Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4424 articles
Browse latest View live

’درخت‘ محافظوں کی قطار، دوستوں کا گھیرا

$
0
0

درخت انسانی زندگی کا جزو لازم ہیں، اور بنی نوع انسان ازل سے ان پر انحصار کرتا رہا ہے۔ درخت ہمیں آکسیجن فراہم کرنے کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کو صحت مند بناتے ہیں۔ دنیا کے بڑھتے درجۂ حرارت میں کمی اور موسمی تغیرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگلات کو کٹنے سے روکنے اور شجر کاری کو فروغ دینے کے اشد ضرورت ہے۔

درخت بنی نوع انسان اور دیگر مخلوقات کے لیے قدرت کی جانب سے دیا گیا ایک عظیم تحفہ ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا فراہم کرتے ہیں، گرمیوں میں چھاؤں دیتے ہیں، زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کی عدم موجودگی سیلاب اور سمندری طوفان کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں جنگلات کل رقبے کے محض چار فی صد پر مشتمل ہیں اور ان کی تیزرفتاری سے ہونے والی کٹائی ہمیں موسمی تغیرات اور قدرتی آفات کے لیے مزید غیرمحفوظ بنا رہی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ماحولیاتی تناظر میں دیکھا جائے تو 35فی صد رقبے پر محیط جنگلات والے ملک کے شہریوں کی صحت دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ اچھی ہوگی۔

لیکن ہم شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے ماحولیاتی اور موسمی تغیرات کے خطرات سے دانستہ اور نادانستہ طور پر چشم پوشی کر رہے ہیں، بڑھتا ہوا درجۂ حرارت شمالی علاقہ جات میں گلیشیئرز کو پگھلا رہا ہے، گلیشیئرزکو پگھلنے سے روکنے کے لیے ہم مزید شجرکاری کرنے کے بجائے قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درخت جس تیزی سے کاٹے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو رہی ہے، جو جانداروں کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔

درخت لگانے کا کام بہت مہنگا یا زیادہ وقت طلب نہیں ہے، صرف چند بیجوں کو ایسی جگہ بوئیں، جہاں ہوا، دھوپ اور مٹی موجود ہو اور آپ دن میں ایک بار پانی دے سکیں۔ پودا لگا دینا بہت بڑی بات ہے، مگر پودے کی باقاعدہ حفاظت اور آب یاری کرنا اس سے بھی بڑی ذمے داری ہے، کیوںکہ پودا لگانے کے مقاصد تو اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جب پودا لگانے کے بعد اس وقت تک اس کی حفاظت کریں، جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا۔ پاکستان میں متعدد بار شجرکاری مہم چلائی گئی۔ ہر سال سرکاری سطح پر اربوں روپے کے پودے لگائے جاتے ہیں، لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں۔ اگرچہ ہم انفرادی طور پر اپنے ملک میں جنگلات میں اضافہ نہیں کرسکتے، لیکن اپنے اپنے طور پر درختوں میں اضافہ تو کرسکتے ہیں۔ درجۂ حرارت میں کمی کے علاوہ درختوں کے بہت سے فوائد اور بھی ہیں۔

٭خشک سالی سے بچاؤ

اگر یہ کہا جائے کہ درخت قحط سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ جنگلات اور شہروں میں لگے درخت پانی کی گردش کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کرتے ہیں۔ پانی درخت کی جڑوں کے ذریعے جذب ہوتا ہے اور پھر درخت اس پانی کو پتوں کے ذریعے ہوا میں خارج کردیتے ہیں، جس سے ہوا میں نمی کا تناسب برقرار رہتا ہے۔ اس سارے عمل کو اخراج بخارات (ٹراسپیریشن) کہا جاتا ہے۔ درخت بارش کا پانی پتوں سے جذب کرکے اسے بخارات کی شکل میں دوبارہ خارج ہو کر بارش کے بادل بناتے ہیں، چند سل قبل برازیل کے دارالحکومت ریو میں سینٹر فار انٹرنیشنل فاریسٹری ریسرچ (سی آئی ایف او آر) کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق بارانی جنگلات خشک موسم اور بارشوں کے دوران نہ صرف دریاؤں کے بہاؤ کو باقاعدگی سے رواں رکھتے ہیں، بل کہ قلت آب اور سیلاب کے خطرات کو بھی کم سے کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس بابت محقق ڈیوڈ ایلیسن کا کہنا ہے کہ ’درخت اور پانی کے درمیان موجود ربط بہت پیچیدہ ہے۔ مقامی سطح پر آب گیری پر ہونے والے مطالعوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ درحقیقت درخت نظام سے پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درخت مٹی سے پانی کو جذب کرکے ہوا میں خارج کردیتے ہیں۔ درخت کے پتے ایک مزاحم کا کردار ادا کرتے ہوئے بارش کا پانی جذب کرکے کسی اور جگہ بارش کے برسنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سارے عمل کو ایواپو ٹرانسپیریشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایلیسن کا کہنا ہے کہ ’ماحولیاتی تغیرات کے ساتھ ساتھ بدترین خشک سالی بھی عام ہوتی جارہی ہے، اور ہمیں درختوں کا موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے آبی چکر پر اثرانداز ہونے کے مواقع کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’سمندر کی نسبت دنیا کے اہم اور بڑے دریاؤں پرایواپو ٹرانسپیریشن کے ذریعے پانی کے بخارات بننے کے تناسب کی شناخت پر ہونے والے مطالعوں کے بعد ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بارش کے ہونے میں ایواپو ٹرانسپیریشن کا بڑا حصہ ہے، دنیا بھر میں موسم گرما میں یہ عمل اوسطاً پچاس فی صد اور سالانہ چالیس فی صد بارشوں کا سبب بنتا ہے۔‘‘ لہٰذا جنگلات یا درختوں کی کٹائی سے پانی کے بخارات کی بین براعظمی منتقلی پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح خشک سالی سے متاثرہ خطوں میں درخت لگانے سے مستقبل میں بارشیں کی جاسکتی ہیں۔

٭سیلاب سے تحفظ

پانی جذب کرنے کی صلاحیت کی بنا پر درخت سیلاب سے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف برمنگھم اور ساؤتھ ٹیمپٹن میں ہونے والی تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ درخت شہری علاقوں میں سیلاب لہروں کی بلندی کو بیس فی صد تک کم کر سکتے ہیں۔ برمنگھم یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف فاریسٹ ریسرچ کے پروفیسر اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر سائمن ڈکسن کا کہنا ہے کہ اس کام کے لیے ہم نے برکین ہرسٹ قصبے کے نشیبی علاقے میں واقع دریا کے کنارے سو کلومیٹر رقبے پر درخت لگائے۔ دریا کی مجموعی لمبائی کے محض دس سے پندرہ فی صد علاقے میں درختوں کی شکل میں موجود رکاوٹ سے دریا کی سیلابی کیفیت میں بلند ہونے والی لہروں کی اونچائی میں چھے فی صد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ اور اگر دریا کی لمبائی کے بیس سے پچیس فی صد پر درخت لگادیں تو اس کی وجہ سے مستقبل میں آنے والے سیلاب کی لہروں کی اونچائی میں بیس فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر سائمن کا کہنا ہے کہ درخت نہ صرف سیلاب بلکہ دیگر قدرتی آفات کے خطرات کو بھی کافی حد تک کم کرتا ہے، کیوں کہ درخت نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی مٹی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جس کا نتیجہ سیلاب کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ درخت مٹی کے بہنے کو روک کر پانی کی رفتار کو کم کرتے ہیں جس سے زمین سیلابی پانی کے کٹاؤ سے محفوظ رہتی ہے، اور سیلاب کے گزر جانے کے بعد ہوا کے کٹاؤ سے بھی زمین کی اوپری سطح کی زرخیز مٹی کو اڑا کر دور چلے جانے سے روک لیتی ہے۔ اور زمین کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔ برطانیہ کی محکمۂ ماحولیات کے فلڈ رسک مینیجر بین لیوکے کا کہنا ہے کہ ’ہم سیلاب سے روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ مختلف اقدامات کر رہے ہیں جس میں شجرکاری سر فہرست ہے اور سائنسی تحقیقی جریدے ارتھ سرفیس پراسیسز اینڈ لینڈ ریفارمز میں شایع ہونے والی اس تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔

٭مٹی کے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ سے تحفظ

زمین کے کٹاؤ کو عموماً ماحولیاتی مسائل میں سب سے کم اہمیت دی جاتی رہی ہے ، لیکن در حقیقت یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں دنیا بھر میں مٹی کی اوپری سطح کٹاؤ کی وجہ سے ضایع ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے مٹی کی زرخیزی میں کمی اور کھارے پن میں اضافہ ہوا ہے، اور اس کا بلاواسطہ اثر زراعت پر پڑا ہے۔ جب کہ دریاؤں، نہروں اور میٹھے پانی کے ذخیروں میں رہنے والی آبی حیات کی تعداد میں بھی کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔ مٹی کے کٹاؤ میں اضافے کی ایک اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی ہے۔ تیز ہوا اور بارش کے سبب مٹی کی اوپری زرخیز سطح بہہ جاتی ہے۔

اس سے زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوتی ہے، جس سے زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید خراب ہوجاتی ہے جب یہ بہنے والی مٹی زمین پر موجود دیگر آلودہ اشیا کو ساتھ لے کر سمندر یا دریاؤں میں جا گرتی ہے۔ یہ آلودگی پانی میں آبی حیات کے لیے موت کا سامان بننے والی نائٹروجن گیس کی سطح میں اضافہ کرتی ہے۔ درخت اپنی زیرزمین پھیلی مضبوط جڑوں کی مدد سے نہ صرف مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، بل کہ تیز ہوا کی شدت کم کر کے مٹی کو اڑنے سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ مٹی کا کٹاؤ رکنے کی وجہ سے لینڈسلائیڈنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

٭زمین کی زرخیزی میں اضافہ

درخت پانی اور مٹی کو ایک ساتھ ملا کر اس کی زر خیزی میں اضافہ کرتے ہیں، مٹی کی زرخیزی اچھی فصل کی ضامن ہے۔ درخت سے جھڑنے والے پتے اور ان کی شاخیں زمین پر گر کر ڈی کمپوز ہوجاتی ہے جو حشرات الارض کی غذا بنتی ہیں۔ یہ تمام تر نامیاتی مادہ زمین کی قدرتی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق درختوں اور جنگلی حیات کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوگا، زمین کی زرخیزی اور اس میں اُگنے والی فصل اور زیادہ غذائیت بخش ہوگی۔

٭صوتی آلودگی میں کمی

صوتی آلودگی قدرتی ماحول میں غیرفطری طریقے سے پیدا ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے صوتی حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر جنگلات کی بے دریغ کٹائی، کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والا شور صوتی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ آلودگی کی یہ شکل دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جُڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔

درخت صوتی آلودگی کو کم کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ماحول میں موجود شور کو جذب کرکے آواز کی لہروں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کی شدت کم کر دیتے ہیں۔ درخت اپنے پتوں کی سرسراہٹ سے ناپسندیدہ آواز کو پس ِ پشت کرنے کا اہم فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہ شور کی راہ میں مزاحم ہوکر شور کے منبع اور سننے والے کے درمیان فاصلہ پیدا کرتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درخت والی جگہوں پر تیس میٹر کے فاصلے پر پیدا ہونے والے شور کی شدت 6 ڈیسی بل (شور کا پیمانہ) تک کم ہوسکتی ہے، 15سے 30 میٹر چوڑے رقبے پر موجود درخت اور جھاڑیاں شور کی سطح کو 6سے 8 ڈیسی بل تک کم کر سکتے ہیں۔ صرف درخت ہی نہیں بل کہ اس کی شاخیں اور پتے بھی صوتی آلودگی کی شدت میں کمی کے لیے اہم فعل سرانجام دیتے ہیں۔

٭ درجۂ حرارت میں کمی

گلوبل وارمنگ ماہرین ماحولیات کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں سے نمٹنے کے لیے دنیا کا ہر ملک اپنے اپنے طور پر کوشش کر رہا ہے۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود زمین کا درجۂ حرارت دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، جس کا ایک عنصر درختوں کی کٹائی اور نئے درخت نہ لگانا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان خصوصاً شہر قائد کو شدید ترین گرم موسم کا سامنا رہا ہے، جس کی اہم وجہ شہری منصوبہ بندی کا نہ ہونا، تیزی سے بڑھتی آبادی کے رہنے کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے جس نے اس میگا سٹی کو موسمیاتی تغیرات برداشت کرنے کے لیے غیر محفوظ بنادیا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’سَسٹین ایبل انرجی فار آل‘ کی رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض کے بلند ہوتے درجۂ حرارت سے ایک ارب سے زائد افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ یہ لوگ گرمی کی شدت کم کرنے والے مصنوعی برقی آلات پنکھوں، فرج، اے سی جیسی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والوں میں ان افراد میں اکثریت کا تعلق جنوب ایشیا سے ہے، جب کہ لاطینی امریکا کے دیہی علاقوں کے چار کروڑ تیس لاکھ اور کچی آبادیوں میں رہنے والے چھے کروڑ افراد گرمی کی شدت سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ یہ رپورٹ دنیا کے 52 ممالک میں ہونے والے سروے کے نتائج پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے شجر کاری کے فروغ پر بھی زور دیا گیا ہے، کیوں کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن کو جذب کرنے کے ساتھ اپنے پتوں میں موجود پانی کو بخارات کی شکل میں ہوا میں خارج کرتے رہتے ہیں، جس سے اطراف میں گرمی کی شدت کم ہوتی ہے، جب کہ درختوں کے سائے میں موجود زمین میں پانی کے بخارات کی شکل میں ضایع ہونے کی شرح بھی بہت کم ہوجاتی ہے۔

٭درخت، خوشی کا سبب

درخت لوگوں کی صحت اور مسرت کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ آپ کسی تناور درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں تو اس کی بھی ایک سائنسی توضیح موجود ہے۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی درخت کے سائے میں بیٹھنا یا کسی درخت یا جنگل کی تصویر مرکزی اعصابی نظام پر اثر انداز ہو کر باعث سکون بنتی ہے۔ اعصابی نظام کا یہ حصہ دو حصوں sympathetic اورparasympathetic پر مشتمل ہوتا ہے۔ sympathetic حصہ کسی لڑائی کی صورت میں دل کی دھڑکن ، سانس اور خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے جس سے خون میں ایک ہارمون ایڈرینالین میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی اور منہ خشک ہوجاتا ہے، ہمارے پٹھے اکڑ کے سخت ہوجاتے ہیں، جب کہ اس کے بر عکس parasympathetic حصہ سکون اور نظام ہضم کو کنٹرول کرتا ہے، نبض کی رفتار مدھم، خون کی گردش اور سانس کی رفتار معمول کے مطابق ہوجاتی ہے اور جب ہم کسی سرسبز جگہ پر جاتے ہیں تو ہمارے مرکزی اعصابی نظام کا یہ parasympathetic زیادہ فعال ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو زیادہ پُرسکون اور خوش محسوس کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں درختوں کی تعداد زیادہ رکھی جاتی ہے کیوں کہ یہ مریض کے لیے سکون بخش ثابت ہوتے ہیں۔

The post ’درخت‘ محافظوں کی قطار، دوستوں کا گھیرا appeared first on ایکسپریس اردو.


ہتھیاروں سے کھیلتا دنیا کا مستقبل

$
0
0

یہ قصہ اس وقت کا نہیں جب گھڑ سوار، دیوہیکل پہاڑوں کو لرزاتے، زمین کا سینہ پھاڑتے، خوب صورت ندیوں کا حُسن گہناتے اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کرتے ہوئے آتے اور آواز اٹھانے والوں کے گلے میں پٹا ڈال کر ساتھ ہنکا لے جاتے۔

یہ قصہ اس وقت کا بھی نہیں جب بادشاہوں کے درباروں سے وقت سہم کر گزرتا، تہذیب اپنی آبرو کھوتی اور امن و سکون اپنے بے دریغ استیصال پر نوحہ گر ہوتے۔ یہ تو کہانی ہے ہمارے مشینی اور سائنسی دور کی جس نے بظاہر تو سب کچھ بدل ڈالا لیکن نہ بدل سکا تو حیوانیت اور طاقت کے اظہار کا صدیوں پرانا طریقہ۔ انسان نے سیاروں پر کمند ڈالی، سیاروں پر قدم جمائے، موذی امراض کو شکست فاش دی، جو چاہا وہ حاصل کرلیا، لیکن افسوس بربریت میں وہ پہلے سے بھی زیادہ پستی میں اتر گیا۔ ترقی کی انتہاؤں کو چھوکر بھی دنیا کے شانے غموں سے بوجھل ہیں۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ ترقی کی دوڑ میں سرپٹ دوڑنے کے بعد بھی دنیا کو چائلڈ سولجر جیسے بھیانک تصور کا کسیلا ذائقہ چکھنا پڑ جائے گا۔ جی ہاں! دنیا بھر کے جنگی خطوں میں آج بھی ہزاروں بچے جبری فوج میں بھرتی کیے جارہے ہیں اور اتنے بڑے ظلم پر سب آنکھیں موندے اس کڑوی حقیقت سے نظریں چرانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

نئی صدی کا چبھتا ہوا سچ تو یہ ہے کہ کئی ممالک کی مسلح افواج اور گروہوں کا چالیس فی صد چائلڈ سولجرز پر مشتمل ہے جو ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان، انڈیا، کانگو، عراق، تھائی لینڈ، شام اور یمن سمیت دنیا کے چودہ ممالک میں بچوں کی فوج اور متحارب گروہوں میں بھرتی معمول کی بات ہے۔ تنازعات میں الجھے خطوں کے بچے جو بنیادی سہولیات سے کوسوں دور محرومیوں کے سائے تلے پروان چڑھ رہے ہیں ان کو معمولی معمولی معاوضوں کے عوض بڑی بڑی جنگوں کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ اور کہیں کہیں تو معاوضے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی بلکہ ہجرت کر کے پناہ کی تلاش میں آنے والے بچوں کو جبری فوجی بنا کر محاذوں پر روانہ کردیا جاتا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان بچوں نے رضاکارانہ فوج میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے مطابق فوج میں بھرتی ہونے کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال مقرر ہے، لیکن جنگی خطوں میں نو سے چودہ سال کی عمروں کے چاند بھی گہنائے جارہے ہیں اور دنیا کے کرتا دھرتا چپ کی چادر میں پاؤں پسارے خود کو بے خبر ظاہر کرنے کی خوب اداکاری کر رہے ہیں۔

دنیا نے آج تک کتنے ہی رنگ اوڑھے اور کتنے ہی چولے بدلے، لیکن فرعونیت ہر دور میں ثابت قدم ٹھہری۔ ماضی کے فرعونوں نے بچوں کو زندہ ابالا، نیزوں میں پرویا اور بھٹیوں میں بھونا تو آج کے فرعونوں نے ان معصوموں کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا۔ دشمن کے سامنے صف بستہ ان بچوں کو تو دشمنی کا مفہوم تک معلوم نہیں۔ اکثر یہ بچے جاسوسی کرتے ہوئے مخالف گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بدترین تشدد سہتے یا پھر مار دیے جاتے ہیں۔ اور اکثر یہ صرف فوجیوں کی جنسی آسودگی کے لیے فوج میں بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے صرف بچے ہی نہیں بلکہ بچیاں بھی استعمال کی جارہی ہیں جو محاذوں پر ان فوجیوں کے بچے بھی پیدا کرتی ہیں اور ان بچوں کو کمر پر باندھے باندھے دیگر خدمات بھی سر انجام دیتی ہیں۔ اکثر ان بچوں کو فوجی کارروائیوں میں سب سے آگے رکھا جاتا ہے اور اسے men checkingکا نام دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں کوئی بارود نصب ہو یا اچانک حملہ ہوجائے تو اس کی زد میں یہ بچے آجائیں اور باقی فوجی محفوظ رہیں۔ انسانی حقوق کی اس قدر شدید خلاف ورزی پر گو کہ ا قوام متحدہ اور ہیومن رائٹ واچ نے کافی آواز بلند کی لیکن وہ نقار خانے میں طوطی کی صدا سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوئی اور آج حال یہ ہے کہ گذشتہ سالوں کے مقابلے میں چائلڈ سولجرز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

چائلڈ سولجر بنانے جیسے بڑے جرم میں کون کون سے ممالک ملوث ہیں اور ان بچوں کو کن کن جنگوں میں جھونکا جارہا ہے؟ اس کا فرداً فرداً جائزہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹوں کے مطابق ایران میں اٖفغان مہاجر بچوں کو جبری فوج میں بھرتی کر کے شامی جنگ کا حصہ بنایا جارہا ہے اور ان بچوں کی عمریں چودہ سال یا اس سے بھی کم ہیں۔ انہوں نے جب شام میں مارے جانے والے ایرانی سپاہیوں کی قبروں کا دورہ کیا تو کتبوں پر نصب فوجیوں کی تصاویر چیخ چیخ کر ان کی عمریں بتا رہی تھیں۔ ایرانی حکومت کے ترجمان اگر چہ یہی کہتے رہے کہ مرنے والے فوجی اٹھارہ سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن ان کو جنم دینے والی مائیں حکومت کی غلط بیانی کا پردہ فاش کر تے ہوئے بلکنے لگیں کہ ان کے لعل تو ابھی اس قابل ہی نہ تھے کہ زمانے کے سرد و گرم دیکھتے، آخر ان کو جنگی شعلوں کی نذر کیوں کردیا گیا؟

ہیومن رائٹ واچ کی مشرق وسطی کی ڈائریکٹر سارا لی وٹسن نے اس رپورٹ کے بعد ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ وہ افغان مہاجرین کی بحالی کی ذمہ دار ہے لہذا فوری طور پر بچوں کو شام کے محاذ سے واپس بلا کر ان کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ لیکن کیسے حقوق اور کہاں کی پاس داری؟ یہ بے گھر مہاجر بچے تو آسان شکار ہیں اور ان کو استعمال کر نے والے گھاگ شکاری۔

2015 کے اعدادوشمار کے مطابق ایران میں 2.5 ملین افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ان مہاجرین کی اکثریت کو لڑنے کے لیے فاطمیون ڈویژن میں شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ فاطمیون ڈویژن اس وقت چودہ ہزار سے زیادہ سپاہیوں پر مشتمل ہے جن میں بیشتر افغان مہاجرین ہیں۔ اس میں شامل افغان فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تربیتی کیمپوں میں ایسے بچے بھی دیکھے جن کی عمریں چودہ سے سترہ سال کے درمیان ہیں اور انہیں شامی جنگ میں حصہ لینے اور لڑنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے فاطمیون ڈویژن میں شامل ہونے والے افغانوں پر کوئی دباؤ نہیں، انہوں نے اپنی مرضی سے اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب بے کسوں اور مجبوروں کے لیے زندہ رہنے کا کوئی دوسرا راستہ ہی نہ چھوڑا جائے تو وہ اپنی بقا کا واحد راستہ ہی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چاہے اس کا انجام اپنی موت ہو یا کُل عالم کی تباہی۔ ایران میں افغان مہاجرین کی بدترین حالت اور بے دخلی کا خوف دو بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بچے ہوں یا بڑے سب نے جنگجو بننا قبول کر لیا ہے۔

افریقا وہ بدترین خطہ ہے جہاں چائلڈ سولجر کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پہلی وجہ یہاں کی بدترین اقتصادی حالت ہے، جس کی وجہ سے بچے اسکولوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے دور بے کاری اور آوارہ گردی میں وقت گزار کر زندگی کی ہنسی اُڑاتے ہیں اور دوسرا یہاں پنپتے سیکڑوں تنازعات اور موجود لاتعداد متحارب گروہ۔ فارغ اور آوارہ بچے معمولی معمولی معاوضوں کے عوض ان گروہوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یوں افریقا میں کہیں بچے بھوک، افلاس اور گولیوں سے مر رہے ہیں تو کہیں مشین گنیں ہاتھوں میں اٹھا ئے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صرف کانگو کے صوبے کاسائی ہی میں دس ہزار سے زیادہ چائلڈ سولجرز موجود ہیں جو کسی نہ کسی گروہ سے وابستہ ہیں۔ کانگو کے ان فوجی بچوں کا بچپن گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی نذر ہو چکا ہے۔ ان کے ننھے ذہن چھلنی ہوچکے ہیں اور ہر وقت حملے کے خوف نے ان کی میٹھی نیند کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔

بچوں کو رحم دلی اور نرمی کے جذبے سے یکسر خالی کرنے کے لیے انہیں اکثر اپنے قریبی دوستوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ سگے بہن بھائیوں کے قتل کا ہدف بھی دیا جاتا ہے۔ بارود کی بو اندر بسائے جوان ہونے والے یہ بچے آنے والے وقت میں دنیا کے لیے ایک بڑی بربادی کے اعلان کے سوا اور کیا ثابت ہوں گے؟ وقت جن انسانی اقدار کا متقاضی ہے ان حسیات کا اگر بچپن ہی میں طایسی دنیا میں قدم دھر کر کرنا بھی کیا تھا جہاں ان کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی نہ پینے کو صاف پانی۔ کانگو میں اس وقت بھی چھوٹے چھوٹے بچے فوجی خدمات انجام دے کر اپنے گھر والوں کے پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہیں۔ ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ اس دوزخ کو بھرنے کے لیے انہیں باقی دنیا میں جہنم دہکانا پڑ رہا ہے۔ یہ صورت حال شاید کبھی تبدیل نہ ہوسکے گی کیوں کہ بھوک ، افلاس اور بارود کی اس تکون میں ہی عالمی طاقتوں کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔

اس حوالے سے شام کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں بلکہ شام تو وہ واحد جنگی خطہ ہے جہاں ایک بچے کی معمولی لغزش ایک بڑی جنگ کا باعث بنی۔ جی ہاں! معاویہ ہی وہ کم عمر لڑکا تھا جس کا ایک بے ضرر فعل عہدِحاضر کی سب سے بڑی جنگ کی وجہ بن گیا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بشار حکومت کے خلاف ایک نعرہ دیوار پر لکھتے وقت اس کو اس تباہی کا کب اندازہ تھا جو وارد ہونے کے لیے بس کسی بہانے کی متلاشی تھی اور وہ بہانہ معاویہ نے اسے تھما دیا۔ حکومت مخالف نعرہ لکھنے کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا، جس پر ہونے والا احتجاج پھیلتے پھیلتے ایک بہت بڑی جنگ مین تبدیل ہوگیا۔

اب معاویہ بچہ نہیں بلکہ ایک نوجوان ہے جو شامی فوج کے خلاف صف اول کے دستوں میں لڑرہا ہے۔ لیکن دنیا کے اکثر ممالک اپنی جنگ لڑنے کے لیے بچوں کو جبری فوج میں بھرتی کرکے شام کی سرزمین کو خون میں نہلانے کے لیے اتار رہے ہیں۔ 2016 میں نو سو چائلڈ سولجر شام بھیجے گئے اور اب یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ زیادہ تر بچوں کو یہاں خود کش حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رواں سال ایک ہزار فوجی بچے شام کی جنگ میں جاں بحق ہو گئے اور بے شمار داعش کے ہاتھوں یرغمال بنالیے گئے۔ یہاں بھی حکام کا وہی گھسا پٹا دعویٰ ہے کہ ان بچوں نے رضاکارانہ طور پر فوج میں شمولیت اختیار کی۔

یمن بھی دورِجدید کا وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں کی فضا بچوں کے لیے ذرا سازگار نہیں۔ حوثی فوج نے بچوں کی جبری بھرتی کا عمل تیز تر کر رکھا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت حوثی فوج میں گیارہ سال کی عمر کے لگ بھگ نو سو کے قریب بچے کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنگی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور باقی کھانا پکانے، سامان کی حفاظت اور پیغام رسانی کے کاموں پر مامور ہیں۔ سی این این کے مطابق یمن میں دس سے بارہ سال کی عمر کے بچے جدید اسلحہ انتہائی مہارت سے استعمال کر تے ہیں۔ یہاں رہا ہونے والے ایک فوجی بچے نے انٹرویو میں بتایا کہ بم ہمارے آس پاس آکر گرتے تھے، جن کے خوف سے ہم سب بچے ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگتے تھے۔

ماؤں کی گرم آغوش سے محروم کر کے ان بچوں کو جنگی شعلوں کے حوالے کردینے سے بڑی حیوانیت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یمن کے فوجی بچے مردہ فوجیوں کی لاشیں گھسیٹ کے لانے اور انہیں دفنانے کا خوف ناک کام بھی انجام دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ یہ بچے بھی عام بچوں کی طرح روتے اور چیختے ہیں لیکن ان کی آوازیں طیاروں کی گڑگڑاہٹ میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ ان کے آنسو گولہ بارود کے دھویں میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہ کسی بھی طرف مدد کو ہاتھ بڑھاتے ہیں تو بدلے میں مزید ہتھیار پاتے ہیں۔ اس وقت یمن میں چھے ہزار فوجی بچے محاذ پر تعینات ہیں جہاں یہ خوف سے آنکھیں بھینچے اور سانسیں روکے کبھی پیدا کرنے والے کو تو کبھی جنم دینے والوں کو پکارتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق حوثی فوجی اس وعدے پر بچوں کو فوج میں لیتے ہیں کہ ان کی محاذ پر موت کی صورت میں والدین کو ماہانہ اَسّی سے ایک سو بیس ڈالر تک پینشن ادا کی جائے گی۔ عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن کے بے بس والدین یہ اذیت ناک سودا قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ جن بچوں کے 1600اسکول بم باری میں تباہ ہو چکے ہوں ان کا اگلا پڑاؤ میدانِ جنگ کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟

انسانی حقوق پر علی الاعلان ڈاکا ڈالنے والے ممالک اور گروہوں کی فہرست ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ انسانیت سوز واقعات پر مشتمل یہ کہانیاں جبر کا باب بند ہونے سے پہلے ختم ہو بھی کیسے سکتی ہیں۔ سینٹرل افریکن ریپبلک میں اس وقت دس ہزار، بوکوحرام کی فوج میں دو ہزار، جنوبی سوڈان میں انیس ہزار اور میانمار میں تین ہزار بچے جبری فوجی مشقت پر مجبور ہیں۔

بچپن انسانی زندگی کا وہ واحد دور ہوتا ہے جس میں ہر کوئی واپس جانا چاہتا ہے۔ خوشیاں، محبت اور بے فکری کی نعمت جس بھرپور طریقے سے بچپن میں ملتی ہے وہ پھر کبھی نہیں ملتی۔ لیکن افسوس دنیا بھر کے چائلڈ سولجرز تو اس خوشی سے بھی محروم رہ گئے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی بڑا ہو کر اپنے بچپن کو یاد کرنے کی ہمت نہ کرسکے گا۔ وہ بچپن میں جس میں قلم کی جگہ ہتھیار اور ماں باپ کی گھنی چھاؤں کی جگہ میدان جنگ کی ہیبت ملی ہو، آخر وہاں جانا بھی کون چاہے گا؟ چہرے پر بھوک اور ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے ان بچوں کے لیے صرف قوانین بنانا اور ان کو منظور کروانا ہی اہم نہیں بلکہ سختی سے نافذ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

عصرِحاضر کی سب سے بڑی جنگ کا باعث ایک بچہ بنا

شام کی جنگ ایک پوری دہائی سر کرنے کے قریب ہے۔ جب لوگوں سے اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ اس بدترین جنگ کے آغاز کی وجہ کیا تھی؟ تو ان کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ یقیناً شام کی حکومت مخالف تنظیمیں ہی ذمہ دار ہیں جن کو کچلنے کے لیے حکومت نے آپریشن کیا جو جلد ہی بڑی خانہ جنگی میں بدل گیا۔ لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ 2011 میں شام میں داعش اور النصرہ نام کی کسی تنظیم کا وجود تک نہ تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ لاکھوں لوگوں کو نگلنے والی اس جنگ کے شعلے چند بچوں کی ایک بے ضرر سی شرارت سے بلند ہوئے۔ چودہ سالہ معاویہ اور اس کے تین دوستوں کا ایک مذاق بڑی تباہی کا موجب بن گیا۔

16فروری 2011 کو شامی صوبے دارا کے ایک اسکول البنین میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ معاویہ اور اس کے دوستوں کو شرارت سوجھی اور انہوں نے پرنسپل آفس میں کھڑکی کی بیرونی دیوار پر ایک نعرہ لکھ دیا It’s your turn, Doctor Bashar Al-Asad ۔ بات مذاق ہی مذاق میں آئی گئی ہوگئی اور بچے تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن بچوں کی یہ معمولی سی خطا بشار کے جاسوسوں سے نہ چھپ سکی۔ اس نعرے کا مطلب بچوں کے لیے کچھ نہیں مگر بشار حکومت کے لیے بہت کچھ تھا۔ چند ہی دنوں میں یہ بچے گھروں سے اٹھالیے گئے۔ 23 بچوں کی حراست کے بعد پورے صوبے میں شروع ہونے والے پُرامن احتجاج اور مظاہرے حکومتی غلط اقدامات کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے قیامت خیز جنگ میں بدل گئے۔ ان بچوں میں سے معاویہ اور اس کے کئی ساتھی اس وقت شامی جنگ کا حصہ ہیں۔

چائلڈ سولجر ز۔ چند حقائق

٭اقوام متحدہ کے رکن 197 میں سے109ممالک بچوں کی فوج میں بھرتی کے قانونStraight -18  پر عمل کرتے ہیں، جس کی رو سے بچوں کی فوج میں شمولیت کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال طے کی گئی ہے۔

٭46 ممالک میں اس وقت بھی اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی فوج میں شمولیت کا قانون موجود ہے جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔

٭ سن 2016 سے اب تک دنیا میں اٹھنے والے تنازعات میں سے اٹھارہ تنازعات ایسے ہیں جن میں کم عمر بچے ریاستی فوج یا متحارب گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

٭85 ممالک میں چائلڈ سولجر بنانا سنگین جرم شمار کیا جاتا ہے۔

٭27 ممالک میں نام نہاد فوجی اسکول موجود ہیں جنہیں ریاست کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں پندرہ سال یا اس سے بھی کم عمر بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے، جن کے لیے لازمی ہے کہ وہ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوں۔

٭ سن 2000 میں بننے والے چائلڈ سولجر پروٹوکول OPAC پر167 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ تیس ممالک نے اب تک نہ اس کی تصدیق کی اور نہ اس معاہدے پر دستخط کیے جن میں جنوبی سوڈان اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

چائلڈ سولجر پروٹوکول کیا ہے؟

بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے یا جنگجو بنانے کے خلاف سن 2000 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے تشکیل کردہ ایک تنظیم ”چلڈرن اینڈ آرمڈ کانفلیکٹ  ”نے ایک معاہدہ پیش کیا جس کی رو سے:

1۔ کسی ریاست کے لیے جائز نہیں کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو فوج میں بھرتی کرے۔

2۔ ریاستیں متحارب گروہوں میں بچوں کی بھرتی کے خلاف ہر ممکن اقدامات کریں گی۔

3۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے جو پہلے سے فوج یا مسلح گروہوں کا حصہ ہیں، تمام ریاستیں ان کو آزاد کروائیں گی اور ان کی جسمانی اور نفسیاتی بحالی پر توجہ مرکوز کریں گی، تاکہ وہ بچے دوبارہ معاشرے میں ضم ہو سکیں۔

4۔ مسلح افواج کے علاوہ ریاست کے اندر کوئی مسلح گروہ کسی بھی صورت میں نہیں ہونا چاہیے، تاکہ کم عمر بچوں کے استیصال کی بیخ کنی کی جاسکے۔

The post ہتھیاروں سے کھیلتا دنیا کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.

اور پھر آئی ایم ایف

$
0
0

ملک پر بے یقینی کی فضا طاری ہے۔

اگر اس کا براہِ راست تعلق حکومت سے نہیں تو حکومت کو بری الذمہ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ کسی بھی سماج یا ملک پر یہ صورتِ حال طاری ہونے کے چاہے جو بھی اسباب ہوں، لیکن ان کا سب سے پہلے اندازہ حکومتی افراد اور ملکی اداروں کو ہوتا ہے اور یقینا ہونا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ ملک کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایسے آلات اور ذرائع اُن کے پاس ہوتے ہیں جو اس طرح کے حالات کی وقت سے پہلے اور فوری نشان دہی کرتے ہیں۔ چناںچہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف ان پر نظر رکھے، بلکہ جب ان حالات کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھے تو ان اسباب کا جائزہ لے جو ان کے وقوع پذیر ہونے کا سبب بن رہے ہیں اور بہتری کے لیے راست اور فی الفور اقدامات کرے۔

اس وقت جب کہ ہم ملک کے ماحول اور عوامی فضا کا جائزہ لے رہے ہیں، پاکستان تحریکِ انصاف کی ملک میں حکومت قائم ہوئے پچاس روز سے زائد گزر چکے ہیں، اور یہاں پر جس فضا کا ذکر کیا جارہا ہے، یہ بھی اچانک رونما نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے کہ گومگو کے یہ بادل یکایک کسی سمتِ غیب سے آکر ہمارے یہاں نہیں چھائے ہیں، بلکہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کا ماحول ہمارے داخلی معمولات نے بنایا ہے۔ ملک میں اس وقت جو کچھ بھی ہوا، رفتہ رفتہ ہوا ہے، تاہم اب فضا اس قدر بوجھل ہے کہ عام آدمی بھی اس کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اس فضا کو بنانے میں جن عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا، وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ دقیق۔ سامنے کی کچھ چیزیں ہیں، مثلاً شہبازشریف ایک روز نیب میں ایک مقدمے میں طلب کیے جاتے ہیں اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ایک اور کیس میں گرفتار کرلیے جاتے ہیں۔ اگلے روز عدالت سے ریمانڈ لے کر ان سے تفتیش بھی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قانون اور انصاف کی کارروائی سے کوئی بھی شخص اور کسی بھی قیمت پر بالاتر نہیں ہونا چاہیے، لیکن ملزم جب تک مجرم ثابت نہ ہو، اس وقت تک قانون اور انصاف کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی میں کچھ لوازم اور نزاکتوں کو بہرحال پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ایسے اقدامات کی وجہ سے احتساب کا نہیں، بلکہ سیاسی انتقام کا تأثر پھیلتا ہے جو کہ اس معاملے میں ایک حد تک پھیلا بھی ہے۔

اس واقعے کے بعد وفاقی وزیرِاطلاعات کے جو بیانات سامنے آئے، ان میں بھی ذمے دارانہ رویہ دکھائی نہیں دیتا اور متانت تو بالکل ہی مفقود ہے۔ اس کارروائی پر وزیرِاعظم نے جس طرح نیب کو تھپکی دی، اس کا نتیجہ سخت ناگوار صورت میں اس وقت سامنے آیا جب نیب نے پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور اُن کے ساتھیوں کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا۔ وائس چانسلر صاحب اور ان کے ساتھ یونی ورسٹی کے چھے اساتذہ پر غیرقانونی بھرتیوں اور من پسند طلبہ کو اسکالر شپ دینے کا الزام ہے۔ اوّل تو یہ بھی الزام ہے، یعنی جرم ثابت نہیں ہوا اور ثابت بھی ہوجائے کہ تو اساتذہ کو یوں ہتھکڑی لگا کر قتل کے مجرموں کی طرح عدالت سے لے جانا ہرگز قابلِ برداشت نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ قابلِ مذمت اقدام ہے۔ بھلا ہو چیف جسٹس کا کہ انھوں نے اس کا نوٹس لینا ضروری سمجھا اور پھر ساتھ ہی شاباش ہے، نیب کے ڈی جی کو کہ عدالت میں آکر انھوں نے اس قطعی غیراخلاقی اقدام کے لیے سراسر نامعقول عذر پیش کیے اور جب چیف جسٹس نے سختی دکھائی تو رو پڑے اور معافی مانگ لی۔

دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کو بجلی اور پیٹرول وغیرہ کے نرخ بڑھانے کے لیے سمری بھیجی جاتی ہے۔ خبر آتی ہے کہ متعلقہ وزیر یا وزیرِاعظم صاحب نے سمری مسترد کردی۔ اس خبر کے بعد چار روز نہیں گزرتے کہ قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور گیس کی قیمت میں تو ایک دم بائیس روپے اضافہ کردیا جاتا ہے۔

ان سب باتوں کے علاوہ سی پیک کے بارے میں حکومتی ذرائع سے اطلاعات آنے لگتی ہیں کہ منصوبے کا ازسرِنو جائزہ لیا جارہا ہے۔ کیا جائزہ لیا جارہا ہے؟ یہ کہ سارا منصوبہ کس حد تک قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہے۔ اس کے ساتھ آپ فنانس کے شعبے کو دیکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا نہیں سوچ رہے اور پھر اعلان ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دے دی۔ اسٹاک مارکیٹ ان گومگو کے حالات میں بہت بڑا جھٹکا کھاتی ہے اور دو سو اسّی ارب سے زائد کے خسارے کی لپیٹ میں آکر کریش ہوجاتی ہے۔ ادھر ڈالر ملک کی تاریخ میں ایک دم سب سے بڑا اضافہ حاصل کرتا ہے اور یک بہ یک لگ بھگ ساڑھے نو روپے اوپر چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں ملک اور قوم بے یقینی، بے اطمینانی، خوف اور اندیشوں میں مبتلا ہورہے ہیں تو یہ کوئی اَن ہونی نہیں، فطری ردِعمل کا اظہار ہے۔

