Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4759 articles
Browse latest View live

سچ اور جھوٹ؛ ایک سوال

$
0
0

ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا ہے۔

بعض سوال بھی ریشم کے لچھے کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ سرا پکڑنے اور سلجھانے کی جتنی کوشش کیجیے، وہ اتنے ہی الجھتے چلے جائیں گے۔ کتنا ہی سنبھال لیجیے، مجال ہے جو ذرا سا بھی سنبھل جائیں۔ اِدھر ذہن کا مسئلہ یہ کہ اگر ایک بار کسی شے میں الجھ گیا تو جیسے پھانس ہی تو چبھ گئی، اب یہ جب تک نکلے نہ، بھلا چین کیسے آئے۔ سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اپنی اپنی طبیعت کا معاملہ ہے۔

انسانوں کے صرف چہرے ہی الگ نہیں ہوتے، مزاج بھی جدا ہوتے ہیں۔ مزاج کی تشکیل میں آپ کے انفرادی رویے بھی ایک کردار ادا کرتے ہیں اور کچھ چیزیں آپ اپنے خون میں، یعنی جینز میں لے کر پیدا ہوتے ہیں، جنھیں بدلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ وہ آپ کے اندر شروع سے ہوتی ہیں اور آخری سانس تک رہتی ہیں۔ یہ سوچنے اور غور کرنے کی عادت بھی ایسی ہی ایک چیز ہے۔

اگر آپ کا ذہن حالات، واقعات، معاملات، چیزوں، لوگوں، کاموں کے بارے میں سوچنے کا عادی ہے تو آپ اسے روک نہیں سکتے۔ وہ اگر کسی سوال پر اٹک گیا ہے تو آپ اُسے اُدھیڑ بن کے عمل سے گریزاں نہیں رکھ سکتے۔ وہ اپنا کام اپنے انداز سے بنا کچھ کہے، بنا کچھ پوچھے کرنے لگتا ہے، کرتا چلا جاتا ہے اور کرکے رہتا ہے۔ آپ لاکھ اِدھر اُدھر دھیان لگانے کی کوشش کیجیے، لیکن خیال کی رَو اپنے راستے پر چلتی رہتی ہے۔

وقتی طور پر یہ ہو تو سکتا ہے کہ آپ کچھ اور دیکھنے اور سوچنے میں منہمک ہوجائیں، لیکن آپ کا ذہن اُس پھانس سے ہٹ جائے جو کہیں ہتھیلی میں یا پھر کسی انگلی کی پور میں کھٹکتی رڑکتی محسوس ہوتی ہے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کا بس ایک ہی حل ہے، اسے دیکھیے، محسوس کیجیے اور نکالنے کی صورت بنائیے۔ اسی طرح اگر ذہن میں کسی سوال کی چپکیں محسوس ہونے لگی ہیں تو اس سے نظریں چرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک ہی چارۂ کار ہے، اُس کا سامنا کیجیے، اس کے بارے میں سوچیے، اس پر بات کیجیے— جھجک، خوف، مصلحت، احتیاط اور تحفظ کے بغیر۔

یہ باتیں بے مصرف نہیں ہیں، بلکہ بالارادہ اور اس مقصد سے کی گئی ہیں کہ آپ کی توجہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پر مرکوز ہوسکے جو اس وقت بیان کیا جارہا ہے۔ اب آئیے اس سوال کی طرف۔ گزشتہ دنوں ایک ادارے نے جو عالمی سطح پر اس طرح کے کام کرتا رہتا ہے، ایک سروے کیا۔ یہ دنیا کے ملکوں اور قوموں کے بارے میں تھا اور اس کا مقصد اس امر کا تعین کرنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں قومی یا اجتماعی سطح پر جھوٹ کا تناسب کیا ہے اور لوگ آپس کے معاملات میں دیانت داری کا رویہ کس حد تک اختیار کرتے ہیں؟ سروے کی نوعیت کے بارے میں جان کر ممکن ہے، آپ کو تعجب ہوا ہو اور آپ سوچیں کہ عالمی اداروں کو ایسے سوالوں سے کیوں دل چسپی ہوگئی ہے اور ان کے جواب سے انھیں کیا حاصل ہوگا۔ تو چلیے آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اسی نکتے کو دیکھے لیتے ہیں۔

یہ جو ترقی یافتہ اقوام اور ان کے ادارے اس قسم کے کاموں کا ڈول ڈالتے رہتے ہیں، یہ کبھی بے سبب نہیں ہوتے۔ ایسے کسی بھی منصوبے کو عملی سطح پر لانے سے پہلے اس کے بارے میں بہت اچھی طرح اور تمام ممکنہ پہلوؤں سے غور کیا جاتا ہے۔ اُن کے حوالے سے کچھ اہداف مقرر ہوتے ہیں اور پھر ان کے حصول کے لیے سنجیدگی اور ذمے داری سے کوششوں کا آغاز ہوتا ہے۔ چناںچہ اس نوع کے سروے کرنے والوں کو ان کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ جس ملک کے لیے انھوں نے جو ہدف مقرر کیا تھا اور اس کے لیے جو کوششیں کی گئی تھیں، اس میں کام یابی کی شرح کیا ہے اور مزید کس قدر اور کن خطوط پر کام کی ضرورت ہے۔

وہ معاشیات کا پھندا ہو یا سماجیات کا چنگل، سیاسیات کی شطرنج ہو یا دہشت کی ثقافت کا جال، کس کو کہاں، کس طرح اور کب استعمال کرنا ہے، عالمی طاقتیں اور ان کے ادارے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسی سروے رپورٹس سے بھی کام لیتے ہیں۔ ایسی ہی رپورٹس کی روشنی میں وہ دنیا کے ملکوں اور قوموں میں اپنے لیے کام کرنے والے مقامی گماشتے تلاش کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ یہ رپورٹس ان گماشتوں کے کام کا دائرہ اور ان کی خدمات کا معاوضہ طے کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا کی تبدیلی کے پس منظر میں جو سب سے بڑا محرک اب تک کام کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا، اس کا تعلق معاشیات سے ہے۔ قدیم تاریخ سے اس عہدِجدید تک آپ ایک ملک کی ترقی کو دوسرے کے استحصال سے جڑا ہوا دیکھیں گے۔ ایک قوم کے فروغ میں دوسری کا انحطاط کارفرما دکھائی دے گا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ عالمی یا بیرونی قوتیں اپنے مقامی ایجنٹ مقرر کرنے کے باوجود ایک مرحلے پر براہِ راست اقدام یا جارحیت اختیار کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں، لیکن اب وہ انسانیت، جمہوریت، ثقافت، امن اور تحفظ کے نام سے اپنے لیے آڑ قائم کرتی ہیں اور پھر دھڑلے سے ننگی جارحیت کا کھیل دکھاتی ہیں۔ اس بیان کی تصدیق اور اپنے عہد کی اس حقیقت کے مشاہدے کے لیے آپ اس وقت بس ایک نگاہ شام، مصر اور فلسطین پر ڈال لیجیے۔

خیر، اِس وقت ہمارا موضوع عالمی سیاسی منظرنامہ ہے اور نہ ہی طاقت اور معاشیات کا مکروہ شیطانی کھیل۔ جیسا کہ اس گفتگو کے آغاز میں کہا گیا، ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا ہے۔ اس سوال کا تعلق دنیا سے کم اور اپنے آپ سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس پھانس کی کھٹک کچھ زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سب خود کو دھوکا دے رہے ہیں— یعنی اپنے آپ کو یا آپس میں ایک دوسرے کو؟

اصولی طور پر تو اِس وقت پوری امتِ مسلمہ کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، لیکن چلیے، اتنے بڑے دائرے میں حالات و حقائق کو بعد میں دیکھیں گے، فی الحال تو ذرا صرف اپنے گریبان میں جھانکتے اور اپنی قومی صورتِ حال کو دیکھے لیتے ہیں۔ پاکستان اسلامی مملکت ہے۔

یہاں دن میں پانچ بار ہزاروں نہیں لاکھوں مساجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے اور اس پکار کے جواب میں بلامبالغہ کروڑوں افراد خدا کے آگے سر جھکاتے ہیں، ہزاروں مدارس ہیں جہاں تدریسِ دین کا کام ہوتا ہے اور لاکھوں طلبہ دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، رمضان کے مہینے میں بلاشبہہ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے کیسے روح پرور مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں، ویسے بھی سال بھر لوگ اللہ رسولؐ کے نام پر انسانوں کی فلاح اور انسانیت کی خدمت کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، سیکڑوں فلاحی ادارے اور اسپتال خاموش مالی مدد کے طفیل چل رہے ہیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقع آتا ہے تو کیسے کیسے جلوس نکلتے ہیں کہ لاکھوں لوگ امڈ آتے ہیں، عاشورۂ محرم میں غمِ حسینؓ کا منظر کیسا دیدنی ہوتا ہے۔

مسجدیں عام دنوں میں بھی نمازیوں سے بھری ہوئی ملتی ہیں، تبلیغی جماعت کے اجتماع کو مسلمانوں کی جوق در جوق شرکت نے حج کے بعد سب سے بڑا اجتماع بنا دیا ہے۔ نفلی عبادات، قرأت، نعت اور قوالی کی محفل کہیں ہو تو مجمع سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ان سب باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ بہت کچھ ثابت ہوتا ہوگا، لیکن ایک چھوٹی سی بات تو بچوں کو بھی سمجھ آجاتی ہوگی، یہ کہ ہم دین دار لوگ ہیں۔ ہم اللہ رسول سے محبت کرتے ہیں اور اُن کے نام پر جان و تن وارنے کے لیے ہر گھڑی تیار۔ بس یہیں ایک لمحے کے لیے رکیے۔ اسی مرحلے پر سوال کا سامنا ہے، اور سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر دیانت داری کے اس سروے میں ہمارا نمبر ایک سو ساٹھ (160) کیوں ہے؟

یہ چھوٹا سا سوال ذہن کو الجھاتا ہے اور دل کو الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ دیانت داری تو ہمارے دین کی تعلیم کا پہلا سبق ہے۔ یہ ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی شخصیت کا وہ بنیادی جوہر ہے جسے خداوندِ عالم نے منصبِ نبوت پر فائز کرنے سے بھی پہلے اُن کے کردار و عمل کا جزوِ لاینفک بنا دیا تھا۔ عرب کا معاشرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کی حیثیت سے جاننے اور دیکھنے سے بہت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کی حیثیت سے پہچانتا اور مانتا تھا۔

اللہ کے آخری پیغام کی دعوت لے کر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اس معاشرے کی طرف آئے تو تبلیغِ دین سے پہلے سوال کیا کہ تم مجھے جانتے ہو، تم نے مجھے کیسا پایا؟ اپنے پرائے، چھوٹے بڑے اور امیر غریب سب کا ایک ہی جواب تھا کہ آپ سچے اور دیانت دار ہیں۔ ایسے صادق اور امین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کا یہ حال کہ انھوں نے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس کے بالکل برعکس کردار اختیار کیا ہے۔ افسوس صد افسوس۔ اُس دین کے ماننے والے جو صداقت پر اصرار کرتا ہے، انفرادی زندگی میں اُسے شخصیت کا جوہر بناتا ہے اور اجتماعی زندگی میں خیر کے فروغ اور حصول کا لازمہ قرار دیتا ہے، اس کے پیروکار صداقت و دیانت سے ایسے بے بہرہ، اس قدر غافل۔ حیف صد حیف۔

سوچنا تو چاہیے کہ ہماری یہ نمازیں، یہ روزے، یہ زکوٰۃ و خیرات، انسانی ہم دردی، میلاد، تبلیغِ دین، ماتمِ حسین، غربا، مساکین اور درماندہ لوگوں کے لیے کھانے کے دسترخوان جہاں بلامبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں ہی افراد رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق سے آزاد عزت سے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، کتنے ہی اسپتال ہیں جہاں کروڑوں روپے چپ چاپ بھیجے جاتے ہیں اور بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے، بھیجنے والے یہ نہیں پوچھتے کہ ہمارا پیسا کس پر کتنا خرچ ہورہا ہے اور علاج کی سہولت پانے والے یہ نہیں جانتے کہ کس سے انھیں فیض پہنچا ہے۔

دونوں کے بیچ انسانیت کا رشتہ ہے جس پر دونوں ہی پورا اعتبار کرتے ہیں۔ اسی طرح کتنی بیوہ خواتین اور یتیم و بے آسرا بچے ہیں جن کی ہر ممکن امداد اسی معاشرے کے زید، بکر اور عمر خاموشی اور ذمے داری سے کرتے ہیں، غریب ماں باپ کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے اور گھر بسانے کے لیے مدد فراہم کرنے والے بھی اسی طرح بے آواز جذبے سے کام کرتے ہیں۔ یہاں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو پھر یہ جھوٹ اور بددیانتی کا الزام کیسا ہے؟

اس بات پر ذرا اطمینان سے، ٹھنڈے دل اور کھلے ذہن سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کاموں کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، وہ یقینا ہورہے ہیں اور ان میں سے کتنے ہی واقعات اور حقائق کے آپ اور ہم گواہ ہیں، کوئی جانتے بوجھتے اندھا بن جائے تو بات الگ ہے، ویسے ان سب کاموں کے ہمارے یہاں ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ خیر کے ان سب کاموں کے باوجود ہمارا معاشرہ فرشتوں کا معاشرہ نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے انسانی معاشروں میں چور، اُچکے، ڈاکو، قاتل، ظالم، جابر، فاسق اور منافق لوگ ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایسے کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی ہیں، لیکن ایسے لوگوں کا ہمارے یہاں ایک تناسب ہے، پورا معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر پورے معاشرے کے آگے سوالیہ نشان کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ ملک کی ساری آبادی کو جھوٹا اور بددیانت کیوں کر کہا جاسکتا ہے؟ یہ ماننے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کہ جو لوگ خیر کے، بھلائی کے، محبت و اخلاص کے اور انسانی فلاح کے کام کرتے ہیں، ان سے بھی زندگی میں کچھ لغزشیں ہوتی ہوں گی، گناہ سرزد ہوتے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور انسان خطا کا پتلا ہے، لیکن کیا کسی کمی، کوتاہی یا غلطی کی بنیاد پر ان کی بھلائی کے بڑے بڑے کاموں کی نفی کرنا انصاف کی بات ہے؟ ہرگز نہیں۔

اچھا تو پھر یہ سروے رپورٹ ہمیں کیا بتا رہی ہے؟ جھوٹا اور بددیانت۔ ماننا چاہیے کہ ہمارے یہ مسائل ضرور ہوں گے، لیکن یہ سروے کن لوگوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے؟ اس کا ڈیٹا کن لوگوں کے جائزے یا جوابات پر مشتمل ہے؟ کتنے لوگوں سے رابطے کے بعد یہ نتائج مرتب کیے گئے ہیں؟ جو ڈیٹا مرتب ہوا، کیا اسے کراس چیک کیا گیا؟ سروے کا بنیادی محرک کیا ہے؟ اس کے نتائج کن لوگوں کے لیے کارآمد یا مفید ہوں گے؟ یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات سامنے رکھے جائیں تو سروے اور اس کے نتائج کی حقیقت و حیثیت کے آگے خود ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

ان جوابات کے تقابل میں پاکستانی قوم کے روزمرہ معمولات، حقائق اور واقعات کو دیکھنے سمجھنے والا کوئی بھی پڑھا لکھا، عقلِ سلیم اور متوازن ذہن رکھنے والا آدمی ذرا تحمل سے ان سوالات پر غور کرنے کے بعد اس سروے رپورٹ کو من و عن قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ اس کے بارے میں سوال اٹھائے گا، اس کے نتائج کی چھان پھٹک پر اصرار کرے گا اور پھر اس کے سامنے اس کے برعکس نتائج آئیں گے، اور وہ اس سروے رپورٹ کو مسترد کردے گا۔

ہم مانتے ہیں کہ واقعی ہم فرشتوں کا معاشرہ نہیں ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم شیطانوں کا سماج بھی ہرگز نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں خیر اور بھلائی کے کام کرنے والوں کی تعداد شر اور برائی کرنے والوں سے بدرجہا زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں انسانی فلاح کا کام کرنے والوں کا تناسب ان اقوام سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہوگا، جو انسان دوست کہلاتی ہیں۔ ہمارا قومی یا اجتماعی مسئلہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ ہمیں اچھے حکم راں (سیاست داں) میسر نہیں ہیں۔ ملک و قوم کا نظم و نسق چوںکہ انھی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لیے ہم ایک اعلیٰ نظامِ حیات رکھنے کے باوجود اجتماعی سطح پر وہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے جو اچھے حکم رانوں کے میسر آنے پر باآسانی کرسکتے ہیں۔

ہمارے یہاں افراد اپنے بے پایاں جذبے اور بے نہایت اخلاص کی وجہ سے وہ کچھ کررہے ہیں جو نام نہاد بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں ادارے بھی ذرا مشکل سے کرتے ہیں۔ ہم چوںکہ ترقی یافتہ نہیں ہیں، ترقی پذیر ہیں، لیکن ہمارے اقتدار سے وابستہ افراد ہمیں پس ماندگی کی سمت دھکیلنے میں لگے رہتے ہیں، اس لیے ہمیں من حیث القوم جمنے اور ابھرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ یہ بلاشبہ ہماری بدقسمتی ہے، کم زوری ہے، لیکن آتے ہوئے زمانے کی ہوائیں یہ خبر لارہی ہیں کہ ہم گرداب و گردش کے اس مرحلے سے نکلنے کی سمت بڑھے بغیر نہیں رہیں گے۔

ممکن ہے، کچھ لوگوں کو یہ باتیں خوش امیدی اور خوش گمانی کا اظہار معلوم ہوں، لیکن آپ یہ یقین جانیے، اس خیال اور اس احساس کی بنیاد اپنی قوم کے مزاج اور اپنے لوگوں کی فطرت کے شعور پر ہے۔ یہ خوش گمانی اگر ہے بھی تو خود آگاہی کی پیدا کردہ ہے۔ ہماری عبادات، ہماری بھلائی اور خیر کے کام سب حقیقت ہیں، اور اخلاص کے جذبے کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔

ہم من حیث المجموع کسی کو دھوکا نہیں دے رہے۔ ہماری انسان دوستی، امن پسندی اور خیر طلبی دنیا دکھاوا نہیں، ہمارے باطن کا فطری تقاضا اور اس کا عملی اظہار ہے۔ ہم ایسی ہر سروے رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں جو ہمیں اپنی بھلائی اور سچائی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا سبق دے، ہمیں ایک دوسرے سے بدظن کرے اور ہماری مثبت قدروں کو منہدم کرنے کی کوشش کرے۔

The post سچ اور جھوٹ؛ ایک سوال appeared first on ایکسپریس اردو.


دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک کے ٹو پر اسکینگ کرنے والا پہلا سورما

$
0
0

’’جو انسان خطرات مول لے، صرف وہی جان سکتا ہے کہ دلیری کی آخری حد کہاں تک ہے۔‘‘ (انگریز ڈرامہ نگار، ٹی ایس ایلیٹ)

اگر کوئی آپ سے کہے کہ چھوغوری المعروف بہ کے ٹو پہاڑ کی چوٹی سے پھسلتے یا اسکینگ (Skiing) کرتے ہوئے نیچے آئیے، تو آپ بے ہوش نہیں تو حواس باختہ ضرور ہوجائیں گے۔ وطن عزیز میں واقع دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ، کے ٹو اپنی عمودی چٹانوں،دشوار گذار موڑوں ،کھائیوں اور خطرناک برفانی تودوں کی وجہ سے دنیائے کوہ پیمائی میں بطور ’’بے رحم پہاڑ‘‘(Savage Mountain) مشہور ہے۔ اس پہاڑ پر اسکینگ کرنا تو گویا موت کو دعوت دینا ہے۔

انسان عزم و ہمت کا پتلا ہے۔ خطرات سے مقابلہ اور چیلنج قبول کرنا اس کی فطرت ہے۔ یہ انسان کا عزم ہی ہے جو اس سے بظاہر ناممکن دکھائی دینے والے کام بھی کروا ڈالتا ہے۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے :’’کامیابی کو کبھی قطعی نہ سمجھئے اور ناکامی بھی جان لیوا نہیں ہوتی، صرف دلیری و بہادری اہمیت رکھتی ہے۔‘‘ پچھلے دنوں اسی دلیری کے باعث پولینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک تیس سالہ نوجوان، آندرے برجیل(Andrzej Bargiel)  اسکینگ کرتے ہوئے کے ٹو سے اترنے والا دنیا کا پہلا انسان بن گیا۔ یہ اعزاز اسے اپنی دلیری ،بے خوفی اور تجربے کے باعث ہی حاصل ہوا۔

آندرے برجیل مشہور اسکینگ کوہ پیما ہے۔ اسکینگ کوہ پیمائی (Alpine skiing)فن اسکینگ کی ایک قسم ہے۔ اس  میں پہلے بے خوف و نڈر انسان اسکی یا چوبی تختے لیے کسی بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ وہاں پھر وہ اسکی پیروں پر باندھتے اور اسکینگ کرتے نیچے اترتے ہیں۔ یہ تیز رفتاری اورجوش وولولے کا نہایت سنسی خیز نظارہ ہوتا ہے۔ مگر یہ خطرناک مرحلہ انجام دیتے ہوئے کئی انسان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کے ٹو پر  اسکی پہ کھڑے ہو کراترنا  ہر اسکینگ کوہ پیما کا خواب رہا ہے۔ مگر کٹھن راستے کی دشواریاں خواب کو عملی جامہ پہنانے میں حائل ہوتی رہیں۔1970ء میں چاپان کا اسکینگ کوہ پیما، یوئیشیرو میورا (Yuichiro Miura) دنیا کے بلند ترین پہاڑ، ماؤنٹ ایورسٹ پر  اسکینگ کرنے والا پہلا انسان بن گیا۔ تاہم انسانی ہمت کے ٹو پر اسکینگ کرنے کے کٹھن مرحلے کو سر نہ کرسکی۔

آخر 2001ء میں اٹلی کے مشہور کوہ پیما، ہانس کیمرلینڈر(Hans Kammerlander) نے اسکینگ کرتے ہوئے کے ٹو سے اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کیمرلینڈر ہی ہے جس نے 1990ء میں دنیا کے نویں بلند ترین پاکستانی پہاڑ، نانگا پربت پر اسکینگ کرنے والا پہلے سورما کا اعزاز پایا تھا۔ تاہم ایک المیے کی وجہ سے وہ کے ٹو پر اسکینگ نہیں کرسکا۔ ہوا یہ کہ اس کا جنوبی کورین ساتھی کوہ پیما ایک چٹان پہ چڑھتے ہوئے گر کر ہلاک ہوگیا۔ چناں چہ کیمرلینڈر  نے اپنا پروگرام ملتوی کردیا۔

آٹھ سال بعد 2009ء میں امریکی اسکینگ کوہ پیما، ڈیوڈ واٹسن بھی کے ٹو کی ہیبت و خوفناکی پر قابو نہ پاسکا۔ اگلے سال تو یہ قاتل پہاڑ سویڈن کے اسکینگ کوہ پیما، فریڈرک ارکسن کو نگل گیا۔ ارکسن چوٹی پر پہنچ کر اسکینگ کرتے نیچے اترنا چاہتا تھا مگر راستے ہی میں موت کے جان لیوا شکنجے نے اسے آدبوچا۔ 2011ء میں جرمن اسکینگ کوہ پیما، لوئس سٹٹزنگر کی سعی بھی ناکام گئی۔چھ سال بعد 2017ء میں پولش مہم جو،آندرے برجیل نے فیصلہ کیا کہ ناقابل تسخیر بے رحم پہاڑ کو انسانی دلیری اور عزم و حوصلے کی مدد سے مسخر کیا جائے۔ لیکن اس بار موسم کی خرابی آڑے آگئی۔ گویا کے ٹو کی چوٹی سے اسکینگ کرتے ہوئے اترنا سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید ترین دور میں بھی ناممکنات میں شامل دکھائی دینے لگا۔ فطرت کی عظمت و شان و شوکت عروج پر تھی۔ وہ انسان کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے دعوت مبازرت دے رہی تھی۔

آندرے برجیل بھی دھن کا پکا تھا۔ اس نے ہمت نہ  ہاری اور جون 2018ء میں دوبارہ پاکستان پہنچ گیا۔ اس بار برجیل کا بھائی، بارٹلو میچ بھی ہمراہ تھا۔ دونوں بھائی کے ٹو کے دامن تک پہنچ کر اپنی تیاریوں میں جت گئے۔ بارٹلو میچ ایک ڈرون ساتھ لایا تھا تاکہ بھائی کے ٹوپر اسکینگ کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو اس یادگار عمل کو فلمایا جاسکے۔ بھائیوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ ڈرون قیمتی انسانی جان بچانے کا سبب بن جائے گا۔ہوا یہ کہ سکاٹ لینڈ سے ایک کوہ پیما، رک ایلن دنیا کے بارہویں بلند ترین پہاڑ، براڈ پیک (8047 میٹر بلند) کو سر کرنے آیا ہوا تھا۔ جب وہ واپس جارہا تھا تو نیچے گر کر زخمی ہوگیا۔

جب رک ایلن وقت پر نچلے کیمپ تک نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع ہوئی۔براڈ پیک سے صرف آٹھ میل دور کے ٹو کے دامن میں برجیل اور بارٹلو میچ ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔ ان تک بھی یہ خبر پہنچی کہ براڈ پیک پر ایک کوہ پیما لاپتا ہوگیا ہے۔ ذہین بارٹلو میچ فوراً اپنا ڈرون لیے براڈ پیک تک  پہنچا اور اسے فضا میں بلند کردیا۔ ایک گھنٹے اِدھر اُدھر چکر لگانے کے بعد بذریعہ ڈرون رک ایلن کا پشتارہ دیکھ لیا گیا۔ یوں معلوم ہوا کہ ایلن کہاں ہوسکتا ہے۔ چناچہ امدادی ٹیمیں اس مقام پر روانہ کردی گئیں جنہوں نے جلد ہی زخمی ایلن کو ڈھونڈ نکالا۔ پھر پاک فوج کے جوانوں نے بہ سرعت اسے ہسپتال پہنچایا۔  اس  طرح انگریز کوہ پیماکی جان بچا لی گئی۔

یہ یقینی ہے کہ خدائے برتر کو دونوں بھائیوں کی انسان دوستی اور ہمدردی بھاگئی۔ اسی لیے تقدیر الٰہی نے انہیں بہتر اجر عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 2001ء میں جب کے ٹو پر چڑھتے ہوئے کیمرلینڈر کا ساتھی ہلاک ہوگیا تو اس نے نہایت افسردہ ہوکے اپنے اسکی(چوبی تختے) ایک طرف رکھ دیئے اور کہا تھا: ’’مستقبل میں کوئی انسان ضرور کے ٹو پر اسکینگ کرے گا۔ مگر یہ کارنامہ انجام دینے کی خاطر اسے بے پناہ صلاحیتیں اور نہایت خوش قسمتی درکار ہوگی۔‘‘ اطالوی کوہ پیما کا قول درست ثابت ہوا۔

19 جولائی کو برجیل نے کے ٹو پر چڑھائی کا آغاز کیا۔ 21 جولائی کی صبح وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ تعجب خیز بات یہ کہ تب وہ کھلی فضا میں سانس لے رہا تھا یعنی اس نے سلنڈر سے آکسیجن لینے کی ضرورت نہ سمجھی۔ یہ امر عیاں کرتا ہے کہ برجیل جسمانی و ذہنی طور پر نہایت مضبوط و توانا انسان ہے۔ اسی مضبوطی نے اسے یہ طاقت و دلیری بخشی کہ وہ بے رحم  پہاڑ کا غرور پیوند خاک کرسکے۔21 جولائی کو صبح ساڑھے گیارہ وہ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچ گیا۔

وہاں برجیل نے کچھ دیر آرام کیا۔ اردگرد کے شاندار قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوا ۔ قدرت الٰہی کے نظاروں نے اسے مبہوت کر دیا۔ پھر اس نے پیروں پر اسکی باندھ لیے۔اب اسے اسکینگ کرتے ہوئے نیچے اپنے بیس کیمپ پہنچنا تھا جو پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔برجیل نے اسکینگ کا آغاز کیا، تو اس کے بھائی کا  ڈرون سر پر منڈلا رہا تھا۔ وہ اس تاریخی اور بے مثال اترائی کی ویڈیو تیار کرنے لگا۔کئی گھنٹے مسلسل اسکینگ کرنے کے بعد شام کو سورج ڈھلنے سے قبل برجیل بیس کیمپ پہنچنے میں کامیاب رہا۔

دوران سفر کہیں بھی اس نے اپنے اسکی نہیں اتارے اور محو حرکت رہا۔ راستے میں کئی خطرناک اور پُر پیچ موڑ آئے مگر برجیل اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تمام دشواریاں عبور کرتا چلا گیا۔خدانخواستہ کسی کھائی کے نزدیک برجیل معمولی غلطی بھی کرتا تو ہزاروں فٹ نیچے گر جاتا۔ایسی صورت میں اس کی ہڈی پسلی بھی نہ ملتی۔انسانی عزم و ہمت کی تاریخ میں اس طرح پولش مہم جو نے ایک اور شاندار باب کا اضافہ کر دیا۔ برجیل نے ثابت کردکھایا کہ اگر انسان ہمت و دلیری سے کام لے تو وہ محیر العقول اور بظاہر ناممکن کام بھی انجام دے سکتا ہے۔ اپنی مخفی قوتوں کو بروئے کار لاکر ہی کرہ ارض پر انسان نے اشرف المخلوقات کا خطاب پایا۔

کے ٹو پر کامیابی سے اسکینگ کرکے برجیل نے نامی گرامی کوہ پیماؤں کے دل جیت لیے۔ایلن ہنکس پہلا برطانوی کوہ پیما ہے جسے آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کے تمام چودہ چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز ہوا۔ اس نے کہا ’’میرے نزدیک دنیائے کوہ پیمائی میں کے ٹو سر کرنا گولڈ میڈل حاصل کرنے  کے مترادف ہے۔ مگر کے ٹو کی چوٹی پر چڑھ کر وہاں سے اسکینگ کرتے ہوئے اترنا… یہ معاملہ انسان کو دنگ کردیتا ہے۔ میرے نزدیک برجیل غیر معمولی انسان ہے۔‘‘

کینٹن کول کا شمار ان خوش قسمت کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے جو دنیا کے دس بلند ترین پہاڑ مسخر کرچکے۔ وہ کہتا ہے ’’اسکینگ کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے بہترین ہنرمند عرصہ دراز سے کوشش کررہے تھے کہ وہ بے رحم پہاڑ پر اپنے فن کا مظاہرہ کریں مگر انہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ اب کے ٹو پر اسکینگ کرنے سے پولش ہم جو کسی اور ہی دنیا کا باسی بن چکا۔‘‘

آندرے برجیل غیر معمولی کارنامہ دکھانے پر بہت خوش ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کے ٹو پر اسکینگ کرکے اس کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔ اب وہ کسی اور مشکل و خطرناک کام میں ہاتھ ڈال کر دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دلیری و عزم کی حدود کہاں تک ہیں۔ کے ٹو پر برجیل کی زبردست اسکینگ کے دلفریب اور مبہوت کردینے والے نظارے نیٹ پر دستیاب دل کی دھڑکنیں روک دینے والی ویڈیوز میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

قاتل پہاڑ کی ہیبت

پاکستان اور چین کی سرحد پر علاقہ بلتستان میں واقع دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ، کے ٹو 8611 میٹر (28 ہزار 251 فٹ) بلند ہے۔ یہ قراقرم سلسلہ ہائے کوہ کا بلند ترین پہاڑ ہے۔ بلتستان میں چھوغوری کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں بڑا پہاڑ۔ انگریز سرویئر، تھامس چارج نے 1850ء کے لگ بھگ اس کو ’’کے ٹو‘‘ کا نام دیا۔ اب سرکاری طور پر پہاڑ اسی نام سے مشہور ہے۔

کے ٹو کی بیشتر چٹانیں عمودی ہیں، اسی لیے اس پر چڑھنا اور اترنا، دونوں مرحلے بڑے خطرناک اور کٹھن ہیں۔ یہی وجہ ہے پچھلے ستر برس میں تین ہزار سے زائد کوہ پیما دنیا کا بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرچکے۔ لیکن اسی عرصے میں تقریباً تین سو کوہ پیما ہی کے ٹو سر کرپائے۔ جبکہ ’’ستتر‘‘ کوہ پیماؤں کو اس بے رحم پہاڑ نے موت کی نیند سلادیا۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔

چین میں واقع کے ٹو کی سمت زیادہ عمودی ہے، اسی لیے تمام کوہ پیما پاکستان کی سمت سے کے ٹو پر چڑھتے ہیں۔ چھبیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر کوہ پیما ’’احاطہ موت‘‘ (Death Zone) میں داخل ہوجاتا ہے۔ کے ٹو کے اس حصّے میں آکسیجن بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے تمام کوہ پیما آکسیجن سلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ خدانخواستہ سلنڈر خراب ہوجائے، تو آکسیجن کی کمی کے باعث کوہ پیما کی موت یقینی ہے۔

عمودی چٹانوں، آکسیجن کی کمی کے علاوہ کوہ پیماؤں کو دیگر قدرتی آفات کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً کہیں کہیں برف پگھلنے سے اس کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان گہری کھائی میں گرسکتا ہے۔ پھر کبھی کبھی برفانی تودے توٹنے سے برفشار (Avalanche) بھی کوہ پیماؤں کو دبوچ لیتے ہیں۔ لہٰذا کے ٹو سمیت تمام بلند پہاڑوں پر چڑھنا اترنا بچوں کا کھیل نہیں،اس کے لیے زبردست دل گردہ رکھنا شرط ِاولیں ہے۔یاد رہے، دنیا کے پچیس بلند ترین پہاڑوں میں سے تقریباً نصف یعنی گیارہ پاکستان میں واقع ہیں۔اسی لیے کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان خاص مقام رکھتا ہے۔

The post دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک کے ٹو پر اسکینگ کرنے والا پہلا سورما appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت

$
0
0

 قسط نمبر6

اب تم ضرور واپس آؤ گے۔ اب تمہیں یہاں واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہاں دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا، دل سے مانگی جانے والی دعا عرش کو چِیر کر اپنا راستہ بناتی اور قبول ہوتی ہے، ظالم کا ہاتھ کبھی تم تک نہیں پہنچ سکے گا اور وہ نیست و نابود رہیں گے، خدا ہے ہمارا محافظ اور جس کی حفاظت وہ کرے اسے کوئی نہیں ضرر پہنچا سکتا۔

گل بی بی کی آنکھیں برس رہی تھیں، ہاتھ بلند تھے اور وہ ایک عالم بے خودی میں دعائیں مانگے جارہی تھی۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ’’ تمہارے‘‘ کے بہ جائے ’’ہمارا‘‘ کیوں کہہ رہی تھی، میں نے اس پر زیادہ نہیں سوچا۔

تم سچ کہہ رہی ہو گل بی بی…؟ میں بول پڑا۔

ہاں بالکل سچ۔

میں دل ہی دل میں اس کی معصومیت پر ہنس دیا، کیسا رشتہ ہے یہ، ایک اجنبی کے لیے اتنی مصیبتیں، اتنے آنسو اور اتنی دعائیں۔ ہاں یہی ہوتا ہے اصل رشتہ تو۔ تھوڑی دیر بعد بابا آگئے۔ لو بیٹا تمہارا تو کام ہوگیا، آگے اﷲ مالک ہے۔

کیسا کام بابا؟ مجھ سے پہلے گُل بی بی بول پڑی۔

تیرا نہیں پگلی، اس پگلے کا کام۔ میرا ایک دوست ہے وہ یہاں سے کراچی تک ٹرک لے کر جاتا ہے، میں نے اس سے بات کرلی ہے کہ وہ کسی وقت رات کو اگر کراچی کے لیے روانہ ہو تو مجھے بتادے۔ تاکہ میرا ایک مہمان ہے اسے بھی ساتھ لے جائے۔ تو اس نے بتایا ہے کہ وہ پرسوں رات کو یہاں سے نکلے گا تو بس اسے اس کے ٹرک پر بٹھا دوں گا۔ آگے جو خدا کو منظور۔

وہ میری بہ حفاظت واپسی کے لیے کس قدر بے چین تھے۔ میں ان کا کیا لگتا تھا آخر، وہ سب کچھ کیوں کر رہے تھے۔ یہ تھا ناں اصل رشتہ، بے لوث، بے ریا اور انمول۔ دوسرا دن بس گزر ہی گیا، سارا دن میں یہی سنتا رہا کہ اب تمہیں یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ہماری حفاظت خدا کرے گا اور بس اس طرح کی باتیں۔ جس دن میری روانگی تھی میں کمرے میں لیٹا رہا اور زندگی ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگی۔ مجھے اب کیا کرنا ہے، نہیں میں نے کبھی نہیں سوچا، میں اک خودکار انسان میں بدل گیا تھا، جیسے اک پرندہ جسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ آگے کیا کرے گا۔

گل بی بی شام ہی سے کھانا بنانے لگی تھی، اسے ایک پل بھی چین نہیں تھا۔ بابا اسے بار بار ہدایات دے رہے تھے کہ راستے کے لیے بھی کھانا بنادینا اور وہ بابا بالکل فکر نہ کرو کہتی ہوئی اپنے کام میں جُتی ہوئی تھی۔ وقت کو کوئی نہیں روک سکا۔ بالکل بھی نہیں، کیسے کوئی روک سکتا ہے وقت کو۔ شب کا پہلا پہر گزر گیا تھا اور اب میرے جانے کا وقت ہوگیا تھا۔ بابا نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر دعا سسکیوں میں بدل گئی۔ یہ آنسو بہت انمول ہوتے ہیں۔ ہم تینوں رو رہے تھے۔ آخر بابا نے اپنی ہمت جمع کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ گل بی بی ابھی تک رو رہی تھی اور ہم دونوں اسے دیکھ رہے تھے۔ بابا اسے تسلی دے رہے تھے۔ مہمان تو مہمان ہوتے ہیں اور پھر مسافر مہمان تو جانے کے لیے ہوتا ہے۔ بابا نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ وہ پھٹ پڑی نہیں بابا نہیں۔ یہ مسافر نہیں ہے یہ مہمان نہیں ہے، یہ واپس آئے گا، ضرور آئے گا، بابا آپ دیکھنا اور میں آپ کو بتاؤں گی کہ دیکھو یہ واپس آگیا ہے۔

میں بے اختیار آگے بڑھ کر اُس سے لپٹ گیا۔ گھر سے باہر قدم نکالنے سے پہلے اس نے پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھا اور مجھ پر پھونک کر خدائے پہ آمان، اور تمہارے چہرے کے سامنے ہمیشہ روشنی رہے، کہا تھا۔ تم دروازہ بند کرلو میں انشااﷲ جلد واپس آجاؤں گا، کہہ کر بابا نے میرا سامان اٹھایا اور ہم گھر سے باہر نکل گئے۔ وہ دروازے میں کھڑی برس رہی تھی۔ نظروں سے اوجھل ہونے تک میں اسے پیچھے مڑ مڑکر دیکھتا رہا۔ پھر دو ہاتھ بلند ہوئے اور میں رخصت ہوگیا۔ اور نہ جانے رخصت بھی ہوا یا وہیں رہ گیا۔ شاید جسمانی طور پر میں رخصت ہوا تھا ، روح تو میری وہیں رہ گئی تھی۔

میں اور بابا بہت دیر تک چلتے رہے اور بالکل خاموش، رات کے سناٹے کو کُتوں کے بھونکنے کی آوازیں سحرزدہ بنا رہی تھیں، پھر پکی سڑک آگئی اور بابا نے مجھے بیٹھنے کا کہا۔ ہم دونوں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔ دیکھو بیٹا خود کو اپنے رب کے حوالے کردو، وہ جس حال میں رکھے خوش رہنا، بلندی پر نہیں پستی پر نظر رکھنا، اوپر نہیں نیچے دیکھنا کہ پاؤں تلے جو زمین ہے ناں، وہ ہے ہماری محسن، عیب چھپا لینے والی، جب ماں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ زمین کی امانت زمین کے سپرد کردو تو اب تم خود سمجھ جاؤ کہ یہ زمین کتنی عظیم ہے کہ جس پر ماں بھی بھروسا کرتی ہے۔ تم مجھ سے تسلیم کا پوچھ رہے تھے ناں بس یہی تسلیم ہے۔ خالق و مالک کی رضا میں ہنسی خوشی راضی رہنا تسلیم ہے۔

آگے کی منزلیں نہ جانے کیسی ہوں گی، بس راضی رہنا۔ یاد رکھو ہر دکھ کے ساتھ سُکھ بندھا ہوتا ہے اور ہر سُکھ کے ساتھ ایک دُکھ۔ جب سکھ دیکھو تو یہ ضرور یاد رکھنا کہ اس کے ساتھ اک دکھ لگا ہوا ہے اور جب دکھ دیکھو تو پریشان مت ہونا، بالکل بھی نہیں کہ اس دکھ کے ساتھ ایک سکھ بھی تو نتھی ہے، ویسے تو دکھ سکھ تسلیم کے مسافر کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، لیکن تم ابھی بچے ہو تو بس اس لیے کہہ رہا ہوں، سدا ایک جیسا نہیں رہتا یہ وقت، بدلتا رہتا ہے، وقت کی فطرت ہی بدلنا ہے۔

سچ بتاؤں تو مجھے ان کی اکثر باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں، وہ بولے جارہے تھے اور میں بس خاموشی سے سنے جارہا تھا۔ اتنے میں دور سے کسی ٹرک کی روشنیاں نظر آئیں تو بابا اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے اپنے سینے سے لگاکر بہت پیار کیا اور پھر میری جیب میں کچھ پیسے ڈال کر کہنے لگے جاؤ تمہیں پالن ہار کے حوالے کردیا میں نے۔ اتنے میں ٹرک قریب آکے رکا اور ایک شخص تیزی سے بابا کی طرف بڑھا۔ بابا نے اسے ہدایات دیں وہ مجھے لے کر ٹرک کے اوپر چڑھ گیا، میں بابا کو دور تک دیکھتا رہا پھر ٹرک ایک موڑ مڑ گیا اور بابا میری نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن وہ میرے دل سے اوجھل نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی گل بی بی۔ ٹرک پر عمارتی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ اس میں تین لوگ دو ڈرائیور اور ایک کلینر سوار تھا، چوتھا اب میں ان کا ہم سفر تھا۔

کیا بابا سے ملنے آئے تھے تم۔ میرے ہم سفر نے مجھ سے پوچھا۔ نہیں، بس ویسے ہی راستے میں ملاقات ہوگئی تھی ان سے، بہت اچھے انسان ہیں بابا۔ میں یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ بابا بہت اﷲ والے ہیں۔ جسے وہ دعا دے دیں وہ قبول ہوجاتی ہے۔ بہت قسمت والوں کو ملتا ہے ان کا ساتھ۔ بہت دور دور سے لوگ ان کے پاس دعا کرانے آتے ہیں۔ بہت ہی نیک ہیں۔ تمہاری بہت تعریف کررہے تھے کہہ رہے تھے میرا بچہ ہے بہت خیال رکھنا اس کا۔ میں کیا یہاں تو کوئی بھی بابا کا حکم نہیں ٹالتا وہ بولے چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے بابا کی باتیں یاد آنے لگیں جو انسان سے محبت نہ کرے وہ خدا سے بھی نہیں کرتا۔ خدا سے محبت کی ابتدا انسانوں سے محبت میں ہے۔ جو انسانوں سے محبت کرتا ہے خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو انسانوں کے کام آئے تو خدا اس کے کام بنا دیتا ہے۔ وہ سب کا پالن ہار ہے۔ ہندو ہو، مسلمان ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، کوئی اسے مانے، نہ مانے، سب کا پالن ہار ہے وہ، دنیا کی ہر مخلوق کا پالن ہار اور ان سے محبت کرنے والا اور نہ جانے کیا کیا۔ کچھ باتیں مجھے سمجھ آگئی تھیں اور کچھ بالکل بھی نہیں۔

میرا ہم سفر سوگیا تھا، تھوڑی دیر بعد میری بھی آنکھ لگ گئی اور نواز خان اٹھو یار صبح ہوگئی ہے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ ٹرک ایک ہوٹل پر رکا ہوا تھا۔ ہم دونوں نیچے اترے، چلو یار چائے پانی کرو، میں بہت تھک گیا ہوں۔ سنبھالو اپنی ڈیوٹی وہ ڈرائیور تھا اور اس کے ساتھ ایک کلینر، ہم چاروں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے، ناشتہ آگیا تو مجھے یاد آیا کہ گل بی بی نے مجھے راستے کے لیے کچھ بنا کر دیا تھا، ذرا ٹھہرو کہہ کر میں ٹرک پر چڑھا اور وہ تھیلا اٹھا لایا۔ اس میں پراٹھے تھے، انڈے تھے، کباب تھے، اچار تھا، مکئی کے دانے تھے، گڑ تھا اور بہت کچھ۔ میری آنکھیں پھر بھیگ گئیں۔ جان نہ پہچان اور اتنا اہتمام۔ یہ سب تمہیں بابا جی کی بیٹی نے بناکر دیا ہے۔ میرا ہم سفر بولا۔ جی یہ سب اسی نے بنایا ہے۔

تھوڑا سا ہمیں بھی دو یار ان کے گھر کا کھانا تو تبرک ہوتا ہے۔ میں نے یہ لفظ پہلی دفعہ سنا تھا۔ میں نے سب کچھ ان کے سامنے رکھ دیا، بسم اﷲ پڑھ کر انہوں نے کھانا شروع کیا۔ اتنے میں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری اور سب آوازیں اس میں ڈوب گئیں۔ میں نماز ادا کرکے آتا ہوں، میں نے کہا۔ ہم بھی پڑھتے ہیں نماز یار، تھوڑا ٹھہرو۔ ہم نے نماز فجر ادا کی اور میرے ہم سفر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ میں اس کے برابر میں بیٹھا اور وہ دونوں آرام کے لیے ٹرک کے اوپر چلے گئے۔ بسم اﷲ، یااﷲ خیر کہہ کر اس نے ٹرک اسٹارٹ کیا اور ہم پھر رواں دواں تھے۔ صبح صادق کا وقت اور یہ منظر، دیہاتی اپنے کھیت کھلیانوں میں کام میں جتے ہوئے تھے۔ ایک چرواہا اپنا ریوڑ سنبھالے جا رہا تھا۔ ایک لڑکی سر پر چھوٹی سی گڑوی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلا لیے جارہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے گل بی بی یاد آئی۔ پھول دار اونی چادر اوڑھے ہوئے پاگل سی گُل بی بی اور میں پھر بہت دور نکل گیا۔ سفر میں منظر بہت تیزی سے بدلتے ہیں۔ لیکن کچھ منظر کبھی نہیں بدلتے جیسے کچھ رشتے، کبھی پرانے نہیں ہوتے، ہر دم نئی بہار لیے ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ادا نئی ہوتی ہے بہت جاں فزا، وہ ساری زندگی آپ کے سنگ رہتے ہیں اور ایسے رشتے سدا انسان کو جینے پر اُکساتے ہیں، سینے سے کبھی زہر اترنے نہیں دیتے۔

کہاں کھو گئے تم۔ اچانک میرے ہم سفر نے مجھے واپس آنے پر مجبور کردیا تھا۔ کہیں نہیں بس ویسے ہی بابا ہیں ہی ایسے، کوئی ان سے لمحے بھر مل لے تو نہیں بھول پاتا تم تو وہاں بہت دن تک رہے ہو۔ کیسے بھول پاؤگے۔ جی آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں میں بولا۔ لیکن میں بابا سے زیادہ گل بی بی میں کھویا ہوا تھا۔ مجھے اس احساس نے گھیر لیا تھا کہ مجھے وہیں رہنا چاہیے تھا۔ میں نے وہاں سے آکر غلطی کی کئی دفعہ میں نے سوچا میں واپس چلا جاؤں لیکن پھر میں نے بہت مشکل سے اس خیال سے باہر آنے کی کوشش کی۔ تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ تم کراچی میں کیا کام کرتے ہو۔ میرے ہم سفر نے اچانک مجھ سے پوچھ لیا۔ میں وہاں کھلونوں کی اک دکان پر کام کرتا ہوں، چھوڑو یہ دکان کا کام کوئی ہنر سیکھو، ہنر مند انسان کبھی بھوکا نہیں رہتا۔ اگر چاہو تو میرے ساتھ کلینر بن جاؤ، کچھ سالوں میں تم ٹرک چلانا سیکھ لوگے پھر کمائی ہی کمائی ہے۔

ہے ذرا مشکل کام لیکن انسان بستی بستی گھومتا ہے، طرح طرح لوگوں سے ملتا ہے، بہت مزے مزے کے کھانے کھاتا ہے اور کیا چاہیے زندگی میں۔ ٹرک اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا اور مجھے آنے والی منزل کی تیاری کرنی تھی۔ تیسرے دن مغرب ہونے والی تھی کہ ہم کراچی میں داخل ہوئے۔ وہ پرانا حاجی کیمپ کا علاقہ تھا جہاں آج بھی عمارتی لکڑی کی مارکیٹ ہے۔ میں نے وہاں اتر کر اپنے ہم سفر کر شکریہ ادا کیا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ بس یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔ کبھی کبھی ملنے آجایا کرو ہم تو مہینے میں تین چار چکر لگاتے ہیں۔ یہاں کے منشی سے پوچھ لینا وہ تمہیں ہمارے آنے کا بتادے گا اور اگر بابا سے ملنے کو دل چاہے تو میں تمہیں لے چلوں گا، اچھا ہے، گپ شپ میں سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ جی ضرور خدا نے چاہا تو ملاقات ہوگی کہہ کر میں رخصت ہوگیا۔

بابا کے دیے ہوئے پیسے میرے پاس تھے۔ میں نے رکشہ لیا اور اپنی پرانی دکان پہنچا وہ بند ہوچکی تھی، میں نے ایک ہوٹل پر چائے پی اور اپنے ٹھکانے قبرستان پہنچا۔ حیرت تھی میری پوٹلی وہیں موجود تھی، میں نے اس کی گرد جھاڑی اور پھر اپنے کپڑے دیکھے سب موجود تھے۔ میں نے گل بی بی کے دیے ہوئے مکئی کے دانے چبانا شروع کیے، اچانک مجھے کالی چادر کا خیال آیا اور میں پھر کپڑوں کو الٹے پلٹنے لگا وہ چادر غائب تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ مجھ میں کوئی قیمتی چیز چھن جانے کا احساس پیدا ہوا۔ سب کچھ موجود تھا وہ کہاں چلی گئی، کون لے گیا وہ آخر، اگر کسی نے کچھ چرانا تھا تو سب کچھ لے جاتا، آخر وہی کالی چادر کیوں۔ بہت دیر تک میں سوچتا رہا پھر اچانک ہی میں نے چلّانا شروع کیا کہاں گئی میری چادر، کون لے گیا، قبرستان کے سناٹے میں میری کون سنتا صرف مردے سن رہے تھے لیکن وہ مجھے جواب کیسے دیتے۔ اور اگر دیتے بھی تو میں ان کی زبان اس وقت نہیں جانتا تھا۔

آدھی سے زیادہ رات گزرگئی تھی اور میں محرومی کی گہری دلدل میں اترتا چلا جارہا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا وہ کالا کتا بھی غائب تھا، میں نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا، ٹوٹی پھوٹی قبریں، کُتے، جھاڑ جھنکاڑ، خود رو پودے اور گہرا سناٹا۔ میں تھک ہار کر واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں چاٹ رہا ہے۔ میری آنکھ کھل گئی وہ کالا کتا میرے پاؤں چاٹ رہا تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم؟ میں نے اسے ڈانٹ دیا لیکن وہ تو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں اسے بتائے بغیر کہاں چلا گیا تھا۔ میں نے اسے اپنی پوری روداد سنائی۔

