Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4711 articles
Browse latest View live

مَوتُ العَالِم، مَوتُ العَالَم ؛ آہ! استادِگرامی مفتی اطہر نعیمی مرحوم

$
0
0

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو!

جب بھی اُن کو دھیان آئے گا، تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے

فراقؔگورکھپوری (28 اگست 1896ء تا 3مارچ 1982ء ) کے اس تعلّیٰ پر کوئی تنقید کیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ بندہ یہ دعویٰ آج اُس ہستی کی روح کی طرف سے کررہا ہے جو میرے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتی تھی۔

صاحبو! لفظ ساتھ نہیں دے رہے، ہرچند کہ آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، کسی کے استفسار پر بات شروع کروں تو اَزخود اشک بار ہوجاتی ہیں اور کسی کی وفات پر بمشکل رونے والا یہ ڈھیٹ انسان (مضبوط نہیں) گلوگیر لہجے میں بات مختصر کردیتا ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ خستہ حالی میں روز اَفزوں اضافے نے کمرِہمت توڑ دی ہے، المیہ یہ ہے کہ میری عمر بھر کی ’’زباں فہمی‘‘ کو سہارا دینے والا آخری بڑا ستون بھی ساتھ چھوڑ گیا ہے۔

میری والدہ میرے لیے سب سے بڑی ’زباں فہم‘ تھیں، پھر دادا اور والد گرامی سے بھی کچھ کچھ سیکھا اور اساتذہ کرام میں جن سے، تعلیم کے ساتھ ساتھ، سب سے بڑھ کر، تربیت حاصل کی تو وہ عظیم انسان تھے، یادگارِاسلاف، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ مُجاز اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلیفہ، تحریک پاکستان کے کارکن، پاکستان کے بزرگ ترین عالِم دین، مفتی اور سب سے زیادہ کُہنہ مشق دینی نشریات کار [Broadcaster]، مفتی محمد اطہرنعیمی رحمۃ اللہ علیہ (پ: 1928ء) جنھوں نے 19دسمبر 2023ء کی شب گیارہ بجے کے لگ بھگ، داعی اجل کو لبیک کہا۔ پچانوے برس کی عمر میں اپنے والد ’تاج العلماء‘ مفتی محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم مکان (واقع ناظم آباد چارنمبر، کراچی) میں ایک طویل مدت مستقل قیام کرنے اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر ایک دنیا کو اپنے علم سے سیراب کرنے والا یہ چشمہ خشک ہوگیا۔

مفتی صاحب نے مارچ 1950ء میں پاکستان آمد کے بعد کوئی ایک ماہ لاہور میں قیام کیا اور پھر کراچی تشریف لاکر ایک نجی ادارے میں ملازم ہوئے جہاں سیٹھ نے اُن کی نمازِظہر کی اَدائی کے لیے وقفہ کرنے پر اعتراض کیا تو انھوں نے فوراً ملازمت چھوڑدی۔ بعداَزآں وہ محکمہ ڈاک میں ملازم ہوگئے اور ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، قبل اَز وقت سبکدوش ہوئے تو علمی خدمات انجام دینے کے لیے دارالعلوم نعیمیہ سے منسلک ہوگئے۔

یہاں ایک لطیف نکتہ سُوجھا ہے کہ عمر خواہ کتنی ہی ہو، انسان زندگی کی ناثباتی پر یہ کہے بغیر نہیں رہتا کہ دنیا چار دن کی ہے، مگر بہت کم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ چاردن بھی کچھ کر دکھانے والوں کے لیے کم نہیں:

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی

بہت ہوتے ہیں یارو! چار دن بھی

(فراقؔگورکھپوری)

مفتی اطہرنعیمی صاحب نے اپنے استاد ومرشد علامہ نعیم الدین مرادآبادی اور والد گرامی مفتی عمر نعیمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو اُن کے عہدشباب میں تحریک پاکستان بن چکی تھی (ممتاز علمی، ادبی وسیاسی ادبی جریدے ’السواداعظم‘ کے بانی ومدیر، جس کے ذریعے اعلیٰ حضرت اور اِن بزرگ شخصیات کا پیش کردہ، دوقومی نظریہ سیاسی اُفُق پر اُبھرا)۔ انھوں نے 1946ء کی تاریخی آل انڈیا سُنّی کانفرنس (بنارس) میں بطور مندوب شرکت کی اور وہ اس عظیم اجتماع علماء میں شامل مندوبین میں وفات پانے والے سب سے آخری عالم تھے۔

استادگرامی مفتی محمد اطہرنعیمی اشرفی نے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی (جن کا انتقال ماضی قریب میں ہوا)۔ اُن کے اساتذہ میں اُن کے والد شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد عمر، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی‘ مولانا سید وصی احمد صاحب اور مولانا محمد یونس صاحب سنبھلی شامل تھے۔ انھیں تصوف کے چاروں سلاسل میں اپنے والد گرامی سے بیعت واجازت حاصل ہوئی، نیز سلسلہ عالیہ قادریہ میں شیخ المشائخ پیر سید طاہر علاؤ الدین گیلانی نے انھیں خلافت عطا کی۔

مفتی صاحب نے مروجہ انگریزی تعلیم اعلیٰ ثانوی درجے تک حاصل کی، مگر وہ بہت سے موجودہ انگریزی خواں افراد سے زیادہ فرنگی زبان پر قدرت کے حامل تھے، ہرچند کہ اُنھیں عربی داں، فارسی داں عالم دین کی حیثیت سے شہرت ملی۔ آگے چل کر اس بابت بھی کچھ عرض کروں گا۔ مفتی صاحب نے جو بات مجھ سے چھُپائی اور پھر آخری دور میں جناب حامد علیمی (تلمیذ ڈاکٹر مفتی ناصر الدین صدیقی، سابق صدرنشیں شعبہ اصول الدین، جامعہ کراچی اور میرے اُستاد بھائی) کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کردی کہ وہ نہ صرف جگرؔ مرادآبادی کے مداحین میں شامل تھے، بلکہ شاعری بھی فرماتے تھے جو مابعد نعت گوئی تک محدود کرلی تھی۔

میرے لیے ناممکن ہے کہ اپنے منفرد، بلکہ فردِفرید اُستاد کی شان میں کچھ بیان کروں اور وہ نجی تعلقات کے اس طرح ذکر سے خالی ہو کہ اُس میں خاکسار کی ستائش کا پہلو نہ نکلے، اس لیے کہ مفتی صاحب مرحوم نے مجھے ہر موقع پر یوں سراہا ، یوں بڑھا وا دیا کہ کسی بچے کے والدین اور گھر کے بزرگ بھی نہیں دیتے۔ وہ بلامبالغہ ہزاروں علماء کے استاد اور چنیدہ مریدِین کے پیرومرشد تھے، مگر اُنھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اُن کا چہیتا شاگرد کوئی عالم نہیں، بلکہ دین مذہب، زبان وادب کا یہ ادنیٰ خادم ، خاکسارطالب علم تھا۔

یہ خودسِتائی یا ’’اپنے منہ میاں مٹھو آپ‘‘ والا معاملہ نہیں، بلکہ متعدد بار حضرتِ والا نے دارالعلوم نعیمیہ اور اپنے دولت کدے پر حاضرین بشمول علمائے کرام کے رُوبرو اپنے حسن ِعمل سے راقم کو یہ کہنے کا موقع دیا۔ ایک مرتبہ بندہ اُن کے گھر حاضرِخدمت تھا۔ کوئی عالم آئے ہوئے تھے، مفتی صاحب قبلہ اُن سے بات چیت کے ساتھ ساتھ کبھی میری طرف بھی نظر ِالتفات فرماتے جاتے اور خاکسار حسبِ معمول، اُن کی خصوصی اجازت کے باعث، سامنے موجود، اُن کے نجی کتب خانے کی کتب کی گویا ’سیاحت ‘ کررہا تھا۔

تھوڑی دیربعد، میں وہاں سے رخصت ہوگیا تو اُن مہمان عالم نے گویا اعتراض جڑتے ہوئے استاد گرامی سے استفسار کیا کہ کیوں حضرت! آپ ہمیں تو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے اور یہ نوجوان لڑکا کیسے بے تکلفی سے کتب اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ مفتی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھے اور ایک کتاب (اُسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ از امام علامہ ابن اثیررحمۃ اللہ علیہ) کی ایک جلد اُٹھاکر اُس کے اوراق پر خاکسار کی پینسل سے کی گئی حاشیہ نگاری دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ وجہ ہے۔ یہ اُس لڑکے نے کی ہے جس پر آپ معترض تھے۔ وہ عالم ششدر ہوگئے۔ یہ واقعہ تو بہت بعد کا ہے، مگر مفتی صاحب سے مراسم کی ابتداء ہی میں ایسے واقعات پیش آچکے تھے۔

میری مفتی اطہر نعیمی صاحب سے اولین ملاقات 1985ء میں دارالعلوم نعیمیہ میں واقع اُن کے دفتر میں ہوئی جب خاکسار اُن سے فارسی کی تعلیم کے لیے درخواست پیش کرنے حاضر ہوا۔ انھوں نے دیگر علمائے کرام بشمول مفتی منیب الرحمٰن و مفتی جمیل احمد نعیمی (مرحوم) کی طرف سے مجھے اُن سے رجوع کرنے کا صائب مشورہ دیکھا اور فوراً میری استدعا قبول فرمائی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو ایک عرصے تک دارالعلوم ہی میں حاضر ہوتا رہا، پھر اُن کے گھر پر مستفیض ہوتا رہا۔ انھوں نے مجھے بلامعاوضہ، فی سبیل اللہ فارسی کی تعلیم دی اور مجھے اپنے چھوٹے بیٹے زبیر نعیمی کی تعلیم کے لیے ٹیوٹر مقرر فرمایا، پھر اُن کی پوتی اور آخرش اُن کے بھتیجے عفان بن حافظ اظہر نعیمی (مرحوم) کو پڑھانے پر مامور ہوا۔ مجھے اس خدمت کا مشاہرہ ملتا تھا۔

مفتی صاحب کی ایک عادت بہت متاثرکن تھی کہ مجھ جیسے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے۔ ایک مرتبہ اُن کا پوتا عمربن اَنفس نعیمی، ننھی سی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ حج کرکے واپس آیا تو خاکسار نے اُسے پیار سے ’حاجی صاحب‘ کہہ کر پکارا۔ مفتی صاحب نے اسے مستقل حاجی صاحب ہی کا نام دے دیا اور شاذ ہی کبھی اصل نام سے مخاطب کرتے۔ اسی طرح ایک جلیل القدرعالم سے میری کچھ شکررنجی ہوئی تو میں نے انھیں ’’ناراض مولانا‘‘ قرار دیا۔ مفتی صاحب جب بھی موڈ میں ہوتے تو کہتے، بھئی وہ آپ کے (یا کبھی تمھارے) ناراض مولانا نے یہ کیا، یہ فرمایا۔

شروع دور میں یوں ہوا کہ ایک دن مولانا منظورعلی خاں، سابق خطیب وپیش امام پاکستان اسٹیل ملز (عبیداللہ بیگ مرحوم کے برادرِنسبتی) مفتی اطہر نعیمی صاحب کے پاس، دارالعلوم میں حاضر ہوئے، یہ خاکسار فارسی کا درس لینے کو موجود تھا۔ انھوں نے بہت جھجکتے ہوئے شکستہ لہجے میں ایک مسئلے کا جواب دریافت کیا۔ موصوف مجھ سے کچھ سال بڑے یعنی اُن دنوں بھرپور جوان تھے۔ حضرت کی بارعب شخصیت کے آگے لب کُشائی محال لگ رہی تھی۔

مفتی صاحب نے اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیا فرماتے ہیں، وہ بے چارے بولتے ہوئے شرمارہے تھے، پھر مفتی صاحب نے میری طرف متوجہ ہوکر پوچھا، آپ کا کیا فتویٰ ہے۔ میں نے بلاجھجک عرض کی کہ ’’طلاقِ بائن واقع ہوگئی‘‘۔ جواب میں ارشاد فرمایا، تو لکھ دیجے، میں دستخط کردوں گا۔ اب تو جناب مولانا منظور کی حالت دیکھنے والی تھی۔ عاجزی سے گڑگڑائے، نہیں حضرت! آپ لکھ دیجے (میں نے تو لکھنا شروع کر بھی دیا تھا)۔ مفتی صاحب نے تبسم فرماکر جواب لکھا اور دستخط فرمادیے۔ یہ تھا اُن کا عالمانہ طرزِعمل جو دیگر سے جُدا اور ممتاز کرنے کو کافی تھا۔ بخدا وہ عالم نہیں، عالم گر تھے۔

مفتی صاحب نے بے شمار علماء اور کچے پکے مولویوں کو تقاریر اور کتب لکھ کر دیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب گھر پر اِسی مقصد سے تشریف لائے اور باوجودیکہ مجھ سے تعارف ہوچکا تھا، مفتی صاحب کے ذرا دیر کو گھر کے اندر جانے پر اُن کی نہایت بیہودہ الفاظ میں غیبت کردی۔ مجھے ضبط کرنا محال ہوگیا۔ اگلی ملاقات میں شکایت کردی، مفتی صاحب نے مناسب الفاظ میں بات آئی گئی کردی اور کچھ دن بعد وہ صاحب پھر اپنے لیے تقریر لکھوانے آدھمکے۔ مفتی صاحب شاذ ہی کسی سے معذرت کرتے کہ فُلاں علمی کام میں مصروف ہوں، آپ کا کام نہیں کرسکتا۔ ہرچند مجھ جیسا بے باک شاگرد اُن سے یہ کہتا کہ آپ صاف منع کیوں نہیں کرتے، مگر وہ اپنی سرشت سے مجبور تھے۔

یہ جو آج ہم دوسروں کی تحسین آمیز گفتگو پر کہتے ہیں کہ آپ کی تعریف نے تو سیروں خون بڑھا دیا، درحقیقت استاد ِگرامی کے معاملے میں ایسا ہی تھا جو کسی بھی موقع پر، کسی بھی معاملے میں، اپنے مختصر وجامع بیان، قول، ردّعمل، حتیٰ کہ محض مسکراہٹ یا بے اختیار ہنسی سے مُرجھائی ہوئی کلی کو دوبارہ تروتازہ کردیتے تھے۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی داد فقط اُن سے وصول کرتا، مگر  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

جب راقم نے اپنی اولین کتاب ’اسلامی معلومات۔ سوالاً جواباً‘ کے لیے استادگرامی سے تقریظ کی درخواست کی تو انھوں نے بکمال مہربانی، مسودہ دیکھ کر مختصرو جامع جواب عنایت فرمایا۔ یہ کتاب 1988ء میں منصہ شہود پر آئی۔ اس کے بعد جب ’’اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ‘‘ نامی کتابچہ مرتب کرکے اُن کے نام انتساب کیا تو بہت خوش ہوئے۔ 2009ء میں خاکسار نے اسلامی معلومات پر مبنی اپنے ٹیلیوژن کوئز شو ’مشعل کوئز‘ میں تحقیق، ترتیب، تنصیف ومیزبانی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کی تقاریر پروگرام کے شروع میں شامل کیں تو اُنھوں نے اپنی ہی کہی ہوئی ایک بات عمل سے غلط ثابت کردی ۔

ہوا یوں تھا کہ ایک دن میں نے اُن سے یونہی پوچھا کہ مفتی صاحب! آپ Orator(فی البدیہ خطیب) ہیں یا Debator (مقرر) تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میں Orator نہیں ہوں۔ اب جو مجھ سمیت حاضرین نے اُنھیں متواتر کھڑے ہوکر تین ریکارڈنگز میں برجستہ تقریر کرتے ہوئے دیکھا تو سبھی حیران ہوئے، کیونکہ تکنیکی دشواریوں کے سبب، اسٹوڈیو میں سپہر سے رات ہوگئی تب جاکر ریکارڈنگ شروع ہوئی تھی۔ مفتی صاحب نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔

انگریزی دانی کے حوالے سے مفتی صاحب کے دو واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں:

۱۔ پاکستان کے ایک مشہور ادارے نے برطانیہ سے لکھوائی ہوئی ایک درسی کتاب برائے اسلامیات (اولیول) اُن کی خدمت میں نظرِثانی کے لیے پیش کی تو اُنھوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود، اُس کا غالب حصہ دیکھ لیا اور پھر میرا نام پیش کیا کہ یہ صاحب بھی دیکھیں گے، ساتھ ہی اپنے ایک اور شاگرد حافظ کا نام دیا کہ وہ اعراب دیکھیں گے۔

ادارے کے خسیس کرتا دھرتا اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ مفتی صاحب اور اُن شاگرد کے ساتھ ساتھ، راقم کو بھی کوئی حقیر نذرانہ پیش کریں تو مفتی صاحب نے مجھے روک دیا کہ جہاں تک میںنے دیکھا ہے، وہیں تک دیکھ لو، اپنے تاثرات رقم کرکے واپس کردو، چنانچہ یہی ہوا۔

۲۔ مفتی صاحب کا پوتا سعد بن مظہر نعیمی، اولیول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن اُن کے پاس اسلامیات (بزبان انگریزی) لے کر آیا کہ والدین تو کسی وجہ سے نہیں سمجھاسکے، آپ ہی سمجھادیں۔ انھوں نے تبسم فرمایا اور اُس کی فرمائش پوری کردی۔

تنگی وقت و قرطاس مانع ہوتی تو اپنے استادگرامی کی شان میں مزید خامہ فرسائی کرتا، فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ بشرط ِزیست کبھی لکھوں گا تو مزید گوشے آشکار کروں گا۔

The post مَوتُ العَالِم، مَوتُ العَالَم ؛ آہ! استادِگرامی مفتی اطہر نعیمی مرحوم appeared first on ایکسپریس اردو.


اچھے اخلاق قومی ترقی کا زینہ

$
0
0

معاشرت اور اخلاقیات دین اسلام کی بنیاد ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُر سکون معاشرے کا انحصار ہے، پُر سکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیونکہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں ۔

اخلاقیات کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ  نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ۔ موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ  نے جا بجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے ، آج  پوری دنیا میں اختلاف و انتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ ہمارے آپس کے عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ بیان کرتے ہوئے درد و کرب سے گزرنا پڑتا ہے، اس سب سے بڑا مظلوم مسلمان ہے مگر اسے دہشت گرد کا ’خطاب‘ دیدیا گیا ہے ۔

اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن ہماری زندگی عمل سے خالی ہے اور قرآن و سنت نبوی ﷺ  کی تعلیمات سے ہم بہت دور ہیں اور قرآن و سنت ہی وہ ایسا عنصر ہے جو مسلمان کی زندگی کو بدلتا ہے اسے ہر چیلنج سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔ اسی بے عملی کی وجہ سے ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہو گئے ہیں ۔حالت یہ ہے کہ آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں ، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے روادار بھی نہیں اور  یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے ۔

اس جدید دور میں سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آج ہماری عزت نہیں رہی ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئے جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام  نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، یہ اصول طے ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے اور یہی اصول دنیا میں نظر بھی آ رہا ہے۔

اخلاق انسانیت کا زیور ہے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جو  انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے تو جاہل، اجڈ اور بد اخلاق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل جانور ہے اسے تو ذرا بھی تہذیب نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے پر چلانے، اس کی ہدایت ، رہنمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔

رسول اللہﷺ کو بھی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ، چنانچہ آپ ﷺ  نے عالم انسانیت کو اخلاقیات کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ، ایک جگہ خود نبی کریم ﷺ  اپنی اخلاقیات کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’إنَّما بُعثتُ لأتمِّمَ مکارمَ الأخلاقِ ‘‘ مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مَکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں (بخاری شریف) ، لیکن آج ہمارے معاشرے کی حالت بہت زیادہ قابل رحم ہے ، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی دین سے بے خبر ہے، آج کا مسلمان دنیا پر مر رہا ہے ، افسوس کا مقام ہے کہ آج کا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین سے غافل ہے ، ہمیں پتہ نہیں دین کیا ہے ؟ اخلاق کیا ہے ؟ ایمان کیا ہے ؟ حیا کیا ہے ؟ عزت کیا ہے ؟ عزت کی حفاظت کیا ہے ؟ انصاف کیا ہے ؟ ہم بھول چکے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں ایک مقصد کی خاطر اُتارا گیا ہے۔

یہ بات کہہ دی جائے تو شاید غلط نہیں ہو گی کہ آج کے مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، آج ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ نہیں ہیں ، آج اسلام کا دخل صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے ۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تہذیب ، اخلاقیات، ثقافت کا  محاسبہ کرے ہم اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں ، ہم اخلاقی ، اسلامی ، تعلیمی ، معاشی اور سیاسی زوال کا شکار ہو گئے ہیں ۔ آپ خود سوچئے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لیں آج ہمارے معاشرے کے لوگ اخلاقیات سے غافل ہیں، جس کی وجہ سے ہم میں اخلاقی زوال، بے حیائی، اخلاقی برائی اور سماجی برائی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔

آج ہمارے معاشرے میں وہ کون سی برائی ہے جو موجود نہیں ، آج ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں وائرس کی طرح پھیل چکی ہیں اور ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں، ہمارے معاشرے میں اب لڑائی جھگڑا ، گالی گلوچ ، ظلم و زیادتی ، قتل و غارت ، فساد ، عیب جوئی ، حسد ، غرور و تکبر ، مفاد پرستی ، دھوکہ دہی ، دوغلا پن ، ملاوٹ ، حرص ، رشوت خوری ، زنا کاری ، سود و حرام خوری ، ذخیرہ اندوزی ، چوری ، شراب خوری ، تمباکو نوشی ، ناجائز منافع خوری ، جوا کھیلنا عام ہے ۔

ہمارے نوجوان تربیت سے محروم ہیں ، آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہو چکا  ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے کی تلاش میں ایمان کا بھی سودا کر دیتے ہیں ۔ جو تڑپ، جو درد ، بے چینی اور  بے قراری ربّ کائنات کے لئے ہونی چاہیے تھی ، وہ پیسوں کے لئے ہونے   لگی ہے ۔ ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اٹھییں ، ہمیں تو مہینے گزر چکے ہیں نمازوں کو چھوڑے ہوئے ، ہم صبح سویرے اٹھنے کے بجائے گیارہ ، بارہ بجے اٹھتے ہیں ، والدین ، بھائی بہن ، بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ، نوجوان مسجد اور مدرسے کے بجائے پارکوں اور ریسٹورنٹوں میں بیکار گھومتے رہتے ہیں۔

لڑکیاں بن سنور کر بے پردہ  پارکوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں ، سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے ناجائز رشتے جوڑنے لگے ہیں ، زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے لوگ ذکر الٰہی کرنے کے بجائے میوزک سن کر محسوس کرتے ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی پریشانیوں کو بھول جائیں گے  پھر سکون کی نیند سو جائیں گے ۔ افسوس آج اولاد کی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارا مسلم معاشرہ غیر مسلم معاشرے کا  نظارہ پیش کرتا ہے۔

کبھی فلمیں بنا کر ، کبھی ڈراما بنا کر کرتے ہیں ،کبھی سوشل میڈیا پر ر یلز کر کے تو کبھی ٹک ٹاک بنا کر ، آج کل کے نوجوان مکتب جانے کے بجائے جم سینٹر جانا ضروری سمجھتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ اسلام جدت اپنانے پر معترض ہے بلکہ اسلام تو جدید ترین الہامی مذہب ہے جو آگے بڑھنے کی دعوت دیتا ہے مگر حدود کے اندر رہتے ہوئے ۔ افسوس صد افسوس کہ یورپی کلچر کا پھیلایا ہوا جال آج ہمارے معاشرے کی پہچان بنتیا جا رہا ہے ۔ نشے کی لت جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی بنیاد ہے۔ آج ہمارے دلوں میں سکون نہیں ہے، ہم ڈپریشن کے شکار ہو چکے ہیں۔

معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، آج ہماری نسل نو کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کو سنوارنے کے بجائے دنیا سنوارنے کی فکر میں لگے ہیں اور یہی ہمارے لئے دنیا و آخرت کا خسارہ ہے ، آج مسلمان اپنے آپ پر غور کریں، کیا ہم با اخلاق اور باتہذیب معاشرے کے باسی کہلائے جانے کے قابل ہیں ؟ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم خود اپنی نسلوں کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں ، اپنے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ لا کر دنیا کی سب سے بہترین اور خوبصورت اسلامی تہذیب کو پامال کرنے میں ہم ہی سب سے آگے ہیں ۔

جاگو جاگو ! اب بھی وقت ہے اپنے معاشرے اور اخلاقیات کو سنوارنے کی فکر کرو ، سوشل میڈیا کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کو ترجیح دو ، قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو ، آخرت کو سنوارنے کی فکر کریں ، عمل صالح سے اپنے ایمان کو مضبوط کریں ، اپنے بچوں کی تربیت دین اسلام کے مطابق کریں ، انہیں بچپن سے ہی اسلام کے بارے میں بتائیں اور مکارم اخلاق و کردار کے حامل بنائیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے یقیناً اللہ بدلتا نہیں اس حالت کو جو کسی قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ خود نہ بدلیں ‘‘ ۔ (سورۃ الرعد:۱۱) والدین کے ساتھ ساتھ  اساتذہ سے بھی گزارش ہے کہ تعلیمی امور کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کی جائے ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مکارمِ اخلاق سے مزین و آراستہ ہونے اور ہماری آنے والی نسلوں کو دین اسلام پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین

The post اچھے اخلاق قومی ترقی کا زینہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
آنکھ میں نور بھرے، خواب اجالے رکھے
ہر مصیبت کو خدا آپ سے ٹالے رکھے
وہ نظر مجھ کو کسی زعمِ جنوں جیسی ہے
وہ ہنسی مجھ کو کسی وہم میں ڈالے رکھے
یہ ترے عشق کے تحفے تھے کچھ اس واسطے بھی
تا دمِ حشر سبھی درد سنبھالے رکھے
نسبتِ قیس نہیں مانی تھی وہ لیلیٰ مزاج
ساتھ پھر میں نے کئی اور حوالے رکھے
نامہ بر آکے بتاتا رہا حالت اس کی
مخمصے میں وہ کبھی خط کو اٹھا لے، رکھے
(آزاد حسین آزاد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
مری توجہ کا منتظر ہے یہ آسماں بھی
مجھے سمندر بھی کھینچتا ہے، یہ کشتیاں بھی
خدا کا اسلوب کیا سمجھتے وہ لوگ جن کو
سمجھ نہیں آتیں کافکا کی کہانیاں بھی
ہوائے تازہ سے کھل اٹھے گا یہ دل کا موسم
ہیں بند اگرچہ، مگر کھلیں گی یہ کھڑکیاں بھی
تمام عمر ایک آگ سینے میں زندہ رکھی
مگر نظر میں تھے پھول بھی اور تتلیاں بھی
بیاضِ رفتہ اٹھا کے دیکھی تو یاد آیا
کہ داستاں بھی تھے اور ہم زیب ِ داستاں بھی
بدن کی خوشبو کی خواہش ِ بد میں اب کہ مجھ کو
عبور کرنا پڑیں گی دل تک کی سیڑھیاں بھی
کہیں سے اذن ِ سفر ملے گا تو چل پڑیں گے
تھکے ہوئے ہیں ابھی مسافر بھی ڈاچیاں بھی
اداس شہروں کی سنسناتی ہوائیں چپ ہیں
اور اونگھتی ہیں کھلے مکانوں کی چمنیاں بھی
ہر ایک شے کا وجود سالم ہے اس کی ضد سے
جبھی تو لوگوں میں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی
(ذی شان۔ پہاڑپور ،ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل
جنوں کی سمت سبھی حسبِ حال بڑھتے گئے
میں چل پڑا تو مرے ہم خیال بڑھتے گئے
جبیں کا بوسہ تھا پہلے سوال کی صورت
بس اک جواب ملا اور سوال بڑھتے گئے
وہیں رکی ہے مری عمر تم جہاں بچھڑے
کیلنڈروں پہ فقط ماہ و سال بڑھتے گئے
پھر ایک سبز زمیں آ گئی بشر کو نظر
زمین گھٹتی گئی اور کدال بڑھتے گئے
سب ایک جیسے تھے پھر آئنہ ہوا ایجاد
پھر اس کے بعد یہاں بے مثال بڑھتے گئے
اک ایک کر کے سبھی دوست بن گئے دشمن
ہماری ذات میں جوں جوں کمال بڑھتے گئے
(عبدالوہاب عبدل۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
آنکھ کھلتے ہی ترا نام پکارا جائے
کوئی بھی خواب نہ بے کار ہمارا جائے
جس کو بھی میری کسی بات پہ شک گزرا ہے
اس گلی میں وہ مرے ساتھ گزارا جائے
اب اگر اور کوئی حکم بجا لانا ہے
مجھ پہ وہ شعر کی صورت میں اتارا جائے
کوئی بھی شخص مرے ہاتھ پہ بیعت نہ کرے
پھر کوئی شخص مرے ساتھ نہ مارا جائے
اور مصرف ہی نہیں اس کا مرے پاس ایاز
ہاں مگر دل کو کسی حسن پہ وارا جائے
(محمد علی ایاز۔ کبیر والا)

۔۔۔
غزل
اِک ربطِ مسلسل کا اثر دیکھ رہا ہوں
میں ساتھ ہی کشتی کے بھنور دیکھ رہا ہوں
ساحل پہ کھڑے لوگ مِری آس نہیں ہیں
یوں ہی میں اُنھیں ایک نظر دیکھ رہا ہوں
کتنی ہی اذیت سے اُسے پالا تھا میں نے
آرام سے کٹتا جو شجر دیکھ رہا ہوں
ہر زخم یہ میرا ہے ستاروں کی طرح سے
ہر داغِ جگر اپنا قمر دیکھ رہا ہوں
تُو نے مجھے دیکھا تھا مگر میں تو ابھی تک
ٹھہری ہوئی خود پہ وہ نظر دیکھ رہا ہوں
(صدام حسین۔ مری ضلع راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
خدا پناہ کہ نوکِ زباں سے اوپر تک
بھرا ہوا ہے یہ شاعر فغاں سے، اوپر تک
مزید ہنسنے کا مت کہہ، کہ ہم پہ واجب ہے
نہ آئیں اُس کے لگائے نشاں سے اوپر تک
کم اختلاط سہی پر ہیں سلسلے دل کے
زمیں سے نیچے تلک، آسماں سے اوپر تک
دل و دماغ نہ چاہیں تو مجھ قدم کی مجال؟
ملے ہوئے ہیں سبھی، ناتواں سے اوپر تک
ہنر ہمی میں نہیں ورنہ یار پہنچے ہیں
کوئی قلم، کوئی زورِ زباں سے اوپر تک
کنویں سے نکلا ہوں لیکن حسیں نہیں ہوں میں
سو خود ہی جانا پڑے گا یہاں سے اوپر تک
(زبیر حمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
تیرے ہرروپ نے بہروپ نے مارا ہے مجھے
زندگی میں نے کہاں تُو نے گزارا ہے مجھے
اِس طرح وقتِ الم چھوڑ کے جانے والے
بے کلی دنیا میں اِک تیرا سہارا ہے مجھے
سَر کے بل میں تو چلا آؤں گااتنا تو بتا
تُو نے کس دشت سے اے یار پکارا ہے مجھے
تجھ کو سونپی ہے محبت کی حکومت دل نے
اب کرم ہو کہ ستم ہنس کے گوارا ہے مجھے
وہ دل افروز پری وش جو ہے لاکھوں میں ایک
روح کا چین ہے اور جان سے پیارا ہے مجھے
غمِ دوراں سے بگڑ جانا تھا ہر چند مگر
ماں کی ممتا نے شب و روز سنوارا ہے مجھے
کس لیے زود پشیمان ہو اُس نے طاہرؔ
اپنی تقدیر کو جیتا ہے تو ہارا ہے مجھے
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
ہم بے ثبات لوگ تھے یونہی بکھر گئے
اپناجدھر کورخ ہوا چلتے اُدھرگئے
مہتاب پرتھامنتظر کوئی مرے لیے
اُس سے ہوا جو میل تومنظر سنور گئے
تصدیق اب کراؤں میں کس سے وفاؤں کی
اہلِ ہنر جو لوگ تھے جاں سے گزر گئے
گلشن میں یوں تو ہرطرف تھے گل کھلے ہوئے
دیکھا خزاں کارنگ تو چہرے اُتر گئے
جعفر ہمارا لوٹنا آسان تو نہ تھا
یاد اُن کی جب بھی آگئی ہم جلد گھر گئے
(اقبال جعفر۔دُرگ ضلع موسی خیل، بلوچستان)

۔۔۔
غزل
کمال کر نہ سکا با کمال ہوتے ہوئے
لہولہان ہوں تیروں سے، ڈھال ہوتے ہوئے
ضرور درد کی نسبت سے جاں سلامت ہے
جو زخم بھرتا نہیں اندمال ہوتے ہوئے
میں گر پڑا تو یہی لوگ طعنہ زن ہوں گے
جنہیں اٹھا کے چلا ہوں نڈھال ہوتے ہوئے
خدا کا شکر کہ کام آئی چشمِ اشک آلود
گلاب دیکھتا کیا پائمال ہوتے ہوئے
دعا ہے اس کو ندامت سے واسطہ نہ پڑے
جواب بنتے ہوئے اور سوال ہوتے ہوئے
نئی ضرورتیں کردار بھی نئے لائیں
کہانی سے نکل آیا ملال ہوتے ہوئے
مزاج سرد رکھے مطمئن سا پھرتا ہوں
میں اپنے سینے میں کیا کیا ابال ہوتے ہوئے
تقاضے ان کی طبیعت سے میل کھاتے نہیں
جو انتہائوں پہ ہیں اعتدال ہوتے ہوئے
سبق بگاڑ سے وارفتگی نہ لینے دے
تعلقات دوبارہ بحال ہوتے ہوئے
اسے نہال میں کیسے شجر دکھائی نہ دے
جو لمحے دیکھتا ہے ماہ و سال ہوتے ہوئے
ضرور آئے ہیں دامِ غرور میں جاذب
جو لوگ بن گئے عبرت مثال ہوتے ہوئے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
کہیں قیام نہیں پیش ہے سفر کیسا
مجھے تلاش ہے اپنی میں ہوں بشر کیسا
بہت طویل سفر ہے چلے چلو چُپ چاپ
یوں بات بات پہ کرنا اگر مگر کیسا
بجا ہے دکھ نہیں تجھ کو بچھڑنے کا مجھ سے
تو پھر یہ سُرخ سی آنکھیں یہ دیدہ تَر کیسا
تُو صرف اتنا بتا مجھ کو نامہ بَر میرے
وہ دیکھنے میں تجھے آیا ہے نظر کیسا
اگر خُدا کا نہیں خوف و ڈر ترے دِل میں
تو پھر زمانے کا رکھتے ہو دِل میں ڈر کیسا
کوئی کسی کا یہاں حال پوچھتا ہی نہیں
میں آگیا ہوں کہاں پَر یہ ہے نگر کیسا
ہو چل پڑے تو چلو صبر حوصلے کے ساتھ
یوں مڑ کے دیکھنا راحِل اِدھر اُدھر کیسا
(علی راحل۔بورے والا)

۔۔۔
غزل
یوں تو سب جانتے ہیں زیرِ زمیں جانا ہے
لیکن اطوار سے لگتا ہے ’نہیں جانا ہے ‘
تو نے بچپن میں جسے اپنا بتایا تھا مجھے
میں نے اس گڑیا کو بھی گھر کا مکیں جانا ہے
دوست اس شخص سے میری نہیں بننے والی
کیوں کہ اس شخص نے دنیا کو ہی دیں جانا ہے
میں تمھیں روز یہ کہتا ہوں مرے ساتھ رہو
اور تم روز ہی کہتے ہو ’نہیں، جانا ہے‘
تم مرے زخموں کو گننے کے لیے آئے ہو
ہاں مگر جلدی کرو میں نے کہیں جانا ہے
وہ اداسی کا جو گھر دیکھ رہے ہو حماد
وہ ہی مسکن ہے فقیروں کا وہیں جانا ہے
(محمد زیف ۔چکوال)

۔۔۔
غزل
یعنی کہ انسِلاک کا کوئی سبب تو ہے
خوفِ غبار و خاک کا کوئی سبب تو ہے
کھل کر مذاق کرنے سے کھلتا ہے رازِ دل
سو آپ سے مذاق کا کوئی سبب تو ہے
قوسِ قزح سے جوڑ دیا اُس بدن کا رنگ
اس کارِ اشتراک کا کوئی سبب تو ہے
کوئی تو ہے کہ جس کی تمنّا یہاں جلے
دیوارِ دل میں طاق کا کوئی سبب تو ہے
ہے اِس قدر حسین جو ترتیبِ دو جہاں
اِس حسنِ اتّفاق کا کوئی سبب تو ہے
کوئی لحاظِ جنس نہیں بات چیت میں
آج اِس قدر مذاق کا کوئی سبب تو ہے
شاید اُتارا جائے کسی اور عہد میں
اِس عہدِ خوفناک کا کوئی سبب تو ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
ابھی تک مونچ کا تاؤ نہیں ہے
روایت کا تو یہ بھاؤ نہیں ہے
منوں گندم پڑی ہے گھر میں لیکن
فقیروں کے لیے پاؤ نہیں ہے
محبت بٹ رہی تھی سب میں لیکن
مجھے اس نے کہا جاؤ نہیں ہے
کناروں کا بہت سنتے تھے کاشفؔ
یہاں پر بھی کوئی ناؤ نہیں ہے
(کاشف واصفی ۔خوشاب)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
25تا31دسمبر2023
پیر 25دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 1 ہے۔ ایک کا عدد عزت، شہرت اور ترقی کا نمائندہ ہے لیکن باپ کے حوالے سے کچھ جذباتی معاملہ ہوسکتا ہے۔ والد کی صحت کا خیال رکھیں۔
آپ کی تاریخ پیدائش میں اگر 1،2،4،5،6، اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ،ن یا ث ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں3،7 اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں،کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔اسمِ اعظم ’’یارحیم، یارحمٰن یااللہ‘‘ 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 26 دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 9 ہے۔ 26 کا عدد مادی مسائل اور حادثے کی خبر دیتا ہے۔ یہاں صبروجبر میں توازن کھوسکتا ہے۔ صدقہ دیں اور محتاط رہیں۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،5،6 اور7 خصوصاً 6 کاعدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س خ ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4،8 اور9 خصوصاً 4 یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت،د یا م ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔ وظیفۂ خاص’’یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم‘‘ 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 27دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔ 6 کا عدد بدھ کے روز متحرک ہونا اچھی علامت ہے۔ ایسی خبر کہ جس کا ایک عرصے سے انتظار تھا آپ کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہے۔ 1،4،5،6،8 اور 9خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص، ط یا ظ ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 اور7 خصوصاً 7 یا پیدائش کا دن پیر یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زردرنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔ وظیفۂ خاص ’’یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ‘‘ 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 28 دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔ سفر ہوسکتا ہے، دوستوں سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ مادی یا روحانی ترقی میں آگے بڑھنے کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،5،6،7 اور9 خصوصاً1 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف د، ت یا م ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4 یا 8 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح، ف یا ض ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔ وظیفۂ خاص ’’سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس، یاوھابُ، یااللہ‘‘ 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ29 دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 9 ہے۔ جمعہ امن و سکون کا دن ہے جب کہ 9 کا عدد اس کے الٹ ہے جو ہنگامہ پسند ہے اللہ سبھی کو اپنی میں رکھے۔ آمین اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،5،6 اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 4،8اور9 کا عدد خصوصاً 4 یا پیدائشی دن اتوار یا جن کے نام کا پہلا حرف ت،م یا د ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی، سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔ وظیفۂ خاص ’’سورۂ کہف یا یاودود یامعید، یااللہ‘‘ 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ30دسمبر 2023
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔ زمین سے متعلق کاموں میں بہتری کے لیے بھاگ دوڑ اور منصوبہ بندی کے لیے یہ ایک معاون دن ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3،4،7،8 اور9 خصوصاً 3 کا عدد یا پیدائشی دن جمعرات یا نام کا پہلا حرف ج،ل یا ش ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5 اور6 خصوصاً 1 کا عدد یا پیدائشی دن اتوار یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے،کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذوریا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ وظیفۂ خاص ’’یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ‘‘ 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 31 دسمبر 2023
آج کا حاکم نمبر 6 ہے۔ اچھے دوستوں سے ملاقات ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پسندیدہ شخص ہو۔ دل کو راحت دینے والا دن ہوسکتا ہے۔
اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1،4،5،6،8 اور9 خصوصاً 7 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ع،ز یا ذ ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔
لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 یا 7 خصوصاً 7 عدد یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب،ک یا ر ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص ’’یاحی، یاقیوم، یااللہ‘‘ 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ ، 21 مارچ تا 20 اپریل
اس ہفتے عطارد حالتِ رجعت میں مریخ سے قران کرنے جارہا ہے اور یہ ہم کلامی بیرون ملک سفر، اعلٰی تعلیم اور روحانی و مذہبی امور کے مقام پر ہورہی ہے۔ سفر کے اسباب بن سکتے ہیں لیکن یہاں ضروری دستاویزات کے حوالے سے کوئی چھوٹی سے رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنے اس سلسلے سے متعلقہ کاغذات کو محفوظ مقام پر رکھیں آتش زدگی جیسا واقعہ دردسر کی وجہ بن سکتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی
عطاردومریخ کی ملاقات آپ کے خوف وخدشات، ذہنی تناؤ، اچانک مسائل، حادثے و فساد کے مقام پر ہورہی ہے۔ یہاں کوئی صحت کا مسئلہ بھی پریشان کرسکتا ہے۔ الرجی ایسی کہ جو خون میں خرابی کی وجہ سے ہو ہوسکتی ہے، بچوں اور محبوب سے وابستہ امیدیں ممکن ہے پوری نہ ہوں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
یہاں سب سے اہم سیاروں کی نظر و ملاقات مریخ و عطارد ہے۔ یہ ہفتہ انتہائی اہم ہے۔ آپ کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ موجود ہے۔ ذرا سی بات پرسکون تعلق میں آگ لگا سکتی ہے۔ دوریاں، تلخیاں اور تشدد کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پرانے تعلق موجودہ تعلق مل کر کچھ خرابی کا سامان کرسکتے ہیں۔ محتاط رہیں۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی
یہ ہفتہ آپ کے بزنس اور جاب سے متعلقہ امور میں بڑی غیرمتوقع کام یابی لاسکتا ہے۔ اس میں ہوسکتا ہے کوئی امر غیراطمینان بخش ہو یا کسی طرح کی قانونی پیچیدگی بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال غیرقانونی امور سے گریز کرتے ہوئے اپنے امور کو دیکھیں، یہ ایام حالات میں تیزی لائیں گے۔ رکے ہوئے کام تیزی سے ہونے کی امید ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست
اس ماہ چودھویں کا چاند آپ کو کاروبار اور کام میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے اداس اور مایوسی کے کمرے میں بند کرسکتا ہے۔ غیرمتوقع مسائل جن کا شکار کاروبار ہے، ابھی ان کے حل ہونے میں وقت لگے گا۔ ایسے میں اپنی نیند اور خوراک کا خصوصی خیال رکھیں۔ آپ کی تخلیقی صلاحیت اسی مشکل وقت میں مزید نکھریں گی۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر
چودھویں کا چاند آپ کے محبوب اور اولاد کے خانے میں چمکنے جارہا ہے۔ یہ دو امر اس ماہ آپ کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔ آپ کی محبت کا سیارہ رشتہ ازدواج کے مقام پر ہے اور رشتہ ازدواج کا سیارہ مشتری بیرون ملک کے مقام پر ہے۔ ایسے میں ایسا شخص آپ کے لیے اہم ہورہا ہے جو ایک اجنبی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ رشتہ طے ہوسکتا ہے آپ کا معدہ اور نیند متاثر رہے گی۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ،24 ستمبر تا 23اکتوبر
نیند اور آپ کی سوچیں اس ہفتے آپ کو پریشان کرسکتی ہیں۔ چودھویں کا چاند آپ کے مقام پیدائش میں چمکنے جارہا ہے۔ یہاں آپ کی رہائش گاہ کی تبدیلی، سفر اور وراثتی امور میں جان پڑ رہی ہے۔ سفر کا امکان پیدا ہورہا ہے لیکن یہ آسان نہ ہوگا ممکن ہے ابھی کچھ انتظار سے گزرنا پڑے، کیوںکہ مشتری خفیہ اور غیرقانونی امور کو متحرک کررہا ہے جو مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر
آپ کا سیارہ مریخ بڑے جارحانہ موڈ میں ہے۔ یہاں کچھ چیزیں آپ کے سامنے ایسی آسکتی ہیں جو آپ کے مزاج کو درہم برہم کردیں۔ عطارد ایسی باتیں سامنے لاسکتا ہے جو اس سے قبل آپ کو کسی اور انداز یا رنگ میں بتائی گئی تھیں، لیکن یہ بھی امکان موجود ہے کہ اس بار بھی آپ امور کو ٹھیک انداز میں سمجھنے میں غلطی کر بیٹھیں۔ یہ ایک مشکل وقت ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ جو مستقبل کے اہم امور پر اثرانداز ہوسکتا ہو اس سے گریز کریں تو بہتر ہوگا۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر
آپ کا ذہن مختلف الجھنوں میں الجھا رہے گا۔ شریکِ حیات سے تعلق، غلط فہمی، فاصلے، تلخیاں اور دوریاں مزید بڑھتی جارہی ہیں۔ آپ اس ہفتے آپ کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں جو آپ کے تعلق کو خاتمے کے قریب کرسکتا ہے۔ آپ کی صحت کا متاثر ہونا لازم ہے۔ بیرون ملک یا دوسری شادی کے حوالے سے کسی عدالتی کارروائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری
چودھویں کا چاند آپ کے شادی کے خانے میں چمکنے والا ہے۔ ایسے وقت میں نئی قانونی تعلق کی ابتدا ہوسکتی ہے۔ آپ کو ماضی کے کسی وعدے یا معاہدے کی وجہ سے کچھ مہربانوں کی مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے آپ نے جو معاہدہ کیا ہو وہ اُس وقت کے حساب سے درست فیصلہ ہو لیکن اِس وقت ہَوا آپ کے حق میں نہیں ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری
آپ کے شراکتی دوست کے تعاون سے آپ کی بیرون ملک یا کسی عالمی ادارے میں کی گئی سرمایہ کاری اس وقت آپ کو فائدہ دے سکتی ہے لیکن یہاں دو افراد کی دھوکادہی بھی سامنے آسکتی ہے جو آپ کے تعلق میں خرابی لاسکتی ہے۔ آپ کو اس مشکل وقت میں جارحانہ اور جذباتی دونوں رویوں سے بچنا ہوگا، ورنہ غلط اور درست میں فرق نہ کرپانے کی وجہ سے کام بگڑ سکتا ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ
اس سال کے مارچ سے آپ سے فیصلے ٹھیک نہیں ہورہے۔ ایک کے بعد ایک غلطی آپ کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ یہاں اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ ان غلطیوں کی وجہ سے آپ کا تبادلہ کسی اور جگہ ہوجائے یا بحالتِ مجبوری آپ کو اپنے ہی خلاف جانا پڑے۔ رہائش یا کیریئر میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

اک برس اور بن گیا تاریخ

$
0
0

جنوری

وقت کے بہت تیزی سے پیراہن بدلنے کا سلسلہ جاری وساری ہے، بقول شاعر؎

کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو!

صبح دیکھی ہی نہیں، شام ہوئی جاتی ہے

لیجیے، ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ اکیسویں صدی کی آمد آمد تھی، اور کہاں اب ہم اکیسویں صدی کے ربع کرنے سے صرف ایک ہی برس کے فاصلے پر رہ گئے ہیں۔ وقت کا کام تو گزرنا ہی ہے۔ ہماری صبح وشام اگرچہ جلدی جلدی بیت رہے ہیں، لیکن حالات وواقعات بھی اتنی ہی سرعت اور برق رفتاری سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔

حالات حاضرہ تاریخ بن رہے ہیں اور ایسے ہی 2023ء بھی اب تاریخ کا حصہ ہونے کو ہے۔ اس ’تاریخ‘ میں کیا کچھ بیتا، اچھا یا بُرا، پُرمسرت یا پُر الم اور اطمینان بخش یا فکر انگیز۔۔۔

ہمیشہ کی طرح ایسی ہی پورے سال کے کچھ حالات کا خلاصہ ہم اور ہمارے کچھ دیگر ساتھیوں کی کوششوں سے اگلے صفحات میں آپ ملاحظہ کر سکیں گے اور۔۔۔ کل کی ان ’خبروں‘ کو ایک بار ذہن کے پردے پر کر پائیں گے کہ اب تو یہ سارے منظر اور واقعات ماضی ہوا چاہتے ہیں۔۔۔

اس سلسلے میں بالترتیب پہلے ’جنوری فروری‘ کا احوال پیش خدمت ہے:

4 جنوری

’’پول کُھل گئی!‘‘

چار جنوری کو ’متحدہ‘ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اتحاد کے باوجود حسب روایت شکوے شکایت کا میدان گرم ہوا تو پیپلزپارٹی نے وفاق سے ’متحدہ‘ (بہادرآباد) کو ملنے والے تمام فوائد سامنے کرڈالے، جن میں سید امین الحق، فیصل سبز واری کو وفاقی وزیر اور صادق افتخار کو وزیراعظم شہبازشریف کا خصوصی معاون بنانے کا بتایا گیا۔ انھیں کی خواہش پر مرتضیٰ وہاب سے (اُس وقت) ایڈمنسٹریٹر کراچی کا عہدہ واپس لیا۔ کراچی اور اس کے تین اضلاع کے ایڈمنسٹریٹر اسی ’ایم کیو ایم‘ کے کہنے پر لگائے گئے، جن میں ’رابطہ کمیٹی‘ کے رکن احمدشریف کورنگی اور شکیل احمد ایڈمنسٹریٹر شرقی شامل ہیں۔

مزیدبرآں اراکین قومی اسمبلی ابو بکر اور کشور زہرا قائمہ کمیٹی کی چیئرمین، جب کہ اسامہ قادری اور صابر قائم خانی پارلیمانی سیکریٹری ہوئے۔ ’پبلک سروس کمیشن‘ میں متحدہ (بہادرآباد) کے رکن صوبائی اسمبلی جاوید حنیف کے بھائی کو رکن بنایا گیا۔ ’واٹر اینڈ سیوریج بورڈ‘ میں راہ نماؤں کے رشتے دار اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ یہی نہیں صوبائی بجٹ میں بھی ان کی اسکیمیں شامل کی گئیں۔ یہ صوبائی حکم راں جماعت کی جانب سے ’برادر‘ جماعت کو ایک اچھا خاصا تیکھا اور بھرپور جواب تھا، جو مطالبات پورے نہ ہونے کی شکایات کے جواب میں منکشف کردیا گیا!

5 جنوری

جنوبی وزیرستان میں کارروائی!

کئی برسوں سے ہمارے سماج سے لپٹا ہوا دہشت گردی کا آسیب 2023ء میں بھی موجود رہا اور اس کی بیخ کنی کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ پانچ جنوری کو جنوبی وزیرستان میں ایک آپریشن میں مبینہ طور پر کمانڈر اور خودکُش حملہ آور سمیت11 دہشت گرد مارے گئے۔ بتایا گیا کہ مارے جانے والے دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں بھی ملوث تھے۔

بلدیاتی انتخابات کے لیے جماعت اسلامی کا دھرنا

پانچ جنوری کو جماعت اسلامی کراچی کی قیادت نے وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دیا۔ جو بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا کے خلاف تھا۔ امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ انتخابات کے صوبائی حکومت کی جانب سے التوا کے لیے الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط واپس لیا جائے۔ آخر کو ناصر حسین شاہ کی 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کی یقین دھانی کرائے جانے پر ختم کیا گیا، لیکن یہ غیر یقینی انتخابی عمل شروع ہوجانے تک برقرار رہی۔

پاکستان کی آبادی 23 کروڑ!

پانچ جنوری کو ’بینک دولت پاکستان‘ کے ذرایع نے آگاہ کیا کہ ملک کی آبادی 23 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے، جس میں اکثریت 30 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

7 جنوری

مولانا احترام الحق تھانوی کا سانحہ ارتحال

سات جنوری کو معروف عالم دین، سیاست داں اور مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم کے سب سے بڑے صاحب زادے مولانا احترام الحق تھانوی امریکا میں انتقال کرگئے۔ وہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔

بھوک سے بچ گئے۔۔۔ بھگ دڑ میں مرگئے!

2023ء ’دیس واسیوں‘ کے لیے جو بہت سی مشکلات لایا، ان میں آٹے کا سنگین بحران بہت زیادہ کٹھن صورت حال پیدا کر گیا۔ سات جنوری کو آٹے کے سرکاری پوائنٹس پر بھیڑ اور بھگدڑ مچنے سے بہت سی جانیں تلف ہوئیں۔ گویا جو ستم زدہ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر آٹے کے لیے پہنچے وہ بھگ دڑ کی نذر ہوگئے۔۔۔! اسی بحران کے دوران نوجنوری کو روس سے گندم کی ساڑھے سات لاکھ ٹن کے سلسلے کی پہلی کھیپ یہاں پہنچی۔

’بے نظیر اسکوائر‘ پر غداری کی بازگشت

سات جنوری کو ہندوستانی ریاست کیرالہ کے دارالحکومت تھروانتت پورم میں ایک معروف شاہ راہ کو سابق پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی تصاویر سے سجا کر اسے ’بے نظیر اسکوائر‘ کا نام دے دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ’’آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن‘ کے زیراہتمام ایک کانفرنس کے موقع پر بے نظیر کو بطور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور ہارورڈ سمیت نو بہترین یونیورسٹیوں سے ’ڈاکٹریٹ‘ کی اعزازی اسنادیافتہ خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ کانفرنس کے دعوت نامے پر بھی بے نظیر کی شبیہہ شایع کی گئی۔ اس سارے عمل میں حکم راں ’بی جے پی‘ نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اس کے راہ نما سندیپ واشاپتی نے ’ٹوئٹر‘ پر اِسے ملک سے غداری تک قرار دے دیا۔

8 جنوری

سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد

آٹھ جنوری کو عالمی ڈونر کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم شہبازشریف جنیوا پہنچ گئے۔ یہاں سیلاب سے متاثرہ پاکستان کی تعمیرنو کی خاطر ساڑے دس ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا گیا، جس میں چین اور امریکا 10، 10، جاپان 7.7، جرمنی 8.4، فرانس ایک کروڑ ڈالر، جب کہ یورپی یونین نے 8.7 یورو فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

10جنوری

’غیبی‘ امداد ملی، شہبازشریف

سعودی شہزادے محمد بن سلمان اور شہبازشریف کے درمیان بات چیت کے بعد سعودی عرب نے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور پانچ ارب ڈالر ڈپازٹس کا اعلان کیا۔ شہبازشریف نے اسے ’غیبی مدد‘ قرار دیا۔ اس سے قبل نو جنوری کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سعودی ولی عہد شاہ محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی، جس میں دو طرفہ امور پر تبادلۂ خیال اور دفاعی شعبے میں تعاون پر غور کیا گیا۔ جنرل عاصم منیر نے عمرے کی سعادت حاصل کی اور کعبے کے اندر نوافل ادا کیے۔

11 جنوری

چینی وفد کی موجودگی میں دھماکا

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چینی وفد کی طالبان حکام سے ملاقات کے موقع پر ایک خودکُش دھماکے میں 20 افراد ہلاک ہوگئے۔ خودکُش بم بار نے افغان وزارت خارجہ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش میں خود کو دھماکے سے اڑایا۔

ماجد جہانگیر سوگوار کرگئے!