چلیے مانے لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ براہِ راست حکومتی فیصلوں کا نتیجہ ہے اور نہ ہی حکومتی اقدامات کا، لیکن اتنا کہہ کر بات ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ یہ چھوٹے معاملات نہیں ہیں، بلکہ اتنے بڑے ہیں کہ ملک کی بیس بائیس کروڑ آبادی ان سے متأثر ہوگی۔ ایسے معاملات پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ کیا حکومت کے پاس وہ نظر یا وہ وژن بھی نہیں ہے کہ وہ حالات کے بدلتے ہوئے رخ کا پہلے سے اندازہ کرکے ان کو سہارنے اور سنبھالنے کی صورتِ حال بنا سکے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو بس پھر کیا کہا جاسکتا ہے سوائے یہ کہ اللہ ملک و قوم کی حفاظت کرے— اور اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر سوالوں کا ایک سلسلہ اٹھتا چلا جاتا ہے کہ آخر پھر حکومت کے لائق فائق لوگ کیا کررہے ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا ملک کے اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں ہے کہ وہ حالات کے سلسلے میں ایک دوسرے کو باخبر رکھیں؟ یہ بھی پوچھا جائے گا کہ کیا حکومت نے اب تک کوئی مربوط اور جامع حکمتِ عملی نہیں بنائی کہ جو ملک کو ترقی اور استحکام کے راستے پر لاسکے؟ غورطلب سوال یہ بھی ہے، کیا یہ حالات حکومت کی ناتجربے کاری کے سبب پیدا ہوئے ہیں یا پھر غیر ضروری حد تک بڑھتی ہوئی غیر حقیقی خود اعتمادی کا نتیجہ ہیں؟ یہ بھی پوچھنا ضروری ہے، کیا حکومت نے اب تک اپنی ترجیحات طے نہیں کی ہیں کہ اسے معلوم ہو کہ کب، کیا اور کس طرح کرنا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے، کیا حکومت نے وزارتیں سونپتے ہوئے اس امر کا لحاظ نہیں رکھا کہ کون کس شعبے کے لیے موزوں ثابت ہوگا؟ یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات بھی اب اُن سب لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں جو حالات اور حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ اس سے زیادہ سوالات سادہ دل اور خوش فہم عوام کے دلوں اور ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔ اس لیے کہ دو مہینے پہلے تک وہ اپنے وزیرِاعظم اور ان کے رفقا کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتے رہے ہیں، اُن سب باتوں نے ان کی جاگتی ہوئی آنکھوں میں دور تک اجلے خوابوں کی فصل بوئی تھی، اور اب جو کچھ ہورہا ہے، اس کا نقشہ بالکل الٹ ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور بڑی مشکل عام آدمی کی زندگی میں اس وقت یہ ہے کہ اس کی ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت حالات اور مسائل کے بارے میں اسے بالکل اعتماد میں نہیں لے رہی۔ وزیرِاعظم نے بے شک کہا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے، اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں، یا یہ کہ فکر نہ کرو، میں ان حالات سے نکال لوں گا۔ اب اس طرح کے بیانات تو عوام کی امید نہیں بندھا سکتے۔ حکومت کے باقی لوگ جو باتیں کررہے ہیں، وہ سب وہی ہیں جو اس سے پہلے ہر نئی حکومت کے لوگ اپنے سے پہلے والی حکومت کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ یہ باتیں کتنی حقائق پر مبنی ہیں، اس سے قطعِ نظر، بار بار کی سنی ہوئی ایسی باتوں میں عام آدمی کے لیے کوئی معنی ہیں اور نہ ہی تسکین کا سامان۔ اس پر ستم یہ کہ روز کوئی نہ کوئی بحرانی صورتِ حال پیدا ہورہی ہے۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پیدا کیا ہے اسٹاک مارکیٹ کے انہدام اور ڈالر کی قدر میں اضافے نے۔ خدا اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے اور اس کے عوام کو روزی روٹی کی آزمائش سے بچائے، لیکن اس وقت جو حالات ہیں، انھیں معاشی بحران کا پیش خیمہ ہی سمجھنا چاہیے۔ ایسے ہی حالات ہوتے ہیں جب کسی ملک میں مہنگائی کا سیلابی ریلا سارے بند توڑتا ہوا داخل ہوتا ہے اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر لے جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، وہ بہت انوکھے نہیں ہیں۔ آج بہت ترقی یافتہ نظر آنے والی بہت سی قومیں اپنے اپنے وقت پر اسی طرح کے مسائل سے گزری ہیں۔ چین، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ ان میں شامل ہیں۔ حالیہ عرصے میں ترکی اسی مرحلے سے دوچار ہوا ہے، بلکہ اب بھی ایک حد تک اس سے نبرد آزما ہے۔ تاہم اس کے صدر طیب اردوان نے ڈٹ کر فیصلہ کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اپنے مسئلے سے خود نمٹیں گے۔

ترکی نے 2013ء میں آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کیا اور پھر جو بھی حالات رہے اور جو بھی مسائل پیدا ہوئے، وہ ان سے اپنے بل بوتے پر نکلا۔ گذشتہ مہینوں میں امریکا نے ترکی کرنسی لیرا کو عالمی مارکیٹ میں جس طرح نیچے لانے کے اقدامات کیے ہیں، ان کے نتیجے میں ترکی مالیاتی مسائل سے دوچار ہوا۔ اس کی معیشت نے کئی جھٹکے کھائے۔ صدر اردوان نے کھلے لفظوں میں امریکی اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’کرنسی وار‘‘ قرار دیا، لیکن اپنی خود انحصاری پر سمجھوتا کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کی بقا، ترقی اور استحکام کا انحصار دراصل ایسے ہی فیصلوں اور اقدامات پر ہوتا ہے۔

پاکستانی عوام ملک کے اچانک بگڑتے ہوئے معاشی حالات کے بارے میں یوں بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ گذشتہ حکومت نے جس انداز سے اور جس نہج پر ملک کو چلایا، اس میں عام آدمی کسی بحران سے دوچار نہیں ہوا۔ اسٹاک مارکیٹ میں اگر اس دوران میں مندی کا رجحان آیا بھی سہی تو جلد ہی ختم ہوگیا اور پھر سے تیزی نظر آنے لگی۔ ملک کی معیشت بہت اچھی بے شک نہ رہی ہو، لیکن بدحالی کا شکار بھی نہ ہوئی۔ اس کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ کم و بیش دو سال پہلے (2016ء میں) آئی ایم ایف کی انھی سربراہ کرسٹین لگارڈ نے پاکستانی معیشت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اب مستحکم ہوگئی ہے اور ترقی کے راستے پر ہے۔

اس وقت انھوں نے پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں خاصی امید افزا باتیں کی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ ملکی معیشت کا پہیا الٹا گھومنے لگا؟ اس عرصے میں معیشت کی خرابی کی رفتار اگر اتنی بڑھ گئی تھی تو حکومت کے قابل اور ذہین فنانس منسٹر جو وزیراعظم کے نہایت قابلِ اعتماد لوگوں میں سے بھی ہیں، انھوں نے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ پھر کیوں تذبذب میں گزارا اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں کیا کہ اس اثنا میں فارن کرنسی کے ذخائر پریشان کن حد تک نیچے آگئے؟ حالات کا اندازہ کرکے اگر یہ فیصلہ پہلے کرلیا جاتا تو کیا اس حد تک آنے والے مسائل سے بچا نہیں جاسکتا تھا؟

اب جب کہ حکومت نے باضابطہ آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست کردی ہے تو کچھ اور باتیں بھی غور طلب ہیں۔ سب سے پہلے تو یہی کہ اگر جانا ہی تھا اور اس کے بغیر کاروبارِ حکومت چلانا ممکن نہیں تھا تو اتنا زیادہ وقت لگانا درست نہیں تھا۔ یہ طے کیے بغیر کہ آئی ایم ایف کی طرف جانے کے سوا چارہ نہیں، حکومت نے یہ جو بجلی، گیس وغیرہ میں اضافہ کیا ہے، یہ کس لیے؟ اب یہ بات تو ہمارے ملک کے نوجوان بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جب بھی ہماری نئی حکومت قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو اُسے قرض کے ساتھ نظامِ حکومت چلانے کے لیے کچھ خاص ہدایات بھی دی جاتی ہیں اور اُس کے لیے اس قرض کے ساتھ کچھ شرائط بھی رکھی جاتی ہیں۔

قرض دار حکومت ان پر عمل کی پابند ہوتی ہے۔ اشیائے صرف مثلاً بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کے نرخ میں اضافہ اور قومی اداروں کی فروخت کے مطالبات اس قرض کی عنایت کے ساتھ بنیادی تقاضوں کے طور پر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ قرض دار ملک کی کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ کمی بھی لازمی شرط ہوتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ آئی ایم ایف اپنے قرض داروں کے سفارتی تعلقات اور عالمی سیاسی معاملات پر بھی پوری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت پہلے ہی سے اشیا کی قیمتیں بڑھا رہی ہے اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر نظرِثانی کرکے چین جیسے خیرخواہ دوست کو بدظن اور دُور کررہی ہے تو اس کے بعد وہ آئی ایم ایف کے تقاضوں پر اور کیا کیا کچھ کرنے کو تیار ہوجائے گی؟ وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ سخت فیصلے کرنے ہوں گے، وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ اور کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ ٹھیک ہے لیکن:

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

عوام کی پسلی کتنا وزن سہار سکتی ہے، اس کا لحاظ رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ملک کو خوش حالی کے راستے پر لانے کے چکر میں آپ لوگوں کو فاقوں مار دیں گے۔ وہ لوگ جو عزت، شرافت اور خاموشی سے مرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے، وہ جرائم میں پناہ تلاش کریں گے۔ غربت اور مایوسی معاشرے کے لیے ناسور کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ افلاس میں انسان کا ایمان تک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے سارے دعوے اپنی جگہ، لیکن فی الحال حکومت کے ارادوں، عزائم اور نیت پر شبہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ٹھیک ہے، یہ بات مان لیتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے اور نہ ہی الٰہ دین کا چراغ کہ وہ پلک جھپکتے میں کوئی کرشمہ دکھا سکیں۔ یہ بھی تسلیم کہ ملک کے حالات اور دنیا کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ان کے بارے میں سوچنا چاہیے اور زمینی حقائق کے پیشِ نظر اُن سے سوال کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ خیال تو درست نہیں ہے کہ موجودہ اہلِ اقتدار لوگ پچاس دن کی حکومت میں عوام کے لیے دودھ کی نہریں کیوں نہیں بہا سکے۔ البتہ ان سے تاخیر کے جواز اور وژن کی کمی کا سوال ضرور کیا جانا چاہیے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں اب تک نہ تو کوئی حکمتِ عملی پیش کی ہے اور نہ ہی عوام کو اعتماد میں لیا ہے۔

آج ہم جس گلوبل دنیا میں سانس لے رہے ہیں یہ ایک بہت پیچیدہ نظام کی حامل ہے۔ اس میں کوئی بھی ملک قبضہ گیر ذہنیت کی حامل عالمی طاقتوں کے ہتھکنڈوں اور عفریت کی طرح مسلط ہوجانے والے عالمی مالیاتی اداروں کے حربوں سے آسانی سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے لیے ترکی اور ارجنٹائن جیسے ملک یا اُن جیسی سیاسی قیادت مطلوب ہوتی ہے کہ ایسے ہی لوگ اپنی دانش مندی، بصیرت، جرأتِ فیصلہ اور عوامی اعتماد کے بل بوتے پر ملک کو خود انحصاری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ملک کی معیشت کے لیے مشکل اور بڑے فیصلے ہی ان حالات میں کافی نہیں ہوتے، بلکہ اور بھی کئی مسائل پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہوتی ہے۔

اسی طرح اپنے لیے متبادل وسائل کی فراہمی کا مسئلہ بھی معاشی استحکام اور خود انحصاری کے لیے بنیادی تقاضے کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر سوال پر غور کیا جائے کہ پاکستان کے پاس متبادل وسائل کے امکانات کیا ہیں تو صورتِ احوال ایسی مایوس کن نہیں ہے، مثلاً دو عوامل ہی پاکستانی معیشت اور اس کی کرنسی کی قدر کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پہلا ہے، بیرونِ ملک پاکستانی جو دنیا کے دوسرے ممالک میں کام کرتے اور ملک میں اہلِ خانہ کو رقم بھجواتے ہیں۔ حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہیے اور اُن کے ذریعے ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافے کی صورت بنانی چاہیے۔ اس کے لیے ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت ان افراد کے لیے مالیاتی بانڈ جاری کرے اور انھیں اس میں انویسٹمنٹ کی تحریک دے۔ اس سے پاکستان کو بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اسے ایک طرف تو وافر اور آسان زرِمبادلہ حاصل ہوگا اور دوسری طرف یہ بھی کہ رقم کی ادائی اپنی کرنسی میں اور اپنے ملک ہی میں کرنی ہوگی۔ اس طرح وہ غیر ملکی قرض کے دباؤ سے باہر آسانی سے آسکے گا۔

دوسری بہت ہی بنیادی چیز درآمدات کا حد سے بڑھا ہوا تناسب ہے۔ اس میں فی الفور کٹوتی کی ضرورت ہے۔ اس میں دو باتوں پر خاص طور سے توجہ چاہتی ہیں۔ پہلی یہ کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اجناس کی درآمدات کررہا ہے۔ ملک میں زراعت کے فروغ پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے کسانوں کی سہولیات، پانی کے نظام، بہتر معیار کے بیچ اور کھاد کی فراہمی کو یقینی بناکر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے ہمارے یہاں دودھ، پنیر اور پھل خاصی مقدار میں درآمد کیے جارہے ہیں۔ 2018ء میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تیئس ارب اور اڑتالیس کروڑ ڈالر رہا ہے۔

اس میں پنیر اور پھلوں کا خاصا حصہ ہے۔ اس کو بہ آسانی اور فی الفور کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد بھی زرِمبادلہ کے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ بین الاقوامی قرضوں پر چلنے والے پاکستان جیسے ملک کے عوام کے لیے بھلا اس عیاشی کا دروازہ اوّل تو کھولا ہی کیوں گیا ہے اور اگر بہ درجہ مجبوری کھولا بھی جائے تو اس کی حد مقرر کرنا ضروری ہے۔ آپ پاکستان کے بیشتر بڑے شہروں میں کاروں کے شورومز پر کھڑی بے شمار ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کو دیکھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معیشت پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ اس کے لیے بہتر اور مؤثر حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔

محنت کش اور سرزمینِ وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار عوام، قدرتی وسائل اور زراعت کے لیے کارآمد زمین ایسی نعمتیں ہیں کہ جو کسی بھی ملک کو مہینوں میں نہیں، بلکہ دنوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بھرپور مدد فراہم کرسکتی ہیں۔ یہ نعمتیں ملک کے لیے خود انحصاری اور استحکام کو عملاً ممکن بنانے میں بنیادی اور غیر معمولی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ملک میں انقلاب لاسکتی ہیں اور اس کے عوام کے لیے خوش حالی کے در وا کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے، حالات و حقائق کو سمجھنے اور وژن رکھنے والی قیادت کی جو نعروں پر نہیں عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہو اور جانتی ہو کہ اچھے اور بڑے فیصلے اسی وقت بہتر طور پر نتیجہ خیز اور مؤثر ہوسکتے ہیں جب انھیں پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ بروقت کیا جائے— اور ہر طرح کی سیاست و مصلحت سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملک و قوم کے مفاد میں۔

The post اور پھر آئی ایم ایف appeared first on ایکسپریس اردو.

بھوت بحری جہاز

$
0
0

بھوتوں کا معاملہ ہمیشہ سے ہی انسانی ذہن کے لیے تجسس آمیز دلچسپی کا حامل رہا ہے۔

بچپن میں بھوتوں کی کہانیاں سننے سے لے کر بھوتوں، بھوت گھر یا بھوت بنگلہ اور بھوتوں پر بننے والی فلموں سے بھوتوں کی تلاش، جیسے ’’گھوسٹ ہنٹز‘‘ کے ٹی وی ریلیٹی شوز تک کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اس موضوع پر مبنی مواد میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ’’پائرٹس آف دی کریبین‘‘ (Pirates of the Caribbean) نامی فلم کی سیریز نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جس میں بھوتوںکا بحری جہاز خاص دلچسپی کا باعث تھا۔ آج ہم آپ کو حقیقی زندگی میں پائے جانے والے ایسے ہی کچھ بھوت بحری جہازوں کے متعلق بتاتے ہیں۔

1- بھوت بحری جہازوں کا چیمپیئن :

7 نومبر 1872ء کو ’’میری سلیسٹ‘‘ (Mary Celeste) نامی ایک بحری جہاز کا کیپٹن اپنی بیوی، دو سالہ بچی اور عملے کے 7 ارکان کے ساتھ نیویارک سے اٹلی کے سفر پر روانہ ہوا۔ انہیں ایک ماہ بعد اپنی منزل پر پہنچنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اسی دوران ایک برطانوی بحری جہاز ’’ڈئے گراٹیا‘‘ (Dei Gratia) نے ’’میری سلیسٹ‘‘ کو بحر اوقیانوس کے پانیوں میں بہتے ہوئے دیکھا۔ ’’ڈئے گراٹیا‘‘ کا عملہ ’’میری سلیسٹ‘‘ تک پہنچا تاکہ اگر وہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو فراہم کی جاسکے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پورا جہاز خالی پڑا تھا حالانکہ جہاز پر تجارتی سمیت 6 مہینے کا کھانے پینے کا سامان اور عملے کی ضرورت کی دیگر چیزیں بدستور لدی ہوئیں تھیں جبکہ لائف بوٹس غائب تھیں۔ جہاز کے فرش پر تین فٹ پانی کھڑا تھا تاہم یہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہیں تھی کیونکہ اس سے جہاز کو ڈوبنے یا کسی اور قسم کے نقصان کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ جہاز ایک بھوت بحری جہاز کا منظر پیش کررہا تھا اور آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس جہاز کے مسافروں پر کیا گزری۔ مشہور انگریزی ادیب ’’سر آرتھر کونن ڈائل‘‘ (Sir Arthur Conan Doyle) نے اس واقعے سے متاثر ہوکر ایک شارٹ سٹوری لکھی، جس میں اس جہاز کے عملے کے غیاب کو بحری قذاقوں کی کارروائی بتایا گیا، جنہوں نے جہاز کے عملے کو لوٹ مار کے لیے قتل کردیا تھا۔ لیکن اصل میں اس جہاز پر کیا گزری؟ یہ ابھی تک پردۂ راز میں ہی ہے۔ کیونکہ یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حملہ لوٹ مار کے لیے ہی کیا گیا تھا اور جہاز کو بحری قزاقوں نے لوٹا تھا تو اس پر موجود سامان کیسے محفوظ رہا ؟ اس معمے کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جہاز میں پانی بھرنے کا علم ہونے پر کپتان نے عملے کو لائف بوٹس کے ذریعے جہاز چھوڑنے اور جان بچانے کا حکم دیا  تاکہ وہ کسی زمینی ساحل تک پہنچ سکیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔

2- آؤٹر بنک کا معمہ :

’’آؤٹر بنکس‘‘ (Outer Banks) ریاست ہائے امریکہ کے مشرقی ساحل پے 200 میل لمبی پٹی پر واقع ’’بیرئر آئی لینڈز‘‘ (Barrier Islands) یعنی چھوٹے جزائر کے سلسلے کو کہتے ہیں جو ساتھ ساتھ واقع ہونے کی وجہ سے ایک ڈوری میں پروئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔1920ء میں ’’کیرول اے ڈئیرنگ‘‘ (Carroll A Deering) نامی کارگو بحری جہاز نے امریکی ریاست ’’ورجینا‘‘ (Virgina) سے برازیل کے مشہور شہر ’’ریوڈی جینیرو‘‘ (Rio de Janeiro) تک کا تجارتی سفر کامیابی سے طے کیا۔ اس بحری جہاز پر عملے کے 10 افراد سوار تھے۔ دوران سفر جہاز کا کپتان  حالانکہ بیمار ہوگیا تھا، تاہم نائب کپتان نے تمام ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا مگر واپسی کے سفر پر معاملہ کچھ گڑبڑ ہوگیا۔ سمندر میں جہازوں کو خطرات سے آگاہ کرنے اور راہنمائی فراہم کرنے والے ایک جہاز، جسے ’’لائٹ شپ‘‘ (Light Ship) کہتے ہیں، کے عملے کے ایک فرد کے مطابق امریکہ کی ریاست ’’شمالی کیرولینا‘‘ (North Carolina) کے سمندری علاقے میں ’’کیرول اے ڈئیرنگ‘‘ کے عملے کے ایک شخص نے، جو اپنے حلیے سے کوئی بڑا افیسر دکھائی نہیں دیتا تھا، اسے رپورٹ کی کہ جہاز اپنے لنگر کھو بیٹھا ہے۔ اگلے دن ایک اور بحری جہاز نے ’’کیرول اے ڈئیرنگ‘‘ کو آؤٹر بنکس کے قریب ایسے علاقے میں پایا جو اس کی واپسی کے روٹ کے حساب سے غیر متعلق علاقہ تھا۔ یہ بات حیران کن تھی کہ ’’کیرول اے ڈئیرنگ‘‘ وہاں کیا کررہا تھا ؟ مزید ایک دن بعد اسی سمندری علاقے میں تباہ شدہ جہاز پانی میں تیرتا ہوا پایا گیا لیکن امدادی کارکن اور تفتیش کار سمندر میں طغیانی اور شدید خطرناک موسمی حالات کی وجہ سے اس کے نزدیک نہ جاسکے۔ چار روز بعد جب بالآخر اس جہاز تک رسائی ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ جہاز کے کھانے کے کمرے میں میزوں پر کھانا چنا ہوا تھا تاہم تمام تر عملہ اپنے ذاتی سامان اور لائف بوٹس سمیت غائب تھا۔ حکومت نے اس معاملے کا ملبہ بحری قذاقوں اور باغیوں کے سر پر ڈال دیا لیکن تحقیق کرنے والوں کی کاوشیں اب تک بے ثمر ہی ثابت ہوئی ہیں۔

3- کسی سراغ کے بغیر :

کچھ بھوت بحری جہاز اتنے زیادہ پراسراریت کے حامل ہیں کہ ان کے پس منظر کے بارے میں کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں۔ 2006ء میں آسٹریلیا کے سمندری محافظوں کو پانیوں میں بہتا ہوا ایک جہاز ملا۔ اس کا وہ رسّا جو دوسرے جہازوں کے ساتھ باندھ کر کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ٹوٹا ہوا تھا اور سارا جہاز خالی پڑا تھا۔ اس جہاز کی سائڈز پر اس کا نام ’’جیان سنگ‘‘ (Jian Seng) چھپا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس جہاز کی شناخت کے لیے تفتیش کاروں کو کوئی بھی چیز نہ مل سکی۔ نہ خطرے کے پیغامات بھیجنے کا کوئی ریکارڈ اور نہ ہی کسی قسم کے شناختی کاغذات، نہ عملے کے ذاتی استعمال کا سامان اور نہ ہی جہاز رانی کے متعلقہ دفتر میں جہاز غائب ہونے کی کسی اطلاع کا کوئی ریکارڈ، غرض سمندر میں اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے اس پراسرار جہاز کے بارے میں تفتیش کار کچھ بھی نہ جان سکے کہ یہ کس کا جہاز ہے، کہاں سے آیا اور کہاں جارہا تھا اور اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ؟ اور اس کے مسافر اپنے سامان سمیت کہاں غائب ہوگئے۔ وہ بس زیادہ سے زیادہ یہ اندازہ قائم کرسکے کہ شاید یہ جہاز سمندر میں ماہی گیروں کی کشتیوں کو کھانے پینے کا سامان اور ایندھن وغیرہ فراہم کرتا ہوگا، مگر وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر تھے کہ جب یہ جہاز تباہ ہوا تو کسی نے اس کو بچانے کی کوشش  کیوں نہیں کی؟

4- اعلیٰ مقصد :

چونکئے نہیں، یہ ایک جہاز کا نام ہے جو بعد ازاں بھوت بحری جہاز بن گیا۔2002ء میں ’’ہیلون‘‘ (Halloween) کے تہوار کے موقع پر مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی جس کا نام ’’ہائی ایم نمبر6‘‘ ۔۔ High Aim No.6 (اعلیٰ مقصد) تھا، تائیوان سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ 2003ء میں یعنی اپنے آغاز سفر کے ایک سال بعد جب یہ جہاز آسٹریلین نیوی کو سمندر میں تیرتا ہوا ملا تو انہیں لگا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جہاز نما اس بڑی کشتی کے انجن کا ایکسلیٹر پورا دبا ہوا تھا جبکہ پٹرول والی ٹنکی خالی پڑی تھی دلچسپ بات مگر یہ تھی کہ پٹرول کے فالتو ٹینک پورے بھرے ہوئے تھے، جیسے کسی نے ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ اس کے علاوہ جہاز کے سرد خانے میں 10 ٹن ’’ٹونا‘‘ مچھلی شکار کرکے محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ البتہ عملے کا کوئی فرد بھی جہاز پر موجود نہیں تھا۔ اس جہاز کو اب تک کے تمام بحری جہازوں میں سب سے پراسرار نوعیت کا جہاز مانا جاتا ے۔ بالآخر اس کے عملے کا ایک شخص منظر عام پر آہی گیا۔ اس انڈونیشی مچھیرے نے گرفتاری کے بعد یہ اقرار کیا کہ جہاز کا عملہ بحری قذاقوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اس نے ان کے ساتھ مل کر جہاز کے کپتان اور چیف انجینئر کو قتل کردیا تھا۔ تاہم ان کو قتل کرنے کی وجوہات ابھی تک صیغۂ راز ہی میں ہیں۔

5- بھوتوں کا پیغام :

2013ء میں ’’نینا‘‘ (Nina) نامی ایک بڑی کشتی کے عملے نے ماہرین موسمیات سے رابطہ کرکے موسم کے خطرناک ہوجانے کی پیش گوئی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہی۔ کچھ ہی دیر بعد مگر ان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ سمندر میں 26 فٹ اونچی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ہوا 70 میل فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار اختیار کرچکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ’’نینا‘‘ اس طوفان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی اور اپنے انجام کو پہنچے گی اور حسب معمول اس کے بعد اس کو ڈھونڈنے اور مدد پہنچانے کے لیے ایک بے نتیجہ مہم شروع ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ تاہم  کشتی کی گمشدگی کے تین ہفتوں کے بعد امدادی کارروائیاں کرنے والے دفتر میں ماہرین موسمیات کو ’’نینا‘‘ کے عملے کی جانب سے ایک پراسرار پیغام ملا جو طوفانی رات کے اگلے دن بھیجا گیا تھا۔ پیغام میں کچھ یوں تحریر تھا کہ ’’شکر ہے گزشتہ رات طوفان زیادہ نقصان دہ ثابت نہیں ہوا۔ بس کشتی کے بادبان پھٹ گئے ہیں جس کی وجہ سے مستول بے کار ہو گئے ہیں‘‘۔ اس پیغام سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے ’’نینا‘‘ بخیریت ابھی بھی اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ کشتی پر سوار ایک 19 سالہ لڑکی کے خاندان والوں کو جب اس پیغام کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ ان کی بیٹی محفوظ ہے۔ انہوں نے ذاتی طور پر سمندر کے اس علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر حاصل کیں جن میں کشتی نما کوئی چیز دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ ’’نینا‘‘ کی تصویریں ہیں۔ لیکن بعدازاں ماہرین نے ان تصاویر کا تجزیہ کرکے بتایا کہ وہ محض سمندر کی اونچی اونچی لہروں کی شبیہہ تھیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طوفان میں کشتی تباہ ہوگئی تھی اور اس کا آج تک کوئی سراغ بھی نہیں ملاتو پھر وہ پیغام کس نے بھیجا تھا ؟

6- ناقابل توضحیح :

1955ء میں ایک تجارتی جہاز ’’ایم وی جوئیٹا‘‘ (M.V Joyita) جنوبی بحر الکاہل میں اپنے دو روزہ سفر پر روانہ ہوا، مگر بدقسمتی سے اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا۔ امدادی ٹیمیں بہت تلاش و بسیار کے باوجود ناکام و نامراد واپس لوٹ آئیں۔ قریباً ایک ماہ بعد ایک اور جہاز کے کپتان کو ’’ایم وی جوئیٹا‘‘ نیم تباہ حال حالت میں تیرتا ہوا نظر آیا۔ جہاز میں سوار 25 مسافروں کا مگر کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ تفتیش کار اس جہاز کی تباہی کی کوئی بھی قابل فہم توجیہہ پیش نہ کرسکے۔ دہائیوں تک اس کے بارے میں بہت سے نظریات گردش کرتے رہے۔ چند کے نزدیک اس جہاز کے عملے کو سوویت یونین (روس) کی آبدوز نے اغوا کرلیا تھا جبکہ کچھ کہتے تھے کہ وہ جہاز جاپانی مچھیروں کے ہتھے چڑگیا تھا جنہوں نے جہاز پر سوار سب لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ 2002ء تک جہاز کے مسافروں کے خاندان والے جہاز کی تباہی کی اصل وجوہات کی تحقیق کے متعلق کوششیں کرتے رہے۔ سب سے زیادہ جس نظریے کو شہرت ملی اور جو قرین قیاس بھی تھا وہ ایک پروفیسر صاحب نے پیش کیا۔ ان کے مطابق جہاز ایک زنگ آلود پائپ لیک ہوجانے کی وجہ سے تباہ ہوا اور جہاز میں پانی بھرگیا اسی سبب عملے کو جہاز سے جان بچا کر نکلنا پڑا۔ سوال یہاں پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ عملہ گیا کہاں ؟

7- جدید ممّی :

2016ء میں جب فلپائن کے مچھیرے سمندر میں تیرتے ایک تباہ شدہ جہاز تک پہنچے تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ وہاں کیا منظر دیکھیں گے ؟ انہوں نے دیکھا کہ اس جہاز میں ایک جرمن ملاح کی حنوط شدہ لاش موجود تھی جو 20 سال قبل لاپتہ ہوگیا تھا۔ یعنی 20 برس سے وہ نعش اس جہاز میں سمندر کی سیر کرتی پھر رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جرمن ملاح  ’’مینفرڈ فرٹز باجورات‘‘ (Manfred Fritz Bajorat) کے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ وہ 2009ء سے 2016ء تک اس کے ساتھ فیس بک پر رابطے میں تھا۔ گو اس نے اسے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے؟ بہرحال اگر وہ کسی حادثے کا شکار ہوگیا تھا تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک سال کے عرصے میں سمندری مرطوب و نمکین ہوا کسی لاش کو حنوط کردینے کی صلاحیت تو رکھتی ہے لیکن جب اس لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موت صرف ایک ہفتے قبل ہی ہوئی تھی۔ اب اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟‘‘

8- بحری جہاز پر سفر کرنے کی غلطی :

اپریل 2007ء میں دو بھائی ایک بڑی کشتی کے کپتان کی معیت میں آسٹریلیا کے گرد اپنے دو ماہ کے تفریحی سمندری سفر پر روانہ ہوئے۔ محض تین دن بعد ہی ان کی کشتی جس کا نام ’’کازII‘‘ (Kaz II) تھا، آسٹریلیا کے ساحلوں پر موجود ’’گریٹ بیرئر‘‘ (Great Barrier) نامی مشہور چٹانی سلسلے میں تباہ حال حالت میں پائی گئی۔ کشتی میں ایک میز پر کافی کا ادھ خالی کپ اور اخبار کا شمارہ موجود تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی اخبار پڑھتے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک کسی نامعلوم وجہ کے باعث اٹھ کر چلا گیا۔ کشتی کے فرش پرچند  چاقو بھی کھلی حالت میں پڑے ہوئے تھے مگر کشتی میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا اور وہ مکمل طور پر خالی تھی۔ ایک تفتیشی افسر کی تحقیق کے مطابق شاید دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک، جو تیرنا نہیں جانتا تھا اچانک پانی میں گرگیا اور باقی دونوں افراد نے اس کو بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگادی لیکن تینوں میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ تاہم یہ محض ایک اندازہ ہی تھا جس کے پیچھے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ ان بدقسمت افراد کے ساتھ دراصل ہوا کیا ؟

The post بھوت بحری جہاز appeared first on ایکسپریس اردو.

جانوروں کی طرح سوچنے والی خاتون

$
0
0

سن 2010 ء میں شائع ہونے والے امریکی رسالے’’ٹائم میگزین‘‘ میں دنیا بھرکو متاثر کرنے والے جن 100 لوگوں کی فہرست شائع ہوئی، اس میں ٹیمپل گرینڈن کا نام بھی شامل تھا۔

آپ کسی بھی سرچ انجن پر کوئی ایک لفظ لکھتے ہیں تو ایک سیکنڈ میں اس لفظ سے متعلق ساری معلومات سامنے آجاتی ہیں، ٹیمپل گرینڈن کا دماغ بالکل اِسی طرح کام کرتا ہے۔ تکلیفوں بھرے بچپن اور مصائب سے پُر نوجوانی کے بعد کالج جا کر ایک دن ٹیمپل کو پتا چلا کہ اس کا دماغ دوسروں سے مختلف ہے۔ سب لوگ لفظوں سے سیکھتے ہیں لیکن ٹیمپل تصویروں سے سیکھتی تھی۔ اسی حیران کن دماغ نے اس کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا، اسے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑا اور اسی دماغ کے مثبت استعمال کی وجہ سے اس کانام 100 بہترین لوگوں میں آیا ہے۔

دنیا میں جب بھی آٹزم کی بات ہوگی ٹیمپل گرینڈن کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ٹیمپل ایک انسائیکلو پیڈیا کے طور پر صدیوں تک زندہ رہے گی۔ وہ بچی جو منہ سے لفظ نہیں نکال سکتی تھی آج وہ دنیا کی مصروف ترین سپیکر ہے۔ ٹیمپل کالریڈو یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں، جانوروں پر اور آٹزم پر دنیا بھر میں لیکچر دیتی ہیں۔ اس دنیا میں زیادہ تر معلومات کتابی ہیں۔ زندہ ، عملی تجرباتی علم جو سامنے ثبوت بن کر کھڑا ہو وہ بہت کم یاب ہے۔

عصر حاضر میں ٹیمپل گرینڈن ایسے ہی علم کی ایک مثال ہیں۔ ٹیمپل ایک ایسا پارس ہیں جو ہزاروں، لاکھوں والدین،بچوں کے لئے مشعل راہ  اور جانوروں کے لئے نجات دہندہ بنیں۔ ان کے ایک لیکچر کو سننے کے لئے لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے، لوگ اپنے بچوں کے مسائل کا حل اُن سے پوچھنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود ان سب مسائل سے لڑ کر یہاں تک پہنچی ہیں۔ ٹیمپل کو سننا ،اُن سے ملنا، اُن کے ساتھ کام کرنا لوگوں کے لئے ایک یاد گار تجربہ  بن جاتا ہے۔ اگرچہ ٹیمپل کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اس کے باوجود ان کا علم کتابی نہیں بلکہ الہامی ہے۔ ان کے پاس لوگوں کے ان سوالوں کے جواب ہوتے ہیں جو کسی کتاب میں ڈھونڈے سے نہیں مل سکتے خواہ وہ بچوں سے متعلق ہوں یا جانوروں سے متعلق۔

متعدد والدین نے کہا کہ ہمارے لئے ٹیمپل سے بات کرنے کے بعد اُن کی زندگی کو جاننے کے بعد، اپنے ذہنی معذور بچوں کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ سن2010ء میں HBO ٹی وی چینل نے ٹیمپل گرینڈن کی زندگی پر ایک فلم بنائی جو حقائق پر مبنی تھی۔ اگر ہر معاشرہ ایسی فلمیں ہر ذہنی معذوری پر بنائے تو بہت آسانی ہوجائے اور مختلف دماغ کے لوگ بھی ایسے ہی قبولیت حاصل کرلیں گے جیسے وھیل چئیر، سفید چھڑی، آلہ سماعت یا بیساکھی استعمال کرنے والے لوگوں کو حاصل ہے۔

اس فلم کے بارے میں ٹیمپل کا کہنا تھا کہ فلم دیکھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے میرا ماضی گھومتا رہا۔ٹیمپل پر بننے والی فلم اس کی حقیقی زندگی کی  کہانی ہے۔ اس کا ہرسین اور ہر ڈائیلاگ بہت جاندار اور بامعنی ہے۔ یہ فلم دیکھ کر  نارمل لوگوں کے ابنارمل اور ڈس ایبل لوگوں کے ایبل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔اس میں ٹیمپل کے الفاظ کی کمی اور دماغی بصارت کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیاگیا ہے۔ کیسے اس کا ذہن ’’سوکا لڈ‘‘ نارمل لوگوں سے کہیں زیادہ گہرائی میں جا کر جانوروں کی نفسیات اور تکلیف کو سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ کی لائیو سٹاک انڈسٹری میں ٹیمپل کے ایجاد کردہ کنوئیر بہت کامیاب ہیں۔ یہ ایک قسم کی گولائی میں چلنے والے دوہرے ٹریک ہیں جن پر جانور آسانی سے چلتے ہوئے بغیر دھکم پیل کے ذبیحہ خانے تک جاتے ہیں۔ اپنی اس ایجاد پر ٹیمپل کو ان گنت ایوارڈ مل چکے ہیں۔

فلم میںحواس خمسہ کے تکلیف دہ مسائل کی عکاسی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ عوام الناس کو آٹزم کا شکارلوگوں کے حواس خمسہ کی حساسیت اس موضوع پر لکھے ہوئے مضامین پڑھ کر اتنی اچھی طرح سے سمجھ نہیں آسکتی جو اس فلم کو دیکھ کر آتی ہے۔ فلم کے پہلے منظر ہی میں جہاز سے اترنے والے مسافرآرام سے اتر رہے ہیں لیکن ٹیمپل کے لئے جہاز کے پنکھے کی آواز ناقابل برداشت ہے۔

گھر میں کمرے کے پنکھے کی آواز،کھانے کی میز پر برتنوں کی اور سامنے پڑے ایکویرئیم میں پانی گرنے کی بے ضرر آوازوں کو وہ لاشعوری طورپرمحسوس کرتی دکھائی جاتی ہے، پھر اس کی آنٹی این جب کاغذ پر لکھتی ہے کہ ’’یہ ٹیمپل کا کمرہ ہے‘‘ تو پنسل سے کاغذ پر لکھے جانے کی آواز اس کی سماعت کو بہت چیختی ہوئی محسوس ہوتی ہے جب اس کی ماں فون پر اس کی آنٹی کو بتاتی ہیں کہ وہ اس کی کاٹن کی پرانی فراک استری کرکے صبح پارسل کررہی ہیں تو یہ ٹیمپل کی دوسرے آٹسٹک لوگوں کی طرح جلد کی حساسیت کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر وہ اپنے پرانے حتیٰ کہ گھسے پٹے کپڑوں کو نئے کپڑوں پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے جسم کے لیے ہر کپڑا آرام دہ نہیں ہوتا اور شاید وہ لاشعوری  طورپر جس طرح نئے ماحول ،نئے لوگوں سے ڈرتے ہیں اسی طرح نئے کپڑوں سے بھی ڈرتے ہیں۔

یہی ڈر اس فلم کے اکثر مناظر میں ٹیمپل کی آنکھوں میں دکھایا گیا ہے ، فارم ہاؤس میں پہلی رات آنٹی ’’ این‘‘ جب ٹیمپل کو ’گڈنائٹ ‘ کہنے کے لئے گلے لگانے لگتی ہیں تو ٹیمپل ایک دم دفاع کرتی ہیں تب آنٹی این کو یاد آتا ہے کہ نہیں! ٹیمپل کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے۔ فلم میں شروع سے آخر تک ٹیمپل ایک ہی قسم کا کھانا( جیلی،پڈنگ) کھاتی ہے جو آٹسٹک لوگوں کے ذائقے کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔

آٹزم کا شکار لوگ کس طرح کے ذہنی عذاب سے گزرتے ہیں یہ وہ اور ان کے اہل خانہ تو جانتے ہیں لیکن معاشرہ نہیں جان پاتا، چونکہ انہیں معاشرے میں رہنا پڑتا ہے اس لئے وہ بہت تکلیف سہتے ہیں۔ٹیمپل گرینڈن اپنے انٹرویوز میں بارہا بتاچکی ہیں کہ سکول کے بچے ان کا مذاق اڑاتے تھے، برآمدے میں اس کے پیچھے ’’ٹیپ ریکارڈر‘‘ کی آوازیں لگاتے تھے کیونکہ ٹیمپل کو ایک ہی طرح کے فقرات بار بار دہرانے کی عادت تھی۔ اس لئے اس کا نام لینے کی بجائے اسے ٹیپ ریکارڈر کہا جاتا تھا اور ٹیمپل کو ایک لڑکے کے منہ پر کتاب مارنے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا تھا۔

یہی سب نئے سکول میں داخلے  کے وقت ٹیمپل کی ماں دہراتی ہیں کہ کس طرح بچے ٹیمپل کا مذاق اڑاتے تھے جب اسے ان کے لطیفے اور دیگر گفتگو سمجھ نہیں آتی تھی  اوروہ ٹیمپل کے تیز بولنے کی وجہ  اس پر ہنستے، جب ٹیمپل اپ سیٹ ہوتی وہ اسے مزید تنگ کرتے۔ ان سب باتوں  پر اس نے اپنے دفاع میں کتاب ماری اور سکول سے نکال دی گئی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ٹیمپل کی ماںایک روایتی دکھی ماں تھی۔اس کا سنہری ڈائیلاگ’’ مختلف ہوں لیکن کمتر نہیں‘‘ آٹزم کے شکارلوگوں کے لیے ایک سلوگن بن چکا ہے۔

اس ذہنی ٹارچر کی عکاسی فلم میں جگہ جگہ کی گئی ہے کہ نا صرف بچے بلکہ استاد بھی اس کے مسائل کو سمجھنے اور اسے موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ صرف ایک سائنس ٹیچر مسٹر کارلاک ٹیمپل کو سمجھ پاتا ہے اور بھر پور تعاون کرتا ہے۔ فلم میں سکول چھوڑنے کے بعد بھی وہ ٹیمپل کو اچھے مشورے دیتا رہتا ہے۔ ہر استاد کے لئے یہ فلم دیکھنا ضروری ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا استاد دکھایا گیا ہے جس کی اندرونی بصارت کی وجہ سے ایک عام طالبہ اس طرح چمکی کہ استاد بھی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا۔ ٹیمپل نے اپنے لیکچرز میں اچھے استاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بارہا  اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر سائنس ٹیچر مسٹر کارلاک اس کی زندگی میں نہ آتے تو وہ آج اس مقام پر نہ ہوتی۔

ان گنت ٹی وی انٹرویوز میں ٹیمپل سے اس کی ایجاد کردہ’’سکویز مشین‘‘ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو اس نے اپنے کالج کے زمانے میں بنائی تھی۔ فلم میں ٹیمپل کی شہرہ آفاق سکویزمشین کا بھی کافی ذکر ہے۔ جب وہ اپنی پھوپھی کے فارم پر چھٹیاں گزارنے جاتی ہی تو وہاں انھیں فرسٹریشن کا دورہ پڑتا ہے۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ گائیوں کو فارم پر ایک خاص قسم کے لکڑی کے شکنجے میں سکون پہنچانے کے لیے تھوڑی دیر کے لئے کھڑا کیا جاتا تھا، ٹیمپل کو یہ آئیڈیا اپنے آٹسٹک دماغ کے اضطراب اور بے سکونی کو سکون پہنچانے کے لئے بہت پسند آیا۔ وہ اپنے تخلیقی ذہن کی بدولت اپنے لئے ویسی ہی مشین بناتی ہے، جو ہمیشہ اس کے اضطرابی دوروں میں اسے سکون پہنچاتی ہے۔

فلم کے آخر میں وہ وضاحت کرتی ہیں کہ جب بچے جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو مائیں انہیں ساتھ چمٹا کر تسلی دیتی ہیں لیکن آٹزم کا شکار بچے چھوئے جانا پسند نہیں کرتے لیکن انہیں اس ساتھ اور تسلی کی بہرحال ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر آٹزم کے شکار بچوں کے والدین کو یہ بتاتی ہیں کہ بچوں کا بے تجاشا آگے پیچھے جھولنا، کھڑے ہوکر گھومتے جانا یا زمین پر لیٹ کر گھومنا ان کے نروس سسٹم کو وہی ٹھہراؤ اور سکون پہنچاتا ہے جو ماں کے ساتھ چمٹنے سے دوسرے بچے حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے  اپنے بچپن کے ایسے سارے مواقع  آجاتے ہیں، یہ بات اتنے بہتر طریقے سے کوئی ایسا شخص نہیں بتاسکتا تھا جوخود اس ساری اعصابی توڑ پھوڑ سے نا گزرا ہو۔

ٹیمپل گرینڈن کی فلم آٹزم کے شکار بچوں کے والدین ،ٹیچرز اور ارد گرد کے سب لوگوں کو دیکھنی چاہیے۔اس فلم کو دیکھ کر آٹزم کی جس انداز میں سمجھ آتی ہے وہ ہزار کتابیں پڑھ کر بھی نہیں آسکتی۔ فلم میں جزیات نگاری بہت کمال کی ہے، کو ئی ایک سین بھی ایسا نہیں جسے بے مقصد کہا جائے، ہر منظر اور ہر ڈائیلاگ آٹزم کے شکار لوگوں کے دماغ کا بہترین عکاس ہے۔ فلم میں ماں کا کردار بہت کم لیکن اتنا جاندار ہے کہ رلا دیتا ہے، ایک دم جذباتی لیکن مضبوط عقل مندانہ فیصلے کرنے والی ماں حقیقی زندگی میں بھی ’’مسزیوس ٹس‘‘ ایسی ہی متاثر کن خاتون ہیں۔

فلم کا ایک بہت اہم پہلو جانوروں کے لئے ٹیمپل کی سمجھ،علم،محبت اور احساس ہے۔ ٹیمپل حیران کن حد تک  جانوروں کی نفسیات کو سمجھتی ہے وہ ان کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ اس نے اینیمل ہسبینڈری میںڈاکٹریٹ کی اور جانوروں کے لے  بہت انقلابی اقدامات کیے۔

اس فلم میں ایک نابینا لڑکی کا کردار دیکھنے والوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ جب کوئی بھی نارمل لڑکی کالج میں ٹیمپل کی روم میٹ نہیں بننا چاہتی تو ایک نابینا لڑکی اس کے ساتھ ٹھہرائی جاتی ہے۔ ان دونوں کی  ذہنی کیمسٹری خوب ملتی ہے اور وہ نابینا لڑکی ایک سین میں ٹیمپل کی آواز سن کر کہتی ہے کہ اب تم پر سکون ہو ، ٹیمپل حیران ہوکر کہتی ہے کہ تمہیں کیسے پتا چلا اس نے کہا کہ ’’تمہاری آواز سے پتا چلتا ہے ، کیونکہ میں تمہیں آواز کے ذریعے دیکھتی ہوں‘‘۔ یہ ڈائیلاگ بیک وقت نابینا افراد کی محرومی اور بصیرت دونوں پر روشنی ڈالتا ہے۔آخری سین سے پہلے ٹیمپل دوبارہ نابینا دوست سے ملتی ہے اور اپنے جانوروں کے پراجیکٹ کا بتا کر کہتی ہے کہ ’’ صرف ایک تم اتنی صلاحیت رکھتی ہو کہ میری بات سمجھ سکو۔‘‘ یہ ایک طنز ہے ہما رے معاشرے کے کرتا دھرتا لوگوں کی بصارت و بصیرت پر۔

فلم کے آخر میں ٹیمپل کو آٹزم سوسائٹی کے لوگ تقریر کرنے کا کہتے ہیں ، اور پوچھتے ہیں کہ تمہارا علاج کیسے ہوا ؟ تو ٹیمپل بڑے آرام سے کہتی ہیں کہ ’’میرا علاج نہیں ہوا ،میں بس مختلف ہوں اور دنیا کو اتنی تفصیل سے دیکھتی ہوں جو تم نارمل لوگ نہیں دیکھ سکتے‘‘۔

حقیقت میں ٹیمپل گرینڈن کئی دفعہ یہ کہہ چکی ہیں کہ ’’ دنیا کو مختلف دماغوں کی ضرورت ہے،اگر سارے آٹسٹک لوگ ٹھیک ہوگئے تو سلی کون ویلی(سلی کون ویلی میں دنیا کی بڑی کمپیوٹر کمپنیاں ہیں) کو لوگ کہاں سے ملیں گے۔‘‘

اس فلم کو دیکھنا اور  ٹیمپل گرینڈن کوجاننا ہر نارمل اور ابنارمل دماغ کے لئے ضروری ہے تاکہ نارمل دماغ کو اپنے نارمل ہونے کے باعث بہت کچھ نہ جاننے کا علم ہوسکے اور ابنارمل لوگ خود کو کھوج سکیں کہ وہ کن بلندیوں کو چھوسکتے ہیں۔ کاش! پاکستان میں بھی کچھ ایسے دماغ ہوتے جوڈس ایبلٹیزیا مختلف ذہنی مسائل  پر بامقصد فلمیں بناتے۔ ایسے اعلیٰ موضوعات پر فلمیں عوام کو جو شعور دے سکتی ہیں وہ کتابوں سے ممکن نہیں اور ویسے بھی ہمارے ملک میں ذہنی امرا ض پر کتابیں عام نہیں ہیں، انگریزی میں ایسی کتابوں کی بہتات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انگریزی زبان کتنے فیصد عوام سمجھ سکتے ہیں؟

The post جانوروں کی طرح سوچنے والی خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.