میری کالی چادر کہاں غائب ہوگئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ وہ میرے آگے آگے چلنے لگا، پھر اک ٹوٹی ہوئی قبر سے اس نے وہ کھینچ نکالی۔ بالکل صحیح سلامت تھی وہ۔ اس دن مجھے کھوئی ہوئی نعمت کے پانے کی مسرت اور خوشی کا ادراک ہوا۔ میں بہت دیر تک چادر کو چومتا رہا اور میری آنکھیں برستی رہیں۔ اتنے میں قریبی مسجد سے اﷲ جی کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا اور میں نے اپنے محسن کتے سے اجازت چاہی۔ ہم رات کو ملیں گے موتی کہہ کر میں مسجد پہنچا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کتے کو اگر آپ دُور دُور کہیں تو وہ خفا ہوجاتا ہے اور اگر اسے موتی کہیں تو وہ آپ کا دوست بن جاتا ہے، یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں آگئی، آپ کیا کریں گے ایسی باتیں جان کر، خیر امام صاحب جو موذن اور خادم بھی تھے مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہاں چلے گئے تھے تم۔ بس جی چلا نہیں گیا تھا، لے گئے تھے، کہہ کر میں وضو کرنے لگا۔ ہم سب پریشان تھے۔

وہ مجھ سے گلہ کرنے لگے اور میں نے خاموشی اختیار کی۔ بہت کم نمازی ہوتے تھے مسجد میں۔ سب مجھ سے مل کر خوش ہوئے اور گلے شکوے بھی کیے۔ میں اپنے پرانے ہوٹل پہنچا تو وہ سب میرے گرد جمع ہوگئے اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ کہاں چلا گیا تھا تُو۔ او یار تو عجیب آدمی ہے ، تجھے پتا بھی ہے ہم سب یہاں مرگئے تیرے بغیر۔ اور نہ جانے کیا کیا اور پھر تو میرے اعزاز میں چھوٹی سی تقریب بھی منعقد ہوگئی۔ کتنی چاہت ہے، کتنی اپنائیت ہے ان میں۔ اب آپ سب کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی کہہ کر میں دکان کے لیے روانہ ہوا۔ اب اگر بغیر بتائے گیا تو تیری ٹانگیں توڑ دیں گے، اچھا ہے جا ہی نہیں سکے گا۔ پیچھے سے میرے دوست داؤد کی آواز آئی۔ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا۔

دکان بند تھی۔ میں انتظار کرنے لگا اور پھر وہ مجھے اپنی کھٹارا موٹرسائیکل پر آتے نظر آئے۔ آتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگایا، وہ رو رہے تھے۔

The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ٹومب اسٹون ہاؤس‘‘

$
0
0

امریکی ریاست ورجینیا کے علاقے پیٹرز برگ میں سنگ مرمر سے تعمیر کردہ ایک ایسی دو منزلہ ایسی عمارت ہے جس کے ساتھ 150سال سے زیادہ خانہ جنگی کی تاریخ بھی وابستہ ہے اور یہ پوری کی پوری تاریخ اس دو منزلہ عمارت کی دیواروں پر بڑے انوکھے انداز سے درج ہے۔

خانہ جنگی کی یہ تاریخ تو لگ بھگ ڈیڑھ صدی پر محیط ہے، مگر سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر کردہ یہ دو منزلہ عمارت 1934میں تعمیر کی گئی تھی۔ اسی سال وہاں کے ایک رہائشی اوسولڈ ینگ نے پیٹرز برگ کے نزدیک وہاں کے مقامی قبرستان کی انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کے پس پردہ کہانی یہ ہے کہ اس وقت اس قبرستان کی انتظامیہ اپنے تعمیراتی اور مرمتی کاموں کے لیے منصوبہ بندی کررہی تھی، مگر چوں کہ انتظامیہ کا بجٹ زیادہ نہیں تھا، اس لیے اس ضمن میں تعمیراتی اخراجات کم سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور اس ضمن میں غور و فکر بھی جاری تھا اور مسلسل مینٹنگز بھی چل رہی تھیں کہ وہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔

اس موقع پر قبرستان کی انتظامی کمیٹی کے سپرنٹنڈنٹ کی سربراہی میں تمام ارکان نے آپس میں بات چیت کی اور پھر ایک انوکھا فیصلہ کیا کہ یہاں کی قبروں کے تمام کتبے یا لوح مزار اکھاڑ لیے جائیں اور انہیں زمین پر سیدھا رکھ دیا جائے جس سے دو فائدے ہوں گے: پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے انہیں قبرستان کی زمین سے کم سے کم گھاس کاٹنی پڑے گی۔

کیوں کہ دوسری صورت میں زیادہ سے زیادہ گھاس صاف کرنی پڑتی۔ اس کے علاوہ اس حکمت عملی سے دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس سے خاصی معقول رقم کی بچت بھی ممکن ہوگی۔ اس فیصلے کی انتظامی کمیٹی کے سبھی ارکان اور عہدے داروں نے تائید کی اور اس کے بعد قبرستان کی 2,000 سے زیادہ قبروں کے کتبے اکھاڑ لیے گئے۔

جس کے بعد انہیں مناسب سائزوں میں تراشا گیا اور پھر یہ سب کے سب کتبے بالکل سیدھی شکل میں بدل دیے گئے یعنی انہیں ایک طرح سے سنگ مرمر کی سلوں کی شکل دے دی گئی۔ اس ساری محنت شاقہ اور تگ و دو کے بعد قبرستان کی انتظامیہ یہ دیکھ کر بہت مطمئن ہوئی کہ ان کے سامنے قبرستان کی زمین پر سنگ مرمر کی ہزاروں تراشی ہوئی سلیں رکھی تھیں اور انہیں فوری طور پر وہاں سے ہٹانا بھی ضروری تھا۔ چناں چہ قبرستان کی انتظامیہ نے اس کے لیے غوروفکر شروع کردیا کہ ان سنگ مرمر کی سلوں کو یہاں سے کس طرح ہٹایا جائے یا یہ کہ انہیں کس طرح کسی اور دوسرے کام میں لیا جائے۔

ہم نے اوپر قبرستان کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ اوسولڈ ینگ کا ذکر کیا ہے جو ایک بہت متحرک اور فعال انسان تھا اور ہر مشکل اور ہر مسئلے کا حل چٹکی بجاتے نکال لیا کرتا تھا۔ چناں چہ اس نے سنگ مرمر کی ان تمام سلوں کا فوری حل یہ نکالا کہ انہیں معقول قیمت کے عوض خریدنے کے لیے تیار ہوگیا۔ اسے سنگ مرمر کی ان حسین و جمیل سلوں کا کیا کرنا تھا؟

اس نے اس شان دار پتھر کی سلوں سے نہ صرف اپنے گھر کے بیرونی حصے کی آرائش کرائی، بل کہ اس سے بیرونی راستے کو ہموار بھی کرایا اور یہاں تک کہ اپنے گھر کا آتش دان بھی تعمیر کرایا جسے بعد میں اسے علاقے کے سبھی مکینوں نے ’’ٹومب اسٹون ہاؤس‘‘ کا نام دیا اور بعد میں بھی اسی نام سے پکارا گیا۔

اس قبرستان میں جو لوگ مدفون تھے، وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے، یہ وہ انگریز فوجی تھے جو 1864-65 میں پیٹرز برگ کے محاصرے کے دوران اپنی جانوں سے گئے تھے۔ یہ وہ مُردہ لوگ تھے جنہیں نہایت عجلت میں میدان جنگ کے قریب ہی کچھ اس انداز سے دفن کردیا گیا تھا کہ کچھ فوجیوں کو گڑھوں میں ایسے ہی ڈال دیا گیا تھا یا پھر انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا تھا۔ ان میں سے چند ایک ہی کی تدفین کے لیے مناسب آؒخری رسومات انجام دی گئی تھیں ورنہ بیش تر کی لاشوں کو بغیر آخری رسومات کے ایسے ہی دفن کردیا گیا تھا۔ پھر ان بے چارے مرنے والوں کی قبروں پر بہ طور نشانی صرف لکڑی کے کتبے لگائے گئے تھے جن پر ہوسکتا ہے کہ شروع میں نام بھی لکھے گئے ہوں ورنہ بعد میں تو گزرتے وقتوں اور بدلتے موسموں کے اثرات کے باعث ان کے نام بھی ان چوبی کتبوں سے مٹ گئے تھے۔

یہ  1866کی بات ہے کہ لیفٹیننٹ جیمز مور نے اس سال ایک قومی قبرستان کے لیے پیٹرز برگ کے علاقے میں زمین کی تلاش شروع کی۔ اسے اس مقصد کے لیے کسی موزوں جگہ کی ضرورت تھی۔ کافی تلاش اور جستجو کے بعد اس نے شہر کے جنوب میں ایک فارم منتخب کیا۔ یہ فارم کیا تھا؟ زمین کا یہ قطعہ کسی زمانے میں پچاس ویں نیویارک والنٹیئر انجینئرز کے لیے کیمپ گراؤنڈ کا کام انجام دیا کرتا تھا۔

جنگ کے دوران اس مقام پر گوتھک ریواؤل پائن لوگ چرچ بھی ہوا کرتا تھا جس کے باعث اس مقام کو Poplar Grove بھی کہا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مذکورہ بالا قبرستان کو یہ نام ملا اور پھر سب نے اسی نام سے اسے پکارنا شروع کردیا۔

چناں چہ یہ جگہ قبرستان کے لیے منتخب کرلی گئی اور پھر اس قبرستان کے باقاعدہ قیام کے بعد یہاں مردہ لاشوں کی منتقلی کا کام بھ شروع کردیا گیا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہزاروں لاشوں کو ایک جگہ سے اس دوسری نئی جگہ پر یعنی نئے قبرستان میں منتقل کرنا تھا۔ چناں چہ کام کا ہنگامی بنیادوں پر آغاز ہوا اور ہزاروں فوجیوں کی باقیات کو پیٹرز برگ کے قریب سو کے لگ بھگ مقامات سے کھود کر نکالا گیا اور پھر انہیں دوبارہ اس نئے قبرستان Poplar Grove میں دفن کردیا گیا۔

لاشوں کی اس تلاش اور ریکوری مشن کے لیے اس موقع پر لگ بھگ سو افراد نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی تھیں جنہوں نے میدان جننگ کے ہر مربع انچ پر تلاش کا کام جاری رکھا اور بغیر کتبے یا نشانی والی قبریں تلاش کرنے کا مشکل کام بڑی محنت اور توجہ سے انجام دیا۔ انہوں نے یہ کام جس جگہ انجام دیا تھا، اس جگہ کو کافی عرصے سے “burial corps” کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

ان تمام رضاکاروں نے کم و بیش تین سال تک یعنی 1869تک دن رات کام کیا، ان لوگوں کی محنت کی وجہ سے لگ بھگ 6,700 باقیات تلاش کرلیں جن میں سے صرف 2,139 لاشوں کی صحیح انداز سے شناخت ہوسکی تھی۔

بعد میں آنے والے عشروں کے دوران اس قبرستان کے کتبوں یا مزاروں کی لوحوں کی Poplar Grove Cemetery منتقلی کا کام آہستہ آہستہ سست ہوتے ہوتے نظر انداز ہوتا چلا گیا۔

اس دوران جو کام ہوا وہ صرف گھاس کی تراش خراش تھا یا پرچموں کی سالانہ تنصیب کا کام تھا۔ اس کے بعد پھر ایک عجیب تکلیف دہ صورت حال اس وقت پیش آئی جب اس قبرستان میں ناقص ڈرینیج سسٹم کے باعث اس وقت سیلاب آگیا جب طوفانی بارشوں کے باعث پورا قبرستان پانی سے بھرگیا۔ اس بارش کے پانی نے ان تمام قبروں کے کتبوں یا مزارات کی الواح کو کھانا شروع کردیا جو پہلے ہی سیلابی پانی میں گرپڑی تھیں۔

پھر مزید تباہی یہ آئی کہ اس قبرستان کی دیواریں ٹوٹنی اور بکھرنی شروع ہوگئیں اور کے پرچموں کے ڈنڈوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہوگیا جس تمام پرچموں کے ڈنڈے گلنے سڑنے اور گرنے شروع ہوگئے۔

پہلے تو لوگ یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے، مگر بعد میں مرنے والے فوجیوں کی فیملیوں نے یہ سب دیکھا تو اس بات پر خوب احتجاج کیا کہ ان کے وارثوں نے اس ملک کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے لیے اپنی جان تک قربان کردی اور ان کی قبروں کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے۔ انہوں نے اعلیٰ اختیارات والے عہدے داروں سے یہ سوال بھی کیا کہ انہیں جس مناسب عزت و تکریم کی ضرورت ہے، وہ انہیں کیوں نہیں دی جارہی؟ مرنے والے فوجیوں کے خاندانوں کے اس احتجاج کے بعد حکومت نے کئی ملین ڈالرکا ایک خصوصی بجٹ اس قبرستان کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے مختص کردیا۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور پھر 2015 اور 2017 کے درمیان وہ وقت بھی آیا جب پانچ ہزار سے بھی زیادہ مارکرز کو تبدیل کردیا گیا اور اس موقع پر پورے کے پورے قبرستان میں تعمیر نو کا کام انجام دیا گیا۔

جن فوجیوں کی قبروں کی شناخت ہوگئی تھی، ان کی قبروں کو نئے سرے سے ٹھیک کرنے کے بعد ان پر نئے کتبے اور پرچم بھی آویزاں کردیے گئے۔ لیکن گم نام فوجیوں کی قبروں کے اطراف مربع نشانات لگادیے گئے اور انہیں اس طرح نمایاں کردیا گیا کہ وہ قبرستان میں دور سے ہی نظر آنے لگے۔ اس کے بعد اس قبرستان کی نئے سرے سے تزئین و آرائش بھی کی گئی اور اسے ہر لحاظ سے قابل ستائش بنایا گیا۔ بہت سے فوجیوں کی پرانی قبروں کے کتبے اور الواح کو وہاں سے ہٹاکر دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

اس طرح یہ نیا قبرستان ایک بار پھر نئی شکل و صورت اختیار کرنے کے بعد نئے ٹومب اسٹونز (کتبوں) سے بڑے منفرد انداز سے سج گیا اور مرنے والے فوجیوں کا ایک بار پھر نئی عزت و تکریم مل گئی جس کی وجہ سے ایک طرف قوم خوش ہوگئی تو دوسری جانب اس مرنے والے فوجیوں کے خاندانوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

The post ’’ٹومب اسٹون ہاؤس‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

پریوں کے دیس میں آلودگی

$
0
0

پچاس کی دہائی کے ابتدائی دن تھے ایک پُرفضا مقام پر چرواہوں کا قافلہ اترا تو جھیل کے کنارے سبزہ زاروں میں چرتی ہوئی ہرنیاں بھاگ کھڑی ہوئیں۔

مست ہرنیوں کی پتلی پتلی ٹانگیں اور موٹی موٹی آنکھیں قابل دید تھیں۔ چرواہوں کی منزل گرمائی چراگاہ (جہاں برف پگھلنے کے بعد موسم گرما میں جانوروں کو چرایا جاتا ہے) تھی۔ البتہ کچھ دیر سستانے کے لیے انھوں نے اس مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ یہاں انھوں نے پولو کھیلا اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

جولائی 2000 میں اسی مقام پر ایک اور قافلہ اترا اس مرتبہ مست ہرنیوں کی جگہ پر ہیلی کاپٹر کھڑے تھے۔ چراہوں کے اترنے کی جگہ 1000 خیمے لگے ہوئے تھے۔ آس پاس 1500 کے قریب گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گرد کا طوفان اور ڈیزل چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔

یہ مقام ضلع چترال میں سطح سمندر سے 12,305 فٹ بلندی پر واقع ہے اور شندور کہلاتا ہے۔ چترال سے گلگت کو جانے والا راستہ یہیں سے ہوکر جاتا ہے۔ شندور ہندوکش کے متوازی ہندو راج کے پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ایک درہ اور سطح مرتفع ہے۔ موشا بار کی پہاڑی چوٹیاں برف کی چادر تانے اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔ شندور کی لمبائی 10 کلومیٹر اور چوڑائی 2 کلومیٹر ہے۔ یہاں پانی کی تین کلو میٹر لمبی اور ڈیڑھ کلو میٹر چوڑی جھیل بھی ہے۔ جھیل کے کنارے تینوں اطراف سے مٹی کے اونچے ٹیلوں میں گھرا ہوا پولو گراؤنڈ ہے، جو قدرتی اسٹیڈیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں ہر سال گلگت اور چترال کی حریف ٹیمیں فری اسٹائل پولو کھیلتی ہیں۔ اسے شندور کا پولو میلہ کہا جاتا ہے اور کم و بیش 15 سے 20 ہزار سیاح ہر سال پولو میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ پولو کے علاوہ گلائیڈنگ، کشتی رانی اور ٹراؤٹ فشنگ بھی کی جاتی ہے۔

شندور ماحولیاتی لحاظ سے اہم مقام ہے۔ یہاں گرمیوں میں درجۂ حرارت 13 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ سردیوں میں منفی 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور جھیل کا پورا پانی منجمد ہوجاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں برف پگھلتے ہی پھول کھلتے ہیں، جڑی بوٹیاں سرسبز ہوجاتی ہیں اور گھاس اُگ آتی ہے۔ بنفشہ لالہ اور رنگ رنگ کے جنگلی پھول کھل اٹھتے ہیں۔ سورنک، بیرش اور چنار دور دور تک اپنی مہک بکھیرتے ہیں۔ چکور اور تیتر اپنے چوزوں کو لے کر گھونسلوں سے نکل آتے ہیں، جھیل کی سطح پر سفید بطخیں تیرتی نظر آتی ہیں۔

چند ہفتوں کی یہ بہار انسانی سیلاب آنے تک قائم رہتی ہے۔ پھر انسانی آبادی کا سیلاب اس بہار کو بہا لے جاتا ہے۔ اس سال بھی 7 سے 9 جولائی تک شندور کا پولو میلہ روایتی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا اور گذشتہ سالوں کی طرف اس سال بھی دنیا کے بلند پولو گراؤنڈ کے گرد خیمہ بستی آباد ہوئی۔ پولو گراؤنڈ کے بائیں ٹیلے پر چترال اسکاؤٹس کا بیس شندور ہٹ واقع ہے۔ اس کے ساتھ چترال اسکاؤٹس پوسٹ اور نیم فوجی علاقہ ہے۔ پولو گراؤنڈ کے بائیں طرف جھیل کے کنارے ہیلی پیڈ بنائے گئے ہیں۔ سامنے سے راستہ گزرتا ہے۔ راستے کی ڈھلوان پر حد نظر تک خیمے ہی خیمے نظر آتے ہیں۔

پولو گراؤنڈ کو ماہر گھڑ سواروں کے لیے اچھی طرح سجایا جاتا ہے۔ پولو گراؤنڈ کے پیچھے ٹیلوں کی اوٹ میں چترال کی ضلعی انتظامیہ پولو کے کھلاڑیوں کا کیمپ لگا ہوتا ہے جو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے۔ آگے پھر چھوٹے چھوٹے ٹیلے آتے ہیں اور ٹیلوں کے نیچے گلگت کیمپ ہوتا ہے۔ ایک ٹیلے پر چڑھ کر نظارہ کریں تو جھیل کے پار ایک خوب صورت سبزہ زار پر بے شمار خیمے لگے نظر آتے ہیں۔ پولو میلے کی مقررہ تاریخ کے 20 دن بعد تک ان انتظامات کو سمیٹنے کا کام ہوتا رہتا ہے۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سیاحوں، کھلاڑیوں، تاجروں نے کم ازکم 10 ٹن کوڑا کرکٹ یہاں پھیلا دیا ہے، جس میں ڈسپوزایبل برتن، پلاسٹک کے تھیلے، سڑی ہوئی خوراک اور فضلے کے ڈھیر شامل ہوتے ہیں۔

اس چرا گاہ پر جو گھاس ماہ ستمبر تک سرسبز رہتی تھی وہ گھاس تماشائیوں کے پاؤں تلے روندی جاچکی ہے۔ گاڑیوں نے متعین راستے کو چھوڑ کر گھاس کے خوب صورت قطعوں پر 20-20 راستے بنائے لیے ہیں۔ یوں سب نے مل کر اس خوب صورت حصے کے حسن کو لوٹ لیا ہے اور اب گردوغبار اور غلاظت کے ڈھیر چاروں جانب بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

چترال کی قدیم اساطیری روایات میں شامل ہے کہ شندور میں شاوان نان رہتی ہے۔ جو پریوں کی ملکہ ہے اور شندور اس کی ملکیت ہے۔ مقامی زبان کھوار میں صاف ستھرے پاکیزہ ماحول کو اوشنیرو (Oshneru) کہتے ہیں اور آلودگی کو چیؤ کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ شندور اوشنیرو مقام ہے، کوئی اس کو چیؤ کرے تو شاواں نان ناراض ہوتی ہے اور ہرنوں اور ہرنیوں کو دور لے جاتی ہے۔ چکور، تیتر اور بطخوں کو نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔

شندور کا پولو میلہ دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ شاوان نان بہت ناراض ہوگئی ہے۔ اگر ماحول کو ہم اس طرح چیؤ/آلودہ کرتے رہے تو وہ مستقلاً ہم سے روٹھ جائے گی۔

شندور کا قدرتی ماحول فطرت کی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم نے اسے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں بدل دیا اور گرد و غبار سے آلودہ کردیا تو فطرت ہم سے روٹھ جائے گی۔ میری ڈرائیور حضرات سے استدعا ہے کہ وہ گھاس پر گاڑیاں نہ دوڑائیں۔ میری انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ میلے کے دوران صفائی کا خیال رکھنے کے لیے نکاسی آب اور طہارت گاہوں کا انتظام کیا جائے۔

کوڑا کرکٹ کو مخصوص تھیلوں اور ردی کی ٹوکریوں کے ذریعے جمع کرکے زمین کے اندر دفن کیا جائے۔ اس کام کے لیے غیرسرکاری تنظیموں کی مدد حاصل کی جائے اور شندور پولو میلے کے دوران پمفلٹ یا اسٹیکرز اور بار بار اعلانات کے ذریعے بیداری کی آلودگی نہ پھیلانے کی مہم چلائی جائے اور اسے مستقل سرگرمی کے طور پر ہر سال جاری رکھا جائے۔ سیاحوں کی آمد اچھی بات ہے اس سے مقامی آبادی کو روزگار اور دیگر سہولتیں ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرتی دولت کے اس وسیلے کے دانش مندانہ استعمال اور تحفظ سے متعلق طویل حکمت عملی وضع کی جائے۔

پولو کا مختصر تعارف

فری اسٹائل پولو یہاں کا اتنا ہی قدیم کھیل ہے جتنی کہ شمالی علاقہ جات کی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں گلگت بلتستان اور چترال کا قومی اور قدیم ترین کھیل پولو ہی ہے۔ لفظ پولو (Polo) شمالی علاقہ جات میں اردو زبان کی سوغات ہے۔ یہ کھیل شمالی علاقہ جات میں مشترکہ ہونے کے باوجود مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ استوری زبان میں اسے ٹھوپہ، گلگتی زبان میں بلہ، قدیم ایرانی فارسی میں پلو، لداخی میں کوتاپولو، بلتی میں نتھ اور چلاس میں پانو کہتے ہیں، جبکہ استوری میں پالو گول کو کہتے ہیں گیند کو ٹھوکہ اور اسٹک کو سہر اور اسٹک کے ساتھ جڑے ہوئے حصے کو ٹھوپ کہتے ہیں۔میدان کے مختلف نام ہیں۔ میدان چوگان بازی کو یہاں مختلف نام دیے جاتے ہیں۔

استوری شفرن کہتے ہیں، جب کہ گلگت اور چلاس والے اسے شیوران کہتے ہیں۔ قدیم بلتی میں شفرن ہی بولتے ہیں۔ جب تک اس علاقے میں دورِجدید کا عکس نہیں پڑا تھا یہاں کی معاش کا واحد ذریعہ کھیتی باڑی اور بھیڑ بکریوں کو پالنا تھا۔ تعلیم کا رواج نہیں تھا۔ نوجوانوں کا سن بلوغت تک کا زمانہ مویشی چَرانے میں بسر ہوتا تھا۔ چناںچہ اسی دوران چرواہے پولو میں مہارت حاصل کرلیتے تھے۔ شواران کی تیاری اشتراک عمل کے تحت کی جاتی تھی۔

 کھیل جیتنے کے حربے:

پولو کھیل یہاں کی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے۔ کھیل کی فریق دو ٹیمیں ہوتی ہیں، جن میں عام طور پر چھے، چھے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ہر گول پر پارٹی کی سمت بدل دی جاتی ہے۔ اچھلی ہوئی گیند کو پکڑا جائے اور گول پوسٹوں سے گزر جائے تو یہ بھی گول تصور ہوتا ہے۔ اگلے وقتوں میں میچ جیتنے کے لیے 9 گول ضروری تھے۔ اب وقت مقرر کیا جاتا ہے، مقررہ وقت میں جس ٹیم کے گول زیادہ ہوجائیں اسے فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

مخالف ٹیم پر بازی جیتنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔تاریخ میں بعض ایسی ہلاکت خیز شرائط کا بھی ذکر ملتا ہے جن کی وجہ سے اس کھیل کو وحشی قرار دیا جاتا ہے۔ 1910 کا ایک انتہائی مضحکہ خیز اور وحشت ناک واقعہ شہنشاہ تائی سو سے منسوب ہے، جس کے مطابق کھیل کے دوران تائی سو کا ایک پسندیدہ کھلاڑی مرگیا۔ شہنشاہ صدمہ برداشت نہ کرسکا اور جذبات سے مغلوب ہوکر کھیل میں شامل تمام کھلاڑیوں کو قتل کردیا۔

ڈاکٹر نعیم استوری

The post پریوں کے دیس میں آلودگی appeared first on ایکسپریس اردو.

ننھے جادوگر، معصوم چڑیلیں

$
0
0

یہ ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا، چند بچے اس مکان کے سیمنٹ سے بنے فرش پر اور کچھ بچے بوسیدہ گدوں پر بیٹھ کر انہماک سے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے میں مصروف تھے۔ سب بچوں کے چہرے سُتے ہوئے تھے، سوائے ایک تین سالہ بچی کے، جو لکڑی سے بنے جھولے پر بیٹھی کارٹون دیکھنے کے ساتھ اپنے پیروں کو زمین سے رگڑ رہی تھی۔

ایک ’چڑیل‘ بچی کو اتنے سکون کے ساتھ دیکھ کر آنکھوں پر یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ صر ف یہ بچی ہی نہیں بلکہ کمرے میں موجود تمام بچے ’’جادوگر‘‘ تھے اور ’’چُڑیلوں‘‘ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں سب سے الگ تھلگ نائجیریا کے جنوب مشرقی شہر کالابار کے ایک ایمرجینسی شیلٹر ہوم میں رکھا گیا تھا۔ بیسمنٹ جتنے اس کمرے کا کُل اثاثہ چھے پھٹے پُرانے گدے اور ایک عدد ٹیلی ویژن تھا۔ کمرے کا دروازہ ان جادوگر بچوں کی حفاظت کے پیش نظر باہر سے مقفل تھا۔ یہ شیلٹر ان جیسے بچوں کے لیے بنایا گیا تھا جنہیں ان کے اپنے والدین، رشتے داروں نے ہی جادوگر قرار دے دیا تھا۔ اور نہ اس شہر میں کوئی ان بچوں کو گود لینے کے لیے تیار ہے کیوں کہ یہ ’برانڈڈ جادوگر‘ ہیں۔

کارٹون ختم ہوتے ہی جھولے پر اطمینان سے بیٹھی بچی جینا (فرضی نام) نے کمرے سے باہر نکل کر اپنی قمیص اوپر اٹھائی۔ اس کی کمر پر موجود جلنے، کٹنے اور تشدد کے نشانات کسی اور کے نہیں بل کہ اس کی اپنی نانی کے عطاکردہ تھے۔ اس شیلٹر ہوم میں آنے سے قبل جینا اپنے پندرہ سالہ بھائی مائیکل (فرضی نام) کے ساتھ کالابار کے علاقے اکمپا میں اپنی نانی کرسٹیانا کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔

والدین کی ایک حادثے میں موت کے بعد ان دونوں بچوں کی ذمے داری کرسٹیانا نے اٹھالی، وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی باقاعدگی سے اینٹی ریٹرووائرل (ایڈز کی ادویات) ادویات نہ کھانے والی ایڈز کی مریضہ کرسٹیانا نے اپنی گرتی ہوئی صحت کا ذمے دار ان بچوں کو قرار دے دیا۔ وہ جینا اور مائیکل کو ایک مقامی چرچ میں لے گئی۔

جہاں کے ایک پادری نے بنا سوچے سمجھے ان دونوں بچوں کو ’برانڈڈ جادوگر‘ قرار دے دیا۔ پادری کی زبان سے ادا ہونے والے ان دو لفظوں سے کرسٹیانا کے اندر ایک وحشی عورت نے جنم لیا۔ اس کا رویہ اپنے نواسے نواسی کے ساتھ بالکل تبدیل ہوگیا۔ اب اُس کے لیے یہ بچے انسانی روپ میں موجود چڑیل اور بھوت تھے، جو اس کے بیٹی اور داماد کو مارنے کے بعد اب اُسے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتے تھے۔ اس نے ایڈز کی وجہ سے ہونے والی کم زوری اور تکلیف کا بوجھ بھی ان بچوں کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ چرچ سے گھر واپسی تک کے مختصر راستے میں وہ ان جادوگر بچوں کو سبق سکھانے کے لیے بہت طویل منصوبہ بندی کرچکی تھی۔

چرچ سے آنے کے چند دن بعد ہی کرسٹیانا کا ایک پڑوسی رینکن اس کے گھر سے چیخ پکار کی آوازیں سن کر وہاں پہنچا، جہاں اس نے دیکھا کہ کرسٹیانا کپڑے سکھانے کی رسی کاٹنے کا موردِالزام ان بچوں کو ٹہرارہی تھی جو کہ انہوں نے اپنی جادوگری دکھاتے ہوئے کاٹ دی تھی۔ رینکن یہ دیکھ کر کرسٹیانا کو ایک کونے میں لے گیا، جہاں کچھ دیر گفت گو کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا۔

رینکن اور کرسٹیانا کی اس مختصر گفت گو نے ان بچوں کے لیے بربریت کا ایک نیا در وا کیا۔ اگلے دن پو پھٹے ہی رینکن اپنے ایک عامل دوست کے ساتھ کرسٹیانا کے گھر میں موجود تھا۔ رینکن کے ساتھ آئے شخص نے ان دونوں کو قریبی جنگل میں لے جا کر مارنا شروع کردیا۔ وہ جینا اور مائیکل کو مارنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی نانی کو شیطانی اثرات سے آزاد کرنے کا مطالبہ بھی کرتا رہا، جینا اور مائیکل نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، جس نے رینکن اور اس کے دوست کو مزید مشتعل کردیا، انہوں نے دونوں بہن بھائیوں کو پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور اپنے گھر لے گئے۔ رینکن نے کوئلے جلا کر ایک تیز دھار خنجر کو کوئلوں پر رکھ دیا۔ جب خنجر کا پھل گرم ہوکر سُرخ ہوگیا تو انہیں نے جینا اور مائیکل سے پوچھا’تم دونوں جادوگر ہوں؟

جواب میں انکار سُن کر رینکن اور اس کے دوست نے ان بچوں کو مارنا اور گرم خنجر سے جسم کے مختلف حصوں کو داغنا شروع کردیا۔ وحشت و بربریت کا یہ کھیل صبح سے لے کر دوپہر تک چلتا رہا۔ کمرے کی زمین ان بچوں کے زخموں سے بہنے والے خون اور فضا ان کی دردناک سسکیوں سے بھر گئی تھی۔ تشدد سے بچنے کے لیے آخر کار ان دونوں نے جادوگر ہونے کا اعتراف کرلیا، لیکن اس اعتراف نے سوالات کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا۔

رینکن نے ان سے پوچھا،’کیا تم دونوں نے ہی اپنے ماں باپ کا قتل کیا؟ مائیکل نے جواب دیا ’ہاں‘۔ مائیکل کا جواب ختم ہونے سے پہلے ہی رنکن نے نیا سوال داغ کیا،’اپنے والدین اور نانی کے گھر میں پیدا ہونے والے مسائل کا سبب بھی تم ہی تھے؟‘ مائیکل نے اس بات کا جواب بھی ہاں میں دیا۔ اس اعتراف کے بعد مائیکل اور جینا کو برانڈڈ جادوگر قرار دے کر گھر کے ایک کمرے میں بند کردیا گیا، جہاں ان پر اذیت رسانی کے نت نئے تجربات کیے گئے۔ کبھی انہیں درخت سے باندھ کر جسم پر کھولتا ہوا پانی ڈالا گیا تو کبھی گرم خنجر سے ان کے جسموں کو داغا گیا۔

جب میں نے مٹی سے بنے اس چرچ کا دورہ کیا تو اس وقت وہ پادری وہاں موجود نہیں تھا جو ان بچوں کو جادوگر قرار دیتا تھا۔ چرچ میں موجود ایک دوسرے پادری اسرائیل اُبی نے ان تمام تر الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس چرچ میں کوئی بھی بچوں کے جادوگر ہونے یا نہ ہونے کا تعین نہیں کرتا اور نہ ہی چرچ میں بچوں پر سے شیطانی اثرات ختم کرنے کے لیے کسی قسم کی رُسومات یا تقریبات کا انعقاد اور نہ کوئی جادو ٹونا کیا جاتا ہے۔

بہت زیادہ پوچھنے پر بالآخر اسرائیل اُبی نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ ’چرچ میں سمندری بلاؤں اور بھوت پریت سے نجات کے لیے عمل کیے جاتے ہیں، کیوں کہ نائجیریا کے سمندر اور دریاؤں کے اطراف میں رہنے والے بہت سے لوگ سمندری بلاؤں، بھوتوں کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔‘ جینا اور مائیکل کو آزادی ان کے ایک رشتے دار کی بدولت ملی جنہوں نے ان کے جسم پر جلنے کے نشانات دیکھ کر پولیس کو آگاہ کیا۔ جادوگری اور بھوت پریت جیسی باتوں پر یقین نہ رکھنے والے جینا کے انکل نے پولیس کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے اس پادری کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا جو بچوں کو جادوگر، چڑیل قرار دے کر انہیں بربریت کی ایک نہ ختم ہونے والی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ اس جیسے (پادری) لوگ مجرم ہے، جو لوگوں کی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ جینا، مائیکل اور اس پناہ گاہ میں رہنے والے دیگر بچوں کے جسموں پر موجود تشدد کے نشانات نائجیریا میں کوئی غیرمعمولی اور نئی بات نہیں ہے۔ نائجیریا کے ڈیلٹائی خطے میں رہنے والے نوے کی دہائی سے ہی جادوگری کے شبہے میں اپنے ہی جگر گوشوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا تے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے صرف معمر خواتین ہی کو جادوگر قرار دے کر تشدد کیا جاتا تھا۔

اعدادوشمار کے مطابق 2008ء تک نائجیریا کی جنوب مشرقی ریاستوں Akwa Ibom اور کراس ریورز میں پندرہ ہزار بچوں کو جادوگر قرار دیا گیا۔ تحقیق کے مطابق اٹھارہ سال کے اس عرصے میں بہت سے بچوں بشمول شیرخوار بچوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، ان کے سروں میں کیلیں ٹھونکی گئیں، زبردستی سیمنٹ پلایا گیا، آگ لگائی گئی، تیزاب ڈالا گیا، زہر دیا گیا اور یہاں تک کہ زندہ دفن تک کردیا گیا۔

2010ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ایسے بچوں کو جادوگر قرار دیا گیا جو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور، سست، کاہل اور سرکش تھے۔ نائجیریا کے کرمنل کوڈ کے تحت کسی کو جادوگر قرار دینا اور اس کی بنیاد پر دھمکی دینا قابل دست اندازی پولیس ہے۔ نائجیریا کے چائلڈ رائٹس ایکٹ 2003ء بل کے مطابق کسی بچے پر ذہنی اور جسمانی طور تشدد کرنا یا اس کے ساتھ کوئی غیرانسانی حرکت کرنا قابل سزا جُرم ہے۔ تاہم قومی سطح پاس ہونے والے اس قانون کو ملک کی 36 ریاستوں سے ابھی تک توثیق درکار ہے۔

یہ قانون نہ صرف ہر ایک ریاست کو خصوصی ذمے داری اور کسی مخصوص صورت حال میں اس سے متعلقہ قانون بھی بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ نائجیریا کی تین چوتھائی ریاستوں نے مقامی سطح پر چائلڈ رائٹس قوانین بنا رکھے ہیں جن میں سے Akwa Ibom واحد ریاست ہے جہاں کے قانون میں بچوں کو جادوگر قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق خصوصی شق شامل ہے۔

2008ء میں بننے والے اس قانون کے تحت ’وچ برانڈنگ‘ (بچوں کو جادوگر قرار دینا) پر دس سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ تاہم تمام تر قانون سازی کے باوجود کراس ریورز اور Akwa Ibom ریاستوں میں وچ برانڈنگ ریاستی حکومتوں اور پولیس کی ناک کے نیچے جاری ہے۔ اس بابت کراس ریور ریاست کے وزیر برائے بہبود آبادی اولیور اور وک کا کہنا ہے کہ ’ریاستی حکومت یونیسف اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر بچوں کو جادوگر قرار دینے کے مسئلے پر ہم تن دہی سے کام کر رہے ہیں۔ کرمنل لا کی وجہ سے یہ پریکٹس کم ہوگئی ہے۔ تاہم عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات کا ایک بھی فیصلہ باقاعدگی سے نہیں ہوا۔ اگر حکومت لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے تو ہمارا یہ اقدام کلیساؤں اور ان کے پادریوں کے خلاف بھی جاسکتا ہے۔‘

بچوں کے حقوق اور انہیں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے والی ایک مقامی تنظیم کالابار بیسک رائٹس کاؤنسل اینیشے ایٹو (بی سی آر آئی) کے صدر اور وکیل جیمز ابور کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس مالی اور تیکنیکی دونوں وسائل کی کمی ہے اور انہیں اس نوعیت کی کیسز کی تفتیش کرنے کی تربیت بھی نہیں دی گئی ہے۔ اور اکثر و بیشتر ہمیں اپنے طور پر تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ میرے پاس ایک کیس ایسا بھی آیا جس میں باپ نے جادوگر ہونے کے شبہے میں اپنے دو بچوں کو زہر پلا دیا تھا، اسے ملزم قرار دیا گیا لیکن پولیس کے پاس وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ خون کے نمونے لاگوس بھیج کر موت کی وجہ کی تصدیق کرسکتی۔

اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے، بچوں کی لاشیں ابھی تک سرد خانے میں موجود ہیں اور باپ ابھی تک آزاد ہے۔ اس جیسے سیکڑوں کیسز سالوں سے زیرالتوا ہیں۔ جیمز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے متنازعہ کیسز کی تفتیش میں پولیس اور حکومت بھی تذبذب کا شکار رہتی ہیں، اور متاثرہ بچوں کے گھر والوں اور کمیونیٹیز کی جانب سے ثبوت فراہم نے کرنے سے ہمارا کام بھی بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس موجود کیسز میں سے ایک تہائی کیسز وچ برانڈنگ کے حوالے سے ہیں۔ یہ ظالمانہ پریکٹس صرف نائجیریا کے مضافاتی علاقوں تک محدود نہیں ہے، چھے ماہ قبل ہی دارالحکومت ابوجا میں ایک وچ ڈاکٹر (عامل) کے ٹارچر کیمپ سے چالیس بچوں کو بازیاب کرایا گیا ۔ گزشتہ ماہ لاگوس میں ایک بچے کو جادوگر ہونے کے شبے میں اس کی ماں نے چابک سے بہت بے رحمی سے مارا، لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوسکی تو ہمارے پاس قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ قانون میں نہیں اس کی تکمیل میں ہے، اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ جیمز کا کہنا ہے کہ کچھ عامل اور پادری نائجیریا کے ڈیلٹائی خطے میں خوف کا بیج بو رہے ہیں، غربت اور بھوت پریت پر یقین ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں یہ پریکٹس بڑھ رہی ہے۔

وکیل جیمز ایبور کا کہنا ہے کہ پینٹے کاسٹل چرچ اپنے مذہبی اجتماعات میں ذاتی ناکامیوں اور بدقسمتی کا الزام جادوئی طاقتوں کو قرار دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے میں ایک لڑکے کو اس کے اپنے گھر والوں نے محض اس بات پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا کہ چرچ کے خیال میں لڑکے میں موجود شیطانی قوتوں کی وجہ سے ان کی موٹر سائیکل ٹوٹ گئی، ایک باپ نے ملازمت چُھوٹنے پر اپنی بیٹی کو جادوگر قرار دے کر مار پیٹ کی۔ یہ لوگ خوف فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں نذرانے اور ہفتہ وار چندہ دیتے رہیں۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اس مسئلے کی بابت شعور اُجاگر کرنے کے لیے نائجیریا اور دیگر ممالک میں ورک شاپس منعقد کیں، جس کی حتمی رپورٹ کے مطابق،’اس ظالمانہ رسم کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، کیوں کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ جب کہ لوگوں میں جادوگروں خصوصاً جادوگر بچوں کے حوالے سے خوف پیدا کرنے میں ان جعلی عاملوں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جو اپنے پیسوں کی خاطر اس سارے کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

کراس ریور ریاست کے ایک چھوٹے قصبے Akpabuyoکے رہائشی کسان باسے ایسے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل میں نے ڈائیون زیون چرچ کے پادری کو دو کم سن لڑکیوں پر تشدد کر تے دیکھا اور آج بھی اس کا تصور کر تے ہوئے جھرجھری آجاتی ہے، مجھے نہیں پتا کہ اُن لڑکیوں کے ساتھ بعد میں کیا ہوا، لیکن ایسے واقعات یہاں معمول بن چکے ہیں۔ اسی طرح ایک حاملہ عورت کی زچگی تاریخ سے کچھ ہفتے تاخیر کا شکار ہوگئی جس پر اُس نے فیس کے عوض مذکورہ چرچ کے پادری کی خدمات حاصل کیں جس نے وضح حمل میں تاخیر کا ذمے دار ایک سات سالہ اور دس سالہ بچی پر عائد کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد باسے نے کھیتوں سے واپسی پر ایک لڑکی کی چیخنے کی آوازیں سنیں۔

وہاں جا کر دیکھا تو تین افراد ایک چھوٹی سی بچی کو درختوں سے باندھ کر گنے اور خنجر سے زدوکوب کر رہے تھے۔ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم چائلڈ رائٹس امپلی مینٹیشن کمیٹی کی افسر ایبے اوکارا کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس علاقے میں بچوں کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعات میں سے 60 فی صد کیسز جادوگری سے متعلق ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کو پادری کی جانب سے جادوگر قرار دے کر تشدد کیا جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر پادریوں کا جعلی عاملوں کے ساتھ کمیشن طے ہے۔ غربت، بدقسمتی کا الزام دھرنے کے لیے بچے ان پادریوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔

اوکارا کا کہنا ہے کہ دارلحکومت ابو جا سے نائجیریا کے ڈیلٹائی علاقوں میں چوراہوں پر لگے بل بورڈ کی تحریر پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کا سب سے بڑا کاروبار شراب کی فروخت اور جن نکالنا ہے۔ ہر پوسٹر میں ضرورت رشتہ، بے روزگاری کے خاتمے، بانجھ پن کے علاج سے زیادہ تشہیر کالے جادو کے توڑ کی گئی ہے۔ نائجیریا میں جادو ٹونا، بھوت پریت پر یقین کی ایک اہم وجہ پینٹے کوسٹل خانقاہوں کی وہ دو نظریاتی ڈاکٹرائن بھی ہے جس نے 1970ء سے نائجیریا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس نظریے میں کام یابی اور رزق کی فراوانی پر زور دیا گیا ہے اور اگر کوئی اپنی زندگی میں ناکام ہے تو یہ اس پر بد اثرات کی علامت ہے۔ دوسرے نظریے کے تحت پینٹے کوسٹل چرچز دنیا کو ایک ایسے میدان ِ جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں اچھی اور بری طاقتوں کی جنگ جاری ہے۔

اسی ڈاکٹرائن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نائجیریا میں خانقاہیں ایک مذہبی جگہ سے زیادہ کاروباری مرکز بن گئی ہیں۔ اور ان میں سے ایک چرچ آرک آف نوح کالا بار کے جنوب میں واقع ہے ۔ میں جب آرک آف نوح پہنچا تو مرکزی دروازے کے سامنے موجود چپلیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اندر جن نکالنے کا عمل جاری ہے۔

اندر سیمنٹ کے فرش پر گول دائرے کی شکل میں پیروں کے انگوٹھے پر ناچتی لڑکی پسینے میں شرابور ہوکر تھک کر نیچے گرنے ہی والی تھی، لیکن ہال میں موجود شخص نے اسے کمر سے پکڑ لیا۔ یہ کسی رقص کی پریکٹس نہیں بلکہ جھاڑ پھونک کرنے والے ایک عامل کی جانب سے ’جادوگر‘ بچوں کو ان عاملوں کے سپرد کرنے کا نیا اور بہیمانہ طریقہ ہے۔ تین پادریوں پر مشتمل ٹیم ایک پندرہ سالہ لڑکے کا علاج کرنے کے لیے تیار ہے۔ تیس منٹ دورانیے کے اس کورس میں تینوں نے ’مریض‘ کے سر پر تھپڑ مارنے کے بعد اس کے کان کی لو پر چٹکیاں لینا شروع کردیں، اس عمل کے بعد تینوں نے باری باری اس کے پیٹ کو پکڑ کر مضبوطی سے بھینچنا شروع کردیا۔

اندر پیلی قمیص میں ملبوس پادری گیڈیون اوکون جادوگر قرار دیے گئے بچوں کے سامنے دعا مانگ رہا تھا۔ ’’خداوند میری آنکھیں کھول دے تاکہ میں لوگوں کی مشکلات دیکھ سکوں، اسی طرح جس طرح میں دیکھ سکتا ہوں کہ کون چڑیل، جادوگر ہے، گیڈیون کا دعویٰ تھا کہ ان بچوں کو کوئی اس کے پاس لے کر نہیں آیا ہے بلکہ اس نے اپنی روحانی قوتوں سے انہیں یہاں بلا یا ہے۔ اور اگر یہ ’پاک‘ ہونے کے لیے تیار ہے تو پھر ہم اس کے معاوضے پر بات کریں گے۔ فیس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ ’علاج‘ اور بچے پر قابض جن کی طاقت پر منحصر ہے۔

سمندری بلاؤں کو مارنے کے لیے میں دو لاکھ نیرا (ساڑھے پانچ سو امریکی ڈالر) لیتا ہوں لیکن اس پر والدین کے ساتھ بات چیت کے بعد کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ نائجیریا جیسے ملک میں جہاں ایک پاؤنڈ اجرت کمانے والے کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے وہاں یہ رقم بہت زیادہ ہے۔ گفت گو ختم ہونے کے بعد گیڈیون نے اپنا کام شروع کردیا۔ کئی گھنٹے مذہبی دعاؤں اور گیتوں کے بعد تینوں بچوں جن کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان تھیں، کو سافٹ ڈرنک کی بوتل میں موجود سبز، چپچپا محلول پلایا گیا۔ یہ ان بچوں کو تین دن کے روزے کے بعد دی جانی والی شے تھی۔ اوکون کے مطابق یہ محلول پانی، پام آئل، مٹی، پتے اور سات کن کجھوروں کا مرکب ہے۔ اور ان اجزا کے بارے میں مجھے خداوند نے بتایا ہے۔

نائجیریا میں توہم پرستی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کی فلمی صنعت بولی وڈ کے بعد دنیا میں سب سے فلمیں بنانے والی صنعت ہے۔ یہاں سالانہ ڈھائی ہزار سے زائد فلمیں بنتی ہیں۔ ان فلموں میں رومانس، مزاح، تاریخ، گینگ وار سے زیادہ بھوت پریت، مافوق الفطرت طاقتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مذہب اور ماورائی طاقتوں کے موضوع پر بننے والی فلمیں نہ صرف نائجیریا بلکہ پورے افریقا میں بہت مقبول ہیں۔

1999میں لبرٹی گوسپیل چرچ کی جانب سے ایک فلم ’اینڈآف دی وکڈ‘ بنائی گئی۔ جس میں چند بچوں پر مشتمل گروہ کو اپنے والدین کا قتل کرکے ان کا خون پیتے، گوشت کھاتے دکھا یا گیا تھا۔ اس فلم نے پورے نائجیریا میں بچوں کے خلاف تشدد کی نئی لہر پیدا کردی کتنے ہی والدین نے جادوگر ہونے کے شبے میں اپنے بچوں پر بدترین تشدد کیا، کئی بچوں کو قتل کردیا گیا۔ میری (فرضی نام) بھی ان فلموں سے متاثرہ بچوں میں سے ایک ہے۔ میری کا کہنا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہنے لگی۔ جس نے اسے ساتھ سونے پر مجبور کیا اور انکار پر چڑیل قرار دے دیا۔ وہ کہتی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پاؤن باندھ کر ایک کمرے میں پھینک دیا۔ تنگ آکر میں نے عامل کے سامنے چڑیل ہونے کا اعتراف کرلیا، اس دن کے بعد سے میرا کھانا پینا بھی بند کردیا گیا اور ایک دن موقع ملنے پر میں وہاں سے بھاگ نکلی ۔

کالا بار کے مضافاتی علاقے میں موجود کچرا منڈی اب میری کی جائے مسکن ہے، جہاں وہ اپنی ہی جیسی چار دوسری لڑکیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ نائجیریا بچوں کے لیے جہنم بن چکا ہے اور شیلٹر ہوم میں موجود بچوں کو گود لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ ’برانڈڈ جادوگر‘ ہیں اور کم ازکم اس ملک میں کوئی بھی ان جادوگر بچوں کو اپنے گھر لے جانے کی خواہش نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے ہے کہ شیلٹر ہوم میں موجود بہت سے بچے بچیاں خود کو شیطان اور چڑیل تصور کرنے لگے ہیں، جس کا سدباب کرنا نہایت ضروری ہے۔

تحریر: مارک ایلیسن

The post ننھے جادوگر، معصوم چڑیلیں appeared first on ایکسپریس اردو.