معروف مزاحیہ اداکار ماجد جہانگیر لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تدفین کراچی میں ہوئی۔ 1970ء کی دہائی میں اپنا فنی سفر شروع کرنے والے ماجد جہانگیر نے 23 برس امریکا میں گزارے، انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔

02-2023-1704007838.jpg (760×570)

12 جنوری

’ایم کیو ایم‘ کے مختلف دھڑوں کا ’انضمام‘

سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کی بنائی گئی ’پاک سرزمین پارٹی‘ فارق ستار گروپ اور ایم کیو ایم (بہادر آباد گروپ) کا انضمام عمل میں آیا۔ نئے سال کے اوائل میں ماضی میں کراچی کی واحد اکثریتی سیاسی جماعت کی پہچان رکھنے والی جماعت کے کراچی کے مختلف دھڑوں کا انضمام بھی ایک عجب چمتکار رہا، جس کے لیے کئی دنوں سے خبریں گرم تھیں، تین جنوری کو ’بہادر آباد گروپ‘ کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے 2016ء سے اپنی الگ جماعت ’پاک سرزمین پارٹی‘ کے بانی مصطفیٰ کمال کو باضابطہ طور پر شمولیت کی دعوت دے ڈالی۔

عوام جیسے ’تماش بین‘ منظر دیکھ رہے تھے کہ ’ایم کیو ایم‘ کو دفن کرنے کے دعوے کرنے والے مصطفیٰ کمال نے جب یہ کہا کہ مثبت جواب دیں گے، اور ساتھ میں ’پخ‘ لگا دی کہ وہ ’’کارکنان کا اجلاس‘‘ بلا کر جواب دیں گے۔ بہرحال کہیں پڑھا تھا بوئے سلطانی جاتے جاتے جاتی ہے۔ شاید وہ خود کو ماضی میں ’عزیزآباد‘ کی ’’کسی‘‘ سیاسی جماعت کا سربراہ سمجھنے لگے ہوں کہ جیسے وہ کہتے تھے کہ ’کارکنان سے پوچھوں گا‘ حالاں کہ واقفان حال کے بقول اکثر کارکنان بھی فقط ضابطے کی کارروائی ہی نمٹایا کرتے تھے، لیکن یہاں تو اگلا وزیراعلیٰ ’’پی ایس پی‘‘ کے دعوے کرنے والے مصطفیٰ کمال کو 2018ء میں ایک نشست تک نہ ملی اور کہاں ان کی یہ ’ادا‘ کہ کارکنان کا اجلاس۔

بہرحال سیاسی چہ مگوئیاں تھیں کہ ’کراچی کے اِن ’بچّہ جمہوروں‘ کو اشارے ملے ہیں کہ مل کر بیٹھ جاؤ! سو مل کر بیٹھنا تھا، اور بیٹھ گئے۔ تاہم اس ’اتحاد‘ کے لیے گورنر سندھ کامران ٹیسوری مستعد نظر آرہے تھے، گویا معاملات کی ’سنجیدگی‘ اور ’حساسیت‘ کا اندازہ لگائیے کہ وہ کامران ٹیسوری جو ابھی کچھ عرصہ قبل ’بہادرآباد‘ گروپ میں وارد ہوئے اور انھی کی وجہ سے فاروق ستار اپنے ’’بھائیوں‘‘ سے جھگڑ پڑے، آج وہی اتنا ’ترقی‘ کرگئے کہ انھی سارے بھائیوں کو ’بڑے بھائی‘ کے موافق ملوا رہے ہیں۔

تاہم ’مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے اس ’انضمام‘ کا حصہ بننے سے صاف انکار کیا اور کہا کہ وہ تو ’متحدہ‘ بننے کے اصولی اختلاف ہی سے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ الگ کیے ہوئے ہیں، اس لیے اگر وہ ’متحدہ‘ کو ’مہاجر‘ کرتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ وہ ’متحدہ‘ میں نہیں جائیں گے۔

15 جنوری

بلدیاتی چناؤ اور پیپلزپارٹی کی زورآزمائی

15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے شہری سندھ میں نئی زورآزمائی دکھائی اور حیدرآباد میں تو بہ آسانی میدان مار لیا، جب کہ کراچی کے نتائج میں تاخیر نے شکوک وشبہات کو جنم دیا۔ بعد میں آنے والے نتائج کے مطابق یہاں بھی پیپلزپارٹی نے اکثریت تو حاصل کرلی، لیکن اسے میئر بنانے کے واسطے مطلوبہ عددی اکثریت میسر نہ تھی، پیپلزپارٹی 91، جماعت اسلامی 85 اور تحریک انصاف 42 نشستوں پر کام یاب ہوئی۔

مجموعی طور پر ووٹ جماعت اسلامی نے زیادہ حاصل کیے، دوسرے نمبر پر تحریک انصاف، جب کہ پیپلزپارٹی اس میدان میں تیسرے نمبر پر رہی، لیکن حلقوں کے حساب سے اس کو اول درجہ ملا۔ تینوں جماعتوں کو ملاکر 12 لاکھ ووٹ کے قریب بنے، جب کہ کراچی شہر میں مجموعی رائے دہندگان کی تعداد 84 لاکھ 37 ہزار سے زائد ہے۔ اس سے پہلے حکومت سندھ نے 12 جنوری کو کراچی، حیدرآباد اور دادو میں 15 جنوری کو طے شدہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرا دیے۔ صوبائی حکومت نے شق 10 کے تحت حلقہ بندیوں کا اعلامیہ واپس لے لیا۔

اس وقت کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے موقف اختیار کیا کہ ’ایم کیو ایم‘ کو حلقہ بندیوں پر اعتراضات تھے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن 15 جنوری ہی کو ہوں گے۔ اس سے قبل ہائی کورٹ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے حوالے سے ایم کیو ایم کی درخواست مسترد ہوگئی تھی، جس کے بعد ’بہادرآباد‘ کی ’رابطہ کمیٹی‘ نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ ہم ہونے نہیں دیں گے۔ خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت ’ایم کیو ایم{‘ کے دھڑے نے حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی اور پھر انتخابات سے ایک دن پہلے بائیکاٹ کر دیا۔

72 مسافر طیارہ حادثے کی نذر

نیپال میں مسافر طیارے کے حادثے میں 72 افراد ہلاک ہوگئے۔ طیارہ اندرون ملک محو پرواز تھا۔ گذشتہ 30 برسوں میں نیپال میں 30 فضائی حادثے ہو چکے ہیں، گویا ہر سال ایک فضائی حادثے کی اوسط بنتی ہے۔

17 جنوری

صحابہ کرامؓ کی توہین پر سزا کا قانون منظور

17 جنوری کو قومی اسمبلی میں صحابہ کرامؓؓ، اہل بیتؓ اور امہات المومنینؓ کی توہین پر عمرقید کا بل منظور ہوا۔ یہ بل جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی نے پیش کیا، جس کے تحت دس سال قید اور دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔

تحریک انصاف کی ’آنکھ مچولی‘

بانی تحریک انصاف نے نگراں حکومت کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے لیے قومی اسمبلی جانے کا ارادہ ظاہر کیا، تو اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویزاشرف نے 17 جنوری کو جھٹ سے اِن کے 35 ارکان کے استعفے منظور کرکے گویا ’جوابی وار‘ کردیا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف سب کے ایک ساتھ استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے، جب کہ اسپیکر کی جانب سے مرحلے وار منظور کی بات کی جاتی رہی، اس سے پہلے گیارہ ارکان کے استعفے منظور کیے جا چکے تھے۔

اور اس کے بعد 20 جنوری کو مزید 35 ارکان کے استعفے قبول کرلیے گئے۔ آٹھ فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے 43 اراکین کے استعفوں کی منظوری معطل کر دی، ضمنی انتخابات بھی روکنے کا حکم دے دیا۔ تحریک انصاف کا موقف تھا کہ استعفے منظوری سے پہلے واپس لے لیے گئے تھے۔

18 جنوری

ایران سے حملہ۔۔۔

18 جنوری کو بلوچستان کے علاقے ’پنج گور‘ میں ایرانی سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں چار جوان شہید ہوگئے۔ ’آئی ایس پی آر‘ نے کہا کہ اس واقعے میں دہشت گردوں نے ایرانی سرزمین استعمال کی۔

19 جنوری

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا استعفا

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈر نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا، انھوں نے لیبر پارٹی سے بھی سبک دوش ہونے کا عندیہ دیا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیں گی۔ ہمارے ہاں تو نسل در نسل بادشاہوں کی طرح وزیراعظم بننا اور ’بلاوجہ‘ اقتدار چھوڑنا نہایت معیوب گنا جاتا ہے۔

بقول ابن انشا،’’یہاں جو کرسی پر ایک بار بیٹھ جائے، اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے، یہ بھی کشش ثقل کے سبب ہے!‘‘ ہمارے ہاں دو، دو بار وزیراعظم بنتے ہیں اور کچھ لوگ چوتھی بار کے خواب دیکھتے ہیں، کچھ کی خواہش ہوتی ہے کہ اقتدار پانچویں بار ان کے خاندان کو مل جائے۔ ایک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہیں کہ ’بلاوجہ‘ میں چلتی بنیں، نہ کوئی اسکینڈل، نہ کوئی ہنگامہ، نہ تنازع نہ سازش اور نہ کوئی نااہلی۔ بس یونھی رخصت ہوگئیں اور اس پر بھی کہتی ہیں کہ وزیراعظم بننا ان کی زندی گی کا بڑا اعزاز رہا۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!

20 جنوری

روسی تیل کے معاہدے

پاکستان کے روسی تیل خریدنے کے تین معاہدے ہوئے۔ وفاقی وزیر تیل مصدق ملک نے کہا پاکستان اپنی ضرورت کا 35 فی صد خام تیل روس سے درآمد کرنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے درمیان کسٹم، امور کسٹم اور شہری ہوابازی میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔

21 جنوری

’شوکت خانم اسپتال‘ کا فنڈ ہاؤسنگ اسکیم میں لگانے کا اعتراف

عمران خان نے مسلم لیگ ن کے راہ نما خواجہ آصف کے خلاف 10 ارب روپے کے ہتک عزت کے دعویٰ کیس میں جرح کے دوران تسلیم کیا کہ شوکت خانم اسپتال کے فنڈ ہاؤسنگ پراجیکٹ میں لگائے گئے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھیں ہاؤسنگ پراجیکٹ کا نام یاد نہیں۔

دو صوبوں میں نگراں حکومتیں!

نگراں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، جب کہ 22 جنوری کو محسن نقوی نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ اس سے قبل 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے پنجاب اسمبلی اور 17جنوری کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے خیبر اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز گورنر کو بھیج دی تھی، جس پر عمل کردیا گیا۔

’سود‘ اور دفاع پر 3200 ارب

مالی سال کی پہلی شش ماہی کے اعدادوشمار کے مطابق صرف ’سود‘ اور دفاع پر 3200  ارب خرچ کیے گئے۔ 21 جنوری کو جاری اعدادوشمار کے مطابق وفاقی آمدنی محض 2500 ارب روپے رہی۔ ترقیاتی کاموں پر147 ارب لگے، جو گذشتہ مالی سال کے 141 ارب یا اس سے 49 فی صد کم ہیں۔ نازک صورت حال میں دفاع کے سوا تمام غیر ترقیاتی اخراجات میں جموعی طور پر 15  فی صد کٹوتی کی گئی، جب کہ ترقیاتی اخراجات پچاس فی صد گھٹائے گئے۔

22 جنوری

قرآن پاک کی بے حرمتی پر احتجاج

22 جنوری کو سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے رحمتی پر پاکستان سمیت مسلم دنیا میں شدید احتجاج ہوا۔ ترک وزیرخارجہ نے احتجاجاً سوئیڈن کا دورہ منسوخ کر دیا۔

بہرام ڈی آواری رخصت ہوئے!

ایشین گیمز میں دو مرتبہ 1978 اور 1982 میں کشتی رانی میں پاکستان کے لیے تلائی تمغا جیتنے والے بہرام ڈی آواری طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ آواری گروپ کے روح ورواں اور ملک کی معروف کاروباری شخصیت بھی تھے۔ ان کی عمر 81  برس تھی۔

23 جنوری

مشہورِ زمانہ ایس ایس پی راؤ انوار بری ہوئے

نقیب اللہ محسود قتل کیس کا پانچ سال بعد فیصلہ سامنے آیا، جس کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار سمیت تمام 18 ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کردیا گیا۔ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

ملک بھر سے بجلی غائب

بدترین بریک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک بھر کی بجلی غائب ہوگئی۔ 2014ء سے بجلی کا یہ نواں بریک ڈاؤن تھا۔

25جنوری

صدر ’متحدہ عرب امارات‘ کا نجی دورہ

متحدہ عرب امارات کے صدرشیخ محمد بن زید النہیان شاہی وفد کے ساتھ ایک نجی دور ے پر رحیم یار خان پہنچے۔ ان سے ایئرپورٹ پر وزیراعظم شہباز شریف، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب اور دیگر نے ملاقات کی۔ انھوں نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ وہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

فوادچوہدری کی گرفتاری

الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے الزام میں تحریک انصاف کے مرکزی راہ نما فوادچوہدری کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن پر تنقید جاری رہے گی، ہر پاکستانی بغاوت کردے۔

26جنوری

مہنگے ڈالر کے نئے ریکارڈ

انٹر بینک میں ڈالر کے نرخ میں یکایک24.53 روپے اضافہ ہوگیا، 230روپے سے بڑھ کر 255.42  ہوگیا۔ 30 جنوری کو یہ 269.63 تک جا پہنچا۔ تین فروری کو یہ  276.57کی بلندی پر جا پہنچا۔

’مائنس فارمولا‘ اور صدر مملکت

صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ’’مائنس عمران فارمولا‘ کام یاب نہیں ہوگا، گرفتاری پر سخت عوامی ردعمل آئے گا۔ عام انتخابات کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کو مل کر بیٹھنا چاہیے۔ عمران خان کو خدشہ ہے کہ حکومت انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں۔ صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ آئیں میں انتخابی تاخیر کی گنجائش تلاش کر رہے ہیں۔ اب ’کچھ لوگ‘ کے بارے میں چہ می گوئیاں کرتے رہے۔‘‘ صدر تو غیر سیاسی ہوتا ہے، لیکن یہ ان کا ایک سیاسی ترجمان کی طرح کا بیان تھا۔

زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب سے بھی کم!

26جنوری کی ایک خبر کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 92 کروڑ ڈالر کی ادائی کے بعد ایک ہفتے کے دوران نو سال کی کم ترین سطح پر آکر محض تین ارب 67 کروڑ 84 ڈالر رہ گئے۔

29 جنوری

مہنگا پیٹرول اور ’’خوش حالی کی ذمے داری‘‘

پیٹرول کی قیمت میں بھی ریکارڈ 35 روپے کا اضافہ ہوا اور اس کا نرخ 149.80 روپے پر پہنچ گیا۔ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے اس کی وجہ عالمی منڈی میں اضافہ قرار دیا اور کہا کہ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں، اقتصادی بحران سے نمٹنے اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے بڑے فیصلے ضروری ہیں۔

ہمیں بڑے فیصلوں کے حوالے سے مکمل اتفاق ہے، لیکن وزیرموصوف نے اس بیان میں ’بڑے فیصلے‘ سے متعلق مزید وضاحت نہیں کی۔ قبل ازیں انھوں نے 27 جنوری کو قرار دیا تھا کہ پاکستان کی معاشی ترقی اور خوش حالی اللہ کے ذمے ہے۔ پاکستان معاشی دلدل میں ہے۔ ان شا اللہ اس دلدل سے نکل جائیں گے، اللہ نے پاکستان کو قائم رہنے کے لیے بنایا ہے۔

30جنوری

100شہادتیں۔۔۔ پہلی بار پولیس سراپا احتجاج

پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں خودکُش دھماکے میں 93 اہل کاروں سمیت 100 افراد شہید ہوگئے۔ دھماکا اگلی صف میں ہوا، جس کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی۔ ’سی سی پی او‘ پشاور اعجاز خان نے حملے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ آور ریڈ زون تھانے کے مرکزی دروازے سے چار حفاظتی رکاوٹیں عبور کر کے مسجد میں داخل ہوا۔

یکم فروری 2023ء کو پہلی بار صوبائی پولیس نے سوات، بنوں، صوابی اور شانگلہ میں دہشت گردوں کے خلاف مظاہرے کیے اور کہا کہ بتایا جائے کہ حملہ آور پولیس لائن میں کیسے داخل ہوا؟ ہمیں اس کا جواب نہ ملا تو ہم ڈیوٹی چھوڑنے پر مجبور ہوں گے!

مظاہرین کا سوال تھا کہ صرف پختونخوا میں ہی کیوں دہشت گردی کی جا رہی ہے، جب کہ پنجاب محفوظ ہے، ہم مزید دہشت گردی اور پختونوں کے قتل عام کو برداشت نہیں کریں گے۔ ’بنوں‘ میں ’ڈی پی او‘ عمران اسلم کی قیادت میں پولیس کی بھاری نفری پہنچی، تو انھوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کو حوالات میں بند کر دیں گے، لیکن پولیس نے احتجاج جاری رکھا، اور پھر خود ہی منتشر ہوگئے۔

فروری

یکم فروری

مہنگائی کی نئی بلند شرح!

وفاقی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ سامنے آئی، جس کے مطابق 27.6 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، اس طرح مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری میں افراط زر کی شرح 27.6 رہی، جو مئی 1975 میں 27.8 فی صد رہی تھی۔ فروری کے آخر میں مہنگائی کی یہ شرح 41.54 تک پہنچ گئی۔

4 فروری

’’جیل بھرو۔۔۔!‘‘

 سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کردیا اور کہا کہ ساری جیلیں بھر دیں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ ’حزب اختلاف‘ کو ختم کر رہے ہیں، تاکہ نواز شریف پاکستان آسکیں، پرویزمشرف دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ عدم اعتماد والے دن ڈالر 178کا تھا۔ ہمارے تین سال آٹھ ماہ میں ڈالر 55 اور اس ایک ہفتے میں 50 روپے مہنگا ہوگیا ہے۔

عمران خان کے اس موازنے پر بے ساختہ یاد آتا ہے کہ دریافت کیا جائے کہ ایک موازنہ تو 2018ء سے بھی ہونا چاہیے، جو ’تبدیلی سرکار‘ کے صدقے اس ملک کا مقدر ہوئی! بالآخر 22 فروری کو تحریک انصاف نے لاہور سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا۔ جس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، اعظم سواتی اور عمرچیمہ سمیت دیگر راہ نما گرفتار ہوگئے ۔

5 فروری

جنرل پرویزمشرف کا انتقال

سابق صدر جنرل پرویزمشرف 79 سال کی عمر میں دبئی میں انتقال کرگئے۔ وہ 1999ء تا 2008ء برسراقتدار رہے، بعدازآں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے مستعفی ہوگئے۔ انھیں کراچی میں فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِخاک کیا گیا۔

6 فروری

ترکی وشام میں زلزلہ، 45 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں

ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 12 ہزار، جب کہ بعد کے اعدادوشمار کے مطابق یہ ہلاکتیں 45 ہزار تک پہنچ گئیں۔ بتایا گیا کہ رات گئے آنے والے زلزلے نے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا، بلند وبالا عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

10فروری

’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر مزید مہنگائی

’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پوری کرتے ہوئے گھریلو صارفین کے لیے بجلی سات روپے یونٹ مہنگی کر دی گئی، صنعتی یونٹ 15.52 روپے مہنگا ہوگیا۔ اسی طرح 13 فروری کو ’آئی ایم ایف‘ کی مزید شرائط پوری کرتے ہوئے گیس 16 سے 124 فی صد تک مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔14 فروری کو ’جنرل سیلز ٹیکس‘ میں ایک فی صد اضافہ کرتے ہوئے 17 سے بڑھا کر 18 فی صد کر دیا گیا۔

محبت کا شاعر خَاموش ہوگیا!

اردو کے معروف شاعر اور ڈرامانگار امجد اسلام امجد لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ چار اگست 1944ء کو پیدا ہوئے۔ 50 برس سے زائد متعدد علمی شعبوں میں خدمات دینے کے ساتھ ساتھ تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے نام 40 کتابیں ہیں۔ ’پی ٹی وی‘ سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے اور بہتیرے مقبول ڈرامے بھی لکھے۔

12 فروری

’’امریکا نہیں باجوہ!‘‘ ایک اور یوٹرن!

سابق وزیراعظم عمران خان نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میری حکومت امریکا نے نہیں باجوہ نے گرائی۔ اب پتا چلا سازش پاکستان سے امریکا ایکسپورٹ ہوئی۔

13 فروری

’کَلا‘ کی دنیا ضیا محی الدین سے محروم!

بین الاقوامی شہرت یافتہ صداکار، اداکار، ہدایت کار اور میزبان ضیا محی الدین 91 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ 20 جون 1931ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ 1969ء سے 1977ء تک ضیا محی الدین شو کی میزبانی کی۔ 2005ء میں کراچی میں ’ناپا‘ کی بنیاد رکھی گئی، تو انھیں اس کی سربراہی سونپی، جو انھوں نے آخری دم تک نبھائی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’ستارۂ امتیاز‘ اور ’ہلال امتیاز‘ سے نوازا گیا۔

15فروری

سیمینار اور ورک شاپس پر بھی ٹیکس

ضمنی مالیاتی بجٹ پیش کیا گیا، جس میں 170 ارب کے نئے محصولات لاگو کرتے ہوئے، پیٹرول 22.20 روپے مہنگا کر دیا، نئی قیمت 249.80 ہوگئی۔ سامان تعیشات پر ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے 20 فی صد کر دی۔ شادی کی پُرتعیش تقریبات، سیمینار، ورک شاپس، سیمنار، نمائش اور موسیقی کے پروگراموں پر 10 فی صد کی شرح سے ودہولڈنگ اینڈ جسٹیبل ٹیکس نافذ کیا گیا۔

اسحق ڈار نے کہا کہ عالمی ادارۂ صحت نے ایسی چیزوں پر ٹیکس کی سفارش کی ہے، جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ اس لیے سگریٹ، شوگر ڈرنکس وغیرہ پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی بات کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ یہی ڈیوٹی سیمنٹ پر ڈیڑھ روپے سے بڑھا کر دو روپے کر دی گئی ہے۔ گویا سیمنٹ انسانی صحت کے لیے ’مُضر‘ تھی!!

17 فروری

کراچی پولیس آفس پر دہشت گردی

کراچی پولیس آفس پر حملے میں دو پولیس، ایک رینجرز اور خاکروب جان سے گئے۔ تین دہشت گرد بھی انجام کو پہنچے۔ شاہراہ فیصل میں صدر سے متصل کراچی پولیس کے دفتر میں دہشت گرد دستی بموں کا استعمال کرتے ہوئے عمارت میں داخل ہوئے اور پھر ساڑھے تین گھنٹے تک پولیس، رینجرز اور خصوصی کمانڈوز سے مقابلہ جاری رہا، جس کے بعد عمارت کو محفوظ قرار دے دیا گیا۔

جسٹس (ر) ملک قیوم چل بسے

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اور اور سابق اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک قیوم 79 سا ل کی عمر میں انتقال کر گئے۔

20 فروری

ضمانت منظور

سابق وزیراعظم عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں دہشت گردی کیس میں تین مارچ تک کے لیے ان کی حفاظتی ضمانت منظور ہوگئی۔

21 فروری

چوہدری پرویزالٰہی ’تحریک انصاف‘ میں!

مسلم لیگ (ق) کے سنیئر راہ نما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ساتھیوں سمیت ’پاکستان تحریک انصاف‘ میں شامل ہوگئے اور انھیں ’تحریک انصاف‘ کا صدر بنا دیا گیا۔

چیئرمین نیب نے ہتھیار ڈال دیے!

چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے استعفا دے دیا اور کہا کہ آئین کی منشا کے برخلاف شرائط کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔ انھیں 21 جولائی 2022ء کو چیئرمین نیب بنایا گیا تھا۔

22 فروری

بروقت انتخاب نہ ہونے پر ’ازخود نوٹس‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی بنیچ قائم کردیا۔ سماعت کے دوران کہا گیا کہ نوے روز میں انتخابات کے حوالے سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ 27 فروری کو چار جج بینچ سے الگ ہوگئے۔

26 فروری

تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی!

غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 28 پاکستانیوں سمیت 60 افراد جاں بحق ہوگئے۔ واقعہ جنوبی اٹلی کے سمندر میں ڈوبی، 81 افراد کو بچا لیا۔ یہ کشتی ترکی سے روانہ ہوئی تھی، جس میں پاکستان کی خواتین ہاکی ٹیم کی مشہور کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل ہیں۔

مارچ

یکم مارچ

ریکارڈ توڑ مہنگائی

ملک میں مہنگائی کا48 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 31.5 فی صد پر بند ہوئی جو 1975ء کے بعد بلند ترین سطح تھی۔ اپریل 1975ء میں مہنگائی کی شرح 29.3 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔

ملک میں موجودہ مالی سال کے پہلے 8 مہینوں میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 26.19 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ پی ڈی ایم حکومت کے 10ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7بار اضافہ کیا گیا۔

پاکستان، پہلی ڈیجیٹل مردم شماری

سمیت ملک بھر میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز ہوگیا۔ اسلام آباد میں چیف مردم شماری کمشنر ڈاکٹر نعیم الظفر نے مردم شماری کا افتتاح کیا۔ ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا کہ ایک لاکھ 21 ہزار تربیت یافتہ عملے کو 126000ٹیبلٹس فراہم کیے گئے ‘ پی بی ایس اور نادرا تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے‘ پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جہاں خانہ و مردم شماری کے لیے ٹیبلٹس اور آن لائن ایپلی کیشنز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

 2مارچ

 ڈالر 285 روپے کا

انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ڈالر ایک ہی جھٹکے سے تقریباً 19 روپے تک مہنگا ہوگیا۔

شرح سود 20 فی صد

حکومت نے شرح سود 17 فی صد سے بڑھا کر 20 فی صد کردی۔ اکتوبر 1996 ء کے بعد یہ ملک میں شرح سود کی یہ بلند ترین سطح تھی۔ اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے شرح سود میں 3 فی صد اضافے کا اعلان کیا۔ اس 3 فی صد اضافے سے شرح سود ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 20 فی صد پر آگئی۔

3مارچ

جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت

ملک بھر میں جان بچانے والی 131 ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ وزارت صحت کے حکام نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا کہ مارکیٹ میں عدم دست یاب ادویات زیادہ تر ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کی ہیں، اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں کے تنازع پر پیداوار بند کردی ہے۔

4مارچ

عالمی مالیاتی نظام کے شیطانی حربے

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے غریب ممالک کے خلاف امیر ممالک کے شیطانی حربوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک غریب ممالک کو شرح سود کی اضافی قیمتوں سے تنگ کر رہے ہیں۔

قطر میں 46کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیوگوتریس کا کہنا تھا کہ دولت مند قوموں کو معیشتوں کے فروغ اور صحت و تعلیم بہتر بنانے کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر دینے چاہییں۔

انتونیوگوتریس کا کہنا تھا کہ توانائی کمپنیاں ریکارڈ منافع کما رہی ہیں، عالمی مالیاتی نظام اپنے فائدے کے لیے امیر ممالک نے ڈیزائن کیا۔ انھوں نے کہا کہ غریب ریاستیں غربت کے بدترین طوفان میں پھنسی ہوئی ہیں، امیر ممالک غریب ریاستوں کو موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے میں مدد کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر دینے میں ناکام رہے ہیں۔

نذیر احمد چیئرمین نیب تعینات

حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد کو چیئرمین نیب تعینات کردیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے ساتھ مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد کو چیئرمین نیب تعینات کرنے کی منظوری دی۔

5مارچ

عمران خان کے بیانات اور تقاریر نشر کرنے پر پابندی

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر، بیانات، براڈ کاسٹ اور ٹیلی کاسٹ پر پابندی عاید کردی۔ پیمرا کا کہنا ہے کہ عمران خان کا بیان، گفت گو یا خطاب لائیو ہو یا ریکارڈ ٹی وی چینلز نشر نہیں کرسکتے اور ان کی تقاریر، بیانات پر پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔

6مارچ

بلوچستان میں خودکش حملہ

بلوچستان کے ضلع بولان میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر خودکش حملے کے نتیجے میں 9 اہل کار شہید اور 11 زخمی ہوگئے۔ لیویز کے مطابق واقعہ کوئٹہ سبی شاہ راہ پر کمبڑی پل کے مقام پر پیش آیا۔ ایس پی بولان محمود نوتیزئی کے مطابق موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے ٹرک کے قریب آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ٹرک الٹ گیا اور اہل کار اس کے نیچے دب گئے۔ واقعے میں اے ایس آئی گل بدین، اے ایس آئی راوت خان، کانسٹیبلز شہزاد احمد، سمیع اﷲ، محمد حیات، عبدالقیوم، نذر محمد، ظہور علی اور اشفاق شہید ہوگئے۔

حج مشکل، اخراجات 11لاکھ سے متجاوز

حکومت نے عوام کے لیے حج کی سعادت حاصل کرنا انتہائی مشکل بنادیا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سرکاری حج اسکیم کے اخراجات 11 لاکھ 75 ہزار روپے کرنے کی منظوری دے دی۔ ای سی سی کا اجلاس وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت منعقد ہوا۔

سرکاری و نجی ادارے گیس کی مد میں 445 ارب کے نادہندہ

سرکاری اور نجی ادارے گیس کی مد میں 445 ارب کے وفاق کے نادہندہ نکلے۔ کھاد سیکٹر سب سے زیادہ 171 ارب کا نادہندہ ہے، کے الیکٹرک گیس کی مد میں 39 ارب روپے کا نادہندہ ہے، پاکستان اسٹیل مل نے گیس کی مد میں 2 ارب سے زاید ادا کرنے ہیں، واپڈا اور آئی پی پیز گیس کی مد 4,4 ارب روپے کے نادہندہ ہیں، جینکوز بھی گیس کی مد میں وفاق کی 4 ارب روپے کی نادہندہ ہیں جب کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری گیس کی مد میں 22 ارب سے زاید کی نادہندہ ہے۔

7مارچ

لگژری اشیاء پر 25 فی صد ٹیکس

وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے لگژری آئٹمز پر 25 فی صد ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری دے دی۔ ایکسپریس نیوز کے ذرائع کے مطابق ٹیکس کی نئی شرح کا نفاذ یکم مارچ سے ہوگا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سُبکی

بھارتی سپریم کورٹ نے ہندو قوم پرست راہ نما کی جانب سے ملک کے تمام شہروں اور تاریخی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان مقامات کے نام ان لوگوں سے منسوب کیے گئے ہیں جو وحشی غیرملکی حملہ آور تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے راہ نما اشونی اپادھیائے نے درخواست میں عدالت سے نام تبدیل کرنے کا کمیشن قائم کرنے کی اجازت مانگی۔

اپادھیائے کے مطابق اس کمیشن کا کام ان قدیم (ہندو) تاریخی ثقافتی مذہبی مقامات کی فہرست تیار کرنا ہوگا جنہیں مسلمان حکم رانوں کے دور میں مختلف ناموں سے منسوب کیا گیا۔ اپادھیائے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے 2 ججوں کے بنچ نے کہا کہ یہ تجویز آئین میں درج سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ چند سالوں میں بی جے پی نے مسلم ناموں والے کئی مقامات کے نام بدل دیے ۔ 2018 ء میں شمالی بھارت کے شہر الٰہ آباد کا نا م تبدیل کر کے پریاگ راج کردیا گیا تھا۔ اسی طرح مغل سرائے کے ایک قریبی تاریخی ریلوے جنکشن کا نام بدل کر پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن رکھ دیا گیا تھا۔

امریکا کو چین کی تنبیہ

بیجنگ میں پارلیمان کے سالانہ اجلاس کے دوران وزیرخارجہ چن گینگ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تائیوان ان کے ملک کے لیے ایک سرخ لکیر ہے جس کی پاس داری دنیا کے لیے لازمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تائیوان کے مسئلے کو حل کرنا صرف بیجنگ کا حق ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ اس سال چین اور امریکا کے درمیان تناؤ بڑھ گیا۔ چند ماہ قبل امریکی سنیئر سیاست دانوں نے تائیوان کے دورے کرکے بیجنگ کو مشتعل کردیا تھا۔

8مارچ

پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں جھڑپیں

لاہور میں پولیس اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے خلاف احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کارکنان میں جھڑپوں کے نتیجے میں ایک شخص جاں بہ حق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے کئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ محکمۂ داخلہ پنجاب نے لاہور 7روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے جلسہ، جلوس، ریلی پر پابندی عاید کردی۔

عرب ممالک کا احتجاج

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق عرب ممالک نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اداروں نے قرآن پاک کو نذرِآتش کرنے کے واقعات کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔

عرب ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے قطر کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ڈاکٹر ہند عبدالرحمٰن المفتاح نے کہا کہ مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن کو جلانے کے ناپاک واقعات پر عالمی ادارے کا رویہ نہایت مایوس کن ہے جس پر گہری تشویش ہے۔ عرب ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ سویڈن سمیت ایسے تمام ممالک جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں مذہبی احترام کے بنیادی حقوق کی پاس داری کو یقینی بنایا جائے۔

10مارچ

کراچی پر بجلی بم

پی ڈی ایم حکومت نے کراچی پر بڑا بجلی بم گرا دیا۔ نیپرا نے بجلی کے صارفین سے 14 روپے 24 پیسے فی یونٹ تک وصول کرنے کی اجازت دیتے ہوئے نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ نیپرا کے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق کراچی کے شہریوں سے 13 روپے 87 پیسے فی یونٹ وصول کرنے کی اجازت دی گئی۔ کے الیکٹرک صارفین کے لیے 13 روپے 87 پیسے فی یونٹ تک اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔

ایران سعودی عرب تعلقات بحال

عرب میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران اور سعودی عرب سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کے ملک میں سفارت خانے کھولنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آیا، چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران نے تعلقات کی بحالی پر اتفاق کرلیا۔ 2016 میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے بعد سے سفارتی تعلقات منقطع تھے۔

مہنگائی میں مزید اضافہ

وفاقی ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق 9 مارچ 2023 کو ختم ہونے والے حالیہ ہفتے کے دوران 44 ہزار 175روپے ماہانہ سے زاید آمدنی رکھنے والا طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جس کی لیے مہنگائی کی شرح 44.14 فی صد رہی۔

11مارچ

افغانستان میں بم دھماکے

ہفتے کو افغان صوبے بلخ کے ضلع مزارشریف میں ثقافتی مرکز میں صحافیوں کی ایک تقریب کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں5 صحافیوں سمیت 8 افراد جاں بہ حق ہوگئے۔ طالبان انتظامیہ کے مطابق دھماکا صبح 11 بج کر 30 منٹ پر بارودی سرنگ پھٹنے سے ہوا۔ زخمیوں میں 5صحافی اور3 بچے شامل ہیں جب کہ ایک سیکیوریٹی گارڈ بھی مارا گیا۔

12مارچ

انسانی حقوق کی مخدوش صورت حال

امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سنیئر رکن بریڈ شرمین نے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی مسلسل خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں آزادی اظہار اور قانون کی حکم رانی کو یقینی بنائے۔

بریڈ شرمین نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی ارشدشریف اور ظلِ شاہ کی اموات کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ بریڈ شرمین نے کہا ہے کہ شخصی آزادیوں پر قدغن کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سنیئر رکن نے عمران خان کی تقریر پر پابندیوں اور سیاسی سرگرمیوں کر روکنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

13مارچ

مردم شماری ٹیم پر دہشت گرد حملہ

لکی مروت، تھانہ صدر کی حدود میں مردم شماری ٹیم پر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کردی۔ دوسری جانب ٹانک میں گومل کے علاقہ کوٹ اعظم میں بھی مردم شماری کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ سے ایک پولیس اہل کار خان نواب شہید اور 8 اہل کار شدید زخمی ہوگئے۔ علاوہ ازیں خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں مردم شماری کی سیکیوریٹی پر مامور پولیس اہل کار کو فائرنگ کرکے شہید کرنے والا دہشت گرد کمانڈر عبدالرشید عرف رشیدی سیکیوریٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔

14مارچ

آئی ایم ایف، مذاکرات میں پیش رفت

وزارت خزانہ اور دفترخارجہ کے امریکا اور دیگر ممالک سے رابطوں میں پیش رفت ہوئی۔ مذاکرات میں وزیرخزانہ بھی شریک ہوئے جب کہ مذاکرات میں رواں سال بیرونی فنانسنگ 7 ارب ڈالر کے بہ جائے 6 ارب ڈالر کرنے پر اتفاق کرلیا گیا۔ چین سے 2 ارب ڈالر رول اوور کرنے پر بھی بات ہوئی اور چین کی طرف سے 80 کروڑ بھی جلد ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ نے ایک مرتبہ پھر اگلے 2 روز میں اسٹاف لیول معاہدے کے لیے امید ظاہر کی ہے۔

15مارچ

اسلاموفوبیا کے خلاف اقدامات ناگزیر

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اسلاموفوبیا کے خلاف ہم سب کو کھڑا ہونا ہوگا۔ گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جانب سے 15 مارچ کو ’’انٹرنیشنل ڈے ٹو کومبیٹ اسلاموفوبیا‘‘ کے لیے مختص کیا گیا۔ یعنی ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جائے گا۔ یہ دن منانے کا فیصلہ پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد کی منظوری کے بعد کیا گیا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ قرآن کی بے حرمتی، نبی آخری الزماں ﷺ کے گستاخانہ خاکوں اور اسلام سے متعلق توہین آمیز کلمات سے عالم اسلام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

16مارچ

بجلی پھر مہنگی

نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3 روپے 23 پیسے تک اضافے کی ابتدائی منظوری دے دی۔

چینی بینک پاکستان کو مزید 50 کروڑ ڈالر دینے پر رضامند

چین سے مزید 50 کروڑ ڈالر کے حصول کے لیے دستاویزی کارروائی مکمل کرلی گئی۔ اسحاق ڈار نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فام ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ٹویٹ میں بتایا ہے کہ چین کے جانب سے 50 کروڑ ڈالر فنڈز جلد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو جاری ہوجائیں گے۔

17مارچ

اسرائیلی دہشت گردی

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی مسلسل چوتھے روز بھی جاری رہی جس میں مزید 3 فلسطینی نوجوان شہید ہوگئے، جب کہ2 روز قبل زخمی ہونے والا نوجوان چل بسا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں واقع جنین کے پناہ گزین کیمپ پر ایک بار پھر چڑھائی کی اور سرچ آپریشن کیا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے ایک کار پر اندھادھند فائرنگ کرکے 3 فلسطینی نوجوانوں کو شہید کردیا۔ شہید ہونے والوں کی عمریں 15 سے 21 سال کے درمیان تھیں۔

اطلاعات کے مطابق ایک روز قبل اسرائیلی فوج کی گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہونے والا 14 سالہ نوجوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اس واقعے میں 6 نوجوان شہید بھی ہوئے تھے۔ مغربی کنارے میں صرف 2 روز میں اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فلسطینی نوجوانوں کی تعداد 10 ہوگئی جب کہ 5 سے زاید زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ اس برس مارچ تک اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوانوں کی تعداد 78 ہوگئی، جن میں 14 بچے بھی شامل تھے۔

زیریں کوہستان میں آتش زدگی

لوئر کوہستان کے علاقے سیری پٹن میں گھر میں آگ لگنے سے خواتین اور بچوں سمیت 10 افراد جاں بہ حق اور3 زخمی ہوگئے۔ ڈسٹرکٹ ایمرجینسی آفیسر ریسکیو 1122 ساجد علی نے اے پی پی کو بتایا کہ لوئر کوہستان کے علاقے سیری پٹن میں رات کے اوقات میں نواب ولد محمدخان کے گھر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی، آگ کے باعث گھر کی چھتیں گرگئیں اور رہائشی افراد ملبے تلے دب گئے، حادثے کے نتیجے میں زوجہ محمد خان، زوجہ نواب خان سمیت نواب خان کی 5 بیٹیاں اور3 بیٹے جاں بہ حق جب کہ 3 افراد زخمی ہوگئے۔

18مارچ

اسرائیل، امارات معاہدہ

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سائبر خطرات سے تحفظ کے لیے معاہدہ ہوگیا۔ یہ معاہدہ اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس کمپنی اور اماراتی ٹیلی کام کمپنی کے مابین ہوا۔ اسرائیلی کمپنی سائبر حملوں کو ٹریک کرنے، ان کی نشان دہی کرنے اور سرکاری اور نجی اداروں کو ممکنہ سائبر حملوں کی لیے الرٹ جاری کرتی ہے۔3 سالہ معاہدے کے تحت اماراتی کمپنی اسرائیل سے سائبر حملوں کے متعلق فوری معلومات کے تبادلے اور اپنے انفرااسٹرکچر کو سائبر حملوں سے بچانے کے لیے پلیٹ فارم تشکیل دے گی۔

واضح رہے کہ دسمبر 2022 ء میں مراکش، بحرین، امارات اور اسرائیل کی سائبر ایجنسیوں کے سربراہان نے مشترکہ سائبر دفاعی پلیٹ فارم قائم کرنے کے حوالے سے بحرین میں پہلی بار ملاقات کی تھی۔ معاہدے ابراہیمی کے تحت ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرکے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھڑا گھونپا تھا۔

19مارچ

خالصتان ریفرنڈم بھارت کے سائبر حملے

آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم رکوانے کے لیے سفارتی میدان میں ناکامی کے بعد بھارت سائبر حملوں پر اتر آیا۔ رپورٹس کے مطابق بھارت سے آزادی کے حصول کے لیے ریفرنڈم میں شریک سکھوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ ووٹنگ کے آغاز سے قبل ہی ووٹنگ سینٹر کے باہر ووٹ ڈالنے کے لیے خواہش مند افراد کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ ریفرنڈم رکوانے کی تمام تر بھارتی کوششوں کے باوجود ہزاروں سکھوں نے ووٹ ڈالا۔ سکھ فار جسٹس کا دعویٰ ہے کہ بھارتی حکومت کے ہیکرز حملوں میں ملوث ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں۔

گرپتونت سنکھ پنوں نے کہا نریندر مودی کا ریفرنڈم رکوانے کے لیے ہر حربہ کا آسٹریلیا میں آباد سکھوں نے بھرپور جواب دیا۔ صدر خالصتان کونسل ڈاکٹر بخشش سنگھ سندھو کا کہنا تھا بھارت میں سکھوں کو انتہاپسند ہندو حکومت، بنیادی حقوق دینے سے بھی انکاری ہے، یورپ کے مختلف شہروں میں ہونے والے ریفرنڈم میں سکھوں نے بھارت سے آزادی کا فیصلہ سنا دیا۔2021 سے شروع ہونے والے ریفرنڈم میں برطانیہ کے 7 شہروں سمیت سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور کینیڈا میں 2 مقامات پر بھی ریفرنڈم ہوچکے ہیں۔

20مارچ

لندن: بھارتی ہائی کمیشن پر خالصتان کا پرچم

سکھوں نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا۔ سوشل میڈیا پر سکھ نوجوانوں کو بھارتی پرچم اتار کر خالصتان کا پرچم لگاتے دکھاتی وڈیو وائرل ہوگئی۔ خالصتان کا جھنڈا اٹھائے سکھ سڑک پر بھی موجود تھے، اس دوران ہاتھوں میں خالصتان کا پرچم اٹھائے نوجوان بھارت کے خلاف اور خالصتان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔

بھارتی سفارتی اہل کار نے ترنگا اتارنے اور خالصتان کا پرچم لہرانے سے روکنے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ لندن میں مقیم سکھ برادری کے مطابق بھارتی ہائی کمیشن پر بھارتی پرچم اتار کر خالصتان کا جھنڈا لہرانے کا مقصد بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حامی امرت پال سنگھ اور ان کے6 ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج اور آسٹریلیا میں خالصتان کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم سے اظہار یکجہتی تھا۔

افغانستان: اقرباء پروری کے خلاف مہم

طالبان راہ نما ہبتہ اﷲ اخوندزادہ نے افغان حکام کو اپنے ان تمام رشتے داروں کی برطرفی کا حکم دیا جنہیں سرکاری عہدوں پر رکھا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ہبتہ اﷲ اخوندزادہ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ اپنے بیٹوں یا خاندان کے دیگر افراد کی جگہ دوسرے افراد کا تقرر کیا جائے اور مستقبل میں حکام اپنے عزیزوں کو سرکاری ملازمت دینے سے گریز کریں۔

21مارچ

پاکستان: انسانی حقوق کی پامالی

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ میں گزشتہ برس 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے منظرنامے کو شامل کو کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کام یابی کے بعد تحریک انصاف کے احتجاج، عوامی ریلیوں اور آزادی مارچ کے دوران گرفتاریاں کی گئیں اور 2 اموات بھی ہوئیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس دوران فوج اور عدلیہ پر تنقیدی مواد نشر یا شایع کرنے پر آئینی پابندیاں نافذ کی گئیں اور میڈیا کو سیاست دانوں کی تقاریر اور انتخابات سے متعلق کوریج کو سنسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اسرائیلی نسل پرستی

امریکا اور یورپی یونین نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے نسل پرستانہ بیانات کی مذمت کردی۔ خبررساں اداروں کے مطابق اسرائیلی وزیرخزانہ بیزالیل اسموتریش نے فرانس کے دورے کے دوران ایک موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے فلسطین اور وہاں کے لوگوں کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسرائیلی وزیر نے کہا کہ فلسطین کی کوئی تاریخ یا ثقافت سرے سے ہے نہیں۔ اسی طرح فلسطینی عوام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یورپی یونین کے دفتر نے کہا کہ سموتریش کے بیانات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے پر حملہ

خالصتان تحریک کے حامی مظاہرین نے سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے پر حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا۔ خالصتان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے، مظاہرین نے سٹی پولیس کی طرف سے کھڑی کی گئی عارضی حفاظتی رکاوٹوں کو توڑ دیا اور قونصل خانے کے اندر خالصتانی جھنڈے لگا دیے۔ اس کے فوراً بعد مشتعل مظاہرین کا ایک گروپ بھارتی قونصلیٹ کمپلیکس میں داخل ہوا اور دروازے اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا۔

22مارچ

عمران خان: زلمے خلیل زاد کی تشویش

امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ (پاکستان کی) حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ، جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دلوا اور آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی پر پابندی لگا سکتی ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کے اقدامات پاکستان میں سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے بحران کو مزید گہرا کریں گے۔ امریکی سینیٹر جیکی روزن نے بھی پاکستان کی سیاسی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

23مارچ

یوم پاکستان کی پریڈ ملتوی

خراب موسم کے باعث ایوانِ صدر میں ہونے والی یومِ پاکستان کی پریڈ ملتوی کردی گئی۔ اس حوالے سے ایوانِ صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یومِ پاکستان کی ملتوی ہونے والی پریڈ اب 25 مارچ کو ہوگی۔ اس مرتبہ پاک فوج کی پریڈ شکر پڑیاں کے بہ جائے ایوانِ صدر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

24مارچ

مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ

ماہ رمضان میں بھی مہنگائی کے وار جاری، ہفتہ وار بنیاد پر مہنگائی میں 1.8 فی صد کا بڑا اضافہ، سالانہ بنیاد پر مہنگائی 46.6 فی صد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی،26اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

سونا 5 ہزار600 روپے مہنگا

ملک میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت بڑھ کر 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 17 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 50 کروڑ ڈالر کے کمرشل قرضوں کی رقم موصول ہونے سے سرکاری ذخائر میں اضافہ ہوا۔ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت 28 کروڑ ڈالر اضافے سے 4 ارب 59 کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی۔ علاوہ ازیں عالمی منڈی میں سونے کی قیمت بڑھنے کے بعد ملکی سطح پر سونے کے نرخ میں بڑا اضافہ ہوا۔

شام پر امریکی فضائی حملے

امریکا نے شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ٹھکانوں پر بم باری کردی۔ غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ صدر جوبائیڈن کے حکم پر کیا گیا جس کی زد میں آکر 3 عام افراد بھی مارے گئے۔ امریکی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا جس میں ایران نواز عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔

26مارچ

انٹرنیشنل کنسورشیم: ڈیم کی سرمایہ کاری کی پیش کش

انٹرنیشنل کنسورشیم نے پاکستان میں دو ڈیمز کی تعمیر کے لیے نے 26ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی، جس سے 22 ہزار میگاواٹ بجلی اور35 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کے دو ڈیمز تعمیر ہوں گے۔ ان ڈیمز سے بجلی تیار کرنے پر تین روپے فی یو نٹ لاگت آئے گی جب کہ ان دو ڈیمز کی پیداواری صلاحیت پاکستان میں موجودہ تمام ڈیمز سے دگنی ہے اور کارٹزارا ڈیم کی صلاحیت کار کالا باغ ڈیم سے چھے گنا زیادہ ہے۔

 10.7 میں سے صرف 12 کروڑ ڈالر مل سکے

حکومتِ پاکستان سیلاب متاثرین کے لیے جنیوا ڈونرز کانفرنس میں اعلان کردہ 10.7 ارب ڈالرز میں سے صرف 12 کروڑ ڈالرز ہی حاصل کر سکی۔ پاکستان کو سیلاب متاثرین کے لیے جنیوا ڈونرز کانفرنس میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا سامنا رہا۔ پاکستانی حکام کے مطابق جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے 3 سال میں10.7 ارب ڈالر کی فنانسنگ کا وعدہ کیا گیا تھا۔

27مارچ

کابل میں خودکش حملہ

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع وزارت خارجہ کے دفتر کے سیکورٹی گیٹ پر حملہ آور نے خود کو بارودی مواد کے دھماکے سے اُڑا لیا۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں 6 افراد کے جاں بہ حق ہونے کی تصدیق کی۔ خود کش حملے میں 10 سے زاید افراد زخمی بھی ہوئے۔

28مارچ

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023

وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل کی منظوری دے دی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کی جانب سے پیش کردہ عدالتی اصلاحات بل (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023) اسپیکر نے اراکین اسمبلی کی درخواست پر بل پر مزید غور کے لیے قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا۔ بل میں تجویز کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے 3 سنیئر ترین جج ازخود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، ازخود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے 14روز کے اندر درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنا ہوگا۔

سعودی عرب میں بس حادثہ

سعودی عرب کے جنوب مغرب میں ایک خوف ناک بس حادثے میں کم از کم20 عمرہ زائرین جاں بہ حق اور 29 زخمی ہوگئے۔ عسیر صوبے میں عقبہ کے مقام پر عمرہ زائرین کی بس ایک پل سے ٹکرانے کے باعث اُلٹ گئی جس کے بعد بس میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں بیس افراد جاں بہ حق اور29 زخمی ہوئے۔

29مارچ

چیف جسٹس کے تنہا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم

قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کرلیا گیا، جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تنہا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کردیا گیا۔ بل وزیرقانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے میں موجود ترامیم کے مطابق بینچوں کی تشکیل اور ازخود نوٹس کا فیصلہ عدالتی کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور 2 سنیئر ترین ججز ہوں گے۔

فیصلہ کثرت رائے سے ہوگا، یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم 3 ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی۔ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زاید ججز کا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی، زیرالتوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینے کے 14 روز کے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔ علاوہ ازیں عدالتی اصلاحات بل میں محسن داوڑ کی ترمیم شامل ہونے سے ن لیگ کے قائد نوازشریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا کے خلاف اپیل کا حق مل گیا۔

سعودی عرب شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بن گیا

سعودی عرب کی چین سے طویل المدتی شراکت داری کا آغاز ہوگیا اور سعودی کابینہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بننے کے فیصلے کی منظوری دے دی۔ سعودی عرب نے ایک میمورنڈم پر دست خط کیے جس میں اسے شنگھائی تعاون تنظیم میں مذاکراتی پارٹنر کا درجہ دیا گیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم چین، روس، بھارت اور پاکستان سمیت یورپ اور ایشیائی ممالک کا سیاسی اور سیکوریٹی اتحاد ہے۔

30مارچ

سینیٹ سے بھی عدالتی اصلاحات بل منظور

سینیٹ نے بھی عدالتی اصلاحات بل منظور کرلیا۔ چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں ایوان نے بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے سے متعلق اپوزیشن کی تحریک مسترد کردی گئی۔ وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات بل پیش کیا جس کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔

اپریل

2اپریل

بھارتی گجرات میں فسادات کا سفاکانہ فیصلہ

بھارت کی عدالت نے گجرات فسادات میں اجتماعی زیادتی اور مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث تمام 26 ملزمان کو 20 سال پرانے کیس میں بری کردیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کل 39 ملزمان میں سے 13 ملزمان کیِ ٹرائل کے دوران موت ہوگئی تھی۔

استغاثہ نے اپنی دلیل کی حمایت میں 190 گواہوں اور 334 دستاویزی ثبوتوں پیش کیے لیکن عدالت نے دہرا معیار اپناتے ہوئے انہیں قبول نہیں کیا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان اس ہجوم کا حصہ تھے جنہوں نے 27 فروری کو گودھرا میں سابرمتی ٹرین جلانے کے واقعہ کے بعد یکم مارچ 2002ء کو ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں قتل عام اور مسلمان خواتین سے اجتماعی زیادتی کی تھی۔

3اپریل

صہیونی فورس کی تیاری

اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف فورس کی تیاری شروع کردی۔ اسرائیلی ٹی وی 24 آئی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے مختلف وزارتوں کے بجٹ کو کم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے تاکہ ’’نیشنل گارڈز‘‘ فورس قائم کرنے کے لیے ایک ارب شیکل فراہم کیے جا سکیں۔ یہ اقدام قومی سلامتی کے وزیر ایمار بن گویر اور وزیر اعظم نیتن یاہو کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق کیا گیا جس کے بدلے میں بن گویر نے نیتن یاہو کی متنازع عدالتی اصلاحات کی حمایت کی تھی۔

4اپریل

اسرائیلی فوج کا مسجد اقصیٰ پر دھاوا

اسرائیلی قابض فوج نے بھاری ہتھیاروں سے لیس ہوکر مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا اور وہاں موجود معتکفین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ادھر مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب شیخ عکرمہ نے کہا کہ مسجد اقصیٰ اس وقت سخت خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں سے اپیل کی کہ وہ بڑی تعداد میں قبلہ اول میں اعتکاف کو یقینی بنائیں۔

5اپریل

پٹنہ: بھارتی انتہا پسندی

بھارتی میڈیا کے مطابق رام نوامی ریلیوں کے دوران تشدد اور فسادات کے کئی واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک واقعے میں ہزار سے زاید جنونی ہندوتوا کے شرپسندوں نے ریاست بہار میں واقع مدرسہ عزیزیہ پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آور جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مدرسے کے محافظ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مدرسے میں داخل ہوگئے، توڑ پھوڑ کی اور جاتے ہوئے پیٹرول بم پھینک گئے، جس سے مدرسے سے منسلک لائبریری میں موجود ساڑھے 4 ہزار کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ 110 سال قدیم ہونے کی وجہ سے اس مدرسے کو تاریخی اہمیت بھی حاصل تھی۔

مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر غزہ سے راکٹ حملے

اسرائیلی فوج نے صبح سویرے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جھڑپوں کے بعد 350 سے زاید فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا۔ صہیونی فضائیہ نے غزہ میں بھی بم باری کی۔ اسرائیلی پولیس مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوئی، جس کے بعد وہاں موجود نہتے نمازیوں نے شدید مزاحمت کی۔ قابض فوج نے رمضان المبارک کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور قبلہ اول کو میدان جنگ بنادیا۔ دوسری جانب غزہ سے اسرائیلی کارروائیوں کے جواب میں 9 راکٹ داغے گئے، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے کیے۔

اسرائیلی قبضے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی قبضے کے خلاف او آئی سی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی۔ بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف او آئی سی کی قرارداد پاکستان نے پیش کی، قرارداد کے حق میں 38 اور مخالفت میں 4 ووٹ پڑے جب کہ 5 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اسرائیل کے خلاف قرارداد کی مخالفت کرنے والے4 ممالک میں امریکا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔

6اپریل

بجلی کی قیمت میں 50 فی صد سے زاید اضافہ

ایک سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 50 فی صد سے زاید اضافہ کیا گیا۔ نیپرا دستاویز کے مطابق فیول ایڈجسٹمنٹ اور سرچارجز کی مد میں بجلی مہنگی کی گئی، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 10 روپے اضافہ ہوا، گھریلو صارفین کی بجلی 50 فی صد مہنگی کی گئی۔ دستاویز کے مطابق گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے نرخ 8 روپے 50 پیسے بڑھے، جس سے صارفین کا ٹیرف 18.04 روپے سے 26.54 روپے ہوگیا۔

دوسری جانب کمرشل صارفین کی بجلی 11 روپے فی یونٹ مہنگی ہوئی، صنعتی صارفین کی بجلی 9 روپے 55 پیسے مہنگی کی گئی، زرعی صارفین کے ٹیرف میں 9 روپے 14 پیسے کا اضافہ ہوا۔ نیپرا کی دستاویز کے مطابق توانائی کی قیمت 655 ارب سے بڑھ کر 1152 ارب ہوگئی۔ کیپسٹی چارجز 794 ارب سے بڑھ کر 1251 ارب ہوگئے۔ بجلی کی پیداواری لاگت میں 22 فی صد اضافہ ہوگیا جب کہ مجموعی پیداواری لاگت 1515 ارب سے بڑھ کر 2518 ارب ہوگئی۔

