Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4713 articles
Browse latest View live

سخن آرائیاں

$
0
0

اردو مزاح کی شگفتگی، تابندگی اور تازگی کو دوبالا کرنے اور باکمال بنانے میں فکاہیہ ادب سے وابستہ قلم کاروں کا کردار قابل تحسین بھی ہے اور نا قابل فراموش بھی، جنہوں نے نظم و نثر ہر دو اصناف ایسے مزاح پارے تخلیق کیے جو اپنی مثال آپ ہیں۔

اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کا ایک بڑا حصہ پر مزاح تخلیقی نگارشات کے علاوہ مختلف مواقع پر شعراء و ادباء کے مابین ہونے والی ان خوش گفتاریوں، جملہ بازیوں پر مبنی ہے، جو اپنی انفرادیت کی بنا پر آج تک مقبول ہیں۔

ادباء و شعراء کی انہیں حاضر جوابیوں، برجستہ گویوں پر مشتمل مضامین کا قسط وار سلسلہ ’’سخن آرائیاں‘‘ کے عنوان سے اس موقر میگزین میں شائع ہو کر قارئین سے دادِقبولیت حاصل کر چکا ہے۔

مذکورہ اشاعتی مضامین کے جواب میں صاحبانِ ذوق کی جانب سے حاصل ہونے والے حوصلہ افزاء ردِعمل اور ان کی دل چسپی کے پیشِ نظر ’’بعد از تحقیق ِبسیار‘‘ چند مزید سخن آرائیاں پیش ِخدمت ہیں۔ اس امید کے ساتھ:

گر قبول افتد زہے عز و شرف

مرزا غالب ؔکو جوا کھیلنے کے جرم میں سزا ہوگئی، لیکن ان کو جیل میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جیلر اور سارا اسٹاف ان کا خیال رکھتے تھے۔

جب چھوٹ کر آئے تو مفتی صدرالدین آزردہ ؔنے دعوت کی۔ دورانِ گفتگو پوچھا کہ جیل میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟ غالب بولے ویسے تو کوئی تکلیف نہیں تھی مگر ہر روز چار پانچ کوڑے ضرور پڑتے تھے۔

سب نے تعجب سے پوچھا ’’کوڑے‘‘ غالب ؔبولے: ’’جی ہاں! جیل کے اندر سپاہیوں میں ایک شاعر بھی تھے جو بے بحر اشعار کی چار پانچ غزلیں مجھے سنا کر داد چاہتے تھے۔ مجبوراً سننی پڑتی تھیں۔ بس وہ کوڑے جیسی سزا تھی۔

معروف استاد شاعر مضطر ؔخیرآبادی ٹونک میں دیوانی عدالت کے ناظم تھے۔ اپنی شاعرانہ طبیعت کے باعث انہوں نے بعض منظوم فیصلے بھی تحریر کیے۔ دیوانی عدالت میں اپنی ملازمت کی رعایت سے ان کا ایک شعر ہے:

؎نہ گیا کار گزاری میں بھی وحشت کا خیال!!

جس عدالت کا میں ناظم ہوں وہ دیوانی ہے

ایک مرتبہ نواب رام پور کی محفل میں لفظ سانس کی تذکیر و تانیث سے متعلق بحث چھڑ گئی، داغ ؔدہلوی شریک محفل تھے۔ بحث کے طول پکڑنے پر بالآخر نواب صا حب نے داغ ؔسے پوچھا،’’آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘ جس پر داغ ؔنے کہا،’’حضور! میرا فیصلہ تو یہ ہے کہ مونث کا سانس مونث اور مذکر کا سانس سمجھا جائے۔‘‘

اردو شاعری کے اولین دور کے شاعر خواجہ ابراہیم غنی ؔکا ابتدائی تخلص’’مفلس‘‘ تھا۔ ایک دن ریاست سچین کے نواب ابراہیم خان یاقوتؔ، جو فن شاعری کے دل دادہ تھے، نے خواجہ سے فرمایا کہ آپ کا تخلص’’ مفلس ‘‘ بے جا ہے،’’غنی‘‘ تخلص اختیار کرلیں۔ اس تجویز پر خواجہ صاحب نے برجستہ کہا:

؎کب تک رکھے گا مفلس اے چرخِ بدگہر تو

اقوتؔ خاں نے مجھ کو اب تو غنی ؔکیا ہے

استاد شاعر جلیلؔ مانک پوری کی رسائی دکن میں جب دربارِآصفیہ تک ہوئی اور وہ نظام دکن کے شعر و سخن کے استاد مقرر ہوئے تو بطور شکریہ اپنے جذبات کا اظہار درج ذیل شعر کے ذریعے کیا:

؎رہے جو شہ کی نظروں میں ترقی اس کو لازم ہے

ملے قطرہ جو دریا سے وہ دریا ہو ہی جاتا ہے

لکھنؤ کے شاعر بحر ؔلکھنوی کے کسی بات پر اپنے زمانے کے معروف ناول نگار عبدالحلیم شرر ؔسے تعلقات بگڑ گئے، جس پر بحر لکھنوی نے عبدالحلیم کے تخلص شرر ؔپر چوٹ کرتے ہوئے درج ذیل ہجویہ شعر لکھا:

؎فلک نے ہم کو دکھایا یہ سردوگرمِِ جہاں!

کہ آئے قطرے کی صورت گئے ’’شرر‘‘ کی طرح

مولانا ابوالکلام آزاد ؔکا اخبار الہلال 1923ء میں ضمانت ضبط ہونے پر انگریز حکومت کی جانب سے بند کردیا گیا، جس کی مذمت میں اکبرؔ الہ آبادی نے اس طرح شاعرانہ احتجاج کیا:

؎مغرب کی برق ٹوٹ پڑی اس غریب پر

دورِفلک’’ہلال‘‘ کو لایا ’’صلیب‘‘ پر

استاد قمرؔ جلالوی کی ہم عصر شاعرہ وحیدہ نسیم ؔنے قمرؔ صاحب سے کہا،’’استادی تو یہ ہے کہ آپ ایک ہی شعر پڑھیں اور مشاعرہ لوٹ لیں۔‘‘ بات سن کر استاد مسکرائے۔ کچھ ہی روز بعد ایک مشاعرے میں دونوں موجود تھے۔ وحیدہ نسیم اگلی صف میں بیٹھی تھیں۔ قمرؔ صاحب کی باری آئی تو استاد مائیک پر آئے اور بولے،’’مطلع سماعت فرمائیے‘‘:

؎پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو

مصرع پر واہ واہ ہوئی، استاد نے پہلا مصرع مکرر پڑھا اور تالیوں کی گونج میں شعر مکمل کردیا:۔

؎نسخے میں لکھ دیا ہے وحیدہ نسیم کو

محفل میں تادیر دادوتحسین کا شور بلند رہا اور یوں ایک ہی شعر میں مشاعرہ لوٹ لیا گیا۔

ایک روز کسی محفل میں کانگریس کے حمایتی، نام ور عالم دین حافظ محمد ابراہیم کا سامنا مولانا ظفر علی خان سے ہوگیا۔ مولانا ظفر علی خان نے حافظ صاحب کو دیکھتے ہی بر جستہ کہا:

؎نغمۂ توحید اب کس کی زباں پر آئے گا؟

جب خود ابراہیم بندے ماترم گانے لگے

سبطِ حسن جیل میں قید تھے۔ ابھی ان کو قید ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ دیگر قیدیوں میں ایک قیدی اپنی بارک سے ان کو ملنے آتا تو بار بار جیل سے رہائی کی بابت حکومتی فیصلے کا تذکرہ کرتا رہتا کہ جلد حکومت نئے قیدیوں کو رہا کر دے گی۔ جب وہ صاحب چلے تو سبط حسن نے اپنے ایک ساتھی سے متعلقہ قیدی کے بارے میں میں پوچھا کہ یہ صاحب کون تھے؟ ان کے ساتھی نے جواب دیا ’’یہ محکمۂ

تسلیات عامہ کے ڈائریکٹر ہیں۔‘‘

ڈاکٹر لکشمی دت آگرہ کی ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر تھے۔ ان کے ملنے والوں میں پنڈت فتح چند نام کے ایک صاحب تھے جو شاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ان سے’’گلستانِ سعدی‘‘ کی تعریف کی۔ فتح چند نے کچھ دیر سنا اور ذرا سے توقف کے بعد بولے:

؎ گل و بلبل کا کہیں ذکر نہ سعدی نے کیا!

چھوڑ دیں خاص جو باتیں تھیں گلستاں کے لیے

محشرؔ لکھنوی نے انجمنِ معیاروادب قائم کی اور معیار کے نام سے ایک ادبی ماہ نامہ بھی جاری کیا، جس کی تعریف میں ظریف ؔلکھنوی نے لکھا:

؎معیار کہہ رہا ہے کہ نکلوں گا روزِحشر!

ہاتھوں میں اپنے دامنِ محشر ؔلیے ہوئے

احسان داؔنش شروع شروع میں اپنا نام احسان بن دانش لکھا کرتے تھے۔ اسی نام کے ساتھ جب انہوں نے اپنا تعارف قاضی احسان احمد شجاع سے کروایا تو قاضی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،’’ہوں تو میں بھی احسان، مگر بن دانش نہیں۔‘‘ اس کے بعد احسان بن دانش، احسان دانش ہوگئے۔

آزادی ہند سے قبل برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین پر مشتمل انگریزوں کا ایک وفد ہندوستان کی سیاسی قیادت سے ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر گفتگو کرنے لاہور آیا۔ وفد کے طرزعمل سے معلوم ہوتا تھا کہ انگریز سردست ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہتے۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے روزنامہ شہباز  کے ایڈیٹر مرتضٰی احمد خان میکش ؔنے اپنے اخبار کا اداریہ لکھا، جس کا آغاز اپنے درج ذیل شعر سے کیا:

؎پوچھنے آتے ہیں ہر روز اسیروں کے مزاج

یہ نہیں کہتے کہ جاؤ!! تمہیں آزاد کیا

بدایوں کے ایک شاعر تھے علی حاتمؔ، جو کہ طنزیہ رباعیات وقطعات کہتے تھے۔ بدایوں سے دور شیخوپورہ نام کا ایک گاؤں تھا جہاں کے بہت سے روساء کو انگریز حکومت کی جانب سے خان بہادر کے خطابات سے نوازا گیا۔ علی حاتمؔ نے جو یہ صورت حال دیکھی تو یہ شعر کہا:

؎بھرمار گر یونہی خطابوں کی رہی

شیخوپورہ ’’خان پور‘‘ ہوجائے گا

پنڈت ہری چند اختر ؔکا شعر ہے:

بس اتنی بات کی خاطر ترا محشر بپا ہو گا

ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہو گا

کسی نے یہ شعر مشفق خواجہ کو سنا کے کہا، ’’دیکھیے پنڈت صاحب نے دوزخ کو مذکر باندھا ہے! کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘ خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا،’’ہر دو صورت میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد بولے،’’مونث ہے، کیوںکہ لوگ اس کے عذاب سے واقف ہونے کے باوجود بھی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘

جونؔ ایلیا نے ایک ملاقات میں مشتاق احمد یوسفی سے کہا،’’مرشد! فقیری کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ کُرتے بائیس ہیں اور پاجامہ ایک ہی بچا ہے‘‘ جس پر یوسفی صاحب نے بر جستہ کہا،’’حضرت! اس سے بھی نجات پالیں تاکہ کسی ایک طرف سے تو یک سوئی حاصل ہو۔‘‘

ایک زمانے میں قتیلؔ شفائی کو معروف غزل گائیکہ اقبال بانو سے عشق ہوگیا۔ مبتلائے عشق ہونے کے بعد قتیل ؔنے خو کو معاشی و سماجی طور پر برباد کرلیا۔ جلد ہی تلخ حقائق کی ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھل گئے، مگر پھر بھی ایک آدھ ادھوری ملاقات کے بعد اپنا موزوں کیا ہوا یہ شعر گنگنانے لگتے تھے:

؎ بھیج رہی ہے اب تک مجھ کو چاہت کے پیغام

سانولی سی اک عورت جس کا مردوں جیسا نام

رقص کی ایک محفل میں جوشؔ ملیح آبادی اور فراق دؔونوں شریک تھے۔ محفل میں پہلے کتھک ناچ دکھایا گیا، بعدازآں تانڈوناچ پیش کیا گیا جو کسی زمانے ہندوؤں کے شیو دیوتاکا ناچ سمجھا جاتا تھا۔ اس پر فراق ؔنے جوش ؔکو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’وہ میری شاعری تھی، اور یہ آپ کی شاعری ہے۔‘‘

دلی کے ایک مے کدے میں ادباء کے مابین یہ بحث چھڑ گئی کہ شیفتہؔ ؔمیرؔ کے زمانے میں تھے یا کہ غالبؔ کے۔ میرا ؔجی کو منصف ٹھہرایا گیا۔ میرا ؔجی نے جھومتے جھومتے ایسی دلیل پیش کی کہ سب مے کش قائل ہوگئے۔ میرا ؔجی دو مصرعوں میں بحث سمیٹتے ہوئے بولے:

؎ ’’شیفتہ‘‘ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

مرے کالج سیالکوٹ میں ایک انگریز پروفیسر نے مولوی میر حسن سے کہا،’’آپ کا خدا بہت سست معلوم ہوتا ہے جو آپ پانچ مرتبہ اذان دے کر اسے جگاتے ہیں۔ جواباً مولوی صاحب نے فرمایا،’’آپ کا خدا ہمارے خدا سے پینتیس گنا زیادہ سست لگتا ہے کیوںکہ ہفتہ بھر گھنٹے بجا بجا کے اسے جگاتے رہتے ہیں اور وہ پھر بھی نہیں جاگتا۔‘‘

پنڈت ہری چند اختر ؔکے نام میں بڑی مناسبت ہے۔ ہری چند اختر ؔیعنی ’’سبز چاند تارا۔‘‘ ایک دن صبح پنڈت صاحب دفتر انقلاب وارد ہوئے اور سالکؔ کو مخاطب کرکے کہنے لگے،’’مولانا! اٹھیے، سلامی دیجیے، پرچم اسلام آپ کے سامنے ہے۔‘‘

جگرؔ مرادآبادی نے اپنی محبوب بیوی کو اپنے پیرومرشد جناب اصغرؔ گونڈوی کی خاطر طلاق دے کر ان کا نکاح اصغرؔ صاحب سے پڑھوا دیا۔ اور پھر اصغر ؔصاحب کے انتقال کے بعد اسی خاتون سے دوبارہ نکاح پڑھوا لیا۔ اُسی زمانے میں ان کی یہ غزل بھی زبانِ زدِ خاص و عام تھی:

؎گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں

جس پر میرٹھ کے ایک مزاحیہ شاعر بوم ؔہاپوڑی نے لکھا:

؎عورت پرست ہوں نہیں دوشیزہ ہی عزیز

بیوہ سے بھی نکاح کیے جا رہا ہوں میں

لکھنؤ میں منعقدہ ایک مشاعرے کی صدارت کانگریس کے مشہور لیڈر سیتا رام کررہے تھے۔ مشاعرے میں شریک مزاحیہ شاعر ظریف لکھنوؔی نے اپنی باری آنے پر صاحب صدر سے اجازت لے کر یہ پہلا شعر پڑھا:

؎نر ہے یا مادہ، عجب ترکیب ہے اس نام کی

کچھ حقیقت ہی نہیں کھلتی ہے سیتا رام کی

مشفق خواجہ بیان کرتے ہیں کہ عندلیب ؔشادانی ایک مرتبہ کراچی یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی طلباء کے زبانی امتحان کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ یونیورسٹی کی ایک طالبہ ثروت یاسمین نے ان سے آٹوگراف کی فرمائش کی تو انہوں نے طالبہ کے نام کی رعایت سے درج ذیل شعر اس کی کاپی پر تحریر کیا:

؎بس کہ ہر پنکھڑی ہے اک دینار

بڑی ثروت ہے یاسمیں ہونا

ایک مرتبہ شوکت ؔتھانوی اور سیمابؔ اکبر آبادی کے مابین ناگوار قلمی بحث چھڑگئی۔ بات زیادہ بڑھی تو سیماب نے اپنی ادارت میں نکلنے والے اخبار میں شوکت تھانوی، جو ایک ادبی پرچے ’’ہمدم‘‘ میں ’’باتونی‘‘ کے نام سے ادبی کالم لکھا کرتے تھے، کے نام منظوم پیغام لکھ کر شائع کیا:

؎ ادب باقی ہے اور نہ استعداد باقی ہے

فقط طاغوتیوں کی فکرِمادر زاد باقی ہے

کوئی ہمدم کے باتونی سے جاکر صرف یہ کہہ دے

کہ شیطاں مرگیا اس کی مگر اولاد باقی ہے

کچھ دنوں کے بعد ادبی پرچے ’’پیمانہ‘‘ میں سیمابؔ اکبرآبادی کی ایک غزل چھپی جس کا مقطع کچھ یوں تھا:

؎سیمابؔ حقیقت میں فطرت کا تمسخر ہے

جذبات کی اک بجلی پروانے میں رکھ دینا

اس غزل پر شوکتؔ تھانوی نے تنقید کی اور آخر میں یہ ایک فقرہ لکھ کر اپنے نام لکھے گئے منظوم پیغام کا جواب دے دیا۔ شوکتؔ تھانوی نے لکھا،’’چوںکہ مقطع میں مولانا نے خود کو فطرت کا تمسخر قرار دے دیا ہے لہٰذا اب میں ان سے متعلق کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘

اردو حروف تہجی میں حرف ڑ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ اسی پس منظر میں اردو کے معروف شاعر ناصرؔ کاظمی نے ایک شعر لکھا جس میں حرف ڑ کی اس بے فائدہ حیثیت کو کمال خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔

’ڑ‘ حرف بدنصیب ہے ناصرؔ مری طرح

اب تک کسی بھی لفظ کے آگے نہ لگ سکا

The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.


کیری پیکر:جس نے ایک روزہ کرکٹ کو رنگارنگ بنایا

$
0
0

یہ 5 جنوری 1971ء کی بات ہے جب آسٹریلوی شہر، میلبورن میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین دنیا کا پہلا ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلا گیا۔

یہ مقابلہ آسٹریلوی ٹیم نے پانچ وکٹوں سے جیت لیا۔ اْسے دیکھنے ایک لاکھ تماشائی میدان میں آئے۔ ان کی دلچسپی دیکھ کر کئی ماہرین نے پیشن گوئی کر دی کہ کرکٹ کی یہ نئی قسم عوام میں بڑی مقبول ہو گی۔ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔

محض چار سال بعد ایک روزہ کرکٹ مقابلوں کا پہلا عالمی کپ منعقد ہوا۔ مگر ایک روزہ کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ فرق نہیں تھا۔

کھلاڑی سفید لباس ہی زیب تن کرتے، سرخ گیند سے کھیلتے، دن میں مقابلہ ہوتا اور اس کے قوانین بھی یکساں تھے۔ اس یکسانیت کو ایک جوشیلے آدمی نے ختم کیا جس کا نام کیری پیکر تھا۔ اس نے تن تنہا ایک روزہ کرکٹ کا چولا ہی بدل ڈالا اور اس کی ہیئت میں نئے رنگ بھر دئیے۔

ایک آسٹریلوی کی آمد

کم لوگ جانتے ہیں کہ آسٹریلوی صنعت کار‘ کیری پیکر (متوفی 2005ئ) نے ایک روزہ کرکٹ کا موجودہ روپ بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔وہ آسٹریلیا میں ٹی وی چینل‘ 9 کا مالک تھا۔ یہ صاف گو صنعت کار مواقع کی تلاش میں رہتا اور افسر شاہی سے خائف تھا۔

اس کی نظر میں افسر شاہی ترقی کی دشمن تھی۔ لہذا جب کیری اور افسر شاہی کا تصادم ہوا‘ تو اس نے اپنی تنظیم کھڑی کی‘ لاکھوں ڈالر کی کثیر رقم سے دنیا کے پچاس بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کیں اور نہایت شاندار طریقے سے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے منعقد کروانے لگا۔

مسئلے کا آغاز

فریقین کے مابین تصادم اس وقت ہوا جب آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے 1976ء میں چینل 9 کو کرکٹ میچ دکھانے کا خصوصی اختیار دینے سے انکار کر دیا۔

چونکہ چینل 9 پچھلے بیس برس سے کرکٹ میچ دکھا رہا تھا‘ اس لیے کیری پیکر سمجھتا تھا کہ اسی کے پاس یہ امتیاز رہنا چاہیے۔ جب ترغیب اور دھمکی سے کام نہ بنا‘ تو کیری نے اپنے طور پر نمائشی کرکٹ مقابلے کروانے کا فیصلہ کر لیا۔

1977ء میں کیری نے اس سلسلے میں کچھ آسٹریلوی کھلاڑیوں سے معاہدے کیے۔ کامیابی اس وقت ملی جب برطانوی کرکٹ ٹیم کا کپتان‘ ٹونی گریگ بھی آ ملا۔ ٹونی کی وساطت سے دیگر ممالک کے کئی مشہور کھلاڑی کیری پیکر کی تنظیم’’ ورلڈ سیریز کرکٹ‘‘ میں شامل ہوگئے۔

اس کے تحت ایک روزہ مقابلے کھیلنے والے نمایاں کھلاڑی ٹونی گریگ‘ کلائیو لائیڈ‘ گریگ چیپل‘ آئن چیپل‘ عمران خان‘ ڈینس للی اور مائیکل ہولڈنگ تھے۔پاکستانی کرکٹروں میں آصف اقبال، مشتاق محمد، ماجد خان، جاوید میاں داد اور سرفراز نواز بھی اس کا حصہ رہے۔

مارچ 1977ء میں جب آسٹریلوی ٹیم ایشز سیریز کھیلنے برطانیہ پہنچی‘ تو اس کے تیرہ کھلاڑی کیری پیکر سے ہاتھ ملا چکے تھے۔ وہیں کچھ صحافیوں نے یہ خبر دی کی کہ آسٹریلوی کھلاڑی ورلڈ سیریز کرکٹ میں کھیل رہے ہیں۔

بس پھر کیا تھا‘ دنیائے کرکٹ میں ہنگامہ مچ گیا۔ برطانوی اخبارات نے سب سے پہلے ٹونی گریگ کے لتّے لیے جس نے اس تنظیم کے احیا میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ورلڈ سیریز کے مقابلوں کو ’کیری پیکر سرکس‘ قرار دے دیا گیا۔

اْدھر آسٹریلوی ٹیم پر بھی اتنی زبردست تنقید ہوئی کہ وہ شکستہ دلی کے باعث ایشز سیریز ہار گئی۔ آئی سی سی (انٹر نیشنل کرکٹ کونسل) نے کیری پیکر کو متوازی ایک روزہ بین الاقوامی میچ کروانے سے روکنا چاہا مگر وہ نہ مانا۔ اس پر آئی سی سی نے تمام بورڈوں کو حکم دیا کہ ان کے ملک کا جو کھلاڑی ورلڈ سیریز سے معاہدہ کرے ‘ اسے قومی ٹیم سے نکال دو۔

اور کھیل بدل گیا

جب آسٹریلوی حکومت نے کیری کو کرکٹ میدان استعمال کرنے کی اجازت نہ دی‘ تو اس نے فٹ بال کے میدان اور عوامی پارکوں میں کنکریٹ کی پچیں بنوائیں اور وہاں میچ کروائے۔

اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ آسٹریلوی افسر شاہی کو شکست فاش دے کر رہے گا۔اور حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ سیریز کرکٹ ایک روزہ کرکٹ کی ہیئت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا سبب بن گئی۔ خصوصاً سست رفتار روایتی کرکٹ جوش و جذبے والے کھیل میں بدلنے لگی۔

کیری نے چمکتی دمکتی بتیوں کی روشنی میں رات کے وقت مقابلے منعقد کرائے اور کھلاڑیوں کو رنگ برنگے کپڑے پہنائے۔ سرخ کے بجائے سفید گیند سے کھیلنے کا رواج ڈالا ۔ تماشائیوں میں ٹی شرٹیں تقسیم کی گئیں ۔

کیری پیکر چاہتا تھا کہ ورلڈ سیریز کے مقابلے تیز رفتار اور ’گلیمر‘ سے پْر ہوں۔ اسی لیے تب کے مایہ ناز گیند بازوں‘ ڈینس للی‘ عمران خان‘ مائیکل ہولڈنگ اور اینڈی رابرٹس کی خدمات حاصل کر لیں۔

ان کی تیز رفتار اور خوفناک گیندوں کے سامنے بلے بازوں کو محسوس ہونے لگا کہ انہیں اپنا بدن بچانے کے لیے حفاظتی اشیا پہننے کی ضرورت ہے۔ 16 دسمبر 1977ء کو سڈنی میں ایک مقابلے میں اینڈی رابرٹس کی برق رفتار گیند نے آسٹریلوی بلے باز‘ ڈیوڈ ہکس کا جبڑا توڑ ڈالا۔

یہی حادثہ ایک اور نمایاں تبدیلی لانے کا بھی سبب بنا… بلے بازوں کے چہروں پر پہلے پہل ہیلمٹ نمودار ہو گئے۔ سب سے پہلے برطانوی کھلاڑی‘ ڈینس ایمس ایک میچ میں موٹر سائیکل والا ہیلمٹ پہن کر کھیلنے گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بلے باز بھی ورلڈ سیریز کے مقابلوں میں ہیلمٹ پہننے لگے۔ بعد ازاں دیگر حفاظتی اشیا بھی سامنے آنے لگیں۔

ورلڈ سیریز کے مقابلوں میں عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی حصہ لیتے تھے‘ اس لیے آسٹریلیا میں انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ ہر مقابلہ دیکھنے ہزاروں تماشائی میدان میں آ جاتے۔ پھر کیری پیکر نے اپنی تنظیم کی ’مارکیٹنگ‘ زبردست انداز میں کی۔ گو اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک روزہ عالمی کرکٹ رفتہ رفتہ تجارتی خطوط پر استوار ہو گئی۔

آئی سی سی کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا پہلا بورڈ‘ پاکستان کرکٹ بورڈ تھا۔ دراصل جب بورڈ کو ٹیم تشکیل دیتے ہوئے مشکلات پیش آئیں‘ تو اس نے بادل نخواستہ ورلڈ سیریز کھیلنے والے پاکستانی کھلاڑی بھی شامل کر لیے۔

اس پر آئی سی سی نے شور مچایا تاہم صرف زبانی دھمکیاں دینے پر ہی اکتفا کیا۔ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ بھی ویوین رچرڈز سمیت اپنے کئی مایہ ناز کھلاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ جب 1979ء کا عالمی کپ نزدیک آیا‘ تو اس نے بھی مجبوراً ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دے دی جن پر پابندی لگی ہوئی تھی۔

کئی بھارتی کھلاڑی بھی پْر کشش معاوضے کے باعث ورلڈ سیریز کے میچ کھیلنا چاہتے تھے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے انہیں اس ادارے سے باز رکھنا چاہا تو وہاں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔

آخر بورڈ اور کھلاڑیوں کے مابین یہ طے پایا کہ ان کا معاوضہ خاطر خواہ بڑھا دیا جائے گا تا کہ وہ صرف قومی ٹیم کے لیے کھیل سکیں۔ اس طرح بھارتی کھلاڑی اپنی شرائط منوانے میں کامیاب رہے۔

زوال کی آمد

کیری پیکر مقابلوں کی زبردست تشہیر کر رہا تھا۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے مقابلے دیکھے لیکن پھر آسٹریلوی عوام کی دلچسپی کم ہو گئی۔

بڑی وجہ یہ تھی کہ تب دنیائے کرکٹ میں بڑے نام کم تھے اور نیا خون بھی نہیں آ رہا تھا۔ کیری نے سنیل گواسکر کے علاوہ تمام بڑے کھلاڑیوں سے معاہدے کرلیے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ مستقبل میں ایسے مشہور کھلاڑی کہاں سے آئیں گے؟ جب 1978ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم میچ کھیلنے بھارت پہنچی‘ تو اس میں کپتان کالی چرن کے علاوہ بقیہ سب کھلاڑی نوآموز تھے۔

ان دگرگوں حالات میں کیری پیکر اور آئی سی سی‘ دونوں کو احساس ہوا کہ کوئی نہ کوئی سمجھوتا ہونا چاہیے۔

تاہم آئی سی سی ایسی شرائط سامنے لائی جو کیری کو نامنظور تھیں۔ اب کیری کو مزید غصّہ آیا اور وہ عدالت میں پہنچ گیا تا کہ ورلڈ سیریز کرکٹ کو قانونی تحفظ دے سکے۔ عدالتی جنگ میں بھی اْسے کامیابی ملی اور عدالت نے یہ مقابلے جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ جواباً آئی سی سی نے ان کھلاڑیوں پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کر دیں جو ورلڈ سیریز کے مقابلوں میںحصہ لیتے تھے۔

مفاہمت ہو گئی

مذاکرات ناکام ہونے سے کرکٹ کے ان عاشقوں کو صدمہ پہنچا‘ جو تدبر اور امن سے یہ معاملہ سلجھانا چاہتے تھے۔ آخر ان کی بھاگ دوڑ کامیاب ثابت ہوئی اور کیری پیکر اپنا ’’سرکس‘‘ ختم کرنے پر راضی ہو گیا۔

اس نے تمام کھلاڑیوں کو معاہدوں کے مطابق رقوم ادا کیں اور30 مئی 1979ء کو ورلڈ سیریز کرکٹ ختم کردی۔مفاہمت کے سلسلے میں کیری نے صرف ایک شرط رکھی… آسٹریلیا میں کرکٹ میچ دکھانے کے سلسلے میں چینل9 کو خصوصی اختیار ملنے چاہیں۔ سارا قضیہ اسی بات سے شروع ہوا تھا۔ آئی سی سی کو بھلا کیا اعتراض ہوتا‘ اس نے فوراً کیری پیکر کی تجویز منظور کر لی۔

یوں ورلڈ سیریز کرکٹ کا خاتمہ ہو گیا جس نے تین سال دنیائے کرکٹ کو ہلائے رکھا۔ اس سیریز کے بطن سے کرکٹ میں منفی اور مثبت‘ دونوں قسم کی نئی باتوں کا ظہور ہوا۔ کھلاڑیوں کے جن رنگین ملبوسات کا شروع میں مذاق اڑایا گیا ‘ آئی سی سی نے انہیں تسلیم کر لیا۔

اب کھلاڑی عالمی کپ کے مقابلوں میں رنگ برنگ ملبوسات پہن کر ہی شرکت کرتے ہیں۔ نیز رات کو بتیوں کی روشنی میں کھیلنے کا رواج بھی چل پڑا۔ سفید گیند کو بھی اپنا لیا گیا۔ یوں کیری پیکر سیریز کی جدتیں اس کے خاتمے کے بعد بھی امر ہو گئیں۔

مزید براں چینل 9 نے جس طرح کرکٹ مقابلوں کو دکھانے کااہتمام کیا‘ وہ بھی منفرد تھا۔ ہر میچ کے لیے بیس پچیس کیمرے نصب کیے جاتے جو کھیلنے کے انداز کو مختلف زاویوں سے دکھاتے ۔ یوں میچ دیکھنے کا عمل زیادہ پْر لطف ہو گیا۔ورلڈ سیریز کرکٹ سے کھلاڑیوں کو بھی مالی فائدہ پہنچا۔ بورڈ انہیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں دینے لگے۔ پھر ماڈلنگ اور اشتہاروں سے بھی انہیں آمدن ہونے لگی۔ یوں وہ بھی فٹ بال یا ٹینس کے کھلاڑیوں کی طرح ’گلیمر‘ کا نیا نشان بن گئے۔

دنیائے کرکٹ میں یہ انقلابی تبدیلیاں ایک شخص‘ کیری پیکر کی بدولت ہی ممکن ہوئیں۔ گو وہ اپنے ملک کی افسر شاہی کو سبق سکھانا چاہتا تھا تاہم اس نے ایک روزہ عالمی کرکٹ کی شکل ہی بدل ڈالی۔

The post کیری پیکر:جس نے ایک روزہ کرکٹ کو رنگارنگ بنایا appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی نمبر197؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ دوم)

$
0
0

’’بالجملہ زبان اردو مشتمل است بر چند زبان یعنی عربی وفارسی و ترکی و پنجابی و پوربی وبرجی وغیرآں مثال مدلل‘‘۔ ’دریائے لطافت‘ کے مصنف، پشتون اُردواَدیب وشاعر جناب انشاء اللہ خان انشائؔ نے اردو کی تشکیل میں اپنی مادری زبان کو یکسر فراموش کردیا تو یہ بات یقیناً تعجب خیز ہے۔

اس کی توجیہ پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں، خصوصاً اس حقیقت کے پیش نظر کہ موصوف ماہرِلسان تھے، کئی زبانوں پر دسترس کے حامل بھی۔ پشتو کے ایک محقق کا دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ ان تمام زبانوں سے زیادہ، اردو پر پشتو نے اثر ڈالا ہے:’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو پر اِن زبانوں کے اثرات موجود ہیں، لیکن یہ بات بھی شک وتردد سے بالاتر ہے کہ اردو پر اِن سے کئی گُنا زیادہ گہرے اثرات پشتو کے ہیں‘‘۔

(حنیف خلیل: ’اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار‘)۔ ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں امتیاز علی خان عرشیؔ جیسے فاضل محقق یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’اردو زبان کی پیدائش کا سب سے بڑا سبب، ہندوستان میں افغانیوں (افغانوں) کی آمد تھی اور اِس نئی زبان میں عام طور پر بولے جانے والے عربی، فارسی، ترکی اور مُغلئی الفاظ کا بڑا حصہ بھی افغانیوں ہی کی زبان اور اُنھیں کی وساطت سے داخل ہوا ہے‘‘۔ یہ بات تاریخی تناظر میں غلط ہے۔

عرشیؔ مرحوم کی علمیت سے قطع نظر خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اُن جیسے محقق کو دیگر زبانوں اور علاقوں کے دعاوی کو یکسر نظراَنداز کرتے ہوئے، (خواہ بالواسطہ ہی سہی) اپنی مادری زبان کو اُن پر فوقیت دینا زیب نہیں دیتا، خصوصاً جب یہ نظریہ بہت پہلے رَد اور باطل ہوچکا کہ اُردو کہیں باہر سے آئی یا لائی نہیں گئی، کسی قوم کے ہند میں ورود سے اس کی پیدائش جُڑی ہوئی نہیں ہے۔

بے شک جہاں ہم برج بھاشا، کھڑی بولی/ہریانوی/رانگڑی، پوربی (نیز بھوجپوری، میتھلی وغیرہ) جیسے ابتدائی ناموں پر بہت توجہ دیتے ہیں، قدیم عہد میں ویدک بولیوں اور سنسکِرِت کی تشکیل اور پھر ہندی کے ساتھ اپنی زبان کی بنیادی ساخت پر گفتگو کرتے ہیں، اس باب میں گوجری، گجراتی، پنجابی، سرائیکی اور ہندکو کے کردار پر غور کرتے ہیں تو وہیں اشتراک عمل کے لحاظ سے دیگر ہم رشتہ یا بہن زبانوں میں (بنگلہ و دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ) پشتو کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

عرشیؔ صاحب کی یہ دلیل کہ اردو پر ایک طویل مدت تک اثراَنداز ہونے والی فارسی، درحقیقت قدیم فارسی یعنی تورانی/ افغانی شاخ ہے (نیز ماوَراء النہری) جسے دَری یا دَرّی بھی کہتے ہیں، بالکل درست ہے، مگر اِس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اسی اثناء میں پشتو بھی دخیل ہوئی، نامناسب لگتا ہے، کیونکہ پشتو کی بطور زبان تشکیل کا دور بھی کم وبیش وہی ہے جو اُردو کا ہے، بس فرق علاقائی بنیاد پر کسی جگہ پھلنے پھولنے کا ہے۔ فارسی کا یہی قدیم رنگ ہمارے یہاں پروان چڑھا تو اُسے ’سبکِ ہندی‘ کا نام دیا گیا۔

خطہ ہند میں پشتو بولنے والوں کا ایک اہم گڑھ، روہیل کھنڈ ہے اور تھا جہاں ایک طویل مدت تک، یہ لوگ اپنی مادری وپدری زبان ہی آپس کے رابطے کے لیے استعمال کرتے تھے، پھر جب فطری طور پر، ہر طرف اردو کا بول بالا ہوا تو یہ قوم بھی پشتو بھولتی گئی۔ اس دوران میں دونوں زبانوں کا فطری میل ملاپ اور اشتراک بھرپور ہوا اور دونوں ہی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوئیں۔ پشتون یا پختون ثقافت کے آثار تو باقی رہے، مگر بحیثیت مجموعی ہندوستانی چھاپ لگ گئی۔

پانی پت کی تیسری جنگ میں، احمد شاہ دورانی (عرف دُرّانی) ابدالی کی حمایت وتائید میں شریک ہونے والا نواب حافظ رحمت خان روہیلہ، پشتو زبان کا محافظ بھی قرار پایا، مگر آج یہ حال ہے کہ روہیل کھنڈ میں پشتو بولنے والے پٹھان شاذ ہی ملیں گے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی پہلی یا آخری مثال نہیں۔ آخر ہمارے آباء بھی تو عربی داں، عربی گو سے فارسی گو ہوئے اور پھر اردوگو، مگر بہرحال کہیں نہ کہیں کسک ہوتی ہے۔

یہ ضرورہے کہ روہیل کھنڈی، خصوصاً رامپوری بولی میں پشتو کا اثرونفوذ آج بھی نمایاں ہے اور دعوت تحقیق دیتا ہے۔ خاکسار نے گزشتہ دنوں اس مخصوص بولی پر، زباں فہمی لکھا تو چار اقساط ہوگئی تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ (آنلائن ملاحظہ فرماسکتے ہیں)۔ اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد اُسی میں نقل کرچکا ہوں، مزید یہاں پیش کروں گا۔

