Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4759 articles
Browse latest View live

امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقِ اعظمؓ

$
0
0

علامہ شبلی نعمانی کو سیدنا عمرِ فاروقؓ سے جس درجہ عقیدت تھی، اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاص ان پر تصنیف کی غرض سے شبلی نے روم، مصر اور شام کا سفر اختیار کیا اور وہ بھی اس وقت، جب وہ مالی اعتبار سے کچھ ایسے آسودہ نہ تھے اور نہ ہی گھریلو ذمے داریاں انہیں اس کی اجازت دے رہی تھیں۔ چھے ماہ تک انہوں نے استنبول، دمشق اور قاہرہ کے کتب خانوں سے استفادہ کیا اور پھر اس موضوع پر ایسے متوجہ ہوئے کہ اسے مکمل کر کے دم لیا۔

سیدنا عمرِ فاروقؓ پر عالمِ اسلام میں غالباً یہ پہلی تحقیقی کتاب ہے۔ اگرچہ اس کتاب کے آغاز، دَورانِ تصنیف اور عرصہ اشاعت میں متعدد رکاوٹیں حائل ہوئیں، لیکن شبلی کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ ہوئی اور وہ بالآخر اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے۔

شبلی نے اپنی اس شہرہ آفاق کتاب میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی زندگی کی تمام تر تفاصیل پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے اور واقعات کو درایت کی کسوٹی پر پرکھ کر تحریر کیا ہے۔ اس تحقیقی کاوِش کے ساتھ شبلی نے حضرت عمرؓ کی شخصیت کے بعض واقعات کو اپنی شاعری کا حصہ بھی بنایا ہے، جن میں سے چند ایک پیش کیے جاتے ہیں۔

سیدنا عمرؓ کے طرزِ حکم رانی سے متعلق شبلی نے ایک واقعے کو بائیس اشعار پر مشتمل اپنی نظم ’’خلافتِ فاروقی کا ایک واقعہ‘‘ میں قلم بند کیا ہے۔ یہ واقعہ اُس زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب سلطنت میں قحط پھیل چکا تھا اور خوراک کی شدید کمی تھی۔

سیدنا عمرؓ کے ایک غلام اسلم کی زبانی واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمرؓ رات کو گشت کے لیے نکلے۔ مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر صرار نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا، ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ سیدنا عمرؓ اسی وقت اٹھے مدینہ میں آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ مَیں لیے چلتا ہوں، تو آپؓ نے فرمایا: ہاں! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے۔ غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ آٹا گوندھا اور ہانڈی چڑھائی:

چولہے کے پاس بیٹھ کے خود پھونکتے تھے آگ
چہرہ تمام آگ کی گرمی سے لال تھا

بچوں نے پیٹ بھر کے جو کھایا تو کِھل اٹھے
ایک ایک اب تو فرطِ خوشی سے نہال تھا

تھی وہ زنِ ضعیف سراپا زبانِ شُکر
یاں حضرتِ عمرؓ کو وہی انفعال تھا

عہدہ عمرؓ کو یہ جو ملا، تجھ سے چھین کر
جو کچھ گزر رہا ہے، یہ اس کا وبال تھا

ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس کچھ کپڑے آئے، جنہیں صحابہ کرامؓ میں تقسیم کیا گیا، ہر آدمی کو ایک کپڑا ملا۔ اس کے بعد ایک دن آپؓ انہی کپڑوں کا کرتا پہنے منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اپنے امیر کے اطاعت گزار بنو۔ حضرت سلمانؓ کہنے لگے کہ ہم تو نہیں سنیں گے۔ سیدنا عمرؓ نے پوچھا کہ اے ابُوعبداﷲ! سمع و طاعت سے انکار کس لیے؟ جناب سلمانؓ کہنے لگے: اے عمرؓ! اس وقت جو کرتا آپ نے پہن رکھا ہے، وہ ان کپڑوں سے زیادہ کا بنا ہوا ہے، جو تقسیم کیے گئے تھے۔ اس موقع پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ اور ان کے فرزند عبداﷲ بن عمرؓ کے مکالمے کو شبلی نے ’’عدلِ فاروقی کا ایک نمونہ‘‘ میں یوں بیان کیا ہے:

اپنے فرزند سے فاروقِ معظمؓ نے کہا
تم کو ہے حالتِ اصلی کی حقیقت پہ عبور

تم ہی دے سکتے ہو اس کا مِری جانب سے جواب
کہ نہ پکڑے مجھے محشر میں مِرا ربِّ غفور

بولے یہ ابنِ عمرؓ، سب سے مخاطب ہو کر
اس میں کچھ والدِ ماجد کا نہیں جرم و قصور

ایک چادر میں جو پورا نہ ہوا ان کا لباس
کر سکی اس کو گوارا نہ مِری طبعِ غیور

اپنے حصے کی بھی مَیں نے انھیں چادر دے دی
واقعہ کی یہ حقیقت ہے کہ جو تھی مستور

شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ فقہ کا فن تمام تر حضرت عمرؓ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اس فن کے متعلق ان کی قابلیت اور افضلیت کا تمام صحابہؓ کو اعتراف تھا۔ حذیفہ بن الیمان کا کہنا ہے کہ فتویٰ دینا اس شخص کا کام ہے، جو امام ہو یا قرآن کے ناسخ و مسنوخ جانتا ہو۔ لوگوں نے پوچھا: ایسا کون شخص ہے؟ حذیفہ نے کہا: عمر بن الخطابؓ۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ اگر تمام عرب کا علم ایک پلّہ میں رکھا جائے اور عمرؓ کا علم دوسرے پلّے میں تو عمرؓ کا پلّہ بھاری رہے گا۔ علامہ ابواسحاق شیرازی لکھتے ہیں کہ اگر تطویل کا خوف نہ ہوتا تو مَیں عمرؓ کے فتویٰ اور ان میں جو فقہ کے اصول پائے جاتے ہیں، اس قدر لکھتا کہ فضلاء حیران رہ جاتے۔ ایک طرف تو میدانِ فقہ میں آپؓ کا یہ پایہ تھا اور دوسری جانب دوسروں کی درست رائے کا اتنا احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ عالم تھا کہ مرد تو مرد، خواتین بھی انھیں ٹوک دیا کرتی تھیں۔

ابن مصعبؓ کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ کے دور میں لوگوں نے حق مہر بہت زیادہ مقرر کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ عورتوں کا مہر چالیس اوقیے سے زیادہ مت باندھا کرو، خواہ وہ عورت کسی بڑے سردار کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی نے مہر کی رقم اس سے زیادہ رکھی تو مَیں چالیس اوقیے سے زاید رقم بیت المال کے حوالے کردوں گا۔ ایک خاتون نے یہ بات سنی تو امیر المؤمنینؓ کا راستہ روک لیا۔ کہنے لگی کہ آپؓ کون ہوتے ہیں چالیس اوقیے مہر کی رقم مقرر کرنے والے، جب کہ خدا تعالیٰ نے اس پر کوئی پابندی عاید نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ کیسے؟ خاتون نے جواب دیا: اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اگر تم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو (بہ طور مہر) خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو۔‘‘ (سورہ النساء)

یہ سن کر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: خاتون کا استدلال صحیح ہے اور عمر معاملے کو نہ سمجھ سکا۔ اے عمر! ہر آدمی تم سے زیادہ فقیہ اور سمجھ دار ہے۔‘‘

اس واقعہ کو شبلی نے اپنی نظم ’’اظہار و قبولِ حق‘‘ میں اس انداز میں پیش کیا ہے:

مجمعِ عام میں لوگوں سے انہوں نے یہ کہا
مہر باندھو نہ زیادہ کہ ہے یہ بھی تبذیر

جس قدر تم کو ہو مقدور، وہیں تک باندھو
حکم یہ عام ہے سب کو، امرا ہوں کہ فقیر

ایک بڑھیا نے وہیں ٹوک کے فوراً یہ کہا
تجھ کو کیا حق ہے، جو تُو کرتا ہے ایسی تقریر

صاف قرآن میں قنطار کا لفظ آیا ہے
تجھ کو کیا حق ہے کہ اس لفظ کی کر دے تغییر

لاکھ تک بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں اس کو قنطار
تھا یہ اِک وزن کہ اس وزن کی یہ ہے تعبیر

سر نگوں ہو کے کہا حضرتِ فاروقؓ نے، آہ!
مَیں نہ تھا اس سے جو واقف تو یہ میری تقصیر

یہ کہنا بجا ہے کہ سیدنا عمرِ فاروقؓ سے متعلق تحقیقی کاوشوں کا آغاز شبلی نعمانی نے کیا اور ان سے متعلق نظموں کی ابتدا بھی انہی سے ہوئی۔ اردو میں واقعاتی نظموں میں سیدنا عمر ِ فاروقؓ کے عدل و انصاف اور طرزِ حکم رانی پر شبلی نے ان سے اپنی عقیدت کا ایسا اظہار کیا، جس کی مثال اردو زبان و ادب میں ان سے پہلے نہیں ملتی تھی۔

The post امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقِ اعظمؓ appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی 149; اردو اور پوٹھوہاری کا لسانی رشتہ

$
0
0

 کراچی: بطور زباں داں، زباں فہم اور طالب ِ لسانیات خاکسار کا یہ لسانی قیاس درجہ ایمان کو پہنچ چکا ہے کہ اردو کا تعلق و اشتراک ناصرف اس خطے (برعظیم پاک وہند)، بلکہ دنیا بھر کی تمام اہم، بڑی،چھوٹی،نیز بعض کم معروف اور غیر نمایاں زبانوں اور بولیوں سے بہت گہرا ہے۔ماہرین لسانیات اسے گروہ ہندآریائی [Indo-European]زبانوں میں شامل سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا رشتہ دیگر لسانی گروہوں خصوصاً دراوڑزبانوں /بولیوں سے بھی، از عہد قدیم قائم ہے۔بشرط ِ فرصت وعافیت کبھی ا س نکتے پر الگ سے تحقیق کرکے قلم بند کروں گا۔ابھی بات کرتے ہیں،پوٹھوہاری کی۔

پوٹھوہاری (اہل زبان کے خالص تلفظ میں ’پُٹھوہاری‘) سے بھی اردو اسی طرح جُڑی ہوئی ہے جیسے دیگر زبانوں اور بولیوں سے۔اس کی قدامت بھی اردو کی قدامت سے پیوست ہے۔پوٹھوہاری کا تعارف کچھ اس طرح کرایا جاتا ہے: ”پوٹھوہاری زبان پنجابی زبان کے ایک لہجے کا نام ہے۔ یہ لہجہ پنجاب، پاکستان کے پہاڑی علاقے پوٹھوہار میں بولا جاتا ہے۔

پنجابی کا پوٹھوہاری لہجہ تحصیل گوجر خان، تحصیل کلرسیداں، تحصیل کہوٹہ، تحصیل کوٹلی ستیاں، تحصیل مری ضلع اسلام آباد، ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ،اور آزاد کشمیر کے مضافات ضلع بھمبر ضلع کوٹلی ضلع راولاکوٹ ضلع باغ میں کم و بیش فرق کے ساتھ بولاجاتا ہے“۔(وِکی پیڈیاعرف آزاد دائرہ معارف)۔زباں فہمی کے ایک گزشتہ کالم میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ چند سال پہلے بعض ایسے شعراء سے ”پوٹھوہاری زبان ہے کہ بولی“ کے موضوع پر گفت وشُنےِد کا موقع ملا جو بہ یک وقت اردو، پنجابی اور پوٹھوہاری میں رَواں ہیں اور اُن کا مؤقف یہی تھا کہ یہ بولی یا لہجہ ہے۔(ان میں بزرگ معاصر محترم نسیم سحرمقیم راول پنڈی، محترم شاہین فصیح ربانی مقیم دِینہ اور خوردمعاصر عزیزم حسنین ساحرمقیم بھاراکہو شامل ہیں۔ مؤخرالذکر نے سب سے زیادہ مفصل گفتگو کی تھی)۔

اسی ضمن میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ محترم شریف شادصاحب،پوٹھوہاری کے جداگانہ تشخصِ زبان کے عَلم بردارہیں۔(محترم شریف شادصاحب: پ 1947ء،بمقام دوراُفتادہ گاؤں، راول پنڈی، پانچ سال بطور معلم تدریسی فرائض، 1971ء میں بطور ڈیوٹی آفیسرریڈیوپاکستان سے منسلک، 2007ء میں بطور ڈائریکٹر پروگرامز سبک دوش، ریڈیوپاکستان راول پنڈی مرکز سے مقبول دیہاتی پوٹھوہاری پروگرام ’جمہورنِی وَاز‘ کی پیشکش بارہ برس تک، اولین پوٹھوہاری اردو لغت مطبوعہ 14اگست 2008ء کے مؤلف اور اولین پوٹھوہاری ترجمہ قرآن مجیدمطبوعہ 2020ء کا شرف حاصل کرنے والے اہل زبان)۔اس کالم کو”سپردِ کمپیوٹر“کرنے سے قبل، خاکسار نے جستجو اور تحقیق کا سلسلہ دراز کیا تو موصوف نے بکمال عنایت،مجھے اپنی متعدداہم کتب ارسال فرمائیں اور ساتھ ہی حسنین ساحر کے طفیل، کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے، ایک اور اہل زبان پوٹھوہاری، اردو شاعرو محقق محترم عبدالرحمن واصفؔ سے رابطہ ہوگیا جو بعض جگہ، شاد صاحب سے بھی اصولی اختلاف کرتے ہیں، مگر پوٹھوہاری کو زبان قراردینے کی مہم میں شامل ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک پوٹھوہاری ادیب کی تحریر سے اقتباس پیش کرتاہوں: ”خطہء پوٹھوہار کی نسبت امام بریؒ، میاں محمدبخشؒ،مہرعلی شاہؒ، اور بابا فضل شاہ کلیامیؒ ایسی خوشبودار، معتبر ہستیوں سے ہے جن کی سچائی کے آفتاب کو کبھی گرہن نہیں لگے گااوران کی حیاتِ مبارکہ کو بطورِ مثل پیش کیا جاتا رہے گا۔ میاں محمد بخشؒ اور کہیں جنابِ مہر علی شاہؒ کے مصرعے زنگ آلود دِلوں کو کارآمد بناتے رہیں گے۔ اس خطے سے باقی صدیقی،افضل پرویز،سید طارق مسعود،اخترامام رضوی،شیرزمان مرزا،اخترجعفری، سید ضمیر جعفری اورڈاکٹر رشیدنثار ایسی اثر خیز شخصیات کی بازگشت برسوں سنائی دیتی رہے گی“۔(مادری زبان کی سحر آفرینی، بسلسلہ کالم زاد راہ از فرزندعلی سرورہاشمی،مطبوعہ مؤرخہ 08 مارچ 2020)۔

خاکسار کا پوٹھوہاری سے پہلا ادبی تعارف تب ہوا کہ اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل کے اجراء کے وقت، قدرے بزرگ معاصر محترم شاہین فصیح ربانی سے تعاون کی گزارش کی اور انھو ں نے اپنی طبع زاد پنجابی اور اردو ہائیکو نیز پوٹھوہاری کے منظوم تراجم سے نوازا۔(وہ اُن اولین اردو شعراء میں شامل ہیں جنھوں نے میرے ایماء پر ایک اور جاپانی صنف سخن Senryuکے منظوم اردوتراجم کیے، شاہین صاحب نے پنجابی سے بھی کیے جو اُنھی کا خاصّہ ہے۔

اس ضمن میں خاکسار نے جاپانی کونسلیٹ کی لائبریری سے کتب جاری کرواکے اُن کے علاوہ بعض دیگرشعراء کو بھی،برائے طبع آزمائی ومنظوم تراجم،پیش کی تھیں جواپنے سر سہرا تو سجاتے ہیں، مگراس تحریک کا ذکر نہیں کرتے جو 1998ء میں راقم نے سالانہ ہائیکو مشاعرے میں سین ریوکے تعارف کے پیش نظر تنہا چلائی اور مابعد اس صنف پر پہلا تعارفی مضمون بھی لکھاجو سہ ماہی تسطیر میں شایع ہوا تھا)۔محترم شاہین فصیح ربانی نے ایک معروف پوٹھوہاری شاعر محترم عبدالقادرقادری کی مندرجہ ذیل ہائیکو مع منظوم اردو ترجمہ عنایت فرمائیں جو ہائیکو انٹرنیشنل شمارہ اول (بابت جولائی تا ستمبر1998ء) کی زینت بنیں:

ا) ہیہ ماؤنی ہار/دسی کے بچھے نامورا/کڈہی کہنڑیں تہار
یہ ممتا کی ہار/بچھڑے کا پُتلا دکھاکر/دوہ لیتے ہیں دودھ
(لگتا ہے کہ دیہات میں ایسا کوئی طریقہ رائج ہوگا کہ گائے دودھ دوہنے کے وقت نخرہ کررہی ہوتو اُسے آمادہ کرنے کے لیے بچھڑے کا پُتلا بناکر دکھایاجاتاہو)
ب) کجھ تے کروخیال/کہہ الونی سنگت ٹرسی/انھے کہگوئے نال
کچھ تو سوچیں جی/کیسے چلے گی یہ سنگت/چِیل اور اُلّو کی
ج) چھک لاٹوں نی ڈور/اُپروں ہورکھڈال ایہہ دنیا/تھئی وِچوں کچھ اور
کھینچ لٹو کی ڈور/باہر سے کچھ کھیل ہے دَہر/اندر سے کچھ اور
کنڈیارے نا پھُل/کسے نیہہ پھُلاں وچہ پرویا/کسے نیہہ پُچھیا مُل
کنڈیارے کا پھول /پھولوں ہی کے ساتھ پروئے /ناں کوئی پوچھے مول

یہ تو شاعری تھی، اب ذرا ابتدائی جماعتوں کے قاعدے(پوٹھوہاری قاعدہ از محترم شریف شاد) میں درج،بنیادی ذخیرہ الفاظ کی ایک جھلک دیکھیے جو پوٹھوہاری اور اردوکے مابین مشترک یا مماثل ہے:

اِٹ (اینٹ)، اَکھ (آنکھ)، آلو(آلو)، بانہہ (بانہہ)، بلّی (بلّی)، پکھا (پنکھا)، پَتَر(پتّا)، پرَنالہ (پرنالہ)، تارا(تارا)، ترینگل (ترشول، تین کونے والا ہتھیاریا کوئی اوزار)، تِتر(تیتر)، ٹوٹی (ٹُونٹی، نلکا)، ثمر(ثمر، پھل)، ثلیث (سریش، چپکانے والا گوند جیسا مادّہ)، جال(جال)، جاکت(جاکٹ، جیکٹ)، جُتی(جوتی)، چُوچا(چُوزہ)، چڑی(چڑیا)، چن(چاند)، حقہ (حقہ)، حکیم (حکیم)، حاجی(حاجی)، خُرمانی (خوبانی)، خنگاہ(خانقاہ)، خط(خط)، دراٹی(درانتی)، دُدھ (دودھ)، ڈبی(ڈبی، ڈبیہ)، ذخیرہ(ذخیرہ)، ذرّے (ذرّے)، رسّی(رسّی)، رنگ (رنگ)، رُمال(رومال)، رِچھ(ریچھ)، }حرف ڑے سے دولفظ شامل ہیں جوخاکسارنے ماقبل، زباں فہمی بعنوان، ڑے سے پہاڑ، میں نقل کیے تھے، مگر یہاں غیر متعلق ہیں۔یہ بات البتہ اظہر من الشمس ہے کہ حرف ڑے سے شروع ہونے والے الفاظ غالباً سب سے زیادہ پوٹھوہاری ہی میں پائے جاتے ہیں۔{، زردی(زردی، انڈے کی زردی)، زیور(زیور)، زنانی(زن، عورت)، سوتر(دھاگا، جسے کہیں کہیں سوتربھی کہاجاتا ہے)، سپ(سانپ)، شملہ (شملہ، پگڑی کا)، شَکر(شکر)، شیشی(شیشی)، صبونڑ(صابن)، صافہ (صافہ)، صندوق(صندوق)، ضعیف(ضعیف)، طبلہ (طبلہ)، ظروف(ظروف)، عینک (عینک)، عطر(عطر)،

عربی (عرب، عربی)، غُلاب(گلاب)، غُلیل(غُلیل)، غُلاف(غَلاف)، فقیر(فقیر)، فرش(فرش)، فراق(فراک)، قرآن (قرآن)، قائداعظم (قائداعظم)، قوّر(قبر)، کاں (کوّے)، کلبوتر(کبوتر)، کُکڑ(مرغ، جسے ہمارے یہاں عوامی بول چال میں کُکڑ بھی کہتے ہیں)،گاں (گائے)، گڈی(گاڑی، عوامی بول چال میں گڈّی بھی کہتے ہیں)، گُڈّی(گڑیا)، لاٹُو(لٹو)، لیف (لحاف، رضائی)، لاری(لاری)، منجی (چارپائی، عوامی بول چال میں منجی بھی کہتے ہیں)، مدہانڑیں (مدھانی)، ناکھ (ناک، ناشپاتی)، نمبو(لیموں، نیمبو)، نَک (ناک)،ورقہ (ورق)، وکیل(وکیل)،ہار(ہار)، ہتھ(ہاتھ)، ہل (ہل)، (حرف ہمزہ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا)، یخنی (یخنی)، یکّہ (یکّہ)۔

اس فہرست میں اضافہ کرتے چلیں ; بِسریعنی بھول (جیسے اردومیں بھولی بِسری یاد)، کَسَریعنی فرق، رات، راہ، رام یعنی آرام، عام، خاص، ماس یعنی گوشت (قدیم اردوجیسے ”چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں“)، گرم، شرم، نرم، جُرم، ساس یعنی آہ (سانس کھینچنا یعنی آہ کھینچنا)، لام یعنی لڑائی (اردومیں، جیسے لام بندی)، تنگ، جنگ یعنی جنگ، نیز ٹانگ، رنگ، گِٹّایعنی ٹخنہ، سُنا یعنی سونا(Gold)۔(یہاں ایک غیرمتعلق لفظ بھی چونکانے والا ہے ;بنگ بمعنی چُوڑی جو پنجابی میں وَنگ اور جمع ونگاں ہے، جس کا رشتہ انگریزی کے Bangleسے ملتا ہے)۔

اولین پوٹھوہاری اردو لغت سے خوشہ چینی کرتے ہیں: آ، آبادی، آپ، آپنٹا(غالباً ڑونڑ کی آواز)یعنی اپنا، اپنے سے متعلق، آپنا آپنا بغانہ بغانہ یعنی اپنا اپنا ہوتا ہے، بیگانہ بیگانہ، آپھرنا یعنی پھُول جانا، موٹا ہوجانا، پیٹ میں ہَوا بھرجانا; یہاں مجھے اردو لفظ اَپھارہ یاد آتا ہے، آٹے وِچ لون یعنی بہت تھوڑا، کم، ذرا سا جیسے اردومیں ”آٹے میں نمک برابر“، آخربمعنی مصیبت، تنگی، تکلیف اور جلدی(یہ معانی اردومیں ہرگزمرادنہیں)، آدم نہ آدم ذات(اردو: آدم نہ آدم زاد)، آدمی بننا، آڈر(انگریزیOrder)، آرایعنی لوہے کا وہ اوزار جو لکڑی چیرنے کے کام آتا ہے، آرپار، آری، آڑیعنی کھیت کی مینڈھ، کھیت کا احاطہ کرنے والا زمین سے اُبھرا ہواحصہ، آڑو، آڑھت، آزمائش، آس، آس ہونا یعنی بچہ ہونے کی امید سے ہونا (اردوزنانہ بولی میں ’آس والی‘ اسی سے مشتق ہے)، آسرا، آسمانی، آسن یعنی شلوار،پاجامے یا پتلون کا نِچلا حصہ جو تنگ ہوتا ہے (غالباً آسن جمانا میں یہی شامل ہے)، آکڑ یعنی اَکڑ، آفت، آفرین، آقا، آگاہ یعنی اگلا حصہ، نیز کسی چیز کا سامنے والا حصہ (اردومیں محض آگا)، آگاپِچھا، آل، آمدن، آمدنی، آملہ، آملی یعنی اِملی، آں ہاں یعنی ہا ں ایساہی ہے، نیز، نہیں ایسا نہیں کرتے، آنہ، آؤجی یعنی خوش آمدید،آوا، آہلک یعنی سُستی جو اُردومیں آلکس ہے، آئی کون روکے یعنی موت کو کوئی نہیں روک سکتا(اردو: آئی کو کون ٹال سکتا ہے)، آیا یعنی گیا کی ضد، حاضرہوا، حاضر کیا،آیا گیایعنی مہمان۔

یہاں رک کر پوٹھوہاری کی دوسری لغت ”پوٹھوہاری لغات۔پوٹھوہاری توں اردو“ سے بھی کچھ اقتباسات نقل کرناچاہتاہوں جو محترم دلپذیر شادؔ مرحوم کی تحقیقی مساعی کے نتیجے میں اپریل 2009 ء میں منظر عام پر آئی: آٹا، آدمی، آخاہ (اردومیں بھی کلمہ اظہارِ مسرت آخ خاہ بولاجاتا ہے)، آڑھتی، ابّا، ابابیل،ابدال، اُبلنا، اپنا، آپاں (اردومیں آپا)،آپنے یعنی اپنے یا قریبی، اَپَٖر یعنی اوپر،(انگریزی کے Upperسے مشابہ)، اَپَر تھلے یعنی اوپر تلے (اردومیں زنانہ بولی میں مستعمل، بمعنی لگاتار یا مسلسل جیسے اوپرتلے کئی بچے ہوگئے)،اَپھرنا (اردومیں اپھارہ)،اتا پتا، اِتنا،اٹکل پچّو، اٹوٹنگ یعنی باہمی جُڑے ہوئے (اردومیں اَٹُوٹ یعنی نہ ٹوٹنے والا)، اَٹَل، اٹھک بیٹھک، اجریعنی بدلہ یا صلہ، اُجڑ، اچھائی، اِدھراُدھر۔مزید فہرست سے گریز کرتے ہوئے احباب کو مشورہ دیتا ہوں کہ دونوں لغات حاصل کرکے مطالعہ فرمائیں۔

پوٹھوہاری میں اردو کے بنیادی سینتیس(37)حروف موجودہیں یعنی: ا، آ، ب، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، س، ش،ص، ض، ط،ظ، ع، غ، ف، ق، ک، گ، ل، م، ن، و، ہ، ء، ی، ے۔اس میں حرف ’ش شامل نہیں، جبکہ دوچشمی ھ سے ملاکر، پھ، تھ، ٹھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ،کھ، لھ، مھ، نھ اور یھ جیسے مرکب حروف اور ایسے حروف تہجی بھی موجود ہیں جن کی نظیر، اردومیں نہیں، یعنی ہائے ہوّز اور ہائے مختفی دونوں ہی کے اشتراک سے ; پہھ، تہھ، ٹہھ، جہھ، چہھ، کہھ،لہھ۔ان کی بابت میں عرض کروں کہ یہ حروف نہیں، میری رائے میں اصوات یعنی آوازیں ہیں جنھیں بعض لوگ یا ماہرین حروف قراردیتے ہیں۔(استفادہ: پوٹھوہاری قاعدہ از شریف شاد صاحب)

لگے ہاتھوں پوٹھوہاری کی گنتی بھی پیش کرتاچلوں جو دیگر متعدد پاکستانی وہندوستانی(نیز بعض دیگر) زبانوں اور بولیوں ہی کی طرح اردوسے بہت مماثل ہے: ہِک، دو، ترے، چار، پنج، چھ(چھَے)، ست، اٹھ، نو، دس، یاہراں، باہراں، تیہراں، چوہداں، پندراں، سوہلاں، ستاہراں، اٹھاہراں، اُنی/اُنیہہ، ویہہ، اِکی، بائی، ترئی، چوی، پنجی، چھبی، ستائی، اٹھائی، اُنتی، تریہہ، اِکتی، بتی، تینتی، چونتی، پینتی، چھتی، سینتی، اٹھتی، اُنتاہلی، چاہلی، اکتاہلی، بیتاہلی، تریتاہلی، چرتاہلی، پنجتاہلی، چھیتاہلی، سنتاہلی، اٹھتاہلی، اُنونجہ، پنجاہ، اِکونجہ، بیونجہ، تریونجہ، چُرونجہ، پچ ونجہ، چھی ونجہ، ست ونجہ، اٹھ ونجہ، اُنا ہٹھ، سٹھ، اِکاہٹھ، باہٹھ، ترینٹھ، چونٹھ، پینٹھ، چھیاٹھ، ستاہٹھ، اٹھاہٹھ،اُنہتر، ستر، اِکہتر، بہتّر، ترہتر، چرہتر، پنجھتر، چھہتر، ستتر، اٹھہتر، اُناسی، اسّی، اِکاسی، باسی، تریاسی، چراسی، پنجاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی، اُنانویں،(یہ مستنصر حسین

تارڑ صاحب اور نعیم بخاری صاحب، اپنی اردو گفتگو میں بھی بولتے ہیں، مگر طارق عزیز مرحوم نے ایک مرتبہ کسی صاحب کو،نیلام گھر میں ٹوک دیا تھا)، نوّے، اِکانویں، بانویں، تریانویں، چرانویں، پچانویں، چھیانویں، ستانویں، اٹھانویں، نڑینویں، سَو۔

پوٹھوہاری میں تصنیف، تالیف وترتیب کا سلسلہ بھی تحقیق کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ پوٹھوہاری کو پنجابی سے علےٰحدہ زبان قراردینے والے حضرات نے ناصرف لغات ترتیب دی ہیں، بلکہ اس کے قواعد بھی مرتب کردیے ہیں۔اس سلسلے میں ایک کتاب محترم شریف شاد صاحب کی موجودہے،ضرب الامثال اور حکایات سعدی ورومی پر مبنی کتب بھی شریف شاد صاحب کی خامہ آرائی کا حصہ ہیں۔ اس باب میں ایک اور کتاب، جناب فیصل عرفان کی تحقیق و تدوین پرمبنی ”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ہے۔ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی صاحب نے فیصل عرفان کو پوٹھوہاری زبان کا محسن قراردیا ہے۔محترم حبیب شاہ بخاری صاحب نے اولین پوٹھوہاری قاعدہ ترتیب دینے کے علاوہ اس زبان اور خطے کی تاریخ بعنوان ”پُٹھوہار: ماہ وسال کے آئینے میں“ رقم کی ہے۔

محترم عبدالرحمن واصف ؔ کے تین اردومجموعہ ہائے کلام اور ایک پوٹھوہاری مجموعہ کلام شایع ہوچکا ہے، (دونوں زبانوں میں ایک ایک مجموعہ غیرمطبوعہ ہے، جبکہ سرائیکی سے بھی شغف رکھتے ہیں)،موصوف دونوں زبانوں میں ایک نئی (ڈھائی مصرعی)صنف سخن کے موجد ہیں، اُن کاپوٹھوہاری قاعدہ زیر طبع ہے،جس کے حروف تہجی اردو سے قریب تر ہیں،پوٹھوہاری اور اردو ضرب الامثال کے تقابل پہ ایک تصنیف اور، ایک پوٹھوہاری لغت کی ترتیب میں مشغول ہیں۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ”ایک ضخیم مقالہ ہمارے ایک سینئر دوست رقم کر چکے ہیں،جس میں پوٹھوہاری کی قدامت اور پوٹھوہاری کے دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ تعلق پہ کافی مواد موجود ہے“۔

محترم واصف صاحب پوٹھوہاری کو باقاعدہ لسانی دلائل کی بنیاد پر پنجابی سے الگ زبان ثابت کرتے ہیں۔محترم شیراز طاہر کی کتاب ”پوٹھوہاری ادبی تاریخ 1947 تا حال“ (ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان) پر اُن کی تنقید بہت خوب ہے۔انھوں نے ہائیہ اصوات کے متعلق تکنیکی بحث کرتے ہوئے پنجابی اہل زبان کا یہ دعویٰ غلط قراردیا کہ پوٹھوہاری اسی زبان کا ایک لہجہ یا شاخ (بولی) ہے۔ان سے واٹس ایپ پر ہونے والی پُرمغز گفتگو سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

”اب پنجابی والوں سے سوال ہے کہ کیا اُن کے نحوی قواعد لینے سے اردو کوپنجابی کا لہجہ قرار دیا جا سکتا ہے؟…..محض Syntax کی بنیاد پہ پوٹھوہاری کو لہجہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ بہ نظر عمیق دیکھیں تو پوٹھوہاری اور پنجابی میں بہت فرق ہے……….صَرفی مثالیں دیکھیے:

کھا لیا۔۔۔۔۔ ماضی (اردو)
کھا لیا۔۔۔۔۔ ماضی (پنجابی)
کھائی کِہدّا۔یا۔کھاہدا۔۔۔ ماضی (پوٹھوہاری)
کھاتا ہے۔۔۔۔۔ حال (اردو)
کھاندا اے۔۔۔۔ حال (پنجابی)
کھانڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حال (پوٹھوہاری)
کھائے گا۔۔۔۔۔ مستقبل (اردو)
کھاوے گا…. مستقبل (پنجابی)
کھاسی۔۔۔۔۔ مستقبل (پوٹھوہاری)

یہ ایک عام فہم فرق ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اگر Syntax کی بنیاد پہ پوٹھوہاری کو جو احباب Dialect کہتے ہیں، وہ بہتر ہے،اردو پہ آواز بلند کریں کہ بہرحال پوٹھوہاری اور پنجابی اردو سے قدیم ہیں“۔

آخر میں یہ عرض ہے کہ ہمارے یہاں تحقیق بہت کم ہوتی ہے۔اگر لسانی مباحث میں اہل علم حصہ لیں تو اُن سے اکتساب کرنا چاہیے۔میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ محترم شریف شاد اور محترم عبدالرحمن واصف سمیت تما م پوٹھوہاری محققین سے اُن کے ہم پایہ لوگ بحث کریں۔

 

The post زباں فہمی 149; اردو اور پوٹھوہاری کا لسانی رشتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

چیلنجز کے حل کیلیے قومی اتفاق رائے ضروری، اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھیں؛ ایکسپریس فورم

$
0
0

لاہور: ملک کو درپیش سیاسی و معاشی چیلنجز کے حل کیلیے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا، ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پرآنا ہوگا، اس سلسلے میں ملکی مفاد کی خاطر طاقتور حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

آئی ایم ایف و دیگر ممالک سے قرض لینے والے معاملات عارضی ہیں، ہمیں لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ معاشی مسائل کے حل اور ٹیکس کولیکشن کو بہتر بنانے کیلیے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت ’ایف بی آر‘ میں اصلاحات لائی جائیں اور اس کی کپیسٹی بلڈنگ کی جائے۔ ڈالر کے حالیہ ریٹ کی وجہ سے شعبہ زراعت کو فروغ ملا ہے، ڈالر 220 سے224 روپے کے درمیان رکھنے سے زراعت اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا جبکہ امپورٹ میں کمی آئے گی۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت میں اقتدار کی جنگ ہے، ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا گیا، پولرائزیشن خطرناک ہے، اللہ کا کرم ہے کہ ابھی حالات اتنے نہیں بگڑے لیکن اگر ایسے ہی سیاسی ٹکراؤ جاری رہا تو ہم سری لنکا والی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں، ملکی مسائل کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں، ان خیالات کا اظہار سیاسی و معاشی تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے ’’ملک کو درپیش سیاسی و معاشی چیلنجز اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ معاشی استحکام کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام سے ہے، ہم آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منانے جارہے ہیں مگر 75برسوں میں ہمارا گراف نیچے کی جانب گیا ہے جبکہ ہمارے برعکس ملائشیا، چین، سنگاپور جیسے ممالک ہم سے بہت آگے نکل گئے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت میں اقتدار کی جنگ ہے، ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا گیا، پولرائزیشن خطرناک ہے، اللہ کا کرم ہے کہ ابھی حالات اتنے نہیں بگڑے لیکن اگر ایسے ہی سیاسی ٹکراؤ جاری رہا تو ہم سری لنکا والی صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں، ملکی مسائل کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں، ملک کو درپیش سیاسی و معاشی چیلنجز کے حل کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔

لاہور چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر میاں رحمن عزیزنے کہا کہ موجودہ مسائل کے پیش نظر اس وقت ملک میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے جس میں سیاسی قیادت، فوج، عدلیہ سمیت ملک کے تمام سٹیک ہولڈر ایک میز پر بیٹھیں اور ملی مفاد میں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کریں، انہوں نے کہا کہ اس وقت آٹا، چینی، تیل، بجلی، کھاد سمیت لاتعداد اشیاء پر سبسڈی ہے جس سے پرآسائش زندگی گزارنے والا بھی مستفید ہورہا ہے، حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کی طرف جانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی کپیسٹی بلڈنگ کیے بغیر ٹیکس کولیکشن میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اس کے ساتھ ساتھ ٹریڈ باڈیز کی مشاورت سے ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائیں۔

ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشد نے کہا کہ ہوا کے مخالف چلنے کی وجہ سے گزشتہ 4 برسوں میں نقصان ہوا، ہم گلوبل ویلج کا حصہ ہیں لہٰذا گلوبل اکانومی اور حقائق سے جدا نہیں چلا جاسکتا، ڈالر کے حالیہ ریٹ کی وجہ سے امپورٹ کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے تاہم زراعت کے شعبے کو فروغ مل رہا ہے، اگر حکومت ڈالر کو 220 سے224روپے کے درمیان برقرار رکھ لیتی ہے تو ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا۔

The post چیلنجز کے حل کیلیے قومی اتفاق رائے ضروری، اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھیں؛ ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی 150؛ ہَیگا، موجود ہے گا