مسجد اقصیٰ: 40 سال سے کم افراد کے داخلے پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے اور گرفتاریوں کے بعد اسرائیلی پولیس نے 40 سال سے کم عمر افراد کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق اسرائیلی پولیس نے مسلسل تیسری رات مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور نمازفجر کے لیے آنے والے نوجوانوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔

اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں بھاری نفری تعینات کررکھی ہے جو نمازیوں کو مساجد جاتے وقت ہراساں کر رہی ہے۔ اس سے قبل مسجد اقصیٰ میں حراست میں لیے گئے 350 سے زاید نمازیوں کو بھی رہا نہیں کیا گیا۔ ایک طرف تو اسرائیلی فوج مسلمانوں کو رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ سے بے دخل کررہی ہے، جب کہ دوسری طرف یہود کو گھومنے کی مکمل آزادی ہے۔

7اپریل

تاجر برادری پاکستان کے مستقبل سے مایوس

گیلپ پاکستان کا پانچ سو سے زاید کاروباری اداروں کی رائے پر مبنی ’’بزنس کانفیڈنس انڈیکس‘‘ جاری کردیا۔ سروے میں 90 فی صد کاروباری اداروں نے ملکی سمت کو غلط قرار دیا جب کہ 66 فی صد نے کاروباری حالات خراب ہونے کا شکوہ کیا۔ سروے نتائج کے مطابق 61 فی صد تاجر مستقبل میں معاشی حالات میں بہتری سے بھی مایوس نظر آئے البتہ 38 فی صد نے پرامید ہونے کا اظہار کیا۔

سروے میں مسائل سے متعلق سوال پر 45 فی صد تاجروں نے مہنگائی کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا جب کہ 16 فی صد نے کرنسی کی قدر میں کمی اور 7 فی صد سے کم نے حکومت سے روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ 72 فی صد کاروباری اداروں نے پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ کی خبروں پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے بہتری کے لیے اقدامات کرنے مطالبہ کیا۔

بھارت: نصاب سے مسلمانوں کے کارنامے خارج

مودی حکومت نے تدریسی نصاب میں مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں بارہویں جماعت کے نصاب سے مسلم بادشاہوں اور حکم رانوں کے کارناموں کو نکال دیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے ہندو مت کی بدنامی سے بچنے کے لیے قومی راہ نما گاندھی کے قتل کو جواز بخشنے کی کوشش کی ہے۔

اسکولوں کی کتابوں سے ان حوالہ جات کو ہٹایا جارہا ہے، جن میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح بھارتی ہیرو گاندھی نے ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کرکے ہندو انتہاپسندوں کو ناراض کیا جو ان کے قتل کا باعث بنا۔ پولیٹیکل سائنس کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں ہندو انتہاپسند نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر ایک سال کی پابندی کا حوالہ بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ آر ایس ایس مودی کی پارٹی کی نظریاتی حلیف ہے۔

فرانس: پیرس میدان جنگ بن گیا

فرانس میں متنازع پنشن اصلاحات کے خلاف پیرس ایک بار پھر میدان جنگ بن گیا۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق پیرس میں مظاہرین اور سیکیوریٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اس دوران مشتعل مظاہرین نے معروف ریستوران سمیت کئی عمارتوں کو آگ لگا دی۔

خبررساں اداروں کے مطابق احتجاج کے دوران مظاہرین نے پیرس میں صدر میکروں کے پسندیدہ ریستوراں پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران مظاہرین اور پولیس اہل کاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے میکروں کے دوسرے دور میں متعارف کرائے گئے پنشن سے متعلق قانون کو مسترد کردیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ صدر میکروں نے نیا نظام لانے کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔

8اپریل

سوئی ناردرن گیس کا نیا ٹیرف

سوئی ناردرن گیس کا نیا ٹیرف یکم جنوری 2023ء سے نافذ کردیا گیا۔ سوئی گیس حکام کے مطابق مختلف سلیبز پر ٹیرف مرحلہ وار8 سے 112 فی صد تک بڑھایا گیا ہے، گیس نرخوں میں بقایاجات وصولی کا اطلاق بھی شروع ہوگیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ بقایاجات کی رقم کے ساتھ بل گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کو بھجوائے جا رہے ہیں، جس صارف کا بل871 روپے تھا، اب بقایاجات کے ساتھ 2 ہزار900 روپے ہوگیا۔ اس کے علاوہ نئے گیس ٹیرف میں پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کی کیٹیگری متعارف کرائی گئی۔

9اپریل

اسرائیل کو او آئی سی کی وارننگ

اسلامی تعاون تنظیم نے مسجد اقصٰی میں نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل القدس کے تشخص کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

او آئی سی نے دو ٹوک الفاظ میں اسرائیل پر واضح کیا کہ القدس مقبوضہ فلسطینی کا اٹوٹ انگ اور فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے اور مسجد اقصٰی اپنے پورے حصے کے ساتھ صرف مسلمانوں کی خالص عبادت گاہ ہے۔ اسرائیل ان دنوں سنگین جرائم اور خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔

اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسرائیلی پالیسیاں شہر کے مقدس مقامات کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو متاثر کر رہی ہیں جو عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہیں۔

10اپریل

پاکستان میں یوم دستور

حکومت نے ہر سال 10 اپریل کو یوم دستور منانے کا اعلان کیا۔ آئین پاکستان کی پچاسویں سال گرہ کے سلسلے میں کنونشن کا انعقاد ہوا جس میں ہر سال یوم دستور منانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ملک میں ووٹرز کی تعداد ساڑھے 12کروڑ سے متجاوز

الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 930 ہوگئی، مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 78 لاکھ 93 ہزار 815 جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 77 لاکھ 32 ہزار 575 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مرد ووٹرز کی شرح 54 اور خواتین کی 46 فی صد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 18 سے 25 سال تک ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 31 لاکھ 21 ہزار 392، شرح 18 فی صد ہے۔ 26 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 26 لاکھ 18 ہزار 771 ہے، شرح 26 فی صد ہے۔ 36 سے 45 سال کے ووٹرز کی تعداد2 کروڑ 77 لاکھ 56 ہزار 963 ہے، شرح 22 فی صد ہے۔ ملک میں 56 سے 65 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 18 لاکھ 99 ہزار، 66 سال سے زاید عمر کے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 21 لاکھ 9 ہزار 122 ہے، شرح 10 فی صد ہے۔

کوئٹہ: پولیس موبائل کے قریب دھماکا

کوئٹہ میں ایک مصروف چوک پر پولیس کی گاڑی پر دھماکے سے 2 اہل کاروں سمیت چار افراد جاں بہ حق ہوگئے۔ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ شہر کے قندھاری بازار شارع اقبال پر دھماکا ہُوا جس میں 2 پولیس اہل کار، ایک بچی اور ایک شخص جاں بہ حق ہوگئے، دھماکے میں 11افراد زخمی بھی ہوئے۔

11اپریل

آزاد کشمیر: پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ

مظفرآباد ہائی کورٹ کے فل بینچ نے عدلیہ مخالف بیانات کے جرم میں وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کو کسی بھی پبلک عہدے کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ وزیراعظم تنویر الیاس کو عدالت برخاست ہونے تک قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ ان کی نااہلی کے ساتھ ہی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ اس طرح اب آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوگئی۔

اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب

اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا۔ گلوبل مسلم پاپولیشن ویب سائٹ کے مطابق دنیا کی مجموعی 8 ارب سے زاید آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 2 ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق براعظم ایشیا اور افریقا کے 26 ممالک کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بھی ہے۔

12اپریل

چین : جج کو لاکھوں ڈالر رشوت لینے پر قیدوجرمانے کی سزا

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی عدالت عظمیٰ کے جج مینگ ژیانگ کو رشوت ستانی کیس میں پچھتاوا ظاہر کرنے اور خود سے دیگر جرائم کا بھی اعتراف کرنے کے باعث جرم کی کم سے کم سزا 12 سال قید اور 20 لاکھ یوآن کا جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ 58 سالہ جج مینگ ژیانگ نے عدالتی فیصلوں اور قانون کے نفاذ جیسے معاملات میں دوسروں کی مدد کرنے، فرموں کے لیے تعمیراتی ٹھیکے حاصل کرنے اور کیڈر کے انتخاب کو متاثر کرنے کے لیے رشوت لی اور اپنے عہدے اور طاقت کا ناجائز استعمال کیا تھا۔

سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام

سندھ کابینہ نے سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لیے مسودہ قانون کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں سندھ کے لوگوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے صوبے میں توانائی کی تقسیم کو بہتر بنانے اور غربت کے خاتمے کے لیے سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (سیپرا) کے قیام کے فیصلے کو وزیراعلیٰ سندھ نے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی جانب ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے۔

13اپریل

کراچی کی فیکٹری میں آتش زدگی

کراچی کے علاقے نیوکراچی صنعتی ایریا کی فیکٹری میں آتش زدگی کے بعد بلڈنگ زمین بوس ہونے سے 4 فائر فائٹرز جاں بہ حق ہوگئے۔ نیوکراچی صنعتی ایریا کی فیکٹری میں آتش زدگی کے بعد عمارت میں کولنگ کا عمل جاری تھا کہ بلڈنگ زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں 4 فائر فائٹرز جاں بہ حق جب کہ 13 افراد زخمی ہوگئے۔

14اپریل

نیب آرڈیننس 1999ء میں مزید ترمیم کا بل منظور

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں نیب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کا بل 2023ء پیش کیا، قومی اسمبلی کے جمعے کو طلب کیے گئے ہنگامی اجلاس میں نیب آرڈیننس1999ء میں مزید ترمیم کا بل 2023ء منظور کرلیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت عدالت عظمیٰ کے8 ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرینس دائر کردیا گیا۔ چیف جسٹس سمیت 8 ججز کے خلاف ریفرینس میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دائر کیا جس میں آئین کے آرٹیکل209 اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعہ 3 تا 6 اور9 کو بنیاد بنایا گیا۔

ریفرینس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہرنقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کے نام شامل ہیں۔ ریفرنس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے منظورکردہ بل کو سماعت کے لیے مقرر کرکے اختیارات سے تجاوز کیا گیا، پارلیمنٹ کے بل کی سماعت کے لیے 8 رکنی غیرآئینی بینچ تشکیل دیا گیا۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کے خلاف حکم امتناع عدالتی نظائر کی خلاف ورزی ہے۔ ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال سمیت 8ججز کو انکوائری کے بعد برطرف کرنے کا حکم دے اور ریفرینس کے حتمی فیصلے تک انہیں فوری کام سے روکا جائے۔

ججز کے خلاف ریفرینس کی کاپی جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور کو بھجوادی گئی جب کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھی ریفرینس کی کاپی بھجوائی گئی۔

15اپریل

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے اضافہ

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر اضافہ کیا جارہا ہے جس کے بعد فی لیٹر قیمت 272 روپے سے بڑھ کر282 ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 5 روپے 78 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد نئی قیمت 186 روپے 7 پیسے فی لیٹر ہوگی۔

مفتی عبدالشکور ٹریفک حادثے میں جاں بہ حق

وفاقی وزیرمذہبی امور مفتی عبدالشکور ٹریفک حادثے میں جاں بہ حق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق مولانا عبدالشکور میریٹ سے سیکرٹریٹ چوک کی طرف جارہے تھے کہ ہائی لکس ریوو جس میں 5 افراد سوار تھے نے مولانا عبدالشکور کی گاڑی کو ٹکر ماری۔ حادثے کے نتیجے میں وفاقی وزیر کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی، حادثے کے بعد پولیس اور ریسکیو اہل کار موقع پر پہنچ گئے اور قانونی کارروائی شروع کردی۔

مولانا عبدالشکور کو زخمی حالت میں پولی کلینک اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جان بر نہ ہوسکے۔ مفتی عبدالشکور ایک باعمل عالم، ایک نظریاتی سیاسی کارکن اور نیک انسان تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہ نما و وفاقی وزیر مفتی عبدالشکور قومی اسمبلی کے حلقے این اے 51 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

16اپریل

سوڈان: فوج اور پیرا ملٹری فورس کی جھڑپیں

سوڈان میں پیرا ملٹری فورس نے بغاوت کردی جس پر فوج نے جوابی کارروائی کی اور 2 دن میں دونوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 56 افراد ہلاک اور 600 کے قریب زخمی ہوگئے۔

17اپریل

الیکشن کے لیے فنڈز کا اجرا مسترد

قومی اسمبلی نے پنجاب میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے سے متعلق تحریک کثرت رائے سے مسترد کردی۔ دوران اجلاس وزیرقانون نے 21 ارب روپے انتخابی فنڈز سے متعلق قائمہ کمیٹی خزانہ کی رپورٹ ایوان میں پیش کرتے ہوئے کابینہ کی منظوری کے بعد فنڈز کے اجرا سے متعلق ضمنی گرانٹ کی تحریک پیش کی جسے حکومتی اتحادی جماعتوں نے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

18اپریل

فلسطین، اسرائیل امن مذاکرات

چین کے وزیرخارجہ چن گانگ نے اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصب سے کہا کہ چین دونوں فریقین کے درمیان امن مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے اسرائیل اور فلسطین کے اعلیٰ سفارت کاروں کو الگ الگ الگ فون کیا۔ چن گانگ نے اسرائیل کے وزیرخارجہ ایلی کوہن کو فون کرکے امن مذاکرات بحال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ چین اس معاملے میں معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی وزیرخارجہ نے فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی کو بتایا کہ بیجنگ مذاکرات کی فوری طور پر بحالی کی حمایت کرتا ہے۔ ژین ہوا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ چن گانگ نے دونوں فون کالز پر دو ریاستی حل‘ پر عمل درآمد کی بنیاد پر امن مذاکرات پر چین کے موقف پر زور دیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کا عمل 2014ء سے تعطل کا شکار ہیں۔

20اپریل

 2023ء بدترین سال، لوگ عید کی خریداری نہ کرسکے

تاجروں نے 75برس میں2023ء بدترین سال قرار دے دیا۔ اعصاب شکن مہنگائی سے عوام کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی، عید سیزن کے موقع پر بھی بازاروں میں گہماگہمی اور رونقوں کے باوجود متوقع خریداری نہ ہوسکی، گذشتہ سال کے مقابلے میں خرید و فروخت انتہائی مایوس کن رہی، بہ مشکل 40 فی صد لوگ عید کی خریداری کرسکے۔ عید سیل سیزن ملک میں جاری بدترین سیاسی بحران اور اعصاب شکن مہنگائی کی نذر ہوگیا۔

21اپریل

آئی ایم ایف، پاکستان بے نتیجہ مذاکرات:

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ حکام کے مطابق واشنگٹن میں سائیڈ لائن میٹنگز حتمی نتیجے پرنہ پہنچ سکیں اور سعودی عرب، یو اے ای کی یقین دہانیاں ناکافی ثابت ہوئیں۔

22اپریل

تھانے کے اندر دھماکے

سوات کے علاقے کبل میں سی ٹی ڈی تھانے کے اندر ہونے والے خود کش دھماکے میں 12 اہل کار جاں بہ حق ہوگئے جب کہ 40 زخمی ہوئے۔ تھانہ سی ٹی ڈی کبل میں 2 دھماکے ہوئے۔ پولیس نے بتایا کہ دھماکے کے بعد سیکیوریٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دھماکے کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔ ڈی پی او سوات شفیع اﷲ گنڈاپور نے جاں بہ حق افراد کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے واقعے کو خودکش حملہ قرار دیا۔

25اپریل

عالمی بینک کی پاکستان پر تنقید

عالمی بینک نے پاکستان کے ریاستی انتظام میں چلنے والے کاروباری اداروں کو جنوبی ایشیا میں بدترین قرار دے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عوامی وسائل میں نقصان اور خطرات میں اضافہ ہو رہا۔ سرکاری کمپنیاں وجود برقرار رکھنے کے لیے عوامی فنڈز سے 458 ارب روپے سالانہ نگل لیتی ہیں۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ اس رجحان کی تبدیلی کے لیے مضبوط اصلاحات متعارف کرائے۔

26اپریل

پاکستان، حج بھی مشکل

پاکستان میں پہلی بار حج کوٹا دست یاب لیکن حج کرنے والے کم پڑگئے۔ ڈالر کی قلت اور مہنگائی سے پاکستانیوں کے لیے حج ادائی کی راہیں بھی مشکل ہوگئیں۔ وزارتِ مذہبی امور کے ذرائع کے مطابق ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت کا استعمال نہ کیا جانے والا حج کوٹا سعودی عرب کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مہنگے حج کے سبب بہت سے پاکستانی درخواستیں نہیں دے سکے۔

27اپریل

پاکستان سے ہجرت میں 300 فی صد اضافہ

ایک سال میں 10 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے، صرف ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں 300 فی صد اضافہ ہوگیا، سالانہ اوسطاً 2 سے ڈھائی لاکھ پاکستانی بیرون جاتے تھے، اب یہ تعداد بڑھ کر دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس حوالے سے رپورٹ کے مطابق غیریقینی معاشی و سیاسی صورت حال، مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان لاکھوں نوجوان رزق کی تلاش میں سمندر پار چلے گئے۔

گذشتہ سال دسمبر تک 7 لاکھ 65 ہزار نوجوان حصول روزگار کے لیے پاکستان چھوڑ کر جا چکے تھے، جب کہ رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ میں مزید ہزاروں پاکستانی بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، آئی ٹی ماہرین، اکاؤٹنٹس، ایسوسی ایٹ انجنیئرز، اساتذہ اور نرسز شامل ہیں۔

28-29 اپریل2023

حکومت کو بجٹ کی تیاری میں مشکلات

وفاقی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف سطح کے معاہدے میں تاخیر کے باعث آئندہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی بجٹ کی تیاری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے فنانسنگ کے ساتھ ڈالر اور روپے کی شرح تناسب کے تعین نہ ہونے کے باعث بجٹ تخمینہ جات طے کرنے میں دشواری پیش آئی۔ ترقیاتی اور جاری اخراجات کے لیے بجٹ کی حد مقرر کرنے کا شیڈول بھی متاثر ہوا۔

مئی

4 مئی

اسکول میں فائرنگ کے دو واقعات

خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں پارا چنار میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات پیش آئے جن میں 5 اساتذہ سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اپر کرم کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) محمد عمران خان نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ کا پہلا واقعہ شلوزان روڈ پر چند کلومیٹر دوری پر تری مینگل اسکول میں پیش آیا۔ 4 مئی کے اس واقعے میں ایک ٹیچر کے قتل کے بعد اسکول میں 7 افراد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مرتبہ فائرنگ کی زد میں آکر 4 اساتذہ اور 3 ڈرائیور زندگی کی بازی ہارگئے۔ ان کی لاشیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال پارا چنار منتقل کی گئی تھیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتال پارا چنار کے ڈی ایم ایس قیصر عباس نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں ہلاکتوں کے علاوہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی جس پر اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ۔ دوسری طرف علاقہ میں خوف و ہراس کے ساتھ عوام میں اشتعال پایا جاتا تھا۔

ڈی پی او عمران نے اس حوالے سے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ کوہاٹ ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور کمشنر پارا چنار پہنچے اور سیکیورٹی میں اضافہ اور علاقے کی سڑکیں بند کردی گئیں اور عمائدین سے امن و امان برقرار رکھنے کے حوالے سے بات چیت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے اس کی رپورٹ طلب کی۔

کانگو میں چارسو افراد جان سے گئے!

افریقی ملک کانگو کے جنوبی صوبے کیوو میں اپریل سے جاری بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 400 افراد ہلاک ہوگئے۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی گورنر نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے ندی نالوں میں ظغیانی اور مٹی کے تودے گرنے سے کئی گھروں کو نقصان پہنچا جب کہ جنوبی کیوو کے علاقے کالہے میں کئی دیہات تباہ ہوگئے۔ اس حوالے سے چار مئی کو اموات کے اعداد و شمار بتائے گئے جن کے مطابق 401 افراد جان سے گئے۔

5 مئی

کورونا: ہنگامی حالت کا نفاذ ختم

عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی وبا پر ہنگامی حالت کا نفاذ ختم کردیا۔ کورونا وائرس کا آغاز دسمبر 2019 کے اختتام پر چین سے ہوا تھا اور جنوری 2020 تک یہ وائرس دیگر ممالک تک پھیل گیا تھا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا کہا۔ 30 جنوری 2020 کو کورونا کو ادارے نے عالمی ہیلتھ ایمرجنسی اور بعد میں ’عالمی وبا‘ قرار دے دیا تھا، پانچ مئی کو اسے ختم کردیا گیا۔

6 مئی

برطانیہ : چارلس سوم کی رسم تاج پوشی

برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم کی رسم تاج پوشی ہفتہ چھے مئی کے روز دارلحکومت لندن میں ادا کی گئی۔ اس موقع پر 100 کے قریب عالمی شخصیات موجود تھیں جب کہ ٹیلی وژن پر تاج پوشی کی رسم دنیا بھر میں ناظرین نے دیکھی۔ اس تقریب میں کینٹربری کے آرچ بشپ اور اینگلیکن چرچ کے روحانی پیشوا نے سینٹ ایڈورڈ کا 360 سالہ پرانا تاج چودہویں صدی سے ویسٹ منسٹر ایبے میں رکھے گئے تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ چارلس کے سر پر رکھ کر تاج پوشی کی یہ شاہی رسم ادا کی۔ بادشاہ چارلس کی دوسری بیوی 75 سالہ کامیلا کو بھی اس تقریب کے دوران ملکہ کا تاج پہنایا گیا۔

چارلس سوم کی تاج پوشی کی یہ رسم ایک ہزار سالہ تاریخ اور روایت پر مشتمل ایک مسیحی مذہبی تقریب تھی۔ تاہم اس تقریب کو اکیسویں صدی کے برطانیہ کی عکاسی کے لیے نئے انداز میں ڈھالا گیا تھا۔ برطانوی بادشاہ کے اختیارات کی مقدس علامت اور ٹھوس سونے سے بنا ہوا سینٹ ایڈورڈ کراؤن ’’خدا بادشاہ کی حفاظت کرے‘‘ کے نعروں کے ساتھ چارلس سوم کے سر پر سجایا گیا۔ اس شاہی تاج کو بادشاہ بننے والا اپنی زندگی میں صرف ایک ہی بار یعنی اپنی تاج پوشی کے وقت ہی کچھ دیر کے لیے پہنتا ہے۔

تقریب کے دوران لندن کے ویسٹ منسٹر ایبے میں ڈھول باجے بھی بجائے گئے۔ یہ رسم 1953 کے بعد اب ادا کی گئی تھی جس میں زمین اور سمندر سے توپوں کی رسمی سلامی بھی دی گئی۔ اس تقریب کے سلسلے میں پیادہ اور گھڑ سوار سات ہزار فوجیوں نے دارالحکومت لندن کی سڑکوں پر مارچ کیا۔

تاج پوشی کے بعد نئے بادشاہ اور ملکہ کو بالکونی سے ایک رسمی فلائی پاسٹ سے قبل بڑے ہجوم سے گزرتے ہوئے شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والے گھوڑوں والی گولڈ اسٹیٹ بگھی میں بکنگھم پیلس واپس جانا تھا۔

تاج پوشی کی یہ رسم 1937 کے بعد کسی بادشاہ کی پہلی اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی دوسری جب کہ پہلی رنگین اور آن لائن نشر ہونے والی تقریب بھی تھی۔ لندن میں اس رسم کا مقصد بادشاہ کی تخت نشینی کی مذہبی تصدیق ہوتا ہے۔ بادشاہ چارلس سات دہائیوں تک ملکہ رہنے والی اپنی والدہ الزبتھ دوم کی موت کے بعد بادشاہ بنے۔

9 مئی

عمران خان کی گرفتاری، ہنگامے اور پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات

سابق وزیراعظم عمران خان کی منگل کے روز قومی احتساب بیورو (نیب) کے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور مشتعل کارکنوں اور حامیوں نے جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی۔ نو مئی کے بعد یہ ہنگامہ آرائی اس وقت تک جاری رہی جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتاریاں شروع نہ کردیں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کارکنوں اور حامیانِ عمران خان کی جھڑپوں کے دوران کم از کم 8 افراد جان سے گئے اور بدھ تک 290 کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ سیکیورٹی اداروں نے دوسرے روز 1900 سے زائد مشتعل مظاہرین کو دھرلیا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق  پرتشدد مظاہروں اور گرفتاریوں کے دوران اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو آٹھ دن کے لیے نیب کی تحویل میں دے دیا۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے دوران ملک کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں پولیس اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں جب کہ قومی یادگاروں، ملکی سطح کی عمارتوں، سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر اور پولیس اسٹیشنوں سمیت سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچا۔نو مئی کے بعد پرتشدد واقعات اور مظاہرین کی گرفتاریوں کے ساتھ بدھ کو پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی گرفتاری اور پھر رات گئے پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

حالات اس قدر بگڑ گئے کہ حکومت کو پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کرنا پڑی اور ایک دن قبل مشتعل مظاہرین نے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا جب کہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا دروازہ بھی توڑ دیا گیا اور لوگوں نے عمارت میں توڑ پھوڑ کی۔ نو مئی کے بعد پورا ہفتہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کی شناخت کے بعد ان کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔

فوج نے قومی املاک اور تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ایکشن لیا اور اس کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے سخت بیان جاری کیا کہ سیاسی جماعتیں اپنے محدود اور ذاتی مفادات کے لیے عوام کو استعمال کر رہی ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ہجوم نے اسلام آباد میں پولیس آفس، لاہور میں پولیس اسٹیشن، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت، لوئر دیر میں چکدارا کے مقام پر اسکاؤٹس فورٹ کو نذر آتش کردیا تھا۔

ایک طرف عمران خان کے حامیوں اور کارکنان نے اسلام آباد میں پولیس لائنز کے باہر ان کے حق میں ریلی نکالی، اور دوسری جانب احتساب عدالت کو عبوری طور پر پولیس ہیڈ کوارٹرز منتقل کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین کو نیب کی تحویل میں دے دیا گیا۔ نو مئی کے بعد گرفتاریوں کے خوف سے پی ٹی آئی کے کئی قائدین اور راہ نما روپوش ہوگئے۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں نومئی کے ذمہ داروں اور شرپسندوں سے متعلق اہم فیصلہ

نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کا فیصلہ کور کمانڈرز کانفرنس میں سامنے آیا۔ 15 مئی کو پاک فوج کی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدارت میں کور کمانڈرز کے اجلاس میں کیا گیا۔ کہا گیا کہ ذمے داروں کے خلاف پاکستان کے متعلقہ قوانین اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بھی مقدمات درج کیے جائیں گے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فورم کو اندرونی و بیرونی سیکیوریٹی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل مربوط منصوبے کے تحت ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، منصوبہ ادارے کو ردعمل دینے اور اکسانے کے لیے انجام دیا گیا۔

عساکر پاکستان نے کہا کہ ایک شرم ناک پروپیگنڈے کا مقصد مسلح افواج اور پاکستان کی عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے، اس کا مقصد مسلح افواج کے رینک اینڈ فائل کے اندر دراڑ پیدا کرنا ہے۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ قومی سطح پر اتفاق رائے ضروری ہے تاکہ عوام کے اعتماد، معاشی ترقی اور جمہوری نظام کو دوام بخشا جاسکے۔

19 مئی

سراج الحق کے قافلے پر خود کش حملہ

بلوچستان کے شہر ژوب میں جماعت اسلامی کے قافلے کے قریب خودکش حملہ کی اطلاعات پر 19 مئی کو ملک بھر میں پارٹی کارکنوں اور عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم خوش قسمتی سے سراج الحق محفوظ رہے۔

پولیس کے مطابق خود کش حملہ آور نے سراج الحق کے قافلے کے قریب آکر خود کو اڑانے کی کوشش کی لیکن خود کش بم بار کی جیکٹ مکمل طور پر پھٹ نہ سکی اور بم بار شدید زخمی حالت میں زمین پر گرا اور ہلاک ہوگیا۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ خودکش بم بار کی جیکٹ میں 8 کلو تک بارودی مواد موجود تھا۔

امیرجماعت اسلامی سراج الحق کو ژوب میں جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ مولانا ہدایت اللہ کی ضمانت ہونے پر ان سے اظہار یک جہتی کے لیے بھی جانا چاہتے تھے۔ دھماکے میں 9 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع تھی جس میں سے چار شدید زخمی تھے۔ اس افسوس ناک واقعے کے اگلے دن خود کش حملہ آور کی شناخت ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گرد کوئٹہ کا رہائشی تھا۔ وہ ڈیڑھ سال سے گھر سے غائب تھا۔

23 مئی

سیاسی راہ نماؤں نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا

پاکستان تحریک انصاف کی راہ نما شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ 23 مئی کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پر ملک کے 24 کروڑ عوام دکھی ہیں، اس پر میں بھی دکھی ہوا ہوں، پاکستان کی خدمت کرتا رہوں گا۔

قبل ازیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیریں مزاری نے اعلان کیا کہ اب میرے بچے، والدہ اور میری صحت ترجیح ہے، آج سے میں پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کی سب کو مذمت کرنی چاہیے، میں بھی 9 اور 10 مئی کو ہونے والے واقعات کی مذمت کرتی ہوں۔

24 مئی

فواد چوہدری کا اعلان اور اسد عمر کی پریس کانفرنس

پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری نے سیاست اور پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ دوسری جانب اسد عمر پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے اور کور کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کی خبر سامنے آئی۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہنگامی نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ’9 مئی کے بعد میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ ذمہ داریاں نبھا سکوں، سیکرٹری جنرل کے عہدے اور کور کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو رہا ہوں۔‘ تاہم اس وقت انھوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ پارٹی نہیں چھوڑ رہا، صرف عہدوں سے استعفیٰ دے رہا ہوں، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں۔‘

جون

یکم جون

پرویزالٰہی کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری

یکم جون کو پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری میڈیا پر بریکنگ نیوز بنی۔ پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی کو بعد میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی لاہور میں بلٹ پروف گاڑی میں گھر سے نکلے تھے کہ لاہور پولیس اور اینٹی کرپشن ٹیم نے ان کو روک لیا۔

پرویز الٰہی گاڑی سے نہیں اترے تو گاڑی کے شیشے توڑے گئے اور زبردستی ان کو باہر نکال کر گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی آئی صدر کو 20 جون کو اینٹی کرپشن کے 2 مقدمات میں ضمانت مل گئی۔ اگلے دن 21 جون کو اینٹی کرپشن نے پرویز الہٰی کو جیل کے باہر سے غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں دوبارہ گرفتار کیا۔

پی ٹی آئی صدر کو غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں بھی ضمانت مل گئی، اس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں 26 جون کو پھر گرفتار کرلیا۔ پرویز الہٰی کی ضمانت اور گرفتاری کا سلسلہ طول پکڑ گیا۔ ان کو 17 جولائی کو ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت ملی 18 جولائی کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا۔

3 جون

تین ٹرینوں میں تصادم، تین سو ہلاکتیں

بھارت میں 3 ٹرینوں میں تصادم کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 300 بتائی گئی۔ 3 جون کے اس حادثے میں بھارتی میڈیا کے مطابق کولکتہ سے چنائی جانے والی مسافر ٹرین کی متعدد بوگیاں بھارتی ریاست اڑیسہ کے ضلع بالاسور میں پٹری سے اتر کر دوسری پٹری پر مخالف سمت سے آنے والی ٹرین سے جا ٹکرائیں۔ اسی دوران ایک مال گاڑی بھی دونوں ٹرینوں سے ٹکرا گئی تھی۔ ٹرینوں کے تصادم کے بعد جائے حادثہ پر قیامت کا منظر تھا۔ اس حادثے میں 900 افراد زخمی ہوئے تھے۔

6 جون

سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانہ کھل گیا

ایران نے سات سال بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔ غیرملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ علی رضا بگدیلی نے پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج کے دن کو اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک اہم دن سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ مارچ میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے اور تعلقات کی بحالی کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ کئی سالوں سے ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ممالک ایران اور سعودی عرب خطے میں یمن، شام اور عراق سمیت کئی تنازعات پر لڑائی لڑتے رہے ہیں، دونوں ممالک نے 2016 میں سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔

7 جون

جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت

سینئر سیاستدان جہانگیر ترین نے نئی سیاسی جماعت ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا اور پی ٹی آئی چھوڑنے والے کئی سیاسی نام ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ لاہور کے مقامی ہوٹل میں اس اعلان کے موقع پر ان کے حامی بھی موجود تھے۔

اس نئی سیاسی جماعت کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین نے کہا کہ ملک کو ترقی دینے کے جذبے کی لیے تحریک انصاف میں شامل ہوئے، دن رات محنت کی، بد قسمتی سے معاملات ایسے نہ چل سکے جیسے ہم چاہتے تھے، لوگ بد دل ہونے لگے، نو مئی کے واقعات نے ملکی سیاست کو بدل دیا، کوئی بھی معاشرہ ایسے واقعات کو برداشت نہیں کرسکتا، ہمارے اکٹھے ہونے کا مقصد ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔

اس موقع پر علیم خان نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ہم سب کو اکٹھا کرنے میں بڑے پن کا مظاہرہ کیا، ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے، انتشار سے دور رکھنا ہے۔ پریس کانفرنس میں وہ سیاست داں جو پی ٹی آئی سے نو مئی کے بعد الگ ہوئے موجود تھے۔ ان میں علی زیدی، عمران اسماعیل، عامر کیانی، سردار تنویر الیاس، فردوس عاشق اعوان بھی تھیں۔ اس نئی جماعت میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے محمود مولوی، جے پرکاش، فیاض چوہان، جاوید انصاری اور طارق عبداللہ شامل ہوئے۔

 14 جون

 تارکینِ وطن کی کشتی کو بدترین حادثہ 

دنیا بھر میں یہ خبر نہایت افسوس اور رنج و غم کے ساتھ سنی گئی کہ یونان کے علاقے پیلو پونز میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی ہے۔ اس سانحے میں 79 پاکستانی ہلاک ہوگئے۔ اگلے روز اس واقعے کی تفصیلات سامنے آنے لگیں جس میں بتایا گیا کہ 100 افراد کو بچالیا گیا جب کہ حادثے کے بعد سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔

یونانی جزیرے کالاماتا کا دورہ کرنے والی یونانی صدر کیترینا نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں میں سے بیشتر کا تعلق شام، پاکستان اور مصر سے ہے۔ اس سانحے کے بعد پاکستان میں غیرقانونی طریقے سے سمندر اور صحرا کے راستے بہتر مستقبل کی خاطر سفر اختیار کرنے والوں کو سبز باغ دکھانے والے اور انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی اور اس غیرقانونی دھندے میں ملوث متعدد ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کے اس واقعے کو دنیا نے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والا بدترین واقعہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت لگ بھگ 500 افراد لاپتا ہوئے۔ بچ جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔ 14 جون کو اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے۔

26 جون

نومئی: فوجی افسران کی برطرفیاں

نو مئی کے واقعات نے ملکی سیاست میں ہی طوفان برپا نہیں کیا بلکہ پاک فوج نے جہاں شرپسند اور امن دشمن عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیا وہیں شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف نے بتایا کہ جی ایچ کیو، جناح ہاؤس کی سیکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں ناکامی پر 3 افسران بشمول ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے اور دیگر کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔

جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میجرجنرل احمدشریف نے کہا کہ 9 مئی کو متعدد گیریژنز میں جو پرتشدد واقعات ہوئے اس پر دو ادارہ جاتی جامع انکوائریز کی گئیں جن کی صدارت میجر جنرل رینکس کے عہدے داروں نے کی۔ انھوں نے بتایا کہ 15 افسران بشمول 3 میجر جنرلز اور 7 بریگیڈیئرز کے عہدے کے افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے۔

 28 جون

برکینا فاسو میں سپلائی قافلے پر حملہ

افریقی ملک برکینا فاسو میں ایک سپلائی قافلے پر حملے میں 34 افراد ہلاک ہوگئے۔ بتایا گیا کہ 31 فوجی اور تین فوجی معاون ہلاک ہوئے ہیں۔ فوج نے ایک بیان میں بتایا کہ فوجی دستوں کی نگرانی میں جانے والے سپلائی قافلے پر یہ حملہ وسطی نارڈ خطے میں بام صوبے کے نامسیگیا میں گھات لگا کر کیا گیا۔ مزید بتایا گیا کہ تقریباً 20 افراد زخمی ہوئے جنہیں نکال لیا گیا۔ تقریباً 10 فوجی اہل کار لاپتا ہونے کا بھی بتایا گیا۔ بیان کے مطابق لڑائی میں 40 سے زیادہ دہشت گرد بھی مارے گئے۔

جولائی

یکم جولائی

 امریکا بھارت فوجی تعاون

پاکستان کے جائز سیکیوریٹی خدشات کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کی بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجی منتقلی جنوبی ایشیا میں اسٹریجیک استحکام اور روایتی توازن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکا کے بعد امریکا کی جنرل الیکٹرک اور بھارت کی سرکار ی جہاز ساز کمپنی مل کر لڑاکا طیاروں کے جدید جیٹ انجن بنائیں گے، یہی نہیں بلکہ جنگ میں استعمال ہونے والے مسلح ڈرون بھی اشتراک سے تیار کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

اس کے بعد اسلحے کی خریداری میں بھارت کا امریکا پر انحصار ایک فی صد سے بڑھ کر گیارہ فی صد ہوگیا ہے۔ اس سے قبل بھارت کئی دہائیوں سے روس سے جنگی اسلحہ درآمد کرتا رہا ہے۔ بھارت روس سے 65 فی صد جنگی اسلحہ حاصل کرتا ہے جو اب کم ہوکر 45 فی صد ہوگیا ہے۔ ماہرین نے امریکا اور بھارت کے دفاعی تعلقات گہرے ہونے کو قومی سلامتی کے خلاف خطرہ قرار دے دیا ہے۔

گرمی کی لہر

شمال مغربی امریکا میں میکسیکو کے قریبی علاقوں میں دو ہفتوں کے دوران قیامت خیز گرمی پڑی۔ حکام کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سو افراد ہیٹ ویو کے باعث ہلاک ہوگئے۔

 پاکستان آخری نمبر پر

انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ممالک کی درجہ بندی کرتے ہوئے تحفظ، سیکیوریٹی، تنازعات اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے رپورٹ جاری کی، جس میں پاکستان کا شمار دنیا کے آخری 20 پرامن ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان اس صف بندی میں146 ویں نمبر پر کھڑا ہے جب کہ پڑوسی ملک بھارت 126ویں پر۔ آئس لینڈ 1.124 اسکور کے ساتھ مسلسل 15ویں سال بھی دنیا کا پرامن ترین ملک قرار پایا۔ یورپی ملک ڈنمارک اور آئرلینڈ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر پُرامن ممالک قرار پائے۔ سنگاپور ایشیا کا پُرامن ترین جب کہ عالمی درجہ بندی میں چھٹا پُرامن ملک قرار پایا۔

2جولائی

 معاہدہ طے پاگیا

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین ارب ڈالر کا نیا معاہدہ اسٹینڈبائی ارینجمینٹ کے تحت بالآخر طے پاگیا۔ اعلامیہ کے مطابق نو ماہ کے لیے طے پانے والے معاہدے سے پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوگا، شعبہ توانائی میں اصلاحات اور سماجی شعبے کے لیے فنڈز کی فراہمی بہتر ہوگی۔

یاد رہے کہ یہ قرض پاکستان کو سخت شرائط پر منظور کیا گیا ہے جو کہ تین قسطوں میں جاری کیا جائے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے والا چوتھا ملک بن جائے گا۔ اس ضمن میں ارجنٹائن پہلے، مصر دوسرے اور یوکرین تیسرے نمبر پر ہیں۔

 ہاتھی کا تحفہ

جانوروں کے ساتھ بدسلوکی عام رویہ ہے۔ تھائی لینڈ کی وزارت ماحولیات نے سری لنکا کے شہر کولمبو میں موجود بدھ مت مندر کو تحفے میں دیے جانے والے ہاتھی کو واپس بلوا لیا۔ سری لنکا میں اس ہاتھی کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی تھی اور اسے مسلسل نظرانداز کرنے کے الزامات سامنے آ رہے تھے جس بنا پر تھائی لینڈ نے سن 2001 میں دیے گئے اس ہاتھی کو واپس بلوا لیا۔

بھارت کی دوا ساز کمپنی کی کوتاہی

امریکی فورڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی جانب سے بھارت کی دوسری بڑ ی دواساز کمپنی ’’ارو بندوفارما‘‘ کے پلانٹ میں سنگین کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ۔ پلانٹ کے دورے کے دوران سازوسامان کی صفائی اور اسٹوریج کے کنٹرول میں سنگین کوتاہیوں کا انکشاف ہوا۔

بلومبرگ کی روپورٹ کے مطابق ایف ڈی اے بھارت کی کئی دو ساز کمپنیوں کو وسیع پیمانے پر کوتاہیوں پر خبردار کرچکا ہے۔ دوسری جانب بھارتی ریاست آندھراپردیش میں فارماکپمنی کے ری ایکٹر میں دھماکے سے دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے۔

 مسلمان سراپا احتجاج

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلم ممالک نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ایسے گھناؤنے واقعات کی پُرزور مذمت کی۔ امارات اور اردن میں سویڈش سفیروں کی طلبی کی گئی۔

مراکش نے سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلالیے جب کہ بغداد میں مشتعل مظاہرین نے سویڈش سفارت خانے پر دھاوا بول دیا۔ مسلم راہ نماؤں، امریکا، یورپی یونین کے ساتھ روسی صدر پوٹن نے بھی واقعے کی مذمت کی۔ اس دل خراش واقعے سے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔

3جولائی

سعودی شہزادے کا انتقال

سعودی شہزادہ طلال بن عبدالعزیز آل سعود علالت کے باعث انتقال کر گئے۔ سعودی عرب کی شاہی عدالت نے ان کے انتقال کی تصدیق کردی۔ وہ شاہی خاندان کے سرکردہ رکن تھے اور عسیر خطے کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔

 باربی نہیں چلے گی۔۔۔۔

بچوں کی ہر دل عزیز باربی مووی کا نیا سیکول شائقین کے لیے جہاں عرصے بعد خوش گوار حیرت کا باعث بنا وہیں یہ فلم تنازعات کا شکار ہوگئی۔ ویت نام نے اعلان کیا وہ باربی فلم کی عکس بندی پر پابندی عائد کر رہا ہے۔ اس کی وجہ فلم میں دکھایا جانے والا وہ نقشہ ہے جس میں بحیرۂ جنوبی چین میں نوڈیش لائن دکھائی گئی جو کہ ویتنام تسلیم نہیں کرتا۔

فلپائین کے فلم ریوو بورڈ نے بھی امریکی فلم ڈسٹریبوشن کمپنی وارنر برو کو اس متنازعہ نقشے پر نظرثانی کی درخواست کی۔ اسی طرح فلم میں LGBTQایجنڈے کا پرچار کرنے پر پاکستان میں اس فلم کو بین کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر بعدازآں معاملہ سنسر بورڈ کو نظرثانی کے لیے بھیجا گیا۔ یاد رہے کہ باربی فلم 2001 میں پہلی مرتبہ ریلیز کی گئی تھی۔ باربی ڈول امریکی کھلونوں کی صنعت میں منفرد انداز اور فیشن کے لحاظ سے انفرادیت رکھتی ہے۔

صحت کارڈ کے ضوابط

نگراں پنجاب حکومت نے صحت کارڈ کی سہولت ختم کرنے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے اس میں اصلاحات کا اعلان کردیا، جس کے مطابق اب 8 ہزار بجلی کابل بھرنے والا اور بیرون ملک سفر کرنے والا ہیلتھ کارڈ پر دل کے علاج کا اہل نہیں ہوگا۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت جب کہ نجی اسپتالوں میں علاج پر 30 فی صد ادائی کرنا ہوگی۔ یاد رہے کہ اب صحت کارڈ پر صرف پاکستان کا جھنڈا ہوگا۔

 برطانوی بادشاہ کی پاکستانی خاتون مشیرخاص

برطانوی بادشاہ چارلس نے پاکستانی خاتون ڈاکٹر زریں روحی احمد کو اپنا مشیر خاص مقرر کردیا جن کا عہدہ اسسٹنٹ سیکریٹری کے برابر ہوگا۔ برطانیوی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی نژاد خاتون کو برطانوی شاہ کا مشیر خاص مقرر کیا گیا ۔ ڈاکٹر زریں برطانیہ میں ملکی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین میں سے ایک ہیں۔ ان کا انتخاب اشتہار کے ذریعے میرٹ پر کیا گیا۔

 ویزے منسوخ

بھارتی حکومت نے افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد افغان شہریوں کو پہلے سے جاری کیے گئے تمام ویزے منسوخ کردیے۔ بھارت کے افغان طلباء کو ویزا جاری کرنے سے انکار کے  باعث آن لائن امتحانات بھی ممکن نہیں۔ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں پچیس ہزار سے زائد افغان طلباء ویزا مسائل کے باعث افغانستان میں پھنس گئے، جو ڈگری مکمل کرنے والے آخری امتحان میں بھی شریک نہ ہو سکیں گے۔ ہندوستان کے وزیرخارجہ جے شنکر نے سیکیوریٹی خدشات کا بہانہ بناکر طلباء کو وظائف اور ویزا دینے سے انکار کردیا، جس سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ ایسے میں پاکستان نے افغان طلباء کو 4500 مکمل فنڈزو وظائف کی پیشکش کردی۔

 4جولائی

اہم پیش رفت

مصر اور ترکیہ کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے دو ممالک کے درمیان سفیروں کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ یاد رہے ایران اب اس تنظیم کا نواں رکن ہے۔

سزائے موت ختم

ملائیشیا نے لازمی سزائے موت کے خاتمے کا ایکٹ 2023ء نافذالعمل کردیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت اسمگلنگ، قتل، اغواء اور غداری کے جرم میں سزائے موت کے لازمی نفاذ کو ختم کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ملائیشیا ان ممالک میں سے ہے جہاں چھوٹے بڑے جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

آٹا مہنگا

پنجاب میں گندم کی طلب اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے باعث آٹے کے تھیلے کی قیمت 100روپے تک بڑھادی گئی ۔ گندم کی قیمت میں فی من 150روپے تا 200 روپے اضافہ ہوا۔ بیوپاریوں نے فلورملز کے پاس کم اسٹاک کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کیا۔ حکومت نے مافیا کی بلیک میلنگ سے نجات دلوانے کے لیے نجی گندم امپورٹ کرنے کی استدعا کی جب کہ لاہور ہائی کورٹ نے محکمۂ خوراک پنجاب کو سرکاری گندم کی بڈنگ سے تاحکم ثانی روک دیا۔

بیوٹی پارلر نہیں چلیں گے۔۔۔

افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت نے اپنے منشور کو واضح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہاں ایک ماہ کے اندر بیوٹی پارلر بند کردیے جائیں گے۔ اس خبر نے انٹرنیٹ پر ایک طوفان برپا کردیا اور اس فیصلے کے خلاف ایک نئی بحث چھڑگئی۔ صارفین نے دل چسپ اور کڑے تبصرے کیے۔ افغان خواتین نے اس فیصلے کے خلاف بھر پور احتجاج کیا۔

5 جولائی

تعلقات کشیدہ

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہوگئے۔ سعودی عرب نے اعلان میں ایران کی جانب سے کیے گئے دعوے کو مسترد کردیا، جس کے مطابق درا گیس فیلڈ کی جزوی ملکیت ایران کی ہے۔ سعودیہ نے واضح کیا کہ وہ یہ گیس پروجیکٹ کویت کی باہمی اشتراک سے سرانجام دے گا۔

 وزیراعلٰی نااہل

چیف کورٹ گلگت بلتستان کے 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلٰی گلگت بلتستان خالدخورشید کو لندن کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے جاری ڈگری جعلی ثابت ہونے پر پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی گلگت بلتستان آغا غلام شہزاد نے جعلی ڈگری کے خلاف درخواست دو جو ن کو دائر کی تھی۔

6جولائی

 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں بارش کا30  سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ نہریں اوورفلو ہوگئیں، انڈر پاسز ڈوب گئے، چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے کے واقعات سے اموات ہونے لگیں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ شہر میں سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی سب سے زیادہ بارش لکشمی چوک میں 291 ملی میٹر ریکارڈ ہوئی۔ شہر کے نوے فی صد علاقوں میں 200  ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بارشوں کے باعث بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ ہزاروں دیہات زیرآب آگئے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور لوگ بے گھر ہوگئے۔

 ٹک ٹاک پاکستان میں

وفاقی وزیرِآئی ٹی امین الحق کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا قوانین کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات شروع کردیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں ٹک ٹاک بھی پاکستا ن میں اپنا دفتر کھولنے جار ہا ہے، جو بھی کمپنی پاکستان نہیں آسکتی وہ یہاں اپنا ورچوئل آفس بنائے گی۔ یاد رہے کہ گوگل پاکستان میں پہلے ہی اپنا دفتر قائم کر چکا ہے۔

7جولائی

یومِ تقدس قرآن

سویڈن میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے خلاف پاکستان کی پارلیمنٹ میں مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی۔ چیئر مین سینیٹ نے دنیا بھر کے پارلیمانوں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے خطوط ارسال کردیے۔ وزیراعظم کی اپیل پر ملک بھر میں یوم تقدیس قرآن منایا گیا اور بے حرمتی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ بعدازآں امریکی مخالفت کے باوجود پاکستان نے اقوام متحدہ میں توہین قرآن کے خلاف قرارداد منظور کروالی۔

فوجی امداد

روس یوکرین جنگ کے دوران امریکا نے یوکرین کو 800 ملین ڈالر کا امدادی پیکیج دینے کا اعلان کیا۔ اس امداد میں پہلی مرتبہ کلسٹر گولہ بارود شامل ہے۔ اگرچہ کلسٹر گولہ باری کے کنونشن کے تحت 100سے زائد ممالک نے ان ہتھیاروں کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے لیکن امریکا، یوکرین اور روس اس معاہدے کا حصہ نہیں۔

پیٹرول نہیں ملے گا

ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے دو دن میں پنجاب بھر سے 64 ہزار سے زائد موٹر سائیکل سواروں پر جرمانہ کیا جب کہ ہیلمٹ کے بغیر پیٹرول نہ دینے کا حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ ضلعی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق بنا ہیلمٹ پیٹرول بھی نہیں ملے گا اور جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

8جولائی

کرکٹ اسٹار کی شادی

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ باؤلر اور اسٹار حارث رؤف اپنی دلہنیا کو رخصت کر کے لے آئے۔ ان کی شادی کی تقریب اسلام آباد میں ہوئی جس میں کرکٹ سے وابستہ اہم شخصیات نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس انھوں نے اپنی سابق کلاس فیلو منزہ سے نکاح کیا تھا جس کی تصاویر سوشل میڈیا صارفین کی دل چسپی کا باؑعث بنی رہیں۔

9جولائی

توشہ خانہ کیس قابل سماعت

اسلام آباد سیشن کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ کورٹ نے بارہ جولائی سے کارروائی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ کیس پر ہر پاکستانی کی نظر ہے۔ ادھر نو مئی کے واقعات اور دہشت گردی کے مقدمات میں چئیرمین پی ٹی آئی نے ضمانت کے چھے مقدمات دوسری عدالتوں میں منتقل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجو ع کر رکھا ہے۔

رخصتی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے اپنی بڑی بیٹی اقصٰی کو رخصت کیا، جس کے بعد ان کا بیٹی کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر لکھا ایک محبت بھرا پیغام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا اور صارفین نے اسے سراہا۔

انھوں نے لکھا،’’میری پیاری بیٹی! ایسا لگتا ہے کل میں نے تمہیں بانہوں میں پالا تھا اور اس دن خود سے وعدہ لیا تھا کہ تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اگرچہ آپ اپنی زندگی میں نیا باب شروع کرنے والی ہیں لیکن میرا دل ہمیشہ آپ کا رہے گا، کیوںکہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے آپ سے پیار کیا۔‘‘ اس پیغام کو مداحوں نے باپ بیٹی کی اٹوٹ محبت کا ایک مظہر قرار دیا۔

غذائی قلت

سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور بیماریوں کی وجہ سے مزید پانچ بچے انتقال کرگئے۔ رواں برس غذائی قلت کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 449 ہوگئی ہے۔

10جولائی

گیس سیلنڈر پھٹنے سے عمارت زمیں بوس

جہلم میں جی ٹی روڈ پر واقع ہوٹل کے کچن میں گیس سیلنڈر پھٹنے سے ہوٹل کی تین منزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں سات افراد جان بحق جب کہ پندرہ زخمیوں ہوگئے۔

11جولائی

بھارت باز نہ آیا

بھارت نے دریائے راوی میں ایک لاکھ پچاسی ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا، جس کے بعد مقامی آبادیوں میں رہائش پذیر افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہی نہیں بھارت نے دریائے ستلج میں بھی پانی چھوڑ دیا جس سے درجنوں دیہات زیرآب آگئے۔

12جولائی

پاکستان پر نظرِکرم

پاکستان معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور اس مشکل دور میں وہ ہر بار آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی پاکستان گذشتہ کچھ عرصے سے آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑا تھا ۔

ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو رحم آہی گیا اور پاکستان کے لیے تین بلین امریکی ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی، تاکہ پاکستان اپنے ممکنہ قرضوں کے نادہندگان کو روک سکے اور معاشی استحکام کو بحال کرپائے۔ یہ قرض پاکستان کو قسطوں کی صورت میں جاری کیا جائے گا جو کے آئی ایم ایف کی اہم شرائط ماننے کی صورت میں جاری ہوں گی۔

ایک اور ’’اعزاز‘‘

پاپولیشن کونسل نے آبادی کے عالمی دن کی مناسبت سے ہوش ربا اعدادوشمار جاری کردیے جن کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ ملک میں ہر سال آبادی 2.4 فی صد بڑھ رہی ہے اور یوں پاکستان ایشیاء میں تمام ممالک سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2040 تک دس کروڑ سے زائد نوکریوں، دو کروڑ گھروں کی ضرورت ہوگی جب کہ پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹماٹر مہنگے ہوگئے

پڑوسی ملک بھارت کی وزارتِ خوراک نے ٹماٹر کی قیمتوں میں فی کلو 341فیصد کے اضافے کی اطلاع دی، جس پر عوام نے بھر پور احتجاج کیا۔ ٹماٹروں کی قیمت میں اس ہوش ربا اضافے کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والا ٹماٹو موسک وائرس بنا، جس سے ٹماٹروں کی پیداوار میں کمی ہوئی اور نرخ ایک دم آسمان پر پہنچ گئے۔

13جولائی

 دہشت گردوں کا حملہ

ژوب گیریثرن اور سوئی میں دہشت گردوں کے حملے میں فوج کے12 جوان شہید ہوگئے اور7  دہشت گرد مارے گئے۔ دہشت گردوں نے حملہ گیریژن میں گھسنے کے لیے کیا۔ سیکیوریٹی فورسز کی جانب سے کلئیرنس آپریشن کیا گیا۔

14جولائی

غیرشرعی نکاح کیس

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس نا قابل سماعت قرار دینے کا سول جج کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سیشن کورٹ اسلام آباد نے کیس بحال کرکے متعلقہ عدالت کو واپس بھجوا دیا۔ واضح رہے کہ سول جج نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس کو عدالتی دائرۂ اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔

 چندریان 3 کام یاب

انڈین اسپیس ریسچ آرگنائزیشن نے چندریان 3 کو چاند کے لیے روانہ کردیا۔ یہ مشن دو ہفتوں کے لیے چاند کی سطح کا مطالعہ کرے گا۔ یاد رہے کہ بھارت سے قبل سن 2019 میں چندریان 2کے نام سے ایسا مشن بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے جو کہ لینڈنگ سے کچھ دیر قبل گر کر تباہ ہوگیا تھا۔

15جولائی

لینڈسلائیڈنگ

جنوبی کوریا میں موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں لینڈسلائیڈنگ اور شمالی چنگ چیونگ میں ایک ڈیم کے اوور فلو ہونے سے سینتیس افراد ہلاک، متعدد لاپتا اور زخمی ہوگئے، جب کہ ملک بھر میں 4,700 سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

16جولائی

 طلباء ہوشیار!

