Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4834 articles
Browse latest View live

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ، 21 مارچ تا20اپریل
اس ہفتے کے ابتدائی ایام میں کیریئر کے حوالے سے چیزیں متحرک ہورہی ہیں۔ کچھ مشکلات آپ کو حواس باختہ کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ کئی الجھنوں سے سکون متاثر ہوسکتا ہے، لیکن آپ کا سیارہ اپنے شرف سے گزر رہا ہے۔ آپ کی توانائی کا گراف بلند رہے گا اور آپ ان حالات پر قابو پالیں گے۔ اس ہفتے کے درمیان یعنی بدھ اور جمعرات کو مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی
آپ کا سیارہ خوف و خدشات سے گزر رہا ہے، لیکن مشتری کا طالع سے گزرنا بتاتا ہے کہ آپ بظاہر ایک مشکل وقت میں ہونے کے باوجود کچھ کام یابیاں سمیٹ ہی لیں گے۔ عطارد اور مریخ بیرون ملک سفر اور اعلٰی تعلیم سے متعلقہ امور میں مثبت پیش رفت ظاہر کررہے ہیں۔ ہفتے کو کسی بزرگ سے ملاقات متوقع ہے۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
آپ سیارہ ایک سرنگ میں داخل ہوچکا ہے، جہاں ممکن ہے کسی کان کی دریافت ہوجائے، لیکن ایسے وقت میں محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ اعصابی نظام متاثر ہونے اور چہرے پر کوئی خراش آنے کا اندیشہ ہے۔ سفر میں احتیاط لازم رکھیں۔ اگر آپ کسی تحقیقی کام سے وابستہ ہیں تو امید ہے آپ کے کام کو سراہا اور دور تک پہچانا جائے گا۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی
آپ کے ساتویں خانے میں سیارگان کا اجتماع ممکنہ طور پر آپ کی کسی محفل میں شرکت کا پتا دیتا ہے۔ کسی اجنبی اور کسی آشنا سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ ماتحت کام کرنے والے سے محتاط رہیں کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست
آپ کی تمام توجہ اپنے کام پر رہنے والی ہے جو مسائل ایک عرصے سے رکاوٹ کا سبب بنے ہوئے تھے اب وہ دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ایسے وقت میں بزرگوں سے اختلافِ رائے کا کوئی پہلو نکلے تو خود پر قابو رکھیں، ان کی صحت کا خصوصی خیال رکھیں۔ نئی ملازمت کی پیشکش ہوسکتی یا نئے کام کی صورت حال بن سکتی ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر
مالی حوالے سے یہ ہفتہ گذشتہ ہفتے کی نسبت بہتر ہے، لیکن مالی امور ابھی سخت رہ سکتے ہیں۔ بیرون ملک جانے کے حوالے سے آسانیاں متوقع ہیں۔ آپ کا طالع کا مالک محبت کے مقام پر ہے۔ یہاں اگلے ہفتے زہرہ بھی آنے والا ہے۔ نیا رشتہ بن سکتا ہے۔ منگنی شادی کے امکانات ہیں۔ یہ اچھا وقت ہوسکتا ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کا سیارہ تیسرے گھر میں ہے۔ متوقع اور غیرمتوقع فیصلے اور چھوٹے سفر درپیش ہوسکتے ہیں۔ مکان یا تو کرائے پر مل سکتا ہے اور اگر آپ اپنا مکان کرائے پر دینا چاہتے ہیں تو کرایہ دار مل جائے گا۔ نیا پلاٹ بھی آسان ادائی پر مل سکتا ہے۔ ایسے وقت میں سرخ یا زرد رنگ کی سواری کا حصول ممکن ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر
آپ کے خانۂ مال میں زہرہ موجود ہے۔ پرانی پھنسی ہوئی رقم مل سکتی ہے۔ مریخ آپ کے تیسرے خانے میں موجود ہے۔ یہاں یہ بیرون ملک سفر کے حوالے سے آسانیاں لاسکتا ہے۔ جدی ایک سرد خشک برج ہے، اس لیے کام کچھ رک رک کے ہوںگے، لیکن ہوجائیں گے۔ 17 جنوری کو اولاد اور محبوب سے خوشی مل سکتی ہے۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر
اس ہفتے آپ کو غیرمتوقع طور پر ایک آمدن ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ رقم تحفہ، انعام یا ایسا ہی کوئی اور سلسلہ ہوسکتا ہے۔ آپ کے خانۂ مال میں عطارد، مریخ، شمس اور پلوٹو کی موجودگی کے باعث خفیہ ذرائع سے آمدن ہونے لیکن وہیں خرچ ہونے کے بھی اشارے ہیں۔ آپ کی صحت اور کام اس ہفتے تیزی سے بہتر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری
گذشتہ دو ہفتوں سے جاری الٹی سیدھی سوچیں اس ہفتے ذہن سے نکل جائیں گی۔ آپ پلاٹ، زمین، مکان یا سواری کے لیے کوشاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اس میں آپ کو کام یابی بھی مل رہی ہے۔ کسی سے اس سلسلے میں معاہدہ بھی ہوسکتا ہے۔ کسی اجنبی سے اچھی ملاقات بھی متوقع ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری
چھوٹے بہن بھائی یا قریبی عزیزوں میں سے کسی کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ اسپتال جانا پڑ سکتا ہے۔ والدہ کی صحت جو کچھ دنوں سے ہلکی ہلکی ناساز تھی ان کے سلسلے میں اس ہفتے کے آخر میں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑسکتا ہے۔ اس ہفتے کسی قسم کا کوئی بڑا فیصلہ نہ کریں۔ کچھ ضروری نکات آپ کی نظروں سے اوجھل رہنے کی وجہ سے غلطی کا اندیشہ ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ
پرانے دوست اپنے تعلق کی تجدید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اچھی ملاقاتیں اور رابطے ممکن ہیں۔ اس ہفتے ایک کام یابی لانے والا سفر بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کی سنجیدگی پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ گذشتہ دو سال کی مشقت اور الجھنیں ہیں، جس طرح آپ پہلے خطرات میں کود پڑتے تھے اس طرح اب نہیں کرتے گویا آپ کے اندر دوراندیشی آچکی ہے۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.


خوابوں کی تعبیر

$
0
0

کتابیں پڑھنا
نیلما یوسف، منڈی بہائوالدین
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھائی کر رہی ہوں اور میری امی میرے کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ ہوتا ہے جس میں گوشت ہوتا ہے ۔ وہ میرے اوپر سے پھرا کر واپس کمرے سے باہر چلی جاتی ہیں اور ملازم سے باہر کسی کو دینے کو کہتی ہیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے تنگ دستی غم اور پریشانی سے نجات ملے گی ۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے قرض کی ادائیگی کی کوئی بہتر سبیل بن جائے گی ۔ اور اس کے علاوہ اگر کوئی بیمار ہے گھر میں تو اس کو شفاء ملے گی ۔ آپ سب نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

کھیتوں کا جائزہ لینا
نور احمد ، گجرات
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کھیتوں کا جائزہ لے رہا ہوں اور اپنے ہمسائیوں کی فصل دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ان کا کھیت سرسوں سے لدا پڑا ہے جبکہ اس سال اچھی کھاد استعمال کرنے کے باوجود میری فصل اتنی کم کیوں ہے اور واقعتاً میرا لگا ہوا سرسوں کافی سوکھا ہوا اور کم نمو یافتہ ہوتا ہے جس کو دیکھ کر میں بہت رنجیدہ ہوتا ہوں اور ڈیرے کی طرف چل پڑتا ہوں۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ کاروباری معاملات میں بھی کسی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ہر جمعرات حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں ۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کریں ۔

گھر کی صفائی
شہزادی ، کوئٹہ
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں کام والی سے صفائی کرا رہی ہوں۔ اپنے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے میری نظر ایک بچھو پہ پڑتی ہے جس کو دیکھ کر میں بے اختیار چیخنا شروع کر دیتی ہوں ۔ اس پر میرے بھائی کمرے میں آتے ہیں مگر وہ بچھو نظر نہیں آتا ۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ بھلا ہمارے گھر کیسے آ سکتا ہے۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ خدا نہ کرے کوئی دشمنی کر سکتا ہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس سے یقینی طور پر طبیعت میں رنج و ملال پیدا ہو گا ۔ ذہنی طور پر بھی کافی خوف رہے گا ۔ اور اس سے مراد کاروباری معاملات میں بھی کسی مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ آپ ایک تو نماز پنجگانہ کی پابندی کریں دوسرا کثرت سے استغفار کیا کریں۔

بال کٹنا
راحیلہ بیگم، راولپنڈی
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں اور کہیں جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہو رہی ہوں، ساتھ ہی دل میں یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ میں نے بہت دیر کر دی ہے۔ جب بال بنانے کے لئے میں اپنی چوٹی کھولتی ہوں تو وہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں آ جاتی ہے جس کو دیکھ کہ میں چیخنے لگ جاتی ہوں کہ کس نے میرے سارے بال کاٹ دئیے۔ اسی شور میں میری آنکھ کھل گئی اور میں نے فوراً اٹھ کر اپنے بال چیک کئے کیونکہ اتنا مضبوط تصور تھا ان کے کٹنے کا ۔

تعبیر :۔ خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی ناگہانی آفت یا پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ خاص طور پہ گھریلو معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔گھریلو معاملات کو کبھی حد سے بڑھنے نہ دیں ۔ خاص طور پر اپنے میاں کے ساتھ غیر ضروری بحث سے گریز کریں ۔ بلکہ ان کو جو بھی کھانے یا پینے کو دیں اس پہ ایک مرتبہ یا ودود اور ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر پھونک مار دیا کریں ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں ۔

درخت پرچڑھنے کا مقابلہ
نجمہ نعمان، مانسہرہ
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کالج کے ٹرپ کے ساتھ کہیں گئی ہوئی ہوں اور وہاں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کے درخت پہ چڑھنے کا مقابلہ کرتی ہوں کہ کون جلدی درخت پہ چڑھتا ہے۔ ہم تین دوستیں تیزی سے درخت پہ چڑھتی ہیں ۔ میں سب سے پہلے اوپر مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہوں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کہ خوشی پہ دلیل کرتا ہے۔ اس کا تعلق تعلیمی معاملات اور گھریلو دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

کند چھری
طارق مغل، مریدکے
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں بقر عید کے لئے جانور قربان کرنے کے لئے چھری لا کر رکھتا ہوں اور باقی کی چیزیں بھی اکٹھی کر کے قربانی کے لئے کام شروع کرتا ہوں مگر کیا دیکھتا ہوں کہ میری چھری بہت زنگ آلود ہوتی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ سبزی تک کاٹ سکے، جانور کاٹنا تو نا ممکن سی بات تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت رنجیدہ و پریشان ہوتا ہوں اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا جاتا ہوں ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ اب اس کا تعلق گھریلو، تعلیمی یا کاروباری دنیا سے بھی ہو سکتا ہے ۔ آپ چلتے پھرتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔ ممکن ہو سکے تو روزانہ حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں یا مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں ۔

ہمسائیوں کے گھر سے خوفناک آوازیں
بنت حوا، لاھور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے ہمسائیوں کے گھر ہوں۔ وہاں اچانک ہی بہت خوفناک آوازیں آنے لگتی ہیں ۔ ان کے تمام جانور اور پرندے یکدم چیخنے لگتے ہیں ۔ میری ہمسائی اور ان کے بھائی باہر کی طرف بھاگتے ہیں مگر میں خوفزدہ ہو کر وہیں دبک کر بیٹھی رہتی ہوں ۔ مگر پھر ان لوگوں کی واپسی نہیں ہوتی اور میں پریشانی میں اندر ہی بیٹھی رہتی ہوں اور چیخوں اور شور کی آوازیں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

تعبیر : یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے ۔ گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان کن ہو سکتا ہے ۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے ۔ آپ یاحی یاقیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔

خوبصورت مکان میں گھومنا
مراد نسیم، شیخوپورہ
خواب: میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی بڑا اور خوبصورت گھر ہے جس کے اندر میں گھوم رہی ہوں اور بہت زیادہ خوش ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میں ایک کمرے میں بیٹھی پھل کھا رہی ہوں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا ۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذھن میں بزرگی آئے گی ۔ گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا ۔ اللہ کے گھر کی زیارت بھی ممکن ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

جھگڑا کرنا
ساجد منظور، لاھور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں شائد کسی سے لڑ رہا ہوں ۔ وہاں اور بھی لوگ ہیں مگر جن سے میرا جھگڑا ہو رہا ہے میں ان کو نہیں جانتا ۔ وہ میرے لئے اجنبی ہیں مگر خواب میں خود کو بہت زیادہ جھگڑا کرتے دیکھا ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

ہاتھ صاف نہیں ہوتے
پروین کوثر ،لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں مسلسل کسی پاوڈر سے اپنے ہاتھ دھو رہی ہوں مگر ان سے گندگی یا داغ جو بھی ہے اتر نہیں رہا ۔ میں خوب رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھوتی ہوں مگر میرے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ۔ میں بہت پریشان ہوتی ہوں کہ اب کیسے یہ سب صاف ہو گا اور اپنے گھر والوں کے متوقع رویے سے بھی خوفزدہ ہوتی ہوں کہ والدین بہت خفا ہوں گے ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے ۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

فصل خراب ہونا
زاہد شکور، شاہ کوٹ
خواب : میں نے دیکھا کہ ہمارے کھیتوں میں کوئی ساری فصل خراب کر گیا ہے بلکہ جس سائیڈ پہ ہم نے لکڑی کے لئے درخت لگا رکھے تھے وہ بھی کسی نے سارے کاٹ دئیے ہیں اور ہم بالکل خالی جگہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے ۔ جس کی وجہ سے گھریلو کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

چیل کا حملہ
فہد منصور،لاھور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی چھت پہ ہوں اور وہاں شاید کوئی کام کر رہا ہوں ۔ اچانک ایک چیل جو کب سے ہماری ٹینکی پی بیٹھی ہوتی ہے ۔ میرے ہاتھ کی طرف اڑ کر آتی ہے اور میرے ہاتھ پہ چونچ مارتی ہے ۔ میں ایک دم سے بھاگتا ہوں ۔ نیچے آ کر دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ سے بہت خون نکل رہا ہوتا ہے اور ھتھیلی سے گوشت کا ٹکڑا ہی غائب ہوتا ہے یہ دیکھ کر میری بہن رونے لگتی ہے کہ کوئی جلدی سے ڈاکٹر کو بلا کر لے آئے۔

تعبیر: اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں بھی کوئی مسلہ پیش آ سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب استطاعت صدقہ کیا کریں ۔

اونچی آواز میں رونا
مقدس علی، لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ میں بہت زور زور سے رو رہی ہوں اور میری چیخیں سن کر لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ خود مجھے بھی اس طرح رونا اچھا نہیں لگ رہا مگر مجھے خود پہ کنٹرول نہیں ہوتا اور میں مسلسل اونچی آواز میں روتی چلی جاتی ہوں ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

گھوڑے کی سواری
ناصرہ غفور، سرگودھا
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسر کے کسی دوست کی دعوت پہ پوری فیملی کے ساتھ ان کے گاوں آئی ہوں ۔ وہاں ان کا گھوڑوں کا بہت ہی خوبصورت اصطبل بھی ہے۔ جب ہم اس کی سیر کو جاتے ہیں تو مجھے ایک بہت ہی خوبصورت گھوڑا نظر آتا ہے۔ میں اس کو پیار سے سہلاتی ہوں تو وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ انکل اس کو مجھے تحفے میں دیتے ہیں اور میں اس پہ سوار ہو کر چل پڑتی ہوں حالانکہ مجھے گھوڑا بالکل دوڑانا نہیں آتا ، مہربانی فرما کر مجھے اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ علم میں کاملیت ہو گی، رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

پہاڑی مقام کی سیر
سلیمہ خان، راولپنڈی
خواب : یہ خواب میرے چھوٹے بھائی نے دیکھا اور وہ کہتا ہے کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی پہاڑی مقام کی سیر کرنے آیا ہوا ہوں۔ وہاں بہت خوبصورت پہاڑ ہیں اور قدرتی نظاروں کی بہتات ہوتی ہے۔ ایک دن میرا ایک دوست ھم سب کو ٹریکنگ کرنے لے جاتا ہے۔ تین سے چار گھنٹوں کی چڑھائی کے بعد ہم کو ایک چھوٹا سا قدرتی جنگل دکھائی دیتا ہے جس کے بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے، وہاں کچھ ہرن پانی پی رہے ہوتے ہیں ۔ میں ان کی تصویریں اتارتا ہوں اور اپنی جیب سے چھلی نکال کے ہرن کے چھوٹے بچے کی طرف بڑھاتا ہوں جو وہ میرے ھاتھ سے ہی کھا لیتا ہے ۔ یعنی وہ سب ہرن انسانوں سے مانوس دکھائی دیتے ہیں ۔ پھر جب ہم چلنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ بچہ ہمارے پیچھے پیچھے آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ چونکہ میں نے اس کو چھلی دی تھی اس لئے وہ اور لینے کے لئے میرے پیچھے آ رہا ہے ۔ میرے پاس اور تو کچھ دینے کے لئے نہیں ہوتا ، بس میں اس کو پیار کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں ۔ مگر وہ مسلسل میرے پیچھے آتا رہتا ہے ۔ میں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ یہ اب میرا ہو گیا ہے، میں اس کو ساتھ اپنے گھر لے جاوں گا ۔ جس پہ وہ سب میرا خوب مذاق اڑاتے ہیں ۔

تعبیر : بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے جلد ہی کوئی خوشخبری ملے گی اور حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا جس سے آپ مالی طور پہ مستحکم ہوں گے ۔ چاہے کاروباری وسائل ہوں یا نوکری میں آسانی ۔آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

چاند گود میں
جلیل احمد، تلہ گنگ
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنی چھت پہ کھڑا ہوں اور آسمان کی طرف چاند کو دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے اس میں بہت کشش محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ چاند میری گود میں اتر آتا ہے اور میں اس کو بہت خوشی سے دیکھ رہا ہوں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں، کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

پروفیسر انوار احمد زئی

$
0
0

 حیدرآباد:  حیدرآباد کی سرزمین کو اس خطے میں ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے جو اسے بالخصوص مذہبی تنوع اور رواداری کے حوالے سے ایک خاص مقام عطا کرتی ہے۔ یہاں شعوروعلم کے فروغ کے لیے بھی بہترین کوشش بروئے کار لائی جاتی رہیں۔

حیدرآباد زمانۂ قدیم ہی سے علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ حیدرآباد کے عوام کی مہمان نوازی، رواداری اور علم دوستی ساری دنیا میں مشہور ہے۔

اس کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے میں نام ور شعرائ، ادیبوں، فن کاروں، علماء اور اہل کمال نے گراں بہا کارنامے انجام دیے، جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں، جن شعراء اور ادبا نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب اور تہذیب کی خدمت انجام دی ان میں پروفیسر انوار احمد زئی کا نام بھی شامل ہے۔

پروفیسر انوار احمد زئی ممتاز ماہرتعلیم، بیوروکریٹ ادیب ہونے کے ساتھ مذہبی اسکالر، شاعر محقق، نقاد، افسانہ نگار اور سفرنامہ نگار بھی تھے۔ وہ بھارت کے شہر جے پور میں 18 ستمبر1944ء کو پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد حیدرآباد سندھ ان کا مسکن ٹھہرا۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا بڑا حصہ حیدرآباد ہی میں مکمل ہوا۔

آپ نے ایک ذی علم گھرانے میں پرورش پائی۔ آپ کے گھر کا ماحول خاصا ادبی تھا۔ آپ کے ماموں شاعر تھے، نانا کو بھی علم و ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ آپ نے علامہ شبلی نعمانی کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ اور قاضی عبدالغفار کی بیشتر تحریریں دور طالب علمی ہی میں پڑھ لی تھیں۔ آپ نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے اردو، ایم اے سوشیالوجی، ایم اے انگلش کے علاوہ ایل ایل بی اور ایم ایڈ امتحانات میں گولڈ میڈل حاصل کیے۔ تعلیم اور قانون کی اسناد حاصل ہونے کے باعث ان کے موضوعات کا تنوع حیران کن ہے۔

پھر اپنے وسعت مطالعہ کے سبب مذہب اور متعلقات مذہب کے بارے میں اس قدر مہارت کے حامل تھے کہ ہر ایک موضوع پر گھنٹوں بے تکان بولتے۔ انتہائی درجے کے فاضل ہونے کے باوجود حددرجے کا انکسار اور ہر نوعیت کے کارخیر کے لیے ہمہ وقت ان کی آمادگی ایسے اوصاف ہیں جن پر بڑی سے بڑی کم زوری بھی قربان کی جاسکتی ہے، اور ہمارے معاشرے سے تیزی سے مفقود ہوتی ہوئی یہ صفات وہ ہیں جن کا متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔

پروفیسر انوار احمد زئی کی گفتگو انتہائی مربوط، موضوع کے مطابق اور دل چسپ ہوتی تھی۔ وہ وضع داری، رواداری، محبت اور اخلاقی قدروں کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ملازمت کا آغاز والد صاحب کے قائم کردہ مسلم ہائی اسکول لطیف آباد سے کیا جہاں آپ پہلے ہیڈ ماسٹر تھے۔ آپ کو حیدرآباد کا سب سے کم عمر ہیڈ ماسٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

بعد میں یہ اسکول قومیا لیا گیا۔ راقم کو بھی بطور ہائی اسکول ٹیچر (HST) اس اسکول میں پندرہ سال پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ 1971ء میں کمیشن پاس کرکے سٹی کالج میں لیکچرار ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے شعبۂ تعلیم کے کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، جن میں DEO میرپور خاص تھرپارکر، DEO کراچی، ڈائریکٹر اسکولز کراچی، ایڈیشنل پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن سیکریٹری، چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، پہلے چیئرمین میرپورخاص تعلیمی بورڈ، چیئرمین انٹرمیڈیٹ تعلیم بورڈ کراچی، چیئرمین میٹرک تعلیمی بورڈ کراچی کے مناصب شامل ہیں۔

آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں کے چیئرمین رہے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین تعلیمی بورڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے مصروف عمل رہے۔ یہ بورڈ بھی ان ہی کی کاوشوں سے منظور اور فعال ہوا۔

اس کے بھی بانی ڈائریکٹر کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔ انتقال سے قبل پروفیسر انوار احمد زئی ضیاء الدین یونیورسٹی کے ایگزامیشن بورڈ کے چیئرمین کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے چیئرمین بھی تھے۔ انھوں نے حکومت پاکستان کے مختلف سطح کے وفود کی سربراہی کرتے ہوئے ہندوستان، بنگلادیش، امریکا، جنوبی کوریا، سعودی عرب، برطانیہ اور دیگر ممالک کے دورے کیے۔

پروفیسر انوار احمد زئی نے ادبی میدان میں شروعات کہانیوں سے کی، پھر افسانے لکھے، آپ کا پہلا افسانہ 1963ء میں ’’بیسویں صدی‘‘ دہلی میں چھپا تھا۔ آپ ان دنوں سٹی کالج حیدرآباد میں زیرتعلیم تھے۔ اس زمانے میں ’’بیسویں صدی‘‘ میں کسی نئے لکھنے والے کی تحریر کا شائع ہوجانا بہت بڑی بات تھی۔ اس افسانے کا عنوان تھا ’’درد کا رشتہ‘‘ آپ کے افسانوی مجموعے کا نام بھی یہی تھا، جو 1968ء میں شائع ہوا۔ اس وقت حیدرآباد میں ادبی مسابقت کا دل کش ماحول تھا۔

مجلس مصنفین، جلیسان ادب، بزم تخلیق، بزم فروغ ادب اور بزم اسعدی وغیرہ ادب کے فروغ کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ اس کے علاوہ کالجوں میں بھی ادبی حلقے کام کررہے تھے۔ مجلس مصنفین کے تحت منعقدہ ہونے والی پندرہ روزہ ادبی نشستوں نے نئے لکھنے والوں کے لیے ’’نرسری‘‘ کا کام انجام دیا۔ سٹی کالج اور سندھ کالج آف کامرس میں پندرہ روزہ توسیعی لیکچرز کا سلسلہ اور بُک اسٹڈی سرکل کے زیراہتمام کتابوں کے مطالعے کا جو سلسلہ تھا، اس نے حیدرآباد کی فضا کو ادبی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مجلس مصنفین میں مرزاعابد عباس، پروفیسر سید قوی احمد، سید کاظم رضا، رضوان صدیقی، ڈاکٹر خالد وہاب، ڈاکٹر الیاس عشقی، ڈاکٹر حسن منظر، محمود صدیقی، نور اظہر جعفری اور دیگر احباب نے بڑا کام کیا۔ اس طرح تصنیف و تالیف کے حوالے سے بھی ان ادبی تنظیموں نے نئے لکھنے والوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جو نوجوان ان ادبی محفلوں سے وابستہ رہے آج وہ بھرپور تخلیقی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بیرون حیدرآباد بھی اس وقت کے لوگ ترویج ادب کے لیے کام کررہے تھے۔

پروفیسر انوار احمد زئی نے بھی علم و ادب کی ڈھیروں شمعیں روشن کی تھیں۔ آپ نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھے ہوئے حروف کبھی نہیں مٹتے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے حیدرآباد کی ادبی فضا کو فعال اور متحرک بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کا رشتہ‘‘ حیدرآباد کی افسانوی تاریخ میں پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔ اس سے پہلے یہاں سے کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ آپ کے اساتذہ میں اکثریت افسانہ نگاروں کی تھی۔ آپ کے کالج میں استاد مرزا عابد عباس تھے۔

ان کے ادبی مرثیے سے کون واقف نہیں، وہ بہترین معلم کے علاوہ ممتاز افسانہ نگار اور فلسفی بھی تھے۔ ڈاکٹر خالد وہاب بھی آپ کے استاد تھے۔

اسی طرح یونیورسٹی میں ڈاکٹر احسن فاروقی آپ کے استاد تھے۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی بیشتر ادبی رسائل و جرائد میں آپ کی کہانیاں شائع ہوئیں۔ ’’درد کا رشتہ‘‘ آپ نے افسانوی مجموعے میں ان کہانیوں کا انتخاب کیا جس میں زندگی اور نوجوانی میں سامنے آنے والے معاملات، مسائل، مشکلات اور آسائشیں، وہ کیفیات ہیں جو انسان کو کیف میں مبتلا کردیتی ہیں اور وہ لمحات ہیں جو انسان کو کرب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کا حوالہ بھی اس کتاب میں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات، بیروت اور کشمیر کی صورت حال پر بھی آپ نے قلم اٹھایا ہے۔ آپ کا ایک افسانوی مجموعہ ’’آنکھ سمندر‘‘ 2001ء میں شائع ہوا تھا۔

اس میں زندگی کے متنوع معاملات موجود ہیں۔ آپ نے کئی ممالک کی سیاحت کی۔ ہجرت کا کرب آپ کے افسانوں میں موجود ہے۔ آپ کی کتاب ’’آنکھ اور سمندر‘‘ کو پوری اردو ادب کی دنیا میں اکیسویں صدی کی پہلی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی اہلیہ پروفیسر نسیم نکہت سیما نے آپ کے مضامین کا ایک انتخاب ’’قلم گوید‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا تیسرا افسانوی مجموعہ آپ کے بھائی ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے ’’دل دریچے‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ آپ نے پاکستان کی اہم ادبی اور علمی شخصیات پر منفرد خاکے لکھے تھے، لیکن یہ کتاب آپ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکی، بعد میں آپ کے بھائی نے ’’بادل جزیرے‘‘ کے نام سے یہ مجموعہ شائع کیا۔

پروفیسر انوار احمد زئی نے بچوں کے لیے بہت سی تدریسی کتابیں بھی لکھیں اور اپنے مرشد حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب کے مضامین کا ایک مجموعہ متفرق مضامین کے نام سے مرتب اور شائع کیا۔ ’’بادل جزیرے‘‘ ان کا آخری تحفہ ہے۔

یہ کتاب خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ آپ کا سفرنامہ عام سفرناموں کی ڈگر سے بہت ہٹا ہوا ہے۔ آپ کے سفرنامے پر مشتمل کتاب ’’دیس پردیس‘‘ شائع ہوئی تو اس وقت ڈاکٹرغلام مصطفیٰ خان، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر اسلم فرخی جیسے صاحبان علم و ادب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے سفرناموں کو دوسرے سفرناموں سے مختلف قرار دیا۔ آپ نے اپنے سفرنامے میں سوشل کلچر کو افسانوی انداز میں بیان کیا۔

آپ کا پہلا سفرنامہ ’’دیس پردیس‘‘ تھرپار سے سمندر پار تک کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ تھرپارکر کی کیفیت کیا ہے؟ اور سمندر پار کی صورت حال کیا ہے۔ بہت سے ادبی پرچوں نے آپ کے سفرناموں کو افسانوں کی حیثیت سے چھاپا۔ ’’دلدار دیکھنا‘‘ افسانے کے طور پر شائع ہوا۔ آپ کا دیس پردیس امریکا کا سفرنامہ ہے جو پہلے قسط وار روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا رہا۔

پروفیسر انوار احمد زئی محبتوں کے سفیر تھے۔ ان کی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ حیدرآباد میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔ یہاں آپ نے بزم تخلیق ادب قائم کی اور ایک ادبی رسالہ عشرت کے نام سے جاری کیا۔

بزم مصنفین اور انجمن شیدائیان رسولؐؐ کے عہدے دار رہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی دینی و دنیاوی علم پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ کثیرالمطالعہ انسان تھے۔ ’’چہاربیت‘‘ ایک قدیم فن ہے جو ایک زمانے تک خواص تک محدود رہا، اسے عوامی پذیرائی کبھی نہیں ملی، اس فن کو عوامی بنانے میں پروفیسر انوار احمد زئی نے تاریخی کردار ادا کیا۔

آپ نے محمد شفیع چندریگر اور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کی معاونت سے ’’دیال داس کلب‘‘ حیدرآباد میں سالانہ محفل چہار بیت کا ڈول ڈالا تھا۔

اس کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ ’’میلے‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ شائقین چہار بیت کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ شائقین چہار بیت ہندوستان کے مخصوص خطوں تک محدود تھا جیسے ٹونک، رام پور، بھوپال، امروہہ اور مراد آباد اور مراد آباد ہیں، لیکن انہوں نے اس فن کو پاکستانیوں کے دلوں کی آواز بنادیا۔ وہ محفل چہار بیت میں ہر زبان اور ہر طبقے کے لوگوں کو مدعو کرتے اور انہیں اس فن کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت بھی بتاتے تھے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس روایت کو جاری رہنا چاہیے۔

پروفیسر انوار احمد زئی کی سربراہی میں 1995ء میں ایک فعال ادبی ادارہ انوار ادب کے نام سے قائم ہوا جس کے تحت بے شمار ادبی تقریبات منعقد ہوئیں اور اسی ادارے کے تحت سہ ماہی ادبی رسالہ عبارت کا اجرا ہوا جس کے کئی ضخیم نمبر شائع ہوئے جن میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نمبر، احمد ندیم قاسمی نمبر، اقبال نمبر پاک چین اور ادب نمبر، حسرت موہانی نمبر حیدرآباد ادب نمبر قابل ذکر ہیں۔ انوار احمد زئی کی تخلیقی صلاحیتوں کا ہر شخص معترف ہے۔

آپ نے ریڈیو کے لیے 1962ء سے لکھنا شروع کیا۔ شیخ سعدی کی حکایات پر مشتمل سیریز ’’ایک حکایت ایک تمثیل‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ وتایوفقیر کی کہاوتوں پر مبنی سیریز ’’پٹاری‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کے علاوہ بیسیوں ڈرامے اور فیچرز لکھے۔ ان کے ڈرامے رومانوی، مزاحیہ، تاریخی، تمثیلی تھے صبح کا پروگرام ’’ہمارا پاکستان‘‘ کے عنوان سے کئی سال تک لکھا، اخبار میں کالم لکھے۔ وہ ریڈیو کے علاوہ ٹی وی کے مذہبی ٹاک شوز میں حصہ لیتے تھے۔

ان کی تحریر و تقریر میں جاذبیت پائی جاتی تھی۔ پروفیسر انوار احمد زئی کو تحریر و تقریر میں اﷲ تعالٰی نے ان دونوں صفات سے بہرہ مند کیا تھا۔ تقریر میں نکتہ رسی ان کا کمال تھا۔ ان کی تقریر اتنی مربوط ہوتی تھی جیسے کوئی مقالہ، ان کی تحریروں میں بھی لفظوں کی صورت گری نمایاں نظر آتی ہے۔ انہیں دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل تھا لیکن انہوں نے دینی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ تصوف سے بھی انہیں غیرمعمولی لگاؤ تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی۔

انہوں نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان سے بہت کچھ حاصل کیا۔ انہیں اس نسبت پر فخر تھا۔ ادبی محافل ہوں، سیرت النبیﷺ کے جلسے ہوں یا ٹی وی چینل پر کسی بھی موضوع پر گفتگو ہر جگہ وہ علم و ادب کے موتی بکھیرتے نظر آتے۔ ان کی گفتگو کا انداز عالمانہ تھا، ان کی تحریروں میں دانش وری جھلکتی تھی۔ وہ زبان و بیان کے معاملے میں بہت محتاط دکھائی دیتے تھے، وہ محفل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن جانتے تھے۔

پروفیسر انوار احمد زئی کی نشست میں ہر خاص و عام کو اس لیے بھی لطف آتا کہ وہ اچھے جملے باز اور جملہ شناس تھے۔ وہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ وہ ایک وقت تھا جب سندھ میں اسکاؤٹس تحریک ختم ہورہی تھی لیکن جب پروفیسر انوار احمد زئی کمشنر سندھ اسکاؤٹس بنائے گئے تو انہوں نے اسکاؤٹنگ کو سندھ بھر میں پھر سے زندہ کردیا تھا۔

پروفیسر انوار احمد زئی نے درجنوں کتب پر دیباچے اور تبصرے بھی تحریر کیے۔ اپنے آخری برسوں میں نعت رسول مقبولﷺ پر بھی خوب لکھا۔ آپ سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خاص طور پر تعلیم اور نعت کے حوالے سے ان کے مضامین یک جا کرکے انہیں کتابی صورت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ معروف ماہر تعلیم، بے لاگ مقرر، شفیق اور علم دوست شخصیت پروفیسر انوار احمد زئی31 مئی 2020ء بروز اتوار رضائے الہی سے انتقال فرماگئے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کی وفات پر معروف ادبی علمی شخصیات کا کہنا تھا کہ علم و ادب کا شعبہ ایک عظیم عہد سے محروم ہوگیا۔

پروفیسر انوار احمد زئی کے علمی و ادبی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی علمی شخصیت ہمارے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے تعلیم کی ترقی و ترویج اور بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، جسے کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیٹا اور بیٹی چھوڑے ہیں۔

ان کا بیٹا سول سروس پاکستان (سی ایس پی) افسر ہیں جب کہ بیٹی ڈاکٹر ہیں۔ انوار احمد زئی کے صاحبزادے عزیز احمد زئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہیں لیکن انہیں علم و ادب کا ذوق اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ شعر کہتے اور علم عروض سے واقفیت رکھتے ہیں۔

حیدرآباد شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قابل ترین خداداد صلاحیتوں کے ماہر پروفیسر انوار احمد زئی جیسا بیٹا جنم دیا۔

The post پروفیسر انوار احمد زئی appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا بیوہ عورت کو جینے کا حق نہیں؟

$
0
0

سردیوں کی یخ ٹھٹھرتی رات میں ایک مخدوش الحال ضعیف خاتون نے تندور والے سے التجائیہ انداز میں دو روٹیوں کا سوال کیا۔ تندور پر کھڑے دونوں افراد نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا اور بڑھیا سے کہنے لگے ’’ دو روٹی کا کیا کرو گی اماں‘‘ وہ مخبوط الحواس بھی معلوم ہوتی تھی مگر تھی نہیں۔ وہ لمبا سانس لے کر کہنے لگی ایک روٹی میںا ور دوسری میری بہن کھائے گی۔

اس لمحے اس کی آواز میں اس قدر یاسیت بھری تھی کہ ارد گرد کے شور میں سکوت چھا گیا ہو۔ وہ جیسے کسی سامع کی متلاشی تھی جو اس کا غم اس کا درد سن سکے۔ اور تندور والے کے سوال نے گویا سوال سے اس بند میں چھید کر ڈالا تھا جو اس نے اپنے دکھوں پہ باندھ رکھا تھا۔ وہ کہنے لگی ہم دو بیوہ بہنیں ہیں اور ہمارا کوئی نہیں ایک بھانجے نے ہم پر ترس کھا کر ہمیں اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے نہ کوئی آسرا ہے نہ ٹھکانہ، مرحوم شوہر کی پینشن سے میں اور میری بہن اپنا گزر بسر کرتے ہیں ایک ایک روٹی صبح اور ایک شام کو کھاتے ہیں۔

کبھی نمک میںپانی ملا کر تو کبھی پیاز کے ساتھ۔ کون ہے ہمارا یہاں! اس سے آگے سننے کے لئے جو ہمت درکار ہے وہ شاید اس معاشرے کی اکثریت میں نہیں۔ نجانے اس معاشرے میں کتنی ہی عورتیں بیوگی میں مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں المیہ یہ ہے کہ خواتین کو پہلے اپنے حقوق و فرائض سے درست انداز میں واقفیت ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ان کی فراہمی ممکن نہیں۔ آبادی کا یہ نصف حصہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں لگا ہے۔

جب کوئی خاتون بیوہ ہو جاتی ہے تو یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ جسم میں ایک مردہ کی مانند ہے زندگی کے سارے رنگ اور خوشیاں اب اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرح زندگی کو نارمل انداز میں نہیں گزار سکتی۔ جوانی میں بیوہ ہونے والی عورت کو معاشرہ چیل کووں کی طرح چیڑ پھاڑ کر کھانے کو تیار رہتا ہے اور اگر یہ دور بڑھاپے میں آجائے تو اسے ناسور سمجھ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بیوہ عورت اگر اپنے تخفظ کے لئے دوسری شادی کرتی ہے تو اس کو عیاش اور بری عورت قرار دیا جاتا ہے۔سماج کا یہ رویہ پہلے سے ہی دکھی اور ٹوٹی ہوئی عورت کو مسمار کر دیتا ہے۔جو اس کی ذہنی صحت کو بھی برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔

ایک عورت جس کا شوہر وفات پا جائے اس کی زندگی غم و الم اور حسرت و نامرادی کا مظہر بن جاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں بیوہ کا مرحوم شوہر کے ترکے میں کوئی حصہ نہ تھا اور لوگ اس کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا کرتے تھے۔اور ہندووں میں تو بیواؤں کو دوسری شادی تک کی اجازت نہ تھی بلکہ کچھ تو شوہر کے ساتھ جل کر مر جایا کرتی تھیں اور کچھ بیوگی کے بعد اپنے اوپر زندگی کی ساری راحتیں حرام کر لیتیں۔

اسلام نے بیواؤں کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے انھیں شوہر کی وراثت میں حصہ دیا اور تاعمر سوگ کو محدود کر کے چار ماہ دس دن عدت کے دن مقرر کئے اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے رنج و اُلم کے ہلکا ہوجانے تک کی مہلت دی۔اگر مہر شوہر کی زندگی میں ادا نہ ہوا ہو تو وراثت میں سے سب سے پہلے مہر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ۔ اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کی وراثت میں سے آٹھویں حصے کی حقد ار ہے اور بے اولادی کی صورت چوتھائی حصہ مقرر کیا گیا ۔ تاکہ وہ بے سہارااور لاوارثوں جیسی زندگی بسر نہ کرے بلکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے بہتر فیصلہ کر سکے اور اس دوران اسے معاشی مسائل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔

بیوہ کو عقد ثانی کرنے کی مکمل اجازت ہے اور اسی صورت میں اس کا سابقہ شوہر کی جانب سے وراثت میں حصہ برقرار رہے گا۔لیکن یہاں تو آؤے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یوں تو اسلام نے بیوہ عورت کے لئے پسندیدہ عمل عدت کے بعد فوری نکاح قرار دے رکھا ہے جو کہ فطری تصور حیات کے پیش نظر درست ہے۔

کیوں انسان تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اور جن خواتین کے بچے ہوں ان کو اسی صورت میں ناصرف ایک شوہر کا ساتھ ملتا ہے بلکہ ان کی بچوں کو والد کی شفقت بھی ملتی ہے۔ ایشیائی خطے سے نکل کر بھی دیکھا جائے توعرب ممالک میں جیسے ہی کوئی خاتون بیوہ ہوتی ہے وہاں عقد ثانی کے لئے بیشتر امید وار موجود ہوتے ہیں۔ لیکن برصغیر پاک و ہند میںپہلے ہی خواتین کی شادی مشکل سے ہوتی ہے اور اگر وہ بیوہ یا مطلقہ ہوں تو ایسی صورت میں عقد ثانی جوء شیر لانے کے مترادف ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ وہ فلاحی اسلامی ریاست ہی نہیں جس کا تصور ہمیں اپنے دین کی اساس سے ملتا ہے جہاںبیواؤں کو سب سے مظلوم طبقہ قرار دیا گیا تھا اور ان سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی تھی۔نبی کریم ﷺ نے بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کو عبادت قرار دیا اور فرمایا ’’بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا خدا کی راہ میں مجاہد یا اس شخص کی طرح ہے جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے‘‘۔ بیوہ سے حسن سلوک اور تکریم کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عین شباب میں اپنے سے عمر میں پندرہ برس بڑی بیوہ خاتون حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی اور پھر ان سے محبت و وفا کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے ساتھ خوشگوار مثالی ازدواجی زندگی  بسر کی اور جب تک وہ حیات رہیں عقد ثانی نہ کیا۔

ریاست کی حیثیت ماں کی سی ہوتی ہے اور ماں اپنے تمام بچوں کی پرواہ کرتی ہے ان کا خیال رکھتی ہے۔ بیوہ خواتین بھی اس ریاست کی باسی ہیں اور ان کا حق ہے کہ ریاست ان کی داد رسی کرے۔ بیوہ خواتین کو سب سے پہلے اپنے پیروںپر کھڑا کرنے کے لئے انھیں ہنر سیکھانے کا بندوبست ہونا چاہیئے اور پھر انھیں آسان اقساط پر قرضے فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات اٹھا سکیں اور انھیں معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے اور نہ ہی کوئی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا سکے۔

جو خواتین سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں وہ گھر میں ایک یا دو خواتین کو ملا کر ایک چھوٹا سا سلائی سینٹر بنا سکتی ہیں۔گھر پر براینڈز کے ریپلیکا سوٹ بیچ سکتی ہیں آن لائن اشیاء کی فروخت کرسکتی ہیں۔ اگر کھانے پکانے میں مہارت رکھتی ہیں تو گھر سے فروزن فورڈ یا تازہ کھانا پکاکر سپلائی کرنے کا کام بھی کر سکتی ہیں۔پارلر کھول سکتی ہیں کوئی بھی چھوٹا کاروبار کر سکتی ہیں ۔

جس کے لئے ضرورت ہے سب سے پہلے انھیں حوصلہ فراہم کرنے کی اورانھیں وسائل فراہم کرنے کی۔مغربی معاشروں میں بھی بوڑھے افراد کو سپورٹ کیا جاتا ہے اور عموماً ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ریٹائر منٹ کے بعد پنشن یا وظیفہ ملتا ہے ۔دوسری جانب بات کی جائے عمر رسیدہ بوڑھی خواتین کی تو وہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہیں کہ ان کو مستقل بنیادوں پر وظیفہ فراہم کیا جائے اور ان کی رہائش اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا باقاعدہ ڈیٹا مرتب کیا جائے اس ضمن میں نادرا کا ادارہ اور مائیکرو لیول پر یونین کو نسل کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ عمر رسیدہ بیوہ خواتین کا میڈیکل فری ہونا چاہیئے اور بیماری اور معذوری کی صورت میں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی فلاحی ریاستی ادارے کو سونپی جائے۔ گو کہ اولڈ ہومز اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہے۔اور اس سب کے ساتھ اس عمر میں جذباتی سہاروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو ایسے اولڈ ایج ہومز کا دورہ کرانے سے دوہرا فائدہ ہوگا جیسے ان افراد کی تنہائی دور ہوگئی اور زندگی کی رونق کو محسوس کر سکیں گے جبکہ بچوں کے دل میں ہمدردی اور احساس کے جذبات فروغ پائیں گے۔والدین اپنے بچوں کو ایسی خواتین کے ساتھ احترام اور حسن سلوک کی ترغیب دے کر معاشرے میں خیر کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اور ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں کسی کو مشکل میں دیکھیں اور اس کی تھوڑی سی بھی مدد کر سکیں تو وہ ضرور کریں کیونکہ احساس زندگی ہے!

