Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4690 articles
Browse latest View live

گرم پانی، مچھلیوں کا دیس اور مولا چٹوک

$
0
0

پیارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلندوبالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوب صورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔

بلوچستان میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج الگ الگ ہیں۔ مثلاً سندھ کی ثقافت لسبیلہ کی جانب سے بلوچستان میں داخل ہوئی تو کوئٹہ کی طرف پشتونوں کی ثقافت کے رنگ بکھرے۔ پنجاب کی سرحدوں سے بھی ثقافت کا قافلہ اس خطے میں داخل ہوا، گویا بلوچستان اپنے جغرافیے کی طرح اپنی ثقافت میں بھی متنوع ہے۔

آج سے دو ہزار سال قبل تجارتی قافلے گَدھوں پر سوار برف پوش پہاڑوں کے سائے تلے پگڈنڈیوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے انتہائی پُرپیچ گھاٹیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ انہی پتھروں پر چل کر لوگ تجارت کرتے تھے۔ ریشم کی تجارت کی غرض سے دوردور تک سفر کرتے تھے۔

اگر میں اپنے ماضی پر نظر ڈالوں تو یہ نہیں معلوم کہ میں کب ان پہاڑوں کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ میں نے جب پہلی مرتبہ پہاڑ دیکھے تو حیران رہ گیا کہ اللہ تعالی نے کیسے انہیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک رکھا ہے۔ اِس وقت میں دسویں جماعت میں تھا۔ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ ان پہاڑوں کو پار کرکے ان کے پیچھے جو دنیا آباد ہے، وہ دیکھوں، ان کے رسوم و رواج، ان کی ثقافت دیکھوں، پہاڑوں کے اُس پار کیسے لوگ بستے ہیں؟ اور ان کے ہاں کیسے کیسے کھانے پکائے جاتے ہیں؟ اور وہ کیا کچھ کھاتے پیتے ہیں؟ ایک روز میں نے ان پہاڑوں کو عبور کرنے کی کوشش کی تو خوب صورت مناظر میرے سامنے آ گئے جن میں گرم پانی خوب صورت مچھلیوں کا دیس اور مولا چٹوک شامل تھے۔

٭گرم پانی

گرم پانی کی بارے میں بہت سارے لوگوں نے تاریخ کے کتابوں میں ضرور پڑھا ہو گا۔ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر گرم پانی کا ایک چشمہ موجود ہے۔ اس چشمے کے چاروں اطراف بہت لمبے لمبے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں کے اوپر مختلف قسم کے پتھر پائے جاتے ہیں۔ یہ جگہ پہاڑوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے خوفناک بالکل بھی نہیں ہے۔ اس وادی تک پہنچنے کے راستے بہت مشکل سہی مگر اس وادی تک پہنچنے کے بعد اس وادی کی کشش دل میں اتر جاتی ہے، کیوںکہ گرم پانی پہاڑوں کو چیر کر نکلتا ہے اور پانی کی آواز جیسے بلوچی نغمے گنگناتی ہے۔ جانے والا یہی محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی نئی اور عجیب و غریب دنیا میں آ گیا ہے۔ اس وادی میں پہنچنے کے بعد وہاں سے جانے کو دل نہیں چاہتا۔

صبح کا ابھرتا ہوا سورج جب اپنی کرنیں اس گرم پانی پر بکھیرتا ہے تو گرم پانی بہت ہی قابل دید منظر پیش کرتا ہے اور سبز رنگ کا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس جگہ کے مشہور ہونے کی وجہ آبشاروں سے نکلے والا گرم پانی ہی ہے۔ کئی سال پہلے میرے دادا جی پیدل اس جگہ پر جاتے تھے مگر اب صرف موٹر سائیکل پر ہی اس جگہ پہنچا جاسکتا ہے۔ ان پہاڑوں کے بیچ یہ مناظر جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جو شخص گرم پانی کو دیکھنے آتا ہے اور اس پانی سے نہاتا ہے تو پھر اس شخص کا دل بار بار اس جگہ آنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کی وجہ پہاڑوں کا حُسن اور گرم پانی کی کشش ہے۔

راستہ دشوار سہی مگر حسن کے نظارے دیکھنے کے لیے راستے کی دشواری اور طوالت کچھ معنی نہیں رکھتی۔ فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ جگہ قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔ ان وسیع و عریض اور دل کش نظاروں کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔ بلوچستان کے ان پہاڑوں پر بائیکس تیزرفتار سے نہیں چل سکتیں، صرف رینگتی ہیں۔ اس سفر میں اونچے نیچے پہاڑوں پر پھیلے دیدہ زیب نظارے ہر آنے والے کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔

ان پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے بائیک کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر بائیک کنٹرول سے باہر ہوگئی تو پھر جان بچنا محال ہوجاتا ہے، جب کہ پہاڑوں کی اترائی بھی کچھ کم مشکل نہیں۔ اترنے کے دوران بائیک کے بریک کو پکڑ کے رکھنا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ نیچے اترا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں لوگ جلدی امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس گرم پانی میں نہانے آتے ہیں اور شفایاب ہوجاتے ہیں۔

بعض مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہاڑوں سے آنے والے اس پانی میں معدنیات کے ذرات شامل ہوتے ہیں، جو جسم کو ٹھنڈک پہنچاتے اور شفا کا باعث بنتے ہیں۔ مگر آج تک اس گرم پانی کا ٹیسٹ بھی کسی لیب میں نہیں کروایا گیا کہ آخر اس پانی میں ایسا کیا ہے جو جسم کو ٹھنڈک اور شفا پہنچاتا ہے۔

اس حوالے سے بے چارہ گوگل کو بھی کچھ پتا نہیں ہے۔ آج تک اس دیدہ زیب جگہ گرم پانی کو حکم رانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ جس روز سی پیک مکمل ہوا اس روز اس جگہ کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی کیوںکہ یہ جگہ سی پیک روڈ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر ان پہاڑوں کی جانب توجہ دی جائے تو سیاحت کے حوالے سے دل فریب مناظر کا حامل یہ علاقہ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ضرور کام یاب ہوگا۔ اس کے علاوہ ان پہاڑوں میں قیمتی معدنیات بھی بھری پڑی ہیں جو ملک کی معیشت میں اہم کردا ادا کرسکتی ہیں۔

٭خوب صورت مچھلیوں کا دیس

بلوچستان میں ایک ایسا علاقہ بھی موجود ہے جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے بے نظیر ہے، مگر عام پاکستانی اس کی خوب صورتی سے ناواقف ہیں۔ اس علاقے کی کئی خصوصیات ہیں۔ خوب صورت پہاڑ، دل کش آبشاریں، تاریخی اور پراسرار مقامات، صحرا ایسا کہ جیپ سواروں کی پسندیدہ ٹریکنگ۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ دور دراز تک پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھر جہاں کے مکین پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے ہیں۔ یہاں چھتل شاہ نورانی کے مزار کے قریب ایک ایسا مقام ہے جہاں پر میٹھا پانی موجود ہے اور اس جگہ پیاری پیاری مچھلیاں رقص کرتی اور انسانوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہیں۔

تحصیل گنداواہ ضلع جھل مگسی میں یہ دل فریب مقام تیزی سے سیاحوں کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہاں پر مچھلیاں انسانوں کو دیکھ کر اپنی خوراک کی امید کرتی ہیں۔ یہ رنگین مچھلیاں اپنے خوب صورت رنگوں، عجیب و غریب بناوٹ اور عام مچھلیوں سے مختلف شکل شباہت کی وجہ سے دیکھنے والوں کے لیے حیرت اور دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ ان رنگین مچھلیوں کے اقسام دیکھنے ملک بھر سے آتے ہیں۔ یہاں بچے دینے والی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انہیں مقامی زبان میں پہاڑوں کی مچھلی کہا جاتا ہے۔

چتھل شاہ نورانی کے مزار کے قریب نکلنے والا پانی آب حیات کہلاتا ہے۔ پانی میں تیرتی یہ خوب صورت مچھلیاں یہاں آنے والے سیاحوں کا دل لبھاتی ہیں۔ پاکستان بھر سے سیاح اس جگہ لطف اندوز ہونے آتے ہیں اور اپنے کھانے کی اشیاء ان مچھلیوں کو دیتے ہیں۔ یہ مچھلیاں سیب، انگور اور گوشت بھی مزے لے کر کھاتی ہیں۔ سخت سردی ہو یا سخت گرمی یہ مچھلیاں اپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتیں۔ مقامی روایت کے جو بھی یہ مچھلی کھائے گا اس کے پیٹ سے یہ مچھلی زندہ باہر نکلے گی، اس لیے مقامی لوگ ان مچھلیوں کو نہیں کھاتے اور نہ ہی کسی اور کو ان مچھلیوں کا شکار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

گذشتہ دو سو سال سے ان مچھلیوں کا شکار نہیں کیا گیا۔ ان مچھلیوں کا شکار غیرقانونی سمجھا جاتا ہے اور مچھلیوں کے شکار میں ملوث افراد کے خلاف ہمیشہ مقامی لوگوں نے مزاحمت کی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ایک مرتبہ ایک سیاح نے ای مچھلی پکڑی اور پھر اسے پکاکر کھانے لگا تو اس کے حلق میں مچھلی کا کانٹا پھنس گیا، جس سے اس کا سانس رُک گیا۔ کانٹا نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ نہیں نکلا اور وہ شخص تڑپ تڑپ کر مرگیا۔

ٹھنڈے اور میٹھے پانی میں تیرتی یہ منفرد مچھلیاں چھتل شاہ نورانی کی خوب صورتی اور شور مچاتی ندیوں کی رونق کہلاتی ہیں۔

اس جگہ کی ایک اور بات بھی مشہور ہے، جو آپ کے لیے یقیناً حیران کُن ہوگی۔ یہاں پر ہم نے ہڈی خور بکریاں بھی دیکھیں۔ ہمارے آس پاس کئی بکریاں مرغی اور دوسرے جانوروں کی ہڈیاں کھا رہی تھیں۔ جب ہم دوست گوشت کھا کے ہڈیاں پھینکتے تھے تو بکریاں کتے اور بلی کی طرح دوڑتی ہوئی آتیں اور ہڈیاں چٹ کرجاتیں۔ بہت سے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان کو کھانے کے لیے سبزہ نہیں ملتا ہے تو بھوک انہیں ہڈیاں چبانے پر مجبور کردیتی ہے۔

٭مولاچٹوک

بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع مولاچٹوک صوبے کے خوب صورت مقامات میں سے ایک ہے۔ مولا چٹوک کی انتہائی خوب صورت آبشاریں دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔ بلوچی میں مولا چھوٹے سے علاقے کو کہا جاتا ہے اور چٹوک آبشار کو کہتے ہیں۔ بعض لوگ اس علاقے کو آبشاروں کا دیس بھی کہتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مولا چٹوک کا پانی سردی میں بھی گرم رہتا ہے۔

آج کل خضدار ملکی سیاحوں کیلئے ایک خوبصورت اور معروف پکنک پوائنٹ بن چکا ہے یہ شہرت مولا چٹوک ہی کی مرہونِ منت ہے۔ مولا چٹوک سطح سمندر سے ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر شفاف پانی کے جھرنوں اور آبشاروں سے گھرا ہوا ایک ایسا قدرتی سوئمنگ پول ہے جس کی تصویروں کی پہلی جھلک ہی آپ کو یہاں پہنچنے کے لیے بے چین کردیتی ہے۔ پانی مسلسل اونچائی سے آبشاروں کی صورت میں نیچے کی طرف آتا رہتا ہے، جس کے باعث ہر آبشار کے سامنے ایک چھوٹا سا تالاب بن گیا ہے، جس میں سیاح تیراکی کرتے ہیں۔ خضدار سے مولا چٹوک جانے کے لیے زیادہ تر لوگ موٹرسائیکل استعمال کرتے ہیں۔ یہ دشوار گزار اور اونچا پہاڑی سلسلہ ہے اور راستے کا بڑا حصہ کچا اور پتھریلا ہے۔

رات کے وقت اگر ان پہاڑوں کی بلندی پر چڑھ کر ان آبشاروں کا نظارہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان کے سارے ستارے اور سیارے زمین پر آکر بچھ گئے ہیں۔ یہاں موجود ایک تالاب انسانی قد کی اونچائی کے برابر گہرا ہے، جب کہ آگے کے تالاب زیادہ گہرے نہیں ہیں۔ شاید کبھی کوئی ہمت والا شخص ان پہاڑوں کے پار موجود ان گنگناتے آبشاروں کے منبع کو بھی دریافت کر لے جہاں سے یہ پانی کیسے پہاڑوں کو چیر کر نکلتا ہے اور پہاڑوں کے درمیان سے ہی نہیں بل کہ دوسری جانب پہاڑ کے اوپر سے بھی نیچے گر رہا ہوتا ہے۔

مولا چٹوک آبشار دراصل دو نسبتاً بڑی اور تین چھوٹی آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ یہی ٹریک آگے جاکر مولا چٹوک آبشاروں سے مل جاتا ہے۔ اس جگہ پیر جمانا یا ہاتھ سے کوئی سہارا لینا ممکن نہیں، لہٰذا آبشاروں کے اندر جانے کی ہمت وہی کریں جنہیں تیرنا آتا ہے۔ ان چٹانوں سے مسلسل سیکڑوں سالوں سے پانی گزرنے کے باعث نقش و نگار اور راستے بن گئے ہیں، جو بہت خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہیں۔ اہل خانہ کے ساتھ مولاچٹوک جانا تکلیف دہ ہوسکتا ہے، یہاں ان دوستوں کے ساتھ جائیں جو ایڈوینچر کے شوقین ہوں۔ یہاں بہت لینڈسلائیڈنگ ہوتی ہے اور سڑکیں مکمل طور پر بہہ جاتی ہیں۔ موٹرسائیکل کسی نہ کسی طرح لے جائی جاسکتی ہے، اسی لیے لوگ یہاں جانے کے لیے موٹرسائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں۔

The post گرم پانی، مچھلیوں کا دیس اور مولا چٹوک appeared first on ایکسپریس اردو.


آپ سو سال زندہ رہیے

$
0
0

ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر عالم کسمپرسی میں جب رنگون کی ٹوٹی پھوٹی جائے پناہ میں زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے، تو انہوں نے بڑی حسرت سے کہا تھا:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

اس زمانے میں علاج کی سہولیات ناکافی تھیں۔ انسان کسی موذی مرض کا نشانہ بنتا تو جلد اللہ کو پیارا ہوجاتا۔ آج علاج کا معیار بہت بہتر ہوچکا۔ لہٰذا ترقی یافتہ ملکوں میں تو مردوزن کا اسّی نوے سال تک زندہ رہنا معمول بن گیا ہے۔ گویا بہادر شاہ ظفر آج کے زمانے میں زندہ ہوتے، تو انہیں اپنے شعر میں شاید چار نہیں چھ دن لکھنا پڑتے۔

طویل عمر پانا قنوطیوں کو چھوڑ کر زمانہ قدیم سے ہر انسان کا خواب رہا ہے۔ زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جوش و جذبہ رکھنے والے لوگ تو لمبی عمر پانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں سائنس و ٹیکنالوجی بھی ان کی مدد کو پہنچ چکی۔ اس ضمن میں پچھلے سترہ اٹھارہ سال کے دوران حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے  ہیں۔

خلیوں کا طلسم ہوش ربا

سائنس دانوں کی رو سے انسان تیس تا چالیس کھرب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ ان خلیوں کی دو بڑی اقسام ہیں: اول جو قدرتی طور پہ تقسیم ہونے کی صلاحیت رکھتے  ہیں اور دوم وہ جو تقسیم نہیں ہوپاتے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں پل رہا ہو، تو دوسری قسم کے خلیے ہمارے اہم جسمانی عضو مثلاً دماغ، جگر، ریڑھ کی ہڈی، پتا وغیرہ تشکیل دیتے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہوجائے، تو پھر ان خلیوں کی تقسیم کا عمل ختم ہوجاتا ہے… یعنی وہ خلیے پھر تقسیم ہوکر نئے خلیے پیدا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے، جب ہمارے دل، دماغ، جگر وغیرہ کو ایک بار نقصان پہنچ جائے، تو پھر انہیں دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔

پہلی قسم کے خلیے ہمارے جسم میں نئے خلیوں کی افزائش جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً ہماری جلد انہی خلیوں سے بنی ہے۔ لہٰذا جب ہمارے ہاتھ یا پاؤں پر زخم لگے، تو رفتہ رفتہ نئے خلیے پیدا ہوکر اسے منذمل کردیتے ہیں۔ یوں جلد دوبارہ ہموار ہوجاتی ہے۔ہمارے بال بھی اسی کلیے کے مطابق جھڑتے اور نکلتے ہیں۔

سائنس داں اب کوشش کررہے ہیں کہ ایسا سائنسی عمل دریافت ہوسکے جس کے ذریعے انسانی جسم میں دوسری قسم کے خلیے دوبارہ فعال ہوجائیں…یعنی وہ دماغ، دل، جگر وغیرہ کے نئے خلیے پیدا کرنے لگیں۔ جب بھی ایسا سائنسی عمل دریافت ہوا، تو یہ تاریخ ساز واقعہ ہوگا۔وجہ یہ کہ اگر دوسری قسم کے خلیے کسی انسان ساختہ طریق کار کی مدد سے ہمارے دل، دماغ و جگر وغیرہ کے نئے خلیے بنانے لگے، تو ان اہم انسانی اعضا کی مرمت ممکن ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ انہیںازسر نو نیا بھی بنالیا جائے۔ یوں نئے اعضا سامنے آنے سے  آسان ہو جائے گا کہ انسان مزید کئی سال زندہ رہے۔ اس طرح خود بخود انسانی عمر کی طوالت بڑھ جائے گی۔

حال ہی میں امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے، گلیڈسٹون انسٹی ٹیوٹس کے ماہرین نے انسان سمیت اکثر جان داروں میں ملنے والے چار ایسے جین دریافت کیے ہیں جو دوسری قسم کے خلیوں میں نئے خلیے پیدا کرنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ یہ انوکھا عمل صرف چاروں جین کی یکجائی و شمولیت سے شروع ہوتا ہے۔ ماہرین ابھی یہ عمل جانوروں پر تجربات کرتے ہوئے آزمارہے ہیں۔ تجربات کی کامیابی کے بعد اسے انسان پر آزمایا جائے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کے جسم میں دوسری قسم کے خلیے دوبارہ فعال ہوکر نئے خلیے بنانے لگے، تو شعبہ علاج میں انقلاب آجائے گا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں لوگ دل، جگر، دماغ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر چل بستے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں اعضا کو دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسری قسم کے خلیے دوبارہ اپنا کام کرنے لگیں، تو ان کی مدد سے دل، دماغ، جگر وغیرہ کے متاثرہ حصے کی درستگی و مرمت ممکن ہوجائے گی۔ یوں نہ صرف انسان کی قیمتی زندگی محفوظ ہوگی بلکہ اس کی طوالت عمر میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

انسان کی بدقسمتی کہ پہلی قسم کے خلیے بھی سدا تقسیم ہونے کا عمل جاری نہیں رکھتے۔ دراصل ہر خلیے کے کناروں پر ایک مخصوص مواد پایا جاتا ہے جسے ’’ٹیلومیرز ‘‘(Telomeres) کہتے ہیں۔ہر نئے خلیے کی پیدائش کے وقت پرانے کا کچھ ٹیلومیرز اس میں منتقل ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ پرانا خلیہ اپنا سارا ٹیلیومیرز مواد کھو بیٹھتا اور مرجاتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں پہلی قسم کے خلیوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور اسی لیے نئے خلیے بھی کم جنم لیتے ہیں۔ نئے خلیوں کی کمی سے مختلف انسانی اعضا میں انحطاط آنے لگتا ہے۔ اسی عمل کو عرف عام میں’’ بڑھاپا ‘‘کہتے ہیں۔

عمر بڑھانے کی کوششیں

دلچسپ بات یہ کہ ہر انسان مختلف عمر میں بوڑھا ہوتا ہے۔ بیشتر مردوزن ستر اسّی سال کے ہوکر بوڑھے کہلاتے ہیں جبکہ بعض سو سال کی حد پار کرکے بوڑھے بنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماضی میں انسانوں کی عمر یں کئی سو سال طویل ہوتی تھیں۔ تاہم دور جدید کی معمر ترین انسان جینی کالمنٹ ہے۔ یہ فرانسیسی خاتون 1997ء میں ’’ایک سو بائیس سال‘‘ عمر پاکر چل بسی تھی۔ فی الوقت جاپان کی ایک خاتون، کین تناکا کو دنیا کی زندہ معمر ترین انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید سائنس ثابت کرچکی، انسانی عمر کی کوئی معین حد نہیں… یعنی ایک انسان لامحدود وقت تک بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ بعض انوکھے سائنس داں یہی انہونی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی سعی ہے کہ مشین اور انسان کے ادغام سے ایسی نئی مخلوق تخلیق کرلی جائے جو تاابد نہیں تو کئی صدیاں ضرور زندہ رہے۔ نظریاتی طور پر ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ایک انسان کا دماغ مسلسل زندہ رہے۔ جب تک انسان کا دماغ کام کرتا رہے، وہ بھی زندہ رہے گا۔

اسی لیے امریکا میں سائنس داں کمپیوٹر اور حساس آلات کی مدد سے ایسا ماحول تخلیق کرنے کی کوشش میں لگے ہیں جس میں انسانی دماغ کو زندہ اور صحت مند رکھا جاسکے۔ یعنی جب ایک انسان مرنے کے قریب ہو تو اس کا دماغ تخلیق شدہ کمپیوٹری ماحول میں منتقل کردیا جائے۔ یوں تکنیکی طور پر وہ زندہ رہے گا۔ بس اس کا دماغ قدرتی ہوگا، بقیہ جسم مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ مشینی ہوں گے۔ اس سعی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کچھ مغربی سائنس داں شکل و صورت ہی نہیں طریق کار میں بھی انسانی دماغ سے ملتا جلتا عضو تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی وہ اپنی تحقیق و تجربات میں کامیاب ہوئے، ایک مشینی انسان تخلیق کرلیں گے۔

بہت سے ماہرین طب کی کوشش یہ ہے کہ انسان میں بڑھاپے کا عمل روک دیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی توجہ ٹیلومیٹرز پر مرکوز ہے۔ یہ ماہرین ایسا طریق کار ڈھونڈنا چاہتے ہیں جس کی بدولت ہر خلیے میں درج بالا مواد کی مقدار بڑھ جائے۔ یوں ہر خلیہ لامحدود عرصے تک  نئے خلیے پیدا کرتا رہے گا اور انسان کی طبعی عمر بڑھ جائے گی۔

درج بالا معلومات سے عیاں ہے کہ دنیائے مغرب میں ہزارہا سائنس داں انسان کی عمر بڑھانے اور اسے طویل عرصہ تندرست و توانا رکھنے کی خاطر تحقیق و تجربات پر جتے ہوئے ہیں۔ اپنی محنت کا پھل پانے میں ابھی انہیں کئی برس بلکہ عشرے لگ سکتے ہیں۔ تاہم جدید سائنس یہ بھی دریافت کرچکی کہ انسان مخصوص طرز زندگی اپنا کر بڑھاپا دور رکھ سکتا ہے… گویا یہ امر انسان کے اپنے ہاتھ میں بھی ہے کہ وہ اپنی عمر میں دس بیس برس کا اضافہ کرلے۔

اس کا مطلب ہے، طوالت عمر اور صحت و تندرستی کے تناظر میں انسان کے لیے طرز زندگی بھی بڑی اہمیت اختیار کرچکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو انسان جلد سے جلد یہ طرز زندگی اختیار کرے، وہ اتنی ہی زیادہ اپنی عمر بڑھا سکتا ہے۔ گویا جس بیس سالہ نوجوان نے یہ صحت مند طرز زندگی اپنایا، وہ کم از کم ایک سو سال تک زندہ رہنے کے مواقع بڑھالے گا۔

صحت مند طرز زندگی کے عناصر

طوالت عمر کا سبب بننے والا انسانی طرز زندگی بعض عناصر یا حصوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین طب کا دعویٰ ہے کہ اگر پچاس سالہ انسان بھی انہیں اپنالے، تو وہ اپنی عمر میں پندرہ تا بیس سال اضافہ کر سکتا ہے۔اس  طرز زندگی کے اہم عناصر درج ذیل ہیں:

٭… سگریٹ نوشی مت کیجیے۔ یہ عمل ہمارے دل، جگر اور دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ یہ جگر کو کینسر کا نشانہ بناتا ہے۔ خون کی نالیاں تباہ کرتا ہے۔ وہ شریانیں خراب کردیتا ہے جو دماغ تک خون پہنچاتی ہیں۔ غرض سگریٹ نوشی کے کئی جسمانی نقصانات ہیں اور اس کا انجام جلد موت ہے۔

٭… موٹاپے سے بچیے: موٹاپا سو امراض کی ماں بن چکا۔ فربہ انسان جلد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور امراض قلب جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ موٹاپا انسان کو جلد قبر تک پہنچانے کی بہت بڑی وجہ ہے، اس سے ہر صورت بچیے۔

٭… ورزش کیجیے: انسان کے لیے ورزش اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قدرتی وا ہے۔ یہ انسانی جسم پر کئی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثلاً ہماری شریانوں میں خوں کی روانی بڑھاتی ہے۔ یوں دل کی بیماریاں چمٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ وزن کم رکھتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے چھٹکارا پانے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے عضلات صحت مند کرتی ہے۔ قوت برداشت بڑھاتی ہے۔ آکسیجن اور غذائیت بافتوں (ٹشوز) تک پہنچاتی ہے۔ دل اور جگر کو طاقتور بناتی ہے۔ یوں ہم بہ آسانی روزمرہ کام انجام دینے لگتے ہیں۔ ہڈیاں بھی طاقتور ہوتی ہیں۔ غرض ورزش کے بہت سے فوائد ہیں۔ یاد رہے، تیز چلنا بھی ورزش کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا ورزش کیجیے اور گونا گوں فوائد پالیجیے۔

٭…شراب نوشی مت کیجیے: ہمارے دین نے شراب پینے سے منع کررکھا ہے۔ اب جدید سائنس بھی بتا رہی ہے کہ یہ مشروب انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ جگر اور دل کو خراب کرتی اور انسانی صحت تباہ کردیتی ہے۔ اس سے ہر قیمت پر دور رہے۔

٭…صحت مند غذا کھایے: انسان کو بڑھاپے سے محفوظ رکھنے میں غذا کا اہم کردار ہے۔ ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ انسان خصوصاً پچاس سال کی عمر کے بعد پھل اور سبزیاں زیادہ کھائے۔ گوشت اعتدال سے استعمال کرے اور پروسیس شدہ یعنی تیار شدہ غذائیں کم سے کم کھائے۔ اچھی غذائیں کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان موٹاپے، امراض قلب، ذیابیطس، ہائپر ٹینشن اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔

٭… ذہنی پریشانیوں (Stress) سے دور رہیے، نفسیاتی طور پر انسانی صحت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی ذہنی پریشانیاں ہیں۔ لہٰذا روزمرہ کام کاج کرتے ہوئے حتیٰ الامکان ان سے دور رہیے۔ یوں آپ کی صحت اچھی رہے گی اور بڑھاپا جلد حملہ آور نہیں ہوگا۔ مثبت طرز فکر اختیار کرنا اور لوگوں کی غلطیاں معاف کردینا ذہنی پریشانیوں سے بچنے کے کارگر نسخے ہیں۔

The post آپ سو سال زندہ رہیے appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا اور دہشت گردی

$
0
0

دہشت گردی ویسے تو کوئی بالکل نئی چیز نہیں ہے۔ اس ترقی یافتہ، جدید، حیران کن ٹیکنالوجی اور تباہ کن اسلحے سے لیس دنیا سے پہلے بھی انسان جس کرۂ ارض پر جی رہے تھے، وہاں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے۔ تاہم اُس دور اور اِس زمانے کی دہشت گردی کی صورت اور اثرات میں بہت زیادہ فرق ہے، اتنا کہ دونوں کے نتائج کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے دور کی دہشت گردی نہ صرف یہ کہ ایسی صورت میں سامنے آئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ اِس کے ساتھ اُس کے ہول ناک اثرات کا دائرہ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔

دہشت گردی کے اس نئے دور کا آغاز ویسے تو بیس ویں صدی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا، لیکن دنیا کو اس کا بدترین تجربہ اس وقت ہوا جب امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملہ کیا گیا۔ اِس کے بعد تو دہشت گردی نے ایک ایسی آندھی کی صورت اختیار کرلی جس نے دنیا کے کئی ایک علاقوں اور بہت سی قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے پہلے کے حالات دہشت گردی کو بڑی حد تک ایک مقامی یا علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے تھے، لیکن اس کے بعد اس کی نوعیت بالکل تبدیل ہوگئی اور یہ ایک عالمی مسئلے کی حیثیت سے اُبھرا، پھر اسی سطح پر اس کے اثرات بھی سامنے آئے۔

عالمی مسئلے کے طور پر دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو متعدد بیانیے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے، ہر ایک بیانیے میں اپنے اپنے انداز سے اس مسئلے کی تعریف کی گئی ہے، اس کے حدود کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے اثرات اور آئندہ امکانات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جو براہِ راست دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اس مسئلے نے ہماری سیاسی، سماجی، معاشی اور حفاظتی صورتِ حال کو بری طرح متأثر کیا۔

آج پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال جس ابتری کا نقشہ پیش کرتی ہے، اس میں بہت غیر معمولی کردار ملک میں امن و امان کی صورتِ حال نے بھی ادا کیا ہے۔ آئے دن ہونے والے اندوہ ناک حادثات و سانحات، انسانی جانوں کے زیاں اور عدم تحفظ کے احساس نے ایک طرف ملک کے داخلی منظرنامے کو بدحالی سے دوچار کیا تو دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کی برآمدات کا نظام اس حد تک متأثر ہوا کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ سطح پر سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔ اس کا براہِ راست ایک نتیجہ یہ نکلا کہ روپے کی قدر میں کمی نے قرضوں کے بوجھ میں تشویش ناک حد تک اضافہ کردیا۔ دوسری طرف حالات کی خرابی نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ غرضے کہ دہشت گردی نے پاکستان کو جن حالات اور مسائل سے دوچار کیا وہ ملک اور اس کے عوام کے لیے ہر سطح پر اور ہر صورت میں تباہ کن ثابت ہوئے۔

روس کے عالمی طاقت کی حیثیت سے انہدام کے بعد اس یک قطبی دنیا میں عالمی سیاست اور اقتدار پر امریکا کی اجارہ داری کا پرچم ضرور لہرایا، لیکن اِس بے تاج بادشاہت کی قیمت بھی اسے پوری پوری چکانی پڑی۔ امریکا نے نوگیارہ کے بعد افغانستان اور عراق میں جنگ چھیڑ کر اپنی بدمست طاقت کا مظاہرہ تو بے شک کیا اور یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس نے مطلوبہ اہداف تو بے شک حاصل کرلیے، لیکن یہ ایڈونچر خود اُس کے لیے بھی ایک بہت مہنگا اور نہایت پیچیدہ تجربہ ثابت ہوا۔

اس کا اندازہ بہت سی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے، مثلاً دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد عالمی سطح پر امریکا کے خلاف سخت ناپسندیدگی کے جذبات وسیع پیمانے پر پیدا ہوئے اور قطبین کے مابین پھیلتے ہوئے بھی نظر آئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ خود امریکا کی داخلی صورتِ حال بھی جن مسائل کی لپیٹ میں آئی وہ ایک حد تک اسی دہشت گردی کے پیدا کردہ حالات کا ذیلی نتیجہ تھے جو پہلے پہل دنیا میں امریکا کے زیرِاثر دنیا میں رونما ہوئے تھے۔

کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح امریکا نے اپنی شتر بے مہار طاقت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی اسی طرح اُسے اپنے اقدامات کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ملک کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے اُس کے اپنے اہلِ نظر، اہلِ دانش، امن پسندوں اور انسانیت کے لیے آواز اٹھانے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے اُس کے رویوں اور اقدامات کی بنا پر اُسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نوگیارہ کے بعد ممتاز امریکی دانش ور نوم چومسکی نے کئی ممالک کا دورہ کیا اور وہاں مختلف طبقاتِ فکر کے لوگوں سے ملاقات کی اور مختلف فورمز پر دنیا میں ابھرنے والے اس مسئلے کے بارے میں اظہارِخیال بھی کیا۔

نوم چومسکی نے عالمی سیاسی منظرنامے پر امریکا کی اجارہ داری کو نہ صرف کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ امریکا جو کچھ خود اور اپنے بعض حلیفوں کے ساتھ مل کر دنیا میں کررہا تھا، اسے ’’دہشت گردی کی ثقافت‘‘ قرار دیا۔ نوم چومسکی نے اس حوالے سے جو کچھ کہا اور لکھا، وہ اخبارات و رسائل کے علاوہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوا اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے خطبات اور کتابوں کے مقامی زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے۔ یوں چومسکی کے خیالات سے ایک وسیع و عریض دنیا آگاہ ہوئی اور امریکا پر ہونے والی تنقید کا دائرہ مزید پھیل گیا۔

علاوہ ازیں امریکا میں اکیس ویں صدی کی ان اوّلین دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوئے، ان کے بارے میں امریکی عوام اور اس کے سماجی مفکرین کا ردِعمل وہ نہیں تھا جو اس سے پہلے کے واقعات پر سامنے آتا تھا۔ سماجی مفکرین کے حلقوں اور تھنک ٹینکس میں اب اس مسئلے کو اس انداز سے دیکھا ہی نہیں جاتا جس انداز سے امریکا ساری دنیا کو دکھانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا میں اب ایک نوم چومسکی ہی نہیں، بلکہ اس عرصے میں وہاں ایسے بہت سے سماجی مفکرین ہیں جو امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری براہِ راست امریکا پر ڈالتے ہیں۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سیاسی عدم توازن، عامۃ الناس کے عدم تحفظ، عالمی سیاست میں اشتعال کی صورت میں سامنے آنے والے عناصر، امریکا کے زیراثر ممالک میں گروہی، لسانی، علاقائی اور مذہبی اختلافات اور عدم برداشت کے رویے کے پھیلاؤ اور بعض ملکوں کے سیاسی تناؤ میں خود امریکا کا براہِ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی سطح پر کوئی کردار ضرور ہے، اور ان سارے مسائل کی اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امریکا اپنی ترجیحات نہیں بدلتا اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کی سیاسی پالیسیز میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس نوع کی آرا اور تجزیات اب امریکا میں اخبارات، رسائل، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھلے عام آتے اور بڑے حلقوں میں عوام تک پہنچتے ہیں۔

2016ء میں جب داعش یا آئی ایس آئی ایس کا موضوع خبروں میں نمایاں ہوکر سامنے تھا اور امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے امن پسند اور معصوم لوگوں کے لیے خوف کا حوالہ بنا ہوا تھا، انھی دنوں ایک اخبار نے کارٹون شائع کیا تھا۔ کارٹون میں ایک گھوڑا دکھایا گیا تھا جس کے سامنے دنیا کا نیم رخ گلوب روشن تھا۔ گویا گھوڑا دنیا کی سیاحت پر یا شکم پروری کے لیے نکلا ہوا ہے۔

گھوڑے کی گردن اور پچھلی ٹانگوں کے پٹھوں سے واضح ہوتا تھا کہ یہ گھوڑا دراصل امریکا ہے، یا امریکی آشیرباد لے کر نکلا ہوا کوئی علامتی یا طلسمی گھوڑا ہے۔ اس گھوڑے کا پیٹ تناسب سے کہیں زیادہ بڑا دکھایا گیا تھا اور اس میں خود ایک چھوٹا گھوڑا تھا، جس پر سوار شخص کے ہاتھ میں آئی ایس آئی ایس کا جھنڈا تھا۔ مطلب یہ کارٹون بتا رہا تھا کہ دنیا کو خوف میں مبتلا کرنے والا عفریت دراصل کیا ہے اور کہاں اس نے جنم لیا ہے، کس کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے اور اس کا ہدف کہاں تک ہے۔ یہ کارٹون دراصل امریکا کے تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد اور سماجی مفکرین کے نظریات و تصورات کی نمائندگی کررہا تھا۔

گذشتہ دنوں امریکا کے ایک تھنک ٹینک ’’نیو امریکا‘‘ نے نوگیارہ کے بعد اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا ہے، جن میں 12 اگست 2017ء کو اور لینڈو میں اور 2016ء میں شارلٹس وائل کے واقعات بطورِ خاص شامل ہیں۔ اس جائزے میں کئی اہم باتیں کہی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر بتایا گیا ہے کہ سفید فام نسل پرستوں نے اس عرصے میں 68 حملے کیے ہیں جب کہ سیاہ فام انتہاپسندوں نے صرف 8۔ علاوہ ازیں سفید فام انتہاپسندوں نے 62 الگ واقعات میں 106 مزید افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتارا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میڈیا ذرائع نے محسوس کیا ہے کہ امریکا کے موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت، اسلامی دہشت پسندوں کی مذمت میں تو ضرور پیش پیش نظر آتی ہے، لیکن اپنے ہی ملک میں جو دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے خلاف کچھ کہنے سے ہچکچاتی ہے۔ اس تجزیے میں بہت صاف لفظوں میں اسی بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ اس وقت امریکا میں دہشت گردی کی جو صورتِ حال ہے وہ تقریباً تمام تر خود اس کے اپنے داخلی عناصر کی وجہ سے ہے۔ اس تجزیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نو گیارہ کے بعد کسی بھی غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے ایما پر یا اُس کے پروردہ لوگوں کے ذریعے امریکا میں دہشت گردی کے کوئی واقعات نہیں ہوئے ہیں۔

گویا نوگیارہ کے موقع پر امریکا اور اس کے اداروں نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جو کریک ڈاؤن آپریشن شروع کیا تھا، اس میں اُن تنظیموں اور اُن کے سارے رابطہ کاروں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب جو کچھ امریکا میں ہورہا ہے، اس کی ذمے داری خارجی عناصر پر قطعی طور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ امریکا کے موجودہ داخلی حالات اور اُس کے عوام کو پیش آنے والی دہشت گردی کے اب سارے واقعات خود اس کے اندر موجود عناصر کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں سفید فام افراد کا نسلی تعصب ہے جو دوسری نسلوں خاص طور پر سیاہ فام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ سفید اور سیاہ فام افراد کی آویزش کے واقعات کا تناسب سامنے رکھا جائے تو باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاہ فام افراد نے جو کچھ کیا وہ بالعموم دفاعی حکمتِ عملی یا اپنے تحفظ کے لیے کیا ہوگا، جب کہ سفید فام افراد کا رویہ جارحانہ نظر آتا ہے۔ جارحیت کے اسی رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا میں اس وقت داخلی سطح پر دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں، اُن کی ذمے داری سفید فام افراد پر عائد ہوتی ہے۔

’’نیو امریکا‘‘ کے اس جائزے میں کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں جو دہشت گردی پر قابو پانے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے پر اُس وقت تک قابو نہیں پایا جاسکتا جب تک طاقت ور ریاستیں کم زور ریاستوں پر دہشت گردی کا الزام رکھتی رہیں گی، اور یہ کہتی رہیں گی کہ وہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں ملوث ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے اچھی تجویز یونی ورسٹی آف میری لینڈ سے وابستہ ڈاکٹر لہکوا باڈی آن وڈوی نے اپنی کتاب ’’دہشت گردی کی عالم گیریت‘‘ (دی گلوبلائزیشن آف ٹیررازم) میں پیش کی ہے۔ ڈاکٹر آن وڈوی کا خیال ہے کہ دنیا میں ایسی مقتدر اقوام ہیں کہ دنیا بھر کے ذخائر اور مصنوعات کا نظام جن کے ہاتھ میں ہے اور جو اپنے معاشی وسائل کو کسی بھی وقت اپنے لیے ایک سیاسی اور حربی قوت میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں تاکہ دنیا کے نظام کو اپنے مفادات کے حساب سے چلا سکیں۔

ڈاکٹر آن وڈوی کا کہنا ہے کہ عالمی نظام اور قوموں کے مابین جو عدم مساوات پائی جاتی ہے، دہشت گردی اُس کی پیدا کردہ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کی واحد صورت یہ ہے کہ قوموں کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات اور استحصال کی موجودہ صورتوں کو ختم کرنے کے لیے حکمتِ عملی میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی مداخلت یا سماجی اقتدار کی دوسری صورتیں، مثلاً کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں وغیرہ وقتی طور پر تو مفید ہوسکتی ہیں، لیکن مستقل بنیادوں پر نہیں۔ کچھ وقت کے بعد ایسے اقدامات غیرمؤثر ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ یہ اُن حالات کا تدارک نہیں کرتے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں، یعنی عالمی عدم مساوات۔

امریکا کی اپنی داخلی صورتِ حال جو نقشہ پیش کررہی ہے، وہ خود عدم توازن اور عدم مساوات کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے اپنے معاشرے کے مختلف عناصر کے درمیان تناؤ کی فضا اب تصادم کے مرحلے تک آپہنچی ہے، اور تصادم بھی دہشت گردی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس صورتِ حال کے اثرات اس کے سماج تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اس کی معیشت پر بھی صاف طور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس عرصے میں دو مرتبہ اُس کی اسٹاک ایکسچینج اس سطح تک پہنچی ہے جہاں ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک بار حکومت نے اسے خصوصی فنڈ کا سہارا دے کر سنبھالا اور دوسری بار غیر ملکی خصوصاً چین کی سرمایہ کاری نے اسے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکا کا اسٹاک ایکسچینج، بلکہ نظامِ معیشت ایسے جھٹکوں سے خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتا ہے، اور اگر نہیں رکھ سکتا تو اس میں ایسے دھکوں کو سہارنے کی سکت کب تک باقی رہے گی؟

دنیا کے نظام، بقا اور استحکام کے اصولوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا دشوار نہیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کے لیے تعمیر اور تخریب کے دونوں حیلوں کو بہ یک وقت اختیار کرکے وقتی فائدہ اٹھانا تو بے شک ممکن ہے، لیکن اس طرح دوررس نتائج بہرحال حاصل نہیں کیے جاسکتے، اور نہ ہی ایسی صورتِ حال میں اپنی بقا کا یقینی سامان کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کو اس وقت جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے، وہ تعمیر و تخریب کے بہ یک وقت اقدامات کا پیدا کردہ ہے۔ امریکا نے ایک طرف دہشت گردی کے عفریت کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے اور پھیلنے میں مدد دی ہے اور دوسری طرف اس کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

دونوں طرح کے حالات میں اس نے اپنے فوائد پر نگاہ مرکوز رکھی ہے اور حالات و واقعات سے ہر ممکن فائدہ اٹھایا ہے۔ دائیں بائیں بکھیرے گئے انگاروں سے اُڑ اُڑ کر اگر کچھ چنگاریاں خود اُس کے دامن میں جاپڑیں اور اب وہاں آگ بھڑکانے کا سبب بن رہی ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ایسا اگر ہورہا ہے تو عناصر کی اس دنیا کے اصولوں کے عین مطابق ہورہا ہے، اور بالکل فطری انداز سے۔ ایڈونچر کے ہر تجربے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ امریکا کے داخلی حالات اس وقت ہمارے سامنے اسی قرض کی ادائی کا ایک منظر پیش کررہے ہیں۔

The post امریکا اور دہشت گردی appeared first on ایکسپریس اردو.