$
0
0

 کراچی: زباں فہمی نمبر 147 (تذکرہ امروہہ کے شعراء کا، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 17جولائی 2022ء) میں یہ پیرا، ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی اور بزم تحقیق برریختہ میں ایک نئی گفتگو کا باعث بنا جسے بحث کا درجہ بہرحال نہیں دے سکتے۔ پہلے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
رئیس امروہوی نے بھی برملا اس اَمر کا اعتراف کیا کہ ”اردو کا پہلا مثنوی نگار، میرا ہم وطن، اسمٰعیل امروہوی تھا“۔(مجلہ حضرت سید حسین شاہ شرف الدین شاہ ولایت، 1976، ص ۱۱)۔اسمٰعیل امروہوی کا نمونہ کلام پیش خدمت ہے:
وطن امروہہ میرا ہے شہر کا نام
اسی جائے پر میرا ہے گا قیام

(قدیم اردوبشمول دکنی میں ’ہے گا‘ مستعمل تھا، بعد میں متروک ہوگیا اور مدتوں بعد، پاکستان ٹیلی وژن کے کٹھ پتلی تماشا فن کار، فاروق قیصر نے اپنے پروگرام کے ذریعے زندہ کیا)۔

خاکسارنے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ یہ لفظ بولا ہی نہیں جاتا،ہاں متروک ہواہے تو تحریر، خصوصاً معیاری زبان میں، مگر احباب نے یہی مطلب اخذ کیا ور یکے بعد دیگرے میری معلومات میں اضافہ کیا یہ ”ہَیگا“ یا ہے گا، ابھی تک موجود ہے گا، فلاں فلاں شہروں اور اُن کے تارکین کی بول چال میں۔ پروفیسر امجد نذیر نازکؔ صاحب نے فیصل آباد سے ای میل کے ذریعے انکشاف فرمایا کہ یہ پنجابی میں بدستور مستعمل ہے، مگر وہ بھی یہ نہ بتاسکے کہ معیاری یا ادبی پنجابی میں استعمال ہنوز ہوتا ہے کہ نہیں، جبکہ میرے کالم میں واضح طور پر درج تھا; قدیم اردوبشمول دکنی میں، مراد تھی معیاری وادبی زبان سے۔

ممتاز شاعرہ محترمہ آمنہ عالم نے بزم زباں فہمی میں اس بابت اظہار خیال کی ابتداء کرتے ہوئے کہا کہ یو۔پی بشمول دِلّی والوں کے یہاں مستعمل ہے۔ راقم کے دوست، رکن بز م زباں فہمی عزیزم نوید الظفر سہروردی نے بتایا کہ یو۔پی میں علی الخصوص بلند شہر اور مظفر نگر کے باسی ’ہے گا‘ اور ہیں گے‘ عام بولتے ہیں۔

بزم تحقیق برریختہ میں محترم لقمان سنبھلی نے سنبھل (ہندوستان) سے ارشاد فرمایا کہ ہمارے یہاں سنبھل میں ’ہے گا‘ کثرت سے بولتے ہیں اور سنبھل، امروہہ اور مرادآباد سے متصل ہے۔ اسی واٹس ایپ حلقے میں تائید کی، جناب عبدالرحمن سیف نے دیوبند سے۔ ہماری بزم کے معرز رکن محترم سلیم فاروقی نے اس کے فصیح ہونے کا سوال اٹھایا۔ خاکسارنے وضاحت کی کہ یہ معاملہ بول چال کا ہے اور اہل زبان ہی کسی لفظ یا ترکیب کے فصیح یاغیر فصیح کا فیصلہ کرنے کے مُجاز ہوتے ہیں، البتہ لسانی تحقیق میں ایسے جزوی امور بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔

لندن سے تشریف لانے والے ممتاز شاعر محترم غالبؔ ماجدی نے راقم کی تائید کی اور کہا کہ”مقامی یا علاقائی زبانوں کا معاملہ، اردوپر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ’ہیگا‘ کا معاملہ ہمارے بہِار کے ’ٹھو‘ بمعنی عدد جیسا ہے جو کبھی بھی معیاری زبان کا حصہ نہیں بنا“۔

اس ساری نکتہ آرائی سے قطع نظر، دل چسپ بات یہ ہے کہ جہاں بھی ’ہے گا‘ یا ’ہیگا‘ رائج ہے، بول چال میں ہے اور بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہے،بعینہ اسی طرح جیسے انکل سرگم (فاروق قیصر مرحوم) کے کردار ’ہیگا‘ کا تھا، وہ یوں کہا کرتا تھا;”ہیگا، موجود ہے گا، جیسے دودھ میں پانی ہے گا“۔ (یہ الگ بات کہ راقم لسانی تخریب وتشکیل کے اس شعوری عمل میں ’کلیاں‘ اور ’انکل سرگم شو‘ کے خالق فن کار کا مخالف تھا)۔ آئیے آج اسی بہانے تکیہ کلام پر کچھ خامہ فرسائی کرلیتے ہیں۔
تکیہ کلام سے مراد وہ لفظ، ترکیب، فقرہ یا جملہ ہے جو کسی بھی شخص کے منھ سے، اثنائے گفتگو، غیرشعوری طور پر، باربار اور بکثرت ادا ہو۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہاں رک کر یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ تکیہ کلام معیاری،کتابی وادبی زبان میں بدرجہ اتم موجود ہے اور تقریباً تمام اصناف سخن میں،نثر میں، حتیٰ کہ دینی ومذہبی ادب میں اس کا استعمال عام ہے۔

فرہنگ آصفیہ میں تکیہ کلام کی تعریف اس طرح بیان ہوئی ہے:” ف+ع۔ اسم مذکر۔سخن تکیہ;بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ موقع بے موقع کسی ایسے لفظ کو کہ جو اُن کی زبان پر چڑھا ہوا ہو، ہر ایک کلام کے بعد بولتے ہیں۔ پس اِسی کو تکیہ کلام اور سخن تکیہ کہتے ہیں“۔

نوراللغات میں اس کی تعریف یوں درج کی گئی: ”مذکر، جس بات کی بار بار کہنے کی عادت ہو، بعض لوگوں کو ایک بات کہنے کی عادت پڑجاتی ہے، مثلاً کیا نام، جو ہے سو ہے، خدا تم کو نیکی دے ؎ ہر وَقت داغؔ کا یہی تکیہ کلام ہے +میرے حضور،مجھ کو تونگر بنائیں گے;شعورؔ نے باِضافت کہا ہے ؎ کیوں تکیہ کلام نہ ہوجائے کوئی لفظ+جب گفتگو میں ہو نہ سہارا کسی طرح“۔

اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں:”اسم مذکر، بولتے میں سہارے کے لیے، کسی لفظ یا جملے کے باربارکہنے کی عادت یعنی گفتگو میں جہاں کہیں رُکتے ہیں تو وہ لفظ یا جملہ، بلاارادہ، زبان سے نکل جاتا ہے، کوئی بھی بات یا جملہ جسے دورانِ گفتگو، بلاارادہ، باربار دُہرایاجاتاہو“۔حسن اللغات (فارسی۔اردو) کے مؤلف نے لکھا: ” ف۔ وہ لفظ یا بات جوکوئی آدمی اپنی گفتگو کے دوران، باربار استعمال کرے“۔انگریزی میں تکیہ کلام کو Catch word/Catchwordکہتے ہیں، جبکہ پاکستان کی دیگر زبانوں میں اس کا نام معلوم نہ ہوسکا۔

بعض لوگ کسی وجہ سے کہیں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں (ذہنی اعتبارسے) تو ابتدائے کلام سے انتہاء تک، وقفے وقفے سے پوچھتے ہیں ;اور سب خیر ہے؟ (بعض سندھی حضرات بھی یہی جملہ اپنی زبان میں اتنی کثرت سے دُہراتے ہیں کہ مخاطب سوچ میں پڑ جاتا ہے)۔

ایک پرانا تکیہ کلام تھا، اللہ کی قسم۔یا۔قسم اللہ کی،یا قسم خدا کی، آج بھی بعض افراد کی زبان میں نمایاں تکیہ کلام ہے۔اسی تکیہ کلام کی ایک شکل ”وَاللہ“(عربی سے ماخوذ) اور دوسری شکل ”بَخدا“(فارسی سے ماخوذ) ہے۔جدید دورمیں زبان کے شعور سے عاری، نئی نسل (بلکہ ہماری عمر کے بعض لوگ بھی) بخدا اور باخدا میں تمیز نہیں کرپاتے۔زباں فہمی میں یہ فرق ایک سے زائد بار واضح کیا جاچکا ہے: بہ خدا=بخدا یعنی خداکی قسم،(لفظی مطلب خدا کے نام سے یا خدا سے)اور باخدا=خدا کے ساتھ۔یہاں ضمنی تفصیل یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف واؤ کا استعمال محض قسَمیہ ہی نہیں، بلکہ تنبیہ اور خبردار کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔یہ تنوع ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیات میں نظر آتا ہے۔بولی ٹھولی کے فرق سے یہ ”مولا قسم“ بھی بن جاتی ہے۔

بعض لوگ محض ’قسم سے‘ کہتے ہیں تو کوئی ’ماں قسم‘ (شےِدی مکرانی لوگ اکثر کہتے ہیں)، پھر کوئی اپنی محبوبہ یا بیوی کو وقتی طور پر قائل کرنے یا رام کرنے کے لیے کہتا ہے ;تمھاری قسم۔اسی طرح ’تمھارے سرکی قسم‘ بھی کم وبیش تمام بعض لوگ کسی وجہ سے کہیں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں (ذہنی اعتبارسے) تو ابتدائے کلام سے انتہاء تک، وقفے وقفے سے پوچھتے ہیں ;اور سب خیر ہے؟ (بعض سندھی حضرات بھی یہی جملہ اپنی زبان میں اتنی کثرت سے دُہراتے ہیں کہ مخاطب سوچ میں پڑ جاتا ہے)۔ایک پرانا تکیہ کلام تھا، اللہ کی قسم۔یا۔قسم اللہ کی،یا قسم خدا کی، آج بھی بعض افراد کی زبان میں نمایاں تکیہ کلام ہے۔

اسی تکیہ کلام کی ایک شکل ”وَاللہ“(عربی سے ماخوذ) اور دوسری شکل ”بَخدا“(فارسی سے ماخوذ) ہے۔جدید دورمیں زبان کے شعور سے عاری، نئی نسل (بلکہ ہماری عمر کے بعض لوگ بھی) بخدا اور باخدا میں تمیز نہیں کرپاتے۔زباں فہمی میں یہ فرق ایک سے زائد بار واضح کیا جاچکا ہے: بہ خدا=بخدا یعنی خداکی قسم،(لفظی مطلب خدا کے نام سے یا خدا سے)اور باخدا=خدا کے ساتھ۔یہاں ضمنی تفصیل یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف واؤ کا استعمال محض قسَمیہ ہی نہیں، بلکہ تنبیہ اور خبردار کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔یہ تنوع ہمیں قرآن مجید کی مختلف آیات میں نظر آتا ہے۔بولی ٹھولی کے فرق سے یہ ”مولا قسم“ بھی بن جاتی ہے۔بعض لوگ محض ’قسم سے‘ کہتے ہیں تو کوئی ’ماں قسم‘ (شےِدی مکرانی لوگ اکثر کہتے ہیں)، پھر کوئی اپنی محبوبہ یا بیوی کو وقتی طور پر قائل کرنے یا رام کرنے کے لیے کہتا ہے ;تمھاری قسم۔اسی طرح ’تمھارے سرکی قسم‘ بھی کم وبیش تمام رشتوں میں قربت اور قلبی تعلق کا احساس دلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

بعض لوگ ہر کس وناکس کو میری جان کہہ دیتے ہیں، بعض جانُو، الغرض یہ بھی نظر اَنداز کردیتے ہیں کہ رشتہ اور تعلق کیا ہے۔تکیہ کلام کی مزید مثالیں: ’ہائے اللہ‘، (زنانہ بولی)، ’اُف اللہ‘(زنانہ بولی)، ’ہائے میرے مالک‘، ہائے میرے مولا،’اللہ نہ کرے‘، ’خدانہ کرے‘، ’اللہ معاف کرے‘،اللہ کے ولی، اللہ لوک(پنجابی)، اللہ آپ کا بھلا کرے، اللہ خیر!، آپ کے مُنھ میں (اس پر ایک بہت ناگفتہ بہ قسم کی مثال یاد آرہی ہے جو ہمارے لڑکپن میں ریڈیو پاکستان کے ایک ڈرامے میں ایک کردار کا تکیہ کلام تھا)، ’گستاخی معاف!‘، ”سمجھے؟“ یا ”سمجھے مطلب؟“، ’گولی مارو‘، ” سُناں جی“ (پرانی عورتوں کا اپنے شوہروں سے تخاطب)، ”اجی سُنتے /سُنتی ہو“، ”اری نیک بخت“ (شوہروں کا بیویوں سے تخاطب)(پنجابی میں ”بھلی لوکی اے“ /تلفظ میں ’پلی‘)، ”بھاگ بھری“(پنجابی)، خان صاحب، خان بہادر صاحب، صاحب (صاب/صَیب)جی، بیگم صاحب (صاب)، بدمعاش، شیطان، شیطان کہیں کا، ہاں جی (پنجابی، بجائے اردو’جی ہاں‘)، نہیں تو نا سہی (پنجابی: نئیں تے ناں سہی)،بھولے بادشاہ۔

دیگر تکیہ ہائے کلام (ہائے لگا کر جمع بنانا فارسی سے آیا ہے)جی فرمائیے(پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی، ٹیلی فون پر کال وصول کرتے ہوئے کہتے تھے، ”جی فرمائیے“)، یا ”فرمائیں جی(پنجابی)،مٹی پاؤجی(پنجابی) لوکرلوگل(پنجابیت)، ہاں جی(پنجابیت: بجائے اردو کے، جی ہاں)، واہ کیا خوب، جانے بھی دو، غصہ تھوک دو،، قسم سے، کمال ہے، اللہ جھوٹ نہ بلوائے/خدا جھوٹ نہ بلوائے، توبہ توبہ“،ہائے میں مرگئی (پنجابی: ہائے وے میں مرجاواں)،میں صدقے، میں واری،مطلب یہ کہ (نیز مَلّے یہ کہ;یہ ہمارے ایک رشتے دار اس قدر کثرت وسرعت سے بولا کرتے تھے کہ ناواقف آدمی ہکا بکا رہ جائے)،جونسا، جونسی،جونسے (زباں فہمی میں ماقبل مذکور)۔

غصے کی حالت میں بھی بعض تکیہ کلام بکثرت استعمال ہوتے ہیں جیسے ”جہنم میں جاؤ“، ”جہنم میں جائے“، ”اللہ کی مار!“(زنانہ بولی)، ”نگوڑماری(زنانہ بولی)، ” نَوج“(زنانہ بولی)،پاجی، پاجی کہیں کا۔

ڈراما سیریل ”انکل عرفی“میں اداکار جمشید انصاری (مرحوم) کا ’چقو ہے میرے پاس‘ اور ”زیر زبر پیش“ اور ”کرن کہانی“میں ’زور کس پر ہوا‘اور ’قطعی نہیں‘ بہت مشہورومقبول ہوئے۔دُہرائے بِنا نہیں رہا جاتا کہ جب خاکسار،پاکستان ٹیلی وژن، کراچی میں ملاقات کے وقت،مرحوم کو ”پی ٹی وی کا شریف آدمی“ کہتا تو محفل میں سب سے پہلے اُن کا مسکراتا چہرہ عجیب انداز سے کھِل اٹھتا اور اظہار ِتشکر فرماتے تھے۔ ڈراماسیریز ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ میں نثار قادری (ایڈیٹر) کا ”ماچس ہوگی، آپ کے پاس؟“۔ڈراما’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘ میں مرکزی کردار بادشاہ کا ”انصاف ہوگا، ضرورہوگا“۔

ایک مشہور ڈرامے میں اداکار سہیل اصغرکا سرائیکی تکیہ کلام ”صدقے تھی واں“(قربان جاؤں یا صدقے واری)،ڈراماسیریز ”اندھیرا اُجالا“ میں اداکار قوی خان کا ”بولو، بولو“۔ اور اسی ڈرامے میں اداکار عرفان کھوسٹ کا ”ڈیھ (دس)جماعت پاس ہوں، ڈَریکٹ (ڈائریکٹ) حوالد ارہوں، کوئی مذاق نہیں ہوں میں (پنجابیت)“۔کسی فلم میں مصطفی قریشی کا ”نواں آیا ہے سوہنڑی اے“(پنجابی)، اداکار لہری کا ”گولی ماردوں گا“ (یہی مکالمہ قوی کی ایک فلم میں بھی اُن کا تکیہ کلام تھا)،اداکار لہری کا A cup of tea is a cup of tea and a business is a business۔اب جبکہ پورا ایک جملہ ہی انگریزی کا دَر آیا ہے تو کیوں نہ ایسے انگریزی تکیہ ہائے کلام کا ذکر کیا جائے جن کا چلن اَب اردو گو طبقے (خصوصاً برگروں)میں عام ہے:
You know, Oh, no!, O’ my God, O’ my gosh/ O’ gosh!, God damn it!, Oh, I see, God knows/God knows better, Let’s see, Wonderful!, Shut up!, Actually, Literally, Virtually, Exactly, By the way, By God, Of course, For God’s sake, For Heaven’s sake, Sweet heart, Lovely, My love, Darling, Baby/My baby, My lord, Shit, Naughty, Silly, Boss, Bro, Boss, Sis, Sister

بعض اہل سیاست کی بعض مکرر کہی ہوئی باتیں بھی تکیہ کلام کے ضمن میں آتی ہیں، مگر فی الحال اس آلودہ ماحول میں ان کا ذکر بھی نامناسب ہے۔آخر میں یہ عرض کردوں کہ مجھے ”تکیہ کلام“ کے موضوع پر کوئی کتاب یامبسوط مقالہ کہیں نظر نہیں آیا، اگر کسی نے اس بارے میں تحقیق کی ہوتو براہ کرم مجھے آگاہ فرمائیں۔

The post زباں فہمی 150؛ ہَیگا، موجود ہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.

مجسّم صبر و رضا، پیکر شجاعت و استقامت حضرت ابوالفضل عباس علم دارؓ

$
0
0

کسی بھی شخصیت کے بارے میں جاننے کے لیے دو باتوں کا معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک اس کا نسب اور دوسرا اس کا حسب۔ لیکن شخصیت کی بزرگی اور بلندی نسب کے ساتھ اس وقت بہت ارفع اور اعلیٰ ہوجاتی ہے جب نسب کے ساتھ حسب بھی بہتر ہو۔امام المتّقین حضرت علیؓ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جسے اس کا حسب پیچھے کردے، اسے اس کا نسب بھی آگے نہیں بڑھا سکتا۔‘‘

حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی ذات والا صفات نسب کے اعتبار سے ایسی بلند مرتبہ ہے کہ والد گرامی کا نام حضرت علی ابن ابی طالب ؓ ہے اور ماں کا نام فاطمہ بنت حزام ہے جو قبائل عرب کے شریف ترین قبائل سے تعلق رکھتی تھیں۔ تاریخ میں بہت سی ایسی شخصیات آپ کو مل جائیں گی جنھوں نے اپنی زندگی میں ایسے نیک اعمال انجام دیے کہ وہ نیکی کی صفت بن کر ان کی پہچان بن گئے، مثلاً نوشیروان نے اتنا عدل کیا کہ عدل اس کی صفت بن گئی اور وہ نوشیروان عادل کہلایا۔

اسی طرح حاتم طائی نے اتنی سخاوت کی کہ لوگ اسے سخی حاتم کہنے لگے اور آج اگر کوئی سخاوت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے ’’سخی حاتم‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن صفت سخاوت اور صفت عدل ان کے نام کے ساتھ تو ذہن میں آتی ہے، لیکن اگر صرف عدل و سخا کا تذکرہ ہو تو ذہن نوشیروان اور حاتم طائی کی جانب نہیں پلٹتا۔ حسب کے اعتبار سے حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی شخصیت اس مرتبے کی حامل ہے کہ ان کی زندگی کے کارناموں میں شجاعت، وفا اور علم داری ایسی خصوصیات ہیں کہ چاہے صفت کا تذکرہ کرو یا موصوف کا نام لو، ہر دو طرح سے ذہن حضرت ابوالفضل العباس ؓ کی طرف پلٹتا ہے۔

شجاعت ایک ایسا ملکہ ہے جو محبت کے نتیجے میں پاکیزہ افراد کو ملتا ہے۔ فلسفۂ شجاعت لڑنے اور جنگ جُو ہونے کا نام نہیں ہے، بل کہ شجاعت گیارہ صفات کا کسی ایک شخصیت میں جمع ہونے کا نام ہے۔ یہ صفات درج ذیل ہیں:

کبر، نجدت، علو ہمت، ثبات، حلم، سکون، شہامت، تحمل، تواضع، حمیت، رقت۔

کس موقع پر کون سی صفت کو بہ روئے کار لایا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے، اسی کا نام شجاعت ہے۔

کبر: یہ ہے کہ نفس مشکل اور آسان کام پر یک ساں حاوی ہو اور اس کے حصول میں عزت و ذلت کی کمی بیشی کی پروا تک نہ کرے۔

نجدت: نفس میں ثبات و استقلال ایسا پیدا ہوجائے کہ اس پر خوف طاری نہ ہو اور وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے میں ذرا نہ گھبرائے۔

علو ہمت: انسان اپنے ذکر جمیل کی طلب میں دنیاوی سعادت و شقاوت کی پروا نہ کرے، حتیٰ کہ موت سے بھی نہ ڈرے۔

ثبات: نفس میں آلام و شدائد کے برداشت کی قوت اس طرح پیدا ہوجائے کہ آلام و مصائب کے آجانے پر اس کا عزم ٹوٹ نہ سکے۔

حلم: انسان کو اپنے نفس پر ایسا قابو حاصل ہوجائے کہ غصہ اسے مغلوب نہ کرسکے اور اگر کوئی ناگوار بات اس کے سامنے آجائے تو برانگیختہ نہ ہو۔

سکون: جنگ و عدوات، جب کہ وہ اپنے دین و مذہب اور عزت کے لیے ہو تو ایسی حالت میں نفس سبکی و خفت محسوس نہ کرے۔

شہامت: ذکر جمیل کامل کرنے کی خاطر نفس انسانی بڑے بڑے کاموں میں پڑجانے سے بھی نہ گھبرائے۔

تحمل: یہ ہے کہ انسان پسندیدہ افعال کے بجا لانے کے لیے اپنے جسم کو ہر تکلیف میں ڈالے اور ہر طرح کی جسمانی مشقت برداشت کرے۔

تواضع: اپنے سے کم تر انسانوں پر اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر نہ جانے۔

حمیت: اپنے مذہب و ملت و عزت کی حفاظت میں ایسی چیزوں سے جن سے حفاظت ضروری ہے، ان کے بجا لانے میں سستی نہ کرے۔

رقت: نفس میں یہ استعداد پیدا ہوجائے کہ غم و الم اور مصیبت پر متاثر تو ہو، مگر ان کے بجا لانے میں سستی نہ کرے۔

یہ شجاعت کے وہ ارکان ہیں جن کا لحاظ صرف اعلیٰ ظرف اور پاکیزہ نفس والا انسان ہی رکھ سکتا ہے۔ حضرت ابوالفضل العباس ؓ شجاعت میں اپنے بابا حضرت علی ؓ کے وارث تھے۔ تحلیل اور تجزیے کے اعتبار سے شجاعت و صبر میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں نفس کی قوت کے آثار ہیں۔ دونوں میں قوت ارادی کی کار فرمائی ہوتی ہے اور دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پر قابو حاصل کیا جائے۔ قوت نفس کا مظاہرہ میدان میں ہوتا ہے تو اس کا نام صبر ہوتا ہے، صبر تو ام شجاعت ہے اور شجاعت لازمۂ صبر۔ یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں شخص صبر کا حامل ہے اور فلاں شخص شجاعت کا۔ صبر، شجاعت سے کسی منزل پر جدا نہیں ہوسکتا۔ جس شخص میں صبر کی قوت نہیں ہوگی، وہ شجاعت کے میدان میں قدم نہیں جما سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ منزل اظہار میں دونوں کے میدان الگ الگ ہوتے ہیں۔

شجاعت کا میدان معرکۂ کار زار ہوتا ہے اور صبر کا میدان ’’جبر اختیار‘‘ اسی طرح حضرت عباس ؓ کی ذات میں وفا بھی ایسی ہے کہ لفظ وفا کا ترجمہ بھی عباس ہونے لگا۔ قمر بنی ہاشم کو یہ وصف بھی بزرگوں سے وراثت میں ملا تھا اور اس کا سلسلہ بھی تاریخ میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت عباسؓ میں رب کریم نے تمام اخلاق حسنہ کو اس طرح رکھا کہ کمال علم و فقہ، عبادات و ریاضات میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور کیوں نہ ہو، یہ علی ؓ کے لخت جگر اور فاطمہ بنت حزام کے نور نظر ہیں۔ حضرت عباس ؓہر موقع پر حضرت علیؓ کے ساتھ رہے، پھر میدان کربلا میں شجاعت و استقامت اور صبر و رضا کے وہ جوہر دکھائے کہ بازو کٹوا کر بھی ہمت نہ ہاری، یہاں تک کہ لب دریا جام شہادت نوش کیا اور حق وفا ادا کر دیا۔

The post مجسّم صبر و رضا، پیکر شجاعت و استقامت حضرت ابوالفضل عباس علم دارؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

ثانیٔ زھراء، اُم المصائب، شریکۃ الحسین حضرت زینبؓ

$
0
0

کربلا، اسلامی تاریخ، بل کہ پوری انسانی تاریخ کا وہ لرزہ خیز سانحہ ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لیے اسرار و رموز پنہاں ہیں۔

نواسۂ رسول اکرمؐ، حضرت امام حسینؓ نے10 محرم یومِ عاشور کربلا میں اپنے احباب و انصار و اہل حرم کے ساتھ دین حق کی خاطر عظیم قربانیوں کی عظیم تاریخ رقم کی۔ یومِ عاشور جہاں نواسۂ رسولؐ کے ساتھ کربلا میں ہر عمر اور صنف کے افراد خوابِ ابراہیمؑ کو تعبیر دینے کے لیے تیار دکھائی دیتے تھے، وہیں خواتین نے بھی عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کے باب رقم کیے۔ انہی سرکردہ خواتین میں حضرت زینبؓ بھی ہیں، جنہوں نے دینِ حق کی سربلندی کی خاطر کربلا میں ناصرف اپنے دو بچوں عونؓ و محمدؓ کی قربانی پیش کی، بل کہ اول تا آخر جہاد کربلا میں ایک فعال قائد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں پورے وقار اور حوصلے سے نبھائیں۔

حضرت زینبؓ، نبی پاک حضور ختمی مرتبت ﷺ کی نواسی، حضرت فاطمۃ الزھرا ؓ اور حضرت علیؓ کی بڑی صاحب زادی اور حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی بہن تھیں۔ حضرت جعفرِ طیارؓ کی بہو اور حضرت عبداﷲ بن جعفرِ طیارؓ کی زوجہ تھیں۔

حضرت زینبؓ بنت علیؓ کی ولادت 5 ہجری میں مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ جب آپؓ دنیا میں تشریف لائیں تو آپؓ کے نانا رسول کریم ﷺ کسی سفر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے اپنی نومولود صاحب زادی کا نام اس وقت تک تجویز نہیں کیا جب تک حضورؐ اپنے سفر سے واپس تشریف نہ لے آئے۔ جب اﷲ کے رسول ﷺ واپس تشریف لائے تو پارۂ عصمت حضرت زینبؓ کو اپنی آغوش میں لے کر حکمِ خداوندی کے مطابق زینب نام تجویز فرمایا۔ روایت ہے کہ اس منزل پر حضورؐ کی آنکھوں سے اس قدر آنسو جاری ہوئے کہ ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا:

’’جبرائیل امینؑ نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسینؓ کے ساتھ برابر کی شریک ہوگی۔‘‘

اس کے بعد آپؐ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: ’’یہ میری بچی خدیجۃ الکبریٰؓ کی من و عن تصویر ہے۔‘‘

حضرت زینبؓ کی ابتدائی تربیت حضور ختمی مرتبتؐ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃالزھرا ؓ کے زیر ِسایا ہوئی تھی۔ ثانیٔ زھراء کو بچپن ہی سے اپنے بے مثال بھائی حضرت امام حسینؓ سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں بھی اگر آپؓ کو تھوڑی دیر کے لیے امام حسینؓ کے چہرے کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپؓ پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ یہ محبت و الفت بچپن سے کربلا تک اس درجۂ کمال کو پہنچ چکی تھی جہاں یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت امام حسینؓ جیسی شخصیت نے سانحۂ کربلا کے دوران حضرت زینبؓ سے مشاورت فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ کربلا میں آپؓ نے امام حسینؓ کے اتباع میں ناصرف بہ تمام و کمال پیش آنے والے تمام مصائب کو برداشت کیا، بل کہ اپنے دو بیٹوں حضرت عونؓ و محمدؓ کو بھی راہِ حق میں فدیہ کیا۔ اور اس کے بعد کربلا سے کوفہ و شام تک بے پردگی کے عالم میں بھائی کے پیغام کو عام کرتی چلی گئیں، اسی لیے آپؓ کو شریکۃ الحسینؓ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بی بی زینب کو اُم المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپؓ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔ اول پانچ برس کی عمر میں حضور ختمی مرتبت ﷺ کی رحلت پر گھر میں صفِ ماتم دیکھی۔ پھر اپنی والدۂ ماجدہ فاطمۃ الزھراءؓ کی وفات پر غم و الم کا شکار ہوئیں۔ پھر امیرالمومنین اور اپنے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت کا غم سہا، اس کے بعد بڑے بھائی امام حسنؓ کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور آخر میں اپنے چہیتے بھائی حضرت امام حسینؓ کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حضرت امام حسینؓ سے پہلے کے تمام واقعات و حادثات کا مشاہدہ کربلا کے لیے آپؓ کا تربیتی اثاثہ قرار پایا اور یومِ عاشور آپؓ نے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کو خون میں غلطاں دیکھا، مگر اﷲ کے شُکر کے سوا آپؓ کی زبان مبارک سے کوئی اور لفظ نہ نکلا۔

حضرت زینبؓ کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا جوہر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عباداتِ خداوندی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت زین العابدینؓ فرماتے ہیں:

’’میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہیں کی اور وقت رخصتِ آخر امام حسینؓ نے بھی اپنی بہن زینبؓ سے فرمایا تھا: ’’ اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔‘‘

یہ سند ہے کہ حضرت زینبؓ نہایت عبادت گزار اور پرہیزگار تھیں۔ آپؓ کو ثانیٔ زھراء کہنے کی وجہ غالباً یہی ہے کہ آپ حسبی و نسبی اعتبار سے کئی منازل میں حضرت فاطمۃالزھراؓ سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حضرت فاطمۃالزھرا نے آغوشِ رسالت ﷺ میں پرورش پائی تو حضرت زینبؓ کو آغوشِ رسالتؐ و ولایت میسر آئی۔ حضرت فاطمۃالزھراءؓ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں تو حضرت زینب کی والدہ خاتونِ جنّت حضرت فاطمۃالزھراءؓ ہیں۔

حضرت فاطمہ ؓ کے دو فرزند راہِ خدا میں شہید ہوئے تو حضرت زینبؓ نے بھی اپنے دو بیٹے راہِ خدا میں فدیہ کیے۔11محرم الحرام کو ’’یومِ زینبؓ‘‘ کا مقام حاصل ہُوا اور آپؓ پر مصائب کی انتہا ہوگئی۔ راہِ کوفہ و شام کا سر برہنہ سفر آپؓ کے مصائب کی ہمت و جرأت کا امتحان ثابت ہوا۔ زینبؓ اس مقام سے بھی سرخ رُو گزریں اور کوفہ و شام میں آپ کے بھرپور خطبات ثابت کرتے ہیں کہ آپؓ نے بغیر کسی گھبراہٹ و خوف کے کبھی راہِ کوفہ میں تو کبھی دربارِ یزید میں نہایت جرأت و شجاعت کے ساتھ ظالم کے ظلم اور مظلوم کے حق کی وضاحت فرمائی۔ ان خطبوں کی علمیت، ان کی اہمیت اور اندازِ خطابت حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد دلاتا ہے اور ان سے حضرت زینبؓ کی علمیت و تدبر کی عکاسی ہوتی ہے۔

کربلا میں حضرت زینبؓ کی ذاتِ اقدس محض ایک بہن کی نہیں ہے، صرف ایک ماں کی نہیں ہے، صرف ایک مجاہدہ اور خطیبہ کی نہیں ہے، بل کہ زینبؓ نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ کربلا میں آپؓ کی شخصیت سے ہر شعبۂ زندگی سے متعلق ہدایت آفریں کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔ خواتین اسلام کے لیے جناب زینبؓ کا کردار ہمیشہ لائق تقلید رہے گا۔

خطبۂ امُ المصائب سیّدہ زینب بنت علی کرم اﷲ وجہہ

’’ تمام تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں، جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اور درود و سلام حضور نبی کریم ﷺ اور ان کے اہل بیت پر۔ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے کہ ان لوگوں کا انجام برُا ہے، جو بُرے کام کرتے ہیں اور اس کے احکامات کو جھٹلاتے اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

اے یزید! تُونے ہم پر زمین تنگ کردی اور ہمیں قید کیا اور تُو سمجھتا ہے کہ ہم ذلیل ہوئے اور توُ برتر ہے، تو یہ سب تیری اس سلطنت کی وجہ سے ہے اور تُونے شاید اﷲ پاک کا فرمان نہیں سنا کہ کفار یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے ان کے ساتھ جو نرم رویہ رکھا ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے بل کہ صرف یہ مہلت ہے تاکہ وہ دل کھول کر گناہ کریں پھر ان کے لیے ایک درد ناک عذاب ہے۔ تُونے آلِ رسول ﷺ اور بنی عبدالمطلب کا ناحق خون بہایا اور عن قریب تو بھی ایک دردناک انجام سے دوچار ہوگا۔ میں اﷲ پاک سے امید رکھتی ہوں کہ وہ ہمارا حق ہمیں دے گا اور ہم پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لے گا اور ان پر اپنا قہر نازل فرمائے گا۔ تُو عن قریب اپنے گناہوں کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوگا اور جو اﷲ کے راہ میں شہید ہوئے ان کے بارے میں اﷲ ہی کا فرمان ہے کہ وہ زندہ ہیں انہیں رزق ملتا ہے اور جن لوگوں نے تمہارے لیے تمہارا راستہ آسان کیا وہ بھی عن قریب تیرے ساتھ برباد ہونے والے ہیں۔

اے یزید! اگر تُو ہماری ظاہری کم زوری کو خود کے لیے غنیمت سمجھتا ہے توکل بہ روز ِقیامت تُو اپنا کیا ہوا پائے گا۔ اﷲ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ اور نہ ہی ہم اس سے کوئی شکوہ کرتے ہیں، بل کہ ہم ہر حال میں صابر اور اس پر بھروسا کرنے والے ہیں، تُو اپنے مکر و فریب سے جو چاہے کرلے، مگر تُو ہرگز ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکے گا اور نہ ہی ہمارے مقام کی بلندی کو چُھو سکے گا۔ تیری یہ سلطنت عارضی ہے اور عن قریب منادی کرنے والا منادی کرے گا۔ اور لعنت ہو ایسی قوم پر جس نے یہ ظلم و ستم کیا۔ پس اﷲ پاک کی حمد و ثناء ہے، جس نے ہمارے پہلوں کا ایمان کے ساتھ اور شہادت کے ساتھ خاتمہ فرمایا اور وہ نہایت مہربان اور رحم والا ہے اور ہمارے لیے کافی ہے، کیوں کہ وہ بہترین کارساز ہے۔‘‘

The post ثانیٔ زھراء، اُم المصائب، شریکۃ الحسین حضرت زینبؓ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان…تصور سے حقیقت تک

$
0
0

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ۔ یہ ملک 14 اگست1947ء کو وجود میں آیا ۔ اس کے قیام سے پیشتر ان علاقوں پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ یہ غیرملکی تسلط یہاں ایک سو سال سے کسی قدر زیادہ عرصے تک قائم رہا۔

انگریز حکومت سے قبل برصغیر میں مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک حکم راں رہے اس دوران میں ان کی علیحدہ قومی حیثیت ہمیشہ برقرار ہی ۔ چوںکہ ان کے قومی تصورات کی بنیاد عقیدے اور مذہب پر تھی ، اس لیے وہ اپنے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انداز فکر میں ہندوستان کے دوسرے لوگوں سے ہمشہ مختلف رہے ۔

1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں برصغیر سے مسلمانوں کی حکومت عملاً ختم ہو گئی اس کے بعد حا لات تیزی سے بدلنا شروع ہوئے ۔ جوں جوں انگریز یہاں زور پکڑتے گئے توں توں مسلمانوں کے دلوں میں انگریزوں سے نفرت کا جذبہ پروان چڑھتا گیا ۔ ایسے میں مسلمانوں کو انگریز حکم رانوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور دوسری طرف انگریزی تعلیم یافتہ ہندوئوں میں مغربی تصور قومیت کے تحت ہندوستانی قومیت کا تصور مقبول ہونے لگا۔

یہ صورت حال ہندو اکثریت کے لیے مفید تھی اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ۔ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے یہ وجوہ ہی کافی تھیں کہ ہندوؤں نے ایسے اقدامات شروع کر دیے جن کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ چوں کہ ہندوستان ایک وسیع و عریض رقبہ پر محیط تھا ، اس لیے چند انگریزوں نے بھی انتظامی نقطہ نگاہ سے برصغیر کی تقسیم سے متعلق اپنی آرا پیش کیں ۔ تقسیم ہند سے متعلق معروف اصحاب کی آرا اور تجاویز ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں :

جان برائٹ

برطانیہ کے مشہور سیاست داں تھے ۔ انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی سے ایک سال قبل بر طانوی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑنے سے قبل اسے کم از کم پانچ خودمختار یونٹوں میں تقسیم کرنے کا اہتمام کرے ۔

سر سید احمد خان

1867ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوئوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیو ناگری میں لکھی جائے ۔ سرسید کہتے تھے کہ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے ۔

