نوٹ اس خاتون کے ہاتھ میں دیے۔

فکر مت کرو، ٹھیک ہوجائے گا، سارا خرچ میں برداشت کروں گا، پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیا یہ اب بھی دوسری شادی کرے گا۔۔۔۔؟ ابا جی نے صرف اتنا کہا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر واپس ہوگئے۔ جیپ میں بیٹھ کر مجھے سننا پڑا ’’ دنیا ہے یہ، یہاں جینے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے، اگر تم نہیں کروگے تو کوئی اور تمہارے ساتھ کر گزرے گا، تمہیں مار کے خود جیے گا، یہاں جو پہل کرے، دنیا اسی کی ہے، دیکھا تم نے ہم نے اسے ایسے ہی لاوارث نہیں چھوڑا، جب تک اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا نہیں ہوجاتا ہم اس کا ساتھ دیں گے، اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرکے بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، لیکن تمہیں یہ سب کچھ سمجھ نہیں آئے گا، شاید کبھی سمجھ میں آجائے‘‘

میں اب بھی سوچتا ہوں کیسے ہیں ہم لوگ، حج کرتے ہیں، زکوٰۃ، خیرات دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں لیکن مخلوق کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے یہ۔ کیا کسی کو سمجھانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے، کوئی دلیل، کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی کیا۔ انسان، انسان کے جذبات کو سمجھتا بھی ہے تو پوری طرح نہیں سمجھتا۔ اﷲ جی تو جانتا ہے، اس لیے کہ وہی تو ہے مصوّر حقیقی جس کی ہم بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔ مجھے یاد آیا میری ایک دوست جو بہت اچّھی اور باکمال مصوّرہ اور اب کینیڈا میں مقیم ہے، نے اپنی بنائی ہوئی تصویریں مجھے دکھائیں، جو واقعی بہت کمال کی تھیں۔ میں تو انہیں دیکھ کر مبہوت رہ گیا، ایسا لگتا تھا جیسے ان پینٹگز میں یہ سب کچھ کسی آسیب کی وجہ سے ساکت ہے، بس تھوڑی دیر میں وہ آسیب کے اثر سے نکل جائیں گے اور ہماری طرح چلنے پھرنے اور بولنے لگیں گے، میں آج تک اس کی مصوّری کے سحر میں گرفتار ہوں۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس کی بنائی ہوئی پینٹنگ ایک مقابلے میں اوّل قرار پائی تھی، بہت سے امراء نے اس پینٹنگ کی خاصی قیمت اسے دینے کی کوشش کی، لیکن ان نے انکار کردیا تھا اور جب نمائش ختم ہوئی تو اس نے وہ پینٹنگ مجھے تحفے میں دی تھی۔ خیر اپنی تصویروں کی تعریف سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی، میں بہت خوش ہوں کہ تم نے میری بنائی ہوئی پینٹگز کی اتنی تعریف کی۔ میں نے کہا یہ واقعی قابل تعریف ہیں۔

پھر تو اس نے کمال ہی کردیا اور گویا ہوئی ’’اگر تم میری تصویروں کی بُرائی کرتے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی اور اگر تم برش لے کر اسے ٹھیک کرنے کے نام پر ہی اس میں اضافہ کرتے تو مجھے اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی اور اگر تم اسے پھاڑ ہی دیتے تب تو میں تمہیں قتل ہی کردیتی‘‘ میں مُسکراتے ہوئے اس کی باتیں سُن رہا تھا۔ پھر وہ کہنے لگی ’’ہم نے خدا کی بنائی ہوئی تصویروں کی بے حرمتی کی ہے، ہم خدا کی تصویروں کو بُرا کہتے ہیں، اس میں نقص نکالتے ہیں۔ ہم انہیں پھاڑ دیتے ہیں۔ انسان کو قتل کردینا مصوّرِ حقیقی کی بنائی ہوئی تصویر کو نابود کرنا ہی تو ہے، اﷲ تعالی کو کتنا غصہ آتا ہوگا ناں۔‘‘

بھائی جان کا کبھی کبھار فیکٹری میں فون آجاتا اور ہم کچھ دیر باتیں کرلیتے، خط تو میں انہیں لکھتا ہی تھا اور وہ اس کا بَروقت جواب بھی دیا کرتے تھے۔ بارہا انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بھی ان کے پاس ہی آجاؤں، لیکن میں نہیں مانا۔ ہم زندگی کا پیمانہ صرف روز و شب کو سمجھتے ہیں اور ایسا کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ لیکن اصل زندگی کیا ہے، یہ ہم سوچتے بھی نہیں ہیں۔ میں روز قبرستان جاتا، ایک دن میں نے دیکھا ایک شخص سر جھکائے خود پر کالی چادر ڈالے قبرستان جانے والے راستے پر بیٹھا ہوا ہے اور بچے اس کے گرد جمع ہیں۔ میں نے ان بچوں کو وہاں سے بھگایا اور ان سے پوچھا، کیا ہوا آپ کو، کیوں بیٹھے ہیں، کیا مدد کروں میں آپ کی، کہاں جانا ہے آپ نے، میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔

انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خاموش رہے، میں تھوڑی دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا پھر قبرستان کی سمت چلنے لگا، پھر ان کی آواز آئی سلطان! تم نے بھی مجھے نہیں پہچانا اور زمین نے میرے پاؤں جکڑ لیے۔ انہیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا۔ میں نے انہیں کہیں نہیں دیکھا پھر پہچان کیسی۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولے چل میرے بچے وہیں چل جہاں سب نے جانا ہے۔ میں قبرستان میں اپنے ٹھکانے پر جاکر بیٹھ گیا۔ میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے یہ آواز کہاں اور کب سنی ہے، لیکن بے سُود۔ اچانک ہی انہوں نے خود پر پڑی ہوئی چادر اُتاری اور میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، میرے سامنے بلیّوں والے بابا جی بیٹھے مُسکرا رہے تھے۔

بابا آپ اور یہاں کیسے۔۔۔؟ مسکرائے اور پھر گویا ہوئے پگلے! ہم کہاں نہیں ہوتے۔۔۔؟ وہ بلیّوں والے بابا ہی تھے، لیکن ایک بالکل نئے روپ میں۔ انسان کسی کے لکھے ہوئے واقعے کو جھٹلا سکتا ہے، اسے بے سر و پا کہہ اور سمجھ سکتا ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن انسان آنکھوں دیکھی، کانوں سنی اور اپنے سامنے وقوع پزیر واقعے کو، اپنے تجربے کو کیسے جھٹلا سکتا ہے، نہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان اپنے تجربے کی تردید کردے۔ وہ جب یہاں آئے تھے تو کوئی منادی نہیں کرائی گئی تھی کہ وہ یہاں ہیں، کوئی اشتہار نہیں چھپوایا گیا تھا کہ لوگ ان سے رابطہ کریں، لیکن تھوڑے دن میں ہی لوگوں کا وہاں پر جم غفیر ہونے لگا۔ کیسے ۔۔۔ ؟

یہ میں نہیں جانتا، میں تو بس اتنا سا جانتا ہوں، بل کہ یہ بھی ایک جاننے کا دعویٰ ہے، میں اس سے فوری طور پر دست بردار ہوتا ہوں، بس مجھے بتایا گیا ہے اور بالکل درست بتایا گیا ہے کہ عشق اور مُشک چُھپائے نہیں چُھپتے، تو پھر وہ کیسے چھپتے، خوش بُو کو تعارف کی، کسی منادی کی، کسی اشتہاربازی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، جی بالکل بھی نہیں ہے، خوش بُو اپنا تعارف خود ہے، اس کی کوئی سرحد نہیں ہے، اسے کسی بھی جگہ قید نہیں کیا جاسکتا، اسے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بس وہ ایسے ہی تھے۔ وہ رب کے منتخب بندے تھے، اور رب نے انہیں بھی سب سے بے نیاز رکھا تھا، کسی صلے کی تمنا، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں، کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے، بالکل بھی نہیں، کوئی کوشش بھی کرتا تو اسے تنبیہ کرتے۔ آخر ان کے پاس ایسا کیا تھا کہ لوگ ان کے پاس آتے اور مطمئن ہوکر جاتے۔ میرے لیے وہ ایک معمّہ تھے۔

آخر ایک رات کو جب بس وہ اور میں تھے اور میں انہیں کھانا کھلا رہا تھا، ان سے پوچھ بیٹھا۔ کیا دیتے ہیں آپ لوگوں کو، جو اتنی دُور دُور سے وہ آپ کے پاس جمع ہوجاتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے تجھے بھی تو کچھ نہیں دیا تھا بس ایک ٹافی تو دی تھی ناں اور مجھے وہ ٹافی یاد آگئی۔ میں لوگوں کو دعا دیتا ہوں بیٹا اور ہے ہی کیا میرے پاس۔ پھر میرے معمولات بدل گئے صبح کام پر جاتا اور باقی وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتا، سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ جو بلیّاں اور کالا کتّا میرے سنگ تھے اب وہ ان کی چوکھٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔

اک دن بابا جی سے میں نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا میں یہاں ہوں۔ تب بابا جی جو بولے وہ میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ جب تُو یہاں پہنچا تو یہ ان بلیوں اور اس کتّے کو میں نے ہی حکم دیا تھا کہ اس کے سنگ رہنا اور مجھے بتاتے رہنا، میں تیری ہر بات سے با خبر تھا۔ یہ کیسی دنیا ہے جہاں بغیر کسی آلے کے سب کچھ سنائی دیتا، دکھائی دیتا ہے، جانور بھی ان کے تابع ہیں اور ان کے حکم سے سرِمو انحراف نہیں کرتے، ہوائیں ان کے پیغامات کو جہاں وہ چاہیں پہنچا دیتی ہیں اور جو معلوم کرنا چاہیں انہیں با خبر کردیتی ہیں۔

ایک عام سا نظر آنے والا انسان کیا اتنا بااختیار بھی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا۔ لیکن میں اس نئی دنیا میں داخل کرلیا گیا تھا میرے چاہے بغیر ہی۔ ان کے سامنے کوئی راز راز ہی نہیں تھا کیسے؟ سب سے بڑا سوال میرے سامنے یہ تھا جس کا جواب مجھے بہت عرصے بعد ملا، میں بابا جی کی خدمت کرتا اور وہ لوگوں کی خدمت، کئی مرتبہ مجھے بابا جی نے کسی راستے سے آنے سے منع کیا اور میں نہیں مانا، تب وہ میرے سامنے تھے۔

نہیں مانے گا، تُو کیا سمجھتا ہے مجھے خبر نہیں ہوتی، تُو جس جس راستے سے گزرتا ہے مجھے اطلاع ملتی رہتی ہے۔ ہاں پھر اک دن میں بابا جی کے راز کو پاگیا تھا، دیکھیے میں خطاکار و سیاہ کار پھر بھٹک گیا، پا نہیں گیا تھا، مجھے بتا دیا گیا تھا، اور اس میں میرا کیا کمال تھا۔ میں اس نئی دنیا کا نیا باسی سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسے ماننے اور تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ ایک تجسس، ایک بے قراری، بے چینی، ایک اضطراب، اب آپ جو چاہے اسے کہیں، میرے ہم رکاب تھا، ہے۔ جاننے کی جستجو، حقیقت کی کھوج، بس مجھ پر ایک دُھن سوار تھی، مجھ پر تو بہت بعد میں کُھلا کہ جاننا ضروری بھی نہیں تھا، آگہی کا عذاب کوئی معمولی تھوڑی ہوتا ہے، چھوڑیے میں پھر گُم راہ ہو رہا ہوں، راہ راست پر آتے اور آگے چلتے ہیں کہ راہ راست ہی میں سلامتی ہے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

پاورٹی پورن، خیراتی اداروں کی ظالمانہ روش

$
0
0

ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ کسی ایسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں آپ کو اپنے بول و براز پر قابو نہیں ہے، آپ کے پاس کھانے کے لیے کھانا ہے اور نہ ہی پینے کے لیے صاف پانی، اس صورت حال میں بالغوں کے ڈائپر یا سینیٹری نیپکنز کا تصور آپ کے لیے عیاشی ہے، تصور کریں کہ مستقل بہنے والے پیشاب کی تیزابیت کی وجہ سے آپ کی جلد جل گئی ہے۔

زخم پڑ گئے ہیں اور پھر کوئی آپ کی اس اذیت کا مداوا کرنے سے پہلے ویڈیو یا تصاویر بنا کر دنیا بھر میں شایع کردے۔ آپ خود کو ایک ایسی ماں تصور کریں جس کی چھاتیاں غذائی قلت کی وجہ سے خشک ہوچکی ہیں، آپ کا شیر خوار بچہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر قریب المرگ ہے۔

آپ اپنی زندگی کے اذیت ناک دوراہے سے گزر رہی ہوں اور کوئی آپ کی بے بسی، آپ کے بچے کی بے جان ہوتی آنکھوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرلے اور آپ سے تسلی کے دو بول بولے بغیر نکل جائے تو آپ کو کیا محسوس ہوگا؟ دنیا بھر کے پس ماندہ خصوصاً افریقی ممالک کے شہریوں کے لیے یہ سب ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لاکھوں ڈالر کے کیمروں سے روٹی کے ایک نوالے کو ترستے لوگوں کی عکاسی دنیا بھر میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی اس روش کو پاورٹی پورن کا نام دیا گیا ہے۔

پاورٹی پورن کا تصور پہلی بار 1980میں سامنے آیا، اسی کے عشرے کو خیراتی مہم کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خیراتی اداروں نے افریقا اور دنیا کے دیگر غریب خطوں میں ایسی تصاویر کو اپنی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا حصہ بنایا جن میں سے کسی میں بھوک سے مرتے بچے کی آنکھوں میں مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں، کم زوری سے نڈھال بچہ موت سے ہم کنار ہونے والا ہے اور ایک گدھ اس کے مرنے کے انتظار میں قریب ہی بیٹھا اسے دیکھ رہا ہے۔ خیرات ، عطیات اکٹھا کرنے کے اس رجحان نے جلد ہی دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرلی۔

ان میں سے کچھ مہم بہت کام یاب ہوئیں اور انہیں قحط سے نبزد آزما ہونے کے لیے ڈیڑھ سو ملین ڈالر سے زاید کے عطیات جمع کرنے میں مدد ملی، تاہم ناقدین نے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے انسانی جذبات کو مجروح کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز کے استعمال پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے لیے ’پاورٹی پورن ‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ خیراتی اداروں کی دیکھادیکھی ذرایع ابلاغ نے بھی اس طرح کی تصاویر کو اپنی ریٹنگ اور سرکولیشن بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس عرصے میں افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگی، قحط سالی پر شایع ہونے والے مضامین اور انٹرویوز میں اس نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز کا ہونا لازم تھا۔

یونیورسٹی آف برمنگھم میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کی تعلیم دینے والے ڈیوڈ ہڈسن لندن کی ایک ٹیوب میں سیر و تفریح کر رہے تھے، جب ان کی نظر ایک پوسٹر پر پڑی جس میں کسی تکلیف میں مبتلا ایک نحیف و لاغر بچہ چِلّا رہا ہے اور اس کی ماں بے بسی سے اسے دیکھ رہی ہے۔ اس تصویر کے نیچے چند سطروں میں کچھ اس طرح امداد کی درخواست کی گئی تھی،’’آپ کے دیے گئے 25 پاؤنڈ اس غذائی قلت کے شکار بچے کو مہینے بھر کی خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔

اپنے عطیات جلد از جلد دیں۔‘‘ تصویر اور اس پر درج عبارت نے ڈیوڈ کو ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کی ترغیب دی جس کا عنوان انہوں نے کچھ یہ رکھا ’لوگوں کو افریقا اور اس جیسے قحط کے شکار ملکوں کو پیسہ دینے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ یہ افریقی ملک ملاوی کے دارلحکومت کا ایک تجارتی مرکز تھا۔ مرکزی سڑک کی ایک جانب لگے اسٹال پر لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے لگائے گئے کیمپ میں ایک رجسٹریشن مہم کے تحت پیدائشی سرٹی فیکیٹ بنانے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ تشہیری پمفلٹ میں ایک ملاوی شیر خوار بچے کو دکھا یا گیا تھا جس کی آنکھوں میں موجود بے بسی اور گالوں سے بہتا آنسو کا ایک قطرہ دیکھ کر سب کا دل پسیج رہا تھا۔

اس تصویر کو بعد میں عطیات جمع کرنے کی بہت سی مہموں میں استعمال کیا گیا۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق پاورٹی پورن کو عموماً سیاہ فاموں سے مشروط کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ بہت سے خیراتی اداروں کے خیال میں جو اثر ایک غریب افریقی بچے کی تصویر کرتی ہے وہ اثر ایک سفید فام بچے کی تصویر نہیں کر سکتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک تمام تر تصویریں سیاہ فام بچوں کی استعمال کی گئی ہیں۔

خشک سالی اور خانہ جنگی نے مشرقی افریقا کو بدترین قحط سالی کا شکار بنا دیا ہے، کینیا، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو کروڑ افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ افریقی ممالک کی مدد کے لیے دنیا بھر کی بہت سی فلاحی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، اور ان کی جانب سے کی گئی امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی شرح اموات میں کافی کمی بھی آئی ہے، لیکن ان فلاحی اداروں کی جانب سے تشہیر کے لیے بھوک سے سسکتے بلکتے کم زور بچوں کی تصاویر، پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس اپنے بچے کو خشک چھاتی سے دودھ پلاتی ماؤں کی تصاویر ان فلاحی اداروں کے لیے سونے کی کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تصویر میں جتنی یاسیت، محرومی اور غربت ہوگی اس تصویر کے ساتھ ہونے والی فنڈ ریزنگ مہم اتنی ہی کام یاب ہوگی۔

پاورٹی پورن کے لیے ایسی تصاویر کے حصول کی دوڑ میں دنیا بھر کی بہت سی فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ذرایع ابلاغ بھی شامل ہوگیا ہے۔ یہ تصاویر فلاحی اداروں کے لیے پیسے تو ذرایع ابلاغ کے لیے ریٹنگ حاصل کرنے کا سب سے موثر اور کم خرچ ذریعہ ہیں۔ دنیا بھر کے سر فہرست میڈ یا اداروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امدادی اور فلاحی کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ڈیزاسٹرز ایمرجینسی کمیٹی ( ڈی ای سی) برطانیہ کی تیرہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے ایسی تصاویر کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہیں جنہیں دکھا کر برطانوی عوام سے زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کیے جاسکے۔

اس بارے میں ڈیوڈ ہڈسن کا کہنا ہے کہ ’میں فلاحی تنظیموں کی جانب سے ان کے تمام تر خلوص کے باوجود عطیات جمع کرنے کے لیے اس طرح کی تصاویر کے استعمال کو پاورٹی پورن‘ کے زُمرے میں رکھتا ہوں۔ ہڈیوں کا ڈھانچا بنے بچے، چیتھڑوں میں ملبوس ہاتھ پھیلاتی خواتین کی تصاویر ہی امداد کا واضح پیغام دیتی ہیں۔ تاہم ان کی غربت، کسمپرسی کی زندگی کو امداد حاصل کرنے کے لیے اس طرح اجاگر کرنا ہی درحقیقت ’پاورٹی پورن‘ ہے، لیکن لوگوں کی اکثریت اس کو غلط سمجھتے ہوئے بھی امداد دیتی ہے۔

ڈی ای سی کی جانب عطیات جمع کرنے کی مہم میں درج بالا پوسٹر کی مدد سے ایک ہی دن میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاؤنڈ جمع ہوگئے تھے، عطیات دینے والوں میں مشہور شخصیات کے علاوہ ملکۂ برطانیہ بھی شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خیراتی کام کرنے والی تنظیمیں اسے عطیات جمع کرنے کے ایک موثر ٹول کے طور پر لیتی ہیں، تاہم میری تحقیق کے مطابق پاورٹی پورن اس طرح کام یاب نہیں جس طرح ہم سوچتے ہیں۔ یہ مختصر مدت کے لیے تو کام یاب ہوسکتی ہے لیکن لوگ اس طرح کی مہم میں زیادہ طویل عرصے تک عطیات نہیں دیتے۔ فلاح کا کام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ انہیں متنفر کرنے کے لیے۔ ‘

پاورٹی پورن کے بارے میں یونیورسٹی آف وسِکونسِن کے شعبہ زراعت و معیشت میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم پروفیسر جیکب وین رجن کا کہنا ہے کہ ’پاورٹی پورن کی بھی کئی اقسام ہیں، کچھ طبی سہولیات کی عدم فراہمی کو پاورٹی پورن کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ لوگ بھوک، غربت ناخواندگی کی آڑ میں یہ مکروہ کام کرتے ہیں اور اس کا سیدھا سا طریقہ یہ ہے کہ تصویر میں جس قدر بے بسی، بھوک اور غربت ہوگی۔

لوگ اس تصویر کو اتنی زیادہ امداد دیں گے اور اس غلط رجحان کے فروغ میں سفید فام سیلے بریٹیز پیش پیش ہیں جو ایک مدت سیان تصاویر کی مدد سے غیرمعمولی مراعات حاصل کر رہی ہیں۔جس کی واضح مثال گذشتہ سال ڈی ای سی کی جانب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو تھی جس میں غذائی قلت کا شکار نحیف و نزار بچہ فرش پر ہاتھ پھیلائے لیٹا رک رک کر سانس لے رہا ہے، جب کہ اداکارایڈی ریڈ مین کیمرے کیجانب دیکھتے ہوئیکچھ اس طرح کے ڈائیلاگ ادا کر رہا ہے،’’اس بچے کی طرح لاکھوں بچے موت سے ہم کنار ہونے جا رہے ہیں۔

اپنے عطیات سے انہیں مرنے سے بچائیں۔‘‘ اسی طرح برطانیہ کے ایک بڑے خیراتی ادارے کومِک ریلیفنے لائبیریا کے اسٹریٹ چلڈرن کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے بھی ایسا ہی گھٹیا طریقہ استعمال کیا، جس میں برطانوی گلوکار ایڈ شیرانناظرین کو کچھ اس طرح مخاطب کر رہا ہے؛’’جب آپ آج اپنے بچوں کے ساتھ گرم بستر میں محوخواب ہوں گے اس وقت جے ڈی (سڑک پر رہنے والے بچے کا فرضی نام) جیسے بے گھر بچے ایک دوسرے کو گلے لگائے شدید سردی میں فٹ پاتھ پر ، سڑکوں پر سو رہے ہوں گے۔‘‘

اس ویڈیو کے نشر ہونے کیبعد شیران اور کومک ریلیف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد کومِک ریلیف نے آئندہعطیات جمع کرنے کی کسی بھی مہم میں کسی سیلے بریٹی کوبہ طور ایمبیسیڈر استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس ویڈیو کی بابت دنیا بھر میں فلاحی کاموں میں سب سے ناپسندیدہ مہم چلانے پر دیے جانے والے ایوارڈ   Radi-Aid awardsکا انعقاد کرنے والی تنظیمSAIH کے صدر بیتھ اوگارڈ کا کہنا ہے کہ ’’غربت، موت کا خطرہ اور اس جیسی دیگر چیزیں عطیات جمع کرنے کے لیے بہت کار آمد ہتھیار ہیں کیوں کہ لوگ ان سے نجات پانے کے لیے ہر جگہ، ہر ملک میں کچھ نہ کچھ امداد دے ہی دیتے ہیں، لیکن اس طرح کی کچھ خیراتی مہمات بہت ہی متنازع ہوتی ہے، جن میں لوگوں کی غربت کا بہت بُری طرح استیصال کیا جاتا ہے۔ اسی مسئلے کو اجاگر نے کے لیے ہم نے اس ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور گذشتہ سال شیران کی ویڈیو نے یہ ایوارڈ جیتا تھا، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ویڈیو میں غریب بچوں کے جذبات کو کس قدر ٹھیس پہنچائی گئی ہوگی۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2017 میں مشرقی افریقا میں پڑنے والے قحط نے ڈی ای سی اور دیگر بین الاقوامی خیراتی اداروں کو عطیات جمع کرنے میں بہت مدد کی۔ صرف صومالیہ میں قحط سے بچاؤ کے لیے تقریباً ایک اربتیس کروڑ ڈالر استعمال کیے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ماہ تیس لاکھ سے زاید افراد کو مرنے سے بچایا گیا۔

جب آپ کو کم وقت میں بڑی رقمجمع کرنی ہو تو خیراتی اداروں کے لیے سب سے مفید اور موثر فارمولا یہی ہے کہ کسی سیاہ فام بچے کی سسکتی بلکتی تصویر لگاکرکیپشن لکھ دیا جائے کہ ’’آپ کی دیگئی امداد اس بچے کی زندگی کی ضامن ہے۔‘‘تاہم خیراتی ادارے نہ صرف مختصر المدتی بلکہ طویل مدتی مہم کے لیے بھی پاورٹی پورن کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

کینیا کے مشہور ادیب اور امداد کے نام پر پاورٹی پورن کرنے پر خیراتی اداروں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے والےBinyavanga کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ گوگل پر تلاش کریں تو آپ کو ایسی ہزاروں تصاویر نظر آئیں گی جنمیں ایک لاغر یا بھوکے ننگے بچے کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوگا کہ یہاں کلک کرکے اس بچے کو ایک ڈالر کا عطیہ بھیجیں، اور اس طرح کئی لوگ امداد کردیتے ہیں۔ آپ ایک بات یہ بھی دیکھیں کہ ہر سالآنے والی تصاویر پہلی والی تصاویر سے زیادہ ہول ناک ہوتی ہیں۔‘

ڈیوڈ ہُڈ سن کا اس بابت کہنا ہے کہ ڈیولپمنٹ کے ایشوز کے ساتھ لوگوں کے کم ہوتے عمل دخل اور دل چسپی کی وجہ سے ’پاور ٹی پورن‘ کو ایک موثرہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سے خیراتی ادارے ان تصاویر کو کبھی قحط سالی کے شکار ملک کے لیے عطیہ جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کبھی وہی تصاویر خانہ جنگی کا نشانہ بننے والے متاثرین میں شامل ہوتی ہیں۔

ایک طرح سے یہ ایک چال بازی ہے کہ آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ غربت، محرومی، عالمی عدم مساوات سے نجات کا سب سے آسان حل اسی طرح ممکن ہے اگر آپ ہمیں کچھ رقم بہ طور امداد ادا کر دیتے ہیں، یہ سلسلہ دس یا بیس سال تک چلتا ہے لیکن یہ مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس کا سب سے افسوس نا ک پہلوتو یہ ہے کہ فلاحی اداروں کی رپورٹ کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتیں کہدنیا بھر میں غربت کی شرح میں بہتری آئی ہے یا افریقا میں بچوں کی شرح اموات کم ہوئی ہیں۔حالاںکہ گذشتہ تین عشروں میں ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی شرح امواتمیں 25 فی صد اور دنیا بھر میں غربت کی شرحدس فی صد گر چکی ہے۔ ہڈ سن کا کہنا ہے کہ اگر ڈی ای سی کی جانب سے لگائے گئے پوسٹرکی بات کی جائے تو کیا پچیس پاؤنڈ سے آپ پوسٹر میں نظر آنے والے بچے کو غذا فراہم کرسکتے ہیں؟ اب اس کی دو ہی صورتیں ہوں گی یا تولوگ ا س پوسٹر سے متاثر ہوں گے یا پھر اس سینفرت کریں گے۔

افریقی ملک روانڈ پر تحقیق کرنے والی محقق اولیویارُتازِبوا کاکہنا ہے کہ فلاحی کام اب ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس صنعت کا وجود اس مائنڈ سیٹ پر برقرار ہے کہ مغرب برتر اور باقی دنیا کم تر ہے پر قائم ہے، غریب لوگوں کی بہتری مغرب کی موجودگی کے بنا ممکن نہیں۔ اسی مائنڈ سیٹ کے دیرپا نتائجبھی ہمیں بھگتنا پڑتے ہیں مثال کے طور پر میں یہ نہیں جانتی کہ ہماری جی ڈی پی کتنی گر چکی ہے کیوںکہ ہماری مفلوک الحال تصاویر ہر جگہ دکھائی دے رہی ہیں، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس مد میں دیا گیا ہر ڈالر کہاں خرچ ہوا۔

 پاورٹی پورن اور میڈیا

اکیسویں صدی میں پاورٹی پورن کا دائرہ کار خیراتی اداروں سے نکل کر فلم اور ٹیلی ویژن تک پہنچ گیا۔ 2015 میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ’دی یارڈیسٹ گریفٹار‘‘ کے نام سے ایک پروگرام پیش کیا۔ برطانیہ کے 25 غریب مزدوروں کے حالات زندگی پر بننے والے اس پروگرام میں انہیں مختلف ٹاسک دیے گئے۔ فاتح کے لیے پندرہ ہزار ڈالر کا انعام رکھا گیا۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کی اولین شرط امیدوار کا غریب ہونا تھی۔ مزدوروں کی کسمپرسی کو ٹی اسکرین پر دکھانے پر اس پروگرام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

2014 میں چینل فائیو نے ’کانٹ پے؟ وی ول ٹیک اٹ اوے‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی۔ اس فلم میں انگلینڈ اور ویلز میں ہائی کورٹ کی جانب سے قرض وصولی پر مامور اہل کاروں کو شامل کیا گیا جو قرض نادہندگان سے قرض وصولی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ اس کی پہلی قسط 24فروری2014 کو نشر ہوئی۔ اس پروگرام کے نشر ہونے نے بہت سے قرض نادہندگان کی سفیدپوشی کا بھرم توڑ دیا۔ ریکوری ٹیم کی جانب سے پیسے وصول کرنے کے لیے استعمال کیے گئے حربوں کی وجہ سے روتے، سسکتے افراد کو ٹی وی اسکرین پر دکھا کراس پروگرام کی ریٹنگ آسمان پر پہنچ گئی۔ تاہم غربت کے نام پر لاکھوں ڈالر کمانے والی اس سیریز کو پاورٹی پورن کے زُمرے میں شمار کرتے ہوئے شدید تنقید کی گئی۔

2008 میں برطانوی ہدایت کار ڈینے بوئلے نے ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے نام سے ایک فلم پر ڈیوس کی۔ ممبئی کی جھونپڑ پٹی میں رہنے والے بچوں کی زندگی پر بننے والی اس فلم نے باکس آفس پر کام یابی کے جھنڈ ے گاڑ دیے۔ فلم کی کام یابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2009کے آسکر ایوارڈز میں اس فلم کو آٹھ ایوارڈ ملے۔ تاہم بھارتی معاشرے کی غلط عکاسی کرنے اور ’سلم ڈاگ‘ کا لفظ استعمال کرنے پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ناقدین نے اس فلم کو پاورٹی پورن کی سب سے بڑی مثال قرار دیا۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کام یاب ہونے والی اس فلم میں اداکاری کرنے والے بچوں کے حالات زندگی پر فلم کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔

فلم کے مرکزی کردار اظہرالدین محمد اسماعیل کو صرف سترہ سو پاؤنڈ اور روبینہ علی کو صرف پانچ سو پاؤنڈ معاوضہ دیا گیا، جب کہ فلم ساز اور اس کی ٹیم نے اس فلم سے اربوں روپے کمائے۔ فلم ساز ڈینے نے ان بچوں کو میٹرک تک اعلٰی تعلیم، اچھے علاقے میں گھر دلانے کا تحریری بیان بھی دیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ فلم کی ریلیز کے ایک سال بعد ہی ممبئی کی میونسپل کارپوریشن نے غریب نگر میں قایم روبینہ علی کی جُھگی کو مسمار کردیا۔ جب کہ محمد اسماعیل کو فلم ساز کی جانب سے نیا گھر دے دیا گیا۔

پاورٹی پورن قرار دی گئی تصاویر کی اشاعت، سخت تنقید

اٹلی سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر الیسیو مامو نے 2011میں بھارت کی دو ریاستوں میں کچھ تصاویر کھینچی۔ الیسیو نیتصاویر کی اپنی اس سیریز کو (خواؓبوں کا کھانا) ڈریمنگ فوڈ کا نام دیا۔ یہ تصاویر لینے کے لیے الیسیو مامو نے ایسی دو بھارتی ریاستوں کا انتخاب کیا جہاں لوگوں میں غذائی قلت کی شرح دوسری ریاستوں سے نسبتاً زیادہ ہے۔

الیسیو نے انافراد کو کھانے کی ایک میز کے سامنے کھڑا کر کے تصاویر لیں۔ میز پر کھانے پینے کی مصنوعی اشیا رکھ کر تصویروں میں شامل افراد کو آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا گیا کہ وہ ان کھانوں کے بارے میں سوچیں جنہیں وہ کھانے کی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈریمنگ فوڈ کے عنوان کے تحت لی گئی2011 کی ان تصاویر پر تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب یہ ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شائع ہونے کے بعد وائرل ہوئیں۔ الیسیو مامو نے کا کہنا ہے کہ میرا ان تصاویر کو کھیچنے کا مقصد انڈیا میں بھوک کے مسئلے کو اجا گر کرنا تھا۔

ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کا کنٹرول الیسیو مامو کو دیا جس کے بعد انھوں نے اِن تصاویر کو پوسٹ کیا۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ اکثر مختلف فوٹوگرافرز کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم یہ واضع نہیں کہ الیسیو مامو نے جو تصاویر شائع کیں وہ ادارے کی نظروں سے گزری تھیں کہ نہیں۔ جب کہ ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’فوٹوگرافر ہی دراصل اپنا کام منتخب کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں صرف عمومی ہدایات دی جاتی ہیں جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔‘ یاد رہے کہ غربت اور بھوک انڈیا کے بڑے مسائل میں شامل ہے۔ دنیا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق بھی انڈیا سے ہے۔ بھوک کے بارے میں عالمی اعداد وشمار گلوبل ہنگر انڈیکس میں انڈیا درجہ بندی کے حساب سے مسلسل نیچے رہا ہے۔ گذشتہ برس 119 ترقی پذیر ممالک میں انڈیا 100یںنمبر پر تھا۔

The post پاورٹی پورن، خیراتی اداروں کی ظالمانہ روش appeared first on ایکسپریس اردو.