خلاء کی وسعتوں میں پنہاں، عقل کو چکرا دینے والے سربستہ راز

$
0
0

وسعتوں کی آخری حد خلا کے ہے بارے میں ہمیں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔

خلاء تو ایک طرف، ہمیں تو خود اس کائنات کے بارے میں بھی بہت زیادہ علم نہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ البتہ ہم اب تک جو معلوم کرسکیں ہیں۔ اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ خلاء ہمیں فنا کردینے کے پوری طرح درپے ہے۔

قاتل شعاعوں سے لے کر عظیم ستاروں کے پھٹنے تک، یہ کہکشاں اتنی خطرناک جگہ ہے کہ جو کسی بہادر سے بہادر خلانورد کو بھی خوفزدہ کرکے یہ سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے کہ وہ ہماری خوبصورت زمین کے محفوظ ماحول کو چھوڑنے کی مہم جوئی کرے یا نہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب خطرات کے باوجود انسان اپنی پرتجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ستاروں پر کمند ڈالنے اور مظاہر عالم کا کھوج لگانے کے لیے بے تاب اور پرعزم ہے۔ سو، اس بات کا یقین کرلینے کے لیے کہ خلاء کے وہ سربستہ راز کیا ہیں؟ آئیے چند اہم نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

-1 نوری رفتار (The Speed of Light)

ہر کوئی صرف یہ سوچ کر ہی بہت خوشی محسوس کرتا ہے کہ جب وہ روشنی کی رفتار یعنی تقریباً 300,000 کلو میٹرز فی سیکنڈ (سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں تقریباً 8 منٹ اور 17 سیکنڈز لگتے ہیں۔ سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کو اگر اس مقررہ وقت پے تقسیم کیا جائے تو روشنی کی رفتار معلوم ہوجاتی ہے) کے حساب سے کہکشاؤں میں تیرتے ہوئے سفر کرے گا تو کتنا مزہ آئے گا۔

تاہم درحقیقت اس تصور میں خوشی کا عنصر کم اور پریشانی زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے کسی جسم (خلائی جہاز وغیرہ) کے ساتھ جب ہائیڈروجن کے ایٹم مربوط ہوتے ہیں تو وہ انتہائی درجے کے تابکار ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بہت آسانی کے ساتھ خلائی جہاز کے عملے اور اس کے برقی آلات کا صفایا کرسکتے ہیں۔  خلاؤں میں آوارہ پھرتے،  ہائیڈروجن گیس سے بنے صرف چند کمزور سے اجسام سے پیدا ہونے والی تابکاری بھی ایک ننھے سے ذرے (جو شدید طور پر متعامل ہو) اور کسی دوسرے عنصر کے ذرے سے ٹکرانے (یہ ٹکراؤں بہت عظیم ہوتا ہے)کے بعد جنم لینے والی پروٹون شعاعوں کی غیر معمولی حد تک طاقت ور لہر کے برابر ہوسکتی ہے۔

-2 چاند (The Moon)

چاند وہ خلائی جسم ہے جو زمین کے گرد گھومتا ہے اور یہ زمین کا واحد قدرتی سیارچہ ہے۔ یہ ہمارے نظام شمسی کا پانچواں بڑا قدرتی سیارچہ ہے جبکہ دیگر سیاروں اور ان کے سیارچوں کے مابین حجم کے تناسب سے چاند اپنے جیسے دوسرے سیارچوں میں سب سے بڑا ہے۔ ہمارا چاند تقریباً 4.51 ایک بلین سال پرانا ہے یعنی یہ زمین کے کچھ ہی عرصے بعد معرض وجود میں آگیا تھا۔

خوفناک بات یہ ہے کہ ہمارا یہ چاند ہر سال چار سینٹی میٹرز زمین سے دور ہوتا جارہا ہے۔ شاید یہ حقیقت پہلی نظر میں باعث تشویش محسوس نہ ہو لیکن مستقبل کے لحاظ سے یہ چیز ہمارے کرۂ ارض پر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ اگرچہ زمین کی کشش ثقل اتنی طاقتور ہے کہ جو چاند کو خلاء میں ادھر ادھر بھٹکتے پھرنے سے روک سکتی ہے مگر چاند کے ساتھ اس کا بڑھتا ہوا فاصلہ بالآخر زمین کی محوری گردش کو سست کرنے کی وجہ بن جائے گا اور یوں ہمارا ایک دن 24 گھنٹوں سے بڑھ کر ایک ماہ پر محیط ہو جائے گا اور سمندروں کا  مدوجزر منجمد ہوجانے سے زمین کا ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔

-3 بلیک ہولز (Black Holes)

خلاء میں عظیم الشان ستاروں کے مردہ ہوجانے سے پیدا ہونے والے بلیک ہولز اتنی قوت کے حامل ہوتے ہیں کہ جو روشنی جیسی لطیف چیز کو بھی واپس اپنے اندر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری آنکھ کسی بھی چیز کو اسی وقت دیکھ سکتی ہے، جب اس چیز سے روشنی منعکس ہوکر واپسی ہماری آنکھ تک آئے۔

اسی وجہ سے جب بلیک ہولز سے روشنی واپس نکل نہیں پاتی تو وہ ہمیں نظر نہیں آتے اور انہیں بلیک ہولز کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلیک ہولز وقت کی طنابوں کو بھی لپیٹ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں ایک چھوٹا سا بلیک ہول بھی موجود ہو تو وہ سب سیاروں کو ان کے مداروں سے باہر پھینک سکنے کی طاقت رکھتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے سورج کو بھی ٹکڑوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ بلیک ہولز کئی ملین میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کہکشاؤں میں چکراتے ہوئے،  راستے میں اپنے پیچھے تباہی کے نقوش چھوڑ دیتے ہیں۔

-4 خلائی مخلوق کی موجودگی (Alien Life)

ہماری زمین کے علاوہ کائنات میں دوسرے سیاروں یا کہکشاؤں میں زندگی یا کسی مخلوق کی موجودگی ایک طویل عرصے سے ہم انسانوں کے لیے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ خاص طور پر جب بیسوی صدی کے وسط میں حیرت انگیز اور تیز رفتار سائنسی ترقی کا آغاز ہوا اور انسان خلاء میں جاپہنچا تو ذہنوں میں یہ تجسس زیادہ شدومد کے ساتھ سر اٹھانے لگا کہ کیا کسی اور سیارے پر کسی مخلوق کی موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے؟ اس موضوع پر ناصرف کہانیاں لکھی گئیں بلکہ اس پر فلمیں بھی بنیں، جو بے حد مقبول ہوئیں کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع تھا جو سب لوگوں کو بہت پسند تھا۔

دوسری طرف سائنس دانوں نے بھی اس پر اپنی تحقیق جاری رکھی ہوئے ہے۔ وہ خلاء میں مسلسل ریڈیائی سگنلز بھیج رہے ہیں تاکہ اگر کسی جگہ کوئی مخلوق موجود ہے اور وہ سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ بھی ہے تو وہ اس کا جواب دے۔ دنیا میں اکثر مختلف جگہوں اور مقامات  پر اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے دعویدار سامنے آتے ہیں،  جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی ایسی ہی مخلوق کے خلائی جہاز ہیں جن پر بیٹھ کر وہ ہماری زمین تک آتے ہیں۔ اس بارے میں اگرچہ علمی اختلاف موجود ہے کہ آیا اگر خلاء کی وسعتوں میں کوئی مخلوق موجود بھی ہے تو کیا وہ ترقی یافتہ بھی ہے یا نہیں اور دوسرے یہ کہ کیا اس کی ہیت انسانوں جیسی ہے یا اس کی شکل کسی اور طرح کی ہے۔

یعنی بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسی مخلوق شاید جرثوموں کی صورت میں ہو اور ابھی اپنی ارتقائی منازل ہی طے کررہی ہو۔ ہماری کائنات بہت بڑی اور بہت قدیم ہے۔ اس لیے یہاں پر ہماری زمین جیسے کسی اور سیارے کے پائے جانے اور وہاں کسی مخلوق کے ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس بارے میں سائنس دانوں کا ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جس کے خیال میں کائنات کی وسعتوں میں کہیں کسی خلائی مخلوق کی موجودگی کا امکان اس لیے بھی معدوم ہے کیونکہ آج تک ہمیں ان کی موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا (حالانکہ یہ کوئی مدلل بات نہیں ہے کیونکہ سر دست کسی ثبوت کا نا ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ موجود ہی نہیں ہے)۔ بہرحال بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ واقعی میں ایسا نہ ہو۔ لیکن ہر دو صورتوں میں یہ حقیقت خوفزدہ کرنے والی تو ہے۔

-5 آوارہ گرد سیارے (Rogue Planets)

آوارہ گرد سیارے ان سیاروں کو کہا جاتا ہے جو کسی وجہ سے یا تو اپنی پیدائش کے بعد ہی اپنے نظام شمسی سے خارج ہوجاتے ہیں اور یا پھر وہ کبھی بھی کسی نظام شمسی کا حصہ نہیں رہے ہوتے بلکہ براہ راست کسی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک کہکشاں میں کئی ملین آوارہ گرد سیارے پائے جا سکتے ہیں، جو خلاء میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

ان سیاروں کا دیگر خلائی اجسام کے ساتھ کسی بھی وقت ٹکراؤ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ ان آوارہ سیاروں کی سطح کا درجہ حرارت عموماً انتہائی سرد ہوتا ہے۔ تاہم کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ان سیاروں کے اندرونی مرکز(جو پگھلی ہوئی حالت میں ہوتے ہیں) اور برفانی موصلیت کی موجودگی کی وجہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ ان میں زیر زمین سمندر موجود ہوں جو زندگی کی نوید بن سکیں۔

-6 انتہائی درجۂ حرارت (Extreme Temperatures)

خلاء میں یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ آپ کو بہت ہی انتہا درجے کی مختلف اور متنوع صورت حال درپیش ہوں۔ یعنی کہ کسی عظیم ستارے کی پیدا کردہ حرارت کے باعث وہاں درجۂ حرارت 50 ملین ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے بھی زیادہ تک ہوسکتا ہے جو کسی ایٹمی دھماکے سے بھی پانچ گنا زیادہ کے برابر ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ خلاء میں عالم ظاہر کے پس منظر کا درجہ حرارت منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جو ’’صفر‘‘ سے محض تھوڑا سا ہی ’’گرم‘‘ ہے۔ اس لیے اگر آپ کا وہاں جانا ہو تو اپنی جیکٹ لے جانا نہ بھولیئے گا۔

-7 نیوٹران ستارے (Magnetars)

’’میگنیٹارز ”(Magnetars)” ناقابل یقین حد تک ٹھوس یا کثیف نیوٹران ستاروں کو کہتے ہیں۔ یہ عام نیوٹران ستاروں کی نسبت بہت زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان رکھتے ہیں۔ درحقیقت بنیادی طور یہ  پورے کا پورا ستارا پسی ہوئی شکل میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک صرف پندرہ میل کا ایک کرہ ہوتا ہے۔ چائے کے ایک چمچے کی قدر پر مشتمل ’’میگنیٹار‘‘ کی کمیت غزہ (مصر) کے نو سو عظیم اہراموں  جتنی ہوتی ہے۔ ان کا مقناطیسی میدان کائنات میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یہ اتنی قوت رکھتا ہے کہ کوئی بھی چیز اگر اس کے انتہائی قریب پہنچ جائے تو یہ اسے چیر پھاڑ کر زروں میں تبدیل کردیتا ہے۔

-8 مسکولو سکیلیٹل اٹرافی (Musculoskeletal Atrophy)

’’مسل اٹرافی‘‘ پٹھوں کے سوکھنے کی بیماری کو کہتے ہیں۔ اس بیماری میں پٹھے سوکھ کر جزوی یا مکمل طور پر اپنی کمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ عام طور پر یہ ان مریضوں میں دیکھنے میں آتی ہے جو کسی مرض کی شدت کے باعث عارضی طور پر بستر تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ڈاکٹر ایسے مریضوں کو یہ ہدایات دیتے ہیں کہ وہ اپنے مرض سے نجات پانے کے بعد جلد از جلد یہ کوشش کریں وہ زیادہ سے زیادہ حرکت پذیر رہیں۔ بیشتر لوگوں کے لیے زمین پر رہتے ہوئے ہی اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ورزش کرنا محال ہوتا ہے۔

اب تصور کیجئے کہ خلاء میں جانے والے خلانوردوں کے لیے صفر کشش ثقل کے ماحول میں یہ کس قدر کار دشوار ہوگا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشنوں میں جانے والے خلا نوردوں کے اندر خلاء  میں صرف چھ ہفتے گزارنے کے بعد ہی اس بیماری کے واضح اثرات نمایاں ہونے شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ وہاں انہیں بے حد سختی کے ساتھ صحت اور فٹنس کو برقرار رکھنے والے پروگرام پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔

-9 تاریک مادہ یا تاریک توانائی (Dark Matter/Dark Energy)

ہماری زمین، سورج، دوسرے ستارے اور کہکشائیں جن پر یہ کائنات مشتمل ہے،  پروٹونز، نیوٹرونز اور الیکٹرونز کے ایٹمز کے باہم ارتباط سے بنے مادے سے بنی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کی سب سے حیران کن دریافت شاید یہ تھی کہ یہ عام مادہ اس تمام کائنات کی کمیت کے صرف پانچ فیصد پر مشتمل ہے اور بظاہر دکھائی یہ دیتا ہے کہ باقی کی کائنات ایک پراسرار اور نادیدہ مادے، جسے تاریک مادہ (25 فیصد) اور ایک قوت جو کشش ثقل کو روکتی ہے یعنی تاریک توانائی (70 فیصد) سے بنی ہوئی ہے۔ سائنس دان ابھی تک براۂ راست اس تاریک مادے کا مشاہدہ نہیں کرسکے۔

یہ تاریک مادہ، عام مادے کے ذرات پر اثر انداز نہ ہونے کے باعث روشنی اور برقناطیسی تابکاری کی دوسری اقسام کے لیے مکمل طور پر نادیدہ ہے اور اسی وجہ سے جدید آلات کے ذریعے بھی اس کا پتہ لگانا ناممکن ہے۔ تاہم سائنس دان اس کی موجودگی کے بارے میں پر اعتماد ہیں کیونکہ کہکشاؤں پر اس کی کشش ثقل کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

جیسا کہ آج کی فزکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مرغولے نما شکل میں گھومتی ہوئی کہکشاں کے کنارے پر موجود ستاروں کو کہکشاؤں کے مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ان ستاروں کی نسبت جو کہکشاں کے مرکز کے قریب ہیں، سست رفتاری سے گردش کرنا چاہیے (جیسا کہ ہمارے نظام شمسی کے آخری سیارہ ’’پلوٹو‘‘ کی گردشی رفتار سورج سے دوری کی وجہ سے بہت سست ہے) مگر مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ ان ستاروں کا مدار اور ان کی رفتار بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جتنا کہ کہکشاں کے مرکز کے قریب واقع ستاروں کی ہے۔

اس معمے کا یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کہکشاں کے سرے پر واقع ان ستاروں پر کسی نامعلوم کمیت کی کشش ثقل بھی اثر انداز ہورہی ہے اور یقینا وہ تاریک مادہ ہی ہے جو کہکشاں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور کائنات کے پھیلاؤ میں اس کا کلیدی کردار ہے۔

-10 پس منظری تابکاری (Backround Radiation)

یہ تابکاری مختلف ذرائع سے وجود میں آسکتی ہے۔ جن میں قدرتی اورمصنوعی دونوں ذرائع شامل ہیں۔ قدرتی ذرائع میں کوئی شعاع (کاسمک ریز)، شمسی ہوائیں، برقی مقناطیسی ذرات، ماحولیاتی تابکاری (جو قدرتی عناصر جیسے ’’ریڈون‘‘ Radon اور ’’ریڈیم‘‘ Radium سے پیدا ہوتی ہے) جبکہ غیر قدرتی یا انسانی ذرائع میں غیر محفوظ ماحول میں کیے جانے والے جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور جوہری حادثات (جیسا کہ روس کے جرنوبل ایٹمی پلانٹ سے تابکاری خارج ہونے کا حادثہ وغیرہ) شامل ہیں۔

ہماری زمین کی ماحولیاتی ڈھال اور اس کا مقناطیسی میدان ہمیں قدرتی ذرائع سے وجود میں آنے والی تابکاری سے محفوظ رکھتا ہے جو ہماری طرف آنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے۔ اس تابکاری کے تباہ کن اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی خلانورد زمین سے مریخ کی طرف سفر کررہا ہو تو اس پر یہ تابکاری ہر پانچ سے چھ روز بعد اتنے ہی مضر اثرات مرتب کرے گی جتنا کہ سارے جسم کے کیے جانے والے سٹی سکین کی تابکاری اثر پذیر ہوتی ہے اور اگر کوئی خلانورد اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی تابکاری کے ان اثرات سے مکمل نجات حاصل نہیں کرپاتا، تو اسے زندگی بھر میں کسی بھی وقت شدید قسم کے کینسر کا شکار بننے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

-11 خیرہ کن روشنی والا ستارہ (Hypernovae)

’’ہائپرنوا‘‘ قسم کے یہ ستارے عام ’’ہائپرنوا‘‘ کی نسبت اپنے اندر ہونے والے کسی تباہ کن دھماکے کی وجہ سے اچانک زیادہ روشن اور چمکدار ہوجاتے ہیں اور یہ اس ستارے کی موت کا لمحہ ہوتا ہے۔ دراصل ’’ہائپرانوا‘‘ اس عمل کو کہتے ہیں جو اس ستارے میں دھماکہ اور بعدازاں اس دھماکے کے ردعمل کے نتیجے کے طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔

تاہم یہ دھماکہ ہوتا کیوں ہے ؟ اس کی وجوہات پر سائنس دانوں میں اختلاف ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ اس دھماکے کے بعد ستارا یا تو بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے اور یا پھر نیوٹرون ستارے میں بدل جاتا ہے۔ ’’ہائپرنوا‘‘ کا عمل کائنات میں خطرناک ’’گاما شعاعوں‘‘ (Gamma Rays) کے پھیلاؤ کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ گاما شعاعوں کی یہ آتش بازی ٹیلی سکوپ کے ذریعے لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے سے بھی باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

-12 برقناطیسی ارتعاش (Electromagnetic Vibrations)

برقی مقناطیسی لہریں، برقی چارج کے ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خلاء عملی طور پر ایک مکمل خالی جگہ ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی خلاء میں جائے تو اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے گی کیونکہ آواز کی لہریں (یا کوئی بھی مکینیکل لہر) بغیر کسی مادی واسطے کے ایک جگہ سے دوسرے جگہ سفر نہیں کرسکتیں۔

خلاء کا یہ پاگل کردینے والا سناٹا اپنی جگہ لیکن یہ مت سمجھئے گا کہ اگر آپ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تو وہاں کوئی آواز موجود ہی نہیں ہے۔ خلاء میں آواز، برقناطیسی ارتعاش کے ذریعے سفر کرتی ہے۔ ’’ناسا‘‘ (NASA) نے ہمارے شمسی نظام کے کچھ منتخب اجرام فلکی سے آنے والی ایسی ہی چند آوازیں ریکارڈ کیں اور جب انہیں چلایا تو ریکارڈر میں سے انتہائی بھیانک آوازیں برآمد ہوئیں۔

-13 تیر رفتار ترین ستارے (Hyper Velocity Stars)

خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بلیک ہول کے ساتھ قریبی تصادم کے نتیجے میں جو ستارے اپنے نظام سے خراج ہوجاتے ہیں اور وہ پھر 2 ملین میل فی گھنٹے کی رفتار سے کہکشاؤں کی خلاء میں کسی راکٹ ہی کی طرح بھٹکتے پھرتے ہیں انہیں ’’ہائپر ولاسٹی سٹارز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج تک سائنس دانوں کے علم میں جو ’’ہائپر ولاسٹی سٹارز‘‘ آئے ہیں وہ حجم اور کمیت کے حساب سے ہمارے سورج کے برابر کے ہیں۔ تاہم علمی لحاظ سے یہ کسی بھی حجم کے ہوسکتے ہیں اور یہ مزید کوئی بھی ناقابل یقین رفتار پکڑ سکتے ہیں۔

-14 ماحولیاتی دباؤ سے رہائی (Depressurization)

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خلاء میں ہوا موجود نہیں ہوتی تاہم یہ حقیقت اس بات سے زیادہ خطرناک ہے کہ زمین پر کوئی لمبے وقت کے لیے سانس روک لے۔ انسانی جسم زمین کے ماحولیاتی دباؤ کو برداشت کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی ہوائی جہاز پر سفر کرے یا پھر پہاڑی راستوں پر چلے تو اسے شاید اپنے کانوں میں دھمک سی محسوس ہو۔ خلاء میں ہوا نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کوئی دباؤ نہیں ہوتا۔ اسی لیے خلاء میں خلائی جہاز سے باہر نکل کر، بغیر حفاظتی لباس کے چہل قدمی کرنے کی صورت میں انسان جسم کا تمام پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا اور جسم فوراً ایک ایسے غبارے کی مانند پھول کے کپا ہوجائے گا جس میں گنجائش سے زیادہ ہوا بھر دی گئی ہو ۔

-15 کائنات کا اختتام (The Big Crunch/Big Rip)

ہر چیز کو فنا ہوجانا ہے۔ اسی طرح ہماری اس کائنات کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔ سائنس دانوں کے مابین کائنات کے اختتام اور اس کی تقدیر کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔  ایک  مشہور امریکی خلاء باز ’’ایڈون پاؤل ہبل‘‘ (Edwin Powell Hubble) کی طرف سے  1920ء سے لے کر 1950ء تک کیے جانے والے مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی کہ ہماری کائنات میں کہکشائیں بتدریج ایک دوسرے سے دور ہوتی جارہی ہیں۔

اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہماری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ (یاد رہے کہ اسی خلا باز کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خلاء میں بھیجی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دور بین جو خلاء سے بہت اہم معلومات زمین پر بھیجتی ہے، کا نام اس خلا باز کے نام پر ’’ہبل‘‘ Hubble رکھا گیا ہے)۔

کائنات کے اس پھیلاؤ ہی کے حوالے سے اس کے اختتام کا نظریہ یہ ہے کہ بالآخر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات کے کشش ثقل رکھنے والے تمام اجسام اپنی آخری حد کو پہنچ جائیں گے اور ردعمل کے اصول کے تحت واپس کائنات کے مرکز کی طرف دوڑ پڑیں گے اور جس طرح ایک عظیم دھماکے (بگ بین) کے ذریعے کائنات کا آغاز ہوا تھا اسی طرح کائنات واپس لپیٹ دی جائے گی اور سمٹتی سمٹتی ایک نقطے میں مرتکز ہوکر غائب ہوجائے گی۔ اسی ضمن میں ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کائنات پھیلتے پھیلتے آخر کار بکھر جائے گی اور یوں اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ مستقبل کا حال صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پتا ہے کہ کیا ہوگا اور اس قادر مطلق نے پردہء غیب میں کیا چھپا رکھا ہے۔

The post خلاء کی وسعتوں میں پنہاں، عقل کو چکرا دینے والے سربستہ راز appeared first on ایکسپریس اردو.

الیکشن 2018ء؛ پانچ کروڑ ووٹرز کی سماجی اور سیاسی بصیرت کی عکاسی

$
0
0

2018ء کے عام انتخابات پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے اعتبار سے گیارہویں انتخابات ہیں۔

پہلے انتخابات جو1970ء میں ہوئے تھے اس وقت ہمارے ملک میں کوئی آئین نہیں تھا،1956ء کے آئین کو اکتوبر1958ء کے مارشل لا کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے منسوخ کردیا، اور اس کے چار سال بعد اپنا 1962 کا بنیادی جمہوریت کا صدارتی آئین دیا تھا۔

اس آئین کو یحییٰ خان نے مارشل لاء نافذ کر کے منسوخ کردیا تھا کیونکہ پورے ملک کی سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بحال کیا جائے۔ یوں صدر جنرل یحییٰ خان نے انتخابات سے قبل اپنا  ایل، ایف او نافذ العمل کیا تھا، اس لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت الیکشن1970ء ہوئے تھے جس میں ایک نکتہ یہ رکھا گیا تھا۔ انتخابات کے بعد جب اراکین اسمبلی قومی اسمبلی میں جائیں گے تو یہ پارلیمنٹ اس دن کے بعد چار ماہ کے اندر اندر پاکستان کا آئین بنا لے، دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور دوبارہ انتخابات ہونگے۔

ان انتخا بات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا اور16 دسمبر1971 کے سانحے کے بعد پاکستان میں حکو مت بنی اور پھر ذوالفقا علی بھٹو کی حکومت نے 1973 کا زبردست پارلیمانی آئین دیا۔ اس آئین کے تحت ہونے والے 1977 کے پہلے عام انتخابات ہی متنازعہ ہوگئے اور پھر ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا۔ اس مرتبہ یہ ہوا کہ 1973 کے آئین کی کچھ دفعات کو معطل کر دیا گیا لیکن آئین منسوخ نہیں ہوا۔ البتہ 1985 ء میں صدر جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروا کر اس آئین میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پارلیمنٹ سے 11 نومبر1985 میں 8 ویں ترمیم کروائی جو  1935 کے اس انڈیا ایکٹ کی شق کے متبادل تھی ۔

جس کے ذریعے گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا، حکومتوں کا تختہ الٹ کر وزراء اعظم کو گھر بھیجتے رہے۔ اس آٹھویں ترمیم کو 1997 میں 13 ویں ترمیم کرکے ختم کردیا گیا۔ 2003 کی اسمبلی نے پھر17 ویںترمیم کرکے صدر کو تقریباً وہی اختیارات دے دیئے جو اسے پہلے آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل تھے۔ 8 اپریل 2010 کی 18ویں ترمیم نے نہ صرف صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات واپس لے لیے بلکہ صوبائی خود مختاری کا دائرہ بھی وسیع کردیا۔

یہ حقیقت ہے کہ 1985ء میں جب ہمارے ہاں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے جا رہے تھے، سابق سوویت یونین اصولی طور پر جنیوا مذاکرات میں افغانستان سے واپسی کے لیے اقرار کر رہا تھا اور بات اتنی تھی کہ وہ اس پسپائی کے لیے مناسب راستہ چاہتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام 1945ء کے ٹھیک 40 سال بعد یہ دنیا میں تبدیلیوں کا ایک نیا اور اہم ترین دور تھا۔

جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ شروع ہوا تھا اور ایک جانب سابق سوویت یونین اشتراکی نظام معاشیات اور دوسری جانب امریکہ اور خصوصاً مغربی یورپ سرمایہ دارانہ نظام ِ معاشیات دنیا پر نافذ کرنا چاہتا تھا ۔ 1985 ء میں پاکستان کی سرحد سے لڑی جانے والی جنگ میں اشتراکیت کو عالمی سطح پر شکست ہو گئی جس کا واضح اعلان 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ہوا۔

آج 28 برس گزرنے کے بعد دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نہ صرف  ان عالمی تبد یلیوں کو درست تناظر میں سمجھتے ہوئے پاکستان کو ان سے ہم آہنگ اور متوازن نہ کر سکے بلکہ اپنی تیزی سی بڑھتی ہو ئی آبادی کے مسائل کے حل کی جا نب بھی توجہ نہیں دے سکے ۔ 1977 ء کے بعد ہماری قومی سیاست پر علاقا ئی رنگ اس لیے بھی غالب ہونے لگا کہ مسائل کے حل کی بجائے ان مسائل کو علاقائی سیاست کے فروغ پر ترجیح دی گئی اور 2006 کے فوراً بعد کے واقعات کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ صورتحال بقو ل استاد رشید انجم مرحوم یوں ہو گئی

لوگ نفرت کے بیج  بَو تے ہیں

جب یہ اُ گنے لگیں تو روتے ہیں

2018 ء کے عام انتخابات پر بہت سے پہلووں سے تجزیئے بلکہ پوسٹمارٹم بھی کئے جا رہے ہیں۔ راقم الحروف چونکہ سماجی تحقیق کا ادنیٰ سا طالب علم ہے اس لیے ان انتخابات کو پانچ کروڑ ووٹرز کی اکثریت کی جانب سے سماجی عکاسی کادرجہ دیتا ہوں۔ 1970ء میں جب پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے تھے تو اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی کو انتخابات کے فورا بعد ہونے والی 1972 کی مردم شماری میں 6 کروڑ 53 لاکھ بتایا گیا تھا جب کہ 1970 میںکل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی جن میں سے مشرق پاکستان کے ووٹوں کی تعداد 31211220 تھی اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی تعداد25730280 تھی۔ ٹرن آئوٹ 63% تھا۔ ملک کے دونوں حصوں میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 33004065 تھی۔

مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب تقریباً 20% تھا۔ یہ عام انتخابات بھارت سے دو جنگوں کے بعد ہوئے اور انتخابات کے ایک سال بعد تیسری جنگ ہوئی۔ دوسری اور تیسری جنگ کے درمیان صرف چھ سال کا فرق تھا۔ مشرقی پاکستان کا سماج شرح خواندگی کے اعتبار سے مغربی پاکستان سے آگے تھا۔ یہاں شرح خواندگی16.9% تھی اور مشرقی پاکستان میں18.4% تھی۔ مشرقی پاکستان میں جاگیردارانہ نظام بھی ہمارے مقابلے میں کمزور تھا اور متوسط طبقے کا سائز بھی مغربی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تھا۔

اردو کے مقابلے میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کے سامنے ہی کیا گیا تھا اور اس مطالبے میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے یہ بنیاد رکھی تھی کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کے پاس اقتدار کی اصل قوت ہے جس کی وجہ سے معاشی طور پر مشرقی پاکستان کا استحصا ل کیا جا رہا ہے ۔

اگرچہ ایسے ہی تاثرات مغربی پاکستان میں تین صوبوں کے پنجاب کے لیے تھے، جہاں ون یونٹ کی وجہ سے چاروں صوبوں کو شامل کرکے ایک یو نٹ مغربی پاکستان بنا دیا گیا، لیکن سقوط ڈھاکہ اور اس عظیم المیے کی بنیاد ی وجہ یہ تھی کہ ہمارا پہلاآئین بھی تاخیر سے 1956ء میں بنا اور پہلے انتخابات جن کو1950-51 میں ہو جانا چاہئے تھا وہ آزادی کے 23 سال بعد ہوئے۔ یوں عوامی آواز سے قومی اسمبلی محروم رہی اور یہ آواز گھٹن، ابہام، سختیوں اور پروپیگنڈے کے ساتھ ان وجوہات میں شدت اور اضافہ کرتی رہی جن کی بنیاد پر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آج 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہماری آبادی 207700000 جس کو اب بائیس کروڑ کہا جا رہا ہے، اس میں شرح خواندگی 58% ہے، یوں کل پڑھے لکھے افراد کی مجموعی تعداد 120060000 اور ان پڑھ لوگوں کی کل تعداد 87640000 ہے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1988 سے ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرتا جاری رہا ہے اور خصوصاً 2008 ء سے2018 جون تک تو ملک میں پہلی بار دومنتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی مقررہ آئینی مدت پوری کی ہے اور اس دوران صوبائی خود مختاری پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 18 ویں آئینی ترمیم سمیت قانون سازی کی گئی ہے، اور یہ سابق  وزیر اعظم کی سیاسی غلطی رہی کہ اگر وہ اپوزیشن لیڈ سید خورشید شاہ کی بات مان کر پانامہ کے مسئلے کو پارلیمنٹ ہی میں لاتے اور اسی کے حوالے کرتے تو شائد یہ صورتحال نہ ہوتی، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان دس برسوں میں جب دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی، معاشی طور پر خود کو مضبوط کرتے ہوئے ماحولیات،گلوبل وارمنگ،کلائمیٹ چینج اور قلتِ آب کے مسائل کو حل کرنے کی کامیاب کو ششیں کر رہے ہیں تو ہماری دونوں گزشتہ حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور رہیں۔

ہمارے سامنے ترکی اور ایران نے مسائل کا مقابلہ بھی کیا اور ترقی بھی کی لیکن پاکستان نے جنگ کا سامنا کرتے ہو ئے اگرچہ کافی کا میابیاں بھی حاصل کیں اور ساتھ ہی غضب کا جانی ومالی نقصان بھی برداشت کیا، مگر اس کے مسائل بڑھتے گئے اور اس کی معاشی و اقتصادی منصوبہ بندی بہت ہی ناقص رہی۔ یہ سب کچھ اناڑی پن، بے خبری یا جان بوجھ کرکیا گیا؟

اسے ہمارے ذرائع ابلاغ  نے مبہم اور پیچیدہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا ۔ اس عوام کے سامنے جس میں 87640000 کی تعداد ان پڑھ ہے اور جو پڑھے لکھے ہیں ان میں بھی با شعور افراد کا تناسب پانچ چھ فیصد سے زیادہ نہیں، لیکن ایک مثبت صورت جو جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے فطری طور پر ہوتی ہے وہ واضح انداز میں ہو ئی، وہ یوں کہ 2007 میں محترمہ بینظر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ن نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرتے ہوئے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر بڑے اور اہم لیڈروں پر کرپشن کے الزمات عائد کئے گئے تو اس پر مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور عوامی جلسوں میں ان کے پیٹ پھاڑ کر بیرون ملک سے قومی دولت واپس لانے کے بلند وبانگ دعو یٰ کئے جاتے رہے۔

جس سے ان کو یہ فائدہ تو ہوا ان کا ووٹ بنک کچھ بڑھا اور 2013 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب سے پی پی پی کو بالکل آئوٹ کر دیا مگر اس کی جگہ تحریک انصاف نے نہ صرف پُر کی، بلکہ مسلم لیگ ن پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر کے بھرپور تحریک چلائی تو پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے احتجاجی دھرنے کے انداز سے تو کافی حد تک اختلا ف کیا مگر دھاندلی کے الزامات کی حمایت یا تصدیق کی۔ اس تمام تر صورتحال کے اثرات سماج میں ووٹ کے استعمال سے یوں واضح ہوئے، مثلا 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے محترمہ بینظیر بھٹو کو 1988 سے 1997 تک دومر تبہ اقتدار دلوایا حالانکہ انہوں نے اس دوران بہت سی سیاسی غلطیاں کیں۔

2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طرح کا شدید عوامی ردعمل آیا تھا اور جس کی شدت کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ دیکر جمہوریت کے حق میں موڑ دیا تھا، اس کا اثر بھی قائم رہنا چاہیے تھا جس کو نہ صرف صوبائی سطح پر اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف  نے 2008 میں زائل کردیا تھا جب 2008 کے عام انتخابات میں پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 271 جنرل نشستوں میں سے91 جنرل نشستیں لیں۔  مسلم لیگ ن نے 69 نشستیں اور مسلم لیگ ق نے38 نشستیں لی تھیں۔

مگر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں 2008 میں مسلم لیگ ن کی 171 نشستیں، پی پی پی کی 107 نشستیں اور مسلم لیگ ق کی 84 نشستیں تھیں لیکن 371 کی پنجاب اسمبلی سے ووٹ کی بنیاد پر حکومت مسلم لیگ ن نے بنائی اور شہبا ز شریف وزیر اعلیٰ ہو ئے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے متواتر  پی پی پی حکومت اور آصف علی زرداری کو ہدف تنقید بنائے رکھا اور یہاں تک کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا پڑا۔ یوں 2013 کے عام انتخابات سے پہلے تک پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات اور اس پر ملک کی اس وقت کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کی شدید تنقید کی وجہ سے پی پی پی خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی مقبولیت کھو گئی اور مسلم لیگ ن نے بلا شبہ اس کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔

پیپلز پارٹی کا ووٹر چونکہ  نظریاتی طور پر مسلم لیگ ن کے خلاف تھا اس لیے وہ مسلم لیگ ن کی طرف جانے کی بجائے نئی سیاسی قوت پی ٹی آئی جو ویسے ہی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اسی جانب گیا ۔ اگرچہ 2008 میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں یہ خیال کسی کو نہیں تھا کہ یہ جماعت طویل عرصے بعد بھٹو کی پیپلز پارٹی کی طرح مقبولیت اختیار کرے گی لیکن یہ پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کی بجائے حقیقت میں معاشرقی تبدیلی تھی جس نے رونما ہونا تھا اور اگر عمران خان نہیں ہوتے تو کچھ دیر سے سہی مگر کوئی شخصیت قومی سطح کے رہنما اور نئی سیاسی جماعت کے ساتھ معاشرتی مسائل کے اعتبار سے معاشرے کی عکاسی کرتی اور اب بھی اس کا امکان ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوئے توان کی جگہ دوبارہ پرانے کھلاڑی نہیں بلکہ کوئی اور نئی قیادت لے گی۔

جہاں تک تعلق 2013 کے عام انتخابات کا تھا جس کے نتائج کے مطابق کل ڈالے گئے 45388404 ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے 14874104 ووٹ لئے اور قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں، پی پی پی نے کل6911218 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 33 نشستیں حاصل کیں اور پاکستان تحریک انصاف نے کل 7679954ووٹ حاصل کئے جو پی پی پی سے 768736 ووٹ زیادہ تھے مگر قومی اسمبلی کی 28 جنرل نشستیں لیں جو پی پی پی سے پانچ نشستیں کم تھیں جب کہ مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی کے مجموعی ووٹ نصف سے زیادہ تھے مگر نشستیں تقریباً 75% کم تھیں۔ جب کہ 2013 کے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے نتائج یوں تھے کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 48534383 تھی جن میں سے کل 27875857 ووٹ ڈالے گئے۔

مسلم لیگ ن نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے11365363 ووٹ یعنی 40.77% ووٹ لے کر پنجا ب کی صوبائی اسمبلی کی248 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف نے کل 4951217 ووٹ یعنی 17.76% ووٹ لے کر صرف 24 صوبائی نشستیں حاصل کیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 2464812 ووٹ یعنی8.84% ووٹ لے کر7 نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ ق نے کل ووٹ 1377130 یعنی4.94% ووٹ لے کر 7 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھاری اکثریت لے کرمضبوط صوبائی اور وفاقی حکومت بنا لی جب کہ نئی سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کر کے مخلوط حکومت بنائی، یہ ایک نئی سیاسی تبدیلی تھی اس پر تحریک انصاف نے ن لیگ پر دھاند لی کے الزمات عائد کر کے تاریخ کا شدید احتجاج کیا، مگر عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ الیکشن2013 میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے، یہ احتجاج جو ملک کا طویل ترین دھرنا تھا بظاہر نا کامیابی پر ختم ہو گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے نوجوانوں میں قومی یکجہتی اور قوت کے ساتھ ظالمانہ قوتو ں کے خلا ف جدوجہد کا عزم ملا۔

پھر نواز شریف خاندان کی بد قسمتی کہ پانامہ لیک سامنے آئی تو یہ کریشن، منی لانڈرنگ کے ایسے الزامات تھے جن کے ثبوت عالمی سطح کے اداروں نے فراہم کئے تھے اور اس پر نوازشریف کے بیٹوں اور  بیٹی مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میںخود جن باتوں کو تسلیم کیا تھا ان سے دوران مقدمات انکار، پارٹی کا احتجاج یہ تمام ان کی ناکامیاں رہیں۔ اس احتجاج میں نوازشریف اپنے خلا ف اس کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں قرار دیتے رہے، ان کی یہ کوشش بھی رہی کہ کسی طرح عام انتخا بات نہ ہو سکیں اور حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑے مگر ایسا نہ ہو سکا اور بیٹی اور داماد سمیت ان کو الیکشن سے قبل سزا ہو گئی اور کوئی قابل ذکر احتجاج بھی نہ ہو سکا۔

انتخابات سے ایک دو دن قبل جب پنجاب اور خیبر پختوا کے گورنروں نے ان سے اڈیالہ جیل میں خفیہ ملا قاتیں کیں جو خفیہ نہ رہ سکیں اور یہ افواہیں پھیلیں کہ ان ملاقاتوں کا مقصد این آر او کرکے ہمیشہ کے لیے ملک سے با ہر منتقل ہونا تھا، اگرچہ اس کی تردید سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کی کہ نواز شریف کو ئی NRO نہیں کر رہے مگر اس کی تردید ان دونوں گورنروں کی جانب سے نہیں ہوئی بلکہ خاموشی رہی۔ پھر جہاں تک تعلق انتخابات کا تھا تو ماسوائے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن سمیت تمام بڑی جماعتوں کا انتخابات کے اعلان کے بعد پہلے پندرہ دنوں تک غالباً یہ خیال تھا کہ یہ انتخا بات پانچ چھ ماہ کی تاخیر سے ہونگے اور اس کو غیر آئینی قرار دے کر بھی احتجا ج کیا جائے اور یوں پی ٹی آئی کے پی پی پی اور مسلم لیگ ن پر کرپشن کے الزامات اور مقد مات میں قانونی پیچیدیاں پیدا کر کے اس پورے معاملے کو برسوں کی طوالت دے کر ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

پی ٹی آئی کے عمران خان پہلے دن سے پر عزم تھے اور الیکشن سے پہلے 30 دنوں میں تو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کی انتہاکر دی کہ ایک مہینے میں120عوامی جلسے کئے جن میں سے بعض بہت بڑے جلسہ عام تھے اور پھر جب 25 جو لائی کو عام انتخابات ہوئے تو ان کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی چونکہ یہ سطور میگزین کے لیے 26 کی رات کو مکمل کی جا رہی ہیں اس لیے اس وقت کی اطلاعات کے مطابق انتخا بات 2018 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقربیاً 10 کروڑ 70 لاکھ تھی اور تاریخی ٹرن آئوٹ تقریبا 55% رہا اور محتاط اندازوں کے مطابق کل ڈالے گئے ووٹوں میںسے نصف سے کچھ کم صرف پی ٹی آئی نے حاصل کئے ہیں جن کی بنیاد پر قوم ی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے 272 میں سے270 نشستوں پر ہونے والے عام انتخابات میں 115  نشستیں حاصل کی ہیں، مسلم لیگ ن 64   اور پی پی پی 43 نشستیں لے گئی ہے، چونکہ یہ اعداد وشمار انتخا بات کے 28 گھنٹوں کے بعد کے ہیں اس لیے ان میں ایک آدھ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیادی طور پر صورت یہ ہے کہ پی ٹی آئی آسانی سے وفاق میں حکومت بنا لے گی۔

خیبر پختو نخوا میں اس پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے، پنجاب صوبائی اسمبلی میں اس کی نشستیں ن لیگ سے تقریباً چھ کم ہیں ، یوں پی ٹی آئی آزاد میدواروں اور ق سے مل کر پنجاب میں بھی حکو مت بنا سکتی ہے۔ سندھ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت ہے جب کہ بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو چار نشستیں ملی ہیں مگر یہاں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پار ٹی، بلو چستان نیشنل پارٹی مینگل آزاد ممبران کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کا اہم حصہ بن سکتی ہے، 26 جولائی کو عمران خان نے انتخابات میں کا میابی کے بعد اپنے مختصر مگر اہم خطاب میں اپنی خارجہ، داخلہ اور اقتصادی پالیسی کے اہم نکات بیان کئے۔

یہ تقریر اردو میں تھی اور صرف چند نکات غالباً لکھے ہوئے تھے مگر تقریر متاثر کن تھی جس کی تعریف دشمنوں اور مخالفین نے بھی کی اور اس تقریر کو بی بی سی، سی این این، الجزیرا،بھارتی ٹی وی چینلز سمیت بہت سے انٹر نیشنل چینلز نے بر اہ راست نشر کیا۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح تاریخی ہے، میا نوالی سے عمران نے ایک لاکھ 67 ہزار ووٹ لیے جب کہ وہ قومی کی پانچ نشستوں سے کھڑے ہوئے تھے اور تمام پر کامیاب ہوکر یہ ثابت کر دیا کہ واقعی وہ وفاق اور اتحاد کی علامت ہیں۔ ان انتخابات میں تقریباً ہر جگہ ہر حلقے میں مقابلہ پی ٹی آئی کا ہی تھا۔ بیشتر حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے اور جہاں کامیاب نہیں ہوئے وہاں دوسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح ان انتخابات میں اسفندیار ولی، مو لانا فضل الرحمٰن، اکرم خان درانی، ڈاکٹر فاروق ستار، محمود خان اچکزئی اور چوہدری نثار قومی اسمبلی میں جانے سے رہ گئے۔

اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاج کا کہا گیا ہے میاں شہباز شریف اور پی پی پی نے انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا ہے اور شہباز شریف نے الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے آل پا رٹی کانفرنس بلانے کا کہا ہے جب عمران خان نے اپنی تقر یر میں یہ کہا ہے کہ یہ الیکشن تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے اور جب میں نے دھاندلی پر کہا تھا کہ ووٹوں کے ڈبے کھولے جائیں جن کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا مگر اب میں کہتا ہوں کہ جس کو دھاندلی کا شبہہ ہو ہم اس کے ساتھ تحقیقا ت میں پوری مدد کریں گے اور جہاں کہیں جس حلقے کو کھلوانا چاہیں گے اس کے لیے حاضر ہوںگے۔ بہر حال عمران خان کو انتخابات کے فورا بعد آل پاکستان پارٹیز مخالفت اور احتجاج کا سامنا ہے، اگر خدانخوستہ کو ئی بڑا حادثہ یا المیہ رونما نہ ہو تو اپوزیشن کا احتجاج یوں بے معنی ہو گا کہ ان کے مطالبے سے پہلے ہی وہ ہر انتخابی حلقہ کھولنے کے لیے تیار ہیں جب کہ گزشتہ حکومت میں نواز شریف نے ایسا نہیں کیا تھا۔

عمران خان کے انقلابی انداز میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی بنیادی وجہ ملک کی نوجوان آباد ی ہے، 2  مئی 2014 کے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں 15 سا ل سے29 سال کی عمروں کے گروپ کی آبادی کا تناسب 64 فیصد تھا اور ان کی کل تعداد 10 کروڑ تیس لاکھ تھی۔  ہمارے ہاں ووٹر کی عمر اب اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب عمران 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، چار برسوں بعد یہ صورتحال مزید آگے بڑھی، پوری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی شہری آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے اور اب شہری آبادی کل آبادی کا 39.7% ہے جس میں سالانہ 2.77% کا اضافہ ہوا ہے جب کہ اورسیز پاکستانیوں کی تعداد اب بھی 70 لاکھ سے زیادہ ہے اور شہری آبادی میں اندراج کے بغیر محنت مزدوری کے لئے عارضی طور پر شہروں میں رہائش رکھنے والوں کا تناسب کل شہری آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہے۔

عمران خان نے کرپشن،اقربا پروری، میرٹ کی خلاف ورزی، سفارش اور سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا غلبہ اور موروثی سیاست جسے انہوں نے بادشاہت کہا، کے خلاف نعرہ لگایا اور تمام سماجی، سیاسی خامیوں، برائیوں کا شکار یہی سا ت آٹھ کروڑ نوجوان لڑکے، لڑکیاں ہیں جو کل 10 کروڑ70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں اہم اور متحرک ہیں۔ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس نوجوان اور شہری آبادی ہے جہاں تک دیہی آبادی کا تعلق ہے جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے، اس میں شخصیات جاگیردارانہ نظام کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔

یو ں دیہی اور نیم شہری علاقوں میں کامیابی کے لیے عمران خان نے کچھ مفاہمت سے کام لیا اور دوسری جماعتوں سے آنے والے الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ بھی دئیے لیکن شہری آبادی میں ایسا کم ہوا۔ پی ٹی آئی کی نظر یاتی انقلا بی سیاست کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ہمارے ٹا پ ٹن شہر اہم رہے،آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی غیر جمہوری طاقت کے ٹو ٹنے کے بعد ان انتخا بات میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم سے زیادہ نشستیں لیں اور جو چھ نشستیں ایم کیو ایم نے حاصل کیں وہ اس کی جمہوری اور قوم پرست نظریات کی وجہ سے حاصل ہوئیں جب کہ ایم کیو ایم کے دوسرے دھڑے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے سامنے سیاسی لحاظ سے ناکام رہے چاہے۔

ان کو کسی بھی جانب سے کتنی ہی سپورٹ حاصل رہی، اس صورتحال کو ایم کیو ایم کے کامیاب ممبران نے تجزیاتی طور پر تسلیم کرلیا ہے اور ان کا تھنک ٹینک اسی صورت کو مدِ نظر رکھ کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دے گا اور اندازہ ہے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بھرپور انداز میں پی ٹی آئی کے خلا ف احتجاج میںحصہ نہیں لیں گی بلکہ آنے والے دنوں میں سندھ صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ پی پی پی کی صوبائی حکومت کے خلاف مضبوط حزب اختلا ف کا حصہ بنے گی اور مر کز میں پی ٹی آئی سے مفاہمت اور اختلاف دونوں کو متوازن انداز  سے استعمال کرے گی اور آنے والے انتخابات میں طاقت اور تشدد کی بجائے جمہوری اور قوم پرست سیاست کی بنیاد پر اپنی قدرے کھوئی ہوئی سیاسی قوت کو پارلیمنٹ میں عددی برتری سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر لاہور جو اب بھی مسلم لیگ ن کا بنیادی قلعہ سمجھاجاتا ہے یہاں سے پی ٹی آئی نے صرف22% نشستیں اس لیے حاصل کیں کہ وہ ا ن قومی اسمبلی کے صرف ان چار حلقوں میں نوجوانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ مجموعی قومی ترقی ہی کی وجہ سے مجموعی قومی خوشحالی اور ترقی ہو گی، لاہور کے مقابلے میں فیصل آباد جو ملک کا بڑا صنعتی شہر ہے یہاں پی ٹی آئی کا نظریاتی پیغام پوری طرح اثر کر گیا اور قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر انتخابات میں پی ٹی آئی نے اہم کامیابی حاصل کی، اس کے بعدبالترتیب آبادی کے لحاظ سے شہروں کی صورت یوں ہے نمبر4 راولپنڈی نمبر5 ۔گوجرانوالہ نمبر6 ۔ پشاور نمبر7 ۔ملتان نمبر8 ۔حیدر آباد نمبر9 ۔اسلام آباد نمبر10 ۔کوئٹہ ۔ راولپنڈی،اسلام آباد، ملتان اور پشاور میں بھی پی ٹی آئی کی کامیابی شاندار رہی ہے جب کہ گوجرانوالہ، حیدر آباد اور کوئٹہ سے بھی پی ٹی آئی کا میاب ہو ئی ہے۔

اب جہاں تک تعلق احتجاج کا ہے تو یہ شہری آبادی ہی کی پُر جوش شرکت و شمولیت سے کامیاب ہو تا ہے اس لیے سرِ دست جب عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پر کھلی آفر دے دی تو دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کی صورت کیا ہوگی؟  اور یہ کہ ا پوزیشن اپنی سوچ  کے مطابق کہ وہ 1977ء کی طرح کا کا میاب احتجاج کر پائے گی کہ جس کے نتیجے  میں بھٹو کی حکومت چلی گئی تھی تو آج ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے پانچ برسوں میں ایک کروڑ روزگارکے مواقع اور پچاس لاکھ مکانات کی فراہمی کاجو وعدہ کیا ہے  یہ اگرچہ ناممکن نہیں مگر فی الحال مشکل نظر آرہا ہے اس تناظر میں اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ میں لیڈروں کی انقلابی اصلاحات کا جائزہ لیں تو وہ حیران کن دکھائی دیتا ہے، مثلًا پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جر منی نے جب وارسائی محل کے ذلت آمیز معاہد ے پر مجبوراً دستخط کئے تھے تواس پر نہایت بھاری تعاون جنگ کے ساتھ بہت سی اقتصادی صنعتی اور عسکری نوعیت کی پابندیاں عائد کردی تھیں اور 1923 میں جرمنی کی معیشت کا یہ حال ہوا تھا اس کی کرنسی ردی کاغذ کہلاتی تھی۔

جنگ عظیم اول 1914-18 تک جرمن کرنسی کی قیمت 14.29مارکس کا ایک امریکی ڈالر تھا اور پھر1923 تک ہزاروں جرمن مارک کا ایک ڈالر ہو گیا یہاں تک کہ جرمنی نے 5 کروڑ مارک کا کرنسی نوٹ اور 50 لاکھ مارک کا سکہ جاری کیا تھا لیکن جب ہٹلر بر سر اقتدار آیا تو صرف دو سال بعد جرمنی کی معیشت دنیا کی طاقتور معیشت تھی اسی طرح جنگ عظیم دوئم کے فوراً بعد جب ملائیشیا،انڈونیشیاجیسے بڑ ی آبادیوں اور بڑے رقبوں کے ملکوں کے ساتھ ہی ملائیشیا کے ساتھ سنگا پور کو بھی آزادی ملی اور 1965 میں سنگاپور کو ملائیشیا سے مکمل طور پر الگ کر کے ایک آزاد ملک بنادیا گیا۔

اس جزیرے کا رقبہ صرف 716 مربع کلومیٹر ہے اور آج اس کی آبادی 5469700 ہے یعنی یہاں فی مربع کلو میٹر 7615افرادآباد ہیں اس وقت ملائیشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر چھوڑا تھا پھر اسے (  لی کو آن یو  ) جیسا لیڈر ملا آج سنگا پور کی فی کس سالانہ آمدنی 78762 ڈالر سالانہ ہے اور اس چھوٹے ملک کا جی ڈی پی سالانہ 312434 ڈالر ہے۔ 1990 میں جب سابق سوویت یونین بکھر کر15 ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی یورپی ملکوں سے اشتراکی معیشت کا خاتمہ ہوا تو سابق سو ویت یونین جس کی کرنسی روبل کی قمیت ڈالر کے تقریباً برابر تھی، 1990 کے بعد صدر بورس یلسن کے دور میں450 روبل کا ایک ڈالر ہوا، روس جو دنیا کے کل خشکی کے رقبے کا 1/8 ہے اور اس کا مجموعی رقبہ 17125200 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کے لحاظ سے 9 واں ملک ہے اس کے صدر پوٹن نے اسے دوبار ہ مستحکم کیا اور اب روس دنیا کی 12 ویں بڑی معیشت اور قوت خرید کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک ہے اور فوجی اور جدید اسلحہ سازی کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔

اسی طرح چیکو سلواکیہ جو اب دو ملکوں میں تقسیم ہے یہاں افراط زر 1990  کی دہائی میں64% ہوا اور یہی صورت مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں کی تھی جو اب خوشحال ہیں، ہمارا دوست ملک ترکی جہاں اس کی کرنسی لیرا 1946 میں ڈالر کے برابر تھا 1960 میں 9 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1980 میں ترکی کی کرنسی مزید گر ی 90 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1995 میں ساڑھے چار ہزار لیرے کا ایک امریکی ڈالر ہوا 2001 میں تو ترکی کی کرنسی کا براحال ہوا کہ 165000 لیرا کا ایک ڈالر ہوا۔

2005 سے معاشی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ دی گئی آج 4.90 ترکی لیر ا کا ایک ڈالر ہے، پاکستان میں 1954 میں امریکی ڈالر کی قیمت تین روپے تھی 1970 میں ڈالر 5 روپے، 1972 میں ڈالر10 روپے، 1988 میں ڈالر 20 روپے،1997 میں ڈالر40 روپے، 2001  میں ڈالر60 روپے، 2008 میں ڈالر80 روپے، 2013 میں ڈالر100روپے، 2018 کے آغاز میں ڈالر 104روپے اور 25 جولائی2018 کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 130 روپے تھی۔ الیکشن  کے فوراً بعد اس میں چھ روپے کی کمی ہوئی ہے، اسی طرح  اسٹاک ایکسچینج مندی کی صورتحال سے نکلا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں عمران خان کو اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں ہی میں اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی کہ اس کے ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 67 لاکھ ہے جو نوجوان اور جذ باتی ہیں اور فوری یا کرشماتی تبدیلیوں کا تقاضا کریں گے۔

ا س وقت جب یہ سطور 26 جولائی کی رات کو تحریر کی جا رہی ہیں تو پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی اکثریت فتح کا جشن منا رہی ہے۔ عمران خان کو کرکٹ کے کھلاڑی ،اداکار اور دنیا کی اہم شخصیات مبارکباد کے پیغامات دی رہی ہیں جو  ان کے ڈھائی کروڑ ووٹروں کی خوشی کا سبب ہے لیکن پالیسی سازوں، دانشوروں کو اس کا انتظار ہے کہ عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی کن کن سربراہانِ حکومت اور مملکت کے پیغامات آتے ہیں اور ان کا متن کیا ہو تا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ شخصیت ہیں جنہو ں نے گزشتہ چالیس برسوں سے طاری سیاسی جمود کو توڑا ہے اور ملک میں نوجوانوں کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ اقبال کے ان اشعار کو حقیقت کا روپ دینے کی کو شش کی ہے۔

پرانی   سیاست  گری خوار  ہے

زمیں مِیر  و سلطاں سے بیزار ہے

گیا   دورِ  سرمایہ    داری   گیا

تماشہ   دکھا  کر    مداری  گیا

خرد  کو  غلامی  سے  آزاد  کر

جوانو ں  کو   پیروں  کا  استاد کر

جوانوں کو  سوزِ   جگر  بخش دے

مرا  عشق  میری  نظر  بخش دے

یہی  کچھ  ہے  ساقی  متاعِ  فقیر

اسی سے فقیری میں ،میں ہوں امیر

مر ے  قافلے میں  لُٹا دے  اسے

لُٹا دے  ٹھکانے  لگا  دے  اسے

 

The post الیکشن 2018ء؛ پانچ کروڑ ووٹرز کی سماجی اور سیاسی بصیرت کی عکاسی appeared first on ایکسپریس اردو.


میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

$
0
0

وقت کا کام اپنے طے شدہ انداز کے مطا بق گزرنا ہے اور یہ گزرتا ہے مگر صدمات، حادثات اور سانحات کے لحاظ سے یہ اجتماعی اور انفرادی طور پر مختلف کیفیا ت پیدا کرتے ہوئے گزرتا ہے۔آج جب سانحہ کوئٹہ 8 اگست 2016 ء کو گزرے دو برس ہو چکے ہیں تو عام لوگوں کے لیے شائد کل کی بات ہو لیکن وہ جن کے شہید وکلا سے محبت بھرے تعلق اور رشتے تھے ان کے لیے یہ دو برس درد اور کرب کی دو صدیوں سے کم نہیں ہیں۔

اس سانحے میں میرا اکلو تا جواں سال بیٹا سید ضیاء الدین ایڈووکیٹ بھی 72 افراد کے ساتھ شہید ہوا تھا جن میں صحافیوں اور دیگر افراد کے علاوہ 54 وکلا شامل تھے۔ ان میں ضیاء الدین کے کالج فیلو عسکرخان ایڈووکیٹ اور ایمل خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ دہشت گردوں نے اس سانحے کے لیے بھی ایسی ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جیسے اس سے قبل بھی کوئٹہ کے سنڈے من سول ہسپتال میں ہوئی تھی جس میں بہت سے لوگ شہید ہوئے تھے۔

8 اگست 2016 ء کو میرا بیٹا معمول کے مطابق گھر سے عدالت گیا تھا اور میں ہمیشہ کی طرح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اور ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر کے لیے آرام کر نے لگا۔ میرا یہ شیڈول واپڈا سے بطور ایکس ای این ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سے ہے، تھوڑی ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ ملک بلال انور کانسی ایڈووکیٹ پرنسپل لاکالج کو ان کے گھر کے قریب منو جان روڈ پر نشانہ بنا یا گیا ہے۔ وہ حسبِ معمول کالج جانے کے لیے نکلے تھے کہ گھر کے قریب ہی گھات لگائے بیٹھے ہو ئے دہشت گردوں نے ان کو نشانہ بنایا اور بیک وقت کئی گولیاں ان کے جسم میں اتر گئیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسی وقت موقع پر شہید ہوچکے تھے اور شائد وہاں پر جن لوگوں نے شور شرابہ کرکے یہ کہا کہ ان کو فوراً سنڈے من سول ہسپتال پہنچاؤ ان میں سے بھی کچھ افراد ان دہشت گردوں میں غالباً شامل تھے کیو نکہ ایک جانب ملک بلال انور کانسی جن پر حملے کی اطلاع صرف تین منٹ میں ڈسٹرکٹ کورٹ، سیشن کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پہنچی جن کی عمارتیں کو ئٹہ شہر میں قریب قریب ہیں، کہ ملک بلا ل انور کانسی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہیں اور ان کو سول ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے تو دوسری جانب منصوبے کے مطابق خودکش حملہ آور پہلے ہی سے شعبے حادثات میں اس کھلی جگہ پر موجود تھا جہاں وکلا یہ خبر سن کر جمع ہو رہے تھے۔

ملک بلال انور کانسی کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ ایک تو ان کا خاندانی پس منظر ایسا ہے کہ یہ بلو چستان کے معرف سیاسی علمی خاندانوں میں شامل ہے تو ساتھ ہی خود بلال انور کی شخصیت خصوصاً بلو چستان میں قانون کے شعبے میں ایک لائق ایڈووکیٹ اور ماہر قانون کے طور پر برسوں سے مستحکم تھی۔ وہ کئی مر تبہ بلوچستا ن بار ایسو سی ایشن کے رکن منتخب ہوئے اور شہادت کے وقت تک وہ بلو چستا ن بار کونسل کے نائب چیئرمین تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ کی حیثیت سے بھی ایک نہایت کامیاب وکیل کی شہرت رکھتے تھے پھر ان کی شخصیت ان کے اخلاق، میل ملاپ کی وجہ سے اتنی پر کشش تھی کہ ہر وہ شخص جو ان کا واقف تھا ان کو دوست سمجھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ان پر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کی اطلا ع ملی تو صرف چند منٹوں میں ان تینوں عدالتوں سے بھاگتے دوڑتے وکلا ہسپتال پہنچ گئے اور پھر سینکڑوں وکلا اورصحافیوں اور دیگر افراد کے کھچا کھچ ہجوم کے بالکل درمیان میں خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے ُاڑا دیا۔

دھماکہ خیز مواد اتنا طاقتور اور اتنا زیادہ تھا کہ اس سے وہاں مو جودافراد فضا میں کئی کئی فٹ اچھل کر دور دور تک بکھر گئے۔ یوں دیکھا جائے تو برصغیر کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا سا نحہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں اتنی بڑی تعداد میں وکلا شہید اور زخمی ہو ئے، اور جہاں تک تعلق بلوچستان کا ہے تو یہ صوبہ پہلے ہی تعلیمی اعتبار سے ملک کے دوسرے صوبو ں سے بہت پیچھے ہے جس کی ایک اہم وجہ یہاں کی غربت اور پسماندگی ہے ملک کے کل رقبے کے43% علاقے پر مشتمل اور ملک کی صرف چھ فیصد آبادی کے حامل صوبے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے وسیع رقبے پر یہ کم آبادی بکھری ہو ئی ہے اس لیے اندرون بلوچستان ہائی اسکول کی سطح پر بھی تعلیم کا حصول مشکل ہوتا ہے، یہاں قانون کے شعبے میں اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین قانون اور وکلا کا اس دنیا سے گزر جانا جہاں ایک سانحہ ہے وہاں صوبے کی تعمیر وترقی کے اعتبار سے بھی ایک عظیم نقصان ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے کہ یہ خلا برسوں میں پُر نہیں ہو گا۔

ان شہید وکلا میں سے 95% ایسے تھے جو ہائی کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے او ر کچھ تو انہتائی سینئر، تجربہ کار اور بہترین قانون دان تھے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے ان میں سے باز محمد خان ایڈووکیٹ جن کا نہ صرف تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں تھا تو ساتھ ہی وہ قانون کے شعبے میں بہت تیز ی سے ترقی کرتے آگے بڑھے تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 47 سال تھی اور وہ سپریم کورٹ تک کے ایک کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے، وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے 2007 اور پھر 2009 میں دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے،2007 میں جب وکلا تحریک چلی تو انہوں نے اس کی قیادت کی اور اس جدوجہد میں اہم کردار اد ا کیا۔ 2014 میں وہ بلو چستان بار ایسو سی ایشن کے الیکشن میں نائب صدر اور جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے اور 2015 میں ان کے پینل نے بلوچستان ہائی کورٹ بار میں اہم کامیابیاں حاصل کیں اور وہ اب نہ صرف بلوچستان بلکہ قومی سطح پر قانون کے شعبے میں ایک اہم شخصیت بن چکے تھے۔

اسی سانحے میں شہید ہونے والے محمد قاہر شاہ ایڈووکیٹ تھے، وہ بھی تقریباً باز محمد خان ہی کے ہم عمر تھے۔ وہ بھی نہ صرف سپریم کورٹ کے وکیل تھے بلکہ بار میں بھی بہت متحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ 2015 میں وہ بلوچستان بار کے رکن منتخب ہوئے اور پھر وائس چیرمین بلوچستان بار منتخب ہوئے، محمد داؤد خان کانسی سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر عبدالمالک خان کانسی کے فرزند تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 41 سال تھی اور وہ سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے۔ وہ 2012 میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے اور 2013 میں بلو چستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ عبدالغنی مشوانی ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ کے وکیل تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر 44 برس تھی ۔ عبدالرشد کھوکھر57 سالہ نہایت تجربہ کار سینئر وکیل تھے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے۔

منظر صدیق ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ میں وکالت کرتے تھے، شہادت کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔ ملک فیض اللہ خان ایڈووکیٹ جو 1988 تک ضلع لسبیلہ میں ڈسٹرکٹ اٹارنی بھی رہے، وہ بھی 8اگست کو سانحہ کوئٹہ میں شہید ہو ئے۔ نور اللہ کا کڑ بھی بلو چستان سے سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ ایڈووکیٹ تھے،ان کی عمر41 سال تھی۔ قاضی بشیر احمد ایڈووکیٹ بھی سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل تسلیم کئے جاتے تھے، وہ مسلسل تین مرتبہ سپریم کورٹ بار پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے ان کی عمر 46 برس تھی۔

کوئٹہ کے اس سانحہ میں 92 سے زیادہ وکلاء زخمی ہوئے تھے جن میں تقریباً دس معذور یا جزوی طور پر معذور ہوگئے، میرے بیٹے سید ضیاء الدین کی عمر صرف 26 سال تھی واضح رہے کہ میرے والد اور ضیا الدین کے دادا کو بھی شہید کیا گیا تھا جن کا جرم یہ تھا کے وہ اپنے گاؤں اور علاقے میں خدمت خلق کے اعتبار سے بہت اچھی شہرت رکھتے تھے۔ میری زندگی بھر مجبوری رہی کہ مناسب خاندانی پس منظر کے ساتھ ہمارا گھرانہ کھاتا پیتا گھرانہ ہے میں بھی تعلیم سے فارغ ہو کر فوراً ہی واپڈا میں انجینئر ہوگیا تھا اور ہماری معاشرتی اقدار کے لحاظ سے اس میں عہدے کی تو عزت تھی مگر میں اس عزت کا ہمیشہ سے خواہاں رہا جیسی میرے باپ کی تھی اور جس کو خلق ِ خدا دل سے پیار کرے۔

یوں میں نے اپنے اکلو تے بیٹے کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانے یا سی ایس ایس افسر بنانے کی بجائے وکیل بنایا اور اس کو اپنی خواہشات سونپ دیں۔ وہ کوئٹہ کے نزدیک اپنے گاؤں کے لوگوں کی بے لوث مدد کرتا تھا۔ ہم اللہ کی رضا کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس رب کی عنایت تھی اس کی مرضی کہ اس نے وہ عنایت واپس لے لی۔ وہی خدا فرماتا ہے کہ ( اور ہم تم کو آزمائیں گے اولاد اور مال سے، وہ اولاد نہ دے کر بھی آزما تا ہے، اور اولاد دے کر بھی، اور کبھی کبھار اولاد دے کر اور پھر واپس لے کر بھی آزماتا ہے ) شائد میری آزمائش اللہ تعالیٰ نے قسمت میں ایسے ہی لکھی تھی ہرحال میں اس رب کا شکر ہے مگر دل ہے کہ بہت کچھ یاد کرتا ہے۔ شہادت سے صرف ایک سال قبل میرے بیٹے ضیاء الدین کو ایک ایسی بیماری ہوئی کہ جس میں جسم کی رگوں اور نسوں میں ایسے جراثیم چپک گئے کہ اس سے معدے سمیت جسم کے دیگر افعال بری طرح متا ثر ہونے لگے۔

ہنگامی صورت پیدا ہوگئی اور کراچی میں ایک اعلیٰ ہسپتال میں علاج کے لیے گئے تو انہوں نے مشینوں سے ایسے آپریشن کا علاج بتا یا کہ جس میں دباؤ سے رگوں اور نسوں کے پھٹنے کے خطرات 60% اور زندگی کے بچنے کے امکانات 40% تھے اور اس بیماری کا دوسرا کو ئی علاج نہ تھا۔ میرا بیٹا اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتا تھا اس نے میری بھی ہمت بندھائی اور اللہ کے کرم سے آپریشن کامیاب رہا۔ شہادت کے وقت میرے بیٹے کی ایک بیٹی ایک سال کی عمر کی تھی اور ایک بیٹی جو شہید کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا۔

یہ درست ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک ملک بھر میں 65 ہزار افراد سے زیادہ بیگناہ معصوم افراد شہید ہو چکے ہیں لیکن کو ئٹہ میں وکلا کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت اور 92 سے زیادہ وکلا کا زخمی ہونا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ بلو چستان میں اس سانحہ سے قانون کے شعبے میں ایک بہت بڑا خلا واقع ہوا ہے جس کا پُر ہونا بہت مشکل دکھا ئی دیتا ہے۔

بلوچستان کے اپنے مسائل ہیں۔ اس صوبے کو انگریزوں نے بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں پس ماندہ رکھا اور اس کے بعد بھی اس صوبے کو بہت عرصے تک جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ اسے 1970 میں صوبے کا درجہ دیا گیا ۔ یہاں پہلی یو نیورسٹی بھی صوبہ بننے کے بعد بنائی گئی، انگر یز اگرچہ یہاں 1839 میں آیا مگر اسے یہاں قدم جمانے میں وقت لگا اور 1878 میں اس نے یہاں کو ئٹہ شہر تعمیر کیا اور پھر1895ء میں یہاں میونسپل کمیٹی بنائی گئی۔

1919ء میں لاہور ہائی کورٹ قائم ہوئی، اسی زمانے میں سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی برطانوی قانون اور عدلیہ کا نظام نافذ العمل ہوا مگر ہمارے ہاں یہ نظام بہت تا خیر سے آیا، ڈسٹرکٹ کورٹ کی سطح پر یہ نظام شروع ہوا اور1935   انڈیا ایکٹ کے بعد تو ہمارے ہاں بھی محترم جسٹس قاضی فائز کے والد قاضی عیسیٰ مرحوم، قا نون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے میدان عمل میں آگئے تھے، لیکن جس طرح دیگر شعبوں میں یہ صوبہ نظر انداز ہوتا رہا اسی طرح آزادی کے بعد بلوچستان کے مقدمات بھی سندھ ہائی کورٹ میں جاتے، صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد بھی تقریباً چھ سال بعد 1976 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا اور چونکہ اس وقت ہائی کورٹ کی اپنی عمارت نہیں تھی اس لیے بلوچستا ن ہائی کورٹ سیشن کورٹ کی عمارت میں 1993 تک کام کر تی رہی۔ اب عر صہ 25 سال سے اس کی اپنی کشادہ اور خوبصو رت عمارت ہے لیکن اس کے باوجود کہ بلو چستان میں عدلیہ کے ادارے ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت تاخیر سے متعارف ہوئے۔

بلوچستان سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار سمیت سپریم کورٹ شریعت کورٹ سمیت بلوچستان سے بہت سے ماہرین قانون جسٹس بنے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے بہت سے نامور وکلا سامنے آئے جنہوں نے نہ صرف بحیثیت ماہرین قانون بہت شہرت حاصل کی بلکہ ان میں سے بہت سے وکلا نے ملک میں جمہوریت ،آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور بہت سی قر بانیاں دیں، چونکہ میری اس شعبے میں بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے اس لیے میں نے اپنی تشنہ آرزو کی تسکین کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے ضیاء الدین کو ایڈووکیٹ بنایا تھا اور اس سے اور اس کے دوسرے ایڈووکیٹ ساتھیوں سے آئین و قانون، عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تینو ں کے استحکام اور ان میں توازن اور ترقی کے اعتبار سے گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اب بھی نوجونواں اور پرانے ایڈووکیٹ میرے واقف ہیں اور اکثر ان سے میل جول رہتا ہے تو ایسے ہی مختلف مو ضوعات پر بحث ہو تی ہے۔

ان تما م کا مجھ سے اتفاق ہے کہ یہ گروپ جو وکلا شہدا کی صورت میں 8 اگست 2016 ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا یہ تمام کے تما م بہت اہم ذہین، محنتی، بیباک اور قابل وکلا تھے اور ان میں جو سینئر تھے ان کی عمریں بھی ابھی اتنی زیادہ نہیں تھیں، ان میں سے اکثر نے چالیس پینتالیس سال کی عمر میں اپنا مقام و مرتبہ بنا لیا تھا یوں یہ سانحہ، بلوچستان کا ایک عظیم نقصان ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان حکومت اور وفاقی حکو مت اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ اس وقت سپریم کورٹ اور ملک کے تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور دیگر اعلیٰ ججوں نے نہ صرف کوئٹہ آکر تعزیت کی اور زخمی وکلا کی عیادت کی بلکہ شہید وکلا اور زخمی ہونے والے وکلا کے لیے رقوم کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ان کو ان رقوم کی فوری ادائیگی کے لیے بھی کامیاب کوششیں کیں، یہ درست ہے کہ بعض شہید وکلا کے اہل خانہ کو اب تک امدادی رقوم کی ادائیگی نہیں ہو سکی ہے مگر اس کی وجوہات ان شہدا کے اہل خانہ میں سے ایک سے زیادہ کا دعویدار ہونا ہے اور یہ مسائل بھی باہمی طور پر اب حل ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی درست ہے کہ شہدا کے بچوں کی تعلیم میں بھی سہولتیں دی گئی ہیں، لیکن بہت سے ایسے اقدامات جو اس وقت شہدا کے ورثا کے لیے کئے گئے تھے ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا، اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ شہید ہونیوالے تمام وکلا کے پسماندگان کو مکا نات تعمیر کرکے دئیے جائیں گے اور ان کے لیے اسی وقت چار ایکڑ سرکاری اراضی بھی رکھ دی گئی تھی مگر اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ زمین کہاں ہے اور اس پر کب مکانات تعمیر کئے جائیں گے اور کب ان کی الاٹمنٹ ہوگی۔ اسی طرح ا ُس وقت حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ شہید وکلاء کے پسماندگان کے لیے صحت کے شعبے میں مفت اور معیاری علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہو ں گی اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔اگرچہ اس سانحہ کے فوراً بعد ہر ایک نے اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس محترم قاضی عیسیٰ جو بلوچستان ہی کے سپوت ہیں اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی جسٹس رہے ہیں ۔

اس لیے ان شہید وکلا میں سے، وہ اپنے اُن بہت سے ساتھیوں کو بہت قریب سے جانتے تھے جو وکالت کے زمانے میں ان کے ساتھی اور دوست رہے، پھر بہت سے ایسے نو جوان ایڈووکیٹ تھے جو بطور وکیل ان کے سامنے مقدمات میں پیش ہوتے رہے تھے، ان وکلا کا تعلق پورے بلوچستان یعنی تربت سے ژوب تک تھا۔ یوں جب یہ سانحہ رونما ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایک تحریر ملک کے تمام اہم اخبارات میںشائع ہوئی جس کا عنوان تھا( شہدا کے ورثا اور غازیوں کے نام۔اگر میری آنکھیں آبشار ہوتیں ) یہٍ تحریر ایک تقریبا 700 الفاظ پر مشتمل تھی لیکن ایک ایک لفظ ہزار ہا آنسوؤں میں ڈوبا ہوا تھا اور واقعی اپنے عنوان،،اگر میری آنکھیں آبشار ہو تیں کی عکاسی کر رہا تھا،، ۔ اس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ ہی کی نگرانی میں8 اگست2016 کے سانحہ پر تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جو از خود یعنیSuomoutu,, ،،6  اکتوبر2016 پر قائم ہوا تھا اس انکوائری کمیشن نے 110 صفحات پر رپورٹ مرتب کی جو دسمبر 2016 کو سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی۔ اس وقت شہدا کے ورثا یہ چاہتے ہیں کہ اس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہو،کیو نکہ شہدأ کی روحیں بزبان مصطفی زیدی یہ سوال کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی ۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

سید عبد الرب آغا

The post میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیئر خان صاحب!

$
0
0

ڈیئر خان صاحب!

مبارک باد۔

ہزار اندیشے، وہم اور وسوسے پیدا ہوئے یا کیے گئے، لیکن 2018ء کے انتخابات خیر و خوبی سے منعقد ہوئے اور آپ کی توقعات اور امنگوں کے مطابق نتائج بھی آگئے۔ آپ کے بقول گزشتہ بیس اکیس برس سے آپ جس مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کررہے تھے، وہ اب حقیقت کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ ویسے ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ کی سیاسی جستجو کا زمانہ لگ بھگ ربع صدی کو محیط ہے۔

یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں آپ سے کم و بیش اکیس سال پہلے کی وہ ملاقات پوری تفصیلات کے ساتھ یاد ہے جو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کے کانفرنس روم میں ہوئی تھی۔ آپ وہاں اپنی سیاسی جماعت (تحریکِ انصاف) کی تشہیری مہم کے لیے آئے تھے۔ آپ کی فرمائش تھی کہ کم سے کم بجٹ میں اس کام کو کیا جائے۔ کمپنی نے بہت احتیاط کے ساتھ تشہیری مہم کا تخمینہ لگایا تھا جو کہ دو سوا دو کروڑ روپے کے لگ بھگ تھا۔ اس عرصے میں ہمارے سیاست دانوں کے قرض اٹھانے کے شوق، ایکسپورٹ کی رفتہ رفتہ گرتی ہوئی شرح اور ڈالر کی مار نے ہماری معاشی صورتِ حال کو دگرگوں کرکے دکھ دیا ہے۔ آج کروڑ دو کروڑ کی کوئی اوقات ہی نہیں رہ گئی، لیکن بیس بائیس برس پہلے یہ خاصی معقول رقم تھی۔

تشہیری مہم کے لیے یہ تخمینہ آپ کو زیادہ معلوم ہوا تھا، اس لیے اُس کمپنی سے آپ اشتہاری مہم کا معاہدہ نہیں کر پائے تھے۔ جہانگیر ترین جیسے احباب بھی تو اُس وقت آپ کے ساتھ نہیں تھے۔ خیر، تو کہنے والی بات یہ ہے کہ آپ بیس بائیس برس سے زائد عرصے سے سیاست کے خارزار میں کشاں کشاں جس منزل کی سمت رواں تھے، یعنی ملک کی وزارتِ عظمیٰ، وہ اب آپ سے صرف حلف برداری کے فاصلے پر ہے۔ یہ سفر دشوار اور منزل سخت کٹھن تھی، لیکن آپ نے استقامت سے جستجو جاری رکھی اور بالآخر منزل کو پالیا۔ ایک بار پھر مبارک باد۔

آپ اپنے سیاسی کیریئر ہی کا نہیں، زندگی کا بھی نیا اور بے حد مختلف مرحلہ شروع کرنے والے ہیں۔ حقائق، واقعات، تجربات اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ یہ کانٹوں کی سیج یا انگاروں کا تخت ہے جس پر آپ اب جلد ہی براجمان ہوں گے۔ ہاں، مگر اُن لوگوں کے لیے جو ذاتی خواہشوں اور حسرتوں کی تکمیل کے لیے یہاں تک نہیں پہنچتے، بلکہ اپنے عوام، اپنے لوگوں اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ جو موقع پرست اور ذاتی منفعت کے خواہش مند سیاست اور اقتدار کی طرف آتے ہیں، وہ اسے پھولوں کی سیج سمجھتے اور اسی ذہن کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جو ملک و قوم کی خدمت کا خواہش مند ہے، سیاست و اقتدار اسی کے لیے آزمائش بنتی ہے۔ گویا:

اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

آپ نے چوںکہ ہمیشہ قوم کی خدمت کے جذبے اور عزم کا اظہار کیا ہے، اس لیے یہ بات آپ کو اب واضح طور پر اور قطعیت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے۔ دُشواریاں اپنی جگہ، لیکن اپنی قوم کو گرداب سے نکالنا اور ملک کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر لے آنا کوئی ایسی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ ماؤزے تنگ اور کمال اتاترک تو چلیے ذرا سے پہلے کے زمانے کے لوگ تھے، لیکن امام خمینی، مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے لوگ تو سب آپ کے سامنے کی مثالیں ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح اپنے وطن اور اپنی عوام کے لیے کام کیا اور اپنی تگ و دو میں سرخ رُو رہے۔ یہ سب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا اور پھر اس کامیابی پر قوم نے کس طرح انھیں عزت اور محبت سے نہال کیا، یہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مطلب یہ کہ محنت رنگ لاتی ہے اور محنت کرنے والا سرفراز ہوتا ہے۔

انتخابات میں آپ کی جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ اور سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ خود آپ نے پانچ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پانچوں پر کامیاب ہوگئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام نے آپ پر کس درجہ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں بعض ایسے لوگ بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ آئے جو اگر کسی اور جماعت کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیتے تو جیتنا بہت دور کی بات ہے، اُن کی تو ضمانتیں ضبط ہوسکتی تھیں۔ عوام بھی اُن سے خوب واقف تھے، لیکن یہ آپ کا لحاظ اور آپ پر اعتماد ہے کہ ان لوگوں کو بھی ووٹ دیے گئے اور کام یابی دلوائی گئی۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ پیغامات بھی چلے جن میں لوگوں نے تفریحِ طبع کے انداز میں اپنی بھڑاس بھی نکالی تھی۔ ممکن ہے، ان میں سے کوئی پیغام آپ تک بھی پہنچ گیا ہو۔ ایک صاحب نے لکھا تھا، ’’عمران خان! اللہ مجھ سے نہیں تم سے پوچھے گا کہ میں نے فلاں شخص کو ووٹ صرف تمھارے چکر میں دیا ہے۔‘‘ بظاہر یہ بات تفریحِ طبع کی ہے، لیکن اس پر پوری سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ کم سے کم آپ کو تو ضرور۔ اس لیے کہ یہ محض آپ کی فیس ویلیو کا معاملہ بھی نہیں ہے، بل کہ آپ جس جذبے، عزم اور مقصد کے لیے تگ و دو کرتے رہے ہیں، یہ اُس کی سرخ روئی اور تکمیل کا مسئلہ ہے۔ بات تو عامیانہ سی ہے، لیکن ہے معنی خیز، اس لیے ہم کہے دیتے ہیں۔

دیکھیے جس طرح کہا جاتا ہے کہ شادی ایک جوا ہوتی ہے اور کچھ لوگ یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن بھی ایک جوا ہے جو عوام اور سیاسی راہ نما مل کر کھیلتے ہیں اور بعض رہنما یہ جوا کھیلنے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ اسی لیے کہ وہ اپنے جذبے اور مقصد میں تو بے شک سچے ہوتے ہیں، لیکن تاش کے پتوں کی طرح اُن کے ہاتھ بھی بعض اوقات نہایت ناقص ساتھی آجاتے ہیں جو انھیں لے ڈوبتے ہیں۔ خدا نہ کرے آپ کے ساتھ ایسا ہو۔

سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے انتخابات کے بعد جو تقریر کی وہ اچھی تھی۔ آپ نے توازن، متانت اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ ملکی صورتِ حال اور سیاسی مخالفین کے بارے میں آپ نے اپنے سیاسی جلسوں کے برعکس خاصی ذمے داری سے گفتگو کی۔ عالمی سیاست کے بارے میں بھی آپ کی باتیں سیاسی شعور کی حامل تھیں۔ ہندوستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے بھی آپ کا رویہ مثبت اور مدبرانہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے عوامی حلقوں نے ہی صرف اس کو نہیں سراہا، بلکہ بیرونِ ملک بھی اسے قابلِ توجہ اور لائقِ ستائش سمجھا گیا۔ قوم آپ سے آئندہ بھی ایسی ہی بردباری، پختگی، ذمے داری اور متانت کی توقع رکھتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جان پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود کو بار بار اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے رہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ کسی مسئلے یا مخالفت سے دوچار ہوں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جلسے کسی بھی جماعت کے لیے دراصل اپنی عوامی قوت کے مظاہرے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہاں وہ سب رَوا ہوتا ہے جو آپ بھی اپنے جلسوں میں مسلسل کرتے رہے ہیں، لیکن اب آپ کی سیاسی زندگی کا وہ مرحلہ گزر گیا۔ اب آپ اختیار و اقتدار کی طاقت سے متصف ہیں۔ طاقت کے منصب پر آنے کے بعد لازمی ہے کہ آدمی تحمل، برداشت، رواداری اور اجتماعی مفاد کو ہر لمحہ ملحوظِ خاطر رکھے۔ آپ کی اس تقریر نے یہی تأثر دیا ہے جو یقینا خوش کن اور امید افزا ہے۔ آپ کا یہ اندازِنظر آگے بھی اسی طرح برقرار رہے، ضرورت اس بات کی ہے۔

ملک کی صورتِ حال کو معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی اور ترقیاتی، یعنی کسی بھی پہلو سے سامنے رکھا جائے، بہت سے معاملات سنجیدہ اور اصلاح طلب نظر آتے ہیں۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو اقتدار سنبھالتے ہی متعدد آزمائشوں کا سامنا ہوگا، لیکن ظاہر ہے، آپ ان سب حالات سے پہلے ہی سے بخوبی واقف ہیں۔ تبھی تو آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں اپنی حکومت کے پہلے سو دن میں انجام دیے جانے والے کاموں کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ دیکھیے ہم صاف لفظوں میں کہے دیتے ہیں کہ سو دن میں آپ نے ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ مکانات جیسے جو اعلانات کیے ہیں، وہ شاید ناممکن تو نہ ہوں، لیکن ان کو عملی جامہ پہنانا سخت کارِ دشوار ضرور ہے۔

آپ کے یہ اعلانات سن کر سنجیدہ اور بردبار لوگ خوش نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ جلسوں میں ایسی باتیں نعرے لگوانے اور تالیاں پٹوانے کے لیے تو ضرور بہت مفید ہوتی ہیں، لیکن انھیں عملاً سچ کر دکھانا کارِداد۔ خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں، مثلاً صاف پانی، بجلی اور کچرے کی صفائی تک سے محروم اور متنوع مسائل اور تکلیفوں سے دوچار ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے، وہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرور ہوسکتا ہے، لیکن اُس کے لیے جتنی تگ و دو درکار ہے، وہ کچھ وقت طلب ہوگی۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے دیے ہوئے وقت میں چیزوں کو اس طرح نہیں کریں گے تو آپ کے مخالفین کو بہت کچھ کہنے اور آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کا موقع ملے گا اور پھر عوام بھی آپ سے بدظن بھی ہونے لگیں گے۔ پہلے سو دن، پہلے سال، دوسرے سال اور پانچ سالہ دورِ حکومت کی سنجیدگی اور ذمے داری سے عملی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کیجیے۔ اب نہایت بردباری سے حکومتی بیانیہ تشکیل دیجیے۔ عوام کو حالات اور حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اعتماد میں لیجیے، تاکہ آپ ندامت اور عوام مایوسی سے بچ سکیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا اور سچائی سے حالات کا سامنا کرنا باتیں بنانے اور تاویلات پیش کرنے سے کہیں بہتر ثابت ہوتا ہے۔ عوام نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو وہ اعتماد کو قائم بھی ضرور رکھنا چاہیں گے، لیکن اس میں آپ کی طرف سے ذمے دارانہ کردار اور بردباری کو یقینا دخل ہوگا۔

وفاق کے ساتھ ساتھ آپ خیبر پختونخواہ میں تو حکومت بنا ہی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے بھی آپ اور آپ کے ساتھی بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ دو صوبوں اور مرکز کی حکومت کا مطلب ہے، اقتدار کی غیرمعمولی طاقت۔ خیال رہے، ایسے اقتدار سے عوامی توقعات اور امیدوں کا گراف بھی بہت بلند ہوجاتا ہے۔ یہ بات آپ کو ہرگز نہیں بھولنی چاہیے۔ ویسے اگر پنجاب میں آپ کی جماعت اقتدار کے بجائے حزبِ اختلاف کا کردار قبول کرلے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آپ اس پوزیشن میں بھی وہ کچھ کرسکتے ہیں جو آپ کے مخالف نہیں کرسکتے۔

آپ کو اقتدار وفاق میں ملا ہے۔ اگر آپ وہاں ملکی ترقی اور قومی خوش حالی کے لیے اپنے عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب رہے تو پھر اگلے انتخابات میں آپ مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی بہ آسانی اقتدار کے حامل ہوں گے۔ عوام جن سیاسی راہ نماؤں کے کردار اور کارکردگی سے مطمئن ہوں انھیں اقتدار سے کبھی الگ نہیں کرتے۔ اگر راہ نما خود چاہیں تو بھی ان کا اقتدار چھوڑنا عوام قبول نہیں کرتے اور نوے برس سے زائد کی عمر میں بھی انھیں اختیار و اقتدار سونپ کر بٹھا دیتے ہیں۔ اس وقت مہاتیر محمد کو آپ اسی پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں۔ ویسے ایک زمانے میں آپ کی تقریروں میں اُن کا ذکر بھی آتا رہتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اب آپ عملاً بھی اس کردار کو نبھا کر دکھائیں۔

عالمی سیاسی منظرنامہ بھی آپ کے لیے بہت سے چیلینجز لیے ہوئے ہے۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ ہمارے پڑوسی، یعنی ہندوستان، افغانستان اور ایران سب کے ساتھ آپ کو سوجھ بوجھ اور ٹھہراؤ کے ساتھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ ملک کے مسائل اور مفادات دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی اور جامع خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی کاروبار چلانے اور آئی ایم ایف سے بچنے کے مسائل اپنی جگہ توجہ طلب ہیں۔ تاہم آپ ان سب معاملات سے نہ صرف خود آگاہ ہیں، بلکہ آپ کے بعض زیرک ساتھی بھی ان کا شعور رکھتے ہیں۔ اس لیے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ آپ کی حکومت جن اقدامات کا فیصلہ کرے گی، وہ ملکی مفاد کو ہر ممکن پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرے گی۔

آخری بات۔ آپ کے مخالفین انتخابات کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں، بل کہ اس مسئلے پر آپ کی جماعت کو چھوڑ کر باقی سب جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ گذشتہ نصف صدی کا منظرنامہ اس ردِعمل کو بار بار دکھاتا رہا ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد خود آپ کا ردِعمل بھی یہی تھا اور گذشتہ پانچ برس آپ اس بات کو دہراتے بھی رہے ہیں۔ تاہم ایسا کم کم ہی ہوا ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعت کے سوا باقی سب سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اس طرح ہم آواز ہوں جس طرح اس وقت سیاسی جماعتیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اسی نوع کے مسئلے کا شکار ہوئے تھے، اور پھر اقتدار کیا انھیں تو زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

ویسے تو آپ نے خود بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جس حلقے کے بارے میں شبہات ہیں، اُسے کھول لیا جائے گا۔ یہ واقعی اچھی بات ہے اور اگر آپ مضبوط ہیں اور سچ مچ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں تو پھر حقیقت کی چھان پھٹک میں ہچکچاہٹ کیسی، اور تصادم کی کیا ضرورت۔ اس وقت تک جو دو تین حلقے (مثلاً سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی) ری چیک کیے گئے ہیں، اُن کے نتائج کون سے بدل گئے۔ ہاں آپ کے لیے تصادم سے بچنا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی توجہ اُن کاموں پر مرکوز کرسکیں جن پر آپ کو اصل میں کرنا چاہیے۔

The post ڈیئر خان صاحب! appeared first on ایکسپریس اردو.

آزادی، کل اور آج

$
0
0

آزادی کے حصول کا سفر ہم نے بہت سے خوابوں، خواہشوں اور امنگوں کے ساتھ شروع کیا تھا۔ تاہم ان سب کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت بھی زادِراہ کے طور پر ہمارے دامنِ دل میں دھڑکتی تھی۔ یہ کہ ہم ایک قوم ہیں۔

ایک مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان اور تاریخ رکھنے والی زندہ اور باشعور قوم ہیں۔ یہی وہ ادراک تھا جس کی بنیاد پر ہم نے سوچا تھا کہ فرنگیوں کی غلامی سے نکل کر اگر ہم ہندوستان میں ہندو اکثریت کے زیرِنگیں رہنے بسنے پر آمادہ ہوگئے تو اپنے آزاد قومی شعور کے ساتھ ہرگز خود مختار اور باوقار زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس حقیقت کا شعور ہم نے اُن تجربات سے براہِ راست حاصل کیا تھا جو ہندو اکثریتی علاقوں میں تقسیم سے پہلے فرنگی سام راج میں ہندو حکم رانی کے دور میں ہمیں حاصل ہوئے تھے۔

دراصل یہی وہ حالات اور تجربات تھے کہ جنھوں نے جداگانہ قومیت کا احساس ہمارے اندر بیدار کیا اور وہ سیاسی شعور ہمیں حاصل ہوا جو آزادی کی فیصلہ کن جدوجہد کی بنیاد بنا۔ یہی وہ شعور تھا جس نے 1940ء کی قرارداد کے بعد محض سات برس کے مختصر سے عرصے میں آزادی کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کیا۔ ملک کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے لوگوں کا یوں قومیت کے احساس کے ساتھ جمع ہونا اور اتنی قلیل مدت میں آزادی حاصل کرلینا، قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک مثالی واقعہ ہے۔

1947ء کے اگست کی 14 تاریخ کو مسلمانانِ برصغیر کے لیے صبحِ آزادی طلوع ہوئی اور جنوبی ایشیا کے نقشے پر پاکستان ایک زندہ حقیقت کے طور پر ابھرا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مہاجر آبادیوں کا جو تبادلہ ہوا، خاص طور پر ہندوستان سے جتنے مسلمانوں نے آزاد وطن کی طرف ہجرت کی، وہ بھی تاریخِ عالم کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ اس ہجرت نے عزت آبرو، جان اور مال کی جتنی اور جیسی قربانیاں طلب کیں اور مسلمانوں کو آگ اور خون کے جو دریا عبور کرکے اس جنت نظیر آزاد سرزمین تک پہنچنا نصیب ہوا، اُن کے ذکر سے تاریخِ انسانی کے اوراق ہمیشہ کے لیے رنگین ہوگئے۔

انسانی خون سے کس طرح ہولی کھیلی گئی، ماؤں کی گود سے نومولود کس طرح چھین کر نیزوں پر اچھال دیے گئے، باپ بھائیوں کی آنکھوں کے آگے بیٹیوں اور بہنوں کو پامال کرنے کا شیطانی کھیل کیسے کھیلا گیا، خاندان کی عزت و ناموس اور اپنی آبرو بچانے کے لیے کتنی عورتیں کنوؤں میں کود گئیں، کتنے شوہر، بیٹے، بھائی اور باپ اپنے کنبے کو حفاظت اور عزت سے آزاد وطن تک پہنچانے کی کوشش اور خواہش میں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ تاریخ ان سب سانحات اور واقعات کا حساب رکھتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے، لیکن وہ سب لوگ جو بذاتِ خود ان تجربات سے گزرے ہیں اور وہ بھی جنھوں نے دل دہلا دینے اور روح لرزہ دینے والے ان حقائق کی روداد اپنے کانوں سے براہِ راست ان مراحل سے گزرنے والے لوگوں کی زبانی سنی ہے، انھیں ان واقعات کو صرف تاریخ کے اوراق کو سونپ کر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے۔

ایسے سب لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان واقعات اور حقائق کا اعادہ کریں، انھیں دہرائیں اور اپنی نئی نسلوں کو ساری ممکنہ تفصیلات کے ساتھ ان سے آگاہ کریں۔ اجتماعی، تہذیبی اور قومی حافظے کو اسی طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طریقے سے قومی طرزِاحساس کو تقویت ملتی ہے۔ اجتماعی تجربات اسی طرح نسل در نسل آگے بڑھتے اور بعد والوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بعد میں آنے والی نسلیں اس ورثے کی اہمیت اور قدر و قیمت سے بھی آگاہ ہوتی ہے جو اگلے وقتوں کے لوگوں سے اُسے منتقل ہوتا ہے۔ محض جغرافیائی سرحدیں ہی نہیں، بلکہ نظریاتی بنیادیں بھی تجربات کے اس شعور کو آگے بڑھانے سے مستحکم ہوتی ہیں۔ اجتماعی تہذیبی قدریں بھی اس کے ذریعے تسلسل اور استحکام حاصل کرتی ہیں۔

ہمیں آزادی حاصل کیے اب اکہتر برس ہوگئے ہیں۔ آج بھی ایسی بہت سی آنکھیں زندہ ہیں جنھوں نے وہ منظر دیکھے ہیں کہ جب آبا و اجداد کی وراثت و جائیداد کو چھوڑ کر آزاد وطن کی محبت میں لٹے پٹے لوگ خاک و خون کے دریا پار کرکے یہاں پہنچے تو یہاں والوں نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بھائی چارے، اخلاص، محبت، یگانگت اور وارفتگی کے وہ مناظر دیکھنے میں آئے کہ کہنے والے کہہ اٹھے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہونے والے انصار و مہاجرین کے واقعے کی یاد تازہ ہوگئی۔

لاہور، کراچی جہاں بھی یہ قافلے پہنچتے تھے، محبت کے گداز اور خلوص کی گرمی سے ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ آنے والے جی جان سے دونوں ہاتھ کھول کر اس دھرتی پر اترنے والوں کا استقبال کرتے اور انھیں سینے سے لگاتے تھے اور سوچتے تھے کہ بس اب یہی لوگ اصل رشتے دار اور اپنے ہیں۔ یہ اسی خلوص و محبت کی برکت ہی تو تھی کہ آنے والے سفر کے عذاب اور کٹے پھٹے وجود کی ساری اذیتیں بھول کر اس نئی زمین میں جڑیں پکڑنے لگے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی بحال ہوگئی تھی۔

یہ آزادی کا موسم تھا۔ ہوا میں زخموں کو بھرنے کی وہ صلاحیت تھی کہ جیسے کوئی نسخۂ اکسیر کام کرتا ہو۔ پانی صرف پانی نہیں تھا، آبِ شفا تھا، آبِ بقا تھا۔ روح پر لگے گھاؤ یوں بھرتے جاتے تھے کہ جیسے گزرنے والے سارے سانحات و حادثات حقیقت میں نہیں، کسی ہول ناک خواب میں واقع ہوئے تھے۔ خون کے آنسو روتی، دھندلائی نظر اور سوجی ہوئی آنکھیں کہ جو بے نور ہوئی جاتی تھیں، اس ہوا اور اس فضا میں بحال اور بیدار ہونے لگی تھیں۔ ان کے خواب واپس ان پر اترنے لگے تھے۔ بینائی بحال ہوگئی تھی۔ پت جھڑ کے دنوں اور خزاں کے موسم میں بھی یہ بحال ہونے والی آنکھیں منظر کے اندر سے پھوٹتی ہریالی اور رنگوں کو دیکھنے لگی تھیں۔ یہ یقین کا موسم تھا۔ یقین کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے اور سجھائی نہ دے تو بھی احساس کی قوت رگ و پے میں خون بن کر دوڑتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کو اُس کی قوت فراہم ہونے لگتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں، قائدِاعظم کی مادری زبان اردو نہ تھی اور یہ بھی کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے ہی نہیں، بلکہ مجمعے میں تقریر کرتے ہوئے بھی انگریزی زبان پر انحصار کیا کرتے تھے۔ جی الانہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ایک بار ایسے ہی ایک جلسے میں تھے۔ قائدِاعظم تقریر کررہے تھے۔ مجمع انہماک سے سن رہا تھا۔ جی الانہ کی نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ قریب ہی ایک خوانچہ والا بھی وہاں موجود ہے اور اطمینان سے کھڑا ہاتھ باندھے ہوئے تقریر سن رہا ہے۔ اُس کو یوں اپنا کام چھوڑ کر سنجیدہ کھڑے ہوئے قائداعظم کی تقریر سنتے ہوئے دیکھ کر انھیں ہنسی آگئی۔

خیال ہوا کہ یہ بھی خوب بات ہے کہ جو شخص زبان جانتا ہے اور نہ ہی سیاست کو سمجھتا ہے، وہ اس قدر دل چسپی سے یہ تقریر سن رہا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس خیال نے مسکراہٹ کو ایک سوال میں تبدیل کردیا۔ وہ اٹھ کر اُس خوانچے والے کے پاس گئے اور پوچھا، تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اُس نے اطمینان سے جواب دیا، قائدِاعظم کی تقریر سن رہا ہوں۔ انھوں نے مشکل سے ہنسی ضبط کی اور دریافت کیا، قائدِاعظم تو انگریزی میں تقریر کررہے ہیں، کیا تم انگریزی سمجھتے ہو؟ اس شخص نے نفی میں سر ہلایا۔ انھوں نے کہا، پھر تقریر سن کر بھلا تمھیں کیا سمجھ میں آرہا ہے؟ اُس شخص نے نہایت اطمینان اور پورے اعتماد سے جواب دیا، ’’مجھے زبان نہیں سمجھ میں آرہی، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ قائدِاعظم جو بھی کہہ رہے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں۔‘‘

یہ تھی وہ اعتبار کی قوت کہ جس کے بل پر لوگ آزادی کی منزل کے لیے دو گام چلے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنوں میں منزل سامنے آگئی۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں اعتبار کی یہ قوت کس شے نے پیدا کی تھی۔ بلاشبہ یہ معجزہ تھا، لیکن یہ معجزہ کسی پیغمبر نے آکر نہیں دکھایا تھا۔ اللہ نے پیغمبروں کو بھیجنا تو بند کردیا تھا۔ پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آچکے تھے۔

ان کے بعد تو رشد و ہدایت، قیادت و سیادت اور وقار و اعتبار کے سارے کام اُن کی امت کے لوگوں کو ہی کرنے کی ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کام ہدایت کا ہو یا قیادت کا صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے جب کرنے والا پہلے اپنے کردار کے اعتبار کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ محمد علی جناح نے عمرِعزیز کا ایک بڑا حصہ ویسا ہی گزارا تھا جیسا دنیا کی کام یابیوں کو حاصل کرنے والے لوگ گزارتے ہیں۔ وہ کوئی عالمِ دین یا صوفیِ صافی نہیں تھے اور نہ ہی دین کی تبلیغ کا کوئی کام کررہے تھے، لیکن وہ جو کچھ بھی کررہے تھے، منافقت کے بغیر پورے شعور، ذمے داری اور سچائی کے ساتھ کررہے تھے۔

اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بھی انھوں نے اپنی شخصی ساکھ اور انسانی کردار کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا تھا۔ یہی طرزِعمل ان کی سیاسی زندگی میں اِس طرح اُن کے کام آیا کہ انھیں اپنے کردار کی گواہی کے لیے کچھ اور نہیں کرنا پڑا۔ سیاست کے میدان میں آئے تو اپنے اصولوں کی وجہ سے اور اپنے کردار کے بل بوتے پر جلد ہی اپنی قوم کے دلوں میں بس گئے۔ ہمارے یہاں مقصدی سیاست کی سب سے بڑی مثال اپنے کردار کے اجلے پن کی وجہ سے کل بھی قائدِاعظم تھے اور آج بھی قائدِاعظم ہیں۔ آزادی کے بعد وہ ملک کے بے تاج بادشاہ تھے۔ مفادات کا تو سوال ہی کیا، مراعات کے نام پر ہی وہ جو کچھ بھی چاہتے حاصل کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے ذاتی منفعت کو تو کبھی سامنے ہی نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے انھوں نے صرف ایک روپیا تنخواہ اپنے لیے مقرر کی تھی۔

آج عام طور سے اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی یہ دیکھا جارہا ہے کہ عمررسیدہ اور بزرگ نسل کے لوگ اپنے تجربات، احساسات اور شعور کے ساتھ گوشہ گیر ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل سے ان کا فاصلہ نسبتاً زیادہ رفتار کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ بعض حوالوں سے اور بعض مراحل پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ نئے اور پرانے لوگ الگ الگ خطوں اور الگ دنیاؤں کے لوگ ہیں۔ اُن میں شعور و احساس کا کوئی مشترک علاقہ ہی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سوچیے کہ بھلا نئی نسلوں کو اُن کا قومی و تہذیبی ورثہ کس طرح منتقل ہوگا۔