ولفریڈ اسکاون بلنٹ

ولفریڈ اسکاون بلنٹ ایک ادیب تھا ۔ اس نے لارڈ رپن کے زمانے میں ہندوستان کا دورہ کیا اور ایک کتاب بعنوان ” Ideas about India ” لکھی ۔ اس میں اس نے لکھا: شمالی ہند کے تمام صوبوں کو عملی طور پر مسلم حکومت کے تحت دے دیا جائے اور جنوبی ہند کے صوبوں کو ہندو حکومت کے تحت ۔ بلنٹ نے یہ تجویز دسمبر 1883 میں دی ۔

مولانا عبد الحیلم شرر

اردو کے مشہور نقاد “انشا پرداز اور تاریخی ناولوں کے مصنف مولانا عبد الحلیم شرر نے اپنے ماہوار رسالہ ” مہذب” لکھنئو کے 13 اگست 1980ء کے شمارے میں عیدالاضحٰی کے موقع پر ہونے والے ہندو مسلم فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے سیا سی مسائل کا حل پیش کیا ، ’’دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان دو صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے اور آبادی کا تبادلہ کیا جائے ۔‘‘

سر تھیو ڈور ماریسن

سر تھیو ڈور ماریسن سابق پرنسپل علی گڑھ کالج نے 1899 ء میں یہ تصور پیش کیا تھا : اگر ہندوستان کے پانچ ملین مسلمان کسی صوبہ یا ملک کے کسی حصے میں جمع کر دیے جائیں ۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں تو ایک قومی اسپرٹ ان علاقوں میںپیدا ہو جائے گی جس سے حالیہ مسئلہ کا جزوی حل ہو سکتا ہے۔

ولایت علی بمبوق

ولایت علی بمبوق علی گڑھ کالج کے تعلیم یافتہ تھے ۔ بارہ بنکی میں وکالت کرتے تھے ۔ مولانا محمد علی جوہر کے معتقد و مداح اور رفیق کار تھے اور ان کے اخبار “کامریڈ” میں گپ کا کالم “بمبوق” کے قلمی نام سے مزاحیہ انداز میں لکھا کرتے تھے ۔ مئی 1913 ء میں اس کالم میں انہوں نے ایک خیالی انٹرویو لکھا تھا ۔ اس انٹرویو کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے ۔

سوال : ہندو مسلم مسئلہ آپ کس طرح حل کریں گے ؟

جواب : ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا چاہیے ۔ شمالی ہند مسلمانوں کے حوالہ کر دیا جائے اور باقی ہندوئوں کے ۔

چودھری رحمت علی

چودھری رحمت علی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک نام ور طالب علم تھے ۔ انہوں نے اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے تحریر و تقریر میں خاص مہارت پیدا کر لی تھی ۔ انہی اوصاف کے پیش نظر انہیں کالج کے میگزین ” کریسینٹ” کی مجلس ادارت میں شامل کر لیا گیا تھا ۔ وہ کالج یونین کے سیکرٹری بھی منتخب ہوئے ۔ اس لیے کالج میں ان کا مقام نمایاں تھا ۔ چودھری رحمت علی ، مولانا شبلی نعمانی کی شخصیت اور ان کے سیاسی افکار سے متاثر تھے ۔ انہوں نے مولانا شبلی کی وفات (1914ء ) کے بعد 1915ء میں اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی ۔

چودھری رحمت علی نے 1915ء میں بزم شبلی کے افتتاحیہ اجلاس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا جائزہ لے کر مسلمانوں کی آزادی کے لیے تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا ” انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا :

’’ انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ اور ہم اسے مسلم علاقے کی حیثیت سے برقرار رکھیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم اسے ایک مسلم ریاست بنائیں گے ۔ لیکن یہ ہم اس وقت ہی کر سکتے ہیں کہ پہلے شمالی علاقہ کے مسلمانوں کو انڈین کہلانے سے باز رہنا ہو گا ۔ یہ اس کے لیے اولین شرط ہے ۔ اور ہم جتنی جلدی انڈین ازم سے نجات حاصل کر لیں اسی قدر یہ اسلام اور ہم سب کے لیے بہتر ہو گا ۔

اس زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی بات چیت جاری تھی ۔ محمد علی جناح اس سلسلے میں پیش پیش تھے ۔ بالآخر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے درمیان 1916ء میں ایک سمجھوتا ہوا ، جس کو لکھنئو پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس پیکٹ کا برصغیر میں بہت چرچا ہوا ۔ چودھری رحمت علی چوںکہ ایک مسلم ریاست کے قیام اور انڈین ازم سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کر چکے تھے ، اس لیے انہوں نے طلباء سے یہ کہتے ہوئے ” بزم شبلی” سے علیحدگی اختیار کر لی :

’’ دوستو! اگر تم میرے خیالات پسند نہ کرو تو ہم بہتر راستہ رکھتے ہیں ۔ ہم میں سے کوئی انقلاب کے تصورات کو آزادی کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنا مقصد و ایمان بنائے گا ۔ تم اپنے راستے پر اور میں اپنے راستے پر اور میں اپنے راستے پر رہوں گا ۔ تم اپنے ہندوستانی انقلاب کے لیے کام کرو میں اپنے اسلامی انقلاب کے لیے کام کروں گا ۔ آخر پر ہم دیکھیں گے کہ کون بہتر اور تخلیقی انقلاب ہندوستان میں لائے گا ۔‘‘

خیری برادران

پہلی عالمی جنگ کے دوران اکتوبر یا ستمبر 1917ء میں اسٹاک ہوم میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس کا ایک اجلاس امن کے امکانات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا ۔ اس یادداشت میں انہوں نے ہندوستان کو “ہندو انڈیا” اور” مسلم انڈیا”میں تقسیم کر دینے کی تجویز رکھی تھی ۔

محمد عبد القادر بلگرامی

مارچ یا اپریل 1920ء میں محمد عبدالقادر بلگرامی نے بدایوں سے شائع ہونے والے ایک اخبار ” ذوالقرنین” میں ایک کھلا خط گاندھی کے نام شائع کیا ۔ اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ برصغیر کو ہندوئوں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ نیز انہوں نے تقسیم کے مدنظر اضلاع کی ایک فہرست دی تھی ۔

لالہ لاجپت رائے

لاجپت رائے پکے ہندو اور کٹر مہا سبھائی تھے ۔ ان کا کانگریس کے صف اول کے نیتائوں میں شمار ہوتا تھا ۔ وہ سیاسی عقائد کے لحاظ سے تلک جانشین تھے ۔ لالہ لاجپت رائے نے تجویز پیش کی کہ شمالی مغربی ہند کے مسلم اکثریت کے علاقے برصغیر سے الگ کر دیے جائیں ۔

سردا ر گل محمد خان

حکومت ہند نے 1923ء میں ایک شمالی مغربی سرحد کمیٹی مقرر کی تھی ۔ اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ شمالی مغربی سرحدی صوبہ میں جس قدر اضلاع شامل ہیں، ان کے قبائلی علاقے سے تعلقات اور تمام صوبہ کو صوبہ پنجاب میں شامل کر دینے کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کر ے ۔ اس کمیٹی کے ایک رکن سردار گل محمد خان تھے جو انجمن اسلامیہ ڈیرہ اسماعیل خان کے صدر بھی تھے ۔ انہوں نے 1923ء میں صوبہ سرحد کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے شہادت دیتے ہوئے ایک سوال کا جواب اس طرح دیا : مجھے کچھ اضافہ اور کرنے دیجیے ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کبھی نہ ہو سکے گا ۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ صوبہ علیحدہ رہے ۔ جب مجھ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تیرا خیال کیا ہے تو میں بحیثیت رکن انجمن یہ خیال ظاہر کرتا ہوں کہ ہم ہندو اور مسلمانوں کی علیحدگی کو پسند کریں گے ۔

مولانا محمد علی جوہر

چودھری خلیق الزماں کے مطابق مولانا محمد علی جوہر نے 1923ء میں علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ، اگر ہندو مسلم مسئلہ طے نہ ہوا تو ہندوستان ہندوانڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا ۔

مولانا حسرت موہانی

مولانا حسرت موہانی نے 1921ء میں خلافت کانفرس میں اپنی مشہور قرارداد حصول آزادی اور ہندو مسلم تنازعے کے حل کے بارے میں پیش کی ۔

سر آغا خان

1928ء میں سرآغا خان نے لندن ٹائمز میں دو مقالے لکھے ۔ انہوں نے نہرو رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا :

ہندوستان کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ ان میں سے ایک حصہ موجودہ پاکستان اور ایک حصہ بنگلادیش سے قریبی مشابہت رکھتا تھا ۔

آغا مرتضیٰ احمد خان میکش

1928-29ء میں آغا مرتضیٰ احمد خان میکش نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت پر روزنامہ ” انقلاب “میں ایک سلسلۂ مضامین تحریر کیا ۔

ڈاکٹرسر علامہ محمد اقبال

الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال نے 29 دسمبر 1930 ء کو اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا :

“۔۔۔ لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ کہ انڈیا میں ایک مسلم انڈیا قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک خودمختار ریاست بنا دی جائے ۔ خواہ یہ ریاست برطانوی شہنشاہیت کے اندر یا برطانوی شہنشاہیت کے باہر قائم ہو یعنی شمال مغربی انڈین مسلم ریاست کی مستحکم تشکیل مجھے تو شمالی مغربی انڈیا مسلمانوں کی آخری قسمت نظر آتی ہے ۔‘‘

قائد اعظم کا خط چودھری رحمت علی کے نام

محمد فرید الحق ایڈوو کیٹ (کراچی ) روزنامہ جنگ مورخہ 24دسمبر1986ء کے شمارے میں بعنوان “ملت اسلامیہ کا ایک عظیم راہ نما ۔ چودھری رحمت علی” کی پہلی قسط میں لکھتے ہیں :

محمد علی جناح اور چودھری رحمت علی کی عمروں میں اکیس سال کا فرق تھا ۔ 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو چودھری رحمت علی سترہ سال کے نوجوان تھے ۔ اور محمد علی جناح کی عمر 38 سال تھی ۔ 1916ء میں جب محمد علی جناح کی صدارت میں مسلم لیگ اور کانگریس کا اتحاد “میثاق لکھنئو” کے نام سے وجود میں آیا تو چودھری رحمت علی کی عمر 19 سال تھی ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح محمد علی جناح اور علامہ شبلی کی عمریں تھیں ۔ شبلی 1857ء میں پیدا ہوئے اور محمد علی جناح 1876ء میں ۔ وہ شبلی سے 19 سال چھوٹے تھے ۔ لیکن “مسلم وقف علی الاولاد” کی مہم سر کرنے میں دونوں یکساں سرگرم عمل تھے۔ امپیریل کو نسل کے اندر محمد علی جناح اور باہر شبلی نعمانی ۔ یہ 1914ء کی جنگ عظیم سے کئی سال پہلے کی بات ہے۔

1939ء کی جنگ عظیم سے بھی کئی سال پہلے برعظیم کے شمال مغربی خطے میں (چودھری رحمت علی نے) ایک آزاد مسلم مملکت قائم کرنے کی جدوجہد کی تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت جب مسلمانان برعظیم کے سامنے اپنے قومی و ملی مستقبل کے بارے میں قطعی فیصلہ صادر کرنے کی گھڑی آئی تو یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ یہی محمد علی جناح اور یہی چودھری رحمت علی کسی جگہ خاموشی سے مل کر بیٹھے ہوں گے اور آخری مرحلے کی بابت ان دونوں میں کچھ صلاح ومشورہ ہو ا ہو گا ۔

ان دونوں راہ نمائوں میں کتنا قُرب تھا ، دونوں کے روابط کیسے تھے اور خط و کتابت کا سلسلہ ان کے درمیان کب سے جاری تھا ۔ اس وقت تو اس وقت آج بھی جب بے شمار دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں ، اس کا علم شاید ہی کسی کو پوری طرح ہو ۔ قائداعظم نے بہت خطوط چودھری رحمت علی کو لکھے ہیں ۔ اب تک سترہ خطوط کا پتا تو ہمیں مل چکا ہے ۔ اور توقع ہے کہ ابھی اور دست یاب ہوں گے ۔ ان خطوط کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ قائداعظم نے یہ سارے خطوط اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں اور ان میں سے کوئی خط بھی ٹائپ کیا ہوا نہیں ہے ۔”

قائداعظم محمد علی جناح کے خط مورخہ 8 فروری 1940ء کا عکس شامل کتاب کیا گیا ہے ۔ اس خط کے چند الفاظ راقم اور صاحب علم احباب سے پڑھے نہیںجا سکے ۔ اس لیے خط کا مکمل ترجمہ شائع نہیں کیا جا رہا ۔ لہٰذا خط کا مفہوم پیش خدمت ہے ۔

8فروری 1940ء

پیارے مسٹر رحمت علی

آپ جلد کراچی پہنچ رہے ہیں۔ میں اس وقت دہلی میں ہوں اور یہاں کم از کم تقریباً چار ہفتے رہوں گا ۔ اگر آپ کو سہولت ہو تو برائے مہربانی دہلی تشریف لائیں اور مجھ سے ملیں ۔ میں آ پ سے ملاقات کا منتظر ہوں ۔

آپ کا مخلص

ایم۔اے۔جناح

قائد اعظم کا ٹیلی گرام چودھری رحمت علی کے نام

بقول ڈاکٹر جہانگیر خان:

چودھری صاحب 1940ء میں ہندوستان آئے اور کراچی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ۔ انہوں نے مجھے اطلاع دی ۔ میں اس وقت زمیندار کالج گجرات میں پرنسپل تھا ۔ چھٹیاں ہوئیں تو میں کراچی گیا ۔ میں کراچی میں تھا کہ دہلی سے قائداعظم کا انہیں (چودھری صاحب) تار ملا ۔ اس میں تحریر تھا کہ ہم مسلم لیگ کے جلسۂ لاہور میں قراردار منظور کرنے والے ہیں ۔ تم اس میں ضرور شرکت کرو ۔

اس اجلاس سے چند روز پہلے حکومت پنجاب اور خاکساروں کے درمیان ٹھن گئی تھی ۔ خاکساروں پر فائرنگ ہوئی تھی اور سر سکندر حیات اور وزیراعلیٰ پنجاب ہندوستان بھر میں تنقید کا نشانہ تھے ۔ چودھری رحمت علی کا اس مرحلے پر لاہور آنا سر سکندر حیات خان اسے اپنے حق میں نہایت مضر جانتے تھے ، چوںکہ وہ چودھری صاحب کی حق گوئی اور بے باکی سے بخوبی واقف تھے ۔ سکندر حیات خان اس معاملے میں اس قدر سنجیدہ تھے کہ انہوں نے چودھری صاحب کو لاہور پہنچنے سے باز رکھنے کے لیے ان کی گرفتاری کے وارنٹ تک جاری کروا دیے ۔

چودھری صاحب کو اس کے باوجود یہی مشورہ دیا گیا کہ وہ لاہور ضرور پہنچیں ۔ لیکن چودھری صاحب نے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ایسا کرنے سے گریز فرمایا :

1۔ میرا اس وقت لاہور پہنچنا قائد اعظم کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا ۔

2۔ سر سکندر حیات خان ممکن ہے لیگ کی اعانت سے اس تاریخی مرحلے پر میری موجودگی کو بہانہ بنا کر دست کش ہو جائیں اور پنجاب جیسے اہم صوبے میں مسلم لیگ کی بات بگڑ جائے۔

3۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اس وقت کسی بھی قسم کی فکری تقسیم ( اختلاف) مسلمانوں کی آزادی کے لیے سخت مہلک ثابت ہو گی ۔

بہرحال چودھری صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قرارداد میں “پاکستان” کا نام شامل ہونا چاہیے ۔

پروفیسر عابد نقشبندی لکھتے ہیں :

1948ء میں جنگ لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر باقر نے کہا کہ مارچ 1940ء میں چودھری رحمت علی نے کراچی سے رابطہ کیا اور خواہش کا اظہار کیا کہ قرارداد لاہور میں “پاکستان” کا نام شامل کر لیا جائے ۔ چناںچہ ڈاکٹر باقر نے حمید نظامی اور میاں محمد شفیع کے ہمراہ قائداعظم سے رابطہ کیا اور ان سے “پاکستان” کا لفظ مجوزہ قرار دار میں شامل کرنے کو کہا تو قائد اعظم نے کہا :

نوجوانو! کیا تم وضاحت کر سکتے ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟

چناںچہ یہ تینوں نوجوان مایوس لوٹے ۔

قرارداد 1940ء

23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں وہ قرارداد منظور کی گئی جو “قرارداد پاکستان” کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ قرارداد بنگال کے وزیراعلیٰ اے ۔ فضل الحق نے پیش کی تھی ۔ اس کی تائید چودھری خلیق الزماں اور بعض دوسرے اصحاب نے کی جب کہ اجلاس کی صدار حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی ۔

قرارداد پاکستان منظور ہونے کی اطلاع پانے کے بعد چو دھری رحمت علی بے اختیار رب کے حضور سر بسجود ہوگئے ۔ اس طرح مسلمانوں نے طویل جدوجہد کے بعد قائداعظم کی قیادت میں آزاد اسلامی ریاست حاصل کر لی اور چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نام اس ریاست کو دیا ۔

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

jameel652007@yahoo.com

The post پاکستان… تصور سے حقیقت تک appeared first on ایکسپریس اردو.

تمہیں خبر ہے؟ 

$
0
0

تمہیں خبر ہے؟

کہ کتنی جانیں لُٹا کے ہم نے تمہاری خاطر وطن لیا تھا
ہر اِک خیاباں کو خون دے کر چمن گلابوں سے بھر دیا تھا

تمہیں خبر ہے؟

صحیفہ ہائے بنات کے جب غلاف مٹی میں رُل گئے تھے
درندگی کے قبیح ہاتھوں ورق ورق میں بدل گئے تھے

تمہیں خبر ہے؟

کہ کتنے اطفال ماں کی حرمت بچا کے خود جھاڑیوں کی جھولی میں سو گئے تھے
چراغ کتنے، جو وحشتوں کی اندھیر نگری میں کھو گئے تھے

تمہیں خبر ہے؟

کہ کتنی روحیں ازل سے جو تا ابد رواں تھیں
وہ برچھیوں سے کلام کرتے پلٹ گئی تھیں

تمہیں خبر ہے؟

جوان کتنے، نحیف کتنے، ضعیف کتنے
جو آگ دریا کو پار کر کے
مہاجرت کا عذاب سہتے
وطن کی مٹی پہ ہونٹ رکھے
نجانے کیا کچھ بتا رہے تھے

تمہیں خبر ہے؟

کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے پیچھے کتنی قیامتیں ہیں

تمہیں خبر ہے؟

تمہیں خبر ہی نہیں شاید!
تمہیں تو کچھ بھی خبر نہیں ہے

The post تمہیں خبر ہے؟  appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی 151؛ اردو اور ترکی کے لسانی روابط پر ایک نظر

$
0
0

 کراچی: راہ میں اُن سے ملاقات ہوئی 
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی

یہ منفرد شعر ترک شاعر جناب مصطفی ندیم (وفات:1931ء بمقام انقرہ) کا ہے جو تُرکی، فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ وہ 1903ء میں ہندوستان تشریف لائے اور 1913ء میں واپس عاز م ترکی ہوئے۔ یہ نمونہ کلام اُس دور کا ہے جب کلاسیکی اردو شاعری اپنے آخری دور میں تھی اور جدید غز ل نیز نظم کا غُلعُلہ تھا۔ اس شعر میں بھی اہل ہنر بہت کچھ تلاش کرسکتے ہیں، بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔

اب فطری طور پر یہ نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا وہ ایسے واحد ترک تھے جنھوں نے اردو میں شاعری کی، خصوصاً جدید دور میں؟ تو یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ اس سے قطع نظر، ایک اور بات بھی موضوع سے جڑی ہوئی ہر ایک ذہن میں آسکتی ہے ; قدیم لسانی تحقیق یا نکتہ آرائی میں عموماً عربی، ترکی اور فارسی کو، نیز کہیں کہیں سنسکِرِت کو اردو کی ماں کہا گیا تو کیا یہ بیان،جدید تحقیق کی روشنی میں درست ہے؟ بندہ اپنے محدودعلم کی بنیاد پر عرض کرتا ہے کہ اردو یقینا اس خطے یعنی برّ عظیم پاک وہند (برّ صغیر بھی گواراہے مگر بہتریہی) ہی کی پیداوارہے اور کوئی غیرملکی فاتح یا فاتحین اسے یہاں لائے نہ اسے تشکیل دیا، ہاں یہ درست ہے کہ تمام(غیر منقسم) ہندوستانی علاقوں (بشمول موجودہ پاکستان)میں مقامی زبانوں اور بولیوں کے اشتراک سے اَزخود، تیارہونے اور پروان چڑھنے والا لسانی ڈھانچہ اسی زبان کا تھا جسے علاقائی یا مقامی بنیاد پر مختلف اَدوارمیں مختلف ناموں سے پکارا اور نوازا گیا۔

Urdu 1

مذکورہ بالا چار زبانیں اِن معنی میں اردو کی ماں ہیں کہ اُن کا لسانی اشتراک،ہماری پیاری زبان سے بہت زیادہ ہے اور ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ، زبان وادب کے خزانے میں بھی اُن کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اب ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔ ایک فرسودہ اور بالتحقیق غلط قرارپانے والا نظریہ، یہ ہے کہ لفظ ’اردو‘ ترکی زبان سے ہمارے یہاں آیا۔

اس بابت خاکسار پورے پورے کالم لکھ چکا ہے، مگر کیا کیجئے کہ ہمارے اہل قلم شاذ ہی توجہ فرماتے ہیں۔ فاضل سنسکرت و ہندی،اردو /انگریزی ادیب،ڈاکٹر اَجے مالوی (الہ آباد، ہندوستان) کی ایک پوری کتاب(ویدک عہد اور اردو ادب) کی تحقیق کا نچوڑ ایک مرتبہ پھر نقل کرتا ہوں کہ اردو بطور لفظ، ترکی ہی نہیں، دنیا بھر کی متعدد زبانو ں سے صدیوں پہلے، سنسکرت سے بھی پہلے، قدیم ویدِک بولیوں میں مستعمل تھا۔ اس کے کثیر معانی میں کہیں اخیر (یہ آخر نہیں) میں جاکر، لشکر اور چھاؤنی بھی آتے ہیں (جو جدیدترکی میں عسکری اکادمی کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔بقول محقق اصغر حمید، اوردُو یعنی اردو کے جدید معانی میں فوج، لشکر، کیمپ اور عسکری قوت شامل ہیں);اس کے معانی ومفاہیم کا خلاصہ ہے: معرفت کی زبان، پہچان کی زبان، دل کی زبان۔

Urdu 3

اردو اور ترکی کے مابین لسانی تعلق اور روابط کی داستان یقینا ہماری لسانی تاریخ کا اہم باب ہے۔ جنوبی ایشیا اورتُرکی کے مابین فاتحین، شاہان، صوفیہ کرام، مبلغین، تُجّار اور عوام النّاس کے روابط اور اُن کی مسلسل آمد ورفت کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔اگر گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے صوبے بہِار پر قدیم زمانے میں ترک حکومت کرچکے ہیں، جبکہ مسلمان فاتحین کی اکثریت بھی ترک ہی تھی جن میں سلطان محمودغزنوی سے قطب الدین ایبک تک، پھر اُن کے جانشینوں کا سلسلہ،حتیٰ کہ نام نہاد مغل بھی شامل ہیں،دوسری طرف دکن پر حکومت کرنے والا قطب شاہی خاندان بھی ترک ہی تھا، جس میں مشہور شاعر بادشاہ قلی قطب شاہ بھی ہوگزرا ہے۔

Urdu 2

عظیم ترک خلافت عثمانیہ سے تعلق خاطر بھی ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔خلافت عثمانیہ کے آخری عہد میں صرف استنبول ہی سے تین اردو اخبارات، پیک اسلام، جہان اسلام اور اخوت کی اشاعت کا پتا ملتا ہے۔ہمارے شعراء میں دوعظیم شخصیات امیرخسروؔ اور میرزاغالبؔ تُر ک نژاد تھیں۔یہ نکتہ بہرحال ناقابل فراموش ہے کہ(علی شیرنوائی کے بعد) ترکی زبان کے دوسرے بڑے شاعر، ظہیرالدین میرزا محمد بابُر نے اپنے سوانح حیات، ترکی میں بعنوان ’تزک بابری‘لکھے (جومابعد، بابر نامہ کے نام سے عبدالرحیم خان خاناں نے فارسی میں منتقل کیے)، وہ فارسی کا بھی اچھا شاعر تھا،اُس کا مشہور مصرع ”بابُر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ ضرب المثل ہے، جبکہ قدیم اردو کے کچھ آثاربھی اُس کی تحریر میں ملتے ہیں۔اس کے بعد، شُدہ شُدہ مغلوں میں ترکی کا چلن کم ہوتا گیا اور وہ فارسی گو ہوگئے۔غالباً اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں میں کسی کو ترکی نہیں آتی تھی۔اس سارے پس منظر میں ہماری زبان کی تشکیل میں ترکی سے زیادہ فارسی کا حصہ، نیز مقامی زبانوں اور بولیوں کا حصہ کہیں زیادہ غالب ہوا۔

یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ترکی کا قدیم رسم الخط عربی وفارسی سے ہم آہنگ تھااور جب مصطفی کمال پاشا (اتاترک) نے اسے یکسر ختم کرکے لاطینی یا رومن رسم الخط رائج کیا(جو انگریزی سمیت متعدد یورپی زبانوں کا رسم الخط ہے)، تو پرانی ترکی (عثمانی یا عثمانلی)محض دینی مدارس تک محدودہوگئی تھی، جبکہ وسط ایشیا کی بعض زبانوں بشمول ویغور(چینی مسلمانوں کی زبان)میں یہ رسم الخط آج بھی موجود ہے۔گزشتہ چند عشروں میں پرانی اقدارکے احیاء کی دَبی دبی تحریک چلی تو عثمانلی ترکی کا سرکاری طور پر احیاء ہوا اور مجھے پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوق آر نے بتایاکہ اُن کی صاحبزاد ی نے اس قدیم طرز کے مطالعے میں باقاعدہ سند حاصل کی ہے۔(ہمارے یہ محترم ترک دوست، پاکستان کی معروف علمی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے داماد ہیں اور ان کی لسانی خدمات کا دائرہ محض اردو اور ترکی تک محدود نہیں، بلکہ وہ ہندکو زبان کے قواعد پر ایک تحقیقی کتاب بزبان انگریزی لکھ چکے ہیں جو امریکا سے شایع ہوئی اور غالباً دوسری مرتبہ نظر ثانی کے بعد بھی شایع ہوچکی ہے)۔

Urdu 4

جدید(رومن رسم الخط والے)ترکی حروف تہجی میں تین انگریزی حروف یعنی: X-W-Q موجود نہیں۔اسی طرح خالص عربی،حلقی آوازیں یعنی ’خ‘، ’غ‘ اور ’ق‘ بھی باقی نہیں، لہٰذا ایسے تمام نام خصوصاً اسمائے معرفہ کی ہئیت تبدیل ہوچکی ہے ;خالد کو حالد، خلیل کو حلیل، خلوان کو حلوان اور اسی طرح ’غ‘ درمیان والے ناموں میں سکتہ کیا جاتا ہے جیسے اوغلو کی بجائے اول۔لُو۔موجودہ ترکی زبان میں کم وبیش نو(۹)ہزار الفاظ اردو سے مشترک ہیں۔ایک محقق کے خیال میں اس اشتراک کی چار مختلف صورتیں یا پہلو ہیں۔بہت سے الفاظ عربی الاصل ہیں یا فارسی الاصل ہیں، جبکہ تجارت، جنگ اور دینی وتہذیبی روابط کی بناء پر بھی مخلوط بول چال کے سبب، اس اشتراک نے فطری طور پر جنم لیا۔ایک حصہ الفاظ کا وہ ہے جو اِملاء اور تلفظ کے فرق کے ساتھ،

عثمانلی ترکی سے جدید ترکی میں منتقل ہوا۔اب ذرا ایسے الفاظ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں:
/Baciباجی(بہن) Abaci (آپاجی)، Abiru (آبرو)، Abanoz (آبنوس)،Adap (آداب)، Adem (آدم)،
Asuda (آسودہ)،Asayis (آسائش)،Ordu(تلفظ:اوردو) یعنی اُردو، Insan(انسان)،Ilçi(سفیر، قاصد،ایلچی)،
Asli (اصلی)Eser (اثر، تاثیر)،Banka(بینک)Bahçe(باغیچہ)،Bahar(تلفظ: باہار)یعنی بہار،Payan(پایان یعنی نیچا یانچلا)،Peynir (تلفظ پی نیر) یعنی پنیر،Pasa(تلفظ:پاشا)یعنی مالک، صاحب(لقب)،Pantalon (پتلون)،
Teklif (تکلیف)،Terazi( ترازو)،Tebrik(تبریک یعنی برکت حاصل کرنا)، Tercih( ترجیح یعنی برکت حاصل کرنا)،
Cild (جلد)،Cim(تلفظ: جےِم: اردو کاجی یعنی ہاں)، Cevab (جواب)،çabuk(چابک)،çare(چارہ)،Çay(تلفظ: چائی یعنی چائے) hüzün(حزن یعنی غم: عربی الاصل)، hazir (حاضر)، His (حس)،Hat(تلفظ: حط یعنی خط)، mektup(مکتوب یعنی خط)،haber(خبر)،horsid (خورشید)،Hos(تلفظ:حوش یعنی خوش)، dost (دوست)،
dade(دادا)terzi(ترزی یعنی درزی)، davet (دعوت)،divane (دیوانہ)، rahat (راحت)، rüsvet (رشوت)، reng (رنگ)، zaman (زمان یعنی زمانہ)،Zor (زور)، ziyaret (زیارت)، sahil (ساحل)،
sade (سادہ)، sefer (سفر)، sinema (سینما)، çorba (شوربا)،serh(شرح)،Ask(اَشک یعنی عِشق ;قازقستان کا صدرمقام عشق آباد)،arvat(آروات یعنی عورت)، aciz (عاجز)، Fen (فن:اردو والا فن)، findik (فندک یعنی فندق;عربی میں بمعنی ہوٹل)، ferah (فرح)، kalem (کلم یعنی قلم)، geyçi (گے چی یعنی قینچی)، kism (کسم یعنی قسم)، kabiliyet (کابلیت یعنی قابلیت)،kitap (کتاب)، kebab (کباب)، kara (کارا یعنی کالا)(ماقبل کالا، کارا، قرہ پر زباں فہمی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں)، Gül (گل)، lakin (لیکن)،titreme(تترمے یعنی ٹھٹرنا،لرزنا)،mevsim (موسم)، mum (موم)، meger (مگر)، nefret (نفرت)، Ve (اور)، Her (ہر: اردو والا ہَر)، hava (ہوا)، Hint (ہنت یعنی ہند، ہندوستان)، yani (یعنی)، nergis (نرگس)،Baharat(بھا رات یعنی گرم مصالحے;

شاید گرم مصالحوں کے وطن بھارت کی نسبت سے)۔محقق سلیمان زارع کا کہنا ہے کہ ”ترکی اور اردو والوں کے در میان بہت زیادہ تہذیبی مشتر ک رسوم اور عادتیں پائی جاتی ہیں مثلاً بر صغیر اور ترکی والے دونوں خوش مزاج ہیں، دونوں مرچ بہت زیادہ کھاتے ہیں،خاص طور پر ترک ناشتے میں بھی، ترک، اردو والوں کی طرح اونچی آواز سے ہنستے ہیں،دونوں بہت محنتی ہیں“۔

ہرچند کہ تقسیم ہند سے قبل ہی ترکی اور اردو زبان کے درمیان ادبی اشتراک کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور اس ضمن میں تحریک رومان نگاری کے سَرخَیل، ممتاز ادیب، سجاد حیدریلدرم کی ترکی سے الفت دیدنی تھی جنھوں نے ترکی سے تراجم کرتے ہوئے افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور آج بھی اُن کے بعض طبع زاد شاہکار، درحقیقت ترکی ہی سے مستعار یا ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔اردو میں ترکی کے سفرناموں کا سلسلہ سفرنامہ آئینہ فرنگ از نواب عمر خان (1885)سے تاحال جاری ہے۔بعض نمایاں ناموں میں علامہ شبلی نعمانی کا سفرنامہ روم(یعنی ترکی)ومصروشام (1894)،سر شیخ عبدالقادر کا مقام خلافت،سفراستنبول کے حالات (1906)،عطاء الحق قاسمی کا شوق آوارگی(1970)اور مستنصر حسین تارڑ کا ”نکلے تیری تلاش میں“(1972)قابل ذکرہیں۔اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں پیش رفت،ترکی میں اردو زبان وادب کی تدریس سے ہوئی۔

اردوزبان کی باقاعدہ تدریس 1915ء میں اُس وقت شروع ہوئی جب استنبول کی جامعہ میں شعبہ اردو کی تشکیل ہوئی۔ درس تدریس کا یہ سلسلہ کامیابی سے ہم کنا ر ہوا اور آج تک بحسن وخوبی جاری ہے۔اس کے بعد ہمیں ایک طویل وقفہ نظر آتا ہے کسی دوسری جامعہ میں تدریس اردو کے آغاز تک1956; ء میں انقرہ یونی ورسٹی میں اس عظیم زبان کی تدریس کی ابتداء ہوئی اور پھر اُسی سال حکومت ِ پاکستان نے ”کرسی ئ ِاردو“ [Urdu chair]قائم کرکے اس کے صدرنشیں کا تقرر کیا۔ا س منصب پر فائز ہونے والی ممتاز علمی وادبی شخصیات میں ڈاکٹر داؤد رہبر، ڈاکٹر طاہر فاروقی، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر میاں مشتاق، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اورپروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف شامل ہیں۔

ان مشاہیر نے وہاں اردو کی تعلیم وترویج کے لیے تدریسی وتحقیقی خدمات انجام دیں اور ترک نژاد اساتذہ کے ساتھ مل کر، ایک ایسی علمی فضاء قائم کی کہ جس کی مثال کسی اور غیرملکی شعبہ اردومیں ملنا محال ہے۔ترکی کے شہر قونیہ کی جامعہ سلجوق میں بھی اردو کی تدریس وتحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ بقول ”ترکی کے بابائے اردو“ محترم اے بی (احمدبختیار)اشرف(پ:15 فروری 1935ء)،”اُردو کے حوالے سے تُرکی کی ان جامعات میں جتنا تحقیقی و تدریسی کام ہوا، دنیا کی کسی اور یونی ورسٹی میں نہیں ہوا“۔پچیس کتب کے مصنف، مؤلف، محقق، نقادوافسانہ نگار ڈاکٹر اے بی اشرف (تمغہ امتیاز یافتہ)کو ترکی میں اردو اور پاکستان کی خدمت انجام دیتے ہوئے چونتیس سال کاعرصہ گزرچکاہے(1988ء میں انقرہ یونیورسٹی میں تقرر)۔اُن کی اہم کتب میں ”غالب اور اقبال“،”سفرنامہ تُرکی“،”اُردو ڈرامہ اور آغا حشر“ اور اُن کے زیر اہتمام شایع ہونے والے تُرک افسانوں کے ایک مجموعے”ایک عورت“ کا اردو ترجمہ شامل ہیں۔ ترکی کے قومی ترانے کے خالق محمد عاکف ایرصوئے نے اپنے ہم عصر علامہ اقبال کو ترکی میں متعارف کرایاتھا۔

”تاہم میرے نزدیک سب سے اہم کام’اُردو تُرکی۔ تُرکی اُردو لغت‘(دوطرفہ)کی اشاعت ہے۔ اس سے قبل جو لغات مرتّب کی گئیں، وہ تُرکی، اُردو لغات تھیں“۔ڈاکٹر احمد بختیار اشرف صاحب نے برملا انکشاف فرمایا۔قارئین کرام!میرے لیے یہ سعادت ہے کہ موصوف اس وقیع لغت کی دوسری اشاعت پر،گزشتہ دنوں، ترکی سے مختصر قیام کے لیے ملتان واپس آتے ہوئے، ذاتی نسخے کے علاوہ، ایک نسخہ میرے لیے ہمراہ لائے اور مجھے ارسال کرکے ممنون فرمایا۔ڈاکٹر اشرف صاحب نے انکشاف کیا کہ”تُرک باشندے ویسے بھی پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور وہ اُردو اپنے شوق سے سیکھتے ہیں، تاہم علّامہ اقبال کے کلام نے اُن کے اِس شوق کو مزید بڑھاوا دیا۔ وہاں اُردو سیکھنے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

کئی شہروں میں تُرک اور پاکستانی طلبہ نے انجمنیں بنا رکھی ہیں، جن کی تقریبات اُردو اور تُرکی، دونوں زبانوں میں ہوتی ہیں۔نیز، تُرکی میں تعیّنات پاکستانی سفیروں نے اس معاملے میں ہر طرح سے تعاون کیا“۔اس لغت میں اُن کے معاون، اُنھی کے شاگرد عزیز ڈاکٹر جلال صوئیدان(ستارہ قائداعظم یافتہ)ہیں جو اَمیر خسرو، غالبؔ اور اقبالؔ کے عاشق ہیں اور اپنے استادگرامی ہی کی طرح متعدد کتب کے مصنف، مؤلف، محقق ومترجم ہیں۔انھوں نے دیوان غالب اور چارمجموعہ ہائے کلام علامہ اقبال کو ترکی میں منتقل کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا، دیگر کی تفصیل مستزا دہے۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحقیق، تصنیف، تالیف وترتیب وترجمہ کی یہ مسلسل مساعی دونوں ملکوں کو قریب لانے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوئی ہے، جبکہ ترکی کے ہندوستانی اردو اہل تحقیق سے روابط بھی مستحکم ہوئے۔

ترک صدر عزت مآب رجب طیب اُردوُان (قدیم تلفظ اردوغان، اردوگان)نے 15جولائی 2018ء کو ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے، بطور حوالہ،علامہ اقبال کے اس مشہور شعر کا ترکی ترجمہ، بڑے جوش سے پڑھا:
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون ِ صد ہزار اَنجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
(نظم ’طلوع اسلام‘، مجموعہ کلام: بانگ ِ درا)

مآخذ
1۔ترکی اوراردو زبان کے مشترک الفاظ از اَصغر حمیدایڈووکیٹ، حسن پور، ضلع جیوتی باپھولے نگر، یوپی (ہندوستان): 2006ء
2۔اردو اورترکی زبان کا تقابلی مطالعہ اَزسلیمان زارع (متعلم تہران یونیورسٹی)
3۔اردو کے ضرب المثل اشعار، تحقیق کی روشنی میں از محمد شمس الحق، کراچی: 2010ء
4۔” تُرکی، اُردو کا دوسرا وطن ہے“: ڈاکٹر اے بی اشرف(انٹرویو:رؤف ظفر)مطبوعہ روزنامہ جنگ،سنڈے میگزین مؤرخہ 23 فروری، 2020
5-ترک نژاد اردو دان، ڈاکٹر جلال صوئیدان۔تحریر:ڈاکٹر اے بی اشرف،مطبوعہ اخبار ِاردو، بابت جولائی 2012ء
6-”جلال صوئیدان کا پاکستان“ (کالم) از فاروق عادل ، مطبوعہ مؤرخہ (پیر) 17 اگست 2020
7۔ ترکی اور پاکستان کے ادبی روابط از ڈاکٹر خلیل طوق آر، مطبوعہ سہ ماہی ادبیات،شمارہ دوم، 2022ء (ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان)

The post زباں فہمی 151؛ اردو اور ترکی کے لسانی روابط پر ایک نظر appeared first on ایکسپریس اردو.