ملک بھر کے تعلیمی بورڈز نے پاسنگ مارکس 40 فی صد کرنے پر اتفاق کر لیا۔ خصوصی کمیٹی نے کم از کم پارسنگ تینتیس فی صد سے بڑھا کر چالیس فی صد کر دیے، جب کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے مسلم طلبہ کے لیے مطالعہ قرآن لازمی قرار دینے پر بھی اتفاق کیا۔

17جولائی

بس حادثہ

گلگت کے علاقے دیامر میں شاہراہ قراقرم کے مقام پر سیاحوں کی بس کھائی میں گرنے سے پانچ افراد جان بحق اور 20 زخمی ہوگئے۔ جان بحق افراد میں تین خواتین اور ایک بچہ شامل تھے۔

18جولائی

نئی پارٹی

سابق وزیراعلٰی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے نئی جماعت بنالی۔ نئی جماعت کا نام تحریک انصاف پارلیمنٹیرنز رکھا اور پی ٹی آئی کے حوالے سے سخت موقف اپناتے ہوئے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ان کی نئی جماعت میں سابق رکن تحریک انصاف محمود خان سمیت 57 ارکان اسمبلی شامل ہوئے۔

19جولائی

کم زور ترین پاسپورٹ

واشنگٹن نے دنیا کے طاقت ور ترین پاسپورٹس کی فہرست جاری کی، جس میں پاکستان تاحال آخری نمبروں پر ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر گیارہ ممالک کا ویزہ حاصل کہے بنا سفر کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے طاقت ور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں سنگاپور نے جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ فہرست کے مطابق پاکستان کم زور ترین پاسپورٹ رکھنے والا چوتھا ملک قرار پایا ہے۔

20جولائی

دہشت گرد سرگرم

پشاور میں سیکیوریٹی فورسز کے ٹرک پر خودکش حملہ ہوا جس میں آٹھ اہل کار زخمی ہوگئے۔ حیات آباد میں بم بار نے بارود سے بھری گاڑی ایف سی کے ٹرک سے ٹکرادی جس میں 20 سے 25 کلو بارودی مواد نصب تھا۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر نے پھر سے سر اٹھا لیا۔

21جولائی

پاکستانی کوہ پیماہ

پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی نے براڈ پیک چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ انھوں نے دنیا کی 22 ویں، 8051 میٹر اونچی بلند ترین چوٹی سر کرکے تاریخ رقم کردی۔ انھوں نے حال ہی میں دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر رکھا ہے۔

کف سیرپ موت بانٹنے لگا

گمبیا کی حکومت نے درآمد شدہ ہندوستانی کھانسی کے شربت کو موت کا سودگرا قرار دے دیا۔ ہندوستان سے درآمدشدہ کف سیرپ سے 70 بچوں کی اموات ہوئیں۔ سیرپ سے گردے فیل ہونے کے باعث بچے ہلاک ہوئے، جس کے نتیجے میں ریگولیٹری تبدیلیاں اور مینوفیکچرر میڈن فارماسیوٹیکلرز کے خلاف ممکنہ کارروائی کیے جانے کا امکان ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی کف سیرپ میں مہلک اینٹی فریز مادوں کی تصدیق کردی۔

22جولائی

کنسرٹ منسوخ

ملائیشیا میں وزارت مواصلات اور ڈیجیٹل نے سیپانگ، سیلنگور میں ایک میوزک فیسٹیول کو اس وقت منسوخ کردیا گیا جب ایک پرانے انگریزی بینڈ کی مرکزی گلوکارہ میٹی ہیلی نے ملک مخالف LGBTقوانین پر کھل کر تنقید کی اور اپنے ایک بینڈ میٹ مردکو اسٹیج پر کھڑے ہوکر سر عام بوسہ دیا۔ ملائیشیا میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

23جولائی

سرکاری ملازمین کی موجیں

پنجاب حکومت نے گریڈ 16تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فی صد جب کہ پنشن میں 17.5فی صد اضافہ کردیا، جب کہ گریڈ 17سے 22کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد اضافہ ہوا۔ یہ اعلان مہنگائی سے ستائے سرکار ی ملازمین کے لیے مژدہ جاں فزاء ثابت ہوا۔

24جولائی

پاکستان بنا چیمپئن

پاکستان بھارت کو ہرا کر ایمرجِنگ ایشیا کپ فاتح اسکواش کا ورلڈ چیمپئن بن گیا۔ پاکستان 37 برس بعد عالمی جونیئر اسکوائش ٹرافی حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

25جولائی

 گھریلو ملازمین پر تشدد جاری

اسلام آباد میں سول جج کے گھر چودہ سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعے نے ملک بھر میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی۔ سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ نے حالت غیر ہونے پر بچی کی والدہ کو بلوا کر بس اڈے پر اس کے حوالے کردیا۔ رپورٹس میں بچی پر بہیمانہ تشدد کا انکشاف ہوا۔ سر پر پندرہ زخم لگے جب کہ باقی جسم کے زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے۔ یاد رہے کہ یہ گھریلو ملازمین پر تشدد کا پہلا واقعہ نہیں۔

27جولائی

تاریخ ساز گرمی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اعلان کیا کہ زمین ’’عالمی سطح پر ابلنے کے دور‘‘ میں داخل ہوگئی ہے کیوںکہ سائنس داں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس سال کی گرمی کی لہریں ریکارڈ تاریخ میں سب سے زیادہ بلند سطح پر رہی ہیں۔

28جولائی

بجلی بم

حکومت نے مہنگائی سے ستائے عوام پر ایک نیا بجلی بم گرا دیا۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7.50روپے تک کا اضافہ کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا۔ نیپرا نے اعلان کیا کہ بجلی 600 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو سات روپے سے مہنگی ملے گی، جب کہ 100یونٹ پر تین، 200 یونٹ تک چار، 300 یونٹ تک پانچ اور 400  یونٹ تک 6.5روپے مہنگی کی جائے گی۔

ایلون مسک خسارے میں؟

سماجی رابطے ٹوئٹر کے بانی ایلون مسک نے اس کا لوگو اور نام تبدیل کرکے ایکس کردیا، جس پر ماہرین اور تجزیہ کاروں نے ایلون مسک کو ہونے والے ممکنہ نقصان کا تخمینہ اربوں ڈالر بتایا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس فیصلے سے کمپنی کو بیس ارب ڈالر تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ایلون مسک اپنے دل چسپ فیصلوں اور بزنس سے متعلق ایڈونچرز کے حوالے سے خبروں میں رہتے ہیں۔

29جولائی

آرمی ترمیمی بل منظور

پاکستان کی سینیٹ نے آرمی ترمیمی بل کی منظوری دے دی، جس کے تحت فوج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور جرمانہ ہوگا۔ پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے شخص سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔ سرکاری حیثیت میں معلومات کے غیرمجاز انکشاف پر پانچ سال قید ہوگی۔

نیا ریکارڈ

پاکستانی قومی اسمبلی میں تیزترین قانون سازی کا نیا ریکارڈ قائم ہوگیا، جب ایک گھنٹے میں 29 بل منظور کیے گئے۔ بغیر کورم کے صرف 15 ارکان نے بنا پڑھے بنا دیکھے24  یونیورسٹیوں اور اداروں کے قیام سے متعلق قانون سازی کرڈالی، جس پر پی ٹی آئی کے منحرف رکن نورعالم نے اعتراض اٹھایا کہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے بغیر کیسے قانون سازی کرلی گئی؟

30جولائی

 باجوڑ میں بم دھماکا

خیبرپختونحوا کے علاقے باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے خودکش حملے میں 63 افراد شہید جب کہ سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ شہید ہونے والوں میں جے یوآئی کے کئی اہم عہد ے داران بھی شامل تھے۔

خاتون کا اعزاز

مراکش سے تعلق رکھنے والی نوحیلہ بینزینا 2014 میں فیفا کی جانب سے سر ڈھانپنے کی پابندی کے خاتمے کے بعد حجاب پہن کر سنیئر سطح کے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی پہلی فٹ بال کھلاڑی بن گئیں۔

The post اک برس اور بن گیا تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.

’’کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی، زیادہ تر اساتذہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے‘‘ ، ممتاز شاعر سلیم کوثر

$
0
0

انھیں اس وقت کے اردو کے چند بڑے شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے، اس لیے ایک طویل عرصے سے ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم ان سے شرفِ ملاقات حاصل کریں۔

یہ لمحہ کچھ دن قبل ہی نصیب ہوسکا اور ہم نے ایک ڈھلتی ہوئی صبح ان کے دولت کدے پر حاضری دی۔ یہ جناب سلیم کوثر کا ذکر ہے، جو گذشتہ کچھ عرصے سے علالت کے باعث زیادہ تر اپنے گھر تک ہی محدود رہتے ہیں۔

مجموعی طور پر ان کی صحت مستحکم ہے، لیکن انھیں معمول کے مطابق گفتگو کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف ہماری مہمان نوازی کی، بلکہ ہمیں پورا پورا وقت دیا۔

سلیم کوثر نے موجودہ ہندوستانی ریاست ہریانہ کے معروف شہر ’پانی پت‘ میں آنکھ کھولی، اس تذکرے پر وہ یوں گویا ہوئے کہ ’’23 اکتوبر تھی یا 24 اکتوبر، یہ نہیں پتا، لیکن یہ 1947ء کا ’یومِ حج‘ تھا۔ میرے شناختی کارڈ پر بھی غلط تاریخ درج ہے، اسے کئی دفعہ کوشش کی، لیکن ٹھیک نہ ہو سکی۔‘‘

’پانی پت‘ کے تذکرے پر سلیم کوثر کا کہنا تھا کہ ’’میرے بزرگوں نے بتایا کہ وہاں ہماری ورک شاپ تھی، جہاں زرعی آلات بناتے اور اس کی مرمت کرتے تھے، بٹوارے کے ہنگام میں بلوے کے دوران چھت پر سے دیکھتے کہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔

ہمارے پھوپھا کو بھی گولی لگ گئی تھی، ہم انھیں وہیں چھوڑ کر آگئے تھے۔ دادا نے بھی ہجرت کی۔ اس وقت جو گاڑی جہاں رک گئی، لوگ وہیں اتر جاتے، ہماری گاڑی پنجاب کے ضلع جھنگ میں رکی۔ ہمارے ساتھ ’پانی پت‘ کے بہت سارے لوگ بھی وہیں اتر گئے، پھر ایک بڑی حویلی میں ٹھیرے، جس کے بہت سارے ’حصے دار‘ ہوگئے۔ وہاں محلہ شیخ لاہوری میں چھوٹی چھوٹی گلیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔‘‘

سلیم کوثر کے بقول انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ حویلی انھیں ملی تھی یا وہ فقط وہاں ٹھیرے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں تو تب شیر خوار بچہ تھا، ماں نے راستے میں جو تکلیفیں اٹھائیں، وہ وہی جانتی تھیں۔

تائی، پھوپھی بھی ساتھ تھیں۔ ہم جھنگ میں کتنے دن رہے، معلوم نہیں، پھر دادا کو ’کلیم‘ میں خانیوال ریلوے روڈ پر دو دکانیں الاٹ ہوگئیں، جس کے اوپر گھر تھا۔ یوں ہم خانیوال آگئے۔ میرے والد بَلا کے انجینئر تھے، انھوں نے فیصل آباد ٹیکسٹائل مل اور جہلم میں بھی کام کیا، پھر اپنی ورک شاپ بنالی۔

سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ ’’میرے دادا مجھے قلم بنا کر دیتے اور تختی لکھواتے اور وہی مجھے اسکول لے کر گئے۔ یہ سب سے بڑا احسان ہے، والدین جان بوجھ کر یہ نہ کریں تو جرائم میں سے ہے۔ اسلامیہ ہائی اسکول (خانیوال) میں چھے جماعتیں پڑھنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا۔

ہم نے سلیم کوثر سے کراچی آنے کا سلسلہ کھوجنا چاہا، تو انھوں نے سلسلۂ کلام کچھ اس طرح استوار کیا: ’وہاں ہمارے پڑوس میں دکانیں تھیں، ایک زینہ ہماری دکان کے اندر سے آتا تھا۔ ساری زندگی اسی بات پر جھگڑا رہا کہ یہ زینہ ہمارا ہے یا تمھارا؟ حالاں کہ جو ہمارے پڑوسی تھے ان کے پاس اندر سے بھی ایک زینہ تھا۔ آج سوچتا ہوں کہ میں ہوتا تو اس زینے سے دست بردار ہو جاتا۔ پھر میرے والد وہ دکانیں فروخت کر کے کبیروالہ چلے گئے۔

میں نے وہاں ادبی انجمن بھی بنائی، لیکن زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔۔ ہم بکھر گئے تھے۔۔۔ زندگی بہت پریشان کرنے لگی۔ سو میں ایک روز سامان ڈھونے والے ٹرک میں بیٹھ کر اکیلے ہی کراچی چلا آیا، جب کہ والدہ واپس جھنگ چلی گئیں۔ یہاں ’بسم اللہ ہوٹل‘ پر ایک دکان تھی، وہاں آکر پڑا رہا۔ پھر والد کے ایک دوست ’باغ علی‘ کے بنیان دھونے کے ایک کارخانے میں رہنے لگا۔ یہ 1970 یا 1971ء کی بات ہے۔ میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، لیکن شعر میں اس وقت بھی سوچتا تھا۔

’’کراچی آنے کا سبب کیا تھا؟‘‘ ہم نے تشنگی پا کر اپنا سوال دُہرایا تو انھوں نے ایک اور انکشاف کردیا۔ کچھ یوں ’’میرے ساتھ ’آوازوں‘ کا بہت سلسلہ رہا، مجھے بچپن سے آوازیں آتی تھیں! مجھے لگتا تھا کہ کچھ آوازیں میرے ساتھ چل رہی ہیں۔ ایک منظر میں باہر دیکھ رہا ہوں، تو ایک منظر میرے اندر ہے، جو مجھے پریشان کرتا تھا کہ میں یہ منظر کیسے بتائوں۔ یہ دنیا، یہ احساس کیسا ہے؟ زندگی کے یہ معنی اور اَسرار کیسے کھلیں گے؟ سوچتا تھا، لیکن نہیں کر پاتا تھا۔

ایک رات وہاں حسب عادت سردیوں میں بنیان کے کپڑوں میں گھس کر سونے کے لیے لیٹا ہوا تھا۔ میرا ذریعہ آمدنی کچھ تھا نہیں اور میں شکایتی انداز میں سوچ رہا تھا کہ ایسے تو زندگی نہیں گزر سکتی۔ تو اس وقت مجھے ایک آواز آئی۔ آپ اسے مذاق نہیں سمجھیے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسا میں بیان کر رہا ہوں۔ اس آواز نے کہا ’میرے بندے میں تمھارا دوست ہوں، میں تمھارے قریب ہوں، مجھے آواز دو۔ میں تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔‘ بس پھر اس کے بعد میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔‘‘

’’خانیوال سے آتے ہوئے آپ نے وہاں خبر نہیں کی تھی؟‘‘

ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ انھیں خبر تھی، جب کراچی آیا تو سب ’کبیر والہ‘ میں تھے۔ میرے پاس 20 روپے تھے۔ دادا کا انتقال 1977ء کے قریب ہوا، والد بھی اِدھر اُدھر کام کرتے، تب انھوں نے یہاں کراچی میں ہی کوئی ورک شاپ بنائی ہوئی تھی، جہاں وہ کام کرتے تھے، لیکن ان سے ملاقات بعد میں ہوئی، آگرہ تاج کالونی میں ان کی ورک شاپ پر کام کیا۔ دراصل ہمارے گھر کی معیشت کچھ سنبھل نہ سکی۔ وہ بھی وہیں رہتے تھے، میں بھی اخبار کے دفتر میں سو جاتا تھا۔ پھر لانڈھی ’کے‘ ایریا میں ایک گھر لیا، میں نے ایک جنون کی زندگی گزاری۔

کراچی میں اپنے ابتدائی ایام کو یاد کرتے ہوئے سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ ’لیاقت آباد نمبر 10 میں ایک جگہ واشنگ پائوڈر پیک ہوتا تھا۔ وہاں ڈھائی روپے گھنٹے کے عوض پہلی نوکری کی۔ جس سے بہ آسانی کھانا کھا لیتا تھا۔ پھر ’اعلان‘ اخبار میں پروف ریڈر ہوا۔ ’پروف ریڈنگ‘ کے 150 روپے ملتے تھے، اچھا گزارا ہوتا تھا۔ فارغ وقت میں بیٹھ کر خوش خطی کرتا تھا۔

میں نے کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی۔ کچھ دن ’امن‘ اخبار میں بھی رہا، پھر بہ حیثیت خطاط 250 روپے پر روزنامہ ’آغاز‘ چلا گیا، جہاں خبروں کی کتابت کرتا۔ وہیں ’چراغِ ادب‘ کے عنوان سے ہر ہفتے کسی ایک شاعر پر کالم اور پھر روزانہ قطعہ بھی شروع کیا۔‘ ان کالموں اور قطعات کو جمع کرنے کے تذکرے پر نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا کوئی گھر نہیں تھا، بس انھیں کاٹ کاٹ کر ایک کاپی میں لگا دیتا تھا، اب بھی کہیں پڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘

سلیم کوثر روزنامہ ’آغاز‘ میں 1971 تا 1974ء رہے۔ اس کے بعد انھوں نے رسالے ’اقدام‘ کے لیے بھی دو شمارے بھی نکالے۔ پھر ’رازداں‘ اور ’نئی آواز‘ کے شمارے بھی شایع کیے۔ کہتے ہیں کہ ’’اب حافظہ ایسا نہیں رہا، بہت سی چیزیں اِدھر اُدھر ہوگئی ہیں۔‘‘

انھوں نے ’پی ٹی وی‘ سے وابستگی کے حوالے سے ہمیں کچھ یوں بتایا کہ 1974ء میں ممتاز اردو شاعر عبید اللہ علیم وہاں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، ان کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں مشاعرہ تھا، وہ مشاعرہ انھوں نے میرے ہی نام کر دیا، لوگوں نے مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا۔ مشاعرے کے بعد عبید اللہ علیم نے مجھ سے واقفیت لی اور پھر ’پی ٹی وی‘ میں بطور کاتب رکھ لیا، جس کی ذمہ داری اسکرپٹ نقل کرنا تھی، تب معروف شاعر افتخار عارف شعبۂ اسکرپٹ کے سربراہ تھے۔ 1975ء سے 2007ء تک ’پی ٹی وی‘ میں رہے۔ کہتے ہیں کہ آخری تین سال انھوں نے مجھے پروڈیوسر کا منصب دے دیا تھا۔

سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ کراچی میں انھوں نے ماسٹرز کرنا چاہا، جس کے لیے معلوم ہوا کہ پنجاب کا میٹرک ہے، تو وہیں سے ہو سکے گا، جس سے وہ الجھن میں مبتلا ہوئے۔ بالآخر ’ادیب فاضل‘ کے امتحان میں بیٹھے اور ٹاپ کیا، یہ 1976ء تھا غالباً۔ پہلا گھر آٹھ نو ہزار روپے میں خریدا، جو ’غریب آباد‘ میں بنا بس ایک کمرا تھا۔ اب مجھے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ زندگی میں کہاں سے راستے نکلتے ہیں۔

اپنی شاعری کا سلسلہ شروع کرنے کے حوالے سے سلیم کوثر نے ہمیں کچھ اس طرح بتایا کہ ماموں کوثر حجازی نعتیں لکھتے تھے۔ سلیم کوثر نے میٹرک میں ہی پہلا شعر کہہ دیا تھا، جو اب محفوظ نہیں۔ انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی، کہتے ہیں کہ اللہ میری اصلاح کرنے والا ہے، کیوں کہ آپ استادوں سے بات نہیں کر سکتے تھے، زیادہ تر تو وہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے۔

انھوں نے اپنی پہلی کتاب بہ عنوان ’’خالی ہاتھوں میں ارض وسما‘‘ کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ 1981ء میں منصۂ شہود پر آئی، اس زمانے میں بڑے بڑے مشاہیر موجود تھے۔ سلیم احمد، قمر جمیل، عبید اللہ علیم اور صہبا اختر۔ تو ہمیں راستہ نہیں ملتا تھا، پروین شاکر بھی مشہور ہوچکی تھیں، لیکن میں یہ سوچتا تھا کہ جو دنیا، مَیں دیکھ رہا ہوں، وہ کسی اور کی نظر میں نہیں! اچھی شاعری تو ہوتی ہے، لیکن دوسروں سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے۔ میرے اندر اللہ کی طرف سے خود کے منفرد ہونے اعتماد موجود تھا۔

جب میری پہلی کتاب آئی، تو ساری رات اپنے بھائی کے گھر پر بیٹھا ہوا اس پر کوَر چڑھاتا رہا، صبح سوچا کہ یہ ایک ہزار نسخے ہیں، انھیں کہاں لے کر جائوں گا؟ ہمارے ایک دوست ذکی احمد ذکی کوئز کی کتابیں لکھتے تھے، انھوں نے اردو بازار میں ’ملک صاحب‘ سے ملوایا اور کتابیں ان کی دکان پر رکھوا دیں۔

ایک دن ذکی احمد کہنے لگے کہ آپ کو ’ملک صاحب‘ ڈھونڈ رہے ہیں، میں تو ڈر ہی گیا کہ اب کہیں گے کہ یہ کتاب اٹھائو یہاں سے، لیکن انھوں نے کہا کہ آپ کی کتاب کے سارے نسخے فروخت ہوگئے اور اب لوگ مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا ذرا پھر کہیے، کیا کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے دُہرایا۔ پھر انھوں نے مجھے بہت سارے پیسے دیے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ تیرا عطا کیا ہوا ہنر تھا۔ میری پہلی کتاب، دوسری کتاب سے زیادہ مقبول ہوئی۔

اپنی دوسری کتاب ’’یہ چراغ ہے تو جلا رہے‘‘ کے حوالے سے سلیم کوثر نے بتایا کہ اس کا سنِ اشاعت1987ء تھا، جس میں ان کی مشہور زمانہ غزل ’میں خیال ہوں کسی اور کا‘ شامل تھی۔ ان کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی ہے اور دوسرا نعتیہ کلام شایع ہونے کو ہے۔

سلیم کوثر اپنی مندرجہ بالا مشہورِ زمانہ غزل کے تذکرے پر فرماتے ہیں کہ اس پر انھوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، لیکن یہ مشہور ہوگئی۔ انھوں نے یہ غزل 1980ء میں کہی، جب پہلا مجموعہ آیا، تو تب اس غزل کے شعر ہو رہے تھے، اس لیے یہ ان کے دوسرے مجموعے میں شامل ہو سکی، اس کے بعد بھی بہت کچھ کہا، لیکن یہ الگ اور نئی سی بات تھی، اس لیے بہت پسند کی گئی، انھیں اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔

سلیم کوثر کہتے ہیں کہ میں 1985ء میں ہندوستان گیا، وہاں اللہ نے بڑی پذیرائی دی۔ اندازہ ہوا، کہ میری پہلی کتاب یہاں پہنچ چکی ہے۔ وہاں جوش ملیح آبادی کی حویلی دیکھی، جس کا منظر میں بیان نہیں کر سکتا۔ اُن کے بھانجے نصرت ملیح آبادی مجھے لے گئے تھے، وہاں ایک شام منائی گئی تھی۔ جوش صاحب کے گھرانے کے افراد تھے، وہاں اچھا لگا پرانا ماحول، شعر سننا داد دینا، پھر دبئی، امریکا گیا اور پھر راستے کھلتے چلے گئے۔

’’پہلا مشاعرہ کب پڑھا؟‘‘

’’خانیوال میں پڑھا ہوگا کبھی۔۔۔ اب یاد نہیں۔‘‘ انھوں نے یاد کرتے ہوئے جواب دیا۔ اب تک کتنے مشاعرے پڑھے؟ اس حوالے سے یادداشت ساتھ نہیں دیتی۔ ہم نے پوچھا کہ ’’مشاعرے میں کن اساتذہ سے داد ملی؟‘‘ انھوں نے بتایا کہ ’’اساتذہ کوئی داد واد نہیں دیتے، بس اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ آج کل شاعر اللہ کو نہیں مانتے، میں سوائے اللہ کے ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ دلوں میں ڈالتا ہے، لوگوں سے بہت داد ملی۔ عبید اللہ علیم نے بہت داد دی، سلیم احمد بھائی بہت پیار کرتے تھے۔‘‘

کھڑے ہو کر مشاعرے پڑھنے کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ ہندوستان میں یہ روایت ہے کہ اب کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے، اب 30، 30 ہزار کا مجمع ہوتا ہے۔ یہ اب یہاں بھی شروع ہوگیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ وہاں تو اگر ہوٹل کا افتتاح بھی کرتے ہیں تو مشاعرہ کراتے ہیں، لیکن اس کی جو شکل بنا دی گئی ہے، وہ ایک الگ معاملہ ہے۔

’’مجلس کے تو آداب ہونے چاہییں؟‘‘ ہم نے مشاعرے کے آداب کے تناظر میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، تو وہ گویا ہوئے:

’’ہاں، ہونے چاہئیں۔۔۔! دوسرے شاعروں کو بھی سننا چاہیے۔ آرام سے بیٹھنا چاہیے، مشاعرے کے درمیان سے اٹھ کر یا اپنی شاعری سنا کر نہیں چلے جانا چاہیے!‘‘

مشاعروں میں داد دینے کے لیے تالیاں بجانے کے رواج کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’بہت سی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ اسے آپ روک نہیں سکتے۔ یہ انسانی جذبوں کا اظہار ہے۔ پھر جب آپ کے آدھے لوگوں کے منہ میں پان رکھے ہوئے ہوں گے، تو وہ تالیاں ہی بجائیں گے۔‘‘

ہم نے عرض کیا کہ ’’پان تو لوگ پہلے بھی کھاتے تھے، کیا مشاعروں میں پان نہیں کھانے چاہئیں؟‘‘

جس پر انھوں نے اپنے عارضے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ نہ کھائیے۔ نہ کھائیے تو اچھا ہے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں، میں تمباکو والا پان ہی کھاتا تھا، سگریٹ تو میں نے کبھی پیا نہیں۔ اگر سامعین میں سے آدھے لوگ پان کھا رہے ہیں، تو وہ تالیاں ہی بجا سکتے ہیں!‘‘

’’شاعری کا کوئی نظریہ ہونا چاہیے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اقبال واحد شاعر ہیں، جنھوں نے نظریے کو شاعری بنا دیا، ان کا کمال یہی ہے۔ پھر اسے زندگی بنا دیا۔ باقی شاعر جو کہتا ہے، وہ نظریہ ہی ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ شعر کہہ نہیں سکتا۔

بس شاعری کا ہونا شرط ہے، وہ بیان نہ ہو۔ اب خیالات پیش کیے جا رہے ہیں، خیالات اور شاعری میں فرق ہوتا ہے، لیکن شاعری بھی خیالات، مشاہدات اور تجربات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ شاعری کیا ہے؟ تو میں اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتا۔ میں نے کتابوں پر آرا بھی دی۔ لیکن شاعری کیا ہے؟ یہ آج تک نہیں بتا سکتا، سوائے اس کے کہ کوئی اچھا شعر کہہ کر بتا دوں کہ شاعری یہ ہے۔‘‘

شاعری کی آمد کے تذکرے پر سلیم کوثر نے کہا کہ بہت سی غزلیں تو آٹھ، آٹھ نو، نو سالوں میں مکمل ہوئی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی فکر کے سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ میں اِسے نہیں جانتا، میں سچا پکا مومن، مسلمان اور اللہ کا بندہ رہنا چاہتا ہوں، سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ میں اپنے اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوں۔

ہم نے پوچھا کہ آپ نے فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا نام لیا، ان کا تو بڑا واضح نظریاتی جھکائو تھا؟

وہ تائید کرتے ہوئے گویا ہوئے ’’ترقی پسند تحریک نے ان موضوعات کو چھیڑا جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی تھی، انھیں عوامی سطح پر لے آئے۔ ایسے موضوعات جنھیں بند کھڑکی سے دیکھتے تھے، انھوں نے ایک نئی کھڑکی کھول دی، جس سے عام آدمی کے مسائل پر گفتگو ہونے لگی۔‘‘

’’یہ تو اچھی بات ہے؟‘‘

’’بالکل اچھی بات ہے۔ فیض صاحب کا احتجاج شاعری ہے، اِسے ’احتجاجی شاعری‘ نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ بہت سارے لوگوں کا احتجاج صرف احتجاج ہے۔ شاعری ایک طرح کی کیفیت ڈال دیتی ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات شاعری ہیں۔ انھوں نے نظریے کو شاعری بنایا۔ اب مسجد قرطبہ جیسی نظم کون کہہ سکتا ہے۔ آج کل یہ بات ہے کہ آپ کی چیز آپ کی نہیں رہتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے غلط لکھا ہمارا غلط چل گیا، لیکن آپ کا صحیح نہیں چل سکا۔‘‘

سلیم کوثر سے کسی اور زبان میں شاعری کا بھی تذکرہ ہوا، انھوں نے اس کی نفی کی، تاہم پنجابی شاعری کے حوالے سے کہا کہ میں وہاں (پنجاب) رہتا تو کرتا، کیوں کہ ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہ گھر میں ’ہریانوی‘ بولتے تھے؟ انھوں نے بتایا ’ہم جب بڑے ہوئے، تو ہمارے گھروں میں اردو ہی بولی جاتی تھی۔‘ اپنی نظم ’’نوحہ‘‘ میں ’رت جگے‘ کے بہ جائے ’جگ راتا‘ لکھنے کے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ یہ پنجابی ترکیب ہے۔ بہت سے لوگوں نے استعمال کی۔ مجھے پنجابی زبان بھی آتی ہے۔ سرائیکی بھی سمجھ لیتا ہوں۔

پسندیدہ شعرا کے سوال پر اقبال، میر اور غالب کا نام لیتے ہوئے سلیم کوثر کہتے ہیں کہ جو اچھا شعر لکھتا ہے، وہ اچھا ہے۔ ہم نے اپنے عہد کے شعرا پوچھے، تو بہت سوچتے ہوئے، فیض احمد فیض کا نام لیا، بتایا کہ ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی، لیکن ان کے ساتھ جامعہ کراچی اور غالب لائبریری میں مشاعرے پڑھے۔

احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، ناصر کاظمی، عبید اللہ علیم، احمد فرازیہ سب اچھے شاعر ہیں، میر انیس بہت پسند ہیں، ان کے مرثیوں میں جو زبان وبیان کا احساس ہے، وہ اور طرح سے ہے۔ اس کے ساتھ پروفیسر سحر انصاری، احمد نوید، جاوید صبا، فراست رضوی، عنبرین حسیب عنبر، سبین سیف، عمار اقبال، عمیر نجمی، اظہر فراغ، صہیب مغیرہ صدیقی اور سلمان ثروت کا پسندیدہ شاعر کے طور پر نام لیا۔

ہم نے اردو کے مقبول و معروف شاعر جون ایلیا سے ان کی قربت کے حوالے سے دریافت کرنا چاہا، تو وہ کہنے لگے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ صبح وشام ساتھ رہے ہوں، لیکن ہم نے ساتھ مشاعرے پڑھے ہیں، وہ اپنے انداز کے شاعر تھے، ان کی ایک اپنی دنیا تھی، جیسا کہ ہر شاعر کی ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی کے تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ وہ میرے سنیئر، اور اس شہر میں میرے سب سے پہلے جاننے والے تھے۔ انھیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ زہرہ نگاہ بہت خیال رکھتی ہیں، محسن بھوپالی کا ساتھ بہت اچھا رہا۔ شاعر انور شعور کے ذکر پر ان سے نہایت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔

ظفر اقبال کو بزرگوں میں شمار کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اور عطا الحق قاسمی سے رابطوں کا بتاتے ہیں۔ ذاتی دوستوں میں صفدر صدیق رضی، سلیم مغل، رضوان صدیقی، شاہد کمال اور شیخ عبدالرحمٰن کو شمار کرتے ہیں۔ سلیم مغل، ابو اجر عاکف نے کتب کی اشاعت میں معاونت کی۔ اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔

بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں جن کا ادراک ہوچکا ہوتا ہے، لیکن ہم اسے بتا نہیں پاتے۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے، اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے، یا گفتگو میں وہ احساس نہیں ہوتا۔ اقبالؔ جو دنیا دیکھتے تھے، وہ وہی دیکھ سکتے تھے، وہ زمانہ مختلف تھا اور وہ آنے والے زمانے کی ترتیب تھی۔ جو میرؔ وغالبؔ دیکھتے تھے وہ الگ دنیا تھی، ایسے ہی میں جو دیکھتا ہوں وہ بالکل الگ دنیا ہے۔ نئے لوگ جو شعر کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک الگ بات کہہ رہے ہیں۔

آج کل کے ناشرین سے شکوہ کرتے ہوئے سلیم کوثر گویا ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ شاعر وادیب خرچہ کریں اور اس کو کچھ دیا بھی نہ جائے، بلکہ جو رہا سہا ہے، وہ بھی چھین لیا جائے۔ دراصل اب یہاں کتاب بیچنے والے رہ گئے۔ مصنف کو معاہدے کے تحت اس کے پیسے ملنے چاہییں، لیکن یہاں ہر آدمی جلدی جلدی امیر ہونا چاہتا ہے۔

The post ’’کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی، زیادہ تر اساتذہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے‘‘ ، ممتاز شاعر سلیم کوثر appeared first on ایکسپریس اردو.

قصہ پاکستانی چائے کا

$
0
0

خان پور: اگرچہ گنے کے رس کو پاکستان کا قومی مشروب گردانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کے اس ملک میں سب سے زیادہ پیا جانے جانے والا مشروب چائے ہے۔

خوشی ہو یا غم، جشن ہو یا مُسرت کا کوئی اور موقع، ناشتہ ہو یا رات کا کھانا، پہلی ملاقات ہو یا کوئی پیارا دور دیس جا رہا ہو، چائے کسی نا کسی صورت میں ہماری سب سے پہلی ترجیح رہتی ہے۔

چوںکہ چائے ایک عام، من پسند اور سستا مشروب ہے اس لیے اسے دنیا کے کئی ممالک میں شہری و دیہی علاقوں کے لوگ اسے شوق سے پیتے ہیں اور مہمانوں کی تواضع بھی اسی سے کرتے ہیں۔

بطور ایک ڈاکٹر اور ایک سیاح، مجھے تو چائے کی شدید طلب رہتی ہے اور ہم نے تو ایسے ایسے ’’چہوڑے‘‘ بھی دیکھے ہیں جو گرمی میں بھی پانچ چھے کپ چڑھا جاتے ہیں۔

چائے جسم کو تروتازہ اور چاق و چوبند رکھنے کے ساتھ نزلہ، سر درد اور زکام میں بھی راحت پہنچاتی ہے۔ ایک اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چائے کینسر کی روک تھام میں بھی مددگار ہے۔

پاکستان میں چائے کی کھپت اور درآمد

چائے طویل عرصے سے دنیا بھر میں ایک محبوب مشروب رہا ہے، لیکن کچھ ممالک نے اس کی کھپت کو ایک فن کی شکل میں بڑھایا ہے۔

ان قوموں نے چائے پینے کا کلچر پروان چڑھایا ہے، جہاں چائے کے گرم گھونٹ، روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ چائے پر رکھی گئیں خوب صورت تقریبات سے لے کر چائے کے برتن کے اردگرد دوستوں کے اکٹھ تک، یہ ممالک چائے کو صرف ایک مشروب سمجھنے کی بجائے زندگی کا ایک طریقہ مانتے ہیں۔

انہی ممالک میں ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے جو اپنی کثیر آبادی کی وجہ سے چائے کا بہت بڑا خریدار ہے۔

پاکستان میں چائے کی کھپت ڈیڑھ کلو گرام فی کس سالانہ ہے جو ترکی، آئرلینڈ اور برطانیہ کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔

پاکستان اپنی ضرورت کی چائے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں چین، کینیا، روانڈا، یوگنڈا، سری لنکا، ویتنام اور بھارت شامل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 2021 میں پاکستان نے پانچ سو چھیانوے ملین ڈالر مالیت کی 2،258،000 کلو سبز اور کالی چائے درآمد کی تھی۔ یوں پاکستان 2021 میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔

دوسری جانب اردو اخبار، روزنامہ ایکسپریس (ایڈیشن 23 دسمبر بروز ہفتہ ) کی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستانی 79 ارب 81 کروڑ روپے کی چائے پی گئے اور گذشتہ مالی سال 55 ارب19 کروڑ روپے کی چائے درآمد کی گئی تھی۔

2023 میں دنیا کے سب سے زیادہ چائے پیدا کرنے والے ممالک میں چین، بھارت، کینیا، سری لنکا، ویتنام، ترکی، ایران، انڈونیشیا، ارجنٹینا اور جاپان جب کہ چائے بیچنے والے ممالک میں چین، سری لنکا، انڈیا، کینیا، جاپان، ویتنام، پولینڈ، روانڈا اور ارجنٹینا شامل ہیں۔

پاکستان میں چائے کی کاشت کا آغاز

پاکستان میں چائے کی اہمیت اور ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1982 میں چین سے چائے کی کاشت کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک تفصیلی سروے کے ذریعے چائے کے لیے موزوں علاقوں کا انتخاب کیا گیا۔ اِن میں ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع مانسہرہ، بٹگرام، سوات اور شانگلہ شامل تھے۔

1986 میں ’’پاکستان زرعی کونسل‘‘ نے چین سے مختلف اقسام کا بیج درآمد کیا اور ضلع مانسہرہ کے خوب صورت مقام، شنکیاری میں 33 ایکڑ رقبے پر چائے کی تجرباتی کاشت شروع کر دی۔ تجربہ کام یاب رہا تو ایک چائے ساز کمپنی نے بھی 1986 میں مانسہرہ کے مقام ’’اچھڑیاں‘‘ میں ایک تحقیقاتی اسٹیشن قائم کیا، جس کا کام شنکیاری میں پیدا ہونے والی چائے کا موازنہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی چائے سے کیا گیا۔ بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے پر نہ صرف پاکستان کی کئی کمپنیوں نے اس پراجیکٹ میں بھرپور دل چسپی کا اظہار کیا بلکہ اردگرد کے کسانوں نے بھی اپنی زمینوں پر چائے کی کاشت شروع کردی۔

قومی تحقیقاتی ادارہ برائے چائے

نیشنل ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 1986 میں شنکیاری ضلع مانسہرہ میں 50 ایکڑ اراضی پر ریسرچ اسٹیشن کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اسلام آباد کے تحت کام کر رہا تھا۔ 1996 میں اسے انسٹی ٹیوٹ کی سطح پر اپ گریڈ کیا گیا اور 2013 میں دیگر اہم فصلوں کو شامل کرکے اس کا نام ’’نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ رکھ دیا گیا۔ اب چائے کے علاوہ اعلیٰ قیمت والی باغ بانی فصلیں (جیسے زیتون، بادام، خوبانی، چیری، کیوی) بھی انسٹی ٹیوٹ کے مینڈیٹ میں شامل ہیں۔

یہاں پر چائے کی کاشت کے علاوہ چائے کے پروسیسنگ یونٹس، پانی اور مٹی کی جانچ کے لیے لیبارٹری، سبزیوں کے بیج کی پیداوار، فروٹ نرسری، مختلف دفاتر و کانفرنس ہال سمیت چائے کی پراسیسنگ لیبارٹری بھی موجود ہے۔ ادارے کی فراہم کردہ سہولیات میں جنگلی زیتون کی پیوند کاری اور تیل نکالنا، مٹی اور پانی کے تجزیہ میں کاشتکاروں اور محققین کو لیبارٹری کی سہولیات کی فراہمی، مختلف جامعات کے طلباء کو انٹرن شپ اور تحقیقی خدمات مہیا کرنا، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علاقے میں باغبانی کو فروغ دینے کے لیے کاشت کاروں کے لیے اہم پھلوں جیسے آڑو، خوبانی، بادام، چیری، اخروٹ، سیب، ناشپاتی، انجیر، انار، کیوی فروٹ اور زیتون کے بیماری سے پاک پودوں کی فراہمی شامل ہیں۔

میں، شنکیاری اور چائے

شنکیاری اور یہاں کے چائے کے باغات شاید بچپن سے ہی مجھے لبھاتے آئے۔ ابا حضور اکثر اپنی سفر کہانیوں میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ وہ جب بھی کبھی گلگت، ہنزہ یا بشام کو جاتے، یہیں قراقرم ہائی وے سے گزرتے ہوئے اس جگہ کو دیکھتے۔ بس اسی وقت سوچ لیا تھا کے گنے، گندم، کپاس اور آم کے اس ملک میں چائے جیسی چیز کے نایاب باغات کو ضرور دیکھوں گا۔ قدرت نے 2023 مئی میں جب وادیٔ سرن کی جانب اکیلے سفر کا موقع دیا تو واپسی پر شنکیاری، اپنے لذیذ چپلی کبابوں کے ساتھ ہمارے راستے میں پلکیں بچھائے بیٹھا تھا۔

ہم اب اتنے بھی کٹھور نہیں کہ چپلی کباب چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے، سو آرام سے کبابوں پر ہاتھ صاف کیا اور چائے کے باغات کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ چوکی دار سے تعارف کروایا تو وہ اندر لے گیا۔ ایک سرکاری افسر نے جوش و خروش سے خوش آمدید کہا اور دفتر میں بٹھا کے چائی پلائی۔ وہ ایک سیاح مسافر کے اس طرف آنے پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ عموماً ہمارے سیاح حضرات جب بھی سفر پر جاتے ہیں تو ایسی منفرد جگہوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں جہاں معلومات کا خزانہ چھپا ہوتا ہے۔ اس لیے جب بھی کہیں نکلیں، اس علاقے کی سب جگہوں کو ایکسپلور کریں۔

خیر، چائے پینے کے بعد مجھے باغات دکھائے گئے جہاں جا کر معلوم ہوا کے یہاں ایک ایکڑ سے لگ بھگ 4000 کلوگرام سے بھی زیادہ پتے حاصل کیے جاتے ہیں جن سے قریباً آٹھ سو کلو گرام چائے تیار ہو سکتی ہے۔ پودوں کی عمر بڑھنے پر یہ پیداوار زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد بلیک ٹی پراسیسنگ یونٹ میں لے جا کر بریفنگ دی گئی جو میں آگے لکھ رہا ہوں۔

چائے کا پودا اور مرحلہ وار تیاری

چائے کے پودے کا سائسنسی نام ’’کیمیلیا سائنِنسز‘‘ Camellia Sinensisہے، جو جھاڑی اور درخت دونوں حالتوں میں اُگایا جا سکتا ہے۔ چائے اصل میں ان ننھے پتوں سے تیار کی جاتی ہے جو اس پودے کی شاخوں کے ِسروں پر اگتے ہیں۔ چائے اگرچہ منطقہ حارہ خطے کے بارانی علاقے میں پیدا ہوتی ہے لیکن نیم استوائی اور معتدل خطوں کے مرطوب علاقوں میں بھی اب اس کی کاشت عام ہے۔

چائے ایک نقدآور فصل ہے جو تیزابیت پسند اور سدابہار ہے۔ اس کی افزائش بیج اور قلم دونوں کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اس کی پیداواری عمر اسی سے سو سال اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ایک ہی پودا آپ کو سبز اور کالی چائے فراہم کرتا ہے۔ صرف اس کی پروسیسنگ کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔

چائے کی تیاری میں سب سے پہلا مرحلہ مناسب زمین کا حصول ہے، جو ڈھلوانی اور ریتلی ہونی چاہیے اور اس کا تعامل 5۔4 سے 5۔5 تک ہو۔ پھر درجۂ حرارت، آب و ہوا اور دیگر لوازمات کو مدنظر رکھ کر چائے اگائی جاتی ہے۔

دوسرا مرحلہ نرسریوں کی تیاری اور کیڑوں سے اس کی حفاظت ہے۔

تیسرے نمبر پر پودوں کی نرسری سے کھیت میں باحفاظت منتقلی اور گوڈی سمیت مناسب کھاد کا استعمال ہے۔ پھر آب پاشی، سرپوشی، شاخ تراشی اور پتوں کی چنائی کا نمبر آتا ہے۔

پتے چُننے کا عمل بہت اہم ہے کہ کاشت کار کا منافع اسی سے منسلک ہے۔ عام طور پر دو پتوں اور ایک گانٹھ کو چُنا جاتا ہے، اور اگر پتے بہت چھوٹے چن لیے جائیں تو اگلی بار پیداوار کم ہوتی ہے۔ چنائی کے بعد اسے پراسیسنگ پلانٹ تک لے جایا جاتا ہے جہاں ’’مرجھاؤ‘‘ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس میں پتوں کو ایلومینیم سے بنے ایک جالی دار فریم میں پھیلاکر مشین کے ذریعے تازہ ہوا گزاری جاتی ہے تاکہ پتوں کا درجۂ حرارت مناسب رہے اور اضافی پانی بخارات بن کے اڑ جائے۔

اگلے مرحلے میں مرجھائے ہوئے پتوں کو مروڑا جاتا ہے تاکہ پتوں کے خلیوں میں موجود کیمیائی مادہ باہر نکل کے ایک آمیزہ بنا لے۔ پھر انہیں ٹرالیوں میں رکھ کر مخصوص کمرے میں لے جایا جاتا ہے جہاں ان کے اندر تازہ ہوا اور نمی گزاری جاتی ہے۔

اس دوران ان کی رنگت سبز سے بھوری ہوجاتی ہے اور پھر ڈرائیر مشین سے خشک کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مشین سے گرم ہوا چائے کے ذرات کے اوپر سے گزاری جاتی ہے۔

خشک شدہ چائے، مختلف سائز کے پتوں کی ڈنڈیوں کا آمیزہ ہوتا ہے سو اس کو غیرضروری مواد سے پاک کرکے بلحاظ حجم درجہ بندی کی جاتی ہے۔ پھر اسے صاف کر کے پیکنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔

یہ مرحلہ بھی بہت اہم مانا جاتا ہے کیوںکہ چائے کی کوالٹی، ہوا میں موجود نمی اور اردگرد موجود اشیاء کی خوشبو سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا تیار شدہ چائے کو فوراً پلاسٹک لگی بوریوں کے اندر بند کر کے سٹور کردیا جاتا ہے۔

اور یوں سرسبز باغات سے ہو کر یہ خوشبودار چائے ہم تک پہنچتی ہے۔

یہ سب سن اور سمجھ کے میں نے چائے والے بابو سے اجازت لی تو میرے ذوق کو دیکھتے ہوئے وہ مجھے عمارت کی چھت پر لے گئے جہاں سے چائے کے باغات کا زبردست نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے کچھ تصاویر اتاریں اور بہت سی یادیں سمیٹ کے میں نے اجازت چاہی اور ایبٹ آباد کا راستہ ناپا۔

The post قصہ پاکستانی چائے کا appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی نمبر200؛صَہْیوُن، غَزّہ، حَماس اور فِلَسطین

$
0
0

گزشتہ چند ماہ سے مندرجہ بالا نام ہماری سماعت سے مسلسل ، تقریباً چوبیس گھنٹے ٹکرا رہے ہیں اور آفرین ہے ہمارے ذرایع ابلاغ (بشمول اخبارات، رسائل وٹیلیوژن، ریڈیو) پر کہ ہم ایسے ’’مفت ‘‘ اصلاح کرنے والوں کی سعی پیہم کے باوجود، متواتر غلط (صیہون، غَزہ، حَمّاس اور فَلسطین) ہی بول اور لکھ رہے ہیں۔

وہ اپنی ڈگر پر قائم ہیں اور غلط دَرغلط ہی بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ اُنھیں غلط بولنے اور لکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کوئی غیرقانونی، ناجائز اور غلط کام کرنے کا معاوضہ دیا گیا ہو اور وہ کسی مُصلح ۔ یا۔ مُصلحیِن کی لاکھ کوشش کے باوجود، صحیح یا نیک کام کرنے پر محض اس لیے آمادہ نہ ہوکہ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟ رہی بات ثواب وعذاب کی تو ایسے میں بندہ، دہریہ بن کر کہتا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے، آخرت کی خبر خُدا جانے۔ بقول مغل شاعر بادشاہ، شاہ عالَم ثانی آفتابؔ:

صبح اُٹھ جام سے گزرتی ہے

شب دلا رام سے گزرتی ہے

(دل آرام محبوب کنیز کا نام تھا جس کی صحبت میں زوال پذیر سلطنت کے اُس تاجدار کا شبینہ وقت، بقول خود، اچھا گزرتا تھا)

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گزرتی ہے

(حوالہ: ’’اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں‘‘ از محمد شمس الحق)

یہ قطعہ بہت مشہور ہے، مگر عموماً لوگ اِس کے شاعر کے نام سے ناواقف ہیں، نیزعوام الناس کُجا، ہمارے اکثر اہل قلم یہ قطعہ اپنی سمجھ کے مطابق اُلٹا سیدھا پڑھتے اور نقل کرتے ہیں۔

خاکسار کی حتیٰ المقدور کوشش ہوتی ہے کہ جب کہیں، خصوصاً تحریر میں کوئی شعر نقل کرے، وہ بالتحقیق صحیح ہو کیونکہ ہمارے بہت سے قارئین ومداحیِن کے نزدیک ہمارا لکھا ہوا سند ہوجاتا ہے، جبکہ بعض ’ہمہ وقت معترض‘ لوگ حسبِ عادت، اس صحیح متن پر بغیر تحقیق کیے، اعتراض جڑدیتے ہیں کہ آپ نے غلط لکھا ہے، یوں نہیں، یوں ہے۔ صحافت، ادب، نشریات اور تشہیر سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں جہاں جہاں بھی زبان کا کوئی استعمال ہوتا ہے، بہت بُرا حال ہے۔

اپنا ہی کہا ہوا، لکھا ہوا قول دُہراتا ہوں کہ ’’کم علمی/لاعلمی ہمارا قومی شعار ہے‘‘۔ صحیح لفظ صَہیون ہے نہ کہ صیہون، اور یہ انگریزی Zion یا عبرانی کے سیّون [Siyyon]۔یا ۔ سی اون [Sion]کا عربی مترادف ہے۔ یہ نام مختلف معانی میں مستعمل رہا ہے اور زیادہ مشہور یہ ہے کہ صَہْیوُن، بیت المقدس یا یروشلم کا دوسرا نام ہے۔ اسی نسبت سے اس شہر کے قریب واقع ایک پہاڑ کا نام بھی جبلِ صَہْیوُن [Mount Zion] ہے۔ عمومی معنیٰ میں پوری سرزمین اسرائیل (یعنی اصل میں فلسطین) کے لیے بھی مستعمل رہا۔

اس سرزمین کا قدیم نام سرزمینِِ کنعان [Land of Canaanites] تھا جہاں آج شام، لُبنان (یہ لَبنان نہیں)، اُردَن (اُردُن نہیں) اور فلسطین آباد ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی معلومہ تاریخ کے مطابق، اولین (یا یکے از اولین) قانون ساز، حمورَبی [HAMMURABI] (دورِ حکومت:1792 ق م تا1750 ق م) نے اپنی سلطنت میں توسیع کرتے ہوئے اس سرزمین پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔

وہ دَرحقیقت، عراق کے قدیم شہر بابِل [Babylon] کا بادشاہ تھا جو بعض روایات کی رُو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاصر تھا اور بعض کے قیاس کے مطابق شاید وہی نمرود تھا۔ اُس کے قوانین سے بنی اسرائیل نے بھی بہت اکتساب کیا اور اِن کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوا۔ اردو کے نام ور اَدیب، مالک رام نے مولوی عبدالحق کے ایماء پر ترجمے کے ساتھ ساتھ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے کتاب تحریر کی: ’’حمورَبی اور بابِلی تہذیب وتمدن‘‘۔ اس کتاب کا بھرپور تعارف ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر اَحمد سہیل (مقیم امریکا) نے 22 نومبر 2018ء کو فیس بک پر پیش کیا تھا۔ حمورَبی کے قانون نامے اور عہدنامہ قدیم کے قوانین کا تقابلی جائزہ کے عنوان سے ایک مضمون یا مختصر مقالہ، جامعہ ہری پور، خیبرپختون خوا کے چند طلبہ نے تحریر کرکے اَپلوڈ کیا ہے جو https://irjrs.com پر موجود ہے۔

(یہاں ایک وَضاحت: ہمارے یہاں اکثر لوگ بشمول اہل قلم بابِل کو بابُل یعنی باپ بولتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل الگ لفظ ہے۔ ایک بزرگ شاعرہ نے جب علامہ اقبال سے متعلق ایک سیمینار میں مقالہ پڑھتے ہوئے ایک سے زائد بار، بابُل کہا تو خاکسار کو ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ میرے برابر بزرگ معاصر حمایت علی شاعر ؔ مرحوم تشریف فرما تھے۔ میں نے انھیں بھی متوجہ کیا، وہ مسکرا دیے)۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو اُردو میں دائرۃ المعارف (Encyclopaedia) کی سطح پر بھی بجائے صَہْیوُن کے صیہون لکھا ہوا ملتا ہے۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا اور شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں ایسا ہی ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے پیش رَو پیغمبر، حضرت سموئیل یا اشموعیل علیہ السلام سے منسوب صحیفے میں اس شہر کا ذکر یوں آیا ہے:’’تو بھی داؔؤد نے صِیوّؔن کا قلعہ لے لیا۔ وُہی داؔؤد کا شہر ہے‘‘۔

[Nevertheless David took the stronghold of Zion, which is now the city of David(2 Samuel 5:7):

https://bible.oremus.org/?passage=2%20

Samuel%205:7&version=nrsv]

(ان مقدس نبی کا نام درحقیقت، عربی نام اسمٰعیل کا عبرانی رُوپ ہے : س ا ص)۔ حضرت اشموعیل سے بھی پہلے، حضرت یوشع علیہ السلام [Joshua] کے صحیفے میں مذکور، یَبوسی یا یِبوسی قبیلے کے قلعے کا نام صہیون ہی اس لفظ کا ماخذ ہے جس کے معانی اس کے مادّہ اشتقاق کی بحث کے بعد، قلعہ یا خشک زمین /صحرا بتائے گئے ہیں۔ اسی صہیون سے نسبت دیتے ہوئے یہودی انتہا پسند تحریک صہیونیت [Zionism] کا آغاز کیا گیا۔ یہ اصطلاح آسٹریا کے یہودی صحافی و ادیبNathan Birnbaumنے1890ء میں وضع کی ۔1897ء میں اسے باقاعدہ یہودی وطن پرست، قوم پرست تحریک کی شکل دی گئی۔

بظاہر یہ تحریک یہودیوں کی سرزمینِ موعود ’’اسرائیل‘‘ کے قیام کے لیے (یعنی جس کے لیے اُن سے خُدا نے وعدہ کیا تھا) شروع کی گئی تھی، مگر درپردہ اس کا مقصد پوری دنیا کے تمام نظام ہائے معیشت ومعاشرت پر قبضہ کرنا تھا۔ تحریک کی ابتداء میں مغربی استعمار نے مسلمانوں کی وحدت کی آخری نشانی خلافتِ عثمانیہ کو سازش کے ذریعے یوں ختم کیا کہ ایک طرف عربوں کو تُرکوں کے خلاف، اُکساتے ہوئے، لارنس آف عربیہ جیسے جاسوس کی مدد سے عرب قومیت کی تحریک شروع کی اور اِنھیں ہتھیار اور سرپرستی فراہم کرکے الگ عرب وطن کا خوا ب دکھایا، تو دوسری طرف ترکی میں خلافت کے خلاف چلنے والی خفیہ صہیونی تحریک اور اس کے اثرات سے جنم لینے والی تُرک قومیت کی تحریک کو بڑھاوا دیا جو بظاہر جدید نظام جمہوریت کی تشکیل کے لیے شروع ہوئی تھی۔ سامراج نے عظیم عثمانی سلطنت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہوئے کئی ممالک قائم کردیے اور ’’سرزمینِ انبیائ‘‘ فِلَسطین پر یہودیوں کو بڑے پیمانے پر لاکر آباد کرنے کے بعد، اسرائیل کی غیرقانونی ریاست قائم کردی۔

اس مناقشے میں ہماری سیاسی تاریخ اور اردو زبان وادب کی تاریخ کا ایک اہم باب یعنی تحریکِ تحفظِ خلافت عثمانیہ (مختصراً تحریک ِ خلافت) کا ذکر ہر لحاظ سے اہم ہے۔ ’علی برادران‘ (مولانا محمد علی جوہرؔ اور مولانا شوکت علی) سے کون واقف نہیں اور کس نے یہ شعر نہیں سنا:

بولیں  اَمّاں  محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

یہ تحریک منظم طریقے سے چلی اور منظم طریقے سے ناکا م بھی کردی گئی۔ اِس کے بعد جدید ترکی نے جنم لیا جو محض ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ علامہ اقبال ؔ نے اسی تناظر میں کہا تھا:

چاک کردی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ

صُورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ!