مُسکرانا بھول جایا کرو!

$
0
0

شاعر نے کہا تھا
مسکراہٹ ہے حُسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو

مگر بھارت میں ایئرپورٹ کے سیکیوریٹی اہل کاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ مسافروں کو دیکھ کر مسکرانا بھول جایا کریں۔ ایک خبر کے مطابق:

’’بھارت میں ایئرپورٹ سیکیورٹی حکام نے نائن الیون حملے میں مسکراہٹ کو اصل وجہ قرار دیتے ہوئے سیکیوریٹی اہل کاروں کو مسافروں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرنے اور انھیں دیکھ کر مسکرانے سے منع کردیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سول ایوی ایشن سیکیوریٹی کے ادارے سینٹرل انڈسٹری سیکیوریٹی فورس (سی آئی ایس ایف) نے مسافروں کو دیکھ کر ’غیرمعمولی مسکراہٹ‘ سے روکتے ہوئے ’محدود مسکراہٹ‘ کا طریقۂ کار وضع کیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ مذکورہ اقدام کا مقصد سی آئی ایس ایف کو زیادہ دوستانہ ہونے کے بجائے چوکس رکھنا ہے۔ سی آئی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل راجیش رنجن نے بتایا کہ ہم مسافروں کے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتے کیوںکہ امریکا میں نائن الیون حملے میں سیکیوریٹی اہل کار مسافر کے دوستانہ رویے سے متاثر ہوکر اُس پر اعتماد کر بیٹھا تھا۔‘‘

عوام سے براہ راست رابطہ رکھنے والے سرکاری ملازمین کو لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے اور دوستانہ انداز اپنانے کی ہدایت کی جاتی ہے، اس مقصد کے لیے بعض ادارے ہفتۂ خوش اخلاقی مناتے رہے ہیں، لیکن بھارت میں ہر معاملہ اُلٹ ہے، جس دیش میں گائے کی خاطر انسان کاٹ ڈالے جاتے ہوں، وہاں جو نہ ہو وہ کم ہے۔

ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ یہ’’محدود مسکراہٹ‘‘ کیا ہوتی ہے؟ خود متعلقہ اہل کار بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں گے کہ مسکراہٹ کو سرکاری حدود میں رکھنے کے لیے ہونٹ کہاں تک پھیلائے جائیں اور دانت کس حد تک نکالے جائیں۔ اس کوشش میں یقیناً چہروں پر ایسی مسکراہٹ نمودار ہوگی جسے دیکھ کر ہر مسافر بھارتی سیکیوریٹی اہل کاروں سے پوری دردمندی کے ساتھ پوچھے گا:

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔۔۔کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

اہل کاروں کو مسافروں سے ’’زیادہ دوستانہ رویہ‘‘ اختیار کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ بھارتی ادارے کا حکم نامہ نہیں بلکہ کوئی کھڑوس خاوند اپنی خوب صورت بیوی کو خاندان کی کسی تقریب میں لے جاتے ہوئے پابند کر رہا ہے،’’سُن ری! زیادہ بتیسی مت نکالیو، اور خالو جمیل کو تو دیکھیو بھی مت، مَردوں کا سامنا ہو تو بس سلام علیکم سلام علیکم کہہ کر نکل لیجو۔‘‘

اس ہدایت کا جواز بتایا گیا ہے کہ ’’امریکا میں نائن الیون حملے میں سیکیوریٹی اہل کار مسافر کے دوستانہ رویے سے متاثر ہوکر اُس پر اعتماد کر بیٹھا تھا۔‘‘ پھر تو سیکیوریٹی اہل کاروں سے زیادہ مسافروں کو رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔

اگر کسی مسافر نے بھارتی ایئرپورٹ پر دوستانہ رویے کا مظاہرہ کردیا تو ممکن ہے مشکوک قرار دے کر اسے ’’دھڑدبوچا‘‘ جائے، چناں چہ ہم بھارتی ہوائی اڈوں کا رُخ کرنے والے مسافروں کو مشورہ دیں گے کہ وہ ہوائی اڈے کی حدود میں قدم رکھتے ہی اپنے چہرے پر کرختگی اور درشتی لے آئیں، یعنی بالکل ایسی شکل بنالیں جیسی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے نریندری مودی کی ہوجاتی ہے، اپنی شکل کے ساتھ یہ سلوک دل گوارا تو نہیں کرے گا، لیکن مجبوری میں دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنا پڑے گا۔

مسافر رویہ بھی دوستانہ کے بہ جائے معاندانہ رکھیں، اپنی اور اپنے سامان کی چیکنگ کے دوران جس حد تک ممکن ہو بدتمیزی کا مظاہرہ کریں، سوٹ کیس کاؤنٹر پر رکھنے کے بہ جائے سیکیوریٹی اہل کار کے سر پر ٹکا دیں، وہ اعتراض کرے تو ایک دو ٹکا دیں، ساری تمیز تہذیب ایک طرف رکھ کر ممبئی کی ٹپوری بولی میں بات کریں، جیسے ’’اپُن کو جلدی جانے کا، زیادہ ٹائم نئیں لگانے کا، کیا بولا‘‘،’’کیا بکسے میں گھس رے لائے ماموں۔‘‘ اگر اس رویے اور لب و لہجے پر سیکیوریٹی اہل کار اعتراض کریں تو مسافر کو انھیں تُرنت جواب دینا چاہیے،’’بھیا! دوستانہ رویہ آپ کو شک میں ڈال دیتا، اس لیے ستانے اور تپانے والا رویہ اپنایا۔‘‘

The post مُسکرانا بھول جایا کرو! appeared first on ایکسپریس اردو.

امریکا کے دفاع کو درپیش نیا خطرہ۔۔۔’’توند‘‘

$
0
0

امریکا کو کسی ملک پر دھاوا بولنا ہو، کسی کو پابندیوں کے نرغے میں لینا ہو، اپنے مفادات کے لیے کہیں بھی مداخلت کرنی ہو، اس کی کسی منطق میں وزن ہوتا ہے نہ اس کے پاس کوئی بھاری دلیل ہوتی ہے، اسے وہائٹ ہاؤس کی دھونس دھاندلی سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ بات یہ ہے کہ سارا وزن اور بھاری پن امریکی شہریوں نے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے، اس لیے امریکی حکومتوں کی منطق اور دلیلوں کے لیے وزن بچا ہی نہیں۔

نہیں سمجھے۔۔۔۔ارے ہم بات کر رہے ہیں امریکیوں کے مٹاپے کی۔ اب تو یہ مٹاپا بڑھتے بڑھتے امریکا کے دفاع کے لیے بھی خطرہ بن گیا ہے۔

ہوا یوں کہ امریکی فوج نے اس سال 76 ہزار پانچ سو نئی بھرتیاں کرنے کی ٹھانی تھی، لیکن اب اعلان کیا گیا ہے کہ 6 ہزار پانچ سو افراد کے بھرتی نہ ہونے کے باعث یہ ہدف پورا نہ ہوسکا۔

امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ہدف میں ناکامی کی وجوہات میں سرفہرست مٹاپا ہے، جس کے باعث سترہ سے چوبیس سال تک کے اکہتر فی صد امریکی فوج میں بھرتی ہونے کے معیار پر پورے نہیں اُترتے۔ اب ظاہر ہے جو لوگ خود ’’توپ‘‘ ہوجائیں وہ فوج میں کیسے جگہ پائیں گے، سو امریکی فوج کو تشویش ہے کہ امریکیوں کی کمریں اور توندیں یوں ہی بڑھتی رہیں تو جنگوں میں جھونکنے کے لیے فوجی کہاں سے آئیں گے؟

لگتا ہے امریکیوں کے وزن بڑھنے کا یہی عالم رہا تو امریکا افغانستان میں بم برسانے کے بہ جائے ’’امریکی‘‘ برسایا کرے گا جو کسی بم سے کم نہیں رہے۔ پھر اس طرح کی خبریں آئیں گی ’’قندھار میں مسٹرجانسن برسا کر چھے طالبان کو ہلاک کردیا گیا‘‘،’’داعش کے ٹھکانے پر امریکی حملہ، مسٹر واٹسن کے پھٹنے سے پندرہ انتہاپسند مارے گئے۔‘‘

امریکیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو تو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، لیکن جب خوراک سامنے آئے تو اپنے پیٹ کو بھی اپنا سمجھ کر نہیں کھاتے، اسے عراق اور افغانستان سمجھ کر پیزے اور برگر برساتے ہیں۔ وہ جتنا کھاتے ہیں اگر اس سے آدھا بھی اقوام عالم پر رحم کھائیں تو دنیا میں امن قائم ہوجائے۔

بہ ہر حال کُل ملا کے بات یہ ہوئی کہ امریکی پھولے نہیں سما رہے اور پھول کر کُپّا ہوئے جارہے ہیں، اور ان کے بڑھتے پیٹ امریکا کے مقتدر حلقوں کو ڈرا رہے ہیں جن کی پیٹ پوجا کے لیے جنگ وجدال ناگزیر ہے۔ ایسے میں امریکی حکم راں اور جرنیل پریشان ہوکر سوچ رہے ہوں گے،’’ویتنام میں تو ہم پیٹھ دکھا کر آئے تھے لگتا ہے افغانستان سے پیٹ دکھاکر جانا ہوگا۔‘‘

The post امریکا کے دفاع کو درپیش نیا خطرہ۔۔۔’’توند‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘‘۔۔۔ قومی اثاثہ

$
0
0

ہم نے جب بھی پڑھایا سُنا کہ ’’برصغیر کا فلاں شہر بڑا مردم خیز ہے یا فلاں صاحب مردم خیز قصبے میں پیدا ہوئے‘‘ اپنے بھولپن کی وجہ سے ہم یہی سمجھے کہ مذکورہ شہر یا قصبے میں مرد کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور دل میں عورت کو دیکھنے کی حسرت لیے دنیا سے گزر جاتے ہیں۔

چناں چہ ہمیں مردم خیز خطے والی ہر ولادت پر افسوس ہوا۔ یہ امر اور بھی حیرت انگیز تھا کہ گڑگاؤں سے گورکھ پور تک برصغیر کا ہر علاقہ مردم خیز ہے کوئی ایک بھی ’’خانم خیز‘‘ نہیں تو آخر یہ اتنی ساری خواتین کہاں سے آگئیں؟

آخر عرصے بعد یہ عقدہ کُھلا کہ مردم خیز خطہ وہ ہوتا ہے جہاں نام ور اور نابغۂ روزگار لوگ پیدا ہوں۔ اس اعتبار سے ’’چنیوٹ‘‘ اپنے بس ایک مرد کی وجہ سے ’’دنیا کا مردم خیز ترین‘‘ شہر کہلانے کا حق دار ہوگیا ہے۔ اصولاً تو چنیوٹ کا یہ اعزاز گنیزبُک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو نوٹ کرنا چاہے تھا اور اہل چنیوٹ کو خوشی سے لوٹ پوٹ ہوجانا چاہیے تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ جن صاحب کی بدولت یہ اعزاز ملنا تھا انھیں جعل ساز قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ اسے کہتے ہیں ناقدری۔

یہ صاحب ہیں ’’پروفیسر ڈاکٹر آر یو عمران احمد سائنس داں۔‘‘ یوں تو ان کی علمیت اور صلاحیتوں کے اظہار کے لیے نام ہی کافی تھا، لیکن موصوف نے سوچا عوام میں اتنا شعور کہاں کہ وہ صرف نام سے ان کے فیوض وبرکات کا ادراک کرلیں سو انھوں نے کمپنی کی مشہوری کے لیے نہیں بلکہ عوام کو اپنی ذات سے فیض یاب کرنے کی خاطر چرچا کیا کہ وہ ڈاکٹر ہیں، سائنس داں ہیں، 10بار کے نوبیل انعام یافتہ ہیں، 40 شاہ فیصل ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں، ’’اصلی ڈاکٹری کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ڈاکٹر‘‘ ہیں، دنیا کی ہر بیماری کا علاج کرسکتے ہیں، 100 سائنسی کارنامے انجام دے چکے ہیں، 361 قوانین بنا چکے ہیں، اور ’’میڈیکل عدلیہ‘‘ کے موجد ہیں۔ وہ صرف ساڑھے پانچ ہزار روپے ایڈوانس لے کر دس روز میں دنیا کی ہر پیچیدہ اور لاعلاج بیماری کا علاج کرسکتے ہیں۔

کہنے والے کہیں گے کہ ’’نام عمران ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بڑے بڑے دعوے بھی کیے جائیں۔‘‘ مگر ہم ایسا کچھ نہیں کہیں گے، ہمیں تو ڈاکٹر آریو عمران احمد کے ہر دعوے پر یقین ہے۔

یقین کی وجہ یہ ہے کہ ایسے نابغۂ روزگار پاکستان میں پیدا ہوتے رہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک ایسے ہی ’’سائنس داں‘‘ نے پانی سے کار چلانے کا دعویٰ کیا تھا، اور اس دعوے کے ساتھ ایک چینل کی فخریہ پیشکش بنے سامنے آئے تھے، قریب تھا کہ پاکستان پانی والی کاریں بنانے اور برآمد کرنے لگتا، پیٹرول پمپ اکھاڑ پھینکے جاتے اور ان کی جگہ پانی کی ٹنکیاں رکھ دی جاتیں اور پانی کا استعمال اتنا بڑھ جاتا کہ سعودی عرب سے تیل اُدھار مانگنے کے بہ جائے ہم بنگلادیش سے پانی مستعار لینے کی کوششیں کر رہے ہوتے۔۔۔۔کہ یکایک آبی کار کے موجد خود آب گُم ہوگئے، نہ جانے شرم سے پانی پانی ہوگئے یا چُلّو بھر پانی میں غوطہ زن ہوگئے، بہ ہر حال ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔

جہاں تک تعلق ہے ان چنیوٹ والے صاحب کا تو ہم سمجھتے ہیں کسی عالمی سازش کے تحت موصوف کو بڑھاپے کے گناہ یا دوسرے نکاح کی طرح چھپا کر رکھا گیا۔ انھیں دھڑدھڑا دھڑ نوبیل انعام اور شاہ فیصل ایوارڈ ملتے رہے لیکن عالمی اور پاکستانی میڈیا نے طے کرلیا تھا کہ ’’آر یو عمران احمد‘‘ کو مشہور نہیں ہونے دینا ورنہ لڑکا مغرور ہوجائے گا۔ اسی لیے ان کے سو سائنسی کارنامے بھی مخصوص امراض کی طرح پوشیدہ رہے، اس سازش کے پیچھے یقیناً اسٹیفن ہاکنگ کا ہاتھ ہوگا، اور ان کے ’’اصلی ڈاکٹری کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ڈاکٹر‘‘ ہونے کا اعزاز اور ہر لاعلاج مرض کا علاج کرنے کی صلاحیت کے دنیا کے سامنے نہ آنے کے پیچھے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کی جلن کارفرما ہے۔

ہمارے خیال میں ان کی گرفتاری کی خبر غلط ہے، انھیں قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے تحویل لے لیا گیا اور سرکاری ملکیت بنا لیا گیا ہے۔ ہم پولیس سے گزارش کریں گے کہ اس اثاثے کی پوری حفاظت کی جائے اور اسے ہرگز ہرگز کُھلا نہ چھوڑا جائے۔

The post ’’دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘‘۔۔۔ قومی اثاثہ appeared first on ایکسپریس اردو.


جناب وزیراعظم! یہ ظلم تو نہ کریں

$
0
0

ہم بہت پریشان ہیں، فکرمند ہیں، تشویش میں مبتلا ہیں، بات ہی ایسی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے،’’پانچ سال میں پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا۔‘‘

ہم نے اتنی تبدیلی کب چاہی تھی بھیا! پاکستان اتنا صاف ہوگیا تو ہمیں لگے گا ہی نہیں کہ ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں، زمین فضا، اردگرد سب اجنبی لگیں گے۔

ہماری فکر کا محور یہ ہے کہ اگر پاکستان اتنا صاف سُتھرا ہوگیا تو ہم اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ہم نے ان سب کے گھروں کے لیے نشانیاں طے کی ہوئی ہیں، وہ ختم ہوگئیں تو سمجھو آنے جانے ملنے ملانے کے سارے سلسلے ختم۔ بھائی اچھن کی گلی کے نکڑ پر پڑا کوڑے کا ڈھیر دور سے نظر آکر بتادیتا ہے کہ آجائیے! آپ کے بھائی اچھن اسی گلی میں مقیم ہیں۔ بابو بھائی کا ایک سو بیس گز کے پلاٹ پر بنا دولت کدہ اپنے عین سامنے منُہ پھاڑے گٹر سے پہچانا جاتا ہے۔ گٹر کا منہہ تو چھوٹا ہے لیکن اس سے بڑی بات کی طرح نکلتی گندگی بابو بھائی کے گھر کی چوکھٹ چومتی اور پوری گلی میں گھومتی ہے۔

ہمیں پھپھو تَمیزُن کے فلیٹ کا نمبر یاد ہے نہ منزل، شناخت بس یہ ہے کہ فلیٹ کی دیوار عمارت کے دوسرے فلیٹوں کی دیواروں کے مقابلے میں پیکوں سے کہیں زیادہ رنگی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ دوسری دیواروں پر پیک پڑی ہے، اور یہ دیوار پیکوں کے پیچھے کھڑی ہے۔ دراصل پھوپھو تمیزن اپنے شوہر پھوپھا اخلاق کے مسلسل کان کھاتی ہیں، پھوپھا اخلاق اسی تناسب سے کچھ انتقاماً اور کچھ منہہ بند رکھنے کے لیے انتظاماً پان کھاتے ہیں اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے ہی پیک تھوکتے ہیں۔ اس کارن یہ جوڑا بدتمیزن اور بداخلاق کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح نفاست میاں کے مکان کی نشانی کوڑے سے بھرا نالہ ہے، یہ نالہ ایسا حوالہ بنا ہے کہ لوگ نفاست میاں کو غلاظت میاں کہنے لگے ہیں۔

ہم پاکستانی تو اپنی اپنی بستیوں اور اپنے اپنے محلوں کو مخصوص بدبوؤں سے پہچانتے ہیں، کسی کو گوبر کی بو آتی ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ بس گھر قریب آگیا، کوئی مرے ہوئے چوہے کی مہکار سونگھتا اپنی بستی میں وارد ہوتا ہے، کسی کے نتھنوں کو مُردار کُتے کی خوشبو چھوتی ہے تو آنکھیں بند ہوں تب بھی وہ اپنے محلے کا سُراغ پالیتا ہے۔ کسی اور دیار میں بھی یہ بوئیں ناک سے ٹکرا جائیں تو دل جھوم کے کہہ اُٹھتا ہے۔۔۔یہ تو وہیں جگہ ہے رہتے ہیں ہم جہاں پہ۔

وزیراعظم کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم ان قوموں کی طرح نہیں جو اپنے گھر کو ہی اپنا سمجھتی ہیں، ہم تو پورے وطن کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، اسی لیے کوئی بھی دیوار ہماری ’’دھار‘‘ سے دُھل جاتی ہے، کسی بھی ویرانے کو ہم اپنی ’’خوشبو‘‘ سے آباد کرجاتے ہیں۔ اسی اپنائیت کو دیکھ ہوئے پورے ملک اور ہر شہر میں چند مقامات مختص کردیے گئے ہیں کہ ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ یعنی صرف یہیں منع ہے۔ گھر کا کوڑا گھر میں رکھنا ہم خودغرضی سمجھتے ہیں اور اسے گلی میں لُٹادیتے ہیں، ہماری حسِ جمالیات کالی سڑک کی سیاہی کو برداشت نہیں کرپاتی، چناں چہ پچکاری مار کر اسے رنگین کرنا فرض سمجھتے ہیں۔

خان صاحب کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ پاکستانی آزادی کی متوالی قوم ہے۔ ہم خاندان کی پابندیاں تو جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں لیکن کچرا دان کی پابندی ہمیں گوارا نہیں، ہم اپنا سارا کچرا سڑکوں، گلیوں، پارکوں، دریا اور سمندر کے ساحلوں کو دان کردیتے ہیں۔

تو جناب وزیراعظم! آپ تحریک انصاف کو تحریک صاف نہ بنائیے، ہم جانے کب سے کوڑا جمع کر رہے ہیں، گندگی ذخیرہ کر رہے ہیں، اور آپ اس محنت کو مٹانے چلے ہیں، کمال کرتے ہیں۔

The post جناب وزیراعظم! یہ ظلم تو نہ کریں appeared first on ایکسپریس اردو.

خلاؤں میں جھانکنے والی سب سے بڑی آنکھ

$
0
0

(دوسری قسط)

سفر کو و سیلہ ظفر کہا جاتا ہے۔ او ر اگر سفر میں آپ کے ہمراہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہوں تو سیکھنے کا عمل دو چند ہو جاتا ہے ۔ چینی شہر گوئی یانگ کا دورہ بھی ایک ایسا ہی موقع تھا۔ اس سفر میں افریقی (عرب و غیر عرب دونوں)، جنوبی ایشیائی ، یورپی اور چینی ثقافتوں کے مختلف رنگوں سے آ گہی کا موقع میسر آیا ۔ ہمارا یہ گروپ بیجنگ اور چین میں کا م کرنیوالے غیر ملکی اور چینی صحافیوں اور دیگر اداروں سے وابستہ افرا د پر مشتمل تھا۔ سی آر آئی کی اردو سروس، ہندی سروس، سی آر آئی آن لائن ، چائنہ ڈیلی ، چا ئنہ ڈاٹ او آر جی ڈاٹ سی این سے وابستہ چند صحافی بیجنگ سے روانہ ہوئے جبکہ کچھ وہاں پہنچ کر شریک ہوئے ۔

ان میں عمر کے اعتبار سے سے سب سے سینئر مگر جوش و جذبے سے سرشار بروس کانولی تھے جو ایک صحافی، لکھاری، براڈ کاسٹر اور بہترین فوٹو گرافر ہیں ۔ وہ تیس برس سے چین میں مقیم ہیں۔ تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ موصوف اسکاٹ لینڈ سے ہیںاور بطوراسکاٹش اپنی شناخت کو پسند کرتے ہیںچہ جائیکہ برطانوی کہلانا۔ لیکن وفد میں لندن کے ایک نوجوان صحافی بھی شامل تھے، دونوں کی عمروں میں فرق نمایاں تھا مگر کلچر اور زبان مشترک ہونے کے باعث دونوں میں خوب گاڑھی چھنتی تھی۔

اپنی علیحدہ شناخت پر مُصر بروس کانولی کی انگلینڈ کے صحافی سے قربت کی وجہ شایداپنے وطن سے دوری تھی، یوں ایک مختصر سفر میں انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان شناخت کی تفریق کا احساس ہوا کیونکہ ہمارے ہاں تو دونوں کو بالعموم ایک ہی ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی سفر میں براعظم افریقہ میں پائے جانے والے مذہبی و لسانی تنوع سے بھی براہ راست آشنائی ہو ئی۔ افریقی عرب ملک مصر سے تعلق رکھنے والے مسلم صحافی حسام المغربی اور افریقی ملک گھانا کے ایڈی ٹرکسن بھی ہم راہی تھے۔ اس کے علاوہ چین کے مختلف صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور مردصحافی بھی وفد میں شامل تھے۔

وفد کی منزل چین کے جنوب مغربی صوبے گو ئیچو کا دارالحکومت گوئی یانگ تھی ۔ گوئچو تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں صو بہ اور متنوع نسلی گروہوں کا مسکن ہے۔ یہ نومبر کے آخری دن تھے۔ نومبر میں سردی بیجنگ میں پورے زوروں پر ہوتی ہے مگر گوئی یانگ کا موسم بیجنگ کی نسبت قدرے گرم تھا۔ بیجنگ سے جو گرم جیکٹس ہم پہن کر نکلے تھے وہ اب بوجھ محسوس ہونے لگیں۔ موسم اور درجہ حرارت میں یہ تبدیلی گوئی یانگ کا پہلا تعارف تھا۔ لیکن بیجنگ سے ایک ہزار سات سو اکتیس کلومیٹر دور سامنے آنے والی یہ تبدیلی صرف درجہ حرارت میں فرق تک ہی محدود تھی، انفراسڑکچر، سہولیات، جدت، بلند و بالا عمارات ، سر سبز ماحول، ٹریفک قوانین کی پاسداری اور نظم و ضبط بالکل بیجنگ جیسا ہی تھا۔

ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید بیجنگ سے اتنی دور اس جنوب مغربی صوبے میں ترقی کا معیار اور پھیلاؤ دارالحکومت کی نسبت کم تر ہو گا، مگر ترقی کے جو مظاہر اور رفتار وہاں دیکھی، وہی یہان بھی تھی۔ گوئی یانگ کی بیجنگ سے دوری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں چلنے والی مختلف رفتار کی ٹرینز بیجنگ سے گوئی یانگ تک کا سفر کم سے کم آ ٹھ گھنٹے چوالیس منٹ میں اور زیادہ سے زیادہ انتالیس گھنٹے اور چوبیس منٹ میں طے کرتی ہیں۔

ہاں۔۔۔ ایک اور چیز میں بھی فرق کا مشاہدہ ہوا اور وہ تھی مقامی لوگوں کی رنگت اور قد۔ بیجنگ چونکہ شمال میں ہے اور شمال میں سردی بہت پڑتی ہے اس لیے وہاں کے لوگ سرخ و سفید ہیں طویل قامت ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ قدرے مختلف پایا ۔ یہاں کے لوگوں کے قد چھوٹے اور رنگت گرم موسم کے باعث سنولائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جسمانی خدو خال میں یہ فرق ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ گوئی یانگ چین کے ٹیکنالوجی کے حوالے سے اُبھرتے ہو ئے صف اول کے شہروں میں شامل ہے۔ یہ چین میں بِگ ڈیٹا ٹیکنالوجی کا مرکز ہے اور اس کو چین کی ڈیٹا ویلی بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں ہر سال ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی نمائش بھی منعقد ہوتی ہے۔ بِگ ڈیٹا کے بارے میں آ پ کو بتاتے چلیں کہ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا رجحان ہے۔ اس کی تعریف تو کافی تکنیکی ہے مگر عام فہم اور سادہ الفاظ میں آ پ یہ سمجھ لیں کہ اس میں کثیر مقدار میں موجود ڈیٹا اور اعداد شمارکا کمپیوٹر کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ انسانی رویوں کے مختلف رجحانات، طریقہ کار اور وا بستگیوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ اور اس ٹیکنالوجی کو چین بھر میں اور گو ئچو میں بالخصوص استعمال کیا جا رہا ہے۔

گوئچو میں اس ٹیکنالوجی کو شعبہ تعلیم، صحت، شہریوں کے تحفظ ، غربت کے خاتمے ، موسم کے متعلق پیشگوئی اور دیگر شعبوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اس کے استعمال سے کلاس رومز میں روایتی بلیک بورڈز ختم ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ٹیبلٹس استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ تدریس کے لیے ٹیبلٹس اور پروجیکٹرز استعمال کرتے ہیں جبکہ طلباء بھی اپنی اسائینمنٹس ٹیبلٹ کے ذریعے مکمل کرتے ہیں اور اساتذہ ان کے کام کا فوری جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔

گوئی یانگ کی مقامی حکومت کے بگ ڈیٹا پلس ایجوکیشن پلان پراجیکٹ کے تحت آ ٹھ سکولوں کے ساٹھ کلاس رومز کو سمارٹ کلاس رومز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گوئی یانگ کی بگ ڈیٹا سے منسلک ایک کمپنی کے سیلاب سے متعلق پیشگوئی کے حوالے سے ایجاد کردہ ایک جد ید الارم سسٹم نے سائنس و ٹیکنالوجی کا ایوارڈ بھی جیتا ہے۔ مذکورہ سسٹم بیک وقت سیلاب کے متعلق الرٹ بھی جاری کرتا ہے جبکہ پانی کے وسائل کے مناسب استعمال سے بھی آ گاہ کرتا ہے۔

یہ سسٹم ملٹی بیس ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے۔ یہ لینڈسکیپ ، موسم کے متعلق ڈیٹا کو ریموٹ سینسنگ کے ذریعے اکٹھا کرتا ہے۔ اس سے سیلاب کے متعلق بروقت اور درست پیشگوئی ممکن ہے۔ یہ سسٹم سیلاب کی روک تھام اور پانی کو ذخیرہ کرنے والے ادارے ا ستعمال کررہے ہیں جبکہ ہائیدرو پاور اسٹیشنز پر بھی اس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

شعبہ صحت میں بھی اسی ٹیکنالوجی کو نگرانی، طبی اخراجات، ادویات کی خریداری، میڈیکل انشورنس کی ادائیگیوں اور دیگر انتظامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بگ ڈیٹا کی مدد سے اکتیس ملین مریضوں کے متعلق معلومات اکٹھی کی گئی ہیں جبکہ دو اعشاریہ ستائیس ملین طبی نسخہ جات کا معائنہ کیا گیا ہے۔ بگ ڈیٹا ٹیکنالوجی کا طب کے شعبے میں استعمال صوبہ گوئچو کے علاوہ چین کے صوبوں شندونگ اور انہوئی میں بھی جاری ہے۔ غربت کے خاتمے میں بھی یہ ٹیکنالوجی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ صوبہ گو ئچو میں چھ اعشاریہ سات ملین دیہی غریب آبادی کو غربت سے نکالنے میں اس ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا ہے۔

گوئچو میں بگ ڈیٹا ٹیکنالوجی کا استعمال حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہاں پر بگ ڈیٹا تھنک ٹینک پلیٹ فارم قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کو اس سے ہم آ ہنگ کرنا ہے۔ یہ گوئچو پراونشل ایڈمنسٹریشن آف بگ ڈیٹا ڈیویلپمنٹ اور چائنہ نیشنل نالج انفراسٹرکچر کا مشتر کہ منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے جمع شدہ ڈیٹا سے حکومت کو فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں آ سانی ہو گی اس کے علاوہ مذکورہ ڈیٹا معیشت، سماج اور ٹیکنالوجی کی ہم آہنگی کے لیے بھی استعمال ہو گا ۔ ٹیکنالوجی کا سماجی بہتری کے لیے بھر پور استعمال یہاں دیکھنے میں آیا۔

گوئچو کے مختلف رنگ آ ہستہ آہستہ کھل رہے تھے اور ہم اس سوچ میں تھے کہ انسانی ذہن کی وسعت و رسائی کہاں کہاں تک ہے ۔ اسی اثنا میں اعلان ہوا کہ وفد نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ دیکھنے جانا ہے۔ ہم نے سو چا کہ وہ بھی کہیں آس پاس ہوگی مگر حیرت کا جھٹکا لگا جب یہ بتایا گیا کہ بس کے ذریعے جانا ہے اور جانا بھی ہم کو دور ہے۔ اس لیے صبح سویرے ناشتے کے بعد تیار رہیں۔ اگلی صبح دو بسوں پر مشتمل قافلہ روانہ ہوا۔ بس گوئی یانگ کی شہری حدود سے نکلی اور ایک ہائی وے پر روانہ ہو گئی۔ بس کا جائزہ لیا تو موجود ساتھیوں سے میں سے اکثر اپنے لیپ ٹاپس، سمارٹ فونز پر مصروف نظر آئے اور میں باہر کا نظارہ کرنے لگا۔

اطراف میں ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑتھے ۔ راستے میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے دیہات ْ آ ئے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد بسیں ایک جگہ پر رُک گئیں۔ ہم نے سوچا کہ شاید منزل آ گئی ہے مگر پتہ چلا کہ یہ تو صر ف دس منٹ کا قیام ہے ۔تازہ دم ہونے کے لیے۔ چلیں یہ تو معلوم ہوا کہ طویل مسافت پر جانے والی بسیں چین میں بھی راستے میںٹھہرتی ہیں اور شاید یہ عالمی روایت ہے۔ وقفے کے بعد دوبارہ روانہ ہوئے تو مسافر ہشاش بشاش تھے اور مسافروں کی نشستیں بھی تبدیل ہو چکی تھیں۔ سمارٹ فونز پر مصروف ہونے کے بجائے مسافروں نے ایک دوسرے سے بات چیت کا آغاز کیا تو میں نے بھی ا پنے ساتھ والی نشست پر موجود نوجوان ساتھی سے گفت و شنید شروع کی۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام رین ہاو(Ran Hao) ہے۔

موصوف پی ایچ ڈی ہیں، پڑھاتے ہیں اور پڑھاتے بھی سکول میں ہیں اور شنگھائی سے تشریف لائے ہیں۔ پی ایچ ڈی اور پھر سکول میں پڑھانا ہمارے لیے باعث حیرت تھا۔ پھر سے پوچھا کہ آ پ کہاں پڑھاتے ہیں تو فرمانے لگے کہ کمیونسٹ پارٹی کے سکول میں تو پھر سمجھ آئی۔ موصوف بیجنگ میں ایک اعلی پالیسی ساز ادارے سے وابستہ تھے۔ انہیں پاکستان کی سیاست کا بخوبی علم تھا۔ وہ پاکستان میں مختلف نوعیت کے اہم انتظامی و سیاسی اداروں سے مکمل باخبر تھے۔ ان سے خوب گپ شپ رہی اور ہم دونوں نے چین اور پاکستان کے سماج میں پائی جانے والی روایات، سماجی اداروں اور سیاسی امور پر خوب گفتگو کی اور یہ گفتگو در زبانِ فرنگ ہوئی کیونکہ میں چینی زبان اور وہ اردو سے لا علم تھے۔

انہوں نے ہی بتایا کہ ہماری منزل کافی دور ہے ۔ ان سے بات چیت ختم ہوئی تو پھر بس تھی، بس کی کھڑکی تھی اور سڑک تھی۔ گوئی یانگ سے آتے ہوئے یہاں تک بلند و بالا پہاڑ ہی نظر آئے ایسا محسوس ہوا کہ آپ پاکستان میں ملاکنڈ سے سوات جار ہے ہیں۔تقریبا تین گھنٹے کے سفر کے بعد بس ایک اعلی درجے کے ہوٹل پر رک گئی ۔ ہم سمجھے منزل آ گئی معلوم ہوا کہ دوپہر کے کھانے کے لیے رکی ہے۔ انواع اقسام کے کھانے موجود تھے۔ میں نے اور مصری مسلمان ساتھی حسام المغربی نے سبزیوں، سلاد، جوسز پر اکتفا کیا۔ وہاں سے روانگی ہوئی اور بس پُرپیچ ، خم کھاتے پہاڑی راستوں سے گزرتی رہی اور آخر کار ایک بلڈنگ کے سامنے رُک گئی۔

یہی ہماری منزل تھی۔ بس سے اُتر کر دیکھا تو آ س پاس بلندو بالا پہاڑوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ دور دور تک کسی آبادی کا نشان نہ تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ہم فاسٹ ریڈیو ٹیلی سکوپ کی حدود میں کھڑے ہیں۔ ارد گرد دیکھا تو ٹیلی سکوپ نظر نہ آئی۔ پھر اعلان ہوا کہ سامنے والی عمارت میں داخل ہونا ہے لیکن اس سے پہلے گروپ فوٹو ضروری ہے۔ سو گروپ فوٹو ہوا اور پھر ہم عمارت میں داخل ہو گئے۔ عمارت میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہم تو پنگ تانگ انٹر نیشنل ایکسپیرینس پلانیٹریم میں موجود ہیں۔

اس پلانٹیریم میں اجرامِ فلکی کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات مہیا کی جاتی ہیں اور مختلف طرح کے سائنسی ماڈلز حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ پلانٹیریم میں گھومتے ہوئے انسان اپنے آپ کو کسی اور دنیا کا باسی تصور کرتا ہے۔ یہاں پر آسمان سے ستاروں کی نقل وحرکت کی آوازیں سنانے کا بھی اہتمام ہے۔ مختلف طرح کے سائنسی آلات، مختلف ادوار میں آسمان کے پر اسرار ر ازوں کو جاننے کی انسانی کوششوں کی داستان، خلانورد وں کا ماڈل، چاند کی سطح پر چلنے کا تجربہ، سیاروں اور ستاروں کے ماڈلز، زمین سے ستاروں اور سیاروں کی دوری کے متعلق معلومات، مختلف سائنسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ڈشز کے ماڈلز بھی موجود ہیں۔ پلانٹیریم میں اجرامِ فلکی کے متعلق ایک دستاویزی پروگرام دکھایا جاتا ہے جو کہ سیاحوں کو مسحور کردیتا ہے۔ ٹیلی سکوپ کو دیکھنے کے دورے میں اس پلانٹیریم کا دورہ لازمی کروایا جاتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پلانیٹریم ٹیلی سکوپ کو دیکھنے کے جذبے کو مزید مہمیزکر دیتا ہے۔ پلانٹیریم کے دورے کے بعد ٹیلی سکوپ دیکھنے کے لیے رختِ سفر باندھنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

تجسس انسانی سرشت ہے۔کچھ کرنے اورڈھونڈنے کا جذبہ انسان کو ودیعت ہوا ہے۔ جاننے کی اس تشنگی کی تشفی کے لیے نِت نئے تجربات کئے جاتے ہیںاور نئی نئی ایجادات سامنے آتی ہیں۔ زمین پر موجود اشیاء تو کافی حد تک انسانی دسترس میں ہیں مگر زمین سے اوپر خلاوں اور آسمانوں میں ہونے والی نقل و حرکت کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ مختلف ممالک کے ادارے اس حوالے سے تحقیقات میں مصروف ہیں۔ انسانی قسمت پر ستاروںکے اثرات جاننے کے دعویدار تو بہت ہیں مگر ان کے سائنسی تجزیے ، تحقیق اور ان کے ہمارے سیارے”زمین ” پراثرات جاننے کا میدان صرف سائنسدانوں کے لئے مخصوص ہے۔ یہ معاملہ صرف ایک فرد یا قوم تک محدود نہیں بلکہ اس کرہ ارض پر بسنے والوں کم وبیش چھ ارب سے زائد انسانوں کا مستقبل اس سے وابستہ ہے۔ سیاروں اور ستاروں کی دنیا کے معاملات کو جاننے کے لیے کثیر رقم اور فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ چین بھی اس حوالے سے تحقیقات میں مصروف ہے۔ اور اس نے دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ یا ” زمین کا سب سے بڑا کان اور آنکھ” تیارکی ہے۔

یہ ٹیلی سکوپ چین کے جنوب مغربی صوبے گوئچو کی ایک کاونٹی پھنگ تھانگ میں واقع ہے۔  اس کا نام فاسٹ (Five Hundred Meter Aperture Spherical Radio Telescope)  ہے۔ اس سنگل ڈش ریڈیو ٹیلی سکوپ پروجیکٹ کے لیے چین کے نیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن نے دو ہزار سات میں اس کے لیے نوے ملین ڈالر مختص کیے جب کہ مزید نوے ملین ڈالر دیگر اداروں سے لیے گئے۔ چار سال بعد دو ہزار گیارہ میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں اس کی تعمیر مکمل کر کے ستمبر دو ہزار سولہ میں یہاں آ زمائشی بنیادوں پر سائنسی اور تحقیقی کام کا آغاز کیا گیا۔ جبکہ دو ہزار انیس میں یہ باضابطہ طور پر فعال ہو جا ئے گی۔ یہ ٹیلی سکوپ چار ہزار چار سو پچاس تکونی پینلز پر مشتمل ہے جن کے اوپر ریسیورز لگے ہوئے ہیں جو کہ اجرام فلکی کی ریڈیو ویوز کو اکٹھا کرتے ہیں۔