ہمارے عہد میں ادب کا موضوع

$
0
0

ہمارے عہد میں ادب کا موضوع کیا ہوسکتا ہے؟

سادہ سا یہ سوال مختلف ادوار میں دنیا کی کم و بیش ساری ہی بڑی زبانوں اور تہذیبوں میں نہ صرف پوچھا جاتا رہا ہے، بلکہ اس پر خوب گرماگرم بحثیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ خود ہمارے یہاں اس سوال کو پہلے بھی موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ یہی نہیں، اس کے ذریعے ہمارے بعض نظریاتی دوستوں نے اپنی نظریہ پسندی کا دفاع کرنے کا موقع بھی حاصل کیا ہے۔

کسی بھی نظریے کے دفاع کی صورت ظاہر ہے، اسی وقت پیش آتی ہے جب یا تو وہ نظریہ معاشرے کے اخلاقی، تہذیبی اور سماجی نظام سے ہم آہنگ نہیں ہوتا یا پھر جب اُس کے رد کا بیانیہ معاشرے میں تشکیل پاتا ہے۔ بھلے دن تھے وہ جب ہمارے یہاں لوگ اپنے نظریات رکھتے، اُن کے ساتھ جیتے اور اُن پر مرنے مارنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ادب اور زندگی میں ایک تحرک کا احساس مسلسل قائم رہتا تھا۔ ادب ہو یا زندگی دونوں ہی کا ثبوت ہمیں ان کے سکوت سے نہیں، سرگرمی سے ملتا ہے۔

ہمارے یہاں اب سے پہلے یہ سوال جب بھی پوچھا گیا ہے تو اس کے کچھ نہ کچھ فکری اور نظریاتی محرکات تھے، لیکن آج معاملہ مختلف ہے۔ آج اس سوال کی تفتیش کسی فلسفے یا نظریے کی وضاحت، رد یا قبول کے لیے نہیں ہے، بلکہ آج اس کی ضرورت ایک اور احساس نے پیدا کی ہے۔ ان دنوں رہ رہ کر کسی نہ کسی عنوان یہ احساس سامنے آتا رہتا ہے کہ معاشرے میں ادب کی ضرورت یا طلب ختم ہوکر رہ گئی ہے، یا بہت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔

اس صورتِ حال میں یہ سوال کچھ ذہنوں میں اس طرح آتا ہے، چوںکہ ادب پڑھا نہیں جارہا، چناںچہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اس دور میں ادیب کو کن موضوعات، مسائل اور سوالات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ لوگ پھر سے ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنجیدہ، بلکہ خاصا گمبھیر مسئلہ ہے اور عصری زندگی کے تجربات و مشاہدات اس کے پس منظر میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ سو، اس مسئلے پر براہِ راست گفتگو سے پہلے بہتر یہ ہوگا کہ ہم ایک نگاہ ذرا خود ان تجربات و مشاہدات پر ڈالیں تاکہ ان کے ذریعے اس مسئلے کی نوعیت اور حقیقت واضح ہوجائے۔

یہ دور ذرائعِ ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی فراوانی اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے غلبے کا ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خبر کی دوڑ اور ریٹنگ کے چکر میں پڑے ہوئے ٹی وی چینلز عالمی حالات، اطلاعات، مقامی سیاست، معیشت، سماج اور اخلاق سے لے کر صحت، حسن، غذا، دہشت اور بربریت تک ہماری زندگی اور اُس کے واقعات کا کوئی ایک پہلو ایسا نہیں ہے۔

جس کی خبر نہ بناتے ہوں۔ مراد یہ ہے کہ آج خبر حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ بنائی جاتی ہے اور اس میں خبریت سے مراد ہوتی ہے وہ شے جو لوگوں میں سنسنی پیدا کرنے اور چینل پر ان کی توجہ مرکوز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے، فی الحال ہم اسے رہنے دیتے ہیں۔ اب قصہ یہ ہے کہ جو خبر بنائی جاتی ہے وہ چوںکہ ریٹنگ پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے خبروں کی ہائر آرکی یا اہمیت کا انحصار سب سے زیادہ اب اس بات پر ہوتا ہے کہ کس خبر سے کتنا تہلکہ مچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں چینل پر نشر ہونے والی خبروں کے سلسلے میں اسی نکتۂ نظر سے یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ کس خبر کو کتنی بار اور کس طرح دہرا کر چلایا جائے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں، سوشل میڈیا نے نہ صرف خبر کی دوڑ میں الیکٹرونک میڈیا سے آگے نکلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلکہ اس نے خبر کے انداز، طریقۂ کار اور معیار تک کے بارے میں بنیادی تقاضوں کو بھی یکسر فراموش کردیا ہے۔

اس ذریعے سے تو وہ باتیں بھی خبر کے طور پر پھیل جاتی یا پھیلائی جاتی ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر تو ذمے داری اور سنجیدگی کا معاملہ بھی دگرگوں ہے۔ اس میڈیا کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں ایک چیز جسے ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آنا چاہیے، وہ سراسر تفریح کے انداز میں آپ تک پہنچتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہاں سڑک کا غل غپاڑا ایک نہایت اہم ملکی اور انسانی مسئلے کے طور پیش ہوجاتا ہے۔ ایسے میں یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آپ کو ایک خبر دی گئی ہے یا محظوظ ہونے کا سامان۔

چلیے، خبر کے معاملات تو یہاں تک آہی گئے، لیکن بات یہاں بھی نہیں ختم ہوتی۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا دونوں تفریحِ طبع کا بھی وہ مواقع فراہم کررہے ہیں کہ بس نہ پوچھیے۔ پورے پورے چینلز انٹرٹینمنٹ کے لیے وقف ہیں جو اپنے ناظرین کو دن رات اور ہفتے کے ساتوں دن مسلسل وہ مواد پیش کرتے رہتے ہیں جو اُن کی ضیافتِ طبع کے لیے ہوتا ہے۔

ابھی اس سے بحث نہیں کہ یہ مواد کس معیار کا ہے اور آیا واقعی لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بن بھی رہا ہے کہ نہیں۔ ان شعبوں سے وابستہ افراد چاہے وہ انتظامی حیثیت میں ہوں یا صرف ناظر، ان میں سے کوئی یہ سوچتا محسوس نہیں ہوتا کہ عوامی مزاج اور نفسیات پر اس تفریح کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ حالاںکہ کسی بھی سماج کی سائیکی اور اس کے نظامِ اخلاق و اقدار کے لیے یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے، لیکن چلیے اسے بھی سرِ دست چھوڑ دیجیے۔ اْدھر سوشل میڈیا کو دیکھیے تو وہ عوامی انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں بھی الیکٹرونک میڈیا کو مات دینے پر اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔

اس صورتِ حال میں اگر کچھ سنجیدہ ادیب اس مسئلے پر الجھ رہے ہیں کہ آج کے لکھنے والے کو اب کن موضوعات پر توجہ دینی چاہیے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی گرفت میں آیا ہوا شخص واپس ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوسکے تو یہ بہت نیک فال ہے اور ماننا چاہیے کہ یہ الجھن واقعی کوئی سرسری شے نہیں ہے۔ اس پر حقیقتاً سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔

اب یہاں سب سے پہلے تو ہمیں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں۔ پہلی یہ کہ وقت نام ہے تغیر کا۔ لوگ، حالات، دنیا اور اس کے رجحانات سب کچھ وقت کے عمل کے ہاتھوں تبدیلی سے گزرتا رہتا ہے، اور یہ تبدیلی ہی زندگی کی علامت ہے۔ سو، زندگی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال، لوگوں کے متغیر ہوتے ہوئے مزاج اور دنیا کے رجحانات میں آنے والی تبدیلی سے ادیب کو پریشان ہوکر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے۔

اسے تو جم کر اس کا سامنا کرنا اور اپنے تخلیقی وجود کے اثبات و بقا کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ادب کا کام خبر اور تفریح مہیا کرنا ہے بھی نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے قاری کو بعض نئی باتیں بھی ادب کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں اور ادب میں ایسا بھی کچھ سامان ہوتا ہے جو اس کے لیے تسکین اور راحت کا موجب ہوتا ہے، لیکن براہِ راست خبر اور تفریح دونوں ہی چیزیں ادب کا مسئلہ نہیں ہوتیں۔ خبر کے سے انداز میں قاری کو اْس سے جو کچھ ملتا ہے، وہ خبر نہیں، بلکہ نظر ہوتی ہے۔ ادب آگہی عطا کرتا ہے۔

اب رہی تفریح تو وہ بھی اصل میں زندگی کی معنویت اور انسانی تجربے کی جاذبیت ہے جو پڑھنے والے کو منہمک رکھتی ہے، اور وہ دل و جاں سے اس کے اندر اتر جاتا ہے۔ چناںچہ ادب اپنے قاری کے لیے تفریح کا نہیں اصل میں ترفع کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ایک مذہب کو چھوڑ کر کوئی دوسری شے ادب کے مقابلے میں آکر نہیں کرسکتی۔

تاہم اسی مرحلے پر ہمیں یہ حقیقت بھی واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ادب پڑھنے کا نتیجہ سب کے لیے ایک جیسا نہیں نکلتا۔ ادب کی تفہیم اور اثرات دونوں ہی کا بہ قدرِ ہمتِ اوست والا معاملہ ہے۔ ہر پڑھنے والا اُس کے اثرات، اپنی اُپج اور افتادِطبع کے مطابق اور اپنی ذہنی، فکری، علمی اور جمالیاتی صلاحیتوں کے حساب سے قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین پر اثرانداز ہونے کے باوجود انسانی معاشرے کی تبدیلی یا سماجی ذہن سازی کے لیے ادب کو استعمال کرنے کی بات محض خام خیالی ہے۔

سارتر ادب کے سماجی اثر کا نہایت قائل اور اَن تھک مبلغ تھا، لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد اُس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا، اور کھلے لفظوں میں اس کا اعتراف کرنے لگا تھا کہ ادب معاشرے کو اس طرح نہیں تبدیل کرسکتا جس طرح مذہب اور سیاست کرسکتے ہیں۔1946کے بعد اُس نے ایک انٹرویو میں اس امر کا اعتراف کیا کہ وہ ادب سے جو توقعات رکھتا آیا ہے، وہ حسبِ توقع اور عملاً انسانی زندگی میں رونما نہیں ہوپاتیں۔ ادب آدمی کے احساس کی صورت گری تو کرتا ہے اور یہ اثر کسی نہ کسی صورت میں رویوں کے تغیر کے ساتھ ایک حد تک سامنے بھی آتا ہے، لیکن ایک تو یہ عمل بہت آہستہ رو ہوتا ہے اور دوسرے اس کا تناسب بھی ادب کے سارے قارئین میں یکساں نہیں ہوتا۔

انسان کی زندگی پر اُس کے خارجی حالات کا اثر بڑی اہم چیز ہے۔ حالاںکہ صوفیا ہی نہیں، بعض فلسفی اور دانش ور بھی کہتے ہیں کہ داخلی احساسات کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اسی لیے انسان کا باطن یا داخل جہانِ اکبر کہلاتا ہے اور خارجی دنیا جہانِ اصغر، لیکن زندگی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ خارجی حالات کے اثرات آدمی کی کایا پلٹنے میں زیادہ مؤثر اور سریع الاثر ثابت ہوتے ہیں۔ ادب کے اثرات اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب وہ اپنے قاری کی توجہ ظاہر کی اشیا سے ہٹا کر ان سے بڑے حقائق پر مرکوز کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب اور کس طرح ہوتا ہے؟

اس کے لیے دو شرائط ہیں، پہلی یہ کہ ادب اس درجے کا ہو کہ وہ اپنے معانی کا ابلاغ کرتے ہوئے اشیا، افراد اور حالات کی ظاہری سطح تک نہ رکے، بلکہ اسے توڑ کر اندر اتر جائے اور وہ دیکھنے دکھانے اور سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرے جو اس ظاہر کے تماشے کی بنیاد بنا ہے۔ فرانس کے معروف شاعر راں بو نے کہا تھا، شاعر کی اصل اور بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ خارجی ذرائع کے بغیر حقیقت تک رسائی حاصل کرے۔ اسی لیے اُس نے اپنی اعصابی کیفیت بدلنے اور نارمل حواس کو معطل کرنے کے لیے نشے کا سہارا لیا اور یہ سوچا کہ زندگی کی حقیقت کو اس کے ظاہری حوالوں اور رسمی ذرائع کے بغیر جان سکے۔ ظاہر ہے، یہ کوشش بے کار گئی۔ آدمی کے حس و ادراک کا نظام اپنے محدودات رکھتا ہے، اس لیے وہ اصل الاصول اور حقیقتِ حقہ کو پانے کی بھی ایک حد رکھتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے عہد میں ادب، بلکہ ساری ذہنی اور فکری سرگرمیوں پر پیغمبری وقت پڑا ہوا ہے۔ آج انسانی زندگی کے معمولات اور ترجیحات کو متعین کرنے کے لیے یہ تأثر پھیلایا گیا ہے جو غیرمعمولی طور پر کارگر بھی رہا کہ انسان کو روز مرہ کام کاج کے بعد ایسی کسی شے کی ضرورت نہیں ہوتی جو اُس کے ذہن اور اعصاب کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنے۔ اس کے بجائے اسے اعصابی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تفریحِ طبع درکار ہوتی ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھنا اور اس کا اعادہ کرنا اور بار بار اسے رد کرنا چاہیے کہ انسانی مزاج، طبیعت اور فطرت کے بارے میں یہ سراسر ایک غلط فہمی ہے جسے پھیلایا گیا ہے۔

اس کے پس منظر میں مقتدر اقوام اور ان کے اداروں کا ایک بہت سوچا سمجھا ایجنڈا کام کررہا ہے۔ اس کا ایک خاص ہدف یہ بھی ہے کہ اس عہد میں انسان کو ان سب سرگرمیوں سے دور کردیا جائے جو اُس کے اندر سوالات پیدا کرتی ہیں، اسے سوچنے پر اکساتی ہیں۔ زندگی کی ماہیت اور اس کائنات سے اپنے رشتے اور اس کی معنویت کو سمجھنے کی خواہش پیدا کرتی ہیں۔ اُس کی حسِ جمال کو تہذیب و معاشرت کے اصولوں اور نظامِ اخلاق کے تابع رکھنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور اس کے لیے ضابطۂ حیات ترتیب دیتی ہیں۔ ادب ایسی ہی ایک سرگرمی ہے۔

وہ ایک سطح پر آسودگی سے ہم کنار تو ضرور کرتا ہے، لیکن یہ وہ آسودگی ہرگز نہیں ہوتی جو قاری کے اعصاب کو شل اور ذہن کو سن کرکے اسے بے حس نیند کی وادی میں لے جائے۔ اس کے برعکس وہ اس کے ذہن کو بیدار اور اس کے اعصاب کو نہ صرف متحرک کرتا ہے، بلکہ اُس کے لیے فکر و خیال کی ضرورت اور اہمیت بھی واضح کرتا ہے۔ اس لیے ادب کا مطالعہ وقت گزاری کے لیے زیادہ کارآمد نہیں ہوسکتا۔

ادب تو اُن لوگوں کے مطلب کی چیز ہے جو زندگی اور اس کے تجربات کو اپنی ذات سے باہر نکل کر اور خود کو اس وسیع و عریض کائنات سے جوڑ کر دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ آج کے ذرائعِ ابلاغ اور سوشل میڈیا دونوں کا ماحول، مسائل اور منہاج سب کچھ اس کے برعکس ہے۔ ہم ذرا سا غور کریں تو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے انسانی معاشرے میں ان کا کیا کردار ہے۔ اس کے لیے کسی خاص دقتِ نظر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس دور کے ان دونوں ذرائع کو آپ کام کرتے ہوئے دیکھیے تو صاف معلوم ہوگا کہ ان کا مقصد واضح اور متعین ہے۔ انھیں اسی کے لیے بنیادی طور پر بہ روے کار لایا گیا ہے۔

اب رہی بات آج کے ادب کے موضوع کی تو سچ یہ ہے کہ ہمارے ادیب ذرا تحمل اور توقف سے کام لیں تو انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ سوال غیراہم اور غیرضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ انسان کی پوری زندگی، اس کے اعمال کا سارا دائرہ، اس کی جملہ کیفیات، سارے تجربات اور احساسات— یہ سب کچھ ادب کا موضوع ہے۔ آلو اور ٹماٹر سے لے کر، جنسی جذبے اور تجربے کی روشن و تاریک جہتوں تک اور اس کے علاوہ کائنات کی وسعتوں تک سب کچھ ادب کے موضوع کے لیے کارآمد، مفید اور قابلِ قبول ہے۔ ادیب زندگی کے حقائق کو اور اس کائنات میں انسانی تجربات کو، بلکہ پورے انسانی کردار کو ازسرِنو بسر کرتا ہے اور اس طرح زندہ کرتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کرلیتے ہیں۔

ادیب کی کارگزاری کا میدان بے حد وسیع ہے۔ اس کے لیے کوئی شے پرانی ہے اور نہ ہی پائمال، اذکاررفتہ ہے اور نہ ہی لایعنی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ادیب جس تجربے، حقیقت یا کردار کو پیش کرنا، معرضِ اظہار میں لانا یا زندہ کرنا چاہتا ہے، وہ اسے اوپری سطح پر تھامنے یا اوڑھنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ اُسے فی الاصل زندگی کا لمس دینے میں کامیاب ہوجائے۔ ہمارے دور کے بڑے ادیب میلان کنڈیرا کا کہنا ہے کہ کسی کردار کو زندہ کرنے کا مطلب ہے اُس کے وجودیاتی مسئلے کی تہ تک پہنچنا۔ اب کنڈیرا کی اس بات پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وجودیاتی مسئلہ دونوں جہات میں ظاہر ہوتا ہے۔ فرد کے باطن میں اُس کی جڑیں ہوتی ہیں اور ظاہر میں اُس کی شاخیں اور پھول پتے۔ جب یہ مسئلہ اندر باہر دونوں سطحوں پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے تو پھر اس کو سہارنے کی سکت ادیب میں پیدا ہوتی ہے۔

آج کے ادیب کے پاس بدلتی ہوئی دنیا، انسانی رویے، حالات، اقدار کا تبدیل ہوتا ہوا منظرنامہ، انسانی احساس کی بنتی بگڑتی صورتیں، گویا تجربات و احساسات کا پورا ایک جہان موجود ہے۔ ادیب کے لیے موضوع کی بھلا کیا کمی ہے۔ وہ دائیں بائیں نگاہ تو ڈالے، بلکہ صرف اپنی طرف نظر بھر کے دیکھ لے تو بھی اسے سوچنے اور لکھنے کے لیے اتنا کچھ مل سکتا ہے کہ پوری زندگی اُس پر کام کرتا رہے۔ ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ آج کا ادیب یہ ہمت اور جرأت پیدا کرے کہ وہ کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ظاہر کی سطحوں کو توڑ کر زندگی کے، انسانی تجربات و احساسات کے اندر جھانک سکے اور پھر جو کچھ اس کے احساس و شعور پر گزرتی ہے، اُسے پوری متانت سے اپنے قاری تک پہنچا دے۔

The post ہمارے عہد میں ادب کا موضوع appeared first on ایکسپریس اردو.

آتشزدگی سے کیسے بچا جائے؟

$
0
0

ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122 بہاول پور
ای میل: dremergencybwp@hotmail.com

جدت پسندی اور انسانی ترقی نے جہاں انسان کے لیے بہت ساری سہولیات پیدا کی ہیں وہاں انسانی حیات کے لیے کچھ خطرات بھی جنم لے رہے ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ آتش زدگی ہے۔

موجودہ جدید دور کی روز مرہ زندگی میں گھر، آفس، فرنیچر ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹرانسپورٹ، موبائل، کاسمیٹکس، ادویات، لباس اور برقی آلات سے لے کر انسان کے اردگرد پائی جانے والی زیادہ تر اشیا آگ کا باعث بننے اور آگ پکڑنے والی ہیں جو آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ و شدت کا موجب ہیں جن کی وجہ سے قیمی جان و املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع و مکمل تحریر قارئین کی نذرکی جا رہی ہے جس پہ عمل کر کے ان واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ آگ ان چار بنیادی عناصر میں سے ہے جن سے کائنات کی تمام چیزیں تشکیل دی گئی ہیں ۔ اس فسانے میں آگ ایک مقدس مادہ ہے جو زندگی یا طاقت دیتا ہے۔ سائنسی طور پر آگ کسی مواد کے آکسیجن کی موجودگی میں جلنے کو کہتے ہیں۔ جدید دنیا میں آگ کے تین اجزا کو ایک مثلث کے طور پر پیش کیا ہے جس میں 1 – جلنے والا مواد 2 – حرارت -3آکسیجن شامل ہیں۔

آگ جلانے کے لیے ان تین اجزاء کی موجودگی ضروری ہے۔ مسلسل رد عمل حرارت مہیا کرتا ہے جو آگ کو جلتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔ جدید سائنس نے آگ کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے۔

Ignition(جلنا): فیول، آکسیجن اور حرارت ایک ساتھ مل کر کیمیکل ری ایکشن میں شامل ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں آگ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

)Growthبڑھنا(: ابتدائی طور پر شروع ہونے والی آگ گرمی کی وجہ سے بڑھتی ہے اور چھت تک جا پہنچتی ہے۔

Fully Developed (مکمل طور پر تیار): اس مرحلے میں فیول کے ملنے سے آگ پوری طرح پھیل جاتی ہے اور حرارت اپنی آخری حددوں کو چھوتی ہے اور آکسیجن تیزی سے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

)Decayجل جانا( : اس مرحلے میں جلنے والی چیز مکمل طور پر جل کر کوئلہ یا راکھ ہو جاتی ہے۔

آگ حرارت کے تین طریقو ں سے منتقل ہونے سے پھیلتی ہے۔

1۔ Conduction حرارت کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی سے

2 ۔ Convection گرم جگہ سے گیس یا سیال کے ٹھنڈی جگہ منتقل ہونے سے

3 ۔  Radiationحرات یا الیکٹرک لہروں کے ذریعے بغیر کسی رابطے سے

یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ آگ کے بننے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگ بجھانے کے لیے ان تینوں میں سے کسی ایک ذرائع کو ہٹا دیں تو آگ بجھ سکتی ہے ۔

آگ بجھانے کے تین طریقے ہیں۔

1 – جلنے والے مواد کو ٹھنڈا کرنا

2  – آکسیجن کی موجودگی کو ختم کرنا

3 – ایندھن کو ختم کر دینا یا ہٹا دینا

آتش زدگی کے دوران کچھ واقعات بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں فلیش اور بیک ڈرافٹ شامل ہیں۔

Flash Over اس میں کمرے میں موجود ہر چیز اچانک آگ پکڑ لیتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب درجہ حرارت ایک دم سے کچھ سیکنڈ میں 1000F ڈگری ہو جاتا ہے اور کمرے کی ہر چیز کا درجہ حرارت اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ آگ پکڑ لیتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک فائر فائٹر جو کہ مکمل طور پر حفاظتی حصار میں موجود ہے اپنے آپ کو اس  Flashover سے نہیں بچا سکتا۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ عمارت سے گھنا سیاہ دھواں نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔

Backdraftاس میں آگ لگنے کے بعد جب بند کمرے میں درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کمرہ گیسوں سے بھر جاتا ہے اور کمرے میں آکسیجن ختم ہو جاتی ہے تو کمرے میں موجود گیس دروازے اور کھڑکیوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کچھ وقت بعد کمرے میں اچانک کسی راستے سے آکسیجن کی فراہمی شروع ہو تو دھماکہ ہوتا ہے اس کو  BackDraft  کہتے ہیں۔اس لیے ان علامات کی صورت میں کسی بھی کمرے کا دروازہ یا کھڑی یکدم نہیں کھولنی چاہیے۔

آگ کو جلنے والی چیز یا ایندھن کی بنا پر بین الاقوامی درجہ بندی کے مطابق پانچ کلاسوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

کلاس A :اس کلاس میں لکڑی، کپڑا، کاغذ، ربڑ اور بہت سے پلاسٹک مواد شامل ہیں۔

کلاسB :اس کلاس میں ایسے مائعات جو جلنے والے ہوں جیسے پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، تھنر، پینٹ، رنگ، الکوحل، سپرٹ وغیرہ شامل ہیں۔

کلاس C : اس کلاس میں برقی آلات شامل ہیں جو آگ پکڑ لیتے ہیں ۔

کلاس D: اس کلاس میں مختلف دھاتوں کو لگنے والی آگ شامل ہے جیسے میگنیشم، ٹائٹینیم، زرکونیم، لیتھیم، اور پوٹاشیم وغیرہ شامل ہیں ۔

کلاس K : اس کلاس میں باورچی خانہ میں موجود کھانا پکانے والے آلات ،گھی، کوکنگ آئل، مکھن اور چربی وغیرہ شامل ہیں ۔

آگ سے حفاظت کے اچھے انتظام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آگ لگے ہی نہ ۔ اور اگر آگ لگ گئی ہے تو فوری طور پر اس کو کنٹرول کر لیا جائے اور اگر کنٹرول نہیں ہوئی اور پھیل گئی ہے تو عمارت سے ہر شخص کے حفاظت سے نکلنے کا راستہ موجود ہو ۔

آگ کے خطرے کی تشخیص کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت اپنی عمارتوں کو دیکھیں۔ آگ لگنے کے خطرے کی تشخیص کا مقصد آگ لگنے کے خطرات کو پہچاننا اوران کو کم کرنا ہے۔ یاد رکھیں آگ لگنے کے خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے باربار خطرات کو دیکھنا اور کم کرنا چاہیے۔

لوگوں کو آگ لگنے کی صورت میں خطرات سے آگاہ رکھیں۔ آگ کے خطرات کاپتہ لگانے اور آگ سے لڑنے، ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے راستے کے بارے میں لوگوں کو انتباہ کریں کہ آگ لگنے کی صورت میں انھوں نے کیا کرنا ہے۔

ایک عمارت میں اگنیشن کے طور پر درج ذیل چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔

1 – کھانا پکانے کا سامان، گرم پانی، فلش اور فلٹر، تمباکو نوشی کا مواد مثلاً سگریٹ اور لائٹر، بجلی یا گیس سے جلنے والا ہیٹر دیگرعوامل مثلاً ٹھیکیداروں کی طرف سے غلط ویلڈنگ، غلط استعمال شدہ برقی آلات، روشنی سے متعلقہ اشیاء اور روشنی کے علاوہ سامان ہالوجن لیمپ یا ڈسپلے، مرکزی حرارتی بوائیلر، ننگی آگ مثلاً موم بتی یا گیس، مائع ایندھن کی کھلی آگ، مشعل اور آتش بازی۔

کوئی بھی چیز جو جلتی ہے وہ آگ کو ایندھن مہیا کرتی ہے۔ کچھ ایندھن جو عام طور پر چھوٹی اور درمیانے درجے کی جگہوں پر دستیاب ہوتے ہیں ان میں جلنے والے مائعات کی بنیاد پر مصنوعات جیسے پینٹ، وارنش، پتلی اور چپکنے والی چیزیں، جلنے والے مائعات اور محلولات جیسے کہ الکوحل، سپرٹ، کھانے کا تیل، سگریٹ لائیٹر، جلنے والے کیمیکل جیسے مخصوص صفائی کی مصنوعات اور فوٹو کاپی کا کیمیکل، جلنے والی گیس جیسے LPG گیس، خوراک جو ڈبوں میں پیک کی ہوتی ہے، سجاوٹ اور پیکنگ والا سامان، اسٹیشنری اور اشتہاری مواد، لاسٹک اور ربڑ جیسے کہ ویڈیو ٹیپ، فرنیچر، پلاسٹک سے بنی ہوئی نمائشی چیزیں، کپڑے اور فوم سے بنا فرنیچر، فضلہ کی مصنوعات خاص طور پر تقسیم شدہ کاغذ کے ٹکڑے، لکڑی کی چھتیں اور گندے علاقوں میں جمع دھول، آتش بازی اور پیٹرو ٹیکنیک مصنوعات شامل ہیں۔

آگ کے لیے بنیادی جزو آکسیجن ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہے۔ ایک بند عمارت میں آکسیجن وینٹیلیشن سسٹم کی مدد سے دی جاتی ہے۔ یہ دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ دروازے، کھڑکیوں اور دیگر راستوں کے راستے قدرتی ہوا کے ذریعے یا ائیرکنڈیشنگ سسٹم اور ائیر ہنڈلنگ سسٹم کے ذریعے۔

آگ سے پیدا ہونے والا دھواں بھی خطرناک گیسوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ ایک جدید عمارت میں لگی ہوئی آگ سے نکلنے والا دھواں گہرا اور سیاہ ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ ہنگامی راستوں کو بند کر سکتا ہے۔

ہنگامی راستے مناسب اور محفوظ ہونے چاہیئں جن کو کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکے۔ وہاں روشنی کامناسب انتظام ہو۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ ہنگامی طور پر کھلنے والے تمام دروازے باہر کی طرف کھلتے ہوں ۔ کمرے کا احاطہ اگر 60 لوگوں سے زیادہ ہے تو ہنگامی طور پر نکلنے کے لیے دو راستے ہونے چاہیئں۔

آڈیٹوریم، شادی حال، سینما گھر، تھیڑ، امتحانی مراکز اور سٹیڈیم میں سیٹیں ایسے لگانی چاہیئں کہ تمام لوگ باہر کے راستے تک آسانی سے جا سکیں، وہ سیٹیں جو فکس ہوتی ہیں ان کے درمیان پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ کا فاصلہ کم سے کم1 فٹ ہونا چاہیے۔

آگ بجھانے کے آلات چھوٹی آگ کو بجھانے کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ کوڑا دان میں لگی ہوئی آگ بڑی آگ بن سکتی ہے اگر اس کو فوراً قابو نہ کیا جائے۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں نوٹس لگائیں کہ آگ بجھانے والے آلات کو کیسے استعمال کرنا ہے اور آگ لگنے کی

صورت میں کیا کیا اقدامات کرنے ہیں ۔ ریسکیو1122، فائر فائٹر کی مدد کریں مثلاً بجلی کاسوئچ بند کر دیں اور آگ لگنے والی جگہ کی نشاندہی کریں۔

فائر سیفٹی و الارم کے نظام کو ہفتہ وار، ماہانہ وار اور چھ ماہ بعد الارم سسٹم انسٹال کرنے والی کمپنی کی ہدایات کے مطابق چیک کریں ۔ ایمرجنسی لائٹ کی بیٹری چیک کریں ۔ آگ بجھانے والے آلات کی جگہ اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت چیک کریں ۔

آگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر ایمرجنسی پلان ہونا چاہیے۔ ہنگامی منصوبہ بندی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں اس جگہ پر موجود لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس جگہ سے محفوظ طریقے سے کیسے نکلنا ہے ۔

کسی بھی جگہ پر کام کرنے والے لوگوں کو آگ بجھانے کی تربیت دی جائے ۔ سامان اور مشینری میں آگ کا عام سبب کسی بھی مشین کے اندر ہوا کے اخراج کا بند ہو جانا ہے اور اس وجہ سے مشین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور آگ لگ جاتی ہے ۔

تمام مشینیں، سازوسامان، کھانا پکانے والے آلات ، حرارت خارج کرنے والے تمام آلات جیسے کہ فوٹو کاپی کرنے والی مشین وغیرہ شامل ہیں ان کو کسی ماہر پیشہ ور سے چیک کرواتے رہنا چاہیے۔ سب سے بڑا خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب مشینوں کو وقت پر چیک نہیں کروایا جاتا اور غیر تربیت یافتہ عملہ اس کو استعمال کرتا ہے۔ سگریٹ اور تمباکو نوشی کا سامان آگ لگنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ آلودہ ماحول میں ایک سگریٹ کئی گھنٹوں تک سلگ سکتا ہے جو کہ آگ لگنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آگ لگنے کے کئی واقعات سگریٹ نوشی کے اس مواد سے ہوئے ہیں جن کو کوڑا دان میں ڈال دیا گیا اوراس فضلہ کو مستقبل میں ختم کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ آگ لگنے کے واقعات میں زیادہ تر لوگ دھواں اور گیس کی وجہ سے مرتے ہیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں ابتدائی مراحل میں آگ کا پھیلاؤکم ہوتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بہت سے اقدامات ایسے ہیں جو ابتدائی مراحل میں آگ کے پھیلاؤ کو روکتے ہیں اور آگ کے پھیلاؤ کے بعد بھی آگ پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔

آگ لگنے کی صورت میں الارم کی آواز اتنی اونچی ہونی چاہیے کہ ہر شخص سن لے۔ چھت سے پانی چھڑکنے والا نظام آگ بجھانے کے لئے بہت موثر ہے۔ دیگر آلات میں پانی، فوم، گیس اور پاؤڈر والے سلنڈر شامل ہیں ۔

رہائش گاہ کے عملے اور رہائشیوں کے ساتھ آگ بجھانے والے لوگوں کی گنتی آگ لگنے کے بعد بہت ضروری ہے۔ اسٹاف، مہمانوں، رہائشیوں اور فائر فائٹرزکی حاضری کے رکارڈ کو یقینی بنانا چاہیے۔کسی بھی آگ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ آگ ہر منٹ یعنی 60 سیکنڈ کے بعد دوگنا ہو جاتی ہے آگ کی تباہی سے بچنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ ہر سطح پر آگ سے بچاؤ کی آگاہی، تیاری اورفوری ردعمل ہے ۔

پاکستان میں آتش زدگی کے واقعات کو روکنے کے لیےBuilding Codes بلڈنگ کوڈز متعارف کرانے چاہئیں جس میں بلڈنگ کی نوعیت مثلاً سرکاری ونیم سرکاری، کمرشل، رہائشی وغیرہ کے مطابق فائرسیفٹی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ایریا فی مربع فٹ فلور اور منزلوں کی تعداد اور لوگوں کی تعداد و آمدو رفت کے حوالے سے فائر سیفٹی کے انتظامات کیے جانے چاہئیں اس کے علاوہ واٹر ہائیڈرنٹس کی تنصیبات کو یقینی بنانا چاہیے۔ آگ سے مزاحمت کرنے والے خصوصی دروازے جو مارکیٹ میں آسانی سے دسیتاب ہیں وہ لگوانے چاہئیں۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ کمرشل پلازہ جو اربوں روپے میں تعمیر ہوتا ہے اگر وہا ں پر چند ہزار روپوں سے فائر سیفٹی کے انتظامات کر لیے جائیں جو کہ کوئی اضافی بوجھ نہیں ہے، ان سے لوگوں کے قیمتی جان و مال کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹوں کی تعداد کے مطابق آگ بجھانے والے فائر ایکسٹنگیوشر(Fire Extinguisher ) آگ بجھانے والے سلنڈر اور ہنگامی انخلا کے دروازے یقیناً موجود ہونے چاہئیں۔ وہ بڑے آئل ٹرالر اور کنٹینر جو پٹرولیم مصنوعات کو لے کر سفر کرتے ہیں ان میں بھی آگ بجھانے والے سلنڈر اور ان کے استعمال کی تربیت، ڈرائیور و ہیلپر کے پاس ہونی چاہیے۔ کسی بڑے لیکج کی صورت میں ٹرالر کو مین روڈ سے ہٹ کے سائیڈ پر کر دیا جائے۔

حفاظتی کون (Cones)کے ذریعے ایریا کو سیل کر دینا چاہیے ۔ پٹرولیم کی آگ کو کبھی پانی سے نہیں بجھانا چاہیے کیونکہ پانی بھاری اور پٹرولیم پراڈکٹ ہلکا ہوتا ہے اور اگر پانی ڈالا جائے تو پانی نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پٹرول اوپر ہو جاتا ہے اور پانی کے اوپر آگ لگی رہتی ہے ۔ اس صورتحال میں مقامی طور پر موجود مٹی یا ریت فوراً لیک ہونے والی جگہ پر ڈال دینا چاہیے اس کے علاوہ تمام پبلک ٹرانسپورٹ، ویگن اور بسوں میں CO2 اور فوم بنانے والے فائر سلنڈ رہونے چاہئیں۔

موجودہ جدت پسندی کے دور میں ہر گھر کے اندر آگ بجھانے والا چھوٹا (DCP) ڈرائی کیمیکل پاؤڈر والا سلنڈر موجود ہونا چاہیے جو کہ ہر کلاس والی آگ پہ موثر ہوتا ہے۔ صنعتی اداروں، پبلک ڈیلنگ والے اداروں، تعلیمی اداروں ، بینکس، لائبریری ، ہسپتال، لیبارٹری، بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور، مارکیٹس، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے، پریزیڈنٹ ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس، صوبائی و قومی اسمبلیاں اور وہ تمام ادارے جہاں پر سرکاری ریکارڈ رکھا جاتاہے، گودام، ٹمبر مارکیٹ، فرنیچر و پالش مارکیٹ کی انتظامیہ و ذمہ دار افراد کے لیے کسی مستند ادارے سے تربیت اور فائر سیفٹی کی تنصیبات کو لازمی قرار دینا چاہیے اور ان جگہوں پر ایک فوکل پرسن نامزد کرنا چاہیے جو صرف اور صرف فائر سیفٹی کے معاملات کو دیکھے۔

اس وقت پاکستان میں ہر تحصیل کی سطح پر فائر برگیڈ سروس موجود ہے جس کا یونیورسل نمبر 16 ہے جو بغیر کسی ایریا کوڈ کے ملایا جا سکتا ہے جو کہ (TMA) تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ماتحت کام کر رہی ہے اس سروس کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جس کو جدید فائر گاڑیوں، آلات کے ساتھ ساتھ عملہ اور جدید تربیت کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں فائرسیفٹی کے لیے جدید اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ ان کے عملے کی تربیت کو جدید فائر سیفٹی سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ ٹی ایم اے و دیگر اتھارٹیز کو بلڈنگ نقشہ بنانے یا پاس کرتے ہوئے اور این او سیNOC) ( جاری کرتے ہوئے فائر سیفٹی کے عملی اقدامات کو لازمی جزو قرار دینا چاہیے۔

مملکت خداداد میں نئی حکومت وجود میں آئی ہے وفاقی اور صوبائی سطح پر فائر سیفٹی کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے تحت ان قوانین میں ترامیم ناگزیر ہے، ہو سکے تو نئی قانون سازی کی جائے لیکن اہمیت اس بات کی ہوگی کہ ان قوانین پر 100 فیصد عمل درآمد رکروایا جائے۔اور بلڈنگ و ٹرانسپورٹ کوڈز متعارف کرانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں احمدپور شرقیہ بہاولپور جون 2017 میں ہونے والے آئل ٹینکر کے حادثے کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارعت صحت پورے پاکستان میںڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال (DHQ) کی سطح پر 10 بیڈ پر مشتمل پر جدید برن یونٹ بنائے تا کہ آتش زدگی کے شکار متاثرین کا بروقت علاج ممکن ہو ۔

اس وقت پاکستان میں سکن بینک (Skin Bank)کا کوئی تصور نہیں ہے، وفاقی سطح پر ایک سکن بینک قائم ہونا چاہیے، اس ضمن میں آرگن ڈونیشن کے قانون کو موثر بنایا جائے اور لوگوں کو موت کے بعد دیگر اعضاء سمیت جلدکو بھی عطیہ (Donate)  کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ایک انسانی جلد کا عطیہ سکن بینک میں کئی سالوں تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور سکن بینک کے قیام سے لوگوں کی قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو سکے گا۔

آخر میں راقم الحروف کے مقولے کو ’’چھوٹی آگ کو کبھی چھوٹا مت سمجھیں‘‘ کو ذہن نشین رکھیں۔

آگ ایک بہت بڑی آفت ہے جو کہ جانی ومالی نقصان کے لیے ایک مستقل خطرہ کے طور پر موجود ہے اگر ہم ہر سطح پر لوگوں کے اندر شعور و آگاہی پیدا کریں اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائیں تو ہم اس آفت پر قابو پا سکتے ہیں۔

The post آتشزدگی سے کیسے بچا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’بلوچستان‘ پانی کی بدترین قلت سے دوچار صوبہ

$
0
0

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے ملک کے مجموعی رقبے کا 43% ہے اور آبادی کے تناسب سے پاکستان کی کل آبادی میں اس کا حصہ صرف چھ فیصد ہے، یعنی رقبہ بہت وسیع اور آبادی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہاں پانی کی قلت رہی ہے۔ یہاں سارا سال بہنے والے دریا نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صرف نصیر آباد ، جعفر آباد اور کچھی کے اضلاع میں دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہروں سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ اگرچہ دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی میں سے چالیس فیصد سے کچھ زیادہ آبادی بلوچستان جیسے بارانی خطوں میں آباد ہے لیکن خصوصاً ترقی یافتہ بارانی ملکوں یا ان کے بارانی علاقوں کو قلتِ آب کے ایسے شدید مسائل درپیش نہیں جن کا سامنا آج بلوچستان کے عوام کو ہے۔

اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں سماجی شعور اور خواندگی کی کمی ہے تو دوسری جانب ماضی میں اس حوالے سے اہل اقتدار نے مجرمانہ غفلت برتی اور پانی کو ذخیرہ کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پانی کے قدرتی ذرائع اور وسائل کو مستحکم اور پائیدار بنانے پر توجہ نہیں۔ اور خصوصاً زیرِ زمین پانی کو اس بے دردی سے استعمال کیا کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پانی کی سطح تیس ، چالیس فٹ سے گر کر ایک ہزار فٹ سے زیادہ نیچے چلی گئی۔

یہ صورتحال ساٹھ برسو ں کی مختصر مدت میں پیدا ہوئی یعنی ہم نے صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں سے زیرِ زمین پانی کے ذخائر اور اس کو ری چارج کرنے کے قدرتی نظام کو بھی نقصان پہنچایا اور اس نقصان کا طویل عرصہ تک احساس بھی نہیں کیا۔1951 کی پہلی مردم شماری میں بلوچستان کی کل آبادی ساڑھے گیارہ لاکھ تھی۔ اگر چہ اس وقت آ بادی کی اکثریت کو حصولِ آب کے مسائل تھے لیکن آبی ذخائر موجود تھے۔

آج صوبے کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے اور1951 کے مقابلے میں عام طور پر 90% عوام کو پانی کی سہولت تو میسر ہے مگر زیرِ زمین پانی کے ذخائر انتہائی تشویشناک حد تک کم ہوتے ہوئے اب بالکل ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پانی کی قلت کے انتہائی تشویشناک مسئلے کو بہت تاخیر سے سہی اس بار سیاسی رہنمائوں نے اپنی انتخابی مہم میں اجاگرکیا ۔اور یہ کامیابی ہے ان ذمہ دار سرکارعہدیداروں اور ماہرین کی ریسرچ اور کوششوں کی جو وہ طویل عرصے سے کر رہے ہیں اور انہی میں ایک اہم نام جواں سال سیکرٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ زاہد سلیم ہیں، وہ جس شعبے میں بھی جاتے ہیں وہاں مسائل کے حل اور ترقی کے لیے وہ کم ازکم توجہ ضرور مبذول کراتے ہیں۔