کھیلوں کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہئے

$
0
0

’’میرے والد واپڈا میں تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوگئی تھی جب میں دو ماہ کا تھا۔ مجھے اور میرے بڑے بھائی کو میری والدہ نے، جو ایک گھریلو خاتون تھیں، انتہائی نامساعد حالات میں پالا۔ ہم اپنے نانا کے ساتھ رہتے تھے جن کو ایک ہزار روپے پنشن ملتی تھی اور اس میں ہم چار لوگ گزارا کرتے تھے۔ میں نے بہت غربت دیکھی ہے اسی لیے میری زندگی کا یہ مشن ہے کہ میں اپنے ملک کے غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کرکے ان کی زندگیوں کے اندھیرے اجالوں میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کردوں‘‘۔

اس نوجوان کی آنکھوں میں محرومی اور امید کا عجیب سا امتزاج دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن ان میں عزم و ہمت کا رنگ نمایاں تھا اور وہ چمک عیاں تھی جو سوچ کو عمل میں ڈھال دیتی ہے۔

یہ تذکرہ ہے یکم فروری 1993ء کو ملتان میں پیدا ہونے والے فرحان ایوب سے ملاقات کا جنھوں نے 9 ورلڈ ریکارڈز بناکر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کروایا اور دنیا میں پاکستان کا پرچم سربلند کیا۔

لاہور کی مقامی یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے B.S پروگرام کے طالب علم نے اپنی ابتدائی زندگی کے جو حالات بتائے انہیں سن کر ہی یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس نوجوان کے اندر حالات میں تبدیلی لانے، ان سے لڑنے اور کچھ کر گزرنے کی ہمت اور جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ MBA پاس بڑے بھائی کی اپنے والد صاحب کی جگہ واپڈا میں نوکری کروانے اور پھر اپنی فیملی کو ملتان سے لاہور منتقل کرکے ان کے لیے سرکاری رہائش گاہ کے حصول جیسے کاموں کی ذمہ داری باحسن و خوبی نبھا کر اس نے ثابت کیا کہ وہ اپنی سوچوں کو عملی جامہ پہنانے کا اہل ہے۔

9 ورلڈ ریکارڈز بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرحان ماضی میں کھو سے گئے۔ یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے اور اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ غربت نے ان کے ارادے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی مگر شکست کھائی۔ محض سات سال کی عمر میں انہوں نے مارشل آرٹ کی تربیت شروع کی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے ناکسی کو اپنا استاد بنایا اور نا ہی کوئی اکیڈمی جوائن کی۔ اس بارے میں ان کا ماننا یہ ہے کہ انسان کو خدا کی طرف سے جو صلاحتیں ودیعت کی جاتی ہیں ان کے بل بوتے پر وہ ان کو جلا بخشنے کا کام بھی از خود سرانجام دے سکتا ہے۔

ان کے خیال میں آج کے دور میں اچھا اور مخلص استاد ملنا بھی ایک کار دشوار ہے۔ جن لوگوں نے اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں ان میں سے زیادہ تر کے نزدیک وہ بس پیسہ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ فرحان چونکہ اپنے حالات کی وجہ سے ان اکیڈمیوں کی فیسیں دینے سے قاصر تھے اس لیے انہوں نے ابتدائی عمر سے ہی خود اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مارشل آرٹ کی پرکٹس شروع کردی۔ بعدازاں انہوں نے بروس لی، محمد علی اور ان جیسے دوسرے لیجنڈز کی تھیوریز اور فلاسفی کو بغور پڑھ اور سمجھ کر ان سے بھر پور استفادہ کیا اور فری سٹائل مارشل آرٹ میں دسترس حاصل کی، جو بقول ان کے، خود ان ہی کی ایجاد ہے۔ وہ بتانے لگے کہ جسمانی فٹنس کے لیے ’’جم‘‘ جوائن کرنے کی مالی استطاعت نہ ہونے کے سبب وہ گھر میں ہی چار پائیوں اور کرسیوں کو ورزش کی مشینوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے تھے اور لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اپنے جنون کو مہمیز کرتے رہے۔

2012ء میں انھوں نے اخبار میں پڑھا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول کے تحت لاہور میں گنیز بک ورلڈ ریکارڈز بریک کرنے کے مقابلے منعقد ہوں گے۔ ریکارڈز کی فہرست میں دیئے گئے ایک سٹیپ جسے ’’ہینڈڈ کپ اپس‘‘ (Handed Kip Ups)کہتے ہیں، کے بارے میں انھیں محسوس ہوا کہ یہ وہ بھی کر سکتے ہیں۔ سو انھوں نے اس میں اپلائی کر دیا۔ اس اسٹیپ کا سابقہ ریکارڈ 22 ’’کپ اپس‘‘ کا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’مجھے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ میں یہ ریکارڈ توڑ سکتا ہوں کیونکہ میںگھر میں، اپنے طور پر 30 تک ’’کپ اپس‘‘ کرچکا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت پنجاب نے مجھے اس ایونٹ میں موقع نہیں دیا اور جن لوگوں کو موقع دیا گیا وہ یہ ریکارڈ بریک نہ کرسکے۔

2013ء میں بھی مجھے حکومت کی طرف سے موقع نہ مل سکا۔ بالآخر 2014ء میں مجھے موقع دیا گیا اور میں ملتان سے پہلی بار لاہور آیا اور 26 فروری 2014ء کو میں نے ایک منٹ میں 34 ’’کپ اپس‘‘ کرکے یہ ریکارڈ بریک کردیا۔ اس سے قبل یہ اعزاز 2008ء سے انگلینڈ کے پاس تھا۔ اس کے بعد اگلے تین سال تک حکومت نے یوتھ فیسٹیول منعقد نہیں کروائے۔ اگر ان کا انعقاد تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہتا تو مجھے امید ہے کہ میں مزید بہت سے ریکارڈ بریک کرتا۔ ان تین سالوں میں مجھے کوئی اور ایسا پلیٹ فارم میسر نہ آسکا جہاں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرسکتا۔

اس دوران میں پیسے جمع کرتا رہا اور پھر 2017ء میں میں نے زمان پارک لاہور میں عمران خان کے بھانجوں اور ان کے والد جو عمران خان کے کزن بھی ہیں، سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں میری مدد کریں۔ انہوں نے مہربانی کی اور تمام انتظامات کا اہتمام کرکے مجھے موقع مہیا کیا۔ وہاں 15 مارچ 2017ء کو میں نے ایک منٹ میں 25 ’’نو ہینڈڈ کپ اپس‘‘ (No Handed Kip Ups) کرکے 20 ’’نو ہینڈڈ کپ اپس‘‘ کا انگلینڈ کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سٹیپ میں زمین پر لیٹ کر محض اپنے سر کے زور پر اپنا جسم اچھال کر اٹھنا ہوتا ہے۔ اس ریکارڈ کو بریک کرنے کا ٹارگٹ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ذمہ داران کی جانب سے سیٹ کیا گیا تھا۔

اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور عمران خان فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام میں نے دو مزید گنیز ورلڈ ریکارڈ بریک کیے جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک سٹیپ میں گالف کی زیادہ سے زیادہ گیندیں ایک منٹ مین صرف ایک پاؤں سے 10 میٹرز کے فاصلے تک اٹھا کر ٹوکری میں ڈالنا ہوتی ہیں۔ میں نے جاپان کا 2013ء میں بنایا گیا اس کا ریکارڈ توڑا اور 11 کے مقابلے میں 12 گیندیں پاؤں سے ٹوکری میں ڈال کر 6 ستمبر 2017ء کو نیا ریکارڈ بنا دیا۔

اسی دن 2 افراد کی ٹیم ایونٹ کے طور پر پاؤں سے گالف کی گیندیں ٹوکری میں ڈالنے کا ریکارڈ جو گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ذمہ داران کی طرف سے ٹارگٹ کے طور پر سیٹ کیا گیا تھا ، 5 کے مقابلے میں 7گیندیں ٹوکری میں ڈال کر بریک کیا۔ یہ ریکارڈ بھی پہلے جاپان کے پاس تھا۔ یہ مشکل کام بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس کے لیے بہت پریکٹس کرنی پڑتی ہے۔ ان ریکارڈز کو بریک کرنے کے بعد پھر کچھ عرصے کا گیپ آیا کیونکہ عمران خان فاؤنڈیشن کے پاس بھی فنڈ کی کمی تھی‘‘۔

2018ء میں انھیں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی نے ٹیلنٹ بیس پروگرام کے تحت داخلے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی۔ اس وقت ان کے پاس گنیز ورلڈ کے 4 ریکارڈز موجود تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی آفر میں ناصرف انھیں مزید ریکارڈز بریک کرنے کی تیاریوں کے لیے تمام تر سہولیات کی فراہمی بلکہ ریکارڈ بریک کرنے کے لیے آنے والے تمام تر اخراجات بھی برداشت کرنے کی یقین دھانی شامل تھی۔ یوں ان کا داخلہ اس یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں ہوگیا اور انھوں نے یونیورسٹی کے ’’جم‘‘ میں فٹنس اور دیگر ریکارڈز بریک کرنے کے لیے تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ وہاں پڑھ بھی رہے ہیں اور اسی دوران اب تک انھوں نے 5 ریکارڈز بھی مزید بریک کیے ہیں۔

ان 5 ریکارڈز کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا پانچواں ریکارڈ بھی ’’ہینڈڈ کپ اپس‘‘ کا ہی ہے جو 20 اکتوبر 2017ء کو ایک منٹ میں37 ’’کپ اپس‘‘ کے ساتھ بھارت کے پاس تھا (پہلے یہ ریکارڈ34 کے ساتھ میرا تھا، جسے بھارت نے 37 سے توڑا) اور پھر 22 فروری 2018ء کو جرمنی نے برابر کیا۔ وہ میں نے 2 اپریل 2018ء کو 39 ’’کپ اپس‘‘ کے ساتھ توڑ دیا۔ چھٹا ریکارڈ جو 30 سیکنڈز میں 32 ’’ہیلی کاپٹر سپنز‘‘ (Helicopter Spins)کا 15 جولائی 2016ء سے اٹلی کے پاس تھا، 1 اپریل 2010ء کو بھارت نے 34 کے ساتھ توڑا۔ اسے میں نے اگلے ہی دن یعنی 2 اپریل 2018ء کو 39 کے ساتھ بریک کیا۔ ’’ہیلی کاپٹر سپنز‘‘ میں ٹانگوں کو ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کی طرح گھومانا ہوتا ہے۔

’’سپون ٹوئسٹنگ‘‘ (Spoon Twisting) کے مقابلے دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ یہ میں بھی کرسکتا ہوں۔ اس میں 9 انچ کے خاص قسم کے چمچے 180ڈگری تک موڑنے ہوتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب میں نے چمچہ موڑا تو میرے ہاتھ میں درد ہوگیا مگر بعد میں مقابلے کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر میں نے اس کی تکنیک سمجھ لی اور پھر اس کی پریکٹس کی۔ جس شخص نے یہ ریکارڈ بنایا تھا اس کے دوسرے ریکارڈز کی تعداد 500 ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پانچ چھ ماہ تک پریکٹس کرنے اور بہت سے چمچے استعمال کرنے کے بعد میں نے یہ ریکارڈ بریک کیا۔ میرا ساتواں ریکارڈ اسی سے متعلق ہے۔

ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ ’’سپون ٹوئسٹنگ‘‘ کا ریکارڈ 17جنوری 2013ء کو امریکہ کے پاس 14 چمچے موڑنے کا تھا جو میں نے 23 کے ساتھ 2 اپریل 2018ء کو بریک کیا۔ میرا آٹھواں ریکارڈ گالف کی گیندیں پاؤں کے ساتھ ٹوکری میں ڈالنے کا دو افراد کی ٹیم ایونٹ کے طور پر تھا۔ میں اور میرے بھائی، عثمان ایوب نے ہی قبل ازیں 6 ستمبر 2017ء کو یہ ریکارڈ بنایا تھا، جسے پھر 7 کے مقابلے میں 9 سے 2 اپریل 2018ء کو دوبارہ بریک کیا اور نواں ریکارڈ بھی ٹیم ایونٹ تھا جو میں نے اپنے بھائی کے ساتھ ہی مل کر کیا۔ یہ گنیز کا سیٹ ٹارگٹ تھا جس میں 3 منٹ میں پانی بھرے غباروں کو سر سے ہٹ کرنا تھا۔ یہ ریکارڈ 15  اپریل 2018 کو 60 کے مقابلے میں 88 سے بریک کیا۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اگلے 5 تا 6 ماہ میں مزید 5 سے 6 ریکارڈ بریک کروں گا۔ انشاء اللہ

فرحان ایوب جو پڑھائی میں بھی میں ایک اچھے طالب علم ہیں، نے اپنے مستقبل کے عزائم کے حوالے سے سیاست میں آنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ ان کے خیال میںکیونکہ انھوں نے خود بچپن سے بہت غربت دیکھی ہے اس لیے وہ غریبوں کا دکھ درد صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ سیاست میں آنے کے لحاظ سے بھی وہ انفرادیت پسند ہیں اور کسی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ اپنی اکیڈمی بنانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر وسائل نے اجازت دی تو نوجوانوں کو مفت راہنمائی فراہم کروں گا۔ نوجوانوں کے لیے پیغام دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’’کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اندر صلاحیت ہے اور آپ اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتے ہیں تو پھر کسی تنقید اور حوصلہ شکنی کی پروا نہ کریں۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اپنے اوپر بھروسہ کریں۔ کامیابی بالآخر آپ کے قدم چومے گی‘‘

zeeshan.baig@express.com.pk

The post کھیلوں کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہئے appeared first on ایکسپریس اردو.

سائنسدانوں، محققین اور دانشوروں کا قحط الرجال

$
0
0

گاؤں کے نوجوان نے اپنے گا ؤں سے کوئی بیس کلو میٹر دور دوسری برادری کے گاؤں میں کسی دوشیزہ سے عشق فرما لیا اور پھر عشق اور مشک تو چھپائے نہیں چھپتے، دونوں گاؤں میں چرچے ہونے لگے، لڑکی والوں کے ہاں جا کر رشتہ مانگنے اور ان کو قائل کرنے کے بارے میں غورکیا جانے لگا۔

بزرگوں نے سمجھایا کہ ایسے نہیں ہوتا کچھ انتظار کروکسی غیر جانبدار سمجھدار بزرگ کو ثالث مقرر کر کے قاعد ے اور روایات کے مطابق ان سے لڑکی کا رشتہ مانگتے ہیں۔ مگر گاؤں کے سب جوان ایک جانب تھے اور اپنے طور پر ہی لڑکی کے گاؤں والوں سے رابط کرکے طے کر لیا کہ ہم اس لڑکے کی شادی آپ کے گاؤں کی لڑکی سے کرنا چاہتے ہیں۔

لڑکی کے گاؤں والوں نے نوجوانوں کو سبق سکھانے کے لیے کہا کہ ٹھیک ہے تاریخ طے کر لیتے ہیں مگر دو شرائط ہیں، پہلی شرط یہ کہ بارات میں تما م جوان آئیں گے کوئی بوڑھا شامل نہیں ہو گا اور دوسری شرط شادی یعنی نکاح کے وقت پوری کرنی ہو گی۔ نوجوان مان گئے، سب بہت خوش تھے، خیر مقررہ تاریخ پر بارات شادی کے لیے جانے کو تیار ہونے لگی تو ایک بزرگ آیا اور بولا تم نوجوانوں کا وہاں بغیر کسی بزرگ کے جانا مناسب نہیں، مجھے کسی طرح  چھپا کر ہی لے جاؤ۔ پہلے تو نوجوان مانے نہیں مگر جب کہا کہ چھپا کر لے جاؤ تو مان گئے اور ایک بڑے ٹرنک میں بزرگ کو چھپا کر لے گئے۔ بارات شام کو پہنچی تو گاؤں والوں نے با رات کا استقبال کیا اور کہا کہ کل دوپہر کو شادی ہو گی لیکن شرط یہ کہ  بارات میں شامل ہر فرد کو اکیلے اکیلے ایک ایک بکرا کھانا ہو گا۔ یہ سنتے ہی نوجوانوں کے ہوش اڑ گئے۔

ایک نو جوان نے بمشکل کہا کہ آپ ہمیں آپس میں مشورے کے لیے کچھ وقت دیں انہوں آدھے گھنٹے کا وقت دے دیا۔ نوجوان واپس آئے اور بڑے ٹرنک کے پاس آکر چھپے ہوئے بزرگ کو لڑکی والوں کی شرط بتائی تو بوڑھے نے کہاکہ ان سے کہو کہ ایک ایک بکرا کھانے کی شرط ہم قبول کرتے ہیں مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہم جتنے ہیں، یعنی ہماری جتنی تعداد ہے اتنے بکرے ہوں ہم سب ایک دسترخوان پر ہوں گے آپ ایک بکرا لائیں ہم سب مل کراسے ختم کرلیں تو دوسرا بکرا لے آئیں اس طرح جتنے ہم ہیں اتنے بکر ے کھا لیں گئے۔ اس پر لڑکی والوںکی جانب سے سب سے بوڑھے بزرگ نے کہا، وہ بوڑھا شخص کہاں ہے جسے تم ساتھ لائے ہو، اور مسکراتے ہوئے یہ شرط عائد کی کہ جب وہ بزرگ لے آؤ گے تو پھر نکاح اور رخصتی ہو گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

اس حکایت کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بوڑھے افراد کے پاس تجر بہ ہوتا ہے جو بعد میں فکر وفراست کی کسوٹی پر بھی پرکھا گیا ہوتا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک اسپورٹس ٹیچر تھے جو اپنی جوانی میں ہاکی کے اچھے کھلاڑی بھی رہ چکے تھے یہ وہ دور تھا جب پاکستا ن کے پا س اولمپک، ورلڈ کپ،ایشا کپ،اذلان شاہ کپ اور چیمپین ٹرافی تمام کے تمام اعزازات تھے اس لیے ہمارے سنڈیمن ہائی اسکول کوئٹہ کی ہاکی کی ٹیم کا معیار بھی بہت بلند تھا اور اس ٹیم سے ہمارا ایک ساتھی شفیق اسکول سے فارغ ہونے کے بعد قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہوکر اولمپک میں کھیلا بھی تھا۔

یوں یہ اسپورٹس ٹیچر واقعی کمال کے آدمی تھے وہ جب بحیثت کوچ ہمیں ہاکی کھیلنا سکھاتے تھے تو اکثر یہ کہتے تھے ایسا مت کھیلو جیسا میں کھیلتا ہوں، بلکہ ایسا کھیلو جیسا کہ میں بتاتا ہوں یعنی یہاں یہ کہنا ہے کہ معمر افراد جسمانی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں مگر ان کے پاس نوجوانوں کو سکھانے اور بتانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے، اس سے اہل مغرب بہت استفادہ کر رہے ہیں، امریکہ میں معروف شخصیت ہنر ی کسنجر 1969 سے1977تک نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور پھر امریکہ کے وزیر خا رجہ رہے، 1923 میں پیدا ہوئے اور اس وقت 95 سال کے ہیں مگر امریکی تھنک ٹینک کے اہم ترین رکن ہیں۔

اس کے مقابلے میں ہمار ے سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان جو بحیثیت لیفٹیننٹ جنرل، جنرل ٹکا خان سے پہلے مشرقی پاکستان میں کمانڈ کے انچارچ تھے اور مسئلے کا سیاسی حل چاہتے تھے، فوجی ملازمت کے بعد طویل عرصے تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے، اس کے بعد 1982سے 1997 تک مختلف حکومتوں میں مجموعی طور پر 9 سال وزیرِ خارجہ رہے، 24 فروری1997 کو سابق وزیر اعظم نوازشریف نے گوہر ایوب کو وزیر خارجہ بنا کر ان کو عہدے سے فارغ کردیا، اس کے بعد وہ سولہ سال مزید زندہ رہے اور دو برس قبل 92 برس کی عمر میں انتقا ل کر گئے اور تعریف کی بات یہ ہے۔

1998 سے 2016 تک ہم امور خارجہ کے اعتبار سے دنیا میں ناکام ہو تے رہے مگر مرتے دم تک صاحب زادہ یعقوب خان کی قابلیت اور تجر بے سے ا ستفادہ نہیں کیا۔ اسی طرح سابق صدر غلام اسحاق خان جو حکومتی امور کا خاصا تجربہ رکھتے تھے ان کو صدارت کے عہدے سے فارغ کیا گیا تو مرتے دم تک اس معمر اور تجربہ کار شخصیت سے بھی استفادہ نہیں کیا گیا، امریکہ کے سابق صدور میں جمی کارٹر اور جارج ایچ ڈبلیو بش جن کو بش سینئر بھی کہا جا تا ہے ان دونو ں کی عمریں 92 ۔ 92 سال سے زیادہ ہیںاور امریکہ میں حکو مت کوئی بھی ہو ضرورت کے وقت ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔

ہمارے ہاں تقسیم سے قبل پطرس بخاری کے استاد اور نوبل انعام یا فتہ ناول نگار پروفیسر ای ایم فاسٹر جن کا مشہور ناول A Passage To India جو 1920 میں ہند وستان کی تحریک آزادی جس میں ان کے نظریات دوستی ذاتی تعلقات جمہوریت سے محبت اور آمریت کے خلاف جدوجہد اور انسان سے محبت دکھائی دیتے ہیں۔ ای ایم فاسٹر 1879 میں پیدا ہوئے اور91 سال کی عمر میں1970 میں فوت ہوئے، وہ جب آزادی کے بعد واپس لندن چلے گئے تو وہ کافی بو ڑھے ہو چکے تھے مگر ان کی علمی ادبی اہمیت کے پیش نظر کیمبرج یو نیورسٹی نے ان کو تاحیات بطور پروفیسر رکھ لیا تھا۔

یونیورسٹی نے ایک اچھا دفتر مہیا کیا تھا اور یہاں ان کا کام یہ تھا کہ جب کوئی دانشور ادیب ان سے ملنے آئے تو وہ ان سے ملاقات کریں، بات چیت کریں۔ ذرا تصور کریں کہ ان کے ہاں فکر و دانش کی ترقی کا کتنا ادارک ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر دو دانشور، مفکر آپس میں گفتگو کریں گے تو اس سے فکر اور دانش کا کتنا ارتقا ہوگا۔ یہ تو امریکہ اور یورپ میں سرکاری سطح پر ان اہم ترین شخصیات کا حال رہا، ہمارے ہاں پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی جو آزادی کے بعد سائنسی تحقیق میں اپنی علمی جدوجہد کی وجہ سے نمایاں ہوئے اور لیبارٹری بنائی ان کی حکیم سعید مرحوم سے گہر ی دوستی تھی اور ان دونوں نے کیمسٹری کے شعبے میں ادویات سازی میں بہت کام بھی کیا۔

سلیم الزمان صدیقی نے ایک دوا اجملین، حکیم اجمل کے نام پر بنائی ہے۔ ان دونوں حضرات کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی دیا تھا اور دل بھی، اور ان دونوں نے عمریں  بھی اچھی پائی تھیں اور اس عمر کو اللہ کے بندوں کی خدمت میں صرف بھی کیا۔ حکیم سعید کو تو اسی پاداش میں قاتلوں نے شہید کر دیا تھا۔ ان دونوں شخصیات نے ادیبوں اور سائنسدانوں کا ایک گرہ سا بنا لیا تھا۔ بد قسمتی کہ ان کے بعد ایسی شخصیات پیدا نہ ہو سکیں جو دانشوروں کی کفالت کرکے انھیں معاشی پریشانیوں سے آزاد کر کے معاشرے کی اجتماعی خد مت کے لیے اکھٹا کر سکیں۔ اس رجحان میں بھی 1980 کی دہائی سے انحطاط شروع ہوا اور پھر تیز رفتاری اختیار کرتا چلا گیا۔

سائنسی اور سماجی دونوں شعبوں کی ریسرچ اور علمی ترقی وترویج کی اہمت کو سرکاری اور غیرسرکاری دونوں شعبوں میں نظر اندز کر دیا گیا۔ اس میں ایک بڑی وجہ ارباب اقتدار کی عدم دلچسپی اور افسر شاہی کی جانب سے بے جا مداخلت رہی، یعنی جو منتخب حکومتیں تشکیل پاتی رہیں ان میں سائنسی اور سماجی تحقیق تو دور کی بات رہی ان شعبوں کا علم رکھنے والے بھی بہت ہی کم رہ گئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے گرد محققین اور دانشور وں کا گھیرا رہتا تھا۔ آج اس جماعت میں اعتزاز احسن جیسا دانشور ایک آدھ ہی رہ گیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں جہاں محققین اور دانشوروں کی محفلیں فکری اور تحقیقی موضوعات پر ہوتی تھیں وہاں اب ملازمت کے حوالے سے ذاتی مفادات کے لیے گروہ بندیاں ہیں۔ وائس چانسلرز سیاسی وابستگیوں، اقربا پروری کی بنیادوں پر تعینات ہوتے رہے اور اپنی مدت کے دوران درپردہ پارٹی کے لیے کا م کرتے رہے اس کے اثرات ان یونیورسٹوں کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ بعض اوقات خانہ پُری کے لیے سیمیناروں کا انعقاد بھی کر دیا جاتا ہے مگر ان سیمیناروں میں پیش کئے گئے مقالات کا جو معیار ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اب بھی ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں عالمی سطح کے محقیقین اور دانشور موجود ہیں مگر ان کی تعداد تناسب کے اعتبار سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ دیانتداری کے ساتھ علم اور تحقیق رکھنے والوں کی اکثریت بددل ہوکر مغربی ملکوں میں منتقل ہونے لگی جہاں ان لوگوں کی عزت بھی ہے اور قدر بھی۔ جہاں تک سرکار کا تعلق ہے یہاں بد قسمتی سے تحقیق اور علم سے متعلق بھی جو شعبے ہیں ان میں بھی عموماً ڈی ایم جی گروپ کے بیوروکریٹ بطور سیکرٹری تعینات ہو جاتے ہیں۔ یوں ان شعبوں میں کام کرنے والے دانشوروں محقیقن کو اکثر بہت مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے، اس کا ایک واقعہ مجھے بلوچستان یونیورسٹی کے صدر شعبہ کیمسٹری اور ڈین جو اب دس برسوں سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک پرو جیکٹ کا بتایا کہ اسی کی دہائی میں وہ کراچی میں وفاقی حکومت محکمہ صحت کی جانب سے ایک تحقیقاتی پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے جس میں جامن کی گٹھلی سے شوگر کے علا ج کے لیے دوا تیار کی جا رہی تھی، اس دوا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے پروجیکٹ کا ایک بڑا فنڈ تھا جس کے تحت آسٹریلیا سے انسانی جسم جیسی یکسانیت رکھنے والے ایک خاص نسل کے خرگوش کی جسامت کے سفید چوہے منگوائے گئے تھے جن کی تعداد ایک ہزار تھی ان کے لیے شہد، مکھن، انڈے ناشتے میں اور اسی طرح کھانے کا مینو تھا۔اب اس ریسرچ پروجیکٹ کے تحت اس معیار کی خوراک کے استعمال کے بعد جامن سے بنائی ہوئی دوا ان چوہوں کو کھلائی جاتی تھی۔

پروجیکٹ میں ان سائنسدانوں نے یہ دورانیہ دوسال کا رکھا تھا، پہلے سیکرٹری ہیلتھ مناسب آدمی تھے، وہ اس مفید پروجیکٹ کے اغراض و مقاصد سمجھ گئے تھے، دوسرے سال کے آغاز پر سیکرٹر ی تبدیل ہوگئے، نئے سیکرٹری نے آنے کے کچھ دن بعد کراچی کا دورہ کیا اور یہ پروجیکٹ بھی دیکھا، سیکرٹری کو بتایا گیا کہ جامن جیسے پھل پر ریسرچ کی جا  رہی ہے کہ اس کی گٹھلی سے شوگر کی دوا بنائی جا رہی ہے اس پر سیکرٹری صاحب نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تھوُم یعنی لہسن بلڈ پریشر کے لیے بہت مفید ہے آپ اس پر تحقیق کریں۔ بڑی مشکل سے ان کو بتا یا گیا کہ تحقیق کے لیے پروجیکٹ ڈیزائن کرنے اور اس کو منظور کروانے میں دو ڈھائی برس لگے تھے۔

تب یہ دو سال کی مدت کا پروجیکٹ ملا، پھر جب انہوں نے چوہوں کے کھانے کا مینو کا بجٹ دیکھا تو بہت غصے میں کہا چوہوں کے کھانے پر اتنا خرچ۔ انہوں نے کھانے سمیت تمام اخراجات میں پچاس فیصد کمی کر دی۔ ابھی اس پروجیکٹ میں ایک سال کا عرصہ باقی تھا، سیکرٹری کے جانے کے بعد ماہرین ’’سائنسدانوں ‘‘ نے فیصلہ کیا کہ ایک ہزار چوہوں میں سے پانچ سوکو ہلاک کر دیا جائے اور یوں باوجود کوششوں کے اس ریسرچ کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔

ہمارے ہاںیہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی محقق، ریسرچر، قومی خدمت کا جذبہ رکھے ہوئے ، مصائب جھیل کر کسی مقام پر پہنچ بھی جائے اور اپنے جو ہر دکھا کر پوری قوم کو حیران کر دے تو اس کے ساتھ ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر عطا الرحمن کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ محبان وطن میں ڈاکٹر قدیر خان بہت سخت جان واقع ہوئے کہ اتنے معمر ہونے کے باوجود ان کی برداشت کی قوت کہیں زیادہ ہے کہ اب تک پاکستان میں ہیں، محبوب الحق نے 1985 میں بجٹ سازی کرتے ہوئے طویل عرصے کے بعد خسارے کی بجائے بچت کا بجٹ دیا تھا تو ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہونے کی توقعات ہو گئیں تھیں کہ نامعلوم حکومت کو کیا سوجی کہ ان کو فارغ کر دیا،  پھر یہی محبوب الحق تھے جن کی خدمات جنوبی کوریا نے حاصل کیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔

اسی طرح ہمارے ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاالرحمن ہیں جن کو نہایت کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد فارغ کردیا گیا اور اب گذشتہ دنوں ہمارے ہمسایہ اور دوست ملک چین نے انپی قومی تعلیمی پالیسی کے لئے ان کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ یوں ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح،کوئی ریسرچر، دانشور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد، عملی زندگی میں آتا ہے تو ان کی عمریں پینتیس سے چالیس سال ہو جاتی ہیں پھر وہ اپنے تجربے کے بعد جب خود کو منواتے ہیں تو عموماً ان کی عمر ساٹھ برس یا اس کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہیں، یوں ان کو ریٹائر کردیا جاتا ہے اور ہمارے سماج کی ساخت ایسی ہے کہ پھر ایک دانشور، محقق، سائنسدان جب ریٹائر ہو جاتا ہے تو پھر وہ گھر میں کچھ عرصہ اگر پوتے پوتیاں ہیں تو ان کو کھیلاتا ہے اور اگر نہیں تو گوشہ نشین ہو کر جلد اس دنیا ِ ئے فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔

ہمارے ہاں اسلامیات کے پروفیسر رشید احمد مرحوم کا نا م بطور محقق، اسکالر بہت بڑا نام ہے ان کی کتاب ’’مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘‘ آج بھی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔ یہ کتاب تقریباً بارہ سو صحفات پر مشتمل ہے۔ وہ ڈائر یکٹر ایجوکیشن بلوچستان ہوئے۔ ابھی ملازمت کے تین چار سال باقی تھے کہ اس خودار اور بااصول انسان کواوپر سے ناجائر آڈر دیا گیا جس کو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا، اور پھر ان کو قبل از وقت جبری ریٹائر کردیا گیا، انہوں نے اپنے مکان ہی میں پرچون کی دکان کھول لی، وہ صبح سویرے دکان کھولتے اورانگریزی کا اخبار پڑھتے تھے۔

ایک دن ایک بچے نے انہیں انگریزی اخبار پڑھتے دیکھا تو حیرت  سے کہا، بابا آپ کو انگریزی پڑھنا آتی ہے؟پروفسیر رشید احمد کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے ریٹائر ہونے کے بعد قرآن پاک حفظ کیا، ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی اعزاز تمغہ حسن کار کردگی بھی دیا گیا تھا اور جب ان کو جبری ریٹائر کیا گیا تو پھر انہوں نے کبھی کسی سے تمغے کا ذکر نہیں کیا۔ یوں اب اس ملک میں جس کی 1951میں تین کروڑ تیس لاکھ آبادی تھی تو اس وقت محققین، دانشوروں سائنسدانوں کی نہ صرف تعداد بہتر تھی بلکہ ان کی پیداوار جاری تھی اور ان کی قدر کرنے والی بیوروکریسی میں بھی مختار مسعود جیسے ادیب جو قحط الرجال سے اس زمانے میں بھی واقع اور آنے والوں کو اس کا ادراک دلانے کی فکری صلاحیت اور قوت بھی رکھتے تھے مگر اب ایک جانب تو واقعی شدید قحط الرجال ہے تو دوسری جانب حکومت میں اور بیوروکریسی میں ایسی پہچا ن رکھنے والی آنکھ بھی نہیں ہے۔

اب تقریباً 40 سال بعد ایک ایسی جماعت کی حکومت آئی ہے جس کو اگر چہ نوجوانوں کی اکثریت نے ووٹ دیا ہے لیکن اس سے بزرگوں اور خصوصاً دانشوروں، محققین اور سائنسدانوں کو بھی بڑی امیدیں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جو اس وقت جو  چند دانشور، محققین اور سائنسدان رہ گئے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صوبائی اور مقامی سطحوں پر ابھی بہت سی ایسی شخصیات ہیں جو طویل العمر ہو چکی ہیں لیکن ان کی قابلیت اور تجربے کے ساتھ ان میں دماغی قوت کے ساتھ یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنے اپنے شعبوں میں قومی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔

معمر شخصیات اس اعتبار سے بھی اہم ہو تی ہیں کہ وہ لالچ اور حریص کی خرابیوں کا بھی خوب ادراک کر چکی ہو تی ہیں اس لیے قوم و ملک کے لیے ان کی خدمات خالص اور شفاف ہوتی ہیں۔ اب عمران خان کی تحریک انصاف اگر یہ چاہتی ہے کہ ملک میں علم ودانش، تحقیق فروغ پائے تو ان کو چاہیے کہ حکومت ایسی پالیسی بنائے جس کے تحت اس وقت جو دانشور، سائنسدان اور محققین جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ ان کو قومی سطح کا کوئی صدارتی ایوارڈ ملا ہو کم ازکم ایک درجن کتابوں کے مصنف ہوں، پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حامل ہوں اور ایسے سائنسدان جن کے کم سے کم چھ ریسرچ آرٹیکلز تسلیم شدہ انٹر نیشنل جنرلز میں شائع ہوئے ہوں، ایسے دانشوروں، محققین اور سائنسدانوں کی تعداد پورے ملک میں ایک سے ڈیڑھ ہزار ہوگی، یوں ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں علم وآگہی، سماج اور ماحولیات ، اور سائنس و تحقیق کے دیگر شعبوں میں ملک کوآگے لے جانا چاہتی ہے تو اس معیار کے دانشوروں کی فوری رجسٹریشن کے ساتھ ان کو تاحیات کم از کم ستر ہزار ماہانہ اعزازیہ جاری کر ے اور کوشش کرے کہ صوبائی اور ضلعی سطحوں پر ان کے درمیان آپس میں بہترین رابطے ہوں اور ان کا کام سامنے آئے یعنی ان کے شعبوں کے تحت ان کے ضلعی، صوبائی اور قومی سطحوں پر تھنک ٹینک تشکیل دیئے جائیں اور ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ نوجوان نسل ان کے علم، تحقیق اور تجربے سے استفادہ کر سکے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے معاشرے کے ان اہم ترین افراد کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ ضیاع کیا جا رہا ہے ان کو بچانا ان کی حفاظت کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

The post سائنسدانوں، محققین اور دانشوروں کا قحط الرجال appeared first on ایکسپریس اردو.

کرکٹ کو خیرباد۔۔۔ اس کے بعد!

$
0
0

 پاکستان کے لیے ورلڈ کپ لانے والے ’’کپتان‘‘ عمران خان اب پورے ملک کے کپتان بن چکے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں تو عمران خان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے کیا کام کرتے ہیں۔

عمران خان کو عظیم ترین ’آل راوؤنڈر‘ مانا جاتا ہے۔ دنیا کے آٹھ کرکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے ’آل راؤنڈرز ٹرپل‘ کا اعزاز حاصل کیا، جن میں عمران خان کا نام بھی شامل ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 3 ہزار رنز بنائے اور 300 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیاست دانوں اور کھلاڑیوں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک لمحے میں ہی دونوں ہیرو تو ایک ہی لمحے میں دونوں زیرو بن جاتے ہیں۔ عمران خان کی طرح میدان کرکٹ کے ایسے بہت سے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست اور دیگر شعبوں کو منتخب کیا، جن میں سے بعض نے بڑے منفرد پیشے چُنے۔ کچھ کو اپنے شعبے میں کرکٹ سے زیادہ شہرت ملی تو کچھ کھلاڑی گم نامی کی دلدل میں چلے گئے ۔ ایسے ہی کچھ کھلاڑیوں کا احوال یہاں بیان کیا گیا ہے۔

٭منصور علی خان پٹودی

منصور علی خان پٹودی کا شمار بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1952سے1971تک ریاست پٹودی کے حکم راں کے طور پر وہ نواب آف پٹودی کے لقب سے جانے جاتے رہے۔ تاہم بھارتی آئین میں ہونے والے 26ویں ترمیم کے بعد ان کی یہ شناخت ختم کردی گئی۔ منصور علی خال کو دنیا کے بہترین فیلڈر کا لقب بھی دیا گیا۔ انہوں نے 1971 اور پھر 1991 میں عام انتخابات میں شرکت کی لیکن دونوں مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ اپنی وفات تک سیاست سے وابستہ رہے۔ کون نہیں جانتا کہ بولی وڈ کے معروف اداکار سیف علی خان اور سوہا علی خان منصور علی خان کی اولاد ہیں۔

٭محمد اظہرالدین

موجودہ سیاست داں اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہرالدین کا شمار ہندوستان کے کام یاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ 47 ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی قیادت کا اعزاز رکھنے والے محمد اظہر الدین کی کپتانی میں بھارتی کر کٹ ٹیم نے متعدد اہم فتوحات حاصل کیں۔ 2000 میں میچ فکسنگ اسکینڈل پر ان پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جس کے ساتھ ہی ان کا انٹرنیشنل کر کٹ کیریئر اختتام پذیر ہوگیا اور انہوں نے سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ 2009 میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال ہونے والے انتخابات میں مرادآباد سے سیٹ جیت کر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

٭سنتھ جے سوریا

1996 میں سری لنکا کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والے اہم کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو اروندا ڈی سلوا کے بعد دوسرا نام سنتھ جے سوریا کا ذہن میں آتا ہے، جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے دنیا کے تمام باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ جے سوریا نے بھی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنے جہاں 2010 میں وہ اپنے آبائی علاقے متارا سے ایم پی بنے۔ سیاست کے بل بوتے پر جے سوریا نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور 2011 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی سری لنکن ون ڈے ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ تاہم ایک ون ڈے میچ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔

٭ جوگندرا شرما

2007کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی کام یابی کا سہرا رائٹ ہینڈ بالر اور بلے باز جوگندرا شرما کے سر جاتا ہے جنہوں نے بالنگ کی اپنی جادوئی صلاحیت کی بدولت بھارت کو جتوایا۔ بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس فائنل میچ میں جوگندرا کی خطرناک بالنگ نے پاکستان کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ شرما نے اپنا پہلا ڈیبیو 2002 میں ہونے والی رانجی ٹرافی میں مدھیہ پردیش کے خلاف کیا اور ریاست ہریانہ کو 103رنز سے فتح دلوائی۔ ایک سال بعد انہیں دلیپ ٹرافی کے لیے شمالی ٹیم کی جانب سے منتخب کیا گیا اور انہوں نے امید پر پورا اترتے ہوئے اپنی ٹیم کو فتح یاب کروایا۔

قومی سطح پر وہ اس وقت نظروں میں آئے جب انہوں نے بنگلور میں قومی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے ٹیم اے کی جانب سے راہول ڈریوڈ، لکشمن اور یوراج سنگھ کو پچ پر آتے ہی آؤٹ کردیا۔ اُن کے شان دار کھیل کو دیکھتے ہوئے انہیں بنگلادیش کے ٹور کے لیے قومی ٹیم میں جگہ دی گئی۔ اس کے بعد ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ 2007 میں جنوبی افریقا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی شان دار کارکردگی کی بنیاد پر ریاست ہریانہ کی حکومت نے جوگندرا کے لیے نقد انعام کے ساتھ ساتھ محکمۂ پولیس میں ڈی ایس پی کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے انہوں نے خوش دلی سے قبول کرلیا اور اب وہ کرکٹ سے دست بردار ہوکر اپنی پولیس کی ملازمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

٭ سلیل انکولا

انڈیا کے سابق کرکٹر اور موجودہ اداکار سلیل انکولا نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز بیس سال کی عمر میں ریاست مہاراشٹرا سے کیا ۔ اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے گجرات کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک ہی اننگ میں چھے وکٹیں حاصل کیں۔ اپنے شان دار کھیل کی بدولت وہ جلد ہی سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں 1989-90میں ہونے والے پاکستان ٹور کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ ڈیبیو کراچی میں سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کے ساتھ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انکولا نے بالی وڈ میں ہندی فلم ’کرک شیترا‘ سے اپنے اداکاری کے کیریر کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے سنجے دت کے ساتھ ایک پولیس افسر کا کردار ادا کیا۔

بعدازاں انہوں نے فلموں پِتا، چُرا لیا ہے تم نے، سائلنس پلیز، دی ڈریسنگ روم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انکولا فلموں کے علاوہ ٹی وی پروگرام ’بگ باس سیزن ون، ٹی وی ڈرامے ’کرم اپنا اپنا‘، ’کورا کاغذ‘، ’شش کوئی ہے‘ سمیت متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ۔ ان کے ساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے کرکٹر سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنا چکے ہیں جب کہ انکولا اب چھوٹی اسکرین کا بڑا نام بن چکے ہیں۔ آج کل انہیں ارباز خان کے ٹی وی شو ’پاور کپل‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

٭ شنتھا کمارن سری سانتھ

سابق بھارتی کرکٹر سری سانتھ نے اپنے کرکٹ کیریر کا آغاز ریاست کی سطح پر ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں سے کیا۔ بلے بازی اور بالنگ دونوں میں مہارت رکھنے والے سری سانتھ دُلیپ ٹرافی میں اپنے شان دار کھیل کی وجہ سے سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں راج کوٹ کی جانب سے نیوزی لینڈ جانے کا موقع دیا گیا۔ 2004 میں رانجی ٹرافی میں ہماچل پردیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کرکے وہ ریکارڈ بُک میں داخل ہوئے اور یہ ہیٹ ٹرک آگے چل کر ان کی انڈین کرکٹ ٹیم میں شمولیت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے پہلے ون ڈے میچ میں سری لنکا کے خلاف کھیل کا مظاہرہ کیا۔

تاہم کارکردگی برقرار نہ رکھنے پر انہیں قومی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ 2011 میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہیں پروین کمار کے زخمی پونے کی وجہ سے ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ۔ تاہم وہ ورلڈ کپ میں بھی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ بعدازاں انہیں انڈین پریمیئر لیگ کی ٹیم راجستھان رائلز میں شامل کرلیا گیا۔ سولہ مئی 2013کو دہلی پولیس نے آئی پی ایل سیزن چھے میں اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں سری سانتھ کو دیگر دو کھلاڑیوں اجیت چنڈیلا اور انکیت چھاون کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ سٹے بازی کے الزام میں سری سانتھ کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم رقص میں مہارت کی وجہ سے اب وہ جنوب کی فلم انڈسٹری مولی وڈ کی ایک مشہور سیلے بریٹی بن چکے ہیں۔

٭ارشد خان

نوے کی دہائی میں ابھرتے ہوئے کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑیوں میں ایک نام ارشد خان کا بھی تھا۔ ارشد خان نے 1997-98میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل کر اپنے انٹرنیشنل کیریر کا آغاز کیا۔ وہ سری لنکا میں ہونے والی ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ کی فاتح ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ ارشد خان نے 1998میں کولالمپور میں ہونے والے دولت مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ 2005 میں پاکستان کی جانب سے انڈیا میں ہونے والے میچوں میں بھی ارشدخان نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم قسمت کی دیوی ان پر زیادہ عرصے مہربان نہ رہی۔ انہیں قومی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور وہ کرکٹ میں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر آسٹریلیا چلے گئے جہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ دارلحکومت سڈنی میں اوبر ٹیکسی چلا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔

٭ دیباشش موہانتے

بھارتی ریاست اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بالر دیباشش موہانتے کا شمار انڈین کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1997سے 2001 کے عرصے میں دو ٹیسٹ اور 45ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے دیباشش کا شمار ان چند کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نوے کی دہائی میں سہارا کپ میں پاکستان کے خلاف فتح حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دیبا شش ڈومیسٹک کرکٹ میں دس وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنانے والے گنتی کے کچھ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ تاہم بہترین کارکردگی کے باوجود انہیں قومی ٹیم سے نکال دیا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنے کرکٹ کیریر سے مایوس ہوکر ریاست اُڑیسہ کی نیشنل ایلمونیم کمپنی میں ملازمت کرلی۔

٭ اینڈریو فلنٹوف

اینڈریو فلنٹوف کا شمار انٹرنیشنل کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کیریر کا آغاز 1996-97میں پاکستان میں ہونے والے انڈر نائٹین میچز میں زمبابوے کے خلاف کھیل سے کیا۔ فلنٹوف ایک طویل عرصے تک انگلش ٹیم کے اہم کھلاڑیوں میں شامل رہے۔ 2007 میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں زخمی ہونے کے بعد فلنٹوف نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ۔ بین الاقوامی کرکٹ اور قوم ٹیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے لیے یکسر مختلف شعبہ منتخب کیا۔ فلنٹوف پروفیشنل باکسر بن کر مکے بازی کے متعدد ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

٭ ارجنا رانا ٹنگا

سری لنکن ٹیم کے سابق کپتان ارجنا رانا تنگا پچ پر طویل عرصے تک حکم رانی کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔ 1996میں سری لنکا کو ورلڈ جتوانے والے رانا ٹنگا چند سال بعد ہی چندریکا کماراٹنگا کی سربراہی میں چلنے والی سری لنکا فریڈم پارٹی میں شمولیت سے میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 2001میں انہوں نے کولمبو ڈسٹرکٹ سے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ 2004 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس کے پلیٹ فارم سے کام یابی حاصل کی۔

انہیں صنعت سیاحت اور ترغیبِ سرمایہ کاری کا ڈپٹی وزیر مقرر کیا گیا۔ 2010 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس چھوڑ کر ڈیموکریٹک نیشنل الائنس کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بہ حیثیت ڈپٹی لیڈر شمولیت اختیار کرلی۔ دو سال بعد ہی انہوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا ۔ 2015 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے سری لنکا کے سنیئر سیاست داں اور موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا کی حمایت کی۔ فتح یاب ہونے کے سری سینا نے رانا ٹنگا کو وزیر برائے ہائی ویز، پورٹس اینڈ شپنگ کا وزیر مقرر کردیا۔ کام یاب کپتان اور بلے باز رہنے کے ساتھ رانا ٹنگا کا سیاسی سفر بھی کام یابی سے جاری ہے۔

٭ویز لے ہال

سر ویزلے ہال 1960 میں بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب تصور کیے جاتے تھے انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 192وکٹیں حاصل کیں اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔ ساٹھ کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ویز لے ہال کا نام سن کر اچھے اچھے بلے بازوں کا پتا پانی ہوجاتا تھا۔ لانگ رن کے علاوہ لونگ اسپیل گیند کرانے کی صلاحیت بھی ان کی شناخت تھی۔ 1958سے 1969کے عرصے میں انہوں نے 48ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا۔

آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم اور ویسٹ انڈیز کرکٹ ہال آف فیم کے رکن رہنے والے ویز نے اسی کی دہائی میں سیاست میں حصہ لیا۔ رکن ایوان بال اور ایوان زیریں کی خدمات سر انجام دینے کے بعد انہیں 1987 میں وزیر سیاحت مقرر کردیا گیا۔ بعدازاں انہیں پینٹے کوسٹل چرچ کے وزیر کی ذمے داریاں بھی تفویض کردی گئیں۔ 2001 سے 2003 تک انہوں نے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر، ٹیم مینیجر اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے صدر کے فرائض بھی سر انجام دیے۔

٭ چارلس برگس فرائے

چارلس برگس فرائے دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جن کا شمار انگلینڈ کے ایسے ہمہ جہت کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف کرکٹ بل کہ فٹ بال اور رگبی جیسے کھیلوں میں بھی اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔ سات ستمبر 1956کو چوراسی سال کی عمر میں انتقال کرجانے والے چارلس کا شمار تاریخ کے چند ایسے کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف کھیل کے میدان بل کہ سیاست، سفارت کاری، درس و تدریس اور صحافت جیسے یکسر مختلف شعبوں میں بھی اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔ دس جنوری 1920کو جب جینیوا میں پیرس امن کانفرنس کے بعد بین الحکومتی لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہیں انڈیا کے نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔

یہ ان کی سفارت کاری کا پہلا سفر تھا۔ 1922میں وہ اپنے آبائی حلقے برائٹون سے رکن پارلیمنٹ کی نشست کے لیے انتخابات میں کھڑ ے ہوئے۔ انہوں نے اس وقت کی مشہور اوپرا گلوکارہ کلارا بٹ کے ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی، تاہم الیکشن میں وہ ساڑھے چار ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ 1923 میں انہوں نے بین بری کی نشست سے انتخابات میں حصہ لیا اور 219 ووٹوں سے فرق ہارے۔ چارلس نے اگلے سال ایک بار پھر آکسفورڈ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور شکست سے دوچار ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مستقل مزاجی سے اپنی موت تک سیاست کرتے رہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے نیول اکیڈمی چلانے کے ساتھ ساتھ کھیل کا جریدہ بھی نکالا، جس کے مدیر اور ناشر بھی خود ہی رہے۔

٭ٹیڈ ڈیکسٹر

پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں انگلینڈ کے انٹرنیشنل کرکٹر ٹیڈ ڈیکسٹر کا شمار جارح مڈل آڈر بلے بازوں میں کیا جاتا تھا۔ وہ بلے بازی کے ساتھ ساتھ رائٹ آرم میڈیم بالر بھی رہے۔ 1961 میں انہیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا، تاہم ایک سال بعد انہوں نے کپتانی چھوڑ کر سیاست کا آغاز کردیا۔ 1964میں انہوں نے عام انتخابات میں کارڈِف ساؤتھ ایسٹ کی نشست پر انتخابات لڑنے کے لیے جنوبی افریقا میں ہونے والے سیریز میں شمولیت سے معذرت کرلی اور اس کے ایک سال بعد ہی کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد انہوں نے کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ سیاست کو منتخب کرلیا۔

٭ایلک ڈگلس ہوم

ایلک ڈگلس ہوم برطانیہ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے 1920 کی دہائی میں 6 مختلف ٹیموں سے 10 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جب کہ ایم سی سی کے دورہ جنوبی امریکا کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن انہیں ایک موثر سوئنگ باؤلر سمجھتے تھے۔ وزیر اعظم کا منصب چھوڑنے کے بعد 1966 میں ڈگلس ایم سی سی کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔

٭کمیسیسا مارا

کمیسیسا مارا نے نیوزی لینڈ میں دو فرسٹ کلاس میچوں کے لیے فیجی کی قیادت کی، انہوں نے 64 رنز بنائے اور آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سیاست میں شمولیت اختیار کی اور سال 1970 سے 1992 تک فیجی کے وزیراعظم رہے۔ بعد ازاں وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1993 سے 2000 تک صدر منتخب رہے۔

٭محسن حسن خان

محسن حسن خان نے 1977سے1986 کے عرصے میں پاکستان کی طرف سے اوپننگ بلے باز کی حیثیت سے 48 ٹیسٹ اور75 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فلموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اپنے وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی کے بعد انہوں نے بولی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انہوں نے فلم گناہ گار، کون، لاٹ صاب ، پریتی کار، فتح، ساتھی سمیت کئی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

٭سرفراز نواز

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے اپنے کیریئر کا آغاز1969میں کراچی میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیل کر کیا۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں پہلے میچ کے بعد ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور تین سال بعد انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اپنے پندرہ سالہ کر کٹ کے سفر میں انہوں نے 55 ٹیسٹ اور45ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ سرفرازنواز کو ریورس سوئنگ کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل کر کٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے سیاست کا رُخ کیا اور 1985میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔

The post کرکٹ کو خیرباد۔۔۔ اس کے بعد! appeared first on ایکسپریس اردو.