اس ٹیلی سکوپ کا کلیکٹنگ ایریا ایک لاکھ چھیانوے ہزار مربع میڑ ہے جو کہ دنیا میں سب سے بڑا ہے۔فاسٹ ٹیلی سکوپ سیاروں ، ستاروں اور اجرامِ فلکی سے وابستہ دیگر نقل وحرکت کی سائنسی پڑتال کرے گی۔ اس میں نصب مانیڑز اور دیگر آلات کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے ایک ہزار تین سو اکاون نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک ستارے کی لہروں کو مانیٹرکیا ہے۔ اس کے ذریعے ایک سال کے دوران کہکشاں میں موجود سات ہزار سے زائد ستاروں کا مطالعہ کیا جائے گا۔ یہ سائنسدانوں کے لیے ایک ہزار نوری سال کے فاصلے تک ہونے والی نقل وحرکت اور سگنلز کی مانیڑنگ آسان بنا دے گی۔ اس سے اجرامِ فلکی اور اس کی سائنسی تحقیقات سے پوری دنیا کو آسانی ہوگی۔

یہ چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور پہاڑ کے دامن میں نصب ہے۔ دور سے دیکھنے پر ایک بڑے پیالے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ اطراف میں موجود پہاڑ قدرتی چار دیواری کا کا م دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ریڈیوٹیلی سکوپ ہے۔ اس کا رقبہ تیس فٹ بال گراونڈز کے برابر ہے۔ فٹ بال کے ایک گراونڈ کو ذہن میں رکھ کے تیس کا تصور کریں اور تخیلاتی آنکھ سے اس کے حجم کااندازہ کریں۔ اس عمل میں یا تو آپ کو جھرجھری آ جائے گی یا آپ اس نوعیت کے حساب کتاب سے قاصر ہو جائیں گے۔ مگر عام انسان کے لیے محیر العقول فٹ بال کے تیس گراونڈز کے برابر یہ ٹیلی سکوپ زندہ وجود کی طرح سائنسدانوں اور عام شہریوں کے لیے اپنے در وا کیے ہوئے ہے۔

یہ پورٹیریکو میں واقع اسی نوعیت کی ایک ٹیلی سکوپ سے جحم میں ایک سو پچانوے میڑ اور کارکردگی کے اعتبار سے کئی گنا زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ پورٹیکو میں واقع ٹیلی سکوپ کے بعد دنیا کو چار عشروں سے زائد کا انتطار کرنا پڑا اور چین نے عالمی برادری کے اس طویل انتظار کو “فاسٹ” کے ذریعے ختم کیا۔ ٹیلی سکوپ کے ارد گرد سائنسی اور تیکینکی ضروریات کے پیشِ نظر آٹھ ہزار لوگوں کو یہاں سے دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا۔

اس کے اردگرد تین میل کے دائرے میں ٹیلی سکوپ کے علاوہ کسی بھی طرح کی برقی کمیونیکیشن کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سائنسی اہمیت اور اس کی ضرورت کے پیش نظر مقامی انتظامیہ نے اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں ۔ اس کے تین کلومیٹر کے اطراف کو حکومت نے Radio Quiet Zone ڈیکلیر کیا ہوا ہے۔ یہاں پر کسی براڈکاسٹنگ ادارے یا موبائل فون آپریٹر کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ تو زمین کی سطح پر حفاظتی اقدامات ہیں جب کہ فضائی حدود سے اس کی حفاظت اور کسی بھی قسم کے بیرونی خلل سے بچانے کے غیر معمولی انتظامات سول ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے۔ سول ایوی ایشن ا نتظامیہ نے یہاں پروازوں کے لیے دو نوعہ فضائی زونز بنائے ہیں۔ دو فضائی روٹس کو منسوخ کیا ہے جبکہ تین روٹس میں رد و بدل کیا گیا ہے۔

فاسٹ کا تصور اور اس کی سائٹ کو دیکھنا کسی خواب کی طرح لگتا ہے۔ اس کی خبر سنتے ہی دل مچل اٹھا کہ اس کو دیکھا جائے مگر اس کی سائنسی اہمیت اور حساسیت کے پیشِ نظر دل ” ایں محال است” جیسے اندیشوں میں گِھر گیا اور طرح طرح کے سوالات سر اْٹھانے لگے۔ مگر اس کو دیکھنے کی خواہش چنگاری کی صورت برقرار رہی۔ بالآخر فاسٹ کے “دیدار” کا مرحلہ آ ہی گیا۔اس سفر کی کچھ شرائط تھیں۔ موبائل فون، گھڑی ، کسی بھی قسم کا کوئی برقی آلہ جو کمیونیکیشن کر سکتا ہے اس کو ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ موبائل فون ساتھ نہ لے جانے کی خبر سے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ کیونکہ اس کے بغیر اپنی موجودگی کو وہاں کیسے محفوظ اور یاد گار بنایا جا سکتا تھا۔

اور زندگی کے اس ناقابلِ فراموش لمحے کو مستقبل کے لیے محفوظ نہ کر پاتے تو ایک حسرت ہی رہ جاتی۔ مگر ضوابط کی پابندی لازمی جو ٹھہری سو بادلِ نخواستہ منتظمین کی ہدایات پر عمل کیا۔(بعد میں منتظمین کی جانب سے وہاں ایک مخصوص کیمرے کی فراہمی سے اس تاریخی لمحے کو یاد گار بنا لیا گیا)۔عمل کیے بغیر چارہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ سکینر سے گزرنا تھا اور سکینر مشین جو ٹھہری اور مشینوں میں کہاں کی “وضع داری”اس عمل سے فراغت پا کر بس میں بیٹھے اور عازمِ سفر ہوئے۔ پلانٹیریم اور فاسٹ کے بیس پوائنٹ تک کم و بیش آدھے گھنٹے کا راستہ ہے۔ یہ راستہ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتا ہوا گزرتا ہے۔ چاروں اطراف بلندو بالا پہاڑ اور سبزہ ہے۔

بعض مقامات پر تو بس پہاڑوں کے اتنے قریب سے گزرتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس پہاڑ پر جارہی ہے یہ منظر بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ چونکہ یہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے تو اس کا راستہ ” انہی پتھروں پہ چل کے آ سکو” کے مصداق ہے۔ جوں جوں منزل قریب آتی ہے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہونے لگتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ کو ا پنی آنکھوں سے اور قریب سے دیکھنے کا تصور ہی انسان کو مبہوت کر کے رکھ دیتا ہے تو اسے اپنے سامنے دیکھنے کی کیفیت کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ بس مقررہ مقام تک پہنچ کر رکتی ہے اور لوگ اتر کر ایک مرتبہ پھر چیکنگ کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم اور ہمیں کسی زمین دوز راستے یا سرنگ کے ذریعے ٹیلی سکوپ تک لے جایا جائیگا۔ مگر پھر ایک اعلان سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ سامنے پہاڑ کو دیکھیں اور پہاڑ پر بنی ایک گزرگا ہ پر چلنا شروع کردیں۔ یہ گزرگاہ آپ کو منزلِ مقصود تک لے جائے گی۔

ایک تو سفر کی تھکاوٹ ، فاسٹ کے دیدار کا انتظار اور اوپر سے پھر پہاڑ پر چڑھنا۔ اس نے تو ہمیں امتحان میں ڈال دیا اور دل نے کہا کہ ” ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ” سو ’’ہمتِ مرد اںمددِ خدا‘‘ کے مصداق چل پڑے۔ مگر جب گزرگاہ کے پاس پہنچے تو دل کو ڈھارس ہوئی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ عام اونچی ، نیچی ، خاردار پگڈنڈیاں ہوں گی جن پر ہمیں سنبھل کر اور دامن بچا کر چلنا ہوگا۔ مگر یہ تو معاملہ ہی اور نکلا۔ یہ باقاعدہ ایک راستہ تھا۔جو کہ چینی حکومت نے سیاحوں کی آسانی کے لیے بنایا ہوا ہے۔ سیاحوں کا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں سیاح روز آتے ہیں۔ مارچ دوہزار سترہ میں فاسٹ کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا اور پہلے سال کے چھ ماہ کے دوران مقامی کاونٹی پنگ تانگ کو پانچ اعشاریہ پانچ بلین یوان آمدنی ہوئی جبکہ چین بھر سے پانچ اعشاریہ تین ملین سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا۔

سیاحو ں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس سے سا ئنسی تحقیقات میں ہونے والی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے سیاحوں کی یومیہ تعداد مقرر کر دی ہے اب تین ہزار سے زائد سیاح یہاں نہیں آ سکتے اور ان کو بھی پیشگی آن لائن رجسڑیشن کروانا پڑتی ہے۔ ٹیلی سکوپ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سیاحت اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کی وجہ سے گوئچو کے گورنر نے اعلان کیا ہے کہ دو ہزار بیس تک صوبے میں دس ہزار کلومیٹر طویل نئی ہائی ویز بنائی جا ئیں گی۔ سترہ ہوائی اڈوں کو مکمل کیا جائے گا۔ اور چار ہزار کلومیٹر طویل ہائی سپیڈ ٹرین لائنز کو مکمل کیا جائے گا۔ یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ مذکورہ سائٹ سے کچھ فاصلے پر ایک نیا ٹاؤن تیزی سے آباد ہو رہا ہے جو کہ آسٹرانومی ٹاون کا نام سے مشہور ہے۔ یہاں ہوٹلز اور خریداری کے لیے پلازے تعمیر ہورہے ہیں۔

واپس آتے ہیں فاسٹ کی طرف ۔اس جانب جانے والے راستے پر لکڑی سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہیں۔ اطراف میں ریلنگ ہے۔ اور ان پر چڑھتے ہوئے آرام اور سستانے کے لیے جگہ بھی موجود ہے۔ یوں آپ تسلی اور اطمینان سے فاسٹ کی جانب رواں دواں رہتے ہیں۔ کوئی پتھریلا یا نا ہموار راستہ جو آپ کے صبر اور جسمانی صحت کا امتحان لے وہ یہاں نہیں ہے۔ ویسے جتنی بلند ی آپ کو طے کرنی ہوتی ہے اس کے لیے آپ کا صحتمند ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ راستہ کم وبیش دس سے پندرہ منٹ کا ہے۔ جب آپ راستہ طے کر رہے ہوتے ہیں توتھکاوٹ اور فاسٹ کے متعلق ملے جلے جذبات آپ پر حاوی ہوتے ہیں۔

مگر جب آپ منزل پر پہنچتے ہیں تو فاسٹ کو دیکھتے ہی ساری تھکاوٹ کافور ہو جاتی ہے، حیرت اور خوشی کے جذبات آپ کو گھیر لیتے ہیں۔ فاسٹ پر نظر پڑتے ہی ابتدائی چند ساعتیں اور لمحات تو بے یقینی کے ہوتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ سب سے بڑے انسانی کا ن اور آنکھ کو ہم اپنی چھوٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خود فراموشی اور ارد گرد کے ماحول سے بے نیازی کی یہ ساعتیں مختصر گھڑیاں ثابت ہوتی ہیں اور جلد ہی ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے آپ کو اسی زمین اور بلندی پر موجودگی کا احساس دلا دیتے ہیں۔ اپنی سہولت کے لیے آپ اِن کو فلور کہہ لیں۔ فاسٹ کو دیکھنے کے لیے تین طرح کے فلور ہیں۔ کم بلند ، درمیانے درجے کا بلنداور سب سے بلند تینوں فلور بڑے کُھلے ہیں اور ان پر ریلنگ موجود ہے جس کے سہارے آپ کھڑ ے ہو کہ فاسٹ کو دیکھتے ہیں۔ تینوں فلورز سے فاسٹ کا مختلف منظر اور نظارہ ہوتا ہے۔وہیں کھڑے کھڑے تخیل کی آنکھ اور تصور آپ کو اس زمین کے اوپر کی کائنات میں لے جاتا ہے۔

آپ خیالوں خیالوں میں ہی مختلف طرح کے سیاروں، ستاروں ، ان کے باہمی ربط اور ان کی نقل وحرکت اور اس سے پیدا ہونے والی آوازوں کے متعلق سوچتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو وہاں موجود پاتے ہیں۔ اس کے پینلز ، ان کی تنصیب اور ایک خاص ترتیب، تکنیکی آلات اور پلیٹ فارم جس پر یہ نصب ہے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں اتنے بڑے ڈھانچے کی تیاری، اس مقام پر منتقلی اور تنصیب اور اس سائٹ کا انتخاب چینی ذہانت، عزم اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلندی سے ایک پیالے کی مانند دکھائی دیتی یہ ٹیلی سکوپ اپنے اندر اجرامِ فلکی کے متعلق علم اور سائنس کے پراسرار رازوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مکمل طور پر چین کے سائنسدانوں کی تیارکردہ ہے اور چین کی جانب سے عالمی برادری کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔کیونکہ زمین سے اوپر کی کائنات کی پیچیدہ گتھیوں کو جاننے، سمجھنے اورسلجھانے سے صرف چین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا فائدہ ہے۔ فاسٹ کے دورے نے اس یقین کو پختہ کر دیا کہ ٹیکنالوجی میں جدت اور اختراعات کا مستقبل چین سے ہی وابستہ ہے۔

The post خلاؤں میں جھانکنے والی سب سے بڑی آنکھ appeared first on ایکسپریس اردو.

سعودی بادشاہت اور نیا بحران

$
0
0

سعودی بادشاہت بحران سے دوچار ہے۔

یہ بحران گذشتہ دو اڑھائی ہفتے میں نہ صرف پیدا ہوا ہے، بلکہ اس کی شدت اور گہرائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو بحران اور سیاست و اقتدار کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پس ماندہ اقوام تک کسی تفریق کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں سے بحران کی ہوائیں گزرتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کی رفتار نرم ہوتی ہے اور وہ دبے پاؤں ایک طرف سے آتی اور دوسری طرف نکل جاتی ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ در و دیوار سے ٹکراتے منہ زور تھپیڑوں کی طرح ایوانِ اقتدار کی بنیادوں کی ہلاتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلیمان کا اقتدار ایسے ہی ایک بلاخیز بحران کی زد پر آیا ہوا ہے۔

بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا سے یورپ تک مقتدر ممالک کے سربراہوں نے اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ یہ ردِعمل سعودی حکومت پر دباؤ کی فضا میں اضافہ کررہا ہے۔

دوسری طرف عالمی ذرائع ابلاغ، حقوقِ انسانی، آزادیِ اظہار اور انصاف و مساوات کی متعدد تنظیمیں اور مختلف ممالک کی صحافتی برداری اس مسئلے پر نہ صرف کھلے عام اپنی رائے اور ردِعمل کا اظہار کررہی ہیں، بلکہ اس ضمن میں راست اور فوری اقدامات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے بھی اس خبر کے پھیلاؤ اور بحران کی شدت میں اضافے میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس وقت یہ مسئلہ عالمی سطح پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے۔ سعودی حکومت، بلکہ خود شاہ سلیمان نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات کا آغاز بھی کیا ہے، لیکن فی الحال اس پر دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

2 اکتوبر کو جب مسئلے کا آغاز ہوا، بلکہ واقعہ رونما ہوا، اُس وقت سعودی ایوانِ اقتدار کی محفوظ چھتوں کے سائے تلے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ گمان بھی نہ گزرا ہوگا کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ شور برپا ہوگا کہ جس سے ان پرسکون سائبان کے دیوار و در لرز اٹھیں گے۔ ایک صحافی یک بہ یک اتنا اہم ہوجائے گا کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں اس کے حق میں آواز بلند کرنے لگیں گی۔ دنیا بھر میں صحافی برادری کے وہ لوگ جنھوں نے کل تک ایک شخص کا نام بھی نہ سنا ہوگا، وہ اس کے طرف دار اور حمایتی بن کر سامنے آجائیں گے اور ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملا کر ایسی گھن گرج پیدا کریں گے کہ ساری دنیا ان کی طرف متوجہ ہوجائے گی۔ اگر اس کا ذرا سا بھی اندازہ سعودی حکومت کے افراد کو ہوتا تو مسئلے کا کوئی اور حل سوچا جاتا اور یہ واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ یقیناً ایسی کسی بات کا سان گمان خود جمال خاشقجی کو بھی نہ ہوگا۔

جمال خاشقجی کون تھا؟ ایک صحافی جو لگ بھگ سال سوا سال پہلے سعودی عرب سے ازخود جلاوطنی اختیار کرکے امریکا منتقل ہوگیا تھا۔ اِس لیے کہ اپنے ملک میں اُس کے لیے حالات ناسازگار ہوگئے تھے۔ وہ اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اُس نے محنت کی تھی۔ اپنے معاشرے میں پہچان حاصل کی تھی اور شعبے میں جگہ بنائی اور نام کمایا تھا۔ وہ کوئی عام، گم نام سا صحافی نہیں تھا۔ ان لوگوں میں تھا جن کی پیش کی ہوئی خبریں اور تیار کی ہوئی رپورٹیں توجہ سے دیکھی جاتی تھیں اور اُن کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ اس کی رسائی ایوانِ اقتدار تک تھی اور آلِ سعود کے کتنے ہی افراد سے اس کے ذاتی اور قریبی مراسم تھے۔

شاہی حلقوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اور اسے وہ خبریں بھی مل جاتی تھیں جو اُس کے پیشہ ور ساتھیوں تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔ خبر کے حوالے سے خاشقجی کا رویہ ہی الگ تھا۔ خبر رسانی کے معاملے میں وہ کسی دباؤ، مصلحت اور خوف کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھی اس کا ایک فقرہ دہراتے ہیں کہ میں اپنے ملک و قوم کا وفادار ہوں اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ مزاج کی اسی قطعیت نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے اور اس نے شاہ سلیمان کی حکومت خصوصاً ولی عہد شہزاد محمد بن سلیمان کے بعض فیصلوں پر کڑی تنقید کی۔ بس پھر اس کے بعد تو حکومتِ وقت سے اس کے ٹکراؤ کا ماحول بنتا چلا گیا۔ یہ محسوس کرکے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اس نے جلاوطنی اختیار کی اور امریکا آگیا۔

صحافتی حلقوں میں جمال خاشقجی کی پہچان صرف اپنے ملک تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ باہر بھی جانا پہچانا جاتا تھا، اس لیے سعودی عرب سے امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے کام کاج کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑا، اور وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے لگا۔ اب اس کی تحریروں میں اور زیادہ کھلا پن آگیا اور خصوصاً ولی عہد شہزادہ کڑی نکتہ چینی کا ہدف بننے لگا۔

سعودی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے پس منظر میں خاشقجی نے شہزادہ محمد سلیمان کی خوے اقتدار کی واضح لفظوں میں نشان دہی کی۔ یہی نہیں، بلکہ شہزادے کے طاقت و اختیار کے مظاہر کو بھی صاف صاف نمایاں کیا۔ خاشقجی کی تحریروں نے سعودی حکومت کے بارے میں کئی ایسے سوالات اٹھائے جن کی گونج عالمی ذرائعِ ابلاغ میں سنی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مواقع پر سعودی ایوانِ اقتدار کو وضاحت یا صفائی بھی پیش کرنی پڑی۔ یوں خاشقجی اس کے لیے ایک مسلسل دردِسر بن گیا۔ خاشقجی چوںکہ اب امریکا میں تھا، اس لیے اسے کسی بھی چیز کی پروا تھی اور نہ ہی کوئی خوف۔

اس دوران میں عالمی صحافتی حلقوں میں اس کی پذیرائی میں تیزی سے اور بہت زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ سیمینارز اور کانفرنسز میں اسے بہت زیادہ بلایا جانے لگا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں وہ ترکی گیا ہوا تھا جہاں اس کی ملاقات ہم پیشہ خاتون ہارٹس چنگیز (خدیجہ چنگیز) سے ہوئی۔ خاشقجی امریکا میں مالی اور پیشہ ورانہ حالات سے بے شک مطمئن تھا، لیکن بے پناہ تنہائی نے اس کی زندگی میں جو خالی پن پیدا کیا تھا، وہ سخت اضمحلال کا باعث تھا۔ یہی وہ شے تھی جس نے خاشقجی اور خدیجہ چنگیز کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ جلد ہی بات رشتۂ ازدواج تک پہنچی۔ اس کے لیے خاشقجی کو قانونی کارروائی کی ضرورت تھی۔ کاغذات کا حصول استنبول میں سعودی سفارت خانے سے ممکن تھا۔ 2 اکتوبر کو خاشقجی اس کام کی انجام دہی کے لیے خدیجہ کے ساتھ سفارت خانے پہنچا۔ خدیجہ کو باہر انتظار کے لیے کہہ کر وہ سفارت خانے میں داخل ہوا، لیکن پھر کبھی واپس نہیں آیا۔

انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ شام ہوگئی اور سفارت خانے کے اوقاتِ کار ختم ہوگئے۔ تب خدیجہ کی بے چینی ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے عملے کے افراد سے خاشقجی کے بارے میں دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ کام نمٹا کر جاچکا ہے۔ یہ جواب خدیجہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ بھلا وہ کیسے جاسکتا ہے جب کہ میں یہیں موجود ہوں، اس نے بہ آوازِ بلند کہا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ دوسرے دروازے سے نکل گیا تھا۔ ناممکن، خدیجہ نے سوچا۔ وہ چوںکہ خاشقجی اور سعودی حکومت کے معاملات سے اس عرصے میں اچھی طرح واقف ہوچکی تھی، اس لیے اب تشویش اور خوف کی لہریں اس کے اندر دوڑنے لگیں۔ سفارت خانے کے عملے کا وہی ایک جواب تھا۔ خدیجہ چنگیز نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے شعبے کے دوسرے لوگوں سے رابطہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پہلے سوشل اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر پھیلتی چلی گئی کہ خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتا ہے اور بعد ازاں عالمی سطح پر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی اس کی گم شدگی کا سوال گونجنے لگا۔

سعودی حکومت نے پہلے خاموشی اختیار کی، پھر بڑھتی ہوئی گونج کو دیکھتے ہوئے اس معاملے سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ گزرتے دنوں کے ساتھ صرف خدیجہ چنگیز کے خوف میں ہی اضافہ نہیں ہورہا تھا، بلکہ بین الاقوامی میڈیا اس سے زیادہ تشویش کا اظہار کرنے لگا۔ معاملے کی تحقیقات کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے مطالبات اور میڈیا میں خاشقجی کی موت کے خدشات کا اظہار اس شدومد سے ہونے لگا کہ خود امریکی صدر کو بھی معاملے میں شامل ہوتے ہوئے بیان دینا پڑا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ سعودی حکومت کے ایما پر ہوا ہے تو اسے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

ادھر سعودی حکومت کا مؤقف بدستور وہی کہ وہ اس واقعے سے لاتعلق اور لاعلم ہے۔ دو ہفتے سے زائد وقت گزر گیا۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ خدشہ یقین کے ساتھ سامنے آنے لگا کہ خاشقجی کو قتل کرکے اس کی لاش کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ ترکی کے سراغ رساں ادارے پہلے ہی حرکت میں آچکے تھے۔ خاشقجی کی تلاش جاری تھی، لیکن کوئی نشان، کوئی سراغ کچھ بھی تو نہیں مل پارہا تھا۔ ترکی کے تحقیقاتی اداروں نے اس اثنا میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کا دو بار دورہ کیا اور اس کی مکمل تلاشی لی گئی، لیکن ایک گمبھیر بے یقینی اور سکوت کے سوا کہیں کچھ بھی نہیں تھا۔

آخر سترہ دن بعد حقیقت سامنے آگئی اور جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا، وہ سچ ثابت ہوا۔ خاشقجی اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ سعودی حکومت نے اس کے استنبول کے سفارت خانے میں ہلاک ہونے کی تصدیق کردی۔ بتایا گیا کہ سفارتی عملے سے اس کی بدمزگی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچی جس میں اس کی موت واقع ہوئی۔ ظاہر ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جواب متوقع تو ضرور تھا، لیکن تشفی بخش ہرگز نہیں۔ اس پر شور برپا ہونا فطری تھا۔ اب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے اور افراد اس واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ خاشقجی کی موت کے ذمے دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ قدرے نرم رویہ اختیار کرنے والے ممالک کا بھی تقاضا ہے کہ آزادانہ تحقیقات اور اطمینان بخش اقدامات کیے جائیں۔

ابتدا میں اس مسئلے پر امریکا اور سعودی عرب کے مابین تناؤ کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا، کشیدگی کا اظہار اس سطح پر ہوا کہ امریکی صدر نے خود اس سلسلے میں سعودی عرب کے حکومتی افراد کے خلاف بیان دیا۔ تاہم اب سعودی عرب نے جب خاشقجی کی موت کی تصدیق کی ہے، امریکا اور سعودی عرب کے مابین سفارتی سطح پر اس مسئلے کو سلجھانے کا تأثر ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کے اس اعتراف اور اس کے ساتھ کیے گئے اقدامات، یعنی نائب انٹیلی جنس سربراہ سمیت پانچ افراد کی برطرفی اور اٹھارہ اہل کاروں کی گرفتاری کو امریکا کے حکومتی ذرائع نے سراہا اور خوش آئند قرار دیا ہے اور اعتبار کا اظہار کیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے شفاف تحقیقات اور انصاف کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے۔

امریکی حکومت کے اعلامیے سے بات واضح ہوگئی ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا بحال ہے۔ صرف امریکا پر ہی موقوف نہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر سعودی حکومت نے متعدد ممالک کو سفارتی ذرائع سے اعتماد میں لیا ہے۔ اس لیے سعودی حکومت کے اعتراف اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے۔ ترکی کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے، اُس کے صدر کا کہنا ہے کہ اس قتل کی تحقیق و تفتیش سے حاصل ہونے والی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔

فرانس نے سعودی حکومت کے بیان کو ناکافی قرار دیا ہے اور واقعے کی جملہ تفصیلات کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے اور قتل کی مذمت بھی کی ہے، اور اُس نے انھی دنوں سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ داروں کی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کردیا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھی اس واقعے پر تأسف کا اظہار کیا گیا ہے اور سعودی حکومت کی وضاحت کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ قاتلوں کو اپنے اقدام کا جواب دینا ہوگا۔ آسٹریلیا نے اس واقعے کی تفصیلات اور اعترافی بیان کے سامنے آنے کے بعد سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ اسپین کی طرف سے بھی اس قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا ایسوسی ایشن نام کی تنظیم نے خاشقجی کے قاتلوں اور قتل کے احکامات جاری کرنے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے کے لیے کہا ہے، تاکہ صحیح رپورٹ سامنے آسکے۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے شروع ہی سے اس خبر پر پوری سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ ظاہر ہے، جمال خاشقجی اس برادری کا ایک فعال، سرگرم، حقیقت پسند، بے باک اور مثالی فرد تھا۔ اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے موت کو گلے لگانا قبول کیا، لیکن جھکنے سے انکار کردیا۔ صحافتی حلقوں میں اُسے تادیر ایک باکردار شخص اور روشن حوالے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کی موت کی تصدیق کی خبروں نے کتنے ہی ملکوں کے ذرائعِ ابلاغ کے حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں تو پہلے ہی یہ تأثر عام ہے کہ وہ ایک بند معاشرہ ہے اور بادشاہت کے نظام کی وجہ سے اس کے ذرائعِ ابلاغ پر بھی حکومت کا مکمل اختیار ہے۔ وہاں ایسی کوئی خبر آسانی سے منظرِعام پر نہیں آسکتی جو بادشاہ، اس کے نظام اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف ہو۔ خاشقجی کے قتل کے معاملے پر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی خبروں کا اثر ہی تھا کہ جس کا اظہار اقوامِ متحدہ، جرمنی، آسٹریلیا اور اسپین وغیرہ کے ردِعمل میں ہوا ہے۔

فی الحال سعودی عرب کے فرماں روا شاہِ سلیمان جو کچھ عرصے سے پس منظر میں تھے، ایک بار پھر منظر پر ابھر آئے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ جو اس سے پہلے اقتدار کے چہرے کی حیثیت سے فیصلے کرتا اور اقدامات کے احکامات جاری کرتا ہوا سامنے تھا، سرِدست پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکومت نے دو مشیر، پانچ اعلیٰ افسران برطرف کردیے ہیں۔ واقعے سے وابستہ اٹھارہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

ظاہر ہے، ان اقدامات کا بنیادی مقاصد یہ تأثر دینا ہے کہ سعودی بادشاہت کا اس واقعے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ایسے ہر عمل کو ناپسندیدہ سمجھتی اور قابلِ گرفت گردانتی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کے اقدامات کے باوجود میڈیا پر ردِعمل کا جو طوفان سامنے آیا ہے، اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ردِعمل عالمی سطح پر ہے جو پہلے ہی سعودی عرب اور اس کے نظامِ بادشاہت کے لیے اچھے جذبات نہیں رکھتا۔ خاشقجی کے واقعے کے پس منظر میں جس طرح ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے احکامات اور اقدامات کا تجزیہ کیا جارہا ہے، وہ اس طوفان کو بڑھا دینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ سعودی حکومت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے، جس کی شدت اور سنگینی کو قابو میں لانے پر اس کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بحران شاہ سلیمان کی حکومت کے لیے خطرات پیدا کررہا ہے یا پھر سعودی نظامِ حکومت خود پورا کا پورا اس کی زد میں آئے چلا جارہا ہے؟ اس ضمن میں مختلف آرا اور اندازے سامنے آرہے ہیں، تاہم صحیح جواب آنے والا وقت ہی فراہم کرے گا۔ خود یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ یہ آنے والا وقت اور کتنے فاصلے پر ہے؟

The post سعودی بادشاہت اور نیا بحران appeared first on ایکسپریس اردو.

ہندو عورتیں کورٹ کے حکم کے بعد بھی بھگوان کے درشن سے محروم

$
0
0

1991میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاکیزگی برقرار نہ رکھنے کے جرم کا سزاوار عورتوں کو قرار دیتے ہوئے کیرالہ کے تاریخی سبریمالہ مندر میں ان کے داخلے پر پابند عائد کی تھی جس کا کئی سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ہندو عورتوں کو بھگوان کے آگے ماتھا ٹیکنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن برا ہو ہندوتوا انتہا پسندی کا جس کا زور اتنا شدید ہے کہ ہم مذہب بھی زد میں آئے بنا نہیں رہتے۔

اس انتہاپسند رویے نے پہلے تو کیرالہ میں آنے والے بدترین سیلاب کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھگوان کا عتاب قرار دیا اور اب سبریمالہ مندر کے سامنے بھگوان کو ہندو عورتوں کے ’’نحس وجود‘‘سے محفوظ رکھنے کے لیے ہزاروں انتہاپسند ہندو پُرتشدد مظاہرے کر رہے ہیں۔

مندر میں داخلے کی غرض سے آنے والی عورتوں کا زبردستی راستہ روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ پہلے سبریمالہ مندر میں ماہواری آنے والی عمر کی خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ تھی لیکن ہندو انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف ماہواری نہیں بلکہ یہاں رکھی ’’بھگوان ایاپا‘‘ کی مورتی ہے اور یہ وہ بھگوان ہے جس نے کنوارے رہنے کا عہد باندھا تھا اور ساری زندگی مجرد گزاری۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھگوان اپایا دو مرد دیوتائوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جنہوں نے اسے شیطانی قوتوں سے مقابلے کی شکتی دی تھی اور وہ شیطان ایک عورت ہی تھی۔

مذہبی تاریخ کوئی بھی داستان سناتی ہو یہ سچ ہے کہ ہندو دھرم میں عورتوں کو پوجا پاٹ سے دور رکھنے کا سلسلہ اب بہت دراز ہو چکا۔ لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ خود ہندو عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس تنازعے میں انتہاپسند رویوں کی کمر ٹھونکنے کو شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ یہ عورتیں مندر تک جانے والی ہر گاڑی کو روک کر یہ تصدیق کر رہی ہیں کہ اس میں دس سے پچاس سال کی درمیانی عمر کی کوئی عورت تو نہیں۔

سبریمالہ مندر اس وقت بھارت کا ایک بہت بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے لیکن مشتعل مظاہرین پیچھے پٹنے کو تیار نہیں۔ صدیوں سے چلی آنے والی روایت کو سینے سے لگائے اس بھارت میں کب ایک بڑے فساد کے شعلے بلند ہو جائیں کوئی نہیں جانتا۔

The post ہندو عورتیں کورٹ کے حکم کے بعد بھی بھگوان کے درشن سے محروم appeared first on ایکسپریس اردو.

ایتھوپیا کے ’’بی ٹا یہودی‘‘۔۔۔

$
0
0

انسانی تاریخ رنگ و نسل کے تعصب اور غلامی کے تصورات سے بھری پڑی ہے لیکن یہ اعتراف کیے بنا کوئی چارہ نہیں کہ تہذیب و تمدن کی باگیں تھامے دوڑتی دنیا میں انسان دشمن اس قدیم فلسفے نے اب تک دم نہیں توڑا بلکہ پورے دھڑلے سے انسانیت کے پنجر کو مزید کھوکھلا کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اسی تعصب کی چکی میں ایتھوپیا کے بیِٹا یہودی بھی بری طرح پس رہے ہیں جو اسرائیلی سماج کے سب سے آخری پائے دان پر پائوں دھرے دو دنیائوں کے درمیان معلق ہیں۔ یہودیت کی مضبوط اینٹوں پر استوار ہونے والی اسرائیلی ریاست میں رنگ و نسل اور سماجی نفاق کی ایسی دراڑیں ہیں جن کا شکار ہونے والے بھی اسی یہودیت کی پیڑھی سے ہیں جن کے تحفظ کے لیے ارضِ فلسطین کو عرصۂ دراز سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے تازہ ترین بیان کے مطابق مزید ایک ہزار بی ٹا یہودیوں کو اسرائیل کی طرف نقل مکانی اجازت دی گئی ہے۔ یہ وہ یہودی ہیں جن کے کنبے اسرائیل میں پہلے سے مقیم ہیں۔

شمالی ایتھوپیا کے بی ٹا یہودیوں کی ایک افسانوی تاریخ ہے۔ یہ اپنا تعلق اس بارھویں یہودی قبیلے سے بتاتے ہیں جو صدیوں پہلے لاپتا ہوگیا تھا۔ یہودی ربی (پیشوا) اس تاریخ پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں خالص یہودی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن خود کو منوانے کے لیے یہ بی ٹا یہودی ہمیشہ سے سراپا احتجاج رہے ہیں ۔

1950میں اسرائیل کے ”واپسی کے قانون ”کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں بسنے کا حق دیا گیا مگر بدقسمت ایتھوپیا کے یہودی اس سے استفادہ کرنے کے اہل قرار نہ پائے، جس کی یہ وضاحت دی گئی کہ ایک صدی پہلے کیوں کہ انہیں جبری طور پر عیسائی بنا دیا گیا تھا، لہٰذا اب یہ خالص یہودی نہیں رہے، اس لیے ان کو اسرائیلی ریاست میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔

دوسری طرف بی ٹا یہودی جو جان کے خوف سے عیسائی تو ہوگئے لیکن انھوں نے اپنے طورطریقے نہ بدلے اور یہودی رسومات پر ہی قائم رہے، پھر بھی یہودی پیشوائوں کے نزدیک ان کا مذہب مشکوک ہے اور وہ اسرائیلی سماج میں ضم ہونے کے قابل نہیں۔ اس وقت بھی ایتھوپیا کے آٹھ ہزار بی ٹا یہودی اسرائیل میں پناہ کے خواہش مند ہیں۔ اب تک جو بی ٹا یہودی اسرائیل منتقل ہوئے ہیں ان کو دوبارہ یہودیت میں داخل کر کے اسرائیل میں رہنے کا اہل بنایا گیا ہے۔

1984سے1991کے دوران اسی ہزار ایتھوپیا الاصل یہودیوں نے اسرائیل کی طرف ہجرت کی اور اب وہاں ان کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے آدھے وہ ہیں جو ہجرت کے بعد اسرائیل میںہی پیدا ہوئے۔1991میں ایتھوپیا میں موساد اور اسرائیلی حکومت نے مشہور زمانہ ’’آپریشن سلمان‘‘ کیا تھا، جس میں چھتیس گھنٹوں کے اندر اندر پندرہ ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کردیا گیا۔ 2015 میں کنبوں کو جمع کرنے کے قانون کے تحت نو ہزار بی ٹا یہودیوں کو ہجرت کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اب ایتھوپیا میں کوئی یہودی نہیں۔ اگر یہ سچ تھا تو اب نقل مکانی کے لیے ایک ہزار یہودی وہاں کیسے نکل آئے؟ اسرائیل نقل مکانی کرنے والے ان بیِٹا یہودیوں کو دوبارہ یہودی مذہب میں داخل کرنے کے باوجود ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے متعصب رویوں میں کوئی کمی نہ آسکی۔

نسل پرستی کا زہر ایتھوپیا کے یہودیوں سے اسرائیل کو بار بار کنی کترانے پر مجبور کرتا ہے، جس کا اعتراف گذشتہ سال نیتن یاہو نے بھی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بدترین نسل پرستی کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن خود نیتن یاہو اس معاملے میں پیچھے کب ہیں؟ 2016 میں دورۂ ایتھوپیا کے دوران انہوں نے مقامی یہودی راہ نماؤں کے ساتھ بہ مشکل دس منٹ گزارنا بھی گوارا نہ کیا، جب کہ اسرائیلی وزیراعظم جس ملک کا بھی دورہ کرتے ہیں قانون کے مطابق وہاں کے یہودی لیڈروں کے ساتھ تفصیلی نشست رکھتے ہیں، مگر ایتھوپیا سے تو وہ ایسے بھاگے جیسے کوئی متعدی مرض ان کا پیچھا کر رہا ہو۔ یہی سلوک اسرائیل کے اندر بسنے والے یہودی حکم راں اور باشندے ایتھوپیائی یہودیوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔

وہ یہودی جو ایتھوپیا سے اچھے مواقع کی تلاش میں بے وطن ہوئے یہاں بدترین تعصب کی لپیٹ میں ہیں۔ نسل پرستی کا جذبہ اتنا قوی ہے کہ یہودی اپنے ہم مذہبوں کو ہی اسرائیل میں دیکھنے کو تیار نہیں۔ اسی تعصب کی بنا پر ایتھوپیائی یہودیوں کو اسرائیل کے انتہائی غریب علاقوں میں بسایا جارہا ہے جہاں یہ سیاہ فام معمولی تنخواہوں کے باعث خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی سرزمین پر ہی جنم لینے والے یہودیوں کو بھی ان کی سیاہ رنگت کے باعث اسرائیلی سماج میں ضم نہیں کیا جارہا۔

اسرائیلی سفید فام یہودی ان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے بچوں کو ایتھوپیائی یہودیوں کے علاقے سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، حتی کہ انہیں سفید فاموں کے اسکول میں پڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔ صرف نو فی صد ایتھوپیائی باشندے اسرائیل میں بہتر عہدوں پر فائز ہیں اور باقی ایتھوپیا سے بھی زیادہ برے حال میں ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب اسی نسل پرستانہ سوچ کے تحت ایتھوپیا سے ہجرت کر کے آنے والی یہودی عورتوں کو ان کی لاعلمی میں برتھ کنٹرول کے انجیکشن بھی لگائے گئے، جس سے ایتھوپیائی یہودیوں کی شرح پیدائش پریشان کن حد تک کم ہو گئی۔ پہلے تو اسرائیلی حکومت اس گھنائونے فعل سے انکار کرتی رہی لیکن جب اسرائیلی وزارت صحت کی ایک ڈائریکٹر کی جانب سے اس قبیح فعل کو روکنے کا حکم جاری ہوا تو پھر تردید کا کیا جواز باقی بچا؟

غرض ایتھوپیا سے اسرائیل لا کر بسائے جانے والے یہودیوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ وہ غربت کی وجہ سے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے اور تعلیم کی یہی کمی اچھے عہدوں کے حصول میں بڑی رکاوٹ بن کر ایستادہ ہے۔ ماضی میں بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی ریوڑ کی طرح یہ اسرائیل کی یہودی منڈی میں ہنکادیے گئے یہاں تک کہ ایتھوپیا کی حکومت سے کالے یہودیوں کو باقاعدہ خرید کر بھی اسرائیل میں بسایا گیا۔ اب حکومت کی اجازت سے وہ نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن ان کو انسانوں کے زمرے میں کبھی شامل نہ کیا گیا۔ یہ ایتھوپیائی آئے دن اسرائیلی سڑکوں کو اپنے احتجاج سے رونق بخشتے ہوئے اپنا حق مانگتے ہیں۔

The post ایتھوپیا کے ’’بی ٹا یہودی‘‘۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

جدید دور کی سفاک سچائی افغانستان میں خون سستا پانی مہنگا

$
0
0

چالیس سالہ قادر بخش ہرات، افغانستان کے قریب چند کنال زمین کا مالک ہے۔ وہ اپنی زمین پر سبزیاں اور اجناس اگا کر گزر اوقات کرتا تھا۔ جب بھی مال تیار ہوتا، وہ اسے ہرات کی منڈی میں بیچ آتا۔ اس طرح سے اسے کچھ رقم مل جاتی اور گھر کے اخراجات پورے ہوتے رہتے۔ وہ چار بچوں کا باپ ہے۔

آج مگر قادر بخش اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہرات کی خیمہ بستی میں بڑی تنگ دستی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسے اور اس کے گھر والوں کو دن میں بہ مشکل ایک بار،بڑی بھاگ دوڑ کے بعد حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خوراک ملتی ہے۔ یہ بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے۔ قادر بخش اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں اس بھوک پیاس کی مصیبت میں لاکھوں افغان مرد،عورتیں اور بچے گرفتار ہوچکے ہیں۔

دراصل پچھلے چند برس سے شمالی اور مغربی افغانستان میں بہت کم بارشیں اور برف باری ہوئی ہے۔ اس لیے جتنے بھی دریا، نہریں،ندی نالے اور جھیلیں ہیں،ان میں پانی نہیں رہا۔ زیر زمین پانی کے ذخائر بھی سوکھ گئے۔ پانی کی اس کمی نے افغان باشندوں کے روزگار پر شدید ضرب لگائی۔ افغانستان میں بیشتر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔ وہ فصلیں یا باغات اگا کر ہی پیداوار پاتے اور اسے بیچ کر رقم کماتے ہیں۔جب پانی نہیں رہا اور کھیت و باغ سوکھنے لگے تو ہزاروں گھرانے اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں کی طرف آنے پر مجبور ہوگئے۔

اعدادو شمار کی رو سے افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 22 صوبے قحط کی لپیٹ میں ہیں ۔جبکہ یہ قحط تیس لاکھ سے زائد افغانوں کو اپنا شکار بناچکا ہے۔بعض علاقوں کو شدید قحط نے اپنی لپیٹ میں رکھا ہے۔ وہاں بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا خوفناک قحط کبھی نہیں دیکھا۔ایسے علاقوں میں ہرات ، بادغیس اور دیگر ملحقہ اضلاع شامل ہیں۔ ان اضلاع میں پانی نہایت نایاب ہوچکا اور ہر جگہ ٹنڈمنڈ درخت اورمٹی کے ویران ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ اپنے گھر چھوڑ چکے اور کھیت و باغ اجاڑ نظر آتے ہیں۔

افغان مویشی پال کر بھی اپنی کمائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ مگر پانی کی کمی سے ان کے ہزاروں جانور بھی مرگئے۔ ہزارہا بدقسمت کسان ایسے ہیں جو اپنے تقریباً سبھی مویشیوں اور فصل سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی کمائی قحط نے دیکھتے ہی دیکھتے ملیامیٹ کر ڈالی۔ اب وہ روزانہ روکھی سوکھی پر گزر بسر کرتے ہیں۔

افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے مصیبت زدگان کی مدد کررہے ہیں مگر امدادی کارروائیوں کا پھیلاؤ فنڈز کی کمی کے باعث کم علاقوں تک محدود ہے۔ صرف شہروں میں قائم کیمپوں میں مقیم آفت زدہ شہریوں کو خوراک و علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ قصبوں اور دیہات میں مقیم شہری اپنی مدد آپ کے تحت ہی خوراک مانگ تانگ کر جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ بھوک بڑی ظالم شے ہے، یہ انسان کو غیر معمولی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کردیتی ہے۔ قحط کا شکار افغان گھرانے بھی بھوک پیاس میں مبتلا ہوکر ایسے اقدامات کررہے ہیں جو انسان عام حالات میں انجام نہیں دیتا۔ مثلاً مائیں تک اپنی دس بارہ سال کی بچیاں فروخت کرنے لگی ہیں تاکہ کچھ رقم پاکر اپنے قرضے اتارسکیں۔کئی عورتوں نے بازاروں میں چھابڑیاں لگا لیں اور روزمرہ اشیا فروخت کرنے لگیں۔یاد رہے،افغان معاشرہ بہت قدامت پسند ہے اور وہاں بالعموم خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔مگر بھوک کی ستائی بیچاری عورتیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے باہر بیٹھنے پر مجبور ہو گئیں۔

بدقسمت افغانستان پچھلے چالیس برس سے خانہ جنگی اور جنگوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ طویل لڑائی مارکٹائی نے معاشرتی ،معاشی اور نفسیاتی طور پر افغان معاشرے کا تاروپود بکھیر دیا ہے۔ اب قحط قدرتی عذاب بن کر افغان باشندوں پر نازل ہوگیا۔ مزید خوفناک بات یہ کہ جلد موسم سرما شروع ہونے والا ہے۔ شدید سردی میں بھوک و پیاس کی زیادتی خصوصاً ہزارہا بچے بچیوں کی جان لے سکتی ہے۔

ہرات، بادغیس اور قحط سے شدید متاثرہ دیگر علاقوں میں خوراک اور پانی کم ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے امیر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان مصیبت زدگان کے لیے خوراک و پانی بھجوائیں۔ انسانی زندگی کو درکار ان دونوں بنیادی اشیا کی کمی ہزارہا افغانوں کو موت کے در تک پہنچا دے گی۔

مغربی افغانستان میں قحط سے متاثر ہزاروں افغان۔ ایرانی سرحد پر جمع ہیں۔ وہ ایران جانا چاہتے ہیں مگر ایرانی حکومت نے انہیں سرحدوں پر روک رکھا ہے۔ دراصل امریکی پابندیاں لگنے کے باعث ایران کے معاشی حالات اچھے نہیں اور حکومت اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بجھوا رہی ہے۔ مزید براں ایران بھی پانی کی کمی کا شکار ہے جس نے افغانوں کے مسائل میں اضافہ کرڈالا۔

ایران کی طرح پاکستان بھی معاشی و معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ پاکستانی حکومت سکیورٹی مسئلے کے باعث بھی اپنے ہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانا چاہتی ہے۔ تاہم افغانستان میں سیاسی حالات اب بھی خراب ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بم دھماکے میں افغان انٹیلی جنس کے چیف ہلاک ہوگئے۔ طالبان کی خواہش ہے کہ امریکی و اتحادی افواج افغانستان کو خیرباد کہہ دیں۔ مگر امریکی حکمران جغرافیائی تزویراتی لحاظ سے نہایت اہم اس ملک کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنا چاہتے ہیں۔

لہٰذا دونوں قوتوں کے مابین جنگ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اس طویل جنگ نے مگر معاشی و معاشرتی لحاظ سے افغان عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب شمالی اور مغربی افغانستان میں لاکھوں شہریوں پر قحط حملہ آور ہے۔ اعدادو شمار کی رو سے متاثرہ افغانوں میں سے تیس لاکھ کو خوراک، پانی، لباس اور سر چھپانے کی جگہ درکار ہے جبکہ مزید اسّی لاکھ افغان بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں۔ اگر بارشیں نہ ہوئیں، تو انھیں بھی خوراک اور پانی پانے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑے گی۔

افغان عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے حکمران،لیڈر،سیاست داں اور سرکاری افسر عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ان کی اکثریت اپنی کرسیاں بچانے یا کرپشن کر کے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہتی ہے۔ افغان حکومت ویسے بھی کابل اور گردونوح کے اضلاع تک محدود ہے۔اگر آج امریکی فوج رخصت ہو جائے تو موجودہ کرپٹ ، اپنے عیش و آرام میں مست اور عوام کی تکالیف و مصائب سے بے خبر حکمران زیادہ عرصہ حکمرانی نہیں کر سکتے۔اس افسوس ناک کیفیت میں صرف قومی و عالمی سماجی تنظیمیں ہی دامے درمے سخنے قحط کا نشانہ بنے بے کس لاکھوں افغانوں کو جینے کا سہارا اور امید دے رہی ہیں۔

’’عالمی قحط‘‘ کا خطرہ

آج آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک کئی ممالک کے مختلف علاقے قحط کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ گلوبل وارمنگ سے جنم لینے والی آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا رہا تو اس عجوبے سے کبھی بارشیں اور برف باری زیادہ ہو گی تو کبھی کم!لہٰذا جب بھی بارشیں کم ہوئیں اور اللہ نہ کرے، یہ سلسلہ طویل ہو گیا تو ’’عالمی قحط‘‘بنی نوع انسان کی بقا خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

انسانی تاریخ کا خوفناک ترین قحط 1875ء تا 1880ء کے دوران آیا تھا۔اس کا آغاز ہندوستان سے ہوا جہاں مون سون کی بارشیں بہت کم ہوئی تھیں۔چناں چہ ہندوستان میں قحط پڑ گیا۔یہ قحط رفتہ رفتہ دیگر ایشائی ممالک،آسٹریلیا،افریقا اور جنوبی امریکا تک پھیل گیا۔قحط کی لپیٹ میں آ کر تقریباً پانچ کروڑ انسان چل بسے تھے اور اس نے بڑی تباہی مچائی تھی۔

ماہرین ماحولیات دنیا بھر کی حکومتوں پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ پانی بچانے کیلئے مختلف اقدامات کریںتاکہ انسانی آبادی کسی بھی وقت جنم لینے والے شدید قحط کا بخوبی مقابلہ کر سکے۔آنے والے زمانے میں پانی محفوظ کرنا اور بچانا ہر انسان کے لیے یونہی اہم بن جائے گا جیسے زندہ رہنے کی خاطر سانس لینا!