پشتو کے ابتداء تا ارتقاء تمام مراحل میں صوفیہ کرام اور علمائے عظام کا کردار بہت نمایاں رہا اور ان میں کئی ایک اردو کے قدیم شاعر بھی تھے، اردو ہی نہیں بلکہ ہندکو کے بھی قدیم اور اولین شعراء کی صف میں شامل تھے۔ یہ بات ماقبل زباں فہمی کے شمارے بعنوان ’’اردوزبان کا ماخذ ہندکو؟‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ پشتو، اردو اور ہندکو کے مابین اشتراک کے لیے عربی ذخیرہ الفاظ نے پُل کا کام کیا۔ آج بھی پشتو میں گفتگو کرنے والے عربی الفاظ کے استعمال بشمول تلفظ میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدیوں پہلے کے صوفیہ وعلماء کے کردار سے قطع نظر، عربی کے اثرات بڑی حد تک فارسی کے ذریعے اردو اور پشتو میں شامل ہوئے۔ خطہ ہند میں دَرآنے والے فاتحین کے ساتھ فارسی کا اثرونفوذ بھی بڑھا اور معاشرے کے ہر طبقے نے فارسی کو اپنایا۔ اس سلسلے سے بھی بہت پہلے، سنسکِرِت اور اُس کی ہم رشتہ پہلوی نے قدیم فارسی میں اشتراک کی وہ بنیاد فراہم کی تھی کہ ادبیات بشمول لوک ادب کا اچھا خاصا حصہ، تراجم کی شکل میں پہلے فارسی اور پھر اردو میں شامل ہوگیا۔ درباروعوام دونوں ہی فارسی گو بن گئے تو ایسے میں پشتو کی عمل داری بھی فارسی سے جُڑی رہی اور رفتہ رفتہ ترقی کرتی گئی۔

پشتو کے قواعد پر فارسی کی گہری چھاپ ہے۔ فارسی کے مصدر خوردن کو خوڑل، کردن کو کڑل اور مردن کو مڑل بنالیا گیا۔ اسی طرح اسماء میں لاحقے کار، کر، ور وغیرہ فارسی کی طرح اپنالیے گئے۔ پشتو کے محقق تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ محض فارسی ہی نہیں، بلکہ عربی کے بھی الفاظ باقاعدہ منظم شکل میں مستعار لیے گئے جو اُردو سے بڑھ کر ہیں، پھر بھی ان دونوں زبانوں کے درمیان تعلق کئی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے۔

اردو اور پشتو میں الفاظ کے اشتراک ومماثلت میں یہ بات ہمیشہ نمایاں رہی کہ بعض الفاظ ومحاورہ جات وتراکیب کی شکل یکسر بدل گئی، مگر کہیں نہ کہیں ان کا سِرا مل جاتا ہے۔ دینی ومذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ہی کو اسلامی زبان کا درجہ حاصل ہوا، دونوں میں ہمسائیگی کے سبب، بنیادی مآخذ کی زبانوں سے دخیل ہونے والے الفاظ موجود ہیں، البتہ اردو میں پشتو کا حصہ، پشتو میں اردو کے حصے کی نسبت زیادہ اور نمایاں ہے۔

یہ الگ بات کہ ماقبل خاکسار نے لکھا تھا کہ جدید پشتو بول چال میں اردو گنتی اور بعض فقرے وغیرہ بہت روانی سے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس بابت بھی کل کا مؤرخ ومحقق یقیناً کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور ہوگا۔ ایک محقق کی رائے میں اردو میں عربی وفارسی دونوں کا اثر، پشتو کے ذریعے آیا۔ اس کے پیش نظر وہی فاتحین کا عہد ہے، ورنہ گہرائی میں جائیں تو خطہ ہند میں عربی کے اثرات اردو کے ابتدائی تشکیلی دور ہی سے داخل ہوگئے تھے۔

اسی طرح فارسی کے باقاعدہ چلن سے بھی مدتوں پہلے سنسکِرِت کے طفیل، پہلوی اور اَوِستا سے ہوتے ہوئے پہلے پہل مقامی زبانوں، بولیوں اور پھر اُردو میں شامل ہوئے۔ یہ نکتہ بھی جدید تحقیق میں پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ یہاں ’’انوارِ سُہیلی‘‘ (کلیلہ ودمنہ) کا حوالہ کافی ہے۔

مغلیہ سلطنت کے بانی میرزا بابُر کے ہندوستان میں ورود مسعود کے وقت یہاں ہندکو اور ہندوی (قدیم اردو) میں شعر کہنے والے پشتون سیاح شاعر سید محمود، دکن میں، (بعہدسلطنت قطب شاہی) مستند سخنور ہوا کرتے تھے۔ وہ بہ یک وقت چار زبانوں یعنی ہندکو، پنجابی، پوٹھوہاری اور گوجری کی صنف ’حرفی‘ یا ’سی حرفی‘ عرف ’جھولنا‘ کے بانیوں میں شامل تھے جن کی ہندوی یا دکنی شاعری کے نمونے محفوظ ہیں جو سے بھی علاقہ رکھتے ہیں۔ محمود ؔ کی بیاض میں عربی، فارسی، دکنی اور پشتو کلام محفوظ ہے۔

اُن کی اپنے ہم عصر، شاہ علی متقی ملتانی سے حریفانہ چشمک کا بھی ذکر ملتا ہے۔ خاطرؔ غزنوی اُن کے دکنی کلام کو بھی مندرجہ ذیل الفاظ کے استعمال کی بنیاد پر ہندکو ہی قرار دیتے ہیں اور دکنی اردو کو ہندکو کی توسیع:

ہوئے، کدے، کدھی (کدی، کبھی)، آپی آپ (آپ ہی آپ)، پچھاں، لوکاں، آپے، سعد، مکھ، کجتے وغیرہ۔

محمودؔ جیسے پشتون کی زبان کا ایک نمونہ اس ’جھولنا‘ میں دیکھیں جسے بہ یک وقت دکنی یعنی قدیم اردو اور ہندکو کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے:

میرے دل کا حال کوئی کیا جانے، تجھ بولتا ہوں توں سنتا نئیں

کبھی پھوڑتا ہوں سرود، ڈھولک، ایتا خود لکیا ہوں آپ کا نئیں

کدھی ہنستا ہوں، کدھی روتا ہوں، کدھی دیکھتا پیو کہ چہومیاںنئیں

خود چھوڑ محمودؔ ! اپس کی باتوں کی توں آپی آپ اپس پچھاں جا نئیں

محمودؔ کے معاصر، صاحبِ کرامت صوفی شاعرسید ( میاں،شیخ) عیسیٰ مشوانی اپنا مقام بناچکے تھے۔ سلطان شیرشاہ سوری کے دورکا ایک واقعہ بھی ان سے منسوب بیان کیا جاتا ہے جس سے اُن کے صاحب ِ کرامت ہونے کا پتا چلتا ہے۔

مشوانی پشتو، فارسی اور ہندوی میں شعر کہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مشوانی قبیلے کے جدّامجد خواجہ بندہ نواز گیسودراز تھے۔ مشوانی کی پشتو شاعری کا فارسی کے توسط سے ترجمہ اور مابعد تصحیح ہوچکی ہے۔ نیز ہندوی کلام اُن سے منسوب ہے جو اِس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ پٹھان صدیوں پہلے اردو جیسی ترقی پذیر زبان کے اولین شعراء میں شامل تھے۔ اس کا ایک سبب، بقول سید بہادرشاہ کاکاخیل، سُوری سلاطین کے عہد میں پشتو کی جگہ ہندوی کا فروغ ہے۔

پشتون سیلانی اور جنگجو صوفیہ میں اولین نمایاں نام ’’پیرِروشان‘‘/روخان بایزید/بازید انصاری(عُرف وجید) کا ہے جو وِکی پیڈیا کے اندراج کے مطابق 1525ء میں جالندھر (پنجاب، ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور 1585ء میں ’’ٹوپی‘‘ نامی جگہ پر فوت ہوئے جو کبھی افغان صوبے کابل کا حصہ تھا اور اَب ضلع صوابی، خیبرپختون خوا (پاکستان) میں شامل ہے اور اُن کا مزار شمالی وزیرستان میں واقع ہے۔

(اُن کا سن وفات 1572ء غلط بیان کیا گیا)۔ {آج ٹوپی میں سابق صدرپاکستان جناب غلام اسحٰق خان مرحوم سے منسوب سائنسی تعلیم کا ادارہ Ghulam Ishaq Khan Institute of Engineering Sciences and Technology  کام کررہا ہے۔ اسی ٹوپی سے سابق صوبہ سرحد کی نامور سیاسی وتعلیمی شخصیت صاحبزادہ عبدالقیوم (نواب خان بہادرصاحبزادہ سَر عبدالقیوم خان: 12 دسمبر 1863 تا 4 دسمبر1937ئ) بانی اسلامیہ کالج، پشاور کا بھی تعلق تھا}۔

مغل تاجدار اکبر کے خلاف صف آرا اور جنگ میں کام آنے ہونے والے بایزید، اپنی تحریک ’روشانیاں‘ کی وجہ سے مشہور ہوئے اور اُن کا لسانی کارنامہ، پشتو شاعری کے ساتھ ساتھ، اس زبان کو باقاعدہ تحریری شکل دینا ہے۔ اُن کی کتاب ’خیرالبیان‘ (1521ئ) اس زبان کی اولین نثری کتاب ہے۔ بقول دولتؔ (پشتو شاعر، خلیفہ بایزید)، ’’پشتو تحریر مشکل تھی، پڑھی نہ جاسکتی تھی۔ اُس نے گیارہ حروف بنائے اور تحریر آسان کردی‘‘۔ (بحوالہ ’’اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو‘‘ ص225)۔ یوں پشتو کے حروف تہجی بھی منظرعام پر آئے۔

اُن کی کتب کی تعداد ایک درجن کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ مغلوں کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے سبب، اُن کے افکار ونظریات اور پشتون قوم پرستی سے متعلق جدوجہد یقیناً ا س طرح نمایاں نہ ہوسکی جو عموماً کسی تاریخی شخصیت کے حوالے سے ہوا کرتی ہے۔ بایزید انصاری اپنے دور کی تقریباً تمام زبانوں پر حاوی تھے۔ اسی وجہ سے اُن کی اس مشہور کتاب میں پشتو کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور ہندوی (یعنی قدیم اردو) بھی شامل ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہندکی (یعنی قدیم ہندکو) کے ابتدائی نمونے بھی اسی کتاب سے دریافت کیے گئے ہیں جنھیں میرے بزرگ کرم فرما پروفیسر خاطر ؔ غزنوی مرحوم نے ہندکو زبان کا اولین معلوم نثری نمونہ قرار دیا۔ (’’اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو‘‘ ص 219)۔ آئیے ’خیرالبیان‘ کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں جو پشتو، ہندکو اور اُردو تینوں زبانوں کے اہل زبان کے لیے اہم ہے:

’’ اے بایزید!

لکھ کتاب کے آغاز کے بیان

جن کے سارے اکھر ہن بسم اللہ تمام

میں نہ کَنواؤں گا ضروری انہن کی جے لکھن پڑھن بگاڑن اکھر کہ

تمکنی پڑھن لکھن اس کا ن جسے سہی (صحیح) ہوتے بیان‘‘

ترجمہ:اے بایزید!

لکھ کتاب کے آغاز میں صاف اور درست حروف میں بسم اللہ۔ میں اُن لوگوں کی محنت اور مزدوری ضایع نہیں کرتا جو لکھتے ہیں، پھر اُنھیں مِٹاتے ہیں، حرف حرف اور نقطہ نقطہ تاکہ تم واضح طور پرپڑھ سکو اور بیان صحیح لکھا جائے۔

اب اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجابی کا بھی بایزید انصاری پر اُتنا ہی دعویٰ ہے جتنا ہندکو کا (شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی اہل زبان پنجابی حضرات میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ہندکو کو اپنی زبان کا ایک لہجہ یا بولی قراردینے پر مُصر ہیں)۔ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہؔ کی کتاب ’پنجابی ادب دی مختصر تاریخ‘ اور مولابخش کُشتہ امرِتسَری کی ’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘ میں اُن کا ذکر موجود ہے۔

اُن کے نزدیک یہ ہندوی اور پنجابی کے کافی اور اشلوک کہنے والے شاعر تھے۔ اُن کے پنجابی اشلوک پر مشتمل کتاب ’وَجِید دے اشلوک‘ ایک اور محقق، اونکار ناتھ بھَردواج نے مرتب کی۔ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ ؔکے انکشاف کے مطابق، بایزید نے ہندوی میں بھی شاعری کی تھی۔ اس طرح انھیں مسعودسعدسلمان، امیر خسرو، بابا فرید، مخدوم بِہاری کے بعد، قدیم شعرائے ہندوی (قدیم اردو) میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

’خیرالبیان‘ کی جدید دورمیں دریافت، بلکہ بازیافت اور پھر اشاعت پشتو اکیڈمی کے بانی، پشتو کے جدید نقاد ومحقق مولاناعبدالقادر کی کوشش سے1967ء میں ممکن ہوئی۔ یہ واحد نسخہ جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی[Tübingen University] کے کتب خانے میں محفوظ تھا۔

تحریک ’روشانیاں‘ سے متعلق یہ دل چسپ انکشاف بھی لائق توجہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے جنگ افغانستان میں وزیرستان سے ہونے والی پیہم مزاحمت کا پس منظر جاننے کے لیے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں قایم تحقیقی ادارے  Saint Petersburg State University Institute of Oriental Studies نے اس تحریک کے باب میں باقاعدہ تحقیق کی سعی کی تھی۔

پشتو نے اپنے عہد کے جبر کے تحت، انگریزی الفاظ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا، مگر اُردو کی نسبت اس میں انگریزی کا حصہ کم ملتا ہے۔ محقق ڈاکٹر پراچہ کا خیال ہے کہ پشتون انگریزی تلفظ میں دوسروں سے بہتر ہے، مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر اتفاق رائے تلاش کیا جائے۔

پشتو کے ذخیرہ الفاظ میں تُرکی زبان سے اختلاط کا بھی سُراغ لگایا گیا ہے، مگر اس بابت باقاعدہ تحقیق ابھی باقی ہے۔ جب یہ باب وا ہوگا تو محقق کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پشتو اور ترکی مدتوں ساتھ ساتھ رہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ترکی الفاظ اس قدر نمایاں نہیں جتنے عربی وفارسی ہیں اور کہیں کہیں اُردو بھی۔ شاید وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ عثمانی یا عثمانلی (یعنی اصل وقدیم) ترکی سے اس کا رشتہ کمزور پڑگیا۔ (جاری)

The post زباں فہمی نمبر197؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ دوم) appeared first on ایکسپریس اردو.

کہیں آپ بھی یہ غلطیاں تو نہیں کر رہے؟

$
0
0

ہم روزمرہ زندگی میں بے شمار ایسے کام کرتے ہیں جن کے پیچھے یہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ ہماری تندرستی کاباعث بنیں گے۔ لیکن ہر بار ہم صحیح نہیں ہوتے۔انسان کے اندر اپنی صحت کی بہتری اور جدید رجحانات کو لے کر جستجو ہوتی ہے کہ وہ خود کو بہتر سے بہترین کی جانب لے جائے۔

فیٹنس انڈسٹری کا دور دورہ ہے اور یہاں آپ کو فوری وزن کم کرنے، قوت و ہمت کو بڑھانے اور صحت مند زندگی گزارنے کے خوشنما دعوے جگہ جگہ ملتے ہیں۔یہ رجحانات ڈیٹوکس چائے سے لے کر سخت ڈائٹ پلانز تک مارکیٹنگ کرتے ہیں جس کا محرک صحت کا حصول ہوتا ہے۔یہ اشتہارات اس قدر خوش کن اور دلفریب معلوم ہوتے ہیں کہ لوگ بھاگ بھاگ کر ان چیزوںکو خریدنے لگتے ہیں۔

یہ جانے اور سمجھے بنا کہ ان سے ممکنہ نقصانات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ضروری نہیںکہ جس پروڈکٹ کو آپ خرید رہے ہیں وہ آپ کو تندرستی سے روشناس کرائے۔ بلکہ وسیع النظری سے جائزہ لیا جائے تو یہ مصنوعی اشیاء غذائیت کی کمی،غیرپائیدار عادات اور مضر صحت اثرات سے بھی دوچار کر سکتی ہیں۔ہر چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے منفی و مثبت اثرات کا جائزہ لینا چاہئے۔ آئیے جانتے ہیںکچھ ایسی عادات کے حوالے سے جو بظاہر تو صحت بخش معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ ہماری صحت کے لئے سود مند نہیںہوتیں۔

ورزش

یہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے کہ ورزش کرنا ایک مفید عمل ہے جو ہماری ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر بناتا ہے۔لیکن کوئی بھی چیز اگر اعتدال سے نہ کی جائے تو اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے کہ اگر ورزش کثرت سے کی جائے تو یہ صحت کے لئے خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔

اپنی جسمانی حدود سے تجاویز کرتے ہوئے ورزش کرنا سنگین مسائل سے دوچار کر سکتا ہے جیسا کہ پٹھوں میں کھیچاؤ، جوڑوں کا درد اور چوٹیں، بعض صورتوں میں تو اوور ٹریننگ سنڈوم بھی ہوسکتا ہے ۔یہ سنڈوم ورزش کرتے ہوئے درست اینگلز کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پٹھوںمیں شدید درد سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ورزش نہ کرنے اور بیٹھے رہنے والے طرزِ زندگی کے بھی اپنے نقصانات ہیں۔جسمانی مشقت کا نہ ہونا وزن میں اضافے ، امراض قلب اور دائمی بیماریوںکا باؑعث بنتا ہے۔ورزش اور آرام میں توازن پیدا کرنا اہم ہے۔

ہمارے جسم کو صحت یابی اور مرمت کے لئے مناسب وقت درکار ہوتا ہے، اور ایک متوازن نقطہ نظر اس کو یقینی بناتا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں سے کیسے فائدہ اٹھا کر ممکنہ منفی نتائج کو کم کرنا ہے۔جسم کو آرام اور ورزش کے درمیان ہم آہنگی سے ہمکنار کرنا نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کو فروغ دیتا ہے ۔ جو کہ ایک پائیدار، جامع اور صحت مند طرز زندگی کے مطمع نظر کو فروغ دیتا ہے۔

اپنے معمولات زندگی میں ورزش کو ایک متوازن طرز سے اختیار کرنا آپ کو لطف اندوز کرتا ہے۔چاہے یہ چہل قدمی کی صورت ہو، سائیکلنگ کی، یوگاکی یا کسی بھی ایسی سرگرمی کی جو آپ کی دلچسپیوںسے میل کھاتی ہو۔آجکل ٹیکنالوجی نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں جیسا کہ سیڑھیاں چڑھنا ایک قسم کی جسمانی ورزش ہے جس کی جگہ اب لفٹ نے لے لی ہے۔یوں ہی خواتین کے لئے گھر کے بہت سے کاموں میں جسمانی ورزش کے مواقع موجود ہیںجیسے لانڈری کرنا، برتن دھونا، آٹا گوندھنا لیکن اس سب کے لئے اب مشینیں آگئی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ طرز زندگی میں بدلاؤ تو آتا ہی ہے اس میں اہم یہ ہے کہ اپنے معمول میں ورزش کو ضرور شامل کی جائے اور اس میں جارحانہ طرز عمل اپنانے کے بجائے اعتدال برتا جائے۔

اگر جم یا فٹنس سینٹر جائیں تو ماہرین سے مشورہ کریں اور باقاعدہ ٹریننگ لیں کہ آپ کو کس قسم کا ورک آوٹ کرنا ہے۔عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ ورزش کی ضرورت موٹاپے کا شکار ہونے پر ہی پڑتی ہے لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہرانسان کو تندرست رہنے کے لئے جسمانی مشقت درکار ہوتی ہے اور ورزش اس ضمن میںاہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر جسم کی ضرورت کے مطابق ورزش کی جائے تو اس کے فوائد دیر پا ہوتے ہیں۔ جو آپ کو تا دیر تازہ دم اور جوان رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

غذا

غذاء یعنی ڈائیٹ کا ہماری زندگی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارا کھانا پینا ہماری جسمانی صحت کی ضمانت ہے۔اچھی اور متوازن غذا انسان کو صحت مند بناتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس غذا کی سخت پابندی جسے عام طور پر انتہائی شدت سے کی جانے والی ڈائیٹنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ذہنی و جسمانی صحت کے لئے مضر ہے۔ایسی سخت ڈائیٹ جسم کو ان خاص غذاء اجزاء سے محروم کر دیتی ہے جو کہ مجموعی صحت کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔

اس طرح ایسی سخت ڈائیٹنگ جسم میں منفی جذبات کو تحریک دیتی ہے جو کہ اینگرائیٹی کا باعث بن سکتے ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق اگر جسم کو ایک تناسب سے خوراک نہیں ملتی تو اس سے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جیسے کے ذہنی دباؤ، جو بعض اوقات غیر معمولی کھانے کی عادات کو جنم دیتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگ بہت زیادہ کھانے لگتے ہیں اور کچھ کھانے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

یہ ڈائیٹس کچھ عرصے کے لئے تو بھلی معلوم ہوتی ہیں اور ان کے وقتی فوائد بھی دکھائی دیتے ہیں مگر طویل مدت میں یہ نا پائیدار نتائج دیتی ہیں۔ جوکہ مطلوبہ نتائج برقرار رکھنے کے لئے ناکافی ہیں۔خوراک کے انتخاب میں توازن برقرار رکھنا ،غذائیت کو یقینی بنانا ہی صحت کے لئے ایک درست فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خوراک کی متنوع اقسام کا انتخاب جسم کو ضروری وٹامنز، معدنیات اور دیگر اہم غذائی اجزاء ہی صحت کی ضمانت ہیں۔ڈائیٹنگ کے برعکس ایک متوازن غذا کو اپنی روٹین میں شامل کرنا ، قدرت کے ذائقوں اور نعمتوںکو چکھنا ، فروٹس، سبزیوں، پروٹین، اناج، کاربوہائیڈریٹس اور دیگر کا مناسب استعمال ناصرف صحت پر اچھا اثر ڈالے گا بلکہ مزاج پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر

ہمارے ہاں ایک خیال یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس اسی صورت ہی جانا ہے جب آپ بیمار ہوں۔جب تک بیماری شدت اختیار نہ کر لے معالج سے رابطہ کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن دیکھا جائے تو سال میں ایک یا دو مرتبہ ڈاکٹر سے ایک ریگولر چیک اپ کروانا احتیاطی نگہداشت کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ مستقبل میں آنے والے سنگین خطرات سے بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ایسا کرنے سے وقت کے ساتھ جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی ، بیماریوںکی شناخت اور صحت کو بہتر کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔یہ صحت کے مسائل کو حل کرنے کا بہترین اور آسان طریقہ ہے جس میںآپ کے کم سے کم وسائل استعمال ہوتے ہیں اور بیماریوںس ے لڑنے کی پیشگی اطلاع بھی ملتی ہے۔جیسے کچھ بیماریاں دائمی ہوتی ہیں وہ جانے کب سے ہمارے اندر پل رہی ہوتی ہیں اور ہم ان سے بے خبرہوتے ہیں۔ لیکن اگر ریگولر چیک اپ ہو تو ان کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ بلڈ پریشر، بلڈ شوگر، کولسٹرول لیول کو ابتدائی سطح پر جانچا جاسکتا ہے۔اگر سال میںایک مرتبہ ٹیسٹس کر والیئے جائیں تو امراض قلب، کینسر، شوگر اور دیگر بیماریوں کی تشخیص ہو سکتی ہے۔اسی طرح ویکسینیشن کروانے سے بھی وبائی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔احتیاطی نگہداشت کو ایک مثبت نقطہ نظر کے طور پور اپنانا ، متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش اور ذہنی دباؤ سے بچنے کی تدابیر ایک صحت مند طرزِزندگی کے ضمانتی اقدامات میں سے اہم قدم ہیں۔

مثبت طرزِ عمل و فکر

ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ مثبت رہنا اور سوچنا ہی زندگی کو خوشگوار بنا تا ہے۔ جو کہ بہت حد تک درست بھی ہے۔ بلا شبہ،مثبت سوچ مثبت کردار کو جنم دیتی ہے۔لیکن انسان کو اللّٰہ نے مختلف جذبات دے کر بھیجا ہے۔ اور کوئی بھی صناع اپنی صناعی میں جو رنگ بھرتا ہے وہ بے مقصد اور بلا ضرورت نہیں ہوتے۔ مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب کسی بھی جذبے میں شدت ہو چاہے وہ منفی ہو یا مثبت۔ جب افراد حقیقی منفی جذبات کو مسلسل رد کرنے کی کوشش کریں تو اس سے ایک ایسے دکھاوے کا سلسلہ جنم لیتا ہے۔

جو کہ انسان کی خوشیوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔جب کوئی خود پر مثبت ہونے کا ٹیگ لگانے کی کوشش میں دبے ہوئے جذبات و احساسات کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے تناؤ اور تنہائی جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ پریشر کہ لوگ ان کے منفی جذبات کو ناپسند کریں گے ان کو اپنے حقیقی جذبات کے سرعام اظہار کرنے سے روکتا ہے۔مثبت رویے کے اس اظہار کو ہم زہریلی مثبت سوچ کا نام دے سکتے ہیں۔ جو کہ انسان کو ذاتی طور پر تباہ کر دیتی ہے۔یہ انسان کے اندر احساس ، باہمی ہمدردی کی کمی اور اپنے حقیقی احساسات وجذبات کو سمجھنے میں دشواری پید اکر دیتی ہے۔

اہم یہ بات سمجھنا ہے کہ ہم انسان ہیں اور ہمارے اندر احساسات و جذبا ت کا ایک متنوع سمندر ہے جس میں مختلف لہریں اٹھتی ہیں اور بعض اوقات سیلانی ریلوں کی صورت بھی نکلتی ہیں جو کہ نارمل ہیںاگر اس پر بند باندھنے کی اور مصنوعی طورپر روکنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا۔ ہماری ضروریات، عادات، خواہشات اور نظریات کی ایک دنیا ہمارے اندر بستی ہے اور اس دنیا سے آگاہی ہماری اپنی ذات کے سکون کے لئے اہم ہے۔

جہاں مثبت جذبات ہمیں خوشی اور سکون دیتے ہیں وہیں منفی جذبات ہماری خود نموئی اور اپنے اندرلچک پیدا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔اپنے قدرتی جذبات کو بلاوجہ دبانا ذہنی آسودگی کو سٹریس ، اینگرائٹی یہاں تک کہ جسمانی صحت کے مسائل کی جانب دھکیلتا ہے۔اپنے جذبات سے آگاہی ناصرف ہمیں خود کو اور دوسروں کو وسیع کینوس میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ، ہمددری، ذہانت،تجسس، مضبوط باہمی روابط اور زندگی میں درپیش مختلف مشکلات و مصائب سے نبٹنے میں مدد دیتی ہے۔

تنہائی

تنہائی کو لوگ اکثر اس بات سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ خود آگاہی کے لئے موثر ہے۔ تنہائی میں انسان خود کو بہتر انداز سے جانچ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وسیع النظرمیں تنہائی انسان کو انسانی میل جول سے ملنے والے فوائد سے محروم کر دیتی ہے۔جس سے اس کے اندر اکیلا پن، ڈپریشن اور شدید ذہنی دباؤ جیسی کیفیات جنم لیتی ہیں۔اور ایک تنہائی کا دورانیہ طویل ہوجائے تو منفی خیالات کی یلغار، خود اعتمادی کی کمی اور سماجی نشوونما روک جاتی ہے۔مشہور یونائی فلسفی ارسطو نے کہا تھا،’’انسان سماجی حیوان ہے‘‘ جو کہ درست ہے۔ انسان کا انسان کے ساتھ رابطہ معاشرتی تانے بانے کو بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انسان کو اللّٰہ نے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے لئے اس کی ضروریات کو مختلف ذرائع میں بانٹ رکھا ہے ۔ کیونکہ قدرت بھی باہمی تعلق کی پذیرائی اور خود انحصاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے ۔

قدرت کا یہ چکر کائنات کے نظام کو بیلنس کئے ہوئے ہے۔جہاں یہ بیلنس خراب ہوگا انتشار ہوگا۔ اب جس انسان کو انسان سے تعلق اور میل جول کے لئے بنایا گیا ہے وہ خود کو یکتا مان لے اور خود کو تنہائی میں دھکیل دے تو اس کے منفی اثرات تو مرتب ہوں گے۔ تنہائی کا شکار افراد کو ایک متوازن طرزِ زندگی سے محرومی تحفے میں ملتی ہے۔ ایسے افراد کو معاشرتی روابط میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ ذاتی نشوونما کے عمل کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ایک تحقیق میں تو یہاں تک کہا گیا کہ تنہائی صحت کے لئے اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا بیک وقت دس سگریٹ پینا۔تنہائی کے ان مٖضر اثرات سے بچنے کے لئے اپنے معمولات زندگی میں باقاعدگی، سماجی سرگرمیوں میں شمولیت اور میل جول ناگزیر ہے۔

اس ضمن میں اپنے رجحانات سے وابستہ مشاغل کو اپنایا جاسکتا ہے جیسے کلب، جم، مخصوص کلاسز یا سماجی سرگرمیوں سے وابستہ گروپوں کو جوائن کیا جاسکتا ہے۔یہاں آپ کو ناصرف ہم خیال لوگ ملیں گے بلکہ آپ کو اچھے دوست بھی مل سکتے ہیں۔کمیونٹی ایونٹس میں مشٖغول ہونے اور رضاکارانہ طور پر کام کرنے سے صرف آپ کی تنہائی جاتی رہے گی بلکہ معاشرے کے لئے کچھ مثبت کرنے پر سکون بھی ملے گا۔فیملی اوردوستوں کے ساتھ وقت گزارنا مثبت جذبات کو فروغ دیتا ہے۔

سستی

عموماً لوگ کام کے بعد آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔آرام کرنا بلاشبہ ضروری ہے لیکن کچھ لوگ حد سے زیادہ آرام کے قائل ہوتے ہیںبلکہ سستی کا شکار ہوتے ہیں۔ سستی انسان کے اندر ترقی کی جستجو کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔اور سستی کی وجہ سے زیادہ دیر تک سونا جسم کے اندر موجود قدرتی ردھم کو متاثر کرتا ہے جو ہمارے سونے جاگنے کی ایک متوازن روٹین کو برقرار رکھتا ہے۔

انسان دن بھر جو کام کرتا ہے اس کی وجہ سے اس کے جسم کے اندر توڑ پھوڑ چلتی ہے اور رات کو نیند کے دوران اس کی قدرتی طور پر مرمت ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی مناسب نیند نہیں لیتا یا پھر حد سے زیادہ سوتا ہے تو ایساکرنے سے اس کے اند ر تھکاوٹ کا احساس غالب رہتاہے جو کہ اسے کام پر توجہ مرکوز رکھنے اور دباؤ سے بچنے میں معاونت فراہم نہیں کر پاتی۔ذہنی طور پر تھکا ہوا انسان کوئی بھی کام نہیں کر سکتا ۔یہ تھکاوٹ سستی اسے ذہنی و جسمانی صحت سے محروم کر دیتی ہے۔

ایک متوازن انداز میں آرام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیند لیں اگر کام کے دنوں میں آپ کی نیند آٹھ گھنٹے ہے تو ویک اینڈ پر دس گھنٹے سو لیں لیکن سارا ویک اینڈ سو‘ سو کر گزارنا بالکل غلط ہے۔اور پرسکون نیند کے لئے اردگر د کا ماحول پُر سکون ہونا چاہیئے۔آرام گاہ صاف ہو، سونے سے قبل اندھیرا ہو، ہوادار ہو اور کیفین( کافی اور چائے میں پایا جانے والاعنصر جوکہ ذہن کو متحرک کر دیتا ہے) کا استعمال نہ کیا جائے تو ایک بھرپور نیند کے بعد صبح تازہ دم ہوں گے۔

وزن

کچھ افراد اپنے وزن کو لے کر حد سے زیادہ حساسیت کاشکار ہوتے ہیں اور جب دیکھو اپنا وزن تولتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اپنے وزن کو ایک مخصوص پیمانے پر روک لیں اور اسے بڑھنے ہی نہ دیں۔ یہ خبط قطعی طور پر صحت کے لئے نفع بخش نہیں ہے۔ویٹ مشن پر آپ کو ایک مجموعی وزن کی تصویر ملتی ہے جس میں پٹھوں،ہائیڈیشن کی سطح اور جسمانی ساخت جیسے عوامل نظر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

روزانہ کی بنیاد پر وزن چیک کرنا آپ کو ایسے رویے کی جانب دھکیلتا ہے جو کہ صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسے کرنے پر آپ کھانے کی روٹین میں تبدیلیاں لے کر آتے ہیںاور ڈائیٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں جس میں غذائیت کی کمی جسمانی صحت کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔وزن میں معمولی اتار چڑھاؤ نارمل ہے جو کہ جسم میں پانی کی سطح کے کم یا زیادہ ہونے یا ہارمونز کے بدلاؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔وزن کو ترازو پر تولنے کے بجائے صحت کے لئے ایک جامع نقطہ نظر مثبت تبدیلی لاتا ہے۔اپنی توانائی پر توجہ مرکوزرکھنا، جسمانی ساخت کو بہتر بنانا،مزاج کو درست رکھنا اور متوازن غذا کا استعمال آپ کے لئے ایک صحت مند طرزِ زندگی کی کنجی ہے۔

کاربو ہائیڈریٹس

ہمارے جسم میں کاربو ہائیڈریٹس انرجی دینے کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ اور ان کا بائیکاٹ کرنا ہمیں تھکاوٹ، عدم ارتکاز اور چڑچڑے پن کا شکار کرتا ہے۔اور ایسی غذاء کا استعمال جس میں کاربو ہائیڈریٹس کم ہوں اہم غذائی اجزاء کی کمی جیسے فائبر، وٹامنز اور معدنیات کا سبب بنتی ہے۔

کاربوہائیڈریٹس کی جسم میں کمی غذائیت کی کمی کا باعث بنتی ہے اور منفی اثر ڈالتی ہے۔کچھ تحقیقات کے مطابق جسم میں کاربوہائیڈریٹ کی کمی ہارمونز کے توازن میں خلل ڈالتی ہے جوکہ ممکنہ طور پر میٹابولک فنگشن کو متاثر کرتی ہے۔ بغیر بھوسی نکلا گندم کا آٹا، پھل، سبزیاں، پھلیاں کاربوہائیڈیٹس کا ذریعہ ہیں اور فائبر سے بھرپور ہونے کی وجہ سے زود ہضم ہوتے ہیں۔ شکر قندی اور براؤن چاول میں وٹامنز اور معدنیات کی بھاری مقدار ہوتی ہے۔

مختلف اقسام کے رنگ برنگے پھل اور سبزیاںجیسے بیر، پالک اور گول سرخ مرچیں خوش ذائقہ ہوتی ہیں اور غذائی ضروریات بھی پوری کرتی ہیں۔ کاربوہائیڈیٹس کے ساتھ ساتھ پروٹین کی مناسب مقدار بھی جسم میں توانائی کی سطح کو یقینی بناتی ہے۔

The post کہیں آپ بھی یہ غلطیاں تو نہیں کر رہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

یہود کی سپرمیسی کو چیلنج کرنے والی امریکی صحافی

$
0
0

یہ 27 مئی 2010ء کی حسین صبح تھی۔ امریکی حکمران طبقے کے سفید محل’’ وائٹ ہاؤس‘‘ میں رنگ برنگ پھول خوشبو بکھیر کر فضا معطر کیے ہوئے تھے۔ آج اس کے وسیع و عریض دالان میں خاصی گہماگہمی تھی۔ دراصل سفید محل کے یہودی اہلکار اپنا ایک تہوار منا رہے تھے۔ تقریب میں یہود کے دوست کئی عیسائی بھی شریک تھے۔ کسی کو اندازہ نہ تھا کہ خوشی کی اس موقع پر انوکھا واقعہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔

تقریب میں ممتاز امریکی صحافی‘ ہیلن تھامس بھی شریک تھی۔ وہ ایک میز پر دوستوں کے ساتھ بیٹھی کلام و طعام سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ یہودی ربّی (مذہبی رہنما)‘ ڈیوڈ نیسینوف اس کے پاس پہنچا۔ ڈیوڈ شوقیہ طور پر دستاویزی فلمیں بھی بناتا تھا۔ اسی لیے اس نے آج بھی وڈیو کیمرا تھام رکھا تھا۔

تب دنیا بھر میںاہل غزہ کے لیے امداد لے جانے والے ترک بحری جہاز، فلوٹیلا پہ اسرائیلی فوج کے حملے پر احتجاج جاری تھا۔ حملے میں ترک تنظیموں کے نوکارکن شہید ہو گئے تھے۔ اس غیرانسانی واقعے کے خلاف وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرے ہوئے۔حقیقتاً کئی برس بعد پوری دنیا میں اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج ہوا اور اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے ایک یہودی رکن‘ بارنی فرینک نے یہ کہہ ڈالا ’’مجھے اپنے یہودی ہونے پر ندامت ہے۔‘‘