The post کیا بیوہ عورت کو جینے کا حق نہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
نہ خوش ہو چھین کے مجھ سے تو سائبان مرا
لیا ہے دھوپ نے پہلے بھی امتحان مرا
عجب نہیں کہ خفا ہو ہر اک بشر مجھ سے
کہ ترجمان مرے دل کا ہے بیان مرا
سمے کی موج پہ رکھا ہوا حباب ہوں میں
کہاں ملے گا مرے بعد پھر نشان مرا
میں بارشوں کے قصیدے پڑھوں تو کیسے پڑھوں
ٹپک رہاہے کئی روز سے مکا ن مرا
وہ جس نے زخم جدائی کا بے سبب ہی دیا
وہ بے وفا نہیں اب بھی ہے یہ گمان مرا
تمام عمر میں طاہرؔ کرا ئے دار رہا
مری لحد ہی بالآخر بنی مکان مرا
(محمد طاہر۔لاہور)

۔۔۔
غزل
طاقت کے لیے عیش و مراعات کی دنیا
اور لوگ اسے کہتے ہیں مکافات کی دنیا
ہر حال میں ہو جاتا ہے دونوں کا تصادم
ملتی نہیں حالات سے جذبات کی دنیا
کل میں تھا جہاں آج کوئی اور کھڑا ہے
ایسے ہی تو ہوتی ہے مفادات کی دنیا
صد شکر کہ آمادہ ہوئی تازہ روش پر
رسموں کی رواجوں کی روایات کی دنیا
تا عمر رہا شاد مگر کہہ کے گیا ہے
صدمات کی دنیا ہے یہ آفات کی دنیا
سمجھائیں انہیں علت و معلول کا رشتہ
جاذبؔ جو سمجھتے ہیں طلسمات کی دنیا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
مدت کے بعد تو جو مجھے دوستا ملا
میں نے نچوڑے اشک، مجھے قہقہہ ملا
دیکھا تھا رات خواب کہ تو دل میں اب نہیں
جاگا جو نیند سے تو بدن کانپتا ملا
ہراک حسین نے مرے دل میں گزارے دن
اک حُسن ہی بدن میں مجھے جا بہ جا ملا
پھرتے ہیں کتنے لوگ یہاں ڈھونڈتے ہوئے
منزل اُسے ملے گی جسے راستہ ملا
طارقؔ ہمیشہ زندگی سے یہ گلہ رہا
جو شخص بھی ملا وہ جڑیں کاٹتا ملا
(طارق جاوید۔ کبیروالا)

۔۔۔
غزل
ثمر نہ پات، نہ شاخیں دکھائی دیتی ہیں
حسین پیڑ پہ چیلیں دکھائی دیتی ہیں
سنائی دیتی ہیں آوازیں عہدِ رفتہ کی
گئے زمانوں کی روحیں دکھائی دیتی ہیں
اندھیرا چھانے لگے شامِ شہر یاراں میں
تو گول باغ میں شمعیں دکھائی دیتی ہیں
فریب کھائے ہیں اتنے کہ اب اِن آنکھوں کو
ہر ایک شخص کی چالیں دکھائی دیتی ہیں
نہ ہم نے لوٹ کے آنا ہے اب نہ تم نے دوست!
سو دوریوں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں
دیارِ یار سے گزریں تو ہر قدم پہ امام
ہمارے خوابوں کی قبریں دکھائی دیتی ہیں
(فیصل امام رضوی۔ مظفر گڑھ)

۔۔۔
غزل
دل میں ہماری یاد کو ٹھہراؤ دیکھ کر
پوشاک اپنے زخم کو پہناؤ دیکھ کر
یوں بھی بھلی ہے پر مرے معبود اگلی بار
تم کہکشاں بنانا مرے گھاؤ دیکھ کر
یہ خامشی بھی درد کی آواز کب بنی
چیخوں سے سارے لوگوں کا برتاؤ دیکھ کر
بیری نہیں تھی جو کسی پھل کو اچھالتی
کرنا تھا مجھ فصیل پہ پتھراؤ دیکھ کر
مرنے لگے تھے ساتھ میں تم دیکھ کر ہمیں
ہم اب بھی ایک ساتھ ہیں مر جاؤ دیکھ کر
(بشریٰ شہزادی ۔ڈیرہ غاری خان)

۔۔۔
غزل
جوہری دیکھ بڑے کام کے پتھر آئے
پھر کسی ہاتھ سے الزام کے پتھر آئے
پھر درختوں پہ وہی صبر کا پھل پکنے لگا
پھر وہی گردشِ ایّام کے پتھر آئے
لو غریب الوطنو، بخت زدو، ہم سفرو
اب کی آندھی میں درو بام کے پتھر آئے
اپنے آئے ہوئے گل دیکھ چکو تو یارو
دیکھنا اِن میں مرے نام کے پتھر آئے
جانچنے والا ہی کہتا رہا’ گوہر نہیں یہ‘
ہاتھ میں تو کئی اقسام کے پتھر آئے
آج اِس جبّہ و دستار کی یا اللہ خیر
آج تو دستِ ادب تھام کے پتھر آئے
میں عجوبہ تھا مگر میرا ستوں ٹوٹ گیا
اے زمیں لے مرے اہرام کے پتھر آئے
دل کی لہروں میں زبیرؔ ایسا طلاطم تو نہ تھا
کیا پھر اُس سمت سے پیغام کے پتھر آئے؟
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
عمر ڈھلتے جمال بدلے گا
ہر کسی کا سوال بدلے گا
کون کہتا ہے حال بدلے گا
بدلے گا کچھ، تو سال بدلے گا
مجھ پہ سارے جہاں کی نظریں ہیں
جلد میرا زوال بدلے گا
ایک عاشق ولی کے روپ میں ہے
عشق اپنی دھمال بدلے گا
یہ جو صیاد پیچھے ہو گیا ہے
عین ممکن ہے چال بدلے گا
جو محبت کو جسم سمجھے ہے
وہ بہت جلد کھال بدلے گا
تو یقیں رکھ خدا پہ اے اذفرؔ
وہ یقیناً خیال بدلے گا
(علی مان اذفر۔ مریدکے، شیخوپورہ)

۔۔۔
غزل
غمِ جہاں کے ستم سے بکھر گیا ہوگا
وہ ایک شخص نہ جانے کدھر گیا ہوگا
مصیبتوں سے جو دامن چھڑا لیا اس نے
میں کیا کہوں،کہ وہ کتنا نکھر گیا ہوگا
میرا خیال تھا اب کہ وہ لوٹ آئے گا
بچھڑ گیا ہے تو شاید سدھر گیا ہوگا
یہاں وہاں میں اسے ڈھونڈتا رہا لیکن
اِدھر ملا جو نہیں تو اُدھر گیا ہوگا
(جواد انور۔نظامپور، نوشہرو)

۔۔۔
غزل
گھٹن کو چھوڑ کے بیٹھا تو میں نے سانس لیا
میں اپنے آپ سے نکلا! تو میں نے سانس لیا
زمین پیروں سے نکلی تو سانس گھٹنے لگی
فلک اتار کے پھینکاتو میں نے سانس لیا
میں اپنے آپ کو مردہ سمجھ کے سو گیا تھا
لپٹ کے مجھ سے تُو رویا! تو میں نے سانس لیا
وہ حبس تھا کہ تنفس کی کوئی کھڑکی کھلے
بدن کا ملبہ ہٹایا تو میں نے سانس لیا
جو تھوڑا کارِ جراحت تھا میرے سینے میں
کسی نے دل جو لگایا تو میں نے سانس لیا
تمہارے ہاتھ کا مرہم ہَوا میں شامل تھا
جو زخم زخم سے ابھرا تو میں نے سانس لیا
ہَوا ضروری تھی دونوں کو سانس لینا تھا
غبارا پھونک کے چھوڑا تو میں نے سانس لیا
(مصور عباس۔ بلوٹ شریف ،ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل
گلگت کی فضاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
سکردو کی بہاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اس پہلی ملاقات کا منظر نہیں بھولا
میں دھوپ کی چھاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اوراق پلٹتا ہوں میں ماضی کی صبح و شام
اور اپنی کتابوں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اے تیشۂ نفرت اے مری جان کے دشمن
احباب کے ہاتھوں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
اس خاک پہ شاید نہ ہو الہامِ محبت
میں چاند ستاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
(شاہد بلیاری۔ سکردو، بلتستان)

۔۔۔
غزل
ہم فقط کچھ دلوں سے اتارے گئے
پھر بھی تیری نگاہوں سے مارے گئے
وہ تو خود ہی میری جال میں آگئے
میری آنکھوں کے بس کچھ اشارے گئے
اس لیے ترک کردی محبت میاں
اس میں اپنے بھی دو چار مارے گئے
اس شجر کی جڑیں کھوکھلی ہوگئیں
اس شجر کے میاں اب سہارے گئے
میرے حق میں بھی دیکھو میاں چاند ہے
تیرے حق میں اگر یہ ستارے گئے
تیرے غم میں گزرتی گئی زندگی
رات کاٹی گئی دن گزارے گئے
شعبۂ اردو ہے شیر ایسی جگہ
بے ادب بھی جہاں پہ سنوارے گئے
(ارسلان شیر۔ نوشہرہ ،خیبر پختون خوا)

۔۔۔
غزل
کم مایگی کی رنج کی عسرت کی دھوپ میں
ہم لوگ چل رہے ہیں قیامت کی دھوپ میں
گھر میں گھنے درخت کی موجودگی میں بھی
گزری ہے اپنی زندگی شدت کی دھوپ میں
بیٹھے ہوئے ہیں چھاؤں میں اربابِ اختیار
بے بس بلک رہے ہیں مصیبت کی دھوپ میں
سائے میں اتفاق کے بیٹھے نہیں مکین
گھر جل گیا شدید خصومت کی دھوپ میں
ٹھنڈے ہیں میرے بخت کچھ ایسے کہ آج تک
جلتا ہی جا رہا ہوں صعوبت کی دھوپ میں
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
نام سن کر آنکھ میں اک رنگ بھرجاتا شہاب
پانیوں پر عکس سا پھر تیر جاتا تھا شہاب
اس کے ہونٹوں پر تبسم میرے شعلوں کی طرح
جس نے مجھ کو آسماں سے ٹوٹتے دیکھا شہاب
چونک جاتا تھا میں اکثر دیکھ کر اس شخص کو
نام تیرا سن کے گہرا سانس جو لیتا شہاب
وہ ملا جب راستے میں اجنبی بن کر ملا
کاش! میری روح کو پہچانتا میرا شہاب
بات کرتے کرتے اس کے لفظ بھی رونے لگے
آنسوؤں میں بھیگتا دیکھا گیا لہجہ شہاب
ہم رہے پیاسے، ہماری سوچ بھی پیاسی رہی
ہم جہاں رہتے تھے بہتا تھا وہاں دریا شہاب
اس نے میرا ہاتھ پکڑا اورسمجھانے لگا
میں نے دیکھا تو تھا وہ رستہ ترے گھر کا شہاب
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
22تا28 جنوری 2024
پیر 22جنوری2024
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔ چاند اور زہرہ کا امتزاج ہمیشہ ہی اچھی خبریں لاتا ہے، خواتین کے باہم تعلقات میں کچھ الجھاؤ ضرور رہتا ہے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں اگر 1،4،5،6،8اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص،ط یا ظ ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 یا7 خصوصاً کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں،کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
اسمِ اعظم ’’یارحیم، یارحمٰن، یااللہ‘‘ 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 23جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔ عطارد و مریخ کا امتزاج متضاد حالات لاتا ہے۔ یہ عقل و طاقت کے مابین ایک کشمکش سی لاتا ہے۔ سیکیوریٹی اداروں سے متعلق کوئی اسکینڈل متوقع ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،5،6،7 اور9 خصوصاً 1 کاعدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4 اور خصوصاً 8 یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح،ف یا ض ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم‘‘ 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 24جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 2 ہے۔ جذباتی تناؤ اور سوچوں میں الجھاؤ آسکتا ہے۔ یہاں کچھ اچھی خبریں بھی متوقع ہیں 1،3،4،5،8 اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت، د یا م ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،6 اور خصوصاً 7 یا پیدائش کا دن جمعہ یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے۔ تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص ’’یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ‘‘ 41 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 25 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد1 ہے۔ شمس و مشتری کے مشترکہ رنگ دیکھنے کو ملیں گے، احبابِ اقتدار کے لیے ایک بہتر دن ہے۔ آگے بڑھنے ترقی اور نشوونما کے لیے کی گئی کاوشیں مثبت نتائج کی حامل ہونگے اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،4،5،6 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ،ن یا ث ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،7 اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ یا اللہ‘‘ 21 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ26 جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔ سفر، مطالعہ اور میل ملاقات کے لیے موزوں دن ہے ایسے امور جو مذاکرات یا تبادلہ خیالات سے حل ہوسکتے ہیں کے لیے سازگار دن ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،5،6،7 اور9 خصوصاً1 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 3،4 اور8 کا عدد خصوصاً 8 یا پیدائشی دن ہفتہ یا جن کے نام کا پہلا حرف ح،ف یا ض ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ‘‘ 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ27جنوری 2024
آج کا حاکم عدد 8 ہے۔ متحمل مزاج افراد کے لیے ایک معاون دن ہے، اگر آپ ذرا سی بھی جلد بازی کریں گے تو ممکنہ طور پر آپ کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں یا حسبِ توقع نتائج نہیں ہوں گے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3،4،6،7 اور8خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائشی دن پیر یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،5 اور خصوصاً 9 عدد یا پیدائشی دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ،ن یا ث ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمر رسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ‘‘ 80 بار اول و آخر 11 بار درود شریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 28جنوری 2024
آج کا حاکم نمبر 2 ہے۔ اقتدار کی مسند پر کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ امراضِ قلب کے مریضوں کے لیے احتیاط لازم ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،3،4،5،8 اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن 4 ہے یا نام کا پہلا حرف د،م یا ت ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،6 اور خصوصاً 7 عدد یا جن کا پیدائشی دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’یاحی، یاقیوم، یااللہ‘‘ 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ ، 21 مارچ تا20اپریل
آپ کے کیریئر، عزت و وقار اور ملازمت کے خانے میں ملازمت کے خانے کا نمائندہ عطارد، آمدن کا سیارہ زہرہ، اور آپ کا ذاتی سیارہ مریخ تینوں اسی خانے میں ہیں۔ ایسے میں مشتری جو کہ آپ کے بلند بختی کا سیارہ ہے، ان تینوں سیارگان کو سعد روشنی دے رہا ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اس ہفتے کام، روزگار اور ملازمت کے امور میں بہتری کی توقع ہے۔ مالی فائدہ ہوسکتا ہے، شراکتی اور ازدواجی امور میں تناؤ بھی ممکن ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی
آپ کا سیارہ نویں یعنی خوش بختی کے مقام پر ہے جہاں ایک اجنبی آپ کے لیے سہولت پیدا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس ہفتے آپ کا سفر ممکن ہے۔ بیرون ملک سفر اور اس سلسلے میں ضروری کاغذی کارروائی میں پیش رفت کا امکان موجود ہے۔ اس ہفتے کے آخری تین ایام آپ کو کوئی بڑی خوش خبری سناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
آپ کا سیارہ خوف و الجھن کے مقام پر ہے، یہاں اس کی موجودگی ہم راہ زہرہ کچھ خفیہ امور اور مراسم کی سمت اشارہ کررہی ہے۔ اگر آپ کسی ایسے سلسلے میں کوشاں ہیں جو قانون سے متصادم ہے تو احتیاط کریں۔ اس ہفتے کیریئر اور آپ کے وقار پر حرف آسکتا ہے۔ ناگہانی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں مالی فائدے کا بھی امکان ہے۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی
آپ کا سیارہ قمر اس ہفتے مریخ، زہرہ، عطارد اور زحل سے اچھی نظر بنانے جارہا ہے، آپ کی منگنی یا شادی کا امکان ہے۔ تعلقات یا ساتویں خانے کا مالک سیارہ زحل نویں میں موجود ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ رشتہ خوش بختی کا دروازہ کھولے گا۔ ایسے وقت میں دوسرا رشتہ بھی ممکن ہے۔ ماتحت کام کرنے والوں کا تعاون حاصل رہے گا۔

برج اسد
سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست
آپ کا سیارہ شمس دلو میں ہے۔ یہاں اسے کم زور سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آپ سے غلط فیصلوں کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ آپ پر مخالفین کا اثر ہوسکتا ہے۔ کچھ دوست جن پر آپ کو بڑا یقین ہے ان کی آستین سے سانپ برآمد ہوسکتے ہیں۔ مالی نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔ اس ہفتے انتہائی محتاط رہیں۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر
آپ کا سیارہ زہرہ و مریخ کے ساتھ محبت کے خانے میں موجود ہے۔ ایسے میں اولاد اور محبوب سے خوشی کا امکان ہے لیکن چوںکہ زحل طالع کو ناظر ہے۔ محبوب و اولاد کے رویے سے کچھ شکوک وشبہات اور کسی وقت سردمہری کا بھی اندیشہ ہوسکتا ہے، ایسی صورت میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ یہ سلسلہ آپ کے لیے نتیجتاً اچھا ہی رہے گا، اگرچہ آپ کو کچھ صبر سے گزرنا ہوگا۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کے خیالات کا سیارہ ایسے مقام پر ہے کہ جہاں آپ سے رو زمرہ کے عمومی امور میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہے۔ یہاں یہ صورت حال مئی تک رہنے والی ہے اگر آپ کسی تحقیقی کام سے وابستہ ہیں تو آپ کے لیے یہ وقت معاون ہے، وگرنہ آپ کو اپنے اقدامات سے پیش تر کسی دوست سے مشورہ و نظرثانی کو بھلانا کسی مشکل سے دوچار کرسکتا ہے۔ گھر کی تزئین و آرائش پر توجہ ہوسکتی ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر
پلوٹو عظیم سیارہ جو کہ آپ کے طالع کا مالک ہے۔ آ پکے چوتھے خانے میں آچکا ہے یہاں آپ کو اپنی اور اپنے خاندان کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ اگلے چند سال آپ کی توجہ مکان، ازدواجی تعلق اور کیریئر پر مرتکز رہنے والی ہے۔ آپ کی سنجیدگی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ آپ کے رویے کی سرد مہری سے کچھ افراد کو آپ سے گلہ بھی ہوسکتا ہے اور دوری بھی۔ اس ہفتے محبت کی توانائی آپ کو حاصل رہے گی۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر
آپ کے بارھویں یعنی اجنبی افراد و مقامات کا سیارہ آپ کی سوچ پر سوار ہوچکا ہے یہاں آپ کے بیرون ملک سفر کے بھی امکانات ہیں اور امیگریشن جیسے امور میں کام یابی مل سکتی ہے۔ آپ کی سرمایہ کاری کا تعلق بھی کسی نہ کسی طور بیرون ملک یا کسی عالمی ادارے کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ بہرحال آپ کا کام وسعت اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس ہفتے کے آخری دن اچانک کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری
آپ کے ماتھے پر مریخ کا سرخ نشان پڑسکتا ہے۔ سفر کے دوران ہیلمٹ ضرور استعمال کریں، کیریئر اور گھر پر توجہ رہے گی۔ ایسے میں اولاد سے راحت مل سکتی ہے۔ پلوٹو آپ کے دوستوں کے خانے کا مالک ہے۔ گویا آنے والے ایام میں دوستوں کا تعاون حاصل رہے گا۔ تحفے تحائف مل سکتے ہیں۔ مریخ وزہرہ کا قرب آپ کو مالی اور ازدواجی سکھ دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری
پلوٹو طالع میں آچکا ہے۔ یہاں یہ آپ کی توجہ معاشرتی وقار اور کیریئر پر مبذول رکھے گا۔ پلوٹو کا کردار کسی نہ کسی حوالے سے خفیہ لازماً رہتا ہے۔ اس ہفتے آپ کا بیرون ملک، اجنبی افراد اور اجنبی مقامات کا خانہ متحرک ہورہا ہے۔ ایسے افراد سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ آپ کو مکان اور اپنی منصوبہ بندیوں میں اچانک تبدیلیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مکان یا زمین سے فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج حوت
سیارہ نیپچون، 20 فروری تا 20 مارچ
آپ کے سفر مذہبی بڑھ سکتے ہیں۔ یہاں اس ہفتے آپ کے دوستوں کے آپ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی نظر آرہی ہے۔ آپ کا سیارہ نیپچون آپ کو مراقبے اور مافوق الفطرت امور میں دل چسپی دلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ ایسے افراد کہ جن سے ایک عرصہ ہوا رابطہ نہیں ہوا تھا رابطے میں آسکتے ہیں۔ یہ ہفتہ مالی اور ازدواجی حوالے سے ایک بہتر ہفتہ ہے۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

الیکشن کا میلہ سج گیا

$
0
0

رواں برس دنیا کے 78 ممالک میں پارلیمانی یا صدارتی الیکشن منعقد ہوں گے۔ یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی سال اتنے زیادہ ممالک میں الیکشن ہو رہے ہیں۔

مذید براں ان الیکشنوں میں سوا چار ارب سے زائد ووٹروں کو اپنا ووٹنگ حق استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی انسانی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد ووٹ ڈالے گی۔

وجہ یہ ہے کہ بہ لحاظ آبادی دنیا کے دس بڑے ملکوں میں سے سات(بھارت، امریکا، انڈونیشیا ، پاکستان،بنگلہ دیش،روس اور میکسیکو)میں قومی الیکشن ہوں گے۔

علم سیاسیات کی رو سے الیکشن یا انتخاب یا چناؤ ایسا عمل ہے جس میں عوام ووٹ ڈال کر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

مورخین لکھتے ہیں کہ اولیّں ایسے الیکشن ڈھائی تین ہزار سال قبل وادی دجلہ وفرات (میسوپوٹمیا)میں مقیم سمیری اور فونیقی اقوام میں منعقد ہوئے تھے۔مگر ان الیکشنوں میں صرف معاشرے کے معزز لوگ ہی ووٹ ڈال سکتے تھے۔

عام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔700قبل مسیح میں یونان کی ریاست، اسپارٹا میں پہلی بار عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا ۔یہی نہیں انھیں حکومت میں سراری عہدے بھی دئیے جانے لگے جو پہلے صرف جنگی سرداروں اور دولت مندوں کے خاندان والوں کو ملتے تھے۔

طاقت کا سرچشمہ

انسانی تاریخ سے عیاں ہے کہ اکثر ممالک میں طاقت کا سرچشمہ جرنیل اور جنگی سردار تھے۔اسی لیے کئی ملکوں میں بہت سے حکمران اور بادشاہ اصل میں جرنیل رہے۔مثلاً دور جدید کی سپرپاور، امریکا کاپہلا صدرفوجی افسر بھی تھا۔آج بھی میانمار،نائیجر، سوڈان، لیبیا، یمن، چاڈ،گنی،مالی اور برکینافاسو میں جرینلوں یا فوجی افسروں نے اقتدار سنبھال رکھا ہے۔

جدید دنیا کی نگاہ میں ان ملکوں میں آمریت رائج ہے ، گو بعض جرنیل عوامی رہنماؤں المعروف بہ سیاست دانوں سے زیادہ عوام دوست ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سائمن بولیور ہے، ایک جرنیل جسے آج جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ہیرو اور عوامی رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔

دور جدید میں ایسے ملک بھی موجود ہیں جہاں جرنیل پس ِپشت رہ کر حکومتی معاملات میں کم یا زیادہ دخیل ہوتے ہیں،جیسے شمالی کوریا، تھائی لینڈ، اریٹیریا اور وسطی افریقن جمہوریہ میں۔ایک تازہ مثال بنگلہ دیش کی ہے جہاں اصل حکومت جرنیلوں کی ہے، تاہم بیگم حسینہ واجد ان کی کٹھ پتلی وزیراعظم کے طور پہ 2009ء سے حکومت کر رہی ہے۔

بنگلہ دیشی فوج نے اس دوران حزب اختلاف کو پیس کر رکھ دیا ہے کیونکہ وہ بھارتی ریاست کی مخالف سمجھی جاتی ہے۔جبکہ جرنیل ابھرتی معاشی وعسکری طاقت، بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

فوج وبیوروکریسی کے تعاون سے بیگم حسینہ واجد مملکت کو معاشی ترقی دینے میں کامیاب رہی۔ مگر پہلے کوویڈ وبا اور بھر روس یوکرائن جنگ نے بنگلہ دیشی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا۔حتی کہ حالیہ پارلیمانی الیکشن سے قبل بی بی سی نے اُس پہ ایک مضمون شائع کیا تو بنگلہ دیشی شہریوں نے صحافیوں کو بتایا:

’’ہمارے لیے یہ الیکشن کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمیں یہ پروا ہے کہ کون جیتے گا۔اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ بن چکا کہ اگلے وقت کی روٹی کہاں سے آئے گی۔ ملک میں شدید مہنگائی نے بیشتر شہریوں کو پریشان کر دیا ہے اور انھیں دو وقت کا کھانا پانے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔‘‘

اس کے بعد ایسے ممالک کا نمبر ہے جہاں بظاہر سیاست دانوں کا زور ہے تاہم جرنیل بھی اچھی خاصی قوت رکھتے ہیں۔ ان ملکوں میں امریکا، چین، جنوبی کوریا،جرمنی، روس، یوکرائن، برطانیہ، فرانس ، اسرائیل، تائیوان، چین، ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی وغیرہ شامل ہیں۔ان ملکوں میں جرنیلوں کے مشوروں اور تجاویز کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔

آخر میں ایسے ممالک آتے ہیں جہاں حکومتی معاملات سیاست دانوں، پیشہ ور ماہرین اور بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہیں۔

ملکی انتظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے جرنیلوں سے مشورے ضرور کیے جاتے ہیں ، لیکن ضروری نہیں کہ اُن کا کہے پہ عمل درآمد بھی ہو۔یہی ممالک حقیقی طور پہ جمہوری ہیں کہ وہاں عوامی نمائندے قوت واختیار رکھتے ہیں۔ایسے ملکوں میں سویڈن، ناروے، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ ،آئرلینڈ، آئس لینڈ، سوئٹزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں جنھیں فلاحی ریاستیں بھی کہا جاتا ہے۔

٭٭

جمہوریت کو بہترین نظام حکومت تصور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک نظام کو چلانے والے قابل اور دیانت دار ہوں تب ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتاہے۔اسی لیے کئی ممالک میں بظاہر جمہوریت نہیں مگر وہاں عوام بہرحال ترقی کر رہے ہیں اور خوشحال بھی ہیں۔

اس امر کی نمایاں مثال چین ہے۔ جمہوری نظام میں ’ایک شخص ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر حکومت تو منتخب ہو کر آ جاتی ہے لیکن اس کا انحصار ووٹروں کی اپنی قوت فیصلہ اور امیدواروں کی صلاحیت پر ہے کہ وہ کیسی حکومت بناتے ہیں؟ جمہوری نظام میں غیرتعلیم یافتہ اور قوت فیصلہ سے محروم شخص بھی نہ صرف ووٹر ہوتا بلکہ انتخاب بھی لڑ سکتا ہے۔

جاگیردارانہ معاشرے میں مزارعین اور ہاریوں کی باگ ڈوردیہی خداؤں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔عوام کی اپنی کوئی ذاتی رائے اگر ہو بھی تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔

لہٰذا ایسے جمہوری انتخابات طاقت و اثرورسوخ کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔اس کا نتیجہ عموماً یہی نکلتا ہے کہ غلط اور نااہل لوگ حکومت پر قابض ہو جائیں۔ اسی قسم کی جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

اس راز کو ایک مردِ فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اس قسم کی جمہوریت کے عیوب و اثرات اتنے متنوع ہیں کہ ان کا ذکر دلچسپی کا باعث بھی ہے اور سامانِ عبرت بھی۔

٭٭

ہری پور ہزارہ کے ایک گاؤں، پنڈخان خیل میں صدر ایوب خان کے زمانے میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہورہے تھے۔

گاؤں میں ایک مدبر‘ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخصیت، علی بہادر خان کی صورت موجود تھی۔وہ کینیا میں محکمہ ڈاک کے ایک عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر اب اپنے گاؤں میں مقیم تھے۔ انہیں برطانوی حکومت سے ایم بی ای کا خطاب بھی ملا تھا۔ انھوں نے گاؤں والوں سے کہا ’’مجھے اپنا نمائندہ بنالو‘ میں ہر جگہ تمہاری نمائندگی کر سکوں گا۔‘‘

لیکن چونکہ گاؤں میں خان موصوف کی اپنی برادری کے بہت کم ووٹ تھے، اس لیے ایک ان پڑھ شخص جس کی برادری کے ووٹ زیادہ تھے ‘ کامیاب ہوگیا۔

گاؤں نے ایک نااہل شخص کو اپنا نمائندہ بنانے سے کافی نقصان اٹھایا۔ کچھ عرصے بعد یہ گاؤں تربیلا جھیل کی نذر ہو گیا۔مناسب نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے معاوضے بھی صحیح نہیںملے اور غیرضروری تاخیر بھی ہوئی۔

٭٭

وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سندھ کے وزیرتعلیم کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ہدایت کی ۔یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے جب سوال میں کچھ انگریزی الفاظ بولے تو وزیرتعلیم اس سوال کو نہ سمجھ سکے حتی کہ سپیکر کو سندھی میں ترجمہ کر کے انہیں سوال سمجھانا پڑا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ موجودہ وزیرتعلیم کی جگہ کسی پڑھے لکھے شخص کو وزیرتعلیم مقرر کیا جائے۔

(اخبار کی خبر ‘ 22 نومبر 1994ء )

٭٭

پنجاب اسمبلی کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف سامنے آیا کہ اس کے 25 ارکان بالکل ناخواندہ یا دوسرے لفظوں میں ’چٹے ان پڑھ‘ ہیں جبکہ 75 ارکان میٹرک یا ایف اے پاس ہیں۔ علاوہ ازیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ نواز لیگ کے ارکان کی زیادہ تعداد تعلیم یافتہ ہے جبکہ ان پڑھوں کی زیادہ تعداد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ (سرراہے‘ 21جولائی 1995ئ)

٭٭

جمہوری نظام کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ ووٹروں کی اکثریت جس جماعت کو ووٹ دے‘ ضروری نہیں کہ وہ حکومت بھی بنائے بلکہ جس جماعت کے زیادہ رکن بنیں وہ حکومت بنانے کی حق دار ہوتی ہے۔

مثلاً 1993ء کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سے زیادہ ووٹ لیے لیکن چونکہ انتخابات جیتنے والے زیادہ رکن پیپلزپارٹی کے تھے، اس لیے وہ اپنی حلیف جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ انتخابات میں جو جماعت اکثریت حاصل کر لے اور چاہے اسمبلی کے دو تہائی ممبران اسی کے ہوں‘ اسے حکومت کرنے کا حق ضرور حاصل رہے۔

اسی طرح اگر صدر کسی اکثریتی جماعت کی حکومت کو برطرف کر دے اور عدالت عالیہ اس فیصلے کو غلط قرار دے کر حکومت بحال کرنے کا حکم جاری کر دے تو بھی ضروری نہیں کہ اکثریتی جماعت کی حکومت قائم رہنے دی جائے گی۔

جمہوریت کے اعجوبوں کا ذکر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ایوان نمائندگان کے میدان جنگ میں تبدیل ہو جانے پر بھی جمہوریت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ بقول پاکستانی سیاست کے بعض بزرجمہروں کے‘ مغربی دنیا میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کی اچھی باتوں کو اپنانا ضروری نہیں البتہ برُے پہلو ضرور قابلِ تقلید ہیں۔

قیام پاکستان کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ،شاہد علی اسمبلی کے اندر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مارے گئے۔ارکان اسمبلی ایک دوسرے پہ اشیا پھینک رہے تھے کہ ایک پیپرویٹ شاہد علی کے سر پہ جا لگا۔ وہ شدید زخمی ہو گئے اور دو دن بعد چل بسے۔

اس طرح ایک بار پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف اور ان کی جماعت نے صدر غلام اسحاق خان کی تقریر کے دوران ’’گو بابا گو‘‘ (جاؤ بابا جاؤ)کے نعرے لگائے اور میزیں بجا بجا کر تقریر سننے سے انکار کیا۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘ بعد کو صدر فاروق لغاری کی تقریر کے دوران اسی قسم کے نعرے اس وقت کی حزب اختلاف نے بلند کیے اور اجلاس میں خاصی ہنگامہ آرائی کی خبریں بھی آئیں۔

٭٭

قابل اور تجربے کار امیدواروں کے مقابلے میں نااہل اور غیرتعلیم یافتہ لوگوں کے انتخاب لڑنے کے واقعات بے شمار ملتے ہیں اور بعض اوقات نااہل اشخاص جیت بھی جاتے ہیں۔

لاہور میں تقسیم ہند سے پہلے ارائیں برادری کی اکثریت تھی۔صوبائی اسمبلی میں بھی اسی برادری کا رکن ہوتا تھا۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی برادری سے تھے جو لاہور کے میئر بھی رہے۔ ایک دفعہ انھوں نے اپنے دوست ،علامہ اقبال ؒکو اپنی نشست پر انتخاب لڑنے کی دعوت دی۔

اس کے بعد اپنی برادری کو ترغیب دی کہ کوئی شخص ان کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو لیکن میدان خالی پا کر ایک کم علم ارائیں نے مقابلے کی ٹھانی۔ لاہور میں علامہ اقبال کی مقبولیت مسلمہ تھی لیکن ارائیں برادری کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ تھا۔

انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو علامہ کے حامی میدان میں آگئے۔ لال دین اختر ایک مشہور سیاسی کارکن تھے‘ وہ جلسوں اور جلوسوں میں ایک پنجابی نظم پڑھا کرتے تھے جس میں اس ارائیں امیدوار پر پھبتیاں کسی گئیں۔لاہور میں چونکہ سمجھدار طبقے کی اکثریت تھی، اس لیے علامہ اقبال کامیاب رہے۔

٭٭

یو پی (موجودہ بھارت) میں دو تعلقہ دار ایک دوسرے کے مقابلے پر انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ جب ایک امیدوار نے محسوس کیا کہ اس کے حریف کا پلہ بھاری ہے تو اس نے زرضمانت کی قربانی دے کر اپنی جگہ ایک طوائف کو کھڑا کر دیا۔ یہ دیکھ کر اس کے حریف نے پوسٹر چھپوائے جن پر یہ شعر لکھا:

دل تو دیجئے دلبربا کو

ووٹ شمس الدین کو

جیسا کہ متوقع تھا‘ طوائف کی ضمانت ضبط ہو گئی لیکن شمس الدین کے لیے یہ طعنہ ہمیشہ کے لیے رہ گیا کہ ایک طوائف سے جیتے تو کیا کمال کیا۔

٭٭

امریکا اور برطانیہ جمہوریت کے علم بردار شمار ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاں کی جمہوریت بھی اعجوبوں سے بھرپور ہے ۔مثلاً جس طرح امریکا کے چیف جسٹس کے لیے قانون داں ہونا ضروری نہیں اسی طرح برطانوی دارالعوام کا اسپیکر واحد رکن ہوتا ہے جسے تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔

مغربی دنیا کی سیاست میں مقبولیت کے انداز بھی نرالے ہیں۔ عوام چاہیں تو مجرموں کو سر پر چڑھائیں‘ چاہیں تو سیاسی تجربہ رکھنے والے صدر کو واٹرگیٹ سکینڈل کی نذر کر دیں۔

لانڈرو فرانس کا ایک بدنام مجرم تھا جس پر گیارہ عورتوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس پر طویل عرصے تک مقدمات چلتے رہے اور اس دوران وہ اس قدر مشہور ہو گیا کہ اس نے فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔16نومبر 1919ء کو منعقدہ انتخابات میں اسے کئی ہزار ووٹ مل گئے۔