نایاب ہوتا آب

ہم پاکستانیوں کی اکثریت پانی استعمال کرتے ہوئے اس قدرتی نعمت کی قدر نہیں کرتی…اگر شیو ہو رہی ہے تو کھلے نلکے سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے اور بندے کو کوئی پروا نہیں۔گھروں میں خصوصاً ماسیاں گھر دھوتے ہوئے بہت پانی ضائع کرتی ہیں مگر انھیں بالکل تنبیہ نہیں دی جاتی کہ پانی ضرورت کے مطابق استعمال کرو۔پانی کتنا زیادہ قیمتی ہے، اس سچائی سے بے خبر پاکستانیوں کو تھر کے باسیوں یا اپنے پڑوسی افغانوں سے پانی کی قدروقیمت دریافت کرنا چاہیے۔اہل تھر کی حالت زار تو ہمارے سامنے ہے، افغان جس مصیبت کا شکار ہیں،اس سے بھی آگاہ ہو جائیے۔افغانستان میں چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔مگر پہاڑوں اور میدانوں میں اگر بارشیں کم ہوں اور برف باری کی شرح بھی کم رہے،تو قدرتاً دریاوں میں پانی کم بہتا ہے۔افغان حکومتوں نے پھر ڈیم اور ذخائر آب بھی کم بنائے ہیں۔اسی لیے بیشتر افغان کنوئیں کھود کر زراعت اور پینے کے واسطے پانی حاصل کرتے ہیں۔نہروں اور نالوں کا پانی زرعی مقاصد ہی میں کام آتا ہے۔

پچھلے دو تین برس سے شمالی اور مغربی افغانستان میں بارشیں اور برف باری بہت کم ہوئی ہے۔اسی لیے وہاں پہلے ندی نالوں میں پانی ختم ہوا پھر زیرزمین واقع آبی ذخائر میں بھی کمی آ گئی۔درحقیقت پورے افغانستان میں زمین کے نیچے موجود پانی کی سطح تیزی سے گھٹ رہی ہے۔اب یہ حال ہے کہ اکثر علاقوں میں 800 فٹ گہرائی تک بھی کنواں کھودا جائے تو پانی کا نام ونشان نہیں ملتا۔اسی لیے کئی علاقوں کے مکین جوہڑوں کا بدبودار اور گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔

بڑھتی آبادی بھی افغان شہروں میں پانی کو جنس ِنایاب بنا رہی ہے۔مثال کے طور پہ ماہرین کی رو سے کابل کے زیرزمین آبی ذخائر بیس لاکھ باشندوں کو پینے کا پانی فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن کابل کی آبادی پچاس لاکھ ہو چکی۔اسی لیے افغان دارالحکومت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔لاکھوں غریب شہری خاص طور پر بڑی مشکل میں ہیں۔وہ کئی میل دور سے سرکاری کنوؤں یا تالابوں سے پانی برتنوں وغیرہ میں لاتے ہیں۔کئی گھرانوں میں لڑکوں یا عورتوں کی بنیادی ذمے داری یہی بن چکی کہ وہ دن میں کہیں سے بھی پانی لانے کا بندوبست کریں۔یہ ایک لحاظ سے ان کی کُل وقتی ملازمت بن چکی۔

یہ حقیقت ہے کہ آج افغانستان میں خون سستا ہے اور پانی مہنگا۔حالیہ پارلیمانی الیکشن میں ڈیرھ سو سے زائد افغانی مارے گئے۔اسی طرح امریکیوں،اتحادیوں ،طالبان،داعش اور دیگر گروپوں کی باہمی لڑائیوں کی لپیٹ میں آ کر روزانہ کئی افغان چل بستے یا زخمی ہو جاتے ہیں۔افغان عوام پچھلے چالیس برس میں اتنی زیادہ قتل وغارت گری دیکھ چکے کہ اب ان کے نزدیک کہیں خون بہنا کوئی اہم بات نہیں رہی۔مگر پانی کے حصول کی خاطر وہ جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔دراصل جتنی زیادہ گہرائی میں کنواں کھودا جائے،اس پہ اتنی ہی زیادہ لاگت آتی ہے۔

پانچ سو فٹ گہرا کنواں کھودنے پر چھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔امیر افغان تو یہ خرچہ برداشت کر لیتے ہیںمگر غریب اتنی زیادہ رقم کہاں سے لائیں؟اسی لیے وہ پانی کی نعمت پانے کے لیے روازنہ بھاگ دوڑ اور محنت مشقت کا کنواں کھودتے ہیں۔یہ کام جیسے ان کے مقدر میں لکھا جا چکا۔پانی کی نایابی کے باعث افغان شہروںمثلاً کابل،ہرات،مزار شریف،قندوز وغیرہ میں پینے کے صاف پانی کا صرف ایک لیٹر ستر اسی روپے میں فروخت ہونے لگا ہے۔

گویا افغانستان میں صاف ستھرا پانی ایک بیش قیمت شے بن چکا اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ وہ چوری نہ ہو سکے۔ایک زمانہ تھا کہ انسان راہ چلتے پیاس لگنے پر کسی بھی گھر کا در کھٹکاتا اور بے دھڑک پانی مانگ لیتا۔حکومتوں اور مخیر لوگوں نے جگہ جگہ ثواب کی خاطر پانی کا انتظام کر رکھا ہوتا تھا۔مگر افغانستان میں یہ رواج ختم ہو چکا۔وجہ یہی کہ اب ہزاروں افغان نہایت تگ ودو کے بعد پانی حاصل کرتے ہیں۔لہٰذا وہ اس نعمت کو اپنے استعمال میں لاتے اور دوسروں کو دینے سے معذرت کر لیتے ہیں۔خدانخواستہ افغانستان آنے والے برسوں میں بارشوں اور برف باری سے محروم رہا تو وہاں پانی کی نایابی کا مسئلہ شدت اختیار کر لے گا۔

The post جدید دور کی سفاک سچائی افغانستان میں خون سستا پانی مہنگا appeared first on ایکسپریس اردو.

شیئرڈ بائیسکل کا تصور پانچ چینی طالب علموں نے متعارف کرایا

$
0
0

سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس بیجنگ

(تیسری قسط)

انسان نے پہیہ کیا ایجادکیاذرائع رسل و رسائل کی ترقی کوپر لگ گئے۔اور یہ ذرائع آج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اپنی جدید سے جدید تر صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ سفر کی مشقت کو کم کرنے کی انسانی کوششوں نے سواریوں کو زیادہ باسہولت، آرام دہ اور تیز رفتار بنا دیا ہے۔ایسی ہی اختراعات سائیکل کی سواری میں بھی کی جارہی ہیں۔

جن کا عملی مشاہدہ چین میںہوا جہاں سائیکل بھی جدید رجحان کے مطابق نئی شکل اور ٹیکنالوجی سے لیس اور ہم آہنگ ملی جو کہ حیران کن اور دلچسپ تھا۔ جدید ترین گاڑیوں کے پہلو بہ پہلو بیجنگ کی شاہراہوں پر ہر سو رواںد واں سائیکل سوار شروع شروع میںتو فہم سے بالاتر لگے بعدازاں اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں‘‘ کے مصداق چینی سماج کا جدت کے ساتھ روایت پرستانہ مزاج معلوم پڑ گیا۔ ہمارے بچپن میں جب شعور ابتدائی درجے پر اشیاء کی حقیت و ماہیت کو جانے بغیر صرف ظاہر سے پہچاننے کی سطح پر تھاتو اس وقت سائیکل سے تعارف اباحضور کے توسط سے پڑا کہ والد ِمحترم سائیکل کوبطور سواری استعمال کرتے تھے۔

رفتہ رفتہ بچپن سے لڑکپن میں گئے تو سائیکل شناسائی کو بڑھاوا دینے کاوقت آگیا۔اور اس سواری کو سیکھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔سیکھنے کا آغاز بھی ابا حضور کی سائیکل سے ہونا تھا۔اب سائیکل کو دیکھوں اور پھر اپنے قد اور جسمانی طاقت و اعضاء کی طوالت کوتویہ خیال آیا کہ اس کی سواری محال ہے۔ ہمارے وقت میں سائیکل سیکھنے کے مختلف مراحل پیڈل ، قینیچی ،ڈنڈا سے ہوتے ہوئے بالآخر سائیکل کی سیٹ پر ختم ہوتے تھے۔ جدید چین میں سائیکل سیکھنے کے یہ سارے مراحل ناپیدو مفقود پائے۔کہ وہاںسائیکل میں نہ تو ڈنڈاہے اور نہ ہی قینچی چلاتے بچے نظر آتے ہیں۔کیونکہ سا ئیکل کا سائز ہر ایک کے لیے اتنا مناسب ہے کہ قینچی کی نوبت ہی نہیں آتی۔

زندگی کے سفر میں آگے بڑھے ، شعور کی منازل طے کیں اور کتاب سے تعارف ہواتواپنے ہاں کے مشہور ادیب و مصنف پطرس بخاری کا مضمون مرزا کی بائیسکل پڑھنے کے دوران یہ ا حساس ہوا کہ وقت تو بہت بیتا مگر ہمارے ہاں سائیکل میں کوئی بدلاؤنہ آیا۔جو سائیکل مرزا کے وقت میں تھی اُسی سے ملتی جلتی ابا حضور کی سائیکل ہمارا تختہ مشق ٹھہری۔ مگر پڑوسی ملک چین میں تغیرِ ایام کے ساتھ ساتھ جدت اور اختراعات بھی معاشرتی چلن ہیں۔وہاں سائیکل ترقی یافتہ معاشروں کی طرح سماجی زندگی میں ا پنا وجود برقرار کھے ہوئے ہے۔کیونکہ وہاں معدوم ہوتی ہوئی کئی روایتی مصنوعات کے استعمال کو جدت اور ٹیکنالوجی سے ہم آ ہنگ کر دیا گیاہے اور وہ عوام میں مزیدمقبولیت اختیار کرگئی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ چین Cycle Loving قوم کے طور پر مشہور تھا اور ہر جگہ سائیکل ہی نظر آتی تھی۔چین میں سائیکل کاتذکرہ آیا ہے تو لگے ہاتھوں چین میں سائیکلنگ کی تاریخ اور اس کی شروعات کی بھی بات ہوجائے۔چین میں سائیکل کا ذکر پہلی مرتبہ اٹھارہ سو ساٹھ میں ملتا ہے۔اس زمانے میں ایک اعلی چینی سفارتی اہلکار بِن چن (Binchun)نے فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کادورہ کیا۔ ان کے دورے کا مقصدوہاں کی صنعتی ترقی، انتطامی اصلاحات اورفوجی ٹیکنالوجی کا جائزہ لینا تھا۔ جب وہ دورے سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی دورے کی رپورٹ میں ایک ٹیکنالوجیکل ترقی کا ذکر کیا جو کہ انہوں نے فرانس میں دیکھی۔ان کے بقول انہوں نے فرانس میں لوگوں کو ایک عجیب وغریب سواری استعمال کرتے دیکھا۔اس سواری کے دو پہیے ہیں۔

یہ ایک ڈنڈے سے بندھے ہوتے ہیںاورڈنڈے کے اوپر ایک سیٹ ہوتی ہے۔ لوگ سیٹ کے اوپر بیٹھ کر پاوں کے ذریعے اس کو آگے دھکیلتے ہیں۔انہوں نے اس دور میں اس کو Velocipedeکا نام دیا۔یہ سائیکل تھی جو کہ فرانس میں استعمال ہورہی تھی۔ یہ سائیکل کا چین میں پہلا تعارف تھا۔ابتداء میں چین میں سائیکل کو پذیرائی نہیں ملی کیونکہ لوگ اس کوچلانے کے دوران پسینے میں شرابور ہونے ، اس کوچلانے کے لیے درکار جسمانی طاقت اور اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے اس سے دور رہے۔ اس دور میں چینی شہری رکشے کی سواری کو ترجیح دیا کرتے تھے۔رفتہ رفتہ جب اس دور کے چین کے حکمرانوں میںترقی کرنے کا احساس بیدار ہواتو انہوں نے سائیکل کے عملی فوائد کے متعلق سوچناشروع کیا۔

1868کے اواخر میں شنگھائی کے اخبارات میں سائیکل کے متعلق رپورٹس اور خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1870-1880میں چین کے شہروں شنگھائی، تیانجن اور بیجنگ میں مقیم غیر ملکی سائیکلنگ کیا کرتے تھے ا ٹھارہ سو نوے میںسائیکل کی آرمی کے لیے افادیت ثابت ہوچکی تھی۔یہاں تک اس دور کے چینی اخبارات میں مغربی ممالک میں گھوڑے اور سائیکل کے درمیان دوڑ کا تذکرہ کیا جانے لگا۔ اٹھارہ سو ستانوے میں 25th یوایس انفنٹری بٹالین کی مو نا ٹانا سے سینٹ لوئیس ، میسوری تک 1900 میل دوڑ کا ذکر ایک رسالے  ” Shixuebao”میں ملتا ہے تا کہ شاہی آرمی میں سائیکل کو متعارف کرایا جاسکے۔چین میں سائیکل عیسائی مشنریز، کاروباری افرادا ور اس دور کے نو آبادیاتی اعلیٰ اہلکاروں کے ذریعے متعارف ہوئی۔ ابتدائی طور پر ساحلی شہروں میں اس کی آمد ہوئی۔اٹھارہ سو نوے میں پہلی مرتبہ چینی شہریوں نے سائیکل چلانا شروع کیا۔ان شہریوں میںیورپ سے پڑھ کر آنے والے طلباء، کاروباری افراد اور صحافی تھے جو کہ ملک میں ٹیکنالوجیکل ترقی کے خواہشمند تھے ۔

اٹھارہ سو چھیانوے میںسائیکلنگ کو اخبارات میں بھرپور کوریج ملی۔اس وقت برطانوی سائیلکسٹس کرسمس سے قبل شنگھائی آئے تو مقامی سائیکل سوار بھی ان کے ساتھ شہر کے دورے میں شریک ہوئے۔اسی دورمیں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے برطانوی، جرمن اور امریکن سائیکلز کی فروخت کے اشتہارات شائع ہونا شروع ہوئے۔ 1897/98 میں شنگھائی اور تیانجن کے اخبارات میں سائیکل کے اولین کمرشل اشتہارات شائع ہوئے۔ اٹھارہ سو ننانوے میں شنگھائی سے تھوڑے فاصلے پر واقع شہر Suzhou میں مقامی انتطامیہ نے تنگ لینز میں حفاظتی اقدامات کے پیش ِ نظر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کردی۔انیس سو دو میں شنگھائی میںبرطانوی سائیکلز کی پہلی نمائش ہوئی۔ چین کے شہروں شنگھائی، تیانجن، گوانچو سے سائیکل آہستہ آہستہ چین کے دیگر شہروں میں جانے لگی۔

چین کے موجودہ دور کے ایک صنعتی و کاروباری شہر چینگدو میں انیس سو چار میں سات سائیکلز تھیں۔جب کہ اس وقت اس شہر کی آبادی ایک اعشاریہ پانچ ملین تھی۔ان سات سائیکلز میں سے تین مختلف چینی حکومتی اداروں ، تین غیر ملکیوں اور ایک عدد چینی شہری کی ملکیت تھیں۔انیس سو دس میں شنگھائی اور تیانجن کے درآمد کنندگان نے سائیکل کو مزید مختلف شہروں میں متعارف کرانا شروع کیا۔ ابتداء میں اس کی درآمد کیے جانے کی وجہ سے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔اس وقت صرف امیر لوگ ہی اس کو خرید تے تھے ۔عام آدمی کے پاس سائیکل نہیں تھی۔

انیس سوبیس میں جب چین میں ہفتے میں چھ دن کام کرنا معمول بن گیا تولوگوں میں سائیکلنگ کا رجحان بڑھ گیا۔ انیس سو پچیس میں شنگھائی کی آبادی دو ملین تھی جبکہ اس وقت سائیکلز کی تعداد نو ہزار آٹھ سو تھی۔ انیس سو تیس میں یہ تعداد بڑھ کر بیس ہزار ہو گئی۔ پھر چین کے مختلف اداروں میں سائیکل کے استعمال نے فروغ پاناشروع کردیا۔محکمہ ڈاک کے پوسٹ مین، فوجی اہلکاروں اور ماڈرن پولیس سکوارڈنز نے سائیکل کا استعمال شروع کردیا۔عام شہریوں کی سائیکل تک رسائی انیس سو تیس اور چالیس کی دہائی میں ہوئی۔

انیس سو تیس میں چین میں سائیکل کے تین بڑے درآمد کنندگان کاروباری اداروں شنگھائی کے Tongcheng Chehang، تیانجن کے Changcheng   اور شنیانگ کے Daxing نے مقامی سطح پر سائیکلنگ کی اسمبلنگ شروع کی۔اس سے قیمتیں کم ہوئیں اور چین میں سائیکل تیزی سے فروغ پانا شروع ہوئی۔ انیس سو اکتالیس اور بیالیس میں چین میں چاولوں کی راشن بندی کے دوران سائیکل کی بطور ایک آسان اور تیز ٹرانسپورٹ کے ایک ذریعے کے طور پر مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔انیس سو انچاس میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے سائیکل کی صنعت کو خوب فروغ ملا۔کمیونسٹ پارٹی نے اس کو بطور ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا آغاز کیا اور اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار شروع کی۔اس کی پیداوار پر حکومت کی جانب سے رعایات بھی دی گئیں۔

چین کے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں سائیکل کی صنعت کی ترقی کا ہدف 60% مقرر کیا گیا تھا۔انیس سو اٹھاون تک چین میں ایک ارب سائیکل سالانہ بنائے جارہے تھے۔انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں چین میں سائیکل اپنے عرو ج پر تھی۔چین کے تمام بڑے شہروں میں سڑکوں پر سائیکل ہی سائیکل نظر آیا کرتے تھے۔ اسی دور میں چین کو ” Kingdom of Bicycles” بھی کہا جانے لگا۔اس دور میں یہ چین کی سماجی زندگی کا لازمی خاصہ بن گئی۔۔ سائیکل اس حدتک چین کی سماجی زندگی میں شامل ہو گئی تھی کہ ایک مقولہ ملک میں بہت زیاہ استعمال ہوتا تھا کہ چین میں شادی کے لیے چار لازمی ا شیاء میں سے ایک سائیکل (اس دور کے ایک مقبول برینڈ کی) بھی شامل تھی۔ گویا شادی کا ہونا سائیکل سے مشروط تھا۔ ویسے چار لازمی اشیاء میں سے ایک ریڈیو بھی ہوا کرتاتھا۔

اس دور میں دوست، احباب، رشتہ دار شادی کے موقع پر سائیکل کو تحفے کی شکل میں دیتے تھے۔ اس سے زیادہ چین میں سائیکل کی مقبولیت کا کوئی اور پیمانہ نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتاہے کہ امریکہ کے سابق صدر بش جب انیس سو چوہتر پچھتّر میں بیجنگ میں بطور امریکی سفیر موجود تھے تو انہیں بھی دو سائیکلز بطور تحفہ دی گئیں۔وہ بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اس دور میں چین کی ایک مشہور سائیکل بیجنگ کی سڑکوں پر چلایا کرتے تھے ۔اسی دور میں چین کی شاہراہوں پر تین یا چارکار لینز جتنی چوڑی سائیکل لینز ہوا کرتی تھیں ۔

پھر چین میں 80ء کی دہائی میں سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت کے دور کی شروعات ہوئیں اورچین میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔اس ترقی کے اثرات سماج میں نمودار ہونا شروع ہوئے۔اور نوے کی دہائی میں موٹر گاڑیوں او ر کاروں کے کلچر کی شروعات ہوئیں۔سن دو ہزار سے سائیکلوں کی جگہ کاروں نے لے لی اور یوں سائیکل کی مقبولیت کا گراف نیچے آنا شروع ہوا۔مگر بعد میںجہاں چین نے مختلف شعبوں میں ترقی کی وہیںچین نے سائیکلنگ میں جدت اور ٹیکنالوجی کوایسے ہم آہنگ کیا کہ اگر کسی دور میںشادی کے لیے اس دور کی ایک مقبول برینڈ کی سائیکل پاس ہونا لازمی تھا تو آج کے چین کے بڑے شہروں میں مقیم شہریوں کے سمارٹ فونز میں شیئرڈ سائیکلنگ کی ایپ اور اس کا اکاونٹ ہولڈر ہونا شہری زندگی کالازمی خاصہ سمجھاجاتا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ چین نے روایت کو جدت سے بدل کر اس کا تسلسل جاری رکھاہے۔ ہمارے ہاں سائیکلنگ اس جدید دور میںقبولیتِ عامہ کا وہ درجہ حاصل نہ کرپائی جو ترقی یافتہ ممالک میں اس کو حاصل ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق بیلجیم اور سویٹزرلینڈ میں اڑ تالیس فیصد ، جاپان میں ستاون فیصد، فن لینڈ میں ساٹھ فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن تو دنیا بھر میں سائیکل کے استعمال کے حوالے سے مشہور ہے جہاں باون فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں۔عصرِحاضر میں ایک تحقیقی ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں37.2 فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں چین کے متعلق یہ بھی کہا جاتاہے کہ یہا ں کے لوگ کاروبارکرنا جانتے ہیں۔

تو انہوں نے ا پنا ذہن استعمال کیا اور متروک ہوتی سائیکل کو نئی زندگی بخش دی اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے روزگارکا بندوست بھی ہو گیا۔چین میں شیئرڈ سائیکلنگ بہت مقبول ہے اور اعدادوشمار کے مطابق پورے چین میں سولہ ملین شیئرڈ بائیکس ہیں جبکہ صرف بیجنگ میں پندرہ مختلف کمپنیاں یہ سروس فراہم کررہی ہیں۔ بیجنگ کے تمام16 اضلاع یعنی شی چنگ، چاو یانگ، تنگ چینگ، فینگتائی، شی جنگ شن، ہائیدیان، تا شنگ، تنگ چو، شن ای، فانگ شن، چھانگ پنگ، پنگو، ہوئیرو، یان گنگ، مین توگو اور می یون میں مختلف عوامی مقامات پر شیئرڈ سائیکلنگ دستیاب ہے۔ ان پندرہ کمپنیوں میں سے دو زیادہ مقبول ہیں۔

شیئرڈ سا ئیکلنگ کو استعمال کرنے کی کچھ شرا ئط ہیں۔ اٹھارہ سال سے لیکر پینسٹھ سال کی عمر کا کوئی بھی فرد ان سائیکلز کو استعمال کرسکتا ہے ۔ اکاونٹ بنانے کے لیے ایک سمارٹ فون، انٹرنیٹ کی دستیابی اور دستاویزی شناخت کی فراہمی لازمی ہے۔ غیر ملکی اپنے پاسپورٹ کے پہلے صفحے کی کاپی کے ہمراہ سیلفی لے کر ایپ کے ذریعے اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ایپ پر اکاونٹ بنانے کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔ ان ہدایات کی پیرو ی کرتے ہوئے اکاونٹ بنایاجا سکتا ہے۔ جب اکاونٹ بن جائے تو سمجھیں کمپنی کی تمام سائیکلز اب آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر سائیکل پر ایک کیو آر کو ڈ ہوتا ہے جس کو سکین کرنے پر سائیکل کا لاک کھل جاتا ہے۔موبائک کمپنی کی سائیکلز کے لاک کوڈ سکین کرنے پر خودکار انداز میں کھل جاتے ہیں جبکہ اوفو کے بذاتِ خود ہاتھ سے کھولنا پرْتے ہیں۔ سائیکل لیں اور پورے بیجنگ میں جہاں چاہیں گھومیں۔ان سائیکلز میں جی پی ایس سسٹم لگا ہوتا ہے جس سے کمپنی سائیکل کی موومنٹ کو باآسانی جان سکتی ہے۔

جہاں تھک جائیں ، سائیکل سے اتریں اور اپنے اکاونٹ سے لاگ آوٹ کریں ، سائیکل کو وہیں کھڑا کریں سائیکل کی حفاظت کی فکر سے بے نیاز ہو کر سب وے یا پبلک بس پر بیٹھیں اور من چاہی منزل کاقصد کریں سائیکل کا خیال متعلقہ کمپنی خود کرلے گی۔اس کا کرایہ انتہائی کم ہے ۔ کم سے کم کرایہ ایک یوان ہے ۔ کرائے کا تعین سفر کی مناسبت سے ہوتا ہے جبکہ کمپنیاں ماہانہ اور مختلف پیکیجز بھی فراہم کرتی ہیں۔ کرائے کی ادائیگی و ی چیٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔کم سے کم ڈیپازٹ ایک سو ننانوے یوان سے تین سو یوان تک ہوتا ہے جو کہ قابلِ واپسی ہوتا ہے۔ جب صارف اپنا اکاونٹ ختم کرنا چاہے تو اس وقت یہ رقم اس کو واپس کر دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں شیئرڈ سائیکلنگ کے پندرہ بڑے سسٹمز ہیں ان میں سے تیرہ چین میں ہیں۔ دو ہزار سترہ کے ابتدائی تین ماہ میں بیجنگ میں شیئرڈ سائیکلز کی تعداد دو لاکھ جب کہ ہانگچو میں یہ تعداد سات لاکھ تھی۔ بیجنگ میں دو کمپنیاں بہت مقبول ہیں۔ان میں ایک موبائک(Mobike) اور دوسری اوفو (Ofo) ہے ۔ موبائک اورنج کلر کی اور اوفو زرد رنگ کی سائیکلز کے لیے مشہور ہے۔

دو نوں کمپنیوں نے بیجنگ ہی سے اپنے کاروبارکا آغاز کیا۔ موبائک نے جنوری دوہزار پندرہ میں اپنے کاروبارکا آغاز کیا یعنی راقم کی چین آمد سے چھ ماہ پہلے جب کہ اوفو نے دوہزار چودہ میں آغاز کیا۔اوفو کے آغاز کی کہانی بہت دلچسپ اورحیران کن ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی کے پانچ طلباء کے ایک گروپ نے ابتدائی طور پر بائیسکلز کے ذریعے سیاحت کے فروغ کاآغاز کیا بعد میں انہوں نے اس کو شئیرڈ سائیکلنگ کی صورت میںکاروباری اندازمیں شروع کیا اوراس میں انہیں بے مثال کامیابی ملی۔اوفو کی کامیابی کے بعد موبائک نے اپنے کاروبارکا آغازکیا۔موبائک نے شیئرڈ سائیکلنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔ ان کی سائیکلز میں جی پی ایس کی سہولت ، مضبوط باڈی،جدید اورنت نئے ڈیزائنز ہیں۔

اس کی ابتدائی ڈیپازٹ فیس بھی اوفو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ موبائک کے پاس نو ملین سمارٹ سائیکلز ہیںجبکہ یہ چین ، سنگاپور اورجاپان سمیت دیگر ممالک کے ایک سو نوے سے ز ائد شہروں میں اپنی سروسز فراہم کر رہی ہے۔جبکہ اوفو دس ملین سے زائد سائیکلز کی مالک ہے اور یہ اکیس سے زائد ممالک کے دوسو پچاس سے زائد شہروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

یہ سائیکلز مختصر دورانیے کے فاصلے کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔مثلاً گھر سے سب وے سٹیشن، بس سٹیشن یا قریبی مارکیٹ تک جانے کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ راقم کے فلیٹ سے تندور قدرے فاصلے پر تھا۔ روٹی لانے کے لیے راقم اسی شیئرڈ سائیکل کو ہی استعمال کیا کرتاتھا۔پہلے ان سائیکلز کو کہیں بھی پارک کیا جاسکتا تھا۔کمپنییز کی طرف سے کوئی خاص مقام متعین نہیں تھا۔بعد ازاں مقامی حکومت نے ان کی پارکنگ سے ٹریفک کی روانی میں پڑنے والے خلل اورلوگوں کے چلنے میں آنے والی مشکلات کے پیشِ نظر ان کو مخصوص مقامات پر پارکنگ اور پارکنگ کے حوالے سے ضوابط کا پابند کردیا ۔ ان سائیکلز کو استعمال کرنے والا صارف ان کوخود ہی لاک اور ان لاک کرتا ہے۔

ان سائیکلز کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک کمپنی کی سائیکلز میں ٹیوب لیس ٹائرز ہیں جبکہ ٹائرز کی تاریں بھی جدید انداز میں تیار کی گئی ہیں۔ایک اور مزے کی بات ان کی مناسب بلندی اور سیٹ ایڈجسٹمینٹ کی سہولت ہے ۔ جبکہ ہمارے ہاں روایتی سائیکلز قدرے اونچی ہوا کرتی ہیںاور ایک چھوٹے قد کے آدمی کے لیے اس کو چلانا مشکل ہوتا ہے۔ پھر ان سائیکلز میں ہینڈل اور سیٹ کے درمیان سنگل یا ڈبل ڈنڈا بھی ہوتا ہے جوکہ ایک فرد کو بٹھانے کے کام آتا ہے جبکہ پیچھے موجود کیریئر پر ایک اورفرد بھی بیٹھ سکتا ہے یوں ہماری سائیکل پر تین افراد سوار ہوسکتے ہیں۔چین میں جدید سائیکلز میں یہ رجحان نہیں ہے۔وہاں کی سائیکلز کی اکثریت میں ایک تو ہینڈل اور سیٹ کے درمیان ڈنڈا نہیں ہے اور نہ ہی سیٹ کے پیچھے کیریئر کا فیشن ہے۔

اور تو اور سائیکل کی گھنٹی کو بھی چین نے اپنی اختراع سے ایک دلچسپ چیز بنادیا ہے۔ وہاں سائیکل پر گھنٹی ہمارے ہاں کی طرح ہینڈل پر فکس نہیں ہوتی بلکہ وہاں تو یہ گھنٹی بظاہر نظر نہیں آتی مگر یہ ہینڈل پر ہی موٹر سائیکل کی ریس کی طرح نصب ہوتی ہے۔اس کو آگے پیچھے کرنے سے گھنٹی بجتی ہے۔اس کے علاوہ سیٹ اور ہینڈل کے درمیان ڈنڈا نہ ہونے سے چینی شہری سائیکل چلانے کے قینچی انداز سے بھی لاعلم ہیں اس کے پیڈل ہماری روایتی سائیکل کے پیڈل سے مختلف اور قدرے چوڑے ہوتے ہیں جن پر پاوں صحیح طرح جم کر بیٹھتا ہے۔ ان سائیکلز کی تمام تر مرمت کمپنی خود ہی کرتی ہے۔

اگر کوئی سائیکل راہ چلتے خراب ہو گئی تو صارف اس کو وہیں چھوڑ دے گا اور نئی سائیکل کو ان لاک کرکے اپنی راہ لے گا۔ان سائیکلز میں ہینڈل سے قدرے نیچے ایک ٹوکری بھی نصب ہوتی ہے جہاں پر صارفین اپنی کچھ اشیاء رکھ سکتے ہیںمگر اس پروزن رکھنے کی ایک حد مقررہے اور یہ حد پانچ کلوگرا م ہے۔بعض اوقات چھوٹے بچے کے اگلی ٹوکری پر بیٹھے ہوئے دیکھنے کے مناظر بھی مل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بیچاری سا ئیکلز کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے کسی دور میں گوالے دودھ کی سپلائی کے لیے اس کو استعمال کیا کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں عمومی طورپر نوجوان لڑکے یا مرد حضرات ہی اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ خواتین کم ہی عوامی مقامات پر اس کااستعمال کرتی ہیں جب کہ چین میں ہر عمرکے مردوزن بخوشی اور سماجی حیثیت میں کسی بھی قسم کی کمی کے احساس میں مبتلا ہو ئے بغیر اس کا استعمال کرتے ہیں اورخوب کرتے ہیں۔ ہفتہ وار تعطیل  اور چھٹیوں کے دوران سائیکلنگ کا بہت رجحان ہے۔

چین میں دو مواقعوں پر ہونے والی قومی تعطیلات زیادہ مشہور ہیں۔ ایک چینی نئے سال کے موقع پر جبکہ دوسری اکتوبر میں قیامِ چین کے حوالے سے ہونے والی تعطیلات ہیں۔ ا ن دونوں مواقعوں پر ہونے والی تعطیلات کا دورانیہ کم وبیش ایک ہفتہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر تہواروں یا مواقعوں پر تعطیل ہوتی ہے مگر ان کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ ویسے چین میں سرکاری ملازمین کے لیے سالانہ تعطیلات بہت کم ہوتی ہیں۔ شادی شدہ ملازم کو سال میں دس چھٹیاں جبکہ غیر شادی شدہ کو بیس چھٹیوں کا استحقاق حاصل ہے۔ چینی شہری نئے سال اور اکتوبر میں ہونے والی تعطیلات کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاحتی مقامات کارخ کرتے ہیں۔ اور خوب سائیکلنگ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے چینی لوگ صحت مند اور چاک و چوبند رہتے ہیں۔ وہاں اگر بعض تعطیلات ہفتہ وارمروجہ تعطیلات کے ساتھ آ جائیں تو ہفتے یا اتوار کو ورکنگ ڈیز میں تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ تعطیلات مقررہ دنوں سے زیادہ نہ ہوں۔ تو تذکرہ ہورہا تھا چھٹیوں میں سائیکلنگ کا۔

چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کے اکثر غیر ملکی ساتھی ان تعطیلات میں سائیکل پر ہی بیجنگ کی سیرو سیاحت کرتے ہیں۔ اور اس طرح کے کئی ایک مواقع راقم کو بھی ملے۔ اور اکثر سائیکلنگ کا اختتام بیجنگ کے ضلع چاویانگ میں واقع ایک پاکستانی ریسٹورنٹ پر ہوتا جو چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی عمارت سے سائیکل کی تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ مسافت پر تھا۔پاکستانی ہوٹل پہنچ کر وطن سے دوری کا احساس فوراً زائل ہو جاتا ہے۔اس ہوٹل کے مالک آصف جلیل ہیں جو کہ راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے چائنا میں مقیم ہیں۔ اُن سے کافی یاداللہ ہو گئی تھی۔اور کبھی کبھار تو وہ ہم ہم وطنوں سے کھانے کے پیسے تک نہیں لیتے تھے۔اس پاکستانی ہوٹل کے کھانوں کے ہمارے سی آر آئی کے اکثر غیر ملکی ساتھی دلدادہ تھے۔ جن میں ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے موریسیو پرکارا(Mauricio Percara)، مصر کے صلاح ابو زید، موریطانیہ کے عبد الرحمان، سوڈان کے اُسامہ، الجزائر کے لطفی، افغانستان کے جان روان زازئی پاکستانی کھانوں کی لذت کے اسیر تھے۔

ہوٹل سے واپسی پر ہمارا عموماً یہ معمول تھا کہ ہم ہر بارسائیکل پر بیجنگ کے مختلف حصوں کو دیکھیں۔ اس سائیکلنگ یاترا کے دوران ہم اکثر بیجنگ کی مصروف ترین اہم شاہراہوں میں سے ایک پر ناک کی سیدھ میں سفرکرتے۔ بیجنگ شہر کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ایک منظم انداز میں بسا ہوا شہرہے۔

یہاں اہم عمارات، ہوٹلز، سیاحتی مقامات، عوامی پارکس بالعموم سب ویز یا پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے منسلک ہیں۔جب ہم ان تعطیلات کے دوران سائیکلنگ کرتے تو بیجنگ کے تمام عوامی مقامات پر عوام کا ہجوم ہوتا۔لیکن بیجنگ کی اکثرمصروف ترین شاہراہوں پر سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف میں سائیکل لین کی موجودگی سے سائیکل سواروں کوبہت آسانی ہوتی۔ ہم سڑک پر موجود رش سے بے نیاز آہستہ آہستہ اردگرد کی عمارات کو دیکھتے آگے بڑھتے چلے جاتے۔ ہمیں ایک بار سائیکلنگ کا سب سے زیادہ فائدہ تیان من سکوائر پر ہوا ۔ وہاں لوگوں کا ایک ہجوم اندر داخلے کے لیے قطار میں کھڑا تھا۔جبکہ سائیکل لین میں اس لمحے ہم دونوں ہی تھے۔ ہم سائیکلز سے اترے اور وہیں کھڑے کھڑے ہجوم کی جانب دیکھا۔ سکون اور تسلی سے عمارات کے بیرونی مناظر دیکھے۔

اپنی باری کاانتظار کرتے لوگوں کو دیکھا۔پولیس کو نجی گاڑیوں کومخصوص روٹ پر چلنے اور غیر ضروری قیام سے روکنے کی ہدایات دیتے دیکھا ۔ جبکہ ہم اپنی دونوں طرف موجود عوام کی ایک کثیر تعداد،گاڑیوں کے رش کے باوجود مخصوص سائیکل لین میں بڑے مزے سے ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے آگے بڑھتے چلے گئے۔سائیکل پر سواری کا صحیح لطف اس دن آیا۔اس دن بیجنگ کو صحیح معنوں میں دیکھا۔اس روز پورے سات ساڑھے سات گھنٹے کی سائیکلنگ میںمجال ہے کہ کہیں کوئی ٹوٹی سڑک، گندگی یا کہیں سڑک پرپانی کھڑا نظرا ٓیا ہو۔ اور کمال کی بات ہے کہ یہ سار ا سفر چین کے تیارکردہ بیدو میپ سے کیا اور ہم اس کی ہدایات پر عمل کرتے کرتے درست اپنی منزل پر پہنچے۔

واپسی پر ہم نے دوسرا روٹ اختیار کیا اور بیجنگ میں موجود شاہی ادوار کی عمارات،بیجنگ فارن سڈیز یونیورسٹی کے پاس سے گزرتے ہوئے ، بیجنگ شہر میں رواں دواں نہر کو کراس کیا ، اوور ہیڈ بریجز (بالائی گزرگاہ) کے نیچے سے گزرے،قدیم محلوں اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے جدید و ترقی یافتہ بیجنگ میں موجود روایتی راستوں سے گزرے، بیجنگ کی جدید طرزِ زندگی کے ساتھ قدیم گھروں میں مقیم شہریوں کو بھی سرسری انداز سے دیکھا جو کہ خاموشی سے اس کاسمو پولیٹن شہر میں موجود سماجی طبقاتی تغیرات کو بیان کر رہے تھے۔سائیکلنگ کا یہ سفر اس حوالے سے بھی یادگار تھا کہ اس میں ہمیں بیجنگ شہر میں موجود کئی ایک سینما گھروں کے بارے میں پتا چلا اور دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ ہم جو فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہیں ابھی تک کسی چینی سینما ہی نہیں گئے۔

(جاری ہے)

The post شیئرڈ بائیسکل کا تصور پانچ چینی طالب علموں نے متعارف کرایا appeared first on ایکسپریس اردو.