گذشتہ دنوںصوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں حکومت بلوچستان محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے زیر اہتمام “Water Scarcity in Balochistan and Way Forward Through Strategic Action Conservation and Public Awareness” کے عنوان سے ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کے دو سیشن ہوئے۔ سیمینار کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ سیمینار میں پانی سے متعلق قومی اور بین الاقوامی شہرت کے ماہرین نے شرکت کی۔

پانی کی قلت کے مسئلے پر منعقد سیمینار میں صوبائی اور قومی سطح کے پانی سے متعلق اہم ترین ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں ڈاکٹر شاہد احمد ، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر مقصود احمدکے علاوہ محکمہ اری گیشن کے افتخار میر اور پی ایچ ای کے چیف انجینئر جاوید احمد شامل تھے۔ بطور اسٹیج سیکرٹری میزبانی کے فرائض خود سیکرٹری پی ایچ ای زاہد سلیم نے انجام دئیے۔ سیمینار کے آغاز پر مہمان خصوصی صوبائی چیف سیکرٹری ڈاکٹر اختر نظیر نے افتتاحی خطاب میں سیمینارکی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی۔

اس سیمینار کے توسط سے ملک اور بالخصوص بلوچستان کے اندر پانی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا حقیقی معنوں میں اندازہ ہوا۔ نئے ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے انتہائی خراب صورتحال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںاور پھر موجودہ وزیراعظم نے خود بھی اس خطرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگای حالت کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا ہے ۔

جس سے اس مسئلے پر حکومت کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس سیمینار کا ذکر ہو رہا ہے اس میں پیش کیے جانے والے حقائق ہمارے قارئین کو اس گھمبیر مسئلے کے بارے میں غیرمعمولی آگاہی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس موقع پر سیمینار کے آغاز پر مقامی ماہرین نے بتایا کہ دنیا میں 1935 سے بڑے بڑے ڈیمز بنانے کا رجحان شروع ہوا مگر اب اس کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیمز بنانے کا رجحان زیادہ ہے کہ بڑے ڈیمز کی مینٹینس کے بہت مسائل ہوتے ہیں، اس لیے بلوچستان میں چھوٹے اور درمیانے ڈیمز کی جانب زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے دریائے سندھ سے بلوچستان کے حصے کی بات بھی کی، ساتھ ہی اس پر بھی زور دیا کہ صوبے میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مزید اور بہتر انتظامات کرنے ہوں گے۔

زیر ِ زمین پانی کی سطح کے تشویشناک حد تک مسلسل گرنے کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کے لیے ایک جانب ڈیلے ایکشن ڈیمز کی طرف توجہ دی جائے تو ساتھ ہی ساتھ صوبے کی رینج لینڈ اور پہاڑوں پر جھاڑیوں اور درختوں کے لگانے اور افزائش پر زور دیا جائے اور اس کے لیے دیگر صوبائی محکموں خصوصاً پی ایچ ای ،محکمہ جنگلات، زراعت اور آبپاشی کا آپس میں بہترین انداز کا رابطہ ہو کیو نکہ اس طرح زیر زمین پانی کی سطح میں بتدریج بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پانی کے استعمال سے متعلق شعور کی بیداری کی تحریک چلائی جائے۔

ہمارے ہاں اس قیمتی پانی سے کاروں کو دھویا جاتا ہے۔ آج دنیا کی باشعور قوموں اور ملکوں میں کہیں ایسا نہیں ہوتا بس کپڑا گیلا کر کے کچھ کیمیکل استعمال کرکے کاروں اورگاڑیوں کو صاف کیا جاتا ہے ، چمکایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب اس رجحان پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ اسی طرح لیٹرینوں میں فلش اور باتھ روموں میں ہم ضرورت سے کہیں زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔ اس رجحا ن کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گیْ

انہوں نے بے تحاشہ ٹیوب ویلوں کے استعمال پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ اس کے لیے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے انہوں نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ایک نعمت قرار دیا کہ کم از کم اس دوران ٹیوب ویلوں سے زیر ِ زمین پانی تو نہیں نکالاجا تا۔ ماہرین کی ریسرچ اور اعداد وشمار نے اب سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی قلت کو کس طرح دور کیا جائے۔ بلوچستان کے ماہرین نے کہا کہ قلت ِ آب کے مسائل کے حل کی خاطر ہماری طرف سے جو بھی ممکن تعاون کی صورت ہے وہ ہمیشہ حاضر ر ہے گی۔

دوسرے سیشن میں بھی میزبان ماہرین نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آج کم ازکم ہم سنجید گی سے یہاں جمع ہو کر پانی کے مسائل پر سوچ تو رہے ہیں اور سب یہ جانتے ہیں کہ ہم نے کس بیدردی سے ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیرِزمین پانی نکالا ہے، کوئٹہ کے ہمسایہ ڈسٹرکٹ مستونگ کے حو الے سے بتایا گیا کہ یہاں ہمارے سامنے 350 کا ریزیں خشک ہوگئیں کہ یہاں ٹیوب ویلوں سے واٹر مائیننگ کی گئی اور اب مستونگ میں زیرزمین پانی کی سطح اکثر مقامات پر 1200 فٹ نیچے جا چکی ہے۔

یہاں یہ ا نکشاف بھی کیا گیا کہ بدقسمتی سے اس مالی سال 2018-19 کا پی ایس ڈی پی دیکھیں تو اس میں 3500 ٹیوب ویل ڈالے گئے تھے، اس موقع پر بتایا گیا کہ پانی کی مد میں سندھ 110 ارب روپے بلوچستان کا مقروض ہے اور دریا ئے سندھ سے ہمارا پانی کا حصہ نہیں مل رہا۔ پانی کی قلت بلوچستان جیسے بارانی صوبے میں بڑھتی جا رہی ہے جو اس لیے زیادہ تشویش ناک ہے کہ آج تک اس صورتحا ل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے فوری استفادہ کیا جائے۔ اس وقت امریکہ، چین اور اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بارانی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پایا ہے اس لیے ہمیں بھی ان کے ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

مقامی ماہرین کے مطابق کہ پانی کی قلت کے باوجود اگر ہم پانی کے استعمال میں کفایت شعاری نہیں کرتے تو یہ ہماری اجتماعی غفلت کی انتہا ہے ہمیں ایک جانب آبپاشی کے لیے قطراتی نظام ِ آبپاشی کو اپنا نا ہو گا تو ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا، آج کے دور میں تو بادلوں کو کھینچ کر لا کر بارش کرائی جاتی ہے، گذشتہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں کسی ملک سے اس اعتبار سے کو ئی معاہدہ بھی کیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس حد تک مستقل مزاجی سے پانی کے بحران کے حل کے لیے کام کرتے ہیں۔ جاوید احمد اس وقت پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں منصوبہ بندی اور تعمیرات میں چیف انجینئر ہیں اور ان کا تجربہ، مشاہدہ اور علم بلوچستان میں پانی کے ذخائر اور پانی کی قلت اور اس کے لیے منصوبہ بندی اور تعمیروترقی کے لحاظ سے زیادہ ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت محکمہ کی جانب سے پورے بلوچستان کی 73% آبادی کو پینے کا صاف معیاری پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور ان میں سے 91% شہری آبادی کو اور69% دیہی آبادی کو یہ سہولت حاصل ہے اس کے لیے پی ایچ ای کی طرف سے 3509 واٹر سپلائی کی اسکیمیں مکمل کیں، عام قارئین کے لیے پہلے کچھ اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے۔

ایم ڈی جی ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز
یہ نئے ہزارئے یعنی2000 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے تحت صحت، تعلیم ، ماحولیات وغیرہ سے متعلق شعبوں میں اہداف مقر ر کئے گئے تھے جن کو 2010 تک حاصل کرنا تھا اس کے بعد 2015ء سے 2030 ء تک اب ایس ڈی جی یعنی سسٹین ایبل گولز جس کو اردو میں یو ں کہہ سکتے ہیں کہ مستحکم اور پائیدار تعمیروترقی کے اہداف، ان میں بنیادی صحت کے لیے ضروری ہے کہ تمام آ بادی کو2030 تک محفوظ صاف پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا، واضح رہے کہ پاکستان ایس ڈی جی پر دستخط کر چکا ہے، یوں اس وقت ان گولز کے حصول کے لیے بلوچستان کی 1 کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار آبادی جو 3331100 گھرانوں پر مشتمل ہے ان کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔

جاوید احمد نے بتایا کہ بلوچستان میں 15719 دیہات ہیں 73% کو پی ایچ ای کی جانب سے یعنی 11000 دیہاتوں کو محفوظ اور صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور 4719 دیہاتوں کو ہم نے 2030 تک پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔ جب ہم پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا پیمانہ عالمی ادارہ صحت کا ہے کہ روزانہ فی کس کم از کم 30 گیلن صاف پانی مہیا کیا جائے، بلوچستان کے دیہی اور شہری آبادی کو یومیہ فی کس 10 سے13 گیلن پانی ملتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اسلام آباد 45 گیلن فی کس روزانہ اور کراچی، فیصل آباد اور لاہور کو30 گیلن پانی فی کس روزانہ ملتا ہے اس وقت کوئٹہ میں فی کس 10 سے13 گیلن روزانہ پانی میسر ہے۔

30 لاکھ آبادی کے شہر کوئٹہ کی پانی کی ضرورت 48 ملین گیلن روزانہ سالانہ 5% اضافے کے ساتھ ہے، بلوچستان میں پانی کی قلت ہمیشہ سے رہی ہے، بلوچستان میں پانی کی قلت کے اسباب میں صوبے کے جغرافیائی مقام،کم اوسط بارش سالانہ، جغرافیائی ماحولیاتی کردار، علاقائی موسمیاتی عمل،گلو بل وارمنگ کلائمیٹ چینج اور ان کے اثرات جو خشک سالی اور سیلاب اور سطح سمندر میں اضافہ، باربار کی قدرتی آفات خشک سالی، زلزلے اور سیلاب، پانی کی غیرمعیاری مینجمنٹ، زیر ِزمین پانی کی پمپنگ، پانی کے لیے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد میں کمزوری،آبادی میں تیز رفتاری سے اضافہ اور ایک اہم سبب عوام میں پانی کے استعمال میں شعور نہ ہونا ہے۔

بلوچستان کے جن اضلاع میں پانی کی قلت ہے ان میں ضلع گوادر میں گوادر، پسنی اور جیوانی، ضلع لسبیلہ میں حب اور گڈانی ٹائون، ضلع کچھی میں بھاگ، ضلع چاغی میں نوکنڈی ، ضلع مستونگ میں مستونگ شہر، لو رالائی شہر اور ڈیرہ بگٹی میں سوئی شامل ہیں۔ پانی کی فراہمی کے ساتھ معیاری پانی کی ضرورت بھی بہت اہم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہمارے ہاں پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں پر سالانہ 14 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں یونیسف کے مطابق ہسپتالوں کے 40% بستر پانی سے ہونے والی بیماریوں کے مریضوں کے استعمال میں ہیں، یو نیسف ہی کے مطابق ہمارے ہاں 33% اموات ہیپا ٹاٹس ، ٹائیفائیڈ، ہیضہ اوردستوں سے ہوتی ہیں جو غیر معیاری پانی کے استعمال کی وجہ سے ہو تی ہیں۔

2012 ء کے حکومت بلوچستان کے قواعد وضوابط کے مطابق پبلک ہیلتھ انجینئرنگ بلوچستان میں پینے کے پانی کی فراہمی اس کے معیار کی بہتری کے فرائض انجام دے رہا ہے اور ان تمام امور میںمحکمے کی واٹر سپلائی اسکیموں پر عملدرآمد اور نگرانی، پینے کے صاف پانی کی سہولت عوام تک پہنچانا، پینے کے صاف پانی کے ذرائع کی تعمیر و ترقی،گھروں تک پائپ لائن کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی، واٹر فلٹریش پلانٹوں کی ڈیزائننگ اور تعمیر، پی ایچ ای کی جانب سے واٹر سپلائی اسکیموں کی تعمیر، پانی کے نرخوں کے لیے نو ٹیفیکیشن جاری کرتا ہے۔

چیف انجینئر جاوید احمد نے بلو چستان میں واٹر سپلائی اسکیموںکا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے بتا یا کہ 1970ء میں واٹر سپلائی اسکیموں کی تعداد صرف 18 تھی پھرصوبائی محکمہ آبپاشی کے تحت صوبے میں یعنی 1970 تا 1987 بڑھ کر یہ تعداد 285 ہوگئی، 1987 تا 1992میں پی ایچ ای کے زیر نگرانی تعداد 701 ہو گئی۔ 1997 تک یہ واٹر سپلائی اسکیمیں1407 تک پہنچ گئیں اور جون 2017 تک ہمارے صوبے میں پی ایچ ای کی واٹر سپلا ئی اسکیموں کی کل تعداد 3509 ہو گئی۔

اس وقت پی ایچ ای بلو چستان کی 73% آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کررہا ہے، جب کہ ہم نے 2025-2030 تک صوبے کی تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کر ناہے۔ پی ایچ ای کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا احوال کچھ اس طرح ہے کہ 1996ء میں 560.00 ملین روپے کی لاگت سے گوادر کے لیے آکرا کورڈیم مکمل ہوا،2002 میں 76.30 ملین روپے سے نوکنڈی واٹر سپلائی اسکیم تکمیل کو پہنچی، 2010 میں کچھی پلان فیز 1 ون 280.00 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا، 2014 ء میں بو نب دریا سے خاران شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کی اسکیم 118.00 ملین روپے سے مکمل کی گئی، اور 2015 سے2018 تک 500.00 ملین روپے کی لاگت سے کو ئٹہ، نوشکی ، لورالائی، قلعہ سیف اللہ ، لسبیلہ ،قلات، پنجگور اور موسیٰ خیل کو پینے کے صاف پانی کی بہتر سپلائی کے لیے 10 چھو ٹے ڈیمز تعمیر کئے گئے۔

جاوید احمد نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی پینے کے پانی کے ضرورت کے اعتبار سے صورتحال کا جائز ہ لیتے ہو ئے بتا یا کہ اس وقت شہر کی 25 لاکھ آبادی کے ضرورت 5 کروڑ گیلن پانی روزانہ ہے جبکہ ہم 3 کروڑ 20 لاکھ 10 ہزار گیلن پانی یومیہ فراہم کر رہے ہیں اور اس وقت پانی کی سپلائی میں روزانہ 1 کروڑ 80 لاکھ گیلن کی کمی ہے، اندازے کے مطابق 2030 تک کو ئٹہ شہر کی پینے کے صاف پانی کی طلب بڑھ کر 6 کروڑ 60 لاکھ گیلن روزانہ ہو گی اور 2050ء میں کوئٹہ شہر کو پینے کے صاف پانی کی ضرورت 9 کروڑ 40 لاکھ گیلن روزانہ ہو جائے گی۔

اس وقت اگر چہ پینے کے صاف پانی کی ضرورت تو تقریباً پورے بلو چستان کو ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سب سے تشویشناک صورتحال صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچستان میں ڈیپ سی پورٹ گوادر اور اس سے مربوط سی پیک پروگرام کے لحاظ سے گوادر شہر کی صورتحال بھی تشویشناک ہے اور یہ بلوچستان اور اس کے صوبائی محکمہ پی ایچ ای کے لیے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ کوئٹہ اور گوادر کے لیے کلیدی اقدامات کئے جا رہے ہیں جو فوری، درمیانی اور طویل مدت کے اعتبار سے ہیں۔

کو ئٹہ کے لیے فوری اقدامات میں چٹانوں کے نیچے بہت زیادہ گہرائی میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالنے کی اسٹڈی،کیو ڈبلیو ای ایس آئی پی پروجیکٹ کی تکمیل جس میں واٹر سپلائی اسکیموںکا نیٹ ورک قائم کرنا، پانی کے ذخائر کو پائیدار بنا نا، سبزل روڈ پر ٹریٹمنٹ پلانٹ ، محکمہ پی ایچ آئی اور واسا کی جاب سے 58 ڈرال کردہ ٹیوب ویلوں کی تکمیل، واٹر فلٹریش پلانٹوں کی یقین دہانی،درمیانی مدت کے اقدامات میںکو ئٹہ کے لیے منگی ڈیم کی تعمیر جس سے80 لاکھ گیلن پانی روزانہ کی سپلائی کی توقع ہے۔

سیوریج پلانٹ سمنگلی کا آغاز، باقی ماندہ واٹر سپلائی کی تکمیل اور سیوریج کا کام جو کیو ڈبلیو ایس ای آئی پروجیکٹ اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بلوچستان یونیورسٹی کی تکمیل،کو ئٹہ شہر میں مزید واٹر فلٹریشن پلانٹوں کا لگانا تاکہ شہر یوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی سپلا ئی کو یقینی بنایا جائے، واسا کے استعداد کار میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی سپلائی کو مزید بہتر بنایا جائے۔

کو ئٹہ شہر کو اس کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی ضرورت کے مطابق مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پانی کی فراہمی کو یقینی بنا نے کے لیے جو طویل مدتی منصوبے ہیں ان میںحلق ڈیم، برج ئے عزیز ڈیم اور ببر کچ ڈیم کی تعمیر اور ان سے پانی کی سپلائی کا نظام شامل ہے۔ ان تینوں ڈیموں سے کوئٹہ کو یومیہ 107 ملین گیلن پانی فراہم ہو گا، پٹ فیڈر نہر سے کو ئٹہ شہر دریائے سندھ کے پانی کی سپلائی کا منصوبہ اس سے کوئٹہ کو روزانہ00 6 ملین گیلن پانی فراہم کیا جائے گا، مستقبل کی ضرورت کے مطابق سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور فلٹریشن پلانٹ نصب کئے جائیں گے۔

پانی کو اسٹور کرنے کی اس کی تقسیم کے موجودہ نظام کو بتدریج اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق کیا جائے گا، پانی کے بلوں کی وصولی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کے نظام کو جدید کرتے ہوئے قابل عمل اور پائیدار بنایا جائے گا۔ اسی طرح گوادر سے متعلق جو منصوبہ بندی سامنے آئی ہے اس کے مطابق گوادر میں ایف ڈبلیو او کی جانب سے نصب کئے گئے۔ ڈی سالینیشن پلانٹ سے 8.85 روپے فی گیلن 20 لاکھ گیلن پانی یو میہ خریدا جا ئے گا

اسی طرح گوادر کے لیے یہاں چائنا اوور سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی سے 80 پیسے فی گیلن کے حساب سے یومیہ تین سے پانچ لاکھ گیلن پانی خرید ا جائے گا، 20 گیلن یومیہ پانی صاف کرنے کے کاروات پلانٹ کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے گا، جیوانی میں دودو لاکھ گیلن روزانہ سمندری پانی کو صاف کرنے کے پلانٹ نصب کئے جائیں گے۔ 2017-18 مالی سال کے پی ایس ڈی پی رکھے گئے۔

60 کروڑ روپے گوادر، جیوانی،کا پر، کلمت، سرکی اورماڑ ہ ، جی ڈی اے ہسپتال میں چھوٹے ڈی سالینیشن پلانٹ نصب ہوئے، ساواد کورڈیم سے گوادر تک پائپ لائن بچھائی گئی،گوادر کے لیے طویل مدتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میرانی ڈیم سے گوادر تک پانی لانے کے لیے پائپ لائن بچھائی گئی جس کے لیے مالی سال 2017-18 پی ایس ڈی پی میں یہ پروجیکٹ رکھا گیا تھا،گوادر ڈیویلمپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے یومیہ پچاس لاکھ گیلن نمکین پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ نصب کیا جائے گا،گوادر کو پینے کے پانی کی مزید سپلائی کے لیے شادی کور ڈیم کو پائپ لائن کے ذریعے موجودہ پائپ لائن جو ساواد ڈیم کی ہے اس سے ملا دیا جائے گا۔

محمکہ پی ایچ ای کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بلو چستان میں پینے کے پانی کی پالیسی، اسٹریٹجی اور ایکشن پلان تیارکر کے منظور کرا لیا ہے، بلو چستان ڈبلیو اے ایس ایچ سیکٹر پلان تیار کر کے پی اینڈ ڈی کو بھیج دیا ہے، لوگو ں کو پانی کے استعمال کے حوالے سے خود مختار بنا رہے ہیں اور ان میں اس کے لیے شعور بیدار کیا گیا ہے، ایم آئی ایس اور جی آئی ایس سسٹم بنایا، بلوں اور ان کی وصولی کے نظا م کو مستحکم کر رہے ہیں،2030 ء تک کے منصوبے کے مطابق بلوچستان میں ہر شخص تک پانی کی سہو لت پہنچانے کے لیے 22889 ملین روپے سالانہ درکار ہوں گے۔ پی ایچ ای کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

نمبر1 ۔ زیر ِ زمین پانی کے آرڈیننس پر موثر انداز میں عملدرآمد۔
نمبر2 ۔ زرعی مقاصد کے لیے ٹیوب ویلوں پر مکمل پابندی کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں۔
نمبر3 ۔ متبادل کے طور پر بلوچستان کے وہ علاقے جہاں سطح زمین پر پانی آتا ہے وہاں ڈیمز تعمیر کئے جائیں۔
نمبر4 ۔ زیرِ زمین پانی سے متعلق پوری طرح ریسرچ کی بنیاد پر پانی کے وسائل کی معلومات اور اعداد وشمار اکھٹے کر کے ایک موثر پلان کے تحت زیر ِ زمین پانی کی سطح کو کنٹرول کیا جائے۔
نمبر5 ۔ استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے تا کہ زیر ِزمین پانی کے ذخائر اور بیسن پر دبائو کو کم کیا جاسکے۔
نمبر 6 ۔ پانی کے امور سے متعلق تمام شعبوں ، اداروں ، عہدیداروں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار کمیشن قائم کیا جائے جو صورتحال کی مانیٹرینگ کرے ۔ نمبر 7 ۔ ’’انٹی گریٹڈ واٹر ریسور مینجمنٹ‘‘ پانی کے تمام وسائل کو مر بوط کرتے ہوئے یہ کیا جائے کہ جو ڈیمز زرعی مقاصد اور آبپاشی کے لیے بنائے گئے ہیں اور جہاں یہ واقع ہیں یہ ڈیمز اس پورے علاقے کو لوگوں پینے کا پانی بھی فراہم کریں۔

پانی سے متعلق امور کے ماہر ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے پاس اب وقت بہت کم ہے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کب تک اس صورتحال کو چلائیں گے؟ اب فوری طور پر سیاسی قوت ِفیصلہ کی ضرورت ہے، 40 سال قبل تک یعنی میرے دادا تک کی نسلوں نے ہمارے لیے ہزاروں سال سے پا نی کی حفاظت کی لیکن ہم نے کا ریز سسٹم تباہ کردیا۔

ٹیوب ویل ٹیکنا لوجی استعمال کی۔ 2006 میں ورلڈ بنک کی ایک اسٹیڈی سے انکشاف ہوا کہ ہم نے چالیس برسوں میں زیر ِ زمین جو پانی استعمال کیا ہے اس کی سطح کو دوبارہ بحال کرنے میں اب صدیاں درکار ہوں نگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ملک کے رقبے کا 43% ہے، ہر چار سال بعد سیلابی پانی وافر مقدر میں آتا ہے، اس کو ڈیمز میں جھیلوں میں اسٹور کیا جا نا چاہیے، یہ تربیلا ڈیمز سے زیادہ ہے، جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ انہوں نے2006 کی پانی سے متعلق پالیسی کے حوالے سے بتایا کہ سیاسی حکومتیں بھلے تبدیل ہوں مگر پالیسی پر عملدر آمد مستقل مزاجی سے ہو۔ سیمینار کے دوسر ے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد ارشد تھے۔

انہوں نے کہا کہ کرہ ارض پر پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر چین، بھارت، پاکستان اور مشرق وسطی کو پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے جس کے لیے ریسرچ کی بنیاد پر واٹر مینجمنٹ کی فوری ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے اور کہیں اپنایا بھی گیا ہے۔ انہوں نے دنیا میں پانی کے محفوظ ذخائر گلیشیروں کے حوالے سے بتایا کہ خشک سالی، سیلاب دونوں ہی قدرتی آفات ہمارے سامنے ہیں اور ماضی قریب کے مقابلے میں ا ن کی شدت اور ان کے درمیان وفقے کا وقت یا مدت کم ہوتی جا رہی ہے، ساتھ ہی آبادی کا اضافہ ہے۔

اب صرف اور صرف ضرورت اس کی ہے کہ ریسرچ، نالج اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم سنجیدگی کے ساتھ فوراً پانی کے ان مسائل کو حل کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمدکریں، انہوں نے بتایا کہ ہم نے 2015 ء میںایس ڈی جی ایس دستخط کئے ہیں اور اس کو ہم نے پورا کرنا ہے اور مقررہ مدت تک اپنے تمام عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے انہوں نے سلام خان کے حوالے سے بلوچستان کی واٹر پالیسی کو اہم قرار دیا۔ محکمہ آبپاشی کے افتخارمیر کے مطابق اس وقت73% لوگوں کو صوبے میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی مدنظر رکھتے ہو ئے ہمیں 2030 ء تک پوری آبادی کو پینے کا پانی فراہم کر نا ہے۔

ورلڈ بنک کے تعاون سے ناڑی اور پورالی بیسن پروجیکٹ کی تفصیلات سے منسلک بعض ملازمین کو فنڈز کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے تنخواہیں بھی نہ مل سکیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ محکموں کے درمیان پانی کے مسائل کے حل کے لیے رابطو ں کو مستحکم کیا جائے۔ بلوچستان میں پینے کے پانی کے مسائل پر فوری اور بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ چالیس برسوں میں صوبائی حکومتوں نے بے تحاشہ ٹیو ب ویلوں کے لگانے اور ان پر سبسیڈی دی جس سے زیر زمین پانی کی پمپینگ کی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ اگر تمام ٹیوب ویل روک بھی دیئے جائیں تو کو ئٹہ شہر میں پانی کی جو سطح چالیس سال پہلے تھی اس کی بحالی میں 300 سال لگیں گے، اور اب پورے صوبے میں جہاں بجلی نہیں بھی ہے ۔

وہاں شمسی توانائی سے ٹیوب ویل نصب کئے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب حکومت کو اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر غیر مقبول فیصلے کرنے ہو نگے اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین پانی کے شعبے کے ماہرین سے ملیں ان سے مسئلے کی شدت اور اس کے ممکنہ حل سے متعلق معلومات حاصل کریں اور قانون سازی بھی کریں اور جو قوانین موجود ہیں ان پر عملمدرآمد کو یقینی بنائیں۔

The post ’بلوچستان‘ پانی کی بدترین قلت سے دوچار صوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.

1965ء کی جنگ کے گم نام ہیرو

$
0
0

zeeshan.baig@express.com.pk

گزشتہ دنوں سپاہی مقبول حسین اللہ کو پیارے ہو گئے۔ چالیس برس تک دشمن کی قید میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والے اس مرد مجاہد کی مادر وطن کے لئے دی گئی لازوال قربانی نے تمام اہل وطن کے سر فخر سے بلند کر دیے اور دلوں میں یہ ولولہ تازہ کر دیا کہ جب کبھی بھی وطن عزیز کو ہماری ضرورت پڑی، ہم اپنی جان اس پر نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یوں تو افواج پاکستان کے جیالے فرزندوں کے کارہائے نمایاں سب پے عیاں ہیں، پر بہت سے صف شکن ایسے بھی ہیں جن کے معرکوں کے بارے میں کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ سو، آج آپ کو کچھ ایسے ہی تاریخ ساز کرداروں کے متعلق بتاتے ہیں جن کی جوانمردی کا اعتراف خود دشمن نے کیا۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ پہلی مکمل لڑائی تھی۔ بھارتی منصوبہ ساز چھ ستمبر کی رات پاکستان پر حملہ کا منصوبہ طے کرچکے تھے۔ اسی دوران بھارتی فوج کے پیش بند جاسوس شالامار باغ تک گھوم کر واپس جارہے تھے اور واپس جاکر انہوں نے اپنے کمانڈروں کو صورتحال سے آگاہ کیا جو کافی خوشگوار تھی۔

پاکستانی فوج بیرکوں میں موجود تھی اور چھ ستمبر کی علی الصبح کیا جانے والا حملہ یقینی طور پر کامیابی کی طرف گامزن تھا۔ ایسے میں جمخانہ میں جشن فتح اور لاہور کا سویلین ایڈمنیسٹریٹر مقرر کرنا دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر میں صرف رات کے چند گھنٹے حائل تھے۔ چھ اور سات ستمبر بھارتیوں نے پْرزور کوشش کی بی آر بی عبور کرنے کی لیکن پاکستانی فوج اور فضائیہ کی مشترکہ کاوشوں نے انہیں ناکام بنا دیا۔ اس وقت جب پاکستانی فوج کی توجہ لاہور کے دفاع کی جانب مرکوز تھی، پہلا بھارتی بکتر بند ڈویڑن سیالکوٹ کے شمال مشرق میں چھاروا کے قریب مورچہ زن تھا۔

ان کا منصوبہ تھا کہ آٹھ ستمبر کو ایک بھرپور حملہ کرتے ہوئے وہ مرالہ لنک کینال پر قبضہ کرلیں گے اور پھر وہاں سے آگے کا راستہ بالکل آسان اور کسی بھی پاکستانی مزاحمت سے پاک تھا۔ اس منصوبہ کی کامیابی سے بھارتی فوج نہ صرف پاکستانی فوج کے عقب میں پہنچ جاتی بلکہ وہ اس کے بعد لاہور یا اسلام آباد کسی بھی طرف پیش قدمی کرسکتی تھی۔ مگر افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں نے دشمن کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے، اس کے دانت ایسے کھٹے کیے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔

کرنل نثار احمد خان

24 بریگیڈ کے کمانڈر، بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اپنی واحد ٹینک رجمنٹ 25 کیویلری کو7  ستمبر کی رات دو بجے پسرور پہنچنے کا حکم دیا اور آٹھ ستمبر کی صبح پانچ بجے تک 25 کیویلری کے تین میں سے دو سکواڈرن پسرور پہنچ چکے تھے۔

چھ بجے اطلاع ملی کہ دشمن نے تین ایف ایف، جسے چھاروا اور اس کے اردگرد کے علاقے کے دفاع کے لئے پھیلا کر تعینات کیا گیا تھا، کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس حملہ میں دشمن کے دو بریگیڈ حصہ لے رہے تھے اور تین ایف ایف کا ان کی اجتماعی قوت کے ساتھ کوئی جوڑ نہ تھا۔اس غیر متوقع اطلاع کے ملنے پر 24 بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے 25 کیویلری کے کمانڈر، کرنل نثاراحمد خان کو حکم دیا کہ وہ “کچھ کریں”۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ 25 کیویلری ایک نئی لیکن بہت اچھی ٹینک رجمنٹ تھی اور اس کے افسر اپنے کام کے ماہر تھے۔

کرنل نثار کو دشمن کی طاقت اور ارادوں کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ اس نازک وقت میں کرنل نثار نے ایک غیر متوقع قدم اٹھایا۔ بجائے اپنے ٹینکوں کو اکٹھا کرکے استعمال کرنے کے، انہوں نے اپنے تینوں سکواڈرن تھارووا سے چوبارہ تک ایک سیدھی لکیر میں پھیلا دئیے گویا ٹینکوں کی ایک دیوار ترتیب دے دی۔

ان کے مقابل بھارت کا پہلا آرمرڈ بریگیڈ تھا جس کے ہراول دستہ کے طور پر تین ٹینک رجمنٹیں اور ان کے ساتھ مدد کے لئے کم از کم ایک انفنٹری رجمنٹ حملہ آور تھیں۔ دن دس بجے 25 کیویلری کا ان رجمنٹوں سے سامنا ہوا اور پھر ایک بھارتی مؤرخ کے الفاظ میں “ہم نے لڑائی میں اس سے زیادہ ٹینک کھو دئیے جتنی 25 کیویلری کے ٹینکوں کی کل تعداد تھی۔” کرنل نثار کی اپنے سکواڈرن پھیلا کر استعمال کرنے کی چال اگرچہ انتہائی خطرناک تھی کہ اگر کوئی بھی سکواڈرن مکمل تباہ ہوجاتا تو دشمن کو روکنا ناممکن تھا لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اس روز دشمن نے جس جگہ سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی 25 کیویلری کے ٹینکوں کو اپنے مقابل موجود پایا۔

اس بات سے دشمن نے نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستانی ٹینکوں کی ایک کثیر تعداد اس جگہ کے دفاع کیلئے مقرر ہے اور اس روز شام تک بھارتیوں نے اپنا حملہ روک دیا۔ آنے والے دنوں میں خونریز لڑائیاں ہوئیں لیکن بھارتی آگے نہیں بڑھ سکے۔ ’بی بی سی‘ کے مطابق اس سب کچھ کا سہرا 25 کیویلری بالخصوص اس کے کمانڈر کرنل نثار احمد خان کو جاتا ہے جنہوں نے، جب پاکستان کی قسمت ایک باریک دھاگے سے بندھی ہوا میں معلق تھی، ایک غیر متوقع چال چل کر دشمن کی قوت فیصلہ کو جامد کردیا۔

ان کا یہ جرات مندانہ قدم پاکستان کو بچا گیا وگرنہ اگر اس روز دشمن کو آگے بڑھنے کا راستہ مل جاتا تو پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا کہ بہرحال دشمن کے قریباً تین سو کے قریب ٹینکوں کے مقابلہ میں ان کی ٹینکوں کی تعداد صرف پچاس تھی اور پسرور سے آگے میدان صاف تھا۔اس تناظر میں جنگی مؤرخین کا یہ کہنا غلط نہیں  کہ پاکستانی فوج نے جو کچھ ستمبر 1965ء میں کردکھایا، جنگوں کی تاریخ میں اس کا اعادہ بہت مشکل ہوگا۔

ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈلکوٹ

یہ جولائی 1940ء میں لدھیانہ کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے. ان کے والد کا نام ’پرسی مڈلکوٹ‘ اور والدہ کا نام ’ڈیزی مڈلکوٹ‘ تھا. جب پاکستان بنا تو انکا گھرانہ بھی ہجرت کر کے لاہور میں بس گیا. انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھونی ہائی سکول سے حاصل کی اور بعدازاں لارنس کالج گھوڑا گلی مری سے استفادہ کیا۔ انہوں نے 1954ء میں پاکستان ایئر فورس جوائن کی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں یہ کراچی کے PAF بیس مسرور میں F86 جہازوں کا ایک سکواڈرن کمانڈ کر رہے تھے.

اسی جنگ کی ایک رات بھارتی جہازوں نے کراچی پر بھرپور حملہ کیا. سکواڈرن لیڈر ’مڈلکوٹ‘ نے ایک F86 طیارے میں ٹیک آف کیا اور آناً فاناً دشمن کے دو طیارے مار گرائے. ان طیاروں کے دونوں بھارتی پائلٹ بھی مارے گئے. پوری جنگ کے دوران مڈلکوٹ نے ایسی بہادری کا مظاہرہ کیا کہ ان کے زیر کمان افسر اور جوان بھی ان کی دیکھا دیکھی شیروں کی طرح لڑے. جنگ کے اختتام پر انکی بہادری کے صلے میں انہیں ستارہ جراء ت سے نوازا گیا۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مڈلکوٹ اردن کے دورے پر تھے کہ جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا. انہوں نے حکومت سے اپنی فوراً واپسی کی درخواست کی جو مان لی گئی. انکی واپسی کے دوسرے ہی دن ان کو امرتسر ریڈار کو تباہ کرنے کا مشن دیا گیا، جس کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ناکارہ بنا دیا. اسی جنگ کے ایک مشن میں ونگ کمانڈر ’میرون لیزلی مڈلکوٹ‘ کو دشمن کے ایک جنوبی ہوئی اڈے پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا گیا. انہوں نے دشمن کے کئی جہاز زمین پر ہی تباہ کر دیئے. مگر جب واپس آ رہے تھے تو دو بھارتی MIG21 طیاروں نے انکا پیچھا کیا.

ان کی اپنی گولیاں ختم ہو چکی تھیں. دشمن کے دو میزائلوں سے تو انہوں اپنا دفاع کر لیا مگر ایک تیسرے میزائل کا، جو بھارتی پائلٹ فلائٹ لیفٹننٹ بھارت بھوشن سونی نے مارا تھا، شکار ہو گئے. بھارتی پائلٹ نے انھیں بحیرہ عرب کے سمندر میں اس علاقے میں چھتری سے چھلانگ لگاتے دیکھا جو شارک مچھلیوں سے بھرا پڑا تھا. انکی لاش کبھی نہیں ملی۔ وہ اکتیس سال کی بھرپور جوانی میں ہی وطن پہ نثار ہو گئے. جنگ کے بعد ان کی اس بے مثال بہادری پر انکو ایک اور ستارہ جراء ت سے نوازا گیا۔

پاکستان میں مذہبی تعصب اتنا زیادہ تو نہیں تاہم پھر بھی کبھی کبھار کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ ہی جاتا ہے. دونوں جنگوں کے درمیان ایک دن ان کی آٹھ سالہ بچی کو سکول کے ایک مسلمان بچے نے کچھ ایسے الفاظ کہے کہ “تم مسیحی نکل جاؤ ہمارے ملک سے”۔ بچی دل برداشتہ گھر آئی اور اپنے والدین کو ساری روداد سنائی. والدہ تو بپھر گئیں اور ملک ہی چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا. بچی کو تو ونگ کمانڈر مڈلکوٹ نے کہا کہ ایسے لوگوں کو معاف کر دیا کرو. یہ جاہل ہوتے ہیں. اور اپنی بیوی سے یہ تاریخی الفاظ کہے:

“بیگم میری بات غور سے سنو. یہ میرا ملک ہے. میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں دفن ہیں یہاں. میں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اس ملک کے دفاع میں لگا دیا ہے اور شاید ایک دن اپنی جان بھی دے دوں گا اس ملک کے لئے. آیندہ میں آپ کے منہ سے ایسے الفاظ کبھی نہ سنوں.”