عوامی مفاد کی چارہ جوئی

$
0
0

آغاز سے قبل میں وضاحت کردوں کہ عوامی مفاد کی چارہ جوئی یا  Public interest litigation (PIL) کی صراحت کسی قانون میں نہیں کی گئی ہے مگر درد دل رکھنے والے ججز نے عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے آئین کی بعض شقوں کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے عوامی مفاد کے قانون کو واضح کیا تاکہ عوام کے بنیادی حقوق غصب نہ کیے جاسکیں۔

ہر معاشرے میں مملکت لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی پابند ہے لیکن ریاستوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود بدقسمتی سے غریب، ناخواندہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں غریب مزدور، کسان، نسلی اور گروہی تعصبات کا شکار افراد طبقات کا شکار جانتے ہی نہیں کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ اگر جان بھی لیں تو ان کی معاشی بدحالی، ناخواندگی آڑے آجاتی ہے جو ان کو احساس کم تری میں مبتلا کردیتی ہے۔

طاقت ور، معاشی طور پر خوش حال، وسائل پر قبضے کے خواہش مند، دولت کے بل بوتے پر غریب افراد پر اپنا جبر مسلط کردیتے ہیں بلکہ وسائل اور قانونی پیچیدگی کا فائدہ اٹھا کر معاشرے پر محرومیاں مسلط کردیتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے مختلف ادوار میں آئینی دائرے میں رہتے ہوئے سخت دیرینہ اصولوں کو نرم کرکے غریب اور کچلے ہوئے افراد کو بنیادی حقوق کے حصول کے کسی قدر قابل بنادیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عوامی حقوق کی چارہ جوئی (PIL) اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مجبوروں کے لیے عطیہ ہے۔ اس معاملے میں ہمارے ججز ہمیشہ سے بہت سخت رہے ہیں۔

(Locus Standi) یعنی کسی کیس کو داخل کرنے کے لیے اس شخص کا حق مداخلت یعنی براہ راست مفاد بنتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس افضل ظلہ نے کہا کہ ایک طرح سے اس روایتی قانونی نظام نے غریبوں کے لیے عدالتوں کے دروازے بند کردیے ہیں۔ جسٹس اجمل میاں نے کہا، اس کو Inherited evil یعنی وراثت میں ملی ہوئی برائی قرار دیا۔ ہمارا مخالفانہ/معاندانہ (Adversarial) نظام قانون بہت زیادہ خرابی کا سبب بنا ہمیں عوامی حقوق کی چارہ جوئی کے قانون یعنی PIL کے اصول و ضوابط پر بحث سے قبل معاشرہ میں مروج لیگل سسٹم کو دیکھنا ہوگا۔ اس بنیاد پر بہت سے لوگ انصاف کے حصول سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

اس بددیانتی کے علاوہ ہمارا پیچیدہ عدالتی نظام Adversarial یعنی مخالفانہ/معاندانہ رویوں پر استوار ہے یعنی غاصب کا ایک وکیل بھی ہوتا ہے جو اپنی ’’پارٹی‘‘ کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ لیکن اس بیچ کہا یہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم انصاف تک کے لیے عدالت کی مدد کر رہے ہیں حالاںکہ ہر وکیل اور جج یہ جانتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ وکیل اپنے دلائل اور ذہانت، بھاری فیس اور اپنی ’’پارٹی‘‘ کے مالی وسائل کی بنیاد پر پورا زور لگا رہے ہیں اور وسائل کی بنیاد پر اپنی پارٹی کے وسائل کی تکمیل کر رہے ہیں۔

یوں دولت کے بے دریغ استعمال، کم زور اور غریب افراد اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں اور عدالت کبھی کبھی یہ نوٹ لکھ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے کہ وکیل نے عدالت کی صحیح معاونت نہیں کی اور اس طرح عدالت اپنے ضمیر کا بوجھ شفٹ کردیتی ہیں۔ مطلب یہ ہے ججز کو قانون پر عبور حاصل ہونا چاہیے مگر لوئر جوڈیشری ابھی تک اعلیٰ عدلیہ کی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں عوامی مفادات کی قانونی چارہ جوئی کی۔ مختلف ادوار میں اعلیٰ عدلیہ نے اس قانون کے ذریعے عوامی مسائل اور بنیادی حقوق کو اس طرح آگے بڑھایا کہ اس کے اس حلف کا بھرم قائم رہے جو آئین کے تحت اٹھایا ہے۔

جس میں انسانی بنیادی حقوق کی پاسبانی اور تحفظ کی پاس داری سے متعلق ہے اس کی راہ میں ایک رکاوٹ جیسا کہ چیف جسٹس افضل ظلہ اور چیف جسٹس اجمل میاں نے کہا کہ فرد کا حق مداخلت Locus Standi کے عمل درآمد پر سختی سے عمل ہے جس کے باعث ایک عام آدمی جو قانون سے ناواقفیت یا ناخواندگی کے باعث حصول انصاف سے محروم رہ جاتا ہے اس قانون کو اس طرح نرم کیا جائے کہ قانون کی شق میں تبدیلی کیے بغیر بنیادی حقوق کی ادائیگی ہوسکے۔ ان کے اٹھائے ہوئے حلف کا بھرم بھی رہ سکے اور کوئی بری نظیر نہ بنے۔

مثال کے طور پر صاف ماحول کی فراہمی ہر فرد کا بنیادی حق ہے جس میں اہم کردار درخت ادا کرتے ہیں۔ اس لیے درختوں کی ناجائز کٹائی پر کوئی بھی فرد شکایت نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے لیے عدالت Locus Standi کے باعث مداخلت سے گریز نہیں کرے گی بلکہ کسی اخبار میں چھپنے والی خبر پر بھی فوری نوٹس لے گی۔ اس جرم کے ذمے دار ملزمان اور متعلقہ اداروں کو اعلیٰ عدلیہ طلب کرلے گی کیوںکہ صاف ہوا لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف پابند کرتا ہے کہ وہ صاف پانی کی فراہمی، عوامی پارکوں یا ان کی جگہوں پر مافیا کے قبضے کم زوروں پر بالادست طبقات کے جبر کی حوصلہ شکنی اسپتالوں میں بہترین علاج کی ضمانت فراہم کرے۔ امریکا میں ایک نفسیاتی اسپتال میں تو امریکی اعلیٰ عدلیہ نے بورڈ آف ڈائریکٹرز تبدیل کردیا اور ان کے اونر تبدیل کروادیے تھے۔

ہم نے ابھی صاف پانی کی بات کی تھی۔ غریبوں کی بستی میں بہنے والی ندی میں اگر کیمیکل زدہ کارخانے کا پانی مل کر پانی کو خراب کر رہا ہو، لوگوں کی جان کو بدترین خطرات اور بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ہو تو وہاں کوئی بھی شخص Spirited(Locus Standi حق مداخلت کو نظرانداز کرکے) عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

اسی لیے اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ قانون کی زبان میں یعنی اس کی تعبیر و تشریح میں اس بات کی اجازت موجود ہے۔ ہائی کورٹس 199(1)(C) کے تحت عوامی مفاد کے لیے Suo Moto ایکشن لے سکتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ آئین کی شق 184(3) کی تعبیر و تشریح رسمی نہیں ہونی چاہیے بلکہ بامقصد ہونی چاہیے جو کہ آئین کی روح ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ آئین میں آرٹیکل 2-A میں بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول موجود ہیں جو مملکت کی پالیسی سے متعلق ہیں، تاکہ جمہوریت کو آگے بڑھایا جاسکے، ملک کی اکثریت مطمئن رہے اور اس کو بھی وہ حقوق مل سکیں جس کے بغیر ملک کی ترقی ناممکن ہے ۔

اس سلسلے میں عوامی مفادعامہ کا پہلا کیس بے نظیر بھٹو کا ہے۔ PLD 1988SC 416 ان کی والدہ نصرت بھٹو مرحومہ کا پہلا کیس ہے۔ بہرحال قانون کے دانش ور بے نظیر بھٹو کا کیس عوامی مفاد عامہ کا پہلا کیس قرار دیتے ہیں۔ اس میں ایوب خان کے پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ 1962 کی شق کو چیلینج کیا گیا کہ یہ شق آئین 1973 کی شق 17(2) سے متصادم ہے۔ آئین 1973 کی شق 17(2) کے مطابق ہر شہری کو اجازت ہے کہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو یا سیاسی جماعت خود بنائے (اگر لازمی سروس کا حصہ نہ ہو) مگر 1962 کا آئین لوکل پارٹیز ایکٹ اس پر قدغن عائد کرتا ہے جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس کیس میں پہلا سوال یہ اٹھا کہ بے نظیر بھٹو کو اس کیس میں حق مداخلت Locus Standi حاصل نہیں ہے، وہ یہ کیس داخل نہیں کرسکتیں۔ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے۔ یہ انتہائی اہم کیس تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے 11 ججز کو ایک تاریخی فیصلہ کرنا تھا۔ ان کے ذہن میں موجود تھا کہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 17(2) کی موجودگی میں ایوب خان کی 1962 کے آئین میں ترمیم (Act XXII of 1985) کو کالعدم قرار دینے کی درخواست وزن رکھتی تھی۔ دوسرا بنیادی حقوق کا مسئلہ تھا جو آئین میں موجود ہے کہ فرد سیاسی جماعت بھی بناسکتا ہے۔ سیاسی پارٹی کا ممبر بھی ہوسکتا ہے، اس بات سے انکار ناممکن ہے۔

ہمارا آئین اور سسٹم ہمیشہ طالع آزماؤں کے ہاتھوں ڈی ریل ہوتا رہا ہے اور ہماری عدلیہ شدید دباؤ سے گزری ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا Adversarial نظام قانون ہے، جس کے بارے میں جسٹس علیم نے خود کہا کہ یہ معاندانہ/مخالفانہ بنیادوں پر استوار ہے۔ بقول چیف جسٹس اجمل میاں Inherited Evel ہمیں وراثت میں برائی ملی ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کی سپریم کورٹ کی ایک رولنگ موجود تھی، بندھو مکتی مورجہ بخالف یونین آف انڈیا AIR 1984 SC 802 میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، جس میں اس پٹیشن کو قابل سماعت قرار دے کر منظور کرلیا گیا۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ نصرت بھٹو صاحبہ کا کیس پہلا کیس تھا، (PIL) مفادعامہ کا، جس میں بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو صاحب کی گرفتاری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184(3) میں پٹیشن دائر کی۔ یہاں سوال نہیں اٹھا کہ بیگم نصرت بھٹو (Aggrieved Person) متاثرہ شخص نہیں ہیں، اس لیے انھیں اس پٹیشن کو داخل کرنے کا حق نہیں ہے۔ پرانے ججز پروسیجر کے معاملات میں سخت رویہ رکھتے تھے مگر یہاں ججز نے وہ راستہ اختیار کیا جس میں فرد کو حق بھی مل جائے اور قانون کو توڑے بغیر وہ حقوق عطا کردیے جائیں جو آئین میں عطا کیے گئے ہیں۔ آئین پاکستان 1973 کے تحت عدالت کے سامنے آئین کی شق 184(3) موجود تھی جس میں بڑی وضاحت سے کہا گیا ہے کہ

Supreme Court Shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of fundamenetal rights involved, have the power to make an order of the nature mantioned in the said article.

آرٹیکل 184(3) کی زبان کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ نے بیگم نصرت بھٹو کے حق (Locus Standi) بحیثیت بیوی تسلیم کرتے ہوئے اس کیس میں حق مداخلت عطا کیا۔ گویا عدالتی فعالیت Judicial Activisim اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی Public (PIL Interest litigation کا آغاز 1977 سے پاکستان میں ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے بار بار جمہوری پروسیس کے ڈی ریل ہونے کے باعث قانونی نظام میں اکثر خامیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اگر جمہوری سسٹم ڈی ریل نہ ہوا تو جلد ہم اپنی قانونی کمیوں اور خامیوں پر قابو پالیں گے۔ ہمیشہ پرانے قوانین کے بطن سے نئے قوانین جنم لیتے ہیں۔ اس بنیاد پر ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی بنیاد نے دوسری ترقی کے علاوہ قانون کے پروسیس سسٹم نے تیزی سے ترقی کی ہے اور انھوں نے اپنے معاشرے میں ’’انصاف‘‘ کو رواج دیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے ہیومن رائٹس اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف مذہبی اقلیتوں اور خواتین پر مظالم کے حل کے لیے PIL عوامی حقوق کی چارہ جوئی کو چنا اور اس کے لیے کوشش کرتی رہی۔

مثلاً چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوتا ہے کہ ہم بھٹہ مزدور ہیں، غلام بنالیے گئے ہیں جبری مشقت ہم پر مسلط کردی گئی، ہم اور ہمارے بیوی بچے رسیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہم چند بھاگ گئے ہیں اور جنگلوں بیابانوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بھٹے کے مالک کے ایجنٹ اس کے غنڈے ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ہم بھوکے پیاسے چھپتے پھر رہے ہیں۔ ہماری مدد کی جائے تاکہ جان اور عزت آبرو بچ سکے۔

اس کے علاوہ ہمارے ساتھی جو ابھی تک قید میں ہیں ان کو نجات دلائی جائے۔ عدالت نے اس ٹیلی گراف کو پٹیشن میں تبدیل کرکے 184(3) میں کارروائی کی اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا۔ اسی طرح شہلا رضا کیس میں PLD 1994 SC 690 اس بات کو بنیاد بنایا کہ گرڈز اسٹیشن کی ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن کے باعث لوگوں کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات میں ڈال دیا گیا ہے اور لوگوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس خط کو آئین کی شق 184(3) کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے۔

اس کو عوامی حقوق Public Interest Litigation کا کیس قرار دیتے ہوئے کارروائی کی۔ ہماری ہائی کورٹس بھی اپنے کردار کی ادائیگی سے غافل نہیں رہیں جب ایک اخبار میں خبر چھپی کہ مٹی کے تیل کے چولہے پھٹنے کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، دو عورتیں مرچکی ہیں اور کئی زخمی حالت میں اسپتال میں موجود ہیں تو ہائی کورٹ لاہور نے اس پر سوموٹو ایکشن لیا (PLD 1991 Lahore 224) اور ذمے دار اداروں پولیس، محکمہ صحت، اسٹور مینوفیکچرز ایسوسی ایشن طلب کرکے حکم دیا کہ کوئی اسٹور آیندہ غیررجسٹرڈ کمپنی کا مارکیٹ میں نہ بیچے اور آیندہ تمام ادارے ذمے دار ہوں گے۔

اسی طرح لاہور کے ایک روزنامے میں فروری 1991 میں خبر شایع ہوئی کہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں کم عمر بچے مختلف کیسوں کے تحت قید ہیں اور جیلوں میں انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال کا شکار ہیں۔ یہ مجرموں کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کے ساتھ غیرفطری سلوک کیا جاتا ہے۔ انکار پر یہ بدترین تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی کم زوریوں مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ لاہور کیمپ جیل کی رپورٹ اس کا بین ثبوت ہے۔ اس خبر کا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے فوری سوموٹو ایکشن لیا۔ بھاولپور پولیس کا یہ ’’کارنامہ‘‘ اخبار میں چھپنے پر کہ 7 سالہ بچے کو پولیس نے گرفتار کرکے دفعہ 109/55 کے تحت جیل بھیج دیا ہے، ہائی کورٹ نے سوموٹو ایکشن لے کر سیکشن 82 PPC کے تحت بچے کو رہائی دلوائی اور پولیس اسسٹنٹ کمشنر سے جواب طلبی کی کہ 7 سالہ بچے کو کس طرح مجرم بتایا اور جیل بھجوادیا۔

(CRP/M/1759-M.89 خادم حسین بخلاف بروسٹل جیل بھاولپور) اسی طرح لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں اس کے ایسوسی ایٹس کے درمیان اختلاف عدالت جا پہنچا۔ PLD 2002 Karachi 359 لیاقت نیشنل اسپتال کی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ شکایت کنندگان کا کوئی Locus Standi نہیں بنتا لیکن عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی Locus Standiکی ضرورت نہیں ہے اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی Adversarial طریقہ قانون کا محتاج نہیں ہے یہ ایک عوامی مفاد کا کیس ہے۔

آئین کے آرٹیکل 184(3) کی زبان (Language) سادہ زبان ہے جو سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے نفاذ کا اختیار دیتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے میں لوگوں کے مسائل اور مشکلات دور کرنے میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اپنا مکمل کردار ادا کیا۔ جولائی 1989 میں کراچی جیل میں بچوں کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا گیا جن کی عمریں 14 سال سے کم تھیں جنھیں آوارہ گردی کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس پر سوموٹو ایکشن لیا اور CRP/MISE 190/H-1991 کے تحت بچوں کو Release کردیا گیا۔

انڈیا میں عوامی مفاد کے کیسز اور قانونی چارہ جوئی سے قبل ہم Public Interest Litigation کی ابتدا اس کی فلاسفی، اس کے نفاذ کا عمل، حق مداخلت Locus Standi مروجہ نظام عدل کا متبادل عوامی مفاد کا قانونی PIL حقوق انسانی اور بنیادی انسانی حقوق اور عوامی مفاد کی چارہ جوئی قیدیوں کے حقوق، جیلوں کی حالت زار، ماحولیاتی آلودگی اور PIL، لیبر اور PILپر تفصیلی بحث کرچکے ہیں مگر یہ کہنا بڑی زیادتی ہوگی کہ انڈیا کی عدلیہ نے واقعی اپنے غریبوں کے حقوق کے مفادات کی حفاظت کے لیے جس طرح جدوجہد کی ہے اس کی مثال ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں ہم کسونندا بھارتی کیس کی مثال دے سکتے ہیں جس میں آئین کے بنیادی اسٹرکچر اور بنیادی حقوق کو تبدیل یا اس میں رد و بدل نہیں کیا جاسکتا اور پارلیمنٹ بھی بنیادی حقوق میں تبدیلی نہیں کرسکتی نہ اسٹرکچر تبدیل ہوسکتا ہے۔

بھارت میں بھی امریکا اور پاکستان کی طرح عوامی مفاد PIL کے کیس ریاست/گورنمنٹ کے خلاف داخل یا ان کے اداروں کے خلاف داخل کیا جاسکتا ہے۔ مفادعامہ کی چارہ جوئی مختلف طبقات، نسل، سماج میں تفریق اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم مختلف طبقات کے درمیان انصاف کے فروغ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم معاشی معاشرتی استحصال کو روکنے کے لیے استعمال کرکے معاشی ترقی اور معاشرے میں استحصال کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

انڈیا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھگوتی نے مفاد عامہ کی چارہ جوئی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مفاد عامہ Public Interest Litigation لوگوں کے مسائل کے حل کی ذمے داری لیتا ہے اور اجتماعی سوشل مفادات کی نہ صرف حفاظت کرتا ہے بلکہ اس کے نفاذ میں ممد و معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس میں وکلا کی پروفیشنل تنظیمیں، معاشرتی فلاحی ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کہا کہ عوامی مفاد عامہ کا قانون ایک انتہائی اہم اختیار ہے اور اعلیٰ عدالتیں اس حق کو استعمال کرسکتی ہیں۔ اہم مثبت تبدیلیوں کے لیے حکم جاری کرسکتی ہیں جو پسماندہ فرد/افراد، طبقات کے لیے انتہائی اہم ہیں، جو ماحولیات، جنگلات، جنگلی حیات زندگی کو آسان بنانے کے لیے اہم ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے ججز جانتے ہیں کہ ملک کی بڑی آبادی غریبوں اور پس ماندہ لوگوں پر مشتمل ہے وہ اپنی ناخواندگی اور قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے مسائل مصائب کا شکار ہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جہاں بھی ناانصافی ہو، سائل یا سائیلین اس قابل نہ ہوں کہ دادرسی کے لیے رجوع کرسکیں تو ان کی دادرسی کی جائے، اخباری اطلاع پر ہو یا کوئی اس پر سیٹڈ پرسن کھڑا ہوجائے اسی لیے اعلیٰ عدلیہ نے بندومکتی مورجہ بخلاف یونین آف انڈیا کیس میں غیررجسٹرڈ ایسوسی ایشن کو کیس میں پیش رفت کی اجازت دے دی۔

آرگنائزیشن نے کہا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں اور ان کے ڈسٹرکٹ میں مزدوروں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے اور ان پر غلامی مسلط کردی گئی ہے، جن میں وہ مزدور بھی شامل ہیں جو پتھر توڑتے ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے ضرورت ہے کہ ان کو سوشل ویلفیئر کے زمرے میں لایا جائے اور جبری مشقت سے نجات دلائی جائے ان کو روزگار کی بہتری کے لیے مائینز ایکٹ میں لایا جائے، غلامی اور جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے۔ ان ویجز کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ اس درخواست کو مفاد عامہ کے قانون کے تحت منظور کرلیا گیا، اس اعتراض کے باوجود کہ آرٹیکل 32 کے تحت یہ درخواست ناقابل سماعت اور مسترد کردی جائے۔ سپریم کورٹ نے ہیومن رائٹس اور انسانی بنیادی حقوق کو مقدم جان کر پٹیشن کو منظور کرلیا کیوںکہ عوامی مفاد کی چارہ جوئی Public Interest Litigation (PIL) انصاف کی راہ میں رکاوٹیں دور کرکے شہری حقوق کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ریاست مدراس کے ایک کیس میں AIR (37) 1950 SC 27 (گوپلان بخلاف ریاست مدراس) کیس میں تفصیلی آئینی بنیادی حقوق پر بحث کی پھر دمودر رائے کیس AIR 1987 AP 171 کیس کے فیصلے میں لکھا کہ بہتر ماحول اصل ہے، اس میں رخنہ اندازی قابل دست اندازی اور بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے کیوںکہ اس سے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک پلاٹ پر جو گرین لینڈ کے لیے مختص تھا ایک بہت بڑے بلڈر نے قبضہ کرلیا۔

ایک شخص نے شکایت کی حالاںکہ اس کا براہ راست کوئی مفاد یعنی Locus Standi نہ تھا مگر عدالت نے کہا اگر اس کو شکایت کرنے کا حق نہیں تو بلڈر کو گرین لینڈ کے لیے مختص پلاٹ پر قبضے کا حق بھی نہیں ہے۔ عدالت عالیہ نے اس کیس کی شنوائی کی اور قبضہ کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسیع تر مفاد میں ماحول کی حفاظت عوام کا حق ہے اور اس کی حفاظت کی ذمے داری مملکت پر عائد ہوتی ہے۔ ایک کیس میں جو حُسن آرا کے نام سے موسوم ہے، اس نے کہا کہ ملزم کو بغیر کیس چلائے غیرمعینہ مدت کے لیے جیل میں نہیں رکھ سکتے۔ اس بنیاد پر 40,000 قیدیوں کی رہائی مختلف ریاستی جیلوں میں عمل میں آئی اور وہ ضمانت کے مستحق قرار پائے۔

امریکی مفاد عامہ کی چارہ جوئی دراصل تاریخی طور پر ابتدا ہے Public Interest Litigation۔ امریکا نے سماجی اقتصادی حقوق کے لیے اپنے پس ماندہ ناتواں لوگوں کو بڑھاوا دیا۔

قانون عوامی مفاد عامہ کم زوروں کو انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ہے مروجہ ملکی اور شہری قوانین سے وہ مقاصد حاصل کرلیے ہیں جو پرانے مروجہ نظام قانون میں اقلیتی گروپوں کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں، جو معاشی کم زوری، ناخواندگی اور دیگر معذوری کے باعث ناممکن تھا۔ اور سول سوسائٹی اس قابل ہوسکی کہ لوگوں کو بنیادی حقوق کی آگہی دے کر انھیں اس کے حصول کے قابل بناسکے یہ PIL مفاد عامہ کا قانون ہی ہے جس کے باعث حکومت کو بھی جواب دہ ہونا پڑا ہے۔ اصل میں اس قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ غریبوں ناداروں، کم زوروں اور ذہنی معذوروں، اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی رسائی تک مدد فراہم کی جائے۔

امریکی لیگل سسٹم بہت پرانا نہیں ہے۔ اس کی ابتدا تقریباً 60 سال قبل اس وقت ہوئی جب امریکی معاشرہ انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ معاشرے میں ابتری کے باعث نئے نئے مسائل جنم لے رہے تھے۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے نئے معاشی رشتے استوار ہو رہے تھے۔ معاشرہ ایک کشمکش کا شکار تھا، پیداواری رشتے تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے جن کی وجہ سے تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے حوالے سے بے اطمینانی بڑھتی جا رہی تھی تو امریکی کانگریس خود شہریوں کے مسائل کے لیے فکرمند ہوئی، تعلیم سب کے لیے اور صاف پانی کی فراہمی کا بل پاس کردیا اور آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی ریاست کی اہم ذمے داری قرار دے دی۔

امریکی اعلیٰ عدلیہ عوامی مفاد کے مسئلے میں اس حد تک آگے چلی گئی کہ اس نے ذہنی امراض کے اسپتال کے نظام میں مداخلت کی اور اس کی انتظامیہ میں تبدیلیاں کروائیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کروایا، ان کے قوانین کو درست کروایا اور ذہنی امراض کے مریضوں کا علاج ان کی دیکھ بھال کو بنیادی حق قرار دے دیا، کیوںکہ ذہنی امراض کے مریضوں کو حق ہے کہ بہتر ہوکر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور ریاستی سطح پر اس بات کی منصوبہ بندی کی جائے کہ کوئی شہری علاج سے محروم نہ رہے۔ اس کے علاوہ ذہنی مریض چوںکہ خود عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے اس لیے ان کے کیسز کو مفاد عامہ کے کیسز میں لایا جائے۔

مفاد عامہ PIL کے ایک کیس Hoft V. Sarver میں عدالت نے ایک درخواست پر ارکنساس جیل میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور ایک State Correction Board تشکیل دیا جس کے سپرد کیا گیا کہ وہ راہ نما اصول تجویز کرے اس طرح اصول وضع کیے گئے۔ انتظامی افسران مقرر کیے گئے تاکہ قیدیوں کو جیل حکام کے ناروا سلوک سے بچایا جاسکے۔ عدالت نے Little Rock Bar لٹل راک بار کو ہدایت کی کہ Pro bono وکیل (جو بلامعاوضہ یا حکم معاوضہ پر کام کریں) مقرر کیے جائیں۔ اس سے قبل یہ کہنا ضروری ہے کہ جسٹس انیل اسمتھ نے تمام جیل کے سسٹم کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

1963 میں سپریم کورٹ نے ریاست کے قیدیوں کو حق عطا کردیا کہ وہ جیل میں کسی بھی سلوک کے بارے میں عدالت میں درخواست دے کر انصاف طلب کرسکتے ہیں۔

ایک بہت اہم کیس Whitney V. California میں ایک عورت کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف لیبر کمیونسٹ پارٹی کی مدد کر رہی ہے مگر جسٹس برانڈیز اور ہولمس نے Clear & Present Danger یعنی واضح اور موجود خطرے کے قانون کی تعریف تبدیل کردی اور کہا کہ حادثے کے ظہور پذیر ہونے کا ڈر یا خوف اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آزادی رائے کے لیے جمع ہونے والے لوگوں کا حق چھین لیا جائے اور اسی رواج اور روایت کو جرم قرار دے دیا کہ کسی عورت کو چڑیل قرار دے کر جلا دیا جائے، بلاوجہ ڈر اور خوف کے باعث کسی کو گرفتار کرلینا قتل کردینا جلا دینا ناقابل معافی جرم ہے ڈر کے باعث آزادی رائے یا زندہ رہنے کا حق چھینا یا سلب نہیں کیا جاسکتا۔

The post عوامی مفاد کی چارہ جوئی appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے دوارے پر!

$
0
0

’’ملک و قوم کی سلامتی وبقا کا راز مضبوط معیشت  میں پوشیدہ ہے۔‘‘(چینی فلسفی،کنفیوشس)

یہ 1991ء کی بات ہے، بھارت کے حکمران طبقے کی بدانتظامی کے باعث قومی خزانے میں بہت کم ڈالر رہ گئے، اتنے کم کہ بیرونی ممالک سے ضروری اشیاء خریدنا مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال نے بھارتی حکمرانوں کو مجبور کردیا کہ وہ قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے رجوع کریں۔ قرض کی رقم ڈالر کے قومی ذخائر بڑھانے میں کام آنی تھی۔ بھارتی حکمرانوں کو آئی ایم ایف کے پاس 67 ٹن سونا رہن رکھوانا پڑا، تب انہیں دو ارب بیس کروڑ ڈالر ملے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا کیونکہ بھارتی حکمرانوں کو اس عالمی ادارے کی ہدایات پر عمل کرنا پڑا۔ بعض ایسی تلخ ہدایات تھیں جن پر بھارتی حکمران عمل نہیں کرنا چاہتے تھے مگر بہ حیثیت مقروض ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور مجبوراً انہیں آئی ایم ایف کی ہدایات تسلیم کرنا پڑیں۔

بھارت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جلد ہی اسے ایک تجربے کار، محب وطن، دیانتدار اور اہل وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی صورت میں مل گیا۔ ڈاکٹر من موہن نے مملکت کے معاشی نظام کی خرابیاں دور کیں اور موزوں اصلاحات متعارف کرائیں تاکہ قومی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ ان کی سعی و کوشش کامیاب رہی اور بھارتی معیشت ترقی کرنے لگی۔ 2009ء میں بازی پلٹ گئی جب بھارت نے آئی ایم ایف سے 200 ٹن سونا خرید ا اور یوں سونے کے اپنے ذخائر میں اضافہ کرلیا۔

پاکستان کی بدقسمتی کے پچھلے اکہتر برس میں اسے اہل و باصلاحیت حکمران طبقہ اور وزیر خزانہ نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے، پاکستان اب تک صرف ایک عالمی مالیتی ادارے، آئی ایم ایف سے اکیس بار قرضے لے چکا مگر اس کی قومی معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوا بلکہ حالت مزید بگڑگئی۔ بھارت نے محض ایک بار آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور اپنی معیشت کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ آج بنیادی طور پر بھارت نے پاکستان کو اسی لیے پیچھے چھوڑ دیا کہ اس کی معیشت ہماری نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوچکی۔ ایک زمانے میں پاکستانی روپیہ بھارتی روپے سے زیادہ قدر رکھتا تھا، آج ایک بھارتی روپے کے بدلے صرف 57 پاکستانی پیسے ملتے ہیں۔

یہ سچائی ہمارے حکمرانوں کے لیے وجہِ شرمندگی و رسوائی کی حیثیت رکھتی ہے۔وطن عزیز کی معیشت ترقی کیوں نہ کرسکی؟ یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس درکار نہیں! پاکستان کے تقریباً اکیس کروڑ لوگوں میں سے صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ (ان میں سے بھی اکثریت پورا ٹیکس نہیں دیتی اور کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار جاتی ہے)۔ امیر پاکستانی اس لیے ٹیکس نہیں دیتے کہ انہیں اپنے حکمرانوں پر اعتماد نہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم حکمرانوں کے اللے تللوں پر خرچ ہوتی یا کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔

سرکاری خزانہ میں رقم نہ ہونے کے باعث حکمران مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں تاکہ کاروبار مملکت چلاسکیں۔ ان قرضوں کی مجموعی رقم تقریباً ’’27 ہزار ارب روپے‘‘ تک پہنچ چکی۔17ہزار ارب روپے تو مقامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے،بقیہ قرضہ عالمی اداروں کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے حکمران طبقے کو قرضے لے کر ملک چلانے کی لت پڑچکی۔ وہ اپنے قومی وسائل سے خزانہ بھرنے کی سعی ہی نہیں کرتا۔ نتیجتاً آج جو پاکستانی بچہ جنم لے، وہ دنیا میں قدم دھرتے ہی تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض بن جاتا ہے۔

گویا حکمرانوں کی غلطیوں اور عیاشیوں اور امیر طبقوں کی خود غرضی و بے حسی کا خمیازہ پاکستان کی آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔مثال کے طور پر پچھلی ن لیگی حکومت کی کارکردگی دیکھ لیجیے۔ جب 2013ء میں یہ حکومت برسر اقتدار آئی، تو پاکستان پر 53.4 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ تھا۔ اپنے پانچ سالہ ادوار میں ن لیگی حکومت نے 42.6 ارب ڈالر کے قرضے لے کر پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس حکومت کے دور میں نئی شاہراہیں، سڑکیں اور پل ضرور بنے۔ بجلی گھر بھی تعمیر ہوئے مگر یہ ساری ترقی قرضوں کی رقم سے انجام پائی…سوال یہ ہے کہ ایسی ترقی کس کام کی جو ملک کو قرضوں کے خوفناک جال میں جکڑ دے؟

عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کی چلن کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے کہ ان قرضوں کا بھاری بھرکم سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ہمارے حکمران مسلسل نئے قرضے لے رہے ہیں لہٰذا سود کی رقم میں بھی متواتر اضافہ ہورہا ہے۔ غرض ہمارے نااہل حکمرانوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو قرض و سود کے ایسے شیطانی چکر میں گرفتار کروا دیا ہے جس سے رہائی پانا کٹھن مرحلہ بن چکا۔

عمران خان کی نئی حکومت کے سامنے معیشت کی بحالی ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے۔ قرضوں کی رقم سے کاروبار مملکت چل رہا ہے جبکہ عمران خان پاکستانی معاشرے کو مدینہ منورہ کی فلاحی مملکت کی طرز پر ڈھالنا چاہتے ہیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنے وسائل سے آمدن بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم سے کم کردے۔نئی حکومت کو پورا معاشی نظام بدلنا ہو گا کیونکہ مروجہ نظام تو بری طرح ناکام ہو چکا۔یہ یقینی ہے کہ معاشی حالات درست کرنے کی خاطر عمران خان حکومت کو بعض ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے جو شاید مہنگائی میں مزید اضافہ کردیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو عوامی اشتعال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔عام لوگ نئی حکومت سے کئی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ عوام الناس کی سب سے بڑی توقع تو یہی ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریات قیمتیں کم ہوں اور مہنگائی میں کمی آئے ۔

نئی حکومت کو فوری معاشی مسائل سے نمٹنے کی خاطر ڈالر درکار ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ستائیس سال پہلے کے بھارت کی طرح پاکستان کے پاس بھی ڈالر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اب پاکستانی حکومت کو بیرون ممالک سے ضروری اشیا خریدنے کے لیے بھی ڈالروں کی کمی کا سامنا ہے۔ لہٰذا ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ عمران خان حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے دس تا بارہ ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑے گا۔

یاد رہے، دنیا بھر میں سبھی حکومتیں عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتی ہیں۔ گویا قرضے لینا کوئی اچھوتا فعل نہیں لیکن بیشتر حکومتیں قرضوں کی رقم سے اپنی معیشت کو بہتر بناتی ہیں اور قرضے عوام کی فلاح و بہبود پر کام آتے ہیں۔ پاکستان میں الٹا حساب ہے… حکمرانوں نے قرضے لے لے کر کاروبار مملکت چلانا معمول بنالیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اپنے وسائل سے سرکاری آمدن میں اضافہ کرنا ذہنی اور جسمانی طور پر محنت طلب کام ہے۔ لہٰذا ہمارے حکمران آسان راہ اختیار کرتے ہیں یعنی قرضے لے کر حکومت چلاتے اور اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔مگر اس طرح ملک وقوم پہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔یہی روش برقرار رہی تو ہمیں دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان حکومت گھمبیر معاشی مسائل کیونکر حل کرتی ہے۔ فی الحال تو اسے ڈالروں کے قومی ذخائر بڑھانے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ آئی ایم ایف، چین یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے سے قرضہ لے سکتی ہے۔سعودی عرب کی ایما پہ اسلامی ترقیاتی بینک نئی حکومت کو چار ارب ڈالر کا قرض دینے کو تیار ہے۔اس بار اگرچہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا آسان نہیں رہا۔ امریکا کا صدر ٹرمپ چین اور دیگر مخالف ملکوں سے تجارتی جنگ چھیڑچکا اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ایک دوسرے پر نت نئے تجارتی ٹیکس لگا رہی ہیں۔ امریکا پاکستان میں جاری چین کے سی پیک منصوبے کا مخالف ہے۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ آئی ایم ایف کے ڈالر اس چینی منصوبے کی تکمیل میں کام آئیں۔ چونکہ آئی ایم ایف میں امریکی حکومت اور اس کے حلیفوں کی اجارہ داری ہے لہٰذا وہ پاکستان کو قرضہ دینے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ کہ آئی ایم ایف قرضہ سخت شرائط پہ فراہم کرتا ہے۔نیز وہ پاکستانی حکومت کو ہدایات جاری کرنے لگتا ہے۔ خاص طور پر وہ عوام الناس پر نت نئے ٹیکس لگواتا ہے۔ نیز پرانے ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھوا دیتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت کی آمدن میں اضافہ ہو اور وہ قرضے و سود واپس کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ لیکن اس عمل سے پاکستانی عوام مزید مہنگائی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ٹیکسوں کی شرح اور مہنگائی بڑھنے سے امراء کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی غیر معمولی آمدن یہ بوجھ باآسانی سہار لیتی ہے۔تیسری بات یہ کہ پاکستان کو قرضے دینے والے آئی ایم ایف ، دیگر عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستانی حکمران قرضوں کے بوجھ تلے دبی قومی معیشت کو تندرست کرنے کی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ قرضے بس معیشت کے نیم مردہ لاشے میں نئی جان ڈال دیتے ہیں۔ جب قرضوں کی بدولت ملی آکسیجن ختم ہونے لگے، تو معیشت پھر نیم مردہ ہونے لگتی ہے۔ چناں چہ نئے قرضے لے کر پھر اسے نیا خون دیا جاتا ہے۔ اس روش نے پاکستانی معیشت کو قرضوں کا نشئی بنا دیا ہے۔ ہیروئن کے عادی کی طرح اب اسے بھی قرضوں کی طلب رہتی ہے۔

حل کیا ہے؟

قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے نئی حکومت کو درآمدات کم کرنا ہوگی۔ یوں امریکی ڈالر کا ریٹ بھی نیچے آئے گا۔ نیز پاکستان کا ڈالر پر انحصار کم ہوگا۔ پاکستان فی الوقت تیل (کل درآمدات کا 24 فیصد)، مشینری بشمول کمپیوٹر (12 فیصد)، بجلی کے آلات (8.3 فیصد)، لوہا اور اسٹیل (6 فیصد)، گاڑیاں (4.6 فیصد)، نامیاتی کیمیکل (4.1 فیصد)، کھانے کا تیل (4.1 فیصد)، پلاسٹک اشیا (4 فیصد) وغیرہ بیرون ممالک سے خرید رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں ان اشیا اور سازوسامان کے کارخانے لگوانے میں صنعت کاروں کی مدد کرے جو باہر سے آتا ہے۔ ان کارخانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ تیل و گیس پر سب سے زیادہ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت کرے۔ کوئلے کے ذخائر کو قابل استعمال بنائے۔ اس طرح غیر ملکی تیل پر ہمارا انحصار کم ہوگا۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان بیرون ممالک سے سامان خوردونوش خریدنے پر بھی اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ زراعت کو ترقی دے اور کسانوںکو مراعات فراہم کرے۔ انہیں مشورے دیئے جائیں کہ کھانے کا تیل بنانے والی فصلیں مثلاً سورج رکھی، کنولا، پام، مونگ پھلی، سویابین وغیرہ اگائیں۔ اس طرح کھانے کا تیل باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا۔تازہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان بیرون ممالک سے 60.86 ارب ڈالر کا سامان خریدتا ہے۔ جب کہ صرف 23.2 ارب ڈالر کا سامان برآمدکررہا ہے۔ گویا غیر ملکی تجارت میں پاکستان کو سالانہ 37.66 ارب ڈالر کا خسارہ ہورہا ہے۔ یہ خسارہ اسی صورت کم ہوسکتا ہے کہ درآمدات کم کی جائیں جبکہ برآمدات میں اصافہ کیا جائے۔خاص طور پہ پُر تعیش اشیا کی درامد تو کم سے کم کرنا ہو گی۔مارکیٹوں میں درامد شدہ پھل و سبزیاں ہزاروں روپے میں دستیاب ہیں۔کیا ہم جیسا غریب ملک انھیں منگوانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

پاکستان کی معیشت بحال کرنا مشکل نہیں، شرط یہ ہے کہ پاک وطن کو اہل، دیانت دار، باصلاحیت اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار قیادت مل جائے۔ اب نئی حکومت سے ملک و قوم کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں۔‘‘ اگر حکومت سے لے کر ہر پاکستانی شہری اس مقولے پر عمل کرے اور آمدن کے مطابق اخراجات کرے تو تھوڑی سی مدت میں ملک عزیز کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ یاد رکھیے، ہم مسلسل قرضے لیتے رہے، تو ایک دن قرضوں کا پہاڑ خاکم بدہن ملک و قوم کی سلامتی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

The post پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے دوارے پر! appeared first on ایکسپریس اردو.


ہاں! میں نے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا تھا

$
0
0

25جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مجھے حکومت کی جانب سے بہ طور پریزائڈنگ آفیسر تعینات کیا گیا۔

میری تعیناتی فیصل آباد کے حلقہ پی پی112 کے پولنگ اسٹیشن63 میں کی گئی تھی۔ الیکشن سے ایک روز قبل اپنے پولنگ اسٹاف کے ساتھ اپنے پولنگ اسٹیشن پہنچا اور محل وقوع کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ 200 x 500 x 700 فٹ کے تکونی رقبے پر 8 x 10  فٹ کے دو چھوٹے گرد آلود کمروں کے ساتھ ایک 200 x 300 فٹ کا بڑا برآمدہ بھی ہے۔

یہ پولنگ اسٹیشن جھنگ بازار کے پہلو میں، ڈجکوٹ روڈ پر واقع ہے جو عرف عام میں گدھا خانہ کہلاتا ہے۔ یہ عمارت مارکیٹ کمیٹی فیصل آباد کے زیرانتظام اس لیے تعمیر کی گئی تھی کہ شہر بھر کی گدھا ریڑھیوں پر جُتے گدھے یہاں آکر کچھ دیر کے لیے سستا سکیں اور پانی پی اور چارا کھاکر دوبارہ اپنی منزل کی طرف گام زن ہوسکیں، اب گدھا خانے میں بجلی، پنکھے اور میز کرسیوں کا کیا کام! بہرحال اپنے ریٹرننگ آفیسر عزت مآب منظور احمد کو اس نیت سے OK کی رپورٹ کردی کہ اب الیکشن سے ایک روز قبل اور اس سمے ارباب اختیار سے پولنگ اسٹیشن پر سہولیات کی عدم موجودگی کا کیا رونا رویا جائے۔

ایک آدھ دن تو یہاں گزارنا ہے، انہیں مینجمنٹ کے سلسلے میں اور بے شمار کام سرانجام دینے ہوں گے، لہٰذا سوچا آفس مارکیٹ کمیٹی فیصل آباد کے سیکرٹری چوہدری یوسف سے رابطہ کرنا چاہیے چناںچہ جب رابطہ کیا تو چوہدری یوسف نے انتخابات کے نازک لمحات کے پیش نظر میز کرسیاں، پنکھے اور بجلی کا فوری طور پر انتظام کردیا۔ میں حیران تھا کہ سیکریٹری مارکیٹ کمیٹی نے بغیر کسی تامل کے گدھا خانے میں صفائی ایسے کروادی کہ میں انہیں داد دیے بغیر نہ رہ سکا، لیکن ایک مجبوری ان کے ہاں بھی حائل رہی، وہ یہ تھی کہ یہ پولنگ اسٹیشن واش روم سے ماوریٰ تھا۔

بات بھی جائز تھی کہ گدھاخانے میں واش روم کا کیا کام! گدھے تو کھڑے کھڑے اور سب کے سامنے اپنی حاجت پوری کر لیتے ہیں، جب کہ انسان اپنی حاجت روائی کے لیے تنہائی کا محتاج رہتا ہے۔ بہرحال اگر چوہدری یوسف کے بس میں ہوتا تو وہ ایک واش روم بھی فوری طور پر بنادیتے، مگر مجبور تھے۔ اس کے باوجود پولنگ اسٹیشن پر واش روم کی عدم موجودگی، میرے عزم کو پسپا نہ کرسکی، کیوںکہ اساتذہ کرام سے زانوئے ارادت تہہ کرتے وقت ایک چیز کا احساس شدت سے جاگزیں رہا کہ ناموافق حالات(Advers conditions) میں رہتے ہوئے اگر کوئی بندہ اپنے آپ کو منوا لیتا ہے تو ایسے لوگ آئیڈیلزم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ چناںچہ میں نے اپنے پولنگ اسٹاف سے کہا کہ ڈیوٹی کے دوران آپ لوگ رفع حاجت کے لیے باہر جا سکتے ہیں، مگر میرا اللہ حافظ ہے اور میں پولنگ اسٹیشن کے باہر ہرگز نہیں جاؤں گا۔

الیکشن سے ایک روز قبل تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے تمہیں اپنی ذات کو پسِ پشت ڈالنا ہے اور قوم کی خاطر پولنگ اسٹیشن کے اندر ہمہ وقت موجود رہنا ہے، کیوںکہ شہر کے حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں میں شامل ہونے کے پیش نظر میں جانتا تھا کہ اگر میں پولنگ کے دوران باہر نکل جاتا ہوں تو بے شمار آنکھیں، چہرے اور لوگوں کے موبائل لامحالہ میری ویڈیو بنانے میں لگ جائیں گے کہ یہ پریزائیڈنگ آفیسر پولنگ اسٹیشن سے باہر کیا کر رہا ہے؟ لہٰذا پولنگ کی شفافیت کے پیش نظر24 جولائی کی صبح سے ہی میں نے کھانا چھوڑدیا، حالاںکہ 24 کی شام کو اپنے پولنگ اسٹاف کو کھانا کھلایا تھا مگر خود نہ کھایا۔

مادر وطن کی حفاظت اور اس پر آنچ نہ آنے دینے کی غرض سے مجھ جیسے بے شمار پاکستانی کھانا کیا سانس لینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی جذبے کی سرشاری میں رات بھر منصوبہ بندی کرتا رہا کہ آنے والی کل یعنی 25 جولائی کو اپنے پولنگ اسٹیشن پر کیسے انتظامات کرنا ہیں؟ تاکہ اپنے تو کیا، کسی دشمن کو بھی شفاف، غیرجانب دارانہ اور صاف ستھرے انتخابات کے انعقاد پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ 25جولائی کی صبح فجر کے بعد پولنگ اسٹیشن پر موجود آرمی کے جوانوں سے الیکشن میٹیریل وصول کیا اور کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر گدھا خانہ کے ویران رقبے کو ایک خوب صورت پولنگ اسٹیشن میں تبدیل کردیا۔

میرے پولنگ عملے میں محمد ندیم (سنیئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر) وسیم اختر، عبدالقدوس، شمشیر خاں، محمد مومن، محمد حسین، اصغر علی، خادم حسین، عبدالسلام اور نثار علی شامل تھے۔ پولنگ اسٹیشن کی تزئین و آرائش میں قومی جذبے کا رنگ غالب رہا۔ میرے ہر اشارے کو میرے ساتھیوں نے ایسے اپنے اوپر فرض کرلیا تھا کہ جیسے اعجاز تبسم نہیں بل کہ پاکستان ان سے مخاطب ہو، جب کہ یہ امر بھی کسی دل چسپی سے کم نہیں کہ عابد شیرعلی، طاہر جمیل اور فرخ حبیب جیسے قد کاٹھ والے امیدواروں کے انتخابی حلقے کا یہ گدھا خانہ کا پولنگ اسٹیشن شہر بھر کا حساس پولنگ اسٹیشن بھی قرار دیا جارہا تھا، کیوںکہ اسی پولنگ اسٹیشن پر 2013 کے انتخابات میں خاصی بدمزگی دیکھنے کو ملی تھی۔

لہٰذا میری کوشش یہی تھی کہ کسی بھی صورت انتخابات کے پُرامن انعقاد کے سلسلے میں قوانین ہاتھ میں نہ لوں، بل کہ الیکشن ٹریننگ کے دوران بتائے گئے قوانین کو فالو کروں۔ واضح رہے کہ عابد شیر علی، فرخ حبیب، طاہر جمیل اور سرمد حسین راہی جیسے 29 امیدوار صوبائی و قومی اسمبلی کے لیے انتخابات 2018 میں شریک تھے۔ علاوہ ازیں میرے پولنگ اسٹیشن کی حساسیت کا اندازہ مجھے یوں بھی ہونے لگا کہ ایک تو میرے پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر دس کیمرے نصب تھے۔