٭٭

عام طور پر انتخابات میں جو شخص اپنے حریفوں سے زیادہ ووٹ لے اسے کامیاب قرار دیا جاتا ہے لیکن برطانیہ میں ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص نے صرف ایک ووٹ لیا اور وہ بھی اس کا اپنا تھا… لیکن وہ دارالعوام کا رکن منتخب ہو گیا۔ یہ 1794ء کا واقعہ ہے۔

مشہور اخباری کارٹون سیریز، رپلے، مانو یا نہ مانو(Ripley’s Believe It or Not!) میں درج ہے کہ فریڈرک سٹوارٹ بیوٹ شائر ضلع کا نمائندہ تھا جس کی آبادی چودہ ہزار تھی لیکن صرف تئیس افراد ووٹ دینے کے اہل تھے۔انتخابات کے موقع پر22 آدمی غیر حاضر تھے‘ یوں فریڈرک صرف اپنا ووٹ دے کر دارالعوام برطانیہ کا رکن بن گیا۔

٭٭

ایک بار نیویارک کے ایک کلب کے ارکان نے نئے سال کے عہدے دار منتخب کرتے وقت گزشتہ سال کے عہدے دار دوبارہ اس لیے منتخب کر لیے کیونکہ کلب کے دفتری پیڈ کی دو ہزار جلدیں بچی پڑی تھیں اور ان پر عہدے داروں کے نام چھپے ہوئے تھے۔

٭٭

ست لینڈن لاروش(Lyndon LaRouche) امریکا کی ایک دلچسپ شخصیت رہی ہے۔ اسے فراڈ کے ایک مقدمے میں 15 سال قید ہوئی تھی لیکن صرف ایک تہائی قید کاٹنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ1976ء سے لے کر 2004 ء تک وہ ہر صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیتا رہا ۔یہ ریکارڈ ابھی تک کوئی امریکی امیدوار نہیں توڑ سکا۔ 1992ء میں بھی وہ صدارتی امیدوار تھا اور جیل کے اندر سے اپنی انتخابی مہم چلاتا رہا۔

1996ء میں ہونے والے انتخابات میں وہ پھر کھڑا ہوا۔ عدالت نے اسے انتخاب لڑنے کی اجازت تو دے دی لیکن اس پر پابندی لگا دی کہ وہ خود کو یا کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ نہیں دے سکے گا۔

٭٭

امریکا کی دو مشہور سیاسی جماعتوں سے کون واقف نہیں یعنی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن! ان دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان مستقل جھڑپ رہتی ہے۔ ایک دوسرے پر طنز و مذاق کے چھینٹے ڈالے جاتے ہیں اور پھبتی کے ایسے ایسے شاہکار مرتب ہوتے ہیں کہ باید و شاید۔

پروفیسر جولیس ایچ میلوے1876ء میں امریکی کانگرس کا رکن منتخب ہوا۔ اس نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک امیدواروں کو شکست دے کر یہ بلند رتبہ حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کی انتخابی مہم کا کل خرچ صرف تین سینٹ تھا جو اس نے اپنی درخواست پر ٹکٹ لگانے کی صورت میں ادا کیا۔آج اتنے کم بلکہ برائے نام خرچ پر انتخاب میں حصہ لینے کا تصور بھی محال ہے۔

٭٭

مارگن بلکلے (Morgan Bulkeley )چار سال تک کنکٹی کٹ ریاست (امریکا) کا گورنر رہا حالانکہ نہ وہ امیدوار تھا نہ ہی منتخب ہوا۔ وہ جنوری 1889 ء میں عبوری گورنر بنا۔اس کے بعد ریاستی اسمبلی1890ء میں گورنر کے انتخاب میں جیتنے والے امیدوار پر متفق نہ ہو سکی چنانچہ نارمن 1893ء تک اسی عہدے پر کام کرتا رہا۔

٭٭

پاکستان میں بھی جنرل یحییٰ کئی سال تک منصب صدارت پر فائز رہے حالانکہ وہ منتخب ہوئے نہ صدارت کا حلف اٹھایا۔پاکستان میں غیرمنتخب صدور کی معقول تعداد پائی جاتی ہے۔

٭٭

میجر جنرل ایرل شیرون اسرائیل کا وزیراعظم رہا ہے۔ 1973 ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔فلسطینی عرب اسے ’’بیروت کا قصائی ‘‘کہتے ہیں۔ اس کا قول ہے’’میں سیاست کے میدان میں ابھی داخل ہوا ہوں اور یہ مجھے جنگ کے میدان سے زیادہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ میدان جنگ میں آپ کو صرف دشمن سے لڑنا پڑتا ہے لیکن سیاست میں آپ کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے حتی کہ اپنے ساتھیوں سے بھی۔‘‘

٭٭

عام انتخابات جس قسم کے بھی ہوں ،بڑی دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ امریکا کی ریاست نیوجرسی کے شہر کیمڈن میں ۱۹۷۳ء میں میئر بننے کے لیے آٹھ امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا۔ ان میں ایک امیدوار قتل کے جرم میں پندرہ سال قید کی سزا بھگت چکا تھا۔ ایک دوسرے امیدوار پرقاتلانہ حملے کاالزام تھا۔ تیسرے امیدوار نے ایک بار کسی کو قتل کی دہمکی دی تھی اور گرفتار بھی ہوا تھا۔ چوتھے امیدوار کے خلاف دھوکہ دہی سے لے کر چوری تک کے مقدمے درج تھے۔ (اخبارکی خبر …2 جنوری 1981ء )

٭٭

پھولن دیوی بھارت میں ’’ڈاکوؤں کی ملکہ‘‘ کے خطاب سے مشہور تھی۔ اس نے گیارہ سال جیل میں گزارے۔ 1994 ء میں اتر پردیش(بھارت ) کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادیو نے اس پر عائد کیے ہوئے الزامات ختم کر کے اسے رہا کرادیا۔ بعد کو وہ بھارت کی لوک سبھا کے انتخاب میں کامیاب ہو کر رکن پارلیمنٹ بن گئی۔

اس پر پھر فلم بنائی گئی جس سے اس کی شہرت دنیا بھر میں ہوئی۔ برطانوی دارالعوام میں حزب اختلاف کی مس ملڈرڈگورؤن ین نے اسے1998ء کے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا۔

٭٭

دنیا کے اکثر جمہوری ممالک کی مجالس قانون ساز پرامن اور خاموش شمار کی جائیں گی اگر ان کا موازانہ فرانس کی مجلس نمائندگان سے کیا جائے۔ اس کا 1951ء کا ریکارڈ یہ ہے:

سوشلسٹ پارٹی کے ارکان سب سے زیادہ پرامن اور شریف ثابت ہوئے ‘ انہوں نے لفظ ’’جھوٹا‘‘ صرف 97 دفعہ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ کیمونسٹ ممبران نے لفظ ’بدمعاش‘ سو دفعہ‘ قاتل 179 دفعہ ‘خنزیر204 دفعہ‘ فاشسٹ 274 دفعہ‘ گورکن 18 دفعہ اور پدار 8 دفعہ استعمال کیا۔113 دفعہ ایسے الفاظ استعمال کیے جو اشاعت کے قابل نہیں۔

برسراقتدار جماعت کے ارکان نے یہ خطابات استعمال کیے:سٹالن کے چمچے32دفعہ‘ گندے مچھلی فروش17 دفعہ‘ پاگل21 دفعہ‘ غدار19 دفعہ‘ بدمعاش128 دفعہ‘ غنڈے120 دفعہ۔کیمونسٹوں اور ان کے مخالفین میں سینتیس مواقع پر ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

٭٭

کیمونسٹ دور میں روس میں جو سویت یونین کہلاتا تھا، جمہوریت کا یہ عالم رہا کہ صدر کا انتخاب صرف پولٹ بیورو کے چودہ ارکان کرتے تھے۔

٭٭

یہ امریکا کے قیام کے ابتدائی دنوں کا قصہ ہے۔فلاڈیلفیا (امریکا) میں آئینی کنونشن کے موقع پر ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی کہ امریکا کی باقاعدہ فوج پانچ ہزار فوجیوں تک محدود کر دی جائے۔ جارج واشنگٹن جو صدارت کررہا تھا اور بطور صدر تحریک پیش نہیں کر سکتا تھا‘ اس نے اپنے قریب بیٹھے ایک رکن کو آہستگی سے کہا’’تم تحریک پیش کرو کہ کوئی بیرونی دشمن تین ہزار فوجیوں سے زیادہ تعداد سے ہم پر حملہ نہ کرے۔‘‘

٭٭

ایک بھارتی سکھ‘ کاکا جوگندر سنگھ نے 1962ء سے لے کر 1998 تک تین سو سے زیادہ مرتبہ انتخابات لڑ ے مگر ہر دفعہ ناکام رہا ۔ اس کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا۔ وہ صوبائی اسمبلی کی220 اور مرکزی اسمبلی کی100 نشستوں سے انتخاب لڑا۔ ایک دفعہ وہ ترانوے نشستوں سے بطور امیدوار کھڑا ہوا۔ وہ ہر دفعہ ہارتا مگر انتخاب لڑنے کو مشغلے کے طور پر اختیار کیے رکھا۔ وہ نہ ووٹ مانگنے جاتا نہ کسی کو اپنا پولنگ ایجنٹ بناتا ۔ وہ عمرانیات اور فلسفے میں ایم اے تھا اور ایک دفعہ بھارت کے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لے چکا ۔

٭٭

تمام جمہوری ممالک میں مجلس قانون ساز سے باقاعدہ منظور کیا ہوا آئین نافذ ہے۔ برطانیہ میں گو آئینی بادشاہت ہے اورنظام جمہوری شمار ہوتا ہے پھر بھی وہاں کوئی تحریر شدہ آئین نہیں۔ وکٹوریا ٹاور میں1497ء سے لے کر اب تک کے پارلیمنٹ کے منظور شدہ ایکٹ محفوظ ہیں اور وہ ہی برطانیہ کے قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔

عوام نے گدھے کو اپنا لیڈر بنا لیا

1994ء میں میکسکیو میں سینیٹ کاالیکشن ہوا۔میکسکین سینٹ میں ہر ریاست سے تین سینیٹر منتخب ہو کر جاتے ہیں۔ ریاست،گیریرو کے علاقے چلپا ڈی الوریز(Chilapa de Álvarez) میں عوام اپنے سینٹر، سیزر مینڈوزا (cesar mendoza) سے بہت ناخوش تھے۔اس نے پچھلے چھ سال میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا تھا۔مگر وہ دوبارہ الیکشن میں کھڑا ہو گیا۔

چلپا ڈی الوریز کے عوام نے تبھی متفقہ طور پہ دیابلو(diablo) نامی ایک آٹھ سالہ گدھے کو اس کے مقابلے پر کھڑا کر دیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کے مانند علاقے میں پھیل گئی۔ الیکشن والے دن لوگ جوق در جوق ووٹ ڈالنے آئے …صرف اس لیے کہ دیابلو کو جتوا سکیں۔اس طرح ایک گدھا سیزر مینڈوزا کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیت گیا۔

اس عجیب وغریب الیکشن کو پورے میکسیکو میں شہرت ملی۔ بعد ازاں میکسیکن سپریم کورٹ نے علاقے میں ہوا الیکشن کالعدم قرار دے ڈالا، تاہم چلپا ڈی الوریز علاقے کے عوام کا مطلب پورا ہو گیا۔ قومی تحقیقاتی ادارے سیزر مینڈوزا کے خلاف تحقیق کرنے لگے۔ اسے سیاست کے میدان سے باہر نکال دیا گیا اور وہ پھر کبھی سینٹر نہیں بن سکا۔

The post الیکشن کا میلہ سج گیا appeared first on ایکسپریس اردو.


ملے پارٹیوں کو نشاں کیسے کیسے

$
0
0

ایک ادارہ ہے الیکشن کمیشن، ویسے تو ہیں اور بھی دنیا میں کمیشن بہت اچھے، جیسے وہ کمیشن جو کھایا جاتا ہے اور دوسرا جو اس کھانے کی تحقیقات کے لیے بنایا جاتا ہے، اور پھر پتا ہی نہیں چلتا کہاں سے آیا کدھر گیا وہ، الیکشن کمیشن کو کھایا نہیں جاسکتا، البتہ کھانے پکانے میں اس کی اہمیت وہی ہے جو آگ کی، یعنی اس کے بغیر نہ کھچڑی پک سکتی ہے، نہ دال گَل سکتی ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ الیکشن کمیشن ہے تو انتخابات ہی کرواتا ہے نکاح تو کروانے سے رہا۔ ویسے کبھی کبھی انتخابات نہیں بھی کرواتا، جس سے گمان ہوتا ہے کہ انتخابات کروانے کے ساتھ نہ کروانا بھی اس کی ذمے داری ہے۔

یہ ادارہ دیگر انتخابی فرائض انجام دینے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات بھی دیتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ سیاسی جماعتوں کو ’’آ میری رانی لے جا چَھلّا نشانی‘‘ گاکر بلایا اور نشانات تھمادیے جاتے ہوں گے۔ نہیں بھئی، پوری سنجیدگی اور بڑے اہتمام سے یہ فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔

رانی کو چھلا نشانی دے دی سو دے دی، مگر الیکشن کمیشن کے ’’راجا‘‘دی ہوئی نشانی واپس بھی لے سکتے ہیں، ’’بَلّا نشانی‘‘ سامنے کی مثال ہے۔

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو عطاکردہ انتخابی نشانات کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں بَلّا بھی غائب ہے اور بَلّا گھماکر انتخابی میدان میں اُترنے کو تیار پاکستان تحریک انصاف بھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو نشان بانٹتے ہیں وہ نام ونشان مٹانے کی بھی ٹھان سکتے ہیں۔

انتخابی نشان کوئی پیار کی نشانی تو ہے نہیں کہ اک شہنشاہ نے بنواکے حسیں تاج محل، دنیا والوں کو محبت کی نشانی دے ہی دی ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے دنیا والوں کی ہوگئی، ہمیں یقین ہے کہ اگر آج شاہ جہاں صاحب ہوتے اور تاج محل پاکستان میں ہوتا تو کسی بھی ’’ٹھیکے دار‘‘ کے بہلانے پھسلانے پر تاج محل گراکر پلاٹنگ کرچکے ہوتے۔

خیرذکر تھا بَلّے کا۔ الیکشن کمیشن کی فہرست میں مزے کی بات یہ ہے کہ بلا نہیں مگر بلے باز موجود ہے، جو نشان بنا ہے ’’پاکستان تحریک انصاف نظریاتی‘‘ کا، یہ سوال مت پوچھیے گا کہ پی ٹی آئی نظریاتی کہاں نظر آتی ہے؟

یہ نظر آئے نہ آئے اسے ملنے والا بلے باز کا نشان انتخابی پرچی پر نمایاں طور پر دکھائی دے رہا ہوگا، اور اگر بلا بڑا اور ’’باز‘‘ چھوٹا ہوا، تو بہت سے رائے دہندگان اس نشان کو بَلّا سمجھنے سے باز نہ آئیں گے۔

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست میں بعض نشانات اور ان سے متعلق جماعتوں کا تعلق بڑا دل چسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ فہرست دیکھ کر خیال اتا ہے ’’ملے پارٹیوں کو نشاں کیسے کیسے۔‘‘ ایک ہے ’’پاکستان امن تحریک‘‘ جسے میزائل کا نشان عطا کیا گیا ہے۔

یہ نشان دے کر گویا امن والوں کی سیاست کا اُڑایا ہے مذاق۔ ہمیں لگتا ہے کہ امن تحریک کے امیدوار اس نشان پر شرمندہ شرمندہ سے اس طرح کے نعرے لگارہے ہوں گے،’’بھائیو! ہم ہیں امن کے قائل۔۔۔۔ہے نشاں خواہ مخواہ ہی میزائل۔‘‘ ویسے وہ شرمندہ ہوئے بغیر یوں بھی کہہ سکتے ہیں،’’امن کی کوشش گر ہوئی زائل۔۔۔۔تو ہم چلا دیں گے اپنا میزائل۔‘‘

جس حساب سے سیاسی جماعتوں کو جنگی نوعیت کے نشانات دیے گئے ہیں اس سے یوں ہی غلط فہمی سی ہوتی ہے کہ یہ نشانات الیکشن کمیشن نہیں کسی ’’کمیشنڈ افسر‘‘ کی ذہنی اختراع ہیں! ارے نہیں نہیں، خدارا ہماری بات کا کچھ اور مطلب نہ لیں، ہمیں الیکشن کمیشن کے آزاد اور غیرجانب دار ادارہ ہونے پر ذرا شک نہیں بلکہ پورا۔۔۔۔خیر چھوڑیے، بات ہورہی تھی عسکری نشانات کی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کو ملنے والا تیر تو پرانی بات ہوگئی، یوں بھی بغیر کمان کا تیر بس کمر کھجانے ہی کے کام آسکتا ہے، اور جب سے آصف زرداری صاحب نے پارٹی کی کمان سنبھالی ہے بے کمان کے تیر کی اس افادیت سے صرف سندھ والے فیض یاب ہورہے ہیں، کچھ اور جماعتوں کو جو نشان ملے ہیں وہ عہد جدید کا سامان جنگ ہیں، جیسے ایک جماعت تحریک لبیک اسلام کو توپ ملی ہے۔

اس جماعت کے کارکن نعرہ لگا سکتے ہیں’’توپ ہی Hope ہے‘‘، لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ اگر ’’کہیں‘‘ اس نعرے پر لبیک کہنے کی تحریک جاگ اٹھی انتخابات کی تاریخ تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ اسی طرح متحدہ علماء مشائخ کونسل آف پاکستان کو بہ طور نشان لڑاکا طیارہ ملا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے لڑاکا طیارہ کسی سیاسی جماعت کے کس کام کا! ہمارا مشورہ ہے کہ متحدہ علماء مشائخ کونسل الیکشن کمیشن کو عرضی بھیجیے،’’حضور! لڑاکا طیارے کے بجائے ہمیں جہانگیرترین کا طیارہ عطا کردیجیے، تو ہم ایک بھی نشست جیتے بغیر اپنی حکومت بنالیں گے۔‘‘

ایک اور جماعت نظریۂ پاکستان کونسل کو جنگی ٹینک دیا گیا ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ بذریعہ ٹینک پاکستان میں سمجھ کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے، لیکن نظریہ پاکستان سے منسوب سیاسی جماعت کو یہ نشان دے کر شاید بتایا گیا ہے کہ ٹینک بھی سیاسی ہوتے ہیں۔ تحریک تحفظ پاکستان کے حصے میں ریوالور آیا ہے۔ اب آپ ہی کہیے، کہاں پاکستان کے تحفظ کا دعویٰ اور کہاں ننھامُنا سا ریوالور، یہ تو الیکشن کمیشن نے صاف صاف کہہ دیا ’’تم سے نہ ہوپائے گا۔‘‘

استحکام پاکستان تحریک کا نشان ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا۔۔۔۔سِکّے۔ جتنے بھی نشانات ہیں ان میں پُرکشش ترین یہی نشان ہے۔ سِکّوں کو پیار سے ریزگاری کہتے ہیں، جو اب بھکاری بھی نہیں لیتے، مگر کچھ بھی ہے سِکّہ زر کی علامت ہے، اور سکّہ رائج الوقت ہو تو اس کا برتنا بڑا فائدہ دیتا ہے، جیسے ان دنوں ’’نو مئی کی مذمت کرتا ہوں‘‘ کا نعرہ سکہ رائج الوقت ہے، جس سے اجتناب برا وقت لاسکتا ہے۔

اگر یہ جماعت استدعا کرکے اپنا نشان کھوٹے سکے لے لیتی تو کام یابی یقینی تھی کہ ہمارے ہاں کھوٹے سِکے چناؤ کی منڈی میں خوب چلتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک ’’پاکستان تحریک ایمان‘‘ بھی ہے، جسے ہُدہُد کا نشان ملا ہے۔

ہُدہُد کے بارے میں ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار جوڑی بناتا ہے، اور رفیق حیات کے مرجانے کے بعد تنہا ہی زندگی گزار دیتا ہے۔ اگر تحریک ایمان ہُدہُد کی اس خاصیت کی تشہیر کرے تو ہمیں یقین ہے کہ خواتین کی اکثریت اس نشان پر مُہر ثبت کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اتنے ووٹ مل جائیں کہ مخالفین اسے تحریک ایمان کی بے ایمانی سمجھیں اور اس جماعت کا خدا کی قدرت پر ایمان اور بڑھ جائے۔

رابطہ جمعیت علمائے اسلام کو ملی ہے انگوٹھی۔ اس نشان میں کنواروں کے ارمان مچلتے دکھائی دیتے ہیں۔ رابطہ جمعیت علمائے اسلام کو چاہیے اس نکتے کو اپنے منشور کا حصہ بنالے کہ وہ جیت گئی تو ہر کنوارے کی انگلی میں انگوٹھی ہوگی۔ پاکستان تحریک سچ کے ساتھ دل پشوری کرتے ہوئے اسے مگرمچھ کا نشان سونپ دیا گیا ہے۔

ہوگا یہ کہ سچ کی علم بردار اس جماعت کے راہ نما عوام کے مصائب پر اظہارغم فرمائیں گے تو عوام کو اس کا انتخابی نشان دیکھ کر مگرمچھ کے آنسو نظر آئیں گے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے تحریک۔ سچ کو یہ نعرہ لگانا چاہیے ’’نشان ہے مگرمچھ۔۔۔ آنسو ہمارے مگر سچ۔‘‘ تحریک تبدیلی نظام پاکستان کا نشان ہے ہاتھی، مگر پتا نہیں یہ سیاہ ہاتھی ہے یا سفید ہاتھی۔ اب تو تبدیلی کا نام سنتے ہی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کا سچ ہوجانے والا مقولہ دماغ میں گونجنے لگتا ہے، ایسے میں تحریک تبدیلیٔ نظام پاکستان لاکھ کہے کہ ہاتھی سب کا ساتھی، کوئی یقین نہیں کرے گا، اور اگر کسی نے ایک مشہور نغمہ یاد کرتے ہوئے پوچھ لیا ’’کیا مظلوموں کا بھی ساتھی ہے؟‘‘ تو نہ اقرار کرسکے گی نہ انکار۔ تبدیلی چاہنے والی ایک اور جماعت تبدیلی پسندپارٹی کی انتخابی علامت بنا ہے تاج۔ بھلا بتائیے کہاں تبدیلی کا انقلابی جذبہ کہاں تاج جیسی بادشاہت کی نشانی۔ ان تبدیلی والے بھائیوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے انتخابی نشان میں تبدیلی لائیں، اور الیکشن کمیشن سے درخواست کریں کہ کچھ اور نہیں تو کم ازکم اچھلتا ہوا تاج ہی دے دیجیے۔

بہ ہرحال جس کو جو نشان ملنا تھا مل گیا۔ اب سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے حامیوں کو اپنا اپنا انتخابی نشان اچھی طرح ازبر کروادیں، اور جو بات استاد قمرجلالوی نے نامہ بر سے خط کے لیے کہی تھی وہ ان کے شعر میں تبدیلی کے ساتھ رائے دہندگان کو یوں سمجھادیں:

ان کے دھوکے میں نہ دے آنا کسی دشمن کو ’’ووٹ‘‘

یاد ’’کرلو ووٹرو!‘‘ نام ونشاں اچھی طرح

The post ملے پارٹیوں کو نشاں کیسے کیسے appeared first on ایکسپریس اردو.

نیند اور دل کے درمیان تعلق کی حقیقت

$
0
0

بلاشبہ انسانیت کے وجود کے لئے جسم کے ساتھ روح بھی ناگزیر ہے، لہذا ان دونوں کی حفاظت اور تندرستی انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور دل جسم کا وہ عضو ہے، جسے روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے نہایت اہمیت حاصل ہے۔

روحانی اعتبار سے ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’’ انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور اگر اس میں خرابی پیدا ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے، جسم کا یہ حصہ دل ہے‘‘ جبکہ دوسری طرف جدید سائنس بتاتی ہے کہ انسانی وجود کے اہم جزو دماغ کی تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی انسان غمزدہ اور پریشانیوں میں مبتلا ہے، جس کی وجہ بلاشبہ دل ہی ہے۔

اگر آپ کا دل پریشان ہے تو پھر جتنی بھی ترقی ہو جائے ایک انسان مطمئن و پُرسکون نہیں ہو سکتا، لہذا دل کے تندرستی اور صحت مندی نہایت ضروری ہے۔ تاہم یہاں ہم انسانی جسم میں اہمیت کے اعتبار سے ذہن و دل کا کوئی مقابلہ کرنے نہیں جا رہے بلکہ یہ بتانے جا رہے ہیں کہ ہم ایسا کیا کر سکتے ہیں؟ جس سے دل کے دھڑکنے کی رفتار متاثر نہ ہو اور یہ صحت مندانہ طریقے سے کام کرتا رہے۔

عمومی طور پر ہمیں اپنے اردگرد ایسے بے شمار واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں رات کو سویا تو اسے ہارٹ اٹیک آ گیا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں، رات کے وقت آنے والے ہارٹ اٹیک کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک بہت بڑی وجہ نیند، سونے کا غلط طریقہ اور وقت ہے۔ امریکا کے ممتاز ماہرین امراض قلب نے کئی ماہ کی کاوشوں کے بعد اپنے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ سونے کے وقت کا آپ کے دل کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔

عمومی طور پر دنیا میں نیند کے حوالے سے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو بناء کسی مشقت کے فوراً سو جاتے ہیں جبکہ دوسری قسم کو اس نعمت کے حصول کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں سونے کے وقت، طریقوں اور دل کو لاحق خطرات کے بارے میں بتایا گیا ہے، جس کا ہم یہاں ذکر کرنے جا رہے ہیں۔

نیند کی خرابی یعنی وقت بے وقت آنکھ کا کھلنا آپ کے دل کا بہت بڑا دشمن ہے، خصوصاً اس وقت جب آپ کے جسم کو ابھی مزید 10 منٹ آرام کرنا تھا۔ Vanderbilt University Medical Center امریکا کی معروف محقق ڈاکٹر کیلسی فل بتاتی ہیں کہ انہوں نے امریکن معاشرے کے 6 گروہوں میں سے 2 ہزار 32 افراد کا چناؤ کرکے ان کے سونے کے طور طریقوں پر تحقیق کی، جس سے معلوم ہوا کہ ایک ہفتے میں 2 گھنٹے سے زائد نیند کی خرابی آپ کے دل کو خطرات لاحق کر سکتی ہے۔

اور نیند کی یہ بے قاعدگی دل کے لئے خاموش قاتل کے طور پر کام کرتی ہے، جو اندر ہی اندر دل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ڈاکٹر کیلسی کا کہنا ہے کہ ’’باقاعدہ اور مقررہ وقت کی نیند دل کے امراض سے بچاؤ میں نہایت اہمیت کی حامل ہے‘‘ ہمارے جسم کی مثال ایسی مشین کی ہے، جو باسہولت طریقے سے کام کرتی ہے جو ہمارے اندرونی نظام کے قاعدے کو کنٹرول کرتی ہے۔ اور اسی نظام میں ایک نیند ہے، لیکن جب ہم نیند کے اوقات کو مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں تو یہ نظام متاثر ہوتا ہے کیوں کہ بار بار سونے کے اوقات کی تبدیلی کو جسم کے لئے قابل قبول بننا مشکل ہو جاتا ہے۔

یوں نئی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح نیند کے اوقات کی تبدیلی ہمارے دل سے جڑی ہے۔ تحقیق کے دوران جن افراد کو شامل کیا گیا، ان سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ان افراد کی آنتوں میں کیلشیم کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، جو دل کی نالیوں میں خون کی روانی کو متاثر کرتا ہے۔

ڈاکٹر کیلسی اور ان کی ٹیم کے حتمی نتائج کے مطابق نیند میں بے قاعدگی امراض قلب کو جنم دیتی ہے۔ لہذا یہاں ہم آپ کو امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کی ان تجاویز سے آگاہی دینے جا رہے ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر نیند کی ہر قسم کی خرابی پر قابو پانے میں نہایت مدد مل سکتی ہے، جو نتیجتاً آپ کو دل کے امراض سے بچا یا پہلے سے متاثرہ دل کو تقویت دے سکتی ہیں۔

.1 سونے اور جاگنے کے لئے ایک مقررہ وقت طے کرتے ہوئے مستقل اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔

.2 ہر بالغ مرد یا عورت روزانہ رات کو سات سے آٹھ گھنٹے ضرور نیند لے۔

.3 سونے کے لئے جگہ اور بستر کو مخصوص کریں یعنی آپ جب بھی سوئیں تو اپنے بستر اور اپنی جگہ (کمرہ وغیرہ) پر آرام کریں۔

.4 سونے کے کمرے کو پُرسکون اور راحت کا مرکز بنائیں یعنی ایسی جگہ جہاں تناؤ، خلفشار یا شور نہ ہو۔

.5 شام کے اوقات میں لائٹس کو آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کر دیں تاکہ آپ کا دماغ جسم کو یہ بتا سکے کہ اب رات ہونے والی ہے اور میں نے سونا ہے۔

.6 سونے کے مقررہ وقت سے کم از کم 30 منٹ پہلے اپنے تمام الیکٹرانگ آلات جیسے موبائل، کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن وغیرہ بند کرتے ہوئے خود پر ڈیجیٹل کرفیو نافذ کر دیں۔

جلد کو تیزی سے بڑھاپے کا شکار کرنے والی غذائیں

انسانی جلد طبی اعتبار سے ایک انتہائی حساس معاملہ ہے،کیوں کہ کبھی آب و ہوا تو کبھی غیرمنظم کھانوں سے یہ بہت متاثر ہوتی ہے۔ انسانی جلد کا بڑھتی عمر کے ساتھ متاثر ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ہمارے ہاں کم عمری میں ہی چہروں پر بڑھاپے کے اثرات نمودار ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ جلدی خلیات کی درست طریقے سے پرورش نہ ہونا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، آپ جو کھاتے اور پیتے ہیں، اس میں غیر نظم و ضبط کے انتخاب آپ کے رنگت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اور نتیجتاً آپ وقت سے پہلے بڑھاپے کے اثرات اپنے چہرے پر سجا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی رات اگر آپ نے پیزا، تلی ہوئی خوراک یا غیرصحتمندانہ مشروبات کا کثرت سے استعمال کیا تو صبح کے وقت آپ کے چہرے پر اس کے بد اثرات نمودار ہو سکتے ہیں۔

انسانی جلد کی صحت مندی و تندرستی کے لئے بے شمار غذائیں، ادویات اور ورزشیں تک موجود ہیں لیکن یہاں ہم ان کے برعکس آپ کو ایسی غذاؤں کے بارے میں بتائیں گے، جن کے استعمال سے آپ جلد بوڑھے دکھائی دیں گے، یعنی آپ کی جلد متاثر ہو سکتی ہے۔

مستند غذائی ماہر اور ماہر امراض جلد امریکی ڈاکٹر ڈانا ایلس ہنز اور ڈاکٹر جیسکا کرانٹ کا کہنا ہے کہ آپ کی جلدی عمر کو تیز کرنے والے کھانوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں، جلدی کی صحت کے حوالے سے یہ نامناسب غذائیں ہیں، جن میں فائبر اور اینٹی آکسیڈینٹ بہت کم تعداد میں ہوتا ہے اور وہ اکثر جانوروں کے ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں۔

یہ غذائیں کھانے سے آپ کے جسم میں سوزش اور داغ دھبوں کے نشانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ غذائیں جلد کے کروموسومز کو متاثر کرتی ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی جلد نمایاں طور پر تیزی سے مرجھا جاتی ہے۔ دوسرا ڈاکٹر ایلس بتاتے ہیں اگر آپ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال نہیں کرتے، جو اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہیں تو پھر آپ جلد ہی بوڑھے دکھائی دینے لگتے ہیں، اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غذائیں انسانی جسم و جلد کو توانائی فراہم کرتی ہیں۔

اینٹی آکسیڈنٹس کے بغیر، آپ کے جسم میں سوزش بڑھ سکتی ہے، جس سے جلد کے صحت مند خلیوں کی عمر تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹر ڈانا ایلس ہنز اور ڈاکٹر جیسکا کرانٹ کے مطابق یہ وہ پانچ غذائیں ہیں، جن کے استعمال سے آپ کی جلدی تیزی سے جھریوں اور داغ دھبوں کا شکار ہو سکتی ہے۔

چینی

پیکنگ والے کھانوں، سوڈا، مٹھائیوں اور ٹافیوں میں استعمال ہونے والا میٹھا یعنی چینی انسانی جسم میں سوزش کو متحرک کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور انسانی جسم میں بڑھنے والی سوزش کے جلد پر بداثرات کے بارے میں ہم آپ کو اوپر بتا چکے ہیں۔ 2010ء میں جلد پر ہونے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ کیمیائی عمل سے بننے والا میٹھا جلد کو خشک اور کم لچکدار بنا دیتا ہے، جس سے جھریاں جنم لیتی ہیں۔

ڈیری مصنوعات

دودھ کی وہ مصنوعات، جنہیں خاص کیمائی عمل سے بنایا جاتا ہے یا زیادہ وقت تک محفوظ رکھنے کے عمل سے گزارا جاتا ہے، ان میں خطرناک چربی ہوتی ہے، جو کہ درحقیقت انفلیمیٹری یعنی سوزش ہوتی ہے، جو جلد کی عمر بڑھاتی ہے۔

جیسا کہ ڈاکٹر جیسکا کرانٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق گوشت اور ڈیری مصنوعات پر مشتمل غذاؤں کے بارے میں بتاتی ہے، جس میں کولیسٹرول ہوتا ہے لیکن فائبر نہیں، جس کے باعث سوزش اور نتیجتاً جلد کی عمر تیزی سے بڑھتی ہے۔

دودھ میں شامل کیسین نامی پروٹین بھی سوزش کو متحرک کرنے میں کردار ادا کرتا ہے اور جِلدی چھیدوں کو بند کردیتا ہے، جس کے باعث چہرے پر مہاسے اور دیگر جِلدی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

کیمیائی عمل سے تیار شدہ گوشت

سینڈوچ سے لے کر پیزا تک پروسیس شدہ یعنی تیار شدہ گوشت کا استعمال آج دنیا بھر میں کیا جاتا ہے، جس میں چسکا ضرور ہے لیکن درحقیقت یہ غذائیت سے محروم ہے۔

تیار شدہ گوشت سوڈیم سے بھرا ہوتا ہے، جو سوجن کا سبب بن سکتا ہے، اس کے علاوہ ان میں نائٹریٹ نامی جزو بھی پایا جاتا ہے، جو سوزش کے عمل کو متحرک کرتا ہے، مزید برآں یہ گوشت وٹامن سی کو خود استعمال کر لیتا ہے، جو کہ کولیجن پروٹین کی پیداوار اور صحت مند جلد کے لئے ضروری ہے۔

تلی ہوئی غذائیں

جب کسی بھی کھانے کو تلنے کے لئے کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا جاتا تو یہ خاص مرکب (ریڈیکلز) کے اخراج کا باعث بنتا ہے، جس کی کمی جلد کو متاثر کرتے ہوئے اس کی لچک تیزی سے کم کرنے کی وجہ بنتا ہے۔ اور پھر اس عمل کی سب سے بری چیز یہ ہے کہ ان میں خطرناک ٹرانس فیٹس اور ہائیڈرو جنیٹڈ فیٹس ہوتے ہیں، جو جلدی خلیوں کو بہت متاثر کرتے ہیں اور نتیجتاً جسم میں سوزش کے عمل کو تحریک ملتی ہے۔

ڈاکٹر ڈانا ایلس ہنز کہتی ہیں کہ میں ان ٹرانس فیٹس سے دوری کا مشورہ دوں گی، آپ کو قدرتی طور پر جتنا ممکن ہو سکے غذائیت سے بھرپور خوراک کا استعمال کرنا چاہیے۔

الٹراپروسیسڈ کاربوہائیڈریٹ

پیسٹری، چپس، بریڈ اور ڈونٹس وغیرہ الٹراپروسیسڈ، ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس کی واضح مثالیں ہیں، جن کے بارے میں ڈاکٹر جیسکا کرانٹ کہتی ہیں کہ یہ غذائیں سوزش کے عمل کو بڑھاوا دیتی اور غذائیت کی کمی کا باعث ہیں، جن میں فائبر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، اور نتیجتاً ہماری جلد تیزی سے بڑھاپے کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔

The post نیند اور دل کے درمیان تعلق کی حقیقت appeared first on ایکسپریس اردو.