ہمارے مسیحی ہیرو ونگ کمانڈر میرون لیزلی مڈلکوٹ کو سلام ہے۔

ایٹ پاس چارلی

یہ ایک ایسے لیجنڈ پاکستانی بمبار پائلٹ کی داستان ہے جو ایک ہیرو تو بنا لیکن آج تک کوئی اس کا نام نہ جان سکا اور یہ ہیرو تاریخ میں گمنامی میں ہی دفن ہو گیا۔ پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے بی 57 بمبار طیاروں نے رات کے اندھیرے میں بھارتی ہوائی اڈوں پر ہلہ بول دیا۔ بمبار طیارے عام طور پر بہت بھاری بھرکم ہوتے ہیں اور وہ دشمن کی توپوں اور طیاروں سے بچنے کے لیے زیادہ پھرتی نہیں دکھا پاتے اس لیے ان کے حملے رات کے اندھیرے میں ہوتے اور یہ طیارے زمین کے پاس پاس ریڈار کی نگاہ سے بچ کر اڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچتے۔

ہدف پر پہنچ کر پائلٹ یکدم طیارہ اوپر کھینچ کر ہدف پر ڈائیو کرتے اور ایک ہی حملے میں اپنے تمام بم گراتے ہوئے دشمن کے ہشیار ہونے سے پہلے اس کی توپوں کی رینج سے باہر ہو جاتے۔ پاکستانی بی 57 طیارے 500 پاؤنڈ کے آٹھ بم لے کر جاتے تھے اور اسی طریقہ کو فالو کرتے ہوئے ایک ہی حملے میں آٹھوں بم گراتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن ایسے حملے میں لازمی نہیں ہوتا تھا کہ سارے بم ہی نشانے پر گریں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو بم ایک ہی ٹارگٹ پر جا گرتے۔ جس کی وجہ سے ایکوریسی کم رہتی تھی مگر یہ حملہ کرنے کا انتہائی محفوظ طریقہ تھا۔

لیکن بھارتیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جنگ کی پہلی رات آدم پور ائیر بیس پر ایک اکیلے بی 57 طیارے نے حملہ کیا۔ لیکن یہ طیارہ اور اس کے پائلٹ کوئی عام پائلٹ نہیں تھے۔ طیارہ پہلے غوطے میں آیا اور صرف ایک بم گرا کر آگے بڑھ گیا۔ بھارتیوں کا پہلا ری ایکشن یہی تھا کہ باقی بم کسی خرابی کی وجہ سے نہیں گر سکے۔ پر وہ ششدر رہ گئے جب بمبار طیارہ دوبارہ گھوم کر واپس آیا۔ اس نے پھر غوطہ لگایا اور ایک اور بم تاک کر ایک اور نشانے پر گرا کر آگے نکل گیا۔ اس دوران بھارتی طیارہ شکن توپوں نے ہوا میں گولیوں کا جال بن دیا تھا لیکن بمبار طیارے کے پائلٹ کو کوئی جلدی نہیں تھی نہ ہی اسے اپنی جان کا کوئی خوف تھا۔

وہ پھر واپس آیا ایک بم ایک اور نشانے پر انتہائی ایکوریسی سے گرایا اور آگے نکل گیا۔ یوں اس بمبار طیارے نے ہر ایک بم کو گرانے کے لیے الگ سے واپس آ کر غوطہ لگایا اور بم کو پورے غورو فکر کے ساتھ تاک کر نشانے پر پھینکا۔ اس طرح اس نے اپنی جان کو خطرے میں ضرور ڈالا تھا لیکن اس کے آٹھوں بم آٹھ انتہائی اہم ہدف تباہ کر چکے تھے یوں اس کی ایکوریسی 100 فیصد رہی تھی۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کی جانب سے اس بمبار پائلٹ کو ’’ایٹ پاس چارلی‘‘ ( 8 pass Charlie) کا نام دیا گیا۔ پوری جنگ کے دوران ’ایٹ پاس چارلی‘ مختلف اڈوں پر حملے کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ اکیلا آتا تھا اور پہلے بم کے ساتھ ہی وہ بھارتیوں کو کھلا چیلنج دیتا کہ میں نے ابھی سات چکر اور لگانے ہیں تم سے جو ہوتا ہے کر کے دیکھ لو اور یہ اس پائلٹ کی مہارت کی انتہا تھی کہ کبھی کسی طیارہ شکن گن کی گولی اسے چھو بھی نہیں پائی۔

دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایٹ پاس چارلی ایک انوکھا کام کیا کرتا تھا۔ اندھیری رات میں طیارہ تو دکھائی دیتا نہیں تھا تو دشمن کے توپچی طیارے کی آواز سن کر اندازہ لگاتے تھے کہ طیارہ کس جانب سے آ رہا ہے۔

ان توپچیوں کو پریشان کرنے کے لیے غوطہ لگاتے وقت ’چارلی‘ اپنے طیارے کا انجن بند کر دیتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے طیارے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا لیکن بھارتی توپچیوں کو طیارے کے پتہ اس وقت چلتا جب وہ بم گرا چکا ہوتا اور اس کے بعد وہ انجن آن کر کے پلک جھپکتے میں ان کی رینج سے باہر نکل چکا ہوتا تھا۔ ایک بھارتی پائلٹ ’’پیڈی ارل‘‘ (Earl Paddy) کے ایٹ پاس چارلی کے بارے میں الفاظ یہ ہیں ’’ میں اس پاکستانی بمبار پائلٹ کے لیے انتہائی عزت کے جذبات رکھتا ہوں جسے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرنا انتہائی پسند تھا۔ ایٹ پاس چارلی ایک لیجنڈ تھا، لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ چاند نکلنے کے ٹھیک 30 منٹ بعد اپنے ہدف پر پہنچ جاتا۔ عین اس وقت جب ہم اپنے پہلے جام ختم کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک اونچے ترین درجے کا انتہائی پروفیشنل پائلٹ تھا۔

اپنے حملے کی سمت چھپانے کے لیے وہ غوطہ لگانے سے پہلے انجن بند کر دیتا اور جب تک توپچی فائر کھولتے وہ پھٹتے گولوں کی چھتری سے نیچے آ چکا ہوتا تھا اور بم گرانے کے بعد وہ انجن کو فل پاوور پر کر کے گولیوں کی رینج سے باہر نکل جاتا‘‘۔ لیکن اپنے دشمنوں کی جانب سے ایٹ پاس چارلی کا نام پانے والا یہ پائلٹ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔

البتہ چند محققین کے خیال میں یہ جانباز ’پی اے ایف‘ کی ’’دی بینڈٹس‘‘ (The Bandits)نامی سکوارڈن نمبر  7کے سکوارڈن لیڈر الطاف شیخ تھے، جبکہ دوسروں کا اندازہ ہے کہ یہ سکوارڈن لیڈر نجیب اے خان یا پھر ونگ کمانڈر علوی اور ان کے نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ ایم علی شاہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ عظیم پائلٹ کون تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور یاد ہے کہ کوئی تھا جسے دشمن کا سکون برباد کرنے میں عجیب سا مزہ آتا تھا۔

صوبیدار ملک شیر باز خان

میرے بچپن کے دنوں کی بات ہے کہ ایک شخص جو بظاہر کوئی صوفیانہ روپ دھارے بڑے بڑے سفید بال، لمبی سی سفید داڑھی ہاتھوں میں عصا پکڑے اور جسم پہ درویشوں کی طرح ٹاکی لگے لباس، سر پہ درویشوں کی سی ہی ٹوپی پہنے، ہماری گلی سے گزر کر بازار کی جانب جاتے تھے جیسے ہی وہ بابا جی دور سے نظر آتے تو محلے کے تمام بچے ان کی جانب دوڑ پڑتے تھے اور بچوں میں دوڑ لگ جاتی کہ بابا جی کو پہلے کون سلام کرے گا۔ بابا جی تمام بچوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے انہیں پیار کرتے اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے کسی کو ٹافی، کسی کو بیر، کسی کو بسکٹ دیتے۔ یہ درویشانہ روپ دھارے شخصیت کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ ہمارے بیچ موجود ہمارے ایک قومی ہیرو ہیں جن کو ہم سب نے بھلا دیا۔ یہ صوبیدار ملک شیرباز خان ہیں جو کہ ’’میرے جنڈ‘‘ کے محلہ حسین آباد کے رہائشی ہیں اور آج کل کافی بیمار ہیں۔

صوبیدار ملک شیر باز خان یکم جون 1930ء کو تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب تقسیم ہند نہیں ہوئی تھی اور مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے۔ صوبیدار صاحب نے ابتدائی تعلیم SD ہائی سکول (سناتا دھرم) ہائی سکول جنڈ میں حاصل کی ۔ جنڈ ہائی سکول نمبر1 کا پرانا نام ’سناتا دھرم ہائی سکول‘ تھا اور اس وقت یہ ہندوؤں کے ایک قبیلے سناتمی کا پرائیویٹ سکول تھا، جہاں پر علاقہ ’’نرڑہ خوشحلاگڑھ، ناکبند علاقہ جندال‘‘ دور دراز سے لوگ تعلیم کے حصول کے لئے آتے۔ ملک شیر باز صاحب کے بقول اس وقت مسلمان اتنے ثروت مند نہیں تھے جبکہ ہندو اس وقت تاجر اور مالدار لوگ تھے، اس لئے مسلمان طلبہ کے تمام تعلیمی اخراجات ہندو تاجر اٹھاتے تھے۔

اسکول میں اس وقت اردو، ہندی اور فارسی زبان میں تعلیم دی جاتی۔ ملک شیرباز صاحب کے بقول اس وقت ہمارے ہیڈ ماسٹر پنڈت امرناتھ مجھ پہ خصوصی شفقت فرماتے اور وہ میرے پسندیدہ استاد تھے۔ ملک صاحب نے 1948ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان آرمی میں بطور کمیشنڈ آفیسر اپلائی کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد آپ آرمڈکور سنٹر نوشہرہ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے۔ ملک صاحب کے بقول ’’اگر میں چاہتا تو اس وقت تحصیلدار یاکسی اور عہدے پہ بھی بھرتی ہو سکتا تھا لیکن افواج پاکستان سے محبت کی وجہ سے آرمی کو ہی ترجیح دی‘‘۔ ملک صاحب نے بتایا کہ اس وقت کرنل سٹراوٹ ان کے آرمی انسٹرکٹر تھے۔ آپ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔

1954ء میں جب سپیشل سروسز گروپ بنا تو آپ اس میں شامل ہو گئے۔ چراٹ ٹریننگ سنٹر میں تربیت حاصل کی۔ 1962ء میں آپ نے کامرہ میں پیراشوٹ کے ذریعے جمپ لگانے کا مظاہرہ کیا۔ ملک شیر باز صاحب بتاتے ہیں کہ ’’جب 1965ء کی جنگ لگی تو ہم چراٹ میں تھے۔ ہمیں اطلاع ملی کے بھارت نے پاکستان پہ حملہ کر دیاہے۔ ہم 11 کمانڈوز تھے، جن کا گروپ بنایا گیا۔ میں اس گروپ کا سربراہ تھا۔ ہم کو 8ستمبر 1965ء کی رات انڈین پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے آدم پور ائیرپورٹ پہ پیراشوٹ کے ذریعے اتارا گیا اور ہم نے کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے جلد ہی ائیرپورٹ پہ قبضہ کر لیا اور بھارتی فضائیہ کے دو جہاز ناکارہ کر دئیے۔ ہم نے بھارتی فورسز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جنگ ختم ہونے تک ائیربیس پہ قبضہ کئے رکھا۔ جب جنگ بندی ہوئی تو ہمیں سرنڈر کرنے کو کہا گیا اور ہم نے گرفتاریاں پیش کر دی اور بھارت کے دارالحکومت نیو دہلی میں ہمیں قید کر دیا گیا۔

بعد میں جب قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو ہمیں اس میں رہائی ملی۔ جب ہم رہا ہو کر واپس آئے تو کوئی خاص پذیرائی تو نہیں کی گئی بس اتنا کہا گیا کہ ملک غریب ہے اور جنگ سے تباہ حال ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں، بس آپ کا اس اچھے اور بہادری کے کام پہ شکریہ ادا کرتے ہیں‘‘۔ ملک شیر باز صاحب بتاتے ہیں کہ ’’جب ہم چراٹ میں تھے تو سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کیڈٹ کے طور پر ہمارے پاس آئے ٹریننگ کے لیے، وہ بالکل نوجوانی کی عمر میں تھے‘‘۔ ملک شیرباز بتاتے ہیں کہ ’’پرویز مشرف 2 دفعہ چراٹ کے جنگلوں میں گم ہو گئے تھے اور اس کو میں خود ڈھونڈ کر لایا اور اس کے بعد سے ان کی جنرل مشرف کے ساتھ کافی عرصے تک دوستی رہی۔ مارشل لا کے بعد جب انہوں نے اپنے وفادار دوستوں کو مشاورت کے لیے بلایا تو ان میں مجھے بھی بلایا گیا‘‘۔ ملک شیرباز صاحب 1968ء میں آرمی سے ریٹائر ہو گئے لیکن اسکے باوجود آپ نے 1971ء کی جنگ میں قصور کے محاذ پہ اپنی خدمات پیش کیں۔

ملک شیرباز کے بقول جب وہ ملازم تھے اس وقت لوگ سادہ تھے، صاف نیت اور بہادر تھے، اب ویسے لوگ نہیں رہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ ان کے مطابق بہت قابل آرمی آفیسر رہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’اس وقت اور آج کی آرمی میں بہت فرق ہے۔ اس وقت وسائل کم اور لوگ مخلص تھے ‘‘۔ ملک شیر باز صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی کے مختلف شعبہ جات سے منسلک رہے اور ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ اس وقت بہت علیل ہیں اور گھر میں وقت گزارتے ہیں۔ انھیں اقبالیات سے بہت دلچسپی ہے اور انگریزی میگزین اور کتب کا مطالعہ کرتے وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے عظیم انسانوں سے نئی نسل کو متعارف کرایا جائے اور گورنمنٹ آف پاکستان ان کے لیے تمغہ جرأ ت کا اعلان کرے اور اس طرح کے کارناموں کو فوجی تاریخ اور نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔

(علی شیرازی)

The post 1965ء کی جنگ کے گم نام ہیرو appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی اور پیپلز پارٹی کا تیسرا دورِاقتدار

$
0
0

پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ لگ بھگ نصف صدی پر مشتمل اپنے سیاسی سفر میں اس جماعت نے جو نشیب و فراز دیکھے اور جس طرح سرد و گرم حالات کا سامنا کیا، وہ بلاشبہ اسی کا حصہ ہے۔

ایسے تجربات و حالات سے ملک کی دوسری کوئی سیاسی جماعت نہیں گزری۔ اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اس سے پہلے ملک کے سیاسی منظرنامے کا نہ صرف یہ کہ حصہ بن چکے تھے، بل کہ ایک ذہین اور بے حد متحرک سیاسی راہ نما کی حیثیت سے اپنی شناخت بھی حاصل کرچکے تھے۔ سیاست کے مرکزی دھارے میں اُن کی جگہ بن چکی تھی اور عوام میں اُن کے اثرورسوخ کا دائرہ بھی ایک حد تک قائم ہوچکا تھا۔

تاہم 1967ء میں جب انھوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اس کی عوامی رکنیت سازی کے لیے ملک کے طول و عرض کے دوروں پر نکلے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ جماعت اپنے بانی رہنما کی طرح عوام میں تیزی سے مقبول ہوتی چلی گئی اور پھر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ عوامی اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔

اس جماعت کی عوامی پذیرائی میں یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کی شعلہ بار اور ولولہ انگیز تقریروں نے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ ان تقریروں میں بھٹو نے ایک نعرہ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا بھی دیا تھا۔ یہی وہ نعرہ تھا جس نے انھیں عوام کا ہر دل عزیز سیاسی رہنما بنایا تھا۔ اپنی حکومت کے قیام کے بعد بھٹو اس نعرے کو کسی حد تک حقیقت کا روپ دے سکے؟ یہ ایک الگ سوال ہے، ایک ایسا سوال جس کا جواب بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے قطعاً خوش گوار نہیں ہوسکتا۔ تاہم بھٹو کے لیے نرم گوشے کی گنجائش کے کئی ایک پہلو نکلتے ہیں جو اُن کی انفرادی اور جماعتی ساکھ کو سہارا دے سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر یہی کہ انھیں عوامی مینڈیٹ تو بے شک ملا، لیکن اُن کی حکومت کو کئی ایک بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اتحاد کی صورت میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران تو آخر اُن کی حکومت کو ہی نہیں لے ڈوبا، بل کہ خود بھٹو کی زندگی کے خاتمے کا سبب بھی بنا۔ اُن کے بااعتماد فوجی جنرل ضیاء الحق نے ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور انھیں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔

بھٹو کی سزائے موت سے کچھ عرصہ پہلے سرکاری اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے اُن کی کردارکشی کی بھرپور مہم چلائی گئی جو اُن کی موت کے بعد بھی کچھ عرصہ جاری رہی۔ ظاہر ہے، اس کا مقصد بھٹو کی عوامی مقبولیت اور پیپلزپارٹی کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت ایک حد تک اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی نظر آئی، لیکن اس کامیابی کا دورانیہ محض چند برس ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو کی اہلیہ اور بچے ملک سے باہر تھے۔

اسے ایک طرح سے جلاوطنی کا زمانہ بھی کہا جاسکتا ہے، جس میں حکومتی ایما اور اس خاندان کی ذاتی منشا دونوں ہی کا دخل تھا۔ بہرحال چند برس بعد بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو جب ملک میں واپس آئیں تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے جس طرح ان کا استقبال کیا، اسی سے یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ اس پارٹی کی جڑیں عوام میں پوری طرح باقی ہیں، بل کہ مزید گہری اور مضبوط ہوئی ہیں۔ دیکھنے والوں نے پھر اس کے بعد کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پیپلزپارٹی 1988ء کے انتخابات کے بعد کس درجہ سہولت سے اقتدار میں آگئی۔ یہ الگ بات کہ اس کے بعد بھی اس جماعت کے خلاف سیاسی سازشوں کا جال بنا جاتا رہا اور بہت کچھ ہوا۔ خیر، اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ لکھنا مقصود نہیں ہے۔ صرف اس امر کی نشان دہی کرنی تھی کہ سارے حالات گزارنے کے باوجود یہ جماعت اب بھی اپنا ایک عوامی رسوخ رکھتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس نے اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی پھر اضافہ کیا ہے۔ اس سے پہلے سینٹ کے الیکشن میں بھی اس کی برتری کا نقشہ بہت نمایاں تھا۔ آج اسے ملک کی سب سے بڑی جماعت تو خیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اس کے سیاسی وجود کی نفی بھی کسی طرح ممکن نہیں ہے۔

سندھ میں یہ تیسرا مسلسل دورانیہ ہے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے پورے طمطراق کے ساتھ حکومت بنائی ہے۔ گذشتہ دو ادوار میں تو اُس کے سامنے ایم کیو ایم کی صورت میں ایک حزبِ اختلاف بھی تھی۔ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے عوامی مینڈیٹ کی طاقت کے بل بوتے پر ایم کیو ایم ایک اچھی خاصی منہ زور اپوزیشن تھی۔ تاہم جس طرح یہ کچھ عرصہ پہلے مسائل سے دوچار ہوکر دھڑوں میں تقسیم ہوئی ہے، اس کی اثرانداز ہونے والی طاقت زائل ہوکر رہ گئی ہے۔ گویا اس بار سندھ میں پیپلزپارٹی من مانے اقتدار کی حامل ہے۔ پی ٹی آئی والے اس بار مرکز میں تو ضرور حکومت بناکر بیٹھے ہیں، لیکن صوبہ سندھ میں کسی مؤثر اپوزیشن کی حیثیت نہیں رکھتے، حتیٰ کہ ایم کیو ایم یا کسی اور کے ساتھ اتحاد کرنے کے باوجود بھی۔ یوں اس بار پیپلزپارٹی سندھ میں بہت مستحکم حیثیت رکھتی ہے۔

اس بار، یعنی 2018ء کے الیکشن میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنے عوامی جلسوں میں جو نعرے لگوائے، اُن میں وہی پرانا ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ والا نعرہ بھی شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کی وہ گونج محسوس نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ یہ گونج آخری بار کسی حد تک بینظیر کے جلسوں میں سنی گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا نہ ہوسکا۔ اس لیے نہ ہوسکا کہ نعرے محض چند الفاظ سے اپنی گونج پیدا نہیں کرتے، بلکہ اُس یقین کی قوت سے کرتے ہیں جو ایک طرف پارٹی لیڈر کے بیان میں ہوتی ہے اور دوسری وہ اعتبار کی صورت میں عوام کے دھڑکتے ہوئے دلوں میں۔ بینظیر کے بعد پیپلزپارٹی نے محض عوامی جذباتی ہم دردی کے کھاتے میں حکومت حاصل کی تھی ورنہ یہ بات اُس کے بے نوا کارکن سے لے کر ایک عام سے ووٹر تک سب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اب پارٹی میں کوئی ایسا سیاسی راہ نما نہیں جو عوامی مقبولیت رکھتا ہو۔

سوال یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کسے کہتے ہیں اور یہ کس طرح ملتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے، عوامی مقبولیت اس اعتبار کو کہتے ہیں جو لوگ اپنے سیاسی راہ نما کی شخصیت پر رکھتے ہیں، اور اس کو حاصل کرنا بہ یک وقت بہت آسان بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ آسان اس طرح کہ دو چار یا پچاس سو نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگ آناً فاناً اپنے رہنما پر اعتبار کرنے لگتے ہیں اور مشکل اس طرح کہ ایک شخص کے قریبی لوگ بھی زبان سے چاہے اُس کے بارے میں جو کہیں، مگر دل سے اُس پر اعتبار نہیں کرتے۔

خیر، اگر عوام نے گذشتہ ایک دہائی کے عرصے میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس اعتبار کا مستحق نہیں جانا جو بھٹو یا اُن کی بیٹی کے حصے میں آیا تھا تو خود اس جماعت کی موجودہ قیادت نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ عوام نے جو رائے اختیار کی، وہ غلط نہیں تھی۔ گزشتہ دس برس میں سندھ میں صوبائی حکومت کے مکمل اختیارات پیپلزپارٹی کے پاس تھے۔ دیکھا جانا چاہیے کہ اس عرصے میں اس کی کارکردگی کیا رہی؟ عوامی فلاح و بہبود کے کتنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا؟

کیا کیا ترقیاتی کام ہوئے؟ وقت کے تبدیل ہوتے ہوئے تقاضوں کو کتنا یپشِ نظر رکھا گیا اور ان کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے سلسلے میں کیا اقدامات کیے گئے؟ امن و امان کے بارے میں حکومت کا رویہ کیا رہا اور اُس کے حقیقی مظاہر کس طرح سامنے آئے؟ صوبے کے اہم شہروں (جن میں کراچی سرِفہرست ہے) کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور مسائل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے اور آنے والے دنوں کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ اگر صرف ان چند ایک سامنے کے سوالوں کو بھی پیشِ نظر رکھ کر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت و اختیارات کے گزشتہ دو ادوار کا جائزہ لیا جائے تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ایسا نہیں ملتا جو پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی قیادت کے لیے عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوسکے یا اُن کے دلوں میں جگہ بناکر دے سکے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ اخبارات میں اور الیکٹرونک میڈیا پر ایک بار نہیں، متعدد بار ایسی رپورٹس آچکی ہیں جن کے ذریعے یہ حقیقت عام آدمی تک بھی کھلے لفظوں میں پہنچ چکی ہے کہ خاص طور سے اسکول اور کالج کی سطح تک کے ادارے تو ہول ناک زبوں حالی کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جن میں گھوسٹ، یعنی جعلی بھرتیاں ہوئیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بدستور جاری ہیں۔

اندرونِ سندھ کا حال تو بہت ہی دگرگوں ہے۔ ادارے کی عمارتیں لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہیں، کہیں وڈیرا شاہی بدمعاشوں کے ڈیرے ہیں اور کہیں اصطبل اور باڑے بنالیے گئے ہیں۔ خود کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں جو کالج ہیں، ان کی حالت افسوس ناک ہے۔ عملہ اور اساتذہ میں ذمے دار اور دیانت دار مزاج کے لوگ فرائض کی انجام دہی کے لیے جاتے بھی ہیں تو خالی وقت گزار کر گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں۔ اگر کہیں کچھ طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے بھی ہیں تو حالات انھیں جلد مایوس کردیتے ہیں۔تجربہ گاہوں میں ضرورت کا سامان نہیں ہے۔ کیسا نظم و ضبط اور کیا اہتمامِ درس و تدریس۔ اس پر طرہ یہ کہ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال اور سو طرح کے گل کھلاتا نظر آتا ہے۔

اِدھر صحت کا معاملہ دیکھیے تو یقین ہی نہیں آتا کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں، وہ واقعی اکیس ویں صدی میں ایک آزاد ریاست کے صوبے اور شہروں کے ہیں، جہاں خود اُس صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اقتدار سنبھالے ہوئے بیٹھی ہے۔ سندھ کے کتنے علاقے ایسے ہیں جہاں پچاس کلو میٹر کے علاقے میں ایک اسپتال نہیں ہے۔ جہاں ڈسپنسری ہے، وہاں ہنگامی حالات کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے عملہ ہے نہ ادویات۔ پہلی زچگی کے لیے نکلی ہوئی کتنی ہی جوان بچیاں اور ان کی کوکھ میں بچے ابتدائی طبّی امداد ملنے سے پہلے موت کے گھاٹ جا اترتے ہیں۔ ان میں ایسی بھی کتنی بچیاں ہیں کہ عذاب جھیلتی کسی جگہ پہنچ جائیں اور زندہ بچ بھی جائیں تو ایسی بیماریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہوتی ہیں کہ پھر اس کے بعد کی زندگی خود موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔

ترقیاتی منصوبوں کا حال جاننا ہو تو سکھر، نواب شاہ اور لاڑکانہ جیسے شہروں کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ عوامی خوش حالی اور قومی ترقی کے دعوے کیا رہے ہیں اور حقیقتِ حال کیا ہے۔ چلیے اور سب شہروں کو چھوڑیے، صرف کراچی کو دیکھ لیجیے۔ پوری ایک دہائی کی حکومت میں پیپلزپارٹی کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے کراچی کی چند سڑکوں کو کشادہ کیا یا پھر نیا بنوایا ہے— صرف چند سڑکوں کو۔ باقی آدھے سے زیادہ شہر ادھڑا ہوا ہے جس کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ سیوریج کا وہی پرانا نظام چل رہا ہے جس میں آئے دن مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گٹر کا گندہ پانی ابل کر گلیوں میں اور سڑکوں پر پھیلتا ہے اور پھر کئی کئی دن پھیلا رہتا ہے۔

الیکٹرونک میڈیا اگر شور نہ مچائے، اخبارات میں بار بار رپورٹ نہ آئے، کالم نہ لکھے جائیں تو عین ممکن ہے کہ یہ کام دنوں نہیں مہینوں کے لیے عوامی اذیت کا سامان بن جائے۔ میڈیا کا شور بھی کچھ علاقوں کے حق میں نیک فال بن پاتا ہے، ورنہ شہر کے کتنے علاقے، مثلاً ملیر، کورنگی، اورنگی، نئی آبادی، نئی کراچی، لیاقت آباد، جہانگیرآباد اور لیاری جیسے کتنے علاقے ایسے ہیں کہ جہاں اگر ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر مہینوں کے لیے اس جگہ کے باسی اس کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔

پینے کا پانی کراچی کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس سے پس ماندہ علاقوں کے افراد سے لے کر اعلیٰ طبقات تک سب ہی اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سطح پر متأثر ہوتے ہیں۔ لیاری سے لے کر ڈیفنس تک صاف پینے کے پانی کی دستیابی ایک مسئلہ ہے۔ کے-4 کا منصوبہ کراچی کے باسیوں کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کب سے چل رہا ہے، لیکن خدا جانے کس سمت میں اور کس رفتار سے چل رہا ہے کہ تکمیل کے مرحلے تک پہنچتا ہی نہیں دکھائی دیتا۔ لیاری، کورنگی اور نئی آبادی کے مکین آئے دن احتجاج کرتے ہیں اور روزمرہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن اقتدار سے وابستہ افراد تک کوئی آواز نہیں پہنچ پاتی۔ بے حسی اور بے نیازی کا شرم ناک منظر مسلسل قائم ہے۔

امن و امان کی صورتِ حال رینجرز کے آپریشن کے بعد قدرے بہتر اور اطمینان بخش معلوم ہونے لگی تھی۔ اب پھر وہی سب کچھ روز ہونے لگا ہے۔ چند دن میں سو سے زیادہ بچوں کے اغوا کی خبریں آئی ہیں۔ گلی محلوں میں لوٹ مار کا بازار پھر سے گرم ہوچکا ہے۔ گھروں میں ڈاکے پھر سے زیادہ پڑنے لگے ہیں۔ سندھ پولیس کے آئی جی نئے ہیں، وہ ایک روز ابھی ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ عوام کے جان مال کی حفاظت کی ذمے داری اوّلین ترجیح ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کیسا ترجیحی نظام ہے کہ جس میں بیانات تو سامنے آتے ہیں، لیکن عمل ندارد۔ آئی جی نئے ہیں، مگر وزیرِ اعلیٰ تو وہی پرانے ہیں جنھوں نے پچھلے دورِ اقتدار میں کراچی، بلکہ پورے سندھ میں ترقی، خوش حالی اور امن و امان کے لیے بڑے پرجوش عزائم کا اظہار کیا تھا۔ پچھلی بار انھیں قائم علی شاہ کو ہٹا کر لایا گیا تھا۔ چلیے وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ بہت کام تھے، بہت ذمے داریاں تھیں اور نظام بالکل بگڑا ہوا تھا۔ اسے سنبھالنے اور سنوارنے کے لیے وقت درکار تھا، اور پھر الیکشن کی تیاری بھی سر پر تھی، لیکن اب تو وہ اپنے اقتدار کے تسلسل میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کارکردگی میں ایسی کوتاہی کے لیے ان کے پاس اب کیا جواز ہوسکتا ہے؟

پیپلزپارٹی اگر واقعی اب بھی عوامی جماعت ہے، اگر سچ مچ عوام سے اپنے رشتے کا اسے کوئی لحاظ ہے، اگر وہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے سماجی حالات کو سمجھنا ہوگا، زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا، عوام کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ وہ صرف نعروں پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُسے عمل سے اپنے وجود کو ثابت کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی باقی ساری قیادت ایک طرف، لیکن بلاول زرداری کے سیاسی مستقبل کا انحصار ان کی جماعت کی حقیقی کارکردگی پر ہے۔ اگر بلاول زرداری اپنے نانا اور والدہ کے سیاسی جانشین ثابت ہونا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے سیاسی کردار کا حقیقی بنیادوں پر تعین کرنا ہوگا اور اپنی جماعت کو صرف نعروں پر نہیں، بلکہ عمل کے میدان میں فعال بنانا ہوگا۔

The post کراچی اور پیپلز پارٹی کا تیسرا دورِاقتدار appeared first on ایکسپریس اردو.

فنِ موسیقی؛ گلگت بلتستان کی موسیقی

$
0
0

موسیقی فنونِ لطیفہ کی ایک اہم صنف ہے اور اس کا تعلق اندرونی جذبات سے اتنا زیادہ ہے کہ یہ روح کی غذا کہلائی جاتی ہے۔ کسی بھی علاقے میں رہنے والے لوگوں کے مزاج کی عکاس وہاں کی موسیقی اور ثقافت ہوتی ہے۔

پاکستان کے شمال میں واقع ”گلگت بلتستان” کا جنتِ نظیر خِطہ اپنی دل کشی اور خوبصورتی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ بلندوبالا پہاڑوں سے گِھرا یہ خِطہ اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کی بلندیاں، دریائے سندھ، گلگت اور شِگر کا بہاؤ، سیاچن، بالتورو اور میشربروم کے ٹھنڈے گلیشیئر اور شاہراہِ قراقرم کی بل کھاتی ہوئی لکیر یہاں کے لوگوں کی فطرت اور ان کے ذوق پر زبردست اثر رکھتی ہے۔

یہاں کی تاریخ کی طرح یہاں کی ثقافت بھی انتہائی زرخیز ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتی ہے۔ اس علاقے کے مسحورکُن مناظر اور بدلتی رُتوں نے یہاں کے لوگوں کے ”ذوقِ جمال” کو جِلا بخشی ہے اور فطرت سے ان کی محبت یہاں کی شاعری، موسیقی، رسم ورواج، ادب اور رقص میں بھی جھلکتی ہے۔

گلگت بلتستان کی موسیقی اور روایتی دھنیں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی موسیقی اور دھنوں سے بالکل مختلف ہیں۔ روایتی ناچ سے لی کر مقامی زبان میں غزل، گانے اور شاعری کے اندر، علاقائی تہذیب اور روایات کے علاوہ اخلاقی پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہاں کی بعض رسومات ایسی ہیں جن کا ذکر موسیقی کے بغیر ادھورا ہے جن میں ایک مشہور رسم ”تلینے” بھی شامل ہے (اسے بلتستان میں ”مے تسگ” اور ہُنزہ میں ”تھوموشنگ” کہا جاتا ہے)۔ اس کے علاوہ ”گنانی” کا تہوار بھی سازو سُر کے بنا ادھورا ہے۔

گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں کم وبیش چھے مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان تمام زبانوں میں شعروشاعری کے علاوہ غزل گائیکی کا رواج پرانے وقتوں سے موجود ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ جہاں کئی لاکھ کی آبادی میں انگریزی اور اردو کے علاوہ 6 مقامی زبانیں موجود ہیں وہیں ایک ایسی زبان بھی یے جسے سازندوں کی زبان کہا جاتا ہے۔ ہنزہ کے سازندے یہ زبان بولتے ہیں جسے ”ڈوماکی” کہا جاتا ہے۔

دل چسپ بات تو یہ ہے کہ یہاں ایک زبان کی دوسری زبان سے بالکل بھی مماثلت نہیں، لیکن موسیقی کی دھن پر ناچ میں سو فی صد یکسانیت ہے۔ اگر بلتستان کے بلتی بولنے والے اور گلگت شہر یا ہنزہ نگر کے بروشسکی بولنے والے روایتی دھنوں پر ناچیں گے تو ملک کے دوسرے صوبے یا علاقے سے آئے ہوئے مہمان بالکل بھی محسوس نہیں کر پائیں گے کہ یہاں ناچنے والوں کی زبان مختلف ہے۔ اسی طرح شِنا زبان (جو گلگت بلتستان کی سب سے بڑی زبان ہے) کی شاعری اور گائیکی کی دھن، بلتستان یا گوجال کے باسیوں کے لیے پرائی نہیں بلکہ دھن اور غزل کو وہ اسی طرح ہی محسوس کرتے ہیں جیسے شنا بولنے والے۔

ثقافت کی سنہری تاریخ سے مُزین اس کتاب کے صفحات اب رفتہ رفتہ پھیکے پڑتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ گلگت و ہُنزہ کی نئی نسل اپنی روایات کی امین نظر آتی ہے لیکن بلتستان کے بیشتر اضلاع سے (ماسوائے گانچھے) موسیقی، روایتی سازندے، قدیم دُھنیں اور آلاتِ موسیقی معدوم ہونے کے قریب ہیں، جو ہماری ثقافت کے لیے کسی نقصان سے کم نہیں۔ آئیے میٹھے چشموں کی اِس سرزمین کی میٹھی موسیقی، اس کے سازوں اور دُھنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ سرنائی : یہ اس علاقے کا ایک اہم ساز ہے جو شہنائی کی ہی ایک قسم ہے۔ خوبانی کی لکڑی سے بنے اس ساز میں آٹھ سوراخ ہوتے ہیں جن میں سات سوراخ اوپر اور ایک نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ اسے گلگت اور نگر سمیت بلتستان اور چِترال میں بھی بجایا جاتا ہے۔

2۔ ڈامل: طبلے سے مشابہہ یہ ساز دو چھوٹے ڈرمز پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں دو باریک لکڑیوں کی مدد سے بجایا جاتا ہے۔ اسے پیتل یا فولاد کے دو گول لمبے برتنوں پر چمڑا لگا کر تیار کیا جاتا ہے۔

3۔ رُباب: رُباب یہاں کا مشہور ترین ساز ہے جو مذہبی موسیقی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان میں بھی بجایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کی اِس ساز کا آبائی وطن وسط ایشیا ہے۔

رُباب کو شہتوت کی جڑ اور تنے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر چمڑا لگایا جاتا ہے اور اس میں 6 سے 12 تاریں لگائی جاتی ہیں۔ اس کا اوپری حصہ لمبا اور نیچے کا حصہ طنبورے کی طرح ہوتا ہے جس پر بہت سے تار ہوتے ہیں، اس کی دھن کانوں میں رس گھول کر سننے والوں کو مدہوش کردیتی ہے۔ ہُنزہ کے رباب چھوٹے جب کہ دیگر شمالی علاقوں کے بڑے ہوتے ہیں۔

4۔ چھردہ : اس ساز میں نیچے کا حصہ گول ہوتا ہے۔ تاروں سے بنے اس ساز میں تاروں کی تعداد اور حجم، رباب کے مُقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اسے بھی شہتوت کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے اور یہ صرف ہُنزہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔

5۔ ڈڈنگ:  جنگلی بید کی لکڑی سے بنے ڈھول نما ساز ”ڈڈنگ” کو بھی اس علاقے میں خاص مقام حاصل ہے۔ البتہ بلتستان میں یہ ہلکی قسم کا بنایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ساز کی آمد ایران سے ہوئی ہے لیکن کچھ محققین اسے کشمیر کا ساز قرار دیتے ہیں۔

6۔ توتیک: بانسری سے مشابہت رکھنے والے اس ساز کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ یہ اس لحاظ سے عام بانسری سے مختلف ہے کہ اس میں 6 کی بجائے 8 سوراخ ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ اس کے بہت شائق ہیں اور کئی افراد اسے ہمیشہ پاس رکھتے ہیں۔

7۔ دَف: ستار اور رباب کے ساتھ مقامی طور پر بنے ہوئے دف کا استعمال ہوتا ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے ذریعے اب سنکیانگ اور کاشغر سے بھی دف منگوائے جاتے ہیں۔

8۔ ڑغنی: اس خوب صورت ساز کا وطن بھی وسط ایشیا قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وائلن سے مشابہہ ہے اور اس میں اسٹیل کے تار لگے ہوتے ہیں۔ اسے لمبی چھڑی کی مدد سے بجایا جاتا ہے۔ شہتوت کی لکڑی سے تیار کردہ یہ ساز 3 روز میں تیار ہو جاتا ہے۔ یہ گلگت بلتستان کی ثقافت کا ایک انوکھا رنگ ہے۔

9۔ ستار:  مقامی انداز کا ستار اخروٹ اور شہتوت کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ نِچلا حصہ شہتوت جب کہ دستہ اخروٹ کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا استعمال دیگر سازوں کے مقابلے میں بہت بعد میں شروع ہوا۔

10۔ چترالی ستھار: چترالی ستھار کو کھوار آلاتِ موسیقی میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہ عام ستار سے چھوٹا ہوتا ہے اور آج بھی پاکستان کے ضلع چترال اور گلگت بلتستان میں دلچسپی سے سنا اور بجایا جاتا ہے۔ ستار بجانے والے کو ستھاری اور ساز کو ستھار کہا جاتا ہے۔

11۔ ڈڈنگ اور ڈامل: گلگت بلتستان میں دو الگ الگ سازوں ڈڈنگ اور ڈامل کو اکٹھے بجایا جاتا ہے۔ آپ اس کو ”دیسی بینڈ” بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ڈڈنگ ڈامل پہلے وقتوں میں جتنا مشہور تھا اب بھی اس کی پسندیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا البتہ اس کے استعمال میں تھوڑی سی کمی دیکھنے کو ضرور ملتی ہے۔ پہلے وقتوں میں شادی بیاہ سے لے کر کسی وی آئی پی کو خوش آمدید کہنے اور استقبال تک اسی ڈڈنگ ڈامل کا استعمال عام تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

جدید موسیقی کے دل دادہ نوجوان اس میں کم ہی دلچسپی رکھتے ہیں اب یہ ڈڈنگ ڈامل صرف پولو کے کھیل کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ ڈڈنگ ڈامل اور پولو کا چولی دامن کا ساتھ ہے ڈڈنگ ڈامل کچھ اس طرح سے لازم و ملزوم ہوگئے ہیں کہ ان دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر پنپنا بہت مشکل ہے۔ ان دونوں کا ساتھ دیکھ کر ہر کوئی آسانی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ جب تک پولو کا کھیل جاری ہے اس وقت تک ڈڈنگ ڈامل بھی ہمیں نظر آئے گا نہیں تو شاید اس کا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے جس طرح دوسرے روایتی آلہ جات کا ہوا ہے۔

یہ تو تھا اس علاقے کے چند مشہور سازوں کا مُختصر سا تعارف۔ اب چلتے ہیں یہاں کی مشہور دُھنوں کی طرف۔

1۔ بان چھوس: یہ دھن ایک مخصوص بانسری، ڈھول اور نقارے کے ساتھ بجائی جاتی ہے۔ یہ کاہنوں میں مخصوص ہے۔ اس میں ترتیب کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ترتیب گڑبڑ ہو جائے تو ساری دھن کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔

2۔ شعرا: بلتستان اور ہنزہ کا مشہور ترین کھیل پولو ہے۔ اس کھیل میں گول کرنے والا کھلاڑی کام یابی کا اظہار گھوڑا دوڑا کر اور گول چکر لگا کر کرتا ہے۔ اس موقع پر ایک دُھن بجائی جاتی ہے جسے ”شعرا ” کہا جاتا ہے۔ یہ دھن کھلاڑی کی فتح و کام رانی کے اظہار کے طور پر بجائی جاتی ہے۔

3۔ تاجور/ بختاور: یہ دونوں دُھنیں حکم رانوں اور امراء کے احترام اور ان کی خوشنودی کے لیے بجائی جاتی ہیں۔ تاجور نامی دھن راجا اور ولی عہد کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ چوںکہ اب یہ نظام موجود نہیں ہے، لہذا یہ دھنیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

4۔ بدھ چھوس: اس دھن پر بُدھ مزہب کے لوگ مذہبی تہواروں پر رقص کرتے ہیں۔ آج کل تفریحاً بجائی جاتی ہے۔ اس میں روحوں کی نقل اتار کر رقص کیا جاتا ہے۔

5۔ آبادکاروں کی دھنیں : کشمیر سے گلگت اور بلتستان آ کر آباد ہونے والوں کی بھی مخصوص دھنیں ہیں جن میں “کچھے چھوس” بہت اہم ہے۔ یہ لوگ بلتستان کی سرحد پر آباد ہیں۔

گلگت بلتستان کی موسیقی بھی اس خطے کی طرح اپنے اندر وُسعت، دل کشی اور فطرت کے اسرار و رموز لیے ہوئے ہے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اِن سازوں، دھنوں اور آلات کو محفوظ رکھنے کے لیے سرکاری سطح پر کوششیں ہونی چاہییں مگر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب اِس علاقے کے عوام کو ہی اپنے اس خوب صورت کلچر کا تحفظ کرنا ہوگا، ورنہ کل کو یہ ساز بھی عجائب گھروں کی زینت بن جائیں گے۔

The post فنِ موسیقی؛ گلگت بلتستان کی موسیقی appeared first on ایکسپریس اردو.