جن کے ذریعے لمحے لمحے کی کارروائی مانیٹر کی جارہی تھی اور دوسرا صبح ٹھیک 7بج کر50 منٹ پر میڈیا کے بے شمار چینلز کے کیمرے پولنگ اسٹیشن کے گیٹ پر براجمان ہوگئے تھے۔ انہیں جیسے ہی کوئی ان کے مزاج کی کسی بھی خبر کی بھنک ملتی وہ اسے بریکنگ نیوز کی شکل میں دنیا بھر میں پہنچانے میں دیر نہ لگاتے۔ میری کوشش تھی کہ ان دنیا تک میرے پولنگ اسٹیشن میں صاف ستھرے اور غیرجانب دارنہ الیکشن کے انعقاد کی ایسی خبر جائے کہ کوئی پاکستان میں انتخابات کی خوب صورت شکل بگاڑنے کا سوچ بھی نہ سکے۔

چوںکہ پولنگ اسٹیشن نمبر 63 کی تمام کارروائی میری ہی زیرنگرانی انجام پذیر ہونا تھی لہٰذا مختلف سیاسی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹس کے کاغذات نامزدگی برائے تقرری پولنگ ایجنٹس وصول کرنے کے بعد میں نے اپنے پولنگ اسٹاف سے ووٹ کی رازداری اور غیرجانب دار رہنے اور شفاف الیکشن کے انعقاد کا حلف لیا۔ ساتھیوں سمیت پولنگ کا عمل بخیروعافیت گزرنے کی دعا مانگ کر سیدھا پولنگ اسٹیشن کے گیٹ پر آگیا۔ اب 7بج کر 59 منٹ ہوچلے تھے اور میرے سامنے میڈیا کے بے شمار چینلز کے مائک اور صحافی مجھ میں اور میرے پولنگ اسٹیشن میں کچھ ڈھونڈنے کی تگ و دو میں مصروف تھے کہ اچانک میں وہاں موجود ووٹرز سے مخاطب ہوا،’’دوستو! ابھی چند ہی لمحوں میں انتخابات 2018- کا عمل شروع ہونے والا ہے۔

اس اسٹیشن پر تعینات پولنگ ایجنٹس، فافن (فیئر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک) کے نمائندے خواجہ سلمان علی ایڈووکیٹ اور میرا پولنگ اسٹاف اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنی اپنی باری پر ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور تشریف لائیں۔

ہاں اگر کوئی بزرگ، ضعیف، بیمار، یا خواجہ سرا گیٹ پر نظر آجائے تو میں توقع کروں گا کہ آپ اسے براہ کرم ضرور ترجیح دیں گے۔۔۔ اور آخر ی بات ۔۔۔(میں چاہ رہا تھا کہ اس لمحے ایسی بات کردوں تاکہ عوام کے ساتھ کھڑے شرپسند اس بات سے باخبر اور متنبہ رہیں کہ اگر کسی نے بھی بدمزگی پھیلانے کی کوشش کی تو پولیس، رینجرز اور فوج ان کی نہ صرف تواضع کر سکتی ہے بل کہ دو سال کے لیے اپنا مہمان بنانے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کرے گی) ۔۔۔دوستو! لیکن اگر میرے پولنگ اسٹاف میں سے کوئی بھی قومی و صوبائی حلقوں کے دو بیلٹ پیپرز کے علاوہ کوئی تیسرا یا چوتھا بیلٹ پیپر دینے کی کوشش میں پکڑا گیا، تو سب سے پہلے مجسٹریٹ کے خصوصی اختیارات کے تحت میں خود اُسے جیل بھیجنے میں پس و پیش سے کام نہیں لوں گا۔‘‘

عوام اور میڈیا کے سامنے صبح 8 بجے دیے جانے والے میرے اس بیانیے کا عوام پر بہت اثر ہوا اور لوگ خود ہی لائن میں لگ گئے۔ یوں پُرامن ماحول میں پولنگ شروع ہوگئی۔ میرے پولنگ اسٹیشن پر 3 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔ ہر بوتھ پر ایک پولنگ آفیسر موجود تھا، جو انتخابی فہرست میں ووٹر کا سلسلہ نمبر دیکھ کر اس کے انگوٹھے پر سیاہی سے نشان لگاتا، جب کہ باقی دونوں اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر قومی اور صوبائی اسمبلی کے بیلٹ پیپرز دینے کے ساتھ ووٹر کے ہاتھ میں 9خانوں والی مہر تھما دیتے۔ ووٹر پولنگ اسکرین کے پیچھے جاتا اور سب سے چُھپاکر بیلٹ پیپر پر اپنی پسند کے امیدوار کے نشان پر مہر لگاتا۔ یوں وہ پرچی بیلٹ پیپر سے ووٹ میں تبدیل ہوجاتی۔

دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔ اس دوران میں بار بارپولنگ اسٹیشن کے گیٹ پر جاتا، کوئی بزرگ نظر آجاتا، کسی کو وھیل چیئر پر دیکھ لیتا یا کوئی خواجہ سرا ملتا، تو انہیں فوری طور پر اور ترجیحی بنیادوں پر اندر لے آتا، کرسی پر بٹھا کر حبس اور گرمی کے اس موسم میں پہلے ٹھنڈا پانی پلاتا اور پھر ووٹ ڈلواتا۔ میرے اس معمولی سے عمل کو دیکھ کر گیٹ پر کھڑا نوجوان طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اسی اثنا میں امیدوار قومی اسمبلی فرخ حبیب میڈیا کے ساتھ گیٹ کے اندر آگئے۔

میں فوری طور پر ان کے پاس گیا اور ان کا موبائل پولنگ اسٹیشن کے باہر رکھنے کا کہا، جس پر انہوں نے بھی عمل کیا۔ پولنگ کا عمل دکھانے کے بعد انہیں پولنگ اسٹیشن سے فوری طور پر روانہ کردیا، کیوںکہ حساس پولنگ اسٹیشن ہونے کے ناتے میں اس بات سے باخبر تھا کہ سابق ایم پی اے طاہرجمیل، سابق ایم این اے عابد شیر علی اور سابق میئر فیصل آباد چوہدری شیر علی ، کسی بھی لمحے اپنا اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے اس پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکتے ہیں، اور میرا مشاہدہ رہا ہے کہ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے سرکردہ راہ نما اگر ایک جگہ پر اکٹھے ہوجائیں تو عوام کو کنٹرول کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔

خصوصاً پولنگ اسٹیشن کے اندر تو انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنتے بھی دیر نہیں لگتی۔ اسی اثنا طاہر جمیل پولنگ اسٹیشن کے اندر آگئے۔ ان سے بھی موبائل فون بھی باہر رکھنے کو کہا، اور انہیں بھی چند لمحوں میں ہی مشاہدہ کروانے کے بعد پولنگ اسٹیشن سے روانہ کردیا۔ میڈیا والے نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں، وہ مسلسل گیٹ پر موجود رہے۔ میں نے بھی تہیہ کر رکھا تھا کہ ان کی من پسند اور کسی قسم کی منفی بریکنگ نیوز انہیں اس اسٹیشن سے نہ مل پائے۔ میں ان کے پاس گیٹ پر گیا۔

دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب 1200 ووٹوں میں سے ابھی صرف0 12 ووٹ ہی کاسٹ ہوئے تھے، یعنی صرف 10فے صد ٹرن آؤٹ، جو بہت کم تھا، چناںچہ میں نے میڈیاوالوں کے پاس پہنچا، میرے پہنچتے ہی ٹھک ٹھک کرکے کیمرے آن ہو گئے اور میں بول پڑا ۔۔۔۔ ’’میں اپنے دوستوں ، بزرگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ کے پاس ووٹ قوم کی امانت ہے، لہٰذا آپ فوری طور پر گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن تشریف لائیں، قوم آپ کے ایک ایک ووٹ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

میری اس کوشش کے مثبت اثرات مرتب ہوئے بل کہ پولنگ اسٹیشن پر لوگ جوق در جوق آنا شروع ہوگئے اور پولنگ بغیر کسی تعطل کے پھر شروع ہوگئی۔ ابھی دوپہر کا ڈیڑھ ہی بجا تھا کہ سیکیوریٹی سخت ہونے کے باوجود ایک شخص پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں بڑے بڑے دو شاپنگ بیگز تھے، میں دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ ان شاپنگ بیگز میں کھانا ہے۔ ابھی وہ پولنگ اسٹاف میں کھانا تقسیم کرنے ہی لگا تھا کہ میں نے فوری طور پر اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بھئی آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اور یہ کیا ہے؟ اس نے بلاتامل جواب دیا، ’’سر! یہ کھانا عامر شیر علی کی طرف سے آیا ہے آپ کے لیے ۔۔۔اور عامر شیر علی بھائی ہیں عابد شیر علی کے۔‘‘ میں نے بغیر کسی توقف کے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ براہ کرم آپ یہ کھانا واپس لے جائیں۔ میری بات سُن کر وہ تذبذب کا شکار ہوگیا۔

اس نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ کوئی یوں مفت کا کھانا واپس بھی کر سکتا ہے۔ میں دوبارہ گویا ہوا، آپ اس کھانے کو واپس لے جائیں آپ کا بہت شکریہ ۔۔۔۔۔مگر وہ بڑی ڈھٹائی سے کھڑا رہا اور مجھے غور سے دیکھتا رہا۔ میرے پولنگ اسٹاف کے ساتھ مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹس، آرمی کے جوان اور وہاں پر کھڑے ووٹر حضرات بھی مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور کھانا لانے والے شخص کے قریب جاکر اس سے کہا،’’جناب! آپ مجھے یہ کھانا کل کھلا دیں، ہم سب آکر کھا لیں گے مگر سرکار نے ہمیں آج کی اس ڈیوٹی کا معاوضہ دے رکھا ہے ۔

اس لیے آپ ہمارے آج کے کھانے کی فکر نہ کریں۔ آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔‘‘ وہ شخص اپنے مشن میں ناکام ہوکر نامراد واپس چلا گیا، مگر میرا عملہ مجھ سے الجھ بیٹھا کہ سر! آپ کھانا نہ کھاتے، ہم تو کھا لیتے۔ آپ اس سے کھانا لے کر ہمیں دے دیتے، اور ویسے بھی سر! روٹی کو ٹھکراتے نہیں ہیں، جو روٹی کو ٹھکراتا ہے تو پھر روٹی اس بندے کو ٹھکرا دیتی ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے الیکشن کے روز پولنگ اسٹاف کا یوں مفت کھانا کھانے کی منطق سن کر میری رگِ عدل پھڑک اُٹھی، میں اپنے پولنگ اسٹاف کے پاس گیا اور ان سے کہا،’’دیکھیں زندگی میں بعض لمحات ایسے آجاتے ہیں جب کسی کے ساتھ آئی کانٹیکٹ(Eye contact) کا برقرار رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔

اور خصوصاً آج انتخابات کے دن تو ہر سیاسی پارٹی چاہے گی کہ پولنگ عملے کو کھانا وہ دے، تاکہ وہ بعدازاں پولنگ عملے سے کچھ نہ کچھ fever لے سکیں، مگر میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ یاد رکھیں کہ علامہ اقبال ایسے ہی موقعوں کے لیے کہہ گئے ہیں۔۔۔اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی۔ سب سُننے کے باوجود پولنگ اسٹاف اپنی بات پر مُصر رہا۔ اُس پر میری کوئی بھی دلیل کارگر نہ ہورہی تھی۔ کہنے لگے کہ سر! ہمیں بھوک لگی ہے اس کا کیا کریں؟ جس پر میں نے فوری طور پر اپنے نائب قاصد کو بلایا جو شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہمیں سرکاری طور پر دیا ہوا تھا وہ آیا اور میں نے 5000 روپے کا نوٹ نکالا اور فوری طور پر کھانا منگوالیا۔

ایک پارٹی کی جانب سے کھانا نہ لینے کے میرے اس عمل کو پولنگ ایجنٹس، پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے عوام اور خصوصاً آرمی جوانوں مسٹر شوکت او ر مسٹر فیاض نے بہت سراہا۔ میں ان کی باڈی لینگویج پر بھی غور کر رہا تھا کہ ان کے دل میں میرا احترام مزید بڑھ گیا ہے ۔ اب دوپہر کے ڈھائی بج چکے تھے۔ پولنگ کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پولنگ اسٹیشن کے کل 1200 ووٹوں میں سے ابھی فقط 300ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں۔

یعنی ٹرن آؤٹ فقط 25 فے صد تھا۔ چناںچہ میں پھر گیٹ پر آگیا۔ میڈیا چینلز کو ابھی تک اس پولنگ اسٹیشن سے کوئی بریکنگ نیوز نہیں ملی تھی اور وہ مسلسل اس تاک میں تھے کہ کہیں سے کوئی چبھتی ہوئی خبر نظر آئے اور ان کے چینل کی ریٹنگ بڑھ سکے۔ ان میں سے چند چینلز والے باضابطہ کارروائی کے بعد پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی آجاتے اور پولنگ کے عمل کو لائیو دکھاتے رہتے۔ اچانک لگ بھگ 50 سال کی عمر کا ایک میڈیا پرسن گلے میں اپنے ٹی وی چینل کا کارڈ لٹکائے اندر آگیا۔ اس کے پاس کیمرا نہ تھا، بل کہ موبائل تھا۔ میں نے اسے اندر جانے سے روک دیا اور پوچھا بھئی کدھر! کہنے لگا کہ جناب میں فلاں چینل سے ہوں اور الیکشن کوریج کے لیے آیا ہوں۔

میں نے عرض کی کہ فیصل آباد میں اس چینل کے انچارج عابد حسنین شاہ ہیں، کہنے لگا کہ جی جی وہی ہیں۔ اس کے دل میں آگیا کہ چلو شکر ہے کہ پریزائیڈنگ آفیسر نے خود ہی واقفیت نکال لی ہے، اب میں اپنے موبائل سے اس پولنگ اسٹیشن کی کوریج کرلوں گا، مگر اپنی واقفیت بالائے طاق رکھتے ہوئے میں بول پڑا کہ جناب آپ اندر نہیں جاسکتے، اس نے پوچھا کیوں۔۔۔ میں عابد حسنین سے آپ کی بات کروادیتا ہوں، جس پر میں نے کہا کہ جناب! آپ کے پاس کیمرا نہیں ہے ، کیمرا لے آئیں تو اندر آجائیے گا۔ میں نے آرمی جوان کی مدد سے اسے باہر نکال دیا ، باہر کھڑے چینلز کے کچھ افراد نے اس میڈیاپرسن کو باہر نکالنے کے میرے اس عمل کو سراہا اور مجھے خوشی سے ’’تھمب‘‘ دکھاتے ہوئے کہا کہ بہت خوب سر! انصاف کا سبق تو بندہ آپ سے سیکھے۔

میں گیٹ پر کھڑے ٹی وی چینل خصوصاً لوکل چینل کے نمائندے سے ایک بار پھر بات کرنے لگا، مگر سب چینل والوں نے مجھے دوبارہ لائیو لے لیا۔ میں بھی میڈیا سے قوم کی خاطر فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ میں پھر بولنا شروع ہوگیا، ’’میں اپنے تمام ووٹر حضرات سے مخاطب ہوں جو ابھی تک ووٹ نہیں ڈال سکے، ان سے گزارش ہے کہ آپ لوگ فوری طور پر پولنگ اسٹیشن پہنچیں۔ ووٹ قوم کی امانت ہوتی ہے اسے قوم کے سپرد کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ قوم کے ووٹ کی ایک پرچی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی غلط نمائندہ آپ ہی کے اوپر تھوپ دیا جائے۔‘‘

ابھی میں میڈیا سے بات کرکے پلٹا ہی تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا رش بڑھ گیا اور لوگ اتنے تواتر سے آتے گئے کہ پولنگ اسٹاف چھے بجے تک ایک منٹ کے لیے بھی سانس نہ لے سکا۔ میں اندر ہی اندر خوش ہورہا تھا اور دعا مانگ رہا تھا کہ یااللہ! ایک تو ووٹنگ کا عمل پرامن طور پر مکمل ہوجائے اور دوسرا میرے اسٹیشن کا ٹرن آؤٹ بھی 100فے صد ہوجائے۔

ابھی دل ہی دل میں اللہ سے درخواست کر ہی رہا تھا کہ آرمی کا جوان شوکت میرے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’سر! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اجازت ہو تو۔‘‘ میں اسے دیکھے بغیر بول اٹھا کہ شوکت لَٹو آخری دَموں پر ہے اور یہ مسلسل گھوم رہا ہے۔

لٹو پر نظر رکھنا اس وقت بہت ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں سے تیز ہوا کا جھونکا ادھر آنکلے اور لٹو کو گرا جائے، جس سے سارا کھیل ہی ختم ہو جائے، پولنگ ختم ہونے میں ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، پولنگ کے بعد بات کرلینا۔ ’’نہیں سر!‘‘ وہ راستہ کاٹ کر میرے سامنے آگیا۔ جب شوکت سے آنکھیں چار ہوئیں تو اپنائیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کی آنکھوں میں موج زن تھا۔ میں دھیرے سے اسے ایک طرف لے گیا۔ سچی بات ہے کہ اسے جذبات میں آتے دیکھ کر میں اس سمے بھول ہی گیا تھا کہ میں پریزائیڈنگ آفیسر ہوں اور کسی پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا،’’کیا بات ہے شوکت! وہ بولا،’’سر! میں کل صبح سے آپ کے ساتھ ہوں۔

اتنے حبس اور گرمی میں الیکشن مٹیریل لیتے ہوئے ہمیں چار گھنٹے لگے۔ پھر پولنگ اسٹیشن پہنچتے پہنچتے مغرب ہوگئی تھی۔ آپ نے اپنے تمام پولنگ اسٹاف کو اپنی جیب سے کھانا کھلایا، پھر 25جولائی کی صبح آپ نے ان کو ناشتہ کروایا، دوپہر کو آپ نے اپنی جیب سے پھر ان کے لیے کھانا منگوایا، پھر ان کے لیے چائے بھی آپ نے ہی منگوائی۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ آپ کو دیکھتے ہوئے مجھے دو دن ہو گئے ہیں سوائے پانی پینے کے آپ نے کھانے کا ایک لقمہ بھی نہیں کھایا اور پھر جیسے تیزی سے آپ گیٹ پر آتے اور بزرگوں بیماروں کو ترجیحاً ووٹ ڈلواتے ہیں، ان کے آگے پیچھے ہوتے ہیں، ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں ۔۔۔ آخر کیوں۔‘‘ شوکت کی آواز بھرّا گئی اور وہ خاموش ہوگیا۔

اس کے لہجے اور پھر لہجے میں چھپی اپنائیت۔۔۔ سچی بات ہے مجھے اند ر سے گھائل کرگئی ۔۔۔ جس نے مجھے وہ سب کچھ بتانے پر مجبور کردیا جسے میں اپنے دل ہی میں چھپائے رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا،’’شوکت! تم بہت خوش قسمت ہو جو ہر لمحہ سینہ سپر رہتے ہو، تمھاری جوانی تو تیغوں کے سائے تلے گزر رہی ہے، مگر کیا مسٹر شوکت صرف فوج میں بھرتی ہوکر ہی وطن پر قربان ہُوا جاسکتا ہے؟ مجھ جیسے بے شمار لوگ وطن پر قربان ہونے کے لیے ہر وقت تڑپتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

مسٹر شوکت! جب سے میری بہ حیثیت پریزائیڈنگ آفیسر ڈیوٹی لگی ہے اور خاص کر پولنگ اسٹیشن نمبر63 پر تعینات ہوا ہوں تو 63سال کی نسبت میں قدرت کے وارے نیارے جا رہا تھا کہ میری زندگی میں کوئی تو نسبت چسپاں ہوئی ہے۔ ابھی کل سے میں اس پولنگ اسٹیشن پر ہوں، آپ کے علم میں ہے کہ یہاں کوئی واش روم نہیں ہے؟‘‘ وہ بولاِ،’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کہا،’’کل سے میں اس لیے کچھ کھا نہیں رہا ہوں کہ میں اس سوچ میں تھا کہ اگر میں کھانا کھا لیتا ہوں تو لامحالہ واش روم جانے کی نوبت آسکتی ہے اور واش روم پولنگ اسٹیشن سے باہر ہے، اگر میں باہر چلاجاتا تو بے شمار لوگ اور میڈیا والے میرا پیچھا ضرور کرتے ۔ ان کے ذہن میں ضرور یہ بات آتی کہ پولنگ کے دوران پریزائیڈنگ آفیسر پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر نکل گیا! ضرور دال میں کچھ کالا ہے یا پھر اس دوران ٹی وی چینل ٹکرز چلا دیتے کہ پریزائیڈنگ آفیسر کے بغیر پولنگ اسٹیشن ۔۔۔۔ پریزائیڈنگ آفیسر اپنے پولنگ اسٹیشن سے باہر چلا گیا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

میری بات سُن کر شوکت کی آنکھوں کے کونے بھیگ رہے تھے۔ وہ آنکھیں جھپکتے ہوئے کہنے لگا،’’سر! پولنگ ایجنٹ سے لے کر میڈیا مین تک اور پھر اپنے سٹاف کے مابین روا رکھے جانے والے آپ کے سلوک کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ چوںکہ آپ نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا، لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی جان پر نہ کھیلیں اور کچھ نہ کچھ کھا لیں۔۔۔اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے لیے کوئی چیز باہر سے لادوں؟‘‘ میں نے کہا،’’ مسٹر شوکت! ۔۔۔ انسانی دماغ یا ذہن دنیا کی سب سے طاقت ور چیز ہوتی ہے۔ دیکھیں کہ جس لمحے میں نے یہ ٹھان لیا کہ مجھے پولنگ اسٹیشن نہیں جانا تو اس وقت سے لے کر اب تک مجھے بھوک کا احساس بھی نہیں ہوا۔‘‘ لیکن وہ بضد رہا کہ سر! مجھے کچھ نہ کچھ آپ کو ضرور کھلانا ہے۔

میں نے شوکت کی اپنائیت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ آپ میرے لیے صرف ایک پیکٹ پاپڑ لے آئیں اور بس۔ یوں لگا جیسے شوکت نے آسمان سے چاند توڑ لیا ہو۔ وہ گن سمیت بھاگا بھاگا باہر گیا اور میرے لیے پندرہ بیس پاپڑ کے پیکٹ لے آیا۔ ان میں سے ایک پیکٹ میں نے کھالیا اور باقی سب اپنے اسٹاف میں بانٹ دیے۔

اسی دوران عابد شیر علی اپنا ووٹ کاسٹ کرنے آگئے۔ حیرت تھی کہ اتنی مشہور شخصیت اور ممبر قومی اسمبلی رہنے والا شخص پولنگ اسٹیشن کے باہر چپ چاپ لائن میں لگا اپنی باری کا انتظار کررہا تھا اور پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی اس نے کسی مدد کے لیے ہماری طرف نہ دیکھا۔ عابدشیرعلی کے اس رویے کی وجہ سے پولنگ اسٹاف اور ووٹرز میں ان کا احترام بڑھ گیا تھا۔

پولنگ کا وقت ختم ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے کہ ایک بار پھر گیٹ پر آگیا۔ حیرت تھی کہ ٹی وی چینلز والے فیصل آباد کے حلقہ PP-112 کے پولنگ اسٹیشن 63 کو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور ابھی تک وہیں موجود تھے۔ ان کے بیوروچیفس نے شاید ان سے کہہ دیا تھا کہ پچھلے انتخابات کی طرح اس اسٹیشن پر کسی بھی لمحہ بریکنگ نیوز کے لیے کچھ بھی سبب بن سکتا ہے، جب کہ مجھے مسبب الاسباب پر بھروسا تھا، جس کا نام لے کے ہم نے صبح پولنگ کا آغاز کیا تھا۔ اﷲ نے توفیق دی تھی کہ ہم پُرامن ماحول میں الیکشن کروانے میں کام یاب رہے تھے، جس کا سارا کریڈٹ پاک فوج کو جاتا ہے۔ الیکشن کے محاذ پر پاکستان بھر میں عام شہریوں کے لیے فوج کی موجودگی تقویت کا سبب ٹھہری، جس کی وجہ سے میرے پولنگ اسٹیشن کا ٹرن آؤٹ 71 فے صد رہا اور 99 فی صد انتخابات شفاف اور غیرجانب داری کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے۔

پولنگ کا وقت ختم ہونے کے دو ایک منٹ قبل گیٹ پر موجود میڈیا کی ٹیموں، اور شہریوں سے مخاطب تھا کہ ابھی پولنگ ختم ہونے میں چند لمحے باقی ہیں، اگر کسی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا تو اندر آسکتا ہے اور اس لمحے اگر 50ووٹ بھی ہوں تو میں انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ کوئی بھی شخص اندر جانے کے لیے آگے نہ بڑھا۔ چناںچہ ٹھیک 6.00 بجے میں نے پولنگ بند کرنے کا اعلان کردیا اور فوجیوں نے گیٹ بند کردیا۔

میرے اسٹیشن پر ہر سیاسی پارٹی کے دو دو بلکہ تین تین پولنگ ایجنٹس الیکشن کمیشن کا ایجنٹس اور فافن کے نمائندوں کی موجودگی میں سارا دن پولنگ ہوتی رہی تھی اور میں نے کسی سیاسی پارٹی کی عددی موجودگی پر اعتراض نہ کیا تھا کہ کسی سیاسی پارٹی نے ایک سے زائد پولنگ ایجنٹس کیوں بھیجے ہیں؟ تاکہ کسی قسم کی بدمزگی نہ ہوجائے۔ ویسے پولنگ ایجنٹس کا میں ذاتی طور پر بھی ممنون رہوں گا کہ جنہوں نے میری ہر جائز اور قانونی بات کو بسروچشم قبول کیا اور پُرامن پولنگ کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا، مگر کاؤنٹنگ کے وقت میں نے ہر سیاسی پارٹی کے ایک ایک پولنگ ایجنٹ کو اندر آنے دیا باقی سب کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا۔

کاؤنٹنگ کے وقت میرے ساتھی جس ووٹ پر شک کا اظہار کرتے کہ اس ووٹ کو گنتی میں شامل کرلیں یا خارج کردیں، وہ ووٹ میں بلاتامل پولنگ ایجنٹس کے سامنے رکھ دیتا کہ وہ اس کا فیصلہ کریں اور ہمیشہ وہ وہی فیصلہ کرتے جو میرے ذہن میں ہوتا تھا۔ مثلاً بیلٹ پیپر پر انگوٹھوں کے نشان تھے یا مہریں دو خانوں پر لگی تھیں یا خانوں سے باہر لگی تھیں، ان سب ووٹوں کو مسترد ہونا تھا۔ چناںچہ پولنگ ایجنٹس میرے فیصلہ سے قبل ہی ایسے ووٹ مسترد کردیتے۔ یوں میرے ساتھ پولنگ ایجنٹس کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا گیا کہ پریزائیڈنگ آفیسر کام صحیح کر رہا ہے اور ویسے بھی دن بھر جاری رہنے والے وہ میرے ہر ہر عمل سے متاثر تھے کہ نےECP (الیکشن کمیشن آف پاکستان) کے وضع کردہ قوانین پر پوری طرح عمل کیا تھا۔ کاؤنٹنگ کے وقت بھی یہی ماحول رہا۔

8بج کر 40 منٹ پر بیلٹ پیپر کی گنتی والا گوشوارہ (Form 46) اور امیدواروں کا حتمی رزلٹ (Form 45) تیار ہو گیا تھا۔ یوں سب سے پہلے فارم 45کو RTS(رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) پر اپ لوڈ کیا اور کام یابی کے ساتھ ECP بھیج دیا۔ RTS ایک ایسا جدید سسٹم ہے جس کے ذریعے نتیجہ بیک وقت ECP اسلام آباد، نادرا، اسلام آباد، ہائی کورٹ لاہور اور متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کو ارسال ہو جاتا ہے۔ میں نے احتیاطاً واٹس ایپ کے ذریعے بھی رزلٹ کی کاپیاں ریٹرننگ آفیسر کو بھیج دیں، تاکہ غلطی کی گنجائش نہ رہے، جب کہ فارم 45 اور فارم 46- کی 10عدد کاپیاں بھی تیار کرلی تھیں، جن پر میرے اور سنیئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر کے دستخط، انگوٹھوں کے نشان اور شناختی کارڈ نمبر لکھے تھے۔ میں نے وہاں پر موجود پولنگ ایجنٹس کو ان فارمز کی ایک ایک کاپی تھمادی۔

میں اب سوچ رہا ہوں کہ الیکشن 2018- کے رزلٹ میں تاخیر ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کیوں یہ شور برپا ہے کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ RTS کا الیکٹرانک نظام بیک وقت ملک بھر کے 85,000 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کی ترسیل برداشت نہ کرسکا اور بیٹھ گیا یا بٹھا دیا گیا، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس بار اساتذہ کرام اور سرکاری گزیٹڈ افسران نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اپنی جان پر کھیل کر بھی فری اور فیئر الیکشن کروانا ہیں اور انہوں نے اس کا حق بھی ادا کیا مگر ان پر شکست خوردہ سیاست دانوں کی طرف سے دھاندلی کروانے کے الزام لگا نے انہیں ہت بڑے صدمہ سے دوچار کردیا اور وہ الیکشن کے بعد کئی دنوں تک خاصے دل برداشتہ رہے۔

دل برداشتہ تو وہ پہلے ہی تھے جب اپنی عزت و احترام کو بالائے طاق رکھ کر گرمی اور حبس کے دن اور پسینے سے شرابور ہوکر الیکشن میٹیریل وصول کیا تھا، جب کہ اس دوران ملکھانوالا کے استاد محترم ریاض انور سامان وصول کرتے وقت گرمی اور حبس برداشت نہ ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ بہرحال اب اس کا ازالہ یوں ہی ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے وقت کوئی ایسا سسٹم ترتیب دیا جائے کہ انتظامیہ الیکشن میٹیریل ہر پولنگ اسٹیشن پر خود پہنچا ئے اور ریٹرننگ آفیسر کے نمائندے اسی پولنگ اسٹیشن پر آکر رزلٹ بھی یہیں سے خود وصول کریں۔

رہی یہ بات کہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 16لاکھ سے زائد کیوں رہی؟ تو ا س کا جواب یہ ہے کہ 85000 پولنگ اسٹیشنز میں 3لاکھ سے زائد پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے، ہر پولنگ بوتھ پر تین چار ووٹوں کا مسترد ہوجانا قدرتی امر ہے، کیوںکہ ہماری عوام میں ابھی شعور کی منازل طے کرنے کی رفتار بہت سُست ہے، جس کا اندازہ ستمبر 2018- میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد ہونے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

عوام الناس میں شعور کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2013کے الیکشن میں مسترد شدہ ووٹ15لاکھ تھے اور 2008 کے الیکشن میں یہی مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 9 لاکھ تھی، لیکن مسترد شدہ ووٹوں کے باوجود الیکشن کا انعقاد کروانے والے اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ غیرملکی ادارے بھی اس بار ہونے والے الیکشن کو صاف و شفاف قرار دے رہے ہیں مگر یہ بات قومی اداروں کے ماتھے پر سوالیہ نشان ضرور ثبت کر گئی ہے کہ کراچی کے ایک اسکول میں بیلٹ پیپرز کی کاپیاں کیسے پڑی رہ گئیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ہونے والے صاف و شفاف الیکشن کو متنازعہ بنانے کے لیے یہ ڈراما رچایا گیا ہو؟

تعارف

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم ، محکمہ زراعت میں عرصہ 30سال سے گندم، جو اور گنے کی تحقیق میں بطور زرعی سائنس داں مصروفِ عمل ہیں۔ آپ PhD ڈاکٹر ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے 4000 کے قریب مضامین، کالم قومی سطح کے اخبارات و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ 25 جولائی 2018 کو ہونے والے الیکشن میں انھوں نے بہ طور پریزائیڈنگ آفیسر فیصل آباد کے حساس ترین حلقہ میں فرائض انجام دیے۔ یہ تحریر ان کے اسی تجربے پر مشتمل ہے۔ (ادارہ)

The post ہاں! میں نے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

ایران میں کچھ دن
مصنف: محمد علم اللہ
صفحات: 125، قیمت: 120 روپے
ناشر: فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لیمیٹڈ، نئی دلی

بٹوارے سے قبل کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو اس کی حدود یہ مشرق میں آسام اور بنگال سے شروع ہو کر مغرب میں ’ڈریونڈ لائن‘ پر تمام ہوتی، جس کے پار واقع افغانستان کو ہندوستان سے ایک الگ نگری تصور کیا جاتا۔ اسی سرحد سے جڑا ہوا ایک اور ملک ایران بھی ایک جداگانہ سلطنت رہا، جب کہ اگر تاریخی طور پر ایران کے اثرات کی بات کی جائے تو اس کی گہرائی آج قلب ہند سمجھے جانے والے علاقوں تک واضح طور پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔

آج بھی سرزمین فارس کے باشندے اپنے شیریں لہجے میں گویا ہوتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں پاک و ہند کی کسی نگری کے باسی ہوں، کیوں کہ ہمارے ہاں ہندی یا اردو کہی جانے والی زبان کے بہت سے لفظ سرزمین فارس سے وارد ہو کر ہمارے لہجوں میں اس قدر رچ بس گئے کہ ہم اُن کے ہو گئے اور وہ ہمارے۔۔۔ اس سفرنامے میں نئی سرحدوں اور بٹواروں کے ہنگام کے برسوں بعد آنکھ کھولنے والے ہندوستانی نوجوان صحافی محمد علم اللہ اس نگری کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں، جس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی فارس کی خاک میں اپنی تاریخی اور ثقافتی ساجھے داری کی زیارت کرنے گیا ہے۔

دوسری طرف اگرچہ بہتیرے مقامات پر اجنبیت یا شناخت کی دشواری آڑے آئی، مگر اہل فارس نے ہندوستانیوں کے لیے اپنی تاریخ کے دریچے وا کیے۔ ایک طرف وہ بتا رہے تھے تو دوسری طرف سفرنامہ نگار کی صورت ایک ہندوستانی کیا محسوس کر رہا تھا، اسے کہاں حیرانی ہوئی، کہاں وہ متاثر ہوا اور کہاں اس کی خواہشیں تکمیل سے پہلے دم توڑ گئیں، اِن سب کا احاطہ اس روداد سفر میں موجود ہے۔ سادی اور سیدھی زبان اس سفری احوال کی خصوصیت ہے، ساتھ ہی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم اس کی پڑھت کو سہل بناتی ہے۔ اس سے عام ہندوستانی قاری کو بٹوارے کے بعد براہ راست زمینی جُڑت کھو دینے والے ملک سے متعلق دل چسپ معلومات ملیں گی، جو شاید اس قدر چرچا میں نہیں آپاتیں۔

من کہی
مصنف: ڈاکٹر قمر فاروق
صفحات: 224، قیمت: 500 روپے
ناشر: زربفت پبلی کیشنز، لاہور

یہ کتاب یک سطری کلمات پر مشتمل ہے، تاہم کہیں تین، چار رواں اور ہم قافیہ جملوں کے ساتھ بھی بات کہی گئی ہے۔ مذہبی مضامین سے معاشرتی بیماریوں اور رویوں کے ساتھ حب الوطنی کے ابواب پر تمام ہوتا ہے، جنہیں موضوعات کے اعتبار سے اہم نکات کی طرح بھی شمار کیا جا سکتا ہے اور کہیں ان کی حیثیت زریں اقوال کی طرح معلوم ہوتی ہے۔

’’زندگی، کام یابی اور ناکامی‘‘ کے زیر عنوان رقم طراز ہیں: کام یاب لوگ اپنی ہر کام یابی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں… میری سوچ ہی میری کام یابی اور ناکامی ہے… مستقل مزاجی کام یابی اور ناکامی کے ساتھ جنت اور دوزخ کا بھی فیصلہ کرتی ہے… چھوٹی باتوں میں الجھو گے، تو زندگی سے الجھ جاؤ گے… ساٹھ ستر سال کی عارضی زندگی میں اتنی بے باکی اچھی نہیں وغیرہ۔ بہت سی جگہوں پر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بات ہم نے پہلے بھی کہیں پڑھی ہے۔

بہت سی جگہوں پر ہم مختصر جملوں میں دیے گئے پیغام سے اختلاف بھی محسوس ہوتا ہے، بعض جگہوں پر معنویت نہیں کھلتی، لیکن بات کافی گہری معلوم ہوتی ہے، مختصر تحریر پسند کرنے والوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس کتاب میں کہیں مذکور نہیں، مگر ہمیں لگتا ہے کہ طالب علموں کو بالخصوص ان نصیحتوں سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، اس سے وہ آنے والی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان پائیں گے اور بہت کچھ سیکھ پائیں گے۔

یادوں کی سرزمین
(سقوط مشرقی پاکستان کے پس منظر کی یادیں)
مصنف: آفتاب عالم
صفحات: 104، قیمت: درج نہیں
ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان

اس کتاب کے مصنف ادیب سہیل کے سپوت ہیں، جو سید پور (مشرقی پاکستان) میں بیتے ہوئے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہیں، جب وہاں بجلی کے کھمبے نصب ہوئے تو کس قدر اضطراب تھا کہ اب لالٹینوں کی مدھم روشنی سے جان چھوٹے گی، لیکن تار اور بلب لگنے میں وقت لگا اور جب گلی کے بلب سے برآمدہ روشن ہوا تو پھر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جب ہم سائے نے اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر بجلی لی تو عالم یہ تھا کہ اِن کی چھوٹی بہن شام ہوتے ہی بلب کی روشنی دیکھنے پڑوس میں چلی جاتی تھیں۔

وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں اہل کراچی کے برعکس مشرقی پاکستان کے اردو بولنے والوں نے فاطمہ جناح کی مخالفت میں ووٹ دیا، کہتے ہیں ’اُسی وقت سے بنگالیوں کا اردو بولنے والوں پر اعتماد ختم ہو گیا‘ بلکہ مصنف تو 1971ء کے واقعے کو صدارتی چناؤ کے نتائج سے ہی پیدا ہونے والی صورت حال قرار دیتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اردو بولنے والے جہاں بھی رہتے ہیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے پر تلے رہتے ہیں، جب کہ دوسری جگہ وہ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے دوران اُن کے نام کے ساتھ سابق مشرقی پاکستان (بہاری) لکھا گیا، جب کہ دوسرے امیدواروں کے آگے نہیں لکھا گیا۔

ہم نے اس کتاب کو اپنے موضوع پر ایک اہم حوالہ پایا، تاہم بعض جگہوں پر بے ربط جملے مفہوم پر اثرانداز ہوتے ہیں، امید ہے اشاعت ثانی میں اس کمی کو دور کیا جائے گا۔ پروفیسر سحر انصاری اس کتاب میں رقم طراز ہیں،’’آفتاب عالم کی تحریر نہ صحافیانہ ہے اور نہ بالکل ادبی۔ وہ ایک حساس اور باشعور ناظر کی طرح سفاک مناظر پر نگاہ ڈالتے اور الفاظ کے پیکر میں ڈھالتے ہیں۔‘‘ زاہدہ حنا لکھتی ہیں آفتاب عالم نے بہت جرأت سے وہ باتیں لکھی ہیں، جنہیں ادیب بھائی زیر لب کہتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔۔۔‘

اپنا گھر
مصنف: وقاص اسلم
صفحات: 124، قیمت: 200 روپے
ناشر: گلستان کتاب گھر، خانیوال

پانچ برس کی عمر قلم کاری کے حامل اس نوجوان کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ پہلی کتاب بہ عنوان ’عظیم قربانی‘ دو سال قبل شایع ہوئی۔ مصنف ابھی ایم اے (اردو) کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں 22 کہانیاں جمع کی گئی ہیں۔ یوں تو یہ کہانیاں بچوں کی ہیں، اور بہت سی کہانیوں کے کردار بھی معصوم اور ہلکے پھلکے سے ہیں، مگر بہت سی کہانیوں کے مرکزی خیال بہت بڑے ہیں، اور وہ اخلاقی تربیت کے ساتھ غوروفکر بھی مجبور کرتے ہیں۔

شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے‘ اور اب وہ جن بھوتوں اور پریوں کی ماورائے عقل کہانیوں کے بہ جائے حقیقت پسند کہانیاں زیادہ پڑھنے لگے ہیں۔ جیسے ’پیسے نہیں، جنت‘ کا مرکزی خیال بیٹی کی پیدائش پر بیمار ذہنی رویہ ہے۔ ’انوکھی تجارت‘ کا موضوع جہیز ہے، اسی طرح ایک اور کہانی کا موضوع جائیداد کی تقسیم جیسا سنجیدہ اور گہرا ہے۔ ’حقیقی خوشی‘ میں سیٹھ اور مزدور موضوع ہیں۔ ایک کہانی ’ٹول پلازہ‘ میں چھپا ہوا بھید بھی قاری کو چونکا دیتا ہے۔ ان کہانیوں میں مذہبی حوالے اس کی ایک اضافی خوبی ہے۔

ہم رِکاب (کتابی سلسلہ: اول)
مدیر: سہیل احمد صدیقی
صفحات: 110، قیمت: 150 روپے (15 ڈالر)
ناشر: پاک چین بزم ادب

چین سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو اب سات عشرے پورے ہونے کو ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ادبی اشتراک کو منظم طریقے سے روشناس کرانے کے لیے اِس کثیر السانی ادبی جریدے کا ڈول ڈالا گیا ہے، سرورق اور عنوان سے یہ قوی احساس ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات میں یقینی طور پر چینی اردو سمبندھ کا احاطہ کیا جائے گا، لیکن ورق الٹیے تو اس میں انگریزی، فارسی، سندھی اور پنجابی حتیٰ کہ سرائیکی، ہندکو، براہوی، شینا اور کھوار جیسی زبانوں کے ادبی رنگ بھی نمایاں ہوتے ہیں۔

سندھی ہائیکو بھی پڑھنے کو ملتی ہے، غزلیات اور منظومات کے ساتھ پنجابی صنف شاعری ’سی حرفی‘ بھی موجود ہے، نثری ٹکڑے بھی ہیں اور چینی متن کے عکس بھی چسپاں ہیں۔۔۔ جریدے کی ابتدا چین کے بزرگ اردو شاعر انتخاب عالم کے حوالے سے خصوصی گوشے سے کی گئی ہے۔ اُن کا اصل نام شی شوان ہے، جس کے لفظی ترجمے ’انتخاب عالم‘ کو انہوں نے قلمی نام کے طور پر اپنایا ہے، ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو؎

سراہتا ہے ہمیں اس لیے زمانہ کہ ہم

فریب کھا کے جواباً سلام کرتے ہیں

مقام دو یا نہ دو فرق کچھ نہیں پڑتا

کہ ہم ضمیر جہاں میں قیام کرتے ہیں

اس میں بہت سے ادب پارے قند مکرر کے طور پر بھی شایع کیے گئے ہیں، جن میں انتخاب عالم کا مضمون ’شب کراچی‘ اس شہر سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے۔

اجرا۔ 26
مدیر: اقبال خورشید
صفحات: 312، قیمت: 500 روپے
ناشر: Beyond Time Publication کراچی

اجرا کے لیے پُرعزم مدیر اقبال خورشید کی لگن ورق گردانی کرتے ہی عیاں ہو جاتی ہے، ان صفحات میں اسد محمد خان، اخلاق احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، رشید امجد، محمد حمید شاہد، سلیم کوثر، عارف شفیق، جان کاشمیری، حسن منظر، بابر نقوی اور سیما غزل وغیرہ کی شرکت یقیناً اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اداریے میں ’اردو ادیب اور المیہ‘ کے زیرعنوان کچھ اپنے ہاں کے ادیب اور ادب پاروں کی پذیرائی کے حوالے سے وہ ایک بار پھر اہم سوالات اٹھاتے ہوئے قارئین کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ پہلے اداریے میں مدیر اعلیٰ ناصر شمسی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہمارے ادیب کس حد تک آج کی صورت حال کو سامنے لا سکے ہیں۔

اس پرچے میں بھی حسب روایت حمد و نعت سے سلسلہ شروع ہوتا ہے اور نظمیں، ہائیکو، غزلیں، افسانے، مباحث، یادیں، خاکے، مضامین، تبصرے وغیرہ کو زینت بناتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نعیم بیگ کے افسانوی مجموعے ’پیچھا کرتی آوازیں‘ پر رفیع اللہ میاں اور اقبال خورشید کے درمیان ہونے والا مکالمہ بھی شامل اشاعت ہے، اس گفتار کی نوعیت ’برقیاتی‘ بتائی گئی ہے، بہرحال ’جواب الجواب‘ پڑھتے ہوئے ایک نئے طرز کا احساس اور دو طرفہ بات چیت کا خوب لطف آتا ہے، جیسے گئے وقتوں میں ڈاک سے خطوط لکھے جاتے تھے، اِسے آج کے دور میں ’برقی مراسلے‘ (ای میل) سمجھ لیجیے، شاید اس گفتگو کا وسیلہ بھی یہی رہا ہے۔

معروف قلم کار اور مصنف ایس ایم شاہد سے گفتگو اور فرینک اسٹاکٹَن اور ڈورس لیسنگ کے ترجمے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں ’اجرا‘ کے پچھلے شمارے پر آنے والی آرا بھی شامل ہیں، جس میں رشید امجد پچھلے اداریے میں اقبال خورشید کے اٹھائے گئے سوالات کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہنر کے ساتھ ظرف نہ ہو تو ہنر تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ پرچے کے سرورق اور پچھلا سر ورق تصدق سہیل کے نمونۂ مصوری سے آراستہ ہے۔ اس کے علاوہ انعام راجا کے فن پاروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔

لاریب
مصنف: اقبال حیدر
صفحات: 144، ہدیہ: 200 روپے
ناشر:  Zakcom
میں نے جن آنکھوں سے دیکھی ہیں سنہری جالیاں
آئینے میں اب وہ آنکھیں دیکھتا رہتا ہوں میں

یہ ہدیۂ حمدو نعت دراصل 2006ء میں پہلی بار منصہ شہود پر آنے والی کتاب کی اشاعت نو ہے، اس کا انتساب والدین، شریک حیات اور تین بچوں کی نذر کیا گیا ہے۔ مصنف درس وتدریس کے علاوہ صحافتی شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور یہ ان کی پہلی کاوش ہے، جس میں، اس کے ابتدائی صفحے پر نقل کیے گئے فرمان نبوی ﷺ کی تکمیل کی گئی ہے کہ ’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اُس کو، اُس کے ماں باپ، اولاد اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں کہ اقبال حیدر نے خشیت الٰہی میں ’حب الٰہی کے پہلو پیدا کر دیے ہیں اور ان کے ہاں خشیت محبت بن گئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی کو اس میں شاعر کا وہ دل دھڑکتا ہوا نظر آیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے معمور ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ان اشعار کو ان خیالات کو نکتہ آفرینی، اور ندرت احساس کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔

مزے مزے کے مشاعرے
(مزاحیہ مضامین)
مرتب: شجاع الدین غوری
صفحات: 208، قیمت: 500 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی

یوں تو یہ کتاب بہت سے مشاہیر ادب کے مشاعروں پر لکھے گئے شگفتہ مضامین پر مشتمل ہے، لیکن مرتِب کی طرف سے ابتدائی مضمون میں نہایت سنجیدگی سے اردو مشاعروں کی تاریخ کا باحوالہ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مشمولات میں شوکت تھانوی اپنی شریک حیات کو مشاعروں میں لے جانے کی بپتا کہتے ہیں تو کنہیا لال کپور اپنے صدر مشاعرہ بننے کا دل چسپ احوال بیان کرتے ہیں، حاجی لق لق کے افسانے سے ماخوذ ’متحرک مشاعرہ‘ اور مرزا فرحت اللہ بیگ کا ’دہلی کا ایک یادگارہ مشاعرہ‘ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف ’آب گُم‘ سے ’دھیرج پور کا پہلا اور آخری مشاعرہ‘ بھی موجود ہے۔ کتاب کے مندرجات کی فہرست میں اگرچہ صفحہ نمبر غائب ہیں، لیکن اس میں نیاز فتح پوری، مجید لاہوری، ابن انشا، سید ضمیر جعفری وغیرہ کے ساتھ ساتھ مرتِب کے بھی دو مضامین نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ موضوعاتی مزاح کے حوالے سے یہ ایک اچھی کتاب ہے، جس میں ہمیں مشاعروں پر لکھا گیا مزاح یک جا دکھائی دیتا ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت ؛ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