اگر ایک لمحے کے لیے فرض کرلیجیے کہ کسی نہ کسی طرح منتقل ہو بھی جائے تو وہ نئے لوگوں کے لیے بامعنی اور قدر و قیمت کا حامل کیسے ہوگا کہ جب وہ اُس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس صورتِ حال میں زیادہ ذمے داری بزرگ نسل کے لوگوں کی ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ اس نسلِ نو تک اپنا سارا ذہنی، فکری، ثقافتی، جمالیاتی، اخلاقی، سیاسی اور ارضی ورثہ ذمے داری اور کامیابی کے ساتھ منتقل کریں جو انھیں اپنے بڑوں سے ملا تھا اور جو انھوں نے خود زندگی کے تجربات اور حالات و واقعات سے حاصل کیا ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی کوتاہی ایک قومی سطح کے جرم کا درجہ رکھتی ہے۔

یہاں اس سوال پر بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں آزادی کے شعور و احساس سے اگر اس دور کے لوگ، ہماری نئی نسل لاتعلق یا عاری ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا پہلا اور سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ عمررسیدہ لوگ یعنی پرانی نسل انھیں حقائق اور احساس میں شریک کرنے میں ناکام رہی ہے جو نسل در نسل قومی طرزِ احساس کو قائم رکھتے اور مستحکم کرتے ہیں۔ اس کے کچھ اور اسباب بھی ہیں، لیکن چلیے فی الحال اُن کو رہنے دیجیے۔ البتہ اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے کہ پرانی نسل اپنی ذمے داری اور فرائض سے کیوں کر غافل ہوگئی؟ یہ سوال تھوڑا سا ٹیڑھا ہے، اس لیے اس کا جواب بھی براہِ راست اور دو ٹوک نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں مختلف عناصر اور عوامل اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اور سب سے اہم کردار ادا کیا ہے سیاست نے۔

واقعہ یہ ہے کہ اپنا آزاد وطن ہم نے سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں اور ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے ہی ہمارے اندر قومی شعور کی لہر پیدا کی تھی اور قومی وجود کی حقیقت و اہمیت سے ہمیں آگاہ کیا تھا۔ بکھرے ہوئے دانوں کو ایک تسبیح میں پرو کر ان کی اجتماعی حیثیت اور طاقت کو ابھارا تھا۔ اس کا نتیجہ حسبِ توقع نکلا۔ ہم ایک قوم بن کر ابھرے اور اپنے لیے آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں تک تو ہمارے سیاست دانوں کا کردار کچھ اور تھا، لیکن آزادی کے بعد یہ کردار بدل کر رہ گیا۔

قائداعظم محمد علی جناح تو سال بھر بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، لیکن سیاست میں راہ بنانے اور اقتدار تک اپنا راستہ ہموار کرنے والے سازشی ٹولے نے چند برس بعد ہی ان کے جانشین اور سب سے بااعتماد ساتھی لیاقت علی خان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد تو رفتہ رفتہ پورا ماحول ہی بدلتا چلا گیا۔ سازشی ٹولے کی خوب بن آئی۔ وہ لوگ جو ملک و قوم سے اخلاص کا رشتہ رکھتے تھے اور انھیں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے، وہ سازشوں کا شکار ہوکر پارہ پارہ اور ناکارہ ہوتے چلے گئے۔ طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ افراد کی ہو یا قوم کی، اگر مرکز جو نہ رہے تو قائم نہیں رہ پاتی۔ بے اثر اور بے نتیجہ ہوجاتی ہے۔ ہماری سیاست میں اجتماعیت کا عنصر کم ہوا تو انفرادی رجحانات نے تیزی سے راہ پانی شروع کردی۔ نتیجہ یہ کہ قومی وحدت کا زور ٹوٹتا چلا گیا۔

ایسا کیوں ہوا؟

سیاست داں اپنے قومی اور اجتماعی مقاصد سے دور ہوکر گروہی اور ذاتی فائدوں کی سمت جانکلے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے حالات یک بہ یک پیدا نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ وقت کے ایک دورانیے میں ہوتا ہے۔ حالات بدلتے ہیں، واقعات کا رخ تبدیل ہوتا ہے، افراد کی ترجیحات تبدیل ہوتی ہیں۔ اجتماعی طرزِاحساس میں دراڑ پڑتی ہے، اور پھر گروہی مفادات اور انفرادی لالچ اپنا اثر دکھا کر قومی دھارے کو توڑنے اور اس کی قوت کو زائل کرنے لگتے ہیں۔

سردار عبدالرب نشتر 1949ء میں پنجاب کے گورنر بنے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلے سیاست داں تھے جو اس مرتبے پر فائز ہوئے۔ اس سے پہلے ہمارے یہاں یہ منصب انگریزوں کی باقیات کو حاصل تھا۔ لیاقت علی خاں زندہ تھے اور جانتے تھے کہ صوبوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ وفاق کے استحکام کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔

یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ صوبوں کو حتی الوسع خود مختاری دے کر انھیں آزادی اور طاقت کا احساس دلاتے ہوئے قومی دھارے کو مضبوط رکھا جائے۔ اس کے لیے صوبائی حکومت کی سطح پر قومی وحدت کے احساس کو تقویت اپنے اور عوام سے راست تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت تھی۔ سردار عبدالرب نشتر کا گورنر بننا اسی زاویۂ نگاہ کا عملی اظہار تھا۔ وہ مرکزی دھارے اور قومی سیاست کے اہم رکن تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین بات، ان کا وہ رویہ اور اندازِنظر تھا جو ایک طرف اجتماعیت اور قومی وحدت کو پیشِ نظر رکھتا تھا اور دوسری طرف عام آدمی سے اپنے رشتے کو بھی کبھی فراموش نہیں کرتا تھا۔

سردار عبدالرب نشتر شام کو چہل قدمی کے عادی تھے۔ گورنر ہاؤس میں آنے کے بعد بھی یہ معمول برقرار تھا۔ شام کو تیار ہوئے، کرتہ پاجامہ اور سلیم شاہی پہن اور ہاتھ میں چمڑی لے کر ٹہلتے ہوئے مال روڈ کی طرف چل دیے۔ خدمت اور حفاظت پر مامور عملے کے افراد کچھ نہ سمجھ پائے اور چپ چاپ دیکھتے رہ گئے۔ دوسرے اور پھر تیسرے روز بھی یہی ہوا تو عملے کا ایک شخص پیچھے لپکا۔ قدموں کی آہٹ پاکر سردار عبدالرب نشتر رک گئے۔ سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو عرض کی گئی کہ جاننا مقصود ہے کہ آپ اکیلے کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ بتایا گیا، چہل قدمی کے لیے۔ عرض کیا، گورنر ہیں آپ، اکیلے نکلنا ٹھیک نہیں۔ پوچھا، کیوں ٹھیک نہیں؟ عرض کیا، سیکیوریٹی کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

خفا ہوگئے اور کہا، آپ مجھے انھی لوگوں سے ڈرنا اور دور رہنا سکھانا چاہتے ہیں جنھوں نے اس جگہ تک مجھے پہنچایا ہے۔ یہ واقعہ ایک طرف تو عوام پر سیاست داں کے اعتماد کا مظہر ہے اور دوسری طرف بہت واشگاف لفظوں میں یہ بھی بتاتا ہے کہ سیاست داں عوامی ترقی اور خوش حالی کا خواہاں اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر اجتماعی بہبود کو پیشِ نظر رکھے تو عدم تحفظ کا احساس اُس کے اندر جگہ بنا ہی نہیں سکتا۔ ہم نے آزادی ایسے ہی لوگوں کی قیادت میں حاصل کی تھی۔

افسوس کہ بعد میں ہمارا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ قومی دھارا علاقائی، لسانی اور ثقافتی گروہوں میں تقسیم ہوا اور نفاق کی وہ ہوا چلی کہ پھر تو قومی وجود جیسے بکھرتا ہی چلا گیا۔ جب یہ صورتِ حال قوموں کی زندگی میں آتی ہے تو ذاتی مفاد کے خواہش مندوں کو آگے بڑھنے، منظر پر ابھرنے اور اقتدار کو ہاتھ میں لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ذاتی منفعت اور اقتدار کی ہوس رکھنے والے لوگ قومی خدمت اور ملکی ترقی کا جذبہ رکھنے والوں کو دائیں بائیں دھکیل کر آگے آگئے۔ حکومت طالع آزماؤں کے ہاتھ میں چلی گئی۔

قومی شناخت اور اجتماعی وجود کہ جس کے لیے آزادی حاصل کی گئی تھی، پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ وحدت اور اجتماعیت کا احساس عوام میں برقرار رکھنا ضروری ہے تو اسے کسی طرح رکھا جاسکتا ہے۔ ایسا کوئی سوال حکومت اور اختیار حاصل کرنے والے لوگوں کا مسئلہ ہی نہیں تھی، اس لیے قومی وجود میں پڑنے والی دراڑیں بھلا کون دیکھتا اور کیوں دیکھتا؟ یہ جو شگاف پیدا ہوا تھا، یہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک ایسی خلیج بن گیا کہ جس کو پاٹنا دشوار سے دشوار تر ہوگیا۔ سیاست پھر تو اقتدار کی ہوس کا کھیل ہوکر رہ گئی تھی۔ جوڑ توڑ اور بناؤ بگاڑ کا وہ دور دورہ ہوا کہ قومی وجود کو سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔

اس کے بعد ہم نفاق کی آندھیوں کی زد میں آگئے۔ بگولہ در بگولہ فتنے رقص کرنے لگے اور مفادات کی چک پھیریاں یہاں وہاں ناچتی نظر آنے لگیں۔ پہلے ہمارے سیاسی رہنما اور قومی قائدین خود کو صرف خدا کے سامنے ہی نہیں، بلکہ اُس کے بعد عوام کے سامنے بھی جواب دہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بات بنانے کے لیے اور جلسہ لوٹنے کے لیے منہ سے کوئی بات نہیں نکالتے تھے۔

انھیں اپنے کہے کا لحاظ رہتا تھا۔ زبان کی شرم کو وہ ہمیشہ دامن گیر محسوس کرتے تھے۔ سو، ان کی زبان سے وہ بات نکلتی ہی نہ تھی جس کا اُن کے عمل سے تعلق نہ ہو اور جسے وہ عملاً پورا کرکے نہ دکھا سکیں، لیکن طالع آزما اور اقتدار کی ہوس رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے نفاق کی آندھیوں نے جب میدان صاف کردیا تو پھر ماحول ہی بدل گیا۔ اب سیاست داں بادشاہ تھے اور بھلا بادشاہ کب کسی کو جواب دہ ہوتا ہے۔ چناںچہ اب یہ ہوا کہ سیاست کاروبار بن گئی۔ پہلے ہماری جان کے دشمن، ہمارے قومی وجود کے سارے ہی بد خواہ باہر کے لوگ تھے۔ جب اُن کا داؤ چل گیا اور ہمارے یہاں اتحاد و یگانگت کی سوچ میں دراڑ پڑگئی۔ گروہی، علاقائی، ثقافتی اور لسانی حقوق کی آڑ میں نفرت کی فصلیں سر اٹھانے لگیں تو پھر ہمارے دشمن صرف باہر ہی نہیں رہے، بلکہ ہمارے اندر بھی ظاہر ہونے لگے۔ ان میں یوں تو اور لوگ بھی تھے، لیکن سب سے نمایاں سیاست داں تھے۔

وہ منہ سے کوئی بھی بات نکالتے، کسی بھی طرح کا نعرہ لگاتے ہوئے نہ جھجکتے۔ ہر بات کو، ہر چیز کو، ہر موقع کو، ہر معاملے کو صرف اور صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا اُن کا معمول بن گیا۔ خارجی قوتوں کو اور گل کھلانے کا موقع ملا۔ نفاق تو ہوتا ہی کیکر کے بیچ کی طرح ہے، ناموافق حالات میں بھی اس کا بیج ضائع نہیں ہوتا، پھل پھول جاتا ہے۔ یہاں تو پھر حالات بھی اسے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کررہے تھے۔ خیر، یہاں پر اپنی پوری ستر سال کی تاریخ دہرانا مقصد نہیں ہے۔

کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ حالات اور واقعات کا بہاؤ جب ایک بار اپنا رخ بدل کر چل نکلا تو پھر قومی مزاج اور قومیت کے احساس کو توڑتا، بدلتا اور قومی وحدت کا ملیامیٹ کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ ملک دو ٹکڑے تو ہوا ہی تھا، لیکن قومی شعور اور اجتماعی طاقت تو اس نفاق کے ہاتھوں ایسی ماری گئی کہ آدھی چھوڑ ایک تہائی بھی مشکل ہی سے رہ گئی۔ اس نفاق کو ہمارے معاشرے میں دور دور اپنی جڑیں پھیلانے اور بھرپور اثر دکھانے کا موقع اُس وقت اور زیادہ ملا جب ہمارے یہاں لسانی، ثقافتی اور گروہی مسائل کے ساتھ ساتھ تفریق کی ایک اور بہت مضبوط بنیاد مذہبی یا فرقہ وارانہ صورت میں سامنے آئی۔ اب یہ چوتھی دہائی چل رہی ہے کہ ہم اس فرقہ واریت کے ہاتھوں لہولہان ہیں۔

کل جب ہم نے آزادی حاصل کی تھی تو اپنی اجتماعی اور داخلی قوت کی بنیاد پر ہمارے دائیں بائیں ہی نہیں دور دراز تک ہمارے لیے حالات سازگار ہورہے تھے۔ ہمارا قومی وقار ایسا تھا کہ قوموں اور ملکوں کے اجتماع میں ہم (یعنی ہمارے سیاسی راہ نما) سر اٹھا کر کھڑے ہوتے تھے۔ دلوں میں چور اور دشمنی کا رشتہ رکھنے والے بھی اُن کی طرف آنکھ ٹیڑھی کرکے دیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ حالاںکہ آزادی کے فوری بعد ہماری انتظامیہ اور ملک کا کاروبار اور اس کی معیشت کو چلانے کے لیے کمیشن کا طے کردہ نقد سرمایہ بھی ہمیں پورا نہیں دیا گیا تھا۔

روپیا روک کر یہ سمجھا گیا تھا کہ ملکی کاروبار اور انتظامی معاملات کی بدحالی قوم کے گھٹنے توڑ دے گی اور ہم دشمنوں کے قدموں پر جاگریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ تقسیم کے لیے علاقوں کو جس طرح بانٹا گیا، اس میں بھی یہی کوشش کی گئی کہ جغرافیائی فاصلے قومی وحدت کے احساس کو مستحکم نہ ہونے دیں گے۔ سماجی تقسیم کے سلسلے میں بعدازاں کی جانے والی پے در پے سازشیں تو خیر سلسلہ در سلسلہ چلتی رہیں۔ ہمیں گرانے اور جھکانے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود ہم حالات کا سامنا کرگئے اور سب کچھ جھیل کر بھی کھڑے رہے۔ دو حصوں میں بٹنے کے بعد جو بچا تھا، اُس کو سنبھالنے میں بھی کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوگئے۔ آج ہمارے اجتماعی وجود میں ایک نہیں کئی ایک رخنے ہیں، لیکن پھر بھی ہم یک جا ہیں۔ ٹوٹے ہوئے نہیں، جڑے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ ہیں۔ تاہم آج اصل اور غور طلب سوال یہ ہے کہ وہ آزادی جو ہم نے بڑے جوش و جذبے، شوق اور ولولے کے ساتھ اور بہت بھاری قیمت چکا کر حاصل کی تھی، جان کو ہزار طرح جوکھم میں ڈال کر ہم نے وہ جو خود مختاری کا پودا لگایا تھا، آج وہ کس حال میں ہے؟ سوال بہت تکلیف دہ ہے، لیکن حوصلہ کرکے براہِ راست اور دو ٹوک پوچھ لینا چاہیے کہ کیا آج حقیقتاً ہم آزاد ہیں؟

اگر ہم خود سے واقعی سچ بولنا اور حقیقت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو پھر جواب اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم صرف دیکھنے میں آزاد ہیں۔ حقیقت ورنہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی، مذہبی، قومی رہنماؤں اور قائدین نے ہماری آزادی کو ان لوگوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے جو ہمیں کسی بھی صورت میں آزاد، خودمختار، توانا اور باوقار دیکھنا چاہتے ہی نہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جب ایک بچہ وطنِ عزیز میں پیدا ہوتا ہے آنکھ کھولنے سے پہلے وہ ننھی جان کا مالک ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوجاتا ہے اور ہوش سنبھالنے سے پہلے وہ کسی لسانی گروہ اور مذہبی فرقے کا رکن بن چکا ہوتا ہے۔

یہ کیسی آزادی ہے کہ اس ملک کے عوام کی تقدیر کا فیصلہ ملک و قوم سے محبت نہ کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہاں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد لگ بھگ نصف آبادی کے برابر، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں عام آدمی کی مراعات اور سہولتوں کا فیصلہ عوام کے نمائندے، ملک کے حکم راں اور سیاسی راہ نماؤں سے زیادہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہ کیا آزادی ہوئی کہ ہماری مسجدیں، امام بارگاہیں، کھیل کے میدان، بازار، بچیوں کے اسکول، کاروباری مراکز تک دشمن کو آسانی سے رسائی حاصل ہے اور وہ جب اور جتنا نقصان جہاں چاہتا ہے، ہمیں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کس طرح کی آزادی ہے کہ جہاں ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے نصاب اور اپنے سوچنے والے ذہنوں کے لیے نظریات اور سوالات باہر سے لیتے ہیں۔

یہ سب کچھ یقینا بہت اذیت ناک ہے، دل کو مسوس کر رکھ دینے اور روح کو ملول کرنے والا ہے۔ بلاشبہ ہے— لیکن یہ معاملات اور حالات صرف اور صرف ہم پر نہیں گزرے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی اور بھی بہت سی قومیں گزری ہیں جنھوں نے کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا کیا اور مسلسل پامالی کے تجربات انھیں پیش آتے رہے تاہم ایک دن انھوں نے اپنے حالات کا جائزہ لیا اور سوچنا شروع کیا کہ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کے بعد جب سمجھ لیا تو پھر غور کیا کہ ہم ان حالات سے کب اور کس طرح نکل سکتے ہیں۔

تب انھوں نے اپنی اجتماعی قوت کو جمع کرنا شروع کیا، قومیت حمیت کو بروے کار لائے۔ قومی شعور کو بیدار کیا اور اس سے کام لیا۔ اس کے بعد کوئی طاقت ایسی تھی اور نہ کوئی دشمن ایسا کہ جو انھیں جینے، اٹھنے اور حقیقی آزادی سے بہرہ مند ہونے سے روک پاتا۔ ہم نے بہت وقت لگا دیا، لیکن چلیے دیر سے ہی سہی، ہم نے اپنے اور اپنی آزادی کے بارے میں کھلے ذہن اور حقیقت پسندی کے ساتھ سوچنا تو شروع کیا۔ آئیے اب اس سے آگے کے کاموں پر توجہ مرکوز کریں اور اپنا اپنا کردار اپنی آزادی، اپنی آئندہ نسلوں کی آزادی کے لیے ذمے داری اور خلوص سے ادا کریں۔

The post آزادی، کل اور آج appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کے خلاف جرائم

$
0
0

معصوم بچوں کے ساتھ جرائم کا مسئلہ یوں تو دنیا کے بہت سے ممالک میں ہے، لیکن خاص طور پر ان ملکوں میں اس کی شرح نمایاں حد تک زیادہ ہے جہاں تعلیم کی کمی، سماجی آگہی کا نظام سطحی اور غیرمؤثر، اور غربت کا تناسب زیادہ ہے۔ تاہم یہ بھی طے ہے کہ کسی معاشرے میں ایسے جرائم صرف مذکورہ بالا ان تین عوامل کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک اور چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کسی معاشرے میں ایسے گھناؤنے جرائم پھیلتے ہیں۔ ان میں نفسیاتی رویے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

نفسیاتی رویہ صرف مجرم کا نہیں، بل کہ جو اِس جرم کا شکار ہوا ہے اس مظلوم کے اہلِ خانہ کا بھی۔ مجرم کی ذہنی ساخت اور نفسیاتی مسائل تو اپنی جگہ ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ایک ہول ناک مریضانہ رویہ ہے، لیکن اس ظلم سے دوچار ہونے والے بچے کے گھر والے اس حادثے کے بعد معاشرے میں رسوائی کے خوف سے خود اس خبر کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خوف ویسے بے جا بھی نہیں ہے۔

اس اذیت ناک تجربے سے گزرنے والے خاندان سے عام طور پر جس انداز سے لوگ پوچھتے، جس طرح ہم دردی کرتے اور جس طریقے سے اس خبر کو آگے بڑھاتے ہیں، وہ یقینا رُسواکن ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کا تعلق سماجی مزاج سے ہے۔ جرم کی اذیت اپنی جگہ، لیکن ذلت کا خوف اس پریشان حال خاندان کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ خاموشی سے اس کرب کو برداشت کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ جن معاشروں میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے، ہم بھی انھیں میں شامل ہیں۔

ہمارے یہاں اگرچہ الیکٹرونک میڈیا پر ہونے والے پروگرام اس پر روشنی ڈال رہے ہیں اور اسی طرح اخبارات میں بھی تحریریں شائع ہورہی ہیں کہ اس جرم پر مظلوم خاندان کا چپ ہوکر بیٹھ جانا ظالموں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ضروری ہے کہ بے خوفی اور ذمے داری کے ساتھ اس مسئلے کی نشان دہی کی جائے۔ ظلم اور زیادتی کو پی جانے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھا کر مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے۔ ان سب چیزوں کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ذہن سے سماجی رسوائی کا خوف دور نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے اب تک اس جرم پر قابو پانا ممکن نہیں نہ ہورہا۔

ایسے جرائم ہمارے معاشرے میں اس وقت کس سطح پر ہیں، اس کا اندازہ آپ کسی حد تک ان اعداد و شمار سے کرسکتے ہیں جو آپ کو شہروں اور صوبوں کی سطح پر میسر آسکتے ہیں۔ ویسے تو اس سلسلے میں پہلا مرحلہ ہی دشوار ہوجاتا ہے کہ جب آپ اس صورتِ حال کے حقائق جاننے اور ڈیٹا جمع کرنے نکلتے ہیں۔ ہمارے یہاں سماجی حقائق اور مسائل کا ڈیٹا جمع کرنے والے ادارے الگ سے موجود ہی نہیں ہیں۔

اس لیے یہ ڈیٹا آپ کو انھی اداروں سے حاصل کرنا پڑتا ہے جو اِن جرائم کی روک تھام کے لیے کام کررہے ہیں۔ مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اوّل تو ان اداروں سے درست اعداد و شمار حاصل کرنا بہت دشوار ہے۔ پھر یہ کہ جو اعداد و شمار ملتے ہیں ان پر بھی آپ پورا اطمینان نہیں کرسکتے۔ وجہ یہ کہ نہ صرف مکمل رپورٹنگ نہیں ہورہی، بلکہ جو ہورہی ہے، وہ بھی نظام کی پیچیدگی اور اداروں کے دائرۂ کار کی دشواری اور ذمے دارانہ منصب پر فائز افراد کی بے پروائی یا سردمہری ایسے ناقابلِ حل مسائل اصل منظرنامے تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں جو درست اعداد و شمار اور حقیقی صورتِ حال کو سامنے ہی نہیں آنے دیتے۔

ایک عام آدمی کے لیے جو ویسے ہی ایک اذیت ناک تجربے سے گزر کر آیا ہے اور ہم دردی کا خواہاں ہے، یہ مسئلہ راستے میں ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی انصاف کی توقع ہی اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور صبر کی سل دل پر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ اس کے بعد اس کی نفسیات میں ایک ایسی دراڑ پڑتی ہے کہ وہ قانون کے وجود کا ہی انکار کردیتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس معاشرے میں قانون کی عمل داری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو خود اہلِ اختیار اور حیثیت والے ہیں۔ چناںچہ وہ اس کے بعد ساری زندگی جبر کے جان لیوا احساس اور برداشت کی جاں گسل بھٹی میں بسر کرتا ہے۔ اپنے اطراف میں اگر کسی کو ایسے ہی ہول ناک تجربے سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے بھی خاموشی کا درس دیتا ہے۔ ہاں، کچھ لوگ اس خاندان میں ایسے بھی ہوسکتے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ہوتے ہیں جو جبر کی گھٹن سے باہر آنے کے لیے خود پھر انتقام کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں، اور جرم کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔

یہ لگ بھگ سات ماہ پہلے کی بات ہے جب ہمارے یہاں ایک ایسا ہی ہول ناک واقعہ ہوا تھا۔ معصوم بچی زینب جنسی تشدد کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ اس واقعے پر بھی وہی صورتِ حال معاشرے میں ہوسکتی تھی جو ایسے ہی دوسرے سیکڑوں واقعات پر ہوتی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کا حافظہ چند گھنٹے یا ایک ڈیڑھ دن اس واقعے کو یاد رکھتا ہے، خبر چلتی ہے اور پھر سب کچھ اسی طرح معمول کی سردمہری اور وقت کے اندھیرے میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ عدالت نے اس کا نوٹس لے لیا۔ تحقیقاتی کمیٹی بن گئی۔

رپورٹ کی ذمے داری متعینہ وقت کے ساتھ سونپ دی گئی۔ تفتیشی ادارے حرکت میں آگئے۔ پولیس کو جواب طلبی کا سامنا ہوا۔ مجرم کی گرفتاری تک، بلکہ عدالت میں پیشی، مقدمے کی سماعت اور سزا کے اعلان تک الیکٹرونک میڈیا کے لیے یہ واقعہ صرف ایک خبر نہیں رہا، بلکہ ذمے دارانہ کردار کا ایک سوال بن گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مظلوم خاندان کو دہائی دینی پڑی اور نہ ہی جبر و صبر سے گزرنا پڑا۔ مجرم پکڑا گیا، جرم ثابت ہوگیا اور سزا سنا دی گئی۔

تاہم ذرا غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ایسی صورتِ حال صرف اسی وقت سامنے آئے گی جب عدالت ایسے کسی جرم کا نوٹس لے گی؟ افسوس، صد افسوس کہ ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایسا ہر جرم کے واقعے پر نہیں ہوتا۔ یہ نتیجہ خیز کارروائی صرف عدلیہ کے نوٹس پر دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف لاہور میں اس سات ماہ کے عرصے میں ایک سو اکتالیس واقعات ایسے ہی جرائم درج کرائے گئے ہیں۔ جی ہاں، صرف لاہور شہر میں ایک سو اکتالیس واقعات۔ ان میں وہ واقعات شمار نہیں کیے گئے جنھیں ثبوت کی کمی، ناکافی شواہد یا کسی بھی دوسری وجہ سے رد کردیا گیا۔ یعنی اُن واقعات کا نہ تو کہیں اندراج ہوا ہے اور نہ ہی ان کے لیے تحقیقی و تفتیشی اقدام کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کیا مؤثر اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس ناک اور شرم ناک، مگر قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ جن جرائم کی رپورٹ درج کرائی گئی، ان میں سے کوئی بھی نام زد ملزم اب تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ سوال یہ ہے، پہنچ بھی کیسے سکتا ہے کہ جب ان سب ملزموں کو متعلقہ عدالتوں نے ضمانت پر رہا کیا ہوا ہے۔ کیا یہ ہمارے عدالتی نظام یا قانونی پیچیدگی کا مسئلہ ہے کہ ایسے گھناؤنے مجرم ضمانت پر رہا ہوکر آزادی سے گھوم رہے ہیں، بلکہ وہ اور ان کے ساتھی، اہلِ خانہ اور جانے کون کون اُن کے ساتھ مل کر جرم کا ایک ایک نشان مٹانے، گواہیاں ختم یا غائب کرانے اور مظلوم خاندان کو دھونس، دھمکی یا لالچ کے ذریعے جرم کی عدالتی پیروی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوگا۔ نہیں، یہ عدالتی نظام کی خرابی نہیں ہے۔ اس لیے کہ عدالتی نظام نے زینب کے کیس میں اپنے وجود کا اثبات اور اپنے کردار کا اظہار نہایت ذمے داری سے کیا ہے۔

مسئلہ اگر ہے تو بنیادی طور پر پولیس کے نظام اور محکمے کا ہے، تحقیقاتی اور تفتیشی اداروں کے طریقِ کار کا ہے۔ ظلم و بربریت کا شکار ہونے والوں کی نارسائی کا ہے۔ سچ پوچھیے تو پورے سماج کا ہے۔ ایسے ہر سانحے پر مظلوم خاندان کو نہیں پورے سماج کو اکائی بن کر سراپا احتجاج ہوجانا چاہیے۔ انصاف کے حصول تک سماج کے ہر گھر، ہر فرد اور سارے سماجی اداروں کو اسے اپنے لیے سب سے اہم اور سب سے بڑا چیلینج سمجھ کر اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری کے لیے، مجرم کے انجام تک پورے سماج کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔ ہر تفریق، ہر امتیاز اور ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورے سماج کو اسے اپنے لیے جینے اور مرنے کا مسئلہ بناکر ایسے ہر جرم اور ہر مجرم کا پیچھا کرنا چاہیے اور اپنی پوری اجتماعی قوت کو انصاف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

اپنے اطراف کی زندگی کے تجربات میں ہم اس کے برعکس صورتِ حال دیکھتے ہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مظلوم خاندان کے افراد دل کڑا کرکے سامنے آتے ہیں۔ جرم کے خلاف اور مجرم کی گرفتاری کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، لیکن حالات اور تجربات سے مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پولیس والے اس قسم کے جرائم کی رپورٹ ہی آسانی سے درج نہیں کرتے۔ ظلم کا شکار لوگوں کو صرف اپنی آواز قانون کے کان تک پہنچانے کے لیے پے در پے دشواریوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر ذلت کے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خود کو سچا اور انصاف کا طلب گار ثابت کرنے کے لیے ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اعصاب شکنی کا احساس ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ عزمِ صمیم اور ناقابلِ شکست حوصلے کے ساتھ یہ مراحل گزر بھی جائیں تو اس کے بعد ارتکابِ جرم کے شواہد اکٹھے کرنا یا پیش کرنا اس سے کہیں زیادہ اذیت دہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ تک کو ناقابلِ اعتبار بنانے کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں یا کردی جاتی ہیں۔ حالاںکہ لاہور وہ شہر ہے جہاں ملک کی چند فرنزک لیبارٹریز میں ایک اعلیٰ سطح کی لیبارٹری موجود ہے۔ اس دور میں سائنسی ترقی اور ایجادات نے جرائم کی روک تھام کے لیے یہ سہولت مہیا کردی ہے کہ ایسے کسی جرم کا اگر کوئی چشم دید گواہ نہ ہو تو بھی فرنزک رپورٹ وہ شواہد فراہم کرسکتی ہے کہ مجرم کے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ بچے۔

بات اصل میں یہ ہے کہ کسی معاشرے کی اصلاح، بھلائی، ترقی اور آسودگی کا انحصار اُس کو حاصل ایجادات اور اداروں پر نہیں ہوتا، بلکہ ان افراد پر ہوتا ہے جو اُن کو سنبھالتے اور چلاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ افراد اگر اپنے فرائض کی بجاآوری پر آجائیں تو کوئی شے انھیں روک نہیں پاتی اور وہ دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ ملک کا اور اس کے اداروں کا نظام بڑے بڑے حوصلہ مند افراد کے پاؤں میں زنجیر ہی تو ڈال دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ آدمی کے اندر حرص و ہوس کے عنصر اور ترغیب و ترہیب سے بھی انکار نہیں کرسکتے۔ یہ وہ شے ہے کہ ایک بار آدمی کو اس کا دھیان آجائے تو پھر وہ مطلب براری کے سو حیلے کرسکتا ہے۔ آدمی کے اندر خیر و شر دونوں ہی کا رُجحان پایا جاتا ہے۔ خیر کی راہ پر آجائے تو فرشتوں کو پیچھے چھوڑ دے اور شر کا راستہ اختیار کرے تو شیطان کو اپنا چیلا بنالے۔

یہ ٹھیک ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے، اس کے بعد خدا اور ملک کے قانون کو۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے اور خدا کو بھول جانے کی وہ بہت غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ تبھی تو اس دنیا کے انسان تعلیم، تہذیب، تمدن اور مذہب کے باوجود اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے ہاتھوں ایسی ایسی اذیتوں سے دوچار ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں سن کر بھی انسانی روح لرز اٹھتی ہے۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ جرائم کی روک تھام کا کام انسانی ضمیر اور خدا کے خوف سے زیادہ مؤثر طریقے سے کسی ملک کا قانون اور نظامِ انصاف چلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، جن ممالک میں جس حد تک قانون اور انصاف کی عمل داری قائم ہے، وہاں پر جرائم کا تناسب اسی لحاظ سے کم ہے۔

لاہور کے حوالے سے بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے یہ اعداد و شمار ہمیں صاف لفظوں میں بتا رہے ہیں کہ متعلقہ محکموں کی غفلت، قانونی پیچیدگیاں، اور غیرمؤثر نظام نے ہمارے یہاں مجرموں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قانون کھیل بن گیا ہے اور ادارے یرغمال ہوچکے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو ذاتی ترغیبات کا شکار ہوتے ہیں، یا طاقت ور لوگوں کے لیے کھلونا بن جاتے ہیں۔ چناںچہ سیاسی طاقت اور مالی حیثیت رکھنے والوں کے لیے قانون کی گرفت کم زور پڑجاتی ہے۔

ان کے بچ نکلنے کے لیے وہ راستے پیدا ہوجاتے ہیں جو قانون کو تماشا بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ کام کون کرتا ہے؟ کبھی وہ لوگ جنھیں اس ملک کے عوام اپنے لیے قانون سازی کے لیے منتخب کرتے ہیں اور کبھی وہ لوگ جنھیں ملک و قوم نے قانون کے تحفظ اور اس کی عمل داری کا فریضہ سونپا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں جرائم کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے، اور مجرموں میں اچھے تعلیم یافتہ گھرانوں کے افراد بھی نمایاں طور سے نظر آنے لگے ہیں۔ عوام میں ایک طرف عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف جرم خود ایک کشش اور ترغیب بنتا جارہا ہے۔

یہ کوئی اَن ہونی بات بھی نہیں ہے۔ جرائم پر قابو نہ پایا جاسکے تو وہ انتقام کا جذبہ رکھنے والوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے دفاع کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بھی ترغیب بن جاتے ہیں اور طاقت ور طبقے کے لیے محض ایک ایڈونچر۔

یوں تو ہر طرح کا جرم قابلِ نفرت اور لائقِ تعزیر ہوتا ہے، لیکن بچوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو ساری مہذب قومیں سب سے زیادہ گھناؤنا اور ناقابلِ معافی جرم گردانتی ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ بچے معصوم اور محبت کے لائق ہوتے ہیں۔

وہ تو یقینا ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن معاشروں میں بچوں کے خلاف جرائم کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں سماجی نفسیات کا نقشہ سب سے زیادہ تباہ کن حالت میں سامنے آتا ہے اور ہر طرح کے جرائم کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، اور جرم کی مہیب ترین صورتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے یہاں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو فوری طور پر اور پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا چاہیے اور اُن کی روک تھام میں اپنا کردار انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر پوری ذمے داری سے ادا کرنا چاہیے۔

The post بچوں کے خلاف جرائم appeared first on ایکسپریس اردو.

کانگو کریمین، خونی بخار

$
0
0

کانگو خونی بخار اس وقت پاکستان میں ایک وبائی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بیماری تو خطرناک ہے ہی لیکن اس زیادہ خطرناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں اس بیماری سے متعلق بچاؤ احتیاطی تدابیر و علاج سے متعلق شعور و آگاہی کی کمی ہے۔

اگرچہ جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی یہ بیماری دنیا میں نئی نہیں ہے۔ پھر بھی مسلم معاشرہ میں اور موجودہ عیدقربان کے موقع پر لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تحریر قارئین کی نظر کی جا رہی ہے تاکہ سنت ابراہیمی حفاظتی اقدامات کے ساتھ ادا کی جا سکے یہ تحریر سوالاََ جواباََ رقم کی گئی ہے اور ہر اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی جو اس موذی بیماری سے متعلق ہے۔

سوال:کانگو کریمین خونی بخار کیا ہے؟

جواب: کانگو کریمین خونی بخار ایک جانوروں کی بیماری ہے جو ایک مخصوص قسم کے وائرس سے پیدا ہوتی ہے جو ایک چیچڑ کے ذریعے جانوروں میں، جانوروں سے انسانوں میں اور ایک متاثرہ انسان سے ایک صحت مند انسان میں منتقل ہوتی ہے، بارہویں صدی عیسوی میں قرون وسطی میں ایک مسلمان سائنسدان نے پہلی مرتبہ قازقستان میں چند مریضوں میں اس بیماری کی علامات نوٹ کیں جو کہ کانگو بخار سے ملتی جلتی تھیں۔ موجودہ ترقی کے دور میں پہلی مرتبہ یہ بیماری 1944میں عالمی منظر پر نمودار ہوئی۔

یہ بیماری سابقUSSR سوویت یونین کے علاقہ کریمیا میں منظر عام پر آئی جس سے سابقہ سوویت یونین کے تقریباََ دو سو فوجی متاثر ہوئے۔ علاقے کی وجہ سے اس کا نام کریمین کانگو یا خونی بخار پڑ گیا۔ اس کے علاوہ اس کو خو نی بخار اس لئے کہتے ہیں کہ اس بیمار ی میں جسم میں خو ن جمانے والے خلیے (پلیٹلیٹس)کی تعداد تیزی سے کم ہو جا تی ہے۔

جس کی وجہ سے خون میں جمنے کی صلا حیت کم ہو جاتی ہے۔ اور جسم کے مختلف حصوں مثلاً نا ک، منہ ، پیشاب، پاخانے کے رستے خو ن بہنا شروع ہو جا تا ہے۔ یہ خو ن جلد کے نیچے بھی جمع ہو تا ہے جس کی وجہ سے بندہ شا ک میں چلا جاتا ہے۔ جسم کے تمام نظام متاثرہ ہوتے ہیں اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بخار اس وقت دنیا میں براعظم افریقہ، ایشیا، مشرق وسطی اور یورپ میں پایا جاتا ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان، انڈیا اور افغانستان بھی اس وقت اس میں شامل ہیں۔

سوال:اس بیماری کے پھیلاؤکے کیا ذرائع ہیں؟

جواب:یہ بیماری جراثیم سے متاثرہ چیچڑ، متاثرہ جانور اور متاثرہ انسان کے سائیکل کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جب ایک صحتمند چیچڑ ایک کانگو بخار سے متاثرہ جانور کو چمٹتا ہے تو یہ جراثیم چیچڑ میں منتقل ہو جاتا ہے اور جب یہ متاثرہ چیچڑ صحتمند انسان یا صحتمند جانور کو چیمٹتا ہے تو جراثیم انسانوں اور جانوروں میں منتقل ہو جاتا ہے اور جانور، انسان اس جراثیم سے متاثر ہو جاتے ہیں اس طرح بیماری کا سر کل چل پڑتا ہے۔

سوال:کیا جانور کانگو جراثیم سے بیمار ہوتا ہے؟

جواب:یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہے کہ کانگو خونی بخار کا جراثیم جانور کے اندر داخل تو ہوتا ہے مگر متاثرہ جانور میں اس کی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ صر ف ایک ہفتہ کیلئے بیمار جانور کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جا تا ہے یعنی بخا ر ہو جاتا ہے۔ جراثیم جانورکے جسم کے اندر پرورش پاتا ہے اور متاثرہ جانور کے خون، رطوبات اور گوشت کے اندر جراثیم پایا جاتا ہے لیکن جراثیم باذات خود جانور کو کوئی نقصان نہیںدیتا۔ یہ بیمار جانور انسان کیلئے اور صحتمند دوسرے جانوروں اور صحتمند چیچڑ کیلئے خطر ناک ثا بت ہوتا ہے۔ یہ بیماری اونٹ، گائے ، بھینس، بکری، شتر مرغ، بھیڑسمیت تمام جانوروں میں پائی جاتی ۔ البتہ پا لتو جانور کتے، بلی، خرگوش وغیرہ اس سے زیادہ متا ثر نہیں ہوتے۔

سوال:کیا پرندے بھی اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں؟

جواب:جی ہاں پرندے مثلاً طوطا، کوا، چڑیا وغیرہ بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سوال:انسانوں میں منتقل ہونے کے کیا ذرائع ہیں؟

جواب:یہ بیمار ی انسانوں میں متاثرہ چیچڑ کے کا ٹنے سے یا متاثرہ جانور کے خون سے یا متاثرہ مریض کے خون سے سرجیکل آلات، مثلاً متا ثرہ مر یض کی استعمال شدہ سر نج، بلیڈ وغیرہ سے دوسرے انسان کو منتقل ہو جاتی ہے۔

بیمار ی سے متاثرہ جانو ر کا خون یا فضلاء کچلے ہوئے چیچڑ کے خون کے انسانی جسم کے کٹ یا زخم پر لگنے سے یا متاثرہ خو ن و دیگر رطوبات کا منہ یا آنکھ میں جانے سے بھی انسا نوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 محکمہ لا ئیو سٹاک، محکمہ صحت اور محکمہ زراعت تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ملازمین انتہائی رسک پہ ہیں ۔ اس کے علا وہ جانوروں کے بیوپاری، قصائی اور مذبح خا نے میںکام کرنے والے افراد اور مویشی پال حضرات، فارم ہاؤسز سے وابستہ افراد، گوالے براہِ راست اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

سوال:کا نگو خونی بخار کے جسم کے اندر داخل ہونے کے کتنے دن بعد علا مات ظاہر ہو تی ہیں؟

جواب:چیچڑ کے انسا ن کو کاٹنے سے کو ئی تکلیف نہیں ہوتی عمو ماً وائرس کے انسانی جسم میں داخلے کے تین سے نو روز کے اندر اندر شدید تیز بخار، سر میں درد ، جسم اور پٹھو ں میں درد، آنکھو ں میں درد، پیٹ میں درد ، متلی کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ چند علا مات جن میں جسم پر سُرخ رنگ کے دھبے بن جانا، جلد پر نیل بن جانا، پیشاب، پاخانے کے رستے خون بہنا یا خون کی آمیزش ہونا، ناک منہ سے خو ن کا بہنا، خواتین میں غیر معمولی ماہواری، آنکھو ں کا سرُخ مائل ہونا یا خون کا جمنا، غنودگی، مسو ڑو ں سے خون آنا ایسی علا ما ت ہیں جس کی بنیاد پر اس بیمار ی کا شک کیا جا سکتا ہے۔

سوال:ریوڑ، گلہ بان، قصائی اور جانوروں کے بیوپاری کیا احتیاطی اقدامات کریں؟

جواب:قصائی گھر جا نے سے پہلے سر، پاؤں اور ہا تھ اچھی طرح دھو لیں اور خون سے آلودہ کپڑ ے تبدیل کریں۔ بند جوتے استعمال کریں، پوری آستین کے کپڑے پہنیں، قصابوں، گلہ بان، بیوپاری اور مویشی پال حضرات میں یہ چیچڑ ان کے بالوں، گردن کے پچھلے حصے(گدی) اور پاؤں کی اُنگلیوں کے درمیانی جگہوں پر پائے جا سکتے ہیں ۔ عید کے دنوں میں منڈی جانے اور آنے والے لوگوں کو ہلکے رنگ کے کپٹر ے پہننا چاہیے تاکہ چیچڑ کی موجودگی آسانی سے دیکھی جا سکے کیونکہ گہر ے رنگ کے کپڑ ے میں چیچڑ نظر نہیں آتے۔

سوال:کیا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟

جواب:جی ہاں یہ قابلِ علا ج مگر خطرناک بیمار ی ہے جس کی شرح اموات 30–50 فیصد ہے۔ جراثیموں کے لیے مخصوص دوائی Ribazole جو کہ مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ دوائی حالت کے مطا بق دی جا تی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جانا چاہیے اور خون میں خلیوں کی کمی پلیٹلیٹس جمنے والے خلیے دینے چاہئیں جو کہ خون عطیہ کرنے والے افراد پورے خون کی بجائے صرف مخصوص پلیٹلیٹس بھی دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم کے درد، بخار و اُلٹی کی دوائی اور صدمے کا علا ج ICU کے پروٹوکول کے مطابق کیا جاتا ہے۔عموماً مریض 10سے 12 روز میں تندرست ہونا شر و ع ہو جاتا ہے۔ اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے دوسرے ہی ہفتے مریض کی مو ت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ مختصر دورانیے کی خطرناک بیماری ہے۔

سوال:کیا پاکستان میں اس کی تشخیص ممکن ہے؟

جواب:جی ہاں پاکستان میں اس کی تشخیص بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ جر ا ثیم کو انسا نی خون میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خو ن میں جمنے والے خلئے میں نمایا ں کمی اور جسم میں جرا ثیم کے خلاف اینٹی باڈیز مخصو ص IGg اور IGmکی مو جو دگی کے ذریعے اس بیماری کی سو فیصد تشخیص ممکن ہے اور یہ سہو لت تقریباً ہر بڑے شہر میں مہیا ہے۔

سوال:کیا یہ بیماری پورا سال پھیلتی ہے؟

جواب:نہیں یہ بیمار ی صرف مو سمِ بہار سے خزاں کے دوران ہی پھیلتی ہے۔ یہ ایک مختصر دورانیے کی جان لیوا بیماری ہے۔ اس کا زیادہ پھیلاؤ گرمی کے موسم میں ہوتا ہے۔ موجودہ سیلابی صورتِ حال کے پیشِ نظر جانور اور انسان اکٹھے رہنے پر مجبور ہیں اور چیچڑ جانوروں کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان دنوں اس کے پھیلاؤ کے خطر ات بڑ ھ گئے ہیں۔ سردی میں یہ بیماری وقوع پذیر نہیں ہوتی۔

سوال:کیا یہ جراثیم دہشت گردی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟

جواب:جی ہا ں یہ ایک مہلک جراثیم ہے اور اس جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماری کی شرح اموت بہت بلند ہے اورساتھ ساتھ دورانیہ بھی تقریباً دو ہفتے ہے اس لیے اس کو دہشتگردی کے طور پر استعمال کیاجا سکتا ہے۔ اگر چہ اس جراثیم کی گروتھ لیبارٹری میں اتنی تیزی اور زیادہ تعداد میں نہیں کی جا سکتی اس وجہ سے یہ کیٹگری C میں شمار کیا جاتا ہے اس جراثیم کو فضا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اور بذریعہ سانس انسان اور جانور اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سوال:چیچڑ میں یہ بیما ری کیسے رہتی ہے؟

جواب:یہ با ت بھی توجہ طلب ہے کہ اگر ایک چیچڑ اس بیمار ی سے متاثر ہو تا ہے تو وہ زندگی بھر اس وائرس سے متاثر رہتا ہے اور یہ بیماری چیچڑ کو بیما ر نہیں کر تی بلکہ یہ جراثیم چیچڑ کے انڈوں میں منتقل ہوتا ہے اور اس طر ح ورا ثتی طور پر یہ جراثیم ایک چیچڑ سے دوسر ے چیچڑ میں منتقل ہوتی ہے۔ یعنی جراثیم مادہ چیچڑ سے انڈوں میں اور انڈوں کی گروتھ سے نئے پیدا ہونے والے چیچڑ میں چلا جاتا ہے۔

سوال: اس بیماری سے بچاؤ کے لئے کیا اقدا ما ت کرنے چاہئیں؟

جوا ب :۔ اس بیماری کا مرکزی کردار چیچڑ ہے جو اس بیماری کو ایک جگہ سے دوسر ی جگہ انسان سے انسان، بیمار جانوروں سے دوسرے جانوروں کو منتقل کرتا ہے۔ یعنی چیچڑ بطورِ سواری استعمال ہوتا ہے۔لہٰذا چیچڑ کو مار نے کے لئے اور اس کی افزائش کو روکنے کیلئے چیچڑ مار سپر ے محکمہ زراعت، لائیو سٹاک اور TMA کو آگے آنا چاہئیے۔

جا نوروں کے جسم کا معا ئنہ کر نا چاہئیے اور جانوروں کو چمٹے ہوئے چیچڑوں کو الگ کر نا چا ہئیے۔ جانوروں کی منڈیوں اور مذبح خانے میں بھی چیچڑ مار سپر ے لازمی طور پر کر انے چا ہئیے۔ جا نوروں کے باڑوں کو پکا اور مضبوط بنانا چاہئیے اور دیواروں میں موجود دراڑوںکو جو کہ چیچڑ کی افزائش کی جگہ ہو سکتی ہے کو مستقل طور پر بند کر دینا چاہیے۔ جا نوروں کے گوبر فضلہ کو مناسب طریقوں سے ٹھکا نے لگا یا جائے۔ محکمہ صحت، لائیو سٹاک اور زراعت سے وابستہ افراد ذاتی بچاؤ کے آلات PPEs) ( جس میںدستانے، منہ پر چڑھانے والے ماسک، بند جو تے، پور ی آستین کے کپڑ ے استعمال کریں اور متاثرہ مریض کی استعمال شدہ سرنج، بلیڈ و دیگر سر جیکل سامان کو احتیاط کے ساتھ تلف کر دیں۔

سوال:حکومت نے اس بیماری کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں؟

جواب:  National Institute of Health (NIH) اسلام آباد میں اس بیماری کا ایک سیل قائم ہے، ایسے تمام مریضوں کی اطلاعات بذریعہ صوبا ئی محکمہ صحت کو دی جا نی چاہئیں۔ حکومت پنجاب کی جا نب سے شہر کے داخلی اور خارجی جگہوں پر خصو صی انٹری Exit بنائے گئے ہیں جہاں پر جانوروں کو چیچڑ مار سپرے کی جاتی ہے۔ حکومتِ پنجا ب کی جانب سے کانگو کے بچاؤکے اقدامات کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر حکومت پنجاب نے عوام کی سہولت کے لئے ہیلپ لائن 080099000  قائم کی ہوئی ہے جس پر کانگو سے متعلق تمام معلوما ت کے لئے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

سوال:موجودہ صورت حال میں کن جانوروں کی قربانی کرنا محفوظ ہے؟

جواب:یہا ں یہ ابہا م بھی دور ہونا چا ہئیے کہ ہر قسم کے جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ اور ہر قسم کا جانور قربانی کے لئے منا سب ہے جس میں اونٹ، گا ئے، بیل، بکر ی، دنبہ، بھیڑ وغیرہ شامل ہیں، البتہ اس چیز کی احتیاط ضر ورکی جا ئے کہ جا نور کے جسم پر کو ئی چیچڑ موجود نہ ہو اور جانور میں چیچڑ مار سپر ے/ ادویات کا استعمال لازمی ہونا چاہیے۔

سوال:کیا لوگ جانور خریدنے کیلئے منڈی جا سکتے ہیں؟

جواب:جی ہا ں بالکل جا نور خریدنے کیلئے منڈ ی جایا جا سکتا ہے۔ البتہ منہ پر چڑھانے والے ماسک اور دستانے کا استعمال ضرور کیا جانا چاہیے، غیرضروری طور پر جانور کو چھونے سے اجتناب کریں اور غیرضروری طور پر زیادہ وقت منڈی میں نہ گزاریں۔ کھلی چپل نہ پہنیں اور پوری آستین والے کپڑے پہنیں منڈ ی سے واپسی پر کپڑوں کو دھو لیا جائے اور نہا لیا جائے۔

سوال:چیچڑ جانور کے کس حصے میں زیادہ پا یا جا تا ہے؟

جواب:چیچڑ جانور کی گردن اور کھروں میں زیادہ طور پر موجود ہوتا ہے اور دو جلدوں کے ملا پ کے مقام پر ہو تا ہے لہذا ان جگہوں کا خصوصی طور پر معائنہ کیا جا نا چاہیے۔

سوال: کیا جانورکو گھر بھی ذبح کیا جا سکتا ہے؟

جواب:جی ہاں گھر پر بھی جانور کو ذبح کیا جا سکتا ہے لیکن خصوصی بتائی گئی احتیاطی تدا بیر کو ملحوظِ خا طر رکھیں ۔ جا نوروں کے خون فضلہ اور دیگر آلائش کو منا سب طر یقے سے شا پر بیگ میں ڈال کر زمین میں دفن کیا جا ئے۔

سوال:کیا قربانی کے جانوروں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے؟

جواب:قربانی کے جانور کو غیرضروری طور پر ہا تھ مت لگائیں۔ دستانے استعمال کریں۔کھالیں جمع کر نے والے ادارے اور تجارت کرنے والے لوگو ں کو بھی خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ بچوں کو خصو صاً جانوروں کی منڈ ی اور جانوروں سے دور رکھنا چاہئیے۔ بچوں کو جانوروں سے کھیلنے سے منع کریں۔ جانوروں کو خریدنے کے لئے بچو ں کے سا تھ نہ لے جائیں اور واپسی پر ہاتھ پاؤں اچھی طرح دھو لئے جائیں۔

سوال:کیا قصائی اور اہل خانہ گوشت خود بنا سکتے ہیں؟

جواب:اس مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر قصا ب کو خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔ جسم کے کسی حصے پر کٹ یا زخم کو جانور کے خون سے بچا کر رکھیں اسی طرح وہ اہلِ خانہ جو خود گوشت بنانا چا ہتے ہیں وہ بھی یہی احتیاط کریں۔

سوال:کیا متاثرہ جانور کا گوشت، سری پائے، کلیجی، اوجڑی وغیرہ ہاتھ لگانے یا کھانے کے لیے محفوظ ہیں؟

جواب:جی ہاں اگر خدا نخواستہ جانور کے گوشت میں جراثیم موجود ہو تو گوشت پکایا جا سکتا ہے پکانے سے جراثیم سو فیصد مر جاتا ہے۔ جانور کے گوشت کے تکے، کباب، باربی کیو بنائے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تمام بغیر خوف کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ خواتین و حضرات قر بانی کے گوشت کو دھوتے وقت گلوز کا استعمال کریں اور خون اور گوشت سے نکلنے والی رطوبات کو اپنے ہاتھوں یا جسم پہ لگے زخم/ کٹ سے بچائیں۔گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔

سوال:اگر خدا نخواستہ کانگو سے متاثرہ شخص کا انتقال ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:بد قسمتی سے اگر متا ثر ہ شخص کی موت واقع ہو جائے تو اہلِ خانہ اپنے جذبا ت پہ قابو پائیں اور صبر اور احتیاطی تدابیر کا دامن ہا تھ سے نہ چھو ڑیں۔ مردے کے جسم کو نہلانے اور کفن دفن کے دوران احتیاطی تدا بیر اختیار کی جائیں جن میں دستانے اور منہ پر چڑھانے والے ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ اور متاثر ہ جسم کو غیر ضروری طور پر ہا تھ لگانے سے اجتناب کریں۔ متاثرہ مریض کے کپڑے، بیڈ شیٹ و دیگر استعمال شدہ چیزیں تلف کر دینی چا ہئیے۔

سوال:کانگو خونی بخار کے علاوہ کیا دیگر بخار بھی ہوتے ہیں؟

جواب:جی ہاں! کا نگو خونی بخار کے علا وہ دیگر خونی بخار بھی موجود ہیں جن میںHanta وائرس، Ebola وائرس، Lassa بخار اور Marburg بخار شامل ہیں۔

سوال:کیا اس بیماری کی ویکسین موجود ہے؟

جواب:اس بیماری کی کوئی مستند و موثر ویکسین مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔ البتہ ویکسین کی تیا ری کیلئے تحقیق و جستجو جا ری ہے۔ جن شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ وہاں کے ملا زمین عید کے موقع پر کچرہ منا سب بیگ کے اندر اُٹھا ئیں اور کسی مناسب جگہ پر زمین میں دبا دیں۔

سوال:مستقبل میں کیا منصوبہ بندی کی جانی چاہیئے؟

جواب:صحت اور صفائی کے رہنما اصو لوں کو عملی زندگی میں اپنایا جائے جانوروں کو شہر ی آبادی سے دور کر دیا جائے۔ جانوروں کے با ڑوںکو پکا بنایا جائے۔ منڈی مویشیاں، مذبح خانے کا باقاعدہ طور پر معائنہ محکمہ صحت، لا ئیو سٹاک، زراعت، ضلعی وتحصیل انتظامیہ کے تعاون سے کیا جائے۔ سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں لیکچردئیے جائیں۔

معاشرے کی سر کردہ سیاسی سماجی و مذہبی شخصیات اپنے دائرہ کار کے اندر سوسائٹی میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی و تدارک کیلئے بھرپور کردار ادا کریں۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم چلائی جائے۔ عید الاضحی کے تمام اجتماعات کے موقع پر خطیب حضرات اپنے خطبہ میں اس بیماری سے متعلق احتیاطی تدابیر بھی بیان کریں۔ اگرچہ اس عید پر اس بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت پاکستان و صوبائی حکومتوں نے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں جن سے اس بیماری سے تحفظ ہو سکے گا۔

( ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ریسکیو 1122بہاولپور)
dremergencybwp@hotmail.com

The post کانگو کریمین، خونی بخار appeared first on ایکسپریس اردو.