جب ہندوستان جاپان کے قبضے میں آتے آتے رہ گیا

$
0
0

کوہیما انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کا پہاڑی شہر اور ریاست کا دارالحکومت ہے جو ایک پہاڑی پشتے پر واقع ہے۔ یہ شمال مشرقی ہندوستان کے دوردراز پہاڑی اور بنجر خطے میں 5,000 فیٹ کی بلندی پر بڑی شان سے کھڑا ہے۔ اور آج کے جغرافیے میں یہ ریاست ناگا لینڈ میں واقع ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران اس خطے میں برما کے محاذ پر دنیا کی سب سے خوف ناک جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ وہ شہرۂ آفاق جنگ تھی جس نے ہندوستان پر جاپانی حملے کو بری طرح ناکام بنادیا تھا اور اس وجہ سے یہاں سے اس جنگ کا رخ مشرق بعید کی طرف ہوگیا تھا۔ دوسری اکثر جنگوں کی طرح جو جنوب مشرقی ایشیا میں لڑی گئی تھیں، کوہیما کی جنگ حیرت انگیز طور پر اکثر لوگوں اور اقوام کے لیے نامعلوم اور غیرمعروف رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں پوری کی پوری دنیا کی توجہ یورپ میں نازی جرمنی کی طرف تھی اور دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اسی سے نبرد آزما تھا۔ اس کے علاوہ یورپ پر اتحادی حملوں کے باعث بھی جنگ کوہیما کی طرف کسی نے خاص توجہ نہیں دی تھی جو اس وقت بھی جاری تھی جب دوسری عالمی جنگ نے پوری دنیا میں قیامت خیز تباہی مچادی تھی۔

اس دور میں منی پور اور ناگالینڈ کی دو شمال مشرقی ریاستیں جو اس وقت آسام کا حصہ تھیں، یہ دوسری جنگ عظیم میں بہت اہم محاذ تھیں اور جنہیں اس وقت برمی محاذ کہا جاتا تھا۔

اس خطے کے ناہموار، بنجر اور گھنے جنگلات میں ہندوستانی اور برطانوی افواج کے جاپانی فوجیوں کے خلاف کئی خوف ناک معرکے ہوئے جن میں سے ایک جنگ یہی جنگ کوہیما کہلاتی ہے جس میں جاپانی افواج کو شکست فاش ہوئی تھی، یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس نے ٹوکیو کو حد درجہ مایوس کیا اور اسی دوان ٹوکیو کے شاہی حکم رانوں کی قسمت بھی ان پر نامہربان رہی اور وہ جنوبی ایشیا میں حسب منشا کام یابیاں حاصل نہ کرسکے۔

کوہیما اس پہاڑی پشتے پر واقع ہے جو شمال اور جنوب کی طرف سیدھا چلا گیا ہے، اس پہاڑی پشتے پر ایک سڑک بھی بنی ہوئی ہے جو برطانوی سپلائی بیس واقع دیماپور تک جاتی ہے۔ یہ شمال میں دریائے برہم پتر کی وادی میں واقع ہے اور اس کے جنوب میں امفال واقع ہے اور مذکورہ سڑک اسی سے گزرتی ہے۔امفال سے یہ سڑک مزید جنوب کی طرف اور پھر وہاں سے برما کے اندر تک جاتی ہے۔

اصل میں یہ وہ راستہ تھا جہاں سے جاپانی برما کے راستے اندر گھس کر ہندوستان پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ اس پلان کو انہوں نے آپریشن U-Go کا نام دیا تھا اور اس کے پس پشت یہ خواہش کارفرما تھی کہ اس طرح ناگالینڈ کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے دیما پور کے میدانوں تک پہنچا جائے۔ اگر وہ ایک بار وہاں اپنا بیس کیمپ قائم کرلیتے تو وہ چین تک جانے والی اتحادی سپلائی کا راستہ منقطع کردیتے جس کے بعد ان کے لیے برطانوی ہندوستان پر حملہ کرنا بہت آسان ہوجاتا۔ اگر آپریشن U-Go کام یابی سے ہم کنار ہوجاتا تو اس کے بعد پورا انڈیا جاپانیوں کے سامنے ہوتا اور ان کے لیے اس پر قبضہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔

امفال اور کوہیما پر حملے کی ابتدا 1944 کے موسم بہار میں ہوئی۔ جاپان کی پندرھویں آرمی کی دو ڈویژن فوج نے جس کی قیادت جارح مزاج کمانڈر جنرل Renya Mutaguchi کے ہاتھ میں تھی، اس نے دریائے چنڈون کو عبور کیا اور امفال کی طرف پیش قدمی کی۔ ایک تھرڈ ڈویژن جس کی قیادت لیفٹننٹ جنرل ساتو کے ہاتھ میں تھی، کوہیما کی طرف بڑھنے لگا۔ برطانوی جانتے تھے کہ جاپانی کوہیما کی طرف جارہے ہیں مگر وہ مکمل معلومات حاصل نہ کرسکے، نہ تو وہ ان کی تعداد معلوم کرسکے، اور نہ ہی وہ اس ڈویژن کی رفتار کا اندازہ لگاسکے۔

ان کا خیال تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے جاپانی افواج لگ بھگ ناقابل رسائی ان گھنے جنگلات سے کسی بھی صورت نہیں گزر سکیں گی جنہوں نے کوہیما کے اطراف کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس لیے جب لیفٹننٹ جنرل ساتو اپنے 15,000 مضبوط اور توانا فوجیوں کے ساتھ اس نباتاتی خطے میں 4 اپریل کو پہنچا تو انہوں نے صرف 1,500 ناتجربہ کار آدمیوں کو اس پہاڑی شہر کی حفاظت کرتے پایا۔ چناں چہ جاپانیوں نے فوری طور پر کوہیما کو محاصرے میں لے لیا اور برطانویوں اور انڈین فوجیوں کو ان کی پوزیشنوں سے بھگانا شروع کردیا۔ وہ بے چارے حواس باختہ وہاں سے نکل کر ایک چھوٹی سی جگہ میں جمع ہونے لگے جو بہ مشکل ایک ٹینس کورٹ کے برابر تھی۔ یہ جگہ ڈپٹی کمشنر کے باغ میں واقع تھی جو مقابل افواج کو ایک دوسرے سے الگ کررہا تھا۔

یہ جگہ اتنی قریب تھی کہ فوجیوں نے ایک دوسرے پر گرینیڈ براہ راست ایک دوسرے کی خندقوں میں پھینک دیے تھے اور اس میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ گولے اور دوسرا گولا بارود اتنی سی جگہ میں بڑی آزادی سے استعمال ہورہا تھا جس کی وجہ سے ممنوعہ جگہوں پر بھی آگ کی بارش ہوتی رہی۔ یہ چھوٹی سی قیامت اتنی تیزی سے اور اتنی شدت سے جاری تھی کہ لوگوں کو اپنے پانی کے برتن اور گیلن تک بھرنے کا موقع نہیں مل پارہا تھا۔

ادھر ایک اور بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ میڈیکل کیمپس بھی جاپانی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آگئے تھے اور زخمی بے چارے اتنے پریشان تھے کہ بار بار اسی گولہ باری کی وجہ سے مسلسل مزید زخمی ہورہے تھے۔ طبی کیمپس میں بیٹھے ہوئے افراد جو مرہم پٹی اور علاج معالجے کے منتظر تھے، وہ بھی اس قیامت سے محفوظ نہیں رہ پارہے تھے۔

جب برٹش سکستھ بریگیڈ اس ساری تباہی کے دو ہفتے بعد مدد پہنچانے کے لیے اصل گیریسن میں پہنچی تو انہیں اس گیریسن کی حالت دیکھ کر خود ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس جنگ میں موجود ایک فوجی افسر کا کہنا تھا:’’وہاں موجود افراد سب کے سب نہایت لاغر اور عمر رسیدہ بلکہ برسوں کے بوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بری طرح زخمی تھے، ان کے لباس بھی مکمل طور پر خون آلود تھے، ان کے چہروں سے بے حد تھکن اور نقاہت ٹپک رہی تھی۔ ان کے پاس اگر کوئی واحد صاف چیز تھی تو وہ ان کے ہتھیار تھے۔ وہاں ہر طرف خون، پسینے اور موت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔‘‘

ایک ماہ سے بھی زیادہ مدت تک لڑی جانے والی اس لڑائی کے بعد برطانوی فوجیوں نے اس ٹینس کورٹ سے اوپر کی طرف چوٹی تک جانے کے لیے ایک راستہ کاٹ کر نکالا اور اس کے بعد ایک ٹینک کو گھسیٹتے ہوئے اوپر ڈھلوان پر لے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے صرف بیس گز کے فاصلے سے جاپانیوں کے بنکرز میں آگ کی برسات کرڈالی، اس جنگ کے بعد جب اس میدان جنگ کو دشمن سے پاک کردیا گیا تو ماضی کا حسین وجمیل ٹینس کورٹ ختم ہونے کے بعد ایک چھوٹے سے چوہے کے بل میں تبدیل ہوچکا تھا جس کے اطراف تباہی اور بربادی کے آثار تھے اور یہاں جگہ جگہ انسانوں کی نصف باقیات دکھائی دے رہی تھیں جو نصف زمین میں دھنسی ہوئی تھیں، بڑا ہول ناک منظر تھا یہ!

دو امریکی تاریخ دانوں ایلن ملٹ اور ولیم سن مورے نے لکھا تھا:’’دوسری جنگ عظیم میں کہیں بھی ایسی شدید قسم کی لڑائی نہیں لڑی گئی تھی جیسی مشرقی محاذ پر لڑی گئی تھی۔ اس دوران جس طرح کی بے رحمی اور شقی القلبی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔‘‘

جاپانی آکسیجن یا دوسری ضروری سپلائز کے بغیر اس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ پھر ان کے اپنے دماغوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا اور اس کا آخرکار نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی افواج نے انہیں بڑی آسانی سے کوہیما سے نکال باہر کیا۔

امفال کی جنگ چار ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی یعنی مارچ سے جولائی 1944تک، جب کہ کوہیما کی یہ معرکہ تین ماہ تک چلتا رہا یعنی اپریل سے جون 1944تک۔

امفال میں کوئی 55,000 کے قریب جاپانی فوجی اپنی جانوں سے گئے اور کوہیما میں 7,000 مارے گئے جن میں سے اکثر بھوک اور فاقہ کشی کے باعث ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ بیماریوں اور دم گھٹنے نے بھی یہ جانیں لیں۔

امفال میں برطانوی افواج کے 12,500فوجی زخمی ہوئے جب کہ کوہیما کی لڑائی میں4,000 مزید فوجی زخمی ہوئے۔ امفال اور کوہیما کے معرکوں میں جاپانیوں کو بہت بڑے بڑے نقصان اٹھانے پڑے جس کا بہت بڑا منفی اثر آنے والے وقتوں میں بھی اس خطے پر شدت سے پڑا۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ بعد کے برسوں میں اتحادیوں کو برما میں اپنا تسلط قائم کرنے میں بہت آسانی ہوگئی۔ امفال اور کوہیما کی شکست جاپانی تاریخ کی سب سے بڑی شکست قرار دی جاتی ہے۔

جاپانی کی Last Bid for Victory کے مصنف رابرٹ لی مین نے لکھا ہے:’’امفال کی جنگ کو جاپانی اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست سمجھتے ہیں جو 1944 میں انڈیا پر حملے کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ اس سے ہندوستانی فوجیوں کو اپنی جنگی صلاحیت اور مہارت کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ اس سے ہندوستانی فوجیوں کو یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے مشکل سے مشکل حالات میں کسی سے بھی نبرد آزما ہوکر اسے شکست سے دوچار کرسکتے ہیں۔‘‘

آج بھی کوہیما میں ایک جنگی قبرستان موجود ہے جس میں 1,400 سے زیادہ اتحادی فوجیوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں اور یہ سب جنگ کوہیما میں اپنی جانوں سے محروم ہوئے تھے۔ یہ جنگی قبرستان گیریسن پہاڑی کی ڈھلوان پر بنا ہوا ہے جہاں کبھی ڈپٹی کمشنر کا ٹینس کورٹ واقع تھا۔

The post جب ہندوستان جاپان کے قبضے میں آتے آتے رہ گیا appeared first on ایکسپریس اردو.


’وادی لیپا‘ اگر فردوس بر روئے زمیں است

$
0
0

پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج مظفرآباد (آزاد جموں و کشمیر)

مظفرآباد سے تاؤ بٹ اورمظفرآباد سے چکوٹھی کمان کدل : ہم زمین ناپ چکے لیکن عمر عزیز کے اڑتالیس برس، اللہ نے صحت اور سکون سے گزروا دیئے ہیں (اور یقین ہے کہ باقی برس بھی ایسے ہی گزریں گے) پر ہم بھی اتنے نالائق رہے کہ ’لیپا‘ کی محصور وادی کو نہ دیکھ سکے۔داؤکھن تک گئے اور واپس آگئے۔اس برس ’لیپا ‘کو دیکھنے کا ہم نے تہیہ کررکھا تھا۔قرعہ جولائی کے پہلے ہفتے کا نکلا اور ہم چار درویشوں (ڈاکٹر جاوید خان سربراہ شعبہ اردو آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی، میریوسف لیکچرر شعبہ اردوآزاد کشمیر یونیورسٹی، خاکسار اورمیزبان افضال عالم) نے پانچویں درویش(ڈرائیور) کے ہمراہ جمعہ 6جولائی کو بعد نماز جمعہ بوریا بستر باندھا (ویسے میں اس سے ماورا تھا کہ کچھ بھی ساتھ نہ لیا)اور مظفرآباد سے نکل پڑے۔

افضال اس سفر اور ’لیپا‘ میں ہمارا میزبان تھا۔ افضال شعبہ اردو جامعہ آزاد جموں وکشمیر کا دوسرا گولڈ میڈل طالب علم ہے۔ تحریکِ نفاذ اردو کی تحریک کو اس طرح کے یک سو قسم کے جوان ہی کامیابی کی منزل دکھا سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ کھانا ہم نے گڑھی دوپٹہ کے پاک کشمیر ہوٹل میں کھایا۔اس وقت حبس بہت زیادہ تھا۔ ہم دریائے جہلم کے کنارے کنارے چل پڑے۔نیلی کے پل پر پہنچے تو ایک سپاہی نے سفرکا مدعا اور منزل کا پوچھا۔ پہاڑی زبان نے مسئلہ حل کردیا کہ مقامی ہی ہیں۔ نیلی سے داؤکھن ہم پہاڑی سڑک کے ساتھ یوں چمٹ گئے جیسے خوف زدہ بچہ ماں کی چھاتی سے چمٹ جاتا ہے۔

ڈاکٹر خواجہ اشفاق کی ’شاریاں‘ اور پروفیسر قاضی ابراہیم صاحب کی لمنیاں کو پاٹتے ہم ریشیاں بازار میں داخل ہوئے اور ایک مقامی ہوٹل پر چائے نوش کی۔ ہمارے موبائل کام کرنا چھوڑچکے تھے کیونکہ ریشیاں سے آگے صرف پاک آرمی کے نیٹ ورک، ایس۔کام کی کہیں کہیں سروس ہے یا پھر آپ لینڈلائن سروس استعمال کرسکتے ہیں۔اس طرح اب ہمارا رابطہ ’دنیا‘ سے کٹ چکا تھا۔ویسے اس ’عذاب‘ کے بغیر بھی رہ کر دیکھنا چاہیے کہ کیسا لگتا ہے (ہمیں تو بہت اچھالگا)۔ ریشیاں بازار سے گزرے تو پاک آرمی کی پوسٹ پر روک کر ہمارے شناختی کارڈز کی پڑتال کی گئی کہ ’لیپا‘ ایک حساس بارڈر ہے (سیاحوں کو مشورہ ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر سفر نہ کریں)۔ وہاں ہمیںایک چٹ جاری کی گئی اور ہم براستہ داؤکھن’ لیپا‘ کے لیے چل پڑے۔راستہ خراب سے خراب تر ہوتا چلا گیا اور ہم سیاست کو کوستے، چلتے رہے۔

چیڑھ،کائل اور دیودار کے درختوں کے ساتھ ساتھ مقامی درختوں کودیکھتے اور جڑی بوٹیوں کا معائنہ کرتے انتہائی مقام شیر گلی پہنچے۔ نیچے وادیوں سے مقامی افراد اپنے اہل خانہ اور ڈھورڈنگروں کے ہمراہ ڈھوکوں میں آبسے تھے اور ویرانے آباد ہو چکے تھے۔اس گلی سے اب دوسری طرف وادی لیپا کی طرف اترنے کا مرحلہ شروع ہوا تو افضال نے یہ کہہ کر پریشان کردیا کہ آگے اٹھارہ موڑ ہیں جو اس بدترین سڑک کے ابھی طے کرنے ہیں۔ یہاں برف بہت پڑتی ہے اور مقامی افراد کو اللہ کے بعد، آرمی کا سہارا نہ ہو تو اس گلی کو سردیوں میں عبور کرکے ’لیپا‘ پہنچنا ممکن نہیں۔ برف باری کے دوران فوج، رسے لگا کرمقامی افراد کے لیے چلنا آسان بنادیتی ہے تاکہ کوئی راستہ بھٹک کر برف برد نہ ہوجائے۔ ہم دھیرے دھیرے موڑ کاٹتے رہے۔ دیودار کا جنگل گھنا ہوتا چلا گیا کہ حضرتِ انسان کی دست برد سے تاحال محفوظ تھا۔

ہرایک موڑ اتنا خطرناک تھا کہ کسی’درخت کی جھکی ٹہنیوں‘ کی ضرورت ہر راہی کو ہوتی ہوگی۔ ایک موڑ پر ہماری چٹ کو صرف دیکھا گیا اور دوموڑ نیچے وہ چٹ لے لی گئی۔ تھوڑا اور نیچے آرمی کیمپ سے گزرے اور اردو انگریزی میں لکھی تحریریں نظرآنے لگیں۔ بھلا ہو حضرتِ اقبال کا کہ ان کی شاعری سب کو مرغوب ہے (یہاں ہر سو ’’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘‘ جیسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں)۔ اس سے نیچے چلے تو پہلے گھوڑے اور پھر ایک موڑ مڑتے ہی والی بال کھیلتے فوجی جوان دکھائی دیئے۔ اس سے اور نیچے ایک نالے کی شروعات اور پھر آبادیاں۔ اکادکا گاڑیاں نظرآئیں جو جیپیں ہی تھیں۔ نالے کے ساتھ اور نالے میں سفر کرتے ہم موجی گاؤں میں داخل ہوئے۔ ’لیپا‘کو دائیں ہاتھ چھوڑتے ہم بائیں ہاتھ بڑھتے چلے گئے۔ نالہ قاضی ناگ پر بنے پل کو پار کیا تو ہوچڑی گاؤں شروع ہوا اور سڑک کی حالت قدرے سنبھل گئی۔

نالہ قاضی ناگ کے پار کے گاؤں کے بارے میں افضال نے بتایا کہ یہ گاؤں بخاری سادات کا ہے اور اس گاؤں سے جناب ممتاز بخاری، صدرِمعلم (جو مظفرآباد میں ہمارے ہمسائے ہیں)، جناب طفیل بخاری (ضلعی تعلیمی افسر ہٹیاں بالا) اور سید بشیر بخاری (ریٹائرڈ ناظم تعلیمات سکولز) اور دیگرکئی اساتذہ ماضی اور حال میں تعلیمی میدان میں خدمات انجام دے چکے یا دے رہے ہیں۔ ہوچڑی سے گزرتے ہم لبُگراں میں داخل ہوئے۔ میرے سکول فیلو پروفیسر ریاض مغل کا گھر دور سے دیکھا جس کو تالا لگا تھا کہ ریاض صاحب مظفرآباد منتقل ہوچکے ہیں، اس لیے وہ ہمارا استقبال کرنے سے رہے۔ اخروٹ کے دیوہیکل درختوں کے جھنڈوں سے گزرتے ہم لبُگراں کے درمیاں پہنچے اور افضال نے گاڑی کو رکنے کا کاشن آخر دے ہی دیا کہ درویشوں کا پہلا پڑاؤ آچکا تھا۔

گاڑی سے اترے اور نیچے وادی میں پیدل اترتے چلے گئے۔ ایک اور آرمی کیمپ سے گزرتے ہم افضال کے زیرتعمیر گھرمیں داخل ہوئے جس کی تعمیرات لکڑی سے کی گئیں ہیں۔ یہاں سب مکان لکڑی سے بنائے جاتے ہیں کہ وافر مقدار میں میسر ہے اور برف پڑنے کی وجہ سے سیمنٹ کی تعمیرات پائیدار نہیں ہوتیں۔ افضال کے قبیلے اور رشتہ داروں کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ اس کے رشتہ داروں سے ملاقات کا سلسلہ اور چائے کے دور اکٹھے چلتے رہے اور اس محصور وادی کے مسائل پر بات چیت بھی ہوتی رہی۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی تاریکی کے سائے گہرے ہوئے تو سامنے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں پر بڑی بڑی بتیاں روشن ہوگئیں۔ ایک پہاڑ پر ہم تھے اور سامنے بھارتی فوج کامورچہ۔ اسی دوران ’لیپا‘ کے مقامی صحافی رضوان اعوان بھی آگئے ۔ ان سے کھانے پر اور رات گئے تک مختلف موضوعات پر بات چیت رہی۔

کھانا پرتکلف تھا اور اصولًا اس کو کھانے سے پہلے ہم کو ایک ہفتہ بھوکا رہنا چاہیے تھا۔ مقامی چاول، مقامی سبزی، دہی، گھی، چٹنی، مرغ، یخنی اور جانے کیا کیا۔ ہم کھانے کے ساتھ ’انصاف‘ کرنے لگے پر نہ کرسکے کہ کتابوں نے ہم کو کھانے پینے کے قابل چھوڑا ہی کہاں ہے۔کھانے کے بعد میٹھا اور پھر چائے کا دور۔ رات کے گیارہ بج گئے۔ خنکی بڑھنے لگی، خاموشی نے ڈیرے ڈالے اور ہم نے بھی سونے کی کوشش کی۔ رات سوتے جاگتے گزری۔ یہاں کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی کہ بیت الخلا مکان سے ہٹ کر بناتے ہیں۔ یہ اندازِ تعمیر ایران، ترکی اور ہسپانیہ کا سا ہے۔

8  جولائی کو فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر مشرق سے ابھرتے سورج اور بھارتیوں کی چوکیوں کو بغور دیکھتا رہا۔ دور نیچے نالہ قاضی ناگ کے پار، سیدھ پورہ گاؤں دو حصوں میں منقسم ہے، درمیان میں صرف درختوں کی لمبی قطار ہے اور ہندوستانی سیدھ پورہ کے کھیتوں کو جو پانی سیراب کرتا ہے، وہ بھی ہماری طرف سے نالی کے ذریعے جاتا ہے۔ اُس پار کی آبادی بھی مسلمان ہے اور وہ اِس طرف کے رہنے والوں کے رشتہ دار بھی ہیں۔ دور پہاڑوں کے دامن میں درنگلہ گاؤں ہے، جہاں سے ہجرت کرکے آنے والے جناب منظور گیلانی، اعلیٰ عدلیہ کے منصف اعلیٰ اور وائس چانسلر جامعہ آزادکشمیر بھی رہے۔ یہی نالہ قاضی ناگ سات کلومیٹر نیچے ٹیٹوال کے قریب دریائے نیلم میں گرتا ہے۔ عجیب تقسیم اور جبر ہے۔ اگر یہ علاقہ ہمارے پاس ہوتو ٹیٹوال کے راستے ’لیپا‘ بارہ مہینے آیا جاسکتا ہے اور صرف دوگھنٹے میں مظفرآباد سے ’لیپا‘ پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں بھارت نے 1981ء میں پیش قدمی کی۔ ہماری کمزور خارجہ پالیسی اس مسئلے کو موثر طریقے سے اقوام ِ متحدہ اور بھارت کے ساتھ نہ اٹھا سکی اور آج اس وادی کے عوام کے لیے پانچ سے چھ ماہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔

ستمبر 1965ء کی جنگ میں دشمن کا ہزاروں کلومیٹر کا رقبہ، جو ہماری بہادر افواج نے فتح کیا، ہم نے تاشقند معاہدے کے بعد واپس کردیا، لیکن مکار بھارت نے 1981ء میں جن علاقوں پر قبضہ کیا، انھیں واپس نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے انھیں شملہ معاہدے یا اس کے بعد کسی اور معاہدے سے واپس لینے کی کوشش کی۔ بھارت ان علاقوں پر اسی طرح قابض ہے جس طرح اسرائیل، عرب اسرائیل جنگ کے بعدسے فلسطینی علاقو ں پر قابض ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام معاملات کو ہر فورم پر موثرطریقے سے اٹھایا جائے۔ اس دوران باقی دوست بیدار ہوچکے تھے۔ ناشتے کا ’تشدد‘ شروع ہوا۔ افضال نے رات کی کمی (اگر کوئی رہ گئی تھی تو) ناشتے میں پوری کردی۔ سو اس کے ساتھ ہم نے ’کچھ انصاف‘ کیا۔ تیار ہوئے، افضال کی والدہ سے ملے اور افضال کی کامیابی کی مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے ہم سب کو ڈھیرساری دعائیں دیں۔ سب مائیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں۔ جو ان کے بچوں سے محبت کرے، ان سب سے محبت کرنے والی۔

گھر سے پیدل ہی نکلے۔ افضال نے دور نیچے عبدالرشید کرناہی صاحب کا مکان دکھایا۔ کرناہی صاحب اس وادی کی علمی ترقی کے سرسید ہیں۔ انھوں نے ’لیپا‘ کے سکولوں، کالجوں، بنیادی صحت کے مراکز کے قیام کے لیے انتھک محنت کی،اور کررہے ہیں۔ ان کی کوششیں چھ عشروں پر محیط ہیں۔ ہم باتیں کرتے، بھارتی مورچوں کو دیکھتے ، سیب اور اخروٹوں کے درختوں کے درمیان سے گزرتے رہے۔ بیس، پچیس منٹ پیدل چلنے کے بعد سڑک پر پہنچے اور گاڑی میں بیٹھ کر تریڈہ شریف روانہ ہوئے، جو وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور تھا۔ خط متارکہ پر واقع یہ مزار 1988ء کی تحریک سے پہلے آرپار کے عوام کے لیے مرجہء خلائق تھا۔ دونوں اطراف کے عوام نومبر کی یخ بستہ سردی میں یہاں اکٹھے ہوتے اور اس بہانے ان کو ملنے کا موقع بھی مل جاتا۔

تحریک کے شروع ہونے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب ہردو اطراف، عرس کی تقریبات ہوتی ہیں۔ یہ اس طرف وادی لیپا کا ایک کونہ بھی ہے اور آخر بھی۔ اس سے آگے، اوپر اور نیچے بھارتی افواج ہیں۔ دور نیچے چھت کڑیاں گاؤں دیکھا جہاں کے گیلانی 1990ء میں ہجرت کرکے مظفرآباد آبسے اور اب ہمارے ہمسائے ہیں۔ یہ جسٹس منظور گیلانی صاحب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ اس علاقے نے تعلیم اور صحت کے میدان میں کئی نام پیدا کیے اور ثابت کیا کہ مشکل حالات آپ کو محنت کرکے آگے بڑھنا سکھاتے ہیں۔ تریڈہ شریف دربار پر حاضری کے بعد ہم نے اس دن کے سفر کا آغاز کیا۔ ہم بہترین لمحات سے محظوظ ہوتے اور ان کو محفوظ کرتے، موجی ، لب گراں ، گھاسلہ، بنہ مولہ، انٹلیاں، کپہ گلی، خیراتی باغ سے گزرتے چلے گئے۔ ’لیپا‘ کے یہ مشکل نام مجھے کوشش کے باوجود یاد نہ ہوسکے کہ ان پر سنسکرت کا اثر زیادہ نظرآیا۔

خیراتی باغ سے دور پہاڑوں پر پروفیسر ڈاکٹر رؤف صاحب کا گھر ہے، جنھوں نے جرمنی سے پی ایچ ڈی (ریاضی) کیا، جامعہ آزادکشمیر میں پروفیسر رہے اور سیاست کا شکار بھی۔ بہترین استاد، ہنس مکھ، باتونی اور سب سے محبت کرنے والے۔ ہم نے بی ایس سی میں ان سے تھیوری آف نمبرز پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب، والد صاحب کے اچھے احباب میں سے تھے۔ ماشاء اللہ حیات ہیں اور آج کل مظفرآباد میں مقیم ہیں۔ ہم ان کی صحت اور عمر میں برکت کے لیے دعاگوہیں۔ ان کے علاقے اور اس سے اوپر تلہ واڑی، غائی پورہ، بجل دھار اور بٹلیاں کی وادیوں میں ہم وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے۔ خیراتی باغ سے آگے گرلز ڈگری کالج ہماری پہلی منزل تھا۔کالج کی عمارت دیکھ کرخوشی ہوئی۔ وادی لیپاکی یہ سب سے جدید اور خوب صورت عمارت ہے۔ اسے پاک سعودیہ فنڈ کی مدد سے مکمل کیا گیا۔ یہ 2003ء میں انٹرمیڈیٹ کالج بنا اور 2016ء میں ڈگری کالج کا درجہ پاگیا۔

کالج کے پرنسپل ملک مشتاق صاحب، تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ’لیپا‘ سے ہی ہیں۔ ان کا مقامی ہونا کالج کے لیے نعمت ِغیرمترقبہ ثابت ہوا ہے۔ مستعد، محنتی اور یکسو قسم کے انسان ہیں مگر کم گو ہیں۔ ملک صاحب سے زیادہ ملاقاتیں نہیں لیکن احترام کا رشتہ قائم ہے۔ انھوں نے باہر آکرہمارااستقبال کیا اور کالج کی عمارت دکھانے کے دوران اپنی انتظامی بپتا سنائی۔ ڈگری کالج تین اساتذہ پر چل رہا ہے۔ آٹھ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ میں حیرت اور دکھ کی کیفیت میں سنتا رہا کہ تعلیم کے ساتھ ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے۔ مہینوں نہیں، برسوں بیت گئے اور ان اسامیوں پر اساتذہ کو تعینات کرکے نہیں بھیجا جا رہا۔ ملک صاحب انتظامی معاملات کو دیکھنے کے علاوہ پانچ کلاسیں بھی پڑھا رہے ہیں۔ وہ تین اساتذہ اور دو مقامی جزوقتی اساتذہ کی مدد سے نظام چلا رہے ہیں۔ کالج میں 230 طالبات سال اول تا سال چہارم میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

ملک صاحب بی ایس شروع کرنے کی بات بھی کررہے تھے اور میں اس مردِ درویش کی باتوں کو حیرت اور خوشی سے سن رہا تھا۔ اس بے تیغ سپاہی کو دیکھ اور سن کر خوشی ہوئی، جو بہت سارے کالج اساتذہ کے لیے مینارہء نور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان طالبات کے ساتھ ظلم نہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ٹیوشن پڑھ سکیں یا مظفرآباد جاکرپڑھ سکیں۔ یہ سوال میں اربابِ اختیار کے لیے چھوڑتا ہوں۔ رضوان اور افضال کوکہا کہ اس مسئلے پر’لیپا‘ کے ان معززین کو مظفرآباد میں اکٹھا کریں اور ان کے ذریعے سیاسی اور انتظامی قیادت پر دباؤ بڑھائیں اور اس تعلیمی مسئلے پر کھل کر لکھیں کہ یہ ہماری نئی نسل کے مستقبل کا مسئلہ ہے (میں کاشف گیلانی صاحب سے بھی امید رکھتا ہوں کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور حل کی ہرممکن کوشش کریں گے کہ وہ بھی اسی وادی سے ہیں)۔

کالج کے ہال میں اساتذہ کی تصاویر کا ایک گوشہ بہت پسند آیا۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنھوں نے ایک نسل کو زیورِتعلیم سے آراستہ کیا اور ان کو وادی سے باہر کی دنیا کے ساتھ مقابلے کے قابل بنایا۔ ملک صاحب نے اپنی مدد آپ کی بنیاد پر بنایا گیا بنکر بھی دکھایا جو اس کالج کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ بچیوں کا کالج ہے۔ مظفرآباد کے بیوروکریٹ اور سیاست دان اس کالج میں ملک صاحب کے پاس آتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی کالج کے کچھ کام بھی کر دیتے ہیں لیکن ان کے لیے اس کالج کا سب سے بڑا کام تدریسی عملے کی ضرورت کا پورا کرنا ہے۔ ملک صاحب کے ساتھ طویل ملاقات کا اختتام پرتکلف چائے پرہوا، جس کے بعد ہم ’لیپا‘ کے لیے روانہ ہوئے۔