(غُرّہ شوّال یعنی ہِلال عید)

اور یہ کلام اقبال ؔ بھی ماضی کی وہی دل خراش یاد تازہ کرتا ہے:

گر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے

کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا

جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے

کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے

(طلوعِ اِسلام)

آگے بڑھنے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ خلافت ِعثمانیہ کا احیاء ایک خواب یا دیرینہ خواہش سہی، شاید وہ پوری نہ بھی ہو، مگر ماضی قریب میں لامذہب اور مغرب زدہ طرزِحکومت میں دراڑ پڑنے سے ’اسلام پسند‘ برسرِاقتدار آئے، فوج کو لگام دی گئی اور دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ خوش آیند تبدیلی یہ ہوئی کہ عثمانلی یا عثمانی تُرکی زبان جو فقط دینی مدارس یا دیہات کے بزرگوں کی زبان تک محدود ہوگئی تھی، اس کی تعلیم جامعات کی سطح پر عام ہوگئی اور یہ بات بھی یقیناً مستحسن ہے کہ قدیم نام ’تُرکیہ ‘ (تُرکیے) بحال ہوگیا۔

اب بات کرتے ہیں زیرِبحث موضوع کی۔ صہیونی تحریک ایک حدتک یوں کامیاب ہوچکی ہے کہ آج دنیا بھر میں انہی کی شروع کی ہوئی، مبنی بَر سُود معیشت، بینکاری کی شکل میں، کاغذی کرنسی نوٹوں کی شکل میں اور اِس سے جُڑی ہوئی تمام تجارت انہی کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشروں میں اس کی تشہیر بہت ضروری ہے۔

یہاں یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ تمام یہودی، صہیونی تحریک اور غیرقانونی ریاستِ اسرائیل کے حامی نہیں۔ خاکسار کو ماضی بعید میں امریکا میں قائم ہونے والی ایسی ہی ایک تنظیم کی طرف سے، بذریعہ ای میل معلوماتی مواد موصول ہوا جو کچھ عرصہ قبل امریکا اور یورپ میں فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف تحریک میں دیگر کے شانہ بشانہ مظاہرے کرتی نظر آئی۔ کلمہ ٔ حق یا سچی بات کسی کے بھی منہ سے نکل سکتی ہے اور اُسے سراہنا چاہیے اور اس پر مستزاد، یہ حقیقت یاد رکھیں کہ آپ کے حق میں آپ کے مخالف یا دشمن کی اُٹھائی ہوئی آواز بھی معتبر ثابت ہوسکتی ہے۔

زیر نظر موضوع کا دوسرا اہم نام ہے، غَزّہ جسے سہواً یا انگریزی Gaza پر محمول کرتے ہوئے بلاتشدید غَزہ یا غازہ کہا جارہا ہے۔ غازہ عربی میں Face powder کو کہتے ہیں۔

اس علاقے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں آبادکاری کوئی چار ہزار سال قبل شروع ہوئی تھی۔ یہ شہرحضر ت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ‘) کے عہد میں خلافتِ اسلامیہ کا حصہ بنا۔ یہاں ہمارے پیارے رسول (ﷺ)کے پردادا جناب ہاشم کی قبر ہے اور فقہ کے چار اَئمہ میں شامل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں پیدا ہوئے تھے۔

اس شہر نے تاریخ کے زرّیں اَدوار دیکھے اور ہوتے ہوتے یہ حَماس کا مرکز بن گیا۔ ہمارے ٹی وی چینلز بڑے شدّومدّ سے حماس کو ’’حم۔ماس‘‘ مع تشدید کہہ رہے ہیں جو غلط ہے۔ یہ نام ’’حرکۃ المقاومۃ الاسلامی‘‘ کا مخفف ہے۔ سب سے آخر میں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ فِلَسطین کو فَلَسطین کہنا رائج ومروج کے اصول کے تحت، درست مان لیا گیا ہے، مگر درست تلفظ وہی ہے جو ابتداء میں بیان کیاگیا۔

The post زباں فہمی نمبر200؛صَہْیوُن، غَزّہ، حَماس اور فِلَسطین appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ہم وہ کیوں خریدتے ہیں؟ جو ہم خریدتے ہیں…!‘‘          

$
0
0

ہر روز، صبح ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ یہ خواب اور خواہش لے کر اٹھتے ہیں کہ وہ آج کے دن کام یابی کے سفر پر گام زن ہوکر منزل کے قریب پہنچ جائیں گے، لیکن اس کے باوجود بہت کم لوگ کام یابی کی سیڑھیوں پر چڑھ پاتے ہیں۔

کچھ بڑے خوابوں کے بوجھ، کچھ اردگرد کے شور اور زیادہ تر شعور کی کمی کے باعث وقت سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ اور باقی جو کچھ، مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہتے ہیں وہ آخر کار اپنی منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ میں نے کب سوچا تھا کہ میں دُنیا کے نمبر ون مارکیٹنگ ایکسپرٹ مارٹن لینڈاسٹروم سے براہ راست بات کرسکوں گا اور ان کی کتاب پر لکھ سکوں گا! میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے گذشتہ دنوں پروفیشنل نیٹ ورکنگ سائٹ LinkedIn  پر مارٹن لینڈاسٹروم کو ریکویسٹ بھیجی جو اُنہوں نے فوراً قبول کرلی۔

جس کے بعد میں نے اُنہیں میسیج بھیجا اور بتایا کہ میں ان کی کتاب پر اُردو میں مضمون لکھ رہا ہوں، جس پر مارٹن نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اردو میں میرے مضمون کا بڑی بے تابی سے انتظار کریں گے۔

مارٹن لینڈاسٹروم سے میرا پہلا تعارف 2018 میں ایم بی اے کے مارکیٹنگ مینجمنٹ کے کورس میں ہوا، جس میں ہمارے انسٹرکٹر نے مارٹن لینڈاسٹروم کی کتاب بائے اولوجی ’’Buyology‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میر ے دوست جان مائیکل نے مجھے یہ کتاب ستمبر 2018 میں بطور تحفہ دی اور میں نے اسے چند ہی دنوں میں پڑھ ڈالا۔

آج کے اس آرٹیکل میں ہم مارٹن لینڈاسٹروم اور ان کی کتاب کا مختصر تعارف اور خلاصہ پیش کریں گے۔

معروف نیورلوجسٹ اور مصنف Martin Lindstrom کی مشہور تصنیف ’’Buyology‘‘مارکیٹنگ کے لیے ایک شان دار کتاب ہے جو مارکیٹنگ پر میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔

اس کتاب میں مارٹن نے نہایت شان دار انداز میں جدید سائنسی اور نفسیاتی ریسرچ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم وہ خریدتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے انکشاف بھی کیا ہے کہ مارکیٹنگ کے لیے بہترین اور موثر حکمت عملی حقیقی کرداروں اور انسانی کہانیوں کو تشہیر میں شامل کرنا ہے، کیوںکہ لوگوں حقیقی چہروں کو اپنی زندگی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے پروڈکٹ کو پسند کرتے ہیں۔ آج کسی بھی برینڈ اور پروڈکٹ کے لیے معروف اور مارکیٹ میں رہنے کے لیے اُن کا نظر اور خبر میں رہنا انتہائی اہم ہے۔

مارٹن لینڈاسٹروم کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟:

مارٹن لینڈاسٹروم ’’Lindstrom‘‘ کمپنی کے بانی اور چیئرمین ہیں، جو دُنیا کا معروف برانڈ اور کلچر ٹرانسفارمیشن گروپ ہے۔ یہ گروپ پانچ براعظموں اور 30 سے زیادہ ممالک میں کام کررہا ہے۔ ٹائم میگزین نے مارٹن لینڈاسٹروم کو ’’دُنیا کے 100 بااثر افراد‘‘ میں سے ایک قرار دیا ہے، اور گذشتہ تین سالوں سے Thinkers50، جو کہ کاروباری دُنیا کی عالمی درجہ بندی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، نے مارٹن لینڈاسٹروم کو دُنیا کے سرفہرست 50 کاروباری مفکرین میں شامل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔

مارٹن ایک ہائی پروفائل اسپیکر اور نیویارک ٹائمز کی 7 بیسٹ سیلرز کتابوں کے مصنف ہیں، جن کا 60 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کی کتاب برانڈ سینس کو وال اسٹریٹ جرنل نے تنقیدی طور پر ’’اب تک شائع ہونے والی پانچ بہترین مارکیٹنگ کتابوں میں سے ایک‘‘ کے طور پر نام زد کیا ہے اور ٹائم میگزین نے بائے اولوجی کے بارے میں لکھا،’’یہ برانڈنگ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔‘‘

مارٹن لینڈاسٹروم ڈنمارک کے شہری ہیں۔ وہ نام ور مصنف اور ٹائم میگزین کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ فاسٹ کمپنی، ٹائم میگزین اور ہارورڈ بزنس ریویو کے کالم نگار بھی ہیں اور NBC کے ٹوڈے شو میں اکثر بطور ماہر آتے ہیں۔

 کچھ کتاب کے بارے میں:

بائے اولوجی 256 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 2008 میں شائع ہوئی جس کے 11 ابواب ہیں۔

پہلا باب:  ’’سر میں خون کی دھار کا داخل ہونا‘‘

نیورو مارکیٹنگ کی دُنیا کے اب تک کے سب سے بڑے مطالعے کی کہانی۔

دوسرا باب: ’’یہ جگہ ہونی چاہیے۔‘‘

پروڈکٹ پلیسمنٹ، امریکن آئیڈل اور فورڈ کمپنی کی ملٹی ملین ڈالر غلطی کی داستان۔

تیسرا باب:’’میں بھی وہی لوں گا، جو اُس کے پاس ہے۔‘‘

کام کی جگہ پر نیورون آئینے کا کمال۔

چوتھا باب:’’میں ابھی واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

تحت الشعوری پیغامات، زندہ اور تن درست۔

پانچواں باب:’’کیا آپ جادو پر یقین رکھتے ہیں؟‘‘

رسومات اور توہم پرستی، اور ہم کیوں خریدتے ہیں۔

چھٹا باب:’’میں چھوٹی سی دُعا کرتا ہوں۔‘‘

ایمان، مذہب اور برینڈز۔

ساتواں باب:میں نے تمہارا انتخاب کیوں کیا؟

سومیٹک بنانے والوں کی طاقت۔

آٹھواں باب:حیرت کا احساس

اپنے حواس کے ہاتھوں فروخت ہونا۔

نواں باب:اور جواب یہ ہے…!

نیورو مارکیٹنگ اور مستقبل کی پیش گوئی۔

دسواں باب:چلو ایک رات اکٹھے گزاریں۔

اشہارات میں جنس کا مواد۔

گیارہواں باب:نتیجہ۔

ایک بالکل نیا دن۔

بعد میں: اچھا وقت اور برُا وقت۔

اس کتاب کے ابواب کے نام میں نے اس لیے لکھے ہیں تاکہ آپ کو کتاب کے ابواب سے اندازہ ہوسکے کہ یہ کتاب کس قدر دل چسپ موضوعات کو بیان کرتی ہے۔

کتاب کا دیباچہ معروف ماہرنفسیات اور مصنف پیکو انڈر ہل (Paco Underhill) نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مارٹن لینڈاسٹروم دیکھتے اور سنتے ہیں اور پھر عمل شروع کردیتے ہیں۔ مارٹن لینڈاسٹروم کی ویب سائٹ پر اُن کے تعارف میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 12 سال کی عمر میں ہی کردیا تھا۔ پیکو انڈرہل، مارٹن لنڈسٹروم کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے آج تک اتنی دانش مندانہ آنکھیں اتنے معصوم چہرے پر نہیں دیکھی ہیں، جتنی مارٹن کی ہیں۔

پیکو انڈرہل کا کہنا ہے کہ مارٹن لینڈاسٹروم نے اس کتاب میں نیورو مارکیٹنگ (Neuromarketing) کی دُنیا میں گذشتہ 10 سالوں میں، نئی تحقیق اور نئے تجرباتی مشاہدات کا نچوڑ بیان کیا ہے۔ اور میں اس بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ آپ اس کتاب کو پڑھ کر بہت محظوظ ہوں گے اور بے شمار قیمتی اور نایاب معلومات سے مستفید ہوں گے۔ کتاب کے پیش لفظ میں مارٹن لینڈاسٹروم کہتے ہیں کہ ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ ہم سب صارفین ہیں۔ برینڈز اور برینڈز کے متعلق معلومات ہم تک مسلسل، تیزرفتار اور ہر طرف سے آرہی ہیں۔

اصل چیز یہ ہے کہ ہمارے دماغ مسلسل معلومات کے حصول اور جانچ پڑتال کے عمل میں انتہائی مصروف ہیں۔ یہ ایک انقلابی قدم ہے کہ ہم سب یہ جان پائیں کہ ہم بطور صارفین کیسے سوچتے ہیں اور کیسے خریداری کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں۔

اس کتاب میں مارٹن لینڈاسٹروم تجزیہ کرتے ہیں کہ لوگ ایسی دُنیا میں کیسے چیزیں خریدتے ہیں جو اشتہارات، نعروں اور مشہور شخصیات کی توثیق جیسے پیغامات سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے کے ذریعے، وہ لاشعوری ذہن پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنے میں کس طرح اہم کردار ادا کرتا ہے کہ ہم کیا خریدیں گے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے تین سال تک 2000 انسانوں کے رویوں اور برین اسکین کا بھرپور مطالعہ کیا ہے۔

 کتاب کا خلاصہ اور اہم نکات:

یہ کتاب صارفین کے چیزیں خریدنے کے طرزعمل کی نفسیات کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ مارٹن کا استدلال ہے کہ ہم ذہنی طور پر اتنے آگاہ نہیں ہوتے جتنے ہم سوچتے ہیں جب ہم خریداری کے فیصلے کرتے ہیں، اور یہ کہ ہمارے لاشعوری ذہن اس سے کہیں زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے، جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل کی بنیاد تین سالہ، سات ملین ڈالر کے نیورو مارکیٹنگ اسٹڈی پر رکھی ہے۔

اس تحقیق میں 2,000 سے زیادہ رضاکاروں کے دماغوں کو اسکین کرنے کے لیے برین امیجنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا، کیوںکہ وہ مارکیٹنگ کے مختلف محرکات کا شکار تھے۔ مارٹن کے نتائج دل چسپ اور اکثر حیران کن ہیں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے یہ اخذ کیا کہ لوگ ایسی مصنوعات خریدنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں جو مثبت جذبات سے وابستہ ہوں، جیسے خوشی اور پرُجوش لمحات۔ مارٹن نے یہ بھی معلوم کیا کہ لوگ ایسی مصنوعات خریدنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں جو قلیل ہیں یا جنہیں خصوصی طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مارٹن کی کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ ہم جو چیزیں کرتے ہیں وہ کیوں خریدتے ہیں۔ یہ ان مارکیٹرز کے لیے بھی ایک قیمتی خزانہ ہے جو یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ مارکیٹنگ کی مزید موثر مہم کیسے بنائی جائے۔

مارٹن مارکیٹرز کے لیے کچھ عملی مشورے بھی فراہم کرتے ہیں کہ ان نتائج کو مزید موثر مارکیٹنگ مہم بنانے کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر، وہ تجویز کرتے ہیں کہ مارکیٹرز صارفین کے ساتھ جذباتی روابط پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور یہ کہ وہ اپنی مصنوعات کے لیے جوش و خروش اور طلب پیدا کرنے کے لیے کمی اور خصوصیت کا استعمال کرتے ہیں۔

بائے اولوجی ایک دل چسپ اور معلوماتی کتاب ہے جو ایک نئی تفہیم فراہم کرتی ہے کہ ہم جو چیزیں خریدتے ہیں وہ کیوں خریدتے ہیں۔ یہ ہر اس شخص کے لیے پڑھنا ضروری ہے جو خریدار کے طرزعمل اور خریدنے کی نفسیات کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے۔

1 : ہماری خریداری کی عادات بڑی حد تک لاشعوری ہوتی ہیں۔

ہمارے 90% تک خریداری کے فیصلے لاشعوری طور پر کیے جاتے ہیں، جو جذبات، جبلتوں اور حسی تجربات کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔

2: حسی مارکیٹنگ کی طاقت سے حسی اشارے، جیسے نظر، بو، آواز، لمس، اور ذائقہ، ہمارے خریدنے کے رویوں کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

3 : اسٹور لے آؤٹ اور ڈیزائن کا اثر ہماری فیصلہ سازی پر ہوتا ہے۔ اسٹور کی ترتیب، ڈیزائن اور مجموعی ماحول لاشعوری طور پر پروڈکٹس، برانڈز، اور ہمارے مجموعی خریداری کے تجربے کے بارے میں ہمارے تصور کو متاثر کر سکتا ہے۔

4: فیصلہ سازی میں جذبات کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ جذبات، جیسے خوشی، اداسی، پرانی یادیں اور خوف، ہمارے خریداری کے فیصلوں کو طاقت ور طریقے سے متاثر کر سکتے ہیں۔

5: سماجی ثبوت کی طاقت ایک بڑی محرک ہوتی ہے۔ ہم ایسی مصنوعات یا خدمات خریدنے کے زیادہ امکان رکھتے ہیں جن کی دوسروں نے توثیق کی ہوتی ہے، خاص طور پر جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔

6: برانڈنگ اور کہانی سنانے کی اہمیت بنیادی تحریک ہوتی ہے۔ برانڈنگ شناسائی، اعتماد اور جذباتی تعلق کا احساس پیدا کرتی ہے، جب کہ کہانی سنانے سے جذبات ابھرتے ہیں اور صارفین کو گہری سطح پر مشغول کرتے ہیں۔

7: قیمتوں کا تعین کرنے کی حکمت عملیوں کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ قیمتوں کے تعین کی حکمت عملی، جیسا کہ قیمت کی اینکرنگ، قیمت میں امتیاز اور نفسیاتی قیمتوں کا تعین، قیمت کے بارے میں ہمارے تصور اور خریداری کی ہماری خواہش کو متاثر کر سکتا ہے۔

8: تسلسل اور عادت کی خریداری کا کردار بھی ایک اہم محرک ہوسکتا ہے۔ تسلسل کی خریداری اکثر جذبات اور فوری تسکین سے ہوتی ہے، جب کہ عادت کی خریداری معمولات اور قائم کردہ ترجیحات سے متاثر ہوتی ہے۔

9: قلت اور محدود وقت کی پیشکش کی طاقت بھی ہمیں متاثر کرتی ہے۔ قلیل اور محدود وقت کی پیشکشیں عجلت کا احساس پیدا کر سکتی ہیں اور صارفین کو تیزی سے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

10 : صارفین کی نفسیات کو سمجھنے کی اہمیت بہت خاص ہوتی ہے۔ صارفین کے رویے کو متحرک کرنے والے نفسیاتی عوامل کو سمجھ کر، کاروبار مصنوعات کی ترقی، مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں، اور اسٹور ڈیزائن کے بارے میں باخبر فیصلے کر سکتے ہیں تاکہ صارف کی مصروفیت اور فروخت میں اضافہ ہو سکے۔

مارٹن کی یہ کتاب مارکیٹنگ برینڈنگ اور صارفین کی چیزوں کی خریداری کے طرزعمل کو بڑی گہرائی، ٹھوس دلائل اور مثبت رجحانات کے ذریعے انتہائی عمدگی سے بیان کرتی ہے۔ ایک عام انسان کو شاید اس کتاب کو پڑھ کر بہت زیادہ معلومات حاصل تو نہ ہوں لیکن کم سے کم وہ اپنی روز مرہ زندگی میں خریداری کے طرز عمل اور اپنے رویے کو جانچنے کے قابل ضرور ہو سکے گا۔

اور اس چیزیں خریدتے وقت اسے یہ احساس ضرور ہوگا کہ وہ یہ چیز کیو ں خرید رہا ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ لکھنے کا بس یہی میرا مقصد ہے۔ دعا ہے کہ میں اس میں کام یاب ہوسکوں۔

The post ’’ہم وہ کیوں خریدتے ہیں؟ جو ہم خریدتے ہیں…!‘‘           appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
میرا تجھ پر یقین محکم ہے
محسنِ جاں ہے تُو پریتم ہے
تیرے ہاتھوں میں غم کا پرچم ہے
تُو پرایا نہیں ہے محرم ہے
میں نے سب وقت کر دیا برباد
کون ہے جس کے پاس مرہم ہے
میں نے دیکھا ہے خواب میں منظر
ایک چہرہ ہے اور وہ مبہم ہے
تجھ تغافل کا سامنا ہے مجھے
یوں بھی برہم نظامِ عالم ہے
تیری یادیں ہیں زیست کا مقصد
تیری صورت ہی اسمِ اعظم ہے
سن کے دل میں اترنے لگتے ہیں
میرے شعروں میں سوزِ بیدمؔ ہے
(مستحسن جامی۔خوشاب)

۔۔۔
غزل
چاند راتوں پہ بات کرتے ہیں
آؤ خوابوں پہ بات کرتے ہیں
کھول کر وقت کے دریچوں کو
تیرے وعدوں پہ بات کرتے ہیں
روز تازہ غزل کا مطلب ہے
تیری آنکھوں پہ بات کرتے ہیں
کوئی بھر جائے گھاؤ ملنے سے
پھر سے زخموں پہ بات کرتے ہیں
دل جلوں سے بلالؔ مل کر ہم
اپنے شعروں پہ بات کرتے ہیں
(بلال اختر۔ رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
نگاہ میں تو اپنا پن ہے،اور لہجہ اجنبی
وہ آشنا سا آشنا وہ اجنبی سا اجنبی
جو آشنائے دل رہا ہے فاصلوں کے باوجود
قریب آ کے لگ رہا ہے مجھ کو کتنا اجنبی
ملا تو جیسے زندگی میں آ گئی بہار سی
گیا تو پھول پھول مجھ سے ہو گیا تھا اجنبی
بس ایک آشنائی سے بدل گئی ہے کائنات
یہ لوگ سارے اجنبی ہیں شہر سارا اجنبی
میں عنبرین صرف ایک نام پر فدا رہی
کہیں جہاں میں ہے کسی کو اتنا پیارا اجنبی
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
لہروں پہ ڈال دو جو بھنور میں ہو ناؤ تو
تم بھی خدا کی طرح کرو ناخداؤ تو؟
ایسا تھا ایک شوخ کی چارہ گری کا حسن
بھرنے کو آ گیا تھا کئی بار گھاؤ تو
دونوں وہ صورتیں ہیں کہ جلنے لگے ہے جسم
صحبت میں شعلہ رُو کی نہ آؤ تو، آؤ تو
ہاں دوست دکھ کوئی نہیں سنتا، بجا کہا
کیا کچھ تمہارا حال رہا ہے؟ سناؤ تو
ہم وہ فقیر ہیں جنہیں کہتا رہے نصیب
جو کچھ بھی چاہیے ہے بتاؤ، بتاؤ تو
لب کیوں بکھیرتے ہیں دھوئیں کی جگہ پہ مشک
دل میں اُسی طرح ہے ابھی بھی الاؤ تو
اب حل یہی ہے سارے ملو اور پِل پڑو
کر ہی رہے ہو ورنہـ’ بچاؤ بچاؤ ‘ تو
وہ عالمِ طلب ہے کہ ہاتھوں سے چھین لیں
قدرت کو یہ پڑی ہے کہ صبر آزماؤ تو
کیوں دنگ ہو زبیر! سنو دوستوں کے جھوٹ
فن کار کیا کمال کے ہیں، مسکراؤ تو
(زبیرحمزہ۔قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
ہر گھڑی راہِ یار میں،مَیں ہوں
اب تلک انتظار میں، مَیں ہوں
ہجر کی شب ہے اور ترا غم ہے
اس اکیلے دیار میں، میں ہوں
تو فقط ہے مری کہانی میں
قصۂ بے شمار میں،مَیں ہوں
میرا دشمن خزاں کا موسم ہے
اور وقتِ بہار میں،میں ہوں
مجھ کو اتنا بتاؤ کیا تیرے
دوستوں کے شمار میں،میں ہوں
میری ہر آہ میں بسی تو ہے
تری ہر اک پکار میں،مَیں ہوں
اپنا غم دو مری خوشی لے لو
اک نئے کاروبار میں،میں ہوں
دل ہے زندانِ مہر میں الہام
یار کے اختیار میں،میں ہوں
(الہام بلیاری ۔اسکردو)

۔۔۔
غزل
سہا نہیں گیا چھوٹی سی ایک جان کا بوجھ
ہَوا پہ بڑھنے لگا ہے مری اڑان کا بوجھ
ہم ایسے لوگ نمودار ہو کے رہتے ہیں
اگرچہ ہوتا ہے ہم پر کسی چٹان کا بوجھ
نشانچی ہوں مجھے سَمت کا تعین کر
میں جانتا ہوں ہَوا، تیر اور کمان کا بوجھ
یہ دائرانہ مسافت زمیں کو روکتی ہے
وگرنہ سَر سے اتارے یہ آسمان کا بوجھ
بناتا رہتا ہوں محراب میں جبینوں پر
دکھاتا رہتا ہوں ماتھے پہ اک نشان کا بوجھ
فصیل اب بھی نہ گرتی تو اور کیا کرتی
تمام شہر نے رکھا تھا اس پہ کان کا بوجھ
میں جست بھر کے کسی آنکھ میں اتر گیا ہوں
اتار پھینکا ہے میں نے ترے جہان کا بوجھ
قسم اٹھاؤں یا قرآن! فائدہ کیا ہے
مرے یقین پہ آیا ترے گمان کا بوجھ
(مصور عباس۔ بلوٹ، ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل
عزیز لاش پہ لائے ہیں اختلاف تمام
مگر سبھی کو کروں گا نہیں معاف تمام
ہمیں بھی رقصِ خودی اب کشید کرنا ہے
جناب شیخِ ذرا کیجیے طواف تمام
تمھارے سر سے جسے بھی ہوئی کوئی نسبت
بنا نہیں سکیں گے کوئی شال باف تمام
سبھی کے دل میں کوئی نہ کوئی کہانی ہے
مگر بتانے سے کتراتے ہیں وہ صاف تمام
جبین بغض پہ عریاں منافقت دیکھی
ہمارے نام سے ہے جن کو انحراف تمام
عجیب عالمِ گریہ میں شہرِ خاموشی
دعا میں ہاتھ ہیں دل سے مگر خلاف تمام
اگرچہ اپنے تئیں کی گئی بہت کوشش
نہ کر سکا کوئی دیوار کا شگاف تمام
شبِ شباب گزاری ہے کس طبیعت میں
چناری آنکھ سے ہوتے ہیں انکشاف تمام
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
علَم جن کا ہے حق پر اُن کو خیرِ عام بھیجے گا
خدا الفت کے بندوں کو سبھی پیغام بھیجے گا
کبھی بتلائیں گے وہ کتنی دہری چال والا ہے
ہمارے سامنے بیٹھے ہوؤں کو جام بھیجے گا
اُسے معلوم ہے ہم کو سبھی اچھوں سے الجھن ہے
ہمارے پاس وہ قاصد کوئی بدنام بھیجے گا
بڑی تہہ داری آتی جا رہی ہے بات میں اُس کی
کسی سے ہم سخن ہوگا کسی کے نام بھیجے گا
کسی کے خط دوبارہ پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے
کبھی تحفے میں اپنی ایک دو وہ شام بھیجے گا
(عظیم کامل۔ جام پور)

۔۔۔
’’ موسم‘‘
محبتوں کا ہر ایک رشتہ
عداوتوں کا ہر ایک ناتا
دکھوں کی دلدل میں دہنس چکا ہے
سکھوں کا موسم گزر چکا ہے
سکھوں کی بستی اجڑ چکی ہے
ہماری سوچیں بدل چکی ہیں
انا کی میلی سیاہ چادر
بدن سے آ کر لپٹ چکی ہے
ہماری اپنی ہی بدگمانی کے جنگلوں میں
ہمارے سپنے اجڑ رہے ہیں
محبتوں کا ہر ایک رشتہ
دکھوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے
سکھوں کا موسم گزر چکا ہے
(رابعہ عمران۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
سن! اے میرِ کارواں خاموش رہ
کٹ نہ جائے یہ زباں خاموش رہ
جاہلوں کے سامنے لب کھول مت
گونگے بہرے ہیں یہاں خاموش رہ
سچ کا سودا اور منڈی جھوٹ کی
بولنا ہے رائیگاں خاموش رہ
ہو چکا ہے سچ پہ غلبہ جھوٹ کا
چیختا ہے آسماں خاموش رہ
بھوک، غربت، بے بسی کی آگ میں
ہو گیا سب کچھ دھواں خاموش رہ
گردنوں میں طوق ہے اک خوف کا
ظلمتوں کا ہے سماں خاموش رہ
ہر طرف آہ و فغاں اور خوف ہے
غم بھری ہے داستاں خاموش رہ
بے ضمیروں کو دکھا مت آئینہ
تو یہاں طلحہ میاں خاموش رہ
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)

۔۔۔
غزل
مفتی صاحب کی اک پہیلی کی
کیا کہوں آپ سے میں ’ایلی‘ کی
مائیں ایسا وجود ہوتی ہیں
جیسے خوشبو کوئی چنبیلی کی
ایک بوڑھا شجر سلامت ہے
رونقیں ہیں ابھی حویلی کی
مجھ کو تازہ ہوا کی مانند ہیں
صحبتیں ہیں جو یار بیلی کی
اپنے محبوب پر کرو فوکس
چھوڑ دو جان تم سہیلی کی
(حارث انعام ۔نوشہرہ)

۔۔۔
غزل
افلاک کے پردوں میں خدا ہے کہ نہیں ہے
کچھ پوچھ رہا ہوں میں بتا ہے کہ نہیں ہے
کیا ہے ترے معیار کا میعاد کا محور
من میں کبھی طوفان اٹھا ہے کہ نہیں ہے
مالک ترے دروازے پہ اک شخص کھڑا تھا
وہ دیکھ کے لوٹا ہے کھلا ہے کہ نہیں ہے
طوفان میں کوئل کی طرح اڑ گئے مصرعے
یہ کس نے صدا دی کہ فضا ہے کہ نہیں ہے
کیوں ہے ترا شہکار خیالوں میں مصور
اک ضرب یوں سینے پہ لگا ہے کہ نہیں ہے
بارش میں کبھی آنا مرے گاؤں کی جانب
پھر دیکھنا مٹی میں نشہ ہے کہ نہیں ہے
ہم بھی کبھی دیتے تھے درِ یار پہ دستک
دیکھے بنا یہ قفل لگا ہے کہ نہیں ہے
(عاشق ہری۔ گانچھے ،گلگت بلتستان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک برس اور بن گیا تاریخ ؛ 2023 کے روز و شب میں جنم لینے والے اہم ترین واقعات

$
0
0

(گزشتہ سے پیوستہ)

اگست

یکم اگست
سی پیک کے دس برس مکمل

سی پیک کے دس سال مکمل ہونے پر چینی اعلٰی سطح کے وفد نے دورۂ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم ہاؤس میں پاک چین مفاہمت کی چھے یادداشتوں پر دستخط کیے۔ چینی صدر نے اس موقع پر پیغام دیا کہ پاک چین اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو نئی بلندی تک پہنچائیں گے۔

اس دوران ایم ایل ون کے فروغ، قراقرم ہائی وے ری الائنمنٹ، چین کو سرخ مرچ کی برآمد، صنعتی ورکرز کے تبادلے، دو طرفہ تعاون بڑھانے کے سمجھوتے اور غربت کے خاتمے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر اتفاق ہوا۔ اس سلسلے میں یادگاری سکہ اور یادگاری ٹکٹ کا اجراء بھی کیا گیا۔ یاد رہے کہ سی پیک معاہدہ پاکستان اور چین کی درمیان معاشی و اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔

2اگست
اتحادی حکومت کا الوداعی ’’تحفہ‘‘

اتحادی حکومت نے جاتے جاتے پیٹرول بم گرا دیا! وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ویڈیو پیغام میں پیٹرول 20 روپے مہنگا کرنے کا اعلان کیا، جس پر عوام پھٹ پڑے، تاجر برادری سراپا احتجاج ہوگئی۔

پیٹرول 272.95 اور ڈیزل 273.95روپے لیٹر ہوگیا۔ ماہرین نے مہنگائی مزید بڑھنے کا عندیہ دے دیا۔ اسحاق ڈار نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار آئی ایم ایف کے ساتھ کئے معاہدے کو ٹھہرا دیا۔

 پاکستانی دستاویزی فلم کا اعزاز

موسمیاتی تبدیلی پر پاکستانی دستاویزی فلم ’’وائسزفرام دی روف آف دی ورلڈ ٹو‘‘ نے 2023ء کا جان بی او کس ایوارڈ جیت لیا۔ یہ فلم دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کے درمیان ہمالیہ مین رہنے والے لوگوں کی زندگی اور جنگلی حیات پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ دستاویزی فلم نو آزاد فلم سازوں نے تیار کی جو پاکستان میں ایکسپریس ٹی وی پر نشر ہوئی اور یو ٹیوب پر بھی دست یاب ہے۔

3اگست
جسٹن ٹروڈو کی شادی ختم

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی اہلیہ سوفی نے شادی کے پندرہ برس بعد علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام کے ذریعے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رکھیں گے۔ اُن کی شادی 2005 میں ہوئی تھی اور ان کے تین بچے ہیں۔

 4 اگست
پاک ایران تزویراتی، تجارتی معاہدہ

پاکستان اور ایران کے درمیان پانچ سالہ اسٹریٹیجک تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے، جو کہ خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ معاہدے میں باہمی تجارت کے فروغ، اسلاموفوبیا، کشمیر، افغانستان اور یوکرین کے مسائل کے حل پر اتفاق رائے کیا گیا۔ امید کی جارہی ہے کہ معاہدے سے دونوں ملکوں میں تجارت، معیشت، توانائی اور آرٹ میں باہمی تعاون و ترقی کو فروغ ملے گا۔

5اگست
چیئر مین پی ٹی آئی نااہل!

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں 3 برس قید اور5  سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ فیصلے کے فوراً بعد عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کرکے اٹک جیل منتقل کردیا گیا۔ چیئر مین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد مختلف شہروں میں کارکنان نے شدید احتجاج کیا، متعدد کو گرفتار کرلیا گیا۔

کشتی کو حادثہ

دریائے ستلج میں اوکاڑہ کے مقام پر کشتی الٹنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس کے باعث چار افراد ہلاک جب کہ آٹھ لاپتا ہوگئے، تینتیس افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔ کشتی میں موجود افراد ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جا رہے تھے، سیلابی پانی میں گرے بجلی کے پول اور تاروں سے ٹکرا کر کشتی الٹ گئی۔

کسانوں کے لیے خوش خبری

کسانوں کو موسم کے بارے میں معلومات دینے کے لیے محکمۂ موسمیات نے اپنی موبائل ایپلی کیشن لانچ کردی جس کے ذریعے آئن لائن ڈیش بورڈ کی ڈیجیٹل موسمی پیش گوئی، ای چالان ، زرعی فارمز کی لوکیشن جان سکیں گے۔

 6اگست
نئی مردم شماری

مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دے دی، جس کے بعد انتخابات میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ملک کی ساتویں مردم شماری کے مطابق مجموعی آبادی چوبیس کروڑ چودہ لاکھ بانوے ہزار رہی۔ یہ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری تھی۔

 ہزارہ ایکسپریس کو حادثہ

کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس الم ناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ سرہاڑی ریلوے اسٹیشن کے قریب دس بوگیاں پٹڑی سے اترنے کے باعث 32  افراد جاں بحق جب کہ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔ کئی مسافر قریبی نالے میں ڈوب گئے۔

8اگست
بل منظور

قومی اسمبلی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ایچ ای سی ترمیمی بل سمیت 8بلوں کی منظوری دے دی۔ پیمرا بل واپس لینے پر صحافیوں نے احتجاج اور واک آؤٹ بھی کیا جس پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ ناموسِ صحابہ، اہل بیت ، امہات المومنینؓ بل سمیت اہم بل منظور کرلیے گئے۔ سینیٹ میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف مذمتی قراردار متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

9 اگست
قومی اسمبلی تحلیل

صدرمملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہبازشریف کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کردیے جس کے بعد قومی اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہوگئی اور وفاقی کابینہ فارغ ہوگئی۔ دوسری جانب مسلسل الزامات کی زد میں رہنے والے خیبر پختونخوا کے 26 ارکان کابینہ سے استعفے لے لیے گئے۔

13اگست
نگران وزیراعظم

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرانوارالحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم مقرر کردیا گیا۔ یہ فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے طے پایا، جس کی صدر نے منظوری دی۔ نگراں وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد انوارالحق کاکڑ سینیٹ عہدے سے دست بردار ہوگئے۔ انوارالحق کاکڑ ملک کے 8 ویں نگراں وزیراعظم ہیں۔

15اگست
 درخت غائب

پنجاب میں 18برس بعد ہونے والی محکمۂ جنگلات کی درخت شماری میں انکشاف ہوا کہ جنگلات میں قدآور سرکاری درختوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے جب کہ نئے درخت لگانے کی شرح بھی غیرنمایاں ہے۔ جنگلات سے غیرقانونی طور پر درخت کاٹنے کا سلسلہ بھی نہ تھم سکا۔

پرویزالٰہی مشکل میں

سابق وزیراعلٰی پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے رہا ہوتے ہی لاہور نیب کی ٹیم نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔ ان کے خلاف مجموعی طور پر 23 ارب مالیت کے 226 ٹھیکوں میں فرنٹ مینوں کے ذریعے سوا ارب کی کرپشن اور کک بیکس وصول کرنے کے الزامات ہیں۔ یاد رہے کہ پرویز الٰہی پی ٹی آئی سے الحاق کرنے کے بعد سے مشکلات کی زد میں ہیں۔

معروف گلوکار اسدعباس کی رحلت

پاکستان کے معروف گلوکار اسد عباس طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا تعلق موسیقار گھرانے سے تھا۔ وہ تمغہ امتیاز سے نوازے گئے تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 38 برس تھی۔

16اگست
 جڑانوالہ میں توہین قرآن

جڑانوالہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور گستاخی کے بعد مشتعل مظاہرین نے مسیحیوں کی عبادت گاہوں اور گھروں پر حملے کیے، توڑ پھوڑ کی اور سامان نذرآتش کردیا۔ پولیس نے مرکزی ملزم سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت اعلٰی شخصیات نے واقعے کی مذمت کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ تحقیقات میں بھارتی کردار سامنے آیا۔ ذرائع کے مطابق کشمیریوں پر مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے سازش کی گئی۔ نگراں وزیراعلٰی پنجاب محسن نقوی نے واقعے کے متاثرین کے لیے فی گھر 20لاکھ امداد کا اعلان کیا۔

نئی حکومت کے تحفے

نئی حکومت نے آتے ہی شہریوں پر پیٹرول اور ڈیزل بم گرایا ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں بیس روپے فی لیٹر تک کا اضافہ کردیا، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 290.45روپے فی لیٹر ہوگئی۔ اگلے چار ماہ میں صارفین سے اضافی 122ارب روپے تک وصولی کرنے اور بجلی مزید 4.37 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کا منصوبہ بھی دے ڈالا۔ یہی نہیں بلکہ اسلام آباد ایئر پورٹ کو15 سال کے لیے آؤٹ سورس کرنے کی منظوری بھی دے دی۔

دالبندین ایئرپورٹ کے رن وے کو ایک سال تک کے لیے فلائٹس آپریشن کے لیے بند کر نے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا سبب طوفانی بارشوں سے دالبندین ایئرپورٹ رن وے اور کنٹرول ٹاور کو پہنچنے والا نقصان بتایا گیا۔ دوسری طرف ڈالر بے قابو ہوگیا، اور اوپن مارکیٹ میں 300کا ہوگیا۔ ریلوے نے دس فی صد جب کہ ٹرانسپورٹرز نے 150روپے تک کرایوں میں اضافہ کردیا۔ اس کے ساتھ چینی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے اور قیمت 160روپے کلو تک جا پہنچی۔ نگراں وزیرداخلہ نے نئے اسلحے کے لائسنس کے اجراء پر پابندی عائد کردی۔

ملازمہ تشدد سے ہلاک

سندھ کے شہر رانی پور میں بااثر پیر سیداسدشاہ گیلانی کی دس سالہ گھریلو ملازمہ کی مبینہ تشدد سے ہلاکت اور وائرل سی سی ٹی وی ویڈیو نے ہر دل کو افسردہ کردیا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ حویلی میں موجود دوسرے ملازموں کے مطابق اسد شاہ کی بیوی ملازموں پر تشدد میں ملوث ہے۔

17اگست
کنورنوید جمیل انتقال کرگئے

ایم کیو ایم پاکستان کے راہ نما کنورنویدجمیل طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ برین ہیمرج کے باؑعث کئی ماہ سے زیرعلاج تھے۔ وہ رکن قومی اسمبلی اور ناظم بھی رہے۔ ان کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔

19اگست
شاہ محمود قریشی گرفتار

وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ کیس کی ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا کہ سابق وزیرخارجہ نے سائفر کی اطلاعات غیرمجاز افراد تک پہنچائیں اور ذاتی مفاد کے لیے حقائق کو مسخ کیا۔

20اگست
صدر کا انکار

گذشتہ روز پاس ہونے والے آرمی ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے اس وقت ایک ہلچل مچ گئی جب صدرِمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان کے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ء پر دستخط کرنے کی تردید کردی۔ ان کا موقف ان دونوں بلز کے حق میںنہ تھا اور ان کے بقول عملے نے میری مرضی کے خلاف قدم اٹھایا، جس کے ساتھ انھوں نے ٹوئیٹر پر ان قوانین سے متاثر ہونے والوں سے معافی طلب کی۔ صدر نے اپنے سیکریٹری کی خدمات واپس کردیں۔

بس حادثہ

موٹر وے ایم4  پر پنڈی بھٹیاں ٹال پلازہ کے قریب مسافر بس کو خوف ناک حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں 19افراد زندہ جل گئے، جب کہ چودہ زخمی ہوئے۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب بس ڈیزل سے بھرے ڈرموں سے لدی پک اپ سے ٹکراگئی۔

22اگست
چیئر لفٹ آپریشن

خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کے علاقے آلائی میں چھے سو فٹ کی بلندی پر آٹھ افراد مقامی لفٹ ’ڈولی‘ کے ذریعے شہر کی دوسری جانب آتے ہوئے بیچ راستے کیبل ٹوٹنے کی وجہ سے تیرہ گھنٹے تک پھنسے رہے، جنھیں فوج کے اہل کاروں اور مقامی باشندوں کی مدد سے ریسکیو کیا گیا۔ لفٹ میں پھنسے افراد میں ایک استاد اور سات طالبعلم شامل تھے۔

23اگست
ادویات مہنگی

مہنگائی کے ستائے عوام پر ادویات کی قیمتوں کا اضافی بوجھ ڈالتے ہوئے ڈرگ اتھارٹی نے کینسر، دمے، ہیپاٹائٹس سمیت جان بچانے والی پچیس ادویات مہنگی کردیں، جس کے بعد دواؤں کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا۔

اداکار اکبرخان رخصت ہوگئے

شوبز انڈسٹری کے معروف ایکٹر اکبرخان کراچی میں علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ اداکاری کے ساتھ فن مصوری اور مجسمہ سازی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کے مقبول ڈراموں میں پری زاد، عشق زہے نصیب ، بلبلے اور دل رُبا شامل ہیں۔

25اگست
لاکھوں پاکستانی ملک چھوڑ گئے

حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق روزگار کے لیے 2023  کے ابتدائی چھے ماہ کے دوران چار لاکھ 50 ہزار پاکستانی بیرون ملک منتقل ہوئے۔ بہتر مستقبل کے سلسلے میں بیرون ملک منتقل ہونے والوں میں ڈاکٹر، انجنیئر، بینک منیجر، آئی ٹی ماہرین، سیلزمین اور مزدور سب سے زیادہ سعودی عرب منتقل ہوئے جب کہ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات، تیسرے نمبر پر قطر اور چوتھے پر عمان رہا۔ 2022 میں آٹھ لاکھ پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک منتقل ہوئے تھے۔

27اگست
پاکستانی ایتھلیٹ کا اعزاز

پاکستان کے ارشدندیم نے عالمی جیولین تھروایھتلیٹکس مقابلوں میں سلورمیڈل جیت لیا۔ قبل ازیں وہ عالمی چمیپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتے والے پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔

31اگست
 ڈالر بے قابو

رواں برس ڈالر کی اڑان بے قابو رہی۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتا رہا یہاں تک کے ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 319روپے تک جا پہنچا۔

۔۔۔

ستمبر

یکم ستمبر
چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں۔ بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی ہے۔ کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغ دار پیسہ موجود ہے۔ داغ دار پیسے کا تحفظ کرکے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے۔ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقت وروں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔

2ستمبر
مہنگائی کے خلاف ہڑتال

ملک بھر میں جماعت اسلامی اور تاجر تنظیموں کی کال پر مہنگائی، زائد بلز کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ہڑتال کی گئی۔ کراچی، لاہور، پشاور سمیت بڑے شہروں میں بازار بند رہے، ٹریفک کم رہا، شہر شہر احتجاج ہوا اور نظام زندگی متاثر ہوکر رہ گیا۔ کئی مقامات پر مشتعل مظاہرین نے دھرنا دے کر سڑکیں بند کر دیں۔

کینیڈا نے بھارت سے مذاکرات روک دیے

کینیڈا نے بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات روک دیے۔ ذرائع کے مطابق کینیڈا میں مقیم خالصتان کی حامی سکھ کمیونٹی کی سرگرمیوں پر بھارت نے کینیڈا سے کئی بار شکایات کیں اور یہ پہلو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مذاکرات میں رکاوٹ بن گیا۔

3ستمبر
افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا الزام

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا، افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان کے لیے نسبتاً حالات بہتر ہوں گے لیکن وہ بہتر نہیں ہوئے بلکہ بگڑ گئے اور اس کی بڑی وجہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکا اور نیٹو کے جدید ہتھیار ہیں۔ یہ ہتھیار صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور ایران سمیت پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں۔ ہمارے خلاف ان کا استعمال شروع ہوچکا ہے۔ باقیوں کو اپنا انتظار کرنا پڑے گا۔

4ستمبر
سائیکل خریدنا بھی خواب ہوا
غریبوں کے لیے سائیکل خریدنا بھی خواب بن گیا۔ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران سائیکلوں کے نرخوں میں سو فی صد تک اضافہ ہوگیا۔ خراب معاشی حالات کے باعث مقامی طور پر بڑی فیکٹریاں بند ہونے سے انحصار درآمدی سائیکلوں پر ہے۔ 9 ہزار میں ملنے والی مقامی سائیکل کی قیمت 19ہزار روپے تک پہنچ چکی، 10ہزار میں ملنے والی درآمد شدہ سائیکل کی قیمت 22 ہزار روپے اور 18 ہزار کی سائیکل کی قیمت 35 ہزار روپے تک پہنچ گئی۔ ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے درآمدی سائیکلوں کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا۔

5ستمبر
انڈیا ’’بھارت‘‘ ہوگیا
بھارت کی مودی حکومت نے آئین میں انڈیا کا نام تبدیل کرکے ’بھارت‘ رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت نے آئین میں انڈیا کا نام تبدیل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں قرارداد لانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نام اب صرف ’ری پبلک آف بھارت‘ پکارا اور لکھا جائے گا۔

6ستمبر
بجی چوری۔۔۔۔کریک ڈائون کا فیصلہ
نگراں حکومت نے بجلی چوری کی روک تھام کے لیے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق خصوصی عدالتیں، صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹاسک فورس بنا رہے ہیں۔ چوری میں ملوث افسر تبدیل ہوں گے۔ 589ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے یا بل ادا نہیں کیے جاتے۔ جلد آرڈیننس جاری ہوگا۔ سب سے زیادہ 489ارب کا نقصان پشاور، کوئٹہ، حیدآباد، سکھر قبائلی علاقوں، آزاد کشمیر میں ہوتا ہے۔ جن علاقوں میں 30تا 60فیصد نقصان ہے وہاں کی مینجمنٹ پرائیویٹ سیکٹر کو دینے پر غور کر رہے ہیں۔ نگران وزیر توانائی محمد علی اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوتی اور لوگ بل ادا نہیں کرتے اس وقت تک عوام کو سستی بجلی نہیں ملے گی، ہر علاقے میں الگ الگ سطح پر بجلی کی چوری ہورہی ہے۔

7ستمبر
طویل مدتی اقتصادی ایجنڈا مرتب کرنے کی ہدایت
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے وزارت منصوبہ بندی کو پنجسالہ منصوبہ اور طویل مدتی قومی اقتصادی ایجنڈا مرتب کرنے کی ہدایت کر دی۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے مختلف طبقات کو اعتماد میں لینے کے لیے مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کی تاکہ سی پیک اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔

9ستمبر
بھارت تا یورپ تجارتی راہ داری کا منصوبہ
بھارت میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے موقع پر بھارت سے مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ تک تاریخی تجارتی راہ داری منصوبے کی نقاب کشائی کی گئی جس میں امریکا بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے نعم البدل کے طور پر تیار کیے جانے والے اس راہ داری منصوبے کو جدید مسالا راہ داری کہا جاسکتا ہے۔ منصوبے کے تحت دبئی سے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک ریلوے لائن بچھے گی، کنٹینروں کو نہرسوئز سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یورپ سے بھارت تک تجارت کی رفتار چالیس فیصد تیز ہوجائے گی۔ امریکا، سعودی عرب، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشترکہ طور پر لانچ کیے جانے والے اس اقدام میں ریلوے، بندرگاہوں، بجلی ، ڈیٹا نیٹ ورک اور ہائیڈروجن پائپ لائن کے رابطے قائم کیے جائیں گے۔

10ستمبر
ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں29 سیاست داں ملوث
ایک سول حساس ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 29 سیاست داں اور 90 سرکاری حکام ملوث ہیں جب کہ ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے جس کے باعث پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ تیل کی اسمگلنگ سے ہونے والی آمدنی دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی ٹرانسپورٹیشن میں ملوث ہیں۔ ایران سے تیل ایرانی گاڑیوں میں اسمگل ہو کر پاکستان آتا ہے۔ تیل اسمگل کرنے والی ایرانی گاڑیوں کو زم یاد کہا جاتا ہے۔

11ستمبر
لیبیا میں سمندری طوفان سے تباہی
لیبیا کے مشرقی علاقوں میں بحراوقیانوس سے اٹھنے والے سمندری طوفان، ڈینیل اسٹورم اور بارشوں نے تباہی مچادی۔ مشرقی لیبیا میں طوفان اور سیلاب سے دو ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں لاپتا ہوگئے۔ سب سے زیادہ تباہی درنہ شہر میں ہوئی جب کہ بن غازی، سوسا، بیضا اور المرج میں بھی متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔

15ستمبر
نیب آرڈیننس کی ترامیم میں سے 9 کالعدم
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دے دیں جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نوازشریف، شہباز شریف، یوسف رضاگیلانی و دیگر کے خلاف نیب کیسز بحال ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے سے جسٹس منصورعلی شاہ نے اختلاف کیا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز اس کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب سات دن کے اندر ختم کیے گئے ریفرنسز، تفتیش، انکوائریاں احتساب عدالتوں کو بھیجے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ نیب قانون بنا سکتی ہے تو ختم بھی کرسکتی ہے، سوال غلط ترامیم کا نہیں منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔

سعودی عرب اور حوثی باغیوں میں مذاکرات
یمن میں برسرپیکار حوثی باغیوں کا وفد امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب پہنچ گیا۔ عرب میڈیا کے مطابق نوسالہ خانہ جنگی، حکومتی بحران اور جنگ کے بعد بالآخر سعودی عرب اور یمن کے حوثی جنگ جوؤں کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ ذرائع نے بتایا کہ امن مذاکرات میں سعودی عرب حوثیوں کے زیر قبضہ بندرگاہوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کو کھولنے اور تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حصہ یمنی حکومت کو دینے کا مطالبہ کرے گا۔ یاد رہے کہ یمن میں 2014ء میں جنگ اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ایران کے حمایت یافتہ گروپ نے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

17ستمبر
فائزعیسیٰ چیف جسٹس مقرر
سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اس موقع پر ان کی بیگم بھی موجود تھیں جو اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا۔

18ستمبر
بھارت اور کینیڈا میں کشیدگی کا آغاز
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ بھارت خالصتان راہ نما ہردیپ سکھ نجر کے قتل میں ملوث ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں، بھارتی ایجنٹ سکھ راہ نما کے قتل میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ کینیڈین سرزمین پر قتل میں غیرملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کے خلاف ہے۔ کینیڈین وزیرخارجہ ملینی جولی نے کہا کہ ہم نے بھارت کے ہیڈ آف انٹیلی جنس کے سربراہ کو نکلنے کا حکم دے دیا ہے اور معاملات کی تحقیقات جاری ہیں۔ کینیڈا میں ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی نے جنم لیا اور تاحال جاری ہے۔

عدالتی کارروائی براہ راست نشر
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی اپنے پہلے دن مقدمے کی بطور فل کورٹ سماعت کرنے والے چیف جسٹس بن گئے۔ کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی، پروٹوکول اور گارڈ آف آنر لینے سے انکار، بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی بھی نہیں لی، 1300سی سی کار استعمال کریں گے۔ صرف ضروری اور مختصر سیکیوریٹی ہوگی۔ چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھ دیا گیا۔ عوامی سطح پر چیف جسٹس کے اس اقدام کی پذیرائی کی گئی۔

امریکا اور ایران میں قیدیوں کا تبادلہ
قطر کی ثالثی کے نتیجے میں امریکا اور ایران کے مابین پانچ پانچ قیدیوں کا تبادلہ ہوا ۔ امریکا نے تہران کے منجمد چھ ارب ڈالر بھی بحال کردیے۔

19ستمبر
ارب پتیوں کی فہرست میں 75 نئے لوگ شامل
امریکی جریدے فاربز نے 2023 ء کے لیے دنیا بھر کے 77 ممالک کے 2640 ارب پتیوں کی فہرست جاری کردی۔ اس سال ارب پتیوں کی تعداد میں 75 نئے لوگ شامل ہوئے، تاہم ان میں کوئی بھی امریکی نہیں۔ امریکا735 ارب پتیوں کے ساتھ اول، چین 539 کے ساتھ دوسرے، بھارت 169 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ ایلون مسک دنیا 237.9 ارب کے ساتھ امیر ترین اور جیف بیزوس 154.3 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ بھارت میں سرفہرست مکیش امبانی ہیں جن کی دولت کا تخمینہ 89.7 ارب ڈالر ہے۔ دوسرے نمبر پر گوتم اڈانی ہیں جن کی دولت 54.4 ارب ڈالر ہے۔

پاکستان میں ووٹرز کی تعداد
الیکشن کمیشن نے ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کے اعدادوشمار جاری کردیے ۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 69لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ ملک میں مرد رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار 258 جبکہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72ہزار 14 ہے۔ پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10ہزار 583 ، سندھ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد2 کروڑ 66 لاکھ 51ہزار 161 ، خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 16 لاکھ 92ہزار 381 اور بلوچستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 52لاکھ 84ہزار 594 ہے۔

22ستمبر
میرواعظ عمر فاروق رہا
کل جماعتی حریت کانفرنس کے راہ نما میرواعظ عمر فاروق کو چار سال بعد رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے رہائی کے بعد سری نگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کرائی اور خطاب کیا۔ انہیں نماز جمعہ کی امامت کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے ہزاروں کشمیری جمع ہوئے۔

23ستمبر
انتخابی قواعد میں ترامیم تجویز
الیکشن کمیشن نے نئے فارمز سمیت الیکشن رولز میں اٹھارہ ترامیم تجویز کر دیں۔ الیکشن کمیشن نے تجویز کیا ہے کہ الیکشن اخراجات کے لیے سیاسی جماعت کو دس لاکھ روپے سے زائد عطیہ دینے والوں کی تفصیلات دینا ہوں گی، امیدوار کو کاغذات جمع کرانے کے لیے ایک لاکھ نقد جمع کرانے ہوں گے جو ناقابل واپسی ہیں۔ امیدوار کو ملک، بیرون ملک غیر منقولہ پراپرٹی، خریدے گئے اثاثوں کی تفصیلات بھی دینا ہوں گی۔