شہزادہ محمد بن سلمان اصلاح پسند ہیں؟

$
0
0

چوبیس مارچ 2018ء  کو عرب دنیا کے معروف ترین ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ میں ایک پروگرام ’’اپ فرنٹ‘‘ نشر ہوا۔ اس میں تین مہمانوں کو بلایا گیا تھا، جن میں ایک سعودی صحافی جمال خشوگی بھی تھے جنہیں چند ہفتے قبل استنبول (ترکی) میں قائم سعودی قونصلیٹ میں مبینہ طور پر قتل کردیاگیا، بعدازاں ان کی لاش کو قونصل جنرل کی رہائش گاہ کے قریب ایک خالی جگہ پر دبا دیا گیا۔

ٹی وی پروگرام میں ایک اہم ترین سوال پر بحث ہو رہی تھی کہ کیا 32 سالہ  سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان واقعی اصلاح پسند (ریفارمر) ہیں؟ دراصل ان دنوں ’’ایم بی ایس‘‘ (مغربی دنیا میں محمد بن سلمان کو اسی نام سے لکھا اور پکاراجاتا ہے) مختلف ممالک کے دوروں پر جا رہے تھے اور وہاں ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اپنے ملک میںکرپشن کے خلاف مہم چلانے اور خواتین کے حق میں اصلاحات متعارف کرانے والے ہیں۔

ایسے میں بعض لوگوں نے بن سلمان کو ’’انقلابی‘‘ قرار دینا شروع کر دیا لیکن انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والوں نے ایم بی ایس کے بعض اقدامات پر تحفظات ظاہر کرنا شروع کردیے جن کے تحت وہ اپنے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جبکہ ان کے مطابق یمن میں ہونے والے  جنگی جرائم میں بھی ایم بی ایس  کے احکامات کے تحت کیے جا رہے ہیں۔

ٹی وی پروگرام میں جمال خشوگی (جنھوں نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی تھی اور اُن دنوں امریکا میں قیام پذیر تھے) نے بتایا کہ سعودی عرب میں بڑی تعداد میں سعودی علما، دانشور اور صحافی جیلوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں، یہ محمد بن سلمان ہی تھے جنھوں نے  بطور ولی عہد منصب سنبھالنے کے فوراً بعد چار وزراء اور گیارہ شہزادوں کو قید میں ڈال دیا۔ اگرچہ انہوں نے تاثر دیا کہ ان لوگوں کی گرفتاری کا سبب بدعنوانی ہے تاہم ان کے اس دعوے کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

نقاد محمد بن سلمان کو اقتدار کا بھوکا تصور کرتے ہیں، اس ہوس میں وہ اپنے خاندان کے متعدد اہم اور موثر افراد کو عتاب کا شکارکر چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق خاندانی اور کاروباری شخصیات کی تعداد قریباً 200 ہے۔ انھیں تب رہائی ملی جب انھوں نے اربوں ریال ولی عہد کے قائم کردہ انسداد بدعنوانی بورڈ کے حوالے کئے۔

یاد رہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ملک کے بادشاہ بنے تو محمد بن سلمان  اقتدار کی سیڑھی میں تیسرے نمبر پر کھڑے تھے لیکن وہ زیادہ انتظار نہ کر سکے، اپنے والد سے شاہی فرمان جاری کرایا، ولی عہد محمد بن نائف کو برطرف کرایا اور خود جون 2017ء میں ولی عہد کی کرسی پر جا بیٹھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد انھوں نے بادشاہ کے اختیارات بھی استعمال کرنا شروع کر دیے، ان سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی۔

محمد بن سلمان نے اقتدار سنبھالتے ہی 2030ء کا منصوبہ متعارف کرایا۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس منصوبے میں مخالفین کو ٹھکانے لگانا بھی شامل ہے۔ انھوں نے اس منصوبے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا دیا۔ اس باب میں وہ امام مسجد الحرام اور امام مسجد نبوی کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ اگست 2018ء میں امام مسجد الحرام الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد الطالب کے بارے میں خبریں منظرعام پر آئیں کہ انھیں محض اس بنیاد پر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاگیا کہ انھوں نے کنسرٹس اور دیگر تفریحی تقریبات میں مرد وزن کی  مخلوط محافل کو خلاف شریعت قرار دیا تھا حالانکہ انھوں نے اپنے خطبہ میں شاہی خاندان کو براہ راست بالکل بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا۔

سعودی حکام کا خیال تھا کہ امام مسجدالحرام کے اس خطاب کا سبب حکومت کی طرف سے قوانین میں وہ نرمی تھی جس کے نتیجے میںخواتین کو مردوں کی تقریبات میں شرکت کی اجازت دیدی گئی تھی۔ الشیخ ڈاکٹرصالح بن محمد الطالب کی گرفتاری کی خبریں سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچیں، تاہم انھیں تقویت تب ملی جب الشیخ ڈاکٹرصالح بن محمد الطالب کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کر دیے گئے۔

گرفتار ہونے والے دیگرسکالرز میں سلمان العودہ بھی ہیں، عواد القرنی بھی ہیں، فرحان المالکی، مصطفیٰ حسن اور سفرالحوالی بھی ہیں۔ سلمان العودہ اور عواد القرنی کو سوشل میڈیا پر پسند کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انھیں ستمبر 2017ء میں گرفتارکیا گیا، الزام عائد کیاگیا کہ ان کے اخوان المسلمون سے تعلقات ہیں۔ یاد رہے کہ اخوان المسلمون کو سعودی حکومت نے بلیک لسٹ کیا ہوا اور دہشت گرد قراردیا ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنے میں سعودی عرب مسلسل ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ 68 سالہ سفرالحوالی کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ انھوں نے 3000 صفحات پر مشتمل ایک کتاب مسلمانوں اور جدید تہذیب کے موضوع پر لکھی جس میں محمد بن سلمان اور حکمران خاندان کے اسرائیل سے تعلقات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرکے آل سعود غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سال کے آغاز میں ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیل سے متعلق سعودی موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق حاصل ہے۔ امریکی اخباری جریدے دی اٹلانٹک سے بات کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے بظاہر اس متنازع خطے پر اسرائیلی اور فلسطینی دعوؤں کو برابر قرار دیا تھا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہودی لوگوں کو اپنے قدیمی آبائی علاقوں میں کم از کم جزوی طور پر ایک خود مختار ریاست کا حق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک پرامن ریاست میں رہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اپنی اپنی زمین کا حق حاصل ہے مگر ہمیں نارمل تعلقات اور سب کے لیے استحکام کے لیے ایک امن معاہدے کو یقینی بنانا ہوگا۔‘‘

انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انھیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ رہنے پر کوئی مذہبی اعتراض نہیں جب تک کہ یروشلم کی مسجدالقدس محفوظ ہو۔ انھوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ مارچ 2018ء میں سعودی عرب نے بھارتی ائیرلائن کمپنی کو اسرائیل جانے کے لئے سعودی فضاؤں کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ اسی طرح اپریل 2018ء میں محمد بن سلمان نے فلسطینیوں پر زور دیا تھا کہ انھیں مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کی تجاویز کو تسلیم کر لینا چاہئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں نے ایک طویل عرصہ سے امن کے یکے بعد دیگرے مواقع ضائع کیے ہیں، اب انھیں  رونا دھونا بند کرنا چاہئے۔ اس تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات کس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان  اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کس قدر بے چین ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ برس ستمبر میں  اسرائیل کا ایک خفیہ دورہ بھی کرچکے ہیں، جس کی تصدیق ایک اسرائیلی سرکاری افسر نے (اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر) اس خبر کی تصدیق کی تھی۔ اسے اسرائیلی اور عرب میڈیا نے نمایاں اندازمیں شائع کیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیر برائے ٹرانسپورٹیشن  اینڈ انٹیلی جنس یسرائیل کاتز نے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے کہا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو سعودی دارالحکومت ریاض بلائیں اور اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  شاید یہ  دن جلد آنے والاہے۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے  یحییٰ السری کا کہنا ہے کہ سعودی حکام ہر نمایاں شخصیت پر کڑی نظر رکھتے ہیں، حتیٰ کہ ان لوگوں پر بھی جو خاموش رہتے ہیں اور شاہی حکومت کے حامی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں جو سعودی حکومت اور اس کے اقدامات کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اب تک شاہی خاندان کے مختلف افراد کے علاوہ ملک بھر سے درجنوں آئمہ حضرات اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں اب کوئی فرد بھی محمد بن سلمان کی طرف سے متعارف کی جانے والی اصلاحات کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ تاہم جمال خشوگی نے کہا تھا کہ  ایم بی ایس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ تنقید کرنے والوں کو سعودی عرب میں سانس لینے کا موقع دیں۔ اسی طرح سعودی میڈیا، دانشوروں اور لکھاریوں کو اصلاحات کے موضوع پر بحث و مباحثہ کرنے کی اجازت دیں۔

خشوگی نے پروگرام میں بتایا کہ محمد بن سلمان نے 500 ارب ڈالرز سے دارالحکومت ریاض کے قریب ایک نیا شہر ’’نیوم‘‘ بسانے کا فیصلہ کیا ہے، جو تفریحی شہر ہوگا۔ اس متنازعہ منصوبے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محمد بن سلمان کس راستے پر گامزن ہیں۔ یہ شہر صوبہ تبوک میں بن رہا ہے، اگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا لیکن کسی کو بھی اس منصوبے سے متعلق حقیقت پسندانہ تجزیہ لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ’’نیوم‘‘ 344 مربع کلومیٹر رقبے پر واقع ہوگا، اس میں کھیلوں کے میدان اور ثقافتی مراکز بھی ہوں گے، یہ شہر سن 2022ء تک تکمیل کو پہنچے گا۔

دوسری طرف آل سعود خاندان بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان کو یمن میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے عالمی اداروں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک یمن میں 6000 عام شہری جنگ کا لقمہ بن چکے ہیں، ان میں سے 60 فیصد  سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

اس تناظر میں شہزادہ محمد بن سلمان پہلے ہی خطے میں شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھے جاتے تھے لیکن حال ہی میں جمال خشوگی کے قتل کے بعد پوری دنیا بالخصوص عرب دنیا کے لوگوں کی نظریں ان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ سعودی صحافی کو شہزادہ محمد بن سلمان ہی کے حکم پر قتل کیا گیا ہے۔ ترک حکومت نے سعودی حکومت پر زوردیا ہے کہ وہ اس شخصیت کا نام بتائے جس کے حکم پر یہ واقعہ ہوا، ترک صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ جمال خشوگی کی نعش کی بابت معلومات بھی فراہم کرے۔

گزشتہ موسم گرما میں محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کو سعودی عرب واپس لانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جمال خشوگی کو اپنے لئے خطرناک کیوں سمجھتے تھے؟ اس کا جواب نہایت سادہ ہے کہ وہ ایسے صحافی تھے جو قابو نہیں آ رہے تھے۔ انھیں خوفزدہ کرنا بھی مشکل تھا اور  رام کرنا بھی۔ اپنی بات پر ڈٹ جانے والا  یہ صحافی اس ’’سرخ لکیر‘‘ کو کبھی خاطر میں نہ لایا جو سعودی حکمرانوں نے کھینچ رکھی تھی۔

محمد بن سلمان ہر اس فرد کو غائب کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو ان کے منصوبوں (بالخصوص نئے شہر ’’نیوم‘‘) کی راہ میں رکاوٹ بنے۔  وہ مشرق وسطیٰ میں یورپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جمال خشوگی نے متعدد پروگراموں میں اس منصوبے کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ اب نقاد محمد بن سلمان سے پوچھ رہے ہیں کہ یورپ اس مرحلے تک آزادی اور برداشت کو روا رکھ کر پہنچا، ان کا اپنا رویہ کیسا ہے؟ یورپ میں تو مشکل پیدا کرنے والے صحافیوں کو قتل نہیں کیا جاتا، انھیں اپنی ’’حوالگی‘‘ میں لینے کا حکم نہ دیا جاتا۔

The post شہزادہ محمد بن سلمان اصلاح پسند ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہاتھیوں کا یتیم خانہ، مینگروز کی سُرنگیں، دریا کے بیچوں بیچ دکانیں

$
0
0

ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے؟ کیسے ہونا ہے؟ کب ہونا ہے؟ یہ سب پہلے سے ہی لکھ دیا گیا ہے۔ اِنسان اپنی زندگی میں کیا کچھ سوچتا ہے، کیا کیا منصوبے بناتا ہے لیکن، ہوتا وہی ہے جو اوپر والا چاہتا ہے۔

ناچیز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب میں نے ایک دوست کے ساتھ رواں برس ترکی دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ویزا مسائل کی وجہ سے ترکی کا پروگرام کینسل ہوا اور انڈونیشیا کا اِرادہ کیا۔ چند مجبوریوں کی بِنا پر اس کو بھی چھوڑنا پڑا کیوںکہ اللہ پاک نے ہماری قسمت میں سیلون کی چائے لکھ چھوڑی تھی۔ سیلون یعنی سری لنکا کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھا اور چوںکہ یہ ہمارا دوست ملک ہے۔ اِس لیے وہاں جانے کا قصد کیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا بیرون ملک سفر تھا۔ اس لیے جوش اور بے قراری بھی عروج پر تھی۔

دن کاٹے نہ کٹتے تھے اور راتیں بھی تارے گِن گِن کر گزارنی پڑتی تھیں۔ اٹھتے بیٹھتے صرف سیلون کا ذِکر۔ خواب بی آتے تو اس میں بھی ناشپاتی جیسا یہ جزیرہ نظر آتا۔ آخر مہینوں کے انتظار کے بعد وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب تیکھے نقوش والی، مورپنکھ سری لنکن ساڑھی میں ملبوس ایک سانولی سی دوشیزہ نے “آئی بو آن’’(آپ کی عمر دراز ہو) کہہ کر سری لنکن ایئر لائن کی پرواز میں ہمارا استقبال کیا۔ ہماری لاہور سے کولمبو کی فلائیٹ تقریباً ساڑھے تین گھنٹوں پر محیط تھی۔ پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر جب جہاز نے ’’بندرانائیکے انٹرنیشنل’’ کے رن وے کو چھوا تو ایک خوش گوار کیفیت حواس پر طاری ہو گئی۔

یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ جانے سے پہلے سری لنکا کے بارے میں میرے خیالات بالکل ویسے تھے جیسے جنوبی ایشیا کی کسی بھی ریاست کے بارے میں ہو سکتے ہیں۔ یعنی اندھیر نگری۔ لیکن سری لنکا کے پہلے نظارے نے ہی میری توقعات کا محل زمین بوس کر دیا۔ بندرانائیکے انٹرنیشنل ایئرپورٹ دنیا بھر کے سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سے لوگ سری لنکا اْمڈ آئے تھے جو مجھے یہ باور کرانے کے لیے کافی تھے کہ اس ملک میں کچھ تو خاص ہے۔

سری لنکا کے چوتھے وزیرِاعظم کے نام پر رکھا گیا بندرا نائیکے انٹرنیشنل ایئرپورٹ، جنوبی ایشیا کے اس چھوٹے سے جزیرے کا سب سے بڑا اور مرکزی ایئرپورٹ ہے جو نہ صرف سری لنکن پرچم بردار قومی فضائی کمپنی ’’سری لنکن ایئرلائن’’ بلکہ مقامی کمپنی سینامون (Cinnamon) کی پروازوں کا بھی گڑھ ہے۔

یہ ایئرپورٹ صدر مقام کولمبو سے 32 کلومیٹر شمال میں ’’نیگومبو‘‘ نامی شہر میں واقع ہے۔

اب میں آپ کی اس سحر انگیز سر زمین سے ملاقات کرواتا ہوں۔

ہِند ساگر کا یہ چھوٹا سا جزیرہ جسے ’’ مشرق کا آنسو‘‘، ’’سراندیپ‘‘، ’’سیلون‘‘، ’’رتنا دیپ‘‘ اور ’’بحرِہند کا موتی‘‘ سمیت نہ جانے کتنے ناموں سے پُکارا جاتا رہا ہے، بھارت کے جنوب مشرق میں خطِ اِستوا سے کچھ درجے شمال میں واقع ہے۔ ’’خلیجِ منار‘‘ اور ’’آبنائے پالک‘‘ اسے بھارت کے جنوبی حصے سے جُدا کرتی ہیں۔ یہ دنیا کا 24 واں بڑا جزیرہ ہے۔ سری لنکا کا پورا اور سرکاری نام ’’جمہوری و اِشتراکی جمہوریہ سری لنکا‘‘ ہے جس کا کْل رقبہ 65،610 مربع کلومیٹر ہے۔ زیادہ سے زیادہ لمبائی 432 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 224 کلومیٹر ہے۔ جزیرے کی آبادی لگ بھگ سوا دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ اِن میں 70 فی صد بدھ مت کے ماننے والے، 12 فی صد ہندو، 10 فی صد مسلمان ، 7 فی صد عیسائی اور بقیہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں۔

ملک کو 9 مختلف صوبوں اور 25 ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ملک کے شمالی کونے میں سری لنکن تامل، مشرق میں سری لنکن مُور، انڈین تامل جنوب وسطی جب کہ سنہالی ملک کے جنوب، مغرب اور وسطی حِصے میں آباد ہیں۔ سنہالی ملک کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہیں۔ تامل اور سنہالی قومی زبانیں ہیں، جب کہ انگریزی بھی بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کولمبو وفاقی دارالحکومت ہے۔

سری لنکا کی تاریخ بہت پرانی ہے جس میں لگ بھگ 2،550 سال کی تاریخ باقاعدہ طور پر تسلسل کے ساتھ کاغذ کے سینے میں محفوظ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس جزیرے کی تاریخ ہمیں قدیم ہندوستانی کتابوں اور ویدوں جیسے رامائن میں بھی ملتی ہے جس میں اس جزیرے کو ’’لنکا’’ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب آسمان سے زمین پر بھیجے گئے تو ’’سراندیپ‘‘ میں انھوں نے پہلا قدم رکھا جس کا نشان سری لنکا کے پہاڑ ’’آدم کی چوٹی‘‘ (ADAM’S Peak) پر پائے جانے کی روایات ملتی ہیں۔ اس پہاڑ کی بلندی 797 فٹ ہے اور روایات کے مطابق یہاں حضرت آدم علیہ السلام کے قدم کا نشان بھی موجود ہے، جسے بدھ اور ہندو بھی اپنے اپنے نجات دہندہ کا نشان مان کر پوجتے ہیں۔

6 صدی قبلِ مسیح میں اس جزیرے پر سنہالیوں کی آمد شروع ہوئی۔ امکان غالب ہے کہ یہ ہندوستان سے یہاں آئے تھے۔ اس سے قبل 3 صدی قبلِ مسیح میں بدھ اِزم یہاں متعارف ہو چکا تھا، جس کے بطن سے بڑی بڑی اور عظیم تہذیبوں نے جنم لیا جو انورادھا پورا (200 قبلِ مسیح سے 1000) اور پولونارووا (1070 تا 1200) کے علاقوں میں واقع تھیں۔ ان کے علاوہ گمپولا، کینڈی اور جافنا کی سلطنتیں بھی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔

پرتگالی سب سے پہلی قوم تھی جس نے 1505 میں اس جزیرے پر نوآبادیاتی نظام قائم کیا۔ سولہویں صدی میں پرتگیزی قبضے کے بعد اس خوب صورت جزیرے اور اس کے وسائل پر ولندیزیوں کی رال ٹپکی اور یوں بحرِہند کا موتی 1658 میں یورپ کے اس ظالم سنار کی جھولی میں آن گِرا۔ 1796 میں جزیرے کا کچھ ساحلی حِصہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اور آہستہ آہستہ 1815 میں سری لنکا تاجِ برطانیہ کا حصہ بن گیا۔

اہم بحری راستوں کے سنگم پر ہونے کی بدولت سری لنکا مختلف ایشیائی تہذیبوں اور خِطوں کی ثقافت سے روشناس ہوا۔ قدیم یونانی جغرافیہ دانوں نے اسے ’’ٹیپروبین‘‘ کے نام سے پکارا جب کہ عربوں نے اسے ’’سراندیپ‘‘ کے نام سے یاد کیا۔ انگریزوں نے اسے مشہورِ زمانہ ’’سیلون‘‘ کا لقب دیا۔ 1948 میں اپنی آزادی کے 24 سال بعد، 1972 میں سیلون کا نام دوبارہ سری لنکا رکھ دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سری لنکا ایشیا کا وہ واحد ملک ہے جس پر تینوں بڑی یورپی طاقتوں ( پرتگیزی، ڈچ، برطانوی) نے ایک کے بعد ایک حکومت کی۔

سری لنکا کی تاریخ کا سب سے سیاہ دور 1983 سے 2009 کی خانہ جنگی کا ہے۔ جب ملک کے شمالی اور مشرقی حصوں میں ’’تامل ٹائیگرز‘‘ نے تباہی مچارکھی تھی۔ 26 سال کی متواتر گوریلا کارروائیوں کے بعد 19 مئی 2009 کو یہ جنگ، تامل ٹائیگرز کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اپنے اِختتام کو پہنچی اور سری لنکا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں کے عوام آج بھی اس خونی جنگ کے ذکر سے لرز جاتے ہیں۔ آپ کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ پاکستان نے اس جنگ میں سری لنکن حکومت کی بہت مدد کی۔ حکومتِ پاکستان نے نہ صرف سری لنکن فوج کو ہتھیار فراہم کیے بلکہ جدید خطوط پر انکی تربیت کا بھی اہتمام کیا۔ سری لنکن آج بھی اس بات پر پاکستان کے شکرگزار ہیں۔

یہاں سے میں اپنی داستانِ لنکا شروع کرنا چاہوں گا۔ بندرانائیکے انٹرنیشنل سے ہم اپنے گائیڈ کے ہمراہ سیلون کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ ہم نے ایئرپورٹ سے ہی تازہ دم ہو کر کینڈی کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ پہلی ہی نظر میں اس ملک کی خوب صورتی آنکھوں کے راستے روح میں اْتر گئی۔ سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے دھان کے کھیت، پام کے اونچے اونچے درخت، کیلے اور انناس کے باغات، تاحدِ نگاہ پھیلا گیلا سبزہ، چھوٹے بڑے ندی نالے، بادلوں بھرا نیلگوں آسمان، صاف ستھرے مکان اور ان سب کے بیچ گزرتی تارکول کی پتلی سی مگر پُختہ سڑک۔ جیسے جیسے ہم شمال مشرق کی جانب بڑھتے جا رہے تھے، زمین سطحِ سمندر سے بلند ہوتی جا رہی تھی، سبزہ اور گھنا جب کہ ہوا میں خنکی بھی بڑھ رہی تھی۔ دِن کے کوئی دس بجے ہم کیگالی سے ہوتے ہوئے ’’پینّاوالا‘‘ پہنچ گئے۔

پینّاوالا، ضلع کیگالی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو لبِِ دریا واقع ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا ہاتھیوں کا یتیم خانہ (Pinnawala Elephant Orphanage) ہے جہاں تین نسلوں کے لاوارث، یتیم اور معزورہاتھی حکومتی سرپرستی میں پرورش پا رہے ہیں۔ 25 ایکڑوں پر محیط اس نیشنل پارک کو محکمۂ جنگلی حیات نے 1975 میں جنگلی اور آوارہ ہاتھیوں کے تحفظ اور بہتر پرورش کے لیے بنایا تھا۔

یہاں داخل ہوتے ہی حیرت انگیز نظارہ دیکھنے کو ملا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھی یہاں وہاں آزادانہ دوڑ رہے تھے جب کہ کچھ کو بوتل سے دودھ پِلایا جا رہا تھا۔ خُدا کی قدرت کا نظارہ یہاں اپنے عروج پر تھا۔ پھر کچھ فاصلے پر دریائے ’’اویا’’ واقع ہے جہاں دن میں دو دفعہ اس نرم اور عظیم الجثہ مخلوق کو نہلایا جاتا ہے۔ صبح10 بجے اور دوپہر2 بجے یہ ہاتھی مہاوتوں کی زیرِنگرانی پارک سے نکل کر، شہر کے بازاروں میں پریڈ کرتے اور دھماچوکڑی مچاتے ہوئے دریا تک جا پہنچتے ہیں۔ جہاں ایک پمپ سے پانی کی تیز دھار ان پر ماری جاتی ہے۔ کچھ ہاتھیوں کو دریا میں لٹا کر برش سے رگڑ کر نہلایا جاتا ہے۔ یہ دریا زیادہ گہرا نہیں ہے۔ ہاتھی مزے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس غُسل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح یہ نظارہ دیکھنے دریائے اویا کے کنارے جمع تھے۔ سب اس حقیقت سے واقف تھے کہ دنیا میں یہ نظارہ شاید ہی کہیں اور دیکھا جا سکے۔ یہاں مختلف دکانوں پر ہاتھیوں کے مجسمے، کی چین، تصاویر اور پرنٹد شرٹس فروخت کی جا رہی تھیں جنہیں سیاح بس دیکھ کر ہی آہیں بھر رہے تھے۔ اگرچہ سری لنکا کی کرنسی پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے (ان دنوں ایک سری لنکن روپے 160 امریکی ڈالر کے برابر تھا) لیکن یہاں منہگائی اپنے عروج پر ہے۔ ہم پاکستانی جو اپنے ملک میں منہگائی کا رونا روتے نہیں تھکتے یہاں آکر اپنے ملک کو نہایت سستا خیال کرتے ہیں۔

پینّاوالا کے بعد ہماری اگلی منزل وسطی سری لنکا کا خوب صورت پہاڑی شہر ’’کینڈی‘‘ تھا۔ کینڈی کو جانے والے پہاڑی راستے سری لنکا کے حسین ترین راستوں میں سے ہیں۔ صاف ستھرے اور گھنے درختوں سے اٹے ہوئے۔ سری لنکا میں کچرا وہ واحد چیز تھی جو بہت تلاش کے بعد ہی کہیں ملتی تھی۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ سری لنکن قوم جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، باشعور، وقت کی پابند، صاف ستھری اور قانون پسند قوم ہے۔ زیادہ تر افراد متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی آمدنی کا انحصار زرعی اجناس اور پھلوں پر ہوتا ہے۔ یہاں بھی پاکستان کی طرح جگہ جگہ سڑک کنارے رنگ برنگے پھلوں کے ٹھیلے نظر آتے ہیں۔

خیر تو بات ہو رہی تھی کینڈی کی۔

کینڈی کی سلطنت برٹش راج سے پہلے سری لنکا کی آخری سلطنت تھی جس پر ’’شری وکرما راجاسنگھے‘‘ نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔ 1815 میں اس سلطنت کا خاتمہ ہوا اور کینڈٰی سلطنت انگریزوں کے زیرِانتظام آگئی۔ کینڈی شہر اس کا دارالسلطنت تھا۔

سطح مرتفع کینڈی، کوہِ نکلس اور کوہِ ہتانا کی پہاڑیوں کے سنگم پر واقع وسطی صوبے کے اس صدر مقام کو سری لنکا کے سب سے بڑے دریا ’’ماہاویلی‘‘ نے گھیر رکھا ہے۔ یہ شہر سری لنکن ثقافت، ادب، فنونِ لطیفہ، موسیقی، رقص اور روحانیت کا مرکز ہے۔ یہ ثقافت قدیم شاہی دور میں خوب پھلی پھولی ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ کینڈی شہر سیلون کے جسم میں دِل کی مانند دھڑکتا ہے۔ یہ شہر دیکھنے والے کو بہت کچھ پیش کرتا ہے۔ ولندیزی اور انگریزی دور کی خوب صورت شاہ کار عمارتیں اس شہر کی پہچان ہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے انسان قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں گھوم رہا ہو۔ کینڈی کا رقبہ 27 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 125,400 افراد پر مشتمل ہے اور یہ شہر 500 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔ یہ شہر سری لنکا کی آخری شاہی سلطنت ’’کینڈی کنگڈم‘‘ کا پایۂ تخت تھا۔ شہر کے عین وسط میں 1807 میں شری وکرما راجاسنگھے کی بنائی گئی کینڈی جھیل واقع ہے جسے مقامی لوگ ’’دودھ کا سمندر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ شفاف پانی کی یہ جھیل دیکھنے والے کی نظر کو قید کر لیتی ہے۔ اسی جھیل کے کنارے کینڈی کی سب سے مشہور جگہ ’’مقدس دانت کا مندر‘‘ (Temple Of The Sacred Tooth) واقع ہے۔

’’شری دالدا مالی گاوا‘‘ یا متبرک دانت کا مندر، نہ صرف سری لنکا بلکہ بدھ مذہب کا مقدس ترین مندر ہے جسے 1988 میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ یہ مندر سیلونی ورثے کے جڑاؤ تاج میں ایک بیش قیمت نگینے کی طرح جگمگا رہا ہے۔ اس مندر کو باہر سے ہی دیکھ کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ کسی قدیم بدھ سلطنت میں آ پہنچے ہیں۔ جگہ جگہ لہراتا پانچ رنگوں پر مشتمل بدھ مت کا پرچم اور آسن جمائے گوتم بدھ ہر جگہ آپ کا دل کھول کر استقبال کرتے ہیں۔ مندر میں زائرین اور سیاحوں کو مکمل لباس پہن کر ہی جانے دیا جاتا ہے۔

کئی یورپی سیاح یہاں نیکروں کے اوپر سری لنکن لنگی (جومندر کے دروازے سے بہ آسانی مل جاتی ہے) پہنے ہوئے ملتے ہیں۔ مندر کے اندر جگہ جگہ آپ کو پھول بیچنے والے ملیں گے۔ بُدھ مذہب میں عبادت کے دوران بُدھا کو چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے، جس میں پھولوں کے علاوہ دودھ، شربت، پھل اور مٹھائیاں شامل ہیں۔ اس مندر کی تعمیر میں قدامت اور جِدت ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ جہاں پُرانے ساگوان کی لکڑی کی چھتیں، قدیم طرز کے نقش و نگار، پتھروں کی مورتیاں اور چوبی دریچے ملتے ہیں، وہیں شطرنجی فرش، بیش قیمت قندیلیں، جالی دار پردے اور دیواروں پر ٹنگی نت نئی قد آور تصاویر بھی اپنی بہار دِکھا رہی ہیں۔ مندر میں جگہ جگہ ہاتھی دانت اور گوتم بُدھا کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ ایک بڑا ہال عبادت کے لیے مختص ہے جہاں کیسری رنگ کا لباس پہنے بدھ بھکشو چوکڑی مار کر اپنی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔ اب بات چِھڑ ہی گئی ہے تو آپ کو ان کی عبادت کا طریقہ بھی بتائے دیتے ہیں۔

بدھ مت میں عبادت زیادہ تر غوروفکر اور مراقبے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ آنکھیں بند کر کے دھیان لگاتے ہیں اور مخصوص منتروں کا جاپ کرتے ہیں۔ ان کی عبادت ہندوؤں سے مشابہت ضرور رکھتی ہے لیکن اُن سے مختلف ہے۔ یہ خدا سے نہیں مانگتے نہ اس کی رحمانیت کو پُکارتے ہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ ایشورتا یا رحمانیت انسان کے اندر ہوتی ہے۔ یہ گوتم بدھ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے تصوف کو جگانے کی کوشِش کرتے ہیں۔ یہی ان کی عبادت کا حاصل ہے۔ بدھسٹ دن میں دو بار عبادت کرتے ہیں۔ صُبح اور سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بدھ ازم میں کسی خاص چیز کے کھانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن زیادہ تر لوگ گوشت (ماسوائے مچھلی اور مرغی کے) کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ تبھی ہمیں سری لنکا میں کتوں، بندروں اور چوہوں کی بہتات نظر آتی ہے۔

چہار جانب سے تالاب میں گِھرے اس مندر سے باہر نکلیں تو ساتھ ہی کینڈی کا شاہی محل جلوہ افروز ہے۔ اس محل کا مرکزی حصہ ہی باقی بچا ہے۔ یہ محل اور مندر ایک ہی کمپلیکس کا حِصہ ہیں جس میں ایک میوزیم اور پگوڈا بھی شامل ہیں۔ یہاں کی قدیم روایات کی مطابق ریاست کا راجا ہی ان متبرک مقامات کا محافظ ہوتا ہے۔ جس دن ہم اس مندر کو دیکھنے گئے اسی دن تھائی لینڈ کے وزیرِاعظم بھی اس مندر کے دورے پر تھے، لیکن کیا مجال کہ کوئی پروٹوکول، ٹریفک بلاک، دھکم پیل نظر آئی ہو۔ اپنے وطن کی بہت یاد آئی کہ وہاں حالات ہی کچھ اور ہیں۔ شاید اسی لیے یہ قوم ہم سے بہت آگے ہے۔

اْس شام ہمیں کینڈی اور سیلون کی ثقافت کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع ملا۔ گائیڈ نے بتایا کہ آج شام 5 بجے یہاں ایک ’’کلچرل ڈانس شو‘‘ ہے جو کینڈی کی ریڈکراس بلڈنگ میں منعقد ہونا تھا۔ ہم نے ٹکٹ خریدے اور ہال میں جا بیٹھے۔ پورے ہال میں ہم دو کے علاوہ کوئی ایشیائی باشندہ نہیں تھا۔ یورپی باشندے یہ پروگرام دیکھنے کے لیے امڈ آئے تھے۔ یہاں کینڈین اور جنوبی سری لنکا کے مختلف رقص پیش کیے گئے، جن کا احوال آگے پیش کروں گا۔ شام کینڈی شہر میں آوارہ گردی کرتے گزری۔ کینڈی کلاک ٹاور اور مختلف چھوٹے چھوٹے مندر اور چرچ دیکھتے دیکھتے رات آن پہنچی۔ کینڈی کی رات کسی یورپی شہر سے کم نہ تھی۔

روشنی میں نہائی برٹش اور ڈِچ طرز کی پرانی عمارتیں، کینڈی کی سُرخ رنگ کی نئی نویلی بسیں، صاف سُتھری سڑکیں، دور پہاڑی پر آسن جمائے بُدھا کا وشال مجسمہ، کینڈی کی جھیل میں جگمگ کرتی روشنیاں، چھوٹے چھوٹے چرچ، منہگے ہوٹل اور ریستوراں، لہراتے ہوئے سیلونی پرچم اور اوپر سے ہلکی ہلکی رِم جھم کے ساتھ ٹھنڈی ہوائیں، کینڈی کسی خواب سے بالکل بھی کم نہ تھا۔

اگلے دن کے پروگرام میں سیفانی اور پیرادینیا کا شاہی باغ شامل تھا۔ سب سے پہلے ہم سیفانی کے مرکزی اسٹور پر گئے۔ سیفانی، سری لنکا کا مشہور ترین جواہرات اور زیورات کا برانڈ ہے۔ ان کے مرکزی اسٹور کی بالائی منزل پر سیاحوں کے لیے ایک قیمتی پتھروں کا میوزیم اور ایک چھوٹا آڈیٹوریم بنا ہے جہاں سیاحوں کو سری لنکن جواہرات اور پتھروں کی تاریخ پر بنی ایک ڈاکیومنٹری دکھائی جاتی ہے۔ میوزیم میں برازیل ، مراکش، آسٹریلیا، پیرو، جنوبی افریقہ، کولمبیا، سری لنکا، کانگو، مڈغاسکر، انڈیا اور برما سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر رکھے گئے ہیں۔ یہاں دکھائی جانے والی ڈاکیومنٹری کے مطابق سری لنکا کو ’’رتنا دیپا‘‘ یعنی جواہرات کا جزیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ رتنادیپ کی وجہ تسمیہ یہاں سے نکلنے والے بیش قیمت جواہرت اور پتھر ہیں۔

مشہور سیاح ’’مارکوپولو‘‘ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس جزیرے پر دنیا کے بہترین نیلم، پُکھراج اور فیروزے ملتے ہیں۔ لنکا کی دلدلیں، دریاؤں کے تل اور ریت لعل و یاقوت اْگلتی ہیں۔ اس ملک کی زمین اور اس کی ساخت انتہائی قدیم ہے۔ 90 فی صد سے زائد چٹانیں ہزاروں سال پُرانی ہیں۔ زیادہ تر جواہرات جنوبی و وسطی پہاڑی سلسلوں سے نکالے جاتے ہیں۔ اور یہیں جنوب میں ہی ’’رتنا پورہ‘‘ Rattnapura واقع ہے جو سیلون میں ’’جواہرات کے شہر‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بیشتر جواہرات اسی علاقے سے نکالے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سری لنکا کے کل زمینی رقبے کا 25 فی صد حصہ اپنے اندر جواہرات کے ذخائر لیے ہوئے ہے۔ جواہرات اس ملک کے زرِمبادلہ کا اہم حصہ ہیں۔ یہ انڈسٹری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طور پر چلائی جاتی ہے۔

یہ تو تھی جواہرات کی تاریخ۔ اس کے بعد ہمیں اسٹور دِکھایا گیا جہاں سیلزمین نے بہت کوشش کی کہ ہم کچھ نہ کچھ خرید لیں مگر ہم پاکستانی بھی بہت ڈھیٹ ہیں ایک بار جو فیصلہ کر لیا اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ ہم کام یابی سے خالی ہاتھ ہی سیفانی سے اپنی جیبیں بچا کہ نکل آئے۔ اگلی منزل پیراڈینیا کا شاہی نباتاتی باغ ( Royal Botanical Garden) تھا۔ پیراڈینیا کینڈی کا ایک نواحی قصبہ ہے جو شہر سے چند کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ 147 ایکڑ پر محیط اس نباتاتی باغ میں سالانہ دو لاکھ سیاح آتے ہیں۔ لنکا کے سب سے بڑے دریا ’’مہاویلی‘‘ کے کنارے واقع یہ باغ اپنے آرکائیڈ (Orchids) کے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہاں مختلف پودوں اور جڑی بوٹیوں کی 4000 سے بھی زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں جن میں بانس، لونگ، دار چینی، آرکائیڈ اور پام کے درخت سرِفہرست ہیں۔

یہاں سے نکل کہ ہم اپنی اگلی منزل ’’بینٹوٹا‘‘ کی جانب روانہ ہوئے۔ گاڑی سری لنکا کی ہائی وے A.1 پر فراٹے بھر رہی تھی جب موانیلا سے کیگالی کے راستے میں ایک جگہ ہمارے گائیڈ نے کِتابی شکل کی ایک چوٹی دکھائی۔ 798 میٹربلند اس چوٹی کا نام ’’بائیبل پیک‘‘ (Bible Peak) تھا۔ یہ اس علاقے کی مشہور چوٹی ہے۔ بنٹوٹا پہنچنے سے پہلے ہمارے گائیڈ نے ایک جگہ بریک لگائی اور اترنے کو کہا۔ یہ ’’پیراڈائز سپائس اینڈ ہربل گارڈن‘‘ تھا۔ جہاں سیلون میں پائے جانے والے تمام مسالاجات اور جڑی بوٹیاں اْگائی جاتی ہیں۔ یہاں ان جڑی بوٹیوں سے طبی مقاصد کے لیے تیل، بام، لوشن اور سفوف تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں میں نے پہلی بار جائفل، کالی مرچ، جنگلی انناس، لونگ، دار چینی اور جاوتری سمیت بے شمار نئے قسم کے پودوں اور جڑی بوٹیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس باغ کے اندر ہی ایک دوکان میں مختلف بیماریوں کی لیے روغن اور بام وغیرہ بیچے جا رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ تھکن دور کرنے کے لیے مساج کا بھی انتظام تھا۔ ہم نے یہاں بھی اپنی جیبیں بند ہی رکھیں کہ سری لنکا میں قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ یہاں آیورویدک اور جڑی بوٹیوں سے علاج کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگرچہ بڑے شہروں میں اسپتال موجود ہیں لیکن دیہات میں لوگ قدرتی اور دیسی طور طریقوں سے علاج کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

سورج غروب ہونے سے پہلے ہم بنٹوٹا BENTOTA پہنچ گئے۔ سری لنکا کے جنوب مشرقی ساحل پر، ضلع گال کا یہ چھوٹا سا شہر کولمبو سے 65 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ سطحِ سمندر سے 3 میٹر بلند یہ شہر ’’دریائے بنٹوٹا‘‘ کے دہانے پر واقع ہے۔ بنٹوٹا گنگا (لنکا میں دریا کے لیے گنگا کا لفظ استعمال ہوتا ہے) شہر کو دو حصوں میں کاٹتا ہے۔ ایک طرف شہر کا گنجان آباد اور کاروباری حصہ جب کہ دوسری جانب پرسکون ساحلِ سمندر اور اس کے کنارے بنے خوب صورت ریزورٹ واقع ہیں۔

یہ شہر تین چیزوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ پہلی دریائے بنٹوٹا اور اس کی واٹر اسپورٹس جن میں جیٹ سکی اور سرفنگ وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے بھی ان کا بھرپور لطف اُٹھایا ہے۔ یہ ایک یادگار تجربہ تھا۔ دوسری مشہور چیز یہاں بننے والا مشروب ’’ٹوڈی‘‘ ہے۔ ٹوڈی ایک قسم کی شراب ہے جو پام کے درختوں اور پتوں سے کشید کی جاتی ہے۔ سفید رنگ کی یہ شراب اس شہر کے غُربا کے لیے مال کمانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ یہاں کی تیسری اور مشہور ترین چیز یہاں موجود خوب صورت اور صاف ستھرا ریتلا ساحل ہے جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ ہندساگر کی لہریں روز اس ساحل سے ٹکراتی ہیں اور اس کی ریت میں نمی کے ساتھ ساتھ مونگے اور سیپیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ دور اُفق پر غروب ہوتے سورج کی سنہری کرنیں جب ہند ساگر کے جھلملاتے پانی پر پڑتی ہیں تو اس سے مُنعکس ہوتی روشنی دور تک پھیل جاتی ہے۔ سایہ دار پام کے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنا دنیا کا ایک یادگار تجربہ ہے۔ ایک دفعہ کر کے دیکھیے گا۔

اس جگہ کی سب سے غیرمعمولی بات یہ تھی کہ جس ریزورٹ میں ہماری رہائش تھی اس کے ایک جانب سمندر اور دوسری جانب دریائے بنٹوٹا تھا۔ سامنے سمندر اور پیچھے کی جانب دریا تھا۔ ایک جانب زوروں کی ہوا چلتی تو دوسری جانب سکون۔ ایک جانب موسلا دھار بارش ہوتی جب کہ دوسری جانب بوند بوند کرکے پانی برستا تھا۔ ایک جانب سمندر کا مٹیالا پانی جبکہ دوسری جانب دریا کا نیللگوں رنگ۔ قدرت کا یہ حسین اِمتزاج دنیا میں شاید ہی کسی اور جگہ آپ کو مِلے۔