آوارہ کتے اور ذوقِ گدائی

$
0
0

یہ حقیقت ہے کہ انسان سے انسان بھی بہت کم ہی متاثر ہو تا ہے اور جب ہو تا بھی ہے تو ضروری نہیں کہ ساری عمر ہی متاثر رہے، اس کی بڑی مثال آپ کے سامنے حالیہ عام انتخابات کی ہے، طویل عر صے تک سیاسی نظریاتی طور پر اپنے پارٹی لیڈر سے متاثر رہنے والے فوراً ہی لیڈر کو نہ صرف چھوڑ گئے بلکہ بات اختلافات سے لڑائی اور ایک دوسرے کو بھمبھوڑنے اور کاٹ کھانے تک جاپہنچی۔

انسان سے انسان کے متاثر ہونے اور پھر اس سے مکر جانے کے واقعات بہت ہیں لیکن ملازمت میں انسان اپنے باس سے اس وقت تک بہت ہی متاثر رہتا ہے جب تک وہ اس کا باس رہے، پر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کچھ شخصیات سے بڑی سچائی سے متاثر ہو تے ہیں مگر عموماً ان کی وفات کے بعد، لیکن یہ بھی ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ انسان بعض جانوروں سے اور پرندوں سے بھی متا ثر ہو تا ہے اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے پوری دنیا کی ساڑھے سات ارب انسانی آبادی مشترکہ طور پر متاثر ہے، جیسے پرندوں میں شاہین، عقاب، باز اور شہباز اور درندوں میں شیر، ببر شیر۔ دنیا بھر میں دیکھیں تو قبل از تاریخ سے اب تک بڑی مملکتوں سلطنتوں کے قومی نشانات اور پرچموں پر ان کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں دنیا بھر میں لوگ اپنے بچوں، بچیوں کی نام ان پر رکھتے ہیں۔

پوری دنیا ان کی پھرتی، طا قت، غیرت، وژ ن اور نامعلوم کن کن چیروں سے متاثر ہے اور شائد قیامت تک ہو تی رہے گی حالانکہ شیر کے حوالے سے تو بہت سی راویتی باتوں کا پو ل نیشنل جیوگرافک جیسے ٹی وی پروگراموں نے کھول دیا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ جنگل میں شیروں کو جنگلی کتے ایسا بھگاتے ہیں کہ شیر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا، شیر جیسا غیرت مند درندہ ’’جورو کی کمائی کھاتا ہے،، یعنی شیرنی جو شیر کے مقابلے میں زیادہ پھرتیلی ہو تی ہے اکثر شکار کرتی ہے اور پھر شیر صاحب تشریف لاتے ہیں اور پہلے خود کھاتے ہیں اور پھر بیوی کھاتی ہے، لیکن شیر شیر ہے اور روائتی طور پر ہم اسے جنگل کا باد شاہ کہتے ہیں حالانکہ ٹی وی پروگرام نیشنل جیوگرافک میں دیکھا ہے کہ بہت سے جانور اسے بادشاہ تسلیم نہیں کرتے۔

پھر کچھ جانور ایسے ہیں جن کو دنیا کے مختلف حصوں اور ملکوں میں اپنی مذہبی روایتی اقدار کے مطابق معاشرتی، مذہبی، انداز سے مقام و مرتبے عطا کئے گئے ہیں۔ بعض پرندوں اور جانوروں کو دنیا کی مختلف قوموں اور ملکوں نے اپنا قومی جانور اور پرندہ قرار دیا ہے جیسے پاکستان کا قومی جانور چلتن مارخور بکرا ہے حالانکہ دنیا یہ جانتی ہے کہ بکرے فضا میں اڑنے سے قاصر ہیں مگر ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے نے اپنے طیاروں کی دم پر مارخور بکرے کی تصویر بنا دی اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے اگر یہ کا م ریلوے کی وزارت کرتی تو کوئی بات تھی یا ہم اپنے قومی پرندے چکور کی تصویر پی آئی اے کے طیاروں پر بناتے تو اس کا کوئی جواز تھا یہ کہ یہ بیوقوف پرندہ عوام کی طرح چاند سے محبت کرتا ہے اور اُسے اڑ کر پکڑنے کی کو شش بھی کرتا ہے، بہر حال چیف جسٹس آف پاکستان کی نظر پی آئی اے کے طیارے پر بنی مارخور بکرے کی تصویر پڑگئی۔

پی آئی اے کے سربراہ کو خوب لتھا ڑ ا،اور اسے ہٹا کر پاکستانی پرچم کی تصویر لگا نے کا حکم دیا، بہرحال جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں سور اورسانپ کو اچھا تسلیم نہیں کیا جاتا اب یہ اتفاق ہے کہ یہ دونوں جانور پاکستان کے صرف ایک شہر میں اکثر راتوں کو اور بعض مرتبہ دن کی روشنی بھی نظر آتے اور وہ ہمارا دارالحکومت اسلام آباد ہے، جہاں یہ سڑکوں پر بھی آجاتے ہیں اور بعض مرتبہ گھر میں بھی گھس جاتے ہیں، پھر جہاں ہم چکور کو قومی پرندے کا درجہ دیتے ہیں اور شاہین ،عقاب وغیرہ کو علامہ اقبال کے کہنے پر شرف ِ قبولیت بخشتے ہیں وہاں یورپ میں فلسفی کا درجہ پانے والے پرندے الّوکو نہایت منحوس قرار دیتے ہیں، یہ پرندہ ہمار ے ہاں کم پایا جاتا ہے کہ اس کے سر اور خون کو ہمارے ہاں کالا علم جاننے والے استعمال کرتے ہیں، یوں یہ کالا علم رکھنے والوں کے لیے منحوس اور سفید علم والوں کے لیے عقلمند پرندہ ہے۔

جب کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بہت سے موذی اور مفید جانور مذہبی طور پر محترم ومقدس تسلیم کئے جاتے ہیں ،گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے سانپ، ہاتھی، بندر وغیرہ مقدس اور دیوتا کا درجہ رکھتے ہیں، مگر ایک جانور کتا ایسا ہے جس کو پوری دنیا میں وفادار تسلیم کیا جاتا ہے لیکن دنیا کے کسی معاشرے یا ملک میں اس کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں، یہاں تک کہ بھارت میں سانپ کو دیوتا کادرجہ حاصل ہے اور امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی نے گدھے کو اپنی پارٹی کا نشان بنایا ہوا ہے، مگر کتا بیچارہ ہر جگہ کتا ہی ہے ۔’’انگریز ،امریکن ،آسٹریلوی ،کینیڈین جب بھی کسی پر بہت غصّے میں آتے ہیں تو جو گالی دیتے ہیں وہSon of bitch یعنی کتیا کا بیٹا یا بچہ کہتے ہیں۔

انہوں نے یہاں بھی صنفی مساوات کو مدنظر رکھا ہے جب کہ 1970 ء میں جب ہم کو ئٹہ شہر کے گورنمنٹ سنڈے من ہائی اسکول میں پڑھتے تھے ہمارے ایک نہایت جلاد مزاج ٹیچر تھے جن سے اس وقت اسکول کے بارہ سو بچے تھر تھر کانپتے تھے ان کے ہاتھ میں بیت کا ایک موٹا ڈنڈا ہوتا اور جب وہ اس سے کسی بچے کو مارتے تھے تو وقت کی پیمائش اور ڈنڈوں کی تعداد ان کے اسٹیمنے کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی ان کی پسندیدہ گالی ’’کتے کا بچہ‘‘ تھی، آواز بہت گرجدار تھی۔

وہ ہر روز صبح سویرے اسکول کے آغاز پر جب سب بچے آج کی اسمبلی اور اس وقت کی دعا کے لیے میدان میں جمع ہوتے تو ان کا ڈنڈا گھومتا اور وہ اس وقت محترم ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے اپنی گرجدار آواز میں دو تین مرتبہ پوری گالی دیتے بارہ سو کے بارہ سو بچے سہم جاتے، پھر باقی چٹھی تک وہ تین الفاظ کے جملے کو پورا نہیں کرتے تھے بس کسی بھی بچے کو دیکھ کر گرجدار آواز میں صرف پہلے دو الفاظ کہتے ’’ کتے کا،،۔۔ با قی خالی جگہ سننے والا بچہ ازخود پُر کر لیا کرتا تھا۔ اب بھی میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں کبھی کتیا کا بچہ کیوں نہیں کہا، شائد اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہمارا اسکو ل انگلش میڈیم نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ برطانیہ،امریکہ،آسٹریلیا،کینیڈا وغیرہ میں ایسے اسکول ٹیچر Son of bitch ہی کہتے ہوں۔ بہرحال کتے کی یہ توقیر ہمارے بچپن میں ہمارے سامنے آئی جس میں بلا کا تشدد بھی شامل تھا۔

مگر اس میں کسی کتے یا کتوں کا کو ئی قصور نہ تھا بلکہ کتوں اور آوارہ کتوں کے ساتھ ہونے وا لا ظلم بھی ہمارے سامنے تھا وہ اس طرح کہ اس زمانے میں کوئٹہ میونسپلٹی نے کو ئٹہ کو دنیا کا مثالی شہر بنا رکھا تھا، انگریر کے چلے جانے کے بعد بھی اس وقت تک اس صحت افزا اور پُر فضا شہر کو لٹل پیرس کہا جاتا تھا اس لیے یہاں آوارہ کتوں کے خلاف کاروائیاں جاری رہتی تھیں کیو نکہ اس وقت شہر کی کل آبادی ساٹھ ستر ہزار تھی اسی تناسب سے اس وقت یہاں آوارہ کتے تھے اس لیے ان کو ختم کرنے کے لیے مونسپل کمیٹی نے ایک گن مین اور اس کے ساتھ ایک سوئپر رکھا تھا جو کسی بھی گلی محلے کی شکا یت پر دوسرے دن پہنچ جاتا، آوارہ کتے کو تلاش کر لیتا اور پھر بندوق سے نشانہ لے کر اسے ہلاک کردیتا اور پھر اس کی دم کے شروع سے چار انچ کاٹ لیتا یہ اس لیے تھا کہ اسے کتے کے مارنے کا اور کارتوس کے استعمال کرنے کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔

کچھ عرصے بعد غالباً 1980 سے جب کوئٹہ شہر کی آبادی ایک لاکھ سے بڑھ گئی تو کچھ عرصے آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے گوشت میں زہر ملا کر دیا جانے لگا۔ شائد اب بھی میٹروپولیٹین کارپوریشن کی فائیلوں میں یہی ہو مگر اب آوارہ کتے ہی شہر میں بے فکری سے گھوم پھر سکتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ گوشت کتے کیوں کھائیں ؟ اور زہر، شدید قسم کے غریبوں کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ساٹھ کی دہائی میں حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا ،

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے؟

یہ لو گ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے؟

ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا

نادان ہیں جو کہتے ہیں،گھر کیوں نہیں جاتے؟

شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا

ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے؟

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی لب پر

بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے؟

بات آوارہ کتوں کو زہر ملا گوشت کھلانے کی اور کارتوس سے ہلاک کرنے کے بعد اس کی دم کاٹنے کی ہو رہی تھی،کتے کی دم کتے سے زیادہ بد نام ہے حا لانکہ تقریباً ہر چوپائے جانور کی دم ہوتی ہے اور اونٹ اور ہاتھی کی دم تو جسم کے تناسب کے اعتبارسے نہایت ہی نامعقول دکھائی دیتی ہے کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے ساتھ ستر پوشی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ بڑے اور طا قتوروں کو کون پوچھ سکتا ہے لیکن کتے کی دم کے بارے میں کئی محاورے ہیں ۔

جیسے کہ’’ دم دباکر بھاگنا ‘‘ اسی طرح ’’ کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی‘‘۔ واقعی کتے کی نسل رنگ ملک کوئی ہو کتے کی دم ٹیڑھی ہوتی ہے ہمارے ہاں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور افغانستان میں چرواہے بڑے خطرناک کتے رکھتے ہیں اور ان خطرناک کتوں کے ساتھ یہ چرواہے پہاڑوں وادیوں میں چراگاہوں میں اپنے ریوڑ چراتے ہیں، یہ چرواہے ان کتوں کے کان اور دم ان کے بچپن ہی میں کاٹ دیتے ہیں کہ جب کبھی بھیڑے سے ان کا سامنا ہو تو وہ دم یا کان سے ان کو قابو نہ کر سکے، ہمارے ہاں بعض حاکم مزاج حضرات اپنے پالتو کتوں کی دم اس لیے کٹواتے ہیںکہ یہ کسی اور کے سامنے دم نہ ہلائیں، لیکن اس کے باوجود بھی کتے کو قریب نہیں آنے دیتے کتا تاریخی طور پر انسان کا بہترین ساتھی رہا ہے یہ آج بھی شکار گاہوں میں انسا نو ں کے لیے شکار کرتا ہے۔

انٹارکٹیکا جیسے سرد ترین اور برفانی علاقے میں جہاں کوئی اور جانور انسان کا ساتھ نہیں دیتا، وہاں یہی کتا،گھوڑوں خچروں کی طرح انسانوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ بارودی سرنگ ایک خطرناک جنگی ہتھیار ہے اور بدقسمتی سے ان بارودی سرنگوں سے جنگوں میں شریک فوجیوں سے زیادہ بے گنا ہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوتے ہیںاس لیے امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک نے ان پر پابندیاں عائد کی ہیں مگر جہاں جہاں دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ ہے۔

وہاں بارودی سرنگوں کو بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے اور بعد میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ہزاروں لاکھوں بارودی سرنگیں کہاں کہاں دفن ہیں، ان کی تلاش بھی کتے کرتے ہیں۔ جب سے دنیا میں دہشت گردی شروع ہوئی ہے اور ہیروئن اور چرس سمیت دیگر منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی ہے تو یہ کتے ہی ہیں جو، ان کو پکڑتے ہیں کیونکہ ان کے سونگھنے کی قوت یعنی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے، اسی کی بنیاد پر یہ کتے آپس میں بھی ایک دوسرے کے جسم کے مختلف مقامات کو سونگھنے کے بعد نسل یا خاندانی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلوم کرلیتے ہیں۔

ماہرین کتیات کہتے ہیں کہ آوارہ کتے اپنے محلوں اور گلیوں میں سرحدوں کاتعین پیشاب کرکے کرتے ہیں اور اسی کو سونگھ کر اس سرحد کا پتہ کر لیتے ہیں،آج کل ہمارے ہاں سکیورٹی کے لوگ بھی کتے لے کر ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشنوں پر اِن کتوں کی مدد سے تلاشی لیتے ہیں۔ ایک بارغالبا 2007 کی بات ہے کہ ہم کوئی بیس صحافی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی گئے یہ دہشت گردی کے حوالے سے نہایت خطرناک دور تھا ہمارے ایک ساتھی نے بہت مہنگی نہ جانے کس جانور کی کھال کی ایک عجیب وغریب چپل پہن رکھی تھی۔ جب ہم ائیرپورٹ پر اترے تو سکیورٹی اہلکار کے ساتھ جو’’ جرمن شیپرڈ ‘‘ کتا تھا اس نے نجانے کیا سونگھا کہ ان کی چپلوں کو بھمبھوڑنے لگا، اُن سے چیلیں اتر وائی گئیں۔

اسکرین مشینوں سے کئی مرتبہ ان چپلوں کو گزارا گیا اور پھر بھی کتے کے مطمئین نہ ہونے پر اس صحافی کو ایک نئی چپل منگواکردی گئی کیونکہ ویسے بھی کتے نے چپل کا خاصا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا اور حقیقت میں وہ پہننے کے قابل نہیں رہی تھیں ۔کتا انسانی خدمت کے اعتبار سے شائد دنیا کا سب سے اہم جانور ہے آج کے دور خصوصا ہمارے ہاں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی نا بینا شخص کو سڑک پار کرادے تو اہل مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی اب یہ کتے بصیرت سے محروم افراد کے لیے تو اپنا کردار پیش کرتے ہیں، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ بصارت سے محروم افراد کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان نابینا افراد کو سڑک پار کرواتے ہیں۔ ان کے ساتھ بازاروں میںشاپنگ کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

کتے بہترین محافظ اور چوکیدار تسلیم کئے جاتے ہیںگھروں میں چوروں ڈاکوو ں کو داخل نہیں ہونے دیتے، آپ کا ملازم پولیس یا ڈاکوؤں سے مل سکتا ہے کہ اسے کرنسی نوٹوں کا لالچ ہوتا ہے مگر کتا ایسا وفادار ہے کہ غیر اگر ٹکڑا بھی ڈالے تو نہیں کھاتااور صرف سونگھ کر ہلال وحرام کا فرق معلوم کر لیتا ہے۔

مگر عجیب سی بات ہے کہ کتا بھونکے تو چوروں کے علاوہ بھی اکثریت کو برا ، برا لگتا ہے اور اگر کتا روئے تو منحوس قرار پاتا ہے حالانکہ کتا بوقت ضرورت ہی بھونکتا ہے اور انتہائیمجبوری میں روتا ہے مگر اس کے آنسو کسی نے نہیں دیکھے جہاں تک بھونکنے کا تعلق ہے تووہ یا تو اپنی چو کیداری کے دوران جب اسے کو ئی آہٹ محسوس ہو کوئی شک ہو کہ کوئی چور تونہیں تو وہ بھو نکتا ہے پھر زیادہ اس وقت بھو نکتا ہے جب کو ئی اور کتا اس کی حدود میں داخل ہو۔ بلی سے اس کی دشمنی ازلی ہے مگر ماہرینِ کتیات کا کہنا ہے کہ جب سے دنیا میں ماڈلز نے کیٹ واک شروع کی ہے کتے کی بلی سے دشمنی میں شدت آچکی ہے۔

حالانکہ بہت سی اعلیٰ ظرف بلیوں نے کتوں کو سمجھانے کی کو شش کی ہے دو ٹانگوں والی خواتین کس طرح چار ٹانگوں والی بلی کی طرح چل سکتی ہیں مگر کتے جو انسان سے وفاداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ان کا اعلیٰ ظرف بلیوں کو یہ جواب ہے چونکہ محاورے میں ،،چال چلن،، اکٹھا استعمال ہو تا ہے اس لیے انہیں کیٹ واک سے نفرت ہے اور شائد یہ بات ماڈرن خواتین کو بھی معلوم ہے اسی لیے وہ صرف ریم پر ہی کیٹ واک کرتی ہیں، ورنہ ان پر کتے بہت بھونکتے اور وہ میڈیا کے لیے یہ محاورہ استعمال نہیں کر تیں کہ کتے بھونکتے ہیں قافلہ جاتا ہے۔کتے اوربھکاریوں کی بھی ازلی دشمنی ہے مگر یہ دشمنی زیادہ تر آوارہ کتوں اور بھکا ریوں کے درمیان رہتی ہے، فارسی کے مشہور شاعر عرفی کا شعر ہے ۔

عرفی تو میدند یش زغوغائے رقیباں

آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گد ا را

بہت سے شعرا کے ہزاروں اشعار کی طرح عرفی کا یہ شعر بھی نہ صرف مقامی اور قومی سطحوں پر غلط ہے بلکہ اب تو انٹر نیشنل سطح پر زیادہ غلط ثابت ہوا ہے اور آپ اس کی تائید کریں گے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے جب سے بھارت کے تعلقات امریکہ سے گہرے اور شیریں ہوئے ہیں جب کبھی غلطی سے امریکہ نے اگر پاکستان کی تھوڑی بہت مالی امداد کا اعلان کیا تو بھارت نے اتنا شور شرابا کیا کہ، واقعی ’رزق ِگدا را کم تو کیا بند ہی ہوگیا۔

یوں واقعی اکثر کتوں کا بھوکنا برا لگتا ہے مگر جہاں تک تعلق کتوں کے رونے کو منحو س قرار دینے کا ہے تو اب چین کے ماہر ین نے یہ معلو م کیا ہے کہ جب بہت سے کتے ایک ہی وقت میں ایک ساتھ رونے لگیں تو مشاہدے اور تجربے کے مطابق کچھ ہی دیر بعد اس مقام یا جگہ پر زلزلہ آتا ہے، اور چونکہ چین میں نہ صرف زیادہ زلزے آتے ہیں بلکہ ان کے ہاں زلزوں سے سالانہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

اس لیے ان کے ماہر ین کو شش کر رہے ہیں کہ کتوں کی مدد سے زلزلوں کی پیش گوئی کا کو ئی ایسا طر یقہ ایجاد کیا جائے کہ زلزلے کے آنے سے پہلے لوگوں کو اس کی اطلاع کر دی جائے اور یوں لوگوں کی اکثریت ہلاک ہو نے سے بچ جائے گی اس طرح مستقبل قریب میں یہ کتے ہی ہونگے جو، اب لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اجتماعی موت سے بچائیں گے لیکن یہ چین ہی ہے جہاں تحقیقی بنیادوںپر کتو ں کی وفاداری اور ان کی اہمیت ثابت ہو جانے کے باوجود ہمارے چینی بھائی ان کو بھی کھا جاتے ہیں۔

لیکن یہاں بھی اس کی بنیاد تحقیق ہی بتائی جا تی ہے چینیوں کا کہنا ہے کہ کتے کے گوشت کا سوپ دائمی کھانسی کے لیے بہت مفید ہے جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں تو کتا کھانسی زیادہ مشہور ہے۔ کتے میں ایک اور عجیب چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی محنت کو کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا وہ یہ کہ اِس کے جسم کی بجائے اِس کی زبان پر پسینہ آتا ہے، اور اس کے منہ ہی سے وہ لُوآب ’’ریبیز‘‘ نکلتا ہے جس کے کا ٹنے پر انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے جب کہ اگر کتا پاگل ہو جائے تو پھر اس کے کا ٹے کا اگر فوراً علاج نہ ہو تو انسان بہت بھیانک انداز میں مرتا ہے اور اسی لیے کتے کے کاٹے پر انجکشن لگائے جاتے ہیں۔

پہلے یہ انجکشن چالیس کی تعداد میں پیٹ میں لگائے جاتے تھے آج کل سنا ہے کہ جدید تحقیق کے بعد اگرچہ ان کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے مگر لگائے اب بھی پیٹ میں ہی جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کتا کیوں پاگل ہو تا ہے؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ کتا نہایت ذہین، یا عقلمند جانور ہے مگر یہ لومڑی کی طرح عیار اورچالاک نہیں، یہ عقلمند ہونے کے باوجود انسان سے وفا کرتا ہے اور پھر متواتر سوچتا رہا ہے، علامہ اقبال نے کہا تھاکہ

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں

مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

یوں میرا خیال ہے اس وفادار جانور کی یہ آرزو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ پوری کر دیتا ہے، انسانی وفا میں’’ قیس‘‘ مجنوں جس کے معنی دیوانے کے ہیں ہمارے مشرقی ادب میں وفا کی عظیم علامت ہے۔ غالب نے فرہاد کو شیر یں کے مرنے پر، جس تیشے سے دودھ کی نہر نکالی تھی اُسی تیشے سے خودکشی کرنے کے واقعہ پر کہا کہ بغیر تیشے وہ نہیں مر سکا حالانکہ شیریں کی موت کی خبر ہی اس کی موت کے لیے کافی ہونی چاہئیے تھی، اس کے مقابلے میں واقعی قیس نے لیلیٰ کی موت کی خبر سننے کے بعد نہ تو دوسرا سانس لیا اور نہ ہی اس کا دل دھڑکا اسی لیے غالب نے مجنوں کو یوں خراج عقدیت پیش کیا ہے۔

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

لیکن بڑی عجیب بات ہے کتے کے بغیر لیلیٰ مجنوں کے عشق کی داستان بھی مکمل نہیں ہوتی ہے، اس داستان میں جب قیس کے والد جو اپنے قبیلے کے سردار اور معزز ین ِ عرب میں سے تھے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ کے رشتے کے لیے قیس کو لے کر خود لیلیٰ کے باپ کے پاس جائیں گے اور یہ اصول روایت کے مطابق ہے جب کوئی عرب کسی عرب کے گھر پر کچھ مانگنے آجائے تو پھر اس سے انکار تقریباً نا ممکن ہو جا تا ہے۔

یوں جب مجنوں کا باپ اپنے بیٹے قیس کو نئے کپڑے پہنا کر لیلیٰ کے گھر لے جاتا ہے تو اب لیلیٰ کے والدین کو اپنی جانب سے انکار کا بہانہ چا ہیتے تھے۔ یوں اِن کوکو ئی عقلمند یہ منصوبہ بنا کر دیتا ہے،کہ مردوں کی محفل میں جب قیس اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے تو سازش کے مطابق لیلیٰ کے کتے کو ملازم وہاں لا کر چھوڑ دیتا ہے اور قیس، لیلیٰ کے کتے کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ جا تا ہے جسے دیکھ کر سب برا مانتے ہیں کہ کتے جیسے پلیت جانور کو اس طرح پیار کرنا بھری محفل میں کتے کو بوسہ دینا یہ تو پاگلوں کا کا م ہے اور یوں قیس کو پاگل قرار دے کر رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔

لیکن یہاںشائد ہماری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال آیا ہو کہ جب لیلیٰ کو قیس جیسا وفادار عاشق مل گیا تھا تو اُسے کتا پالنے کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کتا پا لتو تھا مگر ہمارا موضوع ِ سخن آوارہ کتے ہیں، جن کو پہلے شہروں میں بلدیا تی ادارے ہلاک کردیا کرتے تھے مگر اب بہت کم ہی ایسا ہو تا ہے، دوسرے جانوروں کی طرح اگر چہ کتوں میں بھی باقاعد ہ شادی کا رواج نہیں مگر یہ جدید اور خصوصاً مغربی معاشرتی تہذیبی ارتقا کو پسند کرتے ہوئے جوڑا بنا کر رہنا بھی پسند نہیں کرتے، مگر برائی یہ ہے کہ دوسری جانب یہ اہل مغرب کی خاندانی منصوبہ بندی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے زوجیت سے بے نیاز مگر کثرت ِ اولاد میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔

ہمیں معلوم نہیں کہ پاکستان میں کُت شماری یا کتا شماری ہو تی ہے یا نہیں لیکن جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو ہماری پہلی مردم شماری 1951 ء میں ہوئی تھی اُس وقت ہماری کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی اور اس وقت برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی۔ 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق ہماری مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زیادہ تھی اور برطانیہ کی کل آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے،ان کے ہاں ساری آبادی خطِ خوشحالی پر اچھلتی کودتی جمہور اور جمہوریت پر ناز کرتی نظر آتی ہے۔

ہماری آبادی میں 35 فیصد سے زیادہ خطِ افلاس سے نیچے ہیں اس کے بعد متوسط طبقے کے لیے تین درجات ہیں، پہلے دو درجات میں خوشحالی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی، تناسب کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہے باقی پانچ فیصد کے بار ے میں یہی کہا جا سکتا ہے ’’جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘‘ لیکن یہ بہت کچھ کرتے ہیں یہی حکومت کرتے ہیں صنعت و تجارت، یہ مراعات یا فتہ اور پالے ہو ئے ہیں، جو آبادی 95 فیصد ہے اور اس میں جو انتہا ئی غریب ہیں وہ بھی کمال کے لو گ ہیں، ان کی زندگیوں کے اتنے پہلو اور اتنے شیڈز ہیں کہ ان کا مکمل احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں، بس اتنا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میں شرح خواندگی 58 فیصد ہے، یوں ان پڑھ افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔

دس کروڑ انسان ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، ان میں لاکھوں ایسے بھی ہیں جو کھلے آسمان تلے فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں، ان کی صحیح تعداد اس لیے معلوم نہیں کہ مردم شماری کرنے والوں نے ان کے لیے اپنے فارموں میں کو ئی خانہ بھی نہیں رکھا کیو نکہ فارسی اور اردو میں خانہ بھی گھر کو ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان میں ڈھائی کروڑ وہ بچے ہیں جو اسکولوں سے باہر ہیں اور انہی میں سے تیس لاکھ کے قریب وہ معصوم بچے ہیں جو صبح سے شام کوڑا دانوں میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ وہ نوجوان ہیں جو منشیات کے عادی ہیں اور ان میں سے بھی ہیروئن کے عادی لاکھوں نوجوان ہیں جو کوڑوں پر کچرا دانوں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں انہی کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

تو جنہیں رستم و سہراب کہا کرتا تھا

وہ جواں میں نے یہاں خاک بسردیکھے ہیں

میں نے کو ڑوں پہ پڑے دیکھے ہیں رخشندہ نجوم

میں نے لتھڑے ہوئے کیچڑ میں قمر دیکھے ہیں

ان کچرا چننے والے بچوں کے ساتھ ان منشیات کے عادی اور کوڑا دانوں پر پڑے نوجوانوں کے ساتھ یہ آوارہ کتے ملتے اٹھتے بیٹھے نظر آتے ہیں،کبھی کبھی جب ریلوے اسٹیشنوں،لاری اڈوں پر جا تا ہوں تو وہاں بھی یہ آوارہ کتے نظر آتے ہیں، یہ کتے صرف انسانوں سے ہی وفا نہیں نبھاتے یہ زمین کی محبت میں بھی گرفتار رہتے ہیں۔

آوار ہ کہلا نے کے باوجود یہ جہاں رہتے اس زمین کو چھوڑ کر نہیں جاتے بڑے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھو تو کئی ایسے آواہ کتے بھی نظر آتے ہیں جو ریلوے لائن پر آکر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھے ہوتے ہیں مگر پھر بھی ریلو ے اسٹیشن نہیں چھوڑتے حالانکہ ان کے سامنے روزانہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار زمین سب کچھ چند پیسوں کی خاطر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ، ان آوارہ کتوں کو، کوئی دھتکارتا ہے تو کوئی مارتا اور یہاں تک کہ کچھ لوگ ان آوارہ کتوں کو مار مار کر ہلا ک کردتے ہیں، فیض احمد فیض نے ان کے لیے کہا تھا:

کُتے

یہ گلیوں کے بے کار آوارہ کتے

جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوق گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار اِن کی کمائی

نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے

غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے

جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو

ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھو کریں کھانے والے

یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

یہ مظلوم مخلوق اگر سر اٹھائے

تو انسان سب سر کشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں

یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دلائے

کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلائے

The post آوارہ کتے اور ذوقِ گدائی appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاں گشت؛ وہ کہنے لگیں ’’تُو مجھے سہیلی کہا کر‘‘

$
0
0

قسط نمبر 8

استاد جی نے کہا۔

نہیں استاد جی ہم سب سدا کے مہمان ہی ہیں، بس مہمان، آئے اور چلے گئے، خود کو مہمان ہی سمجھنا چاہیے ہمیں، لیکن ہم خود کو مہمان نہیں، مقیم سمجھنے لگے ہیں اور ہم نادان یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب یہیں رہنا ہے، موج کرنا ہے، بُھول گئے ہیں ہم کہ بس جانا ہے یہاں سے۔

کیا مطلب استاد جی بولے۔

استاد جی، تین دن کا نہیں بس دو دن کا میلہ ہے یہ زندگی۔ مہمان، مالک بن بیٹھا ہے، اور مالک کوئی بن نہیں سکتا چاہے کچھ کرلے۔

سن لیا تُو نے! اس کی باتیں مجھے تو سمجھ نہیں آتیں، اس کی عمر دیکھ اور اس کی باتیں سُن۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یار سلطان! تُو اسے کس رشتے سے پکارے گا۔ عجیب سا سوال کردیا تھا انہوں نے، پھر خود ہی کہنے لگے۔ چل یار! یہ تیری بھابھی ہے۔ ہاں بھئی! تجھے منظور ہے۔ وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوئے۔ اس کی ’’نہیں‘‘ سے ہم دونوں چونکے۔ تو پھر کیا کہے یہ تجھے؟ ’’سہیلی‘‘ کہا کر مجھے تُو۔ وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔

چل یار سلطان! اپنی تو کوئی سہیلی نہیں ہے، تیری تو بن گئی۔

لیکن تُو اسے اپنی سہیلی کیوں بنانا چاہتی ہے؟ اس کے بال تو دیکھ میری سہیلی کے، مجھ سے بس آدھے ہی ہوں گے۔ اس بات پر استاد جی ہنس ہنس کے دہرے ہوگئے۔ استاد جی کی بیوی کا نام ریحانہ تھا، میٹرک پاس تھی، بہت ہنس مُکھ اور زندہ دل۔ بچپن میں ہمارے محلے میں رہنے والی بلّو بھی مجھے یہی کہتی تھی۔ بلّوری آنکھوں والی، پَری جیسی بلّو جنہیں میں بلّو باجی کہا کرتا تھا۔ مُحرّم میں وہ مجھے اپنے ساتھ امام بارگاہ لے کر جایا کرتیں۔

اس وقت امام بارگاہوں میں سب ہی جناب حُسینؓ ذی وقار کا ذکر گرامی سنتے تھے۔ اس میں شیعہ سنی کی کوئی تخصیص نہیں تھی، سب کے سب غم حسین میں اشک بار۔ اس لیے کہ جناب حسینؓ تو سب کے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی کچھ بے سروپا باتیں مشہور تھیں۔ ایک دن ہمارے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون جن کا نام اکبری تھا، اور وہ پورے محلے میں اکبری باجی کے نام سے مشہور تھیں، نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بہت رازداری سے کہنے لگیں، دیکھو بیٹا! مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے، مگر پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤ گے۔

میں نے کہا ہاں صحیح ہے، آپ کہیے کیا بات ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ دیکھو تم بلّو کے بہت چہیتے ہو، وہ بھی تمہارا بہت خیال رکھتی ہے، لیکن تم ایک بات نہیں جانتے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو وہ شیعہ ہیں اور تم ان کے ساتھ امام بارگاہ میں جاتے ہو بل کہ مُحرّم میں تو اکثر تم ان کے ساتھ ہی رہتے ہو، تم یہ بات نہیں جانتے کہ یہ لوگ مُحرّم میں ایک تقریب کرتے ہیں، اس میں ایک معصوم بچے کو بہلا پھسلا کر لے جاتے ہیں، پھر چاولوں کے ڈھیر کے اوپر اس بچے کو لٹکا دیتے ہیں اور اسے تیروں سے چھلنی کردیتے ہیںْ

اس بچے کا خون چاولوں پر گرتا رہتا ہے اور پھر یہ لوگ وہ چاول پکا کے کھا جاتے ہیں۔ میں نے حیرت سے ان کی بات سنی، لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا، اس لیے کہ میں یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پھر میں نے کہا اکبری باجی ایسا ہو ہی نہیں سکتا، اور۔۔۔۔۔۔ انہوں نے میری بات درمیان سے ہی کاٹ دی اور کہا ایسا ہی ہے لیکن تم ابھی بچے ہو، اس لیے نہیں سمجھ رہے۔

ٹھیک ہے جب ایسا ہوگا تب دیکھا جائے گا، کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا۔ میں پریشان نہیں، بے چین ضرور تھا۔ آخر میں بلّو باجی کے گھر جا پہنچا جو اس وقت بھنڈی کاٹ رہی تھیں۔ کہاں سے آرہے ہو تم آوارہ گردی کرکے۔ انہوں نے پوچھا۔ میں تو جہاں سے بھی آرہا ہوں لیکن آج مجھے آپ کی حقیقت معلوم ہوگئی ہے، لیکن یاد رکھیے کہ میں کون ہوں، ہمارے خاندان میں لوگ صدیوں تک اپنے خون کو نہیں بھولتے اور بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں سوتے۔ انہوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور میرے قریب آکر پوچھا، کیا ہوا ہے، کیا حقیقت، کیسی باتیں کر رہے ہو تم۔ میں نے انہیں اکبری باجی کی کہی ہوئی بات بتا دی۔ مجھے یاد ہے مجھے سینے سے لگا کر وہ بہت روئیں اور پھر مجھے لے کر اکبری باجی کے پاس پہنچیں۔

اکبری باجی ہمیں دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں لیکن بلّو باجی نے انہیں کہا پریشان نہ ہوں اکبری باجی ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا آپ نے سلطان کو بتایا ہے، آپ جانتی ہیں کہ اگر اسے چھوٹی سی پھانس بھی چُبھ جائے تو میرا کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے، لیکن چلیں کوئی بات نہیں ، بس اتنا کہنے آئی ہوں کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات بس اب یہیں تک رہے گی۔

اکبری باجی نے بلّو باجی سے معذرت کی اور ہم گھر چلے آئے۔ پھر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ اکبری باجی بلّو باجی کے ساتھ امام بارگاہ جاتی تھیں اور یہ بھی انہی کی زبانی سنا کہ سلطان مجھے بھی بچپن میں کسی نے یہ بات بتائی تھی، کتنی غلط بات تھی، شکر ہے کہ میں نے تجھ سے بات کی اور تو نے بلو سے، اس سے مجھے سچائی کا علم تو ہوگیا ناں۔ آج بھی کچھ بے سروپا اور لایعنی باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، لیکن اگر ہم تحقیق کرلیں تو غلط فہمیوں کے بادل چھٹ سکتے اور ہم امت واحد بن سکتے ہیں۔

بلّو کے بعد مجھے گڈّو نے بھی یہی کہنا شروع کردیا تھا اور اب ریحانہ میری سہیلی بن گئی تھی لیکن میں سہیلی کا مفہوم نہیں جانتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے چائے پی۔ دو ہی کمرے تھے گھر میں، جس میں سے ایک مجھے دے دیا گیا۔ لوہے کے پائپ کی چارپائی تھی۔ بستر پر سفید چادر جس کے کناروں پر ہاتھ سے سرخ دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی، بچھی ہوئی تھی۔ چل یار یہ کمرہ اب تیرا ہے جو چاہے کر، جیسا چاہے رہنا۔ یہ کمرہ اس کا نہیں ہے، یہ پورا گھر اس کا ہے۔ ریحانہ نے استاد جی کی بات کاٹ دی۔ ہاں یار سلطان یہ سارا گھر تیرا ہے۔ میں تو سو رہا ہوں تو اپنی سہیلی سے گپ شپ کرنا چاہے تو کر، کہہ کر استاد جی اپنے کمرے میں چلے گئے۔

ہاں میری سہیلی سلطان! اب بتا کیا رام کہانی ہے تیری، اچھا ذرا ٹھہر، میں تیرے استاد جی کو گرم دودھ کا گلاس دے دوں، ویسے ہی سو جائے گا اور بچیوں کو بھی یہاں لے آؤں۔ میری کوئی رام کہانی ہے ہی نہیں، اور میں بھی سو رہا ہوں، کہہ کر بستر پر دراز ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میری سہیلی میرے سر پر کھڑی تھی۔ یہ لے دودھ پی لے، سارا دن کام کرتا ہے۔ مجھے نہیں پینا۔ میری اس نے ایک نہیں سنی۔ تیرا تو اچّھا بھی پیے گا، چل اٹھ، کہہ کر اس نے میری چادر کھینچ کر پَرے پھینک دی۔ کان کھول کے سُن لے، جیسا میں کہوں گی ویسا ہی کرے گا تُو۔ اس گھر میں تو تیرے استاد کی نہیں چلنے دی میں نے، تیری کیا چلنے دوں گی۔

مجھے اس گھر میں آئے ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب سدا سے اکٹھے رہ رہے ہوں، ذرا سی بھی اجنبیت نہیں تھی۔ کون سا بندھن ہوتا ہے یہ، جو دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔ زندگی کتنی خوب صورت ہوگئی تھی۔ صبح اٹھ کر نماز ادا کرتا پھر ناشتا اور گپ شپ۔ صبح جب میں اپنے استاد جی کے ساتھ دکان کے لیے نکلتا تو ایک ٹفن ہمارے ساتھ ہوتا اور وہ دروازے سے ہمیں اس وقت تک دیکھتی رہتی جب تک ہم اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجاتے۔

زندگی میں بہار کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ ہم لُڈّو کھیلتے، گپ شپ کرتے، رات کو سوتے وقت وہ میرے بالوں میں تیل لگاکر سر کی مالش کرتی۔ جب استاد جی اس سے پوچھتے یہ کیا کر رہی ہے، تو وہ ہنس کر کہتی میرا اور میری سہیلی کا مقابلہ ہے دیکھیں کس کے بال زیادہ لمبے ہوتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ استاد جی ہمیں فلم دکھانے بھی لے کر جاتے، کبھی کلفٹن میں غازی سرکار کے مزار پر، کبھی کیماڑی میں حاجی غائب شاہ کے مزار پر اور پھر وہاں سے منوڑا۔ یہ تھا گھر اور یہ تھی زندگی، واقعی جینا کہیں جسے۔ وقت پَر لگا کر اڑتا رہتا ہے اور ہمیں بھی ساتھ اُڑائے رکھتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بس اب ہم ہنستے کھیلتے اڑتے رہیں گے۔ لیکن پھر پَر کٹ جاتے ہیں، بازو شل ہوجاتے ہیں اور ہم زمین پر دھڑام سے آگرتے ہیں، کٹی ہوئی پتنگ کی طرح۔ درد اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنی اونچائی سے ہم گرتے ہیں۔

استاد جی اور میری سہیلی مجھ پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میں گانا گاتا تو میری سہیلی کھانے کی پلیٹ کو ساز بناتی۔ استاد جی کو رفیع جی، کشور جی، شمشاد بیگم کے گیت بہت پسند تھے اور مجھے بھی۔ پھر ایک ایسا حادثہ ہوگیا جس نے میری اور استاد جی کی دنیا اجاڑ دی۔ میری سہیلی امید سے تھی، ہم روز اس کے لیے پھل لے کر جاتے، پھر نہ جانے کیا ہوا اس شوخ و چنچل معصوم کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔

بالکل گُم صُم ہوگئی تھی وہ۔ پھر مجھے معلوم ہوگیا کہ اسے کیا ہوگیا تھا، زندگی کے دن جب پورے ہوجائیں تو پھر یہی ہوتا ہے یا تو بندہ بالکل خاموش ہوجاتا ہے، بہت بولنے لگتا ہے یا پھر ہر بات پر ہنسنے لگتا ہے۔ تیسری بچی کی پیدائش پر وہ خود بھی اپنی بچی کے ساتھ وہاں چلی گئی جہاں سب کو جانا ہے۔ سب ہی کو جانا ہے اُس اصل، کھری اور سچی دنیائے پائے دار میں۔ مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے جب ہم نے اسے دھرتی ماں کے سپرد کیا تھا اور استاد جی دھاڑیں مار کر روتے ہوئے کہہ رہے تھے، سلطان! تیری بات مجھے اب سمجھ میں آگئی۔ ہم سب مہمان ہیں یار! تُو سچ کہتا تھا، ہم مہمان ہیں اور مالک بن بیٹھے ہیں، تُو صحیح کہتا تھا یار۔

زندگی ایک دم سے بدل گئی تھی۔ بہار روٹھ گئی تھی اور خزاں نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ بہ ظاہر تو اک فرد ہی کم ہوگیا تھا لیکن گھر کا مرکز تو وہی تھا ہم تو بس اس کے گرد گھوم رہے تھے اور جب مرکز نہ رہے تو دائرہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ بنا روح کے جسم جیسا، جو جلد ہی سڑنے گلنے لگتا اور پھر اس کی سڑاند سے جینا دُوبھر ہوجاتا ہے۔ دکان کئی روز سے بند تھی اور ہم دونوں دو چھوٹی بچیوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے۔

ریحانہ کی ماں اور بہنیں بھی ہمارے ساتھ تھیں لیکن انہیں اپنا ہوش نہیں تھا۔ زندگی کی حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔ اس کا زہر بھرا جام پینا ہی پڑتا ہے۔ مرنے والے کے ساتھ کچھ لوگ مر بھی جاتے ہیں لیکن سب نہیں۔ کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے کہ کچھ لوگ زندگی ہی میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی آپ کے سنگ رہتے ہیں، آپ کو گُدگُداتے ہیں، دکھوں میں آپ اپنا سر ان کے شانے پر رکھ کر کھل کر رو سکتے ہیں، خیر جانے دیں، وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔

میرے لیے قبرستان میں ایک نئی سہیلی کا اضافہ ہوگیا تھا۔ صبح و شام میں وہاں جاتا اور گھنٹوں اس سے باتیں کرتا۔ تم نے مجھے کہا تھا تیرا ساتھ نہیں چھوڑوں گی، کیوں چھوڑ دیا میرا ساتھ، کیوں خراب کیں میری عادتیں، کون لگائے گا میرے بالوں میں تیل، کون کرے گا میرے لیے استاد جی سے لڑائی، کون کھیلے گا میرے ساتھ لُڈّو اور پھر میں جب گانا گاؤں گا تو پیتل کی پلیٹ کون بجائے گا، کیسی سہیلی تھی تُو میری، اتنی جلدی میرا ساتھ چھوڑ دیا تُونے۔ اور وہ خاموش رہتی، مسکراتی رہتی۔ لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں، ایک بُرائی ہے تو بس یہ کہ مر جاتے ہیں۔ کیا ہے یہ، کیوں ہے، کیسا المیہ ہے، کیا نام دیں اسے۔ وہ تو مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھی۔ گھر پر رہنا عذاب بن گیا تھا۔

میں بے خیالی میں اسے آواز دے بیٹھتا۔ سہیلی چل لُڈّو کھیلیں اور پھر استاد جی کے آنسو مجھے دیکھنے پڑتے، چہلم کے بعد میں نے استاد جی سے رخصت کی اجازت چاہی۔ گھر میں استاد جی کی سالی اور ساس نے ڈیرا ڈال لیا تھا، کبھی مجھے ایسا لگتا میں ان پر بوجھ بن گیا ہوں۔ میری سہیلی کے دَم سے تھا سب کچھ، اب وہ نہیں تھی تو میں نے کیا کرنا تھا یہاں۔ آخر استاد جی نے میری مان لی ایک شرط پر کہ وہ یہیں محلے میں کوئی کمرہ مجھے لے دیں گے، پھر اگلے ہی دن میں کمرے میں تھا۔ ایک کمرا جس کی چھت ٹن کی تھی، آگے چھوٹا سا برآمدہ، تین سو روپے کرائے میں بُرا نہیں تھا، زندگی کا نیا دور شروع ہوگیا تھا، استاد جی کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ کام ٹھپ ہوتا چلا گیا۔

پھر ایک دن انہوں نے دکان اور مکان بیچ دیا اور خود فیصل آباد چلے گئے، انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کیا، لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنی سالی سے شادی کرلی تھی۔ لیکن میں خوش تھا کہ میری سہیلی میرے پاس تھی، جس نے اتنا پیار دیا، پورا اعتماد کیا۔ ادھورا اعتماد اور ادھوری سچائی زندگی کا رس نچوڑ لیتے اور اسے زہریلا بنادیتے ہیں۔ دکان بند ہوگئی تو مجھے نیا کام تلاش کرنا پڑا۔ ایک ٹیکسٹائل مل میں مجھے کپڑا تہہ کرنے کی مزدوری مل گئی تھی۔ میں صبح سویرے کام پر چلا جاتا اور پانچ بجے چُھٹی ہوجاتی۔