نندنہ ؛ پوٹھوہار کی بہت سی کہانیوں کا رازدار

$
0
0

ایک وقت تھا جب اس ملک میں پہاڑوں کا عالمی دن آتا تھا اور گزر جاتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ جیسے جیسے پھیلتی گئی ویسے ویسے عوام الناس خصوصاً سیاح برادری میں اس دن کو جوش وخروش سے منانے کا رجحان بڑھتا رہا اور اب ماشاء اللہ، ہر سال ہی یہ دن پہاڑی مقامات پر جا کر منایا جا رہا ہے۔

ہم نے بھی گذشتہ دو سال متواتر یہ دن ٹلہ جوگیاں پر جا کر منایا اور اس سال اسی کے قریب واقع ’’نندنہ‘‘ کا پروگرام بنایا جو قدیم بھی ہے اور خوب صورت بھی۔

خان پور سے ہوکر یہ مسافر گوجرانوالہ پہنچا جہاں ہمارے دوست تھویر ملک صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا جو ایک استاد اور فوٹوگرافر ہیں۔

شہرمحبت، گوجرانوالا

گوجرانوالا میں ہم نے درزیاں والی کوٹھی، گھنٹہ گھر، گوردوارہ گرو سنگھ سبہا اور گرونانک خالصہ کالج دیکھا جس کی تفصیل عن قریب گوجرانوالہ پر ایک مفصل مضمون میں بیان کی ’’جاوے‘‘ گی۔ اس کے بعد بعد گھنٹہ گھر بازار میں ’’امرتسری ہریسہ‘‘ کا رخ کیا جو گوجرانوالا میں ہریسے کی ایک قدیم دوکان ہے۔ بھئی مجھے تو لاہور سے زیادہ گوجرانوالا کا ہریسہ پسند آیا باقی سب کی اپنی اپنی پسند ہے۔

اس کے بعد ہم نے جِگرعمران احسان مغل کے گھر کا رخ کیا جو انگریزی کے استاد ہونے کے ساتھ ایک بہترین منظرباز بھی ہیں۔ اُن کے ہاں کافی پینے کے بعد کچھ دیر آرام کیا تب تک باقی احباب بھی یہیں جمع ہوگئے اور یوں سات لوگوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا کارواں گجرات کے لیے روانہ ہوا جس میں ہم تینوں سمیت ہمارے سالار، ذیشان رشید (معلم، مبصر، سیاح)، ہمارے علمی مرشد جناب شہزاد اسلم صاحب، پیارے مُرید عدنان اقبال بھائی (گرافک ڈیزائنر، شاعر) اور ذیشان صاحب کے صاحب زادے مجتبیٰ شامل تھے۔

گجرات پہنچ کے دو سواریوں کو اٹھایا جن میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف گجرات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور سیاح، واجد علی ڈہرکی والا اور ان کے صاحب زادے محسن شامل تھے۔ ایک بولان میں اتنے لوگ سامان سمیت کِس طرح بیٹھے، اس پر مؤرخ خاموش ہے اور خاموشی ہی بہتر ہے۔

گجرات سے باغانوالا

گجرات سے ڈنگہ، چیلیانوالا اور پھر رسول بیراج سے ہو کر ہم پہنچے اس سڑک پر جو جلال پورشریف کی طرف جاتی تھی اور جس پر ہماری زندگی کا ایک کڑا امتحان لکھا تھا۔ انتہائی خستہ حال اور ادھ مری سڑک جس پر جابجا پانی کے جوہڑ اور اڑتی ہوئی مٹی تھی۔ جب باغانوالا میں رات کے کھانے کی بریک لگی تو ہم سب اپنی کمر اور اس سے ملحقہ لوازمات کو سہلاتے ہوئے فرید بھائی کے ٹرک ہوٹل کی چارپائیوں پر ڈھے گئے۔ اگرچہ راستے میں سنگھاڑے، چائے اور گجک کا دور چلتا رہا تھا لیکن بھوک پھر بھی زوروں پر تھی۔

یہاں ہم نے دال ماش اور سالن سے ’’ہاں جھل‘‘ کیا، تب تک عمران بھائی نے گھر سے لائے گئے مسالاجات کو بھونا، راستے سے لیا گیا چکن کا گوشت صاف کرکے مکس کیا اور اپنے چاہت کے تڑکے کے ساتھ گرماگرم چکن کڑاہی دسترخوان پر لا رکھی۔ اگرچہ ایسے ہوٹلوں پر کھانا اچھا ملتا ہے لیکن عمران بھائی جیسے تجربہ کار بندے کی بنائی گئی کڑاہی کے کیا کہنے۔۔۔ مزہ کرا دیا۔

کھانے سے فارغ ہو کے ہم سب ایک بار پھر سے اس بولان ڈبے میں بیٹھ گئے جس میں بیٹھنا اپنے آپ میں ایک آرٹ ہے اور میں سمجھتا ہوں ہماری ٹانگوں اور جوڑوں کو اس پر ایوارڈ ملنا چاہیے۔

نندنہ کی کہکشاں

رات کے آٹھ بجے فرید بھائی کی معیت میں یہاں سے نندنہ کی طرف سفر شروع ہوا۔ وہ بائیک پر ہمارے آگے آگے تھے۔ نندنہ ہائیکنگ ٹریک کے ساتھ قلعہ روہتاس کے ہم شکل، نئے نویلے کنوارے ریزارٹ میں ہم نے اپنا سامان رکھا جس کے اندر صرف چھت اور فرش بنا کے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارے ڈرائیور بھائی نے تو فوراً بستر لگایا اور سوگئے جب کہ ہم سب اپنے اپنے خیمے لادے اوپر گئے اور اس عمارت کی کھلی چھت پر اپنے خیمے لگانے شروع کر دیے جس کی دوسری جانب پہاڑ تھے۔

خیمے لگا کے فارغ ہوئے تو آسمان کو بغور دیکھا، ایک وسیع اور چمکتی ہوئی کہکشاں ہمارے سامنے مسکرا رہی تھے۔ یااللہ بچپن میں جب صحن میں سوتے تھے تب اتنے تارے نظر آتے تھے اور پھر ستارے ہمارے شہروں سے روٹھ گئے۔ آج پوٹھوہار کے یہ ستارے اتنے ہی دل کش لگ رہے تھے جتنے کے بچپن میں لگتے تھے۔ اور ان میں گزرتے وہ جہاز، جسے بچپن میں دیو اور جن کہہ کے ہمیں ڈرایا جاتا تھا اور ہم معصوم یہ بات سچ مان کے چادر میں دبک جاتے تھے۔

کیا دور تھا وہ۔

اس خوب صورت منظر کی عکاسی سے فارغ ہوئے تو عدنان بھائی نے ’’کافی تیار ہوگئی ہے‘‘ کی آواز لگائی اور احباب نیچے کی طرف بھاگے جہاں اینٹوں کا عارضی چولھا تیار کر کے کافی بنائی جا رہی تھی۔ کافی کے بعد گپ شپ کا دور چلا اور ایک ایک کرکے احباب نیند کی وادی میں اترتے چلے گئے۔

صبح سویرے جب آنکھ کھلی تو کچھ دوست آسمان پر نظریں جمائے کڑے تھے۔ سورج ابھی برآمد ہونا تھا۔ زبردست قسم کی ٹھنڈ میں ہم بھی خیمے سے باہر نکلے اور سورج کی جھلک پاتے ہی دھڑا دھڑ فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی شروع کردی۔

سورج گرافی کرنے کے بعد سب تازہ دم ہوئے اور ناشتہ کرکے ہم نے نندنہ قلعے کی طرف قدم بڑھا دیے۔

نندنہ تک جانے والا پہاڑی راستہ جو ایک دور میں کچا اور دشوار ہوا کرتا تھا آج ایک خوب صورت ٹریک کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کے گرد ریلنگ لگا کر اسے فینسی بنا دیا گیا ہے۔ بیچ بیچ میں آرام کے لیے مصنوعی چھتریاں بھی بنائی گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس جگہ پر خصوصی توجہ دی اور سیاحوں کے لیے ریزاٹ تعمیر کروانے سمیت کئی بہترین اقدامات کیے۔ میرے نزدیک دوردراز کے اس پہاڑی علاقے میں جہاں ابھی سیاحوں کا آنا جانا قدرے کم ہے، اسٹیل کی بنی ریلنگ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بغیر بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔

کچھ کچی پگڈنڈیوں، ندیوں اور کھجور کے درختوں سے ہوتے ہوئے ہم پہاڑوں کے بیچ جا پہنچے جہاں یہ ٹریک بل کھاتا ہوا گزر رہا تھا۔ یہاں کے پہاڑ عجیب و غریب تھے۔ مختلف ہیئت کے یوں جیسے امریکی ریاست ’’یوتھاہ‘‘ کے نیشنل پارکس میں ہیں۔ سردیوں کی ٹھنڈی صبح میں دوستوں کے ساتھ یہ نظارہ، کیا کہنے۔ آہستہ آہستہ یہ ٹریک اوپر کو اٹھ رہا تھا اور پہاڑ بھی حجم میں بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ لگ بھگ چالیس منٹ کے ٹریک کے بعد نندنہ کا قدیم مندر ہمارے سامنے تھا۔

نندنہ قلعہ اور شیومندر

ضلع جہلم میں کوہِ نمک کے شرقی کنارے پر، باغانوالا کے قریب پہاڑی کی چوٹی پر واقع صدیوں پرانا نندنہ کا قلعہ ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے جس کی بنیاد لگ بھگ نویں صدی میں ہندوشاہی خاندان کے ایک شہزادے نے رکھی۔

کہتے ہیں کے اس کا نام ایک ہندو بھگوان کے افسانوی باغ ’’نندنہ‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔

پہاڑوں کے درمیان واقع دفاعی نوعیت کا حامل یہ قلعہ نندنہ پاس کی نگرانی اور شمال و مغرب سے حملہ آوروں کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا۔

نندنہ پاس پتھر کا وہ راستہ تھا جو دہلی کو جدید دور کے افغانستان سے ملاتا تھا۔

مشہور ڈچ اسکالر ’’پی ایچ ایل ایگرمونٹ‘‘ نے اپنی مشہور کتاب ’’الیگزینڈرز کمپین ان سدرن پنجاب‘‘ میں اس درے کا تذکرہ اسی راستے کے طور پر کیا ہے جسے سکندر اعظم نے 326 قبلَ مسیح میں راجاپورس کے خلاف ہائیڈاسپس کی جنگ میں استعمال کیا تھا۔

ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سکندر یونانی کی فوج کے گھوڑوں نے پہلی بار اسی مہم کے دوران پتھر چاٹ کر کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کی اصلیت دریافت کی تھی۔

1904 کے جہلم گزیٹئیر کے مطابق

’’مندر تباہ شدہ حالت میں ہے لیکن دیکھا جا سکتا ہے کے اس کی دو منزلیں تھیں اور ایک زینہ بالائی منزل کو جاتا تھا اور دوسری منزل کے گرد بھی ایک راہ داری تھی۔ کٹاس کا بڑا مندر بھی اندر سے اسی طرز پر تعمیرشدہ ہے۔ نندنہ کا مندر کشمیری طرز کا ہے جو بہت قدیم زمانے کے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے جو مندر کی نسبت زیادہ پرانا ہو گا۔ قلعے کی باقیات میں سے دو نیم قوسی برج پہاڑی کے رخ پر آج بھی کھڑے ہیں جو سینڈ اسٹون کے بڑے بلاکس کو نفاست ست تراش کے بنائے گئے ہیں۔

بعد کے زمانے میں مندر کے قریب ایک مسجد کا اضافہ کر دیا گیا اور اب یہ بھی تباہ حال ہے۔‘‘

مشہور سیاح اور مصنف سلمان رشید اس حوالے سے یوں رقم طرز ہیں؛

’’غالباً اس خطے کے پُرامن دن وہ تھے جب یہ کشمیریوں کی حکومت میں تھا۔ کرکوٹا خاندان کا بادشاہ للت آدتیہ (جس نے 624ء سے 660ء تک کشمیر پر حکومت کی) پنجاب کے ایک بڑے حصے بشمول ٹیکسلا، کوہِ نمک اور ہزارہ، کو اپنے زیرِتسلط لے آیا۔

وہ نہ صرف ایک فاتح تھا بلکہ ایک ماہرتعمیر بھی تھا جس نے سالٹ رینج میں عقیدتی فن تعمیر کا دور شروع کیا۔ اور پھر اگلے دو سو سالوں میں قندھار تک جاتی اونچی سڑک پر قلعہ بند مندروں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا۔

یہ عمارتیں، جو شاہیہ مندروں کے نام سے مشہور ہوئیں، اگلی چار صدیوں تک مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہیں۔ اب ان مندروں کے کھنڈرات میں کوئی زائرین نہیں ہیں، صرف تاریخ اور آثار قدیمہ میں دل چسپی رکھنے والے عجیب سیاح ہیں، جن کے لیے سالٹ رینج کی یہ عمارتیں ایک شان دار ماضی کی یاد دہانیاں ہیں۔‘‘

نندنہ میں آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ایک قلعے کے کھنڈرات ہیں جن میں ایک مندر اور ایک مسجد ملتی ہے۔ مندر کو شیو مندر کے نام سے جانا جاتا ہے جو کوہِ نمک کے دیگر مندروں (جیسے کٹاس راج اور ملوٹ) سے مماثلت رکھتا ہے۔

شیو مندر کو ہندو شاہی راج کے بادشاہ ’’جے پال‘‘ کے بیٹے آنند پال نے قرون وسطی کے ابتدائی دور میں تعمیر کیا تھا۔

مخدوش حالت میں کھڑے اس مندر کے بیشتر حصے کو جِدت کے ساتھ مرمت کیا گیا ہے جس سے اوپر کا حصہ قدیم اور نیچے کا نیا نیا لگتا ہے۔ غربی حصہ اور چھت گر چکی ہے جب کہ اندرونی گنبد آدھی گولائی میں اب بھی تاریخ سے کھلواڑ کرنے والوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ کھنڈر کے نیچے قدیم قلعہ بندی اب بھی ایک کھردری پتھر کی دیوار کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔

مغل سلطنت کے دوران بھی نندنہ ایک اہم تفریح گاہ رہی ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کے یہ ان کی پسندیدہ شکارگاہ تھی جہاں وہ پرندوں اور ہرن کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے۔

محمود غزنوی کی مسجد

مندر کے قریب مغرب میں واقع مسجد، محمود غزنی نے ہندو شاہی راج سے اس جگہ پر قبضہ کرنے کے بعد تعمیر کی تھی۔

جہلم گزیٹئر کے مطابق

’’تقریباً 1008ء میں محمود نے بالناتھ کے پہاڑوں میں نندنہ کے خلاف چڑھائی کی اور قلعے کو تسخیر کرنے کے بعد جئی پال کے بیٹے آنند پال کے تعاقب میں کشمیر چلا گیا۔ تاریخ اور سال کے فرق سے طبقاتِ اکبری میں بھی یہی کہانی ملتی ہے۔‘‘

پتھر سے بنی یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اس کی محرابیں اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں جب کہ چھت غائب ہے۔

البیرونی کی رصدگاہ

شیو مندر کے پاس ہی البیرونی پوائنٹ یا البیرونی کی رصد گاہ واقع ہے جو دور سے بھی نظر آجاتی ہے۔

5 ستمبر 973ء کو موجودہ ازبکستان کے علاقے خوارزم میں پیدا ہونے والے البیرونی کا پورا نام ’’ابوریحان محمد بن احمد‘‘ المعروف البیرونی تھا جو اپنے دور کے بہت بڑے محقق اور سائنس داں تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، ’’بیرون‘‘ میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔

البیرونی کو ’’انڈولوجی‘‘ کا بانی اور جدید جیوڈیسی (سائنس کی وہ شاخ جس میں زمین کی پیمائش اور جغرافیائی مقامات کا تعین کیا جاتا ہے) کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ گیارہویں صدی میں علم کی پیاس البیرونی کو ہندوستان لے آئی جہاں انہوں نے اس خطے کی تاریخ، مذاہب، ثقافت اور سائنس کو ریکارڈ کیا۔

کہتے ہیں کے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھی اور اس زبان میں دست یاب ادب کا مطالعہ کیا۔ ہندو برہمنوں سے روابط پیدا کیے اور ان سے پرانے علوم سیکھے جو عموماً وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو قلم بند کر دیا۔

تیار ہونے والے شاہکار کا نام ’’تحقیق ما للھند من مقول مقبول فی العقل او مرذول‘‘ یا ’’کتاب الہند‘‘ رکھا گیا جو عربی زبان میں ہندوؤں پر لکھی گئی پہلی مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ہندوؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات وہ بہت کم یاب ہیں۔

ہندوستان میں رہ کر البیرونی نے نندنہ قلعہ میں اپنی ایک رصد گاہ قائم کی اور زمین کے رداس کو قدرے درستی کے ساتھ ناپا۔ انہوں نے نندنہ کو علم حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین مقام قرار دیا۔ نندنہ میں کیے گئے تجربات کو انہوں نے اپنی کتاب ’’قانون مسعودی‘‘ میں بیان کیا جس کا نام انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے اور اس وقت کے حکم راں مسعود کے نام پر رکھا تھا۔ یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور اس دور میں ریاضی، نجوم، فلکیات اور سائنسی علوم کے موضوعات پر لکھی گئی دیگر کتب پر بازی لے گئی۔

موجودہ دور میں یہ جگہ ایک چبوترے اور پہاڑی پر مشتمل ہے جس کے بیچ ایک سوراخ ہے جہاں سے غروبِ آفتاب کا دلکش نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ البیرونی کی وجہ سے ہی اس کمپلیکس کو ’’البیرونی سینٹر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

گم نام سپاہیوں کا قبرستان

مندر اور مسجد کے کنارے پر کھڑے ہوں تو نیچے کچھ دور پتھر کی بنی چند قبریں نظر آتی ہیں جس کے بارے کہا جاتا ہے کے یہ ان افغانی سپاہیوں کی قبور ہیں جنہوں نے یہاں کے مقامی گکھڑ قبائل کے ساتھ جنگ کی تھی۔ قبریں دیکھنے سے تو کافی پرانی لگتی ہیں لیکن اب ان پہ چونا پھیر دیا گیا ہے۔

کوہِ نمک کے نظارے

قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم نے واپسی کے لیے نیا راستہ پکڑا جو پہاڑی کے درے سے ہو کے گزرتا تھا۔ یہاں کوئی ٹریک نہیں تھا، بس پتھر، پہاڑیاں اور مٹی۔

کانٹوں بھری جھاڑیوں اور قدرتی تراش خراش کے حامل پہاڑوں کے خوب صورت درے کو پار کرنے کے بعد ہم ایک تالاب کے کنارے جاٹھہرے جو پہاڑی کے دامن میں تھا۔ سبزی مائل اس تالاب میں ہماری دل چسپی کا خوب سامان تھا، دو کیکڑے، ایک مینڈک اور کئی چھوٹی مچھلیاں۔

عمران بھائی کی طرف سے فوٹو گرافی اور ویڈیوگرافی میں مہارت کے کئی ثبوت دیے گئے جس کے بعد ہم یہاں سے چل پڑے۔ راستے میں مقامی افراد ایک پہاڑ کو توڑ رہے تھے جس سے پتھر، نیچے لڑھکتے اور راستہ بند کردیتے۔ ہمیں دیکھ کے انہوں نے تھوڑی دیر وقفہ کیا تاکہ ہم آرام سے گزر جائیں۔ اور میں سوچنے لگا کہ کتنی مشکل زندگی ہے ان کی۔ کم مزدوری کے عوض پہاڑوں کے بیچ جان ہتھیلی پہ رکھ کے کام کرنا۔

یہ جگہ جہاں سے ہم واپس باغانوالہ کی طرف ٹریک کر رہے تھے پوٹھوہار کی خوب صورتی کا حسین امتزاج تھی۔ نباتات سے عاری منفرد شکل کے پہاڑ، چھوٹے چھوٹے ندی نالے، جھاڑیاں، بڑے پتھر اور سرخی مائل مٹی۔

طبعی خصوصیات، حیوانات و معدنیات

خاص کوہِ نمک کی سطح مرتفع زیادہ تر تحصیل پنڈ دادن خان میں ہے جو کٹے پھٹے پہاڑوں اور بیچ میں زرخیز زمین پر مشتمل ہے۔ یہاں کے زیادہ ندی نالے ریتیلے اور بارانی ہیں اس لیے پانی کو سوچ سمجھ کے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ نالے پہاڑیوں سے گرتے ہیں یا گھاٹیوں سے نکلتے ہیں جنہیں ’’کَس‘‘ یا کَسی کہتے ہیں۔ طوفانی بارشوں کے بعد یہ کئی گھنٹوں تک ناقابلِ عبور رہتے ہیں۔ البتہ کچھ جگہوں پر باریک سا دھارا سارا سال جاری رہتا ہے اور متعدد نالوں کی گزرگاہوں میں جوہڑ بن جاتے ہیں جو انسانوں سمیت مویشیوں کے لیے بھی فائدہ مند ہیں انہیں ’’ترِمکن‘‘ یا دھن کہتے ہیں۔

اسی طرح پانی میں نمک کی زیادتی کی وجہ سے کوہِ نمک کے نباتات بھی زیادہ اہمیت کے حامل نہیں سوائے دریائی علاقوں کی زرخیز مٹی میں اگنے والے درختوں کے۔

حیوانات کا ذکر کریں تو یہ علاقہ اپنے قدرتی خدوخال کی بدولت مختلف حیوانات کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں جنگلی بلے، لگڑ بگڑ، چند اڑیال، چنکارا، باگھ، جنگلی خرگوش، نیولے اور پرندوں میں گدھ، کوے، سنہری زاغ، عقاب اور فلائی کیچر شامل ہیں۔

معدنیات میں یہ علاقہ خود کفیل ہے جہاں سے نمک اور جپسم کے علاوہ تعمیراتی پتھر بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ پلاسٹر آف پیرس کے لیے مختلف قسم کی سرخ مٹی بھی وافر ہے جب کہ کوہِ نمک کے کئی مقامات سے لوہا، تانبا، سلفر اور سیسہ بھی نکالا جا رہا ہے۔

باتیں کرتے اور علاقے کی خوب صورتی کو سموئے ہم نندنہ ریزاٹ تک آ پہنچے جہاں ہماری سواری تیار کھڑی تھی۔ باغانوالہ میں پھر فرید بھائی کے ہوٹل پہ طعام سے لطف اندوز ہوئے اور واپسی پر نیا راستہ پکڑا۔ ہمارا ارادہ ہَرن پور سے وکٹوریہ پل کو کراس کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین، اور پھر آگے جانے کا تھا۔ وکٹوریہ پل تک پہنچے تو معلوم ہوا کے یہاں چلنے والا دریائی بیڑہ آج بند ہے۔ وقت اور انرجی سب ضائع۔ چلیں تب تک آپ کو اس کی تاریخ بتاتا ہوں۔

وکٹوریہ پل اور سندھ ساگر ریلوے؛

ہرن پور کا یہ ریلوے پل برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے ریلوے پلوں میں ایک شان دار اضافہ تھا۔ لوہے سے بنا یہ پل موجودہ ضلع جہلم کے ہرن پور اسٹیشن اور منڈی بہاؤالدین کے چک نظام ریلوے اسٹیشن کو ملانے کے لی?ے غالباً 1890 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، جسے پھر 1936 میں مرمت کر کے بہتر کیا گیا تھا۔

دریائے جہلم پر بنا یہ خوب صورت لوہے کا شاہ کار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کے آس پاس سرسبز کھیت کھلیان ہیں۔

اگرچہ یہ پل ٹرینوں کے لیے ہے لیکن پیدل مسافر اور موٹرسائیکل سوار بھی اسے پار کرتے ہیں، جب کہ گاڑیوں اور دیگر سامان کو بیڑے کے ذریعے پار لگایا جاتا ہے۔

یہ ریلوے لائن، اپنے ’’ڈائمنڈ کراس ریلوے کراسنگ‘‘ کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ملکوال جنکشن (جو شورکوٹ-لالہ موسیٰ برانچ لائن پر واقع ہے) سے خوشاب تک جاتی ہے جو ملکوال خوشاب برانچ لائن کہلاتی ہے۔

ملک وال سے خوشاب تک اس برانچ لائن کی تعمیر 1884ء سے 1939ء کے درمیان ’’سندھ ساگر ریلوے‘‘ کے ایک حصے کے طور پر گئی تھی۔ یاد رہے کے دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان کے علاقے کو سندھ ساگر دوآب کہا جاتا ہے۔

مئی 1887ء میں وکٹوریہ پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ملکوال سے خوشاب تک جو ریل کی پٹڑی بچھائی گئی۔ اس کا مقصد معدنیات سے مالا مال اس خِطے کو ریل کے ذریعے بقیہ ملک سے جوڑنا اور مال برداری کے لیے سہولت پیدا کرنا تھا۔

اسی لائن کی بدولت مشہور معدنیاتی ذخائر کے حامل شہر جیسے ڈنڈوت، کھیوڑہ اور غریبوال بھی ریلوے کے نظام سے منسلک ہوئے جس سے نمک، جپسم اور سیمنٹ کی ترسیل میں آسان ہوگئی۔

دس کلومیٹر لمبی ’’ڈنڈوٹ لائٹ ریلوے‘‘، تنگ گیج کی پٹڑی پر مشتمل تھی جو 1905 میں ڈنڈوٹ ریلوے اسٹیشن سے چلیسا جنکشن ریلوے اسٹیشن تک چالو کی گئی۔ اسے خاص کھیوڑہ کی کانوں سے نمک کی ترسیل کے لیے بچھایا گیا تھا۔ یہ 1996 میں بند کردی گئی۔

1939 میں جب یہ پل ریلوے ٹریفک کو سنبھالنے جوگا نہ رہا تو اسے پرانے گھاٹوں پر مکمل طور پر دوبارہ گرڈ کرنا پڑا۔ آج کل ملکوال سے پنڈ دادن خان تک یہ ٹریک آپریشنل حالت میں ہے جب کہ آگے کے اسٹیشن ویران پڑے ہیں۔

دریائی بیڑا نہ ملنے پر ہم نے ہمت کی اور لمبا روٹ پکڑا۔ ہرن پور سے براستہ پنڈ دادن خان انٹرچینج پہنچے اور وہاں سے سالم تک موٹروے پر۔ سالَم انٹرچینج سے اتر کے ہم نے گوجرہ (ایک قصبہ) اور کٹھیالہ شیخان سے ہوتے ہوئے منڈی بہاؤ الدین چائے کی بریک لگائی۔ آدھ گھنٹے میں تازہ دم ہو کر ہم منڈی سے پھالیہ، کنجاہ اور گجرات پہنچ گئے۔ آپ بھی اگر آج کل میں نندنہ جانا چاہتے ہیں تو یہی راستہ لیجیے گا۔ کچھ لمبا ہے پر آرام دہ ہے۔

گجرات میں واجد بھائی کو چھوڑتے ہوئے ہم گوجرانوالہ پہنچے جہاں عین وقت پہ رات گئے مجھے بہاول پور کی بس مل گئی۔ بہاول پور سے خان پور کا راستہ بھی طے ہوا اور اگلے دن ہم ڈیوٹی پر۔

کیسے پہنچے؟؟ یہ ہم ہی جانتے ہیں۔

رہے نام اللہ کا۔

The post نندنہ ؛ پوٹھوہار کی بہت سی کہانیوں کا رازدار appeared first on ایکسپریس اردو.

غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم

$
0
0

 اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔

غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں اور اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے ۔

گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے ۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین ،گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پربرابھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً’’اللہ تمہیں ہدایت دیں ، اللہ تجھے نیک بخت کرے ، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے ، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے ۔

اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘

( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔

غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے ، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا ؟

آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا ، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے و ہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے ، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے ، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں ۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔

میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے ۔

اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو ، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے ۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے ، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں ۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی ۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں ۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی ۔ غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔

اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے ۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔

موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں ، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے ،اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو ، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔

اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے، بہت پیٹو ہے۔

سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے ، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی ، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔

اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے،آمین

The post غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی نمبر201؛ یخ، یخنی اوریخنی پلاؤ

$
0
0

سہیل احمد صدیقی: ابھی چند روز قبل کسی صاحب نے واٹس ایپ پر ایک ’مضمونچہ‘ (چھوٹا سا مضمون) ارسال کیا جس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ یخنی کا کچھ نہ کچھ تعلق، پشتو میں مستعمل فارسی لفظ ’ےَخ‘ سے ضرورہوگا۔

یہ نقطہ آغاز یقینا اُس مضمون نگار کے لیے ’حرفِ مزاح‘ ہوگا، مگر ہمارے ’نِیم خواندہ‘ یا بقول کسے ’ناخواندہ‘ معاشرے میں گمراہ کُن ثابت ہوسکتاہے۔ لکھنے والے کو چاہیے تھا کہ پہلے فارسی کا حوالہ لاتا، پھر پشتو کا;بہرحال اس تحریر کا آغاز اس طرح ہوا کہ”پشتو میں کہتے ہیں، ’ڈیر ےَخنی دے‘یعنی بہت سردی ہے۔اردومیں گوشت سے بنے ہوئے شوربے کو یخنی کہتے ہیں۔دونوں کا کچھ خا ص تعلق ہے۔آج کل سردی اپنے عروج پر ہے یعنی ’ڈیر ےَخنی دے‘، یہی وقت ہے، ڈھیر ساری یخنی بنالیں“۔

اب یہاں سے بات شروع ہوتی ہے اس ’زباں فہم‘ یعنی سہیل کی۔ کسی بھی زبان میں کسی دوسری زبان کے الفاظ،تراکیب، فقرہ جات، محاورہ جات و ضرب الامثال کا پایاجانا تو عام سی بات ہے، لیکن بعض اوقات کوئی مماثل لفظ یا ترکیب یکسر مختلف معنیٰ دیتی ہے اور اُسے بلاتحقیق نقل کرنا یا ذکر کرناہرگز مناسب نہیں ہوتا۔اب آپ کو اگر معلوم ہوکہ انگریزی کا Ice پہلے فارسی کا ” ےَخ“ تھا تو کیسا لگے گا؟ (فارسی جدید میں ’خیلی(خیلے) خُنک‘بھی مستعمل ہے)۔

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بقول ہمارے فاضل دوست دکتور اسحق وَردَگ، پشتو میں یخنی کا لفظ مُرغی کی یخنی کے لیے بھی مستعمل ہے۔

فارسی لفظ ” ےَخ“ اردو میں سرد، بہت سرد، ٹھنڈا، بہت ٹھنڈا، ٹھنڈ، ٹھنڈک،برف۔یا۔برف جیسا ٹھنڈا۔ یا۔ برف کے مانندکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔قدرتی برف یا ٹھنڈ سے جم جانے والے پانی، نیز اولے یا پالے (فارسی میں ژالہ) کو بھی یہی نام دیا جاتا ہے۔(بہت سے نئے قارئین کو شاید ’پالا مارگیا‘ یاد نہ ہو)۔پانی کو مصنوعی طریقے سے جماکر بنائی گئی برف بھی یخ کہلاتی ہے، جبکہ قدیم دورمیں موسم سرما کو بھی یخ کہاجاتاتھا۔براہوئی، پشتو، سرائیکی اور سندھی میں بھی یخ بمعنی ٹھنڈا موجود ہے، جبکہ سرائیکی میں ا س کے لیے ٹھڈا اور سندھی میں ”تمام تھدھو“بھی مستعمل ہے۔

اردو میں فارسی ترکیب ’یخ بَستہ‘ رائج اور مشہور ہے جس سے مراد کسی بھی چیز کا بہت زیادہ سرد ہونا ہے جیسے یخ بستہ ہَوا۔خاکسار نے کسی زمانے میں کراچی کے موسم میں ہونے والی انتہائی انوکھی تبدیلی(یعنی سردموسم کے ساتھ گردآلودہوا) کو دیکھتے ہوئے بے اختیار شعر کہا تھا:

یخ بستہ گرد باد میں سوچا ہے بار بار
تیرے بغیر زِیست بھی ممکن ہے گل عِذار؟
(سہیل احمدصدیقی)

تلاش کرنے پرمعلوم ہواکہ لفظ ’یخ‘ کا استعمال قدیم (صاحبِ دیوان اردو وفارسی)شاعر شیخ ولی اللہ محبؔ، درباری شاعر ِ شاہ عالم ثانی و میرزا سلیمان شکِوہ(المتوفیٰ 1792ء) کے یہاں اوّل اوّل ملتا ہے:

شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
مہ پکارے ہے فلک پروردگی تو برف ہے

(اُن کا مختصر تعارف وحوالہ دیوان مطبوعہ 1999ء ریختہ ڈاٹ آرگ پر منقول ہے)
ہمارے معتبرشاعرو نقاد محترم سلیم احمد کہہ گئے ہیں:

زمیں یخ بستہ ہو جاتی ہے جب جاڑوں کی راتوں میں
میں اپنے دل کو سلگاتا ہوں، انگارے بناتا ہوں

ایک بالکل جدیدشاعر جناب عاطف ملک کاشعرہے:

مجھ کو یخ بستہ ہواؤں سے ڈرا مت واعظ!
مِرے گھر میں ہیں بہت آگ لگانے والے

اچھا شعرہے کہ جس میں کلاسیک سے عطر کشید کرنے کی کوشش کی گئی۔

نثر کی بات کی جائے تواردوافسانہ نگار، ڈراما نگار،شاعراورمحقق ڈاکٹر سید زبیر شاہ کے افسانوں کا مجموعہ ’یخ بستہ دہلیز‘ کے عنوان سے منصہ شہودپرآچکا ہے۔

فارسی کی بہن تاجیک یا تاجِک(نیز تا ژیک) زبان میں لفظ ’یخ‘، بہ اختلاف ِ املا ء، ژَخ [Jax]بن جاتا ہے۔المانی یا المانوی یعنی Germanزبان میں یہی لفظ Eich(ایخ)اورپھر Eis بنا جوولندیزی یعنی [Dutch]زبان میں جاکر Ijis (آئیژس) ہوااور آگے چل کر اِنگریزی میں Iceہوگیا۔برّ اعظم افریقہ کی بڑی زبان افریکانس[Afrikaans] میں یہی لفظ تبدیل ہوکر ’ےَس‘ [Ys]ہوا۔

’یخ’بہ اختلافِ املاء دنیا کی کئی زبانوں میں آئس ہوگیا جو اِنگریزی کا Iceبمعنی برف یا اُس سے مماثل ہجے والا نام ہے۔دنیا کی کئی زبانوں میں لفظ ’برف‘ بھی موجودہے، گلاس بھی کسی نہ کسی شکل میں موجودہے جو اِنگریزی میں شیشے کے معنیٰ دیتا ہے۔اب دیکھیے کیسے کیسے لفظ بنتے، بگڑتے، بدلتے اور معانی ومفاہیم میں بھی تغیر کا سبب بنتے جاتے ہیں۔آج ہم دوہی طرح کے گلاس سے واقف ہیں، ایک تو شیشہ، دوسرے پانی پینے کے لیے استعمال ہونے والا برتن یا آب خورہ، جسے کبھی جام بھی کہاجاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب ہم اردو گو، اردو داں پاکستانی ہر گلاس کو جام نہیں کہتے، بلکہ محض شراب کے جام کی شکل والے گلاس[Wine glass] ہی کو جام کہتے ہیں۔اس پوری کتھا کا خلاصہ یوں بیان کیاجاتاہے کہ برف، شیشے اور آب خورے عرف گلاس میں تعلق خِلقی [By birth]ہے۔

فارسی میں یہی لفظ یعنی یخ،بے لطف اور بے مزہ کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے،جیسے اردومیں معیاری زبان اور عوامی بولی ٹھولی [Slang]،خصوصاً مُبتذل یا سُوقیانہ بولی میں موقع محل کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ ایک دم ٹھنڈا ہے یا ٹھنڈا پڑگیا۔یہ محلِ استعمال غیراہل ِزبان کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔فارسی میں مجازاً اس سے مراد، افسردہ ہونا بھی ہے یعنی یخ بستگی بمعنی افسُردگی۔یہ معنیٰ (نیز اُداسی، اضمحلال،بُجھا بُجھا ہونا) اردومیں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تُرکی زبان میں برف کو ’ بَز‘ کہتے ہیں، جبکہ ٹھنڈ اور ٹھنڈک کے لیے دیگرالفاظ کے ساتھ ساتھ، ایاز بھی مستعمل ہے۔(یعنی سلطان محمودغزنوی کے چہیتے سپہ سالار، حاکم ِ محمودپور(قدیم لاہور) اور مُنہ بولے بیٹے، ملِک ایازکے نام کے معنوں میں ایک یہ بھی ہے)۔

ہرچند کہ لسانی اعتبارسے یخنی کا ’یخ‘ سے کوئی تعلق(کم از کم سرِدست) ثابت نہیں، مگرطبی لحاظ سے یخنی کا استعمال ’یخ‘ یعنی سردموسم ہی میں زیادہ مفید ہے۔لفظ یخنی،پنجابی میں نون غنہ کے ساتھ یخنڑی ہے تو سرائیکی میں سیدھا سیدھا یخنی ہی ہے، جبکہ سندھی میں شوروو اور گوشت جوس ہے (روہیل کھنڈی یا رامپوری اردومیں شُروا کامطلب شوربہ، سالن ہے)، جبکہ فارسی میں اس کے لیے آبِ گوشت مستعمل ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انگریزی میں یخنی کو Soupکہتے ہیں، مگر سُوپ کی متعدداقسام کی ایک طویل فہرست (آنلائن دستیاب بزبان انگریزی) میں یخنی شامل نہیں، اسی لیے کہتے ہیں کہ سب کچھ انٹرنیٹ پر نہیں ملتا۔

یخنی خواہ مُرغی کے گوشت سے بنی ہو، اُس کے پنجوں کی، گائے،بکری،یاکسی بھی دوسرے جانور، حتیٰ کہ مچھلی کے گوشت یا ہڈیوں سے بنی ہو، اُس کے فوائد بے شمار ہیں۔عموما ً تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے کہ یخنی گھُٹنوں، جوڑوں،مُہروں کی تکالیف میں مبتلا، ٹھنڈ اور دَمے کے شکار اور غیرمعمولی سردی کے احساس سے بیمار ہونے والے مریضوں کے لیے اکسیر کا کام کرتی ہے۔ہڈیوں کے شوربے یا یخنی میں موجود فاسفورس،گندھک، کیلشئیم، میگنیشیئم جیسی مفید معدنیات انسانی جسم کے لیے انتہائی کارآمد اور نظام انہضام و اخراج کے لیے فائدہ مند ہیں۔اس کے مسلسل استعمال سے وزن قابومیں رہتا ہے،کم ہوجاتا ہے، کولیسٹرول قابومیں رہتا ہے،سینے کی ٹھنڈاورگلے کی سوزش سے نجات ملتی ہے، جسم میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔یخنی یا ہڈیوں کے شوربے سے جسم میں موجودیاشامل ہونے والے زہریلے مادّے ختم کرنے اور جِلد بہترکرنے میں مددملتی ہے، قوت ِ مدافعت بڑھتی ہے۔

بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحا (فاتحہ) ہوگا
(اکبرؔ الہ آبادی)

مندرجہ بالا ساری تقریر تو ہوئی ایک طرف، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔دستیاب معلومات کی رُو سے ہمیں یہی لگتا ہے کہ یخ سے یخنی کا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ یخنی،موسم کی مناسبت سے عموماً سردی میں استعمال ہوتی ہے،(یا کسی طبیب کے مشورے سے کسی اور موسم میں بھی)، مگر مختلف پکوان کی تیاری میں یخنی بہت مزے اورفائدے دیتی ہے،جن میں سرفہرست ہے، پُلاؤ۔یا۔پِلاؤ۔یابقول مولوی تصدق حسین رضوی، صاحبِ لغات ِکشوری (اردو)پَلاؤ۔یہ اردواورسرائیکی میں پُلاؤ ہے، براہوئی میں پلاؤ، پشتومیں پولاؤ،بلوچی میں پُلہ، پنجابی میں پلاء، سندھی میں پُلاءُ (ہمزہ پر پیش)، فارسی میں پلاف[Pilaf] اور پلو، جبکہ ترکی اور دیگرمتعدد زبانوں میں پلاف(Pilav)۔(رومن رسم الخط کا حرف Vدنیا کی متعدد زبانوں میں کسی لفظ کے درمیان یا آخر میں آئے تو Fبولاجاتا ہے)۔

پلاؤ نہ صرف وسطِ ایشیا، شمالی قفقاز (کو ہ قاف)،بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی بہت مقبول پکوان ہے جسے دنیا بھر میں نام کے تھوڑے بہت فرق سے سبھی جانتے ہیں اور آپ براعظم ایشیا، یورپ، شمالی وجنوبی امریکا، افریقہ وآسٹریلیامیں پلاؤ یا اس سے مماثل پکوان سے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔تفصیل میں جائے بغیر وِکی پیڈیا سے نقل کریں تو یہ نام اِن شکلوں میں دستیاب ہے:
Polao, Pulao, plao, pela, pilav, pilov, pallao, pilau, pelau, pulao, palau, pulaav, palaw, palavu, plov, plovas, palov, polov, polo, polu, kurysh, fulao, fulaaw, fulav, fulab, osh, as, paloo, kürüch.
لطف کی بات یہ ہے کہ جمہوریہ چیک (Czech Republic) میں واقع ایک علاقے کا نام بھی Plav(پلاف) ہے جسے شاید اپنے پلاؤ سے کوئی نسبت نہیں۔
حیرت انگیز طورپر پلاؤ کے اجزائے ترکیبی میں علاقے اور خطے کے فرق سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔انٹرنیٹ کی سیر کرتے ہوئے ایک جگہ دیکھا کہ ایران میں پلاؤ تیار کرنے کا نسخہ کچھ یوں ہے۔اس نسخے کی ناقل ایک باورچی خاتون ” مھسا“ یعنی مہ سا(چاند کی طرح روشن اور خوبصورت) ہیں:

”پلاف: یہ غذای بسیار خوشمزہ است۔مواد مورد نیاز؛برنج ابکش۔ترجیحاً برنج عنبر بو ک خیلی خوش عطر و طعمہ۔ نخود فرنگی۔ہویج رندہ شدہ۔گوشت چرخ کردہ۔پیاز تف دادہ شدہ عسلی۔با زعفران دم کردہ و کمی زرد چوبہ و نمک“۔(sarashpazpapion.com)

(ترجمہ : یہ بہت مزے دار پکوان ہے۔اس کی تیاری کے لیے درکار اجزاء یہ ہیں: چاول،بھِگوئے ہوئے ;ترجیحاً عنبر نامی چاول جو بہت خوشبودار اور لذیذ ہوتا ہے، گاجر کٹی ہوئی، قِیمہ، شہدمیں بھیگی ہوئی پیاز مع زعفرانی بگھار نیز تھوڑی سی ہلدی اور نمک۔)

اب ہماری پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خاتون قارئین کرام یہ فرمائیں کہ آیا کبھی اس طرح کا پلاؤ بنایا، کھایا یا دیکھا؟ فرق تو بہرحال اصل اُزبک پلاؤ اور ہمارے یہاں پکنے والے پلاؤ میں بھی ہوسکتا ہے، اس لیے کہ پانچ سو سال سے زائد عرصہ ہوا،جب مغل تاجدار بابُر نے فرغانہ (اُزبکستان) سے یہاں براستہ افغانستان تشریف لاکر،دیگر چند نعمتوں کے ساتھ ساتھ، پلاؤ بھی اِس خطے میں متعارف کروایا تھا۔

ازبک زبان درحقیقت ترکی کی شاخ ہے اور اس کی بول چال میں بوجوہ فارسی کا غلبہ ہے جبکہ آذری زبان، علاقے کے فرق سے دونوں زبانوں سے ہم رشتہ ہوتے ہوئے بھی ترکی سے قریب سمجھی جاتی ہے، مگر اس کی موجودہ شکل میں روسی ذخیرہ الفاظ کا غلبہ ہے۔شمالی ہند میں اوّل اوّل رائج ہونے والے پلاؤ میں بکری کے گوشت کی یخنی ہی استعمال ہوتی رہی ہے، اب شاید اِس میں بھی فرق پایا جاتا ہو۔کسی بقرا ط قسم کے باورچی نے،انٹرنیٹ پر ایک جگہ یہ سُرّی چھوڑی ہے کہ پلاف کے برعکس،پلاؤ میں یخنی یا ذائقے دار شوربے کی آمیزش نہیں ہوتی….حدہوگئی، تُکّے لگانے کی!