محرومیوں کی منجدھار میں پھنسے بلوچستان کے باصلاحیت نوجوان

$
0
0

 امریکی صدرابراھم لنکن کے مقولہ ’’لوگوںکی حکومت ،لوگوں کے ذریعے ،لوگوں کے لئے‘‘ کوجس طرح جمہوریت کی روح سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی ملک میں سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، سیاسی استحکام اور امن نوجوانوں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ جس کے حصول کے لیے یونیسکو کے اس نعرہ کو ایک رہنما اصول کی حیثیت حاصل ہے کہ ’’ نوجوانوں کے ذریعے، نوجوانوں کے ساتھ، نوجوانوں کے لیے‘‘( By youth, with youth, for youth )۔ یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جوکسی بھی ملک کے نوجوان طبقہ کو بااختیار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

کیونکہ وہ ممالک جہاںبرنا(نوجوانوں) کی صورت میں موجود انسانی وسائل کی کثرت ہے وہ ممالک آنے والے وقتوں میں دنیا کو لیڈ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اگر اُنھوں نے اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو یونیسکو اس رہنما اصول کے مطابق ڈھال لیاتو ۔

پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے جہاں آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس حقیقت کا ادراک تو سب ہی کو ہے۔ لیکن ملک میں نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اْن کے تناسب کے حوالے سے اکثرمختلف اعدادوشماراور بیانات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں ۔کہنے والے بڑی آسانی سے ملک کی آدھی آبادی یا کبھی تو اْس سے بھی زائد کو نوجوانوں کی آبادی قرار دے دیتے ہیں۔

یا پھر نوجوانوں کے Age groupکا تعین اپنے طور پر کرکے اْن کی آبادی میں رود و بدل کرتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا اُن فورمز پر بھی دیکھنے میں آتا ہے جہاں اس طرح کی غلطی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کے عمر کے گروپ کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حد نوجوانوں کی آبادی کے حقیقی تعین میں مدد کرتی ہے۔ دنیا میں دو ایج گروپس کو نوجوانوں کی آبادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک اقوام متحدہ کا متعین کردہ عمر کاگروپ دوسرا دولتِ مشترکہ کا۔

پاکستان میں 2017 میں ہونے والی خانہ و مردم شماری نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اُن کے تناسب کی جو حقیقت سامنے لائی ہے اِس کے مطابق وطن عزیز کی 27 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 15 سے29 سال کے درمیان ہے۔ عمر کے اس گروپ کو دولت ِمشترکہ نوجوانوں کی آبادی قرار دیتاہے۔ پاکستان سرکاری طور پر دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ Age group یعنی 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ 15 سے24 سال کی عمر کے افراد کو نوجوان آبادی کے زمرے میں لاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے طے شدہ نوجوانوں کے عمر کے گروپ کے لحاظ سے ملک کی 19 فیصد آبادی (نوجوانوں) پر مشتمل ہے۔یعنی ملک کو کا ہر چوتھا فرد دولت ِ مشترکہ کی تعریف کے مطابق اور ہرچھٹافرداقوام متحدہ کے متعین کردہ عمرکے گروپ کے لحاظ سے نوجوان ہے۔بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ جس کی آبادی کا25.4 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔یعنی ہر چوتھے فرد کی عمر15 سے29 سال کے درمیان ہے۔ وطن عزیز کے5.6 فیصد نوجوان بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

جبکہ صوبے کے52 فیصد نوجوان آبادی مردوں پر اور 48 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ صوبہ کے70 فیصد نوجوان دیہات میں رہتے ہیں اور 30 فیصد شہری علاقوں کے مقیم ہیں۔ بلوچستان جو ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ پسماندگی کا شکار ہے ۔ سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، توانائی کا بحران، بنیادی انسانی حقوق کی شکستہ صورتحال، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا ، روزگار کے محدودمواقع اوراُن کی غیر یقینی صورتحال ، صوبے کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات کی کمی کے علاوہ نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے کئی ایک عوامل یہاں کے نوجوانوں کوبااختیار بنانے کی راہ میں نمایاں رکاوٹ ہیں۔

تعلیم یافتہ اور ہنر مندنوجوان ہر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ جو قوموں اور معاشروں کی ترقی کو مہمیز کرتے ہیں۔تعلیم یافتہ نوجوان اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ باخبر ہوتے ہیںاور اِن حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم نوجوانوں کو اہم مہارتیں، تنقیدی سوچ اور اعتماد فراہم کرتی ہے جو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ہر ایک کو توانا بنیادیں مہیا کرتی ہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم تک رسائی، معیار اور استطاعت کے لیے کی جانے والی کوششیں ترقی کے عمل میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔لیکن اسے بلوچستان کی بدقسمتی کہیئے کہ صوبے کے تو 51 فیصد نوجوان ناخواندہ ہیں۔

جو فاٹا کے بعد سب سے زیادہ تناسب ہے۔ پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ صوبے کے 40 فیصد مرد نوجوان اَن پڑھ ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی 62.5 فیصد نوجوان خواتین لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں یہ تناسب فاٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جب آپ کے آدھے نوجوان جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوں تو آپ کیسے سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، سیاسی استحکام اور امن حاصل کرکرسکتے ہیں؟ شاید بلوچستان جس کیفیت سے گزر رہا ہے اُس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلیم کے دھارے سے دور ہونا ہے۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی آج کی دنیا مقابلہ کی دنیا ہے جہاں اعلیٰ سے اعلیٰ جدید تعلیم اور ہنر میں مہارت ہی آپ کو آگے بڑھنے اور اپنامقام حاصل کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ کیونکہ لیبر مارکیٹ میں کامیابی سے داخل ہونے کے لئے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹریننگ بہت ضروری ہے ۔اس حوالے سے بلوچستان کی جو صورتحال مردم شماری کے نتائج کی صورت میں سامنے آتی ہے۔اس کے مطابق 15 سے29 سال کی عمر کے ایسے نوجوان جو رسمی تعلیمی عمل کا حصہ بنتے ہیں اُن کا11 فیصد پرائمری بھی پاس نہیں۔18.6 فیصد نے پرائمری مکمل کی ہوئی ہے۔

22.4 فیصد مڈل، 25.5 فیصد میٹرک پاس ہیں ۔ لیکن جیسے ہی کالج کی سطح کی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے تو صورتحال ہر درجہ کے ساتھ ساتھ تنزلی کی جانب بڑھنے لگتی ہے۔ صوبے میں رسمی تعلیم ( Formal Education) حاصل کرنے والے کل طلباء کا صرف 11.7 فیصد انٹرمیڈیٹ، 6 فیصد گریجویشن اور 2 فیصد ماسٹر کی سطح تک کی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔صوبے میں کالج سے یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کی کم تر شرح بہت سے سولات کو جنم دیتی ہے۔

٭ڈاکٹر شفیق الرحمان ، وائس چانسلر جامعہ بلوچستا ن، جو کہ خود ہیومن ریسورس منجمنٹ میں بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ صوبہ میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم میں طلبا ء کی کم تعداد کے داخلہ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔’’ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت اور پسماندگی ہے۔ مالی حالات ابتر ہونے اور خاندانی کنبہ کا بڑا ہونا دو بڑی وجوہات ہیںجسکی وجہ سے طلباء ذریعہ معاش کے حصول کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور یونیورسٹی تعلیم کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ شعور اور آگاہی کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے‘‘۔صوبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت کے تناظر میں ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہے ۔ کہ ’’ سی پیک کا صوبے کی ترقی میں اہم کردار ہے جس کے لیے ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورہنر مند نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔

اسی طرح معدنیات اور فشریز ہمارے ایسے ایریاز ہیں جہاں پر پڑھے لکھے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ جو یونیورسٹی ایجوکیشن کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ پیشہ وارانہ شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کا کردار بہت اہم ہے‘‘۔ اس صورتحال میں پھر توجہ کس پہلو پر دی جائے طلباء کی تعداد بڑھانے پر یا یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر؟۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ’’ہمارا صوبہ تعلیمی معیارکے حوالے سے کافی حد تک پیچھے رہا ہے۔

صوبے کی ترقی صرف اور صرف تعلیم بلکہ معیاری تعلیم سے منسلک ہے۔ بلوچستان جیسے غریب اور پسماندہ صوبے میں جہاں جامعات کی تعداد پہلے ہی محدود ہے۔ اِنھیں سب سے پہلے تعلیمی معیار کی بہتری کی طرف جانا چاہیئے۔ کیونکہ اسی طرح ہم انٹرنیشنل اور نیشنل اسٹینڈرڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ہمارے معیار تعلیم میں بہتری آئی ہے۔ اب ہمارا جوان انٹر نیشنل مارکیٹ میں اپنے پیٹنٹ کے ذریعے انٹر ہورہا ہے۔ اسکی مثال یہ ہے کہ ہمارا جوان سمارٹ ہیلمٹ فار مائنز کے پیٹنٹ کے ساتھ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی جگہ بناچکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری جامعات کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔ جوکہ خوش آئند ہے۔ جس کی بڑی وجہ صوبے میں تعلیمی معیار میں بہتری کا آ نا ہے۔ مگر اب بھی اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں اپنی جامعات کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔صوبے میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم سب کے لیے کو ایک بڑا چینلج قرار دیتے ہوئے وی سی بلوچستان یونیورسٹی کو کہنا ہے کہ’’ ایسا صرف آگاہی اور شعور کی بیداری س کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ تاکہ یہاں کا نوجوان تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کرکے اپنے خاندان کی کفالت کا باعث بن سکے۔ انٹر پرینیور شپ اور اس جیسے نئے تعلیمی مضامین ہی واحد ذریعہ ہوسکتے ہیں۔

جو ان چیلنجز کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں‘‘۔صوبے کی محدود جاب مارکیٹ کیا جامعات سے فارغ التحصیل تمام طلباء کو اپنے اندر ضم کرسکے گی؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارا صوبہ ہر جوان کو ملازمت فراہم نہیں کرسکتا بلکہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ محدود جاب مارکیٹ نہ ہی اپنے اندر اتنی گنجائش رکھتی ہے۔ کہ سب کو اپنے اندر سمو لے۔ اس چیز پر نظر رکھتے ہوئے۔ جدید فنون اور فنی تعلیم اسکا واحد حل ہے۔ Entrepreneurship کے نظریہ کی وسعت اور عملی کورسز کی شروعات ایسے تمام عوامل ہیں جو یہاں کے نوجوانوں کو بیروزگاری کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ جس سے ہمارا جوان نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار دے گا اور مایوسی اور ڈپریشن کے اندھیروں سے نکل پائے گا‘‘۔

جیسا کہ وائس چانسلرجامعہ بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کے کم داخلوں کی ایک وجہ صوبے میں جامعات کی محدود تعداد بھی ہے۔ جو 2018-19 تک کے دستیاب اعدادوشمار کہ مطابق صرف9 ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق انٹر، ڈگری،کامرس اور پوسٹ گریجویٹ کالجز کی تعدادصرف136 ہے۔ 27 پروفیشنل کالجز میں موجود ہیں۔7 کیڈیٹ کالج ، 4 ریزیڈینشل کالج اور30 ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اس کے علاوہ موجود ہیں۔یعنی صوبے میں نوجوانوں کے لیے میٹرک سے اوپر کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کل213 تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اب اس صورتحال میں مسابقتی دنیا میں بلوچستان کے نوجوانوں کا کتنا حصہ اور مقام ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔

٭ صوبے میں کالج کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کی کم دلچسپی کے مختلف عوامل اور اِن کو دور کرنے کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کے بارے میں بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز کی جوائنٹ ڈائریکٹر شبانہ سلطان سے بات کی تو اُنھوں نے بتا یا کہ ’’بلوچستان میں زیادہ تر آبادی دیہی ہے اور شہری آبادی کا تناسب کم ہے۔

لہذا دیہی آبادی میں رہنے والے بچوں کے لیے انٹر میڈیٹ اور بیچلر کی سطح پر پڑھنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں پرائمری ایجوکیشن اور مڈل تک کی تعلیم کے مواقع بھی کم ہیں خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ۔ اور جو چیدہ چیدہ اسکولز ہیں وہ دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں فاصلہ زیادہ ہے۔ لہذا بچے/ بچیاں اس سلسلے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ اور فرض کریں کہ اگر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء انٹرمیڈیٹ میں داخلہ چاہتے ہیں تو اُنہیں کسی شہری علاقے میں سفر کرنا پڑے گا اور داخلہ مل جانے کی صورت میں اُنکی رہائش کا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

کیونکہ شہروں میںجو کالج ہیں اُن میں ہوسٹل کی سہولیات نا کافی ہیں۔ ایک حد تک تو اُن میں بچوں کی رہائش کا انتظام ہوسکتا ہے لیکن سب کے لیے ممکن نہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں زیادہ تر آبادی غربت سے دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں خاندانوں کے لیے نان شبینہ ایک بڑا مسئلہ بنادیا ہے وہاں اُن کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بنا دیا ہے‘‘۔ صوبے میں کالج سطح کی تعلیم سب کے لیے اس چیلنج کو کیسے پورا کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’ اسکول میں تعلیم کے لیے تو یہ نعرہ موجود ہے ہی کہ ’’ تعلیم سب کے لیے‘‘ لیکن اب ایک اور نعرہ بھی ہونا چاہیئے کہ ’’ کالج کی تعلیم سب کے لیے‘‘ لیکن یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب پرائمری اور سیکنڈری اسکول تک کی تعلیم سب کی پہنچ میں ہو۔

اس کے علاوہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے چاہیئے تاکہ لوگوں میں غربت کم ہو۔ جن علاقوں میں مڈل اسکولز ہیں اُنھیں ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولز کا درجہ دینا چاہیے۔ کالج کی سطح پر تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈ مختص کرنا چاہیئے۔

کیونکہ ایجوکیشن سیکٹر پلان میں ہائر ایجوکیشن کے لیے بالکل بھی پراجیکٹس نہیں ہیں‘‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ’’ پرائمری ایجوکیشن کے فروغ کے لیے تو بہت ساری این جی اوز بھی حکومت کے ساتھ ساتھ کام کر رہی ہیں لیکن ہائر ایجوکیشن کے معیار کو بڑھانے اور ان کے مسائل کو کم کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ کوئی بھی ادارے / تنظیمیں کام نہیں کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیسیف، ورلڈ بینک کے ہائر ایجوکیشن کے لیے بھی پراجیکٹس ہونے چاہیئے‘‘۔پروفیسر شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’جہاں پر کالجز موجود ہیں ان میں انسانی وسائل اور انفراسٹرکچر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

کیونکہ اگر سہولتیں اور ضروریات نہ ہوں تو طلباء خاص کر بچیوں کا ڈراپ آؤٹ بڑھ جاتا ہے۔اس حوالے سے حکومتی سطح پر قابل عمل پلاننگ کی ضرورت ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو بھی اکثر پلاننگ ہوتی ہے وہ زمینی حقائق کو جانچے اور جانے بغیر کی جاتی ہیںجس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انٹر کالجز بنانے کے بجائے جہاں جہاں پر انٹر کالجز موجود ہیں اُنھیں ڈگری کا لجز کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ وہاں اسٹاف کی کمی کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔

صوبے میں کالج کی سطح کی تعلیم کے فروغ اور اُس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں جوائنٹ ڈائریکٹر بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت کالجز کی سطح پر تعلیمی سہولیات فراہم کر نے میں پر عزم ہے۔ اور اس سلسلے میں سنجیدگی سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ جن میں طالب علموں کے لیے اسکالر شپس کے زیادہ سے زیادہ مواقع قابلِ ذکر ہیں۔ دوسرے صوبوں کے کالجز میں صوبہ بلوچستان کے طالب علموں کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جوکہ قابلِ تحسین ہے۔

کالجز میں انفراسٹرکچر کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔ جبکہ ایک اہم اور قابلِ ذکر قدم سالانہ امتحان کی جگہBS کا فروغ ہے جو کہ سمسٹر سسٹم ہے اور انٹرنیشنل سطح پر قابلِ قبول ہے۔ کالجز کے لیکچررز اور پروفیسرز کو ایم فل/ پی ایچ ڈی کے لیے زیادہ سے زیادہ NOC دیئے جارہے ہیں۔ تاکہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھاسکیں۔ اسٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لیکچررز کی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ جسکا ثبوت گزشتہ سال 700 نئے لیکچررز کی بھرتیاں قابلِ ذکر ہیں۔ نئے لیکچررز کے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اپنی تعیناتی کے فوراً بعد پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرکے اپنی اہلیت اور قابلیت بڑھائیں تاکہ طلباء کو بہتر انداز میں پڑھا سکیں‘‘۔

ان تعلیمی حالات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ چند دیگر تلخ زمینی حقائق جن میں صوبے میں صنعتوں کا فقدان، روز بروز پانی کے کم ہوتے وسائل کی وجہ سے زراعت کامحدود ہوتے جانا، صوبہ کے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے سود سے پاک آسان شرائط پر قرض کی فراہمی میں کمی، کاروبار کی عملی تربیتی مواقعوں کا قابلِ ذکر نہ ہونا وغیرہ۔ یہ مسائل صوبہ میں بے روزگاری اور انڈر ایمپلائمنٹ کا پیش خیمہ بنتے ہوئے نوجوانوں کے معاشی مسائل پر منتج ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے نوجوانوں کی بہت کم تعداد کو بیرون ملک کام کے مواقع مہیا ہوپاتے ہیں کیونکہ اعلیٰ معیاری تعلیم اورجدید ٹیکنیکل ٹریننگ سے اکثریت کی محرومی اِنھیں بیرون ملک ملازمت سے بھی دور رکھے ہوئے ہے۔یوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں اور زیادہ تر کاانحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے لیکن ان تمام زمینی حقائق کے برخلاف وفاقی ملازمتوں میں صوبے کا کوٹہ صرف6 فیصد ہے۔ یہ صورت حال ایک مربوط یوتھ ایمپلائمنٹ سٹریٹیجی کا تقاضا کرتی ہے تاکہ صوبے میں نوجوانوں کی بے روزگاری پر واضح اثر پڑے۔

لیکن فی الحال صورت حال چھٹی خانہ و مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق یہ ہے کہ صوبے کے 15 سے29 سال کی عمر کے 18 فیصدافراد کام کرتے ہیں جن میں گھریلو غیر اُجرتی معاونین(% of WORKED (INCLUDED UN PAID FAMILY worker)) بھی شامل ہیں۔ یہ شرح پاکستان بھر میں سب سے کم ہے۔جبکہ اسی عمر کے گروپ کے10.2 فیصد کام کے متلاشی (% of SEEKING WORK)ہیں۔ یہ تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

اگر ہم مرد نوجوانوں کی صورتحال دیکھیں تو صوبے کہ صرف 31.2 فیصد کام کررہے ہیں جو ملک میں سب سے کم تر شرح ہے جبکہ 17.1 فیصد کو کام کی تلاش ہے جو ملک میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ خواتین کے حوالے سے حقائق بھی بہت دلخراش ہیں کہ صوبے کی صرف 3.6 فیصد نوجوان خواتین کام کرتی ہیں جن میں گھریلو غیر اُجرتی معاونین بھی شامل ہیں جو پورے ملک میں سب سے کم ترین شرح ہے جبکہ کام کی متلاشی خواتین کا تناسب 2.7 فیصد ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

٭پروفیسر توصیف اختر، شعبہ معاشیات جامعہ بلوچستان کے سابق سربراہ ہیں اس کے علاوہ آپ پلاننگ کمشن آف پاکستان کے بلوچستان سے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ بلوچستان میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان میں نوجونوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے پہلے تو دستیاب وسائل اور حالات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ایک تو بلوچستان میں زراعت اور انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔ روز بروز پانی کی کم ہوتی مقدار نے صوبے میں زراعت اور مال داری کے لیے سنگین چلینجز پیدا کر دیئے ہیں۔

اس لیے صوبے میں روزگار کا زیادہ تر انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے۔ صوبائی ملازمتیں محدود ہیں جبکہ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ 6 فیصد ہے۔اس کے علاوہ صوبے کے نوجوانوں کو کاروباری وسائل(آسان قرضہ جات ) اور تربیت کی بھی کمی کاسامناہے۔ بیرونِ ملک روزگار کے حصول کے لیے صوبے کے نوجوان جدید تعلیمی لحاظ سے اور جدید فنی مہارتوں کے اعتبار سے ابھی کافی پیچھے ہیں۔ کلائیمیٹ چینج نے صوبہ کو قدرتی آفات کے سامنے اور زیادہ vulnerable بنا دیا ہے۔ یہ وہ معروضی حالات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے Avenues تلاش کرنا ہوں گے۔

سب سے پہلے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک میں نوجوانوں کے روزگار کی ذمہ داری مکمل طور پر حکومت نہیں لے سکتی ۔پرائیویٹ سیکٹر بھی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا صوبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو کاروبار کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہوں گی تاکہ نوجوانوں کے لیے جاب مارکیٹ بڑھ سکے۔ ماضی میںصوبائی اور وفاقی حکومتوںکا کوئی فعال کردار نہیں رہا کہ بلوچستان دوسرے صوبوں کے برابر آسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے سرداری نظام نے بھی بلوچستان کو پیچھے رکھا ہے۔

یوں عمل کے فقدان کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوان آج بھی محرومیوں کا شکار ہیں وہ محنت بھی کر رہے ہیں لیکن اُنھیں وہ سب کچھ نہیں مل رہا جن کے وہ حقدار ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ اب ہم تھوڑا Change of Faculty  کی جانب جائیں ۔صرف چند ٹریڈز اور ایک جیسے طالب علم پیدا کرنے یا بنانے سے ہمیں مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجیز اور نئے ڈسپلنز کو علمی اور تربیتی سطح دونوں پر متعارف کرانا ہوگا۔ خصوصاً بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے ۔

اس لیے ہمیں منرل اور مائننگ کے نئے ڈسپلنز اور فنی تربیت کا فروغ دینا ہوگا۔ اسی طرح فشریز کے شعبہ میں بھی کچھ ایسی ہی اپروچ کی ضرورت ہے۔ کمپیوٹر،آئی ٹی، سافٹ وئیر ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی، آرٹیفیشل انٹیلجنس جیسے بے شمار ایسے شعبہ جات موجود ہیںجن میں جدید کورسز اور تربیتی مواقعوں کو ہی اگر فوکس کرلیا جائے تو صوبے سے غربت اور بے روزگاری کو جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کو آپ اِن شعبہ جات کی تعلیم ، تربیت اور کاروباری وسائل کے حوالے سے Hub صوبہ ڈیکلئیرڈ کردیں۔ تاکہ بلوچستان کے طلباء کے لیے جاب اور کاروباری مارکیٹ میں وسعت لائی جاسکے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے نوجوانوں کی بیرونِ ملک ملازمتوں کے حصول پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے وکیشنل ٹریننگ کے جدید کورسز کے ذریعے بلوچستان کے نوجوان کو اس انداز میں ہنر مند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں عالمی معیارات کے مطابق اپنے ہنر کا استعمال کرسکتا ہے۔ رہی بات قرضہ جات کی فراہمی کی اس میں دو پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں نوجوانوں کو اپنا کام شروع کرنے کے لیے دیئے گئے قرضہ جات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اور بینکوں کاریکوری ریٹ بھی بہت کم رہا اس لیے بینک اب اس طرح کی اسکیمیں متعارف کرانے میں حیل وحجت سے کام لیتے ہیں دوسرا بلوچستان کے علاقائی ماحول میں اکثر سود ی اُمورسے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے صوبے میں نئے کاروبار کے قرضہ جات کے موثرنہ ہونے کی۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی ایسی صورت نکالی جائے جو بینک اور صوبے کے رسم و رواج سے مطابقت رکھتی ہو۔

اور سب سے اہم نوجوانوں کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کو یقینی بنایاجائے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو متوسط طبقہ کے ایسے نوجوانوں کو آگے لانا چاہیئے جن کے اندر پوٹینشل موجود ہے جو صوبے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں stakeholder سے مشاورت کا لازمی اہتمام کیاجائے‘‘۔

نوجوان اس لیے اہم ہیں کہ وہ ہمارا مستقبل ہیں۔ آج وہ ہمارے شراکت دار ہیںتو کل وہ لیڈر بنیں گے۔فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اگرچہ وہ کسی بھی ملک یا علاقہ میں سیاست اور اقتدار کا نقشہ تبدیل کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ انتخابی عمل میں نوجوانوں کی بطور نمائندہ اور ووٹر دونوں طرح سے شرکت بہتر قیادت کو سامنے لانے کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں تو بھر پور دلچسپی لیتی ہیں لیکن نوجوانوں کو پارلیمنٹ میں لانے کے حوالے سے کسی واضح پالیسی کے فقدان کا شکار ہیں۔

اور نوجوان قیادت بھی صرف سیاسی جماعتوں کے ایک انتخابی نعرہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ پارٹی منشوروں میں نوجوانوں کو الیکشن میں ٹکٹس دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس سے متضاد ہے۔نوجوانوں کی صلاحیتوں پر عدم اعتماد اور نوجوانوں کے امور خاص کر سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں اْن کی شرکت کو یقینی بنانے میں ارباب اختیار کی دلچسپی کا فقدان نوجوانوں کو انتخابات میں اپنا حق رائے دہی کے استعمال سے دور رکھتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت نوجوان ووٹر کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ الیکشن کمشن آف پاکستان کے اِن اعداوشمار سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے تجزیہ کے مطابق 4 نومبر2021 تک صوبے کے رجسٹرڈ ووٹرز کے 22 فیصد کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے۔ جو صوبے میں عمر کے گروپ کے حوالے سے ووٹرز کادوسرا بڑا تناسب ہے جبکہ پہلے نمبرپر26 سے 35 سال کی عمر کا گروپ ہے جو کل صوبائی رجسٹرڈ ووٹرز کا 27 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان سیاسی عمل میں شامل ہونے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں۔

اور اس طرح کے کسی بھی فیصلے کو رسک قرار دیا جاتا ہے اور کوئی بھی پارٹی انتخابات میں اس طرح کا رسک لینے سے کتراتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین کی تعداد میںجن4 4 ممبران کی تاریخ پیدائش اسمبلی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے ۔ ان میں سے صرف3 ارکان کی عمر 2018 کے انتخابات کے وقت29 سال یااس سے کم تھی۔

بلوچستان میں نوجوانوں کا ایک اورغور طلب پہلو یہ ہے کہ صوبے میں موجود نوجوانوں کا 43 فیصد شادی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے۔مرد نوجوانوں کا 33 فیصد اور خواتین جن کی عمر 15 سے29 سال کے درمیان ہے اُن کا 54 فیصد اور15 سے 24 سال کی عمر کی لڑکیوں کا 41.5 فیصد شادی شدہ ہے۔

اور یہ سب تناسب فاٹا کے بعد ملک بھر میں دوسرے نمبر پر ہیں۔اس وقت صوبے میں 15سے24 سال کی عمر (ماں بننے کا سب سے زیادہ متحرک عمر کا گروپ ) کی خواتین کے تناسب کا اگر ہم جائزہ لیں تو صوبے کی تمام خواتین کی تعداد کا18.2 فیصدہے یعنی صوبے کی ہر چھٹی خاتون اس گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ 15 سے 29 سال کی عمر کی خواتین صوبے میں موجود خواتین کی کل آبادی کے 25.4 فیصد پر مشتمل ہیں۔صوبے کی تقریباً ایک چوتھائی تعدادپر مشتمل نوجوان خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرتی رویئے بھی قابل توجہ ہیں۔ انھیں آگے بڑھنے کے کم مواقع مہیا کرنا اور ایسا کرنے کی بنیاد ان کی شادی کو بنانا ہمارا ایک عمومی طرزعمل بن چکا ہے۔

کیونکہ کافی قابل اور لائق بچیوںکی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے اور پھرکم عمری میں ماں بننا بچیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اْن کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اور آئی سی ایف کے پاکستان مٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 (PAKISTAN MATERNAL MORTALITY SURVEY 2019) کے مطابق بلوچستان میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی تعداد 298 فی لاکھ کیسزہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔جس کی ایک نمایاں وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے مخصوص قبائلی ماحول میں خواتین کے علاج اور خاص کر زچگی کے کیسز میں اکثر مرد حضرات خواتین کو کسی مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے ہر صورت میں گریز کرتے ہیں یہ طرز عمل صوبے میں لیڈی ڈاکٹر ز کی زیادہ تعداد کی صحت کے اس خاص شعبے میں موجودگی کو بڑھا دیتا ہے لیکن حقیقت ضرورت کے برعکس ہے ۔

حکومت بلوچستان کے ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2018-19 میں صوبہ میں خواتین ڈاکٹرز کی تعداد محض 538 تھی جو صوبہ کے ڈاکٹرز کا صرف 22 فیصدتعداد ہے۔ اور اس کمی کی سب سے بنیادی وجہ بھی لڑکیوں کو ڈاکٹری پڑھنے کے بعد پریکٹس کی اجازت نہ دینا اور اُن کی شادی کردینا ہے۔اور جو لیڈی ڈاکٹرز پریکٹس کرتی بھی ہیں تو اُ ن کی اکثریت کوئٹہ شہر میں ہی موجود ہے صوبے کے دیگر علاقوں میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔

سماجی و ثقافتی حوالوں سے اگر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میںعورت کو صحت کی سہولتوں تک رسائی سے قبل خاندان کے افراد کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ان کی حیثیت گھر میں ہمیشہ کمتر فرد کی سی ہوتی ہے۔ ان کی خود مختاری کے فقدان اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی عدم شرکت عورتوں کی صحت اور حاملہ ہونے کے لئے سنجیدہ نتائج کا باعث بنتی ہے۔ ثقافتی اقدار کی وجہ سے عورت کی کم سماجی حیثیت انہیں صحت کی سہولتوں تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔

جو ماؤں کی بلند شرح اموات اوردیگر بیماریوں کا شکار ہونے کی بڑی وجہ ہے۔اس کے علاوہ ناخواندگی کی وجہ سے دیہی علاقوں کی عور تیں مانع حمل ادویات اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے بھی عموماً نا بلد ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں شر ح بارآوری زیادہ ہے۔پاکستان سوشل اینڈ لیوونگ اسٹینڈرڈز میزرمنٹ سروے2019-20 کے مطابق بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 15 سے24 سال کی عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح صرف31 فیصد ہے۔ جبکہ صوبائی سطح پر یہ شرح40 فیصد ہے جو وطن عزیز کے تمام صوبوں میں سب سے کم شرح ہے اسی طرح مجموعی طور پر صوبے میں نوجوانوں(15 سے24 سال) میں شرح خواندگی صرف 57 فیصد ہے جوملک بھر میں سب کم تر شرح ہے۔

نقیب اللہ خالدبلوچستان کے ضلع پشین کی تحصیل برشور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مخصوص اسکالر شپ پر گجرات یونیورسٹی سے ایم اے ابلاغیات کرچکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر عملی صحافت سے منسلک ہیںفیس بک پر اور یوٹیوب پر اپنا نیوز شو کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایسوسی ایشن پاکستان کے ترجمان ہیںخود بھی نوجوان ہیں اور بے روزگار بھی ہیں۔ اپنے صحافتی پراجیکٹس کے سلسلے میں نوجوانوں سے ملتے رہتے ہیں۔ مختلف امور پر صوبے کے نوجوانوں کا نقطئہ نظر جاننے اور اسے رپورٹ کرنے کے آپ کو بہت سے مواقع ملتے رہتے ہیں۔بطور طالب علم اِنھیںبلوچستان کے علاوہ پنجاب میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ دونوں کے تعلیمی معیار کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ بلوچستان اور پنجاب کے تعلیمی نظام میں بہت فرق ہے۔

بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی رونمائی موجودہ حالات میں نہیں ہوئی یا اگر ہوئی بھی ہے تو بالکل اوائل میں ہے۔ پنجاب میں تعلیمی نظام بہت ہی دوستانہ سہولیات سے بھراہوانظام ہے جسمیں طلباء بھرپور طریقے سے مستحکم ہو کر خوش اسلوبی کے ساتھ نہ صرف اپناتعلیمی کیریئر کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنے حصے کا دیا جلا کے ملکی دانشوروں کے ہم نام ہو جاتے ہیں‘‘۔

کیا بلوچستان کے نوجوانوں کو ملک کی دیگر جامعات میں تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے چاہیئے؟ ۔ اس سوال کے جواب میں نقیب اللہ کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان ایک بہت ہی پسماندہ صوبہ ہے ملک کے ہر جامعہ میں بلوچستان کے طلباء کو پڑھنے کیلئے مواقع میسر ہونا لازمی ہے ، ایک تو یہ طلباء باہر سے پڑھ کر بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہترین کارکردگی اداکر سکتے ہیں ۔دوسری طرف مختلف لوگوں کی بنائی ہوئی Mind Setکا قریب سے مشاہدہ کر کے اپنی سوچ و فکر کے ذریعے ملکی ترقی کیلئے کمر بستہ ہو سکتے ہیں۔

ملک کی دیگر جامعات میں پڑھنے سے بلوچستان کے طلباء کو مختلف تہذیبوں کا مطالعہ اور نزدیک سے مشاہدہ کرنے میں بہت آسانی ہو سکتی ہے یہی مطالعے اور مشاہدات خود بخود بلوچستان کے طلباء کی سوچ و فکر میںترقی یافتہ تبدیلی کا محرک بنے گا۔ یہ عمل پنجابی،سندھی اور دیگر اقوام کے ساتھ یگانگت اور ہم آہنگی اور بالخصوص ملکی ترقی میں دوسرے صوبوں کے طلباء کے ساتھ ہم صف ہونے کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ملک کے دیگر جامعات میں پڑھنے سے بلوچستان کے طلباء دنیا کے ساتھ ربط پیدا کرنے کافی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ پنجاب سندھ اور کے پی میں پہلے ہی سے لوگ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ میں ہیں‘‘۔بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ بلوچستان کے نوجوان باہمت ،باصلاحیت اور مستقل مزاج ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملکی معیشت کو بدلنے والے صوبے کے نوجوان زیادہ تر بے روزگار ہیں۔ سہولیات کی عدم دستیابی، انٹرنیشنل لابیز ، صوبائی سطح پر نوجوانوں کی بطور سیاسی لیڈرشپ کی عدم موجودگی، بلوچستان کے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بغض و تنگ نظری ، قبائلیت ، سرداری ،ملکی اور خانی نظام، اپنے ساحل اور وسائل پر عدم حاکمیت کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوان شدید محرومیوں کا شکار ہیں اور اُن میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوان قانون شکن بنتے جارہے ہیں کیونکہ بے روزگاری میں کوئی بھی انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔

ان سارے مسائل کے حل کیلئے سب سے پہلے بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا پڑے گاہر ایک کو اپنے کام اور پیشے کے ساتھ مخلص ہوکر ملکی تعمیرات کو اپنا سمجھ کر آئیندہ نسلوں کیلئے حُب الوطنی کا ثبوت دینا ہوگا۔ دوسری طرف ملک کے بڑے صوبوں اور حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کیلئے فی الفور کار آمد اصلاحات پر علمدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل ،معدنیات ،انٹرنیشنل روٹس میں بلوچستان کا حصہ مختص کیا جائے، تعلیم، صحت ، معیشت کے نظام میں بہتری ، اچھی سیاسی لیڈر شپ اورنوجوانوں کو باہر کے ساتھ جوڑکر ان سارے مسائل کو حل کیا جاسکتاہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ان تمام چیزیں پر حقیقی معنوں میںمخلصانہ بنیادوں پر عمل کیا جائے‘‘۔

صوبے میںغربت بھی ایک بڑی وجہ ہے جو بلوچستان میں تولیدی صحت کی سہولیات اور ان سے استفادہ کے رجحان کی بد حالی کا باعث بن رہی ہے۔ غربت زدہ علاقوں میں اکثر اوقات عورتیں مردوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔بلوچستان کے دیہی علاقے غربت کی زیادہ لپیٹ میں ہیں جہاں لوگ احساس محرومی کا شکار ہیں کہ نہ تو روزگار بہتر ہے اور نہ ہی اجرت معقول ہے۔