اگلی صبح ہماری پہلی منزل بنٹوٹا سے 11 کلومیٹر جنوب کی طرف ’’کوسگوڈا‘‘ میں واقع کچھووں کا حفاظتی گھر ( TURTLE CONSERVATION HOUSE) تھا۔ یہ دراصل کچھووں کی سینکچوری (انڈوں سے بچے نکلوانے کی جگہ/افزائش کی جگہ) ہے جہاں سری لنکا میں پائے جانے والے کچھووں کی پرورش اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ سری لنکا میں 5 اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں جن میں سبز کچھوا، سنگ پشت نسل کا کچھوا، لوگرہیڈ، ہاکس بِل اور زیتونی کچھوا شامل ہیں۔ ان میں سنگ پُشت نسل کا کچھوا سب سے بڑا ہوتا ہے۔ یہاں چھوٹے بچوں سے لے کرہر عمر کے کچھوے رکھے گئے ہیں۔ آپ یہاں جسمانی طور پر معزور کچھوے (اندھے، رسولی والے) بھی دیکھ سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ان کے لیے عطیات بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں دنیا میں پائے جانے والے کُل 5 سفید کچھوؤں ( Albino ) میں سے بھی ایک کو رکھا گیا ہے۔ یہاں کچھوؤں کی خوراک مچھلی اور گوشت پر مشتمل ہوتی ہے جو سرکار کی طرف سے دی جاتی ہے۔

یہاں سے ہو کر ہم ’’بالا پٹیا‘‘ شہر پہنچے جہاں دریائے مادُو کی سفاری (Maadu River Safari) ہماری منتظر تھی۔ مادو گنگا جنوبی لنکا کا ایک خوب صورت چھوٹا دریا ہے۔ ہندساگر میں ملنے سے پہلے دریا کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے جو ایک بہت بڑی جھیل کا منظر پیش کرتا ہے، اسے ’’مادو گنگا جھیل‘‘ کہتے ہیں۔ دو چھوٹی نہریں اس جھیل کو قریبی واقع ’’رندومبے جھیل‘‘ سے ملاتی ہیں اور اس تمام پیچیدہ سے مرکب کو ’’مادو کمپلیکس‘‘ کہتے ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں چمکتے سورج کے نیچے آپ ماحول کو ثقافت سے باہم شیر و شکر ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دریا اور اس کی جھیلیں ماحولیات اور ماحولی نظام کا قیمتی خزانہ ہیں۔ یہاں آپ کو دریا کے کنارے اور بیچوں بیچ 303 اقسام کے پودے اور 248 اقسام کے جان دار و پرندے ملیں گے۔ کیپٹن بوٹ ہاؤس کی طرف سے یہاں ایک بھرپور دریائی سیر کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 3000 سری لنکن روپے میں آپ پورا 1 گھنٹہ 45 منٹ اس دریائی علاقے کی سیر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مادو سفاری زندگی کا ایک حسین تجربہ ہے۔ اگر آپ سری لنکا جائیں تو ’’ضلع گال‘‘ میں واقع اس جگہ جانا مت بھولیے گا۔ دریا میں اترتے ہی آپ کو جگہ جگہ کرنا (Mangroves) کے جنگلات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی 24 اقسام پائی جاتی ہیں۔

مختلف پودوں اور جڑی بوٹیوں کی کثرت کی بدولت رنگارنگ پرندے اور جانور یہاں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سیکڑوں اقسام کی مچھلیاں، مگرمچھ، سانپ، چھپکلیاں، مرغابیاں، تتلیاں، بھنورے، کونجیں اور مختلف رینگنے والے جانور شامل ہیں۔ یہاں آگے چل کر آپ ’’دار چینی کے جزیرے‘‘ (CINNAMON ISLAND) پر پہنچتے ہیں۔ اس جزیرے کے رہائشی کثیر مقدار میں دار چینی کاشت کرتے ہیں اور اس کے بعد مختلف شکلوں میں اسے بیچتے ہیں۔ یہاں ہمیں براہِ راست دار چینی کی لکڑی کو چھیل کر اس کے سفوف سے مسالا چائے، تیل، گرم مصالحہ اور اس کی باریک شاخوں سے چٹائیاں بنا کر دکھائی گئیں۔ دارچینی کی کاشت ایک تھکادینے والا اور لمبا عمل ہے۔ دار چینی کا اک درخت 45 سال تک کارآمد رہتا ہے۔ دارچینی کا تیل مچھر بھگانے، کولیسٹرول کم کرنے، جوڑوں کے درد، ذیابطیس، ایئر فریشنرز میں خوشبو کے طور پر اور پکوانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بے پناہ فوائد کی بدولت دار چینی سری لنکا کی برآمدات کا ایک اہم جزو ہے۔

اس جزیرے سے نکل کر ہم ایک اور جگہ پہنچے جہاں چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیوں سے ’’فْٹ مساج‘‘ کرایا جاتا ہے، جی بالکل یہاں انسانوں کی بجائے مچھلیاں آپ کی تھکن کو دور کرتی ہیں۔ مختلف چھوٹے چھوٹے تالابوں میں جب آپ اپنے پاؤں ڈال کر بیٹھتے ہیں تو یہ سیکڑوں مچھلیاں آپ کے پیروں سے چمٹ کر انہیں چاٹتی ہیں اور ان پر دباؤ کے ذریعے آپ کو راحت پہنچاتی ہیں۔ ہے ناں مزے کی چیز۔ اس سے آگے ’’کوٹھ دوا‘‘ کے جزیرے پر زمانۂ قدیم کا ایک بدھ مندر ہے جہاں بڑا سا مجسمہ آسن جمائے بیٹھا ہے۔ اس جزیرے کے بعد دوسرے راستے سے واپسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ 15 جزائر کے اس حسین دریا میں آپ کو وقت گزرنے کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔ مینگرووز/کرنا کی گھنی سرنگیں جن کے اندر سے آپ کی کشتی گزرتی ہے آپ کو ایک طمانیت کا احساس دے جاتی ہیں۔ دریا کے بیچوں بیچ بنی جھونپڑیاں اور دکانیں آنکھوں کو نہایت بھلی محسوس ہوتی ہیں۔ جہاں سیاح رک کر ناریل پانی اور انناس سے پیٹ بھرتے ہیں۔ اور آخر میں سامنے آپ دریائے مادو کو ہند ساگر میں ملتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے یہاں زندگی میں پہلی بار دریا اور سمندر کا ملاپ دیکھا جو واقعی ایک خوش گوار منظر تھا۔

اگلے دن ہماری منزل سری لنکا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر، کولمبو تھا۔لنکا کے جنوب مغربی ساحل پر آباد کولمبو، وفاقی دارالحکومت سری جے وردھنے پورا کوٹے (یہ کولمبو کا وہ حصہ ہے جہاں تمام سرکاری ادارے واقع ہیں) کے بالکل متوازی واقع ہے۔ کولمبو ایک مصروف اور روشن شہر ہے جو اپنے اندر جدید طرزِزندگی کے علاوہ قدیم تہذیبی آثار بھی سموئے ہوئے ہے۔ شہر کی آبادی تقریباً 647،100 نفوس پر مشتمل ہے لیکن کولمبو کے شہری علاقے ضلع کولمبو، گاماپا اور کالوتارا پر مشتمل ہیں، جن کی مجموعی آبادی تقریباً 56،48،000 ہے۔اس شہر کا نام کولمبو پہلی بار 1505ء میں پرتگالیوں نے رکھا اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نام کلاسیکی سنہالی نام ’’کولن تھوتا‘‘ (جس کا مطلب ‘‘دریائے کیلانی پر واقع بندرگاہ‘‘ ہے)، سے اخذ کیا گیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کولمبو کا نام سنہالی زبان کے نام کولو۔ امبا۔ تھوتا سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ‘‘آم کے درختوں والی بندرگاہ‘‘ ہیں۔

کولمبو کی بڑی بندرگاہ اور مشرقی و مغربی ساحلوں پر تجارتی راہ داری کی حیثیت سے کولمبو کی اہمیت تقریباً 2000 سال سے عیاں ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اس شہر کو جزیرہ سری لنکا کا مرکز انگریزوں نے 1815ء میں یہاں قبضے کے بعد بنایا تھا۔ 1948ء میں آزادی کے بعد تک یہ سری لنکا کا دارالحکومت رہا، بعدازاں سرکاری دفاتر سری جے وردھنے پورا کوٹے میں منتقل کیے گئے۔ بہرحال کولمبو بدستور سری لنکا کا تجارتی مرکز ہے۔ دوسرے بڑے شہروں کی طرح کولمبو کے شہری علاقے نہایت پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں کولمبو 1 سے 15 تک ہندسوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی شہر سری لنکا کے مشہور بینکوں، تجارتی دفاتر، ریستوانوں اور سیاحتی مقامات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی اس میں قدیم مندروں اور عمارتوں کی آمیزش بھی ہے۔ یہاں کی مشہور جگہیں گالے فیس گرین ، وہارمہادیوی پارک، گنگا رامایا مندر، لوٹس ٹاور، سیما ملاکا مندر، آزادی اسکوائر، ماؤنٹ لاوینیا بیچ اور قومی عجائب گھر ہیں۔

گنگا رمایا مندر لنکن، تھائی، انڈین اور چائینیز طرزِتعمیر کا ایک بیش قیمت نمونہ ہے جہاں عبادت گاہوں کے علاوہ لائبریری، رہائشی ہال اور میوزیم بھی بنائے گئے ہیں۔ یہ کولمبو کا اہم ترین بدھ مندر ہے۔ اس کے ساتھ ہی 19 صدی کا ایک اور مشہور بدھ مندر، سیما ملاکا واقع ہے۔ یہ مندر بیئرے جھیل (BAIRE LAKE) کے درمیان میں واقع ہے۔ اس مندر کی تعمیر سری لنکا کی ایک مسلمان کاروباری شخصیت کی مرہونِ مِنت ہے۔ یہ مندر کئی سنہرے مجسموں کا گھر ہے۔

کولمبو کا نیشنل میوزیم لنکا کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے جو 1877 میں قائم کیا گیا۔ یہاں بدھ مذہب کی متبرک اشیاء کے علاوہ گوتم بدھ کے سیکڑوں سال قدیم مجسمے، کینڈی سلطنت کا تخت و تاج، ہاتھی دانت کے برتن، مختلف علاقوں کے ماسک، قدیم آبپاشی کا نظام، رتنا پورہ کے جواہرات، لنکا کے ملبوسات اور سیلون کی تاریخ سے جُڑی ہزاروں اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ سفیدی میں نہایا یہ عجائب گھر کسی محل سے کم نہیں دِکھتا۔

چین کی طرف سے بنایا جانے والا لوٹس ٹاور، پوری طرح مکمل ہو جانے کے بعد جنوبی ایشیاء کی دوسری بڑی عمارت ہو گا۔ کنول کے پھول کی طرز پر بنایا جانے والا 350 میٹر بلند یہ ٹاور ٹیلی کمیونیکیشن اور سیاحت کے لیے استعمال ہوگا۔

اب میں آپ کو یہاں کی ثقافت اور بود و باش کے چند حسین پہلوؤں سے روشناش کرواؤں گا۔

1۔ سری لنکن دسترخوان:سری لنکا کے کھانوں میں مچھلی اور چاول کو خاص اہمیت حاصل یے۔ ان کا کوئی کھانا ان لوازمات کے بنا پورا نہیں مانا جاتا۔ اس ملک کے کھانوں میں آپ کو جنوبی بھارت (کیرالا، تامل ناڈو)، انڈونیشیا اور ڈچ لینڈ (نیدرلینڈ) کی گہری چھاپ ملے گی۔ تمام کھانوں میں ناریل، گرم مسالے، مچھلی اور چاول کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ گوشت کی نسبت سبزیاں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مسلمان علاقوں میں گوشت پسندیدہ خوراک ہے۔

چاول کری (اُبلے چاولوں کے ساتھ مچھلی کا سالن، اچار، چٹنی اور سبزیاں)، فش کری (لنکن مسالوں سے تیار مچھلی کا لذیذ سالن)، کری بھات (ناریل کے دودھ میں بنے نمکین چاول)، کوٹو (انڈے، گوشت اور مکھن سے بنی ایک روٹی جو سبزیوں کے ساتھ پیش کی جاتی ہے)، ڈوسا (چاولوں کے آٹے اور ناریل سے بنی جالی دار روٹی)، کول (سمندری مچھلی، کیکڑے اور جھینگوں پر مشتمل جافنا کی ایک مشہور ڈش)، ملائے اچارو (سری لنکن ملائی اچار)، باباتھ ( گائے کے گوشت سے بنی لنکن ملائی ڈش) مشہور کھانے ہیں۔ اس کے علاوہ بارہا قسم کی چٹنیاں اور سوپ بھی خاصے مشہور ہیں۔ اندو، وڑا، پیٹیز، پیزا اور کوکیز نئی نسل میں مقبول ہیں۔

پھلوں میں کیلا، انناس اور پپیتا یہاں کی جان ہیں۔ آپ جہاں جائیں گے آپ کو پپیتے کے جوس سے خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ جیک فروٹ، آم، انگور اور چیری بھی کھائی جاتی ہے۔

2۔ سیلون ٹی :سیلون ٹی، یہ وہ الفاظ ہیں جو سری لنکا میں آپ کو ہر جگہ سننے کو ملیں گے۔ چاہے سری لنکن ایئرلائن کی فلائٹ ہویا پھر کوئی عام سا ہوٹل یہ چائے آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گی۔

سری لنکا کی رگوں میں چائے دوڑتی ہے، چائے یہاں کی ثقافت ہے۔ یہاں کی کوئی بھی تقریب اس مشروب کے بغیر ادھوری ہے۔ سیلون ٹی کی خاص بات یہ ہے کہ ہم نے جہاں بھی یہ چائے پی اس کا ذائقہ مختلف تھا۔ سیلون ٹی اس ملک کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ تیز قسم کی یہ چائے کم دودھ کے ساتھ بنائی جاتی ہے۔ اس کا ایک کپ ہی ہم پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔

1824 میں انگریز چین سے چائے کا پہلا پودا یہاں لائے، جسے پیراڈینیا کے شاہی نباتاتی باغ میں خوب صورتی کے لیے لگایا گیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے آسام اور کلکتہ سے بھی چائے کے پودے منگوائے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیلون میں بڑے پیمانے پر ان کی کاشت شروع ہوگئی اور آج سری لنکا دنیا کا تیسرا بڑا چائے پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

3۔ رقص:بھارت کی طرح لنکن ثقافت پر بھی رقص کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ہر تہوار اور رسم میں رقص سرایت کر چکا ہے۔ یہاں کینڈی کے ریڈ کراس ہال میں ہمیں مختلف علاقوں کے مختلف رقص دکھائے گئے جن میں درج ذیل شامل تھے:

٭پوجا ڈانس (یہ خُدا یا اپنے ڈانس گْرو کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے)

٭ کوبرا ڈانس (اس میں سپیرے کی بین پر کوبرا سانپ کی حرکات کو رقص کی صورت پیش کیا جاتا ہے)

٭ ربّن ڈانس (ایک خاص ردھم پر کیے جانے والے اس رقص میں ایک ڈھول کو ہوا میں اچھال کر بجایا جاتا ہے)

٭ میورا وناما (یہ ڈانس کینڈین رسم ‘ونّم’ سے تعلق رکھتا ہے جس میں مور کی حرکتوں اور ناچ کو نفیس طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں رقاص مور پنکھ سے بنا لباس پہنتے ہیں)

٭ ویس ڈانس (ویس کینڈین رقاصوں کی روایتی پوشاک ہے جسے مکمل کرنے میں 64 زیورات اور آرائشی اشیاء استعمال ہوتی ہیں۔ یہ لباس بھاری ہوتا ہے جسے مرد زیبِ تن کرتے ہیں)

٭جنوبی لنکن ماسک ڈانس (اس میں ماسک پہنے رقاص سانپ کو گرودا سے مارنے کا منظر پیش کرتے ہیں، گرودا ایک دیو مالائی پرندہ ہے)۔

4۔ صنعت و حرفت :یوں تو چھوٹے سے اس جزیرے میں بہت سی صنعتیں ہیں لیکن سیاحت، چائے، گرم مسالے اور جواہرات اس ملک کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

بغیر کسی شک کہ ’’سیاحت‘‘ اس ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں آپ کو یورپ، ایشیا، افریقہ یہاں تک کہ جنوبی امریکا اور نیوزی لینڈ کے لوگ بھی نظر آئیں گے۔ سیلون ٹی اور مسالوں ( لونگ، دار چینی، ہلدی) کے ساتھ ساتھ جواہرات اور قیمتی پتھر یہاں کی صنعت کا اہم ستون ہیں۔ ان میں زمرد، یاقوت، زرقون، فیروزہ، پُکھراج اور لعل شامل ہیں۔ ٹیکسٹائل اور کوکونٹ انڈسٹری بھی کافی زرِمبادلہ کما کر دے رہی ہیں۔ ربڑ بھی ملک کی اہم پیداوار ہے۔ سری لنکا دنیا کا آٹھواں بڑا ربڑ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دیگر صنعتوں میں تمباکو، ٹیلی کمیونیکیشن، کشتی و جہاز سازی، بینکنگ سیکٹر، انناس اور پپیتا شامل ہیں۔

5۔ گوتم بُدھ:جس طرح پاکستان میں ہمیں ہر گلی، محلے میں ایک مسجد ملتی ہے اسی طرح سری لنکا کے ہر دوسرے چوراہے پر آپ کو ’’گوتم بدھ‘‘ مسکراتے نظر آئیں گے۔ یہ یہاں کی بُدھ ثقافت کا اہم حِصہ ہیں جبھی یہاں بدھا کے مجسمے نہ صرف مندروں بلکہ بندرگاہوں، چوکوں، گلیوں، دکانوں، ہوٹلوں، بینکوں، دریا کناروں اور ساحلوں پر بھی نصب کیے گئے ہیں۔ کہیں شیشے کے بکس میں براجمان تو کہیں درخت کے نیچے لیٹے ہوئے۔ حتیٰ کہ بندرانائیکے ایئرپورٹ پر بھی چوکڑی مارے بدھا آپ کا سواگت کرتے ہیں۔ سو آپ جہاں کہیں جائیں گہ آپ کو بدھا کے درشن ضرور ہوں گے۔ کہیں کہیں ان کے آس پاس کیسریا رنگ کا لباس پہنے بُدھ بھکشو بھی نظر آ ہی جاتے ہیں۔

6۔ ماسک:اس جزیرے میں جہاں درختوں اور پہاڑوں پر بسنے والی روحوں اور شیطانوں کی پوجا کی جاتی ہے اور انہیں خوش کرنے کی لیے طرح طرح کے جتن کیئے جاتے ہیں، ’’شیطانی نقاب‘‘ یا مکھوٹا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماسک جو یہاں کے ڈراموں اور دیگر رسم و رواج میں استعمال کیے جاتے ہیں مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، جن میں دیومالائی شکلیں، شیطانی شکل، جانوروں اور انسانوں کی اشکال شامل ہیں۔ یہ رنگ برنگے اور بیک وقت خوب صورت اور خوف ناک مکھوٹے یہاں کی ثقافت کا اہم جزو ہیں۔ جنوبی لنکا کا شہر ’’امبالانگوڈا‘‘ ماسک انڈسٹری کا مرکز ہے۔ یہاں نہ صرف زمانۂ قدیم سے شیطانی ماسک بنائے جاتے ہیں بلکہ یہاں کے شیطانی رقاص بھی مشہور ہیں۔ یہ ماسک ایک درخت کدورو کی لکڑی سے بنائے جاتے ہیں جن پر بعد میں رنگوں سے مختلف شکلیں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں آنے والے سیاح بڑے ذوق و شوق سے یہ ماسک اپنے ممالک لے کر جاتے ہیں۔

7۔ لِباس:یوں تو سری لنکا کا کوئی سرکاری لباس نہیں ہے لیکن خواتین زیادہ تر ساڑھی اور بیشتر مرد لنگی پہنتے ہیں جسے ’’سارونگ‘‘ کہا جاتا ہے۔لنکن ساڑھی انڈین ساڑھی سے ذرا مختلف ہے۔ آفس میں ساڑھی کے علاوہ جینز اور لانگ اسکرٹ بھی پہنا جاتا ہے۔ مردوں میں سوتی اور ریشمی دھاری دار لنگی بہت مقبول ہے جس کے اوپر پوری آستین والی شرٹ اور قمیض پہنی جاتی ہے۔ دفتری اوقات میں پینٹ اور شرٹ کا رواج ہے جب کہ نوجوانوں میں جینز مقبول ہے۔

8۔ طرزِزندگی:آخر میں آپ کو اس قوم کی چند اہم باتیں بتانا چاہوں گا جو دیکھنے میں تو نہایت سادہ ہیں لیکن ہماری روز مرہ زندگی اور رویوں کی سمت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سری لنکن قوم کا طرزِزندگی نہایت سادہ ہے۔ سادہ کھانا اور سادہ پہننا۔ یہ صبح سے شام تک منہمک ہو کر اپنا کام کرتے ہیں۔ وقت کے پابند اور نظم و ضبط کے قائل ہیں۔ سڑک ہمیشہ زیبرا کراسنگ سے پار کریں گے۔ میں نے کسی لنکن کو بیچ سے سڑک پار کرتے نہیں دیکھا۔ ٹریفک قوانین کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ ہر ڈرائیور پیدل افراد کو زیبرا کراسنگ پر چلتا دیکھ فوراً رک جاتا ہے پھر وہ چاہے ایک مسافر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ قوم کھانا ضائع نہیں کرتی۔

یہاں شرح تعلیم تقریباً 92 فی صد ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کسی بھی تیسری دنیا کی غریب قوم کے لیے یہ شرح انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہاں رکشے اور ٹیکسی والے سے لے کر ٹھیلے والا تک ہر ایک آسانی سے آپ سے انگریزی میں بات کر سکتا ہے۔ شاید اس میں یہاں آنے والے سیاحوں کا بھی عمل دخل ہو۔ بہت کم لوگ انگریزی سے نابلد ہیں۔

یہاں کے لوگ کُھل کر ہنسنے کے عادی ہیں۔ یہ اجنبی سیاحوں کو دیکھ کر بھی ایسے ہنستے ہیں جیسے کوئی شناسا ہو۔ ان کی یہ عادت سیاحوں کے دلوں میں گھر کرنے کو کافی ہے۔

ایک اور اہم بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ 9 بجے کے تک تمام چھوٹے بڑے شہر بند ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کولمبو جیسا بڑا شہر بھی۔ اکا دکا لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ یہاں زندگی رات جلدی سونے اور صبح سویرے اٹھنے کے اصول کے ساتھ گزاری جاتی ہے۔ لنکن قوم دن میں کئی بار چائے کی چسکیاں لیتی ہے۔ چائے کی اتنی شیدائی شاید ہی کوئی اور قوم ہو۔ پاکستانیوں کی طرح سری لنکن بھی کرکٹ کے بہت بڑے فین ہیں اور اپنی کرکٹ ٹیم کے بارے میں بہت حساس۔

سری لنکن قوم کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس قوم میں احساسِ کمتری نام کو بھی نہیں۔ کسی کو اپنی رنگت یا غربت کے حوالے سے کوئی کمپلیکس نہیں۔ کوئی لڑکا یا لڑکی گوری چمڑی والوں کو گھور کہ نہیں دیکھتا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں ہنسی خوشی مگن ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کے پہناوے کو بھی نہیں گھورتا۔ شاید اس لیے بھی یہ سیاحوں کا من پسند ملک ہے۔

ہم یہاں جتنی سڑکوں اور راستوں سے گزرے وہ سب صاف ستھرے تھے۔ کوڑے کا نام و نشان نہیں، حالاںکہ یہ تعلیمات تو ہمارے نبی ﷺ کی ہیں لیکن ہم ہی ان پر عمل نہیں کر رہے۔

یہ تھی اس بُدھ دیس کی یاترا جو اپنی ترقی کا سفر نہایت تیزی سے طے کر رہا ہے اور جس کا نام آج بھی دنیا کے خوب صورت اور پُرامن ممالک کی فہرست میں جگمگا رہا ہے۔

The post ہاتھیوں کا یتیم خانہ، مینگروز کی سُرنگیں، دریا کے بیچوں بیچ دکانیں appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان کی آدھی جامعات ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں کراسکیں

$
0
0

ایک زمانہ تھا کہ گریجویشن پاس افراد اپنے نام کے ساتھ ’’ بی اے‘‘ بڑے فخر سے لکھواتے تھے اور یہ اُن کے نام کا باقاعدہ حصہ ہوتا تھا کیونکہ اُس وقت ہمارے معاشرے میں شاذونادر ہی ایسے افراد ملتے تھے جنہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہوتی تھی، زیادہ تر ناخواندہ یا پھر پرائمری کی مختلف جماعتیں پاس ہوتے تھے۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک کم ہی لوگ پہنچتے تھے اس لئے بی اے کرنا بڑے فخر اور اعزاز کی بات تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعلیمی تکریم کے معیارات میں اضافہ ہوتا گیا۔ بی اے کرنا جو کبھی بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی آج ایک عام سی بات خیال ہونے لگی ہے۔

طالب علم اب ایم اے سے بھی آگے ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ایک طرف تو ماضی کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم کے مواقعوں کی زیادہ تعداد میں دستیابی ہے تو دوسری جانب ترقی کرتی دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لئے علم کے ان اعلیٰ ترین درجات کا حصول ضرورت بنتا جا رہا ہے جس کے بغیر ترقی چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ممکن نہیں۔

پی ایچ ڈی کی صورت میں موجود یہ تعلیمی اشرافیہ دراصل آج کے دور میں ہر ملک کی ترقی کی اساس ہے کیونکہ تحقیق کے بطن سے پھوٹنے والا پی ایچ ڈی کا پودا جب پی ایچ ڈی سکالر کی صورت میں تناور درخت بنتا ہے تو اس کے ثمرات سے ایک جہاں فیضیاب ہوتا ہے۔ اس لئے اب تقریباً تمام ممالک کی یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اپنے یہاں زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز تیار کریں جس کے لئے جہاں وہ اپنے ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کی استعدادکار میں اضافہ پر زور دیتے ہیں وہیں وہ دیگر ممالک کی جامعات سے بھی استفادہ کرنے کے لئے اپنے طالب علموں اور اساتذہ کو اسکالرشپس پر پی ایچ ڈیز کرنے کے لئے بھیجتے ہیں تاکہ ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور مقامی جامعات میں بھی معیاری پی ایچ ڈی اسکالرز تیار کرنے میں مدد مل سکے۔

یہی حکمت عملی پاکستان میں بھی ہائر ایجوکیشن کمشن کے قیام کے بعد اپنائی گئی جس کے نتیجے میں ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالرز اور جامعات کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت (17 ستمبر2018 تک ) ملک میں ایچ ای سی سے منظور شدہ جامعات اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس کی تعداد 192 تک پہنچ چکی ہے اور ایچ ای سی کی آن لائن پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری کے مطابق ملکی جامعات15036 پی ایچ ڈیز کروا چکی ہیں جن کا 71 فیصد مرد اور29 فیصد خواتین اسکالرز پر مشتمل ہے۔

لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود ملک میں پی ایچ ڈی تعلیم کا شعبہ بے شمار مسائل کا شکار ہے کہیں پی ایچ ڈی کروانے والے سپروائزر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں تو کہیں پی ایچ ڈی اسکالرز مختلف طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں اور کہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرنے والا ڈاکٹر گوں نا گوں مصائب کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں تحقیق کے کلچر کے فروغ کی خاطر جامعات میں اضافہ کی حکمت عملی اپنی پوری روح کے ساتھ کار فرما نہیں ہو پائی کیونکہ ابھی تک پاکستان کی 192 جامعات / اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے صرف93 پی ایچ ڈی کروانے میں کامیاب ہو پائی ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ملک کی 51.5 فیصد یعنی آدھی جامعات نے ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی تیار نہیں کیا۔ایک پی ایچ ڈی مکمل ہونے میں کم از کم چار سے پانچ سال کا عرصہ لیتی ہے اور ایچ ای سی نے زیادہ سے زیادہ 8 سال کے اندر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی اب شرط بھی عائد کردی ہے۔

اس حوالے سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ پی ایچ ڈی نہ کروانے والی جامعات میں سے تو کافی کو بنے ابھی پانچ سال سے کم کا عرصہ ہوا ہوگا ؟۔ اس تناظر میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ ملک کی 41 ایسی جامعات اور ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس جن کو بنے ہوئے 10 اور اس سے زائد سال کا عرصہ گزر گیا ہے ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کروا سکیں۔ جبکہ 33 جامعات اور ڈی اے آئیز( ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس) کو قائم ہوئے5 سے 9 سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن وہ بھی ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کرا سکیں یعنی ملک کی ایسی99 جامعات/ ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹس جو ابھی تک کوئی پی ایچ ڈی نہیں کروا سکے ان میں سے 74 کو بنے ہوئے پانچ سال سے لے کر آدھی سے زائد صدی کا عرصہ ہو چکا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آن لائن پی ایچ ڈی کنٹری ڈائریکٹری اور منظور شدہ جامعات/ ڈگری جاری کرنے کی اہلیت کے حامل انسٹی ٹیوٹ کے17 ستمبر2018 تک کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں پی ایچ ڈیز کروانے والی93 یونیورسٹیوں کے25.8 فیصد کا چارٹرڈ پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہوا ۔ 24.7 فیصد کا سندھ،  23.7 فیصد کا خیبر پختونخوا، 20.4 فیصد کا وفاقی حکومتوں ،3.2 فیصد آزاد جموں وکشمیر اور 2.2 فیصد بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ہوا۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ چارٹرڈ کی حامل 34 جامعات میں سے 22 نے پی ایچ ڈیز کروائی، یوں کے پی کے کی صوبائی چارٹرڈ یونیورسٹیوں کا 65 فیصد پی ایچ ڈیز کرانے میں کا میاب ہوا۔ حکومت پاکستان کی چارٹرڈ جامعات کا 51 فیصد، آزاد جموں وکشمیرکی حکومتوں کی چارٹرڈ یو نیورسٹیوں کا 43 فیصد اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی چارٹرڈجامعات کا 44 فیصد فی کس پی ایچ ڈی کروانے میں کا میاب ہوا ہے۔ جبکہ ملکی سطح پر مجموعی طور پر 48 فیصد جامعات پی ایچ ڈیز کروا پائی ہیں۔

پاکستان میں پی ایچ ڈی کروانے والی جامعات 60 فیصد سرکاری اور40 فیصد نجی شعبہ میں کام کر رہی ہیں جبکہ ملک کی 49 فیصد سرکاری اور 47 فیصد نجی جامعات اب تک پی ایچ ڈی کروا سکی ہیں۔ لاہور شہر اس وقت ملک بھر میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز کروانے والا شہر ہے جس کی جامعات نے اب تک 3357 اسکالرز کو پی ایچ ڈیز کروائی ہیں ۔ اسلام آباد 3202 کے ساتھ دوسرے اور 2859 کی تعداد کے ساتھ کراچی تیسرے نمبر پر ہے۔ کراچی وہ سرفہرست شہر ہے جہاں موجود جامعات کی سب سے زیادہ تعداد نے ملک میں پی ایچ ڈیز کروائی ہیں جن کی تعداد اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 17ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر اسلام آباد اور لاہور ہیں جن کی 16جامعات فی کس اب تک پی ایچ ڈیز کرا چکی ہیں۔ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز کرانے کا اعزاز جامعہ کراچی کو حاصل ہے جس نے 2530 اسکالرز کو پی ایچ ڈیز کروائی ہیں۔

دوسرے نمبر پر جامعہ پنجاب ہے جس نے 2361 پی ایچ ڈیز اور 1531 کی تعداد کے ساتھ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد تیسر ے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے 26 شہروں میں موجود جامعات اب تک پی ایچ ڈیز کروا سکی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز ہمدرد یونیورسٹی کراچی نے کروائی ہیں جن کی تعداد 109ہے جبکہ سرکاری شعبے میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز جامعہ کراچی کے حصہ میں آئی ہیں جو تعداد میں 2530 ہے۔ اسی طرح خواتین کی سب سے زیادہ پی ایچ ڈیز بھی جامعہ کراچی نے کروائی ہیں جبکہ مردوں کی زیادہ تعداد کو پی ایچ ڈی کروانے کا اعزاز جامعہ پنجاب کے پاس ہے جو بالترتیب 1106 اور1665ہیں۔

ملک کی 41.6 فیصد پی ایچ ڈیز پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں نے کروائی ہیں۔ 24.6 فیصد پی ایچ ڈیز کے ساتھ سندھ دوسرے،22.2 فیصد کے ساتھ وفاقی چارٹرڈ یونیورسٹیاں تیسرے اور 10.6 فیصد پی ایچ ڈیز کے ساتھ خیبر پختونخوا کی جامعات چوتھے نمبر پر ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں 95 فیصد پی ایچ ڈیز سرکاری جامعات اور 5 فیصد نجی یونیورسٹیز نے کروائی ہیں۔گزشتہ سال یعنی 2017 کے دوران ملک کی 185جامعات میں سے 60 نے 663 پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں جاری کیں یعنی مذکورہ سال کے دوران ملک کی 32.4 فیصد جامعات پی ایچ ڈی مکمل کر وا پائیں۔ جبکہ 2016 کے دوران 163جامعات میں سے64 یعنی 39 فیصد نے902 پی ایچ ڈی کروائیں۔

ان اعدادوشمار کا تجزیہ ہماری توجہ اس امر کی جانب مبذول کروا رہا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی جامعات کی پی ایچ ڈی آوٹ پُٹ کو مانیٹر کرنے کا ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے تحت اُن سے پوچھا جائے کہ جب ایک یونیورسٹی کا بنیادی کام ہی تحقیق کرنا ہے تو اب تک وہ کیوں کوئی پی ایچ ڈی تیار نہیں کر سکیں؟ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے رجسٹرار ڈاکٹر شفیق الرحمٰن جو ملک کی مختلف جامعات میں ا علیٰ انتظامی اور تدریسی عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی اداروں کی تحقیقی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ہاں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے ہوں تو تحقیق بھی Excel کرے گی۔ جامعات کا بنیادی مقصد ہی تحقیق کو فروغ دینا ہے اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو بنیادی طور پر اپنے کام سے انحراف کر رہے ہیں‘‘۔ جامعات کے پی ایچ ڈی تیار نہ کرا سکنے کی وجوہات کے بارے میںوہ کہتے ہیں ۔ ’’ کہ ہمارے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہے۔

آنکھوں کو خیرہ کرنے والی بڑی بڑی عمارتیں ہیں لیکن ان کے اندر دی جانے والی تعلیم میں کوالٹی ناپید ہے۔ پاکستان میں اب یو نیورسٹیوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری جامعات کی ایک لمبی فہرست ہے، اگر کمی ہے تو صرف معیاری تعلیم کی۔ آج ملک کی بہت سی جامعات میں اساتذہ کی مطلوبہ تعداد نہ ہونا اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔  غرض فنڈز کی کمی، PhD اساتذہ کی کمی ، سہل پسندی، دور اندیشی کا فقدان، غیر موثر اور غیر فعال پالیسیاں یہ سب وجوہات ملکر جامعات کو پی ایچ ڈیز تیار کرنے سے دور کر دیتی ہیں‘‘۔ کیا جامعات کو پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ ایک خاص عرصہ کے دوران پی ایچ ڈی تیار کرنا شروع کر دیں؟اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے ’’ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو ہماری توجہ مقدار کی بجائے معیار پر ہے تو پھر لازماً جامعات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ایک خاص عرصہ کے دوران پی ایچ ڈیز تیار کرنا شروع کر دیں۔

اور اداروں میں اس حوالے سے Structural Change  لانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں قائم جو قانون ساز اور پالیسی ساز فورم موجود ہیںان کو فعال کیا جائے۔ ایچ ای سی کی سطح پر بھی مانیٹرنگ سسٹم کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جا سکے اور معیاری PhDs مارکیٹ میں بھیجے جا سکیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جامعات میں ایسے اقدامات بھی کئے جائیں کہ اساتذہ اور طالب علم از خود تحقیق کی طرف راغب ہوں۔

تحقیق کے لئے آپ کو فنانشل سپورٹ چاہیئے ہوتی ہے۔خاص طور پر بائیو یا نیچرل سائنسز کے تجربات کے لئے Equipment اور کیمیکلز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’ہائر ایجوکیشن کمشن اپنے وجود میں آنے کے بعد سے نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ خاص طور پر تحقیق کو فروغ دینے کے حوالے سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے کئے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ تاہم ماضی میں ایچ ای سی اور اس سے منسلک جامعات کے بجٹ میں کمی کر نے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے جو منصوبے تھے ان پر کام کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ ان میں سب سے اہم منصوبہ جامعات کے لئے اساتذہ کو تیار کرنا تھا کیونکہ قابل اور باصلاحیت اساتذہ کی غیر موجودگی میں تحقیق کو فروغ نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

The post پاکستان کی آدھی جامعات ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں کراسکیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ضابطے کہاں گئے۔۔۔ قوانین کیا ہوئے۔۔۔؛ جعلی بینک اکاؤنٹ کیسے کھلے؟

$
0
0

پہلا منظر: طارق صا حب کا آج اس بینک میں تیسرا چکر ہے، انہوں نے چند ماہ قبل ہی تمام جمع پونجی لگا کر اپنے بیٹے کو بہ سلسلہ روزگار ایک خلیجی ملک بھیجا ہے۔ انہیں امید تھی کہ بیٹا باہر جاتے ہی باقاعدگی سے مناسب رقم بھیجنا شروع کردے گا، جس سے ان کی تمام مالی مشکلات ختم تو نہیں لیکن کم ضرور ہوجائیں گی، لیکن اب ان کے گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے، کیوں کہ ساری رقم تو وہ بیٹے کو باہر بھیجنے پر خرچ کرچکے ہیں۔

بیٹا وہاں ملازمت کررہا ہے اور خوش قسمتی سے اسے کفیل بھی بہت اچھا ملا ہے جس نے ایک ماہ پورا ہوتے ہی اس کی اُجرت دے دی ہے، لیکن بیٹے کو ملنے والی اُجرت فی الوقت ان کی دسترس میں نہیں، بیٹا روز فون کر کے ان سے ایک ہی سوال کرتا ہے اور ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’نہیں‘۔

طارق صاحب بینک کاری نظام کے اس قانون کا شکار ہیں جس کے تحت وہ اس وقت تک بینک اکائونٹ نہیں کُھلوا سکتے جب تک ان کے ایکسپائر ہوجانے والے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں ہوجاتی۔ اور شناختی کارڈ بنوانا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف، طارق صاحب نے آج پھر بینک میں بڑے افسر کے پاس جا کر داد رسی چاہی، لیکن ٹھنڈے کمرے میں آرام دہ کُرسی پر تقریباً نیم دراز بینک منیجر نے پسینے میں شرابور طارق صاحب کی اس درخواست کو بیک جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں بتانی شروع کردیں ’بڑے صاحب! یہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، اگر بایو میٹرک کے بنا آپ کا اکائونٹ کھول دیا تو اسٹیٹ بینک ہماری برانچ پر جُرمانہ عاید کردے گا، یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایکسپائر شناختی کارڈ پر بینک اکائونٹ کسی صورت نہیں کُھل سکتا۔‘‘ افسر یہ کہہ کر فون پر کسی سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔ خالی پیٹ اور خالی جیب والے طارق صاحب پالیسیوں کے گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔

دوسرا منظر: ایک مصروف شاہ راہ پر موجود بینک کے کیش کائونٹر پر ایک نوجوان کیشیئر سے منت سماجت کر رہا ہے، سر کچھ دیر بعد میرا پیپر شروع ہونے والا ہے، اور پیپر دینے سے پہلے مجھے یہ پیسے گائوں میں اپنے والد صاحب کے اکائونٹ میں لازمی جمع کروانے ہیں، لیکن کیشیئر اس کی بات کو سننے سے یکسر انکاری ہے، کیوں کہ وہ ’اصول کا پکا‘ انسان ہے اور اصول کے مطابق پچاس ہزار سے زیادہ کی رقم جمع کروانے کے لیے اصل شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ اس نوجوان کا جُرم یہ ہے کہ اس نے کسی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے پرس میں اصل شناختی کارڈ کی جگہ اس کی کاپی رکھی ہوئی ہے، لیکن نوجوان کی ’زبان درازی ‘ نے اس بات کو کیشیئر بادشاہ کی انا کا مسئلہ بنا دیا ہے اور اب وہ اصلی شناختی کارڈ دیکھے بنا یہ رقم جمع نہیں کرے گا۔

تیسرا منظر: جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹائون کا مکین عبدالقادر نامی ایک فالودہ فروش رزق حلال کمانے کے لیے ٹھیلے پر فالودہ فروخت کر رہا ہے۔ اسی دوران اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے، دوسری جانب موجود فرد کی بات سُن کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں۔ ساری زندگی رزق حلال کمانے والے عبدالقادر نے تو کبھی پولیس اسٹیشن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، لیکن آج اسے پولیس سے بھی زیادہ طاقت ور ادارے ایف آئی اے نے اپنے دفتر طلب کیا تھا۔ ہانپتا کانپتا جلدی جلدی ایف آئی اے دفتر پہنچا۔ اسے ایک کمرے میں بٹھادیا گیا اور کچھ دیر بعد چند افسران اس کے سامنے بیٹھے تھے۔

ان میں سے ایک نے پوچھا ’کیا کام کرتے ہو؟ عبدالقادر نے گھبراتے ہوئے جواب دیا،’سر! میں ٹھیلے پر فالودہ فروخت کرتا ہوں، اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسرے افسر نے سوال ایک اور سوال کردیا جسے سُن کر عبدالقادر کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سوال ہی کچھ اتنا حیران کُن تھا، جس بندے نے ساری زندگی لاکھ روپے بھی اکٹھے نہ دیکھیں ہو وہ راتوں رات ارب پتی بن چکا تھا۔ افسر نے اسے بتایا کہ اس کے اکائونٹ میں سوا دو ارب روپے کی خطیر رقم موجود ہے۔ انگوٹھا چھاپ عبدالقادر کا بینک اکائونٹ کسی بینک آفیسر کی جانب سے بایو میٹرک اصول کو بالائے طاق رکھ کر اور اصل شناختی کارڈ کے بغیر پچاس ہزار سے زاید رقم جمع نہ کرنے کے اصول بتانے والے کسی کیشیئر کی ملی بھگت سے نہ صرف کُھل چکا تھا، بلکہ اس میں اربوں روپے کی خطیر رقم بھی موجود تھی۔

ایف آئی اے نے جب اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو صرف یہی نہیں بلکہ خاتون خانہ، طالب علم یہاں تک کہ ایک مُردے کا بینک اکائونٹ بھی سامنے آگیا۔ ان اکاؤنٹس میں کروڑوں، اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی جا رہی تھی۔ مزید تحقیقات کے بعد وزارت داخلہ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 95 مشتبہ افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی۔ سپریم کورٹ نے بھی جعلی بینک اکائونٹس کا نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے پر کارروائی شروع کردی ہے ۔