$
0
0

قسط نمبر10

میں وہ نہیں جو نظر آرہا ہوں باہر سے، تو ایسے ہوتے ہیں لوگ، اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ، جیسے بہروپیا۔ لیکن بہروپیے کو تو آپ رعایت دے سکتے ہیں کہ وہ تو ایک اداکار ہوتا ہے جو اپنی فن کاری سے لوگوں کو محظوظ کرتا اور پھر ان سے کچھ سکّوں کا طلب گار ہوتا ہے، یہ دوسری بات کہ اس سماج میں فن کار کی کیا حیثیت اور مقام ہے۔

بس یہی ہوا تھا کہ اس بازار میں مجھے ایک شریف، نیک اور پارسا نظر آنے والے انسان نے بھیجا اور ایک گم راہ اور بدکار آدمی نے مجھے وہاں سے باہر نکال ڈالا تھا، اور اس تنبیہ کے ساتھ کہ میں اگر اسے آئندہ یہاں نظر آیا تو اس سے برُا کوئی نہیں ہوگا، یہی نہیں بل کہ اس نے مجھے کتابوں کی دکان کا راستہ بھی سمجھایا تھا۔

لی مارکیٹ میں کتابوں کی دو ہی بڑی دکانیں تھیں، شاید اب بھی ہوں اور دعا ہے کہ ہوں ورنہ تو ہمارے سماج میں کتابوں کی دکانیں بند ہوتی جارہی اور ان کی جگہ فاسٹ فوڈ نے لے لی ہے کہ اس میں لذت کام و دہن کے عوض منافع بھی تو بہت ہے، اور یہی کسی سماج کے زوال کے اولین صورت ہے۔ خیر ایک دکان کا نام مکتبہ اسحاقیہ اور دوسری کا نام مکتبہ عزیزیہ تھا۔

میں نے چند کتابیں خریدیں تو انہوں نے مجھے ہر کتاب کے لیے ایک گردپوش بھی دیا، مجھے آج بھی اس گردپوش پر لکھی ہوئی عبارت یاد ہے، اس پر لکھا ہوا تھا: ’’کتابیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بُری بھی، ہمیں اچھی کتابیں پڑھنا چاہییں کہ ہمیں خود اچھا بننا اور دوسروں کو اچھا بنانا ہے‘‘ یہ دوسری بات کہ اس عبارت نے میرے اندر مزید سوالات کو جنم دیا اور پھر اس سوال کے جواب کی کھوج نے مجھے ان کتابوں تک پہنچایا جنہیں بُرا کہا جاتا ہے، خیر یہ ایک بہت بحث طلب موضوع ہے، اسے کسی اور وقت پر رکھتے ہیں۔ میں نے کتابیں خریدیں اور اپنے ٹھکانے پر واپس آگیا۔

لیکن ایک بے کلی اور بے چینی تھی، اس بازار کے جاننے کے تجسس نے مجھے گھیر لیا تھا۔ کون ہیں یہ عورتیں، کہاں سے آگئی ہیں، اور پھر وہ کرتی کیا ہیں؟ کیوں کرتی ہیں؟ ان کے پاس کون آتا ہے؟ کیوں آتا ہے؟ ان کے دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں، آخر کیوں؟ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کیوں، کیا اور کیسے میرے چاروں جانب میرا منہ چڑاتے ہوئے رقص کر رہے ہیں، اور نہ جانے اس طرح کے بہت سے سوالات، کہ اسے گندا بازار کیوں کہتے ہیں۔

میں ساری رات ان سوالات کے بھنور میں تنکے کی طرح گھومتا رہا اور بس گھومتا رہا۔ آخر صبح ہوئی اور صبح کو ہونا ہی ہوتا ہے، کوئی رات ہمیشہ نہیں رہتی، تاریکی کا مقدر ہی ہے چلے جانا۔ لیکن ذرا سا دم لیجیے، یہ روشنی اور تاریکی کی جنگ ہمیشہ سے جاری تھی، ہے اور رہے گی، اس لیے بتایا گیا ہے کہ اپنی روشنی کو ایسا روشن بناؤ کہ پھر کوئی تاریکی اسے پسپا نہ کرسکے، مگر پھر ایک سوال آگیا کہ ایسا کیسے کریں۔۔۔؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایسا اس وقت ہوسکتا ہے جب آپ اپنے اندر کو روشن کرلیں، جب اندر روشن ہو تو اسے باہر کی کوئی تاریکی شکست نہیں دے سکتی۔

اب یہاں پھر سے ایک سوال سامنے کھڑا ہے کہ اپنے اندر کو روشن کیسے کریں۔۔۔؟ یہ تو آپ کسی اہل علم سے دریافت کیجیے، مجھے تو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ جب آپ خالق کی مخلوق سے بے ریا محبت کرنے لگیں، میں مخلوق کہہ رہا ہوں، صرف انسان نہیں کہ وہ تو ان سب میں اشرف ہے، مخلوق میں تو یہ ساری کائنات ہے، جی جی انسان تو دولہا ہے اس کا کائنات کا، تو خالق اپنا نور اس انسان کے اندر ہدیہ کردیتا ہے، واہ جی واہ پھر باہر کی کوئی تاریکی اس نور کو پسپا نہیں کرسکتی، کر ہی نہیں سکتی، کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے، مجھ عامی، عاصی، بے کار و بے مصرف کو معاف کیجیے۔

آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ چراغ کو تو گُل کیا جاسکتا ہے لیکن نور کو نہیں کہ اس کا منبع تو کہیں اور ہوتا ہے، مصور سے تعلق، عشق، پیار و محبت کا دعویٰ اور اس کی بنائی ہوئی تصویروں سے بیر رکھنا اور نہ صرف بیر رکھنا بل کہ انہیں نیست و نابود کردینا کہاں کا دعویٰ عشق و محبت ہے، نہیں، بالکل بھی نہیں یہ تو دھوکا ہے، فریب ہے بل کہ خود فریبی، اس مصورِ حقیقی سے تعلق بنانا ہے تو اس کی بنائی ہوئی تصویروں سے محبت کرو، اور پھر اس تصویر سے تو خاص طور پر جس کے لیے اس نے کہا ہے کہ وہ احسن التقویم ہے، کہ یہی پہلا زینہ ہے، اس مصور حقیقی تک پہنچنے کا۔ جیتی جاگتی تصویروں کا قتل اس کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ ہم شاید بہت دور نکل رہے ہیں، چلیے واپس پلٹتے ہیں۔

میں اپنی مزدوری کے لیے پہنچا۔ میرے ساتھ ایک لڑکا کام کرتا تھا میں نے اس سے پوچھا۔ یار! یہ تُونے گندا بازار دیکھا ہے۔۔۔ ؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر آنکھ مارتے ہوئے مجھ سے کہا، چلے گا میرے ساتھ وہاں؟ گندا بازار نہیں ہے وہ، ہیرا منڈی ہے، ایک سے ایک ہیرا ملتا ہے وہاں۔ گندا بازار اور منڈی بھی، ہیرا بھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا بل کہ میں سوالات کی گہری دلدل میں اترتا چلا گیا، جتنا میں سوچتا جارہا تھا اتنا ہی دھنستا چلا جارہا تھا۔

چھٹی کے بعد میں سنیما ہال چلا گیا۔ دوسرے دن فجر کی نماز ادا کرکے میں قبرستان چلا گیا اور بہت دیر تک سوچتا رہا کہ کیا ہوتا ہے وہاں؟ اس دن میں کام پر نہیں گیا۔ قبرستان میں بیٹھے ہوئے مجھے بہت دیر ہوگئی تھی، میں نے واپسی میں ہوٹل میں کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلا آیا، لیکن مجھے ایک پل بھی قرار نہیں تھا۔ شام تک عجیب طرح کی بے کلی نے مجھے گھیر لیا تھا۔ آخر مغرب کی نماز ادا کرکے میں لی مارکیٹ اس بازار میں جا پہنچا۔ وہی بنی سجی، سنوری عورتیں، لڑکیاں اور عجیب سے اشارے، لوگوں کی آمد و رفت، بھرے میلے میں تنہا کھڑا میں سب دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں مجھے اپنے محلے میں رہنے والے اکبر بھائی نظر آگئے۔

اکبر بھائی پنج وقتہ نمازی تھے اور گھروں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ بہت خوش مزاج اور خوش لباس، وہ ایک لڑکی سے نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے کہ میں ان کے سر پر جا پہنچا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے پوچھتا وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے۔ یہاں کیا کر رہے ہو تم! اور آپ کیا کر رہے ہیں یہاں؟ میرے سوال کا جواب تو انھوں نے نہیں دیا مجھے ہاتھ سے پکڑ کر وہ قریب ہی ایک ہوٹل پہنچے اور کھانے کا آرڈر دیا۔ اکبر بھائی! میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ کیوں؟ یار! جینے کے لیے کھانا پڑتا ہے۔ آخر کھانا آگیا۔ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ وہ مجھ سے پوچھ بیٹھے۔

میں ایک دفعہ پہلے بھی یہاں آیا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا یہ بازار۔ آج میں پھر اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے آگیا۔ لیکن آپ کیا کرنے آئے تھے اور وہ لڑکی کون ہے اکبر بھائی! وہ یہاں کیوں رہتی ہے۔ کیا کام کرتی ہے وہ۔ میں ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ بیٹھا تھا۔ وہ بس مسکراتے اور کھانا کھاتے رہے۔ بتائیں اکبر بھائی! کون ہے وہ؟ یار! وہ سب جسم فروش ہیں۔ یہ کیا ہوتا ہے اکبر بھائی! یار! تجھے سمجھ نہیں آئے گا۔ تو یہاں آئندہ مت آنا۔ تو آپ کیوں آئے تھے؟ میں تو بڑا ہوں ناں۔ تُو تو ابھی بچہ ہے۔ تو کیا جو کام بڑے کریں وہ بچوں کو نہیں کرنے چاہییں؟ میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔ کھانے کے بعد ہم بس میں بیٹھے اور واپس آگئے

۔ اکبر بھائی بھی ہمارے محلے میں میری طرح تنہا رہتے تھے۔ یار! سلطان تو میرے ساتھ کیوں نہیں رہتا؟ کرایہ آدھا کرلیں گے۔ اور یوں میں ان کے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ اس بازار کے متعلق شورش کاشمیری کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ انھوں نے مجھے لاکر دی تھی، باتصویر کتاب، اور پھر ساحر لدھیانوی کی نظمیں، عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا اور ثنا خوانِ تقدیس ِمشرق کہاں ہیں۔ اس کتابوں کو پڑھ کر میرے اندر مزید سوالات پیدا ہوگئے تھے۔

اکبر بھائی خود جیسے بھی تھے، لیکن انھوں نے حقیقی بڑے بھائی کی طرح میرا خیال رکھا۔ ہم جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے تو اسے عجیب کہنے لگتے ہیں۔ ’’تم اس دنیا کے نہیں ہو۔ بہت عجیب ہو تم‘‘ اکبر بھائی کا تکیہ کلام تھا۔ میرے پاس تیرے سوالات کا جواب نہیں ہے یار! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سوالات کا جواب ہی نہ ہو۔ میرا نیا سوال ان کے سامنے ہوتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سوال غلط ہوسکتا ہے تو پھر کیا غلط سوال کو جواب سے محروم رہنا چاہیے؟ پھر اک نیا سوال۔ میرے سوالات سے تنگ آکر آخر وہ مجھے اس بازار کی ایک جسم فروش سے ملانے پر تیار ہوگئے۔ مغرب کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی اور وہ مجھے لے کر وہاں پہنچے جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم دوسری منزل پر پہنچے، عجیب طرح کی اداسی چھائی ہوئی تھی، گندے سے پردے اور دو چار برتن اور وہ جسم فروش، اس کا نام شائستہ تھا۔ شاید اکبر بھائی اسے میرے متعلق بتا چکے تھے۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ آم کھاؤ، پیڑ کیوں گنتے ہو۔ کیوں اپنی زندگی عذاب کروگے۔ کھاؤ پیو اور پُھٹّا کھاؤ۔ اس نے بات شروع کی۔ یہ آم کھانے والا نہیں ہے شائستہ! بہت عجیب ہے یہ۔ اکبر بھائی بولے۔ تم کون ہو، کہاں سے آئی ہو، کیوں آئی ہو، خود آئی ہو یا پھر کوئی تمہیں لے آیا ہے؟ میرے سوالات شائستہ کے سامنے تھے۔

ہم بکاؤ مال ہیں، ہم سب کے لیے ہیں، ہم لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔ وہ بولی۔ ٹھیک ہے یہ بات لیکن تم خود بھی کیا خوش ہو ؟ میرا سوال پھر اس کے سامنے تھا۔ یہ واقعی عجیب ہے اکبر! ہاں یہ بہت مشکل ہے، وہ اکبر سے مخاطب تھی۔ میرے سوال کا جواب دیجیے۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔ میں خوش ہوں یا غمگین اس سے کسی کو کیا لینا دینا، لوگ اپنی خوشی کی خاطر ہمارے پاس آتے ہیں بس اور ہم انھیں خوش کردیتے ہیں۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے شائستہ جی۔ تم مجھے ’’جی‘‘ کہہ رہے ہو؟ اس نے عجیب سا سوال کردیا۔ مجھے میرے بلیوں والے بابا جی نے سکھایا ہے، باادب بانصیب ہوتا ہے اور بے ادب بے نصیب۔ میری یہ بات سن کر وہ زار و قطار رونے لگی، رم جھم گرتے ساون کی طرح۔

کیا ہو تم سلطان؟ پہلے تم مجھے بتاؤ۔ وہ مجھ سے پوچھ بیٹھی۔ اس نے مجھ سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا تھا، بس روتی رہی، اور اکبر بھائی مجھے لے کر نیچے اتر آئے۔ مل لیا تُو اس سے۔ اکبر بھائی بولے۔ میں یہ سب کچھ اس سے پوچھ کر رہوں گا اور اس مرتبہ میں اکیلا آؤں گا اس سے ملنے۔ خبردار! جو تُو اکیلا آیا یہاں پر۔ اکبر بھائی نے مجھے ڈانٹ دیا۔ لیکن میں جو ٹھان لوں وہ کرکے رہتا ہوں۔ دوسرے دن میں کام سے اپنے کمرے میں آنے کے بہ جائے اس کے پاس جا پہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ حیران ہوئی۔ تم پھر آگئے؟ ہاں کل آپ سے بات ہی نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن آج تو میں مصروف ہوں۔ تم کل اس وقت آنا پھر ہم باتیں کریں گے۔ وعدہ کرو مجھ سے۔ ہاں ہاں وعدہ ۔ کل ہم باتیں کریں گے۔

اور اگر آپ اپنے وقت کے پیسے چاہتی ہو تو وہ بھی میں آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے میرے پاس۔ میری اس پیش کش پر وہ مسکرائی۔ کبھی کبھار میں اس کے پاس جاتا اور ہم باتیں کرتے۔ میں کبھی خالی ہاتھ اس کے پاس نہیں گیا۔ میرے پاس وہ قلم اب تک ہے جو اس نے مجھے خرید کردیا تھا۔ شائستہ کو بھی اپنے ماں باپ کا کچھ پتا نہیں تھا۔ بس وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ بہت چھوٹی تھی اور گلی میں کھیل رہی تھی کہ ایک شخص نے اسے مٹھائی دی اور پھر وہ یہاں تھی۔ ہمارے سماج میں لڑکیوں کی پیدائش پر لوگ فکر مند ہوجاتے ہیں اور اس بازار میں لڑکیوں کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے۔

وہ بہت اچھی رقاصہ تھی۔ جب وہ پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر ناچتی تو عجیب سماں بندھ جاتا۔ وہ بے خود ہوکر ناچنے لگتی۔ اس کی نائیکہ جو ہر وقت پان چباتی رہتی تھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اسے میرا اس سے ملنا جلنا بالکل پسند نہیں تھا، لیکن وہ شائستہ سے مجبور تھی۔ اتنی کماؤ سے وہ کیسے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ شائستہ بھی پنج وقتہ نمازی تھی۔

اور اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ بازار بند ہونے کے بعد تہجد بھی پڑھتی ہے۔ مجھے اس کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ تم اﷲ جی سی باتیں کرتی ہو ؟ ایک دن میں نے اس سے پوچھا تھا اور اس کی سسکیاں سنی تھیں۔ پھر ایک دن جب میں اس سے ملنے پہنچا تو وہ نہیں تھی۔ میں نے اس کی نائیکہ سے پوچھا۔ اس نے ناگواری سے مجھے دیکھا اور بولی۔ اب تم یہاں مت آیا کرو، ہم نے اس کی شادی کردی ہے۔ لیکن کب اور کس سے؟ میں نے پوچھا۔ پنجاب کے ایک زمین دار نے اسے پسند کرلیا تھا، ہم نے شادی کردی۔ کیا وہ شادی پر رضامند تھی؟ جاؤ یہاں سے، میرا بھیجا مت کھاؤ، نہ جانے کہاں سے آجاتے ہیں۔ میں نے اس کے کوسنے سنے اور بوجھل قدموں سے نیچے اتر آیا۔ نہ جانے کہاں چلی گئی تھی وہ۔

ایک اور دوست زندگی سے نکل گیا تھا۔ ہم اپنے سوا سب کو بُرا کہتے ہیں۔ ہمیں کسی سے محبت نہیں ہوتی ہم صرف اپنی ذات کے اسیر ہوتے ہیں۔ ہم نظام کائنات کو نہیں سمجھتے۔ ہم اس کے اسَرار کو نہیں سمجھتے۔ اسے وہ سمجھتا ہے جو واقف اسرارِ کائنات ہو اور واقف اسرارِ کائنات وہ ہوتا ہے جو اﷲ جی سے اپنا تعلق قائم کرلے۔ ہر شے اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اضداد پر قائم ہے یہ کائنات، اگر بدی نہ ہو تو نیکی کی پہچان ہی نہ ہو۔ رات نہ ہو دن کی کیا حیثیت، بس نظر کرم ہوجائے تو نیّا پار لگ جاتی ہے ورنہ تو طوفانوں میں گھری رہتی ہے۔

شائستہ جسم فروش نہیں تھی۔ اسے اس ڈھب پر لانے کے لیے سب نے بہت جتن کیے۔ اس نے ہر طرح کے ظلم سہے، اسے کئی کئی دن تک بھوکا رکھا گیا، مارا پیٹا گیا، لیکن وہ نہیں مانی۔ آخر تھک ہار کر اسے گانے بجانے پر لگادیا گیا۔ اس کے چہرے پر رقصاں معصومیت کوئی نہیں چھین سکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں جھلمل کرتے ستارے اس کی پوری داستان سناتے تھے۔ اس کا رکھ رکھاؤ قابل دید تھا۔ پھر یقینا اس کے اچھے دام لگ گئے ہوں گے تو اسے کسی زمین دار سے بیاہ دیا گیا۔ ہم صرف سامنے کی چیز دیکھتے ہیں۔ قریب کی آواز سنتے ہیں۔ ہم دور تک دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ہم سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے عادی ہیں۔ زندگی اور اس کا اسَرار کیا ہے، ہم نہیں جانتے اور المیہ یہ ہے کہ ہم اسے جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے، ہم آئینے میں اپنی شکل دیکھتے اور بہ جائے اسے سنوارنے کے، دوسروں کو پتھر مارنے لگتے ہیں۔

اکبر بھائی نے مجھے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی جان عذاب کرلی تھی۔ میں کئی مرتبہ انھیں کہہ چکا تھا کہ مجھے جانے دیں۔ لیکن وہ نہیں مانتے تھے۔ میں جب بھی ان سے رخصت کی اجازت لینا چاہتا وہ عجیب سی اداسی سے کہتے۔ میں تیرے بغیر اب رہ بھی نہیں سکتا۔ پھر ان کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں تعلیم حاصل کروں۔ لیکن پھر میرے بیہودہ سوالات ان کے سامنے ہوتے، کون سی تعلیم اکبر بھائی، یہ کوئی تعلیم ہے کیا جس کی تحصیل کے بعد انسان مزید جاہل، خودغرض اور اس کی زندگی ایک مشین میں ڈھل جاتی ہے اور ایسے ہی ان گنت سوالات، جن کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

اکبر بھائی نے ایس ایم لاء کالج سے قانون کی ڈگری لے لی تھی اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ مستقل پنجاب جانے کے لیے ٹرین میں سوار تھے۔ اکبر بھائی! آپ تو کہتے تھے کہ آپ میرے بغیر رہ ہی نہیں سکتے اب کیسے رہیں گے؟ اکبر بھائی نے مجھے گلے لگایا ہوا تھا۔ وہ بالکل خاموش تھے۔ بس ان کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ ٹرین نے سیٹی بجائی اور ہم دونوں کو جدا کرگئی۔ دیکھیے وہ منیر نیازی کس وقت یاد آئے، ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا۔

The post جہاں گشت ؛ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا appeared first on ایکسپریس اردو.

بھارت میں بیوی کرائے پر دستیاب

$
0
0

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار لیکن اس کی ریاستوں میں غربت اور افلاس کے شرم ناک واقعات اس کے ’’جمہوری‘‘ منہ پر طمانچہ ہیں، بھارتی مملکت اپنی شہریوں کو زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہے خصوصاً یہاں کی خواتین سے روا رکھا جانے والاسلوک تاریک دور کی یاد دلاتا ہے۔

تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے لئے بھارت دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔ یہاں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں ، راہ چلتی خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، چلتی بس میں عورت کی چادرِعصمت تار تار کردی جاتی ہے۔

بھارتی ادارے نیشنل  کرائم ریکارڈز بیورو کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 2016-17ء میں گزشتہ برس کی نسبت ریپ اور پھر قتل کردینے جیسے واقعات میں 12سے 15فیصد اضافہ ہواہے جبکہ خواتین سے ہونے والے دیگرجرائم میں  تین سے پانچ فیصد اضافہ۔ اس عرصہ کے دوران میں ریپ کے 40فی صد کیسز صرف دہلی میں ہوئے۔

2016ء میں 187خواتین پر تیزاب پھینکا گیا،جن میں سے 19خواتین وفاقی دارالحکومت دہلی میں تیزاب گردی کا شکار ہوئیں۔30فیصدخواتین اپنے سسرال میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں جن میں سے بعض جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود مغربی اقوام پورے جوش وخروش سے بھارت کے سیاسی ، معاشی مفادات میں اس کی پشتی بانی کررہی ہیں۔ اگر ان جرائم کا دس فیصد بھی کسی مسلم ملک میں ہوتو مغربی حکومتیں اس کا ناطقہ بند کردیتیں۔

کیا اس سے بڑا ظلم ہوسکتاہے کہ  ایک عورت شادی کے بعد ایک خوبصورت زندگی کے خواب سجاتے ہوئے شوہر کے گھر جاتی ہے، چند برسوں بعد اسے کرائے پر کسی دوسرے شخص کے حوالے کردیاجاتاہے۔

اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ ’’ کرائے پر بیوی دستیاب ہے‘‘ کے بینر تلے میلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سی چیزیں کرائے پر ملتی ہیں، مکانات کرائے پر ملتے ہیں، گاڑیاں ملتی ہیں، اب تودنیا کے بعض حصوں میں رحمِ مادرکوکرائے پردینا بھی معمول بنتاجارہاہیلیکن کم ہی لوگ جانتے ہیںکہ بیویاں بھی کرائے پر ملتی ہیں۔ جی ہاں! ایسا صرف اور صرف ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہوتا ہے۔ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں امیر اور ’’اونچی‘‘ ذات کے لوگوں کو خواتین ’’بہ طور بیوی‘‘ کرائے پر دی جاتی ہیں، چاہے وہ ایک ماہ کے لئے کرائے پر دی جائیں یا ایک سال کے لئے۔

عورت کرائے پر دینے کے لیے شیوپوری جو مدھیہ پردیش کا ضلع ہے، میں باقاعدہ ایک معاہدہ طے کیا جاتا ہے، یہ معاہدہ 10 روپے سے100روپے تک کے اسٹامپ پیپر پر کیا جاتا ہے، جس میں عورت کو کرائے پر رکھنے کی شرائط طے کی جاتی ہیں۔

بعض مرد خواتین کا تبادلہ بھی کرلیتے ہیں، اس کے لئے یہاں باقاعدہ ایک بازار لگتا ہے جہاں لڑکیوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کیاجاتاہے، وہ گھنٹوں تک کھڑی رہتی ہیں، گاہک آتے ہیں، عورتوں کا ایسا جائزہ لیتے ہیں جیسے وہ  کوئی مویشی ہوں۔ جس مرد کو جو لڑکی پسند آتی ہے اس کا بھیڑ بکریوں کی طرح بھاؤ طے کیا جاتا ہے، نتیجتاً وہ لڑکی یا خاتون کرائے کی بیوی کے طور پر چلی جاتی ہے۔ معاہدہ کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ خاتون ایک بار پھر کرائے کے لئے دستیاب ہوتی ہے۔

بھارت میں یہ گھناؤنا کاروبار صرف مدھیہ پردیش تک ہی محدود نہیں  بلکہ بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں بھی لوگ بیویاں کرائے پر دیتے ہیں۔ یہاں  اعلیٰ ذات کی برادریوں میں خواتین کی کمی کے سبب جو لوگ شادی نہیں کرپاتے وہ کرائے کی بیویوں سے گزارہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہاں لڑکیوں کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے۔ بعض عورتیں گھریلو مسائل اور غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر ازخود ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔

مثلاً گجرات کے ایک گاؤں میں نچلی ذات کے ایک شخص ’’پراجپاتی‘‘ نے اپنی بیوی لکشمی کو ماہانہ کرایہ پر ایک زمیندار کو دے رکھا ہے، زمیندار بھولبھائی پیٹل کا تعلق شمالی گجرات کے ایک گاؤں سے ہے، لکشمی کی عمر32 سال ہے اور اس کے چار بچے ہیں۔

اس کا تعلق ریاست گجرات کے ضلع بھرچ کے گاؤں نیترنگ سے ہے،جہاں یہ دونوں میاں بیوی اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔غربت کی وجہ سے ان کے حالات بہت خراب تھے، اس دوران ان کے گھر گاؤں کی تین خواتین سمن وساوا، کیسری وساوا اور رنجن وساوا آئیں۔

انہوں نے دونوں میاں بیوی سے کہا کہ اگر لکشمی بھولبھائی پیٹل سے معاہدہ کے تحت شادی کر لے تو آپ لوگوں کی قسمت بدل جائے گی اور وہ ہر ماہ 8 ہزار روپے ادا کیا کرے گا، یہ پیش کش سن کر لکشمی کے شوہر کے باچھیں کھل اٹھیںکیونکہ اسے دس ماہانہ تنخواہوں کے برابر پیسے مل رہے تھے۔ آخر کار اس زمیندار بھولبھائی پیٹل کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدے کی رو سے لکشمی بھولبھائی پیٹل کے ساتھ نہ صرف شریک بستر رہے گی بلکہ گھر کی تمام ذمہ داری بہ طور بیوی سنبھالے گی، جبکہ اسے پیٹل خاندان کے سارے افراد کا خیال بھی رکھنا پڑے گا۔

لکشمی زمیندار کے ساتھ خوش رہنے لگی، کچھ عرصہ بعد وہی تینوں خواتین(جن کی وجہ سے وہ یہاں آئے تھی) لکشمی کے پاس گئیں اور اسے اپنے گاؤں نیترنگ آنے کے لیے مجبور کرنے لگیں لیکن لکشمی نے اپنے گاؤں واپس آنے سے انکار کردیا۔ تاہم کسی نہ کسی طرح سے لکشمی کو مجبور کرکے واپس گھر لایا گیا، وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی بلکہ وہ  بھولبھائی پیٹل کے ساتھ زندگی کو بہتر سمجھنے لگی تھی۔

اس نے واپس جانے کی متعدد بار کوشش بھی کی، اسے روکنے کے لیے پراجپاتی نے پولیس کی مدد بھی حاصل کی مگر ان کے آپس میں طے پائے گئے معاہدے کی وجہ سے پولیس نے پراجپاتی سے معذرت کر لی۔ نتیجتاً پراجپاتی اس بات پر راضی ہوگیا کہ اگر لکشمی واپس جانا چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے لیے بھولبھائی پیٹل کو ہمارے خاندان کے لیے ماہانہ پیسے بھیجنا ہوں گے۔ شاید اس کی ساری کوشش ہی بھولبھائی لکشمی سے نئی ڈیل کرنے سے متعلق تھی۔

جب اس سلسلے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نریش منیا سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہناتھاکہ ہم لوگ ایسے معاملات میں کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ان لوگوں کی باہمی رضا مندی سے طے پاتے ہیں۔ یہاں بہت سی خواتین اس گھناؤنے کاروبار میں شامل نہیں ہوناچاہتیں مگر ان کے خاوند پیسوں کی خاطر انہیں ایسا کرنے پر مجبور کردیتے ہیں،چنانچہ  وہ خواتین چار و ناچار کرایہ ادا کرنے والے کے ساتھ چلی جاتی ہیں تاکہ  اس سے حاصل ہونے والے پیسوں سے ان کے بچے بہتر پرورش پاسکیں۔

مدھیہ پردیش اور گجرات کے متعدد  دیہاتوں میں بیویاں کرائے پر دینے کا  گندا دھندہ اب نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس کا دائرہ وسیع ہورہاہے۔ یہاں کے بعض دیہاتوں میں عورت 500 روپے میں بیچنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ بھارت کے گاؤں نیترنگ، والیا، دیدیاپاڈا، سکبارا، راج پپلا اور جغادیہ میں رہنے والے قبائلی جن کا تعلق وساوا خاندان سے ہے، مختلف ایجنٹوں کے ذریعے بناس کنتھا، مہسنا، پٹن، راجکوٹ گاندھی نگر اور احمد آباد کے پیٹل اور ٹھاکر خاندانوں میں معاشی معاہدے کرکے خواتین بیاہتے ہیں۔

یہ ایجنٹ پیٹل خاندان سے 65 ہزار سے 70 ہزار روپے لیتے ہیں لیکن وساوا خاندان کوصرف15ہزار سے 20 ہزار روپے دیتے ہیں۔ یوں یہ ایجنٹ آسانی سے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ کما لیتے ہیں۔ دلہنیں فروخت کرنے کا یہ دھندا بین الاقوامی سطح تک پھیل رہاہے، اسی طرح کا ایک واقعہ گودھرا میں بھی پیش آیا جہاں بہاریہ خاندان کی ہیر بہاریہ کی شادی امریکہ میں مقیم پیٹل خاندان کے کلپیش پیٹل سے کردی گئی اس کے بدلے میں ایجنٹ نے ہیربہاریہ کے گھر والوں کو ایک لاکھ روپے دلائے۔

بیویاں کرائے پر دینے جیسے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ بعض خاندانوں میں خواتین کی کمی بتائی جاتی ہے جبکہ اس گندے کاروبارکی حوصلہ افزائی کرنے والے دلال غریب خاندانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سارے معاملات طے کراتے ہیں۔ بیویاں کرائے پر لینے اور خرید و فروخت کرنے میں زیادہ تر قبائلی خاندان ملوث پائے جاتے ہیں، غربت کی وجہ سے ان خاندانوں میں بے تحاشا مسائل ہوتے ہیں۔ یہاں کی پولیس کا یہ بھی کہناہے کہ آج تک ہمیں کسی نے کوئی شکایت نہیں کی اس لیے اس معاملے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

واضح رہے کہ بھارت میں ریاست گجرات غربت کے لحاظ سے14ویں جبکہ مدھیہ پردیش21 ویں نمبر پر ہے، ان ریاستوں کے غریب کسان بھی بڑے زمینداروں کے ظلم وستم کے شکار ہیں، زمین دار انھیں معاوضہ بھی انتہائی کم دیتے ہیں جس سے ان کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے، یہ لوگ معاشی طور پر اس قدر مسائل کا شکار ہوتے ہیں کہ  ان میں سے بعض  لوگ اپنی غیرت کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

بھارت کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں اورخواتین کی کمی کیوں ہے؟ دراصل سن1870 میں برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت لڑکیوں کی شادی کرنا ضروری ہوگا اور لڑکی والے دلہا والوں کو نقدی اور تحائف بھی دیں گے، یہ والدین پر ایک بڑا بوجھ تھا۔ پھر1961ء میں کہا گیا کہ لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ کما  سکتے ہیں اس لیے جہیز دینا غیر قانونی ہے لیکن نیاقانون جاری ہونے کے باوجود  پرانے قانون  کے بطن سے لڑکی والوں کے سر پر جہیز کے نام پر بھاری بھرکم نہ اتاراجاسکا، لوگوں نے قانون کو مکمل طور پرنظراندازکیا۔

1980 میں الٹراساؤنڈ کی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، جس سے بچوں کی جنس معلوم کرنا آسان ہوگیا۔ لوگ بچی کی صورت میں حمل ضائع کرا دیا کرتے تھے،1994ء میں ڈاکٹروں کو جنس نہ بتانے کا پابند کردیا گیا۔ ایک ڈاکٹر کے خلا ف مقدمہ بھی چلایا گیا لیکن حمل ضائع کرانے جیسے واقعات میں کمی واقع نہ ہوئی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے  بالخصوص اونچی ذات کے ٹھاکر اور پیٹل اپنی خواتین سے بیٹے کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 سالوں میں دس لاکھ سے زائد خواتین نے حمل ساقط کروائے۔ بھارت میں 1991ء کی مردم شماری کے مطابق ہزار مردوں کے مقابلے میں945 خواتین تھیں، 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق ایک ہزار کے مقابلے میں927 تھیں، خصوصاً پنجاب میں 1000 لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں صرف 790 تھیں، پنجاب اور ہریانہ  جیسی ریاستوں میں یہ تناسب ہزار کے مقابلے میں پانچ سو یا چھ سو تک جاپہنچا۔ اس بحران کے نتیجے میں بیویاں کرائے پر لینے اور دینے کا رجحان بڑھ رہاہے لیکن بھارتی حکومت اس معاملے میں بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

The post بھارت میں بیوی کرائے پر دستیاب appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا کچھ ایجاد ہونے کو ہے؟

$
0
0

اگر ہم ایک دو دہائی پیچھے نظر ڈالیں تو اس وقت آنے والی ٹیکنالوجی کے حجم اور سائز میں دورِحاضر کی نسبت زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین اب بھی اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ کسی طرح جدید آلات کو اتنا مختصر اور اور سہل بنا دیا جائے کہ انہیں کپڑوں کی طرح پہن کے روزمرہ کے کام سر انجام دیے جاسکیں۔

’’ویئرایبل‘‘ آلات کے شعبے میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ایسے بہت سے آلات آچکے ہیں اور مستقبل میں ایسے آؒلات کی مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے جو انسانوں کا طرززندگی یکسر تبدیل کردیں گے۔ اب اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی سہولت تقریباً دنیا کے ہر خطے میں کسی نہ کسی حالت میں موجود ہے۔ اگر آج سے نصف دہائی قبل دیکھا جائے تو انٹرنیٹ، موبائل کا تصور کرنا ہی ناممکن تھا لیکن آج ان کے بغیر کاروبار زندگی چلانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی دیکھ کر تو بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ جو آلات ہم دورحاضر میں استعمال کررہے ہیں وہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کے کھلونوں سے زیادہ اہم نہیں ہوں گے۔ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی جگہ لیپ ٹاپ نے لے لی، لیپ ٹاپ کی جگہ ہاتھ کی ہتھیلی میں سما جانے والے ٹیبلیٹ نے لے لی۔ کسی زمانے میں راستہ تلاش کرنے لیے ہم بھاری بھرکم نقشوں کے محتاج تھے، آج نہ صرف پوری دنیا ہماری انگلی کی نوک پر ہے بلکہ ہم گھر سے نکلتے وقت اپنے راستے میں چلنے والے ٹریفک کو براہ راست اپنے موبائل فون پر دیکھ سکتے ہیں۔

یہ موبائل فون آپ کے اخبار پڑھنے اور کتب بینی کا شوق پورا کرتا ہے تو دوسری جانب اسی چھوٹے سے موبائل پر دنیا بھر کے ٹیلی ویژن کی براہ راست نشریات اور فلم بینی بھی کی جاسکتی ہے۔ تاہم آنے والے سالوں میں ہم وہ سب دیکھ اور استعمال کرسکیں گے جو ابھی تک ہم فلموں میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں مستقبل میں ہونے والی کچھ اہم ایجادات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

٭جیٹ پیک

1953 میں کامک بک کے مصور ایلک شومبرگ نے ایک سائنسی جریدے سائنس فکشن پلس کے سرورق کے لیے ایک تصوراتی تصویر بنائی جس میں ایک آدمی بستے کی طرح کی ایک مشین کمر سے باندھ کر اور خلابازوں جیسا ہیلمیٹ پہن کر ہوا میں اُڑ رہا ہے۔

اس سرورق کے بعد اس تصور کو فلم ’دی راکیٹر‘، دی جیٹ سن‘ اور ’آئرن مین‘ میں پیش کیا گیا۔ انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنے لگے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے سائنس دانوں نے آخرکار تجرباتی مراحل پر جیٹ پیک تیار تو کرلیے، لیکن آزمائشی پرواز کے بعد اس میں کافی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

خلا نوردی کے مقاصد کے لیے تو  1984میں ہی جیٹ پیک استعمال ہورہے تھے، لیکن اب سائنس داں پانی پر چلنے کے لیے ہائیڈروجیٹ پیک کے نام سے ایک مشین بنائی ہے جس میں اسے اڑانے کے لیے گیس پروپیلنٹ کے بجائے پانی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ چند سال قبل جیٹ پیک ایوی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے امریکا کے مجسمۂ آزادی کے اطراف پرواز کی جس کے بعد عام لوگوں کو بھی ڈھائی لاکھ ڈالر کے عوض دس منٹ ہوا میں پرواز کرنے کے پیش کش کی گئی۔ تاہم تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک جیٹ پیک کی کمرشیل بنیادوں پر فروخت شروع نہیں کی گئی ہے۔

اس بابت ماہرین ہوا بازی کا کہنا ہے کہ اگر عام افراد تک ان جیٹ پیک کی رسائی ہوگئی تو پھر زمین کی طرح فضا میں بھی بے پروا ڈرائیور فضا میں حادثات کا سبب بنیں گے، کیوں کہ ہوا میں اتنی تیزرفتار کو قابو کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوگا اور اس سے دنیا بھر میں کمرشیل پرواز کرنے والے ہوائی جہازوں کی حفاظت کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ تاہم کچھ ادارے تجارتی بنیادوں پر جیٹ پیک کی تیاری میں سرگرم عمل ہیں اور امید ہے کہ نئے عشرے کے آغاز پر کم از کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنے ذاتی جیٹ پیک کی بدولت ہوا میں پرواز کر سکیں گے۔

٭اُڑنے والی کاریں

ہوا میں اڑنے والی کاروں کا تصور بہت پرانا ہے اور اس تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی میں بیک ٹو دی فیوچر، بلیڈ رنر، فیوچراما اور دی ففتھ ایلیمنٹ جیسی سائنس فکشن فلمیں بھی بنائی گئیں۔

آج سے تقریبا 115برس قبل دنیا کے پہلے ہوائی جہاز نے پرواز بھری، جس کے بعد ہوا بازی کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا گیا اور پھر اس میدان میں ہونے والی پیش رفت نے نت نئے جہاز متعارف کرائے لیکن اب بھی اپنا ذاتی جہاز خریدنا لوگوں کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ ذاتی کار کی طرح ہوا میں پرواز کرنے والی گاڑی کی ایجاد سائنس دانوں کی اگلی منزل تھی، تاکہ بڑے شہروں میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرتے ہوئے سفر کو پُرلطف بنایا جاسکے۔

1926میں کار ساز ادارے فورڈ کے بانی ہینری فورڈ نے ایک سیٹ پر مشتمل فلائنگ ہوائی جہاز ’اسکائی فلائیور‘ کی تجرباتی طور پر تیاری کی، تاہم دوسال بعد ہی یہ جہاز تجرباتی پرواز کے دوران حادثے کا شکار ہوگیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار پائلٹ جاں بحق ہوگیا، حادثے کے بعد اس پراجیکٹ کو بند کردیا گیا۔ اگرچہ فلائیور فلائنگ کار نہیں تھی لیکن ذرایع ابلاغ نے اسے فلائنگ کار کے طور پر پیش کیا، کہ جلد ہی اس اڑنے والی کار کی کمرشل پیداوار شروع ہوجائے گی اور ذاتی کار ی طرح اس کی دیکھ بھال کی جاسکے گی۔

اس منصوبے کے بند ہونے کے بارہ سال بعد 1940میں ہینری فورڈ نے ایک پیش گوئی کی،’میرے الفاظ یاد رکھ لیں: موٹرکار اور ہوائی جہاز کے اشتراک سے بننے والی ایک کار جلد ہی آنے والی ہے، آپ لوگ ابھی اس بات کو سن کر مسکرا رہے ہیں، لیکن مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔‘ ہینری کی اس پیش گوئی کے ٹھیک نو سال بعد ایک امریکی ایروناٹیکل انجینئر مولٹ ٹیلر نے ’ایرو کار‘ کے نام سے ایک گاڑی تیار کی۔

ایرو کار کی کام یاب تجرباتی پرواز کے بعد امریکا کے محکمۂ ہوابازی نے اس کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کی اجازت بھی دے دی، لیکن پڑے پیمانے پر ہونے والی تشہیر کے باوجود ٹیلر اس کار کی تجارتی بنیادوں پر پیداوار کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا۔ اسی کے عشرے میں ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی بوئنگ کے سابق انجینئرفریڈ بارکر نے فلائٹ انوویشنز ان کارپوریشن کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور ’اسکائی کمیوٹر‘‘ کے نام سے ایک پنکھے والے چھوٹے جہاز کی تیاری کا آغاز کیا۔

چودہ فٹ لمبے اس کارنما جہاز کا تجرباتی ماڈل 2008 میں 86 ہزار پاؤنڈ میں آن لائن خریدوفروخت کرنے والی کمپنی ای بے کو فروخت کردیا گیا۔ گذشتہ سال کینیڈا کی ایک کمپنی میکرو انڈسٹریز، ان کارپوریشن نے ’اسکائی رائیڈر ایکس ٹو آ‘ر کے نام سے ایک اڑنے والی کار کا تجرباتی ماڈؒل تیار کیا۔ یہ کمپنی 2019 میں اسکائی رائیڈر کی تجارتی بنیادوں پر فروخت کے لیے پُرعزم ہے۔ اڑنے والی کار کی تیاری میں پیش پیش ممالک میں امریکا، روس، کینیڈا اور چین شامل ہیں۔ امریکی ریاست میساچیوٹس میں قایم ہوائی جہاز تیر کرنے والی چینی کمپنی ٹیرا فیوجیا نے گذشتہ سال ہی دو نسشتوں پر مشتمل فلائنگ کار ’ٹرانزیشن‘ کی کام یاب پرواز کا اعلان کیا۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کرس جاران کا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے، ’ہم 2017 میں ہوابازی کے آلات، حفاظتی نظام سے لیس اس فلائنگ کار کی کام یاب تجرباتی پرواز کرچکے ہیں اور اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹرانزیشن کو 2019 کے وسط میں مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا، جب کہ مشہور ٹیکسی سروس اوبر بھی 2020 تک اڑنے والی کار کو مارکیٹ میں لانے کا اعلان کرچکی ہے۔ تاہم ہوا بازی کے ماہرین کے مطابق ٹرانزیشن ہو یا اسکائی رائیڈر فلائنگ کار میں سب سے اہم مسئلہ ان کے اڑان بھرنے اور زمین پر اترنے میں ہے کیوں کہ انہیں اس کام کے لیے جہاز کی طرح کافی جگہ درکار ہوگی، لیکن جیٹ پیک پر ہوا میں اڑنے کے ساتھ ٖفضا میں میں کار چلانے کے خواب کی تکمیل کچھ زیادہ دور نہیں۔

٭ اسمارٹ اور خودمختار کار

اپنے مالک کی حرکات و سکنات اور مزاج سے باخبر رہنے والی گاڑی کی تیاری میں مشہور کار ساز ادارہ بی ایم ڈبلیو اور آئی بی ایم ایک ساتھ سرگرم ہیں۔ اس بارے میں بی ایم ڈبلیو کے ایک ڈائریکٹر Klaus Fröhlich کا کہنا ہے،’ہم آٹو موبائل اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسی کار تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو اپنے مالک کی عادت اور مزاج سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی دن بھر کی مصروفیات کا بھی حساب رکھے گی۔

یہ کار نہ صرف آپ کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے گی بلکہ اپنی مصنوعی ذہانت کی بنا پر آپ کو مشورے بھی دینے کی اہل ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ کار مکمل طور پر خودمختار بھی ہوگی۔‘ برطانیہ بغیر ڈرائیور چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد 2019ء سے ہوگا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق بغیر ڈرائیور گاڑیوں کو تجرباتی طور پر دو سال کے سڑکوں پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ خودمختار گاڑیاں بنانے کی دوڑ میں جرمنی بھی آگے ہے، لیکن وہاں کا قانون کیٹیگری 5 (بغیر ڈرائیور) گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم رواں سال مارچ میں جرمن قانون میں ایک ترمیم کے بعد کیٹیگری 4 درجے کی کار چلانے کی مشروط اجازت دی گئی ہے، جس کے تحت کار خودکار طریقے سے ہی چلے گی لیکن اس میں ایک ڈرائیور کا ہونا ضروری ہے جو ناگہانی صورت حال میں کار کو سنبھال سکے، جب کہ امریکا میں بھی اسی نوعیت کی شرائط پر خود مختار گاڑیوں کو سڑک پر لانے کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم تجارتی بنیادوں پر ابھی تک کیٹیگری لیول 3تک کی گاڑیاں تیار کی گئی ہیں، جن میں ٹیسلا S8اورAudi کی A8 فروخت کے لیے پیش کردی گئی ہیں۔ جب کہ مرسیڈیز بینز کا تجرباتی ماڈل F015 اور Audi 7 سیلیکان ویلی میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ کاریں زیادہ سے زیادہ 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر حادثات محدود نظارے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مثال کے طور پر دھند جیسی صورت حال وغیرہ۔ ایسے میں تیزرفتاری سے سفر کرنے والے دوسری کاروں سے مناسب فاصلہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ تاہم مصنوعی ذہانت رکھنے والی روبوٹک گاڑیاں ایسی غلطی نہیں کرتیں۔ مستقبل میں کاریں آپس میں بھی معلومات کا تبادلہ کریں گی اور آگے والی کار پیچھے آنے والی کاروں کو ٹریفک جام وغیرہ کے بارے میں آگاہ کر دے گی، جب کہ گوگل اپنی تیار کردہ روبوٹک گاڑی کو کافی عرصے تک پہاڑی علاقوں میں بھی آزماتا رہا ہے۔

تاہم اب تک ایسی گاڑی میں ایک ڈرائیور ہر وقت موجود رہتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کنٹرول سنبھال سکے۔ ماہرین کے مطابق خودکار طریقے سے سفر کرنے والی کاریں انتہائی محفوظ ہیں، لیکن یہ بے صبرے لوگوں کے لیے نہیں ہیں۔ گوگل کی خودمختار کار ایک لیزر سینسر کی مدد سے اپنے ارد گرد کے ماحول کی تھری ڈی (سہہ جہتی) اسکیننگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ ان گاڑیوں میں دیگر سینسرز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جرمنی کے فرانھوفر انسٹی ٹیوٹ فار کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن (FKIE) کی تیار کردہ خودکار گاڑی ایک یو ایس بی کیمرہ، ایک چھوٹے راڈار اور گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) سینسرز کے ذریعے اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتی ہے۔ ان کاروں میں لگے سینسرز مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات چھوٹے چھوٹے نقاط یا پکسلز کی صورت میں جمع کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ پکسلز کی مدد سے بننے والی تصویر میں سے کون سے حصے کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کار کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔

٭برقی دھاگا

امریکا کے ممتاز تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف میساچیوٹس (ایم آئی ٹی) کی ایک تجربہ گاہ میں محقق جنگ تائی لی اور ان کی ٹیم ایسی ہی کچھ ایجادات پر کام کر رہے ہیں۔ لی ایک ایسی بیٹری بنانے کی تگ و دو میں ہیں جو مچھلی کی ڈور کی طرح پتلی اور طویل عرصے تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے تجربہ گاہ میں ایک خصوصی مشین نصب کر رکھی ہے، جس میں دھاگے کے طرح باریک نلکیوں میں سے ایل ای ڈیز کو گزارا جاتا ہے۔ اس بابت تائی جنگ کا کہنا ہے کہ اس دھاگے سے تیار ہونے والے لباس کو دفاعی اور صنعتی مقاصد میں استعمال کیا جاسکے گا، تاہم اس کی تجارتی بنیادوں پر فروخت میں ابھی دو سے تین سال کا عرصہ درکا ر ہوگا۔

٭ نینو روبوٹ

حال ہی میں سائنس دانوں نے ایسے روبوٹ ایجاد کیے ہیں جو کہ اپنا توازن قائم رکھنے چلنے ہموار اور غیرہموار راستوں سے گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روبوٹ ماحول کی نگہداشت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم امریکا، چین اور روس ایسے نینو روبوٹ کی تیاری میں مصروف ہیں جو جسامت میں تو ایک کیڑے جتنے ہو، لیکن اس سے ہونے والی تباہی ایک بڑے بم جتنی ہو۔

وزن میں ہلکے یہ نینو روبوٹ پوری عمارت کوایک وقت میں تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ امریکی سائنس داں کرزوائل کا کہنا ہے کہ اگر روبوٹ کی مصنوعی ذہانت پر موثر کنٹرول نہیں رکھا گیا تو پھر یہی روبوٹس انسان پر حاوی ہوجائیں گے جس کی واضح مثال حال ہی میں ہونے والا ایک مقابلہ ہے جس میں ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم کے ایک روبوٹ ’واٹسن‘ نے ذہانت کے مقابلے میں انسانوں کو شکست دے کر77 ہزار ڈالر کا انعام جیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں روبوٹس میں میں ایسی چپ نصب ہوگی جس پر انسانی دماغ کا برقی آپریٹنگ سسٹم اور اس کی یادداشت کو منتقل کرنا ممکن ہوجائے گا اور یہ عام روبوٹ نہیں بلکہ روبوٹس کی شکل میں موجود انسان ہوں گے۔

The post کیا کچھ ایجاد ہونے کو ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

مغل، انگریز اور ہندوستان

$
0
0

معروف ادیب تنقیدنگار رشید احمد صدیقی کا تاریخی جملہ ہے کہ مغلیہ دور نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں، تاج محل، اردواور غالب، میں ناچیز یہاں انگریزی عہد کے حوالے سے کہوں گا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں، سر سید احمد خان، ریلوے اور پارلیمانی جمہوریت۔ پہلے مغلیہ عہد کو لیتے ہیں۔

ظہیر الدین بابر ہندوستان کا پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1530 ء میں اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا،1539 ء میں شیر شاہ سوری نے اسے شکست دی اور وہ ایران فرار ہو گیا، 1555ء میں ہمایوں نے دوبارہ تحت حاصل کیا۔ 1556 ء میں بارہ سال کی عمر میں جلال الدین اکبر بادشاہ بنا، ہندوستان میں اشوک اعظم کے بعد دوسرا اعظم کہلا یا۔ اُس نے1605ء تک حکومت کی اور نہ صرف دفاعی طور پر ہندوستان کو مضبو ط کیا بلکہ خزانے کو لبا لب بھر دیا۔

اس وقت ہندوستان پوری دنیا کے ملکوں میں سب سے امیر ملک تھا۔ اکبر نے اتنا خزانہ جمع کیا کہ 1605 ء میں جب اس کا بیٹا سلیم الدین جہانگیر بادشاہ بنا اور1628 ء تک 23 سال عیاشی کی زندگی گزاری تو پھر بھی اتنا خزانہ تھا کہ اس کا بیٹا شاہجہاں جو انجینئر بادشاہ کہلایا وہ 1628 سے1659 ء یعنی 31 سال تک خرچ کرتا رہا۔ اس نے شالامار باغ ، مقبرہ جہانگیر اور دوسری عمارتوں کے علاوہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت تاج محل بنوائی۔

1659 ء میں اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ بنا اور 1707 ء تک چھیالیس سال حکو مت کی اور پھر دہلی میں مرکز ی اور برائے نام مغلیہ حکومت 1707 سے شاہ عالم اول سے1857 میں بہادر شاہ ظفر تک قائم رہی مگر 1757 ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ کو اس کے غدار وزیر، میر جعفر کی غداری سے لارڈ کلائیو نے پلاسی کے میدان میں شکست دے کر یہاں مستحکم انگریز حکومت قائم کردی۔

تاریخ یہاں انگریزوں کی فتح اور ہماری شکست کے مفہو م سے ہمیں آگاہ کرتی ہے لیکن افسوس یہ تاریخ ہمارے نصاب میں نہیں پڑھائی جاتی، ہمارے چوتھے گورنر جنرل اور 1956 ء کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلے صدر اسکندر مرزا تھے اور ان کے بیٹے ہمایوں مرزا جو عالمی سطح کے ایک بنک کے اعلیٰ عہدے سے چند برس قبل ریٹائرہوئے تو اس پر انہوں نے کتاب، فرام پلاسی ٹو پاکستان ،کے عنوان سے لکھی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے پڑ دادا میرجعفر تھے اور بد قسمتی سے مورخین نے ان کے کردار کو مسخ کر کے بیان کیا ہے ورنہ انہوں نے بنگال کے مسلمانوں کی بہت خدمت کی، بہر حال یہ ہمایوں مرزا کا اپنا موقف ہے مگر تاریخ، تاریخ ہے۔

اب جہاں تک تعلق ہندوستان کے پہلے انگریز فاتح، بنگال کے حکمران لارڈ کلائیو کا ہے تو یہ جنگِ پلاسی کا ہیرو تھا ۔ مگر تھوڑے عرصے بعد اس کے خلاف یہاں سے رپورٹیں لندن پہنچیں اور  اُسے کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر لندن بلوایا گیا اور مقدمہ چلا اور اُسے یہ معلوم ہو گیا کہ الزامات ثابت ہو جائیں گے ، جس کی سزا یہ ہو سکتی تھی کہ اس نے یہاں امرا سے جو بڑے بڑے تحائف لئے تھے وہ واپس کرنے پڑتے اور کچھ جرمانہ ہو تا، لیکن قوم کے سامنے شرمندگی کے احساس کی وجہ سے لارڈ کلائیونے خود کشی کر لی۔ یہ تھی وہ وجوہات جن کے سبب انگریز کامیاب ہوا۔ لیکن بات مغل بادشاہ شاہجہاں اورتاج محل کی ہو رہی تھی، تاج محل کو محبت کی نشانی اور دنیا کی خوبصورت عمارت کہا جاتا ہے، تاج محل دریا ئے جمنا کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس کا رقبہ 42 ایکڑ ہے اس کی تعمیر 1632 میں شروع ہوئی اور بنیادی طور

پر1643 میں مکمل ہوئی اور پھر اس پر مزید دس سال اس کی آرائش پر لگے اس طویل عرصے میں 20000 کاریگر،انجینئروں کے ایک بورڈ کی نگرانی میں کام کرتے رہے، اس زمانے میںاس کی تعمیر پر 3 کروڑ 20 لاکھ روپے لاگت آئی تھی جو آج کے 52 ارب 80 کروڑ بھارتی روپے اور 827 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ 1983ء میں یونیسکوUNESCO نے اسے عالمی اثاثہ قرار دیا۔ تاج محل شاہجہان نے اپنی سب سے پیاری بیوی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ ملکہ ممتاز محل سے شاہجہان کے 14 بچے پید ہوئے اور چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران 1639میں 39 برس کی عمر میں وہ انتقال کر گئی۔

اس خوبصورت عمارت کو سالانہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ تاج محل کو اب تک دنیا کی ہزاروں شخصیات دیکھ چکی ہیںاور بہت سوں نے اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم تاج محل کے عنوان سے ہے جس کا مشہور شعر ہے

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

اس کے مقابلہ میں شکیل بدایونی نے یہ شعر کہا

اک شہنشا ہ نے بنوا کے حسیں تا ج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی

کسی اور شاعر کا شعر ہے کہ

یہ الگ بات کہ شر مندہ ِ تعبیر نہ ہو

ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں

ایران کی سابق ملکہ ثریا نے جب یہ تاج محل دیکھا تو بے اختیار بول اٹھیں ’’اگر کوئی مجھ کو یہ کہے کہ تمارے مرنے کے بعد ایسا مقبرہ بنواؤں گا تو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ ملکہ برطانیہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس نے کہا ’’ کاش یہ دریائے ٹیمز کے کنارے ہوتا‘‘۔ ایک امریکی شخصیت نے تاج محل کو دیکھ کر کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ یہ بغیر امریکی امداد کے کیسے تعمیر ہوا؟ سابق سوویت یونین کے صدر خرو شف نے اسے دیکھ کر کہا کہ مجھے اس محل کی دیواروں سے خون کی بوآتی ہے۔

چین کے سابق وزیر اعظم چواین لائی نے کہا کہ اگر اس محل کی جگہ کوئی درس گاہ، یونیورسٹی ہوتی تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچتا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا’’ یہ شائد دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت ہے‘‘۔ تاج محل کے حوالے سے دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اسے دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے اس محل کو نہیں دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں۔ تاج محل دیکھنے کے اعتبار سے ایک حقیقی لطیفہ یوں ہے کہ کوئی صحافی تاج محل پر رپورٹ بنا رہا تھا اس نے یہاں آنے والے درجنوں افراد سے انٹرویو لیئے آخر واپسی میں تاج محل کے باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے فقیر سے پوچھا آپ یہاں کتنے عرصے سے بیٹھتے ہیں، بھکاری بولا کو ئی چالیس سال ہو گئے ہیں، تو صحافی نے دوسرا سوال کیا، تاج محل دیکھا ؟ گداگر بولا یہی تو ہے کسی دن دیکھ لیں گے۔

تاج محل برصغیر کی وہ تاریخی عمارت ہے جو ایک زندہ گواہ کی حیثیت سے بتا رہی ہے کہ ہندوستان مغلوں کے اس دور میں دنیا کا سب سے امیر اور خوشحال خطہ تھا لیکن اس دورکے مغل حکمران لاپرواہ اور بے شعور تھے، جس زمانے میں تاج محل کی تعمیر جاری تھی اس زمانے ہی میں برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں یونیورسٹیاں قائم ہو چکی تھیں۔

اسپین میں مسلمانوں کی شکست کے بعد یہاں ایک مسلمان بھی نہیں رہا تھا اور اسپین کا کو لمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا۔شاہجہان ہی کے زمانے میں جب دارالحکومت آگر ہ سے دہلی منتقل کیا گیا تو یہاں سے ہی دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی دوسری بڑی زبان اردو نے جنم لیا اور زبان کی پیدائش یوں ہوئی کہ یہاں جو فوجی چھاونی قائم کی گئی تھی اسے ترک زبان کے مطابق اردو کی نسبت دی گئی یعنی لشکر گاہ اور یہاں جو فوجی تھے۔

ان میں مغلوں،افغانوں، ترکوں، ایرانیوں کے علاوہ بلوچوں، سندھیوں ،پنجا بیوں، راجپو توں، بنگالیوں، تاملوں، مرہٹوں کے علاوہ ہندووں اور ہندوستانیوں کی کئی دیگر قومیں شامل تھیں جو آپس میں بات چیت کے لیے اپنی اپنی زبانوں کے الفاظ استعمال کرتی تھیں اور یوں اردو زبان وجود میں آئی اور اردو اس لیے کہلائی کہ ایک تو یہ دارالحکومت دہلی میں ہندوستان کی سب سے بڑی اور مرکزی چھاونی ’’لشکر گاہ‘‘ میں پیدا ہوئی تھی اور دوئم یہ چونکہ بہت سی دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل تھے اور اس وقت اس زبان میں شائد اس کا اپنا کوئی بھی لفظ شامل نہیں تھا۔

اس لیے یہ زبان اردو کہلائی لیکن اسی دور میں اردوکوریختہ، ہندوستانی اور بھاشا بھی کہا گیا، اس وقت ہندوستان میں سرکاری زبان فارسی تھی اس لیے اردو کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی ٹھہرا۔ یہ تاریخی اعتبار سے عرب ممالک، سنٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان کا ہندوستان کے ساتھ علمی ادبی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور لسانی ملاپ تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آپ کسی بڑے تھال میں پانی بھر کر اس کے چاروں اطراف سے مختلف رنگ ڈالیں تو یہ تمام رنگ جب آکر آپس میں ملیں تو ایک نیا رنگ بنائیں گے۔

جس میں ان تمام رنگوں کی جھلک واضح دکھائی دے گی چونکہ یہ ملاپ یہاں کی مقامی زبانوں اور خصوصاً بڑی زبانوں یعنی ہندی اور سنسکر ت سے بھی تھا اور دوسری جانب عربی اور فارسی جیسی بڑی زبانوں سے اسے ادبی اعتبار سے ادبی اصناف سمیت علمی اور فکری لحاظ سے بڑا اثاثہ ملا تھا اس لیے بہت ہی کم عرصے میں اور اس وقت جب مغلیہ حکومت زوال پذیر تھی دنیا کی اس بڑی زبان نے تیزی سے ترقی کی۔ اس زبان میں نظم کے نظیر اکبرآبادی جیسے شاعر کے علاوہ غزل کے شاعر میر درد، میر تقی میر ،آتش، مومن، ابراہیم ذوق، شیفتہ، اور پھر ہندوستان کا دماغ غالب پیدا ہوئے اور دوسری جانب مرثیہ میں انیس اور دبیر پیدا ہوئے۔ اردو جس کے مزاج میں اپنائیت اور جدت شامل ہے اس زبان نے انگریز کی آمد پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ انگریزی کے الفاظ بالکل انگریزی کی شکل میں یا اس میں مقامی لہجہ شامل کر کے قبول کئے۔

انگریز نے ہندوستان میں آنے کے بعد یہاں ضلعی سطح تک بہت محنت سے سماجی تحقیق کی اور ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اردو ہی کو سرکاری طور پر نافذ کریں کیو نکہ یہ ہندوستان جیسے وسیع ملک اور کثیر السان خطے کی سب سے بڑی زبان تھی تو ساتھ ساتھ اس کا پھیلاؤ سنٹرل ایشیا، ایران، افغانستان اور عرب دنیا تک تھا، اس لیے انگریزوں نے شروع میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دہلی کالج کھولے، فورٹ ولیم کالج میں تو انگریزی سے اردو میں اور اردو سے انگریزی تراجم کا کافی کام بھی ہوا، اسی کالج سے غالب کو بطور پروفیسر ملازمت کی پیشکش بھی ہو ئی تھی۔

شائد انگریز اگر ہندوستان سے علامتی مغل باد شاہت کے خاتمے کا اعلان نہ کرتے تو علامتی سماجی تہذیبی حسن اور شائستگی کے ساتھ تاج محل،اردو اور غالب کا عالمی سطح کا حسین امتزاج نہ ٹوٹتا اور آج کے The Clash of Civilizations and Remaking of World Order تہذیبوں کا تصادم لکھنے والا Samuel P Huntington تہذیبوں کی ہم آہنگی اور ان کے تسلسل کے عنوان سے لکھ رہا ہوتا ۔ مئی 1857 وہ دور ہے جب برصغیر کی متنوع اور ہم آہنگ تہذیب میں دراڑیں پڑ گئیں۔ جنگ آزادی جس کو انگریز نے غدر کا نام دیا تھا اس میں اگر چہ غالب زندہ تھا مگر اس کی اور اس کے ہندوستان کی زندگی اس کے خطوط کے آنسووں میں جھلکتی ہے۔

اگر چہ اس دور میں اردو نے زبردست ترقی کی، اس دور میں سر سید احمد خان، ان کے رفقائے کار میں شبلی، حالی، نذیر احمد،آزاد، نواب وقار الملک بھی شامل تھے تو دوسری طرف غالب اپنے عہد کے شعرا کے ساتھ ان سے وقت کے ذرا فاصلے پر داغ دہلوی تھے اور اس عہد میں اردو نے مغربی ادبی اصناف کو بھی اپنایا اور اتنے معیا ری انداز سے اپنایا کہ اردو ادب انگریزی ادب کے سامنے جرات سے کھڑا ہوگیا، اور یہیں سے ہندوستان کے ہندووں کی اردو سے دشمنی شروع ہو گئی۔

اب اردو ہندی تنازعہ شروع ہوا اور بعد کے دنوںمیں پنڈت موتی لال نہرو پھر ان کے فرزند جواہر لال نہرو اور موہن داس گاندھی سب ہی اردو کے خلاف ہوئے اور ہندی رسم الخط نے وہ تمام رشتے کاٹ ڈالے جو ہندوستان کو سنٹرل ایشیا، عرب ممالک، مشرق وسطیٰ، ایران اور افغانستان سے ملاتے تھے۔ آج سعودی عرب دبئی اور بہت سے ملکوں میں اردو عام بولی جاتی ہے لیکن وہاں کے عربی بولنے والوںکے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ جب پاکستانی اور بھارتی آپس میں بات چیت جس زبان میں کرتے ہیں جب اسی زبان کو الگ الگ رسم الخط میں لکھتے ہیں تو ایک دوسرے کی زبان کو پڑھ نہیں سکتے۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ جب بھارتی کسی عرب سے ہندی بولتا ہے تو عربی کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ بھارت نے آزادی کے بعد عربی، ایرانی، افغانی یا سنٹرل ایشیا سے تعلق رکھنے والی زبانوں کے مقابلے میں ہندی کے الفاظ جان بوجھ کر شامل کئے ہیں اس نکتے کو سمجھتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فلم میں بولی جانے والی اردو ہی کو بنیا د بنائے تاکہ اس انڈ سٹری کو نقصا ن ہو، لیکن ابھی اردو کے ایک بار پھر ابھر نے کے روشن امکانات ہیں اور وہ یہ ہیںکہ جب سی پیک منصوبے پر، پُرامن انداز میں بھارت گفتگو کو سمجھ جائے گا تو اردو کی ایک بار پھر ضروت ہوگی۔

سی پیک پاکستان سے ہوتا ہوا سینٹرل ایشیا، افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ تک جائے گا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی بعض لو گوں نے اردو زبان کی مخالفت کی حالانکہ یہ زبان ہندوستان کے کسی نسلی قومی گروپ یا کسی قوم کی زبان نہیں۔ شاہجہان کے دور کو ساڑھے تین سو سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہے اس سے پہلے ہندوستان کے کسی علاقے اور کسی قوم یا قومیت کی زبان اردو نہیں تھی جب کہ ہمارے ہاں بلوچی، پشتو اور سندھی زبانیں قومیتوں کی بنیاد پر تقریباً پانچ ہزار سال سے بلوچی، سندھی اور پشتو زبانوں کے طور پر موجود ہیں۔

بہر حال رشید احمد صدیقی کا یہ شاہکار جملہ کہ مغلیہ دور نے ہندوستان کو تاج محل،اردو اور غالب دیا بہت وسعت رکھتا ہے جس کی تشریح میں کتابیں کی کتابیں لکھی جاتی رہیںگی۔ انگریزوں کے عہد کے اعتبار سے میرا موقف ہے کہ انگر یز نے ہندوستان کو سر سید احمد خان ،ریلوے اور پارلیمانی نظام دیا۔ 1857ء میں انگریز کی حکومت دہلی سمیت برصغیر کے خاصے وسیع رقبے پر مشتمل تھی جہاں تک مغلیہ بادشاہت کا تعلق تھا تووہ عرصے سے برائے نام یا علامتی طور پر لال قلعہ میں موجود تھی اور مرہٹوں کے دور کے بعد عرصے سے انگریز سر کار کے وظیفے پر چل رہی تھی۔

انگر یز کی وجہ سے جنگ ہوئی اور اس کے بعد جب سر سید احمد خان نے محسوس کیا کہ اب انگریز اور انگریزی زبان سے مفاہمت کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ انگریزی زبان ہی جدید علوم اور اس کے نتیجے میں ہو نے والی صنعتی،اقتصادی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی کنجی تھی، یوں سرسید احمد خان اگرچہ ہمارے قومی رہنما ہیں مگر وہ یہاں انگریز ردعمل کے نتیجے میں ہی سامنے آئے، انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان میں زندگی کا ہر شعبہ روایتی انداز سے چل رہا تھا نہ یہاں جدید کارخانے تھے نہ مرکزی بنکنگ سسٹم تھا نہ اسٹاک ایکسچینج تھا نہ ہی بحری، بری اور بعد میں فضائی افواج اور ان کے مختلف اور مخصوس شعبوں کا کوئی تصور تھا۔

انگریز نے اگر چہ آتے ہی یہاں کے جاگیردارنہ نظام کو استعمال کیا مگر ساتھ ہی چونکہ وہ تجارتی مقاصد لے کر یہاں آیا تھا اس لیے جلد ہی اس نے کلکتہ، بمبئی،کراچی کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے شہروں کی بنیاد رکھی اور دہلی،لاہور،آگرہ اور ایسے اہم اور پرانے شہروںکو بھی صنعتی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہو ئے کشادہ کیا۔ 1825 میںجارج اسٹیفن نے برطانیہ میںاسٹاکن سے ڈرلنگٹن تک 38 میل ریلوے لائن پر 90 ٹن وزنی اسٹیم انجن سے21 ویگنوں اور ایک کوچ کی ٹرین چلانے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد 1830ء میں برطانیہ میں لیورپول سے مانچسٹر تک باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہو گئی تھی۔ امریکہ کی خانہ جنگی ہوئی تو امریکہ اور فرانس نے بھی جنگ میں ریلو ے کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔

1861 تک آج کے پاکستانی علاقے میں بھی کراچی تا کوٹری ٹرین چلادی گئی تھی اور اس کے چند سال بعد ریلو ے کا جال پو رے برصغیر میں بچھا دیا گیا۔ آج ذرا تصور کریں جب یہاں ریلوے نہیں تھی تو یہاں لوگ یا تو اونٹوں اور گھوڑوں کے ساتھ قافلوں میں سفر کرتے تھے یا دریاؤں سے کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے انگریزوں نے یہاں ریلوے کو متعارف کروا کر اس سماج میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ سفر کی اس سہو لت اور جدت سے ہندوستان کے لوگوں نے خود اپنی زندگی میں پورا ہندستان دیکھنے کا خواب پورا کیا۔ چین کی طرح ہندوستان بھی رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑ ا ملک رہا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں قدر مشترک یہ بھی رہی ہے کہ ان دونوں ملکوں سے کو ئی فاتح دنیا کے دوسرے ملکوں کو فتح کرنے نہیں نکلا ۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ ان دونوں ملکوں کو فاتحین نے فتح کیا اور دونوں ملکوں میں مغل یا منگول بھی فا تح ہو ئے اور ان کے بعد انگریز بھی یہاں حکمران ہو ئے لیکن چین ہندوستان سے یوں مختلف رہا کہ اس کے ماضی میں اس کے اپنے حکمرانوں نے علم و تحقیق میں کمال حاصل کیا اور دنیا کو کاغذ اور ریشم کی ایجاد اور دریافت کے علاوہ اعلیٰ بیورو کریسی سسٹم، بارود کا استعمال اور بہت کچھ دیا۔ برطانیہ کی وسیع رقبے پر پھیلی نو آبادیات میں غالباً چین ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے مسلح جدوجہد کی اور انقلاب کے بعد آزادی حاصل کی اور چونکہ اس کے ماضی کی تابناک روایت موجود تھی۔

جس میں ان کی مستقل مزاجی کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی مثال ان کے پاس دیوار چین کی صورت میں مو جود تھی اور پھر دوسری مثال موزے تنگ نے لانگ مارچ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردی، لیکن اس کے مقابلے میں ہندوستان میں بھی انگریز وں کے مقابلے میں مقامی آبادی کئی سو گنا زیادہ تھی۔ یہ برطانیہ سے لڑ کر آزادی حاصل نہ کر سکے۔ 1857 کی کوشش خود ہندوستان کی انگریزی فوج کے مقامی سپاہیوں نے اپنے ہم وطنوں پر گولیاں چلا کر ناکام بنا دی۔

اس کے بعد ہندوستان سے بھر تی ہو نے والی انگریزی فوج جس کے لیے انگریز کے وفادار جاگیردار اپنے علاقوں سے فوجی بھرتی کرواتے تھے یہ لاکھوں کی تعداد کی ہندوستانی فوج ہی افغانستان کے خلاف 1839 کی پہلی برٹش افغان جنگ 1878 کی دوسری برٹش افغان جنگ اور1919 کی تیسری برٹش افغان جنگ میں بھی افغانستان کے خلاف لڑتی رہی تو اس کے ساتھ برطانوی ہندوستان میں جہاں کہیں انگریز سرکار کے خلاف بغاوت ہوئی یا انگریز نے کسی ریاست کو فتح کیا اس میں ہندوستانی فوج کی تعداد انگریزوں کے مقابلے میں 95% تک رہی۔ اور یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان ہی سے سب سے بڑی تعداد میں انگریز کو مقامی فوج میسر تھی۔

یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی نہ صرف پورے ہندوستان میں بہت بڑی بڑی فوجی چھاؤنیاں، جنگی فضائی اڈے، اور ساحلوں پر بہترین نیوی افواج کا انتظام کر رکھا تھا اور ان میں سپاہیوں کی سطح پر سو فیصد مقامی ہندوستانی تھے۔ یہاں پر مقامی آبادی خصوصاً جاگیردارانہ نظام پر اسے اتنا اعتماد تھا کہ انگریز نے شہری علاقوں میں فوجی افسران کی تربیت کے اعلیٰ اور معیاری کالج قائم کئے تھے اور اسی طرح برطانیہ سے باہر ہندوستان ہی وہ ملک تھا جہاں انگریز نے بڑی بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی تھیں، اگر چہ انگر یز کو پورے ہندوستان میں وفادار جاگیرداروں پر پورا پورا اعتماد تھا مگر انگریز دنیا کی وہ قوم ہے جو اپنی پالیسیاں اور منصوبے آئندہ سو سال کے لیے  بناتے ہیں، وہ منصوبہ بندی جذباتیت سے ہٹ کر مکمل حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ امریکہ کی آزادی پر برطانیہ نے جارحیت اختیار نہیں کی بلکہ خوبصورت انداز میں مفاہمت کو اپنایا جس کا بے پناہ فائد ہ اسے آج تک حاصل ہے۔

برصغیر سے جب انگریز نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں مرد اور جوان انگریزوں کی کل تعداد ایک لاکھ تھی جب کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی ۔

مگر انگریز نے برصغیر میں آتے ہی ایک جانب اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور اقتدار کی مدت میں اضافہ کرنے کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور منصوبہ بند ی کر لی تھی، دوسری جانب جاگیر داوروں کا تعاون بلکہ پورری وفاداری ان کو حاصل تھی مگر تجارت کی غرض سے آنے والے انگریز نے صنعت و تجارت کے استحکام اور تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے یہاں سماجی سطح پر مقامی آبادی کو جہاں سرکاری ملازمتوں کے ذریعے انتظامی طور پر نچلے اور بعض جگہوں پر درمیانے درجے پر شامل کیا وہاں آغاز میں سیاسی طور پر اور بنیادی جمہوری انداز سے ہندوستان کے پنچایتی نظام کو بتدریج بلدیاتی نظام میں ڈھالنا شروع کیا۔

اس کے ابتدائی مراحل میںکچھ اراکین نامزد ہوا کرتے تھے اور کچھ کا انتخاب مقامی کمیونٹی کی سطح پر ہوتا تھا،اس کے بعد جب ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا رواج عام ہوا اور یہاں سے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے برطانیہ جا کر تعلیم حاصل کرنے لگے اور وہاں کی جمہوریت، آئین اور عدالتی نظام سے واقف ہو گئے تو یہاں بھی برطانوی طرز کا نظام نافذالعمل ہو گیا۔

جنگ عظیم اول سے قبل انگریز نے یہاں لیجسلیٹو کونسل قائم کردی تھی ا ور اس میں یہاں پر ایک خاص تناسب سے انگریز سرکار کی جانب سے اراکین نامزد کئے جاتے تھے اور باقی کا انتخاب ہوتا تھا۔ جنگ عظیم اول سے قبل قائداعظم سمیت بہت سے ایسے تھے جو آئین و قانون اور ا ن کے تحت جمہوری حکومت اور پارلیمانی امور کو بہت بہتر طور پر سمجھتے تھے، بلکہ انگریزوں سے زیادہ اچھے طریقے سے یوں سمجھتے تھے کہ وہ ہندوستان کے سماج کی پیداوار تھے اور اس سماج کو زیادہ اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے، پہلی جنگ ِ عظیم دنیا کی ایک بڑی تبد یلی تھی، اس میں روس جیسے دنیا کے سب سے وسیع رقبے کے ملک میںجنگ سے ایک سال پہلے اشتراکی انقلاب کے بعد زار شاہی بادشاہت ختم ہو گئی۔

ترکی کی سلطنت عثمانیہ بھی جنگ کے اختتام پر بکھر گئی اور اگرچہ برطانیہ کی نوآبادیا ت کا رقبہ دنیا کے کل رقبے کا 24% اور دنیا کی آبادی کا 25% ہو گیا مگر اب برطانیہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہا اور اس کی جگہ یہ پو زیشن امریکہ نے لے لی۔ یہاں ہندوستان میں اس جنگ سے دو سال قبل 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق لکھنو کے عنوان سے ایک معاہدہ ہوا جس میں کانگریس نے جداگانہ طریقہ انتخابات، مسلمانوں سے متعلق قانون سازی اور مسلمانوں کی آبادی کے تنا سب سے سرکاری ملا زمتوں کے کو ٹے جیسے امور طے کر لئے تھے، یہ معاہدہ میثاق لکھنو کہلایا تھا، یہ ایک ایسا فارمولہ تھا ۔

جس کے تحت ہندوستان میں مسلمان جو دوسری بڑی اکثریت تھے ان کو ان کے تناسب کے اعتبار سے حقوق مل جاتے تھے اور آنے والے دنوں میں جب انگریز نے ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کے تحت اختیارات مرحلہ وار مقامی طور پر دینے تھے یعنی پارلیمانی نظام کو بتدریج آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مقامی آبادی کو شامل کرکے اختیارات اور حکمرانی کا جمہوری حق یا حقوق دینے کے عملی مراحل شروع ہو رہے تھے تو کانگریس نے میثاق لکھنو سے بغیر کسی بات چیت یا دلائل کے انکار کردیا۔ 1928ء میں جب برصغیر میں مرحلہ وار پارلیمانی جمہوریت کو یہاں نافذکرنے کے لیے ایک باقائدہ قانون ’’آئین ،، کی تشکیل کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں کام شروع ہو چکا تھا اور انگریز پارلیمنٹیرین ہندوستان کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے اہم لیڈروں سے رابطے کر رہے تھے،کہ پنڈت موتی لال نہرو نے اپنی مشہور زمانہ نہرو رپورٹ جاری کردی، اس رپورٹ سے میثاق لکھنو میں تسلیم شدہ وہ تمام نکات جو ہندوستان کے مسلمانوں کے آئینی تحفظ کے تھے وہ یک جنبشِ قلم ختم ہو گئے۔

مسلمان ہندوستان کی اقلیت نہیں بلکہ اس بڑے ملک کی بڑی آبادی کی دوسری اکثریت تھے۔ قائداعظم جیسے زیرک سیاستدان نے1916 کے میثاق لکھنو میں مشترکہ ہندوستان کی آزادی کو جلد اور یقینی بنادیا تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو حقیقی اور فطری تقاضوں کے عین مطابق کردیا تھا۔ یہ مشترکہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کا میگناکارٹا تھا، اور اس میں مسلمانوں کے حقوق اور تشخص کی ضمانت کی بنیادی پر ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم تنازعات کوطے کرلیا گیا تھا، 1929ء میں قائد اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات میں ایک مرتبہ پھر ہندواکثریت کو یہ سمجھانے کی کو شش کی کہ برطانیہ اور ہندوستان میں سماجی، تہذیبی، تمدنی، مذہبی، تاریخی ، نسلی، لسانی، اعتبار سے بہت فرق ہے یہاں معاشرے کے ہر شعبے میں تنوع ہے۔

اس تنوع کو معاشرتی حسن دینے کے لیے ضروری ہے تضاد کی کاٹ اور تصادم کے امکانات کو رابطے اور اتحاد کی مفاہمت دے دی جائے۔ قائد اعظم جہاں مغربی جمہوریت،آئین اور قانون کی گہرائیوں سے واقف تھے وہاں بطور ایک ماہر سوشیالوجسٹ یعنی ماہر سماجی علوم ہندوستا ن کے سماجی مسائل کو پارلیمانی جمہوریت سے متوازن اور ہم آہنگ کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کا فکری اور عملی ہنر جانتے تھے۔

برطانیہ میں 95% ایک قوم، ایک نسل اور مذہب اور فرقہ کے لوگ ہیں اس لیے وہاں اکثریت کی بنیاد پر تمام مسائل پر قانون سازی بہترین جمہوری عمل ہے لیکن وہاں جمہوریت میں اتنی بالغ النظری ہے کہ وہ اقلیتی تارکین وطن کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، ہندوستان اُس وقت چالیس کروڑ آبادی کا بڑا ملک تھا جس میں تقریبا37%  یعنی دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہے لیکن یہاں قانونی اور آئینی طور پر پہلی بڑی اکثریت ہندو برطانیہ کی جیسی جمہوریت سے برسراقتدار آجاتی ہے تو مستقبل میں تسلسل کے ساتھ اس کے ہو لناک نتائج سامنے آئیں گے۔

اور یہ قائد اعظم کے چودہ نکات کی بڑی حد تک کامیابی تھی کہ جب 1935 کا قانونِ ہند آیا تو اس میں خیبر پختونخوا میں سیاسی اصلاحات اور سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے صوبہ بنادیا گیا اور جداگانہ طریقہ انتخاب کو بھی رائج کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون یا آئین کے تحت جب پہلی مرتبہ ہندوستان کے گیا رہ صوبوں میں انتخابات کروائے گئے تو مسلم لیگ کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا،انتخابات میں کامیابی پر کانگریس نے 9 صوبوں میں خود حکومت بنائی اور 2 صوبوں مسلم کی بجائے وہاں کی مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتیں تشکیل دی گئیں۔

یہ طویل ترین مدت کے بعد ہندوستان میں ہندو حکومت کا تجربہ تھا اور اگر چہ اس کی بنیاد پارلیمانی جمہوریت تھی مگر کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایسے اینٹی مسلم اقدامات کئے کہ جن مسلمانوں کی اکثریت نے ان کو ووٹ دیئے تھے اب ان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور جب 1937 کے انتخابات کے بعد بننے والی کانگریس کی وزارتوں نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر انگریز وں پر دباؤ ڈالا کہ انگریز کانگریس سے یہ وعدہ کرے کہ جنگ کے بعد ہندوستان کو وہ کانگریس کے حوالے کر کے رخصت ہو جائے گا۔

ایسا نہ کرنے پر کانگریس نے دباؤ کی شدت میں اضافہ کرتے ہو ئے صوبائی حکومتوں سے استعفے دے دیئے، پارلیمانی جمہوریت کا یہ تجربہ ہندوستان میں اگرچہ صوبائی سطح کا تھا لیکن اس سے مسلمانوں نے بہت کچھ سیکھا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1945-46 کے موسم سرما میںاسی قانون ہند 1935 کے تحت مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات ہوئے اور اس میںجدا گانہ طریقہ انتخاب کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% اور صوبوں میں مسلم نشستوں پر 90% کامیابی حاصل کی اور پھر انہی نتائج کی بنیادوں پر پاکستان قائم ہوا۔

یوں جنگِ آزادی 1857سے یوم آزادی 14 اگست1947 تک 90 سال کا سفر اور اب اگست 2018 تک آزادی کی منزل کے حصول کے بعد استحکام کی جانب ہم 71 برس سے گامزن ہیں، جہاں تک تعلق مغلیہ عہد کے تاج محل، غالب اور اردو کا ہے تو تاج محل ایک عالمی شہرت کی خوبصورت عمارت ہے جو اپنی بے پناہ خوبصورتی کے ساتھ اُس وقت کے مغلیہ عہد کے سماجی سیاسی شعور کا رونا بھی روتی دکھائی دیتی ہے اور ماضی کے ہندو ستان کی خو شحالی کی عکاس بھی ہے۔ غالب ہندوستان کا دماغ ہے، اردو اور فارسی شاعری کے ذریعے آج بھی دنیا بھر میں اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے، اب جہاں تک اردو کا ہے تو اس کو بارہا قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار زخمی ہوئی اور کراہتی رہی ہے ۔ بد قسمتی سے آج جب میڈیا نے ملک میں آزادی کے ساتھ خاصی ترقی کی ہے تو اس کے زخم زیادہ تا زہ اور گہرے نظر آتے ہیں۔

اب انگریزوں کے عہد کی طرف آتے ہیں جس نے ہندوستان کو ریلوے، سرسید احمد خان اور جمہوری پارلیمانی نظام دیا، پہلے ریلوے کی جانب آتے ہیں تو 1961-62 میں جب ہمارے ہاں ریلوے کو سو سال مکمل ہو چکے تھے تو ہم نے لاہور سے خانیوال تک الیکٹرک ٹرینیں چلا دی تھیں اور اس وقت ایران میں زاہدان تک پاکستان ریلوے تھی اور اندرون ایران ریلو ے نیٹ ورک نہیں تھا۔

آج پاکستا ن کی سرحد سے ترکی کی سرحد تک بہترین معیار کا ایرانی ریلوے نیٹ ورک موجود ہے ، افغانستان جہاں ریلوے کا کوئی تصور نہیں تھا اب اس ملک میں تقریبا 2500 کلومیٹر معیاری ریلوے ٹریک امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال کے باوجود تعمیر ہو چکا ہے اور اس پر ریلوے سروس بھی شروع ہو چکی ہے، بھارت میں اس وقت دنیا کا چوتھا بڑا نیٹ ورک مو جود ہے یہاں ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی 115000 کلومیٹر ہے، آسٹریلیا کی پوری آبادی سے زیادہ یعنی روزانہ 2 کروڑ 30 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں، 7172 اسٹیشن ہیں، 12617 ٹرینیں چلتی ہیں۔

7421 روٹ ہیں، 30 ملین ٹن سامان یو میہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا یا جاتا ہے، گذشتہ 62 برسوں میں بھارت نے اپنے ہاں ریلوے لائنوں کی لمبائی میں 11004 کلو میٹر کا اضافہ کیا ہے، یہاں مختصراً عرض ہے کہ ہمارے ہاں 1962 کے مقابلے میں آج ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی، ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہو ئی ہے اور اسی طرح سروس کا معیار بھی پست ہوا ہے۔

سر سید احمد خان کی علمی تعلیمی تحریک کے اعتبار سے دیکھیں جو انگریز اور ہندو اتحاد کے ردعمل کے نتیجے میں سامنے آئی تھی اور قیام پاکستان کے فورا بعد ملک میں تعلیمی ترقی کی جانب تو جہ بھی دی گئی تھی، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک اور ایٹمی قوت ہونے کے اعتبار سے دنیا کی ساتویں طاقت ہے، دنیا میں معیار کے اعتبار سے 500 یونیورسٹیو ں میں اس کی کوئی ایک یو نیورسٹی شامل نہیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد کسی پاکستانی نے اعلیٰ تعلیم وتحقیق میں کو ئی نوبل انعام حاصل نہیں کیا، ملک کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 8کروڑ 30 لاکھ افراد ان پڑھ ہیں اور تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے نصاب میں تو شامل ہیں مگر ہماری قومی تعلیمی پالیسیوں اور منصوبہ بندیوں میں سر سید احمد خان کی علمی و تعلیمی تحریک کی روح نہیں۔ جہاں تک تعلق پارلیمانی جمہوریت کا ہے تو قائد اعظم نے جس انداز سے اس جمہوریت کو برصغیر کی سماجی ساخت سے مطابقت دے کر نہایت کامیاب فارمولہ دینے کر کوشش کی تھی کہ ہندوستان متحد رہے، جس کو کانگریس نے منفی سیاست سے مسترد کردیا تھا، اس کے بعد 18 جولائی 1947 کے قانون آزادیِ ہند کی ان شقوں جن کو پنڈت جواہر لال نہرو نے نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ لارڈ ماوئنٹ بیٹن ہی کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنایا، ان شقوں کو 1935 کے قانون میں شامل کیا گیا تھا۔

ان شقوں میں آزادی کے بعد پہلے سال دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کی حیثیت نوآبادیات کی تھی اور ضرورت کے لیے اگرکوئی ترمیم کرنی ہوئی تو وہ گورنر جنرل ہی کرے گا۔ دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کو ترمیم کا حق نہیں تھا۔ ہمارے ہاں اگرچہ ہمارے گورنرجنرل قائد اعظم اور لیاقت علی وزیر اعظم تھے مگر ہمارا آرمی چیف انگریز تھا اور اس کا نتیجہ کشمیر جنگ پر انکاراور فوجی اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر مفاہمت جیسے اقدامات تھے، پھر قائد اعظم آزادی کے بعد ایک سال انتیس دن زندہ رہے اس کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت تک بھی ملک میں جمہوریت کی بقا رہی، اس کے بعد جب جمہوریت کی بحالی ہوئی تو 1971 میں ملک دو لخت ہو گیا اور بد قسمتی سے پارلیمانی جمہوریت ہمارے ہاںمستحکم نہ ہو سکی۔

اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں سماجی شعور کی کمی متوسط طبقے کا حجم یا سائز کا تناسب کم ہونا ہے، دیہی آبادی کا زیادہ تنا سب اور جاگیردارانہ نظام ، شہروں میںسرمایہ دارانہ گرفت کا مضبوط ہونا، جمہوری تسلسل کا جاری نہ رہنا اور وقفے وقفے سے مارشل لاء یا فوجی حکومتوں کا آتے رہنا ہے، اور آج جب 25 جولائی2018 کے عام انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی ہے اور عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تو مغلیہ عہد کا تاج محل تو ہمارے پاس نہیں ہے مگر عبرت اور سبق سیکھنے کے لیے سیاست سے وابستہ امرا و اشرافیہ کی بہت سی عمارتیں اور نقصان کے حامل کئی منصوبے موجود ہیں، اردو جو ہمیں جو ڑنے کی لسانی،تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی قوت رکھتی ہےْ

اب باوجود سپریم کورٹ کے حکم نامے کے انتظامیہ کی جانب سے اب تک اپنا حق حاصل کرنے سے قاصر ہے،اور یہ سب کچھ ہم اس وقت حاصل کرسکتے ہیں جب پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھنے والے مضبوط اور ملک وقوم کے خیر خواہ ہوں۔

The post مغل، انگریز اور ہندوستان appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

ماہ نامہ وادیٔ ادب (نعت نمبر)گوجرانوالہ
مدیر: امجد شریف
صفحات: 128، ہدیہ: 200 روپے

وادیٔ ادب کی اس خصوصی اشاعت میں اردو کے کئی نام وَر اساتذہ اور مشاہیر کے ہدیۂ نعت سجائے گئے ہیں، جن میں الطاف حسین حالی، حسرت موہانی، عبدالمجید سالک، مولانا ظفر علی خان، رئیس امروہی، صوفی تبسم، ماہر القادری اور واصف علی واصف وغیرہ کے نذرانے جمع کیے گئے ہیں۔ اس میں ہمیں علامہ اقبال کی نعت ’لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب‘ اور اقبال عظیم کی ’مدینے کا سفر اور میں نم دیدہ نم دیدہ‘ بھی جلوہ افروز دکھائی دیتی ہے۔ عبدالستار خان نیازی کی مشہور نعت ’محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں‘ بھی عقیدت مندوں کو مستفید کرتی ہے۔

انہی اوراق پر حامد لکھنوی کی مشہور نعت ’حقیقت میں وہ لطف زندگی پایا نہیں کرتے، جو یاد مصطفیٰ سے دل کو بہلایا نہیں کرتے‘، ’حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے، سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے (صبیح رحمانی) ’کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے‘ (خالد محمود خالد) اور ’میرے دل میں ہے یاد محمدؐ میرے ہونٹوں پہ ذکر مدینہ‘ (سکندر لکھنوی) وغیرہ جیسی خوب صورت نعتیں بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نام وَر خطیب اور شاعر بہادر یار جنگ کا اظہار عقیدت یوں شامل ہے ؎

تیرے بیاں سے کھل گئیں تیرے عمل سے حل ہوئیں

منطقیوں کی الجھنیں، فلسفیوں کی مشکلات

اکبر الہ آبادی کا اظہار ان الفاظ میں ہے ’یہ جلوہ حق سبحان اللہ، یہ نور ہدایت کیا کہنا، جبریل بھی ہیں شیدا اُن کے یہ شان نبوت کیا کہنا‘ ساغرصدیقی کا نذرانہ بہ عنوان ’جس طرف چشم محمد کے اشارے ہو گئے، جتنے ذرے سامنے آئے ستارے ہوگئے‘ بھی ان صفحات کا حصہ ہے۔

اس کتاب میں ایک طرف جہاں بہت سی یادیں تازہ ہوتی ہیں وہیں بہت سے منفرد اظہار عقیدت بھی توجہ کھینچ لیتے ہیں، جن میں تخلیقیت کے ساتھ رحمت الاالعالمین سے محبت دوچند ہو جاتی ہے، جیسے خورشید نقوی کا یہ اظہار دیکھیے کہ ’’شان ان کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے، نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے‘‘ پھر سید فیضی نے کس قدر سادہ انداز میں کہا ہے کہ ’اک مصطفیٰ کا نام ہے نام خدا کے بعد، پھر جس قدر بھی نام ہیں سب مصطفیٰ کے بعد‘‘ اس اہم پرچے کو مجلد شایع کر کے گویا اس یادگار شمارے کو محفوظ رکھنے والوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے۔

ڈئیوس علی اور دیا
مصنف: نعیم بیگ
صفحات: 240، قیمت: 800 روپے
ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور

یوں تو اس ناول کے مصنف بینکاری اور انجینئرنگ سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جز وقتی لکھاری کے طور پر وہ مختلف اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھتے رہے ہیں۔ اس سے قبل انگریزی میں دو ناول ’ٹرپنگ سول‘ اور ’کوگن پلان‘ بھی تصنیف کر چکے، اردو میں یہ ان کا پہلا ناول ہے، البتہ دو افسانوی مجموعے ’یو۔ ڈیم۔ سالا‘ اور ’پیچھا کرتی آوازیں‘ شایع ہو چکے ہیں۔

اس ناول کا انتساب پڑھیے: ’آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے ان کروڑوں پاکستانیوں کے نام، جنہیں اس ملک میں نئی زنجیریں عطا ہوئیں!‘‘ یہ انتساب ہی اتنا چبھتا ہے کہ قاری کو پتا چل جاتا ہے کہ آگے کیا آنے والا ہے، بلکہ اگر اِسے ہی ناول کا مرکزی خیال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ جا بہ جا مکالموں کی کاٹ اور مفہوم کی چبھن اِسی سمت اشارہ کرتی ہے۔ اس ناول میں آج کل کی اردو میں رواج پا جانے والے غلط لفظ ’ڈھکن‘ کو درست یعنی ’ڈھکنا‘ لکھنا ناول نگار کی زبان پر توجہ اور گہری نظر کی خبر بھی دیتا ہے۔ کہنے کو یہ 1970 اور 1980ء کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، لیکن اس میں بہت گہرائی کے ساتھ تاریخی پس منظر کو بھی ٹٹولا گیا ہے۔

18 ابواب میں تقسیم کیے گئے ناول کے مرکزی کردار ایک ہفت روزہ کے صحافی ہیں، جن کے مکالمے فقط مکالمے نہیں، تاریخ، سماجیات اور سیاسیات کا گہرا شعور بھی لیے ہوئے ہیں۔ مظہر چوہدری اسے رومان، سماجی المیوں اور سیاست سے جڑا ہوا شاہ کار ناول قرار دیتے ہیں۔ ناول نگار کی ترقی پسند سوچ کا اظہار بھی ملتا ہے۔

افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی
مصنف: شہنازخانم عابدی
صفحات: 143، قیمت: 250 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی

اس کتاب میں شامل مختصر افسانے جہاں ولایت میں بسنے والے دیسیوں کا دکھڑا کہتے ہیں، وہی دُکھڑے جو یہاں سے جانے والوں کے لیے تو باعث رنج ہیں، لیکن شاید وہاں کی تیز زندگی میں معمول کا حصہ ہیں۔ کبھی یہ افسانے دیسی سماج کے المیوں کا اظہار بھی بنتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ادیبہ کے افسانوں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے، جس میں ایک طرف جہاں ’ہونے والا ہے‘ کے بہ جائے ’ہونے جا رہا ہے‘ جیسی زبان زد عام ہونے والی انگریزی تراکیب دکھائی دیتی ہیں، وہیں دنیا و مافیہا کو دنیا و ’مافیا‘ پڑھنا بہت کَھلتا ہے۔

اس تصنیف سے قبل مصنفہ کا افسانوں کا پہلا انتخاب ’خواب کا رشتہ‘ شایع ہو چکا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے مختلف ادبی جرائد میں شایع ہونے والے افسانوں کا دوسرا چناؤ ہے، جس سے متعلق مصنفہ کا خیال ہے ’’میں ذاتی طور پر اپنی کتاب کے ہر افسانے سے مطمئن ہوں۔‘‘ کتاب کے پچھلے سرورق پر ممتاز ادیب اسد محمد خان رقم طراز ہیں ’’شہناز خانم عابدی نے اپنے افسانوں کو ان میں بیان کیے گئے ماجرے کو اور پیش کیے گئے کرداروں کو بیان کرنے، سنانے اور دکھانے کے لیے کسی نظریے، آرائش یا بناوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے۔

وہ سیدھی اور صاف کہانی لکھتی ہیں۔‘‘ حسن منظر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شہناز خانم کی تخلیق کی دنیا وسیع ہے، وہ اس میں رہی ہیں۔ اس میں بسنے والوں کو جانتی ہیں، ان کے ساتھ ہنس سکتی ہیں، رہ سکتی ہیں اور بن پڑے تو۔۔۔ کردار کے روپ میں۔۔۔ مداخلت بھی کر سکتی ہیں۔ یہ آخری بات انہیں واقعات کا محض کیمرا بن جانے سے بچا لیتی ہے۔‘‘

یہی دسمبر کا مہینہ تھا
مصنف: انور فرہاد
صفحات: 208، قیمت: 450 روپے
ناشر: میڈیا گرافکس، نارتھ کراچی

کہانیوں کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق قارئین کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اور پیدا ہوتے ہیں اور تجسس جنم لیتا ہے۔ بالخصوص جب کہانی تاریخی المیوں کا احاطہ کرتی ہوئی ہو تو اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے ادب وتاریخ کا گہرا درک رکھنے والے نوجوان صحافی رانا محمد آصف کا یہ کہنا کس قدر حقیقی ہے کہ ’کوئی بھی کہانی پڑھ لینے کے بعد ایک کہانی وہ ہوتی ہے جو قاری کے اندر شروع ہوتی ہے۔‘ ہمارے تاریخی حادثات وواقعات کو بہت سے ادیبوں نے موضوع بنایا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تقسیم ہند کے بعد دوسرا بڑا واقعہ 1971ء کا بٹوارا ہے۔۔۔ دونوں مرتبہ خلق خدا کو تقسیم، خوں ریزی اور ہجرت درپیش ہوئی۔۔۔ زیرتبصرہ کتاب بھی موخر الذکر وقوعے کے گرد گھومتی ہوئی 10 کہانیوں پر مشتمل ہے۔

کتاب کی ابتدا میں مصنف نے اِن کہانیوں کے حقائق کے حوالے سے ضروری اظہارخیال کیا ہے کہ کس کہانی کا ماخذ کون سے حقائق ہیں، کہاں مکالموں کے لیے کون سی دستاویز سے استفادہ کیا گیا ہے اور کس کہانی کا پس منظر کس قدر حقیقی اور کس قدر افسانوی ہے۔ یہ امر شاید انہوں نے اس لیے بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ اُن کا ماننا ہے کہ ’ایک ادیب، کسی مورخ سے زیادہ سچ لکھتا ہے۔‘ اے خیام اس کتاب کے حوالے سے رقم طراز ہیں ’’انہوں نے ڈھاکا کو ڈوبتے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کے غروب کے مناظر کو بہت نزدیک سے دیکھا، سماجی حالات اور معاشرے پر اس کے اثرات کو دل اور دماغ سے محسوس کیا اور اپنے انداز سے اپنے احساسات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔‘‘

اب کے ساون گھر آجا
مصنف: سبوحہ خان
صفحات: 157، قیمت: 200 روپے
ناشر: اشارات پبلی کیشنز

یہ کتاب افسانے، طنزو مزاح اور ہلکے پھلکے مضامین کا مجموعہ ہے۔ پہلے حصے میں پانچ افسانے، دوسرے حصے ’فن اور فن کار میں تین مضامین، جب کہ ’مسکرا کے دیکھتے ہیں‘ میں 14 مضامین شامل ہیں۔ کتاب میں شامل افسانوں کی بابت وہ لکھتی ہیں کہ ان سچی کہانیوں میں میرا حصہ صرف اتنا ہے جتنا کسی بات کو، کسی واقعے یا حقیقت کو فن کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کسی فن کار کا ہوسکتا ہے۔

انہوں نے 10 سال کی عمر سے قلم سنبھالا ہوا ہے، پہلی کتاب 1995ء میں ’دلی سے ڈیفنس‘ آئی، اس کے بعد ’اپنا دیس اپنے لوگ‘ ، ’انڈیا انڈیا‘ اور ’محور کی تلاش‘ شامل ہیں۔

اس کتاب میں شامل مضامین میں سادہ انداز بیانی کالموں جیسی روانی پیدا کرتی ہے، جو کہیں بھی تحریر کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔ ممتاز دانش وَر مظہر جمیل کا یہ اظہار خیال فلیپ کا حصہ ہے ’’سبوحہ خان کا انداز تحریر سادہ اور پُر اثر ہے، جو قاری کی توجہ اور انہماک کو کم نہیں ہونے دیتا۔ یہ ایک اچھی ، دل چسپ اور معنی خیز کتاب ہے جو یقیناً قارئین کے ایک بڑے حلقے کی داد وصول کرے گی۔‘‘ حارث خلیق کا خیال ہے کہ ’’جس تہذیبی رچاؤ، نفاستِ طبع، کشادگیِ قلب اور طنز لطیف سے ان کی شخصیت مرصع ہے، وہی تمام خواص ان کی تحریر میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ نام وِر قلم کار حسینہ معین کہتی ہیں کہ ’’مختلف اصناف ادب میں بہ یک وقت اظہار کی صلاحیت کا جوہر کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ سبوحہ خان کے ہاں یہ جوہر نظر آتا ہے۔‘‘

آگ کا دریاـ ایک مطالعہ
(ناول کی رفیق مطالعہ کتاب)
مصنف: عبداللہ جاوید
صفحات: 283، قیمت: 300 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تصنیف کا موضوع سخن اردو ادب کا عظیم ترین ناول ’آگ کا دریا‘ ہے۔ بقول مصنف انہوں نے قارئین کے ساتھ اس ناول کی خواندگی کی کوشش کی ہے۔۔۔ اس کتاب میں اردو کے شاہ کار ناول کی تیکنیک، اس کی فکری اٹھان اور مذہبی اثر سے لے کر اس کے کرداروں تک کا علاحدہ علاحدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں ناول کے 11 اہم کرداروں گوتم نیلمبر، ہری شنکر، چمپاوتی، ابوالمنصور کمال الدین، سر ل ہارورڈ ایشلے، عامر رضا، تہمینہ رضا، کمال رضا، طلعت رضا، نرملا اور سرل ڈیرک ایڈون ایشلے پر باقاعدہ ابواب باندھے گئے ہیں۔ اس میں ہر تجزیے کے ساتھ باقاعدہ حوالے کے لیے متن بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ گروہ نگاری کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ نقادوں کے رویے اور اس ناول کے حوالے سے پائے جانے والے تاثرات غلط فہمیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، اس حوالے سے قرۃ العین حیدر پر لکھی گئی نگارشات اور دیگر مضامین کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کو اردو کے کسی ناول کی پہلی رفیقِ مطالعہ کتاب کہا گیا ہے۔ اس سے قبل عبداللہ جاوید کے تین شعری مجموعے ’موج صد رنگ‘، ’حصار امکاں‘، ’خواب آسماں شایع ہو چکے ہیں۔ ’بھاگتے لمحے‘ افسانوں اور ’مت سہل ہمیں جانو‘ مطالعۂ میر پر مشتمل ہے۔ سات دہائیوں سے لکھنے لکھانے والے مصنف گویا شعر وادب کے بعد اب تنقید کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔

تفہیم وتحسین
(تحقیقی وتنقیدی مطالعات)
مصنف: کلیم احسان بٹ
صفحات: 208، قیمت: 250 روپے
ناشر: روزن پبلی کیشنز، گجرات

اس کتاب میں مختلف رسائل وجرائد میں اشاعت پذیر ہونے والے تنقیدی مضامین یک جا کیے گئے ہیں۔ دیباچے میں صاحب کتاب کے اظہار خیال کے مطابق غالب اُن کا پسندیدہ موضوع ہے، اسی سبب اُن پر مضامین بھی زیادہ ہیں۔ کتاب کے مندرجات کا حصہ کُل 19 میں سے چھے مضامین کا موضوع استاد اسد اللہ غالب ہیں۔ دیگر موضوعات میں ضمیر جعفری، احمد ندیم قاسمی، صہبا لکھنوی اور دیگر مشاہیر کے کام پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ بہت سے مضامین کا موضوع ادب کے کسی رجحان، صنف یا عنصر کے مجموعی اثرات پر ہے، جب کہ کہیں پر کسی کتاب کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

ان مضامین کی خوبی یہ ہے کہ یہ مضامین زیادہ طویل نہیں۔ سیدوقارافضل کہتے ہیں کہ ’’کلیم کا تنقیدی اسلوب اور دلیل کی روشنی کا مظہر ہے۔ اس کے جملوں کی شاخت براہ راست اِبلاغی وسیلوں پر قائم ہے۔ کسی بھی گن پارے یا ادبی رجحان کے بارے میں اس کا واضح اور منظم نقطۂ نظر اس کے اسلوب کو مبہم اور گنجلک ہونے سے بچاتا ہے۔‘‘ مصنف کے الفاظ میں دیکھیے تو کتاب میں شامل ’’بعض مضامین کی نوعیت اشارات کی ہے، بعض تنقیدی نوعیت کے ہیں اور بعض خالص تحقیقی مضامین ہیں۔‘‘

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


تعلیم اور ہماری نئی نسل

$
0
0

اس حقیقت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں اور ہر موقعے پر جہاں ضرورت ہوتی ہے، اس کا اظہار بھی کسی تکلف اور تأمل کے بغیر کرتے رہتے ہیں— یہ کہ کسی بھی قوم کی ترقی، خوش حالی، استحکام اور بقا کا انحصار بہت حد تک اُس کی نسلِ نو پر ہوتا ہے۔

اب کہنے کو تو یہ بات ہم ضرور کہہ دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اُس بات کی معنویت اور حقیقت سے بھی باخبر ہیں جو ہم اکثر اپنی زبان سے ادا کرتے رہتے ہیں؟ ممکن ہے کہ یہ سوال کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے۔ اس لیے کہ یہ اس رائے کو جس کا اظہار ہم سبھی اکثر پورے یقین سے کرتے رہتے ہیں، شک کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت پیدا کررہا ہے۔ تو چلیے کوئی مضائقہ نہیں، سرِدست ہم ذرا اسی مسئلے کو دیکھ لیتے ہیں۔ امید ہے، اس کے بعد کی گفتگو قدرے واضح اور سہل ہوجائے گی۔

افراد ہوں یا اقوام، ان کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت ہمیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے باربار گزرتے ہیں۔ خاص طور پر اُن معاملات میں یہ صورتِ حال زیادہ سامنے آتی ہے جو اُن کی بقا، استحکام اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی وہ شعبے، ادارے، مناصب اور ان پر فائز افراد مسلسل ان نظروں کی زد میں رہتے ہیں جو نگرانی، نکتہ چینی یا چھان پھٹک کے لیے ان پر ٹھہری ہوئی ہوتی ہیں، یا اس مقصد کے لیے رہ رہ کر ان کی طرف لوٹتی ہیں۔ اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ خوداحتسابی دراصل بقا اور ارتقا کے ضمن میں لازمی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کام رُک جائے تو فرد یا قوم کے انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو اُس کے مکمل طور پر زوال کا شکار ہونے کی راہ تیزی سے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خوداحتسابی کا عمل آخر رکتا کس وجہ سے ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ یہ عمل عام طور سے اُس وقت رُک جاتا ہے جب فرد، ادارہ، معاشرہ یا قوم یہ سمجھنے لگتی ہے کہ وہ ترقی اور کامیابی کے اس مرحلے پر ہے کہ اس سے آگے سر کرنے کے لیے اُس کے لیے اب اور کوئی منزل ہی نہیں ہے یا پھر اُس وقت جب وہ اپنے انحطاط کو محسوس تو کرے، لیکن اس کا خیال ہو کہ اب اس عمل کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ گویا بلندی اور عظمت کی خوش فہمی اور زوال آمادگی کی پیدا کردہ مایوسی، دونوں ہی صورتیں خوداحتسابی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ چناںچہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان دونوں مواقع پر زیادہ خود آگہی کا ثبوت دیا جائے اور خوداحتسابی کے عمل کو حرکت آشنا رکھا جائے۔

عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن معاملات پر توجہ دی اور جن مسائل کی بطور خاص نشان دہی کی اُن میں ایک مسئلہ نئی نسل کی تعلیم کا بھی ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ اس وقت ملک میں سوا دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ انھوں نے ملک و قوم کے سب نونہالوں کی تعلیم کے بندوبست کی خواہش کا اظہار کیا۔ یقیناً یہ بیان اور یہ ارادہ خوش آئند ہے۔ وجوہات کچھ اور بھی ہوں گی، لیکن یہ سوا دو کروڑ بچے عام طور سے اس لیے تعلیم حاصل نہیں کررہے کہ اُن وسائل سے محروم ہیں جو تعلیم کے حصول کے لیے درکار ہیں۔ گویا کم و بیش یا سب بچے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہی آسان نہیں ہے، سو تعلیم جیسی ’’آسائش‘‘ کا بھلا کیا سوال۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کے انتظام سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر بچے چھے سات برس کی عمر سے ہی گھر کی روٹی کے لیے ماں باپ کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ گلی محلے کے چائے خانوں، ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں، سبزی فروشوں، میکینک کی ورکشاپ اور گھروں میں چھوٹے موٹے کاموں اور ایسی ہی دوسری مصروفیات کے ذریعے آپ ’’روزگار‘‘ میں لگے ہوئے ایسے کتنے ہی بچوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی سا جو معاوضہ لے کر وہ اپنے گھر جاتے ہیں، وہ دنیا کی نظر میں چاہے کچھ نہ ہو، لیکن ان کے اہلِ خانہ کے نزدیک پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہرحال ایک اہمیت رکھتا ہے۔

خیر یہ تو خود ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر غور کرنے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیوںکہ بات معمولی سی اجرت، اور استعداد سے بڑھ کر مشقت ہی کی نہیں، بلکہ جن حالات میں یہ بچے کام کرتے ہیں، استحصال کے جن تجربات سے گزرتے ہیں اور جس طرح کے حالات اور لوگوں کا سامنا کرتے ہیں وہ سب کچھ ان کے کردار پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور ان کی شخصیت کے کیسے رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتا ہے، یہ سب باتیں اس لیے بھی توجہ طلب ہیں کہ پھر آگے چل کر یہی رویے اور مزاج معاشرے میں ان کے کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اجتماعی سطح پر اچھے برے نتائج کا ذریعہ بنتا ہے۔

چناںچہ اب اگر اس مسئلے پر توجہ دی جارہی ہے اور اس کے حل کے لیے حکومت ایک حکمتِ عملی وضع کررہی ہے اور اپنے وسائل کو بروے کار لانا چاہتی ہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے مسائل کے اس پورے سلسلے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے اقدامات کا تعین کرے اور اس کام کا آغاز وہاں سے اور اس انداز سے کیا جائے کہ اُس کی کوششیں یقینی طور پر مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ اس لیے کہ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں ایک ایسا گمبھیر معاملہ ہے جس کے متعدد پہلو ہیں اور ان پر بیک وقت اور ہمہ جہت کارروائی کی ضرورت ہے ورنہ خاطر خواہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔

یہ بات یقیناً خوشی کا باعث ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس مسئلے کو قابلِ توجہ سمجھا گیا اور نومنتخب وزیرِاعظم نے اسے اپنے حکومتی ایجنڈے میں وہ اہمیت دی جس کا یہ بجا طور پر مستحق ہے، لیکن ہمارے یہاں نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ صرف ان بچوں تک محدود نہیں ہے جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں دونوں سطحوں پر دیکھنے، سمجھنے اور اقدامات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

ایک سطح وہ ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے کیا، یعنی اُن بچوں کا مسئلہ جو تعلیم کے حصول سے محروم ہیں اور دوسری سطح پر یہ مسئلہ اُن بچوں کے حوالے سے بھی توجہ طلب ہے جو ویسے تو تعلیم حاصل کررہے ہیں، یعنی اسکول اور کالج جاتے ہیں، لیکن کیا واقعی وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ تعلیم جو کردار کی تعمیر اور شخصیت کی تشکیل کرتی ہے، کیا واقعی وہ اِس عمل سے گزر رہے ہیں؟ اُن کی تعلیم کا معیار کیا ہے؟ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا وہ اپنے معاشرے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے؟ کیا یہ تعلیم ان کی اپنی زندگی کو بہتر سطح پر لانے میں معاون ہوگی؟ نئی نسل کے جو بچے اس وقت تعلیم حاصل کررہے ہیں، اُن کے حوالے سے یہ اور ایسے ہی کچھ اور دوسرے سوالات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور ضروری ہے کہ اُن کا عملی طور پر نہایت ذمے داری سے جائزہ لیا جائے۔

وہ بچے جو سرے ہی سے تعلیم حاصل نہیں کررہے، ان کا مسئلہ تو ایک طرح سے واضح ہے، یعنی وہ اسباب جو بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کا تعین کیا جائے اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ سوا دو کروڑ بچوں کی تعلیم کے لیے راہ ہموار کرنا اور وسائل فراہم کرنا کوئی ایسا کام تو نہیں ہے کہ جس کے لیے چٹکی بجا دینا کافی ہو، ہرگز نہیں۔ پہلی بات تو وسائل کی فراہمی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں اور وہ بھی موجودہ حالات میں۔ اس وقت جب کہ ملک کی معیشت اور حکومتی کاروبار آئی ایم ایف کے قرضوں کے رحم و کرم پر ہے، اس وقت اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی تعلیم کا کام اتنا ہی دشوار اور حوصلہ آزما ہے جتنا امریکا کے لیے یہ فیصلہ کہ وہ اپنی ساری آبادی کو چاند پر منتقل کردے۔ شاید ہمارے لیے یہ کام اُس سے بھی زیادہ بڑا ہو— لیکن پھر بھی اس کام کا حوصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں بنیادی ضرورت وسائل کی ہے۔ دوسری کوئی خاص پیچیدگیاں اس راہ میں حائل نہیں ہیں۔

اس کے برعکس ملک میں رائج نظامِ تعلیم کے منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے مسائل پیچ در پیچ سامنے آتے ہیں۔ ملک کے محروم اور پس ماندہ طبقات کے بچوں کی تعلیم کے لیے حکومت کب اور کیا اقدامات کرتی ہے، اس کے لیے ہمیں حکومت کو پورا وقت دینا چاہیے اور اطمینان سے اسے اپنا لائحۂ عمل ترتیب دینے اور بروے کار لانے کا موقع بھی دینا چاہیے۔

البتہ اس وقت تعلیم کی جو صورتِ حال ملک میں چل رہی ہے، اس کا غائرنگاہ سے جائزہ لینے اور اُس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ اس لیے کہ وہ کام جو اس وقت جاری ہے اُس کے لیے وسائل استعمال ہورہے ہیں۔ چناںچہ دیکھنا چاہیے کہ جس کام پر وسائل صرف ہورہے ہیں، وہ مطلوبہ ہدف بھی حاصل کررہا ہے کہ نہیں۔ یہ موضوع ذرا وضاحت طلب ہے، اس لیے گفتگو میں اُس کے تمام تر پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

ملک و قوم کی بقا اور ترقی کا دارومدار اُس کے نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ یہ ایک لازمانی صداقت ہے۔ اس کی تصدیق کسی بھی دور اور خطے کی اقوام اور ممالک کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ معاشرے اپنی نئی نسل سے کبھی غافل نہیں ہوتے، اس کی صورتِ حال، اس کو درپیش مسائل اور اُس کے آئندہ کے امکانات، اجتماعی رجحانات اور وقت کے تقاضوں اور چیلنجز پر ہمیشہ نگاہ رکھتے ہیں۔

اس میں کبھی غفلت اور کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اب اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ہماری قومی بقا اور ترقی کی ضامن ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نسلِ نو صرف اسی صورت میں یہ ذمے داری اٹھانے کی اہل ہوسکتی ہے جب وہ تعلیم و تربیت کے اس مرحلے سے گزری ہو جو اجتماعی احساس اور قومی شعور پیدا کرتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک سماج میں اُس کے ہر فرد کی اجتماعی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں اور کیسے ادا کی جاتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اسی انداز سے کررہے ہیں کہ جو اُس کے افراد میں یہ اہلیت پیدا کرسکے کہ وہ اپنی اجتماعی اور قومی ذمے داریوں کو سمجھیں اور پورا کرسکیں؟

جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو یہ بات ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں ایسے جھول اور وہ خامیاں ہیں کہ جو نئی نسل کو مطلوبہ اہلیت کا حامل بننے ہی نہیں دیں گی۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں اس وقت کوئی ایک نہیں، بلکہ پورے چار نظام ہائے تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چار نظام ہائے تعلیم دراصل ملک میں پائے جانے والے طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ وطنِ عزیز میں ذات پات کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور عوام کے ہر فرد کو وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے شخص کو میسر ہیں۔ یہ بات مذہبی اور آئینی طور پر تو بالکل درست ہے، لیکن سماجی حقیقت سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ سماج میں جو تقسیم پائی جاتی ہے اُس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ تقسیم معاشی وسائل کی پیدا کردہ ہے، اور اس کے اثرات واضح طور پر معاشرے میں دائرہ در دائرہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملک میں رائج مختلف نظام ہائے تعلیم دراصل اسی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔

آپ ملک کے طول و عرض میں رائج ان چار نظام ہائے تعلیم کے توسط سے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ چار دائرے کیسے ہیں اور کس طرح کام کرتے ہیں۔ ان میں پہلا نظام ہے سرکاری تعلیمی ادارے، دوسرا وہ تعلیمی ادارے جو پرائیویٹ ہیں اور جن میں ہمارے معاشرے کے اوسط معاشی حیثیت رکھنے والے افراد کے بچے پڑھ رہے ہیں، تیسرا وہ جہاں اعلیٰ طبقے کی اولاد تعلیم پاتی ہے اور چوتھا ہے مدرسوں کا نظامِ تعلیم۔ آخرالذکر کے بھی دو درجے ہیں، ایک تو وہی پرانا کہ جہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دوسرا وہ جہاں وقت کے تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔

لہٰذا وہاں دین کے ساتھ یا مذہبی تدریس کے ایک خاص درجے کے بعد جدید تعلیم کا بھی ایک حد تک اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان چاروں نظام ہائے درس و تدریس کے اپنے اپنے کچھ مسائل ہیں جو ان کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے مزاج اور شخصیت کے رجحانات میں ظاہر ہوتے ہیں۔

سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتِ حال کس درجہ ابتر ہے، اس حقیقت سے اب ہم سب خوب واقف ہیں۔ گزشتہ برسوں میں صرف ایک صوبہ خیبر پختونخواہ میں کچھ بہتری کی صورت سنا ہے کہ دیکھنے میں آئی ہے، باقی سب صوبے بڑی حد تک یکساں طور پر زوال اور تباہی کا افسردہ کرنے والا ہول ناک نقشہ پیش کرتے ہیں۔

کم، بہت ہی کم سرکاری ادارے ایسے ہوں گے جہاں تعلیم کی صورتِ حال تھوڑی بہت بھی قابلِ لحاظ نظر آتی ہو۔ ایسا اگر کہیں ہے تو وہ صرف اور صرف بعض اساتذہ یا دوسرے افراد کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے، ورنہ ان اداروں میں تعلیم کا سلسلہ ختم ہوچکا یا اس درجہ خراب ہے کہ اُس سے کسی طرح کے اچھے نتائج کی توقع ہی بے سود ہوگی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال پرائمری، مڈل یا ہائی اسکول کی سطح تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ خرابی اسکول سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیمی مراحل تک سب ہی جگہ ملتی جلتی سطح پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب سوا اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا سرکاری ڈھانچا کھڑا ہوا تو بے شک نظر آرہا ہے، لیکن اندر سے وہ پوری طرح کھوکھلا ہوچکا ہے، اور کسی بھی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

اس حقیقت کا ثبوت ہمیں قدم قدم پر مل سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک ادبی رسالے میں ممتاز ادیب، شاعر، مترجم اور ماہرِلغات محمد سلیم الرحمن کا ایک مختصر نوٹ شائع ہوا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اعلیٰ تعلیمی سطح (یعنی ایم اے) کے طلبہ و طالبات کے امتحانی کاپی میں لکھے گئے جوابات سے کچھ اقتباسات درج کیے ہیں۔ تحریروں کے یہ نمونے بالکل چکرا دینے والے ہیں۔

انھیں پڑھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے قلم سے سرزد ہوئے ہیں۔ املا کی اغلاط سے لے کر تاریخ، ثقافت اور عقل و فہم کی سطح تک جن مسائل سے یہ جوابات اٹے ہوئے ہیں، وہ پوری طرح یہ باور کرا دیتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تو ہمارے تعلیمی نظام کا جنازہ واقعی نکل چکا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی سطح تک پہنچنے والے یہ طلبہ و طالبات کس طرح ابتدائی جماعتوں سے نکل کر میٹرک، انٹر اور گریجویشن کے مراحل سے کامیاب و کامران گزرے ہیں، یہ سوچ کر دل ڈوب جاتا ہے۔ کیا کسی درجے میں ان نوجوانوں کو کوئی ایک بھی ایسا استاد نہیں ملا جو ان کی ذہنی اور عقلی استعداد کا اندازہ لگاتا اور کسی مرحلے پر انھیں روک کر حقیقت میں ان کی تعلیم کے لیے فکرمند ہوتا۔ افسوس، صد افسوس۔ حیف، صد حیف۔

(جاری ہے۔)

The post تعلیم اور ہماری نئی نسل appeared first on ایکسپریس اردو.

عام آدمی کا دشمن ٹیکس نظام

$
0
0

وطن عزیز میں نئی حکومت نے عوام کے دلوں میں اُمید کی جوت جلادی جنہیں مہنگائی نے سب سے زیادہ تنگ کررکھا ہے۔ کھانے پینے اور روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو باتیں کررہی ہیں۔

اس مہنگائی کا ایک بڑا سبب ظالمانہ ٹیکس نظام ہے۔وطن عزیز میں رائج ٹیکس نظام واضح طور پر عوام دشمن ہے۔اس کے ذریعے عوام پر تو ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا جبکہ وہ طبقہ بالا کو اپنی گرفت میں لانے میں ناکام رہا ہے۔پچھلے برسوں کی ٹیکس ڈائرکٹریاں دیکھ لیجیے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر ارکان نے اتنے کم ٹیکس دئیے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

عمران خان حکومت یہ استحصالی ٹیکس نظام بدل کر غریب عوام کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں شہریوں پر مختلف ٹیکس لگا کر سرکاری خزانہ بھرتی ہیں۔ ٹیکس کی دو بنیادی اقسام ہیں: براہ راست (Direct)ٹیکس اور دوسرا بالواسطہ (Indirect) ٹیکس۔براہ راست ٹیکس امیر افراد اور کمپنیوں پر لگائے جاتے ہیں۔ ایسے ٹیکسوں میں انکم ٹیکس، کارپوریشن ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور ان ہیرٹنس ٹیکس نمایاں ہیں۔بالواسطہ ٹیکس مملکت میں آباد ہر شخص کو دینا پڑتا ہے چاہے اس کی آمدن ماہانہ تین ہزار روپے ہی ہو! ایسے ٹیکسوں میں سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی سعی ہوتی ہے کہ بالواسطہ ٹیکس کم سے کم لگائے جائیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ یہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین فرق نہیں کرتے… ہر کسی کو یہ ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسی لیے ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں کل ٹیکسوں میں صرف ’’20 تا 25 فیصد‘‘ ٹیکس بالواسطہ ہیں۔ حکومتیں اپنی 75 تا 80 فیصد آمدن براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہیں۔

پاکستان میں الٹا حساب ہے… یہاں حکومت کو 65 سے 70 فیصد آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے ملتی ہے۔ المیّہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ود ہولڈنگ ٹیکس کو براہ راست ٹیکس کے زمرے میں شامل کررکھا ہے۔ اگر براہ راست ٹیکسوں سے ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی آمدن نکال دی جائے، تو پاکستانی حکومت کو تقریباً ’’90 فیصد‘‘ آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے۔

یاد رہے، حکومت نے پاکستانی قوم پر 75 مختلف اقسام کے ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کررکھے ہیں۔پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بہت زیادہ شرح ہی نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔ وجہ یہی کہ یہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور یا ڈرائیور اپنے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر بجلی، گیس، موبائل فون وغیرہ کے بلوں پر لگائے گئے جو مختلف ٹیکس ادا کرتا ہے، ارب پتی پاکستانی بھی لگ بھگ اسی شرحِ رقم میں وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ایسا ٹیکس نظام قطعاً عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا بلکہ اسے عام آدمی پر ظلم کے مترادف سمجھنا چاہیے۔

بالواسطہ ٹیکسوں کی زیادتی کے باعث عام استعمال کی اشیا بھی دگنی تگنی مہنگی ہوجاتی ہیں۔عائد کردہ ٹیکس ایک عام شے کی قیمت بھی بڑھا دیتے ہیں۔ امیر تو یہ اشیا باآسانی خرید لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسا ہوتا ہے، مگر غریبوں کو دال روٹی پانے کے لیے بھی بہت جان مارنا پڑتی ہے۔ تیس چالیس سال پہلے پاکستان میںبالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم تھی، اسلئے غریب آدمی تھوڑی آمدن میں بھی آسانی سے گزر بسر کرلیتا تھا کیونکہ چیزیں سستی تھیں۔

لیکن ا ب بالواسطہ ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث عام آدمی کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر سارا دن تگ ودو کرنا پڑتی ہے کہ دال بھی مہنگی ہو چکی۔یہ مسلسل مصروفیت پاکستانیوں کو مشین بنا رہی ہے اور وہ جذبات واحساسات سے عاری ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی کثرت اسلئے ہے کہ خاص طور پہ امیر پاکستانی براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ان امیر پاکستانیوں سے گلہ کیا جائے تو وہ یہ دہائی دیتے ہیں کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقہ کھا جاتا ہے۔

یا پھر وہ اس کے اللوں تللوں پر خرچ ہوتی ہے۔لہٰذا وہ ٹیکس کیوں دیں؟ بہت سے امرا ٹیکسوں کی رقم فلاحی وسماجی تنظیموں کو دینا پسند کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے ،پاکستان میں کئی ممالک کے مقابلے میں لوگ زیادہ چندے دیتے ہیں۔حکمرانوں کی کارکردگی دیکھی جائے، تو محب وطن امیر پاکستانیوں کی شکایت بجا لگتی ہے۔ اس وقت پاکستان پر27 ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھ چکا اور یہ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ حکومت ان قرضوں کا صرف سود ادا کرنے کی خاطر عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لے رہی ہے۔ظاہر ہے، قرضوں کی یہ بدترین آفت نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستانی قوم پر ٹوٹی۔انھوں نے عالمی و قومی مالیاتی اداروں سے بطور قرض جو کھربوں روپے لیے، وہ غیر اہم ترقیاتی منصوبوں پر لگے یا حکمران طبقے کی کرپشن کی نذر ہو گئے۔قرضوںکا یہ پھندا ملک وقوم کی بقا تک خطرے میں ڈال سکتا ہے۔انتہائی حیرت ہے کہ ہماری سلامتی کے محافظ سکیورٹی ادارے بھی قرضوں کا جال بڑھتا دیکھ کر خاموش رہے اور حکمرانوں کے ہاتھ باندھنے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔

اب عمران خان حکومت کی یہ بھر پور کوشش ہونی چاہیے کہ وہ پاکستانی ٹیکس گزاروں کا نئی حکومت پر اعتماد بحال کرے۔ وہ انہیں یقین دلائے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا پیسہ عوام دوست اور بامقصد و مفید ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگا۔ وہ حکمرانوں کی جیب میں نہیں جائے گا اور نہ ہی کرپشن کی نذر ہوگا۔ پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا اشد ضروری ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم ملک و قوم کی ترقی و بہتری پر خرچ ہوگی۔ یہ اعتماد و یقین بحال ہونے کے بعد ہی پاکستانی ایمان داری سے ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے۔

ابھی تو بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف آٹھ تا تیرہ لاکھ پاکستانی انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔یہ انتہائی مایوس کن تعداد ہے۔یہ ہماری آبادی کا نصف فیصدی حصہ بھی نہیں بنتی۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔اسکینڈے نیویا کی فلاحی مملکتوں میں 40 تا 50 فیصد آبادی ٹیکس دیتی ہے۔حتی کہ ہمارے پڑوسیوںبھارت ،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی کل آبادی کا 2 تا 5 فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ مزید براں پاکستان میں مشہور ہے کہ بیشتر لوگ پورے ٹیکس نہیں دیتے اور ہیر پھیر سے رقم بچالیتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ پاکستانی ٹیکس دے سکتے ہیں۔ اگر یہ پاکستانی اپنے حصے کے ٹیکس ادا کرنے لگیں، تو حکومت پاکستان کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے ۔ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ انکم ٹیکس ہے۔وہاں جو شہری جتنا زیادہ امیر ہو ،وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔اکثر اوقات امرا کی پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمائی ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری خزانے میں پہنچ جاتی ہے۔یہ عدل وانصاف پہ مبنی ٹیکس نظام ہے۔یعنی امرا سے رقم لے کر نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔یہ نظام معاشرے میں دولت کا ارتکاز کسی حد تک روک دیتا ہے اور معاشی مساوات پیدا کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ریاست مدینہ منورہ میں درج بالا معاشی نظام ہی قائم فرمایا تھا۔آپﷺ اس ٹیکس نظام کے بانی مبانی ہیں جسے مغرب کی مملکتوں نے اپنا لیا۔تعجب خیز بات یہ کہ ایسا ٹیکس نظام پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں میں عنقا نظر آتا ہے۔گویا مغربی ملک تو مدینہ منورہ کی فلاحی مملکت کے ماڈل کی پیروی کر کے ترقی یافتہ اور خوشحال بن گئے مگر مسلم حکمرانوں نے اسے تج کر عالم اسلام کو زوال کی دلدل میں دھکیل دیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ دس بارہ لاکھ ٹیکس گذار پاکستانیوں میں اکثریت نجی وسرکاری اداروں سے بطور تنخواہ دار ملازم منسلک ہے۔ان کی آمدن سے مخصوص رقم بطور انکم ٹیکس کٹ جاتی ہے۔ٹیکس دینے والے صنعت کاروں،کاروباریوں اور دیگر امرا کی تعداد پندرہ سولہ ہزار ہے۔اب ہمارے ٹیکس نظام کی ایک اور بڑی خامی ملاحظہ فرمائیے۔صنعت کاروں اورکاروباریوں کا دعوی ہے کہ ٹیکس لینے والے سرکاری ادارے،ایف بی آر نے انھیں قربانی کا بکرا بنا لیا ہے۔وہ اس طرح کہ نجی کمپنیوں پر ٹیکسوں کی اتنی بھرمار کر دی کہ وہ ان کے بوجھ تلے سسکنے لگی ہیں۔

ٹیکسوں کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو صنعت کاروں اور کاروباریوںکی شکایت بجا لگتی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں نجی کمپنیوں پر ٹیکسوں کی شرح 15 تا 20 کے درمیان ہے۔جبکہ پاکستان میں یہ شرح 30 تا 35 کے مابین پہنچ چکی۔نجی اداروں پر زیادہ ٹیکس لگانے سے ملک میں صنعت وتجارت اور کاروبار کی سرگرمیاں سست پڑ جاتی ہیں۔چناں چہ پاکستان بھی کچھ ایسی ہی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

دماغ کا دہی بنانے والا نظام

ممتاز ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مروجہ ٹیکس نظام کی ایک بڑی خامی اس کا پیچیدہ ہونا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بھی ٹیکس لینے کے حق دار پائے۔ حتی کہ یونین کونسل کی سطح پر بھی نئے ٹیکس لگا دئیے گئے۔ مگر وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ٹیکس لگنے سے پاکستانی ٹیکس نظام بہت پیچیدہ ہوگیا۔ اس میں پیچیدگیاں اتنی زیادہ ہیں کہ تعلیم یافتہ ٹیکس گزار بھی انہیں سمجھ نہیں پاتے۔پاکستان میں ایف بی آر کا ادارہ ٹیکسوں کی رقم جمع کرتا ہے۔ یہ ایک دیوہیکل سرکاری ادارہ ہے جس میں تیس ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں مگر اس کی کارکردگی تسّلی بخش نہیں۔

ہر سال وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور مطلوبہ آمدن جمع نہیں کر پاتا۔ ایف بی آر کے افسروں پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں۔وہ بے ایمان ٹیکس گزاروں سے ’’مک مکا‘‘ کرکے ان پہ کم ٹیکس لگاتے اور یہ بد حرکت کرنے کے عوض بھاری رقم پاتے ہیں۔ گویا جو رقم سرکاری خزانے میں پہنچنی چاہیے، ان کی تجوریوں میں جا پہنچتی ہے۔اس کرپٹ روش کے باعث سرکاری خزانے کو ہر سال اربوں روپے سے محروم کیا جاتا ہے۔

مسئلے کا حل کیا؟

حکمران جماعت، تحریک انصاف نے اپنے منشور میں دعویٰ کررکھا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستانی قوم سے 8 ہزار ارب کے ٹیکس وصول کرے گی۔(فی الوقت ایف بی آر سالانہ ٹیکسوں سے پونے چار ہزار ارب روپے اکھٹے کرتا ہے)۔ یہ دعویٰ اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب عمران خان حکومت قومی ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائے اور نئی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔ سرکاری خزانے میں پیسا آنے کے بعد ہی عمران خان پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی فلاحی مملکت میں ڈھال سکیں گے۔ لیکن خالی سرکاری خزانہ انہیں بھی بھکاری بنا کرعالمی و مقامی مالیاتی اداروں کے دروازے پر پہنچا دے گا۔ٹیکسوں کی آمدن بڑھانے کے سلسلے میں پہلا قدم تو یہی ہے کہ عمران خان حکومت ٹیکس گزاروں کا اعتماد بحال کرے۔ انہیں یقین دلائے کہ ان سے وصول شدہ رقم جائز سرکاری سرگرمیوں پر خرچ ہوگی۔ دوسرا قدم ٹیکس نظام میں اصلاحات لانا ہے۔

اس ضمن میں بعض ماہرین معاشیات کا مشورہ ہے کہ ایف بی آر ختم کرکے ایک نئے ادارے ’’نیشنل ٹیکس ایجنسی‘‘ کی بنیاد رکھی جائے۔ یہی ادارہ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر پاکستانی قوم سے ٹیکس اکھٹے کرے اور اس سلسلے میں اینٹلی جنس کی بنیاد پر ایک مربوط و منظم نظام تشکیل دیا جائے۔نیشنل ٹیکس ایجنسی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ٹیکس لینے والے جو مختلف ادارے کام کررہے ہیں، ان کی پھر ضرورت نہیں رہے گی۔ تب کراچی سے لے کر خیبر تک ہر پاکستانی کو علم ہوگا کہ صرف ایک ادارہ (نیشنل ٹیکس ایجنسی) ہر قسم کے ٹیکس لینے کا ذمے دار ہے۔

یوں قومی ٹیکس نظام کی پیچیدگی کم ہوگی اور پاکستانی قوم میں ٹیکس دینے کے رجحان میں اضافہ ہو گا۔نیشنل ٹیکس ایجنسی کا قیام صوبائی حکومتوں کے مشورے سے عمل میں لایا جائے تاکہ آمدن کی تقسیم کا میکنزم اتفاق رائے سے جنم لے سکے۔ماہرین کی تجویز ہے کہ نیشنل ٹیکس ایجنسی کی افرادی قوت کے لیے ایک نئی سرکاری سروس،’’کل پاکستان ٹیکس سروس‘‘کی بنیاد رکھی جائے۔اس سروس میں اکائونٹس، قانون،آئی ٹی اور انتظام (ایڈمنسٹریشن) میں طاق مردوخواتین بھرتی کیے جائیں ۔انھیں پھر ٹیکس نظام کا ماہر بنایا جائے تاکہ وہ بخوبی ٹیکس افسر کی خدمات انجام دے سکیں۔نئے ٹیکس نظام میں کمپنیوں پہ کارپوریٹ ٹیکسوں کی شرح 20 فیصد ہو۔نیز دولت مند افراد پہ 10 فیصد انکم ٹیکس لگایا جائے،نیز کل دولت پر بھی 2.5 فیصد ویلتھ ٹیکس عائد کیا جائے۔سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد رکھی جائے جو فی الوقت 17 فیصد ہے۔تاہم دیگر ٹیکسوں کی شمولیت سے یہ شرح اکثر اشیا پر خاصی بڑھ جاتی ہے۔

The post عام آدمی کا دشمن ٹیکس نظام appeared first on ایکسپریس اردو.