تن خواہ بھی اچھی تھی۔ کھانے پینے کا مجھے شوق نہیں تھا۔ لنڈے بازار کا راستہ مجھے استاد جی نے سمجھا دیا تھا، پھر اس وقت سے جینز اور ٹی شرٹ میرا پہناوا بن گیا۔ اس لیے نہیں کہ یہ فیشن تھا، اس لیے کہ اسے دھونے کی ضرورت نہیں تھی، میں اسے اب بھی صوفیوں کا پہناوا کہتا ہوں اس لیے کہ اسے پہن کر چاہے کتنی میلی ہو آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں، اور آپ کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ چھٹی کے بعد میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، پھر سڑکیں تھیں، سینما گھر تھا یا پھر قبرستان اور ہر طرح کے لوگ، اور بازار۔ میں ایک دن آوارگی کرتا ہوا لی مارکیٹ پہنچ گیا۔

مجھے ایک کتاب کی ضرورت تھی۔ میں نے ایک بہت اچھے، نیک صورت باریش انسان سے کتابوں کی دکان کا پتا معلوم کیا۔ یہ سامنے والی گلی میں چلے جاؤ، کتابیں ہی کتابیں ہیں وہاں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا اور میں اُس بازار میں داخل ہوگیا۔ اس سے پہلے میں نے ایسا بازار کہیں نہیں دیکھا تھا۔ کتاب کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ بنی، سنوری اور سجی عورتیں ہی عورتیں تھیں۔

یہ کیسا بازار تھا؟ میں اس بازار میں داخل تو ہوگیا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کچھ عورتیں مجھے دیکھ کر عجیب سے اشارے کر رہی تھیں اور میں حیران کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھیں، اتنے میں ایک بھاری بھرکم آدمی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

بابو جی! نیا مال دکھاؤں؟ اسپیشل کمرا بھی ہے ہمارے پاس۔ بھائی صاحب! مجھے کمرا نہیں چاہیے۔ تو ساتھ لے کر جانا چاہو تو اس کا بھی انتظام کردیتے ہیں، آپ حکم تو کرو بابو جی! کس کو ساتھ لے کر جاؤں میں۔ میرا سوال سن کر وہ سٹپٹا گیا۔ یار! تمہیں کیا کرنا ہے یہاں۔ مجھے تو کتاب خریدنی ہے۔ میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا۔ بازار ختم ہوا تو وہ بولا۔ دیکھو یہ گندا بازار ہے، تم مجھے شریف لڑکے لگتے ہو۔ آیندہ مجھے یہاں نظر آئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ وہ دیکھو

سامنے ہے کتابوں کی دکان اور اس کا راستہ دوسری طرف سے ہے، جاؤ اب۔ ایک بہ ظاہر نیک اور اچھے انسان نے مجھے اُس بازار کا راستہ دکھایا تھا اور ایک بُرے اور بدکار دلّال نے مجھے وہاں سے نکلنے کا۔ یہی ہے دنیا، جو جیسا نظر آتا ہے وہ ویسا ہوتا نہیں ہے۔

abdul.latif@express.com.pk

The post جہاں گشت؛ وہ کہنے لگیں ’’تُو مجھے سہیلی کہا کر‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


’عیدالاضحی‘ ُسنت ابراہیمی ؑ سے سماجی روایات کی تبدیلی تک

$
0
0

تہواروں سے انسانی وابستگی قدیم عہد سے چلی آرہی ہے، کسی بھی قوم کی زندگی میں تہواروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، تاریخ میں بہت سی اقوام اپنے منفرد اور عظیم الشان تہواروں کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی رہی ہیں۔

نئے موسموں کی آمد یا مخصوص مہینوں سے جڑے تہوار اپنے دامن میں اتنی خوشیاں اور مسرتیں لیے ہوتے ہیں کہ لوگ سال بھر ان کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ یوں بھی تہوار کا دن کسی بھی سماج کیلئے وہ تحفہ ہوتا ہے جو سال بھر کی روکھی پھیکی مصروفیات کے بعد میسر آتا ہے، خوشی لوگوں کے چہروں سے پھوٹ رہی ہوتی ہے‘ ہر چہرہ گلنار اور دمکتا ہوا نظر آتا ہے، گھر، گلیاں اور بازار لوگوں کی مترنم اور مسرت آمیز آوازوں سے گونج اٹھتے ہیں، بچے اپنے معصوم چہروں کے ساتھ اٹھلاتے پھرتے ہیں، تہواروں کے دن کی دھوپ دیر تک یادداشتوں میں سائے کی طرح چپکتی رہتی ہے، خوشی اور مسرت سے ہمکنار تہواروں سے انسانی وابستگی آج بھی اسی طرح ہے، جیسے قدیم ادوار میں ہوا کرتی تھی۔

دیگر اقوام عالم کی طرح مسلمان بھی اپنے تمام تر اسلامی تہوار انتہائی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی مسلم امہ کے دو بڑے تہوار ہیں، ان دونوں تہواروں کا تعلق اسلام کے بنیادی ارکان روزہ اور حج سے ہے، ماہ رمضان کے بعد مسلمانوں کو عیدالفطر کا تحفہ ملتا ہے اور اسی طرح اسلام کے ایک بڑے رکن حج کے بعد دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کا تہوار مناتے ہیں۔

یہ تہوار اپنے دامن میں ایک عظیم قربانی اور ایثار کی یاد لئے ہوئے ہے، رضائے الٰہی کیلئے یوں تو دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی کی اہمیت رہی ہے لیکن اسلام میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت ایک وسیع تر آگہی اور پیغام سے ہم کنار ہوئی ہے، حضرت ابراہیمؑ کا اپنے خواب کی تعبیر پانے کیلئے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو راہ خدا میں قربان کرنے کا عمل تسلیم و رضا کے نئے جہان وا کرتا ہے۔ ذبح عظیم کے اس واقعہ سے نہ صرف اقوام عالم کی تہذیب اور ادب متاثر ہوا ہے، بلکہ اس سے ہر عہد کے انسان کو ایک سماجی شعور بھی عطاء ہوا ہے، ذبح عظیم کی اسی روایت کو زندہ رکھنے کیلئے پوری دنیا کے مسلمان عیدالاضحی مناتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ نے اپنے دور نبوت میں حضرت ابراہیم ؑ سے وابستہ اس روایت کا ازسر نو احیاء کیا اور خدا کی راہ میں جانوروں کی قربانی کا حکم دیا، قربانی کے حوالے سے اسلام نے کچھ اصول و ضوابط بھی مرتب کئے، انہی اصول و ضوابط کی روشنی میں مسلمانان عالم صدیوں سے قربانی کرتے چلے آرہے ہیں، اسلامی روایات کے ساتھ ساتھ قربانی کے حوالے سے کچھ سماجی اقدار بھی اس تہوار کے پہلو بہ پہلو چلتی رہتی ہے۔

عیدالاضحی کے قریب آتے ہی لوگ اس کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، قربانی کے جانور کا انتخاب بڑی تگ و دو کے بعد کیا جاتا ہے اور تمام تر شرعی تقاضے پورے کرنے والا جانور ہی قربانی کیلئے منتخب کیا جاتا ہے، قربانی کیلئے مخصوص جانور ایک خاص قسم کے تقدس سے بھی ہمکنار ہوجاتا ہے، عیدالاضحی کے دن لوگ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے جانور ذبح کرتے ہیں اور اس کیلئے ایک ماہر قصاب کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

بعض لوگ خود بھی اپنے جانور ذبح کرتے ہیں اور ہمسایوں کو بھی اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازتے ہیں، جن گھروں میں قربانی ہوتی ہے، وہاں گھر کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں، قریبی اعزاء کو بھی اس خوشی کے موقع پر مدعو کیا جاتا ہے، یوں گھروں میں ایک میلے کا سماں بن جاتا ہے، جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد گوشت کی تیاری شروع ہو جاتی ہے، قصاب جانور کا گوشت اہل خانہ کے سپرد کردیتا ہے اور مزدوری لے کر کسی دوسرے گھر میں ’’کھال‘‘ اتارنے کیلئے چلا جاتا ہے۔

قربانی کا گوشت تیار ہونے کے بعد اب گوشت کی تقسیم کا اہم ترین مرحلہ شروع ہوتا ہے، دیکھا جائے تو تہواروں کا تمام تر حسن اجتماعیت میں پوشیدہ ہے، اسلام انسانی سماج کو باہمی محبت اور تعلق کے ایک رشتے میں پروکے رکھتا ہے، جس سے فرد کی خوشیاں انفرادی نہیں اجتماعی ہوا کرتی ہیں ۔ ایک گھر میں قربانی کے جانور کا آنا اور ذبح ہونا، اس گھر کی انفرادی خوشی ہے لیکن اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو جب کسی گھر میں قربانی کا گوشت تیار ہوجاتا ہے تو اس گھر کی انفرادی خوشی اجتماعی خوشی کی طرف بھی ایک در وا کرتی ہے، کیونکہ قربانی کے اس گوشت میں دوسرے لوگوں کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے، قربانی کا گوشت تیار ہونے کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

ایک حصہ اہلخانہ، دوسرا رشتہ داروں اور اعزاء جبکہ تیسرا حصہ غرباء و مساکین کیلئے ہوتا ہے، صدیوں سے یہی روایات مسلم امہ میں چلی آرہی ہیں، دیکھا جائے تو قربانی کے گوشت کے حوالے سے بھی اسلام کی اجتماعی زندگی کا پہلو نظر آتا ہے کہ خوشی سب کی سانجھی ہے، جیسے اسلام نے زکوٰۃ کا حکم دیا کہ اپنی ضرورت سے زیادہ غرباء میں تقسیم کردو، چاہے وہ جنس ہو یا مال، دنیا کے دیگر مذاہب کے برعکس اسلام تمام انسانوں کو برابری کا درس دیتا ہے۔

یہی برابری اور مساوات ایک خوبصورت سماج کی تشکیل میں معاون ہوتی ہے لیکن قربانی کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے اب ہماری صدیوں پرانی روایات بھی تبدیلی کی زد میں آرہی ہیں، گزشتہ دہائیوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگوں نے اب گوشت کی تقسیم کا وہ معیار فراموش کردیا ہے جس کا اسلام نے حکم دے رکھا ہے۔ قربانی کے تہوار کی گوشت کے تہوار میں تبدیلی اور کمرشل ذہنیت نے بھی ہمارے سماج کی مثبت اور روشن اقدار پر کاری ضرب لگائی ہے، اب عیدالاضحی اسلامی تہوار سے ہٹ کر گوشت کے تہوار میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

جدید کلچر نے جہاں لوگوں کو بہت سے نئے ذائقوں سے آشنا کیا ہے وہاں بہت سی سادہ اور روشن روایات چھین بھی لی ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کی تقسیم شرعی احکام کے مطابق نہیں کرتے، لوگوں کی گوشت خوری کے حوالے سے بڑھتی ہوئی ہوس نے ہمیں اپنی بہت سی اقدار سے دور کردیا ہے، اس ضمن میں ہوٹل مالکان کی کمرشل ذہنیت نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے جس کے تحت قربانی کے ایام قریب آتے ہی شہر بھر میں یہ بینرز آویزاں کردئیے جاتے ہیں کہ ’’سالم ران ہم سے روسٹ کرائیں‘‘ گوشت آپ کا پکائی ہماری‘‘ قربانی کے گوشت کے تکے اور کباب بنوائیں‘‘۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے گھروں میں رکھے فریج اور ڈیپ فریزرز کی موجودگی نے بھی گوشت کی تقسیم کا پیمانہ تبدیل کردیا ہے۔

اب گھروں میں عید کے مہینے کے بعد بھی فریزر گوشت سے بھرے رہتے ہیں حالانکہ طبی حوالے سے قربانی کا گوشت صرف ایک عشرے تک کھانے کی اجازت ہے، اس کے بعد گوشت اپنی تازگی کھو دیتا ہے، یہ انہی روایات کا شاخسانہ ہے کہ عید کے روز دروازے پر آنے والے فقیر کا حصہ بھی ’’سرد خانے‘‘ کی نذر ہو جاتا ہے، عید کے روز ہر طرف گوشت کی بھرمار ہوتی ہے۔

لوگ صبح سے شام تک گوشت خوری میں مصروف رہتے ہیں، یہ غرباء کی بھی مصروفیت کا دن ہوتا ہے جو اپنے چیتھڑوں میں اجلے لباس والوں سے اپنا حق مانگنے نکلتے ہیں لیکن عید کے روز بھی بعض کشکول شام تک خالی ہی رہتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ حق داروں کا حق ان کے دروازے تک خود پہنچا دیا جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

ہم عید کے دن بھی غرباء اور فقراء کو دھتکار دیتے ہیں یا اپنی ’’سخاوت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوشت کا کوئی ایسا ٹکڑا اٹھا کر دے دیتے ہیں جو ہمیں خود پسند نہیں ہوتا، اسلامی تعلیمات یہ بتاتی ہیں آپ پیٹ بھر کر سونے سے پہلے اپنے ہمسائے کی بھوک کا بھی احساس کریں، جدید دور میں ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو گئی ہے کہ دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والا واقعہ ہمیں پلک جھپکنے سے پہلے معلوم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی، ہمارے ہمسائے نے نان شبینہ کھایا ہے یا نہیں…؟

عید قرباں… یا گوشت کا تہوار
وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی روایات بدلتی چلتی جا رہی ہیں، مسلم امہ میں قربانی کا تہوار اپنے پس منظر میں ایثار و قربانی کا ایک عظیم واقعہ بھی رکھتا ہے، ہمارے سماج میں ان روایات اور اقدار کی بجا آوری تو بڑے جوش و خروش سے کی جاتی ہے لیکن ان روایات کے پس منظر میں جو فلسفہ اور تربیت ہوتی ہے اسے یکسر فراموش کردیا جاتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ سے وابستہ ایثار و قربانی کے اس جذبہ کو پوری انسانی زندگی پر محیط کردیا جائے تو اسلامی سماج ایک لازوال خوبصورتی سے ہمکنار ہو سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے…!! آج عید قرباں محض گوشت کا تہوار بنتا جا رہا ہے۔

اب عیدالاضحی قریب آتے ہی گھروں میں گوشت خوری کے نئے نئے انداز اپنانے کی باتیں ہوتی ہیں دوستوں کے ساتھ باربی کیو کی محافل ترتیب دی جاتی ہیں، اور گوشت کے مخصوص حصوں کو ہوٹلز سے روسٹ کرانے کیلئے بھی ایڈوانس بکنگ کرائی جاتی ہے، عید آتے ہی بازاروں میں مصالحوں کی خرید و فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، نت نئی ڈشوں اور ذائقوں تک رسائی کے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں، گلیوں، محلوں اور بازاروں میں کہیں سری پائے تیار کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں، کہیں گوشت کا قیمہ بنایا جارہا ہوتا ہے، غرض اس موقع پر ہر طرف گوشت اور گوشت خوری بھی نظر آتی ہے لیکن اس تہوار کے پس منظر میں موجود ایثار و قربانی کا فلسفہ پورے سماج میں کہیں دور تک بھی دکھائی نہیں دیتا۔

غریبوں کی عید…!
مہنگائی اور زندگی کی خود غرضانہ روایات نے سماج کے پسے ہوئے اور غریب طبقات سے تمام تر خوشیوں کو دور کردیا ہے، تہواروں کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے لیکن دکھ تو ہمیشہ انفرادی ہوتے ہیں، ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کو سالانہ خوشیاں بھی نہیں دے سکتے، عید قرباں جہاں طبقے کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے وہاں غریبوں کے احساس محرومی کو بھی بڑھا دیتی ہے۔

اب کسی مزدور یا ریڑھی بان یا کم آمدنی والے آدمی کے بس میں نہیں رہا کہ وہ عید پر قربانی کا جانور اپنی آمدنی سے خرید لے، ایسے میں محرومی کا ایک احساس ذہن و دل پر چھایا رہتا ہے، بچوں کی آنکھوں سے اٹھنے والے سوالات بالآخر آنسوئوں کی جھڑی کی صورت رخساروں تک آجاتے ہیں۔ اپنے اپنے جانوروں کی رسی ہاتھ میں تھامے گلیوں سے چھن چھن کرتے گزرتے لوگ اتنا جانتے ہی نہیں کہ تہوار خوشی اور مسرت کے بغیر کیسے گزارے جاتے ہیں ۔

The post ’عیدالاضحی‘ ُسنت ابراہیمی ؑ سے سماجی روایات کی تبدیلی تک appeared first on ایکسپریس اردو.

عیدالاضحیٰ، خواہشاتِ نفس کی قربانی کا دن

$
0
0

اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے، ایسا مکمل ضابطۂ حیات جو ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہی نجات اخروی کے ساتھ دنیوی آسودگی اور اطمینان کا سامان بھی ہے۔

اسلام صرف رسومات کا ہی دین نہیں ہے، بل کہ اس نے انسانی حقوق کی پاسداری پر انتہائی زور دیا ہے، اور یہ کہہ کر انسانی حقوق کی ادائی کو مقدم کیا ہے کہ رب تعالی اپنے حقوق تو معاف فرما دے گا لیکن انسانوں کے حقوق کی بازپرس ضرور ہوگی۔

عید قرباں بھی احکامات خداوندی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی پاسداری کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے،

’’ اللہ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘

ذوالحجہ، حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ سورۂ الفجر میں اللہ تعالی نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ان دس راتوں سے مراد ذوالحجّہ کے ابتدائی دس ایام ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالی نے اپنا خاص ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ان دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال اللہ تعالی کو بہت زیادہ محبوب ہیں حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ جیسا افضل عمل بھی ان دنوں میں کیے گئے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’کسی بھی دن کیا ہوا عمل اللہ تعالی کو ان دنوں (کے عمل ) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔‘‘ (سنن بی داؤد)

اسلام، دین فطرت اور انسانیت کے لیے پیغام محبت و الفت ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے جُڑے رہیں اور ملت واحد بن جائیں۔

حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کے بہ طور عید منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کون سے دن ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ’’جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالضحٰی۔‘‘

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’کوئی دن اللہ تعالٰی کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تحلیل، تکبیر اور تحمید کہا کرو۔‘‘ (مسند احمد)

اسلامی تہوار لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے لیے نہیں، بل کہ دوسری اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار، قربانی اور اجتماعی عبادات کا منبع بھی۔ سرور دو عالم ﷺ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شب عیدالفطر اور شب عیدالضحٰی) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مَرے گا۔ جس دن لوگوں کے دل مَرجائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بل کہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈر گیا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے دورخلافت میں لوگ عید کے روز کاشانۂ خلافت پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امیرالمؤمنین دروازہ بند کرکے زارو قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیرت زدہ ہوکر دریافت کیا: یاامیرالمؤمنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے دن یوم النحر اور یوم القر ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لیے نیکیاں کرکے اجر و ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ تحلیل (لاالہ الااللہ) تکبیر (اللہ اکبر) تحمید (الحمداللہ) پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیوں کہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے درحقیقت اپنے جذبۂ عبودیت کا اظہار کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے کیوں کہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو۔

اس کی جاں نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے ہو۔اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے، جیسے نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ، انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ حج بیت اللہ، انسان کی ہمت اور مال و زر کی قربانی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے۔ مسلمان اس عید کے تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور بہ طور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدیؐ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

’’ اللہ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘

اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بہت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں۔ قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبۂ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے۔ اسی عظیم جذبے کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے جانوروں کو قربان کرے، جس سے اس میں حکم خداوندی پر عمل پیرا رہنے کی قوت برقرار رہے۔

حضرت زید ابن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ سے دریافت کیا گیا کہ، یارسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلے میں ؟ آپؐ نے فرمایا ہر خون کے قطرے کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔

10ذوالحجہ، کو یوم النحر یعنی قربانی کا دن کہتے ہیں۔ اس دن اللہ تعالی کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بہ قدر استطاعت قربانی کرنا اور اس فرض کی ادائی میں ریاکاری اور فخر و تکبّر سے بچنے کا اہتمام کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ کو قر بانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

سورۂ الانعام میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کہہ دیجیے کہ میری نماز، اور قربانی، اور میری زندگی اور موت سب کی سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘

عید قربان کا بھی ایک خاص مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مخلص ہوکر جانور کا ذبح کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا نہ تو لہو پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہنچتا ہے، بل کہ صرف اور صرف تمہارا اخلاص اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں 10 سال قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود اس کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بہ وجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث مقدس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘

عید قرباں کا اصل پیغام اطاعت رب میں اپنی جاں سے بھی گزر جانا ہے۔ عید قرباں کو اس کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے منائیے۔ اسے نمود و نمائش بنانے سے احتراز کیجیے اور اپنے ہر عمل میں صرف رضائے الہی کے حصول کو مدنظر رکھیے۔ عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر مت بھریے بل کہ نادار اور ضرورت مند مخلوق کے لیے ایثار کیجیے جو ان نعمتوں کے لیے سال بھر ترستے رہتے ہیں۔

The post عیدالاضحیٰ، خواہشاتِ نفس کی قربانی کا دن appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کو آزادی تو ملی، لیکن سیاست اور معیشت آج بھی غلام ہے

$
0
0

قوموں کی تعمیر کا انحصار باکردار اور دیانت دار قیادت پر ہوتا ہے، قیادت اچھی ہو تو کسی بھی مزاج اور رویوں کے حامل انسانی ہجوم کو متحد کرکے قوم بنایا جا سکتا ہے، بصورت دیگر قیادت کا فقدان وہ دیمک ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے نظام کو چاٹ جاتا ہے۔ پھر قیادت چاہے کسی قوم، ادارے یا جماعت کی ہو، بہرحال وہ اعلی ترین مقام ہے، جو فہم و فراست کے ساتھ کردار کی شفافیت کا متقاضی ہے۔

وطن عزیز کی بات کی جائے تو قیادت کے اعتبار سے بابائے قوم اور ان کے چند رفقاء کو چھوڑ کر قوم کا دامن خالی سا محسوس ہوتا ہے، تاہم قیادت کی منڈی میں مندی کے رجحان کے دوران کچھ اجناس آج بھی ایسی ہیں، جن کے شیئرز کا حجم تو بڑا نہیں، لیکن ان کی قدر میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ان اجناس کی وجہ سے گرتی مارکیٹ کو اٹھایا تو نہیں جا سکتا، لیکن یہ مارکیٹ کو کریش بھی نہیں ہونے دیتیں۔

ایسی ہی قیادت میں ایک نام امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا ہے، جن کے اخلاص، سادگی اور دیانت کے دوست ہی نہیں دشمن بھی معترف ہیں۔ پشتون خاندان سے تعلق رکھنے والے سراج الحق خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے ایک گاؤں ثمر باغ میں 5 ستمبر 1962ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کرنے کے بعد 1990ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

یونیورسٹی دور میں مولانا مودودیؒ کی کتب سے متاثر ہو کر مولانا احسن الحق کے اس صاحبزادے نے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کرلی، جس کے بعد 1988ء سے 1991ء تک وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلٰی رہے۔ ملکی سیاست میں ان کی آمد 2002ء کے جنرل الیکشن سے ہوئی، جس میں انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے، اس دور حکومت میں انہیں اکرم درانی کی وزارت اعلی میں وزیرخزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔

جسے وہ اپنی مذہبی اور قومی غیرت کے زیر اثر زیادہ دیر تک اپنے پاس نہ رکھ سکے اور باجوڑ ایجنسی میں ایک مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ پر احتجاجاً وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ 2002ء کے بعد جماعت اسلامی نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، تاہم 2013ء کے عام انتخابات میں سراج الحق جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر دوسری بار رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا منتخب ہو گئے۔ اس دوران ملکی سیاست کے ساتھ انہوں نے تنظیمی سرگرمیوں کو بھی بھرپور طریقے سے جاری رکھا اور 30مارچ 2014ء کو وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔

2013ء کے الیکشن کے بعد جماعت اسلامی پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی بنی تو انہیں ایک بار پھر وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا، لیکن جماعت کے امیر کی حیثیت سے اب وہ یہ عہدے نہیں رکھ سکتے تھے، لہذا جون 2014ء ہی میں انہوں نے وزارت خزانہ سے استعفی دے دیا۔ امیر جماعت اسلامی نے امارت سنبھالنے کے بعد ملکی سیاست میں دو بار نمایاں طور پر کردار ادا کیا، جس میں سے ایک بار عمران خان کے دھرنے کے دوران اور دوسری بار پانامہ کیس سپریم کورٹ میں لے جا کر۔ جمہوریت کے تحفظ، استحکام اور فروغ کے لئے ان کے کردار کو صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومت پاکستان بھی تسلیم کرتی ہے۔

حکومت پاکستان نے 14 اگست 2014ء میں انہیں جمہوریت کے فروغ کے لئے کی جانے والی کوششوں پر ایوارڈ سے نوازا۔ حالیہ عام انتخابات 2018ء میں سراج الحق نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑا، جس میں وہ ان کے بقول دھاندلی کے باعث کامیاب نہ ہو سکے، تاہم گزشتہ سینیٹ الیکشن میں وہ سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے درویش صفت سینئر سیاست دان اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سے ایک خصوصی نشست کااہتمام کیا، جو نذرِقارئین ہے۔

ایکسپریس: پاکستان کے ابتر حالات کا ذمہ دار کون ہے، عوام یا حکمران؟ ان حالات میں کوئی بہتری آئے گی یا سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا؟

سراج الحق: دیکھیں! حالات کی خرابی کوئی ایک لمحے میں وقوع پذیر نہیں ہوتی، یہ ایک طویل داستان ہے۔ جو اب تقریباً پونا صدی پر مشتمل ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ تو آزاد ہو گیا، لیکن اس کی سیاست اور معیشت غلام ہی بنی رہی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد ہمارا نظام ایک ٹریک پر نہیں چڑھ سکا اور یہی وجہ ہے کہ سارا نظام عوام کی خواہشات کے نہیں بلکہ افراد کی خواہشات کے تابع رہا۔ افراد میں کبھی فوجی جرنیل تو کبھی بڑے بڑے جاگیردار رہے لیکن صحیح بات یہ ہے یہاں کبھی بھی آئین، قانون یا نظام کی حکمرانی نہیں رہی۔ یہاں افراد، ذاتی مفادات اور ان کی خواہشات کی حکومت رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت بھی اس کے گرد گھومتی ہے۔

مارشل لاء بھی انہی کے لیے استعمال ہوا۔ تو میرے خیال میں خرابی کی اصل جڑ ساری دنیا میں حکومت ہی ہوتی ہے۔ عوام کیا کرے؟ عوام ٹیکس دیں، بل دیں، کوئی مصیبت آجائے تو عوام ہی قربانی دیں، آپ کو یاد ہوگا کہ جب ’’قرضہ اتارو اور ملک سنوارو‘‘ کی اپیل کی گئی تو لوگوں نے اپنے زیورات تک دے دیئے۔ 65ء کا معرکہ آیا تو مرد تو کیا خواتین بھی قربانی کے لیے آگے بڑھیں، یوں ہر ہر لمحے اور موقع پر پاکستانی قوم نے اپنے ملک کے ساتھ محبت کا ثبوت دیا۔ لیکن یہاں ایک مخصوص ٹولہ ماضی سے چلتا آ رہا ہے،جن کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، پارٹیاں بدلتی رہی ہیں، وہ کبھی جھنڈے بدلتے ہیں تو کبھی نام، لیکن یہ ٹولہ آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسے ماضی میں تھا۔ تو جب تک ہماری قوم ایک اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اس Status quo سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوجاتی تو آج آپ رونا روتے ہیں تو کل آپ کا کوئی چھوٹا بھائی جب صحافی بنے گا تو وہ بھی یہی رونا روئے گا۔

ایکسپریس: دو سال گزرنے کے بعد پانامہ سکینڈل کے بارے آج آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ تاثر درست نہیں کہ یہ صرف نواز شریف کے لئے تھا؟ اور آپ ایک بار پھر پانامہ کیس میں استعمال ہو گئے؟ جیسے 2003ء میں مشرف دور میں ہوئے یا 2008ء میں نواز شریف کے ہاتھوں ہوئے۔

سراج الحق: دیکھیے! ہم نے پانامہ لیکس میں جو جنگ لڑی ہے، وہ ان تمام عناصر کے خلاف تھی، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے، وہ یعنی 436 افراد ہیں اور نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ہم دوبارہ پٹیشنر کے طور پر گئے ہیں کہ اب باقی لوگوں کو بھی بلایا جائے۔ پہلے دن سے میرا جو موقف ہے میں اسی جگہ پہ کھڑا ہوں، یعنی شفاف اور تمام تر امتیازات سے بالاتر احتساب؛ یعنی سب کا احساب ہونا چاہیے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ان 436 افراد کا بھی احتساب ہو، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے۔ تو ہم تو پیچھے نہیں ہٹے، تاہم اگر کہیں کوئی کوتاہی یا غلطی ہے تو وہ ذمہ داروں کی ہے، جن کی یہ ذمہ داری ہے۔ وہ نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد ان لوگوں کو بھی سمن کرکے ان کو بھی بلاتے، عدالت اور عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرتے۔ لہٰذا اب اگر الیکشن ہوا ہے، جماعت اسلامی اسی جذبہ، اسی سپرٹ اور اسی عزم کے ساتھ کرپشن کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے گی اور ہماری ڈیمانڈ اب بھی یہی ہے کہ ان 436 لوگوں کو بھی بلایا جائے، ان کا بھی احتساب کیا جائے، اگرچہ یہ مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور اپنے عہدوں کو انجوائے کر رہے ہیں، لیکن ہیں تو وہ تمام لوگ قومی مجرم، جنہوں نے یہاں لوٹ مار کرکے پیسہ باہر منتقل کیا۔

ایکسپریس: بحیثیت سینئر سیاستدان نواز شریف صاحب کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟

سراج الحق: میرے خیال میں نواز شریف یا مسلم لیگ ہمیشہ اقتدار میں ہو تو زندہ رہتی ہے۔ یہ ایک خاص درجہ حرارت کی عادی جماعت ہے اور اگر وہ درجہ حرارت میسر نہ ہو تو اس کا پنپنا اور باقی رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے اور شروع ہی سے یہ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ ہیں، اس کی چھتری تلے ہی یہ جماعت یہاں تک پہنچی ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا سہارا نہ ہو تو یہ زیادہ دیر تک قائم رہ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے جیسے صحرا میں پانی کچھ وقت تک باقی رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ خشک ہو جاتا ہے، یہی صورت حال مسلم لیگ کی ہے۔

ایکسپریس: تنظیمی اعتبار سے جماعت اسلامی کا ادارہ جاتی ڈھانچہ بہت مضبوط اور آئیڈیل ہے، تاہم جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نواز شریف کی کرپشن کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اسی وقت میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ اس رویے سے عوام میں مقبول ایک پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے؟

سراج الحق: دیکھیے! ہم برائی کے خلاف ہیں، کرپشن کے خلاف ہیں، وہ کسی بھی جماعت میں ہو یا حکومت میں۔ دوسرا میں آپ کو بتاؤں کہ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کا سیٹ اپ جماعت اسلامی پاکستان سے بالکل مختلف ہے، لہٰذا وہ کسی سیاسی یا تنظیمی فیصلے میں ہمارے تابع نہیں۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر بالکل آزاد ہے۔

پھر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر ہے، جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہے، جماعت اسلامی سری لنکا ہے یا جماعت اسلامی لبنان ہے تو نام تو سب کے جماعت اسلامی ہیں، لٹریچر بھی ایک ہے، فکر بھی ایک ہے، کیوں کہ جماعت اسلامی ملکی اور بین الاقوامی تحریک کا نام ہے… لیکن سیاسی اور تنظیمی ڈھانچہ ان جماعتوں کا بالکل مختلف ہے۔ رہی یہ بات کہ نواز شریف کے خلاف عدالت میں جا کر جو موقف پیش کیا تھا، تو وہ آج بھی وہی ہے کہ بندہ کسی بھی پارٹی کا ہو، کرپٹ عناصر کا اب احتساب ہونا چاہیے اور آئندہ جو بھی حکومت آتی ہے، ان میں سے بھی ہمارا یہ مطالبہ رہے گا، ہم اپنی اس ڈیمانڈ کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ پر کوششیں جاری رکھیں گے۔

ایکسپریس: جب آپ امیرِ جماعت بنے تو آپ نے دعوی کیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات 2018ء میں جماعت حکومت بنائے گئی، لیکن آپ کو خود پر انحصار کرنے کے بجائے ایک بار پھر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کا سہارا کیوں لینا پڑا، اطلاعات کے مطابق ایم ایم اے میں دوبارہ شمولیت کے خلاف جماعت کے اندر سے بھی اس شمولیت پر اختلاف تھا؟

سراج الحق: اختلاف رائے اچھی چیز ہے، یہ تو ایک میز پر کھانا کھانے والوں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی حقیقی جمہوری جماعت ہے، جس میں اختلاف رائے کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، دوسری جماعتوں کی طرح یہاں بادشاہت نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت نے جو کہہ دیا وہ حرف آخر ہو گا، بادشاہ سلامت جو کہہ دیں، اس پر سب لوگ نہ چاہنے کے باوجود عملدرآمد کریں اور اگر کوئی اختلاف کرے تو اسے باہر نکال دیا جائے۔ اچھا پھر! الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم اپنے موقف میںاکیلے ہوں گے کہ یہ پہلے سے طے شدہ ایک پروگرام تھا، لیکن ہم جب اسلام آباد آئے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہماری طرح اور بھی بہت سارے متاثرین یہاں موجود ہیں اور کراچی سے لے کر گوادر، خاران تک، پنجاب اور کے پی کے میں بھی اسی طرح کے متاثرین موجود ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ انتخابات آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئے۔

اور جو سنیئر سٹیزن ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ پہلی بار دیکھا کہ 48گھنٹوں بعد بھی ریٹرننگ آفیسر رزلٹ دینے سے قبل پوچھ رہا ہے کہ اعلان کروں یا نہ کروں؟ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا، ان کے سامنے گنتی نہیں کی گئی اور فارم 45 نہیں دیا گیا۔ اچھا! اب میںآپ سے پوچھتا ہوں کہ کیوں نہیں فارم 45دیا گیا؟ ہر جگہ پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ہمارے پاس کاغذات کم پڑ گئے، مانسہرہ، کراچی اور دیر میں بھی کاغذات کم پڑ گئے۔ اس لئے ہماری خواہش تھی کہ الیکشن شفاف اور مثالی ہوں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت الیکشن کا انعقاد ایک المیہ ہے۔

ایکسپریس: آپ اور آپ کی جماعت نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا، لیکن الیکشن کے بعد الیکشن کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں میں آپ یہ پلیٹ فارم کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اگرچہ آپ خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا؟

سراج الحق: دیکھیں! الیکشن سے قبل اور بعد میں بھی میرا ایک ہی موقف ہے کہ 20،21 ارب روپے پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کے لئے مختص کیا، جس کا تقاضا یہی تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو پورا کرے، لیکن افسوس! کہ وہ ایسا نہیں کر سکا اور غیرجانبدار نہیں رہ سکا، اور چیف الیکشن کمشنر کی جانبداری پر بہت حرف آیا، حتی کہ بالآخر چیف جسٹس کے پیمانہ صبر بھی لبریز ہوا اور انہوں نے بھی کہہ دیا کہ تین بار تو میں نے فون کیا، لیکن الیکشن کمیشن سو رہا تھا۔

اچھا اب اگر یہ بات پولیٹیکل ورکر کرتا تو اس کو شاید جانبداری سمجھا جاتا، لیکن چیف جسٹس نے عوامی شکایات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ الیکشن کے بعد اجلاس میں کچھ لوگوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ میں نہیں جانا چاہیے، اور یہ صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کا بھی خیال تھا، لیکن 1977ء کا وہ سارا ماحول میرے سامنے تھا کہ جس طرح ایک تحریک شروع ہوئی، جو پھر چلتے چلتے مارشل لاء کی وجہ بن گئی۔ میں ہمیشہ سے جمہوری کلچر کا حامی اور برداشت کے جذبے کو فروغ دینے والا ہوں اور دلیل کا قائل ہوں، لہذا میں نے اس وقت یہ مشورہ دیا کہ جو منتخب ہوئے ہیں، ان لوگوں کا اسمبلیوں میں جانا چاہیے اور حلف اٹھانا چاہیے۔ اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تحفظات کو دور کرے۔ میری اس تجویز کو مولانا فضل الرحمن نے اے پی سے میں رکھا اور کسی نے بھی ہماری تجویز کی مخالفت نہیں کی۔

ایکسپریس: تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا اور اس اکیلی جماعت نے پورے اتحاد سے زیادہ ووٹ لے لئے۔ تحریک لبیک پاکستان نے کیا ایم ایم اے کا ووٹ بنک متاثر نہیں کیا؟

سراج الحق: دیکھیں! ہمارا مقصد یہی تھا کہ الیکشن میں دینی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی نہ ہوں، لیکن ایم ایم اے کا تاخیر سے بننا اور پھر الیکشن سے قبل ہم ایم ایم اے کا پیغام لوگوں تک صیحح طور پر پہنچا نہیں سکے۔ پھر میں کہوں گا کہ میری خواہش کے باوجود ہم تحریک لبیک پاکستان اور تحریک اللہ اکبر والوں کو ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنا سکے، جس سے ہمیں نقصان ہوا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 55لاکھ ووٹ لئے ہیں، اگر یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تو بڑی تعداد میں ہمارے لوگ کامیاب ہو جاتے۔

ایکسپریس: پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرکے ایم ایم اے میں شمولیت کے فیصلہ پر کوئی پچھتاوا محسوس کرتے ہیں؟ کیوں کہ وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان درست تھا، کے پی کے میں تو پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری بار منتخب ہو کر سیاسی تاریخ ہی بدل ڈالی۔

سراج الحق: پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا کوئی اتحاد نہیں تھا، ہم مخلوط حکومت میں شامل ہوئے، جس کا دورانیہ مکمل ہوا تو وہ اپنے راستے اور ہم اپنے راستے۔ ہمارا ان سے پارٹی سطح پر کوئی اتحاد نہیں تھا، پھر آپ دیکھ لیں کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ہمارا ان سے کوئی اتحاد نہیں تھا، یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے 12،13 ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا تھا، لیکن یہ پارٹی سطح کا کوئی اتحاد نہیں تھا۔

ایکسپریس: لیکن جناب! اگر آپ پارٹی سطح کے اتحاد سے آج انکاری ہیں، تو جس وقت کے پی کے میں آپ کی مخلوط حکومت بنی تو 4 سال قبل 2014ء میں جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ ہی ایک انٹرویو میں جماعت کو پی ٹی آئی کا باقاعدہ اتحادی مانا تھا؟ 2013ء کے الیکشن کے بعد آپ کی جماعت کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی کے نظریات جماعت اسلامی کے نظریات اور نظریہ پاکستان سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے اتحاد ہوا، تو اب کیا سمجھا جائے کہ جماعت اسلامی کی پی ٹی آئی سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رہی یا پی ٹی آئی نظریہ پاکستان سے پیچھے ہٹ گئی؟

سراج الحق: دیکھیں! میں پھر کہوں گا کہ دو پارٹیوں کا اتحاد الگ چیز ہے اور مخلوط حکومت بنانا الگ۔ اور کے پی کے کی مخلوط حکومت میں صرف جماعت اسلامی ہی نہیں دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پارٹیوں کا اتحاد نہیں، پھر آپ دھرنے کو دیکھ لیں، جس میں جماعت اسلامی شامل نہیں ہوئی، پی ٹی آئی نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا ارادہ کیا، ہم اس میں شریک نہیں ہوئے، ہم نے عدالتی راستہ اختیار کیا۔ تو میں کہنا چاہوں گا کہ کبھی بھی پارٹیوں کی سطح پر جماعت کا پی ٹی آئی سے اتحاد نہیں رہا، بس ہم ایک مخلوط حکومت میں شامل ہوئے تھے۔

باقی رہی بات نظریات کی تو اب چونکہ پی ٹی آئی کو حکومت ملی ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ اپنے نظریات میں سچے ہیں؟ اچھا پھر یہ کہ ہماری دعا اور خواہش ہے کہ جو انہوں نے وعدے کئے ہیں، وہ پورے کریں، ہم متعصب نہیں، ہم نفرت کی سیاست کے قائل نہیں ہیں، انہوں نے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بات کی ہے، جس کے ہم منتظر ہیں، انہوں نے ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا کہا ہے، ہم اس کے منتظر ہیں، 50 لاکھ گھر دینے کا اعلان کیا، ہمیں خوشی ہو گی کہ وہ یہ کام کریں، قرضوں سے نجات دلانے کا کہا ہے، ہمیں بہت خوشی ہو گی، اگر ایسا وہ کرتے ہیں اور اس میں ہم چاہیں گے کہ وہ کامیاب ہوں، اس لئے کہ اگر عوام نے الیکشن میں حصہ لے کر انہیں کامیاب کروایا ہے تو وہ حکومت کریں اور جن کاموں کا انہوں نے اعلان یا وعدہ کیا ہے، انہیں پورا کریں، ہم خوش ہوں گے کیوں کہ ہم گندی سیاست کے قائل نہیں، تعصب میرے مزاج میں ہے نہ سیاست میں۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں حالیہ انتخابات میں کس ایجنڈے یا ایشو پر قوم نے یا کسی اور نے پی ٹی آئی کو سب سے بڑی جماعت بنا دیا؟

سراج الحق: میرے خیال میں تو میڈیا نے تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت بنایا، میڈیا جو ہے، یہ اس وقت ایٹم بم سے بھی بڑی طاقت ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ میڈیا میں سرمایہ کاری کی گئی، ہاں! دوسرا وہ خود مانتے ہیں کہ اداروں نے انہیں سپورٹ کیا ہے اور بڑے طریقے اور سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اور اب تو پردوں میں بھی کوئی چیز نہیں رہی، سب کھلم کھلا ہے۔

ایکسپریس: سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے کے رجحان پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا ایسا کرنا اداروں کو تباہ کرنے کے مترادف نہیں، جس سے پھر نتیجتاً ملک کو نقصان ہو گا؟

سراج الحق: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے ادارے متنازعہ نہ ہوں، وہ کسی خاص پارٹی کی سرپرستی کے بجائے پوری قوم کا اعتماد حاصل کریں۔ اور وہ سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہیں، کیوں کہ کسی ایک طرف جھکاؤ سے نقصان ہوتا، بحث مباحثے چھڑ جاتے ہیں، لوگ جمع تفریق کرنے لگ جاتے ہیں، پھر ان اداروں کا اپنا بھی نقصان ہوتا ہے۔ میں نے تو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نواز شریف صاحب کو جو اتنی لمبی سیاسی زندگی ملی، وہ ان کی اپنی نہیں تھی بلکہ پروردگی کی تھی۔ کیا آپ بھول گئے کہ ایک آرمی چیف نے کہا تھا کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔

ایکسپریس: پاکستان میں، اس کے قیام سے لے کر آج تک سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے، اس کی وجہ فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی؟ اور دوسرا ملکی مفاد کے لئے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کو کیسے متوازن بنایا جا سکتا ہے؟

سراج الحق: دیکھیں! پاکستان عوام نے بنایا ہے اور عوام پر اگر اعتماد کیا جائے گا تو یہ ملک ترقی کرے گا۔ غلط تجربات نے تو مشرقی پاکستان میں بھی ہمیں ناکامی سے دوچار کیا، اور میں کہوں گا کہ بنگال بہت بڑا علاقہ تھا، اسے کیوں پاکستان سے جانے دیا گیا، کچھ وجوہات تو تھیں؟ لہذا میں دوبارہ کہوں گا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہی پاکستان کو ترقی دلا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی یہ سمجھا کہ ہماری سوچ کی وجہ سے پاکستان ترقی کرے گا تو یہ غلط ہے، پاکستان عوام کی اجتماعی سوچ کی وجہ سے ترقی کرے گا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہماری معاشی، تعلیمی، خارجہ اور داخلی پالیسیاں پارلیمنٹ میں طے ہوں، اس کے لئے باہر سے کوئی ڈکٹیشن نہ لی جائے، جس کے تحت پھر پاکستان کی عوام پر زبردستی کے فیصلے تھوپے جائیں۔

ایکسپریس: آپ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات تو ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ پاکستان میں پانی کی قلت بحران کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ بھارت کی آبی جارحیت اور ہمارے ہاں ڈیمز کی کمی ہے، اب اگر پاکستان کے اندر ایک ایسی پارٹی برسر اقتدار ہو، جس کے پاس عددی اکثریت ہو اور وہ ڈیم نہ بننے دے تو پارلیمنٹ کے اندر اور پولیٹیکل فرنٹ کے اوپر ایسی صورت حال کو محب وطن قوتیں کیسے confrontکریں؟ مثال کے طور پر اگر جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں ہے اور اس کے پاس عددی اکثریت بہت کم ہے تو وہ کیا کرے گی؟

سراج الحق: دیکھیں! ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر، لیکن جب بات قومی مفاد کی آتی ہے تو ہم سب یک زبان ہوتے ہیں۔ پانی کا مسئلہ ہو تو انڈیا نے جیسے ہمارے پانی پر قبضہ کیا ہے اور چاہتا ہے کہ پنجاب ریگستان بن جائے اور کروڑوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں، تو اس کے مقابلے میں ساری قوم انشاء اللہ تعالی ایک ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا یہی تو فائدہ ہے کہ آپ ایک یا دو اشخاص کو تو خرید سکتے ہیں، لیکن 372کو نہیں، تبھی تو ہم کہتے ہیں آپ رات کے اندھیروں میں فیصلے کرنے کے بجائے دن کی روشنی میں پارلیمنٹ کے اندر کریں۔

ایکسپریس:مولانا مودودیؒ نے جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تو ان کے بعد میاں طفیل صاحب کے دور تک جماعت کا علمی تاثر (معاشرتی اصلاح، مذہبی تعلیمات کا پرچار) نمایاں رہا، پھر قاضی صاحب کے دور میں جماعت کا سیاسی تاثر بھرپور طریقے سے ابھرا، لیکن آج یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ جماعت کی امارت آپ تک پہنچتے پہنچتے جماعت کی نہ صرف علمی بلکہ سیاسی افادیت میں بھی واضح کمی واقع ہو رہی ہے؟

سراج الحق: میں ایک اور اینگل سے اس سوال کا جواب دوں گا کہ دنیا آج ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے، جس کو کنٹرول کرنے والے معیشت کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں،میڈیا کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو بھی قابو کر رہے ہیں، اس طرح معیشت اور میڈیا کے ذریعے انہوں نے ساری دنیا کو اپنا غلام بنایا ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اسی طرح سوچیں، جس طرح ان کا حکم ہو، آپ کو رنگ وہی پسند ہونا چاہیے، جو انہیں ہو، آپ کے ہیروز وہی ہونے چاہیں جو وہ آپ کو بتائیں، آپ کا پسندیدہ ماضی وہ ہونا چاہیے، جو وہ چاہتے ہیں، اسی لئے کہتے ہیں کہ ابن قاسم، غزنوی اور ابدالی کے بجائے آپ کا تعلق موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے جوڑ دیا جائے، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو ایک مکمل ضابط حیات سمجھتے ہیں، اور اسلام کو مسجد کی دیواروں سے باہر لا کر زندگی کے ہر شعبہ میں دیکھنا چاہتے ہیں، جسے کہتے ہیں پولیٹیکل اسلام، یہ کہیں اگر ووٹ کے ذریعے آجائے تو انہیں ناقابل قبول ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مصر میں بھی اس اسلام کو قبول نہیں کیا اور مرسی کو جیل میں ڈالا ہے، اس کے باوجود کہ اس کے پاس اکثریت تھی۔ اس کے علمی کام میں کام نہیں تھی، اس کی سیاسی سپورٹ میں بھی کمی نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود ایسا ہوا۔ پھر افغانستان میں ایک طویل جہاد کے بعد اسلام آیا تو اسے بھی قبول نہیں کیا گیا، تو جماعت اسلامی کا مقابلہ یہاں کسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہمارا مقابلہ عالمی فکر کے ساتھ ہے۔ اگر ہم اسی پر راضی ہو جائیں کہ ہم صوفی منش لوگ ہیں اور مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اگلے ہی روز لاکھوں لوگ ہمارے پاس آ جائیں گے، ہماری بیت کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اب تک جو کام کیا ہے، ہماری دیانت پر کسی کو شک ہے؟

جمہوریت، خدمت، حب الوطنی، تنظیمی نظم و ضبط پر شک ہے؟ تو کہتے ہیں، نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے؟ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاست غلام ہے اور ساری دنیا میں جو ایک غالب سیاسی کلچر ہے، اس کا اثر یہاں پر بھی ہے، جسے ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’ہر بچہ دین اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، ماحول اسے یہودی یا عیسائی بناتا ہے‘‘ ماحول کس چیز کا نام ہے؟ ماحول دیواروں کا نام نہیں ہے، ماحول کا مطلب ہے کہ کیا چیز آپ کو دکھائی جاتی یا سنائی جاتی ہے، جو نظر آتا ہے وہ چینل اور جو سنایا جاتا ہے، وہ یہی آپ کے اینکرز اور شہزادے ہیں۔ اور اسی ماحول نے اسلام کو بحیثیت نظام قبول کرنے کے راستے بند کئے ہیں، لیکن انشاء اللہ تعالی ہم ان بند راستوں کو ضرور کھولیں گے۔

ایکسپریس:جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو حالیہ الیکشن میں اسے بدترین شکست کا سامنا رہا، حالاں کہ گزشتہ دور حکومت میں کے پی کے میں آپ کے وزراء نے ڈلیور کیا، لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی ایسے حلقوں سے بھی ہار گئی، جنہیں اس کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا، اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیا امیر جماعت اور پوری مجلس شوری کو یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے، جس کے نتیجے میں جماعت بھی تبدیلی کے عمل سے گزرے؟

سراج الحق: الیکشن ہارنے کی بات کی جائے تو میں عرض کروں کہ ہمارے دیر بالا میں ایک ایم پی اے نے اپنے حلقہ میں 9 ارب روپے خرچ کئے۔ اپنی محنت کے ذریعے وہ اپنے ایک ایک ووٹرز سے رابطہ میں رہے،جس کے لئے انہوں نے کراچی کے طویل دورے کئے، اپنے ووٹرز سے ملنے کے لئے وہ کبھی ریاض تو کبھی برطانیہ تک گئے ہیں۔

میں نے ان کو فون کیا کہ آپ کی الیکشن مہم کیسی جا رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ :میں نے تو جب سے گزشتہ اسمبلی میں حلف اٹھایا تھا، اسی روز اپنی اگلی الیکشن مہم شروع کر دی تھی۔ آج بھی اگر مالاکنڈ ڈویژن کی بات کی جائے تو شفاف الیکشن کروا کر دیکھ لیں، جماعت اسلامی بڑی اکثریت سے جیت جائے گی، اب دیر کو دیکھیں، کونسلر جماعت اسلامی، تمام ناظمین جماعت اسلامی، تمام منتخب کمیٹیاں جماعت اسلامی، زکوٰۃ کمیٹی چیئرمین جماعت اسلامی، بازاروں کی یونینز جماعت اسلامی کی ہیں تو پھر بھی اگر ہم ہار گئے تو آپ کیا کہیں گے؟ میں اس لئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں عوام سے گلہ نہیں، یہ جو arrangment کیا گیا تھا ہمیں اس پر گلہ ہے۔