یہ تھی صورت حال جب ربّی ڈیوڈ صحافی ہیلن کے پاس پہنچا۔ تب دنیا کا ہر حساس انسان اسرائیلی حکومت کے ناروا اقدام پر چراغ پا تھا۔ ڈیوڈ نے کیمرا ہیلن پر مرکوز کیا اور پوچھا ’’آپ اسرائیل کے متعلق کچھ کہیں گی؟ ہم ہر کسی سے اسرائیل کے متعلق رائے لے رہے ہیں۔‘‘

ہیلن: انہیں (یہود کو) چاہیے کہ وہ خدا کے لیے فلسطین کی جان چھوڑیں اور وہاں سے نکل جائیں۔

ڈیوڈ: اوہ! اسرائیل کے متعلق آپ اچھی رائے نہیں دے سکتیں؟

ہیلن: یاد رکھیے‘ انہوں (یہود) نے اُن (فلسطینیوں) کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ (فلسطینی) متاثرہ لوگ ہیں۔ انہیں (یہود کو) معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جرمنی نہیں‘ یہ پولینڈ نہیں۔

ڈیوڈ: مگر وہ (یہودی )فلسطین سے نکل کرکہاں جائیں؟ وہ کیا کریں؟

ہیلن: اپنے گھر جائیں۔

ڈیوڈ: ان کا گھر کہاں ہے؟

ہیلن: پولینڈ اورجرمنی۔

ڈیوڈ: گویا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ یہودی پولینڈ اور جرمنی واپس چلے جائیں؟

ہیلن: یا امریکہ اور کہیں بھی! جو لوگ صدیوں سے اس جگہ (فلسطین) رہ رہے ہیں‘ انہیں وہاں سے نکالنے کی کیا تْک ہے؟ آپ خود ہی سوچیے۔

یہ ساری بات چیت وڈیو کیمرے میں محفوظ ہو گئی۔ ربّی ڈیوڈ نے کچھ عرصہ توقف کے بعد فلمائی گئی یہ گفتگو6جون کو انٹرنیٹ پر جاری کر دی اور… اور امریکہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ یہ ایسا زلزلہ تھا جو دنیا والوں کے سامنے امریکی حکومت اور معاشرے کی کئی جہتیں آشکارا کر گیا۔

دراصل ہیلن تھامس معمولی ہستی نہیںتھی‘ وہ امریکہ کی واحد اخباری نمائندہ (رپورٹر) تھی جس کا نام وائٹ ہاؤس پریس بریفنگ کے کمرے میں ایک کرسی پر کندہ تھا۔ وہ پہلی خاتون ہے جو صحافیوں کی ایلیٹ تنظیم‘ وائٹ ہاؤس کوریس پونڈینٹ ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئی۔ اسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں طویل ترین عرصہ کام کرنے والی اخباری نمائندہ تھی۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک دلیر اور کسی جابر سے نہ دبنے والی صحافی تھی۔ وہ امریکی صدور سے ایسے تلخ مگر سچے سوال کرتی کہ وہ پریشان ہو جاتے۔ ہیلن کے سوالات کی کاٹ اور تیزی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے۔

ایک بار ممتاز امریکی رسالے‘ یو ایس ٹو ڈے کے بانی‘ ال نیوہرتھ نے کیوبا کے تاریخی رہنما‘ فیڈل کاسترو سے سوال کیا ’’آپ کبھی امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے۔ آپ کو اس پر سب سے زیادہ خوشی کس بات پہ ہے؟

کاسترو نے کہا: ’’میں یہ سوچ کر خوش ہو جاتا ہوں کہ مجھے اخباری کانفرنس کے دوران ہیلن کے سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘‘

ربّی ڈیوڈ سے باتیں کرتے ہوئے بھی ہیلن نے حسب روایت سچائی کو مدنظر رکھا۔ اس نے سوالات کے وہی جواب دیے جن سے پوری دنیا واقف ہے۔ لیکن امریکی حکومت اور یہودی کھرب و ارب پتیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے امریکی صحافی‘ سیاست داں، سرکاری افسر وغیرہ اس تلخ سچائی کو ہضم نہ کر پائے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے ہیلن کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا۔ یوں لگا جیسے اس سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہو گیا… جیسے اس نے کوئی بڑا گناہ کر ڈالا ۔

ہیلن تھامس کے والدین لبنان سے ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔وہ وہیں 1920 ء میں پیدا ہوئی۔نو بچوں میں ہیلن کا ساتواں نمبر تھا۔ ہیلن نے روایتی تعلیم پائی اور 1942ء میں وائن سٹیٹ یونیورسٹی میں انگریزی مضمون میں گریجویشن کر لی۔ وہ عیسائی فرقے‘ یونانی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ 1955ء کے بعد ہیلن وفاقی محکموں مثلاً محکمہ تعلیم‘ صحت‘ ایف بی آئی وغیرہ کے متعلق رپورٹنگ کرنے لگی۔

جنوری 1961ء میں یو پی آئی نے ہیلن کو وائٹ ہاؤس میں اپنا نمائندہ مقرر کر دیا۔ اسی حیثیت سے وہ ایک افسانوی شخصیت کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی خصوصیت تھی کہ وہ ہر صدارتی پریس کانفرنس کے اختتام پر ’شکریہ جناب صدر‘ ضرور کہتی تھی۔

1975ء میں اْسے یو پی آئی خبررساں ایجنسی نے وائٹ ہاؤس میں اپنا بیورو چیف بنا دیا۔ اس حیثیت سے ہیلن پھر ہفتہ وار کالم ’وائٹ ہاؤس کے پچھواڑے‘ لکھنے لگی۔ اس کالم میں صدارتی انتظامیہ کی خوبیوں و خامیوں اور کارگزاری کا تذکرہ ہوتا ۔ اس وقت تک ہیلن واحد صحافی بن چکی تھی جس کی وائٹ ہاؤس بریفنگ کمرے میں اپنی کرسی تھی‘ بقیہ کرسیاں پہلے آئیے‘ پہلے پائیے کی بنیاد پر صحافیوں کو ملتی تھیں۔

2000ء ہی میں امریکیوں کو اپنی تاریخ کے ایک انتہائی جنگجو صدر‘ جارج بش جونیئر سے پالا پڑا۔ موصوف کی جنگجویانہ فطرت ہیلن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اسی لیے بش انتظامیہ اس کی شدید تنقید کا نشانہ بن گئی۔ہیلن کو1967ء سے یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ صدارتی پریس کانفرنس میں وہی سب سے پہلا سوال کرتی تھی۔ لیکن بش جونیئر نے اس بے مثال روایت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ یہی نہیں‘ اس نے ہیلن کی نشست صف اول سے اٹھوا کر پیچھے رکھوا دی۔

مارچ 2006ء میں ہیلن نے چار سال بعد صدر بش سے پہلا سوال کیا۔ یہ عراق جنگ کے متعلق تھا اور اس نے دریافت کیا ’’جناب صدر‘ عراق پر حملہ کرنے سے ہزاروں عراقی اور امریکی مارے گئے جبکہ ہزاروں عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔

حملے کی جو بھی وجوہ بتائی گئی تھیں‘ وہ ایک ایک کر کے جھوٹی ثابت ہوئیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر آپ نے جنگ کا آغاز کیوں کیا؟ آپ کا کہنا ہے کہ وجہ تیل نہیں… اسرائیل بھی درمیان میں نہیں تھا‘ پھر آخر حملہ کیوں ہوا؟‘‘ اس سوال پر صدر بش خاصا گھبرا گیا لیکن پھر وہی پرانا راگ الاپنے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ضروری تھی‘ صدام حسین خطرہ بن گیا تھا‘ وغیرہ وغیرہ۔

ہیلن نے پھر 18 جولائی کے دن بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تب اسرائیلی لبنان میں وحشیانہ طور پر اپنی طاقت اور خباثت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف تھے۔ ہیلن نے وائٹ ہاؤس پریس بریفنگ میں بہ بانگ دہل کہا ’’امریکہ اتنا بے دست و پا نہیں‘ وہ چاہے تو ابھی لبنان میں بمباری رکوا سکتا ہے۔ ہمیں اسرائیلیوں پر اتنا کنٹرول حاصل ہے۔ ہماری وجہ سے تمام لبنانیوں اور فلسطینیوں کو سزا مل رہی ہے۔‘‘

جواباً وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری‘ ٹام شیلز نے کہا ’’مادام! حزب اللہ کا نقطہ نظر پیش کرنے پر شکریہ۔‘‘ ہیلن کے ان جملوں پر بھی خاصا ہنگامہ ہوا۔ یہودیوں کے چمچوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا مگر غیر جانب دار دانش وروں نے اظہارِحق پر ہیلن کو سراہا۔

اوباما حکومت آئی‘ تو ایک بار پھر ہیلن کی نشست سب سے آگے آ گئی۔ صدر اوباما اپنی افتتاحی پریس کانفرنس سے قبل ہیلن سے ملا اور اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ لیکن بے خوف اور نڈر ہیلن کھل کر سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی۔ اسی افتتاحی پریس کانفرنس میں ہیلن نے نئے صدر سے سوال کیا ’’جناب صدر! مشرق وسطی میں ایٹم بموں سے لیس ایک ایٹمی طاقت موجود ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟‘‘صدر اوباما بھی دیگر امریکی صدور کے مانند آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا۔ یاد رہے‘ اسرائیلی ایٹمی بموں کے متعلق امریکی پالیسی یہ ہے کہ ان کی موجودگی تسلیم کی جائے نہ انکار کیا جائے۔

اپریل 2010ء میں ہیلن نے افغانستان کے مسئلے پر دوران پریس کانفرنس صدر اوباما کو حواس باختہ کر دیا۔ ہیلن نے کہا ’’جناب صدر! آخر آپ کب افغانستان سے نکلیں گے؟ آپ وہاں کیوں انسانوں کو قتل کروا رہے ہیں؟ یہ خونی جنگ جاری رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ اور خدا کے لیے ہمیں ’بش ازم‘ کا فلسفہ نہ پڑھائیے… کہ اگر ہم وہاں نہ پہنچے‘ تو وہ یہاں آ جائیں گے۔‘‘

اس کے بعد یہودی ربّی والا واقعہ رونما ہو گیا۔عام خیال یہ ہے کہ اپنی رائے یا اظہار کی آزادی جتنی امریکہ میں ہے‘ وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ لیکن ہیلن کا معاملہ سامنے آتے ہی یہ تصوّر خاک میں مل گیا۔ ہیلن نے ربّی کو جو کچھ کہا‘ اسے سچائی کے بجائے یہود دشمنی سے تعبیر کیا گیا۔ چونکہ امریکہ میں بیشتر ٹی وی چینل‘ اخبارات‘ رسائل وغیرہ یہود کے قبضے میں ہیں لہٰذا ذرائع ابلاغ یا میڈیا نے ہیلن کے خلاف تیزوتند مہم کا آغاز کر دیا۔ حتیٰ کہ اْسے چڑیل‘ بچ(کتیا) اور دیگر گھٹیا القابات سے نوازا گیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان‘ رابرٹ گبس نے ہیلن کے جملوں کو ’’موجب آزار اور قابل مذمت‘‘ قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس میں اخباری نمائندوں کی تنظیم نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہیلن کی کتب شائع کرنے والے اداروں نے اعلان کیا کہ اب وہ اس کی کتب شائع نہیں کریں گے۔

ہیلن نے واشنگٹن میں ایک اسکول کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنی تھی‘ اس کے پرنسپل نے آنے سے روک دیا۔ غرض ہیلن پر اتنا شدید دباؤ ڈالا گیا کہ اس نے دنیائے صحافت ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔وہ پھر گھر میں قید ہو کر رہ گئی اورعالم ِتنہائی میں تین سال بعد دنیا سے رخصت ہوئی۔یوں یہود ِامریکہ نے ایک بار پھر دنیا والوں کو دکھا دیا کہ وہ اکلوتی عالمی سپرپاور کی سرزمین پر کتنی زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔

The post یہود کی سپرمیسی کو چیلنج کرنے والی امریکی صحافی appeared first on ایکسپریس اردو.

کمالاتِ انیس ؛ کلامِ میرانیس ؔکے منفرد خصائص

$
0
0

فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈیومس (Alexander Dumas)نے انگلستان کے تمثیل نگار شیکسپئر کے لیے کہا تھا: After God,Shakespeare has

 created most جب کہ مفسرِکلامِِ انیسؔ صادق صفوی خداوند ِسخن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :After God,Anis has created best ۔

رئیسِ سخن، ابوالفصاحت، جامعَِ الکلام، رُوح ِمرثیہ ،میر انیسؔ اعلٰی اللہ مقامہ کو ہم سے بچھڑے ۱۵۰ برس ہونے والے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد سے اب تک کم و بیش ڈیڑھ سو برس میں صاحبانِ نقدوفن تواتر سے ان کی شخصیت و شاعری کو تنقید و تحسین کی کسوٹی پر پرکھنے میں مصروف عمل ہیں، جو ان کی معجزبیانی اور سحرنگاری کا بین ثبوت ہے۔

بظاہر سادگی و سلاست اور عمدگی و فصاحت سے مزین ہشت پہلوی کلام انیسؔ معنی و مفہوم کے حوالے سے اس قدر تہہ دار ہے کہ شارحین کی فکر دنگ رہ جاتی ہے اور قلم گنگ ہوجاتے ہیں، مگر ایک کے بعد ایک ’’انیسیات‘‘ کے تشریح و توضیح طلب ابواب وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ شارحین و مفسرین کلام انیسؔ، بے ساختہ پکا راٹھتے ہیں:

؎کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ

عروسِ سخن کو سنوارا نہیں

فکری و شعری کمالات سے بھرپور کلامِ انیس اؔیک ایسا بحر ناپیدا کنار ہے جس کی وسعت و گہرائی کا اندازہ لگانا کار ِدشوار ہے، تاہم آج میرؔصاحب کی برسی کے موقع پر ہم اس مضمون میں ان کے چاہنے والوں کے لیے شرح کلام انیسؔ سے چند منتخب باکمال علمی و ادبی پہلوؤں کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں جو ’’انیسیات‘‘ کے باب میں ایک شان دار اضافہ ثابت ہوگا، اس اقرار عجز کے ساتھ کہ:

؎پہنچ سکا نہ کوئی اس کے اوجِ فکر تلک!!!

انیسؔ پڑھ بھی چکے اور انیسؔ باقی ہے

کمالات انیس ؔکے بحر بے کنار کی شناوری سے قبل اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ میرؔصاحب کا کلام تو تجلیاتِ انوارِ سخن سے بھرپور ہے ہی مگر یہ امر بجائے خود حیرت انگیز ہے کہ ان کا اسم گرامی بھی ایسے منفرد معنوی نکات سے معمور ہے جو قابلِ توجہ اور لائقِ داد ہیں۔ یعنی اپنے کلام کی طرح اپنے نام کے لحاظ سے بھی وہ چنیدہ شخصیت تھے۔ ہم یہاں صرف علم الاعداد کی رُو سے ان کے نام کے کمالات کا جائزہ لیں گے جس کو آج سے قبل شاید ہی مفسرین و شارحین انیسؔ نے اپنا موضوع بنایا ہو۔

علم الاعداد کی رُو سے لفظ ’مرثیہ‘ کے اعداد کو جمع کیا جائے تو اس کا مجموعہ 755 بنتا ہے جس کا حاصل عدد 8  آتا ہے، جب کہ میر انیس ؔکے حقیقی نام ببر علی کے اعداد کا مجموعہ 314 بنتا ہے جس کا حاصل عدد بھی 8 ہی بنتا ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میرانیس ؔخلق ہی مرثیہ گوئی کے واسطے ہوئے تھے۔

ان کے حقیقی نام کے ساتھ اگر ان کے تخلص انیسؔ کا اضافہ کیا جائے او ر ببر علی انیسؔ نام کے اعداد کو جمع کیا جائے تو اس کا مجموعہ 435 نکلتا ہے جس کا حاصل عدد12 بنتا ہے جو ان کے شیعہ اثناء عشری ہونے پر دلیل ہے۔ اب اگر ان کے مکمل نام میر ببر علی انیس ؔکے اعداد کو جمع کیا جائے تو حاصل جمع 685 آئے گا جس کا مجموعی عدد 20 بنتا ہے،جب کہ ان کے سن وفات 1874 کے اعداد کا مجموعہ بھی 20 بنتا ہے۔ یعنی ان کے نام کے اعداد میں ان کا سن وفات بھی پوشیدہ تھا۔

…………

ماہرانیسیات علامہ ڈاکٹر ضمیر اخترنقوی اپنی کتاب ’’معصومین کا علم لسانیات ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میر انیس ؔنے اپنے ایک مشہور زمانہ مرثیے کا آغاز اس مصرعے سے کیا:

؎یارب چمنِِ نظم کو گلزارِِارم کر

اب ذرا اس ایک مصرعے میں نہاں جہان ِفکر و معنی کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:

سب سے پہلے ’’یارب ‘‘ کے ندائیہ الفاظ سے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا جا رہا ہے، جب کہ یہ مصرعے کی بحر اور وزن کا کمال ہے کہ اللہ تعالی کے ننانوے اسمائے مبارکہ میں سے چند ایک کے سوا سب نام لفظِ’’رب ‘‘ کی جگہ استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ ’’خالق ‘‘ چمن نظم کو گلزارِارم کر یا پھر ’’مالک‘‘ چمن ِ نظم کو گلزارِ ارم کر یا ’’عادل ‘‘چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے میرصاحب نے اللہ تعالی کے باقی اسماء مبارکہ کے ہوتے ہوئے فقط ’’یارب‘‘ کے نا م سے کیوں پکارا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آغازِوحی میں اللہ تعالی نے رسول خدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اقراء باسم ربک

کہ ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘، یعنی اللہ تعالی نے بھی اپنے تعارف کے لیے اپنے دیگر اسماء کی بجائے رب کا لفط پسند فرمایا، جب کہ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں مذکور انبیاء نے اللہ کی بارگاہ میں جتنی بھی دعائیں مانگی ہیں ہر دعا کا آغاز لفظ’’رب‘‘ سے کیا ہے جیسا کہ:

ربِ زدَنی عِلماء

یا پھر:

رَبِ ِاِرَ حمھُماء َکما رَب ِیاَنی صغیرَا

یعنی میرانیس ؔنے قرآنی اور نبوی انداز دعا کواپنایا گویا وہ دیکھ رہے تھے پیغمبروں کی دعائیں جو اللہ قبول کرتا ہے وہ سب اللہ کو صرف ایک نام سے پکارتے ہیں ’’یارب‘‘۔ لہٰذا اسی نام کے وسیلے کو میرصاحب نے پسند فرمایا۔ اب مصرعے کے دوسرے حصے میں ’’چمن نظم کو گلزارِارم کرنے‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا ہے کیون کہ چمن کی آراستگی پیراستگی سے ہوتی ہے۔

یعنی اس کا حسن رنگ برنگ پھولوںکے علاوہ نظم و ترتیب سے بھی ہے۔ علاوہ ازیں اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو جنت کو عربی اور فار سی میں اور بھی بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے، جیسا کہ فردوس، خلد، بہشت مگر گلزارِ ارم کی طلب ہی کیوں کی گئی؟ قدیم تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ’’ارم‘‘ حضرت نوح ؑ کے پڑپوتے کا نام تھا اور اسی’’ ارم‘‘ کے حقیقی پوتے کا نام ’’شداد‘‘ تھا۔ شداد نے اپنے مال و منال کے بل بوتے پر جب زمیں پر اپنی جنت بنوائی تو اس کا نام اپنے پڑدادا کے نا م پر’’ارم‘‘ ہی رکھا۔ اگرچہ اس جنت کا دیدار تک اسے نصیب نہ ہو سکا۔ اور وہ جنت آسمانوں پر اٹھالی گئی۔

یعنی بنی زمین پر۔۔۔۔ پہنچ آسمانوں پر گئی۔ اب میرانیس ’ارم‘ کے اسی پہلو کو مدنظر رکھ کے فرماتے ہیں کہ ’’میراچمنِ نظم ‘‘ بھی ایک ایسا شاہ کار ہو جو گلزارِارم کی طرح تجھے پسند آجائے، کیوںکہ تیری تخلیق کردہ جنت تصور میں تو آسکتی ہے مگر زمیں پر نہیں آسکتی، اس لیے میں اس کی مثل مانگ رہا ہوں جو قابلِ دید تھی، اور بلندبخت اس قدر کہ بنی یہاں اور گئی عرش پر۔۔۔یعنی میرے چمن نظم کو بھی گلزار ام جیسی شہرت کی بلندیاں نصیب فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارسطو کا خیال ہے کہ خیرمجسم کردار میں بے نفسی اور نفس کشی کا رجحان قدرے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے داخلی جارحیت اور تصادم کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ یہ نظریہ بالکل ٹھیک ہے اور اس کی صحت کی تصدیق انیس ؔکے کلام سے بھی جا بجا ہوتی ہے، مگر انیس ؔکا کمال یہ ہے کہ وہ امام حسینؓ کی بے لوث اور بے نفس شخصیت کا روحانی وقار قائم رکھتے ہوئے بھی داخلی کشمکش اور خارجی تصادم کے مواقع پیدا کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ امام عالی مقام کو ان کے روحانی مرتبے سمیت انسانی سطح پر لے آنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ خیرمجسم ہونے کی بنا پر امام حسینؓ کے دل و دماغ میں خیروشر کی آویزش کا دکھانا ممکن نہ تھا۔

انیسؔ جو ذہنی کشمکش دکھاتے ہیں اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو جذبات برسرپیکار ہیں، ان میں سے پست کوئی بھی نہیں ہے۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ اس مخصوص موقع پر ایک اعلٰی ہوتا ہے دوسرا اعلٰی ترین۔ ایک کا اظہار بے محل ہوتا تو دوسر ے کا با محل ہوتا ہے: مثلاً

جب تین پہر میں وہ چمن ہوگیا پائمال

تنہا ہوئے بس پھر تو شہنشاہِ خوش اقبال

کھینچے ہوئے تیغیں بڑھے آتے تھے بدافعال

تھا منتظر حکم خدا سیدہ کا لال

مانند علیؓ غیظ میں جب آتے تھے مولا

قبضے کی طرف دیکھ کے رہ جاتے تھے مولا

اس ایک مصرعے ’’قبضے کی طرف دیکھ کے رہ جاتے تھے مولا‘‘ میں انیس ؔنے شجاعت حسینی کے دونوں برسر پیکار پہلو دکھا دیے۔ یعنی ایک طرف بے خوفی، جنگ کا ولولہ اور غیظ و غضب جو ایک شجاع ہیرو کے کردار کی نمایاں صفت ہوتی ہیں، جس کا اظہار تلوار کے قبضے کی طرف دیکھنے سے ہوجاتا ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط اور حکم خدا کا انتظار جس کی وجہ سے وہ خاموش رہ جاتے تھے اور ا س جہادنفس میں حلم جوش جہاد پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرانیس ؔکے خانوادے سے تعلق رکھنے ولے ادیب علی احمد اپنی کتاب ’’عکسِ زر‘‘ میں لکھتے ہیں،’’اردو زبان میں دو الفاظ زلزلہ اور بھونچال عموماً ایک ہی معنوں میں مستعمل ہیں، مگر میرانیسؔ کا کمال یہ ہے ایک ہی معنی ہونے کے باوجود وہ لفظوں کے برتاؤ میں نہایت باریک بینی اور احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یعنی ان دونوں لفظوں زلزلہ اور بھونچال کا موقع بہ موقع استعمال کرتے ہوئے خیال اور ماحول کا لحاظ کر کے دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر فرماتے ہیں؛

؎ جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے

جب کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

؎گر زلزلہ بھی ہو تو نہ اتنی زمیں ہٹے

’’بھونچال‘‘ کا لفظ وہاں استعمال کیا جب انتشار کا سماں قلم بند کرنا تھا۔ ’’زلزلہ‘‘ کا لفظ اس وقت استعمال کیا۔ جب جنگ کے دوران ایک پہلوان امام عالی مقام کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ  اب میں لڑائی شروع کر رہا ہوں، آپ اپنی جگہ سے ایک قدم بھی نہ ہٹیے گا، تو اس کے جواب میں امام فرماتے ہیں:

؎گر زلزلہ بھی ہو تو نہ اتنی زمیں ہٹے

بھونچال لفظ چوںکہ اپنی ساخت و صوت کے لحاظ سے بھگدڑ کا پورا نقشہ پیش کردیتا ہے۔ اس لیے یہاں پر زلزلہ وہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا، اس لیے کہ لفظ بھونچال کی ساخت و صوت میں تھرتھراہٹ کا عنصر ضرور موجود ہے مگر گھبراہٹ اور پراگندگی کا عنصر نسبتاً کم ہے، اور موقع کے لحاظ سے انتشار کا عالم یہاں دکھنا مقصود نہ تھا بلکہ یہ بتا نا تھا کہ زمیں چاہے کروٹ بھی لے تب بھی پاؤں کو لغزش نہ ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اکرم ﷺ نے اپنے اہلبیت کے معارف و مراتب کے بارے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ِ ’’صغیرناَ و کبیرناَ سواًء‘‘ یعنی ’’ہمارے چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔‘‘ اب میر انیسؔ حضرت امام حسینؓ کے اسم مبارک کی شاعرانہ تقطیع بیان کرتے ہوئے اپنے ایک مرثئیے میں لکھتے ہیں:۔

؎’ح‘ سے یہ اشارہ کہ ہے یہ حامیِ امت

سمجھیں گے اسی’س‘ کو جب سینِ سیادت

’ی‘ اس کی بزرگی میں ہے یٰسین کی آیت

ہے ’ن‘ سے ظاہر کہ یہ ہے نورِنبوت

ناجی ہے وہ اس نام کو لے گا جو دہن سے

یہ حُسن میں دس حصے زیادہ ہے حسن ؑسے

میرانیس ؔنے سرکا رسالت مآب کی حدیث موجود ہونے اور ظاہری طور پر بھی امام حسینؓ کو اپنے بڑے بھائی امام حسنؓ سے چھوٹا ہونے کے باوجود بڑھا دیا اور کہا،’’یہ َحُسن میں دس حصے زیادہ ہے حسنؓ سے‘‘ اب یہاں میرؔ صاحب کے قلم کی معنوی گہرائی اور فکرو نظر کا کمال ملاحظہ کیجیے کہ اگر علم الاعداد کی رو سے لفظ ِ حَسن کے اعداد نکالے جائیں تو وہ یوں بنتے ہیں:

ح +س+ ن= 50+60+8 = 118 اور جب حسینؓ کے اعدادوشمار کیے جائیں تو اس کی مجموعہ یوں ترتیب پاتا ہے ح +س+ ی+ ن50+10+60+8= = 128   اور یوں نام حسین نام حسن سے ۱۰ گنا زیادہ بڑھ گیا اور میر صاحب کا کہا کمال خوبی سے درست ثابت ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید فدا حسین اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے بعنوان ’’میرانیس اور فردوسی کا تقابلی مطالعہ ‘‘میں بیان کرتے ہیں کہ ’’میرانیس ؔ کے کلام کا دارومدار ’طرزِادا‘ پر منحصر ہے، کیوںکہ واقعۂ کربلا جو کہ صرف ایک دن کا کارنامہ ہے، اس کو بلا کم و کاست اپنے ہر مرثیے میں مذہبی دائرے کے اندر رہ کر بیان کرنا اور پھر اس کو اس طرح پیش کرنا کہ پڑھنے والوں کو ہر مرتبہ یہ محسوس ہو کہ ایک نئی بات کہی گئی ہے قدرے مشکل کام ہے مگر طرزادا کی یہی انفرادیت ان کی شاعری کا کمال ہے۔ ایک مرثیے میں ایک مقام پر جب امام عالی مقام وارد دشت کربلا ہوتے ہیں اور دریا کی سمت تشریف لاتے ہیں تو اس وقت دریا کی سرخوشی کے عالم کی تصویرکشی کرتے ہوئے میرانیسؔ لکھتے ہیں:

؎ صحرا سے آ ئے پھر سوئے دریا شہہ امم

الیاس شاد ہو کے پکارے بصد حشم

ابھریں درود پڑھتی ہوئیں مچھلیاں بہم

بولے حباب آنکھوں پہ شاہا تیرے قدم

پانی میں روشنی ہوئی حسن حضور سے

لے لیں بلائیں پنجہ مرجاں نے دور سے

فرماتے ہیں ’’ابھریں درود پڑھتی ہوئیں مچھلیاں بہم‘‘، ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی مچھلیاں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں تو وہ بار بار منہ کھولتی ہیں، میرؔ صاحب نے یہاں تخیل کے زور پر امام کی آمد پر مچھلیوں کے منہ کھولنے کو درود پڑھنے سے تشبیہہ دی۔

بند کے چوتھے مصرعے میں فرماتے ہیں ’’بولے حباب آنکھوں پہ شاہا تیرے قدم‘‘ اب یہاں میرؔ صاحب بے جان شئے میں صرف جان ہی نہیں ڈالتے بلکہ روح پھونکنے کے بعد ان میں جذبات کا عنصر پیدا کرکے قوت مسیحائی دکھاتے ہیں، چوںکہ حباب کی شکل آنکھ کے ڈھیلے سے مشابہہ ہوتی ہے لہٰذا وہ امام کے قدم اپنی آنکھوں پر رکھنا چاہتے ہیں، جب کہ بند کے چھٹے مصرعے میں ’’ لے لیں بلائیں پنجہ مرجاں نے دور سے‘‘ چوںکہ قدرت نے مونگے کے سبزی مائل درخت سمندر کی تہہ میں پیدا کیے ہیں اور اس کی شاخیں انسانی انگلیوں کے مشابہہ ہوتی ہیں اور وہ سطح آب پر ابھر نہیں سکتے، لہٰذا دور سے ہی پنجہ مرجاں امام عالی مقام کی بلائیں لے لیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالباری اپنی کتاب ’’لکھنؤ کا شعروادب‘‘ میں ’’کلام ِانیس کے شعر ی محاسن‘‘ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’وصفیہ شاعری میں شاعر کو اس وقت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اس کو اپنے ممدوح کے جس وصف کو بیان کرنا مقصود ہو، بیان کے پس منظر کی صورت حال اس سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ اس مشکل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے زبان کی مہارت کے ساتھ ساتھ پیکر تراشی میں کمال حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔

انیسؔ اس مشکل مرحلے میں بھی اپنی شاعرانہ عظمت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اپنے مشہور مرثیے ’’جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘‘ میں امام عالی مقام کی جماعت میں نمازفجر کا ذکر کرتے ہوئے امام کے اصحاب باوفا کے حسن صورت اور اخلاق حمیدہ کا بیان کر رہے ہیں۔ مقصودِشاعر ان نورانی چہروں کی تاب ناکی کا بیان ہے، لیکن مشکل یہ آ پڑی ہے کہ بندش آب کے باعث اصحابِ باوفا کے چہرے تیمم کی خاک سے آلودہ ہیں۔ اب میرؔ صاحب کا کمال دیکھیے کہ انہوں نے خاک آلودہ چہروں کو کس طرح بے مثل اور نادر تشبیہات سے روشن کیا ہے؛

؎ پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک جناب

پر تھی رُخوں پہ خاک تیمم سے طرُفہ آب

باریک ابر میں نظر آتے تھے آٖٖٖفتاب

ہوتے تھے خاکسار، غلام ابو تراب

مہتاب سے رُخوں کی صَفا اور ہوگئی

مٹی سے آئینوں پہ ِجلا اور ہوگئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ ضمیراختر نقوی اپنے عشرۂ مجالس بعنوان’’میرانیس اور واقعہ کربلا‘‘میں میرصاحب کی شاعری کے نمایاں پہلوؤں کی تشریح و توضیح پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں،’’انیس ؔکی سراپانگاری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ممدوح کا سراپا بیان کرتے ہوئے اس کے بدن کے ہر اس جزو کو لفظی سانچے میں ڈھالتے ہیں جس کو الفاظ کے روپ میں ڈھالا جا سکتا ہے، مگر اس مجسم تصویرکشی کے دوران بھی کہیں پر ان کے لفظی برتاؤ کے معیار میں جھول نہیں دیکھی جا سکتی۔ مثلاً انسانی جسم کے اہم حصے بازو میں کہنی کے نیچے اور کلائی سے اوپر کے حصے کو ’’صاعد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

عمومی طور پر شعراء سراپانگاری کے دوران جسم کے اس حصے کو نظرانداز کر دیتے ہیں مگر میرانیسؔ نے جسم کے اس حصے کو بھی خوب صورت تشبیہات و استعارات سے مزین کرکے جس طرح پیش کیا ہے یہ انہی کے قلم کا خاصا ہے، بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق مرثیہ نگاری کی دنیا میں وہ اکلوتے اس جزو بدن کا لفظی نقشہ کھینچنے والے شاعر ہیں۔ علم دارِکربلا حضرت عباس کی ذات اقدس پر مرثیہ قلم بند کرتے ہوئے ان کا سراپا بیان کرتے ہیں اور ان کے ’صاعدین‘ کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

؎خوبی میں زمانے سے نرالے ہیں یہ صاعد

سانچے میں فقط نور کے ڈھالے ہیں یہ صاعد

پارے ہیں پر و تیغ سنبھالے ہیں یہ صاعد

ہاں کفر کا در توڑنے والے ہیں یہ صاعد

پہنچے کو کوئی حور کا پہنچا نہیں پہنچا

اس حسن کو حسنِ یدِبیضا نہیں پہنچا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹرعلامہ ضمیر اختر نقوی اپنی کتاب ’’میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں سورۂ یوسف کی آیت نمبر ۸۴میں ارشاد باری تعالی ہے کہ یعقوبؑ نے کہا،’’ہائے میرا یوسف! اور غم و اندوہ کی وجہ سے یعقوب کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں۔۔۔یعقوب تو غصے کو ضبط کرنے والوں میں سے تھے۔‘‘

یعنی یہاں قرآن مجید نے حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں کی سفیدی کا تذکرہ غم و اندوہ اور حزن کے معنی میں کیا ہے۔ آنکھ سفید اور درمیان کا ڈیلا سیاہ، جب کہ پرانے زمانوں میں ایام محرم کے آغاز سے قبل امام بارگاہوں کو سفید رنگ کیا جاتا تھا۔ مکمل سفید امام بارگاہ میں عزادار سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر امام بارگاہ تشریف لاتے تھے۔ میر انیس ؔنے شہر کے امام باڑوں کی سفیدی اور عزاداروں کے سیاہ رنگ ملبوس کو آنکھ کی سفیدی و سیاہی سے تشبیہ دیتے ہوئے کمال کا بند تحریر کیا ہے:

؎ہے شہر مثلِ نورسحر سر بہ سر سفید

بام و ستون و خانۂ دیوار و در سفید

جیسے بیاضِ چشم اِدھر اور اُدھر سفید

مردم سیاہ پوش ہیں سب اور گھر سفید

روشن ہو کیوں نہ تعزیہ خانہ حسینؓ کا

سب نور ہے یہ سیدہؓ کے نورِعین کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سراپانگاری مرثیے کا اہم حصہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جہاںقاری کی محویت مرثیے میں بڑھ جاتی ہے اور اور مرثیے کے مرکزی کردار کی بذریعہ الفاظ شخصی تصویرکشی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مرثٓیے کو مزید پڑھا جائے یا نہیں؟ مرثیے کے اس اہم حصے پر بھی میرانیس ؔقادروقابض نظر آتے ہیں۔ میر ؔصاحب شخصیت نگاری میں بھی ایسے نازک معاملات تلاش کرتے ہیں جن کی طرف معمولاً بھی نظر نہیں پہنچ سکتی۔ پھر ان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کا کلام بالکل متقضائے فطرت معلوم ہوتا ہے۔ کسی کُہنہ سال شجاع کو دیکھ کر وہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی جو میرؔصاحب کے درج ذیل بند کو پڑھنے سے ہوتی ہے جس مین وہ امام عالی مقام کے بڑھاپے کو بارے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ابرو جھکے جو پڑتے تھے آنکھوں پہ بار بار

رومال باندھ کر انہیں باندھا تھا استوار

آنکھوں سے شیرِنر کی جلالت تھی آشکار

گو بار تھی غلاف میں حیدرؓ کی ذوالفقار

جلدی چلے جو چند قدم جھوم جھوم کے

رعشہ وداع ہوگیا ہاتھوں کو چوم کے

تصویرکشی کا کمال یہ ہے کہ نقشہ اصل کے مطابق ہو، لیکن میر صاحب کی کھنچی ہوئی تصویر اصل سے بہتر ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر احراز نقوی اپنی کتاب’’انیس ایک مطالعہ‘‘ میں تحریر شدہ اپنے مضمون بعنوان ’’مراثی انیس میں تہذیبی عناصر‘‘ میں لکھتے ہیں،’’امام عالی مقام کے فرزند علی اکبر میدان جنگ میں لشکراعداء پر یلغار کرتے ہیں، لاشوں کے پشتے کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ امام حسین یہ منظر بہت دور سے دیکھتے ہیں اور اپنے دلبند کی بسالت کی داد دیتے ہیں:

شبیر نے جو دور سے دیکھا یہ ماجرا

دو چار گام بڑھ کے یہ بیٹے کو دی صدا

اے مرحبا رسولؒؐ کے ہم شکل مرحبا

سیراب سلسبیل سے تم کوکرے خدا

کیوں کر نہ صبر و شکر میں ایسا کمال ہو

کیوں کر نہ ہو کہ ساقی کوثر کے لال ہو

اب بھلا لکھنوی تہذیب اس بات کی اجازت کہاں دیتی ہے کہ کوئی کسی کی تحسین کرے اور وہ فوراً جھک کر آداب نہ بجا لائے۔ اگرچہ علی اکبر نرغۂ اعداء میں ہیں اور اس موقع پر مرثیے کا قاری بھی خواہ ایک ضابطہ معقولیت کا متقاضی ہے، مگر انیس اس کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے قلم کا کمال دکھاتے ہوئے تہذیبی مظاہرے کی خاطر حضرت علی اکبر کو اس یلغار سے نکلواتے ہیں اور وہ گھوڑے کی شست بھر کے میدان جنگ سے باہر آکر خالص لکھنوی انداز سے امام حسین کو تسلیمات و کورنش ادا کرتے ہیں اور اس فریضے سے فارغ ہوکر دوبارہ جنگ و جدل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