ویسے یہ بات تو سولہ آنے درست ہے کہ چاہے کسی نے کبھی پلاؤ پکایا ہو نہ پکایا ہو، ’خیالی پلاؤ‘ تقریباً سبھی پکالیتے ہیں۔بعض لوگ سولہ آنے سچ بھی کہتے ہیں جیسے ڈاکٹر م۔ق۔سلیم صاحب کی کتاب ”سولہ آنے سچ“، 2006ء میں حیدرآباد، سندھ (پاکستان) سے شایع ہوئی تھی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ پلاؤ بکری کے گوشت کا اچھا یا بچھیا کا، مگر جب خاندانی باورچی ہی نہ رہے تو اَب سب چلتا ہے۔گائے کے گوشت اور مرغی کے گوشت سے بنے ہوئے پلاؤ سے لے کر،بازار میں گرم مصالحے کے بکثرت استعمال سے تیار ہونے والے پلاؤ تک اسی طرح تحریف کے نمونے ہیں جیسے کوئی شعری صنف، کسی غیر اہلِ زبان کے ہاتھوں مجروح ہوگئی ہو۔

چنا پلاؤ یا چھولے پلاؤ، ہولے (بونٹ)پلاؤ، مٹر پلاؤ،سبزی پلاؤسمیت متعدد پکوان اسی شاہی پکوان سے نسبت کے سبب، مشہورومقبول ہیں،حالانکہ ان سب کے اجزائے ترکیبی اور طریق تیاری میں فرق ہے، البتہ ہمارے گھروں میں کبھی کبھی مٹرپلاؤ بھی یخنی ملا کر بنایا جاتاہے۔اب خاتو ن قارئین یہ نہ کہیں کہ یہ ”زباں فہم“ ہمیں باورچی خانے کے نسخے بھی سکھانے کی سعی نامشکور کرنے لگا ہے۔

ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اکثر پلاؤ (نیز چاول کے دیگر پلاؤ نُما پکوان) کے ساتھ کباب، وہ بھی ”شامی کباب“ کا استعمال بصدشوق کیا جاتا ہے۔کباب کی مشہور قسم ”چُلّو“ کباب ترکی، ایران ودیگر ہمسایہ ممالک سے ہوتے ہوئے یہاں بھی آپہنچی ہے، مگربقول ہماری ترک (فیس بک دوست) محترمہ طاہرے گونیش،ترکی میں ہرطرح کے بھُنے ہوئے گوشت کو ”کباب“ کہاجاتا ہے، لہٰذا ”قازان کباب“ کا مطلب ہو ا، دیگ میں پکا ہوا گوشت۔

اسی طرح قِیمے کی ہر شکل کوفتہ کہلاتی ہے۔(اب بتائیے کہ Minced Meet Ballکس حد تک اصل کوفتہ ہوسکتا ہے)۔اُن کے انکشاف کے مطابق، ترکی اورہم رشتہ ممالک میں،پلاؤ اور گوشت کے سالن میں شاہ بلوط [Chestnut]کا روایتی،لازمی استعمال بہت شوق سے کیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں تو ایسا کوئی تصور نہیں! اُن کے یہاں تو یہی پھل بھون کر بھی کھایاجاتاہے،ہماری اکثریت نے تو اِس کی شکل بھی نہیں دیکھی۔

 

The post زباں فہمی نمبر201؛ یخ، یخنی اوریخنی پلاؤ appeared first on ایکسپریس اردو.

Now or Never

$
0
0

کئی سیاسی شخصیات نے برصغیر میں ہندو مسلم مسئلہ کے حل کے لیے تجاویز پیش کیں لیکن یہ اعزاز تاریخ میں ہمیشہ چوہدری رحمت علی کو حاصل رہے گا کہ انہوں نے 1915ء میں جب کہ ان کی عمر فقط 18سال تھی اور FAکے طالب علم تھے اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے تا سیسی اجالاس میں آزاد اسلامی ریاست کا نظریہ پیش کیا۔

پھر 28 جنوری 1933ء کو عیدالفطر کے مبارک دن پر Now Or Never نامی کتابچہ شائع کیا اور آزاد ریاست کے مطالبے کے ساتھ اس کا نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا۔ برصغیر کے سیا سی مسائل کے حل کے لیے برطانیہ میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں برصغیر کی جملہ سیاسی قیادت کل ہند وفاق پر تقریباً متفق ہوگئی تھی اس دور میں جملہ سیاسی قیادت برطانیہ کی وفادار اور کانگرس سے وابستہ تھی۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی دعوے دار تھی۔

قائداعظم اس دور میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے اور بمبئی میں ان کی خدمات کے صلے میں جناح ہال بھی تعمیر کیا گیا۔ حضرت علامہ اقبال کا وہ ترانہ ہندی بھی ان کی سوچ اور فکر کا آئینہ دار تھا۔ اور اس پر وہ فخر کرتے تھے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندو ستان ہمارا۔‘‘

ہندو ستانی قوم پرستی سے ہٹ کر کوئی بات کرتا تو اس کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور یہ ناقابل معافی جرم تھا۔ اس وقت چوہدری رحمت علی ان گول میز کانفرنسوں میں جملہ مسلم راہ نماؤں سے مل رہے تھے اور یہ التجا کر رہے تھے کہ وہ ہندوستان کے مسائل کے حل کے لیے ’’کل ہند وفاق‘‘ پر نہیں بلکہ علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں، لیکن کسی نے ان کی اس تجویز پر کان نہ دھرا اور اس کو نا قابل عمل کہا۔ چوہدری رحمت علی کے نزدیک اگر کل ہند وفاق کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس طرح برصغیر کی ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

بعد میں جب1937کے انتخابات میں ہندوؤں کی جماعت کانگرس کام یاب ہوئی اور اس کا اصل مکروہ چہرہ سامنے آیا تو چوہدری رحمت علی کے خدشات کی ہلکی سی جھلک جملہ مسلم قائدین نے دیکھ لی اور مسلمان سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ملک انگریزوں سے آزاد ہوگیا تو ان سے کیا سلوک کیا جائے گا۔

سائمن کمیشن نے برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے کمیشن نے فروری، مارچ، اکتوبر 1928ء اور اپریل1929ء میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ کانگرس کمیشن کے مقاطعے کے حق میں جب کہ مسلم لیگ قائد اعظم کانگرس کے ساتھ تھی، سر شفیع گروپ کمیشن کے ساتھ تعاون کو پسند کرتا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ مئی 1930میں شائع ہوئی۔

برطانیہ میں لیبر جماعت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کے وزیراعظم ریمزے میکڈانلڈ کو محمد علی جناح نے خط لکھا اور ہندو ستان کے دستوری مسائل کے حل کے لیے سفارشات پیش کیں۔ آپ نے برطانوی حکومت کو مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ اگر سائمن کمیشن کی رپورٹ پر مسودہ آئین کی تیاری سے قبل ہندو ستانی سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ افہام و تفہیم ہوجائے۔

اس خط سے متاثر ہوکر حکومت برطانیہ نے ہندوستانی راہ نماؤوں کی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ 9جولائی 1930کو وائسرائے ہند نے اسمبلی و کونسل آف اسٹیٹ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آخری سیشن ہے۔ اس سال الیکشن ہوں گے۔ دوسری بات لندن میں گول میز کانفرنسوں کا انعقاد تھا، جس میں ہندوستان سے نمائندے بھیجے جائیں گے۔

پہلی گول میز کانفرنس 12نومبر 1930ء کو ہاؤس آف لارڈز کی رائل گیلری لندن میں منعقد ہوئی، جو وقفے وقفے سے 19جنوری 1931تک جاری رہی۔ کانفرنس کا افتتاح شاہ جارج پنجم نے اپنے خطاب سے کیا۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے 72مندوبین شریک ہوئے، جن میں فقط 16 مسلمان تھے۔ کانفرنس کے دوران محمد علی جوہر خالق حقیقی سے جاملے۔ کانگرس نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا، البتہ کانگرس کے موقف کو وزیر اعظم برطانیہ اور وزیرہند بیان کر رہے تھے۔ وہ نیشنل ازم کے نظریے کو بھی دہرا رہے تھے۔

اجلاس میں متفقہ طور پر ہندوستان میں وفاقی طرز کی حکومت اور ذمے دار حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا۔ مسلم قیادت نے سرتیج بہادر سپرو کی اس تجویز سے اتفاق کرلیا۔ چودھری رحمت علی کے لیے یہ بات بے حد پریشانی کا موجب تھی کہ مسلم قائدین سیاسی صورت حال کا صحیح طور پر اندازہ نہیں کر رہے تھے ہندوستان کی مرکزی حکومت کے لیے دوسری گول میز کانفرنس 7 ستمبر تا یکم دسمبر 1931ء تک جاری رہی۔

اس کانفرنس میں گاندھی ’’گاندھی ارون پیکٹ‘‘ کے تحت شریک ہوئے۔ محمد علی جوہر کی جگہ ڈاکٹر محمد اقبال کو بلایا گیا تھا۔ گاندھی خود کو سارے ہندو ستان کا واحد نمائندہ قرار دے رہے تھے اور اپنی جماعت کانگرس کو بھی۔ اس کانفرنس میں ایک کمیٹی اقلیتوں کے مسائل کے لیے جب کہ دوسری وفاقی نظام کے بارے میں غور کرنے کے لیے بنائی گئی۔ مسلم وفد کے سربراہ سر آغا خان تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس 17 نومبر 1932کو شروع ہوئی اور 24دسمبر 1932ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ کانگرس نے شرکت نہیں کی۔

قائداعظم دوسری تیسری کانفرنسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ آپ برصغیر کے سیاسی حالات سے مایوس ہوکر لندن میں قیام اور پریکٹس کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے نئے آئین پر تفصیلی بحث ہوئی اور اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ہندو ستان کی جملہ اقلیتوں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا۔

ڈاکٹر محمد اقبال نے ہندوستان آکر فیصلوں کے بارے میں وضاحت فرمائی۔ 27 فروری 1933ء کو مسلم نیوز سروس کے نمائندے کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس آئیں کو جو گول میز کانفرنس میں وضع کیا گیا ہے، کام یاب بنانے کی کوشش کریں گی۔

ہندوستانیوں کے لیے یہی بہترین راستہ ہے، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو انتخاب کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں۔

چوہدری رحمت علی فرماتے ہیں،’’میں مسلمان راہ نماؤں کو خبردار کیا کہ ان کا یہ اقدام ہمارے مشن کی کام یابی کی تمام امیدیں خاک میں ملادے گا۔ میں نے مسلماں زعماء کی منت سماجت کی اور کہا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کردہ ذمے داری کا احساس کریں اور ’’وفاق ہند‘‘ کے قیام کے مطالبہ سے دست برداری کا اعلان کریں اور اس کی جگہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں ایک علیحدہ آزاد ملک کے قیام کا مطالبہ کریں، لیکن میری تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور کسی نے اس بات کی اہمیت کا احساس نہ کیا اور نہ اس کی حمایت میں کسی ردعمل کا اظہار کیا۔

مایوسی کے باوجود مجھے امید تھی کہ شاید ایسا سیاسی راہ نما جو کانفرنسوں میں شریک نہ ہو اس تجویز یعنی وفاق ہندوستان کے قیام کی مخالفت کرے گا، لیکن گول میز کانفرنس کے انعقاد تک کوئی بھی سامنے نہ آیا۔ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ اس قدر مقدس فریضے کی ادائی کے لیے کوئی بھی سامنے نہیں آرہا۔‘‘

ڈاکٹر عبدالرحیم، ایم اے۔ پی ایچ ڈی (لندن) سابق صدر ہائی کورٹ پشاور جو نومبر 1932ء میں پنی تعلیم مکمل کرکے انگلستان سے انڈیا آئے تھے، وہ گول میز کانفرنسوں کے سالوں میں انگلستان میں طالب علم تھے۔ ان کا تعلق خیبر یونین سے تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں:

قائداعظم محمد علی جناح اس زمانے میں لندن میں پریکٹس کر رہے تھے اور انہوں نے اپنی رہائش کے لیےBurk.Hampstead میں مکان خرید ا ہو تھا۔ ہم لوگوں نے ان سے ملاقات کے لیے ایک وفد تشکیل دیا۔ اس وفد (چودھری رحمت علی، محمد اسلم خان خٹک، ڈاکٹر عبدالرحیم وغیرہ) نے قائداعظم کی رہائش گاہ پر جاکر ان سے ملاقات کی۔ قائد اعظم نے وفد کا بڑی خوش دلی سے استقبال کیا اور وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آئے، لیکن جب وفد نے ان کی خدمات میں ’تقسیم کا نظریہ‘ پیش کیا تو ہنس پڑے۔ اور ہمیں یاد دلایا:

’’ مسز سروجنی نائیڈو بلبل ہند نے اتحاد کے سفیر کے طور پر ہمیں دریافت کیا ہے اور بھر کچھ یو ں فرمایا کہ ’’انگریز نے مختلف لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ملک بنایا ہے اور تم اس کو توڑنا چاہتے ہو!‘‘ ہم لوگ ان کی باتین سن کر وہاں سے واپس آگے۔ ان کی طرح دیگر ممتاز مسلمان راہ نماؤں اور انگریز سیاست دانوں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا۔‘‘

محمد اسلم خان خٹک نے راقم الحروف کو بتایا

’’قائداعظم ان دنوں لندن میں پریکٹس کر رہے تھے اور لندن میں ٹھہرے ہوئے تھے ہمارا ایک وفد ان سے ملنے گیا جس میں چودھری رحمت علی ؒ بھی تھے۔ اس وفد نے قائداعظم کی خدمت میں ’تقسیم ملک‘ کی تجویز پیش کی، جس کو پڑھ کر انہوں نے ہمیں خوب ڈانٹا اور دبایا قائداعظم فر مانے لگے:

’’انگریز نے اپنی ذہانت سے ایک ہی نیک کام کیا کہ اس نے مختلف اقوام کو اکٹھے کرکے ایک ملک بنایا ہے اور تم اس کو توڑنے پر لگے ہوئی ہو۔ میں اس تجویز کو قطعاً نہیں مانتا۔ میں prince of peace‘‘ ہوں۔ اور پھر فرمایا،’’keep away from it, Keep away from it‘‘(یعنی اس سے دور رہو، اس سے دور رہو)

ڈاکٹر عبدالرحیم اور اسلم خان خٹک کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھیوں نے قائداعظم کے ساتھ جو ملاقات کی تھی، اس کا مقصد یہی تھا کہ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما کی حیثیت سے ’تقسیم ہند‘ کا نظریہ پیش کریں، لیکن انہیں قائداعظم کا جواب سن کر مایوسی ہوئی۔

نام ور شاعر ادیب اور صحافی رئیس امروہوی مرحوم، چودھری خلیق الزمان ناظم اعلیٰ کنونشن مسلم لیگ کی کتاب ’’پاتھ وے ٹو پاکستان‘‘ کے حوالے سے ان کا یہ بیان تحریر کرتے ہیں:

’’ایک روز لندن میں چودھری رحمت علی، جنہوں نے پاکستان کی اصطلاح وضع کی تھی مجھے چائے پر مدعو کیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور اس پہلی ملاقات ہی میں اس طویل القامت‘ شان دار اور خوش وضع جوان نے مجھے متاثر کردیا۔ جب پاکستان کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس شخص نے نہ صرف پاکستان کی موضوع پر گہرا مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ اس تحریک کی کام یابی کا بھی پکا یقین رکھتا ہے۔

چودھری خلیق الزماں کے بیان کے مطابق‘ رحمت علی مرحوم نے پہلی گول میز کانفرنس کے موقع پر ’’تقسیم ہند‘‘ مسلم لیگی راہ نماؤں کے سامنے رکھی تھی، لیکن اس وقت کسی نے بھی اس کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔ چودھری صاحب (چودھری خلیق الزماں) نے اس مر پر اظہارافسوس کرنے کے بعد کہ مسلم ہند نے اس قابل تخلیقی ذہن رکنے والے نوجوان کی قدر نہ کی، اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پہلے پہل پاکستان کا لفظ ان کی سمجھ میں نہ آیا تھا لیکن چودھری رحمت علی اس لفظ کی معنویت پر اصرار کرتے رہے (اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ اس لفظ کے بارے میں مرحوم کا وجدان اور ایقان کتنا صحیح تھا۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیرخزانہ، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر: یو این او میں پاکستان کے سابق سفیر یونی نسٹ پارٹی کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری، دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم وفد کے سیکرٹری، سید امجد علی نے 22 مئی 1996ء کو اپنی رہائش گاہ ’’آشیا نہ‘‘ واقع گلبرگ لاہور میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس زمانے میں گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے انڈیا سے بڑے بڑے راہ نما وفد کی صورت میں لندن جاتے تھے۔

میں دو مرتبہ مسلم وفد کے ساتھ سیکریٹری کے طور پر دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے لندن گیا تھا۔ اس وقت انڈیا کی سب سے بری جماعت کانگریس تھی۔ گو اس وقت مسلم لیگ اتنی بڑی جماعت نہیں تھی لیکن کانگرس کے مقابلے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ہی تھی۔ اس لیے برطانوی حکومت اسے اہمیت دیتی تھی۔ مجھے دونوں گول میز کانفرنسوں (یعنی دوسری اور تیسری) کے موقع پر چودھری رحمت علی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ چودھری رحمت علی کیمبرج کے طالب علم تھے۔

اس وقت وہ ہر اس مسلمان لیڈر سے ملتے تھے جو لندن میں موجود ہوتا تھا اور پاکستان اسکیم کو سیاسی نقطہ نگاہ سے بیان کرتے تھے۔ وہ مسلمان راہ نماؤں سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ پاکستان کا مطلب انگریز کے سامنے پیش کریں اور ہندوؤں کے سامنے پاکستان کے حصول کا کھل کر اظہار کریں۔ چوںکہ گول میز کانفرنسوں میں انڈیا کے سیاسی مسائل پر بات چل رہی تھی اس لیے اس وقت مسلم وفد کا کا کوئی بھی رکن ’’پاکستان‘‘ جیسے متنازع موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔

غالباً تیسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دنوں میں چودھری رحمت علی نے ’’ناؤ آر نیور‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا پمفلٹ تقسیم کیا تھا، جس میں پاکستان سے متعلق انہوں نے اپنا نقطۂ نظر اور موقف کھل کر بیان کیا تھا۔ ا س مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک تصوراتی کہانی ہے۔

چوہدری رحمت علی جملہ مسلم قائدین کو اپنے موقف سے آگاہ کرچکے تھے۔ آپ اس بات پر پریشان تھے کہ مسلمان راہ نما بلاسوچے سمجھے ہندوستانیت کا شکار ہوچکے ہیں۔

ناؤ آر نیور کی اشاعت

جب خدا تعالیٰ کسی قوم کو نوازنا چاہتا ہے اور اس کو پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچانا چاہتا ہے تو وہ اس امر کو پایۂ تکمیل پر پہنچانے کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے اور ان اسباب کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم منشائے خداوندی کے مطابق حرکت میں آتی ہے اور قانون قدرت کے مطابق اس قوم کو حرکت میں لانے والا کوئی نہ کوئی فرد ضرور وجود میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک دیدہ ور اور بطل حریت چودھری رحمت علی کے روپ میں پید ہوا جس نے برصغیر کی مسلم قوم کو انگریز کی محکومیت اور ہندو کی بالا دستی سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔

چودھری رحمت علی 1915ء میں ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں ہر مشتمل ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا ’’نظریہ پیش ’’ کر چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے اس نظریہ کو 1933ء میں ’’پاکستان‘‘ کا نام دیا اور اس ’’نظریہ پاکستان‘‘ کو اپنے پمفلٹ ناؤ آر نیور میں متعارف کرایا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انگلستان میں گول میز کانفرنسیں ہوئی تھیں۔ اور تیسری گول میز کانفرنس میں ’’کل ہندو وفاق‘‘ کے خطوط پر آئین کی منظور کا اعلان کردیا گیا تھا۔

اس سے قبل چودھری صاحب گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم راہ نماؤں سے مل کر انہیں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش بھی کر چکے تھے اور اس بت پر انتہائی دل گرفتہ تھے کہ مسلمان لیڈر بلاسوچے سمجھے ہندو وطنیت کا شکار ہونے پر آمادہ ہیں۔

محمد حسین زبیری تحریر کرتے ہیں

’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسوں کے مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کیا کہ انڈین فیڈریشن قبول کرلینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہوجائے گی اور آپ اللہ اور رسولﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں۔ چودھری صاحب کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور مسلم مندوبین میں احسان بیدار نہ ہوا بلکہ اس تجویز کی مخالفت شروع کردی گئی ۔ اور سب نے آل انڈیا فیڈریشن کو قبول کرلیا۔‘‘

چودھری صاحب نے ناؤ آر نیور (اب یا کبھی نہیں) 1931-32ء میں تیار کرلیا تھا اور اس کو نمائندہ حیثیت دینے کے لیے اس پر محمد اسلم خان خٹک صدر خیبر یونین‘ عنایت اللہ خان آف چار سدہ ‘جنرل سیکرٹری خیبر یونین اور صاحبزادہ شیخ محمد صدیق کے دستخط بھی حاصل کرلیے گئے تھے۔ ناؤ آر نیور پر دستخط کرنے والوں میں چودھری کے دستخط سرفہرست تھے۔

چودھری رحمت علی صاحب نے اس پمفلٹ کی باقاعدہ اشاعت 28 جنوری 1933ء کو عیدالفطر کے دن اپنے گھر کے پتے -3ہمبر سٹون روڈ کیمپرج‘انگلستان سے کی تھی۔ اس پمفلٹ کی اشاعت کے وقت پمفلٹ کے ساتھ چودھری صاحب نے اپنے دستخطوں سے ایک الگ خط بھی لگایا تھا۔ اس خط میں ان کی طرف سے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ ارضی ’’پاکستان‘‘ کے حصول کے لیے اپیل کی گئی تھی۔

چودھری صاحب نے ناؤ آر نیور1931-32میں شائع کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب حالات و واقعات سے ملتا ہے کہ چودھری صاحب یہ چاہتے تھے کہ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مسلم راہ نما ہی ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں پر مبنی ایک علیحدہ وفاق کا مطالبہ کریں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اکثر مسلمان راہ نماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔

لیکن جب چودھری صاحب مسلمان راہ نماؤں کی طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے پاکستان کے حصول کے لیے خود عملی جدوجہد کرنے کا عزم کرلیا۔ یہ مشیت ایزدی تھی کہ ’’مطالبہ پاکستان‘‘ کا فریضہ چودھری رحمت علی صاحب کے ہاتھوں سے ہی سرانجام پانا تھا اور پاکستان کی بنیاد رکھنا چودھری رحمت علی کا مقدر بن چکا تھا۔

ناؤ آر نیور چودھری صاحب کی ایک ایسی نادر تخلیق ہے جو ’’پاکستان‘‘ کے قیام کے سلسلے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 28 جنوری 1933ء کو چودھری رحمت علی نے اس پاکستان کی بنیاد رکھ دی جس پر ابھی چودہ سال چھے ماہ اور سولہ دن بعد پاکستان کی عمارت تعمیر ہو نا تھی۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ پلٹ دیا۔ روسو کی کتاب ’Social Cotract‘‘ انقلاب فرانس برپا کرنے کے اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ تھامس پین کا کتابچہ ’’common sense‘‘امریکا کی آزادی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ مسز ہیرٹ ہیمپر اسٹو کی کتاب’’uncle Tom’Cabin‘‘ امریکا میں غلامی کے خاتمے کا سبب بنی تھی اور ہٹلر کی خودنوشت”mein Kempf”دوسری جنگ عظیم کا بعث سمجھی جاتی ہے۔

برصغیر کی تاریخ میں یہی درجہ چودھری رحمت علی کے مختصر کتابچے ’’Now or Never‘‘ کا ہے جو 1933ء میں شائع ہو ا اور چند ہی برسوں میں ہندوستان کے ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ یہ کتابچہ نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن پاکستان کے قیام کا بعث بن گیا بلکہ اسے ایک خوب صورت اور بامعنی نام بھی عطا کردیا گیا۔

پاکستان‘ ناقابل عمل تجویز

’’مطالبہ پاکستان‘‘ ایک آزاد خود مختار وطن کا مطالبہ تھا ۔ جس کا ہندوستان کے وفاق یا برطانوی حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چودھری رحمت علی نے اس مطالبہ کو تیسری گول میز کانفرنس کیا اختتام پر کیا تھا ۔ اس وقت برصغیر کے اکثر مسلم اور غیر مسلم نمائندے ابھی لندن میں موجود تھے ۔ جو گول میز کانفرنس کے فیصلوں کے نتیجے میں بنائی جانے والی مختلف کمیٹیوں میں شرکت کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔

چودھری صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے 28 جنوری 1933ء کو اپنا پمفلٹ ـ’’Now or Never‘‘ (اب یا کبھی نہیں) جاری کیا اور اس کو برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اور ہندوستانی مسلم و غیرمسلم نمائندگان میں تقسیم کیا۔

’’اس پمفلٹ میں واضح طور مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن ’’پاکستان‘‘ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ان علاقوں کی نشان دہی کردی تھی جو پاکستان میں شامل ہوں گے۔ اس لیے ا س منصوبے پر انگریز حکم رانوں‘ ہندو راہ نماؤں، جو تقسیم ہندوستان کے مخالف تھے اور ان مسلمان زعماء کا ردعمل فطری بات تھی جو مسلمانوں کے مسائل کا حل وفاق نظام کو قرار دے رہے تھے۔

انگریز حکم رانوں نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور بعض مسلمان راہ نماؤں کو جو گول میز کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے برطانوی پارلیمینٹ کی جائنٹ سلیکٹ کمیٹی نے وضاحت کے لیے طلب کرلیا۔ ان راہ نماؤوں سے ’’پاکستان منصوبے‘‘ کے بارے میں تفصیل سے دریافت کیا گیا۔‘‘

جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کا اجلاس یکم اگست 1933ء کو منعقد ہوا، جس میں مسلم راہ نماؤں مسٹر ظفر اللہ خان‘عبداللہ یوسف علی اور ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین سے ’’ پاکستان‘‘ سے متعلق موقف بیان کرنے کو کہا گیا۔

ذیل میں جو سوالات و جوابات نقل کیے گئے ہیں وہ ان “Minutus of Evidence” (شہادتوں کی روداد) میں درج ہیں جو ہندوستان کی آئینی اصلاحات کے بارے میں مشترکہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئیں۔ ہندوستان کی آئینی اصلاحات جلد دوم صفحہ 1406پر اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دستاویز تاج برطانیہ کے اسٹیشنری آفس لندن نے 1934ء میں شائع کی۔

سوالات و جوابات

سر ریجنالڈ کریڈاک(Sir reginald Craddock)

’’کیا کوئی مندوب یا مبصر میرے اس سوال کا جواب دینا پسند کرے گا اور مجھے یہ بتائے گا کہ آیا ’’پاکستان‘‘ کے نام سے صوبوں کا ایک فیڈریشن قائم کرنے کی کوئی تجویز موجود ہے؟

جواب نمبر9598

عبداللہ یوسف علی‘ سی بی ایل۔

جہاں تک مجھے علم ہے یہ محض ایک طالب علم کی تجویز ہے۔ اسے ذمہ دار افراد نے پیش نہیں کیا ہے۔

سر ریجنالڈ کریڈاک

ذمے دار افراد نے اسے پیش نہیں کیا، لیکن جیسا کہ آپ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں حالات و واقعات کی رفتار ہمیشہ تیز ہوا کرتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہی طالب علم جب آگے بڑھیں تو مذکورہ تجویز باقاعدہ طور پیش کی جائے۔ بہرحال وہ تجویز لوگوں کے ذہنوں میں یقیناً موجود ہوگی۔

ظفر اللہ خان

سوال کیا ہے؟

سر ریجنالڈ کریڈاک

میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا فاضل مبصرین اس تجویز سے باخبر ہیں جو اس بارے میں وضع کی گئی ہے اور جسے عام طور پر ’’پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔

ظفر اللہ خان

ابھی ابھی ہم نے جواب دیا ہے کہ یہ ایک طالب علم کی تجویز ہے اور اس میں کوئی بات نہیں مزید سوال کیا ہے۔

سوال نمبر9599

مسٹر آئزک فٹ (Mr. Isaac Foot)

پاکستان کیا ہے؟

جواب نمبر9599

ظفر اللہ خان

جہاں تک ہم نے غور کیا ہے ہم نے اسے بے کار اور ناقابل عمل پایا ہے۔

سوال نمبر9600

سر رینجالڈ کریڈاک

بعض مسلمان صوبوں کو پاکستان کے نام سے متحد کرنے کی تجویز کے متعلق مجھے عرض داشتیں موصول ہوئی ہیں۔

جواب نمبر9600

ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین

غالباً یہ کہنا کافی ہوگا کہ کسی نمائندہ فرد یا انجمن نے اب تک ایسی کسی تجویز پر غور نہیں کیا ہے۔

 

جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کی کارروائی سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند کے نمائندگان نے ’’ پاکستان‘‘ سے لاتعلقی کے علاوہ اسے ’’بے کار اور ناقابل عمل‘‘ بھی قرار دیا۔

1933ء میں انگریز کے سامنے ’’پاکستان‘‘ کو بے کار اور ناقابل عمل کہنے والے سرظفر اللہ خان 1947ء میں اسی پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ بنے۔ سر ظفر اللہ خان اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:’’وہ رحمت علی مرحوم کو قریب سے جانتے تھے لیکن اس زمانے میں جناح صاحب بھی ہندوستانی اتحاد ہی چاہتے تھے۔ اور حتٰی کہ اقبال مرحوم بھی مسلمانوں کو ایک جگہ صرف گروپ کی شکل میں ہندو ستانی وفاق کے اندر مجتمع دیکھنا چاہتے تھے، جب کہ چودھری صاحب پاکستان کو ایک آزاد اور صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ دیکھنا چاہتے تھے۔

اقبال اور پاکستان

خطبہ الہ آباد میں اقبال نے ایک متحدہ ہندوستانی صوبے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ رحمت علی مکمل آزاد خودمختار اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اقبال کی تجویز میں کشمیر کا نام تک شامل نہیں۔ یہی حال مشرقی بنگال کے بارے میں تھا۔

The post Now or Never appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

یا رجائی
مصفنہ: مشاء بلال، ناشر: فرید پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اردوبازار، کراچی
صفحات: 355، قیمت:1500 روپے

اگرچہ ادب کا کام تبلیغ نہیں اور ادیب مبلغ معاشرے کے لیے مبلغ کا فریضہ ادا نہیں کرتا، لیکن بہت سے قلم کار فکشن کو کردارسازی، شخصیت کی تہذیب اور اخلاقی تعلیمات کا ذریعہ بنانے کی ٹھان لیتے ہیں ۔

ایسے اہل قلم کی کاوشوں کی ادبی حیثیت ایک الگ معاملہ ہے ، تاہم ان کا جذبۂ اصلاح یقیناً لائق تحسین ہے ۔ مشاء اقبال بھی ایسے ہی لکھنے والوں کی صف میں شامل ہیں ۔ ’’یا رجائی‘‘ ان کی دوسری قلمی کاوش ہے، جس کا عنوان وضاحت طلب ہے ۔

یہ کتاب ایک طویل قصے کی صورت میں ہے جسے پلاٹ، کہانی اور ضخامت کے پیش نظر ناول کہا جا سکتا ہے ۔ یہ تحریر رب پر ایمان کامل کے نتیجے میں تمام رکاوٹیں عبور اور مشکلات کو زیر کر کے کام یابی کی منازل طے کر لینے کی کہانی ہے ، جس کے مرکزی کردار کرکٹ کا کھلاڑی براق آہان، مائشہ اور خذیفہ ہیں ۔

قصے کی ابتدا براق آہان کو تقریب میں اعزاز ملنے سے ہوتی ہے ، جسے وہ اپنی بیوی کے نام کر دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی واقعات کے تانے بانے سے بُنی گئی کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ کتاب کے اختتام پر مصنفہ نے قارئین سے مخاطب ہوتے ہوئے کام یاب زندگی گزارنے کے لیے کچھ قیمتی مشورے دیے ہیں ، جو واقعتاً خوش رہنے اور پُرسکون اور کام یاب زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہیں ۔

کتاب میں جا بہ جا انگریزی الفاظ کا استعمال گراں گزرتا ہے ، تاہم جس طبقے کے افراد کی یہ کہانی ہے اردو میں انگریری کے ٹکڑے ٹانکے بغیر ان کا کوئی جملہ مکمل نہیں ہوتا ، چناں چہ مکالمے میں بدیسی زبان جگہ جگہ در آنا کردار نگاری کا فطری تقاضا تھا ۔

مشاء بلال میں اچھا لکھنے کی صلاحیت ہے ، امید ہے کہ اس صلاحیت کو نکھار اور سنوار کر وہ زیادہ خوب صورت ، متاثرکُن اور خالص ادبی تحریریں سامنے لائیں گی ۔ کتاب کا ٹائٹل دل کش ہے ، جب کہ طباعت عمدہ ہے ۔

سراب (دو ناولٹ، چند واقعات)
مصنف: معین الدین جاوید حسام، ناشر: فرید پبلشرز ، نزدمقدس مسجد ، اردوبازار ، کراچی
صفحات:144، قیمت: 1000 روپے


عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب ایک مجموعہ ہے جس میں مصنف کے دو ناولٹ شامل ہیں ، جب کہ ’’گزرے ہوئے واقعات‘‘ کی سُرخی کے ذیل میں انھوں نے اپنی زندگی کے اہم اور دل چسپ واقعات شاملِ کتاب کیے ہیں ۔

کتاب کا حصہ بننے والی ایک اور تحریر جس کا ذکر سرورق پر آنے سے محروم رہا مصنف کا اردو کے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی پر لکھا گیا مختصر سا مضمون ہے ۔ بلاشبہ ابن صفی وہ لکھاری ہیں جنھوں نے لاکھوں افراد خصوصاً نوجوانوں کو مطالعے کی طرف مائل کیا اور ان ہی کے زیراثر کتنے ہی نوجوان لکھنے کی طرف مائل ہوئے ۔

بہ طور قلم کار معین الدین حسام نے اپنی کتاب میں ابن صفی پر مضمون شامل کرکے گویا ان کے اس احسان کا اعتراف کیا ہے ، جو قابل تحسین عمل ہے۔ کتاب کا حصہ بننے والا پہلا ناولٹ ہے ’’سراب‘‘ اور دوسرا ’’جھروکے۔‘‘ سراب ایک عورت کی کہانی ہے جو احساسات سے محروم شوہر کی بے اعتنائی اور پھر اپنے اکلوتے بچے کی موت کے بعد تنہائی کے شدید کرب سے دوچار اور اس کیفیت میں یوں بگاڑ کا شکار ہوئی کہ شرم وحیا تج کر اندھیرے راستوں پر بھٹکنے لگی ۔

یہ کہانی بتاتی ہے کہ مرد عورت یا میاں بیوی کا تعلق محض جسم کا رشتہ نہیں یہ جذبات اور احساسات میں گندھا ناتا ہے، اور اگر اس تعلق کو صرف جسمانی ضرورتوں تک محدود رکھا جائے تو تنہائی فریقین کا مقدر بن جاتی ہے جس کے تباہ کُن اثرات دونوں کی شخصیات پر مرتب ہوتے ہیں۔

دوسرا ناولٹ ’’جھروکے‘‘ محبت اور رومان کی خوب صورت کہانی ہے ، جس میں ہماری زندگی میں محبت کی قدر وقیمت اور اہمیت کو کرداروں، واقعات اور مکالموں کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے ۔ محبت کے سفر میں آنے والے اتارچڑھائو اور دھوپ چھائوں کی یہ کتھا اس پاکیزہ جذبے کے مختلف روپ سامنے لاتی ہے ۔

معین الدین حسام کے یہ دونوں ناولٹ صنفی تعلق کے گوناگوں پہلوؤں کے عکاس ہیں، لیکن اس حساس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے انھوں نے کہیں بھی بے احتیاطی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی تحریروں کو ’’اشتعال انگیز‘‘ بنانے سے مکمل گریز کیا ہے ۔ کتاب کے سرورق پر رنگوں میں ڈوبے درخت خزاں اور بہار کی آمیزش کا دل فریب منظر پیش کر رہے ہیں اور خوب صورت طباعت نظر کو مطالعے پر اکساتی ہے۔

پانچ ہزار کا نوٹ اور دیگر کہانیاں
مصنفہ: افشاں اقبال، ناشر: چلڈرن پبلی کیشنز14طارق پلازا ، ناظم آباد نمبر 4 ، کراچی
صفحات: 120، قیمت: 475 روپے


اس دور میں جب بچوں کو اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ اور رنگ برنگ سماجی ویب سائٹس کی صورت میں تفریح کے جادوئی ذرائع میسر ہیں ان کے لیے کہانیاں لکھنا اور ان کہانیوں کی کتابی صورت میں اشاعت دونوں قابل داد عمل بھی ہیں اور یہ خوش کُن حقیقت بھی سامنے لاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آج بھی کہانیوں کو کم سن قارئین میسر ہیں، جو ہمارے معاشرے اور اردو زبان کے لیے خوش آئند ہے ، کیوں کہ کہانی پڑھنے کا عمل ننھے ذہنوں میں تخیل کی صلاحیت ابھارتا ، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو فروغ دیتا اور انھیں مطالعے کا عادی بناتا ہے ۔

زیرتبصرہ کتاب بچوں کی لکھاری افشاں اقبال کی کہانیوں کا مجموعہ ہے ، جو طویل عرصے سے روزانہ ایکسپریس کے بچوں کے صفحے ’’کرنیں‘‘ اور مختلف رسائل کے لیے کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی ۔ اکثر کہانیوں کے موضوعات نیاپن لیے ہوئے ہیں ، جو بچوں کے ادب کا لازمی تقاضا ہے، کیوں کہ موضوعات کی یکسانیت پڑھنے والے کو بے زار کرنے کا سبب بنتی ہے ۔

مصنفہ کا طرزتحریر رواں اور پُرکشش ہے ۔ ان کی تحریر میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے ، اور کم سن قارئین کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لیے ادب اطفال کو ان ہی صفات اور اسی اسلوب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں مختصر ہیں اور شروع سے آخر تک پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں ۔

افشاں اقبال نے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے بہت سے قلم کاروں کی روش کے برعکس زیادہ تر کہانیوں میں ناصحانہ انداز اپنانے اور کہانی کو محض سبق آموز بنانے کی کوشش میں مضمون کر کے رکھ دینے کی غلطی سے اجتناب کیا ہے ۔

ہر کہانی کے ساتھ دل کش تصاویر شایع کر کے کتاب کو کہیں زیادہ خوب صورت اور بچوں کے لیے مزید پُرلطف بنایا جا سکتا تھا، تاہم شاید کتاب کی ضخامت بڑھنے کے خدشے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا ۔

ادب اطفال تخلیق کرنے والے ہر قلم کار اور ننھے قارئین کے لیے کتابیں شایع کرنے والے ناشروں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بچے پڑھنے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور کہانیوں کے ساتھ ان میں شامل واقعات اور کرداروں کی منظرکشی انھیں کہانی پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کتاب کی طباعت معیاری اور سرورق متاثرکُن اور توجہ کھینچنے والا ہے۔

نگہتِ گل
شاعرہ: عائشہ نگہت، ناشر: اشارات پبلی کیشنز،کراچی
صفحات:296، قیمت: 800 روپے


یہ کتاب عائشہ نگہت مرحومہ کا شعری مجموعہ ہے ، جو ستمبر 2023 میں شایع ہوا ، افسوس ناک امر یہ ہے کہ عائشہ نگہت اپنے اس مجموعے کی اشاعت کچھ دنوں بعد ہی نومبر میں دنیا چھوڑ گئیں ۔ اس سے قبل ان کے کلام کا مجموعہ ’’مجھے پہچان لینا‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا ، یوں ’’نگہتِ گل‘‘ ان کی دوسری اور آخری کتاب ثابت ہوئی ۔