جعلی اکاؤنٹس سے مبینہ طور پر اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے اب تک ہونے والی پیشرفت سے متعلق سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ بھی جمع کروائی ہے جس کے مطابق 107 جعلی اکاؤنٹس سے 54 ارب روپے سے زائد کی رقم دوسرے ملکوں میں منتقل کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کچھ بینک اکائونٹس محدود مدت کے لیے کھولے گئے اور اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے بعد ان اکاؤنٹس کو بند کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک عام شہری بایو میٹرک کے بغیر بینک میں اکائونٹ نہیں کُھلوا سکتا، اصل شناختی کارڈ کے بغیر پچاس ہزار روپے سے زائد کی رقم کسی دوسرے اکائونٹ میں جمع نہیں کرواسکتا تو پھر غریب لوگوں کے نام پر اکائونٹ کیسے کھلے اور ان میں بنا شناختی کارڈ دیکھے اتنی بڑی رقوم کا لین دین کیسے ممکن ہوا۔

اس بابت ایک سنیئر بینکار (نام ظاہر کرنے سے منع کردیا) کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق ہر سرکاری اور نجی بینک کے ہیڈ آفس سے دن کے اختتام پر ایک ٹرانزیکشن مانیٹرنگ رپورٹ جاری ہوتی ہے، جس میں ایسی ٹرانزیکشن کی نشان دہی کی جاتی ہے جن میں پانچ لاکھ سے زیادہ رقم جمع کرائی گئی ہو۔

تاہم زیادہ تر بینک کاروباری مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی ٹرانزیکشنز کی رپورٹ اسٹیٹ بینک کو نہیں کرتے۔ تاہم اگر کسی بینک اکائونٹ میں ایک دن میں بیس لاکھ سے زیادہ رقم جمع کرائی جائے تو پھر متعلقہ بینک ایک سی ٹی آر (کرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ) جاری کرکے لازماً مرکزی بینک کو رپورٹ کرتا ہے۔ اب یہ مرکزی بینک پر منحصر ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں کیا کارروائی کرتا ہے۔ 6 جنوری 2012کو اسٹیٹ بینک نے ایک سرکلر نمبر 01آف 2012جا ری کیا، جس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کی روشنی میں تمام مالیاتی اداروں، بہ شمول ایکسچینج کمپنیوں، نجی، سرکاری اور مائیکرو فنانس بینکس کے لیے کسی بھی ایس ٹی آر (سسپیشیزٹرانزیکشن رپورٹ) اور کرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ (سی ٹی آر) کی فوری رپورٹ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے چار صفحات پر مشتمل سی ٹی آر فارم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں ٹرانزیکشن کرنے والے فرد کی مکمل تفصیلات، دوسرے حصے میں کی گئی ٹرانزیکشن کی تفصیلات، ٹرانزیکشن کی تاریخ، کرنسی کی شکل اور ٹرانزیکشن کی نوعیت کا اندراج کیا جاتا ہے۔ فارم کے تیسرے حصے میں متعلقہ مالیاتی ادارے کا نام، برانچ کوڈ، این آئی ایف ٹی کوڈ، برانچ کا مکمل پتا اور رپورٹنگ آفیسر کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، جب کہ ایس ٹی آر کا پانچ صفحات پر مشتمل رپورٹنگ فارم چار حصوں پر مشتمل ہے۔

پہلے حصے میں جہاں ٹرانزیکشن کی گئی ہے اس مالیاتی ادارے کا نام، مکمل پتہ، این آئی ایف ٹی کوڈ، پرائمری ریگولیٹر (اسٹیٹ بینک، سیکوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) اور رپورٹنگ کرنے والے آفیسر کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔

دوسرے حصے میں ٹرانزیکشن کرنے والے مشتبہ فرد کی تٖفصیلات (نام بمعہ ولدیت، مکمل رہائشی اور دیگر پتے، فون نمبرز، شناختی کارڈ، تاریخ پیدائش، قومیت اور نیشنل ٹیکس نمبر (اگر ہو)، مالیاتی ادارے سے اس کا تعلق اور ٹرانزیکشن کی شکل (انفرادی، کمپنی، ایجنٹ یا بروکر )، مشتبہ ٹرانزیکشن کی معلومات جس میں تاریخ، رقم، اور ٹرانزیکشن کرنے والے کی جانب سے پیش کی گئی توضیحات درج کی جاتی ہے جب کہ چوتھے اور آخری حصے میں اس اکائونٹ کی تٖفصیلات (اکائونٹ نمبر، اکائونٹ کس تاریخ کو کُھلا، اکائونٹ کا موجودہ اسٹیٹس، اکائونٹ کھلوانے کا مقصد، اوسط ماہانہ ٹرن اوور، گذشتہ تین سال میں جمع اور نکلوائی والی رقوم کی تٖفصیلات، گذشتہ تین سال میں سب سے بیلنس، اکائونٹ انفرادی، پارٹنر شپ، کمپنی یا ٹرسٹ کے نام پر کُھلا ہے، ٹرانزیکشن نقد، چیک، ریمٹنیس، کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، پے آرڈر، فکسڈ ڈپازٹ، آن لائن یا کارڈ ٹرانسفر یا کسی شکل میں کی گئی) کا تمام تر جُزیات کے ساتھ اندراج کرکے مرکزی بینک کو بھیجا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی بینک اکائونٹ کھلوانے کی سہولت میسر ہے، کسی بھی کمرشیل بینک میں کھاتے دار معمولی رقم کی ادائیگی کرکے اپنا اکائونٹ کھلوا سکتے ہیں، (مرکزی بینک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وضع کردہ قواعد کے مطابق بیسک بینکنگ اکائونٹ میں ایک ماہ میں محدود ٹرانزیکشن کرسکتے ہیں۔ بیسک بینکنگ اکائونٹ کھلوانے کے لیے متعلقہ فرد ذاتی حیثیت میں اصلی شناختی کارڈ کے ساتھ پیش ہوکر بایومیٹرک کرواتا ہے، جس میں اس کے شناختی کارڈ کی تاریخِ تنسیخ، انگلیوں کے نشانات اور دیگر نجی معلومات کی تصدیق کی جاتی ہے، جب کہ کرنٹ اکائونٹ عموماً ایسے کاروباری افراد کی جانب سے کھولے جاتے ہیں۔

جو روزانہ کی بنیاد پر پیسے جمع کرواتے اور نکلواتے ہیں۔ کھاتے دار کسی بھی وقت اپنے اکائونٹ سے جتنی رقم چاہے نکلوا سکتا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ کُھلوانے کے لیے بینک کو متعلقہ فرد کا شناختی کارڈ، بایو میٹرک اور آمدنی کی ذرایع فراہم کرنا لازم ہے، اس کے بغیر اکائونٹ نہیں کھولا جاسکتا۔ سول پروپرائٹرشپ یا بزنس اکائونٹ کُھلوانے کے لیے متعلقہ فرد یا ادارے کو اپنی آمدنی کے ذرایع کے ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ ، نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این )، کاروباری پتا، کمپنی کا لیٹر ہیڈ اور مُہر بینک کو فراہم کرنی ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک بھی چیز کے بغیر بینک بزنس اکائونٹ کُھولنے کا مجاز نہیں ہے۔

جب ایک عام آدمی بایو میٹرک کے بنا بیسک بینک اکائونٹ بھی نہیں کھلوا سکتا تو پھر اتنی بڑی تعداد میں بینک اکائونٹس کا کُھلنا اور ان میں ہونے والی ٹرانزیکشن بینک عملے، اور مرکزی بینک کے تعاون کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو متعلقہ برانچ نے مرکزی بینک کو ایس ٹی آر یا سی ٹی آر نہیں بھیجی اور اگر برانچ نے یہ فارم بھر کرکے مرکزی بینک کو فراہم کیے تو پھر مرکزی بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے اس پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ اگر تحقیقاتی ادارے غیرجانب داری سے متعلقہ برانچ اور مرکزی بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ذمے داروں سے تفتیش کریں تو اس گتھی کے سلجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ لیکن بات صرف غیرجانب داری کی ہے۔

 پاکستان میں منی لانڈرنگ کے خلاف موجود قوانین

پاکستان 2000ء میں ایشیا پیسیفک گروپ آن منی لانڈرنگ (اے جی پی) کا رکن بنا۔ اس گروپ کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ تھی کہ رکن ملک اپنی حدود میں منی لانڈرنگ کے بین الاقوامی قوانین کو رائج کرتے ہوئے قانون سازی کرے گا۔

تاہم پاکستان 2007ء تک منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی موثر قانون سازی میں ناکام رہا، جس کے بعد جولائی 2007 میں اے جی پی کے ایک اعلٰی سطح وفد نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے 31 دسمبر2007 تک منی لانڈرنگ کے خلاف صدارتی آرڈینینس کے اجراء پر زور دیا، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کی رکنیت ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ اے جی پی کے اصرار پر 8 ستمبر 2007کو اُس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے اینٹی منی لانڈرنگ بل کی منظوری دی۔

اس آرڈینینس کے تحت فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) قائم کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون کو اے جی پی نے تسلیم تو کرلیا لیکن بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کے لیے اس بل میں ابھی بھی کچھ خامیاں ہیں، جنہیں مزید بہتر کرنی کی ضرورت ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے اس قانون کا معیار ویانا اور پالمیرو کنونشن سے مطابقت نہیں رکھتا، کیوں کہ اس میں اسلحے کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ، جنسی استحصال اور ماحولیاتی جرائم کو منی لانڈرنگ جرائم کے درجے میں نہیں رکھا گیا ہے۔

2010 میں مرکزی بینک نے اینٹی منی لانڈرنگ آرڈینینس کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ سے تبدیل کردیا۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے مالیاتی جرائم کے قوانین کو لاگو کرنے کے ذمے دار ہیں۔ ان میں قومی احتساب بیورو (نیب)، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)، ایف آئی اے اور ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ ایویسٹی گیشن قابل ذکر ہیں۔

2007ء کے اینٹی منی لانڈرنگ آرڈینینس کے اہم قوانین میں انسداد دہشت گردی ایکٹ1997، قومی احتساب آرڈینینس1999، کنٹرول آف نارکوٹکس سبٹینس ایکٹ 1997 کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ جن کے مطابق دہشت گردوں کو مالی تعاون فراہم کرنے، رشوت ستانی اور مشکوک ٹرانزیکشن اور منشیات کے حوالے سے ہونے والے مشکوک مالیاتی لین دین کی صورت میں فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس آرڈینینس کے مطابق نیب، ایف آئی اے، اے این ایف اور کسٹم کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو ضبط کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالیہ چند برسوں میں پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پرائمری فنانشل ریگولیٹرز ہیں۔ مالیاتی سیکٹر کی نگرانی کے لیے ان دونوں اداروں نے اینٹی منی لانڈرنگ یونٹس قائم کیے، تاہم وسائل کی قلت کی وجہ سے یہ یونٹس بہتر طریقے سے اپنا کام سرانجام نہیں دے پارہے تھے۔ رواں ماہ ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رقوم کی مشکوک ترسیل کی نگرانی کے لیے ایک جدید ٹیکنالوجی سے مزین ڈیٹا سینٹر قائم کیا ہے۔

اس بابت اسٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پہلے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو مالی تعاون کی روک تھام اور نگرانی کے لیے کوئی خودکار نظام موجود نہیں تھا، جس سے دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ تاہم اب اس جدید ہائی ٹیک ڈیٹا سینٹر کی مدد سے بینکوں، فارن ایکسچینج کمپنیوں اور دیگر ذرائع سے رقوم کے لین دین کی زیادہ بہتر طریقے سے نگرانی کی جاسکے گی، جب کہ ایک ماہ قبل بھی مرکزی بینک نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کی قرارداد کے تناظر میں منی لانڈرنگ کے خلاف نئے راہ نما اصول جاری کیے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل نے منی لانڈرنگ میں ملوث افراد و اداروں کے اثاثے ضبط کرنے اور سفری پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔

اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ ’ضوابط اور ہدایات کی روشنی میں کالعدم تنظیموں اور افراد کے خلاف پابندیاں اور ذمہ داریاں، حکومت کی جانب سے جاری اقدامات کی بنیاد پر کالعدم تنظیموں اور نام زد اداروں یا افراد پر مسلسل لاگو رہیں گی۔‘ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق بینک، ڈی ایف آئی یا پھر ایم ایف بی کسی بھی کالعدم یا نام زد کمپنی اور افراد کو یا پھر ان سے متعلقہ کسی بھی شخص کو انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے قانون کے تحت بینکنگ کی سہولیات فراہم نہ کرے۔

پاکستان منی لانڈرنگ کرنے والے بدترین ممالک کی فہرست میں 46 ویں نمبر

منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے بیزل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کے منی لانڈرنگ انڈیکس کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان 46 ویں نمبر پر ہے۔ بیزل انسٹی ٹیوٹ آف گورننس کی جانب سے مرتب کی جانے والی اس فہرست میں ایسے ممالک کا نام شامل ہے جہاں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

مجموعی طور پر اس فہرست میں146 ممالک شامل ہیں، جب کہ ٹیکس نادہندگان کی جنت اور آف شور کمپنیاں چلانے والے ممالک کو اعداد و شمار کی عدم دست یابی کی بنیاد پر اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم بیزل انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر میں کرپشن کی روک تھام کے لیے نجی اور سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ بیزل کی اینٹی منی لانڈرنگ فہرست میں ریکارڈ مرتب کرتے وقت اے ایم ایل / سی ایف ٹی کے ضابطوں، کرپشن، مالیاتی معیارات، سیاسی حالات اور قانون کی بالادستی سمیت مجموعی طور پر 140 اشاریوں کا جائزہ لیا گیا۔

اس فہرست کو مرتب کرنے کے لیے اعداد و شمار ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل، ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم سے حاصل کیے گئے۔ 2017ء کے انڈیکس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے نگرانی کے حوالے سے پاکستان کو 6اعشاریہ 64 نمبر دیے گئے، بدترین اسکور حاصل کرنے والے ممالک میں ایران 8.6، افغانستان 8.38، گنی بساؤ 8.35، تاجکستان 8.28، لاؤس 8.28، موزمبیق 8.08، مالی، 7.97، یوگنڈا 7.95 اور کمبوڈیا 7.94 شامل ہیں۔

بینکاری اور مالی لین دین کی زبردست نگرانی کے حوالے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں فِن لینڈ 3 اعشاریہ صفر چار اسکور کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔ فن لینڈ کے بعد بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دیگر ممالک میں لتھوانیا 3.67، ایسٹونیا 3.83، بلغاریہ 3.87، نیوزی لینڈ 3.91، سلوونیا 4.02، ڈنمارک 3.05 شامل ہیں۔

منی لانڈرنگ؛ کالے دھن کو سفید کرنے کا مذموم طریقہ

زر، زن اور زمین، کہتے ہیں کہ ان تین عوامل کا کسی انسان کی تباہی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں زن کی وجہ سے قتل ہوتے ہیں تو کہیں زمین اپنے ہی مالک کی لاش کو اپنی آغوش میں لے رہی ہے، لیکن ان تینوں میں سب سے خطرناک شے زر ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتیں، لسانی اور مذہبی گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ منشیات، جسم فروشی، کرپشن، جنگوں کا اولین محرک پیسہ ہی ہے۔ پیسے کو ہاتھ کا میل کہا جاتا ہے، لیکن یہی پیسہ خونی رشتوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے۔

دنیا بھر میں جسم فروشی، بلیک مارکیٹنگ، رشوت خوری، ہتھیاروں کی سپلائی اور دیگر غیرقانونی طریقوں سے کما ئی گئی دولت ’کالا دھن‘ کہلاتی ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کا آغاز دو ہزار قبل مسیح میں چینی تاجروں نے کیا، جو اپنی دولت کو حکم رانوں سے چھپانے کے لیے دوسرے صوبوں اور چین سے باہر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس ضرورت نے انفارمل ویلیو ٹرانسفر سسٹم یعنی حوالہ یا ہنڈی کے کاروبار کو جنم دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کالے دھن کو سفید کرنے والے افراد کے خلاف قانون سازی کا آغاز کیا گیا، اس وقت یہ کام منشیات کے اسمگلر ہی کرتے تھے۔

1989میں جی سیون ممالک نے منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ قائم کی۔ تاہم نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو ہونے والی فنڈنگ کے خلاف سخت قانون سازی پر زور دیا گیا۔ 2002ء کے آغاز میں دنیا بھر کی حکومتوں نے مالیاتی لین دین کی نگرانی کے کے لیے منی لانڈرنگ کے قوانین کو مزید بہتر بنایا۔ دنیا بھر کے اسمگلر، سیاست داں، مالیاتی ادارے ناجائز طریقے سے کمائے گئے پیسے کو قانونی شکل دینے کے لیے منی لانڈرنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

قانون کی نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے یہ غیرقانونی دولت ٹیکس حکام کی نظروں میں بھی نہیں آتی۔ منی لانڈرنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلا طریقہ ٹیکس چوری کا ہے جس میں پہلے سے چلتے ہوئے کاروبار سے ملنے والے منافع کو ٹیکس ادا نہ کرتے ہوئے اسی رقم سے کوئی جائیداد یا چلتا ہوا کاروبار خرید لیا جاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ بھی کالے دھن کو سفید کرنے کے مترادف ہے۔ دوسرا طریقہ کرمنل پروسیجر کا ہے، اس قسم کی منی لانڈرنگ میں ملوث فرد کسی غیرقانونی اور مجرمانہ طریقے (زمینوں پر قبضے، بینک ڈکیتی، قتل، اغوا برائے تاوان وغیرہ) کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے جائیداد یا کاروبار خرید لے اور پھر اسے دوبارہ فروخت کرکے حاصل کی گئی دولت کو جائیداد کی خریدوفروخت سے حاصل ہونے والی رقم قرار دے۔

یہ منی لانڈرنگ کی ایک بدترین شکل ہے۔ ریاست کے نزدیک کرمنل منی لانڈرنگ، منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، جب کہ فرضی ناموں سے بنائی گئی جعلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری، فرضی خیراتی اداروں کے نام پر چندے لینا بھی منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔منی لانڈرنگ کا سب سے مقبول اور مستعمل طریقہ ہنڈی یا حوالے کا ہے، اس طریقۂ کار میں کسی کاغذی کارروائی کے بغیر بھاری رقوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔

مالیاتی اداروں کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے اس رقم پر ٹیکس بھی حاصل نہیں ہوپاتا اور ملکی کرنسی کی اسمگلنگ کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچتا ہے۔ غیرقانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی سے دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ بھی حاصل ہورہا ہے، کیوں کہ کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو بھاری رقوم منتقل کی جاتی ہیں جنہیں وہ ہتھیار خریدنے اور دہشت گردی کے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

منی لانڈرنگ کی مختلف اشکال

اسٹرکچرنگ: اس طریقۂ کار میں رقم پے آرڈر، ٹریول چیکس اور منی آرڈر کے ذریعے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے مختلف وصول کنندگان کو بھیجی جاتی ہے جو اس رقم کو وصول کرکے ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں۔

بَلک کیش اسمگلنگ: اس طریقۂ کار میں نقد رقم کو آف شور بینک اکاؤنٹس میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ بعد میں اس رقم کو قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔

تجارت کی بنیاد پر منی لانڈرنگ: اس طریقۂ کار میں پیسے کی لین دین کو انوائسز (بلوں) میں مالیت کم یا زیادہ کرکے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک چیز کی قیمت سو روپے ہے لیکن بل میں اسے کم مالیت ظاہر کرکے پچاس روپے یا زیادہ مالیت ظاہر کرکے ڈیڑھ سو روپے کردیا جاتا ہے۔

شیل کمپنیاں اور ٹرسٹ: ٹرسٹ اور شیل کمپنیاں دوسرے کے سرمائے کو اپنی ملکیت ظاہر کرتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ لیکن اس سرمایہ کاری کے پس منظر میں کوئی سیاست داں، اسمگلر یا منشیات فروش ہی اصل سرمائے کا مالک ہوتا ہے۔ پاناما دستاویزات میں انہیں شیل اور آف شور کمپنیوں میں چھپ کر سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو بے نقاب کیا گیا۔

جائیداد کی خرید و فروخت: اس طریقے میں کالے دھن سے خریدی گئی جائیداد کو قانونی طریقے سے فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی کو قانونی شکل دی جاتی ہے۔

بلیک سیلریز: منی لانڈرنگ کی اس شکل میں بہت سی کمپنیاں کسی تحریری معاہدے کے بنا اپنے ملازمین کو تنخواہیں نقد دیتی ہیں، اور اس کام کے لیے کالے دھن کو استعمال کیا جاتا ہے۔

انشورنس پالیسیز اور پرائز بانڈ: اس طریقۂ کار میں کالا دھن رکھنے والے میچور ہونے والی انشورنس پالیسیز کو زیادہ قیمت پر خرید کر انہیں کمپنی سے کلیم کروا لیتے ہیں، اس طریقہ کار میں انشورنس کمپنی کی جانب سے ملنے والی رقم قانونی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا پچاس لاکھ روپے کا پرائز بانڈ نکل جائے تو منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے ایجنٹ پانچ یا دس لاکھ روپے اوپر دے کر وہ بانڈ حاصل کر لیتے ہیں، اس طرح دس لاکھ روپے دے کر وہ اپنے چالیس لاکھ روپے کے دھن کو قانونی کرلیتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ کراچی میں بولٹن مارکیٹ پر پرائز بانڈ کی خرید و فروخت کرنے والے اسٹالز پر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔

تحائف کی شکل میں منی لانڈرنگ: منی لانڈرنگ کی اس شکل کو پاکستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں ’تحائف‘ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں لہٰذا ملک کا امیر طبقہ اپنی آمدنی، اثاثہ جات اور دولت کو منتقل کرنے کے لیے اس آپشن کو ایک محفوظ طریقۂ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ٹیکس حکام کے حوالے سے شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان میں 2 ہزار 785 افراد نے تحائف کی شکل میں منی لانڈرنگ کی۔

قانون کے مطابق جن افراد سے ایسی رقم موصول کی جاتی ہیں یا تو وہ افراد ٹیکس ادا کرنے کی حدود سے باہر ہوتے ہیں یا پھر ان کے ذرائع آمدن کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ ایک خبر کے مطابق گذشتہ برس دولت مند افراد کی ٹیکس ریٹرن فائلوں کی جانچ پڑتال کے دوران منی لانڈرنگ کے لیے ’تحائف‘ کی لین دین‘ کے کیسز کا انکشاف ہوا۔ اس انکشاف کے بعد ایف بی آر کے محکمے اِن لینڈ ریونیو کے اینٹی منی لانڈرنگ سیل نے ان افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا، جنہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے وقت کروڑوں روپے کی دولت کو ’تحائف‘ کے زمرے میں شمار کیا تھا۔

اینٹی منی لانڈرنگ سیل کے اعدادوشمار کے مطابق 2 ہزار 785 دولت مند افراد نے 2016 کے ٹیکس گوشواروں میں مجموعی طور پر 102 ارب روپے کی جائیداد کو ’تحائف‘ قرار دیا۔ تین کیسز میں ان افراد نے 1 ارب سے زائد جائیداد کو ’تحائف‘ ظاہر کیا، جب کہ اس میں سب سے بڑا ’تحفہ‘ 1 ارب 70 کروڑ روپے کا ہے، تقریباً 8 افراد نے 50 کروڑ سے 1 ارب تک کے اثاثہ جات کو تحائف قرار دیا۔ ایک اور کیٹیگری میں 97 دولت مند افراد نے 20 کروڑ سے 50 کروڑ تک کی جائیداد کو تحائف قرار دیا جب کہ مزید 97 افراد نے ان تحائف میں اپنی 10 سے 20 کروڑ روپے کی جائیداد کو شامل کیا۔ اپنی جائیداد اور اثاثہ جات کو 5 کروڑ سے 10 کروڑ تک کے تحائف میں ظاہر کرنے والے افراد کی تعداد 280 ہے، جب کہ دیگر 2 ہزار 348 افراد نے 1 کروڑ سے 5 کروڑ تک کے اثاثوں کو تحائف میں شامل کیا۔

اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت ان افراد کے اثاثوں کو ضبط اور کسٹم اور محکمہ محصولات کی خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مجرمانہ دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا جاسکتا ہے، جس کے تحت تحائف کی شکل میں جائیداد، رقوم یا اثاثوں کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث افراد پر بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ 10 سال تک قید کی سزا اور جائیداد کی ضبطی کی فرد جرم عاید کی جاسکتی ہے۔

منی لانڈرنگ میں ملوث بڑے بینک

دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے قوانین کی خلاف ورزی پر بہت بڑے اور نام ور بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ بی سی سی آئی بینک ایک بین الاقوامی بینک تھا جسے 1972میں ایک پاکستانی سرمایہ کار آغا حسن عابدی نے قائم کیا تھا۔

بی سی سی آئی صدام حسین، فلسطین کے علیحدگی پسند تنظیم فتح کے لیڈر ابواندال سمیت متعدد سیاست دانوں کے اکاؤنٹ کھولنے اور منی لانڈرنگ میں معاونت کرنے پر بند کردیا گیا۔اس بینک پر اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام تھا۔ دسمبر 2012 میں ایچ ایس بی سی بینک پر ایک ارب نوے کروڑ ڈالر اور جولائی 2014 میں دنیا کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک بی این پی پر آٹھ ارب نوے کروڑ ڈالر جرمانہ عاید کیا گیا۔ 2013 میں دنیا کی سینٹرالائزڈ ڈیجیٹل کرنسی لبرٹی ریزرو کو چھے ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کرنے پر بند کر دیا گیا۔ ایک مشہور بینک پر ایران کے لیے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کرنے کے جرم میں تین سو تیس ملین ڈالر جرمانہ عاید کیا گیا۔

مالیاتی اداروں کے مطابق اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے تقریباً ایک دہائی میں 250 ارب ڈالر کی ساٹھ ہزار سے زائد ٹرانزیکشن کیں۔ مئی 2017 میں سنگاپور کے مالیاتی حکام نے سوئٹزرلینڈ کے بی ایس آئی بینک کو منی لانڈرنگ قوانین کے خلاف ورزی پر بند کردیا۔ حال ہی میں امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف فنانشل سروس (ڈی ایف ایس) نے ایک بڑے پاکستانی بینک پر 225 ملین ڈالر جرمانہ عاید کیا ہے۔ ڈی ایف ایس کے مطابق مذکورہ بینک کی نیویارک میں قائم برانچ گذشتہ چالیس برس سے آپریشنل تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ جرمانہ ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے اقدامات نہ کرنے پر عائد کیا گیا ہے جب کہ اب اس برانچ کو بند بھی کردیا گیا ہے۔

امریکی حکام کی جانب سے نیویارک میں موجود اس برانچ کو 2006ء میں رقوم کی غیرقانونی منتقلیوں کی نگرانی کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھی، تاہم بینک کی جانب سے ان ہدایات کو مسلسل نظرانداز کیے جانے پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ ڈی ایف ایس کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بینک سعودی عرب کے ایک نجی بینک کو اربوں ڈالر کی منتقلی میں مدد فراہم کرتا رہا اور اس سعودی بینک کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے رابطے تھے۔ اس پاکستانی بینک کی برانچ نے تیرہ ہزار مرتبہ زائد ایسی رقوم کی منتقلی میں معاونت کی، اور ان رقوم کی منتقلی سے مستفید ہونے والوں میں دہشت گرد اور ہتھیاروں کے بین الاقوامی تاجر بھی شامل تھے۔

The post ضابطے کہاں گئے۔۔۔ قوانین کیا ہوئے۔۔۔؛ جعلی بینک اکاؤنٹ کیسے کھلے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈالر کی نرالی قلابازیاں

$
0
0

گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا مشہور محاورہ ہے۔جب وقت یا انسان ایک حال میں نہ رہے تب یہ بولا جاتا ہے۔مگریہ نیا زمانہ ہے۔

اب گرگٹ نہیں ڈالر اور سٹاک مارکیٹ اتنی تیزی سے رنگ بدلتے ہیں کہ آدمی حیران و پریشان رہ جائے۔لہٰذا نیا محاورہ یہ ہونا چاہیے:’’ڈالر کی طرح رنگ بدلنا!‘‘ڈالر کی متلون مزاجی ملاحظہ فرمائیے کہ 7 اکتوبر کو ایک ڈالر کے بدلے 124.27 روپے ملتے تھے، اگلے دن یہ شرح 133.64 روپے تک جاپہنچی۔

اسی طرح ہماری سٹاک مارکیٹ 16 اکتوبر کو 36880 پوائنٹ پہ بند ہوئی۔ صرف دس دن بعد وہ 40556 پوائنٹس پر پہنچ گئی۔ڈالر اور سٹاک مارکیٹ کی انوکھی قلابازیاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی کرنسی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہونا پاکستانی معیشت کے لیے اچھا شگون نہیں ۔ وجہ یہ کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ہماری درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں اور یہ عمل پاکستان میں مہنگائی بڑھاتا ہے۔

پاکستان کی سرکاری و نجی کمپنیاں پٹرول، گیس، کھانے کا تیل، کھاد، مشینری، اور بہت سی صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال بیرون ممالک سے منگواتی ہیں۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو پاکستانی کمپنیوں کو زیادہ روپے دے کر بیرونی ملکوں سے مال خریدنا پڑتا ہے۔ چناں چہ وہ پاکستان میں اپنا مال مہنگا کردیتی ہیں تاکہ خسارے سے بچ سکیں۔ مگر اس عمل سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ خصوصاً وہ اشیا زیادہ مہنگی ہوجاتی ہیں جو بیرون ممالک سے منگوائی جاتی ہیں مثلاً پٹرول، کھانے کا تیل اور روزمرہ استعمال کی دیگر بہت سی چیزیں۔پٹرول کی قیمت میں اضافہ بہت سی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے البتہ پاکستانی برآمد کنندگان خوش ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اب انہیں بیرون ممالک میں اپنے مال کی فروخت پر زیادہ رقم ملتی ہے۔سلے، ان سلے کپڑے پاکستان کی سب سے بڑی درآمد ہے لہٰذا ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملبوسات برآمد کرنے والی وہ پاکستانی کمپنیاں فائدے میں رہیں گی جو مقامی خام مال کے ذریعے اپنی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ جن پاکستانی برآمدی کمپنیوں کی پیداوار یا مصنوعات بیرونی ممالک سے آئے خام مال کی محتاج ہے تو ان کے لیے ڈالر کی قیمت بڑھنا عموماً مسائل و مصائب کی خبر ہی لاتا ہے۔ خام مال مہنگا ہونے سے لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔

 قرضوں کا بڑھتا پہاڑ
1947ء میں قیام پاکستان کے وقت روپے اور ڈالر کی قیمت برابر تھی۔آنے والی حکومتیں بیرون ممالک سے مال و اسباب منگوانے لگیں، تو رفتہ رفتہ ڈالرکی قیمت بڑھنے لگی۔ اب ایک ڈالر کی قیمت 132 روپے کے آس پاس گھوم رہی ہے۔ روپے کی قدر میں یہ گراوٹ و پستی ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی، کرپشن اور مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستانی سرکار اور نجی شعبہ بیرون ممالک سے کئی اشیا خریدتا ہے۔ اسی لیے ہمارے پاس معقول تعداد میں ڈالر ذخیرہ ہونے چاہئیں۔ مگر پاکستانی حکومت کے ذخائر ڈالر پچھلے تین سال میں بہت کم ہوچکے۔وجہ قرضوں کا بڑھتا پہاڑ ہے۔پچھلے دس سال میں حکومت تقریباً ’’تیس ہزار کھرب روپے ‘‘کی مقروض ہوچکی ہے۔ اسے اب عالمی مالیاتی اداروں، قومی بینکوں اور غیر ملکی حکومتوں کو کھربوں روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ اس محیر العقول رقم کا صرف سود ہی اربوں روپے میں ہے۔ چناں چہ پاکستانی حکومت ہر ماہ کچھ اصل زرمع سود ڈالروں کی شکل میں عالمی و قومی مالیاتی اداروں کو ادا کرتی ہے۔یہ روش حکومت پاکستان کے ذخائر ڈالر میں بے پناہ کمی لے آئی۔

جب وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالی تو ان کی سعی رہی کہ دوست ممالک سے امداد و قرض لے کر اسٹیٹ بینک کے ذخائر ڈالر بڑھائے جائیں۔ وہ دراصل مشہور عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہ ادارہ قرض تو دیتا ہے، مگر ایسی شرائط کے ساتھ جن پر عمل درآمد کرنے سے خصوصاً عوام کے ناتواں کندھوں پر مہنگائی کا مزید بوجھ بڑھتا ہے۔درست کہ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں لیکن سوال یہ کہ کیا عمران خان حکومت سنگین مسائل حل کرسکے گی؟

فی الوقت تو معاشی مصائب بڑھ رہے ہیں۔مثلاً 7 اکتوبر کوڈالر کی قیمت بڑھنے سے پاکستان پر نوسو ارب روپے کے قرضے بیٹھے بٹھائے بڑھ گئے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔حالیہ مالی سال قرضے اتارنے، سود دینے اور بیرون ممالک سے مال و اسباب خریدنے کی خاطر پاکستانی حکومت کو 22 سے 25 ارب ڈالر درکار ہیں۔ مگر تادم تحریر اس کے پاس سات آٹھ ارب ڈالر موجود ہیں۔ اس رقم سے بمشکل ڈیڑھ ماہ گزرنا ممکن ہے۔ اسی لیے عمران خان حکومت مجبور ہوگئی کہ وہ کشکول اٹھا کر در در بھیک مانگنے لگے۔

عام لوگ کیا کہتے ہیں؟
ہم نے ایک سروے کرتے ہوئے مقامی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات، سرکاری ملازمین اور معاشرے کے مختلف طبقات میںشامل افراد سے دریافت کیا کہ وہ ڈالر کی اڑان اور پاکستان کے معاشی حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیالات درج ذیل ہیں:

٭… یونیورسٹی طالب علم، عمیر احمد نے کہا ’’ڈالر کی قیمت میں مسلسل اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہم بیرون ممالک سے بہت سارا سامان منگوانے لگے ہیں۔ یعنی ہماری درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ 1980ء میں ہماری درآمدات صرف چار ارب ڈالر تھیں۔ آج وہ پچپن ارب ڈالر کا ہندسہ پار کرچکیں۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ ہم پاکستانی بیرونی اشیا استعمال کرنے کے دیوانے ہوچکے۔ اگر ہم پاکستان کی معیشت مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں درآمدات کم سے کم کرنا ہوں گی جبکہ برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ابھی ہم صرف اکیس بائیس ارب ڈالر کی برآمدات کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی برآمدات بھی ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

٭…بینش طالبہ ہیں۔ ڈالر کی قدر میں اونچ نیچ آنے کے متعلق انہوں نے کہا ’’روپے اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ اس امر پر منحصر ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی کتنی تعداد موجود ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے پاس وافر تعداد میں ڈالر ہیں، تو روپے کی قیمت مستحکم رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ڈالر کم ہوجائیں تو پھر لامحالہ اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔حکومت پاکستان قرضوں اور سود کی ادائیگی کررہی ہے۔ اس ادائیگی میں ابھی مزید اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے، ڈالر کی مانگ بڑھے گی اور اس کی قیمت بھی! ہماری خوش قسمتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو پاکستانی معیشت اب تک بیٹھ چکی ہوتی۔ مگر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد روز بروز کم ہورہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اپنی معیشت مضبوط کرنا ہوگی ورنہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔‘‘

٭…رضوان شاہ امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا ’’ایک ملک اپنی برآمدات بڑھائے تو کرنسی کی قدر کم کرنا مفید ہے۔ لیکن فائدہ صرف اسی وقت ملتا ہے جب برآمدات ملکی خام مال سے تیار کی جائیں۔ اگر بیشتر برآمدی مصنوعات بیرون ممالک سے خام مال منگوا کر تیار ہوتی ہوں، تو کرنسی کی قدر کم کرنے سے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ خام مال مہنگا ہوجاتا ہے۔ہماری ملکی مصنوعات پھر عالمی منڈیوں میں دیگر ملکوں کی سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔‘‘

٭…ڈالر کے بارے میں طالبہ، زارا نے کچھ یوں اظہار خیال کیا ’’روپے اور ڈالر کا ایکسچینج ریٹ غیر فطری ہے۔ یہ دونوںکرنسیوں کی صحیح قدروقیمت ظاہر نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ایک سو تیتیس روپے (ایک ڈالر) میں آپ ایک وقت کا کھانا کھاسکتے ہیں۔ مگر نیویارک میں ایک ڈالر سے صرف ٹافیاں ہی خریدیں گے۔اس لحاظ سے تو ہماری کرنسی بہتر ہوئی۔ ‘‘

٭…ابوزر کچھ عرصہ قبل امریکا سے پاکستان آئے ہیں۔ وہ ملکی معاشی حالات کی بابت کہتے ہیں ’’میں مارچ 2018ء میں امریکا گیا تھا۔ تب ایک ڈالر کے بدلے 104 روپے ملتے تھے۔ اب واپس آیا تو ڈالر 133 روپے کا ہوچکا تھا۔ گویا ڈالر کی قدر میں حیران کن اضافہ ہوگیا۔ ایسے ناگفتہ ماحول میں ایک ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟میرا مشورہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات پر قابو پائے اور سادگی اختیار کرے۔ مزید براں لگژری اشیاء کی درآمد روکے۔ اخراجات گھٹا کر ہی ہم سنگین معاشی بحران پر قابو پاسکتے ہیں۔‘‘

٭…علی حسین عمررسیدہ پاکستانی ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگے ’’میاں! میں تو ایک بات جانتا ہوں، یہ کہ وردی والوں کی حکومت میں عوام خوشحال اور مطمئن رہے۔ ایوب خان کے دور میں ایک ڈالر صرف ڈیڑھ روپے کا تھا۔ جب بھی جمہوریت والے آئے، ان کی حکومتوں میں مہنگائی عوام کے سروں پر سوار رہی اور انہوں نے ہمیں مقروض بنا دیا۔ اب تم خود ہی بتاؤ،جب جمہوری حکومتوں میں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملے تو کیا میں جمہوریت کے گُن گاتا پھروں؟‘‘

٭…خرم امین مقامی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’اپنی کرنسی کی قدر کم کرنا بڑا خطرناک عمل ہے۔ وجہ یہ کہ اس طرح معیشت کا سائز کم ہوجاتا ہے۔ ماضی میں ہماری قومی معیشت کا سائز 350 ارب ڈالر تھا۔ لیکن روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کے باعث وہ 270 ارب ڈالر سے بھی کم ہوچکا۔ خدشہ ہے کہ وہ 250 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔جب قومی معیشت کا حجم کم ہوتا جائے اور کرنسی کی قدر بھی گھٹتی رہے، تو ملک اپنے قرضے ادا نہیں کرپاتا۔ مسلم لیگ ن حکومت نے بے شک کھربوں روپے کے قرضے لیے مگر اس نے ساڑھے چار سال تک ڈالر کی قیمت کو 102 سے 105 روپے تک رکھا۔مسلم لیگی اقتدار ختم ہوتے ہی نگران حکومت آئی،تو اس نے مارکیٹ کی قوتوں کو ڈالر کی قیمت زیادہ کرنے کا اختیار دے دیا۔ نئی حکومت بھی اسی کے نقش قدم پر گامزن ہوگئی۔ لہٰذا ڈالر کی اڑان روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔‘‘

٭…خرم امین کے ایک دوست ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ کہنے لگے ’’میں اپنے دوست کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ مسلم لیگ ن حکومت نے مصنوعی طریقوں سے ڈالر کی قیمت بڑھنے نہیں دی۔ اس عمل سے معیشت کو نقصان پہنچا اور وہ تباہی کی جانب گامزن ہوگئی۔اب ڈالر کا ایکسچینج ریٹ فطری انداز میں طے ہوگا۔ ممکن ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں 160 یا 170 روپے تک پہنچ جائے۔ اس طرح ہماری برآمدات بڑھیں گی اور ڈالر کے ہمارے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔دراصل مسلم لیگ ن حکومت وقتاً فوقتاً ڈالر مارکیٹ میں پھینکتی رہی تاکہ ڈالر کا ریٹ کم رہے ۔لیکن اب پی ٹی آئی حکومت کے پاس اتنے ڈالر نہیں کہ وہ مارکیٹ میں لاکر ریٹ کم کرسکے۔

پچھلی حکومتوں نے جو بھاری بھر کم قرضے لیے، انہیں ادا کرنے کی خاطر اب حکومت کو ہر ایک ڈالر بھی بچا کر رکھنا ہے۔ماضی میں حکومتوں نے انتہائی زیادہ شرح سود پر قرضے لیے اور پاکستانی قوم کو زیر بار کردیا۔ میں اپنے دوستوں کو کہتا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت مضوعی طور پر کم رکھی جارہی ہے اور یہ ایک دن ٹائم بم کی مانند پھٹ کر اوپر جائے گی۔ پی ٹی آئی حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ ٹائم بم اس کے دور میں پھٹ گیا ۔لیکن کسی بھی پارٹی کی حکومت ہوتی،اس بم نے آخر پھٹنا ہی تھا۔‘‘

٭…ثاقب حمید ایک بزنس مین ہیں۔ معاشی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے ’’پاکستان کو اس وقت قرض نہیں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ عمران خان کوچاہیے کہ وہ ایسے اصول و قوانین بنائیں جن کے ذریعے پاکستان میں کاروبار کرنا آسان ہوجائے۔ خاص طور پر وہ یقینی بنائیں کہ افسر شاہی غیر ملکی کمپنیوں سے کمیشن یا رشوت نہ لے سکے۔ بیرون ممالک سے کی گئی سرمایہ کاری بڑھنے سے خود بخود مارکیٹ میں وافر ڈالر آئیں گے۔‘‘

٭…سلمان بٹ تاجر ہیں۔ انہوں نے معاشی بحران سے نمٹنے کا حل کچھ یوں پیش کیا ’’چین کے ساتھ باہمی تجارت میں ہمیں بہت زیادہ خسارہ ہورہا ہے۔ چین ہمیں تقریباً سولہ ارب ڈالر کا سامان فروخت کرتا جبکہ وہ صرف پونے دو ارب ڈالر کا پاکستانی مال خریدتا ہے۔ اس باہمی تجارت سے ہماری مقامی کاروبار اور صنعتوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔لہٰذا چین کو کہا جائے کہ وہ پاکستان سے کم از کم دس ارب ڈالر کا سامان خریدے تاکہ باہمی تجارت متوازن ہو اور پاکستانی برآمدات بڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو ’’ایم ایف این‘‘ (موسٹ فیورڈ نیشن) کا درجہ دینا چاہیے۔ یوں بھارتی مال دبئی کے راستے آنے کے بجائے براہ راست بھارت سے آئے گا۔ اسی طرح ہمیں اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ ہوسکے، تو پاکستان کو افغانستان اور بھارت سے تجارت کے لیے اپنی زمین دینی چاہیے۔ پاکستان اس تجارت کی فیس کے ذریعے سالانہ چند ارب ڈالر کماسکتا ہے۔‘‘

٭…سلیم احمد دکان دار ہیں۔اپنا اسٹور چلاتے ہیں۔ ان سے معاشی صورت حال پر کچھ کہنے کو کہا، تو وہ حکمرانوں سے بہت شاکی نظر آئے۔ کہنے لگے ’’حکمران کوئی بھی ہو، اس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ ملک کو معاشی ترقی دے تاکہ عوام خوشحال ہوسکیں۔ ہمارے کسی حکمران نے عوام کی بھلائی پر توجہ نہیں دی، وہ بس خود کو دولت مند بنانے پر لگے رہے۔ اگر ایسے ہی حالات رہے، تو ملک کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہو سکتا۔‘‘

The post ڈالر کی نرالی قلابازیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4424 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>