؎تسلیم کرکے شاہ کو بصد عجز و انکسار

مثلِ اسد شکار پہ آیا وہ شہ سوار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتاب ’’ہر صدی کا شاعراعظم، میرانیس‘‘ میں علامہ ضمیراخترنقوی لکھتے ہیں کہ ’’مرثیے کے بڑے تنقید نگاروں نے لکھا ہے مرثیے میں جہاں میدان جنگ کے ماحول کا ذکر ہو وہاں حرب و ضرب کے بیان کے علاوہ کوئی اور بات بالعموم اور غزل بالخصوص نہیں ہو سکتی، مگر انیسؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ میداں جنگ میں بھی غزل کہتے ہیں۔ امام عالی مقام کے منجھلے فرزند شہزادہ علی اکبر کی جنگ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہین کہ رجزخوانی کے بعد شہزادے کی تلوار میان سے نکلی، اب خاکہ مرثیے کا ہے مگر انیس کی رنگیں بیانی دیکھیے:

؎کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا

جیسے کنار شوق سے ہو خوبرو جدا

مہتاب سے شعاع ہو تو ہو گل سے بو جدا

سینے سے دم جدا رگ جاں سے لہو جدا

گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل  پڑی

محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلٰی نکل پڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید وصی رضا اپنے تحریر کردہ مضمون ’’کلام انیس کے محاسن‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میرانیس ؔکا ایک بیت ہے جس میں وہ اس وقت کی منظرکشی کرتے ہیں جس وقت امام عالی مقام میدان کربلا میں اپنے چھے ماہ کے معصوم بیٹے کو ہاتھوں پر بلند کرتے ہوئے فوج اشقیاء سے پانی طلب کرتے ہیں اور فوج اشقیاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ یہ چھوٹا سا سید بھی ہے مہمان تمہارا

کیا تم کو ملے گا جو اسے پیاس نے مارا؟

اب زرا ان دو مصرعوں میں میرؔ صاحب کے کلام کی بلاغت کے کمالات دیکھیے۔ لشکرِاعداء میں عربی مسلمانوں کے علاوہ، شامی، رومی سپاہی، بھی شامل تھے۔ امام عالی مقام نے ان میں سے ہر ایک کے جذبات کو مدنظر رکھ کے درخواست کی، پہلے حضرت علی اصغر کی شیرخوارگی کی طرف اشارہ کیا، یعنی ’’چھوٹا سا‘‘ کہا، یہ خطاب تمام لشکر سے تھا جس میں ایک معصوم کو محروم آب رکھنے پر احساس شرمندگی دلوایا گیا۔ پھر اس کے بعد اس بچے کے ’’سید‘‘ یعنی آلِ رسول ہونے کا ذکر کیا، اور کلمہ گو مسلمانوں کو ’آل‘ کی نسبت یاد دلائی گئی۔ اس لفظ میں حضرت کا تخاطب اہل اسلام سے تھا خواہ وہ عربی ہو یا عجمی۔ اس کے بعد اس معصوم کا ’’مہمان ہونا‘‘ یاد دلوایا، یعنی اہل عرب تو مہمان نوازی میں مشہور زمانہ ہیں پھر تم لوگ کیسے عرب ہو جو بے زبان مہمان کو پیاسا رکھتے ہو؟، یہاں حضرت کا مخاطب صرف اہل عرب تھے، علمَ النفسیات کا معجزہ دیکھیے کہ جذبہ رحم کو ابھارنے کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ کیا فائدہ اگر تم لوگوں نے اس معصوم کو مار ڈالا بلکہ فرماتے ہیں ’’پیاس نے مارا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس الادباء محمد باقر شمس لکھنوی اپنی کتاب ’’تاریخ لکھنؤ ‘‘میں میرانیس کی شاعرانہ انفرادیت کو موضوع سخن بناتے ہوئے رقم طراز ہیں،’’میرانیسؔ کے سلام کا ایک شعر ہے:

؎ قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پر

نہ سوجھی جب کوئی تشبیہہ روئے شہ کے خالوں کی

آج فاؤنٹین پین اور بال پوائینٹ کے زمانے میں قلم کے ہر بار ناخن پر نقطہ دے کر رہ جانے کے عمل کی خوب صورتی اور حسن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اب سے چند عشرے قبل کلک کے قلم بنانا، اس پر قط رکھنا اور شگاف دینا ایک فن تھا۔

لکھتے وقت کچھ سوچنے کی صورت میں قط پر روشنائی خشک ہوجاتی تھی، اس لیے روشنائی کو رواں رکھنے کے لیے قلم کو ناخن پر رکھ کر ہلکا سا دباؤ دیتے تھے جس سے ناخن پر سیاہ نقطہ بن جاتا تھا۔ یعنی شاعر قلم کو ناخن پر دبا کر لکھنے کے لیے روشنائی کو رواں کرتا ہے لیکن پھر طبیعت آمدہ خیال و تشبیہہ سے مطمئین نہیں ہوتی اور نئی تشبیہ کی فکر میں قلم پھر خشک ہوجاتا ہے۔ مذکورہ شعر میں سیاہی کے نقطے اور خال کے سیاہ نقطے میں تشبیہاتی مماثلت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تھا میر صاحب کی ندرت فکر، مضمون بندی کی جدت کا کمال!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصمت چغتائی اپنے ناول ’’ایک قطرہ خون‘‘ کے صفحہ نمبر 225 پر بروز عاشور حضرت امام حسینؓ کے تیرہ سالہ بھتیجے حضرت قاسم کا سراپا بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ دبلے اور پتلے جسم پر زرہ بکتر عجیب بے تکی سی لگ رہی تھی۔‘‘ مگر میر انیس اپنے تہذیبی آداب اور حفظ مراتب کے پیش نظر ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ میر صاحب نے حضرت قاسم کے مرثیے لکھتے ہوئے ان کے سراپا کی لفظی تصویریوں کھینچی ہے:

؎اے خوشا حُسنِ رخِ یوسفِؑ کنعانِ حسنؓ

راحتِ روحِ حسینؓ ابن علیؓ، جانِ حسنؓ

جسم میں زورِعلیؓ، طبع میں احسانِ حسنؓ

ہمہ تن خلقُ حسنؓ، حُسنِ حسنؓ، شانِ حسنؓ

تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی زرہ

کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں سہانی زرہ

دیکیھے کہ میرانیس نے کس کمال سے ’’بے تکی‘‘ کو بھلی میں بدل دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید مظفر برنی اپنے مضمون ’’میرانیس کی نفسیاتی غلطیاں‘‘ میں تحریر کرتے ہیں،’’میرانیس کی مرثیہ نگاری پر ناقدین کے اعتراضات میں سب سے نمایاں اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کرب و بلا سے ریگزار میں ایک ایسی خوب صورت صبح کا منظر پیش کیا جاتا ہے کہ جس کے روبرو’صبحِ بنارس‘ بھی شرما جائے۔ اس اعتراض کے بہت سے شاعرانہ مدلل جوابات سے ہٹ کر نفسیاتی نقطۂ نظر سے ایک جواب بقول شعر یہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ:

؎جیسا دل ہو ویسا منظر ہوتا ہے

موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

یعنی اگر دل خوش ہو تو کسی منظر کی دل کشی میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر دل رنجیدہ ہوتو منظر خواہ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو دردوالم سے لبریز اور اداسی بھرا ہو گا۔ میرؔ صاحب نے اپنے مرثیوں میں وقت کی تصویرکشی کرتے ہوئے انسانی نفسیات کی اس باریکی کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے۔ اس لیے جب وہ لکھتے ہیںکہ صبح کے وقت:

؎تھا چرخ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا

کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا

تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کی صبح ہے جن کے لیے ، ’’گزری شبِ فراق دن آیا وصال کا‘ اور جنہوں نے ’راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے‘ اور یہ وہ صبح ہے کہ خود امام عالی مقامؓؓ کی حالت یہ ہے کہ ’چہرہ خوشی ہے سرخ ہے زہراؓؓ کے لال کا‘‘ اور انصار حسینی کا یہ عالم ہے کہ ’لب پہ ہنسی،گلوں سے زیادہ شگفتہ رُو‘‘ اب ذرا میرصاحب کی بیان کردہ صبحِ کربلا کو ان مذکورہ بالا نکات کے پس منظر میں دیکھیے تو آپ بھی میرانیس کے کمالِ فکروفن کی داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔

The post کمالاتِ انیس ؛ کلامِ میرانیس ؔکے منفرد خصائص appeared first on ایکسپریس اردو.

’’بال پِکر‘‘ سے کرکٹر بننے تک

$
0
0

انتیس سالہ ممتاز بلے باز، بابر اعظم حالیہ ایک روزہ کرکٹ عالمی کپ میں عمدہ کارکردگی نہیں دکھا پائے مگر ان کی داستانِ زندگی میں سبھی کے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔وہ عیاں کرتی ہے کہ انسان بے سروسامانی میں محنت، استقلال، صبر اور ہمت سے کام لے تو قدرت الہی بھی اسے عظیم کامیابیاں عطا کرتی ہے۔

بابر اعظم نے1994ء میں لاہور کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا۔ والد، اعظم صدیقی ایک سرکاری ادارے میں پڑھاتے تھے۔ تنخواہ مگر کم تھی۔ اِسی لیے اْنھوں نے گھڑیاں مرمت کرنے والی چھوٹی سی دکان بھی کھول لی۔ یوں ضروری گھریلو اخراجات پورے ہونے لگے۔ مگر کوئی زائد خرچ آجاتا، تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ گھرانا پھر بھی شکر ادا کرتے زندگی گزار رَہا تھا۔

اعظم صدیقی کے بڑے بھائی، محمد اکمل صدیقی ایک کرکٹ اکیڈمی کے منتظم تھے۔ اْنھوں نے اپنی نگرانی میں اپنے ایک بیٹے، کامران اکمل کو کرکٹ سکھائی اور اْسے عمدہ بلے باز اور وِکٹ کیپر بنا دیا۔ جب بابر آٹھ سال کا تھا، تو 2002ء میں کامران اکمل کو پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ کامران کا چھوٹا بھائی، عمر اکمل بھی عمدہ بیٹسمین ثابت ہوا۔

ہمدرد والدین

چچازاد بھائیوں کو کھیلتا دیکھ کر بابر بھی بچپن سے کرکٹ میں دلچسپی لینے لگا۔ اْس نے محلے کی گلیوں میں کھیل کا آغاز کیا۔ اعظم صدیقی روایتی والد کی طرح نہیں تھے جو بچوں پر عموماً اپنی مرضی ٹھونس دیتے ہیں۔ اْنھوں نے دیکھا کہ بابر کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی لیتا ہے، تو وہ بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ یہی نہیں، وہ اْس کے ساتھی و مددگار بن گئے۔باپ کی مدد پا کر بابر کو بہت اعتماد حاصل ہوا۔

اب اْسے گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِس امر نے نوجوان لڑکے کا بہت حوصلہ بڑھایا۔ بابر نے ہر قیمت پر بہترین بلے باز بننے کا تہیہ کر لیا تاکہ اپنے اور وَالد کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے، تاہم اِس خواب کی تکمیل میں پیسوں کی کمی آڑے آگئی۔

دراصل بابر والدین کا دوسرا بیٹا ہے اور جب اْس نے 2004ء سے باقاعدہ کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا، تو بابر کے دو اَور بھائی بہن تولد ہو چکے تھے۔ یوں چھ افراد وَالے گھرانے کے اخراجات بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ اتنی رقم نہ ہوتی کہ بابر کے لیے اچھی قسم کا بلا اور گیند خریدا جا سکے۔بابر کی خوش قسمتی کہ اْسے ہمدرد وَ بہترین والدہ بھی نصیب ہوئیں۔ والدہ روزمرہ اَخراجات سے کچھ رقم بچا لیتی تھیں۔

یہ رقم پھر بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی۔ بچائی گئی رقموں ہی سے وقتاً فوقتاً بابر کے لیے بلا، گیند، گلوز وَغیرہ خریدے گئے۔ یوں والد کے ساتھ ساتھ نرم و شفیق والدہ بھی بیٹے کی مدد کرتی رہیں تاکہ وہ اَپنے سارے خواب پورے کر سکے۔

ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی والدین کی خواہشات کے برعکس اپنا کوئی راستہ چْن لے، تو اْس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ والدین ہی نہیں سارے خاندان والے بھی اْسے لعن طعن کرتے ہیں۔ بہت کم والدین بچوں کی تمنا کا احترام کرتے اور پھر اْن کے مددگار بن جاتے ہیں۔ عقلِ سلیم کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کی تمناؤں کو اوّلیت دی جائے۔ بیشک وہ ناتجربے کار ہوتے ہیں مگر وقت اْنھیں تجربہ دے ڈالتا ہے۔ پھر بچہ اپنی خوشی سے زندگی کے فیصلے کرتا اور اْن کے اچھے یا خدانخواستہ بُرے ہونے کا ذمے دار ہوتا ہے۔

بابر تیرہ سال کا تھا کہ ایک کرکٹ کلب میں تربیت پانے لگا۔ کلب والوں نے اْس کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے کم فیس رکھی ۔ اعظم صدیقی کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی موٹرسائیکل تھی۔ وہ اْس پہ بابر کو کلب لے جاتے۔ یہی نہیں، وہاں رْک کر بیٹے کا اِنتظار کرتے۔کلب والے کبھی کبھی دوپہر کا کھانا کھلاڑیوں کو کھلاتے تھے۔

اْدھر اعظم صدیقی کے پاس صرف ایک انسان کا پیٹ بھرنے کی خاطر رقم موجود ہوتی، لہٰذا جب بابر کو کھانا نہ ملتا، تو وہ اْسے کِھلا دیتے اور یہ بہانہ کرتے کہ اْنھوں نے کھا لیا ۔ یوں بیٹے کا مستقبل سنوارنے اور بہتر بنانے کے لیے باپ قدم قدم پر قربانیاں دیتا رہا۔ ایک باپ ہی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کرتا ہے۔

اسٹیڈیم میں آمد

اْنہی دنوں ستمبر 2007ء میں جنوبی افریقا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ اْسے لاہور میں ایک ٹیسٹ اور ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے تھے۔ تب کامران اکمل قومی کرکٹ ٹیم کا حصّہ بن چکے تھے۔ اْن کی سفارش پر بابر کومددگار اور باؤنڈری پہ بال پکڑ لڑکے کے طور پر رکھ لیا گیا۔ چنانچہ پاکستانی اور جنوبی افریقن ٹیموں کے مقابلوں کے دوران بابر نے مددگاری فرائض انجام دیے۔

یہ تجربہ نشوونما پاتے بابر کے لیے خوشگوار ثابت ہوا۔ اْس نے جانا کہ دورانِ کھیل اور عام حالات میں اسٹیڈیم کا ماحول کیسا ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کرکٹ کیونکر کھیلی جاتی ہے۔ بلے بازوں اور بالروں کا کھیل دیکھ کر اْن کی خوبیاں اور خامیاں کیسے جانی جاتی ہیں۔ غرض تیرہ برس کے لڑکے کو ’’مددگار لڑکا‘‘ بن کر بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل گیا۔

جب پاکستانی اور جنوبی افریقن کھلاڑی نیٹ پریکٹس کرتے، تو بابر اْنھیں کھیلتے ہوئے بغور دَیکھتا۔ جنوبی افریقن ٹیم میں اْس کا پسندیدہ بلے باز، اے بی ڈی وِیلیرز بھی شامل تھا۔ بابر اْس کے کھیلنے کی تکنیک غور سے دیکھتا۔ یوں وہ مشاہدے کی اپنی قوت سے بھی کرکٹ کے اسرار و رْموز جاننے کی جدوجہد کرتا رہا۔

ایک بار بابر نے باونڈری پر جنوبی افریقن کھلاڑی کا مارا چھکا کیچ کر لیا۔ اْس نے جس مہارت و آسانی سے کیچ پکڑا، اْسے دیکھ کر جنوبی افریقن کھلاڑی، جے پی ڈومنی نے پیش گوئی کی کہ یہ لڑکا ایک دن عمدہ کھلاڑی بنے گا۔ اْسے یقیناً خبر نہ تھی کہ یہ پیشین گوئی ایک دن زبردست طریقے سے پوری ہو کر رہے گی۔

بابر بڑی محنت سے کرکٹ کھیلتا رہا۔ مسلسل مشق سے اْس کا کھیل بہتر ہونے لگا۔ وہ چوکے چھکے مارنے والا نامور بلے باز بن گیا۔ لاہور کے مشہور کرکٹ کلب اْسے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کی تگ و دو کرنے لگے۔ اپنے شاندار کھیل کی بدولت وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ اْن لوگوں کی نظروں میں بھی آ گیا جو اْبھرتے جوہرِ قابل کی تلاش میں رہتے۔ 2007ء ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام کھیلی جانے والی انڈر 15 ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں اْسے بھی شامل کر لیا گیا۔

جوتے نہیں ہیں

ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں کھیل کے مطلوبہ جوتے پہن کر ہی کھلاڑی شریک ہو سکتے تھے۔ یہ جوتے خاصے مہنگے تھے۔ اِس لیے اعظم صدیقی نے کوشش کی کہ اْن کا کوئی بھتیجا اپنے کرکٹ جوتے بابر کو مستعار دَے ڈالے۔ کہتے ہیں، دونوں کا کہنا تھا، اْن کے پاس مطلوبہ جوتے موجود نہیں۔بابر اْس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ابّا کو اَپنے بھتیجوں سے جوتے نہیں مانگنے چاہئیں تھے۔ اْن کے انکار سے ہمیں کچھ بے عزتی محسوس ہوئی۔ تب مَیں نے عہد کیا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاوں گا، بلکہ اپنی محنت و سعی سے ہر شے حاصل کروں گا۔‘‘

ٹرائلز کرکٹ کے مقابلوں میں بھی بابر نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ اپنے معیاری کھیل کی بدولت وہ سرکاری اداروں کی کرکٹ ٹیموں کے سلیکٹروں کی نگاہوں میں آ گیا جو نوجوان بلے بازوں کو کھوجتے رہتے۔ اب زیادہ اَعلیٰ کرکٹ کھیلنے کے لیے بابر کو ’’کرکٹ کِٹ‘‘ درکار تھی۔ کرکٹ کِٹ میں بلا، گلو، بیٹنگ پیڈ اور دِیگر ضروری سامان شامل ہوتا ہے۔ مگر یہ کرکٹ کِٹ ہزاروں روپے میں آتی تھی اور یہ بابر کے اہلِ خانہ کے لیے بھاری رقم تھی۔

 زیور کی فروخت

دکان سے تو جو آمدن ہوتی، وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے میں صَرف ہو جاتی۔ تاہم بابر کی والدہ اخراجات میں سے کچھ رقم بچا کر محفوظ کر لیتی تھیں۔ اب پھر یہی رقم بابر کے لیے کرکٹ کِٹ خریدنے میں کام آئی۔ مگر یہ رقم کم تھی، اِس لیے والدہ نے اپنا کچھ زیور بھی فروخت کر دیا۔ اِس طرح بابر کے لیے کرکٹ کِٹ کا بندوبست ہوا۔یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی صورت اولاد کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے۔ ماں باپ نہ صرف اپنے بچوں کو دکھ درد سے دور رَکھنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں بلکہ اْن کی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے اور معاشرے میں بلند مقام پا لے۔

کرکٹ کِٹ پا کر بابر کا کھیل مزید نکھر گیا۔ وہ اَب باآسانی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا۔ ماں باپ کی دعائیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور 2010ء میں زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیم میں اْسے شامل کر لیا گیا۔ یوں صرف سولہ سال کی عمر میں بابر والدین کا کماؤپوت بن گیا۔ اْسے بینک سے مناسب تنخواہ ملنے لگی۔ اب وہ اَپنے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہو گیا۔

قومی کرکٹ میں

فرسٹ کلاس کرکٹ نے بابر کا کھیل مزید نکھار دِیا۔ وہ بڑی مہارت اور خوبصورتی سے شاٹس کھیلنے لگا۔ اْسے موقع محل کے مطابق بھی کھیلنا آگیا۔ جب وکٹیں محفوظ رکھنا ہوتیں، تو وہ سست رفتاری سے کھیلتا۔ اور جب تیز بلے بازی کرنے کا موقع آتا، تو وہ چوکوں چھکوں کی بارش کر دیتا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کھیل کے باعث ہی مئی 2015ء میں بابر کو پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔بابر نے یہ خبر سنی، تو اْس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ برسوں کی محنت آخر رنگ لے آئی تھی۔ گھر میں والدین اور بہن بھائی بھی بہت خوش تھے۔یوں عالمی کرکٹ میں اس کے تحیر خیز سفر کا آغاز ہو گیا جو کئی بین الاقوامی ریکارڈ بناتا جاری و ساری ہے۔

The post ’’بال پِکر‘‘ سے کرکٹر بننے تک appeared first on ایکسپریس اردو.

مشیر کاظمی ؛ مقبول گیتوں اور نغموں کے خالق

$
0
0

ثقلین کاظمی (فرزندِ مشیرکاظمی)

آج مشیر کاظمی کا خواب پورا ہوا اور ان کا مجموعۂ کلام بعنوان ’’کلیاتِ مشیر کاظمی‘‘ حال ہی میں شائع ہوگیا۔ الحمداللہ۔

عرصۂ عرصہ دراز سے والدگرامی میری خواب میں نہیں آئے تھے، مگر پچھلے دِنوں اُن سے خواب میں شرفِ ملاقات حاصل ہوا، کم سے کم ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ پر دل و جان سے محنت کرنے کا صِلا تو مِلا کہ ’’دیدار پدرِجانم‘‘ نصیب ہوا۔

ویسے تو ہر سال مشیر کاظمی کی برسی روایتی انداز میں منائی جاتی ہے مگر اس برس کچھ کیفیت مختلف ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ کی شکل میں مشیر کاظمی کے خواب کی تکمیل ہوئی ہے۔ ایک شاعر کی اس سے بڑھ کر اور کیا حسرت ہوسکتی ہے کہ اُس کا کلام ایک دن کتاب کی شکل میں سامنے آئے۔ مشیرکاظمی تاحیات مختلف اخبارات سے اپنی چھپی ہوئی نظموں کی کٹنگز جمع کرتے رہے، انھیں اخبارات کی کٹنگز کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حسرتوں کو بھی اسی فائل میں جمع کرتے رہے جو ان کی حیات میں کبھی پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں کہ ایک دن وہ اپنا مجموعہِ کلام چھپوائیں گے!

گو مشیرکاظمی کو زندگی میں بہت سے مواقع ملے کہ وہ اپنے معاشی حالات کو بہتر بنا سکیں مگر انھوں نے اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور ایک باوقار اور باعزم انسان کی طرح اپنی زندگی اور شاعری نبھاتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشیرکاظمی کو ان کی سچی لگن کی وجہ سے خداوند نے ایک منفرد مقام عطا کیا۔

مثلاً جب وہ گیت نگاری کے میدان میں آئے تو انھوں نے شان دار گیت لکھے جو آج بھی دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کردیتے ہیں، جن میں مشہورِزمانہ گیت چاندنی راتیں، لال مری پت، شکوہ نہ کر گلہ نہ، ہم چلے اس جہاں سے، مُرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم اس دیس میں پھر نہ آؤں گا، شامل ہیں۔

گیت نگاری کے دور ہی میں مشیر کاظمی کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ جاگا اور انھوں نے معرکۃ الارا نظمیں لکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں، چاہے وہ پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے ہوں یا سقوطِ ڈھاکا پر کہی گئی باکمال نظمیں ہوں، یا پھر حالات حاضرہ کی ستم ظریفیوں پر اک نظر ہو، مشیر کاظمی اپنے دور کے متحرک محبِ وطن شعرا میں شمار ہونے لگے۔

انھوں نے پینسٹھ کی جنگ کے دوران جوش و ولولے سے بھرپور نظمیں لکھیں، جن میں سے ایک نظم میں وہ قوم کی بیٹیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:

میں تو سمجھا تھا کہ تم اِک مغربی تصویر ہو

شاعروں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ہو

میں تو سمجھا تھا مسلماں تم برائے نام ہو

تم نے ثابت کردیا تم دخترِ اسلام ہو

زندہ باد اے انقلابِ قوم کی زندہ مثال

زندہ باد اے ملتِ بیضا کی شانِ لازوال

تُونے فرزندوں کو سِکھلائے شہادت کے چلن

خون سے اپنے لکھی ہے تُو نے تاریخِ وطن

اسی جذبۂ حُب الوطنی نے مشیر کاظمی کے قلم کو جرأت عطا فرمائی کہ انھوں نے تاریخِ پاکستان کے ورق پر اپنا دل سوز قومی ترانہ رقم کر دیا:

اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

ہماری نسلیں اس قومی نغمے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں، کیوںکہ اس ترانے میں شہدائے وطنِ عزیز کے لہو کی بُو آتی ہے اور کتنی ہی باوقار و عظیم ماؤں کے جذبات اس نغمے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ اِعزاز مشیر کاظمی کو حاصل ہے کہ آج تک اُن کے قلم سے لکھے اشعار دِلوں کی حرارت بنے ہوئے ہیں۔

قومی شاعری کے حوالے سے مشیر کاظمی کی زندگی میں ایک اور دور آتا ہے جس کا تعلق ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ سے ہے۔ اسی سانحے کو دل میں لیے کبھی وہ ’’ تُربتِ قائداعظم‘‘ پر یہ کہہ کر آنسو بہاتے نظر آتے ہیں:

قائداعظم کی تُربت سے ابھی آیا ہوں میں

نظم کی لڑیوں میں کچھ آنسو پِرو لایا ہوں میں

اور کبھی ’’قبرِاقبال پر‘‘ اپنے دل کے دکھڑے یوں سناتے ہیں:

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں

قبرِاقبال سے آرہی تھی صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

جس طرح مشیرکاظمی نے گیت نگاری اور قومی شاعری میں عروج پایا اسی طرح وہ اپنے دور کے مشہور شاعرِاہلبیت کہلائے، سیدالشہدا امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کا اثر تھا کہ اُن کی شاعری میں نغمگی، جوشِ روانی، کے ساتھ ساتھ استدلال، مناظرہ اور جذباتی جدت کے حسین نقش بن بن کر اُبھرے۔

اُن کی نظم میں اس قدر کشِش ہے کہ کوئی نظم پوری پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حُسینیت کو اُنھوں نے اس سُرخ پھول کی طرح دیکھا ہے جس کی تازگی نے پورے چمنستان کو تازہ حیات دے دی ہے، وہ اپنی نظم ’’حسینؑ سب کا‘‘ میں بتانا چاہتے ہیں کہ:

حُسینؑ عرفان و آگہی ہے                  حُسینؑ تکمیلِ بندگی ہے

کیے ہیں جس نے دماغ روشن            لہو سے اپنے چراغ روشن

امید ہے کہ احبابِ ذوق مشیر کاظمی کے کلام سے مستفید ہوتے رہیں گے، آج اگر مشیر کاظمی زندہ ہوتے تو یہ جان کر بے حد خوش ہوتے کہ ان کی کتاب ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ پاکستان کی تمام اہم لائبریریوں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور ادبی حلقوں کی زینت ہے اور اس کتاب کو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کے لیے یونیورسٹیوں نے منتخب کیا ہے۔

میں خُداوند کریم کا شُکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں اپنے والدِگرامی کا خواب مکمل کرسکا۔

ذیل میں مشیر کاظمی کے دوست جناب جعفر رضا ترمذی مرحوم کے چند محبت بھرے اشعار پیش ہیں جو انھوں نے مشیر کاظمی کے لیے کہے:

تُو قلم کی آبرو تھا لوح کی تُو جان تھا

عِلم کی بارہ دری میں عِلم کی پہچان تھا

تُو زمیں پر چلتا پھرتا فقر کا تھا آسماں

عظمتوں کے نوری دریا کا تھا تُو آبِ رواں

تُو اکیلا وقت کے دامن میں تھا اِک انجمن

تیرا ہر اِک لفظ پوری شاعری کا تھا چمن

مطلعِ شعر و ادب پر تُو تھا مثلِ آفتاب

لا نہیں سکتا زمانہ فِکر کا تیری جواب

کوئی پا سکتا نہیں ہے تیرا اندازِبیاں

بے زباں حرفوں کو تُو نے ذکر سے بخشی زباں

اللہ مشیر کاظمی کے درجات بلند فرمائے، آمین۔

The post مشیر کاظمی ؛ مقبول گیتوں اور نغموں کے خالق appeared first on ایکسپریس اردو.


کچھ محبت- کچھ بے بسی

$
0
0

لمبے بالوں اور لبوں پر برا جمان مونچھوں والے انور سن رائے کو میں پہچانتی تو ۱۹۷۳ سے ہی ہوں، بس فرق یہ ہے کہ زلف پریشان اس وقت سیاہ تھی۔ چہرے پر کم وبیش ایسی ہی مسکراہٹ اور حلیہ بھی کچھ ایسا سا ہی ہوتا تھا۔

کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے ماحول میں آرٹس فیکلٹی میں بنے چھوٹے سے تالاب کا اطرافی علاقہ تمام نوآموز مغنیوں، موسیقاروں، شاعروں اور ہر قسم کے انقلابیوں کا گڑھ ہوتا تھا۔ سب مل جل کے، تنہا تنہا اپنے شوق پورے کر رہے ہوتے تھے۔

اس بات سے میں اس وقت بھی آگاہ تھی کہ یہ لمبے بالوں اور گھٹنوں تک لٹکتے تھیلے نما بیگ والا لڑکا شاعر ی کرتا ہے۔ کیسی شاعری کرتا ہے؟ کتنا بڑا شاعر ہے؟ اس سب سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔

چند دن پہلے انور سن رائے نے اپنا مجموعہ کلام یہ کہہ کے دیا،’’اس پر کچھ لکھو۔‘‘

’’میں!‘‘ میں نے لمبی سی میں کے ساتھ پوچھا؟ اور کتاب کو پکڑتے ہوئے اس کے سرورق پر نظر ڈالی، انور کا کئی رنگوں والا تجریدی چہرہ مسکرا رہا تھا اور کتاب کی پیشانی پر ۱۹۷۳-۲۰۲۳ لکھا ہوا تھا۔ میرے تمام اچھے برے، کم اچھے، کم برے، لکھنے والے، بولنے والے، جاننے والے تما دوستوں کو پتا ہے کہ میں اور شاعری ایک دوسرے کے متوازی وہ دو لائنیں ہیں جو کبھی نہیں ملتیں۔ شاعری پسند بہت ہے۔ اچھے اور پسندیدہ شاعروں کی کتابوں کا ایک اچھا کلیکشن بھی رکھتی ہوں لیکن کسی شاعر کی کتاب پر لکھنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ اور شاعر بھی ایسا جو پچاس سال سے شاعری کر رہا ہو۔ میرا جیسا جاہل کیا کہے گا اور لکھے گا اس کے بارے میں،

ان کی موجودہ کتاب دراصل ان کی پچاس برسوں کی شاعری کا اجتماع ہے۔ ان کی اس کتاب سے ہی پتا چلا کہ موصوف بنیادی طور پر پیروں، فقیروں، ولیوں اور مزاروں کی سرزمین جسے آج کل کی سیاسی زبان میں سرائیکی بیلٹ کہتے ہیں کہ ہونہار بُروا ہیں۔ ان کا بچپن خیرپور کی گلیوں میں بھی گزرا ہے اور اپنی نوجوانی کے آغاز ہی میں موصوف کراچی آگئے تھے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے نلکوں کا پانی جس نے ایک بار پی لیا وہ پھر نہ صرف پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بلکہ وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا۔ اس دور میں کراچی آنے والوں میں سے بیشتر کا ماضی محنت مشقت سے بھر پور ماضی ہوتا ہے سو وہ انور سن رائے کا بھی ہے۔ انھوں نے محنت کی پڑھا، لکھا، شاعری کی، شادی کی اور نوکریاں بھی کیں۔

انور کی زندگی میں شاعری اگر ان کا اُوڑھنابچھونا ہے تو صحافت کی ڈور بھی ان کے قدموں سے لپٹی ہوئی ہے۔ اسی ڈور کے سہارے وہ کئی سال بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس میں بھی گزار چکے ہیں۔ وہ ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے ناول ’’چیخ‘‘ کو مزاحمتی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ ان کے نامۂ اعمال میں شامی شاعر علی احمد سعید کی منتخب شاعری اور فلسطینی شاعر محمود درویش کی شاعری کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کا کارنامہ بھی لکھا ہے۔ ان کے ناول چیخ کو بھارت میں اوپندرناتھ اشک کی اہلیہ نے ہندی زبان کے رنگ میں رنگا ہے۔

انور سن رائے کی شاعری دراصل نثری شاعری ہے اور ان کا شمار نثری شاعری کے ابتدائی شعرا میں ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ستر کی دہائی میں شعرا کی محفلوں میں نثری شاعری اور شعرا ہر وقت موضوع گفتگو بنے رہتے تھے اور طرح طرح سے ان کے بخیے ادھیڑے جاتے تھے۔ باوجود اس کے مجھے شاعری کی کوئی سدھ بدھ نہیں پھر بھی انور کی کتاب میں لکھی کچھ باتیں نہ صرف سمجھ آتی ہیں دل کو بھی بھاتی ہیں۔

انور کی نظم ’’ سن امریکہ‘‘ میں وہ کہہ رہے ہیں۔

امریکہ!           تو جہاں بھی گیا

اپنے لئے ہی گیا              تو نے ہمیشہ

ملکوں اور ان کے لوگوں کو نہیں         فوجوں اور جنرلوں کو عزیز رکھا۔

اپنی ایک اور نظم ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ میں وہ کہتے ہیں:

آمر آتے ہیں                 اور زندگیاں سج جاتی ہیں

نت نئی گہماگہمی سے بنتے ہیں نئے کمیشن اور بیورو

فائلیں کھلتی ہیں              کچھے چٹھے باہر آتے ہیں

کھل جاتی ہے                قانون کی آنکھوں پر بندھی پٹی

کودنے پھاندنے لگتا ہے ہر طرف انصاف

یہ ایک کافی طویل نظم ہے۔ اسی میں وہ آگے جاکے کچھ یوں بھی اظہار کر رہے ہیں۔

چمچاتے میڈل لگی وردیوں میں آتے ہیں

انصاف کو تیز تر کرنے والے  بناء جانے والی سرسری سماعتوں کی

عدالتوں کے سربراہ فرسودگی کو ختم کرنے کے لئے نافذ کیا جاتا ہے

عبوری آئینی فرمان   ختم ہوجاتی ہے

اسمبلیوں اور سینٹ کی ضرورت        کھیل تماشے بدل جاتے ہیں

بچے تک لطف اندوز ہونے لگتے ہیں

سرعام پھانسیوں اور کوڑوں کے مناظر سے

نئی ڈیفنس سوسائیٹاں بنتی ہیں  زمینوں کے بھاؤچڑھتے ہیں

ایک نئی روح دوڑنے لگتی ہے کاروبار وں میں بڑھنے لگتی ہے

اشرافیہ کے ارکان کی تعداد

کتاب کے اوراق اُلٹتے پلٹتے ہوئے ایک اور نظم نے میرے احساس شاعری کو پکڑلیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’پرانے ادیبوں اور شاعروں کا بازار‘‘

فٹ پاتھ پر، ٹھیلوں پر         گرد میں لپٹے

وہ دیکھتے ہیں ہر آنے اور جانے والے کو

شاید کوئی رکے               شاید کوئی انھیں دیکھے

شاید کوئی نکل آئے  ان کا بھی شناسا

اس نظم میں دراصل ہمارے دور کا المیہ بھی ہے، لوگوں نے لکھنا پھڑناچھوڑ دیا ہے۔ ایک وقت تھا شاعر اور ادیب لکھتے ، لکھتے خون تھوکتے مرجاتے تھے لیکن وہ اپنی زندگی کے نچوڑ کو کاغذ کی صورت نہیں دے سکتے تھے۔ پھر بھی ان کے شعر زبان زدعام اور ان کی تحاریر لوگوں کے دلوں میں گھر کئے رہتی تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں زیادہ تر لکھنے والوں کو پبلشر کی ضرورت نہیں کہ وہ بقلم خود ہی چھپنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پڑھنے کا وہ ذوق جاتا رہا ہے۔ شہر کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اس دکھ کو ہی انور نے زبان دی اور لکھا ہے:

جب رات ہونے لگتی ہے     جب لوگ چھٹنے لگتے ہیں

تو ڈبوں اور بوریوں میں بند کرکے انھیں

پہنچادیا جاتا ہے تنگ وتاریک کمروں تک

لیکن وہ کبھی کوئی شکایت نہیں کرتے             صرف اس امید پر

کے ایک نہ ایک دن آہی جائے گا

کوئی شناسا          اور اُنہیں لے جائے گا

انور سن رائے کی پانچ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل کتاب میں بہت کچھ ہے جسے زبان وبیان کی ضرورت ہے۔ اس سب کو کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں۔ یہ کہہ سکتی ہوں کہ پچاس سالوں کے طول وعرض پر پھیلی اس شاعری میں ’’ہمارا آج اب بھی زندہ ہے۔‘‘

The post کچھ محبت- کچھ بے بسی appeared first on ایکسپریس اردو.