عائشہ نگہت کے کلام کے سرسری مطالعے ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ تھیں ، تاہم ان کے مجموعے میں نظموں کے ساتھ غزلیں ، ٹپے اور فردیات بھی شامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں کہیں کہیں کومل ہندی الفاظ کی کثرت گیت کا رنگ لے آتی ہے تو کہیں فارسیت کے ذریعے وہ غالب کی روایت سے جُڑی نظر آتی ہیں ۔

ان کے ہاں شعری فضا ڈھلتی شام کی ساری اداسی لیے ہوئے ہے ۔ احساسِ تنہائی، برہا کا دکھ، بے اعتنائی کا رنج نسائی لہجے میں ڈھل کر ان کی شاعری کو آہوں میں بدل دیتا ہے۔

اگرچہ ’’نگہتِ گل‘‘ کے اوراق پر پھیلے لفظوں کا بڑا حصہ ذاتی جذبات واحساسات کا عکاس ہے ، تاہم عائشہ نگہت کی شعری دنیا کا سفر کرتے ہوئے ہمیں جا بہ جا عصری حسیت سے بھی واسطہ پڑتا ہے ۔ وہ اپنے اردگرد پھیلے غموں کا ادراک بھی رکھتی ہیں اور ان پر ملول بھی ہیں ، جس کا ثبوت نظم ’’کٹی ہوئی فصل‘‘ ہے:

یہ پنشن پانے والے
سر کٹے اشجار ہوں جیسے
تھکی ہاری سی فوجوں کے
سپہ سالار ہوں جیسے

یہ مختصر نظم بالوں میں سفیدی لے کر ملازمت سے سبک دوش ہونے والوں کے معاشی مصائب کا نوحہ نہیں ، بلکہ ان کے اکیلے پن اور اپنے گھر اور سماج کے لیے یکایک غیرمفید ہو جانے کے تکلیف دہ احساس کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ ’’اے امن کے خدائو!‘‘ بھی ایک ایسی نظم ہے جو شاعرہ کے سماجی و سیاسی شعور کا پتا دیتی ہے ۔

ان کی غزلوں میں کہیں کہیں خیال کا نیاپن چونکا دیتا ہے ، جیسے:

رہتا ہے کوئی ہم دم وہم راز کے جس سے
ملنے کے لیے جائے گی اب شام نگر دھوپ

اس غزل کے ایک اور شعر میں بس اک ’’مگر‘‘ سے کام لیتے ہوئے کس خوب صورتی سے اپنی بات کہہ دی گئی ہے:

جی چاہتا ہے دن کوئی ساحل پہ گزاریں
لہروں سے رہے آنکھ مچولی سی، مگر دھوپ

عائشہ نگہت کے کلام میں ہمیں سوچ کے نئے زاویے اور فلسفیانہ انداز ِفکر کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری محض مختلف کیفیات کے دوران دماغ میں کوندتے ابھرتے خیالات کا پرتو ہی نہیں ، گہرے غوروفکر کا نتیجہ بھی ہے۔ ’’صرف ایک زندگی‘‘ ایک ایسی ہی نظم ہے، جس میں بے کراں اور رنگارنگ کائنات اور زمین وآسماں کی وسعتوں کے مقابل فرد کی پانی کے بلبلے کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے زیرلب شکوہ کیا گیا ہے ۔ کتاب میں موجود خوب صورت ، فکرانگیز اور کسی منفرد خیال سے دمکتے بہت سے اشعار اور سطور کی مثال دی جا سکتی ہے، مگر تبصرے کا اختصار اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

دل کش سرورق کے ساتھ شایع ہونے والی اس کتاب میں صاحب کتاب کا لکھا پیش لفظ ہے نہ کوئی تقریظ، البتہ کتاب کی پُشت پر اردو زبان وادب کی تین نمایاں شخصیات ڈاکٹرجمیل جالبی، افتخارعارف اور پرفیسر سحرانصاری کی مختصر آرا درج ہیں ۔

کوتوال نامہ
مصنف: ڈاکٹر سید کلیم امام، ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، قیمت:300 روپے


“سیاں بھئے کوتوال اب موہے ڈر کاہے کا”
ڈاکٹر سید کلیم امام اب کوتوال نہیں رہے لیکن جب ان کی کوتوال نامہ سامنے آئی تو پہلی ضرب المثل جو ذہن میں بجلی کی طرح کوندی وہ یہی تھی۔ یہ ایک ایسے وقت میں کہا جاتا تھا جب کسی کا کوئی قریبی عزیز یا جاننے والا کسی اہم منصب پر فائز ہو جائے لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ کلیم امام کے جاننے والوں کو کبھی یہ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔

مجھے دشت صحافت کی سیاحت میں تین دہائیاں بیت چکی ہیں اور اس دوران اس دشت کے جس حصے میں سب سے زیادہ وقت گزرا اسے کوتوالی کہتے ہیں۔ بطور کرائم رپورٹر پہلے صرف کراچی سے کرائم رپورٹنگ کی لیکن جب پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے کرائم پر مبنی پہلے شو کی میزبانی شروع کی تو پورا ملک ہی قلم اور کیمرے کی زد پر رکھ لیا اس دوران درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مختلف رینکس کے پولیس افسروں سے ملاقات ہوئی کوئی اچھے نقوش چھوڑ گیا تو کسی کے ساتھ گزرے وقت کے ضیاع پر افسوس ہوتا ہے۔

بطور پولیس فورس کے سربراہ کے بھی کئی افسران سے بطور صحافی قریبی تعلق رہا جس میں اگر کمال شاہ کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہو گی ۔ وہ واقعی کمال کے شاہ تھے لیکن کمال شاہ کے بعد اگر کسی کی شخصیت نے متاثر کیا تو کلیم امام ہیں ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں بہت کم کسی سے متاثر ہوتا ہوں کیونکہ میرے اپنے معیار ہیں ۔ میں انسان کو اس کے ظاہر پر نہیں اس کے باطن پر پرکھتا ہوں اور اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ میری “پرکھ” کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ کلیم امام سے پہلی ملاقات ہی اس وقت ہوئی جب وہ آئی جی کے عہدے پر پہنچ چکے تھے اور “کوتوال سندھ” ہو کر ہمارے “شہر خرابی” میں وارد ہوئے تھے ۔ ابتدائی ملاقاتیں کچھ خاص نہ رہیں سوائے اسکے کہ ہم سمجھتے رہے کہ ہمیں خبروں کی ایک اچھی “سورس” مل گئی ہے لیکن کلیم امام کا کردار اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے صوبائی حکومت کے سامنے ایک اصولی موقف اپنایا۔

سرکاری نوکری کے حوالے سے ایک پرانی کہاوت ہے کہ آپ کو کیریئر یا اسٹینڈ میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔ ابتدا میں تو ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ کلیم پولیس فورس کے ” امام” رہنا پسند کریں گے اور کسی نہ کسی مرحلے پر ہتھیار ڈال ہی دیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور صوبے کے کوتوال کا منصب ان سے جاتا رہا۔

آخری دنوں میں ملاقاتیں کافی زیادہ ہوئیں اور کلیم امام صرف بطور پولیس افسر ہی نہیں ایک شاندار شخصیت کے طور پر بھی دل میں اتر گئے ۔کراچی سے اسلام آباد سدھارے تو رابطوں میں کچھ وقفہ آیا لیکن رابطے ختم نہ ہوئے اور جب سرکاری دامادی ختم ہو گئی تو ہم پر کلیم امام کا ایک اور جوہر کھلا کہ حضرت ایک کامیاب درانداز بھی ہیں اور انہوں نے یہ در اندازی صحافت کے میدان میں شروع کی ۔ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ۔

فلسفے کی جو تعریف مجھے پتہ ہے وہ وجود، منطق، علم، اقدار، من اور زبان سے متعلق عام اور بنیادی سوالات کے منظم مطالعے کو کہتے ہیں ۔ یعنی ایک عقلی اور تنقیدی تحقیق جو اپنے طریقوں اور مفروضوں کی عکاسی کرتی ہو اور کوئی شخص اتنے منظم مطالعے کے بعد کوتوال بن جائے تو اسے کلیم امام کہتے ہیں ۔

ان کی کتاب کوتوال نامہ کی ذیلی سرخی میں بھی ان کے اسی فلسفے کی جھلک ہے

عروج کا زوال تو ہم سب نے لکھ پڑھ اور سن رکھا ہے لیکن کلیم امام کوتوال نامہ میں زوال کے عروج کی کہانیاں سناتے ہیں اور اسے ہی شہہ سرخی بھی بناتے ہیں

یقینا ان کی “فلسفیانہ پولیسنگ”ان کی راہ میں بری طرح حائل رہی ہو گی اور اس کا اندازہ ان کی تحریروں کو بغور پڑھنے سے جابجا ہوتا ہے وہ اپنی تحریروں میں معاشرے میں پنپنے والے ان مختلف جرائم کا ذکر تو کرتے ہی ہیں جن کا سامنا انہوں نے ایک پولیس افسر کے طور پر کیا لیکن کہیں بین السطور تو کہیں نہایت کھل کر انہوں نے ان برائیوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے جو افسر شاہی میں رائج ہیں ، وہ کہیں سیاستدانوں پر نکتہ چیں نظر آئے تو کہیں اس پورے فرسودہ نظام کو ہی انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ ہر تحریر ناصرف زبان اور بیان کے اعتبار سے لاجواب ہے بلکہ ان کے اسلوب نے انہیں ایک فلسفی اور ایک کوتوال سے نکال ایک ادیب کے مرتبے پر فائز کر دیا ہے

اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اردو سے چونکہ محبت کا رشتہ ہے اور حضرت داغ کے کچھ داغ ہم پر بھی پائے جاتے ہیں اس لیے سارے جہاں میں دھوم جس زبان کی ہے اس زبان کے محکمہ پولیس میں استعمال پر ان کی تحریر “ہنر کا کمال” کا میں نے سب سے زیادہ لطف لیا ۔ بطور کرائم رپورٹر پولیس کی زبان پڑھنا بہت پہلے آگیا تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس کی زبان عام آدمی کیلئے قابل فہم نہیں ہے ۔ زبان کا ارتقا تو ہے ہی یہی کہ اس میں دوسری زبانوں کے لفظوں کی آمیزش ہوتی رہے لیکن نجانے کیوں محکمہ پولیس میں آج بھی اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی اور پولیس کو اپنا بیان دینے والے شہریوں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان سے جس تحریر پر دستخط کرائے گئے ہیں اس میں آخر لکھا کیا تھا ، حالانکہ اس کی آخری سطر میں وہ شہری یہ بھی مان رہا ہوتا ہے کہ اسے یہ تحریر پڑھ کر سنائی گئی اور وہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔

اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اسے صرف “قومی ورثہ” نہ بننے دیا جائے پولیس اور عدالتوں میں اسے “بولی” یعنی روزمرہ میں بولی جانے والی زبان کے قریب لایا جائے تاکہ اس پر بعض لوگوں کی اجارہ داری اس حد تک قائم نہ ہو جائے کہ کلیم امام کو پھر “ہنر کا کمال” دکھانا پڑے ۔ (تبصرہ نگار:فہیم صدیقی)

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


خوابوں کی تعبیر

$
0
0

نماز پڑھنے میں رکاوٹ
رخسانہ قریشی، حیدر آباد
خواب : یہ خواب میرے ابو نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے کے لئے گھر سے مسجد جانے کے لئے نکلتے ہیں مگر راستے میں سڑک کے کنارے ان کو بہت بڑا سانپ نظر آتا ہے جو کہ پوری جگہ گھیر کے بیٹھا ہوتا ہے۔ میرے ابو بہت پریشان ہوتے ہیں اور راستہ کاٹ کے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہر جگہ وہی سامنے ہوتا ہے۔ برائے مہربانی اس کی کچھ تعبیر بتا دیں۔
تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا کسی کے دھوکے یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے مگر اللہ کی مہربانی سے آپ اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

لباس پھٹنا
ہما عنبرین، کراچی
خواب : میں نے دیکھا کہ میں کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہی ہوں مگر کپڑے بدلتے ہوئے مجھے اپنے بازووں میں کئی جگہ سوراخ نظر آتے ہیں جیسے زخم کھلا چھوڑ دیا ہو۔ میں بہت حیران ہوتی ہوں کہ یہ اتنے سوراخ کب ہوئے اور مجھے پتہ کیوں نہ چلا۔ ان کو دیکھ کہ میں کافی زیادہ ڈر جاتی ہوں اور گھبرا کے چیخنا شروع کر دیتی ہوں۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے ۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں ۔

قرآن پڑھنا
شگفتہ پروین، اسلام آباد

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہوں کیونکہ مجھے یہ خیال آ رہا ہوتا ہے کہ کل اگر اسمبلی میں پرنسپل نے مجھے کھڑا کر دیا تو میں کیسے تلاوت کر سکوں گی۔ اگرچہ میں نے آج تک کبھی نہیں کی ۔

تعبیر۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلوو کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

دادی کے پاس پھل
نائلہ احمد، گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میری دادی ایک کمرے میں بہت زیادہ پھل لے کر بیٹھی ہیں جو کہ بہت زیادہ ہیں اور بے حد خوشنما ہیں۔ اسی دوران میری تائی اور چچی بھی ان کے پاس آ جاتی ہیں اور پھل کھانا شروع کر دیتی ہیں اس پہ میری دادی کہتی ہیں کہ پہلے خدا کے حضور شکرانے کے نفل پڑھو پھر کھانا ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پہ بھی آپ کو فائدہ ہو گا ۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں ۔

چوٹ لگنا
صباء خان، پشاور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر میں صفائی کر رہی ہوں جیسے کسی مہمان کی آمد پہ کی جاتی ہے۔ میں اچانک نیچے بچھے میٹ سے الجھ کے گر جاتی ہوں جس سے میرے ٹخنے پہ شدید چوٹ لگتی ہے جیسے ہڈی کے ٹوٹنے کی درد ہو ۔ تکلیف کی شدت سے میں نیم بے ہوش ہونے والی ہوتی ہوں۔ مگر میری والدہ پریشان ہو کر پھٹے ہوئے میٹ کو ہی دیکھتی چلی جاتی ہیں کہ یہ سارا کیسے پھٹ گیا ۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے ۔ گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاشکور یا حفیظ کا ورد کیا کریں ۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں ۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔

دوست کے ساتھ پڑھائی
محمد علی، کوئٹہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوست کے گھر پڑھائی کرنے گیا ہوا ہوں اور ادھر ان کی والدہ کو کہیں سے اونٹ کا گوشت پکا ہوا تحفتا آتا ہے۔ وہ ہم دونوں کو بھی کھانے کو دیتی ہیں۔ میں جب کھاتا ہوں تو مجھے بہت زیادہ مزہ آتا ہے اور میں دل میں سوچتا ہوں کہ کاش کبھی ہم بھی ایسا گوشت کھا سکیں جو اس قدر لذیذ ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

نرسری سے پودے خریدنا
ارم طاہر، لاہور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں نرسری سے پودے خرید رہی ہوں اور وہاں بہت رنگا رنگ پھول کھلے ہیں جو مجھے بہت پسند آتے ہیں اور میں سارے خرید لیتی ہوں گھر آ کر میں ان کو مالی سے لگوا دیتی ہوں ۔گھر میں سب لوگ بھی دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ مگر اگلی صبح میں جب باغ میں جا کر دیکھتی ہوں تو وہ سب جل چکے ہوتے ہیں اور کوئی ایک بھی موجود نہیں ہوتا ۔ میں یہ دیکھ کہ بہت پریشان ہوتی ہوں۔

تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے ۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ لازمی طور پہ صدقہ و خیرات بھی کریں ۔

قالین خریدنا
ندیم اختر، جھنگ
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی امی کے ساتھ کسی مارکیٹ میں موجود ہوں اور ہم اپنے نئے گھر کے لئے قالین خرید رہے ہیں۔کئی بہت زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جو ہم کو بہت پسند آتے ہیں مگر وہ ہماری قوت خرید سے باہر ہوتے ہیں۔ بالٓاخر ایک قالین پہ ہم متفق ہو جاتے ہیں، وہ کافی بڑا اور خوبصورت ہوتا ہے۔ بہت مشکل سے دوکاندار سے ریٹ طے کرنے کے بعد ہم اس کو خرید کر گھر لے آتے ہیں۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے کوئی خوشخبری ملے گی۔ اس کا تعلق آپ کی ازدواجی زندگی سے ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کاروباری معاملات میں آسانی ہو اور یہ ترقی پہ بھی دلیل کرتا ہے اور عزت و توقیر میں اضافے میں بھی ۔ اللہ آپ کے وسائل میں اضافہ فرمائیں گے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

پھوپھی کے گھر جانا
نذیراں بی بی، حافظ آباد
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے میاں کے ساتھ ان کی پھوپھی کے گھر گئی ہوئی ہوں جہاں اور بھی رشتہ دار آئے ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہم سب مل کر ان کے لان میں ٹہل رہے ہیں۔ ان کا لان بیحد خوبصورت ہوتا ہے اور وہاں بہت خوبصورت پھول کھلے ہوتے ہیں۔ میں ایک طرف لگے نرگس کے پھول دیکھتی ہوں تو ان کی خوشبو سونگھنے لگتی ہوں۔ اس بے حد اچھی خوشبو کا احساس دل و دماغ کو معطر کر دیتا ہے ۔ میں اپنی سسرالی کزنز کو بھی بلا کے ان پھولوں کی طرف اشارہ کرتی ہوں، وہ سب بھی اس کی خوشبو کو بہت پسند کرتی ہیں۔ میں دل میں سوچتی ہوں کہ اپنے گھر بھی مالی سے کہہ کے یہ پھول لگوائوں تا کہ ہمارے گھر سے بھی ایسی ہی خوشبو آئے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کو اولاد نرینہ سے نوازا جائے گا ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

تاریخی مقام کی سیر
محمد اقبال، نارووال
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی قدیم سی جگہ پہ سیر کرنے گیا ہوا ہوں ۔ وہاں ایک گائیڈ سے میں اس تاریخی عمارت کے متعلق معلومات لے رہا ہوں کہ جس جگہ پہ میں کھڑا ہوا ہوتا ہوں اس کے آس پاس کا سارا علاقہ اچانک ہی زلزلے سے تباہ ہونے لگ جاتا ھے ۔ میں چیختے ہوئے ایک طرف بھاگتا ہوں کہ کسی طرح اپنی جان بچا سکوں اور اسی پریشانی کے عالم میں میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی یا غم مسلط ہو سکتا ہے ۔ کاروباری معاملات میں بھی رکاوٹ مراد ہو سکتی ہے یا نوکری میں کچھ ناگہانی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے عزت و توقیر میں بھی فرق آ جائے گا ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ اگر ممکن ہو سکے تو گھر کی چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالا کریں ۔

چھت پر سانپ
ناہید خانم، پشاور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی ہوں اور وہاں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر والی منزل کی طرف جا رہی ہوں۔ اچانک میری نظر اوپر کی طرف جاتی ہے وہاں مجھے ایک بہت بڑا کالے رنگ کا سانپ دکھائی دیتا ہے جو چھت سے چمٹا ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو جاتی ہوں کیونکہ تنگ سی سیڑ ھیوں میں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر گر جائے گا ۔ اس کے بعد مجھے نہیں یاد کہ وہ گرا یا نہیں اور میں نے کیا کیا ۔ شائد میری آنکھ کھل گئی ہو ۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں، مگر یہ جو حصہ مجھے یاد ہے وہ اسی خوفناک سانپ والا یاد ہے۔

تعبیر: خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ کسی کے ساتھ خراب تعلقات یا دشمنی کی طرف بھی دلیل کرتا ہے کہ کسی طاقت ور دشمن سے پالا پڑ سکتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

جانوروں کی منڈی میں جانا
نصیر ملک ، لاہور
خواب: میری امی نے خواب دیکھا کہ وہ منڈی ابو کے ساتھ قربانی کا جانور دیکھنے گئی ہوئی ہیں۔ وہاں پہ ایک اونٹ ان کی طرف بے قابو ہو کر بڑھتا ہے اور ان کا ہاتھ چبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پہ میرے ابو گھبرا جاتے ہیں اور ایک اینٹ اٹھا کر اس کو مارتے ہیں۔ برائے مہربانی میری والدہ کو اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ خدا نہ کرے کوئی دشمنی کر سکتا ہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ اس سے کسی سفر میں ناکامی کا بھی امکان لیا جا سکتا ہے ۔ اس سے یقینی طور پہ طبیعت میں رنج و ملال پیدا ہو گا ۔ ذھنی طور پہ بھی کافی خوف رہے گا ۔ اور اس سے مراد کاروباری معاملات میں بھی کسی مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ آپ ایک تو نماز پنجگانہ کی پابندی کریں دوسرا کثرت سے استغفار کیا کریں ۔

کشمش کھانا
زینب علی، پشاور
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنی ہمسائی کے ساتھ اس کے والدین کی طرف گئی ہوئی ہوں اور وہاں ان کی والدہ مجھے کشمش سے بھرا ایک لفافہ دیتی ہیں۔ میں اس کو دیکھ کے بہت خوش ہوتی ہوں ۔ کچھ تو میں نکال کے راستے میں ہی کھانا شروع کر دیتی ہوں اور باقی یہ سوچ کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں کہ گھر جا کر سب کے ساتھ کھاوں گی۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کہ کسی خوشخبری یا منافع بخش چیز پہ دلالت کرتا ہے۔آپ کو کاروباری ازدواجی یا تعلیمی معاملات میں کہیں کوئی خوشخبری مل سکتی ہے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور یاللہ یا رحمن یا رحیم کا ورد کیا کریں ۔

کالج میں دوستوں سے گپ شپ
افشاں منظور، سیالکوٹ
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کالج میں ہوں اور اپنی دوستوں کے ساتھ کالج کے باغ میں بیٹھی کچھ کھا رہی ہوں کہ اچانک کہیں سے ایک کتا تیزی سے بھاگتا ہوا آتا ہے ۔ تمام لڑکیاں چلاتے ہوئے ادھر ادھر بھاگتی ہیں ۔ میں بھی تیزی سے اٹھتی ہوں تا کہ کہیں دور جا سکوں مگر وہ کتا تیزی سے میری طرف لپکتا ہے اور میرے پاوں پہ کاٹتا ہے ۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ بھاگ سکوں مگر تیزی کے باوجود وہ میری ٹانگ پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔

تعبیر : یہ خواب پریشانی کو ظاہر کرتا ہے جیسے کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہو اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے۔کسی قسم کی رکاوٹ بھی مراد ہو سکتی ہے، چاہے کاروباری معاملات ہوں یا تعلیمی۔ حتی کہ گھریلو معاملات بھی ممکن ہیں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔ آپ مگر کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی ضرور کریں ۔

مہمانوں کی آمد
تنزیلہ چوہدری، سکھر
خواب : میں نے دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں ہوں اور کسی مہمان کی آمد کے لئے خوشی خوشی کچھ پکا رہی ہوں ۔ پھر دیکھتی ہوں کہ میرے کافی عزیز و اقارب میرے والدین سمیت میرے گھر آئے ہیں اور میں بہت خوش ہو رہی ہوں ، ساتھ ساتھ میز پہ مختلف کھانے بھی سجا رہی ہوں ۔ پھر جب سب محفل میں بیٹھ جاتے ہیں تو میں دیکھتی ہوں کہ میرے ماموں تلاوت کر کے میرے لئے دعا کرتے ہیں جس پہ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ کی پریشانی دور ہو گی ۔ رنج و الم سے نجات ملے گی ۔ یہ باعث فرحت و رحمت ہے ۔ والدین کی محبت و شفقت بھی نصیب ہو گی ۔آپ والدین کی خدمت کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔ کثرت سے یا شکور کا ورد کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمارے ہاں ووٹ کی اہمیت کا شعور اور آگہی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی

$
0
0

 ڈاکٹر محبوب حسین، ایک تاریخ دان ہیں اور تاریخ کے مضمون میں ’ڈاکٹریٹ‘ اور ’پوسٹ ڈاک‘ بھی کر چکے ہیں۔

عالمی تاریخ کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ان کی خصوصی دلچسپی ہے۔ زیر نظر انٹرویو میں وہ برصغیر پاک و ہند میں انتخابی عمل کے آغاز کے پس منظر، اس حوالے سے کی گئی آئین سازی، ووٹرز کی اہلیت کے ابتدائی معیار اور اس میں آنے والی بتدریج تبدیلیوں اور سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔انتخابی عمل کی تاریخ بذات خود بہت پرانی ہے۔ قبل از مسیح دورمیں یونانیوں کے ہاں اس کا تصور موجود تھا مگربرصغیر پاک وہند میں الیکشن کی تاریک ایک سو چار سال پرانی ہے

سوال : برصغیر پاک و ہند یا غیر منقسم ہندوستان میں پہلا الیکشن کب منعقد ہوا ؟

ڈاکٹر محبوب حسین : برصغیر پاک و ہند کی انتخابی سیاست کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انگریز یہاں تاجر کی حیثیت سے آئے۔ اور ایک طویل عرصے تک انہوں نے یہاں اپنا نوآبادیاتی طرز حکمرانی جاری رکھا۔

ڈاکٹر محبوب حسین: برصغیر میں 1833 کا چارٹر ایکٹ ایک ایسا ایکٹ ہے جس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مستقبل میں انتخابی عمل شروع ہونے کا امکان ہے ۔ کیونکہ اس ایکٹ سے برطانوی حکمرانوں نے مقامی لوگوں کو بہت محدود پیمانے پر فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل بہت محدود اور بالواسطہ تھا اور نامزدگیوںپر مشتمل تھا۔

پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی چلی گئی۔ لیکن 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب یہاں کے انتظامی معاملات ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست برطانوی بادشاہت کو منتقل ہوئے تو اس وقت یہ مطالبہ بڑھا کہ یہاں کے لوگوں کو فیصلہ سازی میں باقاعدہ شریک کیا جائے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں سیاسی عمل شروع ہوا اور 1885 میں انڈین نیشنل کانگرس کا قیام عمل میں آیا تو مغرب سے تعلیم یافتہ لوگوں نے ویسا ہی نمائندگی کا حق مانگا جیسا کہ برطانیہ میں تھا۔

لیکن یہاں کے لوگوں کو نمائندگی کا حق اتنی آسانی سے نہیں ملا ۔ انہیں جدوجہد کرنا پڑی۔ مختلف چارٹر ایکٹ اورکونسلز ایکٹ آتے رہے لیکن یہ تمام کے تمام بالواسطہ تھے۔ پہلی مرتبہ یہاں کے لوگوں کو ووٹ کا حق   1919کی مانٹیگو چیمس فورڈ اصلاحات کے بعد 1920کے الیکشن میں ملا تو اس طرح مقامی لوگوں نے پہلی مرتبہ 1920کے الیکشن میں ووٹ ڈالا۔

سوال : جب یہاں کے مقامی لوگوں کو حق انتخاب ملا تو یہ ان کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ مقامی لوگوں کا اس حوالے سے کیا ردعمل تھا؟

ڈاکٹر محبوب حسین : اس کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے حالات و واقعات کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ آج کی طرح کے انتخا بات نہیں تھے۔ اگرچہ ووٹ کا حق مل گیا تھا مگر یہ حق آج کی مانند نہیں تھا۔ بہت محدود پیمانے پر تھا ۔ آبادی کا محض دو یا پانچ فیصد طبقہ تھا جس کو ووٹ ڈالنے کی اجاز ت تھی اور یہ حق مشروط تھا۔

اس کے لیے مختلف شرائط تھیں۔ آپ سرکاری ملازم ہوں، آپ کے پاس ایک مخصوص قطعہ اراضی ہو ،آپ ٹیکس دہندہ ہوں۔ایک خاص تعلیمی معیا رہو۔ یہ تمام چیزیں مدنظر رکھ کر ووٹر کی اہلیت کا معیار مقرر کیا جاتا تھا۔ اس پیمانے پر بہت کم لوگ اترتے تھے ۔

تو ووٹ کا حق توملا مگر وہ بہت محدود تھا۔ آج کل کا جوش وخروش ہمیں نظرنہیں آتا تھا کیونکہ ووٹرز کی تعداد بہت ہی محدود تھی۔ بعد میں ووٹرز کی اہلیت کے حوالے سے بتدریج تبدیلی آئی کیونکہ سیاسی عمل کی شروعات ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے شملہ وفد کے ذریعے جداگانہ انتخاب کا حق مانگا۔ بعد ازاں مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلم لیگ نے اس جداگانہ حق کا بھی مطالبہ کیا۔ جبکہ دوسری جانب کانگریس پورے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کی نمائندگی کی دعویٰ کرتی تھی۔ کانگریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ مذہب کی بنیاد پر کسی کو قوم تسلیم نہیں کر سکتے۔

یوں ووٹر کی اہلیت کا معیار ایک ارتقائی عمل تھا۔ اس کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبوں میں جو انتخابات ہوئے تو ہر صوبے میں اہلیت کا معیار مختلف تھا۔ کسی صوبے میں میٹرک کو معیار ٹھہرایا گیا تو کہیں مڈل کو معیار رکھا گیا تو کہیں پرائمری پاس بھی ووٹر بننے کا اہل تھا۔ پھر اگر آپ ووٹر ہیں تو اس خاص صوبے میں آپ کتنا عرصہ پہلے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ کسی صوبے میں یہ چار ماہ کی مدت تھی، کسی میں چھ ماہ کا دورانیہ تھا توکہیں ایک سال کا قیام ضروری تھا تو کسی میں کچھ دنوں کی مدت کو کافی سمجھا گیا۔

اسی طرح اہلیت کے حوالے سے دولت اور وسائل کی ملکیت کے معاملے میںتنوع تھا یہ معاملہ بھی ہر صوبے میںمختلف تھا۔ اس طرح ووٹر کی اہلیت کامعیار قومی سطح پر یکساں نہ تھا۔ یہ ہر صوبے، ریجن اور شہر کی سطح پر مختلف تھا۔

سوال : جب ہندوستان میں انتخابی عمل شروع ہوا تو اس وقت کو نسا ادارہ تھا جو اس عمل کی نگرانی کرتا تھا یا اس کو دیکھتا تھا

ڈاکٹر محبو ب حسین : اس وقت کے صوبائی گورنرز اپنے اپنے متعلقہ صوبوں میں صوبائی انتظامیہ کی مدد سے اس عمل کو بروئے کار لایا کرتے تھے۔

سوال : تقسیم سے پہلے 1937 اور 1946 کے الیکشنز ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔1920 سے لیکر 1946 تک چھبیس برس کا عرصہ ہے۔ کیا اس عرصے کے دوران عوام یا ووٹرز کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا؟

ڈاکٹر محبو ب حسین : سیاسی شعور بہتر ہوا وہ اس لیے کہ یہاں پھر سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اپنی پولیٹیکل کمپینز شروع کیں۔ جس سے ان کا عوام سے رابطہ ہوا۔ 1946کے الیکشنزسے یہاں کے ووٹرز کا سیاسی شعور بہت پختہ ہوا۔

مثال کے طورپر اگر ہم پاکستان کے قیام کی بات کریں تو مسلم لیگ کی  1940کی قرارداد نے بہت بریک تھرو دیا ۔ یہاںکے لوگوں کا یہ تصور دیاکہ اگرآپ آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے لیے الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کریں۔ مسلم لیگ کے اس مطالبے کو حریف سیاسی جماعتوں نے ایک بارگیننگ قرارد یا کہ اتنا بڑا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔

بعد میں واقعات نے اور مسلم لیگ اور قائداعظم کی جدوجہد نے بھی ثابت کیا کہ مسلمان اس مطالبے میں سنجیدہ تھے۔ 1946کے انتخابات تک پہنچتے پہنچتے مسلم لیگ نے مسلمانوں میں کافی سیاسی شعور پیدا کر دیا تھا۔اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی اور بھی سیاسی جماعتیں تھیں مثلا جمیعت علمائے ہند، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی، یونینسٹ پارٹی وغیرہ۔ دوسری طرف کانگریس ایک بڑی سیاسی جماعت تھی جو اپنے آپ کو پورے ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت کہتی تھی۔ لیکن مسلم لیگ نے پولیٹیکل سلوگنز ایسے دیے جو بہت پُرکشش اور Catchyتھے۔ مثلا مسلم لیگ نے کہا کہ اس خطے میں اسلام کی حفاظت کے لیے آپ نے مسلم لیگ کو ووٹ دینا ہے۔ اگرآپ اپنی مذہبی رسومات آزادانہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھرآپ مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔

مسلم لیگ کے اس مطالبے پر مسلم عوام نے اس لیے بھی ردعمل دیا کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے 1937کے انتخابات کا تجربہ تھا۔1937کے انتخابا ت میں اگرچہ مسلم لیگ پورے طو ر پر کامیابی حاصل نہ کر پائی مگر اس کے نتیجے میں جو وزارتیں تشکیل پائیں اور ان وزارتوں نے مسلمانوں سے جو سلوک روا رکھا۔

اس کے نتیجے میں ایک ردعمل تھا جو ہمیں نظر آیا 1940کی قرارداد کی صورت میں اور پھر 1946کے انتخابا ت میں۔ 1946کے انتخابات مسلم لیگ نے ایک نکتے پر لڑے وہ تھا۔ ’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘۔ اس مطالبے پر پھر مسلم لیگ ایک واضح اکثریت کے ساتھ انتخاب جیتی ہے۔

سوال : تقسیم سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میںجو افراد منتخب ہو کر آتے تھے، انہیں کس حد تک اختیارات دیے جاتے تھے؟۔

ڈاکٹر محبو ب حسین: دیکھیں ۔ یہ ایک ارتقائی عمل تھا اور ان کے پاس بہت محدود اختیارات تھے۔ کچھ نامزدگی کے نتیجے میں آتے تھے۔ کچھ براہ راست آتے تھے۔

مثلا وہ بجٹ کے بارے میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ سوال پوچھنے کا اختیار انہیں ایک طویل جدوجہد کے بعد ملا۔پھر سوال کے بعد ضمنی سوال پوچھنے کا حق بھی ایک جدوجہد کے بعد ہی ملا۔لیکن جب 1935 کا ایکٹ آیا تو پھر اس ایکٹ کے بعد جتنے انتخابات ہوئے ان میں پھر ان اختیارات کو بتدریج بڑھا یا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان میں بھی پہلے انتخابات ہوئے وہ بھی 1935کے ایکٹ کے تحت ہوئے۔ آہستہ آہستہ ان کو اختیارات ملنا شروع ہوئے مگر وہ بہت محدود تھے۔

سوال : 1946کے انتخابا ت میں ، موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اس وقت کے تناظر میں ووٹر ٹرن آوٹ کیا رہا تھا؟

ڈاکٹر محبوب حسین: دیکھیں ، جیسے میں نے کہا کہ ووٹرز کی تعداد بہت محدود تھی۔ آبادی کا بہت کم حصہ ووٹ ڈالنے کا اہل تھا۔لیکن ٹرن آوٹ یہاں کبھی بھی بہت اچھا نہیں رہا۔ بیس فیصد، تیس فیصد، چالیس فیصد ۔ پچاس فیصد سے کم ہی رہا ہے۔ کیونکہ یہ پورا عمل بہت پیچیدہ تھا تو اس لیے عوام بھر پور انداز سے اس میں حصہ نہیں لے پاتے تھے۔

سوال : قیام پاکستان کے بعد ملک میں پہلا الیکشن کب ہوا؟

ڈاکٹر محبو ب حسین: پاکستان بننے کے بعد پہلے تو یہاں صوبائی انتخابا ت ہوئے۔ سب سے پہلے 1951 میں پنجاب میں انتخابات ہوئے۔ دسمبر 1951میں NWFPموجودہ خیبرپختنخواہ میں ہوئے۔1953میں سندھ میں انتخابات ہوئے اور اسی طرح اگلے برس 1954میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ یہ چار صوبائی انتخابات تھے ۔

قومی انتخابات نہیں تھے۔ اسی طرح ایوب خان کے دور میں بھی انتخابات ہوئے مگر وہ انتخابات بی ڈی ممبران کے تھے یہ ان ڈائریکٹ الیکشن ہوئے۔ اسی بنیاد پر اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوئے مگر وہ بالواسطہ تھے۔ براہ راست انتخابات نہیں تھے۔ پاکستان میں پہلے انتخابات جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہوئے وہ 1970 کے انتخابات تھے اور آزادی کے 23 سال بعد عوام کو یہ اختیار ملاکہ وہ اپنے نمائندے براہ راست چن سکیں۔

سوال: 1970کے انتخابات کیا 1935کے ایکٹ کے تحت ہوئے؟

ڈاکٹر محبوب حسین: 1970کے انتخابات لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے تحت ہوئے جو کہ یحٰیی خان نے جاری کیا۔ اس سے پہلے جو صوبائی انتخابات ہوئے وہ ہم نے 1935کے ایکٹ کو اپنی ضروریات کے تحت کچھ تبدیل کیا۔ اس کو ہم 1947کا عبوری آئین کہتے ہیںکے تحت انتخابات ہوئے۔ پھر ایوب خان نے جب اپنا ایک سسٹم دیا تووہ پھر 1962 کا آئین تھا۔ لیکن یہ انتخابی عمل 1935 یا 1947 کے ایکٹ کے تحت ہی تھا۔ لیکن 1970کے انتخابات لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے تحت ہوئے۔

سوال : 1970کے انتخابات سے آگے پھر جتنے انتخابات ہوئے ان میں پھر ووٹرز کے حوالے سے کیا کچھ تبدیلیا ں ہوئیں؟

ڈاکٹر محبوب حسین: جی بتدریج تبدیلیاں آئیں۔ مثلا  1970کے انتخابات کے بعد دس مزید انتخابات ہوئے۔ 1977  میں انتخابات ہوئے۔ 1985  کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ پھر 1988 میں ہوئے، 1990 اور 1993 میں ہوئے۔1997 میں الیکشن ہوئے پھر 2002 میں الیکشن ہوئے۔ 2002 کے الیکشن میں یہ تبدیلی آئی کہ ووٹر کی اہلیت کی عمر اکیس سال سے کم کر کے اٹھارہ سال کر دی گئی۔ خواتین کی نمائندگی کو بڑھا دیا گیا۔ پھر 2002 کے بعد 2008، 2013،,2018 کے انتخابات ہوئے۔ اور اب 2024 میں ہونے جارہے ہیں۔ بڑی تبدیلی تو ووٹر کی عمر کے حوالے سے ہوئی۔ مگر بعد میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت ہوتی رہی ہیں۔

سوال : اس خطے میں لوگوں کو ووٹ کا حق تو 1920 میں ملا مگر جو ماڈرن ورلڈ تھی وہاں تو یہ عمل پہلے شروع ہو چکا تھا ۔ کیا وہاں بھی ابتداء میں ووٹر کی اہلیت کا تعین کیا گیا تھا جیسے یہاںکیاگیا تھا؟

ڈاکٹر محبوب حسین: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ سب سے پہلے تو برطانیہ کا جمہوری نظام ہے ۔ ہم اس کی مثال دیتے ہیں۔اٹھارویںصدی میں لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق دیا گیا وہ بھی بہت زیادہ نمائندہ نہیں تھا۔ بڑے شہروں مثلا مانچسٹر وغیرہ کی نمائندگی کم تھی ۔ چھوٹے شہروں کو زیادہ نمائندگی دی گئی۔آہستہ آہستہ الیکٹورل ریفارمز کے ذریعے انہوں نے اپنا نظام بہتر کیا۔ امریکہ میں اٹھارویں صدی میں یہ حق دیا گیا۔

خواتین کو نمائندگی کا حق بہت تاخیر سے ملا۔ اورامریکہ کی یہ مثال دی جاتی ہے کہ پہلے وہاں ووٹر کی عمر اکیس سال تھی۔ پھر ویت نام کی جنگ ہوئی تو لوگوںنے کہا کہ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اورلڑنے کے لیے عمر اگر اٹھارہ سال ہے تو ووٹ ڈالنے کی عمر اکیس سال کیوں ہے۔ عوام کے اس مطالبے کے بعد پھر عمر کم کر کے اٹھارہ سال کر دی گئی۔