24 ستمبر
پاکستان ہیپاٹائٹس سی سے متاثرترین ملک
پاکستان کے ممتاز معالج، پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر نے انکشاف کیا کہ پاکستان دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا ہے۔ پہلے مصر اس مرض سے متاثرہ نمبر ون ملک تھا لیکن مصری حکومت نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سات سال میں ہیپاٹائٹس سی پر قابو پالیا۔

بھارت شہریوں کے ڈیجیل حقوق کا قاتل
سافٹ ویئر فریڈم لا سینٹر (ایس ایف ایل سی) اور ڈیجیٹل حقوق کے دیگر نگراں اداروں کا کہنا ہے کہ بھارت گذشتہ پانچ برسوں میں انٹرنیٹ کی معطلی کے معاملے میں دنیا میں پہلے نمبر پر رہا۔ میڈیاکے مطابق نیدرلینڈ میں قائم ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) فراہم کرنے والے سرف شارک کا کہنا ہے کہ بھارت میں بیس سو تئیس کے پہلے چھے مہینوں میں تقریباً اتنے ہی مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا جتنی بار پورے 2022 ء میں کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت انٹر سروس معطل کرنے کے علاوہ مخصوص ویب سائٹس کو بلاک کرواتی اور مخصوص مواد ہٹوا دیتی ہے۔ ریاست منی پور میں رواں برس طویل عرصے تک انٹر نیٹ بند رکھا گیا جب کہ 5اگست 2019ء کو مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد علاقے کو552 دن تک انٹر بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

27ستمبر
قومی ایئرلائن کا خسارہ بڑھ گیا
قومی ایئرلائن ، پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 743 ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔ اسی باعث اس کی پروازوں کا شیڈول شدید متاثر ہو گیا۔ ادارے کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت نے تنظیم نو اور نجکاری کے عمل کو ایک ساتھ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

خیبرپختونخوا میں پی ایچ ڈی پروگرام طلبہ سے محروم
ایک خبر کے مطابق سے بھاری بجٹ کے باوجود گزشتہ تین سال میں خیبرپختونخوا کی گیارہ یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروگراموں میں ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں لیا۔ دو یونیورسٹیوں کے انڈرگریجویٹ داخلوں میں کمی کا رجحان ہے۔ چھے یونیورسٹیوں کے گریجویٹ پروگراموں میں داخلوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے جب کہ چھے یونیورسٹیوں میں ایم ایس/ایم فل کا کوئی طالب علم نہیں ہے۔ گورنر ہاؤس پشاور نے خیبرپختونخوا کی 34یونیورسٹیوں کی 2021 ء سے 2024 ء کی تین سال کی رپورٹ جاری کی۔

رنگ دار کپاس کا منصوبہ
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر علی رضا انور نے خوش خبری سنائی کہ پاکستان نے رنگ دار کپاس پیدا کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بڑے رقبے پر رنگ دار کپاس کاشت کا پلان بن چکا۔ جلد رنگ دار کپاس دنیا بھر میں برآ مد کی جائے گی۔

28ستمبر
پاکستانی جامعات کے بارے میں افسوس ناک انکشاف
معروف عالمی ادارے ’دی ٹائمز ‘ نے سال 2024ء کے لیے جامعات کی درجہ بندی کردی۔ انکشاف ہوا کہ اربوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 400 بہترین جامعات میں شامل نہیں۔ تاہم قائد اعظم یونیورسٹی واحد ہے جو دنیا کی 401تا 500کی جامعات میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوئی۔ پاکستان کی 14 جامعات600تا 1000جامعات کی درجہ بندی میں شامل ہوئیں تاہم ان میں سندھ اور بلوچستان کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ۔400 بہترین جامعات میں سعودی عرب کی دو، ایران کی دو ، ترکی کی تین اور بھارت کی دو جامعات شامل ہیں ۔ دنیا کی 100 بہترین جامعات میں چین کی سات جامعات بھی شامل ہیں، جب کہ عالمی درجہ بندی میں آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ پہلے، اسٹینفورڈ یونیورسٹی امریکا دوسرے، میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا تیسرے، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا چوتھے، کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ پانچویں، پرنسٹن یونیورسٹی امریکا چھٹے، کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا ساتویں، امپیریل کالج لندن آٹھویں، کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے امریکا نویں اور ییل یونیورسٹی امریکا دسویں نمبر پر رہی۔

3اکتوبر
غیرقانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے اخراج کا فیصلہ
ایپکس کمیٹی نے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کو 31 اکتوبر 2023ء تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے خبر دار کیا کہ 10اکتوبر سے پاک افغان بارڈر پر نقل و حرکت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر ہوگی۔ یکم نومبر سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پر دی جائے گی۔ یکم نومبر سے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے کاروبار /جائیدادیں ضبط کرنے کے علاوہ ان کو گرفتار کرکے جبری ملک بدر کیا جائے گا۔

4 اکتوبر
پاکستان قرضے کے بوجھ والے غریب ممالک کی فہرست میں شامل
عالمی بینک نے پاکستان کو قرضے کے بوجھ کے حامل غریب ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا کہ2027ء تک پاکستان کا قرضہ جی ڈی پی کے 89.3 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ ، کابینہ کے ارکان ، وزرائے خزانہ ، کابینہ کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے ممبران ٹیکس پالیسی مرتب کرنے میں زبردست اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں جو اصلاحات کو روکتا ہے۔ حکومتی اخراجات بہت زیادہ ہو چکے۔

کینیڈین سفارت کاروں کو بھارت چھوڑنے کا حکم
بھارت نے کینیڈا کے 41 سفارت کاروں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ بھارت اور کینیڈا کے درمیان خالصتان تحریک کے راہ نما ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

5اکتوبر
کرکٹ ورلڈکپ کا آغاز
2023ء کرکٹ ورلڈکپ شروع ہوا، جس کی میزبانی بھارت نے کی۔ ٹورنامنٹ کا آغاز گذشتہ ورلڈکپ فائنل کھیلنے والی ٹیموں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین میچ سے ہوا، جس میں نیوزی لینڈ نے کام یابی حاصل کی۔

بیرونی قرضوں کی شرح میں اضافہ
پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضے میں بیرونی قرضے کی شرح بڑھ کر 38.3 فی صد ہوگئی۔ گذشتہ مالی سال، بیرونی قرضوں میں 13ہزار640ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ مجموعی حکومتی قرضوں میں اندرونی قرضہ کم ہو کر 61.7، بیرونی قرضے میں 1.4فی صد اضافہ ہوا ۔ وزارت خزانہ کی سالانہ قرضہ ریویو اور پبلک ڈیبٹ بولیٹن مالی سال 2022-ء 23کے مطابق جون 2023ء تک پاکستان کا مجموعی حکومتی قرضہ 62ہزار880ارب روپے ہوگیا جو جون 2022ء میں 49ہزار200ارب روپے تھا۔ اس طرح پی ڈی ایم کے دور حکومت میں گزشتہ مالی سال میں مجموعی قرضہ میں 13ہزار640ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

امریکی ایوان نمائندگان نے تاریخ رقم کردی
امریکا کی 234 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایوان نمائندگان نے اسپیکر کے خلاف ووٹ دے دیا۔ ریپبلکن کی اکثریت والے ایوان میں 210 کے مقابلے میں 216 اراکین نے اسپیکر کو ہٹائے جانے کے حق میں ووٹ دیا۔ کیون میکارتھی کو ایسے وقت ان کے عہدے سے ہٹایا گیا جب صدارتی انتخابات میں صرف ایک سال باقی ہے۔

کینیڈا میں پہلی بار سیاہ فام اسپیکر منتخب
کینیڈا کی پارلیمنٹ میں پہلی بارلبرل پارٹی کے سیاہ فام رکن، گریگ فرگس خفیہ رائے شماری میں کینیڈا کے اڑتیسویں اسپیکر منتخب ہوگئے۔ گریگ فرگس کو کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو خود ہاتھ پکڑ کر اسپیکر کی کرسی تک لائے اور نومنتخب سپیکر کو مبارکباد پیش کی۔

6 اکتوبر
لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار
صوبائی دارالحکومت لاہور پھر دنیا آلودہ ترین شہر قرار پایا جہاں ایئرکوالٹی انڈیکس کی شرح 241 پر پہنچ گئی۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست لاہور میں فیروزپور روڈ کے اطراف صبح سویرے فضائی آلودگی کی شرح 298پر پہنچ گئی۔

پاکستانی خاتون خلاباز نے تاریخ بنادی
پاکستان کی خاتون خلا باز نمیرہ سلیم نے خلا میں پہنچ کر تاریخ رقم کردی۔ وہ خلا میں روانگی کے لیے نیومیکسیکو سے روانہ ہوئیں۔ انہوں نے امریکا سے کمرشل اسپیس شپ کے ذریعے خلا کا سفر کیا، بعدازآں خلائی شٹل خلا میں داخل ہونے کے بعد واپس با حفاظت خلائی سینٹر پر لینڈ کرگئی۔ نمیرہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں قطبین پر پہنچنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

7 اکتوبر
حماس کی صہیونی اڈے پر یلغار
عرب اسرائیلی جنگ کی پچاسویں سال گرہ پر علی الصبح حماس نے پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ حماس نے اسرائیلی کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ یہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں، مسجد اقصیٰ کی بار بار بے حرمتی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی کارروائیوں کے خلاف حماس کا جوابی ایکشن تھا۔ فوجیوں سمیت 290 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے۔ ’’آپریشن الاقصیٰ طوفان‘‘ کے تحت فلسطینی مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جب کہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مدد سے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا۔ حماس نے 20منٹ میں 5ہزار راکٹ برسائے۔ کام یاب آپریشن پر غزہ کے کئی علاقوں میں فلسطینیوں نے جشن منایا۔ حملے سے اسرائیل کے مختلف شہروں میں شدید خوف وہراس پھیل گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں سائرن بجائے جاتے رہے۔

اسرائیل نے بھی غزہ پر جوابی حملہ کردیا جو یہ سطور قلم بند ہونے تک جاری ہے۔ اس حملے کے باعث شمالی غزہ خصوصاً اسرائیل کی متواتر بم باری کی وجہ سے کھنڈر بن گیا۔ انیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اسرائیل نے عالمی جنگی قوانین پیروں تلے روندتے اسپتالوں، ایمبولینسوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا۔

8 اکتوبر
حیدرآباد کے قریب قدرتی گیس کے ذخائر دریافت
حیدرآباد کے قریب قدرتی گیس کے وافر ذخائر دریافت ہوئے۔ یہاں قدرتی گیس کی تلاش کا کام 2020ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اوجی ڈی سی ایل کے تحت یو ایس اسٹڈی کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں قدرتی گیس کے ذخائر کا حجم تین ہزار ٹی سی ایف (ٹریلین کیوبک فٹ) ہے۔

11 اکتوبر
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستیں مسترد
سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرلی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو فائدہ نہیں ہو گا ۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں 5، 10 سے مسترد کی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔ فیصلے کے مطابق ماسٹر آف روسٹر کا تصّور ختم کردیا گیا۔ بینچ کی تشکیل، مقدمات موخر کرنے اور از خود نوٹس کا صرف چیف جسٹس کا اختیار تین رکنی ججز کمیٹی کو منتقل ہوگیا۔

12 اکتوبر
یہودیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ
امریکی میڈیا کی رو سے اسرائیل، حماس تنازع میں دنیا بھر میں یہودیوں کے خلاف دشمنی اور نفرت عروج پر پہنچ گئی۔ بہت سے یہودیوں کو خطرے کا سامنا ہے۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق نیویارک سے لندن تک، سینٹ لوئس سے سڈنی تک، یہودی کمیونٹی نفرت اور تعصب سے دوچار ہے۔ امریکا میں ٹیلیگرام پر یہودی مخالف دھمکیاں ہفتے کے پہلے اٹھارہ گھنٹوں میں خطرناک حد تک 488 فیصد اضافہ ہوا۔

سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا مجرم قرار
سوئیڈن کی ایک عدالت نے ایک شخص کو 2020 ء میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے ذریعے نسلی منافرت کو ہوا دینے کا مجرم قرار دے دیا۔ سویڈش عدالتی نظام نے پہلی بار اسلام کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے الزام میں مقدمہ چلایا۔ سویڈش حکومت نے بے حرمتی کی مذمت کی لیکن ہر بار ملک کے وسیع آزادی اظہار کے قوانین کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ اس اقدام نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔

14 اکتوبر
سعودی حکومت نے اسرائیل سے مذاکرات معطل کردیے
غزہ پر اسرائیلی فوج کی سفاکانہ کارروائیوں کے باعث سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے ہونے والے مذاکرات معطل کردیے۔ سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے امریکی ہم منصب انٹونی بلینکن سے ملاقات میں غزہ سے فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے مطالبے کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرنے اور شہریوں کو کسی بھی شکل میں نشانہ بنانے کی مذمت کا اعادہ کیا۔

16 اکتوبر
مہنگائی کے دبائو میں پاکستان کا تیسرا نمبر
پاکستان ستمبر2023 ء میں مہنگائی کے دبائو کے حوالے سے دنیا بھر میں 31.4 فی صد کے ساتھ تیسری پوزیشن پر آگیا جب کہ صرف ترکی اور ایران اس سے آگے رہے۔ اسی دوران سری لنکا جو چند ماہ قبل دیوالیہ ہوگیا تھا، وہاں مہنگائی کم ترین یعنی 1.3 فیصد پر کھڑی ہے۔ واضح رہے کہ ستمبر 2022ء میں یہ شرح 69.8 فیصد تھی۔ چین میں مہنگائی کی شرح 0 فیصد ہے۔ ترکی میں مہنگائی کی شرح 58.9 فی صد رہی۔ ایران میں ماہانہ مہنگائی کی شرح 39.5 فی صد تک ہلکی سی گری۔ بنگلادیش میں مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر رہی۔ بھارت میں ستمبر کے دوران 5 فی صد رہی۔

17 اکتوبر
مغربی میڈیا کی اسرائیل نوازی
مغرب کے تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے فلسطینی مواد پر پابندی سے لے کر مسلمان صحافیوں کی معطلی تک مغربی میڈیا میں اسرائیل کے حق میں جانب دارانہ رپورٹنگ کی جارہی ہے۔ ایم ایس این بی سی نے عارضی طور پر مہدی حسن، ایمن محی الدین اور علی ویلشی کو آف اسکرین کردیا۔ بی بی سی نے چھے رپورٹرز کو فلسطینیوں سے منسلک مواد پوسٹ کرنے یا پسند کرنے پر معطل کر دیا۔

فٹ بال میں پاکستان کی جیت
جناح اسٹیڈیم اسلام آباد میں کھیلے گئے دوسرے فیفا ورلڈ کپ کوالیفائر میں پاکستان نے کمبوڈیا کو 1-0 گول سے شکست دے کر اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ پاکستانی فٹ بال تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے۔

19 اکتوبر
روپے کی گراوٹ میں سٹاباز ملوث نکلے
انکشاف ہوا کہ بعض پاکستانی بینکوں کی مبینہ ساز باز کے نتیجے میں گزشتہ چند دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کم زور ہوا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے سٹے بازوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائیوں کے بعد واپس ہوا۔ ایسا بیک وقت کسی واضح تبدیلی کے بغیر ہوا جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ یہ بعض کمرشل بینکوں کی مبینہ ملی بھگت تھی جو اپنے فوائد اور منافع خوری کو بڑھانے کے لیے کرنسی مارکیٹ میں مبینہ طور پر ہیرا پھیری کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔

ایس ایم ظفر انتقال کرگئے
معروف سنیئر قانون داں و سابق وزیرقانون ایس ایم ظفر طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

20اکتوبر
پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کی زبردست کارکردگی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کا بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 50 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کرگیا۔ موجودہ کارکردگی کے لحاظ سے اسے دنیا کا دوسرا بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دیا گیا۔

22اکتوبر
چین بھارت تعلقات پر پینٹاگون کی رپورٹ
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے دعویٰ کیا کہ چین نے بھارت کے ساتھ اپنی سرحدوں پر دفاعی انفرااسٹرکچر کو انتہائی مضبوط کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ چین عالمی سطح پر اپنی عسکری حیثیت اور موجودگی بھی احساس دلا دیا ہے۔ فوجی لاجسٹک سپورٹ کے لیے چین بنگلادیش، سری لنکا، میانمار اور پاکستان میں قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے۔ مئی2020ء سے چین بھارت سرحدی کشیدگی نے مغربی فوجی قوتوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی ہے۔ 2022ء میں چین نے ایک سرحدی رجمنٹ اور دو پہاڑی ڈویژن بھارت کے ساتھ حقیقی لائن آف کنٹرول پر تعینات کر دیے۔

23 اکتوبر
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائلز کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔ پانچ رکنی بینچ نے 4-1سے اکثریتی فیصلہ سنایا، جب کہ جسٹس یحییٰ نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق اگر کسی سویلین کا فوجی ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعدم ہوگا۔ عام شہریوں کے تمام کیسز سویلین عدالتوں میں بھیجے جائیں۔ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی ون آئین سے متصادم ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فیصلے کا اطلاق 9اور10مئی کے واقعات میں زیر حراست تمام افراد پر ہوگا۔ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گا۔

گیس کے نرخ آسمان پر
پاکستان کی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یکم نومبر 2023ء سے گیس کی قیمتوں میں دو سو فی صد تک اضافے کی منظوری دے دی۔

26 اکتوبر
قطر کی ایک عدالت نے بھارتی نیوی کے 8 سابق افسران کو آب دوز پروگرام پر جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنادی۔ بھارتی بحریہ کے یہ آٹھ سابق افسر اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزامات پر اکتوبر2022 ء سے قطر میں حراست میں ہیں۔

28 اکتوبر
مالدیپ نے بھارتی فوج کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا
مالدیپ کے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد معیزو نے بھارتی فوج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنی سرزمین پر کسی غیرملکی فوج کو برداشت نہیں کریں گے۔ بھارت نے فروری 2021 ء میں ایک متنازع معاہدے کے تحت مالدیپ میں اپنی فوج تعینات کی تھی۔ مالدیپ کی فورسز کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں موجود بھارتی طیارے ملکی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

29 اکتوبر
ترکیہ کا سوواں یوم تاسیس
جمہوریہ ترکیہ کا 100واں یوم تاسیس منایا گیا جس کی بنیاد آزادی کے قومی ہیرو مصطفیٰ کمال نے رکھی تھی۔ سوسال پہلے عظیم ترک قوم نے خارجی تسلط اور سام راجیت کو شکست دیتے ہوئے ناقابلِ تسخیر فتح حاصل کی تھی۔

آرایم بی کلیئرنگ بینک کا افتتاح
انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا کے پاکستان آر ایم بی کلیئرنگ بینک کی افتتاحی تقریب جناح کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی۔ نگراں وفاقی وزیرخزانہ شمشاد اختر اور پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زائی ڈونگ نے تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر چین کے سفیر کا کہنا تھا کہ آر ایم بی کلیئرنگ بینک کا قیام ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ تعاون کو فروغ دینے کے لیے اہم مالی حمایت بھی ہے، جب کہ نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ بینک کے قیام سے آف شور آر ایم بی مارکیٹوں کو مربوط کرنے میں مدد ملے گی۔

مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی خودکشی
معروف عالم دین عالمی شہرت یافتہ سکالر مولانا طارق جمیل کے بیٹے، عاصم جمیل نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔

۔۔۔

نومبر

2 نومبر
عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان
بالآخر وہ اتفاق رائے سامنے آیا، جس کا کئی مہینوں سے عوام کو انتظار تھا۔ صدر مملکت عارف علوی اور الیکشن کمیشن نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری 2024ء بروز جمعرات کو ہوں گے۔ اس اتفاق رائے سے قبل سپریم کورٹ کے حکم پر صدر اور الیکشن کمیشن کے ارکان میں مشاورت ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں یہ متفقہ فیصلہ سامنے آیا۔

3 نومبر
گوادر میں فوجی جوانوں کی شہادت
ضلع گوادر کے علاقے پسنی سے اورماڑہ جانے والے سیکیوریٹی فورسز کی دو گاڑیوں پر گھات لگائے دہشت گردوں نے حملہ کریا۔ اس افسوس ناک واقعے میں 14 فوجی جوان شہید ہوگئے۔

4 نومبر
میانوالی ایئربیس پر حملہ
پاک فوج نے پاکستان ایئرفورس ٹریننگ ایئربیس میانوالی پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنادیا۔ کلیئرنس آپریشن میں تمام 9 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ دہشت گردوں کے حملے میں پہلے سے گرائونڈ کیے گئے تین طیاروں کو نقصان پہنچا، تاہم فنکشنل آپریشنل اثاثوں میں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔

6 نومبر
طویل القامت پاکستانی شہری کا انتقال
طویل القامت پاکستانی شہری غلام شبیر جدہ میں انتقال کرگئے۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ بک میں 8 فٹ 9 انچ قامت کے حامل غلام شبیر 2000ء سے 2006ء تک مسلسل چھے برس دنیا کے سب سے طویل القامت شخص قرار پائے۔ غلام شبیر صوبہ پنجاب کے ایک گائوں میں 1980ء میں پیدا ہوئے تھے۔

7 نومبر
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم میں انتخابی اتحاد
متحدہ قومی موومنٹ کے وفد نے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف سے ملاقات کرکے آپس میں انتخابی اتحاد پر اتفاق ظاہر کیا۔ ملاقات میں طے کیا گیا کہ دونوں جماعتوں کے تین، تین ارکان پر مشتمل کمیٹی ایک چارٹر تیار کرے گی، جب کہ سندھ میں بڑے انتخابی الائنس کے امکان پر بھی غور کیا گیا۔

9 نومبر
آنکھ کا پہلا مکمل ٹرانسپلانٹ
نیویارک میں سرجنوں نے بتایا کہ انہوں نے دنیا میں پہلی مرتبہ ایک آدمی کی آنکھ کا مکمل ٹرانسپلانٹ کیا ہے، تاہم ابھی یہ یقینی نہیں ہے کہ اسے بینائی مل جائے گی۔ 46 سالہ ارون جیمز سابق فوجی ہیں، ایک حادثے میں ان کی ایک آنکھ اور چہرے کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا تھا۔ وہ دائیں آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ ڈاکٹروں نے چہرے کی کچھ جگہوں پر جلد کے ٹرانسپلانٹ کے ساتھ پہلی مرتبہ مکمل آنکھ کا ٹرانسپلانٹ بھی انجام دیا۔ یہ سرجری 21 گھنٹوں میں انجام پائی۔

کولمبیا کی عدالت کا انوکھا فیصلہ
واشنگٹن پوسٹ میں کولمبیا کی ایک عدالت کا فیصلہ رپورٹ ہوا، جس کے مطابق طلاق یافتہ جوڑے کے پالتو کتے کو ان کے خاندان کا فرد قرار دیا گیا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ 2021ء میں یونیورسٹی ریکٹر جیڈرا لیکس کسٹانو اور ان کی سابق بیوی لینا ماریا میں طلاق کے بعد، خاندان کی سیمونا نامی پالتو کتیا سابق بیوی کے حصے میں آئی تھی۔ لینا نہیں چاہتی تھی کہ اس کا سابق شوہر کتیا سیمونا سے ملنے آئے۔ جذباتی لگائو کی وجہ سے جیڈرالیکس نے عدالت سے رجوع کیا کہ اسے ’سیمونا‘ سے باقاعدگی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ ’سیمونا‘ ان کی فیملی کا حصہ تھی، چناںچہ جیڈرا اس سے باقاعدگی سے ملنے کے حق دار ہیں۔

دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کرگئی
نومبر میں ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا کہ امریکا کے ادارہ برائے مردم شماری نے کہا ہے کہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے، بہتر طبی سہولیات کی وجہ سے لوگوں کی عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی مردم شماری بیورو کا اندازہ ہے کہ عالمی آبادی ستمبر 2023ء کو مخصوص حد سے تجاوز کرچکی تھی، جب کہ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا کی آبادی کی تعداد 10 ماہ قبل ہی یعنی 22 نومبر 2022ء کو آٹھ ارب سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مختلف ممالک لوگوں کو مختلف طریقے سے گنتے ہیں یا بالکل نہیں گنتے۔ سب سے زیادہ آبادی والے چند ممالک جیسے کہ بھارت اور نائیجریا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مردم شماری نہیں ہوئی۔

11نومبر
نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کا انتقال
خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان انتقال کرگئے۔ وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ اعظم خان ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے۔ سیکریٹری خزانہ، وفاقی سیکریٹری وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل اور وفاقی سیکریٹری مذہبی امور رہے۔ ان کا تعلق چارسدہ کے علاقے پڑانگ سے تھا۔ نگراں وزیراعلیٰ کے انتقال کے ساتھ ان کی نگران کابینہ بھی آئینی طور پر تحلیل ہوگئی۔

12نومبر
نئے نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری
جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ خبیر پختونخوا کے نئے نگراں وزیراعلیٰ بن گئے اور اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پاکستان تحریک انصاف نے تقرری کو خلاف آئین قرار دیا اور کہا کہ تقرری کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔ گورنر کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق نئی تقرری آئین کے مطابق ہوئی، سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے باہمی مشاورت کے بعد ارشدحسین شاہ کو نام زد کیا۔

13 نومبر
نگراں کابینہ کی حلف برداری
نئے نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی تقرری کے بعد صوبے کی نو رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھالیا۔ نئی نگراں کابینہ میں سید مسعود شاہ، جسٹس (ر) ارشاد قیصر، احمد رسول بنگش، آصف رفیق، ڈاکٹر نجیب اللہ، ڈاکٹر محمد قاسم جان، انجینئر عامر ندیم درانی، انجینئر احمد جان، سید عامر عبداللہ اور سید فیروز جمال شاہ شامل ہیں۔

15 نومبر
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے دار تبدیل
ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں کوالیفائی نہ کر سکی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کئی انتظامی عہدوں میں تبدیلیوں کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں بابراعظم تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے مستعفی ہوگئے۔ پی سی بی نے مکی آرتھر سمیت تمام کوچنگ اسٹاف کو عہدوں سے برطرف کر دیا اور سابق کپتان محمد حفیظ کو مکی آرتھر کی جگہ ٹیم ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ نئے کپتانوں کی تقرری میں ٹیسٹ ٹیم کے لیے شان مسعود، جب کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے شاہین شاہ آفریدی کا انتخاب کیا گیا۔ تاہم نئے ون ڈے کپتان کے نام کا اعلان نہیں کیا گیا۔

15نومبر
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ
پاکستان اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا، جس کے مطابق آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیوبورڈ کی منظوری سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر ملیں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے طے کردہ تمام معاشی اہداف حاصل کرلیے، جس کے باعث معاہدہ طے پایا۔

18نومبر
آشیانہ ریفرنس میں شہباز شریف کی بریت
احتساب عدالت کے جج ملک علی ذوالقرنین اعوان نے آشیانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم شہبازشریف، فواد حسن فواد، اور احد چیمہ سمیت 10 ملزمان کو بری کردیا۔ نیب ریفرنس تین والیومز اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھا جس میں شہبازشریف اور دیگر ملزمان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

19نومبر
کرکٹ ورلڈکپ 2023ء
2023ء کرکٹ ورلڈکپ، جس کی میزبانی بھارت نے کی، فائنل میچ میں بھارت سے آسٹریلیا کی فتح کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ ٹورنامنٹ کا آغاز 5 اکتوبر کو گذشتہ ورلڈکپ فائنل کھیلنے والی ٹیموں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین میچ سے ہوا۔ پاکستان نے اپنے دو ابتدائی میچوں میں نیدرلینڈ اور سری لنکا کے خلاف کام یابی حاصل کی، لیکن اسے اگلے چار میچوں میں بھارت، آسٹریلیا، افغانستان اور جنوبی افریقہ سے مسلسل شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بنگلادیش سے میچ میں پاکستان نے تیسری کام یابی حاصل کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کے لیے 402 کا ہدف ملا، پاکستان نے فخرزمان کی تیز اننگز کی بدولت 25.3 اوورز میں 200 رنز بنائے تھے کہ بارش کے باعث کھیل روک دیا گیا، ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے مطابق پاکستان 21 رنز سے کام یاب قرار پایا۔ یوں ورلڈکپ کی چوتھی جیت پاکستان کے حصے میں آئی، جب کہ انگلینڈ کے خلاف آخری میچ میں بھی اسے 93 رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ افغانستان نے انگلینڈ اور پاکستان جیسی اچھی ٹیموں کو شکست دی، 7 نومبر کو آسٹریلیا کے خلاف بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن میکس ویل نے ڈبل سنچری کرتے ہوئے اپنی تاریخی اننگز کی بدولت بالآخر فتح آسٹریلیا کی جھولی میں ڈال دی۔ میزبان بھارت نے سیمی فائنل تک دس میچوں میں لگاتار کام یابی حاصل کی۔ 19نومبر کو ورلڈکپ فائنل میں آسٹریلیا نے بھارت کو چھے وکٹوں سے شکست دیتے ہوئے چھٹی مرتبہ ون ڈے ورلڈکپ ٹائٹل اپنے نام کیا، یوں بھارت کا اپنے ملک میں ہونے والے ورلڈکپ کو جیتنے کا سپنا چکنا چور ہو گیا۔

25 نومبر
شاپنگ سنٹر میں آتشزدگی
کراچی میں راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ سنٹر میں خوفناک آتشزدگی کا حادثہ پیش آیا، جس میں 11 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہوگئے۔ عمارت میں ہنگامی اخراج کا راستہ نہیں تھا، درجنوں دکانیں بھی جل کر راکھ ہوگئیں۔

فربہ ترین شخص کی موت
دنیا کے فربہ ترین افراد میں سے ایک، لیونائڈ آندرے 60 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ ان کا وزن لگ بھگ 280 کلوگرام تھا۔ ان کا تعلق روس سے تھا، اور وہ وزن کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے گھر تک محدود تھے۔ ہم سایوں نے 17 نومبر کو انہیں مردہ حالت میں دیکھا گیا، جب کہ 25 نومبر کو یہ واقعہ مختلف ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا۔

29 نومبر
ایون فیلڈ کیس فیصلہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی 11 سال کی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں بری کردیا۔ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی نوازشریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔ عدالت نے لکھا پراسیکیوشن کے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک ڈاکومنٹ بھی موجود نہیں۔

ہنری کسنجر انتقال کر گئے
سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر سو برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ نوبیل انعام یافتہ تھے۔ پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ہنری کسنجر کا انتقال ریاست کنکٹی کٹ میں ان کے گھر میں ہوا۔ 100 برس کی عمر کے باوجود وہ اپنی وفات تک متحرک زندگی گزارتے رہے۔ رواں برس ہی ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا اور صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی، چین میں انہیں سرکاری مہمان کی حیثیت دی گئی تھی۔
یکم دسمبر
سنیئر صحافی اجمل دہلوی کا انتقال
کراچی میں سنیئر صحافی اجمل دہلوی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ ایک مقامی روزنامہ کے مدیراعلیٰ تھے۔ تین بیٹیوں کے والد اجمل دہلوی 1936ء میں دہلی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر وہ سینٹر بھی منتخب ہوئے۔

2 دسمبر
بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی منتخب
پاکستان تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات ہونے کے بعد بیرسٹر گوہر علی خان تحریک انصاف کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے۔ عمر ایوب جنرل سیکرٹری، یاسمین راشد پنجاب کی صدر، حلیم عادل شیخ سندھ، علی امین گنڈاپور خیبر پختون خوا جب کہ منیر احمد بلوچ بلوچستان کے صدر منتخب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے نومنتخب عہدے داروں کا اعلان کیا اور کہا کہ تمام امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پشاور کے علاقہ رانوگڑھی میں ہوئے۔

5 دسمبر
گلوکار حسین بخش گلو کا انتقال
نام ور کلاسیکل گلوکار حسین بخش گلو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 75 برس تھی۔ انہوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ استاد حسین بخش گلو شام چوراسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پٹیالہ گھرانے کے معروف گلوکار استاد نتھو خان کے فرزند تھے جو استاد بڑے غلام علی خان کے بھی استاد تھے۔

10 دسمبر
آرمی چیف کا دورۂ امریکا
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکا کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وہاں ان کی مصروفیات میں امریکی محکمۂ دفاع کے اعلیٰ حکام اور قومی سلامتی کے حکام سے ملاقاتیں شامل ہیں۔ کچھ ملاقاتوں میں آئی ایس آئی چیف بھی ان کے ہم راہ دیکھے گئے۔

11 دسمبر
کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ
بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کی توثیق کردی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارت سے الحاق کے بعد کشمیر کی داخلی خود مختاری کا عنصر برقرار نہیں رہا اور دفعہ 370 ایک عارضی شق تھی۔ درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 370 بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف کشمیری راہ نمائوں، اہل کشمیر، پاکستانی راہ نمائوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ردعمل دیا اور کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔

خودکش حملے میں 23 جوان شہید
ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکورٹی فورسز کی چوکی پر حملے، خودکش دھماکے اور فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں پاک فوج کے 23 جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 11 اور 12 دسمبر کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر آپریشن کیا گیا، جس کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے کو تباہ اور 17 دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔

12 دسمبر
العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی بریت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کر کے نوازشریف کو بری کردیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ کہہ رہا ہے کوئی ثبوت نہیں، سب مفروضات پر مبنی ہے، مفروضوں پر سزا نہیں بنتی۔ کچھ قانونی ماہرین کے مطابق اس فیصلے کے بعد نوازشریف کے لیے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

13 دسمبر
ملٹری کورٹ، سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل
سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ سے متعلق اپنا پہلا فیصلہ معطل کرتے ہوئے، سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مشروط اجازت دے دی۔ عدالت نے کہا فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کرسکتی ہیں، تاہم حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔ انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102 گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ فیصلہ پانچ، ایک کے تناسب سے سنایا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

14 دسمبر
سارہ انعام قتل کیس میں مجرم کو سزائے موت
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے فیصلہ سناتے ہوئے کینیڈین بیوی سارہ انعام کے قاتل شوہر شاہ نوازامیر کو سزائے موت اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جب کہ عدم ثبوت کی بنا پر مجرم کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کردیا۔

15 دسمبر
الیکشن کمیشن کو شیڈول جاری کرنے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے متعلق بے یقینی ختم کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کردیا، جس میں انتخابات کے انعقاد کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس حکم امتناع کو ختم کر کے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ انتخابات کے متعلق شیڈول جاری کیا جائے اور اسے ایگزیکٹیو کی زیرنگرانی کرایا جائے۔

16 دسمبر
لاہور میں مصنوعی بارش
لاہور میں حالیہ برسوں میں پہلی بار مصنوعی بارش برسانے کا کام یاب تجربہ کیا گیا۔ عرب امارات کی ٹیم نے 15 کلومیٹر رقبہ پر شاہدرہ اور مرید کے میں بادل برسائے۔ پہلے مشن میں صبح کلائوڈ سیڈنگ کے لیے 48 فائر فلیئر کیے گئے، دوسرا مشن کچھ دیر بعد شروع کیا گیا۔ لاہور کے تقریباً 10علاقوں میں ہلکی پھلکی بارش ہوئی۔ نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے حکومت متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا۔

22 دسمبر
تحریک انصاف کے انتخابی نشان کا معاملہ
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے اپنے فیصلے میں انٹراپارٹی الیکشن کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف بلے کے انتخابی نشان کی اہل نہیں رہی۔ تاہم 26 دسمبر کو پی ٹی آئی کو پشاور ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا، جس نے تحریک انصاف کی اپیل کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔ عدالت کے سنگل رکنی بینچ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کا سرٹیفکٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی ہدایت دی۔

30 دسمبر
کاغذات نام زدگی مسترد
ریٹرننگ آفیسرز نے پی ٹی آئی کے متعدد اہم راہ نمائوں اور کچھ دوسرے سیاست دانوں کے آئندہ عام انتخابات کے لیے کاغذات نام زدگی مسترد کردیے، جن میں بانی تحریک انصاف عمران خان، شاہ محمود قریشی، قاسم سوری، یاسمین راشد، مرادسعید، زلفی بخاری، اعظم سواتی، حماد اظہر، علی محمد خان، مونس الہی اور پرویزالٰہی شامل ہیں۔ اختر مینگل، فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا کے بھی کاغذات نام زدگی ریٹرننگ آفیسرز نے مسترد کردیے۔

The post ایک برس اور بن گیا تاریخ ؛ 2023 کے روز و شب میں جنم لینے والے اہم ترین واقعات appeared first on ایکسپریس اردو.

مکڑا پیک

$
0
0

بچپن میں ہم سب نے اسکول کے زمانے میں My Hobby  کے موضوع پر مضمون خوب رٹا ہے۔ تقریباً ہم سبھی کے انگریزی کے استاد ڈنڈے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہمیں بتایا کرتے تھے کہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ کیا ہونا چاہیے۔

اگر استاد سکے جمع کرنا یا پھر ڈاک ٹکٹ جمع کرنا لکھوا دیتا تو ساری جماعت پر لازم تھا کہ اس کا مشغلہ اب سے یہی ہو گا جو انگریزی کے استاد نے لکھوا دیا تھا۔ ہر جماعت میں مختلف استادوں نے اپنی اپنی مرضی کا مشغلہ لکھوا دیا مگر آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یادوں کو جمع کرنا بھی ایک اچھا مشغلہ ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے اچھا مشغلہ اور کیا ہی ہوگا کہ انسان یادوں کو جمع کرتا رہے۔ اپنے اس وقت کے لیے جب کوئی دوسرا اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔

جوانی ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ یہاں تک کہ زندگی بھی تو عارضی ہی ہے۔ کسے پتا کون کب اور کیسے چلا جائے اور اس کی صرف یادیں ہی آپ کے پاس رہ جائیں۔ یہ مت سوچیں کہ دوست آپ کو کیسے دیکھتے ہیں، آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔

آپ فقط اپنی یادیں بنائیں اور ایک طرف ہوجائیں اور پھر لگ جائیں اپنی نئی یادوں کو بنانے میں کہ بڑھاپے میں جب شاید کوئی بھی آپ کے پاس نہ ہو تو کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو ہمیشہ آپ کے پاس رہیں گی۔

ایک کتابیں اور دوسری آپ کی خوب صورت یادیں۔ یہ یادیں آپ کو جینے کے لیے توانائی فراہم کریں گی۔ عین ممکن ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے جب آپ کے پاس جینے کی واحد وجہ آپ کی یادیں ہی ہوں۔ حالاں کہ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا نئی یاد بنانے کا مگر جب قسمت اچھی ہو تو خوب صورت یادیں اپنے آپ بن جایا کرتی ہیں۔ وہ کسی کی محتاج نہیں ہوتیں۔

خذیفہ سعودی عرب سے اپنی سالانہ چھٹی پر پاکستان آیا تو اس نے سری پائے جانے کا پلان کرلیا۔ میں نے اس میں مزید اضافہ یہ کیا کہ اگر سری پائے ہی جانا ہے تو ذرا آگے مکڑا پہاڑ کو بھی سر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

خذیفہ یقینی طور پر دل ہی دل میں ہنسا ہوگا بلکہ دل ہی دل میں کیوں، اس نے سب گھر والوں کے سامنے قہقہہ لگایا ہو گا کہ ایک عدد سست پنجابی مکڑا پہاڑ کی چوٹی پر جانے کی بات کر رہا ہے۔ اس کا مجھ پر یوں ہنسنا سمجھ میں بھی آتا ہے۔ پچھلے برس بھی جب ہم وادی سرن میں موجود بلیجہ کے ٹریک کے لیے نکلے تھے تو میں بس راستے میں ہی ڈھیر ہوگیا تھا۔

دور سے ہی بلیجہ کی برفانی چوٹیاں دیکھ کر میں نے ہمت ہار دی تھی اور اپنے پرکھوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دور سے ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔

ایسا نہیں تھا کہ میں نے بالکل بھی ہمت نہ کی تھی بلکہ کم ازکم پانچ گھنٹے میں بھی چلا تھا مگر ابھی بہت سے امتحان باقی تھی۔ بلیجہ کے برف پوش پہاڑوں کے درمیان بنی چراگاہوں تک پہنچنے کے لیے مزید تین سے چار گھنٹے درکار تھے۔

اس لیے میں نے سفید جھنڈا لہراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ تم سب آگے جاؤ اور بلیجہ کی چراگاہوں کو دیکھو۔ وہ الگ بات ہے کہ میرے ساتھیوں نے مجھ سے اجازت طلب نہ کی تھی بلکہ وہ تو مجھ سے بہت آگے نکل چکے تھے اور میں نکما پیچھے ہی استراحت کرتا رہا تھا۔ یہ فقط پچھلے سال کی ہی تو بات تھی۔ کوئی بھلا اسے کیسے بھول سکتا تھا جب کہ میں تو اپنے وہ دکھ بھی نہیں بھولا جو میرے جنم سے پہلے میرے بزرگوں نے میرے ملک کو دیے تھے۔

خذیفہ نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ سیزن گزر چکا ہے۔ ٹھنڈ بہت ہوگی، عین ممکن ہے کہ برف کی وجہ سے راستہ بھی بند ہو چکا ہو۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ جہاں تک ممکن ہوسکا جائیں گے مگر مکڑا پہاڑ پر اپنے قدم ضرور ڈالیں گے۔

معلومات لینے پر معلوم ہوا کہ سری پائے پوائنٹ سے گھوڑا ملتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ساتھ گھوڑے والا بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے پاپی پیٹ کے لیے آپ کو سری پائے سے مکڑا پہاڑ کے بیس کیمپ تک لے جائے گا۔

دوسروں لفظوں میں آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ آپ کو سری سے اٹھا کر مکڑا پہاڑ کے قدموں کا پھینکے گا اور آگے پھر مکڑا پہاڑ جانے اور آپ جانیں۔ طے یہی پایا کہ میں جمعہ کی رات تک مانسہرہ پہنچ جاؤں گا اور پھر صبح سویرے ہم سری پائے کے لیے نکل جائیں گے۔

سری پائے کے لیے نکلتے نکلتے ہمیں آٹھ تو گھر ہی بج گئے۔ ویسے بھی آج ہمیں صرف سری پائے تک جانا تھا یعنی ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا۔ لوکل ٹرانسپورٹ پر شمالی علاقے جات جانے والوں کے لیے مانسہرہ وہی اہمیت رکھتا ہے جو سندھ، بلوچستان اور لوئر پنجاب سے آنے والوں کے لیے پنڈی رکھتا ہے۔

ہر چھوٹے بڑے سیاحتی مقام کی گاڑی آپ کو مانسہرہ لاری اڈے سے ملے گی، اور گاڑیاں بھی اچھی حالت میں۔ اگر آپ کے شہر سے مانسہرہ کو براہ راست گاڑی جاتی ہے تو ہمیشہ پہلے صبح سویرے مانسہرہ پہنچیں، اچھا ناشتہ کریں اور پھر اپنے اصل مقام پر جانے کے لیے گاڑی پکڑ لیں۔ اگر آپ کو شوگران جانا ہے تو آپ کو ’’کیوائی‘‘ جانا پڑے گا۔ آپ ناران، یا مہانڈری کی گاڑی پکڑ لیں اور راستے میں کیوائی اسٹاپ پر اتر جائیں۔

کیوائی فقط ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور اس کا اسٹاپ بھی ایک ہی ہے۔ اس لیے فکر مند بالکل نہ ہوں کہ آپ کو کون سے اسٹاپ اترنا ہے۔ ایک ہی اسٹاپ ہے۔

آپ بس گاڑی والے کو کیوائی بتا دیں، وہ آپ کو اتار دے گا۔ گاڑی والے چوںکہ پورا کرایہ لیتے ہیں، اس لیے ناران والی گاڑی میں بیٹھ کر پورا کرایہ دینے سے بہتر ہے کہ آپ مہانڈری والی گاڑی میں بیٹھ جائیں اور کیوائی اتر جائیں۔ کیوائی سے جیپ آپ کو شوگران یا سری پائے تک لے جائے گی۔ سیزن ہو تو جیپ کا کرایہ زیادہ ہے۔

آف سیزن میں جیپ کیوائی سے شوگران تک جانے کا 2500 جب کہ کیوائی سے سری پائے تک جانے کا 4500 چارج کرتی ہے۔ سیزن میں یہی کرایہ دس ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ صبح کیوائی پہنچ چکے ہیں تو سیدھا سری پائے جائیں۔ موج مستی کریں اور شام اسی جیپ پر واپس آ جائیں۔ اگر دوپہر گزر چکی ہے تو پھر مناسب ہے کہ آپ کیوائی سے شوگران جائیں۔

وہاں رات قیام کریں اور پھر صبح سویرے شوگران سے سری پائے جائیں۔ سہ پہر تک واپس ضرور کریں۔ اگر آگے جانے کا کوئی پلان ہو تو مغرب سے پہلے پہلے آپ کو واپس کیوائی میں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو مزید سفر بھی لوکل ٹرانسپورٹ پر کرنا ہے تو مغرب سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے آپ کو کیوائی میں ضرور ہونا چاہیے۔

سیزن میں تو پھر بھی مغرب کے کچھ دیر بعد لوکل ٹرانسپورٹ مل جاتی ہے مگر آف سیزن میں آپ کو سورج ڈوب چکنے کے بعد لوکل ٹرانسپورٹ کا ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ ہمیں چوںکہ سری پائے جانا تھا تو بہتر یہی جانا کہ کیوائی سے ہی جیپ سری پائے کے لیے بک کی جائے نہ کہ شوگران سے۔ ڈرائیو سے ہم نے پہلے ہی بات کرلی تھی کہ راستے میں ہم کچھ دیر کو سستانے کے واسطے شوگران میں رکیں گے۔ کیوائی میں جیپ والوں کی لمبی قطار تھی۔

سیزن میں یہاں جیپ بمشکل ملتی ہے مگر آف سیزن ہونے کی وجہ سے سب خالی پڑے تھے۔ کیوائی کے ایک گندے سے واش روم میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہلکا ہونا پڑا کہ اس گندے سے واش روم سے گزارہ کرنے کے علاؤہ فی الحال کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

کیوائی میں ہی ایک دکان سے کچھ ڈرائی فروٹس اور Red Bull کے دو کین خرید لیے۔Red Bull  سمیت آج تک میں نے کبھی کوئی سافٹ ڈرنک نہیں پی۔ وجہ کوئی خاص نہیں بس ایویں ان سب کا شوق نہیں اور مہنگی بھی تو یہ کتنی ہوتی ہیں۔

خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ کنجوس تو میں بلا کا ہوں ہی مگر جب کسی چیز پر دل آ جائے تو بس پھر میں پوری آب و تاب کے ساتھ پگھل جاتا ہوں۔ خاص کر خوب صورت اور رنگ برنگی جوتوں کی دکانوں پر۔ خذیفہ کا خیال تھا کہ Red Bull پینے کے بعد میں کچھ کچھ طاقت پکڑ لوں گا اور ٹریک پر گھوڑا ہو جاؤں گا۔

اسے میری فکر تھی یا نہیں، یہ مجھے نہیں پتا مگر اسے اپنے ٹریک کی فکر ضرور تھی۔ اسے تقریباً تقریباً یقین تھا کہ میری وجہ سے جس طرح اس کا بلیجہ ٹریک رہ گیا تھا اور مکڑا کا ٹریک بھی میری وجہ سے کہیں نہ کہیں لگنے ہی والا تھا۔ اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ مکڑا ٹریک کام یابی سے ہوجائے حالاں کہ اسے زیادہ امید نہیں تھی مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہا تھا کہ ٹریک ہو جائے۔

میرا پوچھیں تو میں نے خذیفہ کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ جہاں میں تھک گیا بس وہی بیٹھ جاؤں گا، پھر مکڑا جائے بھاڑ میں۔ میں تو بس مکڑا کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا، یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مکڑا کو مکڑا کہتے کیوں ہیں، میں تو بس مکڑا کی ٹانگوں پر رینگنا چاہتا تھا۔

میں تو اس وقت ہیری پوٹر کا وہ سنہرے بالوں والا رون ویزلی تھا جسے مکڑوں سے شدید ڈر لگتا تھا، اس کے باوجود اس نے ایک بار اپنے ایک دوست اور ہوگوڑس کے چوکی دار ہیگرڈ کو بچانے کے لیے ایک بہت بڑے مکڑے کا سامنا کیا تھا۔ فکر صرف یہ تھی کہ رون ویزلی پر مصبیت آن پڑی تھی مگر میں نے یہ مصیبت خود مول لی تھی۔ مجھے ہی یہ مکڑا جانے کا کیڑا تنگ کر رہا تھا جب کہ خذیفہ تو صرف سری پائے تک ہی رہنا چاہتا تھا۔

تو شوگران کیا ہے؟ ایک کھلا ہرا سا میدان ہے جس کے ایک کونے پر سرکاری بڑا سا ہوٹل ہے جو اب بند ہوچکا ہے کیوںکہ شوگران اب زیادہ سیاح نہیں آتے۔ اسی بڑے سے سرکاری ہوٹل کے پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے ہوٹلز ہیں کیوںکہ ان کا دھندہ بڑا اچھا چلتا ہے۔ وہ کیا ہے ناں کہ شوگران میں سیاح بہت آتے ہیں اسی لیے ان کا دھندہ بھی اچھا چل رہا ہے۔

یہ عجب سا دھندا کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ البتہ شوگران کا جنگل بڑا خوب صورت ہے۔ بڑے بڑے ایک ساتھ کھڑے درخت اور درختوں میں سے گزرتی ہوئی پراسرار ٹھنڈی ہوا۔ یہ درخت اتنے گھنے ہیں کہ اگر سخت دھوپ بھی نکلی ہو تو نیچے زمین تک دھوپ نہیں پہنچ پاتی۔ شوگران کبھی خوب صورت تھا بلکہ بہت خوب صورت تھا۔

ہمارے بچپن میں ہی ٹی وی کے بہت سے گانوں جن میں سب سے مشہور گانا سلیم جاوید کا ’’بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں‘‘ اور ڈراموں کی شوٹنگ شوگران میں ہوئی تھی، مگر اب شوگران ویسا نہیں رہا۔ اب شوگران خراب ہو رہا ہے۔

زیادہ تر ہو بھی چکا ہے۔ ایک خواہ مخواہ کی چھوٹی سی زپ لائن لگی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی شاید 30 میٹر ہوگی۔ ٹکٹ چار سو روپے ہے۔ زپ لائن کا واحد مقصد صرف اور صرف ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ شوگران سے خذیفہ نے مجھے موسیٰ کا مصلہ دکھانا شروع کیا۔ ذرا دو منٹ گزرتے تو وہ شروع ہوجاتا اور ہر بار اس کے موسیٰ کے مصلے کی سمت مختلف ہوتی تھی۔ شوگران کے ہرے بھرے میدان میں بیٹھ کر خذیفہ نے سامنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ سامنے والا پہاڑ موسیٰ کا مصلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اتنے میں ایک مقامی اپنا کیمرا پکڑے آگیا کہ وہ فقط پچاس روپے میں ہماری ایک زبردست سی تصویر بنائے گا۔ خذیفہ نے مقامی سے موسیٰ کے مصلہ بارے تو پوچھا تو اس نے جس پہاڑ کو موسیٰ کا مصلہ قرار دیا وہ بالکل اس کے مخالف سمت میں تھا جو خذیفہ نے بتائی تھی۔ خذیفہ کھسیانا سا ہوگیا۔ وہ دو سال پہلے یہ پہاڑ سر کرچکا تھا۔ شوگران سے ہی موسیٰ کا مصلہ، مکڑا سمیت بہت سے پہاڑ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں مگر ظاہر سی بات ہے کبھی کبھی یہ پہاڑ دیکھنے والا ان کے چہرے کو بھول سا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بہت پہلے ایک ہندو گڈریا اس پہاڑ پر رہتا تھا۔ یہی پہاڑ اس کا مسکن تھا۔ وہ سارا دن اپنا ریوڑ یہاں چراتا اور رات قریب ہی بنے اپنے عارضی گھر میں قیام کرتا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور اپنا نام موسیٰ رکھا۔ موسیٰ جس پہاڑ پر رہتا تھا، اس کی چوٹی بالکل سیدھی تھی۔ موسیٰ وہی اپنی نماز ادا کرتا۔ گویا کہ موسیٰ نے اسی پہاڑ کی چوٹی کو اپنا جائے نماز یعنی کہ مصلہ بنا لیا تھا۔ اسی لیے اسے موسیٰ کا مصلہ کہا جاتا ہے۔

موسیٰ جب فوت ہوا تو اسی پہاڑ پر دفن ہوا۔ آنے والے وقتوں پر ہم بھی کبھی موسیٰ کے مصلے کو اپنا مصلہ بنائیں گے۔

اس پہاڑ کو قریب سے اور بہت قریب سے ضرور دیکھیں گے جس پر موسیٰ رہا کرتا تھا، جس کوہ طور پر موسیٰؑ پر وحی نازل ہوتی تھی، جس کی تجلی نے موسیٰؑ کے قلب کو نور سے بھر دیا تھا، وہ کوہ طور تو دیکھنا شاید ہماری قسمت میں نہیں مگر وہ کوہ جس پر اپنے موسیٰ کی قسمت پھری، اس کے دل پر بھی نور اترا، کم ازکم ہم اس پہاڑ کو دیکھنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں جس پر اپنے پاکستانی موسیٰ کا دل بھی موم ہوا، اسے بھی کوئی تجلی دکھائی دی ہوگی ورنہ کوئی ایسے ہی اپنا ایمان تھوڑا بدلتا ہے۔

شوگران کے ہلکے پھلکے جنگلات سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے سری پائے کی جانب تختِ سفر باندھا۔ اگر آپ کے گردے میں پتھری ہے یا دماغ درست جگہ پر نہیں ہے تو پہلی فرصت میں جیپ سے سری پائے جائیں۔ جیپ کے علاوہ ویسے کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے ماسوائے ٹریک کرنے کے۔ شوگران تک تو سڑک ٹھیک ہے مگر جوں ہی آپ ایک دو قدم شوگران سے باہر نکالتے ہیں تو سڑک کے نام پر مذاق شروع ہوجاتا ہے۔

آپ جوں جوں ہچکولے کھاتے جاتے ہیں، توں توں دماغ ٹھکانے آنا شروع ہوجاتا ہے کہ اس طرف آئے ہی کیوں۔ گرد سے اَٹی ہوئی سڑک، معاف کیجیے گا سڑک کہہ کر میں نے اس سڑک نما شئے کی شاید توہین ہی کردی۔ مسلسل اونچائی ہے اور بھرپور کوشش کے باوجود بھی آپ ایک جگہ پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ایک جیپ میں صرف ہم دو ہی افراد تھے، اس لیے شاید جھٹکے بھی کچھ زیادہ محسوس ہو رہے تھے۔ شوگران اب بہت پیچھے نہیں بلکہ بہت نیچے رہ گیا تھا۔

پہلے ایک چھوٹا سا سری پوائنٹ آیا جہاں رکنا بالکل بھی ضروری نہیں۔ کچھ دیر بعد اصل سری پوائنٹ آئے گا بلکہ آپ اسے ایک پورا شہر کی سمجھیں۔ جیپوں کی لمبی سی قطار، ہلکی سی ٹھنڈ اور آغاز پر ایک کشتی والا جھولا۔ بس یہی سری پوائنٹ ہے۔ ہمارے جیپ والے کا کوئی چاچا ماما تھا جس نے یہاں ٹینٹ لگائے ہوئے تھے۔

جیپ والے نے ہمیں اسی شخص کے حوالے کیا اور خود واپس چلتا بنا۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور چلنا شروع کردیا۔ نہ جانے ان بابا جی کا کیا نام تھا جن کے ٹینٹ سری پوائنٹ پر لگے تھے۔ سری بنیادی طور پر ٹینٹوں کا ہی شہر ہے۔ مختلف پرائیویٹ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹینٹوں کا شہر سجا رکھا ہے۔

ساتھ میں واش روم کی سہولت بھی ہے۔ چائے پکوڑوں سمیت سب ناشتہ پانی آپ کو یہاں سے ملے گا۔ ٹینٹ میں بستروں کا انتظام بھی ہوگا۔ اگرچہ سری پائے کھانے کی ایک لذیذ ڈش ہے، خاص کر پائے مگر مانسہرہ اور اس کے مضافات میں سری پائے کھانے سے زیادہ دیکھنے کی شے ہے، لطف اندوز ہونے کی شے ہے۔ سری پائے جہاں ہر وقت بادل آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں اور آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔

چند ایک بادل کے ٹکڑے شرارتاً کبھی سورج کے سامنے آ جاتے ہیں تو اس شرارت میں سری کی ٹھنڈی ہوائیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ بادلوں کی اس شرارت کو وہاں سیاحت کو آنے والے سیاح ٹھنڈ کی صورت میں جھیلتے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد جب آوارہ بادل پھر ایک طرف ہوتے ہیں تو سورج کی شعاعیں سری اور پائے کی پہاڑیوں پر پڑتی ہیں جس سے جسم کو کچھ سکون ملتا ہے۔ سری پائے کو سری پائے ہی کیوں کہا جاتا ہے۔

اس کے پیچھے بہت سی کہانیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ بہت پہلے یہاں ایک ہندو لڑکی اور ہندو لڑکا رہتے تھے۔ لڑکی کا نام سری تھا جب کہ لڑکے کا نام پایہ تھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھا۔ دونوں کی محبت کے چرچے چاروں سُو تھے۔

دونوں کی رام لیلا امر ہوئی یہاں تک کہ وہ لڑکی جس پہاڑی پر رہتی تھی اسے سری کہا جانے لگا اور لڑکا جس پہاڑی پر رہتا تھا اسے پایہ کہا جانے لگا۔ ایک اور مزید کہانی یہ ہے کہ ایک لڑکی اپنے اہل وعیال اور چند بکریوں کے ہاں یہیں کہیں قریب ہی رہتی تھی۔ پہاڑوں پر لوگ اپنے جانوروں کو چَرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے جانور ہانک کر اپنے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔

ایک دن اسی لڑکی کی بکریاں جب شام کو گھر واپس لوٹیں تو گنتی کرنے پر ایک بکری کم نکلی۔ لڑکی نے بکری بہت تلاش کی مگر نہ ملی۔ کچھ دنوں کے بعد بکری نے تو کیا ہی ملنا تھا، اس کی سری اور پائے الگ الگ پہاڑیوں سے ملے۔ جس پہاڑی پر بکری کی سری ملی، اسے سری کہا جانے لگا جب کہ جس پہاڑی پر سے اس کے پائے ملے اسے پایہ کہا جانے لگا۔ ممکن ہے آپ کے پاس سری پائے کی کوئی تیسری چوتھی کہانی بھی ہو۔ ڈھلتی شام کے ساتھ ہم دونوں سری پر بیٹھے تھے اور ہماری نظروں کے عین سامنے مکڑا پہاڑ کھڑا تھا۔

نہ تو ہیبت ناک تھا اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا پہاڑ تھا البتہ وسیع بہت تھا اور وسیع القلب بھی تھا۔ بڑے دل کا مالک تھا تبھی تو مجھ جیسی چھوٹی موٹی مکڑیوں کو اپنے اوپر رینگنے کی اجازت دیتا تھا۔ مکڑا پہاڑ سے پہلے پایہ میڈوز تھا۔ سرخی مائل پایہ میڈوز ایک منفرد سی چراگاہ تھی۔ یہ ایک نہیں تھی بلکہ تین تھیں۔

تین پہاڑیاں تھیں جیسے کسی نے گیلی ریت پر تین انگلیوں سے ڈھب کھربی لکیریں کھینچ دی ہوں۔ چوں کہ سری پائے کا سیزن ختم ہوچکا تھا اس لیے یہاں سیاحوں کا رش تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹینٹوں کا جو عارضی شہر بنا ہوا تھا وہ بھی بہت حد تک ختم ہوچکا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی تھوڑی برف پڑ چکی تھی۔ ایک برف اور پڑتی تو یہ عارضی شہر اب تک ختم ہو چکا ہوتا۔ ابھی ٹھنڈ تو تھی مگر برف کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے یہ عارضی شہر ابھی قائم تھا۔ پہاڑوں پر شام ہمیشہ ہی جلدی اترتی ہے۔

ابھی سورج غروب ہوا ہی تھا کہ رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلنے لگا۔ میں اور خذیفہ سری پہاڑی کے اونچے سے ٹیلے پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگے۔ اپنے اپنے دکھڑے ایک دوسرے کو سنانے لگے۔ ویسے تو ہم دونوں ہی سارا سال ایک دوسرے کا دماغ چاٹتے رہتے ہیں مگر پھر بھی ساتھ بیٹھ کر چغلیاں کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔

پہاڑوں پر آپ کو آسمان مکمل طور پر صاف ملتا ہے۔ نہ کوئی آلودگی نہ کوئی شورشرابہ۔ جلد ہی سارا آسمان ستاروں سے بھر گیا اور مِلکی وے آہستہ آہستہ نظر آنے لگی۔ ہم پچھلے کچھ عرصے سے ایک مشہور انگریزی فلم Interstellar  ڈسکس کرتے رہے تھے۔ ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھ کر ہم نے جو اس فلم کو پھر سے ڈسکس کرنا شروع کیا تو وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ بیچ بیچ میں کوئی ہماری طرف ٹارچ کرتا جیسے ہمیں تلاش کرنا چاہ رہا ہو۔

وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ شام اور پھر رات پڑنے پر جب ہم ٹینٹ میں نہیں پہنچے تو ٹینٹ والے بھائی صاحب ہمیں ڈھونڈنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے تھے، کیوںکہ یہاں راتوں میں اکثر شیر انکل نکل آتے ہیں اور چھوٹے موٹے معصوم جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ ٹھنڈ بڑھنے لگی تو ہم نے واپس ٹینٹ میں آنے میں ہی عافیت جانی۔ رات اس قدر شدید ٹھنڈ تھی کہ میں نے میٹرس کے اوپر ایک کمبل بچھایا اور اپنے اوپر ایک کمبل لے لیا۔

اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ میرے اوپر بھی کمبل تھا، میرے نیچے بھی کمبل تھا یعنی میں کمبلوں میں سینڈوچ بن چکا تھا۔ بات صرف یہی پر ختم نہیں ہوئی۔ میرے کمبل کے اوپر ایک عدد رضائی بھی تھی، اور میں جرابیں، سوئیٹر اور جیکٹ پہن کر اپنے بستر میں گھسا ہوا تھا اور پھر بھی کانپ رہا تھا۔ خدا خدا کرکے رات کٹی اور سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی ہماری آنکھ کھل گئی۔

میرا بس چلتا تو انہی بستروں کے درمیان سینڈوچ بنارہتا مگر خذیفہ نے زبردستی میرے اوپر سے کمبل رضائی اتاری۔ مجبوراً مجھے باہر نکلنا ہی پڑا۔ باہر نکلا تو پراٹھوں کی بھینی بھینی سی مہک نتھنوں کو ایک عجب سا رومانس فراہم کر رہی تھی۔ ہمارے سامنے مکڑا پہاڑ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ شاید وہ ہماری میزبانی کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اس پر شاید رات کے کسی پہر ہی وحی کردی گئی تھی کہ ایک عدد سست انسان تم پر رینگنے کی جسارت کرنے والا ہے اور میں بھی تو ایسے ہی منہ اٹھا کر مکڑا کی چوٹی کی جانب نہیں چل پڑا تھا۔

میں نے ایک رات پہلے مکڑا پہاڑ کے حضور ایک عارضی پیش کی تھی۔ اس سے اجازت طلب کی تھی کہ کیا مجھے اس پر رینگنے کی اجازت ہے۔

پہاڑوں پر چڑھنے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ یہ پہاڑوں کا ظرف ہے کہ وہ زیادہ تر ہمیں اجازت دے دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے آنگن میں کچھ دیر اٹھکیلیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ انکار بھی کردیتے ہیں۔

آپ پہاڑوں کی اجازت کے بنا اس کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر پہاڑ کو آپ کے طور طریقے پسند نہ آئے تو وہ آپ کو اوپر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ پر ایسی پھونک ماریں گے کہ آپ کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔

آپ کا سانس پھولتا چلا جائے گا اور تھک ہار کر آپ خود ہی واپس چلے جائیں گے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ مکڑا پہاڑ نے ہمیں اپنی چوٹی تک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا تھا ہم سری سے گھوڑے لیں گے اور پائے میڈوز سے ہوتے ہوئے مکڑا بیس کیمپ تک جائیں گے۔ بیس کیمپ تک جانے کے لیے گھوڑے کی سہولت میسر تھی۔

جب سہولت تھی تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا ہمیں بے وقوفی لگا، اس لیے رات کو ہی گھوڑے والے سے بات کرلی۔ طے یہ پایا کہ گھوڑے والے دو انکل صبح آٹھ بجے تک ہمارے پاس پہنچ جائیں گے مگر آٹھ بجے تک گھوڑے والوں کا دوردور تک نام و نشان تک نہیں تھا۔

انھیں بار بار فون کیا تو پتا چلا کہ جناب ابھی تک سو رہے تھے۔ دل ہی دل میں گھوڑے والے کی شان میں زبردست گستاخی کی۔ شدید انتظار کے بعدگھوڑے والا تقریباً نو بجے پایہ پہاڑی کے پیچھے سے گھوڑا دوڑاتا ہوا نمودار ہوا۔ ہم اپنا سامان کب کا پیک کرکے سری ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے تھے کہ ہماری گاڑی آئے تو ہم اپنی منزل کا پہلا پڑاؤ پار کریں۔ دو تین پراٹھے ہم نے پیک کروائے حالاںکہ اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔

واپسی پر وہی پراٹھے ہم نے گھوڑے والوں کو کھلا دیے۔ ضرورت اس لیے نہیں تھی کیوںکہ ہم نے مانسہرہ سے کافی سارا ڈرائی فروٹ لے لیا تھا جو کہ ٹریک کے لیے کافی تھی۔ ٹریک پر ویسے بھی آپ ہلکی پھلکی مگر طاقت والی چیزیں کھاتے ہیں نہ کہ تیل میں تیرتے ہوئے پراٹھے۔ آپ جب بھی کسی ٹریک پر جائیں تو کھجور، بادام اور کِشمِش ضرور ساتھ رکھیں، یہ آپ کے بہت کام آئے گا۔ ہمارے ساتھ اب دو گھوڑے تھے اور دو ہی ان کے مالک۔ پروگرام کچھ یوں تھا کہ دونوں گھوڑوں کے پاس ایک آدمی کو بیس کیمپ پر چھوڑ دیں گے اور دوسرے آدمی کو بطورِ گائیڈ استعمال کرتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر جائیں گے۔

تقریباً نو بجے ہم نے اپنا سفر سری سے شروع کیا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ سورج ٹھیک ٹھاک چمک رہا تھا مگر بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ جلد ہی ہم نیچے اتر گئے۔ سری پہاڑی بہت پیچھے رہ گئی اور پائے میڈوز شروع ہوگیا۔ ایک دن پہلے سنا تھا کہ مکڑا بیس کیمپ تک راستہ بالکل سیدھا سیدھا ہے مگر یہ اتنا سیدھا بھی نہیں تھا۔

مقامیوں کے لیے یہ معمول کی اترائی چڑھائی ہوگی مگر مجھ جیسے نوجوان کے لیے تو ایسے تھا جیسے پہاڑ ابھی سے شروع ہوچکا ہو۔ پائے میڈوز کی چڑھائی چڑھتے ہوئے گھوڑے کے نتھنوں سے اچھی خاصی ہوا خارج ہوتی، جس کا مطلب تھا کہ گھوڑے صاحب کا چڑھائی چڑھتے ہوئے بہت زور لگ رہا ہے۔

پگڈنڈی بالکل تنگ سی تھی اور گھوڑا بھی اپنی دھن میں بالکل ہی کنارے پر چل رہا تھا۔ پگڈنڈی کے نیچے گہری کھائی تھی۔ خذیفہ گھوڑے والے سے ہندکو زبان میں مسلسل باتیں کر رہا تھا جب کہ میں نظاروں میں مصروف تھا۔ کچھ ہی دیر کے بعد گھوڑے رک گئے اور گھوڑے والے نے انھیں کھانے کے لیے کچھ دے دیا۔ یقیناً گھوڑے تھک چکے تھے۔

اتنی چڑھائیاں چڑھے تھے۔ ہم تو بس ان کے اوپر سوار تھے۔ مکڑا پہاڑ ہمارے بالکل قریب تھا مگر ابھی کچھ فاصلہ تھا۔ ہمارے دائیں جانب خوب صورت پہاڑیاں اور میڈوز بنے ہوئے تھے۔ گھوڑے والے نے بتایا کہ یہ پایہ 2 ہے۔

سری پائے میں ہر سال بہت سے سیاح آتے ہیں جن میں سے چند ایک گھوڑے پر سوار ہوکر پائے میڈوز کی سیر کرتے ہیں یا بہت ہوا تو چند سیاح مکڑا پہاڑ کے بیس کیمپ تک چلے جاتے ہیں۔ جو سیاح مکڑا پہاڑ چڑھنے کی خواہش کرتے ہیں وہ فقط چند ایک ہی ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی جو مکڑا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں وہ فقط ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ میرے گھوڑے کو بھی میری طرح گیس پرابلم تھا۔ بے چارہ تھوڑا سی چڑھائی چڑھتا اور پھر گیس پرابلم شروع ہوجاتا۔ اس گھوڑے پر سفر کرتے ہوئے مجھے میرے ایک دور کے انکل یاد آ گئے۔ وہ گیس پرابلم کا شکار تو نہیں ہیں مگر ان کے لیے یہ عام سی بات ہے۔

موصوف گرمیوں میں لاچا پہنتے تھے اور اگر چار پانچ آدمیوں کے درمیان کھڑے بھی ہوتے تو مکمل آرام و سکون کے ساتھ گیس خارج کرتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اپنا لاچا جھاڑ دیتے۔ میرا گھوڑا بھی بالکل ایسا ہی تھا۔

وہ پایہ میڈوز کی چڑھائیاں چڑھتا جاتا اور گیس خارج کرتا جاتا جیسے یہ اس کے لیے کوئی معمولی بات ہو اور یقینی طور پر ہوگی بھی۔ یہ انسانوں والے چونچلے اب گھوڑوں میں تھوڑا ہوتے ہیں۔ میرے گھوڑے کا گیس پرابلم تو ختم نہ ہوا مگر پائے میڈوز ختم ہوگیا۔ بالکل باریک سی پگڈنڈی پر ایک دم سے چڑھائی آئی اور ہم مکڑا پہاڑ کے چرنوں میں پہنچ چکے گئے۔

مکڑا بیس کیمپ پر پہنچ کر ہم نے کھانے پینے کا سامان ایک چھوٹے بیگ میں منتقل کیا۔ پانی کی ایک ایک بوتل ہاتھ میں پکڑ لی۔ میں نے نیچے سے آسمان کی طرف دیکھا تو چوٹی زیادہ دور نہیں لگی۔ میں نے گھوڑے والے سے پوچھا کہ کیا بس یہ چوٹی ہے؟ ہمیں بس یہاں تک ہی جانا ہے۔ گھوڑے والے نے بھی اثبات میں جواب دیا کہ ہاں بس اسی چوٹی تک جانا ہے۔

میں بھی خوش ہوگیا کہ یہ زیادہ دور تو نہیں۔ مکڑا پہاڑ کو مکڑا کیوں کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ مکڑا پہاڑ واقعی مکڑے کی طرح دکھائی دیتا ہے، اس لیے اسے مکڑا کہتے ہیں مگر مکڑا کی ابھی تک یہ شکل نہیں بن رہی تھی۔ ہم نے چلنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ سانس پھولنا شروع ہوگئی۔ نیچے سے ہی لال رنگ کے پھول بہت پیارے لگ رہے تھے۔

ابھی تک کوئی بڑی چڑھائی تو نہیں آئی تھی مگر چڑھائی مسلسل تھی۔ نیچے سے جو ایک چوٹی بہت قریب نظر آرہی تھی، مجھے گمان ہونے لگا تھا کہ یہ مکڑا کی چوٹی تو کم ازکم نہیں ہوسکتی کیوںکہ مجھے مکڑا پر یقین پر ہو یا نہ ہو مگر اپنے اوپر ضرور تھا کہ اتنی آسانی سے میری بچت نہیں ہو سکتی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

اللہ اللہ کر کے ہم اس چوٹی پر پہنچے مگر وہ مکڑا کی چوٹی تو نہ تھی۔ میری حالت تقریباً خراب ہوچکی تھی۔ میں نے زبردستی سانس بریک لے لی۔ اب بنتی بھی تھی۔ پانی پیا، کچھ بادام کھائے اور تھوڑا سا سستا لیا۔ خذیفہ نے ایک انرجی ڈرنک دیتے ہوئے کہا کہ یہ پی لو اور پھر اس کے قصیدے پڑھنا شروع کردیے کہ جم جانے والے لڑکے پیتے ہیں، آپ کچھ کھانا پینا نہ بھی کرو اور بس اس کا ایک کین پی لو تو تم ٹریک پر بھی گھوڑے ہوجاؤگے۔

مجھے یہ سب باتیں بس کہانیاں لگ رہی تھیں مگر پھر بھی چپ چاپ پی لی۔ آخر کو پیسے خرچ کیے تھے بھائی۔ میں نے خذیفہ سے بھی شکایت کی کہ یہ گھوڑے والا تو کہہ رہا تھا کہ بس یہی چوٹی ہے۔ خذیفہ نے بھی ڈانٹ پلائی کہ بس چپ چاپ چلتے رہو۔

اسے خود نہیں پتا کہ چوٹی کہاں ہے۔ یہاں خذیفہ غلط تھا۔ ہمارے گائیڈ کو نہ صرف چوٹی کا نہیں پتا تھا بلکہ اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ راستہ کہاں سے ہے۔ ایک ہی پگڈنڈی تھی اور ہم اسی پر چلتے جا رہے تھے۔ نیچے سے جو دور لال پھول نظر آ رہے تھے وہ بھی اصل میں لال پھول نہ تھے بلکہ کچھ عجیب سے لال پتے تھے۔

جتنے خوب صورت وہ دور سے نظر آتے تھے، اتنے وہ تھے نہیں مگر پھر بھی اس لحاظ سے اچھے تھے کہ ایسی شے ہم نے زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ انہی لال پتوں پر درمیان میں ایک سیج سی بنی تھی جیسے کسی کرسی کے گرد پھول خود سے لگائے گئے ہوں۔ وہاں بیٹھ کر کچھ تصاویر بنوائیں اور آگے کو چل دیے۔

کچھ ہی دیر کے بعد ایک عجیب و غریب سی ریت والا علاقہ شروع ہوگیا۔ جیسے لال نوکیلی اینٹوں کو پیس دیا گیا ہو۔ یہاں چڑھائی نہیں تھی بلکہ شدید چڑھائی تھی۔ اتنی چڑھائی کی میرے لیے اکیلے چڑھ پانا بہت مشکل ہورہا تھا۔ گائیڈ صاحب نے اپنا مردانہ ہاتھ میری طرف بڑھایا اور مجھے کَس کے پکڑلیا۔ یوں وہ مجھے کھینچنے لگے۔ راستہ تنگ اور بہت تنگ ہوچکا تھا اور اسی تنگ راستے پر چڑھائی بھی تقریباً 80 درجے کی تو لازمی ہوگی۔ ایسے میں میرے لیے کسی سہارے کے ساتھ بھی چلنا ناممکن رہا۔

میں نے اپنے گائیڈ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر اوپر چڑھنے لگا۔ چڑھائی در فٹے منہ ہوچکی تھی۔ ایک جگہ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ ایک پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ قدم ذرا تیزی سے اٹھانا پڑتا تھا۔ ایسے میں ایک جگہ میرا پاؤں ٹھیک طرح سے جم نہ سکا۔ پاؤں کے نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر تھے جو سِرک گئے۔

میں لڑکھڑا گیا اور لاشعوری طور پر فوراً بہ مشکل بیٹھ گیا۔ یہ تنگ راستہ جیسے تیسے گزرا سو گزرا مگر آگے دیکھ کر حالت عجیب سی ہوگئی۔ ہم پہلے ہی یہاں مشکلوں سے پہنچے تھے۔ جیسے تیسے بھی آ گئے، پہنچ تو گئے۔ کم از کم ایک تنگ سی پگڈنڈی تو تھی مگر آگے تو راستہ ہی نہیں تھا۔ مکمل طور پر گم شدہ۔ میں وہیں ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔

میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اس گائیڈ کو خود درست راستے کا نہیں پتا۔ واپس جانے کو بھی جی نہ چاہتا تھا۔ گائیڈ نے ایک عجیب سے راستے کی طرف اشارہ کیا جو ناک کی سیدھ پر اوپر جا رہا تھا۔ ہم ایک تنگ سی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اوپر یہاں تک پہنچے تھے مگر آگے کوئی پگڈنڈی ہی نہ تھی۔ ہم جس راستے سے آئے تھے وہاں سے واپس اترنا بھی تقریباً ناممکن تھا۔ میں وہیں بیٹھ گیا بلکہ کھڑا ہی رہا کیوںکہ بیٹھنے کی جگہ ہی نہ تھی۔

خذیفہ کے مطابق ہمیں آگے چلنا چاہیے مگر میں نے انکار کردیا کہ گائیڈ پہلے راستہ دیکھ کر آئے، اگر راستہ ہوا تو پھر ہم چلیں گے ورنہ یہیں بیٹھے رہیں گے۔ ہم جس راستے پر سفر کرکے یہاں تک پہنچے تھے، اس کے بعد خذیفہ کو بھی میری بات مناسب لگی۔

گائیڈ آگے چلا گیا۔ اس نے اسی چٹان کی طرف چلنے کا اشارہ کیا کہ یہیں سے راستہ ہے، تم لوگ بھی وہی آ جاؤ۔ میں نے گائیڈ کو واپس بلایا، اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر چڑھنا شروع کیا۔ یہ باقاعدہ بڑی بڑی چٹانیں تھیں جن پر چلنا بلکہ چڑھنا ناممکن نظر آ رہا تھا مگر ہمارے سامنے چوائس کوئی نہیں تھی۔ ایک باریک سی بھی پگڈنڈی نہیں تھی۔ خدا خدا کرکے وہ چٹانی راستہ گزرا اور پھر کچھ منظر کُھلا۔ اب راستہ وسیع اور چوڑا تھا مگر چڑھائی برقرار تھی۔ بیس کیمپ سے لے کر یہاں تک مسلسل ہم چڑھتے ہی آ رہے تھے۔

کہیں کوئی تھوڑا سا بھی سیدھا راستہ نہ تھا۔ کچھ وقت پہلے میری حالت اتنی بری ہوچکی تھی کہ ایک قدم بھی اٹھایا نہیں جارہا تھا۔ ایسے میں میں نے ایک سائنسی طریقہ اپنایا۔ سائنس میں خاص کر فزکس اور میتھ میں سیدھی لائن کی بہت اہمیت ہے۔ آپ کو ایک لائن کی سلوپ نکالنی ہے ایک curve بنی ہو، آپ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک وہ لائن سیدھی نہ بن جائے۔

اگر کوئی curve  بنا ہو تو ہم اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک سیدھی لائن نہ بن جائے۔ میں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ اپنے قدم اتنے چھوٹے کردیے کہ آپ کو لگے ہی نہ کہ قدم اونچائی کی طرف اٹھ رہا ہے۔

یہاں تک کہ میرے دائیں پاؤں کی ایڑھی بائیں پاؤں کی انگلیوں کو چھونے لگی۔ یہ طریقہ بہت کارآمد رہا۔ اس ظالم چٹان کو پار کیا تو منظر کچھ کھلا مگر چڑھائی مسلسل برقرار رہی۔ خذیفہ حسبِ عادت مجھ سے آگے تھا۔ میں نے خذیفہ کی جیب سے کوئی کالی چیز گرتے ہوئے دیکھی۔ اسے فوراً آواز دی کہ تمھاری جیب سے کچھ گرا ہے۔ فوراً یاد آیا کہ اس کے پاس کالے آئی پوڈ تھے۔ ہم نے مل کر بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملے۔

ہوا اتنی تیز تھی کہ گمان یہی کیا شاید وہ نیچے کہیں دور چلے گئے ہوں۔ اب چڑھائی مسلسل زیادہ ہو رہی تھی یا پھر میری حوصلہ جواب دے رہا تھا۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں ایک چوٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مکڑا ٹاپ یہی چوٹی ہے، یہاں کافی ساری چوٹیاں تھیں۔ خذیفہ بھی اسی طرف جانا چاہ رہا تھا مگر میں نہیں مانا۔ میرے مطابق وہ چوٹی مکڑا ٹاپ نہیں ہوسکتی جس طرف گائیڈ اشارہ کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں مکڑے کی تصویر چل رہی تھی۔ یاد رہے کہ مکڑا کو اسی وجہ سے مکڑا کہا جاتا ہے کہ اوپر سے یہ بالکل مکڑا ہی لگتا ہے۔

آٹھ ٹانگوں کی طرح اس کی بھی آٹھ شاخیں نکلتی ہیں تبھی تو اسے مکڑا کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسی کے برابر میں جو چوٹی ہے وہ مکڑا ٹاپ ہونی چاہیے۔ بلندی بے شک دونوں کی برابر تھی مگر ہمیں قریب بھی وہ پڑ رہی تھی۔

خذیفہ کی سمجھ میں میری بات آ گئی۔ ہم سب اسی کی طرف چل پڑے۔ سچی بات ہے کہ میرا دل ذرا بھی مزید چلنے کا نہیں تھا مگر ہمت کی اور کچھ ہی دیر کے بعد ہم مکڑا کے سر پر کھڑے تھے۔ ہمارے نیچے سے مکڑا کی آٹھ ٹانگیں نکل رہی تھی۔ ہماری دوسری طرف مظفر آباد تھا۔ ہم نے اپنا قومی پرچم لہرایا۔ کچھ کھانا پینا کیا اور واپسی کی راہ لی۔

The post مکڑا پیک appeared first on ایکسپریس اردو.

سخن آرائیاں

$
0
0

سراج الدین خان آرزو ؔکے معاصرین شعراء میں نابینا شاعر مرزامحمد افضل سرخوش ؔبھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔

انہوں نے پاس ہی موجود اپنے بیٹے فضل اللہ ہنر ؔکو اپنی بیاض تھمائی کہ وہ کچھ شعر پڑھ کے سنائیں، جس پر دربار میں موجود خانِ آرزو ؔنے برجستہ کہا،’’آج پتا چلا ہے کہ بیٹے کو ’’نورِچشم‘‘ کیوں کہا جاتا ہے۔‘‘

مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ کے خالق پنڈت دیا شنکر نسیم ؔکے پوتے پنڈت ترلوکی ناتھ کول بیان کرتے ہیں،’’ایک مرتبہ میں شدید بیمار ہوگیا۔ بخار کی شدت کے علاوہ پیروں میں ایک پریشان کن گلٹی بھی نمودار ہوگئی۔ شام کو دادا صاحب تشریف لائے۔ میرا بخار دیکھا، گلٹی دیکھی تو فوراً فرمایا:

؎بخار آیا ہے، سر میں درد ہے، پاؤں میں گلٹی ہے

عدم کا پارسل لدنے کو ہے، تیار بلٹی ہے

لکھنؤ کی ایک مجلس میں میرانیس ؔمرثیہ پڑھ رہے تھے کہ دوران مجلس لکھنؤ کے رئیس نواب مرزا حیدر تشریف لائے اور مجمع چیرتے ہوئے منبر کے قریب جا بیٹھے۔ دستور کے مطابق ان کے جلو میں چلنے والا ان کا بھنڈی خانہ، آبدار خانہ اور دست بغچہ وغیرہ بھی آنا شروع ہوئے۔ منبر پر میر انیسؔ خاموش ہوگئے، تاہم چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ مرزا حیدر بھانپ گئے اور میرصاحب کو مخاطب کر کے کہنے لگے ’’میر صاحب! بسم اللہ! آپ مرثیہ شروع کیجیے۔‘‘ انیسؔ جھلا کے بولے،’’حضور!! پہلے آپ کا جہیز تو آ لے!‘‘

داغ ؔدہلوی مغل شہزادہ ہونے کے باوجود سیاہ فام تھے۔ جب وہ نظام حیدرآباد کے استاد مقرر ہوکر دکن تشریف لائے تو حیدرآباد کے شعراء نے اسے اپنی شان کے خلاف سمجھا اور ان کی سیاہ روئی کو نشانہ بناتے ہوئے درج ذیل شعر کہہ کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی:

؎دکن میں دیکھیے دلی سے داغؔ آئے ہیں

چمن میں بلبلیں حیراں ہیں زاغ آئے ہیں

کلکتہ کے شاعر شمس الدین عازم ؔکے گھر ایک ادبی محفل منعقد ہوئی، جس میں وحشت ؔرضا کلکتوی بھی شریک ہوئے۔ ان دنوں بزرگی کے باعث وحشت ؔصاحب کے ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا۔ محفل کے اختتام پر جب چائے کا دور چلا تو رعشے کے باعث پیالی اور طشتری کے درمیان جلترنگ سا بجنے لگا۔ عازمؔ صاحب نے بحیثیت میزبان پیالی وحشتؔ صاحب کے ہاتھوں سے لی اور انہیں چائے پلانے لگے۔ چائے پینے کے بعد وحشت ؔبولے،’’عازمؔ ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو!‘‘:

؎ساقی نے اپنے ہاتھ سے مجھ کو پلائی مئے

حالت جو دیکھی اس نے کفِ رعشہ دار کی

بیخود ؔبدایونی راجستھان کے پُرفضا پہاڑی مقام ماؤنٹ آبو میں اپنی تعطیلات گزارنے کے سلسلے میں مقیم تھے۔دورانِ قیام وہاں معمولی نوعیت کا زلزلہ آیا، جس پر انہوں نے درج ذیل شعر کہا:۔

؎زلزلے آتے ہیں کیوں؟ اس کا سبب کیا بیخودؔ

میری بے تابیٔ دل تو کہیں آبو میں نہیں!!

ندرتؔ کانپوری جب فنا ؔنظامی کے حلقۂ احباب میں شامل ہوئے تو انہوں نے اپنی اس شمولیت پہ فخریہ کہا:۔

؎فناؔ سے ربط پیدا کر کے ندرتؔ

حیاتِ جاوداں تک آ گیاہوں

کچھ عرصے بعد فنا ؔصاحب اور ندرت ؔکے تعلقات بگڑ گئے اور ان میں ان بن ہوگئی تو ایک مقامی شاعر افسرؔ ناروی نے ایک محفل میں ندرت ؔصاحب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:

؎حیات جاوداں کا مدعی اب!!

فنا ؔکے گھاٹ اترا جا رہا ہے

عرش ؔملیسانی کہتے ہیںکہ میںایک مرتبہ شملے ایک مشاعرے میںشرکت کے لیے گیا، جس کی صدارت اس وقت کے متحدہ پنجاب کے وزیراعلٰی اور یونینسٹ پارٹی کے سربراہ سر سکندر حیات خان کر رہے تھے۔ علامہ اقبال ؔکے ایک مصرع طرح میں میں نے ایک شعر کہا:

؎دو روزہ عظمت و شوکت پہ پھولنے والے

اجل سے پوچھ کہ شانِ سکندری کیا ہے!!

لوگ داد دینے کے موڈ میں آ گئے کہ وزیراعلٰی پر چوٹ تھی۔ اس کے بعد ان کا جلد ہی انتقال ہوگیا۔ اور مجھے اس بات کا علم بعد میں ہوا کہ ’’عظمت حیات‘‘ اور ’’شوکت حیات‘‘ ان کے دونوں بیٹوں کے نام تھے۔

اردو زبان کے شیکسپیئر آغاحشرؔ کاشمیری کو بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ سردیوں کی ایک رات جب اسٹیج کے پسِ پردہ تمام فن کار ایک بڑی انگیٹھی کے گردبیٹھے آگ تاپ رہے تھے تو آغا صاحب کی موجودگی میں اداکار بدرالدین جو حسین و خوب رو نوجوان تھے، ڈرامے میں اپنا کردار ادا کرکے میک اپ زدہ چہرے کے ساتھ ہی شریک محفل ہوئے۔ غازے اور پاؤڈر نے ان کے رخساروں کیٰ سرخی کو شعلہ جوالا بنا رکھا تھا۔ محفل میں موجود بزرگ اداکار با با رحیم نے آغا صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا،’’آغا صاحب! ذرا بدر صاحب کا حسن و شباب ملاحظہ فرمائیں۔‘‘ آغا صاحب نے نظر بھر کے بدرالدین کو دیکھا اور بے ساختہ بولے:

؎ہو اجازت تو کلیجے سے لگا لوں رخسار!

سینک لوں چوٹیں جگر کی انہی انگاوروں سے

اکبرؔ الہ آبادی نے ایک مرتبہ علامہ شبلیؔ نعمانی کو بذریعہ رقعہ دعوتِ طعام دی اور وہ بھی ان الفاظ میں:

؎بس بات یہ ہے کہ بھائی شبلیؔ

آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی

دعوت پر شبلی ؔبولے کہ’’خوب قافیہ نکالا ہے۔ قبلی کے علاوہ شبلیؔ کا کوئی اور قافیہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ اکبرؔ ذرا سوچ کر بولے ’’کیوں نہیں؟‘‘ شبلی نے کہا،’’تو فرمائیے!‘‘، اکبر ؔنے کہا،’’لِبلی‘‘، شبلی بولے،’’یہ کیا ہے؟؟‘‘ اکبر بولے،’’سند پیش کروں‘‘ شبلیؔ بولے ’’بے شک۔‘‘اکبر ؔنے فوراً شعر پڑھا:

؎تم بھی اِس راہ پر چلے شبلی!

عشق نے آبروئے غالبؔ لی

مرزا عزیز فیضانی علامہ اقبال سے متعلق اپنی یادیں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’علامہ اقبالؔ کو ’نقرس‘ (جوڑوں کی سوزش) کا مرض لاحق تھا، جو بالعموم امراء کو ہوا کرتا ہے۔ اپنے اس مرض سے متعلق علامہ مرحوم نے درج ذیل شعر کہا:

؎یہ بھی ترا کرم ہے کہ ’’نقرس‘‘ دیا مجھے

صحت میں گو غریب، مرض میں امیر ہوں‘‘

جن دنوںچراغ حسن حسرت ؔاور ایم ڈی تاثیر ؔکے تعلقات خراب ہوئے اور دونوں جانب سے قلمی گولہ باری شروع ہوئی تو روزنامہ’ امروز‘ میں کام کرنے کی وجہ سے گاہے گاہے احمد ندیمؔ قاسمی بھی تاثیرؔ کی لکھی گئی نظموں کا منظوم جواب دیتے۔ ایک بار تاثیرؔ صاحب کی جانب سے نظم لکھی گئی جس میں حسرت اؔور ان کے حامیوں کو ’’حلال زادے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ جواباً قاسمی صاؔحب نے ’’سرکوب لاہوری کے‘‘ نام سے نظم کا جواب تحریر کیا جو صرف درج ذیل شعر پر مشتمل تھا:

؎حلال زادے کی گالی کا اک جواب تو تھا

سمجھنے والے سمجھ لیں اشارہ کافی ہے

امتیاز ؔعلی عرشی کے فرزند ڈاکٹر ممتاز عرشی کہتے ہیں ’’ایک روز ابا کی موجودگی میںیہ مشہور مثل کہ ’’سر بڑا سردار کا اور پاؤں بڑا گنوار کا‘‘ گفتگو میں آگئی‘‘ محفل میں موجود بڑے سروالے خوش اور بڑے پیر والے شرمندہ ہو نے لگے۔ یکایک میں نے اپنے بچاؤ کا پہلو سوچتے ہوئے کہا،’’مگر ابا! میرا تو سر بھی بڑا ہے اور پیر بھی۔‘‘ تو مسکرا کر ابا بولے،’’چلو بھئی! تم گنواروں کے سردار سہی۔‘‘

ایک ادبی محفل میں ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسروربتا رہی تھیں،’’ادب اور صحافت کا کیا رشتہ ہے؟ ان کے قریب ہی ان کے شوہر، انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر احمد علی خان بھی تشریف فرما تھے۔ محفل میں موجود ابراہیم جلیس نے ہاجرہ مسرور کو مخاطب کر کے بر جستہ کہا،’’ادب کا صحافت سے وہی رشتہ ہے جو آٓپ کا احمد علی خان سے ہے۔‘‘

پونچھ میں قیام کے دوران چراغ حسن حسرتؔ ایک سرد مقام موضع ’ہوتر‘ تشریف لے گئے، جہاں ایک مولوی صاحب کے پاس ان کے ٹھہرنے کا انتظام تھا، لیکن دونوں کی طبائع میں تضاد تھا۔ حسرت ؔٹھہرے رندِخراباتی اور مولوی صاحب زاہدِخشک۔ جاتے ہی مولوی صاحب سے حقے کی فرمائش ہوئی، مگر مولوی صاحب کے گھر حقہ چھوڑ، تمباکو تک نہیں تھا۔ البتہ مولوی صاحب خود ’’نسوار‘‘ سے شوق فرماتے تھے۔ حسرتؔ صا حب نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے فرمایا:

؎نیست حقہ، نے تمباکو، بر مکانِ مولوی

ہاں مگر نسوار بینم، دَر دہانِ مولوی

جگرؔ مرادآبادی علاج کی غرض سے جھانسی میں اپنے ایک دوست کے ہاں مقیم تھے۔ جوش ؔصاحب کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جھانسی آئے تو جگر ؔکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جگر ؔ اس وقت غسل خانے میں تھے۔ سامنے میز پر ان کی بیاض رکھی ہوئی تھی۔ جوش ؔوہ بیاض اٹھا کے دیکھنے لگے تو دیکھا کہ بیاض کے ہر صفحہ پر ایک غزل اور ہر غزل کے اوپر بسم اللہ کا خوب صورت طغریٰ بنا ہوا تھا۔

جوشؔ صاحب نے اسے غور سے دیکھا اور بیاض پر یہ شعر لکھ دیا:

؎کیوں بے! رندِنامِ سیاہ

جس ورق کو الٹیے ’’بسم اللہ‘‘

داغ ؔکے شاگرد حیات بخش رسا ؔنے داغ ؔکی جانشینی کا دعویٰ کیا تو اخبار ’’مخبر عالم‘‘میں داغ ؔکے ایک اور شاگرد نے’’م۔ش‘‘ کے نام سے خط لکھا کہ ’’داغؔ کے جانشین کے طور پر رسا ؔ کے انتخاب کے بارے میں اہلِ ملک کی ر ائے یہ ہے:

؎ہم صدا بلبلوں کا زاغ نہیں

کہ رِسا ؔجانشینِ داغ ؔنہیں

آزاد غزل کے موجد مظہرؔ امام علامہ جمیل ؔمظہری سے ملنے پٹنہ جایا کرتے تھے، جو یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جج علی جواد مرحوم کے مکان کے ایک کمرے میںرہائش پذیر تھے۔ کمرے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی اور کسی بھی طرح سے ایسے شاعر کا کمرا نہیں لگتا تھا جس کا دعویٰ تھا:

؎بڑھا تو رہ گیا پیچھے مرے زمانۂ حال

رکا تو وقت کی رفتار روک دی میں نے

ان کی شخصیت کا یہ تضاد مظہرؔ امام کو بڑا عجیب لگا، جس کے پیش نظر انہوں نے درج ذیل شعر کہا:

؎کیا گلستاں کو نکھاریں گے نقیبانِ بہار

اپنے کمرے میں سلیقے سے نہیں رہ سکتے

اردو کے مشہور ناول امراؤ جان ادا کے مصنف مرزا ہادی رسواؔ کو لکھنؤ سے بہت محبت تھی۔ جوش کہتے ہیں ایک مرتبہ مرزا رسوا ؔحیدرآباد میں اپنی ملازمت کے دوران اپنی سالانہ تعطیلات لکھنؤ میں گزار کر واپس حیدرآباد آئے تو میں ایک دو روز کے بعد ان سے ملاقات کی غرض سے گیا۔ دیکھا تو ان کے کپڑے بہت کثیف اور میلے ہوچکے تھے۔ میں نے عرض کی، مرزا! کپڑے بدل ڈالیے، بہت مٹیالے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور برجستہ بولے:

؎نہ بدلا اس لیے ملبوس ہم نے

کہ دامن پہ غبارِلکھنؤ ہے

لکھنؤ یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے وائس چانسلر اچاریہ جُگل کشور سے ناراض تھے۔ ایک بزمِ پُرتکلف میں ہندی کے استاد ہری کرشن اوستھی نے ایک مصرع کہا:

؎اس واسطے جُگلو کو بھی الو نہیں کہتے

ایک دوسرے استا د نے مصرع پر گرہ لگانے کی فرمائش کی، جس پر آلِ احمد سرورؔ نے یوںمصرع اولٰی لگایا:۔

؎اس پر بھی نہ بیٹھے کہیں اک اور کمیشن

محفل میں موجود پروفیسر احتشام حسین نے اس سے بھی زیادہ دل چسپ مصرع ٹانکا:

؎الو بھی نہ کردے کہیں توہین کا دعویٰ

دبئی میں منعقدہ عالمی مزاحیہ مشاعرے میں پاگلؔ عادل آبادی غالب کی زمین’’ہوا کیا ہے، سزا کیا ہے‘‘ میں مزاحیہ غزل سنا رہے تھے۔ سامعین کی جانب سے بے تحاشا داد کی صورت میں غزل کی بھرپور پذیرائی کی جارہی تھی، جس پر مشاعرے کے ناظم راغبؔ مرادآبادی نے سامعین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا:

؎داد پاگلؔ کو دے رہے ہو تم

عقل مندو! تمہیں ہوا کیا ہے

جوش ؔصاحب نے ساغرنظامی کو خط لکھا، مگر ساغرؔ نظامی نے کئی روز گزر جانے کے باوجود خط کا کوئی جواب نہ دیا، جس پر جوش ؔصاحب نے ایک اور خط میں صرف درج ذیل دو مصرعے تحریر کرکے ساغرؔ نظامی کو روانہ کیے:

؎میرے مکتوب کا جواب تو دو

اپنے ذرے کو آفتاب تو دو

جب لکھنؤ انگریزوں کے زیرِعتاب آیا تو انگریزوں نے اپنے خلاف مزاحمت میں شامل بہت سے لوگوں کے گھر گرا دیے۔ اس صورت حال پر اسیرؔ لکھنوی نے لکھا:

؎بڑھ گئی کھدنے سے زیادہ اور شانِ لکھنؤ

لا مکاں ہے ان دنوں ہر اک مکانِ لکھنؤ

صدر مجلس الاحرار علامہ حبیب الرحمٰن نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا’’بعض تھڑدلے ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم سے چندے کا حساب مانگتے ہیں، ہم لوگ بنیا نہیں کہ حساب لیے پھریں، ہمیں اپنی دیانت پر اعتماد ہے۔‘‘ اگلے دن عبدالمجید سالکؔ صاحب نے اپنے کالم افکاروحوادث میں ان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،’’حضرت! کس بدبخت نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ بددیانت ہیں، دیانت تو آپ کے گھر کی لونڈی ہے، شکایت یہ ہے کہ آپ نے بے نکاحی رکھی ہوئی ہے۔‘‘

سیماب ؔاکبرآبادی اور ساغرؔ نظامی لاہور سے ادبی رسالہ پیمانہ شائع کیا کرتے تھے۔ لاہور کے ایک مشاعرے میں، جس کی صدارت علامہ تاجورؔ نجیب آبادی کر رہے تھے، جب ساغرؔ صاحب نے اپنا رنگ جمایا تو مشاعرے کے آخر میں شیخ عبدالقادر بطور مہمان اعزازی اپنی تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور ساغر کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگے:

؎دور میں ’’ساغر‘‘ رہے، گردش میں ’’پیمانہ‘‘ رہے

اور پھر تاجور ؔکی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے:

؎مئے کشوں کے سر پہ یا رب! پیرِمئے خانہ رہے

آغاجانی کاشمیری اپنی آپ بیتی سحر ہونے تک میں لکھتے ہیں،’’لکھنؤ میں منعقدہ کانگریس کے جلسے میںموتی لال نہرو کو مدعو کیا گیا۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے جواہر لال نہرو بھی تشریف لائے۔ لکھنؤ کے مقامی شاعر ذکی ؔچھبن نے موتی لال نہرو کی تعریف میں درج ذیل شعر پڑھا:

؎ایسے موتی کو کوئی کیا پرکھے!

صُلب سے جس کے خود جواہر ہو

The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈاکٹر انیس خورشید ؛ کتابوں سے عشق میں زندگی گزار دینے والی شخصیت

$
0
0

تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ رب ذوالجلال ہر دور میں چند مخصوص افراد کو زمین پر کسی عظیم کام کی تکمیل کے لیے پیدا فرماتا ہے اور وہ اپنے کام کے ذریعے اپنے نام کو زندہ جاوید کر کے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے کام کے ثمرات اور ان کی یادوں کی خوشبو عرصۂ دراز تک قوموں کے اذہان قلوب کو معطر رکھتی ہے۔

اس مضمون میں ہم ایک ایسی ہی نام ور بین الاقوامی علمی شخصیت کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جس کی چوراسی سالہ زندگی کا ہر ہر لمحہ انتھک محنت اور جہدمسلسل سے عبارت ہے۔

نام و نمود سے پاک گوشۂ تنہائی میں کام اور صرف کام کی دھنی اس عظیم شخصیت کا نام پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید ہے۔

آپ کو کتابیں پڑھنے والے تو بہت مل جائیں گے مگر کتب سے عشق، ان کی بقا کی فکر، ان کی تزئین و آرائیش اور درجہ بندی میں ہمہ وقت مصروف لوگ چند ہی ہوں گے۔ انھیں میں سے ایک نابغۂ روزگار شخصیت ڈاکٹر انیس خورشید کی ہے، جنہیں لوگ بابائے لائبریری اور بابائے کتب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

پاکستان میں لائبریریوں کے خالق، جدید لائبریریوں کے بانی، موبائل اور کمپیوٹرائیزڈ کتب خانوں کے بانی، کتابیات کے انسائیکلوپیڈیا، تعلیم و تدریس کے بادشاہ، علم و دانش کے روشن چراغ، مفکر و مدبر محقق و مفکر ماہربلاغیات، فہم و فراست متانت و ذہانت، محبت و شفقت کا خزینہ، صبر و شکر سخاوت و جرأت، قرأت و استقامت کا پیکر، علم و آگاہی کے سرخیل، درویشانہ صفات کے حامل، دل نشین شخصیت، جس نے دنیا بھر میں موجود اپنے شاگردوں پرستاروں اور چاہنے والوں کو ایک ہی پیغام دیا:

عزم و ہمت عمل و بیداری، قصۂ زیست کا عنواں کرلو

21 ستمبر 1924ء کی وہ ایک خوش گوار صبح تھی جب ہندوستان کے صوبے سی پی کے ضلع ناگپور کے ایک سرسبزوشاداب گاؤں کامٹی کے محلے وارث پورہ میں رہائش پذیر شاعروادیب منشی سعید کے گھر جشن بہاراں کا سماں تھا۔

منشی سعید کے بیٹے خورشید کو اللہ نے اولاد نرینہ سے نوازا تھا۔ دادا نے نومولود کا نام انیس خورشید رکھا۔ ابھی پانچ برس کے بھی نہ ہو پائے تھے تو دادا نے ہاتھ پکڑا اور محلے کے مدرسے میں جا کر بٹھا آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان میں تعلیم عام نہ تھی اور مسلمانوں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان بہت کم تھا۔

گھر کے ادبی اور دینی ماحول نے ان کی تعلیم و تربیت پر بڑے گہرے نقوش مرتب کیے۔ موصوف خالی اوقات میں دادا حضور کے کمرے میں گھس جاتے اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتے۔ آغوش مادر میں تربیت اور بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بعد انھیں گاؤں کے واحد اسکول ربانی ہائی اسکول میں داخل کرادیا گیا۔

1943ء میں ہائی اسکول کے سرٹیفکیٹ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، پھر فکر ہوئی ذریعۂ معاش کی تو ناگپور کے پوسٹ آفس جنرل میں ایک ملازمت مل گئی۔ علمی شوق ورثے میں ملا تھا۔ لکھنا پڑھنا اہل خانہ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ مچھلی سمندر میں رہتے ہوئے تیرنا نہ سیکھے یہ کیسے ممکن تھا۔ چناںچہ 1944ء میں پہلا مضمون ’’بابوجی‘‘ لکھا جو رسالے کام یاب میں شائع ہوا۔

اس کے بعد انیس میاں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ان کے مضامین دہلی اور بمبئی کے معیاری رسالوں میں چھپنا شروع ہو گئے، جن میں الفاروق، منزل، آئینہ اور نظام قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان، کا نعرہ عروج پر تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ مسلمانوں کے دلوں پر نقش ہوچکا تھا۔

ڈاکٹر انیس اس تحریک کا حصہ بنے۔ 14 اگست 1947ء کو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آگئی۔ مملکت اسلامیہ کی خدمت کے جنون نے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اکتوبر 1947ء میں ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے والدین کو خدا حافظ کہا اور چند دوستوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرگئے۔

انھوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور رنچھوڑلائین کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قیام کیا اور پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف آفس میں ملازمت جاری رکھی۔ 1950ء میں اہل خانہ کو بھی پاکستان لے آئے اور پی اینڈ ٹی کالونی میں رہائش اختیار کی۔ دورانِ ملازمت ڈاکٹر صاحب نے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور اسلامہ کالج سے بی اے کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے لائبریرین شپ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔

اسی دوران انہیں کراچی یونیورسٹی میں ملازمت کی پیشکش ہوگئی۔ انیس خورشید صاحب کتب کے عاشق اور ادب کے دل دادہ تھے، انھوں نے کراچی میں ادبی نشستوں کے سلسلے کا آغاز کیا، جس کے مستقل ارکان میں نواب صدیق علی خان، ڈاکٹر حبیب الرحمٰن، ریاض روفی، ایوب صدیقی، شوکت رضوی شامل تھے۔

ان نشستوں میں ڈاکٹر صاحب اپنے رفقا کو اپنے ہاتھوں سے کافی بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ خوشبو اہل ادب تک جا پہنچی اور ان ادبی نشستوں میں مزید نام ور ادیبوں اور شاعروں کا اضافہ ہوگیا اور ان میں ڈاکٹر محمود حسین، ابن انشائ، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹرظفر سعید سیفی، ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹر ذاکر شاہد، اکرام الحق، ڈاکٹر نعیم قریشی، سید ریاض الدین وغیرہ شامل تھے۔ لاہور کے ٹی ہاؤس کی طرح دوستوں کی محفلوں میں ڈاکٹر صاحب کی کافی نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی بقول شاعر۔

کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھا مجھ کو

دوست ہم درد رہے کتنے میری ذات کے ساتھ

1960ء کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے لائبریری کے پوسٹ گریجویٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سب کو حیران کردیا جس کے بعد ان کو امریکا سے فلبرائیٹ ایشیا فاؤنڈیشن کی طرف سے اسکالرشپ آفر ہوئی۔

1967 میں امریکا سے لائبریری سائنس میں ماسٹر کرکے وطن واپسی کا فیصلہ کیا، حالاںکہ انھیں امریکا میں نہایت پُرکشش ملازمتوں کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن ان میں اپنے ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، لہٰذا واپس پاکستان آگئے۔ پاکستان واپس آکر انھوں نے کراچی یونیورسٹی کی لائبریری کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ یہی ان کا خواب تھا جس کی تکمیل کے لیے انھوں نے دن رات ایک کردیے تھے۔

1965ء میں انھیں امریکا سے پی ایچ ڈی کی پیشکش ہوئی۔ چناںچہ انہوں نے ایک بار پھر پٹس برگ یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ایڈوانسڈ سرٹیفکیٹ کورس کیا۔ 1966ء میں اسٹیٹ یونیورسٹی نیویارک سے لائبریری سائنس میں ڈپلوما کیا۔

1969 میں ڈاکٹر صاحب امریکا سے پی ایچ ڈی کرکے وطن واپس پہنچے۔ پانچ سال کی سخت ترین محنت کے باعث وہ کراچی آتے ہی بیمار پڑ گئے۔ پھر مرض بڑھتا چلا گیا جوں جوں دوا کی۔ ان کی صحت خراب ہوگئی مگر ان کے مضبوط ارادے اور جوان حوصلے پست نہ ہوسکے۔

نئے ولولوں کے ساتھ دوبارہ اپنی مادر علمی کراچی یونیورسٹی پہنچ گئے۔ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے 1979 میں اپنے ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین مقرر ہوئے۔ یہ معمار قوم 1986 میں ریٹائر ہوگیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے درس و تدریس سے اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ انھوں  نے 35 کتب اور 15 سے زیادہ تحقیقی مقالے تحریر کیے، جو ملکی اور غیرملکی رسائل میں نہایت نمایاں طور پر شائع ہوئے اور انھیں خوب پذیرائی ملی۔

ڈاکٹر صاحب کی کتب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان میں سے کچھ کتابیں پاکستان کی یونیورسٹیز میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے علمی کارناموں پر بہت سے طلبہ نے مقالے بھی لکھے اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ قائداعظم کی ببلیوگرافی مرتب کرنا تھا۔

دو سال کی مسلسل عرق ریزی کا ثمر یہ تحقیقی کتاب ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس کی طباعت اردو اور انگلش میں ہوئی، جو بہت مقبول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی قومی و علمی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے اہل علم اداروں نے انھیں بے شمار اعزازات سے نوازا جس کی تفصیل ان سے موسوم ویب سائیٹ پر موجود ہے۔

1996 میں اس وقت کے صدر جناب فاروق احمد لغاری نے آپ کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا، 2006 میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا، اسلام آباد میں قائم ملک کے سب سے بڑے قومی عجائب گھر میں ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے، 1992 میں ہمدرد یونیورسٹی کے بانی محترم حکیم محمد سعید صاحب نے آپ کی علمی خدمات کے پیش نظر ایوارڈ سے نوازا۔

آپ ہم درد کی شوریٰ کے چئیرمین بھی رہے۔ آپ نے بے شمار ادبی اور علمی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی۔

ڈاکٹر صاحب نے نوجوان نسل کو کتب خانوں سے جوڑنے کے لیے جو عظیم کارنامے انجام دیے وہ رہتی دنیا تک طالبان علم کی راہ نمائی کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے ان شان دار کارناموں کے پیچھے ان کے والدین کی دعاؤں کے ساتھ ان کی اطاعت شعار ان کی خدمت گزار صابروشاکر رفیق حیات کی ناقابل فراموش خدمات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

وہ جانتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب قومی سرمایہ ہیں، چناںچہ بچوں کی اعلٰی تعلیم تربیت کے ساتھ انھوں نے اپنے بیمار شوہر کی نہایت جانفشانی سے خدمت کی، ان کی ضروریات کا خیال رکھا، انھیں خوش گوار ماحول فراہم کیا، یوں ہر باوفا بیوی کے لیے ایک مثال قائم کردی۔

بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور شوہر نام دار کی خوب سے خوب تر خدمت کے علاوہ محترمہ رقیہ خورشید کے ایک اور ناقابل فراموش وہ خاموش کردار تھا جو انہوں نے اپنے مجازی خدا کی علمی مصروفیات اور تحقیقی سرگرمیوں میں ان کے معاون اور مددگار کے طور پہر بھرپور طریقے سے سرانجام دیا۔

محترمہ رقیہ خورشید صاحبہ ان کی دوست بھی تھیں غم خوار بھی، ساتھی بھی تھیں اور مددگار بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو جہاں اور جس جگہ کسی راہ نمائی، مشورے یا علمی مدد کی ضرورت ہوتی مسزرقیہ خورشید ایک بہترین راہ نما کے طور پر دامے، درمے، سخنے ان کی مدد کرتیں۔ ڈاکٹر صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ رقیہ میری اہلیہ اور میرے بچوں کی ماں ہی نہیں بلکہ یہ میری علمی کاوشوں میں برابر کی شریک ہیں، یہ میری سیکرٹری بھی ہیں، میری وکیل بھی میری جج بھی ہیں اور میری رفیق بھی، رقیہ کے اس اعلیٰ کردار پر میں ان کا انتہائی ممنون اور مشکور ہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر رقیہ میرے ساتھ نہ ہوتیں تو میں اس قدر تحقیقی و علمی کام سرانجام نہیں دے سکتا تھا۔ 14 اکتوبر 2023 کے ایک اداس دن اعلیٰ خوبیوں کی مالک یہ عظیم خاتون اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر انیس خورشید 4 جنوری 2008 کو انتقال فرما گئے تھے۔

ان کے سفر آخرت پر روانہ ہو جانے کے بعد ٹھیک 15 سال تک مسز رقیہ خورشید اپنے مجازی خدا کے علمی سرمائے کی نہ صرف حفاظت فرماتی رہیں بلکہ ان کے جاری کردہ تمام سرگرمیوں اور تقاریب کی اسی طرح جانفشانی سے راہ نمائی فرماتی رہیں اور ان کے احباب کو ڈاکٹر صاحب کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ رقیہ خورشید صاحبہ کی رحلت کے بعد ان کے لواحقین احباب اور عزیز و اقارب کو پہلی بار اپنی یتیمی کا احساس ہوا، لیکن مسزرقیہ خورشید نے اپنے بعد کوئی خلاء پیدا نہ ہونے دیا اور اپنے عزیزترین فرزندشفیق اجمل میاں کی ذہنی، علمی تربیت اور اخلاقی اعانت اس جانفشانی سے کی کہ آج ڈاکٹر صاحب کا تمام علمی سرمایہ محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے بلکہ درس قرآن ڈاٹ کام کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو علم و عمل کی روشنی سے منور کر رہا ہے۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ڈاکٹر انیس خورشید کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک ایک مشن ایک جہدمسلسل کا دوسرا نام ہے۔ آج دنیا بھر میں موجود ہزاروں فرزندان علم و فراست اور ان کے ہونہار صاحب زادگان ان کے مشن کو کام یابی سے آگے بڑھا رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے صدا دے رہے ہیں۔

میں یہاں پر خاص طور پر ان کے سعادت مند صاحبزادے شفیق اجمل میاں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو ویب سائٹ درس قرآن ڈاٹ کام کے ذریعے اپنے والد کے مشن کا چراغ پوری دنیا میں نہایت کام یابی کے ساتھ روشن کیے ہوئے ہیں اور یقیناً یہ ڈاکٹر انیس خورشید کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

یوں اندھیروں میں رہیں رات بسر ہونے تک

یہیں خورشید نہ بن جائیں سحر ہونے تک

The post ڈاکٹر انیس خورشید ؛ کتابوں سے عشق میں زندگی گزار دینے والی شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.