’لیپا‘ بازار لکڑی کی تعمیرات کی وجہ سے ایک سے زیادہ بار جل چکا ہے۔ یہ بازار مقامی آبادی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بازار کے وسط میں جامعہ مسجد اور اس سے آگے آرمی ہسپتال ہے۔ یہ ہسپتال محدود حد تک علاقے کی صحت کی ضروریات کو پوراکرتا ہے۔ میں سوچتا رہا کہ جب وادی میں داخلے اور نکلنے کے راستے بند ہوجاتے ہوں گے تو شدید قسم کے معاملات میں کیا کیا جاتا ہوگا ؟ ایک بات اچھی کی گئی ہے کہ اب جوبھی ’لیپا‘ کی سیٹ پرڈاکٹر بن کرآتا ہے، اس کو پہلے اسی وادی میں خدمات انجام دینے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ڈگری کالج برائے طلبہ کی عمارت بازارکے وسط میں ہے اور اس کو اگلے دن دیکھنے کا پروگرام بنا۔ افضال نے ہمارے ’لیپا‘ آنے کی اطلاع اکثر طلبہ کو دے دی تھی، جو ٹنل چوک پر جمع ہورہے تھے۔

ہم ٹنل چوک پہنچے۔ سب سے ملاقات رہی۔ ظفر یاسمین بھی آپہنچے۔ ظفر پہلے ایک سکول میں استاد تھے۔ پی ایس سی کیا اور اسی سال لیکچرر ہوگئے۔ ایم فل بھی کررہے ہیں اور محنتی جوان ہیں۔ ’لیپا‘ کے لیے ٹنل اور پاکستان کے لیے کالا باغ ڈیم سیاسی مسئلہ زیادہ بنا دیا گیا ہے۔ 2016ء کا انتخاب ڈاکٹر مصطفٰی بشیرصاحب نے اسی کی بنیاد پر لڑا اور جیتا۔ ہمارا قافلہ نوکوٹ کے وسط میں دھان کے کھیتوں کے درمیان سے گزرتی نہر کنارے پہنچا اور براجمان ہوگیا۔ یہ نہر ’لیپا‘ کے لیے بجلی پیدا کرنے اور کھیتوں کو سیراب کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔

موسم اچھا تھا اور دھوپ میں تیزی نہ تھی۔ ہم تاریخ کے اوراق الٹتے رہے۔ کرنل حق نواز شہید سے لے کر دور شمس بری ، بارہ ہزاری، ریتلی گلی، کالا پہاڑ اور سادھنا کے دشوار گزار رستوں پر سفر کرنے والے مجاہدین اور شہدا کے تذکروں کے ساتھ اٹھے اور دوکلومیٹر دور ایک پہاڑی پر جاکرفوٹوگرافی کی۔ چنار کے درخت ’جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار‘ کی یاد تازہ کرتے رہے اور ہم دور پہاڑوں کے درمیان وادی کی جانب چل پڑے۔ رضوان نے بتایا کہ قریب ہی ’کیاں‘ سیکٹر ہے جہاں سے ایک روایت کے مطابق میاں نواز شریف صاحب کے اجداد ہجرت کرکے پنجاب چلے گئے تھے۔

ہم ایک اور آرمی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرواتے سرحدی گاؤں ’چننیاں مرگی‘ میں داخل ہوئے۔ یہاں فطرت ایک دم ٹھہر سی گئی ہے۔ نالہ قاضی ناگ، دیوداراوراخروٹ کے درخت، بینس اور بن کھوڑکے دیوقامت درخت، گھراٹ، پیکو ، کشمیری اور کشمیری زبان، چنددکانیں، مسجد اور آبادی، سارے کشمیرکوہمارے سامنے لاکھڑاکرتے ہیں۔

خواتین کو یہاں ہرطرف کام کرتے دیکھا۔کھیتوں سے پیکو اور گھر۔ یہی حال میں نے تاؤ بٹ میں بھی دیکھا تھا۔ دل ہی دل میں ان کی ہمت کی داد دی۔ ہماری اگلی اور آخری منزل ’منڈاکلی‘ گاؤں تھا۔ ایک اور نالے کے ساتھ ہم دشوارگزار پہاڑی راستے کو چمٹ گئے۔ یہ وادی سب سے منفرد اور خاموش سی لگی۔ گھنے جنگلات میں سفر کرتے ایک آبادی سے گزرے اور انتہائی گھنے جنگل میں داخل ہوئے جہاں جنگل کے درمیان ایک کھلا میدان تھا اور کچھ مویشی چر رہے تھے اور کچھ نوجوان ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ ہلکی ہلکی پھوار نے موسم ٹھنڈا کردیا۔ سنا کہ کچھ دن پہلے چھ وزراء بھی یہاں کرکٹ میچ کھیل کر وداع ہو چکے ہیں۔ ہم نے تو کرکٹ نہ کھیلی، ہاں بیٹھ کر مقامی لوگوں کی ہمت کو داد ضرور دی کہ انتہائی موسم میں بھی جو یہاں رہتے ہیں۔

یہ ’لیپا‘ کا دوسرا کونا ہے اور یہاں سے آگے ایک ہی گاؤں ہے جہاں ہم نہ جا سکے۔ بے دردی سے کاٹے گئے درختوں پر ہم افسوس کرتے رہے۔ رضوان نے بتایا کہ آرمی کے ساتھ مل کر ہم اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے اگر ’لیپا‘ کے عوام کو بجلی سستی مہیا کی جائے تو ایندھن کے لیے درخت نہیں کٹیں گے۔ یہاں بیٹھ کر اقبال اور غالب یاد آئے کہ ’’دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو‘‘ اور ’’بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے‘‘۔ یہ جگہ اتنی خاموش اور خوب صورت ہے کہ اس کے مقابلے میں ناران، مری، نیلم اور سوات کچھ بھی نہیں، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ بدترین سڑک سیاحوں کو یہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کا مصرع ’’شرابے، کتابے ،ربابے ،نگارے‘‘ یاد آیا۔ مگر ہم کچھ دیر ہی رومانوی فضا میں گم رہ سکے کہ وقت کم تھا اور بارش واپسی پر زور دے رہی تھی۔

یہاں کی یادوں کو سمیٹتے واپس چلے۔ اب کھانے کا مسئلہ درپیش تھا اور یہ معرکہ سر کرنے کے لیے ہم نے ایک شاگرد عابد قریشی کے گھر ’کیسرکوٹ‘ جانا تھا۔ ظفر ہم سے رخصت ہوئے۔ ہم کیسرکوٹ پہنچے اور ایک چوبی گھر میں داخل ہوئے۔ کھانا مقامی تھا۔ مقامی ساگ، مکئی کی روٹی ، گائے کا گھی، دھی، لسی، چٹنی، دال موٹھ اور مقامی چاول۔ بھوکے تو تھے ہی، اس لیے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ سیر ہوکرکھانا کھایا اور خواہش کے باوجود قیلولہ نہ کرسکے کہ اس کو ہضم کرنے کے لیے پیدل چلنے کا پروگرام بنا تھا۔ کیسرکوٹ سے چلے اور راستے میں ’گھی کوٹ‘ اورپھر ’کھیواڑہ‘ پہنچے۔ پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ صاحب کے گھر کے قریب سے گزرے تو افضال نے بتایا کہ ڈاکٹرصاحب کی بیگم کو دل کا تیسرا دورہ پڑا ہے اور ان کی بیٹی اور داماد کوحادثہ بھی پیش آیا ہے۔ سو، واپسی پر ان کے پاس جلال آباد جانے کا پروگرام بنایا۔ ڈاکٹر صاحب پہاڑی زبان کے ماہر عالم، شاعر اور ماہرتعلیم ہیں۔

پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔اس پورے علاقے میں کشمیری زبان بولی جاتی ہے۔ اس طرف کے آخری گاؤں ’رنجکولہ‘ پہنچے اور گھاس کے میدان میں بیٹھ گئے۔ دور اوپر بھارتی مورچے نظر آرہے تھے اور مقامی نوجوان خط متارکہ کے قصے سناتے رہے۔ گولہ باری کے دن اور رات،مویشیوں کا خط متارکہ کے پار چلے جانا اور واپس کیا جانا، بارودی سرنگوں کے مسائل، گولہ باری کے دوران کی کہانیاں، خوف کے لمحات اور ان کے درمیان شادی اور ماتم۔ موت سے یاد آیا کہ لیپہ کی یہ بات بھی اچھی لگی کہ قبریں کچی رکھی جاتی ہیں۔ یہاں کی شادیوں کے بارے میں نوجوانوں نے بتایاکہ دھوم دھام سے ہوتی ہیں اور خوب اسراف کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس دوردراز کے گاؤں کے باسیوں کو معاشی طور پر بہتر پایا اور اس کی وجہ ان کی زمین کے ساتھ محنت اور لگن ہے۔

واپسی کا سفر گاڑی کے ذریعے تھا۔ ’نوکوٹ‘ سے ’لیپا‘ بازار پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ ملک مشتاق صاحب کا پیغام تھا کہ ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں۔ان کے خلوص نے انکار کی گنجایش ہی نہ چھوڑی۔ شاگردوں اور دوستوں سے رخصت ہوکر افضال اور رضوان کے ہمراہ ہائیڈل پاور ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ سیاحوں کے لیے ٹھہرنے کے لیے یہی ایک جگہ ہے۔ آج رات ہمارا پڑاؤ یہیں تھا۔ کچھ دیر سستائے اور پھر صحن میں آکر بیٹھ گئے۔ نالہ قاضی ناگ کے پار ’منڈل‘ گاؤں ہے جہاں ڈاکٹر نصراللہ صاحب کے اکثر رشتہ دار رہتے ہیں۔ نالے میں پانی اتنا ہے کہ ہائیڈل پاور کے اس طرح کے مزید پانچ چھ منصوبے لگ سکتے ہیں اور وادی کی تمام ضرورت پوری ہونے کے علاوہ باہر بھی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے۔ درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ نالے میں دیکھے جو سفیدے کی طرح کے تھے۔ ان کو بالن کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ درخت جلدی بڑا ہوجاتا ہے۔

رات نو بجے ملک مشتاق صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ بیماری کے باوجود استقبال کرنے آئے اور اپنے بیٹے سے ملاقات کروائی جو انجینئر ہیں۔ ملک صاحب کی صاحبزادی ایم اے اردو میں اور ہماری شاگرد رہ چکی ہیں۔ گفتگو ’لیپا‘ کے مسائل سے لے کر قومی مسائل تک پھیلی رہی۔ اسی دوران دسترخوان بچھا اور لوازمات چن دیے گئے۔ پرتکلف کھانا اور اس پر ملک صاحب کا خلوص۔ ’انصاف‘ کرنے کی کوشش کی۔ کھانے کے بعد زیادہ دیر اس لیے نہ بیٹھے کہ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ ملک صاحب باہر تک رخصت کرنے آئے۔ ہم واپس ہائیڈل پر آئے۔ ظفر یاسمین کا پیغام تھا کہ صبح ناشتہ میرے ساتھ میرے گھر پر کریں۔ رات بھر نالے سناتا رہا اور اس کے نالوں نے آرام سے سونے نہ دیا۔ صبح طلوع ہوئی اور ہماری تیاری کے دوران افضال اور رضوان بھی آگئے۔

ہائیڈل کے منصوبے کا معائنہ کیا اور یہ معائنہ افضال کے بھائی آفاق عالم نے کروایا۔ یہ منصوبہ اپنی عمر پوری کرچکا ہے اور ایک کروڑ کا منصوبہ بارہ کروڑ دے چکا ہے۔ہائیڈل سے نکلے اور ’لیپا‘ بازار آئے۔ پہلے ڈگری کالج دیکھا ۔ یہ عمارت بھی پاک سعودی فنڈ سے تیارکردہ ہے۔ عمارت جدید ہے اور مستقبل کی ضروریات کو بھی پورا کرلے گی۔ کالج میں چھٹی تھی، اس لیے پرنسپل اور تدریسی عملے سے ملاقات نہ ہوسکی۔ یہ کالج 1988ء میں انٹرکالج بنا اور2003ء میں ڈگری کی سطح پر پہنچ گیا۔ کالج کی سیر کے بعد ظفر کے گھر پہنچے جو کالج کے سامنے ہی تھا۔ کچھ دیر ظفر کی لائبریری کے معائنے اور گپ شپ میں گزری۔ دسترخوان بچھا اور بہت کچھ لاکر سجا دیا گیا۔ ہم ٹھہرے پینڈو، پراٹھے اور چائے کے خوگر۔ ان کے ساتھ خوب خوب انصاف کیا۔ ناشتہ ہضم کرنے کے لیے دھان کے کھیتوں کا چکر لگایا اور پروفیسر کرامت اللہ صاحب (جوانگریزی کے پروفیسر ہیں اور ایک مدت سے سعودی عرب میں ہیں) کے مقفل مکان کے قریب سے ہوتے، خواجہ سجاد کے گھر میں داخل ہوئے کہ ہمارا یہ شاگرد بضد تھا کہ اسے بھی کچھ وقت دیں۔ اس نے بھی کھلانے پلانے کا ’تشدد‘ کیا لیکن ہم اتنا کچھ کھا چکے تھے کہ صرف سونگھا ہی جاسکتا تھا۔

یہ ہمارا آخری پڑاؤ تھا۔ یہاں سے نکلے۔ آخری ملاقاتیں ہوئیں۔ واپسی کے لیے ہم نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا جو بعد میں درست ثابت نہ ہوا۔ رضوان ہمارے ساتھ تھے۔ اب ہم چھ تھے۔واپسی کے سفر کے لیے ٹنل چوک سے نکلے اور آرمی کیمپ سے گزرتے، منڈل کے سر پر پہنچے اور وادی کی آخری تصاویر لیں۔ اور پھر موڑ پر موڑ۔ پچھتانے لگے کہ اس طرف سے کیوں آئے۔ اب مراجعت ممکن نہ تھی۔ جنگل میں سفر کرتے رہے اور موڑ گنتے رہے جو اڑسٹھ سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ روایت ہے کہ جب اس سڑک کا سروے ہوا اور ایک ٹھیکہ دار نے کام کی حامی بھری کہ میں ’لیپا‘ تک مفت سڑک بنا کردوں گا، شرط یہ ہے کہ راستے میں آنے والے درخت میرے ہوں گے۔ سروے اس انداز سے کیا گیا کہ ہزاروں دیودار اور کائل کے درخت قتل کردیے گئے اور ٹھیکہ دار نے دس گنا زیادہ معاوضہ پایا۔

انتہائی مقام پر پہنچے اور پھر دوسری طرف اترنے کا سفر شروع ہوا ۔دھیرے دھیرے دنیا سے رابطے بحال ہونے لگے اور موبائل کام کرنے لگے۔ یوسف نے بتایا کہ ہمارا دن کا کھانا ’سراں‘ کے مقام پر ایک اور طالب علم کے گھر پر ہے۔ پورا رستہ میں یہ سوچتا رہا کہ اس وادی کے مسائل کا حل کیسے ممکن ہے ؟ تو مجھے ایک حل یہ بھی ملا کہ اس وادی کا حلقہ انتخاب ہی الگ ہو اور کوئی یکسو قسم کی قیادت مل جائے تو اس وادی کے دلدّر دور ہوسکتے ہیں۔ تاہم ابھی بھی کم از کم سڑکوں کو پختہ کیا جاسکتا ہے اور اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ ’نیلی‘ تا ’لیپا‘ سڑکوں کو بھی NHA کے سپرد کردیا جائے۔

ریشیاں آرمی پوسٹ سے گزرے اور ان کو بتایا کہ ہم آگئے ہیں۔ پھر بازار میں چائے پی اور چل پڑے۔ ’لمنیاں‘ میں رضوان نے ہم سے اجازت لی کہ میرا آپ کاساتھ یہیں تک کا ہے۔ موسم تبدیل ہونا شروع ہوا اور جب ہم نیلی پل سے گزر کر جہلم ویلی روڈ پرچڑھے تو ہواگرم تھی۔ ’سراں‘ کے مقام پر ہمارا میزبان موجود تھاجس کے ساتھ ہم ایک گاؤں اسلام آباد کے لیے پہاڑوں پر چڑھ دوڑے، پھر پیدل چلے اور ایک بزرگ نے ہمارا استقبال کیا۔ ارے!یہ تو بدرمنیرعباسی صاحب ہیں۔ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہٹیاں بالا میں 16 برس بطورپرنسپل خدمات دینے کے بعد 4 برس قبل ریٹائر ہونے والے پروفیسر بڑی محبت سے ملے لیکن جتنی دیر ہم وہاں بیٹھے، ان کو ہی سننا پڑا۔ ایسا لگا کہ ان کو کسی ہم دمِ دیرینہ کی تلاش تھی اور وہ ہماری شکل میں ان کو بہت عرصے بعد کوئی سامع ملا تھا۔ ان کی گفتگو تعلیم اور اس کے مسائل کے گرد ہی گھومتی رہی اور پھر ہم نے کھانا کھایا جو سادہ لیکن ہماری خواہش کے عین مطابق تھا۔ کھانے کے بعد ان سے اجازت لی، لیکن وہ بندہء خلوص گاڑی تک چھوڑنے ساتھ آئے۔

بڑی سڑک پر آئے۔ چٹھیاں،گڑھی دوپٹہ، مجہوہی، کرولی، ٹنڈالی سے گزرتے ’رباڑیں‘ سے ہوتے ایئرپورٹ روڈ پر ایک درویش (میریوسف) کو اتارا۔ طارق آباد دوسرے درویش (افضال) کو اتارا اور اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی مدد سے یہ سفر ممکن ہوا اور ہم نے 48 برس بعد ’لیپا‘ کی محصور وادی کو بالآخر دیکھ ہی لیا۔ تیسرے درویش (یعنی راقم)کو ’ڈھیریاں‘ میں اتارا گیا تو دو درویش ہی باقی بچے۔ ڈرائیور (پانچویں درویش) کا شکریہ ادا کیا کہ یہ نوجوان نہ خود تنگ ہوا اور نہ اس نے ہمیں تنگ کیا۔ اس طرح کے سفر میں اس درویش (ڈرائیور)کا اچھا ہونا آپ کے سفر کو پرسکون اور مسائل سے آزاد کردیتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لی کہ ان کے ساتھ ہمارا یہ پہلا سفر تھاجوخوب رہا۔

The post ’وادی لیپا‘ اگر فردوس بر روئے زمیں است appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

شادی کاخواب
آمنہ بتول، لندن

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ گھر میں بہت زیادہ رونق ہے۔ گھر کے باہر باورچی کھانا پکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں جلدی سے نہا دھو کر تیار ہوتی ہوں کہ بارات آجاتی ہے۔ دلہا میرا کزن ہوتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں ہوتی ہوں اور میرے شوہر میرے ساتھ باتیں کر رہے ہیں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بیمار ہو جائیں جس کی وجہ سے گھر والے پریشان ہو سکتے ہیں۔کاروبار میں کوئی رکاوٹ یا بندش پیدا ہو سکتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کیلئے محفل مراقبہ میں دعا کروادی جائے گی ۔کچھ صدقہ وخیرات کریں۔

ناخن کاٹنا
صوفیہ ناز، لاہور

خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے ناخن کاٹنے کے بعد ان کو اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ ایک کاغذ میں بند کر کے باہر پھینک دیتی ہوں۔ تعبیر بتا دیجیئے۔ یہ خواب اکثر نظر آتا ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے آپ کسی پریشان میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ یہ خواب نحوست کو ظاہرکرتا ہے۔ ہر کام میں رکاوٹ اور دل لگاکر نہ کرنا بھی اس میں شامل ہیں ۔کاروبار میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے جس سے آمدنی میں کمی ہو سکتی ہے۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کیلئے محفل مراقبہ میں دعا کروا دی جائے گی۔ رات کو سیرت النبیؐ کا مطالعہ کریں ۔

استخارے کا جواب
میشا علی، اسلام آباد

خواب : میں نے اپنی چھوٹی باجی کی شادی کیلئے استخارہ کیا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری بڑی باجی اور میری چچی آپس میں لڑ رہی ہیں اور کسی بات پر کہہ رہی ہیں ان کو پکڑو، اتنے میں میں اور باجی بھاگنا شروع کردیتے ہیں اور پھر کسی کچی آبادی میں جاتے ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہمیں پکڑ کر کمرے میں بندکر دیتے ہیں۔ میر ی باجی مجھے کہتی ہیں کہ تم اس کھڑکی سے باہر نکل جاؤ اور کسی کو بلالاؤ۔ میرے دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر میں وقت پر نہ پہنچی تو وہ لوگ باجی کو مار نہ دیں۔ راستے میں مجھے میرا بھائی اور کزن مل جاتے ہیں۔ میں ان کو ساری بات بتا دیتی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ تو جا ابھی ہم اس کو لے کر آتے ہیں۔ میں گھرآتی ہوں اوراپنی کزن سے گلے ملتی ہوں تو پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جس بات کیلئے آپ نے استخارہ کیا ہے اس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس خواب کا کچھ حصہ پریشانی کو ظاہرکرتا ہے آخرکار اللہ کی مہربانی سے دلی مراد پوری ہوگی یعنی جس جگہ آپ شادی کرنا چاہتی ہیں پریشانی اور رکاوٹ کے بعد وہاں ہو جائے گی۔ آپ پریشان نہ ہوں نماز پنجگانہ ادا کریں ۔کثرت سے یا حی یاقیوم کا ورد کریں اورخیرات کریں۔ محفل مراقبہ میں دعا کروا دی جائے گی۔

صبح مسواک کرنا
عثمان اقبال، جھنگ

خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نماز فجر ادا کرنے کیلئے جا کر مسواک کرتا ہوں۔ مسواک کرنے کے بعد میں پھر وضو کرتا ہوں۔ اس کے بعد نہ جانے کیوں دوبارہ میں مسواک کرنے لگتا ہوں۔ برائے کرم اس خواب کی تعبیر بتادیجئیے اور میرے لئے محفل مراقبہ میں دعا کروا دیں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جواس بات کو ظاہرکرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے دین اور دنیا دونوں میں بھلائی نصیب ہوگی۔ اللہ وسائل اور رزق میں برکت عطا فرمائیں گے۔ جس کی وجہ سے قرض کی ادائیگی احسن طریقہ سے مکمل ہو جائے گی۔ اولاد سعادت مند اور فرمانبردار ہوگی۔ وضو یا بغیر وضو یا اللہ یارحمٰن یا رحیم کا ورد بھی کریں۔ آپ کیلئے دعا کروا دی جائے گی۔

مسجد میں نماز ادا کرنا
عمر ریاض، جدہ

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے محلے کی جامع مسجد میں جاتا ہوں۔ وہاں وضو کرنے کے بعد نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں داخل ہوتا ہوں۔ وہاں مجھے اپنا دوست جاوید ملتا ہے۔ میں اس سے دعا سلام کرنے کے بعد نماز ادا کرتا ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ نیک بخت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں شمار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے رزق اور وسائل میں برکت دے گا اور دین اور دنیا دونوں میں بھلائی نصیب ہوگی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یااللہ یا رحمٰن یا رحیم پڑھ کر پانی پر دم کرکے پی لیا کریں۔

گھوڑے پر سواری
بلاول اکبر، سرگودھا

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کھیتوں میں ہوتا ہوں۔ میرا ایک مزارعہ ایک بہت ہی اچھا گھوڑا لاتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ یہ گھوڑا نیا خریدا ہے۔ میں اس گھوڑے پر سوار ہوتا ہوں اور اسے اپنے علاقے میں لے جاتا ہوں۔ مجھے سواری کرتے ہوئے بہت مزہ آتا ہے۔ پھر میں اپنے گھر کی طرف آتا ہوں۔ راستے میں لوگ میری طرف دیکھتے ہیں پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو مال و دولت عطا فرمائیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیاست یا حکومت میں آپ کو شہرت اور منصب مل جائے اور آپ کی عزت اور توقیر میں مزید اضافہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے وسائل میں اضافہ فرمائیں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

سرراہ خوبصورت لڑکا ملنا
ن ف، فیصل آباد

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر سے نکل کر اپنے چچا کے گھر جا رہا ہوتا ہوں کہ راستے میں ایک لڑکا جو اسی طرف جا رہا ہوتا ہے مجھے مل جاتا ہے اور میرے ساتھ باتیں کرنی شروع کردیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ باتیں کرتا ہوں پھر اسی اثناء میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کوئی خوشخبری ملے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دلی مراد پوری کریں گے۔ اگر شادی نہیں ہوئی تو آپ کی جلد شادی ہو جائے گی۔ کاروبار میں اضافہ اور رزق میں برکت نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ عزت اور وقار میں اضافہ فرمائیں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کیا کریں۔ آپ کیلئے محفل مراقبہ میں دعا کروا دی جائے گی۔ اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ اور خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت؛ میں چرواہا بن گیا

$
0
0

قسط نمبر13

امّاں بالکل سچ کہتی تھیں اور مائیں تو ہمیشہ سچ ہی بولتی ہیں، جُھوٹ صرف اس وقت بولتی ہیں جب ان کا بچہ کسی خطرے کی زد میں ہو، یا باپ اس کے بیٹے کو پیٹنے کے لیے پَر تول رہا ہو، میں نے آج تک کوئی دعویٰ نہیں کیا، بالکل بھی نہیں، خدا اس سے اپنی پناہ میں رکھے، لیکن جناب ایک دعویٰ تو میرا ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے زیادہ ماں کو کوئی نہیں پہچان سکتا، اب اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ خدا نے مجھے ایک ماں تو وہ دی جو مجھ ناہنجار کے دنیا میں لانے کا سبب بنی اور چھے مائیں وہ ہیں جو میری رضائی مائیں ہیں۔ ظاہر ہے ایک مشکل ترین بچے کے لیے خدا نے سات ماؤں کا انتظام تو کرنا ہی تھا کہ وہی تو ہے جو نظام کائنات کو جانتا اور اسے رواں رکھتا ہے، سو صاحبو! میں آوارہ، عامی اور عاصی سات ماؤں کا بیٹا ہوں، میں کسی اور وقت اپنی ماؤں کا بہت تفصیل کے ساتھ ذکر کروں گا۔

میں محلے بھر میں سیلانی مشہور تھا، یہیں تک ہی ہوتا تب بھی گوارا کرلیا جاتا، میں تو ہر پل نئی شرارت سوچتا اور پھر اس پر عمل درآمد میں بھی دیر نہیں لگاتا تھا۔ ظاہر ہے پھر مجھے پٹنا ہی تھا ناں۔ ایک اور مرض بھی مجھے لاحق تھا کہ جہاں کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا وہ کام خود کرنے پر تُل جاتا۔ ہمارے پاس زمینوں کے لیے ایک ٹریکٹر تھا، روسی ساختہ بیلارس، جسے سرفراز چلاتا تھا اور میں اکثر اس سے کہتا رہتا مجھے چابی دو میں اسے خود چلانا چاہتا ہوں، ظاہر ہے وہ مجھے چابی کیسے دیتا، بس بہلاتا رہتا کہ ہاں شہر میں ٹریکٹر نہیں چل سکتا، جب زمینوں پر جائیں گے تو وہاں چلا لینا اور میں اس وقت کا انتظار کرنے لگتا۔ گولا گنڈے والے مُشکی ماما کی کہانی میں پھر کبھی سناؤں گا، پہلے تو ماما مستقیم کی سُن لیجیے۔

گھاس پھونس کا ایک چھپّر تھا، در نہ دیوار، ایک گھڑا، ایک ٹوٹی پھوٹی سی چارپائی، ایک جستی صندوق اور چند بکریاں اس کی کُل کائنات تھی۔ میلے کچیلے کپڑے، نہ جانے کب سے اس نے بال نہیں کٹوائے تھے، ہوائی چپل پہنے وہ ایک ملنگ ہی لگتا تھا، سردی ہو یا گرمی وہ گریباں چاک اپنے کام میں مگن رہتا تھا…اور کام بھی کیا؟ جی وہ ایک چرواہا تھا۔

محلے میں صبح سویرے سب سے پہلے اس کی آواز ہی گونجتی:’’آگیا رکھوالا‘‘ اور میں دیکھتا، مختلف گھروں سے بکریاں نکلتیں اور اس کے سنگ ہوجاتیں، بہت ساری بکریاں اس کے آگے ہوتیں اور وہ کسی درخت کی چھوٹی سی شاخ اور المونیم کی گڑوی پکڑے ان کے پیچھے ہوتا۔ بالکل بے پروا تھا وہ … اونچی آواز میں کوئی فلمی گیت گاتا چلا جاتا تھا۔

تھا بہت مزے کا انسان۔ پھر میں دیکھتا کہ شام کو سورج ڈوبنے سے ذرا پہلے وہ ہر گھر کے در پر آتا اور پکارتا: ’’آگیا رکھوالا‘‘ جس گھر کی بکری ہوتی وہ اپنے گھر چلی جاتی اور وہ آگے بڑھ جاتا، آخری بکری کو اس کے گھر پہنچا کر اپنی بکریوں کو لیے ہوئے وہ اپنے چھپر میں چلا جاتا، اس کی بکریاں اس کے چھپر کے گرد بنے ہوئے جھاڑیوں سے بنائے گئے حصار میں چلی جاتیں اور وہ خود جاکر چارپائی پر لیٹ جاتا۔ تو اس طرح اس کا دن شروع اور تمام ہوجاتا، وہ بہت جلد سوجاتا تھا۔ میں نے اسے کبھی رات کو جاگتے نہیں دیکھا۔

نام تو اس کا مستقیم تھا لیکن میں ہی کیا سب ہی اسے ماما کہتے تھے، ماما مستقیم۔ بہت سادہ، میں نے اسے کبھی کچھ کھاتے پیتے بھی نہیں دیکھا، نہ جانے کیسے جی رہا تھا وہ! ایسا نہیں ہے کہ محلے والے اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتے تھے، لیکن بس بے نیازی میں گُندھا ہوا تھا وہ۔ ہاں اس کے پاس ایک بانسری بھی تھی۔ میں نے ماما مستقیم سے ضد کی کہ مجھے بھی چرواہا بننا ہے۔ شروع میں تو وہ بہت غصے سے بولا: جاؤ پڑھو لکھو۔ میں نہ مانا اور پھر آخر وہ ہار ہی گیا۔

میں بہت مرتبہ اس کے ساتھ جنگل گیا ہوں، بکریاں چَرانے۔ عجیب سی بات تھی اس میں، جنگل جاکر وہ کسی بھی درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور بکریاں ادھر ادھر چَرنے لگتیں۔ پھر وہ اپنی بانسری نکالتا۔ کیا جادو بھری سانسیں تھیں اس کی جو بانسری میں جان ڈال دیتی تھیں۔ میں نے بھی بہت کوشش کی لیکن اس کی طرح نہیں بجا سکا۔ چاروں اُور سناٹا اور بانسری کی سیدھی دل میں اُتر جانے والی دُکھ بھری کُوک۔ اکثر وہ آواز لگاتا: ’’ہُشیار رہنا ہُشیار، ہاں۔‘‘ اس نے ہر بکری کا نام رکھا ہوا تھا۔ سوہنی، کالی، بھوری، نہ جانے کیا کیا، ایک بکری کا نام شمع بھی تھا۔

مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ہر بکری اس کی بولی سمجھتی تھی۔ پتا نہیں کیسے! پھر مجھے بتایا گیا کہ بکریاں ہی نہیں ہر جانور انسانی جذبات کو سمجھتا ہے۔ پچھلے ہی دنوں میں نے ایک ریسرچ رپورٹ بھی پڑھی جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے، تفصیل کچھ یوں تھی کہ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جریدے رائل سوسائٹی اوپن سائنس‘‘ میں شایع ہونے والی اس تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بکریاں انسانی جذبات پڑھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ جب بکریوں کے سامنے چند ایسی انسانی تصویریں رکھی گئیں جن میں کچھ چہروں پر مسکراہٹ اور کچھ پر غصہ تھا تو بکریوں نے مسکراتے چہروں کو ترجیح دی۔ کوئین میری یونی ورسٹی آف لندن میں کی جانے والی اس ریسرچ کے دوران بیس بکریوں کے سامنے ایک ہی شخص کی دو تصویریں رکھی گئیں جن میں سے ایک تصویر میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب کہ دوسری تصویر میں وہ غصے میں بھرا ہوا تھا۔ اسکالرز نے، جن کا تعلق یورپ اور برازیل سے تھا، بتایا کہ بکریوں نے غصے سے بھرے ہوئے چہرے پر کوئی توجہ نہیں دی اور مسکراتے چہرے کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار مسکراہٹ والی تصویر کو اپنی ناک سے چُھو کر کیا۔ لندن کی کوئین میری یونی ورسٹی کی کرسٹین نوروتھ نے، جو اس تحقیق کی شریک مصنفہ بھی ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بکریوں نے مسکراتے چہرے والی تصویروں پر تقربیاً ڈیڑھ سیکنڈ تک توجہ دی جب کہ غصے سے بھرے چہروں کی تصویروں پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں آگے بڑھ گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بکریوں کو مسکراہٹ والے انسانی چہرے زیادہ اچھے لگے اور انہوں نے مسکرا تی تصویروں کو دیکھنے کے لیے پچاس فی صد زیادہ وقت صَرف کیا۔ جریدے رائل سوسائٹی اوپن سائنس میں شایع ہونے والی اس تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اس بارے میں پہلا سائنسی ثبوت ہے کہ بکریاں انسانی جذبات پڑھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ بکری اور انسان کا ساتھ ہزاروں سال پرانا ہے۔ لیکن بکریاں گھوڑوں اور کتوں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ بکریوں کو دودھ، گوشت اور اس کی اون اور کھال کے لیے پالا جاتا ہے، جب کہ کتے شکار اور حفاظت اور گھوڑے سفر کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ تحقیق میں شامل ایک اور اسکالر ایل نمک ایلی گاٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح مویشیوں اور دوسرے جان داروں کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں کیوں کہ انسانی جذبات کو سمجھے کی صلاحیت صرف پالتو جانوروں تک ہی محدود نہیں ہے بل کہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

میں کہیں اور چلا گیا، کیا کروں گم راہ جو ٹھہرا۔ تو میں بتا رہا تھا کہ شام ہوتے ہی وہ آواز لگاتا اور ساری بکریاں جمع ہوجاتیں۔ میں نے اسے اکیلا ہی دیکھا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ماما! آپ کے امّی، ابّا کہاں ہیں؟ تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: امّی، ابّا تو مرگئے، بہن بھائی یہ رہے۔ اس نے بکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد میں نے کبھی اس سے نہیں پوچھا۔ نہ جانے کہاں سے آیا تھا وہ، کون تھا۔ میں بس اتنا جانتا تھا کہ وہ میرا ماما ہے، جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا، بکریاں چَرانا بھی، یہ دوسری بات کہ بہت عرصے بعد مجھے بتایا گیا کہ بکریاں چَرانا کوئی معمولی کام نہیں ہے، کارِ پیغمبری بھی کوئی معمولی ہوتا ہے کیا۔

اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اور میری آوارگی عروج پر تھی۔ ایک دن صبح سویرے میں اس کے چھپر میں جا پہنچا۔ خلاف معمول وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ میں نے تو اسے ہر دم ہنستے کھیلتے دیکھا تھا، ہر دم تازہ دم … زندہ دل، ماما کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ میری آواز سن کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ رو رہا تھا وہ، کیا ہوا ہے ماما! میں نے اصرار کیا۔ ارے کچھ نہیں ہوا، بس ویسے ہی، کچھ نہیں بس وہ اپنی سوہنی بیمار ہوگئی ہے۔ سوہنی بیمار ہوگئی ہے تو آپ رو رہے ہیں! سوہنی اس کی چہیتی بکری تھی۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما ہمارے محلے کے حکیم دادا کے پاس سوہنی کے لیے دوا لینے آئے تھے اور حکیم دادا نے انہیں ڈانٹ دیا تھا۔ وہ مطب سے جانے لگے تو حکیم دادا کی آواز آئی … بہت شفیق آواز: پگلے میں انسانوں کا معالج ہوں، جانوروں کا نہیں ہوں، سیدھا مسعود کے پاس جا، وہ ہے جانوروں کا ڈاکٹر۔ اور ماما ڈاکٹر مسعود کے پاس گئے تھے دوا لینے۔ ماما سے کوئی پیسے نہیں لیتا تھا۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ماما کی سوہنی ٹھیک ہوگئی تھی اور ماما پھر سے گنگنانے لگے تھے۔

گھنگھرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں

کبھی اِس پگ میں، کبھی اُس پگ میں

ایک دن میں نے ماما کو چھیڑا، ماما آخر سوہنی سے اتنی محبت کیوں ہے آپ کو؟ تو عجیب سی بات کی انہوں نے۔ چریے مجھے تو ان سب سے محبت ہے، یہ تو میرے بہن بھائی ہیں، لیکن سوہنی میری بچی ہے۔ وہ کیسے ماما؟ میں نے پوچھا۔ سوہنی کی ماں کو بھی میں چَرایا کرتا تھا، بہت فرماں بردار تھی وہ، سوہنی میرے سامنے پیدا ہوئی اور میں نے بچوں کی طرح اسے پالا پوسا، جب سوہنی چھوٹی تھی ناں، تو بہت کم زور تھی، اتنی کم زور کہ ماں کا دودھ بھی نہیں پی سکتی تھی، میں اسے بوتل سے دودھ پلاتا تھا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ بس یہ میری بچی ہے، اور دیکھ میں ان کا چرواہا ہی نہیں رکھوالا بھی ہوں۔

میری ذمّے داری ہے کہ میں ان کا خیال رکھوں، اگر میں نے ان کا خیال نہ رکھا تو اﷲ میاں مجھ سے پوچھے گا پھر میں کیا جواب دوں گا بھلا۔مجھے اس وقت تو اتنا سمجھ نہیں آیا تھا۔ اب آیا کہ کتنا عظیم انسان تھا وہ۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ماما کے چھپر کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے۔ ماما رات کو تو بالکل ٹھیک تھے، آرام سے سوگئے تھے اور پھر وہ سوتے ہی رہ گئے۔ کتنے سکون سے چلے گئے وہ، پورے محلے میں سوگ تھا اور بہت سے لوگ اشک بار تھے۔ پھر ماما کا جنازہ اٹھا اور انہیں مٹی کے سپرد کردیا گیا۔ میرا معمول رہا بہت عرصے تک کہ شام کو ان کی قبر پر پانی چھڑکتا تھا اور کچھ پھول ڈالتا تھا۔ کیا بات تھی ماما مستقیم کی، واہ ۔

وہ ایک چرواہا تھا جو اپنی ذمے داری کتنی جاں فشانی اور لگن سے ادا کرتا تھا۔ وہ خود کو ذمے دار سمجھا تھا۔ بالکل ان پڑھ۔ کتنی محنت سے، محبت سے، شفقت سے وہ بکریوں کا خیال رکھتا تھا۔ ایک ہم ہیں جو بہت لکھے پڑھے ہیں، روشن خیال ہیں، نہ جانے کیا کیا ہیں اور خلقِ خدا در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، خودکشی کررہی ہے، بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہی ہے، اغوا ہیں، ڈکیتیاں ہیں … کون سا عذاب ہے جو ہم پر نہیں اتر رہا! اور ہم چین و سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے بتائیے وہ ان پڑھ چرواہا اچھا تھا، یا ہم لکھے پڑھے روشن خیال، بے حس، بے ضمیر، بدکردار، بدقماش …!

لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پاگلوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، لوگوں کو کام سے فرصت نہیں ہے اور کچھ پاگل عجیب و غریب مشاغل میں مگن ہیں۔ ابھی حال ہی میں میری ایک ایسے ہی پاگل سے ملاقات ہوئی تھی۔ میری باتوں کو احمقانہ کہہ رہا تھا۔ پہلے تو بہت ہنسا، پھر لمحے بھر سانس بحال کی اور مسکرا کر بولا:

’’ تم اپنا کام کیے جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔‘‘

یہی تو میں کہہ رہا ہوں، کوئی کام وام کرو۔ یہ کیا اپنا وقت ضایع کررہے ہو، میں نے اپنی دانش وری جھاڑی۔ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا، اپنی نئی کار اسٹارٹ کی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے اسے ایک بڑے اسکول کے سامنے ایک اجاڑ درخت کے نیچے کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔ میں سمجھا، اس کا بچہ اسکول میں پڑھتا ہوگا تبھی تو یہ اکثر یہاں نظر آتا ہے۔ میں نے نظرانداز کردیا، پھر اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں، لیکن وہ بندۂ بے کار اکثر وہاں نظر آتا۔ آخر وہ کرتا کیا ہے؟ میرے اندر کے تجسس نے انگڑائی لی، کرتا ہوگا کچھ تجھے کیا ہے؟ تُو اپنا کام کر۔‘‘ لیکن صاحب میرا تجسس اور گہرا ہوتا گیا۔ اچھا میں معلوم کروں گا۔ میں نے خود کو بہلانے کی کوشش کی۔ ’’کب؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔

’’جب وقت ہوگا‘‘، ’’وقت ہوتا نہیں ہے نکالنا پڑتا ہے پیارے۔‘‘ ’’اچھا نکال لوں گا۔‘‘ ایک ہفتہ تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن میں اپنے اندر کی آواز سے تنگ آگیا تھا۔ خانۂ خدا کے بلند میناروں سے غافل انسانوں کو پکارا جانے لگا۔ صبح سویرے کا وقت اور اذان کی آواز کیا سماں باندھتی ہے، میں جلدی جلدی تیار ہوا۔ شاہراہ فیصل پر ٹریفک بہت کم تھا۔ اخبار لیے ہوئے موٹر سائیکل سوار تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ دودھ سپلائی کرنے والی گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ ایئرپورٹ جانے اور آنے والے بہت جلدی میں تھے۔ میں بھی اس سیلابِ بلاخیز میں بہا چلا جارہا تھا۔ اسی بڑے اسکول کے سامنے والے درخت کے نیچے پہنچ کر میں اس پاگل کا انتظار کرنے لگا۔ ’’نہیں، یہاں نہیں۔‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ ’’پھر کہاں؟‘‘ کہیں چُھپ کر اسے دیکھتے ہیں، میں نے نرسری کے پودوں کی اوٹ لی اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ بہت دیر ہوگئی تھی، میں نے سوچا کیا خبر وہ آئے گا بھی یا نہیں۔ ’’آئے گا، آئے گا‘‘ ذرا صبر کر۔‘‘ اور میں صبر سے اس کی راہ دیکھنے لگا۔

اس اجاڑ درخت کے اوپر مٹی کی دو رکابیاں رسی سے بندھی ہوئی تھیں اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ پھر میں نے عجیب سا منظر دیکھا، ایک نئی کار آکر رکی۔ وہی صاحب تھری پیس میں ملبوس اترے۔ ان کے ایک ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل اور دوسرے میں ایک تھیلی تھی۔ وہ خاموشی سے اس درخت کے قریب آئے۔ پھر منرل واٹر کی بوتل کھولی اور رکابی میں انڈیل دی۔ دوسری تھیلی میں سے ایک لفافہ نکالا اور دوسری رکابی میں ڈال دیا۔ رکابی باجرے سے بھر گئی۔ پھر وہ صاحب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنی کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے اور درخت کی طرف دیکھتے رہے، چڑیوں کا ایک غول ان رکابیوں میں سے دانہ چُگ رہا تھا، کچھ پانی پی رہی تھیں۔ ایک عجیب سی خوشی اس کے چہرے پر رقص کرنے لگی اور گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی کو آگے بڑھاتا، میں اس کے سامنے تھا۔

’’واہ صاحب واہ! کیا کام چُنا ہے آپ نے!‘‘

وہ مسکرایا ، کیا ہوا ۔۔۔۔ ؟

بہت وقت ہے کیا آپ کے پاس!

’’نہیں، میں بہت مصروف ہوں لیکن ان کے لیے وقت نکالتا ہوں اور پھر میرے اصرار پر وہ بتانے لگا: ’’ یہ کام مجھے اچھا لگتا ہے۔ چڑیوں کا چہچہانا، ان کا دانہ چُگنا، پانی پینا، اچھا لگتا ہے، بہت سکون ملتا ہے مجھے۔‘‘

لوگ تو زندہ انسانوں کو کچھ نہیں دے رہے، آپ نے آسان راہ اپنائی۔ میں نے کہا۔

’’ نہیں نہیں، یہاں بہت اچھے لوگ بستے ہیں۔ انسانوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘

اچھا اتنا تو بتائیے آج کل آپ روزانہ کیوں آتے ہیں۔

وہ مسکرایا اور کہنے لگا: ’’جب اسکول کھلا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ ان چڑیوں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ اب اسکول میں چھٹیاں ہیں، میں نے سوچا، دو ماہ میں ان چڑیوں کی خدمت کرتا ہوں، بس اسی لیے روزانہ یا ہر دوسرے دن یہاں ضرور آتا ہوں۔ اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنی کار کا ایکسیلیٹر دبا دیا۔

میں سوچ رہا تھا، کیسے کیسے پاگل ہیں یہاں، کہ اندر سے آواز آئی، ’’یہی ہے زندگی پیارے، دوسرے کے لیے جینا سیکھو، عبادت سے جنّت اور خدمت سے خدا ملتا ہے۔ خدمت، خدمت اور خدمت۔ محبّت محبّت اور محبّت۔

کیا مزید بتاؤں کہ بلیوں والے بابا کیا کرتے تھے، چلیے ضرور بتاؤں گا۔

The post جہاں گشت؛ میں چرواہا بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

انتخابات 2018ء؛ کراچی میں کیا ہوا؟

$
0
0

2018ء کے عام انتخابات میں جہاں بہت سی نئی تاریخیں رقم ہوئیں، وہاں کراچی میں جو نتائج برآمد ہوئے، اس سے ایک نیا باب درج ہو گیا ہے، وہ یہ ہے کہ گذشتہ 30 برسوں میں پہلی بار یہاں نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کو شکست ہوئی، بلکہ 70 سال میں پہلی بار یہاں وفاق میں اکثریت رکھنے والی جماعت اکثریت حاصل کر سکی ہے۔

بٹوارے کے بعد یہاں بہت بڑی تعداد میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرنے والے افراد آئے۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے جو اُس وقت کی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے مطالبۂ پاکستان کے ہم نوا ہوئے، مگر ان کے صوبے اور ریاستیں اس نئی ریاست کے جغرافیے میں شامل نہ ہو سکیں۔ نیا ملک وجود میں آیا تو یہ جماعت ’پاکستان مسلم لیگ‘ ہو گئی۔۔۔ پھر بانی پاکستان چلے گئے اور لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے۔۔۔ جس کے بعد مسلم لیگ پر دیگر شخصیات کا زور بڑھا تو یہ شہر بھی مزاج بدلنے لگا۔

1965ء کے صدارتی چناؤ میں کراچی نے آمر اول جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھرپور طریقے سے سرخرو کیا، فاطمہ جناح کو آپ ’مسلم لیگی‘ کہہ لیجیے، مگر وہ قائد کی ہمشیرہ ہونے کے ساتھ دراصل ریاستی اشرافیہ سے بھی نبرد آزما تھیں، شاید کراچی نے اُن کے اِسی روپ کو پسند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کراچی کو حزب اختلاف کا شہر کہا جانے لگا!

دارالحکومت لے جائے جانے کے باعث کراچی ویسے ہی بے چین تھا کہ 1965ء میں گوہر ایوب کی قیادت میں جشن فتح کے جلوس کے خونیں تصادم نے پہلی بار یہاں لسانی صف بندی کرادی! 1970ء میں ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس شہر میں قومی اسمبلی کی کُل سات نشستوں میں سے تین جماعت اسلامی، دو جمعیت علمائے پاکستان اور دو پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں۔ 1972ء میں سندھ میں لسانی بل کی منظوری کے باعث شہر میں دوسری لسانی ضرب لگی۔

صرف سات برس میں دوسری بار اس شہر میں زبان کی بنیاد پر ایک گہرا احساس پیدا ہوا۔ یہ مرحلہ 1965ء سے کہیں زیادہ گمبھیر ہوا۔۔۔ یہ مسئلہ حل تو ہو گیا، مگر اپنے گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ 1977ء کے بدنصیب چناؤ میں ذوالفقار بھٹو کے مقابل ’نو جماعتوں‘ نے اتحاد بنایا تو پی پی حکومت نے اپنے تئیں اس کا توڑ کرنے کے واسطے پہلی بار کراچی میں چُن کر مہاجر دانش وَروں کو میدان میں اتارا، مگر پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور پر جمیل الدین عالی، حکیم محمد سعید، لیاقت علی خان کے بیٹے اشرف علی خان و دیگر کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ ’نو ستاروں‘ کے تمام امیدوار فتح یاب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان میں شیر باز مزاری اور اصغر خان جیسے غیر مہاجر بھی تھے، جو اپنے آبائی حلقوں سے نہ جیت سکے، مگر کراچی سے منتخب ہوئے۔

تاریخی طور پر مسلسل محرومیوں اور نا انصافیوں نے اس شہر میں ایک ردعمل جنم دیا، جس میں بدقسمتی سے تشدد نے بہت تیزی سے جگہ بنائی۔ تشدد کا عنصر ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے ظاہر ہونا شروع ہو چکا تھا، اس کی شدت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ 1977ء میں نو ستاروں کی تحریک کے دوران لالوکھیت میں مخالفین نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کا کیمپ نذر آتش کر دیا اور وہ انتخابی مہم ہی نہ چلا سکے۔ یہ امیدوار کوئی اور نہیں لیاقت علی خان کے بیٹے اشرف لیاقت تھے! اُس وقت ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم کا بھی وجود نہ تھا، جب مشتعل ہجوم نے انسانیت سوز طریقے سے پی پی کے کارکنان کی جان لی۔۔۔ پھر ستاروں میں روشنی نہ رہی اور جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت نازل ہوگئی!

اس دوران 1984ء میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کا ظہور ہوا، جس نے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں کچھ امیدواروں کی حمایت کی، پھر جب میئر کراچی عبدالستار افغانی نے وہیکل ٹیکس صوبائی حکومت کے تصرف میں لینے پر احتجاج کیا تو انہیں ہٹا دیا گیا، 1987ء میں نئے بلدیاتی انتخابات ہوئے، جن میں تین سال قبل قائم ہونے والی ایم کیو ایم نے زبردست کام یابی حاصل کی، ڈاکٹر فاروق ستار بلامقابلہ میئر کراچی منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں میدان انہی کے نام رہا۔ پھر 1992ء میں فوجی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم سے منحرف دھڑے نے خود کو ’ایم کیوایم حقیقی‘ قرار دیا، کہ اب وہ دراصل مہاجر حقوق کے عَلم بردار ہیں، تو ’ایم کیوایم‘ نہ صرف نعرۂ مہاجر سے دست بردار ہوئی، بلکہ اُن کا یہ بنیادی نعرہ ’بغاوت‘ بن گیا! اس کے باوجود ایم کیو ایم کی کام یابی پر فرق نہ پڑا، حتیٰ کہ ان کے ٹکٹ پر بہت سے سندھی امیدوار اپنے مقابل مہاجر امیدواروں کو ہرا کر اسمبلیوں میں پہنچتے رہے۔

پھر عموماً انتخابات میں نشیب وفراز کے باوجود ’ایم کیو ایم‘ ہی اکثریت حاصل کرتی رہی، مجموعی طور پر جماعت اسلامی اس کی ہمیشہ سخت حریف ثابت ہوئی۔۔۔ اور اکثر دوسرے نمبر پر آتی رہی۔ بے شمار مواقع پر شدید ترین کشیدگی بھی ہوئی، کئی جانیں بھی تلف ہوئیں! مگر 1993ء میں ایم کیو ایم کے انتخابی بائیکاٹ کے باوجود جماعت اسلامی کو صرف ایک نشست ملی، 2001ء میں جنرل پرویزمشرف کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے پھر بائیکاٹ کیا تو جماعت اسلامی نے بہ آسانی اکثریت حاصل کی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم شہر بنے، جب کہ 2005ء کے بلدیاتی چناؤ میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ اس دوران 2002ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے ’متحدہ مجلس عمل‘ کے اتحاد سے متحدہ قومی موومنٹ کو پانچ نشستوں پر شکست دی، جب کہ پہلی بار حقیقی (مہاجر قومی موومنٹ) نے بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کی، جب کہ پیپلزپارٹی کے حصے میں دو نشستیں آئیں، یوں کراچی کی 20 نشستوں میں سے 12 ایم کیو ایم کو ملیں، جب کہ دیگر پانچ حلقوں میں اسے ایم ایم اے سے صرف 700 سے سات ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔

اس کے بعد2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ نے بائیکاٹ کیا تو ایم کیو ایم دوبارہ بھاری اکثریت حاصل کر گئی، اس دوران کراچی ایک بار پھر بے امنی کی شدید ترین لپیٹ میں آیا، نعمت اللہ کے بعد مصطفیٰ کمال نے کراچی کی ترقی کی رفتار میں رخنہ نہ پڑنے دیا تھا، جس سے ایم کیو ایم کا تاثر کراچی سے باہر بھی بہتر ہونے لگا تھا، مگر زرداری حکومت میں رہ کر عضو معطل بنے رہنے اور دیگر کچھ واقعات سے صورت حال بدلتی چلی گئی۔ ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے زمینوں پر قبضے (چائنا کٹنگ) اور بدعنوانی کی داستانیں سامنے آنے لگیں۔۔۔

اس دوران عمران خان کی مقبولیت بڑھی تو بے چین کراچی نے اُسے کافی امید افزا نظروں سے دیکھا، نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء کے انتخابات میں خاطر خواہ مہم چلائے بغیر تحریک انصاف کے غیرمعروف امیدوار اس شہر کے ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ لے اُڑے۔ عارف علوی کی ایک نشست بھی مل گئی، مجموعی طور پر تو کراچی میں ایم کیو ایم جیتی، اور حسب روایت ایم کیو ایم پر دھاندلی کے الزامات بھی لگے، لیکن اس انتخاب میں تحریک انصاف کو بے حد مثبت پیغام دیا، لیکن اس کے فوری بعد عدم توجہی کے بعد ان حلقوں میں واضح طور پر مایوسی دیکھی گئی۔ اسکے بعد پہلے ضمنی انتخاب میں دھاندلی روکنے کے لیے فوج بلوائی گئی، لیکن تحریک انصاف خود کو منوانے میں کام یاب نہ ہو سکی۔

25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات ایک ایسا موقع تھے، جس میں بہ یک وقت بہت سی جماعتوں کو نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس بات سے شاید ایم کیو ایم بھی متفق تھی، کہ بوجوہ اس مرتبہ وہ پہلے جتنی نشستیں حاصل نہیں کرپائے گی، دیگر زورآزماؤں میں متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی، مصطفیٰ کمال کی ’پاک سرزمین پارٹی‘ اور تحریک لبیک کے لیے خاصے امکانات موجود تھے، ’مہاجر قومی موومنٹ‘ اور نواز لیگ کی نمائندگی بھی خارج ازامکان نہ تھی، یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی تھی کہ قومی اسمبلی کی 21 نشستیں شاید تین جگہ برابر بٹ جائیں، یا یہ تقسیم سات، پانچ، چار، تین اور دو کے حساب سے ہو، لیکن اس چناؤ میں کراچی کی 21 میں سے 14 نشستیں تحریک انصاف کے نام ہوگئیں۔

جب کہ چار نشستیں متحدہ قومی موومنٹ، جب کہ تین نشستیں پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں۔ یہ کراچی کی انتخابی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت شہر قائد میں بھی سب سے بڑی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی نے چار مرتبہ وفاقی حکومت بنائی، لیکن اُسے کراچی کی اکثریت نہ ملی، مسلم لیگ (ن) تین مرتبہ حاکم ہوئی، دو مرتبہ دو تہائی اکثریت بھی ملی ، مگر کراچی کے انتخابی نتائج کو نہ چھیڑ سکی۔ یہی حال ایک مرتبہ حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ق) کا رہا، لیکن 2018ء کے چناؤ کے بعد یہ روایت بدل گئی ہے۔ اب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہے اور وہ کراچی میں 14 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے!

٭ یہ11 برس کا قصہ ہے ۔۔۔!

شہر کے موجودہ سیاسی تغیرات کو بغور دیکھیں تو اس کے تانے بانے 12 مئی 2007ء سے جا ملتے ہیں، جب معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر سیاسی جماعتوں کے درمیان خونی تصادم ہوا اور چند برسوں میں خود کو ’مہاجر‘ سیاست سے ’متحدہ‘ سیاست کی طرف لانے والی ایم کیو ایم بری طرح لڑکھڑا کر رہ گئی۔۔۔ اس کے بعد کراچی میں لسانی تقسیم پھر سے گہری ہونے لگی، ورنہ اہل کراچی کے لیے ’پشتون مہاجر تصادم‘ ایک ڈراؤنے ماضی کے طور پر ہی رہ گیا تھا۔۔۔ مجموعی امن بھی آج سے بہتر تھا، دہشت گردی کے کچھ واقعات ضرور ہوئے اور وقتاً فوقتاً کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران بھی قتل کیے جاتے رہے۔ لیکن اس کے بعد پھر اس لسانیت کی آنچ سے لاشے بھی گرنے لگے، 2008ء کے بعد 2009ء میں یہ باقاعدہ فساد کا رنگ اختیار کر گیا اور 2012ء تک یہ شہر دوبارہ برسوں پرانی نفرتوں میں جکڑا گیا۔۔۔

2013ء کے چناؤ سے قبل شہر کی سب سے بڑی جماعت ’متحدہ قومی موومنٹ‘ دہشت گردی کے خطرات کے باعث انتخابی مہم نہ چلا سکی، ناقدین نے اِسے عدم مقبولیت کے سبب ایم کیو ایم کا ڈھونگ کہا۔ متحدہ، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا اظہار کیا، جو انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹ ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2012ء میں عمران خان نے مزار قائد پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔۔۔ جسے ابتداً متحدہ سے خاموش مفاہمت کا نتیجہ قرار دیا گیا، مگر 2013ء میں تحریک انصاف شہر کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس چناؤ میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی منور حسن نے پولنگ کے کچھ گھنٹوں بعد کراچی وحیدرآباد میں بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

٭الطاف حسین کے بیانات پر پابندی لگی

کراچی کی تاریخ میں 11 مارچ 2015ء اہم موڑ ہے، جب متحدہ کے مرکز ’نائن زیرو‘ پر چھاپا پڑا، اس سے قبل ان کے یونٹ اور سیکٹر آفس پر چھاپے اور کارکنان کی گرفتاریاں جاری تھیں، لیکن یہ واقعہ ان کے لیے ایک بہت بڑے دھچکے کا باعث بنا، لیکن اسی حلقے (اس وقت کے 246) میں 23 اپریل 2015ء کو ضمنی انتخاب ہوا، جس میں متحدہ نے 70 ہزار ووٹوں سے واضح سبقت حاصل کی۔ اس دوران چھاپے، گرفتاریوں اور کارکنان کی ہلاکتوں پر الطاف حسین کے ریاستی اداروں کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ زور پکڑ گیا، نتیجتاً 31 اگست 2015ء کو ذرایع اِبلاغ میں ان کے بیانات شایع یا نشر کرنے حتیٰ کہ ان کی تصویر اور نام تک لینے کے خلاف منادی ہوگئی۔ ملکی تاریخ میں کسی سیاسی قائد پر اعلانیہ ایسی پابندی کبھی نہیں لگی۔ پھر جہاں یہ تصور تھا کہ ’بھائی‘ کی تقریر نہ دکھائی تو کراچی میں چینل نہیں چل سکے گا، وہاں یہ ہوا کہ اگر بھائی چلے تو پھر چینل نہ چلے گا۔ تاہم ایم کیو ایم کے جلسوں سے الطاف حسین کی تقاریر جاری رہیں۔

٭مصطفیٰ کمال نے نقب لگانے کی کوشش کی

ان واقعات کے دوران دسمبر 2015ء میں بلدیاتی چناؤ ہوا اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے باوجود میدان ایم کیو ایم کے نام رہا، چند ماہ بعد مارچ 2016ء میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اچانک کراچی پہنچے اور ایک کے بعد ایک متحدہ کے کئی راہ نما اپنے ساتھ ملائے اور ایک نئی جماعت ’پاک سرزمین پارٹی‘ (پی ایس پی) کا ڈول ڈالا۔ ابتداً ’پی ایس پی‘ جانے والے ارکان اسمبلی مستعفی ہوئے تو ان حلقوں کے ضمنی انتخاب میں متحدہ پھر فتح یاب ہوئی۔ مصطفیٰ کمال اس کا موازنہ عام انتخابات کے ووٹوں سے کرکے اس کا سہرا اپنی ’تحریک‘ کے سر باندھ کر کہتے کہ دیکھو ہماری وجہ سے عام انتخابات میں لیے گئے ووٹوں سے کتنے کم ووٹ ہوگئے۔ ان کی جماعت کوئی ضمنی انتخاب بھی نہ لڑی، حالاں کہ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی انہیں اپنی نشست پر مقابلے کا چیلینج بھی دیتے رہے۔

ایم کیو ایم اس بیچ اپنے کارکنان کے لاپتا اور قتل ہونے کا الزام بعض اداروں پر لگاتی رہی اور 12 ستمبر 2015ء کو اپنے تین کارکنوں کی ہلاکت پر یوم سوگ اور کاروبار بند رکھنے کی کال دی، تو اسے ریاست کی جانب سے بھرپور طریقے سے ناکام بنایا گیا۔۔۔ کسی نے پھبتی کسی کہ وہ دکانیں بھی کھلوا دی گئیں، جو برسوں سے بند پڑی تھیں! اس سے قبل 12 دسمبر 2014ء کو تحریک انصاف کی ہڑتال پر شہر بھر میں چوراہوں پر دھرنے دے کر آمدورفت مفلوج کردی اور ان راستے بند کرنے والوں کی کوئی مزاحمت نہ کی گئی۔

٭پھر 22 اگست 2016ء آگئی۔۔۔

کہاں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی آئے دن چیخ پکار کرتی تھی کہ فلاں بیان یا فلاں واقعہ اُن کے ہاں ’مائنس ون‘ کی سازش ہے، ہم یہ کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے اور کہاں انہوں نے یہ سب کچھ خود کیا۔ ہوا یوں کہ ایم کیو ایم کے مظاہروں اور احتجاج کے دوران 22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال میں الطاف حسین نے ریاست مخالف نعرے لگا دیے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک نجی چینل میں توڑ پھوڑ ہوئی، جس کے بعد مزید سخت کارروائی شروع ہوئی، ’نائن زیرو‘ سیل ہوگیا، مرکزی راہ نما گرفتار ہوئے یا روپوش۔۔۔

اگلے روز ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر ارکان نے رہائی کے بعد ایک ہوٹل میں ملاقاتیں کیں اور پھر اپنے ’قائد تحریک‘ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور کہا کہ ہم ریاست کے خلاف کسی بات کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے، اس کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کے سیکڑوں دفاتر غیرقانونی قرار دے کر مسمار کردیے گئے۔۔۔ کچھ دن بعد لندن سے نئی ’رابطہ کمیٹی‘ کا اعلان ہوا۔ جس میں ڈاکٹر حسن ظفر عارف، مومن خان مومن، ساتھی اسحق، امجد اللہ کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس شامل تھے، بعد میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ رہائی کے بعد حسن ظفر عارف کے سوا سب غیرفعال ہوگئے اور 14 جنوری 2018ء کی صبح وہ پراسرار طور پر ابراہیم حیدری کے علاقے میں اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر مردہ پائے گئے، جس کے بعد الطاف حسین سے وابستہ کوئی شخص منظرعام پر نہیں رہا۔

کراچی کے چھے ضلعوں کی انتخابی نشستیں

کراچی کے چھے اضلاع میں ووٹروں کی تعداد اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا بٹوارا کچھ اس طرح کیا گیا ہے:

٭سب سے بڑے ضلع وسطی میں رائے دہندگان کی کُل تعداد 18 لاکھ 60 ہزار 137ہے، مگر قومی اسمبلی کے صرف چار حلقے ہیں۔

٭ضلعی غربی میں 16 لاکھ 60ہزار 57 ووٹر درج ہیں، مگر قومی اسمبلی کے سب سے زیادہ پانچ حلقے بنائے گئے۔

٭ضلع شرقی میں ووٹروں کی تعداد 14 لاکھ 36 ہزار 109 ہیں، اور قومی اسمبلی کی چار حلقے ہیں، یعنی ووٹر ضلع وسطی سے تین لاکھ کم، مگر قومی اسمبلی کی نشستیں ضلع وسطی کے مساوی!

٭ضلع کورنگی میں کُل3 1 لاکھ 18 ہزار 705 رائے دہندگان کی نمائندگی کے لیے قومی اسمبلی کے تین حلقے بنائے گئے۔

٭ضلع جنوبی 10 لاکھ 80 ہزار 652 رائے دہندگان کا حامل ہے، مگر یہاں صرف دو حلقے تشکیل دیے گئے، جب کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ کم ووٹروں والے ضلع ملیر میں تین حلقے بنائے گئے۔

٭کراچی کے سب سے چھوٹے ضلعے ملیر میں 7 لاکھ 51 ہزار 526 پر قومی اسمبلی کے تین حلقے بنا دیے گئے، اس ضلع کی آبادی ضلع کورنگی سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ کم ہے، مگر اس کے باوجود اس کی نشستیں بھی کورنگی کے برابر یعنی تین بنائی گئیں۔

 ’’بائیکاٹ‘‘ سے ’’بائیکاٹ‘‘ تک!

1993ء کے بعد 2018ء میں الطاف حسین نے دوبارہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ان 25 برسوں میں پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، اس بار ایم کیو ایم نے اُن کے بغیر اس چناؤ میں حصہ لیا۔ اس لیے یہ تو یقینی تھا کہ اِس بائیکاٹ کا اثر اُس جیسا تو کسی صورت نہیں ہوگا، لیکن اعدادوشمار کی نظر سے دیکھیں تو 2013ء میں کراچی میں حق رائے دہی کا تناسب 55 فی صد تھا، جو 2018ء میں 40 فی صد رہا اور اس کا عام مشاہدہ بھی کیا گیا، اب اس کا سبب الطاف حسین کی اپیل کہیں یا ووٹر کی مایوسی۔ تاہم ناقدین اس کمی کا سبب جعلی ٹھپوں میں رکاوٹ بھی قرار دیتے ہیں۔

دونوں بائیکاٹ دیکھیے تو کراچی میں ایم کیو ایم کے امیدواروں نے 1990ء میں 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک ووٹ لیے، 1993ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو کراچی کی 13 نشستوں میں سے چھے، چھے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور ایک جماعت اسلامی کے حصے میں آئیں اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد 13 ہزار سے 38 ہزار تک رہی، جب کہ 2013ء میں کراچی کی 20 نشستوں میں سے 17 ایم کیو ایم کو ملیں، اور ان امیدواروں کو 39 ہزار سے ایک لاکھ 39 ہزار تک ووٹ ملے۔ 2018ء کے چناؤ کے موقع پر کراچی کی ایک نشست بڑھی، اور نئی حد بندیوں کے بعد یہ حلقے 236 سے 256 تک ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کے فتح یاب امیدواروں نے 21 ہزار سے 91 ہزار تک ووٹ لیے، ایم کیو ایم کے فتح یاب امیدواروں کو 52 سے 61 ہزار کے درمیان ووٹ ملے۔ ان حلقوں میں فتح یاب امیدوار اور کُل ووٹروں کا ذکر کچھ یوں ہے:

این اے 236میں پیپلز پارٹی 66 ہزار 641ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2 لاکھ 33 ہزار 28)

این اے 237 میں تحریک انصاف 33 ہزار 522 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2 لاکھ 83 ہزار 882)

این اے 238 پیپلزپارٹی نے 29 ہزار 606لے کر میدان مارا (کُل ووٹر2 لاکھ 34ہزار616)

این اے 239میں تحریک انصاف69 ہزار 161 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5لاکھ 28ہزار 732)

این اے 240میں ایم کیو ایم 61 ہزار 165 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 4 لاکھ 75 ہزار 523)

این اے 241میں تحریک انصاف 26 ہزار 714 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 3 لاکھ 14 ہزار 450)

این اے 242میں تحریک انصاف 27 ہزار 502 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر ایک لاکھ 83ہزار 373)

این اے 243میں تحریک انصاف 91 ہزار 373 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 4 لاکھ ایک ہزار 833)

این اے 244 میں تحریک انصاف69 ہزار 480 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 7ہزار 363)

این اے 245میں تحریک انصاف56 ہزار 673 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 43ہزار 540)

این اے 246 میں تحریک انصاف نے 53ہزار 29 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5 لاکھ 36 ہزار 688 )

این اے 247میں تحریک انصاف نے 90 ہزار 907 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5 لاکھ 43ہزار 964)

این اے 248میں پیپلزپارٹی نے 35 ہزار 76 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر3لاکھ 3ہزار 258)

این اے 249میں تحریک انصاف 35 ہزار 349 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر3لاکھ 31 ہزار 430)

این اے 250میں تحریک انصاف36ہزار 60 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 675)

این اے 251میں ایم کیو ایم 56ہزار 888 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4 لاکھ 5ہزار 652)

این اے 252میں تحریک انصاف 21ہزار 65 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2لاکھ 19ہزار 42)

این اے 253میں ایم کیو ایم نے 52 ہزا 426 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 684)

این اے 254میں تحریک انصاف  75 ہزار 702 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5لاکھ 5ہزار 291)

این اے 255میں ایم کیو ایم 59 ہزار 781 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 56ہزار 561)

این اے 256میں تحریک انصاف 89 ہزار 857 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 88ہزار 482)

وزیراعظم بنانے والی پارٹی!

ہمارے تقریباً 44 فی صد ووٹروں کی عمر 35 سال سے کم ہے۔ یہ عمر بہت کچھ کر گزرنے کا عزم لیے ہوئے ہوتی ہے، اس عمر میں نئی چیزیں اور تبدیلیاں بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ آج کے نوجوان اِبلاغیات کے جدید وسائل سے آراستہ ہیں، دنیا بھر کی سیاسی تبدیلیوں نے انہیں کافی سیاسی شعور عطا کیا اور وہ اپنے حق رائے دہی کی طرف راغب ہوئے۔ ایم کیو ایم سمیت دیگر امیدوار ان کے سامنے تھے۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں، تنظیمی بحران اور ٹوٹ پھوٹ تھی تو ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان تھا، روایتی طور پر ایم کیو ایم کا مخالف ووٹ جماعت اسلامی کو پڑتا یا اس بار ’پی ایس پی‘ بھی اس میں حصہ وصول کرنے کے لیے کوشاں تھی، لیکن ووٹروں نے اس کے لیے ’تحریک انصاف‘ کو چُنا۔ جس میں عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی کشش موجود تھی۔ نئی نسل ووٹ دیتے ہوئے یہ سوچتی ہے کہ اس کی جماعت کا وزیراعظم بنے گا یا نہیں۔

ایسے میں ان کے پاس تین بڑی جماعتیں رہ جاتی ہیں، جن میں سندھ میں پیپلزپارٹی سندھ میں گذشتہ10 برس سے برسراقتدار ہے، اس دوران نئی نسل نے بھی اسے بہت تفصیل سے آزما لیا۔ رہی نواز لیگ جو شاید بہت سے ووٹروں کی پیدائش سے بھی پہلے سے اقتدار میں آتی رہی ہے اور اس بار اگر اس نے خود کو کچھ مختلف کیا تو اس کا محور پنجاب ہی رہا، محض انتخابات کے نزدیک کراچی آجانا کوئی مفید عمل نہیں۔ ایسے میں مایوس ووٹروں اور نوجوانوں کا اس جانب متوجہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، جو بہت کچھ تبدیل کرنے کے نعرہ بلند کرتی ہے۔

نئی حلقہ بندیوں نے بہت کچھ بدل ڈالا!

پچھلی حلقہ بندیاں پرویز مشرف کے دور میں کی گئیں، جس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ایم کیوایم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئیں، جب کہ ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کا رومان تو 2002ء کے انتخابات کے بعد شروع ہوا۔ 2017ء میں 19 سال بعد مردم شماری ہوئی تو اہل کراچی توقع کرتے تھے کہ قومی اسمبلی میں کراچی کی نشستیں دُگنی نہ سہی مگر 50 سے 60 فی صد تک تو بڑھ ہی جائیں گی، مگر مردم شماری کے بعد کراچی کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔ شمار کریں تو رائے دہندگان کے حوالے سے سب سے بڑا ضلع وسطی، جب کہ سب سے چھوٹا ملیر ہے، دل چسپ بات یہ ہے کہ بڑھنے والی قومی اسمبلی کی نشست ملیر میں بڑھی، جب کہ ضلع وسطی کی ایک نشست کم کر دی گئی!