صحت کی موزوں سہولتیں بھی میسر نہیں۔ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں اور نہ ہی نکاسی آب کا نظام ہے۔ تعلیمی سہولیات بھی ناکافی اور زیادہ تر غیر معیاری ہیں۔اِن سہولیات کی دستیابی اور معیار کے حوالے سے خصوصاًصوبے کے دیہی عوام کے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ جس کا واضح ثبوت ملٹی ڈائمینشن پورٹی اِن پاکستان نامی رپورٹ میں موجود ہے جس کے مطابق 2014/15 میں بلوچستان کے دیہی علاقوں کی 84.6 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت کا شکار تھی جو ملک کے تمام صوبوں کے دیہی سطح کا سب سے زیادہ تناسب تھا۔

یہ کثیر الجہت غربت انڈکس آکسفورڈ یونیورسٹی کا مرتب کردہ ہے ۔ یونیورسٹی نے حال ہی اپنا (Global Multidimensional Poverty Index 2021)جاری کیا ہے۔ یہ انڈکس لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا جاتاہے۔ غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 65.32 فیصد آبادی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہیں۔جو کہ صوبائی سطح پر سب سے زیادہ غربت کی شرح ہے۔

صوبے میں غربت کی ایک جھلک یوں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان سوشل اینڈ لیوونگ اسٹینڈرڈز میزرمنٹ سروے2019-20 کے مطابق بلوچستان میں درمیانی نوعیت یا شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار گھرانوں کا تناسب23.36ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔اس کے علاہ صوبے کے 19.6 فیصد گھرانوں نے سروے سے گزشتہ ایک سال پہلے کی نسبت اب اپنے معاشی حالات کو بہت خراب قرار دیا جبکہ 22 فیصد نے اسے خراب کہا۔صوبے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کم پیداواری، عارضی اور اس طرح کے دیگر کاموں/ نوکریوں میں Trap ہے جو اْن کی توقعات کو پورا نہیں کرتیں اور اْن کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جو انھیں زیادہ اچھی، مستقل اور زیادہ اجرت کی حامل پوزیشنز دلاسکیں۔یوں غربت کے شکنجے کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا اور غربت کے خاتمے میں نوجوان اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر پاتے۔دوسری جانب یہ غربت چاہے معاشی ہو یا سہولیات کی تشنگی کی نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے اوربلوچستان اِن دونوںکیفیات کا شکار ہے۔ جبکہ بین الاقوامی تحقیق یہ کہتی ہے کہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

٭رازق فہیم لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا اور یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ سے پوسٹ گریجویشن مکمل کی ہے۔ آپ کو پاکستان میںپسماندہ کمیونٹیزکے نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا 20 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔رازق کالج آف یوتھ ایکٹیوزم اینڈ ڈویلپمنٹ (CYAAD) کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں امن کی تعلیم کے لیے رازق کا کام ایک معتبر حوالے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

CYAAD بنانے سے پہلے رازق نے انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹڈیز اینڈ پریکٹسزپاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔انہیں 2009 میں اشوکا فیلوشپ، 2007 میں چیوننگ فیلوشپ اور سالزبرگ گلوبل فیلوشپ 2015 سے نوازا گیا ہے۔جب ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ کیا بلوچستان کے نوجوانوں کو درپیش مسائل کی نوعیت پاکستان کے دیگر صوبوں کے نوجوانوں کو درپیش مسائل جیسی ہے یا ان میں کوئی فرق ہے؟ تو ان کا کہنا ہے کہ’’بلوچستان کے نوجوانوںکو دیگر صوبوں کے نوجوانوں کی نسبت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں بنیادی انفراسٹرکچر جو یوتھ کی اپنے کرئیر بلڈنگ میں، کاروبار کی طرف آنے میں، انٹرپرائزز بنانے میں ، بہتر تعلیم کے حصول میں معاونت کرے وہ باقی پاکستان کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔

پنجاب کے نوجوانوں کا بنیادی مسئلہ روزگار ہوسکتا ہے مگر اُن کو تعلیم کے بلکہ معیاری تعلیم کے بے تحاشا مواقع حاصل ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اِن کا نہ تو روزگار کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی معیاری تعلیم کے۔ اور اگر وہ کسی طرح معیاری تعلیم حاصل کر بھی لیں تو صوبے کا سیاسی اور سماجی ماحول اس قدر آلودہ ہے کہ اُنکے Misguide اورmanipulate ہونے کا ہمیشہ سے خطرہ رہتا ہے۔اس کے علاوہ صوبے میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے نیشنل پروگرامز سے بھی اتنا استفادہ نہیں کیا جاسکتا بانسبت باقی صوبوں کے کیونکہ یہاں ان کی مانٹرنگ بہت کمزور ہوتی ہے اور بد عنوانی کا عنصر اس میں رہتا ہے۔

صوبے میں ا گر چہ نوجوانوں کے امور کی وزارت موجود ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے یوتھ ایمپاورمنٹ کے پراجیکٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیونکہ منسٹری کے اپنے فنڈز دیگر کاموں میں زیادہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر کوئی پراجیکٹ ہے بھی تو وہ کاسمیٹک لیول پر اِن کی موجودگی دیکھائی دیتی ہے۔صوبائی یوتھ پالیسی کا ڈرافٹ بنتا ہے کابینہ میں ٹیکنیکل جائزہ کے لیے پیش ہوتا ہے ۔اُس کے بعد ڈرافٹ کو کچھ پتا نہیں چلتا اور حکومت تبدیل ہوجاتی ہے ۔ بلوچستان میں تقریباً دو تین بار یوتھ پالیسی کا ڈرافٹ جائزہ کے لیے پیش ہوا لیکن ابھی تک یوتھ پالیسی منظوری کے مراحل سے نہیں گزریـ کیونکہ یہ حکومت ہو یا پچھلی حکومتیں ان کی ترجیحات میںیوتھ ایمپاورمنٹ کے مقابلے میں صوبے کی سیاسی اور سیکورٹی ضروریات کو زیادہ اہمیت حاصل ہیـ‘‘۔ صوبے کے نوجوانوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ـ’’صوبے میں یوتھ سپورٹنگ انفراسٹرکچر کا ہونا بہت ضروری ہے۔

یہ انفراسٹرکچر یونیورسٹی سے لیکر کمیونٹی سیٹنگ تک اور کمیونٹی سیٹنگز سے لیکر حکومت کی پالیسیوں کے اندر ترجیحات کی صورت میں جھلکتا ہونا ضروری ہے۔ اس انفراسٹرکچر کے اردگرد ایک کورڈینیشن میکنزم کا بھی ہونا ضروری ہے یعنی منسٹریز، این جی اوز، سول سوسائٹی، یوتھ گروپس، یوتھ انٹرپرائزز ان سب کاایک کورڈینیٹنگ میکنزم ہو جو اُس انفراسٹرکچر کو بڑھنے پھولنے میں مدد کرے۔اس کے علاوہ جو چیز نوجوانوں کی تربیت میں بہت مثبت کردار ادا کرسکتی ہے وہ اُن کی Civic engagement  ہے۔ اس کے لیے سول سوسائٹی کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ نوجوانوں کو سول سوسائٹی کی طرف لیکر آتے ہیں تو اُن کے اندر civic skills پیدا ہوتی ہیں ۔ civic skills یہ ہیں کہ ڈائیلاگ پر یقین کیا جائے۔مکالمہ پر یقین کیا جائے۔مسائل کو حل کیا جائے۔ آپ اسٹیٹ اور اُس کے میکنزم کو سمجھیں۔ آپ ایسے چینلز کی نشاندہی کریں جس میں آپ اپنے تحفظات کو لیکر جائیں۔ اگر سوک انفراسٹرکچر موجود ہوتا ہے تو لوگ تشدد اور مسلح جارحیت کی طرف کم جاتے ہیں۔

اور زیادہ تعداد legitimate channels کی طرف آئے گی۔ اس کے علاوہ یوتھ اسٹارٹ اپس پر موثر طریقے سے کام کریں جو کام ہورہا ہے وہ غیر موزوں اور نا کافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بیوروکریٹک ہے۔ صوبے کی کلچر اور سوک لائف کی لیڈر شپ نوجوانوں کو دی جائیــ‘‘۔ رازق فہیم کا کہنا ہے کہ ـ’’ بلوچستان میں آپ نوجوانوں کو ایک سیکورٹی رسک کے طور پر نہ دیکھیں اگر آپ انھیں سیکورٹی رسک کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کے تمام آپشنز سیکورٹی کے اردگرد تشکیل پائیں گے۔اس کی بجائے آپ نوجوانوں کو ایک dividend  کے طور پر دیکھیں ایک ایسا dividend جو اپنے ملک، اپنے صوبے اور اپنے علاقے کی بہتری میں بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے اور اس کردار کو آپ مضبوط بنائیں۔ ان کے اردگرد معاونت کا ایک جامع سسٹم بنائیں اِن کو لیڈ کرنے میں اِن کی مدد اور حوصلہ افزائی کریں‘‘۔

نوجوانوں کے لئے مناسب تعلیم ، ٹریننگ اور روزگار کے مواقعوں کی کمی کے بہت سے منفی نتائج سٹریٹ کرائمز، چوریوں، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ، تخریب کاری اور منشیات کے استعمال اور فروخت کے واقعات کی صورت میںآج ہمارے سامنے ہیں۔اگر ہم بلوچستان کی معیشت اور ترقی کے پہلو کو سب سے اوپر دیکھنا چاہتا ہے تو ہمیں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔کیونکہ بلوچستان میں ایک اچھی تربیت یافتہ افرادی قوت کی اشد اور انتہائی ضرورت ہے۔ یہ پہلو بلوچستان کے لیے روزگار کے بہت سے مواقع کھولے گا۔

نوجوانوں کے حوصلے اور اعتماد کی سطح کو صرف اسی صورت میں بڑھایا جا سکتا ہے جب انہیں روزگار ملے۔ یہ ہنر، تجربہ کی سطح اور تعلیم کی کمی ہے جو بلوچستان کے نوجوانوں کو پسماندگی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اگر انہیں کافی مقدار میں تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت دی جائے گی تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو انہیں پیچھے چھوڑ دے۔صوبے میں وکیشنل ٹریننگ کے لیے BTEVTA کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے ۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ صوبے میں رسمی تعلیم میں مصروف مجموعی طلباء کا صفر عشاریہ2 فیصد(0.2% ) کوئی ڈپلومہ کرتے ہیں ۔یہ صورتحال BTEVTA کے لیے کسی چلینج سے کم نہیں کہ وہ کس طرح لوگوں کو دستی مہارت کی جگہ وکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے قائل کر پاتا ہے۔

بہتر مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے نوجوانوں کی دیہات سے شہروں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ جسے ہم Drain  Brainکی اصطلاح کے استعمال سے یاد کرتے ہیں۔بلوچستان کے تناظر میں اس کی کچھ جھلک ہمیں 1998 اور2017 کی مردم شماری کے نتائج کے تجزیہ سے ملتی ہے ۔ 1998 میں صوبے کی15 سے29 سال کی عمر کے74 فیصد نوجوان دیہہ میں رہتے تھے جن کا تناسب 2017 تک کم ہوکر 70 فیصد ہوچکا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی سطح پر نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے فوری ، دیرپا اور وسیع بنیادوں پر جامع اقدامات کیے جائیں لیکن افسوس جو صوبہ پچھلے 75 سال میں نوجوانوںکے لیے کوئی پالیسی فائنل نہیں کر پایا وہ اپنے نوجوانوں کوصوبائی ترقی کا انجن کیسے بنائے گا؟

٭…٭…٭

بلوچستان کی باصلاحیت بیٹیاں

بلوچستان کی جن دو باصلاحیت نوجوان بیٹیوں کا تعارف قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ اِن بچیوں نے ثابت کر دیکھا یا ہے کہ فاصلے، پسماندگی، مواقعوں کی کمی ، مقامی رسم رواج اور حالات بھی آپ کی تخلیقی سوچ ، آپ کی ہمت اور اپنے مقصد کے حصول کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ بلوچستان کے علاقے پسنی ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والی بانل سید شیر جان اور شاہدہ ابراہیم نے ’’پاور پیڈل ‘‘ کے نام سے ایک ایسی ایجاد کی ہے جو SDG چیلنج کپ2021 کے فاتحین میں سے ایک ہے جسے گورنمنٹ انوویشن لیب (GIL)، یونیورسٹی آف بلوچستان نے UNDP پاکستان کے تعاون سے کرایا۔

اس کے علاوہ’’ پاور پیڈل‘‘ کا انتخاب اگنائٹ(Ignite)  نے آخری سال کے پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے بھی کیا تھا۔ She loves Tech (SLT) جوکہ خواتین اور ٹیکنالوجی کے لیے دنیا کا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ مقابلہ ہے۔ ’’پاور پیڈل‘‘ کو علاقائی راؤنڈ میں منتخب کیا گیا ہے۔ یہ دونوں بچیاں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے سی ایس اینڈ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے سیشن2017-2021 کی گریجویٹس ہیں۔

’’پاور پیڈل‘‘ دراصل ورزش کے عمل کو پرلطف بنانے کی ایک ایجاد ہے۔ جس میں تھری ڈی ماحول، نیٹ ورک گیمز، خوبصورت مناظر اور بجلی کی پیداوار شامل ہے۔ تھری ڈی مناظر صارف کو بور ہونے نہیں دیتے اور صارف ورزش کے دوران خوبصورت مناظر کا تجزبہ کرکے مصروف رہ سکتا ہے۔ جسمانی طور پر کم غیر متحرک بچے یا دیگر بچے دوران ورزش اس کی گیم کی خصوصیت کی وجہ سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ جہاں آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور مقابلہ کرنے کے لیے نیٹ ورک گیمز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ پیڈلنگ سے پیدا ہونے والی توانائی بیٹری میں محفوظ ہوتی ہے جو موبائل فون، لیپ ٹاپ، پاور بینک وغیرہ کو چارج کرسکتی ہے۔اس سے ایک چھوٹے سے کمرے کو بھی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔

’’پاور پیڈل ‘‘دراصل ورزش میں تفریح لاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عمر کے افراد روزانہ کی بنیاد پر یکسانیت اور بوریت سے محفوظ رہتے ہوئے ورزش کرنا آسان محسوس کرینگے ۔ ’’پاور پیڈل ‘‘ کو ایک ماڈیولر سسٹم کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جسے ایک عام سائیکل پر نصب کیا گیا ہے تاکہ شرکاء کے جسمانی اور بایو مکینیکل پیرامیٹرز کو ٹریک اور ریکارڈ کیا جاسکے اور ایک مصنوعی مناظر میں ضم کرتے ہوئے صارف کو بصری تاثرات فراہم کیے جاسکیں۔

The post محرومیوں کی منجدھار میں پھنسے بلوچستان کے باصلاحیت نوجوان appeared first on ایکسپریس اردو.

خانہ پوری؛ قائداعظم اور ’قائدِ ملت‘ کی جوڑی تو سلامت رہنے دیں!

$
0
0

 کراچی: ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی جانب سے پاکستان کی 75 ویں سال گرہ کی مناسبت سے جاری کردہ 75 روپے کے کرنسی نوٹ میں پہلی بار ’بابائے قوم‘ قائد اعظم محمد علی جناح کے علاوہ دیگر اکابرین کی تصویریں بھی دی گئی ہیں، جن میں علامہ اقبال، محترمہ فاطمہ جناح اور سرسید احمد خان شامل ہیں، لیکن اس میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

نواب زادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے لیے ہندوستان میں اپنی وسیع وعریض جاگیریں چھوڑیں، بلکہ یہاں اس کے بدلے میں کوئی گھر تک نہیں لیا اور آخری دم تک ہجرت کرنے والوں کی یہاں آباد کاری کے مسائل سے جھوجھتے رہے۔ نئی دلی میں آج پاکستانی ہائی کمیشن بھی لیاقت علی خان ہی کے دیے گئے مکان میں قائم ہے۔ پچھلی اتوار کو ایک طرف ہم اسی دلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں منائے گئے یوم آزادی کی خبریں سن رہے تھے، تو دوسری طرف اسی ریاست نے اسی روز ایک ایسا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا، جس میں انھی کا پتا بالکل صاف کر دیا گیا تھا۔

’حکومت پاکستان‘ کی جانب سے اس سنگین غفلت پر ہم نے قائد اعظم اکادمی کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر کی رائے لی، تو انھوں نے بھی اس امر سے اتفاق کیا کہ لیاقت علی خان اور قائد اعظم کی جوڑی بالکل ہندوستان کی موہن داس گاندھی اور جواہر لال نہرو کی طرح ہے۔ جیسے وہاں گاندھی کے ساتھ دوسرا بڑا نام بلا شرکت غیرے جواہر لال کا ہے، بالکل ایسے ہی ہمارے ہاں محمد علی جناح کے ساتھ لیاقت علی کا سمبندھ موجود ہے، ورنہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی بہت سے بڑے اکابرین کے نام موجود ہیں، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل اور ان کا دستور لکھنے والے بی آر امبیڈکر جیسے قدآور شامل ہیں، لیکن جب بھی گاندھی کے ساتھ کسی دوسرے کا تذکرہ ہوتا ہے، تو وہ جواہر لال نہرو ہی ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح بابائے قوم اور بانی پاکستان کہلائے اور اس کے ساتھ دوسرا بڑا مقام ’قائد ملت‘ لیاقت علی خان کا ہے، جسے ہمیں کسی بھی صورت میں متنازع نہیں بنانا چاہیے، باقی ظاہر ہے ہم تاریخ میں سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے اکابرین کو بھی فراموش نہیں کر سکتے اور اس سے آگے چلیے، تو چوہدری رحمت علی اور راجا صاحب محمود آباد تک بہتیرے نامی گرامی شخصیات جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

اب تاریخی دلائل کے حساب سے ہماری تاریخ کے تیسرے اور چوتھے نمبر پر بڑے راہ نما کے حوالے سے ہم سب کی رائے الگ الگ ہو سکتی ہے، لیکن لیاقت علی خان کا مرتبہ قائد کے بعد سب سے بڑا ہے، اسے غیر متنازع رہنے دینا چاہیے۔ اب اسٹیٹ بینک نے اگر ہمارے چار اکابرین کی تصویریں دی ہی تھیں، تو جیسے قائد کے ایک جانب محترمہ فاطمہ جناح اور سرسید ہیں، تو دوسری جانب اقبال کے ساتھ لیاقت علی خان کی ’گنجائش‘ بھی پیدا کی جا سکتی تھی، لیکن افسوس، ہم جنھیں قائد کا ’دستِ راست‘ اور 1947ءکی صبح آزادی میں بانیان پاکستان کی خوش نصیب جوڑی سمجھ رہے تھے، ہماری ریاست آج 75 برس بعد انھیں چار نمایاں بانیان تک میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔۔۔!

کیا صرف اس لیے کہ ہندوستان کے اُس خاندانی رئیس زادے اور نواب نے اس نئے ملک کے روایتی وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرح بڑی بڑی زمینوں کا مالک بن کر اس ریاست پر راج کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا۔۔۔۔؟کیا اس لیے کہ وہ اپنے بعد اپنی اولاد اور اس کے بعد اس کی اولاد کو سیاست میں لانے والی مہلک ’موروثی سیاست‘ کا حصہ نہیں بنا۔۔۔؟

کیا ریاست نے تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اس ملک کے پہلے وزیراعظم کو لاوارث گردان کر یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ تو یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ اس وقت بھی ایک نام نہاد ’مسلم لیگ‘ ہی (ن) کے لاحقے کے ساتھ اقتدار میں موجود ہے اور یہ سب اس کی زیرنگرانی انجام پایا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک کے مرکزی ترجمان عابد قمر کہتے ہیں کہ 75 روپے کا یہ نوٹ کمیٹی کے بعد باقاعدہ بورڈ کی منظوری سے وفاقی کابینہ تک گیا اور وفاقی کابینہ کی حتمی منظوری کے بعد اسے 14 اگست 2022ءکو جاری کیا گیا ہے، جو باقاعدہ 30 ستمبر 2022ءسے دست یاب ہو سکے گا۔

یعنی اس غفلت کا ارتکاب براہ راست وزیراعظم شہباز شریف کی درجن بھر اتحادی سیاسی جماعتوں پر مشتمل 55 رکنی بھاری بھرکم وفاقی کابینہ نے بھی کیا ہے، جس میں مولانا شاہ احمد نورانی جیسی شخصیات کے صاحب زادے شاہ انس نورانی صاحب بھی بطور ’مشیر‘ شامل ہیں، تو ایم کیو ایم (بہادرآباد گروپ) کے دو اہم ترین وزیر سید امین الحق اور فیصل سبز واری بالترتیب ’آئی ٹی‘ اور ’بحری امور‘ کے قلم دان لیے براجمان ہیں۔ یقیناً اسٹیٹ بینک کا یہ 75 روپے کا یادگاری نوٹ ان کے علم میں بھی آیا ہی ہوگا۔۔۔ حیرت ہے کہ وہ ’بانیانِ پاکستان‘ کے اتنے بڑے دعوے دار بنتے ہیں، لیکن انھوں نے بھی اس نوٹ کا کوئی نوٹس نہیں لیا کہ اس میں شہد ملت لیاقت علی خان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے۔۔۔؟ ظاہر ہے اگر اس ملک میں ’شہید ملت‘ کو لاوارث سمجھ لیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔۔۔ اس ملک میں آج بھی لاکھوں، کروڑوں عقیدت مند نواب زادہ لیاقت علی خان کے وارث ہیں۔

رہی بات ’شہید ملت‘ پر تنقید کرنے کی، تو بہت سوں کو ان کے دور میں منظور ہونے والی ’قراردادِ مقاصد‘ سے الرجی ہوگی، تو کچھ ان کے روس کے بہ جائے امریکا کے دورے کرنے پر غیر مطمئن ہوں گے، کچھ ان کے قائداعظم سے ”اختلافات“ کی باتیں بھی کریں گے، کچھ محترمہ فاطمہ جناح سے اَن بن ہونے کا ہوّا بنائیں گے، کچھ شاید حسین شہید سہروردی جیسے اکابر سے ان کی رقابت کا دفتر بھی کھول لیں، لیکن یہ سب سیاست کا حصہ ہوتا ہے، جب آپ کسی عہدے پر ہوتے ہیں، تو فیصلے سازی میں کچھ لوگ آپ کے حامی ہوتے ہیں، تو کچھ مخالف بن جاتے ہیں، لیکن یہ معمولی اختلافی امور ’قائد ملت‘ لیاقت علی خان کی پاکستان کے لیے قربانیوں اور اس کے لیے ان کے تاریخی کردار کو کبھی ختم نہیں کر سکتے۔

آپ تاریخ دیکھ لیجیے کہ پاکستان کی جن غیر جمہوری، وڈیرانہ، جاگیردارنہ اور آمرانہ قوتوں نے لیاقت علی خان کو راول پنڈی میں شہید کروایا، پھر وہی قوتیں حسین شہید سہروردی کے درپے ہوئیں اور اس کے بعد انھوں نے ہی پھر محترمہ فاطمہ جناح کی ذات پر رکیک حملے کیے اور انھیں ہماری تاریخ کا پہلا ’ہندوستانی ایجنٹ‘ تک قرار دے ڈالا، جس سے کم از کم یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس ملک میں ’بانیان پاکستان‘ کی سرپرستی کا ٹمٹماتا ہوا آخری چراغ تھے اور 16 اکتوبر 1951ءکو ان کی شہادت کے بعد 1952ءمیں بنگلا زبان کے معاملے پر ڈھاکا میں جانیں تلف ہوئیں، 1953ءمیں لاہور میں پہلا مارشل لا لگا، 1954ءمیں باوردی کمانڈر انچیف ایوب خان کو دفاع کا قلم دان سونپا گیا، 1954ءہی میں دستورساز اسمبلی کی برخاستگی، 1955ءمیں ون یونٹ کا قیام اور بالآخر 1958ءمیں پہلا مارشل لا، درالحکومت کی کراچی سے منتقلی اور ان سب کے نتیجے میں 1971ءمیں پاکستان ٹوٹنے جیسے مہلک اور گھناﺅنے واقعات یہ بتلاتے ہیں کہ لیاقت علی خان اس ملک کے سیاسی بگاڑ کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ تھے، اور پھر جب ان کے قتل کی تحقیقاتی فائل بھی ”فضائی حادثے“ کی نذر ہوگئی، تو پھر سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ واضح ہوتا چلا گیا۔

آج ریاستی سطح پر شہید ملت کی بالواسطہ نفی کے اس اقدام نے ماضی کی ساری اچھی بری یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں!

ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی انتشار کے اس نازک مرحلے پر ’حکومت پاکستان‘ فوری طور پر اپنی اس مجرمانہ غفلت کا نوٹس لے اور فی الفور 75 روپے کے اس یادگاری تاریخی نوٹ کی تصحیح کرتے ہوئے اس میں شہید ملت لیاقت علی خان کو شامل کر ان کے لاکھوں عقیدت مندوں اور ’بانیان پاکستان‘ کی اولادوں کو مزید بے چینی اور اضطراب سے بچائے، بقول شہید ملت :
”خدا پاکستان کی حفاظت کرے!“

پس نوشت: ہم رکن قومی اسمبلی محترمہ کشور زہرا کے شکر گزار ہیں، آپ نے اس ناچیز کی توجہ دلانے پر 15 اگست 2022ءکو منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں 75 روپے کے یادگاری نوٹ پر لیاقت علی خان کو نظرانداز کرنے پراسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز سے جواب طلب کیا اور منتخب ایوان کی اس جانب توجہ دلائی۔

The post خانہ پوری؛ قائداعظم اور ’قائدِ ملت‘ کی جوڑی تو سلامت رہنے دیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی 152؛ دل کی بات

$
0
0

دل بھی کیا عجب شئے ہے صاحبو! انسانی جسم کے اعضاء میں شاید کسی اور کا وہ مقام، محض ادب ہی نہیں، دنیا بھر کے علوم وفنون میں نہیں ہے جو دل کو حاصل ہوا۔ دل اطمینان اور بے اطمینانی، یقین اور بے یقینی، چین اور بے چینی، سکون اور بے سکونی، خوشی اور غم، غرضیکہ انسان کی ہمہ وقت ذہنی کیفیت کا عکاس ہے۔ ہم اسے دلی کیفیت بھی کہتے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں لگتا ہے۔(ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب نے واٹس ایپ پر سوال کیا کہ”غرضیکہ اور غرض یہ کہ“ میں کون سا مرکب درست ہے۔ خاکسار نے عرض کی کہ درحقیقت یہ”غرضے کہ“ کو ملا کر بنائی گئی ترکیب ہے، ویسے کہنے اور لکھنے میں دوسری صورت بھی مستعمل ہے)۔

دین کی طرف رجوع کریں تو ایمان تبھی قبول ہے کہ جب بندہ ”اقرار بالّلسان“ (زبان سے اقرار) اور ”تصدیق بالقلب“ (دل سے تصدیق) دونوں ہی سے اپنے مومن یا صاحب ِایمان ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔یہ دل ہی تو ہے جو مومن اور منافق میں فرق واضح کرتا ہے۔یہ دل ہی تو ہے جو بندہ مومن کی ہر کثافت کو لطافت سے، طہارت سے اور روحانیت سے بدل دیتا ہے۔روحانیت کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کسی کا دل راضی نہ ہو، کوئی عمل خواہ انجام بھی دیا جائے، کارگر نہیں۔روحانیت کا ایک اور وَرق پلٹیں تو یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ جس کسی کو اپنے کسی (جائز یا ناجائز)مقصد کے لیے یا دین، مذہب و مسلک کے لیے، رام کرنا مقصود ہو، اُس کا دل ہی قابو میں کیا جاتا ہے۔

ایک مشہور نفسیاتی معالج کا دعویٰ نظر سے گزرا کہ جِنّ کوئی چیز نہیں، وہ انسان پر حاوی نہیں ہوسکتا، یہ سب نفسیاتی خرابی ہے۔اُن کے ہم نوا، ہمارے عزیز دوست تو اُن کی(اس لاعلمی پر مبنی)، بے تکی راگنی کی بھی یہ کہہ کر توجیہ کرتے ہیں کہ اصل میں وہ جنّ کے وجود کے منکر نہیں (ورنہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی واضح تعلیمات سے انکار کے سبب، دائرہ ایمان سے خارج قرار پائیں گے)،بلکہ اُن کا خیال ہے کہ جنّ کا یہ کام نہیں یا اُس میں یہ سکت نہیں۔

عقلیت پرست لوگ،ایسی بے سروپا باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔انھیں کیا خبر کہ Parasciences، خصوصاً مابعد الطبیعیات [Metaphysics]میں یہ حیرت انگیز اور بظاہر ناقابل یقین یا ناقابل فہم باتیں ثابت ہوئے بھی مدت ہوچکی۔ذاتی معلومات کی بناء پر عرض کرتاہوں کہ عمل رحمانی ہو یا شیطانی(سِفلی)، جنّ اور دیگر مافوق الفطرت یا غیر مَرئی [Invisible]مخلوق کو کسی انسان میں داخل کرنے کے لیے، اسی دل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ وہ بے چارے معترض، (کوئی پچپن سال پرانے سرٹیفکیٹ کورس کی بنیاد پر)،عمر کے اَخیر حصے میں پہنچ کر بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ کام کسی جادو یا شعبدے کی طرح ہوتا ہوگااور ظاہر کی آنکھ سے نظر آتا ہوگا۔

بات دل کی ہو اور اس قدرخشک…اوہو۔بھئی دل لیا جاتا ہے، دیا جاتا ہے، توڑا جاتا ہے، جوڑاجاتا ہے، رکھا جاتا ہے،دل سے دل کو راہ ہوتی ہے (آج کل تو شاید شاہراہ بھی ہوتی ہے، مگر بہت تیزی سے ٹوٹ بھی جاتی ہے)،دل پتھر ہوتا ہے یا ہوجاتا ہے، دل میں ہُوک اٹھتی ہے، دل دھڑکتا ہے، دل سے آواز آتی ہے، دل آواز دیتا ہے، دل سنبھالنا مشکل ہے، دل کسی پر آجاتاہے اور پھر بہت ہی مشکل سے قابو میں آتا ہے، دل سے لوگ اُترجاتے ہیں، دل میں لوگ گھر کرلیتے ہیں، دل میں کسی کی بات سے تےِر بھی پیوست ہوجاتاہے،دل کاٹ کے رکھ دیاجاتاہے، دل چِیر کے رکھ دیا جاتا ہے، دل چےِر کے دکھانے کی بات کی جاتی ہے،دل کے بدلے دل مانگا جاتاہے،دل پگھلایاجاتا ہے، دل شیشے کی طرح یا اُس سے بھی زیادہ نازک ہوتاہے، دل کی آنکھ بھی ہوتی ہے (یعنی روحانی نظر)، دل کے کہنے میں اثرہوتا ہے، دل پر اَثرہوتا ہے، دل انسان کو زمین سے آسمان اور خلاء تک لے جاتا ہے، دل انسان کو پاتال میں دھکیل دیتا ہے، دل ہی انسان کو جنت کا مستحق بنادیتا ہے، دل ہی انسان کو جہنم تک لے جاتا ہے۔ہائے ہائے ایک بے چارہ دل اور اتنی ذمے داریاں؟؟

دل لے کے مفت کہتے ہیں، کچھ کام کا نہیں

اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

نواب میرزا داغؔ دہلوی کیا مزے مزے کے شعر کہہ گئے۔لَسّان العصر یعنی اپنے زمانے کے ماہر ِ زباں تھے آخر۔جو سچ پوچھیں تو خالص زبان ہی کے نہیں، دل کے بھی شاعر تھے۔اُنھی نے کہا تھا:

دل لے کے اُن کی بز م میں جایا نہ جائے گا

یہ مدعی بغل میں چھپایا نہ جائے گا

دل کو ظالم او رمظلوم تو بہت سوں نے کہا ہوگا، مگر داغ ؔ نے اسے مدعی قراردیا، خوب کیا۔

اور یہ بھی اُنھی کا نمونہ کلام ہے:

دل میں سماگئی ہیں قیامت کی شوخیاں

دوچار دن رہا تھا، کسی کی نگاہ میں

اور یہ بھی اپنے نواب میرزا ہی کہہ گئے ہیں:

دل کا کیا حال کہوں، صبح کو جب اُس بُت نے

لے کے انگڑائی کہا، ناز سے، ہم جاتے ہیں

(داغ کا یہ شعر دیکھیے اور نواب رام پور کی شہ پر کہے گئے اشعار، خصوصا نظام رامپوری کی مشہور ترین غزل، جس کا شعر ضرب المثل ہے:

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ+دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکراکے ہاتھ)

اور یہ بھی حضرت داغ ہی کا شہکار ہے:

دل کیا ملاؤگے کہ ہمیں ہوگیا یقیں

تم سے تو خاک میں بھی ملایا نہ جائے گا

کیا کہنے، استاد نواب میرزا داغ ؔ دہلوی نے اپنے استاد اور حریف غالبؔ استاد ذوق ؔکا بہت سچا رنگ اس شعر میں پیش کیا ہے، روزمرہ اورمحاورے کے حسن استعمال سے۔بات اگر روزمرّہ کی حد تک ہی ہو تو شاید ذوقؔ کے دیگر معاصر بھی اُن کے حریف ہوں یا اُن کے دور کی شرط نہ لگائیں تو دیگر بھی بہت، مگر محاورے اور ضرب المثل کا سب سے وقیع اور بھرپور استعمال جابجا، کلام ذوق ہی میں ملتا ہے۔لگے ہاتھوں داغ ؔکے استاد،ذوق ؔ کا یہ شعر دیکھیں:

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

ان کے نقش قدم پر داغ اور پھر مکتب ِ داغ کا سلسلہ دراز۔اُن کے خاص تلامذہ میں شامل بے خود ؔ دہلوی کایہ شعر منفرد اور ضرب المثل ثابت ہوا: تڑپوں گا عمر بھر، دل مرحوم کے لیے+کم بخت، نامراد، لڑکپن کا یارتھا

آج ہم دل کی بات، بلکہ باتیں کریں گے، کیونکہ بقول غالبؔ: ع آج کچھ درد مِرے دل میں سِواہوتا ہے۔

پوراشعر یوں ہے: رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مِرے دل میں سِواہوتا ہے

کمال ہے صاحبو!بات نکلی تھی داغ ؔ کے نمونہ ہائے کلام سے جو شاگرد تھے حریفِ غالبؔ کے (نیز بہادرشاہ ظفرؔ کے) اور تان ٹوٹی غالبؔ پر۔غالبؔ کے اس مشہور شعر کا کسی سے موازنہ کیے بغیر بس یہ دیکھیے کہ جب عیش وطرب کے لمحات گزرجائیں تو ایک محوِ نشاط سخنور بھی دل کی تڑ پ کا اظہار ایسے کرتا ہے:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دل کی بات ہورہی ہے تو ناواقفین حال یہ نہ سمجھ لیں کہ دل پر کچھ کہنے کا سلسلہ ان مشاہیر سے پہلے نہ تھا۔میرؔ کے بھی بزرگ، پیش رَو،(اُن کے سوتیلے بھائی کے قریبی رشتے دار) اور اپنے وقت کے انتہائی عالم فاضل شخص، خان آرزوؔ (سراج الدین علی خان) کا شعر ہے:

عبث، دل، بے کسی پہ اپنی تُو‘ں (تُو) ہر وقت روتا ہے

نہ کر غم، اے دِوانے، عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے

اضافی، غیر متعلق، مگر دل سے جُڑی ہوئی بات یہ بھی دُہراتاچلوں کہ یہی خان آرزوؔ، میر ؔ کی اُس حسین محبوبہ کے ”ظالم سماج“ نُما والد تھے جنھوں نے انھیں وَصل سے محروم رکھا اور میرؔ اتنے عظیم سخنور ہوئے کہ لوگ خان آرزو ؔ جیسے قدآور شاعر کو بھول گئے۔

خواجہ میردردؔ، اپنے میرؔ صاحب کے بزرگ معاصر کہہ گئے ہیں:

میں جاتا ہوں دل کوتِرے پاس چھوڑے

مِری یاد تجھ کو دِلاتا رہے گا

سبحان اللہ! کس قدر معنی خیز اور سہل ممتنع کا شاہکار شعر ہے۔اچھا، اُن کا یہ شعر تو زباں زدِخاص وعام ہے:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں (یعنی فرشتے)

میرؔ صاحب کی باری آئی تو اُنھوں نے فرمایا:

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دَوا نے کام کیا

دیکھا، اِ س بیماری ئ دل نے آخر کام تمام کیا

میرؔ کا یہ مشہور ِ زمانہ شعر ہمارے مشفق، بزرگ معاصر پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اتنا پسند تھاکہ اکثر کسی بھی شاعرکے مجموعہ کلام پر اظہارخیال کا آغاز کرتے ہوئے یہی پڑھتے اور پھر عَروض اور پَنگل(ہندی عروض) کی بات کرنے لگتے، مجموعہ کلام اور شاعر موصوف کی باری بمشکل آتی بھی تو خاصی دیر ہوچکی ہوتی۔

میرؔ نے مزید دل کو کہاں کہاں رونق بخشی، ذرا مثالیں دیکھیے:

شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے

دل ہُوا ہے، چراغ مُفلس کا

(دل ہے گویا، غلط مشہور)۔یہ شعر علامہ نیاز فتح پوری نے نجانے کیوں،اپنے جریدے نگارمیں، مصحفیؔ سے منسوب کردیا۔

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے

پچھتاؤگے، سُنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کے

مہتاب رائے تاباں ؔ کا یہ ضرب المثل شعر بھی اپنی جگہ نہایت منفرد ہے:

شعلہ بھڑک اُٹھا،مِرے اِس دل کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے

میرؔ کے عہد میں انعام اللہ خاں یقین ؔ کی عمر نے وفا کی ہوتی تو یقینا انھیں ”حریفِ میرؔ“ کہنا بجا ثابت ہوتا۔اُن کا یہ شعر اپنے وقت میں مشہور تھا: دل چھوڑگیا ہم کو، دلبر سے توقع کیا+اپنے نے کِیا یہ کچھ، بیگانے کو کیا کہیے

یہاں وضاحت لازم ہے کہ اس شعر کے ساتھ آبِ حیات کے مؤلف آزادؔ نے ایک فرضی حکایت بیان کی جو بہت مشہور ہوگئی، مگر بالتحقیق غلط بھی ثابت ہوئی۔

اُسی دورمیں قائمؔ چاند پوری کا یہ شعر بھی اپنی مثال آپ ہوا:

قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کمند کہاں

کچھ دُور،اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

(دو چار ہاتھ…غلط مشہور ہے)

یہ بھی قائمؔ ہی کا مشہور شعر ہے:

ٹوٹا جو کعبہ، کون سی یہ جائے غم ہے شیخ!

کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

میرحسنؔ کا ایک شعر دیکھیے:

کیا ہنسے اب کوئی اور کیا روسکے

دل ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہوسکے

یہ وہی میر حسن ہیں جن کا مندرجہ ذیل شعر غالبؔ کو بہت پسند تھا:

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل

کہا ں کی رُباعی، کہاں کی غزل

(جی یعنی دل کو پیار سے مزید تبدیل کرتے ہوئے جیوڑا)

جعفر علی حسرتؔ لکھنوی کا کیا ہی اچھا شعر ہے اور شاعر سے زیادہ مشہور بھی:

کس کا ہے جگر، جس پہ یہ بیداد کروگے

لو ہم تمھیں دل دیتے ہیں، کیا یاد کروگے

(ایک ہندوستانی فلم کے ایک گیت میں، دوسرا مصرع یوں تبدیل کرکے شامل کیا گیا: لو ہم نے تمھیں دل دیا، کیا یاد کروگے)

عظیم سخنور غلام ہمدانی مصحفی ؔ کا یہ شعر اپنے عہد کے ضرب المثل اشعار میں نمایاں ہے:

مصحفیؔ! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رَفو‘ کا نکلا

شیخ قلند ربخش جرأتؔ کا شعر ملاحظہ ہو، دل کی کیفیت پر:

دلِ وحشی کو خواہش ہے تمھارے دَر پہ آنے کی

دِوانہ (دیوانہ) ہے، وَلیکن بات کہتا ہے ٹھکانے کی

محاورے کا کیسا برمحل استعمال ہے، واہ!

تسلیم ؔ لکھنوی کا یہ شعر بہت سوں کے بہت سے اشعار پر بھاری ہے:

تڑپتا دیکھتا ہوں جب کوئی شئے

اُٹھالیتا ہوں، اپنا دل سمجھ کر

اکبر ؔ الہ آبادی کے استاد، وحید (کڑوی) الہ آبادی کا مشہور شعر ہے:

اے دل تجھے رونا ہے تو جی کھول کے رولے

دنیا سے نہ بڑھ کر کوئی ویرانہ ملے گا

کیا کہنے، یعنی دل اور جی کا استعمال کتنی عمدگی سے یکجا کیا ہے اور محاورہ بھی ایسا برتاہے کہ کوئی غیر اہل ِزبان سوچتا ہی رہ جائے۔

علامہ اقبال نے ”دل اور عقل کے ساتھ“ پر کیا خوب شعر کہاہے:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اُسے تنہا بھی چھوڑدے

غیرمعروف شعراء کے یہاں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بندہ انگُشت بدنداں رہ جائے، جیسے،یارخاں امیرؔ کا یہ شعر اُن سے بھی بڑھ کر مشہور ہوگیا:

شکست وفتح میاں اتفاق ہے، لیکن

مقابلہ تو دل ِ ناتواں نے خوب کیا

(شکست وفتح نصیبوں سے ہے،ولے…غلط مشہور)

یہ شعر بھی ضرب المثل ہے اور اس کے خالق فِدوی ؔ عظیم آبادی کو کم لوگ جانتے ہیں:

ٹک ساتھ ہو، حسرت، دل ِ مرحوم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

لالہ موجی رام موجیؔ کا یہ مشہور شعر نجانے کب اور کیسے جگر ؔ مرادآبادی سے منسوب ہوگیا تھا:

دل کے آئینے میں ہے تصویر ِیار +جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی

کہیے کیسا دل کش نمونہ کلام ہے اور شاعر بالکل غیرمعروف۔ایک اور ایسا ہی مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں:

ننھے سے دل کی چھوٹی سی تُربَت بنائی تھی+نقشِ قدم نہ تھا جسے تم نے م ٹادیا

ابھی شاعر کا نام ذہن سے محو ہوگیا ہے۔

حکیم فضل اللہ میرزاؔ کا شعر ہے:

دل جو اپنا تھا، سو ہے بیگانہ+اِ س زمانے میں کوئی یار نہیں!

مختصر بحر میں اس مضمون کا ایسا اچھا شعر کہاں ملے گا۔

جدیدغزل میں میرؔ جیسی شاعری کا شرف ناصرؔکاظمی کو ملا۔دل کے مضمون پراُن کے دو شعر زباں زدِ عام ہیں:

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

٭

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

فلمی دنیا میں تھوڑا یا بہت عرصہ گزارنے والے متعددشعراء میں چند ایسے بھی ہوئے جن کی ادبی شاعری، فلمی نغمہ نگاری کی چکاچوند اور بے انتہا مقبولیت کے آگے ماند پڑگئی۔ایسا ہی ایک نام فیاضؔ ہاشمی کا ہے، جنھوں نے فلمی شاعری میں بھی بھرپور اَدبی رنگ سمودیا۔نامورگلوکار طلعت محمود کی گائی ہوئی، فیاض ہاشمی کی یہ غزل آج بھی اپنے طرز کی جُدا شاعری کا نمونہ پیش کرتی ہے:

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

The post زباں فہمی 152؛ دل کی بات appeared first on ایکسپریس اردو.

نوجوانوں کی تربیت کیجیے، تضحیک نہیں!

$
0
0

 کراچی: کسی کو کبھی کچھ سکھانا ہو تو اس کے سیکھنے کی خواہش کو برقرار رکھنا اور اس جاننے کی کوشش کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اور جب آپ خود سے آگے بڑھ کر کسی کی اصلاح کر رہے ہوں، تو تب اس حوالے سے اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہوا یوں کہ کچھ دنوں قبل قبرستان میں ایک تدفین کے موقع پر جانا ہوا، جہاں تدفین کے بعد سب لوگ تین، تین مٹھی مٹی لحد پر ڈال رہے تھے۔۔۔ وہاں ایک نوعمر سا لڑکا، کاندھے پر بستہ سنھالتے ہوئے آگے بڑھا اور لگا وہ بھی مٹی ڈالنے۔۔۔ اب اس لڑکے نے شاید مٹی ڈالنے کے لیے ایک ہاتھ سے مٹھی بنا کر مٹی ڈالی تھی، جسے دیکھ کر قریب ہی موجود ایک ادھیڑ عمر صاحب نے طنز کیا اور بہ آواز بلند اپنی برہمی دکھائی کہ ”لوگ فلاں سائنس پڑھ لیتے ہیں، فلاں مضمون پڑھ لیتے ہیں، لیکن انھیں قبر پر مٹی تک ڈالنی بھی نہیں آتی۔۔۔!“

وہ کسی کالج کا سا طالب علم دکھائی دینے والا لڑکا ان صاحب کے اس ردعمل پر ہکا بکا سا رہ گیا کہ جیسے اس سے ان جانے میں کوئی بہت بڑا پاپ یا کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو کہ اس طرح اس پر بھرے مجمع میں آواز لگا دی گئی! اس کے چہرے کا تو جیسے رنگ ہی اتر گیا، اسے شاید سمجھ میں بھی نہیں آسکا کہ اس نے کیا ”غلطی“ کی۔ ہم نے اس لڑکے کے قریب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ذرا دھیمے سے بتایا کہ ’دیکھیے، ایسے دونوں ہاتھوں میں مٹی اٹھا کر پھر قبر پر ڈالتے ہیں۔‘

جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، نہایت افسوس کے ساتھ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم سب آسمان سے تو سب کچھ سیکھ کر نہیں آئے، یہ ہمارے والدین، اساتذہ، بزرگ اور ہمارے گردوپیش کے ماحول نے ہمیں دھیرے دھیرے سکھایا ہے، اب اگر کوئی بچہ کسی بات سے نابلد ہے، تو کیا یہ اس بچے کا قصور ہے یا پھر بہ حیثیت بڑوں کے ہم جیسوں کو دوش ہے۔۔۔؟

ہم اگر آج کچھ سیکھ گئے ہیں، تھوڑا بہت کچھ جانتے ہیں اور کچھ کر سکتے ہیں، تو یہ ہمارے بڑوں کی مہربانی اور محنت ہے اور اگر ہمارے بعد آنے والے بچے کسی چیز سے ناواقف ہیں تو یہ نوجوان اور یہ بچے نہیں، بلکہ ہم بہ حیثیت سینئر اس کے اصل قصور وار ہیں! ہم کیسے کسی بچے کو منہ اٹھا کر ایسے طعنے تشنے دے سکتے ہیں؟ یہ تو اس بچے کا ماحول رہا ہوگا، ممکن ہے وہ کبھی قبرستان نہ آیا ہو، یا اور کسی بھی سبب وہ اس کام کے باقاعدہ طور طریقے سے ناواقف رہ گیا ہو، تو اب کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے کہ اسے سلیقے اور طریقے سے کچھ بتانے کے بہ جائے ایسے بہ آواز بلند پکار کر ’بے عزت‘ کردیا جائے کہ کل کو وہ کوئی اصلاح بھی چاہے تو سو بار سوچے کہ کہیں میرا مذاق نہ اڑایا جائے، کہیں میرے بڑے مجھے کچھ بتانے سے پہلے میری بھد نہ اڑائیں کہ اتنے بڑے ہوگئے ہو تمھیں ابھی تک اتنی سی بات ہی نہیں پتا۔

اب اس سب کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہی کہ اس کے سیکھنے اور تربیت کے عمل کی بیخ کنی ہوگی، کیوں کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کے بڑے طعنہ دینا ضروری سمجھتے ہیں، نہ کہ اسے محبت اور توجہ سے کچھ سکھانا۔۔۔! ہم نے بھی اس بچے کے تاثرات دیکھے تھے، اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی۔۔۔ اسے ایک ایسے عمل کے لیے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے لیے وہ اتنا سا بھی قصور وار نہیں تھا۔ یہ اس کے اردگرد کے ماحول اور اسے کے بڑوں کو دوش تھا، کہ وہ اب تک اس طریقے سے ناواقف رہا۔

بدقسمتسی سے ہمارے اکثر اساتذہ بھی اپنے طالب علموں کے سوالات اور سیکھنے کے عمل کا جواب تو دے دیتے ہیں، لیکن پہلے ایک طنزیہ مسکراہٹ یا برہمی ضرور رکھتے ہیں، کہ تمھیں یہی بات نہیں پتا ابھی تک! اب بچہ اپنی کلاس میں بھی کچھ نہ پوچھے تو پھر کہاں سے سیکھے؟ باہر سماج میں بھی اسے سکھانے سے زیادہ ذلیل کرنے پر توجہ ہو اور پھر شکوہ ہو کہ نئی نسل کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے! ارے ہمیں کبھی اپنے گریبان میں بھی تو جھانکنا چاہیے کہ کیا انھیں جو کچھ تربیت، اقدار، ذمہ داریاں اور فرائض پہنچانے تھے، ہم وہ اچھی طرح پہنچا سکے یا نہیں۔

اگر ہمیں یہی احساس ہو جائے کہ اگر نئی نسل کو کچھ نہیں پتا، یا نئی نسل ایسی ہے، ویسی ہے تو اس میں نئی نسل نہیں، بلکہ ہم اس کے ذمے دار ہیں۔ یہ ہماری نسل کی اور اس نسل کے بزرگوں کا ذمہ تھا کہ اگلی نسلوں کو وہ سب کچھ سکھاتے کہ جو ہمیں ہمارے بڑوں نے سکھایا۔ اور ہمیں اگر بچپن سے فلاں فلاں باتیں آتی ہیں، تو اس میں بھی ہمارا نہیں، بلکہ ہمارے بزرگوں کا کمال ہے، کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی تھی۔ آج ہم اپنے اس فریضے سے بے پروا ہیں اور شکایت نوجوانوں سے کرتے ہیں، جب کہ ہم انھیں سکھانے جو کا چھوڑتے ہی نہیں، ان کے سیکھنے کی خواہش کو پروان ہی نہیں چڑھاتے، انھیں دھتکار دیتے ہیں، تو بتائیے ایسے میں کوئی کیسے کچھ سیکھے گا؟

 

The post نوجوانوں کی تربیت کیجیے، تضحیک نہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.

’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘

$
0
0

آج سیدعلی شاہ گیلانی سے محرومی کا ایک سال مکمل ہونے پر پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس نے سری نگر کے علاقے حیدرپورہ میں سید علی گیلانی کی قبر کی طرف مارچ کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔گزشتہ برس یکم ستمبر کو کشمیری قوم کے بے مثل قائد سید علی شاہ گیلانی دوران نظربندی انتقال کر گئے تھے۔ ان کا ناتواں جسم مقبوضہ کشمیر میں متعین دس لاکھ سے زائد بھارتی افواج سے زیادہ مضبوط ثابت ہوا۔

ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی سرکار سید علی گیلانی کی زندگی میں ان سے خوفزدہ رہی، انھیں قابو کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا ، برسوں تک گرفتار اور نظر بند رکھا۔ اس دوران بھارتی سرکار نے متعدد بار پینترے بدل کر سید گیلانی کو ترغیب و تحریص کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن سید علی گیلانی اپنے عزم اور نظریے پر ثابت قدم رہے۔

بھارتی حکومت عمر بھر سید علی گیلانی کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ رہی۔ 1981ء میں ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا، کہاگیا کہ وہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تب سے تادم آخر انھیں پاسپورٹ جاری نہ ہوا، سوائے2006ء کے ، جب انھیں حج کے لئے پاسپورٹ جاری کیاگیا اور واپسی پر پھر ضبط کرلیا گیا۔ سید علی گیلانی گردے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ 2006ء ہی میں ڈاکٹروں نے ان کے لئے بیرون ملک علاج تجویز کیا۔ اس وقت تک کینسر ابتدائی مرحلے پر تھا۔ تاہم ڈاکٹروں نے اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے سرجری کی تجویز دی ۔ اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے براہ راست حکم پر پاسپورٹ گیلانی صاحب کے فرزند کے حوالے کیا گیا۔

ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق سرجری امریکا یا پھر برطانیہ میں ہونا تھی، تاہم امریکی حکومت نے انھیں ویزا دینے سے انکار کردیا۔ سبب یہ بتایا گیا کہ سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر کے ضمن میں پُرتشدد سوچ کے حامل ہیں۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ اور احباب نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا ، کیونکہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے والی امریکی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھا لیکن امریکی حکمران پوری ڈھٹائی سے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ نتیجتاً انھیں ممبئی ( بھارت) سے آپریشن کروانا پڑا۔

سید علی گیلانی کی جیل میں قید اور گھر میں نظربندی کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ دنیا میں سب سے زیادہ قید رہنے والے حریت پسند رہنما تھے۔ وہ صرف بھارتی قیادت ہی کے دل میں کانٹے کی طرح نہیں کھٹکتے تھے بلکہ بہت سے اپنوں کی نظروں میں بھی نہیں جچتے تھے۔ ایک واضح موقف رکھنے والا ، جرات مند شخص منافقوں کے لئے پسندیدہ نہیں ہوسکتا !!! بالخصوص ایسے ممالک کے لئے جو مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر بھی روٹی روزی کماتے ہیں۔

سید علی گیلانی کا انتقال ہوا تو بھارتی قیادت اس خوف کا شکار ہوئی کہ نمازجنازہ کا اجتماع بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ جب اہل خانہ نماز جنازہ کی تیاری کر رہے تھے تو بھارتی قابض فوج کی بھاری نفری نے سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، اہل خانہ کو ہراساں کیا اور ان کی میت قبضے میں لے کر ، ان کی آخری وصیت کے برخلاف زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں تدفین کر دی۔

مودی حکومت نے امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر سید علی گیلانی کی جبری تدفین کے بہیمانہ اقدام کو جواز دینے کی کوشش کی تاہم کشمیری عوام نے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ سیدعلی گیلانی کے اہل خانہ اور دیگر کشمیری رہنمائوں نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو انتہائی متعصبانہ قرار دیا۔

کشمیری قیادت نے اس اقدام کو کشمیر کی مسلم آبادی کو سزا دینے کی ایک کوشش قرار دیا ۔92 سالہ قائد حریت کی نماز جنازہ کی ادائیگی اور تدفین کے سلسلے میںبھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی او آئی سی نے مذمت کی تھی اور اسے ’ رائٹرز‘ ، ’ واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’ فرانس 24 ‘ جیسے اہم بین الاقوامی خبر رساں اداروں اور اخبارات نے نمایاںجگہ دی تھی۔ پاکستان نے بھی سید علی گیلانی کی میت چھیننے کے بھارت کے وحشیانہ عمل کی مذمت کی تھی۔

بھارت کا یہ طرز عمل واضح طور پر ظاہر کر رہا تھا کہ وہ تمام تر جبر اور قوت استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کو خوف زدہ نہ کرسکا ، ان کے دلوں سے سید علی گیلانی کی محبت کم نہ کرسکا ۔ بابائے حریت کشمیر کی تدفین کے بعد بھی بھارت خوف و دہشت میں مبتلا رہا ۔ نتیجتاً سری نگر اوراردگرد کے پورے علاقے کامحاصرہ کر کے لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ پابندیاں مسلسل جاری ہیں۔ بھارت کی پوری کوشش رہی کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد مقبوضہ کشمیر میں موجود غم و غصہ کو زیادہ بڑے احتجاج میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔ تاہم کشمیریوں نے اس پورے عرصہ کے دوران بحیثیت مجموعی خاموش احتجاج جیسی کیفیت کا مظاہرہ کیا۔

کشمیری قوم سید علی گیلانی کے بعد

بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ سید علی شاہ گیلانی کے بعد تحریک آزادی جموں و کشمیر کا رنگ ڈھنگ ماند پڑ جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ سبب یہ ہے کہ بابائے حریت سید علی گیلانی نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جس کی رگوں میں خون کے ساتھ آزادی کے جذبات رواں دواں ہیں۔ سید علی گیلانی کا اپنی قوم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے کشمیری قوم کو ایسی جعلی قیادت سے نجات دلائی جو بظاہر تو کشمیری تھی لیکن بباطن بھارتی سرکاری کے مفادات کے لئے کام کر رہی تھی۔ ان میں سب سے بڑا نام اپنے آپ کو ’’ شیر کشمیر ‘‘ کا نام دینے والے شیخ محمد عبداللہ کا تھا۔

انھوں نے بھارتی قیادت کے ساتھ ساز باز کی اور تحریک حریت کشمیر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرڈالا۔ یہ وہ رہنما تھا جسے بھارتی قیادت نے ’’ وزیراعظم ریاست جموں کشمیر ‘‘ قرار دیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی حیثیت ایک وزیر سے زیادہ نہ تھی۔ بعدازاں اس کے ساتھ جو کچھ بھارتی سرکار نے کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آنے والے برسوں میں مقبوضہ کشمیر کے ’’ حکمران ‘‘ کے لئے وزیراعظم کے بجائے ’’ وزیراعلیٰ ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دہلی کی طرف بھیجا جانے والا گورنر تمام تر اختیارات کا مالک ہوتا تھا اور وزیراعلیٰ کے لئے گورنر کے تمام احکامات کی بجاآوری فرض تھی۔

ایسے میں سید علی گیلانی اپنے واضح اور مضبوط موقف کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا : ’’ میں سر زمین کشمیر پر بھارتی فوج کے قبضے سے کبھی ذہنی مطابقت پیدا کر سکا نہ سمجھوتا کرسکا۔ یہ موقف اور اس پر استقامت میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سب اسلام کی دین ہے۔ میرا پختہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ اسلام کامل ضابطہ حیات ہے۔اور دوم، یہاں بھارت کا قبضہ جبری اور بلا جواز ہے۔جتنا خدا وند کریم کے وجود پر یقین ہے اتنا ہی ان دو باتوں کی صداقت پر یقین ہے۔‘‘ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ‘ جیسا عظیم نعرہ دیا جس نے جد وجہد آزادی کے بارے ہر طرح کے ابہام کا خاتمہ کر دیا۔

سید علی گیلانی کا کہنا تھا : ’’ اس سر زمین پر گذشتہ عشروں سے بھارت کا فوجی تسلط ہے۔ اتنے لمبے عرصے میں مفتوحہ عوام کا تقسیم ہونا، یا دیگر طور پر متاثر ہونا،ناممکن نہیں ہے۔ یہ فطری ہے، اور یہ تحریک آزادی کے لیے بالکل مایوس کن نہیں ہے۔ اقتدار کاچسکا بھی ایک وجہ ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے ضمیر بیچنا پڑے یا پوری قوم کو دائو پر لگانا پڑے۔لیکن اس سب کے باوجود آزادی کی امنگ ہر جگہ موجود ہے، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پونچھ راجوری میں سب سے زیادہ فوجی ارتکاز اور دبائو ہے، لیکن وہاں بھی عوام کے سینے جذبہ آزادی سے خالی نہیں ہیں۔‘‘

سید علی گیلانی 1972ء سے 1982ء تک ، پھر 1987ء سے 1990ء تک جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے تاہم انھوں نے دیکھا کہ ریاستی اسمبلی کا حصہ بن کر کشمیری قوم کے مفادات کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا، نتیجتاً وہ انتخابی سیاست سے باہر آگئے۔ انھوں نے ایک نئے انداز سے تحریک حریت کشمیر شروع کردی جس نے اس قدر زور پکڑا کہ بھارتی قیادت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ اس تمام تر صورت حال کی ذمہ دار جماعت اسلامی اور اس کے رہنما سید علی گیلانی کو سمجھتی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ گیلانی صاحب سمیت جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتے رہے، آنے والے برسوں میں ان سے اس سے بھی زیادہ سخت سلوک روا رکھا گیا حتیٰ کہ انھیں قتل بھی کیا گیا۔ تاہم سید علی گیلانی کی تربیت یافتہ نسل بے خوف ہے، بھارت سے آزادی کے خواب اس کی آنکھوں میں روشنی بن کر چمکتے ہیں۔

بھارت کسی بھی قیمت پر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اپنا قبضہ تسلیم کروانا چاہتا ہے۔ گزشتہ آٹھ برس سے نریندر مودی سرکار بھی مقبوضہ کشمیر پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کیلئے ہر حربہ اختیار کرچکی ہے لیکن نتائج ( مودی سرکار کی ) توقع کے برعکس دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وہ ایک طرف جبر اور وحشت کا راستہ اختیار کرتی ہے ، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے سامنے ترقی اور امن کی باتیں بھی کرتی ہے۔کشمیری قوم اب مزید دھوکہ کھانے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سرکاری سخت فرسٹریشن کی شکار ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا فسطائی مودی حکومت کی کشمیریوں کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوجی جوانوں کو ان کے گھروں، چوکوں، سڑکوں اور بازاروں سے اغوا کرتے ہیں اور انہیں دوران حراست لاپتہ کر دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ مغوی نوجوانوں کو کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں لے جا کر جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد انہیں عسکریت پسند قرار دیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن کے مطابق بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے1989 سے اب تک 8ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ان لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد گمنام اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔ مقبوضہ علاقے میں اب تک ہزاروں گمنام اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں اور یہ قبریںان لاپتہ کشمیریوں کی ہوسکتی ہیں۔

فوجیوں نے امسال اگست ہی میں ضلع بارہمولہ کے علاقے اْوڑی میں تین نوجوانوں کو ماورائے عدالت شہید کیا اور انہیں عسکریت پسند قرار دیا۔ فوجیوں نے ضلع راجوری کے علاقے نوشہرہ میں دو نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ رواں برس 28 جون کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کیرن میں جعلی مقابلے میں دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا تھا اور مقامی لوگوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ فوجیوں نے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا اور بعد میں انہیں جعلی مقابلے میں شہید کر دیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ فوجیوں نے گزشتہ برس 29 جون کو سری نگر میں ایک کشمیری نوجوان کو جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔ فوجیوں نے نوجوان کو شہر کے علاقے پارم پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران حراست میں لینے کے بعد شہید کیا۔ رپورٹ میں بتایاگیا کہ بھارتی فورسز نے 13 دسمبر 2021 کو سری نگر کے علاقے رنگریٹ میں بھی دو کشمیری نوجوانوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے تین برس مکمل ہوچکے ہیں، اس دوران مقبوضہ کشمیر کے حالات ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی سرکار اپنے اس اقدام سے جن نتائج کی توقع تھی ، وہ نہیں مل سکے۔ معروف صحافی افتخار گیلانی کے مطابق بھارت کی چند مقتدر شخصیات پر مشتمل فکر مند شہریوں کے ایک گروپ، جس کی قیادت دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اجیت پرکاش شاہ اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے کر تے ہیں، نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور خطے کو دولخت کرنے کے تین سال بعد بھی عوام شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

مزید اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے’’ اقتصادی خوشحالی اور سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات، پچھلے تین سالوں میں جموں و کشمیر میں بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہواہے۔ عوا کی قوت خرید میں خاصی کمی آئی ہے۔ آٹو موبائل، جو امارت کا ایک اشاریہ ہے،کی خرید و فروخت میں 30فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گو کہ بھارت میں بے روزگاری کی شرح جون کے ماہ میں 7.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جموں و کشمیر میں یہ شرح اوسطاً 16.37 فیصد ہے اور اس میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 5 اگست 2019 سے قبل یہ شرح اوسطاً 13.5فیصد تھی۔ مارچ 2022 میں یہ شرح 25 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایک اور سروے کے مطابق مارچ میں 15سے 29سال کی عمر کے افراد میں 46.3 فیصد بے روزگاری کی شرح ریکارڈ کی گئی۔‘‘

یہ ہیں وہ حالات ، جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کمزور پڑنے کے خواب دیکھتا ہے۔ امسال بھی کشمیریوں نے اپنے آپ کو بھارتی قوم سے الگ تھلگ رکھا۔ پاکستان کے ساتھ یوم آزادی منایا ، اور بھارت کے یوم آزادی ( پندرہ اگست ) کو ’ یوم سیاہ ‘ کے طور پر منایا گیا۔ بطور ثبوت پندرہ اگست کو سری نگر کے لال چوک کا منظر دیکھنا چاہیے۔ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح ریاستی دارالحکومت سری نگر حتیٰ کہ لال چوک میں صرف بھارتی فوجی سخت ترین پہروں میں کھڑے تھے۔

تمام بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے تصاویر کی صورت میں یہ مناظر دکھائے۔ یہ ہے وہ مقبوضہ کشمیر جو سید علی گیلانی چھوڑ کر گئے ہیں اورکشمیری قوم آج بھی اپنے قائد حریت کے پیغام کو سینے سے لگائے مصروف عمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیری قوم بھارت کی چال بازیوں کو گزشتہ پون صدی سے بخوبی دیکھ رہی ہے، وہ بھارتی قیادت کے کھلے اور چھپے دونوں چہرے دیکھ چکی ہے، ایسے میں اسی راستے کو نجات کی راہ قرار دیتی ہے جس پر سید علی گیلانی چل رہے تھے۔

obaid.abid@express.com.pk

The post ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

ہمت و عزیمت کے کوہ گراں کی داستان حیات

$
0
0

ولر جھیل کے شمال مغرب میں وٹلب اور بابا شکور دین کے مزار کے قریب زوری منز نامی ایک خوب صورت گاؤں آباد ہے۔

سیاہ زیرے اور سنہری سیبوں سے مہکتا ہوا اور اخروٹ و آلو بخارے کے باغوں سے لدا پھندا گائوں ہر روز ولر کے نیلے پانیوں میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔ سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929ء کو اسی گائوں میں پیدا ہوئے۔

کون کہہ سکتا تھا کہ نہر زینہ گیرکی کھدائی کرنے والے مزدور سید پیر شاہ کا یہ بیٹا ایک دن پورے کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کا حکمران ہوگا اور قائد تحریک حریت کہلائے گا۔ وہ منا سا بچہ جو چھ برس کی عمر میں گردو نواح کی پہاڑیوں سے زیرہ جمع کر کے بازار میں فروخت کیاکرتا تھا اور جو ایک دن زیرے کی گٹھڑی سمیت نہر میں گر پڑا تھا اور اس کو بمشکل ڈوبنے سے بچایاگیا تھا،کسے خبر تھی کہ سید علی ہمدانی کی میراث کا وارث بننا اس کے مقدر میں لکھا ہے۔

سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر میں مخلتف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ 1949ء میں پہلی بار انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے شناسائی حاصل کی۔ فکر اقبال کے بعد سید مودودی نے انہیں اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کا درس دیا اور وہ آزادی اور اسلام کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے یکسو ہوتے چلے گئے۔ پھر مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ایک نئے انقلاب سے شناسا ہو ئے۔ اس وقت سید علی گیلانی بیس برس کے تھے۔ رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے۔ ان سے پہلے برصغیر سے سید ابوالحسن علی ندوی اور سید ابو الاعلی مودودی رکن رہے ہیں ۔ان کی تحریر میں بلا کا تسلسل تھا۔

کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھئے تو ایک طالب علم کو وافر مقدار میں اپنی علمی پیاس بجھانے کا مواد مل جاتا ہے۔ ان کی خطابت کا تو کیا کہنا، محمد اشرف صحرائی بتاتے ہیں کہ ایک بار شب قدر پر بارہمولہ میں چھ گھنٹوں تک مسلسل بولتے رہے۔ ان کی زبان میں بلا کی تاثیر تھی ، جب بولتے تو ایک نوجوان مقرر کی طرح بڑے ہی دلنشین انداز میں بولتے۔ کبھی گرجتے تو کبھی ان کی آنکھیں برستیں۔ پیر و جوان ان کے خطاب پر فدا تھے۔

ان کی خطابت میں الفاظ کا انتخاب اور بر محل کسی بھی بات پر پوری قوت سے دلائل سے اپنی بات رکھنے کا انداز ہی نرالا ہوتا تھا۔ سید علی شاہ گیلانی اپنی پیرانہ سالی میں بھی ایک شاہین صفت نوجوان کی طرح ہی خطاب کرتے تھے۔ حقیقت میں اقبال کے شاہین کی منہ بولتی تصویر تھے۔ ان کی باتوں سے قاری کو یہ احساس ہوتا کہ انہیں کس قدر لگائو ہے اپنے مرشد اعظم قائد انقلاب محمد عربی ﷺ کی ذات مبارک سے۔ ان کی ہر بات کی ابتداء اور انتہا اسی بات پر ہوتی ہے کہ رسول رحمت ﷺ کی اطاعت کی جائے مسائل کا حل سیرت طیبہ سے نکالا جائے۔

سید علی گیلانی جماعت اسلامی ریاست جموں و کشمیر کے امیر بھی رہے، ان کی امارت کا دور مختصر رہا ‘ لیکن امیر منتخب ہونے کا ایمان افروز منظر بہت سے لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ مولانا سعد الدین نے شرکائے اجتماع سے کہا کہ میری صحت خراب ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ بار امارت کسی دوسرے شخص پر ڈال دیا جائے۔ بہت سی اہم شخصیات موجود تھیں۔ سب نے یک زبان ہو کر سید علی گیلانی کا نام لیا۔

سید علی گیلانی کھڑے ہو کر رقت آمیز اور لجاجت بھرے لہجے میں بولے کہ وہ بار امارت کے قابل نہیں ہیں ‘ خدا کے لیے انہیں معذور سمجھا جائے ‘ لیکن تمام ارکان مطمئن تھے۔ جب ذمہ داران نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور قرعہ فال ان کے نام پڑ کر رہا تو جناب گیلانی کی حالت غیر ہو گئی۔ کسی نے بھی ان کی اس جذباتی کیفیت کو پہلے نہ دیکھا تھا نہ بعد میں۔ انہوں نے روتے ہوئے ‘ شدت جذبات میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے بمشکل کہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔

کشمیر میں جماعت اسلامی کا اصول ہے کہ ہر رکن جماعت اپنی سال بھر کی آمدنی میں سے ایک ماہ کی آمدنی ( جماعت اسلامی کے ) بیت المال میں جمع کراتا ہے۔ سید علی گیلانی ممبر اسمبلی تھے ‘ ان کا پرانا مکان خستہ ہو چکا تھا ‘ اس لیے نیا مکان بنوا رہے تھے۔ جماعت کے بیت المال میں رقم جمع نہ کرا سکے۔ حکیم غلام نبی امیر جماعت تھے۔ انہوں نے سید علی گیلانی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کر دی۔ یہ جماعت اسلامی کے مثالی نظم کی ایک مثال تھی۔ اس کارروائی سے پہلے ایک جگہ ان کا پروگرام تھا۔ وہ پروگرام میں تو گئے لیکن خطاب نہیں کیا۔ یہ اطاعت نظم تھا۔

رکنیت سے معطل کیے جانے کے عرصے میں اسمبلی میں آپ نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ایک مرحلے پر جب آپ کسی کو جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کا دفاع کر رہے تھے ‘ مخالف ممبران اسمبلی نے کہا ’’ آپ کس جماعت کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے توآپ کو نکال دیا ہے۔‘‘ آپ نے بڑی متانت سے مگر بر جستہ فرمایا۔’’ جماعت نے مجھے نکالا ہے ‘ لیکن میں تو نہیں نکلا ہوں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی مجھے اپنے نصب العین اور مقصد کی آبیاری کرتی نظر آتی تو میں نکل بھی جاتا۔ لیکن اب تو یہ معاملہ ہے کہ جماعت مجھے دروازے سے نکالے گی میں کھڑکی سے اندر آ جائوں گا۔

پھر وہ زمانہ بھی آیا جب انہیں شدت سے احساس ہوا کہ جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت تحریک حریت کا پلیٹ فارم بنانا لازمی ہے ۔ آج تحریک حریت کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے جو کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں مصروف العمل ہے۔ سید علی شاہ گیلانی آزادی کشمیر کا سیاسی چہرہ قرار پائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اگر عالمی سطح پر بھی تعصب کے بغیر بے لاگ طریقے سے دنیا کی با اثر شخصیات کے انتخاب پر سروے کیا جائے تو اس میں بھی سید علی شا ہ گیلانی کی بصیرت اور عظمت کا برملا اعتراف کیا جائے گا۔

اپنے عقیدے اور فکر کے ساتھ والہانہ لگائو رکھنے کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ سید علی گیلانی نے پوری زندگی اپنی فکر اور عقیدے کی بے خوفی سے دفاع کیا۔ ان کی زندگی اْن کی تحریروں ، تقریروں ، تنظیمی دوروں ، مذہبی سرگرمیوں اور قید و بند پر مبنی ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ اْنہوں نے کب اپنی نجی زندگی گزاری۔

مزاحمت کی علامت کے طور پر پہچانے جانے والے سید علی گیلانی نے اپنی ’زندگی‘ کے ایک حصہ کو ’ولر کنارے‘ کا نام دے کر منظر عام پر لائے ۔ میں بھی اْن لوگوں میں شامل تھا جو اس بات کیلئے بیتاب تھے کہ ’ ولر کنارے‘ کا کونا کونا چھان کر اس راز کو حاصل کریں کہ آخر کس طرح سید علی گیلانی نے اپنے اندر اتنی طاقت سمو لی ہے کہ وہ اپنی اْسی بات پرقائم رہے جس کا مطالبہ اْنہوں نے پانچ دہائیاں قبل کیا تھا۔ اور پھر دوران مطالعہ یہ بھی میرے لئے دلچسپی کا باعث تھا کہ مجھے اْس شخص کی باتیں پڑھنے کا موقع مل رہا ہے جو اْن واقعات و حالات کا عینی گواہ ہے جن کا وقوع پذیر ہونا ہی موجودہ صورتحال کی اصل وجہ ہیں۔

سید علی گیلانی نے عمر نصف سے زیادہ زندگی اسیری کی حالت میں مختلف جیلوں میں گزاری جہاں پر ان کے روز و شب کی داستان ’ روداد قفس ‘ کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے ، جسے پڑھتے ہوئے کئی جگہ پر فرط جذبات سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔

The post ہمت و عزیمت کے کوہ گراں کی داستان حیات appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی 154؛ کچھ پُوربی ہوجائے

$
0
0

 کراچی: سُنبے کریو بھَئین(بھَئی ین) تنسی بات ہماری

وادیس چلبے کریں بھَئین باری باری

یا سُسَرو ا دیس ایسا پاپی بھَئیو

ساتھ دیبے نہ کریں مہروا اولادیا ہماری

(مفہوم: سُنو بھائی ذرا،ہماری بات، بھائی ہم سب ہی اُسی دیس یعنی آخرت کو باری باری سفرکرتے ہیں۔یہ سُسرا دیس یعنی دنیا گناہوں سے اس قدر پُر ہے کہ یہاں تو ہماری اولاد بھی ساتھ نہیں دیتی۔سُسر کو سُسرا کہہ کر وہی انداز اپنایا ہے جو آج کل سالا کہہ کر کسی معاملے میں سخت سُست کہتے ہوئے ہوتا ہے)۔

یہ نمونہ کلام ہے میرے داداجان سمیع الدین صدیقی (مرحوم) کی پوربی شاعری کا جو(میرٹھ سے آبائی تعلق کے باوجود)، حسب ِ منشاء پنجابی میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ پوربی سے واقفیت بچپن میں اُنھی کا کلام سن کر ہوئی، مگرتب اس کی ادبی حیثیت معلوم نہ تھی۔

اردو(نیز ہندی) زبان کی قدیم وزندہ بولیوں میں سب سے منفرد، مزے دار اور مستحکم بولی، پُوربی ہے جسے پُربی بھی کہا جاتا ہے۔ پُوربی کا مصدر ہے، ہندی الاصل لفظ ” پُورَب“ یعنی مشرق، وہ جگہ جہاں سے سورج نکلتا ہے یعنی طلوع ہوتا ہے۔اس کا متضاد ”پَچھِم“ (مغرب) ہے۔ پُوربی سے مراد ہے ہندوستان (غیرمنقسم) کے مشرقی علاقوں میں بولی جانے والی بولی،(نیز اُن علاقوں کا کوئی باشندہ، اس خطے سے تعلق رکھنے والا) اور ایک قسم کی راگنی جو مغرب کے وقت سے قبل گائی جاتی ہے۔

پرانے وقتوں میں عورتیں ایک خاص قسم کا ”لمبے پٹھے“ کا تیزتمباکو بکثرت کھاتی تھیں جسے ”پوربی زَردا“ کہا جاتا تھا۔ بنگال میں اگنے والے چانول(چاول) کی ایک قسم بھی اسی نام سے موسوم ہے، جبکہ فنّ کُشتی میں حریف کو پِچھاڑنے کے لیے لگایا جانے والا ایک داؤں بھی پُوربی کہلاتا ہے۔

بطوراسم پُورَب کا استعمال، اردو اَدب میں سب سے زیادہ نمایاں اورمشہور، میرؔ کے اُس قطعے میں ہوا جو اُنھوں نے لکھنؤ میں اپنا مضحکہ اُڑانے والوں کے روبرو، بطور تعارف فی البدیہ کہہ سنایا تھا:

کیا بُود وباش پوچھو ہو پُورَب کے ساکنو!

ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس کے پکار کے

دِلّی جو ایک شہر تھا، عالَم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اُس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کردیا

ہم رہنے والے ہیں، اُسی اُجڑے دیا رکے

ذرایہ کہاوت دیکھیں،”پورب نہ پچھم،گھر ہے اتم۔جو سکھ چبارے بلخ نہ بخارے“ تو اَنگریزی کی مشہور کہاوت East and west home is bestکا بالکل ترجمہ معلوم ہوتی ہے۔زبانوں میں اس طرح کی مماثلت بعض اوقات اتفاقاً بھی ہواکرتی ہے۔

مشرق سے چلنے والی ہوا جو پانی لاتی ہے اور مرطوب ہوتی ہے، پُرواکہلاتی ہے۔یہ لفظ درحقیقت ”پُوروا“ یعنی پُوربا کی ایک شکل ہے، جسے بگاڑ کر پُوربیا بھی کہاگیا یعنی مشرق سے تعلق رکھنے والا یا مشرقی باشندہ۔ہواکے معنوں میں یہ مؤنث ہے، جبکہ اس کا ماخذ، مذکر۔پُروا سے متعلق اشعار بھی تلاش کے بعد مل سکتے ہیں، سردست خاکسار اَپنی ایک ہائیکو پیش کرتا ہے:

پیپل اور پُروا

تیری یادوں کی بارش

بھیگا ہوں تنہا

(سہیل احمد صدیقی)

جدید تحقیق کی رُوسے،اردو کے قدیم ترین مصنف وشاعرقرارپانے والے، حضرت مخدو م شرف الدین احمد(بن مخدوم یحیٰ) مَنیری بِہاری(رحمۃ اللہ علیہ)]جون 1263 ء تا 3 جنوری 1381ء[ کے کلام (بشمول دوہوں)میں پوربی کی ابتدائی شکل نظر آتی ہے، مگر ”بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204ء سے 1857ء“ کے مصنف ڈاکٹر اخترؔ اورینوی نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا اور اسے بِہاری بولی کا نمونہ قراردیا۔ویسے تو انھوں نے امیرخسروؔ سے بھی پہلے کے بِہاری شاعر (نام نمعلوم) کا مع حوالہ (بِہار اور اُردو شاعری از معین الدین دردائی، صفحہ نمبر 2) ذکر کرتے ہوئے اُس کا یہ شعر نقل کیا ہے جو بظاہر سلطان ناصرالدین محموداور اُس کے بیٹے مُعِزالدین کَیقُباد کی جنگ کے وقت کہا گیا تھا:

مَنکی(من کی) اوجڑی(اُجڑی) نگری کو تب کریں آباد دان

ناصر دیں ؔ (ناصر الدین محمود) سے جب ملیں موجدین کبادان(مُعِزالدین کَیقُباد)

مگریہ حوالہ معروف نہیں، نیز یہاں نام مذکورنہیں۔البتہ اخترؔ صاحب نے مخدوم شرف ؔ کے تلمیذِ ارشد، حضرت مظفر شمس بَلخی (رحمۃ اللہ علیہ)کے دوہے نقل کرتے ہوئے پوربی کا اثر ظاہر کیا ہے اور قوسین میں اَودھی وبِہاری لکھا ہے، گویااُن کے نزدیک پوربی، ان دوبولیوں کے امتزاج سے بننے والی بولی ہے۔میری دانست میں پوربی، بِہاری سے بہت قریب ہے اور آج بھی بعض بِہاری بزرگوں کی گھریلو گفتگو میں یہ قربت ومماثلت سننے کو ملے گی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ معاصر،گوپی چند نارنگ نے پوربی کو اَودھی اور بھو ج پوری کا مجموعہ قراردیا ہے:”کبیر کا درجہ سنت کوئیوں میں بہت اونچا ہے۔ ان کی پیدائش سمت 1455 وکرمی (1398ء) کی بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پوری پندرہویں صدی اور کچھ بعد تک زندہ رہے۔

وہ کاشی(بنارس۔ س ا ص) میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کی پوربی یعنی اودھی اور بھوجپوری کا قدیمی روپ جیسا اس وقت کاشی اور اس کے نواح میں بولا جاتا ہوگا، وہی کبیر کے بچپن کی زبان رہا ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ زندگی بھر جوگیوں، سادھوؤں، سدھوں اور فقیروں کے ساتھ جگہ جگہ گھومتے رہے، اس زمانے کی عوامی زبان بھی ان کی زبان پر چڑھ گئی ہوگی۔

ان کی شاعری، شاعری کے لیے تھی ہی نہیں، بلکہ عام لوگوں تک اپنا روحانی پیغام پہنچانے کا وسیلہ تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں جو بولی یا بھاشا عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہوگی، کبیر نے کاشی کی بولی کے علاوہ اس کا اثر بھی قبول کیا ہوگا۔ اسی لیے کبیر کی بھاشا ملی جلی بھاشا ہے۔ اس میں پوربی کا پُٹ تو ہے ہی، کھڑی کا انداز بھی ہے، جس نے ان کی شاعری کی قبولیت میں خاص کردار ادا کیا اور ہوتے ہوتے کبیر کے بول ملک کے طول وعرض میں ہر دل کی دھڑکن بن گئے۔“ (زبان کے ساتھ کبیر کا جادوئی برتاؤ: گوپی چند نارنگ)۔پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کے قول کے مطابق، ”مشرقی ہندی کی تین بولیاں اَوَدھی، بگھیلی، چھتیس گڑھی اہم ہیں، جن میں اَوَدھی ادبی حیثیت میں سب سے آگے ہے، اس کے افعال پر مغربی ہندی کا اثر ہے اور اَسماء وضمائر میں بِہاری سے متأثر ہے“۔گویا راقم کی بات کی تصدیق ہوگئی۔(زبان وادب: مطالعہ وتحقیق)۔

یہاں رک کر ایک انکشاف: ماہرلسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری کی تحقیق کے مطابق، مرہٹی کے شاعر،پنڈِت گیانیشور(پ: 1275ء)، قدامت کے لحاظ سے، اردو کے سب سے پہلے شاعر تھے۔(”اردو کی کہانی“)۔گیانیشور کی شاعری کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے موصوف نے ارشادفرمایا کہ اُن کے یہاں برج بھاشا کے کچھ بولوں کے سوا، پوری کی پوری عمارت کھڑی بولی (قدیم اردو) پر کھڑی ہے۔گیانیشور کی چھوٹی بہن مکتا بائی(پ: 1279ء) بھی مرہٹی اور کھڑی بولی کی شاعرہ تھیں۔ اس طرح انھیں بھی اردوشاعرات ِ قدیم میں اولیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔

1540-41ء میں ہندی /ہندوستانی کے ممتاز شاعر ملِک محمد جائسی نے ”پَدما وَت“ نامی رَزمیہ کلام قلم بند کیا جسے پروفیسر حبیب اللہ غضنفر نے اپنی کتاب ’ہندی ادب‘ میں پوربی اور اَوَدھی کا نمونہ قراردیا، جبکہ انٹرنیٹ پر دستیاب مواد میں اسے اَوَدھی کا اولین رزمیہ لکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل بخاری کی تحقیق کی رُو سے ”جائسی ؔ کی زبان اَوَدھی (پوربی) ہے، بلکہ اَوَدھی کا بھی وہ رُوپ ہے جو جائسیؔ کے آس پاس چالوہے۔اس میں عربی،فارسی کے بھی کافی الفاظ استعمال ہوئے ہیں“: ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ۔جائسیؔ نے پدماوَت میں ایک جگہ فرمایا: ترکی،عربی،ہندوی،بھاشاجیتی آہ+جا میں مار گ پریم کا سبے سراہے تاہ

یہ داستان کچھ تاریخی اور کچھ تمثیلی یعنی غیرحقیقی وفرضی ہے اور اس کی بنیاد پر، سلطان علاؤ الدین خلجی اورجزیرہ سنگلدیپ کے راجا گندھرپ سین کی حسین بیٹی، شہزادی پدماوتی کا عشق بہت مشہور کیا گیا۔جدید دورمیں بھی اس کی بازگشت سنائی دی، جب بھارت میں ایک فلم کے ذریعے اس حکایت کو پردہ سیمیں کی زینت بنایا گیا،ایسے میں متعصب ہندوؤں نے مسلمان حکمرانوں کی بڑھ چڑھ کر برائیاں بیان کیں، حالانکہ یہ قصہ تاریخ سے ثابت نہیں۔ جائسیؔ کو ہندو مذہب کی تعلیمات اور متعلق تمام مواد پر عبور حاصل تھا، انھوں نے پوری مثنوی میں جابجا ہندودیو مالا کے حوالے، سامان ِ حرب (جنگ) کی تفصیل اور آلات ِ مُوسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی علمیت کا ثبوت دیا،نیز منظر کشی میں کمال کی مہارت دکھائی۔چیچک سے متأثرہونے والے یک چشمی شاعر نے اپنی صلاحیتوں سے ایک عالَم کو مرعوب کیا۔

عہد مغلیہ میں اردو کی تشکیل کا سفر بہت سُرعت سے طے پایا۔مقامی بولیوں کے غیرشعوری، فطری اختلاط سے وہ ڈھانچا بنا جس نے بعدمیں ایک مکمل، باضابطہ، باقاعدہ زبان، اردو کی شکل اختیار کی۔بانی سلطنت بابُر سے بھی ایک آدھ ہندوی (قدیم اردو)شعر منسوب ہے، مگر تحقیق سے ثابت نہیں، اس کے بعد، اُن کے پوتے، اکبر کی ہندی/ہندوی شاعری کے نمونے ملتے ہیں، جن میں کہیں نہ کہیں، پوربی مل جائے گی، جبکہ اکبر کے رَتن،عبدالرحیم خان ِ خاناں کو ہندی شاعری میں بہت ممتاز مقام حاصل ہوااور اُس دورمیں یہ رُوپ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا، ہرچند کہ وہ بہ یک وقت عربی،فارسی،ترکی،سنسکِرِت، پُرتگیز سمیت متعدد زبانوں پر حاوی تھے اور قیاس ہے کہ انگریزی سے بھی شاید واقف ہوگئے تھے۔اسی فہرست میں بعض دیگر شعراء کے ساتھ ساتھ، بادشاہ جہانگیر کے فرزند،شہزادہ شہریارکا نام بھی آتا ہے، جن کا ہندوی کلام بہت صاف ہے۔

مغل تاجداروں میں بطور شاعر سب سے زیادہ شہرت آخری بادشاہ بہاد رشاہ ظفرؔ کو ملی، مگر اُن سے بہت پہلے شاہ عالم ثانی،آفتاب (1727 تا 1806)ؔکے تخلص سے اپنی شعرگوئی کا چراغ جلا چکے تھے۔وہ اردو، پنجابی، برج،عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی سے بخوبی واقف اوردینی تعلیم سے بہرہ وَر تھے، (گزشتہ کالم زباں فہمی’اردو اور ترکی کے سے لسانی روابط پر ایک نظر‘،مؤرخہ 14اگست 2022ء میں راقم نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ شاید اورنگزیب عالمگیر کے جانشیں آخری بادشاہوں میں کوئی ترکی سے واقف بھی نہ ہوگا، اس کی اب تردید ہوگئی)،جبکہ انھوں نے فارسی، اردو، برج، پوربی اور پنجابی میں شعر کہے۔اُن کے دیوان میں تقریباً تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی موجود نظر آتی ہے۔اُن کی تصانیف میں دیوان اردو،مثنوی منظوم اقدس،نادرات،دیوان فارسی اور عجائب القصص۔ مؤخرالذکر کو اٹھارویں صدی کے نثری ادب میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔اردو میں شاہ عالم ثانی آفتابؔ کا یہ کلام ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے:

صبح اُٹھ جام سے گزرتی ہے

شب دلا رام سے گزرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گزرتی ہے

جدید دورکی شاعری میں بھی پوربی کا وجود باقی ہے۔ہمارے بزرگ معاصرپیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی چشتی(14 نومبر 1949ء تا13 فروری 2009ء) اردو، فارسی،پنجابی، عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں شعرگوئی کے سبب”شاعر ہفت زبان“ کے لقب سے ملقب ہوئے۔اُن کی کتاب ”عرشِ ناز“ میں شامل پوربی شاعری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

ہم کا دِکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی اگیا ساجن ماں

جھونس رہا ہے تن من ہمرا نِیر بھر آئے اَکھین ماں

دُور بھئے ہیں جب سے ساجن آگ لگی ہے تن من ماں

پُورب پچھم اُتر دکھن ڈھونڈ پھری مَیں بن بن ماں

یاد ستاوے پردیسی کی دل لوٹت انگاروں پر

ساتھ پیا ہمرا جب ناہیں اگیا بارو گُلشن ماں

درشن کی پیاسی ہے نجریا ترسِن اکھیاں دیکھن کا

ہم سے رُوٹھے منھ کو چُھپائے بیٹھے ہو کیوں چلمن ماں

اے تہاری آس پہ ساجن سگرے بندھن توڑے ہیں

اپنا کرکے راکھیو موہے آن پڑی ہوں چرنن ماں

چَھٹ جائیں یہ غم کے اندھیرے گھٹ جائیں یہ درد گھنے

چاند سا مکھڑا لے کر تم جو آنکلو مورے آنگن ماں

جیون آگ بگولا ہِردے آس نہ اپنے پاس کوئی

تیرے پریت کی مایا ہے کچھ، اور نہیں مجھ نِردھن ماں

ڈال گلے میں پیت کی مالا خود ہے نصیر اب متوالا

چتون میں جادو کاجتن ہے رس کے بھرے تورے نینن ماں

ایک اور پوربی نمونہ کلام آن لائن تلاش میں دستیاب ہوا جو محترم محمدسہیل عارف معینی کا ہے:

جب پورب پچھم اس کے ہیں دن رات پہ جھگڑا کاہے کا

سب تانا بانا اُسکا ہے پھر کات پہ جھگڑا کاہے کا

تم سادھو ہو؟،کیا جوگی ہو؟، یا شُبھ چنتک ہو تاروں کے؟

جب چاند چڑھا سب دیکھیں گے پھر چھات پہ جھگڑا کاہے کا

ہم دل کی گُولک توڑ چکے،اور جان لگا دی بازی پہ

جب سانس کی نقدی ہار گئے، پھر مات پہ جھگڑا کاہے کا

خود روگ لیا جب جیون کا،کیوں رنج کریں کیوں بین کریں

الزام دھریں کیوں قسمت پر حالات پہ جھگڑا کاہے کا

اِس وحشی جی کی بِپتا کو وہ الہڑ گوری کیا جانے

جس بات کا اُس کو بھید نہیں اس بات پہ جھگڑا کاہے کا

ہم پیت نگر کے کوچے میں اک ڈھونگ رچا کر آئے ہیں

اب ٹھکراوے یا بھکشا دے اُس ہاتھ پہ جھگڑا کاہے کا

جدیددورمیں بھی بعض بزرگوں کے طفیل،ہمارے یہاں پوربی الفاظ، خواہ مخصوص گھرانوں ہی میں، سننے کو ملیں گے،البتہ اکثر اُردو گوطبقے کے لیے نامانوس ہیں،جیسے:

کوچھا: گودمیں لینا، بستیاہ: چھپکلی، نیز بِستُوئیا۔جیسے ”بھیا! بِستُوئیاکے بھگائے دو،تب ہم بورچہ (یعنی باورچی)خانے میں آؤ“۔وِنّیس: اُنیس، وَنتیس: اُنتیس،کلچھلی:باورچی خانے میں راکھ کو چولھے سے نکالنے کا اوزار۔ یا۔ آلہ،منسیدو: شوہر،بھَتار: شوہر، بھَبیا: بھابھی،ڈیڑھ سس: سالی، ججھر: پانی کا برتن، حس دہس: پہاڑ، پتو: بہو، ماٹی: مٹی، گیندا: گیند، چھک چھک پھک پھک: ٹرین، سَنسی: باورچی خانے کا ایک خاص اوزار، ننچا: خاص قسم کا اچار، کھیوڑی: بیسن سے بنی ہوئی سالن کے ساتھ پکائی جانے والی چیز (یہ غالباً وہی ہے جسے ہمارے یہاں ”اُلٹے پَلٹے“ اور پنجاب میں ”کھنڈوِیاں“ کہتے ہیں)،دلائی: لحاف کی ’بہن‘ یعنی رَزائی (رضائی بھی لکھتے ہیں،مگر اس سے اشتباہ ہوتا ہے رِضاعی یعنی دودھ شریک کا)، کتھری: بستر کی چادرکے نیچے کا حصہ، گوڑھ: پاؤں، سوچالا/سونچالا: بیت الخلاء، سوچائیدو: آب دست کرادو،بریٹھا: دھوبی، بریٹھن: دھوبن، آہیر: گوالا، کُلہڑ: مٹی کا آب خورہ یا پیالہ، کابُک: کبوتر کا گھر، مُٹَٹّا: منھ لٹکایا ہوا شخص، گورَےّا: چڑیا، کُوکر: کُتّا،پہاڑی گِلو: چھُپن چھُپائی، آنکھ مچولی، سپایانہ(سپاہیانہ): کمتر ذات برادری والا،گھُمنڈی کھانا: قلابازی کھانا،پھُلوری: پکوڑے،چھوآوت: اچھا لگنا، چِنار: پہچاننا، دیکھنا، نِہارنا: دیکھنا، کیوٹی: ماش اور چنے کی دال کا ملغوبہ، چھُڑَےّا: پتنگ کو دُھرکانا، لٹائی: پتنگ کی چرخی،بھوُرَڑی: ناف،تِیتھ: تیز مرچیلا، مرچ والا، کَنور لہروا: رُ ک رُک کر بارش ہونابھِنسارے: تڑکے،صبح سویرے، بھُوئی: زمین، اِتّی جُول: اسی وقت،ابھی ابھی، فوراً، بھَورا: گرم راکھ، چولھے کی، اَندھوری: برسات میں نکلنے والے گرمی دانے، گھام: تیز دھوپ،پھُک وا: باجرے کے گُڑوالے شکرپارے جن پر تِل لگاتے ہیں، کھربوجنا: جسم پر، خصوصاً مچھروں کے کاٹے سے ہونے والی کھجلی، جس سے آپ بے اختیارجسم کو نوچ ڈالتے ہیں، گُنیا: سہیلی، مور: میری

نوٹ؛ اس ذخیرہ الفا ظ کے لیے اپنے بزرگ معاصر، مصنف، نشریات کار، فن کارڈاکٹر فریداللہ صدیقی اور اُن کے الہ آبادی دوستوں کا صمیم قلب سے ممنون ہوں۔

 

 

The post زباں فہمی 154؛ کچھ پُوربی ہوجائے appeared first on ایکسپریس اردو.

سارے رنگ

$
0
0

’’فلاحی اداروں کی مدد درست مگر۔۔۔‘‘

سیلاب زدگان کے لیے جہاں ملک کے بہت سے روایتی فلاحی اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر امدادی سامان متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ کیا ہے، اور کر رہے ہیں، وہاں گلی محلوں کی سطح پر بھی لاتعداد افراد بھی اپنے اپنے طور پر متاثرین سیلاب کے لیے راشن اور دیگر امدادی سامان جمع کر رہے ہیں۔

یقیناً کسی بھی سماج میں یہ امر خوش آئند ہوتا ہے کہ وہاں نامساعد حالات میں بھی لوگ خلق خدا کی مصیبت دور کرنے کے لیے آگے آگے ہیں، لیکن وہیں تصویر کا ایک رخ اس موقع پر ریاست کے کردار اور سیاست دانوں اور دیگر ’اہل اقتدار‘ کا بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی سطح پر ہمارے ہاں ایسی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا سہولتیں موجود ہیں۔۔۔؟ دوسرا یہ کہ ملک وقوم کے درد میں روز بہ روز ’دُبلے‘ ہونے والے ہمارے نام نہاد راہ نماکب عوام کی مصیبت دور کرنے کے لیے اپنی جیبیں ڈھیلی کریںگے۔۔۔؟ یہ دونوں سوالات ہماری غیر سرکاری تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں کے پیچھے چھپنے نہیں چاہییں!

مانا کہ غیرسرکاری تنظیموں بہت کام کر رہی ہیں، مگر خبردار، یہ کام بدترین ریاستی غفلت کا پردہ نہ بننے پائے۔۔۔! ریاست اپنے عوام سے پورا پورا ٹیکس لیتی ہے، پھر ریاست کی غربت اور اس کے حکم رانوں کی رئیسی اس پر مستزاد! آئے دن کے بھاری بھرکم وفود کے ساتھ بیرون ملک دورے، وہاں کے اثاثے اور معلوم اور نامعلوم جائیدادیں۔۔۔! کوئی ایک تو خبر آئے کہ ہمارے ان ’بڑوں‘ نے قوم کے لیے اپنی کوئی زمین عوام کے لیے عطیہ کر دی ہے۔

کسی نے دبئی کے اقامے کی آمدن سے کچھ ان سیلاب زدگان کے لیے پیش کر دیا، کسی نے لندن کے فلیٹوں کی قربانی دے دی، کسی نے سوئٹزرلینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں بنائے گئے اپنے بینک کھاتوں سے سب یا آدھا نہ سہی، مگر کچھ حصہ ان بے گھر بدنصیب شہریوں کے لیے دے دیا ہو کہ جن کی ریاست کی بار بار حکم رانی انھی گنے چنے خاندانوں میں ہی گھومتی رہتی ہے۔

کسی کو اسی ریاست میں کوئی بہت بڑا اور قابل قدر رتبہ ملا ہو، اور وہ محسوس کرے کہ اس وقت اس کے ملک کے عوام مصیبت میں ہیں، چلیے وہاں سے کچھ عطا ہوجائے، لیکن نہیں! انھوں نے جب بھی واہ واہ کرائی، سرکاری خزانے ہی سے کرائی، کبھی اپنی جیب خاص کا ذکر ہی نہیں کرتے!

وہی روایتی بیانات، ویڈیو پیغامات اور وہی امداد کے لیے کشکول لیے دنیا کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا اور اندرون بیرون ملک پاکستانی شہریوں سے بھی تقاضا کرنا کہ ’قوم مشکل میں ہے، بس پیسہ دیے جائو۔۔۔!‘ ارے، یہی تو موقع ہے کہ آپ بھی تو اپنے ذاتی خزانے کے کچھ تو منہ کھولیں، تاکہ پتا چلے کہ قوم کی فلاح وبہبود، اور عوام کی ترقی کے لیے آپ کتنا کشٹ اٹھاتے ہیں، کبھی مقدمے بھگتتے ہیں، تو کبھی قیدوبند اور کبھی جلاوطنی۔۔۔ لیکن عوام کی خدمت کے لیے ’بے چین‘ رہتے ہیں۔

یہی تو موقع ہے دکھا دیجیے اپنی حب الوطنی۔۔۔! آخر کیوں اس ملک کے عوام ریاست کو ٹیکس بھی دیں، اور پھر مصیبت میں امداد کے لیے بھی آپ کی نظر ان کی جیبوں پر ہو۔۔۔ یہ جواب دہی کیوں نہ ہو کہ بتائیے، وہ ٹیکس کہاں خرچ ہوا؟ حکمرانوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک کے فلاحی اداروں کی بات کریں، مگر وہ خوش ہیں، لوگ بھی مطمئن ہو رہے ہیں کہ بڑی امداد کی جا رہی ہے۔

کیوں کہ بہ الفاظ دیگر یہ فلاحی ادارے ان کی مجرمانہ غفلت ڈھانک رہے ہیں۔۔۔ نہیں صاحب، ’این جی اوز‘ یا یہ غیر سرکاری تنظیمیں کسی بھی ملک کے نظام کا حل کبھی نہیں ہوتیں! یہ ریاست کا بنیادی ذمہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے! وہ اگر عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی نہ دے سکے، تو پھر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔

آج ہم 2005ء کے زلزلے، 2010ء کے سیلاب کے بعد ایک بار پھر ہم خیراتی تنظیموں کے آسرے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ایک گاڑی ندی کے سیلابی ریلے میں بہہ جاتی ہے، تو اس کے لیے بھی فلاحی تنظیم کے رضاکار بلائے جاتے ہیں، کیا یہ تماشا نہیں ہے۔۔۔؟ لیکن اس طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا اور یہ بات بھی بالکل معمول کا حصہ ہے کہ پولیس تک فون کر کے شہر کے فلاحی ادارے کی ایمبولینس ہی بلاتی ہے۔

دراصل یہ ہمارے نظام کی بہت بنیادی غلطی ہے، اور یہ تب تک درست نہیں ہوگی، جب تک یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ آخر کب تک اس ملک کے جاگیر دار، وڈیرے اور حاکم عوام کا روپیا لے کر انھیں خیراتی اداروں کے ذریعے ڈوبنے سے بچائیں گے؟ ریاست کب اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؟ کب امیر ’اہل حَکم‘ کی ریاست یونہی غریب تر اور کنگال ہوتی رہے گی اور عوام اپنی غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی سے اتنے مطمئن ہوں گے کہ وہ یہ سوال ہی نہیں کریں گے کہ یہ ساری امدادی کارروائیاں تو متعلقہ ریاستی اداروں کا بنیادی فریضہ ہیں، نہ کہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں کا۔۔۔!

۔۔۔

الگ وطن
کرن صدیقی

اگست یوں تو ہم سب کے لیے ماہِ آزادی ہے، لیکن فرید احمد کے لی یہ دِن بہت تکلیف دہ ہوتے تھے۔ پاکستان بنتے وقت فسادات میں اُن کا پورا خاندان شہید ہوا تھا۔ اگرچہ اس وقت وہ بہت کم عمر تھے، لیکن وہ سب کچھ اُنھیں یاد تھا۔ جشنِ آزادی کی خوشی تو اپنی جگہ لیکن ان کی یاد بھی سوگوار کردیتی تھی، جنھوں نے آزاد مسلم وطن کی تعمیر کے لی اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ گھر والوں کی شہادت کے بعد خالہ نے انھیں اپنی کفالت میں لے لیا تھا پاکستان آکر انھوں نے بہت سخت وقت گزارا۔ جیسے تیسے اپنی تعلیم مکمل کی، ملازمت کی۔ معاشی حالات کچھ بہتر ہو تو ایک معقول خاندان میں شادی کی۔

کچھ وقت گزرا تو اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔ یوں زندگی مکمل ہوگئی، لیکن فرید احمد کو اپنی ہر خوشی ادھوری لگتی۔ ان کے ذہن سے وہ لمحہ جاتا ہی نہیں تھا، جب ان کے والدین اور بہن بھائیوں کو اُن کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ یہ منظر وہ کبھی نہیں بُھولے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں پاکستان سے محبت بھی بہت تھی اور اِس کی قدر بھی کیوں کہ اس وطن کی بنیادوں میں ان کے پیاروں کا لہو بھی شامل تھا۔

فرید احمد کو محسوس ہوتا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے جشنِ آزادی کی اصل روح ختم ہوگئی۔ اب صِرف ہلّا گُلّا اور تفریح ہوتی ہے، پاکستان کِس مقصد کے لی بنا تھا، یہ جاننے سے کسی کو دِل چسپی نہیں رہی ہے۔

اِس مرتبہ ان کے پوتے معیز نے جشنِ آزادی منانے کا پروگرام بنایا اسی سلسلے میں اس کے دوست گھر پر جمع تھے۔ پروگرام میں ہندوستانی گانوں پر رقص کرنا تھا، چناں چہ ڈیک پہ زور شور سے بھارتی گانے بج رہے تھے اور معیز سمیت اس کے دوست لڑکے لڑکیاں ان گانوں پہ رقص کررہے تھے، فرید احمد جو شور کی آواز سُن کے یہ دیکھنے آ تھے کہ ہو کیا رہا ہے۔ رقص کناں لڑکے لڑکیوں کے بے حجابانہ انداز دیکھ کر ان کی نظریں شرم سے جُھک گئیں۔

ڈیک کی آواز کم کرتے ہو معیز نے اپنی دوست ثمین سے کہا: ’’ یار ثمین تم کِتنا آفت ڈانس کر رہی تھیں۔ کترینہ کیف بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں۔ تم اگر ممبئی میں ہوتیں ناں تو دھوم مچا دیتیں۔‘‘

ثمین نے اِک ادا سے کہا: ’’ کاش کہ میں ممبئی میں پیدا ہوتی، تو میں وہاں کی فلموں میں کام کرتی۔ مجھے بہت شوق ہے ہندوستانی فلموں میں کام کرنے کا اور شاہ رخ وہ تو میرے سپنوں کا راجا ہے۔‘‘

دوسروں لڑکیوں نے بھی ثمین کی تائید کی۔ لڑکے کیوں پیچھے رہتے، وہ بھی کترینہ اور کرینہ کا نام لے لے کے آہیں بھرنے لگے اور اِس بات پہ افسوس کا اظہار بھی کہ وہ بھارت میں کیوں نہ پیدا ہوئی۔ فرید احمد دروازے کے قریب تھے اور یہ ساری باتیں بھی سن رہے تھے۔

اُنھیں یوں لگا جیسے اُن کے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو، لڑکھڑا کر انھوں نے دیوار کا سہارا لیا۔ تبھی معیز کے دوست رافع کا تمسخرانہ انداز میں کہا گیا یہ جملہ تو جیسے ان جسم تو کیا روح تک کو جھلسا گیا۔ رافع معیز سے کہہ رہا تھا،

’’یار تمھارے دادا ہر وقت ہجرت ہجرت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے اتنی قربانیاں دیں، تب یہ وطن حاصل ہوا۔ نہ دیتے قربانیاں نہ کرتے الگ وطن حاصل۔ ہم اگر انڈیا کے ساتھ ہوتے تو کتنا اچّھا ہوتا ناں۔‘‘

’’ہاں تو اور کیا۔ آج اگر ہم انڈیا میں ہوتے تو کتنا مزہ آتا۔ ہر طرح کی آزادی ہوتی۔ ہولی کھیلتے، ڈِسکو جاتے۔‘‘

’’ہاں میں وہاں ہوتی، تو رنویر کپور سے تو ضرور ہی ملنے جاتی۔‘‘

سب اپنی اپنی خواہشات کا اظہار کررہے تھے، تبھی معیز کی تلخ آواز اُن کے کانوں میں آئی۔

’’آخِر ہمارے بڑوں کو ضرورت کیا تھی الگ وطن کی۔ وہیں سب مل کے رہتے۔ کاش پھر سے انڈیا پاکستان ایک ہوجائے!

اور فرید احمد کے دِل میں جیسے کسی نے تیز خنجر گھونپ دیا۔ بدن میں جان نہ رہی۔ انھیں یوں لگا جیسے پاکستان کی خاطر جان دینے والے شہدا کی روحیں ان سے سوال کر رہی ہیں۔ کیا ہم نے اسی لی سب کچھ لٹا کر ایک الگ وطن حاصل کِیا تھا؟؟؟

۔۔۔

روح کے زخم
بدرالنساء
میرا نام شمیم احمد ہے میں ایک اسپیشل کیئر سینٹر میں بطور اکائونٹنٹ کام کرتا ہوں، اس ادارے میں کام کرنے کی وجہ میں آپ کو اپنی روداد میں سناتا ہوں جو میری زندگی کے ساتھ ہوا، وہ مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔

یہ بات ہے آج سے تقریباً 30 سال پہلے کی، جب میں جماعت ہفتم کا طالب علم تھا، میرا اسکول ایک چھوٹے سے قصبے میں واقع تھا جس میں سہولتوں کا فقدان تھا اور اس پر ماشا اللہ استاد ایسے تھے کہ جیسے ہم پر کوئی عذاب مسلط ہو، ہمارا اسکول لڑکوں اور میٹرک تک تھا۔ لوگوں کے لیے یہ اسکول غنیمت تھا کہ سرکاری ہونے کی وجہ سے کوئی فیس تھی اور نہ ہی کوئی اور اخراجات، اس لیے لوگ اپنے بچوں کو لازمی اسکول بھیجتے تھے، مگر ان سادہ لوح عوام کو یہ نہیں پتا تھا کہ ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی، بلکہ وہ اخلاقی پستی میں گر رہے ہیں۔

جماعت ہفتم کا بچہ کتنے سال کا ہوگا، یہی کوئی 12یا 13سال کا، لیکن یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ اس عرصے میں جو وقت گزرا ہوتا ہے، وہ تاحیات اس کی یادداشت میں محفوظ رہتا ہے، میں اپنی جماعت میں ہر روز تقریباً دیکھتا کہ استاد کس بری طرح سے بچوں کو سزائیں دیتے ہیں۔

ان خوف ناک سزائوں کی وجہ سے کتنے ہی بچے اسکول، استاد اور تعلیم سے متنفر ہو کر چلے گئے، میں یہ تماشا روز دیکھتا اور ڈر کے مارے خوف سے کانپ جاتا۔ گھر آکر ماں، باپ کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہ کر پاتا، ہماری کلاس میں خواتین اور مرد دونوں اساتذہ پڑھاتے تھے اور نہایت غیر مناسب انداز بیان اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہم بچے سمجھ نہیں پاتے تھے، مجھے بس اپنا وہ وقت جب یاد آتا تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، میں ایک اچھا طالب علم اور کم گو تھا، ایک دن جس بس سے میں اسکول آرہا تھا وہ خراب ہوگئی اور مجھے اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی۔

جب جماعت میں پہنچا، تو ریاضی کی کلاس ہو رہی تھی، خاتون ٹیچر نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا اور مرغا بنادیا، میں نے بولنا چاہا تو میرے پائوں پر زور زور سے ڈنڈے برسانے لگیں کہ مجھے کچھ پھر ہوش نہ رہا، مجھے پھر اسپتال میں ہوش آیا ،ڈاکٹر نے مجھے والد صاحب سے کہا کہ بچے کی کمر پر کوئی ایسا بوجھ ڈالا گیا کہ اب یہ چل نہیں سکتا، انھیں وہیل چیئر پر رہنا ہوگا۔

اس کے بعد میں پھر کبھی اسکول نہیں گیا، پرائیویٹ طور پر اپنی تعلیم مکمل کی۔ کلاس میں اس طرح کی سزائیں معاشرے میں تشدد کو فروغ دیتی ہیں، یہ سزائیں طالب علموں کی روحوں پر کاری ضرب لگاتی ہیں، ایک استاد کو بچے کے لیے ایک رول ماڈل ہوتا ہے، وہ اپنی ان حرکات کی وجہ سے ایسا حیوان بن جاتا ہے کہ بچہ تعلیم اور متعلم دونوں سے متنفر ہو جاتا ہے۔

آج کئی سال بعد جب میں نے دیکھا کہ استاد بچے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، ان کے لیے قانون سازی کر دی گئی کہ اگر استاد نے بچے کو مارا تو سزا ہو گی۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قانون اچھا ہے کہ کم از کم کسی بچے کا مستقبل تو تاریک نہیں ہوگا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں میں دل کی بیماریاں

$
0
0

پاکستان میں ہر سال 40 سے 50 ہزار بچے دل میں نقص لیے پیدا ہو رہے ہیں اور ان میں 80 فیصد بچوں کے دل میں سوراخ اور باقیوں کے دل کے والو ناقص ہوتے ہیں، انھی میں ایک دن کی عمر سے لے کر چودہ سال کی عمر کے بچے شامل ہوتے ہیں۔

بچوں کو دل کا عارضہ اس دنیا کی فضا میں آنے سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی زندگی کے پہلے چند منٹ کے دوران میں یا بعد میں ناقص دیکھ بھال کے باعث بھی وہ دل کی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔ہر 10 ہزار میں سے تقریباً 7 بچے موروثی طور پر دل میں نقائص لیے پیدا ہوتے ہیں۔

دل میں پیدائشی سوراخ کی علامات

ایٹریل سیپٹل ڈیفکٹ دل کے دو اوپر چیمبروں ( اٹیریا ) کے درمیان دیوار (سیپٹم) میں ایک سوراخ کو کہتے ہیں اور یہ حالت پیدائش کے وقت موجود ہوتی ہے۔ چھوٹے نقائص جو دل میں پائے جاتے ہیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنتے۔ کچھ چھوٹے ایٹریل سیپٹل نقائص بچپن یا ابتدائی بچپن میں ہی بند ہو جاتے ہیں۔

یہ سوراخ خون کی مقدار کو بڑھاتا ہے جو پھیپھڑوں سے بنتا ہے۔ ایک بڑا دیرینہ ایٹریل سیپٹل نقص دل اور پھیپڑوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پیچیدگیوں کو روکنے کے لیے ایٹریل سپٹل نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے یا تو سرجری کی جاتی ہے یا ڈیوائس کی بندش ضروری ہو سکتی ہے۔