ا سی طرح باقی دنیا کی بات کی جائے تو یہ کوئی بہت پرانا عمل نہیں ہے یہ جدید رجحان ہے۔ اگرچہ الیکشن کی تاریخ بذات خود بہت پرانی ہے۔ یہ قبل مسیح کی ہے۔ یونانیوں کے دور میں بھی یہ ووٹنگ کا تصو ر تھا۔ لیکن مارڈن ورلڈ میں اس کو بہت تاخیر سے لایا گیا اور اس پر عمل کیا گیا۔

سوال : آپ نے بتایا کہ یونانیوں کے ہاں بھی ووٹنگ کا تصور تھا۔وہاں پر یہ کس نوعیت کا تصور تھا؟

ڈاکٹر محبوب حسین: یونانیوں کے ہاں نیگیٹو ( منفی) ووٹنگ کا تصور تھا۔وہ اپنی سوسائٹی اور اپنے معاشرے کی بہتری چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نے اپنے معاشرے کو بہترکرنا ہے تو پھر وہاں کے ناپسندیدہ لوگوں کو وہاں سے بیدخل یا جلا وطن کر دیا جائے اور اس کے لیے وہ باقاعدہ ووٹنگ کرواتے تھے۔ تو ان کی کونسل یا اکابرین چار پانچ لوگوں کو نامزد کرتے تھے کہ ہم نے ان کی سرگرمیاں دیکھی ہیں ۔

یہ معاشرے کے لیے مفید نہیں ہیں اور مضر ہیں۔ تو آپ فیصلہ کریں کہ کس کو نکالنا ہے اور کس کو رکھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت نہ بیلٹ تھا نہ بیلٹ باکس تھا۔ تو پھر وہ لوگ کیسے اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ تو وہ ایک گڑھا کھودتے تھے تو وہ مٹی کی ٹھیکریاں ، امیدوار کے مخصوص گڑھے میں ڈالتے تھے۔ جس کی ٹھیکریاں زیادہ ہوتی تھیںتو وہ زیادہ نا پسندیدہ ہوتا تھا۔ تو پھر اس کو دس سال یا بارہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا جاتا تھا۔ ووٹنگ کا یہ تصور وہاں سے شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آتی چلی گئی۔

سوال ـ : ڈاکٹر صاحب ۔ پوری دنیا میں جو الیکشن کروائے جاتے ہیں۔ کیا وہ اس قوم کے سماجی رویوں کا مظہر ہیں؟

ڈاکٹر محبوب حسین: جی ۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن ہم ایسے تیسری دنیاکے ممالک میں مختلف سماجی مسائل ہیں۔ یہاں تعلیم کی شرح کم ہے۔ لوگ ذات برادری کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے اپنا حق صحیح استعمال نہیں کر پاتے۔ پوری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے اور لوگ اسی طرح اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔

اگر اس سے کوئی بہتر طریقہ آ گیا تو پھر انسانیت اس طرف چلی جائے گی۔ اب جو بھی مروجہ نظام ہے، اس میں الیکشن ایک بہتر طریقہ کار ہے۔ اگر چہ اس میں اصلاحات اور بہتری کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت لانے کی ضرورت ہے۔ ووٹرز کو شعور دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ الیکشن بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ عام آدمی اس میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پریشر گروپس ، گروہی مفادات والے اپنے اپنے امیدوار لے آتے ہیں۔

سوال: اس سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں ڈور ٹو ڈور رابطے ضروری تصور کیے جاتے تھے۔ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے۔

انٹر نیٹ نے بہت سے تصورات کو بدل دیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کا کوئی کردار ہو گا؟

ڈاکٹر محبوب حسین: ٹیکنالوجی ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔ ہر دور کی ٹیکنالوجی کی بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ کسی زمانے میں پوسٹر تھے ، پرچم تھے ان کی ایک اہمیت تھی۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے۔ سو شل میڈیا کا دور ہے۔ آپ اپنی آواز ووٹرز تک پہنچا سکتے ہیں۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا آپ ووٹرز کو باہر نکال پائیں گے۔ کیونکہ پہلے سیاسی جماعتیں جلوس نکالتی تھیں۔

گلی محلے کی سطح پر میٹنگز ہوتی تھیں۔ لیکن کیا آج کے ووٹر کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے معاشی مسائل سے نکل کر ان سرگرمیوں کے لیے وقت نکال پائے گا۔ یا پھر وہ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرے گا۔

یہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا پیغام تو ووٹرز تک پہنچ رہا ہے لیکن کیا وہ ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ہمارے ہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ جوانوں پر مشتمل ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر تو بہت فعال ہیں، لیکن کیا وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے پولنگ اسٹیشن بھی آتے ہیں یا نہیں ۔ یہ ایک سوال ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ وہ ووٹرز کو کیسے موبالائز کریں۔

سوال : آپ نے ذکر کیا کہ مسلم لیگ کے سلوگنز بہت پُرکشش تھے۔ سیاسی جماعیتں انتخابات کے حوالے سے اپنا منشور پیش کرتی ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں منشور کی تیاری اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہیں اور کیا ہماری عوام اتنی باشعور ہے کہ وہ اس کی اہمیت اور سنجیدگی کو سمجھ سکیں۔

ڈاکٹر محبوب حسین: منشور کی پوری دنیا میں بہت اہمیت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک یا جمہوری طور پر بالغ معاشروں میں منشور کی بہت اہمیت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آبادی کے ایک بڑے حصے یا ووٹر ز کی ایک بڑی تعداد کو اس کا علم نہیں ہے۔

سیاسی جماعتیں کاغذات کی حد تک تو منشور بناتی ہیں، وہ بہت شاندار ہوتا ہے۔مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ صرف انتخابی نعرے تک محدود ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیںبھی اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتیں اور ووٹرز بھی اس بات میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھاتے کہ کس سیاسی جماعت کا کیا منشور ہے۔

تعلیم کے لیے کیا ترجیحات ہیں۔ صحت کے مسائل کا کیا حل ہے۔ باقی ایشوز پر ان کی کیا رائے ہے۔ ووٹرز کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں یہ ہے کہ ہمیں جاب ملے گی کہ نہیں۔ ہماری بنیادی مسائل حل ہوں گے کہ نہیں۔ منشور چاہے جو بھی ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنی پو لیٹیکل لٹریسی اور الیکٹورل لڑیسی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال : الیکٹورل لڑیسی کے حوالے سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1946 میں مسلم لیگ نے بطور سیاسی جماعت بھرپور کردار ادا کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء ملک کے کونے کونے میں گئے اورلوگوں کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیااو ر پھر اس کے نتائج بڑے متاثر کن تھے مگر قیام پاکستان کے بعد ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں الیکٹورل لڑیسی کے حوالے سے تساہل برتتی ہیں ۔ 1946 کے انتخاب کے موقع پر ووٹر لڑیسی کے حوالے سے سنجیدگی کا جیسامظاہرہ مسلم لیگ نے کیا ویسا مظاہرہ پاکستان میں پھر نہیںہوا؟۔

ڈاکٹر محبوب حسین: دیکھیں اس کے کئی پہلو ہیں۔ لیڈرشپ کارول ہے۔اس وقت قائداعظم نے نوجوانوں کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچائیں۔ اس وقت آج کی طرح سوشل میڈیا کا دور تو نہیں تھا۔ کمیونیکیشن کے ذرائع نہیں تھے۔

ایسے وسائل نہیں تھے کہ پیغام عام آدمی تک پہنچ جائے۔ اخبارات بھی جب پرنٹ ہوتے تھے تو آج کی خبر بھی دو تین بعد لوگوں کو معلوم ہوتی تھی۔دوسرے شہروں میںجاتے ہوئے مزید وقت لگتا تھا۔تو پھر نوجوانوں کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ مسلم لیگ کا پیغام عوام تک پہنچائیں۔آج کل کے دور میں نوجوان یہ کردار ادا کر سکتے ہیں اگر وہ سیاسی شعور کے حوالے سے پختگی کا مظاہرہ کریں اور وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔

وہ ایسا تب کر سکتے ہیں جب انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔ طلباء تنظیموں کی ہم بات کریں تو اس میں دونوں طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ اگر طلباء کو یونین سازی کی اجازت دی جائے تو ہمیں کل کی سیاسی قیادت مل سکتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے یہ نکتہ نظر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان طلباء کو استعمال کرتی ہیں۔ طلباء پھر تشدد کی طرف چلے جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شاید پھر پابندیا ں بھی لگیں۔مگر اس کا متبادل حل بھی موجود ہے۔مختلف جامعات کے اندر سٹوڈنٹس سوسائیٹیز موجود ہیں۔ وہ شعور یا آگہی پیدا کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن یا سیاسی جماعتیں بھی اس حوالے سے کمپینز چلا سکتی ہیں۔ اگرہم نوجوانوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں کہ کونسی جماعت ان کے لیے اور ملک کے مفاد کے لیے بہتر ہے اوران کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے تو اس سے بہتری آ سکتی ہے۔

سوال : ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں بار کونسلز ، تاجر اور مختلف نوعیت کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے سالانہ انتخابات ہوتے ہیں۔ان میںمتعلقہ ووٹرز بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر جب ملک میں قومی انتخابات ہوتے ہیں تو ووٹرز کا ٹرن آ ؤٹ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔

ڈاکٹر محبوب حسین : میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو الگ تھلگ سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس لیے وہ پولنگ اسٹیشن نہیں جاتا ۔ جب اس کو یہ احسا س ہوجا ئے کہ اس کے ووٹ کی اہمیت ہے، اس کاووٹ قیمتی ہے اور اس کے ووٹ کے ذریعے ہی فیصلہ ہونا ہے تو پھر صورتحال بدل جا ئے گی۔مگر اس وقت وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کے مسائل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں تو اس لیے وہ پھر اس سارے عمل سے الگ تھلگ ہو گیا ہے۔

The post ہمارے ہاں ووٹ کی اہمیت کا شعور اور آگہی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.

اہل فلسطین پہ ظلم وستم کرنے والی ؛ اسرائیلی افواج سزا سے کیسے بچتی ہیں؟

$
0
0

امریکا کے بانی عدل وانصاف کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ پہلے امریکی صدر ، جارج واشنگٹن کا قول ہے:’’دنیا کی سبھی اقوام سے ہم اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور انصاف کی راہ اپنائیں گے۔امن اور باہمی پیار ومحبت ہماری منزل ہے۔‘‘

اسی طرح امریکا کا ایک اور بانی و پہلا وزیر خزانہ، ایلیگزنڈر ہملٹن کہتا ہے:’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک معاشرے کی سب سے پہلی ڈیوٹی انصاف فراہم کرنا ہے۔‘‘دیگر بانیان ِامریکا (فاؤنڈنگ فادرز)بھی اسی قسم کے خیالات رکھتے تھے۔

تاہم جدید امریکی حکمران طبقے کے قول وفعل سے عیاں ہے کہ وہ عدل ا انصاف جیسے بنیادی انسانی وصف وخوبی سے دور ہو چکا۔ اسرائیل اور حماس کی حالیہ لڑائی میں یہ نکتہ دنیا والوں کے سامنے بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا۔

امریکی و اسرائیلی حکومتیں اور ان کا بھونپو میڈیا یہ تو تسلسل سے کہتا رہا کہ حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر کے جارحیت کی ہے، مگر یہ کہنے سے گریز کیا کہ آخر فلسطینیوں نے یہ جارحانہ عمل کیوں اپنایا؟وجہ یہی کہ اسرائیل نے اہل فلسطین کے علاقوں پہ پچھلے کئی عشروں سے قبضہ کر رکھا ہے۔پھر اہل غزہ کی تو اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے زبردست ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ فورسز اہل فلسطین پہ ہر ممکن ظلم وستم کرتی ہیں۔

عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ، امریکا اسرائیل کو اہل فلسطین پہ ظلم کرنے سے روکنے کے لیے ہم ممکن اقدام کرتی۔آخر یہ امریکا ہی ہے جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی نہیں ، امریکا کا مشہور میڈیا ادارہ،یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ (U.S. News & World Report) جس کا مالک ایک یہودی ہے۔

خبر دیتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر اب تک امریکی حکومت نے اسرائیل کو 270 ارب ڈالر کی عسکری ومعاشی امداد دی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کو ملنے والی سب سے بڑی امریکی امداد ہے۔(ملاحظہ فرمائیے، انگریزی مضمون : How Much Aid Does the U.S. Give to Israel?)

غرض اسرائیل کی سرکاری پالیسیاں تشکیل دینے میں امریکی حکمران طبقے کا اہم کردار ہوتا ہے۔مگر اس کردار میں عدل وانصاف کہیں نظر نہیں آتا جس کی تلقین امریکا کے بانی کرتے رہے۔ بلکہ عملی طور پہ امریکی حکمران طبقہ تمام اخلاقی و قانونی اصول وقانون توڑ کر اسرائیل کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔

اسرائیل اور اہل غزہ کی حالیہ جنگ میں یہ عنصر دوبارہ نمایاں ہو گیا جب امریکا نے اسلحے کی کثیر مقدار اسرائیل کو فراہم کی۔حتی کہ امریکی صدر نے اعلان کیا کہ (فلسطینیوں کو شہید اور انھیں تباہ وبرباد کرنے کے لیے)امریکا اسرائیل کا پشتی بان بنا رہے گا۔

دی گارڈین برطانیہ کا موقر اخبار ہے۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں بالعموم غیرجانب دارانہ طریقے سے عالمی معاملات اور واقعات پہ روشنی ڈالتی ہیں۔

حال ہی میں اخبار نے ایک مضمون ‘Different rules’: special policies keep US supplying weapons to Israel despite alleged abuses شائع کیا۔ اس میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی حکمران طبقہ اخلاقیات و قوانین پیروں تلے روند کر ایسے اقدامات کرتا ہے جن کے ذریعے اسرائیل کی حکومت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات سے بچایا جا سکے۔

گویا آج امریکا کا حکمران طبقہ اسرائیلی حکمرانوں کی ڈھال بن چکا۔ اسرائیلی حکمران دنیا بھر میں جو مرضی کرتے رہیں، اہل فلسطین کے گھر گرائیں، انھیں گولیوں کا نشانہ بنائیں، غیر ممالک میں جا کر انھیں شہید کریں…انھیں کھلی چھٹی ہے کیونکہ اکلوتی سپرپاور نے ان کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔

بالی وڈ کی بولی میں امریکا ایسا ’’بھائی‘‘بن گیا ہے جس کا پالتو کتا، اسرائیل جب دل چاہے، کسی کو بھی کاٹ لے اور بھنبھوڑ ڈالے۔ گارڈین کے مضمون میں کئی انکشافات ملتے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 25,000 فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ۔ ہلاکتوں کی غیرمعمولی تعداد کے باعث دنیا بھر میں عوام و خواص نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر جو بائیڈن کی مذمت کی ۔ غزہ پر اسرائیل کی “اندھا دھند” بمباری پر لگام دینے میں ناکامی پر بھی امریکی حکمران طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

گارڈین کی تحقیقات، جو امریکی محکمہ خارجہ کی نیم خفیہ دستاویزات کے جائزے اور حساس معاملات سے واقف افسران کے انٹرویوز پر مبنی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر قانونی سزاؤں سے بچانے کے لیے گزشتہ چند برس میں خصوصی طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ حالانکہ یوکرین سمیت امریکا کے دیگر اتحادیوں کے فوجی یونٹس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں اور نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکاروں نے اسرائیل کے معاملے میں درحقیقت ایک ایسے امریکی قانون کو بھی غیر موثر بنا دیا جو اسرائیلی حکومت کو سزا دے سکتا تھا۔ یہ 1990 ء کی دہائی میں بننے والا ’’ لیہی قانون‘‘(Leahy law)ہے۔

ریٹائرڈ سینیٹر پیٹرک لیہی کے نام سے منسوب ہے۔ وزارت خارجہ کے سابق حکام کہتے ہیں، ان کے محکمے نے ایسی غیر معمولی پالیسیاں وضع کی ہیں جو اسرائیلی حکومت کے لیے انتہائی عزت و احترام کو ظاہر کرتی ہیں۔ امریکا کے کسی دوسرے اتحادی کے لیے ایسے کوئی خصوصی انتظامات موجود نہیں ۔

اسرائیل میں لیہی قانون کے نفاذ کی عدم موجودگی خاص طور پہ پریشان کن ہے۔ گارڈین کو دیے گئے ایک بیان میں، ریاست ورمونٹ کے سابق سینیٹر نے کہا ’’ لیہی قانون کا مقصد امریکی امداد حاصل کرنے والی غیر ملکی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے جرم سے امریکا کو بچانا اور مستقبل کی خلاف ورزیوںسے روکنا ہے۔لیکن اس قانون کا مسلسل اطلاق نہیں کیا گیا، اور جو کچھ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ میں دیکھا ہے، وہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ کئی برسوں سے میں نے پے در پے امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ وہاں قانون لاگو کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘

2020 ء سے اب تک جن واقعات کا جائزہ لیا گیا، ان میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کا قتل شامل ہے جسے مئی 2022 ء میں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی تھی۔نیز 78 سالہ فلسطینی نژاد امریکی عمر اسد کی موت بھی جو جنوری 2022ء میں اسرائیلی حراست میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ نیز 25 سالہ احمد عبدو کا مبینہ ماورائے عدالت قتل جسے مئی 2021ء میں صبح سویرے اسرائیلی فورسز نے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے گولی مار دی تھی۔

اسرائیلی اخبار، ہرٹز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح کار پر گولی چلانے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے عبدو کو باہر نکالا، اسے سڑک سے چند میٹر نیچے گھسیٹا، پھر اس کی خون آلود لاش سڑک پر چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔

عبدو کی موت کے بارے میں، جس کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ غلط شناخت کا معاملہ ہو سکتا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کی خفیہ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے محکمے کے اہلکاروں کی طرف سے شوٹنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

عمر الاسد کے معاملے میں اسرائیلی فوج نے گزشتہ جون میں کہا تھا کہ وہ ان فوجیوں کے خلاف مجرمانہ الزامات نہیں لا رہی جو اس کی موت میں ملوث تھے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج نے کہا : اس کے فوجیوں کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ان کے اقدامات کا دل کا دورہ پڑنے سے ہونے والی اسد کی موت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ 2020 ء کے بعد درج بالا واقعات کا جائزہ محکمے کی طرف سے قائم کردہ ایک غیر معروف عمل کے تحت کیا گیا جسے’’ اسرائیل لیہی ویٹنگ فورم‘‘ (ILVF) کہا جاتا ہے۔اس کے ذریعے محکمہ خارجہ کے متعلقہ بیورو کے نمائندے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی رپورٹس کا جائزہ لیتے ہیں۔

لیہی قانون کے تحت امریکی حکومت ان ممالک کی افواج کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تفتیش کرتی ہے جو امریکی امداد لیتے ہیں۔ تب امریکی محکمہ خارجہ انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کی رپورٹ کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔

لیہی قانون امریکی حکومت کو ان غیر ملکی سیکورٹی فورسز کو فنڈز، مدد یا تربیت فراہم کرنے سے روک دیتا ہے جن کے بارے میں یہ “معتبر معلومات” موجود ہوں کہ فورسز نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔

کم از کم تین ممالک … اسرائیل، یوکرین اور مصر کے معاملے میں امریکا کی غیر ملکی امداد کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ امریکی فوجی امداد کا پتا لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔

اور امریکی حکمران طبقے کو بھی اکثر اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ مخصوص امریکی ہتھیار کہاں تک پہنچتے ہیں یا وہ کیسے ہیں اور انھیں کیونکر استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن اس عمل سے واقف امریکی وزارت خارجہ کے سابق اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل کو ILVF کے اندر مستعمل غیر معمولی پالیسیوں سے فائدہ ہوا ہے۔ان پالیسیوں کی تفصیلات پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔

’’یہ کسی نے نہیں کہا لیکن سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے قوانین مختلف ہیں۔ کوئی بھی اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، لیکن یہ سچ ہے۔” محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے کہا۔سب سے پہلے اسرائیل کے عمل کے تحت جاری ILVF کے جائزے میں شامل تمام فریقین کو اتفاق رائے تک پہنچنا چاہیے کہ ممکنہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اور پھر اس خفیہ بات چیت سے واقف تین افراد کے مطابق نائب امریکی وزیر خارجہ اس امر کی منظوری دیتا ہے۔

اصولی طور پر، ایک واحد بیورو “اسپلٹ میمو” کے ذریعے نائب امریکی وزیر خارجہ کے سامنے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس عمل میں شامل گروپوں میں بیورو آف نیر ایسٹرن افیئرز، بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر، بیورو آف پولیٹیکل ملٹری افیئرز اور یروشلم میں امریکی سفارت خانہ شامل ہیں۔

سابق حکام نے بتایا کہ لیہی قانون کے سلسلے میں دوسرے ممالک کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے معاملے میں تمام فریقین کے اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور اس کے لیے سیکریٹری آف اسٹیٹ یا نائب کی طرف سے اطلاع اور منظوری کی بھی ضرورت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں مشورہ کیا جانا چاہیے جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور دعووں کا جواب دینے کے لیے اسرائیلی حکومت کو 90 دن کا مارجن دیا گیا ہے۔ یوں معاملات بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہو کر پس پشت چلے جاتے ہیں۔ سابق عہدیداروں نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے طریقہ کار کے تحت کسی دوسرے ملک کی حکومت سے مشورہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے کہا “آئی ایل وی ایف کے کام نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ عمل تاخیری میکانزم سے اس قدر گمراہ کن ہے کہ کوئی عملی اقدام رونما نہیں ہو پاتا۔ایسا مددگار سسٹم کسی دوسرے ملک کے لیے موجود نہیں ۔‘‘امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے گارڈین کو بتایا کہ محکمے کی خفیہ بات چیت کی تفصیلات پر تبادلہ خیال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن “لیہی قانون کے تحت تشخیص کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ILVF کے شرکا کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت نہیں “۔ترجمان نے مزید کہا کہ محکمہ قانون کے مطابق تمام ممالک بشمول اسرائیل کو قابل اطلاق امداد حاصل کرنے کے معاملے میں لیہی قانون جانچ پڑتال کرتا ہے۔”

اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل کے ساتھ مشاورت کو لیہی قانون کی جانچ کے معاملات میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے معیاری عمل کا حصہ کیوں سمجھا جاتا ہے، ترجمان نے کہا کہ محکمہ صرف اسرائیل ہی نہیں معمولی طور پر لیہی جانچ کے معاملات پر تمام غیر ملکی حکومتوں سے مشورہ کرتا ہے۔

ریاست ورمونٹ کے آزاد سینیٹر، برنی سینڈرز کی قیادت میں ترقی پسند ڈیموکریٹس رہنماؤں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے امداد انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی امریکی تحقیقات سے مشروط ہونی چاہیے۔اس ضمن میں امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہل کار اور امریکی حکمران طبقے کے نقاد، جوش پال کہتے ہیں:

’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے یہودی بستیوں میں توسیع نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن جب حقیقی نتائج کی بات آتی ہے تو امریکا میں اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس رویّے نے اسرائیل کو اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ احساس دل دیا ہے کہ وہ غیرمعمولی استثنیٰ رکھتا ہے۔‘‘

جوش پال یہ بھی کہتا ہے کہ لیہی قانون کو اسرائیلی فوج کے خلاف بالکل استعمال نہیں کیا گیا۔نتیجہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے سبھی یونٹس سزا کے خوف سے ماورا ہو چکے۔ چناں چہ انھوں نے غزہ میں اہل فلسطین پہ کھل کر ظلم ڈھائے۔ وڈیوز میں اسرائیلی فوجیوں کی کارروائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان میں وہ ویڈیوز بھی شامل ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں نجی گھروں میں توڑ پھوڑ، شہری املاک کو تباہ ، مردوں کو برہنہ اور نسل پرستانہ زبان استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں امریکا کا دوہرا معیار 2021 ء میں ہوا وہ معاہدہ پوری طرح افشا کرتا ہے جس پر امریکی محکمہ خارجہ کی ایک سینئر اہلکار، جیسیکا لیوس نے، جو سیاسی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرتی ہیں، اور امریکا میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ہرزوگ نے دستخط کیے تھے۔دو صفحات پر مشتمل 2021 ء کے اس معاہدے نے میڈیا کی بہت کم توجہ حاصل کی ہے…حالانکہ اس نے لیہی قانون میں باقاعدہ تبدیلیاں کر دیں۔اہم ترین بات یہ کہ معاہدے میں یہ متنازع بیان بھی شامل کیا گیا: اسرائیل مضبوط، آزاد اور موثر قانونی نظام رکھتا ہے اور اس کا ملٹری جسٹس سسٹم بھی مضبوط ومبنی بر انصاف ہے۔‘‘

یہ واضح رہے، امریکا نے اس وقت دوسرے ممالک کے ساتھ دو درجن سے زیادہ اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں جن میں یونان، اردن، جارجیا، یوکرین اور لٹویا شامل ہیں – لیکن کسی معاہدے میں بھی دوسرے ملک کے ملٹری جسٹس سسٹم کی توثیق وتعریف کرنے والی زبان استعمال نہیں کی گئی۔گارڈین سے بات کرنے والے امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدیداروں نے کہا ، وہ نہیں جانتے کہ یہ زبان امریکا و اسرائیل کے معاہدے میں کیسے شامل کی گئی۔ لیکن قیاس ہے کہ شاید اسے اسرائیل نے شامل کیا ہے۔دی گارڈین نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔

پیٹرک لیہی کے دیرینہ سینئر مشیر، ٹم رائسر(Tim Rieser) جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں لیہی قانون لکھنے میں مدد کی تھی، بتایا کہ یہ زبان شامل کرنے کا مقصد شاید اسرائیل کو لیہی قانون کے تحت جانچ پڑتال سے بچنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔

کیونکہ اس زبان سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیل کی فوج میں انصاف کا نظام انسانی حقوق کی کسی بھی مبینہ خلاف ورزی سے نمٹنے کے لیے کافی آزاد ہے۔’’ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اسرائیل معاہدے میں کانگریس کے ساتھ مشاورت کے بغیر متنازع زبان شامل کی گئی ۔ حقیقت میں یہ غلط عمل ہے اور غلط طور پر تجویز کرتی ہے کہ [لیہی] قانون کو لاگو کرنے کی ضرورت نہیں ۔” ریزر نے کہا۔

اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ، B’Tselem اسرائیلی فوج کے قانونی نظام کو اکثر شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔اس تنظیم کے ترجمان ،درور صیدوت(Dror Sadot) کہتے ہیں:’’اسرائیلی حکمران طبقہ فوجی قانون نافذ کرنے والے نظام کو وائٹ واش میکانزم کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اس کا مقصد اہل فلسطین کے علاقوں میں اسرائیلی حکومت اور فوج کے ہاتھوں انجام پائی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کسی بھی قسم کی تنقید کو روکنا ہے۔ فوجیوں کی سزاؤں کا فیصد صفر کے قریب ہے، یہاں تک کہ انتہائی سنگین خلاف ورزی کرنے والے بھی آزاد رہتے ہیں۔‘‘

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار جوش پال نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے ” اندھی حمایت” کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔وہ کہتے ہیں’’میں نے طویل عرصے سے اندرونی طور پرمحکمے میں یہ استدلال دائر کر رکھا تھا کہ جب زیادتی کی بات آئے تو امریکا کو اسرائیل کے فوجی انصاف کے نظام کو ایک “ذمہ دار و فعال‘‘ نظامِ انصاف کے طور پر نہیں ماننا چاہیے۔ ”

جوش پال نے گارڈین کو بتایا ،میرے علاوہ”متعدد اہل کاروں نے محکمہ خارجہ کے اندر رہتے ہوئے کئی برس تک ان خدشات کا اظہار کیا کہ لیہی قانونی عمل “کام نہیں کر رہا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں “بغیر احتساب” ہو رہی ہیں۔

درحقیقت کوئی بھی اسرائیلی یونٹ کبھی اس مقام تک نہیں پہنچا کہ لیہی قانون کے تحت اسے سزا دی جائے حالانکہ کئی اسرائیلی یونٹوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معتبر الزامات موجود ہیں۔

دیگر معاملات جن کا ILVF نے جائزہ لیا، لیکن جہاں بالآخر امریکی حکام نے اتفاق رائے تک پہنچنے اور کارروائی کرنے سے انکار کر دیا، ان میں یہ شامل ہیں: سناد سالم الحربد کا قتل، ایک بدو جسے مبینہ طور پر مارچ 2022 ء میں اسرائیلی پولیس نے پیٹھ میں دو بار گولی مار دی تھی، احمد جمیل فہد کا قتل، جسے مبینہ طور پر پولیس نے گولی مار دی اور خفیہ اسرائیلی ایجنٹوں کی ایک یونٹ کے ہاتھوں خون بہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ،۔ صحافی گیوارا بودیری پر اسرائیلی پولیس کی حراست میں مبینہ حملہ، 2020 ء میں مشرقی یروشلم میں اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں ایک بتیس سالہ غیر مسلح معذور شخص ایاد الحلق کا قتل، محمد حمائل نامی پندرہ سالہ لڑکے کا قتل اور سولہ سالہ فلسطینی جنا کسوانی کو گولی مار دینا۔

ٹم رائسر اور لیحی قانون کے دیگر حامیوں کے لیے الجزیرہ کی ممتاز صحافی،شیریں ابو عاقلہ کے قتل میں اسرائیل سے جواب دہی کا فقدان خاص طور پر پریشان کن ہے۔ اور یہ معاملہ کیپیٹل ہل پر سینئر ڈیموکریٹس کی جانب سے تنقید کا نشانہ بن چکا۔رائسر کہتے ہیں:’’اگر امریکہ اسرائیل میں لیہی قانون کا اطلاق کرنے پر آمادہ ہوتا تو شاید اسرائیلی افواج اپنے فوجیوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے زیادہ مائل ہو جاتیں۔

اس سے شیریں ابو عاقلہ اور بہت سے دوسرے شہریوں کی ہلاکتیں روکنے میں مدد ملتی۔اگر اسرائیلی افواج اپنے مجرم فوجیوں کے خلاف ٹھوس اقدام نہ کرتیں تو انہیں امریکی امداد میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑتا جو امریکا اسرائیل تعلقات میں ایک حقیقی سیاہ نشان اور کانٹا بن جاتا۔”

ٹم رائسر انکشاف کرتے ہیں کہ جارج ڈبلیو بش انتظامیہ سے لے کر بائیڈن انتظامیہ تک پیٹرک لیہی اور ریاست کے یکے بعد دیگرے سیکرٹریوں کے درمیان خط کتابت کی طویل تاریخ رہی ہے جس میں اس سوال کا جواب مانگا گیا… فلسطینیوں کے قتل سے متعلق معاملات میں لیہی قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟

مئی 2002 ء میں تب کے سیکریٹری خارجہ، کولن پاول کو لکھے گئے خط میں، جو بش انتظامیہ میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیہی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ لیہی قانون کا اطلاق مشرق وسطیٰ پر نہیں کیا جا رہا ۔جنوری 2009 ء میں اس وقت کی سکریٹری کونڈولیزا رائس کو لکھے گئے خط میں لیہی نے لکھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیا اسرائیلی فوج کے کسی ایک واقعے سے بھی “بے خبر” ہے جو لیہی قانون کو متحرک کر دے؟

فروری 2016 ء میں پیٹرک لیہی کی طرف سے اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کو ایک خط میں “اسرائیل اور مصر میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی ممکنہ سنگین خلاف ورزیوں کی پریشان کن رپورٹس” کا حوالہ دیا گیا، جس میں “اسرائیلی فوج اور پولیس کے ذریعے ماورائے عدالت قتل” بھی شامل ہے۔اکتوبر 2017ء میں ریکس ٹلرسن کے نام ایک خط میں، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سیکرٹری آف سٹیٹ تھے، یہ استفسار کیا گیاکہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے کہ لیہی قانون اسرائیلی افواج پر لاگو کیا جائے؟

مئی 2018 ء میں پیٹرک لیہی کی جانب سے تب کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، مائیک پومپیو کے نام لکھے خط میں غزہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 فلسطینی مظاہرین کی فائرنگ سے ہلاکتوں کے لیے لیہی قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا جو مارچ کے بعد مارے گئے تھے۔

اس سال لیہی نے لکھا: “اگر کسی اسرائیلی یونٹ کے بارے میں لیہی قانون کو متحرک کرنے کے لیے قابل اعتماد معلومات موجود ہیں اور حکومت اسرائیل ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہی ، تو ایسی یونٹ امریکی امداد کے لیے اہل نہیں رہے گی۔”

ستمبر میں ایک اور خط میںپیٹرک لیہی نے “واضح جواب” کے لیے زور دیا، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا انتظامیہ نے کبھی فلسطینیوں کو گولی مارنے والے اسرائیلی فوج کے یونٹوں کی شناخت کی کوشش کی؟

دسمبر میں لیہی کی طرف سے بھیجے گئے ایک اور خط میں سوال ہوا کہ امریکی سفارت خانے نے کتنی بار اسرائیل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے ثبوت پیش کیے، اور کتنی بار ان افراد کو امریکی امداد حاصل کرنے سے روکا گیا؟لیہی کے کئی دوسرے خطوط میں اسرائیلی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ۔ ان میں سے کوئی بھی کیس کبھی کسی اسرائیلی یونٹ کو سزا کا باعث نہیں بن سکا۔

The post اہل فلسطین پہ ظلم وستم کرنے والی ؛ اسرائیلی افواج سزا سے کیسے بچتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

 اجمل خٹک

$
0
0

پشتو زبان کے صاحب سیف و قلم خوش حال خان خٹک نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ’’چاہے نظم ہو کہ نثر یا خط (املا و انشائ) ہو پشتو زبان پر میرا حق بے حساب ہے۔‘‘

اگر اپنے پردادا خوش حال خان کی طرح اپنی زندگی میں اجمل خٹک بھی یہ دعویٰ کرتے تو اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا کہ اجمل خٹک نے اپنی ساری زندگی پشتو زبان، ادب صحافت اور اپنی قوم کی ذہنی ترقی اور تعمیر کی خاطر وقف کردی تھی۔ انہوں نے اپنی انقلابی فکر کی خوشبو سے پشتو ادب اور پختون قوم پرست سیاست کی فضاء کو معطر رکھا۔ اس سلسلے میں انہیں اپنے صوبے کے کئی تھانوں اور ملک کے کئی جیلوں میں ذہنی اور جسمانی تکالیف اذیتوں اور قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا، پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزاری لیکن اس کے باوجود:

لکہ اونہ مستقیم پہ خپل مقام یم

کہ خزان راباندے راشی کہ بہار

(درخت کی مانند اپنی جگہ مستقیم ہوں، چاہے خزان آئے یا بہار)

وہ بیماری اور پیرانہ سالی میں بھی ثابت قدم اور پرعزم دکھائی دیتے تھے۔ 1925ء میں ایک عام کاشت کار حکمت خان کے ہاں اکوڑہ خٹک میں سات بہنوں کے بعد جنم لینے والے لاڈلے اجمل خان نے ابتدائی دینی علوم اپنے گاؤں کی مسجد میں مولانا عبدالقیوم، مولانا عبدالحق اور قاضی محمد امین سے حاصل کیے تھے۔

جب گھر میں ان کی پھوپی ’’منفعتہ ‘‘ قرآن شریف اور پشتو کی دیگر منظوم کتابیں نورنامہ، جنگ نامہ اور قصے کہانیاں خوش الحانی سے اور ترنم میں پڑتی تھیں تو اجمل خان ہمہ تن گوش ہوکر سنا کرتے تھے۔ ان کا نام اپنے گاؤں اور قبیلے کے اس وقت کے ’’مشر‘‘ محمد زمان خان نے رکھا تھا۔ 1935ء میں مسجد سے گاؤں کے اسکول میں جماعت دوئم میں داخل کردیے گئے۔

بچپن میں شکار کھیلنے کا شوق گاؤں کے مشہور شکاریوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پیدا ہوا تھا۔ موسیقی سے لگاؤ حجروں میں روایتی موسیقی کی محفلوں میں باقاعدہ شرکت کرنے کی وجہ سے تھا۔ خود بھی کئی مہینوں تک ستار اور رباب سیکھنے کے جنون میں مبتلا رہے، مگر دوستوں کے مشورے سے اپنے آپ کو شاعری تک محدود کردیا۔

اسکول سے فارغ ہوکر سیدھے گاؤں سے دور دشت و صحرا میں جایا کرتے تھے اور وہاں کھلے ہوئے خودرو پھولوں کا اس سوچ کے ساتھ نظارہ کیا کرتے تھے کہ اس دشت اور صحرا میں یہ رنگ بہ رنگ خوب صورت پھول کس نے بوئے ہیں؟ اور ان کی پرورش اور نگہداشت کون کررہا ہے؟ گاؤں کے علاوہ اردگرد علاقوں میں منعقدہ عوامی میلوں میں مداریوں کے قصے کہانیاں شوق سے سنا کرتے تھے۔

بچپن میں شعر کو موزوں کرنے میں اجمل خٹک نے منظوم عوامی داستانوں سے کافی اثر قبول کیا تھا۔ ان کے اسکول میں اس وقت کے وزیرتعلیم ثمین جان خان بطور مہمان خصوصی آئے تو اجمل خٹک نے اس تقریب میں ایک ایسی نظم پڑھی جس میں مہمان خصوصی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کے گاؤں کے اسکول کو ہائی کا درجہ دیا جائے، جس پر انہیں خان بابا زمان خان نے پانچ روپے بطور انعام دیے تھے۔

مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد کروانے کے لیے محمد زمان خان کی مسجد میں عبدالخالق خلیق، سمندر خان سمندر‘ عبدالحنان اور سید رسول رسا کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس میں خان محمد زمان خان نے اپنی نظر کم زور ہونے کی وجہ سے اجمل خٹک کو اپنے اشعار سنانے کے لیے دیے، جس سے اجمل خٹک کو اشعار پڑھنے کا حوصلہ ملا۔ جب اسلم خٹک کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’دوینو جام‘‘ (جام خون) پر مبنی کتاب انھوں نے سنی تو اپنے استاد میاں مشرف شاہ سے وہ کتاب پڑھنے کے لیے مانگی۔ اپنے دوستوں اور حجرے میں بیٹھے بزرگوں کے سامنے اس کتاب کو پڑھا کرتے تھے۔

ان کے ادبی ذوق میں ’’توبۃ النصوح ‘‘ نامی کتاب کے پشتو ترجمے نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسکول میں ہر ہفتے منعقدہ ادبی محفل کے لیے پہلے انہیں ان کے استاد ’’محمد آثم‘‘ کچھ لکھ کر دیا کرتے تھے بعد میں خود لکھنا شروع کردیا۔ آٹھویں جماعت میں ’’بدمعاش ھلک (بدمعاش لڑکا)‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈراما لکھا اور پیش کیا، جس میں خود مرکزی کردار ادا کیا۔ گھر میں ان کی بڑی بہن امرسلطان جب اونچی مترنم آواز میں ’’پختون اخبار‘‘ میں شایع شدہ نظمیں اور غزلیں سناتیں تو اجمل خٹک بھی ساتھ ساتھ دہراتے تھے۔

1938ء میں مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد ہوا تو اس مشاعرے میں پہلی بار اجمل خٹک اپنی نظم پڑھنے کے لیے اسٹیج پر آئے تو اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں کرسی پر کھڑے ہوکر اپنی نظم سنانی پڑھی۔ نظم پڑھنے کے دوران مشاعرے میں شریک اکثر لوگ چہ می گوئیاں کرتے رہے کہ یہ عبدالخالق خلیق کا بیٹا ہے اور یہ نظم انہوں نے اسے لکھ کر دی ہے۔ ان کا گاؤں خدائی خدمت گاروں کا مرکز تھا۔

جب باچا خان ان کے حجرے میں آئے اور ان کی باتیں سنی تو بہت متاثر ہوئے۔ ان کے والد اس وقت بڑے خوش ہوئے جب ان کے حجرے میں ایک شادی کے موقع پر قاضی شریف اللہ نے کم سن اجمل خان سے کہا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس پرچے پر لکھا ہوا یہ نام کیا ہے اور اجمل خان نے فوراً کہا ’’انقلاب‘‘، وہ ’’روزنامہ انقلاب ‘‘ تھا۔ اس طرح لفظ ’’انقلاب‘‘ سے اس کی شناسائی بچپن سے ہوئی جو اس کے تحت الشعور میں جاگزیں ہوگیا۔