’سلطانہ ڈاکو‘ تاریخ کا ایک پُراسرار کردار

$
0
0

ایک زمانے میں ہندوستان کی انگریز سرکار کو ڈاکوؤں اور ٹھگوں نے تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا۔ ان میں ایک سلطانہ ڈاکو بھی تھا جسے گرفتاری کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس کی زندگی اور جرائم کی مکمل اور درست تفصیلات تو کسی کو معلوم نہیں، مگر اس سے متعلق عجیب و غریب کہانیاں ضرور مشہور ہیں۔

ہندوستان کے نواب اور دولت مند لوگ سلطانہ ڈاکو سے خوف زدہ رہتے تھے۔ انہیں یہی دھڑکا لگا رہتا کہ وہ کسی بھی وقت ان کی دولت اور قیمتی اشیا لوٹ کر لے جائے گا۔ صوبہ یو پی کے شہروں اور بڑی بڑی آبادیوں میں بسے امرا اپنا مال و زر چھپا کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور اس کی حفاظت کا خاص انتظام کرتے۔ یہ لوگ سلطانہ ڈاکو کی لوٹ مار ہی سے پریشان نہیں تھے بلکہ اس لیے بھی خوف زدہ تھے کہ وہ عمر بھر کی جمع پونجی ہی نہیں لوٹ کر لے جاتا تھا بلکہ کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔

سلطانہ سیکڑوں انسانوں کو گولی اور خنجر کے وار سے ہلاک کرچکا تھا اور ہر واردات کے بعد آسانی سے فرار ہو جاتا تھا۔ ہندوستان کے امرا اسے ایک سفاک اور بے رحم انسان سمجھتے تھے، مگر یہی سلطانہ ڈاکو غریب اور بے بس انسانوں کا غم گسار اور ان کا مسیحا بھی تھا۔ کئی بار اس لٹیرے کے خلاف پولیس کو درخواست دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، مگر پولیس اسے ڈھونڈنے اور گرفتار کرنے میں ناکام ہی رہی۔ خود پولیس کے کئی افسر اور سپاہی سلطانہ ڈاکو کی گولیوں اور خنجر کی دھار کے نیچے آکر موت کا شکار ہو چکے تھے۔

وہ بندوق چلانے کا ماہر تھا۔ کہتے ہیں کہ سلطانہ کا نشانہ بہت کم خطا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ خطروں سے کھیلنا پسند کرتا ہے۔ اسے موت کا مقابلہ کرنا آتا ہے۔ ایک طرف ہندوستان کے نواب، جاگیر دار اور مال و دولت رکھنے والے لوگ اس سے پریشان تھے اور سلطانہ کی گرفتاری یا پولیس سے مقابلے میں اس کی ہلاکت کی خواہش رکھتے تھے، مگر دوسری جانب سلطانہ ڈاکو نے غریبوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنالی تھی۔

غریب اور بے بس لوگ سلطانہ ڈاکو کی درازیِ عمر کے لیے دعائیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطانہ لُوٹا ہوا مال ان غریبوں میں تقسیم کر دیتا اور ان کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ سلطانہ ڈاکو کا بچپن اور لڑکپن بھی غربت اور مفلسی کے ساتھ بیتا تھا۔ اسے لوگوں کی تکالیف اور مشکلات کا اندازہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ غریبوں کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا مشکل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دل میں ان کے لیے درد مندی کا احساس اور ان کی مدد کرنے کا جذبہ بیدار رہا۔ وہ غریبوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتا تھا۔

ایک عرصے تک سلطانہ ڈاکو کی گرفتاری میں ناکام رہنے کے بعد اس دور کی انگریز انتظامیہ نے برطانوی سراغ رسانوں اور جاسوسوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے سلطانہ ڈاکو کی گرفتاری کے لیے انتظامیہ نے ایک لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا تھا، مگر ان کی یہ ترکیب سود مند ثابت نہ ہوئی۔

کسی نے سلطانہ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی اور آخر کار محکمۂ پولیس نے لوٹ مار کی مسلسل شکایات اور قتل کی مختلف وارداتوں کے بعد انگلینڈ کے مشہور سراغ رساں اور جاسوس کو سلطانہ کا کھوج لگانے اور اسے گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس حوالے سے پولیس کے ایک افسر سیموئل پیئرس اور سراغ رساں فریڈی ینگ جو مسٹر ینگ کی عرفیت سے پہچانے جاتے تھے، ان نام سامنے آتا ہے۔ مختلف تذکروں میں لکھا ہے کہ مسٹر ینگ انگلینڈ میں اپنے شعبے کے ماہر اور ذمہ دار افسر مانے جاتے تھے۔

انہیں برطانیہ سے خاص طور پر ہندوستان بلایا گیا تھا۔ محققین کے مطابق انگریز دور کے سرکاری ریکارڈ میں سلطانہ ڈاکو اور اس کے جرائم کی تفصیلات کے ساتھ اس کے بارے میں دیگر ضروری معلومات درج ہیں۔ کہتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ اور برطانیہ میں محکمۂ پولیس کے افسران کے مابین سلطانہ سے متعلق خط و کتابت کا ریکارڈ آج بھی محفوظ ہے۔ سلطانہ ڈاکو کی زندگی اور رابن ہڈ جیسی افسانوی شہرت نے ہندوستانی ادیبوں اور فلم سازوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا اور یوں اس کردار پر ناولوں کے علاوہ فلمیں بھی سامنے آئیں۔

اس زمانے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سلطانہ ڈاکو کے علاوہ بھی دوسرے لٹیروں اور ٹھگوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری تھا۔ کبھی لوگوں کو دھوکا دے کر لوٹا جاتا اور کہیں بندوق اور خنجر سے ڈرا کر مال و متاع سے محروم کر دیا جاتا۔ ڈاکو بے خوفی سے تجارتی قافلوں کو راستوں میں لوٹ لیتے تھے اور اس موقع پر کسی بھی خطرے کا احساس کر کے لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ انگریز سرکار نے چھوٹے قصبوں میں ٹھگوں اور لٹیروں کی شکایات کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکام کی ہدایات پر پولیس نے کئی کارروائیاں کیں، مگر سلطانہ جیسے ڈاکو کو گرفتار کرنا آسان نہ تھا۔ اس کی ایک وجہ تو سلطانہ ڈاکو کے مخبر تھے جو پولیس کی کسی بھی کارروائی کی اطلاع اس تک پہنچا دیتے تھے اور دوسری جانب غریب دیہاتی سلطانہ کو اپنا محسن اور ہم درد سمجھتے تھے اور اسے پناہ دینے کے ساتھ اس کی حفاظت یقینی بنانے اور اس کی خاطر جان دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔ ان حالات میں پولیس کے لیے سلطانہ تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہو گیا تھا۔

اس ڈاکو کا اصل نام سلطان تھا جو نامعلوم کب سلطانہ ہو گیا۔ اس نے آنکھ کھولی تو غربت اور تنگ دستی دیکھی۔ اسے انگریز راج سے نفرت تھی۔ کہتے ہیں اسی نفرت کی بنیاد پر اس نے اپنے پالتو کتے کا نام ’’رائے بہادر‘‘ رکھا۔ یہ ایک اعزازی نام (خطاب) تھا جو اس دور میں انگریز سرکار کی جانب سے اپنے وفاداروں کو دیا جاتا تھا۔ اس ڈاکو کے گھوڑے کا نام ’’چیتک‘‘ بتایا جاتا ہے۔

سلطان کا تعلق ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے ایک مسلمان گھرانے سے تھا۔ تاہم اس کی اصل زندگی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم درست معلومات سامنے آئی ہیں۔ اس کے چوری چکاری کرنے اور ایک ڈاکو کی حیثیت سے شہرت پانے کے حوالے سے مختلف قصّے سننے کو ملتے ہیں۔ سلطانہ ڈاکو لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے والے کے ہاتھ کی تین انگلیاں کاٹ دیتا تھا جس کا ایک مقصد دولت مندوں کو خوف زدہ کرنا تھا اور اس طرح وہ امیروں اور انگریز سرکار کے وفاداروں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہتا تھا۔

کہتے ہیں کہ سلطان نے اپنے لڑکپن میں کہیں سے ایک انڈا چوری کرلیا اور گھر آیا۔ اہلِ خانہ کو سلطان کی اس چوری کا علم تو ہوگیا، لیکن کسی نے اسے کوئی تنبیہ نہ کی۔ یوں اس کا حوصلہ بڑھا اور اس پہلے جرم کے بعد اسے چوری چکاری کی عادت پڑگئی۔ چھوٹی موٹی چوریوں میں کام یابی اور ناکامی کے علاوہ کبھی پکڑے جانے پر لعن طعن اور تھوڑی بہت مار پیٹ بھی ہوئی، مگر اب وقت گزر چکا تھا اور اس کے دل سے ہر قسم کا خوف دور ہو چکا تھا۔ سلطان کو چوری کرنے میں مزہ آتا اور پھر وہ وقت آیا جب اس لڑکے کو سلطانہ ڈاکو کے نام سے پہچانا جانے لگا۔

دنیا اور قانون کی نظر میں وہ ایک مجرم اور امیروں کے نزدیک ظالم اور قاتل انسان تھا، مگر کئی غریب خاندانوں کے لیے سلطانہ کی حیثیت رابن ہڈ جیسی تھی۔ سلطانہ اسی مشہور کردار کی طرح لوٹ مار کی رقم اور اشیا غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کر دیتا اور کئی گھرانے اسی ڈاکو کی وجہ سے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے۔

اس کی جائے پناہ نجیب آباد کے نواح میں واقع جنگل تھا جسے ’کجلی بن‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ جنگل اُس وقت انتہائی گھنا اور ہر طرح کے درندوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس جنگل کی ایک حد نیپال اور چین کو چھوتی تھی تو دوسری طرف اس کی وسعت کشمیر تا افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں ہر طرح کا شکار بھی بے شمار ملتا تھا اور اکثر نواب اور انگریز یہاں شکار کی غرض سے پڑاؤ ڈالا کرتے تھے۔ سلطانہ ڈاکو کی کمین گاہ جس جگہ تھی وہ حصہ اتنا گھنا تھا کہ دن کے اوقات میں بھی یہاں سورج کی روشنی کو دخل نہ تھا۔ اسی جنگل میں گھوسیوں کے ڈیرے بھی تھے جو دودھ بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ سلطانہ بھی انہی کے بھیس میں یہاں رہتا اور موقع کی مناسبت سے حلیہ بدل کر نقل و حرکت کرتا تھا۔

سلطانہ کی حفاظت کرنے والے بھی ہمہ وقت چوکس رہتے۔ اس کے لیے جاسوسی کرنے والے پولیس اور انتظامیہ کے ہر فیصلے اور ہر کارروائی کی بروقت اطلاع اس تک پہنچاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ پولیس والے بھی سلطانہ ڈاکو سے ڈرتے تھے اور ان میں اکثر اس کے مخبر تھے۔ خود نجیب آباد تھانے کا انچارج منوہر لال سلطانہ کا مخبر تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے ہر چھاپے کی اطلاع پہلے ہی مل جاتی تھی اور وہ اپنا ٹھکانا بدل لیتا تھا۔ ادھر مسٹر ینگ کو ابتدا میں سلطانہ ڈاکو کا کھوج لگانے اور اس کی گرفتاری میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن پھر ایک مقامی منشی عبدالرزاق خان کے ذریعے وہ اس ڈاکو تک پہنچنے میں کام یاب ہو گیا۔ اس منشی کے سلطانہ سے بھی مراسم تھے اور اعلیٰ افسران سے بھی رابطے تھے۔

سلطانہ کے لیے منشی ایک قابلِ بھروسا شخص تھا اور وہ اس سے اکثر ملاقات کرتا تھا۔ ایک دن منشی نے بہانے سے سلطانہ کو ایک جگہ بلایا جہاں پہلے ہی پولیس چھپی ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن کی نگرانی سموئیل نامی انگریز افسر کر رہا تھا۔ سلطانہ ڈاکو اس جال میں پھنس چکا تھا۔ اسے گرفتار کرلیا گیا۔ انگریز افسر کی ہدایت پر اسے ظفر عمر نامی پولیس افسر کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ یہ وہی ظفر عمر ہیں جنہیں جاسوسی ناول نگار کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد جب سلطانہ کو نجیب آباد کے اسٹیشن پر لایا گیا تو ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو وہاں جمع تھے۔

جیل میں سلطانہ کی دوستی نوجوان افسر فریڈی ینگ سے ہوگئی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ اسی پولیس افسر کی مدد سے سلطانہ کی جانب سے اس وقت کے طریقۂ کار کے مطابق معافی کی درخواست کی گئی جسے سرکار نے مسترد کر دیا۔ سلطانہ کا بچہ اس وقت سات سال کا تھا۔ سلطانہ نے فریڈی ینگ سے درخواست کی کہ اس کے بعد وہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور اسے تعلیم دلوائے۔ انگریز افسر نے اس کی خواہش کا احترام کیا اور سلطانہ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کے بچے کو تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ بھیج دیا۔ فریڈی ینگ بعد میں بھوپال کا انسپکٹر جنرل بنا اور یہیں اس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس کی قبر بھی بھوپال میں ہے۔ اسی بھوپال میں عبید اللہ گنج نامی علاقے میں آج بھی سلطانہ ڈاکو کے خاندان کے لوگ آباد ہیں۔

بعض تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ سلطانہ ڈاکو عاشق مزاج اور عیاش تھا۔ ایک انگریز لڑکی بھی اس کے عشق میں مبتلا رہی اور ان کے درمیان سلطانہ کی موت تک تعلق قائم رہا۔ سلطانہ ڈاکو کے جرائم کی فہرست طویل تھی۔ اسے بے رحم لٹیرے اور قاتل کے طور پر ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں پیش کیا گیا اور مقدمہ کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد عدالت نے سلطانہ کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ 1924ء کی ایک صبح اس سزا پر عمل درآمد ہوا اور سلطانہ ڈاکو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کہتے ہیں جب اسے تختۂ دار پر کھینچنے کے لیے لایا جا رہا تھا تو اس کے حامیوں کی بڑی تعداد باہر موجود تھی جو اس کی بہادری کے قصیدے اور اس سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے مختلف لوک گیت گا رہے تھے۔

The post ’سلطانہ ڈاکو‘ تاریخ کا ایک پُراسرار کردار appeared first on ایکسپریس اردو.

سورج کی گرمی روک لو!

$
0
0

سورج کی گرمی کے حوالے سے ہم ایک طویل عرصے سے پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اس کی تپش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل شدید قسم کی حدت اختیار کرتی جارہی ہے جو دنیا والوں کے لیے اس حد تک ناقابل برداشت ہوچکی ہے کی اس گرمی نے نہ صرف ہمارے گلیشیئر پگھلادیے بلکہ صدیوں سے منجمد برف کے ذخائر بھی اتنی شدت سے ختم کرڈالے کہ اب تو اس بات کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا والوں کے لیے پینے کا صاف پانی ملے گا بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ آئندہ کی جنگیں ہی پانی پر لڑی جائیں گی جو اب لگتا ہے کہ بہت جلد ہونے جارہا ہے۔

سورج کی گرمی نے جہاں جہاں اپنی حدت کے جلوے دکھائے ہیں، ان سے ہمارے ماہرین تو واقف ہیں ہی، ہمارے لوگ یعنی عام آدمی بھی اس کی قیامت سامانی کو محسوس کررہے ہیں اور اسی لیے دنیا میں پانی کی کمی کے باعث ہونے والی ہول ناکیوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے۔

ہمارے ارضیاتی اور سائنسی ماہرین اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں، یہ تو قبل از وقت ہی متعدد خطرات کا اندازہ لگالیتے ہیں۔ یہ ماہرین کافی طویل عرصے سے اس بات کی نشان دہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ سورج کی تیز اور گرم ترین شعاعیں ہمارے کرۂ ارض کو جلائے ڈال رہی ہیں اور ان کی تباہ کاری کے باعث زمین پر اگر انسان کے لے زندگی گزارنا محال ہورہا ہے تو دوسری ارضی حیات کی بقا کے بھی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ساتھ ساتھ یہ اندیشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگر سورج کی تیز اور جھلسادینے والی شعاعیں اسی طرح زمین پر قہر نازل کرتی رہیں تو کہیں زمین پر پائی جانے والی اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کی خوراک کا آسرا بننے والی یہ فصلیں بھی جل بھن کر کر خاکستر نہ ہوجائیں اور اس صورت میں اہل دنیا کے لیے خوراک کے بہت سے سنگین مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔

دنیا کو پہلے ہی خوراک کی قلت کا سامنا ہے، اس صورت میں جب ہماری فصلیں بھی جل جائیں گی یا گرمی کی شدت انہیں کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گی تو پھر حضرت انسان کا کیا ہوگا؟ اس ضمن میں ہمارے ارضیاتی ماہرین اور سائنس داںطویل عرصے سے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح زمین پر اگنے والی ان ہری بھری فصلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جو ہماری زمین کے لاکھوں کروڑوں باسیوں کے لیے خوراک کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہیں۔

چناں چہ ماہرین نے اس ضمن میں کافی غوروخوض کیا اور باہمی گفت و شنید کے بعد سب نے متفقہ طور پر یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر ہم زمین کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سورج کی شعاعوں کو زمین تک نہ پہنچنے دیں یا یوں کہہ لیں کہ ان گرم شعاعوں کے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی کردی جائے کہ یہ تیز حدت والی شعاعیں زمین تک نہ پہنچ سکیں تو نہ صرف ہماری زمین محفوظ رہے گی بلکہ اس پر پیڑ پودوں، نباتات اور دیگر اشیا کو بھی تحفظ ملے گا اور ساتھ ہی ان سب کی پیداوار بھی بڑھے گی اور ہماری دنیا کے رہنے والوں کے لیے فاضل مقدار میں خوراک بھی میسر آسکے گی۔

گویا ہمارے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ سورج کی تیز شعاعوں کی مضرت رسانیوں سے کرۂ ارض کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اور اس زمین کو گلوبل وارمنگ کے نقصانا ت سے بچانے کے لیے ہمیں اسے سورج اور سورج کی شعاعوں سے بچانا ہوگا جس کے بعد یہ کرۂ ارض ٹھنڈا ہوکر محفوظ ہوجائے گا اور یہاں بہت سی ایسی مخلوقات کی پیدائش ممکن ہوسکے گی جو بہ صورت دیگر نہیں ہوپارہی۔ مگر کچھ اور دیگر ماہرین نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے زمین پر اگنے والی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان میں کوئی کمی نہیں ہوسکے گی۔

ہمارے یہ ماہرین کہتے ہیں کہ بے شک سولر جیو انجینئرنگ زمین کے درجۂ حرارت کو کم تو کردے گی جس کے بعد ہیٹ اسٹریس یا یوں کہہ لیجیے کہ گرمی کے باعث ہونے والی شدت تو کم ہوجائے گی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل ایک اور بڑا نقصان یہ کرے گا کہ اس کی وجہ سے فوٹوسینتھیسس کا عمل بھی گھٹ جائے گا یا کم ہوجائے گا۔

یہ بات برکلے، کیلی فورنیا کی یونی ورسٹی میں ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے کے دوران بتائی گئی۔ اس مطالعے کے دوران حاضر افراد اور شرکاء کو یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ عرصہ پہلے فضائی اور سائنسی ماہرین نے زمین کی حدت اور شدت کو کم کرنے کے لیے یہ تجاویز پیش کی تھیں کہ اگر زمین کے بالائی ماحول میں سلفیٹ ایروسولز کو انجیکٹ کردیا جائے تو اس سے نہ صرف یہ بالائی فضائی ماحول بلاک ہوجائے گا، بلکہ سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں بھی بکھر جائیں گی ۔

جس سے عالمی درجۂ حرارت میں کمی ہوجائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری فصلوں کی پیداوار بڑھ جائے، کیوں کہ بہ صورت دیگر گرمی کی یہ شدت ہمارے پیڑ پودوں اور ہماری فصلوں کو نڈھال کیے دے رہی ہے اور ان کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے جو نہ صرف کرۂ ارض کے لیے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے، بلکہ اس کی وجہ سے اہل دنیا کے لیے خوراک کی کمی ایک بہت بڑی اور مشکل صورت حال پیدا کردے گی۔

یہ تو تجاویز پہلے دی گئی تھیں اور ان کے فوائد بھی بتادیے گئے تھے، مگر بعد میں ہونے والی ایک نئی اسٹڈی نے فوری طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ گرمی کی اس شدت میں کمی سے ہمیں وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جن کی ہمیں توقع ہے، بلکہ اس سے الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ خاص طور سے سورج کی روشنی کا راستہ روکنے سے پودوں کے فوٹو سینتھیسس کا عمل بھی کم یا سست ہوجائے گا جس کا الٹا نقصان یہ ہوگا کہ زمین کے نسبتاً سرد درجۂ حرارت کی وجہ سے کوئی بہتری آنے کے بجائے الٹا نقصان ہوسکتا ہے اور وہ پیداوار کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہے، کیوں کہ اس سے زمین کا ماحول اور اس کا کرۂ ہوائی تباہ ہوسکتا ہے۔

ماہرین کی ٹیم نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد دو سابقہ آتش فشانی دھماکوں کے اثرات پر رکھی تھی۔

اگر یہ آتش فشانی دھماکے فضا میں ایروسولز کے باعث زمین کو ٹھنڈا کرسکتے تھے تو ہم بھی ایک مقصد کے تحت کرۂ ہوائی میں ایروسولز کو انجیکٹ کرسکتے ہیں جس سے ہمارا کرۂ ارض ٹھنڈا ہوسکتا ہے اور ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے ناموافق اثرات سے بھی محفوظ ہوسکیں گے۔

دوسری جانب اسی یونی ورسٹی میں بحث کے دوران کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے فصلوں کی پیداوار پر کوئی اچھا یا مثبت اثر ہرگز نہیں پڑے گا، گویا ان کا کہنا تھا کہ یہ خاصا مشکل کام ہے، مگر یہ ایک فضول اور بے مقصد کوشش ہوگی۔ سورج کی حدت یا تیزی والی شعاعوں کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک ماہر نے تو یہ بھی کہا کہ جب ہم اپنے کرۂ ارض کے اوپر کسی بھی طرح کا سایہ کردیں گے تو اس سے واقعی اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد تو ملے گی اور ہماری فصلیں بہتر انداز سے اُگیں گی۔

مگر دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیڑ پودوں اور فصلوں کو بھی اگنے کے لیے سورج کی اور اس کی روشنی یا شعاعوں کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ دھوپ کو بلاک کرنے سے ان کی پیداوار پر منفی اثر پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح سے ہے جیسے آپ کسی ایسے مریض کے علاج کے لیے اس پر ایسا تجربہ کرنے کی کوشش کریں جس کے اثرات کا آپ کو پہلے سے کوئی علم نہ ہو یا اس کی ایسی سرجری کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں اس کی جان بھی جانے کا اندیشہ ہو۔ بہت ساری نامعلوم باتیں ہر معقول انسان کو بھی پریشان کردیتی ہیں اور خاص طور سے جب بات عالمی پالیسیوں کی ہو تو ہر انسان کوئی فیصلہ لینے سے پہلے سو بار سوچتا ہے کہ میں کیا کروں، پھر جو بھی کرتا ہے، اس کے نتائج کی پروا نہیں کرتا۔

اپنے طویل بحث و مباحثے کے دوران ماہرین نے یہ بھی کہا کہ زمین پر اُگنے والی فصلوں کو سورج کی تیز شعاعوں اور گرمی کے باعث پہنچنے والے نقصان سے بچانے کے لیے سب سے اچھا اور مناسب راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی اس پیاری اور حسین دنیا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خوف ناک اخراج سے بچائیں جس کے بعد ہماری فصلیں بھی بہتر پیداوار دینے کے قابل ہوں گی اور اس کرۂ ارض پر بسنے والوں کی زندگیوں کا معیار بھی بہتر ہوسکے گا اور وہ محفوظ زندگیوں کی طرف آئیں گے اور خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوسکیں گے۔

یہی ہماری دنیا کے مستقبل کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اسی سے ہماری زمین کے باسیوں کو بھی سلامی کا احساس ہوگا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کی دنیا کو قدرت نے ایک سسٹم کے تحت تخلیق کیا ہے جس میں دخل اندازی کرنے کا انسان کو کوئی حق نہیں، اگر انسان ایسا کرتا رہا تو بہت سی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں جس سے زمین پر زندگی کی بقا مشکل ہوجائے گی، بلکہ الٹا انسانی زندگی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔

The post سورج کی گرمی روک لو! appeared first on ایکسپریس اردو.

قائداعظمؒ کے آخری ایام

$
0
0

24 جولائی 1948ء سے 11ستمبر1948ء تک قائداعظمؒ کرنل الٰہی بخش اور ان کے دیگر ساتھی ڈاکٹرز کے زیر علاج رہے۔

اس دوران میں قائداعظمؒ اس قدر لاغراور ناتواں ہو چکے تھے کہ 13اگست کو طبی نقطۂ نظر سے زیارت سے کوئٹہ لے جانے کے لیے انہیں سٹریچر پر لٹا کر زیارت ریذیڈنسی کی سیڑھیوں سے نیچے لایا گیا اور انہیں ہیمبر لیموزین کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر کوئٹہ لے جایا گیا۔ وہاں جب ڈاکٹروں نے ان کے لیے اولاً چھ قدم پیدل چلنے کی ورزش تجویز کی تو اس کے لیے ڈاکٹر ریاض علی شاہ کو ان کا دایاں اورڈاکٹر الٰہی بخش کو بایاں بازو تھامنا پڑا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا ان پچاس ایام کے دوران میں قائداعظمؒ کی نقاہت اور ان پر بیماری کے حملے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ جب 11ستمبر کو کراچی لانے کے لیے انہیں سٹریچر پر کوئٹہ ائرپورٹ لے جایا گیا اور وہاں عملے نے انہیں سلیوٹ کیا تو وہ اس قدر نحیف ونزار تھے کہ بقول کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش:’’قائداعظمؒ کی طرف سے پھرتی سے دیئے گئے جواب پر ہم ہکا بکا رہ گئے۔

وہ اس قدر لاغر ہوچکے تھے کہ بستر پر کروٹ بدلتے وقت انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی اور کھانسنے کے لیے انہیں زور لگانا پڑتا تھا۔ ہم تعجب زدہ ہوئے کہ انہوں نے سلیوٹ اس قدر پھرتی سے لوٹانے کے لیے اپنے اندر قوت کس طرح مجتمع کرلی۔ جذبے کا یہ ناقابلِ فراموش اظہار حتٰی کہ گورکنارے بھی ان کی طرف سے یہ احساسِ فرض اور ڈسپلن کی ایک علامت تھا‘‘۔

اس قدر کمزور صحت اور مختلف بیماریوں میں گھرا رہنے کے باوجود بعض لوگ اس مؤقف پر قائم ہیں کہ قائداعظمؒ کی موت قدرتی نہ تھی، سازش کا نتیجہ تھا۔ یہ سوچ درست نہیں۔ قائداعظمؒ ایک عرصے سے بیمار تھے۔ اس کے کئی شواہد ہیں۔ مثلاً: قائداعظمؒ کے ایک معتمد اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری سید شمس الحسن نے قائداعظمؒ کے غیر سیاسی خطوط پر مشتمل’’…..پلین مسٹر جناحؒ‘‘ مرتب کی، جس کا میں نے ’’…..صرف مسٹر جناحؒ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کرکے ’’آتش فشاں‘‘کے تحت اسے شائع کیا۔ وہ لکھتے ہیں:’’…..لیگ کی تنظیم نو کے لیے انہیں حد سے زیادہ کام کرنا پڑا۔ ان کی صحت برباد ہوگئی۔ 1943ء کے بعد وہ شاذ ہی تندرست رہے‘‘۔ (…..صرف مسٹر جناح۔ صفحہ93)۔

24 اپریل 1945ء: قائداعظمؒ نے ماتھیران سے 6انڈرہل روڈ دہلی کے ڈاکٹر البرٹ بیٹی (ALBERT BATTY)کو خط میں لکھا:’’…..آپ جانتے ہیں کہ میں دہلی میں ایک طویل عرصے تک آپ کے زیر علاج رہا‘‘۔ (ایضا۔صفحہ:100)

مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ’’میرا بھائی‘‘ (پبلشر:آتش فشاں لاہور) میں قائداعظمؒ کی بیماری پر تفصیل سے لکھا ہے کہ قرارداد لاہور (23مارچ1940ء) کی منظوری کے بعد’’کام کی زیادتی کے باعث وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کا بھی خیال نہ رکھتے….. وہ اپنی صحت اور اس قسم کے دیگر معاملات سے قطعی بے نیاز ہو چکے تھے‘‘۔ (صفحات68، 69)۔ بیماری اور نقاہت کے باوجود وہ تقریبات اور جلسوں میں شریک ہوتے ۔

واپسی پر ان میں ہمت نہ رہتی اور وہ انہی کپڑوں اور جوتوں سمیت بستر میں لیٹ جاتے۔ نقاہت اور بیماری کی شدت کے باوجود، یکم جولائی 1948ء، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں کوئٹہ سے کراچی جا کر اس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ محترمہ نے اس حالت میں انہیں سفر سے باز رہنے کے حق میں دلائل دیے تو قائداعظمؒ نے کہا:’’تم میری صحت کے بارے میں اس قدر پریشان کیوں ہو۔ مجھے اپنا فرض بہرحال ادا کرنا ہے‘‘۔(صفحہ:96) ۔

سٹیٹ بینک کی اس تقریب کے حوالے سے محترمہ لکھتی ہیں:’’ تقریب میں موجود ہر شخص نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ قائداعظمؒ کی صحت خراب ہو چکی ہے۔ ان کی آواز بمشکل سنی جا سکتی تھی‘‘۔ (صفحہ:97) ۔

مرحوم خالد شمس الحسن نے مجھے بتایا:’’عین اس دوران میں یوں لگا کہ وہ گر جائیں گے۔ لیاقت علی خاںؒ وغیرہ کے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ لیکن قائداعظمؒ نے قوتِ ارادی سے اپنے آپ کو سنبھال لیا‘‘۔

قوتِ ارادی کے حوالے سے مجھے قائداعظمؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری(1944ء- 1947ء) کے ایچ خورشید نے ایک دفعہ یہ عجیب واقعہ بتایا:’’45ء میں مجھے ایک مدراسی نجومی ملا۔ اس نے بتایا کہ پاکستان بن کے رہے گا۔ میں نے اس سے دلیل مانگی تو وہ کہنے لگا کہ میں سیاست کی بنا پر نہیں اپنے علم کے زور سے ایسا کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ میں نے ایک دفعہ قائداعظمؒ کا ہاتھ دیکھا تھا۔ اب جو میں انہیں دیکھ رہا ہوں تو یہ صرف ان کی قوتِ ارادی ہے، کیونکہ وہ عزم کرچکے ہیں کہ پاکستان بنائے بغیر نہیں مریں گے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ وہ اس وقت تک انتقال نہیں کریں گے جب تک کہ پاکستان بن نہیں جاتا۔ یہ بھی بتادوں کہ پاکستان بن جانے کے بعد وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں گے‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر (اردو) جلد: دوم۔ ص:316۔ جون 2012ء۔ آتش فشاں لاہور)۔

یہ طے ہے کہ قائداعظمؒ ایک نصب العین کی خاطر زندہ رہے۔ جو وقت اور عمر ان کے آرام کرنے کی تھی اس میں بھی انہوںنے جدوجہد ترک نہ کی، بلکہ اس میں اور اضافہ کیا۔ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے غول کو قوم کا روپ عطا کیا اور ایک مادر وطن کے حصول کی جدوجہد انہیں بیماری کی طرف دھکیلتی رہی۔ بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی:’’…..فکر، تشویش اور اضطراب کے ساتھ ساتھ شدید محنت کے ہیبت ناک زور نے گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں منتقلی کے بعد ان کی صحت کے پرخچے اڑا دیئے‘‘۔

(قائداعظم جناحؒ، جیسا میں انہیں جانتا ہوں۔ پبلشر:آتش فشاں لاہور۔صفحہ386)۔

1936ء میں قائداعظمؒ ساٹھ برس کے تھے۔ تب بھی جُہدِ مسلسل کا یہ عالم تھا:’’غور فرمائیے! مسٹر جناح کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہوچکی تھی۔ انہوںنے اپنی ساری زندگی آرام و راحت اور تموّل میں گزاری تھی۔ وکالت کے ابتدائی دو، چار برسوں کی مشقت کے بعد قدرت نے انہیں زندگی کی تمام آسائشیں اور نعمتیں بڑی فراخ دلی اور فیاضی سے مہیا کردی تھیں۔ مدت سے ان کا یہ معمول چلا آرہا تھا کہ وہ گرمیوں میں سیرو تفریح کے لیے یورپ چلے جایا کرتے تھے۔ لیکن اب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ کر، جب قوائے انسانی کو آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، انہوں نے شب بیداریاں شروع کردی تھیں۔ (’’اقبال کے آخری دوسال‘‘۔مصنف:ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ صفحہ389۔اشاعت اول: اپریل 1961ء۔ ناشر و طابع:اقبال اکادمی،پاکستان کراچی)۔

مارچ 1941ء، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے لاہور میں ’’پاکستان سیشن‘‘ کیا۔ اس اجلاس کے حوالے سے سید مرید حسین شاہ نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا:

’’آخری دن فیڈریشن کی مجلس عاملہ کے لئے مخصوص تھا۔ نیڈوز ہوٹل کے لاؤنج میں یہ ایک قسم کی ملن پارٹی تھی۔ اس موقع پر قائداعظمؒ نے فرمایا:’’میں نے بمبئی بار میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی تو وہاں بہت ہی قابل وکیل تھے۔ ہندو، پارسی اور انگریز بار پر چھائے ہوئے تھے۔ مجھے سخت محنت کرنا پڑی۔ محنت سے میں نے جو مقام حاصل کیا وہ بے مثال تھا۔اس سے پہلے کسی کو یہ مقام حاصل نہ ہوا تھا ۔

جس طرح کی زندگی میں نے گزاری ہے آپ لوگ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اپنے پیشے میں جو کامیابی مجھے نصیب ہوئی اور جو شہرت میں نے حاصل کی ہے اس کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ محنت سے میں نے جو کما رکھا ہے وہ اس لحاظ سے کافی ہے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی آسودگی سے گزار سکوں ۔ اتنی محنت کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنا اگرچہ میرا حق بھی تھا لیکن میں نے اس کے باوجود ریٹائر ہونا پسند نہیں کیا۔ مال و دولت کی فراوانی اور عزت و شہرت کی معراج کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اگر میں غلام قوم کا ایک غلام فرد رہوں۔ یہی خیال مجھے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ یہ وقت میرے آرام کرنے کا تھا، لیکن میں قَریہ قَریہ گھوم رہا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست حاصل کی جا سکے۔

جس کے سامنے ہر دنیاوی آسائش اور عزت و شہرت کا ہرمقام ہیچ رہ جاتا ہے‘‘۔ (حوالہ:’’دی گریٹ لیڈر (اردو) ۔ جلد دوم ۔ص:158)۔ایک دفعہ جب ان کے ذاتی ڈاکٹرکرنل رحمٰن نے معائنے کے بعد کہا کہ انہیں ملیریا ہے۔ محترمہ لکھتی ہیں:’’انہوںنے اس کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرنے سے انکار کردیا:’’مجھے ملیریا نہیں ہے۔ مجھے کام کی کثرت نے نڈھال کر رکھا ہے‘‘۔ اس قسم کی صورت حال میں ظاہر ہے کہ آرام ہی سب سے بہترین دوا تھی، مگر آرام وہ کر نہیں سکتے تھے۔ ابھی انہیں بہت سا کام کرنا تھا۔ انہوںنے مجھ سے کہا :’’میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں گا اور اسے اپنی قوم کی خدمت میں صرف کردوں گا۔ اور جب وہ بھی ختم ہو جائے گا تو میرا کام مکمل ہو چکا ہوگا۔ پھر زندگی نہیں رہے گی‘‘۔

(میرا بھائی۔ صفحہ 82)۔

انہوں نے واقعی اپنی توانائی کا آخری اونس تک قوم کی نذرکردیا۔ بیماری کو راز میں اس لیے رکھا، کہیں برہمن قیادت اور انگریز حکمران ان کی موت کے منتظر نہ ہو جائیں۔ اس رازداری پر کرنل الٰہی بخش بھی حیران ہیں:’’جس کسی سے بھی میں ملا وہ قائداعظمؒ کی بیماری کی تمام تر تفصیل جاننے کے لیے مضطرب رہا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا، اسے راز میں کیوں رکھا گیا۔ میرا جواب صرف یہی ہو سکتا تھا، ایسا قائداعظمؒ کی اپنی خواہش پر کیا گیا….. یہ میری سمجھ سے بالا تھا کہ قائداعظمؒ نے اپنی بیماری راز میں رکھنے کی خواہش کیوں کی‘‘۔

اس کا جواب متحدہ ہندوستان کے آخری انگریز وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کی زبانی:-

وائیکاس پبلشنگ ہاؤس آف انڈیا نے 1983ء میں لیری کولنز(Larry Collins) اور ڈومینک لیپری (Dominique Lapierre) کی تصنیف’’مونٹ بیٹن اینڈ دی پارٹیشن آف انڈیا‘‘ شائع کی۔ پیپر بیک ایڈیشن۔ 296صفحات۔ اس کتاب کے 122صفحات پر پہلا حصہ مونٹ بیٹن سے انٹرویو پر مشتمل ہے۔

کولنز اور لیپری نے مونٹ بیٹن سے پوچھا، انہیں علم نہ تھا کہ مسٹر جناح ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں اور 6 ماہ تک ہی زندہ رہ سکیں گے۔اس پر مونٹ بیٹن نے کہا، دیکھیں! ساری طاقت اس شخص کے پاس تھی۔اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ کسی وقت بھی فوت ہوجائیں گے تو میں یہ سوال اب اپنے آپ سے کرتا ہوں، میں کہتا: ہندوستان کو تقسیم نہ کریں یکجا رہنے دیں۔ میں وقت کو پیچھے کی طرف دھکیل دیتا۔ اور اپنے مؤقف پر قائم رہتا؟….. تاہم یہ مجھے نہ بتایا گیا لیکن یہ حرکت مجرمانہ ہے۔ اور یہ میں اب ارتجالاً کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کو کسی قسم کی متحدہ صورت میں رکھنے کا یہی واحد موقع ہوتا۔ کیونکہ صرف وہی تھے۔ میں صرف وہی کا لفظ دہراتا ہوں کہ صرف وہی(مسٹر جناح) راستے کا پتھر تھے۔ دوسرے اس قدر بے لوچ نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی۔ (صفحہ57 تا 59) ۔

کرنل الٰہی بخش کی تصنیف بتاتی ہے کہ ان کی زندگی کے آخری50 یوم ان کی بیماری اور تھکن کا نقطہ ٔ عروج تھے کہ بستر میں کروٹ بدلتے وقت بھی انہیں تکلیف ہوتی اور کھانسنے کے لیے زور لگانا پڑتا تھا۔ لیکن قوم کو سربلند کرنے کی لگن اخیر دم تک چھائی رہی۔

تقدیر کے آگے کب کسی کا بس چلا ہے۔ نواب بہادر یار جنگ نے ایک جلسۂ عام میں دعا کی تھی: یا اللہ میری عمر قائداعظمؒ کو لگ جائے۔ اور جس مدراسی نجومی کا کے ایچ خورشیدمرحوم نے ذکر کیا ہے۔ اس کا اندازہ اپنی جگہ، ہمارا ایمان تو یہی ہے، موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے ہیرو کو مرتا دیکھ نہیں سکتے۔ اس کی موت کو غیر قدرتی سمجھنے لگتے ہیں جو کوئی ایسا لکھے یا کہے اسے درست جانتے ہیں۔ لیکن میری اب تک کی جستجو اور مطالعہ کی رو سے قائداعظمؒ کی موت سازش کا نتیجہ قطعاً نہ تھی۔ چونکہ ہمیں یہ منظور نہیں اس لیے شروع دن سے کرنل الٰہی بخش کی اس کتاب

“WITH THE QUAID-I-AZAM

DURING HIS LAST DAYS”

کے بارے میں یہ بات عام رہی، وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ کے حکم پر یہ کتاب ضبط کر لی گئی تھی، کہ اس میں ان کے بارے میں کچھ ناپسندیدہ باتیں تھیں۔ 1976ء قائداعظمؒ کی صد سالہ سالگرہ کے طور پر منایا جانا تھا۔ میں نے قائداعظمؒ کے ساتھیوں، ورکروں اور کسی مرحلے پر ان کے قریب رہنے والے افراد کی یادداشتوں پر مبنی انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن تک کسی نے رسائی نہ پائی تھی۔

ان انٹرویوز پر مبنی میں نے آتش فشاں کا 232 صفحاتی خصوصی نمبر شائع کیا۔ اس میں سید شریف الدین پیرزادہ کا انٹرویوبھی شامل ہے، جو میں نے ان سے30 نومبر 1975ء کوکراچی میں ان کی رہائش گاہ پر کیا تھا۔جب میں انٹرویو سے فارغ ہوا انہوں نے مجھے کہا، آپ کرنل الٰہی بخش کی کتاب کیوں نہیں چھاپتے؟ میرا جواب تھا، وہ کتاب تو ضبط ہے۔ پیرزادہ صاحب نے اس کی تردید کی۔ مجھے اس پر سخت حیرت ہوئی، کیونکہ ہم بچپن سے سن رہے تھے، وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ کے بارے میں کرنل الٰہی بخش نے اس میں کچھ ایسے حقائق افشا کئے کہ انہوں نے یہ کتاب ضبط کرا دی۔

پیرزادہ صاحب کی بات کی تصدیق کے لیے میں نے کراچی میں ڈاکٹروں کی انجمن کے ایک بڑے عہدہ دار ڈاکٹر سے صدر کراچی، نوید کلینک، میں ملاقات کی۔ وہ ڈاکٹر، کرنل الٰہی بخش کے ہم عصر تھے۔ میں نے ان سے پیرزادہ صاحب کی بات کی وضاحت چاہی تو انہوںنے بتایا، یہ درست ہے حکومت نے کرنل الٰہی بخش کی یہ تصنیف ضبط نہ کی، ہم نے البتہ مطالبہ ضرورکیا تھا، یہ کتاب ضبط کرلی جائے۔ میں نے اس مطالبے کی وجہ پوچھی توان کا کہنا تھا، اسے ہم نے اپنے پیشے کے منافی سمجھا کہ ایک ڈاکٹر علاج کے بعد اپنے مریض کو کتاب کا موضوع بنا ڈالے۔

لاہور واپسی پر میں اس کتاب کا ایک ابتدائی نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے اس میں لیاقت علی خاںؒ کے متعلق کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ملی۔ بلکہ ان کے بارے میں جو مواد ملا وہ ان کے حق میں تھا۔ مثلاً مصنف لکھتا ہے:

’’…..اس روز قائداعظمؒ نے دوپہر کا کھانا رغبت سے نہیں کھایا۔ ان کی کھانسی تکلیف دہ رہی اور شام تک ان کا ٹمپریچر بھی بڑھ چکا تھا۔ نو بجے کے قریب مجھے مس جناح کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں درج تھا کہ ان کی نبض کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔ میں گھبرا گیا، لیکن دوبارہ معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کوئی نئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے محترمہ کی ڈھارس بندھائی۔ نیچے کی منزل پر ڈرائنگ روم میں وزیراعظم سے میری ملاقات ہوئی، جو مسٹر محمد علی کے ہمراہ قائداعظمؒ کی خبر گیری کے لئے اسی روز آئے تھے۔

انہوں نے بڑی بے چینی سے قائداعظمؒ کی حالت دریافت کی، اور میری تحسین کی کہ میں مریض کا اعتماد حاصل کرکے پہلے مرحلے میں کامیاب رہا ہوں۔ انہوںنے امید ظاہر کی کہ یہ چیز ان کی صحت یابی میں مددگار ثابت ہوگی۔ انہوں نے مجھے سخت تاکید بھی کی کہ میں اس طویل بیماری کی اصل وجہ کاکھوج لگاؤں۔ میں نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ قائداعظمؒ کی تشویش ناک حالت کے باوجود بڑی امید ہے کہ اگر جدید ترین ادویات، جو کراچی سے منگوائی گئی ہیں، کے مثبت اثرات ظاہر ہوگئے تو ان کے صحت یاب ہونے کا امکان ہے۔ اور سب سے زیادہ امید افزا بات مریض کی مضبوط قوتِ مدافعت ہے۔ وزیراعظم کو اپنے چیف اور دیرینہ رفیق کی صحت پر جو گہری تشویش تھی میں اس سے بہت متاثر ہوا‘‘۔ (کرنل الٰہی بخش:ود دی قائداعظمؒ ڈیورنگ ہز لاسٹ ڈیز۔1949ء۔صفحہ23 ، 24۔ پبلشرز:مکتبہ المعارف، لاہور)۔

گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ایک آخری اے ڈی سی (تب کیپٹن) این اے حسین کے اس بیان سے بھی کرنل الٰہی بخش کی تائید ہوتی ہے:

’’وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاںؒ زیارت آئے، جہاں انہوںنے دو رات قیام کیا۔ ا س دوران انہوں نے قائداعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناحؒ اور ڈاکٹروں سے ملاقاتیں کیں۔ باہر سے سپیشلسٹ بلانے کے لئے بہت زور لگایا، قائداعظمؒ اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو وزیراعظم نے ان سے علاج کیلئے باہر جانے کی درخواست کی۔ قائدؒ نے اس بات سے بھی اتفاق نہ کیا۔ اب انہیں وزیراعظم نے کراچی تشریف لے آنے کی ترغیب دی کہ وہیں باہر سے ماہرین بلوا لیے جائیں گے۔ قائداعظمؒ نے ان کا یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا۔ وزیراعظم مکمل طور پر مایوس ہوچکے تھے۔

وہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو قائدؒ کے کمرے سے باہر لے آئے، اور محترمہ سے جو کہا وہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں:’’محترمہ! قطع نظر اس سے کہ قائداعظمؒ آپ کے بھائی ہیں، وہ ہماری بھی متاعِ عزیز ہیں۔ ہمیں ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہئے‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر(اردو) ۔ جلد: اول۔ اگست 2011ء۔ ص:152 آتش فشاں لاہور) ۔

نومبر2003ء- روزنامہ جنگ لاہور میں قائداعظمؒ کی موت پر بحث چھڑی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین کے بیانات اورنذیر ناجی کے کالموں کے ایک سلسلے میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قائداعظمؒ کو ایک سازش کے تحت ہلاک کیا گیا تھا۔ میں نے روزنامہ ایکسپریس لاہور میں اس کا تفصیلی اور حوالوں سے جواب دیا، جومیری کتاب ’’قائداعظمؒ- اعتراضات اور حقائق‘‘ کا ایک باب ہے۔ اس لیے میں نے یہاں زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کیا ہے۔

کراچی میں قائداعظمؒ کو جس ایمبولینس کے ذریعے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا جا رہا تھا، راستے میں اس کے خراب ہو جانے کو بھی سازش کہا جاتا ہے۔ میں اس پر کوئی حتمی رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن اب تک کی دستیاب معلومات کی رو سے یہ سازش ہرگز نہ تھی۔ ہمیں اس سلسلے میں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ قائداعظمؒ سٹریچر پر گورنرجنرل ہاؤس جانے کے قطعاً حق میں نہ تھے۔

اس کی کرنل الٰہی بخش سے بھی تصدیق ہوتی ہے، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے محترمہ فاطمہ جناحؒ سے گزارش کی کہ وہ قائداعظمؒ کو کراچی جانے کے لیے رضامند کریں تو محترمہ نے بتایا:’’وہ ایک معذورشخص کی حیثیت میں گورنر جنرل ہاؤس واپس جانا نہیں چاہتے‘‘۔اس کے بعد کرنل الٰہی بخش قائداعظمؒ کے ساتھ ملاقات میں انہیں کراچی جانے پر آمادہ کرنے کے لیے دلائل دیتے ہیں تو قائداعظمؒ کہتے ہیں:’’مجھے بیساکھیوں پر کراچی مت لے جائیں۔ میں وہاں اس وقت جاؤں گا جب میں کار سے اپنے کمرے تک چل کر جا سکوں۔ آپ کو پتہ ہے، میرے کمرے تک پہنچنے کے لیے پورچ سے آپ کو اے ڈی سی اور پھر ملٹری سیکرٹری کے کمرے کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ میں کار سے اپنے کمرے تک سٹریچر پر جانا پسند نہیں کرتا‘‘۔

10ستمبر1948ء- ڈاکٹروں نے اگلے روز، 11ستمبر، قائداعظمؒ کو کوئٹہ سے کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ کراچی سے کوئٹہ جہاز بھیجنے کے لیے بقول اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین:’’چنانچہ مظہر اور میں نے قائدؒ کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز سے کراچی میں رابطہ قائم کرنے کے لیے کال بک کرائی….. محترمہ فاطمہ جناحؒ نہیں چاہتی تھیں کہ لوگ قائداعظمؒ کوسٹریچر پر دیکھیں، اس لیے انہوں نے ہمیں بلا کر خاص طور پر تاکید کی: ’’ملٹری سیکرٹری کو بتادیں کہ کراچی میں قائداعظمؒ کا یہ       Arrival (ورود) پرائیویٹ ہوگا‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر۔ جلد:اول۔ ص:154و155)۔

ایسا ہی کیا گیا حتٰی کہ بقول بریگیڈیئر (ر) این اے حسین:’’جہاز کوئٹہ ائرپورٹ سے اڑا تو جس کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ کرنل نولز کو اس کی اطلاع کردے، اسے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ملٹری سیکرٹری کو کہہ دے کہ کراچی میںقائداعظمؒ کی آمد سراسر پرائیویٹ ہے‘‘۔ (ص:155)۔

گورنر جنرل کے پرائیویٹ وزٹ یا ارائیول پر اس کا ذاتی سٹاف ائرپورٹ پر آتا ہے۔ وزیراعظم اور کوئی دوسرا سرکاری عہدہ دار نہیں آتا۔گورنر جنرل کا پرسنل سٹاف یہ تھا:ملٹری سیکرٹری، کمانڈنٹ گورنر جنرل کا باڈی گارڈ، اے ڈی سی، کمپٹرولر آف دی ہاؤس ہولڈ، پرائیویٹ سیکرٹری، اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری۔

قائداعظمؒ کے ذاتی معالج کرنل رحمٰن کراچی میں ہی تھے۔ بریگیڈئر(ر)این اے حسین کا کہنا ہے کہ ملٹری سیکرٹری نے ایمبولینس کے لیے کرنل رحمٰن سے رابطہ کیا’’ کرنل رحمٰن نے کراچی میں تمام اچھی ایمبولینسوں کا معائنہ کرنے کے بعد جو بہترین تھی وہ قائداعظمؒ کے لیے منتخب کی‘‘۔(ص:156)۔

وہی ایمبولینس ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس جاتے ہوئے راستے میں خراب ہوگئی۔ اے ڈی سی کے بیان کے مطابق اس ایمبولینس کا انتظام وزیراعظم لیاقت علی خاںؒ نے کیا تھا نہ حکومت نے۔ درست کہ دوسری ایمبولینس ساتھ نہیں رکھی گئی۔ یہ کوتاہی یا غلطی ہوگئی۔ اگر اسے سازش قراردیا جائے تو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے قائداعظمؒ کی موت ایمبولینس کی خرابی کے باعث قطعاً نہ ہوئی۔

جیسا کہ کرنل الٰہی بخش لکھتے ہیں:’’ہم چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پورکے ہوائی اڈے پر اترے‘‘۔ چار میل طے کرنے کے بعد جب ایمبولینس خراب ہوگئی اور دوسری ایمبولینس آنے میں جو وقت صرف ہوا اس کے باعث وہ گورنر جنرل ہاؤس مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے:’’ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترنے کے قریباً دوگھنٹے بعد چھ بج کر دس منٹ پر ہم اپنی منزل پر پہنچے‘‘۔ قائداعظمؒ فوت ہوتے ہیں دس بج کر بیس منٹ پر ۔ ان کی رحلت میں ایمبولینس کی خرابی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

اگر قائداعظمؒ کی موت طبعی نہ ہوتی تو کیا خیال ہے ان کی ہمشیرہ مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ خاموش رہتیں؟ انہوں نے ہی کرنل الٰہی بخش کی کتاب کی تمہید لکھی ہے۔ اس میں اشارۃً بھی ایسا شبہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی انہوں نے ’’میرا بھائی‘‘ میں ایسا لکھا ہے۔

10ستمبر کی صبح ڈاکٹر کوئٹہ میں قائداعظمؒ کا جو معائنہ کرتے ہیں، اس بارے میں کرنل الٰہی بخش لکھتے ہیں:’’ہم نے مس جناحؒ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا، معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ قائداعظمؒ کا ایک یا دو روز سے زائد زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے کتاب کی تمہید میں یہ لکھ کر کرنل الٰہی بخش ہی کی نہیں اس امر کی بھی تصدیق کردی کہ قائداعظمؒ کی موت کسی سازش کا نتیجہ نہیں، طبعی تھی:

’’قائداعظمؒ کی ناقابلِ تسخیر شخصیت کے ساتھ ایک معالج کے آخری چند روزہ رابطے کی یہ مختصر روئداد الجھن کے شکار ان افراد کی وہ گہری تشویش دور کردے گی جو قائداعظمؒ کی بیماری اور رحلت کے سبب سے آگاہ ہونے کے شدید خواہاں ہیں۔ یہ ان کی بیماری اور رحلت کے وقت اور جگہ کے متعلق کئی بے بنیاد افواہوں کو باطل کردے گی‘‘۔

لیکن ہوا اس کے برعکس، افواہوں نے ایسا جنم لیا کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ختم نہیں ہو رہیں، الٹا وہ پختہ ہو رہی ہیں بلکہ بہ قائمی ہوش و حواس انہیں پختہ کیا جا رہا ہے۔

The post قائداعظمؒ کے آخری ایام appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4690 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>