الیکشن والے روز اگر الیکشن کمیشن اور تمام ادارے غیرجانبدار رہتے تھے تو اچھا ہوتا۔ تاہم میں پھر بھی یہ کہوں گا کہ ہم انسان ہیں، جس سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، لہذا ہم اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لیں گے، جیسے آپ بھی جانتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد قرآن کریم نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں تبصرہ کیا ہے کہ جب نبی کریمؐ نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک ٹیم کو بیٹھایا تھا تو اسے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی، لیکن ان کا خیال تھا کہ فتح ہو گئی، اس لئے نیچے اتر جانا چاہیے۔ لہذا ہم بھی اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں گے۔ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ الیکشن میں ایک ایسا ماحول بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ہمارے راستے بند کئے گئے۔

ایکسپریس: یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ آپ کی زیر قیادت جماعت کی پالیسیاں تضادات کا شکار ہیں۔ کبھی آپ پی ٹی آئی کے ساتھ اور کبھی ن لیگ کی حکومت بچانے کے لئے مصروف رہے، پالیسی کے ان تضادات کو کیسے بیان کریں گے؟

سراج الحق: میں نے جو کام کیا، وہ ن لیگ کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے ملک کو بچانے کیا تھا، کیوں کہ میںدیکھ رہاتھا کہ اسلام آباد میں قبریں کھودنا شروع کر دی گئی ہیں اور کفن باندھنا شروع کر دئے گئے ہیں، جس کا انجام کیا تھا، یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھا۔ میں آپ کو بتاؤں کہ میں اور میری پارٹی سیاست میں تشدد کی قائل نہیں بلکہ ہم دلیل کے قائل ہیں، اس لئے ہمارا آج بھی وہی بیانیہ ہے، جو کل تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس لئے ناکام ہو گئی ہیں کہ انہوں نے اسلامی نظام کے بجائے اپنی مرضی کا نظام لانا چاہا، اور آج بھی فرد، گھر، تعلیم، صحت، روزگار سمیت کوئی بھی مسئلہ ہو تو اس کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام میں پنہاں ہے، اب جب پی ٹی آئی نے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بات کی تو میں نے انہیں خوش آمدید کہا، حالاں کہ جو الیکشن ہوا ہے، اس پر درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے، لوگ غصے میں ہیں، لیکن ہم نے اپنی روایات اور سوچ کے مطابق جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا ہے۔

ایکسپریس: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی بدترین شکست کی ایک بہت بڑی وجہ ایم ایم اے شمولیت تھی۔ ایم ایم اے کی وجہ سے جماعت اسلامی کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا، کیا کہیں گے؟

سراج الحق: (ہنستے ہوئے) اگر ہم الیکشن میں زیادہ سیٹیں نکال لیتے تو آپ کہتے کہ اتحاد بہت اچھا تھا اور اگر نہیں جیت سکے تو یہ سوال کر دیا ہے، لہذا میں کہنا چاہوںگا کہ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، جب دو پہلوان لڑتے ہیں تو کسی ایک کو شکست اور دوسرے کو جیت ملتی ہی ہے۔دوسرا میری خواہش تھی کہ مذہبی ووٹ تقسیم نہ ہو، اس لئے ہم نے متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم چنا۔

ایکسپریس:اطلاعات کے مطابق جماعت کے اندر یہ سوچ دوبارہ غالب آ رہی ہے کہ اس موجودہ گندے نظام سے کنارہ کشی اختیار کرکے صرف اصلاح معاشرہ پر توجہ مرکوز کی جائے، جس میں کامیابی پر دوبارہ اصلاحی انتخابی نظام کی طرف لوٹنا چاہیے؟ کیا ایسا کچھ ہے؟

سراج الحق: دیکھیں! سیاست کی اصلاح کے بغیر ہم اسلامی معاشرت قائم نہیں کر سکتے اور اب معاشرے کو چھوڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے اسلام کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے، ہمارے نبی کریمؐ شہر کو چھوڑ کر غار نہیں گئے بلکہ وہ غار سے شہر کی طرف آئے، جہاں انہوں نے دعوت کا کام کیا، پتھر برداشت کئے، ہجرت کی اور اپنی بے مثال جدوجہد سے ایک اسلامی نظام دنیا کو دینے میں کامیاب ہو گئے، انشاء اللہ ہم گلی کوچوں، چوکوں چوراہوں میں رہیں گے اور کام کریں گے، دوبارہ اپنی صفوں کو درست کرکے وہی کام کریں گے، جو ہمارے نبیؐ نے ہمارے لئے چنا تھا، ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ ہم اخلاص نیت سے عوامی اصلاح و فلاح، اسلامی نظام کے لئے کام کر رہے ہیں، مخلوق خدا کی بھلائی اس کام میں ہے۔

اب یہ کام میں ایک سو سال کروں یا ایک ہزار سال کروں، میں کامیاب ہوں، معاملہ تو نیت کا ہے اور اگر میری نیت ٹھیک نہیں ہے تو میں اس راستے میں مر بھی جاؤں تو ناکام ہوں، اور اگر میری نیت ٹھیک ہے تو میرا ہر سانس، لمحہ، لفظ اور قدم کامیابی کا باعث ہے، اس لئے الحمداللہ میری پوری جماعت کا اس پر یقین ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش ہے۔ ٹھیک ہے! الیکشن کا رزلٹ آج ہمارے حق میں نہیں آیا تو ہم الیکشن سسٹم کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں گے، کیوں کہ یہ ضروری امر ہے، باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے، ہم تھکے نہیں اور نہ ہی مایوس ہوئے ہیں، ہم پرعزم ہیں۔

ایکسپریس: امیر بننے کے بعد آپ نے جماعت کے لئے وہ ایسا کون سا کام کیا، جس سے تنظیمی معاملات میں بہتری آئی، یا وہ کام جو آپ کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن ہو نہیں رہا؟

سراج الحق: میں یہی چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی میں ایسی وسعت آ جائے کہ عام لوگ اس میں شمولیت اختیار کر کے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔

ایکسپریس:دنیا کی اقدار اور ترجیحات بدل رہی ہیں، کوئی بھی ملک دنیا سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن پاک انڈیا ہمسائے ہو کر بھی ایک دوسرے سے سات سمندر دور ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھارت میں شیوسینا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو قرار دیا جاتا ہے، آپ کیا کہیں گے؟ پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ہے، جو آج تک صرف پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے حل نہیں ہو پا رہا؟

سراج الحق: بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی اور کشمیر کا ہے، اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے، کشمیریوں کو وہ حقوق مل جائیں، جو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، سوائے بھارت کے، تو ہم بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے مخالف نہیں ہیں اور اگر وہ ہماری شہ رگ پر قبضہ کرکے قتل عام کر رہا ہو اور ہمارا پانی بند کر رکھا اور یہاں دہشت گرد بھیج رہا ہو تو ایسے میں ہم ان کے ساتھ آلو ٹماٹر کی تجارت کریں تو یہ درست نہیں۔

ایکسپریس: جناب! دہشت گردی کے حوالے سے تو بھارت کا بھی یہی موقف ہے کہ پاکستان ان کے دیس میں اپنے بندے بھیج کر دہشت گردی کرواتا ہے؟

سراج الحق: کلبھوشن کون ہے؟ اور وہ آج کس کی جیل میں ہے؟ تو ہم تو ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں کہ بھارت یہاں دہشت گردی کروا رہا ہے اور ان کے پاس سوائے الزام تراشیوں کے کچھ بھی نہیں۔

ایکسپریس: آپ نے مسئلہ کشمیر کی بات کی تو یہ مسئلہ تب ہی حل ہو گا جب ڈائیلاگ ہو گا اور ڈائیلاگ کے لئے تعلقات کا بحال ہونا ضروری ہے؟

سراج الحق: ہم ڈائیلاگ کے مخالف نہیں، مسئلہ کشمیر پر اگر ڈائیلاگ ہو تو ہم اس کی حمایت کریں گے، لیکن اگر یہ ڈائیلاگ آلو، ٹماٹر کے لئے ہونا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اور اس ڈائیلاگ میں کشمیری ایک اہم فریق کی حیثیت سے موجود ہوں۔

ایکسپریس: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے، آزاد کشمیر کے اندر پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور پاکستانی کلچر کو بھجوا کر ہم نے انڈیا کو یہ موقع دیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آئینی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے؟

سراج الحق: بھارت تو پہلے ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے اور تھا، ان کی 8 لاکھ فوج وہاں کیا کر رہی ہے؟ جو ہر گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی ہے۔

ایکسپریس: ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ کشمیر کو آزادی کا ایک بیس کیمپ ہی رہنے دیا جاتا؟ ہماری سیاسی جماعتیں وہاں نہ بنتیں بلکہ مقامی سطح پر ہی جماعتیں بنائی جاتیں، کیوں کہ اس سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آئینی اقدامات کرتے ہوئے مشکل پیش آتی۔

سراج الحق: میں نے شروع میں عرض کیا کہ کشمیر میں موجود جماعت اسلامی کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، وہ بالکل آزاد ہے، لیکن اگر وہاں کوئی تنظیم یا فرد مجھے پسند کرتا ہے تو آپ اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کر سکتے۔ اس لئے باقی لوگوں کو بھی یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ پہلے سے موجود تاثر زائل ہو سکے۔ دیکھیں! ہم تو اس لمحے کے منتظر ہیں جب مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔

ایکسپریس: اچھا! ایک معاملہ یہ ہے کہ اگر یہاں سے آزادی کشمیر کی تحریک کو بھرپور سپورٹ ملی تو وہاں کے لوگ کچھ غیر معمولی نہ کر سکے اور جب وہاں تحریک نے زور پکڑا تو پاکستان میں حالات ایسے تھے کہ وہ کشمیریوں کو پوری طرح سپورٹ نہیں کر سکا۔

سراج الحق: میں یہ مانتا ہوں کہ جب کشمیری اٹھتے ہیں، ، لڑتے ہیں، مرتے ہیں، آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستان اپنی سپورٹ کا وہ حق ادا نہیں کر پاتا، جو اسے کرنا چاہیے، جس وجہ سے انہیں ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے۔ اور ہم ہمیشہ اپنی حکومتوں سے اسی معاملہ پر لڑتے آ رہے ہیں کہ کشمیری جب مرتے وقت اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے تو پھر آپ کو بھی یہ کہنا چاہیے کہ کشمیری ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں۔

ایکسپریس: خطے کی بدلتی صورتحال خصوصاً کشمیر کے حوالے سے آپ کو آئندہ پاکستان کا کیا کردار نظر آ رہا ہے؟ دوسرا ایک طرف امریکا بہادر بھارت کو خطے کی تھانیداری سونپنا چاہ رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان نے چین کے بعد اب روس سے بھی اپنے تعلقات بحال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

سراج الحق: پہلی بات تو یہ ہے کہ چائنا اگرچہ پاکستان کا دوست ہے، لیکن دوستی میں بھی ملکی مفادات کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے، ملکوں کے درمیان دوستیاں الفاظ کی حد تک ہوتی ہیں، اصل چیز مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، چین کو اگر آپ کے ساتھ دوستی میں اپنا مفاد نظر نہ آئے تو وہ ایک دن کے لئے بھی آپ کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔ لہذا ملکوںکے درمیان دوستی کا معیار وہ نہیں ہوتا، جو دو افراد میں ہوتا ہے۔ تاہم چین کے اس کردار کو ہم ہمیشہ پسند کرتے ہیں، جو وہ کشمیر کے معاملہ پر ہمارا ساتھ دیتا ہے اور دوسری طرف پاکستان نے بھی تو چین کے جغرافیائی کا ہمیشہ تحفظ کیا اور انہیں سپورٹ کیا ہے۔

زندگی میں صبر اور قناعت ماں کیوجہ سے ہے

میری ماں کی مجھ سے اور میری ان سے محبت کا رشتہ کبھی نہیں بھلایا جا سکا،ہر ہر لمحے اور قدم پر پر میری ماں نے میری تربیت کی ہے، ابھی حال ہی میں، میں آپ کو بتاؤں کہ 25 جولائی کی رات کو جب ہم الیکشن ہار گئے تو گھر سے نکل کر جب میں مردان پہنچا تو میری ماں کو محسوس ہوا کہ میں کچھ پریشان ہوں تو انہوں نے مجھے فون کیا اور پشتو میں کہا کہ ’’ اگر آپ حق پر ہیں تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے‘‘ میری ماں کی اس بات نے میرا حوصلے کو کوہ ہمالیہ پر پہنچا دیا، تو عرض یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں، لیکن ان کے ایک فقرے نے مجھے چٹان کی طرح مضبوط کر دیا۔ میری زندگی میںجو صبر اور قناعت ہے وہ میری ماں نے ہی دیا ہے، پھر میری تربیت کے لئے انہوں نے مجھے مارا بھی بہت ہے بلکہ ایک بار تو مجھے اتنا مارا کہ ان کی کلائی میں موچ آ گئی، کئی روز وہ اپنے بازو پر رومال باندھ کر پھرتی رہیں۔

میٹرک تک 9 سکول، گریجوایشن تک 3 کالج تبدیل کئے

آپ کی طرح میرا بچپن بھی پاکستان میں گزرا اور ظاہر ہے انسان بچپن ماں کی گود میں گزارتا ہے۔ پڑھنے لکھے کا یہ عالم تھا کہ سکول میں داخلے کے بعد میٹرک تک 9 سکول تبدیل کرنے پڑے، اسی طرح میٹرک کے بعد گریجویشن تک 3 کالجز تبدیل کرنے پڑے، پھر پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دوران طالب علمی آٹھویں جماعت میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگیا، جس کے بعد پہلے اپنے ضلع، ڈویژن، صوبے اور پھر پورے پاکستان میں جمعیت کی ذمہ داری نبھائیں۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے بعد 1991ء سے جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اپنے لوکل یونٹ میں کام کیا، اس کے بعد صوبے میں سیکرٹری جنرل، پھرصوبائی امیر اور بعدازں نائب امیر جماعت بنادیا گیا۔ اس کے بعد اگست 2014ء میں جماعت اسلامی نے مجھے امیر بننے کے قابل سمجھا تو مجھے یہ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں، جو آج تک نبھا رہا ہوں۔ میرے 7 بچے ہیں، جن میں سے 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں، اور یہ سب کے سب ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

فٹ بال پسندیدہ کھیل، خواہش کے باوجود بھی کبھی کوئی فلم نہیں دیکھ سکا

میرا پسندیدہ کھیل فٹبال ہے، جو میں نے خود بھی بہت کھیلا ہے، خاص طور پر سکول میں فٹ بال بہت کھیلا اور میرا یہ ارادہ ہے کہ اگر مجھے کبھی قدرت نے موقع دیا تو میں اس کھیل کے فروغ کے لئے ضرور کچھ کروں گا، کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ فٹ بال کے لئے کچھ کرنا اس کا میرا اوپر حق ہے۔ اگر آپ کرکٹ کی بات کریں تو مجھے شاہد خان آفریدی بہت پسند ہے۔

پسندیدہ فلم کے سوال پر ہنستے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ہوا کچھ یوں کہ میں پچپن سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گیا اور خواہش کے باوجود میں کوئی فلم نہیں دیکھ سکا۔ اچھا جہاں تک بات ڈراموں کی ہے تو 1986ء میں پی ٹی وی پر نسیم حجازی کے لکھے ڈرامے آتے تھے، جن میں سے ایک آخری چٹان تھا جو میں دیکھا اور مجھے بہت پسند بھی آیا، تو اپنی زندگی میں میں نے وہی ڈرامہ دیکھا اور یہ ڈرامہ مجھے اتنا پسند تھا کہ میں دورے چھوڑ کر اس رات ڈرامہ دیکھنے کے لئے واپس اپنے علاقے میں آجاتا تھا۔

پسندیدہ سیاست دان کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کو کسی ایک آدمی کی کوئی ایک خوبی پسند ہو سکتی ہے تو دوسری عادت ناپسند بھی ہو سکتی ہے، اس لئے میں اس ضمن میں، میں کسی ایک شخص کا نام نہیں لے سکتا سوائے ایک ہستی کے، جس کی ہر ادا آپ کو پسند آتی ہے اور مجھے بھی پسند ہے اور وہ ہستی جناب رسول اللہؐ ہیں۔ باقی کسی کی آپ کو خاکساری پسند آئے گی تو کسی کی اصول پسندی پسند آئے گی۔ اچھا! جہاں تک بہت زیادہ کام کرنے کے بعد خود کو ریلیکس کرنے یا فارغ وقت کی بات ہے تو آج کل میری ریلیکسیشن کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے میری چھوٹی بیٹی فاطمہ، میں جتنا بھی تھکا ہوا ہوں، اس کے ساتھ کھیل کر بالکل ریلیکس ہو جاتا ہوں۔

The post پاکستان کو آزادی تو ملی، لیکن سیاست اور معیشت آج بھی غلام ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

روبوٹس پاکستان میں!

$
0
0

روبوٹ ایک ایسا نام ہے جس کے بارے میں ہر فرد کا خیال دوسرے سے مختلف ہے۔ کچھ کے نزدیک روبوٹ مستقبل میں انسانوں کو کاہل بنادیں گے تو کچھ کے خیال میں اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان کا استعمال عام ہوگیا تو اس سے بے روز گاری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ روبوٹس کو بنانے، ان کی اسمبلنگ، پروگرامنگ انسانی مدد کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں، روبوٹ انسانوں کے حکم پر چلنے والی مشین ہے جو اپنے فیڈ کیے گئے پروگرام کے تحت سارے کام سرانجام دیتی ہے۔

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت تاخیر سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں روبوٹکس کی تعلیم اور تربیت دینے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ اور کچھ نجی اسکول اور جامعات میں طلبا کو روبوٹ بنانے کی باقاعدہ تربیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تاہم ملک کی زیادہ تر جامعات اور اسکولوں میں بنیادی یا کھلونا روبوٹ تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن کچھ ادارے اور افراد ایسے بھی ہیں جو قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے روبوٹس کو مکمل طور پر پاکستان میں تیار کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے ماہرین سے گفتگو کی۔

٭ڈاکٹر محمد بلال قادری

پی ایچ ڈی انجینئرنگ سائنس، آکسفورڈ یونیورسٹی لندن

ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میکاٹرونکسPAF-KIET

دنیا بھر میں سالوں سے روبوٹکس پر بہت کام ہورہا ہے ، گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بھی اس سمت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ بہت ساری جامعات میں میکاٹرونکس (روبوٹکس میکاٹرونکس کا ایک اہم شعبہ ہے) کے ڈگری پروگرام شروع کیے گئے ہیں، لیکن زیادہ تر جامعات میں یا تو کھلونا روبوٹ جنہیں ہم لیگو روبوٹ بھی کہتے ہیں پر کام ہو رہا ہے یا پھر باہر سے بنے بنائے روبوٹ منگوا کر طلبا کو اس پر سکھا یا جا رہا ہے۔

اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ روبوٹس کی تیاری میں استعمال ہونے والے سینسرز، سرکٹ او پروگرامنگ کا کام بہت مہنگا ہے جو کہ طلبا اپنی جیب سے نہیں کرسکتے۔ اور رہی بات یونیورسٹی کی جانب سے فنڈنگ کی تو دنیا بھر میں کہیں بھی یونیورسٹیاں کسی بھی ریسرچ گروپ کو بہت بڑی فنڈنگ نہیں کرتیں۔ اس کے لیے کچھ اسپن آؤٹ کمپنیاں ہوتی ہیں جو طالب علموں کو ریسرچ کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے ایسی کوئی سپورٹ موجود نہیں ہے۔ میں نے چار سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارے وہاں سب سے بڑی فنڈنگ ای ایس پی آر سی کی تھی، یہ ادارہ ہمارے ہائر ایجو کیشن کمیشن کی طرز کا ادارہ ہے۔

دو، تین سال قبل تک ہمارے پاس بھی فنڈز نہیں تھے لیکن پھر ہم نے ایک حکومتی ادارے اگنائٹ کو اپنا ریسرچ پروپوزل بھیجا کہ ہم قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد میں استعمال ہونے والے بڑے روبوٹ پر کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمیں فنڈز مہیا کیے جائیں۔ 14جولائی 2016کو ہم نے اگنائٹ کو قدرتی آفات اور فائر فائٹنگ کے لیے انٹیلی جینٹ موبائل روبوٹ (آئی ایم آرز) کے ڈیزائن اور ڈیویلپمنٹ کے لیے پہلا ڈلیور ایبل جمع کروایا۔ انہوں نے اپنی تمام کارروائی مکمل کرکے اس پراجیکٹ کے لیے ایک کروڑ سینتالیس لاکھ روپے کا فنڈ منظور کیا۔

اس کے بعد ہم نے فائر فائٹنگ روبوٹ بنانے کا پراجیکٹ شروع کیا۔ اس طرح کے روبوٹس برطانیہ اور جرمنی میں بنتے ہیں اور اگر انہیں پاکستان درآمد کیا جائے تو ان کی لاگت تقریباً پانچ کروڑ روپے آتی ہے۔

یہ روبوٹس فائر فائٹنگ کے علاوہ بم ڈسپوزل کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح جرمنی کے پیراشے گوفر روبوٹس بھی اسی کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمت برطانوی روبوٹس سے بھی زیادہ ہے تو ہمارا پروجیکٹ پاکستان میں اس جیسے روبوٹس تیار کرنا تھا۔ اسی کام کے لیے ہمیں دو سال کی فنڈنگ ہوئی تھی، جس کے بعد ہم نے ایک پوری ٹیم ہائر کی جس میں انجینئرز، ریسرچ ایسوسی ایٹس اور طلبا شامل تھے۔ مقررہ مدت میں ہم نے روبوٹ ڈیویلپ کیے اور رواں سال مارچ میں ان کا کام یاب تجربہ بھی کیا۔

اس تمام عرصے میں ہماری پوری ٹیم اور طلبا کو بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اس کے ساتھ ہم نے دوسرے چھوٹے روبوٹس پر بھی اپنا کام جاری رکھا۔ ہم نے جو فائر فائٹنگ روبوٹ تیار کیا ہے مقامی سطح پر اس کی لاگت تیس لاکھ روپے تک آئی ہے، جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس طرح کے روبوٹ کی قیمت پانچ کروڑ روپے تک ہے۔ کچھ ایسے بورڈ اور سینسر جن کی ٹیکنالوجی پاکستان میں دست یاب ہی نہیں ہے، ہمیں باہر سے خریدنے پڑے۔ تاہم ہارڈویئر ڈیوائسز کے علاوہ الگورتھم، سرکٹ ڈیزائن، میکنیکل ڈیزائن، پروگرامنگ مکمل طور پر ہماری ہے۔

ان روبوٹس کی تیاری کے ساتھ ہم ہر تین ماہ بعد اگنائٹ کو اپنے پراجیکٹ کی کارکردگی سے بھی آگاہ کرتے رہے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو ابھی پاکستان اس معاملے میں بہت پیچھے ہے ۔ ہمارے ہاں ابھی بھی مارکیٹ میں موجود کمرشیل روبوٹس بہت بنیادی اور کھلونا ٹائپ ہیں، صنعتی اور کمرشل مقاصد میں استعمال ہونے والے روبوٹس یا روبوٹکس آرمز ابھی تک پاکستان میں بننا شروع نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ وسائل کی عدم دست یابی ہے۔ جہاں وسائل استعمال ہونے چاہییں وہاں استعمال ہو ہی نہیں رہے، حکومتی سطح پر کوئی سپورٹ نہیں ہے۔

ہماری فنڈنگ بنیادی روبوٹ کی تیاری تک تھی لیکن اب میں اپنے روبوٹس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہوں، مزید جدت لانا چاہتا ہوں، لیکن اس کے لیے حکومت فنڈ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے پاس قابل لوگ ہیں، ذہین طالب علم ہیں لیکن وسائل نہیں ہیں۔ نجی شعبہ اس پر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے، کیوںکہ وہ باہر سے بنی بنائی چیز منگوا لیتے ہیں۔ خرابی کی صورت میں باہر سے ہی بندہ آکر اسے ٹھیک کردیتا ہے۔

وہ پاکستانیوں پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب ہم نے فائر فائٹنگ روبوٹ کا آئیڈیا پیش کیا تو اس میں محکمۂ فائر بریگیڈ نے دل چسپی ظاہر کی اور انہوں نے ہمیں ایک لیٹر بھی جاری کیا کہ اگر یہ روبوٹ پاکستان میں بن جاتے ہیں تو پھر یہ ہمارے لیے بہت سودمند ثابت ہوں گے، کیوں کہ بہت سی جگہوں پر فائرفائٹر کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر آگ بجھانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہماری یونیورسٹی کے صدر جوریٹائر ایئر وائس مارشل ہیں، انہوں نے اس پراجیکٹ کو دیکھ کر کہا کہ یہ بہت شان دار چیز ہے اور ایئرفورس میں اس کا بہت اچھا استعمال ہوسکتا ہے۔

فائر فائٹنگ روبوٹ کی تجرباتی آزمائش کے لیے ہم نے ایک کھلے میدان میں آگ لگائی اور ان روبوٹس نے مصنوعی ذہانت اور تھرمل امیجنگ سینسز کی بدولت نہ صرف آگ کی شدت اور مقام کا تعین کیا، بل کہ راستے میں حائل رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے آگ کے مقام پر پہنچ کر اسے کام یابی سے بجھایا۔ فی الحال یہ روبوٹ دوسرے درجے تک کی آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس سے زیادہ شدت کی آگ بجھانے کے لیے اسے آگ سے تحفظ فراہم کرنے والے میٹیریل کی ضرورت پڑے گی جو کہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہم استعمال نہیں کرسکے ہیں۔

عموماً فائرفائٹنگ روبوٹس کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ وہ پانی کی دیوار بناکر چلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آگ کی شدت سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ اس روبوٹ میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ تھرمل امیجنگ کی وجہ سے آگ کی شدت کا تعین کرکے اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ اس کا پروگرام اور باڈی اس آگ کی شدت برداشت کرسکتی ہے یا نہیں۔

٭سلمان مصطفی (ڈائریکٹر ایلفا اسکول)

نجی جامعات کے ساتھ کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں طلبا کو تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی دی جا رہی ہے، تا کہ بچے صرف اسناد حاصل کرنے تک محدود نہ رہیں، بل کہ عملی زندگی میں بھی مثبت کردار ادا کرسکیں، جدید دور کے تقاضوں کو نبھانے کے علاوہ، مستقبل کے اچھے لیڈر بن سکیں، یا جس شعبے میں بھی جانا چاہتے ہیں، اس میں وہ اپنی صلاحیتیں صرف کرسکیں۔

ایلفا اسکول میں روایتی مضامین کے علاوہ روبوٹس، فارمولا کار، انکیوبیٹر، جیسے جدید شعبوں میں طلبا کی راہ نمائی کی جا رہی ہے۔ اسکول کی سطح پر بچوں کو روبوٹکس جیسی جدید تعلیم عملی شکل میں دیے جانے کی بابت ایلفا اسکول کے ڈائریکٹر سلمان مصطفی کا کہنا ہے،’’ہم اپنے ادارے میں بچوں کی صلاحیتوں پر تو کام کرتے ہی ہیں مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ہمارے اردگرد کے بچوں کو تعلیم کے علاوہ کس طرح کے تعاون کی ضرورت ہے اور اپنی بساط کے مطابق ان کے کام آنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال نسٹ یونیورسٹی کے طلبا ہیں، جنہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ فارمولا کار بنانا اور جرمنی میں منعقد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے فارمولا کار شو میں شریک ہوکر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔

لہٰذا جہاں کئی اور ادارے ان کو اپنا تعاون فراہم کررہے تھے، وہیں ہم نے بھی اپنے حصے کا تعاون ان کو مہیا کیا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنایا کہ ہم پاکستان میں ایک عام طالب علم، جس کے پاس وسائل کی کمی مگر صلاحیتیں بے پنا ہ ہیں، اس کے کام آسکیں ۔ فارمولا کار کے لیے طلبا کو اسپانسر شپ دینے کے پیچھے دو مقاصد تھے، ایک تو یہ کہ وہ ایک فارمولا کار بنائیں اور دوسرا یہ کہ دیگر طلبا کو بھی اس کی تربیت فراہم کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کار کو پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، کیوںکہ اس کا ایک خاص ٹریک ہوتا ہے، وہ پاکستان میں دست یاب نہیں ہے، اس لیے وہ طلبا اس کو کمپیوٹر کے ذریعے ٹیسٹ کرکے جرمنی لے جائیں گے۔

ہمیں بچوں کو یہ سبق دینا ہے اگر تم خواب دیکھتے ہو تو وہ پورے بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم نے ان بچوں سے کہا کہ ہم آپ کو تعاون فراہم کریں گے، لیکن اس کے بدلے آپ ہمارے بچوں کو بھی یہ کار بنانے کی تربیت دیں، کیوں کہ نئی نسل کو دورجدید کے ان تمام کاموں سے واقف ہونا چاہیے۔ چوں کہ پاکستان میں اس طرح کی سہولتیں کم ہیں، اس لیے ہم مقامی وسائل کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں کہ بچوں کو عالمی سطح کی تعلیم اور تربیت فراہم کرسکیں، فارمولا کار کی اسپانسرشپ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے طلبا روبوٹکس کے شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں، اور ان کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے مستقبل قریب میں ہمارا تھری ڈی پرنٹرز لگانے کا ارادہ ہے، تاکہ طلبا اس جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی مستفید ہوسکیں۔

روبوٹکس کے حوالے سے بچوں میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے ہم روبوٹس کے مقابلے منعقد کرتے ہیں۔ ہم نے اس طرح کا ایک مقابلہ منعقد کیا، جس میں بچوں نے اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے روبوٹس کو چلایا۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ وہ اس سرگرمی کے ذریعے، روبوٹس کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو اور نکھاریں۔ صرف روبوٹ بناکر نمائش کے طور پر رکھ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم نے نئی جہتیں دریافت کیں، اس حوالے سے مزید کئی منصوبے ہمارے ذہن میں ہیں، جن کے ذریعے ہمارے طلبا اس شعبے میں لوگوں کو حیران کردیں گے۔

ہمارے ہاں ایک اور آئیڈیا انکیوبیٹر کا ہے، پاکستان میں یہ ابھی ابتدائی دور میں ہے، ہم اس حوالے سے بھی کام کررہے ہیں، صرف کسی ادارے کا ملازم ہوجانا کافی نہیں، بل کہ نوجوان آئیڈیاز پر کام کریں تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھیں، یوں تعلیم کے ساتھ طالب علم عملی طور پر اپنے شعبے سے جُڑسکیں گے۔ عہدِحاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے طلبا کو تربیت دینا ہمارا ویژن ہے، صرف سند حاصل کرلینا کوئی بات نہیں ہوتی، بل کہ عملی طور پر کام یاب ہونا اصل بات ہے۔ تعلیم صرف یہ نہیں ہے، رٹا لگا کر پاس ہوگئے اور بس، بل کہ طالب علم کا دماغ کُھلنا چاہیے، تاکہ وہ نئے آئیڈیاز پر کام کرے، اس کے بعد سوچیں، یہی طالب علم جب یونیورسٹی کی سطح پر جائے گا یا پھر عملی زندگی میں، تو اس کے دل ودماغ میں کوئی خوف نہیں ہوگا۔

٭ محمدوقاص(اسسٹنٹ مینیجر میکاٹرونکس)

محمد وقاص ایک نجی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ مینیجر میکاٹرونکس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ روبوٹکس کے لیے جامعات کی سطح پر فنڈنگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ عموماً یونیورسٹیز ریسرچ پراجیکٹس میں طالب علموں کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کرتیں، لیکن اگر کسی طالب علم کا ریسرچ ماڈل واقعی بہت اچھا ہو تو ہم کافی حد تک اس کی مدد کردیتے ہیں۔ بنیادی طور پر روبوٹکس، میکاٹرونکس کا ایک اہم جُز ہے، میکاٹرونکس میکینیکل اور الیکٹرونکس کے اشتراک سے بننے والی ٹیکنالوجی کو کہا جاتا ہے۔ ابھی ہم ایک روبوٹک آرم پر کام کر رہے ہیں، جس کی بدولت تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے سے کسی بھی شے کو اٹھایا جاسکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت سے لیس یہ روبوٹک آرم خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر کسی بھی شے کی جسامت اور وزن کا اندازہ لگا کر اسی حساب سے اپنی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس روبوٹ کو قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد میں ایسی جگہوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں انسانی دسترس نہ ہو یا وہاں انسانی جان کے ضیاع کا اندیشہ ہو۔ اس روبوٹ کو دنیا کے بیشتر ممالک میں بارودی سرنگوں کو ہٹانے، بارودی مواد کو تلف کرنے میں کام یابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومتی سرپرستی کی جائے تو پاکستان میں بھی ان روبوٹک آرمز کو ان مقاصد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ یونیورسل ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے اُٹھاکر کسی بھی روبوٹ کے بنیادی ڈھانچے پر فٹ کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں روبوٹکس کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے ہمارے ہر بیچ میں دس، پندرہ طلبا ہوتے تھے، لیکن اب ہر بیچ میں 35 سے زاید طلبا انرول ہورہے ہیں۔ کچھ طلبا روبوٹس کی پروگرامنگ کی طرف جاتے ہیں، کچھ آٹومیشن کی طرف اور کچھ طلبا سرکٹ ڈیزائننگ میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ سب اپنے اپنے شعبے میں رہ کر کام کرتے ہیں، لیکن ایک روبوٹ کی تیاری میں ان سب کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ روبوٹکس آرمز پر سب سے پہلی تحقیق کا آغاز بھی ہماری یونیورسٹی نے کیا۔ ہم نے ان کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کے لیے کچھ اداروں سے رابطہ کیا، لیکن بات پروپوزل سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

٭  محمد ذیشان (فیکلٹی ممبر)

ایک نجی یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر محمد ذیشان گذشتہ تین سال سے روبوٹکس کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی راہ نمائی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس شعبے کی بابت ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے سمسٹر ہی سے طلبا کو عملی طور پر روبوٹ بنانے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ پڑھی گئی چیزوں کے ساتھ عملی طور پر اس کا تجربہ حاصل کرسکیں۔ ابتدا میں ہم انہیں بنیادی روبوٹس (لیگو روبوٹس) تیار کرنے کے اسائنمنٹ دیتے ہیں، اس کے بعد ہم انہیں روبوٹ کی تھوڑی ایڈوانس شکل لائن فالوئنگ روبوٹس بنانے کا ٹاسک دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر لائن فالوئنگ روبوٹ خالصتاً تجارتی مقاصد میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ہوٹل انڈسٹری اور اسمبلی لائن پروڈکشن میں ان روبوٹس کا استعمال کام یابی سے کیا جا رہا ہے۔ ان روبوٹس کی پروگرامنگ میں کچھ مخصوص لائنوں کے بارے میں ہدایات فیڈ کردی جاتی ہیں کہ کس رنگ کی لائن پر چلنا ہے، کس رنگ کی لائن پر رُکنا ہے۔ اور پھر فرش پر اسی رنگ کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں۔

روبوٹ فیڈ کی گئی معلومات کی بنیاد پر انہی لائنوں پر چلتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ریستورانوں میں ان روبوٹس کو ویٹرز کی جگہ کام یابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے کھانے کی ٹرے پکڑا کر قطار میں چلنے کی ہدایت دی جاتی ہے اور پھر یہ اس لائن پر چلتا ہوا بتائی گئی میز پر پہنچ کر کھانا سرو کردیتا ہے۔ محمد ذیشان کا کہنا ہے کہ ہوٹل انڈسٹری کے علاوہ اس روبوٹ کو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ کم لاگت اور کم وقت میں تیار ہونے والا بہت ہی مفید روبوٹ ہے۔

کمپیوٹر اور موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے استعمال ہونے والے لائن فالوئنگ روبوٹ میں مصنوعی ذہانت پیدا کرنے کے لیے خصوصی سینسر لگائے جاتے ہیں اور یہ سینسر ہی اسے لکیر کی شناخت کرنے میں مدد دیتے اور کسی رکاوٹ سے بچاؤ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے طلبا نے حال ہی میں ایک ایڈوانس لائن فالوئنگ روبوٹ تیار کیا ہے جس نے مختلف یونیورسٹیز کے درمیان ہونے والے روبو وار مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

٭ معیز اللہ (موجد ’’مارخور روبوٹ‘‘)

معیز اللہ ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ میکاٹرونکس کے شعبے کے آخری سال میں زیرتعلیم ہیں۔ ملازمت کے ساتھ پڑھائی جاری رکھنے والے معیز اللہ نے اپنے فائنل ایئر کے پراجیکٹ میں ’مار خور‘ کے نام سے ایک دفاعی روبوٹ بنایا۔ سوا لاکھ روپے کی لاگت سے بننے والے اس روبوٹ کے ساتھ وہ ملک بھر میں ہونے والے روبوٹکس مقابلوں میں بھی شریک ہوئے۔

حال ہی میں انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والے ایک مقابلے میں شرکت کی۔ ملک بھر کی پچیس جامعات کے درمیان ہونے والے اس مقابلے میں ان کے روبوٹ مار خور کی کارکردگی اور دفاعی صلاحیتوں کو مقابلے کے منتظمین اور شُرکا نے بہت سراہا۔ عین وقت پر ان کے روبوٹ کی بیٹری میں ہونے والی معمولی سی خرابی کی بنا پر وہ اول انعام تو حاصل نہیں کرسکے تاہم چوتھی پوزیشن لینے میں کام یاب رہے۔

’’مارخور‘‘ کے بارے میں معیز اللہ کا کہنا ہے کہ اس کو دفاعی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اگلے حصے میں لگا تیزدھار ہتھیار پندرہ ہزار آر پی ایم (راؤنڈ پَر منٹ) کے حساب سے گھومتا ہے، جو اپنی زد میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ عموماً روبوٹ کی تیاری میں سب سے زیادہ لاگت اس کے سرکٹ اور پروگرامنگ پر آتی ہے لیکن مارخور میں اس کے برعکس ہوا، ہم نے سرکٹ وغیرہ سے زیادہ خرچہ اس کے اوپری ڈھانچے پر کیا ہے۔

اس کا ڈھانچا سو کلو گرام وزن اٹھا کر تیزرفتار سے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ مارخور کو آگ بجھانے، زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مقابلے میں شریک دیگر طلبا نے اپنے روبوٹس کو تین چار ماہ کی مدت میں تیار کیا تھا، لیکن ہمیں دو ہفتے قبل اس مقابلے کا پتا چلا، جس کے بعد میں نے اپنے پورے گروپ کے ساتھ مل کر صرٖف ڈیڑھ ہفتے کی قلیل مدت میں اسے تیار کیا۔ معیز اللہ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں وہ اسی شعبے میں تعلیم اور ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

٭ شاہ میر اعجاز

سولہ سالہ شاہ میر اعجاز ایلفا اسکول سائنس سوسائٹی کے صدر ہیں، ان کی دل چسپی کا محور روبوٹ ہیں اور اپنے اس شوق کے باعث وہ جامعات کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ ریاضی میں حد سے زیادہ دل چسپی رکھنے والے شاہ میر اپنی ٹیم کے ساتھ اب تک چھے روبوٹ بناچکے ہیں۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ ہم آرڈینو بورڈ کی مدد سے روبوٹ بناتے ہیں۔ سرکٹ اور آئی سیز کے علاوہ روبوٹس کی ساری پروگرامنگ اور کنٹرولنگ ہم خود کرتے ہیں۔ روبوٹ بنانا میرے لیے ایک اسکل ہے اور ریاضی میں دل چسپی ہونے کی وجہ سے مجھے روبوٹ کی اسمبلنگ سے زیادہ پروگرامنگ میں مزہ آتا ہے۔

پروگرامنگ کے لیے ویسے تو آرڈینو کی اپنی لینگویج ہوتی ہے، لیکن میں زیادہ ترpython، C++اور ویژول بیسک استعمال کرتا ہوں۔ پہلا روبوٹ میں نے گذشتہ سال اسکول میں ہونے والے پہلے روبوٹک مقابلے ’روبووار‘ کے لیے بنایا تھا، اس کے بعد رواں سال جنوری میں دوسرا روبوٹ لمس یونی ورسٹی میں ہونے والے مقابلے ’سائی فائی‘ کے لیے تیار کیا، اس مقابلے میں ہماری ٹیم ٹاپ تھری میں رہی۔ حبیب یونیورسٹی میں ہونے والے مقابلے ’اومی گون‘ میں بھی ہم ٹاپ تھری میں رہے، جب کہ پی اے ایف چیپٹر میں منعقد ہونے والے روبوٹک مقابلے ’روبوسٹ‘ میں ہم تیسرے نمبر پر آئے۔

مستقبل کے حوالے سے شاہ میر کا کہنا ہے کہ ہم اسی سال ہونے والے روبوٹک فٹ بال مقابلے کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے روبوٹ پر کام کررہے ہیں جو حقیقی کھلاڑیوں کی طرح فٹ بال کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اگنائٹ: تحقیقی فنڈ مہیا کرنے والا سرکاری ادارہ

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ایک ڈسپنسری بنانے کے لیے فنڈز کی دست یابی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے وہاں کچھ حکومتی ادارے ایسے بھی ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق کے فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان اداروں میں سرفہرست نام ’اگنائٹ‘ کا ہے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے ایک ادارے نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی فنڈ (انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ فنڈ) کے قیام کی منظوری دی۔

اس ادارے کے قیام کا مقصد پاکستان میں انفارمیشن اور مواصلاتی ٹیکنالوجی میں تحقیق کو فروغ دینا اور اس کے لیے جامعات اور اداروں کی سطح پر قابل اور اہل افراد کو تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کے تحت اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکومت نے ٹیلی کام انڈسٹری کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ اپنے منافع کا ایک مخصوص حصہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی تحقیق کے لیے مختص کرے۔

اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی وفاقی حکومت کی جانب سے کی جاتی ہے جو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی لائسنس یافتہ فکسڈ لائن آپریٹرز، سیلولر آپریٹرز اوور ڈیٹا سروس فراہم کرنے والی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کے منافع سے ایک مخصوص رقم اس فنڈ ز کے لیے جمع کرتی ہے۔ بعدازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے اگنائٹ رکھ دیا گیا، جس کے تحت ملک بھر کی جامعات کے اساتذہ اور طلبا انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، روبوٹکس اور انجینئرنگ کے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھ کر اگنائٹ کے ایک شعبے SEED (سولی سائی ٹیشن، انگیجمینٹ اینڈ ایویلیو ایشن ڈیپارٹمنٹ) کو بھیجتے ہیں۔ یہ محکمہ تحقیقی مقالوں کی قومی سطح پر جانچ کے بعد متعلقہ فرد کو اس میں موجود خامیوں کے بارے میں بتاتا ہے۔

درستی کے بعد SEED ان تحقیق مقالوں کو انٹرنیشنل ایویلیوایشن کے لیے ایکسٹرنل ایویلیوایٹر کے پاس بھیجتا ہے، وہاں سے منظوری کے بعدکے پاس بھیجا جاتا ہے۔جو چار کروڑ روپے تک کے پراجیکٹ منظور کرنے کی مجاز ہے، اگرپی اے سی اس پروپوزل کو منظور کرلے تو پھر متعلقہ جامعہ یا فرد کو فنڈز جاری کردیے جاتے ہیں۔ اگنائٹ کے تحت کسی پراجیکٹ کے لیے فنڈز دینے کا طریقہ 35  سے90 دن میں مکمل ہوجاتا ہے۔ تاہم چار کروڑ سے زاید کے پراجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے پی اے سی کی توثیق کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی نظرثانی اور منظوری کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بورڈ کسی پروپوزل کو منظور یا مسترد کرسکتا ہے۔

فائر فائٹنگ روبوٹ کے کام کرنے کا طریقۂ کار

بنیادی طور پر یہ روبوٹ ایسے ماحول کے لیے تیار کیا گیا ہے، جہاں آگ کی شدت بہت زیادہ ہو، یا وہاں تک فائر فائٹر کی رسائی ممکن نہ ہو۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے مزین یہ روبوٹ ایسے ماحول میں آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس روبوٹ کو مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیا گیا ہے، تاہم اس میں سونار (الٹرا سونک سینسرز جو فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں)، تھرمل امیجنگ سینسرز وغیرہ باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ اس روبوٹ کو آپ موبائل ایپلی کیشن یا اپنے کمپیوٹر کی مدد سے بھی ایک کلومیٹر فاصلے سے آپریٹ کرسکتے ہیں۔

یہ روبوٹ نہ صر ف فائر فائٹنگ بل کہ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں بھی امدادی کام بہ آسانی کرسکتا ہے۔ اس میں ایسے سینسر لگے ہیں کہ یہ خود ہی آگ کی نوعیت کا تعین کرکے اس کے حساب سے اپنا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ فائر فائٹنگ روبوٹ دوسرے روبوٹ کے ساتھ رابطہ کرنے، ٹو ڈی میپنگ (اطراف کا نقشہ بنانا) کرنے، آگ کی شدت اور نوعیت کی جانچ، تھرمل امیجنگ کے ساتھ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر حالت میں کام کرنے کی صلاحیت کی بنا پر ان روبوٹس کو آگ بُجھانے اور نگرانی کرنے لیے اور قدرتی آفات میں موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فائرفائٹر روبوٹ بنانے والے ڈاکٹربلال قادری کہتے ہیں کہ آزمائشی تجربے میں اس روبوٹ نے بڑی کام یابی سے 12بار کے پریشر سے پانی پھینکا، ہمیں اس کے الٹنے کا خدشہ تھا، کیوں کہ بارہ بار کا پریشر بہت زیادہ ہوتا ہے، آٹھ بار کا پریشر ایک دیوار کو گرانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

پورٹ ایبل اور نقل و حمل میں آسانی کی وجہ سے اس روبوٹ کو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد دفاعی مقاصد میں بھی موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر ہم نے چھوٹے زومو روبوٹ تیار کیے اور اس پر کام یاب تجربے کے بعد بڑے روبوٹ ڈیویلپ کیے۔ زومو میں ہم نے بہت منہگے آلات لگائے۔ اس میں ہم نے Lidar (لائٹ ڈٰیٹیکشن اینڈ رینجنگ) سینسر استعمال کیے جو پوری ٹودی میپنگ کرتا ہے، اس کے علاوہ الٹرا سونک سینسر لگائے جس نے انہیں بہت زیادہ دھویں میں نقل و حرکت کرنے کا اہل بنایا۔ یہ یو ٹی (الٹراہائی ٹیمپریچر) سینسر کہلاتے ہیں۔

یہ سینسر کنٹرولر کو راستے میں موجود کسی رکاوٹ، بہت زیادہ دھویں یا اندھیرے سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہم نے اس روبوٹ کا امیجنگ سسٹم ڈیویلپ کیا جو کہ اس کی ریئل ٹائم تھری ڈی لوکیشن دیتا ہے، اس کے بعد یہ روبوٹ ایک فارمیشن میں حرکت کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے پائی بورڈ ڈیویلپ کیا، جو کہ پاکستان میں ابھی تجارتی بنیاد پر دست یاب نہیں ہے، یہ الگورتھم ہم نے خود تیار کیا ۔ یہ پائی بورڈ ریئل ٹائم ویڈیو دکھا تا ہے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ بم کو تلف کرنا ہے یا اٹھانا ہے۔

اس کے علاوہ ہم نئے آنے والے طلبا کو سکھانے کے لیے لکڑی کے روبوٹ تیار کر رہے ہیں، ابتدا میں ہم نے اس کام کے لیے مارکیٹ سے دو لاکھ روپے میں ایک روبوٹ خریدا تھا لیکن وہ بس ایک کھلونا ہی ہے، ہم نے جو ووڈن روبوٹ تیار کیا ہے اس کی لاگت چالیس پینتالیس ہزار سے زاید نہیں ہے۔ یہ بیسک روبوٹ ہے، ہم روبوٹ کا ایک پورا ون ونڈو سلوشن تیار کرنے کے خواہش مند ہیں جو فائر فائٹنگ، بم ڈسپوزل روبوٹس کے ساتھ کواڈ کاپٹر روبوٹ بھی ہو۔ اگر وسائل ہوں تو ہم اسنیک روبوٹس بھی تیار کر سکتے ہیں جو قدرتی آفات خصوصا زلزلے وغیرہ میں تنگ جگہوں میں جا کر کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسا علاقہ جہاں اسے ربڑ کے ٹائروں کے ساتھ نہ بھیجا جاسکے تو ان علاقوں کے لیے اس میں پہیوں کی جگہ اس طرح کی چین لگائی جاسکتی ہے جو فوجی ٹینکوں میں لگی ہوتی ہے۔

جی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم) کی بدولت یہ روبوٹس خودکار طریقے سے نہ صرف اپنی ساری نقل و حمل کا ریکارڈ اپنے کنٹرولر تک بھیجتا ہے بل کہ اپنے طور پر کی گئی ساری کارروائی بھی ریکارڈ کرکے بھیجتا ہے۔ خصوصاً جنگلات میں لگنے والی آگ میں روبوٹ پانی کی دیوار بنا کر پہلے اپنا راستہ بناتا ہے اس کے بعد آگے بڑھتا ہے۔ اگر امدادی کارروائی کے درمیان اس کے پروگرام میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو اس کے وائر لیس ماڈیول کی بدولت کنٹرولر ایک کلو میٹر فاصلے سے بھی اس خرابی کو دور کرسکتا ہے، لیکن اگر خرابی اس کے ہارڈوییئر میں ہو تو پھر اسے فاصلے سے ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہے۔

 روبوٹ میزبان

گذشتہ سال دسمبر میں کراچی میں ہونے والی ایک شادی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ نہ تو اس شادی میں نوٹوں کی برسات کی گئی اور نہ ہی دولہا یا دلہن میں سے کوئی مشہور شخصیت تھی۔ دلہا دلہن سے زیادہ مرکز نگاہ ایلشن نامی روبوٹ تھا، جسے این ای ڈی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالب علم اور اس شادی کے دلہا نبیل نے ایک سال کے عرصے میں تیار کیا تھا۔

اس روبوٹ نے نہ صرف مہمانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں بلکہ ہر میز پر جا کر مہمانوں کی خیرخیریت دریافت کی اور ان سے کھانے کے ذائقے کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ ایلشن نامی اس روبوٹ کے موجد نبیل کا کہنا تھا کہ یہ روبوٹ میں نے اپنی شادی پر والدہ کو تحفے مین دینے کے لیے تیار کیا تھا جو خیرمقدمی کلمات کے ساتھ گھر کے کام کاج کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ کو تیار کرنے میں ان کے تقریباً بیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

The post روبوٹس پاکستان میں! appeared first on ایکسپریس اردو.

آشیانہ کرپشن کیس؛ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نیب میں پیش

$
0
0

لاہور: سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ کرپشن اور پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کیس میں نیب میں پیش ہوگئے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدرشہبازشریف نیب آفس میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے ہیں۔ انہیں نیب نے پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کیس اور آشیانہ کیس میں تحقیقات کے لیے بھی طلب کررکھا تھا۔ شہبازشریف کافی دیر تک نیب آفس لاہورمیں موجود رہے جہاں ان سے تقریباً پونے 2 گھنٹے تک تفتیش کی گئی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: شہباز شریف آشیانہ کرپشن کیس میں طلب

واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے مستحق ٹھیکیدار چوہدری لطیف کا ٹھیکہ منسوخ کرکے لاہور کاسا کو ٹھیکہ نوازا جس سے قومی خزانے کو 19 کروڑ 30 لاکھ روپے نقصان پہنچا جب کہ آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دینے سے قومی خزانے کو 71 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

The post آشیانہ کرپشن کیس؛ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نیب میں پیش appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4759 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>