’’را‘‘عالمی دہشت گرد بن گئی

$
0
0

حالیہ 22 نومبر کو برطانوی اخبار، فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی، را (Research and Analysis Wing) کے ایجنٹ امریکا میں مقیم ایک سکھ رہنما، گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے وہاں کرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کر لی تھیں۔

تاہم امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس منصوبے کی خبر ہو گئی۔ چناں چہ انھوں نے سرزمین ِامریکا پر را کے ایجنٹوں کا آپریشن ناکام بنا دیا اور وہ ایک امریکی شہری کو قتل نہیں کر سکے۔برطانوی اخبار نے مزید انکشاف کیا کہ امریکا کے صدر یا وزیرخارجہ نے یہ معاملہ بھارتی وزیراعظم ، نریندر مودی کے سامنے اٹھایا اور انھیں متنبہ کیا کہ را امریکا میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے سے باز رہے ورنہ سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔اب را کے ایک ایجنٹ پر نہ صرف امریکا میں مقدمہ چل رہا ہے بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی پہلی بار وہاں اپنی سرگرمیاں بھی ختم کر چکی۔

واضح رہے، پچھلے ایک سال میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں یہ شواہد سامنے آ چکے کہ ان ممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ بھارت مخالف شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اب دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا بھی اس بڑھتی فہرست میں شامل ہو چکی۔سردار ہریندر سنگھ امریکا میں ایک ادارے، سکھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق ہیں۔یہ ادارہ سکھ مت اور سکھوں کے حقوق کی ترویج کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’را نے پچھلے کئی سال سے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ بھارتی تنظیم خصوصاً پاکستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرگرم عمل ہے۔ان ممالک کے جرائم پیشہ گروہوں اور ملک دشمن تنظیموں کی مدد سے را کے ایجنٹ ان افراد کو قتل کرتے ہیں جو بھارت کے خلاف ہوں۔ مگر اب مغربی جمہوری ممالک بھی را کی دہشت گردی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ مودی حکومت کو لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ترقی یافتہ مغربی جمہوری ملک اپنی سرزمین پر غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اپنے شہریوں کے قتل کو بہت سنجیدگی سے لیتے اور بُرا مناتے ہیں۔‘‘

گرپتونت سنگھ پنوں امریکا میں سرگرم ایک سکھ تنظیم، سکھز فار جسٹس ( Sikhs for Justice)کے ترجمان اور قانونی مشیر ہیں۔ یہ تنظیم بھارتی پنجاب کے ان اضلاع میں آزاد سکھ ریاست، خالصتان قائم کرنا چاہتی ہے جہاں سکھوں کی اکثریت ہے۔ مگر بھارتی حکمران طبقہ اس مانگ کے سخت خلاف ہے۔ جبکہ انتہا پسند ہونے کے ناتے مودی حکومت نے تو دنیا بھر میں خالصتانی لیڈروں کے قتل عام کا خوفناک اور بھیانک منصوبہ شروع کر دیا۔

مودی حکومت کی ایما پر پچھلے ڈیرھ سال سے را کے ایجنٹوں نے پاکستان میں بھی ان مجاہدین کو شہید کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں سرگرم جہادی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق پچھلے بیس ماہ میں را کے ایجنٹ کم از کم ’’19 بھارت مخالف شخصیات‘‘کو نشانہ بنا چکے۔مقتولین میں تیرہ پاکستانی اور چھ سکھ لیڈر شامل ہیں۔

کئی پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں را کی سرگرمیوں کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ، یہ محض ایک پردہ ہے جو پاکستانی حکومت اپنی ناکامیاں اور کوتاہیاں چھپانے کے لیے ڈال دیتی ہے۔ لیکن اب امریکا،برطانیہ ، کینیڈا…تین نمایاں ترین مغربی ممالک کی حکومتیں خود کہہ رہی ہیں کہ ان کی سرزمین پربھارتی خفیہ ایجنسی شہریوں کو قتل کرنے میں ملوث ہے۔اس حقیقت نے بھارتی حکمران طبقے کو دنیا بھر میں ننگا کر دیا۔

دور جدید میں پہلے پہل برطانیہ کی سیکرٹ ایجنسی، ایم16 نے اپنے حکمران طبقے کے مفادات اورناجائز خواہشات پوری کرنے کی خاطر بیرون ممالک لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔اس کے بعد امریکاکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں گرانے اور بنانے میں ملوث رہی۔ مثلاً اس نے 1949ء میں شام میں جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور اسلام پسند اور عوام میں مقبول رہنما، صدر شکری القواتلی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ پہلے پاکستانی وزیراعظم ، لیاقت علی خان کی شہادت میں بھی سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی، ایم 16 نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ وہ امریکی و برطانوی مفادات پورے کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔

ان دونوں مغربی ممالک کے بعد روس اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں بھی بیرون ممالک اپنے حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کرنے لگیں ۔اب اس فہرست میں ایک اور ملک، بھارت کا اضافہ ہو چکا۔یہ سبھی ممالک بے پناہ دولت رکھتے ہیں۔ اسی امارت نے انھیں اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کو بھاری رقومات ادا کریں تاکہ ان کے ایجنٹ بیرون ممالک اپنی مذموم و ناجائز سرگرمیاں انجام دے سکیں۔

درج بالا پانچوں ممالک کی بیرون ممالک بیشتر خفیہ سرگرمیاں اصل میں شیطانی ہیں۔ مثلاً امریکا اور برطانیہ اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے مغربی استعمار کی دشمن شخصیات کو قتل کراتے یا ان کی حکومتوں کا تختہ الٹاتے ہیں۔ترقی پذیر ملکوں میں آمروں کو حکمرانی دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔سویت یونین کی خفیہ ایجنسیاں اپنے مخالفین کو قتل کرنے اور کمیونزم پھیلانے میں سرگرم رہیں۔

اسرائیل اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا خاص نشانہ مسلمان ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں فلسطینی مجاہدین کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسیاں کشمیر مجاہدین، پاکستانیوں اور خالصتانی سکھ لیڈروں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ یہ ایجنسیاں سوشل میڈیا میں بھی بہت متحرک ہیں۔ان ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے سیکڑوں ویب سائٹس کھول رکھی ہیں جس سے پاکستان اور اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا اور فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں۔ مدعا پاکستان کو معاشی ، سیاسی اور معاشرتی طور پہ نقصان پہنچانا ہے۔

بدقسمتی سے ان ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پاکستان میں لالچی کرپٹ افراد، ملک دشمن تنظیمیں اورجرائم پیشہ گروہ مل جاتے ہیں۔ ان چاروں کا اکٹھ پھر اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔اکثر یہ خبر آتی ہے کہ فلاں عالم ، دینی رہنما، سیاست داں، صحافی یا کاروباری کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ اکثر اوقات یہ نامعلوم لوگ بیرون ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مارے گئے فرد کی سیاسی ، معاشی یا نظریاتی حیثیت اس امر کو آشکارا کرتی ہے کہ اسے کس ملک کی خفیہ ایجنسی نے نشانہ بنایا۔

پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں خاص طور پہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پہ کرپشن ، غیردستاویزی معیشت اور کالے دھن نے پاکستان کو معاشی طور پہ بہت کمزور کر دیا ہے۔ نگران حکومت اب ان منفی عوامل کے خلاف سرگرم ہے۔ لیکن پاکستان میں را کے ایجنٹوں کی بھرپور کوشش ہو گی کہ قانون و انصاف کا بول بالا کرنے والی پاکستانی حکومت کی مہم ناکام ہو جائے۔اس طرح پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت میں نہیں ڈھل سکے گا۔

ایک خطرناک امر یہ ہے کہ را نے پاکستان دشمن تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کر لیا ہے۔ را کے ایجنٹ ان تنظیموں کو رقم ، اسلحہ اور جنگی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کے سہارے ہی پاکستان دشمن تنظیمیں اس قابل ہوتی ہیں کہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنائیں ، نیز سول وعسکری تنصیبات پہ حملے کریں اور مساجد و عوامی مقامات میں بم دہماکے کر کے معصوم انسانوں کو شہید کر سکیں۔ ان کی انتہا پسندانہ مذہبی سوچ سے فائدہ اٹھا کر پاکستان دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑی ہوشیاری سے انھیں اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔

یہ سچائی ریکارڈ پر ہے کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے انیسویں صدی میں ایسے مراکز کھول رکھے تھے جہاں برطانوی ایجنٹوں کو اسلامی تاریخ و نظریات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ ایجنٹ دینی رہنما کے بھیس میں عالم اسلام میں گھومیں پھریں اور اپنے متنازع مذہبی نظریات کی ترویج کر کے اسلامی ممالک میں فرقہ ورانہ اختلافات ابھار دیں۔ اب انگریزوں کی اس روش پہ اسرائیل و بھارت کی خیفہ ایجنسیاں بھی عالم اسلام میں عمل پیرا ہیں۔ایجنسیوں کے ایجنٹ مسلمانوں کے مابین زیادہ سے زیادہ مذہبی و سیاسی اختلاف پیدا کرتے ہیں تاکہ ان میں اتحاد ویک جہتی جنم نہ لے۔ یہ خصوصیات کسی بھی قوم کو دنیاوی عروج بخش سکتی ہیں۔

پاکستان کے اینٹلی جنس ادارے را ، موساد اور دیگر دشمن خفیہ ایجنسیوں کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کی خاطر متحرک ہیں۔ اداروں کے دلیر ارکان جان پہ کھیل کر پاکستانی قوم اور سول وعسکری تنصیبات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ پاکستانی اینٹلی جنس اداروں کے مابین جامع و مربوط نیٹ ورک بنایا جائے تاکہ وہ زیادہ موثر انداز میں دشمن خفیہ ایجنسیوں کی چالوں، سازشوں اور حیلوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ہر پاکستانی کا بھی فرض ہے کہ وہ قومی اینٹلی جنس اداروں کی ہر ممکن مدد کرے تاکہ پاکستان کو دشمنوں سے پاک کیا جا سکے۔اس طرح وطن عزیز امن وشانتی کا گہوارہ بن کر معاشی و سیاسی لحاظ سے مستحکم ومضبوط ہو سکے گا۔

ماضی میں اعلی اخلاقی و اسلامی اقدار مثلاً سادگی، قناعت، ہمدردی، بھائی چارہ، صبر وبرداشت کا پاکستان میں دور دورہ تھا۔ بیشتر پاکستانی مادہ پرستی کی لعنت میں گرفتار نہیں ہوئے تھے۔ پھر کوٹھی، کار، بنگلہ پانے کی تمنا میں جائز وناجائز کا فرق مٹنے لگا۔ پیسے کا حصول مطمع نظر بن گیا۔ اس تبدیلی سے پاکستان دشمن ایجنسیوں کو فائدہ پہنچا کیونکہ اب اپنے شیطانی منصوبے انجام دینے کے لیے پاکستانیوں میں سے لالچی وہوس ناک افراد ملنے لگے۔ یوں انھیں اپنے عزائم پورے کرنے کا موقع ملا۔ اس لیے اشد ضروری ہے کہ پاکستان میں اخلاقیات کو فروغ دیا جائے اور بھولی اخلاقی و اسلامی تعلیمات خصوصاً نئی نسل کو پڑھائی جائیں۔

نوجوان مستقبل ِپاکستان کے معمار ہیں۔ اگر وہ اہل، دیانت دار، محنتی ، ذہین اور قابل ہوں گے تو ہمارے وطن کاآنے والا کل بھی روشن ہو گا۔ وطن عزیز مشکلات و مسائل میں مبتلا ہے مگر امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

اتنے مایوس تو حالات نہیں

لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں

The post ’’را‘‘عالمی دہشت گرد بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی نمبر198؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم)

$
0
0

گزشتہ سے پیوستہ لکھتے ہوئے ایک وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ بایزیدانصاری کی کتاب ’خیرالبیان‘ کا سن تصنیف، متعدد کتب اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد میں جابجا 1521ء اور 1651ء درج کیا گیا، جو کہ دونوں ہی غلط ہیں۔

(1521ء نقل کرنے کی غلطی کرنے والوں میں ڈاکٹرجمیل جالبی بھی شامل ہیں، جنھوں نے بایزید انصاری کا سن پیدائش نظراَنداز کیا)۔ موصوف کی پیدائش 1525ء میں ہوئی (جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز، جلد اوّل میں 1524ء غلط درج ہے اور دیگر مقامات پر 1526ء، جبکہ اسی انسائیکلوپیڈیا میں سن وفات، بعض دیگر مقامات کی طرح 1572ء غلط لکھا گیا; یہی غلط سن وفات شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں دُہرایا گیا، البتہ اس میں سن پیدائش درست ہے)۔

جامع اردو انسائیکلوپیڈیا کے بیان کی رُو سے اس متنازعہ فیہ مذہبی شخصیت کا لقب ’پیر روشن ضمیر ‘ تھا۔ ’خیرالبیان‘ کی اشاعت یقیناً صاحبِ تصنیف کی زندگی میں نہیں ہوئی ہوگی، جبھی اس کی بابت ابہام پایا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ 1650ء میں مُلّا بہارتوسی نے بی بی خیرخاتون کے لیے نقل کیا، گویا یہ سبب ہوا کہ لوگوں نے اپنے اندازے سے سن تصنیف ہی 1651ء لکھ دیا۔

اس کتاب کے ابتدائی تیرہ صفحات پر چار زبانوں (عربی، فارسی، پشتو اور اُردوئے قدیم) میں عبارت درج ہے، جبکہ بقیہ مسودے میں اردو شامل نہیں۔ پیر روشان کے شدید مخالف اخون دریوزہ (اخوند درویزہ) کے فتوے کے مطابق، ان کی کتب کا تَلف کردینا باعث ثواب تھا، لہٰذا پیر موصوف کے مریدین نے ایک ایک نسخہ بہت حفاظت سے رکھا۔ ہندوی یعنی قدیم اردو کے نمونے اس کتاب میں پائے جانے کی بنیاد پر یہ تحقیق بھی سامنے آچکی ہے کہ یہ کتاب، موجودہ خیبر پختون خوا میں اُردو کی پہلی کتاب بھی ہے۔

(’’خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں نثری ادب کا ارتقاء‘‘ از جناب محمد رشید، پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور، بحوالہ جناب رضاہمدانی وپروفیسر سہیل احمد)۔ ان کی اردو، ملّا وجہی سے بھی پچاس برس قدیم تھی جس کا نمونہ دعوت تحقیق دیتا ہے: ’’اے بایزید! لکھ وہ اَکھر (لفظ یا حرف)، جسے سب جیب سہن جڑ تھیں، اس کارن (اس کے سبب) جے نفع پاویں۔ آدمیاں کج کا۔ میں نا ہیں جانتا بن قرآن کے اکھر ہے۔

سبحان (سبحان اللہ) اے بایزید! لکھنا کہ اکھر کا تجھے ہے۔ دکھلاونا اور سکھلاؤ نا مجھے‘‘۔ محقق موصوف نے اسی کتاب کے پشتو اقتباس مع اردو ترجمہ (لکھ کتاب کے آغاز کے بیان جن کے سارے اکھر سہن بسم اللہ) کی نقل کے بعد برملا کہا کہ’’اس مختصر فقرے (جملے: س اص) میں بھی آغاز، بیان، درست، بسم اللہ جیسے تمام الفاظ اردو اور پشتو کے مشترک تلفظ کا پتا دیتے ہیں۔ بایزید کی اس نثری کوشش کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پشتو اپنی ابتدائی نشوونما میں بھی اردو الفاظِ روزمرّہ کو اَپنارہی تھی۔ وہ محض اس لیے کہ اردو زبان بات چیت کی زبان بن چکی تھی اور اس میں اثرآفرینی کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔ اس مثال سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو کا اثر پشتو اور شمال ہند کی دیگر زبانوں پر پڑنا شروع ہوگیا تھا‘‘۔ (خط نسخ میں کی گئی ٹائپنگ کے الفاظ، مطبوعہ صورت میں کہیں کہیں مبہم ہیں۔ س اص)۔

سن تصنیف کے تعین کی بحث سے قطع نظر بات سامنے کی ہے کہ جب بایزیدانصاری کا انتقال ہی 1585ء میں ہوگیا تو ظاہر ہے کہ زمانہ تصنیف سولھویں صدی کی ابتداء ہی کا ہوگا جب موصوف عین شباب میں سرگرم عمل تھے۔ اس حقیقت کے پیش نظر، خاکسار کا یہ نظریہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی تشکیل صدیوں پر محیط ایک طویل عہد میں، خطہ ہند (موجودہ پاک وہند) میں دیگر مقامی یا علاقائی زبانوں اور بولیوں کے شانہ بشانہ ہوتی رہی اور اسی وجہ سے اس کی جنم بھومی اور ماخذ کے متعلق اتنے سارے دعوے منظر عام پر آئے۔ ڈاکٹرعبدالستار جوہرؔ پراچہ کے خیال میں علاقائی بُعد کے باوجود، اردو اور پشتو کے درمیان ربط ضبط کی وجہ دونوں زبانوں کا قدیم تہذیبی تعلق ہے جس میں صوفیہ کرام کی ان دونوں زبانوں کی ترویج میں دل چسپی بھی شامل ہے۔

اسی طرح اس خطے میں ہندکو سمیت دیگر زبانوں سے بھی اردو کا جُڑا ہونا اَز ابتداء ثابت ہے تو وجوہ یہی ہیں۔ (پشتو کی بطور زبان تشکیل کا عرصہ تو بظاہر اردو ہی کی طرح، اس کے شانہ بشانہ ہی نظرآتا ہے، مگر بعض محققین اور اہل زبان کا دعویٰ ہے کہ یہ چار ہزار سال قدیم ہے۔ یہ معاملہ بیج بوئے جانے سے درخت بننے تک محیط ہے)۔

یہ سلسلہ دراز ہوا تو بادشاہوں اور نوابوں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں میں اردو کے فروغ کا ذمہ لیا اور شروع شروع میں تو پشتو ساتھ ساتھ چلی، پھر اُردو کا رواج بڑھا تو پشتو پسِ پشت ڈال کر فقط اردو ہی کی خدمت کی جانے لگی، البتہ روہیل کھنڈ بشمول رامپور میں بطورِخاص اور ممکن طور پر اس خطے کے دیگر حصوں میں پشتو کے لسانی اثرات اردو اور دیگر مقامی زبانوں نے قبول کیے جن میں محض روہیل کھنڈی اردو ہی نمایاں ہے، دیگر پر باقاعدہ تحقیق کا کام ابھی باقی ہے۔ ابھی دکنی اردو، گوجری، مارواڑی/راجستھانی، گجراتی، بنگلہ، اراکانی، برمی، آسامی، اُڑیا سمیت متعدد زبانوں پر (ممکنہ طور پر پڑنے والے) پشتو کے اثرات کی بابت کوئی مبسوط تحقیق سامنے نہیں آئی۔

آگے چلنے سے پہلے ذرا ایک نظر اس اہم اقتباس پر بھی ڈال لیں:

’’مصطفی آباد عرف رامپور، پٹھانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن علم وفضل کے اعتبار سے ایک قدآور شہر تھا اور ایک زمانے میں ’بُخارائے ہند‘ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ عظیم خطہ علماء، شعراء، اطباء وصوفیہ اور سیاسی لیڈروں کا مولد ومسکن رہا ہے‘‘۔ (مشرقی علوم کے فروغ میں رامپور کا حصہ از نظر علی خاں، مشمولہ روہیل کھنڈ اُردو لغت مؤلفہ رئیس رامپوری)

زباں فہمی نمبر 195’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘، چوتھی /آخری قسط (آنلائن اشاعت: اتوار 5 نومبر 2023ء) میں خاکسار نے برسبیل تذکرہ لکھا تھا کہ ’’یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ پشتو کے اثرات نہ صرف روہیل کھنڈی، رامپوری پر نمایاں ہیں، بلکہ پوربی میں بھی پشتو، فارسی، دری وغیرہ کے الفاظ، کسی نہ کسی صورت ملتے ہیں‘‘۔ اس بابت مزید تحقیق کے لیے دیگر اہل علم کو بھی دعوتِ عام ہے۔

مشترکات کی بات کی جائے تو اُردو اور پشتو کے مابین مشترکات کی تین شکلیں ہیں:

ا)۔ عربی، فارسی وترکی کے الفاظ وتراکیب جو پشتو اور اردو دونوں میں یکساں ہیں، خواہ تلفظ کا فرق واقع ہوگیا ہو۔

جدید دور میں، پروفیسر پری شان خٹک جیسے اہل زبان محققین سامنے آئے جن کی تحقیق کے مطابق دونوں زبانوں میں پانچ ہزار بائیس الفاظ مشترک ہیں۔ (’’اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ‘‘ از پری شان خٹک، مقتدرہ قومی زبان: 1986ء)۔ اس سے بہت پہلے1932ء کی ’’لغات ِ افغانی‘‘ از سید راحت اللہ راحتؔ زاخیلی (1884ء تا 1962ء) میں تقریباً دس ہزار پشتو الفاظ کا اردو میں ترجمہ دیا گیا ہے۔ جب ہم فہرست دیکھنا شروع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کی بہت بڑی تعداد مشترک ہے، وجہ ظاہر ہے کہ بنیاد یا مآخذ مشترک ہیں۔

ب)۔ پشتو سے اردو میں درآمد ہونے والے الفاظ، جن کی تحقیق میں محترم امتیاز علی خان عرشی ؔ جیسے جیّد عالم وماہرلسان نے بہت کدوکاوش کی۔

ج)۔ اردو سے پشتو میں دخیل ہونے والے الفاظ، جن کا ابھی تک کوئی باقاعدہ شمار سامنے نہیں آیا۔ اردو سے پشتو میں شامل ہونے والے الفاظ فقط جدید پشتو بول چال ہی میں نمایاں ہیں، شاید اُن پر ابھی کتابی کام نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اُردو گنتی، ’ہے‘، بھئی، اچھا، ٹھیک ہے جیسے الفاظ وفقرہ جات۔

اردو میں دخیل پشتو الفاظ وتراکیب:

یہاں کوشش یہ کروں گا کہ پہلے وہ الفاظ، تراکیب، فقرے وغیرہ یہاں نقل کروں جو ’زباں فہمی‘ بعنوان ’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘ میں شامل ہونے سے رہ گئے، پھر دیگر ذرایع سے ان میں مناسب اضافہ کروں۔ یہ وضاحت ایسے احباب کے لیے کی ہے جو کسی وجہ سے ابھی تک اُس مضمون کے مطالعے سے محروم ہیں تو فقط زیرنظر مضمون ہی کو موضوع زیربحث پر محیط نہ سمجھیں۔

پَیزار، پِیزار: ترکی، فارسی، پشتو اور اردو میں مشترک۔ اردو ترکیب جُوتَم پیزار میں شامل بمعنی مارپیٹ، لڑائی جھگڑا۔

تَماخُو: تمباکو کا بِگاڑ۔

ٹَیٹ کرنا: انگریزی لفظ Tightکا بِگاڑ جو رامپوری اردو اور پشتو میں مشترک ہے۔ رامپوری میں مراد ہے سخت کرنے، بہت ڈانٹنے اور بُرا بھلا کہنے سے۔

ٹَیم : انگریزی لفظ Timeیعنی وقت کا بِگاڑجو رامپوری اردو اور پشتو میں مشترک ہے۔

چَرپائی: چارپائی کا بِگاڑ

حقیقہ: عقیقہ کا بِگاڑ

خِذمَت: خدمت کا بِگاڑ

خوارے: (زنانہ بولی)’خواہر‘ بمعنی بہن کا بِگاڑ۔ پشتو میں عورتوں کا آپس میں طرزِ خطاب۔

دوغاڑے: پشتو ’دوغاڑہ‘ کا بِگاڑ۔ کانچ کے اَنٹوں یعنی کنچوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے تو نشانہ لگاکر کہتے ہیں، دوغاڑے یعنی جتنے بھی اَنٹے باہر نکلے، وہ نشانہ باز کے ہوئے۔

دِیوال: دیوار کا بِگاڑ۔

ڈَزّیں مارنا: پشتو کے ’ڈوزے بَلَل ‘ کا بِگاڑ یعنی شیخی بھگارنا۔

ڈلیور: ڈرائیور [Driver] کا بِگاڑ۔ نیز ڈلے وری بمعنی ڈرائیوری [Driving]۔

رامے خورے: افغان پشتو ’’رازہ خورے راغ زوی‘‘ (بہنو ! آؤ بیٹا آیا)۔ یہ قدیم افغان رسم تھی کہ کسی شخص کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے، جب اُس کے یہاں مابعد بچہ ہو تو چھت پر کوئی عورت چڑھ کر دوسروں کو پکارتی تھی۔ رسم کی نوعیت بدلی، پھر رفتہ رفتہ (غالباً) یہ دم توڑگئی، ویسے یہ رامپور میں ہوا کرتی تھی۔

رکابی، رکیبی (رکابی کا بِگاڑ): صحنک، تھالی، چھوٹا طباق، چھوٹی پلیٹ۔ پشتو میں رکیبئی۔

سَحار: سحر یعنی صبح کا بِگاڑ۔

سَیڈ: انگریزی Sideکا بِگاڑ۔

غَپینڈ، غَپینڈا: بہت موٹی چیز۔ فُحش معنوں میں مستعمل۔ اصل پشتو بمعنی اعضائے تناسل۔

غٹاغٹ: کسی رقیق /مایع چیز کو متواتر، تیزی سے (گویا ایک ہی سانس میں) پینا، نیز بڑے مزے سے، بہ آسانی، جلدی جلدی پینا۔ ذاتی معلومات کی بِناء پر عرض کرتا ہوں کہ پشتو بول چال میں ’غٹ غٹ‘ کا مطلب ہے: بہت بہت یا بہت زیادہ، جیسے ’’غٹ غٹ مہربانی‘‘۔

غَڑَپ: (اردواِسم مؤنث) یعنی ایک دم کھاجانا، گھونٹ لینے کی آواز، ڈوبنے کی آواز

قَتلا: (فارسی اسم مذکر) یعنی قاش، پھانک اور قتلی یعنی چھوٹا ٹکڑا۔ پشتو میں ’قترہ‘۔

قلماقنی: روس کی قلماق قوم کی عورت، بیگمات کی بارگاہوں اور محلات کی مسلح محافظ عورتیں، سدا کنواری رہنے پر مجبور، نیز فوجی قسم اور تیزطرّار عورت۔ راقم کا لسانی قیاس ہے کہ یہ لفظ رامپوری اردو میں کہیں اور سے نہیں، پشتو ہی سے آیا ہوگا۔

قلماق[Kalmak] درحقیقت سائبیریا کے برف زار میں مقیم تاتار نسل کے مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ اسم ترکی الاصل ہے۔ اس کا ایک مطلب ہے، ران کی ہڈی۔ فارسی لغت دہخدا، آبادِیس اور واژہ یاب کی رُو سے یہ اصل میں سابق مشرقی ترکستان یعنی مسلم چین کے علاقوں خطا (ختا) اور خُتَن ، چین، ماچین، قلماق اور تبت سمیت مختلف علاقوں میں منتشر ہونے والی قوم تھی۔ (خطا۔یا۔ ختاوہی ہے اپنے نان خطائی کا وطن اور خُتَن کا نافہ مُشک مشہور ہے جس کی خوشبو کا ذکر، گلوکار سلیم رضا کی گائی ہوئی مقبول فلمی غزل ’جانِ بہاراں، رشکِ چمن‘ میں بھی ہے: ’’زلفیں تیری مشک ِخُتَن‘‘)۔ اب یہاں ایک انتہائی عجیب انکشاف سامنے آیا۔

تاجیک یا تاجک زبان کی ایک مستند آنلائن لغت میں قلماق کے معانی درج ہیں: ترکی اسم یعنی مچھلی پکڑنے کی سلاخ، کھانے کے عمل میں مستعمل کانٹا اور پہلوانی کا ایک داؤ۔ یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف یہ کہ ہمارے یہاں، خصوصاً رامپوری اردو میں کسی پیڑ کی پتلی سی لچکیلی شاخ کو قمچی کہتے ہیں (وہاں تو شنٹی اور چھنٹی بھی ) جو اکثر مارپیٹ میں کام آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تاجیک زبان والے معانی میں شامل مفاہیم اس کے وہاں سے یہاں آنے کا سبب بنے ہوں گے۔ آگے بڑھتے ہیں تو مزید انکشاف ہوتا ہے کہ قلماق سے ایک لفظ قَلچماق یا قُل چُماق بنا جس کے معانی ہیں: شہوت پرست اور اوباش آدمی، طاقتور، پنجہ آزمائی میں قوی۔ اِسے کہتے ہیں ’بال کی کھال نکالنا‘ جس کے لیے یہ خاکسار بدنام ہے۔

ناپڑ، نابڑ: پشتو میں بمعنی موٹے اور بھدّے اعضاء والا، رامپوری اردو میں بمعنی زیادہ کھانے والا، پیٹو، اَناپ شناپ یا الابلا کھانے والا۔

ہُوش: رامپوری اردو میں اُجڈ، بے وقوف اور بے ڈھنگے شخص کو کہتے ہیں جو مزاج میں جارح بھی ہو۔ اس بابت ایک شاعرہ طوائف عصمتؔ نے کہا تھا:

حسیں بھی ہیں، کڑے بھی ہیں، مگر کچھ ہُوش ہوتے ہیں

عجب اِک بات عصمتؔ ہے یہ کابل کے پٹھانوں میں

راقم کا لسانی قیاس ہے کہ یہ لفظ بھی غالباً پشتو کی دین ہے۔

{’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘، چار اقساط میں آنلائن اشاعت: اتوار 8اکتوبر 2023ء تا 5 نومبر 2023ء ۔ ان ویب سائٹ ربط پر ملاحظہ فرمائیں:

1.https://www.express.pk/story/2548633/1/

2.https://www.express.pk/story/2551879/1/

3.https://www.express.pk/story/2554851/1/

{4.https://www.express.pk/story/2561886/1/

پشتو اور اردو میں مشترک (عربی، ترکی وفارسی الاصل) الفاظ:

آباد، آبادی، آبادکاری،آتشک، آخر، آخرت، آخرکار، آخری، آڈٹ [Audit]، آڈیٹر [Auditor]، آرام، آرام طلب، آرام طلبی، آرٹسٹ[Artiste]، آرڈر[Order]، آرکسٹرا[Orchestra] ،آڑھت، آڑھتی، آزاد، آزادی، آزار، آزاری۔

جاری۔

The post زباں فہمی نمبر198؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم) appeared first on ایکسپریس اردو.

نوک جھوک

$
0
0

امریکا کی ریاستِ ورجینیا میں حلقۂ ارباب ذوق کی محافل باقاعدگی سے ہر ماہ کی پہلی اتوار کو جمتی ہیں۔ اس بار (اکتوبر ۲۰۲۳) موضوع تھا ‘طنز و مزاح‘، خادم سے بھی کہا گیا کہ غزل سرا ہو، البتہ ان کے میزبان شاہ عباس صاحب نے مجھے کچھ وقت نہیں دیا اور محفل سے ہفتہ بھر پہلے حکم صادر کردیا کہ مزاح پر کوئی دس سے پندرہ ا منٹ کا مضمون پڑھ دوں۔

اس کے بعد انہوں نے مجھے اشتہاری بھی کر دیا۔ اب تو مجبوری آن پڑی، ادھراُدھر دیکھا تو مجھے اپنی کتابوں میں شان الحق حقّی صاحب کی کتاب ’نوک جھوک‘ مل گئی۔ یہ میں نے پڑھی نہیں تھی کچھ ورق گردانی کی تو لگا کام بن سکتا ہے۔ اب میں نے اس کے کئی مضامین پڑھ ڈالے۔ میں کوئی تنقیدنگار نہیں ہوں، اور حقّی صاحب جیسے اردو کے شاہین کے مقابلے میں کنجشکِ فرومایا ہوں، اس لیے کہوں گا کہ میرے لکھے کو بہت زیادہ اہمیت نہ دیجیے گا اور کوتاہیوں اور ناانصافیوں پر میری مغفرت کی دعا کیجیے گا۔

کتاب ’نوک جھوک‘ کے شروع میں ڈاکٹر وزیرآغا صاحب اپنے مضمون ’شان الحق حقّی بحیثیت مزاح نگار،‘ میں لکھتے ہیں، ’انّیسویں صدی کے ربع آخر میں اودھ پنچ نے جس اکھڑپن، ابتذال، لطیفہ گوئی اور طنزواستہزا کو رواج دیا تھا، بیسویں صدی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اس کی کوئی گنجائش زیادہ نہیں تھی۔ لہٰذا مزاح، طنز، تحریف اور رمز یعنی آئرنی کے بہت اچھے نمونے سامنے آئے۔

رشید احمد صدیقی، فرحت اللہ بیگ، فلک پیما، کنھیّا لال کپور، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج اور بعض دیگر نثرنگاروں کے ہاں ایسی ظرافت پروان چڑھی ہے جسے مہذب اور متوازن، سلجھی ہوئی اور پر لطف کہنا چاہیے۔ شان الحق حقّی کا سلسلہ ظرافت اسی سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ بالخصوص فرحت اللہ بیگ، امتیاز علی تاج اور پطرس بخاری کے مضامین نیز اردو انشائیوں میں ابھرنے والی اُس ظرافت سے وہ منسلک نظر آتے ہیں جس میں خوش مزاجی، خندہ پیشانی، شگفتگی اور پُرلطف چبھن کو فروغ ملا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری ایام کی اردو نثر میں جس وضع کے پھکّڑپن اور لطیفہ بازی کو فروغ ملا ہے، شان الحق حقّی کے مضامین میں اس کا شائبہ تک موجود نہیں۔‘

یہ ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے اقتباس تھا۔

’نوک جھوک‘ کے دو حصّے ہیں۔ پہلے میں کچھ مضامین اور مکالمے ہیں، لیکن دوسرے میں تو سارے مکالمے ہی ہیں اور تقریباً سب ہی دو آدمیوں کے درمیان۔ حقّی صاحب اپنے ’عرضِ مصنف‘ میں بتاتے ہیں کہ الف اور بے کی نوک جھوک کا سلسلہ لاس انجلس کے اخبار ’پاکستان لنک‘ میں چلا تھا۔ اور کچھ ’اخبارِ جہاں‘ کراچی میں بھی چھپے تھے۔ حقّی صاحب کا مشہور ڈراما ’مرزا غالب لندن میں‘ پہلے حصّے میں ہے لیکن میں اس پر کچھ نہیں لکھوں گا کیوںکہ وہ الگ توجّہ چاہتا ہے۔

مزاح نگاروں کا دوردورہ ہر زمانے میں ہی رہا ہے۔ میں کسی کا مرتبہ متعین کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کتاب ’نوک جھوک‘ کی ورق گردانی کرنے پر ایک خیال انورمقصود کا ضرور آتا ہے، خاص کر ان کے پروگرام ’لوز ٹاک‘ کا۔ البتہ لوز ٹاک میں صرف حالاتِ حاضرہ پر ہی مکالمہ لکھا جاتا رہا ہے، اس طرح وہ حالیہ ہے اور اس کے لمبے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ نوک جھوک میں ادبی، لسانی، فلسفیانہ، نفسیاتی اور تاریخی مضامین کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایسے مضامین بھی جن پر پاکستانی مسلمان ذرا جذباتی ہوجاتے ہیں، زیر غور آئے ہیں، جیسا کہ مکالمہ ’لطائف المومنین‘ ایک بات جو اس کتاب کا قاری خاص محسوس کرتا ہے وہ اس میں اردو کا اعلیٰ معیار ہے۔

ہم عام زندگی میں جب ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں، بلکہ کہیں کہ جب ہم اپنے سے مخاطب شخص کو سن رہے ہوتے ہیں تو عام طور پر ہم اپنے دماغ میں، اور یہ بہت عام بات ہے، ایک قاطع بیان تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تناظر، تجربہ، ہٹ دھرمی، ضد، تعصب، علم اور کم علمی وغیرہ وغیرہ۔ اور بہت بار ہم بھی وہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں جو ہمارا مخاطب کہہ رہا ہوتا ہے لیکن نہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے نہ ہم۔ اور بات الجھتی جاتی ہے۔ اس کتاب میں بھی مکالموں میں ایک کے بیان پر دوسرے کا قاطع بیان۔ جو اکثر ’نہیں‘ سے شروع ہوتا ہے۔

یہاں میں نوک جھوک کے مکالمے ’کڑوا بادام‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:

(کڑوا بادام میں ہم جنس پرستوں کے سلسلے میں بات ہو رہی ہے)

ب: سیدھے ہاتھ والے اکثر کھبّے بچّوں کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنا ہے ایسے بچّوں میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے، ہکلانے لگتے ہیں۔ اگر ہم جنس پرستوں کو روکا گیا تو ہو سکتا ہے ان میں بھی کوئی اور علّت یا لٹک پیدا ہوجائے، سپونرازم وغیرہ۔

الف: یہ اسپونر کون صاحب تھے؟

ب: ان کے نام میں الف نہیں ہے۔ پہلے ہم لوگ سکونِ اوّل پہ قادر نہ تھے۔ اب انگریزی کے اثر سے عاداتِ لسانی میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔

الف: نہیں – سنسکرت میں پہلے سے سکونِ اوّل موجود تھا۔

اس آخری سطر میں الف نے جملہ اپنی علمیت کی وجہ سے ’نہیں‘ سے شروع کیا ہے۔

(اسپونرازم کو اردو میں لغزشِ زبان کہتے ہیں، جیسے کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں کم پڑھے لکھے لوگوں سے اکثر سگنل کو سنگل سنا ہے، لیکن یہ لوگ عادتاً اور مستقل کہتے ہیں اس لیے اسے لغزشِ زبان نہیں کہیں گے)

حقّی صاحب اردو صرف و نحو میں اتنے رہتے تھے کہ اپنے مکالموں میں بھی وہ انہیں لے آتے تھے۔ یہاں دیکھیں کہ مکالمے ’تلخ کلامی‘ میں، جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہو رہی ہے وہ کیا لکھتے ہیں۔

میاں: ابھی تم نے فارسی کا مصرع نہیں پڑھا؟

بیوی: اردو سمجھ کے نہیں پڑھا۔ تم اپنی زبان کو ہیٹا سمجھتے ہو۔ اُس کی ہتَک کرتے ہو۔

میاں: اصل لفظ ہتک ہے، ت سکون کے ساتھ۔

بیوی: ہم ت زبر ہی سے بولیں گے۔ پلک اور لپک کے وزن پر۔ یہی اردو ہے۔ شکر کرو کہ اردو چل تو رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی ظلم ہو رہے ہیں، بیچاری مونث جو ٹھیری۔

میاں: اور اس نے اپنے ساتھ ساری زبانوں کو مونث بنا رکھا ہے۔ عربی، فارسی، انگریزی، چینی جاپانی، کوئی زبان بھی اپنے لوگوں کے نزدیک مونث نہیں ہے۔

بیوی: اسی لیے اُن کا بھرم قائم ہے چلن نہیں بگڑا۔ عورتوں سے ایسی عداوت کہ قواعد میں بھی مونث صیغہ پسند نہیں!

یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اردو میں سب زبانیں مونث ہیں؛ جب کہ دوسری زبانوں میں زبان کا یہ یا وہ کہہ کر حوالہ دیا جاتا ہے۔

اپنے مکالموں میں حقّی صاحب مذاق ہی مذاق میں اردو کیا ہے بھی بتاتے جاتے ہیں؛ اک مکالمہ ’مکرّر کہے بغیر‘ جو دو افراد ’الف‘ اور ’ب‘ کے درمیان ہے اس کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں ہم جو بولتے میں الفاظ کی تکرار کرتے ہیں کو اچھے طریقے سے بتایا گیا ہے۔ میں یہاں شروع کی دس سطریں پیش کردیتا ہوں:

الف: چپ چپ کیوں ہو، خفا خفا؟

ب: نہیں نہیں؟ خفا کیوں ہوتا۔

الف: کھوئے کھوئے سے تو لگتے ہو، جیسے کوئی روٹھا روٹھا ہو۔

ب: بس جی بس! اب روز روز کیا بحثا بحثی۔

الف: خوب خوب! جیسے مجھی کو بک بک جھک جھک کی عادت ہے

ب: یہ تو میں نہیں کہتا، ہاں تکرار کی عادت تو ہے مجھے بھی اور تمہیں بھی اور شاید سارے اردو بولنے والوں کو، سب کے سب اس کے شوقین ہیں۔

الف: کیسی تکرار، کون سی تکرار؟ اللہ اللہ کرو۔ یہ سر بسر الزام ہے۔

ب: کہے جاؤ کہے جاؤ، میں نوٹ کر رہا ہوں۔

الف: آخر کیا نوٹ فرما رہے ہیں آپ اتنی دیر سے، چپکے چپکے، آپ ہی آپ؟

ب: یہی کہ ہم دونوں نے اتنی دیر میں کتنی تکرارِلفظی سے کام لیا ہے۔ ذرا غور کرو:

چپ چپ، خفا خفا، نہیں نہیں، جھک جھک، سب کے سب، چپکے چپکے، آپ ہی آپ، اللہ اللہ، سر بسر، کہے جاؤ۔۔۔ گویا کہ ذرا کی ذرا میں لفظوں کے سترہ اٹھارہ جوڑے؟

میں نے اوپر ایک مکالمے ’لطائف المومنین‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بتاتے ہیں کہ مولانا جوہر کی تحریکِ خلافت، سید احمد شہید کا جہاد، ترک خلافت کا چھاپے خانے سے اجتناب اور لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ لطیفے ہی ہیں۔ میں یہاں وہ مزاح آپ تک نہیں پہنچا سکتا جو خود مضمون پڑھنے میں ہے، البتہ سمجھنے والے اتنے پر ہی سمجھ جائیں گے کہ اس میں لطیفے کیا ہیں۔

اس کتاب کا پہلا مضمون ’نشترِ طنز سلامت‘ پڑھ کر ہی پوری کتاب کے پیسے وصول ہوجاتے ہیں۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ گھریلو نوکروں کے بار بار کام چھوڑ جانے پر گھر کے صاحب اپنے نوکر سے معاہدہ کرتے ہیں کہ بیگم صاحبہ جب بھی اسے ڈانٹ پلائیں گی تو صاحب نوکر کو کچھ رقم دے دیں گے۔ اب نوکر جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتا کہ ڈانٹ پڑے۔ اس پر صاحب اسے ڈانٹتے ہیں تو نوکر کہتا ہے کہ ان کی ڈانٹ کا بھی وہ کچھ لے گا۔ کسی طرح یہ راز بیگم پر کھل جاتا ہے، تب صاحب نے انہیں سمجھا دیا اور نوکر کی آمدنی کم ہوگئی، کچھ دن تو تڑپا لیکن پھر اسے سکون آگیا۔ اب نہ تو نوکر پر ڈانٹ پڑتی ہے نہ وہ چھوڑ کر جاتا ہے، نہ گڑبڑ کرتا ہے، اور نہ صاحب کو رقم کے جانے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے۔

یہ بتاتا چلوں کہ اسی کتاب کا ایک مضمون، ’ایک لفظ درد،‘ ضیا محی الدین یو ٹیوب پر پڑھ چکے ہیں، سنیں اور ہنستے رہیں۔

The post نوک جھوک appeared first on ایکسپریس اردو.

درخت اور کُتّا

$
0
0

ایک گاؤں میں نہر کنارے موجود ہرے بھرے درختوں سے بہت دور ایک خود رو درخت اپنی مستی میں مگن اُگ رہا تھا۔

بے چارے کی بدقسمتی کہ ایک دن ایک کتا سستانے کے لیے اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔

اس نے بھرپور نیند لی اور انگڑائی لے کر جاگا۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا، مگر پھر کتے نے روز کا معمول بنالیا۔ وہ گھنٹوں اس کی چھاؤں میں سوتا رہتا تھا۔ درخت کے لیے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں تھی، انسان ہوں کہ جانور، اس کی چھاؤں میں سب ہی بیٹھتے تھے۔ سایہ دینا تو اس کی فطرت تھی، سو وہ بے نیاز ہی رہا، مگر کتا بڑا نیاز مند تھا، اس کی فطرت میں بلا کی اپنائیت تھی۔ اسے یہ درخت اپنا اپنا لگنے لگا اور پھر صرف اپنا لگنے لگا۔

جب اس نے اُسے اپنی ملکیت سمجھ لیا، تو پھر یہ اس کی ذمے داری بھی بن گیا۔ وہ یہ سوچنے لگا تھا کہ یہ درخت بے چارہ نہر سے اتنی دور ہے یہ اپنی پیاس کیسے بجھاتا ہوگا۔ کہیں یہ کئی دن سے پیاسا تو نہیں۔ بس جس دن سے کتے نے درخت کے لیے اچھا سوچنا شروع کیا، درخت کے برے دن شروع ہوگئے۔ کتا قطعی نہیں جانتا تھا کہ درخت کی جڑیں زمین میں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ بہ آسانی اپنی ضرورت کا پانی حاصل کر رہا ہے۔ اس کے مطابق درخت پیاسا تھا اور اسے اس کی پیاس بجھانی ہی تھی تو وہ روز نہر پر جاتا، پیٹ بھر کر پانی پیتا اور واپس آکر درخت کی جڑوں میں پیشاب کردیتا۔ درخت کتے کی اس حرکت کو پہلے نظر انداز کرتا رہا، مگر پھر اسے اپنی توہین محسوس ہونے لگی، وہ روز کُڑھتا اور ہر دن اذیت محسوس کرتا، دل میں اس کتے کو بددعائیں دیتا، کسی طرح اس سے جان چھڑانے کی تدبیریں سوچتا، مگر سب بے کار تھا، کیوں کہ کتا تو پورے خلوص کے ساتھ ہر دن ویسے ہی اس کی جڑوں میں پیشاب کرتا رہا۔

رفتہ رفتہ درخت کے اندر کی کیفیت اس کے پتوں پر ظاہر ہونے لگی اور وہ ہرے سے زرد ہو کر جھڑنے لگے۔ دیکھتے دیکھتے اس کا سایا سمٹنے لگا اور کتے کی پریشانی بڑھنے لگی۔ اسے لگا کہ یقیناً اس کا پیشاب اب کم پڑ رہا ہے، تو اس نے اپنے ہم خیال کتوں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ اب ایک جگہ دو کبھی تین اور کبھی چار کتے اس کی جڑوں میں پیشاب کرنے لگے تھے۔ درخت چیخنا چاہتا تھا، ان کتوں کو دھتکار کر بھگانا چاہتا تھا، مگر یہ سب اس کے لیے ممکن نہیں تھا پھر بھی وہ جو کر سکتا تھا اس نے کیا وہ یہ کہ اپنے سارے پتے گرا دیے کہ سایہ نہیں ہوگا تو کتے بھی نہیں آئیں گے، اسے کیا معلوم تھا کہ کتے تو اس کی ہم دردی میں آتے تھے، وہ ویسے ہی آتے رہے اور اس کی جڑوں کو اپنے پیشاب سے ’’سیراب‘‘ کرتے رہے اور اس لمحے تک آتے رہے کہ جب تک انھیں یقین تھا کہ درخت میں کچھ سانسیں باقی ہیں۔

کئی دن تک جب کوئی نیا پتا اگتا ہوا نظر نہ آیا تو کتوں کو لگا کہ درخت مرگیا ہے۔ وہ ایک ساتھ مل کر رونے لگے۔ ان کی منحوس آوازوں سے تنگ آکر گاؤں کے لوگوں نے انہیں مارمار کر دور بھگا دیا اور مخلصوں کا یہ ٹولا بکھر گیا۔ کوئی سائے کی تلاش میں تو کوئی پیشاب کرنے کے لیے کسی دوسرے درخت کے پاس چلاگیا۔

وہ درخت آج بھی زندہ ہے، مگر کتوں کے خوف سے آج تک اس کی ٹہنیاں ننگی ہیں۔ پتا، نہ پھول نہ پھل کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی ساری صلاحیتیں اپنے اندر سمیٹے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ کاش، وہ کتوں پر توجہ ہی نہ دیتا۔

اگر آپ بھی ’درخت‘ ہیں اور بدقسمتی سے کوئی ’کتا‘ آپ کے سائے میں سونے لگا ہے، تو اس کی حرکتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیں، وہ آپ کا دشمن نہیں وہ تو اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ جس دن آپ نے اس کی حرکات پر توجہ دینا شروع کر دی، آپ کی توجہ اپنی صلاحیتوں سے ہٹ جائے گی، بے کار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کہانی میں اپنا کردار پہچان کر جو لوگ ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ خدارا کوئی کھمبا دیکھ لیں، درختوں کو آپ کی کوئی ضرورت نہیں ان کے غم میں نہ مریں!

The post درخت اور کُتّا appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
دل و نظر میں سمانے کے فن سے واقف ہے
وہ شخص نیند چرانے کے فن سے واقف ہے
جو لگ رہا ہے بظاہر کھلا کھلا سب کو
وہ اپنے درد چھپانے کے فن سے واقف ہے
مجھے پتہ تھا مری نیند تک چرا لے گی
جو آنکھ خواب دکھانے کے فن سے واقف ہے
اسے بھی شوقِ نشانہ ہے، تیر پھینکے گا
یہ دل بھی درد کمانے کے فن سے واقف ہے
یہ اہل حرف اسے اتنا مان دیتے ہیں
جو جتنا ناز اٹھانے کے فن سے واقف ہے
وہ دل کی بات کرے گا کنایتاً مجھ سے
’بد احتیاط‘ زمانے کے فن سے واقف ہے
تجھے ہے زعمِ فنِ گفتگو اگر آزادؔ
تو وہ بھی بات بنانے کے فن سے واقف ہے
(آزاد حسین آزاد۔کراچی)

۔۔۔
غزل
دن کٹے تو بھی کیا کٹے میرے
رہ گئے خواب سب دھرے میرے
میں بھی صادق ہوں عشق میں لیکن
تیرتے کیوں نہیں گھڑے میرے
میں نہتا بچا ہوں لشکر میں
مر گئے سب کے سب بڑے میرے
منزلوں کا سراغ کیا ملتا
راستے تھے بہت پرے میرے
وقت خیرات کر دیا مجھ کو
خالی کاسے نہیں بھرے میرے
ان میں سفاک زخم تھے موجود
تُو نے اشعار کب سنے میرے
تھک گئی تُو بھی دو قدم چل کر
ھائے اے زیست! حوصلے میرے
تیری یادوں کو اوڑھ رکھا تھا
اس لئے پر نہیں جلے میرے
اُس نے ایک بار اُٹھ کے کیا دیکھا
سارے پنچھی سدھر گئے میرے
(مستحسن جامی ۔خوشاب)

۔۔۔
غزل
آج تیری خبر جو آئے گی
دامنِ دل مرا جلائے گی
پاس آئے گی اور منائے گی
چائے ہاتھوں سے وہ پلائے گی
دشمنوں کا ہے یہ کرم مجھ پر
دوستی اب مجھے ستائے گی
جب اکیلی اداس ہوگی وہ
شعر میرا ہی گنگنائے گی
بیوفائی تری اے جانِ جاں
کیسے کیسے ستم دکھائے گی
اس سے کہہ دو کہ دیکھنا ہے اسے
زلف چہرے سے کب ہٹائے گی
قربتِ یار کی گھڑی احمدؔ
بیقراری مری مٹائے گی
(احمد حجازی ۔لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
لے کے آئے تھے خواب آنکھوں میں
رہ گئے ہیں سراب آنکھوں میں
ہم کو بے خود کیا سر محفل
یار لایا شراب آنکھوں میں
ہم نے ہونٹوں پہ اک سوال رکھا
اس نے رکھا جواب آنکھوں میں
یار دیکھا تھا بام پر کل رات
بس گیا ماہ تاب آنکھوں میں
کوئی گھر ہے نہ کوئی منزل ہے
رکھ یہ خانہ خراب آنکھوں میں
(عامرمعان۔ؔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
نظریں ملا کے مجھ سے چرایا نہ کیجیے
یوں بے رخی سے دل کو دکھایا نہ کیجیے
تاعمر میرا آپ نے جب ساتھ نہ دیا
اب قبر پر بھی دیپ جلایا نہ کیجیے
جب اپنے دل کو ٹیس لگی چیخنے لگے
دل دوسروں کا خود بھی دکھایا نہ کیجیے
زہرابِ غم سے جن کے جگر پاش پاش ہیں
اُن کے دلوں کو اور جلایا نہ کیجیے
اِس شہر میں ہیں ایک سے پاگل بھرے ہوئے
ہر موڑ پر اکیلے ہی جایا نہ کیجیے
چھپ کر رقیب بیٹھے ہیں یاروں کے روپ میں
محفل میں نام لے کے بلایا نہ کیجیے
سر آنکھوں پر بٹھا لیا اک بار جب شہابؔ
پھر عمر بھر نظر سے گرایا نہ کیجیے
(شہاب اللہ شہاب منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)

۔۔۔
غزل
گداگروں کو سیاست میں کون لے آیا
سوالیوں کو حکومت میں کون لے آیا
یہ لوگ ملکی خزانے کو لوٹ لیتے ہیں
انہیں ہماری ریاست میں کون لے آیا؟
یہ تجھ پہ حرف اٹھایا ہے کس نے محفل میں
یہ تجھ کو بحرِ ندامت میں کون لے آیا؟
تمام عمر جہانِ خراب میں گزری
عجب اچنبھا ہے جنت میں کون لے آیا
یہاں پہ عشق و ہوس کا تو تذکرہ ہی نہیں
ہمیں یہ بزمِ شرافت میں کون لے آیا؟
میں آبشارِ محبت سے دور تھا جاناں
تو آبشارِ محبت میں کون لے آیا
ہمارے جیسے گنہگار و بادہ مستوں کو
الْہی ذکر و عبادت میں کون لے آیا
یہ آفتاب لبِ بام بجھ گیا کیسے
مرے مکان کو ظلمت میں کون لے آیا
تمہارے شہر کے لوگوں کو کچھ خبر ہی نہیں
انہیں یہ دورِ جہالت میں کون لے آیا
عجب ہیں شہرِ سلاسل کے لوگ بھی بادِلؔ
سبھی پکاریں اسارت میں کون لے آیا
(نعمان بادِل۔حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
حالات کے بدلتے ہی عادت بدل گئی
سنجیدہ ہو گیا میں شرارت بدل گئی
میرے بہت سے شوق ابھی رہتے تھے،مگر
ہر چیز مہنگی ہو گئی قیمت بدل گئی
پہلے پہل جو حال تھا سب یاد ہے مجھے
پھر اس کے ملتے ہی مری قسمت بدل گئی
صد شکر میری حسن پری تیرے چھوتے ہی
میں کھلکھلا اٹھا مری رنگت بدل گئی
اور کیا مثال خوفِ خدا کی میں دوں تجھے
ہونے لگا گناہ، تو نیت بدل گئی
دکھ کیا ہو اس سے بڑھ کے جہاں میںفداؔ کوئی
حالات بگڑے یاروں کی سنگت بدل گئی
(عمر فدا۔بہاولنگر)

۔۔۔
غزل
وحشتِ ہجر ہے دل بھی تاراج ہے
یہ اذیت محبت کی معراج ہے
جس طرح دل ہے سولی پہ لٹکا ہوا
یہ بھی منصور ہے یہ بھی حلاج ہے
اس سے پہلے کبھی ایسی حالت نہ تھی
بے سکونی مری جس قدر آج ہے
تجھ کو معلوم ہے محض تیرے سبب
میرے ماتھے پہ بدنامی کا تاج ہے
نیلگوں نیلگوں جیسے یاقوت ہوں
تیری آنکھیں ہیں یا پھر یہ پکھراج ہے
ایسے لگتا ہے میں اِس کی منکوحہ ہوں
تیرا غم جس طرح میرا سرتاج ہے
(احمد قاسم ۔عارف والا)

۔۔۔
غزل
ہم اسیروں کی محبت سے رہائی نہ ہوئی
ختم پھولوں سے بھی یہ آبلہ پائی نہ ہوئی
پھر ترے بعد کبھی بھی نہ کوئی بزم سجی
پھر ترے بعد کبھی نغمہ سرائی نہ ہوئی
ہائے تکلیف ان آشفتہ سروں کی جن سے
درد جتنا بھی بڑھا، لب پہ دہائی نہ ہوئی
ایک دکھ ہے کہ کبھی کھل کے نہ مل پائے ہم
ایک دکھ ہے کہ کبھی اپنی لڑائی نہ ہوئی
سارے دکھ ایک طرف اور یہ دکھ ایک طرف
اپنی تقدیر میں وہ ایک کلائی نہ ہوئی
فرض بنتا ہے کہ اربابؔ نہ نقصان کریں
تیرے شعروں سے کسی کی جو بھلائی نہ ہوئی
(ارباب اقبال بریار۔ احاطہ دیوی دیال، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
اُس کی آنکھوں کے جام کاغذ پر
میکشی کا پیام کاغذ پر
اُس نے بھیجا سلام کاغذ پر
ہو ر ہا ہے کلام کاغذ پر
روپ لے گی حسیں عمارت کا
ہے محبّت جو خام کاغذ پر
تتلیاں اُس پہ آ کے بیٹھ گئیں
تیرا لکھا جو نام کاغذ پر
لکھ رہا ہے غزل کو شہزادی
ایک ادنیٰ غلام کاغذ پر
اُس کی محشرؔ نے کھینچ لی تصویر
جو ہے محشر خرام کاغذ پر
(ساجد محشر آکولوی ۔مہاراشٹر، بھارت)

۔۔۔
غزل
شکایت صرف اتنی ہے کہ وہ اتنا نہیں کھلتا
وہ مجھ سے بات کرتا ہے مگر مجھ سا نہیں کھلتا
امیروں کو نزاکت اس قدر محتاج کرتی ہے
خود اپنی کار کا بھی ان سے دروازہ نہیں کھلتا
ہے قسمت اس کھلاڑی سی مری میدان الفت میں
جسے موقع تو ملتا ہے مگر کھاتا نہیں کھلتا
بہت سے فیصلے مجبوریوں میں لینے پڑتے ہیں
کہ آخر توڑنا پڑتا ہے جب تالا نہیں کھلتا
مزاج ایسا ہے گوہرؔ کا سوا تیرے کسی سے بھی
نہیں کھلتا نہیں کھلتا نہیں کھلتا نہیں کھلتا
(معین گوہر۔ آکولہ، مہاراشٹر،بھارت)

۔۔۔
غزل
ہاتھوں میں میری جان تیرے ہاتھ کا ہونا
جیسے کہ کڑی دھوپ میں برسات کا ہونا
ہاروں جو کبھی آپ سے اے جانِ تمنا
اک فتحِ مبیں ہوگا میری مات کا ہونا
دیمک کی طرح چاٹ کے کھا جاتی ہے دل کو
محبوب سے دوری میں کسی رات کا ہونا
مہکا دے ہر اک سَمت بہاروں کی طرح پھول
موسم کی خزاؤں میں تیرے ساتھ کا ہونا
ممکن ہے کہ مل جائے اچانک وہ کسی دن
ممکن ہے زمانے میں کرامات کا ہونا
پوچھے جو کبھی وہ، تیرے حالات ہیں کیسے
اشکوں سے وہیں کیفؔ جوابات کا ہونا
( نوید کیف۔چنیوٹ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

مالک ڈانٹتا ہے

صہیب بٹ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ جہاں میں ملازمت کرتا ہوں وہ آدمی اپنی امارت کے گھمنڈ میں یا جانے کس وجہ سے مجھے ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہتا ہے جبکہ باقی ملازمین کے ساتھ اس کا رویہ بہت مشفقانہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دیکھتا ہوں کہ سب کے سامنے وہ مجھے بہت بری طرح ڈانٹ رہا ہے اور کئی مرتبہ کاغذ بھی میرے منہ پہ مارتا ہے ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں بھی کوئی مسلہ پیش آ سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب استطاعت صدقہ کیا کریں ۔

گندا پانی

ممتاز علی،لاہور

خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے نئے گھر میں ہوں اور جب نہانے کے لئے شاور کھولتا ہوں تو پانی بہت گندا آ رہا ہوتا ہے ۔ گھر خالی ہونے کی وجہ سے کسی کو بلا بھی نہیں سکتا ۔ دوسرے واش روم جاتا ہوں کہ شائد اس میں کوئی مسلہ ہے مگر ادھر بھی ایسا ہی گندا پانی ہوتا ہے ۔ میں بہت پریشان ہو کر ہمسائیوں سے بالٹی لا کر خود کو صاف کرتا ہوں ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

خراب پھل

ماہ نور شہزادی، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کسی رشتے دار کے گھر ہوں جہاں سب کو وہ پھل دیتے ہیں جو ہم گھر لاتے ہیں ۔ وہ بہت ہی زیادہ کھٹے اور بدذائقہ ہوتے ہیں کسی سے بھی نہیں کھائے جاتے ۔ پھر ہم ان کو باہر کوڑے پر پھینک دیتے ہیں ۔

تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے۔ گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان کن ہو سکتا ہے ۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے آپ یاحی یاقیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں۔

مچھلیاں بانٹنا

سلمان اکبر، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ ہمارے فارم ہاوس پہ جو مچھلیاں ہیں ان کی افزائش بہت زیادہ ہوئی ہے اور ہم نے سب رشتے داروں کے گھر بھی بھیجی ہیں کہ وہ بھی کھائیں مگر اس کے بعد بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں اور میرے والد ان کو ہمسائیوں کے گھر بھیجنے کا کہتے ہیں ۔ پھر ہم سب اپنے محلے کے سبھی گھروں میں بانٹ دیتے ہیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذھن میں بزرگی آئے گی ۔ گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا ۔ اللہ کے گھر کی زیارت بھی ممکن ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

گودام میں آگ لگنا

منظور مجید، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گودام میں ہوں جہاں آگ لگ گئی ہے اور سارا اناج جل رہا ہے ۔ میں جلدی جلدی پانی کی بالٹیاں ڈالتا ہوں مگر آگ بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہوتی ہے اور جو لوگ آ کر بجھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ان سے بھی نہیں رک پاتی ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

آنکھوں میں درد ہونا

پروین اسلم ، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میری آنکھوں کو کچھ ہو گیا ہے اور مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میں بہت کوشش کر کے آنکھیں کھولتی ہوں مگر درد و جلن کے مارے کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی ۔ میرے میاں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ مجھے اب دوبارہ دکھائی نہیں دے گا جس پر میں رونا شروع کر دیتی ہوں ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے ۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

مگر مچھ کا حملہ

الیاس کمبوہ، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میرا پاوں کسی مگرمچھ کے شکنجے میں ہے اور میں بہت بری طرح چلا رہا ہوں ۔ اس کے بعد اپنے ہی گھر میں بہت سارے مگرمچھ کے بچے دیکھتا ہوں ۔ وہ ہیں تو چھوٹے مگر ہر کمرے میں سے نکل رہے ہیں ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے ۔ جس کی وجہ سے گھریلو ، کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

پودے جلنا

مریم عزیز، لاہور

خواب : میں نے دیکھا کہ میرے گھر کے صحن میں جو پودے ہیں وہ سب جل کر سیاہ ہو گئے ہیں ۔ میں ان کو دیکھ کر بہت پریشان ہوتی ہوں اور اپنی ساس کو بلا کر دکھاتی ہوں پہلے وہ مجھے ڈانٹتی ہیں کہ میں نے پانی نہیں دیا ۔ اس لئے مرجھا گئے مگر میرے میاں کے احساس دلانے پہ ان کو پتہ چلتا ہے کہ وہ جل گئے ہیں اس پر سب گھر والے ہی بہت پریشان ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ کیسے ہوا اور کس نے کیا مجھے مہربانی فرما کر اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں بھی کوئی مسلہ پیش آ سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب استطاعت صدقہ کیا کریں ۔

خود کو لباس کے بغیر دیکھنا

شمشیر علی، لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کپڑوں کے بغیر سڑک پر جا رہا ہوں ، پھر خود کو سڑک پہ فراغت حاصل کرتے دیکھتا ہوں۔ اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ یہ خواب اچھا نہیں بدنامی کا باعث ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں۔

بیل خریدنا

طاہرہ علی، سکھر

خواب: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کالج سے واپس آتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ گھر کے صحن میں ایک موٹا تازہ بیل بندھا ہے اور سارے گھر والے اس کے گرد جمع ہیں ۔ میں حیران ہو کر پوچھتی ہوں کہ ابھی تو عید قربان بہت دور ہے تو پھر یہ بیل کیوں لے لیا ۔ اس پہ میرے والد خوشی سے بتاتے ہیں کہ ان کو یہ بہت سستا ملا ہے ،اس لئے انہوں نے خرید لیا ۔ سارے گھر والے بہت خوش ہو رہے ہوتے ہیں اور مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں کہ اب اگلی دفعہ ہم کو کچھ بھی نہیں لینا پڑے گا اور اس کی دیکھ بھال کریں گے تو یہ اچھا تندرست بھی رہے گا جبکہ وہ پہلے ہی سے کافی صحت مند ہوتا ہے ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے جاہ وجلال میں اضافہ ہو گا ۔ آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا ۔ رزق کی فراوانی اور کاروبار میں برکت کو ظاہر کرتا ہے ۔ دولت کے حصول میں آسانیاں ہوں گی جس سے آپ کے مال و وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

شادی ہوتے دیکھنا

نائلہ حبیب، قصور

خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی ہو رہی ہے۔ گھر میں خوب ہنگامہ ہوتا ہے اور میرے سارے کزنز و رشتہ دار سب ہوتے ہیں۔ گھر میں کافی رونق ہوتی ہے ۔ پھر نکاح کے لئے سب گھر کے مرد اندر آتے ہیں اور مجھ سے نکاح نامے پر دستخط کرواتے ہیں۔ اس کے بعد رخصتی ہو جاتی ہے اور میں گاڑی میں سوار ہو کر اپنے سسرال چلی جاتی ہوں ۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی غم یا خوف کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے آپ بیمار بھی ہو سکتی ہیں ۔ گھر میں رکاوٹ یا بندش بھی ہو سکتی ہے ۔ اس طرح کاروبار میں کوئی کمی یا نقصان کا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔ آپ کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

گھر کی چھت سے اڑنا

بابر علی، بہاولپور

خواب : میں نے دیکھا کہ میں رات اپنی چھت پہ سو رہا ہوتا ہوں پھر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں آسمان کی طرف اڑ رہا ہوں اور اپنے آپ کو ایسا نظر آتا ہوں کہ جیسے اس دنیا کی بجائے نہ جانے کسی اوپر والے جہاں میں سفر کر رہا ہوں ۔ میں نیچے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مکانات اور دیگر اشیاء بہت چھوٹی نظر آتی ہیں ۔ میں فضا سے پھر نیچے آنا شروع ہو جاتا ہوں تو دوبارہ اپنے گھر کی چھت پہ ہوتا ہوں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے درجات میں بلندی آئے گی اور رزق میں اضافہ بھی ہو گا جس سے مال اور وسائل میں برکت ہو گی ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی جاری رکھیں ۔

دوست کی سالگرہ

سعدیہ ملک، کراچی

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے ایک دوست کے گھر میں ہوں ۔ میری ایک دوست کی سالگرہ کا فنکشن ہے اور میری تمام سہیلیاں اس کے گھر میں موجود ہیں ۔ اچانک مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری کرسی ہل رہی ہے۔ میں اپنی دوسری دوست کی طرف دیکھتی ہوں تو وہ کہتی ہے کہ زلزلہ آرہا ہے۔ اس پہ ہمارے گروپ کی ایک دو لڑکیاں جو زلزلے سے بہت خوف زدہ ہوتی ہیں چیخنا شروع کر دیتی ہیں اور باہر کی طرف بھاگتی ہیں ۔ میں بھی باقی سب دوستوں کے ساتھ باہر کی طرف لپکتی ہوں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ اس خواب سے ظاہر ہو تا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا مشکل کا اچانک سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی اچانک بیماری کو بھی دلیل کر سکتا ہے جس سے ناگہانی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں اور کچھ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

سونے کی انگوٹھی

ناہید شہزاد، سرگودھا

خواب؛۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں ہوں اور کچھ دن گزارنے اپنی امی کے گھر جانے والی ہوں جب شام کو میرے میاں گھر آتے ہیں تو میرا سامان پیک دیکھ کر ایک لفافہ مجھے دیتے ہیں ۔ میں جلدی میں اس کو کھول کر نہیں دیکھتی بلکہ سامان میں رکھ دیتی ہوں اور جب امی کے گھر ایک دن میری نظر اس پر پڑتی ہے تو میں کھول کر دیکھتی ہوں تو اس میں سونے کی ایک انگوٹھی ہوتی ہے ۔ میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں اور اپنے میاں کو فون کرکے ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی و فضل سے آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا ۔ جس سے گھر میں آرام و سکون کی فراوانی ہوگی۔ اس سے کاروبار میں برکت بھی مراد ہو سکتی ہے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد بھی کیا کریں۔ رات کو سونے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا کریں ۔

گاؤں میں چھٹیاں گزارنا

اعجاز احمد، ننکانہ صاحب

خوا ب ؛ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گاؤں چھٹیا ں گزارنے گیا ہوا ہوں اور ایک دن میں اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں میں سیر کو جاتا ہوں، وہاں ہم تقریباً پورا دن گزارتے ہیں اور کھاتے پیتے مزے کرتے ہیں ۔ پھر میرے کزنز وہیں موجود ڈیرے پر چارپا ئیوں پر نیم دراز باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں ذرا چلتا ہوا آگے کھیتوں کی طرف جاتا ہوں ، وہاں میری نظر سورج ڈوبنے کے منظر پر پڑتی ہے ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کی روشنی مدھم ہو رہی ہو ۔ مجھے یہ اپنا وہم لگتا ہے اور میں غور سے دیکھتا ہوں مگر واقعی سورج آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور اس کی تمازت تیزی سے ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں ڈیرے کی طرف بھاگتا ہوں کہ اپنے کزنز کو بلاؤں ، مگر اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر:۔ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی ناگہانی مصیبت یا پریشانی آسکتی ہے ۔ یا مالی طور پر مفلسی کا دورہ ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں نقصان کا بھی احتمال ہے ۔ اگر ملازمت ہے تو اس میں بھی مسائل کا سامنا درپیش ہو سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں اور صدقہ و خیرات لازمی کریں ۔

کمرے کی صفائی

نعیم الدین، فیصل آباد

خواب : میں نے دیکھا کہ میں شام کو دفتر سے گھر آتا ہوں تو میرا کمرہ کافی صاف ستھرا ہوتا ہے ۔ کافی چیزوں کی سیٹنگ تبدیل کی گئی ہوتی ہے ۔ میں دل میں سوچتا ہوں کہ شائد امی نے اس کمرے کی خاص تفصیلی صفائی کرائی ہے ۔ سب سے زیادہ مختلف مجھے اپنا بستر لگتا ہے جو کہ بالکل سفید ہوتا ہے کیونکہ ہمارے گھر میں زیادہ تر بستروں پر رنگدار چادریں استمال ہوتی ہیں ۔ سفید رنگ کا بستر مجھے بھی کافی اچھا لگتا ہے اور میں اس پر لیٹ جاتا ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب اچھا ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے گھریلو یا کاروباری معاملات میں آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا ۔ حتی کہ خاندان میں بھی نیک نامی بڑھے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.


فضائل سیدنا صدیق اکبرؓ کلام اقبال کی روشنی میں

$
0
0

ہم سب سے پہلے حضرت علامہ اقبال کی وہ مشہور زمانہ معرکتہ الآرا نظم پیش کرتے ہیں جو غزوہ تبوک کے پس منظر میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ وہ معرکہ حق و باطل ہے جس میں مسلمانوں کے جذبہ ایثار کا زبردست امتحان ہوا شدید گرمی کے موسم کے ساتھ اہل اسلام کو مفلوک الحالی کا بھی سامنا تھا۔

پانی کی کم یابی کا عالم یہ تھا کہ لشکراسلام کو اونٹ ذبح کرکے ان کے معدوں میں موجود پانی سے تشنہ لبی کا تدارک کرنا پڑا۔ مال وزر کی کمی نے احساس محرومی کا ایک بحران پیدا کردیا مگر دو عظیم شخصیات کی اولوالعزمی اور شان فیاضی نے اس احساس کو گہرا ہونے سے بچالیا، ان میں ایک سیدنا عثمان ذوالنورینؓ اور دوسرے سیدنا صدیق اکبرؓ تھے۔

جب حضورسرورعالمﷺ نے صحابہ کرامؓؓ سے جیش اسلام کی معاونت کے لیے ارشاد فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرط محبت اور کمال وسعت قلبی سے گھر کا کل اثاثہ اپنے آقا ومولٰیﷺ کے سامنے ڈھیر کردیا۔ فرمان نبوت سن کر جناب ابوبکرؓ اور جناب عمرفاروقؓ دونوں اکٹھے گھر گئے۔ سیدنا عمرفاروقؓ کو حضرت صدیق اکبرؓ کے جذبہ فدا کاری پر اس قدر رشک آیا کہ وہ یہ سوچتے ہوئے گھر گئے کہ آج میں اخلاص و مروت کے اس امتحان میں ابوبکرؓ سے بڑھ کے رہوں گا۔

یہ سوچ کر گھر پہنچے اور مال و متاع کے دو حصے کیے ایک اہل خانہ کے لیے اور دوسرا معرکہ حق و باطل میں احیا و بقائے دین حق کی خاطر حضور رسالت مآبﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا اور دل میں جناب ابوبکرؓ کے ساتھ یہ ذوق تقابل بھی تھا کہ آج میرا راہوار محبت صدیق اکبرؓ سے بڑھ جائے گا مگر جناب فاروق اعظمؓ کو کیا خبر تھی کہ دنیا میں جس سے بنائے عشق و محبت استوار ہوتی ہے وہ فقط ایک ہی ہستی ہے اور اس کا نام ابوبکر بن ابی قحافہ ہے۔ اقبالؒ کی کلک صدف بار کو نجانے ذوق کے کس لمحہ حیات بخش میں جنبش ہوئی اور اس نے کمال فن کا عدیم المثال مظاہرہ فرماتے ہوئے یہ شعر تحریر کردیا جو بزم اہل وفا کو طلوع محشر تک جگمگا تار ہے گا۔

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آ گیا

جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت

ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار

ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس

اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار

بولے حضور چاہیے فکر عیال بھی

کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار

اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر

اے تیری ذات! باعث تکوین روزگار

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول (ﷺ) بس

یوں تو حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ پوری نظم فضیلت صدیق اکبرؓ کی شان دار عکاسی کر رہی ہے مگر اقبالؒ شناس ضرور اس کے چند اشعار کے ارتفاع و اہمیت کو سمجھتے ہوں گے مثلاً اس شعر کا یہ مصرعہ انتہائی توجہ طلب ہے۔

اقبالؒ فرماتے ہیں، ’’لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت۔‘‘ حضرت اقبالؒ جیسا عالم، فاضل اور حقیقت پسند مفکر مزاج صدیقیت سے کماحقہ آگاہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے جسم کا خمیر آب وفا میں گوندھا گیا تھا۔ یعنی آپ روزازل سے ہی بزم وفا و استغنا کے صدرنشیں تھے اور آپ نے زندگی کی آخری سانس تک عہدوفا کی لاج رکھی۔

اقبالؒ نے آپ کو عشق و محبت کا رازدار کہا ہے۔ یہ خطاب پانے والے واحد رفیق نبوت جناب ابوبکر صدیقؓ تھے۔ اس نظم کا آخری شعر تو انتہائے کمال کو پہنچا ہوا ہے اور ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس میں پائے جانے والے تلذذ اور تلطف کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں۔ جناب رسول اللہ نے پوچھا کہ کیا فکرعیال بھی کیا ہے؟ تو آپ نے بلا تامل و بے ساختہ جواب دیا: حضور!