بعد میں ان کے والد اپنے قابل اور ذہین بیٹے اجمل خان کے لیے دیوان خوشحال خان خٹک اور دیوان عبدالرحمان بابا لے آئے جس کے مطالعے سے اجمل خان کے اندر کا شاعر انگڑائیاں لینے لگا۔ آٹھویں جماعت میں انہوں نے پورے صوبے میں ٹاپ کیا اور پشاور کے ہائی اسکول نمبر ایک میں جونیئر اسپیشل کلاس میں داخل کردیے گئے۔ محکمۂ تعلیم کی جانب سے ان کے لیے ماہوار چار روپے وظیفہ بھی مقرر کردیا گیا۔

پشاور میں اجمل خٹک اور بالی وڈ کے معروف اداکار راج کپور ایک ہی اسکول کے طالب علم تھے۔ اس وقت راج کپور چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی دوستی ہوگئی۔ چوںکہ اجمل خٹک ایک مانے ہوئے فٹبال کے کھلاڑی تھے اور کوئی ٹورنامنٹ یا میچ ایسا نہیں تھا جس میں وہ ایک یا دو گول نہ کرتے ہوں، دیگر لڑکوں کی طرح راج کپور بھی اجمل خٹک کے سے متاثر تھے۔

راج کپور کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے اسکول کے لڑکے جب چھیڑتے تھے تو اجمل خٹک تمام لڑکوں کو خبردار کرتے کہ اگر کسی نے میرے دوست راج کپور کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی تو وہ اس کی ایسی کی تیسی کردیں گے۔

اس وجہ سے راج کپور کے والد اور اپنے زمانے کے اسٹیج اور فلم کے معروف اداکار پرتھوی راج بھی اجمل خٹک کا اپنے بیٹے کی طرح خیال رکھتے تھے۔ جس وقت پورے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک کی ہائی اسکولوں اور کالجوں کے طالب علموں نے بھی حمایت شروع کردی۔

یہ 1943ء کا زمانہ تھا۔ اجمل خٹک نے جو پہلے ہی سے خدائی خدمت گار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے اسکول میں اس تحریک کی حمایت شروع کردی اور اپنے اسکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر کردیے گئے۔ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کے باعث وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھاسکے اور 1943ء میں ہی محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہوار پر ’’معلم ‘‘بھرتی ہوگئے۔ دورانِ معلمی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز‘ منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ بعد میں ایف اے‘ بی اے اور فارسی زبان میں ایم اے کیا۔

ترقی پسند نظریات سے اس وقت واسطہ پڑا جس وقت انہیں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے اپنے ایک دوست غلام محمد کے ساتھ پشاور جانا پڑا۔ وہ اجمل خٹک کو اپنے ساتھ ایک بالاخانے لے گئے جہاں ایک تنگ وتاریک اور گرد سے بھرے کمرے میں ایک آدمی زمین پر دری بچھائے بیٹھا تھا۔ ان کے دوست غلام محمد نے اس آدمی سے کچھ خفیہ بات چیت کی۔

وہاں سے جاتے وقت اس آدمی نے اجمل خٹک کو دو کتابیں بطور تحفہ دیں، جن میں سے ایک ’’مشین اور انسان‘‘ تھی اور دوسری کتاب کا نام ’’سرمایہ‘‘ تھا۔ ان کتابوں کے مطالعے نے اجمل خٹک کو مارکس ازم اور لینن ازم کی جانب ایسا راغب کیا کہ وہ پھر ایسی ہی کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔

اس وقت انہوں نے اس آدمی کو نہیں پہنچانا لیکن چالیس سال بعد جب کراچی کے ایک ہوٹل میں در نظامانی بلوچ اور علی احمد تالپور کے ساتھ اس آدمی کو دیکھا اور تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ ہزارہ کے رہنے والے محمد حسین عطاء تھے جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی پشاور کے سیکرٹری جنرل تھے۔

اس کے علاوہ جب اجمل خٹک اپنے پھوپی زاد بھائی محمدعمر جو فتح پور کے ایک مدرسے میں پڑھتے تھے چھٹیوں میں ان کے ساتھ فتح پور گئے تو وہاں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سجادظہیر‘ عصمت چغتائی‘ سعادت حسن منٹو ‘ پریم چند اور سرجیت سنگھ سے ملاقات ہوئی اور ان ادیبوں کے ساتھ کئی نشستوں میں بحث مباحثے اور سننے کا موقع ملا ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوکر مرکزی کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔

اس وقت اسے مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کہا جاتا تھا۔ وہ اس بات کا برملا اعتراف کیا کرتے تھے کہ افغانستان میں جلاوطنی کے دوران بنگلادیش اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے ان کی کافی مالی مدد کی تھی۔ انہوں نے کئی کئی سال جیل کاٹی، ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئے، یہاں تک کہ قید کے دوران ’’دا زہ پاگل اوم‘‘ (کیا میں پاگل تھا؟) جیسی کتاب بھی لکھی۔

انہوں نے اپنی معلمی کی ابتداء 1943ء میں زیارت کاکا صاحب کے اسکول سے کی 1943ء تا 1948ء تک کبھی معلم اور کبھی بے روزگار اور ہر وقت خفیہ ایجنسیوں کے زیر عتاب رہے یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی، جہاں احمد ندیم قاسمی‘ ن م راشد ‘ناصر انصاری‘ احمد فراز اور خاطرغزنوی جیسے شعراء و ادباء کی رفاقت نصیب ہوئی۔

1947ء میں پاکستان کا پشتو میں پہلا ملی ترانہ بھی انہوں نے لکھا جو اس وقت کے معروف گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہوا۔ ان کے گھر پر وقتاً فوقتاً پڑتے رہنے والے پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے ان کی والدہ نے ان کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’دغیرت چغہ‘‘ (غیرت کی پکار) بھی ان کے دوستوں نے ادھر ادھر کی تلاش کے بعد یکجا کیا۔ جس ڈی ایس پی نے اجمل خٹک پر تشدد کرکے ان کا حال پاگلوں جیسا کردیا تھا، بعد میں اس ڈی ایس پی کو پشاور کے ایک بازار میں پاگل ہوکر گھومتے دیکھا گیا۔

اجمل خٹک کی شادی اپریل 1953ء میں ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ اسی سال ’’ پختون لیگ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنانے کے الزام میں چار مہینے پبی اور نظام پور کے تھانے میں قید رہے۔

اکتوبر 1953ء دس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے، لیکن دوبارہ ’’تحفظ امن وعامہ‘‘ کے قانون کے تحت گرفتار ہو کر پشاور جیل میں چھے ماہ تک نظر بند رہے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے جنرل سیکرٹری رہ چکے تھے۔ وہ مختلف ادوار میں پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سال تک پابند سلاسل رہے۔ اپنی شخصیت اور فکر کی تشکیل میں وہ خوشحال خان خٹک‘ باچا خان اور کارل مارکس کے کردار کو بنیادی قرار دیتے تھے۔ ریڈیو کی ملازمت سے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے فارغ کردیے گئے۔

1956ء میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر رہے اور کئی سال تک مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ اکثر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے روپڑتے اور سسکیاں لینا شروع کردیتے تھے۔ جس وقت پولیس والے انہیں ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا اور مار پیٹ کر زخمی حالت میں ان کے گھر کی تلاشی لینے کے لیے لائے، سامنے چارپائی پر بیٹھی ہوئی ان کی والدہ نے اپنے لاڈلے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو پولیس والوں کو بد دعائیں دینے لگیں، جس پر پولیس والوں نے اجمل خٹک کی آنکھوں کی سامنے ان کی والدہ کو بالوں سے پکڑ کر چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پر گھسیٹتے رہے۔

1973ء میں لیاقت باغ فائرنگ کیس کا واقعہ پیش آیا تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیربخش مری‘ غوث بخش بزنجو‘ اکبر خان‘ عطاء اللہ مینگل اور ولی خان کے مشورے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہیں قریبی دوست ’’تور لالے‘‘ نے بڑی مشکل راستوں سے قبائلی راستے سے افغانستان تک پہنچایا، جہاں پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988ء میں پاکستان آئے اور 1990ء عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر اور پارٹی کے مرکزی صدر اور سینٹ کے ممبر بھی رہے۔ اکتوبر 1999ء میں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کا عہدہ پیش کیا۔

اس ملاقات سے عوامی نیشنل پارٹی اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس پر انہوں نے اے این پی چھوڑ کر ’’اپنا کچکول اور رباب ‘‘ بجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کے نام سے الگ جماعت بنالی۔ تاہم چند سال بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوگئے، بقول شاعر:

’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘

افغانستان میں جلاوطنی کے دوران انڈیا کی بے شمار فلمیں دیکھی تھیں جن میں رامائن پر بننے والی اٹھارہ کیسٹوں پر مشتمل فلم بھی شامل رہی۔ فارغ وقت میں ان کا محبوب مشغلہ مطالعہ اور لکھنا ہوتا تھا۔ کئی سالوں سے روزانہ ڈائری لکھا کرتے تھے۔

صبح سویرے پچاس منٹ اور رات کو آدھا گھنٹہ واک کیا کرتے تھے۔ ان کا پسندیدہ شہر ’’پراگ (چیکو سلواکیہ)‘‘ تھا۔ وہ افغانستان ‘روس اور مشرقی یورپ کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی رہے اور وہاں مختلف سیمینارز میں مقالوں اور تقاریر کے ذریعے اپنے افکار پیش کیے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف رہے، تاہم ان کی شاعری کے پہلے مجموعے ’’د غیرت چغہ‘‘ نے پختونوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا، جس کی بازگشت آج بھی پشتو کی جدید شاعری میں سنی اور محسوس کی جاتی ہے۔ ان کی اس کتاب کو جدید پشتو ادب اور پختون نیشنل ازم میں لوگ کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپٹال‘‘ سے مماثلت دیتے ہیں ۔

وہ اردو‘ انگریزی ‘روسی‘ ہندی ‘فارسی‘ جرمن‘ عربی پر عبور رکھتے تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود اپنے حجرے میں کم زور ناتواں وجود کے ساتھ کئی بیماریوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج زندگی بھر وہی رہا جو ان کی پہچان تھا۔ انھوں نے جو پہلی فلم دیکھی وہ ’’طوفان میل‘‘ تھی۔ ان کے پسندیدہ اداکار امیتابھ بچن ‘ امجد خان ‘ شبانہ اعظمی‘ نصیر الدین شاہ تھے۔

شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کے ساتھ ان کی اچھی خاصی دوستی بھی رہی۔ کابل میں نصیرالدین شاہ سے تفصیلی ملاقات کی تھی اور مرزا غالب پر بننے والی فلم میں ان کے کردار کو بہت سراہا تھا۔ انہیں گلوکاروں میں احمد خان‘ گلنار بیگم اور زرسانگہ پسند تھے جب کہ ان کے پسندیدہ شاعر ساحرلدھیانوی اور قلندر مومند تھے۔ سیاسی طور پر وہ باچا خان کے سخت پیروکار اور عقیدت مند تھے، جب کہ ان کی پسندیدہ کتابوں میں سرفہرست جوش ملیح آبادی کی کتاب ’’یادوں کی برأت‘‘ رہی۔

خوراک میں جو کچھ بھی ملتا کھالیتے۔ اپنی بے پناہ سیاسی ادبی مصروفیات کی وجہ سے کسی خاص ترتیب سے زندگی نہیں گزارسکے۔ بنگلادیش کے ادیب قوی جسیم الدین کے لیے ایک فلم کی کہانی بھی دس ہزار روپے کے عوض لکھی تھی جس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ سب لوگ تو حسن کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن خود حسن کس کی تلاش میں ہے؟ وہ حسن کو ’’موضوعی ‘‘ نہیں بلکہ ’’معروضی ‘‘سمجھتے تھے۔ وہ تمام فنون کو انسانی ذہن کی پیداوار گردانتے تھے۔ وہ ملک کی سیاست اور جمہوریت سے کبھی مطمئن نہیں رہے۔

مارکسزم اور لینن ازم بھی ان کے اندر پختو ن ولی اور اسلام کو بدل نہیں سکے۔ دوران جلا وطنی عید کی نماز چیکو سلواکیہ کے ایک بہت بڑے گرجاگھر میں اکیلے پڑھی تھی۔ وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ شاعرادیب کسی ایک سیاسی اسٹیج پر ایک مخصوص نظریے اور پارٹی منشور کے لیے ترانے لکھے۔ وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے کہ انہیں کئی بار غنی خان اور سیدتقویم الحق کا کا خیل نے سیاسی اسٹیج پر نظمیں کہنے سے منع کیا تھا، لیکن وہ یہ خطا کر بیٹھے۔ انہوں نے بحیثیت شاعر، ادیب اور صحافی ساری عمر سیاست کے خارزار میں گزار کر پچھتاوا محسوس کیا۔ وہ خوشحال خان خٹک کو رول ماڈل قرار دیا کرتے تھے۔

وہ کہا کرتے تھے کہ جو لوگ امریکا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ شہزادہ بہرام کی طرح اپنی آغوش میں اس خطے کے لئے ایک ’’گل اندامہ‘‘ (پری) لارہا ہے وہ جان لیں کہ امریکا کی آغوش میں ’’پری‘‘ نہیں بلکہ ایک خونی ’’بلا‘‘ چھپی ہے۔

وہ ایسے ادب اور آرٹ کے طرف دار تھے جو زندگی میں حرکت ‘سماج میں تغیر اور لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب برپا کردے۔ وہ کہتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کے کمیونسٹ مارکس ازم کو اپنے معاشرے کے اصل بنیادی سانچوں میں ڈھالنے میں ناکام رہے اور مارکس ازم کو انسانی تمدن اور انسانی معاشرے کی فطری ارتقاء اور رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بڑی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

وہ کہتے تھے کہ اگر جنرل پرویزمشرف کے کہنے پر صدارت قبول کرلیتا تو پھر ہزاروں لوگ مجھے سلام کرنے آتے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کام یاب شاعر اور ایک ناکام سیاست داں سمجھتے تھے جو اس ملک کی موجودہ سیاست کی سانچے میں سما نہیں سکتا تھا۔ سیاست کی بجائے اگر صرف افغان وار میں کسی انگریز صحافی یا نیوزایجنسی کے لیے بطور ترجمان کام کرتے تو ہزاروں ڈالر کما سکتے تھے۔ وہ ملک کے حالات پر سخت مضطرب اور پریشان رہا کرتے تھے اور سابق قبائلی علاقوں میں جاری سرگرمیوں کو امریکانوازی قرار دیا کرتے تھے۔

وہ اپنے آپ کو سیاست داں کی بجائے شاعر‘ ادیب کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے اور موجودہ دور کی سیاست کو سودا بازی کا نام دیا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ تمام پختون ان کی زندگی میں باہم متحد اور یکجا ہوکر اپنے قومی حقوق حاصل کریں۔ اجمل خٹک کے کئی ادبی اور سیاسی حوالے ہیں اور ہر حوالہ تاب ناک ہے۔ ان کی روح آج بھی اپنے پردادا خوش حال خان خٹک کی طرح اس بات کی آرزومند ہے کہ:

کہ توفیق د اتفاق پختانہ مومی

زوڑ خوش حال بہ دوبارہ شی پہ دا زوان

(اگر پختونوں میں اتفاق پیدا ہوجائے تو پیرانہ سال خوش حال خان دوبارہ جوان ہوجائیں گے)

The post  اجمل خٹک appeared first on ایکسپریس اردو.

شہر دلوں میں بس جاتے ہیں

$
0
0

(ترکی کا سفرنامہ ۔۔۔ دوسرا پڑاؤ)

ترکیہ مشرق اور مغرب دو براعظموں میں واقع ہے اور اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ بازنطینی سلطنت اور رومن سلطنت کے اسلام کی آمد سے پہلے زیرتسلط رہا تھا۔ وہ آثار بھی ترکی میں موجود ہیں۔

ایئرپورٹ ایک دنیا ہے۔۔۔میں نے اپنے پہلے پڑاؤ میں لکھا تھا، پہلا پڑاؤ جہاں پر ختم کیا تھا وہاں سے دوسرے پڑاؤ کی ابتدا کروں گی، مگر زندگی میں کچھ حتمی نہیں ہوتا ہر دم بدلتا رہتا ہے۔ نہ ہمارا کہا نہ ہمارا سوچا ہوا۔ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا موڑ آ جاتا ہے کہ جو پروگرام ہم نے بنایا ہوتا ہے وہ بدلنا پڑتا ہے، اسی کا نام زندگی ہے۔

سعید نے راستے میں تو کچھ نہیں بتایا، سارے راستے لاہور کے اور اسلام آباد کے موسم کراچی کے حالات پر یہ گفتگو ہوتی رہی، ہم سمجھے کہ سب نارمل ہے۔

گھر پہنچتے ہی بتایا کہ بھائی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے انگلینڈ جانا ہوگا، آپ کے جاتے ہی میں نے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا تھا اور کل میرا ویزہ آگیا ہے۔ مجھے جلد سے جلد نکلنا ہوگا۔

میں تو اسپین جانا چاہ رہا تھا، چھوٹا پھر منمنایا، میں نے کہا بیٹا! وقت موقع دیکھا کرو، پھر بات کیا کرو۔ سعید کا بھائی کے پاس جانا ضروری ہے۔ وہ وہاں اکیلے ہیں، نہ جانے کیسی طبیعت ہوگی کہ بھائی کو بلایا ہے اور تمہارے ابا پانچ سال بعد بھائی کے پاس جا رہے ہیں۔

خیر میرے جیٹھ کا اکیلاپن ایک علیحدہ کہانی ہے، مگر ہماری تہذیبی روایات کی ایک خوب صورتی یہ بھی ہے کہ ہم آخر وقت تک اپنے خاندانوں سے جڑے رہتے ہیں مگر آسمان پر پرواز کرتے پرندے اگر ایک بار اپنی ڈار سے بچھڑ جائیں تو وہ فضا کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں، پھر کبھی نہیں ملتے یا تو وہ شکار کر لیے جاتے ہیں یا پھر بھوک پیاس اور اکیلے پن سے مر جاتے ہیں۔ خیر یہ بھی ڈار سے بچھڑی کونج کی کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔

خیر ابا تو بھائی سے ملنے انگلینڈ سدھارے اور بیٹا کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا۔ اسپین کے سفر کی معلومات اور قابل دید مقامات کی تفصیل جمع کرنے کے لیے۔ بہرحال مجھے بھی تفصیلات سے آگاہ کرنا ضروری تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ ابا یا اماں کے بغیر جانا ممکن نہیں ہے۔ پندرہ دنوں میں ہم اسپین کے مطابق اتنا تو جان چکے تھے کہ اگر نہ بھی جاتے تو سیر تو مکمل ہوچکی تھی۔ ساتھ اسپینش زبان بھی سیکھی جا رہی تھی۔

بہرحال مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا کہ اگر جسے انگریزی آتی ہے اس کے لیے اسپینش زبان مشکل نہیں ہے کیوں کہ رسم الخط بھی انگریزی ہے مگر اب کچھ نیا سیکھنے کی جستجو نہیں ہے، پرانا ہی کافی ہے۔

سعیدہ جو اس کی سب سے بڑی کزن سسٹر ہے اور جرمنی کے شہر ڈوسل ڈورف میں رہتی ہے، اس کے ساتھ خط و کتابت یعنی ای میل اور واٹس ایپ پر معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا تھا، کیوں کہ جرمن سیاحت کے بہت شوقین ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی اسپین جاچکی ہے۔ مگر عبدالعزیز نے جب اس سے اسپین جانے کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگی۔ میرے پاس ڈوسل ڈورف آجاؤ، کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس تو تمہارے ابا اماں اکیلے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اسپین اکیلے جانا مشکل ہے۔

مگر اس وقت تک عبدالعزیز کے سر پر اسپین کا بھوت سوار تھا، جو فی الحال اترنا ناممکن تھا۔ اسے ستمبر میں دو ہفتے کی چھٹی ملنی تھی اور اس سے پہلے ہوم ورک مکمل کرنا تھا۔ اسپین جانے کے لیے ویزہ اپلائی کرنا تھا۔ انھی دنوں سعیدہ کے شوہر کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ ویانا چلی گئی، عزیز کو بھی وہ ویانا بلا رہی تھی۔

مگر عزیز کا موڈ ویانا جانے کا نہیں تھا۔ ایک دن عزیز نے کچھ تصویریں مجھے دکھاتے ہوئے پوچھا: اماں بوجھیں یہ کون سا ملک ہے؟

میں نے کہا، یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے، کمال اتاترک والا اور طیب اردگان والا ہمارا برادر ملک ترکی۔

اماں مجھے تو یہ اسپین سے زیادہ خوب صورت لگ رہا ہے۔

جی مجھے معلوم ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کھانے کی کوئی پرابلم نہیں ہوگی۔ میرا مسئلہ خود بہ خود حل ہو رہا تھا۔ یعنی ہواؤں کا رخ ترکی کی طرف مڑ گیا تھا۔

آپ کا دل ترکی چلنے کا ہو رہا ہے تو پروگرام فائنل کرتے ہیں۔ عزیز کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی وہ خود بھی بہت ایکسائیٹڈ ہے۔

میں نے فون پر سعیدہ کو اطلاع دی کہ اب ہم ترکی جائیں گے۔

وہ کہنے لگے، آپ ایسا کریں کہ عزیز کو پاسپورٹ دے کر ٹریول ایجنسی کے پاس بھجوا دیں، وہ ویزہ اور ٹکٹ کے ساتھ تمام معلومات دے دیں گے اور گائیڈ بھی کردیں گے۔ میں پندرہ دن بعد آؤں گا، جب تک آپ لوگوں کا ویزہ آ چکا ہوگا۔

واقعی ریحان ولی نے عزیز کو بہت بہترین طریقے سے گائیڈ کیا اور عزیز کو اس بات کی شاباشی دی کہ آپ نے اپنے والدین کی بات مان کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کی اماں کو تو یورپ کا ویزہ ملنا مشکل نہیں تھا کیوں کہ وہ پہلے سفر کرچکی ہیں مگر وہ نوجوان اور اکیلے لڑکوں کو جو پہلی بار یورپ کا سفر کرنا چاہتے ہیں، انھیں آج کل ویزہ دینے میں پرابلم کر رہے ہیں اور اکثر ویزے تو ریجیکٹ ہو رہے ہیں، اگر آپ ایک بار ریجیکٹ ہو جائیں تو آیندہ کے لیے کافی مشکلوں سے ویزہ ملے گا۔

آیندہ اگر کسی یورپی ملکوں کے سفر کا ارادہ ہو تو اپنے والدین کے ساتھ اپلائی کیجیے گا یا پھر اپنی بیوی کے ساتھ ویزے کے لیے اپلائی کیجیے گا۔

اگر آپ کا ارادہ کسی بھی ملک جانے کا ہے تو اس کے لیے نیٹ پر بہت سے ایجنٹ اور کمپنیاں موجود ہیں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم کسی بھی ملک کا ویزہ بہ آسانی دلوا سکتے ہیں، مگر ایک تگڑی فیس کے عوض صرف آپ کا فارم بھرتے ہیں۔

فارم آپ کو خود داخل کرنا ہوتا ہے۔ خود ہی ویزہ وصول کیا جاتا ہے۔ ریحان ولی نے پہلے ہی عبدالعزیز کو بتا دیا تھا کہ پاکستان (کراچی) میں ایک کمپنی ہے جسے ترکی کی حکومت کی طرف سے ویزے کے لیے لائسنس دیا گیا ہے اور آپ کو ترکی کے سفارت خانے جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی وہ بھی ایک مناسب فیس وصول کریں گے۔

ہمیں کوئی بھی پرابلم نہیں ہوئی ویزہ بھی دسویں دن آگیا وہ بھی تین مہینے کا تھا، ریحان ولی نے اتحاد ایئرلائن کا مناسب قیمت کا ٹکٹ بھی بنا دیا تھا۔ اتحاد ابوظہبی کی حکومت کی ایئرلائن ہے۔ ٹریول ایجنسی نے عبدالعزیز کو ایسا ٹکٹ بناکر دیا کہ جمعہ کی شام روانگی ہو تو جو چھٹیاں پیر سے شروع ہو رہی ہیں اس میں ہفتہ اور اتوار بھی شامل ہو جائیں۔ ہم سفر میں کبھی بہت زیادہ سامان لے کر نہیں جاتے۔

ایک ہینڈ کیری، دو تین جوڑے کپڑے، ایک ایکسٹرا چپل یا جوتا، کیوں کہ واپسی پر شاپنگ، جو ہمیشہ گھر والوں یا دوستوں کے لیے ہوتی ہے، اس سے بیگ بھر جاتے ہیں کیوں کہ ستمبر کے مہینے میں ترکی میں موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا، شام کے وقت ایک سوئیٹر شال کی سردی ہوتی ہے اور بارش کا امکان بھی نہیں ہوتا ہے۔ میرے بیٹے نے نیٹ پر دیکھ کر موسم کا اندازہ کر لیا تھا جو بالکل صحیح ثابت ہوا۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا استعمال اگر بہتر انداز میں کیا جائے تو یہ بہت سودمند ثابت ہوتے ہیں ورنہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ہماری فلائٹ کا وقت تھا رات کے ساڑھے تین بجے کا اور ہمیں تین گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچنا ضروری تھا مگر ایئرپورٹ پہنچ کر ایسا لگا کہ پورا شہر ایئرپورٹ امڈ آیا ہے، وہ جو کہتے ہیں کاندھے سے کاندھا اور کھوے سے کھوا چھلنا وہی حال ہو رہا تھا۔ ایک ایک کاؤنٹر پر بے پناہ رش تھا، کئی کئی اداروں کے لوگ ایک کاؤنٹر پر موجود تھے، معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ کون سا ایئرپورٹ کا عملہ ہے کون سا کسی ادارے کا عملہ ہے۔

میں نے عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بالکل اپنے قریب رکھا کیوں کہ نوجوانوں کی چیکنگ بہت سختی سے کی جا رہی تھی۔ کچھ نوجوان لڑکوں کو ایک طرف کھڑا کردیا تھا، ہم نے اپنے اپنے ہینڈ کیری بھی لاؤنج کرا دیے تھے کیوں کہ ابوظبی ایئرپورٹ پر ہمارا پانچ گھنٹے کا Stay تھا۔

ہمارے ہاتھوں میں صرف ہمارے پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس تھے جو ایک چھوٹے سے بیگ میں تھے جو Travel Company والوں نے دیے تھے اور عزیز کے پاس ٹریولز کے استعمال کا بیگ تھا جو اس نے شولڈر سے باندھا ہوا تھا۔ کاؤنٹر پر ایک انچارج اور دو افسر اور ایک لیڈی افسر تھی۔ انچارج تو یقینا ریٹائرمنٹ کے بعد ایکسٹینشن پر تھیں انھوں نے ہماری طرف دیکھے بغیر ہاتھ بڑھا دیا۔

پاسپورٹ دو: میں نے اپنا اور عبدالعزیز کا پاسپورٹ ساتھ پکڑا دیا۔

بی بی! دوسرا پاسپورٹ کس کا ہے؟ انھوں نے مجھے گھورا۔ میرے بیٹے کا ہے۔ یہ میرے ساتھ ہے۔ میں نے عبدالعزیز کو اور قریب کرلیا اور پریشان صورت نوجوانوں پر نظر ڈالی جن کو نہ جانے کیوں روکا ہوا تھا۔

انچارج نے پاسپورٹ کو ایک نظر دیکھا، ادھر آجاؤ کیمرے کے سامنے، میں نے بیٹے کو آگے کردیا۔ انچارج نے کارروائی مکمل کرکے پاسپورٹ ہمیں واپس کردیے۔ یہ ہمارے عدم تحفظ کا احساس تھا جو شاید میرے ہی نہیں ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ کاش ہمارا اعتماد پھر سے اپنے اداروں پر بحال ہوجائے۔

9/11 کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے بہت سے ملکوں نے خود کو سنبھال لیا ہے مگر ہمارے حکم راں قوم کو اس تبدیلی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور قوم اور ذہنی، تہذیبی انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے جب ہم سفر کرتے تھے تو ایئرپورٹ کا عملہ خوش اخلاقی اور تہذیب کی مثال سمجھا جاتا تھا مگر اب تو ایسا لگتا ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا پکڑا دیا جائے تو وہ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکاتے ہوئے جہاں چاہیں لے جائیں۔

ہم جب کلیئرینس ملنے کے بعد ڈیوٹی فری کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے تو عزیز نے کہا، اماں آپ بھی حد کرتی ہیں، بچوں کی طرح میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ سب وہاں کیا سوچ رہے ہوں گے۔

میں نے کہا انھیں سوچنے دو، یہ سوچو کہ میں ان کے لیے کیا سوچ رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی کہ جلد سے جلد ہم ان کے پاس سے چلے جائیں نہ جانے کب ان کے مزاج برہم ہو جائیں۔ یہ احساس عدم تحفظ تب تک برقرار رہا جب تک ہم جہاز میں نہیں بیٹھ گئے۔

یہ ایک بڑا جہاز تھا جو مسافروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی، شاید سب مسافر ابوظبی جانے والے تھے۔ میری نظر ان لڑکوں پر پڑی جو انچارج صاحبہ نے ایک طرف کھڑے کیے ہوئے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا، جو پریشانی وہاں ان کے چہرے پر تھی اب وہ مطمئن نظر آ رہے تھے۔

یہ ابوظبی کی پرواز تھی، جس کا سارا عملہ عرب تھا اور نہایت تہذیب یافتہ اور خوب صورت ایئرہوسٹس تھیں، لیکن کھٹاکھٹ وہی جو پرواز سے پہلے سامان رکھنے اور باکس بند ہونے کی ہوتی ہے۔ سارے اعلانات عربی میں ہوئے جن کا ترجمہ

 

انگریزی میں کیا گیا، ہماری اردو کسی گنتی نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ حالاں کہ ابوظبی جانے والے سارے مسافر اردو بولنے اور سمجھنے والے تھے۔

ہماری تیسری سیٹ پر جو لڑکا بیٹھا ہوا تھا اس کے دو ساتھی درمیانی سیٹ پر موجود تھے، تینوں کا تعلق ایک ہی کمپنی سے تھا، کمپنی کے معاملات یہیں ڈسکس کیے جا رہے تھے۔ سامنے والی سیٹ پر ایک خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے اتنا سونا پہنا ہوا تھا کہ لگتا تھا کہ میاں سنار ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عورت کو اتنا سونا پہنے نہیں دیکھا۔ میاں کی سیٹ ان سے آگے والی تھی جہاں وہ اپنے دو بڑے بیٹوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی ان کو بھوک لگنی شروع ہوگئی اور میاں کی ڈیوٹی بھی شروع ہوچکی تھی۔ وہ بے چارہ بار بار اٹھتا ایک بچے کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے بیگ اتارتا، اس میں سے کھانے پینے کا سامان نکال کر اسے پکڑاتا، دوسرا فرمائشیں کر دیتا تو وہ کھٹ سے کیبنٹ کھولتا، بیگ اتارتا بچے کو کچھ کھانے کو دیتا۔

بچے البتہ میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے کبھی آگے والے پیچھے، کبھی پیچھے والے آگے، مگر خاتون خانہ ٹس سے مس نہ ہوتی تھیں، ہوتیں کیسے ماشا اللہ حجم اتنا زیادہ تھا کہ اگر زیادہ ہلتیں تو جہاز ہل جاتا، تو یہ ڈیوٹی میاں انجام دے رہا تھا۔ جب کوئی بچہ ان سے کچھ کہتا وہ عربی میں جھاڑ پلا دیتیں تب ہمیں معلوم ہوا کہ جوڑا عرب ہے۔

پیچھے بیٹھی خاتون کا بچہ بہت رو رہا تھا اور ضد میں آ کر سیٹ پر مسلسل لاتیں مار رہا تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے جہاز کا سفر تو کراچی کی W-11 کی یاد دلا رہا تھا۔ یہ بھی اچھا ہوا، ہم نے بہت دنوں سے ویگن میں سفر نہیں کیا تھا۔

ایئرہوسٹس ٹرالی لے کر آگئی تھی اور وہ عرب بچے سیٹ پر کھڑے ہوچکے تھے اور انتظار میں تھے کہ کب ٹرالی قریب آئے اور وہ اسے صاف کریں۔ خیر بچے تو بچے ہوتے ہیں، عربی ہوں یا عجمی، غریب کے ہوں یا امیر کے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ایسے ہی حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کے دم سے ہی دنیا کا حسن قائم ہے۔ اس وقت مجھے کافی کی شدید خواہش ہو رہی تھی۔ شکر اللہ کا کم ازکم یہاں پیندے میں پڑی کافی نہیں ملی بلکہ اپ سائز نہ سہی ایک کپ کافی تو تھی۔

کراچی سے ابوظبی کے سفر کا دورانیہ لاہور سے کراچی یا اسلام آباد سے کچھ ہی زیادہ تھا۔ اس سے پہلے کہ کافی ختم ہوتی اعلان ہوگیا کہ ہم کچھ ہی دیر میں ابوظبی پہنچنے والے ہیں، سب مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔

میں نے کھڑکی سے دیکھنا چاہا کہ شاید شہر کے کچھ آثار نظر آجائیں مگر وہاں تو دبئی کا دور تک پھیلا ہوا سمندر تھا جو رات کی سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ اندازہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم شہر پہنچنے والے ہیں تاریخی اور سمندر تھا کہیں سے بھی روشنی کی رمق بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی، ہم سمجھے یہ اعلان غلط کردیا گیا ہے۔

میں نے پھر کھڑکی سے نیچے دیکھنے کی کوشش کی لمحے بھر میں منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ اب چمکتا دمکتا ابوظبی نظر آ رہا تھا۔ جہاز نے اپنی رفتار اور اڑان بھی نیچی کر لی تھی، جہاز نے ایک اور ہلکا سا جھٹکا لیا اور شہر کے اوپر سے گزر کر ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہو گیا۔ چوں کہ ابوظبی ایئرپورٹ سمندر کے بالکل قریب واقع ہے اس لیے شہر سے ایئرپورٹ کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں، مگر ایئرپورٹ تو ایک مکمل شہر ہے۔

رات کا وقت تھا مگر روشنیاں اتنی زیادہ تھیں کہ اندازہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ دن ہے کہ رات ہے۔ جہاز لینڈ کر چکا تھا مگر رن وے اتنا بڑا تھا کہ اسے ٹرمنل تک پہنچنے میں کافی وقت لگ رہا تھا۔ جہاز جہاں سے گزر رہا تھا وہاں اتحاد کے سگنلز اور اسی کمپنی کے جہاز نظر آ رہے تھے۔ ایک ایک سگنل کے سامنے کئی بڑے اور چھوٹے جہاز کھڑے تھے جو اتحاد کے تھے اور اتحاد ابوظبی حکومت کی ملکیت ہے۔ متحدہ عرب امارات دبئی اور کویت، قطر، سعودی عرب نے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ لوگ ان کی ترقی کی بنیاد تیل کو قرار دیتے ہیں مگر سب سے زیادہ ان کے حکم رانوں کا وژن ہے جو دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے۔

جہاں ان ملکوں کی ترقی کا تعلق ہے اس میں ہم پاکستانیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے اور ابھی بھی ڈال رہے ہیں لیکن یہ وہاں کے حکم رانوں اور عوام کی پاکستانیوں سے محبت بھی شامل ہے ورنہ وہاں ہم کو کتنی بھی مراعات ملتیں اگر امارات کے لوگ ہم سے نفرت کرتے تو ہم کبھی بھی وہاں نہیں رہ سکتے تھے۔

میں ابوظبی ایئرپورٹ کی شان و شوکت دیکھ کر یہی سوچ رہی تھی کہ کتنے ہی گھروں کے چولہے ان عرب ریاستوں نے روشن کر رکھے ہیں، رزق دینے والا تو اللہ ہے مگر وسیلہ تو انسان ہی بنتے ہیں، کاش ان ستر سالوں میں ہمیں کوئی ایسا حکم راں ملا ہوتا جو ہماری انسانی طاقت کو استعمال کرکے ہمیں بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لاکھڑا کرتا۔ پاکستان ایک محنتی قوم ہے جو دوسرے ملکوں اور عرب ملکوں کی شدت کی گرمی میں جان توڑ کر محنت کرتی ہے۔ اپنا پسینہ پانی کی طرح بہاتی ہے۔ کاش۔۔۔۔! یہ کاش میرے ساتھ ہمیشہ ہم سفر رہا ہے اور ہر جگہ ہر ملک میں مجھے موازنہ کرکے یہ کہنا پڑتا ہے، کاش! میرا ملک بھی ایسا ہوتا۔

خیر یہ ایک جذباتی سا ردعمل ہے مگر ابوظبی ایئرپورٹ دیکھ کر بے تحاشا خوشی ہوئی۔

ہم نے بچپن میں ایک فلم دیکھی تھی اس کا نام لارنس آف عربیہ تھا۔ اس فلم میں پیٹر اوٹول لارنس آف عربیہ بنا تھا، مجھے اس فلم کا ایک سین یاد رہ گیا جس میں پیٹر اوٹول اونٹ کی مہار پکڑے ریگستان میں چل رہا ہے۔ اس فلم میں ضیا محی الدین نے بھی ایک کردار ادا کیا تھا۔ آج پیٹر اوٹول ہوتا تو یقیناً کسی جہاز میں سفر کر رہا ہوتا اور کسی صحرائی خیمے میں قیام کی بجائے سو ڈیڑھ سو منزلہ ہوٹل کے کمرے میں آرام کر رہا ہوتا۔

ہمارا جہاز ٹرمنل 3 پر آیا تھا اور ہمیں استنبول کی فلائٹ لینے ٹرمنل 5 پر پہنچنا تھا مگر وہاں پانچ گھنٹے رکنا تھا۔ ہر ٹرمنل پر ایک دنیا تھی، راہ نمائی کے لیے کمپیوٹرائز بورڈ لگے تھے اوپر سے نیچے جانے اور اوپر آنے کے لیے الیکٹرک سیڑھیاں اور لفٹیں لگی ہوئی تھیں، لوگوں کو ایک ٹرمنل سے دوسرے ٹرمنل تک لے جانے کے لیے گاڑیاں بھی تھیں، مگر لوگوں کے کچھ گروپ اپنے سامان اٹھائے بھاگتے پھر رہے تھے، کچھ نے ہاتھوں میں بیگ اور کچھ نے جوتے اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ تمام غیرملکی تھے، کیا انھوں نے کمپیوٹر سے استفادہ نہیں کیا تھا، ایسا تو نہیں ہو سکتا تھا۔ انھیں کمپیوٹر کے مطابق معلوم نہیں تھا۔

پھر اس افرا تفریح کی وجوہات کیا تھیں؟ یہ تو یقین تھا کہ انھیں دوسری Connected فلائٹ لینی تھی مگر اس بھاگم دوڑ کی وجہ کیا تھی، یہ تو اس انڈین لڑکی سے جب ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا۔ وہ اپنے گروپ کے ساتھ بھاگتی دوڑتی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دھم سے میری برابر والی سیٹ پر گر سی گئی۔

اسے بھی ہمارے ساتھ استنبول کی فلائٹ لینی تھی اور ہم ماں بیٹا ڈیوٹی فری شاپ پر اور کافی اور برگر شاپ پر مزے سے کھا پی کر اور وقت گزار کر بیٹھے کاؤنٹر کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے سامنے تاشقند جانے والی فلائٹ کے انتظار میں کھڑے روسیوں کی لائن تھی۔ بے چارے گرمی کے ستائے روسی جسم پر برائے نام کپڑے پہنے آپس میں چپکے کھڑے تھے۔ کچھ دنیا ومافیہا سے بے خبر، اس انتظار کا فائدہ بھی اٹھا رہے تھے، مگر کچھ کے ساتھ فیملی اور بچے بھی تھے جو نہایت شریر بھی تھے اور اپنے والدین کو ستا رہے تھے۔ یہاں ہمارے دوسرے پڑاؤ کا اختتام ہوتا ہے۔

The post شہر دلوں میں بس جاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4834 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>