مردم شماری کے ذرا اعدادوشمار ہی دیکھ لیں تو ہم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے کون سی ایسی ’راکٹ سائنس‘ سے استفادہ کیا گیا ہے کہ اسی شہر میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 242میں رائے دہندگان ایک لاکھ 83 ہزار 373 ہیں، جب کہ اسی شہر میں ایک حلقہ 247 بھی ہے جہاں رائے دہندگان کا شمار 5لاکھ 43 ہزار 964 ہے! یعنی قومی اسمبلی کی ایک نشست کی آبادی، اسی شہر کے دوسرے انتخابی حلقے سے تین گنا تک زیادہ ہے۔ حلقہ بندیوں میں رائے دہندگان کی تعداد کو اس طرح نظرانداز کرنا سراسر غیرجمہوری ہے۔

کراچی میں مجموعی طور پر 81 لاکھ سے زائد رائے دہندگان ہیں۔ یہاں دو لاکھ سے کم ووٹروں کی بھی ایک نشست ہے، اگر ہم دو لاکھ ووٹروں پر ایک نشست کا بھی حساب لگائیں تو کراچی کی قومی اسمبلی کی کم سے کم 40 نشستیں بنتی ہیں! اگر کراچی میں پانچ کم ترین ووٹروں والی نشستیں (این اے 236، 237، 238، 242 اور 252) کے ووٹروں کا اوسط نکال کر کُل رائے دہندگان پر تقسیم کریں، تو اس حساب سے بھی کم سے کم 35 نشستیں ہونا چاہییں۔

The post انتخابات 2018ء؛ کراچی میں کیا ہوا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

بحران بڑا یا لیڈر؟

$
0
0

کسی شاعر کا مشہور شعر کچھ یوں ہے ( وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ) یہ حادثہ انفرادی،اجتماعی، سماجی یا قومی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔

سماجی علوم، سوشل سائنسز اور خصوصا سوشیا لوجی کے ماہرین اس سے اتفاق کریں گے کہ حادثہ جو تبدیلی کا عکاس بھی ہو تا ہے عموماً اور بظاہر اچانک یا ایک دم رونما ہوتا معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے پس منظر میں فکر و احساس اور چھوٹے بڑے واقعا ت کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔

معاشرتی، سماجی اور ارتقائی عمل جو منفی اور مثبت دونوں طرح کا ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ہر معاشرے میں جاری و ساری رہتا ہے اور اس پر موسم، ماحولیات، قدرتی آفات بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور غیر قدرتی عوامل بھی، جہاں تک تعلق غیر قدرتی عوامل کا ہے تو یہ انسانی ہاتھوں سے اور انسانی فکر و عمل کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ان میں جنگیں، خانہ جنگیاں، سائنسی ایجادات اور دریافتیں، ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت ، میڈیا اور آج کے دور میں اس سے منسلک دیگر شعبے یا ادارے جیسے دنیا کا مرکزی بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج وغیرہ ۔ جہاں تک قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کا تعلق ہے تو قبل از تاریخ اور تاریخ کے اعتبار سے ہمیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھنڈرات کی صورت میں ایسے آثار قدیمہ دکھائی دیتے ہیں جو قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کے سبب تباہ ہوئے۔

انہی کھنڈرات میں بعض ایسے بھی ہیں جو غیر قدرتی عوامل جیسے جنگوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے برباد ہو گئے۔ جہاں تک تعلق قبل ازتاریخ کا ہے تو اس پر بھی تحقیق کر کے بہت سی قدیم تہذیبوں کی خوشحالی سے لے کر تباہی تک کے واقعات اور اسباب معلوم کئے گئے ہیں مگر ان میں ان شخصیات کے بارے میں بہت ہی کم اور مبہم انداز کی معلومات سامنے آتی ہیں جو اس تہذیبی عمل اور ارتقا کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کے حوالوں سے اہم رہی ہوں۔

تاریخی اعتبارسے جائزہ لیں تو جب سے انسان نے حروف تہجی ایجاد کئے اور لکھنا شروع کیا تو اس نے اپنی تاریخ کو تحریر کی صورت دے کر سماجی عمل اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی سماج میں ہونے والی منفی اور مثبت تبدیلوں کے ساتھ ان شخصیات کو بھی تاریخی ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جو ان تبدیلیوں کے محرک ثابت ہوئے ۔ دنیا کے مختلف خطوں اور معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں میں اگرچہ پورے معاشرے کے افراد کا کسی نہ کسی لحا ظ سے حصہ ہوتا ہے لیکن کوئی ایک واضح، یا نمایاں کردار ادا کرنے کی وجہ سے راہنما کہلاتا ہے، اسی راہنما ئی میں شخصیات کے حوالے سے دو شعبے اہم ہوتے ہیں۔

ایک مفکرین یا دانشوروں کا اور دوسرا ان مفکرین کے وہ نظریات جن کو عملی جامہ پہنا کر محرک شخصیت جو سماج میں عملی طور پر تبدیلی لاتی ہے اور لیڈر کہلا تی ہے، چونکہ تبدیلی کی ساری کمانڈ اس کے ہاتھ میں ہو تی ہے اس لیے مفکرین یا دانشور وں کا نام قدرے پس منظر میں رہ جاتا ہے، پھر اکثر معاشروں میں تبدیلیوں کے اعتبار سے ایک ہی دانشور یا مفکر کی بجائے وقت کے تسلسل کے لحاظ سے ایک سے زیادہ مفکرین یہ فرائض انجام دیتے ہیں اس لیے بھی مفکرین زیادہ نمایاں نہیں ہوتے، مگر انسانی تاریخ اس بات کی گواہی بھی دیتی ہے کہ کوئی مفکر بڑا انقلابی نظریہ پیش کرتا ہے جس کی بنیاد پر سماجی تبدیلی انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو پھر محرک شخصیت (لیڈر) کے ساتھ یا اس سے بھی کہیں زیادہ شہرت مفکر یا دانشور کو حاصل ہوتی ہے۔

جس کے نظریات کے سبب معاشرے میں تبدیلی کے لیے عوام کے اذہان تیار ہوئے ہوتے ہیں، انسانی تہذیبی ارتقا میں اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہی انسان پر احسان فرمایا اور اسے علم دیا اور وہ کچھ بتا یا جو وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ کے پیغامات اور احکامات نبیوں اور رسولوں کے ذریعے آئے اور اس کے بعد جب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا تو پھر دنیا میں انہی بنیادوں پر اس علم کا اعتراف کرتے اور بعض مفکرین کے حوالے سے اعتراف نہ کرتے ہوئے سماجی ارتقائی عمل کے لیے فکر و دانش کا عمل جاری رہا اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔

اس عمل میں نیکی و بدی یا مثبت اور منفی لحاظ سے دو صورتیں متوازی رہی ہیں۔ دنیا میں سادہ سما ج نے انیسویں صدی عیسوی میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نمایاں طور پر اپنا نا شروع کیا اور یہ صورت تیز رفتاری سے مغرب خصوصاً یورپ میں سامنے آئی، اس کا تاریخی پس منظر بہت طویل ہے، یہاں صرف ایک صدی یعنی1918 سے 2018 ء تک کا جائزہ لینا مقصود ہے، اس دوران پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہوئیں، روس میں اشتراکی انقلاب آیا ، دنیا میں جنگ کے سات ساتھ امن کی کوششیں بھی ہو ئیں اور لیگ آف نیشنز ’’اقوام عالم‘‘ کے ادارے کی ناکامی کے بعد 1945 میں ’’یواین او،، اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا، پھر سرد جنگ ہوئی جس میں کوریا اور ویتنام کی جنگیں اہم رہیں۔ کیوبا میزائل بحران کی وجہ سے روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا ہوئے، عرب اسرائیل اور پاک بھارت تین تین جنگیں ہوئیں، امریکہ کے ایٹمی قوت بننے کے بعد 1964 تک روس، برطانیہ، فرانس اور چین ایٹمی قوت بنے، اس کے بعد 1998 میں بھارت اور پاکستان بھی ایٹمی قوت بن گئے۔

ایران میں انقلاب رونما ہوا، افغا نستا ن میں سابق سوویت یو نین نے جارحیت کی اور 1990ء تک نہ صرف سوویت یونین کو شکست ہوئی بلکہ خود سوویت یونین ہی ٹوٹ گئی اور عملی طور پر مشرقی یورپ سمیت تقریباً پوری دنیا ہی سے اشتراکی نظام رخصت ہوا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہوئے بس اتنا کا فی ہو گا کہ یہ کہہ دیا جائے کہ جتنے واقعات اور تبدیلیاں اس ایک صدی میں ہوئی ہیں اتنے بڑے واقعات اور تبدیلیاں پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئیں۔ اس دور میں جو مفکرین اہم ترین رہے ان میں سے اکثر اس صدی سے چند برس قبل رہے ان میں اہم ترین کارل مارکس، ولٹیئر، روسو وغیرہ رہے۔

اور جو لیڈر سامنے آئے ان میں روس کے ولادی میر لینن، جوزف، سٹا لن، امریکہ کے صدور، وڈرو ویلسن 1913-21 ترکی کے مصطفی کمال پاشا، افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ، ہندوستان کے موہن داس گاندھی اور قائد اعظم محمدعلی جناح اہم تھے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی نمایاں ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم ہی تاریخِ انسانی کا وہ اہم واقعہ ہے جب ایک جنگ نے کسی نہ کسی اعتبار سے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ اس عمل کا نتیجہ تھا جس کے آغاز میں 1492ء میں اسپین سے مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکو مت کے خاتمے کے ساتھ اسی سال امریکہ دریافت ہوا تھا اور اس کے چند برس کے اندر پوری دنیا کا مکمل نقشہ دنیا کے لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام جلد عالمی تجارتی اقتصادی نظام سے مربوط ہوکر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوا۔ پھر دنیا دو گروہی اتحاد کی صورت میں واضح ہو ئی جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول ہوئی اور اس کے اختتام پر سب سے زیادہ نقصان اسلامی ممالک کو ہوا۔ جنگ عظیم اول کے بعد سے 1945ء یعنی دوسری جنگ عظیم تک دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ایسے تھے جو آزاد کہلاتے تھے، حجاز مقدس جس کو اس لیے برائے نام آزاد رکھا گیا تھا کہ عالمی سطح پر مسلمان مشترکہ طور پر شدید ردعمل کا مظاہرہ نہ کر بیٹھیں ، افغانستان جو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان حائل ریاست، بفر اسٹیٹ کے طور پر تھا کہ کہیں دو بڑی قوتیں براہ راست آپس میں نہ ٹکرا جائیں، اور صرف ترکی ایک ایسا اسلامی ملک تھا جس کو مصطفٰی کمال پاشا نے برطانیہ سے جنگ کے بعد آزاد کروایا تھا جو ترکی جمہوریہ اور قدرے نیشنلسٹ اور سیکو لر ملک بن گیا تھا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں تحریک خلافت، طویل جد وجہد کے بعد ہندوستان میں سیاسی سماجی لحاظ سے سبق حاصل کرکے خاموش ہوگئی تھی اور علامہ اقبال نے اس مایوس صورتحال میں دنیا کے مسلمانوں سے کہا تھا۔

اگر عثمانیوں پہ کوہ ِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پہلی جنگ عظیم کے صرف ایک سال بعد تیسری برطا نوی افغان جنگ 1919 میں ہوئی اگرچہ یہ جنگ چند روزہ تھی مگر اس میں پہلی بارکابل پر برطانوی ہندکی فضائیہ نے بمباری کی اور جنگ کے بعد افغانستان نے نہ صرف مکمل خود مختاری حاصل کر لی بلکہ اس نے روس کی مدد سے اپنی فضائیہ بھی بنانے کا آغاز کر دیا مگر تھوڑے عرصے بعد ہی افغانستان میں برطانوی سازش کے ذریعے وہاں کے مقبول بادشاہ غازی امان اللہ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اس کے بعد 1939 تا 1945ء دوسری جنگ عظیم جاری رہی اس دوران اور اس کے فوراً بعد جو لیڈر شپ عالمی سطح پر سامنے آئی ان میں امریکی صدرو فرینک ڈی روزولیٹ، 1933-45 ہیری ایس ٹرو مین 1945-53 اسٹالن، ونسٹن چرچل، ڈیگال، قائد اعظم محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو، ماؤزے تنگ،چواین لائی اور تھوڑے عرصے بعد ملائیشیا کے تنکو عبدالرحمان، انڈونیشیا کے سکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر، چیکو سلواکیہ کے مارشل ٹیٹو شمالی کو ریا کے کم آل سنگ، اور ویتنام کے ہیوچی می شامل تھے۔ جنگ عظیم کے بعد مرحلہ وار نو آبادیاتی نظام ختم ہو رہا تھا البتہ سرد جنگ کے آغاز کے بعد ہی سے عالمی سطح پر مربوط معاشی اقتصادی نظام کا نقشہ دوسری جنگ عظیم سے دو تین سال پہلے ہی انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ ’’آئی ایم ایف‘‘ اور پھر ورلڈ بنک کی صورت میں اور سیاسی سطح پر اقوام متحدہ اور خصوصاً اس کی سکیورٹی کونسل کی تشکیل کے ساتھ 1943 تا 1945-46 بنیادی ڈھانچے کی صورت تشکیل پا چکا تھا۔ 1947ء سے پچاس کی دہائی کے وسط تک اس بدلتی ہوئی صورتحال کو مسلم دنیا میںصرف پاکستان، مصر اور انڈونیشیا، کی لیڈر شپ سمجھتی تھی۔

پاکستان میں قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علیٰ خان کی شہادت کے بعد ہماری قیادت نے اس صورتحال کے مقابلے کے بجائے مفاہمت کی پالیسیوں کو اپنا یا، قائد اعظم کو آزادی کے بعد جو پاکستان ملا اس نئی مملکت کو جہاں اقتصادی، معاشی مسائل درپیش تھے وہاں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت، بھارت کی جانب سے اثاثوں کی تقسیم اور ملک میں اعلیٰ فوجی و سول بیورو کریسی میں مسلمانوں کا کم ہونا شامل تھا مگر ان تمام مسائل کے باوجود کشمیر میں مجاہدین اور پاک فوج کی بھارت کے خلاف جنگ میں آدھا کشمیر آزاد کرانا ایک اہم ترین کارنامہ تھا۔ جنگ عظیم اول اور دوئم کا زمانہ ایسا دور ہے کہ اس میں دنیا جنگ کے نام پر عا لمی سطح پر دوگروہوں میں دو مرتبہ تقسیم ہوئی، سات کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام کے جبر کا عالمی ، علاقائی اور مقامی سطحوں پر شدید ردعمل تھا جس نے نہ صرف عالمی سطح کے اجتماعی مفادات کا ٹکراؤ پیدا کیا بلکہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں بڑی لیڈر شپ کو جنم دیا اور ان لیڈروں نے معاشروں میں اپنی ساکھ بنا کر قوم وملک پر اعتبار قائم کرکے جدوجہد کے ذریعے آزادیا ں حاصل کیں اور کہیں اپنی آزادی کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے قومی وقار کو بلند کیا، اپنی خوشحالی اور ترقی کو پائیدار بنایا۔ نظریات کی بنیادوں پر سابق سوویت یونین، چین اور پاکستان اہم تھے اور قائد اعظم اس لحاظ سے منفرد تھے کہ انہوں نہ صرف دو قومی نظریے کے ساتھ 1916ء کے میثا ق لکھنو میں ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کی جلد اور یقینی آزادی کا قابل عمل فارمولہ دیا اور جب اس پر کانگریس کی بد نیتی کو بھانپ لیا تو 1940ء کی قرارداد ِ پاکستان کے صرف سات سال کے اندر پاکستان قائم کر کے دکھا دیا۔

جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کی دوسر ی دہائی تک بیشتر ملکوں میں جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی لیڈر شپ رہی تھی، البتہ اس دور میں امریکہ کے جان ایف کینڈی اہم ترین رہے مگر تیسری دہائی میں جب سرد جنگ عروج پر پہنچی تو اس میں سوویت یونین کے خروشیف، برزنیف،کوسیگن، امریکہ کے صدور ، رچرڈ نکسن، جیرالڈ فورڈ اور جمی کارٹر اہم رہے جب کہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں جو لیڈر شپ ابھری وہ بہت اہم تھی، ان میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل، شام کے صدر اسد، لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی، عراق کے صدر صدام ، افغانستان کے صدر داؤد، ایران کے امام خمینی اہم تھے۔ قائد اعظم کے بعد آج کے پاکستان میں سب سے زیادہ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی تبدیلیاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں اور ان تبدیلیوں کے اثرات کسی نہ کسی حوالے سے پوری دنیا پر بھی مرتب ہو ئے جس طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں روس، اسلامی دنیا اور امریکہ میں منفی اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ اسی طرح کی صورتحال 1971 سے 1981 تک رہی۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ نے بھارت سوویت یونین اتحاد پر چین، امریکہ اور پاکستان مختلف انداز سے مستقبل قریب کی پالیسیوں، منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں کو ترتیب دینے لگے۔ اس صورتحال میں قدرے مختلف پہلوؤں سے اُس وقت اضافہ ہوا جب 1973ء کی تیسری عرب اسرئیل جنگ ہو ئی۔ ان دونوں جنگوں سے اسلامی ممالک میں امریکہ اور سوویت یونین سے تعلقات کے لحاظ سے اعتماد و اعتبار میں کمی واقع ہوئی جس کے ردعمل میں 1974ء میں پہلی بار بار مقصد اور قدرے حقیقی اتحاد کی صورت مسلم ممالک میں پیدا ہوئی اور اس کا فائدہ بھٹو نے حاصل کیا اور لاہور میں کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرائی، بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی۔

پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکال لیا، انہوں نے ایک جانب امریکہ اور برطانیہ سے باوقار اندازمیں تعلقات قائم کئے تو ساتھ ہی ان کو سیاسی اور عسکری قوت کے لحاظ سے متوازن رکھنے کے لیے چین اور سوویت یونین سے بھی تعلقات استوار کئے، عرب اور خلیجی ممالک سے بہتر تعلقات اور دوستی کی وجہ سے جب ان ملکوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہو تو پاکستان سے تقریباً 35 لاکھ افراد ان خلیجی ریاستوں اورعرب ملکوں میں گئے جہاں انہوں نے جب مستقل بنیادوں پر کروڑوں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجنا شروع کیا تو اس کی وجہ سے ملک اور معاشرے کے بہت سے شعبوں میں واضح انداز میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک جانب تو پاکستان مالی اور اقتصادی اعتبار سے خصوصاً امریکہ اور مغربی ملکوں کے دباؤ سے کا فی حد تک آزاد ہو گا تو دوسری جانب پاکستانی معاشرے میں جہاں صنعتی اور زرعی اصلاحات سے طبقاتی طور پر ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی تھی وہاں جب ہمارے دیہی علاقوں سے لاکھوں نوجوان روز گار کے لیے عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں گئے تو وہاں ان کی آمدنیاں ملک میں اجرت کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ تھیں اور یوں جن کو صدیوں سے کمی کمین یعنی کمتر کہا جاتا تھا ان لوگوں نے محنت نہ کرنے والے بڑے اور درمیانے درجے کے زمینداروں کے گھروں کے سامنے بڑے اور پختہ مکانات بنائے۔

یوں یہ تبدیلی سماجی ، سیاسی اور اقتصادی تبدیلی تھی جس کا مضبوط اور پائیدار تسلسل بدقسمتی سے جاری نہ رہا بلکہ معاشر ے میں آبادی اور سماجی ساخت میں منفی تبدیلیوں کا سلسلہ اسی کی دہائی سے شروع ہو گیا جس کی وجہ سے خصوصاً جب سردجنگ کے اختتام 1990ء کے گیا رہ سال بعد نئی طرز کی جنگ شروع ہوئی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ اس دوران خصوصاً اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ اور دیگر ممالک کے زیرِعتاب رہے، اس دوران تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں اور معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یوں پاکستان پر بھی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا اور بد قسمتی سے ملک میں کرپشن کسی وبا کے انداز میں شدت اور تیز رفتاری سے بڑھی اور اس کی وجہ سے ملک بحران کا شکار ہوا اور وقت کے ساتھ اس دو پہلوہی بحران میں میڈیا وار یا پروپیگنڈے سے پاکستانی عوام میں مایوسی بڑھنے لگی۔

یہ صورت 2006-07 سے بڑھتی ہوئی 2014 تک رہی مگر اس کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشنوں کے ذریعے اس دہشت گردی کی جنگ کے خلاف غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس دوران جب2007 ء دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں برسر اقتدار آئی تو اس کے ساتھ ہی ملک میں جمہوری عمل شروع ہوا اور بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت ملک کے صدر آصف علی زرداری نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔ باوجود اسکے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے ان پر اور پیپلز پارٹی کی حکومت اور ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر پیپلز پارٹی نے اس دوران پارلیمنٹ سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کروا لی اور پھر باوجود اس ترمیم اور مسلم لیگ ن سے مفاہمت کے پی پی پی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے شکست کھا گئی مگر اس دوران طویل عرصے بعد ملک میں ایک تیسری قوت پاکستان تحریک انصاف نہ صرف میدان عمل میں آئی بلکہ اس جماعت نے ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے نو جوانوں کو اپنی جانب کھینچا۔

پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ ن کے بعد مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ لیئے تھے مگر قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں پیپلز پارٹی سے کچھ کم تھیں اور پنجاب میں قومی اور صوبائی حلقوں میں اکثر حلقوں میں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی ۔

ان انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے انتخابات میں مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور احتجاجی تحریک شروع کی گئی جو کسی نہ کسی اعتبار سے 2018 کے انتخابات تک جاری رہی۔ اس دوران جب عالمی سطح پر پا نامہ لیک سامنے آئیں تو شریف خاندان پر اربوں ڈالر کی کرپشن اور ان رقوم کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات شروع ہوئے تو دوسری جانب 2008 سے 2018 تک قائم رہنے والی گذشتہ دونوں حکومتوں کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں ہی ناکام نہیں رہیں بلکہ نواز حکومت نے تو اقتصادی بحران کے دوران اداروں کے درمیان تصادم کی پالیسی کو اختیار کرکے اپنے اقتدار اور اپنے اور اپنے خاندان کو مقدمات سے بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور یوں ملک انتہائی شدید نوعیت کے سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہوا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا سیاسی اقتصادی بحران ہے۔

پہلا بحران قیام پاکستان کے ساتھ ہی نمودار ہوا تھا جب کانگریس اور انگریزوں کی کو شش تھی کہ پاکستان کی نئی ریاست ناکام ہو جائے جس کو قائد اعظم نے باوجود جسمانی ناتوانی کے اپنی زندگی کے آخری ایک سال میں90% کم کردیا تھا، دوسرا بحران زیادہ شدید تھا جب 16 دسمبر1971ء کو ملک دولخت ہو گیا تھا اور آج کے پاکستان کا بھی تقریباً پانچ ہزار مربع میل رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا، بھارت کے پاس نوے ہزار جنگی قیدی تھے اور پاکستان کے خزانے میں سر کاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی صرف تین مہینوں کی رقم تھی، 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے حوالے کر دیا تو ان کی ساکھ عوام میں بطور ایماندار محب وطن اور ذہین لیڈر کے بہت مستحکم تھی اور عالمی سطح پر خصوصاً اُن کی خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کو دشمن بھی تسلیم کرتے تھے اور اپنی ان صلاحیتوں کو انہوں نے بطور وزیر خارجہ دنیا سے منوایا تھا۔

یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی ان خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر صرف دو برسوں میں ملک کو سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیا، آج پاکستان اپنی 71 سالہ تاریخ کے تیسرے اور بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس میں بھی ملک کو اپنی سالمیت،کے ساتھ اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مسائل کا سامنا ہے۔ 1947-48 میں اس وقت دنیا کا نوآبادیاتی نظام ختم ہونا شروع ہی ہوا تھا اور چین جیسے ملک سمیت دنیا کے تقریباً 70 سے زیادہ ملک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال وغیرہ کی نو آبادیات سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے تھے اس لیے قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو امریکہ کی جانب جھکنا پڑا، مگر بھٹو نے1962ء کی بھارت چین جنگ کے بعد ہی چین سے تعلقات کو بہتر کرنے کی حکمت عملی سے صدر ایوب خان کو آگاہ کرتے ہوئے امریکہ کے مقابلے ایک توازن قائم کر نے کی کامیاب کوشش کی تھی اور بعد میں اس صورتحال میں مزید بہتری آتی رہی۔دسمبر 1971ء کے دوسرے بحران میں جس میں ملک دو لخت بھی ہو گیا بھٹو نے کامیابی سے ملک کو باہر نکال لیا تھا۔

اب اس تیسرے بحران میں اگرچہ مسائل تقریباً وہی ہیں یعنی اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مگر آج دنیا کی صورتحال بہت بدل چکی ہے اب سرد جنگ کے بعد کی جنگ جس کو نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کی جنگ کا نام دیا گیا ہے اس جنگ کو بھی اب 17 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کو اب تک کامیابی یا کامیابی کی وہ سطح حاصل نہیں ہوئی ہے جو اسے پہلی ، دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد سرد جنگ کے اختتام 1990 تک حاصل ہوئی۔ اب امریکہ کے مقابلے میں اس جنگ کے حوالے سے پراکسی لڑائیاں جاری ہیں جو مجموعی طور پر سرد جنگ کی طرح ہی عالمی سطح پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ اب اس جنگ میں بھارت ، چین ، ایران ، روس، امریکہ اور دوسرے ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی اس جنگ کا دورانیہ غالباً امریکہ کے مقرر ہ وقت سے زیادہ ہو چکا ہے اور جب جنگ طویل ہو جائے تو اس کے اخراجات کو طویل مدت تک برداشت کرنا عوام کو طویل مدت تک خصوصاً جارحانہ انداز کی جنگ میں شامل رکھنا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔

دفاعی جنگ دشمن کی جانب سے مسلط کی جاتی ہے اور کو ئی بھی قوم اپنے وطن کے دفاع کے لیے یہ جنگ لڑتی رہتی ہے مگر اگر کوئی قوم کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جنگ لڑے تو پھر طویل مدت تک قوم کو اس جنگ میں شامل رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، اس کا تلخ تجربہ امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں ہو چکا ہے اور اگر حالات افغانستان میں زیادہ خراب ہوتے ہیں تو شائد امریکہ افغانستان میں مزید ٹھہر نہ سکے، اور اب یہاں مستقبل قریب میں ایسے حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں، اس وقت پاکستان، چین، روس اور بہت سے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اب یہ مسائل بات چیت کی بنیادوں پر حل کر لیئے جائیں، لیکن اگر امریکہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر حالات انسانی تصور سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔

اس وقت عمران کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت جس نے ابھی ایک ماہ کی مدت پوری نہیں کی ہے ان بیرونی محاذوں پر ماضی کے مقابلے میں باوجود گمبھیر اقتصادی بحران کے اصولی موقف پر ٹھہری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اندرونی مسائل اور ان مسائل کے حل کے لیے کئے جانے والے وعدوں کا بوجھ بھی پی ٹی آئی پر ہے مگر ایک چیز جو ملک کی تاریخ میں تیسر ی مرتبہ کسی قیادت کو حاصل ہے وہ عمران خان سے نوجوان نسل کا عشق کی حد تک لگاؤ ہے اور کروڑوں افراد فی الحال عمران خان سے جذباتی انداز میں پیار کرتے ہوئے اِ ن کی شخصیت پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔

ان سے قبل یہ اعزاز قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل رہا اور ان دونوں قومی ہیروز نے قوم و ملک سے مثالی وفا کی اور قوم کی محبت اور اعتماد کا بھرم قائم رکھا، ان تینوں شخصیات سے قوم کی محبت اور اعتماد کی بنیادی وجہ ان کا ایماندار ہو نا اور اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کسی قوت کے آگے نہ جھکنا ہے۔

اب اگر قائد اعظم اور بھٹو کے ادوار میں بااثر عالمی شخصیات اور اس عہد میں ان کے کردار کو مدنظر رکھیں، جس کا مختصراً جائزہ لیا جا چکا ہے تو آج صورتحال بہت نازک اور دلچسپ بھی ہے، اگر چہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے آج 2018 ء میںدہشت گردی کے خلاف جنگ تک بنیادی چیزیں یا مسائل وہی ہیں جنہوں نے سوسال پہلے عالمی سطح پر اس وقت کی دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو متاثر کیا تھا۔ دنیا کے وسائل اور دولت پر قبضہ اور اقتصادی طور پر اجارہ داری پہلی جنگ عظیم میں اس عالمی طرز عمل کے نتیجے میں اشتراکیت نے جنم لیا، دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا مگر اقتصادی نوآبادیاتی نظام سرد جنگ کے ساتھ پھیلنے لگا، 1990 میں جس سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا اس میں اشتراکیت کو شکست ہو ئی اور وہ دنیا سے تقریباً ختم ہو گئی۔

اِ س کے بعد سے جو جنگ جاری ہے اُسے پروپیگنڈ ے کے اعتبار سے عالمی قوتیں کوئی بھی نام دے کر ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی ہیں، اب اس جنگ کو اعلانیہ طور پر 17 سال مکمل ہو چکے ہیں، پہلی جنگ عظیم کے 21 سال بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور چھ برس میں ختم ہو گئی اس کے بعد سرد جنگ شروع ہوئی جس نے 45 برس کی مدت لی، یہ اس لحاظ سے واقعی سرد جنگ تھی کہ اس کا میدان ترقی پزیر ممالک تھے رفتار اور شدت کم تھی اس لیے اس جنگ کے خاتمے پر ہی سابق اشتراکی ممالک دو چار سال کے لیے اقتصادی بحران کا شکار ہو ئے، لیکن یہ جنگ جس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔

یہ آج تک کی دنیا میں ہو نے والی تمام جنگوں سے مختلف ہے اس کے فریقین اعلانیہ طور پر دنیا کے سامنے نہیں ہیں، یہ جنگ ملکوں کی سرحدوں کی بجائے عموماً ان کے شہروں میں پراکسی انداز میں جاری ہے لیکن سرد جنگ کے برعکس دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے اقتصادی بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ تو بڑی قوتوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے بعض ملکوں پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں اور دوسری اہم وجہ اُن ملکوں میں جہاں دہشت گردی ہے دہشت گردی سے سہم کر سرمایہ اور سرمایہ کار سکڑتا رہا ہے یا وہاں سے ہجرت کرتا رہا ہے، یوں عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے سکڑنے یا بہت کم مدت میں ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کی وجہ سے بھی سیاسی،اقتصادی، تجارتی اور سب سے اہم پیداواری مسائل پوری دنیا میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہی عالمی ردعمل ہے کہ اب دنیا کے اہم ممالک میں پہلی دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے خاتمے کی طرح کی لیڈر شپ عالمی سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔

جو امید افزا بھی ہے اور خطرناک بھی۔ امید افزا یوں ہے کہ اب ایک جانب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کوششیں ماضی کے مقابلے میں بہت تیز ہو گئیں ہیں اور امریکہ اور نیٹو ممالک کے حاکمانہ طرز عمل کو بھی ترقی پذیر ممالک نے دلائل اور توجیہات کی بنیاد پر چیلنج کر دیا ہے اگر چہ فی الحال امریکہ اور مغربی ممالک نے اپنی عالمی اقتصا دی برتری اور قوت سے ا سے دبانے کی کوشش کی ہے جس کی واضح مثال ترکی کی کرنسی کی قدر کو گرانا اور ایران پر شدید اقتصادی پابندیوں کا دوبارہ نافذ ہونا اور اپنے معاہدوں سے یک طرفہ طور پر مکر جانا، اور پاکستان کے کولیشن سپورٹ فنڈز کے 80 کروڑ ڈالر کا روک لینا ہے، اس صورتحال میںخصوصاً اگر امریکہ کا جائزہ لیا جائے تو سرد جنگ کی کامیابی میں رونالڈ ریگن اہم رہے اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی صدور بش سینئر اور جو نیئر دونوں اہم رہے، مگر آج شائد دنیا کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ وہ 14 جون 1946ء کی پیدائش کے مطابق 72 سال کے ہیں۔

ان کی اہلیہ میلانیا ان کے مقابلے میں48 برس کی ہیں ان کی شادی 13 سال پہلے ہو ئی تھی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس 3.1 ارب ڈالر کی دولت ہے اور یہی ان کی شہرت کی وجوہات ہیں، صدر ٹرمپ کے بعد اب عمران خان کے بطور اہم لیڈر اس عہد ے کے دوسرے رہنماؤں سے موازانہ کریں تو اہم ترین ولادی میر پوٹن ہیں جو7 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے، ان کی عمر 66 سال ہے وہ بھی اسپورٹس مین ہیں اور جوڈو کراٹے میں بلیک بیلٹ ہیں وہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے اہم عہدیدار تھے وہ گذشتہ اٹھارہ برسوں سے روس میں برسراقتدار ہیں۔ اس بار مارچ 2018 میں پو ٹن 76% ووٹ لے کر دوبارہ 2024 تک روس کے صدر منتخب ہوئے ہیں، اور مشرق وسطیٰ ، ایران ، ترکی، سینٹرل ایشیا اور افغانستان کی صورتحال پر ان کے کردار اور روس کی پالیسی نے انہیں دنیا کا ایک اہم لیڈر بنا دیا ہے۔

اسی طرح چین جو آج دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے یہاں شی جنگ پینگ صدر ہیں اور وہ بھی دوبارہ منتخب ہوئے ہیں، وہ 15 جون 1953 کو پیدا ہوئے اور اس وقت ان کی عمر 65 سال ہے اور اس وقت وہ نہ صرف چین جیسے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑے ملک کے سربراہ ہیں جو اب اقتصادی استحکام کے بعد عالمی سطح پر دفاعی اعتبارسے بھی ایک بڑی قوت بن رہا ہے اور اس وقت اس کے تابناک مستقبل کی ضمانت دنیا کے بیشتر ماہرین دے رہے ہیں ۔ ملائشیا کے سربراہ مہاتیر محمد کا ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کہ وہ طویل عرصے تک ملائشیا کے سربراہ رہنے کے بعد ازخود اقتدار سے دستبردار ہو گئے تھے، مگر ان کے بعد کی لیڈرشپ نے کرپشن سے ملک کی ترقی کو متاثر کیا تو وہ حال ہی میں دوبارہ برسرِ اقتدار آئے اور ملائشیا کی معیشت کو دوبارہ سنبھالا۔ مہاتر محمد 1925 میں پیدا ہوئے ان کی عمر اس وقت 93 سال ہے۔

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کے اہم ماہر معاشیات تصور کئے جاتے ہیں اور ایک بار پھر ملائشیا کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسلامی قوت اور دوستی کے علاوہ مجموعی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کی خصوصی اہمیت رہی ہے اور گذشتہ دو برسوں سے سعودی عرب میں بھی اقتدار میں تبدیلی کے ساتھ بنیادی طور پر ان کی پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے اور داخلی طور پر بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان برسر اقتدار ہیں اور بادشاہ کے ساتھ شہزاد ہ سلمان بہت اہم ہیں، بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی عمر 83 سال ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان جو31 اگست 1985 کو پیداہوئے تھے۔

اس وقت 32 سال کے ہیںاور یہ امید ہے کہ وہ مستقبل میں طویل عرصے تک حکمرانی کریں گے۔ اِ س وقت سعودی عرب یمن جنگ کے حوالے سے فیصلہ کن موقف اختیار کرچکا ہے، اور یہاں امن، یمن میں ایسی حکومت کے قیام پر ہی قائم ہوتا نظر آتا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو مستقبل میں کسی طرح کی کو ئی پریشانی یا اندیشہ نہ ہو، اسی صورتحال پر وہ ہمسایہ ملک قطر سے بھی اختلافات رکھتے ہیں، اندرونی طور پر شہزادہ محمد بن سلمان نے کر پشن کے خلاف کاروائیاں کی ہیں اور سابق شاہی اور اہم عہدیداروں سے اربوں ڈالر کی رقوم واپس لی ہیں، پاکستان کے سعودی عرب سے مراسم دفاعی اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں۔

ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور گذشتہ دس برسوں میں دونوں ملکو ں کے درمیان بعض امور پر ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی دکھائی دی، چین ، روس، ملائیشیا ، سعودی عرب کی طرح ایران میں بھی سیاسی قیادت مستحکم نظر آتی ہے۔ یہاں صدر حسن روحانی گذشتہ سال منتخب ہوئے ہیں، وہ 12 دسمبر 1948 کو پیدا ہوئے اور اس وقت ان کی عمر 69 سال ہے، وہ سابق اعلیٰ فوجی افسر رہے، ایران، عراق جنگ میں انہوں نے شجاعت کی بنیاد پر ایرانی فوج کے اعلیٰ ایوارڈ حاصل کئے، 1989 میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہو کر پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے اور اب ایران کے ساتویں اور مقبول صدر ہیں، لیکن بھارت اور افغانستان جن سے پاکستان کے مسائل طے پانے ہیں یہاں کی قیادت کو جلد انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1950 ہے یعنی وہ اس وقت 68 سال کے ہیں، گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں انہوں نے دو بنیادوں پر شہرت حاصل کی، ایک مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے انہیں دہشت گرد کہا گیا، دوئم یہ کہ انہوں نے صوبہ میں بے مثال ترقیاتی کام کئے، تقریباً ڈیڑھ لاکھ ڈیلے ایکشن ڈیم بنا کر نہ صرف زیرِزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو دوبارہ مستحکم کردیا بلکہ یہاں پائیدار خوشحالی اور ترقی کی بنیاد رکھی مگر ان کے عہد میں کشمیری تحریکِ آزادی میں ماضی کے مقابلے میں بہت تیزی اور شدت آگئی اور اب خود بھارتی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، مودی کو آئندہ سال انتخابات کا سامنا ہے۔

اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی پاکستان میں مداخلت اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے مودی تیار ہوتے ہیں یا انتخابات کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں خطے میں بدلتی صورتحال بھی اہم ہے، افغان صدر اشرف غنی جو21 ستمبر 2014 کو بہت متنازعہ صورتحال میں صدر منتخب ہوئے تھے آئندہ سال ان کو بھی دوبارہ انتخابات کا سامنا ہوگا، ان کو افغانستان میں نہ صرف اندرونی و بیرونی شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے بلکہ ان کے ہاں کرپشن اور دہشت گردی میں کمی کی بجائے اٖضافہ ہوا ہے، اس پورے تناظر میں دیکھیں تو عمران خان جو 5 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے اور ابھی 66 برس کے ہیں، عالمی شہرت یا فتہ کرکٹر اور سوشل ورکر ہیں، سماجی خدمات اور کرکٹ میں مثالی کارکردگی کے بعد میدانِ سیاست میں آئے اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اس وقت ملک کے مقبول لیڈر کے طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، ان کو پاکستان کے گمبھیر اقتصادی مسائل کے ساتھ اندرونی طور پر بہت مضبوط حزب اختلاف اور طاقتور بیوروکریسی کا مقابلہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستانی سماج میں اِن کی مقبولیت ایماندار، مستقل مزاج ، باہمت اور ا نسان دوست کی حیثیت سے اسی انتہا پر دکھائی دیتی ہے جو پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو نصیب ہوئی تھی، البتہ اب عمران خان کو بطو ر اہم سیاسی لیڈر اپنے آپ کو منوانا ہے، بھٹو کے مقابلے میں ان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دینا کی ساتویں ایٹمی قوت کے وزیر اعظم ہیں مگر بھٹو نے جس طرح اقتدار میں آتے ہی ملک کے گمبھیر مسائل کو بہتر خارجہ تعلقات کی بنیاد پر حل کیا تھا وہ عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، بھٹو کو سرد جنگ کے اس وقت کے تناظر میں دنیا کے دو قوتی اور قدرے متوازن منظر نامے اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا اور انہوں نے ایک تیسرا اسلامی بلاک بنانے کی کو شش کی تھی۔

جس سے پاکستان کو اقتصا دی طور پر بہت فائدہ پہنچا تھا، بھٹو دور میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر صاحبزادہ یعقوب خان تھے جب کہ وزارتِ خارجہ کا قلمدان خود بھٹو نے اپنے پاس رکھ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ ان کی خارجہ پالیسی ملک کی تاریخ کی بہترین خارجہ پالیسی تھی، اگرچہ شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ بہترین انتخاب ہیں اور اس وقت بہتر یہ ہے کہ فوج اور جمہوری حکومت دونوں میں خارجہ ،داخلہ اور دفاعی امور کے اعتبار سے ہم آہنگی اور مشاورت کی بنیاد پر مستحکم منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کی یکساں سوچ کی عکاسی بھی ہو تو دوسری جانب اب نائن الیون کو 17 سال ہو چکے ہیں اور افغانستان میں اب بھی ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں اور یہاں امن کی بحالی جس کا دعویٰ امریکہ نے کیا تھا باوجود لاکھوں جانوں کے ضیاع کے پورا نہیں ہو سکا، عمران خان نے ایران، سعودی عرب کے درمیان امن کے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا کہا ہے، بھارت سے مذاکرات اور خطے میں امن کی بحالی پر زور دیا ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو وہ دو قدم آگے آئیں گے۔

افغانستان کے امن کو نہ صرف افغانستان کے لیے ضروری قرار دیا ہے بلکہ اس کو پاکستان کے امن اور ترقی کے لیے بھی اہم قراردیا ہے، ان تمام امور میں امریکی تعلقات مرکزی اور بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، اور عمران خان کو اقتدار میں آتے ہی اس چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ امریکی صدر پہلے آئی ایم ایف سے پاکستان کے قرضے کی مخالفت کر چکے اور اب جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو اور جنرل 5 ستمبر کو اسلام آباد آرہے تھے تودو روز قبل امریکہ نے سپورٹ فنڈز کے 30 کروڑ ڈالر روک لئے ہیں اس سے قبل 50 کروڑ ڈالر چند ماہ پہلے روکے تھے۔

اس کے باوجود عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باوقار انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا ہے،7 ستمبر کی شام وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خصوصاً بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیمز بنانے اور قرضوں کی واپسی کے لیے امداد کر یں اور ڈالر بھیجیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کی بطور لیڈر ساکھ کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں اس وقت ہو جائے گا جب ان کی اپیل کے ردعمل پر قوم ان کی اور نئے پاکستان کی مدد کرکے اس کی تعمیر نو کرے گی۔

The post بحران بڑا یا لیڈر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live