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول (ﷺ) بس

اس شعر میں حضرت علامہؒ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کے قلب فروزاں میں اپنے آقا کی محبت کے جو سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور عقیدت و مودت کی جو موجیں اُمڈ اُمڈ پڑتی ہیں، ان کا اظہار یوں کیا ہے کہ اس سے زیادہ ممکن انداز میں اظہار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس

ذرا اہل دل اس مصرعے کی نزاکت تو ملاحظہ کریں۔ یعنی دنیا بھر کی لذتیں، لطافتیں لعل و گہر اور تعیشات آقاﷺ کے جنبش ابرو پر قربان کیے جا سکتے ہیں۔ اقبالیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ حضور رسالت مآب کی ذات گرامی کے بعد حضرت علامہ اقبالؒ نے جتنے بزرگان دین اسلام کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ان میں سیدنا صدیق اکبرؓ کے بارے میں یہ شعر سب سے برتر و بالا نظر آ تا ہے۔

لیکن یہ میرا ذاتی خیال ہے اس سے اقبال شناسوں کو اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔ با نگ درا کے تیسرے حصے میں موجود حضرت علامہ اقبالؒ کی اردو زبان میں جناب ابوبکرؓ کی شان میں یہ نظم اقبال کی صدیق اکبرؓ کے ساتھ عقیدت کی غماز ہے جو اپنی مثال آپ ہے مگر اقبال نے اپنے فارسی کلام میں صدیق اکبرؓ کی بارگاہ عظمت پناہ میں جو سلام پیش کیا ہے اس کی سطوت و شوکت کو فارسی داں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ آئیے ذرا بارگاہ صدیق اکبرؓ میں حضرت علامہ اقبالؒ کے فارسی جواہر پاروں سے حظ اٹھاتے ہیں:

دگرگوں کرد لا دینی جہاں را

ز آثار بدن گفتند جان را

ازاں فقرے کے با صدیقؓ دادی

بشورے آ در این آسودہ جاں را

پہلے اس معروف رباعی کا سادہ اور سلیس ترجمہ کرتے ہیں: ترجمہ:

بے دینی نے جہان کو تہ و بالا کردیا ہے حتیٰ کہ آج روح کو بھی جسم کہا جا رہا ہے۔

یا رسول اللہ! اس درویشی سے جو آپ نے صدیق اکبرؓ کو عطا کی، مسلمان کی آرام پسند اور عمل سے بے گانہ جان میں ایک ولولہ پیدا کر۔

اس رباعی میں جو گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے اس سے اعتدال پسند اور غیرمتعصب اقبالؒ شناس خوب واقف ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے نزدیک ذات صدیق اکبرؓ الحاد و بے دینی کے دورِپُرفتن کے خلاف قوت مدافعت کا مظہر اور مزاحمت کے ایک استعارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ بارگاہ رسالت مآب میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! چاروں طرف ظلمت و جہالت اور وحشت و بربریت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، ہر سمت ذریت ابلیس محورقص ہے، شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

مادیت پرستی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، حتٰی کہ بدن کو روح کا نام دیا جا رہا ہے، حالاںکہ ایک چیز امر ربی ہے جس کی حقیقت اللہ رب العزت کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور دوسرا جسم ہے جو اللہ کی نیابت کا اظہار ہے، جب روح جسم کو چھوڑ جاتی ہے تو اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اب مادیت گزیدگی نے دونوں کے فرق کو ختم کردیا ہے۔ حقائق کی جگہ وہم و گمان نے لے لی ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں اقبالؒ استمدادیہ صورت میں بارگاہ نبوی میں التماس گزار ہیں کہ آپ نے فقر کی جو دولت صدیق اکبرؓ کو ارزانی فرمائی اس میں سے کچھ حصہ مجھے بھی عطا فرمائیے تا کہ میں مادہ پرستانہ رجحانات کا مقابلہ کر سکوں۔

حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ گداز آفرین رباعی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ حضورﷺ کی صحبت فیض رسانی کا ہی اعجاز ہے کہ آپ کے وصال کے بعد دین اسلام سے انحراف کرتے ہوئے جن شرپسند قوتوں نے سر اٹھایا انھیں جناب ابوبکرؓ نے اپنی قوت ایمانی اور فراست وتد بر سے کچل کر رکھ دیا۔ اس طرح صدیق اکبرؓ کی ذات الحاد کے امڈتے ہوئے طوفانوں کے خلاف ایک حسین استعارہ بن گئی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کو حضور سید المرسلینﷺ کی ذات گرامی سے کس جنون کی حد تک محبت تھی اس کا اندازہ علامہ اقبالؒ کے ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:

معنی حرم کنی تحقیق اگر، بنگری با دیدہ صدیقؓ اگر

قوت قلب و جگر گردد نبی، از خدا محبوب تر گردد نبی

ترجمہ: ’’اگر تو میرے حرف کی تحقیق کرے اور تو اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھ سے دیکھے، تو نبی دل اور جگر کی طاقت بن جاتے ہیں اور اللہ سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے محبوب، باعث تخلیق کائنات، صاحب لولک لما خلق الافلاک، اولاد آدم کی فتح مبین ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت وحرمت، آپ کی عظمت و شوکت، اوج و رفعت اور جلال و جمال کا نظارہ کرنا کسی عام انسان کے قلب و نظر کے بس میں نہیں۔ اس کے لیے حضور کے رفیق خاص، رازدار خلوت و جلوت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھ درکار ہے۔

چشم صدیق اکبرؓ ہی آپ کے روئے درخشاں پر موج زن انوار وتجلیات کا مشاہدہ کرنے اور اس کی توضیح وصراحت کرنے کی تاب و تواں رکھتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اے انسان! اگر تجھے فراست و تبریر صدیق اکبرؓ کا کچھ حصہ مل جائے تو، تو اس حقیقت کو پالے گا کہ ذات پیغمبرﷺ ایک مسلمان کے دل و جگر کی قوت بن جاتی ہے، یعنی آپ کی محبت اس قدر اس کی رگ رگ میں سما جاتی ہے کہ لامحدود مشکلات اور مصائب و آلام کی آندھیاں بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتیں۔

اس جذبہ حب رسول کی وجہ سے وہ چٹانوں سے ٹکرانے اور پہاڑوں کو سر کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے محبتِ رسول کو اپنے دامن میں سجا کر صحرائے عالم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند دیا تھا اور دریاؤں کی تلاطم خیز موجوں کو خاطر میں نہیں لائے تھے اور یہ جذبہ عشق رسول حدود مکان و لامکاں سے بھی بڑھ جاتا ہے تو یہ ایک مسلمان کو خالق کائنات سے بڑھ کر وجہ تخلیق کائنات کے قریب تر کر دیتا ہے۔ اس تصور کو اقبالؒ نے ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا کہ:

تو فر مودی رو بطحا گرفتم وگرنہ جز تو ما را منزل نیست

یعنی: آپ نے ہمیں مکہ شریف کا راستہ بتایا ورنہ ہماری منزل تو مدینہ شریف ہے۔

مراد یہ ہے کہ توحیدباری تعالیٰ پر ایمان حضور سید المرسلینﷺ کے توسل سے نصیب ہوا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی دانست میں ذات پیغمبرؓ کے بعد امت مسلمہ کی خبر گیری و راہ نمائی اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ جناب ابوبکرصدیقؓ ہیں، کیوں کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد انھیں مصائب و آلام کی جن آندھیوں سے واسطہ پڑا ان سے نبرد آزما نہ ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے بے پناہ عزیمت و استقلال اور فقیدالمثال شجاعت و بسالت درکار تھی اور یہ سب کچھ جناب صدیق اکبرؓ کو اللہ نے اپنے محبوبؐ کی وساطت سے عطا کردیا تھا۔

کوئی کم زور اور متذبذب قوت فیصلہ کا حامل انسان یقیناً لڑکھڑا جاتا مگر آپ کی الوالعزمی نے مواج بحر ارتداد کو پابند ساحل کرکے رکھ دیا۔ اس لیے جمہور نے آپ کے انتخاب کو درست قرار دیا ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا علاج علامہ اقبالؒ بارگاہ ابوبکرؓ سے دریافت کر رہے ہیں کہ اے رازدار عشق و محبت ! آپ کی کاوشوں سے مستقبل اسلام درخشاں و مستحکم ہوا اور ہماری بنیادیں مضبوط تر ہوئیں اس لیے اب بھی ہماری چارہ گری کیجیے اور جو امت مبتلائے اوہام ہوچکی ہے اس کا تریاق ارزانی کریں۔

اگلے شعر میں جناب صدیق اکبرؓ نے اقبالؒ کو مایوس نہیں فرمایا بلکہ اس آزار کا شافی حل تجویز فرمایا ہے:

گفت تا کے در ہوس گردی اسیر آب و تاب از سورہ اخلاص گیر

ترجمہ: آپ نے ارشاد فرمایا: ’’تو کب تک حرص و ہوا میں اسیر رہے گا۔ سورۂ اخلاص سے چمک اور تابش حاصل کر۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے اقبالؒ کی یاسیت اور تذبذب کے جواب میں ایسا مختصر مگر جامع حل تجویز فرمایا جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد بحر ظلمات میں ہچکولے کھانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ آپ نے محسوس کیا کہ امتِ مسلمہ کی تباہی توحید رب ذوالجلال سے روگردانی کی وجہ سے ہے اور یہ اصنام وہم و گماں کی پرستش میں مصروف ہے، توکل علی اللہ کے بجائے مادیت کی تلاش میں سرگرداں ہے اور یہی اس کے زوال و انحطاط کا باعث ہے۔ آپ بزبان اقبالؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے مسلمان! تو کب تک ہوس ناکی اور مادیت پرستی کا شکار رہے گا۔ اگر تو اپنے سفینہ تذبذب کو ساحل طمانیت سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے تو سورۂ اخلاص کو سمجھنے اور دل کی گہرائیوں سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر۔ سورۂ اخلاص ایک ایسا چراغ ہے جس کی تابانیت سے تو نہاں خانہ دل کو منور کر سکتا ہے۔

اس لیے حضورﷺ نے سورۂ اخلاص کے ساتھ محبت کو دخول فردوس بریں کا سبب قرار دیا ہے۔ مفسرین کرام تحریر کرتے ہیں کہ ایک صحابی دوران نماز و جماعت فقط سورہ اخلاص کی تلاوت کیا کرتے۔ صحابہؓ نے ان کی اس روش کی شکایت حضورﷺ سے کی۔ آپ نے استفسار فرمایا کہ نماز میں صر ف سورۂ اخلاص ہی کی تلاوت کا سبب کیا ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا: آقا! مجھے اس سورۂ مبارکہ سے محبت ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تو پھر تمھارے اور جنت کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہا۔

شاید اسی لیے حضرت علامہ اقبال حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے اس کی اہمیت کو زیربحث لائے ہیں۔ اگلے شعر میں حضرت علامہ اقبالؒ نے اس سورہ مطہرہ کے خصائص کی توضیح کی ہے۔ جناب ابوبکر صدیقؓ، علامہ اقبالؒ کی مزید راہ نمائی کرتے ہوئے سورہ اخلاص کی شان بیان فرماتے ہیں:

ایں در صد سینہ پیچیدیک نفس سرے از اسرار توحید است و بس

یہاں سیدنا صدیق اکبرؓ سورہ اخلاص کو پورے قرآن پاک کا نچوڑ اور عطر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’یہ توحید کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے اور بس، جو سیکڑوں سینوں میں ایک سانس کی طرح پیچ اور بل کھاتا ہے۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ واقف رموز حقیقت، حضرت علامہ محمد اقبالؒ کو سورۃ اخلاص کی مزید توضیح سے فیض یاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ سورہ مبارکہ اللہ کی وحدانیت کا سب سے بڑا مخزن و معدن ہے اور اللہ کے سیکڑوں، لاکھوں نیک بندے  دین و دنیا کی سرفرازیاں اس ایک نکتے میں مضمر سمجھتے ہیں اور یہ نکتہ توحید اس وقت سمجھا اور بیان میں آ سکتا ہے جب سینوں اور دماغوں سے تصورلات و منات یکسر نکال دیا جائے۔ اصل خرابی اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم توحید پر محض رسماً ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے مقابلے میں مادی سہاروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور گرداب میں پھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔ اقبال نے اس تصور توحید کو اردو میں بھی بیان فرمایا ہے:

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری

مثنوی میں حضرت علامہ اقبالؒ نے ایک مسلسل نظم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ اپنی اور حضرت ابوبکرؓ کی اپنے آقاومولٰیﷺ سے بے پایاں محبت کا جس بے مثال و دل پذیر انداز میں تذکرہ فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ، قرآن کریم ، فرامین رسول اور تاریخ کا کتنا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ فکراقبال کے متعلق میرا مسلک و نظریہ یہ ہے کہ اقبال کا کلام غیرمتوازن نہیں ہے۔ آپ نے اہل بیت اطہار اور اصحاب رسول کے ساتھ اپنی عقیدت کا یکساں اظہار کیا ہے۔ اس عہدساز نظم کا پہلا شعر کس قدر عقیدت و محبت کا مظہر ہے۔

آپ قارئین کرام ! ذرا ان اشعار کا بنظر عمیق مطالعہ کر یں:

من شبے صدیق را دیدم بخواب گل ز خاک راہ او چیدم بخواب

ترجمہ: میں نے ایک رات حضرت صدیق اکبرؓ کو خواب میں دیکھا ، میں نے ان کے راستے کی مٹی سے پھول چنے (مراد ان کے فرمودات سے استفادہ کیا)

عالم رویا میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کی زیارت حضرت علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایک سعادت سے کم نہیں۔ پھر زیارت ہی نہیں بلکہ دبستان صدیق اکبرؓ کی فکر سے استفادہ کیا۔ آگے کا شعر رفیق نبوت کی عظمتوں اور رفعتوں کی ایسی بے مثال عکاسی کر رہا ہے جس سے روح کو بالیدگی اور ایمان کو تازگی عطا ہوتی ہے۔ یہ شعر رقم کرتے ہوئے قلم کو از خود جنش عطا ہوتی ہے۔

آں امن الناس بر مولائے ما آں کلیم اول سینائے ما

ترجمہ: ’’وہ جن کے ہمارے آقا ﷺ پر باقی لوگوں سے محبت اور مال میں احسانات زیادہ تھے، وہ ہمارے طور سینا کے پہلے کلیم تھے۔

یہ شعر قلوب اہل ایمان میں وہ سوز و گداز اور وہ ایقان و حرارت پیدا کر دیتا ہے جو فدایان کوئے بطحا کو مزار صدیق اکبرؓ کی زیارت کے لیے بے چین کر دیتا ہے۔

اقبالؒ کہتے ہیں وہ کون صدیق اکبرؓ، جن کی میں نے خواب میں زیارت کی اور ان کے گلستان فکر سے برگ ہائے لالہ و گل سمیٹ کر مشام جاں کو معطر کرلیا، کائنات بھر کے لوگوں سے بڑھ کر جن کے احسانات حضور کی ذات والا صفات پر زیادہ تھے۔ وہی صدیقؓ جنھوں نے آقا کی ایک جنبش ابرو پر اپنا تن من دھن قربان کردیا۔ اور پھر اس بے مثال فدا کاری پر تسلیم و رضا کا ایسا مظاہرہ فرمایا کہ کائنات وجد میں آگئی۔ اس لیے آپ نے فرمایا تھا کہ میں نے تمام لوگوں کے احسانات کا بدلہ اتار دیا ہے لیکن ابوبکر کے احسانات اتنے لامحدود ہیں کہ ان کا بدلہ خو درب ذوالجلال اتارے گا۔

دوسرا مصرعہ اقبالؒ کے علوفکر کی معراج نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکرؓ ہمارے طور سینا کے پہلے کلیم ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اس عالم امکان میں موجود اہل دانش و تدبر میں جناب ابوبکرؓ ایسے پہلے کلیم ہیں جنھوں نے صحرائے عرب کے طور سینا پر جمال مصطفیﷺ کا نظارہ کیا اور حضورﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ دراصل اقبالؒ کے بعض اشعار میں موجود تراکیب اس قدر بلیغ ہیںکہ انھیں محض پڑھ کر ہی لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کی توضیحات کے لیے شہ پر جبریل کی معاونت درکار ہے۔

اس نظم کے تیسرے شعر میں عقیدت کے ساتھ ساتھ الفاظ میں جو موسیقیت اور ترنم پایا جا تا ہے وہ بھی بے خود و مسحور کردیتا ہے:

ہمت او کشت ملت را چ و ابر

ثانی اسلام و غار و بدر و قبر

The post فضائل سیدنا صدیق اکبرؓ کلام اقبال کی روشنی میں appeared first on ایکسپریس اردو.

چترال کی زبانیں

$
0
0

 چترال کی خوبصورت وادی خیبرپختون خوا کے شمالی علاقوںمیں ملاکنڈ ریجن کا ایک وسیع وعریض علاقہ ہے، جس کی بڑی اورمشترکہ زبان کہوارہے۔

اگر چہ یہ زبان چترال کے طول وعرض میں رائج ہے مگر کچھ دیگر مقامی زبانیں بھی چترال کی دیہاتی سطح پر بولی جاتی ہیں۔ چترال کی بڑی زبان کہوار کی وجہ تسمیہ یا علاقہ کی دیگر زبانوں مثلاً گبری، تانگیری، دھیڑی، کلاشی، باشگلی، فارسی، گوجری ،لٹکوہی وافغانی وغیرہ کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم چترال کے خطے، جغرافیائی ماحول، ثقافتی حیات اورتاریخی حالات کے بارے میں معلومات کااحاطہ کریں گے۔

چترال کاعلاقہ اپنے قدرتی ماحول میں صوبے کے ایک بہترین جغرافیے کاحامل ایسا خطہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے چین اور دیگر ایشیائی ممالک سے متصل ہے۔ طویل عرصے سے اس کی اہمیت کاسبب یہ بنا رہا کہ چترال کاعلاقہ اپنے آس پاس کے علاقوں کی تجارتی گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا، اس لیے قدرتی طور پر یہ مختلف تہذیبوں کا بھی گہوارہ سمجھا جانے لگا۔

مشہور ترین ہندوکش اور قراقرم کی وادیوں کی وجہ سے اس کی مسلمہ جغرافیائی اور تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں نے تہذیبی اور ثقافتی نشانات چھوڑے اور زبان کی علامتوں کو بھی یہاں منقش کر دیا۔

چترال پر جس شاہی خاندان کی حکومت رہی، انہیں شاہان مہتران کہاگیا، اور اس مہتران شاہی خاندان کے لوگوں نے مہتران چترال کی حیثیت سے طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ چترال ہمیشہ سے ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کے لیے پرکشش رہا ہے ۔ بطور ریاست چترال کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، اورجن مہتران چترال کاذکر ہوا ہے، انہوں نے ریاست چترال پر حکومت کی۔

چترال کے قدیم نام

چترال جس کی عمومی زبان کھوار ہے اس کے بعض ایسے بھی نام ہیں جو زمانہ دراز سے مستعمل ہیں۔ مثال کے طور پر چترال کے قدیم لوگ اس خطے کو بلور بھی کہتے ہیں، اس کے وہ باشندے جو تانگیر وادی سے تعلق رکھتے ہیں وہ چترال کو ’’کوگو‘‘ کہتے ہیں اوریہاں کے باشندوں کو کوگوک کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جو نرست کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ چترال کو منگل یا مغل کہتے ہیں۔

چترال برف پوش وادیوں اورقدرت کے حسین مناظر کی ایسی سرزمین ہے جس میں تین سو پچاس کلومیٹر تک افغانستان کا علاقہ ہے، جو جبل قرمبارہ سے شروع ہوکر سلطنت افغانستان کے علاقہ بری کوٹ تک پھیلاہوا ہے۔ اس کے مشرق کی طرف چین اورکشمیرکا علاقہ اورمغرب کی جانب افغانستان کاعلاقہ برفانی پہاڑوں سے اٹا ہوا ہے۔

مشرقی سرحد چین اورکشمیر سے متصل ہے، اس میں کوہ ہمالیہ کے سلسلہ کی وسطی برفانی وادیاںہیں، یہ قراقرم اورکے ٹو کے نام سے موسوم ہیں۔ شاہراہ ریشم بھی اسی سلسلہ قراقرم کی ایک کڑی ہے جو چین اور پاکستان کی دوستی کی علامت ہے۔ یہاں سڑک بناکر پاکستان اورچین کے درمیان تجارتی راستے کو کھول دیاگیا ہے ۔

وجہ تسمیہ

چترال کی وجہ تسمیہ کے بارے میں فراموزخان چینی نژادکتاب کے مصنف کے بقول چترال کا لفظ چترکے لفظ پر اضافہ ہے چوں کہ وادی چترال جنوبی دروں کے راستوں کے ذریعے گندھارا کے نشیبی علاقوں سے متصل تھی اورگندھارا آرٹ یا تہذیب کامطلب ہی یہی تھا کہ اس آرٹ یعنی چترکاری کے ذریعے اس وقت کی ثقافتی اور تہذیبی زندگی کی عکاسی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس وقت کی سیاسی اورمذہبی زندگی کی بھی عکاسی کی گئی۔

یہ چتر کاری کا فن جو پتھر کی تراش خراش یاکسی چٹان پر تصویر کی کندہ کاری یا مجسمہ سازی پر محیط ہے، یہ سب چتر کے دائرے میں آنے والی باتیںہیں۔ چوں کہ اس (چترال کی) سرزمین تک یہ فن پھیلاہوا تھا، اس لحاظ سے اس کا قدیم اور عمومی نام چتر تھا جو بعد میں بدل کر چترار ہوا اور پھر چترار سے چترال پڑ گیا۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چتر کا لفظ اونچی جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس نسبت سے بھی بعض محقیقین کا یہ خیال معتبر مانا گیا ہے کہ اسے چھت کے مشابہہ بھی کہاگیا ہے اورچتر کی تبدیل شدہ شکل چترال ہے، جو بلندی اور اونچائی پر ہونے کی وجہ سے چھت کا مفہوم دیتاہے۔ اس مناسبت سے بھی اس کا نام چترال پڑ گیا، جو سیکڑوں برسوں سے رائج ہے۔

اس کے علاوہ اسے کہوستان کے نام سے بھی موسوم کیاگیا جو کہو قوم کا مسکن ہے اور جن کی زبان کہوار ہے۔ وہ علاقہ جو اب تک خاص چترال کے نام سے مشہور ہے اور جو اب بھی چترال کا دارالخلافہ ہے، پھر اس سارے علاقے کو ہی چترال کے نام سے موسوم کر دیا گیا ۔

قوم کہواورکہوار زبان کی قدامت

جیسا کہ چترال میں بولی جانے والی زبان کہوار کاذکر ہوا ہے کہ اس وقت چترال میں بولی جانے والی زبان عموماً کہوار زبان ہے اوردیگر زبانیں ذیلی زبانوں میں شمارہوتی ہیں۔ جہاں تک کہوار زبان کاتعلق ہے یہ زبان کہوار اس لیے ہے کہ قوم کہو کی یہ زبان ہے اورکہو قوم کی طرف منسوب ہونے کے ناطے اسے کہوار کہاجانے لگا ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت چترال میں بولی جانے والی زبان کہوارکی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ملتی ہیں۔ تاریخ قدیم کا مطالعہ ہمیں یہ معلومات فراہم کرنے کا سبب بنتاہے کہ کہو قوم کے لوگ شمال سے قراقرم اور جنوب سے ہندوکش کی وادیوں سے جائے امن کی تلاش میں یہاں آئے تھے اور یہ باشندے آئے روزکی جنگ وجدل کی زندگی سے بیزار ہوکر اس وادی (چترال) میں گھس آئے۔

یہ معاملہ بھی قابل ذکر ہے کہ شمال سے آئے ہوئے کہوار قوم کے باشندے گلگت اور ہنزہ میں بھی آباد ہیں جب کہ جنوبی حصے سے آئے ہوئے یہ امن پسند لوگ چترال کے علاقوں ارندو، دروش، باشقاء،کوہستان اورنرست آسمار میں آباد ہوگئے۔

شمال کی طرف سے آئے ہوئے باشندے زیادہ تر ترکستان اور بدخشاں تہذیب وتمدن کے حامل تھے۔ یہ لوگ چترال کے علاقے توریکہو، مولی کہو اور مستوج میں آباد ہوگئے تو ان کی نسبت یہ علاقے بھی تہذیب وتمدن کے گہوارا بن گئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تمام علاقوں سے آئے ہوئے باشندوں کی نسلی پہچان یہ ہے کہ سب کے سب کہو قوم کے باشندے ہیں اور انہی کی نسبت سے کہوار زبان مستعمل ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا کہوار زبان کا اثر ان تمام شمالی اورجنوبی علاقوں میں موجود تھا؟ اگر یہ شمالاً اور جنوباً اطراف سے آئے ہوئے لوگ اصلاً اورنسلاً کہو ہیں تو یقیناً ان کی زبان بھی پھر کہوار ہی ہوگی۔

اس لحاظ سے کہوار زبان کا حلقہ رقبے کے لحاظ سے شمالاً اورجنوباً پھیلا ہوا تھا اور جب وادی چترال میں آئے تو اپنی تہذیب وثقافت اور زبان یہاں لے کر آئے اورکہو قوم کی حیثیت سے یہاں آباد ہوئے تو اپنی زبان کہوار بھی یہاں پر رائج کردی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہوار زبان چترال میں وارد ہونے والی قوم کہو کی وجہ سے چترال کے شمال اورجنوبی خطوں میں پہلے سے بھی رائج تھی۔ اس لحاظ سے کہوار زبان کی قدامت کا سراغ ملتا ہے اور تحقیق کی بنا پہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ چترال وادی کے علاوہ چترال کے شمال اورجنوبی خطوں میں بولے جانے والی یہ قدیم زبان ہے۔

کہوار زبان کے علاوہ جتنی بھی دیگرگبری، تانگیری، کلاشی، باشکلی، گوجر، فارسی اور لٹکوہی زبانیں چترال میں بولی جاتی ہیں، یہ یہاں کے تمام باشندے سب زبانوں کو کہوار زبان سے ہم آہنگ کرکے بولتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں بولی جانے والی یہ مختلف ذیلی زبانیں باہمی متعارف اورغیر اجنبی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کہوار زبان میں سنسکرت، ترکی اورفارسی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

کہوار، چترال کی ایسی عمومی اورقدیمی زبان ہے، جسے ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگ چترال کی نسبت سے، چترالی کہتے ہیں۔ یہ تصور اتنا عام ہے کہ صوبے کے دارالخلافہ اورصدر مقام پشاورتک کے لوگ چترال کے جملہ باشندوں کو چترالی اور ان کی کہوار زبان کو چترالی زبان کہتے ہیں۔ اورجب وہ کہوار زبان کو چترالی کہتے ہیں تو یہ امتیاز روا نہیں رکھاجاتا کہ چترال کے کس خطہ کے لوگ ہیں اورکہوار زبان کے علاوہ کون سی علاقائی زبان بولتے ہیں بلکہ صورت حال چاہے جو بھی ہو، چترالی باشندے کو چترالی اور زبان کو چترالی زبان کہا جاتا ہے۔

کہوار زبان کی تاریخی اہمیت

خیبر پختون خوا میں بولی جانے والی تمام زبانیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور ثقافتی زندگی میں ان زبانوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ملاکنڈ ریجن میں ضلع چترال ایک وسیع وعریض رقبے پر مشتمل علاقہ ہے جہاں کہوار زبان کو علاقے کی عمومی اور بڑی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس زبان کی قدامت اورتاریخی حیثیت کے بارے میں چترال کے معتبر اورمعروف اہل قلم عنایت اللہ فیضی نے اپنی کتاب ’’کھوار بول چال‘‘ میں جو تفصیلات لکھی ہیں۔

ان کے مطابق کہوار زبان کی تاریخی حیثیت یہ بنتی ہے کہ یہ تین ہزار سال پرانی اورقدیم زبان ہے۔ فیضی صاحب نے اس سلسلے میں گریرسن کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کہوار ہندآریائی زبانوں کی ایک شاخ ہے جو دری زبانوں پر مشتمل ہے۔ اس زبان کی آوازوں سے متعلق تفاصیل اس کتاب میں درج ہیں۔ اس کی بعض ایسی مخصوص آوازیں ہیں جو روسی زبانوں سے مشابہہ ہیں، مثلاً ش، ژ اور چ، یہ اس زبان کی ایسی آوازیں ہیںجو روسی زبان سے مشترک ہیں اور اس کا مصدر، علامت ’’ک‘‘ کہوار اوربلوچی زبان میں مشترک ہے۔

ڈاکٹر فیضی کے مطابق کہوار زبان میں مرکب اضافی، مرکب توصیفی اور جملوں کی بناوٹ کے کچھ اصول اردو، سندھی اورکہوار میں ایک ہی جیسے ہیں۔ پشتو اورکہوار کے حروف تہجی’’خ‘ اورح‘‘ ایک جیسے ہیں ۔

جس طرح پشتو میں لکھا جاتاہے کہ سنگہ جس کا اردو میں معنی بنتاہے کس طرح اور خما یعنی میرا، مگر صوتی لحاظ سے یہ مختلف ہیں۔ جب کہ ح، چ اور ژ کی آوازیں شینا زبان اورکہوار میں مشترک ہیں۔ صوبے کی دوسری زبانوں کی طرح اس زبان کے بھی محققین اور بولنے والوں کا یہی دعویٰ ہے کہ اس کا زیادہ ذخیرہ الفاظ قدیم اورتاریخی زبان سنسکرت سے زیادہ متاثر ہے اوراس کا لہجہ اورگرامر فارسی سے قریبی مماثلث رکھتی ہے۔

کہوار زبان کا ذخیرہ بہت بڑا ہے، مفہوم کے لحاظ سے اس زبان کا لہجہ اجنبی معلوم نہیں ہوتا بلکہ ہرسننے والا اس کا مفہوم سمجھ لیتا ہے، البتہ کہوار زبان کی مخصوص آوازوں کے تلفظ کا ادراک اوراس کے مخصوص حروف کے ساتھ کہوار زبان کی تحریر ایسی نہیں ہے جسے آسانی سے سمجھاجا سکے۔ چنانچہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے اس زبان کے بعض دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہوار کے جو مخصوص الفاظ ہیں ان کے اضافے کو ختم کردیاجائے اوراس زبان کی مخصوص آوازوں کو اردو رسم الخط کے ایسے حروف میں لکھا جائے جو ان آوازوں کے قریب تر ہوں۔

کسی بھی زبان کو سمجھنے اور آسانی سے سمجھانے کے لیے جس سے زبان کے فروغ کا پہلو نمایاں ہوتا ہو، اس کے پیچیدہ حروف کو اگر پاکستان کی قومی زبان اردو کے حروف سے تبدیل کردیاجائے تو اس زبان کے فروغ میں یہ ممد ومعاون ثابت ہوسکتاہے۔ بالخصوص وہ زبانیں جو محدود علاقوں میں بولی جاتی ہیں جن کی طرف محض اس لیے توجہ نہیں دی جاتی کہ اس زبان کے ایسے مخصوص حروف ہیں جن کا لکھنا، بولنا مشکل ہو۔

اس کے برعکس یہ نظریہ بھی اپنی جگہ پر قابل توجہ ہے کہ علاقائی زبانوں کی اپنی انفرادیت، ان کے مخصوص اور زائد حروف ہی کی وجہ سے قائم رہتی ہے۔ اس اعتبار سے کہوار زبان کی اپنی جدا اورانفرادی حیثیت بھی مسلمہ ہے مگر ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو بات کسی زبان کے فروغ کی راہ میں حائل ہوتی ہو، اسے قائم رکھنے پر اتنا اصرار کیوں ہو۔

کہوار زبان کے دانشوراور ادیب کہتے ہیں کہ کہوار کے رسم الخط سے اضافی حروف کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک عربی رسم الخط کے ساتھ وابستہ مشرقی زبانوں میں بین الاقوامی حروف تہجی کی طرح کے حروف متعارف نہ کرائے جائیں۔

کیوں کہ زائد آوازیں اوران آوازوں کے لیے زائد حروف ہی کسی قدیم زبان کی اصل پہچان ہوتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک اس پہچان کو بہرحال قائم رکھنا، زبان کی اصلیت کو اس زبان کے ساتھ جوڑے رکھنا ضروری ہے۔ مگر اضافی حروف تہجی پراصرار زبان کے فروغ کو مشکل بناتا ہے۔

کہوا زبان کے حروف تہجی کی کل تعداد بیالیس بنتی ہے۔ ان بیالیس حروف میں وہ مخصوص حروف بھی شامل ہیں جو کہوار زبان کی اصلیت پر دلالت کرتے ہیں جب کہ وہ حروف جو اردو اورکہوار میں مشترک ہیں ان کی تعداد چھتیس رہ جاتی ہے۔

The post چترال کی زبانیں appeared first on ایکسپریس اردو.