دل میں سوراخ کی علامات

ایٹریل سیپٹل نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بہت سے بچوں میں کوئی علامت نہیں ہوتی ہیں، علامات جوانی میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔ ایٹریلسیپٹل خرابی کی علامات میں شامل ہو سکتے ہیں۔

سانس کی قلت

خاص طور پر ورزش کرتے وقت تھکاوٹ، ٹانگوں پیروں یا پیٹ میں سوجن، دل کی دھڑکن تیز ہونا یا دھڑکیں رکنا، اسٹروک، دل کی گڑگڑاہٹ ایک ایسی تیز آواز جو اسٹیتھواسکوپ کے ذریعے سنی جاسکے۔ چیک اپ کے دوران دل کی گڑگڑاہٹ سننے سے بچے کے ڈاکٹر کو الیٹریل سیپٹل نقص یا دل کی دوسری خرابی کا شبہ ہو سکتا ہے ، مشتبہ دل کی خرابی کے لیے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔ ایکو کارڈیو گرام، ایٹریل سیپٹل خرابی کی تشخیص کے لیے یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ٹیسٹ ہے۔ سینے کے ایکسرے کے ذریعے پھیپھڑوں کی حالت معلوم کی جاتی ہے۔

ان عوارض کا تعلق بچے کی نشوونما کے مراحل سے ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے نقائص مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ دل کے اوپر کے خانوں یعنی Auricles کے درمیان کے پردے میں سوراخ۔

2۔دل کے نیچے کے خانوں یعنی Ventricles کے درمیان کے پردے میں سوراخ۔

3۔دل کے چاروں خانوں میں سے کسی ایک کے valve میں نقص یا کئی والوو خراب ہو سکتے ہیں۔

4۔ زیادہ تر تکالیف سیدھی طرف رونما ہوتی ہیں۔

یہ ماں سے بچے کو یا بچے کو خود Acute Rheumatic Fever کے باعث لاحق ہو سکتے ہیں۔ شوگر کے مرض والی ماؤں یا نشے کی عادی ماؤں کے بچوں میں دل کی بیماریاں یا نقائص زیادہ نظر آتے ہیں۔

بچوں کی عمر کے 16 ویں یا 18 ویں ہفتے کے دوران انکے دل کے نقائص کا علم ہو جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں دونوں کو دل کی بیماری روزمرہ کے معمولات کی ادائیگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

دل میں نقص کی علامات

1۔بچے کے دل میں نقص کے ہونے کا علم چوتھے ماہ میں ہی ہو جاتا ہے۔ بچے کے ہونٹ، چہرہ یا پورا جسم نیلاہٹ مائل ہو جاتا ہے۔ یہ نیلاہٹ ہونٹوں کے علاوہ ناک کے نتھنوں، کانوں کی لو، ناخن اور ہاتھ کی انگلیوں پر بھی نظر آتی ہے، کبھی کبھار پلکوں کے نیچے نیلے گہرے حلقے بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔

2۔ بعض بچوں میں یہ علامات چند دن کے بعد خودبخود ٹھیک ہو جاتی ہیں لیکن اگر انھوں نے کوئی بھی مشقت کا کام کیا یا زیادہ بھاگ دوڑ کی تو دوبارہ پیدا ہو جاتی ہیں۔

3۔ایسے بچوں کے ہاتھ پاؤں سرد رہتے ہیں۔

4۔ ان کے جسم کا درجہ حرارت 98 فارن ہائٹ سے کم رہتا ہے۔

5۔انگلیوں کے سرے موٹے ہوتے ہیں۔

6۔کبھی کبھار ناخن بھی موٹے ہوتے ہیں۔

7۔کھانسی مستقل رہتی ہے۔

8۔ذرا سی بھاگ دوڑ سے سانس پھول جاتا ہے۔

9۔جسم کے اندرونی حصوں سے کسی وقت خون بھی رس سکتا ہے۔

10۔موسم کی تبدیلی ان پر فوراً اثرانداز ہوتی ہے ، انھیں فوراً نزلہ زکام وغیرہ ہو جاتا ہے۔

11۔ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کمزور ہوتی ہے، قد مشکل سے بڑھتا ہے، اکثر دبلے ہوتے ہیں۔

12۔ اگر دل کے سامنے سوراخ ہے تو ہڈیاں اٹھی ہوئی بھی ہوسکتی ہیں۔

13۔ان کے سینے پر ہاتھ رکھنے سے دل کے بڑے موٹے حصے پر دھڑکن کی آواز غیر معمولی ہوتی ہے۔

14 ۔ دل کی آواز سننے پر گھٹی گھٹی سی دھیمی Murmur سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کی وجہ سے ان کے دل کے والوو کی خرابی کا تعین کیا جاتا ہے۔

15۔ اگر دل کے سیدھے ہاتھ کی طرف کے والوو میں نقص ہو تو Murmur کی آواز زیادہ ہوتی ہے اور اس کو زیادہ جگہ پر سنا جاسکتا ہے۔ ایسے بچوں کی زندگی کم ہوتی ہے۔

ایسے بچوں کو سردی سے زیادہ بچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ ان کی غذا کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا ہے انھیں ہلکی اور زود ہضم غذا دینی چاہیے۔ ان کے جسم پر آہستہ آہستہ مالش کرنی چاہیے تاکہ دوران خون بالکل ٹھیک رہے۔

1۔Hypertension

بعض بچوں میں پیدائشی طور پر B.P ہائی ہوتا ہے اور ان کا B.P ہمیشہ ہائی رہتا ہے۔ ان کے سر میں درد ہوتا ہے تو یہ سر پر ہاتھ مارتے ہیں۔ غنودگی کا شکار رہتے ہیں، بے چین ہوتے ہیں، ان کی نبض بہت تیز چلتی ہے، پسینہ عام بچوں کے مقابلے میں زیادہ آتا ہے، ان کی نظر بھی کمزور ہوتی ہے۔

2۔Rheumatic Fever

اس بیماری میں دل کے والوو زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ حلق میں خصونت کے ساتھ اگر 3 ہفتوں میں مندرجہ ذیل علامت ہوتو یہ Rheumatic Fever کی عکاس ہیں۔بخار، سستی، جوڑوں میں درد، جوڑوں کا بڑھنا، جھٹکے نما دوروں کا پڑنا، ایکسرے میں دل بڑھا دکھائی دینا۔

3۔Bacterial Endocarditis

بیکٹریل اینڈوکارڈائیٹس اس کی علامات میں بخار، متلی، بھوک کا نہ لگنا، انگلیوں کی پوروں کا موٹا ہوجانا، ناخن کا گلوائی میں گہرا ہونا، چوٹ کی جگہ سے خون کا جلد اخراج ہونا، تلی کا بڑھ جانا شامل ہیں۔

4۔Cardic Faillure

دفعتاً دل کا بند ہو جانا۔ یہ مرض دل میں 2 قسم کے نقص کے باعث ہوتا ہے۔

پیدائش کے وقت دل کے الٹے

حصے میں نقص کی علامات

1۔کمزوری(Weakness)، 2۔تھکاوٹ، 3۔ذرا سی زیادہ حرکت سے سانس کا پھولنا، 4۔پھیپھڑوں میں پانی پڑنا، 5۔دل کی اچھلتی ہوئی دھڑکن کا ہونا، 6۔نبض کا وقفے وقفے سے رک رک کر چلنا۔

2۔پیدائش کے وقت سے ہی دل کے سیدھی جانب نقص کی علامات

1۔گردن کے اطراف نبض کا تیز ہونا۔ 2۔جگر کا بڑھا ہوا ہونا یا بڑھ جانا۔ 3۔اعضائے رئیسہ پر ورم۔ 4۔نبض تیز ہونا۔

ایسے مریض کو فوراً آکسیجن لگانا چاہیے، بستر پر آرام سے لٹا دیں، نمک کا استعمال نہ کروائیں، پانی کا استعمال کم کروائیں۔

پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی سے تعلق رکھنے والے دل کے نقائص کی بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔

1۔Acyanotic Diseases

جن سے جسم میں آکسیجن کی غیر معمولی کمی واقع نہیں ہوتی۔

2۔Cyanotic Diseases اس میں جسم میں آکسیجن کی غیر معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔

آکسیجن کی غیر معمولی کمی نہ ہونے

سے متعلق بیماریاں

1۔Acynotic Heat Diseases

2۔Ventricular Septal Defect

یہ بیماری بچوں میں عام پائی جاتی ہے۔ اس میں زیادہ تر ونیٹریکل پردے کے اوپری حصے میں سوراخ ہوتے ہیں۔ عموماً یہ بچے کی پیدائش کے بعد بند ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ بند ہونے سے رہ جائیں تو مندرجہ ذیل علامات پیدا ہو تی ہیں۔

1۔فشار خون کی زیادتی۔2۔دل کی جگہ سینے پر دل کی آواز کے ساتھ ساتھ پانی بہنے Murmur کی سی آواز کا سنائی دینا۔ 3۔بچے کا وزن عمر کے حساب سے نہ بڑھنا۔ 4۔دل کی تکونی حصے کی جگہ نیچے سے پانچویں پسلی کے قریب ہتھیلی رکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دل ہتھیلی کو باہر کے رخ پر دھکیل رہا ہے۔ 5۔ دل کی دھڑکن کا احساس Palpitation۔ 6۔تھکاوٹ۔ 7۔ذرا سی حرکت سے دمہ کی شکایت۔

Arterial Septum Defect:دل کے اوپر کے خانوں کے درمیانی پردے میں نیچے کی طرف سوراخ پیدائش کے وقت رہ جاتے ہیں چند ہفتوں میں خودبخود بند ہوجاتے ہیں لیکن اگر بند ہونے سے رہ جائیں اور پردے میں ایک سوراخ ہو تو اس کیفیت کو Osteum Secundum Defect کہتے ہیں۔

اگر سوراخ زیادہ ہو تو Arterial Septum Defect کہتے ہیں لڑکوں کے مقابلے میں یہ مرض لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

علامات: دل کا سست رفتاری سے کام کرنا ، بلند فشار خون، لیٹنے پر سانس پھولنا، دل کے نچلے خانوں کا بڑھا ہونا، دل کی گھٹی گھٹی سی آواز، قد نہ بڑھنا، دل کا بڑا ہو جانا، دل کے نچلے حصے کا بائیں طرف جھکاؤ، دل کے اندر کی بائیں شریان کا بند ہو جانا۔

Patent Duetus Arteriosis: بچے کی پیدائش سے 6 سے 1 ہفتے پہلے ماں سے جو خون کی شریان بچے کو خون سپلائی کرتی ہے وہ بند ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دل کے اوپر کا بایاں خانہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ مرض بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

علامات: دل کے اوپری حصے میں بائیں خانے کا بڑھا ہونا، بائیں نچلے خانے کے فعل میں غیر معمولی کمی، ہائی بلڈ پریشر، ذرا سے کام سے تھکاوٹ، ہونٹ، ناک کی نوک، زبان اور ناخن کا نیلا ہونا، ٹانگوں میں درد اور ورم، قد کا نہ بڑھنا جسمانی نشوونما میں کمی، سینے پر دل کی جگہ دل کی آواز کے ساتھ مشین چلنے کی سی آواز کا آنا۔

Pulmonary Stenosis :پھیپھڑوں میں شریانوں کے داخل ہونے کی جگہ پر واقع Valves سخت تنگ اور موٹے ہو جاتے ہیں۔

علامات: مریض کی نشوونما کم رہتی ہے، ذرا سے کام سے تھکاوٹ، سانس پھولنا، زبان، ہونٹ، ناک کے سرے اور ناخن کا نیلا ہوتے رہنا یا مستقل نیلا رہنا، دل کے دائیں حصے کا سست رفتاری سے کام کرنا، سینے پر دل کی جگہ دل کی آواز کے ساتھ کیمرے کے بٹن کے دبانے کی سی آواز آنا۔

Mitral Setnosis: جوڑوں کے درد کا بخار لاحق ہونے کے کئی سال بعد دل کے بائیں دونوں خانوںکے درمیان کا Valves سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔

علامات: ذرا سی حرکت سے سانس پھولنا، بلغم کے ساتھ خون آنا، دل کے سکڑنے کے عمل سے ذرا پہلے اس کے ساتھ پانی کے بہنے کی سی آواز کا آنا۔

Aortic Stenosis:یہ Value موروثی نقائص کے باعث تنگ ہو جاتے ہیں، یہ مرض لڑکوں میں زیادہ ہو جاتا ہے۔

علامات: ذرا سے کام یا حرکت سے تھکاوٹ کا احساس، ذرا سی حرکت یا کام سے سانس پھولنا، دل سکڑنے کی آواز کے ساتھ پانی بہنے کی آواز کا آنا، دل کا بہت سست رفتاری سے کام کرنا، بے ہوش ہو جانا، ذہنی پسماندگی۔

Coaractation of Arrata: اے آرٹا نیچے کی طرف آتے ہوئے آدھی کمان کی مانند تنگ ہو جاتا ہے۔

علامات: ہائی بلڈ پریشر، دل کا سست رفتار سے کام کرنا، دل کے سکڑنے کی آواز کے ساتھ پانی بہنے کی آواز کا آنا۔

Types of Cyanotic Diseases: اس کی 12 اقسام ہیں۔

Fallottetrology میں مندرجہ ذیل کیفیات کا یکجا ہونا دکھائی دیتا ہے:

1۔Pulmonary Stenosis۔ 2۔Ventrical Septum Defect۔3۔Over riding of aorta۔4۔Right Ventricular Hypertrophy

علامات: سانس پھولنا، زبان، ہونٹ، ناک کی نوک اور ناخن نیلے، عموماً مریض کا حاجت روائی کی سی کیفیت میں بیٹھنا، نشوونما کا کمزور ہونا، دل کے سکڑنے کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز کا آنا، انگلیوں کے سروں کا موٹا ہونا۔

Second type of cynotic disease is transposition of great arteries

اس مرض میں اے آرٹا اور پلمونری شریان اپنی جگہ پیدا ہونے کے بجائے دوسری جگہ پیدا ہو جاتے ہیں یہ مرض لڑکوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

علامات: جسم کا نیلا پڑنا، نشوونما کمزور، سانس کا ہر وقت پھولنا، دل کا بار بار بند ہوجانا۔

ہومیوپیتھک علاج(ادویات)

Hypertension: اگر بچوں میں خون کا دباؤ 130/85 تک پہنچ جائے تو دوا ہے کالی فیروسایانٹیمKali Ferrocyanatum 30

2۔Rhematic Fever:

1۔اورم میٹAuram 30

2۔ریٹآکس Rhustox 30

3۔Bacterial Endocardities:

ناجاNaja 12، کیکٹس گرینڈی فلورا Cactus Grandiflloru 30، ڈیجی ٹیلس Digitalis 30

4۔Cardic Failure:

1۔کافیاCaffea 30

2۔پیشاب آور دوا ۔ لیکاسسLachesis 30۔3۔ڈیجی ٹیلسDigitalis 6۔

5۔ پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی، یا غیر معمولی کمی کا نہ ہونا

1۔لائیکوپسLycopus Virginicus 30

2۔یوپاسUpas Lientee 6

6۔Arterial Septum Defect

گیلن تھسGalanthus Nivalis (3-6)

2۔لیکاسLachessiss 200

7۔Patent Ductus

1۔کروٹیلس کاس ویلا Crotalos Cascavella 30ایک خوراک صبح۔

2۔کیکٹس Cactus 12 ایک خوراک دوپہر۔

3۔ایکونائٹAconite 30 ایک خوراک سوتے وقت

4۔ٹیبیکمTabacacum 200 ہفتے میں ایک بار۔

8۔ Pulmonary Stenosis۔ ڈیجیٹیلسDigitalis 30

2۔کریلیگس Caralegus 30،

3۔ناجاNaja 30

9۔Mitroal Stenosis:

1۔لائی کوپس ورجینکسLycopus Virginicus 30

2۔ایپس ملیفیکاApis Mellifica 30

10۔Aortic Stenosis:

1۔ایگنیشیاIgnatia 6

2۔فاسفورس Phosphorus 30

3۔آرسینک البمArs. alb 3x

4۔ڈیجی ٹیلس Digitalis 30

11۔Coaractation of Aorta

1۔جیلسیمیمGelsemium 30

2۔ڈیجی ٹیلس Degitalis 30

3۔لائی کوپسLycopus 30

12۔Types of Cyanotic Diseases

1۔لاروسیراسLaurocersus Q

2۔کیکٹس Cactus 30

3۔ڈیجی ٹیلس Digitalisis 30

13۔Second Type of Cynatic Diseases

1۔ انٹی مونیم ٹارٹAntimonium Tart 12

2۔آئی برس Iberis Q

The post بچوں میں دل کی بیماریاں appeared first on ایکسپریس اردو.

قائداعظم ؒکی رحلت کے بعد۔۔۔۔

$
0
0

آج 11 ستمبر 2022 بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناح کے یوم وفات کے موقع پر بابائے قوم سے متعلق بعض تاریخی معلومات کے تبادلے کی غرض سے زیرنظر مضمون قارئین کے استفادے کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ ان میں بعض وہ واقعات ہیں جن کو تاحال تاریخ دانوں نے بیان نہیں کیا، لیکن تاریخ پاکستان کے تناظر میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔

1960 میں جب وطن عزیز میں آمریت باقاعدہ اپنے قدم جما رہی تھی کہ ملک میں ثانوی سطح کے نصاب سے تاریخ کا مضمون خارج کر دیا گیا۔ برصغیر کی تاریخ کا مضمون پورے ملک کی طرح صوبہ پنجاب میں بھی میٹرک تک نصاب کا حصہ تھا۔ درحقیقت تاریخ کے مطالعے ہی سے ماضی کا مشاہدہ ممکن ہے اور اس مشاہدے کے نتیجہ میں قومیں اپنی آ نے والی نسلوں کے حال اور مستقبل تعمیر کرتی ہیں۔ آمریت کا وتیرہ ر ہا ہے کہ ان ادوار میں کاروبار مملکت کے سلسلے میں فردواحد کا ہی پرچار کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی1958 سے 1969 اور اس کے بعد دسمبر 1971 تک آمروں ہی کے گن گائے گئے۔ اس روش کو عام کیا گیا کہ درحقیقت فرد واحد ہی حکومتی امور سرانجام دیتا ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے ریاستی امور سے علیحدہ ہو جائے تو پورا حکومتی سیٹ اپ یکسر بیٹھ جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان میں جو حکومت برسر اقتدار آئی اس کے سربراہ کی نشوونما بھی آمرانہ دور میں ہوئی۔

1977میں ملک تیسری آمریت سے دوچار ہوا، اس عرصے میں بھی فرد واحد ہی سیاست کا محور و مرکز رہا۔ یہی سلسلہ1999 سے007 2 چوتھی فوجی آمریت میں جاری رہا۔ حالات و واقعات کے مطالعے ومشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں تمام ریاستی امور کے لیے سربراہ مملکت کے وژن کا ہی راگ الاپا جاتا رہا۔ ان آمریتوں میں وزرا، مشیران و حکومتی سیاسی رفقا بھی یہی کہتے نظر آئے کہ وہ جو بھی کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں اس کا محورو منبع سربراہ حکومت اور اس کا وژن ہے۔

اس کے برخلاف قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم کے کسی ہم رکاب نے کبھی اپنے سربراہ کے وژن کے گیت گانا شعار نہیں بنایا بلکہ وہ خود ذمے داریاں اپنی صلاحیت کے مطابق ادا کرتے دکھائی دیتے تھے۔

ملک میں فردواحد کی قیادت کا ایسا پروپیگنڈا کیا گیا، جس کے نتیجے میں آج تک ہمارے سیاسی راہ نما اسی طرح کے بیانات دینے میں مشغول ہیں۔ ایک فرد کی تنہا حاکمیت کو ہی کام یابیوں کا ضامن گردانتے ہوئے اس رواج کو تسلسل کے ساتھ راسخ کیا گیا کہ تعلیم یافتہ، ذمہ دار افراد بھی یہ کہتے ملتے ہیں کہ قائداعظم کے بعد پاکستان میں کوئی سیاسی شخصیت موجود نہ تھی جو ان کی وراثت کو جاری رکھتی۔

قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد بارہا اپنی تقاریر وبیانات میں اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ و ہ آگاہ تھے کہ ان کے ترکش میں ایسے تیر موجود ہیں جو قیام وطن کے اہداف کے حصول کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن قائد کی تربیت یافتہ شخصیات کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

بقول سردارعبدالرب نشتر ان سے کارواں منزل پہ رکوائے نہیں جاتے اور بقول محسن بھوپالی منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اگر قائد اعظم اپنے بعد سیاسی قیادت کو یقینی خیال نہ کرتے تو وہ برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کی صبرآزماودشوار گزار جدوجہد کرتے ہی کیوں؟

ظاہر ہے کہ بانی پاکستان کی قیادت میں ان کے رفقاء پر مشتمل ایک ایسی باصلاحیت، زیرک، نڈر اور دوراندیش ٹیم تیار ہوگئی تھی جو قائد کی وراثت اور حصول وطن کے مقاصد کو منزل آشنا کرسکتی تھی۔ بدقسمتی سے ملک میں غیرسیاسی عناصر عملاً اقتدار پر قابض ہوگئے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے قائداعظم کی ٹیم کو یا تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا یا اقتدار سے محروم کر دیا۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ1946 میں قائداعظم کے معالج ڈاکٹرپٹیل نے قائد کو بتادیا تھا کہ آپ کی بیماری اس مرحلے پر آپہنچی ہے کہ اب زندگی کے محض دو ڈھائی سال باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی گرتی ہوئی صحت اور مسلسل علالت کی وجہ سے بعض عناصر نے اپنے آپ کو ازخود قائد کا جانشین تصور کرنا شروع کردیا تھا، جن میں وفاقی کابینہ کے رکن وزیرخزانہ غلام محمد پیش پیش تھے۔

مستند تحقیق کے مطابق وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے اگست 1948 میں وزیراعظم کو قائداعظم کی علالت کے باعث بطور متبادل قائم مقام گورنر جنرل کے تقرر کی تجویز کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کرنے پر زور دیا تھا جسے لیاقت علی خان نے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ محمد علی جناح پورے برصغیر کے مسلمانوں کے قائد ہیں اور ان کو متفقہ طور پر آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیاگیا تھا جس کے ذریعے برطانوی حکومت نے پاکستان کی آزادی کا پروانہ دیا تھا اور وہ بالاتفاق گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔

غلام محمد کی تجویز کے حامیوں میں گورنر جنرل کے مشیر برائے کشمیر مشتاق احمد گورمانی اور سول سروس کا ایک سنیئرافسر شامل تھے۔ نام ور بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ 11ستمبر 1948 کی شب ان کو پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم نے فوری گورنر جنرل ہاؤس طلب کیا ہے۔ وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ لیاقت علی خان سر پکڑے لان میں تنہا بیٹھے ہیں۔

مجھے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد رخصت ہوگئے ہیں۔ اب دو کام ہیں ان کے جانشین کا انتخاب جس پر میں سوچ بچار کررہا ہوں، دوسرا کام ان کے مدفن کی جگہ کا تعین، جو آپ کو کرنا ہے۔ مدفن شہر میں کسی بلند مقام پر ہونا چاہیے۔

قائداعظم سے لیاقت علی خان کی گہری والہانہ وابستگی کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ ممتاز صحافی شاہد حسین بخاری نے چوہدری خلیق الزماں سے انٹرویو کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ چوہدری خلیق الزماں نے لیاقت علی خان کے ہمراہ سفر کے دوران ملاقات و گفتگو میں قائداعظم کی شدید علالت کے باعث ان کے جانشین کے لئے نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان کا نام تجویز کیا تھا، لیکن لیاقت علی خان اس پر خاموش رہے تھے۔

ممتاز قانون داں سید ابوعاصم کا کہنا ہے کہ نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان پاکستان میں کسی بھی عہدے کے خواہش مند نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنا مضبوط حلقۂ انتخاب ضروری ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ نام ور بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے بھی نواب صاحب کے حوالے سے اسی قسم کا بیان منسوب کیا ہے۔

خواجہ ضیاالدین جہانگیرسید کی تحقیق کے مطابق ملک غلام محمد نے قائداعظم کی زندگی ہی میں خود کو میں ان کا جانشین قرار دینا شروع کردیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی نیتھونیل رمزے ہاس کاٹ Nethonial Ramze hoskot نے واشنگٹن اپنی حکومت کو ارسال کیے جانے وا لے مراسلے میں مطلع کیا تھا کہ ملک غلام محمد اپنے آپ کو گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ مجھے ذہنی مریض نظر آتے ہیں۔

کرنل ہاس کاٹ کا مراسلہ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ کرنل موصوف ہندوستان کی آزادی کے وقت 15 اگست 1948 کو دہلی میں امریکی سفارت خانے میں ہوتے تھے اور بہت تھوڑے عرصہ بعد ان کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں تعینات کردیا گیا جہاں وہ غالباً جون 1949 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔

قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور ملک غلام محمد قائداعظم کی وفات کے بعد بھی گورنر جنرل نہ بن سکے۔ اس منصب پر خواجہ ناظم الدین فائز ہوئے البتہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وہ اسکندرمرزا، ایوب خان، مشتاق احمد گورمانی اور چوہدری محمد علی کی حمایت سے گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔

تحریک پاکستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ واساتذہ کی پیش کارانہ پیش قدمی کا اعتراف جہاں دیگر اکابرین نے کیا ہے وہیں قائداعظم محمد علی جناح نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پاکستان کے اسلحہ خانہ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے افکار کی سچائی مارچ1948میں ڈھاکا اور چٹاگانگ کے عوامی اجتماعات میں ان کی تقاریر کے متن سے عیاں ہے۔

قائد جانتے تھے کہ تحریک پاکستان کے اسباب میں غیر منقسم ہند کے مسلمانوں کی مقبول ترین زبان اردو کا مستقبل روشن نہیں اور اسی وجہ سے قیام پاکستان کے دوران رابطے کی زبان کی حیثیت سے خود انہوں نے ملک کے طو ل و عرض میں اردو ہی کو اپنی رائے کے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا۔

ڈھاکا میں انہوں نے واضح طور پر اردو اور صرف اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کو بعض حلقے ہدف تنقید بناتے ہیں، لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود آج بھی بنگلادیش میں سمجھی جانے والی سب سے بڑی زبان اردو ہی ہے۔ چٹاگانگ میں قائداعظم نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے معاشرہ کی بنیاد سماجی انصاف اور اسلامی سوشل ازم کے اصولوں پر ہوگی، جو مساوات اور انسانی اخوت کا درس دیتا ہے۔

یوں تو بابائے قوم کے فرمودات کو پاکستان میں حکم رانوں نے ہوا میں اڑادیا ہے، لیکن کراچی کو دارالحکومت بنانے کے بارے میں قائد کے فیصلے سے رو گردانی نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر کراچی کلب میں 9 اگست1947 کو قائد کا خطاب اہم ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف کراچی شہر کے حوالے سے گفتگو کی تھی بلکہ یہ بتایا تھا کہ گورنر جنرل کا عہدہ ان کا اپنا انتخاب تھا۔ ان کے اس بیان سے سردار شوکت حیات جیسے افراد کی ہرزہ سرائی باطل ثابت ہوجاتی ہے۔

کراچی کلب میں قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام سر غلام حسین ہدایت اللہ نے کیا تھا۔ برصغیر میں کراچی کی اہمیت کے تناظر میں یوں تو شاعرمشرق علامہ محمد اقبال نے1930میں اپنے خطبہ الہ آباد میں کراچی کو مستقبل میں مسلم ہند کا مرکز قرار دیا تھا، لیکن 25 اگست1947 کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے استقبالیے میں قائداعظم نے میئر اور کونسلرز کی جانب سے پیش کیے جانے والے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے کراچی کےpotential کا تفصیلی ذکر کیا تھا، جس میں انہوں نے مستقبل میں شہر کی کاسموپولیٹن اور میٹروپولیٹن ہیئت سے متعلق اپنا vision بیان کیا تھا۔

اس حوالے سے ان کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ کراچی کی تعمیر ہندوستان سے تبادلۂ آبادی کے نتیجے میں آنے والے مہاجرین اور پاکستان بھر سے شہر میں منتقل ہو نے والے کریں گے۔ قائداعظم بلدیہ کراچی کو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات اور وسعت دینے کے متمنی تھے۔

انہوں نے اپنی اس تقریر میں کراچی کی ترقی اور بلدیہ کی خدمات کے ضمن میں حکومتوں کی اعانت پر زور دیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے شہر میں بلندو بالا عمارات کی تعمیر کے بجائے زمینی سطح پر وسعت دینے کو اہم قرار دیا تھا۔ مزید برآں قائد کی خواہش تھی کہ کراچی کی بلدیات کو وسیع اختیارات حاصل ہوں۔

The post قائداعظم ؒکی رحلت کے بعد۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

قائداعظم، ایک عہد ساز مدبر

$
0
0

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح ایک اصول پرست’ سچے اور دیانت دار سیاست داں تھے قائداعظم کے رفیق کار اور امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر ایم ایچ اصفہانی نے اپنی کتاب میں اس وقت لاس اینجلس کیلی فورنیا میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک پاکستانی طالب علم ذوالفقار علی بھٹو کا خط شائع کیا تھا جو ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد انہیں لکھا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کو ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا تھا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اس فیصلہ کن لمحے میں یتیم ہوگئے ہیں کہ جب کسی بھی اور طاقت سے بڑھ کر ہمیں اپنے محبوب، ہر دل عزیز اور باوقار قائداعظم کے بے پناہ لطف و کرم کی ضرورت تھی۔ ہماری بقاء کا انحصار زندگی کے انقلابات کے مقابلے کی لیے لامحدود عزم و ہمت فراہم کرنے پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ہمت افزاء تربیت کی بدولت جسے ہمارے قائد نے ہماری رگوں میں پیوست کردیا ہے ہم ان سب رکاوٹوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو ہمیں درپیش ہیں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے اور ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگرچہ قائداعظم ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تاہم ان کی پاکیزہ اور معصوم روح ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ تروتازہ رہے گی اللہ تعالیٰ ان کی عظیم روح پر اپنا رحم و کرم کرے۔ اس قدر طویل اور تھکادینے والے کام کے بعد آخر انہیں آرام و سکون حاصل ہوگیا ہے ان کی ساری زندگی اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور آزادی کی لیے ایک جدوجہد تھی، جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح نومبر 1947ء میں کشمیر مشن کے سلسلے میں لاہور میں مقیم رہے۔ اور ان ہی اعصاب شکن دنوں میں بیمار ہوگئے۔ اس دوران وہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر سر فرانسس موڈی کے مہمان رہے۔ ان کے ذاتی معالجین کا خیال تھا کہ قائداعظم سرکاری مصروفیات ختم کرکے علاج پر توجہ دیں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا 5 جولائی 1948ء کو قائداعظم زیارت (بلوچستان) چلے گئے۔ ان کے معالج ڈاکٹر کرنل الہٰی بخش نے زیارت میں قائداعظم کا طبی معائنہ کرنے کے بعد انہیں مشورہ دیا کہ وہ سرکاری مصروفیات مکمل طور پر ختم کردیں، مگر قائداعظم نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور 29 اگست 1948ء کو قائداعظم نے ڈاکٹر کرنل الہٰی بخش سے کہا کہ پاکستان کے حصول کے بعد ان کا مقصد زندگی پورا ہوچکا ہے۔

کرنل الہٰی بخش نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ اس وقت قائداعظم محمد علی جناح کی آنکھوں میں آنسو تھے جس وقت وہ یہ باتیں مجھ سے کررہے تھے۔ 11ستمبر 1948ء کو قائداعظم کو کراچی منتقل کردیا گیا اور اسی دن ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت قائداعظم کا وزن 70 پونڈ تھا۔

قائداعظم کے انتقال پر پوری دنیا کے اخبارات میں اداریے لکھے گئے جس میں انہیں ایک عہد ساز مدبر اور اصول پرست سیاست داں قرار دیا گیا۔ امریکا کے بااثر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی 14 ستمبر 1948ء کی اشاعت میں لکھا کہ قائداعظم محمد علی جناح تھے ہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی راہ نما تھے۔ وہ مسلم لیگ کا دماغ تھے اور مسلم قوم کا دل۔ ان کی موت سے پاکستان اپنے عظیم راہ نما سے محروم ہوگیا ہے۔

برطانیہ کے اخبار نیوز کرانیکل نے لکھا کہ صرف موت ہی وہ واحد دشمن تھی جس کے سامنے قائداعظم محمد علی جناح نے اپنا سر جھکایا۔ امریکا کے ایک اور اخبار نیویارک ہیرالڈ ٹریبیون نے اپنے اداریے میں لکھا کہ قائداعظم کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ اپنا مشن مکمل کرچکے تھے۔ تاریخ سیاست میں تخلیق پاکستان ایک بے مثال معرکہ ہے اس کام کو جو بظاہر ناممکن معلوم ہوتا تھا محمد علی جناح نے ممکن کر دکھایا۔

قائداعظم کے انتقال پر بھارتی اخبار کے اداریے اور تبصرے بھی اہمیت کے حامل تھے۔ نئی دہلی کے روزنامہ اسٹیٹسمین نے 13 ستمبر 1948ء کو لکھا تھا کہ محمد علی جناح کی عظمت کسی آنکھ سے چُھپی ہوئی نہیں تھی ان کی مثال ایک ہیرے کی طرح سے تھی جو انتہائی سخت ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہیرا ہے۔ وہ ایک عظیم اور غیرمتزلزل قوت ارادی کے مالک انسان تھے جس استقلال و عزم کے ساتھ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے لیے ایک منزل مقرر کی اور اس پر پہنچ کر ہی دم لیا۔

روزنامہ ہندو دہلی نے 16 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ قائداعظم محمد علی جناح مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے۔ ان کے ارادے میں حقیقتوں کو مٹانے اور خوابوں کو حقیقت بنانے کی طاقت تھی۔ روزنامہ تیج دہلی نے 15 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ محمد علی جناح ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے ان کی وفات سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہم نیک نیتی سے محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک مضبوط ملک ہونا چاہئے روزنامہ الجمیعتہ دہلی نے 15 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ قائداعظم کے انتقال سے پاکستان اپنے ایک بہت بڑے راہ نما سے محروم ہوگیا۔

روزنامہ پربھارت نے قائداعظم کے انتقال پر لکھا کہ ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان کی تمام طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھاگئیں۔ غیرجانب دار تاریخ لکھنے والے مجبور ہوں گے کہ محمد علی جناح کو دنیا کے بڑے آدمیوں میں شمار کریں۔ یقیناً وہ ایک بڑے آدمی تھے نہ ہوتے تو تاریخ کا رخ نہ پلٹا جاتا۔ بھارت کے سرکردہ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رائے تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے زمانہ کی عظیم ترین شخصیت کو للکارا اور بازی جیتی ان کے سیاسی مخالفین بھی یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسٹر جناح اپنے ارادے کے پکے اور پرخلوص نیت کے مالک تھے۔

ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کی خوبیوں کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنے اندر قلب سلیم رکھتے تھے انہوں نے اپنے دشمن کے مقابلے میں کبھی کوئی اوچھا ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ روزنامہ ملاپ نے لکھا کہ متحدہ ہندوستان نے مسٹر جناح سے زیادہ مضبوط، مستحکم ارادہ رکھنے والا اور سخت آدمی آج تک پیدا نہیں کیا۔ مسٹر جناح نے اپنے سامنے جو نصب العین رکھا اس پر چٹان کی طرح قائم رہے۔

مخالفتوں کے طوفان، نکتہ چینی کی آندھیاں، ناموافق حالات کے بھونچال کوئی بھی انہیں اس جگہ سے ہلا نہیں سکا۔ جہاں وہ ایک بار کھڑے ہوگئے۔ کلکتہ کے سرکردہ اخبار امرتا بازار پرتیکا نے لکھا کہ قائداعظم نے مسلمانوں کو وہ دے دیا جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ اب پاکستانیوں اور ان کی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اسے قائم رکھیں پاکستان کو مضبوط اور ترقی یافتہ ملک بنائیں ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

روزنامہ صدائے مردم تہران نے اپنی 13 ستمبر 1948ء کی اشاعت میں لکھا کہ محمد علی جناح بزرگ ترین راہ نمائوں میں سے تھے جنہوں نے ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور مصائب برداشت کرکے پاکستان حاصل کیا۔ قائداعظم کی وفات ایک ایسا عظیم نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔

ڈیلی ایکسپریس لندن نے لکھا کہ مسٹر جناح کے عزم و استقلال اور محنت و ہمت نے پاکستان کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کو جن مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑا ہے یہ آزمائش یعنی قائداعظم کی رحلت سب سے زیادہ کڑی ہے۔ یارک شائر پوسٹ لندن نے لکھا کہ مسٹر جناح نے بہت ہی دشوار کام سر کیا، کیوںکہ ان کے پاس کام یابی حاصل کرنے کی لیے ہمت و جرأت کا عظیم ذخیرہ تھا۔

سیاست داں کی حیثیت سے باقی لوگوں کی بہ نسبت ان کا درجہ بہت بلند ہے فطرت نے انہیں ایک خاص انعام ودیعت کیا تھا کہ وہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ ایسے زبردست سیاست داں تھے کہ کوئی شخص ان کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔ مانچسٹر گارجین لندن نے لکھا کہ براعظم ہند کو تقسیم کراکر قائداعظم نے ایسی زبردست کام یابی حاصل کی جو اس سے پہلے کسی ایشیائی مدبر کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے بی بی سی کو دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ قائداعظم جیسا اصول پرست اور حوصلہ مند سیاست داں میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔

shabbirghori@gmail.com

The post قائداعظم، ایک عہد ساز مدبر appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4759 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>