ہالی وڈ سٹار کرس ہیمسورتھ…!

$
0
0

ہالی وڈ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میدان میں محنت کرنے والے لوگوں کی کمی دکھائی نہیں دیتی، اداکار برس ہا برس محنت شاقہ کرتے ہیں لیکن کامیابی بہت کم خوش قسمتوں کے حصے میں آتی ہے، پھر یہ خوش قسمت شوبز انڈسٹری پر دہائیوں راج کرتے ہیں۔

ان خوش قسمت افراد کی بھی تین کیٹگریز ہیں، ایک وہ جنہیں اس صنعت میں اپنا مقام بناتے سالوں لگ جاتے ہیں دوسرے وہ جو مختصر وقت میں ہی مقبول ضرور ہو جاتے ہیں لیکن پھر وہ اپنی اس مقبولیت کو برقرار نہیں رکھ پاتے تاہم تیسری کیٹگری ان لوگوں کی ہے، جو نہ صرف بہت کم وقت میں مقبول ہوئے بلکہ آئندہ دہائیوں تک اپنے سٹیٹس کو برقرار بھی رکھا، اس کیٹگری کے اداکاروں میں ایک نام ہالی وڈ سٹار، ایکشن ہیرو کرس ہیمسورتھ کا ہے۔

جنہوں نے بہت کم وقت میں شوبز کی دنیا کو فتح کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اداکار کو پرفارمنگ آرٹس اور خیراتی تنظیموں کے لیے خدمات کے عوض 2021ء میں ملکہ کی سالگرہ کے موقع پر ممبر آف دی آرڈر آف آسٹریلیا سے نوازا گیا۔

معروف میگزین پیپلز نے انہیں دنیا کی زندہ پُرکشش شخصیات کی فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان کیا ہے۔ فوربز نے 2014،2015اور2018 میں انہیں دنیا کے مہنگے ترین اداکاروں کی فہرست میں شامل کیا۔

کرسٹوفر ہیمسورتھ المعروف کرس ہیمسورتھ 11 اگست 1983ء کو میلبورن (آسٹریلیا) میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ لیونی ہیمسورتھ ایک ٹیچر جبکہ والد کریگ ہیمسورتھ سماجی خدمات کے مشیر تھے۔ اداکار تین بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

ان کا بڑا بھائی لیوک اور چھوٹی بہن لیام بھی اداکاری کے پیشے سے جڑے ہیں۔ ان کے نانا ایک ولندیزی تارکین وطن ہیں اور ان کی نانی آئرش نسل سے ہیں۔ تاہم دوسری طرف والد کی طرف سے وہ انگریزی، سکاٹش اور جرمن نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کی پرورش میلبورن کے مضافاتی علاقوں میں ہوئی، جس کے بارے میں اداکار کا کہنا ہے کہ ’’ میرے بچپن کی یادیں مویشیوں سے جڑی ہیں کیوں کہ جن علاقوں میں ہم رہتے تھے وہاں مگرمچھوں اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزاری‘‘۔ اس دوران انہوں نے ہیٹمونٹ کے ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کی جس کی بعد ان کا خاندان ایک فلپ جزیرے پر چلا گیا۔

اداکار کی پیشہ وارانہ زندگی پر بات شروع کی جائے تو ان کا آغاز ٹیلی ویژن سے ہوا، جہاں 2002ء میں انہوں نے ایک آسٹریلوی ڈرامے Guinevere Jones کی دو اقساط میں کام کیا، اس دوران انہیں دو مزید ڈراموں Neighbours اور Marshall Law میں بھی قسمت آزمائی کا موقع ملا لیکن تقدیر ان پر مہربان نہ ہوئی۔

2004ء میں ہیمسورتھ نے مقبول زمانہ آسٹریلوی ڈرامہ سیریز Home and Away کے معروف کردار Robbie Hunter کے لئے آڈیشن دیا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے تاہم کچھ ہی دیر بعد ڈرامے کی انتظامیہ نے انہیں دوسرے کردار کے لئے بلا لیا، جس پر وہ راضی ہوگئے، اس سیریز کی 8175 اقساط تھیں، جن میں سے 171 میں کرس نے کام کیا۔

اس سیریز کے حوالے سے اداکار کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سیریز کی وجہ سے انہیں شناخت ملنا شروع ہو گئی لیکن فلم انڈسٹری میں اسے قبول نہیں کیا گیا۔ 2006ء میں ہیمسورتھ نے  Dancing with the Stars Australia کے پانچویں سیزن بھی بطور ڈانسر بھی حصہ لیا لیکن صرف 6 ماہ بعد ہی انہیں شو سے الوداع کر دیا گیا۔

آسٹریلوی ٹیلی ویژن کے بعد 2009ء میں ایکشن ہیرو نے ہالی وڈ کا رخ کیا، جہاں Star Trek نامی پہلی فلم میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اس فلم میں انہیں ایک باپ کا کردار دیا گیا، جو انہوں نے بخوبی نبھایا۔ 127 منٹس پر مشتمل اس فلم کو بنانے کی لاگت 150 ملین ڈالر تھی جبکہ باکس آفس پر کمائی 4سو ملین ڈالر کے قریب رہی۔ یوں اس فلم کو ایک اعتبار سے پسندیدگی کی سند عطا ہوئی۔

اس فلم کے پروڈیوسر جے جے ابرامز نے فلم میں بہترین اداکاری کرنے پر کرس کی صلاحیتوں کی تعریف کی، اسی برس اداکار کو اپنی دوسری فلم A Perfect Getaway میں کام کا موقع ملا، یہ بظاہر ایک چھوٹی فلم تھی، جس کی لاگت 14 ملین جبکہ کمائی 22 ملین ڈالر رہی تاہم فلم میں کرس کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ 2010ء تک مغربی و امریکی میڈیا نے کرس ہیمسورتھ کو اے کیٹگری میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔

پھر 2011ء آیا، جب کرش ہیسمورتھ کی مقبولیت کو چارچاند لگ گئے۔ اس برس معروف امریکی پروڈکشن کمپنی مارول سٹوڈیوز نے مشہور زمانہ فلم Thor بنائی، جس میں مرکزی کردار کرس کو دیا گیا، جو انہوں نے خوب نبھایا۔ اس فلم کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی اور بچوں سے لے کر بڑوں تک سب نے اسے پسندیدگی کی سند عطا کی۔

یہ ایک سائنس فکشن، تھرل اور ایکشن سے بھرپور فلم تھی، جس کا بجٹ 150 ملین ڈالر جبکہ کمائی لاگت سے تین گنا زیادہ یعنی 450 ملین ڈالر رہی۔ دنیا بھر میں اس برس کی یہ 15ویں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے فلم قرار پائی۔ یہ فلم اتنی کامیاب رہی کہ اس کے بعد اب تک اس سیریز کی مزید تین فلمیں آ چکی ہیں اور پانچویں فلم کے لئے اگلے برس یعنی 2024ء کے اکتوبر کی تاریخ دی جا رہی ہے۔

Thor کی وجہ سے ہیمسورتھ کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی اور ان کے فینز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی، جو ہر وقت اداکار کی سرگرمیوں کے بارے میں دلچسپی رکھنے لگے۔ اداکار نے اس فلم کے لئے 20 پاؤنڈ تک اپنا وزن بڑھایا تھا، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت بہت پُرکشش بن گئی اور فینز ان کی ورزش کے معمولات جاننے کے لئے بے تاب رہنے لگے۔ اور یہی وجہ تھی بعدازاں اداکار نے فٹنس ایپ سنٹر بنا لیا، جو صارفین کو غذائیت، تندرستی اور ورزش کے معمولات تک رسائی فراہم کرتا تھا۔

2010ء کے اوائل میں ہیمسورتھ نے ہسپانوی ماڈل و اداکارہ ایلسا پاٹکے کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر دیں اور پھر اسی برس دسمبر میں یہ جوڑا ایک ہو گیا۔ 2012ء میں قدرت نے اس جوڑے کو بیٹی عطا کی تو 2014ء میں ان کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے۔

ہالی وڈ کے ایکشن ہیرو کی پیشہ وارانہ زندگی

ہالی وڈ سٹار کرس ہیمسورتھ نے 2002ء میں شوبز کی دنیا میں ٹیلی ویژن کے ایک ڈرامہ Guinevere Jones سے قدم رکھا، جس میں انہیں صرف تین اقساط میں کام کا موقع دیا گیا، لیکن اسی برس انہوں نے Neighbours اور Marshall Law نامی ڈراموں میں بھی کافی ہاتھ پائوں مارے، اس کے بعد انہوں نے 2003ء میں ایک اور ڈرامہ (The Saddle Club)کیا۔

تاہم انہیں 2004ء میں شروع ہونے والے ڈرامے Home and Away سے پہچان ملنا شروع ہوئی، جس میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا، جو بے حد پسند کیا گیا۔

2006ء میں انہوں نے Dancing with the Stars نامی ڈرامہ کے بعد تقریباً 9 سال کے لئے ٹیلی ویژن سے بریک لے لی۔ جس کے بعد انہوں نے اب تک یعنی 2006ء کے بعد سے صرف 5 ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا۔

یوں انہوں نے مجموعی طور پر12 ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا۔ ایکشن ہیرو نے 2009ء میں 26 برس کی عمر میں اپنی پہلی فلم کی، جس کا نام Star Trek تھا، یہ ایکشن سے بھرپور ایک فکشن فلم تھی، لیکن اس میں ان کو کوئی مرکزی کردار نہیں ملا، جس کے بعد انہوں نے دو مزید فلموں A Perfect Getaway اور Ca$h میں بھی کام کیا لیکن ان کو شہرت کی سیڑھی پر چڑھانے کے لئے 2011ء میں ریلیز ہونے والی فلم Thor کا انتظام کرنا پڑا، اس فلم نے ریلیز ہوتے ہی اپنی ہم عصر فلموں کے چھکے چھڑوا دیئے، جن میں نامور اداکار بھی شامل تھے۔

اس فلم کے بعد کرس ہیمسورتھ کو بڑی فلموں کی آفرز آنے لگیں، جن میں مشہور زمانہ فلم The Avengers، Red Dawn، Rush،In The Heart Of The Sea ، Bad Times At The El Royale، The Huntsman: Winter’s War، Men in Black: International، Interceptor، Extraction 2 وغیرہ شامل ہیں۔

اداکار نے نہاتی مختصر وقت میں اب تک 32 فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے جبکہ ان کی دو فلمیں Furiosa: A Mad Max Saga اور Transformers One اگلے برس ریلیز کے لئے تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔ ڈرامہ اور فلم کے علاوہ اداکار نے 3 ویڈیو گیمز میں بھی اپنی شخصیت اور آواز کا جادو چلایا ہے۔

معروف آسٹریلوی اداکار کرس ہیمسورتھ MTV Movie ، People’s Choice، Kids’ Choice اور Teen Choiceجیسے متعدد ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں اور درجنوں ایوارڈز کے لئے انہیں نامزدگی کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔

The post ہالی وڈ سٹار کرس ہیمسورتھ…! appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
کہاں بدن کی ضرورت سمجھ کے پیتا ہوں
میں چائے باپ کی سنت سمجھ کے پیتا ہوں
کھلے کھلے نہ کھلے مجھ پہ یہ سراب مگر
سمندروں کو امانت سمجھ کے پیتا ہوں
طلب کا ذائقہ کھلتا ہے بعد میں مجھ پر
میں پہلا گھونٹ تو عادت سمجھ کے پیتا ہوں
پھر ایک دن اسے شک پڑنے لگ گیا تھا کہ میں
ندی کے پانی کو ذلت سمجھ کے پیتا ہوں
یہ کس طرح کی مصیبت نے آ لیا ہے مجھے
کہ ہر شراب اذیت سمجھ کے پیتا ہوں
میں سبز شاخ کا رس تیری پیروی میں زمان
برائے فیض طریقت سمجھ کے پیتا ہوں
(دانیال زمان۔ خوشاب )

۔۔۔
غزل
پیڑ کی شاخوں سے پھر پات بھی جھڑ جاتے ہیں
زرد رُت آئے تو اپنے بھی بچھڑ جاتے ہیں
تُو جو مسکائے تو پھولوں سے مہکتے گلشن
کنجِ حیرت میں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں
زر کی افراط میں تفریط میں جکڑے انسان
اِتنے بے زار کہ جنّت سے بھی لڑ جاتے ہیں
ہم نے پائے ہیں دلِ زار پہ وہ گھاؤ کہ جو
وقت سیتا ہے تو کچھ اوراُدھڑ جاتے ہیں
خون کے اشک رلاتے ہیں ہمیں صدیوں تلک
ہائے وہ لوگ جو پَل بھر میں بچھڑجاتے ہیں
دل کے رستے بھی عجب رستے ہیں کم بخت جہاں
جتنا بھی تھم کے چلیںپاؤں اکھڑ جاتے ہیں
ہم خزاؤں میں تو بس جاتے ہیں لیکن افسوس
تیری گل رنگ بہاروں میں اجڑ جاتے ہیں
الٹے پڑتے ہیں سبھی کام یہاں سیدھے بھی دوست
جب مقدر کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں
ناتوانی کا گلہ کیا کہ ہے فطرت طاہرؔ
پھیلتے سائے بھی اِک وقت سکڑ جاتے ہیں
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
دل و دماغ سے اک ڈر، کبھی نہیں نکلا
کہ دریا سے تو سمندر کبھی نہیں نکلا
تمہارے ہجر کا غم کروٹیں بدلتا ہے
مرے حواس سے باہر، کبھی نہیں نکلا
ہزاروں بار نکالا ہے پیار چوڑی سے
ہمارا حصہ برابر، کبھی نہیں نکلا
کما کے کھانے کی عادت پڑی ہو جس کو یہاں
پھر اُس نسب سے گداگر کبھی نہیں نکلا
مرا جنون، مرا یہ تمام پاگل پن
حدودِ عشق سے باہر، کبھی نہیں نکلا
(رمضان نجمی۔ بھکر)

۔۔۔
غزل
میں پھول بن کے مہک اُٹھوں گا جہاں بھی تیرا وقار ہوگا
کھلانا گل مسکراہٹوں کے جہاں ہمارا مزار ہوگا
زمانے والے سخنوروں کاجہاں کہیں تذکرہ کریں گے
تمھاراشیدا، وفاکارسیا، بشربشرکی پکار ہوگا
وجودِآدم کی داستاں سے یہ بات باور ہوئی ہے سب پر
ہمیشہ شیطاں خداکے بندوں کے دشمنوں میں شمارہوگا
یہی ہے چاہت کہ تیری زلفوں کودے دیا نام زندگی کا
گماں گزرتاہے تیرا عاشق محبتوں کاعیار ہوگا
یہ چاندچہرہ، ستارہ آنکھیں، ہلالی پلکیں، غزالی رمزیں
یہ سب ہیں شاہدگلاب لب پرشفق کا آنچل نثار ہوگا
جو شب کی زلفوں پہ چاند چمکاجو دن کے سرپہ تھا تاجِ شمسی
اشارہ کرتے ہیں دیکھ لوپاس ہی وہ زُہرہ فگار ہوگا
حسین صبحیں، ملیح شامیں، صبیح چہرے، شفیق آنکھیں
تمھاری بستی کاکوچہ کوچہ محبتوں کی پکار ہوگا
سلام لکھ کر وہ خط میں اپنے سدایہ کہتے ہیں مجھ سے جعفرؔ
وفاکادامن جوچھوڑ دے گا وفا کادشمن شمار ہوگا
(اقبال جعفر۔وادیِ دُرگ، ضلع موسی خیل)

۔۔۔
غزل
راہ تاریک ہوگئی میری
موت نزدیک ہوگئی میری
کوئی بے کار شے بنانی تھی
اور تخلیق ہوگئی میری
ساری دنیا کی ساری تنہائی
حسبِ توفیق ہو گئی میری
جسم عادی رہا عبادت کا
روح زندیق ہو گئی میری
ایک عالَم خلاف تھا میرے
ایسے تصدیق ہو گئی میری
(سید محمد تعجیل مہدی۔جھنگ)

۔۔۔
غزل
لو ڈوب گیا فرشِ عزا دیدۂ نم سے
اب کوئی نہ گریے کا تقاضا کرے ہم سے
کھٹکا ہے کہ سیلابِ جنوں خیز کے ہاتھوں
گر جائے کہیں جسم کی دیوار نہ دھم سے
شہ کو مرے انکار سے معلوم ہوا ہے
ہر اک کو خریدا نہیں جاسکتا رقم سے
ہم لوگ بھی کیا سادہ ہیں تسکین کی خاطر
امید لگا لیتے ہیں پتھر کے صنم سے
افسوس کہ مقتل میں تہِ تیغ و تبر ہے
ماں باپ نے پالا تھا جسے ناز و نعم سے
مت پوچھ کہ اندر سے ہیں کس درجہ شکستہ
جو لوگ بظاہر نظر آتے ہیں بہم سے
اب آ کے مجھے رنج کی راحت ہوئی حاصل
پہلے میں سمجھتا تھا کہ مر جاوں گا غم سے
مجھ دل کو فقط قریۂ برباد نہ سمجھو
اک وقت یہ سر سبز علاقہ تھا قسم سے
(ازور شیرازی۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
اچھے انساں کو خطا کار بنا دیتی ہے
جب ہوس اپنا گرفتار بنا دیتی ہے
پھول کھل اُٹھتے ہیں بے رنگ بیابانوں میں
عاشقی دشت کو گل زار بنا دیتی ہے
گھر کے اندر بھی وہ سر ڈھانپ لیا کرتی ہیں
جن کو تہذیب حیا دار بنا دیتی ہے
میں بھی ہوں گریہ کناں شام سے اک کونے میں
مجھ کو تنہائی عزا دار بنا دیتی ہے
ڈوبنے لگتی ہے جب ناؤ تو پڑھتا ہوں درود
اور ہوا موج کو پتوار بنا دیتی ہے
ضد نہیں کرتے ہیں بچے کبھی ناداروں کے
مفلسی ان کو سمجھ دار بنا دیتی ہے
اپنے بابا کا سہارا ہے اکیلی لڑکی
اپنے آنچل کو وہ دستار بنا دیتی ہے
چڑھتے سورج کی پجاری ہے یہ دنیا صادقؔ
جس سے مطلب ہو اسے یار بنا دیتی ہے
(محمد ولی صادق۔ؔ کوہستان، خیبر پختونخوا )

۔۔۔
غزل
تم چھوڑ کے آئے تھے جسے جھیل کنارے
اُٹھتا ہے وہ لے لے کے دیواروں کے سہارے
دروازے پہ سائل ہے بھلا کیا دوں کے گھر میں
غربت ہے اُداسی ہے یا کچھ بجھتے ستارے
جو حال یہاں بیٹی کا ہے میری دعا ہے
اب تو نہ کسی گھر میں وہ رحمت کو اتارے
عاشق کو سمجھ آتی ہے عاشق کی زباں ہی
گونگے کو سمجھ آتے ہیں گونگے کے اشارے
اس ڈر سے کہیں مانگ نہ لے، باپ نے کہہ کر
چھڑوا دیا بیٹے کا سبق ’’غ‘‘ غبارے
کچھ اتنا بھروسہ تھا مجھے تجھ پہ، کئی بار
اُس ربّ کی جگہ میں نے ترے نام پکارے
(تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
سانس جتنا بھی آ رہا ہے مجھے
رفتہ رفتہ گھٹا رہا ہے مجھے
دل فقیری کا ہم نوا ہو کر
رنج سہنا سکھا رہا ہے مجھے
میں تو سولی پہ چڑھ گیا ہوتا
کوئی اب تک بچا رہا ہے مجھے
اہلِ دل میں تجھے سمجھتا ہوں
کیوں تو آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے
تو نے سینے میں غم بھرے ہوئے ہیں
تیرا لہجہ بتا رہا ہے مجھے
خواب آ کر بنے گا جاں پہ مری
کوئی یکسر دکھا رہا ہے مجھے
کس کی خاطر سنور رہا ہوں معاذؔ
کون ہے جو بلا رہا ہے مجھے
(احمد معاذ۔کہوٹہ، راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
منظر سے گھبرائے لوگ
منظر پر ہیں چھائے لوگ
پہلے بخشی مجھے زباں
پھر تلوار بنائے لوگ
چند ہی میرے اپنے تھے
وہ بھی چِھن گئے،ہائے لوگ
ایک جگہ کب ٹکتے ہیں
پنچھی،سورج،سائے،لوگ
کوئی ساتھ نہیں دیتا
دے جاتے ہیں رائے لوگ
ایسا شعر کہا ہی نئیں
جس نے ہوں دہلائے لوگ
کیسے تھے ارباب سنے
کیسے ہم نے پائے لوگ
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
آندھیوں میں شجر نہیں رہتا
بدگمانی میں گھر نہیں رہتا
لفظ پھر لفظ ہی تو رہتے ہیں
بات میں جب اثر نہیں رہتا
جب بھروسے کی ڈور ٹوٹتی ہے
ساتھ پھر عمر بھر نہیں رہتا
فائدہ ہے یہی بچھڑنے کا
پھر بچھڑنے کا ڈر نہیں رہتا
کون یہ مجھ میں میرے جیسا ہے
ساتھ رہتا ہے پر نہیں رہتا
راستے اس طرح بدلتے ہیں
ہم سفر، ہم سفر نہیں رہتا
کون رہتا ہمارے پاس سحر
درد بھی پاس گر نہیں رہتا
(نادیہ سحر۔ملتان)

۔۔۔
غزل
سبھی ظالم سنبھل جاؤ کہ اب حق آنے والا ہے
سنو ظالم سروں کے بل تمہیں لٹکانے والا ہے
کیے تم نے مظالم جو اسی کا بدلہ لے گا وہ
یہ رتبہ شان شوکت سب، سبھی کچھ جانے والا ہے
حکومت ظالمانہ جو بنا لی تم نے مغروری
یہ تخت و تاج آ کر حق اسے الٹانے والا ہے
کبھی مت ہارنا ہمت مظالم پر صبر کرنا
کہ مظلوموں کا حامی اب حکومت لانے والا ہے
ہے رب کا فیصلہ عابد کہ باطل کو تو مٹنا ہے
ہے دنیا منتظر جس کی وہ قائم آنے والا ہے
(محمد عابد جعفری ۔ملتان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈپریشن ایک سفاک قاتل

$
0
0

دورِ حاضر کا انسان پریشان ہے۔ جہاں انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں  مہارت حاصل کر کے چاند تک پر قدم رکھ لئے ہیں وہاں وہ اپنی بشری کمزوریوں اور حالات سے جدوجہدمیں تاحال مصروف عمل ہے۔

بیرونی دنیا میں ہونے والے حادثات اور درپیش حالات انسان کی اندورنی دنیا میں ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ انسان کو اس سب مشکلات و مصائب سے نبردآزما ہونے کے لئے ایک مضبوط قوت ارادی اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ زندگی امتحان ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ زندگی ایک مسلسل عمل ہے جس میں قدم قدم پر نئے پہلو اور آزمائشوں کا سامنا ہوگا۔ اور اس سب سے صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرنا ہی ہنر ہے۔

جو لوگ ذہنی و جذباتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ان مصائب و آلام کے گھنے جنگلوں سے بے خوف و خطر نکل جاتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیںہوتا کہ ان کے راستے میں رکاوٹیںنہیں آتیں انھیں ناہموار راستوں پہ چوٹیں نہیں لگتیں، وہ گرتے نہیں! یہ سب ہوتا ہے مگر وہ چوٹوں پہ مرہم رکھنا جانتے ہیں، گر کر اٹھنے کا ہنر جانتے ہیں۔حالات کا سامنا کرنا ہی کسی شخص کو باہمت اور کامیاب بناتا ہے۔ اس سب میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کو انسان کی ضرورت ہے۔

انسانی معاشرہ باہمی ربط کی بنا پر چلتا ہے۔ اور ہر انسان میں قدرتی طور پر اتنی قوت مدافعت نہیں ہوتی کہ وہ خود ہی ہر مشکل کا حل کر سکے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ماہرین کی انٹری ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کو اکثر معاشروں میں قابلِ اعتناء نہیں جانا جاتا،اور یہی مسائل کو جنم دیتا ہے۔انسانی ذہن کو بھی جسم کی طرح بیماریوںکا سامنا ہوتا ہے۔

اور بدقسمتی ہے ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کا سامنا کرنے والوںکو مریض سمجھنے کے بجائے پاگل سمجھ کر انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے کہ ایک صحت مند دماغ صحت مند جسم میں پایا جاتا ہے پر اس بات پر اکثر لوگ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ ایک صحت منددماغ ایک صحت مند جسم کاضامن ہے۔ جب کوئی ذہنی طور پر بیمار ہوگا وہ اپنی جسمانی وروحانی صحت کا خیال کیونکر رکھ سکے گا۔

ذہنی مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ایک اتنہائی پیچیدہ اور خطرناک ذہنی مرض جیسے عموماً معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے ’’ڈپریشن‘‘۔ ڈپریشن کو عام زبان میں ذہنی دباؤ کہا جاتا ہے، جس کی شدت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔یہ ایسی ذہنی حالت کا نام ہے جو کسی بھی بات کو لے کر شدت اختیار کر لیتی ہے ۔بنیادی طور پر ڈپریشن میں ایک طویل مدت کے لئے مزاج متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوشی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی دلچسپیوں سے دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔

اب یہاں اکثر لوگ اسے موڈ سونگز سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ موڈ سونگز کا دورانیہ طویل نہیں ہوتا اور وہ وقتی کیفیت ہوتی ہے جبکہ ڈپریشن ایک مستقل مسئلہ ہے اور جو کوئی بھی اس کا شکار ہوتا ہے وہ مسلسل سفر کرتا ہے اس کی روزمرہ زندگی اس سے متاثر ہونے لگتی ہے، جیسے تعلقات، خاندان، دوستوں اور ارد گرد لوگوںکے ساتھ برتاؤمیں واضح تبدیلی۔یہ صرف ذاتی دائرے تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ سکول،کالج،آفس اور سماجی مقامات پر بھی رویوں کو بدل دیتا ہے۔

ڈپریشن کے حوالے سے یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ یہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کو ہی ہوسکتا ہے ، ایسا بلکل نہیں۔ ڈپریشن کسی بھی عمر کے لوگوں کو ہوسکتا ہے جو زندگی میں کسی طرح کے ناروا سلوک کا شکار ہوئے ہوں، یا جن سے کچھ چھن گیا ہو، یا نامسائد حالات کا شکار ہوں۔ اور تحقیق اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ ڈپریشن عورتوں کو مردوںکی نسبت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس کی علامات کی بات کی جائے تو ایک شخص ڈپریشن میں زندگی کو ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کسی چیز میں امید اور خوشی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ ہر وقت دکھی اور مغموم رہنے لگتا ہے یہاں تک کے اس میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔

اس کا دھیان بٹا رہتا ہے اور نتیجتاً وہ کسی کا م پر توجہ مرکوز نہیںکر پاتا۔ وہ خود ترسی اور احساس ندامت کا شکار ہو کر اپنی ذات کی نفی کرنے لگتا ہے۔اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات اسے نا امیدی کی جانب دھکیلتے ہیں۔نیند متاثر ہونے لگتی ہے۔ بے معنی سوچیں اور بے خوابی اس کے ذہن پر طاری رہتی ہیں۔ہر وقت تھکاوٹ اور سستی چھائی رہنا شامل ہیں۔

ڈپریشن کی اقسام

ڈپریشن کو عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی کوئی قسم نہیںہوتی، لیکن یہ ایک کثیر جہتی ہے۔ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے درج ذیل یہ ہیں:

میجر ڈپریشن

یہ اس کی سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے جوکے ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس کے اثرات تمام شعبہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں، جیسا کہ نیند، کام، پڑھائی، کھانا پینا، رہن سہن وغیرہ۔ ایسے لوگ ہر وقت غم زدہ، مایوس، ناامید اور اکتائے رہتے ہیں۔

یہ ناصرف جذباتی بلکہ جسمانی تکلیف کا بھی باعث بنتی ہے اور جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک مخصوص عرصہ کے لئے اس کا شکار ہو لیکن بعض افراد تادم مرگ اس کے شکنجے سے جان نہیں چھڑا پاتے اور خواتین، مردوں کی نسبت اس کا دوگنا شکار ہوسکتی ہیں۔

مستقل ڈپریشن ڈس آرڈر

ڈپریشن کی اس قسم کو ڈسٹیمیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں مزاج میں افسردگی چھا جاتی ہے جس کی مدت دو برس یا اس سے زیادہ عرصے تک رہتی ہے۔ یہ دائمی اور مسلسل جاری رہنے والا ڈپریشن ہے۔ dysthymia کے شکار لوگوں کو انتہائی خوشی کے موقعوں پر بھی خوش رہنے میں پریشانی ہوتی ہے اور انہیں اکثر اداس یا مسلسل شکایت کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ دیگر علامات میں ناامیدی کا احساس، کم ہمتی اور کمزور ارتکاز شامل ہیں۔ یہ میجر ڈپریشن کے ساتھ مل کر بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس کی علامات اتنی شدید نہیںہوتیں۔

بائی پولر موڈ ڈس آرڈر

یہ ڈپریشن کی مندرجہ بالا دونوں اقسام کی نسبت کم لاحق ہونے والا عارضہ ہے۔ جس کی پہچان موڈ میں ہونے والی انتہائی حیران کن تبدیلیوں سے ہوتی ہے۔ بائی پولر موڈ ڈس آرڈر کی ایک ذیلی قسم مینیا ہے۔ مینیا میں ڈپریشن کی کم یا زیادہ سطح پر جسم میں توانائی متاثر ہوتی ہے۔ یا طبیعت میں ایک دم تیزی آجاتی ہے یا انتہائی سستی چھا جاتی ہے۔

فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ سب اس کی پہچان ہیں کہ کوئی فرد بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ زیادہ تر بلوغت یا اوائل جوانی میں لاحق ہوتا ہے جس کے موروثی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی تین قسم کے ڈپریشن انسان کی زندگی کے حالات کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔

نفسیاتی ڈپریشن

یہ میجر ڈپریشن کے ساتھ لاحق ہونے والا عارضہ ہے جس میں انسان حقیقی دنیا سے دور ہو جاتا ہے اور اسے ہیولے، خود ساختہ وجود دکھائی دینے لگتے ہیں۔ نفسیاتی ڈپریشن کاشکار افراد عموماً بائی پولر موڈ ڈس آرڈر کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن

خواتین میں دس سے پندرہ فیصد کو بچے کی پیدائش کے بعد اس خوفناک قسم کے ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتاہے جس میں انھیں موڈ سونگز اور رونے کا جی چاہتا ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی نہیں جان پاتی ہیںکہ ان کا رونے کا دل کیوں چاہ رہا ہے اور موڈ میںایک دم سے اتار چڑھاؤ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت طویل عرصے پر محیط ہوتی ہے اور یہ ماں بچے دونوں کے باہمی تعلق کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔اس میں عدم برداشت، بے خوابی، شدید غصے اور بچے کی دیکھ بھال میں ،مشکلات جیسے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔

موسمی افیکٹیو ڈس آرڈر

یہ ڈپریشن کی وہ قسم ہے جو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب سورج کی روشنی سے رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً نوجوانی میں لاحق ہوتی ہے۔یہ گرمیوں اور سردیوں کے اندر زیادہ حملہ آور ہوتی ہے۔اس کی علامات اور شدت مختلف ہوسکتی ہیں۔

عمومی طور پر یہ چڑچرے پن اور غیر معمولی ہونے کے احساسات پر مبنی ہوتی ہیں۔کچھ کے لئے یہ ڈپریشن میجر اور روزمرہ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔اس کا علاج لائٹ تھراپی اور روایتی تھراپی کے ساتھ چند ادویات سے کیا جاسکتا ہے۔ سورج کی روشنی میں بیٹھنے سے بھی اس میں افاقہ ہوتا ہے۔

ڈپریشن سے بچاؤ کی چند ٹپس

٭…خوشگوار یت کا احساس دلانے والی سرگرمیاں اپنائیں۔

٭… اپنے خاندان اور دوستوں سے جڑے رہیں۔

٭… ورزش ضرور کریں چاہے کم وقت کی ہی کیوں نہ ہو۔

٭… اپنے کھانے پینے اور سونے کی عادات میں باقاعدگی لے کر آئیں۔

٭… سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

٭… اپنے احساسات اور جذبات کسی قابل بھروسہ فرد کے ساتھ شئیر کریں۔

٭…اگر آپ خود کو تنہا اور مددگار ڈھونڈنے میں ناکام پاتے ہیں تو کسی ماہر امراض نفسیات کی مدد لینے سے بلکل نہ گھبرائیں۔

٭…کوئی بھی ذہنی کیفیت اگر دو ہفتے سے زیادہ آپ کو متاثر کر رہی ہے تو ڈاکٹر کی مدد لیں۔

عموماً لوگ یہ بات سمجھنے میں غلطی کرتے ہیںکہ ڈپریشن ایک بیماری نہیں بلکہ پاگل پن ہے یا کوئی روحانی مسئلہ ہے۔ بہت سے مسائل کی طرح یہ بھی ایک مرض ہے۔اور یہ کہنا کے کسی بھی متمدن گھرانے کے کسی فرد کو ڈپریشن نہیںہوسکتا بلکل کمزور دلیل ہوگی۔

دنیا بھر میں کامیاب لوگ اور اہم شخصیات ڈپریشن سے کسی نا کسی سطح پر نبردآزما ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔جیسے شوگر بلڈ پریشر بلا تفریق جنس، مذہب، معاشی و معاشرتی حیثیت کسی بھی فرد کو لاحق ہوسکتے ہیں ڈپریشن کی مثال بھی بلکل ایسی ہی ہے۔

لوگوں کے گھروں میں مریض اسی ذہنی الجھنوں کا شکار ہو کر نا صرف خود بلکہ دوسروں کے لئے بھی ایک اذیت ناک زندگی کا باعث بنتے ہیں لیکن صرف آگاہی کی کمی اور ذہنی صحت کو ترجیح نہ دینے جیسی وجوہات اس کا محرک بنتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی مسائل سے آگاہی کا شعور اجاگر کیا جائے اور علاج میں تاخیر نہ کی جائے۔ایک صحت مند سوچ اور ذہن کا مالک شخص ہی معاشرے میںمثبت کردار اداکرسکتا ہے۔

The post ڈپریشن ایک سفاک قاتل appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

روش روشن

مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:1200 روپے، صفحات:320

ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)

صوفی شوکت رضا سرکار متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، انھوں نے تصوف، طب اور شاعری کے میدان میں بڑی خوبصورت تحریروں سے ادب کی خدمت کی ہے۔ تصوف ان کا خاص شعبہ ہے ۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کو اسی پیمانے پر جانچتے اور پرکھتے ہیں ۔

ان کی تحریریں انسانی زندگی کے پوشیدہ پرت کھولتی ہیں ۔ معروف ادیب و ناشر عبدالمتین ملک کہتے ہیں ’’ روش کا لفظ ڈھنگ، طریقہ اور انداز کے معنی میں آتا ہے اور روشن کا لفظ چمکتا ہوا ، نورانی اور کشادہ کے معنی میں آتا ہے ۔

سو یہ ساری شاعری ایک نورانی انداز بیاں میں کی گئی ہے ۔ اس کے ایک ایک فقرہ میں قرآن و حدیث کی روح اور اسلام کی تاریخ مضمر ہے ۔ روش روشن میں ہر وہ علم و عمل ہے جس کی وابستگی انسان کے روزمرہ مسائل اور معاملات سے دوچار رہتی ہے ۔

اس کلام میں انسان کے بارے میں نصیحت و وصیت اور اس کی سرکشی کے تمام خدو خال کا بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کلام اخلاقی تعلیمات کا سرچشمہ ہے ۔ آخر میں دعائیہ کلام اتنی عاجزی ، درد مندی اور فریاد سے ہے کہ پڑھتے پڑھتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت ہو گئی ہے ۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب میں موضوعات کے انتخاب میں حسن ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو توحید سے شروع ہو کر دعا پر ختم ہوتا ہے ۔

بہت نازک موضوعات کو شاعرانہ رنگ میں بیان کیا گیا ہے ہے جو بہت ہی مشکل کام ہے مگر صوفی شوکت رضا تصوف اور روحانیت میں گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اسے بڑی خوبصورت آسان انداز سے بیان کرتے ہیں ۔ جیسے ’ احوال قیامت‘ میں کہتے ہیں

جس دم ہو گا رونما محشر

یک دم ہو گا عیاں محشر

قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے

کل آدم ہو گا بیاں منظر

یہی وہ روز آخرت ہو گا

کہ مقدم ہو گا انتہا قدر

جزا سزا کا فیصلہ ہو گا

پھر عالم ہو گا بے زباں اسقدر

اسی انداز میں تمام موضوعات بیان کئے گئے ہیں ۔ یوں یہ کتاب شاعرانہ انداز میں فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرد کی رہنمائی بھی کرتی ہے کہ اسے کس انداز سے زندگی گزارنی چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گیا ہے ۔

خزینہ دانش

مصنف: نسیم طاہر ، قیمت:1000روپے، صفحات:256

ناشر: ادبستان، پاک ٹاور کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)

عقل و دانش اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے چاہے دیدے ، مگر آج کے جدید دور میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ کتابی علم کے حصول سے عقل و دانش حاصل ہوتی ہے ، حکیم لقمان جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے وہ غلام تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی حکمت عطا کی تھی کہ بڑے علم و فن کے ماہر ان کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ، یہ ضرور ہے کہ اکتسابی علم سے فنون میں مہارت حاصل ہوتی ہے ۔

معروف دانشور ، ادیب اشفاق احمد اپنے مرشد حضرت فضل شاہؒ نور والے کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ان کی فکر میں جب بھی الجھاؤ پیدا ہوتا تو وہ اپنے مرشد کے پاس تشریف لے جاتے جو ان کی فکری گتھیوں کو سلجھاتے ، حالانکہ سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ نور والے اکتسابی علم سے بہرہ ور نہ تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت کے خزانے عطا کیے تھے ۔

خزینہ دانش بھی حکمت کے جواہر پاروں سے مزین ایک گلدستہ ہے جس کی خوشبو جسم و جان کو معطر کرتی ہے ۔ مصنف اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں ’’ عرصہ قبل مجھے ایک کتاب ملی جو ادب ، اخلاق ، تہذیب اور سماجی بہبود کے موضوعات پر مبنی تھی ۔ پھٹی پرانی اور شکستہ کتاب کے ابتدائی صفحات ندارد ، اس لیے مصنف کا نام نہ مل سکا ۔

یہ کتاب ایک خزانہ ہے ۔ اس میں برصغیر کی سماجی اور اخلاقی پرتوں کو تہہ در تہہ کھول کر رکھا گیا ہے ۔ انسانی خوبیوں اور کمزوریوں کو فرمودات ، حکایات اور کہانیوں کی صورت بیان کیا گیا ہے۔ مگر زبان بڑی مشکل تھی اس لیے میں اس کتاب کے کچھ حصوں میں پوشیدہ حکمت و دانش کو جدید تقاضوں میں ڈھال کر دوبارہ لکھا ، بالعموم اس کتاب کی فکری بالیدگی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ جو اضافے ہیں وہ میری طرف سے ہیں ۔

کچھ واقعات، قصے کہانیاں اور کہے ان کہے تجربات جن سے میں اور میرے دوست گزرے وہ بھی سپرد تحریر ہیں ۔ حریت فکر ، تعلق باللہ کی تانگاں، شخصیات ، روزن تاریخ ، ایجادات ، عجائبات ، سیاحت اور دو واقعات کی ڈرامائی تشکیل بھی میری طرف سے ہیں ۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب میں حکمت کے ایسے راز بیان کئے گئے ہیں کہ قاری کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جیسے ’نیک نامی‘ کے عنوان سے ایک حکایت ہے ’’ ایک بادشاہ کو کسی بزرگ کے اخلاق حسنہ کی خبر ہوئی ۔ وہ ان کے پاس حاضر ہوئے ۔

بزرگ نے بادشاہ کو ہزاروں برس نیک نامی سے جینے کی دعا دی ۔ بادشاہ نے جانا کہ بزرگ نے مبالغے سے کام لیا ہے۔ بولا ’’ دعا میں ایسا کلام مبالغہ شایان شان نہیں ۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا :’’حیات بقائے بدن تک محدود نہیں ، بقائے نیک نامی ہزاروں برس بھی قائم و دائم رہ سکتی ہے۔‘‘ پھر کہا :’’ دیکھتے نہیں ہو ، شیر شاہ سوری نے صرف چار برس حکومت کی لیکن اتنے مختصر عرصے میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے ۔‘‘ مجلد کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ علم و معرفت کے راز جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے اس لیے ضرور پڑھنی چاہیے ۔

میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور

مصنف : منیر احمد منیر، قیمت : 1500روپے، صفحات: 464

ناشر:آتش فشاں، 78 ستلج بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور(03334332920)

لاہور اور امرتسر برصغیر کے تاریخی شہر ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ تہذیب و ثقافت کے مرکز ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔ دونوں شہروں کی خوبی ہے کہ یہاں جو بھی آیا پھر اس کا من انھی شہروں میں لگ گیا ، درجنوں مشہور شخصیات ہیں جنھوں نے ان شہروں سے محبت کو ایسے بیان کیا ہے جیسے وہ اپنی کسی محبوبہ کا ذکر کر رہے ہوں ۔

منیر احمد منیر ایسے تاریخی مشاہدات کو بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔ واقعات کی تحقیق تو یوں کرتے ہیں کہ جیسے یہ ان کے لیے کوئی من چاہا شوق ہے اور وہ اپنے اس شوق کے ہاتھوں یوں مجبور ہیں کہ اسے کئے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں اور پھر بال کی کھال اتار کر رکھ دیتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی لاہور اور امرتسر کے حوالے سے تاریخی انکشافات کا ایک پٹارا ہے ۔

ایک واقعہ کی حقیقت جان کر قاری حیران ہو رہا ہوتا ہے تو آگے کوئی اور واقعہ اسے مزید حیران کر دیتا ہے ، اس پر مصنف کی تحریر کی چاشنی ، قاری اس میں لت پت ہو جاتا ہے ۔ جیسے مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان سے پہلے گنگا رام ہسپتال میں مسلمان مریض کا داخلہ ممنوع تھا ۔ سرگنگا رام کے قائم کردہ دیگر ادارے بھی ہندوانہ تعصب سے اٹا اٹ تھے۔ بھگت سنگھ انقلابی قطعاً نہ تھا ۔ وہ اسلام دشمن شیوا جی اور گورو گوبند سنگھ سے متاثر تھا ۔

بھارت بڑی چالاکی سے بھگت سنگھ کو پاکستان کا بھی ہیرو قرار دلوا رہا ہے ۔ علامہ مشرقی زبردست کنجوس تھے اور جلسہ عام میں مسلم لیگ کو ننگی گالیاں دیتے تھے ۔ امرتسر کی ممتاز باؤلے والی کے حسن نے ہندوستان اور انگلستان بھر میں ہلچل مچا دی ۔ صوفی کلچا ، پریم ناتھ کا بن مکھن ، ساگر ہوٹل کی آئس کریم اور ہیرامنڈی کے رس گلے لاہور بھر میں مشہور تھے ۔

الغرض زیر تبصرہ کتاب میں لاہور اور امرتسر کے سو سالہ سیاسی ، ثقافتی ، فلمی اور حسن و جمال کے اتار چڑھاؤ کے آنکھوں دیکھے دلچسپ اور تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر احمد حسن کے طویل انٹرویو کے علاوہ محمد حنیف آف بے نظیر سموسہ ، آصف حسین ایڈووکیٹ ، انور خلیل شیخ ، کرنل سید امجد حسین، گرافک آرٹسٹ عبدالسلیم اور پروفیسر محمد جمیل خاں کے انٹرویو بھی شامل ہیں ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ بہت سے ڈھکے چھپے حقائق سے آگاہی حاصل ہو ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

پابلونرودا کی شاعری

مترجم: بشیر احمد شاد، قیمت:600 روپے، صفحات:80

ناشر: بک ہوم، 46 مزنگ روڈ،لاہور (03014208780)

شاعری خیالات کے اظہار کا خوبصورت انداز ہے ۔ بالخصوص اشاریوں کنایوں میں شاعر وہ کچھ کہہ جاتا ہے جو کسی اور طرح سے شاید ممکن نہ ہو، اور شعر کی خوبصورتی دل کو چھو لیتی ہے۔ کس کو پتہ تھا کہ چھوٹے سے شہر پارال میں ایک معمولی ریلوے کارکن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ آنے والے وقت میں اپنی شاعری سے چار دانگ عالم مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دے گا ۔

پابلو نرودا کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شاعری متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے بلکہ ایک ہی زبان میں بھی کئی مرتبہ ترجمہ ہوئی ہے ۔

بشیر احمد شاد کہتے ہیں کہ ایمرسن کی طرح پابلو نرودا نے بینائی سے محروم چیزوں کو آنکھیں عطا کی ہیں اور قوت گویائی سے محروم چیزوں کو زبان ، گویا اس کی شاعری میں نابینا دیکھ سکتے ہیں اور گونگے بول سکتے ہیں ۔ جس طرح لائنکیاس ہمیں کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا عکس ایک آئینے میں دکھاتا ہے ۔

اسی طرح نرودا بھی ایسی شاعری پر یقین رکھتے ہیں جس میں خاموشی کے طلسم کو جنگل اور اس میں بکھری چیزیں توڑ رہی ہوتی ہیں ۔ پتھر اور سمندر ایک ہی وقت میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ محض فطرت کا شاعر ہی نہیں ہے اس سے بھی ماورا بہت کچھ ہے۔

ہسپانوی امریکن شاعری میں کائنات کے اسرار و رموز پرنگاہ رکھنے کا نرودا کا اپنا ایک ڈھنگ ہے جو اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور نمایاں کرتا ہے ۔ وہ نہ صرف عوام کا شاعر ہے بلکہ خلاؤں اور فضاؤں کا بھی ۔

تمھارا چمکتا ہوا شفاف سینہ

جس پر باد صبا نے ملمع کاری کی ہے

ایسے ہے جیسے تکونی چٹان

لامحدود چمکیلے پتھر سے بنی

یہ دھرتی جس نے ابھی سانس بھی نہیں لیا

تنہا تنہا گرد اور غربت سے کوسوں دور

نرودا کی شاعری کے بے شمار روپ ہیں ، اس کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ اس کا فن اس کی زندگی کی طرح مختلف مراحل سے گزرا اور بالآخر اسے ادب کے افق پر درخشندہ ستارے کی طرح رہتی دنیا تک روشن کر گیا۔

شاہد پرویز جامی کہتے ہیں ’’ زیر نظر کتاب چلی کے ترقی پسند نوبل انعام یافتہ شاعر پابلونرودا کی نظموں پر مشتمل ہے ۔کسی بھی بڑے شاعر کے کلام کا ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔اس سے قبل بہت سے لکھاریوں نے نرودا کی نظموں کے تراجم کیے ہیں جن میں پروفیسر عبدالقیوم صاحب کا انتخاب ’’ میرے منہ سے بولو‘‘ قابل ستائش ہے۔

میرے خیال میں بشیر شاد کی یہ کاوش بائیں بازو کے انقلابی شاعر سے محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔‘‘ مترجم شاعری کی دو کتابوں ’ دھوپ اور سائے‘ اور ’ چپ دی واج‘ کے مصنف ہیں ۔ انھوں نے پورے دل و جان کے ساتھ ادب کی خدمت کی ہے ۔ مجلد کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے ۔

توحید کی آواز
مصنف : مولانا عثمان منیب،حافظ محمد اقبال ، صفحات: 328
ناشر: دارالسلام انٹر نیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034


انسان کی تخلیق فطرت توحید پر ہوئی ہے اس لیے اسے سمجھنا ہر انسان کے لیے نہایت ضروری اور آسان ہے لیکن افسوس کہ توحید کی دعوت جس قدر عام فہم اور عقل و شعور رکھنے والوں کو اپیل کرتی ہے کچھ لوگوں نے آج اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے ۔

جس توحید کے تصور کو نمایاں کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتھک محنت کی اور قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اور امثال کے ذریعے اس کے درست مفہوم کو سمجھانے کی کوشش کی وہ تصور آج فلاسفہ کی موشگافیوں کی نذر ہو چکا ہے یعنی توحید کی صاف ستھری دعوت کو چھوڑ کر ہم ا نہی پہیلیوں میں سرگرداں ہو گئے ہیں۔

جن سے نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے ۔ توحید کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنے کے لیے دارالسلام نے ایک جامع کتاب ’’ توحید کی آواز ‘‘ ترتیب دی ہے جو درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے:

اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہے ۔ علمی مباحث کو عوام الناس کے لیے آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ ذات باری تعالی کے حوالے سے مذاہب عالم کے تصورات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان میں پائے جانے والے توحید کے تصور کی حقیقت آشکارا کی گئی ہے ۔

توحید کی اقسام بیان کر کے ان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ شرک اور اس کے مظاہر کا مدلل رد کیا گیا ہے نیز دور حاضر کے حساس مسئلے یعنی مسئلہ تکفیر کی مکمل وضاحت کرتے ہوئے اس کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یوں ان اہم اور مفید مباحث پر مشتمل یہ کتاب علماء طلباء اور عوام کے لیے توشہ علم اور رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے ۔

کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نزول قرآن کے وقت ذات باری تعالی کے بارے میں اس وقت کے مذاہب اور اقوام میں کیا تصور پایا جاتا تھا مثلاََ چینی تہذیب میں ذات باری تعالیٰ کا کیا تصور تھا ۔ اسی طرح ہندوستانی ، شمنی ، ایرانی ، مجوسی ، یہودی، عیسائی ، یونانی ، مشرکین مکہ اور اہل عرب کے ہاں ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کیا تصور پایا جاتا تھا ۔

یہ تمام تصورات بیان کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید نے توحید کا کیا تصور اور سبق دیا ہے ۔ کتاب میں معرفت باری تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں جو دل کو چھوتے اور عقل کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ توحید کے لغوی و اصطلاحی معنی ، توحید کی حقیقت واہمیت توحید کی فضیلت ، توحید کی اقسام ، صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ائمہ اسلاف کے اقوال کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔

کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ توحید باری تعالی ہی تمام عبادات کی بنیاد ہے توحید اور مسئلہ تکفیر پر بھی بحث کی گئی ہے ، صحیح عقیدہ توحید کے حصول کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں شرعی اور غیر شرعی وسیلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مسلمانوں پر مختلف تہذیبوں کے اثرات کو زیر بحث لاتے ہوئے فلسفہ وحدت الوجود ، وحدت الشہود اور حلول کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔

تقدیر ایک اہم ترین اور حساس مسئلہ ہے اس کی بھول بھلیوں میں بڑے بڑے دانشور اور اہل علم الجھ کر رہ گئے اور صراط مسقتیم سے بھٹک گئے ہیں لہذا تقدیر کے مسئلہ کی حقیقت اور ماہیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے ، اس ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا ہر چیز تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور کیا دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات تفصیل سے دیے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان کیلئے مسئلہ تقدیر کو سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے ۔

جادو کی بعض اقسام ، قرآنی تعویذ ، غیر قرآنی تعویذ ، علم نجوم کی شرعی حیثیت ، بدفالی اور بدشگونی کی حقیقت جیسے اہم موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ یوں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ توحید کے موضوع پر پیش نظر کتاب ایک منفرد کاوش ہے ۔

اس کتاب کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں علمی باریکیوں کی بجائے عام فہم اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ یوں یہ کتاب اہل علم کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کیلئے بھی بے حد مفید ہے ۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
15 تا 21 جنوری 2024
پیر 15 جنوری2024
آج کا حاکم عدد 8 ہے۔ آج کا دن تقاضا کرتا ہے کہ دل پر بوجھ محسوس نہ کریں، جلدبازی کو ذہن سے نکالیں اور صبروسکون سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں اگر 2،3،4،6،7 اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز، ع یا ذ ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5 اور9 خصوصاً کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ،ث یا ن ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
اسمِ اعظم ’’یارحیم، یارحمٰن، یااللہ‘‘ 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 16 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد7ہے۔ ایک روحانی دن جو اپنے اندر ایک توانائی رکھتا ہے۔ بہتر ہے جسمانی قوت کی بجائے روحانی قوت سے کام لیا جائے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4،5،7،8 اور9 خصوصاً 8کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح، ف یا ض ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2 اور خصوصاً 6 یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم‘‘ 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درود شریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 17 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 4 ہے۔ ایک غیرمتوقع دن ہے۔ ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے جس کے بارے میں گمان تک نہ ہوگا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ صورت حال منفی ہی ہو، تلوار ایک ہی ہوتی ہے، کسی کی جان بچالیتی اور کسی کی جان لے لیتی ہے۔ 1،2،3،6،7 اور8 خصوصاً 2 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4،5 اور خصوصاً 9 یا پیدائش کا دن منگل یا نام کا پہلا حرف ص، ط یا ظ ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص ’’یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ‘‘ 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 18 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔ تین کا عدد اپنے دن میں حاکم بنا ہے۔ یہ اس کی قوت کو کامل بنارہا ہے۔ ترقی، صحت اور روحانی سفر کے لیے موزوں دن ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3،4،7،8 اور9 خصوصاً 3کا عدد یا پیدائش کا دن جمعرات ہے یا نام کا پہلا حرف ج،ل یا ش ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5 اور6 خصوصاً 1 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا،ی یاغ ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ‘‘ 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ19 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 7 ہے۔ مراقبہ، تنہائی، خوداحتسابی اور گیان دھیان جیسے امور کے لیے انتہائی سازگار دن ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4،5،7،8 اور9 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلاحرف ح،ف یا ض ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 1،2 اور 6 کا عدد خصوصاً 6 یا پیدائشی دن جمعہ یا جن کے نام کا پہلا حرف و،س کا خ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ‘‘ 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ20 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 1ہے۔ ہفتے کا دن دراصل خاتمے اور انتہا کا دن ہے جب کہ 1 ایک نئی ابتدا سے منسوب ہے کچھ چیزیں اپنے انجام کو پہنچیں گی اور کچھ مشکلات شروع ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،4،5،6 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائشی دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ،ن اور ث ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،7 اور8 خصوصاً کا7 عدد یا پیدائشی دن پیر یا نام کا پہلا حرف ع،ز یا ذ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے،کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ‘‘ 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 21جنوری 2024
آج کا حاکم نمبر 4 ہے۔ حکم راں طبقے میں بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ کوئی مسند نشیں اور جو مسند نشین ہے وہ سبک دوش ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،6،7 اور8 خصوصاً 2 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4،5 اور9 خصوصاً 4 عدد یا جن کا پیدائشی دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت،م یا د ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا باپ کی عمر کے کسی فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’یاحی، یاقیوم، یااللہ‘‘ 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4711 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>