قیدیوں کے حقوق ومراعات اور اسلامی نقطۂ نظر

$
0
0

دین اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہ نمائی فراہم کی ہے۔

عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالم گیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔

اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام نے جہاں اعلٰی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوسکے۔

دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا، کیوںکہ قیدیوں سے انسانیت باطل نہیں ہوگی۔

وما کان مِن خواصِ الآدمِیۃِ فِی الرقِیقِ لا یبطل بل یبقی علی اصلِ الحرِیۃِ۔ (فتح القدیر: 198/4)

ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسے بہرحال فراہم کی جائیں گی، جیسے پیٹ بھر کھانا، پیاس بجھا نے کے لیے پانی فراہم کرنا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وغیرہ، لہٰذا قیدیوں کو بھوکا، پیاسا رکھنا یا بے لباس کرنا جائز نہیں۔

قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت

رسولِ اکرمﷺ نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنے صحابہ کرامؓ کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو، انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ پلا ؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو (الموسوعۃ الفقھیۃ4: 198/)۔

جن دنوں میں بنوقریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا، وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی؛ اس لیے آپﷺ نے بہ طور خاص دن کی گرمی اور دھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کر نے کی تاکید فرمائی؛ کیوںکہ گرمی کے ایام میں قیدیوں کی گرمی کا خیال نہ رکھنا، انھیں دھوپ میں چھوڑ دینا؛ بلکہ آرام کا موقع نہ دینا بھی غیرانسانی حرکت ہے اور قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت جائز نہیں۔ معلوم ہوا کہ قیدیوں کو الیکٹرک شاک لگانا، ان پر کتے چھوڑنا، انھیں سخت ٹھنڈک میں بر ف کی سلوں پر ڈال دینا، حد سے زیادہ مار پیٹ کرنا، مسلسل جاگنے پر مجبور کرنا یا ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کرنا، شرعاً درست نہیں ہے۔

غیرانسانی فعل

قتل وغارت گری، چوری، زنا کاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی اور اس طرح کے دیگر جرائم یقیناً اسلام کی نظر میں بھی انتہائی شنیع اور قابل مذمت ہیں، ان کے مرتکبین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں؛ لیکن شریعت نے اس کی بھی حدود متعین کی ہیں اور ان میں اہم چیز انسانیت کا احترام ہے۔

ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی توہین ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔ اسیرانِ بدر میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا جو نہایت فصیح اللسان تھا اور عام مجمعوں میں آنحضرت ﷺ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اس کے دونیچے کے دانت اکھڑوادیجے کہ پھر اچھا نہ بول سکے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو گو نبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا۔ (تاریخ طبری صفحہ1344)

آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا یقیناً بڑا جرم ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کے عوض میں دانت اکھاڑنے کی رائے قبول نہیں کی گئی؛ اس لیے کہ یہ مثلہ کے دائرے میں آتا ہے۔

اس طرح وہ دانت اکھاڑنے سے ایک عضو سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا جو انسانی ضرورت ہے، اس سے انسان مستفید ہوتا ہے۔ چناں چہ پتا چلا کہ قیدیوں کو اس طرح بے تحاشہ نہیں مارا جائے گا اور نہ کوئی ایسی سزا دی جائے گی جس کے سبب ان کا کوئی عضو شل اور ضائع ہوجائے یا ان کے کسی عضو کی منفعت ختم ہوجائے؛ کیوں کہ یہ غیرانسانی فعل اور رحم وکرم کے خلاف ہے۔

صحابہ کرام ؓ کا قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک

اسلام میں حقوقِ انسانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک کی قطعاً گنجائش نہیں، آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے، وہ نا مناسب، بلکہ ناجائز ہے، جیسے قیدیوں پر تشدد کرنا، تفتیش وتحقیق کے نام پر الٹا لٹکا دینا، ایسی جگہ قید کرنا، جہاں بیٹھنے، لیٹنے اور آرام کرنے کی گنجائش نہ ہو، بے لباس کرنا وغیرہ۔ ابوغریب جیل میں جو سزائیں دی جاتی ہیں۔

کون سا دل ہے جو ان سزاؤں کی کیفیت سن کر تڑ پتا نہ ہو اور ان سزاؤں کی تصویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے نہ ہوجاتے ہوں، دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی اسلام نے عدل واحسان پر مبنی تعلیمات اور اصول پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جنگِ بدر کے قیدیوں کے احوال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اسیرانِ بدر کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

صحابہ کرام ؓنے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا کہ ان کو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے۔ ان قیدیوں میں ابو عزیز بھی تھے جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی تھے، ان کا بیان ہے کہ مجھ کو جن انصاریوں نے اپنے گھر میں قید کر رکھا تھا، جب صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجوریں اٹھالیتے، مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دیتا، لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس دے دیتے اور یہ اس بنا پر تھا کہ آنحضرتﷺ نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے۔ (سیرۃ النبی:1 330/)

قیدیوں کو ہتھکڑیاں، بیڑیاں لگانا اور زنجیروں سے جکڑنا

ایسے لوگ جو جنت میں جائیں گے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ وہ لوگ قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ارشاد باری ہے ویطعِمون الطعام علی حبِہ مِسکِینا ویتِیما واسِیرا (سور الدھر، آیت8 ) ’’اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔‘‘ قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قیدی ہے جس کو اصولِ شرعیہ کے مطابق قید میں رکھا گیا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم۔ چوں کہ مجرم قیدیوں کو کھانا کھلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔

اگر کوئی شخص قیدیوں کو کھلاتا ہے تو گویا اسلامی بیت المال کی اعانت کرتا ہے۔ بالخصوص ابتدائے اسلام میں جب کہ بیت المال کا کوئی منظم نظام نہیں تھا، اس لیے صحابہ کرامؓ میں قیدیوں کو تقسیم کرکے ان کے کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی جاتی تھی۔

تاہم قرآن واحادیث سے قیدیوں کو زنجیروں سے جکڑ نے، ہتھکڑیاں لگانے اور پاؤں میں بیڑیاں لگانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے کہ مجرم کی شوکت ختم ہوجائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں۔ ارشاد باری ہے، فاِذالقِیتم الذِین کفرو افضرب الرِقابِ حتی اِذا اثخنتموھم فشدو الوثاق (سورہ محمد، آیت 4)

’’سو جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مار چلو، یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونریزی کر چکو تو خوب مضبوط باندھ لو۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فوج کا ایک دستہ قبیلہ نجد کی طرف روانہ فرمایا، ان لوگوں نے یمامہ کے رئیس ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرلیا، ان کو مدینہ لے کر آئے اور مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے اچھی طرح باندھ دیا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، بلکہ جب ان کے پاس سے آپ ﷺکا گذر ہوتا تو سوال کرتے ’’ماذا عِندک یا ثمامۃ؟‘‘ یعنی ’’تمہارا میرے بار ے میں کیا خیال ہے؟‘‘ وہ جواب میں کہتے،’’آپ ﷺ کے بارے میں میرا اچھا اور بہتر خیال ہے۔

اگر آپﷺ قتل کریں تو ایک واجب القتل کو قتل کریں گے اور اگر آپ ﷺ چھوڑ دیں تو ایک شکرگزار شخص کو چھوڑیں گے اور اگر آپﷺ کو مال ودولت مطلوب ہے تو فرمائیے مال حاضر کردوں گا۔‘‘ ایمان قبول نہ کرنے کی بنیاد پر مصلحتاً آپ ﷺ نے ان کو تین دن تک اسی طرح ستون سے بندھا ہوا رکھا اور یہی سوال وجواب ہوتا رہا۔ تیسرے دن آپ ﷺ نے ان کو چھوڑ دینے کی ہدایت دی۔ وہ قید سے آزاد ہوئے، دل میں آپ ﷺ کی محبت اور ایمان کی الفت گھر کرچکی تھی۔ غسل کے بعد ایمان قبول کرلیا۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2331)

اس زمانے میں باضابطہ کوئی قیدخانہ نہیں تھا، قیدیوں کو اسی طرح باندھ کر بے بس کیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو باندھنا، ہتھکڑیاں پہنانا اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا جائز ہے۔

اگر قیدیوں کے بھاگنے یا ان کے بے بس نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کو تصرفات سے روکنے کے لیے قید کرنے کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھی جاسکتی ہے یا تنہا کسی مکان میں قید کیا جاسکتا ہے۔

قیدکا اصل مقصد قیدیوں کو اپنے تصرفات اور شرارت سے روکنا ہے اور یہ چاہے جس طرح بھی حاصل ہوجائے، اس کے ساتھ معاملہ ویسا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام قیدیوں کو ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ ہر قیدی کا مزاج، قوت وطاقت اور منصوبے الگ الگ ہوتے ہیں، اگر کسی قید ی کے بارے میں اطمینان ہوکہ یہ نہیں بھاگے گا تو اسے ہتھکڑی یا بیڑی لگا نے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی قیدی طاقت ور ہو اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو، فرار ہونے کا احتمال ہو تو اس کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اصل مقصد قیدیوں کو زیر کرنا اور ان کی شوکت کو ختم کرنا ہے، اس کے لیے جیل میں ڈالنا ضروری نہیں، یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو وہ قید شرعی میں داخل ہے۔

قیدیوں کو جسمانی اذیت دینا

سرکش قیدیوں کو معمولی جسمانی اذیت بھی دی جا سکتی ہے، اس کے جواز پر عہد نبوی ﷺ کے اس واقعے سے روشنی پڑتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غزوۂ بدر کے موقع پر قریش کے حالات معلوم کر نے کے لیے بعض صحابہؓ کو مامور کیا، ان حضرات نے معلومات اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک غلام کو گرفتار کرلیا اور اس کی پٹا ئی بھی کرتے رہے۔

آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو غلام کی پٹائی پر کسی ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا کہ غلام صحیح کہتا ہے، اس کو ابوسفیان کا علم نہیں۔ (ابوداؤد حدیث نمبر 2332)

لیکن یاد رہے کہ کوئی بات اقرار کرانے یا کسی معلومات کے حصول کے لیے صرف معمولی ضرب ہی لگائی جا سکتی ہے، غیرانسانی مار، جیسے ضربِ شدید، تشدد کرنا، کرنٹ لگانا وغیرہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ ایسے قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ طویل عرصے تک کے لیے قیدخانے میں ڈالا جا سکتا ہے یا مصلحت دیکھی جائے اور شروفساد زیادہ ہوتو قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ باغیوں کے قتل کی اجازت ہے۔

قیدیوں کے بنیادی حقوق

اسلام انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا پابند کرتا ہے اور کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو حقوق انسانی اور بنیادی آزادی کو متاثر کرتا ہو، جیسے انسان کے زندہ رہنے کے لیے مناسب غذا، صاف پانی کی ضرورت ہے، قیدیوں کو اس سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ اسی طرح علاج ومعالجہ، حفظانِ صحت کے لیے ورزش وتفریح، بیوی سے جنسی تعلق وغیرہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی انہیں مکمل اجازت ہو گی کہ یہ چیزیں انسانی حقوق میں داخل ہیں۔

مذہبی امور میں بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، جس مذہب کو وہ مانتا ہے اس کی یا اس مذہب کے پیشواؤں اور کتابوں کی توہین نہیں کی جائے گی اور نہ دوسرے مذہب کے قبول کرنے پر انہیں مجبور کیا جائے گا۔

مذہبی کتابوں کے مطالعے کی اجازت، مذہبی تعلیمات کے مطابق غذا فراہم کرنا، دوسرے قیدیوں کے درمیان دعوتِ دین یہ سب مذہبی امور ہیں جو انسان کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی میں شامل ہیں۔ کسی جرم کے سبب ان کے یہ حقوق ختم نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں مشرک سے اور ذمی ومستامن سے ان کے عقائد ومذہب سے تعرض کرنے سے رسولِ اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے، جب کہ شرک بہت بڑا جرم ہے، اس کے باوجود آپﷺ نے ان کے انسانی اور بنیادی حقوق سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔

بنیادی حقوق میں اخبار ات پڑھنا، ریڈیو سننا، فون پر احباب واقارب سے گفتگو کرنا، دوسرے قیدیوں سے ملاقات، تعلیم اور ہنر سیکھنا بھی داخل ہیں۔ ان حقوق سے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا، البتہ فون پر بات چیت میں اگر اندیشہ ہو کہ اس کے ذریعے وہ سازش کرسکتا ہے تو اسے روک دیا جائے گا، ورنہ عام حالات میں اس کی اجازت ہو گی۔

قیدیوں کو قیدخانے سے فرار ہونے کے خوف سے نکلنے کی اجازت تو نہ ہوگی، البتہ فون پر بات چیت یا رشتہ داروں سے ملاقات سے نہیں روکا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ اخلاقی امور کی طرف بہ طور خاص توجہ دے، مثلاً مردوں اور عورتوں کو الگ الگ قیدخانے میں رکھیں؛ تاکہ دونوں کے باہم اختلاط کے سبب مسائل پیدا نہ ہوں، اسی طرح بالغ اور نابالغ بچوں کے قیدخانے بھی الگ کیے جائیں؛ تاکہ جنسی استحصال وہراسانی کی شکایت کا موقع نہ ہو۔ یہ تمام امور یعنی مذہبی امور، اخلاقی امور، عام سماجی حقوق جسمانی ضروریات وغیرہ انسانی حقوق میں شامل ہیں، جن کی فراہمی کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے؛ بلکہ مختلف نوعیتوں سے ان کی تاکید کی گئی ہے۔

چوںکہ انسان کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھنا ہی ایک سخت سزا ہے، قید فی نفسہ بہت سے حقوق سے بے انتہا محرومی کا نام ہے؛ اس لیے شریعت نے مخصوص حالات ہی میں قیدوبند کی سزا کی اجازت دی ہے۔ جب یہ سزا دے دی گئی تو قید یوں کے لیے یہی سزا کافی ہے۔ اب مزید حقوقِ انسانی یا بنیادی آزادی سے محروم رکھنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعاً جائز ہے۔ لہٰذا ارباب اقتدار کو چاہیے کہ وہ جیلوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنائیں اور قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھیں۔

The post قیدیوں کے حقوق ومراعات اور اسلامی نقطۂ نظر appeared first on ایکسپریس اردو.

بچپن کا کرسمس

$
0
0

کرسمس کا تہوار ایک مکمل سیزن ہوتا ہے جس کی تیاری کا آغاز دسمبر کے شروع سے ہی ہوجاتا ہے۔ اس سال کرسمس کے موقع پر اپنے مضمون کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا کہ کس موضوع پر لکھوں۔ یوں تو کرسمس کے بے شمار پہلو ہیں جن پر مختلف انداز اور مختلف طریقوں سے لکھا جاتا ہے۔ کرسمس کے الٰہیاتی، سماجی، معاشی اور خاندانی پہلو نمایاں ہیں، لیکن ان سب میں ایک دل کش پہلو یہ بھی ہے کہ اس تہوار کی خوب صورت تقریبات کا محور بچے ہوتے ہیں، جن کے لیے کرسمس یا کوئی بھی تہوار سب سے زیادہ خوشی کا سبب ہوتا ہے۔

آج جب میں اپنی زندگی کا احاطہ کرتا ہوں تو اس بات کا شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری زندگی بلکہ ہم سب کی زندگی کا سب سے اہم اور خوب صورت وقت بچپن کی عیدیں اور تہوار ہوتے ہیں۔ اب ہر سال ویسی خوشی اور جذبے کی شدت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن احساس ہوتا ہے کہ اب کرسمس پر وہ خوشی اور شادمانی نہیں ہوتی جو بچپن کے وقت ہوتی تھی۔ اس لیے آج میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کی تحریر بچوں نقطہ نظر سے لکھوں گا۔

اپنے بچپن کے کرسمس کو یاد کروں تو یہ خوب صورت وقت ذہن میں بے شمار دل کش یادوں کو تروتازہ کردیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کرسمس پر سب سے زیادہ گاؤں میں خوشی شہر سے کرسمس کارڈ ملنے کی ہوتی تھی۔

نئے کپڑے خریدنا تو ایک خوب صورت منظر ہوتا تھا اور کرسمس کے دن عیدی ملنے پر جشن کا سماں ہوتا تھا۔ ان سب سے بڑھ کر جو بات میرے لیے سب سے اہم تھی وہ یہ ہے کہ خاندان کے تمام افراد مل کر اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔

بچپن کے کرسمس کی کیا ہی باتیں اور کیا یادیں ہیں جو آج بھی ذہن میں کسی دل چسپ فلم کی طرح چل رہی ہوتی ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ عمر، تجربات اور زندگی کے مشاہدات وسیع ہوئے تو اندازہ ہوا کہ کرسمس کا مطلب اپنی خوشیاں حاصل کرنا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر دوسروں کو خوشیاں دینا ہی اصل کرسمس ہے۔

آج کرسمس کے اس پیغام اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہمیں بہت زیادہ علم اور معلومات کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ہمارے اندر ایک انسانی دل اور نیکی کرنے والی روح موجود ہونی چاہیے۔ درحقیقت کرسمس لاچاروں، بے سہاروں اور بے آوازوں کو احساس، اہمیت اور توجہ دینے کا نام ہے۔ کرسمس ایسے لوگوں کو زندگی کی جانب واپس لانے کا ذریعہ ہے جو اپنی اہمیت سے ناواقف ہیں، انہیں زندگی کی شاہ راہ پر واپس گام زن کرنے کا نام کرسمس ہے۔ یہی اس کی حقیقی خوشی اور پیغام ہے۔

کرسمس خوشیاں اور چیزیں جمع کرنے کا نہیں بلکہ بانٹنے کا دن ہے۔ یہ ظاہری نمود و نمائش سے بڑھ کر دل، سوچ اور خیالات کو بدلنے بلکہ یوں کہیں کہ یہ نئے کپڑے اور نئی چیزوں لینے کا نہیں بلکہ نئی زندگی، نئی سوچ کو اپنانے اور خیالات کو بدلنے کا وقت ہے۔

کبھی کبھی میں اُن والدین کے بارے میں سوچتا ہوں، خاص طور پر اس باپ کے متعلق جو کرسمس پر اپنے بچوں کو نئے کپڑے نہیں دلواتے سکتا، وہ کیسے اپنے بچوں کا سامنا کرتا ہوگا؟ کیسے اپنے بچوں کو کرسمس مبارک کہہ کر ان کے چہروں پر چھائی اداسی دیکھ کر ان کی آنکھوں میں جھانکتا ہوگا؟ کیوںکہ کرسمس بچوں سے ہے اور بچے ہر خاندان اور محفل کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی کے بغیر کوئی بھی تہوار خوشی سے منایا نہیں جاسکتا۔

کرسمس کے موقع پر سادگی، انسانی محبت، امن، بھائی چارے اور دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا درس دینے والے، اکثر خود کرسمس پارٹی، ڈنر، گفٹ اور کیک پر بے شمار رقم تو خرچ کردیتے ہیں لیکن ان غریبوں کو سادگی کا پیغام دیتے ہیں جو سارا سال اس دن کا انتظار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ چلو اسی بہانے نئے کپڑے اور کچھ نئی خوشیاں خرید لیں گے!

کبھی ان غریبوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ سادگی سے کرسمس مناکر کرسمس کے حقیقی معنی کو جاننے کی کوشش کی جائے، تو سمجھ آجائے کہ محض مذہبی رنگ اوڑھ کر، روایتیں نبھاکر اور تقریبات منعقد کرنے سے نہیں بلکہ انسانوں کے اندر نئی زندگی، خوشی، قبولیت اور دوسروں کو اپنائیت کا احساس دلاکر ہی کرسمس منایا جا سکتا ہے، کیوںکہ کرسمس خدا کی محبت کا انمول تحفہ ہے۔ یہ امن و محبت کا تہوار ہے، جو الہٰی محبت کے انوکھے اظہار کا ذریعہ ہے۔

یہ بڑا دن درحقیقت انسانیت کے لیے بڑا دن ہے جو انسانی وقار اور عظمت کی تکمیل کے لیے انسانوں کو اکٹھا یعنی یکجا کرتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں کرسمس صرف کھانے پینے، کپڑے خریدنے اور گھومنے پھرنے تک محدود ہے۔ اس کے حقیقی معنی شاید ہم کہیں پس پردہ ڈال چکے ہیں۔ کرسمس محض ایک کمرشل اور روایتی تہوار نہیں بلکہ زندگی بھر جاری رہنے والا سلسلہ ہے۔ کرسمس کی آمد ہر انسان کے لیے توجہ کا مرکز ہے بلکہ اسی طرح یسوع مسیح کی پیدائش ہر انسان کے لیے اُمید کی آمد ہے۔

ہم نے اکثر امراء کا کرسمس دیکھا ہے، دُنیا والوں کا کرسمس دیکھا ہے، دُنیا بھر کے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور ویب سیریز کی توجہ امیروں کے گھروں میں سجے کرسمس ٹری، ڈرائی فروٹ اور کرسمس کی کیک کی رونق پر رہتی ہے، مارکیٹ اور بازاروں میں کرسمس کے اسٹال دکھائے جاتے ہیں، لیکن سردی کے موسم میں غریبوں، لاچاروں اور ان کم زوروں کے گھروں کا ماحول نہیں دکھایا جاتا جو کرسمس کی تیاری تو خاک کریں گے، بلکہ اپنی سردی کی تیاری نہیں کر سکتے، جو اپنی سماجی اور سب سے بڑھ کر معاشی ناانصافیوں کی وجہ سے کرسمس کے موقع پر اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتے۔ چناں چہ بے شمار بچے دوسرے بچوں کو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔

درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو اس موقع پر ہماری توجہ اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔ میں اسے یوں کہتا ہوں کہ کرسمس گفٹ دینے کا نہیں بلکہ اُمید اور حوصلہ دینے کا سیزن ہے، کرسمس جمع کرنے کانہیں، بلکہ دینے کا تہوار ہے،

یہ محض دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ خلوص اور بے لوث جذبے سے دینے والوں کا تہوار ہے۔ یہ تبدیلی کا تہوار ہے۔ انسانی رویوں کی تبدیلی کا تہوار، بلکہ زندگی کو زندگی دینے کا موقع ہے۔ یہ انسان کو انسانیت دینے اور انسانیت کو عظمت دینے کا نام ہے۔ خدا کا انسان کو محبت کا عظیم تحفہ دینے کے بعد ذرا سوچیں انسانی تحفے کی کیا اہمیت رہتی ہے، پھر بھی جب ہم ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اپنی نعمتوں میں سے دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو ہم اس الہٰی محبت کا اظہار اپنے جیسے انسانوں سے کرتے اور کرسمس کے پیغام کی تکمیل کرتے ہیں۔

کرسمس، جہاں نااُمیدی ہو وہاں اُمید دینے، جہاں مایوسی ہو، وہاں زندگی دینے اور جہاں انسان ہوں، وہاں خوشی دینے کا نام ہے۔ کرسمس کا مقصد ہماری زندگیوں کو بامقصد بنانا ہے۔ کرسمس زندگی کی خوشی ہے، یہ قیمتی اور بابرکت زندگی کے لیے تحفہ ہے۔

کرسمس ہمیں دعوت دیتا ہے کہ خود سے سوال کریں کہ میں نے کیا کھویا ہے؟ کیا میں اپنی انا، حسد، غصے، لالچ اور برائی کو کھونے کے لیے تیار ہوں؟ اور یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کیا پایا ہے، کیا میں نے زندگی کا مقصد، امید، محبت اور دوسروں سے بھلائی کرنے کا جذبہ پایا ہے؟

یہ وہ تمام سوال ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنے ہیں اور بچوں کی مانند اپنے دل اور سوچوں کو ہر قسم کی برائی سے صاف کرنا ہے۔ بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خوش ہونا، نعمتوں پر شکرگزار ہونا اور دوسروں کی مدد کر کے ایک خوش گوار ماحول اور معاشرہ قائم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کرسمس کا یہ موقع ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم اس پُرمسرت موقع پر دوسروں کے ساتھ خوشیاں اور آسانیاں بانٹتے رہیں۔

میری طرف سے آپ سب کو کرسمس کی خوشیاں مبارک ہوں۔

The post بچپن کا کرسمس appeared first on ایکسپریس اردو.

سخن آرائیاں

$
0
0

خواجہ حیدر علی آتشؔ نے مشاعرے میں ایک مطلع پڑھا:

؎دختر َ رز میری مونس میری ہمدم ہے

میں ’جہاں گیر، ہوں وہ ’نور جہاں بیگم‘ ہے

معترض نے کہا،’’خواجہ صاحب! بیگم ترکی زبان کا لفظ ہے، اور بیگَم نہیں بیگُم ہے‘‘۔ آتش ؔنے جواب دیا،’’صاحب! جب ہم ترکی جائیں گے تو بیگُم کہیں گے مگر یہاں بیگَم ہے۔‘‘

مرزا غالبؔ کی بیگم نے ایک روز ان کی توجہ کارعاقبت کی جانب مبذول کروائی تو غالبؔ بولے، ’’آپ دیکھ لیجیے گا ہمارا حشر آپ سے اچھا ہی ہو گا۔‘‘ بیگم بولیں،’’وہ کیسے؟‘‘ مرزا ؔنے جواب دیا ’’بھئی آپ تو ہوں گی ان نیلے تہمبند والوں کے ساتھ جن کے پلو میں مسواک بندھی ہوگی، ہاتھوں میں ایک ٹونٹی دار بدھنی ہوگی، سر منڈوا رکھے ہوں گے،لاغر و لاچار۔۔جب کہ ہماری سنگت میں فرعون و شداد و نمرود جیسے بڑے بڑے غیرفانی شہرت یافتہ بادشاہ ہوں گے، ہمارے دائیں بائیں اطراف میں چار چار فرشتے ہمارے جلو میں چل رہے ہوں گے۔‘‘

سید انور حسین آرزو ؔجانشینِ جلالِ ؔلکھنوی ایک دفعہ لاہور سیاحت کی غرض سے تشریف لائے۔ ملکہ نور جہاں کے مزار سے گزر ہوا تو اس کی کسمپرسی اور شکستہ حالی سے بہت متاثر ہوئے۔ مقبرے کی دیوار پر یہ شعر کوئلے سے لکھ دیا:

؎قتال جہاں معشوق جو تھے، سُونے ہیں پڑے مرقد ان کے

یا مرنے والے لاکھوں تھے، یا رونے والا کوئی نہیں

حکومت حیدر آباد کے ریونیو بورڈ کے تین ارکان میں، مولوی دلیل الدین پُرخورؔ، مولوی اکرام اللہ مے نوش اور ڈپٹی نذیر احمد کفایت شعار ؔتھے۔ سر سالار جنگ نے ایک دفعہ بورڈ ممبران کی کیفیت پوچھی، تو ڈپٹی نذیر احمد نے برجستہ جواب دیا: ہم ارکان ِ ثلاثہ ’’کلو ا وَ اَشربو ولا تسرِفوُ‘‘ کے مصداق ہیں۔

خواجہ وزیرؔ ، شیخ ناسخؔ کے بہت ہی عزیز شاگرد تھے۔ ناسخؔ نے وزیر کو ذیل کے شعر پر ایک عمدہ تسبیح عقیق البحر کی عنایت فرمائی:

؎وہ زلف لیتی ہے تاب و دل وتواں اپنا

اندھیری رات میں لٹتا ہے کارواں اپنا

ایک شاعر فارسی کا ایک شعر سنا رہا تھا ۔کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ اس نے بڑے دھڑلے سے جواب دیا،’’یہ شعر میرا ہے۔‘‘ سوال کرنے والے نے بھی پورے اعتماد سے کہا کہ یہ آپ کا شعر نہیں ہے۔ شاعر نے بڑے وثوق سے سے اپنے اصرار کو دہرایا،’’جانبَ عالی! یہ شعر میرا ہے۔‘‘ حزبِ اختلاف نے شاعر کی اطلاع کے لیے عرض کیا،’’یہ شعر خواجہ حافظ ؔشیرازی کا ہے اور آپ نے حافظ ؔکا شعر چرا لیا ہے۔‘‘ شاعر نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیںہے ، حقیقت یہ ہے کہ حافظؔ نے میرا شعر چرا لیا ہے۔ معترض نے جواباً عرض کیا،’’آپ تو حافظ ؔکے زمانے میں تھے ہی نہیں۔‘‘ شاعر نے زوردار لہجے میں ارشاد کیا،’’حضور! اسی لیے تو حافظ نے چرا لیا تھا، آپ خود ہی سوچیے میں اس وقت موجود ہوتا تو حافظ کو چرانے دیتا؟‘‘

علامہ اقبال ؔنے اسرار خودی شائع کی تو اکبر الہ آبادی کو ایک نسخہ ارسال کیا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے کتاب پڑھنے کے بعد ستائشی خط علامہ کو تحریر کیا اور خط کے آخر میں درج ذیل شعر تحریر کیا:

؎عشق میں کیوں بے خودی مقصود ہے؟

حسن بے حد ہے خودی محدود ہے

صوفی غلام مصطفی تبسم ؔکی امریکن بہو کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو شوکت ؔتھانوی مبارک باد دینے صوفی صاحب سے ملنے گئے۔ صوفی صاحب نے بچے کے نام سے متعلق تھانوی؎ؔ صاحب سے پوچھا تو شوکت صاحب نے کہا ’’اسمٰعیل‘‘، صوفی صاحب نے کہا ’’وہ کیوں؟‘‘، شوکت ؔصاحب نے جواب دیا،’’آپ کی امریکن بہو کو یہ نام لینے میں آسانی ہوگی وہ اسے ’’smile‘‘ کہیں گی جس کا ترجمہ’’ تبسم‘‘ ہوگا جو آپ کا تخلص ہے۔ ‘‘

روزنامہ انقلاب اور روزنامہ زمیندار کے درمیان جب قلمی معرکہ آرائی اپنے عروج پر پہنچی تور روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان کو پتا چلا کہ انقلاب کے پسِ پردہ غلام رسول مہرؔ اور عبدالمجید سالک کے علاوہ نیازمندان لاہور کے تمام اراکین بھی شامل ہیں، جبکہ گاہے گاہے چراغ حسن حسرتؔ اور اخترؔشیرانی بھی ہاتھ بٹاتے ہیں تو ظفر علی خان نے اپنے اخبار میں لکھا:

؎زمیندار ایک، آپ اتنے!! مگر اوج ِصحافت پر

یہ اک تکل لڑے گا آپ کی ساری پتنگوں سے

ایک شاعر اپنی عمر کے آخری ایام میں صاحب فراش تھے۔ ایک دن ان کی اہلیہ صبح کی نماز کے بعد ان کے اردگرد چکر لگاکر زیرِلب کچھ پڑھتے ہوئے پھونک رہی تھیں۔ شاعر نے اہلیہ کی یہ حالت دیکھی تو برجستہ کہا:

’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘

ڈاکٹر وزیرؔ آغا کی غزلوں کا مجموعہ ’’غزلیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو ایک معروف شاعرہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا،’’ڈاکٹر صاحب نے اپنی غزلوں کے مجموعے کا نام ’غزلیں ‘اس لیے رکھا ہے کہ لوگ انہیں کچھ اور نہ سمجھ لیں۔‘‘

علم و ادب کے گہوارے دلی میں مشاعرہ تھا۔ رات بارہ بجے جب محفل مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچی، تو ایک شاعر آئے اور غزل سے پہلے ایک قطعہ پڑھا جس کا چوتھا مصرعہ تھا:

؎نگاہِ اہلِ بصیرت میں ’’توتیا‘‘ ہوں میں

حاضرین میں سے کسی دل جلے نے فقرہ کسا ’’حضور! تتلا کے نہ پڑھیے‘‘ فقرہ ادا ہونے کی دیر تھی کہ محفل کشت زعفران بن گئی۔

ایک مشاعرے میں ایک شاعر دھواں دھار طریقے سے اپنا کلام سنا رہے تھے۔ قافیہ اور ردیف کچھ یوں تھا گلستان ِ غزل، ارمغان ِ غزل، امتحانِ غزل اور کاروانِ غزل وغیرہ۔ اس سلسلے میں انہوں نے کوئی قافیہ نہیں چھوڑا تھا۔ کافی وقت گزر چکا اور غزل ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی تھی۔ اسٹیج پر ضمیر ؔجعفری صاحب بھی موجود تھے۔ غزل کی طوالت سے تنگ آکر بالآخر جعفری صاحب باآوزِ بلند بولے، ’’حضور! کچھ ’’پسماندگانِ غزل کا‘‘ بھی خیال کیجیے۔‘‘

پنجابی زبان کے معروف شاعر عبیرؔ ابوذری ایک روز ڈاکٹر کے پاس گئے اور اسے بتایا میری دائیں ٹانگ میں شدید درد رہتا ہے، اس کا کچھ کیجیے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ کہنے لگے نوے سال۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے،’’اب آپ ہی بتائیں کہ نوے سال کی ٹانگ میں درد نہ ہو تو اور کیا ہو؟‘‘ عبیرؔ صاحب نے فوراً اپنی بائیں ٹانگ ڈاکٹر صاحب کے آگے رکھ دی اور کہنے لگے:’’ڈاکٹر جی! یہ ٹانگ بھی تو نوے سال کی ہے اس میں درد کیوں نہیں ہوتا؟‘‘

لارڈ ارون ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے۔ ان کا دایاں ہاتھ جنگ میں کٹ چکا تھا۔ اس تقرری پر مختلف اخبارات نے مخالفانہ انداز میں لکھا۔ عبدالمجید سالک ؔنے اپنے کالم افکاروحوادث میں اس تقرری پر اس طرح طنز کیا،’’ہندوستان پر حکومت کرنا لارڈ ارون کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘ اسی طرح جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو وہ ایک آنکھ سے محروم تھے۔ چناںچہ ان کے بارے مٰیں سالکؔ صاحب نے تحریر کیا،’’لارڈ ویول کے مقرر ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

دلی میں حفیظ ؔجالندھری کی سرِراہے پطرس ؔبخاری سے ملاقات ہوگئی۔ حفیظ صاحب ان دنوں اعصابی دباؤ کا شکار ہونے کے باعث دوران گفتگو بار بار اپنی انگلیوں کو موڑے توڑے جا رہے تھے۔ ان کی بیماری کا علم ہوا تو پطرس اؔنہیں لے کر حکیم اجمل کے ہاں چلے آئے۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھی اور دوا دیتے وقت کہا، ’’دورانِِ استعمالِ دوا کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دماغ پر زور پڑے۔‘‘حفیظ صاحب نے جواباً عرض کیا،’’یہ کیسے ممکن ہے؟ میں تو ان دنوں شاہنامۂ اسلام لکھ رہا ہوں۔‘‘ حکیم اجمل نے جواب دیا:’’اسے جاری رکھیں۔۔۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

ایک پروفیسر صاحب اپنی کلاس میں اخترؔ شیرانی کی ایک نظم پڑھا رہے تھے جس میں شاعر نے کہا تھا کہ اس کی محبوبہ کی بھیگی ہوئی زلفوں سے ٹپکنے والے پانی کی ایک بوند میں اتنا نشہ ہے کہ اگر کوئی اسے پی لے تو زندگی بھر مدہوش رہے۔ ایک شاگر د نے بہ آواز بلند کہا’’سر! اگر پانی کی کی اس بوند کے ساتھ جوئیں بھی آگئیں تو؟‘‘ پروفیسر صاحب نے کہا،’’بات آپ کی محبوبہ کی نہیں ۔۔اختر شیرانی کی محبوبہ کی ہے۔‘‘

ایک دن مجازلکھنوی رسالہ ماحول کے دفتر میں رسالے کے مدیر ظفر ادیب سے ملنے گئے۔ ظفر ادیب شام کے گہرے دھندلکے میں اپنے مختصر سے دفتر کے ایک کونے میں دبکے ہوئے تنہا شاید کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ مجاز نے ان سے آنکھیں چار ہوتے ہی برجستہ کہا:

؎ایسے ماحول کی پُرہول فضاوں میں ظفرؔ

دیکھیے کیسے ’’ابوالہول‘‘ بنا بیٹھا ہے

لکھنؤ کی معروف شاعرہ شاہ جہاں بانو یادؔ نے ایک مشاعرے میں اپنی غزل کا مطلع پڑھا:

؎اگر یہ سچ ہے اجالا دکھائی دیتا ہے!!

تو کیوں چمن میں اندھیرا دکھائی دیتا ہے؟

مجمعے کی پچھلی صفوں سے آواز آئی ’’شاید وولٹیج کم ہے‘‘ ہنسی کے فوارے چھوٹے۔ یاؔدصاحبہ نے اس ہنسی کو نظرانداز کرتے ہوئے غزل کا دوسرا شعر پڑھاؒ:

؎الہی خیر ہو!! اس جذبہِ محبت کی

ابھی سے خواب میں صحرا دکھائی دیتا ہے

اس پر پھر آواز آئی،’’شاید س سے شادی کا سہرا ہے۔‘‘ محفل پھر کشتِ زعفران بن گئی۔

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ سنگھا تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے شوکتؔ تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں؟ اس پر شوکت ؔصاحب بے ساختہ بولے،’’آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ لیجیے۔‘‘

عبدالقدیر بدایونی نے ایک مرتبہ معززینِ دکن کی دعوت کی اور جوش ؔکو بھی مدعو کیا۔ کھانے کے بعد شام کو جب مہمانوں کے لیے چائے لائی گئی تو آدابِ میزبانی کے پیشِ نظر علامہ بدایونی نے جوش ؔصاحب کو خود چائے بنا کے پیش کی۔ جوش ؔصاحب برجستہ بولے،’’حضرت ! یہ تو شیر کو گھاس کھانے کی دعوت دینا ہے۔‘‘

اردو ڈرامے کے شیکسپیئر کہلانے والے آغاحشرؔ کاشمیری اکثر اوقات دوسروں کو شراب نوشی سے منع کیا کرتے تھے۔ ایک روز خود پیے ہوئے جھومتے چلے آرہے تھے۔ کچھ لوگ قریب آ کر بولے،’’ہم نے آپ کے پندونصائح کی بدولت شراب چھوڑی اور اب آپ خود پئے ہوئے ہیں!‘‘ اس پر آغا ؔصاحب ہنس کر بولے،’’بھئی ایک رائیٹر نہ پیے تو اس کو شراب کی اچھائی اور برائی کا پتا کس طرح چلے؟‘‘

پاک و ہند سطح کے ایک مشاعرے میں ایک سامع مسلسل گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے نیم دراز حالت میں لیٹا مشاعرہ سنتا رہا۔ صبح چھے بجے جب خمارؔ بارہ بنکوی اپنا کلام سنانے آئے تو نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے مزاحیہ شاعر ضیاءؔ الحق قاسمی نے خمار صاحب سے کہا،’’آپ ایسی غزل سنائیں کہ یہ مسلسل لیٹا ہوا شخص اٹھ کر بیٹھ جائے۔ اس پر خماؔر صاحب بولے،’’آپ غزل کی بات کر رہے ہیں، میں تو اس کے لیے سورۂ یٰسین پڑھنے والا ہوں۔‘‘

الہ آباد میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ فراقؔ گورکھپوری پسینے میں شرابور سول لائٹس کے ایک ’’بار‘‘ میں گئے اور ڈرائی جن (dry jin) نامی شراب کی بوتل طلب کی۔ قیمت ادا کرنے کے لیے جب انہوں نے شیروانی کے بٹن کھول کر کرتے کی جیب سے روپے نکالے تو نوٹ پسینے سے کچھ نم ہوچکے تھے۔ کاؤنٹر کلرک نے کہا،’’صاحب! یہ نوٹ تو بالکل بھیگے ہوئے ہیں۔‘‘ فراق صاحب نے فوراً شستہ انگریزی میں جواب دیا:

’’oh yes  i am giving you wet money for dry jin‘‘

راجاصاحب محمود آباد نے مجازؔ لکھنوی کا ماہانہ پانچ روپے وظیفہ مقرر کیا اور ساتھ یہ شرط لاگو کی کہ وہ شراب نوشی نہیں کریں گے، جس پر مجاز ؔنے وظیفہ وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا،’’اگر ہمیں شراب نہیں پینی تو پھر ان پیسوں کا کریں گے کیا؟‘‘

کنہیا لال کپور نے کسی شخص سے خفا ہوتے ہوئے کہا،’’میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا؟‘‘جواباً اس شخص نے بھی برہمی میں بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا،’’میں بھی آپ کو شریف آدمی ہی سمجھا تھا۔‘‘ اس پر کپور صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا،’’تو آپ ٹھیک سمجھے تھے، غلط فہمی مجھی کو ہوئی تھی۔‘‘

ایک دن آغاحشرؔ اور شفاء الملک حکیم فقیر محمدؔ چشتی آم کھا رہے تھے۔ آغا صاحب آم کھاتے جاتے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے،’’بھئی حکیم صاحب! بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنؤ کا سفیدہ اس کے آگے کیا مال ہے؟‘‘ حکیم صاحب نے کہا،’’جی ہاں! لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پر لٹو ہیں۔‘‘ اس پر آغاؔصاحب پھڑک گئے،کیوںکہ آغا ؔمرحوم ایک تو بنارس کے رہنے والے تھے اور اوپر سے ایک ٹانگ سے لنگڑے بھی تھے۔ اس لیے ’’بنارس کے لنگڑے‘‘ کی پھبتی ان پر ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ۔

The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4713 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>